اسلام ابتدا ہی سے مستشرقین کے علمی حملوں کی زد میں رہا ہے۔ انھوں نے اسلام کو عیسائیت اور یہودیت کی ایک مسخ شدہ شکل ثابت کرنے کی بڑی کوششیں کی ہیں۔ ابھی تک تو بات حدیث کی صحت اور سند تک تھی‘ اب یہ کہا جانے لگا ہے کہ قرآن کا متن بھی مستند نہیں ہے اور عہدنامہ قدیم و جدید کی طرح قرآن بھی بعد میں مرتب کیا گیا ہے۔ آرتھر جیفرے اور ایک پورے گروہ نے اپنی دانست میں بڑی ’علمی تحقیقات‘ کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ قرآن دوسری تیسری صدی کا ایک من گھڑت افسانہ (نعوذ باللہ) ہے۔
زیرتبصرہ کتاب اسی موضوع پر ایک ہندستانی اہلِ علم مصطفی الاعظمی کی تصنیف ہے۔ یہ دیوبند اور جامعہ ازہر کے فارغ التحصیل ہیں۔ انھیں شاہ فیصل ایوارڈ بھی ملا ہے (۱۹۸۰ئ)۔ ان کی یہ تصنیف گہری تحقیق پر مبنی ہے جس میں اب تک اسلام پر کیے گئے حملوں کا‘ دستاویزات کی بنیاد پر موثر دفاع کیا گیا ہے۔ مصنف کو کتاب کی تحریک ماہنامہ اٹلانٹک کے مشہور مضمون ’’قرآن کیا ہے؟‘‘ (۱۹۹۹ئ) سے ہوئی۔ مصنف نے اس کتاب میں مغرب کے تعصبات‘ دُہرے معیارات‘ دیدہ دلیری اور بعض اوقات صہیونی اثرات کے بارے میں اپنا مؤقف مضبوطی اور محنت و کاوش سے پیش کرنے کے بعد عہدنامۂ عتیق (ص ۲۱۱ تا ۲۶۱) اور عہدنامہ جدید (ص ۲۶۵ تا ۲۹۸) کے مختلف حصوں کے عکس بھی دیے ہیں اور ان کی تحریف کو ثابت کیا ہے۔ انھوں نے ۶۴صحابہ کرامؓ کی فہرست دی ہے جنھوں نے حضرت زید بن ثابتؓ کے علاوہ بطور کاتب کام کیا۔ وہ آنکھیں بند کر کے اس بات پر یقین نہیں کرتے کہ استنبول اور تاشقند کے نسخے وہی ہیں جنھیں حضرت عثمانؓ نے پھیلایا تھا۔
الاعظمی کو اس حقیقت کا ادراک ہے کہ بائبل کا بھی اسی معیار پر جائزہ لیا جائے تو حضرت موسٰی ؑ اور حضرت عیسٰی ؑکے وجود ہی سے انکار کرنا پڑے گا‘ اور یہ عہدنامے گم نام قصے کہانیاں معلوم ہوں گے۔ یہ مذاق کی بات نہیں کہ یہودیت اور عیسائیت کا تقابل قرآن کے اڑھائی لاکھ نسخوں اور عہدرسالتؐ کے لاکھوں حفاظِ کرام سے کیا جائے جو علاقائی لب و لہجے کے اختلاف کے علاوہ ایک ہی متن پڑھتے رہے۔ اس کا موازنہ اس حقیقت سے کیجیے کہ دوبارہ منظرعام پر آنے سے قبل تورات یہودی علمی تاریخ سے آٹھ صدیاں غائب رہی۔ اس کا کوئی مستند متن موجود نہیں اور یہ کہ عہدنامۂ عتیق کا عبرانی زبان میں جو مکمل مسودہ سامنے آیا وہ ۱۰۰۸ عیسوی کا ہے۔
مصنف کو بخوبی علم ہے کہ ہر طرح کے علمی شواہد کے باوجود‘ مستشرقین مسلمانوں کے عقائد کو ناقابلِ اعتبار سمجھتے رہیں گے اور وہ اپنے اس موہوم خیال کو حقیقت بنا کر پیش کرنا بند نہیں کریں گے کہ قرآن نبی کریمؐ کی وفات کے ۱۵ برس بعدیکجا کیا گیا اور لکھا گیا۔ ان کا یہی مؤقف رہے گا کہ قدیم عربی رسم الخط ناکافی تھا اور قرآن ۱۰۰سال تک زبانی روایت رہا۔
بہرحال الاعظمی کی یہ کتاب اہم ہے اور امید ہے کہ وہ تمام مسلمان کو جو دعوہ سے متعلق ہیں اور علم و تحقیق سے وابستہ ہیں‘ اس سے فائدہ اٹھائیں گے۔ (مراد ہوف مَین‘ ترجمہ و تلخیص: عبداللّٰہ شاہ ہاشمی۔ مسلم ورلڈ بک ریویو ۲۰۰۴ء )
راجا عبداللہ نیاز (۱۸۹۵ئ-۱۹۷۱ئ) لیّہ کے رہنے والے تھے۔ ساری عمر درس و تدریس سے وابستہ رہے۔ مطالعے کے رسیا اورشعروسخن کا عمدہ ذوق رکھتے تھے۔ متعدد تصانیف نظم ونثر (خدااور اس کے رسول، یہ ہیں کارنامے رسولؐ خدا کے، صبحِ سخن) چھپ چکی ہیں مگر بہت سا تحریری کام غیرمطبوعہ ہے اور کچھ گم یا ضائع بھی ہوگیا۔ زیرنظر کتاب پروفیسر جعفربلوچ کی سعی و کاوش سے شائع ہوئی ہے۔
کتاب کے ایک حصے میں خوارق‘ انبیا بہ شمول اور رسول اکرمؐ کے بعض معجزوں‘ نیز انسانی مشاہدے میں آنے والے عجیب و غریب اور حیرت انگیز واقعات‘ مثلاً: مُردے ہم کلام ہوتے ہیں‘ خوابوں میں سچی پیش گوئیوں اور ایسی باتوں کا تذکرہ ہے جن سے قوانینِ فطرت ٹوٹتے اور بدلتے محسوس ہوتے ہیں۔ اس ضمن میں مصنف نے اخبارات‘ رسائل اور انگریزی کتابوں کے بکثرت حوالے دیے ہیں۔
ایک حصے میں قرآنِ حکیم کے معجزات کا ذکر ہے۔ (حفاظتِ قرآن‘ آیاتِ قرآنی میں شفا کی تاثیر‘ قرآن ایک بے مثال ادب پارہ‘ قرآنی نکات اور جدید سائنسی اکتشافات و ایجادات وغیرہ)۔ اس حصے میں مصنف نے قرآن اور فلسفۂ اخلاقیات‘ اسی طرح اسلامی عبادت کی انفرادیت اور پھر قرآنی پیش گوئیاں جیسے عنوانات کے تحت بھی دل چسپ واقعات بیان کیے ہیں۔
جناب احمد جاوید نے اپنے فاضلانہ دیباچے میں کہا ہے کہ کتاب کا بیشتر حصہ سائنس کے اور دینی مزعومات کے رد پر مشتمل ہے۔ مصنف نے معجزات‘ کرامات اور دیگر خوارق کی تسلیم شدہ مثالوں سے یہ ثابت کرنے کی سعیِ محمود کی ہے کہ کائنات‘ سائنس کے تصورِ اسباب و علل کی بنیاد پر نہیں بلکہ مشیتِ الٰہیہ پر چل رہی ہے۔
اگرچہ کتاب کی تدوین ٹھیک طرح سے نہیں ہو سکی لیکن جملہ مباحث بہت دل چسپ اور مصنف کی علمیت اور وسیع مطالعے کے آئینہ دار ہیں۔ (رفیع الدین ہاشمی)
بقول مصنف ہمیں ’’ایسے فنِ تاریخ نگاری کی ضرورت ہے جو ہمیں اپنے آپ کو جاننے پہچاننے میں مدد دے‘‘۔ چنانچہ یہ کتاب ہمیں خود احتسابی کی دعوت دیتی ہے۔ اولین طور پر یہ اُردو زبان میں معرکۂ دین و سیاست کے نام سے ۱۹۶۳ء میں شائع ہوئی تھی۔
مصنف نے خلافتِ عباسیہ کاعمومی جائزہ لیا ہے۔ خلافت کی بادشاہت میں تبدیلی سے معاشرے پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔ انھوں نے بظاہر ’’خلفا‘‘ مگر اصل میں شاہانِ عباسیہ کے کردار پر سیرحاصل بحث کی ہے۔اس دور میں کیے گئے تشدد اورظلم و زیادتی پر مبنی اقدامات نہ اسلام کی نمایندگی کرتے ہیں نہ مسلمانوں کی‘ یہ بادشاہوں کے اپنے ذاتی فیصلے تھے۔ ’’فوج کی سیاسی مداخلت‘‘ ایک اہم باب ہے جسے پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ ہم نسلوں بعد بھی وہی غلطیاں دُہرا رہے ہیں۔ اسلامی خزانے میں ہونے والی خردبرد اور ایسے واقعات کی نشان دہی کی ہے جو اسلامی تاریخ و ثقافت کے چہرے پر دھبے ہیں۔ حکومت کا محکمہ قضا اور عدلیہ بھی دل چسپ واقعات سے پُر ہے۔ بتایا گیا ہے کہ نامور علما‘ صلحا اور قضات نے جبر اور لالچ کو خاطرمیں لائے بغیر ہمیشہ حق گوئی اور عدل وا نصاف کا علم تھامے رکھا۔ آخری باب میں امام ابوحنیفہؒ کے انقلابی تصورات اور کارناموں کے ضمن میں درباری علما کے فتنۂ خلقِ قرآن اور فتنۂ اعتزال پر بھی سیرحاصل بحث کی گئی ہے۔
ڈاکٹر مقبول الٰہی نے ایک علمی کتاب کو انگریزی میں ڈھالنے میں بڑی عرق ریزی سے کام لیا ہے۔ مترجم خود بھی ایک فاضل شخصیت اور ادیب ہیں۔ چنانچہ انھوں نے نعیم صاحب کی شستہ اور ادیبانہ زبان اور شاعرانہ جملوں کا مفہوم کامیابی سے اردو میں منتقل کیا ہے۔
کتاب مجلد ہے اور اچھے کاغذ پر‘ خوب صورت سرورق کے ساتھ شائع کی گئی ہے۔ تاریخ‘ عدلیہ‘ آزادیِ راے اور اسلامی انقلاب کے لیے کام کرنے والوں کے لیے یہ ایک نادر تحفہ ہے۔ (محمد ایوب منیر)
اُمت مسلمہ مصائب و آلام اور مظلومیت کی زندگی گزار رہی ہے لیکن اپنے مسائل کی حقیقی نوعیت سے بے خبر ہے اور نہیں جانتی کہ ان کا حل کیسے نکل سکتا ہے۔ زیرنظرکتاب میں اُمت کے ایک بہت اہم اور سلگتے ہوئے مسئلے اور مشرقِ وسطیٰ کے ناسور فلسطین کی نوعیت‘ پس منظر اور پیش منظر کو واضح کیا گیا ہے۔
بقول عبدالرشید ترابی: پاکستان میں مسئلہ فلسطین کو اجاگر کرنے کے لیے ذاکر خان نے بہت بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ وہ دردِ دل رکھنے والے ایک نوجوان قلم کار ہیں۔ انھوں نے مسئلہ فلسطین کی نوعیت‘ حماس اور پی ایل او کی جدوجہد‘ انتفاضہ‘ جہاد فلسطین میں خواتین کے کردار‘ مہاجرکیمپوں اور اسرائیلی جیلوں میں بے گناہ فلسطینیوں پر بے پناہ مظالم اور ان کی حالت زار پر روشنی ڈالی ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی بتایا ہے کہ انسانی حقوق اور معاہدات کے حوالے سے مغرب اور امریکا کا کردار کیا ہے اور عالمی صہیونی تحریک اور موساد‘ بھارت کی مدد سے مسلم ممالک کو ختم کرنے کے کیا منصوبے رکھتی ہے؟ کتاب اپنے موضوع پر جامع ہے اور مسئلہ فلسطین پورے سیاق و سباق کے ساتھ اُجاگر ہوجاتا ہے۔ (ع - ش - ہ )
ڈاکٹر محمد عمر چھاپرا گذشتہ ۳۰ برس سے اسلامی معاشیات اور اسلامی بنک کاری پر گراں قدر کام سرانجام دے رہے ہیں۔ انھوں نے عرصۂ دراز تک پاکستان کے مختلف اداروں کے علاوہ سعودی عریبین مانٹیری ایجنسی اور اسلامی ترقیاتی بنک کے ادارے اسلامک ریسرچ اینڈ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ میں بطور مشیر خدمات سرانجام دی ہیں۔ اس دوران میں انھوں نے ۱۲ کتب اور ۸۱مقالے تحریر کیے۔
زیرتبصرہ کتاب مصنف کے تین انگریزی مقالوں کا مجموعہ ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے معاشی زندگی کے بعض سلگتے مسائل پر بحث کی ہے۔ ایک شعوری مسلمان ان سوالات کے مدلل جوابات کا طالب ہوتا ہے‘ مثلاً: کیا اسلام نے واقعی سود کو حرام قرار دیا ہے؟ اگر ایسا ہے تو اس کی کیا وجوہ ہیں؟ حرمت ِ سود کے پیچھے کیا حکمتِ کار فرما ہے؟ مزیدبرآں کیا سود کے بغیر بنک کاری کا نظام ممکن ہے؟
ڈاکٹر محمد عمرچھاپرا نے حرمتِ سود کی حکمتوں اور مصلحتوں پر نئے انداز سے تحقیق کے ذریعے مندرجہ بالا سوالات کے جوابات دیے ہیں۔ انھوں نے ربا اور سود کے درمیان لفظی خلطِ مبحث کی بنیاد پر بعض لوگوں کی طرف سے پیدا کیے گئے فرق کو قوی دلائل سے رد کیا ہے۔ اسی طرح ربا النسیہ اور ربا الفضل کے بارے میں پیدا کی گئی الجھنوں کا شافی جواب دیا ہے۔
غیر سودی بنک کاری کے بارے میں کچھ لوگ توسنجیدگی سے کچھ سوالات اٹھاتے ہیں مگر بعض لوگ بلاوجہ ہی اشتباہ پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اخلاقی انحطاط کی وجہ سے اسلامی بنک کاری ممکن نہ ہوگی؟ اس اہم سوال کے جواب میں ڈاکٹر صاحب نے جدید بنک کاری کے تجربات کی بنیاد پر کئی عملی تجاویز دی ہیںجن کے ذریعے اس مسئلے پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ اسی طرح اسلامی بنک کاری کے ضمن میں ہونے والی کامیابیوں کا احوال بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اسلامی بنک کاری کی راہ میں حائل مشکلات کا حل بھی تجویز کیا گیا ہے۔ مزیدبرآں ہر باب کے اختتام پر حواشی اور مصادر دیے گئے ہیں۔
یہ کتاب اسلامی معاشیات اور اسلامی بنک کاری کے موضوع پر اردو زبان میں ایک خوب صورت اضافہ ہے۔ (پروفیسر میاں محمد اکرم)
سفرنامہ محبوبیہ بلاداسلامیہ (ترکی‘ شام‘مصر‘ لبنان‘ اردن‘ دبئی اور حجاز) کے اسفار پر مشتمل ہے۔ مصنف ایک راست فکر دانش ور‘ بلند پایہ انشاپرداز‘ عمدہ شاعر اور صاحبِ اسلوب قلم کار ہیں۔ ان کا مطالعہ وسیع ہے اور اپنے مشاہدات اور تجربات کی وسعت کے سبب ان کے ہاں ایسی بصیرت ملتی ہے جو دیگر سفرنگاروں میں کم کم پائی جاتی ہے۔
سفرنامے کے مصنف نے ۱۷‘ ۱۸ سال عرب امارات میں بسر کیے اور ان ممالک کے بیسیوں نہیں دو سو بار سفر کیے۔ گردوپیش اور وہاں کے ماحول اور معاشروں میں جذب ہوکر ان کا مطالعہ اور تجزیہ کیا‘ تاریخ کا نہ صرف مطالعہ کیا بلکہ تاریخ کو بنتے بگڑتے دیکھا۔ معاشرت کی جھلکیاں بار بار سامنے آتی ہیں۔ مصنف کا ماٹو ہے کہ سفر‘ علم و عمل اور عرفان و آگہی کی عملی درس گاہ ہے۔اس لیے ان کا یہ سفرنامہ فکرونظر کے نئے دریچے کھولتا ہے۔ نامور کالم نگار عرفان صدیقی کے بقول: ’’یہ بالکل ہی منفرد انداز و اسلوب کا سفرنامہ ہے جس میں مسافر یا سیاح محض گردوپیش کے مناظر‘ تہذیب و معاشرت کے رنگ ڈھنگ‘ افراد کے انداز و اطوار‘ قابلِ دید مقامات کی سج دھج… ذاتی تجربات و مشاہدات ہی کا تذکرہ نہیں کرتا بلکہ ٹھوس افکار اور سنجیدہ مباحث کا دبستان کھول دیتا ہے‘‘۔
پیش لفظ ڈاکٹرنگار سجاد ظہیر کے قلم سے ہے۔ کتابت و طباعت عمدہ ہے۔ تصاویر بھی شامل ہیں۔ ص ۳۳ کی پہلی تصویر ایاصوفیا کی ہے‘ نہ کہ مسجد سلیمانیہ کی۔ (ع - ش - ہ )