ہمارے ملک میں تعلیم یافتہ آدمیوں کی جتنی کمی ہے‘ اُس سے بہت زیادہ کمی تربیت یافتہ آدمیوں کی ہے۔ مجھے اکثر یہ چیز بڑے رنج کے ساتھ محسوس ہوتی ہے کہ ہمارے اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ بھی‘ خواہ وہ قدیم نظامِ تعلیم سے تعلق رکھتے ہوں یا جدید نظامِ تعلیم سے‘ بالعموم اخلاق و شایستگی اور مہذب عادات اور ضبط و نظم کی بالکل ابتدائی اور بنیادی تربیت سے بھی عاری ہوتے ہیں‘ اور اس کی وجہ سے کوئی اعلیٰ درجے کی جماعت جو کسی نصب العین کے لیے جدوجہد کرسکے‘ اس ملک میں بنانی نہایت مشکل ہوتی ہے۔ جن قوموں میں اجتماعی تربیت کا نظام مکمل موجود ہے ان کی حالت یہ ہے کہ ان میں بیشتر افراد مہذب اور منظم زندگی کی بنیادی تربیت حاصل کیے ہوتے ہیں‘ اور جو شخص کوئی خاص تحریک ان کے اندر جاری کرنا چاہتا ہو اسے ان بنے اور سنورے ہوئے آدمیوں میں صرف اپنی تحریک کے لحاظ سے مناسب اوصاف پیدا کرنے کی سعی کرنی پڑتی ہے۔ لیکن ہمارے ہاں یہ بڑی دشواری ہے کہ انسانیت کی بنیادی تربیت ہی بڑی حد تک مفقود ہے‘ اور یہاں اگر کسی خاص نصب العین کے لیے جدوجہد کرنی مقصود ہو تو آدمی کو بالکل ناتراشیدہ مواد خام ملتا ہے جسے بالکل نئے سرے سے تراشنے اور سنوارنے کی ضرورت پڑ جاتی ہے۔ لہٰذا ہمیں اپنے نظامِ تعلیم میں دماغی تربیت سے زیادہ اخلاقی تربیت کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہمیں اپنی اس دعوت کے لیے صحیح قسم کے کارکن میسر آسکیں جن کی نایابی کی وجہ سے ہمارا یہ کام ہماری انتہائی کوششوں کے باوجود آگے نہیں بڑھ رہاہے۔
اس سلسلے میں ایک بات اور بھی ملحوظ رکھنے کی ضرورت ہے۔ وہ یہ کہ اس وقت ہم کسی ملک کے انتظام کا چارج نہیں لے رہے ہیں کہ ہمیں اپنے نظامِ تعلیم میں ان تمام ضرورتوں کے لیے آدمی تیار کرنے ہوں جو ایک ملک کے تمدن کی پوری مشینری کو چلانے میں پیش آتی ہیں۔ ہمارے سامنے اِس وقت صرف ایک کام ہے اور وہ یہ ہے کہ دنیا میں اخلاقی‘ فکری اور عمرانی انقلاب برپا کرنے کے لیے موزوں لیڈر اور کارکن تیار کریں۔ اس کام کے لیے ڈاکٹری یا انجینیرنگ یا سائنس وغیرہ کے ماہرین کی ضرورت نہیں ہے‘ بلکہ صرف ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو دین اسلام اور علومِ اجتماعیہ (social sciences) میں اعلیٰ درجے کی بصیرت رکھتے ہوں۔ آگے چل کر جیسا جیسا ہماری کارروائیوں کا دائرہ وسیع ہوتا جائے گا اور ہمارے اوپر ذمہ داریوں کا جتنا جتنا بار بڑھتا جائے گا‘ اس کے لحاظ سے جن جن علمی شعبوں کے اضافے کی ضرورت ہوگی‘ ان کا اضافہ ہم کرتے جائیں گے۔ (’’روداد مجلس تعلیمی‘‘، میاں طفیل محمد‘ ترجمان القرآن‘ جلد ۲۵‘ عدد ۱-۴‘ رجب تا شوال ۱۳۶۳ھ‘ جولائی تا اکتوبر ۱۹۴۴ئ‘ ص ۱۰۶-۱۰۷)