صوبہ سرحد کی مجلسِ عمل کی حکومت نے گذشتہ ڈیڑھ برس میں نفاذِ شریعت اور عوام کے مسائل کے حل کے لیے کئی اہم اور بنیادی اقدامات اٹھائے ہیں۔ ان میں نفاذِ شریعت بل‘ سود سے پاک اسلامی بنک کاری‘ عوام کو انصاف کی فراہمی کے لیے حسبہ ایکٹ‘ پرائمری تک طلبہ و طالبات کو مفت کتب اور یونیفارم کی فراہمی‘ میٹرک تک مفت تعلیم‘ خواتین یونی ورسٹی کا قیام‘ پانچ مرلہ مکانات پر ٹیکس کا خاتمہ‘ فحاشی و بے حیائی سے پاک معاشرے کے لیے مختلف اقدامات‘ سادگی اور میرٹ کلچر کا فروغ‘ ہسپتالوں میں شام کی او پی ڈی کا آغاز جس سے محض پانچ روپے کی فیس پر ہرطرح کے علاج معالجے کی سہولت اور مفت ایمرجنسی خدمات کی فراہمی اور خیبر میڈیکل کالج کو یونی ورسٹی کا درجہ دینا اور طالبات کے لیے گرلز کیمپس کا قیام نمایاںہیں۔ یقینا یہ اقدامات اپنی جگہ بنیادی اہمیت کے حامل ہیں اور ان کے نتیجے میں اسلامائزیشن کے عمل کو آگے بڑھانے میں اور عوام کے مسائل حل کرنے میں بڑی مدد ملے گی اور سرحد کی سیاسی تاریخ میں یہ تاریخ ساز اقدامات گردانے جائیں گے۔ البتہ حال ہی میں نظامِ صلوٰۃ کا نفاذ نہایت اہمیت کا حامل اقدام ہے۔
مجلسِ عمل سرحد نے اپنے انتخابی منشور میں صوبہ سرحد کے عوام سے صوبے میں نفاذِ شریعت کا وعدہ کیا تھا اور بڑے پیمانے پر عوامی تائید کے حصول میں یہ ایک اہم پہلو تھا۔ چنانچہ سرحدحکومت نے اسی تناظر میں اور اپنے اس وعدے کی تکمیل اور اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے صوبے بھر میں نظامِ صلوٰۃ کے نفاذ کا اعلان کیا ہے جس کے تحت پورے صوبے میں ایک ہی وقت پر اذان اور نماز ادا کی جائے گی اور نماز کے اوقات میں سرکاری دفاتر اور تمام کاروباری ادارے بند کر دیے جائیں گے۔ آیندہ ہرنجی و سرکاری عمارت میں مسجد کی تعمیر کے لیے جگہ مختص کی جائے گی‘ نیز خواتین کی سہولت کے پیشِ نظر تمام بس اڈوں اور دیگر پبلک مقامات پر وضوگاہ اور بیت الخلا کی تعمیر کو خصوصی ترجیح دی جائے گی۔ اس بات کو بھی واضح کیا گیا کہ نظامِ صلوٰۃ کے نفاذ کے لیے قوت کے استعمال کے بجاے تلقین اور تبلیغ کو ترجیح دی جائے گی۔ مزید عملی اقدام اٹھاتے ہوئے سرحد حکومت نے علما و ائمہ کرام‘ خطبا حضرات اور تاجر برادری کو اعتماد میں لیتے ہوئے آزمایشی طور پر صوبائی دارالحکومت پشاور میں نمازِ جمعہ کے یکساں اوقات مقرر کر دیے ہیں جس کے تحت ایک بجے نمازِ جمعہ کی اذان ہوگی اور ڈیڑھ بجے نمازِ جمعہ ادا کی جائے گی‘ جب کہ ایک بجے سے لے کر دو بجے تک نمازِ جمعہ کے لیے وقفہ ہوگا جس کے دوران تمام دفاتر‘تجارتی ادارے‘ مارکیٹیں بند رہیں گے۔ اس تجربے کے بعد دیگر نمازوں کے اوقات کا تعین کیا جائے گا اور پھر اس عمل کو پورے صوبے تک بڑھا دیا جائے گا۔ اس حکم کے تحت پشاور میں نمازِ جمعہ خوش اسلوبی سے ادا کی جا رہی ہے اور تنفیذ صلوٰۃ کے عمل کو آگے بڑھایا جا رہا ہے۔
اس حقیقت کو اچھی طرح ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ جس سیاسی انقلاب کی جڑیں اجتماعی ذہنیت‘ اخلاق اور تمدن میں گہری جمی ہوئی نہ ہوں وہ نقش برآب کی طرح ہوتا ہے۔ کسی عارضی طاقت سے ایسا انقلاب واقع بھی ہوجائے‘ تو قائم نہیں رہ سکتا‘ اور جب مٹتا ہے تو اس طرح مٹتا ہے کہ اپنا کوئی اثر چھوڑ کر نہیں جاتا۔ (تجدید و احیاے دین‘ ص ۱۲۳)
صوبہ سرحد میں نفاذِ شریعت کے حوالے سے اسی تاریخی حقیقت کو شاہ اسماعیل شہیدؒ اور سیداحمد شہیدؒ کی برپا کردہ تجدید و احیاے دین کی تحریک سے سمجھا جاسکتا ہے۔ وہ اور ان کے ساتھی ایسی پاکباز نفوس اور ہستیاں تھیں جن کو دیکھ کر عہدِ رسالتؐ اور عہدِ صحابہؓ کی یاد تازہ ہوجاتی تھی لیکن انھوں نے عوام الناس کو ذہنی و اخلاقی طور پر نفاذِ شریعت کے لیے تیار کیے بغیر شریعت کو نافذ کردیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگوں نے اسے قبول نہ کیا اور تجدید و احیاے دین کی اتنی عظیم تحریک برگ و بار نہ لاسکی۔ ماضی قریب میں صدر جنرل ضیاء الحق کے دور میں سطحی انداز میں اور عوام کی ذہنی و اخلاقی تربیت کے بغیر نظامِ صلوٰۃ نافذ کرنے کی کوشش کی گئی جو نقش برآب ثابت ہوئی اور آج وہ ماضی کا حصہ ہے۔ لہٰذا مجلسِ عمل جو ایک بار پھر سرحد میں نفاذِ شریعت کے عمل کو آگے بڑھا رہی ہے‘ جو بہت خوش آیند و مبارک اقدام اور ہر مسلمان کے دل کی آواز ہے‘ اسے اس پہلو کو خاص طور پر اہمیت دینا چاہیے اور پیشِ نظر رکھنا چاہیے تاکہ نفاذِ شریعت کا یہ عمل خوش اسلوبی سے پایہ تکمیل کو پہنچے اور دیرپا اثرات کا باعث ثابت ہو۔
اسلام اپنی معاشرت کی بنیاد خدا کی مکمل اطاعت و بندگی‘ خوفِ خدا‘ فکرِآخرت اور اس اصول پر رکھتا ہے کہ مسلمانوںکے معاشرے میں خیر اور بھلائی پھیلے اور شر اور بدی مٹ جائے۔ فرد کی اصلاح کے لیے اسلام نے جو نظامِ تربیت وضع کیا ہے وہ اسی فکر کو پروان چڑھاتا ہے اور اس میں اقامتِ صلوٰۃ اور نظامِ صلوٰۃ کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔
یہی وجہ ہے کہ نماز کو دین کا ستون قرار دیا گیا ہے اور نبی کریمؐ جیسی ہستی نے جو رحمۃ للعالمین ہیں‘ نماز قائم کرنے پر اس شدت سے زور دیا ہے کہ آپؐ نے فرمایا کہ میرا دل چاہتا ہے کہ اپنی جگہ کسی اور کو امام بنائوں اور ان لوگوں کے گھروں کو آگ لگا دوں جو اذان سننے کے بعد بھی گھروں میں پڑے سو رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نماز اسلام کا وہ شعار ہے اور وہ پیمانہ ہے جس سے فوری طور پر اندازہ ہوجاتا ہے کہ کتنے لوگ خدا کی عملاً اطاعت کے لیے تیار ہیں اور اسی بات سے معاشرتی بگاڑ کا اندازہ بھی لگایا جاسکتا ہے۔ یہی بات منافقین کو بھی نماز ادا کرنے پر مجبور کرتی تھی۔
اسلام میں عبادت کا تصور محض چند مراسم عبادت کی ادایگی کا نام نہیں بلکہ انفرادی سطح سے اجتماعی سطح تک ہر معاملے اور ہر شعبۂ زندگی میں خدا کی اطاعت و فرماں برداری اور خدا کے قانون کی بالادستی کا نام ہے۔ لہٰذا محض نماز کی ادایگی مقصود نہیں بلکہ روحِ نماز پیشِ نظر رکھنا مطلوب ہے۔ چنانچہ اس کے لیے ضروری ہے کہ بڑے پیمانے پر ذہنی و اخلاقی تربیت اور راے عامہ ہموار کی جائے۔
فریضہ اقامت دین کے تین بنیادی اور ناگزیر تقاضوں میں خدا کی اطاعت و بندگی‘ صالح افراد کی تنظیم اور امربالمعروف ونہی عن المنکر(یعنی خیر اور بھلائی پھیلے اورشروفساد اور بگاڑ مٹے) شامل ہیں۔ نبی کریمؐ کے اسوہ سے بھی یہی رہنمائی ملتی ہے۔ آپؐ نے بھی انھی بنیادوں اور خطوط پر اسلامی معاشرے کی تشکیل و تعمیر فرمائی تھی۔ آپؐ نے لا الٰہ الا اللہ کی بنیاد پر جس تحریکِ اصلاح کی بنیاد رکھی تھی‘ اس کا مطلب خدا کی مکمل اطاعت و بندگی اور غلبۂ دین تھا (مزید مطالعے کے لیے: فریضہ اقامت دین‘ مولانا صدر الدین اصلاحی)۔ لہٰذا نظامِ صلوٰۃ کے نفاذ میں ان تینوں پہلوئوں اور عبادت اور نماز کی روح کو پیشِ نظر رکھنا لازم ہے۔
نظامِ صلوٰۃ کے کامیابی سے نفاذ کے لیے پہلی ضرورت بڑے پیمانے پر اس کے حق میں راے عامہ کی ہمواری اور تیاری ہے۔ اس کے لیے معاشرے اور معاشرتی صورت حال کا بغور جائزہ لینا ضروری ہے۔ اگرچہ لوگ مسلمان ہیں لیکن ان کی عملی زندگی جدید نظریات‘ مغربی تہذیب یا روایتی مذہب پسندی میں بٹی ہوئی ہے۔
جدید ذہن مغرب سے متاثر ہے اور اس کے نزدیک مذہب ذاتی مسئلہ ہے اور اس کا چند مراسم عبادت سے زیادہ عملی زندگی سے کوئی تعلق نہیں‘یعنی لادینیت یا سیکولر ذہنیت کا شکار ہے۔ مذہب پسند ایک بڑا طبقہ تقلید کا شکار ہے۔ وہ نماز‘ روزہ‘ رسوم و رواج اور اپنے مسلک تک محدود ہے اور اس سے باہر نکلنے کے لیے تیار نہیں۔ اس کے علاوہ جدید ذرائع ابلاغ اور دوسری قوتیں بھی معاشرتی بگاڑ میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ بحیثیت مجموعی شر اور بگاڑ کا پہلو غالب نظرآتا ہے۔ اب معاشرے کا صرف وہ صالح عنصر یا اہلِ خیر ہی رہ جاتے ہیں جن کے دل میں اسلام کے لیے محبت ہے اور وہ دل و جان سے خدا کی اطاعت اور اسلام کی سربلندی کے لیے خواہاں ہیں۔ یہی امید کی کرن ہیں اور یہی وہ قوت ہے جس کے ذریعے نفاذِ شریعت اور نظامِ صلوٰۃ کا نفاذ اور اسلامی نظام کا قیام عملاً ممکن ہے۔
معاشرہ خدا کی اطاعت کے لیے کس حد تک تیار ہے۔ اس کا ایک اندازہ نماز پڑھنے کے رجحان سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ کتنی تعداد میں لوگ نماز ادا کرتے ہیں جومقابلتاً بہت تھوڑی تعداد ہے۔ وہ لوگ جو نماز کے دیگر تقاضے پورے کرتے ہیں ان کی تعداد تو اور بھی کم ہے‘ تاہم صوبہ سرحد میں بحیثیت مجموعی ادایگی نماز کا رجحان مقابلتاً بہترہے۔ اس معاشرتی صورت حال کو سامنے رکھنا بھی ناگزیر ہے۔
ان حالات میں فطری طور پر پہلی ترجیح وہ افراد یا گروہ یا عنصر ہونا چاہیے جو خود اسلام پر عمل پیرا ہے‘ اسلامی نظام کے نفاذ کا خواہاں ہے اور اس کے لیے ہر قسم کی قربانی دینے کے لیے تیار ہے۔ اس صالح عنصر کو منظم کرنے اور ایک مؤثر قوت میں تبدیل کرنے کے لیے ایک عملی شکل صلوٰۃ کمیٹیوں کا قیام ہے۔ گلی‘ محلے اور بستی کی سطح پر صلوٰۃ کمیٹیاں قائم کی جا سکتی ہیں۔ ان کمیٹیوں کے ارکان وہ لوگ ہونے چاہییں جو نمازی ہوں‘ نیک اور صالح ہوں‘ صاحبِ کردار ہوں اور خلقِ خدا کی اصلاح و بہتری کے لیے فکرمند ہوں اور دل دردمند رکھتے ہوں‘ نیز انھیں لوگوں کی تائید وحمایت حاصل ہو۔
کمیٹی کا بنیادی مقصد لوگوں کو خدا کی بندگی و اطاعت‘ آخرت کی فکر اور مقصدِ زندگی اور حقوق و فرائض کے حوالے سے توجہ دلانا اور نماز جو خدا کی اطاعت کی عملی مشق ہے‘ اس کے لیے تیار کرنا ہونا چاہیے۔ دین کے علم کے بغیر دین کی اطاعت ممکن نہیں ہوسکتی اور ہر آن بھٹکنے کا اندیشہ رہتا ہے۔ لہٰذا کمیٹی کا یہ بنیادی مقصد ہونا چاہیے۔ حکومتی سرپرستی سے کمیٹی زیادہ مؤثر انداز میں کام کرسکے گی اور بہتر نتائج سامنے آئیں گے۔ ارکان کمیٹی کے پاس اسلام کی بنیادی تعلیمات اور نماز سے متعلق عام فہم زبان میں کتابچے اور لٹریچر بھی موجود ہونا چاہیے جو ملاقات اور گفتگو کے بعد لوگوں کو مطالعے کے لیے دیے جاسکیں۔ اس کے لیے تحریک اسلامی کا بنیادی لٹریچر: خطبات‘ دینیات‘ شہادتِ حق‘ سلامتی کا راستہ وغیرہ مفید رہے گا۔ مزید غور کے بعد ایک دعوتی سیٹ تیار کیاجاسکتا ہے جو ممبران صلوٰۃ کمیٹیوں کو فراہم کیا جائے۔ ہر صلوٰۃ کمیٹی کو ایک مختصر دارالمطالعہ یا لائبریری بھی قائم کرنی چاہیے جہاں سے مطالعے اور عام لوگوں کے مطالعے کے لیے کتب فراہم کی جاسکیں۔ دارالمطالعوں کے قیام اور تقسیم لٹریچر سے عوام میں مطالعے کے ذوق اور فہمِ دین کے حصول کے لیے ایک تحریک پیدا ہوسکے گی جو راے عامہ کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرے گی۔
کمیٹی ہفتہ وار اجلاس منعقد کرے جس میں علاقے کی صورت حال کا جائزہ‘ نمازیوں کی کیفیت اور کام کو مزید بہتر بنانے کے لیے تجاویز اور لائحہ عمل پر غور کیا جائے۔ اس کے علاوہ ہفتہ وار درس قرآن یا دعوتی اجتماع منعقد کیا جاسکتا ہے جس میں دینی شعور کی آبیاری کی کوشش کی جائے اور لوگوں کی بھرپور شرکت کو ممکن بنایا جائے۔ کمیٹی کا ایک خصوصی ہدف فرقہ واریت کا خاتمہ‘ مذہبی جھگڑوں کو روکنا‘ باہمی تعاون اور اتفاق و یک جہتی کی فضا قائم کرنا اور لوگوں کو اس کش مکش کے نقصانات کا احساس دلانا ہونا چاہیے۔
صلوٰۃ کمیٹی کا فطری دفتر تو مسجد ہی ہے۔ اسلام میں مسجد بستی کا مرکز ہوا کرتی ہے۔ فکری رہنمائی‘ تزکیہ و تربیت‘ تعلیم وتدریس‘ معاشرتی مسائل کا حل‘ عدل و انصاف کی فراہمی‘ مالی معاونت‘ دارالمطالعہ‘ مسافروں کے لیے قیام گاہ‘ شفاخانہ‘ ثقافتی مرکز (کمیونٹی سنٹر) وغیرہ--- یہ تمام امور مسجد میں ادا کیے جاتے رہے ہیں اور کیے جانے چاہییں۔ تاہم‘ اب مسجد کو وہ مقام حاصل نہیں رہا جو ماضی میں اسے حاصل تھا (مزید مطالعے کے لیے: تعمیرمعاشرہ میں مسجد کا کردار‘ مولانا امیرالدین مہر‘ دعوہ اکیڈمی‘ اسلام آباد)۔ لہٰذا صلوٰۃ کمیٹی کا ایک اہم مقصد مسجد کے اس مقام و مرتبے اور حیثیت کی بحالی کی کوشش ہونا چاہیے۔ اگر کسی جگہ مسجد میں کمیٹی کے دفتر کا قیام ممکن نہ ہو وہاں صلوٰۃ کمیٹی کا دفتر الگ سے قائم کیا جانا چاہیے تاکہ کام مربوط و منظم انداز میں آگے بڑھ سکے اور مطلوبہ مقاصد کا حصول ممکن بنایا جاسکے۔
اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآئِ وَالْمُنْکَرِط (العنکبوت ۲۹:۴۵)
یقینا نماز فحش اور برے کاموں سے روکتی ہے۔
لہٰذا صلوٰۃ کمیٹی کا ایک اہم مقصد فواحش کی روک تھام اور ان کے خلاف عوامی ضمیر اور احساسِ شرافت کو بیدار کرنا ہونا چاہیے۔ اسلام میں فواحش و منکرات کا تصور کوئی محدود معنوں میں نہیں ہے۔ اس لیے فواحش کے سلسلے میں کسی ایک ہی پہلو پر نظرنہیں ہونی چاہیے بلکہ اس کے تمام سرچشموں پر نگاہ رہنی چاہیے۔
فواحش کا دائرہ: قحبہ خانے‘ شراب خانے‘ سینما کی پبلسٹی‘ دکان پر عریاں تصاویر اور سائن بورڈ‘ ٹورنگ اور تھیٹریکل کمپنیاں‘سرکس‘ مخلوط تعلیم‘ اخبارت و رسائل میں فحش اشتہارات و تصاویر اور فلمی مضامین‘ ریڈیو پر فحش گانوں کے پروگرام‘ دکانوں اور مکانوں پر فحش گانوں کی ریکارڈنگ‘ ٹیلی ویژن پر فحش و بے ہودہ موسیقی کے پروگرام اور ڈرامے‘ فحش فلمیں‘ قماربازی کے اڈے‘ رقص کی مجالس‘ فحش لٹریچر اور عریاں تصاویر‘ جنسی رسائل‘ آرٹ اور کلچر کے نام سے بے حیائی پھیلانے والی سرگرمیاں‘ مینابازار‘ عورتوں میں روز افزوں بے پردگی کی وبا وغیرہ پر محیط ہے۔ (تحریک اسلامی کا آیندہ لائحہ عمل‘ ص ۲۲-۲۳)
گویا فحش و منکر سے مراد تمام بیہودہ اور شرمناک افعال اور ہر وہ برائی ہے جسے انسان بالعموم برا جانتے ہیں‘ ہمیشہ سے برا کہتے رہے ہیں‘ اور تمام شرائع الٰہیہ نے جس سے منع کیا ہے (تفہیم القرآن‘ ج ۲‘ ص ۵۶۶)۔ یہ تمام پہلو بھی سامنے رہنے چاہییں۔
نظامِ صلوٰۃ کے قیام کا یہ فطری تقاضا ہے کہ معاشرے میں ہر قسم کے فواحش و منکرات کا استیصال و خاتمہ ہو۔ لہٰذا صلوٰۃ کمیٹی کی ایک اہم ذمہ داری فواحش و منکرات کے خاتمے کی کوشش ہونا چاہیے۔ اس کے لیے لوگوں میں ان کی اخلاقی ذمہ داریوں کا احساس اجاگر کرکے انھیں معاشرتی بگاڑ کو روکنے اور فواحش و منکرات کے خاتمے کے لیے مل جل کر اجتماعی جدوجہد کے لیے تیار کیا جانا چاہیے۔ لوگوں میں اس کا احساس بھی موجود ہے لیکن منظم نہ ہونے کی وجہ سے غیر مؤثر ہیں۔ اگر لوگوں کو ان معاشرتی خرابیوں کے نقصانات سے آگاہ کیا جائے اور منظم انداز میں لے کر چلا جائے تو اس کے نتیجے میں یہ فضا قائم ہوسکتی ہے کہ جہاں کوئی غلط اقدام ہو فوری طور پر لوگ ایک دوسرے کو توجہ دلا کر اس کا سدباب کر دیں۔ اسلامی معاشرے کی یہ ایک نمایاں خصوصیت ہے کہ جہاں شریا منکر سر اٹھائے وہیں اسے دبا دیا جائے۔ اُمت مسلمہ کا مقصدِ وجود بھی یہی ہے۔ کمیٹی کے اس اقدام سے فطری انداز میں شروفساد اور بدی کے پھیلائو کا راستہ رک جائے گا اور لوگ عملاً برائی سے روکنے کے فریضے کو ادا کرنے لگیں گے۔ نتیجتاً معاشرہ اخلاقی لحاظ سے بہت بلند سطح پر لے جایا جا سکے گا اور نماز کا ایک اہم مقصد فحش و منکر کا خاتمہ بھی پوراہوسکے گا۔
نفسانفسی‘ خودغرضی‘ مفاد پرستی‘ دوسروں سے لاتعلقی اور صرف اپنی ذات تک محدود رہنا‘ مادیت کے شاخسانے ہیں۔ یہ اسلامی معاشرت کے لیے سم قاتل ہیں۔ اسلام اجتماعیت کو فروغ دیتا ہے۔ اُمت کا تصور‘ جسدواحد کا تصور‘ مسلمان کا مسلمان کا بھائی ہونا‘ اخوت و محبت‘ ہمدردی و خیرخواہی‘ یہ سب تصورات اسی سوچ کو آگے بڑھانے کے لیے ہیں۔ نماز فطری انداز میں اسلامی معاشرت کے اس پہلو کے فروغ کا ذریعہ ہے۔
مسلمان نماز کی ادایگی کے لیے جب اکٹھے ہوتے ہیں تو ایک دوسرے کے احوال سے آگہی ہوتی ہے۔ کوئی پریشان حال ہے‘ کوئی فاقہ زدہ ہے‘ کوئی بیمار ہے‘ کوئی بے بس و لاچار ہے‘ کوئی کسی مصیبت میں پھنسا ہوا ہے‘ کوئی مالی مشکلات کا شکار ہے‘ کوئی کسی صدمے سے دوچار ہے‘ کسی عزیز کا انتقال ہوگیا ہے‘ غرض یہ سب باتیں ایک دوسرے کو قریب کرنے والی‘ ایک دوسرے سے محبت اور تعلق بڑھانے والی‘ جذبہ ہمدردی و خیرخواہی کو فروغ دینے اور ایک دوسرے کا مددگار بنانے والی ہیں۔ معاشرے کی عمومی صورت حال تو جو ہے‘ سو ہے‘ خود نمازی حضرات جو ایک عرصے سے اکٹھے نماز ادا کرتے ہیں‘اس پہلو سے غفلت برتتے ہیں۔ (مزید مطالعے کے لیے: اسلامی عبادات پر تحقیقی نظر‘ مولانا مودودیؒ)
صلوٰۃ کمیٹی کو نماز کی اس روح کو بیدار کرنے‘ اجتماعیت کے فروغ‘ جذبۂ ہمدردی و خیرخواہی کے احیا کے لیے خصوصی توجہ دینی چاہیے۔ اس غرض کے لیے نہ صرف لوگوں کو توجہ دلائی جائے اور اخلاقی تلقین کی جائے بلکہ آگے بڑھ کر اہلِ علاقہ کے مسائل میں بھی دل چسپی لی جائے ۔ ان کے حل کے لیے شریف وصالح عناصر کو منظم کرکے اجتماعی جدوجہد کی جانی چاہیے۔
۱- غنڈہ گردی کا انسداد ۲- ہر قسم کے فواحش کا تدارک ۳- رشوت و خیانت (کرپشن) کی روک تھام۔
۱- سرکاری محکموں اور اداروں سے عام لوگوں کی شکایات رفع کرانا اور داد رسی حاصل کرنے کے معاملے میں جس حد تک ممکن ہو ان کی مدد کرنا۔
۲- اپنی مدد آپ کا جذبہ بیدار کرنا تاکہ لوگ خود ہی مل جل کر بستیوں کی صفائی‘ راستوں کی درستی اور حفظانِ صحت کا انتظام کرلیں۔
۳- توخذ من اغنیاء ھم فترد علٰی فقراء ھم کے شرعی اصول پر بستیوں کے غریبوں‘ محتاجوں اور معذوروں کی باقاعدہ اعانت کا انتظام اور اس کے لیے انھی بستیوں کے ذی استطاعت لوگوں سے مدد لینا۔ اس غرض کے لیے زکوٰۃ‘ عشر اور صدقات کی رقوم کی تنظیم اور بیت المال کے ذریعے ان کی تحصیل اور تقسیم کا انتظام کرنا۔ (تحریک اسلامی کا آیندہ لائحہ عمل سے ماخوذ)
صلوٰۃ کمیٹی کے ان اقدامات کے نتیجے میں جذبہ خیرخواہی و ہمدردی کو فروغ ملے گا۔ لوگ اپنے مسائل کے حل کے لیے رجوع کریں گے۔ معاشرتی انتشار و ابتری میں کمی واقع ہوگی۔ وہ لوگ جو اپنے مسائل کے ہاتھوں پریشان ہوکر اور کسی پُرسانِ حال کے نہ ہونے کی وجہ سے مایوسی کے مارے خودکشی پر مجبور ہو رہے ہیں‘ انھیں ایک نیا حوصلہ‘ امید کی کرن اور زندگی کی اُمنگ ملے گی۔ حکومتی سرپرستی کے علاوہ بہت سے ہاتھ ایک دوسرے کو سنبھالنے کے لیے میسرآئیں گے۔
چھوٹے چھوٹے جھگڑے ابتدا ہی میں گلی محلے کی سطح پر اگر حل کر لیے جائیں تو بڑے جھگڑوں کی بنیاد نہیں بنتی۔ ان مسائل پر توجہ دینے سے صلوٰۃ کمیٹی کے ذریعے پنچایت کے انداز میں فراہمی انصاف کی سبیل بھی پیدا ہو سکے گی اور مسجد جو کبھی عدل و انصاف کی فراہمی کا ذریعہ تھی‘ ایک بار پھر اس کا یہ مقام بھی بحال ہوسکے گا۔ اس طرح حکومتی سرپرستی سے بآسانی لوگوں کے مسائل گھر کی دہلیز پر حل ہوسکیں گے اور عدل و انصاف کی فراہمی میں بہتری اور آسانی پیدا ہوگی۔
اسلام حصولِ علم پر بہت زور دیتا ہے۔ قرآن مجید سے رہنمائی اور نماز سے صحیح استفادے کے لیے نماز کا مفہوم سمجھنا اور قرآنی و دینی تعلیمات کا جاننا بھی ضروری ہے۔ لہٰذا تعلیم کا فروغ نظامِ صلوٰۃ کا فطری تقاضا ہے۔ اسلام کی تاریخ میں سب سے پہلے مدرسہ صفّہ کے نام سے مسجدنبویؐ میں نبی کریمؐ کے ہاتھوں قائم ہوا تھا۔ مسجد ہمیشہ سے تعلیم و تدریس کا مرکز اور فروغِ دین کا ذریعہ رہی ہے۔ آج بھی بڑی تعداد میں مدارس موجود ہیں۔ لوگوں میں تعلیم کے فروغ‘ شرح خواندگی میں اضافہ‘ ذہنی شعور کی آبیاری‘ اسلامی تعلیمات سے آگہی کے لیے مسجد کو بطورِ مکتب و مدرسہ بآسانی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے بھی یہ ناگزیر ہے۔
صلوٰۃ کمیٹی مساجد کے ذریعے مسجد مکتب اسکیم کو آگے بڑھا سکتی ہے۔ ایک مدرس کی بنیاد پر محدود پیمانے پر اسکول قائم کیا جا سکتاہے۔ حکومت سرحد تعلیم کے فروغ اور بے روزگاری کے مسئلے کے حل کے لیے ۲۰ہزار مراکزتعلیمِ بالغاں قائم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ یہ مراکز بھی مساجد کی بنیاد پر بآسانی قائم کیے جا سکتے ہیں۔مساجد میں کوچنگ سنٹر قائم کر کے طلبہ کو بلامعاوضہ ٹیوشن کی سہولت فراہم کی جا سکتی ہے۔ جہاں سرکاری نصاب پڑھانے کے ساتھ دینی تعلیم و تربیت کا بھی انتظام ہو۔ اسی طرح مسجد میں دارالمطالعہ قائم کیا جا سکتا ہے جو ذوق مطالعہ کے فروغ اور تسکین کا باعث بن سکتاہے۔ تعلیم کے فروغ کے لیے یہ اقدامات صلوٰۃ کمیٹی کے ذریعے اٹھائے جانے چاہییں۔ اسی طرح شعور‘ آگہی اور تعلیم کے میدان میں بتدریج انقلاب برپا کیا جاسکتاہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صفائی کو نصف ایمان قرار دیا ہے۔ اسلام میں صفائی اور حفظانِ صحت کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ صحت مند مسلمان (قوی مسلمان) کو کمزور مسلمان سے بہتر کہا گیا ہے۔ نماز کی ادایگی کے لیے لباس کی صفائی اور ذوقِ جمال کا اہتمام‘ وضو اور غسل کے احکامات‘ خوشبو کا استعمال وغیرہ اسی حکمت کے غماز ہیں۔ لہٰذا نظامِ صلوٰۃ کے نفاذ کا تقاضا یہ بھی ہے کہ لوگوں کو صفائی ستھرائی‘ ماحول کی بہتری اور حفظانِ صحت کے اصولوں سے آگاہ کیا جائے۔ ماحولیاتی آلودگی‘ کوڑے کرکٹ کے ڈھیر‘ صاف پانی کا میسر نہ ہونا‘ کھلے ہوئے مین ہول اور گندے پانی کا بہنا‘ راستے کی مختلف رکاوٹیں‘ اسٹریٹ لائٹ کا روشن نہ ہونا‘ یا نصب نہ ہونا‘ گلی اور سڑک کے اطراف میں درختوں کے سائے کی کمی وغیرہ--- اس نوعیت کے اور بہت سے مسائل ہیں جن کا عوام کو سامنا ہے اور جو ماحولیاتی آلودگی میں اضافے کا باعث ہیں۔یہ حفظانِ صحت کے اصولوں کے منافی ہیں اور اسلامی تعلیمات کے بھی خلاف ہیں۔
جس طرح مسجد کی تزئین و آرایش اور صفائی کا خیال رکھا جاتا ہے اسی طرح اگر گلی محلوں کی صفائی اور ماحول کی بہتری پر بھی توجہ رہے اور حفظانِ صحت کے اصولوں سے بھی آگہی ہو تو بہت سی بیماریوں‘ وبائوں اور تکالیف سے بھی نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔ خاص طور پر علاج معالجے پر اٹھنے والے اخراجات سے معمولی تدابیر پر عمل کر کے بچا جا سکتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر سال ڈھائی لاکھ بچے ہیضے کی وجہ سے ہلاک ہوجاتے ہیں۔ یہ شرح صحیح طرح ہاتھ دھونے اور دیگر حفظانِ صحت کے اصولوں کو اپنانے سے ۵۰ فی صد تک بآسانی کم کی جاسکتی ہے۔ حالانکہ کھانے سے قبل ہاتھ دھونا سنت ہے۔اگر مسجد کے ساتھ ایک مختصر شفاخانہ یا ڈسپنسری بھی قائم کر لی جائے تو عوام کو علاج معالجے کی سہولت بھی میسرآسکتی ہے جہاں حفظانِ صحت کے اصولوں کے علاوہ ابتدائی طبی امداد وغیرہ کے اصول بھی سکھائے جاسکتے ہیں۔
اگر صلوٰۃ کمیٹی اس پہلو پر بھی توجہ دے اور اسلامی تعلیمات کے پیشِ نظر لوگوں کو توجہ دلائے اور ان کی اصلاح و تربیت کرے‘ اور اپنی مدد آپ کے جذبے کے تحت ان مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرے تو اس کے نتیجے میں تھوڑے ہی عرصے میں ان مسائل کو حل کیا جا سکے گا‘ ماحول کو بہتر بنایا جا سکے گا اور ماحولیاتی آلودگی کے مسئلے پر بھی قابو پایا جا سکتا ہے۔
خواتین ہماری آبادی کے کم و بیش نصف پر مشتمل ہیں۔ معاشرے کی تعمیر میں خواتین کا بنیادی کردار ہے اور اسے فراموش نہیں کیا جانا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے اگرچہ خواتین پر نماز باجماعت کی پابندی تو عائد نہیں کی‘ تاہم نمازِ جمعہ اور عیدین کے اجتماع میں خواتین کی شرکت کی تاکیداس بات کا ثبوت ہے کہ یہ خواتین کی تربیت کے لیے ناگزیر ہے اور اس کا اہتمام بھی ہونا چاہیے۔ مجلسِ عمل کی حکومت نے اس پہلو کو بھی نظامِ صلوٰۃ کے نفاذ کے وقت پیشِ نظر رکھا ہے اور خواتین کے لیے الگ وضوگاہوں اور نماز کے لیے الگ جگہ کا تعین و اہتمام اس کا ثبوت ہے۔
اسلامی تعلیمات کے فروغ و اشاعت اور تعمیر و تطہیرافکار کے لیے جس طرح مردوں پر مشتمل صلوٰۃ کمیٹیوں کے ذریعے ہفتہ وار درس قرآن اور تربیتی اجتماعات کا اہتمام کیا جانا چاہیے‘ اسی طرح خواتین کی سطح پر خواتین کی کمیٹیاں بھی قائم کی جا سکتی ہیں۔ ان کمیٹیوں کا بنیادی مقصد خواتین میں اسلامی تعلیمات کا فروغ اور جمعہ اور عیدین کی نمازوں کا اہتمام ہونا چاہیے۔ اس غرض کے لیے گلی محلے کی سطح پر ہفتہ وار درس کے حلقے بھی قائم کیے جا سکتے ہیں۔ شرکا خواتین میں لٹریچر تقسیم کیا جا سکتا ہے اور دارالمطالعوں سے کتب کے حصول اور استفادے کی کوئی سبیل نکالی جاسکتی ہے۔ طالبات میں تعلیم کے فروغ کے لیے بچیوں کے لیے مسجد مکتب اسکول قائم کیے جاسکتے ہیں اور دستکاری اور ووکیشنل تعلیم بھی دی جاسکتی ہے۔
خواتین کا نماز اور دیگر مواقع پر جمع ہونے سے ایک دوسرے کے دکھ درد میں شرکت‘ مسائل میں دل چسپی‘ مالی معاونت (صلوٰۃ کمیٹی کے تحت جمع زکوٰۃ و صدقات کی مدد سے) جذبۂ محبت و خیرخواہی کے فروغ کا باعث بھی ہوگا جو اسلامی معاشرت کا ایک اہم تقاضا ہے۔
خواتین کی ان سرگرمیوں کا مرکز بھی مسجد کو ہونا چاہیے۔ اس طرح خطبات جمعہ‘ ہفتہ وار درس قرآن کے حلقوں‘ تقسیم لٹریچر‘ مطالعہ کتب‘ دارالمطالعوں سے استفادے اور باہمی محبت و خیرخواہی کے نتیجے میں خواتین کے لیے فہم دین‘ تعلیم و تربیت اور اخوت و محبت کا ایک مربوط‘ منظم اور ہمہ گیر نظام فطری انداز میں آگے بڑھنے لگے گا۔ یہ بھی نماز اور نظامِ صلوٰۃ کی برکتوں سے ممکن ہوسکے گا۔
خوش قسمتی سے رمضان المبارک کے مبارک ماہ کی بھی آمد آمد ہے۔ رمضان میں فطری انداز میں بحیثیت مجموعی ماحول پر اسلامی رنگ غالب ہوتا ہے۔ لوگوںمیں خدا کی اطاعت و بندگی‘ نیکی و پرہیزگاری‘ صلہ رحمی اور برائیوں سے بچنے کا جذبہ فزوں تر ہوتا ہے۔ نیکیوں کے اس موسمِ بہار میں نظامِ صلوٰۃ کو اس کی روح اور اس کے تمام تر تقاضوں کے پیشِ نظر نافذ کرنا سہل بھی ہوگا اور عوامی تائید اور تعاون بھی بآسانی حاصل ہوسکے گا۔ لہٰذا اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے ترجیحاً اہمیت دی جائے اور خصوصی اہتمام کیا جائے۔
رمضان میں خاص طور پر فواحش اور منکرات کے خاتمے اور معاشرتی برائیوں کے انسداد کے لیے نظامِ صلوٰۃ کے ذریعے باقاعدہ ایک مہم چلائی جانی چاہیے۔ جس طرح لوگ روزے کے احترام میں برسرِعام خدا کے احکامات کی نافرمانی نہیں کرتے‘ اسی طرح نماز کی پابندی کے ساتھ ساتھ لڑائی جھگڑا‘ ظلم و زیادتی‘ رشوت ستانی‘ فحاشی کے ارتکاب‘ بے حیائی و بے پردگی وغیرہ کے خاتمے کے لیے بھی اجتماعی جدوجہد کریں۔ عوام الناس کے مسائل کے حل میں دل چسپی لیں بالخصوص ماحول کو آلودگی سے بچانے‘گلی محلے کی صفائی ستھرائی پر خصوصی توجہ دیں کہ یہ بھی نماز کا ایک اہم تقاضا ہے۔ یوں بحیثیت مجموعی نیکی فروغ پائے گی اور بدی مٹے گی‘ اور معروف کا چلن عام ہوگااور منکرات دبیں گے۔جہاں خرابی سر اٹھائے گی وہیں اس کی سرکوبی ہوسکے گی‘ اور صحیح اسلامی معاشرت کا نمونہ سامنے آئے گا جس کے اثرات رمضان کے بعد بھی قائم رہ سکیں گے۔
سرحد نے تو راستہ دکھایا ہے۔ پورے ملک میں‘ سرکاری سرپرستی کے بغیر بھی‘ اہل محلہ اس نظام کو قائم کرسکتے ہیں اور بلدیاتی سطح پر یونین کونسل اور ٹائون کا نظم اسے اختیار کرسکتے ہیں۔ اس کے لیے حکومت رکاوٹ نہیں۔ سماجی تنظیمیں‘ اصلاح معاشرہ کی تحریکیں‘ سیاسی و دینی جماعتیں اپنی اپنی جگہ پر نظامِ صلوٰۃ کے نفاذ کے لیے کوشش کریں تو ملک گیر اصلاح معاشرہ اور ملک و ملت کی تعمیر کی ایک تحریک برپا کی جا سکتی ہے۔
نظامِ صلوٰۃ کے نفاذ کے حوالے سے اگر ان امور کو پیشِ نظر رکھا جائے اور محض مراسمِ عبادت سے آگے بڑھتے ہوئے روحِ نماز اور اس کے تقاضوں پر نظر رہے تو صرف نظامِ صلوٰۃ کی برکت سے ہی معاشرے کی صورت حال کافی حد تک بدل سکتی ہے۔ اس کے نتیجے میں اسلامی نظام کے قیام کے لیے بڑے پیمانے پر تطہیروتعمیر افکار کا عمل آگے بڑھے گا‘ اسلامی تعلیمات سے آگہی کے نتیجے میں دینی شعور عام ہوگا۔ صلوٰۃ کمیٹیوں کے قیام کے ذریعے اسلام کے لیے مخلص اور تن من دھن سے قربانی دینے والے اور معاشرے کے صالح اور شریف عنصر کو منظم کرنے میں مدد ملے گی‘ نیز فواحش و منکرات‘ شراور بدی دبے گی اور نیکی‘ خیر اور معروف کو فروغ ملے گا۔ معاشرتی بگاڑ کے اضافے میں روک لگے گی۔ جذبہ ہمدردی و خیرخواہی کے فروغ پانے سے عوام الناس کی پریشانیوں اور مسائل میں کمی واقع ہوگی‘ اپنی مدد آپ کے تحت مسائل حل ہوں گے۔ بہت سے ہاتھ بیک وقت ایک دوسرے کو سنبھالنے اور دکھ درد بانٹنے اور سہارا بننے کے لیے موجود ہوں گے۔ مسجد مکتب‘ دارالمطالعوں اور درس کے حلقوں کے ذریعے تعلیم عام ہوگی اور شرح خواندگی اور ذہنی شعور میں اضافہ ہوگا۔ صحت و صفائی اور حفظانِ صحت کے اصولوں کو اپنانے کے نتیجے میں ماحولیاتی آلودگی کا مسئلہ حل ہوگا اور بیماریوں اور وبائوں سے نجات بھی ملے گی۔ ایک طرح سے راے عامہ کی ہمواری‘ معاشرے کی تنظیم‘ معاشرتی بگاڑ کا سدباب‘ جان و مال کے تحفظ‘ عدل و انصاف کی فراہمی‘ معاشی آسودگی‘ تعلیم و صحت کی سہولت جیسے بنیادی مسائل کے حل کی طرف پیش رفت ہوسکے گی جو ایک اسلامی ریاست کے بنیادی فرائض ہیں۔
نظامِ صلوٰۃ کو اگر اس کی پوری روح کے ساتھ نافذ کیا جائے تو اس کے نتیجے میں اسلامی نظام کے قیام ‘ فریضہ اقامت دین کے مراحل (خدا کی اطاعت و بندگی‘ تنظیم معاشرہ‘ امربالمعروف ونہی عن المنکر) کی تکمیل‘ اصلاح معاشرہ اور اصلاح حکومت کا عمل فطری انداز میں آگے بڑھتا چلا جاتا ہے جو بتدریج پایدار اور دیرپا اثرات کی حامل تبدیلی کا باعث بن سکتا ہے۔ اس طرح نظامِ صلوٰۃ کے نفاذ کے ذریعے دراصل اصلاح معاشرہ اور اسلامائزیشن کی ایک تحریک ہے جو جاری و ساری ہوجاتی ہے۔
خدا کرے کہ یہ مبارک اقدام اسلامی انقلاب کی منزل کو قریب لانے کا باعث بنے اور بتدریج غلبۂ اسلام کا مرحلہ بھی آجائے۔ یقینا نظامِ صلوٰۃ کی اسی اہمیت کی وجہ سے قرآن پاک نے فرمایا ہے:
اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنّٰھُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوۃَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَھَوْا عَنِ الْمُنْکَرِط (الحج ۲۲:۴۱)
یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے‘ زکوٰۃ دیں گے‘ نیکی کا حکم دیں گے اور بُرائی سے منع کریں گے۔