۱۱/۹ کے واقعات نہ ہوتے تو محترم قاضی حسین احمد کو دو سال پہلے ناروے آنا تھا۔ ۲۱ اگست سے شروع ہونے والے پانچ روزہ دورے سے واپس جاتے ہوئے میں سوچ رہا تھا کہ اگر اُس وقت یہ دورہ ہوجاتا تو شاید حالیہ پروگرام کا عشرعشیر بھی نہ ہوتا۔ اسلامک کلچرل سنٹرکے ذمہ دار بتارہے تھے کہ آج تک کسی مسلمان رہنما کو اس بڑے پیمانے پر کوریج نہیں دی گئی۔ ۲۱ اگست کو اوسلو پہنچنے پر تمام ٹی وی چینلوں نے ایئرپورٹ سے براہ راست ان کا استقبال دکھایا اور پھر ناروے کے قیام کے دوران کا ہر لمحہ ریکارڈ ونشر کیا۔ تمام اخبارات نے صفحہ اول کی بڑی بڑی شہ سرخیوں سے قاضی صاحب کی آمدوگفتگو کا ذکر کیا اور پھر علیحدہ علیحدہ مفصل انٹرویو بھی مکمل دو دو صفحات پر نشرکیے۔
قاضی صاحب کی ناروے آمد کا اعلان ہوتے ہی ناروے کے سب سے بڑے اخبار آفتن پوستن نے بڑی تصویر کے ساتھ شہ سرخی جمائی: اسامہ بن لادن کا پشتیبان اوسلو آرہا ہے۔ پھر ہر اخبار‘ ٹی وی اور ریڈیو نے قاضی صاحب کو خطرناک ترین انسان قرار دینے میں کسر نہ چھوڑی۔ ان کے ناروے داخلے پر پابندی کا مطالبہ کیا گیا اور حکومت یہ کہنے پر مجبور ہوگئی کہ ہم مکمل تحقیقات کرنے کے بعد ہی اجازت دینے یا نہ دینے کا فیصلہ کریں گے۔
دورے کی مخالفت کرنے والوں کی سب سے بڑی دلیل یہ تھی کہ ناروے شینگن (Shengen) ریاستوں کا رکن ہے اور اس سے پہلے دو شینگن ریاستیں ہالینڈ اوربلجیم قاضی حسین احمد کے اپنے ہاں آنے پر پابندی لگا چکی ہیں‘ اس لیے اب وہ ناروے بھی نہیں آسکتے۔ ہم نے اپنے میزبانوں اسلامک کلچرل سنٹر کے ذریعے نارویجین میڈیا کو اور اسلام آباد میں نارویجین سفارت خانے جاکر ان کے قائم مقام سفیر ایلف را مسلیم کو بھی بتایا کہ بلجیم کے سفیر خود قاضی صاحب کے پاس جاکر اور ہالینڈ کے سفارت کار راقم سے تفصیلی ملاقات میں بتا چکے ہیں کہ انھیں قاضی حسین احمد یا ان کے دورے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ ان کے بعض اندرونی مسائل یورپین پارلیمنٹ کے انتخابات اور ان کی میزبان تنظیم یورپین عرب لیگ کے کچھ معاملات ہیں جن کے باعث ہم چاہتے ہیں کہ آپ اس بار اپنا دورہ ملتوی کردیں‘ آیندہ آپ جب بھی جانا چاہیں گے ہمیں کوئی اعتراض نہ ہوگا‘ بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ ہم خود آپ کے میزبان ہوں۔
ہمیں ۲۱اگست کی صبح لاہور سے ناروے جانا تھا لیکن ۱۹اگست کی شام تک ناروے حکومت کا کوئی فیصلہ سامنے نہیں آیا تھا۔ قاضی صاحب البتہ یہ فیصلہ کرچکے تھے کہ چونکہ ناروے پاکستان معاہدے کے مطابق دونوں ممالک کے سرکاری پاسپورٹ رکھنے والے افراد کے لیے ویزے کی ضرورت نہیں ہے۔ آج اگر ایک مخصوص لابی کے پروپیگنڈے کے دبائو میں آکر دورہ منسوخ کر دیا جائے تو اس سے پورے یورپ میں مقیم پاکستانی کمیونٹی اس مسلسل خطرے سے دوچار ہوسکتی ہے کہ جب بھی کوئی مخصوص لابی ان میں سے کسی کے خلاف پروپیگنڈا شروع کردے اس کے خلاف کارروائی عمل میں آجائے۔ اس لیے وہ بہرصورت ناروے جائیں گے۔
اسلامک کلچرل سنٹر ناروے کے صدر میاں وقاص وحید مسلسل رابطے میں تھے۔ انھوں نے بتایا کہ ذرائع ابلاغ روزانہ قاضی صاحب کے ایسے ایسے دوروں‘ انٹرویو اور بیانات کی جھلکیاں دکھا رہے تھے کہ جو اس سے قبل ہم نے نہیں دیکھی تھیں۔ لیکن الزامات اور صبح و شام چلنے والی مخالفانہ مہم کے باوجود ہمارے ساتھی خوفزدہ ہونے یا دبائو میں آنے کے بجاے مزید جوش و جذبے سے سرشار ہیں۔ خود کئی نارویجین ذمہ دار اور تنظیمیں قاضی صاحب کے ناروے آمد کے حق میں بیانات دے رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ’’ایک جمہوری ملک میں اظہار راے پر پابندی کیوں کر لگائی جاسکتی ہے۔ ہمیں ان کی بات سننے کا موقع دیا جائے‘‘۔
۱۹ اگست کو بعد مغرب اسلام آباد سے ناروے کے سفیرکا فون آیا۔ وہ کہہ رہے تھے: ’’عزیز صاحب‘ مبارک ہو۔ ہماری وزیر مقامی حکومت نے ابھی کچھ دیر پہلے اوسلو میں ایک بھرپور پریس کانفرنس کی ہے۔ انھوں نے اعلان کیا ہے کہ ’’قاضی حسین احمد کے ناروے آنے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ اور یہ کہ میں خود بھی ان سے مل کر خواتین کے حقوق اور ناروے میں مقیم پاکستانی نژاد نارویجین کمیونٹی کے مسائل پر بات کروں گی‘‘۔
۲۱ اگست کی شام براستہ لندن اوسلو پہنچے تو پورا نارویجین میڈیا ایئرپورٹ پر موجود تھا۔ پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد پاکستان اور ناروے کے پرچم لیے کھڑی تھی جن میں سرفہرست برطانیہ سے اس پروگرام کے دوسرے مہمان خصوصی ہائوس آف لارڈز کے رکن لارڈ نذیراحمد اور معزز پاکستانی باشندے تھے۔ لارڈ نذیراحمد مغربی دنیا میں مسلمانوں کے بہت مؤثر وبلند بانگ ترجمان کے طور پر اُبھر رہے ہیں۔ جس پروگرام میں بھی جائیں‘ حاضرین کے دل موہ لیتے ہیں۔ لارڈ احمد برطانوی تاریخ کے وہ پہلے رکن پارلیمنٹ ہیں جنھوں نے اپنا حلف قرآن پاک پر اٹھایا ہے۔ اوسلو ایئرپورٹ پر ایک لاعلم صحافی کو یہ جان کر حیرت ہوئی کہ ایک برطانوی لارڈ پاکستان سے آنے والے ایک خطرناک لیڈر کے استقبال کے لیے اپنے اہلِ وطن کے ہمراہ کھڑا ہے۔
قاضی صاحب نے استقبال کے لیے آنے والے تمام افراد سے فرداً فرداً مصافحہ کیااور پھر اپنی نشریات روک کر ایک ’’بنیاد پرست‘‘ لیڈر کی آمد کی خبر دینے والے ٹی وی کے نمایندوں اور صحافیوں سے مخاطب ہوئے: ’’میں پاکستان سے اپنے نارویجن دوستوں کے لیے امن‘ محبت اور دوستی کا پیغام لے کر آیا ہوں۔ اسلام صرف پاکستانیوں یا مسلمانوں کے لیے نہیں‘ پوری انسانیت کے لیے سلامتی کا پیغام رکھتا ہے۔ اہلِ مشرق اور اہلِ مغرب کے درمیان اختلاف رائے ہوسکتا ہے لیکن یہ اختلاف بھی انسانی معاشرے کی بہتری کا باعث بن سکتا ہے۔ میں چند روز کے لیے ناروے میں ہوں۔ اس دوران آپ سب سے تفصیلی ملاقات اور تبادلۂ خیال ہوگا۔ میرے متعلق بہت سی غلط فہمیاں پھیلائی گئی ہیں‘ میں ان سب کی وضاحت کروں گا‘‘۔
اتوار کی شام تحفظ پاکستان کانفرنس تھی۔ آغاز سے پہلے ہی اوسلو کے قلب میں واقع بڑے آڈیٹوریم کی نشستیں اور راہداریاں تنگی داماں کا شکوہ کرنے لگیں۔ آغاز میں بچوں نے تلاوت‘ نعت اور ترانوں پر مشتمل پروگرام پیش کیا۔ لارڈ نذیراحمد نے اپنے گرم جوش خطاب میں امریکا اور مغربی ممالک کی پالیسیوں پر کڑی تنقید کی۔ اپنی گفتگو کے آغاز میں انھوں نے کئی سیاسی لطیفے بھی سنائے جن میں سے ایک یہ تھا کہ جہنم کے دروازے پر بہت سی گھڑیال لگے تھے۔ فرشتے سے پوچھا گیا کہ یہ گھڑیال کیا ہیں؟ اس نے کہا کہ یہ انسانوں کے جھوٹ کا پیمانہ ہے‘ جونہی کوئی شخص جھوٹ بولتا ہے تو اس کے گھڑیال کی سوئیاں جھوٹ کے درجے کے مطابق چلنے لگتی ہیں۔ دریافت کیا گیا کہ صدر بش کا گھڑیال کہاںہے؟ فرشتے نے جواب دیا: وہ اتنا تیز چل رہا ہے کہ ہم اسے پنکھے کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔
لارڈ نذیر احمد نے یورپ میں مقیم مسلمانوں کی طرف سے کہا کہ یورپ میں بسنے والے مسلمان یہاں کے برابر کے شہری ہیں۔ انھیں ان کے حقوق سے محروم نہیں کیا جاسکتا اور نہ انھیں دوسرے درجے کے شہری ہی قرار دیا جا سکتا ہے بلکہ پاکستان کو زیادہ اہم مقام ملنا چاہیے کیونکہ انھوں نے یورپ کی تعمیروترقی کے لیے زیادہ محنت اور جدوجہد کی ہے۔
محترم قاضی حسین احمد نے انتہائی مصروف پانچ دن گزارے‘ تحفظ پاکستان کانفرنس میں کلیدی خطاب کیا‘دیگر متعدد خطابات کیے جن میں اوسلو یونی ورسٹی میں مسلم اسٹوڈنٹس سوسائٹی کے زیراہتمام ’مقصد زندگی‘ کے عنوان سے لیکچر‘ ناروے میں مقیم عرب کمیونٹی کے ادارے رابطہ اسلامی کے مرکز میں ’اسلام اور مغرب‘ کے عنوان سے خطاب اور پاکستانی چنیدہ افراد کی عشایئے اور سنٹر کے ارکان و کارکنان کے اجتماعات کے خطاب شامل تھے۔ ان میں اسلام‘ پاکستان جماعت اسلامی‘ متحدہ مجلس عمل اور عالمِ اسلام سے متعلق پائے جانے والے تمام اشکالات و سوالات کا جواب دیا۔ انھوں نے مقصد بعثت نبویؐ کا حقیقی مقصد قیامِ عدل و انصاف کو واضح کیا اور دورحاضر میں پائی جانے والی بے انصافیوں اور اس ضمن میں دُہرے معیاروں کا ذکر کیا کہ فلسطین اور کشمیر میں تو ہزاروں انسانوں کا قتل عام کرنے والوں کی مکمل پشت پناہی کی جاتی ہے لیکن الزامات عالمِ اسلام اور خاص طور پر اہلِ اسلام پر دھرے جاتے ہیں کہ یہ دہشت گرد ہیں۔ بات دنیا کو دہشت گردی سے پاک امن کا گہوارہ بنانے کی کی جاتی ہے لیکن کلچر اور تہذیب وہ عام کیا جا رہا ہے کہ لوگ دین سے دُور ہوں اور جرائم کی دلدل میں دھنستے چلے جائیں۔ ہزاروں چینل صرف عریانی اور جرائم پر مشتمل پروگرام دکھاتے ہیں۔
قاضی صاحب نے اس دور میں پائی جانے والی بے انصافیوں اور انسانیت کو درپیش خطرات کا بھی ذکر کیا کہ روح انسانی اضطراب کا شکار ہے۔ جرائم اور دہشت گردی میں اضافہ ہورہا ہے کیونکہ انسان نے خود کو خدا قرار دے لیا ہے۔ اللہ کے نظام کے بجاے خواہشات کا نظام مسلط کیا جا رہا ہے اور پوری دنیا پر قبضے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔
سوالات بہت متنوع تھے لیکن لیکچر کے بعد کے سوالات ہوں یا پریس کانفرنس کے وزرا کی ملاقاتیں ہوں‘ یا ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ذمہ داران کی‘ سب کا محور وہی گھساپٹا پروپیگنڈا تھا جو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کیا جا رہا ہے۔ یونی ورسٹی لیکچر میں جنسی آوارگی اور فحاشی وبہیمیت کے علم بردار کچھ لوگ بہت تیاری سے آئے تھے۔ ہال کے مختلف کونوں میں بیٹھے ان مختلف العمر لوگوں نے ایک ہی جیسے سوالات کیے۔ قاضی صاحب نے ان سوالات کو ناشائستہ قرار دے کر ان کا جواب نہیں دیا لیکن ان سوالات نے پورے مغربی معاشرے کو ننگا کر دیا۔ دنیا کو نظام اور انسانی حقوق کا درس دینے والے اور اسلام کو دہشت گردی کے مترادف قرار دینے والے اس بات پر مصر ہیں کہ مردوں کو مردوں سے اور عورتوں کو عورتوں سے شادیاں کرنے کی آزادی ہی نہیں قانونی حق دیا جائے۔
مقامی حکومتوں کی وزیر ارنا سولبرگ سے ملاقات بہت مفید اور دل چسپ رہی۔ یہ خاتون وزیر نارویجی حکومت میں بہت اہمیت رکھتی ہیں۔ سفیر بتا رہے تھے کہ اگر آیندہ انتخابات میں ان کی پارٹی جیت گئی تو ہو سکتا ہے وہ وزیراعظم بن جائیں۔ انھوں نے کہا کہ جو پاکستانی بچے ناروے میں پیدا ہوئے‘ پلے بڑھے اور نارویجی شہری قرار پائے ان کے رہن سہن‘ کلچر اور مسائل کو پیشِ نظر رکھا جانا چاہیے۔ قاضی صاحب نے ان کی بات سے اصولی اتفاق کیا اور کہا کہ نارویجی معاشرے اور حکومت کو ان بچوں کے والدین کو بھی یہ حق دینا چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کی اپنے دین اور مذہب کے مطابق تربیت دے سکیں۔ ناروے میں تو الحمدللہ ہماری بچیوں کو شکایت نہیں‘ لیکن اگر فرانس میں بچیوں کو سر پر اسکارف رکھنے اور حجاب کی اجازت نہیں دی جائے گی تو یہ دوسروں کی مذہبی آزادی سلب کرنا ہی قرار پائے گا۔
سابق وزیراعظم‘ سابق وزیرخارجہ اور پارلیمنٹ میں خارجہ امور کمیٹی کے سربراہ سے تفصیلی ملاقات میں دہشت گردی کیا ہے‘ کیوں ہے‘ کشمیر‘فلسطین اور چیچنیا و عراق‘ افغانستان میں ریاستی دہشت گردی سے دنیا کو کیا کیا خطرات لاحق ہوگئے ہیں جیسے موضوعات پر بھی بات ہوئی۔
ناروے حقوق انسانی کے حوالے سے اس وقت دنیا میں پہلے نمبر پر آتا ہے‘ جہاں بے روزگار بھی بے روزگار نہیں ہوتا‘ حکومت وظیفہ دیتی ہے۔ انسان تو انسان حیوانات کے حقوق بھی طے ہیں۔ ایئرپورٹ جاتے ہوئے جمیل بھائی نے ایک پُل دکھاتے ہوئے کہا کہ مرکزی سڑک پر بنا یہ پُل انسانوں کے لیے نہیں ہے۔ دونوں طرف واقع جنگلات کے جانوروں کے لیے ہے۔ جنگلات سے درخت کاٹنا یا جانور شکار کرنا قطعاً ممنوع ہے۔ اگر کوئی درخت کاٹنا ناگزیر ہو تو اسی تعداد میں دوبارہ درخت لگانا پڑتے ہیں۔
تعلیم اور تعلیمی اداروں کی دیکھ بھال سب کی ترجیح اول ہے۔ ایک اسکول کے قریب سے گزرے تو سڑک ڈیڑھ کلومیٹر لمبی سرنگ میں بدل گئی۔ معلوم ہوا کہ اس اسکول کے بچوں نے ایک دن ہڑتال کرکے مطالبہ کیا کہ شور‘ آلودگی اور ٹریفک سے طلبہ متاثر ہوتے ہیں۔ حکومت نے مطالبہ فوراًتسلیم کرلیا اوریہاں سڑک کے بجاے ڈیڑھ کلومیٹر کی سرنگ بنا دی گئی۔ محترم قاضی صاحب فرمانے لگے یہاں یہ عالم ہے اور ادھر پنجاب یونی ورسٹی جیسے عظیم ادارے کے طلبہ و طالبات کے لیے موجود چند پُلوں کو بھی مسمار کر دیا گیا ہے تاکہ گاڑیاں تیز رفتاری سے گزر سکیں۔
ناروے کے نظام ‘ معاشرتی اقدار و روایات سے بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے۔ امیرجماعت کے اس دورے سے دونوں ملکوں کے عوام کے درمیان روابط کی ایک مضبوط بنیاد رکھی گئی ہے۔