سیّد ابوالاعلیٰ مودودی


]مخلوط انتخاب کے نفاذ کے لیے[اگر کسی مصلحت کی نشان دہی کی جا سکتی ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ مخلوط انتخاب کا طریقہ رائج کرنے سے مختلف عناصرآبادی کے احساسِ اختلاف کو دبانا‘ ان کے امتیازی نشانات کو مٹانا‘ اور انھیں بتدریج ایک قومیت میں تبدیل کرنا مطلوب ہو۔ لیکن ہم کہتے ہیں کہ یہ چیز اوّل تو ہمیں مطلوب ہی نہیں ہے‘ اور اگر ہے تو اُس طریقے سے مطلوب نہیں ہے جس سے مخلوط انتخاب کے حامی اسے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارے ملک میں احساسِ اختلاف جس چیز کا نتیجہ ہے وہ دین کا اختلاف ہے۔ اسی چیز نے مسلم اور غیر مسلم کے درمیان    خط امتیاز کھینچا ہے۔ اسی نے ان کے اصول‘ مقاصد‘ نظریات اور طرزِ حیات ایک دوسرے سے جدا کیے ہیں۔ اسی نے ان کے معاشرے الگ کیے ہیں اور ان کو الگ ملتوں میں تقسیم کیا ہے۔ اس اختلاف و امتیاز کے مٹنے کی ایک صورت یہ ہے کہ ہمارے غیر مسلم ہم وطن مسلم ملّت میں جذب ہو جائیں۔ یہ بلاشبہ ہمیں مطلوب ہے‘ مگر اس مقصد کو ہم مخلوط انتخاب جیسے سیاسی ہتھکنڈوں سے حاصل کرنے کا کبھی خیال بھی نہیں کرسکتے۔ کسی شخص کو اسلام کے اصول پسند ہوں تو وہ سیدھے طریقے سے آئے اور ہماری ملّت میں شامل ہو جائے۔ ورنہ جس ملّت میں بھی رہنا چاہے‘ رہے‘ ہم اس کے تمام وطنی حقوق پوری فراخ دلی کے ساتھ تسلیم کریں گے۔ اس معاملے میں کسی قسم کی چال بازیوں سے کام لینا ہمارے لیے حرام ہے اور ہمیں یقین ہے کہ مخلوط انتخاب کے حامی بھی اس کو حلال تسلیم نہ کریں گے۔

اب رہ جاتی ہے اس اختلاف و امتیاز کے مٹنے کی دوسری صورت اور وہ یہ ہے کہ یہاں سرے سے اسلام اور غیر اسلام کے فرق ہی کو مٹا دیا جائے اور دین کو تہذیب و تمدن سے بے دخل کر کے ایک ایسے مشترک لادینی کلچر کو نشوونما دیا جائے جو ایک متحدہ وطنی قومیت کی بنیاد بن سکے۔ یہ چیز اگر مطلوب ہو تو اس کے لیے مخلوط انتخاب محض پہلا قدم ہی ہو سکتا ہے۔ اس کے بعد لازمی طور پر دوسرا قدم لادینی دستورِ مملکت ہی ہونا چاہیے۔ اور پھر آیندہ اس مملکت کی ساری پالیسی یہ قرار پانی چاہیے کہ وہ عقیدے اور عبادات کے سوا زندگی کے باقی تمام شعبوں سے دین کے ایک ایک نشانِ امتیاز کو محو کر دے‘ حتیٰ کہ مسلم و غیر مسلم کے درمیان شادی بیاہ تک کی ہمت افزائی کرے تاکہ ’’پاکستانیوں‘‘ کے درمیان وہ معاشرتی علیحدگی باقی نہ رہے جو عملاً ان کو الگ الگ ملتوں میں منقسم کرتی ہے۔    ہم پوچھتے ہیں‘ کیا یہی چیز مخلوط انتخاب کے حامیوںکو مطلوب ہے؟ اگر یہ انھیں مطلوب ہے تو وہ اس کا صاف صاف اقرار و اعلان کریں۔ ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ چند لادینی رجحانات رکھنے والے لوگوں کو مستثنیٰ کرکے پاکستان کا ہر مسلمان اس تخیل پر لعنت بھیجے گا۔ وہ کہے گا کہ اگر مجھے یہی کچھ کرنا ہوتا تو میرے لیے    اکھنڈ ہندستان کیا برا تھا۔ یہ مقصد تو وہاں بھی پورا ہو سکتا تھا۔ اس کے لیے جان و مال کی اتنی قربانیاں دے کر   ایک الگ مملکت قائم کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ (مخلوط انتخاب‘ ص ۷-۱۱)

آدمی شب و روز اس زمین کی پیداوار کھا رہا ہے اور اپنے نزدیک اسے ایک معمولی بات سمجھتا ہے۔ لیکن اگر وہ غفلت کا پردہ چاک کر کے نگاہِ غور سے دیکھے تو اسے معلوم ہو کہ اس فرشِ خاک سے لہلہاتی کھیتیوں اور سرسبز باغوں کا اُگنا اور اس کے اندر چشموں اور نہروں کا رواں ہونا کوئی کھیل نہیں ہے جو آپ سے آپ ہوئے جا رہا ہو بلکہ اس کے پیچھے ایک عظیم حکمت و قدرت اور ربوبیت کارفرما ہے۔ زمین کی حقیقت پر غور کیجیے‘ جن مادّوں سے یہ مرکب ہے اُن کے اندر بجائے خود کسی نشوونما کی طاقت نہیں ہے۔ یہ سب مادّے فرداً فرداً بھی اور ہر ترکیب و آمیزش کے بعد بھی بالکل غیر نامی ہیں اور اس بنا پر ان کے اندر زندگی کا شائبہ تک نہیں پایا جاتا۔ اب سوال یہ ہے کہ اس بے جان زمین کے اندر سے نباتی زندگی کا ظہور آخر کیسے ممکن ہوا؟ اس کی تحقیق آپ کریں گے تو معلوم ہوگا کہ چند بڑے بڑے اسباب ہیں جو اگر پہلے فراہم نہ کر دیے گئے ہوتے تو یہ زندگی سرے سے وجود میں نہ آ سکتی تھی:

اولاً‘ زمین کے مخصوص خطّوں میں اس کی اوپری سطح پر بہت سے ایسے مادّوں کی تہ چڑھائی گئی جو نباتات کی غذا بننے کے لیے موزوں ہو سکتے تھے اور اس تہ کو نرم رکھا گیا تاکہ نباتات کی جڑیں اس میں پھیل کر اپنی غذا چوس سکیں۔

ثانیاً‘ زمین پر مختلف طریقوں سے پانی کی بہم رسانی کا انتظام کیا گیا تاکہ غذائی مادّے اس میں تحلیل ہو کر اس قابل ہو جائیں کہ نباتات کی جڑیں ان کو جذب کر سکیں۔

ثالثاً‘ اوپر کی فضا میں ہوا پیدا کی گئی جو آفاتِ سماوی سے زمین کی حفاظت کرتی ہے‘ جو بارش لانے کا ذریعہ بنتی ہے‘ اور اپنے اندر وہ گیسیں بھی رکھتی ہے جو نباتات کی زندگی اور ان کے نشوونما کے لیے درکار ہیں۔

رابعاً‘ سورج اور زمین کا تعلق اس طرح قائم کیا گیا کہ نباتات کو مناسب درجۂ حرارت اور موزوں موسم مل سکیں۔

یہ چار بڑے بڑے اسباب (جو بجائے خود بے شمار ضمنی اسباب کا مجموعہ ہیں) جب پیدا کر دیے گئے تب نباتات کا وجود میں آنا ممکن ہوا۔ پھر یہ سازگار حالات فراہم کرنے کے بعد نباتات پیدا کیے گئے اور ان میں سے ہر ایک کا تخم ایسا بنایا گیا کہ جب اسے مناسب زمین‘ پانی‘ ہوا اور موسم میسر آئے تو اس کے اندر نباتی زندگی کی حرکت شروع ہو جائے۔ مزیدبرآں اسی تخم میں یہ انتظام بھی کر دیا گیا کہ ہر نوع کے تخم سے لازماً اسی نوع کا بوٹا اپنی تمام نوعی اور موروثی خصوصیات کے ساتھ پیدا ہو۔ اور اس سے بھی آگے بڑھ کر مزید کاری گری یہ کی گئی کہ نباتات کی دس بیس یا سو پچاس نہیں بلکہ بے حدوحساب قسمیں پیدا کی گئیں اور ان کو اس طرح بنایا گیا کہ وہ اُن بے شمار اقسام کے حیوانات اور بنی آدم کی غذا‘ دوا‘ لباس اور اَن گنت دوسری ضرورتوں کو پورا کر سکیں جنھیں نباتات کے بعد زمین پر وجود میں لایا جانے والا تھا۔

اس حیرت انگیز انتظام پر جو شخص بھی غور کرے گا وہ اگر ہٹ دھرمی اور تعصب میں مبتلا نہیں ہے تو اس کا دل گواہی دے گا کہ یہ سب کچھ آپ سے آپ نہیں ہو سکتا۔ اس میں صریح طور پر ایک حکیمانہ منصوبہ کام کر رہا ہے جس کے تحت زمین‘ پانی‘ ہوا اور موسم کی مناسبتیںنباتات کے ساتھ‘ اور نباتات کی مناسبتیں حیوانات اور انسانوں کی حاجات کے ساتھ انتہائی نزاکتوں اور باریکیوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے قائم کی گئی ہیں۔ کوئی ہوش مند انسان یہ تصور نہیں کر سکتا کہ ایسی ہمہ گیر مناسبتیں محض اتفاقی حادثے کے طور پر قائم ہو سکتی ہیں۔ پھر یہی انتظام اس بات پر بھی دلالت کرتا ہے کہ یہ بہت سے خدائوں کا کارنامہ نہیں ہو سکتا۔ یہ تو ایک ہی ایسے خدا کا انتظام ہے اور ہو سکتا ہے جو زمین ‘ ہوا‘ پانی‘ سورج‘نباتات‘ حیوانات اور نوعِ انسانی‘سب کا خالق و رب ہے۔ ان میں سے ہر ایک کے خدا الگ الگ ہوتے تو آخر کیسے تصور کیا جا سکتا ہے کہ ایک ایسا جامع‘ ہمہ گیر اور گہری حکیمانہ مناسبتیں رکھنے والا منصوبہ بن جاتا اور لاکھوں کروڑوں برس تک اتنی باقاعدگی کے ساتھ چلتا رہتا۔

توحید کے حق میں یہ استدلال پیش کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اَفَلاَ یَشْکُرُوْنَ؟ یعنی کیا یہ لوگ ایسے احسان فراموش اور نمک حرام ہیں کہ جس خدا نے یہ سب کچھ سروسامان ان کی زندگی کے لیے فراہم کیا ہے‘ اس کے یہ شکرگزار نہیں ہوتے اور اس کی نعمتیں کھا کھا کر دوسروں کے شکریے ادا کرتے ہیں؟ اس کے آگے نہیں جھکتے اور ان جھوٹے معبودوں کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہیں جنھوں نے ایک تنکا بھی ان کے لیے پیدا نہیں کیا ہے؟ (آیت:  وَاٰیَۃٌ لَّھُمُ الْاَرْضُ الْمَیْتَۃُ ج ( یٓس ۳۶:۳۳)کی تفسیر‘  تفہیم القرآن‘ ج ۴‘ ص ۲۵۷-۲۵۸)

 

دستور میںدینی نظام کے جو بنیادی اصول اس قدر طویل کش مکش کے بعد منوائے گئے ہیں اب اصل کام ان کو ملک کے نظام میں عملاً نافذ کرانا ہے اور ان کا نفاذ بہرحال قیادت کی تبدیلی پر منحصرہے۔ اس موقع پر ایک صالح قیادت صرف اسی طرح بروے کار لائی جا سکتی ہے کہ ہم اپنے لائحہ عمل کے چاروں اجزا پر بہ یک وقت کام کریں اور توازُن کے ساتھ ان چاروں گوشوں میں کام کرتے ہوئے اس طرح آگے بڑھیں کہ افکار کی تعمیر و تطہیر ‘ صالح افراد کی تنظیم اور معاشرے کی اصلاح کا جتنا جتنا کام ہوتا جائے اسی نسبت سے ملک کے سیاسی نظام میں دین کے حامی عنصر کا نفوذ و اثر بھی بڑھتا جائے‘ اور سیاسی نظام میں حامی ٔ دین عنصر کانفوذ و اثر جتنا جتنا بڑھتا جائے اسی قدر زیادہ قوت کے ساتھ تطہیر و تعمیرافکار اور تنظیم عناصرِ صالحہ اور اصلاحِ معاشرہ کا کام انجام دیا جائے----

یہ لائحۂ عمل جس اسکیم پر مبنی ہے اس کی کامیابی کا سارا انحصار ہی اس کے توازُن پر ہے۔ اس کا ہر جز دوسرے اجزا کا مددگار ہے‘ اس سے تقویت پاتا ہے اور اس کو تقویت بخشتا ہے۔ آپ کسی جز کو ساقط یا معطل کریں گے تو ساری اسکیم خراب ہو جائے گی‘ اور اس کے اجزا کے درمیان توازُن برقرارنہ رکھیں گے تب بھی یہ اسکیم خراب ہو کر رہے گی۔

کامیابی کی صورت صرف یہ ہے کہ ایک طرف دعوت و تبلیغ جاری رکھیے تاکہ ملک کی آبادی زیادہ سے زیادہ آپ کی ہم خیال ہوتی چلی جائے۔ دوسری طرف ہم خیال بننے والوں کو منظم اور تیار کرتے جایئے تاکہ آپ کی طاقت اُسی نسبت سے بڑھتی جائے جس نسبت سے آپ کی دعوت وسیع ہو۔ تیسری طرف معاشرے کی اصلاح و تعمیر کے لیے اپنی کوششوں کا دائرہ اُتنا ہی بڑھاتے چلے جایئے جتنی آپ کی طاقت بڑھے تاکہ معاشرہ اس نظامِ صالح کو لانے اور سہارنے کے لیے زیادہ سے زیادہ تیار ہوتا جائے جسے آپ لانا چاہتے ہیں۔ اور ان تینوں کاموں کے ساتھ ساتھ ملک کے نظام میں عملاً تغیر لانے کے آئینی ذرائع سے بھی پورا پورا کام لینے کی کوشش کیجیے تاکہ ان تغیرات کو لانے اور سہارنے کے لیے آپ نے معاشرے کو جس حد تک تیار کیا ہو اُس کے مطابق واقعی تغیررُونما ہو سکے۔

ان چاروں کاموں کی مساوی اہمیت آپ کی نگاہ میں ہونی چاہیے۔ ان میں سے کسی کو کسی پر ترجیح دینے کا غلط خیال آپ کے ذہن میں پیدا نہ ہونا چاہیے۔ اِن میں سے کسی کے بارے میں غلو کرنے سے آپ کو پرہیز کرنا چاہیے۔ آپ کے اندر یہ حکمت موجود ہونی چاہیے کہ اپنی قوتِ عمل کو زیادہ سے زیادہ صحیح تناسب کے ساتھ ان چاروں کاموں پر تقسیم کریں‘ اور آپ کو وقتاً فوقتاً یہ جائزہ لیتے رہنا چاہیے کہ ہم کہیں ایک کام کی طرف اس قدر زیادہ تو نہیں جھک پڑے ہیں کہ دوسرا کام رُک گیا ہو‘ یا کمزور پڑ گیا ہو۔ اِسی حکمت اور متوازن فکر اور متناسب عمل سے آپ اس نصب العین تک پہنچ سکتے ہیں جسے آپ نے اپنا مقصدِ حیات بنا یا ہے۔ (تحریک اسلامی کا آیندہ لائحۂ عمل‘ ص ۱۶۶- ۱۶۷‘  ۱۹۹-۲۰۰)


خوب اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ جن جزئیات پر آپ لوگ بحثیں کرتے ہیں وہ خواہ کتنی ہی اہمیت رکھتی ہوں مگر بہرحال یہ وہ چیزیں نہیں ہیں جن کو قائم کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں کو مبعوث کیا ہو اور اپنی کتابوں کو نازل کیا ہو۔ انبیا کی بعثت اور کتب الٰہی کی تنزیل کا مقصد ان جزئیات کو قائم کرنا نہیںہے بلکہ دین حق کو قائم کرنا ہے۔ ان کا اصل مقصد یہ رہا ہے کہ خلق خدا اپنے مالک حقیقی کے سوا کسی کے تابع فرمان نہ رہے۔ قانون صرف خدا کا قانون ہو‘تقویٰ صرف خدا سے ہو‘ امر صرف خدا کا مانا جائے‘ حق اور باطل کا فرق اور زندگی میں راہِ راست کی ہدایت صرف وہی مسلّم ہو جسے خدا نے واضح کیا ہے اور دُنیا میں اُن خرابیوں کااستیصال کیا جائے جو اللہ کو ناپسند ہیں اور ان خیرات و حسنات کو قائم کیا جائے جو اللہ کو محبوب ہیں۔

یہ ہے دین اور اسی کی اقامت ہمارا مقصد ہے اور مسلمان ہونے کی حیثیت سے اسی کام پر ہم مامور ہیں۔ اس کام کی اہمیت اگر آپ پوری طرح محسوس کرلیں اور اگر آپ کو اس بات کا بھی احساس ہو کہ اس کام کے معطل ہو جانے اور باطل نظاموں کے دنیا پر غالب ہو جانے سے دنیا کی موجودہ حالت کس قدر شدت سے غضب الٰہی کی مستحق ہو چکی ہے ‘ اور اگر آپ یہ بھی جان لیں کہ اس حالت میں ہمارے لیے غضب الٰہی سے بچنے اور رضاے الٰہی سے سرفراز ہونے کی کوئی صورت اس کے سوا نہیں ہے کہ ہم اپنی تمام قوت خواہ وہ مال کی ہو یا جان کی‘ دماغ کی ہو یا زبان کی‘ صرف اقامت دین کی سعی میں صرف کر دیں تو آپ سے کبھی ان فضول بحثوں اور ان لایعنی افکار کا صُدور نہ ہو سکے جن میں اب تک آپ میں بہت سے لوگ مشغول ہیں۔ (دعوت اسلامی اور اس کے مطالبات‘ ص ۵۲-۵۳)

 

۱- صداقت اور باہمی انصاف

اوّلین چیز جس پر ملک کے تمام مختلف الخیال گروہوں اور اشخاص کو اتفاق کرنا چاہیے‘ وہ صداقت اور باہمی انصاف ہے۔ اختلاف اگر ایمان داری کے ساتھ ہو‘ دلائل کے ساتھ ہو‘ اور اسی حد تک رہے جس حد تک فی الواقع اختلاف ہے‘ تو اکثر حالات میں یہ مفید ثابت ہوتا ہے۔ کیونکہ اس طرح مختلف نقطۂ نظر اپنی صحیح صورت میں لوگوں کے سامنے آجاتے ہیں اور لوگ انھیں دیکھ کر خود رائے قائم کر سکتے ہیں کہ وہ ان میں سے کس کو قبول کریں‘ تاہم اگر وہ مفید نہ ہو تو کم سے کم بات یہ ہے کہ مضر نہیں ہو سکتا۔ لیکن کسی معاشرے کے لیے اس سے بڑھ کر نقصان دہ کوئی چیز نہیں ہو سکتی کہ اُس میں جب بھی کسی کو کسی سے اختلاف ہو تو وہ ’’جنگ میں سب کچھ حلال ہے‘‘ کا ابلیسی اصول اختیار کر کے اُس پر ہر طرح کے جھوٹے الزامات لگائے‘ اُس کی طرف جان بوجھ کر غلط باتیں منسوب کرے‘ اُس کے نقطۂ نظر کو قصداً غلط صورت میں پیش کرے۔ سیاسی اختلاف ہو تو اسے غدار اور دشمنِ وطن ٹھیرائے۔ مذہبی اختلاف ہو تو اس کے پورے دین و ایمان کو مُتَّہَم ]برباد[کر ڈالے‘ اور ہاتھ دھو کر اس کے پیچھے اس طرح پڑ جائے کہ گویا اب مقصدِ زندگی بس اسی کو نیچا دکھانا رہ گیا ہے۔

اختلاف کا یہ طریقہ نہ صرف اخلاقی لحاظ سے معیوب اور دینی حیثیت سے گناہ ہے‘ بلکہ عملاً بھی اس سے بے شمار خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ اس کی بدولت معاشرے کے مختلف عناصر میں باہمی عداوتیں پرورش پاتی ہیں۔ اس سے عوام دھوکے اور فریب میں مبتلا ہوتے ہیں اور اختلافی مسائل میں کوئی صحیح رائے قائم نہیں کرسکتے۔ اس سے معاشرے کی فضا میں تکدّر پیدا ہو جاتا ہے جو تعاون و مفاہمت کے لیے نہیں بلکہ صرف تصادم و مزاحمت ہی کے لیے سازگار ہوتا ہے۔ اس میں کسی شخص یا گروہ کے لیے عارضی منفعت کا کوئی پہلو ہو  تو ہو‘ مگر بحیثیت مجموعی پوری قوم کا نقصان ہے جس سے بالآخر خود وہ لوگ بھی نہیں بچ سکتے جو اختلاف کے اس بے ہودہ طریقے کو مفید سمجھ کر اختیار کرتے ہیں۔ بھلائی اسی میں ہے کہ ہمیں کسی سے خواہ کیسا ہی اختلاف ہو‘ ہم صداقت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں اور اس کے ساتھ ویسا ہی انصاف کریں جیسا ہم خود اپنے لیے چاہتے ہیں۔

۲- اختلافات میں رواداری

دوسری چیز جو اتنی ہی ضروری ہے‘ اختلافات میں رواداری ‘ایک دوسرے کے نقطۂ نظر کو سمجھنے کی کوشش‘ اور دوسروں کے حق رائے کو تسلیم کرنا ہے۔ کسی کا اپنی رائے کو حق سمجھنا اور عزیز رکھنا تو ایک فطری بات ہے‘ لیکن رائے رکھنے کے جملہ حقوق اپنے ہی لیے محفوظ کر لینا‘ انفرادیت کا وہ مبالغہ ہے جو اجتماعی زندگی میں کبھی نہیں نبھ سکتا۔ پھر اس پر مزید خرابی اس مفروضے سے پیدا ہوتی ہے کہ ’’ہماری رائے سے مختلف کوئی رائے ایمان داری کے ساتھ قائم نہیں کی جا سکتی‘ لہٰذا جو بھی کوئی دوسری رائے رکھتا ہے وہ لازماً بے ایمان اور بدنیت ہے‘‘۔ یہ چیز معاشرے میں ایک عام بدگمانی کی فضا پیدا کر دیتی ہے‘ اختلاف کو مخالفتوں میں تبدیل کر دیتی ہے‘ اور معاشرے کے مختلف عناصر کو جنھیں بہرحال ایک ہی جگہ رہنا ہے‘ اس قابل نہیں رہنے دیتی کہ وہ ایک دوسرے کے نقطۂ نظر کو سمجھ کر کسی مفاہمت و مصالحت پر پہنچ سکیں۔ اس کا نتیجہ اگر کچھ ہو سکتا ہے تو وہ صرف یہ کہ ایک مدّتِ دراز تک معاشرے کے عناصر ترکیبی آپس کی کش مکش میں مبتلا رہیں اور اس وقت تک کوئی تعمیری کام نہ ہو سکے جب تک کوئی ایک عنصر باقی سب کو ختم نہ کر دے‘ یا پھر سب لڑ لڑ کر ختم ہو جائیں اور خدا کسی دوسری قوم کو تعمیر کی خدمت سونپ دے۔

بدقسمتی سے ناروا داری اور بدگمانی اور خود پسندی کا یہ مرض ہمارے ملک میں ایک وباے عام کی صورت اختیار کر چکا ہے جس سے بہت ہی کم لوگ بچے ہوئے ہیں۔ حکومت اور اس کے اربابِ اقتدار اس میں مبتلا ہیں۔ سیاسی پارٹیاں اس میں مبتلا ہیں۔ مذہبی گروہ اس میں مبتلا ہیں۔اخبار نویس اس میں مبتلا ہیں۔ حتیٰ کہ بستیوں اور محلوں اور دیہات کی چھوٹی چھوٹی ٹولیوں تک اس کے زہریلے اثرات اتر گئے ہیں۔ اس کا مداوا صرف اسی طرح ہو سکتا ہے کہ سب سے پہلے وہ لوگ جو اپنے اپنے حلقوں میں نفوذ و اثر رکھتے ہیں‘ اپنی ذہنیت تبدیل کریں اور خود اپنے طرزِعمل سے اپنے زیراثر لوگوں کو تحمل و برداشت اور وسعتِ ظرف کا سبق دیں۔

۳- منفی کے بجائے مثبت طرزِعمل

تیسری چیز جسے تمام اُن لوگوں کو ملحوظ رکھنا چاہیے جو اجتماعی زندگی کے کسی شعبے میں کام کرتے ہوں‘ یہ ہے کہ ہر شخص اپنی قوتیں دوسروں کی تردید میں صرف کرنے کے بجائے اپنی مثبت چیز پیش کرنے پر صرف کرے۔ اس میں شک نہیں کہ بسااوقات کسی چیز کے اثبات کے لیے اس کے غیر کی نفی ناگزیر ہوتی ہے‘ مگر اس نفی کو اسی حد تک رہنا چاہیے جس حد تک وہ ناگزیرہو‘ اور اصل کام اثبات ہونا چاہیے نہ کہ نفی۔ افسوس ہے کہ یہاں معاملہ اس کے برعکس ہے۔ یہاں زیادہ تر زور اس بات پر صرف کیا جاتا ہے کہ دوسرے جو کچھ بھی کر رہے ہیں اس کی مذمت کی جائے اور اس کے متعلق لوگوں کی رائے خراب کر دی جائے۔ بعض لوگ تو اس منفی کام سے آگے بڑھ کر سرے سے کوئی مثبت کام کرتے ہی نہیں‘ اور کچھ دوسرے لوگ اپنے مثبت کام کے فروغ کا انحصار اس پر سمجھتے ہیں کہ میدان میں ہر دوسرا شخص جو موجود ہے اُس کی اور اس کے کام کی پہلے مکمل نفی ہوجائے۔ یہ ایک نہایت غلط طریق کار ہے اور اس سے بڑی قباحتیں رونما ہوتی ہیں۔ اس سے تلخیاں پیدا ہوتی ہیں۔ اس سے تعصبات اُبھرتے ہیں۔ اس سے عام بے اعتباری پیدا ہو جاتی ہے‘ اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس سے عوام کو تعمیری طرز پر سوچنے کے بجائے تخریبی طرز پر سوچنے کی عادت پڑ جاتی ہے۔

یہ روش خصوصیت کے ساتھ موجودہ حالت میں تو ہمارے ملک کے لیے بہت ہی زیادہ نقصان دہ ہے۔ اس وقت ہماری قومی زندگی میں ایک بڑا خلا پایا جاتا ہے جو ایک قیادت پر سے عوام کا اعتماد اٹھ جانے اور دوسری کسی قیادت پر نہ جمنے کا نتیجہ ہے۔ اس خلا کو اگر کوئی چیز بھر سکتی ہے تو وہ یہ ہے کہ مختلف جماعتیں اپنا جو کچھ اور جیسا کچھ بھی مثبت کام اور پروگرام رکھتی ہیں وہ لوگوں کے سامنے آئے اور لوگوں کو یہ سمجھنے کا موقع ملے کہ کون کیا کچھ بنا رہا ہے‘ کیا کچھ بنانا چاہتا ہے‘ اور کس کے ہاتھوں کیا کچھ بننے کی توقع کی جا سکتی ہے۔ یہی چیز آخرکار ایک یا چند جماعتوں پر قوم کو مجتمع کر سکے گی اور اجتماعی طاقت سے کوئی تعمیری کام ممکن ہوگا۔ لیکن اگر صورت حال یہ رہے کہ ہر ایک اپنا اعتماد قائم کرنے کے بجائے دوسروں کا اعتمادختم کرنے میں لگا رہے تو نتیجہ اس کے سوا کچھ نہ ہوگاکہ کسی کا اعتماد بھی قائم نہ ہو سکے گا اور ساری قوم بن سری ہو کر رہ جائے گی۔

۴- جبر و تشدّد کے بجائے دلائل

ایک اور بات جسے ایک قاعدئہ کلیہ کی حیثیت سے سب کو مان لینا چاہیے‘ یہ ہے کہ اپنی مرضی دوسروں  پر زبردستی مسلّط کرنے کا کسی کو حق نہیں ہے۔ جو کوئی بھی اپنی بات دوسروں سے منوانا چاہتا ہو وہ جبر سے نہیں بلکہ دلائل سے منوائے‘ اور جو کوئی اپنی کسی تجویز کو اجتماعی پیمانے پر نافذ کرنا چاہتا ہو وہ بزور نافذ کرنے کے بجائے ترغیب و تلقین سے لوگوں کو راضی کرکے نافذ کرے۔ محض یہ بات کہ ایک شخص کسی چیز کو حق سمجھتا ہے یا ملک و ملّت کے لیے مفید خیال کرتا ہے‘ اس بات کے لیے کافی نہیں ہے کہ وہ اُٹھے اور زبردستی اس کو لوگوں پر مسلط کرنے کی کوشش شروع کر دے۔ اس طریق کار کا لازمی نتیجہ کش مکش‘ مزاحمت اور بدمزگی ہے۔ ایسے طریقوں سے ایک چیز مسلط تو ہو سکتی ہے مگر کامیاب نہیں ہو سکتی‘ کیونکہ کامیابی کے لیے لوگوں کی قبولیت اور دلی رضامندی ضروری ہے۔ جن لوگوں کو کسی نوع کی طاقت حاصل ہوتی ہے‘ خواہ وہ حکومت کی طاقت ہو یا مال و دولت کی یا نفوذ و اثر کی‘ وہ بالعموم اس غلط فہمی میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ انھیں اپنی بات منوانے اور اپنے ارادوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے رضاے عام کے حصول کا لمبا راستہ اختیار کرنے کی ضرورت نہیں ہے‘بس طاقت کا استعمال کافی ہے۔ لیکن دنیا کی تاریخ بتاتی ہے کہ ایسی ہی زبردستیوں نے بالآخر قوموں کا مزاج بگاڑ دیا ہے‘ ملکوں کے نظام تہ و بالا کر دیے ہیں‘ اور ان کو پرُامن ارتقا کے راستے سے ہٹا کر بے تکے تغیرات و انقلابات کے راستے پر ڈال دیا ہے۔

پاکستان کے بااثر لوگ اگر واقعی اپنے ملک کے خیرخواہ ہیں تو انھیں دھونس کے بجائے دلیل اور جبر کے ساتھ ترغیب سے کام لینے کی عادت ڈالنی چاہیے‘ اور اسی طرح پاکستان کے عام باشندے بھی اگر اپنے بدخواہ نہیں ہیں تو انھیں اس بات پر متفق ہو جانا چاہیے کہ وہ یہاں کسی کی دھونس اور زبردستی کو نہ چلنے دیں گے۔

۵- انفرادی عصبیّت کے بجائے‘ ملّی مفاد

اس سلسلے کی آخری بات یہ ہے کہ ہمیں اپنی چھوٹی چھوٹی عصبیتوں کو ختم کر کے مجموعی طور پر پورے ملک اور ملّت کی بھلائی کے نقطۂ نظر سے سوچنے کا خوگر ہوناچاہیے۔ ایک مذہبی فرقے کے لوگوں کا اپنے ہم خیال لوگوں سے مانوس ہونا‘ یا ایک زبان بولنے والوں کا اپنے ہم زبانوں سے قریب تر ہونا‘ یا ایک علاقے کے لوگوں کا اپنے علاقے والوں سے دل چسپی رکھنا تو ایک فطری بات ہے۔ اس کی نہ کسی طرح مذمت کی جا سکتی ہے اور نہ اس کا مٹ جانا کسی درجے میں مطلوب ہے۔ مگر جب اسی طرح کے چھوٹے چھوٹے گروہ اپنی محدود دل چسپیوں کی بنا پر تعصب اختیار کرنا شروع کر دیتے ہیں اور اپنے گروہی مفاد یا مقاصد کے لیے معرکہ آرائی پر اُتر آتے ہیں تو یہ چیز ملک اور ملّت کے لیے سخت نقصان دہ بن جاتی ہے۔ اس کو اگر نہ روکا جائے تو ملک پارہ پارہ ہو جائے اور ملّت کا شیرازہ بکھر جائے جس کے برے نتائج سے خود یہ گروہ بھی نہیں بچ سکتے۔ لہٰذا ہم میں سے ہر شخص کو یہ اچھی طرح ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ جس فرقے‘ قبیلے‘ نسل ‘ زبان یا صوبے سے بھی اس کا تعلق ہو اُس کے ساتھ اُس کی دل چسپی اپنی فطری حد سے تجاوز نہ کرنے پائے۔ یہ دل چسپی جب بھی تعصب کی شکل اختیار کرے گی‘ تباہ کن ثابت ہوگی۔ ہر تعصب لازماً جواب میں ایک دوسرا تعصب پیدا کر دیتا ہے‘ اور تعصب کے مقابلے میں تعصب کش مکش پیدا کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ پھر بھلا اُس قوم کی خیر کیسے ہو سکتی ہے جس کے اجزاے ترکیبی آپس ہی میں برسرِپیکار ہوں۔

سیاسی جماعتوں کا مطلوبہ کردار:  ایسا ہی معاملہ سیاسی پارٹیوں کا بھی ہے۔ کسی ملک میں اس طرح کی پارٹیوں کا وجود اگر جائز ہے تو صرف اس بنا پر کہ ملک کی بھلائی کے لیے جو لوگ ایک خاص نظریہ اور لائحۂ عمل رکھتے ہوں انھیں منظم ہو کر اپنے طریقے پر کام کرنے کا حق ہے۔ لیکن یہ حق دو ضروری شرطوں کے ساتھ مشروط ہے۔ پہلی شرط یہ ہے کہ وہ فی الواقع نیک نیتی کے ساتھ ’’ملک کی بھلائی‘‘ ہی کے لیے خواہاں اور کوشاں ہوں۔ اور دوسری شرط یہ کہ ایک دوسرے کے ساتھ ان کی مسابقت یا مصالحت اصولی ہو اور معقول اور پاکیزہ طریقوں تک محدود رہے۔ ان میں سے جو شرط بھی مفقود ہوگی اُس کا فقدان پارٹیوں کے وجود کو ملک کے لیے مصیبت بنا دے گا۔ اگر ایک پارٹی اپنے مفاد اور اپنے چلانے والوں کے مفاد ہی کو اپنی سعی و جہد کا مرکز و محور بنا بیٹھے اور اس فکر میں ملک کے مفاد کی پروا نہ کرے تو وہ سیاسی پارٹی نہیں بلکہ قزاقوں کی ٹولی ہے۔ اور اگر مختلف پارٹیاں مسابقت میں ہر طرح کے جائز و ناجائز ہتھکنڈے استعمال کرنے لگیں اور مصالحت کسی اصول پر کرنے کے بجائے اختیار و اقتدار کے بٹوارے کی خاطر کیا کریں تو ان کی جنگ بھی ملک کے لیے تباہ کن ہوگی اور صلح بھی۔

اہم ترین بنیاد

یہ پانچ اصول تو وہ ہیں جن کی پابندی اگر ملک کے تمام عناصر قبول نہ کر لیں تو یہاں سرے سے وہ فضا ہی پیدا نہیں ہو سکتی جس میں نظامِ زندگی کی بنیادوں پر اتفاق ممکن ہو ‘ یا بالفرض اس طرح کا کوئی اتفاق مصنوعی طور پر واقع ہو بھی جائے تو وہ عملاً کوئی مفید نتیجہ پیدا کر سکے۔ اس کے بعد ہمیں دیکھنا چاہیے کہ وہ بنیادیں کیا ہو سکتی ہیں جن پر ایک صحیح مصالحانہ فضا میں زیادہ سے زیادہ اتفاق کے ساتھ ملک کا نظامِ زندگی تعمیر کیا جا سکتا ہے۔

ان میں ]اہم ترین بنیاد[ یہ ہے کہ قرآن و سنت کو ملک کے آیندہ نظام کے لیے منبع ہدایت اور اوّلین مآخذ قانون تسلیم کیا جائے۔ اس کو بنیادِ اتفاق ہم اس لیے قرار دیتے ہیں کہ ملک کی آبادی کا بہت بڑا حصہ مسلمانوں پر مشتمل ہے اور وہ اس بنیاد کے سوا کسی اور چیز پر راضی اور مطمئن نہیں ہو سکتے۔ اُن کا عقیدہ اس کا تقاضا کرتا ہے۔ ان کی تہذیب اور قومی روایات اس کا تقاضا کرتی ہیں‘ اور ان کی ماضی قریب کی تاریخ بھی اسی کا تقاضا کرتی ہے۔ ان کے لیے یہ گوارا کرنا سخت مشکل بلکہ محال ہے کہ جس خدا اور جس رسول پر وہ ایمان رکھتے ہیں‘ اس کے احکام سے وہ جان بوجھ کر منہ موڑ لیں اور اس کی ہدایات کے خلاف دوسرے طریقے اور قوانین خود اپنے اختیار سے جاری کریں۔ وہ کبھی اُن طریقوں کو جاری کرنے میں سچے دل سے تعاون نہیں کر سکتے اور نہ اُن قوانین کی برضا ورغبت پیروی کر سکتے ہیں جن کو وہ عقیدۃً باطل اور غلط سمجھتے ہیں۔ ان کے اندر آزادی کا جذبہ جس چیز نے بھڑکایا اور جس چیز کی خاطر انھوں نے جان و مال اور آبرو کی ہولناک قربانیاں دیں وہ صرف یہ تھی کہ انھیں غیر اسلامی نظام زندگی کے تحت جینا گوارا نہ تھا اور وہ اسے اسلامی نظام زندگی سے بدلنا چاہتے تھے۔ اب ان سے یہ توقع کرنا بالکل بے جا ہے کہ آزادی حاصل کرنے کے بعد وہ بہ خوشی اُس اصل مقصد ہی سے دست بردار ہو جائیں گے جس کے لیے انھوں نے اتنی گراں قیمت پر آزادی خریدی ہے۔ بلاشبہ یہ ضرور ممکن ہے کہ اگر کوئی جابر طاقت زبردستی ان کے اس مقصد کے حصول میں مانع ہو جائے اور اُن پر اسلام کے سوا کوئی دوسرا ضابطہ ء حیات مسلط کر دے تو وہ اُسی طرح مجبوری کے ساتھ اسے برداشت کر لیں جس طرح انگریزی تسلط واقع ہو جانے کے بعد انھوں نے اسے برداشت کیا تھا‘ لیکن جو شخص یہ سمجھتا ہو کہ ایک نارضامند آبادی پر جبر سے ایک نظام مسلط کرکے اسے کامیابی کے ساتھ چلایا بھی جا سکتا ہے وہ یقینا سخت نادان ہے۔

(ترجمان القرآن‘ جولائی ۱۹۵۵ء)

ایمان و تسلیم دراصل نفس کی ایک ایسی کیفیت ہے جو دین کے ہر حکم اور ہر مطالبے پر امتحان میں پڑ جاتی ہے۔ دنیا کی زندگی میں ہر ہر قدم پر آدمی کے سامنے وہ مواقع آتے ہیں جہاں دین یا تو کسی چیز کا حکم دیتا ہے یا کسی چیز سے منع کرتا ہے‘ یا جان اور مال اور وقت اور محنت اور خواہشات نفس کی قربانیوں کا مطالبہ کرتا ہے۔ ایسے ہر موقع پر جو شخص اطاعت سے انحراف کرے گا اُس کے ایمان و تسلیم میں کمی واقع ہو گی‘ اور جو شخص بھی حکم کے آگے سر جھکا دے گا اس کے ایمان و تسلیم میں اضافہ ہوگا۔ اگرچہ ابتداً آدمی صرف کلمہ ٔ اسلام کو قبول کر لینے سے مومن و مسلم ہو جاتا ہے‘ لیکن یہ کوئی ساکن و جامد حالت نہیں ہے جو بس ایک ہی مقام پر ٹھیری رہتی ہو‘ بلکہ اس میں تنزل اور ارتقا دونوں کے امکانات ہیں۔ خلوص اور اطاعت میں کمی اس کے تنزل کی موجب ہوتی ہے‘ یہاں تک کہ ایک شخص پیچھے ہٹتے ہٹتے ایمان کی اُس آخری سرحد پر پہنچ جاتا ہے جہاں سے یک سر مو بھی تجاوز کر جائے تو مومن کے بجائے منافق ہو جائے۔ اس کے برعکس خلوص جتنا زیادہ ہو‘ اطاعت جتنی مکمل ہو اور دین حق کی سربلندی کے لیے لگن اور دُھن جتنی بڑھتی چلی جائے ‘ ایمان اُسی نسبت سے بڑھتا چلا جاتا ہے‘ یہاںتک کہ آدمی صدّیقیّت کے مقام تک پہنچ جاتا ہے۔ لیکن یہ کمی و بیشی جو کچھ بھی ہے‘ اخلاقی مراتب میں ہے جس کا حساب اللہ کے سوا کوئی نہیں لگا سکتا۔بندوں کے لیے ایمان بس ایک ہی اقرار و تصدیق ہے جس سے ہر مسلمان داخل اسلام ہوتا ہے اور جب تک اس پر قائم رہے‘ مسلمان مانا جاتا ہے۔ اس کے متعلق ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ آدھا مسلمان ہے اور یہ پائو‘ یا یہ دگنا مسلمان ہے اور یہ تین گنا۔ اسی طرح قانونی حقوق میں سب مسلمان یکساں ہیں‘ یہ نہیں ہو سکتا کہ کسی کو ہم زیادہ مومن کہیں اور اس کے حقوق زیادہ ہوں ‘ اور کسی کو کم مومن قرار دیں اور اس کے حقوق کم ہوں۔ اِن اعتبارات سے ایمان کی کمی و بیشی کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا اور دراصل اسی معنی میں امام ابوحنیفہؒ نے یہ فرمایا ہے کہ الایمان لایزید ولا ینقص ’’ایمان کم و بیش نہیں ہوتا‘‘ (تفہیم القرآن‘ ج ۴‘ ص ۸۲-۸۳)۔

اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُھُمْ وَاِذَا تُلِیَتْ عَلَیْہِمْ اٰیٰتُہٗ زَادَتْھُمْ اِیْمَانًا وَّعَلٰی رَبِّھِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ o (الانفال ۸:۲)  سچے اہل ایمان تو وہ لوگ ہیں جن کے دل اللہ کا ذکر سن کر لرز جاتے ہیں اور جب اللہ کی آیات ان کے سامنے پڑھی جاتی ہیں تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے اور وہ اپنے رب پر اعتماد رکھتے ہیں۔

یعنی ہر ایسے موقع پر جب کہ کوئی حکمِ الٰہی آدمی کے سامنے آئے اور وہ اس کی تصدیق کر کے سراطاعت جھکا دے‘ آدمی کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔ ہر اس موقع پر جب کہ کوئی چیز آدمی کی مرضی کے خلاف‘ اس کی رائے اور تصورات و نظریات کے خلاف‘ اس کی مانوس عادتوں کے خلاف‘ اس کے مفاد اور اس کی لذت و آسایش کے خلاف‘ اس کی محبتوں اور دوستیوں کے خلاف اللہ کی کتاب اور اس کے رسولؐ کی ہدایت میں ملے اور آدمی اس کو مان کر فرمانِ خدا اور رسولؐ کو بدلنے کے بجائے اپنے آپ کو بدل ڈالے اور اس کی قبولیت میں تکلیف انگیز کر لے تو اس سے آدمی کے ایمان کو بالیدگی نصیب ہوتی ہے۔ اس کے برعکس اگر ایسا کرنے میں آدمی دریغ کرے تو اس کے ایمان کی جان نکلنی شروع ہو جاتی ہے۔ پس معلوم ہوا کہ ایمان کوئی ساکن و جامد چیز نہیں ہے‘ اور تصدیق و عدم تصدیق کا بس ایک ہی مرتبہ نہیں ہے کہ اگر آدمی نے نہ مانا تو وہ بس ایک ہی نہ ماننا رہا ‘ اور اگر ا س نے مان لیا تو وہ بھی بس ایک ہی مان لینا ہوا۔ نہیں بلکہ تصدیق اور انکار دونوں میں انحطاط اور نشوونما کی صلاحیت ہے۔ ہر انکار کی کیفیت گھٹ بھی سکتی ہے اور بڑھ بھی سکتی ہے ۔اور اسی طرح ہر اقرار و تصدیق میں ارتقا بھی ہو سکتا ہے اور تنزل بھی۔ البتہ فقہی احکام کے اعتبار سے نظام تمدن میں حقوق اور حیثیات کا تعین جب کیا جائے گا تو تصدیق اور عدم تصدیق دونوں کے بس ایک ہی مرتبے کا اعتبار کیا جائے گا۔ اسلامی سوسائٹی میں تمام ماننے والوں کے آئینی حقوق و واجبات یکساں ہوں گے‘ خواہ ان کے درمیان ماننے کے مراتب میں کتنا ہی تفاوت ہو اور سب نہ ماننے والے ایک ہی مرتبے میں ذمی یا حربی یا معاہد و مسالم قرار دیے جائیں گے خواہ ان میں کفر کے اعتبار سے مراتب کا کتنا ہی فرق ہو (تفہیم القرآن‘ ج ۲‘ ص ۱۳۰-۱۳۱)۔

]صلح حدیبیہ کے موقع پر اس کیفیت کو یوں واضح کیا گیا:[

ھُوَ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ السَّکِیْنَۃَ فِیْ قُلُوْبِ الْمُؤْمِنِیْنَ لِیَزْدَادُوْٓا اِیْمَانًا مَّعَ اِیْمَانِھِمْ ط (الفتح ۴۸:۴) وہی ہے جس نے مومنوں کے دلوں میں سکینت نازل فرمائی تاکہ اپنے ایمان کے ساتھ وہ ایک ایمان اور بڑھا لیں۔

’’سَکِینَت‘‘ عربی زبان میں سکون و اطمینان اور ثباتِ قلب کو کہتے ہیں‘ اور یہاں اللہ تعالیٰ مومنوں کے دل میں اُس کے نازل کیے جانے کو اُس فتح کا ایک اہم سبب قرار دے رہا ہے جو حدیبیہ کے مقام پر اسلام اور مسلمانوں کو نصیب ہوئی۔ اُس وقت کے حالات پر تھوڑا سا غور کرنے سے یہ بات اچھی طرح معلوم ہو جاتی ہے کہ وہ کس قسم کی سکینت تھی جو اس پورے زمانے میں مسلمانوں کے دلوں میں اُتاری گئی اور کیسے وہ اِس فتح کا سبب بنی۔ جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرے کے لیے مکۂ معظمہ جانے کا ارادہ ظاہر فرمایا‘ اگر مسلمان اُس وقت خوف زدگی میں مبتلا ہو جاتے اور منافقین کی طرح یہ سوچنے لگتے کہ یہ تو صریحاً موت کے منہ میں جانا ہے‘ یا جب راستے میں یہ اطلاع ملی کہ کفارِ قریش لڑنے مرنے پر آمادہ ہو گئے ہیں‘ اُس وقت اگر مسلمان اس گھبراہٹ میں مبتلا ہو جاتے کہ ہم کسی جنگی سازوسامان کے بغیر دشمن کا مقابلہ کیسے کرسکیں گے‘ اور اِس بنا پر ان کے اندر بھگدڑ مچ جاتی‘ تو ظاہر ہے کہ وہ نتائج کبھی رُونما نہ ہوتے جو حدیبیہ میں رونما ہوئے۔ پھر جب حدیبیہ کے مقام پر کفار نے مسلمانوں کو آگے بڑھنے سے روکا‘ اور جب انھوں نے چھاپے اور شب خون مار مار کر مسلمانوں کو اشتعال دلانے کی کوشش کی‘ اور جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کی اطلاع ملی‘ اور جب ابوجندل مظلومیت کی تصویر بنے ہوئے مجمع عام میں آکھڑے ہوئے‘ ان میں سے ہر موقع ایسا تھا کہ اگر مسلمان اشتعال میں آکر اُس نظم و ضبط کو توڑ ڈالتے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم کیا تھا تو سارا کام خراب ہو جاتا۔ سب سے زیادہ یہ کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُن شرائط پر صلح نامہ طے کرنے لگے جو مسلمانوں کی پوری جماعت کو سخت ناگوار تھیں‘ اُس وقت اگر وہ حضورؐ کی نافرمانی کرنے پر اُتر آتے تو حدیبیہ کی فتح عظیم شکست عظیم میں تبدیل ہو جاتی۔ اب یہ سراسر اللہ ہی کا فضل تھا کہ ان نازک گھڑیوں میں مسلمانوں کو رسول پاکؐ کی رہنمائی پر‘ دین حق کی صداقت پر اور اپنے مشن کے برحق ہونے پر کامل اطمینان نصیب ہوا۔ اسی کی بنا پر انھوں نے ٹھنڈے دل سے یہ فیصلہ کیا کہ اللہ کی راہ میں جو کچھ بھی پیش آئے سب گوارا ہے۔ اسی کی بنا پر وہ خوف‘ گھبراہٹ‘ اشتعال‘ مایوسی‘ ہر چیز سے محفوظ رہے۔ اسی کی بدولت ان کے کیمپ میںپورا نظم و ضبط برقرار رہا۔ اور اسی کی وجہ سے انھوں نے شرائطِ صلح پر سخت کبیدہ خاطر ہونے کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے پر سرتسلیم خم کر دیا۔ یہی وہ سکینت تھی جو اللہ نے مومنوں کے دلوں میں اُتاری تھی‘ اور اسی کی یہ برکت تھی کہ عمرے کے لیے نکلنے کا خطرناک ترین اقدام بہترین کامیابی کا موجب بن گیا۔

]ایمان بڑھنے سے مراد یہ ہے کہ[ ایک ایمان تو وہ تھا جو اِس مہم سے پہلے اُن کو حاصل تھا‘ اور اُس پر مزید ایمان اُنھیں اِس وجہ سے حاصل ہوا کہ اس مہم کے سلسلے میں جتنی شدید آزمایشیں پیش آتی چلی گئیں اُن میں سے ہر ایک میں وہ اخلاص‘ تقویٰ اور اطاعت کی روش پر ثابت قدم رہے۔ یہ آیت بھی منجملہ اُن آیات کے ہے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان ایک جامد و ساکن حالت نہیں ہے‘ بلکہ اس میں ترقی بھی ہوتی ہے اور تنزل بھی۔ اسلام قبول کرنے کے بعد سے مرتے دم تک مومن کو زندگی میں قدم قدم پر ایسی آزمایشوں سے سابقہ پیش آتا رہتا ہے جن میں اس کے لیے یہ سوال فیصلہ طلب ہوتا ہے کہ آیا وہ اللہ کے دین کی پیروی میں اپنی جان‘ مال ‘ جذبات‘ خواہشات ‘ اوقات‘ آسایشوں اور مفادات کی قربانی دینے کے لیے تیار ہے یا نہیں۔ ایسی ہر آزمایش کے موقع پر اگر وہ قربانی کی راہ اختیار کر لے تو اس کے ایمان کو ترقی اور بالیدگی نصیب ہوتی ہے‘ اگر منہ موڑ جائے تو اس کا ایمان ٹھٹھر کر رہ جاتا ہے‘ یہاں تک کہ ایک وقت ایسا بھی آ جاتا ہے جب

وہ ابتدائی سرمایۂ ایمان بھی خطرے میںپڑ جاتا ہے جسے لیے ہوئے وہ دائرہ اسلام میں داخل ہوا  تھا  (تفہیم القرآن‘ ج ۵‘ ص ۴۵-۴۶) ‘ ( ترتیب و تدوین: امجد عباسی)۔

 

کامیاب زندگی کا کوئی تصور قائم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے خود زندگی کا کوئی تصور قائم کر لیا جائے‘ کیونکہ اسی پر کامیابی کا تصور مبنی ہو سکتا ہے۔ ایک تصورِ حیات کے لحاظ سے ایک زندگی انتہائی کامیاب قرار پاتی ہے‘ تو دوسرے تصور حیات کے لحاظ سے وہی زندگی انتہائی ناکام ٹھہرتی ہے۔ دنیا کو ایک چراگاہ یا خوانِ یغما سمجھیے تو وہ شخص بہت کامیاب ہے جو اس تھوڑی سی مہلتِ عمر میں خوب عیش کرلے‘ اور وہ بڑا ہی نامراد ہے جو نفس و جسم کے ابتدائی مطالبات بھی اچھی طرح پورے نہ کر سکے۔ دنیا کو ایک رزم گاہ سمجھیے تو کامیاب آدمی وہ ہے جو اس کش مکش کے میدان میں سب کو روندتا کچلتا آگے بڑھتا چلا جائے‘ یہاں تک کہ اس مقام پر جا پہنچے جہاں اس کے جیتے جی کوئی حریف اس کی آرزوئوں کی تکمیل میں مزاحم ہونے والا نہ رہ جائے اور اس کے برعکس وہ آدمی بالکل ہی ناکام بلکہ نکمّا ہے جو اپنی اغراض کے لیے کسی ایک بندئہ خدا سے بھی چھین جھپٹ نہ کرے اور سفرحیات میںکبھی دو ہمراہیوں کو بھی کہنی مار کر آگے نہ نکلے۔ لیکن اگر آپ کا تصورِ حیات ان تصورات سے مختلف ہو تو کامیابی و ناکامی کے متعلق بھی آپ کا تصور ان سے مختلف ہو جائے گا۔ اتنا مختلف کہ آپ ان لوگوں کو سخت ناکام و نامراد سمجھیں گے جو ان تصورات کے لحاظ سے بڑے کامیاب ہیں‘ اور ایسے لوگوں کو انتہائی کامیاب قرار دیں گے جو ان کے لحاظ سے قطعی ناکام ہیں۔

اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ کامیابی و ناکامی کا کوئی ایک متعین معیار نہیں ہے جو دنیا بھر میں مسلّم ہو‘ بلکہ مختلف لوگوں کی نگاہ میں اس کے مختلف معیار ہیں اور ان معیاروں کے متعین کرنے میں فیصلہ کن چیز یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کو‘ اور اس دنیا کو جس میں وہ رہتا ہے‘ اور اس مہلت عمل کو جو اسے یہاں حاصل ہے‘ کیا سمجھتا ہے؟

طولِ کلام سے بچتے ہوئے میں اختصار کے ساتھ یہ بتائوں گا کہ ایک سچے مسلمان کی نگاہ میں فلاح و خسران کا حقیقی معیار کیا ہے۔ یہ معیار اسلام نے پیش کیا ہے اور ہمیشہ سے اہل ایمان اسی کے لحاظ سے رائے قائم کرتے رہے ہیں کہ فائز و کامران کون ہے اور خائب و خاسر کون۔

زندگی کا جو تصور اسلام ہمیں دیتا ہے وہ یہ ہے کہ خدا نے انسان کو اس دنیا میں آزمایش کے لیے رکھا ہے تاکہ انسان یہاں اس کے دیے ہوئے سروسامان اور اس کی دی ہوئی طاقتوں سے کام لے کر اپنی اصلی قدروقیمت کا اظہار کرے۔ اس تصور کی رو سے دنیا کوئی چراگاہ یا رزم گاہ نہیں ہے‘ بلکہ ایک امتحان گاہ ہے۔ جس چیز کو ہم اپنی زبان میں عمر کہتے ہیں‘وہ دراصل وہ وقت ہے جو امتحان کے پرچے کرنے کے لیے ہم کو دیا گیا ہے‘ اور امتحان کے پرچے بے شمار ہیں۔ ماں باپ‘ اولاد‘ بیوی‘ شوہر‘ بھائی بند‘ رشتے دار‘ دوست‘ ہمسائے‘ قوم‘ وطن اور پوری انسانیت جس کے ساتھ طرح طرح کے تعلقات و روابط میں انسان بندھا ہوا ہے‘ ان میں سے ہر ایک امتحان کا ایک پرچہ ہے۔ اپنی معاش کے سلسلے میں اور جن جن طریقوں سے بھی انسان کام کرتا ہے اور پھر اس کمائی کو جس جس طرح خرچ کرتا ہے‘ یہ سب بھی امتحان ہی کے مختلف پرچے ہیں۔ اسی طرح جتنی قوتیں اور قابلیتیں اللہ نے اس کو دی ہیں‘ جو جو خواہشیں اور میلانات اور جذبات اس میں رکھے ہیں‘ جن جن ذرائع اور وسائل سے کام لینے کی اس کو قدرت عطا کی ہے‘ ان سب کی اصل حیثیت بھی امتحان کے پرچوں ہی کی ہے۔ اور سب سے بڑا پرچہ اس مضمون کا ہے کہ اپنے اس خالق کے ساتھ انسان کیا رویہ اختیار کرتا ہے جس کی دنیا میں وہ رہتا ہے‘ جس کی دی ہوئی قوتوں اور طاقتوں سے وہ کام لیتا ہے‘ اور جس کے بخشے ہوئے سروسامان کو وہ استعمال کرتا ہے۔ یہ ایک ہمہ گیر امتحان ہے‘ جس کی لپیٹ میں زندگی کا ہر پہلو آیا ہواہے اور ہمہ وقتی امتحان ہے جس کا سلسلہ ہوش سنبھالنے کے وقت سے موت کی آخری ساعت تک جاری رہتا ہے۔

اس امتحان گاہ میں اصلی اہمیت اس چیز کی نہیں ہے کہ آپ کس مقام پر‘ کس حیثیت میں امتحان دے رہے ہیں بلکہ زیادہ صحیح یہ ہے کہ جو شخص یہاں مزدور کی حیثیت سے اٹھ کر ایک بڑا کارخانہ دار‘ یا رعیّت کے مقام سے بلند ہو کر ایک بڑا فرماں روا بن گیا ہے‘ اس نے درحقیقت کوئی کامیابی حاصل نہیں کی ہے بلکہ امتحان کے بہت سے زاید پرچے اس نے لے لیے ہیں اور پہلے کی بہ نسبت وہ بہت زیادہ سخت پرچے لے کر بیٹھ گیا ہے‘ جہاں نمبر زیادہ پانے کے جتنے امکانات ہیں‘ اتنے ہی زیادہ ناکامی کے خطرات بھی ہیں۔

یہ امتحانی تصورِ حیات جس شخص کا بھی ہو‘ اس کا معیار کامیابی و ناکامی لازماً دوسرے تصورات حیات رکھنے والوں کے معیار سے بالکل مختلف ہوگا۔ اس کے نزدیک اصل کامیابی خدا کے اس امتحان میں ایک بندئہ وفادار و شکرگزار ثابت ہونا ہے۔ ایک ایسا بندہ ثابت ہونا ہے جس نے خدا کے اور بندوں کے حقوق ٹھیک ٹھیک سمجھے اور ادا کیے ہوں۔ جس نے دل اور نگاہ‘ کان اور زبان‘ پیٹ اور جنسی قوتوں کو بالکل پاک رکھا ہو۔ جس کے ہاتھوں نے کسی پر ظلم نہ کیا ہو‘ جس کے قدم بدی کی راہ پر نہ چلے ہوں‘ جس نے کم کمایا ہو یا زیادہ‘ مگر جو کچھ بھی کمایا ہو‘ حق اور راستی کے ساتھ کمایا اور جائز راستوں میں خرچ کیا ہو۔ جو امانتوں کا محافظ‘ قول و قرار میں سچا اور عہد و پیمان میں راسخ رہا ہو۔ جو بھلائی کا دوست اور برائی کا دشمن ثابت ہوا ہو۔ جسے اس کے خدا نے جس حیثیت میں بھی رکھا ہو وہاں اس نے اپنی ذمے داریوں کو کماحقہ سمجھا اور ادا کیا ہو۔ جس کا یہ حال نہ رہا ہو کہ بقول ظفر:

ع   جسے عیش میں یادِ خدا نہ رہی‘ جسے طیش میں خوفِ خدا نہ رہا

یہ کامیابی جس کو نصیب ہو گئی ‘ وہ بہرحال فائز المرام ہے‘ خواہ دنیا میں وہ نانِ جویں تک کو محتاج رہا ہو اور اس کا کوئی کارنامہ تاریخ کے صفحات پر ثبت نہ ہو۔ اس کے برعکس جو اس کامیابی سے محروم رہ گیا‘ وہ سخت نامراد ہے خواہ وہ دنیا کے سرمایہ داروں کی صفِ اوّل میں پیشوائی کا مقام حاصل کرگیا ہو‘ یا فاتحین عالم کا سرخیل ہی کیوں نہ ہو (۲ جولائی ۱۹۵۸ء)‘  (کامیاب زندگی کا تصور‘ مرتبہ:پروفیسر انوردل‘ مکتبہ جدید‘ لاہور‘ مارچ ۱۹۶۴ء‘ ص ۲۳-۲۷)۔