گذشتہ چند برسوں سے اسلامی تحریکوں کے حوالے سے ایک سوال بار بار اٹھا یا جا رہا ہے کہ: ’کیا اسلامی تحریکات کا کوئی سیاسی مستقبل ہے؟‘ یا مغربی صحافت و ابلاغ عامہ کے اس قیاس کو درست مان لیا جائے کہ: ’اب نظریاتی جنگ کا دور ختم ہو چکا اور یہ صدی سرمایہ دارانہ نظام کی صدی ہے؟‘ لہٰذا، دنیا کے دیگر تمام سیاسی نظاموں کوموجودہ حالات کے تناظر میں اپنے اندرتبدیلی اور لچک پیدا کرکے سرمایہ دارانہ طرز فکر اور نظام کے ساتھ تعاون و اشتراک کی شکلیں اختیار کرنی ہوں گی۔
مغربی اور مغرب زدہ مصنّفین نے اس تصور کو اتنی تکرار کے ساتھ علمی جرائد، اخبارات اور برقی ابلاغ عامہ میں پیش کیا ہے کہ آج ایک نوجوان یہی سوچتا ہے کہ اسلام اور سرمایہ دارانہ نظام کی نظریاتی جنگ اب لاحاصل ہے ۔ اس لیے مقابلے کے لیے دو ہی راستے ہیں: زیر زمین سرگرمی کے ذریعے کسی عسکری انقلاب سے نظام بدلا جائے، یا پھر مغربی سرمایہ دارانہ جمہوریت سے سمجھوتا کرکے اسلام کے آفاقی اصولوں کو کچھ عرصے کے لیے کسی سردخانے میں ڈال دیا جائے اور وقت کی راگنی کے ساتھ اپنی لَے ملا کر سیاسی زندگی کے سفر کو آگے بڑھایا جائے۔ اس فکری انتشار کے نتیجے میں بہت سے نوجوان اسلامی نظام کے قیام کو شک کی نگاہ سے دیکھنےپر مجبور اور اپنی’دینی وابستگی‘ اور ’سیاسی وابستگی‘ میں فرق پیدا کرنے پر آمادہ نظر آرہے ہیں ۔ اس نازک اور فیصلہ کن دور میں اس بات کی ضرورت ہے کہ عالمی تناظر میں اس صورت حال کا تجزیہ کیا جائے اور ایک مثبت زاویۂ نظر فراہم کیا جائے ۔
عالمی پس منظر میں دیکھا جائے تو حقیقت یہ ہے کہ جس سرد جنگ کا آغاز جنگ عظیم اول سے شروع ہوا تھا وہ ایک مختصر وقفے کے بعد آج بھی نئی شکل میں برقرار ہے، اور اس سردجنگ کے علم بردار یورپی ممالک اور امریکا دنیا کے نقشے پر اور خصوصاً مسلم دنیا کی بندر بانٹ کرنے میں پہلے سے زیادہ سفّاکی اور چالاکی کے ساتھ سر گرم عمل ہیں ۔ دوسری جانب مسلم ممالک کے فوجی، موروثی اور سیاسی حکمران اپنے ذاتی اقتدار کو بچانے کے لیے مسلم مفاد سے قطع نظر مغربی شاطروں کو ہی اپنا خیرخواہ سمجھتے ہوئے انھی کے اشاروں پر سر گرم عمل ہیں ۔یورپی طاقتوں خصوصاً برطانیہ ، فرانس اور امریکا ’ناٹو‘ کے ذریعے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے مسلم دنیا کو مزید تقسیم کرکے انھیں مجبور و محکوم بنانے میں مصروف ہیں ۔ادھر روس اس ’مال غنیمت‘ میں سے اپنا حصہ بٹورنے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا رہا ہے، جب کہ مسلم ممالک کے حاکم طبقے، ان خطرات کو جان بوجھ کر نظر انداز کرتے ہوئے اپنے علاقوں میں ایسی اصلاحات کر رہے ہیں، جو مغربی طاقتوں کو یقین دلا سکیں کہ انھیں مسلم دنیا سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ مسلم دنیا تیل اور قدرتی گیس کے ذخائر ان کی نذر کرتی رہے گی، تا کہ اس وفاداری کے نتیجے میں مسلم ممالک کے حاکموں کو اقتدار سے بے دخل نہ کیا جائے۔
خود مغربی مفکرین تاریخی شواہد کے ساتھ یورپی ممالک کے عزائم اور عملی کردار پر واضح الفاظ میں تنقید کر رہے ہیں، مگر مسلم ممالک کے سر براہ اور مغرب زدہ مسلم دانش و ر اس کھلی کتاب کو پڑھنے سے آنکھیں چرا رہے ہیں ۔اس سلسلے میں ۲۰۱۶ء میں شائع شدہ ایک اہم کتاب قابلِ ذکر ہے، جس کے مصنف ایم ای میک ملن نے تاریخی دستاویزات کے ساتھ یہ بات ثابت کی ہے کہ برطانیہ ، فرانس اور روس نے باہمی تعاون کے ساتھ مسلم دنیا میں عدم استحکام ، انتشار اور جمہوریت کے قیام کے راستے میں رکاوٹ پیدا کرنے اور جمہوری عمل کو ناکام بنانے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ میک ملن کا شائع کردہ تاریخی جائزہ مغرب کے دہرے اخلاقی معیار ، مسلم دشمنی اور مفاد پرستی کی سچی تصویر پیش کرتا ہے اور نام نہاد حقوقِ انسانی، مساوات انسانی، جمہوریت پرستی کے غبارے کی ہوا نکال دیتا ہے۔(دیکھیے: From the First World War to the Arab Spring. What's Really going on in the Middle East?، ناشر: پالگریو میک ملن، امریکا، ۲۰۱۶ء)
اس جملۂ معترضہ کے ساتھ یہ کہنا ضروری ہے کہ وہ مسلم اور غیر مسلم دانش وَر جو یہ بات باربار کہتے ہیں کہ سابقہ سویت یونین کا منتشر ہونا سرمایہ داری کی فتح ہے، یہ کہتے ہوئے وہ بھول جاتے ہیں کہ وہ دو ایسے نظاموں کا مقابلہ کر رہے ہیں ، جن کی بنیاد ہی مادہ پرستی، انفرادیت پرستی، اور محسوسات پر مبنی نظام حیات (Empiricism) پر ہے ۔مادہ پرستی کی طرف سے اس تقابلی مطالعے کو سادہ لوحی تو کہا جا سکتا ہے لیکن اسے کسی ایک کی فتح اور دوسرے کی شکست قرار نہیں دیا جاسکتا۔ مغربی سرمایہ داری، وسائل پر غیرمحدود کنٹرول حاصل کر لینے کو کامیابی قرار دیتی ہے، جب کہ اشتراکی تصورِ معیشت ، ریاست کی معاشی اجارہ داری کو اپنا ایمان سمجھتی تھی۔ اس طرح دونوں کی اصل، مادہ پرستی اور معاشی قوت کا استحصالی استعمال رہا ہے۔ اس لیے ایک کا منتشر ہو جانا دوسرے کی فتح نہیں کہا جاسکتا ۔یہی وجہ ہے کہ روس اور چین دونوںمیں نجی ملکیت اور سرمایہ کاری اور مارکیٹ کی معیشت کے فروغ کے باوجود امریکا ، یورپ اور سابقہ اشتراکی دنیا ایک طرح کی ملی جلی معیشت (mixed economy )کا نقشہ پیش کررہے ہیں اور معاشی دلدل سے نکل نہیں پار ہے۔
اس مختصر نظریاتی جائزے سے معلوم ہوا کہ پہلے بھی اور آج بھی اگر مقابلہ ہے اور مقابلہ ہوسکتا ہے، تو اُن کے درمیان جو اصل کے لحاظ سے مختلف ہوں۔ ماضی میں بھی اور آج بھی اگر مادہ پرست سرمایہ دارانہ یا اشتراکی معاشی نظاموں کے مقابلے میں کوئی متبادل نظام عوام الناس کو فلاح، کامیابی اور سکون فراہم کر سکتا ہے تو وہ اسلامی نظام معیشت اور نظام سیاست ہی ہے ۔ یہاں امر بھی پیش نظر رہے کہ اگر واقعی نظریاتی جنگ کا دور ختم ہو گیا ہے تو پھر سرمایہ داری کے علَم بردار ممالک ’مسلم ریاست‘ اور اسلام کے نام سے پریشان کیوں ہوتے ہیں؟ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ دراصل ہر اس کوشش کے خلاف محاذ قائم کرنا ہے کہ جو اسلامی تصورِ حیات کو دنیا میں کسی بھی خطے میں رائج کرنے کے لیے کی جا رہی ہو۔جس سے یہ بات متعین ہوتی ہے کہ نظریاتی جنگ کا دور ختم نہیں ہوا اور ختم نہیں ہوسکتا۔
مغرب کے بہت سے مفکرین گذشتہ دو عشروں سے برابر کہہ رہے ہیں کہ مغربی تہذیب کی برتری اورخصوصاً امریکی قیادت کا دور ختم ہو رہا ہے اور ایک ایشیائی قوت، چین اس خلا کو پُر کرنے کے لیے آگے بڑھ رہی ہے۔ اگر بعض مسلمانوں میں کچھ دانش ور اس حقیقت کے باوجود یہ راے رکھتے ہیں کہ نظریاتی جنگ کا دور ختم ہو گیا ہے، تو یہ ان کی سادہ لوحی اور حقائق سے نظریں چرانا ہے ۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ خصوصاً مغرب، اسلام سے خائف ہو کر اپنے تمام وسائل کو مسلم دنیا میں باہمی ٹکراؤ پیدا کرنے اور مسلم دنیا کے قدرتی وسائل پر اپنا تسلط قائم کرنے کے لیے ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں مسلسل دخل اندازی کر رہا ہے، وہ اسی نظریاتی ٹکراؤ اور جنگ کا ایک محکم ثبوت ہے۔ اگر اسلامی نظریے میں وہ دم خم نہ ہوتا، تو پھر مغرب پر اسلام کا ہوّا کیوں سوار ہے؟ وہ کیوں ہرتخریبی اور منفی کارروائی کو بنیاد پرستی، انتہا پسندی اور دہشت گردی وغیرہ کا نام دے کے اسلام اور مسلمانوں سے منسوب کردیتاہے۔
ہمارے خیال میں یہ ذہنی محکومیت اور مغربی مفروضوں کے تناظر میں اسلامی ریاست اور اسلامی نشاتِ ثانیہ کے مستقبل سے مایوسی کا رویہ ہے، جس پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ گذشتہ زمانے کی اشتراکی معیشت کی اخلاقیات اور موجودہ زمانے کی حکمران مغربی سرمایہ دارانہ معیشت کی اخلاقی اقدار میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اس بنا پر ان دونوںکا مقابلہ اگر کسی نظامِ فکر سے ہو سکتا ہے تو وہ صرف اور صرف اسلام ہی ہے جو اپنے ماخذ اور تشکیل کے لحاظ سے ایک بالکل مختلف تصور کی نمایندگی کرتا ہے ۔
یہ جائزہ نا مکمل ہو گا اگر اس طرف اشارہ نہ کیا جائے کہ اگر واقعی اسلام اور سرمایہ دارانہ یا اشتراکی نظاموں کے درمیان نظریاتی اور سیاسی جدوجہد کا دور ختم ہو چکا ہے، تو پھر کیا وجہ ہے کہ مصر میں اخوان المسلمون ۷۰ سالہ آزمایشوں سے گزرنے کے باوجود سابقہ انتخابات میں محض نظریاتی اساس کی بنیاد پر کامیاب ہوئی۔ یہ الگ بات ہے کہ اس نظریاتی کامیابی کو عالمی جمہوریت کے اجارہ داروں نے برداشت نہیں کیا اور جمہوری عمل کو من پسند فوجی آمریت کے ذریعے غیراخلاقی اور غیر قانونی دخل اندازی کر کے ناکام بنانے کا شرمناک کھیل کھیلا ۔
تحریک اسلامی الجزائر [FIS: اسلامک سالویشن فرنٹ] نے ۱۹۹۰ء کے آغاز میں اسلامی نظریے کی بنیاد پر جمہوری ذرائع سے عوام کی اکثریت کی حمایت حاصل کی ۔ یہ واضح طور پر نظریے کی کامیابی اور اسلامی نظام کے قیام کی طرف ایک اہم قدم تھا ۔ اس کو ناکام بنانے کے لیے فرانسیسی سامراج کی پروردہ الجزائری فوج نے پُر امن جمہوری انقلاب کو خونیں انقلاب میں تبدیل کر دیا اور اس طرح ہزاروں بے گناہ شہریوں کو لقمۂ اجل بنا دیا گیا۔
اسی طرح تیونس میں تحریک اسلامی نے نظریاتی بنیاد پر واضح کامیابی حاصل کی۔ اور پھر ملک کو انتشار سے بچانے کے لیے رضاکارانہ طور پر اقتدار میں دیگر سیاسی جماعتوں کو اس حد تک شریک کار بنایا، جس سے خود النہضہ کے اسلامی تشخص پر شبہہ کیا جانے لگا ۔ اس طرح تیونس کی تحریک اسلامی نے ووٹ سے کامیابی حاصل کرکے مخالفین کو بقاے باہمی کے اصول کے تحت شریک ِ اقتدار کرکے وسعت قلبی کا مظاہرہ کیا، جو بیسویں صدی کی سیاسی تاریخ میں ایک منفرد مثال ہے۔ کیا یہ اس بات کا واضح ثبوت نہیں ہے کہ اسلامی تحریکات اصولی اور نظریاتی سیاست کی بنیاد پر دستوری ذرائع سے سیاسی میدان میں سر گرم ہیں؟
دراصل یہ سب مقابلہ نظریۂ حیات کا ہےاور اصل مدمقابل باطل نظام ہاے زندگی ہیں۔ یہاں یہ بات بھی واضح کرنا ضروری ہے کہ کسی نظریے کی صداقت کے لیے ضروری نہیں کہ اس کا عملی تجربہ ہماری اپنی نگاہوں کے سامنے ہو۔ کارل مارکس پر یقین رکھنے والوں نے آج تک اس کے نظریے کو کسی عملی تجربہ گاہ کی بنا پر نہیں بلکہ اس کے فکری اور منطقی استدال کی بنا پر درست تسلیم کیا ہے۔ یہ ایک روشن حقیقت ہے کہ نہ سابقہ اشتراکی روس میں اور نہ عوامی جمہوریہ چین میں آج تک کارل مارکس کی ’خیالی جنت‘ کا وجود عمل میں آیا اور نہ آنے کا کوئی امکان ہے، اس کے باوجود بطور ایک نظریہ اشتراکیت کا وجود پایا جاتا ہے۔
اس کے برعکس اسلامی نظریۂ حیات ایک فلسفی کا خواب نہیں بلکہ یہ پندرہ سو سال سے کہیں جزوی طور پر اور کہیں مکمل شکل میں نافذ رہ چکا ہے۔خلافت راشدہ کے بعد بھی حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے مختصر دور میں دوبارہ یہ نظریہ عملی شکل میں نافذ ہوا، اور پھر ملوک و سلاطین کی تمام خامیوں کے ساتھ ان اَدوار میں اس کے اہم اجزا ، قضا،معاشرت اور معیشت عملاً نافذ رہے، البتہ سیاسی نظام میں انحراف کے سبب معاشرہ اسلام کی تمام برکات سے مستفید نہیں ہو سکا ۔
یہ بات بھی پیش نظر رہنا ضروری ہے کہ قرآن کریم دو قوتوں کا تذکرہ بار بار کرتا ہے۔ ایک حق کی قوت اوردوسری باطل کی قوت۔ جس کا مقابلہ قیامت تک زندہ رہنے والے اسلامی نظریۂ حیات سے ہے اور رہے گا ۔ اس معرکۂ حق وباطل میں وقتی اتار چڑھاؤفطری عمل ہے۔ حق و باطل کی کش مکش میں جہاں بدر ایک زندہ حقیقت ہے، وہاں اُحد و حنین اور موتہ بھی دعوتِ فکر دیتے ہیں کہ حق اپنی صداقت کے باوجود مطلوبہ شرائط پوری نہ ہونے کے نتیجے میں وقتی طور پر مسائل کا شکار ہو سکتا ہے، لیکن آخر کار حق کو غالب آنا ہے اور باطل مٹ جانے کے لیے ہے: وَقُلْ جَاۗءَ الْحَقُّ وَزَہَقَ الْبَاطِلُ۰ۭ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَہُوْقًا۸۱ (بنی اسرائیل ۱۷:۸۱)۔ زندہ تصورِ حیات وقتی طور پر غالب نظر نہ آرہا ہو لیکن اپنی عنصری صداقت کی بنا پر اس کو غالب ہو نا ہے اور باطل جو جانے اور ختم ہونے کے لیے ہے، اسے فرار ہونا ہے۔ یہ وہ الہامی اصول ہیں جن سے قرآن کریم کا ہر طالب علم آگاہ ہے ۔
ایک بات اکثر صورت حال کی تہہ تک نہ پہنچنے کی بنا پر بعض ذہنوں میں پیدا ہوتی ہے کہ اگر تحریکاتِ اسلامی کے پاس قوتِ نافذہ (تمکّن فی الارض) نہیں ہے تو وہ کس طرح اپنا کردار ادا کر سکتی ہیں؟ اس طرح یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ جب تک اسلام کو ایک خطے میں عملاً نافذ کر کے نہ دکھا دیا جائے عوام اس کی صداقت کے قائل نہیں ہوں گے اور تحریکات اسلامی کو ووٹ دے کر کامیاب نہیں کرائیں گے۔ اس کے مقابلے میں مغربی سرمایہ دارانہ جمہوریت یورپ اور امریکا میں عملاً نافذ ہے، اس لیے اسلام کے علم برداروں کو اپنے اندر لچک پیدا کر کے مغربی لادین جمہوریت سے تعاون و اشتراک کے ذریعے اقتدار تک پہنچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
دراصل ان تمام خدشات و شبہات اور مغالطوں کی جڑ میں جو بات فکری طور پر بیٹھی ہوئی ہے وہ وہی ’خودساختہ نظریہ ‘ ہے ، جس میں سرمایہ دارانہ جمہوریت اور معیشت کو دنیا کا واحد قابلِ عمل تصور قرار دیا گیا ہے اور دلیل یہ ہے کہ امریکا اور یورپ میں یہ نظام پھل پھول رہا ہے، جب کہ مقابل نظریہ ( اشتراکیت) شکست کھا کر میدان چھوڑ چکا ہے، اس لیے اب کسی اور تیسرے نظام کی ضرورت نہیں ہے ، دنیا کے انسانوں کو چپ چاپ اس نظام کو اپنا لینا چاہیے ۔
ایسی بات کرنے والے اتنی ہمت تو نہیں رکھتے کہ یہ پوری بات زبان یا قلم سے ادا کریں، لیکن اسی تصور کو گھما پھرا کر اس طرح ادا کرتے ہیں کہ اسلامی تحریکات کی نظریاتی سیاست کا دور ختم ہو چکا، اب لادینی جمہوریت کے اصول کو اپنا کر ہی کوئی کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے ۔ اس لیے پاکستان کی بعض سیاسی جماعتیں بے اصولی کی سیاست کرنے کے باوجود کہتی ہیں کہ وہ ’اصولی سیاست‘ کر رہی ہیں ، حالاں کہ ان جماعتوں کا اصول صرف ایک رہا ہے کہ وہ کس طرح اقتدار پر قابض ہو سکتی ہیں۔
ان تمام شبہات کا مختصر اورآسان حل قرآن کریم نے فراہم کر دیا ہے کہ باطل نظریات و تصورات کی طغیانی صداقت و حق کے نورکو گل نہیں کر سکتی، نہ اس پر غالب آ سکتی ہے۔یہاں اصل غور طلب امر یہ ہے کہ تحریکات اسلامی کی حکمت عملی کیا ہونی چاہیے اور صحیح افرادی قوت کی فراہمی اور ترجیحات کا تعین کس طرح کیا جائے؟ ان میں جب بھی صحیح تناسب اور درست توازن ہو گا ، اللہ کی نصرت اور کامیابی یقینی ہے ۔
لا دینی سرمایہ دارانہ جمہوریت و معیشت جو امریکا اور یورپ میں نافذ ہے، کیا وہ کامیاب ہے، اور کیا اس کے ساتھ تعاون ہی میں نجات ہے؟ وہ کشتی جو خود شکستگی سے دوچار ہے، اس پر تکیہ کرنا کوئی دانش مندی ہو گی؟ جس ملک کے عوام و خواص اپنی قیادت پر اعتماد نہ رکھتے ہوں، جہاں درجنوں بنکوں کو کنگال کر دیا گیا ہو، جو حکومت خود کئی ٹریلین ڈالر کی مقروض ہو، کیا ایسی گرتی ہوئی دیوار کے سایے میں پناہ لینا مسلم دنیا کو تحفظ فراہم کر سکتا ہے؟
یہ منظرنامہ بتاتا ہے کہ تحریکات اسلامی کا علمی ، فکری ، سیاسی ، معاشی ، معاشرتی اور ثقافتی سطح پر باطل تہذیب اور جاہلی نظام کے ساتھ معرکہ جاری رہنا ہی ایک فطری عمل ہے۔ لیکن جس چیز پر غور کرنا چاہیے وہ یہ ہے کہ جس طرح مصر میں سیاسی اور دستوری ذرائع سے کامیابی کے بعد ایک فتح بیرونی دخل اندازی سے ناکامی میں تبدیل کر دی گئی ، کیا ایسا ہی ہوتا رہے گا یا تاریخ کےدھارےکو موڑا جاسکتا ہے ؟
اسلامی تحریکات جس دعوت کو پیش کر رہی ہیں، وہ دعوتِ حق ہے۔ اس میں سیاسی اقتدار اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک انعام اور آزمایش کی حیثیت رکھتا ہے ۔ اصل کامیابی اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول اور آخرت میں اجر ہے ۔ اس لیے اگر سیاسی جدوجہد میں انھیں کوشش کے باوجود ہدف حاصل نہیں ہوتا تو کیا انھیں ناکام کہا جا سکتا ہے؟ ہمارے خیال میں اس سوال سے بھی زیادہ غورطلب پہلو یہ ہے کہ تحریکات اسلامی کی دعوتی حکمت عملی ، ترجیحات اور نظام تربیت کا تنقیدی جائزہ اور خود احتسابی کے ذریعے ان اسباب کا تعین ضروری ہے، جو حصول ہدف میں رکاوٹ کا باعث رہے ہوں۔
قرآن کر یم نے ’گھوڑوں کو تیار رکھنےکے حکم‘ کے ذریعے ہمیں لازمی منصوبہ بندی اور ترجیحات کے تعین اور حکمت عملی کے وضع کرنے کی طرف متوجہ کیا ہے۔ اس لیے تحریکات اسلامی کو اپنے مقصد اور منزل پر پورے اعتماد کے ساتھ یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کس حد تک خلوص ، ایثار و قربانی اور بے لوثی کے ساتھ اپنا سب کچھ اقامت دین کے لیے لگادینے والی ٹیم تیار ہورہی ہے؟
امرِواقعہ یہ ہے کہ تحریکات اسلامی کی سیاسی کامیابی ایک ضمنی پھل ہے۔ ان کا اصل حاصل وہ جدوجہد ہے جس کے نتیجے میں وہ صالح افراد کی جماعت پیدا ہوتی ہے جس کے بارے میں قرآن نے کہا ہے وہ رُحَمَاۗءُ بَيْنَہُمْ اور اَشِدَّاۗءُ عَلَي الْكُفَّارِ ہیں، جو بنیان مرصوص اور عبادالرحمٰن ہیں (الفتح ۴۸:۲۹)۔ جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر ارشاد پر صرف سمعنا واطعنا کہنے اور عمل کرنے کے قائل ہیں۔ جب اور جہاں یہ تربیت یافتہ افراد پیدا ہو جائیں اللہ تعالیٰ کی نصرت سے وہ باطل پر غالب آتے ہیں :
اِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللہُ ثُمَّ اسْـتَقَامُوْا تَـتَنَزَّلُ عَلَيْہِمُ الْمَلٰۗىِٕكَۃُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّۃِ الَّتِيْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ۳۰ (حٰمٓ السجدة۴۱: ۳۰) جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے، یقیناً اُن پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ 'نہ ڈرو، نہ غم کرو، اور خوش ہو جاؤ اُس جنت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے ۔
اجتماعی اور سیاسی جدوجہد کے دوران مختلف درجوں کی سرگرمیاں اپنی جگہ، لیکن تبدیلی اور کش مکش کے عمل کو نتیجہ خیز بنانے اور پایدار اصلاح کے لیے سب سے زیادہ ضروری چیز وہ مسلسل تعلیمی و تربیتی عمل ہے، جس میں قرآن کریم کا براہِ راست مطالعہ ، سیرت النبیؐ سے براہِ راست تعلق ، عبادات اور حقوق العباد کا شدت کے ساتھ اہتمام ، انفاق فی سبیل اللہ اور اپنے اصولوں پر سختی سے جم جانا شامل ہے ۔ اگر معاشرے میں اخلاق باختگی ہے تو اس کےخلاف کھڑا ہونا ، اگر معاشی استحصال ہے تو ا س کے خلاف صف آرا ہونا ، اگر عدل و انصاف نہیں ہو رہا تو اس کے قیام کی جدوجہد کرنا، راتوں کواللہ کے حضور کھڑے ہوکر مدد طلب کرنا، دن میں رزق حلال کے حصول کی کوشش اور زندگی کے ہر لمحے کو صرف دعوت الی اللہ کے لیے استعمال کرنا شرطِ اوّل ہے ۔
یہی وہ راستہ ہے جس نے ہر دور میں احیاے اسلام کی جدوجہد کو وقار بخشا اور آخرت میں قبولیت کا امکان روشن کیا۔ –تحریکی ترجیحات میں تعمیر کردار کو اولیت دیے بغیر محض افرادی کثرت پر توجہ، دین کا مدعا نہیں ہے۔ تحریک کا سرمایہ اس کےوہ باکردار افراد ہی ہو سکتے ہیں جو قرآن و سنت کی دعوت اور تبدیلی و اصلاح کے طریق کار کو اختیار کریں اور وقت کی قید سے آزاد ہو کر تطہیر افکار، تعمیر سیرت اور معاشرتی عدل رائج کر سکیں ۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا دستور بھی یہی مطالبہ کرتا ہے کہ وہ ان صادق اور امین نمایندوں کو منتخب کریں جو شریعت کی بالا دستی اور ملک میں اسلامی عدل اور معیشت کے نظام کو رائج کر سکیں ۔
تحریک اسلامی کی بنیادی ذمہ داری ایسے افراد کی تیاری ہے جو ذاتی مفاد کے بندے نہ ہوں بلکہ صرف اور صرف خالق حقیقی کے بندے بن کر اس کے حقوق کو ادا کریں اور خلق خدا کے حقوق کے تحفظ میں ذمہ دارانہ کردار ادا کر سکیں ۔ ان افراد کی تیاری کے بغیر جو تبدیلی بھی آئے گی وہ وقتی اور جزوی ہو گی۔ دعوتِ دین ایک ہمہ جہت اور نہ ختم ہونے والی جدوجہد کا نام ہے۔ اس کا ہر محاذ اہم اور ہر محاذ دوسرے سے مربوط اور اس کی معاونت کا محتاج ہے۔ جسے مسلسل خونِ جگر سے سینچنے ہی سے عصر حاضر میں تحریک اسلامی اپنی منزل سے ہم کنار ہو سکتی ہے۔
جدے سے مدینہ طیبہ تک کا راستہ وہ ہے ، جس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں بکثرت غزوات اور سرایا ہوئے۔ آدمی کا جی چاہتا ہے کہ غزوات کے مقامات دیکھے ، اور ضرور اس راستے میں وہ سب مقامات ہوں گے،لیکن ہم کسی جگہ بھی ان کی کوئی علامت نہ پاسکے۔ اسی افسوس ناک صورتِ حال کا مشاہدہ مدینہ طیبہ میں بھی ہوا۔ کاش، سعودی حکومت اس معاملے میں اعتدال کی روش اختیار کرے، نہ شرک ہونے دے اور نہ تاریخی آثار کو نذرِ تغافل ہونے دے۔
تاریخِ اسلام کے اہم ترین مقامات جن کو ہم سیرتِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاے راشدینؓ کے عہد ِ تاریخ میں پڑھتے ہیں، اور جن کے دیکھنے کی ہمیں مدت سے تمنا تھی، ان میں سے کسی بھی جگہ کوئی کتبہ لگا ہوا نہ پایا،جس سے معلوم ہوتا کہ یہ فلاں جگہ ہے، حتیٰ کہ حدیبیہ جیسا مقام بھی اس علامت سے خالی ہے، اور بدر جیسے مقام پر بھی یہ لکھا ہوا ہے کہ یہ بدر ہے۔
۲۷جولائی [۱۹۵۶ء] کو عصر کے بعد ہم لوگ مدینہ منورہ کے لیے روانہ ہوئے، اور اگلے روز تقریباً مغرب کے وقت وہاں پہنچے۔ راستے میں بدر سے گزر ہوا، لیکن حج کے زمانے میں انسان کچھ اس طرح قواعد و ضوابط سے بندھا ہوتا ہے کہ اپنی مرضی سے کہیں جانا ، اور کہیں ٹھیرنا اس کے بس میں نہیں ہوتا۔ اس لیے دلی تمنا کے باوجود وہاں ٹھیرنا ممکن نہیں ہوا۔
حج سے فارغ ہوتے ہی مدینے جانے کے لیے دل میں ایک بے چینی پیدا ہوچکی تھی۔ روانہ ہونے سے مدینہ پہنچنے تک جذبات کا عجیب حال رہا، اور خصوصاً جس مقام سے گنبد ِ خضرا نظر آنا شروع ہوجاتاہے، وہاں تو جذبات کاوفور اختیار سے باہر ہوجاتا ہے۔
مجھے امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کی جن باتوں سے کبھی اتفاق نہ ہوسکا،ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ مدینہ طیبہ کا سفر مسجد ِ نبویؐ میں نماز پڑھنے کے لیے تو جائز بلکہ مستحسن قرار دیتے ہیں، مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مزارِ مبارک کی زیارت کا اگر کوئی قصد کرے تو اس کو ناجائز ٹھیراتے ہیں۔ میرے نزدیک یہ چیز کسی مسلمان کے بس میں نہیں ہے کہ وہ حجاز جانے کے بعد مدینے کا قصد نہ کرے اور مدینے کا قصد کرتے وقت مزارِ پاک کی زیارت کی تمنا اور خواہش سے اپنے دل کو خالی رکھے۔
صرف مسجد نبویؐ کو مقصودِ سفر بنانا انتہائی ذہنی تحفظ کے باوجود بھی ممکن نہیں ہے، بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ اگر وہاں صرف یہ مسجد ہوتی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مزارِ مبارک نہ ہوتا، تو کم ہی کوئی شخص وہاں جاتا۔ آخر فضیلتیں تو مسجد اقصیٰ کی بھی بہت ہیں، مگروہاں کتنے لوگ جاتے ہیں؟ اصل جاذبیت ہی مدینے میں یہ ہے کہ وہ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا شہر ہے۔ وہاں آں حضوؐر کے آثار موجود ہیں اور خود آں حضوؐر کا مزارِمبارک بھی ہے۔
جس حدیث سے امام ابن تیمیہؒ نے استدلال کیا ہے، اس کا مطلب بھی وہ نہیں ہے جو انھوں نے سمجھا۔ بلاشبہہ آں حضوؐر نے فرمایا ہے کہ تین مسجدوں کے سوا کسی کے لیے سفر جائز نہیں ہے۔ لامحالہ اس کے دو ہی مطلب ہوسکتے ہیں۔ یا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ: ’دُنیا میں کوئی سفر جائز نہیں سواے ان تین مسجدوں کے‘ اور یا پھر یہ مطلب ہوگا کہ: ’تین مسجدوں کے سوا کسی اور مسجد کی یہ خصوصیت نہیں ہے کہ اس میں نماز پڑھنے کے لیے آدمی سفر کرے‘۔
اگر پہلے معنی لیے جائیں تو مدینہ کیا معنی، دُنیا میں کسی جگہ بھی سفر کرکے جانا جائز نہیں رہتا، خواہ وہ کسی غرض کے لیے ہو، اور ظاہر ہے کہ اس معنی کا کوئی قائل نہیں، خود ابن تیمیہؒ بھی اس کے قائل نہیں تھے۔
اور اگر دوسرے معنی کو اختیار کیا جائے اور وہی صحیح ہے تو حدیث کا تعلق صرف مساجد سے ہے، غیرمساجد سے نہیں۔ اور منشا صرف یہ ہے کہ مسجد نبویؐ، مسجد حرام اور مسجد اقصیٰ تو ایسی مسجدیں ہیں کہ ان میں نماز پڑھنے کا ثواب حاصل کرنے کی نیت سے آدمی ان کی طرف سفر کرے، لیکن دُنیا کی کوئی اور مسجد یہ حیثیت نہیں رکھتی کہ محض اس میں نماز پڑھنے کی خاطر آدمی سفر کر کے وہاں جائے۔ لیکن اس کو خواہ مخواہ زیارتِ قبرِ رسولؐ پر لے جاکر چسپاں کر دینا کسی دلیل سے بھی صحیح نہیں۔
مدینہ پہنچ کر مسجد نبویؐ میں حاضری دی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور شیخینؓ کے مزارات کی زیارت کی۔ یہاں کی کیفیات نمایاں طور پر مسجد حرام کی کیفیات سے مختلف ہوتی ہیں۔ مسجدحرام میں محبت پر عظمت و ہیبت کے احساس کا شدید غلبہ رہتا ہے۔ اس کے ساتھ آدمی پر کچھ وہ کیفیات سی طاری ہوتی ہیں، جو کسی بھیک مانگنے والے فقیر کی حالت سے ملتی جلتی ہیں۔ لیکن حرمِ نبویؐ میں پہنچ کر تمام دوسرے احساسات پر محبت کا احساس غالب آجاتا ہے، اور یہ وہ محبت ہے جس کو آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی جزوِ ایمان فرمایا ہے۔
مسجد نبویؐ اب جدید توسیع کے بعد بہت شان دار اور نہایت خوب صورت بن گئی ہے۔ اس مسجد کی تعمیر میں شروع ہی سے اس بات کا خیال رکھا گیا ہے کہ تمام توسیعوں کے نشان الگ رہیں۔ اصل مسجد جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بنائی تھی اس کے نشانات الگ ہیں، اور صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ کتنی تھی۔
چہارشنبہ، ۴ محرم ۱۳۶۹ھ ، ۲۶؍اکتوبر ۱۹۴۹ء: صبح کو مدینہ منورہ کا سفر شروع ہوا۔ مغرب کے بعد موٹر چلتی رہی۔ یہ راستہ کویت اور ریاض کے درمیانی راستے سے اچھا ہے۔ بڑی بات یہ ہے کہ اس راہ میں پانی جابجا ملتاہے۔ عاجز صحرا کے سفر کا خاصا عادی ہوچکا ہے۔ کھانسی کی تکلیف نہ ہوتی تو یہ سفر ایک گونہ دل چسپ اور نشاط انگیز ہوتا۔ قلب و روح کی حد تک تو اب بھی نشاط انگیز ہے۔ مدینے کی قربت خود بخود مُردہ جسم میں جان ڈال رہی ہے۔ سانس کی تکلیف کے باوجود گنگنانے کو جی چاہتا ہے۔ رات مفرق کے مقام پر بسر ہوئی۔
جمعرات ، ۵ محرم ۱۳۶۹ھ ، ۲۷؍اکتوبر ۱۹۴۹ء: صبح ہوئی ، قافلہ روانہ ہوا اور مدینہ منورہ کی قربت طبیعت کو اُکسانے لگی۔ ابھی تین چار گھنٹے کی مسافت باقی ہے، لیکن دل ابھی سے لرزنے لگا ہے۔ مدتیں گزریں، زمانہ بیت گیا، مدینے کی حاضری کا شوق دل میں چٹکیاں لیتا رہا۔ بارہا فرطِ شوق میں آسی غازی پوری کا یہ پُرکیف مطلع پڑھتا رہا ہوں:
صبا تو جا کے یہ کہنا مرے سلام کے بعد
کہ تیرے نام کی رَٹ ہے خدا کے نام کے بعد
وہ کیا ساعت ہوگی جب یہ گنہگار، رُو بہ رُو حضرت عالیؐ میں سلام عرض کرے گا۔ جب کبھی یہ خیال آتا، آنکھیں نم ہوجاتیں، درود پڑھتا اور اُردو، عربی کے مناسب حال شعر زبان پر جاری ہوجاتے۔
کچھ دیر کے لیے مسیجید کے اسٹیشن پر موٹر رکی، پھر قافلہ آگے روانہ ہوا۔ اب یہ گنہگار ہمہ تن شوق ہے۔ ’وہابیت‘ کی خشکی کے باوجود دل پسیج رہا ہے۔ جانے ان راستوں پر حضورانور صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی گزر ہوا ہو۔موٹر نہ ہوتی تو گردِ راہ سے پوچھتا، شایدنقش پا کے کھوئے ہوئے اثرات کا سراغ لگتا۔ شاعر کی زبان میں محبوب کے گزرنے سے تمام وادی نعمان معطر ہوگئی تھی تو کیا سرورِ عالم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کی گزرگاہ میں ہوائیں مشک آفریں اور عنبربیز پسینے کی خوش بُو سے خالی ہوں گی؟ مدینہ پاک کی سرزمین قریب ہوتی جارہی ہے اور خاکسار کھانسی کے حملوں سے چور کھویا ہوا،گنگناتا اور درود پڑھتا چلا جا رہا ہے۔
اتنے میں شور ہوا، ’ذوالحلیفہ آگیا‘۔ سن کر دل بَلّیوں اُچھلنے لگا۔ یہ اہلِ مدینہ کا میقات ہے۔ یہاں سے مدینہ چار پانچ میل سے زیادہ نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اُن کے جانثار ساتھیوں نے یہیں سے حج کا احرام باندھا ہوگا۔ جی چاہا غسل کر کے کپڑے بدل لیے جائیں اور یہاں سے پیدل چلیں۔ عرصے سے تمنا تھی کہ مدینہ پاپیادہ داخل ہوں۔ امام مالکؒ مدینہ منورہ میں سواری استعمال نہیں کرتے تھے۔ کہتے: ’’جہاں رسولِ کریم ؐکی قبر ہے،اس زمین کو کسی جانور کے ٹاپوں سے روندنا حرام سمجھتا ہوں‘‘۔عربی کا ایک دل آویز شعر بڑے ذوق و شوق سے پڑھا کرتا تھا:
وَاِذَا الْمَطِیُّ بِنَا بَلَغْنَ مُحَمَّدًا
فَظُھُورُھُنَّ عَلَی الرِّجَالِ حَرَامٗ
[جب سواریاں ہمیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب لے کر پہنچیں گی تو اس وقت ان کی پیٹھیں مسافروں پر حرام ہوں گی، یعنی وہ اب پیدل چلنے لگتے ہیں، اور سواریاں چھوڑ دیتے ہیں۔]
مگر جب اس تمنا کے پورا ہونے کا وقت آیا تو مرض نے بے بس کر دیا۔ واے ناکامی! عاصم [الحداد] صاحب سے راے طلب کی کہ صرف کپڑے ہی بدل لیے جائیں؟ گردوغبار کی وجہ سے ان کی راے نہ ہوئی۔ آخر صبر کر کے بیٹھ رہا۔ لیکن دل کے اندر سے ایک آواز آرہی تھی:
نگاہیں فرشِ راہ ہوں، حمیدؔ سر کے بل چلو
ادب! ادب! یہ کوچۂ حبیب کردگار ہے
مگر سنے کون؟ مسعود و بے نوا تو [دمے اور]کھانسی سے چُور، قہوہ خانے میں بیٹھا اپنے ساتھیوں کو اُمیدبھری نظروں سے دیکھ رہا ہے۔ ایک قہوہ خانے میں چائے پی اور پہلی بار مدینہ کے انگور کھائے۔ انگور اچھے اور لذیذ تھے، شوقِ محبت نے انھیں اور لذیذ بنا دیا۔
ذوالحلیفہ سے قافلہ آگے بڑھا۔ ڈرائیور نے کچھ دیر کے بعد پکارا: ’وہ دیکھو!‘ نگاہیں اُٹھ گئیں اور دیدئہ نم نے دھندلی عمارتوں کو سلام کیا۔ جوں جوں منزل قریب ہوتی گئی، تحیر اور ذہول کی حالت طاری ہونا شروع ہوئی۔درود و سلام کے علاوہ ابن جبیر اندلس کے مشہور قصیدے کے اشعار ورد زبان تھے۔آخر مدینے کی چار دیواری میں داخل ہوئے۔
پہلا مرحلہ مسجد نبویؐ میں حاضری کا تھا۔ [عبدالعزیز] شرقی صاحب نے گرم پانی کا انتظام کرایا۔ ہم لوگوں نے غسل کیا، کپڑے بدلے، خوشبو لگائی اورشرقی صاحب کی رہنمائی میں حرم پہنچے۔ دو منٹ کی بھی راہ نہیں ہوگی۔ دروازے پر پہنچے تو مکہ مکرمہ کی خشونت اور مسجد ِحرام کی سادگی کے برعکس ساری فضا لطیف اور مسجد عروس المساجد معلوم ہوئی۔ جدھر نظر اُٹھے خطاطی اور فن کاری کے بہترین نمونے نظر آئیں۔ لیکن اس وقت خطاطی اور فن کاری پر نگاہ ڈالنے کی کسے فرصت؟ ایک مرعوبیت اور تاثیر کے عالم میں روضہ میں تحیۃ المسجد ادا کی۔ ہجوم اور شور میں دلِ پُرشوق کیا کہے۔ نماز کے بعد شباکِ نبوی (جسے عام طور پر مواجہہ شریفہ کہتے ہیں) کے پاس مؤدبانہ قدم بڑھاتے ہوئے آئے۔ سلف کے معمول کے مطابق اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَارَسُوْلَ اللہِ ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللہِ وَبَرَکَاتُہٗ اور درود پڑھ کر آگے بڑھا اور شیخینؓ کی قبروں کے سامنے اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَااَبَـابَکرِ یَاخَلِیْفَۃَ رَسُوْلِ اللہ ِ اور اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا اَیُّھَا الْفَارُوْقُ یَاعُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ کہتا ہوا آگے بڑھ کر ایک طرف قبلہ رُخ کھڑا ہوگیا اور وقت اور موقعے کے لحاظ سے حسب ِ توفیق دُعا کی۔
چہارشنبہ، ۲۵محرم ۱۳۶۹ھ ، ۱۶؍نومبر ۱۹۴۹ء: ارادہ سفر کا ہے، مدینہ منورہ میں بیس دن ہوگئے، پر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ابھی ابھی اس سرزمین پر قدم رکھا ہے۔ در و دیوار سے انس و محبت کی خوشبو آتی ہے اور جب کبھی دُور سے سبزگنبد کی طرف نگاہ اُٹھ جاتی ہے، دل دھڑکنے لگتا ہے۔ بس میں ہوتا تو اس دَر کی جاروب کشی کرتا۔ خوش نصیب ہیں وہ جو اس دیارِ محبت و اُلفت میں رہتے ہیں اور اس کی قدر کرتے ہیں:
خاک طیبہ از دوعالم خوش تر است
اے خنک شہرے کہ آنجا دلبراست
[طیبہ کی خاک دونوں جہانوںسے بہتر ہے۔ اے پیارے شہر (مدینہ) تو کتنا اچھا ہے کہ یہاں محبوب ہے]
جمعہ ۲۷محرم ۱۳۶۹ھ ، ۱۸؍نومبر ۱۹۴۹ء: معلّم صاحب نے بھی نماز کے بعد فوراً تیار ہوجانے کا حکم دیا، پر اس دیارِ محبت سے جانے کو جی نہیں چاہتا۔ سردی کا موسم سر پر نہ ہوتا تو غالباً دوچار مہینے کا عزم ضرور ہی کرلیتا، مگر آج نماز کے بعد جی کڑا کر کے رخت ِ سفر باندھنا ہے۔ اللہ تعالیٰ مدد فرمائے گا اور پھر اپنے محبوب کے محبوب شہر میں رہنے اور دن گزارنے کی توفیق اور موقع عنایت فرمائے۔ سفر کی تیاریاں ہیں مگر مدینۃ الرسول کا پُرمحبت ماحول اپنی طرف رہ رہ کر کھینچتا ہے۔ مدینہ کی بہار، سدابہار ہے۔ آخر کیوں نہیں؟___ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا محبوب شہر، محبوب اور دل نواز نہ ہو تو پھر کون سی جگہ دل نواز اور روح پرور ہوگی؟ جانے کو جارہا ہوں، پر دیدۂ دل میں مدینہ ہی مدینہ بسا ہوا ہے:
نظر نظر پہ چھا گئی ، دلوں میں یہ سما گئی
مدینہ کی بہار کیا ، بہار در بہار ہے
نمازِ جمعہ سے کچھ پہلے ہی حرم آیا۔ ’روضہ‘ تو کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ جمعہ کی تقریب سے نمازی بہت پہلے آگئے تھے اور ہر طرف تلاوتِ قرآن کی ہلکی، مگر سامع نواز گونج سنائی دیتی تھی۔ عاجز نے ایک کنارے تحیۃ المسجد ادا کی۔ دل متاثر تھا۔ شاید اس حسین و جمیل اور مقدس مسجد میں آخری تحیہ ہو۔ پھر کشاں کشاں بارگاہِ نبوتؐ کی طرف گیا۔ اپنی جرأت پر نازاں اور بادشاہوں کے درباروں میں بے محابا جانے والا، یہاں ششدر اور مبہوت تھا۔ کیا کہے اور کیا عرض کرے؟ قدم حدودِ نبوت سے آگے بڑھنے نہ پائے، ادب و وقار کا دامن بھی ہاتھ میں رہے۔ ایک گنہگار و شرم سار اپنے آقا و مولا اور ساری انسانیت کے محسنِ اعظم (محمد سیّدالکونین من عرب و من عجم) کے حضور کھڑا کچھ کہنا چاہتا تھا مگر زبان اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَارَسُوْلَ اللہِ ، وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللہِ وَبَرَکَاتُہٗ سے زیادہ نہ کہہ سکی۔ بڑی ہمت کی تو ماثور درُود پڑھ کر آگے بڑھ گیااور شیخین رضی اللہ عنہما کو سلام کرتا ہوا ایک کنارے قبلہ رُخ ہوکر رب العالمین کی بارگاہ میں عرض مدعا کی: اَللّٰھُمَّ لَا تَجْعَلْ ھٰذَا آخِرَ عَھْدِیْ بِمَسْجِدِ نَبِیِّکَ ’’اے اللہ، اس دیارِ شوق و محبت میں پھر آنے کی توفیق عطا ہو۔ اس پاک سرزمین میں بار بار آنا نصیب ہو!‘‘
آخر وہ گھڑی آگئی۔ عصر کے بہت بعد موٹر روانہ ہوئی۔ یوں تو دل دیر سے لرزاں اور تراساں تھا، مگر جب گاڑی حرکت میں آئی تو عجب حال ہوا۔ نگاہ سبزگنبد کی طرف جمی ہوئی اور زبان پر اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّد۔ایک حسرت کے ساتھ سارے ماحول پر نظر ڈال رہا تھا۔ اس شہر خوباں میں بائیس دن ہوگئے، مگر ایک خواب سے زیادہ کچھ نہیں معلوم ہوا۔ جوں جوں موٹر آگے بڑھتی جاتی، پلٹ پلٹ کر نگاہیں ڈالتا،تاآنکہ وہ منظر نگاہوں سے اوجھل ہوگیا اور یہ گنہگار دیر تک ایک ذہول کے عالم میں اَللّٰھُمَّ لَا تَجْعَلْ ھٰذَا آخِرَ عَھْدِیْ اِلٰی بَیْتِ رَسُولِکَ کا ورد کرتا رہا۔
طور کی چوٹیاں جن کی تجلیاتِ جمال کی جلوہ گاہ بننے لگیں تو پاکوں کے پاک اور دلبروں کے دلبر موسٰی کلیم تک تاب نہ لاسکے اور اللہ کی کتاب گواہ ہے کہ کچھ دیر کے لیے ہوش و حواس رخصت ہوگئے۔ معراج کی شب جب کسی کا جمال بے نقاب ہونے لگا، تو روایات میں آتا ہے کہ اس وقت وہ عبدکاملؐ جو فرشتوں سے بھی بڑھ کر مضبوط دل اور قوی ارادے کا پیدا کیا گیا تھا، اپنی تنہائی کو محسوس کرنے لگا، اور ضرورت ہوئی کہ رفیق غارؓکا مثل سامنے لاکر آب و گل کے بنے ہوئے پیکرنورانی کی تسلی کا سامان کیا جائے ۔ یہ سرگزشت ان کی تھی، جو قدسیوں سے بڑھ کر پاک اور نُورانیوں سے بڑھ کر لطیف تھے۔ پھر وہ مشت ِ خاک جو ہمہ کثافت اور ہمہ غلاظت ہو، جس کا ظاہر بھی گندا اور باطن بھی گندا، اگر رسولؐ کی مسجد اَقدس میں قدم رکھتے ہچکچا رہا ہو، اگر اس کا قدم رسولؐ کے روضۂ اَنور کی طرف بڑھتے ہوئے ہچکچا رہا ہو، اگر اس کی ہمت رحمت و جمال کی سب سے بڑی تجلی گاہ میں جواب دینے سے جواب دے رہی ہو، اگر اس کا دل اس وقت اپنی بے چارگی اور درماندگی کے احساس سے پانی پانی ہوا جا رہا ہو، تو اس پر حیرت کیوں کیجیے؟ خلافِ توقع کیوں سمجھیے؟ اور خدا کے لیے اس ناکارہ و آوارہ، بے چارہ و درماندہ کے اس حالِ زار کی ہنسی کیوں اُڑایئے؟
مغرب کی اذان کی آواز فضا میں گونجنے لگی۔ دھڑکتا ہوا دل کچھ تھما،اور ڈگمگاتے ہوئے پیر کسی قدر سنبھلے۔ ادھر اذان کی آواز ختم ہوئی، ادھر قدم دروازے سے باہر نکالے، مکان کے جس سے بابِ جبریل اگر چند فٹ نہیں تو چند گز پر ہے، اتنا فاصلہ بھی خدا معلوم کے منٹ میں طے ہوا۔ اس وقت نہ وقت کا احساس ،نہ فاصلے کا ادراک، نہ زمان کی خبر، نہ مکان کی۔
اے اللہ! میرے لیے اپنی رحمت اور فضل کے دروازے کھول دے اور اپنے رسولؐ کی زیارت مجھے نصیب کر جیسی کہ تُو نے اپنے اولیا کو نصیب کی، اور اے ارحم الراحمین، میری مغفرت کردے اور میرے اُوپر رحم فرما۔
لیکن پہلی مرتبہ قدم رکھتے وقت ہوش و حواس ہی کب درست تھے جو یہ دُعا یا کوئی اور دُعا قصدو ارادہ کر کے پڑھی جاتی۔ ایک بے خبری اور نیم بے ہوشی کے عالم میں درود شریف کے الفاظ تو محض بلاقصد و ارادہ زبان سے ادا ہوتے رہے، باقی بس۔ ہوش آیا تو دیکھا کہ نماز کو شروع ہوئے دوچار منٹ ہوچکے ہیں اور امام پہلی رکعت کی قرأت ختم کر کے رکوع میں جارہے ہیں۔ جھپٹ کر جماعت میں شرکت کی ، اور جوں توں کر کے نماز ختم کی۔ یہ پہلی نماز وہاں ادا ہورہی ہے جہاں کی ایک ایک نماز پانچ پانچ سو اور ہزار ہزار نمازوں کے برابر ہے۔ اللہ اللہ شان کریمی اور بندہ نوازی کے حوصلے دیکھنا! کس کو کیا کیا مرتبے عطا ہورہے ہیں:
وقت نمازِ مغر ب کا تھا اور مغرب کی نماز سورج ڈوبنے پر پڑھی جاتی ہے۔ لیکن جس کی نصیبہ دری کا آفتاب عین اسی وقت طلوع ہو رہا ہو ، جس کی سربلندیوں اور سرفرازیوں کی ’فجر‘ عین اسی وقت ہورہی ہو،کیاوہ بھی اس وقت کو مغرب ہی کا وقت کہتا اور سمجھتا رہے! لیجیے نماز ختم ہوگئی۔ فرض ختم ہوگئے اور روضۂ اطہر کے دروازے پر ہر طرف سے صلوٰۃ و سلام کی آوازیں آنے لگیں، جس پر اللہ خود درود بھیجے، اللہ کے فرشتے درود بھیجتے رہیں، اس کے آستانے پر بندوں کے صلوٰۃ و سلام کی کیا کمی ہوسکتی ہے؟
جسے دیکھیے مواجہ شریف [روضۂ رسولؐ کے سامنے کے حصے]کی طرف کھنچا چلا آرہا ہے۔ اس وقت رُخ قبلہ کی جانب نہیں، پتھر سے تعمیر کیے ہوئے کعبہ کی جانب نہیں بلکہ اس کے دَرِ اَقدس کی جانب ہے، جو دلوں کا کعبہ اور روحوں کا قبلہ ہے،کسی کا نالہ جگرگداز، کسی کے لب پر آہ و فریاد، ہرشخص اپنے اپنے حال میں گرفتار، ہرمتنفس اپنے اپنے کیف میں سرشار، گنہ گاروں اور خطاکاروں کی آج بن آئی ہے، آستانۂ شفیع المذنبین صلی اللہ علیہ وسلم تک رسائی ہے:
سجدوں سے اور بڑھتی ہے رفعت جبیں کی
یہاں بھی نہ پائیں گے تو کہاں جائیں گے۔ آج بھی نہ گڑگڑائیں گے تو کدھر سر ٹکرائیں گے: وَلَوْ اَنَّھُمْ اِذْ ظَّلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ جَاۗءُوْكَ ……(النساء۴:۶۴) [اگر انھوں نے یہ طریقہ اختیار کیا ہوتا کہ جب یہ اپنے نفس پر ظلم کربیٹھے تھے تو تمھارے پاس آجاتے…] وعدہ پورا ہونے کے لیے ہے۔ محض لفظ ہی لفظ نہیں ہیں۔
ادھر یہ سب کچھ ہو رہا ہے، رند و پارسا، فاسق و متقی، سبھی اس دُھن میں لگے ہوئے ہیں، ادھر ایک ننگ ِ اُمت حیران و ششدر ، فرطِ مہیب و جلال سے گنگ و مضطر، حواس باختہ ، چپ چاپ سب سے الگ کھڑا ہوا ہے۔ نہ زبان پر کوئی دُعا ہے اور نہ دل میں کوئی آرزو۔سر سے پیر تک ایک عالمِ حیرت طاری، یاالٰہی! یہ خواب ہے یا بیداری؟ کہاں ایک مشت خاک، کہاں یہ عالم پاک، جل جلالہ جہاں ابوبکرؓ و علیؓ آتے ہوئے تھراتے ہوں، جہاں عمرؓ آواز سے بولتے ہوئے لرزتے ہوں، جہاں کی حضوری جبریل ؑ کے لیے باعث ِ فخر اور شرف کا سبب ہو، آج وہاں عبدالقادردریا بادی کا فرزند عبدالماجد اپنے گندا دل اور گندا تر قلب کے ساتھ بے تکلف اور بلاجھجک کھڑا ہوا ہے۔ دماغ حیران، عقل دنگ، زبان گنگ، ناطقہ انگشت بدنداں۔ نہ زبان یاوری کرتی ہے، نہ لب کسی عرض معروض پر کھلتے ہیں۔نہ دُعائوں کے الفاظ یاد پڑتے ہیں، نہ کسی نعت گو کی نعت خیال میں آتی ہے۔ چلتے وقت دل میں کیا ولولے اور کیسے کیسے حوصلے تھے! لیکن اس وقت سارے منصوبے یک قلم غلط، سارے حوصلے اور ولولے یک لخت غائب۔ لے دے کے جو کچھ یاد پڑ رہا ہے وہ محض کلامِ مجید کی بعض سورتیں ہیں، یا پھر وہی عام و معروف درود شریف، اور زبان ہے کہ بے سوچے سمجھے اور بغیر غوروفکر کیے انھی الفاظ کو رَٹے ہوئے سبق کی طرح اضطراراً دُہرائے چلی جارہی ہے۔
اب ہم بالاخانہ سے اُتر کر نیچے آچکے ہیں۔ ہماری معلّمہ کا مزدور ہمارے ساتھ ہے۔ قصد ہے اور کہاں حاضری کا قصد ہے؟ وہاں کا جہاں کی تمنا اور آرزو نے بزمِ تصور کو سدا آباد رکھا ہے۔ خوشی کی کوئی انتہا نہیں۔ جسم کے روئیں روئیں سے مسرت کی خوشبو سی نکل رہی ہے۔ خوشی کے ساتھ ساتھ دل پر ایک دوسرا عالم بھی طاری ہے۔ یہ چہرہ جس پر گناہوں کی سیاہی پھر ی ہوئی ہے، کیا حضور نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کے مواجہ شریف میں لے جانے کے قابل ہے؟ اے آلودۂ گناہ، اے سرتا بقدم معصیت، اے غفلت شعار، ان کے حضور جا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بعد پاکی، تقدیس، عصمت اور عظمت بس انھی کو سزاوار ہے، کس منہ سے روضۂ اَقدس کے سامنے اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَارَسُوْلَ اللہِ کہے گا۔اس زبان نے کیسی کیسی فحش باتیں بکی ہیں، ان لبوں کو کتنی بُری بُری باتوں کے لیے جنبش ہوئی ہے، ان آنکھوں نے کیسی کیسی قانون شکنیاں کی ہیں۔ اے نافرمان غلام، اپنے آقا کے دربار میں جانے کی جرأت کس برتے پر کر رہا ہے؟
ان کی اطاعت سے کس کس طرح گریز کیا ہے، ان کے حکم کو کس کس عنوان سے توڑا ہے، ان کے اسوئہ حسنہ سے تیری زندگی کی کوئی دُور کی بھی نسبت رہی ہے!
کیسے ہی نافرمان اور بلاتوفیق سہی مگر نام لیوا تو انھی کے ہیں۔ کلمہ تو انھی کاپڑھتے ہیں۔ درود تو آپؐ ہی پر بھیجتے ہیں۔ ہم لاکھ کم ظرف اور نالائق سہی ، لیکن جن کے ہم غلام ہیں وہ تو سب کچھ ہیں۔ جس نے خون کے پیاسے دشمنوں کو معافی دے دی، اس کی وسعت ظرف، مروت، عفو وکرم اور درگزر کی بھلا کوئی حد و نہایت ہے؟ مدینہ کی طرف اپنے کو متقی، نیکوکار اور پرہیزگار سمجھ کر ہم کب چلے تھے؟ اور اپنی پارسائی کا دعویٰ کسے ہے؟ یہاں تو بھاگے ہوئے غلاموں کی طرح حاضر ہوئے ہیں۔ ایک ایک آنسو کی بوند میں پشیمانی اور ندامت کے طوفان بند ہیں۔
اسی عالم خیال و تصور میں باب السلام سے داخل ہوئے اور مسجد نبویؐ میں جاپہنچے۔ یہ سروقامت ستون، یہ مصفا جھاڑ فانوس، یہ نظرافروز نقش و نگار،ایک ایک چیز آنکھوں میں کھبی جارہی ہے۔ اور اس ظاہری چمک دمک سے بڑھ کر جمال و رحمت کی فراوانی، جیسے مسجد نبویؐ کے دَر و دیوار سے رحمت کی خنک شعاعیں نکل رہی ہیں:
دامان نگہ تنگ و گل حُسن تو بسیار
گل چین بہار توز داماں گلہ دارد
[نگاہ کا دامن تنگ ہے اور تیرے حُسن کے پھول بے شمار ہیں۔ تیری بہار سے پھول چننے والوں کو اپنے دامن کی تنگی کی شکایت ہے]
کی معنویت آج سمجھ میں آئی۔ تجلیوں کا وہ ہجوم کہ آنکھیں جلوے سمیٹتے سمیٹتے تھکی جارہی ہیں۔ یہاں کے اَنوار کا کیا پوچھنا، یہ آفتاب جہاں تاب بے چارہ اس جلوہ گاہ کے ذرّوں کا ادنیٰ غلام ہے۔ دائیں بائیں، اُوپر نیچے، اِدھر اُدھر روشنی ہی روشنی مگر لطف یہ کہ آنکھیں خیرہ نہیں ہوتیں۔ یہ آنکھوں نہیں خود یہاں کی تجلیوں کا کمال ہے۔
جب ہم مسجد نبوی ؐ میں حاضر ہوئے ہیں تو ظہر کی نماز تیار تھی۔ سنتوں کے بعد جماعت سے نماز ادا کی۔ کہاں؟ مسجد نبویؐ اور سجدہ گاہ مصطفوی میں! پیشانی کی اس سے بڑھ کر معراج اور کیا ہوگی؟
نماز کے بعد اب روضۂ اَقدس کی طرف چلے، حاضری کی بے اندازہ مسرت کے ساتھ اپنی تہی دامنی اور بے مایگی کا احساس بھی ہے۔ یہی سبب ہے کہ درود کے لیے آواز بلند ہوتے ہوتے بھنچ بھی جاتی ہے۔ قدم کبھی تیز اُٹھتے ہیں اور کبھی آہستہ ہوجاتے ہیں ۔ مواجہ شریف میں حاضر ہونے سے پہلے قمیص کے گریبان کے بٹن ٹھیک کیے، ٹوپی کو سنبھالا اور پھر:
وہ سامنے ہیں ، نظامِ حواس برہم ہے
نہ آرزو میں سکت ہے، نہ عشق میں دَم ہے
زائرین بلندآواز سے درود و سلام عرض کر رہے ہیں اور کتنے تو جالی مبارک کے بالکل قریب جاپہنچے ہیں، مگر اس کمینے غلام کے شوقِ بے پناہ کی یہ مجال کہاں؟ چند گز دُور ہی ستون کے قریب کھڑا ہوگیا۔ ہاتھ باندھے ہوئے مگر نماز کی ہیئت سےمختلف، آہستہ آہستہ صلوٰۃ و سلام عرض کررہا ہوں کہ حضوؐر کی محفل کے آداب کا یہی تقاضا ہے اور یہ آداب خود قرآن نے سکھائے ہیں:
اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَارَسُوْلَ اللہِ
اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَاحَبِیْبَ اللہِ
اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَاخَیْرَ خَلْقِ اللہِ
زبان سے یہ لفظ نکلے اور آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے [اور یہ اشعار ڈھل گئے]:
پاک دل ، پاک نفس ، پاک نظر ، کیا کہنا
بعد مکہ کے مدینہ کا سفر کیا کہنا
جیسے جنّت کے دریچوں سے جھلکتی ہو بہار
پہلی منزل ہی کے اَنوارِ سحر کیا کہنا
تپش شوق بھی ہے، گرمیِ موسم بھی ہے
اور پھر اس پہ مرا سوزِ جگر کیا کہنا
راہ طیبہ کے ببولوں پہ مچلتی ہے نگاہ
مرحبا! دیدۂ فردوس نگر کیا کہنا
خشک آنکھوں کو مبارک ہو یہ طغیانی شوق
ہیں رواں اَشک بہ انداز دگر کیا کہنا
سنگریزے ہیں کہ جاگی ہوئی قسمت کے نجوم
خارِ منزل ہیں کہ انگشت خضر کیا کہنا
ترتیب : سلیم منصور خالد
دل آویز سبزہ زار ، دل فریب گھنے جنگلات، ہرے بھرے درختوں کی لمبی قطاریں ، باغات میں ثمر آور اشجار کسی بھی خطے کو جنت نظیر بنادیتے ہیں کہ جس کی طرف دل خراماں خراماں کھچا چلا جاتا ہے۔بھینی بھینی خوشبو، ٹھنڈی ہوائیں، چڑیوں کی چہچہاہٹ اور بلبل کی نغمہ سرائی کان میں رس گھولتی ہے۔ اس سے جہاں مضطرب دل کو سکون ملتا ہے ، رنجیدگی کو شکست ہوتی ہے وہاں بالآخر انسان ان تمام مظاہرِ قدرت سے متاثر ہوکر برملا گویا ہوتا ہے :
رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہٰذَا بَاطِلًا ۰ۚ سُبْحٰنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ (اٰل عمرٰن ۳: ۱۹۱) اور کہتے ہیں اے پروردگار تونے یہ بے فائدہ نہیں بنایا ۔ تو پاک ہے پس ہمیں آگ کے عذاب سے بچالے ــ۔
شجر کاری، باغات کو اور جنگلات کی اہمیت و ضرورت اس وقت اور بھی بڑھ جاتی ہے، جب چاروں طرف آلودگی بسیرا ڈالے ہو ، صاف و شفاف ہوا کے لیے جسم ترستا ہو، اور زہر آلود ہوائیں نسل انسانی کو گھن کی طرح کھارہی ہوں۔ دور جدید کی سائنس و ٹکنالوجی نے جہاں انسان کی سہولت و آسانی کے لیے لامحدود و اَن گنت وسائل مہیا کیے ہیں، زندگی کے مختلف شعبہ جات میں انسان کو بام عروج پر پہنچادیا ہے، وہیں اس کے لیے مختلف بیماریوں اور آفات کے سامان بھی فراہم کردیے ہیں ۔ صنعتی ترقی کے اس دور میں ہر طرف آلودگی چھائی ہوئی ہے۔ ہوا ، پانی اور زمین پر دیگر حیاتیات اپنی خصوصیات کھورہی ہیں ۔ جس کی وجہ سے عالمی حدت (Global Warming) کا مسئلہ پیدا ہوگیا ہے ۔ فضائی آلودگی، آبی آلودگی، زمینی آلودگی، صوتی آلودگی،سمندری آلودگی، شعاعی آلودگی روز بروز بڑھتی جارہی ہے ۔تیزی سے فیکٹریاں، سڑکو ںپر گاڑیوں کی لمبی قطاریں ، فضائی اور بحری جہازوں کا دھواں، مختلف صنعتوں کے فضلات سے مسئلہ مزید پیچیدہ ہوتا چلاجارہا ہے ۔
اس صورتِ حال میں سرسبز پودے، گھنے باغات اور جنگلات کی اہمیت و ضرورت شدت سے بڑھ جاتی ہے کیوں کہ اللہ نے مخلوقات اور دیگر مظاہرِ کائنات کی تخلیق کو اس طرح مربوط کیا ہے کہ یہ سلسلہ بغیر کسی رکاوٹ کے جاری چلا آرہا ہے ۔ چناں چہ انسان کو زندہ رہنے کے لیے آکسیجن کی ضرورت ہے جس کا منبع نباتات ہیں ، جب کہ نباتات ،انسان اور دیگر مخلوقات سے نکلنے والی کاربن ڈائی آکسائڈ کو اپنی خوراک کے طور پر استعمال کر تی ہیں ۔ اسی طرح اللہ نے انسان کو نباتات کے پھلنے پھولنے کا ذریعہ بنایا ہے ،جس کی وجہ سے فضا میں توازن قائم ہے ۔ لیکن اگر اس میں کسی طرح کی مداخلت کی جائے تو توازن میں خلل پیدا ہوجاتا ہے اور اس کے براہِ راست نقصانات انسانوں اور دیگر مخلوقات کو بھگتنا پڑتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
اِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْنٰہُ بِقَدَرٍ(القمر۵۴:۴۹) ہم نے ہر چیز ایک تقدیر کے ساتھ پیدا کی۔
وَاَنْۢبَتْنَا فِيْہَا مِنْ كُلِّ شَيْءٍ مَّوْزُوْنٍ(الحجر۱۵: ۱۹)اس نے ہر نوع کی نباتات ٹھیک ٹھیک نپی تلی مقدار کے ساتھ اُگائی ۔
لیکن افسوس ہے کہ جہاں فضائی آلودگی اپنے پَر پھیلا تی جارہی ہے وہیں اس کے علاج کی دوا، یعنی جنگلات کی کٹائی انسان کی خود غرضی ومفاد پرستی کی تلوارسے بڑی بے دردی سے جاری ہے۔اور صورت حال بھی یہی بتاتی ہے کہ جنگلات کی بے رحمی سے کٹائی ہمیں ۲۰۸۵ء تک سدابہار درختوں سے محروم کردے گی ۔ اقوام متحدہ کے جائزے کے مطابق ہر سال تقریبا تیرہ ملین ہیکٹر رقبے پر پھیلے جنگلات کا صفایا ہورہا ہے،جب کہ سائنس داں حضرات کے نزدیک دورِ حاضر کا سب سے بڑا خطرہ تیزی سے جنگلات کا خاتمہ ہے کیوں کہ ایسی صورت حال میں سیلاب ، آندھی اور طوفان اور دیگر آفات کا آنا لازمی ہے اور انسان مہلک امراض کا شکار ہونے لگے ہیں۔
نباتات کے فوائد صرف یہی نہیں ہیں کہ وہ ہمیں آکسیجن فراہم کرتی ہیں ، بلکہ یہ درجۂ حرارت کو اعتدال و توازن بخشتی ہیں ، فضائی جراثیم کو اپنے اندر جذب کرلیتی ہیں، نیز انسانوں اور حیوانات کی غذائی ضروریات فراہم کرتی ہیں۔ چرندوں، پرندوں اور متعدد حیوانات کا مسکن بھی یہ درخت ہیں۔ ادویات کا مخزن ہیں، دھوپ میں سایہ ،اور سب سے بڑی بات یہ کہ آگ کا وجود بھی ہیں۔خوش آیند بات یہ ہے کہ اب حکومتیں اور عوام آنکھیں کھول رہے ہیں ، شجرکاری اور اس کے تحفظ کے لیے آوازیں بلند ہورہی ہیں ،کمیٹیاں تشکیل دی جارہی ہیں، اور عملی اقدام بھی جاری ہیں۔ یہاں ہم مختصراً سائنس اور قرآن و حدیث کے حوالے سے اس کی اہمیت و افادیت پر چند معروضات پیش ہیں۔
بڑے قصبوں میں ماحول کی آلودگی کے پیچیدہ مسئلے، گاڑیوں اور کارخانوں وغیرہ کے دھوئیں اور زہریلی گیسوں کی فضا میں شمولیت سے انسانی صحت کے لیے سنگین خطرات پیدا ہوچکے ہیں۔اس مسئلے کا بہترین حل یہ ہے کہ ملک بھر میں اور بالخصوص شہروں میں بکثرت درخت لگائے جائیں۔ ان سے شہروں کے درجۂ حرارت میں کمی ہوگی اور فضا بھی صاف رہے گی۔
ماحولیات اور نباتات کے ماہر ڈاکٹر ایس کے جین کے مطابق ایک اوسط سائز کا درخت دوخاندانوں سے خارج شدہ کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کو جذب کرکے ہوا میں کافی آکسیجن پیدا کردیتا ہے ۔ اس کے علاوہ درخت دن میں کافی رطوبت ہوا میں شامل کرتے ہیں، جس سے درجۂ حرارت کم اور ماحول خوش گوار ہوجاتا ہے ۔ بڑے بڑے سر سبز وشاداب علاقے بڑے شہروں اور صنعتی علاقوں کی ہوا میں شامل ۷۰فی صد سلفرڈائی آکسائیڈ اور نائٹرک ایسڈ کو جذب کرلیتے ہیں۔
’ناسا‘ کی تحقیق کے مطابق چھوٹے پودوں کے گلدستے گھر میں رکھنے سے اندرونی فضا صاف ہوتی رہتی ہے۔ تحقیق کے مطابق آلودگی ہمارے گھروں میں مختلف ذررائع سے پھیلتی ہے۔ ان میں سگریٹ، گیس سے چلنے والے آلات ، مصنوعی ریشے سے بنے ہوئے کپڑے ، قالین، پردے ریفریجرٹر وغیرہ بھی کمرے کی ہوا کو آلودہ کرتے ہیں۔ ان سے کمرے کی ہوا میں نائٹروجن اور کاربن ڈائی آکسائیڈ جیسی گیسوں کا تناسب بڑھ جاتا ہے ۔ تجربات سے ثابت ہوا ہے، ایسے کمروں میں اسپائڈر پلانٹ نامی پودوں کے گملے رکھنے سے ۲۴ گھنٹوں کے اندر اندر ہوا میں ان گیسوں کے تناسب میں زبردست کمی آجاتی ہے ۔ ایک اوسط گھر میں آلودگی سے بچاؤ کے لیے ایسے ۸ سے۱۵ پودوں کی موجودگی ضروری ہے اور پودوں کے مقابلے میں اسپائڈر پلانٹ زیادہ مؤثر پودے ثابت ہوئے ہیں ۔
پودے اور نباتات صرف فضا کو صاف نہیں رکھتے بلکہ جسم و ذہن کے لیے بھی نہایت مفید ہیں ۔ ماہرین کے مطابق ایک گھنٹہ باغ بانی کرکے جسم کے ۳۴۵حرارے جلائے جاسکتے ہیں ۔ اس محنت سے ہڈیوں کو مضبوطی ملتی ہے اور ذہن پر بھی اس سے اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ ذہنی دباؤ کم ہوتا ہے اور دیگر ذہنی الجھنوں سے چھٹکارا ملتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کئی مغربی ممالک میں ذہنی و جسمانی مریضوں کے علاج کے لیے باغبانی اور شجر کاری سے بھی مدد لی جاتی ہے۔ کچھ لوگوں نے تو دفتر سے لوٹنے کے بعد باغبانی کو اپنا معمول بنا لیا ہے ۔
موجودہ سائنس شجر کاری کی جس اہمیت و افادیت کی تحقیق کررہی ہے، قرآن و احادیث نے چودہ سو سال قبل ہی آگاہ کردیا تھا۔ قرآن کریم میں مختلف حوالے سے شجر(درخت) کا ذکر آیا ہے ۔ ایک جگہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت قرار دیتے ہوئے اس کا ذکر اس طرح کیا :
ہُوَالَّذِيْٓ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً لَّكُمْ مِّنْہُ شَرَابٌ وَّمِنْہُ شَجَـرٌ فِيْہِ تُسِيْمُوْنَ۱۰ يُنْۢبِتُ لَكُمْ بِہِ الزَّرْعَ وَالزَّيْتُوْنَ وَالنَّخِيْلَ وَالْاَعْنَابَ وَمِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ۰ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَۃً لِّقَوْمٍ يَّتَفَكَّرُوْنَ۱۱ (النحل ۱۶: ۱۰-۱۱)وہی تمھارے فائدے کے لیے آسمان سے پانی برساتا ہے جسے تم پیتے بھی ہو اور اسی سے اُگے ہوئے درختوں کو تم اپنے جانوروں کو چراتے ہو ۔ اسی سے وہ تمھارے لیے کھیتی اور زیتون اور کھجور اور انگور اور ہر قسم کے پھل اُگاتا ہے۔ بے شک ان لوگوں کے لیے تو اس میں بڑی نشانی ہے جو غور و فکر کرتے ہیں ۔
وَاَوْحٰى رَبُّكَ اِلَى النَّحْلِ اَنِ اتَّخِذِيْ مِنَ الْجِبَالِ بُيُوْتًا وَّمِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا يَعْرِشُوْنَ۶۸ۙ (النحل ۱۶: ۶۸)آپ کے ربّ نے شہد کی مکھی کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ پہاڑوں میں درختوں اور لوگوں کی بنائی ہوئی اونچی اونچی ٹٹیوں میں اپنے گھر (چھتے ) بنا۔
الَّذِيْ جَعَلَ لَكُمْ مِّنَ الشَّجَرِ الْاَخْضَرِ نَارًا فَاِذَآ اَنْتُمْ مِّنْہُ تُوْقِدُوْنَ۸۰ (یٰس ۳۶: ۸۰) وہی ہے جس نے تمھارے لیے سبز درخت سے آگ پیدا کردی جس سے تم یکایک آگ سلگاتے ہو۔
يُّوْقَدُ مِنْ شَجَرَۃٍ مُّبٰرَكَۃٍ زَيْتُوْنَۃٍ لَّا شَرْقِيَّۃٍ وَّلَا غَرْبِيَّۃٍ ۰ۙ (النور۲۴:۳۵) وہ چراغ ایک بابرکت درخت زیتون کے تیل سے جلایا جاتا ہو جو درخت نہ مشرقی ہے نہ مغربی۔
اِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَي الْاَرْضِ زِيْنَۃً لَّہَا لِنَبْلُوَہُمْ اَيُّہُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا۷ (الکہف۱۸: ۷)روے زمین پر جو کچھ ہے ہم نے اسے زمین کی رونق کا باعث بنایا ہے کہ ہم انھیں آزمالیں کہ ان میں سے کون نیک اعمال والا ہے ۔
وَاِذَا تَوَلّٰى سَعٰى فِي الْاَرْضِ لِيُفْسِدَ فِيْہَا وَيُہْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ۰ۭ وَاللہُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ۲۰۵ (البقرہ۲ : ۲۰۵)جب وہ لوٹ کرجاتا ہے تو زمین میں فساد پھیلانے کی اورکھیتی اور نسل کی بربادی کی کوشش میں لگا رہتا ہے اور اللہ تعالی فساد کو ناپسند کرتا ہے۔
اس کے علاوہ قرآن کریم میں شجر کا اور حوالوں سے ذکر بھی کیا گیا ہے ۔
مَا مِنْ مُسْلِمٍ یَغْرِسُ غَرْسًا اَوْ یَزْرَعُ زَرْعًا ، فَیَاْکُلْ مِنْہُ طَیْرٌ اَوْ اِنْسَانٌ اَوْ بَھِیْمَۃٌ اِلَّا کَانَ لَہٗ بِہٖ صَدَقَۃٌ(بخاری، کتاب المزارعۃ ، ح:۲۳۲۰)جو مسلمان درخت لگائے یا کھیتی کرے اور اس میں پرندے ، انسان اور جانور کھالیں تو وہ اس کے لیے صدقہ ہے ۔
فَلَا یَغْرِسُ الْمُسْلِمُ غَرْسًا فَیَاْکُلْ مِنْہُ اِنْسَانٌ وَلَا دَابَّۃٌ وَلَا طَیْرٌ اِلَّا کَانَ لَہٗ اَیْ مَا اَکَلَ مِنْہُ صَدَقَۃً اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ (مسلم،کتاب المساقاۃ، ح:۳۹۷۱) جو مسلمان پودا لگاتا ہے اور اس سے انسان ، چوپائے یا پرندے کھالیں تو یہ اس کے لیے قیامت تک کے لیے صدقہ ہے ۔‘‘
اس کی اہمیت کا اندازہ اس حدیث سے ہوتا ہے کہ جس میں آپؐ نے فرمایا قیامت قائم ہورہی ہو اور کسی کو شجر کاری کا موقع ملے تو وہ موقعے کو ہاتھ سے نہ جانے دے:
اِنْ قَامَتِ السَّاعَۃُ وَبِیَدِ اَحَدِکُمْ فَسِیْلَۃٌ فَاِنِ اسْتَطَاعَ اَنْ لَّا یَقُوْمَ حَتّٰی یَغْرِسَھَا فَلْیَفْعَلْ (مسند احمد:۱۲۹۰۲ ) اگر قیامت قائم ہورہی ہو اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں قلم ہو اور وہ اس بات پر قادر ہوکہ قیامت قائم ہونے سے پہلے وہ اسے لگا لے گا تو ضرور لگائے ۔
مَنْ قَطَعَ سِدْرَۃً صَوَّبَ اللہُ رَاْسَہٗ فِی النَّارِ (سنن ابوداؤد،کتاب الادب، ح:۵۲۳۹ ) جو بیری کا درخت کاٹے گا اللہ اسے اوندھے منہ جہنم میں ڈالے گا ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حالت جنگ میں بھی قطع شجر کو ممنوع قرار دیا ہے ۔ آپؐ لشکر کی روانگی کے وقت دیگر ہدایات کے ساتھ ایک ہدایت یہ بھی فرماتے تھے کہ:
وَلَا تَحْرِقُوْا زَرْعًا ، وَلَا تَقْطَعُوْا شَجَرَۃً مُثْمِرَۃً کھیتی کو نہ جلانا اور کسی پھل دار درخت کو نہ کاٹنا ۔
یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں نے اپنے دورِ اقتدار میں باغبانی اور شجرکاری میں گہری دل چسپی دکھائی ہے ، اسے علوم و فنون کی شکل دی اور دنیا میں فروغ دیا ۔
موسم برسات جاری ہے ، شجرکاری کی اہمیت و ضرورت اور افادیت کے تعلق سے قرآن و حدیث اور سائنس کی تعلیمات ہمارے سامنے ہیں۔ ہمارے لیے اچھا موقع ہے نیکیوں میں اضافے کا ، اپنے ماحول کو خوش گوار بنانے کا۔ آگے بڑھیے ، قومی فریضہ نبھایئے ، خود پودے لگایئے ، دوسروں کو ابھاریئے اور بقدرِ استطاعت اپنا تعاون کیجیے۔
ایک مسلمان جسے اللہ نماز کی توفیق دے، وہ زندگی میں بلا مبالغہ لاکھوں مرتبہ سورۃ الفاتحہ پڑھتا ہے، لاکھوں مرتبہ التحیات پڑھتا ہے، لاکھوں مرتبہ نماز کے دوسرے اذکار اور دعائیں پڑھتا ہے۔ نماز کے یہ تمام اذکار اس پوری کائنات میں ادا کیے جانے والے بہترین کلمات ہیں۔ کیا یہ ضروری نہیں ہے کہ لاکھوں بار پڑھے جانے والے ان بہترین اذکار کا مفہوم بھی پڑھنے والے کے ذہن میں موجود رہے، اور جب وہ یہ بہترین کلمات لاکھوں بار اپنی زبان سے ادا کرے تو ہر بار ان کے مفہوم کا لطف بھی اٹھائے؟
ثنا: اے اللہ !ہم تیری حمد کے ساتھ تیری تسبیح کرتے ہیں، اور تیرا نام با برکت ہے، اور تیری شان اونچی ہے، اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔
بسملہ: اللہ کے نام سے جو رحمان و رحیم ہے۔
سورۃ الفاتحۃ: ساری تعریف اللہ کے لیے ہے، جو سارے انسانوں کا ربّ ہے، رحمان اور رحیم ہے، روز جزا کا مالک ہے، ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں، ہمیں سیدھا راستہ دکھا، اُن لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام فرمایا، جو معتوب نہیں ہوئے، اور جو بھٹکے ہوئے نہیں ہیں۔
التحیات: تعظیم کے کلمات اللہ کے لیے، نیازمندیاں اللہ کے لیے، خوبیاں اللہ کے لیے۔ سلامتی ہو اے نبی آپ پر، اور اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں۔ سلامتی ہو ہم پر اور اللہ کے نیک بندوں پر ۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔
دعا: اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ ظُلْمًا کَثِیرًا وَّلَا یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّآ اَنْتَ فَاغْفِرْلِیْ مَغْفِرَۃً مِّنْ عِنْدِکَ وَارْحَمْنِیْ اِنَّکَ اَنْتَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ، اے اللہ میں نے اپنے اوپر بہت ظلم کیا، اور گناہوں کو معاف کرنے والا صرف تو ہے، اپنی طرف سے خاص معافی دے کر مجھے معاف کردے، اور مجھے رحمت عطا فرمادے، بلا شبہہ تو بہت معاف کرنے والا اور بہت مہربان ہے۔
اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللہِ: تم پر سلامتی ہو اور اللہ کی رحمت ہو۔
یاد رکھیے، موقعے بار بار نہیں ملا کرتے ہیں۔ اگر ابھی موقع ملا ہے اور توجہ ہوئی ہے، تو آج ہی سے اپنے اندر یہ بہت آسان مگر بہت عظیم تبدیلی لانے کا فیصلہ کرلیں، اور اسے زندگی کی میز پر اپنے ’سب سے اہم اور فوری‘ کاموں کی فائل میں سب سے اُوپر رکھ لیں۔ اللہ ہماری مدد فرمائے۔
’حسد‘ عربی کا لفظ ہے۔ اس کے لُغوی معنی کینہ، جلن، ڈاہ، بدخواہی یاکسی کا زوال چاہنے کے ہیں۔ اِصطلاحِ عام میں حسد اُن خداداد نعمتوںاور ترقیات و بلندیِ مدارج کے زوال یا ان کے اپنی طرف منتقلی کی آرزو و تمنا یا سعی و کوشش کو کہتے ہیں، جو کسی ہم پیشہ، پڑوسی یا ہم عصر کو علم وہُنر ، دولت و ثروت، عہدہ ومنصب، عزت ونام وری یا کاروبار وتجارت کے طورپر حاصل ہوئے ہوں۔ یہ نہایت رذیل اور بدترین خصلت ہے۔ یہ بیماری پست ذہن وفکر رکھنے والوں کے اندر ہی پائی جاتی ہے۔
یہ خصلت کسی کی ترقی و شہرت، کامیابی ومقبولیت، مقام ومنصب کی بلندی اورعام انسانوںمیں اس کی عزت و نام وری کے نتیجے میں پروان چڑھتی ہے۔ اِس لیے کہ حاسداپنے یا اپنے متعلقین کے علاوہ کسی کی عزت و سرخ روئی یا ترقی وبلندی کو برداشت نہیں کرپاتا۔ وہ ہر قسم کی عزت و سرخ روئی یا ترقی و سربلندی کامستحق صرف اور صرف خود کو سمجھتا ہے۔ اس وجہ سے وہ ’محسود‘ [جس سے حسد ہو] میں طرح طرح کے عیب نکالتا ہے، اس کی خوبیوںاور ہنرمندیوں کو خامیوں سے تعبیر کرتاہے۔ اس کی نیکی، تقویٰ اور حسنِ اخلاق وکردارکو ریاکاری، خودپسندی اور نام ونمود کامظہر قرار دیتا ہے۔ اس کے علمی وفکری کارناموںاور قومی وملّی خدمات کے حوالے سے لوگوں کو طرح طرح سے بدگمان کرتا ہے۔ اس کے بارے میں لوگوں کی آرا خراب کرتا ہے۔ اس لیے کہ خود وہ ان اعلیٰ محاسن وفضائل تک نہیں پہنچ پاتا۔ وہ چاہتاہے کہ ’محسود‘ کے سلسلے میںایسی فضا بنادے کہ لوگ اس سے نفرت کرنے لگیں اور چھوٹا یا بڑا جو مقام و مرتبہ اس کو ملاہے، وہ چھِن جائے۔ وہ ہر وقت اپنی تمام تر صلاحیتوںکو ’محسود‘ کوزیروپست کرنے میں صرف کرتاہے۔ وہ یہ بھول جاتاہے کہ عزت وذلت اور ترقی و تنزل اللہ تعالیٰ کے قبضۂ قدرت میں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بہت صاف اور واضح طورپر ارشاد فرمایاہے:
قُلِ اللّٰہُمَّ مٰلِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاۗءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاۗءُ ۰ۡ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاۗءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاۗءُ ۰ۭ بِيَدِكَ الْخَيْرُ۰ۭ اِنَّكَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ۲۶ (اٰل عمٰرن۳:۲۶)کہو : اے اللہ! ملک کے مالک! تو جسے چاہے حکومت دے اور جس سے چاہے چھین لے، جسے چاہے عزت بخشے اور جس کو چاہے ذلیل کردے۔ بھلائی تیرے اختیار میں ہے۔ بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔
حسد کامرض انسان میں اُس اعتقادی کم زوری کے نتیجے میں پیداہوتاہے، جو اسلامی زندگی کی روح اور اساس ہے۔ وہ یہ کہ تمام تر خوش حالی و بدحالی اور پستی و بلندی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ وہی انسان کو بدحالیوں سے نجات دیتا ہے اور خوش حالیوں ، مسرتوں اور شادکامیوں سے ہم کنار کرتا ہے۔ اِسے قرآنِ مجید میں اس طرح بیان کیاگیا ہے:
وَاِنْ يَّمْسَسْكَ اللہُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَہٗٓ اِلَّا ہُوَ ۰ۭ وَاِنْ يَّمْسَسْكَ بِخَيْرٍ فَہُوَعَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ۱۷ (انعام۶:۱۷)اگراللہ تمھیں کسی قسم کا نقصان پہنچائے تو اس کے سوا کوئی نہیں، جو تمھیں اس نقصان سے بچاسکے اور اگر وہ تمھیں کسی بھلائی سے بہرہ مند کرے تو وہ ہر چیز پر قادر ہے۔
کبھی کبھی لوگ اپنی کم فہمی، لاعلمی اور کج روی کی وجہ سے حسد اور رشک کو ایک ہی خانے میں رکھ کر طرح طرح کی بے جا اور بعیداز فہم تاویلیں کرتے ہیں اور یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ جوکچھ کررہے ہیں وہ حسد نہیں ہے۔ حالاںکہ حسد ایک روحانی بیماری ہے، جو انسان کے اندر بزدلی ، پست ہمتی، کم ظرفی اور پست وارذل ماحول میں رہنے، پلنے بڑھنے اور پروان چڑھنے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے، جب کہ رشک ایک صالح اور پاکیزہ جذبہ ہے، جو کسی کے اندر صالح و پاکیزہ تربیت، ذہنی وفکری بلندی اور معیاری خاندانی اثرات سے پیدا ہوتااور پروان چڑھتا ہے۔ اِسے ہم چراغ سے چراغ جلنے یا جلانے سے بھی تعبیر کرسکتے ہیں۔ رشک وہ اعلیٰ جذبہ ہے، جس کی وجہ سے انسان کسی پڑوسی، ہم سایے، ہم پیشہ یا ہم عصر کی ترقی و بلندی اور رفعت وعظمت کو دیکھ کر خوش ہوتاہے اور وہ یہ جاننے کے لیے بے چین اور مضطرب ہوجاتاہے کہ اُسے جو ترقی اور خوش حالی نصیب ہوئی ہے، اس کے لیے اُسے کیا کیاکرنا پڑا ہے اور وہ کن مراحل سے گزرکر اس مقامِ بلند تک پہنچا ہے۔ یہ سب جان لینے کے بعد وہ بھی محنت ومشقت اور سعی و کاوش کرکے خوشی و مسرت، شہرت و نام وری اور خوش حالی و نیک نامی کے اس مقام بلندتک پہنچتا یا پہنچنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ کسی کو پست و ذلیل یا زوال پزیر کرنے کا نہیں، بل کہ اعلیٰ ظرفی، بلند ہمتی اور روحانی طہارت وپاکیزگی کاجذبہ ہے۔ اسلام نے اِس جذبے کی تحسین بھی کی ہے اور ترغیب بھی دی ہے۔ قرآنِ مجید میں اِسے تنافس سے تعبیر کیاگیا ہے:
وَفِيْ ذٰلِكَ فَلْيَتَنَافَسِ الْمُتَنٰفِسُوْنَ۲۶ۭ (المطففین ۸۳:۲۶)جو لوگ دوسروں پر بازی لے جانا چاہتے ہوں، وہ اس چیز کو حاصل کرنے کی بازی لے جانے کی کوشش کریں۔
فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرٰتِ(البقرہ۲:۱۴۸) پس تم بھلائیوں کی طرف سبقت کرو۔
سَابِقُوْٓا اِلٰى مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ (الحدید۵۷:۲۱) دوڑو اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو اپنے رب کی مغفرت کی طرف۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک بہت مشہور حدیث ہے کہ ایک بار غریب و مفلس مہاجرین کی ایک جماعت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ عرض کی: یارسول اللہ! مال دارو خوش حال لوگ مرتبے میں ہم سے آگے بڑھتے جارہے ہیں۔ وہ لوگ ہماری ہی طرح نمازیں پڑھتے ہیں، ہماری ہی طرح روزے رکھتے ہیں، لیکن ان سب کے ساتھ ساتھ چوں کہ وہ ارباب ثروت ہیں، اس لیے وہ حج بھی کرلیتے ہیں، عمرہ بھی کرلیتے ہیں اور جب جہادکا وقت آتاہے تو وہ مال و دولت سے بھرپور مدد کرتے ہیں، صدقہ و خیرات کرتے ہیںاور ضرورت پڑنے پر غریبوں،مفلسوں اور حاجت مندوں کی بھی امداد کرتے ہیں۔ ایسی صورت میں ظاہر ہے کہ ہم ان پر سبقت نہیں حاصل کرسکتے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین کی اُس جماعت کی بات سنی اور ارشاد فرمایا: کیا میں تم کو ایسا عمل نہ بتادوں، جس سے تم بھی ان سب کے برابر ہوجائو، تم اپنے پیچھے رہنے والوں سے بہت آگے بڑھ جائو، اور تمھاری برابری اُن لوگوں کے سوا کوئی نہ کرسکے جو وہی عمل کریں، جو میں تمھیںبتانا چاہتاہوں؟ سب نے خوشی خوشی بہ یک زبان کہا: کیوں نہیں ، اے اللہ کے رسولؐ! ضرور ارشاد فرمائیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے شوق وطلب کو دیکھتے ہوئے ارشاد فرمایا: ہر فرض نماز کے بعد ۳۳، ۳۳ مرتبہ سُبْحَانَ اللہِ ، الْحَمْدُلِلہِ اور اللہُ اَکْبَرُ کہہ لیا کرو۔ (بخاری، مسلم، بیہقی، کتاب الصلوٰۃ ، باب ما یقول بعد السلام، حدیث: ۳۴۸)
یہ حدیث اپنے عہد کے نام ور عالم حدیث امام محی الدین النَووِیؒ نے صحیحین کے حوالے سے اپنی مشہور کتاب ریاض الصالحین میں کتاب الاذکار کے باب فضل الذکر و الحث علیہ میں نقل کی ہے ۔ تاریخ و سیرت کی کتابوں میں سیکڑوں ایسے واقعات ملتے ہیں، جن سے پتا چلتاہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین میں صدقات وخیرات اور نیکی و تقویٰ کے سلسلے میں باہم رشک و تنافس پایاجاتاتھا اور وہ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہتے تھے۔ سیدناحضرت ابوبکرصدیق اورسیدنا حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہما بھی اکثر خیر اور بھلائی کے کاموں میں ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کی کوشش میں رہتے تھے۔ مذکورِ بالا آیات، احادیث اور واقعات سے اِس نتیجے تک پہنچنا مشکل نہیں رہتا کہ اچھائی اور نیکی کے کاموں میں رشک و تنافس اور ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کا جذبہ، ایک محمود واَحسن جذبہ ہے۔ اِس سے انسان کے بلندیِ درجات کا اندازہ ہوتا ہے۔
حاسد دوسروں کو حاصل شدہ دولت و نعمت کا بدخواہ ہوتاہے۔ اس دولت و نعمت کے سلسلے میں وہ لوگوں میں طرح طرح کی بدگمانیاں اور شکوک وشبہات پھیلاتاہے، حتیٰ کہ وہ اِس سلسلے میں فرضی اور من گھڑت واقعات عام کرنے سے بھی نہیں چوکتا۔ اس کی ساری کوشش صرف اور صرف یہ ہوتی ہے کہ ’محسود‘ ذلیل و خوار ہو، اس کی شہرت و نام وری میں بٹّا آجائے، اس کی عزّت و عظمت مشکوک اور اس کی شخصیت و خاندانی شرافت داغ دار ہوجائے۔ خواہ خود حاسد کو وہ دولت ونعمت، عزت و عظمت اور شہرت و نام وری مل سکے یا نہ مل سکے۔ حاسد کایہ رویہ دراصل اللہ تعالیٰ کی حکمت ومصلحت پر عدم اعتماد ویقین کامظہر ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں ہم اُسے (نعوذباللہ) اللہ تعالیٰ کا حریف ومدمقابل بھی کہہ سکتے ہیں۔
اسلام امن وسکون اور خیر وخیرخواہی کا علم بردار ہے۔ وہ انسانی معاشرے کو سعید و خوش گوار دیکھنا چاہتا ہے۔ اس کے لیے اس نے انسان کو اخلاقیات اور معاشرتی آداب سے آشنا و باخبر کیاہے اور پوری انسانی برادری کو لاضرر ولاضرار( کوئی بھی انسان کسی انسان کو چھوٹے سے چھوٹا یا بڑے سے بڑا نقصان نہ پہنچائے) کا درس دیا ہے اور بتایا ہے کہ ایک اِنسان کو دوسرے انسان کے لیے رنج وغم اور دُکھ درد کا علاج، اس کے آرام و راحت کاسامان اور ایک دوسرے کے لیے محبت واخوت کاپیکر ہوناچاہیے۔ اسلام اس بات کو قطعی پسند نہیں کرتا کہ معاشرے میں حسد یا جلن کی آگ بھڑکے اور اس کے اثر سے پورا معاشرہ نفرت وتعصب اور جوڑ توڑ کی آماج گاہ بن جائے۔
اسلام نے حسد کی اخلاقی برائی اور اس کی شناعت کو واضح اور واشگاف انداز میں بیان کرکے انسان کو اس کی ہلاکتوں اور تباہیوں سے خبردارکیا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
لَا تَحَاسَدُوْا وَلَا تَبَاغَضُوْا وَلَا تَقَاطَعُوْا وَلَا تَدَابَرُوْا وَکُوْنُوْا عِبَادَ اللہِ اِخْوَانًـا (مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب النھی عن التحاسد ، حدیث ۴۷۴۸) آپس میں بغض و حسد، قطع تعلق اور ترک معاونت نہ کرو۔ اللہ کے بندو! تم اخوت ومحبت کے ساتھ رہو۔
دَبَّ اِلَیْکُمْ دَاءُ الْاُمَمِ قَبْلَکُمْ الْحَسَدُ وَالْبَغْضَاءُ ____ اَلَا أُنَبِّئْکُمْ بِشَیْ ءٍ اِذَا فَعَلْتُمُوْہُ تَحَابَبْتُمْ اَفْشُوْالسَّلَامَ بَیْنَکُمْ (ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، حدیث۲۴۹۴)تم سے پچھلی امتوں کی بیماریوں میں سے بغض و حسد کی بیماری تمھارے اندر سرایت کرگئی ہے۔ کیا میں تمھیںکوئی ایسی چیز نہ بتائوں، جو تمھارے اندر محبت پیداکردے؟ وہ یہ ہے کہ تم باہم سلام کو عام کرو۔
اللہ تعالیٰ نے جب پہلے انسان ابوالابا حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق فرمائی، اُنھیں نبوت کے اعلیٰ مقام سے سرفراز فرمایا اور جِنّ وملک کو حکم دیا کہ سب اُنھیں سجدہ کریں، تو سب نے حکمِ الٰہی کی تعمیل میں سجدہ کیا۔ بس ایک ابلیس تھا جو حسد کی آگ میں جل اُٹھا اور سجدہ کرنے سے انکار کردیا اور اللہ کی نافرمانی پر اترآیا۔ اُسے یہ بات نہ بھائی کہ ایک مٹی کے پیکر کو اتنا بلند مقام ملے کہ اُسے جن و ملک سجدہ کریں۔ اس کے نتیجے میں وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ذلیل، رسوا اور راندۂ درگاہ قرار پایا۔ اس کابیان قرآنِ مجید میں بہت واضح طورپر آیاہے:
وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰۗىِٕكَۃِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْٓا اِلَّآ اِبْلِيْسَ ۰ۭ اَبٰى وَاسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكٰفِرِيْنَ۳۴ (البقرہ ۲:۳۴) پھر جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیاکہ آدم ؑکے آگے جھک جائو،تو سب جھک گئے، مگرابلیس نے انکار کیا، وہ اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں پڑگیا اور نافرمانوں میں شامل ہوگیا۔
ابلیس نے جو رویہ اختیارکیا، حسد، جلن اور اپنے آپ کو آدم کے مقابلے میں اعلیٰ وبرتر سمجھنے کے ہی نتیجے میں اختیار کیا۔ وہ اِس مقامِ بلند کا مستحق خود کوسمجھتاتھا۔ دراصل انسان جب کسی کی عظمت و بلندی، عزت و شہرت یا ترقیِ درجات سے جلتاہے تو اس میں یہی جذبہ کارفرما ہوتا ہے کہ یہ شخص اِس کامستحق نہیں ہے۔ وہ یہ بات بھول جاتاہے کہ اِسے جو کچھ بھی حاصل ہے، وہ محض اللہ کا عطیہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اُسے جو کچھ دیاہے، وہ مستحق و حق دار سمجھ کر ہی دیاہے۔ وہ جس کومناسب سمجھتا ہے ، دیتاہے اور جسے نہیں چاہتا، اُسے نہیں دیتا۔ اس کے ہاں سفارش کا کوئی سلسلہ نہیں ہے۔ ایسی صورت میں ظاہر ہے کہ جو شخص کسی کی ترقی وکام یابی سے جلتا یا حسد کرتاہے گویا وہ خود کو (نعوذباللہ) اللہ تعالیٰ سے زیادہ عقل و فہم والاسمجھتا ہے۔
’حسد‘اسلامی مزاج کے منافی ایک شیطانی جذبہ ہے۔ یہ یہود و نصاریٰ کی خصلتوں میں سے ہے۔ یہ انسانیت سے گری ہوئی ایسی خصلت ہے، جس سے ہر مسلمان کو بچنا اور بچنے کی دعا کرنی چاہیے۔ حسد بڑی خاموشی سے دلوں میں گھر کرلیتا ہے۔ حسد کا مریض کبھی کبھی یہ باور کرلیتاہے کہ وہ جو کچھ کررہاہے، اظہار حق کے طورپر اور عدل وانصاف کے تقاضوں کے پیش نظر کررہاہے۔ لیکن اگر وہ تنہائی میں بیٹھ کر اللہ کو حاضر وناظر اور آخرت میں اس کے حضور جواب دہی کے احساس کے ساتھ سوچے اور غور کرے تو اس پر یہ حقیقت واضح اور منکشف ہوجائے گی کہ وہ بڑی مہلک روحانی بیماری کا شکار ہے۔
’حسد‘ احساس کم تری، متعلقہ میدان میںحاسد کی ناکامی و نامرادی اور کسی دیرینہ کدورت کی وجہ سے جنم لیتاہے۔ احساسِ برتری، کبرو نخوت اور خودپسندی وخودبینی بھی حسد کا مظہر ہے۔ انسان کی تنگ نظری وبخل مزاجی بھی حسد کاسبب بنتا ہے۔ تنگ نظر و بخیل کسی کو اچھے حال میں نہیں دیکھ سکتا۔ وہ اپنے ہم سفروں، ہم جماعتوں اورپڑوسیوں کی پریشانی و بدحالی پردل ہی دل میں شادو مسرور ہوتاہے۔
کبھی کبھی یہ بھی دیکھاگیاہے کہ لوگ کسی بھوکے کو کھانا کھلادیتے ہیں اور اگر اس کے پاس پہننے کے لیے کپڑے نہیں ہیں تو کپڑوں کاانتظام کردیتے ہیں، لیکن جب اُس شخص کی خستہ حالی، پریشانی اور مفلسی ختم ہوجاتی ہے، وہ خود کفیل ہوجاتاہے اورمعاشرے میں سراٹھاکر چلنے کے لائق ہوجاتاہے، تو وہی لوگ اس سے جلنے اور اس پر شکوک و شبہات کی انگلیاں اٹھانے لگتے ہیں اور سماج میں اس کی تصویر خراب کرنے لگتے ہیں، جو کبھی اس کی بھوک کی حالت میںاُسے کھانا کھلاچکے ہوتے ہیں اور بے لباسی کی صورت میں اسے لباس فراہم کرچکے ہوتے ہیں۔
یہ بات ہمیں، آپ کو اور ہر اہلِ ایمان کو یاد رکھنی چاہیے کہ ’محسود‘ کے ساتھ حاسد کی بدخواہی، اس کے زوال و تنزل کی خواہش، اس کی مصیبت و پریشانی پرمسرت وشادمانی اور اس کی خوش حالی و شادمانی پر کبیدہ خاطری منافقین کی خصلت ہے۔ حاسد کو ’محسود‘ سے قطعِ تعلق ، ترک تعاون اور نفرت وبُعد اسلامی مزاج کے منافی اور اظہارِ محبت و اخوت کرتے ہوے دل میں جلن، بغض اور کینہ رکھنا سراسر نفاق ہے۔ یہ عمل ایمان سے دُور کردیتا ہے۔ ’محسود‘ کی غیبت، چغلی، اس پر کسی قسم کااتہام، اس کی ہتکِ عزت یا اس کے کسی راز کاافشا اور اس کااستخفاف و استہزا یا اس کے حقوق سے بے نیازی غیرمومنانہ اور ناجائز رویہ ہے۔
حسد کے روحانی مرض میں مبتلاشخص گرچہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوںسے بہرہ ورافراد کی تصویر بگاڑنے کی کوشش کرکے اپنے نفس کی تسکین محسوس کرتا ہے اور بسااوقات ’محسود‘ کو وہ کچھ نقصان پہنچانے میں کامیاب بھی ہوجاتاہے ۔ تاہم، ’محسود‘ کا یہ نقصان یاکسی قسم کی تکلیف و پریشانی وقتی و عارضی ہوتی ہے۔ اس نقصان یا تکلیف وپریشانی کی تلافی اس کے صبرو تحمل اور ایمانی استقامت کے ذریعے سے بہت جلد ہوجاتی ہے، جب کہ حاسد کی زندگی ہمیشہ دکھ، درد، اضطراب اور بے چینی سے دوچار رہتی ہے۔ اس کے حالات وکیفیات سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ فرحت وانبساط، مسرت وشادمانی اور بشاشت و تازگی کی دولت سے محروم ہوچکا ہے۔ بعض حکما نے حسد کو جسمانی مرض بھی بتایاہے۔ الحسد داء الجسد (حسد جسم کی بیماری ہے) کا عربی مقولہ بہت مشہور ہے۔ حاسد کا وقار گرجانا، لوگوں کا اس سے منحرف ومتنفرہوجانا اور اس کو مشکوک و مشتبہ نگاہوں سے دیکھنا حسد کے لازمی اثرات میںسے ہے۔ یہ اثرات حسد کرنے والے کی زندگی پر کسی نہ کسی درجے میں مرتب ہوکر رہتے ہیں۔ وہ کبھی باعزت و سرخ رو نہیںہوسکتا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
شَرُّالنَّاسِ مَنْ یُبْغِضُ النَّاسَ وَیُبْغِضُوْنَہٗ ، سب سے برا وہ شخص ہے، جو لوگوں سے بغض و کینہ رکھے اور اس کی وجہ سے لوگ اس سے بغض و کینہ رکھیں۔ (المعجم الکبیر، الطبرانی، حدیث: ۱۰۵۸۲)
اب تک کی کسی قدر تفصیلی گفتگو سے یہ بات واضح اور منکشف ہوجاتی ہے کہ حسد ایک انتہائی قبیح، رذیل اور ذلیل خصلت ہے۔ اس کے اندر بے شمار دینی، اعتقادی، سماجی، معاشرتی، روحانی اور جسمانی مفاسد ہیں اور اس کااُخروی انجام نہایت خطرناک اور تباہ کن ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
اِیَّـاکُمْ وَالْحَسَدَ فَاِنَّ الْحَسَدَ یَأْکُلُ الْحَسَنَاتِ کَمَا تَاْکُلُ النَّارُ الْحَطَبَ (ابوداؤد، کتاب الادب، باب فی الحسد،حدیث ۴۲۷۸) تم اپنے آپ کو حسد سے بچائو، اس لیے کہ حسد نیکیوںکو اس طرح جلادیتاہے، جس طرح کہ آگ لکڑی جلادیتی ہے۔
ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی شب و روز کی زندگی کاجائزہ لیں اور دیکھیں کہ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ یہ بیماری ہمارے اندر سرایت کرکے ہمارے خرمنِ دین و ایمان کو جلاکر راکھ کررہی ہو، تاکہ ہم جو کچھ چھوٹی بڑی نیکیاں کررہے ہیں اور جو ہم سے تھوڑے بہت کار خیر انجام پارہے ہیں، وہ ہمارے لیے اُخروی فلاح وکام یابی اورحصولِ جنت کا وسیلہ بن سکیں۔
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے طریق سے ایک حدیث بیان کی ہے:’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابیِ رسولؐ کے سلسلے میں جنت کی بشارت سنائی۔ صحابہ نے اُن صحابی کے اعمال کابہ غور مطالعہ و مشاہدہ کیا تو اُنھیںاعمال کے اعتبار سے کسی اعلیٰ و بلند مقام پرنہیں پایا۔ اُن سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہوئی بشارت کی وجہ پوچھی تو انھوںنے بتایاکہ میرے حق میں جنت کی بشارت کی وجہ صرف یہ ہے کہ میںنے آج تک کسی بھی مسلمان سے بغض و حسد کا معاملہ نہیں کیا‘‘۔(مسند احمد ،ج۳، ص ۱۶۶)
حسد کا علاج کسی دو ا دارو، جھاڑپھونک یا شیخ و مرشد کی توجہ سے ممکن نہیں، بل کہ یہ علم و عمل دونوں کا متقاضی ہے۔ اس کے بغیرحسد کا علاج نہیںہوسکتا۔ یہ بات ہم سب پر واضح رہنی چاہیے کہ حسد سے ’محسود‘ کا نہ کوئی دنیوی نقصان ہوتا ہے اور نہ اُخروی، بل کہ اخروی طورپراس کے لیے یہ مفید اور باعث اجرو ثواب ہے۔ اس لیے کہ حاسد غیبت، چغلی اور لگائی بجھائی کے ذریعے سے ’محسود‘ کی آخرت کے لیے ہدیہ و توشہ فراہم کرتا ہے۔ میں نے کبھی کہاتھا:
مری ذات ہی اس کا موضوع تھی
وہ میرے گناہوں کو دھوتا رہا
اِس شعر میں اس فرمانِ رسولؐ کی ترجمانی کی گئی ہے، جس میں حاسد کو ’محسود‘ کے گناہوں کا دھوبی کہاگیاہے۔ جب کوئی کسی کی غیبت کرتاہے یا اس کی شبیہ بگاڑنے کا کام کرتاہے تو گویا وہ اس کے گناہوں اور خرابیوں کا صفایا کرتاہے۔
حسد کی تباہ کاریوں سے بچنے کا بہترین علاج یہی ہے کہ جس سے ہمیں کسی قسم کی تکلیف پہنچی ہو یا جسے ہم کسی وجہ سے ناپسند کرتے ہوں اور اس کی فلاح و کامیابی ہمیںایک آنکھ نہ بھاتی ہو، ہم اپنے آپ کو اس سے راضی کریں۔ اس کی ترقیِ درجات سے خوش ہونے کی عادت ڈالیں۔ اس کی عزت و شہرت سے تنگی و کوفت محسوس کرنے کی بہ جائے دل سے مسرت وشادمانی کا اظہار کریں۔ اگر ممکن ہوتو اس کی عزت و شہرت میں کچھ نہ کچھ اضافے کی کوشش کریں۔جس محفل و مجلس میں اس کا تذکرہ ہورہا ہو، اس میں خوش اسلوبی سے حصہ لیں اور اس کی اچھائیاں بیان کریں۔ حسب موقع اس کی دعوت کریں اور تحائف وہدایا کااہتمام کریں اور اس کے دکھ درد اور خوشی و مسرت میں شریک ہوں۔ یہ علاج ہے تو تلخ مگر اس میں نہایت مؤثر و مفید شفا پوشیدہ ہے۔ اگر یہ طریقۂ علاج ہم نے اختیارکرلیا تو اس میں ہمارے لیے غیرمعمولی سکون و راحت کا سامان ہے۔
ہمیں اسلام نے جو تعلیم دی ہے، اس کاتقاضا ہے کہ ہماری زبان اور قلم سے نکلنے والا ہرلفظ با مقصدہو ، کلمۂ حق کی سربلندی پیشِ نظر ہو، اور اس ساری جدوجہد کا مقصد حقیقی اپنے خالق و مالک کی رضا اور جنت کاحصول ہو۔ مومن بے تکی باتیں کرنے اور بے پر کی اڑانے سے کوسوں دُور ہوتا ہے۔ مسلمان کبھی حق اور قوت کی علامت تھے۔بد قسمتی سے آج جس ذلت و پستی سے مسلمان دوچار ہیں، اس سے نکلنے کی کوئی فکر نہیں کی جارہی۔ آج ہماری حالت یہ ہے کہ ہمارے معاملات کے فیصلے ہمارے دشمنوں کے ہاتھوں میں ہیں۔ وہ ہمارے علم اور اجازت کے بغیر جو چاہتے ہیں طے کردیتے ہیں۔ میں غیرت کی روح بیدار کرنا چاہتا ہوں جس سے امت کا ہر فرد زندہ احساسات کی مجسم تصویر نظر آئے، اور اس کے لیے اُمت کی ذلت ناقابل برداشت ہو جائے اور وہ اپنے آپ کو انگاروں پر لوٹتا ہوا محسوس کرے۔ آج مسلمان حاکم ہوں یا عوام، ذلت کی چادر اوڑھے خوابِ خرگوش میں مست ہیں۔ کسی فرد کی ذات پر حملہ ہو تو وہ خاصا مشتعل ہوجاتا ہے اور بسا اوقات انتقام پر بھی اُتر آتا ہے۔ عقیدہ اور ایمان جو ذاتی شرف سے کہیں زیادہ قیمتی ہے، ان حاکموں اور عوام الناس کی نظروں میں کسی اہمیت کے مستحق دکھائی نہیں دے رہے۔ میری تمنا ہے کہ آج کا نوجوان غیرتِ اسلامی سے سرشار ہو کر اسلام کی حقیقی عزت کو بحال کرنے کا عزم لے کر اُٹھے اور جس طرح اس کے اسلاف نے تاجِ سرِدارا کو پاؤں میں کچل دیا تھا، اسی طرح یہ بھی ہر طاغوت کو سرنگوں کرنے کا عزم باندھ لے۔
یہودیوں نے ارض فلسطین پر قبضہ جما رکھا ہے اور مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیل رہے ہیں۔ اس کے باوجود کئی مسلمان ایسے ہیں، جو یہودیوں سے دوستانہ تعلقات اور میل ملاقات برقرار رکھنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ گویا ان لوگوں کے نزدیک فلسطین، ارضِ مسلمہ نہیں ہے۔متاعِ کارواں لُٹ جانے کا غم ہی کیا کم تھا کہ اب کارواں کے دل سے احساسِ زیاں بھی غائب نظر آتا ہے۔
روس نے افغانستان پر جارحانہ حملہ کرکے [۱۹۷۹ء میں]قبضہ جمایا [روس کی جگہ ۲۰۰۱ء سے امریکا قابض ہے] اور کئی مسلمان اس ظالمانہ حرکت کو قطعاً کوئی اہمیت نہیں دیتے بلکہ وہ [اس] کی تائید تک کرتے ہیں۔ جولان اور جنوب لبنان کو اسرائیلی اپنے ناپاک قدموں تلے روند رہے ہیں اور ہمارے اہلِ اقتدار سواے زبانی جمع خرچ کے کچھ کرنے کی ہمت نہیں رکھتے۔ ان کھوکھلے اور رسمی احتجاجی بیانات سے اسرائیل خوش ہوتا ہے،جب کہ مخلص مسلمانوں کے دلوں پر یہ گیدڑبھبکیاں آرے چلانے کے مترادف ہیں۔ ہم اس غیرت کو بیدار کرنا چاہتے ہیں جو ہمیں اپنے مقاماتِ مقدسہ کی بازیابی پر آمادہ کرسکے۔ ہم دلوں پر چڑھی ہوئی غفلت کی ان تہوں کو اتارنا چاہتے ہیں، جنھوں نے ہماری زندگیوں کو بے مقصد اور ہمارے وجود کو بے معنی بنا دیا ہے۔ ہماری کوششیں اگر کامیاب ہوجائیں تو فلسطین، جولان، جنوب لبنان، افغانستان اور ہر مقبوضہ مسلم خطہ امت مسلمہ کے دلوں کی دھڑکن کا حصہ بن جائے۔ یہ عزیز خطے دشمنوں کے پنجے سے اسلامی غیرت ہی کے ذریعے واگزار کرائے جاسکتے ہیں۔
اپنی کھوئی ہوئی اراضی کو واپس حاصل کرنے کی فکر کامیابی کی جانب پہلا قدم ہے، جب کہ غفلت اور بے اعتنائی کا نتیجہ یہ ہوگا کہ حالات مزید بگڑ جائیں۔ امریکا، روس، اسرائیل اور شرق و غرب کی ہر اسلام دشمن قوت [مسلم ممالک کے درمیان] جنگ کو ہوا دے رہی ہے۔ اس تباہ کن جنگ سے دو مسلم ملک اپنی قوت کا خاتمہ کر رہے ہیں اور اسرائیل خوش ہے کہ اسے اپنی طاقت بڑھانے کی قیمتی فرصت حاصل ہوگئی ہے۔ خطرات کے سایے صاحب ِبصیرت اہل ایمان کو نظر آرہے ہیں مگر عرب اور اسلامی ممالک کے ذمہ داران داد عیش میں مصروف ہیں۔ ان حکمرانوں کا وتیرا دیکھ کر ہرحلیم الطبع آدمی کا لہو کھول اٹھتا ہے اور ہر صابر مسلمان کے صبر کا پیمانہ بھی چھلک جاتا ہے۔
ہماری تمنا ہے کہ مسلمانوں کی غیرت جاگ اٹھے اور اعلیٰ سطح سے یہ اعلان عملاً کر دیا جائے کہ مسلمانوں کے دلوں سے ایمان کی چنگاری ابھی تک نہیں بجھی۔ ان پر مسلط ہو جانے والی ذلت کے باوجود اب بھی وہ عصاے کلیمی سے محروم نہیں ہوئے۔ وہ اپنی کھوئی ہوئی عظمت دوبارہ حاصل کرسکتے ہیں اور دشمنوں کی سازشوں کو ناکام بنا سکتے ہیں۔ ایمان اور عزم سے سب کچھ ممکن ہے۔
جب ہم اپنی جانب سے بنیادی تقاضے پورے کرکے اور کوشش کے باوجود منزل تک نہ پہنچ پائیں تو اللہ علیم و خبیر اپنی مدد ضرور بھیجے گا۔ اپنے ذرائع و وسائل کو استعمال کرنے کے بعد جب بارگاہ ایزدی میں ہاتھ اٹھائے جائیں تو وہ خالی نہیں پلٹتے۔ رب کائنات کاارشاد ہے:
اَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاہُ وَ یَکْشِفُ السُّوْٓئَ وَیَجْعَلُکُمْ خُلَفَآئَ الْاَرْضِط (النمل۲۷:۶۲) کون ہے جو بے قرار کی دُعا سنتا ہے، جب کہ وہ اُسے پکارے اور کون اس کی تکلیف رفع کرتا ہے؟ اور (کون ہے جو) تمھیں زمین کا خلیفہ بناتا ہے؟
دشمنانِ اسلام آج ہمیں چلتے پھرتے لاشے تصور کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں ہمارے اندر زندگی کی کوئی رمق باقی نہیں رہی۔ اے نوجوانو! کیا واقعی تم ایسی حالت پر رضامند ہوگئے ہو؟ امام حسن البنا شہید ؒنے اپنی زندگی میں نوجوانوں کے اندر ایک برقی رو دوڑا دی تھی۔ انھیں جہاد کے لیے متحرک کر دیا تھا۔ ہمارے دشمنوں نے نوجوانوں کے اندر ان حیات بخش عزائم کو دیکھا تو کانپ اٹھے۔ انھوں نے اپنے وفادار خادم حکمرانوں کو حکم دیا کہ اس تحریک کو کچل ڈالا جائے۔ پس مسلمان حکمرانوں نے دشمنان اسلام سے وفاداری کا حق ادا کرتے ہوئے داعیان حق کے خلاف اپنی مہم شروع کر دی۔ اے نوجوانو! کیا تم تاریخ کے سپرد کوئی قیمتی یادداشتیں نہیں کرنا چاہتے کہ جن پر آنے والی نسلیں فخر کرسکیں؟
یہ بھی سن لو کہ اگر امت اسلامیہ ذلت و رُسوائی کا لباس اتار پھینکنے کے لیے کمربستہ نہ ہوئی تو ہمیشہ کی ذلّت اور اَبدی لعنت کا طوق ان کا مقدر ہوگا۔میں مایوسی کو کفر سمجھتاہوں اور ہمیشہ پُراُمید رہتاہوں۔ مجھے اُفق سے اُمید کی کرنیں اُبھرتی نظر آتی ہیں اور آسمان کی پہنائیوں سے نور پھوٹنے والا ہے۔ نااُمیدی کی کوئی وجہ نہیں۔ راہِ حق کے مسافروں کا سب سے بڑا سہارا ذاتِ الٰہی اور سب سے بڑی اُمید رحمت ِربّانی ہے۔ نیند کے متوالو! بہت سو چکے، اب اٹھو کہ نورِ سحر سے آسمان آئینہ پوش ہونے والا ہے۔
اپنے آپ کو کمزور اور حقیر سمجھ کر اپنے دشمن کے سامنے گھٹنے نہ ٹیک دو۔ حرکت میں زندگی ہے اور غفلت پیغامِ موت۔ سُستی ، کاہلی اور بے عملی کا نتیجہ بدترین نقصان اور خسارہ ہے اور مصائب جھیل کر ہی کندن بنا جاسکتا ہے۔ موت کے دروازے سے گزرنے میں ایک ہی لمحہ درکار ہے، جس کے بعد ابتلا کا خاتمہ اور جنت کی بشارت ہے۔ اس طرح جو باطل کے علَم بردار بن جاتے ہیں یا اس کی بالادستی پر راضی ہو کر یہ حقیر اور عارضی زندگی گزارتے ہیں، انھیں بھی موت کا پیالہ پینا ہی پڑتا ہے۔ دونوں میں فرق یہ ہے کہ ان پست راہوں کے راہی موت کے دروازے سے گزر کر سیدھے واصل جہنم ہوتے ہیں۔ اب فیصلہ کرنا آپ کا اپنا کام ہے کہ دونوں ٹھکانوں میں سے کون سا ٹھکانا آپ کا انتخاب ہے۔ انسان وہی کچھ کاٹتا ہے جو اس نے بویا ہو اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر کبھی ظلم نہیں کرتا۔
اگر مصر میں ۱۹۲۸ء میں تحریک اخوان المسلمون قائم نہ ہوتی تو کون جانے آج یہاں کیا حال ہوتا! اگر یہ تحریک نہ ہوتی تو اسرائیل فلسطین کو یوں ہڑپ کر جاتا کہ احتجاج کی کوئی صدا تک بلند نہ ہوتی۔ نہ اس کی مذمت کے لیے کوئی زبان کھلتی اور نہ کسی کو سرزنش کی توفیق ہوتی۔ امام شہیدؒ نے شروع ہی سے اس صورت حال کا احساس کرلیا تھا اور مسلسل تنبیہ اور خطرے سے ہوشیار و خبردار رہنے کے لیے پکارتے رہے۔ آپ نے عوام کے دلوں میں آنے والے خطرات کا احساس پیدا کیا اور اہلِ حل و عقد کو متحرک کرنے کی کوشش کی۔ صدافسوس کہ ذمہ داروں نے حرکت کی بھی تو اپنے ہی عوام کے خلاف، اور جہاد کی جو چنگاری لوگوں کے دلوں میں سلگ اُٹھی تھی، اسے اپنے خالی نعروں اور ہوائی تقریروں کے زور سے بجھا ڈالا۔ مسلمان حکمرانوں کی غداریوں کو ہم کبھی فراموش نہیں کرسکتے۔ نقراشی پاشا کی وزارت نے اسرائیل کے ساتھ امن و صلح کی گفتگو کو قبول کرکے عملاً اسرائیل کو ارضِ فلسطین پر اپنے پنجے جمانے کا جواز فراہم کر دیا۔ ہمارے لیے ضروری تھا کہ اسرائیل کے ساتھ کسی قسم کی کوئی گفت و شنید نہ کرتے۔ اگر گفتگو ناگزیر ہوتی تو مصر کو برطانیہ کے ساتھ مذاکرات کرنے چاہییں تھے کہ اقوام متحدہ کی طرف سے برطانیہ کو فلسطین کی نگرانی سونپی گئی تھی۔ ان مذاکرات کے دوران ہمیں یہ واضح کر دینا چاہیے تھا کہ ہم اسرائیل کے وجود کو تسلیم نہیں کرتے اور نہ فلسطین پر اسے مسلط کرنے کا کسی کو حق ہے۔
ان شاء اللہ مستقبل میں اخوان کے پُرخلوص کارکنوں اور دیگر اسلامی عناصر کے ذریعے شریعت اسلامیہ نافذ ہو کر رہے گی۔ ہر اسلامی ملک سے اسلام کے علَم بردار اخبارات و مجلات شائع ہو رہے ہیں، اور دنیا بھر میں اسلامی لٹریچر کی اشاعت روزافزوں ہے۔ لٹریچر کی کہیں بھی عالمی نمایش ہو آج اسلامی ادیبوں کی کتب کے بغیر اسے مکمل نہیں سمجھا جاتا۔ مسلم اور غیر مسلم ممالک میں آئے دن اسلامی کانفرنسیں منعقد ہوتی ہیں۔ نوجوان ہرملک میں شریعت اسلامیہ کے نفاذ کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔یہ سارے تعمیری اور مثبت پہلو دورِ حاضر کی اسلامی تحریک کی کاوشوں کا ثمر ہے۔
اس تحریک کے مقابلے پر امریکا نے اپنے اپنے ڈھب کی تنظیمیں قائم کی ہیں۔ ’امریکی اسلام‘ بھلا کیسے پنپ سکتا ہے۔ اس تحریک کے اثرات کا نتیجہ ہے کہ آج جب کوئی ہاؤسنگ سکیم تیار ہوتی ہے تو اس میں مسجد بھی لازماً تعمیر ہوتی ہے۔ اخوان المسلمون نے اُمت کو یاد دلایا کہ زکوٰۃ فرض ہے، جسے لوگ بھول چکے ہیں۔ چنانچہ آج مصر کی ہر مسجد میں زکوٰۃ کمیٹیاں قائم ہوچکی ہیں۔
٭ الاخوان المسلمون کے تیسرے مرشدِ عام (۱۹۷۲ء-۱۹۸۶)۔ ترجمہ: حافظ محمد ادریس
معروف ڈراما نویس اور گیت نگار گلزار (پ: ۱۹۳۴ء، دینہ) کی یہ نظم پڑھیے تو خوب صورت لگے اور سوچیے تو کڑوی لگے۔ اس میں کڑوی سچائیوں کو بڑی خوب صورتی سے بیان کیا گیا ہے۔ یہ نظم حوالۂ قرطاس ہے ، تا کہ قاری اس نظم کو نہ صرف پڑھے بلکہ محسوس بھی کر سکے:
کتابیں جھانکتی ہیں بند الماری کے شیشوں سے ،
بڑی حسرت سے تکتی ہیں ،
مہینوں اب ملاقاتیں نہیں ہوتیں
جو شامیں ان کی صحبت میں کٹا کرتی تھیں،
اب اکثر، گزر جاتی ہیں کمپیوٹر کے پردوں پر
بڑی بے چین رہتی ہیں کتابیں
انھیں اب نیند میں چلنے کی عادت ہو گئی ہے ۔
جو قدر یں وہ سناتی تھیں
کہ جن کے سیل کبھی مرتے نہیں تھے
وہ قدریں اب نظر آتی نہیں گھر میں
جو رشتے وہ بناتی تھیں
وہ سارے اُدھڑے اُدھڑے ہیں ۔
کوئی صفحہ پلٹتا ہوں تو اک سسکی نکلتی ہے
کئی لفظوں کے معنی گر پڑے ہیں
بنا پتوں کے سوکھے ٹُنڈ لگتے ہیں وہ سب الفاظ ،
جن پر اب کوئی معنی نہیں اُگتے ۔
بہت سی اصطلاحیں ہیں ،
جو مٹی کے سکُوروں کی طرح بکھری پڑی ہیں ،
گلاسوں نے انھیں متروک کر ڈالا
زباں پر ذائقہ آتا تھا جو صفحہ پلٹنے کا
اب انگلی کلک کرنے سے
بس اِک جھپکی گزرتی ہے
بہت کچھ تہہ بہ تہہ کھلتا چلا جاتا ہے پردے پر ،
کتابوں سے جو ذاتی رابطہ تھا کٹ گیا ہے
کبھی سینے پر رکھ کر لیٹ جاتے تھے ،
کبھی گودی میں لیتے تھے
کبھی گھٹنوں کو اپنے رحل کی صورت بنا کر
نیم سجدے میں پڑھا کرتے تھے، چھوتے تھے جبیں سے
وہ سارا علم تو ملتا رہے گا آیندہ بھی
مگر وہ جو کتابوں میں ملا کرتے تھے سوکھے پھول
اس نظم کا ایک ایک مصرع سچا ہے اور اسی لیے نہایت کڑوا بھی ہے، مگر اس کڑواہٹ کو شاعر نے شکایتوں کی دل آویز پوشاکیں دی ہیں۔ یہ کیسا گلہ ہے ؟ یہ کیسی شکایت ہے ؟ مگر کس سے گلہ کیا جا رہا ہے اور کس کی شکایت کی جا رہی ہے ؟ اس صورتِ حال کا آخر ذمہ دار کون ہے ؟ زمانے کو تو کہہ نہیں سکتے کہ ہمیں اس کی اجازت نہیںہے، البتہ انسان کی ذہنی ترقی کو ’الزام‘ دے سکتے ہیں، کیوں کہ ترقی کے نام پر انسان، انسانیت کو جو کچھ دے رہاہے، اس میں نقصان کا پہلو ہی زیادہ نمایاں نظر آ رہا ہے۔ سائنس اور ٹکنالوجی کی اس برق رفتار ترقی نے انسان کو مشین کا ایک کل پُرزہ بناکے رکھ دیا ہے۔ ایسے میں وہ فطرت سے دُور اور غیر فطری ماحول کا عادی بنتا چلا جا رہا ہے۔
بات احساس کی ہے … کتابوں سے مضبوط رشتہ استوار رکھنے والا اور کتابوں سے نزدیک رہنے والا روزانہ کتابیں اٹھاتا اور انھیں محبت سے رکھتا ہے۔ اپنی کتابوں کی ترتیب اور ان کی صفائی، یا پھر کسی اہم کتاب کی تلاش اسے کتابوں سے بہت ہی قریب رکھتی ہے۔ الماری کے باہر سے کتابوں کو دیکھتا ہے، مگر اس نظم میں شاعر نے تو کتابوں کو جھانکتے ہوئے محسوس کیا۔ وہ بتاتے ہیں :
کتابیں جھانکتی ہیں بند الماری کے شیشوں سے، بڑی حسرت سے تکتی ہیں، مہینوںاب ملاقاتیں نہیں ہوتیں۔ جو شامیں ان کی صحبت میں کٹا کرتی تھیں، اب اکثر گزر جاتی ہیں کمپیوٹر کے پردوں پر۔ بڑی بے چین رہتی ہیں کتابیں، انھیں اب نیند میں چلنے کی عادت ہو گئی ہے۔
نظم کا پہلا مصرع پڑھ کے چونکیے گا نہیں…کتابوں کا جھانکنا اور ان کا تکنا چہ معنی دارد؟ ایسا کرتے ہیں کہ ہم کتابوں کو ذی روح مان کر چلتے ہیں۔ یہ کتابیں اس حد تک مجبور ہیںکہ خود سے باہر نہیں نکل سکتیں ، کوئی انھیں نکالنے والا چاہیے۔ کسی کے انتظار میں شیشوں سے جھانکے جا رہی ہیں، اور جب یہ انتظار برداشت سے باہر ہو جاتا ہے تو ان پر مایوسی کی ایک کیفیت طاری ہو جاتی ہے اور وہ بڑی حسرت سے لگا تار دیکھے جا رہی ہیں، کیوں کہ مہینوں گزر جاتے ہیں مگر انھیں شوق سے ڈھونڈنے والا، محبت سے چھونے والا، دونوں ہاتھوں کی رحل میں سجانے والا، آنکھوں اور اپنے سینے سے لگا لینے والا نہ آئے تو ان کی آنکھیں بھی پتھر ا جاتی ہیں۔ ایسے میں ایک حسرت اور بے چینی ان میں نظر آتی ہے کہ انھیں چاہنے والے کسی اور طرف مصروف ہو گئے ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ جب ایک انسان ہر طرف سے مایوس ہو جائے تو وہ ایک طرح کا نفسیاتی مریض بن جاتا ہے۔ ہر ذی روح میں چاہنے اور چاہے جانے کا جذبہ قدرتی طور پر ودیعت کر دیا گیا ہے اور جب یہ جذبہ شر مندۂ تکمیل نہیں ہو پاتا تو کہیں داخل کی دُنیا میں ٹوٹ پھوٹ کا سلسلہ چل نکلتا ہے، اور ایسے میں وہ نفسیاتی طور پر ضرور متاثر ہو جاتے ہیں۔
کتابیں بھی انتظار میں گھٹ گھٹ کر گویا ایک طرح سے نفسیاتی مریض بن گئی ہیں۔ نظم کا یہ مصرع کہ ’’انھیں اب نیند میں چلنے کی عادت ہو گئی ہے‘‘ ، اسی نفسیاتی مرض کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ نیند میں چلنا صحت کی علامت تو نہیں ہے۔
شاعر کو اس بات کا دُکھ ہے کہ آج کل کتابیں پڑھی نہیں جاتیں ۔ پہلے کتابوں کے لیے جو وقت دیا جاتا تھا ، اب وہ سار ا وقت کمپیوٹر اور اس کی برادری، یعنی ویڈیو ، ٹی وی یا موبائل فون کے ساتھ دیکھتے ، کھیلتے گزر جاتا ہے۔ یہی سبب ہے …’’ جو قدریں وہ سناتی تھیں، کہ جن کے سیل کبھی مرتے نہیں تھے ، وہ قدریں اب نظر آتی نہیں گھر میں ، جو رشتے وہ بناتی تھیں، وہ سارے ادھڑے ادھڑے ہیں‘‘۔ سِیل ہندی لفظ ہے، جو نمی، ٹھنڈ اور محبت کے معنی دیتا ہے۔ گلزار کا دعویٰ ہے کہ گھروں کے اندر رشتے داریاں کتابوں ہی سے اپنا بھرم باقی رکھ سکتی ہیں۔
’کتابوں سے جو ذاتی رابطہ تھا کٹ گیا ہے ‘۔ کتابوں سے رابطہ نہ ہونے پر گھروں میں انسانوں کے درمیان نہ رشتوں کی قدریں باقی رہیں اور نہ محبتیں زندہ رہیں۔ ’سب اُدھڑے اُدھڑے نظر آتے ہیں‘ یعنی یہ رشتے ناطے ، یہ محبتیں ، آپسی تعلقات ، ایک دوسرے کا لحاظ ، ایک دوسرے کو پانے کا جذبہ سب کچھ اپنے آپ نہیں اُدھڑ ا ہے، بلکہ انھیں کتابوں کی دوری ہی نے اُدھیڑ کر رکھ دیا ہے۔
’’ کوئی صفحہ پلٹتا ہوں تو اک سسکی نکلتی ہے ‘‘، اس مصرعے کے دو مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ ہر طرف سے مایوس انسان کو جب اچانک کوئی ہمدرد مل جاتا ہے تو وہ اپنے اس ہمدرد کے گلے لگ کر اس طرح رو پڑتا ہے کہ اس کے دل کا بوجھ ہلکا ہو جاتا ہے۔ دوسرا مطلب یہ ہو سکتا ہے جو حقیقت سے بہت ہی قریب بھی ہے۔ وہ یہ کہ جب ایک کتاب مدتوں انسانی ہاتھوں سے دُور ایک ہی جگہ رکھی رہ جائے تو اس کے اوراق اس طرح ایک دوسرے سے چپک جاتے ہیں کہ انھیں الگ کرتے ہوئے ایک سر سراہٹ سی پیدا ہو اکرتی ہے۔ اسی سرسراہٹ کو شاعر نے سسکی سے تعبیر کیا ہے۔
’کئی لفظوں کے معنی گر پڑے ہیں‘۔ کتابیں جب پارینہ اور بوسیدہ ہو جاتی ہیں ، تو وہ ایک طرح سے ناقابل مطالعہ ہو جاتی ہیں ۔ان میں کئی طرح کی تبدیلیاں آ جاتی ہیں (جس طرح ایک بوڑھے انسان میں کئی تبدیلیاں آ جاتی ہیں )۔ کرم خوردگی کی وجہ سے جگہ جگہ حرف غائب ہو جاتے ہیں، یا ان کی قدامت کی وجہ سے اکثر جگہ حروف اڑے اڑے نظرآتے ہیں، جس سے بہت سوں کو الفاظ سمجھنے میںدشواری ہوتی ہے۔ ایسے میں لفظوں کے معنی گر پڑنے کا مطلب سمجھنا آسان ہے۔
’بنا پتوں کے سوکھے ٹُنڈ لگتے ہیں وہ سب الفاظ، جن پر اب کوئی معنی نہیں اُگتے ‘۔ ’ ٹُنڈ‘ ہندی لفظ ہے اور مذکر مستعمل ہے۔ یعنی درخت کا وہ تنا ، یا ڈالی جسے کا ٹ دیا گیا ہو اور اس پر کوئی ڈالی یا پتا نہ اُگے ۔ جب یہ بھی پتا نہ چلے کہ لفظ کیا ہے تو مطلب کیا سمجھ میں آ سکے گا۔ کتاب کے وہ الفاظ جو ٹھیک سے پڑھے نہیں جا سکتے انھیں ’ٹنڈ ‘کا نام دیا ہے۔
’’بہت سی اصطلاحیں ہیں، جو مٹی کے سکُوروں کی طرح بکھری پڑی ہیں، گلاسوں نے انھیں متروک کر ڈالا ‘‘۔ ان دو مصرعوں میں دو باتیں ہیں: مٹی کا ’سکُورا‘ اور گلاس۔ پانی کے گلاس کے اُوپر رکھا جانے والا ایک چھوٹے سے مٹی کے برتن کو سکُور ا کہا جاتا ہے۔ سکُورا فارسی کا لفظ ہے۔ یہاں غالباً چھوٹی سی پیالی کو سکُورا کہا گیا ہے جو پانی کے گھڑے کا منہ بند رکھنے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ پرانے وقت گھروں میں زیادہ تر مٹی کے برتن ہی استعمال ہوتے تھے، مگر آج کی نسل کو یہ لفظ نا مانوس لگے گا، اس لیے گلاس کا لفظ برتا گیا ہے۔
ہر زبان کی کچھ اصطلاحیں ہوتی ہیں اور اکثر یہ اصطلاحیں (کسی خاص لفظ سے مراد معنی لینا اصطلاح کہلاتا ہے ) ہمیں کتابیں ہی دیتی ہیں۔ ان کے استعمال سے زبان کا حُسن دوبالا ہو جاتا ہے۔ کتابوں کا مطالعہ نہ ہونے کی وجہ سے بولنے والا زبان کی اصطلاحوں سے ناواقف رہ جاتا ہے۔ جیسے غیر استعمال شدہ چیزیں تہہ خانے میں بکھری پڑی ہوتی ہیں، اسی طرح کتابوں میں اصطلاحات بکھری پڑی ہیں۔ گلاسوں سے تعلق ٹوٹ گیا ہے، اور زبان اصطلاحوں سے خالی ہے۔
’’زباں پرذائقہ آتا تھا جو صفحہ پلٹنے کا‘‘۔یہ اشارہ ہے اُس عادت کی طرف، جو مطالعے کے دوران ہم اپنی شہادت کی انگلی کو زبان سے لگا کر صفحہ پلٹتے ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے ہماری زبان پر ایک قسم کا ذائقہ بھی ہوتا ہے، جسے محسوس کرتے ہوئے مطالعے میں لگے رہتے ہیں۔ ہر کاغذ کا الگ ذائقہ ہوا کرتا ہے، مگر اسے ہم متعین نہیں کر سکتے۔ نئے کاغذات میں ایک طرح کی خوشبو ہوا کرتی ہے۔ بوسیدہ کتابوں میں ایک انوکھی باس رچی بسی رہتی ہے۔
’’اب انگلی کلک (click)کرنے سے، بس ایک جھپکی گزرتی ہے۔بہت کچھ تہہ بہ تہہ کھلتاچلا جاتا ہے پردے پر، کتابوں سے جو ذاتی رابطہ تھا کٹ گیا ہے ‘‘۔ آج کل مطالعے کے طریقے میں پرانی کتابیں ہاتھ میں لینے کی نوبت کم ہی آتی ہے۔ اب تو ایک سیکنڈ میں انگلی کی حرکت ہوتی ہے اور سب کچھ ہماری آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے۔نہ ا نتظار کی کوفت اور نہ تلاش کی مشقت ۔ نہ کسی سے مانگنے کی نوبت اور نہ کتابیں لے کر نہ لوٹانے والے سے کوئی شکایت ۔ اسی کا یہ نتیجہ ہے کہ ہمارا ذاتی رابطہ جو کتابوں سے تھا وہ منقطع ہو گیا ہے، اور کتابوں کے سلسلے میں پرانے لوگوں میں جو جذبات ہوا کرتے تھے ، ان سے شوق کے دریچے خالی ہو گئے ہیں۔
پھر حسرت کو زبان دیتے ہوئے کہتے ہیں:’’ کبھی سینے پر رکھ کے لیٹ جاتے تھے، کبھی گودی میں لیتے تھے ، کبھی گھٹنوں کو اپنے رحل کی صورت بنا کر نیم سجدے میں پڑھا کرتے تھے ، چھوتے تھے جبیں سے ‘‘… یہ مطالعے کی چند صورتیں ہیں اور ان میں تمام کتابیں اپنی درجہ بندی کے ساتھ تقسیم کی جا سکتی ہیں۔ یہ صورتیں آج مکمل طور پر نہ سہی مگر ماضی کا قصہ بن چکی ہیں اور بہت ممکن ہے کہ آنے والی نسل کے لیے ان کی کوئی گنجایش ہی نہ رہے۔
’خدانے چاہا تو وہ سارا علم ملتا رہے گا بعد میں بھی ‘۔ بات اگر علم کی ہے تو انسان کہیں سے بھی اور کسی سے بھی پاہی لیتاہے۔ معلومات چاہے کہیں سے اور کسی سے بھی ملیں ، اگر وہ صحت مند ہوں تو مستحسن مانی جائیں گی۔ ماضی قریب میں انسان کا شوق اسے کتابوں کی طرف لے گیا۔ حال میں انسان کی سوچ بدلی تو اس نے کتابوں کے بوجھ سے خود کو آزاد کر لیا اور تکمیلِ شوق کے لیے اور بھی آسان ذریعہ اسے مل گیا، بقول اقبال: ’ کہ آ رہی ہے دمادم صداے کن فیکون ‘۔ اس بنیاد پر بہت ممکن ہے مستقبل میں اور کوئی نرالا ذریعہ انسان کو مل ہی جائے، جس سے وہ معلومات حاصل کر سکے۔
’’مگر وہ جو کتابوں میں ملا کرتے تھے سوکھے پھول ، ان کا کیا ہوگا؟‘‘۔یہ مصرعے ایک رومانوی ماحول میں لے جاتے ہیں۔ ادبی، نیم ادبی اور دینی کتابوں میں رکھے ہوئے سوکھے اور مہکے پھولوں کا بھی مشاہدہ کیا ہے۔ یہ ہمارے اگلے وقتوں کی زندگی کی طرف اشارہ ہے۔
آج کی نئی پود بالکلیہ نہ سہی عصری علوم کے نام سے اس راستے پر گام زن ہے، جس کی کوئی منزل سمجھ میں نہیں آتی ہے، اور اس نامعلوم منزل کی طرف رواں قافلے کی نظر میں محبت، احترام اور معصومیت وغیرہ فرسودہ تصورات ہیں: ’کتابیں جھانکتی ہیں اور بڑی حسرت سے تکتی ہیں‘‘۔
ایک زمانہ تھا کہ قرآنِ کریم خوب صورت ریشمی غلافوں میں بڑی محبت سے بند کر کے کمروں کی بلند جگہوں پر رکھے جاتے تھے۔ پڑھنے اور سمجھنے کی ترجیح عموماً راہ نہیں پاتی تھی۔ اور اب الماریوں یا شیلفوں میں سجاد ی جاتی ہیں، خوب صورت کتابیں، گھر کی سجاوٹ کے لیے!
’یہود کی قومی ریاست کاقانون‘ پارلیمان میں پیش ہوا، تو ایوان کے ۱۳۰ ؍ارکان میں سے ۶۲نے اس کے حق میں ووٹ دیا ،جب کہ ۵۵ نے اس کی مخالفت کی اور دوارکان نے راے شماری میں حصہ نہیں لیا۔ پارلیمان میں ’عرب مشترکہ فہرست‘ سے تعلق رکھنے والے ارکان نے اس قانون کے خلاف سخت نعرے بازی کی تو انھیں زبردستی ایوان سے نکال باہر کیا گیا۔
> واضح رہے کہ اسرائیل میں آباد عربوں کی آبادی ۱۸ لاکھ سے متجاوز ہے۔وہ صہیونی ریاست کی کل ۹۰ لاکھ آبادی کا ۲۰ فی صد ہیں ۔ یہ فلسطینی شہری ۱۹۴۸ء میں صہیونی مسلح جتھوں کے عرب علاقوں پر قبضے کے وقت اور مابعد بچ جانے والوں کی اولاد ہیں۔وہ اسرائیل کے قیام کے وقت صہیونی ملیشیاؤں کے ہاتھوں نسلی تطہیر کے دوران میں بچ جانے میں کامیاب رہے تھے اور اسرائیل کے زیر قبضہ عرب شہروں اور قصبوں میں صدیوں سے آباد چلے آرہے ہیں۔دریاے اُردن کے مقبوضہ مغربی کنارے اور محاصرہ زدہ غزہ کی پٹی میں آباد لاکھوں فلسطینیوں کے برعکس انھیں بعض شہری حقوق حاصل ہیں، مثلاً ووٹ اور پارلیمان میں نمایندے بھیجنے کا حق۔ لیکن انھیں صہیونی ریاست میں سالہا سال سے بنیادی انسانی اور شہری حقوق سے محروم رکھنے کے لیے اسرائیل نے دسیوں قانون منظور کررکھے ہیں۔اس طرح گذشتہ سات عشروں سے ہی نسل پرستانہ سلوک روا رکھا جارہا ہے۔
اسرائیلی صدر ریووین رولین نے حکومت کے نام ایک کھلے خط میں اس نسل پرستانہ قانو ن میں پنہاں خطرات کے بارے میں خبردار کیا تھا۔اسرائیلی اٹارنی جنرل نے بھی اس کی نسل پرستی پر مبنی بعض شقوں کی مخالفت کی تھی ۔جس کے بعد بہت ہی مبہم زبان میں تیار کردہ بل منظور کیا گیا ہے۔ اسرائیلی پارلیمان کے عرب رکن احمد طبی کا کہنا تھا کہ ’’ میں نہایت صدمے کے ساتھ (اسرائیل میں) جمہوریت کی موت کا اعلان کرتا ہوں‘‘۔
عربوں نے اس امتیازی قانون کو بالکل مسترد کردیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ یہودی اکثریت اس طرح کی قانون سازی کے ذریعے عرب آبادی اور اسرائیل میں آباد تمام مذاہب کے پیرو کار عربوں کو مکمل طور پر ختم کرنا چاہتی ہے۔قانونی ماہرین نے بھی اس قانون کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے کہ اس قانون سے نسل پرستی کے بارے میں بین الاقوامی ممانعتوں کی بھی خلاف ورزی ہوئی ہے۔اس سے صہیونی ریاست میں آباد فلسطینیوں کے خلاف امتیازی اور نسل پرستانہ سلوک کو مزید تقویت ملے گی، جس میں بہت سے امتیازی نسل پرستانہ خصائص سمو دیے گئے ہیں۔ اس قانون میں ایک جانب یہود کی مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں آباد کاری کی سرگرمیوں کی توثیق کی گئی ہے اور دوسری جانب اس کی کوئی جغرافیائی حد بندی بھی نہیں کی گئی ہے۔اسرائیل کی مشرقی القدس سمیت مقبوضہ مغربی کنارے اور شام کے علاقے گولان کی چوٹیوں کو نوآبادیانے [زبردستی کالونی بنانے]کی پالیسی کو قانونی قرار دیا گیا ہے،جب کہ بین الاقوامی قانون کے تحت اس کی یہ تمام سرگرمی غیر قانونی ہے۔
واضح رہے کہ اقوام متحدہ کی ایک ایجنسی نے گذشتہ سال اپنی ایک قانونی مطالعاتی رپورٹ شائع کی تھی۔ اسرائیل میں تمام فلسطینی عوام کے ساتھ نسل پرستانہ سلو ک کیا جارہا ہے۔ اس سے پہلے ۲۰۱۲ء میں اقوام متحدہ کے ایک خصوصی نمایندے نے رپورٹ میں لکھا تھا کہ اسرائیلی حکام ’اراضی کی ترقی کے ایک ایسے ماڈل‘ پر عمل پیرا ہیں جس میں اقلیتوں کو نکال باہر کیا گیا ہے اور یہ ان کے ساتھ امتیازی سلوک پر مبنی ہے۔ اسی طرح اقوام متحدہ کی ’کمیٹی براے استیصال نسلی امتیاز‘نے لکھا تھا کہ ’’اسرائیلی سرزمین میں کئی ایک امتیازی قوانین کا نفاذ کیا گیا ہے جن سے غیر یہود کمیونٹیاں غیر متناسب انداز میں متاثر ہورہی ہیں‘‘۔مگر افسوس کہ اس بات کا کم ہی امکان ہے کہ اقوام متحدہ اسرائیل کے خلاف اس کےنسل پرستی پر مبنی اقدامات کے خلاف کوئی کارروائی کرے گی۔
* ڈپٹی ایڈیٹر، الیکترانک انتفاضہ ، انگریزی /ترجمہ: امتیاز احمد وریا
حالیہ دنوں میں جموں و کشمیر کے سیاسی افق پر بڑی دُوررس تبدیلیاں رُونما ہورہی ہیں، جن سے خطّے میں حالات مزید ابتر اور سنگین ہونے کا خدشہ ہے۔ ۱۹جون ۲۰۱۸ءکو ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے یکایک جموں و کشمیر کی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کی قیادت میں متحرک پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) سے حمایت واپس لے کر مخلوط حکومت کا خاتمہ کردیا۔ اسی کے ساتھ ریاستی گورنر این این ووہرا نے حکومت کی زمامِ کار سنبھال لی۔ یہ چوتھی مرتبہ ہے جب گورنر این این ووہرا نے حکومت سنبھالی ہے، جب کہ آج تک آٹھ مرتبہ کشمیر میں گورنر راج نافذکیاگیا ہے۔
ستم ظریفی دیکھیے کہ بی جے پی نے معروف صحافی شجاعت بخاری کے قتل کا بہانہ بناکر الزام لگایا کہ محبوبہ مفتی کی حکومت امن و قانون کے نفاذ میں ناکام ہوگئی ہے۔ اسی دوران بھارتی میڈیا میں یہ خبریں گشت کرنے لگیں کہ اگلی حکومت سازی کے لیے بی جے پی ایک اور حلیف پارٹی پیپلز کانفرنس کے سربراہ سجاد غنی لون کے سر پر تاج رکھنے کے لیے کوشاں ہے۔پھر بی جے پی کے ذرائع کے حوالے سے یہ خبریںآنے لگیں کہ اتحادیوں، آزاد امیدواروں اور دیگر پارٹیوں خصوصاً پی ڈی پی کے ناراض اراکین کی مدد سے وہ خود ہی اقتدار پر براجمان ہوناچاہتی ہے۔ تقریباً دوعشروں سے زائد عرصے تک دہلی کی حکومتوں اور سیاسی اُمور و واقعات کا مطالعہ کرتے ہوئے پہلی ہی نظر میں مجھے یہ گماں ہوا کہ مصدقہ خبر کے بجاے عوامی اور سیاسی پارٹیوں کا ردعمل جاننے کے لیے یہ متضاد خبریں ذمہ دار حلقے ’پلانٹ‘ کر رہے ہیں، تاکہ اگر کوئی شدید رد عمل آئے تو اس کی تردید کردی جائے۔ چند روز بعد پھر ایسی ہی خبر گشت کرنے لگی، تو اس کا ذریعہ معلوم کرنے کے بعد پتا چلا کہ واقعی ایسی خبروں کے تار براہِ راست وزیر اعظم نریندر مودی، بی جے پی کے صدر امیت شاہ اور قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول کے دفتر سے منسلک ہیں۔ منصوبہ یہ سامنے آیا کہ مرکزی وزیر اور ادھم پور کے رکن پارلیمنٹ جیتندر سنگھ رانا کو اگلے ماہ سری نگر میں بطور وزیر اعلیٰ حلف دلایا جائے گا۔ چوں کہ کشمیر میں وفاداریوں کی تبدیلی (defection)کا قانون، بھارت کے مرکزی قانون کے برعکس پیچیدہ اور سخت (stringent)ہے، اس لیے دیگر پارٹیوں اور خصوصاً پی ڈی پی کے ناراض اراکین کی حمایت اس طرح حاصل کروانا کہ وہ نااہل بھی نہ ہوں، جیسے اُلجھائو پر قانونی ماہرین سے مشاورت ہورہی ہے۔پی ڈی پی کے ناراض اراکین اور سجاد غنی لون کا تعلق چوں کہ شمالی کشمیر سے ہے، اس لیے بی جے پی کو حمایت دینے والے اس گروہ کو ’شمالی اتحاد‘ کے نام سے موسوم کیا جا رہا ہے۔
کشمیر کی بدقسمتی رہی ہے کہ تاریخ کا پہیہ آگے بڑھنے کے بجاے اُلٹا چکر لگا کر پھر وہیں پہنچتا ہے، جہاں سے گردش شروع ہوئی تھی۔ ۲۰۱۰ء کے عوامی غیظ و غضب کو دیکھ کر مبصرین کا خیال تھا کہ کشمیر کو واپس ۱۹۹۰ء کی پوزیشن میں دھکیلا گیا ہے۔ ۲۰۱۶ء میں برہان مظفر وانی کی شہادت کے بعد عوامی مزاحمت کی شدت دیکھ کر اندازہ تھا کہ گھڑی کی سوئیاں ۱۹۴۷ء پر پہنچ گئی ہیں۔ اگر اب بی جے پی واقعی ایک ہندو ڈوگرے کے سر پر وزارت اعلیٰ کا تاج سجاتی ہے تو اس کا مطلب ہوگا ’ڈوگرہ راج کی واپسی‘ ۔ یوں انتظامی سطح پر تاریخ کا پہیہ گھوم کر ۱۹۳۱ء تک واپس پہنچ جائے گا، جب کشمیریوں نے ڈوگرہ مہاراجا ہری سنگھ کی وحشیانہ حکومت کے خلاف علَمِ بغاوت بلند کیا تھا۔
فی الحال گورنر ووہرا، فوج اور خفیہ ایجنسیاں اس نقشے میں رنگ بھرنے سے کترا رہی ہیں۔ خیال ہے کہ ایک ہندو وزیراعلیٰ کشمیری عوام کی نفسیات کو بُری طرح پامال اور مجروح کرے گا اور بھارتی حکومت کی کئی عشروں پر پھیلی کاوشوں پر پانی پھرجائے گا ۔اصل بات یہ ہے کہ جو ں جوں اگلے عام انتخابات قریب آرہے ہیں ، بی جے پی کے لیے اپنے ان انتہا پسند کارکنوں کو مطمئن کرنا مشکل ہو رہا ہے، جو مسمار شدہ بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر اور کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کو ختم کروانا چاہتے ہیں۔ اپنے انتہاپسند طبقوں کو بہلانے کے لیے کشمیری مسلمانوں کے سینے پر مونگ دلنے کے لیے ایک ہندو ڈوگرہ وزیر اعلیٰ کو مقر ر کرنا ہی ایک آسان سا حل دکھائی دیا ہے کہ جس کے ذریعے پورے بھارت میں ہندو ووٹروں کو ایک بار پھر پارٹی کے حق میں لام بند کیا جاسکتا ہے۔
سری نگر میں بی بی سی کے نامہ نگار ریاض مسرور کے مطابق بھارتی حکمرانوں کے دماغ میں یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ بھارت نواز کشمیری سیاسی پارٹیاں بھی نئی دہلی کی حقیقی وفادار نہیں ہیں، بلکہ ان کی ہمدردیاںبھی آزادی پسندو ں کے ساتھ ہیں اور کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ بننے میں یہ بھی ایک رکاوٹ ہیں۔ بھارت کا موجودہ حکومتی ڈھانچا فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ ، محبوبہ مفتی اور اس قبیل کے دیگر لیڈروں کو بھی اسی لاٹھی سے ہانکتا ہے، جس طرح و ہ حریت لیڈروں کو نشانہ بناتے آرہے ہیں۔ مسرور نے اترپردیش سے آر ایس ایس کے ایک لیڈر کا بیان نقل کیا ہےکہ: ’’بھارتی آئین کی دفعہ ۳۷۰جس میں کشمیر کے خصوصی درجے کا ذکر ہے، اسے ہٹانے کی خواہش رکھنے والوں کو جان لینا چاہیے کہ نریندر مودی اور اجیت دوول اس سے بھی آگے کی سوچ رہے ہیں‘‘۔ حکومتی ذرائع کا حوالہ دے کر اس ہندو قوم پرست لیڈر نے دعویٰ کیا ہے کہ بھارتی حکومت جموں، کشمیر اور لداخ کو تقسیم کرکے مرکز کے زیرانتظام خطے بنانے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے۔ تینوں خطوں میں کوئی منتخب حکومت نہیں ہوگی بلکہ تینوں انڈمان نکوبار، لکشدیپ اور پانڈی چری وغیرہ کی طرح براہِ راست نئی دہلی کی حکمرانی میں ہوں گے، اور تینوں خطوں میں ایک لیفٹیننٹ گورنر ہوگا، جو براہِ راست دہلی کے سامنے ہی جواب دہ ہوگا۔ آج ریاست کی’ اسمبلی اور مرکزی دھارے‘ کی نام نہاد سیاست اس قدر بے وقعت ہوکر رہ گئی ہے کہ نئی دہلی کا حکمراں طبقہ اسے بوجھ سمجھتا ہے۔
دسمبر ۲۰۱۴ء کے انتخابات کے بعد جب کشمیر میں معلق اسمبلی وجود میں آئی اور پی ڈی پی کے لیے کانگریس یا بی جے پی میں سے کسی ایک کی بیساکھی کے سہارے اقتدار میں آنا ا لازمی ہوگیا تو فروری ۲۰۱۵ء میں پی ڈی پی کے سرپرست مفتی محمد سعید سے جموں میں ان کی رہایش گاہ پر ایک انٹرویو کے دوران میں نے پوچھا تھا: ’کہیں بی جے پی کو اقتدار میں شریک کروا کے وہ کشمیریوں کے مصائب کی تاریک رات کو مزید گہرا اور خوف ناک بنانے کے مرتکب تو نہیں ہوںگے؟‘ انھوں نے کہا: ’’کشمیر کی خصوصی پوزیشن اور شناخت کے حوالے سے بھارت کی دونوں قومی جماعتوں کا موقف تقریباً ایک جیسا ہے۔ نیشنل کانفرنس ہو یا پی ڈی پی [یعنی دہلی نواز پارٹیوں]کا فرض ہے کہ وہ مسئلۂ کشمیرکے حل کی کوئی سبیل پیدا ہونے تک بھارتی آئین میں حاصل خصوصی حیثیت کو بچاکر رکھیں‘‘۔
تاہم، مفتی محمد سعید کی صاحبزادی محبوبہ مفتی نے بی جے پی کے ساتھ مل کر اس دفعہ کو تار تار کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ بیک ڈور سے غیر ریاستی ہندو مہاجرین کو رہایشی پرمٹ دینا، علیحدہ پنڈت کالونیاں بسانا ، آخری ڈوگرہ مہاراجا ہری سنگھ کے یوم ولادت پر تعطیل کے لیے اسمبلی سے قرارداد پاس کروانے کی کوششیں وغیرہ، کشمیریوں کو ان کی سیاسی بے وزنی کا احساس دلانے کی آخری حد تھی۔ مگر پھر بھی ڈو مور کے مطالبوں کو تسلیم کرتے کرتے بھی وہ اپنی کرسی بچا نہیں پائیں۔ اسی طرح مذکورہ مہاراجا کے مظالم کے خلاف شہدا کے مزاروں پر ہر سال ۱۳جولائی کو میلہ لگانا اور ان کے قاتل ہری سنگھ کے جنم دن کو متبرک قرار دینا ایک سنگین مذاق تھا۔کیا بھارت کبھی جلیانوالہ باغ کے قاتل جنرل ڈائر کے جنم دن کی یاد منانے کے لیے چھٹی کا اعلان کرسکتا ہے؟ کشمیر صدیوں سے سازشوںاور بیرونی طاقتوں کی کش مکش کی آماج گاہ بنا رہا ہے۔
اس خطے کی بدقسمتی یہ رہی کہ آمد اسلام کے ۲۵۰سال بعد ہی سے یہ خطہ آزادی سے محروم ہوکر مغلوں، افغانوں، سکھوں اور ڈوگروں کے تابع رہا، جنھوں نے مقامی مسلم شناخت کو زیر کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔پچھلے ۵۰۰برسوں کے دوران شاید ہی کبھی یہاں عوام نے حکمرانوں کو اپنا حقیقی نمایندہ تسلیم کیا ہو، کیونکہ چند ایک کو چھوڑ کر اکثر یا تو بیرونی طاقتوں کے گورنر تھے یا ان کی طرف سے مسلط کردہ کٹھ پتلی حکمران۔ اپنی تخت نشینی کے فوراً بعد مغل بادشاہ اکبر نے کشمیر پر اپنی نظریں جمائی ہوئی تھیں، اور اس خطے کو حاصل کرنے کے لیے اس نے کئی بار فوج کشی کی۔ تقریباً ایک عشرے کی بے نتیجہ جنگ و جدل کے بعد مغل حکومت کے جنرل راجا بھگوان سنگھ نے ۱۵۸۰ء میں گلگت کے درد قبیلے سے تعلق رکھنے والے کشمیر کے سلطان یوسف شاہ چک کے ساتھ ایک معاہدے کے لیے سلسلۂ جنبانی شروع کیا۔ پانچ سال کی محنت کے بعد دونوں فریق اس معاہدے پر رضامند ہوگئے، جس کی رُو سے کشمیر میں لین دین مغل کرنسی میں کیے جانے پر اتفاق ہوا اور جمعے کے خطبے میں مغل فرماںروا کا نام پڑھا جانے لگا۔ باقی تمام امور میں مقامی حکمرانوں کو خود مختاری عطا کی گئی۔ ایک سال بعد اس معاہدے پر دستخط کرنے کے لیے یوسف شاہ چک کو مغل دارالحکومت آگرہ سے متصل فتح پور سیکری آنے کی دعوت دی گئی، مگر لاہور ہی میں اس کو گرفتار کرکے پابہ زنجیر اکبر کے دربار میں پیش کیا گیا۔ یوسف شاہ نے جو اپنی شاعرہ ملکہ حبہ خاتون کے حوالے سے بھی مشہور ہے، باقی زندگی بہار کے شہر پٹنہ سے متصل ایک قصبے میں جلاوطنی اور عملاً قید میں گزاری، جہا ں آج بھی اس کی شکستہ قبر کشمیر پر قبضے اور طاقت کے بل بوتے پر سمجھوتوں سے انحراف کی داستان بیان کرتی ہے۔
یہ بات اب سری نگر میں زبان زد عام تھی کہ یہ وہ پی ڈی پی نہیں تھی جس نے ۲۰۰۳ء اور ۲۰۰۵ء کے درمیان دہلی کی روایتی کٹھ پتلی حکومت کے بجاے ایک پُراعتماد اور کشمیری عوام کے مفادات اور ترجیحات کے ترجمان کے طور پر نئی تاریخ رقم کی تھی۔ اس لیے محبوبہ مفتی کی برطرفی پر کشمیر میں شایدہی کسی آنکھ سے آنسو کا ایک قطرہ ٹپکا ہو۔ بھارتی فوج کے ذریعے شروع کیے گئے ’آپریشن آل آؤٹ‘ کی وجہ سے عوام خود کو اپنے ہی گھروں میں قید پاتے ہیں۔جس کی تازہ مثال یہ ہے کہ پلوامہ میں جب فوج، نیم فوجی اہلکاروں اور پولیس کے دستوں نے کریک ڈاؤن کیا تو مقامی نوجوانوں نے زیادتیوں یا گرفتاریوں کے خوف سے پوری رات درختوں پر گزاری۔ والدین یا تو اپنے پیاروں کی ہلاکتوں پر ماتم کناں ہیں یا پھر روپوش ہوئے نونہالوں کی لاشوں کے منتظر!
یوں دکھائی دیتا ہے کہ جنوبی کشمیر کے چاراضلاع کو ایک ’چھوٹا جنگی علاقہ‘ (mini war zone)بنا دیا گیا ہے جہاں وحشیانہ ملٹری آپریشن اور جبر کی داستانوں پر مشتمل کارکردگی ہی سے بھارت کی قومی سیاست کو خوراک مل رہی ہے۔ ’ڈوگرہ راج کی واپسی‘ کے نتیجے میں کشمیر میں شناخت اور انفرادیت برقرار رکھنا بھی ایک بڑا چیلنج ثابت ہورہا ہے۔ اب یہ فیصلہ مخلص سیاسی لیڈروں کو کرنا ہے کہ وہ کس طرح اس بد نصیب قوم کو غیریقینی حالات اور مایوسی کے اندھیروں سے نجات دلا سکتے ہیں۔
ایسے حالات میں مسئلہ کشمیر کے حل سے زیادہ کشمیر کی شناخت اور تشخص کے بچائو کے لیے قابل عمل اور فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے ایسا نظر آرہا ہے کہ کشمیر کے دونوں اطراف سیاسی جماعتیں نہ صرف اپنی اصل قومی و عوامی ذمہ داریوں سے پہلوتہی برت رہی ہیں، بلکہ ایک نوعیت کی مرعوبیت کی شکار ہوتی جارہی ہیں۔ قوم کے وسیع تر مفاد میں سوچنے کے بجاے اقتدار کی ہوس نے نیشنل کانفرنس کو نہ صرف بزدل بنا دیا ہے، بلکہ اس کی بھاری قیمت سادہ لوح کشمیریوں کو چکانی پڑ رہی ہے۔ کچھ یہی حال اب پی ڈی پی کا بھی ہے۔ بدقسمتی سے دونوں کا محور اقتدار کی نیلم پری ہے۔ اٹانومی اور سیلف رول کے ایجنڈوں کے خواب دیکھنا تو کجا، فی الحال جس تیز رفتار ی سے مودی حکومت کشمیریوں کے تشخص اور انفرادیت کو پامال کرنے کے لیے جنگ آزمائی کے راستے پر چل نکلی ہے، اس کا توڑ کرنے اور غوروفکر کے لیے کنٹرول لائن کے دونوں اطراف باضمیر افراد، نیز حُریت پسند جماعتوں کو باہمی تعاون کرنے کی کوئی سبیل نکالنی چاہیے۔
ریاست جموں و کشمیر کی جدید تاریخ میں تحریک اسلامی مختلف مشکل مراحل سے گزری ہے۔ تقسیم ہند سے پہلے ہی جموں وکشمیر کی کئی نابغۂ روزگار ہستیاں سید مودودی ؒ کی دعوت سے متاثر تھیں۔ ریاست میں مختلف مقامات پر ان متوسلین نے جماعت اسلامی کے چھوٹے چھوٹے حلقے بھی تشکیل دیے تھے اور ابتدائی طور پر بہت کم لوگ ان میں شریک ہوتے تھے۔ تقسیم ہند کے بعد جماعت اسلامی جموں و کشمیر نے مسئلہ کشمیر کی متنازعہ حیثیت کے پیش نظر ۱۹۵۳ء میں تنظیمی طور پر اپنے آپ کو جماعت اسلامی ہندسے الگ کرلیا اور ماہ نومبر۱۹۵۳ء میں اپنا الگ دستور تشکیل دیا۔ اس دستور میں نصب العین کے حوالے سے کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ،بلکہ طریق کار میں پاک و ہند کے تنظیمی ڈھانچوں سے اختلاف کی بنیاد پر الگ نظم تشکیل دیا۔ اس طرح جماعت اسلامی جموں و کشمیر نے دعوت دین کے ساتھ ساتھ، سیاسی طور پر مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے بھی خود کو سرگرم عمل کیا۔ ریاست کی سیاسی تاریخ میں جماعت اسلامی کو ہی یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے ریاست کے استحصالی سیاست دانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ان کو للکارا ہے اوراستحصالی ناخداؤں کو عوام الناس کے سامنے بے نقاب کردیا۔
جماعت اسلامی جموں و کشمیرنے پچاس کے عشرے سے لے کر نوّے کے عشرے تک مختلف مشکل مراحل کا سامنا کیا۔ ۱۹۷۵ء میں بھارتی وزیراعظم اندراگاندھی کی مسلط کردہ ایمرجنسی، جماعت اسلامی پر پابندی کا عائد کیا جانا،۱۹۷۹ء میں ذوالفقار بھٹو صاحب کی پھانسی کے وقت جماعت اسلامی جموں و کشمیر کے خلاف بے جا طور پر، پوری ریاست میں لوٹ مار اور جلاؤ گھیراؤ کی مہم حکومتی سرپرستی کے تحت چلائی گئی۔ جماعت اسلامی کے تحت کام کرنے والے اسلامی ماڈل اسکولوں کا جوجال پوری ریاست میں بچھا ہوا تھا، اس پر بھی کٹھ پتلی وزیراعلیٰ شیخ محمد عبداللہ نے پابندی عائد کردی اور جماعت اسلامی کے تعلیمی اداروں کو بند (Ban)کروا دیا۔
ان میں سخت ترین مرحلہ ۹۰ کا عشرہ تھا۔اس پورے عشرے کے دوران جماعت اسلامی جموں و کشمیر سے وابستہ سیکڑوں ارکان اور ہزاروں ہمدرد و رفقاے جماعت کو بے دردی کے ساتھ شہید کیا گیا۔اسی طرح اسیری کے دوران جماعت کے زعما اور عام کارکنان کو بدترین جسمانی تشدد اور ہولناک اذیتوں سے گزارا گیا،انٹروگیشن سینٹروں میں تکالیف دی گئیں۔ یہ سارا جبراور اذیتیں دراصل جماعت اسلامی کے وجود کو مٹانے کی سازش کا حصہ ہونے کے ساتھ ساتھ، جماعت کے سیاسی وجود کو ختم کرنے کے لیے روا رکھی گئیں۔چوں کہ ۱۹۸۷ء میں ریاست جموں و کشمیر کے ساتھ وابستہ دینی حلقوں نے ’مسلم متحدہ محاذ‘ (MUF)کے جھنڈے تلے یک جان ہوکر ریاستی اسمبلی میں جاکر مسئلہ کشمیر کے حوالے سے کوئی انتہائی اقدام کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس اتحاد کی سب سے مؤثر اور بڑی اکائی جماعت اسلامی جموں و کشمیر ہی تھی۔بھارتی قیادت ریاستی مسلمانوں کے اس اقدام سے بوکھلاہٹ کا شکار ہوئی اور ۱۹۸۷ء کے اسمبلی انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلیاں کی گئیں۔ ان دھاندلیوں کے نتیجے میں ہی ریاست کے نوجوانوں نے تحریک حریت کو مزید مؤثر اور باوزن بنانے کے لیے ۴۰برس سے اختیار کیے گئے جعلی اور نام نہاد ’جمہوری جال‘ کو مسترد کیا اور عسکریت پسندی کا راستہ منتخب کیا۔ اس طرح ہزاروں کی تعداد میں ریاستی نوجوانوں نے بھارتی مظالم اورجبری قبضے کے خلاف علَمِ بغاوت بلند کیا۔
ریاست جموں و کشمیر کے پُرعزم نوجوانوں نے، جس پامردی اور جرأت سے بھارتی فوجی طاقت کو للکارا اوران کے چھکے چھڑائے، یہ تاریخ کا منفرد باب ہے۔ ایک طرف ٹڈی دَل، وحشی اور لاکھوں افراد پر مشتمل منظم بھارتی فوج اور دوسری طرف چند سو یا چند ہزار، سرفروش کہ جن کے پاس ڈھنگ کا خودکار اسلحہ بھی نہ تھا، معرکہ زن ہوئے۔ غیر متوازن طاقتوں کا ایسا مقابلہ دنیا میں بہت کم دیکھا گیا ہے۔بھارت نے عسکری جدوجہد کو کمزور کرنے کے لیے جو حربے استعمال کیے، ان میں ریاست کی مسلم آبادی میں خانہ جنگی پیدا کرنے کی سازش بھی رچائی گئی۔ سب سے پہلے مختلف عسکری تنظیموں میں پھوٹ ڈالی گئی اور ان کو باہمی جنگ میں اُلجھایا گیا۔اس کے بعد ریاست میں بھارت کے خلاف اور بھارتی فوجی قبضے کے خلاف مضبوط ترین آوازاور جو نظریہ، جماعت اسلامی کی صورت میں موجود تھا،اس کے ساتھ نمٹنے کی سازشیں کی گئیں۔ اس کام کے لیے ریاستی بھارت نواز حکومت نے بندوق برداروں کو استعمال کرنے کا راستہ منتخب کیا۔ بدنام زمانہ ایم ایم اور اخوان نامی سرکاری دہشت گرد تنظیموں کے ذریعے جماعت اسلامی کے خلاف لوٹ مار اور قتل عام کی ایک مہم چلائی گئی۔ اس مہم کے تحت جماعت اسلامی جموں و کشمیر کے ساتھ وابستہ سیکڑوں ارکان و رفقا کو شہید اور زخمی کیا گیا۔ حکومتی فورسز اور سرکار نواز دہشت گردوں نے کھلم کھلا، جماعت اسلامی سے وابستہ لوگوں سے پیسے بٹورے، ان کے گھروں کو بارودی دھماکوں سے اڑایا گیا، برسوں تک جیلوں میں نظربند رکھا گیا، اور اس کے بعد سب سے بڑا ظلم یہ کہ جماعت کے سیکڑوں ارکان اور ہزاروں رفقا اور وابستگان جو شہید کیے گئے تو وہ سب شہادتیں ماوراے عدالت کی گئیں، جن کی ابھی تک بھی کوئی آزادانہ تحقیق نہیں ہوئی ہے۔ جماعت اسلامی کے ارکان و وابستگان میں بیش تر لوگ عمر رسیدہ تھے۔ ۶۰ اور ۷۰ سال تک کے بزرگوں کو بھی نہیں بخشا گیا اور ان کی پیرانہ سالی کے باوجود ان کو شہید کردیا گیا۔
جماعت اسلامی کے یہ سارے وابستگان بلاشبہہ ایسے صالح افراد کار تھے، جو کئی برسوں پر پھیلے جماعت کے نظام تربیت کے نتیجے میں تیار ہوئے تھے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو شہرت کے بامِ عروج اور دولت کی فراوانی کے باوجود اپنی جانوں ، اپنے مال و دولت کے بدلے رب کی جنتوں کے خریدار بن چکے ہیں۔عیش و عشرت کو تج دینے والے،آسایشوں کو چھوڑ دینے والے، عزیمت کے راستے کا انتخاب کرنے والے، دنیا سے بے رغبت اور آخرت کی زندگی کو ترجیح دینے والے، حیات جاودانی کے رمز آشنا، جنتوں کے مسافر، شہادتوں کے طالب، اللہ کی راہ میں چلنے کا عزم کرنے والوں کے لیے مشعل راہ، جہالتوں اور تاریکیوں میں اُجالا کرنے والے، سفر حیات کی تاریکیوں میں جگمگ جگمگ تاروں کی مانند روشنیاں بکھیرنے والے روشن ستارے، جو آنے والے قافلوں کے رہنما بن کر نقوش راہ بننے والے لوگ ہیں۔
ان عظیم المرتبت انسانوں کے تذکرے حکایات خونچکاں ہونے کے باوجود لذت ایمان میں اضافے کا باعث بن جاتے ہیں۔ یہ قافلۂ حق کے لیے رہنمائی کی قندیل فراہم کرنے والے لوگ ہیں، جن کے کردار اپنے پیچھے چلنے والوں کے لیے مینارئہ نور ہیں۔یہ لوگ اسلامی تحریکات کا سرمایہ ہیں، بے بدل سرمایہ۔ اس سرمایے کے بل پر ہی تو تحریکات کی اعتباریت (credibility) میں اضافہ ہوتا ہے اور حق کے ثبوت میں زندہ چلنے پھرنے والے دلائل فراہم ہوتے ہیں۔ یہ تعداد میں کم ہیں، لیکن بڑی بڑی اجتماعیتوں کی آبرو ہیں۔ اخلاص کے یہ پیکر ہمہ تن اسلام کے لیے وقف ہیں۔ ریاست جموں وکشمیر میں انقلاب اسلامی کی شجرکاری میں ان بے لوث انسانوں کی بیش بہا قربانیاں شامل ہیں۔ یہ ریاست کی اسلامی تحریک کا وہ حصہ ہیں، جنھوں نے اپنے گرم گرم لہو سے شجرِ اسلام کی آبیاری کی ہے۔ ان لوگوں کا تذکرہ ہماری جدوجہد کی کتاب کا وہ خوشبو دار باب ہے کہ جس کے ہرہر ورق پہ حق گوئی، بے باکی ،عزیمت ،اورقربانی کے زندہ الفاظ روشن اور نقش ہیں۔ یہ وہ جلی حروف ہیں کہ جن کے تذکرے میں ہماری زندگی پوشیدہ ہے۔
انھی میں سے ایک شہید عبدالرزاق میر ؒ بچرو ہیں۔ میر صاحب اپنے علاقے کے ہی نہیں، بلکہ جنوبی کشمیر کے متمول ترین انسانوں میں شامل تھے۔ دولت،شہرت،اور عزت کسی بھی چیز کی ان کو کمی نہیں تھی۔ ان کے پاس زندگی گزارنے کے لیے ہر سہولت موجود تھی۔شہید میرصاحب کے ہمسایے اور تحریکی ساتھی محمد احسن لون صاحب کے مطابق: ’’ شہید میر صاحب تحریک اسلامی کے ساتھ وابستہ ہونے سے پہلے پُرتعیش زندگی بسر کرتے تھے۔ ان کے پاس ذاتی استعمال کے لیے گاڑی تھی، جس میں ان کا عزیز از جان پالتو کتا ہم سفر ہوتا تھا، جس کو وہ ٹائیگر کے نام سے پکارتے تھے۔ امارت تھی، سہولیات تھیں، مختلف جگہوں پر وسیع و عریض کاروبار پھیلا ہوا تھا اور ایک لائسنس یافتہ گن بھی ہوتی تھی۔کاروبار ی سرگرمیوں کے لیے کئی ٹرک بھی ان کے پاس تھے۔جماعت اسلامی کے ساتھ وابستہ ہونے سے پہلے وہ نماز روزوں کے بھی کچھ قائل نہیں تھے‘‘۔
جماعت اسلامی کے ساتھ وابستہ ہونے کے بعد ان کی زندگی میں ایک مکمل انقلاب آیا اور ان کی کایا ہی پلٹ گئی۔اسمبلی انتخابات میں حصہ لینے تک بھی ان کے چہرے پر داڑھی نہیں تھی۔ کچھ لوگ تو ان کو ٹکٹ دینے کے حق میں ہی نہیںتھے، لیکن اُس وقت امیرجماعت اسلامی جموں و کشمیر محترم سعدالدین ؒ صاحب نے کہا کہ: ’’مجھے یقین ہے کہ میر صاحب کی زندگی میں ضرور تبدیلی آئے گی‘‘۔ اس طرح ان کو جماعت نے اپنا اعتماد دیا اور پھر عبدالرزاق میرؒ کی زندگی یکسر تبدیل ہوگئی اوران کی زندگی میں ایک ہمہ جہت انقلاب برپا ہوا۔
محترم شیخ محمد حسن سابق امیر جماعت اسلامی جموں و کشمیر ان کی زندگی میں برپا ہونے والے انقلاب اور ان کی متاثر کن شخصیت کے بارے میں فرماتے ہیں:’’ شہید عبدالرزاق میر اعلیٰ صفات کی حامل شخصیت تھی ۔ وہ ایک خاص ماحول سے تبدیل ہوکر جماعت اسلامی میں شامل ہوئے تھے۔ جماعت اسلامی کی دعوت کو قبول کرنے کے بعد وہ انتہائی پرہیزگار، خدا ترس، اور خدا پرست شخصیت بن گئے تھے۔ نظریاتی طور پر وہ ہم آہنگ، یکسو اور جماعت کے پختہ کارکن تھے۔ ان کا تقویٰ، ان کی خدا خوفی، سخاوت، ان کا غریبوں کی امداد کرنا، ان کی دریا دلی اور وسیع النظری ایک مسلّمہ حقیقت بن گئی۔ وہ بڑے ہنس مُکھ اور شگفتہ مزاج انسان تھے۔ بڑے بڑے مسائل ہنستے ہنستے حل کرتے تھے اور رنجیدہ مجلس کو بھی اپنی شگفتہ مزاجی سے شادکام کردیتے تھے۔ وہ حاضر جوابی میں یکتا تھے اور سامنے بیٹھے ہوئے انسان کو اپنی حاضرجوابی سے لاجواب کردیتے تھے‘‘۔
۱۹۷۲ء میں پہلی بار جماعت اسلامی کے ٹکٹ پر کولگام انتخابی حلقے سے اسمبلی انتخابات میں حصہ لیا اور کامیاب قرار پائے۔ اس کے بعد ۱۹۷۷ء میں حلقہ انتخاب ہوم شالی بگ سے عبدالسلام دیوا کے خلاف انتخاب لڑا، لیکن اس مرتبہ کامیاب نہیں ہوسکے۔۱۹۸۷ء میں جب جماعت اسلامی نے ’مسلم متحدہ محاذ‘ کے تحت اسمبلی انتخابات میں حصہ لیا تو عبدالرزاق میر صاحب کولگام سے کامیاب قرار پائے۔ اعلیٰ اخلاق کا مالک ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ایک ، بہترین قانون دان تھے،اور اسمبلی میں بھی اپنی زندہ دلی سے خوب کام لیتے تھے‘‘۔
جماعت اسلامی کولگام کے موجودہ امیر محمد یوسف راتھر صاحب ان کے متعلق فرماتے ہیں: ’’بحیثیت ایم ایل اے (MLA) ان کو جو بھی تنخواہ ملتی تھی، وہ اُس پوری تنخواہ کو غریبوں میں بانٹ دیتے تھے۔ اسمبلی میں رہتے ہوئے انھوں نے سرکاری نوکریوں کے حصول میں غریبوں اور باصلاحیت افراد کی بھرپور امداد کی اور اقربا پروری سے کوسوں دور رہے۔وہ حد درجہ شگفتہ مزاج اور انتہائی بہادر انسان تھے۔ ایک اہم کارنامہ جو اپنے علاقے کی ترقی کے لیے انھوں نے انجام دیا وہ ہے ماؤ نہر کے منصوبے کی تکمیل، جس سے کولگام کی زرعی زمین کی آبپاشی ہوتی ہے‘‘۔
محمد احسن لون صاحب نے بتایا کہ:’’ بچرو کولگام کی بستی میں تحریک اسلامی کی داغ بیل انھوں نے ہی ڈالی اور جماعت سے وابستگی اختیار کرتے ہی مقامی مسجد میں تفہیم القرآن سے درس دینا شروع کیا اور انتہائی مشکل وقت میں جماعت اسلامی کی دعوت پیش کرنے کی شروعات اپنے گاؤں سے ہی کی۔ان کی شخصیت میں تبدیلی سے پورے گاؤں کے ماحول پر اثرات پڑے اور باجماعت نماز کا اہتمام سارے گاؤں میں ہونے لگا۔ تحریک کے لیے انھوں نے بے شمار قربانیاں دیں۔ جماعت کی مالی امداد کے علاوہ ان کی گاڑی بھی ہمیشہ جماعت کے کاموں کے لیے وقف رہا کرتی تھی۔ اپریل ۱۹۷۹ء کے منصوبہ بند حادثے میں ان کا کافی زیادہ نقصان کیا گیا۔ لگ بھگ ۲۲چھوٹی بڑی تعمیرات کو جلایا گیا، مکان ، دوکانات، گاؤخانے اور ان میں موجود مویشی زندہ جلائے گئے، اور میوہ باغات کے سارے درخت کاٹ دیے گئے، ایک ٹرک جلادیا گیا۔ بچرو اور کولگام کے کارخانوں میں موجودہزاروں فٹ کی تعمیراتی لکڑی جلائی گئی۔ بچرو، کولگام، کھنہ بل اور کئی جگہوں پر ان کی تعمیرات کو جلایا گیا۔ کئی دن بعد جب موقع واردات کا جائزہ لینے کے لیے نئی دہلی سے کئی سیاست دانوںپر مشتمل وفد آیا( اس وفد میںایچ ایم پٹیل، مرار جی ڈیسائی بھی شامل تھے) اور اس وقت کے وزیر اعلیٰ شیخ محمد عبداللہ بھی اس وفد کا حصہ تھے۔ان سب کی موجودگی میں لوگوں کے ایک بڑے مجمعے سے ڈیڑھ گھنٹے پر پھیلی بڑی جرأت آمیز تقریر کی اور اسی مجمعے میں جماعت اسلامی کی مرکزی شوریٰ کے اس فیصلے کا اعلان کیا کہ: ’’جماعت اسلامی سے وابستہ افراد کی املاک کو نقصان پہنچانے والوں کے لیے امیر جماعت نے عام معافی کا فیصلہ کیا ہے‘‘۔
محمد احسن لون صاحب کے مطابق: ’’ وہ خانگی اور دیگر گھریلو ذمہ داریوں کے حوالے سے بھی انتہائی حساس شخصیت کے مالک تھے۔ اگرچہ وہ لا ولد تھے، یعنی ان کی کوئی اولاد نہیں تھی،لیکن وہ انتہائی مال دار شخص ہونے کے ساتھ ساتھ شریعت کے مکمل پابند تھے۔ گھر کی پراپرٹی کی شرعی تقسیم کے لیے ایک وصیت نامہ انھوں نے خود لکھا تھا۔ قرآن پاک کا جو نسخہ ان کے زیر مطالعہ رہتا تھا، اسی نسخے پر ہی ایک جگہ وراثت کی شرعی تقسیم کے حوالے سے انھوں نے وصیت نامہ تحریر کیا، جس کی وجہ سے ان کی جایداد کو تقسیم کرنے میں کافی مدد ملی۔مزیدیہ کہ بچرو میں اسلامی درس گاہ کی بنیاد بھی عبدالرزاق میر صاحب نے ہی ڈالی۔ ۱۹۸۲ء میں ریڈونی میں جب یومیہ درس گاہ کو قائم کیا گیا، تو میرصاحب نے وہاں سے واپس آکر اپنی لگ بھگ تین کنال کی اراضی وقف کی اور بچرو میں بھی یومیہ درس گاہ کی بنیاد ڈالی ۔ انھوں نے اس اسکول کی تعمیر میں بھر پور مالی امداد کی جس کی وجہ سے ہی یہ اسکول قائم ہوسکا۔ اس وقت یہ ہائی اسکول لیول تک پہنچ گیا ہے اور ہزاروں طالب علم اس اسکول کے ذریعے زیورِتعلیم سے آراستہ ہوچکے ہیں اور ابھی بھی ہورہے ہیں۔جماعت اسلامی کے زعما کی خدمت میں بھی میر صاحب نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ خصوصی طور پر مولانا سعدالدین ؒصاحب کے ساتھ ان کو خاص لگاؤ تھا ۔
بدنام زمانہ اخوانی دور کی شروعات کے چنددنوںبعدعبدالرزاق صاحب جموں سے واپس گھر آئے۔میر صاحب نے مقامی تحریکی رفقا کے ساتھ مشورے کے بعد رات کو گاؤں میں باقی رفقا کے ساتھ گشت کرنے کا فیصلہ کیا ۔ ان کا خیال تھا کہ دن کی روشنی میںان کو نقصان پہنچانے کی کوئی جرأت نہیں کرے گا اور زیادہ احتمال اس بات کا ہے کہ رات کے اندھیرے میں ہی ان کو نقصان پہنچانے کی کوئی کوشش کی جائے گی۔ اگرچہ ان کی جان کے حوالے سے خطرات موجود تھے اور دھمکیاں بھی مل چکی تھیں اورحالات کی سنگینی کا بھرپور اندازہ بھی تھا، تاہم انھوں نے گھر سے بھاگ کر روپوش ہوجانا مناسب نہیں سمجھا۔بڑی جرأت اور پامردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ،سری نگر اور جموں میں اپنے ذاتی مکانات موجود ہونے کے باوجود بچرو میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا‘‘۔
شیخ محمد حسن صاحب نے ان کی شہادت کے بارے میں بتایا کہ:’’اس روز (۲۱نومبر ۱۹۹۵ء) انھوں نے صبح کے وقت میرے ساتھ بچرو میں ہی ملاقات کی اور مجھ سے ملاقات کے بعد کسی کام کے سلسلے میں جب باہر سڑک کی طرف نکلے، تواخوانیوں نے ان کے بھائی علی محمد میر صاحب کو ہی عبدالرزاق میر سمجھ کر گرفتار کرلیا ۔ اس پر عبدالرزاق صاحب خود چل کر قاتلوں کے پاس گئے اور کہا کہ: ’’ میں ہوں عبدالرزاق، لہٰذا،میرے بھائی کو چھوڑ دو ‘‘۔ وہ ان کو ہی گرفتار کرکے کولگام لے گئے ،اورننگے پاؤں قصبہ کولگام کے پورے بازار میں پھرایا۔ وہ برہنہ پائی کی حالت میں، عالم گرفتاری میں بازار سے گزرتے ہوئے بلندآواز میں باربار یہ کہتے جارہے تھے کہ: ’’لوگو ڈرو مت ،اورآگاہ رہو، اورگواہ رہو کہ میں بچرو کولگام کا رہنے والا عبدالرزاق میر ہوں ، اور میرا ایک ہی جرم ہے کہ میں جماعت اسلامی کے ساتھ وابستہ ہوں اور اسی جرم میں ننگے پیر پھرایا جارہا ہوں۔ مجھے اس بات کا کوئی غم ،ملال نہیں ،بلکہ یہ بات میرے لیے باعث فخر ہے کہ میں جماعت اسلامی کے نام پر’ برہنہ پا‘ پھرایا جارہا ہوں‘‘۔ اسی دوران لوگ اُمڈ اُمڈ کر اپنے محسن رہنما سے یک جہتی کے لیے اکٹھے ہونا شروع ہوئے تو اخوانی اغواکاروں نے ان کو سربازار گولیوںکی بوچھاڑ کرکے انتہائی بے دردی کے ساتھ شہید کردیا‘‘۔
اس طرح ایک گلِ سرسبد کو ظلم کے مکروہ سایوں تلے روندا گیا۔ وہ جماعت اسلامی جموں وکشمیر کے ایک مایہ ناز سیاست کار اور بہترین کارکن تھے۔ وہ اپنے علاقے کے ایک مشہور تاجر بھی تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کی شہادت قبول فرمائے اور ان کی قربانیوں کے عوض ان کو بہترین اجر سے نوازے، آمین!
پروفیسرفواد سیزگین (Fuat Sezgin )موجودہ زمانے کے ایک عظیم محقق اور اسلامی اسکالر تھے۔ مقصد سے لگن، کام کے حجم اور حددرجہ محنت کے حوالے سے ان کا مقام و مرتبہ ناقابلِ فراموش رہے گا۔افسوس کہ وہ بر صغیر پاک و ہند میں معروف نہیں تھے، جس کی وجہ یہی ہے کہ وہ جرمن زبان میں لکھتے تھے اور ہمارے ہاں صورت حال یہ ہے کہ عربی اور فارسی سے بے بہرہ اور انگریزی کی حاکمیت سے مرعوب ہیں، اس لیے انگریزی کے علاوہ دیگرزبانوں میں علوم تک رسائی نہیں رکھتے۔
فواد سیزگین ۲۴؍اکتوبر ۱۹۲۴ء کو مشرقی ترکی کے صوبے بطلیس میں پیدا ہوئے۔ انٹرسائنس تک تعلیم اناطولیہ کے شہر ارض روم (Erzurum ) میں حاصل کی۔ ۱۹۴۲ء میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے انجینیرنگ فیکلٹی استنبول یونی ورسٹی میں داخلہ لیا۔ اسی دوران میں ایک واقعے نے زندگی کا دھارا بدل دیا، اور وہ انجینیرنگ کے بجاے دوسرے عظیم ترین میدان کی طرف چلے آئے۔ ان دنوں ایک مشہور جرمن مستشرق ڈاکٹر ہیلمیٹ ریٹر (۱۸۹۲ء-۱۹مئی۱۹۷۱ء) اورینٹل فیکلٹی استنبول یونی ورسٹی میں پڑھا رہے تھے، جنھیں عربی، فارسی اور ترکی زبان پر دسترس حاصل تھی۔ وہ تصوف اور فلسفے پر اتھارٹی سمجھے جاتے تھے۔ ایک روز فواد کے قریبی عزیز نے کہا کہ: ’کسی روز یونی ورسٹی میں ہیلمیٹ نامی جرمن ماہر علوم اسلامیہ کا لیکچر سنو‘۔ اس ہدایت پر فواد نے ہیلمیٹ کے ایک سیمی نار میں شرکت کی۔ دورانِ گفتگو پروفیسر ہیلمیٹ نے کہا کہ: ’’اسلامی تاریخ اور عربی ادب کی عظمتوں اور وسعتوں کا کوئی حساب نہیں۔ مسلمانوں نے سائنس میں جو کارنامے انجام دیے ہیں، ان سے دُنیا ناواقف ہے، کاش! کوئی اس طرف توجہ دے؟‘‘فواد نے متاثرکن استاد کی یہ بات سن کر اسی وقت دل میں عہد کیا: ’’میں یہ کام کروں گا‘‘ اور اگلے روز انجینیرنگ چھوڑ کر اورینٹل فیکلٹی میں داخلے کے لیے درخواست دے دی، اور یہ سوچا تک نہ کہ داخلے کی تاریخ ختم ہوچکی ہے۔ پھر پروفیسر ہیلمیٹ سے التجا کرکے داخلہ لے لیا۔ استاد نے کہا: ’’عربی سیکھنے میں بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا‘‘۔ لیکن جب شاگرد کو پُرعزم پایا تو استاد نے فواد کو سب سے پہلے قدیم عربی میں دسترس کی طرف متوجہ کیا، جو واقعی ایک مشکل کام تھا۔ تاہم وفورِشوق میں فواد نے ۱۷، ۱۷ گھنٹے عربی سیکھنے پر صرف کیے۔
اسی دوران دوسری جنگ ِعظیم میں۱۹۴۳ء میں ہٹلر کی فوجیں بلغاریہ تک آپہنچیں، تو یونی ورسٹی طویل عرصے کے لیے بند ہوگئی۔ ان چھٹیوں میں فواد نے عربی سیکھنے کے ساتھ تفسیرطبری کو براہِ راست عربی سے پڑھنا اور قرآن پر غوروفکر شروع کیا۔ چھے ماہ بعد جب یونی ورسٹی کھلی تو استاد نے عربی میں استعداد جانچنے کے لیے امام غزالیؒ (۱۰۵۸ء-۱۱۱۱ء)کی احْیَاء عُلُومُ الدِّین سامنے رکھی۔ فواد نے اس کے مقامات پر اس طرح گفتگو کی جیسے کوئی روزنامہ پڑھ رہے ہوں۔ اس چیز سے متاثر ہوکر استاد نے ایک اور پہاڑ لاسامنے کھڑا کیا: ’’اگر علم اور مسلمانوں کی کوئی خدمت کرنا چاہتے ہو تو ساتھ ساتھ ہرسال ایک نئی زبان سیکھنے کی کوشش بھی کرو اور کم از کم ۳۰زبانیں تو ضرور سیکھو۔ یہ لسانی علم تمھیں فکر، دانش اور معلومات کی ان دُنیائوں تک لے جائےگا، جس کا کوئی شمار نہیں کرسکتا‘‘۔ اس توجہ پر بھی فواد نے عملی طور پر کام شروع کر دیا۔یوں ترکی کے علاوہ جرمن، فرانسیسی، عربی، لاطینی، سریانی، عبرانی اور انگریزی سیکھ لی، البتہ لکھنے کا زیادہ تر کام جرمنی زبان میں کیا۔
انجینیرنگ کا سابق طالب علم اب پوری دل جمعی سے دینی اور عربی علوم کے ہفت خواں طے کر رہا تھا۔ جب ۱۹۵۰ء میں ایم اے علومِ اسلامیہ پاس کرنے کے بعد اعلیٰ تحقیق کا مرحلہ آیا تو فواد اس نتیجے پر پہنچے کہ مستشرقین اور پادری حضرات، دین اسلام پر حملہ کرتے وقت بنیادی ہدف ذخیرۂ حدیث کو بناتے اور کہتے ہیں: ’سنی سنائی باتوں کا علم‘، اور بخاری ان کے نشانے پر ہوتی ہے۔ فواد نے بدنیتی پر مبنی اس حملے کا جواب علمی سطح پردینے کا عزم کیا۔ پروفیسر ہیلمیٹ کی رہنمائی میں تحقیق کرتے ہوئے البخاری کے ماخذ کے موضوع پر ۱۹۵۴ء میں ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔ جب ۱۹۵۶ء میں استنبول سے یہ تحقیقی مقالہ شائع ہوا تو علمی حلقوں کی توجہ کا موضوع بنا۔
ڈاکٹر فواد نے ذخیرئہ حدیث کی تدوین پر ’محض زبانی سنے سنائے‘ علم کے تاثر کا جواب دیتے ہوئے توجہ دلائی کہ: ’’مجموعہ ہاے حدیث میں ابتدائی زمانوں ہی سے لفظ کتاب بطوراصطلاح مکاتبت کے معنوں میں استعمال ہواہے، جس سے مراد روایت ِ حدیث کو زبانی سنے سنائے بغیر تحریری شکل میں منتقل کرنا ہے۔ اس امر کی وضاحت کے لیے اسناد میں کتب الی یا من کتاب کے الفاظ استعمال کیے جاتے تھے۔ یوں اسناد بظاہر زبانی روایت کا حوالہ رکھنے کے باوجود بسااوقات باقاعدہ تصانیف سے حرف بہ حرف نقل اور اقتباس کی جاتی تھیں‘‘۔
ڈاکٹر خورشید رضوی کے بقول : ’’ڈاکٹر سیزگین کی شہرت کا ایک خصوصی حوالہ علمِ حدیث میں اسناد کے طریق کار اور اس کی حقیقت و اہمیت کے بارے میں ان کا نقطۂ نظر ہے، جس نے مغرب کے علمی حلقوں میں بازگشت پیدا کی اور گولڈ زیہر [۱۸۵۰ء-۱۹۲۱ء] کے گمراہ کن نتیجۂ فکر اور دیگر مغربی تحقیق کاروں کے تصورات پر سنجیدہ تجزیے اور محاکمے کی ضرورت کا احساس دلایا‘‘۔
اس دوران ڈاکٹر فواد اورینٹل فیکلٹی، استنبول یونی ورسٹی میں بطورِ استاد خدمات انجام دیتے رہے کہ۲۷مئی ۱۹۶۰ء کو ترک جرنیل جنرل جمال گرسل (۱۸۹۵ء-۱۹۶۶ء)نے فوجی انقلاب برپا کیا۔ یہ انقلاب سخت گیر لادینی نظریات کا علَم بردار تھا۔ یہ وہی جنرل گرسل ہیں، جنھوں نے ۱۹۵۰ء سے ۱۹۶۰ء تک دومرتبہ منتخب ترک وزیراعظم عدنان میندریس (پ:۱۸۹۹ء) کو برطرف کیا اور ۱۷ستمبر ۱۹۶۱ء کو، عدنان کابینہ کے وزیرخارجہ فطین رشدی زورلو (پ:۱۹۱۰ء) کے ہمراہ پھانسی دے دی تھی۔ عدنان میندریس شہید کا ایک ’جرم‘ یہ بھی تھا کہ انھوں نے اپنے دورِ حکومت میں ۱۷جون ۱۹۵۰ء کو عربی میں اذان پر پابندی ختم کی، پھر مسجد یں کثرت سے تعمیر کیں، حج پر عائد پابندیاں ختم کیں اور محکمہ مذہبی امور قائم کیا۔ اس محکمے نے نئی اور پرانی اسلامی کتب کی اشاعت کے ساتھ، مولانا مودودیؒ (م:۱۹۷۹ء)اور سیّد قطبؒ (شہادت:۱۹۶۶ء)کی بھی چند کتب ترکی زبان میں شائع کیں۔
’ترک فوجی حکومت‘ نے ۱۴۷ پروفیسروں کو ترکی یونی ورسیٹیوں سے نظریاتی اختلاف بلکہ اسلامی غیرت و حمیت کی پاداش میں برطرف کردیا، جن میں فواد سیزگین بھی شامل تھے۔ مارشل لا حکومت سے انصاف مل نہیں سکتا تھا، اس لیے فواد نے جلاوطنی اختیار کی۔ جرمنی چلے گئے اور فرینکفرٹ یونی ورسٹی میں استاد مقررہوئے۔ ۱۹۶۵ء میں انھوں نے فلسفی، ریاضی دان اور کیمیا دان جابر بن حیان [۷۲۱ء-۸۱۵ء]پر دوسری ڈاکٹریٹ حاصل کی، تو پروفیسر کے درجے میں ترقی مل گئی۔پھر ۱۹۶۷ء میں ایک ذہین اور محنتی نومسلم جرمن مستشرقہ ارسل سے شادی کی۔ ان کے ہاں ۱۹۷۰ء میں ایک بیٹی پیدا ہوئی، جس کا نام ’ہلال‘ رکھا۔ (مغربی دنیا میں ’ہلال‘ [کریسنٹ] اسلام کی علامت ہے اور نام رکھتے وقت یہی پہلو پیش نظر تھا)۔
پروفیسر سیزگین کا یادگار کارنامہ عربی زبان میں علمی ذخیرے کی کیفیت کی تدوین ہے۔ جس میں ہر کتاب کے بارے اشاعت، عدم اشاعت کے ساتھ تفصیل مذکور ہے کہ یہ مخطوطہ کہاں موجود ہے۔ اس کام کی ابتدا محمد بن اسحاق الندیم (م:۹۹۵ء ) نے الفہرست کے نام سے کی تھی۔ درحقیقت ڈاکٹر فواد کا کام جرمن محقق کارل بروکلمان (Carl Brockelmann: ۱۸۶۸ء- ۱۹۵۶ء) کی اسی نام سے کتاب Geschichte der Arabischen Litteratur کی تکمیل ہے، جو ۱۸۹۸ء میں دو جلدوں میں شائع ہوئی تھی۔ اس زمانے میں اکثر کتب خانوں کی فہرستیں تیار اور شائع شدہ نہیں تھیں، اس لیے بروکلمان کی کتاب میں بہت سی کمیاں رہ گئی تھیں۔ حتیٰ کہ استنبول میں موجود قیمتی مخطوطات کا بھی ذکر نہیں تھا۔
اس بھاری بھرکم کام کی ابتدا فواد سیزگین نے ۱۹۵۴ء میں پروفیسر ہیلمیٹ ریٹر کی خواہش پر کی تھی۔ انھوں نے مجوزہ کتاب Geschichte des Arabischen Shrifttums [تاریخ التراث العربی، عربی ورثے کی تاریخ) پر ۱۹۶۱ء میں باقاعدہ لکھنے کا آغاز کیا۔ اس کی پہلی جلد ۱۹۶۷ء میں اور ۱۷ویں جلد فروری ۲۰۱۸ء میں شائع ہوئی۔ اب وہ ۱۸ویں جلد کی اشاعت پر کام کر رہے تھے کہ زندگی کی ساعتیں ختم ہوگئیں۔ یہ کتاب عربی زبان میں لکھے جانے والے ایک بڑے علمی ورثے کا احاطہ کرتی ہے، جس میں: قرآن پاک،تفسیر، حدیث، تاریخ، فقہ، علم کلام، عربی شاعری، طب، علم حیوان، کیمیا، زراعت، نباتیات، ریاضیات، فلکیات، موسمیات، تصوف، نفسیات، فلسفہ، اجتماعیات، نحو، بلاغت، لغت، کائناتی مطالعہ، منطق، ارضیات، موسیقی، ادویہ سازی، حیوانیات، نجوم، عربی زبان، جغرافیہ، نقشوں جیسے گوناگوں علوم پر عربی مخطوطات و کتب کا تذکرہ شامل ہے۔
پروفیسر فواد سیزگین نے ۱۹۸۲ء میں جرمنی کی گوئٹے یونی ورسٹی میں ’عربی واسلامی تاریخ انسٹی ٹیوٹ‘ کی بنیاد رکھی۔۱۹۸۴ء میں تحقیقی مجلّے Journal of Arab and Islamic Sciences کا اجرا کیا اور مدت تک ادارت کی۔ سائنسی علوم کے بارے میں مسلمان علما و فضلا کے لکھے چار لاکھ قدیم مخطوطوں کے آثار اور قدیم کتب کو، ۳۰سال کی مدت میں، یورپ، افریقہ، بھارت، ترکی، ایران، مصر، روس اور مشرق وسطیٰ کی لائبریریوں، ذاتی کتب خانوں اور دیہات تک میں پہنچ کر اکٹھا کیا یا معلومات لیں۔ جمع شدہ کتب کی تعداد ۴۵ہزار سے زیادہ ہے، جب کہ ۱۳ سو اصل مخطوطے اور ۷ہزار مخطوطات کے عکس شامل ہیں۔پھر ان مخطوطات و معلومات کو ایک ہزار مطبوعات کی صورت میں شائع کیا۔
ایک مشہور جرمن ماہر طبیعیات اور سائنسی علوم کے مؤرخ ڈاکٹر ایلہارڈ ویڈمین (۱۸۵۳ء-۱۹۲۸ء) نے ۱۸۹۹ء میں طے کیا کہ:’ ’میں مسلمانوں کے ایجاد کردہ ان سائنسی آلات کو جن کا تذکرہ کتب میں پڑھا ہے، عملی شکل اور نمونوں (ماڈلوں) کی صورت دوں گا‘‘۔ ڈاکٹر ایلہارڈ نے ۱۹۲۸ء تک ۳۰برسوں کی شبانہ روز کاوش سے ایسے پانچ ماڈل تیار کیے۔ اس مثال کوسامنے رکھ کر پروفیسر فواد نے دوستوں سے کہا : ’’میں کوشش کروں گا کہ کم از کم ۳۰ ماڈل اور آلات کے نمونے بناکر اس کمرے کی خالی جگہ کو پُر کروں‘‘۔ پھر اسی انسٹی ٹیوٹ میں انھوں نے اگلے سال ایک میوزیم قائم کیا، جس میں مسلمانوں کے سنہرے دور میں ایجاد اور استعمال ہونے والے آٹھ سو (۸۰۰) سائنسی آلات اور مشینوں کے اصل کے مطابق نمونے بنواکر رکھے۔
جرمن حکومت نے پروفیسر سیزگین کے ذاتی کتب خانے کو قومیا لیا تھا اور بدلے میں معقول مالی معاوضہ دیا تھا۔ ترکی منتقل ہونے کے بعد پروفیسر سیزگین نے دوبارہ ایک ایک کتاب اکٹھی کر کے استنبول میں ایک عظیم الشان کتب خانہ بنایا۔ ترکی کی موجودہ حکومت اس لائبریری کے لیے استنبول میں ایک خصوصی بلڈنگ تعمیر کر رہی ہے۔ یہاں پر ۲۰۰۸ء میں ایک میوزیم بھی قائم کیا۔ اس میوزیم میں انھوں نے اسی طرح کے ۷۰۰ماڈل اور آلات تیار کر کے رکھوائے جیسے جرمن میوزیم میں رکھے تھے۔ پھر ۲۰۱۰ء میں استنبول میں اسلامی وعربی تاریخ کا ٹرسٹ قائم کیا۔
پروفیسر فواد نے متعین کیا ہے کہ :’’ کرسٹوفر کولمبس [م: ۱۵۰۶ء]سے بہت پہلے عربوں نے شمالی امریکا دریافت کیا تھا اور ۱۸ویں صدی کے اوائل تک دنیا کے تمام نقشے مسلمانوں ہی کے بنائے ہوئے نقشوں کی نقل تھے‘‘… پھر بتایا کہ: ’’عباسی خلیفہ مامون الرشید [م: ۸۳۳ء] نے تقریباً ستّر جغرافیا دانوں کو پوری دنیا کے مطالعے کے لیے بھیجا، جنھوں نے کئی برس گھوڑوں، اُونٹوں اور سمندری جہازوں پر گھوم پھر کر دنیا بھر کے بارے معلومات اکٹھا کیں اور نقشے بنائے‘‘۔
پروفیسر سیزگین کہا کرتے تھے: ’’ مجھے اتنی سی بات سے خوشی نہیں ہوتی کہ سائنس اور ٹکنالوجی کے میدان میں عربوں اور مسلمانوں نے جو کارنامے انجام دیے ہیں آج ہم محض انھی پر فخر کریں۔ میرا جی چاہتا ہے کہ آج کے مسلمان سمجھیں کہ ان کے آباء کتنے عظیم لوگ تھے، جو صرف اپنی انگلیوں پر گنتی کرکے اتنی زیادہ ترقی کرگئے۔ ہم ان سے اور دوسروں سے بہت کچھ سیکھ کر خوداعتمادی سے اپنی مشکلات پر قابوپا سکتے ہیں۔ ہم کو ان علما سے سبق حاصل کرنا چاہیے، جنھوں نے ہم سے کہیں زیادہ محنت کی اور لکھا۔ اتنی مشقت کے باوجود وہ زندگی میں ہم سے کہیں زیادہ خوش تھے‘‘۔
پروفیسر سیزگین نے لکھا ہے: ’’مسلمانوں میں نتیجہ خیز فکری و عملی سرگرمی کا آغاز پہلی صدی ہجری ہی میں ہوگیا تھا۔ علم کے بارے میں اہلِ اسلام کا رویہ بڑا فراخ دلانہ تھا۔ انھوں نے بغیر کسی نفسیاتی رکاوٹ کے، اپنے پیش روؤں کے علوم کو قبول کیا۔ اس طرح اسلامی تہذیب، مختلف قوموں کی ثقافتوں ، زبانوں اور علمی میراث کا نقطۂ اتصال ثابت ہوئی، جس سے انسانی فکر کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ مسلمان اپنے پیش روؤں کے مقلّد محض نہ تھے بلکہ جانچ پرکھ اور تنقید کے صحت مند معیارات کے قائل تھے۔ مسلمانوں نے اجنبی اقوام سے علمی فیض حاصل کرنے کا آغاز ان قوموںسے کیا جو نئے نئے مسلمان ہوئے تھے،اس لیے ان کے استفادے میں تعصب کا عنصر نہیں پایا جاتا تھا، لیکن اس کے برعکس لاطینیوں[اہل مغرب] نے عربوں کو اپنا دشمن سمجھ کر ان کے علوم سے استفادہ کیا، جس نے ان میں نفسیاتی اُلجھائو، تعصب اور سرقے کی روایت پیدا کی۔ اس طرح اعتراف کے بجاے دانستہ طور پر مسلمانوں کی دریافتوں کا سہرا بھی مغربیوں کے سر باندھنے کا رویہ شامل ہوگیا‘‘۔
پروفیسر فواد سیزگین کے کارناموں کو دُنیا بھر کے اہل علم نے سراہا۔ ۱۹۷۹ء میں جب ’شاہ فیصل ایوارڈ‘ کا اجرا ہوا تو پہلے ہی سال سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ کو اسلام کے لیے خدمات پر اور پروفیسر فواد سیزگین کو ان کی کتاب تاریخ التراث العربی (عربی ورثے کی تاریخ) پر یہ ایوارڈ دیا گیا۔ اسی طرح جرمن حکومت نے اعلیٰ ترین اعزاز ’آرڈر آف میرٹ آف جرمنی‘ دیا۔ ’اسلام میں سائنسی اور تکنیکی علوم‘ (پانچ جلدوں) پر ایک خوب صورت کتاب پر ایران نے ۲۰۰۶ء میں ’کتاب کا عالمی ایوارڈ‘ دیا۔ یہ کتاب علمی تفصیلات کے ساتھ تصویروں اور خاکوں سے مرصع ہے، اور جرمن، ترکی، انگریزی اور فرانسیسی میں شائع ہوچکی ہے۔
۱۹۷۹ء میں امام محمد بن سعود اسلامی یونی ورسٹی ، ریاض کی دعوت پر ڈاکٹر فواد نے سات خطبے دیے، جو محاضرات فی تاریخ العلوم کے عنوان سے شائع ہوئے۔ پروفیسر ڈاکٹر خورشید رضوی نے ان خطبات کا اُردو ترجمہ تاریخ علوم میں تہذیب اسلامی کا مقام کے نام سے کیا، جسے ادارہ تحقیقات اسلامی، اسلام آباد نے ۱۹۹۴ء میں شائع کیا ہے۔
پروفیسر فواد نے اظہارِ تشکر کرتے ہوئے لکھا ہے: ’علومِ اسلامیہ کے مطالعے اورعربی فہمی کے لیے یکسوئی عطا کرنے میں میرے استاد پروفیسر ہیلمیٹ ریٹر کا مجھ پر بے حد احسان ہے۔ جن علمی کاموں کے لیےمیں نے قدم اُٹھایا، ان راہوں کی مشکلات کو دیکھ کر ممکن ہے دوسروں کو گھبراہٹ محسوس ہوتی ہو۔ لیکن سچی بات یہ ہے کہ میں اپنے باطن کی دنیا میں گہری طمانیت اور تشکر کے جذبات رکھتا ہوں کہ میں اللہ تعالیٰ کے خوش نصیب ترین بندوں میں سےہوں، کہ جس کی توفیق اور مدد سے یہ کام کر رہا ہوں‘‘۔
پروفیسر فواد سیزگین ۳۰ جون ۲۰۱۸ء کو ۹۵ برس کی عمر میں استنبول کے ایک ہسپتال میں انتقال کرگئے۔ جامع سلیمانیہ میں ان کی نمازِ جنازہ میں ترکی کے صدر طیب اردوان بھی موجود تھے، جنھوں نے حاضرینِ جنازہ سے خطاب کرتے ہوئے گلوگیر لہجے میں کہا: ’’میں اللہ سے دُعا کرتا ہوں کہ ہمارے عظیم محسن پروفیسر فواد کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔ ہمارا وہ محسن کہ جس نے ہمیں، اسلامی تاریخ اور اسلامی تہذیب کے حوالے سے بیداری کی بہترین دولت دی۔ ہمارا وہ محسن کہ جس نے سائنسی علوم میں، زمانوں پر پھیلی ہوئی اسلامیانِ عالم کی خدمات کو وضاحت سے پیش کیا۔ میں ۲۰۱۹ء کو فواد سیزگین کے سال سے منسوب کرتا ہوں کہ : جب ہم اپنی نسل کو اسلامی علوم کی واقفیت دینے اور شوق پیدا کرنے کے لیے کانفرنسیں، سیمی نار، نمایشیں اور علمی پروگرام کریں گے‘‘۔
ایمان، عزم ، ارادے، محنت اور اَن تھک جستجو کے زادِراہ سے سفر کا آغاز کرنے والے ایک اٹھارہ سالہ نوجوان نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا۔ جو بسترمرگ پر بھی علمی فریضہ انجام دیتا رہا۔ اس اکیلے فرد نے حالیہ زمانے میں وہ کارنامہ انجام دیا، جو کئی ادارے بھی مل کر انجام نہ دے سکے۔ کیا ہماری نوجوان نسل، عشق و جنوں کی اس وادی میں قدم رکھنے کے لیےتیار ہے؟
جو مسلمان یہ کہتے ہیں کہ: ’دین اسلام کے غلبے کا کام آسا ن ہے اور اس کو انجام دینے کے لیے کسی خاص مشقت کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ یہ کام آسانی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی ’غیبی مدد‘ کے ساتھ انجام دیا جاسکتا ہے، اور جو اپنی زندگی کے شب و روز اسی زعم میں گزار رہے ہیں، ان کے لیے دو چیزیں سمجھنا ضروری ہیں۔ ایک ، سورۂ مزمل و مد ثر یا نبوت کی ذمہ دار ی پر فائز ہونے کے فوراً بعد کی نازل شدہ آیات میں آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ خطاب کہ: ہم تم پر ایک بھاری کلام نازل کرنے والے ہیں، جس کے تقاضوں کو انجام دینے کی خاطر آپ ؐ رات کے آدھے حصے سے کم یا زیادہ وقت نماز میں گزاریں، قرآن کو ٹھیر ٹھیر کر پڑھیں،اور ساتھ ساتھ اپنے ربّ پر توکل و بھروسا اورصبروثبات سے کام لینے کی مشق بھی کیا کریں۔
بالفاظِ دیگر فرمایا گیا کہ نبوت کا کام اتنا آسان نہیں ہے کہ کسی داخلی طلب کی گئی استعانت کے بغیر آپ ؐ اس کو انجام دے سکیں، بلکہ اس کارِ عظیم کو انجام دینے کی خاطر اپنے آپ کو ذاتی طور، اخلاق و روح کے بے پایاں ہتھیاروں سے لیس کرنے کی ضرورت ہے۔
دوسرا اہم نکتہ جو اسی نکتے سے اخذ کیا جاسکتا ہے کہ نبوت کے مدعا و مقصد کو انجام دینے کی خاطر آپ ؐ کو بڑی بڑی طاقتوں سے نبردآزما ہونا پڑے گا۔جن کے پاس ہر قسم کے وسائل مہیا ہیں، وقت کی طاقت ور مشینری پر کنٹرول کے ذریعے افواہ سازی اور پروپیگنڈا میں ہر کسی سے آگے، اپنے جاسوسوں کو کام پر لگائے پل پل کی خبر رکھے ہوئے ہیں۔ آپ کی صفوں کے اندر بھی اپنے ہی زر خرید ایجنٹ و منافقین بھرتی کرنے والے آ پ کے کسی بھی کام کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے سے پہلے ہی اس کی بیخ کنی میں مصروف ہیں۔
اِن حالات میں جو ہمہ گیر دعوت آپ ؐ نے برپا کی ، وہ ان تمام(اندرون و بیرون) چیلنجوں کا پورا ادراک رکھے ہوئے تھی۔ اُس انقلابی دعوت سے وابستہ افراد میں آپؐ نے اِن تمام چیلنجوں کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کی ہمت پیدا کی تھی۔ اگرچہ اِن افراد سے تشکیل دی گئی جماعت مخالف سمت سے ٹکرانے والی پارٹی کے مقابلے میں انسانی اور مادی وسائل میں کمی کا شکار تھی۔ لیکن اِن تمام کمیوں کے باوجود وہ اُن تمام صفات سے متصف تھی جس کا تقاضا وقت کر رہا تھا اور جو انھیں ’حزب اللہ‘ کا لقب دینے کے لیے کافی تھا۔مسلمانوں کے اندر جس قدر جذبۂ جہاد اور شوقِ انفاق فی سبیل اللہ سرایت کر چکا تھا، وہ مخالفین کے تمام وسائل کو مات دینے کے لیے حد درجہ مؤثر تھا۔
اس صورتِ حال سے ہمیں اپنے آج کا اور خود اپنا موازنہ کرنا چاہیے کہ ہمارے لیے وہی اصل معیار ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام سے وابستگی رکھنے والی اُمت اور اس قافلۂ حق سے وابستہ افراد کی ایک بڑی تعداد، غالباً حق و باطل کے مقابلے میں آرام کی زندگی بسر کر رہی ہے اور اس کے پاس کسی قسم کا مدافعانہ سامان (بصورتِ دلیل و بیان) غالباً موجود نہیں۔ باطل جس طریقے سے اپنے حربے آزما رہا ہے، باطل کے دفاتر جس سرعت و جان فشانی سے کام کررہے ہیں، ان کے مقابلے میں اہلِ حق کی سرگرمیوں کا موازنہ کس صورت میں کیا جائے؟ باطل سویا ہوا نہیں ہے، و ہ اپنا کام دن رات کرتا ہے کہ اس کے پاس مادی وسائل اور اختیارات فراواں ہیں۔ اس فضا میں یہ اُمید کیسے کی جاسکتی ہے کہ حق کا بول بالا ہو، ظالم اپنے ہی ہاتھوں خودکشی کرکے میدان طشتری میں رکھ کر پیش کرے گا؟ مقامی سطح سے لے کر عالمی معاملات تک کا یہ نقشہ ایک معقول اور سنجیدہ غوروفکر کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ باطل کے ہرکارے روزِ اوّل سے ہی اس کام میں لگے ہوئے ہیں کہ کیسے اور کس طرح حق کے چراغ کو اپنی پھونکوں سے بجھایا جائے۔
حق کے ماننے و چاہنے والوں کا کام ہے کہ وہ اپنی محنت و لگن سے حق کو اس کا وہ مقام عطا کریں، جس کا تذکرہ قرآن وحدیث میں موجود ہے۔ بالفاظِ دیگر یہ اس وقت ہوگا جب اس کے علَم بردار نظریاتی حدوں کے اندر خواب دیکھتے اور پوری دیانت داری سے ان کی تعبیر کے لیے فکرمند ہوتے ہیں۔ بقولِ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی: ’’ہمیں عوام میں عوامی تحریک (mass movement) چلانے سے پہلے ایسے آدمیوں کو تیار کرنے کی فکر کرنی ہے، جو بہترین اسلامی سیرت کے حامل ہوں اور ایسی اعلیٰ درجے کی دماغی صلاحیتیں بھی رکھتے ہوں کہ تعمیر ِ افکار کے ساتھ اجتماعی قیادت کے دوسرے فرائض کو بھی سنبھال سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ میں عوام میں تحریک کو پھیلا دینے کے لیے جلدی نہیں کر رہا ہوں، بلکہ میری تمام تر کوشش اس وقت یہ ہے کہ ملک کے اہلِ دماغ طبقوں کو متاثر کیا جائے اور ان کو کھنگال کر صالح ترین افراد کو چھانٹ لینے کی کوشش کی جائے، جو آگے چل کر عوام کے لیڈر بن سکیں ‘‘۔(رُودادِ جماعت اسلامی، حصہ اول)
اس صورتِ حال میں اگر ہم آج کی تیز رفتار ٹکنالوجی سے منضبط نظامِ زندگی کی طرف نظر دوڑائیں، تو کچھ اہم باتیں نمایاں ہوکر سامنے آتی ہیں:
۱- محض انسانی وسائل اور ٹکنالوجی کی فراہمی کچھ معنی نہیں رکھتی، بلکہ مقصد سے وابستگی اور اسے رُوبۂ عمل لانے کے لیے پیشہ ورانہ صلاحیتوں (professional skills) کی موجودگی اہم تر ہے۔
۲- انسانی وسائل کے ساتھ ساتھ انھیں ایسے آلات و اختیارات کی ضرورت ہے، جن کو استعمال میں لا کر وہ اپنے اہداف حاصل کرنے کی طرف پیش رفت کرسکیں۔
۳- انسانی وسائل اور اُن سے جڑے اختیارت و آلات کو تبھی سرعت دی جاسکتی ہے ، جب کچھ مالی وسائل بھی ہاتھ میں ہوں۔
۴- اِن تمام چیزوں کو جو ایک اہم بنیاد، اثرپذیری اور تیزی بخشتی ہے اور اسے ایک ہم آہنگ کُل (inter-related whole) کے طور پر منضبط کرتی ہے، اس کا نام انسانی مشینری ہے، جس کو بالفاظِ دیگر تنظیم ، جماعت ، حلقہ،پارٹی وغیرہ کی اصطلاحات سے بھی جانا جاتا ہے۔
سیاسی ہو یا غیر سیاسی، سرکاری ہو یا غیر سرکاری، قومی ہو یا بین الاقوامی، دینی ہویا لا دینی، کوئی بھی تنظیم ہو، اگر اُس میں پیشہ ورانہ انسانی وسائل کے پاس اختیارات، قوتِ فیصلہ ، مادی وسائل اور ٹکنالوجی نہ ہو، تو وہ ہمہ پہلو مقابلے کی صلاحیت سے محروم ہے۔ محض تنظیم کا وجود اس بڑے معرکے کا بدل نہیں ہوسکتا۔
یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ حق و انصاف کا ساتھ ہمیشہ کم لوگوں نے ہی دیا ہے۔ آبادی کا غالب حصہ یا تو باطل و ظلم کے ہتھے چڑھ جاتا ہے یا لاعلمی کے عالم میں مزے سے سو رہا ہوتا ہے۔ تحریکی پس منظر میں جنھیں یہاں زیربحث لایا جارہا ہے، ان سے مراد ایسے ا فراد ہیں جن کے پاس غیرمعمولی طور پر مقصد سے وابستگی، پیشہ ورانہ صلاحیتیں، جوش ، جذبہ اور حق کے تعین کے لیے کچھ کرنے کا جذبۂ عمل اور رفتارِ عمل موجود ہو۔ ’وسائل‘ سے مراد انسانوں کا افرادی قوت کے اعتبار سے محدود مگر مربوط ہونا ہے اور’نظم‘ سے مراد ایسا طریق کار کہ جس کو عمل میں لاتے ہوئے کم سے کم(محدود) انسانی وسائل سے زیادہ سے زیادہ کام لیا جاسکے۔
اِن چار اہم نکات میں انسانی وسائل کی شناخت ، تربیت، احتساب، ترقی اور ان کے ذریعے زیادہ سے زیادہ دعوت و تبلیغ اور دنیا کو بدل دینے کاکام لینا، ایک بہت بڑے علم کی حیثیت رکھتا ہے۔ تحریکاتِ اسلامی جتنی جلد اس سرمایے کی شناخت کرکے فیصلہ سازی کی اہمیت و افادیت کا ادراک کرلیںگی،اسی قدر ترقی اور پیش قدمی کرپائیں گی۔ دوسری صورت میں ڈھانچے تو موجود ہوں گے، مگر زندگی کی رمق کا وجود نہیں ہوگا اور مقابلے میں باطل سہولت سے ترقی کرتا رہے گا۔ تحریک کا اصل سرمایہ تو انسانی وسائل ہی ہیں۔ حتیٰ کہ مشین نما انسان(robot) کا بھی کنٹرول انسانوںکے ہاتھوں میں ہی ہوتا ہے۔ احادیث کی کتابوں ، بلکہ خود قرآن پاک میں حق کے غلبے کی جو بشارت دی گئی ہے، وہ اپنی جگہ برحق ہے۔ بدقسمتی سے مسلمانوں کی کثیر تعداد حق کے اُس غلبے کا غلط مفہوم لے کر اِس غلط فہمی میں مبتلا ہے کہ’’ کسی سرعت سے کام کرنے کی ضرورت نہیں ہے، حق کو غالب ہو کر رہنا ہے۔ اس سے پہلے یہ زوال، یہ کسمپرسی ، یہ تباہی، یہ ذلت و مسکنت تو پیش گوئیوں کے عین مطابق ہمارے نصیب میں ہے‘‘۔ درحقیقت اس تصور کو ذہنوں سے نکالنا بے حد ضروری ہے۔
اسلامی تنظیمات انسانی وسائل کے ایک مخصوص حصے کو تنظیم کا حصہ بناکر عام لوگوں سے بے نیاز نہیں ہوسکتیں، بلکہ اصل مسئلہ زیادہ سے زیادہ افراد کو اس کے اندر سمونے کا ہے، جس کے لیے دعوت و تبلیغ کا طریقہ اختیار کیا جاتا ہے۔ لوگوں تک دعوت پہنچائی جاتی ہے ، انھیں اُن کے اصل مسائل کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے، اُن کی عقل کے دریچے کھولے جاتے ہیں، اُن کے ساتھ بحث و تمحیص اور تبشیر و انذار سے کام لیا جاتا ہے اور انھیں اِس جماعت کی طرف راغب کرنے کے لیے ہر قسم کی محنت و کوشش کی جاتی ہے۔ اس کے بعد جتنے بھی لوگ اِس کاروان کے ساتھ وابستہ ہوتے ہیں، اُن کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے ۔ منصوبہ بندی دراصل ایک مخصوص عمل کا نام ہے جس میں متذکرہ انسانوں کی تعداد، اُن کی سکونت، اُن کے پاس صلاحیتیں، اُن کی مالی و جسمانی حیثیت وغیرہ کا پورا ریکارڈ مدنظر رکھا جاتا ہے، جس پر تنظیم کے اعلیٰ ذمہ داران یہ غور و خوض کرتے ہیں کہ کس انسان کی جگہ کہاں پر موزوں ہے یا کس انسان سے کس جگہ پر زیادہ سے زیادہ کام لیا جاسکتا ہے۔
بالفاظِ دیگر منصوبہ بندی سے انسانی وسائل کی کمی و بیشی کو تنظیم کی ضروریات کے مطابق ڈھالا جاتا ہے ۔ ایک جہاں دیدہ اور دُور اندیش قیادت اس چیز کا خاص خیال رکھتی ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ تنظیم کے پاس پیشہ ورانہ انسانی وسائل کی کمی کے نتیجے میں تنظیم اپنے مشن کی آبیاری کی راہ میں ہچکولے ہی کھا رہی ہو، یا کہیں ایسا بھی نہ ہوکہ انسانی وسائل کی فراوانی کو لے کر تنظیم ان کی صلاحیتوں کو استعمال کرنے کا موقع ہی فراہم نہ کر سکے ۔ اس صورتِ حال میں یہ بات غور کرنے کے لائق ہے کہ انسانی وسائل کی کمی کا معاملہ جتنا درد انگیز ہوتاہے ، اتنا ہی ان وسائل کی فراوانی میں، انھیں سلجھے انداز سے استعمال نہ کرنا بھی ایک تاریخی المیہ ہوتا ہے۔ ترقی کی منازل کی کوئی حد نہیں۔ اس لیے انسانی وسائل کی کثرت میں تحریکات کی یہ ذمہ داری ہے کہ اپنے دست و بازو بننے والے افراد کو ترقی وپھیلائو کے مواقع فراہم کرنے کی خاطرنئے نئے چیلنج تخلیق کرے۔ ایسا نہ ہو کہ مواقع نہ پانے کی صورت میں قیمتی افراد، تنظیم میں عدم دل چسپی یا فرار کا راستہ اختیار کریں۔
یاد رکھنے کے قابل یہ بات ہے کہ تنظیم کے مددگار اور متفق افراد تین مقاصد کے لیے اپنے آپ کو تنظیم سے وابستہ کرتے ہیں: mایک ، تنظیم کے مشن کی آبیاری کرنے کا مقصد m دوسرا، تنظیم کی کارکردگی ، استحکام و نشوونما میں پیش پیش رہنے کا ہدف m اور تیسرا، اپنی ذاتی تربیت و شناخت کو قائم رکھنے کی منزل۔ انھی تین مقاصد کو لے کر تنظیم اپنے مشن کی طرف رواں دواں ہو سکتی ہے، اور انھی سے باقی معمولات و مشمولات کا نظام آگے بڑھ سکتا ہے۔
تنظیم میں کسی فرد کو ذمہ داری سونپ دینے میں اس بات کا خاص خیال رکھنا لازمی ہے کہ فرد کو اپنی ذمہ داری کا پورا ادراک ہو۔یہ نہیں کہ اسے محض ذمہ داری کے ٹائٹل کی پہچان حاصل ہوجائے اور بس۔اوراگر وہ نہیں جانتاہے تو اس کو اپنی ذمہ داری سمجھائی جائے۔ عام طور پر یہاں ان کارکنان کو ذمہ داری سونپی جاتی ہے، جنھوں نے متعلقہ ذمہ داری کے خدو خال سمجھ لیے ہوں۔ افراد شناسی کے اعتبار سے یہ ایک بہترین فارمولا ہے مگر تنظیم کے لیے یہ ایک خطرے کی گھنٹی اُس وقت بنتا ہے، جب بہترین فرد کی جگہ بہتر آدمی کو ذمہ داری دی جائے یا بہتر فرد کی جگہ غیر بہتر فرد کو سونپ دی جائے۔ اس حوالے سے پیش نظر رہنا چاہیے کہ فرد کے لیے اپنی ذمہ داری کو انجام دینے میںجتنی اہمیت ’فرض شناسی ‘کی ہے، اتنی ہی اہمیت قیادت کے لیے’ افراد شناسی‘ کی ہے۔
افراد کی تربیت کے حوالے سے ایک اور ذریعہ کار گر ثابت ہو سکتا ہے کہ اُن کی ذمہ داریوں کو کچھ وقت کے بعدبدل دیا جائے، جس کو job rotation کی اصطلاح سے بیان کیا جاتاہے۔ یہ ایک ایسا ذریعہ ہے جس کا تنظیم کی داخلی ضروریا ت تقاضا کرتی ہیں۔مثال کے طور پر زمان، مکان، ٹکنالوجی وغیرہ کے بدلنے سے افراد کی ذمہ داریاں بھی بدلتی رہتی ہیں۔ مزید برآں ، اس سے افراد کے اندر مختلف النوع ذمہ داریاں انجام دینے کا فن پیدا ہو تا ہے اور اُن کی صلاحیتیں بھی پروان چڑھتی ہیں۔ ایسی تبدیلیا ں تنظیم کے مختلف شعبہ جات کے اندر بھی لائی جاسکتی ہیں۔ اسلامی تحریکا ت اس حوالے سے اپنے افراد کی تربیت کے لیے اگر ایسا کوئی لائحہ عمل مرتب کرلیتی ہیں تو یہ ایک انقلابی افادیت کا قدم ثابت ہو سکتا ہے۔
مثال کے طور پر جموں و کشمیر میں تحریک اسلامی سے وابستہ کسی کارکن کو ایک مقررہ وقت کے لیے پاکستان، ترکی یا بنگلہ دیش وغیرہ میں تحریک اسلامی کے نظامِ کار میں کچھ عرصہ گزارنے کا موقع فراہم کیا جائے یا اسی طرح سے پاکستان کے کسی کارکن کوترکی، ملائشیا یا انڈونیشیا وغیرہ کی تحریک اسلامی کے خدو خال سمجھنے کا موقع دیا جائے۔ تحریکاتِ اسلامی کی تاریخ میں ایسا شاید کم ہی ہوا ہوگا، لیکن اگر اس حوالے سے ایک منصوبہ بند طریقے سے اقدامات اٹھائے جائیں تویہ تحریکاتِ اسلامی کی تاریخ میں ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھے گا اور اس کے ثمرات بہت دُور رس ہونے کی اُمید ہے۔ اسی طرح یہ بھی عرض ہے کہ اگر کسی فرد نے اپنی پچھلی ذمہ داری سے انصاف کا تقاضا پور ا نہ کیا ہو تو اسے اُس سے بڑھ کر کسی بلند درجے کی ذمہ داری سو نپ دینا نامناسب ہوگا۔
افراد کی تربیت ،اُن کی صلاحیتوں کی دریافت، اُن صلاحیتوں کو پروان چڑھانا اور انھیں اپنی صلاحیتوںکے مطابق ذمہ داریاں سونپنا، اُن کی عزتِ نفس کی قدرکرنا، اُنھیں اپنی ذمہ داریوں سے انصاف کرنے پر مبارک باد یاانعام سے نوازنا اور اُن کی مزید تربیت کرنا وغیرہ ایسے اقدام ہیں، جن سے انسانی وسائل کے فر وغ میں پیش رفت ہوسکتی ہے۔
تحریکات ِ اسلامی کے اندر کام کرنے والےلوگ بھی باقی انسانوں کی طرح جائز خواہشات رکھتے ہیں، اُن کی بھی ایک نجی زندگی ہوتی ہے، اُنھیں بھی اہل و عیال کی ذمہ داریاں انجام دینا ہوتی ہیں، بالفاظِ دیگر انھیں بھی معاشی معاملات سے سابقہ پیش آتا ہے۔ خاص کر موجودہ دور میں، جب کہ انسان کی ضروریات کئی گنا بڑھ گئی ہیں اور باقی دنیا کے ساتھ زندگی گزارنے میں ایک سے بڑھ کر ایک مشکل پیش آرہی ہے۔ اس صورت میں تحریک کے ساتھ ہمہ وقت کام کرنے والے افراد سے یہ مطالبہ مناسب نہیں ہوسکتا ہے کہ وہ توازن کے ساتھ کسی معاشی مقصد کو پیش نظر نہ رکھیں۔ تاہم، یہیں پر اس چیز کی طرف توجہ مبذول کرانا نہایت ضروری ہے کہ تحریکات سے منسلک افراد کو اپنے معاشی مقصد کوثانوی حیثیت دینی چاہیے، بنیادی اور پہلی حیثیت تنظیم کے مشن کی آبیاری ہونی چاہیے۔ ورنہ، معاش کو اوّلیت دینے کے نتیجے میں افراد کہیں تنظیم کے مشن کو ہی معاش کمانے کا ذریعہ نہ سمجھ لیں۔ اور اس بات کا بھی امکان ہے کہ تحریک یا تحریکی ذمہ داریوں کے وسیلے سے محض مادی وسائل کی کشش ہی انھیں کھینچ نہ لے جائے۔
قدامت پرستی اور روایت پسندی کا دور اب اس دنیا سے رحلت کر رہا ہے۔ نہ صرف انسانوں کو بلکہ تنظیمات کو بھی دنیا کے بدلتے حالات کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ خصوصاً جب اس کے مخالف شر پسند عناصر اپنی صلاحیتوں کی بنیاد پر اعلیٰ درجے پر فائز ہوں تو وہاں اسلامی تحریکات کو بھی اپنے افراد کو بدلتے تقاضوں کے پیش نظر تربیت دینا ہوگی۔
آخر میں جس چیز کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے، وہ تحریکات کے اندر اختلافات کا وجود ہے۔ اختلافات یا تنازعات کا پیدا ہونا کوئی معیوب بات نہیں، اگر انھیں اخلاقی حدوں کے اندر پیش کیا جائے۔ یاد رکھنے کی بات ہے کہ اگر کسی تنظیم میں اختلاف راے پیدا نہ ہو، اور وہ بھی آج کی دنیا میں، جب کہ ’معلومات‘ کی بہتات ہے، تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ لوگ غور نہیں کر رہے یا کام میں دل چسپی نہیں لے رہے۔ جہاں پر مختلف عملی صلاحیتوں کو لے کر ایک سے زیادہ انسان کام کر رہے ہوں، وہاں پر اختلاف کا پیدا ہونا معیوب بات نہیں، بلکہ سچی بات یہ ہے کہ اختلافات کا نہ اٹھنا حیرت کی بات ہے۔ تاہم، اختلافات کے نبٹانے میں علم و اخلاق کے حدود کو مدِ نظر رکھنا اور افراد کے نئے خیالات کو وقعت دیتے ہوئے باہم صلاح و مشورے سے کام لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسی صورتِ حال کا سامنا کرنے کے لیے تنظیمات کو ہمیشہ سے تیار رہنا چاہیے۔
تنظیمات کے اندر صورتِ حال تب دگر گوں ہوتی ہے، جب کسی ایک فرد کے تنظیم میں اختلاف کی صورت میں اسے خاطر خواہ اہمیت نہ دی جائے۔ ایسی سردمہری کے نتیجے میں فرد تنظیم کے ساتھ رسمی طور پر وابستہ رہتا ہے، لیکن دل اورعمل اُس کی گواہی نہیں دیتے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایسے اختلاف کی وجہ سے تنظیم کے معمول کے کام کاج پر منفی اثر پڑتا ہے۔ دراصل ایسا فرد جسمانی زبان سے، اپنے ساتھیوں سے متوقع طور پر کم باتیں کرتا، کام میں لیت و لعل یا کام نہ کرنے پر بے جا معذرتیں پیش کرتا اور بغیر کسی مسئلے کے چھوٹی چھوٹی باتوں پر اختلاف کا اظہار کرتا ہے۔ پیٹھ پیچھے اختلاف ظاہر کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر تنظیمی اُمور پہ نکتہ چینی، باقی ساتھیوں کی عزت نہ کرنا اور چہ مہ گوئیوں کا بازار گرم کیے رکھنا وغیرہ ایسے اشارے ہیں ، جہاں پر تنظیم کو دیر کیے بغیر اِن مسائل اور اس فرد کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ان چیزوں کو نظرانداز کرکے فرد کو فنا ہونے کے لیے چھوڑ دینا تنظیم کے لیے زہرقاتل ہے کہ جس میں ممکن ہے ایسے فرد سے جان چھوٹ جائے، مگر تنظیم کا بھی نقصان ہوگا۔ آخر اہلِ نظم کا کام یہی تو ہے کہ وہ اپنے ساتھی کو ساتھ لے کر چلے،اس کے اشکالات دُور کرے۔
تنظیم کے اندر کچھ اختلافات ایسے ہوتے ہیں جن کو نظر انداز (avoid) کرنے ہی کے نتیجے میں اُن کا حل سامنے آتا ہے۔ کچھ اختلافات میں فریقین میں سے کسی ایک فرد کو ضرور پیچھے ہٹنا، accommodate کرنا ہوتا ہے۔ اسی طرح سے کچھ اختلافات کی نوعیت ایسی ہوتی ہے، جہاں پر پنجہ آزمائی (compete)کرنا پڑتی ہے۔ کبھی ایسا بھی اختلاف سامنے آجاتا ہے، جہاں پر مفاہمت (compromise) کا راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے اور لے دے کے مسئلے کو سلجھانا پڑتا ہے۔ ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ فریقین میں سے کسی ایک کی بات بہت معقول ہو، مگر اپنے موقف سے ہٹ جانے کے بعد دوسرے کی بات کو تسلیم کرنے سے انصاف کا تقاضا پورا ہوتا ہو۔
یہ نکات قیادت سے باریک بینی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ہم سمجھتے ہیں کہ اسلامی تحریک کے لیے ایمان، اخلاق اور افراد میں سے کسی ایک چیز کو بھی سو فی صدبنیادی درجے کی ضرورت سے کم نہیں سمجھنا چاہیے۔ اسی چیز سے افراد یا انسانی وسائل کی درست منصوبہ بندی کی نیو اُٹھائی جاسکتی ہے۔
یہ ستمبر ۲۰۱۳ء کی بات ہے، بھارت کے صوبے اتر پردیش میں ایک لڑکی کو چھیڑنے کے مسئلے پر تین قتل ہو گئے اور بعد ازاں ایک وڈیو کے منظرعا م آنے کے بعد ہندو مسلم فسادات پھوٹ پڑے۔ بی بی سی کے مطابق تقریباً ۵۰؍ افراد ہلاک ہوئے اور ۴۰ہزار افراد جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی انھیں نقل مکانی کرنا پڑی۔ دراصل ایک وڈیو کے ذریعے افواہ اڑی تھی کہ: ’’دوہندو جاٹ لڑکے مُردہ حالت میں پائے گئے ہیں، جنھیں مسلمانوں نے ہلاک کیا‘‘۔ یہ وڈیوعام (وائرل) ہونے پر جاٹ ہجوم اتنا برافروختہ ہوگیا کہ انھوں نے مسلمانوں کے گھروں میں گھس کر لوگوں کے گلے کاٹے ،حالاںکہ اس سے قبل متاثرہ علاقے میں جاٹوں اور مسلمانوں کے درمیان کبھی کوئی جھگڑا سامنے نہ آیا تھا۔ قتل عام اور خون کی بارش تھم گئی تو پولیس نمودار ہوئی اور معلوم ہوا کہ وہ وڈیو دراصل پاکستان کے شہر سیالکوٹ میں ہجوم کے ہاتھوں مارے جانے والے دو بھائیوں کی تھی اور ایک سال پرانی تھی۔ پاکستانی میڈیا کے مطابق ان دو لڑکوں کی ہلاکت بھی غلط فہمی اور افواہوں، یعنی غیر مصدقہ خبروں کی وجہ سے ہوئی تھی، جس نے ہجوم کو اتنا مشتعل کر دیا کہ اس نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لیا اور خود ہی ان لڑکوں کو سڑک پر سزا دینے کا فیصلہ کرلیا۔
اسی طرح۲۰۱۶ء میں پنجاب میں بچوں کے اغوا کی خبروں کے اسکینڈل سے اندازہ ہوا کہ ہمارا میڈیا غیر تصدیق شدہ خبروں پر کتنا انحصار کرتا ہے اور سوشل میڈیا کی وجہ سے معاشرہ کتنے دباؤ میں ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر یہ انتشار پھیلانے والی خبریں بڑے خلوص سے ’فارورڈ‘ کی گئیں کہ: ’بچوں کے والدین ہوشیار ہو جائیں‘۔ بعد میں غیر جانب دارانہ تحقیقات سے معلوم ہوا کے اصل اعداد وشمار آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں اور جن بچوں کے اغوا کی رپورٹیں درج کروائی گئیں، ان میں سے بھی زیادہ تر بچے خود گھر سے کسی ناراضی یا ڈر کی وجہ سے بھاگے تھے۔ پنجاب کے بعض مقامات پر اغوا کے شبہے میں معصوم افراد کے ساتھ بلاجواز مارکٹائی اور تشدد کے واقعات بھی سامنے آئے۔
ان مثالوں سے کسی کے ذہن میں یہ خیال نہ آئے کہ ایسا صرف غربت زدہ تیسری دنیا میں ہوتا ہے۔ گذشتہ سال امریکی انتخابات کے دوران سوشل میڈیا پر ٹرمپ کے غیرمصدقہ حقائق پر مبنی بیانات مسلسل گردش میں رہے اور بڑے پیمانے پر انھیں آگے شیئر کیا جاتا رہا۔ فیس بک آج دنیا میں نشرو اشاعت کا سب سے بڑا پلیٹ فارم بن چکا ہے۔ جہاں کل کا اخبار بین، اب خود صحافی ہے اور خبر بنانے سے لے کر اس کو منٹوں میں نشر کرنے کے تمام وسائل اسے حاصل ہیں۔ ایک طرف پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر صحافتی اصولوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہو رہی ہے، تو دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ آج ہر وہ فرد جسے کمپیوٹر یا موبائل پر انٹرنیٹ کی سہولت میسر ہے بلاگر، فیس بک، ٹویٹر، یوٹیوب، پر خبر بنا رہا ہے۔ اس طرح صحافی اورعام شہری کے درمیان فرق ختم ہو چکا ہے۔ عام شہری جو پہلے خبر یا میڈیا کا صارف تھا، اب ٹیکسٹ، تصویر، وڈیو کی ترسیل کے ذریعے خبرسازی میں براہِ راست حصہ لے رہا ہے۔ لیکن سوشل میڈیا کی آمد سے جہاں اخبارات اور ٹیلی ویژن چینلوں کی اجارہ داری ختم ہوئی ہے، وہاں خبروں کی غیر ذمہ دارانہ ترسیل کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ صحافت کے بنیادی اصول، یعنی تصدیق اور احتساب کو بُری طرح نظر انداز کیا جارہا ہے۔ بیک وقت ’صحافی اور قاری‘ عموما ً خبر کی تصدیق کی ضرورت محسوس نہیں کرتا اور نہ خبروں کے غلط یا صحیح ہونے کے حوالے سے اپنی ذمہ داری محسوس کرتا ہے، اور سب سے بڑھ کرحوالہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی کہ پوسٹ کا ماخذ کیا ہے۔ خبر یا پوسٹ کا محض دل چسپ ہونا ہی اسےوائرل کرنے کے لیے سب سے بڑی اہلیت ہے۔
جھوٹی خبریں معاشرے میں ہمیشہ موجود رہی ہیں۔ ان جعلی خبروں کے پیچھے سیاسی اور عسکری مقاصد کے لیے منظم پروپیگنڈا کا ہاتھ بھی ہو سکتا ہے اور بیمار ذہن کے افراد محض سنسنی اور افراتفری پھیلانے کے لیے بھی ان کی ترسیل کر سکتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر منافع بھی سنسنی خیز جعلی خبروں، غلط مگر دل چسپ تاریخی اور من گھڑت مذہبی واقعات کی ترسیل کو پُرکشش بناتا ہے۔ اس میں ضرررساں پہلو یہ ہے کہ انھیں پھیلانے والے نیٹ ورک میں اکثر ان لوگوں کا حصہ ہوتا ہے جنھیں خود نہیں معلوم ہوتا کہ خبر جھوٹی ہے۔ وہ مذہبی عقیدت یا قومی خدمت کے جذبے سے سرشار ہوتے ہیں۔ اور ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ ہمارے دین نے ابلاغ کے جو اصول واضح کیے ہیں اور اس حوالے سے جو عالمی اصول موجود ہیں، ان سے واقفیت عام معاشرے میں تو کیا پڑھے لکھے افراد میں بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس سے معاشرے میں انتشار پھیل رہا ہے۔ نسل پرستی، انتہا پسندی یہاں تک کہ دہشت گردی میں بھی کئی گنا اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ موجودہ دور کا ایک ایسا چیلنج ہے جس سے نبرد آزما ہونا وقت کی ایک اہم ضرورت بن چکی ہے۔
اس حوالے سے قرآن و سنت کی تعلیمات اور عالمی معیارات کے مطابق عوام کو میڈیا کے محتاط استعمال کی آگاہی دینا ضروری ہے۔ اس مضمون میں ہم نے عالمی معیارات اورقرآنی تعلیمات کی روشنی میں سوشل میڈیا کے لیے کچھ اصول مرتب کرنے کی کوشش کی ہے۔ امید ہے کہ اہل علم اس بحث کو آگے بڑھانے میں مددگار ہوں گے۔
آئیے ڈاکٹر شاہد مسعود صاحب کی مثال کے ذریعے صحافت کے ان اہم اصولوںکو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ غلطی کسی سے بھی ہو سکتی ہے اور ایک صحافی بھی انسان ہوتا ہے۔ یہاں مثال پیش کرکے انھیں ہدف بنانا مقصود نہیں ہے۔ صرف ایک ایسے عمل کا، جو ابلاغ کے حوالے سے اجتماعی زندگی پر اثر انداز ہوا یا ہو سکتا تھا کا تنقیدی جائزہ پیش نظر ہے۔ ڈاکٹر شاہد صاحب نے ایک چینل پر زینب قتل کے بارے میں کچھ انکشافات کیے۔ ان کا کہنا تھا کہ: ’ملزم عمران کا ایک غیر ملکی مافیا سے تعلق ہے اور اس کے درجنوں غیر ملکی اکاؤنٹس موجود ہیں اور بااثر سیاسی شخصیات اس کی پشت پناہی کر رہی ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ثبوت خود ان کے پاس موجود ہیں۔ بعد ازاں معاملہ عدالت تک پہنچنے پر اور بات بہت زیادہ بڑھ جانے پر انھوں نے یہ کہہ کر معافی مانگی کہ وہ ایک باپ کے طور پر جذباتی ہو گئے تھے۔ ایک ذمہ دار صحافی کی حیثیت سے یہ ان کی ذمہ داری تھی کہ ٹی وی پر اتنے بڑے دعوے کرنے سے پہلے وہ اپنے طور پر اس معاملے کی تصدیق کرتے، مثلاً خود اپنے ذرائع استعمال کر کے بنک سے آفیشل ڈیٹا نکلواتے۔
دوسرے، اگر اپنے طور پر تصدیق کے بجاےوہ کسی سورس پر بھروسا کر رہے تھے تو سورس کے نام سے قوم کو مطلع کرتے۔ اگر کسی وجہ سے سورس اپنا نام اور شناخت پبلک کرنا نہیں چاہتا تھا، تو کم از کم اس کی شناخت ظاہر کیے بغیر مثلاً 'ایک قومی بنک کے وائس پریذیڈنٹ یا اعلیٰ عہدے دار کے ذریعے معلوم ہوا ’یا 'ایک اہم سیاسی شخصیت‘ جیسے الفاظ استعمال کرتے۔ یہ شفافیت، یعنی ٹرانسپیرنسی کا اصول ہے کہ خبر کا ذریعہ، سورس یا ماخذ سے خبر کے صارف (قاری، سامع یا ناظر)کو مطلع کیا جائے۔ ہم نے دیکھا کہ اس معاملے میں شفافیت کے اس اصول کو بھی پس پشت ڈال دیا گیا۔ اب آخری اصول رہ جاتا ہے احتساب یا مواخذہ۔ یہ اصول ہمیں بہرحال نظر آتا ہے کہ انھوں نے اس خبر کی پوری ذمہ داری شروع سے آخر تک لی (ویڈیو ریکارڈنگ کی موجودگی میں اس کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں تھا)، اور اسی لیے آخرکار قوم کے سامنے یہ بات آ گئی کہ خبر صحیح نہیں تھی بلکہ ڈاکٹر شاہد صاحب جذبات میں آ کر افواہوں اور اپنی ذاتی راےکو حقیقت سمجھ بیٹھے تھے۔
سورۂ احزاب آیت ۷۰ میں کہا گیا:’’اے ایمان لانے والو، اللہ سے ڈرو اور ٹھیک بات کیا کرو‘‘۔ اس آفاقی کتاب میں حق بات کرنے کو اتنی اہمیت دی گئی ہے کہ دشمن کی دشمنی میں بھی اشتعال سے پرہیز اور انصاف کی گواہی کا حکم دیا گیا ہے۔ سورۂ مائدہ آیت ۸ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو۔ کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کر دے کہ انصاف سے پھر جاؤ۔ عدل کرو، یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔ اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو، جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اُس سے پوری طرح باخبر ہے‘‘۔
سورۂ نساء آیت ۱۳۵ میں انصاف کی گواہی کو ایک دوسرے زاویے سے موضوعِ بحث بنایا گیا ہے:’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، انصاف کے علَم بردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو، اگرچہ تمھارے انصاف اور تمھاری گواہی کی زد خود تمھاری اپنی ذات پر یا تمھارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔ فریق معاملہ خواہ مال دار ہو یا غریب، اللہ تم سے زیادہ اُن کا خیر خواہ ہے۔ لہٰذا اپنی خواہش نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو۔ اور اگر تم نے لگی لپٹی بات کہی یا سچائی سے پہلو بچایا تو جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے‘‘۔
بظاہر ان آیات کی شان نزول اور سیاق و سباق مختلف محسوس ہو سکتا ہے اور قاری یہ محسوس کرسکتا ہے کہ ابلاغ سے ان قرآنی تعلیمات کا براہِ راست کوئی تعلق نہیں۔ لیکن ہمارا ایمان ہے کہ قرآن کی آیات اور تعلیمات ہرزمانے اور ہر طرح کے حالات میں مشعل راہ ہیں اور ان کے مفاہیم بہت وسیع اور تعلیمات آفاقی ہیں۔ ان آیات کے مفاہیم کا آج کے سیاق و سباق میں اطلاق بھی بہت اہم دینی اور دنیوی ضرورت ہے۔
کولمبیا جرنلزم سکول کے پروفیسر جم کیری کے مطابق، صحافت کی بنیاد دراصل ’سچ کا سفاک احترام‘ ہے اور تصدیق کے بغیر سچ کی جانچ پڑتال ممکن نہیں۔ تصدیق درحقیقت صحافت کا اصل کام ہے۔ دراصل یہی اسے ادب کی دوسری اصناف اور پروپیگنڈا سے ممیز کرتا ہے اور سوشل میڈیا پر بھی خبر کی ترسیل کا ضابطۂ اخلاق یہی ہونا چاہیے۔
اگر مصنف نے تاریخ کی کتاب یا تاریخ داں کا حوالہ دیا ہے تو ذرا گوگل سے کسی مستند ویب سائٹ پر یا انسائی کلوپیڈیا پر دیکھ لیں کہ اس نام کی کوئی کتاب یا تاریخ دان موجود تھا یا نہیں؟ اگر تھا تو اس کا تعلق اسی دور سے تھا کہ جس کا خبر میں ذکر کیا گیا ہے؟ یہ وہ اصول ہیں جنھیں ہمارے بزرگوں نے حدیث نبویؐ کا ذخیرہ مرتب کرتے ہوئے اختیار کیا۔ انھوں نے ایک ایک راوی کے حالاتِ زندگی کو بھی مرتب کیا تاکہ یہ فیصلہ کیا جا سکے کہ اس سلسلے میں موجود ایک راوی، دوسرے راوی کی زندگی میں موجود بھی تھا اور اگر تھا تو کیا ان دونوں کی آپس میں ملاقات ممکن ہوئی؟ اور ایک کی عمر اتنی تھی کہ دوسرے سے اپنے ہوش کی عمر میں ملاقات کے دوران حدیث سن سکتا یا اسے یاد رکھ سکتا؟ کیا ایک نے دوسرے کی رہایش کے مقام کا سفر کیا یا نہیں؟ اسی بنیاد پر روایت کے موضوع، ضعیف یا مستند ہونے کے بارے میں فیصلہ کیا گیا اور آج بھی اسے اختیار کیا جاتا ہے۔
کہا جا سکتا ہے کہ حدیث کا معاملہ بہت نازک تھا کہ اس پر ہمارے دین اور ایمان کا دارومدار ہے۔ بجا ارشاد! مگر کسی انسان کی زندگی اور آبرو کی حُرمت کا تقدس تو اسلام کے اس اصول سے ظاہر ہے کہ: ’’ایک بے گناہ فرد کا قتل انسانیت کا قتل ہے‘‘۔جھوٹی خبریں انسان کے اعتبا ر اور آبرو کے ساتھ اس کی جان بھی لے سکتی ہیں،جیساکہ اس تحریر کے شروع میں مثال دی گئی ہے۔ جھوٹی خبروں کا معاملہ انتہائی سنجیدہ غور و فکر کا متقاضی ہے۔
فی الوقت عالمی منظر نامے میں دوسری قوموں کے خلاف بےبنیاد خبروں کے ذریعے افواہیں پھیلانے کا کام یورپ، امریکا، بھارت، پاکستان سمیت تقریباً دنیا کے ہر خطے میں نسل پرستی، اور مذہبی انتہا پسندی کو فروغ دے رہا ہے۔ جرمنی میں سوشل میڈیا پر مہاجرین کے خلاف نفرت پھیلانے پرفیس بک کے خلاف مقدمہ اور سوش میڈیا پر نفرت پھیلانے والوں کے خلاف قانون سازی ہو چکی ہے۔ سویڈن اور کچھ دوسرے یورپی ممالک اپنے عوام کو میڈیا کے حوالے سے آگاہی کو اپنی اہم ترجیحات میں شامل کر رہے ہیں۔
ہم کم از کم یہ تو کر سکتے ہیں کہ ہمارے درمیان جو اس شعبے کا علم رکھنے والے ہیں، ان سے اس خبر کی تصدیق کروا لیں۔ خبروں کی نوعیت مختلف ہو سکتی ہے، مگر یہ سادہ سا اصول جھوٹی پوسٹوں کی ترسیل کو روکنے میں بہت معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ ہمارے ارد گرد ایسے مستند عالم حضرات کی کمی نہیں ہے، جو دینی معلومات کے ماخذین اور کتب کا علم رکھتے ہوں۔ یہی معاملہ دنیوی علوم کا بھی ہے۔ آج سوشل میڈیا کے دور میں رابطہ منٹوں میں کیا جا سکتا ہے اور پوسٹ کی تصدیق ان حضرات سے کی جا سکتی ہے۔ میں نے ہمیشہ اہل علم حضرات کو تصدیق کے معاملے میں ہمدرد اور معاون پایا ہے۔ ہمارے نزدیک دینی اور علمی ادارے افواہوں اور غلط پوسٹس کے سد باب کے لیے ہیلپ لائن بھی قائم کر سکتے ہیں۔ جہاں موجود ماہرین سے خبر یا پوسٹ کی جانچ کروائی جا سکے۔
انسانی نفسیات پر تبصرہ کرتے ہوئے سورۂ یونس کی آیت ۳۶ میں یہ بات واضح کی گئی کہ دنیا کے لوگوں کی اکثریت محض قیاس اور گمان پر چل رہی ہے:’’حقیقت یہ ہے کہ اِن میں سے اکثر لوگ محض قیاس و گمان کے پیچھے چلے جا رہے ہیں، حالاں کہ گمان حق کی ضرورت کو کچھ بھی پُورا نہیں کرتا۔ جو کچھ یہ کر رہے ہیں اللہ اُس کو خوب جانتا ہے‘‘۔
بغیر علم کے بحث کرنے والوں کے لیے سورۂ آل عمران آیت ۶۶ میں کہا گیا: ’’تم لوگ جن چیزوں کا علم رکھتے ہو اُن میں تو خوب بحثیں کر چکے، اب اُن معاملات میں کیوں بحث کرنے چلے ہو جن کا تمھارے پاس کچھ بھی علم نہیں۔ اللہ جانتا ہے، تم نہیں جانتے‘‘۔ سورہ بنی اسرائیل آیت ۳۶ میں کہا گیا:’’کسی ایسی چیز کے پیچھے نہ لگو، جس کا تمھیں علم نہ ہو۔ یقیناً آنکھ، کان اور دل سب ہی کی باز پرس ہونی ہے‘‘۔
سورۂ احزاب آیت ۶۰ کے مطابق:’’اور وہ لوگ جن کے دلوں میں خرابی ہے، اور وہ جو مدینہ میں ہیجان انگیز افواہیں پھیلانے والے ہیں، اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے تو ہم ان کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے تمھیں اُٹھا کھڑا کریں گے، پھر وہ اس شہر میں مشکل ہی سے تمھارے ساتھ رہ سکیں گے‘‘۔
یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ قومی سلامتی، یعنی نیشنل سیکورٹی کے بعض معاملات میں رازداری لازم ہے۔ سورۂ ممتحنہ اور بعض دوسری سورتوں میں اس حوالے سے بھی بات کی گئی ہے۔ اس پر آیندہ کسی مضمون میں بحث کریں گے۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ چودہ سو سال پہلے یہ اصول دنیا کو متعارف کروانے والی کتاب مسلمانوں پر ہی نازل ہوئی اور ہمارے آبا نے اپنی پوری پوری زندگیاں تصدیق میں صرف کر دیں اور شفافیت کے اصولوں کو رواج دیا، مگر آج ہم ہی وہ قوم ہیں جو ان اصولوں کا ذکر سننا بھی پسند نہیں کرتے۔ اقبال سچ ہی کہہ گئے: ’گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی‘۔ اور کتابوں کے ساتھ ساتھ ان اخلاقی اصولوں کو ’جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سی پارا ‘۔
خبروں کو بغیر تصدیق کے پھیلانا ہمیشہ سے انسانی معاشرے کے لیے نقصان دہ رہا ہے، لیکن اب ایک عام آدمی اور صحافی کے فرق مٹ جانے کی صورت میں یہ اور زیادہ ضرر رساں ہو گیا ہے، کیوںکہ اب خبروں کی ترسیل تو آسانہو گئی ہے مگر صحافت کے اس نئے دور میں تصدیق، شفافیت اور مواخذہ ناپید ہے۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک عام شہری خبر بنا تو رہا ہے مگر اس کو بنانے اور پھیلانے کے اخلاقی اصولوں سے بے بہرہ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اسکولوں کا نصاب اور میڈیا دونوں عالمی معیارات اور دینی تعلیمات کی روشنی میں میڈیا کے اصولوں کی آگاہی دینے والے ہوں۔
سوال : مولانا مودودی ؒ نے اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلہِ [یوسف۱۲:۶۷]اور دوسری آیات سے حاکمیت الٰہیہ کا جو سیاسی نظریہ پیش کیا ہے، یہ درست نہیں ۔ وہ تمام آیات جن سے مولانا مودودیؒ استدلال کرتے ہیں ان سے تکوینی نظام مراد ہے ۔ اسلام دوسرے مذاہب کی طرح ایک مذہب ہے اور یہ ہر شخص کی نجی زندگی کو کنٹرول کرتا ہے اگر کوئی اس مذہب کو تسلیم کرے ۔
جواب : مولانا مودوی ؒ کی کتاب قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں نے عالمِ اسلام میں جو فکری انقلاب برپا کیا ہے، اس پر اب عالم اسلام کے علما اور مفکرین کا اجماع ہو گیا ہے۔اسلام کی اس تعبیر سے اہل مغرب بہت پریشان ہیں ۔ وہ عالم اسلام کے بعض فکری منحرفین سے ایسی کتابیں اور مقالات لکھواتے ہیں، کہ جن سے مولانا مودودی کی جانب سے تشریح کردہ اسلامی سیاسی نظریے اور اسلامی جمہوری انقلاب کے نظریے اور اسلامی جہاد کے نظریے کی نفی ہوجائے۔
یہاں پر سب سے پہلی بات یہ ذہن میں رہنی چاہیے کہ یہ نظریہ کوئی مولانا مودودی کا ذاتی حیثیت میں وضع کردہ نظریہ نہیں ہے کہ جس میں انھوں نے چند آیات کی صرف لغوی تشریح کردی ہو۔ مذکورہ کتاب میں قرآنی آیات کی تشریح کی پشت پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مکمل سیرت اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور خلافت راشدہ کے قیام کی تمام عملیات کھڑی ہیں اور قرآن و سنت کی واضح تصریحات بھی اس کے لیے شاہد عادل ہیں ۔ مولانا نے جن آیات سے استدلال کیا ہے، ان کے علاوہ انھوں نے اپنی کتاب سیرت سرور عالمؐ میں بھی استدلال کیا ہے اور قرآن کی بے شمار تعبیرات اور سنت کی لا تعداد تصریحات سے بھی دلائل و نظائر کو پیش کیا ہے ۔ ان میں سے اہم تصریحات یہ ہیں:
۱- سورۂ قصص آیت ۵ میں ہے: وَنُرِيْدُ اَنْ نَّمُنَّ عَلَي الَّذِيْنَ اسْتُضْعِفُوْا فِي الْاَرْضِ وَنَجْعَلَہُمْ اَىِٕمَّۃً وَّنَجْعَلَہُمُ الْوٰرِثِيْنَ۵ۙ (القصص ۲۸:۵)’’اور ہم یہ ارادہ رکھتے تھے کہ مہربانی کریں ان لوگوں پر جو زمین میں ذلیل کرکے رکھے گئے تھے اور انھیں پیشوا بنا دیں اور ان ہی کو وارث بنائیں‘‘۔اگر مذہب کے اندر امامت کا کوئی دخل نہیں ہے تو اللہ نے یہ حکم کیوں دیا؟ لہٰذا، یہ کہنا کہ جب لوگ ایمان قبول کریں گے تو خود بخود اسلامی نظام قائم ہو جائے گا محض تکلف ہے۔اللہ تعالیٰ صراحت سے فرماتا ہے کہ ہمارا ارادہ اور حکم یہ تھا کہ غریب عوام کی امامت قائم ہواور پیغمبروں نے اس پر عمل کیا۔
۲-اسی طرح سورئہ مائدہ آیات ۴۴ تا ۵۰ میں ہے: تمام اُولوالعزم پیغمبروںؑ کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ وہ نظام عدل قائم کریں اور اللہ کے حکم کے مطابق فیصلے کریں۔ پھر سخت تنبیہ کی گئی کہ اگر تم عدل نہیں کرو گے تو تم ظالم ہو گے ، فاسق ہوگے اور کافر ہو گے۔ اس سے تکوینی احکام مراد نہیں کہ تم بارشیں بر سائو اور زلزلے برپا کرو ۔ ان آیات کے آخر میں مسلمانوں کو بھی عدل کا حکم دیا گیا ہے ۔ مزید یہ کہ کیا قرآن میں حضرت دائود علیہ السلام کے نظام عدل اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے عدل اور حکومت کے قصے آخر ویسے ہی تو بیان نہیں کیے گئے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ اس اعتبار سے تمام انبیاؑ دعوت اور کام کے اعتبار سے ’سیاسی لوگ‘ تھے اور احادیث میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ کَانَتْ بَنُوْ اِسْرَائِیْلَ تَسُوْسُہُمُ الْاَنْبِیَاءُ (البخاری، کتاب احادیث الانبیاء، باب ما ذکر فی بنی اسرائیل، حدیث: ۳۲۸۶) ’’بنی اسرائیل کے سیاسی امام بھی انبیا تھے‘‘۔ تعجب ہوتاہے کہ ان منحرفین کو کس طرح یہ غیرعقلی شبہہ لاحق ہو گیا ۔ کیا انھوں نے سیرتِ رسولؐ اور سیرت انبیا علیہم السلام نہیں پڑھیں؟
۳-اس میں شک نہیں کہ اسلام کا مرکز مسجد ہے اور اس نے مسجد کی تعمیر اور اللہ کی عبادت کا حکم دیا ہے اور واضح طور پر کہا ہے کہ اسلام کا مرکز مسجد ہے، لیکن یہ نہیں کہا گیا کہ اسلام مسجد تک محدود ہے بلکہ اسلام نے تو پوری زمین کو مسجد بنایا ہے اور واضح طور پر فرمایا ہے کہ مسجد جہاد کا سنٹر ہوگا اور فرمایا کہ مسجد کی خدمت کرنے کا ثواب تو ہے، لیکن یہ خدمت بہرحال اقامت ِ دین کے لیے زندگی بھر کی ہمہ پہلو جدوجہد سے بڑا درجہ نہیں رکھتی ۔ تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ اسلامی جہاد اور انقلاب کی راہ میں اگر تجارت اور مالی سر گرمیاں حائل ہوں یا تمھاری قومیت حائل ہو تو پھر اپنے انجام کا انتظار کرو۔ اسی لیے مولانا مودودی نے سب سے پہلے نظریۂ جہاد پر قلم اٹھا یا اوریہ بتایا کہ جہاد اسلامی انقلاب کا اصل ستون ہے ۔اس میں نکتے کی بات یہ ہے کہ مولانا نے اُمت مسلمہ کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ جہاد سے بھی پہلے اسلامی حکومت کا قیام ضروری ہے کیونکہ جہاد اسلامی حکومت کا کام ہے ۔ اگر کچھ لوگ اسلام سے حکومت کا باب نکال کر کچھ اور منہاج بنانا چاہتے ہیں تو وہ قرآن کریم کے ایک بڑے حصے کو منسوخ کر رہے ہیں اور سنت اور سیرتِ رسولؐ اور سیرتِ صحابہؓ سے صریح انکار کرتے ہیں۔
۴-اسی طرح سورۂ انبیاء کی آیات ۱۰ تا ۱۷ غوروفکر کی دعوت دے رہی ہیں، جن کا مفہوم یہ ہے کہ ہم نے ایک کتاب اتاری، جس میں تمھارے لیے نصیحت ہے۔ ہم نے آسمانوں اور زمینوں کی تخلیق اور ان میں انسانوں کی تخلیق اور ان کا عروج و زوال محض کائناتی اور تکوینی کھیل تماشا کے لیے نہیں بنایا بلکہ یہاں حق و باطل کی ایک کش مکش ہے ۔ ہم حق کو باطل پر ایک بم کی طرح پھینکتے ہیں جو باطل کا بھیجا نکال دیتا ہے اور جس سے ظالم اقوام کو پیس کر رکھ دیا جاتا ہے۔ وہ اس لیے کہ وہ ظالم ہوتی ہیں اور ہم نے ان کے نظام کی جگہ ایک عادلانہ نظام قائم کرنا ہوتا ہے ۔ یہ آیات خالص اقوام کے عروج و زوال اور عادلانہ نظام کے بارے میں ہیں ۔ سائنسی اعتبار سے تو یہ کائنات پہلے سے عادلانہ اصولوں پر چلتی ہے ۔ کوئی ستارہ دوسرے پر ظلم نہیں کرتا ۔ سورج چاند کو نہیں پکڑ سکتا۔ یوں تکوینی اعتبار سے کائنات پوری ہم آہنگی سے چلتی ہے۔
۵-پورے قرآن کریم اور سنت رسولؐ میں تذکیر و تبشیر کے ساتھ جرائم اور ان کی سزائوں کا ذکر بھی ہے ۔ سوال یہ ہے کہ اگر قرآن و سنت میں جرم و سزا کا تصور نہیں اور کوئی حکومت نہیں ہے تو پھر اسلام نے سزائیں کیوں مقرر کیں ہیں ؟ میں نے مصرکے فقیہ ڈاکٹر عبد العزیز عامر کی ایک کتاب مولانا مودودی کی ہدایت پر ترجمہ کی تھی ۔ اس کے حصہ اول پر مولانا مودودی نے خود نظرثانی کی۔ یہ کتاب اسلام کا قانونِ جرم و سزا کے نام سے شائع ہوئی ہے ۔جو لوگ اسلامی نظام کے مختلف پہلوؤں ، سول کوڈ،کریمینل کوڈ اور معاشی نظام، مثلاً حرمت سود کا انکار کرتے ہیں، ان کے لیے آسان طریقہ تو یہ ہے کہ وہ سرے سے اسلام سے وابستگی کا انکار کر دیں، اللہ ہمیں ہدایت دے کیوںکہ ہم بدیہیات کا انکار کرتے ہیں۔
۶-سورۃ الفرقان کی آخری آیات ۶۳ تا ۷۷ میں عباد الرحمٰن، یعنی نبی آخر الزماںؐ اور صحابۂ کرامؓ کا جو پروگرام دیا گیا ہے کہ یہ لوگ کن خصوصیات کا معاشرہ قائم کرنا چاہتے تھے ۔ ان آیات کے آخر میں ان کی یہ دعا نقل فرمائی ہے: وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِيْنَ اِمَامًاکہ(ہمیں ایسی متقی سوسائٹی کا امام بنا) ۔ اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ اگر معاشرہ متقی نہ ہو اور وہ اصلاح نہ چاہتا ہو تو صرف حکمران ڈنڈے کے زور سے کامیاب نہیں ہو سکتے ۔ قیامت میں ایسے پیغمبر بھی آئیں گے، جن کے ساتھ ایک ایک امتی ہو گا۔ اس آیت میں امامت و خلافت کے قیام کی صراحت ہے اور یہ نص صریح ہے ۔
مولانا مودودیؒ کا ساتھ چھوڑنے اور جماعت اسلامی سے نکلنے والے بعض حضرات ابہام پیدا کرتے آئے ہیں اور اس اعتبار سے موجودہ لبرل حضرات اور امام بخاری کے دور کے جھَمِیَّہ ایک ہی فکر رکھتے ہیں ۔ یہ لوگ اسلامی معاشرے سے مفادات تو لیتے ہیں، مگر معاشرے سے قطع تعلق نہیں کرسکتے ۔ اللہ ان کو ہدایت عطا فرمائے، آمین۔(مولانا سیّد معروف شاہ شیرازی)
قادیانیت (کے موضوع ) کے حوالے سے محمد متین خالد کا نام اس قدر معروف ہے کہ ان کے تعارف کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی ۔ انھوں نے مسئلہ ختم نبوت اور فتنۂ قادیانیت پر مختلف زاویوں سے معرکہ آرا تصانیف وتالیفات پیش کی ہیں۔ زیر نظر کتاب اگرچہ اپنے مندرجات اور مباحث کے اعتبار سے بہت متنوع اور وسعت کی حامل ہے، اس کے باوجود انھوں نے بیسیوں موضوعات کو ناموسِ رسالتؐ سے منسلک کر کے پیش کیا ہے۔ سرورق پر موضوعِ کتاب کی توضیح ان الفاظ میں دی گئی ہے: ’اسلام اور ناموس ِرسالتؐ کے خلاف مغرب کے تعصّب، دُہرے معیار اور بھیانک سازشوں پر مبنی تحقیقی دستاویز___ ناقابلِ تردید حقائق، تہلکہ خیز واقعات ، ہوش ربا انکشافات‘‘۔
مؤلف نے بڑی محنت کے ساتھ مختلف کتابوں ، رسالوں اور اخبارات (کی خبروں اور کالموں) سے ایسے واقعات، تبصرے اور لکھنے والوں کے مشاہدات اور بعض اداروں کی رپورٹیں جمع کر دی ہیں جن سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مغرب کی تنگ نظری ، تاریک خیالی، اندھے تعصّب اور دُہرے معیار کا اندازہ ہوتا ہے اور اس کی نام نہاد روشن خیالی، روا داری اور عدم برداشت کے دعوئوں کی حقیقت بھی ظاہر ہوتی ہے۔ مصنف نے یہودیوں اور انتہا پسند ہندوئوں کی مسلم دشمنی کو بھی تذکرۂ مغرب سے منسلک کیا ہے۔ مغربیوں کی دیگر خرابیوں (کرپشن ، بددیانتی ، فریب کاری ، بدعہدی، نام نہاد آزادیِ اظہار ، ہم جنسیت ، اور قتل وغارت گری ) کا تذکرہ بھی کتاب میں شامل ہے۔
کتاب ایک مسلسل مضمون کی شکل میں ہے۔زمانی ترتیب کے بغیر ،مصنف کو جو مواد میسر آتا گیا ، وہ کتاب میں جمع کرتے گئے۔ اپنے موضوع پر یہ ایک مفید کتاب ہے ۔(رفیع الدین ہاشمی)
پاکستان کی اردو صحا فت میں کالم نگاری کو گذشتہ ایک دو عشروں میں بہت فروغ ملا ہے مگر بیش تر کالم نگاروں کی تحریریں پڑھتے ہوئے مرزا غالب کا یہ مصرع ذہن میں گونجتا ہے ع
ہر بُل ہوس نے حسن ِ پرستی شعار کی
اگر آپ بُل ہوسی سے بالاتر کالم نگاروں کو تلاش کریں تو بہ مشکل وہ انگلیوں پر گنے جا سکیں گے۔ شاہ نواز فاروقی انھی منفرد اور صاحب ِاسلوب کالم نگاروں میں شامل ہیں۔ زیر نظر دونوں کتابوں میں جون ۱۹۹۹ء سے اکتوبر ۱۹۹۹ء تک کے کالم شامل ہیں۔ شاہ نواز فاروقی، ایک صاحبِ ایمان، بامطالعہ اور تجربہ کار صحافی ہیں۔ سلیقے سے بات کرنے کا ڈھنگ جانتے ہیں۔ وہ نہ صرف یہ کہ اسلام اور پاکستان بلکہ اسلامی نشاتِ ثانیہ کے مجاہدین (ٹیپو سلطان، اورنگ زیب عالم گیر، حضرت شاہ ولی اللہ، سیّد احمد شہید، شاہ اسماعیل شہید ، علامہ اقبال ، قائد اعظم ، سید ابوالاعلیٰ مودودی ) پر تنقیدکرنے والوں کی خبر لیتے ہیں، بلکہ سیکولر اور لبرل نظریات کے علَم بر دار نام نہاد دانش وَروں کی تضادبیانی کو بھی بے نقاب کرتے ہیں۔ سیاست دان ہویا دانش ور یا کوئی بڑا منصب دار گروہ ،جب کوئی کمزور بات کرے گا، فاروقی صاحب کی گرفت سے بچ نہیں سکے گا۔
تقریباً ۲۰سال پیش تر انھوں نے نواز شریف کی شخصیت کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا تھا: ’’اور ہم نے انھی کالموں میں عرض کیا تھا کہ میاں صاحب ایک بڑے امریکی ایجنڈے کے ساتھ اقتدار میں لائے گئے ہیں اور فوج کو ہدف بنانا اس ایجنڈے کا اہم حصہ ہے‘‘۔ (۳۰ ؍اکتوبر ۱۹۹۹ء)
مذہب ، ایمان اور تقویٰ کے حوالے سے وہ لکھتے ہیں کہ: ’’یہ شکایت عام ہے کہ حاجیوں اور نمازیوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ مبلغین اسلام کی تعداد میں بھی مسلسل اضافہ ہورہا ہے لیکن ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی پر اس کا کوئی اثر نظر نہیں آتا ۔ کیو ں؟ اس لیے کہ دین کی کلیت کا تصور لوگوں کے ذہنوں سے محو ہو گیا ہے‘‘ (ص ۳۸)۔ اور اس لیے بھی کہ مذہبی مسلمان بھی ’اپنی پوری زندگی کو دین کے حوالے ‘نہیں کرتے۔
فاروقی صاحب کے کالم بہت متنوع ہیں: پاکستان ، بھارت ،چین، امریکا، افغانستان : باہمی قربت اور فاصلے، عالمی سیاست ، ہماری مذہبیت، جماعت اسلامی کی ’امن دشمنی‘، ذرائع ابلاغ ، کھیل اور ہم، دوستووسکی، خود کشیوں کی لہر وغیرہ ۔ شاہ نواز فاروقی کے کالم قاری کے ذہن کو ایک اطمینان، سرخوشی اور یقین سے سرشار کرتے ہیں۔ ان کا استدلال اور اسلوب قاری کو ان کے موقف کا قائل کر کے ہی چھوڑتا ہے۔
شاہ نواز فاروقی کی تحریریں ہمارے رویوں پر تنقید کے ساتھ سلامتی کا راستہ بھی سجھاتی ہیں اور یوں موجودہ اجتماعی بحران سے عہدہ بر آ ہونے کے لیے ہماری رہنمائی بھی کرتی ہیں۔ طباعت واشاعت عمدہ اور قیمت بہت مناسب ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی )
جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی کے اطراف (اوکھلا اور جامعہ ملّیہ) کی مسلم آبادی کو بھارت کے اکثریتی ہندو طبقے نے ایک ’خطرہ‘ بنا رکھا ہے، جس کا بے جا اظہار گاہے گاہے بھارتی سیاسی رہنما، میڈیا اور بے جا طور پر عام ہندو بھی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں کی بیش تر مسلم آبادی کو روزانہ ہی ایسی ذہنیت سے ملے جلے غصے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پھر آٹو رکشہ ، بنک بلکہ پیزا کمپنی کے کارندے بھی ان کی درخواستوں کو کئی مرتبہ نفرت سے مسترد کر دیتے ہیں ۔ اسی ذہنیت کے تابع اَن کہی اور من گھڑت کہانیاں بھی اس علاقے کو ایک ’دیو‘ اور ’عفریت‘ کی شکل میں پیش کرتی ہیں۔ علاقے میں ہر وقت پولیس فورس کی تعیناتی ڈر اور خوف کے ماحول کو مزید خوف ناک اور دہشت زدہ کرتی ہے۔
نیاز فاروقی کی یاد داشتوں پر مشتمل یہ کتاب دراصل اسی مسلم اکثریتی علاقے بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر (۱۹ستمبر ۲۰۰۸ء) کے بعد علاقے میں رہنے والے مسلم نوجوانوں اور طالب علموں کو درپیش چیلنجوں اور ان کی ذہنی کیفیت کا اظہار ہے۔ کتاب کی تمہید میں اس بات کا ذکر ہے کہ اندرون بھارت دُور دراز دیہات و قصبات اور چھوٹے شہروں سے مسلم نوجوان جو اپنی تعلیم یا روزگار کی غرض سے دہلی آتے ہیں، ان میں سے کثیر تعداد جامعہ نگرکے علاقے کو اپنا مسکن بناتے ہیں۔ مصنف کا آبائی وطن بیرام، گوپال گنج، بہار ہے اور حصولِ تعلیم کی غرض سے جامعہ نگر میں بہت ہی کم عمری سے سکونت پذیر ہیں۔نیاز فاروقی نے بتایا ہے کہ میرے دادا نے علّامہ اقبال کی نظم ’بچے کی دُعا‘ کے ساتھ ساتھ کبیر کی شاعری کے بارے میں بھی بچپن میں بتایا تھا۔مصنف نے اپنی کہانی کے ذریعے مسلم نوجوانوں کے دکھ درد ،غم و غصے، تجربات اور مشاہدات کو بہت ہی سادہ اور مؤثر انداز تحریر میں پیش کیا ہے۔
سیاست اور میڈیا کی ملی بھگت نے اپنی چالاکی اور منصوبہ بندی سے بٹلہ ہائوس کے ایک مشکوک انکاؤنٹر کو عام ہندوئوں کے ذہنی خوف کا مستقل حصہ بنا دیا ہے۔ کتاب نے پولیس اور میڈیا کی گمراہ کن کہانی پر بڑے ماہرانہ انداز میں پیشہ ورانہ سوالات اُٹھا کر بتایا ہے کہ: ’’بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر پر میڈیا کی متعصبانہ اور جانب دارانہ رپورٹنگ دیکھ کر مَیں نے بایو سائنس کے کیریئر کو ترک کرکے خارزارِ صحافت کارُخ کیا، تاکہ ان باشندگان کی آواز بنوں، جن کی آوازوں کو میڈیا شوروغوغا میں دباکر منفی انداز میں پیش کرتا ہے‘‘۔ مصنف ہندستان ٹائمز کے اسٹاف ایڈیٹر رہے، پھر نیویارک ٹائمز اور الجزیرہ کے لیے بھی رپورٹنگ کی۔
زیر نظر کتاب کے کچھ بہت ذاتی اور غیرمتعلق حصوں کو نظرانداز کر دیا جائے تو یہ ہر اس مسلم نوجوان کی آپ بیتی ہے، جس نے اس خوف ناک اور دہشت زدہ ماحول کا تجربہ اور مشاہدہ کیا ہے۔ یوں اس کتاب نے آپ بیتی کو جگ بیتی بنانے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی۔ مصنف کی یہ تخلیقی اور تحقیقی خدمت آج بھارت میں بسنے والے ہر مسلمان نوجوان کے کرب ، بے چینی اور گھٹن کی زندہ تصویر ہے کہ صفحۂ قرطاس پر لفظوں کی صورت گری سے فاروقی نے پوری دُنیا کو یہ بتایا ہے کہ: ’دیکھو میری اصلی تصویر یہ ہے، نہ کہ وہ تصویر جسے متعصب بھارتی میڈیا نے تخلیق کیا ہے جسے فرقہ وارایت اور نسل پرستی کے رسیا تنگ نظر و تنگ دل دانش وروں اور سیاست دانوں نے ہمارے رہایشی علاقوں، کھانے پینے کی عادات اور پہناووں کی بنیاد پر، دوسرے شہریوں کے سامنے بھیانک انداز سے پیش کیا ہے‘۔
یہ کتاب بھارتی مسلم نوجوانوں کو اپنی صداے بازگشت کی طرح محسوس ہوگی اور بھارت کے عام لوگوں کو بھی۔ اسی طرح مسلمانوں کے دُکھ اور کرب کو سمجھنے میں معاون ثابت گی۔(ادارہ)
ترجمان تحریک اسلامی کا ایک مستند، معیاری اور انقلابی ماہ نامہ ہے۔ قصہ یہ ہے کہ میرے ایک قریبی دوست اور ایم فل کے اسکالر فرما رہے تھے کہ اس دور میں چوں کہ ہر تحریکی ساتھی یہ بات کہتا ہے کہ ’’میرے پاس وقت نہیں ہے کہ میں کوئی مطالعہ کروں تو میں دعوے کے ساتھ کہتا ہوں کہ اگر مطالعہ نہیں کرسکتے تو ایک ترجمان پابندی کے ساتھ اوّل تا آخر دل جمعی اور عمیق نظر سے پڑھ کر کافی معلومات لے سکتے ہو‘‘۔
جولائی کا شمارہ اس حوالے سے شان دار ہے اور اس کی ہر تحریر پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے لیکن ڈاکٹر عبیداللہ فہدفلاحی کا چشم کشا مقالہ مغربی فکروفلسفے پر مولانا مودودیؒ کا تبصرہ تاریخی اعتبار سے ایک سند کا درجہ رکھتا ہے۔ بس ضرورت اس امر کی ہے کہ تحریکی احباب اس مضمون کو اور اس رسالے کو بڑی تعداد میں پڑھیں اور دیگر لوگوں کو پڑھائیں۔
جولائی کے شمارے میں تمام مضامین قیمتی تھے، لیکن ڈاکٹر عبیداللہ فہد فلاحی کے مقالے ’مغربی فکروفلسفہ پر مولانا مودودی کا تبصرہ‘ اپنی مثا ل آپ ہے۔ آج جب لوگوں کا کتب سے تعلق کٹ کے رہ گیا ہے، ایسے میں یہ مختصر مقالہ نہ صرف مغربی فکروتہذیب کے تاریک پہلوئوں کو قاری کے سامنے لاتا ہے، بلکہ اس سلسلے میں ہمارے محسن سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒکی خدمات کو بھی نمایاں کرتا ہے۔ کاش! ہر شمارے میں اس نوعیت کے ٹھوس علمی ذوق کو بڑھانے والے مقالات کی اشاعت ممکن ہوسکے۔
جولائی کا ترجمان مجموعی طورپرقومی اوربین الاقوامی معلومات سے لبریز ہے۔ پروفیسر خورشید احمد صاحب نے بہترین اندازمیںعام انتخابات اورپاکستان میںجمہوریت کے مستقبل پرروشنی ڈالی،جب کہ عبدالغفارعزیزصاحب نے ترکی اورملائشیاکے انتخابی نتائج پرسیرحاصل تبصرہ کیا۔ ہم سب کے لیے غوراور عمل کا یہ ایک سوال ہے کہ اگرترکی میںاسلامی انقلاب کی راہیںہموارہوسکتی ہیںتوپاکستان میںکیوںنہیں؟ اسی طرح مریم جمیلہ مرحومہ نے ’علم کے سایے میں‘ نوجوانوں کو بامقصد مطالعے کی جانب بڑی خوبی سے متوجہ کیا ہے۔ اس مضمون کوالگ شائع کرواکرتعلیمی اداروںمیںتقسیم کرنے کی ضرورت ہے۔
ماہ نامہ ترجمان اس اعتبار سے پوری قوم کا محسن ہے کہ اس میں بڑے تسلسل کے ساتھ مسئلۂ کشمیر اور وہاں کے مظلوم بہن، بھائیوں اور بچوں کے دُکھ درد کو پیش کیا جاتا ہے۔ تازہ شمارے میں ڈاکٹر غلام نبی فائی، افتخار گیلانی اور ایس پیرزادہ کے مضامین اسی شعور کی گواہی دیتے ہیں۔
میں نے زندگی میں پہلی بار ترجمان کو پڑھنے کی سعادت حاصل کی ہے اور بے اختیار یہ لکھنے پر مجبور ہوا ہوں کہ واقعی یہ رسالہ منفرد ہے اور بے پناہ رہنمائی کا سامان رکھتا ہے۔ تمام مضامین ایک سے بڑھ کر ایک قیمتی ہیں۔ اسی طرح فلسطین پر ڈاکٹر حمید دباشی کا مختصر مگر نہایت مفید مضمون اور شکیل رشید کا مطالعہ کتاب ’بے گناہ قیدی‘ آنکھیں کھول دیتا ہے۔
ترجمان القرآن ایک طویل عرصے سے امت کی رہنمائی کے لیے بے لاگ تجزیے ، مسائل کی نشان دہی اور ان کے حل کے لیے جامع تجاویز پیش اور اُمت کی ترجمانی میں اپنے حصے سے بڑھ کر کردار ادا کرتا آرہا ہے۔ خاص طور پر ’اشارات‘ میں آج کے گمبھیر حالات کو درست عینک سے دیکھنے، ان حالات کا پس منظر جاننے اور مشکلات سے نکلنے کے لیے جس درد کے ساتھ رہنمائی کا فریضہ انجام دیا جارہا ہے، اس پر ناصرف خراجِ تحسین پیش کرنے کی ضرورت ہے بلکہ مستقل طور قومی اخبارات میں ’اشارات‘ کو شائع کروانے کی بھی ضرورت ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ترجمان کی اشاعت اتنی ہو کہ قوم کا باشعور و تعلیم یافتہ طبقہ اس سے روشنی حاصل کرسکے ۔بزرگی، صحت کی خرابی اور وطن سے دُوری کے باوجود، عمر کے اس حصے میں پروفیسر خورشید احمد صاحب کی کوششوں کو اللہ تعالیٰ قبول فرمائے اور اُمت کو ایمان، ہمت اور دانش عطا فرمائے، آمین۔
جولائی ۲۰۱۸ء کے ’اشارات‘ میں محترم پروفیسر خورشیداحمدصاحب نے سیاسی پارٹیوں اور سیاست میں فوج کے کردار کو بھی بڑی وضاحت سے دو اور دو چار کی طرح کھول کر بیان فرمایا ہے۔
تزئین حُسن کا مضمون ’سوشل میڈیا پر منقول کلچر‘ (جون ۲۰۱۸ء) وقت کی آواز ہے۔ مجھے اس بات سے صد فی صداتفاق ہے۔ سند اور حوالے کے بغیر نہ صرف ایک دو جملے بلکہ پورے پورے پیراگراف نشر کر دیے جاتے ہیں۔ بعض ستم گر تو کسی حوالے کے بغیر مشہور مذہبی شخصیات سے بھی پورے پورے فقرے منسوب کردیتے ہیں۔اگر کسی سے سوال کیا جائے کہ آپ نے غلط معلومات کیوں ارسال کی ہیں تو اکثر یہ جواب ملتا ہے کہ: ’میں نے تو صرف forward کیا ہے‘۔ بعض لوگوں کی باتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ معلومات کو forward کرنے سے پہلے خود پڑھنے کی زحمت بھی نہیں کرتے۔ ایسی عادت نجانے ہمیں کہاں لے جائے گی۔
جو شخص میرے اور جماعت اسلامی کے اس کام کو میرا اور جماعت کا کوئی ذاتی ’کاروبار‘ سمجھتا ہو اور اس میں بطورِ احسان ہاتھ بٹانے آرہا ہو تو وہ سخت گناہ گار ہے۔کیوں کہ دین کے نام سے کاروبارکرنا اور اس کاروبار میں حصہ لینا وہ بدترین تجارت ہے، جس سے زیادہ خسارے کا سودا شاید ہی کوئی ہو۔ کسی نے اگرآج تک یہ سمجھتے ہوئے ہماری تائید کی ہے، تو اب اسے توبہ کرنی چاہیے اور فوراً اس تائید سے دست کش ہوجانا چاہیے۔
لیکن، اگر کوئی ہمارے اس کام کو خالصتاً للہ دین کا کام سمجھ کر ہماری تائید کرنے آتا ہے تو اس کے اور ہمارے درمیان جو معاملہ بھی ہوگا، خالص حق پرستی کی بنیاد پر ہوگا۔ نہ ہم اس سے کوئی مطالبہ حق کے خلاف کرسکتے ہیں اور نہ وہ ہم سے خلافِ حق کوئی مطالبہ کرسکتا ہے۔
کسی [فرد] کے پاس اگر اس مطالبے کے لیے کوئی دلیل ہو کہ: ’’دُنیا میں اور جو بھی دینی تصوّرات اور اصولوں کے خلاف کوئی کام کرے اس کی تو خبر لے ڈالو، مگر ہمارے حضرتوں میں سے کوئی یہ کام کرے تو اس پر دم نہ مارو‘‘، تو وہ براہِ کرم اپنی دلیل پیش کرے۔ ہم بھی غور کریں گے کہ قرآن، حدیث یا سلف صالحین کے اسوے میں اس دلیل کا کوئی مقام ہے یا نہیں۔
اور اگر ایسی کوئی دلیل اس [فرد] کے پاس نہیں ہے تو ہم صاف کہتے ہیں کہ اس کا یہ مطالبہ ماننے کے لیے ہم تیار نہیں ہیں۔ اس طرح کی شرطیں لے کر جو لوگ خدا کا کام کرنے کے لیے ہمارے ساتھ آئیں، وہ ہمارے لیے سبب ِ قوت نہیں بلکہ سراسر سبب ِ ضعف ہیں۔ ایسے لوگ دُنیا میں کبھی حق قائم نہیں کرسکتے۔ وہ سب بیک وقت ہماری تائید سے دست کش ہوجائیں تو ہم اللہ کا شکر کریں گے۔([سیّدابوالاعلیٰ مودودی] ترجمان القرآن، جلد۵۰، عدد۴، ذوالحجہ ۱۳۷۷ھ/ اگست۱۹۵۸ء، ص۵۲-۵۳)