مضامین کی فہرست


جولائی ۲۰۱۸

بسم اللہ الرحمن الرحیم

قومی زندگی میں انتخابات ہمیشہ ہی بنیادی اہمیت کے حامل رہے ہیں۔ انتخابات کو جمہوری نظام کے وجود اور ارتقا میں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ اس ذریعے سے عوام حکمرانی کے نظام کی صورت گری اور قیادت کی تبدیلی میں فیصلہ کن کردار ادا کرسکتے ہیں، اور جن حکمرانوں کی کارکردگی سے وہ مطمئن نہیں ہوتے، انھیں نکال کر اپنی زمامِ کار بہتر لوگوں کے سپرد کر سکتے ہیں۔ دی اکانومسٹ نے جمہوریت کی اس حقیقت پر روشنی ڈالتے ہوئے بڑی جامع بات کی ہے کہ:

جمہوریت، انتخابی عمل سے بھی برتر چیز کا نام ہے، جس کے بنیادی تقاضوں میں شامل ہیں: آزاد عدالتیں، گروہی تقسیم سے بالاتر ریاستی افسران کی موجودگی، مضبوط ریاستی ادارے، قانون کی عمل داری کے ساتھ ساتھ شفاف حقِ ملکیت، آزاد ذرائع ابلاغ، آئینی نظم و ضبط اور احتساب کا خودکار نظام کہ جو ہرقسم کے تہذیبی و نسلی تعصبات سے بالاتر ہو، اور   جس میں خصوصاً اقلیتوں کے لیے احترام و برداشت کا اہتمام ہو۔ یہ سب بجا، لیکن ووٹروں کا یہ اختیار اور صلاحیت کہ وہ متعین وقفوں کے بعد ایسے افراد کو اُٹھا کر سیاست سے باہر پھینک سکتے ہیں ، جو بددیانت اور بدعنوان ہیں، جمہوریت کی ناگزیر شرط اور وجۂ جواز ہے۔(دی اکانومسٹ، لندن، ۲۴ ؍اکتوبر ۲۰۱۶ء)

 ۲۵ جولائی ۲۰۱۸ء کے انتخابات پاکستانی قوم کو ایک ایسا ہی تاریخی موقع فراہم کر رہے ہیں، جسے بھرپور انداز میں استعمال کرنا اہلِ وطن کی قومی اور دینی ذمہ داری ہے۔ حکومت پر تنقید بلکہ اس سے بے زاری، اپنے دُکھوں کے بارے میں اس کی بے حسی پر تڑپنا بجا، لیکن اصلاح اور تبدیلی کا راستہ محض شکایات کی تکرار اور آہ و فغاں میں نہیں ہے۔ اس کے لیے الیکشن کے موقعے پر صحیح اقدام اور مؤثر جدوجہد ضروری ہے۔اگر عام شہری اور ہر ووٹرصحیح وقت پر اپنی ذمہ داری ادا نہیں کرتا تو مثبت تبدیلی ممکن نہیں ہے۔ اس تاریخی موقعے پر ہم قوم کے ہرفرد سے پوری دل سوزی سے اپیل کرتے ہیں کہ سوچ سمجھ کر اور اپنے ضمیر اور ایمان کے مطابق، ہرمفاد، تعصب اور جانب داری سے بلند ہوکر ملک و قوم کے مفاد میں ایسی قیادت کو بروے کار لانے کے لیے بھرپور کوشش کریں، جو ملک و قوم کو اُس تباہی سے نکال سکے کہ جس اندھے گہرے کنویں میں نااہل اور مفاد پرست خاندانی قیادتوں نے انھیں جھونک دیا ہے اور جس کے نتیجے میں ملک اپنے نظریے، اپنی آزادی و خودمختاری، اپنی تہذیب و ثقافت ہی سے دُور ہی نہیں جارہا،بلکہ عوام کی زندگی بھی اجیرن ہوکر رہ گئی ہے۔

ابتر معاشی صورتِ حال

ملک کے معاشی حالات بدسے بدتر ہورہے ہیں، عوام کی اکثریت مشکلات سے دوچار ہے اور چند ہزار خاندانوں کی دولت و ثروت میں دن دگنی اور رات چوگنی ترقی ہورہی ہے۔ ملک کی دولت ملک سے باہر جارہی ہے۔ عام انسان بدسے بدتر حالت کی طرف جارہا ہے۔ آج پاکستانی برآمدات ۲۰ اور ۲۲؍ارب ڈالر سالانہ پر رُکی ہوئی ہیں ، جب کہ ہماری درآمدات ۵۰؍ارب ڈالر کی حد کو چھو رہی ہیں، اور تجارتی خسارہ ۳۰؍ارب ڈالر کی خبر لارہا ہے۔

ملک میں غربت کی شرح سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ۳۰فی صد اور حقائق کی روشنی میں ۵۰ فی صد سے زیادہ ہے۔ ۸۰ فی صد آبادی کو صاف پانی میسر نہیں، ۴۰ فی صد سے زیادہ آبادی خوراک کے باب میں خودکفیل نہیں۔ تعلیم اور صحت کی سہولتیں عوام کے بڑے حصے کو میسر نہیں۔ برآمدات میں مسلسل کمی آرہی ہے اور صنعتیں بند ہورہی ہیں۔ زراعت کئی سال سے بحران کا شکار ہے اور حکمرانوں کو صرف اپنے اثاثے بڑھانے اور شاہانہ طرزِ حکمرانی کو فروغ دینے میں دل چسپی ہے۔

صرف پچھلے دس برسوں میں ملک پر قرض کا بار ڈھائی گنا ہوگیا ہے۔ ۲۰۰۸ء میں پاکستان ۳۷؍ارب ڈالر کا مقروض تھا، جو ۲۰۱۸ء میں ۹۲؍ارب ڈالر کی حدوں کو پار کرگیا ہے۔       آج ہرنومولود بچہ ڈیڑھ لاکھ روپے کا مقروض پیدا ہورہا ہے۔ سپریم کورٹ کے سامنے اسٹیٹ بنک آف پاکستان اور ۱۲ماہرین کی تازہ ترین رپورٹ کی روشنی میں ہرسال تقریباً ۱۵؍ارب ڈالر ملک سے سرکاری طور پر باہر بھیجے جارہے ہیں اور تقریباً اتنی ہی رقم سالانہ ہنڈی کے ذریعے باہر جارہی ہے۔ ملک کو لوٹنے اور عوام کو اپنے ہی ملک کے وسائل سے محروم کرنے کے جرم میں ایک جماعت نہیں، گذشتہ ۴۰برس میں حکمران رہنے والی سبھی سول اور فوجی حکومتیں___ اور خصوصیت سے گذشتہ دس برس کے دوران حکمرانی کرنے والی حکمران جماعتیں اور ان کی قیادتیں شامل ہیں:

بے وجہ تو نہیں ہیں چمن کی تباہیاں

کچھ باغباں ہیں برق و شرر سے ملے ہوئے

انتخابات یا فیصلے کی گھڑی!

وقت کی سب سے بڑی ضرورت اس خودپسند، مفادپرست اور کوتاہ اندیش قیادت سے نجات حاصل کرنا ہے، جس نے ملک و قوم کو اس حال میں پہنچا دیا ہے۔ انتخاب کا موقع ہی وہ راستہ فراہم کرتا ہے جس پر قوم اپنی آزادی اور خودمختاری کے تحفظ اور اپنے وسائل کولٹیروں سے واپس لینے اور خود اپنے تصرف میں لانے کا کارنامہ انجام دے سکتی ہے۔ اس فیصلے کی گھڑی میں ضروری ہے کہ قوم ایک ایسی قیادت کو سامنے لائے، جس کا دامن داغ دار نہ ہو، جو اسلامی نظریے پر یقین رکھتی ہو اور حقیقی، اسلامی، جمہوری اور فلاحی ریاست کو قائم کرنے کے جذبے اور صلاحیت سے مالا مال ہو۔ اگر قوم اس وقت اپنے اس اختیار کو استعمال نہیں کرتی تو محض روایتی آہ و بکا سے حالات ہرگز تبدیل نہیں ہوسکتے۔ یہ ہمارے اپنے مفاد اور ہماری آنے والی نسلوں کے روشن مستقبل کا تقاضا ہے اور یہی ان بے تاب روحوں کی پکار ہے، جنھوں نے تحریک ِ پاکستان کے دوران اپنے جان ومال اور عزت و آبرو کی قربانی دی۔ آج وہ پکار پکار کر کہہ رہی ہیں کہ پاکستان کو بچانے اور اس کو مقصد ِ وجود کے مطابق بنانے کے لیے بھی اسی طرح جدوجہد کریں، جس طرح اسے قائم کرنے کے لیے کی تھی۔

ووٹ ایک امانت ہے اور اس امانت کو اس کے صحیح حق داروں کو سونپنے کے ہم ذمہ دار ہیں۔ ووٹ ایک شہادت اور گواہی ہے کہ ہم ایک شخص کو پاکستان کے اقتدار کی امانت کے باب میں امین تصور کرتے ہیں اور یہ امانت اس کے سپرد کر رہے ہیں۔ ووٹ کا غلط استعمال جھوٹی گواہی اور شرعی اعتبار سے امانت میں خیانت کے مترادف ہے، جس کے لیے دُنیا میں بھی ہمیں نتائج بھگتنا ہوں گے اور آخرت میں بھی جواب دہی ہوگی:

اِنَّ اللہَ يَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓى اَھْلِھَا۝۰ۙ وَاِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْكُمُوْا بِالْعَدْلِ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِہٖ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ كَانَ سَمِيْعًۢا بَصِيْرًا۝۵۸ (النساء ۴:۵۸) مسلمانو، اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہلِ امانت کے سپرد کرو، اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ فیصلہ کرو، اللہ تم کو نہایت عمدہ نصیحت کرتا ہے، اور یقینا اللہ سب کچھ سنتا اور دیکھتا ہے۔

مذکورہ بالا معروضات کا حاصل یہ ہے کہ:

                ۱-            قومی انتخابات قومی زندگی میں ایک فیصلہ کُن لمحے کی حیثیت رکھتے ہیں اور ووٹ کے صحیح استعمال کے ذریعے ہم اور آپ ملک میں حقیقی تبدیلی لاسکتے ہیں۔

                ۲-            جمہوریت کے حقیقی فروغ کے لیے بہت سے اقدام ضروری ہیں جن میں قانون کی حکمرانی، عدلیہ کی آزادی، بنیادی حقوق کی ضمانت اور پاس داری، دستوری اداروں کا استحکام اور اس میں طے کردہ حدود (check and balance) کا اہتمام، شخصی حکمرانی سے اجتناب اور اصول و ضوابط کی پابندی اور احترام کے ساتھ ریاستی ذمہ داریوں کی ادایگی اور امانتوں کی حفاظت بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ اس کے لیے مقررہ وقت پر انتخابات کا انعقاد اور انتخاب کے موقعے پر ووٹر کا کردار مرکزی اہمیت کا حامل ہے۔

                ۳-            ضروری ہے کہ ووٹر: (الف) اپنے حق راے دہی کو استعمال کرے۔(ب) دوسروں کو بھی ترغیب دے کہ وہ نکلیں اور اپنی ذمہ داری ادا کریں، اور(ج) اس ذمہ داری کو اللہ اور عوام دونوں کے سامنے جواب دہی کے احساس کے ساتھ امانت داری سے استعمال کریں۔ خاندان، برادری، قومیت، گروہی عصبیت ، مفاد، ہر ایک سے بالاہوکر صرف ایک معیار پر فیصلہ کرے کہ پاکستان کو ایک حقیقی اسلامی، جمہوری اور فلاحی مملکت بنانے کی خدمت کون سا فرد اور جماعت انجام دے سکتی ہے۔ ووٹ صرف اور صرف اس شخص اور جماعت کو دے، جو اپنے نظریے، کردار اور عملی کارکردگی (performance) کی بنیاد پر مطلوبہ معیار پر پورے اترتے ہوں، یا اس سے قریب تر ہوں۔ آزمائے ہوئے کو آزمانا کوئی دانش مندی نہیں ہے، بلکہ یہ اپنے پائوں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔

پاکستان میں ووٹ کے استعمال کا تناسب بڑا غیرتسلی بخش ہے اور بدقسمتی سے برابر کم ہورہا ہے۔ ۱۹۷۰ء کے انتخاب میں ۶۴ فی صد ووٹرز نے ووٹ کا حق استعمال کیا تھا۔۱۹۷۷ء میں   یہ ۶۲ فی صد ہوگیا۔جو ۱۹۹۰ء کے عشرے میں کم ہوکر۴۰ فی صد پر آگیا، یعنی نصف سے بھی کم، جب کہ اس زمانے میں بھارت میں یہ اوسط ۶۰ فی صد رہا ہے اور ترکی کے انتخابات (۲۴جون ۲۰۱۸ء)میں یہ تناسب ۸۷ فی صد رہا ہے۔ آج پاکستان میں نوجوان ووٹرز کا تناسب ۶۰ فی صد تک پہنچ چکا ہے۔ ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ نوجوان بڑی تعداد میں ووٹ کے لیے نکلیں، دوسروں کو نکالیں، تاکہ ووٹ کی قوت کو تبدیلی کے لیے مؤثرانداز میں استعمال کیا جاسکے۔

انتخابی مہم : مثبت پہلو

۲۰۱۸ء کے انتخابات کے ماحول پر نگاہ ڈالی جائے تو ان میں سے کچھ مثبت اور کچھ منفی چیزیں سامنے آئی ہیں، اور دونوں ہی کی روشنی میں ووٹر کو متحرک اور صحیح کردارادا کرنے کے لائق بنانے کی صحیح حکمت عملی اور پروگرام کی ضرورت ہے۔ بمشکل چند ہفتوں پر مشتمل اس وقت میں  تحریک ِ اسلامی کے کارکنوں کی ذمہ داری ہے کہ ایک ایک لمحہ اس فیصلہ کن مہم کے لیے وقف کردیں۔

  • مثبت پہلوئوں میں ہماری نگاہ میں نوجوانوں کی بیداری اور متحرک ہونا سب سے اہم ہے۔ تحریک پاکستان کے دوران میں نے یہی کیفیت دیکھی تھی۔ طالب علم اور نوجوان اس میں  پیش پیش تھے۔ قائداعظم جو ہمیشہ طلبہ کو تعلیم کو اوّلیت دینے کی تلقین کرتے تھے، انھوں نے اس موقعے پر صاف فرمایا کہ یہ برصغیر کے مسلمانوں کے لیے زندگی اور موت کا لمحہ ہے، اور اس موقعے پر آپ تعلیم کو چھوڑ کر تحریک میں شرکت کریں اور نوجوانوں نے ان کی اپیل پر لبیک کہا۔ تقریباً دوتین مہینے ہم نے دن رات ایک کردیے اور اللہ تعالیٰ نے اس کے نتائج بھی دکھائے۔ اگلے چند ہفتے بھی اسی طرح اہم ہیں۔
  • دوسرا مثبت پہلو میڈیا کی نسبتاً آزادی اور سوشل میڈیا کا متحرک ہونا ہے۔ اگرچہ اس کے منفی پہلو بھی سامنے آرہے ہیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا جہاں کچھ پابندیوں اور دخل اندازیوں کے باوجود ماضی کے ہر دور کے مقابلے میں زیادہ مؤثر اور زیادہ آزاد ہیں، وہیں ان میں گروہ بندی اور مخصوص مفادات اور اشتہارات کا کھیل صاف نظر آتا ہے۔ ہمیں اس سے دل گرفتہ ہونے کے بجاے ، جو اور جتنا موقع میسر ہے، اس سے فائدہ اُٹھانا چاہیے۔ اسی طرح سوشل میڈیا بھی ایک بڑا مؤثر ہتھیار اور الیکٹرانک میڈیا کے لیے نگران و محتسب کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسے محنت، شوق اور حکمت کے ساتھ استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ جعلی، جھوٹی اور گمراہ کن خبروں یا اطلاعات کے طوفان کا مقابلہ بڑے بھرپور انداز میں دیانت اور دلیل سے کیا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ اشتعال سے بچا جائے، دلیل کو برتا جائے، اینٹ کا جواب پتھر سے نہیں بلکہ کلمۂ حق، توازن اور شائستگی سے دیا جائے۔ ان شاء اللہ سچ جھوٹ پر غالب ہوکر رہے گا۔

انتخابی مہم: منفی پہلو

اسی طرح جو چیز بڑی پریشان کن ہے، وہ بحث و گفتگو کی سطح، انداز اور سیاسی جوڑ توڑ کا   وہ آہنگ ہے، جو گذشتہ چند مہینوں میں تیزی سے پروان چڑھا ہے۔ انتخابات میں صرف چند ہفتے ہیں، مگر متحدہ مجلس عمل کے علاو ہ کسی ایک جماعت نے بھی ان سطور کے تحریر کیے جانے کے وقت  (۲۸ جون ۲۰۱۸ء) تک اپنا منشور قوم کے سامنے پیش نہیں کیا ہے۔ ایک پارٹی نے منشور کی جگہ پہلے ایک سو دن کے پروگرام کا اعلان کیا۔ حالاں کہ سیاسی جماعتیں انتخابات سے پہلے منشور پیش کرتی ہیں اور کامیابی کے بعد کامیاب جماعت پہلے ۱۰۰ دن کا پروگرام دیتی ہے، لیکن اس مثال میں  تو گھوڑا اور گاڑی دونوں گڈمڈ ہوکر رہ گئے ہیں۔

سیاسی قائدین کی تقریریں الزام تراشیوں سے پُر اور نظریے، پالیسی اور پروگرام کے ذکر سے خالی ہیں۔ جس سطحی بلکہ بازاری انداز میں تنقید اور مکالمہ ہو رہا ہے، اسے دیکھ ، سن اور پڑھ کر نگاہیں شرم سے جھک جاتی ہیں۔ جس رفتار اور انداز سے سیاسی وفاداریاں تبدیل کی جارہی ہیں، اور پھر پارٹیوں میں اس کے نتیجے میں جس طرح کے ٹکرائو وجود میں آرہے ہیں، اور ایک دوسرے کی پگڑیاں اُچھالی جارہی ہیں وہ نہایت تکلیف دہ مشاہدہ ہے۔ بڑے فخر سے کہا جارہا ہے کہ ’نظریاتی سیاست کا دور ختم ہوگیا اور اب سارا کھیل منتخب ہونے والے چہروں (electables )کا ہے‘۔   اس سوچ کی پذیرائی جمہوریت کے مستقبل کے لیے کوئی نیک شگون نہیں ہے۔

ہم تمام سیاسی جماعتوں کی قیادتوں سے دل سوزی کے ساتھ اپیل کرتے ہیں کہ قومی سیاست کو اس سطح پر نہ گرائیں کہ یہ طرزِفکروعمل جمہوریت کے مستقبل کے لیے بڑا خطرناک ہوگا۔ بحث کا محور ملک کے حالات اور اس کو درپیش چیلنج ہونے چاہییں۔ ان کا مقابلہ کرنے کے لیے پالیسی اور پروگرام توجہ کا مرکز ہونے چاہییں۔ جن چیزوں پر قومی اتفاق راے پایا جاتا ہے ان ایشوز کو متنازع بنانا، یا انھیں محدود سیاسی مفاد کے لیے استعمال کرنا دُور رس انتشار اور نقصان دہ نتائج کا باعث ہوسکتا ہے۔

ہربات کے کہنے کا ایک موقع اور محل ہوتا ہے، جس کو نظرانداز کرکے بات کہنا بڑے نقصان کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ پارٹیوں کے اندر مشورے کی محفلوں کی باتوں کو پبلک میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے طشت ازبام کرنا، کسی مہذب معاشرے کا شیوہ نہیں ہوسکتا۔ اسلام نے ہمیں  نہ صرف تجسس اور بدگمانی سے منع کیا ہے، بلکہ محفل اور مجلس کی بات کو امانت سمجھنے کی تلقین بھی کی ہے اور تحقیق کے بغیر خبر پھیلانے کو افترا اور بدمعاملگی قرار دیا ہے۔ سورۃ الحجرات ان آداب کی تعلیم سے مالا مال ہے۔ یہ آیات اللہ کے احکام اور مسلم معاشرے کے آداب کی حیثیت رکھتی ہیں۔ آج ان ہدایات کو جس طرح پامال کیا جارہا ہے، اس پر دل خون کے آنسو روتا ہے کہ ہم کہاں جارہے ہیں؟

دو ناگزیر قومی تقاضے

دو مسائل اور بھی ہیں، جن کی طرف ہم توجہ دلانا ضروری سمجھتے ہیں۔ لیکن ان پر گفتگو کرنے سے پہلے ہم چاہتے ہیں کہ چندا اُمور کو واضح کردیں، جن کی حیثیت پاکستانی قوم کے لیے مسلمات کی ہے اور ان کو متنازع بنانا ملک وقوم کے لیے تباہ کن ہوگا:

  • اس سلسلے کی سب سے پہلی چیز پاکستان کی آزادی، خودمختاری اور سیاسی و تہذیبی تشخص ہے۔ ہم دُنیا کے دوسرے تمام ممالک، بشمول اپنے تمام ہمسایہ ممالک سے دوستی اور خیرسگالی کا رشتہ چاہتے ہیں، لیکن اسے برابری اور ایک دوسرے کے مکمل احترام پر مبنی ہونا چاہیے۔بین الاقوامی تعلقات میں برابری اور ادلے کا بدلہ (reciprocity) ایک مسلّمہ اصول ہے۔ دوسرا ملک بڑا ہو یا چھوٹا، ایک دوسرے کے احترام اور ایک دوسرے کے مفادات کے بارے میں حساسیت، وہ بنیادیں ہیں جن پر کوئی سمجھوتا نہیں ہوسکتا: چاہے وہ امریکا ہو یا بھارت، سعودی عرب ہو یا ایران۔
  • دوسری چیز پاکستان کی نظریاتی اساس اور شناخت ہے۔ پاکستان اسلام کی بنیاد پر  قائم ہوا ہے اور اسی بنیاد پر قائم رہ سکتا ہے اور ان شاءاللہ رہے گا۔ اسلام جہاں توحید اور سنت نبویؐ کی بنیاد پر انفرادی زندگی کی تشکیل اور اجتماعی نظام کا قیام چاہتا ہے، وہیں انسانی حقوق کی پاس داری اور اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی بھی مکمل ضمانت دیتا ہے۔ پاکستان کی اجتماعی زندگی کی بنیاد اسلام ہے اور تحریک ِ پاکستان میں ان مقاصد کو دو اور دو چار کی طرح بیان کردیا گیا تھا۔ ’قراردادِ مقاصد‘ اور پاکستان کے ہر دستور نے، خصوصیت سے ۱۹۷۳ء کے دستور اور خصوصیت سے ’۱۸ویں دستوری ترمیم‘ (۸؍اپریل ۲۰۱۰ء) نے ان مقاصد اورحدود کو بڑی قوت سے واضح کر دیا ہے۔ غیرمسلموں کو ملک کے شہری کی حیثیت سے تمام بنیادی حقو ق حاصل ہیں، اور دستور کی بنیادوں اور اصول و ضوابط پر مبنی فریم ورک وہی ہے، جن پر مملکت قائم ہے۔ اس کے تمام شہری اس سے وفاداری اور اس کی اطاعت کے عہد کی بنیاد پر اس ملک کے شہری قرار پاتے ہیں۔ علمی گفتگو اور اختلاف زندگی کا حصہ ہیں، لیکن آزادی کے نام پر اجتماعی زندگی کی بنیاد پر تیشہ چلانے کا حق کسی کو نہیں دیا جاسکتا۔ جو بھی اپنے کو پاکستان کا شہری کہتا ہے، اس کا فرض ہے کہ دستور کا پابند اور وفادار ہو۔ دستور یہ صاف اعلان کرتا ہے کہ ’’پاکستان عدل کے اسلامی اصولوں پر مبنی ایک جمہوری مملکت ہوگی‘‘ اور ’’اسلام مملکت کا مذہب ہوگا اور قراردادِ مقاصد احکام کا مستقل حصہ ہوگی‘‘۔

اس کی روشنی میں دستور کی دفعہ۴  ہر شہری کو قانون کا تحفظ اور قانون کے مطابق سلوک کی ضمانت دیتی ہے۔ لیکن اس کے فوراً بعد دفعہ۵ یہ مطالبہ کرتی ہے کہ: ’’مملکت سے وفاداری ہر شہری کا بنیادی فرض ہے‘‘ اور یہ کہ ’’دستور اور قانون کی اطاعت ہر شہری، خواہ وہ کہیں بھی ہو اور ہروہ شخص جو فی الوقت پاکستان میں ہو (واجب التعمیل) ذمہ داری ہے‘‘۔

ایک طبقہ بڑے سوچے سمجھے انداز میں پاکستان کی اساس کو مشتبہ بنانے، اور اس کے بارے میں متنازع سوالات اُٹھانے کی مذموم کوشش کر رہا ہے اور خصوصیت سے انگریزی پریس  کا ایک حصہ یہ کام بڑے تسلسل کے ساتھ کر رہا ہے۔ اس ضمن میں یہ شوشا بھی چھوڑا جارہا ہے کہ ’اب نظریاتی دور ختم ہوگیا ہے اور مادی ترقی، زندگی کا اصل ہدف ہے‘۔ آزادیِ اظہار سر آنکھوں پر اور علمی بحث و مباحثہ کا دروازہ بھی ہمیشہ کھلا رہنا چاہیے، لیکن ریاست کی بنیادوں پر تیشہ زنی اور انھیں پامال کرنے کی اجازت کسی کو بھی نہیں دی جاسکتی۔

بے لاگ احتساب ، انصاف کا تقاضا

دوسرا اہم مسئلہ احتساب کا ہے۔ احتساب جمہوریت کی روح اور حالات کو بگاڑ سے بچانے کے لیے ’سیفٹی والو‘ کی حیثیت رکھتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’دین خیرخواہی کا نام ہے‘‘۔اور احتساب اس خیرخواہی کا لازمی حصہ ہے۔ آپؐ کا ارشادِ مبارک ہے: ’’اپنا احتساب کرلو، قبل اس کے کہ تمھارا احتساب کیا جائے‘‘۔یہی وجہ ہے کہ اسلام کے اجتماعی نظام میں خوداحتسابی اور اجتماعی احتساب کا خودکار انتظام موجود ہیں۔ ’احتساب سب کا اور احتساب انصاف کے مسلّمہ اصولوں کے دائرے میں‘ اسلام کا تقاضا اور جمہوریت کی روح ہے۔ انصاف ہونا بھی چاہیے اور انصاف ہوتا نظر بھی آنا چاہیے۔ یہ ہیں وہ بنیادی مسلّمات، جن کے بارے میں اختلاف کی کوئی گنجایش موجود نہیں۔

بدقسمتی سے اس وقت وطن عزیز میں ایک ایسی فضا بنائی جارہی ہے کہ جس سے احتساب کا پورا عمل مشتبہ ہوکر رہ جائے۔ نیب (NAB: قومی احتساب بیورو) کی کارکردگی اور طریق پر ہمیں اور دوسرے بہت سے افراد کو شدید تحفظات ہیں۔ اس ادارے کو جس طرح جنرل پرویز مشرف نے شروع کیا اور پھر پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی حکمرانی کے اَدوارمیں استعمال کیا گیا، وہ نہایت غیرتسلی بخش تھا۔ اگرچہ اِس وقت پہلے کے مقابلے میں صورتِ حال بہتر ہے، اس کے باوجود پُرانی بُری روایات کا سایہ نظر آتا ہے اور بلاتفریق احتساب کے دعوئوں کے باوجود جس طرح مرضی اور ترجیح کی بنیاد (pick and choose) پر احتسابی سلسلہ جاری ہے، وہ ناقابلِ اطمینان اور اصلاح طلب ہے۔ تاہم، سپریم کورٹ نے احتساب کے عمل کو متحرک کرنے کے لیے جو اقدامات کیے ہیں، وہ لائق تحسین اور وقت کی ضرورت ہیں۔

اس پس منظر میں سابق وزیراعظم محمد نواز شریف صاحب اور ان کے خاندان کی جو گرفت ہورہی ہے، وہ صحیح سمت میں ایک قدم ہے، مگر بہت تاخیر سے اُٹھایا گیا ہے۔ احتساب کے اس عمل کو کسی خاص فرد یا جماعت تک ہرگز محدود نہیں ہونا چاہیے اور بلاتفریق ان تمام افراد اور خاندانوں کو قانون کی گرفت میں آنا چاہیے، جو گذشتہ برسوں میں حکمران رہے ہیں اور ان کا دامن داغ دار گردانا جاتا ہے۔ بہت سے مقدمات جو شروع تو کیے گئے،مگر پھر ان کو منطقی نتائج تک پہنچائے بغیر داخل دفتر کردیا گیا۔ درجنوں مقدمات ایسے ہیں، جو برسوں سے زیرغور ہیں، حتیٰ کہ کچھ لوگوں کو قیدوبند کے مراحل سے بھی گزرنا پڑا، لیکن صدافسوس کہ نہ تو یہ تفتیش مکمل ہوئی اور نہ مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچایا گیا ۔ یہ انصاف کا خون ہے اور احتساب کے ساتھ مذاق۔

جہاں یہ ضروری ہے کہ احتساب کا عمل لازمی اور مؤثر انداز میں آگے بڑھنا چاہیے،  تفتیش پوری دیانت اور محنت اور پیشہ ورانہ انداز میں ہونی چاہیے، وہیں مقدمات کا فیصلہ بھی متعین وقت میں اور انصاف کی روح کے مطابق ہونا چاہیے۔ اس سے احتسابی عمل پر بھروسا اور اعتماد بڑھے گا۔  اس کے نتیجے میں بدعنوانی اور اختیارات کے غلط استعمال کا دروازہ بند ہوسکے گا، اور عوام کے وسائل محفوظ ہوسکیں گے۔

سرکاری اعدادوشمار کے مطابق صرف ٹیکس کے بارے میں کم از کم چار ہزار ارب روپے سالانہ چوری ہورہے ہیں۔ عالمی بنک اور ہمارے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے اندازے کے مطابق موجودہ ٹیکس نظام کے تحت، جو سالانہ ٹیکس ۸کھرب روپے ہونا چاہیے، وہ اس سے نصف ہے۔    یہ اس صورت میں ہے، جب کہ ٹیکس نیٹ میں ۲۲کروڑ کی آبادی میں بلاواسطہ ٹیکس ادا کرنے واے صرف ۸لاکھ افراد ہیں،جب کہ موبائل ٹیلی فون استعمال کرنے والوں کی تعداد۱۵کروڑ ہے اور سمارٹ فون استعمال کرنے والے ساڑھے ۹ کروڑ ہیں، جن میں سے ۵۰ لاکھ کا سالانہ ٹیلی فون کا بل ۳۰ہزار سے زیادہ ہے۔ اندازاً ان کی سالانہ آمدنی ۲۰لاکھ روپے سے زیادہ ہے۔ پاکستانیوں نے جو جایدادیں دبئی اور دوسرے مغربی ممالک میں خریدی ہوئی ہیں اور جو بنک اکائونٹ سوئٹزرلینڈ، برطانیہ اور دبئی میں ہیں، ان کا کوئی حسا ب کتاب نہیں۔ حالیہ انتخاب کے موقعے پر جو نمایندے کھڑے ہوئے ہیں، ان میں ۲۷۰۰ اُمیدوار ایسے ہیں، جن پر بدعنوانی، کرپشن، اس نوعیت کے الزامات پر مقدمے چل رہے ہیں اور ۸۰۰؍ارب روپے کے خرد برد کے الزامات ہیں، مگر کسی احتساب کے بغیر انھیں انتخاب میں شرکت کی اجازت دینا عدل و انصاف کے چہرے پر ایک بدنما داغ ہے۔

عدلیہ اور فوج نشانہ ٔ  تنقید

اس پس منظر میں ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ نوازشریف صاحب اوران کے خاندان پر جو الزامات ہیں، بار بار موقع ملنے کے باوجود اپنی صفائی پیش کرنے میں نہ صرف یہ کہ وہ ناکام رہے ہیں بلکہ انھوں نے اس احتساب کے عمل کو سبوتاژ کرنے کی کھلی کھلی کوشش کی ہے۔ ان کے وکلا نے عدالت کے واضح سوالات اور اپنے متضاد بیانات کی وضاحت کرنے کے بجاے بات کو اُلجھانے کی کوشش کی ہے۔ حد یہ ہے کہ انھوں نےاپنی صفائی میں دستاویزات یا گواہ لانے سے بھی احتراز کیا ہے۔

پارلیمنٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ہر چیز کا ریکارڈ موجود ہے، ریکارڈ تو کیا اس کا ایک حصہ بھی عدالت میں پیش نہیں کیا گیا ہے۔ دو بار انھوں نے خود قوم اور پارلیمنٹ کے سامنے اپنی تقریروں میں کہا کہ ایون فیلڈ کے فلیٹ ابوظہبی سے حاصل ہونے والی رقم سے خریدے گئے۔ لیکن خریداری کا کوئی ریکارڈ بار بار کے مطالبے کے باوجود پیش نہیں کیا گیا۔ کوئی منی ٹریل نہیں دی گئی۔ نیب عدالت کے نصف سے زیادہ سوالوں کے جواب میں ’مجھے نہیں معلوم‘ یا ’مجھ سے نہیں، میرے بیٹے سے پوچھو‘ ارشاد فرمایا۔ دستاویزات اور ثبوت فراہم کرنے میں ناکامی پر پردہ ڈالنے کے لیے بے جا طور پر عدلیہ اور فوج دونوں کو نشانہ بنانے اور اپنی مظلومیت کا بے جا غلغلہ بلند کرنے کی کوشش کی۔ اس طرح سول قیادت اور ’اسٹیبلشمنٹ‘ جس سے مراد فوج اور اعلیٰ عدلیہ ہے، انھیں نشانہ بنایا گیا ہے۔ یہ ایک بڑی مذموم حرکت اور قومی مفادات کے خلاف جسارت ہے۔

یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ فوج اور عدلیہ دستوری ادارے ہیں اور ملک کی سلامتی کا ستون ہیں۔ دوسرے اداروں کی طرح وہ بھی دستور کے تحت وجود میں آئے ہیں اور دستور کے دائرے ہی میں ان کی کارکردگی کو محدود ہونا چاہیے۔ دستور نے عدلیہ کو انسانی حقوق کے تحفظ، دستور کی پابندی اور عدلیہ کی آزادی اور اسلامی دفعات اور اسلامی قانون سازی کی پاس داری کے سلسلےمیں جو اختیارات دیے ہیں، ان کے دائرے میں ان کو اپنے فرائض انجام دینے چاہییں اور ’عدالتی مہم جوئی‘ (Judicial activism)  اور ’عدالتی ضبط و احتیاط‘ (Judicial restrain) کے درمیان توازن قائم رکھنا چاہیے۔

اسی طرح فوج، ملک کی سلامتی اور سرحدوں کے تحفظ اور دستور کے تحت اپنی دوسری ذمہ داریوں کی ادایگی کی پابند ہے۔ ملکی سیاست میں مداخلت اور دستور سے ماورا کسی کارروائی کا اختیار اسے حاصل نہیں ہے۔ البتہ قومی سلامتی کے سلسلے اور خارجہ پالیسی کے امور کے بارے میں اس کی راے، احساسات اور تحفظات پر اسی طرح غور ضروری ہے جس طرح پارلیمنٹ، سیاسی جماعتوں، سول سوسائٹی اور تحقیقی اداروں کے خیالات سے استفادہ کیا جاتا ہے۔ البتہ اس قومی ضرورت سے ماورا، ریاست میں فوج کی بلاواسطہ یا بالواسطہ مداخلت، اس کے فرائضِ منصبی سے مطابقت نہیں رکھتی۔ البتہ یہ بات مستحسن ہوگی کہ فوج اور سول قیادت کے درمیان مشاورت اور  قومی سلامتی کے اُمور کو مسلسل، مستقل اور اداراتی انداز میں انجام دیا جائے۔ قومی مفاہمت اور یک رنگی سے معاملات کو چلایا جائے۔ تمام ہی جمہوری ممالک میں اس کا اہتمام ہوتا ہے۔ تاہم، اس کی بنیاد پر سیاسی نظام میں مداخلت کا کوئی حق اور جواز نہیں۔

پروفیسر سیموئیل ہن ٹنگٹن نے فوج کے کردار کے بارے میں بڑی اہم کتاب ۱۹۵۷ء میں The Soldier and the State کے نام سے لکھی تھی۔ اس کتاب میں امریکا کی تاریخ اور خصوصیت سے دوسری جنگ ِ عظیم اور اس کے بعد فوج اور سول حکومت کے تعلقات پر بڑی گہرائی میں جاکر بحث کرتے ہوئے یہ بتایا ہے کہ خود امریکا میں دوسری جنگ عظیم کے دوران فوج کا جو سیاسی کردار نمودار ہوا تھا، اسے جنگ کے بعد کس طرح، کس ترتیب سے اور کس حد تک قابو میں کیا گیا۔ اس طرح قومی سلامتی سے متعلق مختلف اُمور پر، فوج کی سوچ کے حوالے سے سیاسی ماہرین نے engagement (مشارکت)کا دل چسپ لفظ استعمال کیا ہے،جو جمہوری ممالک میں ایک معروف عمل ہے۔ ہن ٹنگٹن کے الفاظ میں یہ رشتہ کچھ اس طرح ہے:

A healthy society must preserve the autonomy of the military, while simultaneously integrated it into an important decision making role.

ایک صحت مند معاشرے کو فوج کی خودمختاری کا اس طرح تحفظ کرنا چاہیے کہ وہ اسے ساتھ ساتھ ایک اہم فیصلہ کرنے والے کردار کا حصہ بنادے۔

امریکا کی نیشنل سیکورٹی کونسل یہ اداراتی کردار ادا کرتی ہے اور پاکستان میں بھی یہ ادارہ کابینہ کی کمیٹی کی شکل میں ذمہ داری ادا کر سکتا ہے، جو ماضی میں مناسب انداز میں متحرک نہیں رہا۔

سابق وزیراعظم محمد نواز شریف نے جس طرح عدلیہ اور فوج کے خلاف محاذ کھولا ہے، وہ اپنے دُور رس مضمرات کے اعتبار سے بہت نقصان دہ اور خطرات سے بھرپور ہے۔بالکل اسی طرح فوج نے بھی پاکستان کی تاریخ میں سیاسی مداخلت کی بڑی بُری مثال قائم کی ہے۔ جس میں چار بار فوجی حکومت کا قیام ہماری تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔ اگرچہ دستور کی دفعہ۶ میں آیندہ کے لیے فوجی مداخلت کا دروازہ بند کیا گیا ہے، لیکن اصل دروازہ بند کرنے کا طریقہ محض قانون سازی نہیں ہے بلکہ مناسب اداروں کا قیام اور صحیح رویوں (attitudes) کا اختیار کیا جانا ہے۔ اس سلسلے میں   سول اور فوجی قیادت دونوں کو نہ صرف سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے بلکہ مناسب مشاورت اور مشارکت  کے ذریعے طریق کار اور حدودِ کار طے کرنی چاہیے۔

فوج اور ریاست کا کردار

مَیں جہاں تک حالات کا تجزیہ کرسکا ہوں، فوج کی قیادت نے ابتدا ہی سے اپنا ایک کردار بنانے کی کوشش کی۔ اوّلیں دور میں یہ صرف فوجی قیادت کی اپنی سوچ تھی اور اس میں فوجی قیادت اور   سول انتظامیہ (خصوصیت سے گورنر جنرل ملک غلام محمد اور اسکندر مرزا) میں سازباز تھی۔ جنرل محمد ایوب خاں اور جنرل آغا محمد یحییٰ خان دونوں کا فوج نے ساتھ دیا، لیکن بظاہر فیصلہ صرف اُوپر کے چند جرنیل حضرات کا تھا، اور نظامِ حکومت میں فوج کا عمل دخل (involvement) محدود اور صرف اُوپر کی سطح تک محدود رہا۔

جنرل محمد ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کے اَدوار میں محسوس ہوتا ہے کہ فوج کی اعلیٰ قیادت بحیثیت فوجی قیادت اور فوج بحیثیت ایک ادارہ ان کے فیصلوں میں شریک ہوگئی۔ دوسرے دواَدوار میں فوج کی قیادت نے سیاست، انٹیلی جنس اور بڑے کاروباری منصوبوں میں بھی اپنے قدم جمالیے اور اس طرح ایک خاموش اداراتی تبدیلی واقع ہوئی۔جنرل محمد ضیاء الحق نے کئی مواقع پر خود مجھ سے اور دوسرے افراد سے کہا کہ: ’’فوج میرا حلقۂ انتخاب (constituency) ہے اور مجھے اس کی سوچ کا لحاظ رکھنا ہوتا ہے‘‘۔ گذشتہ دس برسوں میں الحمدللہ فوج کی کوئی براہِ راست سیاسی مداخلت تو سامنے نہیں آئی، لیکن بالواسطہ اثرانداز ہونے سے انکار ممکن نہیں۔ البتہ غورطلب مسئلہ  یہ ہے کہ اس کردار کو کس طرح اور کس حد تک تبدیل کیا جائے اور اس میں مشارکت کا طریق کار کیا ہو؟

بلاشبہہ یہ کام اس براہِ راست ٹکرائو سے نہیں ہوسکتا، جو اس وقت نوازشریف نے اختیارکیا ہے اور یہ اس طریقے سے بھی نہیں ہوسکتا جو انھوں نے اپنے اقتدار کے اَدوار میں تسلسل سے اختیار کیا۔ جس طرح ہم فوج کی قیادت کے کردار کو قابلِ گرفت سمجھتے ہیں، اسی طرح ہم سمجھتے ہیں کہ نوازشریف صاحب نے بھی منتخب وزیراعظم کی حیثیت سے سول اور فوجی تعلقات کو صحیح سمت میں رواں دواں نہ رکھ کر فاش غلطیاں کی ہیں۔ آصف علی زرداری صاحب نے بھی اپنی صدارت کے دوران اپنی نام نہاد مفاہمتی حکمت عملی اور اپنی دوسری کمزوریوں کی وجہ سے حالات کو اصلاح کی سمت لانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔

نواز شریف صاحب پہلے دن سے اپنے ہاتھوں میں مکمل اختیارات کے ارتکاز کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ ان کے اس طرزِفکر کا اندازہ اور تجریہ مجھے خود ان کے وزیراعظم بننے کے بعد ہی ہوگیا تھا، جب بارھویں دستوری ترمیم (۲۸جولائی ۱۹۹۱ء) میں انھوں نے یہ اختیار حاصل کرنا چاہا کہ وہ دستور کی جس شق کو جب چاہیں اور جتنے عرصے کے لیے چاہیں معطل کرسکتے ہیں۔ میں نے اور محترم قاضی حسین احمد مرحوم نے صاف لفظوں میں اسے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اوریہی ہمارے اور ان کے درمیان گہرے اختلاف اور بے اعتمادی کا آغاز تھا۔ لیکن ہم نے اس سلسلے میں مضبوط موقف اختیار کیا حالاں کہ وہ اس ترمیم کو کابینہ سے منظور کرا چکے تھے۔

نواز شریف صاحب سے دو دن اس امر کے بارے میں ہمارے تلخ و ترش مذاکرات ہوتے رہے۔ پھر ان کی کابینہ کے ارکان بھی اس میں شریک ہوئے۔ ہماری حیرت کی کوئی انتہا نہیں رہی کہ مسلم لیگ کے بڑے بڑے لیڈرانِ کرام نواز شریف صاحب کے سامنے تو اس مجوزہ ترمیم کی تائید کرتے یا زیادہ سے زیادہ خاموش رہے، لیکن جنھیں اختلاف تھا، وہ بھی کھل کر بات کرنے سے احتراز کرتے تھے۔ کم از کم تین افراد نے بعد میں مجھ سے کھل کر کہا کہ: ’’ہم آپ حضرات کے ممنون ہیں کہ آپ اس پر ڈٹ گئے۔ ہم بھی ناخوش تھے مگر مخالفت نہ کرسکے۔ جنرل مجید ملک مرحوم نے سب سے پہلے یہ بات مجھ سے کہی،اور پھر وسیم سجاد صاحب اور حامد ناصر چٹھہ صاحب نے ملاقاتوں میں دُہرائی۔ یہ دونوں حیات ہیں اور ان شاء اللہ گواہی دیں گے کہ پنجاب ہائوس میں انھوں نے یہ بات کہی تھی۔ بہرحال صدر غلام اسحاق خاں صاحب بھی اس کے مخالف تھے،   اس طرح بارھویں ترمیم سے نواز شریف صاحب کے من پسند حصے نکال دیے گئے۔

اس سے نواز شریف صاحب کے ذہن کو سمجھا جاسکتا ہے۔وزیراعظم کی حیثیت سے ہر دور میں ان کے اس مزاج کو دیکھا جاسکتا ہے۔ ان میں بہت سی خوبیاں ہیں جن کا اعتراف نہ کرنا ناانصافی ہوگی، لیکن انانیت اور ہرچیز کو اپنی ذات کے گرد محصور کرلینا، ذاتی وفاداری کو اہمیت دینا اور فیصلوں میں من مرضی پر اڑ جانا ان کا امتیازی وصف ہے، جو شورائیت اور جمہوریت سے مطابقت نہیں رکھتا۔ سول اور فوجی تعلقات کو ان کے دور میں خراب کرنے میں اگر فوج کی قیادت کے رجحانات کا عمل دخل ہے، تو سول قیادت کی اس ذہنیت کا بھی اس میں کردار کچھ کم نہیں۔

محمد نوازشریف صاحب وہ واحد وزیراعظم ہیں، جنھوں نے چھے فوجی سربراہ مقرر کیے،اور پہلے سے ذمہ داری ادا کرتے ہوئے تین سربراہانِ فوج کے ساتھ بھی انھیں کام کرنا پڑا (سواے چند گھنٹوں کے لیے ضیاء الدین بٹ کے) ان کے تعلقات کسی بھی فوجی سربراہ سے خوش آیند نہیں دیکھے گئے۔فوجی سربراہ کے انتخاب میں بھی ذاتی پسند اور متوقع وفاداری کو اہمیت دینا خرابی کی  بڑی وجہ بنی___اسی طرح فوجی سربراہ کو اس کی متعین مدت کے بعد توسیع دینا بھی بہت سے فتنوں کا باعث بنا ہے۔ میں نے اٹھارھویں ترمیم کے وقت بہت کوشش کی تھی کہ اس مدت (term) کو’ناقابلِ تجدید‘ (non-renewable) سے بدلوا لوں، لیکن مسلم لیگ (ن، ق) اور پیپلزپارٹی اس کے لیے تیار نہیں ہوئیں۔

 اصلاحِ احوال کے لیے دونوں جانب سے پُرخلوص اور حکمت آمیز کوششوں اور تعاون کی ضرورت ہے۔ اور اس میں بھی کرپشن سے پاک، پُرعزم اور تعصبات سے بالاتر قیادت کا وجود ضروری ہے۔ اس سلسلے میں ترکی کی مثال بڑی چشم کشا ہے۔ فوج جس نے ترکی کی آزادی کی جنگ لڑ کر عوامی جمہوریہ کو قائم کیا تھا۔ پھر تحریری طور پر اسے دستور کے محافظ ہونے کا کردار دیا گیا تھا۔ وہاں بھی فوج کے بار بار مارشل لا لگانے اور سول حکومت کو ناکوں چنے چبوانے، کھلی اور ڈھکی چھپی مداخلت کے باوجود، ایک اچھی سول قیادت نے اپنی کارکردگی اور حکمت عملی کے ذریعے فوج کو دستوری کردار سے فارغ کردیا، لیکن اسے سول نظام کی قیادت میں باعزت اور فعال (participting) انداز میں نظام کا حصہ بنالیا۔ جب جولائی ۲۰۱۶ء میں فوج کے ایک عنصر نے بغاوت کی کوشش کی تو جہاں عوام نے جان دے کر جمہوری اور سول نظام کا دفاع کیا، وہیں فوج کی عظیم اکثریت نے بھی سول نظام کا ساتھ دیا اور اس کے تحت کام کرنے کے راستے کو قبول کیا۔

مناسب حکمت ِعملی اور اداراتی اصلاح کے ذریعے اس نوعیت کا کام انجام دیا جاسکتا ہے اور اس سلسلے میں پاکستان کی سیاسی قیادت بدقسمتی سے ہردور میں ناکام رہی ہے۔ موجودہ انتخابات اس پس منظر میں ہورہے ہیں اور نئی قیادت کو اس نازک مسئلے کو بڑی حکمت اور مشاورت سے حل کرنا ہوگا۔

سیاسی جماعتوں کا مطلوبہ کردار

ان انتخابات کے سلسلے میں ایک اور پریشان کن پہلو سیاسی جماعتوں کے کردار کا ہے،  جس میں متعدد پہلو ایسے ہیں جن پر تفصیل سے بحث کرکے اور قومی سطح پر باہم مشاورت سے حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ یہاں ہم چند اہم ترین پہلوئوں کی طرف اشارہ کرنے پر اکتفا کریں گے:

۱-  سیاسی جماعتوں میں جو خرابیاں اور کمزوریاں نمایاں ہوکر سامنے آرہی ہیں، ان میں سب سے اہم چیز نظریات، افکار اور وژن کی بنیاد پر پالیسیوں اور پروگراموں کی کمی ہے۔ علمی محاذ تو سبھی میں کمزور ہے اور تحقیق ناپید ہے۔ ماہرین سے استفادہ اور علم و تجربے کی بنیاد پر مسائل کا ادراک، ان کے مختلف حل کا جائزہ، عالمی حالات و رجحانات اور ملکی وسائل اور مسائل کا بے لاگ جائزہ لینے کی روایت موجود ہی نہیں ہے۔

۱۹۸۰ءکے عشرے تک کسی نہ کسی شکل میں نظریات پر مبنی پالیسیاں اور ان کے بارے میں بحث و مباحثہ دکھائی دیتا ہے، مگر اس کے بعد یہ رجحانات کمزور پڑتے گئے۔ بلاشبہہ عالمی سطح پر بھی اس دور میں نظریات میں بڑا اُتار چڑھائو نظر آتا ہے اور مباحث کے رُخ بھی بدلتے ہوئے دیکھے جاسکتے ہیں۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں، حکومتی اداروں، حتیٰ کہ پلاننگ کمیشن تک نظر آتا ہے کہ  فکری اور نظریاتی اعتبار سےیہ غیرمؤثر ہوگئے ہیں۔ کچھ برسوں سے وژن اور مستقبل بینی کے نام پر بھی جو دستاویزات پیش کی گئی ہیں، ان میں سرے سے حقیقی وژن ہی کا فقدان ہے۔ نظریے کے مقابلے میں شخصیت اور خاندان کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ اس طرح اپنی فطرت اور اصل کے اعتبار سے بڑی پارٹیاں سیاسی، جماعتی اور فکری تحریکات کے بجاے ’پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنیاں‘ بن کر رہ گئی ہیں۔

دینی جماعتوں کا معاملہ کچھ بہتر ہے، لیکن ان کے باب میں بھی اس امر کا جائزہ لینا چاہیے کہ شریعت کا نفاذ اور پارلیمنٹ سے اسلامی، جمہوری، فلاحی ریاست کا قیام تو ایک تسلسل سے ان کی ترجیح رہا ہے، لیکن ان اصولی اور آفاقی تصورات کو اپنے ملکی احوال اور عوام کے حالات، مسائل کے اُلجھائو اور توقعات کے پس منظر میں قابلِ عمل پروگرام کی ایسی شکل میں پیش کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ پروگرام ان کے دل کی آواز اور ان کو اجتماعی جدوجہد اور قربانی پر آمادہ کرنے کا ذریعہ بن جائے۔

یہی وجہ ہے کہ ایک مثبت قوت اور ایک واضح منزل کا شعور اور پروگرام رکھنے کے باوجود، دینی قوتوں کے سامنے اس اخلاقی اور نظریاتی وژن (vision)کو سیاسی وزن (political weight & power) میں ڈھالنے کے لیے بڑے پیمانے پر ابلاغ (communication) اور پیش کاری (projection) کے لیے بہت کچھ کرنا باقی ہے۔

اس وقت قوم کو سب سے زیادہ توقع دینی جماعتوںاور خصوصیت سے تحریک اسلامی سے ہے کہ اس نے جس طرح دستور کی حد تک ایک جدید اسلامی، جمہوری اور فلاحی ریاست کے بنیادی خدوخال کو دستور کا حصہ بنوایا، اسی طرح وہ اسے زندگی کے پورے نظام انفرادی، اخلاقی، اجتماعی، معاشی، معاشرتی اور تہذیبی، سب میدانوں میں واضح اہداف اور پالیسیوں کے ذریعے قائم کرنا چاہتی ہے۔

اصولی اور بنیادی باتیں بہت واضح انداز میں پیش کی گئی ہیں، لیکن جس تفصیل کے ساتھ، جس انداز میں اور جس زبان میں آج پیش آنے والے سوالات کی تشریحِ نو کی ضرورت ہے،    اس باب میں اسی تسلسل سے بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔

۲-  دوسرا سانحہ یہ ہے کہ قومی جماعتیں اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کی وجہ سے سکڑ کرمقامی جماعتوںمیں تبدیل ہوگئی ہیں۔ بڑی جماعتوں کا ارتکاز کسی ایک صوبے یا علاقے تک ہی محدود نظر آتا ہے، جب کہ علاقائی جماعتیں توہیں ہی مخصوص مفادات یا علاقوں کے لیے۔فیڈریشن کے مستقبل کا بڑا انحصار اور قومی یک جہتی کی بنیادی ضرورت قومی جماعتوں پر منحصر ہے، جن کے ہر علاقے میں اثرات ہوں اور وہ تمام صوبوں، علاقوں اور گروہوں کو مربوط اور منظم رکھ سکیں۔

۳-  تیسری بنیادی چیز سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت اور شورائیت کا فقدان یا کمی ہے، دھڑے بندیاں ہیں،شخصیات یا خاندان وفاداریوں کے محور بن گئے ہیں۔جماعتیں نہ عمودی (vertical ) طور پر منظم ہیں اور نہ اُفقی (horizontal) سطح پر مربوط۔تنظیمی ڈھانچا اُوپر سے نیچے تک موجود نہیں ہے اور تربیت کا کوئی نظام نہیں ہے۔نئے لوگوں کو فکری اور تنظیمی اعتبار سے ضم کرنے کا عمل خام ہے۔ احتساب کا نظام مفقود ہے۔ لیڈرشپ سے ذاتی وفاداری کے نتیجے میں میرٹ اور اہلیت غیرمتعلق ہوکر رہ گئے ہیں، جس سے کارکنوں میں بددلی پیدا ہوئی ہے۔

۴- چوتھی چیز کرپشن کے موضوع پر پارٹیوں کا رویہ ہے۔ معاشرے میں شدید اخلاقی انحطاط ہے اور پارٹیوں کے اندر بھی کرپٹ عناصر کو نہ صرف برداشت کرنے بلکہ افسوس ناک حد تک انھیں پُرکشش (glamourize) کرنے کا رجحان پایا جاتا ہے۔ ذاتی اخلاق و کردار اور اجتماعی کردار اگر غیرمتعلق نہیں ہوگئے ہیں تو غیراہم ضرور سمجھے جارہے ہیں۔یہ بڑا ہی افسوس ناک اور خطرناک پہلو ہے۔ سیاست میں اصل قوت اخلاقی برتری اور کردار کی پختگی ہے۔ ہر دوسری کمی پوری کی جاسکتی ہے لیکن اگر امانت اور دیانت کا جوہر موجود نہ ہو تو اس کا کوئی متبادل نہیں۔     آج ہماری سیاست، سیاسی جماعتوں اور اجتماعی زندگی کا المیہ یہ ہے کہ کرپشن اور بدعنوانی نہ صرف عام ہے بلکہ اس کا بُرا اور ناپسندیدہ سمجھا جانا بھی رفتہ رفتہ معدوم ہوتا جارہا ہے۔ یہ بہت بڑا سانحہ ہے۔ اگر اب بھی اس کی فکر نہ کی گئی تو پھر کوئی چیز ملک کو تباہی سے نہیں بچاسکتی۔ اگر ’ناخوب‘ ہی ’خوب‘ بن جائے تو پھر زندگی میں باقی رہ کیا جاتا ہے؟

تحریکِ اسلامی کا فریضہ

ان حالات میں دینی جماعتوں اور خصوصیت سے تحریک ِ اسلامی کی ذمہ داری ہے کہ  ایک صالح معاشرے کے قیام اور ایک صالح قیادت کو بروے کار لانے کے لیے مؤثر قومی اور کلیدی کردار ادا کرے۔ الحمدللہ، جماعت اسلامی کا دامن اس جدوجہد میں آج تک پاک رہا ہے۔ اس میں شخصیت پرستی اور موروثی سیاست کا کوئی وجود نہیں۔ جماعت کے اندر جمہوریت ہرسطح پر موجود اور مشاورت کا نظام قائم ہے۔ قیادت کا انتخاب ارکان کے آزادانہ انتخاب سے ہوتا ہے۔ غیر جانب دار محققین کے جائزے، اندرونی طور پر جماعت میں جمہوری اور شورائی نظام کی کارفرمائی کے  معترف ہیں۔ حکومت یا حکومت سے باہر جہاں بھی جس حد تک بھی ذمہ داری اس پر آئی ہے، اس کے کارکنوں نے دیانت اور امانت کے ساتھ اپنے فرائض انجام دیے ہیں۔ قومی اسمبلی، سینیٹ، صوبائی اسمبلی، صوبائی وزارتیں جہاں بھی ان کو ذمہ داری دی گئی ہے، ان کا ریکارڈ نمایاں اور بے داغ رہا ہے۔ جس پر ہم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں اور مزید کی توفیق طلب کرتے۔

اسٹیٹ بنک آف پاکستان کے سابق گورنر اور مشہور ماہر معاشیات ڈاکٹر عشرت حسین کی تازہ ترین کتاب: Governing the Ungovernable: Institutional Reforms for Democratic Government  ابھی حال ہی میں اوکسفرڈ یونی ورسٹی پریس نے شائع کی ہے۔ اس سے دو اقتباس ہدیۂ ناظرین ہیں:

دو بڑی مذہبی سیاسی جماعتیں، جماعت اسلامی اور جمعیت علماے اسلام مختلف اطراف (sideline) سے آکر سیاسی منظر پر غالب آجاتی رہی ہیں، لیکن یہ دونوں قومی سطح پر کبھی کامیابی حاصل نہیں کرسکیں۔ بہترین نتائج انھوں نے اس وقت حاصل کیے جب تمام کی تمام چھے مذہبی سیاسی جماعتوں کے اتحاد نے ۲۰۰۲ء میں متحدہ مجلس عمل (MMA) بنائی اور صوبہ سرحد میں انتخابات جیت کر حکومت بنالی، اور بلوچستان میں پاکستان مسلم لیگ (ق) کے ساتھ اتحاد کر کے حکومت میں شامل ہوگئی۔

فی الوقت جماعت اسلامی خیبرپختونخوا کی حکومت کا حصہ ہے، جب کہ جمعیت علماے اسلام وفاقی حکومت میں چند وزرا شامل کرانے میں کامیاب رہی ہے۔ جماعت اسلامی سب سے زیادہ منظم اور ضابطے کے تحت چلنے والی جماعت رہی ہے۔

افتخار ملک کے مطابق، پاکستان میں سیاسی جماعتوں کا امتیازی وصف ان کی ’موقع پرستی کی سیاست‘ رہی ہے، جہاں ذاتی مفاد کو باہم شادیوں اور کاروباری مہم جوئی کے ذریعے مستحکم کرلیا گیا اور نظریہ پچھلی نشستوں پر دھکیل دیا گیا، سواے جماعت اسلامی کے، جو کہ ریاست کو اسلامی بنانے کے نصب العین سے رہنمائی حاصل کرتی ہے۔

’پاکستانی سیاسی جماعتیں اتحاد اور جوابی اتحاد بناتے ہوئے ان اخلاقی تقاضوں کا خیال نہیں رکھتیں۔ نسل در نسل حکومت کرتے، ۵۰ کے قریب خاندانوں کے ذاتی مفادات نے، جنھیں باہمی شادیوں اور کاروبار نے استحکام بخشا ہوا ہے، ہمیشہ موقع پرستی کی سیاست کو مسلط کیا ہے۔ یہ نظریاتی اختلافات، مسائل کا جائزہ اور اس کے حوالے سے رویے کا تعین، اور نظریات کا مقابلہ سیاسی جماعتوں سے پہلو بچاکر گزر جاتے ہیں، سواے جماعت اسلامی کے، جو ریاست کو اسلامی بنانے کا واضح نصب العین سینے سے لگائے ہوئے ہے۔

کراچی کے سابق امیر جماعت اور کراچی کے سابق میئر نعمت اللہ خاں کے بارے میں ڈاکٹر عشرت حسین لکھتے ہیں:

جماعت اسلامی کے ۸۱ سے ۸۹ سال کے بوڑھے میئر نعمت اللہ خاں، ایک ایسے  ایمان دار فرد تھے جو زیرتکمیل کاموں کی مستعدی اور باقاعدگی سے نگرانی کرتے تھے، ان پر نظر رکھنے کے ساتھ لوگوں کی شکایات اور تکالیف کا ازالہ کرنے، اُن کی سیاسی وابستگیوں سے قطع نظر، دانش مندی اور انصاف سے معاملہ کرتے تھے۔

اچھے لوگ بلاشبہہ، ہر جماعت اور ہرطبقے میں موجود ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جماعتی اور گروہی عصبیت سے بلند ہوکر اصول، صلاحیت،کردار اور میرٹ کی بنیاد پر اچھی قیادت کو برسرِاقتدار لایا جائے، تاکہ زندگی کا نقشہ بدل سکے اور پاکستان کو صحیح معنوں میںایک جدید اسلامی، جمہوری، فلاحی ریاست بنایا جاسکے۔ یہ کام ایک دن میں نہیں ہوسکتا۔ اس کے لیے مسلسل جدوجہد کی ضرورت ہے اور اس سمت میں ایک مؤثر قدم اپنے ووٹ کے ذریعے ۲۵جولائی کو اُٹھایا جاسکتا ہے۔ آج پاکستان کو اُسی جذبے اور اسی نوعیت کی تحریک اور جدوجہد کی ضرورت ہے جیسی قائداعظم کی قیادت میں ۴۷-۱۹۴۰ء میں مسلمانانِ پاک و ہند نے کی تھی۔ کیا پاکستانی قوم اپنی ذمہ داری ادا کرنے کے لیے تیار ہے؟ مستقبل کا انحصار آپ کے اور ہمارے آج کے فیصلے پر ہے:

یا مُردہ ہے یا نزع کی حالت میں گرفتار

جو فلسفہ لکھا نہ گیا خونِ جگر سے

اور:

سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا

لیا جائے گا تجھ سے کام دُنیا کی امامت کا

 

(کتابچہ منشورات ، منصورہ سے دستیاب ہے۔ قیمت: 13 روپے ، سیکڑے پر خصوصی رعایت۔ فون: 042-35252211)

قُلْ ہُوَاللہُ اَحَدٌ۝۱ۚ اَللہُ الصَّمَدُ۝۲ۚ لَمْ يَلِدْ۝۰ۥۙ وَلَمْ يُوْلَدْ۝۳ۙ وَلَمْ يَكُنْ لَّہٗ كُفُوًا اَحَدٌ۝۴ۧ  (اخلاص۱۱۲:۱-۴ ) کہو وہ اللہ ہے یکتا، اللہ سب سے بے نیاز ہے اور سب اس کے محتاج ہیں، نہ اس کو کوئی اولاد ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد۔ اور کوئی اس کا ہمسر نہیں ہے۔ 

اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق اور اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا عقیدہ رکھنا، اسلام میں داخل ہونے، اور اللہ تعالیٰ و رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق جوڑنے کے لیے ضروری ہے۔ اسے ایمان لانا اور عقیدہ کہتے ہیں۔ عقیدہ کا لفظ ’عقد‘ (گرہ) لگانے اور تعلق جوڑنے کو کہتے ہیں۔ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایمان کے بارے میں پوچھا!آپ ؐ نے فرمایا: قُلْ اٰمَنْتُ بِاللہِ ثُمَّ اسْتَقِمْ (مسلم، کتاب الایمان، حدیث: ۱۳)’’کہو کہ میں ایمان لایا اللہ پر، پھر اس پر جم جائو‘‘، یعنی اس پر یکسو ہو کر کھڑے ہو جائو اور دوسروں کی طرف نہ دیکھو۔

حضرت ابوذر غفاریؓ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ جس بندے نے بھی کہا کہ اللہ کے سوا دوسرا کوئی بندگی کے لائق نہیں ہے۔ پھر اس پر موت آنے تک قائم رہا، تو وہ جنت میں داخل ہوگا‘‘(مسلم)۔یعنی اپنے اس اقرار اور عہد پر قائم رہا اور اللہ کی بندگی اور غلامی میں زندگی گزاردی تو وہ پکا مومن ہے اور آخرت میں جنت کا حق دار ہوگا۔توحید پر صحیح عقیدے کا اہم اور بڑا فائدہ آخرت میں اجر اور اللہ کی رضا اور رضا مندی سے جنّت میں داخل ہونا ہے۔ جس کی وجہ سے مومن اللہ کی ناراضی اوردوزخ سے بچ جائے گا۔ یہ دراصل بڑی کامیابی اور فلاح ہے، جو ایک مومن کو نصیب ہو گی۔

دنیا میں توحید اختیار کرنے اور صحیح عقیدے پر رہنے سے کئی فائدے اور بھلائیاں نصیب ہوتی ہیں۔ اتنی بھلائیاں اور فائدے ملتے ہیں کہ بندہ ان کا شمار نہیں کر سکتا۔ایسی چند باتیں یہ ہیں:

  • توحید فطری پکار: انسان کے دنیا میں آنے سے پہلے توحید اس کی فطرت میں  رکھ دی گئی ہے۔ لہٰذا، جو شخص توحید اختیار کرتا ہے ، وہ اپنی فطرت کو اختیار کرتا ہے۔
  • کامل شکر گزاری: قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں شکر کرنے کی تاکید کی گئی ہے اور نا شکری کے بہت سے نقصانات بتائے گئے ہیں۔

لَىِٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِيْدَنَّكُمْ وَلَىِٕنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِيْ لَشَدِيْدٌ۝۷ (ابراھیم ۱۴:۷) اگر شکرگزار بنو گے تو میں تم کو اور زیادہ نوازوں گا اور اگر کفرانِ نعمت کرو گے تو میری سزا بہت سخت ہے۔

شکر کرنا صرف زبان سے شکر شکر کا اظہار نہیں ہے، بلکہ دل اور اپنے عمل سے شکر کرنا احسن تر ہے۔ انسان تھوڑا سا غور کرے تو اس کے وجود پر اللہ کے لاکھوں احسانات ہیں۔ ایک ایک عضو پر ایک ایک بال پر اللہ کے احسانات ہیں۔ بزرگ کہتے ہیں کہ انسان سانس لیتا ہے، اس کا سانس لینا بھی اللہ کا احسان ہے کہ وہ اسے سانس لینے کی توفیق اور سہولت دیتا ہے۔ اگر وہ سانس کو روک دے تو چند سیکنڈوں میں انسان کا دم گھٹ کر دمِ آخر ہو جائے۔

l اللہ کی نعمت کی قدرشناسی : تھوڑی دیر کے لیے غور کیجیے کہ کسی غریب آدمی سے کوئی مال دار آدمی کہے کہ: ’’اپنے ایک ہاتھ کی انگلی مجھے دے دو، میں اسے علیحدہ کرا کے اپنے بیٹے کے ہاتھ میں لگا لوں گا کیوںکہ میرے بیٹے کی ایک انگلی ضائع ہو گئی ہے‘‘، تو وہ کسی صورت میں بھی اسے بیچنے پر تیار نہیں ہو گا۔ اس کا مطلب یہ کہ انسان کا ہاتھ اَنمول ہے جسے روپوں میں نہیں تولا جاسکتا۔

کچھ باتیں ایسی ہیں جو اللہ نے اپنے اختیار اور علم میں رکھی ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

اُس گھڑی کا علم اللہ ہی کے پاس ہے، وہی بارش برساتاہے، وہی جانتا ہے کہ مائوں کے پیٹوں میں کیا پرورش پارہا ہے، کوئی متنفس نہیں جانتا کہ کل وہ کیا کمائی کرنے والا ہے، اور نہ کسی شخص کو یہ خبر ہے کہ کس سرزمین میں اس کو موت آنی ہے، اللہ ہی سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے۔(لقمٰن ۳۱:۳۴)

قیامت کس وقت اور کب واقع ہوگی؟ جِنّ وانس کو خبر نہیں ہوتی کہ ماں کے پیٹ میں کیا ہے؟ وہ پیدا ہونے والا عالم ہو گا یا جاہل ، سائنس دان ہو گا یا اَن پڑھ، کتنا وقت زندہ رہے گا یا پیدا ہوتے ہی مرجائے گا، بیمار ہوگا یا تندرست ہو گا؟ اسی طرح کسی کو خبر نہیں کہ اس کی موت کہاں آئے گی؟___ یہ سب باتیں اللہ کے علم میں ہیں اور وہی ان کی پوری حقیقت کو جانتا ہے۔

  • توحید باری تعالٰی پر غور: انسان اگر تھوڑا سا غور کرے تو ہزاروں اور لاکھوں نعمتیں اسے گھیرے ہوئے ہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی صفات میں سے خاص طور پر تخلیق کو بیان کیا ہے۔ قرآن شریف میں تین سو کے قریب یہ کلمہ مختلف شکلوں میں اسم اور فعل کی صورتوں میں آیا ہے۔ پھر بہت سی نعمتیں گنا کر پوچھا گیا ہے اور انسان نے ہر نعمت کی تخلیق کے متعلق یہی بتایا ہے کہ اللہ نے پیدا کی ہیں۔پھر بغیر سوال کے کئی مقامات پر بتایا کہ اللہ نے یہ نعمتیں تمھارے اوردوسرے جان داروں کے لیے پیدا کی ہیں۔ اگر انسان سے پوچھا یا کہا جائے کہ زمین وآسمان اور جو کچھ ان میں ہے اسے کس نے پیدا کیا؟ تو ضرور یہی جواب دے گا کہ اللہ نے پیدا کیا ہے۔ اگر یہ پوچھا جائے کہ انسان کو کس نے پیدا کیا؟ تو ضرور یہی جواب دے گا اللہ نے پیدا کیا ہے۔ اگر پوچھا جائے کہ دن، رات، سورج اور چاند کس نے پیدا کیے؟ تو جواب یہی دے گا کہ اللہ نے   یہ سب پیدا کیا ہے۔ اگر انسان سے پوچھا جائے کہ بارش کون برساتا ہے؟ اور اس سے یہ پوچھا جائے کہ کھیتیاں کون اُگاتا ہے؟ تو ضرور یہی جواب دے گا کہ اللہ تعالیٰ ۔

اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ہے جو ہزاروں لاکھوں برسوں سے انسانوں کو پیدا کیے جا رہا ہے۔ البتہ اس تناسب میں کبھی کبھار معمولی سی کمی کر دیتا ہے کہ کسی صدی میں لڑکیاں معمول سے زیادہ پیدا ہوجائیں ۔ یہ کون ہے جو انسانوں کے تناسب میں کمی بیشی کر رہا ہے؟ سب کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ کے بس میں ہے جو وہ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ اگر انسان سے یہ پوچھا جائے کہ موت اور حیات کس کے اختیار میں ہے؟تو یہی کہے گا کہ اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ جب کائنات میں سب کچھ وہی پیدا کرتا ہے تو پھر حکم اور امر بھی اس کا چلنا چاہیے:

اَلَا لَہُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ۝۰ۭ تَبٰرَكَ اللہُ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ (اعراف ۷:۵۴) خبردار رہو! اُسی کی خلق ہے اور اُسی کا امر ہے۔ بڑا بابرکت ہے اللہ، سارے جہانوں کا مالک و پروردگار۔

یہ صفات رکھنے والا مالک الملک ہے، لہٰذا عبادت بھی اسی کی کرنی چاہیے۔اس بات کو قرآن مجید میں یوں فرمایا گیا ہے کہ:

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ۝۵۶ مَآ اُرِيْدُ مِنْہُمْ مِّنْ رِّزْقٍ وَّمَآ اُرِيْدُ اَنْ يُّطْعِمُوْنِ۝۵۷ (الذاریات ۵۱:۵۶-۵۷) میں نے جِنّ اور انسانوں کو پیدا ہی اسی لیے کیا ہے کہ وہ میری (اللہ کی ) بندگی کریں ۔ میں ان سے کوئی رزق نہیں چاہتا اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ کہ وہ مجھے (اللہ کو ) کھلائیں پلائیں۔

  • مومن کا اللہ سے تعلق:اللہ تعالیٰ سے ایک مومن کا جو تعلق ہونا چاہیے اس کے نکات ذیل میں دیے جا رہے ہیں:

  •                 مو من اللہ کی ہی بندگی کرے ، اسی کو سجدہ کرے اور اسی کی پرستش کرے۔
  •                 اللہ کو ہی غیب دان، نفع ونقصان پہنچانے والا سمجھے۔ اللہ کا دل میں خوف رکھے اور اس پر توکّل کرے۔ اس سے ہی دُعا مانگے، اس سے ہی پناہ مانگے، اور کسی کو اللہ کی باد شاہی میں دخل دینے والا نہ سمجھے کہ جس کی فرمایش اور سفارش سے کوئی حکم یا قضا ٹل سکتی ہو۔   
  •                 اللہ تعالیٰ ہی کو حقیقی باد شاہ ، ملک کا حقیقی مقتدر اعلیٰ سمجھے اور حقیقی حاکم صرف اللہ کو جانے۔
  •                 اپنے حاکم کو کسی چیز کا حقیقی مالک اور مختار نہ سمجھے بلکہ ہر چیز، حتیٰ کہ جان ومال اور اپنی  ذہنی وجسمانی صلاحیتوں کو اللہ کی امانت سمجھے۔
  •                 اپنے نفس اور خواہشات کو چھوڑ کر صرف اللہ کا بندہ بن کر اپنی پسند اور ناپسند کا معیار اللہ کو سمجھے۔ 
  •                 اللہ کی رضا ،خوشی اور اس کے قرب کو اپنی تمام کوششوں اور محنتوں کا مقصد بنائے۔ 
  •                 اپنے آپ کو اللہ کے سامنے جواب دہ اور ذمہ دار سمجھے اور ہر وقت یہ خیال رکھے کہ قیامت کے دن اللہ کو زندگی کے تمام معاملات کا حساب دینا ہے۔ 
  •                 انسان اپنے اخلاق ،چال چلن، رہن سہن (تمدن )، روزی کمانے اور سیاست وغیرہ، الغرض زندگی کے ہر معاملے میں اللہ کی ہدایت کو تسلیم کرے، اور اُس طریقے وضابطے کو رد کردے جو اللہ کی شریعت کے خلاف ہو۔ 

آئیے ! اللہ پر صحیح عقیدہ رکھیں اور اس سے تعلق جوڑیں تا کہ دونوں جہانوں کی خیر و بھلائی نصیب ہو، اور اللہ کے نیک بندوں کی طرح زندگی گزار کر اس جہان سے رخصت ہوں۔

چھوٹی سی تھی، جب میں اسکول میں داخل ہوئی۔ میرے مطالعے کا آغاز اسی زمانے میں ہوا۔ چھے برس کی عمر میں کچھ پڑھ لینے کے قابل ہونے سے قبل ابّا ، امی اور باجی سونے سے قبل مجھے بلند آواز میں کہانیاں پڑھ کر سنایا کرتے تھے۔ اس چھوٹی عمر میں مجھے جانوروں کی کہانیاں خاص طور پر رڈیارڈ کیپلنگ کی ’جنگل کہانی ‘ بے حد پسند تھی۔ جوں جوں میں بڑی ہوتی گئی، مجھے دنیا کے مختلف ممالک کے بچوں کی کہانیاں پسند آنے لگیں۔ دس برس کی عمر میں مجھ میں سوانح عمریاں اور تاریخ کے مطالعے کا ذوق پیدا ہوا۔

کالج کے زمانے میں دیکھا کہ میری امی کو انگریزی ادبیات سے والہانہ لگائو تھا، لیکن میری طبیعت کا رجحان ابّا کے ذوق، یعنی غیر ادبی چیزوں کی طرف تھا ۔ اگرچہ مجھے مطالعے کی پیاس لگی رہتی تھی، تاہم اسکول میں انگریزی ادبیات کا مضمون مجھے پہاڑ معلوم ہوتا تھا ۔ بچپن ، بلوغت اور جوانی کے زمانوں میں کبھی نظم یا نثر میں انگریزی کلاسیکی ادب کا مطالعہ مجھ سے نہ ہو سکا ۔ استادوں کے مجبور کرنے سے پڑھنے کا معاملہ ایک مختلف بات ہے۔ انگریزی کا کلاسیکی ادب مجھے بیزار کن ، بے معنی اور اپنی دل چسپیوں سے غیر متعلق نظر آتا اور تھوڑا بہت جو کچھ میں پڑھتی وہ بھی میرے حافظے میں جڑ نہ پکڑتا ۔ چاسر، شیکسپیئر ، کیٹس ، شیلے اور دوسرے کلاسیکی انگریز ادیب نہ تو میرے لیے دل چسپی کا کوئی سامان فراہم کر سکے اور نہ میں ان کے بارے میں کچھ جان ہی سکی۔ ان کی زبان اور ان کے خیالات دونوں میرے لیے اجنبی اور ناقابل فہم تھے۔ آپ یوں سمجھ لیجیے کہ انگریزی کے کلاسیکی ادب کی مجھے ہوا تک نہیں لگی۔

امریکی نژاد ہونے کے باعث اُردو کے مطالعے، نیز اردو کے فہم اور اس سے لطف اندوز ہونے کی استعداد حسب خواہش پوری نہیں ہوسکی۔ پس، جو کتابیں میرے مطالعے میں آتی ہیں،وہ  زیادہ تر انگریزی زبان میں ہوتی ہیں۔ امریکا میں پانچ برس سے اوپر( سیکنڈری اسکول اور کالج کے زمانے میں) میں نے فرانسیسی زبان سیکھی تھی اور اگرچہ پاکستان میں اس زبان کاجاننا کم وبیش بے مصرف ہے، پھر بھی میں اس زبان کا مطالعہ اس حد تک بر قرار رکھتی ہوں کہ فرانسیسی کتب ، جرائد اور اخبارات کا مطالعہ کر سکوں اور گاہے بہ گاہے جب اسلامی اُمور پر کوئی انگریزی کتاب مجھے میسر نہیں آتی تو میں متعلقہ موضوع پر فرانسیسی کتاب ہی دیکھ لیتی ہوں۔

اُردو زبان پر عبور حاصل نہ ہونے کے باعث اس زبان کی کتب میری دسترس سے باہر ہیں۔ تاہم، بعض اُردو تحریروں کے (انگریزی تراجم کے ذریعے) میرے ذہن پر گہرے نقوش ثبت ہیں۔ ان میں ایک علّامہ محمد اقبال کی نظم ’شکوہ‘ اور ’جواب شکوہ‘ ہے جس سے مجھے آرتھر آربری صاحب نے آشنا کیا اور دوسرے مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی صاحب کی اسلامی حکومت  کس  طرح   قائم ہوتی ہے؟ کا انگریزی عکس ہے۔ علاوہ بریں علامہ اقبال کی نظموں ’اسرارِ خودی‘ اور ’رموزِ بے خودی‘ (انگریزی مترجمین نکلسن اور آربری صاحبان ) نے بھی مجھے متاثر کیا ہے۔

شعرا میں مجھے جاہلی عرب شعرا پسند ہیں، جن کا کلام چارلس رائیل کے انگریزی تراجم کی  بدولت مجھ تک پہنچا۔ افسانہ نگاروں ، مزاح نویسوں، نیز طنز نگاروں سے مجھے طبعی رغبت نہیں، کیوں کہ میں سنجیدہ علمی مضامین کا مطالعہ کرتی ہوں۔اس طرح آپ کہہ سکتے ہیں کہ مجھے فکشن کی مختلف اصنافِ لطیف،طنز،مزاح، سبھی غیردل چسپ لگتی ہیں۔ ایسے حضرات کی تحریریں مجھے اشتعال دلاتی ہیں جو عقلی معیارات سے لگّا نہ کھائیں۔ اس شوق میں یہ مہم جُو حضرات، اسلام کے بنیادی اصولوں تک کو بدل دینے کی ہوس میں ہلکان ہوئے جاتے ہیں، تا کہ دنیاوی مصلحتوں کی خاطر اسلام کو      رائج الوقت معیارات کے مطابق ڈھال دیا جائے۔ پس، مجھے ان جرائد سے نفرت ہے جو اسلام کو   جدید زمانے کے رنگ میں رنگنا چاہتے ہیں۔ ایسے جرائد میں مرکزی ادارئہ تحقیقات اسلامی، کراچی کے  شائع کردہ جرائد Islamic Studies شامل ہے، نیز خلیفہ عبدالحکیم ، غلام احمد پرویز صاحب جیسے اہلِ قلم کو بھی پڑھتی ہوں۔ علاوہ بریں، ہر قسم کی عامیانہ اور عریاں تحریروں، نیز فلم سازی سے متعلق جرائد پر بھی مَیں مثبت طور پر تین حرف بھیجتی ہوں۔

میرے پسندیدہ موضوعاتِ مطالعہ ہیں: تاریخ ، سوانح، بشریات ، عمرانیات اور نفسیات۔ خصوصاً آج کی دنیاے اسلام کے مسائل سے متعلق میری محبوب ترین کتابیں ہیں: قرآن مجید ، (انگریزی ترجمہ از پکتھال )، مشکوٰۃ المصابیح کا انگریزی ترجمہ وشرح از مولانا الحاج فضل الرحمٰن، Social Justice in Islam ازسیّد قطب شہید ،Islam at the Crossroads  ازعلامہ محمداسد، Ideology of the Future از ڈاکٹر رفیع الدین ،Sheikh Ahmad al-Alwi (انگریزی ) از مارٹن لنگزِ ،Islamic Philosophy and Theology  از منٹگمری واٹ ، نیز مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی کی تالیفات میں مسئلہ قومیت، اسلام کا اخلاقی نقطۂ   نظر ، تجدید واحیاے دین کے انگریزی تراجم۔

میرے پسندیدہ جرائد ہیں: The Message، جماعت اسلامی ہند کا ترجمان، خلافِ قانون جماعت اخوان المسلمون (قائد جماعت ـ: جناب سعید رمضان ) کے ترجمان المسلمون کا انگریزی ضمیمہ ، اسی طرح The Radiance ، نئی دہلی، ہفت روزہ Young Pakistan  ڈھاکہ،The Muslim World   (مؤتمر عالم اسلامی ، کراچی کا جریدہ )، Muslim News International کراچی ۔ ان جرائد میں تو میں باقاعدگی سے لکھتی بھی ہوں ۔ اس فہرست میں کراچی کے Al-Yaqeen Int'l اور Voice of Islamکا اضافہ بھی کرلیجیے۔

میرے ذہنی نشوو ارتقا میں جس کتاب نے سب سے زیادہ حصہ لیا وہ ہے علامہ محمد اسد کی اسلام دوراہے پر  (Islam at The Cross Roads ) جسے لاہور کے ناشر شیخ محمد اشرف نے شائع کیا تھا۔ یہ کتاب اوّل ۱۹۳۴ء میں سپردِ قلم کی گئی تھی۔ مقصد یہ ظاہر کرنا تھا کہ اسلام اور جدید مغربی تہذیب میں مصالحت نا ممکن ہے۔ اس موضوع پر یہ تصنیف میرے نزدیک شاہکار کا درجہ رکھتی ہے۔ اس تصنیف میں موجود استدلال مجھے اس درجہ متاثر کرنے والا نظر آیا کہ اسلام  دوراہے پر  نے خدمتِ اسلام کی جہت میں میری تصنیفی سعی وجہد کی بنیاد اور مستقبل کے لیے منزل متعین کردی۔ اس تصنیف کا جو موضوع تھا اور اس میں جو دلائل دیے گئے تھے، میرے تمام آیندہ مضامین کی اساس درحقیقت وہی ہے۔

جن دیگر مضامین وکتب نے مجھے متاثر کیا وہ ہیں: ترکیہ کے مرحوم پرنس سعید حلیم پاشا کے مضامین بعنوان : مسلمان معاشرے کی سیاسی اصلاح، انگریزی مترجم: محمدمارما ڈیوس پکتھال۔ ہماری تقدیر تاریخ کے آئینے میں،انگریزی ،جناب اے کے بروہی (مطبوعہ جریدہ وائس آف اسلام ، کراچی شمارہ جون ۱۹۶۳ء )۔ ’فنون لطیفہ ‘ :حُسن کیا ہے ؟‘ انگریزی مترجم، مصنف جناب ابراہیم علی چشتی، (پاکستان ٹائمز، لاہور مؤرخہ ۲۱-۲۸ فروری ۱۹۶۴ء )، نیز اسلامی تحقیق کا فریضہ (انگریزی)، مصنف جناب ڈاکٹر محمد رفیع الدین، (مطبوعہ روز نامہ پاکستان ٹائمز ، لاہور مورخہ ۱۲ ؍اگست ۱۹۶۵ء)۔

تنہائی اور سکون ، ان دونوں کی مطالعے کے لیے مجھے ضرورت ہوتی ہے۔ پرُ شور ماحول کے لوگ مجھے چڑ چڑا بنا دیتے ہیں اور مجھے آرام اور دل جمعی سے مطالعہ نہیں کرنے دیتے ۔ بستر پر نیم دراز ہو کر پڑھنا مجھے مرغوب ہے۔ ایک گھنٹے میں کوئی سو صفحے پڑھ لیتی ہوں، جن کے مطالب ذہن میں محفوظ رہتے ہیں۔ جب بھی وقت ملے پڑھ لیتی ہوں لیکن اکثر تیسرے پہر یا سرشام ۔ ریل یا بحری جہاز سے لمبا سفر در پیش ہو تو چھوٹی چھوٹی کتابیں ، اخبارات اور جرائد ساتھ لے لیتی ہوں، لیکن کار، بس یا ہوائی جہاز میں سفر کرتے وقت میرے لیے مطالعہ کرنا ممکن نہیں ہوتا۔

مطالعے کے متعلق میرے پیش نظر کوئی نپا تلا یا طے شدہ پروگرام نہیں ہوتا۔ زیر مطالعہ کتب پر نشانات لگانے ، سطور کو روشنائی سے نمایاں کرنا، یا کتاب کے حاشیوں میں یادداشتیں لکھنا وغیرہ، ان میں سے کوئی عادت بھی مجھے نہیں ہے۔ یوں میں اس کی ضرورت بھی محسوس نہیں کرتی۔ میری یادداشت اس تمام مطالعے میں میرا ساتھ دیتی ہے، جو میری دل چسپی کا باعث ہو یا جو مجھے متاثر کرے۔ اس ضمن میں تمام مرکزی افکار، ان تحریروں کے مصنفوں کے نام وغیرہ میرے ذہن میں محفوظ رہتے ہیں۔ اس کی ایک اور وجہ بھی ہے اور وہ یہ کہ میں اپنی کتابوں کو مکمل درست حالت میں دیکھنا چاہتی ہوں اور کسی طرح کے نشانات سے ان کاحلیہ بگاڑنا مجھے پسند نہیں۔

جی تو یہی چاہتاہے کہ مطالعے سے جو عطر مجھ تک پہنچا ہے، اس کی خوشبو سے میرے گھروالوں اور احباب کے مشام جان بھی معطر ہوں۔ لیکن تجربہ یہ ہے کہ فلسفہ ودانش ایسے موضوعات پر میری گفتگو سن کر میرے اکثر شرکاے گفتگو اوّل تو بے توجہی سے کام لیتے ہیں، بلکہ درست بات یہ ہے کہ زچ ہوجاتے ہیں۔ پس، اس حوصلہ شکن رویے کے باعث اس خوشبو کو میں اکثر اپنے تک محدود رکھتی ہوں ۔

پردے کی کڑی پابند ہونے کے باعث چوںکہ میں پنجاب یونی ورسٹی لاہور اور یہاں کی پبلک لائبریریوں سے استفادہ نہیں کر سکتی۔ اس لیے جس کتاب کی مجھے ضرورت یا کمی محسوس ہوتی ہے، مجھے خریدنا پڑتی ہے۔ تاہم، صرف ضرورت نے ہی میرے ہاں ایک بڑے کتاب خانے کو وجود نہیں بخشتا، بلکہ زیادہ سے زیادہ کتابیں خریدنے اور انھیں محفوظ رکھنے سے مجھے بے حد مسرت ہوتی ہے اور میں ایک طرح کا فخر محسوس کرتی ہوں۔

کتابوں سے مجھے ذاتی طور پر محبت ہے۔ انھیں میں اپنا حقیقی دوست سمجھتی ہوں۔ اس لیے اپنی کتابوں کو حتی الامکان نئی اور اچھی حالت میں رکھنے کی کوشش کرتی ہوں۔ اگر میری کتابوں کو کوئی ایذا پہنچے یا وہ کسی اور طرح اچھی حالت میں نہ ہوں، تومیں اُداس بلکہ دُکھی ہو جاتی ہوں۔ خاصی رقم خرچ کرکے میں ان کی نئی جلد بندی کرواتی ہوں۔سرورق پرموٹا خاکی کاغذ چڑھا دیتی ہوں، تاکہ وہ دیر تک محفوظ رہے اور اس کی خوب صورتی برقرار رہے۔ میرے کتاب خانے میں اس وقت دو سو سے زائد کتابیں ہیں۔ جب کام سے فارغ ہونے کے بعد ان کی ضرورت نہ ہو تو انھیں ایک فولادی الماری میں تالا لگا کر بحفاظت رکھتی ہوں۔

اپنی ان کتابوں کے تعلق سے مَیں انتہا درجے کی خود غرض واقع ہوئی ہوں۔ ان کی ملکیت کے تعلق سے کسی قسم کی شراکت مجھے پسند نہیں۔ مانگنے پر کسی کو کوئی کتاب صرف اس وقت مل سکے گی، اگر اس کی کوئی فالتو جلد میرے پاس موجود ہو۔ میرے شوہر خان صاحب (محمدیوسف خان) کتابیں مستعار دینے کے لیے بہت پُرجوش واقع ہوئے ہیں۔ میں ان کے ہاں سے کتابیں جاتے تو دیکھتی ہوں، مگر آتے نہیں دیکھتی ۔ اکثر مستعارئیے پرلے درجے کے غیر ذمہ دار لوگ ہوتے ہیںاور ایسے غیرمحتاط لوگوں کے ہاتھوں اپنی کتابوں کا گم ہونا میرے لیے سخت تکلیف کا باعث بنتا ہے۔ مستعا ر دینے کی طرح کسی سے مانگ کر پڑھنا اپنی عادت نہیں ہے۔ اشد ضرورت کی بات دوسری ہے۔ جب کتاب مانگ کرپڑھنا پڑے تو میرے اعصاب قیامت سے دوچار ہو جاتے ہیں۔ مقدور بھر تیزرفتاری سے مطالعہ کرتی ہوں اور عموماً دوسرے دن اسے امانت لوٹا دیتی ہوں۔

میرے کتب خانے کی اہم ترین کتب : قرآن مجید، احادیث کے مجموعے، حضور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پاک پر مغربی مصنفوں کی تصنیفات کے علاوہ، افلاطون ، ،میکیاولی، والٹیئر ، مارکس، ڈارون، فرائیڈ اور جان ڈیوی ایسے مغربی فلاسفروں کی تصنیفات ، نیز ویفریڈ کنیٹول اسمتھ، سیموئیل زویمراور کینتھ کریگ، ایسے مغربی ومسیحی مستشرقین کی تصنیفات: ماڈرن اسلام    اِن انڈیا،  اسلام   اِن ماڈرن   ہسٹری ، چائلڈ   ہڈاِن    دی مسلم    ورلڈ اور  کال آف   دی    مینریٹ ، بشیر احمد ڈارصاحب کی تصنیف حیات سرسیّد احمد (انگریزی )۔ نیز جدید زمانے کے معذرت خواہانہ انداز کی حامل سیّد امیر علی صاحب کی اِسپرٹ آف اسلام۔ ان کتابوں کو میں اپنا دوست نہیں دشمن سمجھتی ہوں لیکن اسلام سے متعلق غلط نظریات کی جان پہچان بھی مجھے یہیں سے ملتی ہے، جن کی میں اپنی تحریروں میں تردید کرتی ہوں۔ اس اعتبار سے یہ تصانیف ’بے حد قیمتی‘ ہیں۔

جن کتابوں کی مجھے ضرورت ہوتی ہے (خصوصاً وہ کتابیں جو اب امریکا میں نایاب ہو چکی ہیں) ان کے حصول کے لیے میں اپنی سی ہر ممکن کوشش کر گزرنا چاہتی ہوں۔ جن کتابوں کی کمی میں اپنے ہاں محسوس کرتی ہوں، ان کے حصول کے لیے میں پائی پائی تک خرچ کرنے سے دریغ نہ کرتی۔

میرے کتاب خانے کی بعض کتب مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی اور مولانا سیّدابوالحسن علی ندوی،  ایسی اہم شخصیتوں کی جانب سے تحفتاً موصول ہوئی تھیں۔ ذاتی تجربے سے براہِ راست جو کچھ میسر نہیں آسکتا، اس کے حصول کے لیے مطالعہ ناگزیر ہے۔ مطالعۂ کتب سے فرد کے ذہنی اُفق کو وسعت میسر آتی ہے، جو اس کی محدود روزمرہ زندگی سے کہیں دُور ہوتی ہے ۔ پس مطالعہ نہ تو محض ایک شغل ہے اور نہ مسرت ہی کی خاطر پڑھنا مطالعے کا کوئی اچھا مصرف ہے۔ آج کی نوع بہ نوع مصروفیات میں گھرے فرد پر لازم ہے کہ وہ اپنے فرصت کے اوقات میں مطالعے کے لیے (مثلاً شام کو کھانے کے بعد تھوڑی دیر کے لیے ) کچھ وقت نکالے، خواہ اس کے لیے اسے احباب کی ملاقاتوں کے وقت میں کمی کرنا پڑے ۔ مطلوبہ کتابیں خرید کر، مستعار لے کر، یا لائبریریوں سے لے کر مطالعہ کی جا سکتی ہیں۔

اسلامی طرزِ حیات ، اسلامی نظامِ معاشرت ، تہذیب وثقافت اور اسلام کے شان دار ماضی کے تعلق سے، پاکستان کے مسلمانوں کو مناسب معلومات فراہم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام ان زبانوں کے مطالعے پر زور دے، جن کے مطالعے سے ان ذرائع سے براہِ راست واقفیت حاصل کی جا سکتی ہے۔ اس مقصد کے لیے عربی، فارسی اور اردو کا جاننا کالج کے طلبہ کے لیے لازمی قرار دے دیا جائے۔

قرآن مجید کی کلاسیکی عربی زبان کے مطالعے پر بالخصوص زور دیا جائے۔ ہمارے تعلیمی نظام کو قرآن مجید ، حدیث پاک ، سیرتِ رسول کریم ؐ ، اسلامی تاریخ ، اور دنیاے اسلام کے ہم عصر مسائل کے مطالعے پر زور دینا چاہیے۔ ان علوم کا حصول اسلام کے خالص فلسفیانہ نقطۂ نظر سے ہونا چاہیے اور اسے متجد دین  اور فکری معذورین کی فکری آلایشوں سے پاک رکھا جانا چاہیے۔ اس سلسلے میں جن لکھنے والوں کو پڑھنے کی خصوصی سفارش کی جائے ان میں امام بخاری ایسے محدث، ابنِ اسحاق اور ابنِ ہشام ایسے ثقہ سیرت نگار، کتاب المغازی ایسی تالیف کے مؤلف الواقدی، نیز ابنِ تیمیہ، امام غزالی، شاہ ولی اللہ ، علامہ محمد اقبال کی فارسی اور اردو شاعری ، شیخ حسن البنا، سیّدقطب اور  مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی کی تمام تالیفات ۔

تعلیم یافتہ نوجوانوں کو میرا مشورہ یہ ہے کہ وہ اسلامی اور غیر اسلامی عمدہ تصنیفات کا بے کھٹکے مطالعہ کریں، جو انھیں دل چسپ معلوم ہوں یا جو ان کے کاروبار وغیرہ سے تعلق رکھتی ہوں۔ ایک طرف تو اسلامی تصنیفات کے گہرے مطالعے پر مبنی اسلامی ذہن بنانے کی ضرورت ہے، دوسرے اہم انگریزی کتابوں کو دیکھنے کی بھی ضرورت ہے، تا کہ دونوں کی تہذیبی وثقافتی اقدار سے ان کے   صحیح پس منظر میں آگاہی حاصل ہو سکے۔ نوجوان پاکستانیوں کو میں بالخصوص یہ مشورہ دوں گی کہ علامہ محمد اقبال کا کلام اور مولانا سیّدابوا لاعلیٰ مودودی کی تمام تصنیفات کا مطالعہ کریں۔ اسی طرح اخبارات وجرائد میں روزنامہ نوائے وقت  کے مطالعے کی سفارش کروں گی۔ ماہ ناموں میں ترجمان القرآن کا مطالعہ سود مند رہے گا۔

والدین پر لازم ہے کہ خود اچھی کتابوں کے مطالعے کی عادت ڈالیں اور اپنے اس طرزِعمل سے بچوں کے لیے اچھی مثال قائم کریں۔ اگرچہ میرا تجربہ یہ ہے کہ والدین کی مثال اور کوششیں بچوں کو بس ایک حد تک ہی متاثر کرتی ہیں، اور والدین کے دائرۂ اثر سے باہر کا ماحول بچوں کی پسندوناپسند سے مل کر ا نھیں متاثر کرتا ہے۔

آخر میں قرآن مجید ناظرہ پڑھنے کے بارے میں چند الفاظ۔ اگرچہ تعلیمات اسلامی کے تعلق سے یہ بالکل ناکافی ہو گا کہ قرآن مجید کو ، اس کا مفہوم سمجھے بغیر، محض رَٹ لیا جائے۔ لیکن میری راے یہ ہے کہ اسلامی تربیت کی کلیتاً عدم موجودگی میں یہ بھی کہیں بہتر ہوگا کہ قرآن کا خاصا حصہ یاد ہو۔ اس کی بدولت بچے کی تربیت ایک اسلامی ماحول میں ہو جاتی ہے اور اس کے دل میں کلمۃاللہ کے لیے احترام کا جذبہ بیدار ہوتا ہے۔ بچہ اگر عربی متن کو نہ سمجھ سکے تو قرآن پاک کی قرأت ہی سے اس کے کانوں میں قرآن پاک کی محض آواز ہی رس گھو لتی رہے گی۔ اس طرح  ایک اچھی بنیاد میسر آجائے گی اور سن شعور تک پہنچتے پہنچتے عربی زبان پر عبور حاصل کرنے، نیز قرآن پاک کے متن کو سمجھنے کی راہیں بھی کھل سکیں گی۔ ہمارے جدید روشن خیالوں کا یہ خیال کہ بچہ چوںکہ عربی زبان سمجھ نہیں سکتا، لہٰذا، اسے قرآن کی قرأت سکھانا بے مصرف ہے۔ یہ بدنیتی پر مبنی ایک بہانہ ہے، جسے اسلامی تہذیب وثقافت کے دشمن اس لیے پیش کرتے ہیں، تا کہ مسلمان بچے کو سرے سے اسلامی تعلیم مل ہی نہ سکے۔

۲۰۱۸ءکئی مسلم ممالک میں انتخابات کا سال ہے۔ ۲۴ جون کو ترکی میں اور گذشتہ مئی میں ملائیشیا میں انتخابات ہوئے۔ اس سے پہلے تیونس کے بلدیاتی انتخابات، تحریک نہضت کی واضح کامیابی کی خوش خبری لائے۔ عراق کے عام انتخابات میں حکمران اتحاد کے بجاے ایک دوسرے شیعہ رہنما مقتدیٰ الصدر بڑی قوت بن کر اُبھرے۔ یہی عالم لبنان کے عام انتخابات کا ہے۔  وہاں حسب توقع حزب اللہ اور اس کے حلیفوں نے بھاری اکثریت حاصل کی لیکن شیعہ سُنّی اور مسیحی آبادی میں تقسیم اقتدار کے فارمولے پر عمل اب بھی مشکل تر دکھائی دیتا ہے۔

اب ۲۵ جولائی کو پاکستانی عام انتخابات کے علاوہ اسی سال کے اختتام پر بنگلہ دیش میں بھی انتخابات ہونا ہیں۔ حسینہ واجد اپنی انتخابی مہم کا باقاعدہ آغاز کرچکی ہے، جب کہ خالدہ ضیاء اور جماعت اسلامی کی پوری قیادت، ہزاروں بے گناہ کارکنوں کے ساتھ جیلوں میں بنیادی انسانی حقوق تک سے محروم ہیں۔ انڈونیشیا میں بھی انتخابی مہم کا آغاز ہوچکا ہے۔ یہ تمام انتخابات اہم ہیں۔ ترکی اور ملائیشیا کے انتخابات کی خصوصی اہمیت ہے، اس لیے یہاں ان دونوں کا جائزہ لیتے ہیں:

  • ترکی: ترکی سے مصطفیٰ کمال اتاترک کے نظریات پر مبنی نظام عملاً لپٹ چکا ہے۔ مرحوم پروفیسر نجم الدین اربکان اور طیب اردوان سمیت ان کے ساتھیوں کی مسلسل جدوجہد اور قربانیوں کے نتیجے میں اب خود مصطفیٰ کمال کے وارث باحجاب خواتین سے تقاریر کرواتے نظر آتے ہیں۔ سرپر اسکارف کے جرم میں مروہ قاوقچی کو پارلیمنٹ کی رکنیت سے محروم کرنے والے، حالیہ مہم میں اپنی خواتین خانہ کے باحجاب ہونے کا انکشاف کرتے رہے۔ حالیہ انتخابات میں اپوزیشن کے مرکزی اُمیدوار محرّم اینجہ تو مضحکہ خیز حد تک اپنی اسلام دوستی کا دعویٰ کرتے رہے۔ خود کو پابند صوم و صلوٰۃ ثابت کرنے کے لیے یہ دعویٰ تک کر ڈالا کہ ’مَیں بھی روزانہ نمازِ جمعہ ادا کرتا ہوں‘۔ یہی جملہ بالآخر ملک بھر میں لگنے والے بینروں کے ذریعے ان کی ’دین داری‘ کی حقیقت بے نقاب کرگیا۔

اب ترکی میں پارلیمانی نظام کے بجاے براہِ راست عوام کے ووٹ سے منتخب ہونے والے صدر کے اختیارات پر مبنی صدارتی نظام نافذ ہوگا۔ ۶۰۰ ارکان پر مشتمل پارلیمنٹ یقینا ایک مؤثر دستور ساز ادارے کے طور پر اپنا کردار ادا کرے گی، لیکن سربراہِ حکومت، حکومت سازی کے لیے ایوان میں کی جانے والی جو ڑ توڑ کی فکر سے آزاد ہوکر اُمور سلطنت انجام دے سکے گا۔ ضرورت ہوگی تو پارلیمنٹ سے باہر بیٹھے باصلاحیت افراد کو بھی کابینہ میں شامل کرسکے گا۔ عوام کے براہِ راست ووٹ سے منتخب ہونے والا سربراہِ حکومت کسی فوجی انقلاب کے خطرے سے بھی ان شاء اللہ محفوظ رہے گا اور ملک کے تمام اداروں کو اپنے اپنے دائرۂ عمل میں رہ کر تعمیر ملک و ملت میں شریک کرسکے گا۔ فوجی عدالتیں کالعدم قرار پائیں گی اور عدلیہ میں ججوں کا تعین مزید بہتر انداز سے ہوسکے گا۔

مخالفین کے لیے جب صدر طیب اردوان اور ان کی جماعت کا مقابلہ کرنا مشکل ہوگیا تو طیب پر آمر بننے کا الزام لگایا جانے لگا۔ حالیہ انتخابات میں تقریباً ساری مغربی دنیا کے علاوہ ہزاروں بے گناہوں کے خون کا پیاسا مصری جنرل سیسی بھی صدر اردوان پر آمر کا الزام لگاتے دکھائی دیا۔ ۲۴جون سے قبل تقریباً ہر اہم عالمی جریدے کے سرورق پر آمر کی سرخی کے ساتھ صدر اردوان کی تصاویر شائع کروائی گئیں۔ جرمنی کے سب سے معروف رسالے دیر شپیگل  نے تو انتہا کردی۔    اس نے پورے صفحے پر اردوان کی تصویر کے پس منظر میں بڑی مسجد کی تصویر لگائی اور اس کے سربفلک میناروں میں سے دو میناروں کو میزائلوں میں ڈھالتے ہوئے، انھیںنامعلوم دشمن کے خلاف چلادیا۔ ترک وزیر خارجہ سمیت کئی ذمہ داران نے یہ واضح بیانات بھی دیے کہ بعض ممالک ترک انتخابات پر اثر انداز ہونے کے لیے بڑے پیمانے پر سرمایہ جھونک رہے ہیں۔ کئی ملکوں کے سوشل میڈیا سے بھی اندازہ ہورہا تھا کہ ان کی حکومتیں کسی بھی ’قیمت‘ پر اردوان کو ہرانا چاہتی ہیں۔

حالیہ ترک انتخابات، اتحادوں کے انتخابات تھے۔ حکمران جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی (AKP) سب سے بڑی پارٹی ہونے کے باوجود میدان میں تنہا نہیں اُتری۔ اس نے ترک قومیت پر مبنی جماعت (MHP) کے ساتھ ’اتحاد جمہور‘ تشکیل دیا۔ یہ جماعت پہلے تقریباً ۱۰ فی صد ووٹ حاصل کیا کرتی تھی، اب بھی اسے پارلیمانی سیٹوں کے لیے ۱۱فی صد ووٹ ملے۔ خود جسٹس پارٹی کے ووٹ بعض حلقوں میں کم ہوئے، لیکن دونوں جماعتوں کے اتحاد سے صدارتی انتخابات میں کامیابی ۶ء ۵۲ فی صد تک جاپہنچی۔ مقابل حزب مخالف نے بھی اتحاد ہی کی راہ اختیار کی۔ ’اتحاد ملت‘ کے نام سے قائم  اس اتحاد میں باہم شدید نظریاتی مخالف جماعتیں یک جا تھیں۔ سب سے بڑی سیکولر جماعت CHP  اور سعادت پارٹی کا اتحاد آگ اور پانی کے ملاپ کی صورت میں سامنے آیا۔ اردوان کے مقابلے میں صدارتی انتخاب کے لیے حکمت عملی یہ بنائی گئی کہ سب اتحادی پارٹیاں اپنے اپنے اُمیدوار میدان میں اُتاریں گی، تاکہ ووٹ زیادہ سے زیادہ تقسیم ہونے کے باعث طیب اردوان کو پہلے مرحلے میں جیت کے لیے مطلوب ۵۰ فی صد ووٹ حاصل نہ ہوسکیں۔البتہ پارلیمنٹ کے انتخاب میں اتحاد کے نام سے حصہ لیا جائے۔ تاہم، کھلی بیرونی مداخلت و ’سرمایہ کاری‘ اورمختلف الخیال جماعتوں کے اتحاد کے باوجود الحمدللہ، رجب طیب اردوان پہلے ہی مرحلے میں صدر منتخب ہوگئے۔ جیت کے بعد اردوان نے خطاب کرتے ہوئے کہا: ’’ہماری جیت کسی ایک فرد یا جماعت کی جیت نہیں ہرترک شہری اور دنیا کے ہر مظلوم کی جیت ہے‘‘۔ یقینا اس جیت کے پیچھے ان لاکھوں مظلوموں اور اسلام کے چاہنے والوں کی دُعائیں بھی تھیں، اردوان حکومت نےجن کے زخموںپر مرہم رکھا۔ انتخابی مہم میں محرّم اینجے کہہ رہے تھے: ’’کامیاب ہوکر ۴۰ لاکھ سے زائد شامی مہاجرین کو نکال باہر کروں گا‘‘، جب کہ اردوان کہہ رہے تھے: ’’یہ ہمارے بھائی ہیں، ہمارے مہمان ہیں۔ ہم شام میں جاری دہشت گردی کے خلاف مزید قوت سے لڑیں گے، تاکہ ہمارے یہ مہمان عزت سے اپنے گھر واپس جاسکیں‘‘۔بالآخر افلا ک سے ان تمام مظلوموں کے نالوں کا جواب آیا۔

طیب اردوان نے اپنے وطن عزیز کومعاشی طورپر مضبوط تر بنانے کے لیے وہ کارکردگی دکھائی ہے جو جدید ترکی کی تاریخ میں کبھی ممکن نہ ہوئی تھی۔ اردوان حکومت سے پہلے ترکی اقتصادی لحاظ سے دُنیا کا ایک سو گیارھواں ملک تھا، اب سولھواں ہے۔پہلے فی کس سالانہ آمدنی ۲ہزار ڈالر کے قریب تھی، اب ۱۱ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔ بے روزگاری کا تناسب ۳۸ فی صد سے کم ہوکر ۲فی صد رہ گیا ہے۔ ملازمین کی تنخواہیں ۳۰۰ فی صد بڑھاتے ہوئے کم سے کم تنخواہ ۳۴۰ لیرے سے بڑھا کر ۹۵۷ لیرے (تقریباً ۲۴ہزار روپے) کردی گئی ہے۔ اردوان کا ہدف یہ ہے کہ ۲۰۲۳ء تک ترکی کو دنیا کی پہلی دس بڑی اقتصادی طاقتوں میں شامل کرنا ہے۔

حالیہ انتخابات میں ترکی سے ملنے والا ایک اہم پیغام یہ بھی ہے کہ باہمی اختلافات کو کبھی اس انتہا پر نہیں لے جانا چاہیے کہ دوبارہ ملنا ممکن نہ رہے۔ حکمران جسٹس پارٹی کی غالب اکثریت (بالخصوص فیصلہ ساز افراد) مرحوم اربکان ہی کے ساتھی اور ایک عالمی اسلامی فکر (جسے انھوں نے ’ملی گوروش‘ کا نام دیا ہوا ہے) کا حصہ ہیں۔ آج ترک ایوان صدر میں جائیں تو کئی دفاتر میں سجی ذاتی تصاویر میں صدر طیب اردوان کے ساتھ ساتھ پروفیسر نجم الدین اربکان اور سیّد مودودی کی تصاویر دکھائی دیتی ہیں۔ لیکن دوسری طرف سعادت پارٹی اپنے کٹڑ نظریاتی مخالفین کے ساتھ اتحاد پر تو راضی ہوگئی، مگر حکمران پارٹی کے ہم خیال اپنے سابق ساتھیوں سے نہ مل سکی۔حالیہ انتخابات سے چند روز قبل سعادت پارٹی کے مزید کئی اہم ذمہ داران بھی جسٹس پارٹی میں شامل ہوگئے۔

  •  ملائیشیا : تقریباً یہی صورتِ حال ہمیں ملائیشیا کے حالیہ انتخابات میں دکھائی دیتی ہے۔ آئیے پہلے اس کے مختصر تاریخی پس منظر کا جائزہ لیتے ہیں:

ملائیشیا بظاہر ایک الگ تھلگ مسلم ریاست ہے، لیکن اپنی آبادی اور اپنے اقتصادی مقام کے باعث جنوبی ایشیا میں ملائیشیا انڈونیشیا، سنگاپور اور برونائی سمیت ان سب ممالک کو ایک خصوصی مقام حاصل ہے۔ ان ممالک میں بسنے والے کروڑوں مسلمانوں کا وجود دنیا کے اس جھوٹے پروپیگنڈے کا عملی جواب ہے کہ دین اسلام بزور تلوار پھیلایا گیا۔ اس پورے علاقے میں اسلام کا تعارف مسلمان علماے کرام، مسلمان طلبہ اور تاجروں کے ذریعے پہنچا اور الحمدللہ مختلف اَدوار اور مختلف آزمایشوں سے گزرنے کے باوجود عوام کے دلوں میں اسلام کی محبت ان کا قیمتی اثاثہ ہے۔ ۲۷ جولائی ۱۹۵۵ء کو ایک ریفرنڈم کے ذریعے ملائیشیا کی آزادی کا فیصلہ ہوا اور ۳۱؍اگست ۱۹۵۷ء کو گیارہ صوبوں پر مشتمل ریاست کو آزادی ملی۔ تاہم، ۱۹۶۵ میں سنگاپور الگ ہوگیا۔ آج کا ملائیشیا انھی ۱۳ صوبوں پر مشتمل ہے۔ملائیشیا میں مسلمان آبادی کا تناسب ۸۰ فی صد سے زائد تھا۔ برطانوی تسلط کے دوران ایک منصوبے کے تحت چین اور ہندستان سے ایک بڑی آبادی وہاں منتقل کی گئی۔  نتیجہ یہ نکلا کہ مالے نسل آبادی کا تناسب ۵۵  فی صد رہ گیا جو اَب ۶۰  فی صد ہے۔ سب کے سب مسلمان اور امام شافعی کے پیروکار ہیں۔ ۳۰فی صد آبادی چینی النسل ہے اور ۱۰ فی صد ہندستانی نسل کے لوگ ہیں۔ اصل باشندوں کی اکثریت کا پیشہ زراعت اور کھیتی باڑی تھا۔ چین سے آنے والے اکثر لوگ تجارت و صنعت میں جت گئے۔ اکثر ہندستانی جنگلات، تجارت اور مختلف کانوں سے معدنیات کے کام میں مصروف ہوگئے۔ اس طرح مقامی آبادی کے مقابلے میں دیگر باشندوں کی معاشی حالت نسبتاً بہتر قرار پائی۔

۱۹۵۷ء ہی میں برطانوی سامراج کی اجازت سے ’مالے‘ نسل کی آبادی کے لیے  ’یونائیٹڈ مالے نیشنل آرگنائزیشن‘ (UMNO) تشکیل دی گئی۔ MCA  کے نام سے چینی اور MIC کے نام سے ہندستانی آبادی کے لیے بھی تنظیمیں تشکیل دی گئیں۔

دوسری جانب دوسری عالمی جنگ کے دوران ہی ایک ملائیشین عالم دین ڈاکٹر برہان الدین حلمی کی صدارت میں ایک تنظیم مالاوین قومی پارٹی تشکیل پاچکی تھی۔ ڈاکٹر حلمی نے ہندستان میں تعلیم حاصل کی تھی اور شاہ ولی اللہ دہلوی کی تحریک سے متاثر تھے۔ اس تحریک نے  آزادی کا پرچم بلند کیا اور اپنے پیش نظر ایک حقیقی اسلامی ریاست کا قیام رکھا۔ جنگ کے بعد برطانیہ نے اس تحریک سمیت دیگر تمام تنظیموں پر پابندی لگادی تو ان کے ذمہ داران و کارکنان بھی UMNO    میں شامل ہوکر اس پلیٹ فارم سے کام کرنے لگے۔اسی زمانے میں اسلامی تحریک کی شروعات علماے کرام کی ایک تنظیم سے ہوئی، جو بعد میں پاس (PAS) کے نام سے جماعت کی بنیاد بنی۔ ۱۹۵۵ء میں ملک کے پہلے انتخابات ہوئے تو ۵۲؍ارکان پر مشتمل اسمبلی میں ’پاس‘ کو ایک سیٹ ملی۔ آزادی کے بعد پہلے ہی انتخابات میں ’پاس‘ نے صوبہ کلنتان کی ۳۰ میں سے ۲۸ اور صوبہ ترنگانو کی ۲۴ میں سے ۱۳ نشستیں جیت کر دوصوبائی حکومتیں بنا لیں۔

۱۹۵۹ء کے بعد سے آج تک یہی چار بنیادی گروہ ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کے لیے کبھی حلیف اور کبھی حریف بنتے چلے آرہے ہیں۔ اس دوران کئی نئی جماعتیں اور اتحاد بھی وجود میں آتے رہے۔ نوجوانوں میں کام کرنے کے لیے ABIM نامی پلیٹ فارم بہت مؤثر ثابت ہوا۔ انورابراہیم جیسے فعال اور ذہین افراد اس کے کارکن اور پھر سربراہ بنے۔ اس میں بنیادی طور پہ ایک قومی اور اسلامی سوچ رکھنے والے باصلاحیت نوجوان جمع ہوتے آئے ہیں۔ انور ابراہیم نے ABIM کے ساتھ ساتھ ’امنو‘ میں بھی اہم مقام حاصل کیا۔ انھیں مہاتیر محمد کا اعتماد حاصل ہوا۔ وزیرخزانہ اور ڈپٹی وزیراعظم بنے۔ سب انھیں مہاتیر کا جانشین قرار دینے لگے۔ لیکن پھر ۱۹۹۸ء میں ایک اچانک ایسا لمحہ آیا کہ دونوں میں بداعتمادی جڑپکڑنے لگی۔ اسی وقت ساری دنیا حیرت زدہ رہ گئی جب وزیراعظم مہاتیر محمد نے ان پر شرم ناک الزام لگاتے ہوئے انھیں جیل بھجوا دیا اور کرپشن کے الزامات پر ۶ سال کی سزا سنادی گئی۔ انورابراہیم نے نہ صرف ان الزامات کو مضحکہ خیز قرار دیا بلکہ عدالتوں کا سامنا کرنے کے ساتھ ساتھ ۲۰۰۸ میں اپنی نئی سیاسی جماعت (جسٹس پارٹی) بناکے عوامی عدالت میں جانے کا بھی فیصلہ کرلیا۔ ساتھ ساتھ انھوں نے ’پاس‘ (PAS) اور چینی نسل کے گروہوں سے بھی رابطہ کیا۔ اس اتحاد کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں قابل ذکر مقام حاصل ہوتا رہا۔ ایک وقت میں اس اتحاد کی چار صوبائی حکومتیں بنیں۔ ’پاس‘ کے سربراہ عبدالہادی اوانگ مرکز میں اپوزیشن لیڈر اور تیل سے مالامال صوبہ ترنگانو کے وزیراعلی بھی بنے۔

۲۰۰۳ء میں مہاتیر محمد نے اپنی ۲۲ سالہ وزارت عظمیٰ چھوڑنے کا اعلان کرتے ہوئے حکومت عبداللہ بداوی کے سپرد کردی۔ پانچ سال بعد ۲۰۰۹ء میں نجیب عبدالرزاق وزیراعظم بنے۔ ان کے والد عبدالرزاق حسین ۱۹۷۰ء میں ملک کے دوسرے وزیراعظم بنے تھے۔ اب حالات نے ایک نیا پلٹا کھایا۔ ۹۳ سالہ مہاتیر محمد نے نجیب پر کرپشن کے سنگین الزامات لگانا شروع کردیے۔ ادھر ’پاس‘ اور انور ابراہیم کے مابین غلط فہمیاں جنم لینے لگیں۔ خود ’پاس‘ کے کئی اعلیٰ تعلیم یافتہ اور پختہ نظریاتی ارکان اسمبلی کا جھکاؤ بھی انور ابراہیم کی جانب ہونے لگا اور بالآخر انھوں نے الگ ہوکر ایک نئی جماعت ’امانۃ پارٹی‘ بنالی۔ ۲۰۱۸ کے انتخابات سے پہلے ’پاس‘ اور’ امنو‘ دونوں تقسیم ہوچکی تھیں۔

وہی مہاتیر محمد جنھوں نے انور ابراہیم کے ساتھ انتقامی سلوک کیا تھا، ’امنو‘ کے بجاے جسٹس پارٹی کے قریب آنے لگے، جسے جیل میں قید انور ابراہیم کی اہلیہ و ان عزیزہ اور صاحبزادی نورالعزہ چلّا رہی تھیں۔ انھوںنے اعلان کیا کہ وہ انور ابراہیم کے ساتھ ہونے والی تمام زیادتیوں کا ازالہ کریں گے۔ اب جسٹس پارٹی، مہاتیر کی نئی پارٹی اور ’پاس‘ سے الگ ہونے والی امانۃ پارٹی کا اتحاد بن گیا۔ چینی جماعت بھی ساتھ آن ملی اور اس اتحاد نے ۹ مئی ۲۰۱۸ء کو ہونے والے انتخابات میں واضح اکثریت حاصل کرلی۔اسے ۲۲۲ کے ایوان میں ۱۲۲ سیٹیں ملیں۔ ’امنو‘ کو ۱۹۵۹ء کے بعد پہلی بار شکست ہوئی لیکن اس نے پُرامن انتقال اقتدار کو یقینی بنایا۔ کامیاب ہونے والے اتحاد کے مابین معاہدہ طے پایا کہ چارسالہ اقتدار کے پہلے دو سال مہاتیر وزیراعظم رہیں گے۔ ان کے ساتھ    وان عزیزہ نائب وزیراعظم ہوں گی اور پھر باقی دو سال کے لیے انور ابراہیم وزیراعظم بنیں گے۔ ۹۳ سالہ مہاتیر نے وزارت عظمی سنبھالتے ہی وسیع پیمانے پر اہم اقدامات کا اعلان کیا ہے۔ نجیب عبدالرزاق پر ملک سے باہر جانے کی پابندی ہے اور ان کے خلاف مقدمات تیار کیے جارہے ہیں۔ ان کے گھر سے ۱۲۰ ملین رنگٹ کی نقد کرنسی اور قیمتی جواہرات ضبط کرلیے گئے ہیں۔

دوسری جانب ’پاس‘ (PAS) نے تمام تر اندرونی تقسیم اور انتہائی کڑے مقابلے کے باوجود کلنتان اور ترنگانو میں واضح اکثریت حاصل کرلی ہے۔ قومی اسمبلی میں بھی اس کے ۱۸ ؍ارکان پہنچ گئے ہیں اور دو مزید صوبوں میں ان کے ارکان کا کردار اہم ترین ہے۔ مجموعی طور پر ۱۳ صوبائی اسمبلیوں میں اس کے ارکان کی تعداد ۹۰ سے متجاوز ہے، انھیں ۱۷ فی صد ووٹ ملے۔ نئی حکومتیں تشکیل پانے کے بعد پاس کے سربراہ نے صوبہ ترنگانو میں اپنے وزیراعلیٰ کے ہمراہ وزیراعظم مہاتیر سے ملاقات کرتے ہوئے انھیں مبارک باد دی اور ہر مثبت اقدام میں مکمل تعاون کا یقین دلایا ہے۔

ملائیشیا کے حالیہ انتخابات اور حکومت سازی کا سب سے اُمید افزا پہلو حکومت میں  انورابراہیم کو اہم مقام حاصل ہونا ہے،جو تحریک ِ اسلامی کے حلیف اور جانے پہچانے رہنما ہیں۔ اپوزیشن میں بھی ’پاس‘ جیسی فعال جماعت ہے جو دو صوبوں میں مکمل اور دو میں جزوی اختیار و نفوذ رکھتی ہے۔ انتخابات سے قبل پائے جانے والے اختلافات و تناؤ کی شدت بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔

ترک انتخابات سے دو دن قبل ۲۲ جون کو انور ابراہیم ترکی گئے۔ نمازِ جمعہ صدر طیب اردوان کے ساتھ ادا کی اور دنیا کو دونوں اہم برادر ملکوں کے شانہ بشانہ ہونے کا پیغام دیا۔ پاکستان کے بارے میں بھی دونوں ملکوں کی قیادت کے جذبات یکساں طور پر مثبت ہیں۔ آج کی دنیا میں ایک منصوبہ، فتنہ سازوں کا ہے جو مسلم اُمت کی تقسیم در تقسیم کا ہدف رکھتا ہے۔ مسلم ریاستوں کو ایک دوسرے کے خون کا پیاسا بنارہا ہے۔ لیکن ایک فیصلہ اللہ کی توفیق سے مسلم اُمت کا ہے، جو اہم مسلمان ملکوں کو ایک دوسرے کا پشتیبان بنارہا ہے: وَاللہُ غَالِبٌ عَلٰٓي اَمْرِہٖ (یوسف ۱۲:۲۱)’’اور اللہ اپنا کام کرکے رہتا ہے‘‘۔

ایک طویل عرصے بعد اقوام متحدہ کے ایک باوقار ادارے ’انسانی حقوق کونسل‘ نے جموں وکشمیر کے مظلوم عوام کے دکھ درداوران پر ڈھائے جانے والے مظالم پر گہرائی میں جا کر یہ رپورٹ ترتیب دی ہے، جو دنیا کے ضمیر کو جھنجوڑنے اور کوتاہیوں کی تلافی کی بنیاد فراہم کرتی ہے۔ زیرنظررپورٹ کا ایک پہلو یہ ہے کہ اس میں گذشتہ  دو برسوں کے دوران کشمیریوں کے بنیادی انسانی حقوق کی بے حرمتی کی روح فرسا تصور پیش کر کے بتایا گیا ہے کہ یہاں پر اس سے پہلے بھی یہی ہوتا چلا آیا ہے۔ دوسرا یہ کہ بھارت اور پاکستان پر زور دے کر کہا گیا ہے کہ وہ کشمیریوں کے حق خودارایت کے عمل کو یقینی بنانے کے لیے انتظام و اہتمام کریں، تا کہ جموں وکشمیر کے عوام اپنے مستقبل کا فیصلہ کر سکیں ۔ تیسرا یہ کہ اس مسئلے کے حل کے لیے عالمی برادری اور اقوام متحدہ کی قرار دادیں جو حل تجویز کرتی ہیں، وہی درست اور منصفانہ راہ عمل ہے، جس سے کسی کے لیے مفر ممکن نہیں ۔ یہ بھی تجویز کیا گیا ہے کہ عالمی برادری، بھارت اور پاکستان کے زیر انتظام جموں وکشمیر کے علاقوں میں انسانی اور سیاسی حقوق کی صورتِ حال کو جاننے کے لیے وفود بھیجے ، جو غیر جانب دارانہ طور پر دُنیا کے سامنے حقائق کو پیش کریں۔

اس مناسبت سے ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت پاکستان کو دنیا کے سامنے مثبت طور پر حقائق پیش کرنے کے لیے سفارتی، ابلاغی سطح پر اپنی ذمہ داری ادا کرنے کے لیے لمحے بھر کی بھی کوتاہی کا ارتکاب نہیں کرنا چاہیے۔ اور دنیا بھر کے اہل الراے کو دعوت دینی چاہیے کہ وہ پہلے پاکستانی زیر انتظام کشمیر میں آ ئیں اور پھر بھارتی کنٹرول میں جموں و کشمیر جاکر حقائق کودیکھیں اور عالمی اداروں کے سامنے موازنہ پیش کرکے ڈیڑھ کروڑ عوام کے مستقبل کو محفوظ کریں، اور پونے دو ارب انسانوں کے خطّے جنوب مشرقی ایشیا کو جنگ کے خطرات سے بچائیں۔مدیر 

o

انسانی حقوق پر اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر نے جون ۲۰۱۶ء سے اپریل ۲۰۱۸ء کے دوران ’کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتِ حال پر مبنی رپورٹ‘ ۱۴جون ۲۰۱۸ء کو جاری کی ہے۔      اس رپورٹ میں بھارتی مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی فوج اور نیم فوجی فورسز کی طرف سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی گرافک دستاویزات شامل ہیں۔ یہ دستاویز بھارتی فوج کے ہاتھوں کشمیریوں کے خلاف سنگین مظالم پر بین الاقوامی ردعمل اور افسوس ناک حقائق کو تسلیم کرنے اور   دُنیا کے سامنے پیش کرنے کی جانب ایک اہم قدم ہے۔ اس رپورٹ میں انسانیت کے خلاف بھارتی جرائم پر رازداری کا پردہ چاک کیا گیا ہے۔ اُمید ہے کہ اب عالمی برادری کشمیر کے عوام کا دُکھ درد محسوس کرےگی۔

اس رپورٹ میں مخصوص واقعات کو صراحت سے بیان کیا گیا ہے، جن میں بھارتی حکومت، کشمیر کے عوام کے خلاف، انسانیت کے بہت سارے اصولوں اور جمہوری آزادی کے تسلیم شدہ ضابطوں کی خلاف ورزی کرتی نظر آتی ہے۔ رپورٹ میں درج ہے کہ:’’جولائی۲۰۱۶ء میں شروع ہونے والے عوامی مظاہروں کے جواب میں، بھارتی مسلح افواج نے انتہائی طاقت کا استعمال کیا۔ جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر قتل و غارت اور بہت زیادہ لوگوں کو زخمی کیا گیا۔ اس وحشیانہ پن کی وجہ مظاہرین کے خلاف استعمال ہونے والا سب سے خطرناک ہتھیار وہ شاٹ گن ہے، جس نے ہزاروں افراد اور بچوں کی آنکھیں ، جستی چھروں (pellets) سے ہمیشہ کے لیے ضائع کر ڈالیں۔

رپورٹ میں درج بہت سی مثالیں بتاتی ہیں کہ ظالمانہ قوانین کے استعمال نے بھارتی فوج کی انسانی حس کو ختم کرکے رکھ دیا ہے: ’’بھارتی حکومت نے ۱۹۹۰ء میں جموں و کشمیر کے مضطرب علاقوں پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے قانون بنایا، جس میں بھارتی فوجی اور نیم فوجی فورسز کو غیرمعمولی قوت اور اختیار فراہم کیا گیا ہے‘‘۔ ان قوانین کا تشکیل پانا اور ان کا نفاذ، قانون کی   عمل داری اور احتساب کو روکتا ہے اور انسانی حقوق کی بے پناہ خلاف ورزیوں کو پروان چڑھاتا ہے اور متاثرین کے لیے علاج اور حق انسانیت کو خطرے میں ڈالتا ہے۔

رپورٹ نے متوجہ کیا ہے کہ ’’انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اور حصولِ انصاف تک مظلوموں کی رسائی کے راستے میں رکاوٹوں نے جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کے تحفظ کو زبردست چیلنج بنا دیا ہے‘‘۔ ​​اور یہ کہ ’’کشمیر میں ان ضابطوں کے نفاذ کے باوجود تحریک چل رہی ہے۔ وادیِ کشمیر اور جموں میں بڑے پیمانے پر اجتماعی قبروں سے متعلق شکایات کی تحقیقات کی ضرورت ہے‘‘۔

بہت سی بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں نے تجویز کیا ہے کہ کشمیر، پوری دنیا میں سب سے بڑے فوجی ارتکاز کی حراست میں جکڑا ہوا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ:’’سول سوسائٹی اور میڈیا اکثر ۵لاکھ سے ۷لاکھ بھارتی فوجیوں کی موجودگی کا حوالہ دیتے آئے ہیں، جس نے کشمیرکو  دنیا کا سب سے بڑا جنگی زون بنا ڈالا ہے‘‘۔

جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ بغاوت کے اس تازہ ترین اُبھار (uprising)کے دوران، عملی طور پر کشمیر کی پوری آبادی سڑکوں اور گلیوں میں سر ہتھیلی پر رکھ کر احتجاج کر رہی ہے، تاکہ علاقے کے عوام کے حق خوداختیاری کے مطالبے کو منوا سکیں۔ رپورٹ اس حقیقت کو تسلیم کرتی ہے؛ ہندستانی زیر انتظام کشمیر نے ۱۹۸۰ء کے عشرے کے آخر میں،۲۰۰۸ء اور پھر۲۰۱۰ء کے آغاز میں احتجاج کی زبردست لہروں کا نظارہ کیا ہے۔ ان مظاہروں میں دورِ ماضی سے کہیں زیادہ لوگ شامل رہے ہیں، اور پھر مظاہرین کی صف بندی (پروفائل) بھی بدل گئی ہے۔ ان میں زیادہ نوجوان، درمیانی طبقے کے کشمیری شامل ہیں۔ اسی طرح بڑے پیمانے پر خواتین بھی احتجاجی تحریک میں شامل ہیں، جو ماضی میں شرکت نہیں کیا کرتی تھیں‘‘۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان دو طرفہ مذاکرات ناکام رہے ہیں کیوںکہ وہ مذاکرات کشمیرکی عوامی قیادت کو جو تنازعے کا بنیادی کردار ہیں، نظرانداز کرکے ہوتے رہے ہیں۔ اس حقیقت کو تسلیم کرکے کہا گیا ہے کہ: ماضی میں اور پھر موجودہ زمانے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پرقابو پانےاور کشمیر میں تمام لوگوں کے لیے انصاف فراہم کرنے کی فوری ضرورت ہے، جو سات عشروں پر پھیلے تنازعے میں کچلے جارہے ہیں۔ کشمیر میں سیاسی حل کو،  تشدد کے آرے سے کاٹا اور احتساب کے خاتمے سے انجام دیا گیا ہے۔ گذشتہ طویل عرصے سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور قتل و غارت گری کا نشانہ بننے والے افراد کو بچانے کے لیے ایک مضبوط عزم کی ضرورت ہے۔ اس طرح کا ایک حل صرف اُس وقت بامعنی بن سکتا ہے کہ جب کشمیر کے لوگوں کو بھی مذاکراتی عمل میں شامل کیا جائے۔

بھارتی انسانی حقوق کی تنظیموں اور این جی پی سمیت ’پیپلز یونین آف سول لبرٹیز‘ وغیرہ نے کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا مطالعہ کرنے کے لیے افراد کو جموں و کشمیر میں بھیجا۔ بہت سی رپورٹوں میں تشدد اور ظلم کی تفصیلات شائع کیں، جو اکثر بھارتی سرکاری حکام کی زیادتیوں کے حوالے سے انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔ اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ، ان رپورٹوں کے مندرجات کی توثیق اور تائید کرتی ہے۔ جیساکہ سول اور سیاسی حقوق کے بین الاقوامی معاہدے پر ایک دستخط کنندہ ملک کے طور پر بھارت کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ کسی بھی حالت میں آرٹیکل ۷کے تحت بھارت کو یہ یقینی بنانا ہوگا کہ کسی شخص کو’تشدد‘ پر مبنی ظالمانہ، غیر انسانی یا انتہائی سزا نہ دے، جب کہ  کشمیر میں سیکورٹی فورسز کی جانب سے تشدد کا مستقل ہتھکنڈا ایک طویل تاریخ رکھتا ہے۔

رپورٹ میں کالجوں کے اساتذہ اور مزدوری کرنے والے غریب اور نادار مزدوروں کو مارڈالنے کی متعدد مثالیں پیش کرنے کے علاوہ بتایا گیا ہے کہ طبی خدمات کے مراکز اور ایمبولینس واضح طور پر نشانہ بنائی جارہی ہیں۔ ایمبولینسوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ مظاہرین کو لاتی ہیں،حالاں کہ وہ زخمیوں کی مدد کرتی ہیں، انھیں طبی مدد دینے کی کوشش کرتی ہیں، مگر فوجیوں کی فائرنگ کا شکار ہو جاتی ہیں۔ واضح طور پر یہ ان نوجوانوں اور شہری آبادیوں کو جسمانی طور پر غیرفعال اور اپاہج بنانے کا ایک مقصد ہے۔ رپورٹ بتاتی ہے کہ:’’سرینگر میں ڈاکٹروں نے سکیورٹی فورسز پر ہسپتالوں کے قریب آنسو گیس پھینکنے اور فائرنگ کرنے کا الزام لگایا ہے اور بعض صورتوں میں، ہسپتال کے اندر گھس کر بھی وہ یہ زیادتی کرتی ہیں، جس نے ڈاکٹروں میں ذمہ داری ادا کرنے کی صلاحیت کو زبردست متاثر کیا اور مریضوں کی صحت اور زندگی کو مزید خطرات سے دوچار کیا ہے‘‘۔

اس دوران بین الاقوامی کمیونٹی کی توجہ حاصل کرنا بھی ایک چیلنج ہے۔ عالمی قوتوں نے بھارت سے اس زیادتی کے بارے میں پوچھنے کی زحمت سے ہاتھ کھینچ رکھا ہے۔  دوسری طرف، بھارت، کشمیر میں انسانی حقوق کے کارکنان کو بین الاقوامی فورموں پر انسانی حقوق کے موضوع پر بات کرنے کے لیے نہیں جانے دیتا۔

 رپورٹ میں بیان کیا گیا ہے کہ انسانی حقوق کا دفاع کرنے والوں نے جب بھی جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتِ حال پر بین الاقوامی توجہ دلانے کی کوشش کی تو انھیں سخت رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا، جب کہ کچھ صحافیوں کی رسائی تک روک دی گئی ہے۔

 انسانی حقوق کے ایک محافظ خرم پرویز کو ۱۵ ستمبر۲۰۱۶ء کو جنیوا میں انسانی حقوق کونسل کے سامنے پیش ہونے سے روکنے کے لیے پی ایس اے کے تحت گرفتار کرلیا گیا۔ پھر انسانی حقوق کے علَم بردار وکیل کارٹک مرکوٹلا، جو خرم پرویز کے ساتھ انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم ہیں، انھیں ۲۴ستمبر ۲۰۱۶ء کو نئی دہلی کے ہوائی اڈے سے گرفتار کرلیا کہ وہ جنیوا کیوں گئے تھے؟ اسی طرح فرانسیسی صحافیوں اور دستاویزی فلم ساز پولس کمیٹی کو ۹ دسمبر۲۰۱۷ء کو سرینگر میں گرفتار کیا گیا۔

اس چیز کے اچھے خاصے دستاویزی ثبوت موجود ہیں کہ بھارت کے خونیں قبضے کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے دوران، خاص طور پر خواتین اور بچوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ یہ بات سخت تکلیف دہ ، شرم ناک اور ناقابلِ قبول ہے کہ خواتین کی عزّت و حُرمت کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں تسلیم کیا گیا ہے کہ:۲۰۱۳ء میں بھارت کے مشن پر خصوصی رپورٹر نے، خواتین کے خلاف تشدد اور اس کی وجوہ اور نتائج کے بارے میں کہا تھا:’’جموں و کشمیر اور شمال مشرقی ریاستیں سخت محاصرے اور مسلسل نگرانی کی حالت میں رہتی ہیں، چاہے یہ لوگ گھروں میں ہوں یا باہر۔ تحریری اور زبانی ذرائع سے ملنے والی معلومات کے مطابق ریاستی سیکورٹی فورسز نے افراد کو لاپتا کرنے والی کارروائیوں، قتل اور تشدد اور اجتماعی عصمت دری جیسے عمل کو  مقامی باشندوں کو دھمکانے اور محکوم بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے‘‘۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کی کونسل نے سفارش کی ہے:’’کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات کی جامع بین الاقوامی تحقیقات کرنے کے لیے انکوائری کمیشن کا قیام اور اس رپورٹ کے نتائج پر غور کیا جائے‘‘۔

رپورٹ میں بھارتی حکومت کو۱۷ سفارشات دی ہیں، تاکہ ان مظالم کو ختم کیا جاسکے۔  جس کے مطابق: l فوری طور پر مسلح افواج (جموں و کشمیر) کے خصوصی اختیارات کے ایکٹ، ۱۹۹۰ کو منسوخ کیا جائے۔ lجولائی۲۰۱۶ء سے لے کر تمام شہری ہلاکتوں کی تحقیقات کے لیے آزاد، غیر جانب دار اور قابل اعتماد تحقیقات کی جائیں۔lبین الاقوامی قانون کے تحت کشمیر کے لوگوں کو حق خود اختیاریت دیا جائے۔

رپورٹ میں اس امید کا اظہار کیا گیا ہے کہ: ’اقوام متحدہ کی رپورٹ‘ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کونسل کے ارکان اور پالیسی سازوں کو متحرک کرے گی، جو کشمیر میں بہیمانہ قتل و غارت گری کو روکنے کے لیے اپنی قانونی طاقت سے بہت کچھ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ امید بھی کی جاتی ہے کہ رکن ممالک کے پالیسی سازوں کو مسئلے کی بنیادی وجہ کو سمجھنے کے لیے حقائق کو دیکھنا چاہیے۔ حق خود اختیاری کے ناقابلِ تنسیخ وعدے کے طور پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادیں ضمانت فراہم کرتی ہیں‘۔

ہمیں یقین ہے کہ ہم کشمیری، کشمیر میں اس کی تقدیر کے تحفظ کے لیے، جو کہ ایک شان دار تاریخ رکھتی ہے، اسے صدمات کے منجدھار سے نکالنے کے لیے اپنی تمام توانائی، حکمت اور عزم و ہمت سے کام لیں گے۔[انگریزی سے ترجمہ: س    م     خ] ٭

 

٭ اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے مستقل سفیر (۲۰۰۲ء-۲۰۰۸ء) اور سلامتی کونسل کے سابق صدر منیراکرم صاحب نے، اس رپورٹ کی مناسبت سے لکھتے ہوئے متوجہ کیا ہے کہ پاکستان اور بھارت ایک مشترکہ کمیشن مقرر کر کے کشمیر کی صورتِ حال کا جائزہ لیں، اور اگر بھارت اس سے انکار کرے تو پھر حسب ذیل اقدامات کیے جائیں:lبھارت کی سیکورٹی فورسزکے انفرادی ارکان کی شناخت کرتے ہوئے، انھیں انسانیت کے خلاف متعدد جرائم میں نامزد کیا جا سکتا ہے کہ جنھوں نے غیر مسلح مظاہرین کو روکنے کے لیے وحشیانہ فائرنگ کی اور بے بس خواتین کو جنسی تشدد اور بے حرمتی کا نشانہ بنایا ۔ انھیں جنیوا کنونشن اور [قتل عام ] سے متعلق معاہدات کے تحت مقدمات میں ماخوذ کیا جانا چاہیے۔ lبھارتی مقبوضہ کشمیر میں بہت سے بھارتی ہنگامی قوانین کے نفاذ کی قانونی حیثیت کو چیلنج کیا جانا چاہیے۔ lاقوام متحدہ کے معاہدات میں یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ پُر امن مظاہرین کو فائرنگ اور پیلٹ گنوں کا نشانہ نہیں بنایا جائے گا۔ اس لیے ایسے ظلم کے خلاف آواز بلند کی جائے۔ l  بین الاقوامی ریڈکراس کمیٹی (ICRC) اور دیگر فلاحی تنظیمیں کشمیری قیدیوں کے انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے جدوجہد اور ان سیاسی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کریں۔ lبھارتی سماجی کارکنوں کو بھارتی مقبوضہ کشمیر میں جا کر برسرِ زمین حالات دیکھنے، اور کشمیری شہریوں کو بھارت سے باہر دنیا میں اپنا نقطۂ نظر واضح کرنے کی اجازت دی جائے۔ lبھارتی مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں ، جنسی تشدد اور بے حرمتی کی شکار بے بس کشمیری خواتین کے لیے انصاف کے حصول اور ایسے گھنائونے جرائم کی روک تھام کے لیے پوری قوت سے آواز اُٹھانی چاہیے، خاص طور پر کنن پوش پور کے شرمناک واقعے (جس میں بھارتی فوجیوں نے ۲۳ عورتوں اور بچیوں کی اجتماعی بے حُرمتی کی تھی)کو عبرت ناک مثال بنانا چاہیے۔ lحکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ عالمی عدالت انصاف  (ICJ) اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے مطالبہ کرے کہ وہ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی کی مناسبت سے بھارت کو انسانیت کے خلاف جرائم اور جنگی جرائم کا مرتکب قرار دے۔

اگر پاکستان: انسانی حقوق کی علم بردار قوتوں کو متحرک کر کے بھارت کو اس کا اصل چہرہ دکھا سکے اور    دنیا کے سامنے بے نقاب کرسکے تو اس سے کشمیری عوام پر مظالم کی یلغار کم اور تشدد کے واقعات میں کمی آ سکے گی۔  اس طرح مسئلے کو حل کرنے کے لیے اقوامِ متحدہ کے طے شدہ اصول کے تحت حق خود ارادیت کے انعقاد کو یقینی بنانے پر توجہ مرکوز کی جائے۔ (روزنامہ Dawn، کراچی، ۲۴جون ۲۰۱۸ء)

 

جولائی ۲۰۱۶ء میں برہان وانی کی شہادت کے بعد جب کشمیر میں حالات کسی بھی صورت میں قابو میں نہیں آرہے تھے،نیز بھارتی میڈیا آگ پر تیل چھڑکنے کا کام کررہا تھا، تب غالباً  بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے ایما اور جموں و کشمیر کی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کی استدعا پر میڈیا کے چنیدہ ایڈیٹروں کو حالات کی سنگینی سے آگاہ کرنے کے لیے بریفنگ کا اہتمام کیا گیا۔ جس کے نتیجے میں ۱۷ طاقت ور مدیر اور چوٹی کے صحافی وزارت اطلاعات کے صدر دفتر میں پہنچے تو وہ بھارتی کابینہ کے نہایت مؤثر وزرا کی ایک ٹیم کے رُوبرو تھے۔ مودی حکومت کے برسرِاقتدار آنے کے بعد پہلی بار اتنی بڑی تعداد میں وزرا کسی مسئلے پر میڈیا کو حکومتی موقف اور اس کے مضمرات پر بریفنگ دے رہے تھے۔

موجودہ بھارتی نائب صدر ایم وینکیا نائیڈو کے پاس اُن دنوں وزارت اطلاعات و نشریات کا قلم دان تھا۔ انھوں نے نظامت سنبھالتے ہی فرمایا: ’’یہ ایک پس منظر بتانے والی بریفنگ ہے، اس لیے ہم سوالات کے علاوہ کھلی بحث اور پریس سے مشوروں کے بھی طالب ہیں‘‘۔ ایک سینئر وزیر نے گفتگو کے آغاز میں گزارش کی کہ:’ کشمیر میں اس شورش کی رپورٹنگ کرتے ہوئے احتیاط سے کام لیا جائے، اور کشمیری عوام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ماحول بنانے سے گریز کیا جائے‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ: ’’وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ اس بات سے پریشان ہیں کہ میڈیا جس طرح کشمیر کی صورتِ حال کو رپورٹ کر رہا ہے‘ اس سے کئی پیچیدگیا ں پیدا ہو رہی ہیں۔ کشمیری عوام اپنے آپ کو مزید الگ تھلگ محسوس کررہے ہیں۔ ان کے اور بھارتی عوام کے درمیان خلیج وسیع اور گہری ہو تی جارہی ہے‘‘۔

اس گفتگو سے جو میڈیا کو مفاہمت اور احتیاط پسندی کی تلقین پر مبنی تھی، اس پر فوراً ہی دوسرے ایک اہم تر وزیر نے پانی انڈیل دیا۔ یہ وزیر صاحب حکومتی حلقوں میں کشمیر پر حرفِ آخر سمجھے جاتے ہیں۔ انھوں نے کشمیر میں برپا پچھلی عوامی شورشوں کا موجودہ عوامی اُبھار کے ساتھ موازنہ کرتے ہوئے کہا: ’’۱۹۸۹ء کا عوامی احتجاج اور عسکریت کا آغاز ۱۹۸۷ء کے انتخابات میں بے حساب دھاند لیوں اور جمہوری عمل کی ناکامی سے منسلک تھا۔ ۲۰۰۸ء کی عوامی شورش اصل میں جموں کے ہندو اکثریتی علاقے اور وادی کشمیر کے درمیان چلی آرہی مخاصمت کا شاخسانہ تھی۔ ۲۰۱۰ء میں مقامی حکومت کی نااہلی اور سلسلہ وار ہلاکتوں کی وجہ سے عوام سڑکوں پر تھے۔   موجودہ شورش کا تعلق جمہوری عمل کی ناکامی یا آزادی کی تحریک سے نہیں ہے، بلکہ اس کے تار عالمی دہشت گردی سے جڑے ہیں‘‘۔پھر انھوں نے کہا کہ: ــ’’القاعدہ ،آئی ایس آئی ایس اور طالبان  جیسی تنظیمیں اپنے نظریات کے ساتھ حاوی ہو رہی ہیں، اس لیے ان کو کچلنا حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے‘‘۔ غرض یہ کہ ان سینئر وزیر صاحب نے مبالغہ آمیزی سے کام لے کر کشمیر کی تحریک کو عالمی دہشت گرد تنظیموں سے جوڑ کر خطے پر اس کے مضمرات کا ایسا نقشہ کھینچا کہ کانفرنس روم میں سبھی کو سانپ سونگھ گیا۔ اس تحریک کو خود ساختہ عالمی اسلامی جہادی تنظیموں سے منسلک کرنے کا ثبوت ان کے پاس یہ تھا کہ: ’’کشمیر میں قومیت کے بجاے اسلامی تشخص نئی نسل میں سرایت کرتا جارہا ہے ، نیز مسجد و منبر اور جمعہ کی نماز کو سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے‘‘۔

 سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا تو میں نے محترم وزیر صاحب کو یاد دلایا کہ: ’’درگاہ و منبر، کشمیر میں ہر دور میں سیاسی تحریکوں کے مراکز رہے ہیں، کیوں کہ اس خطے میں جمہوری اور پُر امن طریقوں سے آواز بلند کرنے اور اپنی بات بیان کرنے کے بقیہ سبھی دروازے اور کھڑکیا ں بند تھیں۔ خود شیخ محمد عبداللہ جیسے سیکولر لیڈر کو بھی عوام تک پہنچنے کے لیے درگاہ حضرت بل کا سہارا لینا پڑا۔  کسی سیاسی پلیٹ فارم کی عدم موجودگی میں، یہ مسجدیں اور خانقاہیں ہی اظہار کا ذریعہ رہی ہیں‘‘، مگر وزیر صاحب نے یہ گزارش سنی اَن سنی کرتے ہوئے اپنی ہوش ربا تحقیق پر مبنی بریفنگ جاری رکھی۔ ان کا واحد مقصد یہی تھا کہ ہر محاذ پر ناکامی کے بعد بھارتی حکومت کشمیر میں ’وہابیت‘ کا ہوّا کھڑا کرکے عالمی برادری کے سامنے موجودہ تحریک کو عالمی دہشت گردی کا حصہ بنانے پر تلی ہوئی ہے۔ میں نے عرض کیاکہ:’’اگر’ وہابیت‘ اتنی ہی خطرناک ہے تو اکتوبر ۲۰۰۳ء میں آخر کس نے ڈاکٹر ذاکر نائیک کو سرینگر آنے کی ترغیب دی، آخر وہ کیسے گورنر اور حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے چہیتے ایس کے سنہا کے راج بھون میں مہمان بنے تھے؟ عرصۂ دراز سے تحریک آزادی کے خلاف نظریاتی مورچہ بندی کے لیے بھارتی ایجنسیاں دارالعلوم دیوبند اور دیگر اداروں سے وابستہ علماکی کشمیر میں مہمان نوازی کرتی آئی ہیں۔ ان میں اب ایک نیا نام آسٹریلیا میں مقیم ایک خود ساختہ شیعہ عالم کا ہے، جنھوں نے حال ہی میں سکیورٹی فورسز کی طرف سے ایک نوجوان کو گاڑی سے کچلنے کی حمایت کی۔دہلی میں تو ایک اُردو اخبار کے مدیر نے بھی اس کا بیڑا اٹھارکھا ہے۔ چوں کہ تصور یہ ہے کہ جماعت اسلامی، کشمیر میں جاری تحریک کوکیڈر اور لیڈر شپ فراہم کرتی ہے، لہٰذا اس کا توڑ کرنے کے لیے اس کے مخالف علما کو استعمال کیا جائے‘‘۔

مزید عرض گزار ہوا: ’’ تھوڑی سی تحقیق ہی سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ ۱۹۹۰ء کے اوائل میں نیشنل کانفرنس کے لیڈروںکی نقل مکانی اور دیگر لیڈروں کی اجتماعی گرفتاری کے بعد جماعت اسلامی واحد ریاست گیر سیاسی جماعت میدان میں موجود تھی، جس نے خاصی چھان پھٹک کے بعد   عسکری تحریک کو کنٹرول کرنے کے لیے پیش رفت کی تھی، جس کا خمیازہ بعد میں ان کو ۶۰۰سے زیادہ ارکانِ جماعت کے قتل کی صورت میں برداشت کرنا پڑا۔ کشمیرکی سبھی دینی و سیاسی جماعتوں نے اس تحریک میں بھر پور شرکت کی، جن میں جمعیت اہلحدیث، بریلوی مکتب کی کاروان اسلام، امت اسلامی، شیعہ تنظیمیں، مقامی فکرکی نمایندگی کرنے والی انجمن تبلیغ الاسلام، سیکولر تنظیموں، جیسے لبریشن فرنٹ اور پیپلزکانفرنس سمیت سب نے بھر پور حصہ لیا۔ حتیٰ کہ جو لوگ انتخابات میں انڈین نیشنل کانگریس، نیشنل کانفرنس یا پی ڈی پی کو ووٹ دینے کے لیے قطاروں میں کھڑ ے نظر آتے ہیں، وہ بھی ایجی ٹیشن میں پیش پیش رہتے ہیں‘‘۔میں نے سلسلۂ کلام جوڑتے ہوئے وزیر موصوف کو یاد دلایا کہ: ’’شوپیاں میں پولیس نے سنگ باری کے الزام میں جن نوجوانوں کو گرفتارکیا ہے ،وہ پچھلے اسمبلی انتخابات کے دورران بی جے پی کے مقامی امیدوارکے لیے مہم چلا رہے تھے۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ حریت کوئی باضابطہ تنظیم یاکیڈر پر مبنی نیٹ ورک نہیں بلکہ اس کے لیڈرکشمیریوں کے   جذبۂ آزادی کے نگران اور ترجمان ہیں۔یہ جذبۂ آزادی پارٹی وفاداریوں اور نظریاتی اختلافات سے بالاتر ہے‘‘۔ کسی سیاسی پلیٹ فارم کی عدم موجودگی کا ذکر کرتے ہوئے مزید عرض کیا کہ: ’’ہندو اکثریتی علاقہ کی جموں یونی ورسٹی میں ہندو قوم پرست آر ایس ایس کے سربراہ آکر سیاسی تقریر کرتے ہیں، جب کہ ۳۰۰کلومیٹر دُور کشمیر یونی ورسٹی میں کسی بھی سیاسی مکالمے پر پابندی عائد ہے۔ ایک دہائی قبل کشمیر یونی ورسٹی نے انسانی حقوق کا ڈپلوما کورس شروع کیا تھا، چند سال بعد ہی اس کی بساط لپیٹ دی گئی، کیوں کہ طالب علم سیاسی اور جمہوری حقوق کے متعلق سوال پوچھنے لگے تھے۔ اس ڈیپارٹمنٹ کو بند کرنے کی وجہ یہ بتائی گئی کہ کشمیر میں انسانی حقوق کے فیلڈ میں کیریئر یا روزگار کی کمی ہے‘‘۔ میں نے کہا کہ: ’’محترم منسٹرصاحب! متبادل جمہوری ذرائع کی عدم موجودگی کی وجہ سے مساجد کو سیاسی طور پر استعمال کرنا تو ایک مجبوری بن گئی ہے اور یہ کشمیر کی پچھلے پانچ سو برسوں کی تاریخ ہے‘‘۔

وزیر صاحب نے جواب میں بتایا کہ: ’’حریت کانفرنس کے رہنما اپنی شناخت اور عوام کا اعتماد کھو چکے ہیں اور وہ کسی بھی صورت میں اسٹیک ہولڈر نہیں ہیں‘‘۔ دوسری طرف ان کو یہ غصّہ بھی تھا کہ: ’’حُریت کانفرنس نے کُل جماعتی وفد کے ارکان سے ملنے سے انکار کرکے پوری بھارتی پارلیمنٹ کو بے وقار کردیا ہے، جس کا انھیں حساب دینا پڑے گا‘‘۔ میں نے سوال کیا کہ: ’’اگر یہ رہنما واقعتاً بے وقعت ہوچکے ہیں تو ان کا دروازہ کھٹکھٹانے کی ضرورت ہی کیا تھی؟‘‘ وزیر موصوف کے بقول: ’’کشمیر کا روایتی اسلام خطرے میں ہے، وہاں ’وہابیت‘ وغیرہ نے جڑیں گاڑ لی ہیں جس کا تدارک ضروری ہے کیوں کہ موجودہ تحریک کی قیادت یہی نظریہ کر رہا ہے‘‘۔

کئی گھنٹوں پر پھیلی یہ بریفنگ جب ختم ہوئی تو دوبارہ بتایا گیا کہ: ’’یہ ایک بیک گراونڈ بریفنگ تھی اور یہ کسی بھی طورپر میڈیا میں رپورٹ نہیں ہونی چاہیے‘‘۔ مگر اگلے دن صبح اُٹھے تو دیکھا کہ بھارت کے دوکثیر الاشاعت اخباروں ٹائمز آف انڈیا اور ہندستان ٹائمز میں حکومتی ذرائع کے حوالے سے اس نشست کی معلومات شہ سرخی کے طور پر شائع ہوگئی تھیں اور پھر کئی ماہ تک ٹی وی چینلوں کے لیے کشمیر پر یہ رپورٹ بحث کی خوراک بنی رہی۔ معلوم ہوا کہ ان اخباروں کے مدیران کو رات دیرسے ہدایت دی گئی تھی کہ: ’’ان وزیر صاحب کی بریفنگ کی رپورٹنگ چھپنی چاہیے‘‘۔ جس سے ایک طرف تو اس بریفنگ کا بنیادی مقصد فوت ہوگیا، مگر دوسرا مقصد یہ سمجھ میں آیا ،چوںکہ پاکستان دنیا بھر میں سفارتی مشن بھیج رہا ہے، تو اس کے بیانیے کو اس رپورٹ کے ذریعے سے سبوتاژ کیا جائے۔ اور یہ دیکھنے میں آیا کہ جہاں بھی پاکستانی مشن گئے وہاں ان کو کشمیر اور مبینہ طور پر اس کے عالمی دہشت گردی سے منسلک ہونے کی مناسبت سے سوالات کا سامنا کرنا پڑا۔ یاد رہے کہ اس نشست میں میری بے جا مداخلت اور سوال اُٹھانے کی گستاخی سے وزیر موصوف اتنے ناراض ہوئے کہ مجھے صحافت سے ہی چلتا کرنے کی انھوں نے کوشش کی۔

خیر، ا ب دو سال بعد جموں و کشمیر پولیس کی طرف سے نئی دہلی حکومت کو بھیجی گئی رپورٹوں اور ایک برطانوی تھنک ٹینک کی تحقیقی رپورٹ نے یہ تسلیم کیا ہے کہ: ’’تحریک کشمیر کا عالمی دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ دُور دُور کا بھی واسطہ نہیں ہے، اور نہ یہ جدوجہد سلفی، وہابی یا کسی ایسے نظریے سے وابستہ ہے‘‘۔ پچھلے سال ایک ملاقات میں جموں و کشمیر کے ایک سینئر پولیس افسر ، جو اس وقت جنوبی کشمیر میں تعینات تھے اور بھارتی فوج کے ایک کمانڈر نے بھی کچھ اسی طرح کا تجزیہ پیش کیا تھا۔  وہ بھارتی میڈیا کی اس روش سے خاصے نالا ں تھے، جس میں وہ بار بار کشمیر میں آئی ایس آئی ایس کے عنصر کو زبردستی اُچھال کر حالات کو شام، عراق و افغانستان سے ملانے کی کوشش کرتے تھے۔    یہ جان بوجھ کر مزید ظلم و ستم کے لیے راہ ہموار کرنے اور عالمی برادری کو خوف زدہ کرنے کا حربہ  قرار دیتے تھے۔ انھی پولیس افسر صاحب کے بقول: ’’ایک انگریزی میڈیا چینل کے ایک رپورٹر نے درزی سے آئی ایس آئی ایس کا جھنڈا سلوا کر سرینگر کے پرانے شہر کے ایک کمرے میں چند نقاب پوش نوجوانوں کے ہاتھوں میں تھمایا ، اور اس کی عکس بندی کی تھی۔اس ویڈیو کی بنیادپر اس چینل نے کئی روز تک پروگرام چلائے۔پولیس نے اس درزی کی نشان دہی پر جب مذکورہ رپورٹر کے خلاف کارروائی کرنے کی کوشش کی، تو نئی دہلی سے پیام آیا کہ معاملے کو دبا دیا جائے۔

اُوپر جن تحقیقی رپورٹوں کا ذکر ہوا ہے، ان کے مطابق برہان وانی کی شہادت کے بعد جن ۲۶۵نوجوانوں نے اس عرصے میں عسکریت سے وابستگی اختیار کی، ان میں محض ۲ فی صد کسی نہ کسی صورت میں مدرسوں یا کسی نظریے سے وابستہ تھے۔ ان نوجوانوں کی اکثریت اعلیٰ تعلیم یافتہ اور عام طور پر کھاتے پیتے مڈل کلاس گھرانوں سے تعلق رکھتی تھی اور سیاسی طور پر خاصے باشعور تھے۔ ۶۴فی صد کا کسی بھی شدت پسند نظریے سے تو دُور کاواسطہ نہیں تھا بلکہ سیاسی طور پر خاصے لبر ل خیالات کے قائل تھے۔ ان میں سے ۴۷فی صدعسکریت پسندوں کا تعلق ایسے علاقوں سے تھا، جہاں ان کی رہایش گاہ کے ۱۰ کلومیٹر کے دائرے میں یا تو کوئی تصادم (انکاونٹر) ہوا تھا یا سکیورٹی فورسز نے سول آبادی پر شدید زیادتیاں کی تھیں۔

امریکی اور برطانوی تحقیق کاروں: گریگوری واٹرز اور رابرٹ پوسٹنگز کی اس زیربحث تحقیق The Spiders of the Caliphate (مئی ۲۰۱۸ء)کے مطابق: ’’عالمی دہشت گر د تنظیموں کے مطالعے سے پتا چلتاہے کسی فرد کی اس طرح کی تنظیم میں وابستگی سے قبل نفسیاتی تبدیلی واقع ہوجاتی ہے۔ وہ دنیا اور اہل خانہ سے الگ تھلگ رہنا پسند کرتا ہے، مگر اس طرح کا کوئی نفسیاتی رجحان کشمیر میں دیکھنے کو نہیں ملا۔ عسکریت میں شامل ہونے کے بعد بھی یہ نوجوان اپنے دوستوں  اور اہل خانہ سے معمول کے روابط میں متحرک نظر آتے ہیں۔ اسی طرح ان میں سوسائٹی سے ایسی بے زاری دیکھنے کو نہیں ملی، جو القاعدہ وغیرہ کے ارکان میں عام رجحان ہے‘‘۔

مذکورہ بالا رپورٹ اور جموں و کشمیر پولیس کی تحقیق کا ماحاصل یہی ہے کہ نئی دہلی کو اس حقیقت کا اعتراف کرنے میں جھجک محسوس نہیں کرنی چاہیے کہ کشمیر سیاسی مسئلے کے ساتھ ساتھ غصب شدہ انسانی حقوق کی بازیابی کا معاملہ بھی ہے۔ امن اور قانون کے نام پر اور تحریک کو عالمی دہشت گردی سے منسلک کرکے وقتی فائدہ تواٹھایا جاسکتا ہے، لیکن اس سے مسئلہ ختم نہیںہوسکتا۔ یہ تسلیم کیے بغیر کوئی چارہ نہیں رہتا کہ تمام تر ہلاکت خیز اسلحے کے انباروں ، سات لاکھ افواج کی تعیناتی، مظالم ومصائب کی گھٹائوں اور انسانی حقوق کی پامالیوں کے باوجود مسئلۂ کشمیر ایک زندہ وجاوید حقیقت ہے اور اس کے منصفانہ حل سے ہی برعظیم پاک و ہند کی ہمہ گیر تعمیر و ترقی ، امن و سکون اور خوش گوار ہمسائیگی مشروط ہے۔

رمضان المبارک کے مقدس ایام گزر جانے کے ساتھ ہی جموں وکشمیر کے سیاسی ایوانوں میں اتھل پتھل اور ہلچل دیکھنے کو مل رہی ہے۔ ۱۹ جون کو اچانک بی جے پی کے جنرل سیکریٹری اور اُمورکشمیر کے انچارج رام مادھو نے دہلی میں ایک ہنگامی پریس کانفرنس میں یہ غیر متوقع اعلان کرکے سب کو حیرت میں ڈال دیا کہ اُن کی جماعت، یعنی بی جے پی جموں وکشمیر میں حکومت سے الگ ہورہی ہے۔ اس طرح ریاست میں بی جے پی اور پی ڈی پی کے اس مشرق و مغرب کے غیرفطری اتحاد کا عبرت ناک خاتمہ ہوا۔ نسل پرستی ایک زہر ہے، اور نسل پرستی کے علَم برداروں کی حیثیت اُس زہریلے سانپ جیسی ہوتی ہے جس کی دشمنی سے زیادہ اُس کی دوستی خطرناک ہوتی ہے۔ پی ڈی پی نے ۲۰۱۴ء میں ریاست کے حدود و قیود میں بی جے پی کے قدم روکنے کے نام پر الیکشن لڑا تھا، لیکن جب حکومت تشکیل دینے کی باری آئی، تو عوامی توقعات کے برعکس ایک ایسی جماعت سے گٹھ جوڑ کیا جس کے نامۂ اعمال میں مسلم دشمنی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، جن کے ہاتھوں بھارت میں سیکڑوں فسادات کے دوران ہزاروں بے گناہ مسلمانوں کا خون بہا ہے۔ جنھوں نے گجرات میں دو ہزار مسلمان کو بڑی بے دردی کے ساتھ قتل کروایا۔

حکومت سے الگ ہونے سے چند روز قبل بی جے پی نے نام نہاد سیز فائر ختم کرکے کشمیری عوام کے خلاف فوجی آپریشن کا از سر نو آغاز کیا۔ عید الفطر سے دو روز قبل اقوام متحدہ کے کمیشن براے انسانی حقوق نے اپنی نوعیت کی پہلی رپورٹ شائع کی، جس میں کشمیر میں روا رکھی جانے والی بھارتی فوج کی زیادتیوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ اس رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے فوراً بعد  معروف کشمیری صحافی ودانش وَرڈاکٹر شجاعت بخاری کا نامعلوم افراد کے ذریعے سے قتل کروایا گیا، جس سے یو این رپورٹ بالکل ہی پس منظر میں چلی گئی۔ پھر۱۵؍جون کو اپنے ہی نام نہاد سیز فائر کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پلوامہ میں ایک کمسن اور نہتے ۱۳ سال کے طالب علم وقاص احمد کو گولی مار کرشہید کردیاگیا۔ عید کے دن برکہ پورہ، اسلام آباد میں نماز عید ادا کرنے والوں پر براہِ راست فائرنگ کرکے ایک نوجوان شیراز احمد کو شہید کردیا گیا، جب کہ ۳۰ دیگر نوجوانوں کو بُری طرح زخمی کردیا گیا۔ زخمیوں میں ۹؍ایسے نوجوان بھی شامل تھے، جن کو پیلٹ گن کے چھرّوں کا نشانہ بناکر بینائی سے ہی محروم کردیا گیا۔۱۸جون کو پھر سے ضلع کولگام کے نواؤ پورہ علاقے سے تعلق رکھنے والے دوبچوں کے باپ ۲۸سال کی عمر کے اعجاز احمد بٹ کو جرم بے گناہی میں گولیوں سے چھلنی کردیا گیا۔جس نام نہاد سیز فائز کا بڑے پیمانے پر ڈھول پیٹا گیا، اُس دوران کیرن سیکٹر سے لے کر کولگام تک ۱۵لوگوں کی جان لے لی گئی۔

تقدس مآب رمضان کے دوسرے جمعۃ المبارک کو سری نگر کی مرکزی وتاریخی جامع مسجد نوہٹہ میں پولیس اور فورسز اہل کاروں نے مسجد کے اندر نہ صرف آنسوآورگیس کی شیلنگ کی، بلکہ عینی شاہدین کے مطابق پیلٹ اور گولیوں کا بھی بے تحاشا استعمال کیا ، جس کے نتیجے میں کئی نمازی زخمی ہوگئے اور مسجد کے اندر افراتفری مچ گئی۔ مسجد کے اندر جہاں ربّ کے حضور سر جھکائے جاتے ہیں، وہاں سربسجود بندوںکا خون بکھیر دیا گیا۔اسی پر بس نہیں کیا گیا، بلکہ مسجد کے جس حصے میں خواتین نماز ادا کرتی ہیں، وہاں پر بھی شیلنگ کی گئی۔پھر کئی دن تک مسجد کو نمازاور نمازیوں کے لیے بند کرنا پڑا، تاکہ اندر انسانی خون کے داغ دھبوں کو صاف کیاجاسکے۔جو نوجوان رضاکارانہ طور پر مسجد کی صفائی میں  پیش پیش تھے، اُن میں ایک۲۲سالہ قیصر احمد بھی تھے، جنھیں ایک ہفتے بعد، یعنی اگلے ہی جمعہ، یکم جون کو سی آر پی ایف کی ایک تیز رفتار جیپ نے ایک اور نوجوان کے ساتھ کچل ڈالا۔اُنھیں شدید زخمی حالت میں ہسپتال پہنچایا گیا جہاں چند ہی گھنٹوں بعد وہ حیا تِ جاودانی کا جام پی گئے۔

یہ دلدوزسانحہ اْس وقت پیش آیا جب نماز جمعہ کے بعد نوجوان نوہٹہ میں جمع ہوکر احتجاج کرنے لگے تھے۔ سری نگر کے محلہ فتح کدل کے قیصر احمد کا المیہ یہ تھا کہ اُن کے والدین پہلے ہی اس جہانِ فانی سے رحلت کرچکے تھے۔ وہ اپنی دو چھوٹی بہنوں کے ساتھ نانیہال ڈلگیٹ میں رہتے تھے۔ ان دو چھوٹی بہنوں کے اکلوتے بھائی اور واحد سہارے کو بڑی بے دردی کے ساتھ چھین لیا گیا۔ یوں ا ن کوتاہ نصیبوں کو دیگر ہزاروں کشمیری بچوں اور بیٹیوں کی طرح حالات کے رحم وکرم پر بے یارو مدد گار چھوڑ دیا گیا۔ اس دلدوز سانحے کی جو تصویریں سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہیں، اُنھیں دیکھنے سے ہی چنگیزیت اور درندگی کا گھنائونا اور ’جدید رُوپ‘ نگاہوں میں گھوم جاتا ہے۔  المیہ یہ ہے کہ جان بوجھ کر انجام دینے والی ان حیوانی حرکات کے لیے بھی طرح طرح کے جواز پیدا کیے جاتے ہیں۔ انھیں سنگ بازی کا نتیجہ قرار دیا جاتا ہے یا پھر سڑک حادثہ کہہ کر ان المناک اور  غم انگیز وارداتوں کو تاریخ کی بھولی بسری یادیں بنادیا جاتا ہے۔

حد تو یہ ہے کہ صفاکدل میں مئی کے مہینے میں بھارتی فورسز اہل کاروں نے عادل احمد نامی جس نوجوان کو گاڑی کے نیچے کچل ڈالا تھا، اُس کے بارے میں ریاستی حکام نے پہلے کہا کہ وہ  سڑک حادثے کا شکار ہوگئے، لیکن جب وہاں پر موجود ایک نوجوان نے فورسز اہل کاروںکی اس سفاکیت کی ویڈیو سوشل میڈیا پر جاری کی تو انتظامیہ نے ملوث فورسز اہل کاروں کے خلاف کارروائی کرنے کے بجاے اس سانحے کی ویڈیو بنانے والے نوجوان کو ہی گرفتار کرکے جیل میں  بند کردیا۔اسی طرح جامع مسجد میں قیصر احمد کو کچل دینے والے سی آر پی ایف ڈرائیور کے خلاف کارروائی کرنے کے بجاے مقتول قیصر اور اُن کے ساتھ دیگر دو نوجوانوں کے خلاف ہی ایف آئی آر درج کر لی گئی۔

سری نگر کی یہ تاریخی جامع مسجد، کشمیری قوم کی روحانی توانائی اور سیاسی بیداری کے لیے  بڑی ہی اہمیت کا حامل مرکز ہے۔ یہ مسجد اپنی مرکزیت کے پہلو بہ پہلو عام کشمیریو ں کی اس کے ساتھ دلی وابستگی ہر دور میں ظالم حکمرانوں کی آنکھوں میں کھٹکتی رہی ہے۔ اسی لیے ہر دور میں اس کی مرکزیت کو کمزور کرنے کے لیے طرح طرح کے حربے اور ہتھکنڈے برتے گئے، لیکن کشمیری عوام کا تاریخی جامع مسجد سے والہانہ لگاؤ اور وابستگی قائم و دائم رہی ہے۔ ۲۰۰۸ءہی سے وقت کے حکمرانوں نے بالکل مسجد اقصیٰ کے طرز پر اس مرکزی مسجد کو نشانہ بنانے کے لیے طرح طرح کے طریقے استعمال کرنے شروع کیے ہیں، جن میں جمعہ کے موقعے پر مسجد کے اردگرد فورسز کے سخت حصار اور مسلح اہل کاروں کی تعیناتی کے علاوہ نماز کے بعد نوجوانوں کو اشتعال دلا کر اُنھیں سنگ بازی کے لیے مجبور کرنا، اور پھر اس کی آڑ میں نمازِجمعہ کے مواقع پر مسجد میں نماز ادا کرنے پر پابندی عائد کرنا قابل ذکر ہے۔ ۲۰۰۸ءسے درجنوں مرتبہ اس تاریخی اہمیت کی حامل مسجد میں نمازِ جمعہ ادا کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔

یہودی مسلمانوں کے بدترین دشمن ہیں، ان کی اسلام دشمنی اُنھیں ہر آن فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ برسرِ جنگ رکھتی ہے، لیکن عالم اسلام کے اس بدترین دشمن نے کبھی مسجداقصیٰ میں جمعہ کی نماز ادا کرنے پر پابندی عائد نہیں کی۔ جن کے زیر تسلط مسجد اقصیٰ ہے، وہ مسلمان نہیں ہیں۔ اس کے بجاے تاریخی جامع مسجد سری نگر کو تالا بند کرنے والے لوگوں کی پہلی صف میں وہ ہند نواز ریاستی سابق حکمران شامل رہےہیں جو خود کو مسلمان کہلاتے ہیں اور اس کی ناکہ بندی کرنے والے مقامی پولیس اہل کار بھی محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے اْمتی ہونے کا دعویٰ رکھتے ہیں۔احتجاج کے دوران جان بوجھ کر وردی پوشوں کا جامع مسجد کے چپے چپے پر موجود رہنا اور پھر احتجاجی مظاہرہ شروع ہونے سے قبل ہی شیلنگ اور طاقت کا بے تحاشا استعمال بہرحال احتجاجی نوجوانوں میں اشتعال پیدا کرکے اُنھیں سنگ بازی پر مجبور کرتا ہے ، اور بے گناہ و معصوم انسانی جانوں کا زیاں ہوجاتا ہے۔کشمیر میں یہ بھارت کی مستقل پالیسی بنتی جارہی ہے کہ جمعہ اور عیدین کے مواقع پر طاقت کا استعمال کرکے نوجوانوں کو اشتعال دلایا جائے اور پھر اُسی کی آڑ میں بندوقوں کے دہانے کھول کر کشمیریوں کی نسل کشی کی جائے۔

 تصویر کا یہ رُخ بھی قابلِ غور ہے۔ رمضان المبارک سے قبل بڑے ہی طمطراق سے ریاست کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی، آل پارٹیز میٹنگ طلب کرکے یہ اعلان کرتی ہیں کہ ایک وفد وزیراعظم نریندر مودی کی خدمت میں جائے گا اور اُنھیں رمضان کے مقدس مہینے کے پیش نظر خیرسگالی کے طور پر سیز فائر کرنے کی استدعا کرے گا۔ بی جے پی کی ریاستی شاخ اس تجویز کی مخالفت کرتی ہے،کہ بعد میں یہ اُن کی سیاسی حلیف مجبوبہ مفتی کا سیاسی کارنامہ ثابت ہوجائے اور لوگوں میں یہ تاثر پیدا ہوجائے کہ وزیراعلیٰ نے لڑکر کشمیری عوام کے لیے حکومت ہند کو سیز فائر کے لیے قائل کیا ہے۔ پھر ایک دن اچانک بھارتی وزیر داخلہ مسٹر راج ناتھ سنگھ نے رمضان اور امر ناتھ یاترا کے پیش نظر یک طرفہ سیز فائر کا اعلان کردیا۔ ریاستی سرکار میں شامل لوگوں نے اس پر ایسے خوشی کااظہار کیا کہ جیسے اُنھوں نے کشمیریوں کے لیے کوئی معرکہ سر کرلیا ہو۔حالانکہ کشمیر کے حالات پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ نگار اِسے ’سیز فائر‘ کے بجاے’ حملہ بندی‘ قرار دیتے ہیں، کیوں کہ بھارتی فورسز اہل کار اور حکمران ہمیشہ اس قوم کے خلاف حالت جنگ میں تھے۔ یہ افواج سیز فائر کے دوران بھی حالت ِ جنگ میں رہیں اور آج بھی ہیں۔

ایسا نام نہاد سیز فائرکشمیریوں پر کسی احسان کے بجاے ریاست کی اپنی مجبوری تھی کیوں کہ اُن پر لازم ہے کہ وہ دہلی کی خوشنودی کے لیے اس ماہ شروع ہونے والی ’امرناتھ یاترا‘ کو پُرامن طریقے سے انجام تک پہنچائیں۔ یہ یاترا گذشتہ کئی برس سے ’مذہبی رسم‘کے بجاے ’سیاسی مہم‘ میں تبدیل ہوچکی ہے،جب کہ کشمیری عوام ’یاتر ا‘ اور یاتریوں کے لیے ہمیشہ فراخ دلی اور مہمان نوازی کے جذبے سے کام لیتے رہے ہیں۔ ’یاترا‘ کی سیاسی مہم کو انجام تک پہنچانے کے لیے یہاں حکومتی سطح پر جنگی پیمانے پرکام کیا جاتا ہے۔ریاستی بجٹ کی ایک کثیر رقم ’یاترا‘ کے انتظامات اور حفاظت پر خرچ کی جاتی ہے۔ نام نہادجنگ بندی کے پیچھے بھی یہی سوچ کارفرما تھی کہ جنوبی کشمیر کے پُرامن رہنے سے ہی یاتریوں کا آنا جانا ممکن ہوسکے گا۔ اس لیے بستیوں پر فوجی آپریشنوں کے ذریعے کی جانے والی یلغار کو فی الحال محدود پیمانے پرروک دیا گیا، تاکہ ظلم و جبر کے خلاف ہر آن کھڑا ہوجانے والے جنوبی کشمیر کے عوام کو کچھ وقت تک کے لیے خاموش رکھا جاسکے، لیکن اب نئی دہلی کے پالیسی سازوں نے اپنی اس حکمت عملی کو تبدیل کرکے ’سیز فائر‘ ختم کردیا اور ’امرناتھ یاترا‘ کی حفاظت کے لیے این ایس جی کے اسپیشل کمانڈوز کو طلب کیا گیا۔ حالانکہ دنیا جانتی ہے کہ اہلِ کشمیر یاتریوں کے ساتھ مہمانوں جیسا سلوک کرتے ہیں اور اُنھیں ہر ممکن تعاون فراہم کرتے ہیں۔ دراصل ’امرناتھ یاترا‘ کی آڑ میں کوئی بڑا سیاسی کھیل کھیلنے کے لیے میدان تیار کیا جارہا ہے، تاکہ بھارت میں ۲۰۱۹ء کے عام انتخابات میں بی جے پی سیاسی فائدہ حاصل کرسکے۔

بھارتی فورسز کی ’حملہ بندی‘ سے بے گناہ اور معصوم نوجوانوں پر گولیاں برسانے کا سلسلہ عارضی طور پر رُک سا گیا، لیکن ظلم و زیادتیوں اور دیگر جنگی حربوںکوزمینی سطح پر بدستور استعمال میں لایا جاتارہا ہے۔یہ کہاں کی جنگ بندی ہوئی کہ جس میںرات کے دوران چھاپے اور نوجوانوں کی گرفتاریوں کا سلسلہ جاری رکھا گیا، دُور دراز کے علاقوں میں فوجی ناکوں پر عوام کی جامہ تلاشی اور ہراسگی جاری ہیں؟اور کشمیری نوجوانوں کوگاڑیوں کے نیچے کچل دیا جائے؟

حقیقی معنوں میں جنگ بندی ہوتی تو پھر شوپیان کے دیہات میں فوج کی افطار پارٹی سے انکار کرنے پر عوام پر گولیاں نہ برسائی جاتیں اور چار معصوم بچیوں کو بڑی بے دردی کے ساتھ مضروب نہ کیا جاتا۔ جنگ بندی ہوتی تو عسکریت پسندوں کی قبروں کی بے حرمتی نہ کی جاتی، اُن کے گھروں کی توڑ پھوڑ نہ کی جاتی، جیسا کہ شوپیان کے ایک گھر اور اْس کے پڑوس میں موجود دیگر درجنوں گھروں میں کیا گیا ہے۔ گھر کے ساز و سامان کو تہس نہس کرنا، قیمتی سامان کی توڑ پھوڑ کرنا، پیسے اور لیپ ٹاپ لوٹ کر لے جانا اور کھانے پینے کی اشیا کو ضائع کر نے یا ناقابلِ استعمال بنانے کی حرکتیں استعماریت اور رذالت کی بدترین شکلیں ہیں۔ پھر ٹھیک اُس وقت جب کشمیری لوگ عید کی تیاریوں میں مصروف تھے، جنوبی کشمیر میں تین بے گناہ نوجوانوں کو جرمِ بے گناہی میں شہادت کا جام نہ پلایا جاتا۔

یہ کہاں کی جنگ بندی تھی کہ کھڑی فصلوں کو تباہ کیا جائے، میوہ باغات میں موجود درختوں کو کاٹ دیا جائے اور ظلم کی ایسی داستانیں رقم کی جائیں کہ جس کی مثال موجودہ دور کی بدترین جنگوں میں بھی نہیں ملتی۔فوجی او رنیم فوجی دستوں کے سامنے ریاستی حکومت کی بے بسی کس حد تک ہے اس کا اندازہ ڈپٹی کمشنر شوپیان کے حالیہ بیان سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے، جو انھوں نے گھروں کی توڑ پھوڑ اور میوہ باغات میں درختوں کو کاٹنے کے واقعات کی روشنی میں دیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ: ’’فوج خصوصی اختیارات کی وجہ سے حدود پھلانگ رہی ہے۔ ہم نے اُنھیں بار بار کہا ہے کہ وہ رمضان کے مقدس مہینے میں اپنے کیمپوں سے باہر نہ آئیں، لیکن وہ سول انتظامیہ کے حکم ناموں کو کسی خاطر میں ہی نہیں لاتے۔ ہم اُن کی حرکتوں کے سامنے بے بس ہیں۔‘‘… گویا بھارتی فوج کو آرمڈ فورسز سپیشل پاورز ایکٹ (AFSPA) نے اس حد تک بدمست بنادیا کہ وہ مقامی حکومت اور انتظامیہ کے بھی کنٹرول میں نہیں رہی ہے۔ وہ کسی بھی حد تک جا کر من مانیاں کررہے ہیں۔

کشمیر میں بھارتی جنگ بندی ’ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور‘ والی بات تھی۔ دنیا کو چکمہ دیا گیا کہ ہم کشمیریوں کے ساتھ افہام وتفہیم چاہتے ہیں اور اسی لیے نام نہاد  جنگ بندی کی خوب تشہیر کی گئی اور دہلی سرکار کے مقامی تنخواہ خوار دن رات ان کے گن گاتے رہتے ہیں، لیکن زمینی سطح پر عوام کے خلاف وہ تمام کارروائیاں ہورہی ہیں، جنھوں نے عام کشمیری کا جینا حرام کررکھا ہے۔ریاست عملاً ایک پولیس وفوجی اسٹیٹ بن چکی ہے۔ انسانی حقوق کے تحفظ کا یہاں کوئی تصور ہی نہیں ہے۔ظلم و جبر کی انتہا اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگی کہ اگر بندوقوں کے دہانے دنیا کو دکھانے کے لیے عارضی طورپر تھوڑے وقت کے لیے بند کیے، تو دوسری جانب گاڑیوں کے نیچے معصوم کشمیری بچوں کو کچل کر قتل کرنے کا سلسلہ جاری وساری ہے۔

اب،جب کہ ریاست جموں وکشمیر میں گورنر راج نافذ کرکے نئی دہلی نے حالات پر براہِ راست کنٹرول حاصل کرلیا ہے، تمام اختیارات فوج کے ہاتھ میں دے دیے گئے ہیں، بھارت بھر سے بدنامِ زمانہ پولیس افسران کو گورنر کے مشیروں کے طور پر تعینات کیا جارہا ہے، یہ خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ ریاست میں کسی بڑے خونیں کھیل کو کھیلنے کے لیے اسٹیج تیار کیا جارہا ہے۔ بی جے پی کا   جموں وکشمیر میں حکومت سے علاحدگی اختیار کرنے سے جواہم مقصد حاصل کرنا مقصودہے وہ یہ کہ کشمیریوں کی تحریک آزادی کو دبانے اور یہاں نسل کشی کرنے کے لیے وہ گورنر کے ذریعے سے براہِ راست معاملات پر کنٹرول حاصل کرسکیں۔ان باتوں کا اشارہ بی جے پی کے ریاستی شاخ سے وابستہ لیڈران اپنے بیانات میں دے چکے ہیں۔بھارتی آرمی چیف جنرل بپن راوت اور وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے بھی ایسے ہی بیانات دیے ہیں، جن میں حق خود ارادیت کے حامی کشمیری عوام کے لیے دھمکیاں تھیں۔بھارتی راجیہ سبھا میں اپوزیشن کے لیڈر اور کانگریس کے سینئر وزیر غلام نبی آزاد نے بھی کشمیریوں کی نسل کشی کے امکان کا اندیشہ ظاہر کیا ہے۔اُن کے مطابق دونوں جماعتیں  بی جے پی اور پی ڈی پی کشمیر کو آگ میں جھونک کر راہ فرار اختیار کررہی ہیں۔اس سلسلے میں گجرات کے سابق آئی پی ایس افسرسنجیو بھٹ کے اس ٹویٹ کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، جس میں انھوں نے لکھا کہ: ’’مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ ۲۰۱۸ء کی ’امرناتھ یاترا‘ ۲۰۰۲ء کی طرح کہیں دوسرا گودھرا نہ بن جائے‘‘… 

یہ محض خدشہ نہیں ہے بلکہ کشمیریوں کی جدوجہد کو بدنام کرنے کے لیے یہاں کوئی ایسا ڈراما رچایا جاسکتا ہے، جس کے ذریعے سے بھارت بھر میں فسادات کو ہوا دے کر سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔۲۱؍ جون کو بھارتی حکومت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت دول نے دومرتبہ بی جے پی چیف اُمت شاہ سے دہلی میں کشمیر کے حوالے سے ملاقاتیں بھی کی ہیں۔ سیاسی تجزیہ نگار دونوں کی ملاقات کو عسکری نقطۂ نظر سے دیکھ رہے ہیں کہ اس ملاقات کا مقصد کشمیر میں فوجی اور عسکری طاقت کے استعمال کے حوالے سے لائحہ عمل ترتیب دینا بھی ہوسکتا ہے۔ کشمیری عوام کے لیے مشکل حالات پیدا کیے جانے کا خاصا امکان پایا جارہا ہے اور اس حوالے سے تحریک حُریت کے قائدین کو پہلے ہی سے عوام کو باخبر کرنے کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر اپنے نمایندوں کو متحرک کرنے کے لیے اقدامات کرنے چاہییں، تاکہ کشمیری عوام کے خلاف پردے کے پیچھے تیار ہونے والی سازشوں کا نہ صرف توڑ کیا جاسکے بلکہ اُنھیں ناکام بناکر انسانی جانوں کو بھی بچایا جاسکے۔

کشمیر کی مزاحمتی قیادت کے لیے لازم ہے کہ ناانصافیوں اور زیادتیوں پر خاموش نہ رہے  بلکہ ظلم و جبر کے اس آوارہ ہاتھی کی پیش قدمی روکنے کے لیے سنجیدگی کے ساتھ منصوبہ بندی کرے۔ اہلِ کشمیر کا ظلم سہہ لینا اور ظلم کے نتیجے میں انسانی جانوں کے زیاں پر صبر کرلینا ، ظالم کے لیے طاقت ور ہونے کی دلیل بن جاتا ہے۔ وہ کشمیری قوم کے صبر کو اُن کی کمزوری سے تعبیر کرکے ڈھیٹ ہوجاتے ہیں اور یوں کشمیری نوجوان نسل کے قتل عام کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اس لیے بہتر ہوگا کہ مہذب دنیا حالات بد سے بدتر ہوجانے سے قبل ہی اپنا کردار ادا کرنے کے لیے سامنے آئے۔

بالخصوص پاکستان کو اپنے درون خانہ سیاسی اتھل پتھل سے باہر نکل کر بحیثیت قوم کشمیر کاز کے لیے کام کرنا ہوگا۔ پاکستان مسئلے کا فریقِ اوّل ہے اور فریق ہونے کی حیثیت پاکستان، کشمیر میں ہونے والی زیادتیوں اور تشدد سے لاتعلق نہیں رہ سکتا۔پاکستانی حکمران مسئلہ کشمیر سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے اور نہ پاکستانی عوام کشمیریوں سے آنکھیں موند سکتے ہیں۔ سبز ہلالی پرچم بے شک پاکستانی دفاتر پر لہراتا ہوگا، لیکن اس سبز ہلالی پرچم کی سربلندی کے لیے کشمیری قوم اپنا گرم لہوپیش کررہی ہے ۔

 کشمیری عوام کی اجتماعی تعذیب کے بد ترین مظاہروں کے باوجود قانونِ قدرت کے عین مطابق وہ وقت دُور نہیں ہے، جب یہ قوم ان تمام مصائب سے نجات حاصل کرلے گی کیوں کہ    اللہ کے یہاں دیر ہے اندھیر نہیں ، مگر اس کے لیے بنیادی اور ناقابل التوا شرط یہی ہے کہ اللہ سے رجوع کیا جائے اور حق کے لیے چٹان بن کر کھڑا ہوا جائے۔

غزہ میں ۱۴مئی ۲۰۱۸ء کو اسرائیلیوں کے ہاتھوں فلسطینی مظلوموں کے قتلِ عام کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ اسی روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی بیٹی ایونیکا کی قیادت میں غاصب صہیونیوں نے یروشلم میں امریکی سفارت خانے کی منتقلی کی رسم ادا کی۔

درندگی کی بھی ایک تاریخ ہے:۲۹دسمبر ۱۸۹۰ء کو امریکی فوجیوں کے ہاتھوں مقامی   سرخ ہندی باشندوں (ریڈ انڈینز) کا ’لکوٹا میں  قتلِ عام‘ ، ۱۳؍اپریل ۱۹۱۹ء کو امرتسر کے جلیانوالہ باغ میں برطانوی فوجیوں کے زیراقتدار قتلِ عام، پھر ۱۶مارچ ۱۹۶۸ء کو ویت نام میں امریکی   حملہ آوروں کے ہاتھوں مائی لائی کے مقام پر مظلوم ویت نامی باشندوں کے قتلِ عام کی مثالوں کے ساتھ آیندہ ۱۴مئی ۲۰۱۸ء کو اسرائیلیوں کی اس وحشت ناکی کو بھی یاد رکھا جائے گا۔

اس دن کے اختتام پر غزہ میں وزارتِ صحت نے رپورٹ پیش کی کہ اسرائیلی فوج نے ۶۰فلسطینیوں کو قتل اور ۲۷۷۱ کو زخمی کیا، اور یہ سب ۲۴گھنٹوں سے کم عرصے میں کیا گیا۔ اسرائیلی ماہر نشانہ باز فوجیوں نے اپنے افسران کی براہِ راست کمان کے تحت اس وحشت کا ارتکاب کیا، جنھیں اسرائیلی وزیردفاع ایوگڈرلبرمین اور اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی مکمل پشت پناہی حاصل تھی۔ وہی نیتن یاہو جسے انسانوں سے نہیں، آبادکار اور غاصب یہودیوں سے دل چسپی ہے۔

روزنامہ نیویارک ٹائمز نے اپنی تفصیلی رپورٹ ’غیرمسلح فلسطینیوں کا غزہ میں قتلِ عام‘ میں بڑی تفصیل سے بتایا ہے کہ اسرائیلی فوجیوں نے کس قدر بڑے پیمانے پر اور بے دریغ نہتے فلسطینیوں کے خون سے ہولی کھیلی ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اسرائیلی بے صبر ہوگئے کہ وہ نہتے مظاہرین، جو اپنےہی علاقے میں احتجاج کر رہے تھے، یہ ان نہتوں پر حملہ آور ہوکر انھیں سبق سکھانے پر تل گئے؟ ان فوجیوں کے نزدیک نیتن یاہو، اسرائیل ہے اور اسرائیل نیتن یاہو۔  نیتن یاہو اور جبری طور پر یہودی آبادکار ہی سامراجیت کے پردے میں زندگی کا حق رکھتے ہیں، اور یہاں سیکڑوں برسوں سے آباد فلسطینیوں کا مقدر تباہی ہے۔ وہ تباہی جسے ۱۴مئی ۱۹۴۸ء کو اسرائیل کے قیام کے روز سے آج تک روا رکھا جا رہا ہے۔

فلسطینی مظاہرین، جو غزہ میں اپنی ہی بستی میں مظاہرہ کر رہے تھے، اسرائیلیوں نے آتشیں اسلحے، آنسو گیس اور آگ لگانے والے بموں سے ان مظاہرین پر بے دریغ حملہ کر دیا   جس سے ۶۰فلسطینی موقع پر شہید ہوگئے اور ۲۷۰۰ سے زائد زخمی ہوگئے۔

۱۴مئی ۲۰۱۸ء کو ۱۳۰۰ فلسطینی براہِ راست فائرنگ کا نشانہ بنے۔ اس قتل و غارت کا نشانہ بنانے والا کچھ اسلحہ یقینی طور پر امریکی ساختہ تھا۔ جب امریکی صدر بارک اوباما کی سوانح عمری میں درج ہے کہ: ’’ہم نے ۳۸؍ارب ڈالر اسرائیل کو فوجی معاونت کے لیے دیے ہیں‘‘ تو اس کا صاف مطلب یہی ہے کہ امریکا نے اسرائیلی فوج کو یہ اجازت نامہ عطا کیا ہے کہ وہ نہتے فلسطینی مردوں، عورتوں اور بچوں کو قتل و غارت کا نشانہ بنائیں۔

۳۰مارچ سے ۱۶مئی ۲۰۱۸ءکے درمیان اسرائیلی فوجیوں نے خون سرد کردینے والی  بے رحمی سے ۱۱۰ سے زیادہ فلسطینی قتل کیے، جن میں ۱۲ بچے تھے اور دو صحافی،پھر علاج معالجے میں متحرک ایک ڈاکٹر بھی تھا کہ جسے موت کا نشانہ بنایا گیا۔ اس عرصے میں مظاہرہ کرنے والے ۱۲۷۰۰ فلسطینی زخمی اور شدید مجروح کیے گئے۔ان زخمیوں کو طبّی امداد کی شدید ضرورت تھی، مگر اسرائیلی پابندیوں کے باعث بنیادی ادویات اور جراحی کی سہولیات تاحال ناپید ہیں۔

اسرائیلیوں کی جانب سے پُرامن مظاہرین کے اس قتل عام کے جرم میں نیتن یاہو اور ہراسرائیلی لیڈر، جنگی ملزم کے طور پر عالمِ انسانیت کے سامنے جواب دہ ہے۔ اسی طرح ۱۹۴۸ء سے لے کر آج تک، منتخب ہونے والا ہر امریکی صدر، چاہے وہ مقبولِ عام ہے یا سخت ترین نفرت کا نشانہ، زندہ ہے یا مُردہ، یقینی طور پر وہ بھی اسرائیلی جارحیت، ظلم اور انسانیت سوز جرائم کے لیے دنیا کے سامنے جواب دہ ہے۔ مراد یہ ہے کہ وہ سب کے سب، عشروں پر پھیلے درندگی کے اس کھیل کی مناسبت سے جنگی جرائم کی پاداش میں عبرت ناک سزا کے مستحق ہیں۔

پھر دُنیا بھر کے ممالک کے سفیروں کی جانب سے اسرائیلی جارحیت کی مذمت کے مقابلے میں امریکی نمایندے نکی ہیلی کا اسرائیل نواز رویہ ناقابلِ انکار حقیقت ہے۔ مغربی میڈیا کے وسیع منظرنامے کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہاں سے فلسطینیوں کے خلاف یک طرفہ طور پر حقائق کو توڑمروڑ کر پیش کرنے، بُرا بھلا کہنے، بلکہ گالیاں تک دینے کی روایت برقرار ہے، جب کہ غاصب یہودی آبادکاروں کی بستیوں کی تعمیر اور فلسطینیوں کے گھروں کو مسمار کرنے جیسی کارروائیوں کو درست، قانونی اور ناگزیر قرار دینے کا رویہ، ہر ذی شعور کو ہلا کے رکھ دیتا ہے۔ پھر فلسطینیوں کی لاشوں پر گانے اور ناچنے والے اسرائیلیوں کے لیے تو یہ سب رنگ و نشاط کا بہانہ ہے۔

ہم یاد رکھیں گے!

فلسطین کی قیادت جو ’حماس‘ اور ’الفتح‘ تنظیموں کی ستّرسالہ جدوجہد کا ثمر ہے، اس قیادت نے سات عشروں پر پھیلی شجاعت، ذہانت، والہانہ جذبوں سے سرشار اپنی اس جدوجہد میں لمحے بھر کے لیے شک، تھڑدلی اور مایوسی کا اظہار نہیں کیا۔ انھوں نے اپنی جدوجہد کے ذریعے ارضِ فلسطین کو غاصبوں کے قبضے سے چھڑانے کے اس مرحلے کو’واپسی کا عظیم سفر‘ کا نام دیا۔ حُریت کی اس لہر اور جوش کے دور میں صہیونیت کے لیے نرم گوشہ رکھنے والے ایک عرب شہزادے نے فلسطینی سرفروشوں سے کہا: ’خاموش رہو‘ ، مگر انھوں نے اپنی جدوجہد سے اس مشورے کو مسترد کرنے کا پیغام دیا۔

وجہ صاف ظاہر ہے کہ مظلوم فلسطینیوں کے نزدیک اسرائیل اور اسرائیل کے پرچم کا مطلب کوئی ریاست یا ریاست کی علامت نہیں ہے، بلکہ ان کا مطلب ہے: مظلوم انسانوں کے لہو سے رنگی وحشت انگیزی، قتلِ عام، زمینوں پر غاصبانہ قبضہ، بسنے والوں کی ظالمانہ بے دخلی، اور جنگی جرائم کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ۔ اسی لیے تمام فلسطینی مظاہرین اپنے مادرِ وطن کی واپسی، زندگی کی بحالی اور اختیار چاہتے ہیں، جب کہ اسرائیلی فوجی جواب میں بے دریغ گولیوں کی بوچھاڑ کرتے اور وحشیانہ انداز سے انھیں کچلتے ہیں۔

۳۰مارچ ۲۰۱۸ء سے فلسطینیوں نے اپنے حقوق کی بازیابی کے لیے پُرامن سول نافرمانی کی تحریک شروع کی، تو اسرائیل اور اس کے عالمی سیاسی سرپرستوں اور مغربی مددگاروں نے آسمان سر پر اُٹھا لیا ۔ مغربی ذرائع ابلاغ نے مظلوم فلسطینیوں کے دکھ درد کو سننے اور سمجھنے کے بجاے، اس پوری تحریک ہی کو بے وقار اور بدنام کرنا شروع کر دیا۔ روزنامہ واشنگٹن پوسٹ اور نیویارک ٹائمز نے اپنے اداریوں میں نفرت انگیز خیالات کا اظہار کیا۔ اسی طرح ان مؤثر اخبارات کے صفحے  مغربی حکومتوں کے شدید مخالفانہ بیانات سے بھرے پڑے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ امریکا میں لبرل اور ترقی پسندانہ خیالات رکھنے والے سیاسی رہنما برنی سینڈرز تک نے اہلِ فلسطین کے خلاف مذمتی بیانات جاری کیے ہیں۔مراد یہ ہے کہ امریکا اور مغرب میں اخلاقی اور انسانی قدریں موت کا شکار ہیں۔ یعنی برنی اور ڈیموکریٹک پارٹی کی لیڈر ہیلری کلنٹن تک ایک ہی جیسے خیالات کے حامل ہیں کہ: ’’فلسطینیوں کے لیے موت اور صہیونیوں کے لیے شادمانی کے ہم طرف دار ہیں‘‘۔

فلسطینیوں کے خلاف نفرت، بدنہادی اور بدخواہی پر مبنی ان تمام امریکی اور مغربی کوششوں کے باوجود، اہلِ فلسطین کے موقف کی سچائی روشن اور سربلند ہے۔ ان کی انقلابی جدوجہد نے مہذب انسانوں اور دُنیا کے تمام ملکوں کو احترامِ آدمیت،بنیادی انسانی حقوق کے احترام اور سامراجیت کے خلاف بے زاری و نفرت کا پیغام دیا ہے، اور یہ یاد دلایا ہے کہ مادرِ وطن کی آزادی اور خود اختیاری ہرانسان کا بنیادی حق ہے۔

فلسطینیوں کے ۳۰مارچ ۲۰۱۸ء کی تحریک جیسے غیرمعمولی بہادرانہ اور جرأت آمیز سیاسی اقدام نے، اسرائیلیوں کے غیرانسانی، غیرقانونی ، غاصبانہ اور نوآبادیاتی جبر کی قلعی کھول کے رکھ دی ہے۔

۱۴مئی ۲۰۱۸ء کے قتلِ عام نے یہ سوال پیش کیا ہے کہ، دنیا بھر کے انسانو!یاد رکھو!  شرفِ انسانیت، غزہ کے مظلوموں کی قسمت میں لکھا ہے۔ دُنیا کے ہرفرد کے سامنے یہی سوال ہے کہ تم اگر انسان ہو، اور تم اگر ضمیر رکھتے ہو، تو تم لازمی طور پر فلسطینیوں کے ہم قدم اور طرف دار ہو۔ اگر تم ضمیر سے محروم اور انسانیت سے تہی دامن ہو تو تم دوسری جانب درندگی کے ساتھ کھڑے ہو۔

۱۴مئی کے قتل عام کے بعد کیا کرنا چاہیے؟ جیسے سوال کا جواب ہے: ’سب کچھ کرنا چاہیے‘۔ اس خون آلود دن کو فلسطینیوں نے ایک نہایت قیمتی سبق سکھایا ہے اور وہ ہے: ’مقابلے اور وقار کی طاقت‘۔ اس غیرمعمولی انقلابی تحریک کے ایک مربوط اور پُرامن عمل نے بتا دیا ہے کہ: اندھی،  بہری قوت کے رکھوالو! فلسطینی کہیں نہیں جارہے۔ فلسطین، فلسطینیوں کا وطن ہے اور وہی اپنی تقدیر اور اختیار کے مالک ہیں۔ نہ وہ کسی بددیانت قیادت کو قبول کریںگے اور نہ غاصب صہیونیت کی حاکمیت کو تسلیم کریں گے۔

۱۴مئی کو فلسطینی حُریت پسندوں نے انسانیت کا وہ سبق یادداشت میں تازہ کر دیا، جسے  ہم نے زمانہ طالب علمی میں ولیم ارنسٹ ہینلی (م: ۱۹۰۳ء) کی سدابہار نظم Invictus (شکست ِناپذیر) میں پڑھا تھا:

اس رات، جس نے مجھے ڈھانپ رکھا ہے

اُفق تا اُفق پھیلی اندھی گہری تاریک سرنگ میں،

میں دیوتائوں کا شکرگزار ہوں، وہ جیسے بھی ہوں،

میری روح ناقابلِ تسخیر ہے۔

حالات کی بے رحم گرفت

اور درد و کرب کی ناقابلِ برداشت شدت کے باوجود

نہ میں جھرجھرایا ہوں، نہ میرے ہونٹوں سے کوئی آہ بلند ہوئی ہے

اتفاقات و حوادث کے عصا کی بھاری ضربوں سے

میرا زخموں سے چُور اور لہولہان سر

ہرگز جھکنے کو تیار نہیں

غیظ و غضب کی تپش اور آنسوئوں کی برکھا سے پرے

زندگی یا موت کی سرحدوں کے پار، خو ف کے سایے منڈلا رہے ہیں

برسوں پر محیط موج دَر موج خطرات نے

مجھے بے خوف پایا ہے، اور بے خوف ہی پائیں گے!

وہ ناترسیدہ اور ناکام ہی رہیں گے۔

یہ کچھ اہمیت نہیں رکھتا کہ زندگی کا دروازہ کتنا سیدھا ہے

نہ یہ کوئی اہم ہے کہ زندگی کا طومار کتنی سزائوں سے بھرا پڑا ہے

تف، الزام و اتہام کی فردِ جرم پر،میری بلاسے!

میں اپنی قسمت کا خود مالک ہوں!

میں خود اپنی روح کا سالار ہوں!

[الجزیرہ، ٹیلی ویژن چینل،ویب،۲۲مئی ۲۰۱۸ء، انگریزی سے ترجمہ: س   م     خ ]

 

زخمیوں اور مقتولین پر گولیوں کے نشانے

اس حقیقت کے اظہار میں کوئی مبالغہ نہیں ہے کہ بیسوی صدی عیسوی کے علم کلام کا تذکرہ مولانا سیّد ابو الاعلیٰ مودودی (۱۹۰۳ء- ۱۹۷۹ء) کے بغیر ناقص اور ادھورا ہوگا۔ بلاشبہہ انیسویں صدی میں اس نئے علم کلام کی تشکیل کا آغاز ہو چکا تھا۔ مغربی فکر و فلسفے کے بطن سے جنم لینے والی تہذیب، جو علم اور تلوار دونوں سے مسلح تھی اور اس کا استیلا و غلبہ اس نئے علم کلام کا محوری اور حرکی موضوع تھا۔ اس فکروفلسفے نے عالم اسلام میں وسیع تر کلامی ادبیات کو متاثر کیا اور ایک بھرپور چیلنج بھی پیش کیا۔ بر صغیر کے علما، دانش ور اور مصلحین و مفکرین خاص طور سے طلسمِ مغرب کو بے نقاب کرنے کے لیے کمر بستہ ہوئے اور اس جدوجہد میں عظیم الشان فکری و تحریری سرمایہ چھوڑا۔ برصغیر سے انیسویں صدی کے معذرت خواہ مصلحین میں سرسیّداحمد خان (۱۸۱۷-۱۸۹۸ء)، سیّد امیر علی (۱۸۴۹ء- ۱۹۲۸ء) اور بعض دوسرے اہلِ علم نے مسلمانوں کا مقدمہ پیش کیا، اور ساتھ ہی تنقید مغرب کی تاسیس وتشکیل کی۔ان حضرات کی علمی کوششوں کا حُسن و قُبح اس وقت زیر بحث نہیں ہے ۔

 بیسویں صدی میں تنقید ِمغرب کے علمی موضوع نے مسائل و مشکلات کے نئے ابواب رقم کیے اور زیر تشکیل علم کلام ترقی، استحکام اور پھیلائو کی جانب گام زن ہوا۔ علامہ شبلی نعمانی (۱۸۵۷ء- ۱۹۱۴ء)، علّامہ محمد اقبال (۱۸۷۷ء- ۱۹۳۸ء)، اکبر الٰہ آبادی (۱۸۴۶ء- ۱۹۲۱ء) مولانا سیّد سلیمان ندوی (۱۸۸۴ء- ۱۹۵۳ء)، مولانا سیّد ابو الاعلیٰ مودودی اور دوسرے اکابر نے مغربی فکر و فلسفہ کی تاریخ و تہذیب پر علمی و استدلالی انداز میں تنقید کی اور اس کی فسوں کاری کو طشت از بام کیا۔ ۱

سیّد مودودی نے تیسرے اور چوتھے عشرے میں جو مقالات و مضامین تحریر کیے ان میں تنقید ِ مغرب، اسلام اور مغربی تہذیب کے درمیان تصادم اور اس کے بطن سے جنم لینے والے مسائل ان کے علم کلام کے خاص موضوعات ہیں۔ انھوں نے تخریب و تطہیر کے پہلے مرحلے سے آگے بڑھ کر اسلامی فکر کی مؤثر اور جان دار تشکیلِ جدید اور تعمیرِ نو کا فریضہ انتہائی مؤثر اور دل نشین انداز میں انجام دیا۔ یہ ان کی تشکیلِ فکر کا دوسرا مرحلہ ہے۔ تب، ان کے اسلوب میں علامہ شبلی اور مولانا ابو الکلام آزاد (۱۸۸۸ء- ۱۹۵۸ء) کا حسن بیان، رعنائی خیال، فکر کی پختگی و استحکام، اظہار ِخیال کی دل کشی نظر آتی ہے، اور اسی طرح سرسیّد احمد خان کی سادگی و صراحت اور علمی و سائنسی اندازِ تحقیق بھی۔ وہ دل اور دماغ دونوں سے مخاطب ہوتے ہیں اور دونوں پر یکساں اثر ڈالتے ہیں۔ ان کے یہاں تدبر و تفکر بھی ہے اور جذبات و احساسات کی ترجمانی بھی۔ دونوں کے حسین امتزاج سے ابھرنے والا توازن اور اعتدال ان کی فکر کا خاصّا ہے۔ ۱۹۲۷ء میں مرتب کردہ کتاب الجہاد فی الاسلام، مولانا مودودی کی علمیت، پُرمغز استدلال، مذاہب عالم کے تقابلی مطالعے اور جدید قوانین و دساتیر پر گہری نظر کی واضح مثال ہے۔ ہندستان کا صنعتی زوال اور اس کے اسباب ، ۱۶۰۰ء سے ۱۹۲۴ء تک کے ہندستان کے اقتصادی و تمدنی حالات پر ایک سیاسی مدبر اور ماہر اقتصاد یات کی طرح پختہ فکر اور مستحکم استدلال کی واضح مثال ہے۔ پروفیسر خورشید احمد کا یہ تبصرہ برمحل ہے کہ ’’حکومت کے کردار کے بارے میں یہ وژن سیّد مودودی سے پہلے ابن خلدون کے مقدمۂ  تاریخ میں پوری صراحت سے نظر آتا ہے‘‘۔۲

فکری و علمی اعتبار سے تطہیر و تعمیر افکار کے میدان میں مولانا مودودی کا یہ علم کلام حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (۱۷۰۳ء-۱۷۶۲ء) کی روایت کا تسلسل ہے۔ سیّد مودودی نے اس علمی روایت میں کئی پہلوؤں سے خاصا اضافہ کیا ہے۔۳ اگر اُس فکری و تہذیبی ماحول کو ذہن میں تازہ کرلیا جائے، جس میں انھوں نے تجدید و احیا کا کام کیا ہے، تو ان کے علم کلام کی معنویت مزید نکھر کر سامنے آتی ہے۔ مسلمانوں کا دوسو سال کا فکری جمود، مغرب میں نشاتِ ثانیہ، عقلیت پرستی، لبرل ازم، نسل پرستی اور اشتراکی تحریکوں کا فروغ___ پھر صنعتی انقلاب، مغربی استعمار اور سرمایہ دارانہ قوتوں کا   عالمی کردار، مسلم دنیا پر ان کا عسکری و سیاسی اور فکری و ثقافتی تسلط، یہ ہے وہ وسیع ترین پس منظر،  جس میں مسلم دنیا میں دورجحانات رُونما ہوئے:

                ۱-            تحفظ ودفاع اسلام کی خاطر روایت پسندی پر انحصار اور جدت سے گریز یا اجتنا ب کا رویہ۔

                ۲-            اپنے تشخص سے بے نیاز ہو کر غالب فکر و تہذیب سے ہم آہنگی کا رویہ، یعنی:

زمانہ باتونہ سازد  تو با زمانہ بساز

علامہ اقبال اور مولانا ابوالکلام آزاد کی طرح سیّد مودودی نے ان دونوں نقطۂ ہاے نظر کے درمیان اعتدال کا راستہ اختیار کیا۔ مغربی فکر و فلسفہ کو بالکلیہ مسترد کرتے ہوئے مسلمانوں کو یہ پیغام دیا:

زمانہ باتونہ سازد  تو با زمانہ ستیز

اور مغرب کی ترقیات اور ایجادات کو اپنی تہذیبی روایات و اقدار کی کسوٹی پر پرکھ کر خُذْ مَا صَفَا وَدَعْ مَا کَدَرْ (جو صاف ستھرا ہے اسے لے لو اور جو گندا ہے اسے چھوڑ دو) کا رویہ اختیار کرنے کی تلقین کی۔ سیّد مودودی کے اس معتدل و متوازن علم کلام کا خاص میدان مغرب پر ان کی تنقید ہے۔

’جاہلیتِ خالصہ‘

اس علمی و فکری تنقید کے مرحلے میں سیّد مودودی نے مغرب کے فلسفہ و سائنس اور علمی و فکری نظام کو ’جاہلیت ِخالصہ‘ سے تعبیر کیا ہے، جس کی بنیاد الحاد و تشکیک اور وحی ورسالت کے انکار اور بغاوت پر ہے۔ مغربی تہذیب کے ساتھ جن قوموں کا تصادم ہوا، ان میں سے بعض کسی مستقل تہذیب سے محروم تھیں اور بعض اقوام اپنی تہذیب تو رکھتی تھیں، مگر اپنی تہذیبی خصوصیات کھو چکی تھیں، اس لیے ان کے ہاں کسی تصادم کی نوبت ہی نہ آسکی۔ ان کے برعکس مسلمانوں کا معاملہ بالکل مختلف تھا۔ وہ ایک مستقل اور مکمل تہذیب کے مالک تھے اوران کی تہذیب فکری وعملی دونوں حیثیتوں سے مغربی تہذیب سے متصادم تھی ۔ اس کش مکش کے دوران مسلمانوں کی اعتقادی و عملی زندگی کے ہرشعبے پر نہایت تباہ کن اثرات پڑے۔۴  ’جاہلیت خالصہ‘ وہ نظریۂ حیات ہے، جس میں انسانی زندگی کے تمام مسائل کا جواب حسّی مشاہدے پر دیاگیاہے۔

انسانی زندگی میں ’جاہلیت خالصہ‘ کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ انسان اوّل سے آخر تک خود مختارانہ اورغیر ذمہ دارانہ طرزِ عمل اختیار کرے اوراس کے اپنے نفس میں کوئی ایسا اخلاقی احساس، ذمہ داری کا احساس اور کسی باز پُرس کا خوف نہ ہو،جو اسے شتربے مہار بننے سے روکتا ہو۔ اس طرزِ فکر سے  جو معاشرہ استوارہوگا، اس کی بنیاد انسانی حاکمیت پر ہوگی، اس مملکت کے تمام قوانین خواہش اور تجربی مصلحت کی بنا پر بنائے اور بدلے جائیں گے، اور منفعت پرستی اور مصلحت پسندی ہی کے لحاظ سے تمام پالیسیاں بنائی اور بدلی جائیں گی۔ اس معاشرے کا تمدن اور معاشرت نفس پرستی پر استوار ہوگی اور لذات نفس کی طلب ہر اخلاقی قید سے آزاد ہوگی۔ اسی ذہنیت سے آرٹ اور لٹریچر متاثر ہوں گے۔ ان کے اندر عریانی و شہوانیت کے عناصر کی کارفرمائی ہوگی۔ اس معاشرے کا نظام تعلیم وتربیت بھی اسی تصور حیات اور اسی رویے کے مناسب حال ہوگا۔یہ خالص جاہلیت شب وروز کی زندگی میں اظہر من الشمس ہے۔ اس طرزِ فکر سے افراد کی بے ایمانیوں ، حکام کے مظالم، منصفوں کی بے انصافیوں اور مال داروں کی خود غرضیوں اور عام لوگوں کی بداخلاقیوں کا جو تلخ تجربہ آج انسانیت کو ہورہاہے، اوربڑے پیمانے پر اس نظریے سے قوم پرستی، استحصال و استعمار، جنگ وفساد، ملک گیری اور اقوام کشی کے جو شرارے نکل رہے ہیں، ان کے چرکوں سے یہ نتیجہ خود بخود نکلتاہے کہ یہ جاہلیت کا رویہ ہے۔۵

سیّد مودودی نے جاہلیت کی دوسری قسم ’شرک‘ کو قرار دیاہے، یعنی یہ عقیدہ اور فکر کہ کائنات کے نظام کو چلانے والا ایک خدا نہیں، بلکہ بہت سے خداوند ہیں۔ کائنات کی مختلف قوتوں کا سررشتہ مختلف خدائوں کے ہاتھ میں ہے اور انسان کی سعادت و شقاوت ، کام یابی وناکامی، نفع و نقصان، بہت سی ہستیوں کی مہربانی و نامہربانی پر منحصر ہے۔۶سیّد مودودی رہبانیت کو مشاہدہ اورقیاس و وہم کے باہم اختلاط والتباس کا فطری نتیجہ مانتے اور شرک کی طرح اسے بھی جاہلیت کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں۔ سیّد مودودی ’راہبانہ جاہلیت‘ کی درج ذیل خصوصیات شمارکراتے ہیں:

                ۱-            انسان کے تمام رجحانات اجتماعیت سے انفرادیت کی طرف اور تمدن سے وحشت کی طرف پھر جاتے ہیں۔

                ۲-            نیک دل لوگ دنیا کے کاروبار سے ہٹ کر اپنی نجات کی فکر میں گوشہ ہاے عزلت کی طرف چلے جاتے ہیںاور دنیاکے معاملات بدکار اور شریر لوگوں کے ہاتھ میں آجاتے ہیں۔

                ۳-            تمدن میں سلبی اخلاقیات،مخالفِ تمدن اور انفرادیت پسندانہ رجحانات اور مایوسانہ خیالات پیدا ہوجاتے ہیں۔ یہ نظریہ عوام کو ظالموں کے لیے تابع فرمان بنانے میں جادوکی تاثیر رکھتاہے۔

                ۴-            انسانی فطرت سے رہبانیت کی مستقل جنگ رہتی ہے اور اس کے نتیجے میں کفارے کا عقیدہ ایجاد ہوتاہے، عشق مجازی کا ڈھونگ رچایا جاتاہے اور کہیں ترکِ دنیا کے پردے میں بدترین مادہ پرستی جنم لیتی ہے۔۷

سیّد مودودی ’ہمہ اوست‘ اور ’وحدت الوجود ‘کے نظریے کوبھی مشاہدے اور قیاس کی آمیزش بتاتے ہوئے جاہلیت سے موسوم قرار دیتے ہیں۔ اس نظریے کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان اور کائنات کی تمام چیزیں بجاے خود غیر حقیقی ہیں، ان کا کوئی مستقل وجود نہیں ہے، دراصل ایک وجود نے ان ساری چیزوں کو خود اپنے ظہور کا واسطہ بنایا ہے اور وہی ان سب کے اندر کام کررہاہے۔ تفصیلات میں اس نظریے کی بے شمار صورتیں ہیں، مگر ان ساری تفصیلات کے اندر قدر مشترک یہی ایک خیال ہے کہ تمام موجودات ایک ہی وجود کا خارجی ظہور ہیں اور دراصل موجود وہی ہے ، باقی کچھ نہیں۔۸ اس طرز خیال کے نتائج قریب قریب وہی ہیں جو ’راہبانہ جاہلیت‘ کے ہیں، بلکہ بعض حالات میں اس راے کو اختیار کرنے والے کا طرز عمل ان لوگوں کے رویے سے ملتاجلتاہے، جو خالص جاہلیت کا نظریہ اختیار کرتے ہیں ،کیوں کہ یہ اپنی خواہشات کے ہاتھ میں اپنی باگیں دے دیتاہے اور پھر جدھر خواہشات لے جاتی ہیں اس طرف یہ سمجھتے ہوئے بے تکلف چلاجاتاہے کہ: ’جانے والا وجود کلّی ہے نہ کہ میں‘۔۹

عالمِ عرب کی طاقت ور اسلامی تحریک اخوان المسلمون کے رہ نما ، مؤثر اور دل میں اترجانے والے ادیب سیّد قطب شہید (۱۹۰۶ء-۱۹۶۶ء)بھی تہذیب ِمغرب کو عہد حاضر کی جاہلیت قرار دیتے ہیں، کیوں کہ اس کا نظریۂ حیات و کائنات اور فلسفہ و سائنس خدا کے اقتدار اعلیٰ پردست درازی اور اس کی حاکمیت سے بغاوت پر استوار ہواہے۔ اس جاہلیت نے حیرت انگیز مادی سہولیات، آسایشوں اور بلند پایہ ایجادات کے قصر پر خیمہ زنی کررکھی ہے ۔ دور قدیم کی جاہلیت سیدھی سادی اور ابتدائی صورت میں تھی، مگر جدید جاہلیت اس طنطنے اور دعوے کے ساتھ میدان میں آئی ہے کہ: ’انسانوں کویہ حق پہنچتاہے کہ وہ خود افکار و اقدار کی تخلیق کریں، شرائع و قوانین وضع کریں اور زندگی کے مختلف پہلوئوں کے لیے جوچاہیں نظام تجویز کریں‘۔ سیّد قطب کہتے ہیں:

اس باغیانہ انسانی اقتدار اور بے لگام تصورِ حاکمیت کا نتیجہ یہ نکل رہاہے کہ خلق اللہ   ظلم و جارحیت کی چکی میں پس رہی ہے۔ چنانچہ اشتراکی نظاموں کے زیر سایہ انسانیت کی جو تذلیل ہورہی ہے، یا سرمایہ دارانہ نظاموں کے دائرے میں سرمایہ پرستی اور جوع الارضی کے عفریت نے افراد و اقوام پر ظلم و ستم کے جو پہاڑ توڑ رکھے ہیں، وہ دراصل اسی بغاوت کا ایک شاخسانہ ہے، جو زمین پر خداوند تعالیٰ کے اقتدار کے مقابلے میں دکھائی جارہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو تکریم اور شرف عطاکیاہے، انسان اسے خود اپنے ہاتھوں پامال کرکے نتائج بدسے دوچار ہے۔۱۰

سیّد قطب شہید بہت واشگاف انداز میں کہتے ہیں کہ: جاہلی قیادت سے انحراف لازم ہے اور مسلمان محض نظریاتی مسلمان نہیں ہوتا، بلکہ وہ عملی مسلمان ہوتاہے۔ جس لمحے کوئی شخص کلمۂ شہادت اداکرتاہے وہ بالفعل جاہلی اجتماع سے اپنی وفادریوں کا رشتہ کاٹ لیتاہے۔ اس کا فرض بن جاتاہے کہ وہ جاہلی قیادت سے بغاوت کرے، خواہ وہ قیادت کسی بھیس میں ہو ، کاہنوں، پروہتوں، جادوگروں اور قیافہ شناسوں کی مذہبی قیادت ہو، یا سیاسی، معاشی اور معاشرتی قیادت ہو، جیسا کہ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں قریش کو حاصل تھی، اسے اپنی تمام تر وفاداریاں    نئی اسلامی جماعت، خدا شناس نظام اور اس کی خدا پرست قیادت کے ساتھ مخصوص رکھنا ہوں گی۔ مسلم معاشرہ اس انقلابی اقدام کے بغیر وجود میں نہیں آسکتا۔۱۱

عیسائیت سے تصادم

سیّد مودودی کا نقطۂ نظر مغرب کے متعلق بالکل واضح ہے۔ وہ مغرب کی مادہ پرستی اور الحاد کی تاریخ کو مذہب کے خلاف جنگ سے تعبیر کرتے ہیں۔وہ صراحت کرتے ہیں کہ مذہب کے خلاف عقل و حکمت کی لڑائی نے ہی اس تہذیب کو پیداکیا۔ اگرچہ کائنات کے آثار کا مشاہدہ ، ان کے اسرار کی تحقیق، ان کے کلّی قوانین کی دریافت، ان کے مظاہر پر غور وفکر اور ان کو ترتیب دے کر قیاس و بُرہان کے ذریعے سے نتائج کا استنباط، کوئی چیز بھی مذہب کی ضد نہیں ہے، مگر سوے اتفاق سے نشاتِ جدیدہ کے عہد میں جب یورپ کی نئی علمی تحریک رُونماہوئی تو اس تحریک کا مقابلہ     ان عیسائی پادریوں سے ہوا، جنھوں نے اپنے مذہبی معتقدات کو قدیم یونانی فلسفہ وحکمت کی بنیادوں پر قائم کررکھاتھا۔ جو یہ سمجھتے تھے کہ اگر جدید علمی تحقیقات اور فکری اجتہاد سے ان بنیادوں میں ذرا سا بھی تزلزل واقع ہوا تو اصل مذہب کی عمارت پیوندِ خاک ہوجائے گی۔ اس غلط تخیل کے زیر اثر   انھوں نے نئی علمی تحریک کی مخالفت کی اور اس کو روکنے کے لیے قوت سے کام لیا۔ مذہبی عدالتیں قائم کی گئیں، جن میں اس تحریک کے علم برداروں کو سخت وحشیانہ اور ہولناک سزائیں دی گئیں۔۱۲

سیّد مودودی لکھتے ہیں کہ: آغاز میں لڑائی حریتِ فکر کے علم برداروں اور مذہبی پیشوائوں کے درمیان تھی، مگر بہت جلد یہ لڑائی مسیحیت اور آزاد خیالی کے درمیان ٹھن گئی۔اس کے بعد نفسِ مذہب (خواہ وہ کوئی مذہب ہو) اس تحریک کا مدِّمقابل قرار دیاگیا اور نئے دور کے اہل ِحکمت و فلسفہ میں خدا اور روح یا روحانیت اور فوق الطبیعیت کے خلاف ایک تعصب پیداہوگیا،جو عقل واستدلال کا نتیجہ نہ تھا، بلکہ سراسر جذبات کی برانگیختگی کانتیجہ تھا۔

’’مغربی فلسفہ اور سائنس دونوں نے ابتداے سفر میں ’نیچریت‘ کو خدا پرستی کے ساتھ نباہنے کی کوشش کی، مگر آگے چل کر ’نیچریت‘ خداپرستی پر غالب آگئی اور خدا کا تخیل اور عالم طبیعیت سے بالا ہر فکر اور نظریہ ان سے غائب ہوگیا اور سائنس، نیچریت کا ہم معنی قرار پاگئی‘‘۔۱۳ سترھویں صدی میں فلسفہ اور سائنس نے کامل الحاد کا رنگ اختیار نہیں کیاتھا۔ کوپرنیکس (Copernicus)، کپلر(Kepler)،گیلیلیو(Galileo)سب خدا کے منکر نہ تھے ، مگر الٰہی نقطۂ نظر کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ تھے ۔ اٹھارہویں صدی میں مادہ پرستی، الحاد اور بے دینی سکہ رائج الوقت بن گئی۔   جان ٹولینڈ(Toland)،ڈیوڈہارٹلے(Hartley)،جوزف پریسٹلے(Priestley)، والٹیر (Voltaire)،لامیٹری (La Matrie) ،ہول باخ (Holback) ،کیبانیس(Cabanis) ، ڈینس ڈائیڈیرو(Denis Diderot)،مانیٹسکو (Montesquieu)، روسو (Rousseau) وغیرہ فلاسفہ و حکما نے علانیہ خدا کے وجود سے انکار کیا ، یا اگر تسلیم کیابھی تو اس کی حیثیت محض ایک دستوری فرماں رواے حکومت سے زیادہ نہ سمجھی ، جو نظام کائنات کو ایک مرتبہ حرکت میں لے آنے کے بعد گوشہ نشین ہوگیا۔۱۴

سیّد مودودی اٹھارہویں صدی کے معروف فلاسفہ کے نقطۂ نظر کا تجزیہ کرتے ہیں۔   ہیوم (Hume)نے اپنی تجربیت(Empiricism)اور فلسفۂ تشکیک (Scepticism)سے  عالمِ طبیعیت اور دنیاے مادہ و حرکت کے باہر کسی طاقت کے وجود کو نہ ماننے اور مشاہدے و تجربے ہی کو معیار ماننے پر زور دیا۔ برکلے نے مادیت کی اس بڑھتی ہوئی رَو کا جان توڑ مقابلہ کیا، مگر وہ اس کو نہ روک سکا۔ ہیگل(Hegel)نے مادیت کے مقابلے میں تصوریت (Idealism)کو فروغ دینا چاہا ، مگر ٹھوس مادہ کے مقابلے میں لطیف تصور کی پرستش نہ ہوئی۔ کانٹ (Kant)نے بیچ کی راہ نکالی کہ خدا کی ہستی، روح کی بقا اور ارادے کی آزادی ان چیزوں میںسے نہیں ہیں، جو ہمارے علم میں آسکیں۔سیّد مودودی کہتے ہیں کہ ’’یہ خدا پرستی اور نیچریت کے درمیان مصالحت کی آخری کوشش تھی، لیکن ناکام ہوئی۔ کیوں کہ عقل و فکر کی گمراہی نے خدا کو محض وہم کی پیداوار یا حدسے حد ایک معطل اور بے اختیار ہستی قرار دے لیا، تو محض اخلاق کی حفاظت کے لیے اس کو ماننا، اس سے ڈرنااور اس کی خوش نودی چاہنا، سراسر ایک غیر عاقلانہ فعل تھا‘‘۔۱۵  اس طرح اٹھارہویں صدی میں یہ حقیقت نمایاں ہوگئی کہ جو طریقِ فکر خدا کی ہستی کو نظر انداز کرکے نظامِ کائنات کی جستجو کرے گا، وہ لامذہبیت تک پہنچے بغیر نہ رہ سکے گا۔

ڈارون کا نظریۂ ارتقا

سیّد مودودی، ڈارون کے ’نظریۂ ارتقا‘کو نیچریت و مادیت کو فروغ دینے والا سب سے مدلل و منظم علمی نظریہ قرار دیتے ہوئے بتاتے ہیں کہ: انیسویں صدی میں مغربی تہذیب و فلسفہ میں مادہ پرستی اپنے اوج کمال کو پہنچ چکی تھی۔ فوگت(Vegt)، بوخنر(Buchner)، سولیے (Czelle)، کومت(Comte)، موبشات (Mobechoute)وغیرہ حکما و فلاسفہ نے مادہ اور اس کے خواص کو مرکزی حیثیت دی تھی اور اس کے سواہر شے کے وجود کو باطل قرار دے دیاتھا۔ جان اسٹورٹ مل فلسفے میں تجربیت اور اخلاق میں افادیت (Utilitarianism)کا وکیل اور ترجمان ہے۔ اسپنسر (Spencer)فلسفیانہ ارتقا اور نظام کائنات کے خود بخود پیداہونے اور زندگی کے آپ سے آپ رُونما ہوجانے کے نظریے کا مؤید ہے ۔ حیاتیات(Biology)، عضویات (Physiology)، ارضیات (Geology) اور حیوانیات (Zoology) کے اکتشاف ، عملی سائنس کی ترقی اور مادی وسائل کی کثرت نے یہ خیال پوری پختگی کے ساتھ دلوں میں راسخ کردیاتھا کہ کائنات آپ سے آپ وجود میں آئی ہے اور آپ سے آپ لگے بندھے قوانین کے تحت چل رہی ہے اور آپ سے آپ ترقی کے منازل طے کرتی رہی ہے ،مگر ڈارون کی کتاب ’اصل الانواع‘(Origin of Species)  ۱۸۸۹ء میں پہلی بار شائع ہوئی تو اس نے مغربی فکر و سائنس کی دنیا میں ایک انقلاب برپاکردیا ۔۱۶ سیّد مودودی اس کتاب کے بارے میں لکھتے ہیں:

اس نے ایک ایسے طریق استدلال سے، جو انیسویں صدی کے سائنٹی فک دماغوں کے نزدیک استدلال کا محکم ترین طریقہ تھا، اس نظریے پر مہر تصدیق ثبت کردی کہ کائنات کا کاروبار خدا کے بغیر چل سکتاہے۔ آثار و مظاہر فطرت کے لیے خود فطرت کے قوانین کے سوا کسی اور علّت کی حاجت نہیں۔ زندگی کے ادنیٰ مراتب سے لے کر اعلیٰ مراتب تک موجودات کا ارتقا ایک ایسی فطرت کے تدریجی عمل کا نتیجہ ہے جو عقل و حکمت کے جوہر سے عاری ہے۔ انسان اور دوسری انواع حیوانی کو پیداکرنے والا کوئی صانع حکیم نہیں ہے، بلکہ وہی ایک جان دار مشین، جو کبھی کیڑے کی شکل میں رینگا کرتی تھی، تنازع للبقا، بقاے اصلح اور انتخاب طبیعی کے نتیجے کے طور پر ذی شعور اور ناطق انسان کی شکل میں نمودار ہوگئی۔۱۷

قرآن کریم کی تفسیر کرتے وقت سیّد مودودی بار بار تخلیق انسانی کے قرآنی نظریے کی تشریح کرتے اور ڈارون کے نظریۂ ارتقا کا رد کرتے ہیں۔ سورۂ اعراف آیت ۱۱ کی تفسیر میں وہ تخلیق انسانی کے خدائی منصوبے کے مراحل بیان کرتے ہیں: ابتداے تخلیق، صورت گری اور پھر فرشتوں کو حکم کہ آدم کو سجدہ کریں۔۱۸  اس کے بعد وہ صراحت کرتے ہیں کہ تخلیقِ انسانی کے اس آغاز کو اس کی تفصیلی کیفیت کے ساتھ سمجھنا ہمارے لیے مشکل ہے۔ ہم اس حقیقت کاپوری طرح ادراک نہیں کرسکتے کہ موادِ ارضی سے بشر کس طرح بنایاگیا؟ پھر اس کی صورت گری کیسے ہوئی؟ اور اس کے اندر روح پھونکنے کی نوعیت کیاتھی؟:

لیکن بہرحال، یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ قرآن مجید انسانیت کے آغاز کی کیفیت ان نظریات کے خلاف بیان کرتا ہے، جو موجودہ زمانے میں ڈارون کے متبعین، سائنس کے نام سے پیش کرتے ہیں۔ ان نظریات کی رُوسے انسان، غیر انسانی اور نیم انسانی حالت کے مختلف مدارج سے ترقی کرتاہوا مرتبۂ انسانیت تک پہنچاہے، اور اس تدریجی ارتقاکے طویل خط میں کوئی نقطۂ خاص ایسا نہیں ہوسکتا جہاں سے غیر انسانی حالت کو ختم قرار دے کر ’نوع انسانی‘ کا آغاز تسلیم کیاجائے۔ بخلاف اس کے قرآن ہمیں بتاتاہے کہ انسانیت کا آغاز خالص انسانیت ہی سے ہوا ہے، اس کی تاریخ کسی غیر انسانی حالت سے قطعاً کوئی رشتہ نہیں رکھتی۔ وہ اوّل روز سے انسان ہی بنایا گیا تھا، اور خدا نے کامل انسانی شعور کے ساتھ پوری روشنی میں اس کی ارضی زندگی کی ابتدا کی تھی۔۱۹

سورۂ حجر میں تخلیق انسانی کے مراحل کا بیان اس طرح ہے:

وَاِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰۗىِٕكَۃِ اِنِّىْ خَالِقٌۢ بَشَرًا مِّنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ۝۲۸ فَاِذَا سَوَّيْتُہٗ وَنَفَخْتُ فِيْہِ مِنْ رُّوْحِيْ فَقَعُوْا لَہٗ سٰجِدِيْنَ۝۲۹ (الحجر ۱۵: ۲۸-۲۹)  پھر یاد کرو اس موقعے کو جب تمھارے رب نے فرشتوں سے کہا کہ ’’میں سڑی ہوئی مٹی کے سوکھے گارے سے ایک بشر پیداکررہاہوں۔ جب میں اسے پورا بناچکوں اور اس میں اپنی روح سے کچھ پھونک دوں تو تم سب اس کے آگے سجدے میں گر جانا‘‘۔

مولانا مودودی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ: ’’یہاں قرآن اس امر کی صاف تصریح کرتاہے کہ ’’انسان حیوانی منازل سے ترقی کرتاہوا بشریت کے حدود میں نہیں آیاہے، جیسا کہ ڈاروینیت سے متاثر مفسرینِ قرآن ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں، بلکہ اس کی تخلیق کی ابتدا   براہِ راست ارضی مادوں سے ہوئی ہے، جن کی کیفیت کو اللہ تعالیٰ نے صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُونٍ کے الفاظ میں بیان فرمایاہے‘‘۔ حمأ عربی زبان میں ایسی سیاہ کیچڑ کو کہتے ہیں جس کے اندر بُو پیدا ہوچکی ہو، یا بہ الفاظ دیگر خمیر اٹھ آیاہو۔ مسنون  کے دو معانی ہیں: ایک معانی ہیں متغیر، منتن اور املس، یعنی ایسی سڑی ہوئی مٹی جس میں سڑنے کی وجہ سے چکنائی پیداہوگئی ہو۔ دوسرے معانی ہیں مصور اور مصبوب، یعنی قالب میں ڈھلی ہوئی، جس کو ایک خاص صورت دے دی گئی ہو۔ صلصال اس سوکھے گارے کو کہتے ہیں، جو خشک ہوجانے کے بعد بجنے لگے۔ یہ الفاظ صاف ظاہر کرتے ہیں کہ خمیر اُٹھی ہوئی مٹی کا ایک پتلا بنایاگیا تھا، جو بننے کے بعد خشک ہوا اور پھر اس کے اندر روح پھونکی گئی‘‘۔۲۰ قرآن کی یہ صراحت اس نظریۂ ارتقا سے براہ راست متصادم ہے، جو ڈارون نے تخلیق کی ہے۔

زور آور ہی کے جواز کا   نظریہ

سیّد مودودی نے ترجمان القرآن محرم،صفر ۱۳۶۳ھ / جنوری ، فروری ۱۹۴۴ء میں ڈارون کے ’نظریۂ ارتقا‘ کی علمی اور عقلی حیثیت سے کم زوریاں واضح کیں اور ثابت کیا کہ فلسفے، اخلاق اور علوم تمدن واجتماع میں جب یہ تخیّل برگ و بار لایا تو اس نے انسان کو برباد کرنے کے لیے شدید فتنے پیداکیے۔ تمام انسان دشمن نظریات میں ڈاروینیت کی حیثیت سرتاج کی ہے۔ اس نظریے نے: ’’انسان کے سامنے پورے نظام کائنات کو ایک رزم گاہ کی حیثیت سے پیش کیاہے، اور اس کو بتایاہے کہ نزاع، جنگ اور کش مکش ہی اصل تقاضاے فطرت ہے۔ اس کش مکش میں جو  زورآور ہے وہی زندہ ، صالح اور کامیاب ہے اور جو کم زور ہے وہی غیر صالح ہے اور اس کا مٹنا اور  فنا ہوجانا قوانینِ فطرت کا ایک ایسا نتیجہ ہے جس کو برحق ہونا ہی چاہیے۔ آج یہ اسی طرزِ فکر کی ’برکات‘ ہیں کہ انسانی افراد سے لے کر طبقات، اقوام اور ممالک تک، سب کے سب دنیا کو حقیقت میں ایک رزم گاہ بنائے ہوئے ہیں اور فطرت کا تقاضا انھوں نے یہی سمجھا ہے کہ جو طاقت ور ہے  وہ کم زور کو فنا کردے۔۲۱

سیّد مودودی ’نظریۂ ارتقا‘ کو واقعہ اور حقیقت سے دور قرار دیتے ہیں۔ وہ اس کے علمی واستدلالی مرتبے کو چیلنج کرتے ہیں۔ان کا نقطۂ نظریہ ہے کہ علم الحیات کا مشکل ترین مسئلہ ،جس میں سائنس کے علما اُلجھ رہے ہیں ، وہ دراصل یہ سوال ہے کہ زندگی کا مبدأکیاہے؟ قرآن زندگی کا مبدأ،    حکم خداوندی کو قراردیتاہے ، لیکن مغرب کی نشاتِ ثانیہ کے بعد کے تمام فلاسفہ اور سائنس داں کسی   فوق الفطرت ہستی کی کارفرمائی اور کاری گری کو مسترد کرتے رہے ہیں۔ ان کی کوشش یہ رہی ہے کہ اس کارگاہِ فطرت کے اندر ہی انھیں اس کی کارفرما طاقت کا بھی کہیں سراغ مل جائے۔ اس کے نتیجے میں انھیں قیاس آرائیوں سے کام لینا پڑا۔ قیاس آرائی ہی سے انھوں نے اس سوال کو بھی سلجھانا چاہا کہ حیات میں اس تنوّع کی وجہ کیاہے؟ اور مختلف انواع کے درمیان تفاضل کا سبب کیاہے؟ سیّدمودودی کہتے ہیں کہ ڈارون نے اگر قرآن کے دیے ہوئے نقطۂ آغاز سے تحقیق و تجسّس کے سفر کی ابتداکی ہوتی تو وہ اس نتیجے پر پہنچتا کہ زندگی کی شکلوں میں تنوّع ، جو ایک بے نظیر ترتیب کے ساتھ واحد الخلیہ بھنگے(Unicellular Molecule) سے لے کر انسان تک میں نظر آرہاہے ، یہ ایک حکیم کے منصوبے کا نتیجہ ہے ، جو مختلف انواع کی زندگی کے لیے مناسب ماحول اور سازگار حالات فراہم کرنے کے بعد انھیں ان کی مخصوص نوعی خصوصیات کے ساتھ بتدریج وجود میں لاتا چلاگیاہے اور جن انواع کی ضرورت اس کے خاکے میں باقی نہیں رہی ہے انھیں مٹاتابھی رہاہے۔

قرآن کے نظریۂ ابتدئے تخلیق سے اعراض و انکار کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ: ’’یورپ نے، جو اس وقت تک اپنے الحاد کو پائوں کے بغیر چلارہاتھا، لپک کر [ڈارون کے] یہ لکڑی کے پائوں ہاتھوں ہاتھ لیے اور نہ صر ف اپنے سائنس کے تمام شعبوں میں، بلکہ اپنے فلسفہ و اخلاق اور اپنے علوم عمران تک میں ان کو نیچے سے نصب کرلیا۔ حالاں کہ علمی و عقلی حیثیت سے اس توجیہہ میں  اتنے جھول تھے اور ہیں کہ مشکل ہی سے کوئی صاف دماغ کا آدمی اس کو منظر(Phenomena) کی ممکن توجیہات میں ایک قابل لحاظ توجیہہ قرار دے سکتا ہے‘‘۔۲۲ سیّد مودودی کا یہ مضمون ترجمان القرآن کے ایک سنجیدہ قاری کے سوال کے جواب میں لکھاگیا تھا ،جو ’ڈارون کا نظریۂ ارتقا‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔۲۳

فلسفۂ جدلی مادیت

جدلی مادیت کا بانی ہیگل  (۱۷۷۰ء-۱۸۳۱ء) ہے، جس کا فلسفۂ تاریخ، تہذیب جدید کی گم راہیوں اور فکری و نظری فتنوں کا سر چشمہ ہے، سیّد مودودی کی دل چسپی اور مطالعے کا موضوع ان کے عہد نوجوانی میں بنا۔’ہیگل اور مارکس کا فلسفۂ تاریخ‘ ان کا وہ مضمون ہے جو ترجمان کے شمارے جمادی الاخریٰ ۱۳۵۸ھ؍ اگست ۱۹۳۹ء میں شائع ہوا۔

سیّد مودودی نے ہیگل کے فلسفۂ تاریخ کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے لکھاہے کہ: ’’انسانی تہذیب و تمدن کا ارتقا دراصل اضداد کے ظہور، تصادم اور امتزاج سے واقع ہوتاہے اور تاریخ کا ہردور ایک وحدت ، ایک کل اور ایک زندہ جسمانی نظام ہوتاہے۔ اس دور میں انسان کے سیاسی ، معاشی،تمدنی واخلاقی، علمی و عقلی اور مذہبی تصورات میں ایک ہم آہنگ کلّیت ہوتی ہے۔ جب   ایک دور ترقی کے آخری مدارج کو پہنچ جاتاہے اور اس دور کے اصول و نظریات اور افکار انسانی تہذیب و تمدن کو اپنی قوت و استعداد کی آخری حد تک پہنچادیتے ہیں، تب خود اسی دور کی آغوش سے پرورش پاکر نئے افکار و نظریات اسی رُوبۂ زوال کے طبیعی تقاضے سے پیداہوتے ہیں اور پرانے افکار سے لڑنا شروع کردیتے ہیں۔ایک مدت تک قدیم و جدید میں کش مکش جاری رہتی ہے، بالآخر کسر وانکسار کے بعد ایک نئی عنصری تہذیب وجود میں آتی ہے اور تاریخ کا دوسرا دور شروع ہوتا ہے۔ باہمی کش مکش کے نتیجے میں وجود میں آنے والے ارتقائی عمل کو ہیگل اپنی اصطلاح میں جدلی عمل (Dialectical Process) کہتاہے۔اس مسلسل منطقی مناظرہ و مجادلہ کے عمل میں دعویٰ (Thesis)، جواب دعویٰ (Antithesis) اور پھر ایک مرکب (Synthesis)کا ظہور اس فلسفے کی رُو سے  ایک کُلّی اجتماعی عمل ہے ،جس میں تاریخ کے بڑے سے بڑے آدمی ، نام ور ترین تاریخی اشخاص تک اس جدلی کھیل، اس کل کی کش مکش باخود میں شطرنج کے پیادوں سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ اس دریا کے طوفانی بہائو میں ’خیالِ مطلق‘ ایک شاہانہ شان کے ساتھ بے روک ٹوک تاریخ کی شاہراہ پر خود ہی ’دعویٰ‘ اورخود ہی ’جواب ِدعویٰ‘ اور بالآخر خود ہی ’امتزاج بین الاضداد‘ کرتاہوا بڑھتا چلاجارہاہے۔’عقلِ کُل‘ یا ’جانِ جہاں‘ کی ستم ظریفی یہ ہے کہ وہ اشخاص اور گروہوں کو اس غلط فہمی میں مبتلا کرتی ہے کہ اس تاریخی ڈرامے میں وہ رہ نمایانہ اور کارفرمایانہ پارٹ اداکررہے ہیں، حالاں کہ دراصل ’جانِ جہاں‘ انھیں خود اپنی تکمیل ذات کے لیے استعمال کررہی ہے‘‘۔۲۴

سیّد مودودی یہاںایک حاشیے کا اضافہ کرتے ہیں کہ: ہیگل دراصل خدا کو ’عقل کُل‘ (World Reason) ’جانِ جہاں‘ (World Spirit)، ’روحِ مطلق‘ (Absolute Spirit)اور ’فکرمطلق یا خیالِ مطلق‘(Absolute Idea)وغیرہ ناموں سے یاد کرتاہے۔ اس کے نزدیک انسانی تمدن کے ارتقا میں دراصل رُوحِ کل، یعنی ذات خداوندی خود ترقی کررہی ہے۔ خدا اس پر دے میں آپ اپنی نمایش کررہاہے، اپنی ذات کی تکمیل کے لیے کوشاں ہے، تاریخ کی شاہراہ پر مارچ کررہاہے۔رہا انسان تو وہ بے چارہ محض خارجی مظہر یا آلۂ کار کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ سیّد مودودی کہتے ہیں کہ کارل مارکس(۱۸۱۸ء-۱۸۸۳ء)نے ہیگل کے جدلی فلسفے کو تو تسلیم کرلیا ،مگر روح یا فکر کے تصور کی جگہ اس نے معاشی اسباب و محرکات کو دے دی۔۲۵

سَوَاءَ السَّبِیْل کی تفسیر

سیّد مودودی سورئہ مائدہ، آیت ۱۲ کی تفسیر کرتے ہیں تو سَوَاءَ السَّبِیْلِ‘ کی بڑی ایمان افروز تشریح کرتے ہیں ۔ زندگی کے بہت سے ٹیڑھے اور غلط راستوں کے درمیان ایک ایسی راہ جو بالکل وسط میں واقع ہو ، جس میں انسان کی تمام قوتوں اور خواہشوں کے ساتھ ، اس کے تمام جذبات و رجحانات کے ساتھ، اس کی روح اور جسم کے تمام مطالبوں اور تقاضوں کے ساتھ اور    اس کی زندگی کے تمام مسائل کے ساتھ پورا پورا انصاف کیاگیاہو۔ اسی کو قرآن صراط مستقیم اور  سَوَاءَ السَّبِیْلِ کہتاہے۔ یہ شاہراہ دنیا کی اس زندگی سے لے کر آخرت کی دوسری زندگی تک  بے شمار ٹیڑھے راستوں کے درمیان سے سیدھی گزرتی چلی جاتی ہے۔ جو اس پر چلا وہ یہاں راست رو اور آخرت میں کامیاب و بامراد ہے اور جس نے اس راہ کو گم کردیا، وہ یہاں غلط ہے، غلط رو اور غلط کار ہے اور آخرت میں لامحالہ اسے دوزخ میں جانا ہے۔ سیّد مودودی اس دل نشیں تفسیر کے بعد تبصرہ کرتے ہیں:

’’موجودہ زمانے کے بعض نادان فلسفیوں نے یہ دیکھ کر کہ انسانی زندگی پے درپے ایک انتہا سے دوسری انتہا کی طرف دھکّے کھاتی چلی جارہی ہے، یہ غلط نتیجہ نکال لیا کہ ’جدلی عمل‘ (Dialectical Process)انسانی زندگی کے ارتقا کا فطری طریق ہے۔ وہ اپنی حماقت سے یہ سمجھ بیٹھے کہ انسان کے ارتقا کا راستہ یہی ہے کہ پہلے ایک انتہا پسندانہ دعویٰ (Thesis)اسے ایک رُخ پر بہالے جائے، پھر اس کے جواب میں دوسرا ویسا ہی انتہا پسندانہ دعویٰ (Antithesis) اسے دوسری انتہا کی طرف کھینچے، اور پھر دونوں کے ’امتزاج‘ (Synthesis) سے ارتقاے حیات کا راستہ بنے ۔ حالاں کہ دراصل یہ ارتقا کی راہ نہیں ہے، بلکہ بدنصیبی کے دھکے ہیں، جو انسانی زندگی کے صحیح ارتقا میں بار بار مانع ہورہے ہیں۔ ہر انتہا پسندانہ دعویٰ زندگی کو اس کے کسی ایک پہلو کی طرف موڑتاہے اور اسے کھینچے لیے چلاجاتا ہے۔ یہاں تک کہ جب وہ  سَوَاءَ السَّبِیْلِ سے بہت دُور جاپڑتی ہے تو خود زندگی ہی کی بعض دوسری حقیقتیں، جن کے ساتھ بے انصافی ہورہی تھی، اس کے خلاف بغاوت شروع کردیتی ہیں، اور یہ بغاوت ایک جوابی دعوے کی شکل اختیار کرکے اسے مخالف سمت میں کھینچنا شروع کرتی ہے۔جوں جوں سَوَاءَ السَّبِیْلِ قریب آتی ہے، ان متصادم دعووں کے درمیان مصالحت ہونے لگتی ہے اور ان کے امتزاج سے وہ چیزیںوجود میں آتی ہیں، جو انسانی زندگی میں نافع ہیں۔ لیکن جب وہاں نہ سَوَاءَ السَّبِیْلِکے نشانات دکھانے والی روشنی موجود ہوتی ہے اور نہ اس پر ثابت قدم رکھنے والا ایمان ، تو وہ جوابی دعویٰ زندگی کو اس مقام پر ٹھیرنے نہیں دیتا، بلکہ اپنے زور میں اُسے دوسری جانب انتہا تک کھینچتا چلا جاتا ہے، یہاں تک کہ پھر زندگی کی کچھ دوسری حقیقتوں کی نفی شروع ہوجاتی ہے، اور نتیجے میں ایک دوسری بغاوت اُٹھ کھڑی ہوتی ہے۔اگر ان کم نظر فلسفیوں تک قرآن کی روشنی پہنچ گئی ہوتی اور انھوں نے سَوَاءَ السَّبِیْلِکو دیکھ لیاہوتا تو انھیں معلوم ہوجاتا کہ انسان کے لیے ارتقا کا صحیح راستہ یہی سَوَاءَ السَّبِیْلِ ہے ،نہ کہ خطِ منحنی پر ایک انتہا سے دوسری انتہا کی طرف دھکے کھاتے پھرنا‘‘۔۲۶

مارکس کی مادی تعبیرِ تاریخ

ہیگل کی جدلی مادیت کے فلسفے کو کارل مارکس نے معاشیات پر منطبق کیا اوروہ فلسفہ تراشا جسے تاریخی مادیت(Historical Materialism) کہا جاتاہے۔ سیّد مودودی نے اس معاشی جبریت کے فلسفے پر کاری ضرب لگائی۔ اس فلسفے کی تشریح کرتے ہوئے انھوں نے لکھا کہ: ’’مارکس کے نزدیک تاریخ کے دوران میں جدلی عمل اس طرح رونما ہوتاہے کہ جب ایک معاشی نظام کے تحت ایک طبقہ اسباب زندگی کی تیاری و فراہمی اور ان کی تقسیم پر قابض ہوکر دوسرے طبقوں کو اپنا دست نگر بنالیتاہے، تو رفتہ رفتہ ان دبے ہوئے طبقوں میں بے چینی شروع ہوجاتی ہے۔وہ معاشی پیداوار اور اسباب زندگی کی تقسیم اور ملکیتی تعلقات کے ایک نئے نظام کا مطالبہ کرتے ہیں، جو ان کے مفاد سے زیادہ مناسبت رکھتاہو۔اب دونوں میں کش مکش شروع ہوتی ہے اور اس کش مکش میں حاضر الوقت نظام کے قوانین، مذہب ، اخلاق اور تصورات کا پورا مجموعہ اسی نظام کی حمایت کرتاہے، جو اس دور میں پہلے سے قائم تھا۔ ایک مدت تک طبقاتی نزاع (class struggle) برپارہتی ہے۔ آخر کار اس نزاع کے نتیجے میں معاشی نظام بدل جاتاہے اور اس کے ساتھ ہی پرانے قانونی، مذہبی، اخلاقی اور فلسفیانہ تصورات کو بھی نئے تصورات کے لیے جگہ خالی کرنی پڑتی ہے‘‘۔۲۷

سیّد مودودی صراحت کرتے ہیں کہ کارل مارکس کی اس مادی تعبیر تاریخ میں انسانی تہذیب و تمدن کے ارتقا اور تاریخ کے تمام تغیرات کا محور اسباب ِمعیشت کی فراہمی اور تقسیم کے سوال کو قرار دیاگیاہے۔اس میں مذہب ، اخلاق اور انسانی تہذیب و تمدن کے لیے مستقل اور ازلی وابدی صداقتوں اور اصولوں کا انکار کیاگیاہے۔ خود غرضانہ کش مکش کو تقاضاے فطرت قرار دے کر باہم آویزش، قتال و فساد، کی معاشی توجیہہ کی گئی ہے اور انسانی تاریخ کے ارتقا کا بس یہی ایک راستہ بتایاگیاہے۔

سیّد مودودی صاف کہتے ہیں کہ جو لوگ [اس فکر پر مبنی] سوشلزم اور اسلام میں کوئی تضاد محسوس نہیں کرتے ہیں: ’’ان سے عرض کروں گا کہ ایک مرتبہ وہ مارکس کی مادی تعبیرِ تاریخ اور اس کے منطقی نتائج پر اچھی طرح غور کریں، اور پھر سوچیں کہ اس نظریے کو تسلیم کرنے کے بعد کسی شخص کے لیے اپنے آپ کو مسلمان کہنے کی کون سی گنجایش باقی رہ جاتی ہے؟ ہرشخص کو عقیدے کے انتخاب کا حق حاصل ہے۔ وہ اگر مارکسی نظریے کو صحیح سمجھتے ہیں تو اسے ضرور اختیار کریں، مگر انھیں کم از کم اپنے دماغ کو تو صاف رکھنا چاہیے‘‘۔۲۸

آگے چل کر وہ لکھتے ہیں:

اگر ہیگل اور مارکس نے قرآن کو پڑھا ہوتا، تو انھیں انسان کی حقیقت کو سمجھنے اور ارتقاے تہذیب انسانی کے اساسی قانون کو دریافت کرنے میں وہ ٹھوکریں نہ لگتیں، جو انھوں نے خود گمان اور قیاس کے تیر تکے لڑانے کی وجہ سے کھائی ہیں۔ قرآن کا علم الانسان اور فلسفۂ تاریخ ان تمام مسائل کو نہایت صحیح اور تشفی بخش طریقے سے حل کرتاہے، جن میں یہ لوگ اُلجھ کر رہ گئے ہیں۔۲۹

اس کے بعد سیّد مودودی بتاتے ہیں کہ قرآن کی رُو سے انسان محض اُس حیوانی وجود کا نام نہیں ہے جو بھوک ، شہوت، حرص، خوف،غضب وغیرہ داعیات کا محل ہے ، بلکہ دراصل انسان وہ روحانی وجودہے جو اس اوپر کے حیوانی خول کے اندر رہتا ہے اور اخلاقی احکام کا محل ہے۔ اسے دوسرے حیوانات کے برعکس عقل ، تمیز، اکتسابِ علم اور فیصلے کی قوتیں دے کر ایک حدتک خوداختیاری عطاکی گئی ہے۔ باہر کا حیوان اس اندرونی انسان کو خادم اور آلۂ کار کے طور پر دیاگیاہے۔ یہ خادم جاہل ہے اور اس کے پاس صرف جسمانی مطالبات اور خواہشات ہیں۔ یہ اندر کے انسان کو اپنا خادم اور آلۂ کار بناناچاہتاہے۔ اس طرح دونوں کے درمیان کش مکش ہوتی ہے اور پوری انسانی تاریخ اسی کش مکش کا مرقع ہے۔ باہر کا حیوان اندر کے انسان کو اپنا تابع بناکر ظلم و عدوان، فحشا و منکر، شہوت ولذتِ نفس کی راہ پر لگانا چاہتاہے۔ اس کی خاطر کچھ ٹیڑھے راستے بھی پیداکرلیتاہے، جیسے رہبانیت، ترکِ دنیا، نفس کشی اور فطری ضروریات سے انحراف، تمدن اور اجتماعی زندگی سے فرار وغیرہ۔

تاریخ کے دوران میں انسانی تہذیب و تمدن کا ارتقا ایک ایسے خطِ منحنی کی شکل میں ہوتا رہاہے جو بار بار ایک خطِ مستقیم کے گرد چکر کاٹتاچلاجاتاہے۔ اس فطری راستے کو قرآن نے صراطِ مستقیم، رشد ، ہدایت،سَوَاءَ السَّبِیْلِ اور سبیلِ ربّ وغیرہ سے تعبیر کیاہے۔ انسانیت ابتدا میں فطری حالت پر تھی، پھر انسانوں میں اپنی جائز حد سے گزرنے کے میلانات پیداہوئے:

وَمَا كَانَ النَّاسُ اِلَّآ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً فَاخْتَلَفُوْا  ط  (یونس ۱۰:۱۹)ابتداءً سارے انسان ایک ہی امت تھے، بعد میں انھوں نے مختلف عقیدے اور مسلک بنالیے۔

كَانَ النَّاسُ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً  ۝۰ۣ فَبَعَثَ اللہُ النَّبِيّٖنَ مُبَشِّرِيْنَ وَمُنْذِرِيْنَ ۝۰۠ وَاَنْزَلَ مَعَہُمُ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ لِــيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِـيْمَا اخْتَلَفُوْا فِيْہِ ۝۰ۭ وَمَا اخْتَلَفَ فِيْہِ اِلَّا الَّذِيْنَ اُوْتُوْہُ مِنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَتْہُمُ الْبَيِّنٰتُ بَغْيًۢا بَيْنَہُمْ۝۰ۚ فَہَدَى اللہُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لِمَا اخْتَلَفُوْا فِيْہِ مِنَ الْحَقِّ بِـاِذْنِہٖ ۝۰ۭ وَاللہُ يَہْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَـقِيْمٍ۝۲۱۳ (البقرہ۲: ۲۱۳)ابتدا میں سب لوگ ایک ہی طریقے پر تھے،(پھر یہ حالت باقی نہ رہی اور اختلافات رُونماہوئے)۔تب اللہ نے نبی بھیجے ،جو راست روی پر بشارت دینے والے اور کج روی کے نتائج سے ڈرانے والے تھے۔ اور ان کے ساتھ کتابِ برحق نازل کی، تاکہ حق کے بارے میں لوگوں کے درمیان جو اختلافات رونماہوگئے تھے،ان کا فیصلہ کرے۔ (اور ان اختلافات کے رُونما ہونے کی وجہ یہ نہ تھی کہ ابتدا میں لوگوں کو حق بتایا نہیں گیا تھا)___ اختلاف ان لوگوں نے کیا جنھیں حق کا علم دیاجاچکاتھا۔انھوں نے روشن ہدایات پالینے کے بعد محض اس لیے حق کو چھوڑکر مختلف طریقے نکالے کہ وہ آپس میں زیادتی کرنا چاہتے تھے___ پس، جو لوگ انبیا ؑپر ایمان لے آئے، انھیں اللہ نے اپنے اذن سے اس حق کا راستہ دکھادیا، جس میں لوگوں نے اختلاف کیاتھا۔ اللہ جسے چاہتاہے راہِ راست دکھادیتاہے۔

آگے سیّد مودودی صراحت کرتے ہیں کہ: ’’ہیگل جن کو ’دعویٰ‘ اور ’جواب دعویٰ‘ کہتاہے وہ وہی انتہا پسندانہ میلانات ہیں، جو کبھی خط مستقیم کے اِس طرف اور کبھی اُس طرف انسان کو کھینچ کرلے جاتے ہیں، اور وہ جسے ترکیب و امتزاج سے تعبیر کرتاہے، وہ بعینہٖ وہ نقطے ہیں، جہاں یہ خطِمنحنی صراطِ مستقیم کو کاٹتاہے۔ ہیگل اور مارکس دونوں کو تاریخ میں یہ خطِ منحنی تو نظر آگیا، مگر وہ اس خطِ مستقیم کو نہ دیکھ سکے، جو اَزل سے ابد تک سیدھا کھینچا ہواہے اور اس خطِ مستقیم کا علم صرف انبیا علیہم السلام کو حاصل تھا۔ انھوں نے اس سیدھے خط پر انسانی تہذیب کو عملاً قائم کرکے دکھادیا‘‘۔۳۰

مغربی تعلیم کا بنیادی نقص

سیّد مودودی کی تنقیدِ مغرب کا ایک اہم پہلو جدید نظام تعلیم اور اس کے اثرات کا تجزیہ ہے۔ ان کے یہ تنقیدی مضامین کتاب تعلیمات میں شامل ہیں۔ اگست۱۹۳۶ء میں ان کا معرکہ آرا مضمون ’ہمارے نظامِ تعلیم کا بنیادی نقص‘ ترجمان القرآن میں شائع ہوا ۔ یہ مضمون علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کورٹ کے سالانہ اجلاس اپریل ۱۹۳۶ء میں زیر بحث ایک اہم مسئلے کے سنجیدہ تجزیے پر مشتمل تھا۔ اے ایم یو کورٹ نے دینیات کے ناقص طرزِ تعلیم کی اصلاح اور طلبہ میں حقیقی اسلامی اسپرٹ پیداکرنے کی ضرورت پر مفصّل گفتگو کی تھی۔ سیّد مودودی نے جدید تعلیم کے بنیادی نقص پر انگلی رکھی اور کہا کہ دینیات کی کچھ کتابیں نصاب میں داخل کردینے سے یونی ورسٹی، مسلم یونی ورسٹی نہیں بن سکتی۔ یونی ورسٹی کے قیام کے بعد اس کے ناخدائوں نے ایک مرتبہ بھی محسوس نہیں کیا کہ ان کی اصلی منزلِ مقصود کیاتھی ؟اور ان کا رہرو پشت بہ منزل جا کدھر رہاہے؟ انھوں نے سخت تنقید کرتے ہوئے لکھا:

اس کے طلبہ اور ایک سرکاری یونی ورسٹی کے طلبہ میں کوئی فرق نہیں۔ اسلامی کیرکٹر ، اسلامی اسپرٹ ، اسلامی طرزِ عمل مفقود ہے۔ اسلامی تفکر اور اسلامی ذہنیت ناپید ہے۔ ایسے طلبہ کی تعدادشاید ایک فی صدی بھی نہیں جو اس یونی ورسٹی سے ایک مسلمان کی سی نظر اور مسلمان کا سا نصب العین لے کر نکلے ہوں، اور جن میں یونی ورسٹی کی تعلیم و تربیت نے یہ قابلیت پیداکی ہو کہ اپنے علم اور اپنے قواے عقلیہ سے کام لے کر ملت اسلامیہ میں زندگی کی کوئی نئی روح پھونک دیتے، یاکم از کم اپنی قوم کی کوئی قابلِ ذکر علمی و عملی خدمت ہی انجام دیتے۔۳۱

انھوں نے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے اربابِ حل وعقد کو ۱۹۳۶ء میں متنبہ کیا کہ جدید [غیرمنقسم] ہندستان میں ایک بالکل غیر متوقع اور ۱۸۵۷ء کے ہنگامے سے ہزار درجہ زیادہ خطرناک انقلاب آنے والا ہے۔ مسلمانوں کا پرانا جہاز، دورِ جدید کے کسی ہولناک طوفان کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ شاید ایک ہی تھپیڑے میں اس کے تختے بکھر جائیں‘‘۔۳۲پس، اب یہی وقت ہے کہ مسلمان پرانے جہاز سے بھی نکلیں اور کرایے کے جہاز سے بھی اتریں اور خود اپنا ایک جہاز بنائیں، جس کے آلات اور کُل پرزے جدید ترین ہوں، مشین موجودہ دور کے تیز سے تیز جہاز کے برابر ہو، مگر نقشہ ٹھیٹھ اسلامی جہاز کا ہو اور اس کے انجینیر اور کپتان اور دید بان سب وہ ہوں جو منزل کعبہ کی راہ و رسم سے باخبر ہوں‘‘۔۳۳

علی گڑھ تحریک کا وقتی مقصد ، سیّد مودودی کے الفاظ میں یہ تھا کہ مسلمان نئے دور کی ضروریات کے لحاظ سے اپنی دنیا درست کرنے کے قابل ہوجائیں اور تعلیم جدید سے بہرہ مندہوکر اپنی معاشی اور سیاسی حیثیت کو تباہی سے بچالیں اور ملک کے جدید نظم و نسق سے استفادہ کرنے میں دوسری قوموں سے پیچھے نہ رہ جائیں: ’’ مگر اس تحریک نے ایک حدتک ہماری دنیا تو ضرور بنادی، مگر جتنی دنیا بنائی، اس سے زیادہ ہمارے دین کو بگاڑدیا۔ اس نے ہم میں کالے فرنگی پیداکیے۔  اس نے ہم میں’اینگلو محمڈن‘ اور’اینگلو انڈین‘ پیداکیے اور وہ بھی ایسے جن کی نفسیات میں ’محمڈن‘ اور’انڈین‘ کا تناسب بس براے نام ہی ہے‘‘۔۳۴

سیّد مودودی نے مشورہ دیا کہ: ’’اگر فی الواقع علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کو مسلم یونی ورسٹی بناناہے تو :

                ۱-            مغربی علوم و فنون پر نظر ثانی کیجیے اور طلبہ کے سامنے انھیں تنقید کے ساتھ پیش کیجیے اور یہ تنقید خالص اسلامی نقطۂ نظر سے ہو ، تاکہ وہ ہر قدم پر ناقص اجزا کو چھوڑتے جائیں اور صرف کار آمد حصوں کو لیتے جائیں۔

                ۲-            علوم اسلامیہ سے متاخرین کی آمیزشوں کو الگ کیجیے اور اسلام کے دائمی اصول اور حقیقی اعتقادات اور غیر متبدل قوانین کی تعلیم دیجیے۔ ان کی اصل اسلامی اسپرٹ دلوں میں اتاریے اور ان کا صحیح تدبر دماغوں میں پیداکیجیے۔

                ۳-            اساتذہ میں سے جو ملحد اور مغرب زدہ ہیں، انھیں یونی ورسٹی سے رخصت کیجیے۔۳۵

 ایم اے او کالج امرتسر کے جلسۂ ’تقسیم اسناد‘ (قدیم اصطلاح کے مطابق ’جلسۂ دستاربندی‘) میں سیّد مودودی کو خطبہ دینے کی دعوت دی گئی ،تو اپنے خطبے میں فاضل مدبر نے بڑی صراحت اور سنجیدگی و دل سوزی کے ساتھ جدید تعلیمی اداروں کو ’قتل گاہ‘ قراردے دیا۔ انھوں نے اپنے خیالات کا صاف صاف اظہار کرتے ہوئے فرمایا:

دراصل میں آپ کی اس مادرِ تعلیمی کو اور مخصوص طور پر اسی کو نہیں، بلکہ ایسی تمام مادرانِ تعلیمی کو ’درس گاہ‘ کے بجاے ’قتل گاہ‘ سمجھتاہوں۔ میرے نزدیک آپ فی الواقع یہاں  قتل کیے جاتے رہے ہیں اور یہ ڈگریاں جو آپ کو ملنے والی ہیں، یہ دراصل موت کے صداقت نامے (Death Certificates) ہیں، جو قاتل کی طرف سے آپ کو اس وقت دیے جارہے ہیں، جب کہ وہ اپنی حد تک اس بات کا اطمینان کرچکاہے کہ اس نے آپ کی گردن کا تسمہ تک لگارہنے نہیں دیاہے۔ اب یہ آپ کی خوش قسمتی ہے کہ اس منضبط اور منظم قتل گاہ سے بھی جان سلامت لے کر نکل آئیں ۔ میں یہاں اس صداقت نامۂ موت کے حصول پر آپ کو مبارک باد دینے نہیں آیاہوں، بلکہ آپ کا ہم قوم ہونے کی وجہ سے جو ہمدردی قدرتی طور پر میں آپ کے ساتھ رکھتاہوں، وہ مجھے یہاں کھینچ لائی ہے۔ میری مثال اس شخص کی سی ہے جو اپنے بھائی بندوں کا قتل عام ہوچکنے کے بعد لاشوں کے ڈھیر میں یہ ڈھونڈتا پھرتا ہو کہ کہاں کوئی سخت جان بسمل ابھی سانس لے رہاہے‘‘۔۳۶

ضرورت ہے کہ سیّد مودودی کی تنقیدِ مغرب کا مطالعہ اس کے وسیع پس منظر میں کیا جائے اور سیاسیات، سماجیات اور معاشیاتِ مغرب پر ان کی وقیع تحریروں کو بھی موضوع گفتگو بنایاجائے۔

حواشی و مآخذ

۱-            برصغیر سے باہر عالم اسلام کے مختلف ملکوں میں مغربی فکر و فلسفہ اور نظام حیات کو جن مفکرین و مصلحین نے نشانۂ تنقید بنایا ان میں: مصر کے امیر شکیب ارسلان(۱۸۶۹ء-۱۹۴۶ء)،الجزائر کے امیر عبدالقادر (۱۸۰۷ء-۱۸۸۳ء)، ترکی کے بدیع الزماں سعید نورسی (۱۸۷۰ء-۱۹۶۰ء)، ایران کے ڈاکٹر علی شریعتی (۱۹۳۳ء-۱۹۷۷ء) اور آیت اللہ روح اللہ خمینی( ۱۹۰۲ء-۱۹۸۹ء) بہت اہم ہیں۔ اخوان المسلمون عالم عرب کی طاقت ور اور مؤثر ترین تحریک اسلامی بن کر ابھری۔ اس کے مؤسس حسن البنا شہید (۱۹۰۶ء-۱۹۴۹ء) اور مفکرسیّد قطب شہید (۱۹۰۶ء-۱۹۶۶ء) اور جمعیۃ العلماء المسلمین الجزائر کے بانی شیخ عبدالحمید بن بادیس (۱۸۸۹ء- ۱۹۴۰ء) نے مغربی استعمار کے خلاف منظم تحریکیں چلائیں اور اپنے زیر اثر علاقوں میں مسلمانوں کو مغرب کی فکری و علمی غلامی سے نکالا۔ مالک بن نبی (۱۹۰۵ء- ۱۹۷۳ء) نے فرانسیسی استعمار پر کاری ضرب لگائی۔

۲-            دیکھیے: پروفیسر خورشید احمد کا مضمون’سیّد مودودی :مفکر ، مصلح اور مدبر‘،ماہنامہ ترجمان القرآن لاہور،   ربیع الاول ۱۴۲۵ھ؍مئی ۲۰۰۴ء، ص ۱۸۷۔۲۳۲(اشاعت خاص ۲ ، بہ سلسلہ صد سالہ یوم ولادت   مولانا مودودی ۱۹۰۳ء-۲۰۰۳ء) مدیر اشاعت خاص : سلیم منصور خالد۔پروفیسر خورشید احمد نے اس مضمون میں سیّد مودودی کے علمی وتحریکی کاموں کے تین اہم پہلوئوں پر روشنی ڈالی ہے: (الف)فکر اسلامی کی تشکیلِ نو(ب) اُمت کی کم زوری اور زوال کے اسباب کا تعیین اور اصلاحِ احوال کے لیے خطوطِ کار کی نشان دہی(ج)اصلاح کے نقشے کے مطابق تبدیلی اور تعمیرِنو کی جدوجہد کا عملی آغاز۔ اوّلین پہلو کی مزید وضاحت ڈاکٹر محمود احمد غازی (۱۹۵۰ء-۲۰۱۰ء)کے مضمون’مولانا مودودی کی تنقیدِ مغرب‘ سے ہوتی ہے، اور وہ ہے فکر اسلامی کی تشکیل سے پہلے غیر اسلامی افکار و رجحانات پر تنقید و تطہیر۔ سیّد مودودی نے مغربی افکار و نظریات کا وسیع مطالعہ کیاتھا، لیکن جن پہلوئوں کا انھوں نے زیادہ گہرائی سے مطالعہ کیاتھا وہ پانچ تھے:(الف) سیاستِ مغرب(ب) معاشیاتِ مغرب(ج) مغربی قانون (د)مغربی فلسفہ (ہ)مغربی تاریخ اور فلسفۂ تاریخ۔دیکھیے: ابوالاعلٰی مودودی، علمی و فکری مطالعہ، مرتبین: رفیع الدین ہاشمی، سلیم منصور خالد، ادارہ معارف اسلامی لاہور، ۲۰۰۶ء، ص ۲۳۸-۲۵۷

۳-            دیکھیے: ڈاکٹر محمد عبدالحق انصاری (۱۹۳۱ء-۲۰۱۲ء)کا مضمون’کلامی مسائل میں مولانا مودودی کا موقف‘ تحقیقات اسلامی ، علی گڑھ، اپریل۔ جون ۱۹۹۷ء۔ فاضل مضمون نگار نے امام غزالی، ابن تیمیہ اور شاہ ولی اللہ دہلوی کے تجدیدی کارناموں کا مولانا مودودیؒ سے تقابل کیاہے۔ بعض پہلوئوں سے اسلاف کا علم کلام مودودی کی خدمات پر حاوی اور بھاری ہے، مگر مولانا مودودی کے افکار و عطیات کے بعض پہلو نئے ہیں اور اسلاف سے زیادہ وقیع اور قابل قدر ہیں، جیسے اسلام کے اجتماعی فکر کی تشکیل کی تفصیلات اور مغربی افکار و نظریات واقدار پر تنقید کا میدان، تفسیر میں تفہیم القرآن کی منفرد کاوش، وحی و نبوت کے تصورات کی وضاحت اور انبیا و رسل کے مشن کی تشریح اور اسلامی نظام زندگی کی دعوت و شہادت اور اقامت کے لیے ایک تحریک کا برپاکرنا۔

۴-            ’ہماری ذہنی غلامی اور اس کے اسباب‘کے عنوان سے مولانا مودودی کا یہ معرکہ آرا مقالہ پہلے ترجمان القرآن جمادی الاخریٰ ۱۳۵۳ھ؍ستمبر ۱۹۳۴ء میں شائع ہوا۔ بعد میں اسے مصنف کے مجموعۂ مضامین تنقیحات میں شامل کیاگیا۔ پیش نظر تنقیحات  کی اشاعت ۱۹۶۵ء ، ناشر:اسلامک پبلی کیشنز، لاہور، ص۶-۲۲

۵-            سیّد مودودی، اسلام اور جاہلیت(یہ مقالہ ۲۳ فروری ۱۹۴۱ء کو مجلسِ اسلامیات، اسلامیہ کالج پشاور کی دعوت پر پڑھاگیا۔) ماہ نامہ ترجمان القرآن، اپریل ۱۹۴۱ء

۶-            ایضاً ، ص۲۳                          ۷- ایضاً ، ص۲۶

۸-            ایضاً ، ص۲۶، ۲۷                 ۹-  ایضاً ، ص۲۷

۱۰-         سید قطب شہید، معالم فی الطریق،[جادہ و منزل: اُردو ترجمہ خلیل احمد حامدی] ۱۹۸۰ء، ص۷۴

۱۱-         ایضاً ، ص۱۵۳                       ۱۲- تنقیحات، اسلامک پبلی کیشنز، لاہور، ۱۹۶۵ء، ص ۱۱-۱۲

۱۳-         تنقیحات، ص۱۳،مولانا مودودی مثالیں دیتے ہیں۔ ڈیکارٹ (Descartes، م:۱۶۵۰ء) مغربی فلسفے کا باوا آدم سمجھاجاتاہے۔ وہ ایک طرف خدا کا زبردست قائل ہے، مگر دوسری طرف عالم طبیعیت کے آثار کی میکانکی توجیہہ کی ابتدا اسی نے کی اور اس طریق فکر کی بنیاد رکھی جو بعد میں سراسر مادہ پرستی (Materialism) بن گیا۔ ہابس(Hobbes،م: ۱۶۷۹ء) فوق الطبیعیت کی کھلم کھلا مخالفت کرتاہے اور کسی ایسی نفسی، روحی  یا عقلی قوت کا قائل نہیں جو مادی دنیا میں تصرف کرنے والی ہو۔ اسپائنوزا(Sponiza،م: ۱۶۷۷ء) سترھویں صدی میں عقلیت کا سب سے بڑا علَم بردار تصور کیاجاتاہے۔ اس نے مادہ، روح اور خدا کے درمیان کوئی فرق نہ رکھا۔ خدا اور کائنات کو ملاکر ایک کُل بنادیا اور اس کل میں خدا کے اختیارِ مطلق کو تسلیم نہ کیا۔ لایبنز(Leibniz،م: ۱۷۱۶ء) اور لاک(Locke، م:۱۷۰۴ء) خدا کے قائل تھے، مگر دونوں کا میلان نیچریت کی جانب تھا۔

۱۴-         تنقیحات،ص۱۴-۱۵      ۱۵-ایضاً،ص۱۵، ۱۷      ۱۶-ایضاً، ص ۱۶-۱۷                 ۱۷-ایضاً، ص ۱۷

۱۸-         قرآن کریم، سورہ اعراف۷:۱۱۔ وَلَقَدْ خَلَقْنٰكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلٰۗىِٕكَۃِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ (ہم نے تمھاری تخلیق کی ابتداکی، پھر تمھاری صورت بنائی،پھر فرشتوں سے کہا: آدم کو سجدہ کرو)۔ مولانا مودودی نے تخلیق آدم کے مراحل کی توضیح کے لیے درج ذیل آیات سے بھی استدلال کیا ہے: ص۷۱-۷۲،حجر:۲۸-۲۹،

۱۹-         سیّد مودودی،تفہیم القرآن، جلد دوم، ادارہ ترجمان القرآن ، لاہور ،ص۱۱              ۲۰-ایضاً، ص ۵۰۴

۲۱-         سیّد مودودی،تفھیمات، حصہ دوم، اسلامک پبلی کیشنز، لاہور، ڈھاکہ، نومبر ۱۹۶۸ء، ص ۲۸۴

۲۲-         تفھیمات، ص۲۸۰۔ سیّد مودودی علمی و عقلی حیثیت سے نظریۂ ارتقاء کی کج فہمی کو واضح کرتے ہوئے استدلال کرتے ہیں کہ اس نظریے کی حمایت میں تیار کردہ لٹریچر کی ساری بنیاد ’ہوگا‘ پر ہے (یعنی امکانات پر ہے، بجاے حقائق کے)، حالاں کہ سائنس میں اصل قابل اعتبار چیز ’ہے‘ ہے نہ کہ ’ہوگا‘۔ میں پوچھتاہوں کہ اگر سائنس میں ’ہوگا‘ بھی کوئی اہمیت رکھتا ہے تو ایک ’ہوگا‘ اور دوسرے ’ہوگا‘ میں فرق کیوں ہو؟ خصوصاً، جب کہ ایک ’ہوگا‘ دوسرے ’ہوگا‘ سے کچھ زیادہ ہی لگتاہوا ہوگا۔ جب آپ اس کے لیے تیار ہیں کہ مشہودات کی توجیہہ میں ’ہوگا‘ کو بھی مان لیں تو ڈارون کے ’ہوگا‘ سے میرا یہ ’ہوگا‘ کچھ زیادہ ہی لگتاہواہے کہ زندگی کا آغاز اور زندہ اشیا کا تنوع اور ان کا تفاضل سب کا سب ایک حکیم کے امر اور حکیمانہ تدبر سے ہوا ہوگا۔ میرا یہ ’ہوگا‘ ڈارون کے ’ہوگا‘ سے زیادہ بہتر طریقے پر تمام مشہودات کی توجیہہ کرتا ہے،کسی سوال کو لاجواب نہیں چھوڑتا۔ اور سب سے بڑھ کر اس کے حق میں وجہ ترجیح یہ ہے کہ  اُس طرف تو آدمی صداقت کے ساتھ ’ہوگا‘ سے زیادہ کچھ کہنے کے قابل نہیں ہے، مگر اس طرف بکثرت صالح ترین انسان ،جو کبھی جھوٹ بولتے نہیں پائے گئے، پورے زور کے ساتھ اس حقیقت کا دعویٰ کرچکے ہیں کہ ’ہے‘۔ تفھیمات، دوم،ص ۲۸۳۔

۲۳-         تفھیمات، دوم،جنوری، فروری ۱۹۴۴ء،ص۲۷۷-۲۸۴۔               ۲۴- ایضاً، ص۲۶۴-۲۶۵

۲۵-         قرآن کریم، سورۂ مائدہ۵:۱۲ کا آخری حصہ ہے: فَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ مِنْكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاۗءَ السَّبِيْلِ  (مگر اس کے بعد جس نے تم میں سے کفر کی روش اختیار کی تو درحقیقت اس نے سَوَآءَ السَّبِیْلِ گم کردی۔)

۲۶-         تفہیم القرآن ، جلد اوّل ،ادارہ ترجمان القرآن، لاہور، جنوری ۱۹۷۲ء، ص ۴۵۳-۴۵۴

۲۷-تفھیمات، دوم، ص ۲۶۶   ۲۸- ایضاً،ص۲۶۹            ۲۹-ایضاً،ص۲۷۲

۳۰-         ایضاً، ص۲۷۵، ۲۷۶۔یہاں فاضل مصنف نے درج ذیل آیت سے استدلال کیا ہے :  لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَہُمُ الْكِتٰبَ وَالْمِيْزَانَ لِيَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ (الحدید ۵۷:۲۵) (ہم نے اپنے رسولوں کو روشن دلیلیں دے کر بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان (ترازو) اُتاری، تاکہ لوگ عدل کے طریقے پر قائم ہوں۔)

۳۱-         تعلیمات، مکتبہ جماعت اسلامی ہند، رامپور، طبع دوم، مئی ۱۹۵۰ء، ص۹

۳۲-         ایضاً، ص ۱۶-۱۷                   ۳۳- ایضاً ،ص۱۷   ۳۴-  ایضاً،ص۱۸

۳۵-         تعلیمات، ص۲۰-۲۱۔ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کی ’مجلس اصلاح نصاب دینیات‘ نے سیّد مودودی سے ایک جامع نصاب بنانے کی گزارش کی ۔ اس کے جواب میں سیّدمودودی نے’مسلمانوں کے لیے جدید تعلیمی پالیسی اور لائحہ عمل‘ کے عنوان سے مضمون ترجمان القرآن میں شائع کیا۔ جس میں اسلامی تعلیمی پالیسی کی وضاحت کی اور اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے آٹھ تجاویز دیں۔ تفصیل دیکھیے: ص ۳۳-۴۳

۳۶-         سیّد مودودی، تفھیمات، دوم، ص ۲۸۶-۲۸۷

کتاب بے گناہ قیدی کیوں لکھی گئی ؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اس کے مصنف قانونی عدالت کے علاوہ عوامی عدالت میں بھی اپنا اور اپنے جیل کے ساتھی قیدیوں کا مقدمہ پیش کرنا چاہتے ہیں ۔ وہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ لوگ یہ دیکھ لیں کہ بھارت کی حکومتیں، پولیس، تفتیشی ایجنسیاں اور قانونی نظام کیسے دہشت گردی کے معاملات میں بے قصور ملوث کیے جانے والوں سے آنکھیں پھیر لیتا ہے۔یا بالفاظِ دیگر یہ نظام کیسے بے قصوروں کو جھوٹے معاملات ومقدمات میں ملوث کرنے میں پیش پیش رہتا ہے۔

ممبئی کے سلسلہ وار لوکل ٹرین بم دھماکوں ۱۱جولائی ۲۰۰۶ء کے مقدمے سے بَری ’بے گناہ قیدی‘ عبدالواحد شیخ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں؛’’ہم یہ بات شرح صدر کے ساتھ کہتے ہیں کہ ۱۱جولائی   بم بلاسٹ کیس میں گرفتار تمام قیدی بے گناہ ہیں۔ گذشتہ ۱۰ برسوں سے زائد عرصہ سے وہ قید و بند کی صعوبتیں بلا سبب برداشت کر رہے ہیں۔ ان کا گناہ صرف یہ ہے کہ وہ مسلمان ہیں‘‘ (ص ۸)۔ اس ملک کا ایک بہت بڑا طبقہ عبدالواحد شیخ کی اس بات کو تسلیم کرتا ہے، جن میں مسلمان ہی نہیں غیرمتعصب غیرمسلم بھی شامل ہیں۔ عبدالواحد شیخ تو ’۱۱جولائی مقدمے‘ سے بَری ہوگئے لیکن مکوکا (MCOCA) کورٹ نے ستمبر۲۰۱۵ء میں مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے ان ۱۲؍افراد کو ’ذمہ دار‘ قرار دیا ہے، جنھیں ان کے اعزہ و اقارب اور دوست احباب ہی نہیں، بلکہ ملک کی کئی غیر سرکاری تنظیمیں بشمول جمعیۃ العلماء مہاراشٹر (ارشد مدنی) بھی بے گناہ سمجھتی ہیں۔ واضح رہے کہ جمعیۃ العلماء مہاراشٹر کا ’شعبہ قانونی اُمور‘ گلزار اعظمی کی زیرقیادت دہشت گردی کے کئی بے معنی مقدمات میں قانونی جنگ کے محاذ پر ہے۔ ان بارہ ’بے گناہوں‘ میں سے پانچ کو پھانسی کی سزا سنائی گئی اور سات کو عمر قید۔

عبدالواحد شیخ کی ۴۵۹صفحات پر مشتمل کتاب ’ بے گناہ قیدی‘ حال ہی میں منظرِ عام پر آئی ہے۔ اسے نئی دہلی کے اسی اشاعتی ادارے[books@pharasmedia.com] نے شائع کیا ہے، جس نے مہاراشٹر کے مستعفی انسپکٹر جنرل آف پولیس ایس ایم مشرف کی محققانہ کتاب کرکرے کے قاتل کون؟ شائع کرکے اے ٹی ایس (اینٹی ٹیررازم اسکواڈ)کے سربراہ آنجہانی ہیمنت کرکرے کی موت میں سنگھی دہشت گردوں کو ملوث بتایا تھا۔ اسی طرح ۲۶نومبر کے ممبئی کے دہشت گردانہ حملوں کو ایک نیا تناظر فراہم کیا تھا۔

مصنف نے ’تمہید ‘کے عنوان سے تحریر کیا ہے:’’دل میں یہ بات تھی کہ ’۱۱جولائی کیس‘ میں جس طرح ہمیں پھنسایا گیا، اس بارے میں تفصیل سے لکھ کر عوام کو آگاہ کرنا ضروری ہے،تاکہ خدانخواستہ اگر مستقبل میں پولیس کسی بے گناہ پر بم بلاسٹ کا کیس ڈالے، تو وہ کس طرح ذہنی طور پر تیار ہوکر کورٹ کچہری کا مقابلہ کرے، تاکہ پولیس کے شر سے زیادہ سے زیادہ محفوظ رہے اور پہلے روز سے بے خوف ہوکر کورٹ میں اپنا دفاع کرسکے ۔ یہ کتاب اس مقصد سے لکھی گئی ہے‘‘۔ کتاب چھے ابواب میں منقسم ہے۔

پہلا باب ’پولیس کا افسانہ‘ کے عنوان سے ہے۔ اس باب میں ضمنی عنوانات کے تحت کھارسب وے (باندرہ )بلاسٹ ،جوگیشوری بلاسٹ ، بوریولی بلاسٹ اور میرا روڈ بلاسٹ کے حقائق اُجاگر کیے گئے ہیں۔ ’سرکاری دہشت گردی‘ کے ضمنی عنوان کے تحت اے ٹی ایس کی چارج شیٹ کا ذکر ہے۔ اس کے بعد اے ٹی ایس کی چارج شیٹ کے مطابق ’جھوٹی کہانی‘ کے  ضمنی عنوان سے چارج شیٹ کا تجزیہ پیش کیا گیا ہے ۔ چارج شیٹ میں ملزمان پر منصوبہ بند سازش کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ ان پراسٹوڈنٹس اسلامک موومنٹ آف انڈیا (SIMI) اور لشکرطیبہ اور پاکستان میں دہشت گردوں سے روابط کا الزام عائد کرکے دعویٰ کیا گیا ہے کہ ’پاکستان سے آنے والے دہشت گردوں کو فرار کرانے میں ملزمان کا کردار رہا ہے‘ ۔ چارج شیٹ سے منسلک ۱۲ ہزار سے زائد صفحات کو جوڑا گیا ہے۔ دوہزار سے زائد گواہوں کی فہرست شامل کی گئی ہے ۔ عبدالواحد شیخ تحریر کرتے ہیں ’’اے ٹی ایس پولیس کی یہ چارج شیٹ اور اس میں بیان کردہ کہانی سفید جھوٹ کے سوا کچھ نہیں ہے‘‘(ص ۱۹)۔ وہ سفید جھوٹ کی وضاحت کرتے ہوئے کئی سوال اٹھاتے ہیں،مثلاً یہ کہ پولیس کسی ایک بھی پاکستانی کو زندہ گرفتار کرنے میں کیوں کامیاب نہیں ہوئی؟

چارج شیٹ میں بارہ پاکستانیوں کے نام دیے گئے ہیں، جو دومہینے تک ملزمان کے ساتھ رہے اور بم بلاسٹ کرکے چلے گئے لیکن پولیس کسی کو نہیں پکڑسکی۔ انھوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ تمام تیرہ ملزمان نے عدالت کوزبانی اور تحریری طور پر یہ بتایا ہے کہ ہم سب بے گناہ ہیں اور اس کیس میں غلط طریقے سے پھنسائے گئے ہیں۔ پھر ان ملزموں نے اپنا کال ڈیٹا ریکارڈ اور اس کی لوکیشن کورٹ میں پیش کرکے بھی اپنی بے گناہی ثابت کی اور یہ بتایا ہے کہ بلاسٹ کے وقت وہ ممبئی میں نہیں بلکہ دوسرے شہروں میں تھے۔ سوال یہ ہے کہ ان کے مصدقہ کال ڈیٹا ریکارڈ اور لوکیشن پر کیوں اعتبار نہیں کیا گیا ؟ اسی طرح سوال یہ بھی ہے کہ پھر پُراسرار طریقے سے ملزموں کے موبائل فون کے کال ڈیٹا ریکارڈ کیوں غائب کردیے گئے ؟

 بہت سے سوالات کے ساتھ عبدالواحد نے جھوٹی گواہیاں گھڑنے اور پولیس کے ذریعے جھوٹے شواہد اور ثبوتوں کو جمع کرنے کے طریق کار پر بھی روشنی ڈالی ہے، اور یہ بتایا ہے کہ اے ٹی ایس نے ان گواہوں کو، جن کی گواہی سے اے ٹی ایس کے افسانے کی قلعی کھل جاتی،  کورٹ میں گواہی کے لیے بلایا ہی نہیں! پھر پولیس آج تک عدالت میں یہ ثابت نہیں کرسکی ہے کہ گرفتار ملزمان پابندی (ban) سے پہلے ایس آئی ایم (اسٹوڈنٹس اسلامک موومنٹ)کے ممبر تھے۔ اس باب میں ملزمان پر ٹارچر، دباؤ اور زوروجبر اور دھمکیاں دینے کا بھی ذکر ہے، اور ان حلف ناموں کا بھی، جو ملزمان نے دیے ہیں اور جن سے پولیس کا اصل چہرہ عیاں ہوکر سامنے آتا ہے ۔

دوسرے باب کا عنوان ’اقبالیہ بیان کی حقیقت‘ ہے۔ مصنف کا دعویٰ ہے کہ ’اعترافِ جرم‘ خود پولیس کے ہاتھوں تیار کیے جاتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں: ’’ڈی سی پی نے کچھ لکھے ہوئے، کچھ ٹائپ کیے ہوئے کاغذات ملزم کے سامنے بڑھادیے کہ دستخط کرو۔ کسی ملزم نے کہا کہ مجھے   پڑھنے دیا جائے تو ڈی سی پی نے انکار کردیا ور اے ٹی ایس والوں کو اشارہ کرکے کہنے لگا کہ     تم لوگوں نے اس کو ’برابر گرم‘ (ٹارچر) نہیں کیا ہے۔ پھر ملزم نے احتجاج کیا تو اسے بلیک میل کیا گیا: ’’تیرے بھائی کو اور تیری بیوی کو اٹھاکر لائے ہیں۔ اگر تم نے دستخط نہیں کیے تو تیرے گھر والوں کو بم بلاسٹ کے کیس میں گرفتار کرلیں گے ، یہ ہمارے لیے کچھ مشکل نہیں ہے اور دنیا کی کوئی طاقت ہمارا بال بیکا نہیں کرسکتی ‘‘۔ اس باب میں اس وقت کے ’اینٹی ٹیررازم اسکواڈ‘ کے سربراہ پی رگھوونشی کی مذموم سرگرمیوں کا بھی ذکر ہے۔

تیسرے باب کا عنوان ہے ’نان فکشن(حقیقی)‘۔ اس میں ’۱۱جولائی کیس‘ کے ملزمان کے وہ حلف نامے اور بیانات پیش کیے گئے ہیں، جن میں انھوں نے خود کو بے گناہ کہا ہے اور بتایا ہے کہ پولیس نے انھیں جھوٹے کیس میں پھنسایا ہے۔ ان حلف ناموں کا مطالعہ رونگٹے کھڑے کردیتا ہے۔ ایک مثال ملاحظہ کیجیے۔ کمال احمد انصاری کو کورٹ نے ’مجرم‘ قرار دیا ہے۔ کورٹ میں اس کا ۱۷جولائی ۲۰۱۲ء کا پیش کردہ حلف نامہ چونکانے والا ہے۔ ایک جگہ تحریر ہے؛’’مجھے اے ٹی ایس والوں نے تھرڈ ڈگری ٹارچر کرنے کے بعد لالچ دینا شروع کیا کہ ’تو اس جھوٹی کہانی کے لیے ہاں کردے، ’تجھے ہم چارلاکھ روپے دیں گے ، تو سرکاری گواہ بن جا۔‘ میں نے ان کو منع کیا تو   اے ٹی ایس والوں نے میرے ساتھی ملزموں کو روپے اور فلیٹ کا لالچ دیا اور اے ٹی ایس چیف کے پی رگھوونشی نے ڈرانا شروع کیا کہ ہم لوگ تمھارے گھروالوں کو بھی پھنسائیں گے‘‘۔(ص۱۲۶)

مصنف ایک ملزم ڈاکٹر تنویر انصاری کا بیان پیش کرتے ہیں:’’۲۱نومبر۲۰۰۶ء کو جیل افسر گووند پاٹل مجھے انڈابیرک سے نکال کر جیل سپرنٹنڈنٹ شریمتی سواتی ساٹھے کے آفس میں لے گیا۔ تھوڑی دیر بعد رگھوونشی وہاں آیا تو مجھے اس کے سامنے زبردستی بٹھایا گیا۔ رگھوونشی غصّے میں تھا، کیوںکہ میں نے اس کے بتائے ہوئے طریقے پر نہ چل کر کنفیشن [اعترافی بیان]کا انکار کردیا تھا۔ وہ مجھے سرکاری گواہ بناکر جلد جیل سے نکلنے کا مشورہ دیتا رہا۔ اس نے مجھے اور میرے گھر والوں کو گالیاں دیں۔ ’سوچ لو اور اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرلو‘۔ یہ کہہ کر وہ چلا گیا‘‘۔ (ص۱۴۵)

احتشام قطب الدین کے بیان میں حیرت انگیز طور پر ڈی جی ونجارا کا ذکر ملاحظہ کریں: ’’ایک افسر نے مجھ سے پوچھ تاچھ کی اور کہا: ’’ہم کسی مسلمان کو پکڑتے ہیں تو اس کو گولی سے اڑادیتے ہیں‘‘۔ مئی ۲۰۰۷ء میں اس افسر کا فوٹو میں نے اخبار میں دیکھا تو معلوم ہوا کہ وہ افسر گجرات اے ٹی ایس کا چیف ڈی جی ونجارا ہے، جو سہراب الدین کے فرضی انکاؤنٹر کیس میں گرفتار ہوا‘‘۔(ص۱۶۶)

اس باب میں اے سی پی ونود بھٹ کی سنسنی خیز خودکشی کا بھی ذکر ہے۔ ونود بھٹ نے احتشام سے یوں گفتگو کی: اگست ۲۰۰۶ء کے آخری ہفتے میں مجھے بھوئی واڑہ اے ٹی ایس لاک اَپ کی دوسری منزل پر، اے سی پی ونود بھٹ کے سامنے لے گئے۔ جو بات چیت ہوئی وہ اس طرح ہے:

ونود بھٹ: میں نے اس کیس کے سارے کاغذات کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ پایا ہے کہ تم اور دیگر گرفتار ملزم ’۱۱جولائی بم بلاسٹ‘ میں ملوث نہیں ہو۔

احتشام: ہم یہی کہہ رہے ہیں کہ ہم بے گناہ ہیں ۔ پھر ہمیں اس کیس میں کیوں گرفتار کیا گیا؟

بھٹ: اصل مجرم نہیں ملے اس لیے ۔

احتشام: یہ سب کس کے اشارے پر ہورہا ہے ؟

بھٹ: پولیس کمشنر اے این رائے اور اے ٹی ایس چیف کے پی رگھوونشی مجھ پر سخت دباؤ ڈال رہے ہیں کہ تمھارے خلاف بم بلاسٹ کیس کی جھوٹی چارج شیٹ تیار کرکے کورٹ میں داخل کروں۔

احتشام: کیا آپ ایسا کریں گے؟

بھٹ: نہیں ،حالانکہ وہ میری بیوی کو ایک کیس میں پھنسانے کی بات کررہے ہیں۔

احتشام: کیا ہم چھوٹ جائیں گے ؟

بھٹ: اللہ پر بھروسا رکھو۔ مرجاؤں گا لیکن بے گناہوں کو اس کیس میں نہیں پھنساؤں گا۔

اس واقعے کے کچھ دن بعد ونود بھٹ نے خودکشی کرلی ۔

چوتھا باب ’پولیس ٹارچر(تعذیب)‘ کے عنوان سے ہے ۔ اس باب میں ’چکّی کا پٹّہ‘ کا ذکر کرتے ہوئے بتایا گیا ہے، کہ جسمانی ٹارچر کے لیے پولیس سب سے زیادہ ’چکّی کے پٹّے‘ کا استعمال کرتی ہے۔ ہم نے اے ٹی ایس پولیس اسٹیشن میں جتنے ’پٹّے‘ دیکھے ہیں، ان پر یہ جملے ہندی زبان میں صاف طو رپر لکھے ہوئے تھے: (۱) سچ بول پٹّہ (۲) میری آواز سنو (۳) اندھا قانون (۴) یہاں پتھر بولتا ہے (۵) بولنے والا پٹّہ (بحوالہ ص۳۶۷)۔ ۱۸۰ڈگری ٹارچر، ننگا کرنا ، مخصوص اعضا پر بجلی کے جھٹکے، مقعد میں ٹارچر، آگ اور پانی کا عذاب، بالوں کا ٹارچر، سردی کا ٹارچر، نیند سے محروم کرنا، اکیلے بند کرنا، قتل کرنے کا ناٹک، حسیاتی بمباری اور گالیاں وغیرہ ٹارچر کے مختلف طریقے ہیں، جن پر کتاب میں بھرپور روشنی ڈالی گئی ہے (ص ۳۶۹ تا ۳۷۴)۔ ’جھوٹ بتانے والے ٹیسٹ‘ کے حقائق بھی اُجاگر کیے گئے ہیں۔

پانچواں باب ’انڈین مجاہدین‘ کے عنوان سے ہے۔ اس میں ’انڈین مجاہدین‘ نامی ایک پُراسرار تنظیم کا تذکرہ ہے۔ عبدالواحد شیخ نے جگہ جگہ کورٹ کے رویّے پر بھی سوال اٹھاتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ:’’ کورٹ میں بال کی کھال اُتاری جاتی ہے اور ہر دستاویز کو باریکی سے جانچ پرکھ کر قبول کیا جاتا ہے، تو پھر (دفاعی گواہ) صادق (اسرار احمد شیخ)کے نام کے حلفیہ بیان کو اس کے دستخط کے بغیر کورٹ نے کیسے قبول کیا؟ کورٹ نے صادق کو عدالت میں بلاکر یہ جاننے کی کوشش بھی نہیں کی کہ یہ بیان تمھارا ہے یا نہیں؟ اور تم نے اس بیان پر دستخط کیوں نہیں کیے ؟‘‘ (ص۴۰۰)

چھٹا باب ’پولیس اسٹیٹ‘ انتہائی اہم باب ہے۔اس باب میں جرمن بیکری بلاسٹ سے لے کر صحافی آشیش کھیتان کے اسٹنگ آپریشن، مالیگاؤں بم بلاسٹ ۲۰۰۶ء، اورنگ آباد اسلحہ ضبطی کیس، اورنگ آباد میں سابق فوجی کے گھر سے ہتھیار کی برآمدگی اور اکثردھام مندر حملہ تک، الگ ضمنی عنوانات سے مصنف نے یہ ثابت کیا ہے کہ بھارت پولیس اسٹیٹ میں تبدیل ہوگیا ہے۔   وہ لکھتے ہیں: ’’پولیس کی غیر قانونی حراست کے دوران کئی پولیس افسران نے ہم سے بار بار کہا کہ مسلمان ملک کے غدار ہیں‘‘۔ ’’پاکستان کے خالق، دہشت گردی کے جنم داتا اور وطن پر بوجھ ہیں‘‘۔ انسپکٹر کھانولکر ، ورپے اور دھامنکر اکثر کہتے تھے کہ: ’’ہمیں اتنی پاور حاصل ہے کہ ہم کسی بھی مسلمان کو کسی بھی وقت انکاونٹر میں مارسکتے ہیں، بم بلاسٹ میں گرفتار کرکے پھانسی دلاسکتے ہیں، زندگی برباد کرسکتے ہیں اور کوئی ہمارا بال بیکا نہیں کرسکتا۔ اور یہی کام ’۱۱جولائی کیس‘ میں ہوا ہے‘‘۔

یہ کتاب ان مسلمانوں کا، جو دہشت گردی میں گرفتار کیے گئے مگرجو خود کو بے گناہ قرار دیتے ہیں ،اور حقائق بھی ان کی بے گناہی کی توثیق کرتے ہیں، مقدمہ عوامی عدالت میں پیش کرتی ہے۔ کیا لوگ جاگیں گے اور انصاف کی فراہمی کے لیے آواز بلند کریں گے؟

کتاب کے مصنف ’آخری بات‘ کے زیرعنوان ایک جگہ لکھتے ہیں: ’’ملک کی موجودہ صورت حال میں اس کتاب میں لکھی ہوئی اکثر باتوں سے انکار یا اختلاف مشکل ہے۔ ہم بس اتنا چاہتے ہیں کہ اس جھوٹے کیس میں پھنسائے جانے کی وجہ سے ہم جس کرب سے گزرے ہیں، ملت کا دوسرا فرد اس سے نہ گزرے اور ملت کے علما و دانش وَر اس سلسلے کو روکنے کے لیے کوئی   لائحۂ عمل تیار کریں۔ خدارا ،کچھ کیجیے اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے‘‘۔ (ص۴۵۹)

سوال : آپ کے نزدیک اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا اور اہم مسئلہ کیا ہے اور اسے کس طرح حل کیا جاسکتا ہے؟

جواب :میرے نزدیک پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ تقریباً وہی ہے جو تمام مسلم ممالک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے اور وہ یہ ہے کہ لیڈرشپ آخرکار اسلام کو ماننے، سمجھنے اور اخلاص کے ساتھ اس پر عمل کرنے والوں کے ہاتھ میں آتی ہے ، یا ایسے ہی لوگوں کے ہاتھ رہتی ہے جو اسلام کا نام لیتے ہوئے یا کھلم کھلا اس کی مخالفت کرتے ہوئے، اپنی قوم کو بگٹٹ غیراسلامی راستے پر لے جانا چاہتے ہیں۔ اگر مستقبل قریب میں اس مسئلے کا فیصلہ پہلی صورت کے حق میں نہ ہوا، تو مجھے اندیشہ ہے کہ سارے مسلم ممالک سخت تباہی سے دوچار ہوں گے۔

بدقسمتی سے بیش تر مسلم ممالک میں جو لیڈرشپ قائم ہے، وہ کسی عنوان سے بھی مسلم عوام کے ضمیر سے مطابقت نہیں رکھتی۔ یہ حکومتیں اگر سو برس بھی زور لگائیں تو بھی مَیں ان سے توقع نہیں رکھتا کہ وہ مسلم عوام کے عقائد اور ان کے تصورات، تہذیب و تمدن اور ان کی اخلاقی قدروں کو تبدیل کرسکیں گی، اور یہ توقع بھی نہیں رکھتا کہ مزید سو برس میں وہ کسی دوسری تہذیب کی قدروں اور تصورات پر قوم کی تعمیرِ سیرت کرسکیں گی۔

اس ڈگر پر چلنے کا نتیجہ اس سے زائد کچھ نظر نہیں آتا کہ مسلمان قوم کی کوئی سیرت اور کردار نہ بن پائے اور اخلاقی اعتبار سے وہ بالکل دیوالیہ ہوجائے اور کوئی مادی ترقی بھی نہ کرسکے۔ ایک بے سیرت قوم خواہ کتنے ہی ذرائع و وسائل رکھتی ہو ، درحقیقت کوئی مادی ترقی نہیں کرسکتی اور کسی حکومت کی کوئی پالیسی خواہ وہ خارجی ہو یا داخلی، ایسی صورت میں کامیاب نہیں ہوسکتی، جب کہ پوری قوم کا ضمیر پورے اطمینان کے ساتھ اس کے ساتھ نہ ہو۔ اس لیے میں یقین رکھتا ہوں کہ تمام مسلمان ملکوں کے مستقبل کا انحصار صرف ایک صحیح قسم کی اسلامی لیڈرشپ پر ہے۔ خدانخواستہ اگر یہ قیادت میسر نہ آئی تو ہم سب کو بہت ہی بُرا دن دیکھنا پڑے گا۔


سوال : اس لیڈرشپ کو تیار کرنے کے لیے کس شعبے میں اصلاح درکار ہے؟

جواب :لیڈرشپ کسی ایک شعبے میں نہیں اُبھرا کرتی۔ اس کو زندگی کے ہر شعبے میں ظاہر اور نمایاں ہونا چاہیے۔ میرا خیال ہے کہ اگر مسلمان ملکوں میں جمہوری نظام کو نشوونما پانے کا موقع مل جائے، تو بالکل ایک فطری ارتقا کے طور پر مسلمان ملکوں میں اسلامی لیڈرشپ اُبھر آئے گی۔ مغرب زدہ طبقہ ہرمسلمان ملک میں ایک بڑی ہی محدود اقلیت رکھتا ہے۔ لیکن مغربی استعمار کی بدولت یہ اقلیت اقتدار کی وارث بن گئی ہے۔ یہ طبقہ اس بات کو جانتا ہے کہ اگر ان ملکوں میں جمہوریت کو کام کرنے کا موقع ملا، تو آخرکار اقتدا ان لوگوں کے ہاتھوں سے نکل جائے گا۔ اس لیے یہ طبقہ سازشوں کے ذریعے آمریت قائم کر رہا ہے اور جمہوریت کو اُبھرنے کا موقع نہیں دے رہا ہے۔


سوال : یہ صاف نظر آتا ہے کہ مسلمان جمہور خود اسلام کے راستے سے بہت دُور ہیں۔ انھیں اسلام سے جذباتی لگائو تو ہوسکتا ہے مگر غالباً تربیت کی کمی کی وجہ سے ان میں    وہ جوہر نظر نہیں آتا جو اسلامی لیڈرشپ کو جنم دے سکے، تو پھر جمہوری نظام قائم کرنے سے صالح قیادت کیسے بروے کار آسکے گی؟

جواب :ان دونوں کی حالت میں ایک بنیادی فرق ہے۔ عوام کی اخلاقی حالت یہ ہے کہ اگرچہ ان میں جہالت بھی بہت پھیلی ہوئی ہے، لیکن ان کی قدریں نہیں بدلیں۔ کسی بُرے سے بُرے اور بدکردار آدمی سے آپ بات کریں، تو تھوڑی دیر بعد آپ کو محسوس ہوجائے گا کہ اس کی قدریں (values) ابھی وہی ہیں، جو ایک مسلمان کی ہونی چاہییں۔ اپنی تمام بدکرداریوں کے متعلق اسے یہ تسلیم کرنے میں تامل نہ ہوگا کہ وہ جو کچھ کر رہا ہے بُرا کر رہا ہے، بُرائی کو بھلائی کہنے والے آدمی مسلم معاشروں میں آپ کو بہت ہی مشکل سے ملیں گے۔

اس کے برعکس مغرب زدہ طبقے کی قدریں تبدیل ہوگئی ہیں، اور ان کا فلسفۂ زندگی بدل گیا ہے۔ اسلام جن چیزوں کو بُرا کہتا ہے، وہ انھیں اچھا سمجھتے ہیں اور اسلام جن چیزوں کو نیکیوں سے تعبیر کرتا ہے، ان کی نگاہ میں ان چیزوں کی کوئی وقعت نہیں ہے۔ اسلامی روایات سے وہ منحرف ہوچکے ہیں بلکہ ان کی نگاہوں میں ان روایات کے لیے کوئی احترام نہیں ہے۔ ہماری یونی ورسٹیوں میں جو پروفیسر تعلیم دے رہے ہیں، ان میں سے اکثر اس خیال کے حامی ہیں کہ ’’انسانی تاریخ میں مسلمانوں نے کوئی قابلِ ذکر کارنامہ سرانجام نہیں دیا‘‘۔ ایسے استاد بھی ہماری درس گاہوں میں موجود ہیں جو فرائڈ کے نظریات کے مطابق انبیاے کرام ؑ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی   حیاتِ طیبہ کی تصریح فرماتے ہیں۔ اُونچے سرکاری مناصب پر بلاتامل ایسے لوگ رکھے جاتے ہیں، جو شراب اور سود کو حلال ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ رقص و سُرود کو اسلامی تہذیب و ثقافت کا حصہ قرار دیتے ہیں۔ ان لوگوں کے عقائد اور عوام کے درمیان کوئی بھی مماثلت نہیں۔ اگر اقتدار اسلامی ذہنیت رکھنے والوں کے ہاتھوں میں ہو تو مسلمان عوام کے انداز و اطوار کو بغیر کسی جبر کے، صرف چند برسوں میں بالکل تبدیل کیا جاسکتا ہے کیوں کہ ان کے رگ و ریشے میں اسلامی تصورات اور اقدار موجود ہیں، صرف ان کو اُبھار کر عملی شکل میں نمایاں کرنے کی ضرورت ہے۔


سوال : خدا کرے! آپ کا حُسنِ ظن درست ہو ، حالات تو ایسے نہیں۔

جواب : ذرانم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

اقامت ِ دین اور ظہورِ مہدی


سوال : کیا اقامت ِ دین ایک فرض ہے کہ جسے ہر زمانے اور ہر حال میں ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے؟ اور کیا قرآن و حدیث میں کہیں یہ بات ملتی ہے کہ ظہورِ مہدی سے قبل اسلامی نظام قائم ہوسکے گا؟

جواب : قرآن میں تو خیر ظہورِ مہدی کا سرے سے ذکر ہی نہیں کیا گیا ہے۔ البتہ احادیث میںاس کا ذکر ضرور آیا ہے، مگر وہ بس اسی حد تک ہے کہ مہدی آئیں گے اور دنیا کو، جو  ظلم سے بھر چکی ہوگی، عدل سے بھر دیں گے۔اس خوش خبری سے آخر یہ مطلب کیسے نکل آیا کہ جب تک وہ نہ آئیں، اس وقت تک دنیا ظلم سے بھرتی رہے اور ہم اس کا تماشا دیکھتے رہیں۔ شیاطین کے دین قائم ہوتے رہیں اور اللہ کا دین قائم کرنے کے لیے ہم امام مہدی کی تشریف آوری کے انتظار میں بیٹھے رہیں۔

یہ تعلیم نہ اللہ نے دی ہے، نہ اللہ کے رسولؐ نے، اور قرآن و حدیث میں یہ بھی کہیں نہیں کہا گیا ہے کہ امام مہدی کی آمد سے پہلے اللہ کا دین کبھی قائم نہ ہوسکے گا، یااسے قائم کرنے کی کوشش کا فریضہ مسلمانوں کے ذمے سے ساقط رہے گا۔ یہ بات ایک بشارت تو ضرور ہوسکتی ہے کہ آیندہ کسی زمانے میں کوئی ایسی عظیم شخصیت اُٹھے گی جو تمام عالم میں اسلام کا جھنڈا بلند کردے گی، مگر یہ کوئی حکمِ امتناعی نہیں ہوسکتا کہ ہم دنیا میں اللہ کا کلمہ بلند کرنے کے لیے کچھ نہ کریں۔

رہا یہ سوال کہ اقامت ِ دین فرض ہے یا نہیں؟ تو ایسا شخص جو قرآن و حدیث کو جانتا ہے، اس بات سے ناواقف نہیں ہوسکتا کہ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام سے لے کر سیّدنا محمدصلی اللہ علیہ وسلم تک جتنے انبیا بھی بھیجے ہیں، اپنا دین قائم کرنے کے لیے بھیجے ہیں۔ کوئی ایک نبی بھی لوگوں کو یہ سکھانے کے لیے نہیں بھیجا کہ وہ غیراللہ کا دین قائم کرنے والوں کے ماتحت بن کر رہیں۔ سورئہ شوریٰ دیکھیے، اس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سمیت تمام انبیاؑ کا فرض یہ بیان کیا گیا کہ: اَقِیْمُوْا الدِّیْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ ط ’’اس دین کو قائم کرو اور اس میں متفرق نہ ہوجائو‘‘۔ سورئہ توبہ، سورئہ فتح اور سورئہ صف میں دیکھیے تین مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد یہ بیان کیا گیا ہے کہ ہُوَالَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰي وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْہِرَہٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّہٖ’’وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ وہ پورے دین پر اسے غالب کردے‘‘۔ اب کون یہ کہنے کی جسارت کرسکتا ہے کہ اُمت مسلمہ کا مقصد وجود نبی برحق کے مقصد بعثت سے مختلف بھی ہوسکتا ہے؟(ہفت روزہ آئین)

سفرِ سعادت، مہر محمد بخش نول۔ناشر :بہاول چناب پبلشرز، ۹بی سی بغداد، بہاول پور۔ صفحات :۱۵۲۔ قیمت :۶۰۰ روپے ۔

 مؤ لف نے اپنے حرمین شریفین کے دو اسفار کی اس رُوداد ( ’عقیدت ومحبت کا سفر ‘)کو    غیر معمولی اہتمام اور کاوش کے ساتھ نہایت خوب صورت انداز میں شائع کیا ہے۔

سرکاری ملازمت سے سبک دوشی(۲۰۰۵ء ) کے بعد سفر عمرہ (۲۰۱۱ء) اور سفر حج وعمرہ (۲۰۱۳ء) کی یہ رُوداد ،بہاول پور سے شروع ہوتی ہے ۔ لکھتے ہیںـ: ’’حج کے لیے رقم نہیں تھی زادِ راہ تو ایک طرف، درخواست جمع کرانے کے لیے لاکھوں روپے کہاں سے آئیں گے، لیکن انسان جب نیت کر لے تو اللہ رحمان ہے، رحیم ہے، وہی اسباب اور راستے کھول دیتا ہے‘‘۔ (ص۱۱)

 مؤلف کا اسلوب رُوداد نویسی عام سفر ناموں سے خاصا مختلف ہے۔ مثلاً: مکہ مکرمہ پہنچ کر عمرے کی رُوداد مختصراً بیان کرنے کے بعد، وہ حال سے ماضی کی طرف پلٹتے ہیں ۔وادی بے آب وگیاہ میں حضرت ہاجرہ ؓ کی آمد ، آب زم زم ، بیت اللہ پر اَبرہہ کے حملے، مختلف زمانوں میں خانہ کعبہ کی تخریب وتعمیر ، اس کے ساتھ خانہ کعبہ کا مفصل تعارف (حطیم، میزاب ِ رحمت، اندرونی منظر اور چھت، رکنِ یمانی ، ملتزم، غلافِ کعبہ، حجرِ اسود ) میقات، دارِارقم ، نہر زبیدہ، دارالندوہ، جنت المعلّٰی ___ ان سب کی تفصیل بیان کرنے کے بعد، وہ مختلف ممالک کے حجاج کرام سے ملاقاتوں اور تبادلۂ خیال کی رُوداد بیان کرتے ہیں۔ یہ تاثرات بھی بہت دل چسپ ہیں۔ مدینہ منورہ پہنچ کر پھر اسی طرح حرم نبویؐ، مدینہ کے قابلِ ذکر مقامات ومساجد کی رُوداد ِ زیارت۔

سفر نامے میں نئی پرانی نادرونایاب تصاویر دی گئی ہیں اور مختلف مواقع اور مقامات کی دعائیں بھی۔ آیاتِ قرآنی اور ان کے ترجمے کا بھی اہتمام ہے۔ یہ ایک اچھی رہنما کتاب بھی ہے ۔ مؤلف کا ذوق جمال قابلِ داد ہے ۔ اسلوب سیدھا سادہ اور دل نشین ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)


تحصیل، مجلہ ۲، مدیر: معین الدین عقیل۔ ناشر : ادارہ معارف اسلامی، ڈی ۳۵، بلاک۵، فیڈرل بی ایریا، کراچی- ۷۵۹۵۰۔ فون: ۳۶۳۴۹۸۴۰-۰۲۱۔ (مجلاتی سائز) صفحات: اُردو ۱۹۸+ انگریزی۱۱۶ ۔

زیرتبصرہ مجلے پر کوئی راے دینے سے پہلے ایک اقتباس پیش خدمت ہے، جو ادارہ معارف اسلامی کراچی کے مؤسس سیّدابوالاعلیٰ مودودی کے خطبے سے لیا گیا ہے۔ یہ خطبہ انھوں نے اس ادارے کی تاسیس کے وقت بیان فرمایا تھا:

اس سلسلے میں یہ بات وضاحت طلب ہے کہ علمی تحقیقات کس نوعیت کی ہمیں مطلوب ہیں؟ ایک تو وہ ریسرچ ہے جومغربی محققین ہم کو سکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ ایک بے مقصد اور بے رنگ ریسرچ، محض ریسرچ براے ریسرچ ہے۔ مثلاً کتابوں کو ایڈٹ کرنا، ان کے مختلف نسخوں کا مقابلہ کرکے ان کی عبارتوں کے فرق کو پرکھنا اور مصنّفین کی سنینِ وفات و پیدایش کو جمع کرنا اور اسی قبیل کی جو ریسرچ ہے، وہ بے مقصد اور  بے معنی ریسرچ ہے۔ اس میں شک نہیں کہ یہ علوم و فنون میں مددگار ہوتی ہے، لیکن بجاے خود یہ وہ ریسرچ نہیں ہے جو کسی قوم کو زندگی کی حرارت عطا کرے، اور حیات کی حرکت پیدا کرے۔ یہ ٹھنڈی اور بے معنی ریسرچ ہے۔ اہلِ مغرب ایک ریسرچ اور کرتے ہیں۔ وہ محرک قسم کی ریسرچ ہے۔ وہ اس مقصد کے لیے ہے کہ اُن کے پاس وہ طاقتیں فراہم ہوں، کہ جوان کو دُنیا پر غالب کرسکیں۔(ماہ نامہ چراغِ راہ، کراچی، جون ۱۹۶۷ء، ص ۹)

اس اقتباس کی روشنی میں، ۳۱۴صفحات پر مشتمل زیرنظر مجلہ تحصیل کو دیکھیں تو کم و بیش مذکورہ ہدایت کے برعکس دکھائی دیتا ہے۔ جو چیز اس ادارے کی جانب سے پیش کرنا تھی، وہ اس مجلّے میں موجود نہیں، اور اگر موجود ہے تو اس کی سطح توقعات سے مناسبت نہیں رکھتی۔

یہ مجلہ ادبیات و سماجیات سے متعلق یونی ورسٹیوں اور کالجوں کے اساتذہ کے ’فارمولا ٹائپ‘ مقالات پر مشتمل ہے۔ مضامین کے عنوانات سے بلاتبصرہ مجلے کا رُخ سمجھنا آسان تر ہے: lگنجینۂ معنی کا طلسم، رنگا رنگ معنویت کی دریافت l سیّد علی رضا نقوی: لائق فارسی تذکرہ شناس اور فائق لُغت نگار lانیسویں صدی میں اُردو تاریخ گوئی l عبدالرحیم خان خاناں، ہندوتوا کا پرچار l گیان چند جین کی اَشک شناسی اور ناول گرتی دیواریں l  یاقوت l  فہرست نویسی نسخہ ہاے خطی فارسی l جامعات میں اُردو تحقیق، کچھ تسامحات، کچھ استدراکات l  انیسویں صدی کا ہندستان ، جدید مؤثر اسلامی تحریکات l تحفۃ الہند___ انگریزی میں: مسلم تہذیب کے زوال کے اسباب l  داؤ رہبر، ترکی میں اُردو کا پہلااستادl شہدا بالقسط l انگریزی اور پاکستانی کلچر lکیٹلاگ ، فارسی، عربی، سنسکرت۔

ادارہ معارف اسلامی، جو عالمِ اسلامی میں اقامت دین کی جدوجہد سے منسوب ادارہ ہے، اس کا ایک وقیع مجلہ اگر ایسے ہی مندرجات پر زورآزمائی کرے گا تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ مطلوب اور منسوب موضوعات پر تحقیق و تجزیہ کہاں ہوگا؟

زیرنظر مجلّے میں براہِ راست اسلامی تحریکات سے متعلق واحد مضمون کی سطح کو سمجھنا یا پرکھنا چاہیں تو دو مثالیں، پیمایش کے لیے کافی ہوں گی۔ لکھا ہے:’’جمال الدین [افغانی] کے دانش ور تلامذہ میں سے ایک حسن البنا بھی تھے، جنھوں نے ’اخوان الصفا‘ کی بنیاد رکھی‘‘ (ص ۱۸۳)۔ امرِواقعہ یہ ہے کہ جمال الدین افغانی کا انتقال ۱۸۹۷ء میں ہوا، اور حسن البنا کی پیدایش ۱۹۰۶ء میں۔ سوال   یہ ہے کہ البنا، افغانی کے شاگردوںمیں کیسے شمار ہوئے؟ اسی طرح ’اخوان الصفا‘ جیسی تصوف و فلسفہ سے منسوب جماعت کی تاسیس پانچویں صدی ہجری/۱۰ویں، ۱۱ویں صدی عیسوی میں ہوئی، جب کہ الاخوان المسلمون کا قیام ۱۹۲۸ء میں عمل میں آیا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ حسن البنا ۲۰ویں صدی عیسوی میں ہوش سنبھال کر، ۱۱ویں صدی میں کوئی تحریک قائم کرلیں؟ ظاہر ہے کہ یہ ادارتی تسامح ہے،    مگر مقالہ نگار نے بھی ’دادِ تحقیق‘ دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

اگر واقعی ’فارمولا تحقیق‘ کی اشاعت کا فیصلہ کرلیا گیا ہے، تو اعتراض کی گنجایش نہیں۔ بہرحال، مولانا مودودی نے اس ادارے کی تاسیس مختلف کام کے لیے کی تھی۔اور پھر پروفیسر خورشیداحمد نے بھی تاسیس کے وقت وضاحت فرمائی تھی: ’’ادارہ معارفِ اسلامی، علم و فکر کے میدان میں اسلام  کے دفاع اور اس کی ترجمانی کی کوشش کرے گا‘‘۔(ترجمان القرآن، اگست ۱۹۶۳ء، ص۴۷)

مجلے کا کاغذ سفید ، پیش کش خوب صورت اور اشاعت توجہ طلب ہے۔ (سلیم منصور خالد)

عسیلہ خاتون ، حیدرآباد، بھارت

عالمی ترجمان القرآن جون کا شمارہ نظرنواز ہوا۔ قصہ یہ ہے کہ میرے ایک رفیق کار نے مجھے  واٹس اَیپ مسیج کیا کہ تمھارے لیے ایک نایاب تحفہ بھیج رہا ہوں۔ میں نے پوچھا: وہ کیا ہے؟ انھوں نے کچھ بھی بتانے کے بجاے صرف یہ کہا کہ دو چار روز بعد دیکھ لیجیے گا۔ جب مجھے ڈاک ملی، لفافہ کھولا تو دیکھا جون ۲۰۱۸ءکا ترجمان تھا، سمجھ میں نہ آیا کہ یہ کس طرح کا تحفہ ہے۔ لیکن جب اس کے مشمولات کو دیکھا اور ’فلسطین میں قتلِ عام اور عالم اسلام‘ پر عبد الغفار عزیز کا مضمون پڑھا تو سچ پوچھیے دل کی کیفیت بدل گئی اور فورا ً رفیق کار کو     فون کرکے ان کا شکریہ ادا کیا۔یقینا یہ رسالہ معیاری اور اس کے موضوعات متنوع ہیں۔ نہ صرف دینی مضامین شامل ہیں، بلکہ جہان عالم کے مسائل کو بھی گہری نظر سے دیکھا گیا ہے۔ اس معلوماتی رسالے کے لیے مدیر محترم پروفیسر خورشید احمد کو مبارک باد پیش کرتی ہوں ۔


خان محمد رضوان ، دہلی، بھارت

عالمی ترجمان القرآن ، تحریک ِ اسلامی کا ایک مستند، معتبر اور معیاری ماہنامہ ہے جس میں دین و دنیا کے علاوہ عالمی مسائل بالخصوص عالمِ اسلام پر گہرے اور عمدہ مضامین ہوتے ہیں۔ پروفیسر خورشیداحمد کے ’اشارات‘ میں ہمیشہ اہم مسائل پر وقیع گفتگو کی گئی ہے۔ ترجمان کے مشمولات کے تنوع کی اقتدا تحریک کے دیگر رسائل کو بھی کرنی چاہیے۔

مئی کے شمارے میں ڈاکٹر عائشہ یوسف، محی الدین غازی، مسعود محبوب خان کے علاوہ سیّد عمر تلمسانی کا مضمون قیمتی حاصلِ مطالعہ ہے۔ اسی طرح جموں کے مسلمانوں، افتخار گیلانی اور کشمیر کے حالات پر ایس احمد پیرزادہ کے مضامین معلومات افزا ہیں۔ جون کے شمارے میں عبدالغفار عزیز کا مضمو ن آنکھیں کھولنے والا ہے۔ پھر   اسوئہ حسنہ، تزکیہ و تربیت، یادداشت اور دعوت و تحریک گوشے کے مضامین بھی بے حدعمدہ ہیں۔ ایس احمد پیرزادہ اور افتخار گیلانی کے مضمون پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ مضامین ، لوازے اور مشمولات واقعی ایک اچھے اور معیاری رسالے کی علامت ہیں۔ تاہم، احساس ہوتا ہے کہ ایسا رسالہ کچھ خاص قاری حضرات تک محدود رہتا ہے اور اُمت کے زیادہ تر افراد تک نہیں پہنچتا۔ اس لیے ارادی کوشش کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ زیادہ تر پڑھے لکھے لوگوں تک پہنچے۔


حکیم   سیّد  صابر   علی ، گجرات

شمارہ جون میں میاں طفیل محمد مرحوم کا مضمون تاریخی اعتبار سے ایک سند کا درجہ رکھتا ہے۔ عورت کے معاشی و سیاسی کردار پر افشاں نوید کی قابلِ قدر اور عمدہ تحریر ان لوگوں کے لیے رہنمائی کا سامان فراہم کرتی ہے، جو باپردہ خواتین کے لیے اجتماعی زندگی میں گنجایش نہیں پاتے، مگر اشفاق پرواز کی تحریر دوسرا رُخ پیش کررہی ہے۔ گذشتہ چند ماہ سے بھارت اور مقبوضہ کشمیر سے زیادہ تحریریں شامل اشاعت ہیں، جس پر ذہن میں سوال ضرور پیدا ہوا ہے۔ [قرآن و سنت کی روشنی میں اُمت کے مفاد اور انسانیت کی فلاح کے لیے دُنیا کے کسی بھی حصے سے، اگر کوئی معیاری اور بامعنی تحریر ملے گی تو ہمیں اس کی اشاعت میں ہچکچاہٹ نہیں ہوگی۔ سرحدیں، علم کے بہائو میں رکاوٹ نہیں ڈالتیں، تاہم موقف اور نقطۂ نظر کے حوالے سے احتیاط برتنے کی حتی المقدور کوشش کی جاتی ہے۔ س م خ۔]


مولانا شمس احمد  ، سخاکوٹ، مالاکنڈ

الحمدللہ، اس وقت عالمی ترجمان القرآن دینی ابلاغ، علمیت اور ادبیت کی بلندیوں کو چھو رہا ہے، خاص طور پر مارچ، اپریل کے شمارے تو عالی شان مقام رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اسے رُشد و ہدایت کا ذریعہ بنائے، آمین!


محمد رؤف صابر ،گجرات

شمارہ جون میں عبدالغفار عزیز نے اہل فلسطین کے قتل عام پر امت کی عمومی بے حسی پر گرفت فرمائی ہے۔ یہودیوں کو اندازہ ہو گیا کہ ملت مرحومہ میں شاید اب کوئی زندگی کی حرارت باقی نہیں رہی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اُمت کے اندر نہ تو صلاحیت کی کمی ہے اور نہ ایثارو قربانی کے جذبے ماند پڑے ہیں، بس قیادت کی کمی ہے۔ اُمت مسلمہ اس صاحب ِ ایمان، جرأت مند اور دُوراندیش قیادت کی منتظر ہے!


رضی الدین سیّد  ، کراچی

مئی ۲۰۱۸ء کے شمارے میں عامرہ احسان نے ’نسوانیت کی خودکشی‘ میں سچی منظرکشی کرکے مضمون کو حددرجہ پُرتاثیر بنا دیا ہے۔ مزید یہ کہ جدید دور کی عورت کی بے بسی کو بڑے کرب اور دُکھ کے ساتھ آشکار کیا ہے۔


ڈاکٹر چودھری عبدالرزاق ، جہلم

’حسن البنا سے پہلی ملاقات (مئی ۲۰۱۸ء) سبق آموز بھی ہے اور ایمان پرور بھی ۔ اسی طرح عامرہ احسان کی سوزوگداز میں ڈوبی تحریر تو خواتین میں بڑے پیمانے پر پھیلانے کا تقاضا کرتی ہے۔


راجا محمد عاصم ، موہری شریف، کھاریاں

’امریکی درندگی کی علامت ابوغریب‘ از ٹارامیک کیلوی (مئی ۲۰۱۸ء) میں ابوغریب جیل میں قیدیوں پر ڈھائے جانے والے انسانیت سوز مظالم کی نشان دہی کرکے امریکی حکام کی ظالمانہ ذہنیت کی تصویر کو واضح طور پر پیش کیا گیا ہے۔ اسی طرح ہلال احمدتانترے کے مضمون ’تنہائیوں میں پسے بزرگ‘ میں خصوصی توجہ دلاکر اہم خدمت انجام دی گئی ہے۔

عبرت کی نشانیاں

طالب حق لوگوں کے لیے تو خدا کی زمین پر ہر طرف نشانیاں ہی نشانیاں پھیلی ہوئی ہیں، جنھیں دیکھ کر وہ حقیقت کو پہچان سکتے ہیں۔ لیکن ہٹ دھرم لوگ کبھی کسی چیز کو دیکھ کر بھی ایمان نہیں لائے ہیں، نہ آفاق کی نشانیاں دیکھ کر اور نہ انبیا ؑ کے معجزات دیکھ کر۔ وہ تو ہمیشہ اُس وقت تک اپنی ضلالت پر جمے رہے ہیں، جب تک خدا کے عذاب نے آکر ان کو گرفت میں نہیں لے لیا ہے۔ اسی مناسبت سے ہٹ دھرمی [پر جمے] کفارِمکّہ [کو] چند باتیں ذہن نشین کرائی گئی ہیں:

اوّل یہ کہ نشانیاں دو طرح کی ہیں: ایک قسم کی نشانیاں وہ ہیں جو خدا کی زمین پر ہر طرف پھیلی ہوئی ہیں، جنھیں دیکھ کر ہر صاحب ِ عقل آدمی تحقیق کرسکتا ہے کہ نبی جس چیز کی طرف بلا رہا ہے وہ حق ہے یا نہیں۔ دوسری قسم کی نشانیاں وہ ہیں جو فرعون اور اس کی قوم نے دیکھیں، قومِ نوح نے دیکھیں، عاد اور ثمود نے دیکھیں، قومِ لوط اور اصحاب الایکہ نے دیکھیں۔ اب یہ فیصلہ کرنا خود کفّار کا اپنا کام ہے کہ وہ کس قسم کی نشانی دیکھنا چاہتے ہیں۔

دوم یہ کہ ہر زمانے میں کفّار کی ذہنیت ایک سی رہی ہے۔ ان کی حجتیں ایک ہی طرح کی تھیں۔ ان کے اعتراضات یکساں تھے۔ ایمان نہ لانے کے لیے ان کے حیلے اور بہانے یکساں تھے اور آخرکار ان کا انجام بھی یکساں ہی رہا۔ اس کے برعکس ہر زمانے میں انبیاء ؑ کی تعلیم ایک تھی۔ ان کی سیرت و اخلاق کا رنگ ایک تھا۔ اپنے مخالفوں کے مقابلے میں ان کی دلیل و حجت کا انداز ایک تھا۔ اور ان سب کے ساتھ اللہ کی رحمت کا معاملہ بھی ایک تھا۔ یہ دونوں نمونے تاریخ میں موجودہیں اور کفّار خود دیکھ سکتے ہیں کہ ان کی اپنی تصویر کس نمونے سے ملتی ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں کس نمونے کی علامات پائی جاتی ہیں۔

تیسری بات جو بار بار دُہرائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ خدا زبردست ، قادر و توانا بھی ہے اور رحیم بھی۔ تاریخ میںاس کے قہر کی مثالیں بھی موجود ہیں اور رحمت کی بھی۔ اب یہ بات لوگوں کو خود ہی طے کرنی چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو اس کے رحم کا مستحق بناتے ہیں یا قہر کا۔

[سورۂ شعراء کے] آخری رکوع میں کہا گیا ہے کہ تم لوگ اگر نشانیاں ہی دیکھنا چاہتے ہو تو آخر وہ خوفناک نشانیاں دیکھنے پر کیوں اصرار کرتے ہو جو تباہ شدہ قوموں نے دیکھی ہیں۔ اس قرآن کو دیکھو جو تمھاری اپنی زبان میں ہے۔ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھو۔ ان کے ساتھیوں کو دیکھو۔ ضدّم ضدّا کی بات دوسری ہے ، مگر اپنے دلوں کو ٹٹول کر دیکھو کہ وہ کیا شہادت دیتے ہیں۔ اگر دلوں میں تم خود جانتے ہو کہ کہانت اور شاعری سے اس کا کوئی دُور کا واسطہ بھی نہیں ہےتو پھر یہ بھی جان لو کہ تم ظلم کر رہے ہو اور ظالموں کا سا انجام دیکھ کررہو گے۔ ([سیّدابوالاعلیٰ مودودی] ماہنامہ ترجمان القرآن، جلد۵۰، عدد۴، شوال ۱۳۷۷ھ/ جولائی ۱۹۵۸ء،ص ۱۶-۱۷)

دو مختلف نظاموں میں کچھ چیزیں مشترک ہوتے ہوئے بھی، وہ الگ الگ نظام ہوتے ہیں۔ ان دونوں نظاموں کی تفصیلات کا جائزہ لیتے ہوئے ان میں بیش تر چیزیں ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہوں، مگر اس کے باوجود ہم انھیں ایک نظام نہیں کہہ سکتے۔ دو مختلف نظاموں کا کسی ایک یا چند اُمور میں ایک دوسرے سے متفق ہو جانا بھی کبھی اُن کے ایک ہونے کی دلیل قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہی حال اسلام اور مغربی جمہوریت کا ہے۔

اس ضمن میں یہ چیز ذہن نشین رہے کہ کسی نظام کا اصل جوہر طریق نہیں بلکہ وہ اصولی و مقصدی روح ہوتی ہے، جو اُس کے اندر جاری و ساری رہتی ہے اور اسی روح کے متعلق ہم حکم لگاسکتے ہیں۔

ان گزارشات کے بعد اب آپ مغربی جمہوریت اور اسلامی جمہوریت کے فرق پر غور فرمائیں:

(الف) مغربی جمہوریت میں حاکمیت جمہور کی ہوتی ہے اور اسلام میں حاکمیت اللہ تعالیٰ کی تسلیم کی جاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مغربی جمہوریت میں کسی چیز کے حق و ناحق کا فیصلہ کرنے کا آخری اختیار اکثریت کو حاصل ہے ، مگر اسلام میں یہ حق صرف باری تعالیٰ کو پہنچتا ہے، جس نے اپنا آخری منشا    نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے دنیا پر واضح فرما دیا۔ یہ اختلاف کوئی معمولی نہیں بلکہ اس کی بنا پر یہ دونوں نظام بنیادوں سے لے کر کاخ و ایوان تک ایک دوسرے سے مختلف ہوجاتے ہیں۔

(ب) اسلامی جمہوریت میں خلافت ایک امانت ہے، جو ہرمسلمان کو سونپی جاتی ہے، اور تمام مسلمان محض انتظامی سہولت کے لیے اُسے ارباب حل و عقد کے سپرد کردیتے ہیں۔ مغربی جمہوریت میں اصحابِ اقتدار صرف اپنی پارٹی [یا منتخب ایوان] کے سامنے جواب دہ ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس اسلامی ریاست میں عوام کے نمایندے خدا اور خلق دونوں کے سامنے جواب دہ ہیں۔

(ج) یہ عرض کر دینا بھی ضروری ہے کہ اسلامی نظام صرف ایک طریق انتخاب تک محدود نہیں ہے بلکہ زندگی کے سارے معاملات میں اپنا ایک مخصوص نقطۂ نظر اور زاویۂ نگاہ پیش کرتا ہے۔ اس کا مطالبہ یہ ہے کہ کتاب اللہ اور سنت رسولؐ اللہ کو آخری سند مان کر اپنی پوری انفرادی اور اجتماعی زندگی کو ان کے مطابق ڈھالا جائے___ پاکستان میں ’قراردادِ مقاصد‘ کے ذریعے اس اصول کو تسلیم تو کیا گیا ہے، مگر افسوس کہ  اس کے نفاذ کے راستے میں ہرطرح کی رکاوٹیں ڈالی جارہی ہیں۔ (’رسائل و مسائل‘ [پروفیسر عبدالحمید صدیقی]، ترجمان القرآن، جلد۴۹، عدد۳، ربیع الاوّل ۱۳۷۷ھ، دسمبر ۱۹۵۷ء،ص ۱۸۳-۱۸۴)