سیّد ابوالاعلیٰ مودودی


مسلم یا غیر مسلم سے قطع نظر محض ایک قوم ہونے کی حیثیت سے کسی قوم کے آزاد ہونے کا مطلب محض غیروں کی غلامی سے آزاد ہونا نہیں ہے‘ بلکہ اس لحاظ سے آزادی کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ ایک قوم کو خود اپنے معاملات چلانے کے اختیارات حاصل ہوں۔ ایک قوم خود یہ فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتی ہو کہ کن کے ہاتھوں میں وہ اپنے معاملات دے اور کن کے ہاتھوں میں نہ دے‘ اور یہ کہ جن کو وہ اس قابل نہ سمجھے انھیں وہ ہٹا سکے اور ان کی جگہ اپنے درمیان سے دوسرے لوگوں کو اُٹھا کر سامنے لاسکے۔ اس کو یہ آزادی حاصل ہو کہ اپنے ملک کے حالات کو جانے اور سمجھے۔ اس کو یہ آزادی حاصل ہو کہ اپنے ملک کے حالات کے بارے میں آزادانہ بحث مباحثہ کر کے رائے قائم کرے اور کوئی اس کے اس حق کو سلب نہ کر سکے۔ اس کی رائے ہوا میں      اُڑ جانے والی چیز نہ ہو‘ بلکہ اس کی رائے کا وزن ہو اور وہ ایک فیصلہ کُن چیز ہو۔

اس لحاظ سے آپ دیکھیں گے تو محسوس کریں گے کہ ۲۱ سال٭ کے دوران میں عملاً ایک دن کے لیے بھی آزادی ہمیں حاصل نہیں ہوئی۔ یہ آزادی آپ نے لڑ کر‘ اپنی جانیں دے کر اور اپنے مال قربان کر کے حاصل کی تھی۔ قاعدے کے مطابق یہ آزادی آپ کو انگریز سے منتقل ہوگئی تھی۔ لیکن دستوری طور پر وہ آپ کی مجلس دستورساز کے پاس رہن رہی۔ انگریزی اقتدار کے رخصت ہوجانے کے بعد یہ مجلسِ دستور ساز کا کام تھا کہ وہ آپ کے ملک کا دستور بناکر اس آزادی کو عملی طور پر آپ کی طرف منتقل کرتی۔ یہ آزادی نو سال تک اس کے پاس رہن رہی۔ نوسال کے بعد ۱۹۵۶ء میں فکِّ رہن ہوا۔ لیکن عملاً آپ اس وقت تک اس آزادی کو استعمال نہیں کر سکتے تھے جب تک ملک میں عام انتخابات نہ ہوجاتے۔ جب عام انتخاب سے اسمبلی وجود میں آتی تو عملاً آپ کی آزادی آپ کو منتقل ہوجاتی۔ اس کے بعد اگر آپ کے نمایندے آپ کی مرضی کے مطابق کام کرتے تو انھیں آپ کی تائید حاصل رہتی لیکن اگر وہ آپ کی مرضی کے مطابق کام نہ کرتے تو دوسرے انتخاب میں آپ ان کو ہٹا دیتے اور زیادہ بہتر اور اہل تر آدمیوں کو منتخب کرتے لیکن جیسا کہ آپ جانتے ہیں‘ اس طریق کار کے آغاز کی نوبت ہی نہیں آنے دی گئی۔ انتخاب کی تاریخ مقرر ہوچکی تھی۔ فروری ۱۹۵۹ء میں انتخابات ہونے والے تھے لیکن قبل اس کے کہ وہ وقت آتا اور آپ ان کے ذریعے سے بحیثیت ایک قوم کے اپنی آزادی کو استعمال کرتے آپ کی اس آزادی کو اکتوبر ۱۹۵۸ء میں آپ سے چھین لیا گیا‘ اور اس کے بعد پونے چار سال تک ملک پر مارشل لا مسلّط رہا۔

اس طرح وہ آزادی جسے دستورساز اسمبلی سے آپ کی طرف منتقل ہونا تھا‘ مارشل لا کے نفاذ اور ۱۹۵۶ء کے دستور کی تنسیخ کی بدولت ختم ہوکر رہ گئی۔ ملک کی دستور ساز اسمبلی کے بنائے ہوئے آئین کو منسوخ کر کے مارشل لا کے دوران میں ایک اور دستور بنایا گیا‘ پھر مارشل لا کی حالت ہی میں انتخابات کرائے گئے‘ اور مارشل لا ہی کی حالت میں جب اس اسمبلی کا پہلا اجلاس منعقد ہوگیا‘ تب مارشل لا اٹھایا گیا۔ دوسرے الفاظ میں آپ کو اس وقت تک باندھے رکھا گیا جب تک نیا دستور آپ پر پوری طرح مسلّط نہ ہوگیا۔ یہ دستور آپ کے لیے آزادی کا پروانہ نہیں بلکہ مستقل طور پر غلام بنائے رکھنے کا بندوبست ہے۔ اس میں جیسی کچھ آزادی آپ کو ملی ہے اس کا اندازہ آپ اس سے کر سکتے ہیں کہ مجلسِ قانون ساز میں جو حضرات آپ کے نمایندے قرار دیے جاتے ہیں وہ بجٹ کے ۹۰ فی صد حصے بلکہ اس سے بھی زیادہ حصے کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کرسکتے۔ دوسرے الفاظ میں یوں سمجھ لیجیے کہ جتنا روپیہ آپ سے ٹیکسوں کے ذریعے وصول کیا جاتا ہے اس میں سے ۹۰ فی صد یا اس سے زائد پر آپ کے نمایندے کہلانے والے کسی فیصلے کے مجاز نہیں ہیں۔ اگر آپ سے ۱۰۰ روپے وصول کیے جاتے ہیں تو ۹۰ روپے یا اس سے زائد رقم کے متعلق آپ کے ’نمایندوں‘ کو یہ فیصلہ کرنے کا حق ہی نہیں ہے کہ اس رقم کا استعمال کیا ہو اور کیا نہ ہو۔ ظاہر بات ہے کہ یہ وہ آزادی نہیں ہے جو ایک قوم کو اپنے منتخب کردہ نمایندوں کے ذریعے اپنے معاملات چلانے کے لیے حاصل ہوتی ہے۔ پھر اسمبلیوں میں جن لوگوں پر آپ کے نمایندے ہونے کی تہمت رکھی جاتی ہے ‘کیا آپ ان کو براہِ راست یہ دیکھ کر منتخب کرتے ہیں کہ یہ ہمارے ملک کے معاملات کو چلانے کے اہل ہیں؟ نہیں‘ بلکہ گلی اور کوچے کے معاملات کے لیے جو آدمی موزوں ہو سکتا ہے آپ صرف اس کا انتخاب کر سکتے ہیں۔ ملک کے معاملات چلانے والوں کو آپ منتخب نہیں کر سکتے‘ ان کو وہ لوگ منتخب کرتے ہیں جنھیں آپ نے گلی کوچوں کے انتظام کے لیے چُنا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اپنے ملک کے معاملات پر براہِ راست اثرانداز ہونے کے حق سے آپ محروم کیے جا چکے ہیں۔

اب دیکھیے کہ آپ کی آزادی کو مُقید کرنے کے لیے کیا کیا تدبیریں اختیار کی جاتی ہیں۔ ہم نے انگریزی دور بھی دیکھا ہے اوربرسوں دیکھا ہے لیکن کبھی دفعہ ۱۴۴ کو اس کثرت سے استعمال ہوتے نہیں دیکھا۔ انگریز خود اس دفعہ کا موجد تھا لیکن اس کے خالق نے اپنی اس مخلوق کو کبھی اس طرح بے تحاشا استعمال نہیں کیا جس طرح آج اسے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح انگریزی دور میں پریس پر ایسی پابندیاںنہیں تھیں۔ اگرچہ وہی ان پابندیوں کا ایجاد کرنے والا تھا اور چاہتا تھا کہ پریس کو زیادہ سے زیادہ مقید رکھے۔ لیکن وہ بھی پریس کو اس حد تک مقید نہ کرسکا جس طرح وہ آج مقید ہے۔ اور ’پریس ٹرسٹ‘ کی بات تو انگریز کو بھی نہیں سُوجھی تھی۔

اسی طرح یہ بھی ایک امرواقعہ ہے کہ ضمیروں کی خرید و فروخت کا کاروبار کسی زمانے میں کبھی اتنا فروغ نہیں پا سکا جتنا اس زمانے میں پا رہا ہے۔ ایک خوشامدی اورضمیرفروش نسل تیار کی جا رہی ہے۔ صلاے عام ہے کہ ضمیربیچو اور لائسنس لو‘ رُوٹ پرمٹ لو‘ تمغے لے لو۔ اور اگر تمھارا ضمیر بِک نہیں سکتا تو تم یہاں خیر سے جی بھی نہیں سکتے۔

یہ جتنی چیزیں بھی ہیں ان میں سے کوئی چیز بھی ایک قوم کی حیثیت سے ایک ملک کے باشندوں کی آزادی کو برقرار رکھنے والی نہیں بلکہ اسے چھیننے والی ہے۔

آج ہمارا ملک ۲۰ ارب روپے کا مقروض ہے۔ ہمارا بال بال بیرونی قرضوں میں  بندھ چکا ہے۔ غیروںسے ہم نے جو آزادی حاصل کی تھی وہ اب پھر ان قرضوں کے ذریعے سے ان کی طرف منتقل ہوتی نظر آرہی ہے۔ کسی قوم کی آزادی ہرگز باقی نہیں رہ سکتی۔ اگر ہر وقت اس کے ہاتھ میں بھیک کا ٹھیکرا ہو اور وہ ہرقوم کے سامنے بھیک کے لیے ہاتھ پھیلاتی پھرے--- آپ دیکھیں کہ باہر سے کسی ملک کا وزیراعظم یا کوئی دوسرا سربراہ آتا ہے تو ہم پہلے ہی سے دنیا کو یہ بتانا شروع کر دیتے ہیں کہ اس کے آنے پر ہم اس سے یہ اور یہ مانگیں گے۔ ابھی اس نے ملک کے اندر قدم نہیں رکھا ہوتا اور یہاں پہلے سے یہ اسکیمیں سنا دی جاتی ہیں کہ جب ہمارے گھر میں یہ مہمان آئے گا تو ہم اس سے یہ یہ کچھ مانگیں گے۔ اسی طرح جب کبھی ہم باہر جاتے ہیں تو باہر جانے سے پہلے دنیا کو سنا دیتے ہیں کہ ہم یہ یہ کچھ مانگنے جا رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس قسم کے طرزعمل کے ساتھ کوئی قوم اپنی آزادی کی حفاظت کب تک کر سکتی ہے۔ جب عالم یہ ہو کہ ایک ایک چیز کے لیے ہاتھ پھیلایا جا رہا ہو اور بڑی بڑی اسکیموں کے لیے ہی نہیں بلکہ چھوٹی چھوٹی باتوں کے لیے بھی باہر سے روپیہ مانگا جا رہا ہو‘ ائرپورٹ بنانا ہو تو اس کے لیے باہر سے روپیہ آئے‘ ہوٹل بنانے ہوں تو اس کے لیے بھی باہر سے روپیہ لایئے‘ یونی ورسٹی کیمپس بنانا ہو تو اس کے لیے بھی باہر سے روپیہ لایئے‘ غرض ایک ایک چیز کے لیے الگ الگ روپیہ مانگا جا رہا ہو‘ تو اس کے بعد آزادی کب تک اور کیونکر باقی رہ سکتی ہے۔

اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ دنیا کی کوئی قوم اپنی آزادی کی حفاظت نہیں کر سکتی اگر اس نے اپنے آپ کو معاشی حیثیت سے غلام بنا لیا ہو۔ اور دنیا کی کوئی قوم ایسی آنکھ کی اندھی اور گانٹھ کی پوری نہیں ہے جو آپ کو روپیہ دیتی چلی جائے لیکن روپے کے بدلے میں اپنا کوئی مفاد حاصل نہ کرے۔ وہ مفاد آپ سے سود کی شکل میں بھی حاصل کرتی ہے اور وہ اپنے مفاد کے لیے آپ پر طرح طرح کی قیود بھی عاید کرتی ہے۔ وہ کہتی ہے کہ ماہرین ہمارے ہوں گے اور انھیں تم بھاری سے بھاری تنخواہ دو گے۔ مال ہم سے خریدنا ہوگا اور ہماری طے کی ہوئی قیمت پر خریدنا ہوگا‘ چاہے وہ چار گنا مہنگا ہی کیوں نہ ہو۔ اور نہ معلوم اندر ہی اندر کیا کیا پابندیاں عاید کی جاتی ہیں جن کی ہم کو خبر تک نہیں ہوتی‘ کیونکہ ہمیں سرے سے یہ حق ہی حاصل نہیں کہ ہم اپنے حکمرانوں سے یہ پوچھ سکیں کہ جناب‘ آپ دوسروں سے کیا معاملات کر رہے ہیں اور کن شرائط پر کر رہے ہیں۔

پشاور میں امریکا کو جاسوسی کا جو اڈا دیا گیا تھا‘ ایک طویل مدت تک ہمیں معلوم نہ ہوسکا کہ کب دیا گیا اور کن شرائط پر دیا گیا۔ چند سال قبل جب جاسوسی کے لیے امریکا کا یوٹو جہاز پشاور سے اُڑ کر روس گیا اور روس نے اس پر دھمکی دی کہ ہم پشاور کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے‘ تب ہم کو پتا چلا کہ ہمارے ملک میں ایک غیر ملک کا جاسوسی کا اڈا بھی ہے۔ دوسرے الفاظ میں اگرہمیں بیچ بھی ڈالا جائے تو ہمیںاس وقت خبر ہوگی جب دوسرا ہمارے گلے میں پھندا ڈال کر ہمیں لیے جا رہا ہوگا۔

یہ ہے اپنے ملک کے معاملات میں قوم کو شامل کرنے کا وہ نقشہ جو ہمارے ہاں بنا ہے‘ اور یہ ہیں وہ حالات جو آج کے دن اگر ایک طرف ہماری اس مسرت کی بنیاد بنتے ہیں کہ ہم نے غیرملکی استعمار سے آزادی پائی ‘ تو دوسری طرف ہمیں دعوتِ فکر دیتے ہیں کہ ہم آئین و قانون کی حدود میں رہ کر اپنے ملک میں اپنے معاملات کو چلانے کی آزادی بھی حاصل کریں۔ آپ میں سے بہت سے لوگ جن کی تاریخ پر نگاہ ہے‘ وہ جانتے ہیں کہ دنیا میں آزادی کی بیشتر لڑائیاں غیروں کے مقابلے میں آزادی حاصل کرنے کے لیے نہیں بلکہ خود اپنوں کی غلامی سے نجات پانے کے لیے لڑی گئی ہیں‘ اور یہ آزادی کی لڑائی اب ہم کو بھی لڑنی پڑے گی۔ اس لڑائی کو    ہم نے شروع کر دیا ہے۔ آپ بھی ہمت کریں‘ آگے بڑھیں اور تحریک جمہوریت کے پلیٹ فارم سے لڑی جانے والی اس لڑائی میں حصہ لیں۔ (آزادی‘ ص ۵-۱۱)

۱- شرح صدر

اَفَمَنْ شَرَحَ اللّٰہُ صَدْرَہٗ لِلْاِسْلَامِ فَھُوَ عَلٰی نُوْرٍ مِّنْ رَّبِّہٖط فَوَیْلٌ لِّلْقٰسِیَۃِ قُلُوْبُھُمْ مِّنْ ذِکْرِ اللّٰہِط اُوْلٰٓئِکَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ o (الزمر ۳۹:۲۲)

اب کیا وہ شخص جس کا سینہ اللہ نے اسلام کے لیے کھول دیا اور وہ اپنے رب کی طرف سے ایک روشنی پر چل رہا ہے(اُس شخص کی طرح ہوسکتا ہے جس نے اِن باتوں سے کوئی سبق نہ لیا؟)۔ تباہی ہے اُن لوگوں کے لیے جن کے دل اللہ کی نصیحت سے اور زیادہ سخت ہو گئے۔ وہ کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں۔

کسی بات پر آدمی کا شرحِ صدر ہو جانا یا سینہ کھل جانا دراصل اس کیفیت کا نام ہے کہ آدمی کے دل میں اُس بات کے متعلق کوئی خلجان یا تذبذب یا شک و شبہہ باقی نہ رہے ‘ اور اُسے کسی خطرے کا احساس اور کسی نقصان کا اندیشہ بھی اُس بات کو قبول اور اختیار کرنے میں مانع نہ ہو‘ بلکہ پورے اطمینان کے ساتھ وہ یہ فیصلہ کر لے کہ یہ چیزحق ہے لہٰذا خواہ کچھ ہوجائے مجھے اسی پر چلنا ہے۔ اس طرح کا فیصلہ کر کے جب آدمی اسلام کی راہ کو اختیار کر لیتا ہے تو خدا اور رسول کی طرف سے جو حکم بھی اسے ملتا ہے وہ اسے بکراہت نہیں بلکہ برضا ورغبت مانتا ہے۔    کتاب وسنت میں جو عقائد وافکار اور جو اصول و قواعد بھی اس کے سامنے آتے ہیں وہ انھیں اِس طرح قبول کرتا ہے کہ گویا یہی اس کے دل کی آواز ہے۔ کسی ناجائزفائدے کو چھوڑنے پر اسے کوئی پچھتاوا لاحق نہیں ہوتا بلکہ وہ سمجھتا ہے کہ میرے لیے وہ سرے سے کوئی فائدہ تھا ہی نہیں‘ اُلٹا ایک نقصان تھا جس سے بفضل ِخدا میں بچ گیا۔ اسی طرح کوئی نقصان بھی اگر راستی پر قائم رہنے کی صورت میں اسے پہنچے تو وہ اس پر افسوس نہیں کرتا بلکہ ٹھنڈے دل سے اسے برداشت کرتا ہے اور اللہ کی راہ سے منہ موڑنے کی بہ نسبت وہ نقصان اسے ہلکا نظر آتا ہے۔ یہی حال اس کا خطرات پیش آنے پر بھی ہوتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ میرے لیے کوئی دوسرا راستہ سرے سے ہے ہی نہیں کہ اس خطرے سے بچنے کے لیے اُدھر نکل جائوں۔ اللہ کا سیدھا راستہ ایک ہی ہے جس پر مجھے بہرحال چلنا ہے۔ خطرہ آتا ہے تو آتا رہے۔

شرحِ صدر کے مقابلے میں انسانی قلب کی دو ہی کیفیتیں ہو سکتی ہیں۔ ایک        ضیقِ صدر(سینہ تنگ ہوجانے اور دل بھچ جانے) کی کیفیت جس میں کچھ نہ کچھ گنجایش اس بات کی رہ جاتی ہے کہ حق اُس میں نفوذ کر جائے‘ اور دوسری قساوتِ قلب ( دل کے پتھر ہوجانے) کی کیفیت‘ جس میں حق کے لیے نفوذ یا سرایت کرنے کی کوئی گنجایش نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ اس دوسری کیفیت کے متعلق فرماتا ہے کہ جو شخص اس حد تک پہنچ جائے اس کے لیے پھر کامل تباہی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اگر کوئی شخص‘ خواہ دل کی تنگی ہی کے ساتھ سہی‘ ایک مرتبہ قبولِ حق کے لیے کسی طرح تیار ہو جائے تو اس کے لیے بچ نکلنے کا کچھ نہ کچھ امکان ہوتا ہے۔ یہ دوسرا مضمون آیت کے فحویٰ سے خود بخود نکلتا ہے‘ مگر اللہ تعالیٰ نے اس کی صراحت نہیں فرمائی ہے‘ کیونکہ آیت کا اصل مقصود اُن لوگوں کو متنبہ کرنا تھا جو رسول اللہ صلی علیہ و سلم کی مخالفت میں ضد اور   ہٹ دھرمی پر تلے ہوئے تھے اور فیصلہ کیے بیٹھے تھے کہ آپؐ کی کوئی بات مان کر نہیں دینی ہے۔ اس پر انھیں خبردار کیا گیا ہے کہ تم تو اپنی اس ہیکڑی کو بڑی قابلِ فخر چیز سمجھ رہے ہو‘ مگر فی الحقیقت ایک انسان کی اس سے بڑھ کر کوئی نالائقی او ربدنصیبی نہیں ہو سکتی کہ اللہ کا ذکر اور اس کی    طرف سے آئی ہوئی نصیحت سُن کر وہ نرم پڑنے کے بجاے اور زیادہ سخت ہوجائے۔(ج ۴‘      ص ۳۶۷-۳۶۸)

۲- رضا اور مشیتِ الٰہی

اِنْ تَکْفُرُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ عَنْکُمْقف وَلَا یَرْضٰی لِعِبَادِہِ الْکُفْرَج وَاِنْ تَشْکُرُوْا یَرْضَہُ لَکُمْط (الزمر ۳۹:۷)

اگر تم کفر کرو تو اللہ تم سے بے نیاز ہے‘ لیکن وہ اپنے بندوں کے لیے کفر کو پسند نہیں کرتا‘ اور اگر تم شکر کرو تو اسے وہ تمھارے لیے پسندکرتا ہے۔

یعنی تمھارے کفر سے اس کی خدائی میں ذرہ برابر بھی کمی نہیں آسکتی۔ تم مانو گے تب بھی وہ خدا ہے ‘ اور نہ مانو گے تب بھی وہ خداہے اور رہے گا۔ اس کی فرمانروائی اپنے زور پر چل رہی ہے‘ تمھارے ماننے یا نہ ماننے سے اس میں کوئی فرق نہیں پڑسکتا۔ حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: یَاعِبَادِیْ لَوْ اَنَّ اَوَّلَکُمْ وَاٰخِرَکُمْ وَاِنْسَکُمْ وَجِنَّکُمْ کَانُوْا عَلٰی اَفْجَرِ قَلْبِ رَجُلٍ مِّنْکُمْ مَا نَقَصَ مِنْ مُلْکِیْ شَیْئًا۔’’اے میرے بندو‘ اگر تم سب کے سب اگلے‘ اور پچھلے انسان اور جنّ اپنے میں سے کسی فاجر سے فاجر شخص کے دل کی طرح ہو جائو تب بھی میری بادشاہی میں کچھ بھی کمی نہ ہوگی۔(مسلم)

]وہ اپنے بندوں کے لیے کفر پسند نہیں کرتا[‘ یعنی وہ اپنے کسی مفاد کی خاطر نہیں بلکہ خود بندوں کے مفاد کی خاطر یہ پسند نہیں کرتا کہ وہ کفر کریں‘ کیونکہ کفر خود انھی کے لیے نقصان دہ ہے۔ یہاں یہ بات ملحوظ رکھنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت اور چیز ہے اور رضا دوسری چیز۔ دنیا میں کوئی کام بھی اللہ کی مشیت کے خلاف نہیں ہو سکتا‘ مگر اس کی رضا کے خلاف بہت سے کام ہو سکتے ہیں اور رات دن ہوتے رہتے ہیں۔ مثلاً دنیا میں جباروں اور ظالموں کا حکمراں ہونا‘ چوروں اور ڈکوائوں کا پایا جانا‘ قاتلوں اور زانیوں کا موجود ہونا اسی لیے ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بنائے ہوئے نظامِ قدرت میں اِن برائیوں کے ظہور اور اِن اُشرار کے وجود کی گنجایش رکھی ہے۔ پھر ان کو بدی کے ارتکاب کے مواقع بھی وہی دیتا ہے اور اُسی طرح دیتا ہے جس طرح نیکوں کو نیکی کے مواقع دیتا ہے۔ اگر وہ سرے سے اِن کاموں کی گنجایش ہی نہ رکھتا اور ان کے کرنے والوں کو مواقع ہی نہ دیتا تو دنیا میںکبھی کوئی بُرائی ظاہر نہ ہوتی۔ یہ سب کچھ بربناے مشیت ہے۔ لیکن مشیت کے تحت کسی فعل کا صدور یہ معنی نہیں رکھتا کہ اللہ کی رضا بھی اس کو حاصل ہے۔ مثال کے طور پر اس بات کو یوں سمجھیے کہ ایک شخص اگر حرام خوری ہی کے ذریعے سے اپنا رزق حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اللہ اسی ذریعے سے اس کو رزق دے دیتا ہے۔ یہ ہے اس کی مشیت۔ مگر مشیت کے تحت چور یا ڈاکو یا رشوت خوار کو رزق دینے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ چوری‘ ڈاکے اور رشوت کو اللہ پسند بھی کرتا ہے۔ یہی بات اللہ تعالیٰ یہاں فرمارہا ہے کہ تم کفر کرنا چاہو تو کرو‘ ہم تمھیں زبردستی اس سے روک کر مومن نہیں بنائیں گے۔ مگر ہمیں یہ پسند نہیں ہے کہ تم بندے ہو کر اپنے خالق و پروردگار سے کفر کرو‘ کیونکہ یہ تمھارے ہی لیے نقصان دہ ہے‘ ہماری خدائی کا اس سے کچھ نہیں بگڑتا ۔

کفرکے مقابلے میں یہاں ایمان کے بجاے شکر کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ اس سے  خود بخود یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ کفر درحقیقت احسان فراموشی و نمک حرامی ہے اور ایمان     فی الحقیقت شکر گزاری کا لازمی تقاضا ہے۔ جس شخص میں اللہ جل شانہ کے احسانات کا کچھ بھی احساس ہو وہ ایمان کے سوا کوئی دوسری راہ اختیار نہیں کر سکتا۔ اس لیے شکر اور ایمان ایسے لازم و ملزوم ہیں کہ جہاں شکر ہوگا وہاں ایمان ضرور ہوگا۔ اور اس کے برعکس جہاں کفر ہو گا وہاں شکر کا سرے سے کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘کیونکہ کفر کے ساتھ شکر کے کوئی معنی نہیں ہیں۔ (ج ۴‘ ص ۳۶۰-۳۶۱)

۳- کھلا دیوالہ

قُلْ اِنَّ الْخٰسِرِیْنَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَھُمْ وَاَھْلِیْھِمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِط اَلَا ذٰلِکَ ھُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِیْنَ o (الزمر ۳۹:۱۵)

کہو‘ اصل دیوالیے تو وہی ہیں جنھوں نے قیامت کے روز اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو گھاٹے میں ڈال دیا۔ خوب سن رکھو‘ یہی کھلا دیوالہ ہے۔

دیوالہ عرفِ عام میں اس چیز کو کہتے ہیں کہ کاروبار میں آدمی کا لگایا ہوا سارا سرمایہ ڈوب جائے اور بازار میں اُس پر دوسروں کے مطالبے اتنے چڑھ جائیں کہ اپنا سب کچھ دے کر بھی وہ ان سے عہدہ برآنہ ہو سکے۔ یہی استعارہ کفارو مشرکین کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہاں استعمال کیا ہے۔ انسان کو زندگی‘ عمر‘ عقل‘ جسم ‘ قوتیں اور قابلیتیں‘ ذرائع اور مواقع ‘ جتنی چیزیں بھی دنیا میں حاصل ہیں‘ ان سب کا مجموعہ دراصل سرمایہ ہے جسے وہ حیاتِ دنیا کے کاروبار میںلگاتا ہے۔ یہ سارا سرمایہ اگر کسی شخص نے اس مفروضے پر لگا دیا کہ کوئی خدا نہیں ہے‘ یا بہت سے خدا ہیں جن کا میں بندہ ہوں‘ اورکسی کومجھے حساب نہیں دینا ہے‘ یا محاسبے کے وقت کوئی دوسرا آکر مجھے بچالے گا‘ تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس نے گھاٹے کا سودا کیا اور اپنا سب کچھ ڈبودیا۔ یہ ہے پہلا خُسران۔

دوسرا خُسران یہ ہے کہ اس غلط مفروضے پر اس نے جتنے کام بھی کیے ان سب میں وہ اپنے نفس سے لے کر دنیا کے بہت سے انسانوں اور آیندہ نسلوں اور اللہ کی دوسری بہت سی مخلوق پر عمر بھر ظلم کرتا رہا۔ اس لیے اس پر بے شمار مطالبات چڑھ گئے‘ مگر اُس کے پلّے کچھ نہیں ہے جس سے وہ ان مطالبات کا بھگتان بھگت سکے۔ اس پر مزید خُسران یہ ہے کہ وہ خود ہی نہیں ڈوبا بلکہ اپنے بال بچوں اور عزیز واقارب اور دوستوں اور ہم قوموں کو بھی اپنی غلط تعلیم و تربیت اور غلط مثال سے لے ڈوبا۔ یہی تین خسارے ہیں جن کے مجموعے کو اللہ تعالیٰ خُسرانِ مبین قرار دے رہا ہے۔(ج ۴‘ ص ۳۶۴-۳۶۵)

۴- عذابِ قبر

اَلنَّارُ یُعْرَضُوْنَ عَلَیْھَا غُدُوًّا وَّعَشِیًّاج وَیَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَۃُ قف اَدْخِلُوْٓا اٰلَ فِرْعَوْنَ اَشَدَّ الْعَذَابِ o (المومن ۴۰:۴)

دوزخ کی آگ ہے جس کے سامنے صبح وشام وہ پیش کیے جاتے ہیں‘ اور جب قیامت کی گھڑی آجائے گی تو حکم ہو گا کہ آلِ فرعون کو شدید تر عذاب میں داخل کرو۔

یہ آیت اُس عذابِ برزخ کا صریح ثبوت ہے جس کا ذکر بکثرت احادیث میں عذابِ قبرکے عنوان سے آیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں صاف الفاظ میں عذاب کے دو مرحلوں کا ذکر فرمایا ہے‘ ایک کم تر درجے کا عذاب جو قیامت کے آنے سے پہلے فرعون اور آلِ فرعون کو اب دیا جا رہا ہے‘ اور وہ یہ ہے کہ انھیں صبح وشام دوزخ کی آگ کے سامنے پیش کیا جاتا ہے جسے دیکھ کر وہ ہر وقت ہَول کھاتے رہتے ہیں کہ یہ ہے دوزخ جس میں آخر کار ہمیں جانا ہے۔ اس کے بعد جب قیامت آجائے گی تو انھیں وہ اصل اور بڑی سزا دی جائے گی جو ان کے لیے مقدر ہے‘  یعنی وہ اس دوزخ میں جھونک دیے جائیں گے جس کا نظارہ انھیں غرقاب ہو جانے کے وقت سے آج تک کرایا جا رہا ہے اور قیامت کی گھڑی تک کرایا جاتا رہے گا۔ اور یہ معاملہ صرف  فرعون و آلِ فرعون کے ساتھ ہی خاص نہیںہے۔ تمام مجرموں کو موت کی ساعت سے لے قیامت تک وہ انجامِ بد نظر آتا رہتا ہے جو ان کا انتظار کر رہا ہے‘ اور تمام نیک لوگوں کو اُس    انجامِ نیک کی حسین تصویر دکھائی جاتی رہتی ہے جو اللہ نے ان کے لیے مہیا کر رکھا ہے۔ بخاری ‘ مسلم اور مُسند احمد میں حضرت عبداللہؓ بن عمر کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا: ’’اِنَّ اَحَدَکُمْ اِذَا مَاتَ عُرِضَ عَلَیْہِ مَقْعَدُہٗ بِالْغَدَاۃِ وَالْعَشِیِّ ، اِنْ کَانَ مِنْ اَھْلِ الْجَنَّۃِ‘ وَاِنْ کَانَ مِنْ اَھْلِ النَّارِ‘ فَیُقَالُ ھٰذَا مَقْعَدُکَ حَتّٰی یَبْعَثَکَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ اِلَیْہِ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ۔’’ تم میں سے جو شخص بھی مرتا ہے اسے صبح و شام اس کی آخری قیام گاہ دکھائی جاتی رہتی ہے‘ خواہ جنتی ہو یا دوزخی۔ اس سے کہا جاتا ہے کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں تو اُس وقت جائے گا جب اللہ تجھے قیامت کے روز دوبارہ اُٹھا کر اپنے حضور بلائے گا‘‘۔ (ج ۴‘ ص ۴۱۲-۴۱۳)

۵- برزخ میں خواہشات کی تکمیل

لَھُمْ مَّا یَشَآئُ وْنَ عِنْدَ رَبِّھِمْ ط (الزمر ۳۹:۳۴)

انھیں اپنے رب کے ہاں وہ سب کچھ ملے گا جس کی وہ خواہش کریں گے۔

یہ بات ملحوظ رہے کہ یہاں فِی الْجَنَّۃِ (جنت) نہیں بلکہ عِنْدَ رَبِّھِمْ (ان کے رب کے ہاں) کے الفاظ ارشاد ہوئے ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ اپنے رب کے ہاں تو بندہ مرنے کے بعد ہی پہنچ جاتا ہے۔ اس لیے آیت کا منشا یہ معلوم ہوتا ہے کہ جنت میں پہنچ کرہی نہیں‘ بلکہ مرنے کے وقت سے دخولِ جنت تک کے زمانے میں بھی مومنِ صالح کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا معاملہ یہی رہے گا۔ وہ عذابِ برزخ سے‘ روزِ قیامت کی سختیوں سے‘ حساب کی سخت گیری سے‘ میدانِ حشر کی رسوائی سے‘ اپنی کوتاہیوں اور قصوروں پر مواخذے سے لازماً بچنا چاہے گا اور اللہ جل شانہ ‘ اس کی یہ ساری خواہشات پوری فرمائے گا۔ (ج ۴‘ ص ۳۷۳)

۶- اہلِ ایمان کے لیے فرشتوں کی دعا

اَلَّذِیْنَ یَحْمِلُوْنَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَہٗ یُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّھِمْ وَیُؤْمِنُوْنَ بِہٖ وَیَسْتَغْفِرُوْنَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْاج رَبَّنَا وَسِعْتَ کُلَّ شَیْ ئٍ رَّحْمَۃً وَّعِلْمًا فَاغْفِرْ لِلَّذِیْنَ تَابُوْا وَاتَّبَعُوْا سَبِیْلَکَ وَقِھِمْ عَذَابَ الْجَحِیْمِ o رَبَّنَا وَاَدْخِلْھُمْ جَنّٰتِ عَدْنِ نِ الَّتِیْ وَعَدْتَّھُمْ وَمَنْ صَلَحَ مِنْ اٰبَآئِھِمْ وَاَزْوَاجِھِمْ وَذُرِّیّٰتِھِمْط اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ o (المومن ۴۰: ۷-۸)

عرشِ الٰہی کے حامل فرشتے‘ اور وہ جو عرش کے گرد و پیش حاضر رہتے ہیں‘ سب اپنے رب کے حمدکے ساتھ اس کی تسبیح کر رہے ہیں۔ وہ اس پر ایمان رکھتے ہیں اور ایمان لانے والوں کے حق میں دُعائے مغفرت کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: ’’اے ہمارے رب‘ تو اپنی رحمت اور اپنے علم کے ساتھ ہرچیزپرچھایا ہوا ہے‘ پس معاف کر دے اور عذابِ دوزخ سے بچالے اُن لوگوں کو جنھوں نے توبہ کی ہے اور تیرا راستہ اختیار کر لیا ہے۔ اے ہمارے رب‘ اور داخل کر اُن کو ہمیشہ رہنے والی اُن جنتوں میں جن کا تو نے اُن سے وعدہ کیا ہے‘ اور اُن کے والدین اور بیویوں اور اولاد میں سے جو صالح ہوں(اُن کو بھی وہاں اُن کے ساتھ ہی پہنچا دے)۔ توبلاشبہ قادرِمطلق اورحکیم ہے۔

یہ بات نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھیوں کی تسلی کے لیے ارشاد ہوئی ہے۔ وہ اس وقت کفارِ مکّہ کی زبان درازیاں اور چیرہ دستیاں ‘ اور ان کے مقابلے میں اپنی بے بسی دیکھ دیکھ کر سخت دل شکستہ ہو رہے تھے۔ اس پر فرمایا گیا کہ اِن گھٹیا اور رذیل لوگوں کی باتوں پر تم رنجیدہ کیوں ہوتے ہو‘ تمھارا مرتبہ تو وہ ہے کہ عرش الٰہی کے حامل فرشتے اور عرش کے گرد و پیش حاضر رہنے والے ملائکہ تک تمھارے حامی ہیں اور تمھاے حق میں اللہ تعالیٰ کے حضور سفارشیں کر رہے ہیں۔ عام فرشتوں کے بجاے عرش الٰہی کے حامل اور اس کے گرد و پیش حاضر رہنے والے فرشتوں کا ذکر یہ تصور دلانے کے لیے کیا گیا ہے کہ سلطنت خداوندی کے عام اہل کار تو درکنار‘ وہ ملائکہ مقربین بھی جو اس سلطنت کے ستون ہیں اور جنھیں فرمانروائے کائنات کے ہاں قرب کا مقام حاصل ہے ‘ تمھارے ساتھ گہری دلچسپی و ہمدردی رکھتے ہیں۔ پھر یہ فرمایا گیاکہ یہ ملائکہ اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہیں اور ایمان لانے والوں کے حق میں دعائے مغفرت کرتے ہیں۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ایمان کا رشتہ ہی وہ اصل رشتہ ہے جس نے عرشیوں اور فرشیوں کو ملا کر ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ کر دیا ہے‘ اور اسی تعلق کی وجہ سے عرش کے قریب رہنے والے فرشتوں کو زمین پر بسنے والے ان خاکی انسانوں سے دلچسپی پیدا ہوئی ہے جو انھی کی طرح اللہ پر ایمان رکھتے ہیں۔ اللہ پر فرشتوں کے ایمان رکھنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ کفر کر سکتے تھے‘ مگر انھوں نے اسے چھوڑ کر ایمان اختیار کیا‘ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ وحدہ‘ لاشریک ہی کا اقتدار مانتے ہیں۔ کوئی دوسری ہستی ایسی نہیں ہے جو انھیں حکم دینے والی ہو اور وہ اس کے آگے سراطاعت جھکاتے ہوں۔ یہی مسلک جب ایمان لانے والے انسانوں نے بھی اختیار کر لیا تو اتنے بڑے اختلافِ جنس اور بُعدِمقام کے باوجود اُن کے اور فرشتوں کے درمیان ہم مشربی کا مضبوط تعلق قائم ہوگیا۔ (ج ۴‘ ص ۳۹۴)

ہمارے اوپر اللہ تعالیٰ کے احسانات بے حدوحساب ہیں جن کا کوئی شمار نہیں کیاجاسکتا‘ لیکن بلاشبہہ اُس کا سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ اُس نے ہم کو خالص توحید اور بے آمیز توحید کی تعلیم دی جس کے اندر اللہ تعالیٰ کی ذات‘ صفات‘ اختیارات اورحقوق میں کسی دوسرے کی  ادنیٰ سے ادنیٰ شرکت کے لیے بھی کوئی گنجایش نہیں ہے اور تمام حیثیتوں سے خدائی صرف ایک معبودِ برحق کے لیے مخصوص ہے۔ یہ کتنی بڑی نعمت ہے‘ اس کی صحیح قدر آپ صرف اُسی وقت سمجھ سکتے ہیں جب توحید اور شرک کے فرق کو بخوبی سمجھ لیں۔

شِرک کا لازمی خاصّہ یہ ہے کہ وہ انسانیت کو بانٹتا اور انسانوں کو انسانوں سے پھاڑتا ہے۔ پوری انسانی تاریخ میں کوئی ایک مثال بھی ایسی نہیں ملتی جو یہ شہادت دیتی ہو کہ تمام دُنیا کے مشرکین کسی ایک معبود پر‘ یا چند معبودوں پر کبھی جمع ہوئے ہوں۔ ساری دنیا تو درکنار‘ زمین کے ایک خطّے میں بسنے والے مشرک بھی کسی معبود یا معبودوں کے کسی گروہ پر متفق نہیں پائے گئے۔ قبیلوں اور قبیلوں کے معبود الگ الگ رہے ہیں اور یہ جُدا جُدا بھی ہمیشہ معبود نہیں رہے بلکہ زمانے کی ہر گردش کے ساتھ بدلتے چلے گئے ہیں۔ اس طرح شِرک کبھی کسی دَور میں بھی انسانیت کو جمع کرنے والی طاقت نہیں رہا بلکہ ایک تفرقہ پرداز طاقت رہا ہے اور وہ صرف عقیدے ہی کے اعتبار سے انسانوں کو ایک دوسرے سے نہیں پھاڑتا۔ اُس کی فطرت چونکہ متحد کرنے کی صلاحیت سے عاری ہے اس لیے جو تفرقے اُس کی بدولت برپا ہوتے ہیں وہ رفتہ رفتہ انسانوں میں قوموں اور قبیلوں اور نسلوں اور زبانوں اور رنگوں اور وطنوں کے اختلافات اُبھار دیتے ہیں۔ پھر یہی اختلافات آگے بڑھ کر لوگوں میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت وعداوت کے جذبات پیدا کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کو ذلیل و حقیر اور ناپاک اور اچھوت سمجھنے کے محرک بنتے ہیں۔ ایک دوسرے کا حق مارنے اور ایک دوسرے پر ظلم ڈھانے کے لیے آمادہ کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ آخرکار انھی کی بدولت دُنیا میں خونریزیاں ہوتی ہیں‘ قتل و غارت کا بازار گرم ہوتا ہے‘ لڑائیاں ہوتی ہیں اور شّروفساد سے خدا کی زمین بھرجاتی ہے۔ آج تک جتنی لڑائیاں بھی انسانوں اور انسانوں کے درمیان ہوئی ہیں‘ آپ ان کے اسباب کا تجزیہ کریں تو معلوم ہوگا کہ ان سب کے پیچھے شرک کسی نہ کسی صورت میں کارفرما رہا ہے یا اُس کی پیدا کردہ خباثتوں میں سے کوئی خباثت اُن کی محرک ہوئی ہے۔

اس کے برعکس توحید اگر شرک کی ہر آمیزش سے پاک ہو‘ تو اُس کا لازمی خاصّہ انسانیت کو بانٹنے اورانسانوں کو انسانوں سے پھاڑنے کے بجاے ان کو باہم جوڑنا اور ایک رب العالمین کی بندگی و اطاعت پر جمع اور متحد کرنا ہے۔ جتنے لوگ بھی مخلوقات کی خدائی کے ہر تصور سے اپنے ذہن کو پاک کر کے صرف ایک خدا کو معبودِ برحق مان لیں گے اور خداوندعالم کی ذات‘ صفات‘ اختیارات اور حقوق میں سے کسی چیز میں بھی کسی مخلوق کی شرکت کے باطل خیال کو اپنے دل و دماغ کے ہر گوشے سے نکال باہر کریں گے‘ وہ لازماً ایک اُمت بنیں گے۔ یقینا ان میں وحدت پیدا ہوگی۔ ضرور وہ ایک دوسرے کے رفیق اور ایک دوسرے کے بھائی بن کر رہیں گے۔ تاریخ میں اِس کی کوئی مثال نہیں ملتی کہ ایک اللہ کی وحدانیت کے سوا کوئی دوسری چیز انسانوں کو جمع کرنے والی پائی گئی ہو۔ اگر انسان جمع ہوسکتے ہیں تو صرف اُس ایک معبود پر جو حقیقتاً ساری کائنات کا معبود ہے۔ اُسی کوماننے پر اُن کے اندر اتحاد پیدا ہوسکتا ہے اور اُسی کی بندگی پر اتفاق اُنھیں ایک دوسرے کا بھائی بنا سکتا ہے۔ توحیدِالٰہ کا نتیجہ توحیدِ اُمت ایک ایسی اَٹل حقیقت ہے جو کبھی     غلط ثابت نہیں ہوئی ہے نہ غلط ثابت ہوسکتی ہے۔ اگر کبھی کسی جگہ آپ دیکھیں کہ توحید پر ایمان کا دعویٰ تو موجودہے ‘ لیکن اس کا دعویٰ کرنے والی اُمت میں وحدت موجود نہیں ہے‘ بلکہ اُلٹے تفرقے اور تعصبات اور باہمی نفرت و مخالفت کے فتنے برپا ہیں‘ تو چشمِ بصیرت سے اُن کا جائزہ لے کر آپ بآسانی معلوم کرلیں گے کہ اُس اُمت میں شرک گھس آیا ہے اور اُس کے بے شمار شاخسانوں میں سے کوئی نہ کوئی شاخسانہ اس کے افراد اور گروہوں کو ایک دُوسرے سے پھاڑ رہا ہے۔ یہ بات نہ ہو تو جس طرح دو اور دو پانچ نہیں ہوسکتے‘ اسی طرح شرک کی آمیزش کے بغیر ایک خدا کے ماننے والے دس متحارب گروہوں میں بٹ نہیں سکتے۔

وحدت اُمت کے لیے بنیادیں

اب دیکھیے کہ تمام انسانوں کو ہر زمانے اور ہر دور میں ایک اُمت کے اندر جمع کرنے کے لیے توحید کی بنیاد فراہم کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس وحدت کو دائم و قائم رکھنے کے لیے مزید کیا اہتمام فرمایا ہے۔

ہدایت کا واحد ماخذ: اس نے ایک رسول بھیج کر اور ایک کتاب نازل کر کے انسانی زندگی کے ہر پہلو اور ہر شعبے کے لیے ایک ایسی رہنمائی عطا فرما دی جس سے باہر جاکر انسان کو کہیں اور ہدایت تلاش کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ ایک اُمت میں جمع ہوجانے کے بعد انسان اگر متفرق ہوسکتے ہیں تو صرف اس وجہ سے کہ ان کو کسی ایک ماخذ سے پورا    نظامِ زندگی نہ ملے اور وہ مختلف حالات‘ مختلف مقامات اور مختلف زمانوں میں دوسرے ذرائع سے ہدایت حاصل کرنے پر مجبور ہوں۔ ایسی صورت میں تو بلاشبہہ انسان ہدایت کے لیے بہت سے ذرائع کی طرف رجوع کریں گے اور اس سے لازماً ان کے اندر تفرقہ برپا ہوگا‘ لیکن جب ہرزمان و مکان کے لیے ہر طرح کے حالات میں ایک ہی ذریعے سے ہدایت مل جائے تو وحدتِ معبود پر جمع ہونے والی اُمت کے لیے تفرقے کا کوئی خطرہ باقی نہیں رہتا اِلا یہ کہ لوگ یا تو جہالت کی بنا پر اس کی ہدایت سے واقف ہی نہ ہوں یا پھر ذہن و فکر کی کجی کے باعث اصل ہدایت میں اپنی طرف سے کچھ گھٹائیں اور کچھ بڑھائیں‘ اور اس طرح کی کمی و بیشی کرنے والا ہرگروہ یہ دعویٰ کرے کہ اُس کا تیار کردہ دین ہی اصل دین ہے جس کی پیروی نہ کرنے والا گمراہ  یا فاسق یا کافر ہے۔

صرف خدا کے سامنے جواب دہی: دوسری اہم چیز جو وحدتِ اُمت کے استحکام اور راہِ راست پر اس کے ثابت قدم رہنے کے لیے فراہم کی گئی ہے وہ یہ عقیدہ ہے کہ انسان صرف ایک خدا کے سامنے جواب دہ ہے۔ وہی ایک خدا دنیا میں بھی اُس کی قسمت بنانے اور بگاڑنے کے مکمل اختیارات رکھتا ہے اور وہی ایک خدا روزِ جزا کا بھی مالک ہے۔ اُس کے سوا نہ کوئی انسانوں کے اعمال کی بازپرس کرنے والا ہے نہ کسی کے ہاتھ میں سزا یا جزا دینے کے اختیارات ہیں۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا یہ عقیدہ نہ صرف وحدتِ اُمت کا ضامن ہے بلکہ اِسی پر انسانی سیرت و کردار کے راست و درست رہنے کا انحصار ہے۔ اِس عقیدے کے اِن لازمی نتائج کو ضائع کر کے اگر کوئی چیز انسانوں کو پراگندہ اور بے راہ رو بنانے والی ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ لوگ دنیا میں خدا کے سوا دوسری مختلف ہستیوں کو حاجت روا قرار دینے لگیں‘ اور آخرت کے بارے میں یہ سمجھنے لگیں کہ وہاں خدا کے انصاف میں مداخلت کرنے کے اختیارات کچھ دوسری ہستیوں کو حاصل ہوں گے۔

پنج وقتہ نماز کا اہتمام: اس کے بعد دیکھیے کہ اللہ تعالیٰ نے کچھ ایسی چیزیںہم پر لازم کی ہیں جو وحدتِ اُمت کو عملاً قائم اور دائماً سرگرم رکھنے والی ہیں۔ اُن میں اوّلین چیز نماز ہے جو روزانہ پانچ وقت کے لیے دنیا بھر کے مسلمانوں پر فرض کر دی گئی ہے۔ اُس کے لیے ایک قبلہ مقرر ہے جس کی طرف ہرنماز کے وقت مشرق اور مغرب‘ شمال اور جنوب اور اِن مختلف سمتوںکے درمیان رہنے والے سب مسلمانوں کو رُخ کرنا ہوتا ہے۔ اِس نقشے کو ذرا چشمِ تصور کے سامنے لاکر تو دیکھیے کہ خانۂ کعبہ کے گرد نماز پڑھنے والے تمام لوگ ایک ہالہ بنے ہوئے نظرآتے ہیں اور پھر یہی دائرہ پھیلتے پھیلتے تمام روے زمین پر محیط ہوجاتا ہے۔ یہ روزانہ پانچ وقت کا عمل ہے۔ اس سے بڑھ کر وحدت کا مظاہرہ اور کیا ہو سکتا ہے اور اسلام کے سوا یہ مظاہرہ آپ اور کہاں پاتے ہیں؟

اس پنج وقتہ نماز کو فرض کرنے کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اسے جماعت کے ساتھ ادا کرنا لازم کیا ہے اِلا یہ کہ کوئی مسلمان اپنی جگہ تنہا ہو اور اسے جماعت نہ مل رہی ہو۔ اللہ کی عبادت کا مقصد تو فرداً فرداً نماز پڑھنے سے بھی حاصل ہو سکتا تھا‘ مگر وحدت اُمت کا مقصد نماز باجماعت کے بغیر حاصل ہونا ممکن نہ تھا۔اسی لیے لازم کیا گیا کہ جہاں دو مسلمان بھی موجود ہوں وہاں ایک امام اور دوسرا مقتدی بنے اور دونوں مل کر باجماعت نماز ادا کریں۔

نماز کے لیے لوگوں کو بُلانے کا طریقہ بھی اسلام میں ایسا بے نظیر مقرر کیا گیا ہے جو دنیا کے کسی مذہبی یا لامذہب گروہ کو اپنے کسی اجتماع کی دعوتِ عام دینے کے لیے میسرنہیں ہے۔ نماز کا بلاوا دینے کے لیے روے زمین پر ہر جگہ ہر روز پانچوں وقت ایک ہی زبان میں اذان کی آواز بلند کی جاتی ہے‘ قطع نظر اِس سے کہ بلانے والوں اور بلائے جانے والوں کی اپنی زبان خواہ کچھ بھی ہو۔ اِس مشترک زبان کی اذان دُنیا میں جہاں بھی بلند ہوگی اسے سننے والا ہر مسلمان جان لے گا کہ یہ نماز کا بلاوا ہے اور فلاں مقام سے بلند ہو رہا ہے جہاں مجھے اپنے برادرانِ ملت کے ساتھ جمع ہوکر خداے واحد کی عبادت بجا لانی ہے۔ پھر کمال یہ ہے کہ اذان صرف نماز کا بلاوا ہی نہیں ہے بلکہ اسلام کے پورے عقیدے کا اعلان بھی ہے۔ اللہ سب سے بڑا ہے۔ اُس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اُس کے رسول ہیں۔ اور میری فلاح اُسی ایک خدا کی عبادت سے وابستہ ہے جس کی طرف آنے کے لیے مجھے پکارا جا رہا ہے۔ کیا اِس سے بہترطریق دعوت کا کوئی انسان تصور کرسکتا ہے؟ یہ دعوت دُنیا میں ہر جگہ لوگوں کو نماز کے لیے جمع بھی کرتی ہے اور ایک ہی عقیدے پر متفق بھی۔

پھر نماز کے اوقات‘ اُس کو ادا کرنے کے طریقے اور اس میں پڑھی جانے والی چیزیں تمام دنیا میں یکساں ہیں۔بعض جزوی چیزوں میں اگر کچھ فرق ہے تو وہ ایسا نہیں ہے کہ جنوبی افریقہ کا مسلمان شمالی امریکہ میں یا جاپان کا مسلمان مراکو یا فرانس میں جاکر یہ محسوس کرے کہ یہاں نماز کے بجاے کوئی اور عبادت کی جا رہی ہے۔ اس طرح یہ نماز خداپرستی کے جذبے کو تازہ بھی کرتی ہے اور خدا پرستوں میں عالم گیر برادری کا احساس زندہ و متحرک بھی رکھتی ہے۔

روزوں کا اہتمام: ایسا ہی معاملہ روزوں کا بھی ہے۔ اگر صرف روزے کی عبادت ہی مقصود ہوتی تو ہر مسلمان کو بس یہ حکم دے دینا کافی تھا کہ وہ سال میں ۳۰ روزے جب چاہے رکھ لے۔ لیکن خداے واحد کی عبادت کے ساتھ دنیا بھر کے مسلمانوں کو اُمت ِ واحدہ بھی بنانا مقصود تھا‘ اس لیے رمضان کا ایک ہی مہینہ ہرسال روزے رکھنے کے لیے مقرر کیا گیا تاکہ سب کا روزہ ایک ساتھ شروع اور ایک ہی ساتھ ختم ہو۔ روزے کے احکام بھی یکساں رکھے گئے تاکہ تمام مسلمان عمربھر ہر سال پورے ۳۰ (یا ۲۹) دن کے روزے ایک ہی طریقے سے ایک ہی طرح کی پابندیوں کے ساتھ رکھتے رہیں۔ اس سے لازماً دنیا بھر کے مسلمانوں میں یہ شعور زندہ اور تازہ رہتا ہے کہ وہ ایک ہی شرع کی پابندی کرنے والی اُمت ہیں۔ اس پر مستزاد تراویح کی نماز ہے جو پنج وقتہ فرض نماز کے علاوہ ساری دنیا میں رمضان کی ہر رات کو باجماعت ادا کی جاتی ہے اور اس میں بالعموم پورا قرآن پڑھا جاتا ہے۔ یہ عبادت بھی ہے‘ خدا کے کلامِ پاک کی تبلیغ اور تذکیر بھی ہے اور وحدتِ اُمت کو اور زیادہ مضبوط و مستحکم کرنے والی چیز بھی۔ قرآن کو ہر سال مہینہ بھر تک روزانہ سننے والے خواہ اُس کی زبان سے واقف ہوں یا نہ ہوں‘ اُس کو سمجھتے ہوں یا نہ سمجھتے ہوں‘ بہرصورت اُن سب میں یہ مشترک احساس ضرور پیدا ہوتا ہے کہ وہ سب ایک کتاب کے ماننے والے ہیں اور وہ کتاب اُن کے رب کی کتاب ہے۔

فریضۂ حج: اب ذرا حج کو دیکھیے جس سے بڑھ کر ملت اسلام کے ایک عالم گیر ملت ہونے کا مظاہرہ کسی دوسری عبادت میں نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا کے ہر اُس مسلمان پر جو حج کی استطاعت رکھتا ہو‘ یہ لازم کردیا ہے کہ وہ عمر میں ایک مرتبہ اِس فریضے کو انجام دے اور یہ فریضہ صرف چند مقررہ تاریخوں ہی میں ادا کیا جا سکتا ہے جو سال بھر میں صرف ایک بار آتی ہیں۔ اس طرح روے زمین پر جہاں بھی مسلمان آباد ہوں وہاں سے ایک ہی زمانے میں تمام ذی استطاعت مسلمانوں کو مکہ معظمہ میں جمع ہونا پڑتا ہے۔

آپ غور کیجیے یہ وہ چیز ہے جو ہر سال دُنیا کے ہر گوشے سے عام انسانوں کو کھینچ کر ایک جگہ لاتی ہے۔ صرف سیاسی مدبرین کو نہیں لاتی‘ جیسے اقوامِ متحدہ میں جمع ہوتے ہیں۔ صرف قوموں کے لیڈروں کو نہیں لاتی‘جیسے بین الاقوامی کانفرنسوں میںآیا کرتے ہیں۔ یہ ہر ملک اور ہر قوم کے عوام کو لاکھوں کی تعداد میں کھینچ لاتی ہے اور اس غرض کے لیے لاتی ہے کہ وہ سب مل کر ایک خدا کی عبادت کریں۔ ایک ساتھ خانۂ کعبہ کا طواف کریں‘ ایک ساتھ مکہ سے منیٰ اور منیٰ سے عرفات اور عرفات سے مزدلفہ اور مزدلفہ سے پھر منیٰ کی طرف کوچ کریں۔ ایک ساتھ قربانیاں کریں‘ ایک ساتھ رمی جمار کریں‘ ایک ساتھ عرفات میں وقوف اور منیٰ میں چند روز قیام کریں۔ ایک ہی زبان میں سب لبیک لبیک کی آوازیں بلند کریں۔ ایک ساتھ اُس قبلے کے گرد نمازیں ادا کریں جس کی طرف رُخ کر کے ہر روز پانچ مرتبہ وہ اپنی اپنی جگہ نماز پڑھتے رہے ہیں۔

اُن میں ہر نسل‘ ہر قوم‘ ہر رنگ اور ہر وطن کے لوگ یکجا ہوتے ہیں۔ ہر زبان بولنے والے اکٹھے ہوتے ہیں۔ سب اپنے اپنے گھروں سے طرح طرح کے لباس پہنے ہوئے آتے ہیں۔ اُن میں امیر بھی ہوتے ہیں اور غریب بھی۔ شاہ بھی ہوتے ہیں اور گدا بھی۔ مگر وہاں یہ سارے امتیازات ختم ہوجاتے ہیں۔ حرم کے حدود میں پہنچنے سے پہلے ہی سب کے لباس اُتروا کر ایک ہی طرح کا فقیرانہ لباسِ احرام پہنوا دیا جاتا ہے جسے دیکھ کر کوئی شخص بھی یہ تمیز نہیں کرسکتا کہ کون کہاں کا رہنے والا ہے اور کس کا کیا مرتبہ ہے۔ بڑے سے بڑے آدمی کو بھی اس کے اُونچے مقام سے اُتار کر عام انسانوں کی سطح پر لے آیا جاتا ہے۔ اعلیٰ سے اعلیٰ تہذیب و تمدن رکھنے والوں کو بھی تمدن کی بالکل نچلی سطح پر رہنے والوں کے ساتھ ملا دیا جاتا ہے۔ لاکھوں آدمیوں کے ہجوم میں طواف و سعی کرتے ہوئے ایک رئیس کو بھی اُسی طرح دھکّے کھانے پڑتے ہیں جس طرح کوئی عام آدمی دھکّے کھاتا ہے۔ خداوندعالم کے دربار میں پہنچ کر ہر شخص کے دماغ سے کبریائی کا خنّاس نکال دیا جاتا ہے‘ رنگ و نسل اور زبان و وطن کے سارے تعصبات ختم کرکے دنیا کے ہر گوشے سے آنے والے مسلمانوں کے اندر ایک اُمت ہونے کا احساس اِس قوت کے ساتھ بٹھا دیا جاتا ہے کہ اُس کا اثر کسی کے مٹائے نہیں مٹ سکتا۔ دُنیا کے کسی مذہب اور کسی لامذہبی گروہ کے پاس بھی اپنے پیرووں کو اس قدر عالم گیر پیمانے پر متحد کرنے اور ہر سال اس اتحاد کی تجدید کرتے رہنے کا ایسا کیمیا اثر نسخہ موجود نہیں ہے۔ یہ صرف اُس خدا کی حکمت کا کرشمہ ہے جس کی وحدت کو مان کر‘ جس کے رسول اور جس کی کتاب کی پیروی قبول کرکے‘ جس کے حضور اپنی جواب دہی کا شعور پیدا کر کے مسلمان ایک اُمت بنتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ کا مزید فضل یہ ہے کہ اُس نے حج کی اِن برکات کو بھی صرف اُن لوگوں تک محدود نہیں رکھا جو اِس عبادت کے مناسک ادا کرنے کے لیے مرکز اسلام میں جمع ہوتے ہیں‘ بلکہ تمام دُنیا کے مسلمانوں کے لیے بھی یہ موقع پیدا کر دیا کہ حج ہی کے زمانے میں وہ اپنی اپنی جگہ حاجیوں کے شریکِ حال بن سکیں۔ یہ عیدالاضحی کی نماز اور یہ قربانی جو ان تین دنوں کے اندر زمین کے ہر گوشے میں کی جاتی ہے اِسی غرض کے لیے مقرر کی گئی ہے۔ دُنیا بھر کے مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ جس روز (یعنی ۹؍ ذی الحجہ کو) حج ادا کرنے کے لیے حاجی منیٰ سے عرفات کی طرف روانہ ہوتے ہیں‘ اُسی روز صبح سے وہ ہر فرض نماز کے بعد بآواز بلند اللّٰہُ اکبَر اللّٰہُ اکبَر لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ واللّٰہُ اکبَر اللّٰہُ اکبر وَللّٰہِ الْحَمدکا ورد شروع کر دیں اور ان تکبیرات کا سلسلہ مزید چار روز تک جاری رکھیں تاکہ منیٰ میں حاجیوں کے قیام کا پورا زمانہ دنیا میں اِن تکبیرات کو بلند کرتے ہوئے گزر جائے۔ عیدالاضحی کی نماز کے لیے وہی ۱۰ ذی الحجہ کی تاریخ رکھی گئی ہے جو حاجیوں کے لیے یَومُ النّحْر(قربانی کا دن) ہے۔ حکم ہے کہ اس نماز کے لیے جاتے وقت بھی اور واپس ہوتے وقت بھی یہی تکبیرات بلند کی جائیں۔ اسی دن ساری دنیا میں نمازِعید کے بعد وہی قربانیاں شروع ہوجاتی ہیں جو منیٰ میں حاجی کرتے ہیں۔ اس طرح دنیا کا ہر مسلمان یہ محسوس کرتا ہے کہ میں اُسی اُمت کا ایک فرد ہوں جس اُمت کے لاکھوں آدمی اس وقت حج کر رہے ہیں‘ اور حج کے پورے زمانے میں وہ تکبیرات کہتے ہوئے‘ نماز پڑھتے ہوئے اور قربانی کرتے ہوئے ‘گویاحاجیوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ عیدالاضحی میں اگرچہ حج جیسا عظیم اور عالم گیر اجتماع نہیں ہوتا‘ مگر اپنے اپنے مقام پر مسلمان ہر جگہ بڑے سے بڑا اجتماع کرکے نمازادا کرتے ہیں اور مجموعی طور پر تمام روے زمین پر ایک ہی زمانے میں اس عید کا منایا جانا ایک دوسرے انداز میں اُمت کی عالم گیر وحدت کا مظاہرہ بن جاتا ہے۔

اختصار کے ساتھ یہ جو کچھ میں نے بیان کیا ہے‘ اس سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے توحید‘ رسالت‘ کتاب اور آخرت کے عقائد سے وہ بنیاد فراہم کر دی جس پر قوم‘ وطن‘ رنگ‘ زبان اور نسل کے تمام تعصبات ختم کرکے دنیا کے سارے انسان ایک عالم گیر اُمت بن سکتے ہیں۔ پھر عبادات کے ایسے طریقے مقرر فرما دیے جو اس اُمت میںمحض وحدت ہی نہیں‘ بلکہ پاکیزہ وحدت‘ اور سطحی و ناپایدار وحدت نہیں‘ بلکہ نہایت مضبوط عملی وحدت پیدا کرتے ہیں‘ اور اس پر مزید یہ کہ اپنے آخری رسولؐ اور اپنی آخری کتاب کے ذریعے سے اُس نے وہ مکمل نظامِ زندگی عطا فرما دیا جو پوری انسانیت کے لیے ہر زمان و مکان میں ایسا جامع قانون ہے کہ اپنی کسی ضرورت کے لیے بھی کسی جگہ اور کسی دور کے انسانوں کو ہدایت کی طلب میں کسی دوسرے ذریعۂ رہنمائی کی طرف رجوع کرنے کی حاجت باقی نہیں رہتی۔

اب اس کے بعد اس سے بڑی بدقسمتی اور شرم ناک بدقسمتی کیا ہوگی کہ جس اُمت کو   اللہ تعالیٰ نے ایسا جامع و مکمل نظامِ حیات دیا‘ جس اُمت کی وحدت کو قائم رکھنے کے لیے اُس نے اِتنا بڑا انتظام کیا‘ اور جس اُمت کے سپرد اس نے یہ کام کیا کہ وہ دنیا میں اِس دین توحید کو پھیلائے تاکہ پوری انسانیت اِس پر جمع ہو جائے‘ وہ اپنے اصل کام کو پسِ پشت ڈال کر اپنی اِس وحدت ہی کے ٹکڑے اُڑا دینے پر تل گئی ہے۔ وہ مامور تواِس خدمت پر تھی کہ دُنیا سے اُن اسباب کو ختم کر دے جس کی وجہ سے انسان انسان کو ہیچ سمجھتا ہے‘ اچھوت سمجھتا ہے‘ قابلِ نفرت سمجھتا ہے‘ حقیر و ذلیل سمجھتا ہے‘ اور خدا کی زمین کو ظلم و ستم اور قتل و غارت سے جہنم بنا دیتا ہے۔ اُس کا مشن تو یہ تھا کہ دُنیا کو ایک خدا کی بندگی‘ ایک قانونِ برحق کی پیروی‘ اور ایک عالم گیر برادری میں جمع کرکے ظلم کی جگہ عدل‘ جنگ کی جگہ امن‘ نفرت و عداوت کی جگہ خیراندیشی اور محبت قائم کرے اور نوعِ انسانی کے لیے اُسی طرح رحمت بن جائے جس طرح اس کے ہادی و رہنما محمد صلی اللہ علیہ وسلم رحمۃ للعالمین بناکر بھیجے گئے تھے‘ لیکن یہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر وہ اپنی قوتیں آپس کے تفرقے برپا کرنے پر صرف کر رہی ہے۔ اس کے لیے سب سے دل چسپ مشغلہ یہ بن گیا ہے کہ اس کے افراد اور گروہ آپس میں ایک دوسرے کی مخالفت کریں اور مخالفت کو بڑھا کر نفرت و عداوت کی حد تک لے جائیں۔ نیک نیتی کے ساتھ رائے اور علم و تحقیق کا اختلاف تو رحمت بن سکتا ہے اور سلف صالحین میں وہ رحمت ثابت بھی ہوا ہے‘ لیکن اب اس اُمت میں اختلاف کے معنی مخالفت کے ہوگئے ہیں اور کسی سے کسی مسئلے میں اختلاف ہوجانے کا مطلب یہ ہوگیا ہے کہ آدمی پنجے جھاڑ کر اُس کے پیچھے پڑ جائے‘ یہاں تک کہ اُس کی تحقیروتذلیل میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھے۔ اور جو کہیں اختلاف مذہبی نوعیت کا ہوجائے تو پھر اسے جہنم کے دروازے تک پہنچائے بغیر دم لینا حرام ہے۔ اس سے بڑی بدنصیبی اور کیا ہو سکتی ہے کہ اللہ اور اُس کے رسولؐ نے جن کے لیے وحدت کا اِتنا بڑا سامان کیا تھا اُن کے لیے اب تفرقے کے سارے دروازے کھل گئے ہیں اور وحدت کے دروازے بند ہوتے چلے جاتے ہیں‘ حتیٰ کہ مل کر نماز پڑھنا بھی مشکل ہوگیا ہے۔ مسجدیں الگ ہوگئی ہیں۔ ایک مسجد میں دوسرے مسلک کا آدمی نماز پڑھ لے تو وہ جگہ ناپاک ہوجاتی ہے جہاں اس نے نماز پڑھی ہو۔ ایک گروہ کا آدمی دوسرے گروہ کے آدمی سے مصافحہ تک کرنے سے اجتناب کرتا ہے کہ کہیں اس کا ہاتھ گندا نہ ہو جائے۔ اناللّٰہِ وانا الیہ راجعون!

یہ سب کچھ اُسی چیز کا نتیجہ ہے جس کی طرف میں پہلے اشارہ کرچکا ہوں کہ مختلف لوگوں نے توحید اور دین و شرع میں نئی نئی چیزوں کی آمیزش کی ہے‘ اصل دین کے عقائد و احکام میں کچھ بڑھایا اور کچھ گھٹایا ہے۔ جو چیزیں اہم نہ تھیں اُنھیں اہم ترین بنایا ہے اور جو اہم تھیں انھیں غیراہم بنا دیا ہے اور پھر انھی آمیزشوںاور اِسی کمی وبیشی کو مدارِ ایمان قرار دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُمت کے مختلف گروہ آپس ہی میں برسرِپیکار ہوگئے ہیں۔ اس حالت میں ہدایت سے بیگانہ انسانوں کو حق کی دعوت دے کر‘ اِس عالم گیر برادری میں شامل کرنا تو الگ رہا جو اس برادری میں پہلے سے شامل ہیں خود انھیں بھی اس سے خارج کرنے کا کام کارِثواب سمجھ کر انجام دیا جا رہا ہے۔ اس صورتِ حال نے ہمیں غیرمسلموں کے لیے ایک تماشا بنا کر رکھ دیا ہے اور مستشرقین کو  یہ کہنے کی ہمت ہوئی ہے کہ یہ اُمت سرے سے کوئی اُمت ہی نہیں ہے۔ اِس وقت اشاعت ِ اسلام کی راہ میں اگر کوئی سب سے بڑی رکاوٹ ہے تو وہ ہماری یہی حالت ہے۔ خدا ہم پر رحم فرمائے  اور ہمیں راہِ راست دکھائے۔ آمین! (عیدالاضحی کے موقع پر تقریر‘ ۲ دسمبر ۱۹۷۶ئ‘ منصورہ‘ لاہور)

اللہ کا دین اوّل تو یہ چاہتا ہے کہ لوگ بالکلیّہ بندۂ حق بن کر رہیں اور اُن کی گردن میں اللہ کے سوا کسی اور کی بندگی کا حلقہ نہ ہو۔ پھر وہ چاہتا ہے کہ اللہ ہی کا قانون لوگوں کی زندگی کا قانون بن کر رہے۔ پھر اس کا مطالبہ یہ ہے کہ زمین سے فساد مٹے‘ اُن منکرات کا استیصال کیا جائے جو اہل زمین پر اللہ کے غضب کے موجب ہوتے ہیں اور اُن خیرات و حسنات کو فروغ دیا جائے جو اللہ کو پسند ہیں۔ اِن تمام مقاصد میں سے کوئی مقصد بھی اِس طرح پورا نہیں ہو سکتا کہ نوعِ انسانی کی رہنمائی و قیادت اور معاملاتِ انسانی کی سربراہ کاری ائمۂ کفروضلال کے ہاتھوں میں ہو اور دین حق کے پیرو محض اُن کے ماتحت رہ کر اُن کی دی ہوئی رعایتوں اور گنجایشوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یادِ خدا کرتے رہیں۔ یہ مقاصد تو لازمی طور پر اس بات کا مطالبہ کرتے ہیں کہ تمام اہل خیروصلاح جو اللہ کی رضا کے طالب ہوں اجتماعی قوت پیدا کریں اور سردھڑ کی بازی لگا کر ایک ایسا نظامِ حق قائم کرنے کی سعی کریں جس میں امامت و رہنمائی اور قیادت و فرماں روائی کا منصب مومنین صالحین کے ہاتھوں میں ہو۔ اس چیز کے بغیر وہ مدّعا حاصل ہی نہیں ہوسکتا جو دین کا اصل مدّعا ہے۔

اسی لیے دین میں امامت ِ صالحہ کے قیام اور نظامِ حق کی اقامت کو مقصدی اہمیت حاصل ہے اور اس چیز سے غفلت برتنے کے بعد کوئی عمل ایسا نہیں ہو سکتا جس سے انسان     اللہ تعالیٰ کی رضا کو پہنچ سکے۔ غور کیجیے‘ آخر قرآن و حدیث میں التزامِ جماعت اور سمع و اطاعت پر اتنا زور کیوں دیا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص جماعت سے خرُوج اختیار کرے تو اس سے قتال واجب ہے خواہ وہ کلمۂ توحید کا قائل اور نماز روزے کا پابند ہی کیوں نہ ہو؟ کیا اس کی وجہ یہ اور صرف یہی نہیں ہے کہ امامت ِ صالحہ اور نظامِ حق کا قیام و بقا دین کا حقیقی مقصود ہے‘اور اس مقصد کا حصول اجتماعی طاقت پر موقوف ہے‘ لہٰذاجو شخص اجتماعی طاقت کو نقصان پہنچاتا ہے وہ اتنے بڑے جرم کا ارتکاب کرتا ہے جس کی تلافی نہ نماز سے ہو سکتی ہے اور نہ اقرارِ توحید سے؟ پھر دیکھیے کہ آخر اس دین میں جہاد کو اتنی اہمیت کیوں دی گئی ہے کہ اس سے جی چرانے اور منہ موڑنے والوں پر قرآن مجید نفاق کا حکم لگاتاہے؟ جہاد‘ نظامِ حق کی سعی کا ہی تو دوسرا نام ہے۔ اور قرآن اسی جہاد کو وہ کسوٹی قرار دیتا ہے جس پر آدمی کا ایمان پرکھا جاتا ہے۔ بالفاظِ دیگر جس کے دل میں ایمان ہوگا وہ نہ تو نظامِ باطل کے تسلّط پر راضی ہو سکتا ہے اور نہ نظامِ حق کے قیام کی جدوجہد میں جان و مال سے دریغ کر سکتا ہے۔ اس معاملے میں جو شخص کمزوری دکھائے اس کا ایمان ہی مشتبہ ہے‘ پھر بھلا کوئی دوسرا عمل اسے کیا نفع پہنچا سکتا ہے؟…

اسلام کے نقطۂ نظر سے امامت ِ صالحہ کا قیام مرکزی اور مقصدی اہمیت رکھتا ہے۔ جو شخص اس دین پر ایمان لایا ہو‘ اُس کا کام صرف اتنے ہی پر ختم نہیں ہوجاتا کہ اپنی زندگی کو حتی الامکان اسلام کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کرے بلکہ عین اس کے ایمان ہی کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اپنی تمام سعی و جہد کو اِس ایک مقصد پر مرکوز کر دے کہ زمامِ کار کفار و فساق کے ہاتھ سے نکل کر صالحین کے ہاتھ میں آئے‘ اور وہ نظامِ حق قائم ہو جو اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق دنیا کے انتظام کو درست کرے اور درست رکھے۔ پھر چونکہ یہ مقصد ِاعلیٰ اجتماعی کوشش کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا اس لیے ایک ایسی جماعت صالحہ کا وجود ضروری ہے جو خود اصولِ حق کی پابند ہو اور نظامِ حق کو قائم کرنے‘ باقی رکھنے اور ٹھیک ٹھیک چلانے کے سوا دُنیا میں کوئی دوسری غرض پیشِ نظر نہ رکھے۔

رُوے زمین پر اگر صرف ایک ہی آدمی مومن ہو تب بھی اس کے لیے یہ درست نہیںہے کہ اپنے آپ کو اکیلا پاکر اور ذرائع مفقود دیکھ کر نظامِ باطل کے تسلّط پر راضی ہوجائے یا اہون البلیتین کے شرعی حیلے تلاش کر کے غلبۂ کفروفسق کے ماتحت کچھ آدھی پونی مذہبی زندگی کا سودا چکانا شروع کر دے‘ بلکہ اُس کے لیے سیدھا اور صاف راستہ صرف یہی ایک ہے کہ بندگانِ خدا کو اُس طریق زندگی کی طرف بلائے جو خدا کو پسند ہے۔ پھر اگر کوئی اس کی بات سُن کر نہ دے تو اُس کا ساری عمر صراطِ مستقیم پر کھڑے ہو کر لوگوں کو پکارتے رہنا اور پکارتے پکارتے مر جانا اِس سے لاکھ درجہ بہترہے کہ وہ اپنی زبان سے وہ صدائیں بلند کرنے لگے جو ضلالت میں بھٹکی ہوئی دُنیا کو مرغوب ہوں‘ اور اُن راہوں پر چل پڑے جن پر کفار کی امامت میں دنیا چل رہی ہو۔ اور اگر کچھ اللہ کے بندے اس کی بات سننے پر آمادہ ہو جائیں تو اس کے لیے لازم ہے کہ ان کے ساتھ مل کر ایک جتھا بنائے اور یہ جتھا اپنی تمام اجتماعی قوت اُس مقصد ِعظیم کے لیے جدوجہد کرنے میں صرف کردے جس کا میں ذکر کر رہا ہوں۔

حضرات! مجھے خدا نے دین کا جو تھوڑا بہت علم دیا ہے اور قرآن و حدیث کے مطالعے سے جو کچھ بصیرت مجھے حاصل ہوئی ہے‘ اس سے میں دین کا تقاضا یہی کچھ سمجھا ہوں۔ یہی میرے نزدیک کتابِ الٰہی کا مطالبہ ہے۔ یہی انبیا کی سنت ہے اور میں اپنی اس رائے سے ہٹ نہیں سکتا جب تک کوئی خدا کی کتاب اور رسولؐ کی سنت ہی سے مجھ پر ثابت نہ کر دے کہ دین کا یہ تقاضا نہیں ہے۔ (تحریک اسلامی کی اخلاقی بنیادیں‘ ص ۹-۱۳)

کام کی راہیں

سب سے پہلے یہ بات سمجھ لیجیے کہ دنیاے اسلام اس وقت دو بڑے حصوں میں بٹی ہوئی ہے۔ ایک حصہ وہ جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں اور سیاسی اقتدار غیرمسلموں کے ہاتھوں میں ہے۔ دوسرا حصہ وہ جہاں غالب اکثریت مسلمانوں کی ہے اور سیاسی اقتدار بھی انھی کے ہاتھ میں ہے۔ ان دونوں حصوں میں سے فطری طور پر زیادہ اہمیت دوسرے حصے کو حاصل ہے اور ملّت اسلامیہ کا مستقبل بہت بڑی حد تک اُس روش پر منحصر ہے جو آزاد مسلم مملکتیں اختیار کر رہی ہیں اور آگے اختیار کرنے والی ہیں۔ اگرچہ پہلا حصہ بھی کچھ کم وزن نہیں رکھتا۔ اپنی جگہ اس کو بھی بڑا اہم مقام حاصل ہے۔ کیونکہ کسی نظریۂ حیات اور عقیدہ و مسلک کے پیرووں کا دنیا کے ہر خطے اور ہر گوشے میں پہلے ہی سے موجود ہونا ‘ اور قلیل تعداد میں نہیں بلکہ کروڑوں کی تعداد میں موجود ہونا‘ ان لوگوں کے لیے بڑی تقویت کا موجب ہوسکتا ہے جو اُس نظریے اور عقیدے و مسلک کی      علم برداری کے لیے اُٹھیں۔ لیکن یہ ظاہر ہے کہ اگروہ نظریہ اور عقیدہ و مسلک خود اپنے ہی گھر میں مغلوب ہو جائے تو روے زمین پر پھیلے ہوئے اس کے یہ پیرو‘ جو پہلے ہی سے مغلوب ہیں‘ زیادہ دیر تک اپنے مقام پر ٹھیرے نہیں رہ سکتے۔ اس بنا پر یہ کہنا صحیح ہے کہ اس وقت نظر بظاہر دنیاے اسلام کے مستقبل کا انحصار اُن مسلم ممالک ہی کے مستقبل پر ہے جوانڈونیشیا اور ملایا سے لے کر مراکو اور نائیجیریا تک پھیلے ہوئے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت و حکمت کوئی اورکرشما دکھا دے جس کا ہم ظاہری اسباب کو دیکھتے ہوئے کوئی اندازہ نہ کر سکتے ہوں۔ وہ چاہے تو چٹانوں میں سے چشمے پھوڑ کر نکال سکتا ہے اور ریگستانوں کو اپنے ایک اشارے سے گلستانوں میں تبدیل کر سکتا ہے۔

آزاد مسلم ممالک کی حالت

اب اسی مفروضے پر کہ دنیاے اسلام کا مستقبل مسلم ممالک کے ساتھ وابستہ ہے‘ ذرا اس امر کا جائزہ لیجیے کہ یہ ملک اس وقت کس حالت میں ہیں‘ اور جس حال میں یہ ہیں‘ اس کے اسباب کیا ہیں؟

آپ لوگ یہ بات جانتے ہیں کہ ایک طویل مدت تک ذہنی جمود‘ عقلی انحطاط‘ اخلاقی زوال اور مادّی اضمحلال میں مبتلا رہنے کے بعد آخرکار اکثروبیشتر مسلمان ملک مغربی استعمار کے شکار ہوتے چلے گئے تھے۔ اٹھارھویں صدی مسیحی سے یہ عمل شروع ہوا تھا اور موجودہ صدی کے اوائل میں یہ اپنے انتہائی کمال کو پہنچ گیا تھا۔ اس زمانے میں گنتی کے صرف دوچار مسلمان ملک باقی رہ گئے تھے جو براہِ راست مغربی مستعمرین کی سیاسی غلامی میں مبتلا ہونے سے بچ گئے۔   مگر پے درپے شکستیں کھا کھا کر اُن کا حال غلاموں سے بھی بدتر ہوگیا اور اُن کی مرعوبیت اور دہشت زدگی اُن لوگوں سے بھی کچھ زیادہ بڑھ گئی جو اپنی سیاسی آزادی پوری طرح کھو بیٹھے تھے۔

مغربی استعمار کے ثمرات

مغربی استعمار کے اس غلبے کا سب سے زیادہ تباہ کن نتیجہ وہ تھا جو ہماری ذہنی شکست اور ہمارے اخلاقی بگاڑ کی شکل میں رونما ہوا۔ اگر یہ مستعمرین ہمیں لوٹ کر بالکل غارت کر دیتے اور قتل عام کرکے ہماری نسلوں کو مٹا دیتے‘ تب بھی یہ اتنا بڑا ظلم نہ ہوتا جتنا بڑا ظلم انھوں نے اپنی تعلیم اور اپنی تہذیب و ثقافت اور اپنے اخلاقی مفاسد پھیلا کر ہم پر ڈھایا۔ جن جن مسلمان ملکوں پر اُن کا تسلّط ہوا وہاں ان سب کی مشترک پالیسی یہ رہی کہ ہمارے آزاد نظامِ تعلیم کو ختم کر دیں‘ یا اگر وہ پوری طرح ختم نہ ہو سکے تو اس سے فارغ ہو کر نکلنے والوں کے لیے حیات اجتماعی میں کوئی مصرف باقی نہ رہنے دیں۔ اسی طرح یہ بھی ان کی پالیسی کا ایک لازمی جز رہا کہ مفتوح قوموں کی اپنی زبانوں کو ذریعہ ء تعلیم اور سرکاری زبان کی حیثیت سے باقی نہ رہنے دیں اور ان کی جگہ فاتحین کی زبانوں کو ذریعہ ء تعلیم بھی بنائیں اور سرکاری زبان بھی قرار دے دیں۔ مشرق سے مغرب تک تمام مغربی فاتحین نے بالاتفاق یہی عمل تمام مسلم ممالک میں کیا‘ خواہ وہ ڈچ ہوں یا انگریز یا فرانسیسی یا اطالوی یا کوئی اور ۔ اس طریقے سے ان مستعمرین نے ہمارے ہاں ایک ایسی نسل تیار کر دی جو ایک طرف تو اسلام اور اس کی تعلیمات سے ناواقف‘ اس کے عقیدہ و مسلک سے بیگانہ‘ اور اس کی تاریخ اور روایات سے نابلد تھی‘ اور دوسری طرف اس کا ذہن اور اندازِ فکر اور زاویۂ نظر مغربی سانچے میں ڈھل چکا تھا۔ پھر اس نسل کے بعد پے درپے دوسری نسلیں ایسی اُٹھتی چلی گئیں جو اسلام سے اور زیادہ دور اور مغربی فلسفۂ حیات اور تہذیب و تمدن میں زیادہ سے زیادہ غرق ہو چکی تھیں۔ ان کے لیے اپنی زبان میں بات کرنا موجب ننگ و عار اور فاتحین کی زبان میں بولنا موجب افتخار بن گیا۔

مغربی فاتح نصرانیت کے لیے خواہ کتنے ہی متعصب ہوں‘ ان فرنگیت مآب غلاموں کو مسلمان ہونے پر شرم آنے لگی اور اسلام کے خلاف بغاوت کا یہ فخریہ اظہار کرنے لگے۔ مغربی فاتح اپنی فرسودہ اور بوسیدہ قومی روایات کا کتنا ہی احترام کرتے ہوں‘ یہ غلام لوگ اپنی روایات کی تحقیر کرنا ہی اپنے لیے ذریعہ ء عزت سمجھنے لگے۔ مغربی فاتحین نے مدت العمر مسلمان ملکوں میں رہنے کے باوجود کبھی مسلمانوں کے لباس اور طرزِ زندگی اختیار نہ کیے‘ مگر یہ غلام لوگ اپنے ہی ملکوں میں رہتے ہوئے ان فاتحین کے لباس‘ اُن کے رہن سہن کے طریقے‘ ان کے کھانے پینے کے ڈھنگ‘ ان کی ثقافت کے اطوار‘ حتیٰ کہ ان کی حرکات و سکنات تک کی نقل اتارنے لگے اور اپنی قوم کی ہر چیز ان کی نگاہوں میں حقیر ہوکر رہ گئی۔ پھر مغربی فاتحین کی تقلید میں ان لوگوں نے مادہ پرستی‘ الحاد‘ عصبیت ِ جاہلیہ‘ قوم پرستی‘ اخلاقی بے قیدی اور فسق و فجور کا پورا زہر اپنے اندر جذب کر لیا‘ اور ان کے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی کہ جو کچھ مغرب کی طرف سے آتا ہے وہ سراسر حق ہے‘ اسے اختیار کرنا ہی ترقی پسندی ہے اور اس سے منہ موڑنے کے معنی رجعت کے سوا کچھ  نہیں ہیں۔

مغربی مستعمرین کی مستقل پالیسی یہ تھی کہ جو لوگ اس رنگ میں جتنے زیادہ رنگ جائیں اور اسلام کے اثرات سے جس قدر زیادہ عاری ہوں‘ اُن کو زندگی کے ہر شعبے میں اتنا ہی زیادہ بلند مرتبہ دیا جائے۔ اس پالیسی کا نتیجہ یہ ہوا‘ اور اس کا لازمی نتیجہ یہی ہونا چاہیے تھا کہ سلطنتوں میں اونچے سے اونچے عہدے انھی کو ملے۔ مستعمرین کی فوجی اور سول ملازمتوں میں یہی کلیدی مناصب پر پہنچے۔ سیاست میں انھی کو اہم حیثیت حاصل ہوئی۔ سیاسی تحریکوں کے یہی لیڈر بنے۔ پارلیمنٹوں میں یہی نمایندے بن کر پہنچے اور مسلمان ملکوں کی معاشی زندگی پر بھی یہی چھا گئے۔

اس کے بعد جب مسلمان ملکوں میں آزادی کی تحریکیں اُٹھنی شروع ہوئیں تو ناگزیر تھا کہ ان تحریکوں کی قیادت یہی لوگ کریں‘ کیونکہ یہی حکمرانوں کی زبان میں بات کر سکتے تھے‘ یہی ان کے مزاج کو سمجھتے تھے‘ اور یہی اُن سے قریب تر تھے۔ اسی طرح جب یہ ممالک آزاد ہونے شروع ہوئے تو آزادی کے بعد اقتدار بھی انھی کے ہاتھوں میں منتقل ہوا اور مستعمرین کی خلافت انھی کو نصیب ہوئی‘ کیونکہ مستعمرین کے ماتحت سیاسی نفوذ و اثر انھی کو حاصل تھا‘ سول حکومت کا نظم و نسق یہی چلا رہے تھے اور فوجوں میں بھی قیادت کے مناصب پر یہی فائز تھے۔

چند نمایاں پہلو

استعمار کے آغاز سے لے کر اس کے اختتام اور آزادی کی ابتدا تک کی اس تاریخ کے چند نمایاں پہلو ایسے ہیں جنھیں نگاہ میں رکھنا ضروری ہے‘ کیونکہ انھیں نظرانداز کر کے اس وقت کی پوری صورتِ حال کو ٹھیک ٹھیک نہیں سمجھاجاسکتا۔

اوّل یہ کہ مغربی مستعمرین اپنی پوری مدتِ استعمار میں کسی جگہ بھی اس بات پر قادر نہیں ہو سکے کہ عام مسلمانوں کو اسلام سے منحرف کر سکیں۔ انھوں نے جہالت ضرور پھیلائی اور عوام کے اخلاق بھی بہت کچھ بگاڑے‘ اور اسلامی قوانین کی جگہ اپنے قوانین رائج کر کے مسلمانوں کو غیرمسلمانہ زندگی بسر کرنے کا خوگر بھی بنا دیا‘ لیکن اس کے باوجود دنیا کی کوئی مسلمان قوم بھی  من حیث القوم ان کے زیراثر رہ کر اسلام سے باغی نہ ہو سکی۔ آج دنیا کے ہر ملک میں عام لوگ اسلام کے ویسے ہی معتقد ہیں جیسے تھے۔ وہ چاہے اسلام کو جانتے نہ ہوں مگر اسے مانتے ہیں اور اس کے ساتھ گہرا عشق رکھتے ہیں اور اس کے سوا کسی اور چیز پر راضی نہیں ہیں۔ اُن کے اخلاق بری طرح بگڑ چکے ہیں اور ان کی عادتیں بہت خراب ہو چکی ہیں۔ لیکن ان کی قدریں نہیں بدلیں اور ان کے معیار جوں کے توں قائم ہیں۔ وہ سود اور زنا اور شراب نوشی میں مبتلا ہوسکتے ہیں اور ہورہے ہیں مگر چھوٹی سی فرنگیت زدہ اقلیت کو چھوڑ کر عام مسلمانوں میں آپ کو ایسا کوئی شخص   نہ ملے گا جو ان چیزوں کو حرام نہ مانتا ہو۔ وہ رقص و سرود اور دوسرے فواحش کی لذتوں کو چاہے چھوڑ نہ سکتے ہوں مگر چھوٹی سی مغرب زدہ اقلیت کے سوا عامۃ المسلمین کسی طرح بھی یہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ یہی اصل ثقافت ہے۔ اسی طرح مغربی قوانین کے تحت زندگی بسر کرتے ہوئے اُن کی پشتیں گزر چکی ہیں‘ مگر ان کے دماغ میں آج تک یہ بات نہیں اتر سکی ہے کہ یہی قوانین برحق ہیں اور اسلام کا قانون فرسودہ ہو چکا ہے۔ مغرب زدہ اقلیت ان مغربی قوانین پر چاہے کتنا ہی ایمان لاچکی ہو‘ عام مسلمان اکثریت ہمیشہ کی طرح آج بھی اسلام ہی کے قانون کو برحق مانتی ہے اور اس کا نفاذ چاہتی ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ علماے دین ہر جگہ عوام کے قریب ہیں‘ کیونکہ وہ انھی کی زبان سے بولتے ہیں اور اسی عقیدہ و مسلک کی نمایندگی کرتے ہیں جس کے عوام معتقد ہیں لیکن زمامِ اقتدار سے وہ کلّی طور پر بے دخل ہیں۔ اور ایک مدت دراز تک دنیوی معاملات سے بے تعلق رہنے کے باعث اُن میں یہ صلاحیت بھی باقی نہیں رہی ہے کہ مسلمانوں کی سیاسی رہنمائی کرسکیں اور    زمامِ اقتدار ہاتھ میں لے کر کسی ملک کا نظام چلا سکیں۔ اسی وجہ سے کسی مسلمان ملک میں بھی وہ آزادی کی تحریک کے قائد نہ بن سکے اور کہیں بھی آزادی کے بعد اقتدار میں وہ شریک نہ ہوسکے۔ ہماری اجتماعی زندگی میں ایک مدت سے اُن کا کام بس وہ ہے جو ایک موٹر میں بریک کا ہوتا ہے۔ ڈرائیور مغربیت زدہ طبقہ ہے اور یہ بریک گاڑی کی رفتار کو تیز ہونے سے کچھ نہ کچھ روک رہا ہے۔ مگر بعض ملکوں میں بریک ٹوٹ چکا ہے اور گاڑی پوری سرعت کے ساتھ نشیب کی طرف جا رہی ہے‘ اگرچہ اس کے چلانے والے اس غلط فہمی میں ہیں کہ وہ فراز پر چڑھ رہے ہیں۔

تیسری بات یہ ہے کہ دنیا میں جہاں بھی کسی ملک میں آزادی کی تحریک اُٹھی‘ اس کے قائدین اگرچہ وہی مغربیت زدہ لوگ تھے ‘ لیکن کسی جگہ بھی وہ عام مسلمانوں کو مذہبی اپیل کے بغیر نہ حرکت میں لا سکے اور نہ قربانیاں دینے پر آمادہ کر سکے۔ بلااستثنا ہر جگہ انھیں اسلام کے نام پر لوگوں کو پکارنا پڑا۔ ہر جگہ اُن کو خدا اور رسول اور قرآن ہی کے نام پر اپیل کرنی پڑی۔ ہر جگہ انھیں آزادی کی تحریک کو اسلام اور کفر کی جنگ قرار دینا پڑا۔ اس کے بغیر وہ کہیں بھی اپنی قوم کو اپنے پیچھے نہ لگا سکتے تھے۔ اب یہ تاریخ عالم کی عظیم ترین غداریوں میں سے ایک بے نظیر غداری ہے کہ ہر جگہ آزادی حاصل کرنے کے بعد فوراً ہی یہ لوگ اپنے تمام وعدوں سے پھر گئے اور ان کا پہلا شکار وہی اسلام ہوا جس کے نام پر انھوں نے آزادی کا معرکہ جیتا تھا۔

چوتھی اور آخری بات قابل ذکر یہ ہے کہ ان لوگوں کی قیادت میں مسلمان ملکوں کو جو آزادی حاصل ہوئی ہے وہ صرف سیاسی آزادی ہے۔ پچھلی غلامی اور اِس آزادی میں فرق صرف یہ ہے کہ پہلے جو زمامِ اقتدار باہر والوں کے ہاتھ میں تھی‘ اب وہ گھر والوں کے ہاتھ میں ہے۔ لیکن اس لحاظ سے کوئی فرق نہیں پڑاہے کہ جس ذہن کے آدمی جن نظریات اور اصولوں کے ساتھ پہلے حکومت کر رہے تھے اُسی ذہن کے آدمی انھی نظریات کے ساتھ آج بھی حکومت کر رہے ہیں۔ وہی نظامِ تعلیم جو مستعمرین نے قائم کیا تھا اب بھی چل رہا ہے۔ انھی کے رائج کردہ قوانین نافذ ہیں اور آگے مزید قانون سازی اُنھی خطوط پر ہو رہی ہے بلکہ مغربی مستعمرین نے مسلمانوں کے قانون احوال شخصیہ (پرسنل لا) پر جو دست درازیاں کرنے کی کبھی ہمت نہ کی تھی‘ وہ آج آزاد مسلم مملکتوں میں کی جا رہی ہے۔ تہذیب و ثقافت اور اخلاق و تمدّن کے جو نظریات مستعمرین دے گئے ہیں‘ ان میں سے کسی چیز کو بدلنا تو درکنار‘ آج یہ لوگ اپنی قوموں کو اُن سے بھی زیادہ اُس تہذیب میں غرق اور اُن اخلاقی نظریات کے مطابق مسخ کر رہے ہیں۔ وہ قومیت کے مغربی نظریات کے سوا اجتماعی زندگی کا کوئی دوسرا نقشہ نہیں سوچ سکتے۔ اسی نقشے پر وہ مسلم مملکتوں کے نظام چلا رہے ہیں اور اس کی وجہ سے انھوں نے مسلمان قوموں کو ایک دوسرے سے پھاڑ کر رکھ دیا ہے۔ ان کے ذہنوں میں الحاد بس گیا ہے اور جہاں جہاں بھی انھیں اثر ڈالنے کا موقع ملتا ہے وہاں وہ مسلمانوں کی نئی نسلوں کو اس حد تک خراب کرتے چلے جا رہے ہیں کہ وہ خدا اور رسول اور آخرت کا مذاق اڑاتی ہیں۔ وہ اباحیت میں خود تو مستغرق ہیں اور ان کی قیادت ہر جگہ مسلمانوں کے اندر فسق و فجور اور بے حیائی پھیلاتی چلی جا رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ مغربی استعمار کے چاہے کتنے ہی دشمن ہوں‘ مغربی مستعمرین اُن کو دنیا کی ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں۔ ان کی ہرادا پر یہ مرے مٹتے ہیں۔ ان کی ہر بات کو یہ معیارِ حق سمجھتے ہیں۔ ان کے ہر کام کی یہ نقل اتارتے ہیں۔ اُن میں اور اِن میں فرق صرف یہ ہے کہ وہ مجتہد ہیں اور یہ محض اندھے مقلّد۔ یہ اُن کی پٹی ہوئی راہوں سے ہٹ کر ایک انچ بھی کوئی نیا راستہ نہیں نکال سکتے۔

یہ چار حقائق جو میں نے آپ کے سامنے بیان کیے ہیں‘ ان کو نگاہ میں رکھ کر آپ دنیا کی آزاد مسلمان قوموں کی موجودہ حالت کا جائزہ لیں تو اس وقت کی پوری صورت حال آپ پر واضح ہو جائے گی۔ دنیا کی تمام آزاد مسلم حکومتیں اس وقت بالکل کھوکھلی ہو رہی ہیں۔ کیونکہ ہر جگہ  وہ اپنی اپنی قوموں کے ضمیر سے لڑ رہی ہیں۔ ان کی قومیں اسلام کی طرف پلٹنا چاہتی ہیں اور یہ اُن کو زبردستی مغربیت کی راہ پر گھسیٹ رہے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ کہیں بھی مسلمان قوموں کے دل اپنی حکومتوں کے ساتھ نہیں ہیں۔ حکومتیں اس وقت مضبوط ہوتی ہیں جب حکمرانوں کے ہاتھ اور قوموں کے دل پوری طرح متفق ہو کر تعمیرحیات کے لیے سعی کریں۔ اس کے بجاے جہاں دل اور ہاتھ ایک دوسرے سے نزاع و کش مکش میں مشغول ہوں وہاں ساری قوتیں آپس ہی کی لڑائی میں کھپ جاتی ہیں اور تعمیروترقی کی راہ میں کوئی پیش قدمی نہیں ہوتی۔

حکمرانوں اور عوام کی کش مکش کا نتیجہ

اسی صورتِ حال کا ایک فطری نتیجہ یہ بھی ہے کہ مسلمان ملکوں میں پے درپے آمریتیں قائم ہو رہی ہیں۔ مغربیت زدہ طبقے کی وہ چھوٹی سی اقلیت ‘ جس کو مستعمرین کی خلافت حاصل ہوئی ہے‘ اس بات کو اچھی طرح جانتی ہے کہ اگر نظامِ حکومت عوام کے ووٹوں پر مبنی ہو تو اقتدار ان کے ہاتھ میں نہیں رہ سکتا بلکہ جلدی یا دیر سے وہ لازماً ان لوگوں کی طرف منتقل ہو جائے گا جو عوام کے جذبات اور اعتقادات کے مطابق حکومت کا نظام چلانے والے ہوں۔ اس لیے وہ کسی جگہ بھی جمہوریت کو چلنے نہیں دے رہے ہیں اور آمرانہ نظام قائم کرتے جا رہے ہیں۔ اگرچہ فریب دینے کے لیے انھوں نے آمریت کا نام جمہوریت رکھ دیا ہے۔

ابتداًء کچھ مدت تک قیادت اس گروہ کے سیاسی لیڈروں کے ہاتھ میں رہی اور سول حکام مسلمان ملکوں کے نظم و نسق چلاتے رہے۔ لیکن یہ بھی اسی صورتِ حال کا ایک فطری نتیجہ تھا کہ مسلمان ملکوں کی فوجوں میں بہت جلدی یہ احساس پیدا ہوگیا کہ آمریت کا اصل انحصار انھی کی طاقت پر ہے۔ یہ احساس بہت جلدی فوجی افسروں کو میدانِ سیاست میں لے آیا اور انھوں نے خفیہ سازشوں کے ذریعے سے حکومتوں کے تختے اُلٹنے اور خود اپنی آمریتیں قائم کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ اب مسلمان ملکوں کے لیے ان کی فوجیں ایک مصیبت بن چکی ہیں۔ اُن کا کام باہر کے دشمنوں سے لڑنا اور ملک کی حفاظت کرنا نہیں‘ بلکہ اب اُن کا کام یہ ہے کہ اپنے ہی ملکوں کو فتح کریں اور جو ہتھیار اُن کی قوموں نے ان کو مدافعت کے لیے دیے تھے انھی سے کام لے کر وہ اپنی قوموں کو اپنا غلام بنا لیں۔ اب مسلمان ملکوں کی قسمتوں کے فیصلے انتخابات یا پارلیمنٹوں میں نہیں بلکہ فوجی بیرکوں میں ہو رہے ہیں‘ اور یہ فوجیں بھی کسی ایک قیادت پر متفق نہیں ہیں‘ بلکہ ہرفوجی افسر اس تاک میں لگا ہوا ہے کہ کب اسے کوئی سازش کرنے کا موقع ملے اور وہ دوسرے کو مار کر خود اس کی جگہ لے لے۔ ان میں سے ہر ایک جب آتا ہے تو زعیم انقلاب بن کر آتا ہے اور جب رخصت ہوتا ہے تو خائن و غدار قرار پاتا ہے۔ مشرق سے مغرب تک بیشتر مسلمان قومیں اب محض تماشائی ہیں۔ ان کے معاملات چلانے میں اب ان کی رائے اور مرضی کاکوئی دخل نہیں ہے۔ ان کے علم کے بغیراندھیرے میں انقلاب کی کھچڑی پکتی ہے اور کسی روز یکایک ان کے سروںپر اُلٹ پڑتی ہے۔ البتہ ایک چیز میں یہ سب متحارب انقلابی لیڈر متفق ہیں اور وہ یہ ہے کہ ان میں سے جو بھی اُبھر کر اُوپرآتا ہے وہ اپنے پیش رو ہی کی طرح مغرب کا ذہنی غلام اور الحاد و فسق کا علم بردار ہوتا ہے۔

اُمید کی کرن

ان تاریک حالات میں ایک روشنی موجود ہے جس کے اندر دو حقیقتیںمجھے صاف نظر آرہی ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ نے الحاد و فسق کے ان علم برداروں کو ایک دوسرے سے لڑا دیا ہے اور یہ خود ہی ایک دوسرے کی جڑ کاٹ رہے ہیں۔ خدانخواستہ اگر یہ متحد ہوتے تو ناقابلِ علاج مصیبت بن جاتے۔ مگر ان کا رہنما شیطان ہے اور شیطان کاکید ] چال[ ہمیشہ ضعیف ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ دوسری اہم حقیقت جو میں دیکھ رہا ہوں وہ یہ ہے کہ مسلمان قوموں کے دل بالکل محفوظ ہیں‘ وہ ہرگز ان نام نہاد انقلابی لیڈروں سے راضی نہیں ہیں‘ اور اس امرکے پورے امکانات موجود ہیں کہ اگر کوئی صالح گروہ فکر کے اعتبار سے مسلمان اور ذہنی قابلیتوں کے لحاظ سے قیادت کا اہل ہو تو آخرکار وہی غالب آئے گا اور مسلمان قومیں اس الحاد و فسق کی قیادت سے نجات پاجائیں گی۔

کام کی راہیں

اس وقت کام کا اصل موقع اُن لوگوں کے لیے ہے جنھوں نے ایک طرف مغربی طرز کی تعلیم پائی ہے اور دوسری طرف جن کے دلوں میں خدا اور رسول اور قرآن اور آخرت پر ایمان محفوظ ہے…

اسلام کا صحیح علم :

ان کو اسلام کا صحیح علم حاصل کرنا چاہیے تاکہ ان کے دل جس طرح مسلمان ہیں اسی طرح ان کے دماغ بھی مسلمان ہوجائیں اور یہ اجتماعی معاملات کو اسلامی احکام اور اصولوں کے مطابق چلانے کے قابل بن جائیں۔

اپنی اخلاقی اصلاح:ان کو اپنی اخلاقی اصلاح کرنی چاہیے تاکہ ان کی اخلاقی زندگیاں عملاً بھی اُسی اسلام کے مطابق ہوجائیں جس کو وہ اعتقاداً برحق مانتے ہیں۔ یاد رکھیے کہ قول اور عمل کا تضاد آدمی کے اندر نفاق پیدا کرتا ہے اور باہر کی دنیا میں اس کا اعتماد ختم کر دیتا ہے۔ آپ کی کامیابی کا سارا انحصار اخلاص اور راست بازی پر ہے‘ اور کوئی ایسا شخص نہ مخلص ہوسکتا ہے ‘ نہ مخلص مانا جاسکتا ہے جو کہے کچھ اور کرے کچھ۔ آپ کی اپنی زندگی میں اگر تناقض ہوگا تو نہ دوسرے آپ پر اعتماد کریں گے اور نہ خود آپ کے دل میں اپنے اُوپر وثوق پیدا ہو سکے گا۔ اس لیے دعوتِ اسلامی کے لیے کام کرنے والے تمام لوگوں کو میری مخلصانہ نصیحت یہ ہے کہ جن جن امور کے متعلق انھیں یہ علم حاصل ہوتا جائے کہ اسلام نے ان کا حکم دیا ہے‘ اُن پر عامل ہونے کی‘ اور جن کے متعلق انھیں معلوم ہوتا جائے کہ اسلام نے انھیں منع کیا ہے‘ ان سے اجتناب کرنے کی پوری کوشش کریں۔

مغربی تہذیب و فلسفہ پر تنقید:

اُن کو اپنی تمام ذہنی صلاحیتیں اور تحریر و تقریر کی قوتیں اس کام پر صرف کر دینی چاہییں کہ مغربی تہذیب و ثقافت اور فلسفۂ حیات پر تنقید کر کے اُس بت کو پاش پاش کر دیں جس کی آج دنیا میں پرستش کی جا رہی ہے‘ اور اُس کے مقابلے میں اسلام کے عقائد اور اصول و مبادی اور قوانین حیات کی تشریح و تدوین ایسے معقول طریقوں سے کریں جو نسلِ جدید کے ذہن کو ان کی صحت کا یقین دلا سکے‘ اور اُن کے اندر یہ اعتماد پیدا کرسکے کہ دورِحاضر میں ایک قوم ان عقائد اور اصول و قوانین کواختیار کرکے نہ صرف ترقی کر سکتی ہے بلکہ دوسروںسے آگے بڑھ سکتی ہے۔ یہ کام جتنے صحیح خطوط پر‘ جتنے بڑے پیمانے پر ہوگا اتنے ہی دعوت اسلامی کے لیے آپ کو سپاہی ملتے چلے جائیں گے‘ اور یہ سپاہی ہر شعبۂ حیات سے نکل نکل کر آئیں گے۔ اس عمل کا سلسلہ ایک طویل مدت تک جاری رہنا چاہیے‘ تاکہ ایک کثیرتعداد اُن لوگوں کی پیدا ہو جائے جو ایک ملک کے نظام کو اسلامی اصولوں پر چلانے کے لیے درکار ہیں۔ یہ عمل جب تک بتدریج اپنی انتہا کو نہ پہنچ جائے‘ آپ کسی اسلامی انقلاب کے برپا ہونے کی توقع نہیں کرسکتے ‘ اور اگر کسی مصنوعی طریقے سے وہ برپا ہو بھی جائے تو وہ مستحکم نہیں ہوسکتا۔

تنظیم:

دعوتِ اسلامی سے جتنے لوگ متاثر ہوتے جائیں‘ ان کو منظم ہونا چاہیے اور ان کی تنظیم کو ڈھیلا اور سُست نہ ہونا چاہیے۔ نظم و ضبط اور سمع و طاعت کے بغیر محض ہم خیال لوگوں کا ایک بکھرا ہوا گروہ فراہم کر دینے سے کوئی کارگر طاقت پیدا نہیں ہو سکتی۔

عمومی دعوت:

اس مقصد کے لیے کام کرنے والوں کو عوام میں اپنی دعوت پھیلانی چاہیے تاکہ عام لوگوں کی جہالت دُور ہو اور وہ اسلام سے واقف ہوں اور اسلام و جاہلیت کا فرق جان لیں۔ اس کے ساتھ انھیں عوام کی اخلاقی اصلاح کی بھی کوشش کرنی چاہیے اور فسق و فجور کے اس سیلاب کو روکنے کے لیے اپنا پورا زور لگا دینا چاہیے جو فاسق قیادت کے اثر سے مسلمان قوموں میں روز بروزبڑھتا چلا جا رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک قوم فاسق ہوجانے کے بعد ایک اسلامی حکومت کی رعایا بننے کے قابل نہیں رہتی۔ عامۃ الناس میں فسق جتنا بڑھے گا‘ اُن کے معاشرے میں اسلامی نظام کا چلنا اتنا ہی مشکل ہوتا چلا جائے گا۔ جھوٹے‘ بددیانت اور بدکار لوگ نظامِ کفر کے لیے جتنے موزوں ہیں‘ نظامِ اسلامی کے لیے اتنے ہی غیر موزوں ہیں۔

صبروحکمت:

انھیں بے صبر ہو کر خام بنیادوں پر جلدی سے کوئی اسلامی انقلاب برپا کر دینے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ جو مقصود ہمارے پیش نظر ہے‘ اس کے لیے بڑا صبر درکار ہے۔ حکمت کے ساتھ جانچ تول کر ایک ایک قدم اٹھایئے‘ اور دوسرا قدم اٹھانے سے پہلے خوب اطمینان کر لیجیے کہ پہلے قدم میں جو نتائج آپ نے حاصل کیے ہیں وہ مستحکم ہوچکے ہیں۔ جلدبازی میں جو پیش قدمی بھی ہوگی‘ اس میں فائدے کی بہ نسبت نقصان کا خطرہ زیادہ ہوگا۔ مثال کے طور پر فاسق قیادت کے ساتھ شریک ہو کر یہ اُمید کی جا تی ہے کہ شاید اس طرح منزلِ مقصود تک پہنچنے کا راستہ آسان ہو جائے گا اور کچھ نہ کچھ اپنے مقصد کے لیے مفید کام بھی ہوسکے گا۔ لیکن عملی تجربہ یہ بتاتا ہے کہ اس لالچ سے کوئی مفید نتیجہ برآمد نہیں ہوسکتا‘ کیونکہ دراصل زمامِ امر جن لوگوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے وہ اپنی ہی پالیسی چلاتے ہیں اور ان کے ساتھ لگنے والوں کو ہر قدم پر ان سے مصالحتیں کرنی پڑتی ہیں‘ یہاں تک کہ وہ آخرکار بس ان کے آلۂ کار بن کر رہ جاتے ہیں۔

مسلح اور خفیہ تحریکوں سے اجتناب:

اس سلسلے میں اسلامی تحریک کے کارکنوں کو میری آخری نصیحت یہ ہے کہ انھیں خفیہ تحریکیں چلانے اور اسلحے کے ذریعے سے انقلاب برپا کرنے کی کوشش نہ کرنی چاہیے۔ یہ بھی اصل میں بے صبری اور جلدبازی ہی کی ایک صورت ہے اور نتائج کے اعتبار سے دوسری صورتوں کی بہ نسبت زیادہ خراب ہے۔

ایک صحیح انقلاب ہمیشہ عوامی تحریک ہی کے ذریعے سے برپا ہوتا ہے۔ کھلے بندوں عام دعوت پھیلایئے۔ بڑے پیمانے پر اذہان اور افکار کی اصلاح کیجیے۔ لوگوں کے خیالات بدلیے۔اخلاق کے ہتھیاروں سے دلوں کو مسخرکیجیے‘ اور اس کوشش میں جو خطرات اور مصائب بھی پیش آئیں ان کا مردانہ وار مقابلہ کیجیے۔ اس طرح بتدریج جو انقلاب برپا ہوگا وہ ایسا پایدار اور مستحکم ہوگا جسے مخالف طاقتوں کے ہوائی طوفان محو نہ کر سکیں گے۔ جلدبازی سے کام لے کر مصنوعی طریقوں سے اگر کوئی انقلاب رونما ہو بھی جائے تو جس راستے سے وہ آئے گا اسی راستے سے وہ مٹایا بھی جا سکے گا۔

یہ چند کلمات نصیحت ہیں جو دعوت اسلامی کے لیے کام کرنے والوں کے سامنے میں پیش کر رہا ہوں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کی رہنمائی فرمائے اور ہمیں دین حق کی سربلندی کے لیے صحیح طریقے سے جدوجہد کرنے کی توفیق بخشے۔ (تفہیمات‘ ج ۳‘ ص ۳۵۱-۳۶۳)

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ کا یہ مضمون آج سے ۸۲ سال پہلے ۲۲ جون ۱۹۲۰ء کے روزنامہ زمیندارلاہور میں شائع ہوا تھا۔ اس وقت برطانوی استعمار مسلم دنیا کے حصے بخرے کرنے میں مصروف تھا۔ آج پس کردار امریکہ (برطانیہ کے تعاون سے) انجام دینے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس خطرناک کھیل کا سب سے عبرت ناک پہلو یہ ہے کہ سامراجی قوتیں مسلمانوں کو بانٹنے اور ان میں سے کچھ کو دوسروں کے تعاون یا کم از کم خاموش تائید سے مغلوب کرنے کی سعی کرتی ہیں۔ یہ کھیل ۵۰۰ سال سے کھیلا جا رہا ہے لیکن مسلمانوں کی آنکھیں نہیں کھلتیں اور جو بڑے دانش ور بنتے ہیں وہ یہ فلسفہ بگھارنے سے نہیں تھکتے کہ ہماری باری نہیں آئے گی۔ ہم ’’دوستوں‘‘کی پناہ میں رہیں گے۔ تاریخ کا المیہ یہی ہے کہ اس سے کم ہی لوگ سبق سیکھتے ہیں۔ جو سبق سیکھ لیتے ہیں وہی محفوظ رہ سکتے ہیں۔ آج شرق اوسط کے نئے نقشے (restructuring) کا جو ڈراما رچایا جا رہا ہے وہ اس سے مماثل ہے جو سو سال پہلے دولت عثمانیہ کے ٹکڑے کرنے کے لیے کیا گیا تھا‘ افغانستان اور عراق اس جنگ کا پہلا مرحلہ ہیں۔ سید مودودیؒ کا یہ مضمون ان کی بالغ نظری اور تاریخی فہم کا شاہکار ہی نہیں آج کی اُمت مسلمہ کی آنکھیں کھولنے کے لیے بھی ایک تازیانے سے کم نہیں۔ یہ مضمون سید مودودیؒ نے اس وقت لکھا تھا جب وہ ۱۷ سال کے نوجوان تھے۔ (مدیر)

ایک ترک مدبر کا یہ قول کتنا صحیح اور مبنی برحقیقت ہے کہ ’’دنیا کی کسی چیز نے ترکوں کو اس قدر نقصان نہیں پہنچایا جس قدر انگریزوں کی دوستی پر اعتماد اور ان کی ایمان داری پر حُسنِ ظن نے پہنچایا‘‘۔

۱۵۸۷ء میں جب اسپین کا بادشاہ فلپ ثانی اپنا عظیم الشان بیڑہ لے کر انگلستان پر  حملہ آور ہو رہا تھا تو ملکہ الزبتھ نے سلطان مراد سے نہایت الحاح و زاری کے ساتھ مدد کی درخواست کی تھی۔

’’اگر حضور والا اپنی عظیم الشان سلطنت کی پوری بحری طاقت بھیجنے پر تیار نہیں تو خدارا ساٹھ ستر ہی جنگی جہاز بھیج دیجیے تاکہ اسپین کے اس بت پرست بادشاہ کو سزا دے جو پوپ اور تمام بت پرستوں کی مدد کے غرور پر انگلستان کو تباہ کرنے کے درپے ہے اور پھر اس کا ارادہ ہے کہ انگلستان کو فتح کرکے جناب کی مملکت پر حملہ کرے اور دنیا کا بادشاہ بن جائے۔ اگر آلِ عثمان کا پرشکوہ فرماں روا اور انگلستان کی ملکہ‘ اسپین کی بڑھتی ہوئی ہوس کو دبانے کے لیے متحد ہوجائیں تو نہ صرف اس کا مغرور بادشاہ‘ بلکہ روما کا بت پرست پوپ اور اس کے تمام گمراہ ساتھی تباہ ہو جائیں گے۔ خداوند اپنے نیک بندوں کا محافظ ہے اور وہ ضرور دولت ِ عثمانیہ اور انگلستان کے ذریعے سے دنیا کو بت پرستوں کے وجود سے پاک کر دے گا‘‘۔

اس واقعہ سے تین صدی بعد ہی جب آلِ عثمان کے اس پُرشکوہ بادشاہ کی اولاد کی حالت پر ہم نظر ڈالتے ہیں تو خدا کی قدرت کا عجیب تماشا نظر آتا ہے کہ اسی آلِ عثمان کے شہنشاہ کو اسی ملکہ الزبتھ کے فرزند درئہ دانیال لے کر‘تھریس لے کر‘ آبنائے باسفورس لے کر اگر قسطنطنیہ میںرہنے کی اجازت دیتے ہیں تو لارڈ چمسیفرڈ کے نزدیک یہ بھی ’’ان کا ایک احسان ہے‘‘۔

کیا ہم سامراجیوں کو اپنا دوست سمجھ سکتے ہیں؟

ترکی کی تاریخ کا مطالعہ کرنے والا وتعزّمن تشاء وتزلّ من تشاء کی صداقت پر سب سے زیادہ مضبوط ایمان رکھنے والا ہوگا۔ ترکی کی بدقسمتی کا آغاز تو اٹھارہویں صدی سے شروع ہوگیا تھا۔ اور اس ’’مردبیمار‘‘ کے لیے ڈیڑھ دو سو برس پہلے سے ہی یورپ سے نکل جانے کا نسخہ تجویز کیا گیا مگر واقعہ یہ ہے کہ ’’دنیا کی کسی چیز نے ترکوں کو اس قدر نقصان نہیں پہنچایا‘ جس قدر انگریزوں کی دوستی پر اعتماد اور ان کی ایمان داری پر حسنِ ظن نے پہنچایا ہے‘‘۔

پیٹراعظم اور نکولس تو ترکوں کو یورپ سے نکل جانے کی نصیحت کرتے مرگئے۔ مگر آج الزبتھ کے فرزندوں نے محب ِ شفیق اور رفیقِ صمیم بن کر انھیں نہ صرف یورپ سے بلکہ دنیا سے نکل جانے کا پیام سُنا دیا ہے۔

لیکن یہ عجیب معمّہ ہے کہ ترکوں کی عظیم الشان سلطنت کو ریاستِ نظام بنا کر بھی انگریز اپنے آپ کو ترکوں کا دوست کہتے ہوئے ذرا نہیں شرماتے۔ اینگلو انڈین کو تو جب کبھی اس لڑائی اور اس تباہی کا الزام ترکوں پر رکھنا ہوتا ہے تو وہ نہایت سنجیدگی سے کہہ دیتا ہے کہ ’’ہم ترکوں کے ہمیشہ دوست بنے رہے۔ مگر انھوں نے ہم سے دشمنی پیدا کی‘‘--- لیکن صداقت اور سچائی کے جنازے پر مجھے بہت آنسو بہانے کی ضرورت ہوئی جب میں نے لارڈ چمسیفرڈجیسے ذمہ دار شخص کی زبان سے یہ سُنا کہ ’’اس جنگ سے پہلے انگریزوں کے تعلقات ترکوں سے نہایت دوستانہ رہے ہیں‘‘۔ تعجب ہے انگلستان کا اتنا بڑا آدمی جسے ملکِ معظم نے ہندوستان پر اپنا نائب بناکر بھیجنے کے لائق سمجھا‘ اس تہذیب و تمدن کے زمانے میں ایسی شدید بے باکی سے اتنا صاف جھوٹ بول سکا۔میں یقین نہیں کرسکتا کہ لارڈ چمسیفرڈ نے دوستی کا لفظ اسی مفہوم کے لیے استعمال کیا ہے جو اس لفظ کے لیے ہمارے دماغوں میں ہے۔ کیا کریمیا میں ساتھ دینے کے ایک دو سال بعد ہی جدّہ پر گولہ باری کرنے والے کو ہم دوست کہہ سکتے ہیں؟ کیا عہدنامہ سین سٹی فانو کی سختیوں کو کم کرانے کا وعدہ کرکے خود قبرص لینے اور آسٹریا کو بوسنیا اور ہرذی گونیا دلوانے کو ہم دوست کہہ سکتے ہیں؟ کیا محمدعلی والی ٔ مصر کی بغاوت میں اسکندریہ پر گولہ باری کرانے اور تمام مصر پر قبضہ کرنے والے کو ہم دوست کہہ سکتے ہیں؟ یقینا ہماری مصطلحاتِ سیاست سے ناآشنا زبان میں دوست اور دوستی کی تعریف اس سے جدا ہے۔ مگر برطانوی لغت میں دوست اسی کو کہتے ہیں جس کے بارے میں مرزا غالب نے کہا تھا    ؎

یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے

ہوئے تم دست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو

اس دوستی کا مفہوم ہمیشہ کے لیے سمجھ لیجیے

انگریزوں کی اسی دوستی کی حیرت انگیز تاریخ اگر لکھنا چاہوں تو شاید کئی جلدوں میں تیار ہو۔ مگر میں چاہتا ہوں کہ وثائق و حقائق کے دفتر سے انگریزی دوستی کی پوری تشریح کر دوں‘ تاکہ آیندہ اگر کسی انگریز کے منہ سے ’’دوستی‘‘ کا لفظ نکلے تو لوگوں کو اس کے سمجھنے میں کوئی دقّت نہ ہو۔

یہاں میں اٹھارہویں صدی سے آخری جنگ روس تک کے چند واقعات پیش کرتا ہوں۔

ہر شخص جانتا ہے کہ روس ابتدا سے ترکوں کا جانی دشمن رہا ہے۔ اس دشمنی کا جوش پیٹر کے بعد اس کی بیوی کتھرائن میں بہت زیادہ موجزن تھا۔ اس کو مشیروں نے مشورہ دیا کہ اب تک تو ترکوں پر بّری حملے کیے گئے تھے۔ مگر اب ایک بحری حملہ بھی کرنا چاہیے۔ چنانچہ تجویز ہوئی کہ بحیرئہ بالٹک سے یورپ کا چکر کاٹ کر بحیرئہ روم میں جہاز داخل کیے جائیں اور درّۂ دانیال پر حملہ کرکے قسطنطنیہ چھین لیا جائے۔ انگریز اس تجویز کے حامی تھے اس لیے یہ رائے قرار پائی کہ روسی بیڑہ انگلستان کی بندرگاہ میں جاکر جملہ سازوسامان سے آراستہ کیا جائے اور کپتان اور ملاح بھی وہیں سے حاصل کیے جائیں۔ چنانچہ فوراً تیاریاں شروع ہوئیں اور روسی جہاز انگلستان پہنچ گئے۔ یہاں بیڑہ تیا رکیا گیا۔ امیرالبحر انفنسٹن اور بہت سے انگریزی کپتان اس پر سوار ہوئے اور انگریزوں ہی کی مدد سے یہ جہاز اتنا طویل سفرطے کر سکے۔

انگریزی حکومت نے اسپین اور فرانس کی حکومتوں کو لکھ دیا کہ اگر ترکوں کی حمایت میں تم نے اس بیڑے کو کوئی نقصان پہنچایا تو پہلے سے اعلانِ جنگ قبول کرلو--- آخر انگریزوں کی کوشش سے یہ بیڑہ ۱۷۶۹ء میں بحیرئہ روم میں داخل ہوا۔ اور ۱۷۷۰ء کی ابتدا میں شام کے سواحل پر پہنچ گیا۔ قسطنطنیہ پر حملہ نہ کیا جا سکا۔ لیکن محض انگریز افسروں کی ہوشیاری سے نہ صرف یہ بیڑہ بچ کر نکل گیا بلکہ بندرچشمہ پر تمام ترکی بیڑہ صرف انھی کی چالاکی سے تباہ ہو گیا۔ ورنہ روسی امیرالبحر اورلوف تو تمام بیڑے کو خطرے میں ڈال چکا تھا۔

تمھارا معبود صرف پیسہ اور تمھارا مذہب صرف طمع ہے

اس جنگ کا سلسلہ عرصہ تک جاری رہا۔ فرانس ترکوں کی مدد کرنا چاہتا تھا اور اس کی خواہش تھی کہ کسی طرح ترکی کی حمایت کا موقع مل جائے مگر انگلستان کی مخالفت کا ڈر تھا اس لیے مجبوراً خاموش رہا۔

لڑائی میں برابر نقصان اٹھانے اور زیادہ طویل عرصہ تک سلسلہ جنگ جاری رہنے سے بیزار ہوکر وزراے عثمانیہ نے خفیہ طریقہ سے آسٹریا سے مصالحت کرانے کی درخواست کی۔

آسٹریا نے ابھی کچھ جواب نہ دیا تھا کہ انگریز فوراً حَکم بننے کے لیے تیار ہو گئے اور ثالث بننے کی درخواست کر دی۔ انگلستان کی اس درخواست پر وزیراعظم ترکی نے جو جواب دیا ہے وہ قابلِ غور ہے۔ وزیراعظم نے لکھا:

’’باوجودیکہ انگریزی جہاز اور فوجیں روسی بیڑے میں شامل ہیں انگریزوں کو ثالث بنتے ہوئے شرم نہیں آئی۔ معلوم ہوتا ہے کہ ثالث بن کر وہ ہم کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں‘‘۔

اس سلسلہ کے ایک طویل مراسلہ میں وزیراعظم نے لکھا:

’’دوسری عیسائی قومیں تو کچھ نہ کچھ سچی بھی ہیں۔ مگر انگریزوں کے قول و فعل کا توکسی طرح اعتبارہو ہی نہیں سکتا‘‘۔

اس مراسلہ کے آخر میں اس نے لکھا ہے:

’’تمھارا معبود صرف پیسہ ہے۔ تمھارا مذہب صرف طمع ہے اور بس--- تم نے عیسائیت کو محض دھوکابازی کے لیے ایک آڑ بنایا ہے جو تمھاری مکّاری و بدنیتی کی پردہ دری کر رہی ہے‘‘۔

اس حملہ کی تجویز روسیوں کی تھی اور جہاز بھی زیادہ تر روسی تھے‘ اس لیے مجبوراً اسے روسیوں ہی سے منسوب کرنا پڑتا ہے لیکن درحقیقت اسے انگریزی مہم کہنا چاہیے۔ کارآمد افسر انگریز تھے۔ اس زمانہ کا بہترین سامان جنگ انگریزی تھا۔ پورا سفر صرف انگریزی کوششوں سے ہوسکا اور کامیابی محض انگریزوں کی بدولت ہوئی۔ پھر اس حملہ کو انگریزی حملہ کہنے میں کون سی چیز مانع ہے۔

اعلانِ جنگ کے بغیرآغازِ جنگ کی مثالیں

سرویا کے معاملات میں دل چسپی لینے اور برابر غاصبانہ ارادوں سے دلاشیا اور مالڈیویا کے حکام اعلیٰ سے بغاوت کراتے رہنے کی وجہ سے روس اور ٹرکی کے تعلقات نہایت کشیدہ تھے۔ روس نے جو مطالبات پیش کیے تھے وہ دلاشیا اور مالڈیویا سے ٹرکی کے اقتدار کا بالکل خاتمہ کرنے والے تھے--- انگریز اس وقت بھی روس کے ساتھی تھے یعنی لارڈ چمسیفرڈ کی زبان میں ترکوں کے ’’دوست‘‘ تھے اور روسی سفیرکے ساتھ معاملات طے کرانے کے لیے انگریزی سفیرآرتھ ناٹ بھی قسطنطنیہ آیا ہوا تھا۔ سفراء بابِ عالی سے گفتگو کر رہے تھے اور ابھی کوئی تصفیہ نہ ہوا تھاکہ روس نے بلااعلانِ جنگ دلاشیا اور بالڈیویا پر حملہ کر دیا اور باقی صوبوں پر تصرف کرکے بلغاریہ کی طرف بڑھنے لگا۔ ظاہر ہے کہ یہ حرکت بالکل خلافِ آئین اور سخت وحشیانہ تھی۔ روسی سفیرنے بہت افسوس کا اظہار کیا اور قسطنطنیہ سے چلا گیا۔ مگر انگریزی سفیرنے نہایت ڈھٹائی کے ساتھ دولت ِ عثمانیہ کے سامنے چند عجیب و غریب شرطیں پیش کیں۔ مثلاً:

۱- نپولین کے سفیرکو (جو روس کے مقابلہ میں دولت ِ عثمانیہ کو بہت ہمت دلا رہا تھا) قسطنطنیہ سے نکال دو۔

۲- مالڈیویا اور دلاشیا روس کو دے دو۔

۳-  درّہ دانیال کے قلعے اور توپ خانہ ہمیں دو۔ ورنہ ہم قسطنطنیہ پر حملہ کر دیں گے وغیرہ وغیرہ۔

باب عالی کے وزیرخارجہ نے نہایت ضبط و تحمل کے ساتھ ان شرائط کو سُنا اور جواب دیا:

’’آپ کو انصاف سے کام لیناچاہیے۔ روس نے بلااعلانِ جنگ ہمارے ملک پر حملہ کر دیا اور برابر خلاف آئین و خلافِ تہذیب حرکات کررہاہے۔ مگر ہم صرف امن کی خاطر یہ سب ذلّتیں برداشت کر رہے ہیں۔ جلالت سلطانی نے دلاشیا اور مالڈویا کے باغی گورنروں کو محض امن کی خاطر بحال کرنے کی بھی ذلّت گوارا کر لی ہے۔ مگر پھر بھی روس اپنی حرکات سے باز نہیں آتا۔ لہٰذا اب ہم اعلانِ جنگ پر مجبور ہیں۔ اور ہمارے اُوپر فرض ہے کہ اپنی حفاظت کریں۔ میں امید کرتا ہوں کہ انگریز ہماری امن پسندی اور صبروتحمل کی ضرور قدر کریں گے۔ لیکن اگر وہ اس صریح خلافِ آئین ظلم کے بعد بھی روس کی مدد پر آمادہ ہیں تو ہم مدافعت کا ارادہ کرچکے ہیں۔ اور اگر ترکی کی قسمت میں بربادی ہی ہے تو یقین رکھو کہ وہ آخر وقت تک اپنی عزت کے لیے لڑتا رہے گا‘‘۔

اس کے بعد مزید نامہ و پیام نہایت تہدید آمیز انداز میں ہوتا رہا اور آخرکار جنوری ۱۸۰۷ء کو انگریزی بیڑہ امیرالبحرڈک ورتھ کے ماتحت طمنی ڈرس پہنچ گیا۔ ۱۹ فروری کو عین عیدالفطر کے دن جب کہ ترک عید کی مسرتوں سے لطف اندوز ہو رہے تھے‘ انگریزی بیڑہ کسی اعلانِ جنگ کے بغیر درّہ دانیال میں داخل ہو گیا۔ یہ وقت دولت ِ عثمانیہ کے لیے بہت نازک تھا۔ انگریزی بیڑہ جزائر شہزادگان تک پہنچا۔ وہاں ٹھہر کر انگریزی سفیرآرتھ ناٹ نے دوبارہ اپنے مطالبات باب عالی کے پاس بھیجے اور دھمکی دی کہ انھیں قبول کرلو ورنہ قسطنطنیہ پر گولہ باری کی جائے گی۔ سلطان کو وزرا نے مشورہ دیا کہ فرنچ سفیرکو دارالخلافہ سے چلے جانے کا حکم دیا جائے۔ مگر فرنچ سفیر نے اس کی نہایت شدومد کے ساتھ مخالفت کی اور سلطان کے سامنے ایسی پُرجوش تقریر کی کہ سلطان نے فوراً مدافعت کی تیاریاں شروع کر دیں۔ اور دیکھتے دیکھتے تمام سامان تیار ہو گئے۔ انگریزی امیرالبحر نے جب دیکھا کہ قسطنطنیہ تو خطرے سے نکل گیا مگر ہم مصیبت میں پھنس گئے تو وہ فوراً درّہ دانیال سے بھاگا۔ مگر پھر بھی اس کے چند جہاز غرق کر دیے گئے۔ درّہ دانیال میں کافی نقصان اُٹھا کر انگریزی بیڑہ مالٹا چلا گیا اور کوشش شروع کر دی کہ ترکوں کے کسی اور صوبہ پر حملہ کا موقع ہاتھ آجائے۔

اس زمانہ میں محمدعلی پاشا اور مملوکیوں کے درمیان مصر میں لڑائی ہو رہی تھی۔ انگریزوں کی تاریخ میں ایسے موقعوں پر فائدہ نہ اُٹھانے کی منحوس مثال ڈھونڈنے سے بھی نہ ملے گی۔ وہ فوراً پانچ ہزار سپاہی لے کر اسکندریہ اور اسے فتح کرکے قاہرہ کی طرف بڑھے۔ محمد علی پاشا مقابلہ کے لیے نکلا اور پے درپے شکستیں دیتا ہوا اسکندریہ تک پسپا کرتا چلا گیا۔ وہاں چند مہینے محصور رہے اور بصد حسرت و یاس ڈیڑھ ہزار جانیں لے کر رخصت ہو گئے۔

عدن پر قبضہ

۱۸۴۱ء میں محمد علی پاشا نے خود سلطان کے خلاف بغاوت کر دی۔ اور اس کی فوجیں قسطنطنیہ سے تھوڑے ہی فاصلہ پر رہ گئیں۔ سلطان محمد مرحوم نے مجبوراً بہت کمزور شرائط پر صلح کرلی۔ دوبارہ چند ہی برسوں کے بعد اس نے پھر ۱۸۳۹ء میں بغاوت کی اور خراج دینے سے انکار کر دیا۔ اور روضہ نبوی پر سے ترکی محافظین و خدام کو علیحدہ کرکے مصریوں کو مقرر کیا۔ سلطان عبدالمجید مرحوم حرم کا تصفیہ کرنے اور تمام حرکات سے چشم پوشی کرنے پر تیار ہو گئے تھے کہ دول عظمیٰ نے انھیں روکا اور مدد کا وعدہ کیا--- دول کے ساتھ انگریزوں نے بھی فوجی مدد کا وعدہ کیا تھا لیکن فوراً ہی اپنے اس وعدے کی قیمت میں عرب کی بہترین بندرگاہ عدن پر بھی قبضہ کرلیا۔ یہ واقعہ ایک روسی جنرل نے عجیب و غریب لکھا ہے:

’’انگریزوں کو ہندوستان کے راستہ میں ایک بحری مستقرکی ضرورت تھی۔ اس کے لیے عدن سے بہترین مقام اور کون سا ہو سکتا تھا۔ اس کے حاصل کرنے کے لیے انگریزوں نے جو تدبیر استعمال کی‘ اس کی نظیر صرف انھی کی تاریخ میں مل سکتی ہے۔ انھوں نے ایک انگریز کمپنی کے جہاز کو عدن کے قریب سمندر میں غرق کر دیا۔ اور پھر فوراً اس کی حمایت کے لیے پہنچ گئے۔ جہاز کے غرق ہونے کا الزام عدن کے عربوں پر لگایا اور شیخ یمن کو گولہ باری کی دھمکی دی۔ وہ بے چارہ اس آفت سے سہم گیا اور مجبوراً تاوانِ جنگ جیب میں رکھ کر ان حضرات نے شیخ کو عدن کی فروخت پر آمادہ کر لیا اور بہت سی رقم کا لالچ دے کر بیع نامہ لکھوا لیا۔ جب قیمت ادا کرنے کا وقت آیا توشیخ کی خاص مُہرکسی طرح چُرا کر یا چوری کرا کے رسید پر لگا لی اور قانوناً شیخ کو ایک پیسہ دیے بغیر عدن پر قبضہ کر لیا۔ سلطان ترکی اس وقت اپنی ہی مصیبت میں پھنسے ہوئے تھے‘ عدن کی کیا فکر کرتے‘‘۔

اس واقعہ کی صحت و عدم صحت کا ذمّہ دار تو جنرل فیڈروف ہے لیکن اس سے کون انکار کرسکتا ہے کہ عدن پر انگریزی قبضہ آج بھی موجود ہے۔

متحدہ مجلس عمل کے ایوانِ حکومت میںپہنچنے سے کارکنوں کی ذمہ داریاں بہت بڑھ گئی ہیں۔ اس حوالے سے یہ منشورِ عمل ہر سطح پر بہترین کوششوں اور موثر منصوبہ بندی کا تقاضا کرتا ہے۔ (ادارہ)

تمام جماعتوں‘ حلقہ ہاے متفقین اور دوسرے کارکنانِ جماعت کا فرض ہے کہ وہ اپنے حالات اور وسائل کے مطابق حسب ِ ذیل قسم کے کاموں کو اپنے ہاں زیادہ سے زیادہ کرنے کی کوشش کریں۔

۱-  جماعت کی بنیادی دعوت کو وسیع پیمانے پر پھیلانا: اس سلسلے میں تمام کارکنوں کو یہ بات پیش نظر رکھنی چاہیے کہ جماعت ِ اسلامی کا اصل کام جس پر تمام دوسری سرگرمیوں کی بنا قائم ہوتی ہے‘ عوام الناس کو اطاعت ِ خدا اور رسولؐ کی طرف بلانا‘ آخرت کی بازپُرس کا احساس دلانا‘ خیروصلاح اور تقویٰ کی تلقین کرنا‘ اور اسلام کی حقیقت سمجھانا ہے۔ یہ کام لٹریچر‘ تقریر‘ تعلیم‘ زبانی گفتگو اور تمام ممکن ذرائع سے وسیع پیمانے پر ہونا چاہیے۔

۲- مساجد کی اصلاحِ حال: اس میں مسجدوں کی تعمیر‘ ان کی مرمت‘ ان کے لیے فرش‘ پانی اور دوسری ضروریات اور آسایشوں کی فراہمی‘ نیز اذان‘ نماز باجماعت‘ امام‘ درس و تدریس اور خطبات ِ جمعہ وغیرہ جملہ امور کا اطمینان بخش انتظام شامل ہے۔ اگر لوگ مسجد کی اہمیت اور اس کے مقام کو سمجھنے لگیں تو بستی اور محلّے میں مسجد سے زیادہ دل کش جگہ اور کوئی نہ ہو۔

۳- عوام میں علمِ دین پھیلانا: ظاہر ہے کہ دین کے علم کے بغیر آدمی دین کی راہ پر نہیں چل سکتا۔ اگر اتفاق سے چل رہا ہے تو اس کے ہر آن بھٹک جانے کا اندیشہ ہے۔ اگر لوگ نہ دین کو جانیں اور نہ اس پر چلیں تو اسلامی نظام کا خواب کبھی حقیقت کی شکل اختیار نہیں کرسکتا۔ اس لیے دین خود بھی سیکھیے اور دوسروں کو بھی سکھانے کا انتظام کیجیے۔ دوسروں تک اسے پہنچانے کے لیے گفتگوؤں‘ مذاکرات‘ تقاریر‘ خطبات‘درس‘ اجتماعی مطالعہ‘ تعلیمِ بالغاں‘ دارالمطالعوں اور اسلامی لٹریچر کی عام اشاعت اور تقسیم کو ذریعہ بنایئے۔ یاد رکھیے کہ دین کا علم پھیلانا ان کاموں میں سے ہے جو صدقۂ جاریہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔

۴-  نیکی کی قوتوں کو منظم کرنا: غنڈا گردی کے مقابلے میں لوگوں کی جان و مال اور آبرو کی حفاظت کرنا‘ عام طور پر لوگوں کو ظلم و ستم سے بچانا‘ شہریوں کے اندر اخلاقی فرائض اور ذمہ داریوں کے احساس کو بیدار کر کے ان کی ادایگی پر ان کو آمادہ کرنا اور شہروں اور دیہات کی اخلاقی حالت کو درست کرنا۔

صدیوں کے انحطاط کے نتیجے میں ہمارے معاشرے میں اب بدی اور برائی منظم‘ بے باک‘ جری اور ایک دوسرے کی پشت پناہ بن چکی ہے اور نیکی اور شرافت اب انتشار‘ پست ہمتی‘ بزدلی اور کمزوری کے  ہم معنی ہو کر رہ گئی ہے۔ اس صورتِ حال کو پھر سے بدلنا ہے اور نیکی اور شرافت کو منظم‘ بے باک اور نڈر بنا کر اسے معاشرے کے ہر گوشے میں حکمراں طاقت کی حیثیت دینا ہے۔

۵-  عوامی مسائل کی داد رسی: سرکاری محکموں اور اداروں سے عام لوگوں کی شکایات رفع کرانے میں ان کی امداد کرنا اور داد رسی حاصل کرنے میں ان کی رہنمائی کرنا۔

۶- بستی کے یتیموں‘ بیوائوں‘ معذوروں اور غریب طالب علموں کی فہرستیں تیار کرنا اور جن جن طریقوں سے ممکن ہو ان کی مدد کرنا۔ اس غرض کے لیے زکوٰۃ‘ عشر اور صدقات کی رقوم کی تنظیم اور      بیت المال کے ذریعے ان کی تحصیل اور تقسیم کا انتظام کرنا چاہیے۔

۷-  دیہات اور محلوں میں تعلیم بالغاں کے مراکز اور دارالمطالعوں کا قیام اور عام لوگوں میں ان سے استفادے کا شوق پیدا کرنا۔

۸-  فواحش کی روک تھام : ان کے خلاف عوامی ضمیر اور احساسِ شرافت کو بیدار کرنا۔  فواحش کے سلسلے میں کسی ایک ہی گوشے پر نظر محدود نہیں کر دینی چاہیے بلکہ اس کے تمام سرچشموں پر نگاہ رکھنی چاہیے‘ مثلاً قحبہ خانے‘ شراب خانے‘ سینما کی پبلسٹی‘ دکانوں پر عریاں تصاویر کے سائن بورڈ‘ ٹورنگ اور تھیٹریکل کمپنیاں‘ مخلوط تعلیم‘ اخبارات میں فحش اشتہارات اور فلمی مضامین‘ ریڈیو پر فحش گانوں کے پروگرام‘ ]ٹیلی ویژن پر فحش گانے اور بے ہودہ پروگرام[‘ دکانوں اور مکانوں پر فحش گانوںکی ریکارڈنگ‘ قماربازی کے اڈے‘ رقص کی مجالس، فحش لٹریچراور عریاں تصاویر‘ جنسی رسائل‘ آرٹ اور کلچر کے نام سے بے حیائی پھیلانے والی سرگرمیاں‘ مینابازار‘ عورتوں میں روز افزوں بے پردگی کی وبا۔

۹-  سرکاری اداروں اور حکام و کارکناں کی بہتری کے لیے اقدام: رشوت و خیانت اور سفارش کی لعنت کے خلاف راے عام کو منظم کرنا اور سرکاری حکام اور ماتحت کارکنوں میں خدا ترسی ‘فرض شناسی اور آخرت کی جواب دہی کا احساس بیدار کرنے کی کوشش کرنا۔

اس غرض کے لیے ان حلقوں میں  اسلامی ریاست میں کارکنوں کی ذمہ داریاں ا ور اوصاف ]از مولانا امین احسن اصلاحی[کی عام اشاعت کی جائے اور اس بات کی کوشش کی جائے کہ عدالتوں‘ تھانوں اور دوسرے سرکاری دفاتر میں قرآن مجید اور حدیث شریف اور اسلامی لٹریچر میں سے مناسب ِ حال آیات ‘ احادیث اور عبارتیں کتبوں کی شکل میں آویزاں کی جائیں۔

۱۰-  مذہبی جھگڑوں اور تفرقہ انگیزی کا انسداد: اس کے لیے مختلف جماعتوں کے مذہبی پیشوائوں سے ملاقاتیں کرکے ان کو اس کے بُرے نتائج سے باخبر کیا جائے کہ یہ چیز کس طرح اس ملک سے اسلام کی جڑیں اُکھاڑ دینے والی ہے اور اسے کس طرح ملک کے ذہین طبقے کے اندر علما اور مذہب کے خلاف نفرت پھیلانے کے لیے مخالف ِ اسلام عناصر کی طرف سے استعمال کیا جا رہا ہے‘ نیز عام پبلک کو بھی مناسب مواقع پر اس کے نتائج سے باخبر کیا جائے اور ان سے اپیل کی جائے کہ وہ اس قسم کے فتنوں کی سرپرستی سے بالکل کنارہ کش رہیں۔

۱۱-  بستی کے عام لوگوں کے تعاون سے صفائی اور حفظانِ صحت کی کوشش: اگر لوگ صحت و صفائی کے سلسلے میں معمولی احتیاط بھی برتنا شروع کر دیں تو وہ بہت سی وبائوں اور بیماریوں سے اپنے آپ کو اور دوسرے شہریوں کو محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ بہت سی احتیاطیں اور تدابیر ایسی ہیں جن پر یا تو کچھ بھی خرچ نہیں ہوتا یا بہت معمولی خرچ ہوتا ہے۔ جماعت کے کارکنوں کو چاہیے کہ اس سلسلے میں بھی عوام کی اصلاح و تربیت کریں۔ اس بارے میں ضروری رہنمائی کے لیے وہ ناظم شعبۂ خدمت ِ خلق جماعت اسلامی پاکستان اور اپنے ضلع کے ہیلتھ افسر کی طرف رجوع کر سکتے ہیں۔

اس پروگرام کے مطابق کام کرتے ہوئے جماعت کے کارکنوں کو یہ بات نگاہ میں رکھنی چاہیے کہ ہمیں ہر گوشۂ زندگی میں اسلام کے مطابق پورے معاشرے کی اصلاح کرنی ہے اور اسی پروگرام کو بتدریج ہمہ گیر اصلاح کا پروگرام بنا دینا ہے۔ کارکنوں کو اس امر کی کوشش بھی کرنی چاہیے کہ وہ اصلاحِ معاشرہ کے اس کام میں اپنے اپنے علاقوں کے تمام اسلام پسند اور اصلاح پسند عناصر کا تعاون حاصل کریں اور جو کوئی جس حد تک بھی ساتھ دے سکتا ہو‘ اسے اس عام بھلائی کی خدمت میں شریک کریں۔ (تحریک اسلامی کا آیندہ لائحۂ عمل ‘ ص ۲۰-۲۴)

 

سب سے پہلی بات جو سمجھ لینی چاہیے وہ یہ ہے کہ جس چیز کا نام اسلامی نظام ہے وہ کسی بے ایمان اور بدکردار حکومت کے ہاتھوں سے نہیں چل سکتا۔ کوئی خدا سے بے خوف بیوروکریسی اسے نہیں چلا سکتی۔ کسی ایسی آبادی میں وہ ٹھیک طور پر نہیں چل سکتا جس کی اخلاقی حالت بالعموم خراب ہو اور خراب کی جاتی رہی ہو۔……

اگر کوئی اسلامی حکومت قائم ہو تو یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ چھوٹتے ہی مثالی نظام کی طرف پلٹ جائے گی۔ آغاز کار میں اگر کچھ ہو سکتا ہے تو وہ اس کے بغیر نہیں ہو سکتا کہ حکومت ایسے لوگوں کے ہاتھ میں ہو جو ملک کے تمام ذرائع و وسائل‘ ملک کے تمام ذرائع ابلاغ‘ ملک کے سارے نظامِ تعلیم‘ اور حکومت کی پوری انتظامی پالیسی کو اس غرض کے لیے استعمال کریں کہ مسلمانوں میں اسلام کا علم وسیع پیمانے پر پھیلایا جائے اور ان کی عام اخلاقی حالت کو درست کیا جائے۔ جس قدر اسلام کا علم پھیلے گا اور عام اخلاقی حالت درست ہوتی جائے گی اتنی ہی زمین اسلامی نظام کے لیے تیار ہوتی چلی جائے گی۔

یہی چیز تھی جس کی ہم توقع رکھتے تھے کہ اگر انگریزی حکومت کے خاتمے کے بعد جب پاکستان کی حکومت مسلمانوں کے ہاتھ میں آئے گی تو وہ اس طریق کار کو اختیار کرے گی۔ ذرائع ابلاغ کی پوری طاقت عام مسلمانوں میں ایمان اور صحیح اسلامی اخلاق پیدا کرنے کے لیے استعمال کرے گی۔ نظامِ تعلیم کو ایک اسلامی حکومت اور اسلامی معاشرے کے کارکن اور شہری تیار کرنے کے قابل بنایا جائے گا۔ الحاد پیدا کرنے والی تعلیم کو بدلا جائے گا اور اس کی جگہ خدا پرستی کی تعلیم کو رائج کیا جائے گا۔ عام لوگوں کے اندر حلال و حرام کی تمیز پیدا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ مگر یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ان میں سے کوئی توقع بھی پوری نہیںہوئی۔ اگر اُس وقت حکومت اپنے تمام ذرائع و وسائل کو اِس کام کے لیے استعمال کرتی تو آج حالت بالکل مختلف ہوتی۔

اب ہمیں گویا بالکل نئے سرے سے کام کرنا ہے۔ بے شک اسلامی قوانین کو نافذ کرنے کی کوشش کیجیے۔ قوانین اسلامی کو مدون بھی کیجیے تاکہ ہماری عدالتیں ان کے مطابق فیصلے کر سکیں۔ مگر بس یہی ایک کام ایسا نہیں ہے جس سے اسلامی نظام قائم ہو جائے۔

ذرائع ابلاغ کی اصلاح

سب سے زیادہ زور جس بات پر صَرف کرنا چاہیے وہ یہ ہے کہ ہمارے تمام ابتدائی اور ثانوی مدرسوں اور ہمارے تمام کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں اسلامی تعلیم دی جائے۔ ذرائع ابلاغ کو فحش اور   بے حیائی‘ بداخلاقی اور جرائم پھیلانے کے بجائے مسلمانوں کو ایمان اور اسلامی عقائد سمجھانے اور ذہن نشین کرنے پر صَرف کیا جائے۔ عام لوگوں کو یہ بتایا جائے کہ اسلامی اخلاق کیا ہیں اور کافرانہ اخلاق کیا اور دونوں قسم کے اخلاقوں میں فرق کیا ہے۔

اسلامی نظام تو قائم ہی اس معاشرے میں ہوا تھا جس کے اندر سب سے پہلے ایمان کو مستحکم کیا گیا تھا‘ پھر اسی ایمان کی مضبوط بنیاد پر پورے اخلاقی نظام کی‘ پورے معاشرتی نظام کی‘ پورے معاشی نظام کی‘ پورے سیاسی نظام اور پورے قانونی نظام کی عمارت اٹھائی گئی تھی۔ اب اگر ہم اس مثالی دور کی طرف پلٹنا چاہتے ہیں تو ہمیں اسی ترتیب سے پلٹنا چاہیے۔

عام مسلمانوں کے دلوں میں اگر خدا پر ایمان‘ رسولؐ پر ایمان‘ قرآن پر ایمان اور آخرت پر ایمان مضبوطی کے ساتھ نہ بٹھایا گیا تو محض قوانین کو بدلنے سے کام نہ چلے گا۔ آپ جانتے ہیں کہ ہمارے ہاں جھوٹے مقدمات بنانے میں پولیس اتنی مہارت رکھتی ہے کہ وہ ساری دنیا کو چیلنج دے سکتی ہے کہ ہمارے مقابلے میں کوئی جھوٹا مقدمہ بناکر دکھائے۔ گواہوں کا حال یہ ہے کہ عدالت میں جا کر صحیح گواہی دینا گویا گناہ سمجھا جاتا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ عدالت تو ہے ہی جھوٹی شہادت دینے کی جگہ۔

پولیس خود بھی جھوٹے گواہوں کا ایک پورا گروہ تیار رکھتی ہے۔ یہی دو چیزیں اگر نگاہ میں رکھی جائیں تو آپ اندازہ کر لیجیے کہ ہمارے ہاں اسلامی قانون صحیح طور پر کیسے نافذ ہوگا‘ جب کہ اس کو نافذ کرنے والی مشینری ہی بگڑی ہوئی ہے۔ قوانین اسلامی کے نفاذ کی تدبیریں کرنے کے ساتھ موجودہ حکومت کے لیے بھی اور آیندہ آنے والے حکمرانوں کے لیے بھی یہ ضروری ہے کہ ملک کی انتظامیہ کو بھی درست کریں۔ تعلیم کے نظام کی بھی اصلاح کریں اور ملک کے تمام ذرائع و وسائل کو اس بات پر صَرف کر دیں کہ مسلمانوں کے دلوں میں ایمان بٹھایا جائے۔ ان کے اخلاق درست کیے جائیں اور ان کے اندر خدا کا خوف پیدا کیا جائے۔

پہلے اصلاح پھر سزا

اسلامی قانون میں ڈنڈے کا بھی ایک مقام ہے مگر وہ سب سے آخر میں آتا ہے۔ اسلام میں ترتیب ِ کار یہ ہے کہ پہلے ذہنوں کی اصلاح کا کام تعلیم و تلقین کے ذریعے سے کیا جائے تاکہ لوگوں کے خیالات تبدیل ہوں۔ پھر لوگوں کے اندر اسلامی اخلاق پیدا کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر کام کیا جائے۔ یہاں تک کہ محلے محلے ‘ بستی بستی اور کوچے کوچے میں ایسے لوگ تیار ہو جائیں جو بدکرداروں کو عوام کی مدد سے دبائیں اور اپنے اپنے علاقے کے باشندوں میں دین داری اور دیانت داری پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ اس طرح ملک کے اندر ایک ایسی راے عام پیدا ہو جائے گی جو برائیوں کو سر نہ اٹھانے دے گی۔ کوئی شخص ایسی راے عام کی موجودگی میں بگڑنا چاہے گا تو اس کے راستے میں بے شمار رکاوٹیں پیدا ہو جائیں گی اور جو شخص صحیح طرز زندگی اختیار کرے گا اس کو پورا معاشرہ مدد دینے والا ہوگا۔

اس کے ساتھ اسلام یہ بھی چاہتا ہے کہ معاشرہ ایسا ہو جس کے لوگ ایک دوسرے کے ہمدرد اور  غم گسار ہوں۔ ایک دوسرے کی مصیبت میں کام آنے والے ہوں۔ ہر شخص انصاف کا حامی اور بے انصافی کا مخالف ہو۔ ہرشخص اپنا پیٹ بھرنا حرام سمجھے اگر اس کو معلوم ہو کہ اس کا ہمسایہ بھوکا سو رہا ہے۔ پھر اسلام ایک ایسا معاشی نظام بھی قائم کرتا ہے جس میں سود حرام ہو‘ زکوٰۃ فرض ہو‘ حرام خوری کے دروازے بند کردیے جائیں۔ رزق حلال کمانے کے لیے تمام مواقع لوگوں کے لیے کھول دیے جائیں اور کوئی آدمی اپنی ضروریاتِ زندگی سے محروم نہ رہنے پائے۔ ان تدابیر کے بعد ڈنڈے کا مقام آتا ہے۔ ایمان‘ اخلاق‘ تعلیم‘ انصاف‘ اصلاح معیشت‘ اور ایک پاکیزہ راے عام کے دبائو سے بھی جو آدمی درست نہ ہو تو وہ ڈنڈے ہی کا مستحق ہے۔ اور ڈنڈا پھر اس پر ایسی بے رحمی کے ساتھ علی الاعلان چلایا جائے کہ ان تمام لوگوں کے دماغ کا آپریشن ہو جائے جو جرائم کے رجحانات رکھتے ہوں۔

لوگ بڑا غضب کرتے ہیں کہ اسلام کے پروگرام کی ساری تفصیل چھوڑ کر صرف اس کی سخت سزائوں پر گفتگو شروع کر دیتے ہیں۔ اسلام پہلے عام لوگوں میں ایمان پیدا کرتا ہے۔ پھر عوام کے اخلاق کو پاکیزہ بناتا ہے۔ پھر تمام تدابیر سے ایک ایسی مضبوط راے عام تیار کرتاہے جس میں بھلائیاں پھلیں پھولیں اور برائیاں پنپ نہ سکیں۔ پھر معاشرتی‘ معاشی اور سیاسی نظام ‘ ایسا قائم کرتا ہے جس میں بدی کرنا مشکل اور نیکی کرنا آسان ہو جائے۔ وہ ان تمام دروازوں کو بند کر دیتا ہے جن سے فواحش اور جرائم نشوونما پاتے ہیں۔ اس کے بعد ڈنڈا وہ آخری چیز ہے جس سے ایک پاک معاشرے میں سراٹھانے والی ناپاکی کا قلع قمع کیا جا تا ہے--- اب اس سے بڑا ظالم اور کون ہو سکتا ہے کہ ایسے برحق نظام کو بدنام کرنے کے لیے آخری چیز کو پہلی چیز قرار دیتا ہے اور بیچ کی سب چیزوں کو نگل جاتا ہے (نبیؐ کا نظام حکومت اور پاکستان میں اس کا نفاذ‘ ریڈیو پاکستان کے لیے انٹرویو: ناصر قریشی‘ ص۱۷-۲۱)۔

 

اس تاریکی میں ہمارے لیے اُمید کی ایک ہی شعاع ہے‘ اور وہ یہ ہے کہ ہماری پوری آبادی بگڑ کر نہیں رہ گئی ہے بلکہ اس میں کم از کم چار پانچ فی صد لوگ ایسے ضرور موجود ہیں جو اس عام بداخلاقی سے بچے ہوئے ہیں۔ یہ وہ سرمایہ ہے جس کو اصلاح کی ابتدا کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اصلاح کی راہ میں یہ پہلا قدم ہے کہ اس صالح عنصرکو چھانٹ کر منظم کیا جائے۔ ہماری بدقسمتی کی وجہ یہی ہے کہ ہمارے ہاں بدی تو منظم ہے اور پوری باقاعدگی کے ساتھ اپنا کام کر رہی ہے لیکن نیکی منظم نہیں ہے۔ نیک لوگ موجود ضرور ہیں مگر منتشر ہیں۔ ان کے اندر کوئی ربط اور تعلق نہیں ہے۔ کوئی تعاون اور اشتراکِ عمل نہیں ہے۔ کوئی لائحہ عمل اور کوئی مشترک آواز نہیں ہے۔ اسی چیز نے ان کو بالکل بے اثر بنا دیا ہے۔ کبھی کوئی اللہ کا بندہ اپنے گردوپیش کی برائیوں کو دیکھ کر چیخ اُٹھتا ہے‘ مگر جب کسی طرف سے کوئی آواز اس کی تائید میں نہیں اٹھتی تومایوس ہو کر بیٹھ جاتا ہے۔ کبھی کوئی شخص حق اور انصاف کی بات علانیہ کہہ بیٹھتا ہے‘ مگر منظم بدی زبردستی اس کا منہ بند کر دیتی ہے اور حق پسند لوگ بس اپنی جگہ چپکے سے اس کو داد دے کر رہ جاتے ہیں۔ کبھی کوئی شخص انسانیت کا خون ہوتے دیکھ کر صبر نہیں کر سکتا اور اس پر احتجاج کر گزرتا ہے‘ مگر ظالم لوگ ہجوم کر کے اسے دبا لیتے ہیں اور اس کا حشر دیکھ کر بہت سے ان لوگوں کی ہمتیں پست ہو جاتی ہیں جن کے ضمیر میں ابھی کچھ زندگی باقی ہے۔ یہ حالت اب ختم ہونی چاہیے۔ اگر ہم یہ نہیں چاہتے کہ ہمارا ملک خدا کے عذاب میں مبتلا ہو اور اس عذاب میں نیک و بد سب گرفتار ہو جائیں تو ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ ہمارے اندر جوصالح عناصر اس اخلاقی وباسے بچے رہ گئے ہیں وہ اب مجتمع اور منظم ہوں اور اجتماعی طاقت سے اس بڑھتے ہوئے فتنے کا مقابلہ کریں جو تیزی کے ساتھ ہمیں تباہی کی طرف لے جا رہا ہے۔

آپ اس سے نہ گھبرائیں کہ یہ صالح عنصر اس وقت بہ ظاہر بہت ہی مایوس کن اقلیت میں ہے۔ یہی تھوڑے سے لوگ اگر منظم ہو جائیں‘ اگران کا اپنا ذاتی اور اجتماعی رویہ خالص راستی‘ انصاف‘ حق پسندی اور خلوص و دیانت پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہو‘ اور اگر وہ مسائل زندگی کا ایک بہتر حل اور دُنیا کے معاملات کو درست طریقے پرچلانے کے لیے ایک اچھا پروگرام بھی رکھتے ہوں‘ تو یقین جانیے کہ اس منظم نیکی کے مقابلے میں منظم بدی اپنے لشکروں کی کثرت اور اپنے گندے ہتھیاروں کی تیزی کے باوجود شکست کھا کر رہے گی۔ انسانی فطرت شرپسند نہیں ہے۔ اسے دھوکا ضرور دیاجا سکتا ہے‘ اور ایک بڑی حد تک مسخ بھی کیا جا سکتا ہے‘ مگر اس کے اندر بھلائی کی قدر کا جو مادہ خالق نے ودیعت کر دیا ہے‘ اسے بالکل معدوم نہیں کیا جا سکتا۔

انسانوں میں ایسے لوگ تھوڑے ہی ہوتے ہیں جو بدی ہی سے دل چسپی رکھتے ہوں اور اس کے علم بردار بن کر کھڑے ہوں‘ اور ایسے لوگ بھی کم ہوتے ہیں جنھیں نیکی سے عشق ہو اور اسے قائم کرنے کی جدوجہد کریں۔ ان دونوں گروہوں کے درمیان عام انسان نیکی اوربدی کے ملے جلے رجحانات رکھتے ہیں۔ وہ نہ بدی کے گرویدہ ہوتے ہیں اور نہ نیکی ہی سے انھیں غیرمعمولی دل چسپی ہوتی ہے۔ ان کے کسی ایک طرف جھک جانے کا انحصار تمام تر اس پر ہوتا ہے کہ خیر اور شر کے علم برداروں میں سے کون آگے بڑھ کر انھیںاپنے راستے کی طرف کھینچتا ہے۔ اگر خیر کے علم بردار سرے سے میدان میں آئیں ہی نہیںاور ان کی طرف سے عوام الناس کو بھلائی کی راہ پر چلانے کی کوئی کوشش ہی نہ ہو تو لامحالہ میدان علم بردارانِ شر ہی کے ہاتھ رہے گا اور وہ عام انسانوں کو اپنی راہ پر کھینچ لے جائیں گے۔ لیکن اگر خیر کے علم بردار بھی میدان میں موجود ہوں‘ اور وہ اصلاح کی کوشش کا حق ٹھیک ٹھیک ادا کریں تو عوام الناس پر علم بردارانِ شر کا اثر زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتا۔ کیونکہ ان دونوں کا مقابلہ آخرکار اخلاق کے میدان میں ہوگا اور اس میدان میں نیک انسانوں کو برے انسان کبھی شکست نہیں دے سکتے۔ سچائی کے مقابلے میں جھوٹ‘ ایمان داری کے مقابلے میں بے ایمانی‘ اور پاک بازی کے مقابلے میں بدکرداری خواہ کتنا ہی زور لگائے‘ آخری جیت بہرحال سچائی ‘ پاک بازی اور ایمان داری ہی کی ہوگی۔ دُنیا اس قدر بے حِس نہیں ہے کہ اچھے اخلاق کی مٹھاس اور برے اخلاق کی تلخی کو چکھ لینے کے بعد آخرکار اس کا فیصلہ یہی ہو کہ مٹھاس سے تلخی زیادہ بہتر ہے۔ (اسلامی نظام زندگی اور اس کے بنیادی تصورات‘ ص ۲۸۵-۲۸۸)

 

]مخلوط انتخاب کے نفاذ کے لیے[اگر کسی مصلحت کی نشان دہی کی جا سکتی ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ مخلوط انتخاب کا طریقہ رائج کرنے سے مختلف عناصرآبادی کے احساسِ اختلاف کو دبانا‘ ان کے امتیازی نشانات کو مٹانا‘ اور انھیں بتدریج ایک قومیت میں تبدیل کرنا مطلوب ہو۔ لیکن ہم کہتے ہیں کہ یہ چیز اوّل تو ہمیں مطلوب ہی نہیں ہے‘ اور اگر ہے تو اُس طریقے سے مطلوب نہیں ہے جس سے مخلوط انتخاب کے حامی اسے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارے ملک میں احساسِ اختلاف جس چیز کا نتیجہ ہے وہ دین کا اختلاف ہے۔ اسی چیز نے مسلم اور غیر مسلم کے درمیان    خط امتیاز کھینچا ہے۔ اسی نے ان کے اصول‘ مقاصد‘ نظریات اور طرزِ حیات ایک دوسرے سے جدا کیے ہیں۔ اسی نے ان کے معاشرے الگ کیے ہیں اور ان کو الگ ملتوں میں تقسیم کیا ہے۔ اس اختلاف و امتیاز کے مٹنے کی ایک صورت یہ ہے کہ ہمارے غیر مسلم ہم وطن مسلم ملّت میں جذب ہو جائیں۔ یہ بلاشبہ ہمیں مطلوب ہے‘ مگر اس مقصد کو ہم مخلوط انتخاب جیسے سیاسی ہتھکنڈوں سے حاصل کرنے کا کبھی خیال بھی نہیں کرسکتے۔ کسی شخص کو اسلام کے اصول پسند ہوں تو وہ سیدھے طریقے سے آئے اور ہماری ملّت میں شامل ہو جائے۔ ورنہ جس ملّت میں بھی رہنا چاہے‘ رہے‘ ہم اس کے تمام وطنی حقوق پوری فراخ دلی کے ساتھ تسلیم کریں گے۔ اس معاملے میں کسی قسم کی چال بازیوں سے کام لینا ہمارے لیے حرام ہے اور ہمیں یقین ہے کہ مخلوط انتخاب کے حامی بھی اس کو حلال تسلیم نہ کریں گے۔

اب رہ جاتی ہے اس اختلاف و امتیاز کے مٹنے کی دوسری صورت اور وہ یہ ہے کہ یہاں سرے سے اسلام اور غیر اسلام کے فرق ہی کو مٹا دیا جائے اور دین کو تہذیب و تمدن سے بے دخل کر کے ایک ایسے مشترک لادینی کلچر کو نشوونما دیا جائے جو ایک متحدہ وطنی قومیت کی بنیاد بن سکے۔ یہ چیز اگر مطلوب ہو تو اس کے لیے مخلوط انتخاب محض پہلا قدم ہی ہو سکتا ہے۔ اس کے بعد لازمی طور پر دوسرا قدم لادینی دستورِ مملکت ہی ہونا چاہیے۔ اور پھر آیندہ اس مملکت کی ساری پالیسی یہ قرار پانی چاہیے کہ وہ عقیدے اور عبادات کے سوا زندگی کے باقی تمام شعبوں سے دین کے ایک ایک نشانِ امتیاز کو محو کر دے‘ حتیٰ کہ مسلم و غیر مسلم کے درمیان شادی بیاہ تک کی ہمت افزائی کرے تاکہ ’’پاکستانیوں‘‘ کے درمیان وہ معاشرتی علیحدگی باقی نہ رہے جو عملاً ان کو الگ الگ ملتوں میں منقسم کرتی ہے۔    ہم پوچھتے ہیں‘ کیا یہی چیز مخلوط انتخاب کے حامیوںکو مطلوب ہے؟ اگر یہ انھیں مطلوب ہے تو وہ اس کا صاف صاف اقرار و اعلان کریں۔ ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ چند لادینی رجحانات رکھنے والے لوگوں کو مستثنیٰ کرکے پاکستان کا ہر مسلمان اس تخیل پر لعنت بھیجے گا۔ وہ کہے گا کہ اگر مجھے یہی کچھ کرنا ہوتا تو میرے لیے    اکھنڈ ہندستان کیا برا تھا۔ یہ مقصد تو وہاں بھی پورا ہو سکتا تھا۔ اس کے لیے جان و مال کی اتنی قربانیاں دے کر   ایک الگ مملکت قائم کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ (مخلوط انتخاب‘ ص ۷-۱۱)

آدمی شب و روز اس زمین کی پیداوار کھا رہا ہے اور اپنے نزدیک اسے ایک معمولی بات سمجھتا ہے۔ لیکن اگر وہ غفلت کا پردہ چاک کر کے نگاہِ غور سے دیکھے تو اسے معلوم ہو کہ اس فرشِ خاک سے لہلہاتی کھیتیوں اور سرسبز باغوں کا اُگنا اور اس کے اندر چشموں اور نہروں کا رواں ہونا کوئی کھیل نہیں ہے جو آپ سے آپ ہوئے جا رہا ہو بلکہ اس کے پیچھے ایک عظیم حکمت و قدرت اور ربوبیت کارفرما ہے۔ زمین کی حقیقت پر غور کیجیے‘ جن مادّوں سے یہ مرکب ہے اُن کے اندر بجائے خود کسی نشوونما کی طاقت نہیں ہے۔ یہ سب مادّے فرداً فرداً بھی اور ہر ترکیب و آمیزش کے بعد بھی بالکل غیر نامی ہیں اور اس بنا پر ان کے اندر زندگی کا شائبہ تک نہیں پایا جاتا۔ اب سوال یہ ہے کہ اس بے جان زمین کے اندر سے نباتی زندگی کا ظہور آخر کیسے ممکن ہوا؟ اس کی تحقیق آپ کریں گے تو معلوم ہوگا کہ چند بڑے بڑے اسباب ہیں جو اگر پہلے فراہم نہ کر دیے گئے ہوتے تو یہ زندگی سرے سے وجود میں نہ آ سکتی تھی:

اولاً‘ زمین کے مخصوص خطّوں میں اس کی اوپری سطح پر بہت سے ایسے مادّوں کی تہ چڑھائی گئی جو نباتات کی غذا بننے کے لیے موزوں ہو سکتے تھے اور اس تہ کو نرم رکھا گیا تاکہ نباتات کی جڑیں اس میں پھیل کر اپنی غذا چوس سکیں۔

ثانیاً‘ زمین پر مختلف طریقوں سے پانی کی بہم رسانی کا انتظام کیا گیا تاکہ غذائی مادّے اس میں تحلیل ہو کر اس قابل ہو جائیں کہ نباتات کی جڑیں ان کو جذب کر سکیں۔

ثالثاً‘ اوپر کی فضا میں ہوا پیدا کی گئی جو آفاتِ سماوی سے زمین کی حفاظت کرتی ہے‘ جو بارش لانے کا ذریعہ بنتی ہے‘ اور اپنے اندر وہ گیسیں بھی رکھتی ہے جو نباتات کی زندگی اور ان کے نشوونما کے لیے درکار ہیں۔

رابعاً‘ سورج اور زمین کا تعلق اس طرح قائم کیا گیا کہ نباتات کو مناسب درجۂ حرارت اور موزوں موسم مل سکیں۔

یہ چار بڑے بڑے اسباب (جو بجائے خود بے شمار ضمنی اسباب کا مجموعہ ہیں) جب پیدا کر دیے گئے تب نباتات کا وجود میں آنا ممکن ہوا۔ پھر یہ سازگار حالات فراہم کرنے کے بعد نباتات پیدا کیے گئے اور ان میں سے ہر ایک کا تخم ایسا بنایا گیا کہ جب اسے مناسب زمین‘ پانی‘ ہوا اور موسم میسر آئے تو اس کے اندر نباتی زندگی کی حرکت شروع ہو جائے۔ مزیدبرآں اسی تخم میں یہ انتظام بھی کر دیا گیا کہ ہر نوع کے تخم سے لازماً اسی نوع کا بوٹا اپنی تمام نوعی اور موروثی خصوصیات کے ساتھ پیدا ہو۔ اور اس سے بھی آگے بڑھ کر مزید کاری گری یہ کی گئی کہ نباتات کی دس بیس یا سو پچاس نہیں بلکہ بے حدوحساب قسمیں پیدا کی گئیں اور ان کو اس طرح بنایا گیا کہ وہ اُن بے شمار اقسام کے حیوانات اور بنی آدم کی غذا‘ دوا‘ لباس اور اَن گنت دوسری ضرورتوں کو پورا کر سکیں جنھیں نباتات کے بعد زمین پر وجود میں لایا جانے والا تھا۔

اس حیرت انگیز انتظام پر جو شخص بھی غور کرے گا وہ اگر ہٹ دھرمی اور تعصب میں مبتلا نہیں ہے تو اس کا دل گواہی دے گا کہ یہ سب کچھ آپ سے آپ نہیں ہو سکتا۔ اس میں صریح طور پر ایک حکیمانہ منصوبہ کام کر رہا ہے جس کے تحت زمین‘ پانی‘ ہوا اور موسم کی مناسبتیںنباتات کے ساتھ‘ اور نباتات کی مناسبتیں حیوانات اور انسانوں کی حاجات کے ساتھ انتہائی نزاکتوں اور باریکیوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے قائم کی گئی ہیں۔ کوئی ہوش مند انسان یہ تصور نہیں کر سکتا کہ ایسی ہمہ گیر مناسبتیں محض اتفاقی حادثے کے طور پر قائم ہو سکتی ہیں۔ پھر یہی انتظام اس بات پر بھی دلالت کرتا ہے کہ یہ بہت سے خدائوں کا کارنامہ نہیں ہو سکتا۔ یہ تو ایک ہی ایسے خدا کا انتظام ہے اور ہو سکتا ہے جو زمین ‘ ہوا‘ پانی‘ سورج‘نباتات‘ حیوانات اور نوعِ انسانی‘سب کا خالق و رب ہے۔ ان میں سے ہر ایک کے خدا الگ الگ ہوتے تو آخر کیسے تصور کیا جا سکتا ہے کہ ایک ایسا جامع‘ ہمہ گیر اور گہری حکیمانہ مناسبتیں رکھنے والا منصوبہ بن جاتا اور لاکھوں کروڑوں برس تک اتنی باقاعدگی کے ساتھ چلتا رہتا۔

توحید کے حق میں یہ استدلال پیش کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اَفَلاَ یَشْکُرُوْنَ؟ یعنی کیا یہ لوگ ایسے احسان فراموش اور نمک حرام ہیں کہ جس خدا نے یہ سب کچھ سروسامان ان کی زندگی کے لیے فراہم کیا ہے‘ اس کے یہ شکرگزار نہیں ہوتے اور اس کی نعمتیں کھا کھا کر دوسروں کے شکریے ادا کرتے ہیں؟ اس کے آگے نہیں جھکتے اور ان جھوٹے معبودوں کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہیں جنھوں نے ایک تنکا بھی ان کے لیے پیدا نہیں کیا ہے؟ (آیت:  وَاٰیَۃٌ لَّھُمُ الْاَرْضُ الْمَیْتَۃُ ج ( یٓس ۳۶:۳۳)کی تفسیر‘  تفہیم القرآن‘ ج ۴‘ ص ۲۵۷-۲۵۸)

 

دستور میںدینی نظام کے جو بنیادی اصول اس قدر طویل کش مکش کے بعد منوائے گئے ہیں اب اصل کام ان کو ملک کے نظام میں عملاً نافذ کرانا ہے اور ان کا نفاذ بہرحال قیادت کی تبدیلی پر منحصرہے۔ اس موقع پر ایک صالح قیادت صرف اسی طرح بروے کار لائی جا سکتی ہے کہ ہم اپنے لائحہ عمل کے چاروں اجزا پر بہ یک وقت کام کریں اور توازُن کے ساتھ ان چاروں گوشوں میں کام کرتے ہوئے اس طرح آگے بڑھیں کہ افکار کی تعمیر و تطہیر ‘ صالح افراد کی تنظیم اور معاشرے کی اصلاح کا جتنا جتنا کام ہوتا جائے اسی نسبت سے ملک کے سیاسی نظام میں دین کے حامی عنصر کا نفوذ و اثر بھی بڑھتا جائے‘ اور سیاسی نظام میں حامی ٔ دین عنصر کانفوذ و اثر جتنا جتنا بڑھتا جائے اسی قدر زیادہ قوت کے ساتھ تطہیر و تعمیرافکار اور تنظیم عناصرِ صالحہ اور اصلاحِ معاشرہ کا کام انجام دیا جائے----

یہ لائحۂ عمل جس اسکیم پر مبنی ہے اس کی کامیابی کا سارا انحصار ہی اس کے توازُن پر ہے۔ اس کا ہر جز دوسرے اجزا کا مددگار ہے‘ اس سے تقویت پاتا ہے اور اس کو تقویت بخشتا ہے۔ آپ کسی جز کو ساقط یا معطل کریں گے تو ساری اسکیم خراب ہو جائے گی‘ اور اس کے اجزا کے درمیان توازُن برقرارنہ رکھیں گے تب بھی یہ اسکیم خراب ہو کر رہے گی۔

کامیابی کی صورت صرف یہ ہے کہ ایک طرف دعوت و تبلیغ جاری رکھیے تاکہ ملک کی آبادی زیادہ سے زیادہ آپ کی ہم خیال ہوتی چلی جائے۔ دوسری طرف ہم خیال بننے والوں کو منظم اور تیار کرتے جایئے تاکہ آپ کی طاقت اُسی نسبت سے بڑھتی جائے جس نسبت سے آپ کی دعوت وسیع ہو۔ تیسری طرف معاشرے کی اصلاح و تعمیر کے لیے اپنی کوششوں کا دائرہ اُتنا ہی بڑھاتے چلے جایئے جتنی آپ کی طاقت بڑھے تاکہ معاشرہ اس نظامِ صالح کو لانے اور سہارنے کے لیے زیادہ سے زیادہ تیار ہوتا جائے جسے آپ لانا چاہتے ہیں۔ اور ان تینوں کاموں کے ساتھ ساتھ ملک کے نظام میں عملاً تغیر لانے کے آئینی ذرائع سے بھی پورا پورا کام لینے کی کوشش کیجیے تاکہ ان تغیرات کو لانے اور سہارنے کے لیے آپ نے معاشرے کو جس حد تک تیار کیا ہو اُس کے مطابق واقعی تغیررُونما ہو سکے۔

ان چاروں کاموں کی مساوی اہمیت آپ کی نگاہ میں ہونی چاہیے۔ ان میں سے کسی کو کسی پر ترجیح دینے کا غلط خیال آپ کے ذہن میں پیدا نہ ہونا چاہیے۔ اِن میں سے کسی کے بارے میں غلو کرنے سے آپ کو پرہیز کرنا چاہیے۔ آپ کے اندر یہ حکمت موجود ہونی چاہیے کہ اپنی قوتِ عمل کو زیادہ سے زیادہ صحیح تناسب کے ساتھ ان چاروں کاموں پر تقسیم کریں‘ اور آپ کو وقتاً فوقتاً یہ جائزہ لیتے رہنا چاہیے کہ ہم کہیں ایک کام کی طرف اس قدر زیادہ تو نہیں جھک پڑے ہیں کہ دوسرا کام رُک گیا ہو‘ یا کمزور پڑ گیا ہو۔ اِسی حکمت اور متوازن فکر اور متناسب عمل سے آپ اس نصب العین تک پہنچ سکتے ہیں جسے آپ نے اپنا مقصدِ حیات بنا یا ہے۔ (تحریک اسلامی کا آیندہ لائحۂ عمل‘ ص ۱۶۶- ۱۶۷‘  ۱۹۹-۲۰۰)


خوب اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ جن جزئیات پر آپ لوگ بحثیں کرتے ہیں وہ خواہ کتنی ہی اہمیت رکھتی ہوں مگر بہرحال یہ وہ چیزیں نہیں ہیں جن کو قائم کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں کو مبعوث کیا ہو اور اپنی کتابوں کو نازل کیا ہو۔ انبیا کی بعثت اور کتب الٰہی کی تنزیل کا مقصد ان جزئیات کو قائم کرنا نہیںہے بلکہ دین حق کو قائم کرنا ہے۔ ان کا اصل مقصد یہ رہا ہے کہ خلق خدا اپنے مالک حقیقی کے سوا کسی کے تابع فرمان نہ رہے۔ قانون صرف خدا کا قانون ہو‘تقویٰ صرف خدا سے ہو‘ امر صرف خدا کا مانا جائے‘ حق اور باطل کا فرق اور زندگی میں راہِ راست کی ہدایت صرف وہی مسلّم ہو جسے خدا نے واضح کیا ہے اور دُنیا میں اُن خرابیوں کااستیصال کیا جائے جو اللہ کو ناپسند ہیں اور ان خیرات و حسنات کو قائم کیا جائے جو اللہ کو محبوب ہیں۔

یہ ہے دین اور اسی کی اقامت ہمارا مقصد ہے اور مسلمان ہونے کی حیثیت سے اسی کام پر ہم مامور ہیں۔ اس کام کی اہمیت اگر آپ پوری طرح محسوس کرلیں اور اگر آپ کو اس بات کا بھی احساس ہو کہ اس کام کے معطل ہو جانے اور باطل نظاموں کے دنیا پر غالب ہو جانے سے دنیا کی موجودہ حالت کس قدر شدت سے غضب الٰہی کی مستحق ہو چکی ہے ‘ اور اگر آپ یہ بھی جان لیں کہ اس حالت میں ہمارے لیے غضب الٰہی سے بچنے اور رضاے الٰہی سے سرفراز ہونے کی کوئی صورت اس کے سوا نہیں ہے کہ ہم اپنی تمام قوت خواہ وہ مال کی ہو یا جان کی‘ دماغ کی ہو یا زبان کی‘ صرف اقامت دین کی سعی میں صرف کر دیں تو آپ سے کبھی ان فضول بحثوں اور ان لایعنی افکار کا صُدور نہ ہو سکے جن میں اب تک آپ میں بہت سے لوگ مشغول ہیں۔ (دعوت اسلامی اور اس کے مطالبات‘ ص ۵۲-۵۳)