اگرچہ رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم سے ہمارا تعلق کسی خاص مہینے، دن یا واقعے کا محتاج نہیں، ایک مسلمان ہونے کے ناطے ہمارا ہر دن اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے زیر سایہ گزرتا ہے،لیکن بعض لمحات اور بعض دنوں میں سیرتِ اطہر کی خوش بُو چہار جانب چھائی محسوس ہوتی ہے۔
اُمتیوں کا یہ معاملہ البتہ عجیب ہے کہ ہم میں سے اکثر نے حیاتِ طیبہ کے صرف کسی ایک گوشے پر اکتفا کر رکھا ہے۔ کہیں چند اذکار اور کہیں صرف وقتی ذکر شہِ ابرار۔ کہیں اطاعت ِرسولؐ کی روح سے عاری مجالس نعت، اور کہیں صرف مخصوص وضع قطع پر اکتفا۔ پھر کھلا تضاد یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو سراپا رحمت و محبت تھے، جنھوں نے بدترین منافق کو بھی بے نقاب نہیں فرمایا، اور ہم گاہے عشق و محبت کے زعم میں اپنے مسلمان بھائیوں کو بھی واجب القتل قرار دینے پر مُصر دکھائی دیتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان اقدس سے کبھی کسی نے وقار سے گرا ہوا لفظ تک نہ سنا تھا اور ہم ایک سانس میں آپؐ پر فدا ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، اور دوسرے سانس میں غلیظ گالیوں کی بوچھاڑ شروع کر دیتے ہیں۔ آپؐ نے خون کے پیاسے قبائل کو، ایک دوسرے پر جان چھڑکنے والے بھائی بنادیا تھا اور ہم کسی جزوی اختلاف پر بھی اپنے بھائیوں سے جینے کا حق چھین لینا چاہتے ہیں۔ آپؐ نے پوری اُمت کو جسدِ واحد قرار دیتے ہوئے اپنے تمام مسلمان بھائیوں کی خبرگیری کا حکم دیا، ایسا نہ کرنے والوں کو سخت تنبیہ فرمائی ، اور ہم اُمت کی بات کرنے والوں پر پھبتیاں کستے ہیں۔
سیرتِ طیبہ کا یہی باب دیکھ لیجیے ہم میں سے کتنوں کو اور کتنا یاد رہتا ہے، اور سوچیے جب ایک جانب مشرکینِ مکہ کے مظالم تھے اور دوسری جانب، پہلے جناب ابو طالب اور پھر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات کا سانحہ، جب پورا سال ہی غم کا سال قرار پایا۔ جب مشرکین مکہ کے بعد اہلِ طائف نے بھی اذیتیں پہنچانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ ایسے میں ربِّ ذوالجلال نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی دل جوئی کا اہتمام فرمایا۔ کائنات کا ایک ایسا منفرد واقعہ پیش آیا کہ جو نہ پہلے کبھی وقوع پذیر ہوا تھا اور نہ اس کے بعد کبھی ہوگا۔
خالقِ کائنات اپنے بندے کو مکہ سے فلسطین اور وہاں سے سفرِ معراج پر لے گیا۔ اپنی نشانیاں دکھائیں، جنت و دوزخ کے مناظر دکھاتے ہوئے اُمتیوں کے لیے نصیحت کا اہتمام فرمایا۔ آنکھوں کی ٹھنڈک (نماز) کا تحفہ عطا فرمایا اور پھر اس واقعے کو اپنی آخری کتاب کا حصہ بنادیا، تاکہ تاقیامت سیرتِ طیبہ کے اس اہم باب کی تلاوت ہوتی رہے: سُبْحٰنَ الَّذِیْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰرَکْنَا حَوْلَہٗ لِنُرِیَہٗ مِنْ اٰیٰتِنَا ط اِنَّہٗ ھُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ O(بنی اسرائیل۱۷: ۱)’’پاک ہے وہ جو لے گیا ایک رات اپنے بندے کو مسجد حرام سے دُور کی اُس مسجد تک جس کے ماحول کو اُس نے برکت دی ہے تاکہ اُسے اپنی کچھ نشانیوں کا مشاہدہ کرائے۔ حقیقت میں وہی ہے سب کچھ سننے اور دیکھنے والا‘‘۔
یہ حقیقت بھی اہم تر ہے کہ سرزمینِ اقصیٰ کے مبارک ہونے کا ذکر صرف اسی آیت ہی میں نہیں، قرآن کی پانچ آیات میں کیا گیا ہے۔ ابو الانبیا حضرت ابراہیم، حضرت اسحاق، حضرت یعقوب، حضرت یوسف، حضرت لوط، حضرت داؤد، حضرت سلیمان، حضرت صالح، حضرت زکریا، حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ علیہم الصلاۃ و السلام سمیت تقریباً ۱۴ ؍انبیا اس مقدس سرزمین پر قیام پذیر رہے۔ لیکن قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ اگرچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کو بھی داخلے کا حکم دیا گیا تھا، لیکن اس نے واضح حکم الٰہی سے کھلی بغاوت کردی۔ حضرت موسٰی اپنی قوم کی نافرمانی کے باوجود اسے چھوڑ کر نہ گئے اور خود بھی اس مبارک سرزمین میں داخل نہ ہوسکے، یہاں تک کہ آپ کا انتقال ہوگیا۔
سفر معراج کا ذکر کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس رات میں موسٰی کے پاس سے گزرا۔ و ہ سرخ ریت کے ڈھیر کے پاس اپنی قبر میں نماز ادا کررہے تھے۔ آپ لوگ میرے ساتھ ہوتے تو میں آپ کو راستے کے کنارے ان کی قبر دکھاتا۔ آپؐ کا مسجد اقصیٰ لے جایا جانا، تمام انبیا کا وہاں دوبارہ اتارا جانا اور آپؐ کی امامت میں نماز ادا کرنا، اس بات کا اعلان بھی تھا کہ اب باقی تمام شریعتیں اختتام پذیر ہوئیں۔ آپؐ کی لائی ہوئی شریعت ہی اب ان تمام تعلیماتِ الٰہیہ کا نقطۂ کمال ہے۔
مکہ میں رہتے اور مدینہ ہجرت کے ۱۷ ماہ بعد تک، اسی مبارک مسجد اقصیٰ ہی کو آپؐ اور آپؐ کے اُمتیوں کے لیے قبلہ بنائے رکھا گیا۔ اس مقدس دھرتی کی فضیلت و منزلت بتاتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ :لَا تَزَالُ طَائِفَۃٌ مِنْ اُمَّتِی عَلَی الدِّیْنِ ظَاھِرِیْنَ لِعَدُوِّھِمْ قَاھِرِیْنَ لَا یَضُرُّھُمْ مَنْ خَالَفَہُمْ اِلَّا مَا اَصَابَہُمْ مِنْ لَأوَاءٍ حَتّٰی یَأتِیَ أَمْرُ اللہِ وَہُمْ کَذٰلِکَ قَالُوْا وَ أَیْنَ ھُمْ؟ قَالَ بِبِیْتِ الْمَقْدِسِ وَ أَکْنَافِ بِیْتِ الْمَقْدِسِ (حالات جیسے بھی تباہ کن ہوں)،’’ میری اُمت کا ایک گروہ حق پر قائم رہے گا، اپنے دشمن کو زیر کرتا رہے گا۔ اس کی مخالفت کرنے والا کوئی اسے نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ ہاں، البتہ انھیں تکالیف پہنچتی رہیں گی۔ حتیٰ کہ اللہ کا حتمی فیصلہ آجائے گا اور وہ اسی حال میں ہوں گے۔ صحابہ کرامؓ نے پوچھا: یارسولؐ اللہ! وہ کہاں ہوں گے؟ آپؐ نے فرمایا: بیت المقدس میں اور بیت المقدس کے اطراف میں‘‘۔
صدیوں کے بعد گزرتی صدیاں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کی حقانیت پر مہر تصدیق ثبت کرتی چلی جارہی ہیں۔ باقی تمام اَدوار چھوڑ کر صرف گذشتہ صدی پر ہی غور کرلیجیے۔ اپنے نبی کی امانت، آپؐ کے قبلۂ اوّل اور آپؐ کے فرمان کے مطابق مکہ و مدینہ کے بعد اس مقدس ترین مقام کی حفاظت کرنے والوں کے خلاف کیا کیا سازشیں نہیں ہوئیں۔ ان پر کیا کیا مظالم نہیں توڑے گئے، لیکن اہل فلسطین کے دل سے اپنے نبی کی محبت اور ان کے قبلۂ اول کی آزادی کا جذبہ چھینا نہیں جاسکا۔ آج ان حقائق کی یاددہانی کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ اُمت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک بار پھر سازشوں کے وہی جال بنے جارہے ہیں۔
۲ نومبر ۲۰۱۷ء کو اُس ظالمانہ برطانوی اعلانِ بالفور کے ۱۰۰ سال پورے ہوئے، جس کے مطابق ہزاروں سال سے سرزمین فلسطین پر مقیم اس کے باشندوں کو بے گھر کرتے ہوئے اور دنیا بھر کے یہودیوں کو وہاں جمع کرکے، ایک نئی ریاست قائم کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔ ۱۹۱۷ء کو برطانوی وزیر خارجہ آرتھر بالفور کے اس اعلان کے وقت فلسطین میں یہودیوں کی تعداد صرف ۵۵ہزار تھی۔ اس منحوس اعلان سے قبل برطانیہ نے مشرق وسطیٰ پر اپنا قبضہ مستحکم کرنے کے لیے جو مختلف اقدامات کیے، ان میں سرفہرست مسلمانوں کو باہم لڑانا تھا۔ حجاز کے والی شریف حسین بن علی کو لالچ دیا گیا کہ وہ اگر خلافت عثمانیہ سے بغاوت کرتے ہوئے اس منصوبے کا ساتھ دے، تو اسے پورے جزیرۂ عرب، عراق اور شام سمیت عالم عرب کے اکثر علاقوں کا تاج دار بنادیا جائے گا۔ موصوف نے ۱۵ جون ۱۹۱۶ء کو یہ اعلانِ انقلاب کردیا۔ مسلمانوں کی قوت تقسیم اور کمزور ہوئی تو دسمبر ۱۹۱۷ء تک سرزمین فلسطین پر برطانوی قبضہ مکمل ہوگیا۔ برطانوی افواج کا سربراہ جنرل ایلن بی (Allenby )سلطان صلاح الدین ایوبی کی قبر کے پاس پہنچا اور اس پر پاؤں رکھتے ہوئے بولا: ’’آج صلیبی جنگوں کا خاتمہ ہوگیا‘‘۔ گویا یہ سارا منصوبہ بیت المقدس پر قبضے کے لیے لڑی جانے والی ۸۰۰ سالہ صلیبی جنگوں ہی کا تتمہ تھا۔
ایک طرف یہ سامراجی منصوبہ ساز اور شریف مکہ جیسے ان کے ہم نوا مسلم حکمران تھے، اور دوسری طرف اپنا سب کچھ بیت المقدس کی آزادی کی خاطر قربان کرتے ہوئے، جدوجہد کرنے والے اہل ایمان تھے۔ ۲۷ جنوری سے ۱۵ فروری ۱۹۱۹ء تک بیت المقدس میں پہلی فلسطینی کانفرنس ہوئی۔ شرکا نے بلاد الشام (موجودہ فلسطین، شام، لبنان، اُردن اور عراق) کی تقسیم اور اس پر قبضہ مسترد کرنے کا اعلان کیا۔ موسیٰ الحسینی اور مفتی اعظم فلسطین امین الحسینی، نئی فلسطینی قیادت کے طور پر اُبھرے۔ فلسطین پر قبضہ کرنے کے لیے کوشاں یہودیوں کے خلاف اپریل ۱۹۲۰ء میں پہلی عوامی تحریک شروع ہوئی۔
۱۹۲۱ء میں فلسطین کے شہر یافا میں تحریک کا دوسرا دور دیکھنے کو آیا اور اگست ۱۹۲۹ء میں مسجد اقصیٰ کی مغربی دیوار، دیوار بُراق کی بے حرمتی کرنے پر ایک طاقت ور ’تحریک بُراق‘ دیکھنے میں آئی۔جس دوران میں ۱۳۳ یہودی مارے گئے ۳۳۹ زخمی ہوئے جواب میں برطانوی افواج نے ۱۱۶ فلسطینی شہید اور ۲۳۲ زخمی کردیے۔ ان تین عوامی تحریکوں کے بعد بیت المقدس اور گردونواح کی عرب آبادی میں جہاد فلسطین کی نئی روح پیدا ہوئی۔ شام کے چوٹی کے عالم دین عزالدین القسام اور عبد القادر حسینی نے اپنی اپنی جہادی کوششوں سے قبلۂ اول آزاد کروانے کے لیے جدوجہد کا حق ادا کیا۔
مسئلۂ فلسطین صرف وہاں کے عرب عوام کا مسئلہ نہیں تھا،صرف اہلِ فلسطین یا عرب آبادی ہی اقصیٰ کی حفاظت کے لیے کوشاں نہیں تھی، پوری مسلم دنیا اس کار جہاد میں شریک تھی۔ ۷تا ۱۷دسمبر ۱۹۳۱ء کو مفتی اعظم امین الحسینی کی سربراہی میں بیت المقدس میں پہلی اسلامی کانفرنس منعقد کی گئی جس میں ۲۲ ممالک کے رہنما شریک ہوئے۔ برصغیر کی نمایندگی علامہ محمد اقبال اور مولانا شوکت علی نے کی۔ لبنان کے امیر شکیب ارسلان، مصر کے علامہ محمد رشید رضا، ایران کے ضیاء الدین طباطبائی اور تیونس کے عبد العزیز الثعالبی جیسی شخصیات اس کانفرنس کی روح رواں تھیں۔ کانفرنس کے اختتام پر پورے عالم اسلام میں فلسطین کمیٹیاں بنانے اور قبلہء اول کی حفاظت کا جذبہ اُجاگر کرنے کا اعلان کیا گیا۔
فلسطین کے اندر بھی جہادی سرگرمیوں کے علاوہ پرامن عوامی جدوجہد کے مختلف مراحل سامنے آئے۔ ۲۰ ؍اپریل ۱۹۳۶ء کو فلسطینی عوام نے دنیا بھر سے یہودیوں کو وہاں لائے جانے کے خلاف ملک گیر ہڑتال کردی۔ یہ ایک بے مثال ہڑتال تھی جو چند روز یا چند ہفتے نہیں، تقریباً چھے ماہ جاری رہی۔ اگر آس پاس کے مسلمان حکمران ایک بار پھر برطانوی احکام بجا لاتے ہوئے اپنا منفی کردار ادا نہ کرتے تو۱۷۸ روزہ یہ ہڑتال اپنے مثبت نتائج حاصل کرلیتی۔ برطانیہ نے صورتِ حال اور فلسطینی عوام کے مطالبات کا جائزہ لینے کے بہانے اکتوبر ۱۹۳۶ء میں لارڈ پِیل (Lord Peel) کی سربراہی میں رائل کمیشن بھیجا۔ کمیشن نے چھے ماہ بعد جو رپورٹ جاری کی، وہ فلسطین کی بندر بانٹ کا ایک خاکہ تھا جسے فلسطینی عوام نے فوراً مسترد کردیا۔ ایک مضبوط عوامی تحریک دوبارہ برپا ہوئی۔ اس دوران برطانوی گورنر لویس انڈریوز بھی قتل ہوگیا۔ برطانوی افواج نے یہودی ملیشیاؤںکے ساتھ مل کر ظلم کی نئی تاریخ رقم کردی۔ مفتی امین الحسینی لبنان جانے پر مجبور ہوگئے، لیکن دیگر کئی رہنما گرفتار کرکے براعظم افریقہ کے مغرب میں واقع اور بحرہند میں گھری برطانوی کالونی جزائر سیشل میں قید کردیے گئے۔ تحریکِ آزادی کا یہ مرحلہ مزید تقریباً دو سال جاری رہا۔ ایک مرحلے پر فلسطینی عوام نے کئی دیہات اور شہروں کے گردو نواح کا علاقہ آزاد کروالیا لیکن برطانیہ نے جنرل منٹگمری اور جنرل ویول سمیت چوٹی کے عسکری رہنماؤں کے ساتھ مزید کمک بھیجتے ہوئے لاتعداد فلسطینی شہری شہید کردیے۔
عوامی غیظ و غضب اور دوسری جنگ عظیم کے گہرے ہوتے ہوئے سایے کی وجہ سے برطانیہ کو مسئلے کا سیاسی حل تلاش کرنے پر بھی مجبور ہونا پڑا۔ اس نے تقسیم کا منصوبہ معطل کردیا۔ گرفتار و ملک بدر رہنماؤں کو رہا کردیا۔ مسئلے کے حل کے لیے لندن میں گول میز کانفرنس بلائی جو ناکام رہنا تھی، اور ناکام رہی۔ مئی ۱۹۳۹ء میں قرطاس ابیض (وائٹ پیپر) جاری کرتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ فلسطین کو یہودی ریاست نہیں بنانا چاہتا، عربوں اور یہودیوں کی مشترک حکومت بنانا چاہتا ہے۔ وعدہ کیا کہ وہ آیندہ دس برس کے اندر اندر ایک آزاد فلسطینی ریاست تشکیل دے گا۔ فلسطینی عوام کو ان اعلانات کی صداقت پر یقین نہیں تھا، اس لیے انھوں نے انھیں مسترد کردیا۔ اسی دوران میں دوسری عالمی جنگ شروع ہوگئی۔ مفتی امین الحسینی کئی ملکوں سے ہوتے جرمنی پہنچ گئے۔ جرمنی نے برطانیہ کے مقابلے میں فلسطینیوں کی حمایت اور امداد کا اعلان کیا۔ اسی اثنا میں صہیونی قیادت نے عالمی قیادت کا مرکز امریکا منتقل ہوتا دیکھ کر اپنا قبلہ بھی ادھر پھیرلیا۔ ڈیموکریٹس اور ری پبلیکن دونوں پارٹیوں نے ان کی مکمل سرپرستی کی۔ ٹرومین صدر منتخب ہوا تو اس نے برطانیہ سے گٹھ جوڑ کرتے ہوئے مزید ایک لاکھ یہودی فلسطین منتقل کرنے کا اعلان کردیا۔ جنگ جیتنے کے بعد برطانیہ نے بھی توقع کے عین مطابق اپنے وائٹ پیپر کی منسوخی کا اعلان واپس لے لیا۔ مسئلۂ فلسطین کا تفصیلی جائزہ لینے کے لیے اینگلو امریکن مشترک کونسل تشکیل دے دی گئی۔ اب امریکا اس پورے قضیے میں باقاعدہ اور براہِ راست شریک تھا۔ ۲ ؍اپریل ۱۹۴۷ء کو برطانیہ نے اقوام متحدہ میں مسئلہ فلسطین پر ایک قرارداد پیش کی، جس نے ۲۹ نومبر ۱۹۴۷ء کو اسے منظور کرتے ہوئے، سرزمین فلسطین کے ۷ء۵۴ فی صد علاقے پر ایک یہودی ریاست قائم کرنے کا اعلان کردیا۔
۲نومبر ۱۹۱۷ء کو کیے جانے والے برطانوی اعلان بالفور سے لے ۱۴ مئی ۱۹۴۸ء کو اسرائیلی ریاست کے باقاعدہ قیام کے اعلان تک، زمینی حقائق کیسے تبدیل کیے گئے؟ اس کا اندازہ درج ذیل اعداد و شمار سے ہوتاہے: ۱۹۱۸ء میں غیر یہودی فلسطینی آبادی ۶لاکھ سے متجاوز تھی، جب کہ باہر سے آکر بسنے والوں سمیت یہودیوں کی کل تعداد ۵۵ ہزار تھی جو آبادی کا ۴. ۸ فی صد تھے اور ان کے پاس فلسطین کا ۲ فی صد علاقہ تھا۔ ۱۹۴۸ء تک ان کی تعداد ۶لاکھ ۴۶ ہزار ہوچکی تھی، اور وہ کل آبادی کا ۷ء۳۱ فی صد تھے۔ انھوں نے مختلف حیلوں بہانوں سے ۶ فی صد رقبہ حاصل کرلیا تھا۔ اس وقت بھی فلسطینیوں کی تعداد ۱۳ لاکھ ۹۰ ہزار تھی جو کل آبادی کا ۳ء۶۸ فی صد رہ گئے۔ لیکن اقوام متحدہ نے ۶ فی صد رقبہ رکھنے اور باہر سے آکر ایک پرائے ملک پر قابض ہونے والے ۷ء۳۱ فی صد یہودیوں کو تقریباً ۵۵ فی صد رقبہ عطا کردیا۔
تقسیم سرزمین اقصیٰ کا اعلان ہونے پر فلسطینی عوام نے احتجاج کیا تو جواب میں ان کے خلاف اعلانِ جنگ کردیا گیا۔ بدقسمتی سے کسی پڑوسی عرب ریاست یا حکومت نے ان کی کوئی مدد نہ کی۔ سب نے بہانہ بنایا کہ جب اعلان کے مطابق ۱۵ مئی ۱۹۴۸ء کو برطانوی افواج یہاں سے نکل جائیں گی، تو اس وقت وہ فلسطینی عوام کی مدد کریں گے۔ فلسطینی عوام نے خود ہی اپنے نبیؐ کی امانت کی حفاظت کا فیصلہ کیا۔ پڑوسی علاقوں (بالخصوص مصر سے) عوام ان کی جو مددکرسکتے تھے وہ انھوں نے کی۔ الاخوان المسلمون کے بانی حسن البنا اور ان کی جماعت، اہل فلسطین کی مدد کرنے والوں میں سرفہرست تھے۔ اخوان کی بنیاد ۱۹۲۸ء میں رکھی گئی تھی۔ صرف ۲۰ سال بعد انھوں نے قبلۂ اوّل کی آزادی کے لیے پہلی کھیپ کے طور پر ۱۰ ہزار مجاہدین فلسطین بھیجنے کا اعلان کیا۔ مصری حکومت خود اہل فلسطین کی مدد تو کیا کرتی، اس نے اخوان کے ان فداکاروں کی راہ میں بھی رکاوٹیں کھڑی کیں۔ جو اہل ایمان جاسکے، انھیں بھی جنگ بندی کے بعد ملک واپسی سے پہلے ہی گرفتار کرلیا گیا۔ ساتھ ہی پورے مصر میں اخوان کے کارکنان جیلوں میں بند کیے جانے لگے۔ قبلہء اول کی آزادی کے لیے قربانیاں دینا اور اپنے فلسطینی بھائیوں کی پکار پر لبیک کہنا، اتنا سنگین جرم تھا کہ تقریباً ڈیڑھ ماہ بعد ہی ۱۱ فروری ۱۹۴۹ء کی شام اخوان کے بانی اور مرشد عام حسن البنا کو مصری دارالحکومت قاہرہ کی ایک شاہراہ پر شہید کردیا گیا۔
۱۹۴۸ء کی اس خوفناک جنگ میں فلسطینی عوام نے عزیمت کی نئی تاریخ رقم کی۔ جنگ کے پہلے چھے ماہ تو وہ اکیلے ہی یہودی ملیشیاؤں اور ان کے عالمی سرپرستوں کے مقابل ڈٹے رہے۔ انھوں نے سرزمین فلسطین کے ۸۲ فی صد علاقے کی حفاظت کیے رکھی۔ آخرکار سات عرب ممالک کی افواج نے اہل فلسطین کی مدد کا اعلان کیا، لیکن ان کا فلسطین جانا، ان کے وہاں نہ جانے سے بھی زیادہ تباہ کن ثابت ہوا۔
ان افواج کی حقیقت اسی بات سے واضح ہوجاتی ہے کہ ان میں سے ایک ملک کی ارسال کردہ فوج کے اعلیٰ افسران میں سے ۴۵ افسر عرب نہیں برطانوی تھے۔ سات عرب ریاستوں کی افواج کی وہاں موجودگی کے دوران دسمبر ۱۹۴۸ء میں جنگ بندی کا اعلان ہوا، تو فلسطین کا ۷۷ فی صد علاقہ یہودی افواج کے ہاتھ دیا جاچکا تھا۔ اس دوران ۱۳ لاکھ ۹۰ہزار فلسطینیوں میں سے ۸ لاکھ شہری زبردستی ملک بدر کردیے گئے۔ مزید ۳۰ ہزار سے زائد ملک کے اندر مہاجر ہوگئے۔ ساڑھے چار ہزار سال سے وہاں آباد ایک پوری قوم سے ان کے آباو اجداد کی سرزمین چھین لی گئی۔ مسلمانوں سے ان کا قبلۂ اول اور عیسائیوں سے ان کے مقدس مقامات چھین لیے گئے۔( ۱۹۲۲ء میں وہاں عیسائیوں کی تعداد ۷۱ ہزار ۶۴۶ تھی)۔ ان کے گھر اور بستیاں مسمار کرکے وہاں یہودی بستیاں تعمیر کی جانے لگیں۔ ۱۴ نومبر ۱۹۷۳ء کو شائع ہونے والے برطانوی اخبار دی گارڈین میں اسرائیلی فوج کے سربراہ، اور وزیر دفاع موشے دایان (Moshe Dayan) نے اعتراف کیا کہ ’’اس ملک میں ایک بھی یہودی بستی ایسی نہیں ہے، جو کسی نہ کسی عرب آبادی کے اوپر تعمیر نہ کی گئی ہو‘‘۔
۱۹۴۸ء میں اہل فلسطین پر مسلط کی جانے والی جنگ آخری جنگ نہیں تھی۔ اکتوبر ۱۹۵۶ء میں اسرائیل، برطانیہ اور فرانس نے مل کر دوبارہ جنگ چھیڑ دی۔ غزہ کی پٹی اور مصری صحراے سینا پر قبضہ جمالیا اور پھر بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے کے بعد سینا کا علاقہ خالی کردیا۔ ۵ جون ۱۹۶۷ء کی صبح اسرائیل نے مصر، اُردن اور شام پر ایک بار پھر بیک وقت اور اچانک حملہ کرتے ہوئے بچا کھچا فلسطینی علاقہ (مغربی کنارہ ۵۸۷۸ کلومیٹر اور غزہ کی پٹی ۳۶۳ کلومیٹر) مصری صحراے سینا (۶۱ ہزار ۱۹۸ مربع کلومیٹر) شامی گولان کی پہاڑیاں (۱۱۵۰ مربع کلومیٹر) بھی قبضے میں لے لیا۔ مصر، شام اور اُردن کی تقریباً ساری فضائی قوت ان کے ہوائی اڈّوں پر ہی تباہ کردی۔ ۱۰ ہزار سے زائد مصری، ۶ ہزار اُردنی اور ایک ہزار شامی فوجی مارے گئے۔ اس جنگ کے نتیجے میں ۳لاکھ ۳۰ ہزار مزید فلسطینی شہری ملک بدر اور بے گھر کردیے گئے۔ اکتوبر ۱۹۷۳ء میں صہیونی ریاست سے شام اور مصر کی چوتھی جنگ ہوئی۔ آغاز میں مصر و شام کا پلہ بھاری رہا، لیکن پھر امریکی فضائی کمک کے نتیجے میں، صہیونی افواج نہر سویز کے مغربی علاقے اور شام کی کئی نئی بستیوں پر بھی قابض ہوگئیں لیکن مجموعی طور پر اس جنگ میں صہیونی ریاست اور اس کی افواج کو بڑا دھچکا لگا۔
یہ جنگ عرب ممالک کے ساتھ صہیونی ریاست کی آخری کھلی جنگ تھی، لیکن اس کے بعد اس سے بھی زیادہ خوفناک ایک جنگ کا آغاز ہوگیا۔ اس نئی جنگ میں اسرائیل کے خلاف لڑنے والے عرب ممالک، اب سرزمین اقصیٰ پر صہیونی قبضہ اور ان کی ناجائز ریاست تسلیم کرتے ہوئے خود اس کی جانب سے لڑنے لگے۔ فروری ۱۹۷۴ء میں مصر نے لڑائی ختم کرنے کا معاہدہ کیا اور ستمبر ۱۹۷۸ء میں انور السادات نے کیمپ ڈیوڈ معاہدہ کرتے ہوئے خطے میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کی ایک نئی دوڑ شروع کردی۔ وقتی طور پر عرب لیگ نے مصر کی رکنیت معطل کردی، لیکن پھر نہ صرف اس کی رکنیت بحال کی بلکہ خود بھی اسی دوڑ میں شامل ہوگئی۔ اب جس حکمران کو بھی خود اپنے عوام یا کسی برادر ملک کے خلاف سہارے کی ضرورت ہوتی، وہ قبلۂ اول پر قابض دشمن سے دوستی کے رشتے قائم کرنا شروع کردیتا۔ پہلے اس کی آب یاری خلافت عثمانیہ کے قاتل مصطفیٰ کمال پاشا اور اس کے وارث کررہے تھے، اب خطے کا سب سے اہم ملک مصر بھی ان کی صفوں میں شامل ہوگیا۔ بظاہر اس معاہدے کے نتیجے میں صحراے سینا سے صہیونی فوجوں کا انخلا ہوگیا، لیکن ایسی کڑی شرطوں کے ساتھ کہ گویا وہاں موجود مختصر سی مصری افواج عملاً اسرائیلی افواج کے ماتحت کام کررہی ہوں۔ مصر کے بعد اُردن بھی اسی روسیاہی کا شکار ہوا۔
اگست ۱۹۹۳ء میںکئی سال کے خفیہ مذاکرات کے بعد ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں مسئلۂ فلسطین کے اکلوتے اور قانونی وارث ہونے کے دعوے دار یاسر عرفات نے امن کے نام پر ایک طویل معاہدہ کرلیا۔ اس گنجلک معاہدے کا حتمی نتیجہ یہ تھا کہ اگر باقی ماندہ فلسطینی شہری، اسرائیلی ریاست کو اپنی اطاعت کا مرحلہ وار ثبوت دیتے چلے جائیں تو آخرکار غزہ اور مغربی کنارے میں فلسطینی اتھارٹی کو بعض اختیارات دے دیے جائیں۔ اس معاہدے کا سب سے قبیح پہلو یہ تھا کہ اس میں مذکورہ چند موہوم وعدوں کی قیمت پر پہلے ہی ہلے میں سرزمینِ اقصیٰ کے ۷۷ فی صد سے زائد علاقے پر اسرائیلی قبضہ تسلیم کرلیا گیا تھا۔ سب سے اہم اور حساس معاملے، یعنی بیت المقدس کے مستقبل کو تمام مذاکرات سے خارج کرتے ہوئے، بعد کے کسی مرحلے کے لیے اُٹھا رکھا گیا تھا۔
فلسطینی اتھارٹی نے نہ صرف یہ عہد کیا کہ وہ آیندہ کبھی اسرائیل کے خلاف قوت کا استعمال نہیں کرے گی، بلکہ یہ معاہدہ بھی کیا کہ اگر کوئی بھی فرد یا گروہ ایسا کرے گا، تو فلسطینی اتھارٹی اس کا قلع قمع کرے گی۔ مزید ذلت آمیز شرط یہ رکھی گئی کہ اسرائیلی افواج جب چاہیں گی فلسطینی علاقوں میں آکر کارروائیاں کرسکیں گی۔ ان کے آنے پر فلسطینی اتھارٹی کی پولیس یا فوج کے تمام افراد ان کے راستے سے روپوش ہوجائیں گے۔ اگر کبھی ایسی صورت پیدا ہوگئی کہ اسرائیلی فوجی اتنی اچانک آجائیں کہ وہاں سے نکلنا ممکن نہ ہو تو فلسطینی سپاہی اپنا اسلحہ زمین پر رکھ کر دیوار کی طرف منہ کرکے کھڑے ہوجائیں گے تاآنکہ اسرائیلی وہاں سے چلے جائیں۔ اس معاہدے میں دنیا بھر کی خاک چھاننے پر مجبور کردیے جانے والے فلسطینی مہاجرین (اب تک جن کی تعداد ۷۰ لاکھ تک پہنچ چکی ہے) کے بارے میں کوئی بات نہیں کی گئی تھی۔ گویا وہ لاوارث اب اپنی سرزمین پر واپسی کا خواب تک بھی نہ دیکھیں۔ فلسطینی علاقوں میں مسلسل تعمیر کی جانے والی یہودی بستیوں کے بارے میں بھی چپ سادھے رکھی گئی۔
مکمل طور پر اسرائیلی رحم و کرم پر جینے والی اس اتھارٹی کا سب سے بنیادی مقصد فلسطینی عوام میں روز افزوں تحریک انتفاضہ کو کچلنا رہ گیا۔ یعنی جو کام خود صہیونی افواج انجام نہیں دے سکی تھیں، وہ اب خود فلسطینی عوام سے کروایا جانے لگا۔ اس ذمہ داری کے لیے محمد دحلان نامی شخص کا انتخاب بھی خود ہی کردیا گیا۔ موصوف نے مغربی کنارے اور غزہ میں جاسوسی، جیل خانوں اور اذیت گاہوں کا ایک وسیع نظام قائم کردیا۔ تھوڑے ہی عرصے میں تحریک مزاحمت و آزادی کے کئی اہم ترین رہنما شہید ہوگئے اور بڑی تعداد میں گرفتار۔ یہ تمام جتن کرنے کے باوجود بھی اہل فلسطین کے دل سے سرزمین اقصیٰ آزاد کرنے کا جذبہ ختم نہ کیا جاسکا۔
سال ۲۰۰۰ء میں اس حقیقت کا بے مثال ثبوت ایک بار پھر پوری قوت سے ساری دنیا کے سامنے آگیا۔ متعصب صہیونی جماعت لیکوڈ پارٹی کے سربراہ اور ۱۹۸۲ء میں لبنان کے فلسطینی کیمپوں صبر ا، شاتیلا میں خوفناک قتل عام کروانے والے سابق وزیر دفاع آرییل شارون نے اعلان کردیا کہ ’’اسرائیل ایک ناقابل تسخیر حقیقت ہے۔ یروشلم (بیت المقدس) سمیت اس کی ساری سرزمین ہماری ہے اور میں اس حقیقت کا اعلان کرنے کے لیے مسجد اقصیٰ میں جاؤں گا۔ اسرائیلی حکومت نے اس اعلان کی تائید کی اور شارون کی مدد کرنے کے لیے ۶۰۰ مسلح افراد اس کے ہمراہ بھیج دیے۔ اس نے ۲۸ ستمبر ۲۰۰۰ء کو اس ناپاک جسارت کا ارتکاب کیا تو پوری فلسطینی قوم بپھر کر اُٹھ کھڑی ہوئی۔ انتفاضۂ اقصیٰ شروع ہوگیا جو تقریباً ۵ برس تک جاری رہا۔ اس دوران صہیونی افواج نے ممنوعہ ہتھیاروں سمیت ہر ہتھکنڈا استعمال کرکے دیکھ لیا۔ ساڑھے چار ہزار شہری جن میں سیکڑوں بچے اور خواتین بھی شامل تھے شہید کردیے لیکن ان جرائم کے نیتجے میں مسجد اقصیٰ سے اُمت مسلمہ کی محبت و تعلق تو کیا کم ہوتا، ناجائز صہیونی ریاست اور اس کے سرپرست امریکا کا اصل چہرہ ان کے سامنے مزید بے نقاب ہوگیا۔
اس دوران کئی دیگر اہم واقعات بھی پیش آئے۔ یاسر عرفات اب نہ صرف مزید کسی کام کا نہ رہا تھا بلکہ اب وہ اوسلو معاہدے میں زینت کے لیے رکھی گئی شقوں پر عمل بھی چاہتا تھا، علاج کے بہانے اسے فرانس لے جاکر زہر دے دیا گیا۔ ۱۱ نومبر ۲۰۰۴ء کو وہ دنیا سے چلے گئے۔ ان سے پہلے ۲۲ مارچ ۲۰۰۴ء کو تحریک حماس کے بانی اور فلسطین میں نسل نو کے روحانی رہنما، شیخ احمد یاسین کو بھی نماز فجر کے بعد مسجد سے نکلتے ہوئے ڈرون حملے سے شہید کردیا گیا۔ اگلے ہی ماہ ۱۷؍اپریل ۲۰۰۴ء کو ان کے جانشین ڈاکٹر عبد العزیز رنتیسی بھی ایسے ہی ایک حملے کی نذر ہوگئے۔ اسی سال دیگر کئی جماعتوں کے اہم قائدین بھی شہید کردیے گئے۔
یاسر عرفات کے بعد محمود عباس (ابو مازن) نے ان کی جگہ سنبھالی۔ ان کا بنیادی فلسفہ ہی ’عسکریت‘ یعنی آزادیِ اقصیٰ کے لیے مسلح جہاد کا خاتمہ تھا۔ انھوں نے ذمہ داری سنبھالتے ہی کئی دیگر اقدامات کے علاوہ بلدیاتی اور پارلیمانی انتخابات کا اعلان بھی کردیا۔ ساتھ ہی ساتھ شہادتوں اور گرفتاریوں کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ تحریک حماس (فلسطینی اخوان) جہاں اپنے عسکری بازو عزالدین القسام بریگیڈ کی وجہ سے سب سے مؤثر جہادی گروہ ہے، وہیں وہ فلسطینی عوام کے اعتماد و حمایت کی حامل اہم ترین جماعت بھی ہے۔ مختلف مشاورتوں کے بعد انھوں نے ۲۰۰۵ء کے بلدیاتی اور ۲۰۰۶ء کے پارلیمانی انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔ نتائج آئے تو پوری دنیا کے لیے حیران کن تھے۔ ۱۳۲ کے ایوان میں حماس کو ۷۸ اور محمود عباس کی جماعت الفتح کے تمام دھڑوں کے مشترکہ پینل کو ۴۵ نشستیں حاصل ہوئیں۔ اسرائیل کے لیے حماس کی یہ جیت تحریک انتفاضہ سے بھی بڑا زلزلہ ثابت ہوئی۔ حماس نے اکیلے حکومت سازی کے بجائے ہر ممکن قربانی دے کر بھی قومی حکومت قائم کرنے کی کوشش کی، لیکن نہ صرف ان کی تمام کوششیں ناکام بنادی گئیں، بلکہ نومنتخب حکومت کی راہ میں رکاوٹوں کے پہاڑ کھڑے کر دیے گئے۔
انتخابات ہوجانے کے دو ہفتے بعد بھی اسی پرانی اسمبلی کا اجلاس بلاکر اہم دستوری ترامیم کردی گئیں۔ تمام تر اختیارات منتخب حکومت کے بجاے صدر کو منتقل کردیے گئے۔ نومنتخب پارلیمنٹ کا اجلاس ہوا تو کچھ عرصے بعد ہی اس کے سپیکر سمیت کئی ارکان اسمبلی کو اسرائیلی افواج یا فلسطینی انتظامیہ نے گرفتار کرلیا۔ ساتھ ہی اسرائیل نے غزہ کا محاصرہ کرلیا۔ ۲۰۰۷ء میں یہ محاصرہ شدید تر ہوگیا۔ تین اطراف سے اسرائیل کا محاصرہ تھا، چوتھی جانب سے مصر نے بھی اس سے زیادہ سخت حصار کرلیا تھا۔
محمود عباس نے بھی منتخب حکومت کے خاتمے کا اعلان کرتے ہوئے غزہ کے مکمل بائیکاٹ کا اعلان کردیا۔ ۲۰۰۸ء، ۲۰۰۹ء اور ۲۰۱۲ء میں اسرائیل نے غزہ پر خوفناک جنگ مسلط کردی۔ کیمیائی ہتھیار تک استعمال کرڈالے۔ غزہ کے عوام سے صرف ایک مطالبہ کیا جارہا تھا کہ وہ حماس کا ساتھ چھوڑتے ہوئے، مسجد اقصیٰ سے دست بردار ہوجائیں اور اسرائیل کو تسلیم کرلیں۔ ایسے کڑے حصار اور پے در پے جنگوں کے بعد غزہ میں محصور ۸ لاکھ سے زائد انسانوں کا زندہ بچ جانا بھی ایک معجزہ ہوتا۔ لیکن وہ نہ صرف زندہ رہے، بلکہ انھوں نے حماس کا ساتھ چھوڑنے سے بھی انکار کردیا۔
۲۰۱۶ء سے آج ۲۰۱۷ء تک یہ محاصرہ اپنی تمام تر ہولناکیوں کے ساتھ جاری ہے۔ اس دوران ۲۰۱۱ء میں عالم عرب کی عوامی تحریکوں کے نتیجے میں مصر سمیت کئی ملکوں سے آمریت کا عارضی خاتمہ ہوا۔ مصر کے منتخب صدر محمد مرسی کا ایک سالہ دور اقتدار (جون ۲۰۱۲ء - جولائی ۲۰۱۳ء) ہی ایسا گزرا کہ مصر نے اہل غزہ کے لیے سرحدوں اور دلوں کے دروازے کھول دیے۔ یہی اقدام صدر محمد مرسی کا سب سے بڑا جرم بن گیا اور انھیں بدترین خونی فوجی انقلاب کے ذریعے اقتدار سے ہٹا کر جیل میں بند کردیا گیا۔ ان پر سب سے اہم الزام یہ لگایا گیا کہ انھوں نے حماس کے ساتھ گٹھ جوڑ کرتے ہوئے اسے اہم راز پہنچائے۔
نبی اکرمؐ کے قبلۂ اول اور سرزمین بیت المقدس پر قبضہ کرکے وہاں ایک صہیونی ریاست تشکیل دینے کے لیے پورے ۱۰۰ سال پر محیط سازشوں اور مظالم کا قدرے طویل ذکر اس لیے کیا جارہا ہے کہ آج ایک بار پھر ہم تاریخ کے ایک سنگین دوراہے پر لاکھڑے کیے گئے ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ ۱۰۰ سال بعد بھی وہی ہتھکنڈے، وہی سازشیں اور وہی عناصر پوری اُمت مسلمہ کی قسمت کا فیصلہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
۱۰۰ برس قبل برطانیہ نے اعلان بالفور کیا تھا، اب امریکا اس صدی کا سب سے بڑا سودا مَفقَۃُ الْقَرنْ (Deal of the Century) کرنے جارہا ہے۔ مصر کے سرکاری اخبارات میں شائع شدہ جنرل عبدالفتاح السیسی اور امریکی صدر ٹرمپ کا مکالمہ ملاحظہ فرمائیے:
السیسی: ’’آپ مجھے مسئلۂ فلسطین کے حل کے لیے صدی کی سب سے بڑی ڈیل کرنے کے لیے پوری قوت سے تیار و آمادہ پائیں گے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ کام آپ ہی کرسکتے ہیں‘‘۔ صدر ٹرمپ: ’’یہ کام ہم سب مل کریں گے۔ ہم مل کر دہشت گردی کا مقابلہ کریں گے اور ہماری دوستی طویل عرصے تک رہے گی‘‘۔
صدی کی سب سے بڑی یہ ڈیل کیا ہے؟ اس کی تفصیل ابھی خفیہ رکھی جارہی ہے۔ واقعات و عمل درآمد کی رفتار لیکن بہت تیز ہے۔
ابھی آپ نے پڑھا کہ مصر کے منتخب صدر محمد مرسی کا تختہ اُلٹنے کے بعد ان کے خلاف جو سب سے پہلا مقدمہ قائم کیا گیا، وہ ’دہشت گرد تنظیم‘ حماس کے ساتھ گٹھ جوڑ کا تھا۔ قطر سے قطع تعلق کرتے ہوئے اس پر بھی حماس کو پناہ دینے کا الزام لگایا گیا۔ کئی مغربی ممالک نے اس کانام دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کیا ہوا ہے۔ گذشتہ چند ہفتوں کے دوران میں اسی دہشت گرد حماس اور محمود عباس کی الفتح کے درمیان نہ صرف صلح کروا دی گئی کہ بلکہ اسے ایک کارنامہ قرار دیا گیا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ کارنامہ جنرل سیسی ہی نے انجام دیا۔ اس معاہدے کے نتیجے میں گیارہ سال سے جاری غزہ کے محاصرے میں مرحلہ وار نرمی کرنے کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔
حماس الفتح معاہدے کا ایک فوری نتیجہ یہ نکلا ہے کہ حماس مکمل حصار اور خوفناک جنگوں کے باوجود گذشتہ گیارہ سال سے غزہ میں قائم اپنی عبوری حکومت سے دست بردار ہوگئی ہے۔ اس نے غزہ آنے جانے کے تمام راستوں سمیت امن و امان کا انتظام محمود عباس انتظامیہ کے سپرد کردیا ہے۔ البتہ اس نے جس بات سے کسی بھی صورت دست بردار نہ ہونے کا اعلان کیا ہے، وہ زیر زمین پناہ گاہیں ہیں جہاں اس نے صہیونی دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنا عسکری سازوسامان اور دستیاب ہتھیار رکھے ہیں۔ حماس کے اعلیٰ قائدین نے ایک ملاقات میں بتایا کہ اگرچہ اس معاہدے کے بارے میں بہت سارے خدشات پائے جاتے ہیں، لیکن ایک تو ہم اس بارے میں یکسو اور مطمئن ہیں کہ آزادیِ اقصیٰ کے لیے حاصل اور تیار کیے جانے والے ہمارے یہ ہتھیار محفوظ و مامون ہیں، دوسرے ہم اور غزہ کے عوام اس بات پر مطمئن ہیں کہ گیارہ سالہ طویل و کڑی آزمایش میں اللہ کی توفیق سے سرخرو ہوئے۔ کوئی بڑی سے بڑی آفت و ابتلا ہمیں جھکا نہیں سکی۔ اور تیسری بات یہ کہ اگر غزہ کے محصور ۹ لاکھ عوام کے دکھ اور مصائب ختم یا کم کرنے کے لیے، اپنے اصل مقاصد سے دست بردار ہوئے بغیر کوئی آبرومندانہ موقع پیدا ہورہا ہے تو ہم اسے ضائع نہیں کرنا چاہتے۔
غور کرنے کی بات البتہ یہ ہے کہ یہ صلح کروانے بلکہ اس پر اصرار کرنے والوں کے اصل اہداف کیا ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ تحریک حماس اب ایک اتنی بڑی زمینی حقیقت ہے کہ مسئلۂ فلسطین کا کوئی بھی حل اس وقت تک عملاً ممکن نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ اس میں شامل نہ ہو۔ لیکن دوسرا بلکہ خطرناک پہلو یہ ہے کہ صدی کا سب سے بڑا سودا کرنے والے حماس کو بھی یقینا کسی سودے بازی یا بے دست و پا کرنے کی سازش کا شکار کرنا چاہیں گے۔ اس پورے تناظر میں ایک تیز رفتار اور اہم پیش رفت یہ ہورہی ہے کہ ایک دو نہیں، درجن بھر سے زائد مسلم ممالک، صہیونی ریاست کے ساتھ اس وقت خفیہ مذاکرات کررہے ہیں۔ اقوام متحدہ میں اسرائیلی سفیر دانی دانون کا ایک بیان ۲۶ نومبر کے اسرائیلی اخبارات میں شائع ہوا ہے۔ اس نے انکشاف کیا ہے کہ ’’اس وقت اسرائیل ایسے ۱۲ مسلم ممالک سے خفیہ مذاکرات کررہا ہے کہ جن سے ہمارے تعلقات نہیں ہیں۔ اسرائیلی سفیر نے طنزیہ انداز میں کہا کہ: ’’اس سے پہلے یہ مسلم سفرا اسرائیلیوں کو دیکھ کر راستہ بدل لیا کرتے تھے، اب وہ ہم سے تقریباً ہفتہ وار ملاقاتوں میں مشترک منصوبوں پر گفت و شنید کرتے ہیں‘‘۔ دانون کے بقول: ’’اس وقت ہمارا اصل مسئلہ یہ ہے کہ بند کمروں میں ہونے والے یہ مذاکرات منظر عام پر کیسے لائے جائیں‘‘۔ دانون کے علاوہ کئی اسرائیلی وزرا خود وزیراعظم نتن یاہو اور فوجی سربراہ گیڈی ایزنکوٹ بھی ایسے متعدد بیانات دیتے ہوئے خطے کے کئی اہم ترین مسلم ممالک کا نام لے چکے ہیں۔
پورے منصوبے کے بارے میں اب تک نشر کی جانے والی تجاویز میں سے اسرائیلی وزیر سوشل مساوات جیلا جملیل کے بیان کی تصدیق و تائید کئی اطراف سے ہورہی ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ ’’کسی فلسطینی ریاست کے قیام کی اب ایک ہی صورت ہے کہ غزہ اور مصری صحراے سینا کے ایک حصے کو ملا کر وہاں یہ مجوزہ ریاست بنادی جائے‘‘۔ ۱۱؍ نومبر کو اپنا یہ بیان دینے کے دو ہفتے بعد موصوفہ مصر کے دورے پر آئیں۔ وہ مصر میں ہونے والی ایک عالمی کانفرنس میں بھی شریک ہوئیں اور یہ مصر میں کسی اسرائیلی وزیر کی پہلی علانیہ شرکت تھی۔
خود فلسطینی صدر محمود عباس بھی اپنی تمام تر وفاداریوں کے بعد اب مختلف اطراف سے دباؤ کا شکار ہیں۔ ان سے تقاضا کیا جارہا ہے کہ وہ صدی کے اس اہم ترین فیصلے میں غیر مشروط تعاون کریں۔ محمود عباس کے ایک قریبی دوست سے ملاقات میںانھوںنے محمود عباس کا یہ جملہ دہراتے ہوئے صورتِ حال سے آگاہ کیا: ’’میں کہتا ہوں کہ ہمارے ساتھ کیے جانے والے معاہدے پر الف سے یا تک عمل درآمد ہو اور آغاز الف سے کیا جائے لیکن ان کا کہنا ہے کہ معاہدہ کرو، ہم اس پر عمل بھی کریں گے لیکن اس پر عمل درآمد یا سے الف کی طرف شروع کیا جائے‘‘۔انھیں مزید دباؤ میں لانے کے لیے واشنگٹن میں ان کے دفتر کی تجدید کرنے سے انکار کیا جاچکا ہے۔ بہت ممکن ہے کہ اس مرحلے پر ۸۲ سالہ محمود عباس بھی اپنے پیش رو یاسر عرفات کے انجام کو پہنچا دیے جائیں۔ ان کی جگہ اب محمد دحلان کو آگے بڑھایا جائے، جو محمود عباس سے سنگین اختلافات کے بعد ایک عرصے سے ابوظبی میں فعال ہیں۔ حماس الفتح حالیہ مذاکرات کے موقعے پر بھی وہ بہت متحرک دکھائی دیے۔ مصری حکومت نے حماس کے بعض ذمہ داران سے بھی ان کی ملاقات کا خصوصی اہتمام کیا۔
غیب کا علم تو صرف خالق کائنات کو ہے لیکن سرزمینِ اقصیٰ کے بارے میں ایک بار پھر بڑی سازش تیار کرنے والوں کو یہ حقیقت بھی یاد رکھنی چاہیے کہ اگر گذشتہ ۱۰۰ برس سے جاری تمام تر کوششوں اور مظالم کے باوجود وہ بیت المقدس کے امین فلسطینی عوام کے دل سے آزادی کا عزم ختم نہیں کرسکے تو وہ ان شاء اللہ آیندہ بھی ایسا نہیں کرسکیں گے۔ آج وہ ۱۹۴۸ء کی نسبت کہیں زیادہ پُرعزم اور کہیں زیادہ مضبوط ہیں۔ خود مسلمان حکمرانوں کو بھی پہلے یہودی وزیراعظم بن گورین کا یہ اعلان یاد رکھنا چاہیے کہ ’’آج ہم نے یروشلم (بیت المقدس) پر قبضہ کرلیا ہے، اب ہماری اگلی منزل یثرب ہے‘‘۔ چوتھی وزیراعظم گولڈا مائیر نے سرزمینِ حجاز کی جانب رخ کرتے ہوئے کہا تھا: ’’مجھے مدینہ اور حجاز سے اپنے آبا و اجداد کی خوشبو آرہی ہے۔ یہ ہمارا علاقہ ہے اور ہم نے اسے واپس لینا ہے‘‘۔ حکمرانوں کو یہ حقیقت یاد رہے یا نہ رہے، مسلم اُمت اسے کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔ اسی حقیقت کا اعتراف گذشتہ دنوں اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو نے کیا ہے کہ:’’ مسلم حکمران تو ہم سے تعاون پر آمادہ ہیں، اصل رکاوٹ مسلم عوام ہیں‘‘۔ صہیونیوں کے خواب یقینا بکھرتے رہیں گے اور مسلمانانِ عالم قبلۂ اوّل سے اپنی محبت اور قبلہ و کعبہ سے وابستگی کو اپنی زندگی کا وظیفہ بنائے رکھیں گے۔ یہی چیز، مسلمانوں کے مداہنت پسند حکمرانوں کی سازشوں کو ناکام بناتی رہے گی۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لَا تَزَالُ طَائِفَۃٌ مِنْ اُمَّتِی عَلَی الدِّیْنِ ظَاھِرِیْنَ لِعَدُوِّھِمْ قَاھِرِیْنَ لَا یَضُرُّھُمْ مَنْ خَالَفَہُمْ اِلَّا مَا اَصَابَہُمْ مِنْ لَأوَاءٍ حَتّٰی یَأتِیَ أَمْرُ اللہِ وَہُمْ کَذٰلِکَ قَالُوْا وَ أَیْنَ ھُمْ؟ قَالَ بِبِیْتِ الْمَقْدِسِ وَ أَکْنَافِ بِیْتِ الْمَقْدِسِ (حالات جیسے بھی تباہ کن ہوں)، میری اُمت کا ایک گروہ حق پر قائم رہے گا، اپنے دشمن کو زیر کرتا رہے گا۔ اس کی مخالفت کرنے والا کوئی اسے نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ ہاں، البتہ انھیں تکالیف پہنچتی رہیں گی۔ حتیٰ کہ اللہ کا حتمی فیصلہ آجائے گا اور وہ اسی حال میں ہوں گے۔ صحابۂ کرامؓ نے پوچھا: یا رسولؐ اللہ! وہ کہاں ہوں گے؟ آپؐ نے فرمایا: بیت المقدس میں اور بیت المقدس کے اطراف میں‘‘۔
بدی کبھی اپنی اصلی شکل میں رونما ہونے کی جرأت نہیں کرتی۔ وہ ہمیشہ کسی نہ کسی نیکی کا لبادہ اُوڑھ کر ہی سامنے آتی ہے، اور یوں خود اپنی شکست کا خاموش اعتراف کر لیتی ہے۔ اس سے انسان کی حقیقی فطرت کا بھی پتا چلتا ہے جو خیر اور حسنِ خلق سے عبارت ہے۔ انسان کو باقی حیوانی دنیا سے ممیز کرنے والی چیز اخلاق ہی ہے۔ اس کے سنوارنے سے انسان کا سنوار ہے ، اور اس کے بگاڑنے سے انسان کا بگاڑ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخ ِ تہذیب میں تمام معاشرے اور تمام تمدن جس چیز پر متفق نظر آتے ہیں وہ حسنِ اخلاق ہے۔ سچائی ، پاسِ عہد، رحم ، فیاضی ، صبر ، تحمل، بردباری ، اولوالعزمی ، شجاعت ، ضبطِ نفس، خودداری، میل ملاپ ، شائستگی ، فرض شناسی ، اتفاق اور دوسری اچھی صفات کو سب نے سراہا ہے، اور اس کے برعکس تقریباً تمام معاشروں نے جھوٹ ، بد عہدی ، ظلم ، بخل، بے صبری، بزدلی، ذلت، ترش روئی، خیانت، چغلی، غیبت اور تمام دوسری برائیوں کو بُرا سمجھا ہے۔ یہ اقدار انسانیت کا مشترکہ ورثہ ہیں اور اسلام نے ان معروفات اور منکرات کو اپنے نظام میں سمولیا ہے۔ البتہ جس پہلو سے قرآن کا نظامِ اخلاق منفرد ہے وہ یہ ہے کہ اس نے فلسفہ ٔ اخلاق کے تمام بنیادی امور کے بارے میں ایک منظم اور مربوط نظر یہ پیش کیا ہے۔ اور وہ اپنا ایک خاص ماخذ ِ علمِ اخلاق، قوتِ نافذہ اور قوتِ محرکہ رکھتا ہے اور یہ سب مل کر اس کے فلسفۂ اخلاق کی مکمل تصویر پیش کرتے ہیں۔
اس سلسلے میں سب سے پہلے یہ بنیادی باتیں قابلِ ذکر ہیں:
(ا ) قرآن کی اخلاقی تعلیمات کی پہلی بنیاد یہ نظریہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس دنیا میں آزمایش اور امتحان کے لیے بھیجا ہے اور ایک دن انسان کو پوری زندگی کا حساب اللہ تعالیٰ کے حضور میں پیش کرنا ہو گا۔ اسلام نے اخلاقی امور کا کمال یہ قرار دیا ہے کہ وہ یہ سمجھ کر ادا کیے جائیں کہ یہ خدا کے احکام ہیں اور انسانوں کو خدا کے بتائے ہوئے معیار ِ خیروشر کے مطابق عمل کرنا ہے۔ اسی میں اُن کی فلاح ہے۔
(ب) انسان خود اپنے مفاد اور برے بھلے کے متعلق محض اپنی عقل کی بنا پر کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا ۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ایک چیز کو اچھی اور مفید سمجھتا ہے لیکن درحقیقت وہ مضر ہوتی ہے، اور بعض چیزوں کو وہ مضر سمجھتا ہے حالانکہ وہ اس کے لیے حد درجہ مفید ہوتی ہیں۔ قرآن کے یہ الفاظ اسی مضمون کی ترجمانی کرتے ہیں:
وَ عَسٰٓی اَنْ تَکْرَھُوْا شَیْئًا وَّ ھُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ وَ عَسٰٓی اَنْ تُحِبُّوْا شَیْئًا وَّ ھُوَ شَرٌّ لَّکُمْط وَ اللّٰہُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَo(البقرہ۲ : ۲۱۶) عجب نہیں کہ ایک چیز تم کو بُری لگے اور وہ تمھارے حق میں بھلی ہو، اور عجب نہیں کہ ایک چیز تم کو بھلی لگے اور وہ تمھارے لیے مضر ہو۔ خدا ہی بہتر جانتا ہے اور تم نہیں جانتے ۔
آخر میں وجہ بھی بتا دی کہ اللہ ہی حقائقِ اشیا سے کما حقہ با خبر ہے اور تمھارے علم کا دائرہ محدود ہے۔ اگر ہر انسان یا انسانی گروہ اپنے لیے خود اخلاقی ضابطے وضع کرنے لگے تو انسانی معاشرہ انتشار کا شکار ہو جائے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اخلاق کا تعلق باہمی معاملات ومسائل سے ہے۔ یا یوں کہیے کہ باہمی تعلقات کی شیرازہ بندی کا دوسرا نام اخلاق ہے۔ ’’دنیا کی ساری خوشی، خوش حالی اور امن وامان انھی اخلاق کی دولت سے ہے۔ اسی دولت کی کمی کو حکومت وجماعت اپنی قوت اور طاقت کے قانون سے پورا کرتی ہے۔ اگر انسانی جماعتیں اپنے اخلاق وفرائض کو پوری طرح خود انجام دیں تو حکومت کے جبری قوانین کی کوئی ضرورت ہی نہ رہے۔ اسی لیے بہترین مذہب وہ ہے جس کا اخلاقی دبائو اپنے ماننے والوں پر اتنا ہو کہ وہ ان کے قدم قدم کو سیدھے راستے سے بہکنے نہ دے‘‘۔ (سیرت النبی ؐ، سیّد سلیمان ندوی، جلد ششم، طبع چہارم،۱۹۶۴ء،ص ۲)
اس اعتبار سے اسلام دنیا کے تمام مذاہب اور نظاموں سے کہیں زیادہ جامع ہے۔ اخلاق کے دائرے میں تو زندگی کے معاشرتی، سیاسی اور اقتصادی پہلوبھی آ جاتے ہیں لیکن ہم اپنے مطالعے کی آسانی کے لیے اخلاق کو اس کے معروف اور عام تصور اور تعریف تک محدود رکھیں گے، اور اس ضمن میں قرآن مجید کی بنیادی تعلیمات کو اختصار کے ساتھ پیش کریں گے۔ ویسے تو دنیا کے ہر مذہب اورنظام نے اخلاق پر زور دیا ہے لیکن قرآن نے اخلاق کی بلندی کا وہ معیار پیش کیا ہے، جہاں انسان اللہ کے رنگ میں رنگ جاتا ہے اور اس کی زندگی میں اسماے حسنیٰ کا پر تو نظر آتا ہے۔
قرآن نے اخلاقی تعلیمات کا جو خاکہ پیش کیا ہے وہ یہ ہے:
وَ مَنْ یُّرِدْ ثَوَابَ الدُّنْیَا نُؤْتِہٖ مِنْھَا ج وَ مَنْ یُّرِدْ ثَوَابَ الْاٰخِرَۃِ نُؤْتِہٖ مِنْھَا ط ( ٰال عمرٰن ۳ ۳: ۱۴۵) اور جو شخص دنیا میں (اپنے اعمال کا ) بدلہ چاہے اس کو ہم یہیں بدلہ دے دیں گے، اور جو آخرت میں طالب ثواب ہو اس کو وہاں اجر عطا کریں گے۔
کوئی بھلائی کا کام اگر بد نیتی ، ریاکاری اور نمایش کے جذبے سے کیا جائے ، وہ باطل ہوگا، اور اس کا کوئی اجر نہ ملے گا:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِکُمْ بِالْمَنِّ وَ الْاَذٰی (البقرہ ۲: ۲۶۴) مومنو! اپنے صدقات کو احسان رکھنے اور ایذا دینے سے برباد نہ کرو۔
وَّ رَہْبَانِیَّۃَنِ ابْتَدَعُوْ ھَامَا کَتَبْنٰھَا عَلَیْھِمْ (الحدید ۵۷: ۲۷) اور رہبانیت ، جسے انھوں نے از خود گھڑا ہم نے ان کو اس کا حکم نہیں دیا تھا۔
کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ (اٰل عمرٰن ۳:۱۱۰ ) تم بہترین امت ہو، جو سارے انسانوں کے لیے وجود میں لائی گئی ہے۔ تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو۔
لہٰذا ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ جہاں بھی برائی کو دیکھے اسے مٹانے کی کوشش کرے اور ہرحالت میں حق بات کہے:
وَتَــوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَــوَاصَوْا بِالصَّبْرِ o (العصر ۱۰۳: ۳) اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کرتے رہے۔
وَ اِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ ط (النساء ۴: ۵۸) اور جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف کا فیصلہ کرو ۔
وَ لَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوْا ط (المائدہ۵: ۸) اور لوگوں کی دشمنی تمھیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف چھوڑ دو۔
کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ شُھَدَآئَ لِلّٰہِ وَ لَوْ عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ اَوِ الْوَالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَ(النساء ۴: ۱۳۵) انصاف پر قائم رہو، اللہ واسطے کے گواہ بنو خواہ تمھاری گواہی تمھارے یا تمھارے ماں باپ اور رشتہ داروں کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔
اس سے بھی آگے بڑھ کر قرآن نے عدل کے ساتھ ساتھ احسان کو بھی مسلمانوں کی ایک اخلاقی خصوصیت بتایا ہے۔ احسان کا مطلب یہ ہے کہ کسی کی کمی کو پورا کر دینا ، تا کہ معاشرے اور زندگی میں حسن قائم رہے۔ اسلامی مملکت میں عدل کا تعلق بڑی حد تک ریاست کے ہاتھ میں ہو گا، لیکن احسان ہر شخص کے ہاتھ میں :
اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ (النحل ۱۶:۹۰) اللہ تمھیں عدل اور انصاف کا حکم دیتا ہے ۔
وَ لَا تَاْکُلُوْٓا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ وَ تُدْلُوْا بِھَآ اِلَی الْحُکَّامِ لِتَاْکُلُوْا فَرِیْقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْاِثْمِ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَo(البقرہ ۲: ۱۸۸) ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھائو اور نہ اس کو حاکموں کے پاس پہنچائو تا کہ لوگوں کے مال کا کچھ حصہ ناجائز طور پر کھا جائو اور اسے تم جانتے ہو ۔
قُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا (البقرہ ۲: ۸۳) سب لوگوں سے اچھی بات کہو ۔
وَاخْفِضْ جَنَاحَکَ لِمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَo (الشعراء ۲۶:۲۱۵) ان مومنوں کے ساتھ خاطر تواضع سے پیش آئو جو آپ کے تابع ہیں۔
وَ الْکٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَ الْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ( ٰال عمرٰن ۳: ۱۳۴ ) غصہ پی جانے والے اور لوگوںسے درگزر کرنے والے ۔
وَ اَنْ تَعْفُوْٓا اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی ط(البقرہ ۲: ۲۳۷) اگر تم معاف کر دو تو یہ تقویٰ سے زیادہ قریب ہے ۔
وَلْیَعْفُوْا وَلْیَصْفَحُوْا ط (النور ۲۴:۲۲) انھیں چاہیے کہ معاف کر دیں اور درگزر سے کام لیں ۔
وَلَمَنْ صَبَرَ وَغَفَرَ اِنَّ ذٰلِکَ لَمِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِo (الشورٰی ۴۲: ۴۳ ) اور جو صبر کرے اور درگزر سے کام لے تو یہ بڑی ہمت کے کام ہیں۔
اَمْ یَحْسُدُوْنَ النَّاسَ عَلٰی مَآ اٰتٰھُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ (النساء ۴: ۵۴) کیا یہ دوسروں سے اس لیے حسد کرتے ہیں کہ اللہ نے انھیں اپنے فضل سے نواز دیا؟
وَ لَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللّٰہُ بِہٖ بَعْضَکُمْ عَلٰی بَعْضٍ ط (النساء۴: ۳۲ ) اور جس چیز میں خدا نے تم میں سے بعض کو فضیلت دی ہے اس کی ہوس مت کرو۔
وَ لَا تَجْعَلْ یَدَکَ مَغْلُوْلَۃً اِلٰی عُنُقِکَ وَ لَا تَبْسُطْھَا کُلَّ الْبَسْطِ (بنی اسرائیل ۱۷: ۲۹ ) نہ تو اپنا ہاتھ گردن سے باندھ رکھو اور نہ اسے کھلا چھوڑ دو ۔
وَالَّذِیْنَ اِذَٓا اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَلَمْ یَقْتُرُوْا وَکَانَ بَیْنَ ذٰلِکَ قَوَامًاo (الفرقان ۲۵:۶۷) اور وہ لوگ جب خرچ کرتے ہیں تو فضول خرچی نہیں کرتے اور نہ تنگی اور بخل سے کام لیتے ہیں، بلکہ اس کے درمیان اعتدال کے ساتھ خرچ کرتے ہیں ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانۂ مبارک میں دُنیا کے حالات جس قسم کے تھے، اس کی نشان دہی قرآن کی اس آیت سے ہوتی ہے:
ظَھَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ (الروم ۳۰:۴۱) خشکی اور تری میں فساد پھیل گیا لوگوں کے اپنے کرتُوتوں کے سبب۔
یعنی خشکی اور تری میں فساد کی جو کیفیت پھیلی ہوئی تھی، وہ لوگوں کے اپنے اعمال اور کرتُوتوں کا نتیجہ تھی۔ اِس زمانے کی دو بڑی طاقتیں فارس اور روم جیسی کہ آج کل روس اور امریکا ہیں، باہم دست و گریباں تھیں اور اس زمانے کی پوری مہذب دُنیا میں بدامنی، بے چینی اور فساد کی کیفیت رُونما ہوچکی تھی۔ اِس لپیٹ میں خود عرب بھی آچکا تھا اور اس کی حالت ایسی تھی گویا وہ تباہی کے کنارے پر پہنچ چکا تھا۔ قرآن میں اسی حالت کا اِشارہ ان الفاظ میں ہے:
وَ کُنْتُمْ عَلٰی شَفَا حُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِ ( ٰالِ عمرٰن ۳:۱۰۳) اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر کھڑے تھے۔
تاریخ کا مطالعہ کرنے والا انسان جو عرب کی اس وقت کی حالت کو جانتا ہے، بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ قرآن نے کتنا صحیح نقشہ اس وقت کے عرب کے حالات کا کھینچا ہے۔ قبائل کے درمیان مختلف قسم کی گمراہیوں کے نتیجے میں اور جاہلی عصبیتوں کی وجہ سے اِس کثرت سے جنگیں ہوئی تھیں کہ ان میں سے بعض جنگیں سو سال تک طول کھینچ گئیں۔ اِس کیفیت سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ عرب کتنا تباہ و برباد ہوا ہوگا۔
پھر عرب کی اپنی آزادی کی کیفیت یہ تھی کہ یمن پر حبش کا قبضہ تھا اور باقی عرب کا کچھ حصہ ایران کے تسلط میں تھا اور کچھ رُومی اثر کے زیرنگیں۔ پوری عرب دُنیا جہالت میں ڈوبی ہوئی تھی اور اس وقت کی دو بڑی طاقتوں ایران اور روم کی وہی اخلاقی اور سیاسی حالت تھی جو آج کل امریکا اور روس کی ہے۔
اِس حالت میں، جب کہ دُنیا قبائلی عصبیتوں اور مختلف قسم کی دھڑے بندیوں میں، جن کی سربراہی ایران اور روم کر رہے تھے، بٹی ہوئی تھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے۔ وہ دنیا کے لیڈروں کی طرح کسی قبیلے کا جھنڈا لے کر نہیں اُٹھے تھے، کسی قومی نعرے پر لوگوں کو اکٹھا نہیں کیا، کوئی اقتصادی نعرہ بلند نہیں کیا۔ ان تمام چیزوں میں سے کسی کی طرف آپؐ نے دعوت نہیں دی۔
جس چیز کی آپؐ نے دعوت دی، اس کا پہلا جزو یہ تھا کہ تمام انسانوں کو دوسری تمام بندگیاں چھوڑ کر صرف ایک خدا کی بندگی کرنی چاہیے۔
آپؐ کی دعوت اللہ کی طرف تھی، یہ کہ عبادت صرف اللہ ہی کی ہونی چاہیے اور اس کے سوا آدمی کسی کو کارساز نہ سمجھے۔ آپؐ نے یہ دعوت کسی مخصوص طبقے یا قوم کو نہیں دی بلکہ تمام بنی نوعِ انسان کو دی۔ آپؐ کی دعوتِ توحید تمام بنی آدم کے لیے تھی اور آپؐ نے کسی گورے کو، کسی کالے کو، کسی عرب کو، کسی عجمی کو اس کی قومی یا علاقائی حیثیت سے نہیں پکارا بلکہ صرف ابنِ آدم کی حیثیت سے یاایھا الناس کہہ کر پکارا۔ پھر جو دعوت آپؐ نے دی، وہ بھی کوئی قومی یا علاقائی نہ تھی بلکہ اصلاح کی اصل جڑ، یعنی توحید خالص کی دعوت تھی۔ اس کا مفہوم یہ تھا کہ: اصل خرابی یہ ہے کہ آدمی اللہ کو چھوڑ کر مختلف قسم کے خدائوں کا دامن تھام لے، اور اصل اصلاح یہ ہےکہ وہ اللہ کا بندہ بن جائے۔ اگر یہ خرابی دُور ہوگئی تو اس کی اصلاح بھی ہوجائے گی، ورنہ لاکھ جتن کے باوجود درستی اور اصلاح نہیں ہوگی۔
دوسری بات جس کی طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانوں کو توجہ دلائی، وہ آخرت کا تصور تھا۔ آپؐ نے فرد کو اس کی ذاتی حیثیت میں جواب دہ قرار دیا تاکہ ہرفرد محسوس کرے کہ اسے اپنے اعمال کی ذاتی حیثیت میں جواب دہی کرنی ہے۔ اگر اس کی قوم بگڑی ہوئی تھی تو وہ یہ کہہ کر نہیں چھوٹ سکتا کہ میرا جس قوم سے تعلق تھا، وہ گمراہ تھی۔
اس سے پوچھا جائے گا کہ اگر قوم گمراہ تھی تو تم راہِ راست پر کیوں نہ رہے، تم کیوں شُتربے مہار بنے رہے؟
آپؐ نے پہلے لوگوں کے دلوں میں توحید اور آخرت کے دو بنیادی تصورات بٹھائے اور ان کو پختہ کرنے میں برسوں محنت کی، طرح طرح کے ظلم برداشت کیے۔ آپؐ کے راستے میں کانٹے بچھائے گئے ، لیکن آپؐ نے کسی پر ملامت نہ کی۔ اس مقصد کے لیے آپؐ نے پتھر اور گالیاں کھاکھا کر لوگوں کو سمجھایا کہ: اگر خدا اور آخرت کا تصور اِنسان میں نہیں ہے تو انسان اور جانور میں کوئی فرق نہیں۔ جب یہ دونوں چیزیں آپؐ نے اپنی قوم کے ذہن میں بٹھا دیں ، تو پھر ان کے سامنے زندگی کا عملی پروگرام پیش کیا۔
اَلْہٰکُمُ التَّکَاثُرُ O حَتّٰی زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ O (التکاثر۱۰۲:۱-۲) تم کو بہتات کی حرص نے غفلت میں ڈال رکھا ہے یہاں تک کہ تم قبروں میں جا اُترو گے۔
یعنی آدمی کا دل دُنیا کی دولت اور کثرت سے کبھی سیر نہیں ہوتا۔ حدیث میں آتا ہے کہ آدمی کو دولت کی ایک وادی مل جائے تو وہ دوسری کی تلاش میں نکل کھڑا ہوتا ہے۔ اِسی حرص کی اصلاح کے لیے زکوٰۃ اور انفاق فی سبیل اللہ کی تاکید ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ جہاں زکوٰۃ کا حکم دیا گیا ہے، وہاں یہ بھی کہا گیا ہے کہ آدمی حلال کمائی کی فکر کرے۔ اگرچوری کرنے والا زکوٰۃ کی فکر کرے گا تو اسے خود بخود کھٹکا ہوگا کہ اس کی کمائی بھی حلال ہونی چاہیے۔ اسے حلال کی کمائی اور حلال خرچ کی عادت پڑے گی۔ و ہ دوسروں کے حقوق پہچانے گا، کیوں کہ اسے ہدایت کی گئی ہے کہ اس کی کمائی میں دوسروں کا بھی حق ہے:
وَفِیْٓ اَمْوَالِھِمْ حَقٌّ لِّلسَّآئِلِ وَالْمَحْرُوْمِO(الذّٰریٰت۵۱:۱۹) اور ان کے اموال میں سائل اور محروم کا بھی حق ہے۔
یہ دونوں عملی پروگرام نماز اور زکوٰۃ اِنسان کی اصلاح کی بنیاد ہیں۔ یہ چودہ سو برس پہلے کا اصلاحی پروگرام جس طرح عرب کے لیے اصلاح کا پروگرام تھا اسی طرح دُنیا بھر کے لیے اصلاح کا پروگرام ہے اور اسی طرح آج بھی انسان کی اصلاح کا پروگرام ہے۔
اگر کوئی آدمی خدا کو نہیں جانتا، آخرت سے بے خوف ہے، اس کے سامنے کوئی معاشی پروگرام رکھ دینا بے معنی ہوگا۔ خدا اور آخرت کے خوف کے بغیر کوئی سیاسی اور معاشی اِصلاح ہونہیں سکتی اور دُنیا میں جو مختلف قسم کے ظلم ہو رہے ہیں ، اُن کو دُور نہیں کیا جاسکتا۔
اللہ اور آخرت پر یقین اور جواب دہی کے خوف کے بغیر جو بھی انسان یا جماعت اصلاح کے لیے اُٹھے گی وہ اصلاح کے بجاے فساد کا موجب ہوگی۔ وہ درستی کے بجاے اُلٹا ظلم میں اضافہ کرے گی۔ جو آدمی بااختیار ہو اور بے خوف ہو وہ رشوت سے کیسے بچے گا۔ آپ لاکھ قانون بنایئے لیکن اس کی تنفیذکے لیے جس قسم کے انسان درکار ہیں وہ کہاں سے آئیں گے۔
قانون کی پوزیشن بھی یہی ہے کہ جیسے کوئی شخص نماز پر اپنے ایمان کا اعلان کرتا ہے لیکن جب اذان ہو تو وہ نماز کے لیے اُٹھے نہیں۔ زکوٰۃ کا مُدعی ہو لیکن جب طلب کی جائے تو کہے: ع
گر زر طلبی سخن دریں است
ایسے شخص کے لیے کون سی تحریک ہوگی جو اس کو اصلاح پر آمادہ کرسکے گی۔ ظاہر ہے کہ اگر اس کے دل میں کوئی خوف نہ ہوگا تو اس میں کبھی دین کے لیے حرکت نہ پیدا ہوسکے گی۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے انھی نکات پر مکّی دور میں لوگو ں کی اصلاح کی۔ جب آپؐ نے مکّے سے ہجرت فرمائی تو ان اصلاح یافتہ لوگوں کی ایک مختصر سی جماعت آپؐ کے ساتھ تھی۔ ان لوگوں کی تعداد بدر کے معرکے کے وقت ۳۱۳ تھی اور جب یہ اُحد میں گئے تو ان کی کُل تعداد ۷۰۰ تھی۔ یہ تعداد مادی اعتبار سے کوئی اُمیدافزا نہ تھی لیکن چونکہ یہ گروہ اِصلاح یافتہ تھا، ان کو اللہ کی وحدانیت اور آخرت پر یقینِ کامل تھا، اِس لیے وہ اپنے سے کئی گنا مخالفین پر غالب آئے اور نوسال کی مدت نہیں گزرنے پائی تھی کہ وہ پورے خطۂ عرب پر چھا گئے۔
یہ خیال نہ کیجیے کہ ان کی تلوار کی کاٹ بڑی سخت تھی کہ عرب اس کی مزاحمت نہ کرسکا اور مسخر ہوگیا۔ درحقیقت یہ ان کے ایمان و اخلاق کی طاقت تھی، جو سب کو مسخر کرگئی۔ جہاں تک جنگوں اور معرکوں کا تعلق ہے، ان میں کام آنے والوں کی کُل تعداد تاریخ سے صرف ۱۲۰۰ ملتی ہے۔ گویا تسخیر کا یہ عمل میدانِ کارزار میں نہیں ہوسکتا تھا بلکہ ساری تاثیر، ساری طاقت اور ساری قوت اس کیریکٹر کی تھی جو حضوؐر نے اپنے صحابہؓ کے اندر چار بنیادوں (توحید، آخرت، نماز اور زکوٰۃ) پر استوار کیا تھا۔ یہ اسی کیریکٹر کا نتیجہ تھا کہ عین لڑائی کے وقت بھی انھوں نے حق و انصاف کا دامن نہ چھوڑا۔ انھوں نے یہ لڑائیاں لُوٹ اور مالِ غنیمت کے لیے نہ کی تھیں بلکہ ہدایت کی روشنی پھیلانے کے لیے کیں۔ یہ سارے کرشمے اس سیرت کے تھے جو حضوؐر نے بڑی محنت سے تیار کی تھی۔ انھوں نے اگر کبھی کسی جگہ حکومت بھی کی تو لوگ ان کے اقتدار سے زیادہ ان کے کردار سے متاثر ہوئے۔
انسان کی آنکھ نے اس سے پہلے کبھی بوریا نشین حاکم نہ دیکھے تھے جنھوں نے اپنے آرام اور ٹھاٹ باٹ کی بجاے خلقِ خدا کو آرام پہنچایا۔ وہ جاگتے تھے تو لوگ سکون سے سوتے تھے۔ ان کی حکومت جسموں سے زیادہ دلوں پر تھی۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ تعلیم آج بھی موجود ہے۔ مسلمان آج بھی اسے اپنالیں تو ان کی حکمرانی آج بھی اسی طرح کرئہ ارض پر قائم ہوسکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَ مَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ O (الانبیا ۲۱:۱۰۷)اے رسولؐ، ہم نے تجھے جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔
اگر کوئی شخص یہ دیکھنا چاہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ مبارک انسان کے لیے کس طرح رحمت بنی تو اس بیان کے لیے ایک تقریر کیا، سیکڑوں تقریریں اور سیکڑوں کتابیں بھی ناکافی ہیں۔ انسان رحمت کے ان پہلوئوں کا شمار نہیں کرسکتا۔ اِس لیے میں آ پ کے سامنے اس رحمت کے صرف ایک پہلو کے بیان پر اِکتفا کروں گا۔ اِس زاویے سے دیکھیں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ پوری انسانی تاریخ میں صرف ایک ہی ہستی ہے جو انسان کے لیے حقیقتاً رحمت ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانی سماج کے لیے وہ اصول پیش کیے ہیں جن کی بنیاد پر انسانوں کی ایک برادری بن سکتی ہے اور انھی اصولوں پر ایک عالمی حکومت (World State) بھی معرضِ وجود میں آسکتی ہے، اور انسانوں کے درمیان وہ تقسیم بھی ختم ہوسکتی ہے جو ہمیشہ سے ظلم کا باعث بنی رہی ہے۔
اِس نکتے کی وضاحت کے لیے میں پہلے دنیا کی مختلف تہذیبوں کے اصول بتائوں گا تاکہ تقابلی مطالعے سے یہ معلوم ہوسکے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کیا اصول پیش کیے تھے۔ دُنیا میں جتنی بھی تہذیبیں گزری ہیں ، انھوں نے جو بھی اصول پیش کیے ہیں، وہ انسانوں کو جوڑنے والے نہیں ہیں بلکہ پھاڑنے والے اور انھیں درندہ بنانے والے ہیں۔
مثال کے طور پر آپ سب سے قدیم آریہ تہذیب کو لے لیجیے۔ وہ جہاں بھی گئے اپنے ساتھ نسلی برتری کا تصور لے کر گئے۔ وہ ایران میں رہے تب بھی اِسی تصور کے ساتھ رہے اور ہندستان میں آئے تب بھی ان کے ساتھ یہی تصور تھا۔ ان کے نزدیک برہمن سب ذاتوں سے بلندوبرتر تھا اور باقی جتنے بھی طبقات یا ذاتیں معاشرے میں پائی جاتی تھیں، سب ان سے فروتر اور کم حیثیت تھیں۔ آریہ تہذیب نے واضح طور پر انسان کو مختلف طبقوں میں تقسیم کیا اور یہ تقسیم انسانی صفات کی بنیاد پر نہ تھی بلکہ پیدایش کی بنیاد پر تھی اور اس میں انسانی کوشش کو قطعاً کوئی دخل نہ تھا۔ کوشش سے کوئی شودربرہمن نہ بن سکتا تھا اور نہ کوئی ذات دُوسری ذات میں منتقل ہوسکتی تھی۔ ان کے نزدیک کچھ انسان پیدایشی طور پر برتر پیدا ہوئے تھے اور کچھ ازل ہی سے کم تر اور نیچ تھے۔
اسی اصول کو جرمنی کے قوم پرست ڈکٹیٹر ہٹلر نے اختیار کیا تھا۔ اس نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ جرمن نسل سب سے برتر و فائق ہے۔ اور نسلی برتری کا یہی تصور یہودی ذہنیت میں بھی رچا بسا ہوا ہے۔ ان کے قانون کے مطابق جو پیدایشی اسرائیلی نہیں، وہ اسرائیلیوں کے برابر نہیں ہے۔ ان کا خیال ہے کہ یہودیوں کے لیے انصاف کا ترازو اور ہے اور غیر یہودیوں کے لیے اور۔ چنانچہ تالمود میں یہاں تک لکھا ہوا ہے کہ: ’اگر کسی اسرائیلی اور غیراسرائیلی کے درمیان تنازع ہوجائے تو اسرائیلی کی بہرصورت رعایت کی جائے‘۔اسی طرح یونانیوں کے اندر بھی ایک نسلی غرور پایا جاتا ہے۔ ان کی نگاہ میں :’تمام غیریونانی گھٹیا اور پست تھے‘۔
دوسری طرف آپ دیکھیے تو یہی چیز آپ کو مغربی ذہنیت میں پیوست دکھائی دیتی ہے۔ مغربی دُنیا سفید نسل کی برتری کے تصور میں مبتلا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ رنگ دار نسل سے برتر ہیں۔ اسی زعمِ باطل کا نتیجہ ہے کہ آج دُنیا ظلم و فساد میں سرتاپا ڈوبی ہوئی ہے اور صرف رنگ کی بنا پر بے حدوحساب ظلم دنیا میں توڑا جارہا ہے۔ اہلِ مغرب کے نزدیک اس تصور کا جائز ہونا تھا جس نے اُنھیں اُکسایا کہ وہ سیاہ فاموں کو افریقہ سے غلام بناکر لائیں اور بیچیں اور ان پر جس طرح چاہیں ظلم ڈھائیں، ان کے لیے حلال ہے۔ اندازہ ہے کہ پچھلی صدی میں کم از کم ۱۰کروڑ انسان غلام بنائے گئے اور ان کے ساتھ ایسا وحشیانہ سلوک کیا گیا کہ ان میں سے صرف ۴کروڑ جاں بر ہوسکے۔
یہی ظلم مختلف علاقوں میں آج بھی انسان، انسان کے ساتھ کر رہا ہے۔
اِسی قبیل سے علاقائی قومیّت (Territorial Nationalism) کا ایک نشّہ بھی ہے۔ دُنیا کی دو بڑی جنگیں اسی تعصّب کی بنیاد پر چھڑیں۔ لیکن جیساکہ اس عصبیت نے اپنے عملی مظاہرے سے دکھا دیا ہے کہ یہ آدمیوں کو جمع کرنے والی نہیں پھاڑنے والی اور ان کو درندہ بنانے والی ہے۔ ظاہر بات ہے کہ کوئی کالا گورا نہیں ہوسکتا اور کوئی غیرملکی ملکی نہیں ہوسکتا۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ آدمی اپنی وطنیت کو تبدیل کرسکے۔ وہ جہاں پیدا ہوا ہے بہرحال اسی مقام کا باشندہ ہوگا۔
یہی کیفیت خود عرب میں بھی تھی۔ قبائلی عصبیت ان لوگوں کے رگ و ریشہ میں رچی بسی ہوئی تھی۔ ہرقبیلہ اپنے آپ کو دوسرے قبیلے کے مقابلے میں برتروفائق سمجھتا تھا۔ دوسرے قبیلے کا کوئی شخص کتنا ہی نیک کیوں نہ ہوتا، وہ ایک قبیلے کے نزدیک اتنی قدر نہیں رکھتا تھا جتنا کہ ان کے نزدیک ان کا اپنا ایک بُرا آدمی رکھتا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں مسیلمہ کذّاب اُٹھا، تو اس کے قبیلے کے لوگ کہتے تھے کہ ہماری نگاہ میں ہمارا جھوٹا آدمی بھی قریش کے سچّے آدمی سے بہتر ہے۔
جس سرزمین میں اِنسانوں کے درمیان امتیاز نسل، قبیلے اور رنگ کی بنا پر ہوتا تھا وہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پکارانسان کی حیثیت سے بلند کی۔ ایک عرب نیشنلسٹ کی حیثیت سے نہیں اور نہ عرب یا ایشیا کا جھنڈا بلندکرنے کے لیے کی تھی۔ آپؐ نے پکار کر فرمایا:
اے انسانو! میں تم سب کی طرف مبعوث ہوا ہوں۔
اور جو بات پیش کی وہ یہ کہ:
اے انسانو! ہم نے تم کو ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا، اور تم کو قبیلوں اور گروہوں میں اِس لیے بانٹا ہے کہ تم کو باہم تعارف ہو۔ اللہ کے نزدیک برتر اور عزت والا وہ ہے جو اُس سے سب سے زیادہ ڈرتا ہے۔(الحجرات ۴۹:۱۳)
آپؐ نے فرمایا کہ تمام انسان اصل میں ایک ہی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ ایک ماں باپ کی اولاد ہیں اور اِس حیثیت سے بھائی بھائی ہیں۔ ان کے درمیان کوئی فرق رنگ، نسل اور وطن کی بنیاد پر نہیں کیا جاسکتا۔
تم کو قبائل میں پیدا کیا تعارف کے لیے۔ یعنی یہاں جو کچھ بھی فرق ہے اس سے مقصو د تعارف ہے۔ اس کی حقیقت اس کے سواکچھ نہیں کہ خاندان جمع ہوتے ہیں توایک بستی بن جاتی ہے اور بستیاں جمع ہوتی ہیں تو ایک وطن وجود میں آجاتا ہے۔ یہ سب کچھ ایک دوسرے کو پہچاننے کے لیے ہے اور زبان میں بھی جو کچھ فرق ہے وہ صرف تعارف کے لیے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ فطری فرق صرف تعارف کے لیے رکھا ہے اور یہ فرق باہمی تعاون کے لیے ہے نہ کہ بُغض، عداوت اور امتیاز کے لیے۔
اب دُنیا میں برتری کا تصور ہے تو رنگ کی بناپر، کالے یا گورے ہونے کی بنا پر لیکن اِس بناپر برتری نہیں کہ کون بُرائیوں سے زیادہ بچنے والا ہے۔ کون نیکیوں کو زیادہ اختیار کرنے والا ہے، کون اللہ سے ڈرتا ہے۔ دیکھا یہ جاتا ہے کہ کون ایشیا میں پیدا ہوا ہے، اور کون یورپ میں۔ خدا کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) نے بتایا کہ دیکھنے کی اصل چیزیں یہ نہیں بلکہ انسان کے اخلاق ہیں۔ یہ دیکھیے کہ کون خدا سے ڈرتا ہے اور کون نہیں۔ اگر آپ کا حقیقی بھائی خدا کے خوف سے عاری ہے تو وہ قابلِ قدر نہیں ہے۔ لیکن د ُور کی قوم کا کوئی آدمی خواہ وہ کالے رنگ ہی کا کیوں نہ ہو، اگر خدا کا خوف رکھتا ہے تو وہ آپ کی نگاہ میں زیادہ قابلِ قدر ہونا چاہیے۔
حضوؐر فلسفی نہیں تھے کہ محض ایک فلسفہ پیش کردیا۔آپؐ نے اس بنیاد پر ایک اُمت بنائی اور اسے بتایا کہ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ (البقرہ ۲:۱۴۳)۔ اُمت ِ وسط سے مراد ایک ایسی قوم ہے جو جانب داری کے لحاظ سے نہ کسی کی دشمن ہے نہ کسی کی دوست۔ اس کی حیثیت ایک جج کی سی ہے جو ہرلحاظ سے غیرجانب دار ہوتا ہے۔ وہ نہ کسی کا دوست ہوتا ہے کہ جانب دار بن جائے، نہ دشمن ہوتا ہے کہ مخالفت میں توازن کھو دے۔ اس کا مقام یہ ہوتا ہے کہ اس کا بیٹا بھی اگر کوئی جرم کردے تو وہ اسے بھی سزا دینے میں تامّل نہیں کرے گا۔ جج کی یہی حیثیت پوری اُمت کو دے دی گئی ہے۔ مفہوم یہ ہے کہ مسلمان قوم اُمتِ عادل ہے۔
اب یہ اُمتِ عادل بنتی کس چیز پر ہے؟ یہ کسی قبیلے پر نہیں بنتی، کسی نسل یا وطن پر نہیں بنتی۔ یہ بنتی ہے تو ایک کلمے پر، یعنی اللہ اور اس کے رسولؐ کا حکم تسلیم کرلو تو جہاں بھی پیدا ہوئے ہو، جو بھی رنگ ہے، بھائی بھائی ہو۔ اس برادری میں جو بھی شامل ہوجاتاہے اس کے حقوق سب کے ساتھ برابر ہیں۔ کسی سیّد اور شیخ میں کوئی فرق نہیں، اور نہ عربی کو عجمی پر کوئی فوقیت ہے۔ اِس کلمے میں شریک ہوگئے تو سب برابر۔ حضوؐر نے اسی لیے فرمایا تھا:
کسی عربی کو عجمی پر فضیلت نہیں ہے اور نہ کسی عجمی کو عربی پر، نہ کسی کالے کو گورے پر فضیلت ہے نہ گورے کو کالے پر۔ تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے بنے تھے۔ تم میں سب سے زیادہ عزت پانے والا وہ ہے جو سب سے زیادہ خدا سے ڈرنے والا ہے۔
اِسی چیز کو میں ایک واقعے سے آپ کو سمجھاتا ہوں۔
غزوئہ بنی مصطلق میں مہاجرین اور انصار دونوں شریک تھے۔ اِتفاق سے پانی پر ایک مہاجر اور انصار کا جھگڑا ہوگیا۔ مہاجر نے مہاجروں کو پکارا اور انصار نے انصار کو۔ آپؐ نے یہ پکار سنی تو غضب ناک ہوکر فرمایا:
یہ کیسی جاہلیت کی پکار ہے؟ چھوڑ دو اس متعفن پکار کو۔(مسلم:۴۷۸۸)
اِس سے آپؐ کی مراد یہ تھی کہ اگر ایک شخص دوسرے شخص پر ظلم ڈھا رہا ہے تو مظلوم کا ساری اُمت ِ مسلمہ پر حق ہے کہ وہ اس کی مدد کو پہنچے، نہ کہ کسی ایک قبیلے اور برادری کا۔ لیکن صرف اپنی ہی برادری کو پکارنا یہ جاہلیت کا شیوہ ہے۔ مظلوم کی حمایت مہاجر اور انصاردونوں پر فرض تھی۔ اگر ظالم کسی کا حقیقی بھائی ہے تو اس کا فرض ہے کہ سب سے پہلے وہ اس کے خلاف خود اُٹھے۔ لیکن اپنے گروہ کو پکارنا یہ اسلام نہیں جاہلیت ہے۔ اسلام اسی لیے کہتا ہے: کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ (النساء۴:۱۳۵)’’عدل کو قائم کرنے والے بنو‘‘۔
اس اُمت میں بلال حبشیؓ بھی تھے، سلمان فارسیؓ بھی اور صہیب رومیؓ بھی۔ یہی وہ چیز تھی جس نے ساری دُنیا کو اسلام کے قدموں میں لاڈالا۔ خلافت ِ راشدہ کے عہدمبارک میں ملک پر ملک فتح ہوتا چلا گیا۔ اِس لیے نہیں کہ مسلمان کی تلوار سخت تھی بلکہ اس لیے کہ وہ جس اصول کو لے کر نکلے تھے اس کے سامنے کوئی گردن جھکے بغیر نہ رہ سکتی۔ ایران میں ویسا ہی اُونچ نیچ کا فرق تھا جیساکہ عرب جاہلیت میں۔ جب ایرانیوں نے مسلمانوں کو ایک صف میں کھڑے دیکھا تو ان کے دل خودبخود مسخر ہوگئے۔ اسی طرح مسلمان مصر میں گئے تو وہاں بھی اسی اصول نے اپنا اعجاز دکھایا۔ غرض مسلمان جہاں جہاں بھی گئے لوگوں کے دل مسخر ہوتے گئے۔ اس تسخیر میں تلوار نے اگر ایک فی صد کام کیا ہے تو اس اصولِ عدل نے ۹۹فی صد کام کیا۔
آج دنیا کا کون سا خطّہ ہے جہاں مسلمان نہیں ہے۔ حج کے موقعے پر ہرملک کا مسلمان جمع ہوجاتا ہے۔ امریکا کے مسلمان نیگرو رہنما میلکم ایکس نے حج کا یہ منظر دیکھ کر کہا تھا: ’’نسلی مسئلے کا اس کے سوا کوئی حل نہیں ہے‘‘۔ صرف یہی وہ چیز ہے جس پر دُنیا کے تمام اِنسان جمع ہوسکتے ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ انسان کہیں بھی پیدا ہو، وہ اپنی وطنیت تبدیل نہیں کرسکتا لیکن ایک اصول کا عامل ضرور بن سکتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انسان کو ایک ایسا کلمہ دے دیا جس پر وہ جمع ہوسکتے ہیں اور ایک عالمی ریاست بھی تعمیر کرسکتے ہیں۔
مسلمان جب بھی اس اصول سے ہٹے مار کھائی۔ اسپین پر مسلمانوں کی ۸۰۰ برس حکومت رہی۔ جب مسلمان وہاں سے نکلے تو اس کی وجہ تھی، قبائلی عصبیت کی بنا پر باہمی چپقلش۔ ایک قبیلہ دوسرے کے خلاف اُٹھ کھڑا ہوا اور باہم دگر لڑنے لگے۔ نتیجہ یہ ہواکہ مسلمانوں کی حکومت ختم ہوئی اور وہ وہاں سے ایسے مٹے کہ آج وہاں ایک مسلمان بھی دکھائی نہیں دیتا۔
اِسی طرح ہندستان میں بھی مسلمانوں کی طاقت کیوں ٹوٹی؟ ان میں وہی جاہلیت کی عصبیتیں اُبھر آئی تھیں۔ کوئی اپنے مغل ہونے پر ناز کرتا تھا تو کوئی پٹھان ہونے پر۔ نتیجہ یہ نکلا کہ وہ پہلے مرہٹوں سے پِٹے، پھر سکھوں سے پِٹے، اور آخر میں چھے ہزار میل دُور سے ایک غیرقوم آکر ان پر حاکم بن گئی۔
اسی صدی میں ترکی کی عظیم الشان سلطنت ختم ہوگئی۔ عرب ترکوں سے برسرِپیکار ہوگئے۔ عرب اپنے نزدیک اپنے لیے آزادی حاصل کر رہے تھے، لیکن ہو یہ رہا تھا کہ سلطنت ِ عثمانیہ کا جو بھی ٹکڑا ترکوں کے تسلط سے نکلتا تھا وہ یا تو انگریزوں کے قبضے میں پہنچ جاتا تھا یا فرانسیسیوں کی نذر ہوجاتا تھا۔
آج مسلمان مسلمان کو کھائے جا رہا ہـے!
اور یہی معاملہ آج بھی ہے۔ عرب عرب کو کھائے جارہا ہے۔ یمن میں اڑھائی لاکھ عرب خانہ جنگی میں مارے گئے۔ عرب اسرائیل جنگ میں بھی شکست کی یہی بڑی وجہ تھی۔ ایک زبان اور ایک نسل رکھتے ہوئے وہ ایک دوسرے کے دشمن ہوگئے تھے۔ اُردن، شام اور لبنان پہلے ۱۹۴۸ء میں پِٹے، پھر ۱۹۵۶ء میں پِٹے اور پھر ۱۹۶۷ء میں پِٹے، حالانکہ یہ سب اورمصر جمع ہوجائیں تو اپنی تعداد اور رقبے کے لحاظ سے اسرائیل سے کئی گنا بڑے ہیں۔
میں نے آپ کو تاریخ سے بتادیا ہے کہ مسلمان جب اپنے کلمے پر جمع ہوئے تو غالب آئے لیکن جب وہ رنگ، نسل اور وطن کی بنیاد پر جمع ہوئے تو کٹے اور مٹے۔ اسپین جیسی عظیم الشان سلطنت مسلمانوں سے اِسی وجہ سے چِھنی۔ ہندستان میں وہ اِسی وجہ سے مغلوب ہوئے، اور اسی وجہ سے انھیں شرق اوسط میں شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔
آپ سیرت پر کانفرنسیں ضرور کریں، ذکرِ رسولؐ سے مبارک کوئی کام نہیں ہے لیکن یہ محض ذکر اور lip service ہوکر نہ رہ جائے۔ اس پر عمل کریں گے تو اس رحمت سے آپ کو حصہ ملے گا جو صرف پیرویِ رسولؐ کے لیے مقدّر ہے۔ حدیث میں اِسی لیے آیا ہے: اَلْقُرْانُ حُجَّۃٌ لَکَ اَوْ عَلَیْکَ (مسلم:۳۵۴)’’قرآن تم پر حجت ہے، تمھارے حق میں یا تمھارے خلاف‘‘۔
کوئی قوم اس کی پیروی کرتی ہے تو یہ قرآن اس کے حق میں حجت ہے اور جو پیروی نہیں کرتی اور وہ جانتی ہے کہ یہ حق ہے تو یہ اس کے خلاف حجت بن کر کھڑا ہوگا۔ یہ ایسے ہی ہے، جیسے کوئی شخص قانون کو جاننے والا ہے اور دوسرا اس سے ناواقف ہے۔ قانون اس کے خلاف حجت ہے، جو قانون کو جانتا ہے پھر بھی اس کی خلاف وزری کرتا ہے۔ اِس کلمے کو لے کراُٹھیں گے تو نہ صرف اپنا ملک مضبوط و مستحکم ہوگا بلکہ مشرق و مغرب مفتوح ہوجائیں گے، لیکن کلمے کو چھوڑا اور قومیتوں کے پیچھے پڑے تو پرکاہ کی حیثیت باقی نہ رہے گی۔
میری دُعا ہے کہ اللہ ہم سب کو سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا سچّا اُمتی بننے کی توفیق عطا فرمائے، آمین!
اللہ تعالیٰ نے بندوںتک اپنی وحدانیت اور اپنی بندگی کی طرف دعوت دینے کے لیے انبیا کرامؑ کو مبعوث فرمایا، جن کی بعثت ہر زمانے میں ہوتی رہی ہے۔ جب بھی دنیا میں نظام حق و عدل درہم برہم ہوجاتا اور زمین فساد کا گہوارہ بن جاتی اور کفر و شرک اور جہالت عروج پر پہنچ جاتے، تو اللہ تعالیٰ کی رحمت جوش میں آجاتی اور اپنے خاص،مقرب اور منتخب بندوں کو دنیاے انسانیت کی طرف مبعوث فرماتا، تاکہ نوع انسانیت کو طاغوت کی بندگی اور کفرو شرک سے نکال کے اللہ کی وحدانیت اور ا س کی بندگی کی طرف دعوت دے۔ یہ وہ بنیادی کا م ہے جسے حضرت آدم ؑسے نبی آخرالزماں حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم تک تمام انبیا کرامؑ نے اپنا مشن بنایا۔ ہرپیغمبرؑ نے اللہ کی بندگی، اصلاح عقیدہ اور تمام عبادتوںکو اللہ کے لیے خالص کرنے اور شرک سے اجتناب کرنے کو اپنی دعوت کا مرکز و محور قراردیا۔
اسی لیے قرآن نے بت پرستی اور مشرکانہ رسوم کو اقوام کے زوال و ہلاکت کا سب سے بڑا سبب قرار دیا ہے۔ چنانچہ اس نے متعدد مقامات پر بتایا ہے کہ جن قوموں پر عذاب نازل ہوا ان میں پہلے نبی بھیجے گئے جنھوںنے لوگوںکو توحید کی دعوت دی لیکن کفارو مشرکین نے ان نبیوں کا مذاق اُڑایا، ان کی تکذیب کی اور اپنی بت پرستی پر بدستور قائم رہے۔
حضرت نوح ـؑاور ان کی قوم کا قرآن میں ۴۳ مقامات پر ذکر آیا ہے۔ حضرت نوح ـؑ کی دعوت و تبلیغ اس سر زمین سے وابستہ تھی جو دجلہ اور فرات کے درمیان واقع ہے اور یہ دونوں دریا آرمینیا کے پہاڑوں سے نکلتے ہیں اور جدا جدا بہہ کر عراق کے حصے زیر می میں آکر ملتے اور خلیج فارس میں جا گرتے ہیں ۔ وہیں اراراطہ کا پہاڑی سلسلہ ہے جس کی ایک چوٹی جودی پر کشتی نوح ـؑ اُترنے کے بارے میں روایات ہیں۔ ۱حضرت نوح ـؑ ایک اُولو العزم پیغمبر تھے۔ انھوں نے اپنی قوم میں ۹۵۰سال تک دعوت و تبلیغ کا فریضہ انجام دیا ۔ ان کی دعوت میں توحید کو بنیادی ترجیح حاصل تھی ۔ حضرت نوح ـؑ کی قوم کفرو شرک کے اندھیروں میں بھٹک رہی تھی۔ اس فساد سے دور رہنے کے لیے حضرت نوح ؑاپنی قوم کو دن رات، اُٹھتے بیٹھتے اور چلتے پھرتے سمجھاتے رہے ۔حافظ ابن کثیر ؒ لکھتے ہیں:
بَعَثَہُ اللہُ تَعَالٰی لَمَّا عُبَدَتِ الْاَصْنَامُ وَالطَّوَاغِیْتُ وَشَرَعَ النَّاسُ فِی الضَّلَالَۃِ وَالْکُفْرِ فَبَعَثَہُ اللہُ رَحْمَۃً لِلْعِبَادِ فَکَانَ اَوَّلُ رَسُوْلٍ بُعِثَ اِلٰی اَہْلِ الْاَرْضِ ۲
اللہ تعالیٰ نے انھیں اس لیے مبعوث فرمایا کیونکہ لوگ بت پرستی اور طاغوت کی پرستش کرنے لگے اور لوگوں نے کفرو ضلالت کو ہی اپنا دین بنا لیا اور اللہ تعالیٰ نے نوح ـؑ کو لوگوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا۔ اس لحاظ سے وہ پہلے نبی ہیں۔ حضرت نوح ـؑ کی دعوت کا مر کز و محور توحید تھا ۔انھوں نے اپنی قوم کو سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کے ساتھ شریک نہ ٹھیرانے کی طرف دعوت دی۔ یہ ان کی دعوت کا سب سے بنیادی نکتہ تھا ۔ قرآن مجید میں اس تعلق سے ارشاد ہے :
لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰی قَوْمِہٖ فَقَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ ط اِنِّیْٓ اَخَافُ عَلَیْکُمْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍO (الاعراف۷:۵۹) ہم نے نوح ـؑ کو کنعان کی قوم کی طرف بھیجا تو انھوں نے ان سے فرمایا: اے میری قوم!تم اللہ کی عبادت کرو۔ اس کے سوا تمھارا کوئی معبود ہونے کے قابل نہیں۔ مجھ کو تمھارے لیے ایک بڑے دن کے عذاب کا اندیشہ ہے۔
ایک اور موقعے پر حضرت نوح ـؑنے اپنی قوم کو دعوتِ توحید سے انکار کر نے اور اللہ کی بندگی نہ کرنے پر دردناک عذاب کی وعید سنائی۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰی قَوْمِہٖٓ ز اِنِّیْ لَکُمْ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ O اَنْ لَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّا اللّٰہَ ط اِنِّیْٓ اَخَافُ عَلَیْکُمْ عَذَابَ یَوْمٍ اَلِیْمٍO (ھود۱۱: ۲۵-۲۶) ، ہم نے نوح ـؑ کو اس کی قوم کی طرف رسول بناکر بھیجا کہ میں تمھیں صاف صاف ہوشیار کر دینے والا ہوں کہ تم صرف اللہ ہی کی عبادت کرو۔ مجھے تو تم پر دردناک دن کے عذاب کا خوف ہے۔
اور ایک جگہ اس کی تفصیل یوں ہے :
اِنَّآ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰی قَوْمِہٖٓ اَنْ اَنْذِرْ قَوْمَکَ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ O قَالَ یٰـقَوْمِ اِنِّیْ لَکُمْ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ O اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَاتَّقُوْہُ وَاَطِیْعُوْنِ O (نوح۷۱: ۱-۳) ہم نے نوح ـؑ کو ان کی قوم طرف مبعوث فرمایا کہ اپنی قوم کو ڈرا دو کہ اس سے پہلے کہ ان کے پاس دردناک عذاب آجائے۔ نوح ـؑ نے کہا: اے میری قوم میں تمھیں صاف صاف ڈرانے والا ہوں کہ تم اللہ کی عبادت کرو۔ اسی سے ڈرو اور میرا کہا مانو۔
یعنی تمام معبودانِ باطلہ کی راہ سے منہ موڑ کر صرف اللہ کی بندگی اختیار کرو اور اس کے ساتھ ساتھ میری اطاعت کرو۔ اسی میں تمھاری نجات اور خیر خواہی پنہاں ہے۔
عاد کا مرکزی مقام ارض احقاف ہے۔ یہ حضرموت کے شمال میں اس طرح واقع ہے کہ اس کے شرق میں عمان ہے اور شمال میں ربع الخیال۔ آج یہاں ریت کے ٹیلوں کے سوا کچھ نہیں ہے اور بعض مؤرخین کہتے ہیں کہ ان کی آبادی عرب کے سب سے بہترین حصہ حضرموت اور یمن میں خلیج فارس کے سوا حل سے حدود عراق تک وسیع تھی۔۳ اللہ تعالیٰ نے قوم عاد کو ہر قسم کی خوش حالی اور متنوع نعمتوں سے نوازا تھا ۔ مزید یہ کہ زمین کو زراعت کے قابل بنایا، چٹانوں سے محلات اور گھر تعمیر کرنے کا ہنر عطا کیا اور جسمانی طاقت سے بھی سرفراز فرمایا تھا لیکن اس کے باوجود یہ قوم بت پرستی میں غرق ہوچکی تھی۔ اس قوم نے ڈھٹائی کے ساتھ اللہ اور اس کے رسولؑ سے بغاوت کردی۔
حضرت ہودؑ کی دعوت ،دعوت توحید ہی تھی۔ انھوں نے اپنی قوم کو اللہ کی بندگی اختیار کرنے اور شرک سے اجتناب برتنے کے لیے ہر ممکن طریقے سے منوانے کی کوشش کی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَ اِلٰی عَادٍ اَخَاھُمْ ھُوْدًا ط قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ ط اَفَلَا تَتَّقُوْنَO (اعراف۷:۶۵)اور عاد کی طرف ہم نے ان کے بھائی ہودؑ کو بھیجا۔ اس نے کہا: اے برادران قوم اللہ کی بندگی کرو۔ اس کے سوا تمھارا کوئی الٰہ نہیں۔ پھر کہا: تم غلط رویے سے پرہیز نہ کروگے ؟
ایک اور موقعے پر حضرت ہودؑ نے اپنی قوم سے کہا کہ تم اللہ تعالیٰ سے رُوگردانی کرکے اس کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھیراکر اس پر کیوں جھوٹ باندھ رہے ہو۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ ط اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا مُفْتَرُوْنَ O (ھود۱۱:۵۰) اے میری قوم اللہ کی عبادت کرو۔ اس کے سوا تمھارا کوئی معبود نہیں۔ تم تو صریح بہتان باندھ رہے ہو۔
قومِ عاد کی سرکشی اور رُوگردانی حد سے زیادہ بڑھ گئی تھی۔ انھوں نے حضرت ہودؑ اور ان کی دعوت کا کھلے عام تمسخر اڑانا شروع کیا۔ چنانچہ وہ انتہائی ڈھٹائی اور تکبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے حضرت ہودؑ سے مخاطب ہوکر کہنے لگے کہ :
مَا جِئْتَنَا بِبَیِّنَۃٍ وَّ مَا نَحْنُ بِتَارِکِیْٓ اٰلِھَتِنَا عَنْ قَوْلِکَ وَ مَا نَحْنُ لَکَ بِمُؤْمِنِیْنَO (ھود۱۱:۵۳) اے ہودؑ! تو ہمارے پاس کوئی صریح شہادت لے کر کیوں نہیں آیا ہے اور تیرے کہنے سے ہم اپنے معبودوں کو نہیں چھوڑ سکتے اور تجھ پر ہم ایمان لانے والے نہیں ہیں۔
یہ جواب سن کر حضرت ہود ؑنے بے حد دکھ اور ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا:
اِنِّیْٓ اُشْھِدُ اللّٰہَ وَ اشْھَدُوْٓا اَنِّیْ بَرِیْٓئٌ مِّمَّا تُشْرِکُوْنَ O (ھود۱۱:۵۴) اور تم گواہ رہو یہ جو اللہ کے سوا دوسروں کو تم نے اُلُوہیت میں شریک ٹھیرارکھا ہے اس سے میں بے زار ہوں۔
قومِ ثمود اپنے زمانے کی ایک طاقت ور قوم (super power) تھی۔ اس کا رہایشی علاقہ حجازاور شام کے درمیان حجر کا علاقہ ہے، جسے ’مدین صالح‘ بھی کہا جاتاہے۔ یہ علاقہ خلیج عقبہ کے مشرق میں واقع شہر مدین کے جنوب مشرق میں واقع ہے۔۴ قوم ثمود ایک خوش حال اور طاقت ور قوم تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اس قوم کو زمین کے ایک بڑے علاقے کی قیادت و سیادت عطا کی تھی اور سرسبز و شاداب باغات اور چشموں سے بھی خوب نوازا تھا، لیکن ان عنایتوں کے باوجود اس قوم میں بت پرستی نمایاں تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اس قوم پر رحمت نازل کرکے حضرت صالحؑ کو اللہ کی وحدانیت کا اقرار اور اس کی عبادت کرنے کے لیے مبعوث فرمایا ۔ حضرت صالحؑ نے بھی دیگر انبیا کرامؑ کی طرح اپنی قوم کو توحید کی دعوت دی لیکن اس قوم نے اللہ کے یکتا ہونے اور اس کی بندگی کرنے سے صاف انکار کیا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس منظر کو یوں بیان کیا ہے:
وَ اِلٰی ثَمُوْدَ اَخَاھُمْ صٰلِحًام قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ ط ھُوَ اَنْشَاَکُمْ مِّنَ الْاَرْضِ وَ اسْتَعْمَرَکُمْ فِیْھَا فَاسْتَغْفِرُوْہُ ثُمَّ تُوْبُوْٓا اِلَیْہِ ط (ھود۱۱:۶۱) اور ثمود کی طرف ہم نے ان کے بھائی صالح ؑ کو بھیجا۔ اس نے کہا: اے میری قوم کے لوگو!اللہ کی بندگی کرو۔ اس کے سوا تمھارا کوئی معبود نہیں ہے۔ وہی ہے جس نے تم کو زمین سے پیدا کیا ہے اور یہاں تم کو بسایا ہے۔ لہٰذا تم اس سے معافی چاہو اور اس کی طرف پلٹ آؤ۔
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَآ اِلٰی ثَمُوْدَ اَخَاھُمْ صٰلِحًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ فَاِذَا ھُمْ فَرِیقٰنِ یَخْتَصِمُوْنَ O ( النمل ۲۷:۴۵) ہم نے ثمود کی طرف ان کے بھائی صالحؑ کو بھیجا کہ تم سب اللہ کی عبادت کرو۔ پھر بھی وہ دو فریق بن کر آپس میں لڑنے جھگڑنے لگے۔
حضرت ابراہیمؑ کا تذکرہ قرآن مجید میں ۶۹مرتبہ آیا ہے۔ آپؑ کو خلیل اللہ بھی کہا جاتاہے۔ سرزمین حجاز انھی کی اولاد نے بسائی اور دعوت و تبلیغ کا مر کز بنایا۔ حضرت ابراہیمؑ عالم انسانیت کے ایک عظیم داعی گزرے ہیں۔ دنیاے انسانیت کو شرک و بت پرستی سے مقابلہ کرنے اور اللہ کی وحدانیت اور اس کی بندگی کی طرف بلانا آپ کی دعوت کا نمایاں پہلو تھا۔
اِذْ قَالَ لِاَبِیْہِ یٰٓاَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا یَسْمَعُ وَ لَا یُبْصِرُ وَ لَا یُغْنِیْ عَنْکَ شَیْئًا (مریم ۱۹: ۴۲) یاد کرو وہ وقت جب ابراہیمؑ نے اپنے باپ سے کہا کہ ابا جان آپ ان کی پوجا پاٹ کیوں کر رہے ہیں جو نہ سنیں نہ دیکھیـںاور نہ آپ کو کچھ فائدہ پہنچا سکیں۔
حضرت ابراہیمؑ نے نہایت شفقت اور ادب و احترام کے تمام تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے باپ کو توحید کی دعوت دی۔ حضرت ابراہیمؑ کو اس کا انجام معلوم تھا اور انھیں یہ بھی معلوم تھا کہ اس دعوت کو پیش کر کے سنگسار یا جلا وطن بھی ہونا پڑ سکتا ہے، لیکن انھوں نے کسی خوف یا دھمکی کی پروا نہیں کی بلکہ اپنے مشرک باپ کو اعتماد کے ساتھ معبودان باطل سے کنارہ کشی اختیار کرنے اور صرف ایک معبود برحق کی بندگی اختیار کرنے کو کہا۔
اِذْ قَالَ لِاَبِیْہِ وَقَوْمِہٖ مَا تَعْبُدُوْنَ O قَالُوْا نَعْبُدُ اَصْنَامًا فَنَظَلُّ لَھَا عٰکِفِیْنَO (الشعراء۲۶: ۷۰-۷۱) اور انھیں ابراہیمؑ کا واقعہ بھی سنادو ، جب کہ انھوں نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے فرمایا کہ تم کس کی عبادت کرتے ہو؟ انھوں نے جواب دیا کہ ہم بتوں کی عبادت کرتے ہیں۔ ہم تو برابر ان کے مجاور بنے بیٹھے ہیں ۔
حضرت ابراہیمؑ اپنی قوم کو کئی سال تک توحید کی دعوت دیتے رہے اور انھیں اللہ کی بندگی اختیار کرنے پر مائل کرتے رہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بت پرستی کے انجامِ بد سے بھی باخبر کرتے رہے اور وہ صاف صاف ان سے کہتے کہ جن کی تم عبادت کرتے ہووہ ہرگزبھی اس قابل نہیں۔
حضرت یعقوبؑ پیغمبرانہ قوم سے تعلق رکھتے تھے اور ایک برگزیدہ پیغمبر تھے۔ ان کے والد کا نام حضرت اسحاق ؑاور ان کے دادا کا نام ابوالانبیا حضرت ابراہیمؑ تھا۔ حضرت یعقوبؑ کو اللہ تعالیٰ نے کنعان کی طرف بھیجا تھا۔ قرآن مجید میں ان کا تذکرہ دس جگہ واردہے۔ حضرت یعقوبؑ نے اپنی پوری زندگی دعوتِ دین کی راہ میں گزاردی ۔ جب حضرت یعقوبؑ بستر مرگ پر تھے اور بچنے کی اُمید نہ تھی تو اس وقت انھوں نے اپنی اولاد کو جمع کرکے وصیت کی جس کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں رہتی دنیا تک کے لیے محفوظ رکھا ہے ۔قرآن مجید میں اس کا تذکرہ یوں ہے کہ جب حضرت یعقوبؑ اس دنیا سے رخصت ہو رہے تھے تو انھوں نے مرتے وقت اپنے بیٹوں سے پوچھا: مَا تَعْبُدُوْنَ مِنم بَعْدِیْ ط؟(البقرہ۲:۱۳۳) ’’میرے بچو ! میرے بعد تم کس کی عبادت کرو گے؟‘‘ ان سب نے جواب دیا:
قَالُوْا نَعْبُدُ اِلٰھَکَ وَ اِلٰہَ اٰبَآئِکَ اِبْرٰھٖمَ وَاِسْمٰعِیْلَ وَاِسْحٰقَ اِلٰھًا وَّاحِدًا ج وَّ نَحْنُ لَہٗ مُسْلِمُوْنَ O (البقرہ۲:۱۳۳) سب ایک خداکی بندگی کریں گے جسے آپ نے اور آپ کے بزرگوں ابراہیم ؑ، اسماعیل ؑاور اسحاق ؑنے خدا مانا ہے اور ہم اس کے مسلم ہیں۔
مولانا امین احسن اصلاحی اس کی تو ضیح کرتے ہیں: ’’ایک شفیق و مہربان باپ، جو خدا کا ایک پیغمبر بھی ہے، اپنی اولاد سے جو عہد و اقرار اپنے بالکل آخری لمحات زندگی میں لیتا ہے، اس کے اور اس کی اولاد کے درمیان سب سے زیادہ اہمیت رکھنے والا واقعہ وہی عہدواقرار ہو سکتا ہے، اور باوفا اولاد کا یہ سب سے بڑا اور سب سے مقدس فرض ہے کہ وہ ہر طرح کے حالات کے اندر اس عہد کو نبھا ئے‘‘۔ ۵
حضرت یوسفؑؑ کا تذکرہ قرآن مجید میں ۳۶مرتبہ آیا ہے اور ان کے نام پر قرآن مجید میں ایک پوری سورت موجود ہے جس میں تفصیل سے حضرت یوسفؑؑ کی زندگی اور ان کے دعوتی سفر کی روداد موجود ہے۔ حضرت یوسفؑؑ کے واقعے میں عظیم عبرتیں ، نصائح اور بے نظیر بصیرتیں پنہاں ہیں۔ ان کا ایک واقعہ زندان کے ساتھیوں کو دعوتِ توحید ہے۔ جب حکومت وقت نے انھیں قید خانے میں ڈال دیا تو وہاں انھوں نے اپنے دوساتھیوں کو جو ایک طویل عرصے سے جیل میں مقید چلے آرہے تھے ،دعوت توحید دی اور انھیں معبود برحق اور اس کے خالق ہونے کے متعلق تفکر و تدبر کرنے اور عقل سے کام لینے پر اُبھارا۔ قرآنِ مجید میں اس کی تفصیل یوں ہے:
یٰصَاحِبَیِ السِّجْنِ ئَ اَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ خَیْرٌ اَمِ اللّٰہُ الْوَاحِدُ الْقَھَّارُ O مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖٓ اِلَّآ اَسْمَآئً سَمَّیْتُمُوْھَآ اَنْتُمْ وَ اٰبَآؤُکُمْ مَّآ اَنْزَلَ اللّٰہُ بِھَا مِنْ سُلْطٰنٍ ط اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ ط اَمَرَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِیَّاہُ ط (یوسف ۱۲:۳۹-۴۰) اے میرے قید خانے کے ساتھیو! تم خودہی سوچو کہ بہت سے متفرق رب بہتر ہیں یا وہ ایک اللہ جوسب پر غالب ہے؟ اس کو چھوڑ کر تم جن کی بندگی کررہے ہو وہ اس کے سوا کچھ نہیں ہیں کہ بس چند نام ہیں جو تم نے اور تمھارے آباو اجداد نے رکھ لیے ہیں، اللہ تعالیٰ نے اس کی کوئی دلیل نازل نہیں کی۔ فرماںروائی صرف اللہ تعالیٰ کی ہے۔ اُس کا حکم ہے کہ خود اُس کے سوا تم کسی کی بندگی نہ کرو۔
اس واقعے سے پتا چلتاہے کہ حضرت یوسفؑ نے دعوت توحید کے ضمن میں کو ئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا بلکہ وہ اس کے لیے ہر وقت مواقع نکالتے رہتے تھے۔
حضرت شعیبؑ کو اللہ تعالیٰ نے مدین کی طرف نبی بناکر بھیجا ۔ مدین حضرت ابراہیم ؑکے بیٹے یا پوتے کا نام تھا۔ پھر انھی کی نسل پر قبیلے کا نام مدین پڑگیا ۔ مدین کا قبیلہ بحیرہ قلزم کے مشرقی ساحل کے ساتھ عرب کے شمال مغرب اور خلیج عقبہ کے مشرقی ساحل پر اسی نام کی بستی کے آس پاس آباد تھا۔ یہ جگہ شام کے (اردن) کے متصل حجاز کی آخری حد تھی۔ مدین کا علاقہ تبوک کے بالمقابل واقع ہے۔۶ اسی قوم کو دعوت توحید اور دین حق کی آواز پہلی مرتبہ حضرت شعیبؑ کے ذریعے سے دی گئی تھی۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ اس قوم کے بارے میں لکھتے ہیں کہ: شعیب ؑکے ظہور کے وقت ان کی حالت ایک بگڑی ہوئی مسلمان قوم کی تھی جیسی ظہور موسٰی کے وقت بنی اسرائیل کی حالت تھی۔ حضرت ابراہیمؑ کے بعد چھے سات سو برس تک مشرک اور بد اخلاق قوموں کے درمیان رہتے ہوئے یہ لوگ شرک بھی سیکھ گئے تھے اور بد خلقیوں میں مبتلا ہوگئے تھے ۔۷ حضرت شعیبؑ کی قوم میں بت پرستی کے علاوہ دوسری اخلاقی برائیاں بھی در آئی تھیں، مثلاً ناپ تول میں کمی، معاملات میں بگاڑ اور ڈاکا زنی وغیرہ ۔حضرت شعیبؑ نے اس قوم کو اللہ کی وحدانیت اور اس کی بندگی کی طرف دعوت دینے اور آخرت پر یقین رکھنے کے ساتھ ساتھ ان اخلاقی برائیوں سے اجتناب کرنے کے لیے بھی کہا۔ قرآن مجید میں اس کا قصہ یوں ہے:
وَ اِلٰی مَدْیَنَ اَخَاھُمْ شُعَیْبًا فَقَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَ ارْجُوا الْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَلَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ O(العنکبوت ۲۹:۳۶) اور مدین کی طرف ہم نے ان کے بھائی شعیبؑ کو بھیجا ۔انھوں نے کہا: اے میری قوم کے لوگو!اللہ کی عبادت کرو اور قیامت کے دن کی توقع رکھو اور زمین میں فساد نہ کرتے پھرو۔
دوسری جگہ اس کی وضاحت یوں ہے:
وَ اِلٰی مَدْیَنَ اَخَاھُمْ شُعَیْبًا ط قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ ط قَدْ جَآئَ تْکُمْ بَیِّنَۃٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ فَاَوْفُوا الْکَیْلَ وَ الْمِیْزَانَ وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآئَ ھُمْ وَ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِھَا ط ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَO (الاعراف ۷:۸۵) اور مدین والوں کی طرف ہم نے ان کے بھائی شعیبؑ کو بھیجا۔ اس نے کہا: اے برادران قوم، اللہ کی بندگی کرو۔ اس کے سوا تمھارا کوئی خدا نہیں ہے۔ تمھارے رب کی طرف سے صاف رہنمائی آئی ہے لہٰذا وزن اور پیمانے پورے کرو، لوگوں کو ان کی چیزوں میں گھٹا کر نہ دو، اور زمین میں فساد نہ کرو۔ اس میں تمھاری بھلائی ہے اگر تم سچے مومن ہو۔
گویا کہ اس قوم میں دو بڑی ا خلاقی خرابیاں پائی جاتی تھیں۔ ایک اللہ کی وحدانیت کا اقرار نہ کرنا اور ا س کی بندگی سے منہ موڑنا اور دوسری تجارتی معاملات میں بددیانتی اور فریب کاری جنھیں حضرت شعیبؑ نے اولین فرصت میں مخاطب کیاتھا۔
قرآن مجید میں انبیا کرامؑ میں سے سب سے زیادہ تذکرہ حضرت موسٰی کا ۱۳۶ مرتبہ ہوا ہے۔ حضرت موسٰی کی پرورش نہایت ہی متکبر اور دنیا کے سب سے بڑے مشرک ، کافر اور ظلم و طغیان کے سب سے بڑے علَم بردار فرعون کے گھر میں ہوئی ۔ فرعون نے ظلم و استبداد اور سرکشی میں ایسی مثال قائم کردی جس سے انسانیت آج بھی شرمسار ہے۔ اس نے زمین میں ہر طرف فساد پھیلا دیا تھا اور اس کا سب سے بڑا جرم یہ تھا کہ اس نے اَنَـا رَبُّکُمُ الْاَعْلٰی (النازعات ۷۹:۲۴)کا دعویٰ کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسٰی کو فرعون کے پاس بھیجا تاکہ اس سے غرور و تکبر اور اس کے دعواے ربوبیت کا پُرزور دلائل سے توڑ کریں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشادہے:
اِذْہَبْ اِلٰی فِرْعَوْنَ اِنَّہٗ طَغٰی O فَقُلْ ہَلْ لَّکَ اِلٰٓی اَنْ تَزَکّٰی O (النازعات۷۹: ۱۷-۱۸) تم فرعون کے پاس جاؤ وہ سرکش ہوگیا ہے اور اس سے کہو کیا تو اس کے لیے تیار ہے کہ پاکیزگی اختیار کر۔
اللہ کے آخری رسولؐ کی دعوت عالم گیر اور ہمہ گیر ہے۔ سابق انبیاے کرامؑ کی دعوت اپنی اپنی قوم اور علاقے تک محدود ہوتی تھی ، جب کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت قیامت تک آنے والے انسانوں کے لیے ہے۔ آپؐ کی دعوتِ توحید کے بارے میں کہا گیا ہے:
قُلْ یٰٓاَ یُّھَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعَانِ الَّذِیْ لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ج لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ یُحْیٖ وَ یُمِیْتُ ص فَاٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَ رَسُوْلِہِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ (الاعراف۷ :۱۵۸) اے محمدؐ! کہہ دو، اے انسانو! میں تم سب کی طرف اس الٰہ واحد کا پیغمبر ہوں جو زمین اور آسمانوں کی بادشاہی کا مالک ہے۔ اس کے سوا کوئی اِلٰہ نہیں ہے۔ وہی زندگی بخشتا ہے اور وہی موت دیتا ہے۔ پس ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے بھیجے ہوئے نبی اُمّی پر۔
جب یہ آیت فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَر نازل ہوئی تو اللہ کے رسولؐ کوہِ صفا پر چڑھ گئے اور یاصباہ کہہ کر پکارنے لگے ( یہ کلمہ عرب کی سرزمین پر اس وقت بولا جاتا تھا جب دشمن اچانک حملہ اور غارت گری کر دے ۔ اس پکار کے ذریعے سے قوم کو خبردار کیا جاتا تھا )۔ یہ پکار سن کر جب قریش کے لوگ جمع ہوگئے تو آپؐ نے ان سے مخاطب ہو کر فرمایا: اگر میں تم سے کہوں کہ اس پہاڑ کے عقب میں دشمن کا ایک لشکر موجود ہے جو تم پر حملہ آور ہوا چاہتا ہے، کیا تم یقین کرلو گے؟ سب نے کہا: ہاں، یقینا ہم تصدیق کریں گے کیوں کہ آپؐ کو ہمیشہ سے ہم نے سچ بولتے ہوئے دیکھا ہے۔ آپؐ نے فرمایا :مجھے اللہ نے نذیر بناکر بھیجا ہے۔ میں تمھیں ایک سخت عذاب سے ڈراتا ہوں ۔ آپؐ نے سبھی قبیلوں کا نام لے کر صدا لگائی :
اے بنی کعب، اپنے آپ کو دوزخ سے بچائو، اے بنو مرہ بن کعب، اپنے آپ کو دوزخ سے بچائو ، اے بنو عبد شمس ،اپنے آپ کو دوزخ سے بچائو ، اے عبدالمطلب ،اپنے آپ کو دوزخ سے بچائو۔ میں اللہ کے ہاں تمھارے کوئی کام نہیں آسکوں گا ۔۸ دوسری روایت میں یہ بھی آیا ہے کہ’’ موت کے بعد تمھیں خدا کے سامنے حاضر ہونا ہے، پس تم شرک سے باز آجائو‘‘ ۔
خیر خواہی کا تقاضا ہے کہ جوبات سب سے اہم ہو اس کو انسان اپنے قریبی ساتھی، دوست، اور رشتہ دار کو باخبر کرے ۔ اس خیر خواہی کی بنیاد پر اللہ کے رسولؐ نے سب سے پہلے اپنے رشتہ داروں کو اللہ کی بندگی اختیار کرنے کی دعوت دی ۔کیونکہ تعلق خاطر اور رشتہ داری کی بنیاد پر وہ اس کے زیادہ مستحق تھے کہ ان تک دعوت حق پہنچائی جائے ۔کسی بڑے مشن اور تحریک کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے یہ ضروری ہوتا ہے کہ اس کے داعیوں اور علَم برداروں کو ایسے افراد مل جائیں جو ان کے مشن اور تحریک کو آگے بڑھانے میںممد و معاون ثابت ہوں ۔اسی لیے اللہ کی مشیت کے مطابق اس کے رسولؐ نے سب سے پہلے اپنے خاندان اور رشتہ داروں کو توحید کی دعوت دی۔
اللہ کے آخری رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت کا آغاز عقیدۂ توحید ، اللہ کی خالص بندگی اور تقویٰ کی زندگی اختیار کرنے سے کیا تھا۔ آپؐ کو اللہ کی طرف سے یہ حکم ملا کہ:
اِنَّـآ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ فَاعْبُدِ اللّٰہَ مُخْلِصًا لَّہٗ الدِّیْنَ O(الزمر۳۹:۲) (ا ے نبیؐ) یہ کتاب ہم نے تمھاری طرف برحق نازل کی ہے لہٰذا تم اللہ ہی کی بندگی کرو دین کو اسی کے لیے خالص کرتے ہوئے۔
دوسری آیت میں یہ ارشاد ہے :
قُلْ اِنِّیْٓ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ اللّٰہَ مُخْلِصًا لَّہُ الدِّیْنَ O (الزمر۳۹:۱۱) (اے نبیؐ )کہو مجھے حکم دیا گیا ہے کہ دین کو اللہ کے لیے خالص کرکے اُس کی بندگی کروں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ۲۳ سالہ دعوتی سفر میں ہر فرد اور ہر قبیلے تک اللہ کا پیغام پہنچایا اور آپؐ کی دعوت کا موضوع زیادہ تر عقیدۂ توحید،اللہ کی خالص بندگی اور طاغو ت سے بے زاری کی طرف تھا۔ مثلاً آپؐ نے ایک قبیلے کو دعوت دیتے ہوے فرمایا:
یَا بَنِیْ فُلَانُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللہِ اِلَیْکُمْ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تَعْبُدُوْہُ وَلَا تُشْرِکُوْابِہٖ شَیْئًا وَأَنْ تَخْلَفُوْا مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ ۹ اے بنی فلاں، میں تمھاری طرف اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں۔ اللہ تعالیٰ تمھیں حکم دیتاہے کہ تم اس کی عبادت کرو اور کسی کو اس کے ساتھ شریک نہ ٹھیرائو اور اللہ تعالیٰ کے سوا تمام معبودوں کو چھوڑدو۔
ابن اسحاق نے طارق کی روایت نقل کی ہے کہ طارق بن عبداللہؓ نے کہا میں نے رسولؐ اللہ کو ذوالمجاز کے قبیلے میں دیکھا ، جب کہ میں خرید و فروخت کے سلسلے میں وہاں گیا تھا۔ نبی کریمؐ ہمارے سامنے سے گزرے۔ میں نے آپؐ کو یہ فرماتے ہوے سنا: اے لوگو ! لا الہ الا اللہ کہو، تم فلاح پاؤگے۔۱۰ اللہ کے رسولؐ نے دعوتِ توحید کو تمام کاموں پر ترجیح دی اور اسی راہ میں اپنی پوری زندگی صرف کردی ۔ اسی مقصد کی خاطر پوری صلاحیت لگا دی اور لوگوں کو اللہ سے جوڑنے کی ہر ممکن تدبیر اختیار کی ۔
حاصل بحث :مذکورہ بالا تمام انبیا ؑ کا دین یا ملت ایک ہی ہے اور وہ ہے دین توحید ۔ اس دین توحید کی طرف ہر نبی اور رسول نے بلایا۔ گویا ان کی ایک ہی پکار تھی وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کی ذات ایک ہے اور اسی کی خالص بندگی کی جائے۔ یہی وہ پکار ہے جسے انبیاے کرامؑ نے مختلف علاقوں، زمانوں اور انسانی نسلوں تک پہنچایا۔ آخر میں خاتم النبیینؐ نے لوگوںتک دعوت توحید پہنچائی۔ آپؐ کو اللہ تعالیٰ نے عالم گیر رسول بناکر بھیجا ہے اور آپؐ کی دعوت کسی قبیلے ،علاقے یا قوم یا کسی مخصوص زمانے تک نہیں بلکہ اقوام عالم اور قیامت تک تمام انسانوں کے لیے ہے اور اسی دعوتِ حق میں تمام انسانوں کے لیے فلاح ونجات ہے۔یہ دعوت سب سے پاکیزہ اور متوازن نظام زندگی پیش کرتی ہے۔ اس سے بہتر کوئی دعوت نہیں ہوسکتی ۔اس مقدس دعوت کی آغوش میں جو شخص بھی آتا ہے اس سے بڑا کوئی خوش قسمت نہیں ہوسکتا ۔
۱- مولانا حفظ الرحمان سیوہاروی ، قصص القرآن ، (مکتبہ قاسمیہ اردو بازار لاہور )، جلد اوّل، ص۸۵
۲- ابو الفداء اسماعیل بن کثیر ، قصص الانبیا ، (دارالحدیث القاہرہ، ۲۰۰۴ )،ص۶۰
۳- قصص القرآن ، جلد اول، ص۱۰۴
۴- ڈاکٹر شوقی ابو خلیل ،اطلس القرآن (اردو ترجمہ: حافظ محمد امین )، (مکتبہ دار السلام، ۱۴۲۴)، ص۶۳
۵- مولانا امین احسن اصلاحی ، تدبر قرآن ، جلد :اول (فاران فائونڈیشن، لاہور، جون ۱۹۹۶ء)،ص ۳۴۶
۶- اطلس القرآن ،ص۱۲۸
۷- سیّدمودودی ، تفہیم القرآن ، (ادارہ ترجمان القرآن ، لاہور، ۲۰۰۳ء) ،جلد دوم، ص۵۴-۵۵
۸- مسلم ، باب وَأَنذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْأَقْرَبِیْن
۹- ابن ہشام ، السیرہ النبویہ، ص ۳۸۶
۱۰- سیرت ابن اسحاق، محمد بن اسحاق بن یسار،تحقیق و تعلیق : ڈاکٹر محمد حمیداللہ، (نئی دہلی ۲۰۰۹ء)، ص ۳۲۶
ہم نبی رحمتؐ کی امت ہیں۔ وہ رحمت ہی نہیں رحمۃ للعالمین ہیں۔ آپؐ کی حیات طیبہ زندگی کے ہر شعبے میں مکمل رہنمائی فراہم کرتی ہے۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ معمولی معمولی باتوں پر اچھے بھلے لوگ آپے سے باہر ہوجاتے ہیں۔ معاشرے میں بلکہ گھروں اور خاندانوں میں معمولی تکرار کے نتیجے میں لوگوں کے انتقامی جذبات بھڑک اٹھتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں کتنی مار پٹائی اور خون ریزی ہوتی ہے، ہر آدمی جانتا ہے۔ دراصل یہ سب کچھ ذہنی وفکری تربیت کے فقدان کا نتیجہ ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ غصہ شیطان کی طرف سے اکساہٹ کے نتیجے میں ہوتا ہے۔ ایک صحابی آںحضورؐ کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کیا یارسولؐ اللہ مجھے نصیحت فرمائیے۔ آپؐ نے فرمایا: لَا تَغْضَبْ، یعنی غصہ نہ کیا کر۔ انھوں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ کچھ مزید فرمایئے۔ آپؐ نے پھر فرمایا: غصہ نہ کیا کر۔ جب انھوں نے تیسری مرتبہ درخواست کی تو بھی آپؐ نے وہی نصیحت فرمائی۔ ( بخاری، عن ابی ہریرہؓ)
آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کےخادمِ خاص حضرت انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ میں نے ۱۰سال آپؐ کی خدمت کی۔ اس عرصے میں کم سنی کی وجہ سے مجھ سے کبھی کوئی کوتاہی اور غلطی بھی ہوجاتی تھی مگر آپؐ نے کبھی ایک دن بھی نہ مجھے ڈانٹا نہ سخت سُست کہا بلکہ ہرمرتبہ مجھے یَابُنَیَّ (اے میرے پیارے بیٹے) کہہ کر خطاب فرمایا۔حضرت انسؓ ہی کی روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا: اے بیٹے! کبھی کسی کے بارے میں دل میں میل نہ رکھنا، یہ میری سنت ہے اور جو میری سنت سے محبت کرے گا وہ جنّت میں میرے ساتھ ہوگا۔
حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی ہمیشہ اپنے غصے کو پی جاتے تھے۔ صحابہ کرامؓ کی آپؐ نے جو تربیت فرمائی اس کے مطابق صحابہ میں بھی یہ صفت بدرجہ اتم پائی جاتی تھی۔ انسان کی طبیعت میں اللہ نے نرمی وگرمی، غصہ ومحبت، شیرینی وتلخی اور عفو وانتقام کا عجیب امتزاج پیدا کیا ہے۔ یہ سارے جذبات ہر ابن آدم کے اندر پائے جاتے ہیں۔ ان کے اندر توازن، انسانی شخصیت کا حُسن کہلاتا ہے اور ان میں سے منفی جذبات کو کنٹرول کرکے مثبت جذبات کو پروان چڑھانا، حُسن وجمال اور کمال انسانیت ہے۔ یہ صفات بہت عظیم اور یہ کام بہت اچھا ہے مگر اس میں بڑی محنت لگتی ہے اور یہ رُتبۂ بلند اسی کو ملتا ہے، جسے خدا بخشے۔ خدا کی توفیق انھی کو ملتی ہے جو اس کے طلب گار ہوں۔ غصے کو پی جانا، عفوودرگزر اور مخلوق خدا کے ساتھ حسن سلوک کرنا متقین کی علامت اور اہلِ جنت کی صفت ہے۔ اللہ کا ارشاد ہے: ’’دوڑ کر چلو اس راہ پر جو تمھارے رب کی بخشش اور اس جنت کی طرف جاتی ہے جس کی وسعت زمین اور آسمانوں جیسی ہے، اور وہ ان خدا ترس لوگوں کے لیے مہیا کی گئی ہے جو ہر حال میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں، خواہ بدحال ہوں یا خوش حال، جوغصے کو پی جاتے ہیں اور دوسروں کے قصور معاف کردیتے ہیں۔ ایسے نیک لوگ اللہ کو بہت پسند ہیں‘‘۔ (اٰلِ عمرٰن ۳: ۱۳۳-۱۳۴)
ہمارے آقا ومولاؐ غصے کو پی جانے والے، عفوودرگزر کا مجسمہ تھے۔ آپؐ احسان وانعام سے دشمنوں کو بھی نوازدینے والے عظیم انسان تھے۔ آپؐ کی زندگی میں جو مشکل ترین لمحات آئے، ان میں سفر طائف خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ قبیلہ بنوثقیف کے تینوں سرداروں نے آپؐ کے ساتھ توہین آمیز رویہ اختیار کیا۔ یہ بدبخت آں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جس طرح پیش آئے وہ کمینگی کی بدترین مثال ہے۔ جوں ہی آپؐ ان کی مجلس سے نکلے، یہ بھی آپؐ کے پیچھے پیچھے نکل کھڑے ہوئے اور اپنے بدقماشوں اور لونڈوں کو اشارہ کیا۔ وہ آںحضورصلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتے جاتے اور آپ کا مذاق اڑاتے، تالیاں بھی پیٹتے۔ یہی نہیں آںحضورصلی اللہ علیہ وسلم پر ہرجانب سے پتھروں کی بارش بھی شروع ہوگئی۔ آپؐ پر اتنے پتھر برسائے گئے کہ آپؐ لہولہان ہوگئے، جوتے خون سے بھر گئے۔ جب آپؐ تھک ہار کر کہیں بیٹھ جاتے تو وہ آپؐ کو بازؤں سے پکڑ کر کھڑا کردیتے، جب چلنے لگتے توپھر اپنی اسی خباثت کا اعادہ کرتے۔ یہاں تک کہ آںحضورصلی اللہ علیہ وسلم شہر سے باہر نکل آئے۔
مؤرخ ابن سعد کے مطابق آں حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے طائف کے علاقے میں دس دن گزارے اور جب آپؐ پر ظلم وستم شروع ہوا تو زید بن حارثہؓ آپ کی ڈھال بن گئے اور وہ بھی زخمی ہوئے۔ آں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں پر پتھر مارے گئے، جب کہ زید بن حارثہؓ کے سر کو نشانہ بنایا گیا۔ لیکن انھیں اپنی جان کی فکر نہیں تھی، وہ آں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے غم میں ہلکان ہوئے جارہے تھے۔ وادیِ نخلہ میں بھی آپ کئی دن ٹھیرے رہے۔ زید بن حارثہؓ آپؐ کے زخموں کو چشمے کے پانی سے صاف کرتے اور ان پر پٹی باندھتے۔ ایک دن زید بن حارثہؓ نے روتے ہوئے کہا: ’’یارسولؐ اللہ ! اب آپؐ قریش کے پاس کیسے جائیں گے،جب کہ انھوں نے اپنے طرزِ عمل سے آپؐ کو مکہ سے نکال دیا ہے۔‘‘ ایسی نازک گھڑی میں جس پختہ ایمان اور عزمِ صمیم کے ساتھ آپؐ نے اپنی کامیابی کو یقینی قرار دیا، وہ ایک نبی ہی کی شان ہے۔ یارب صلّ وَسَلِّمْ عَلَیْہِ! آپؐ نے فرمایا: یَا زَیْدَ! اِنَّ اللّٰہ جَاعِلٌ لِمَا تَرَی فَرَجًا وَمَخْرَجًا وَاِنَّ اللّٰہَ نَاصِرُ دِیْنِہٖ وَمُظْہِرُ نَبِیِّہٖ، ’’اے زیدؓ! کوئی غم نہ کر، یقینا اللہ تعالیٰ اس تنگی کو جو تو دیکھ رہا ہے فراخی میں بدل دے گا اور ان مشکلات کو ختم کردے گا اور یقینا اللہ اپنے دین کا مددگار اور اپنے نبی کی کامیابی کا ضامن ہے‘‘۔ (طبقات ابن سعد، ج۱، ص۲۱۲)
طائف سے واپسی پر آپؐ وادیِ نخلہ میں مقیم تھے۔ رات کا وقت تھا، آپؐ نے اللہ کے سامنے یہ دعا مانگی:
اَللّٰہُمَّ اِلَیْکَ اَشْکُوْ بَثِّیْ وَ حُزْنِیْ وَضُعْفَ قُوَّتِیْ وَقِلَّۃَ حِیْلَتِیْ وَہَوَ انِیَ عَلَی النَّاسِ۔ یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْن، اَنْتَ رَبُّ الْمُسْتَضْعَفِیْنِ، وَاَنْتَ رَبِّی اِلٰی مَنْ تَکِلُنِیْ؟ اِلٰی بَعِیْدٍ یَتَجَہَّمَنِیْ اَمْ اِلٰی عَدُوٍّ مَلَّکْتَہٗ اَمْرِیْ؟ اِنْ لَّمْ یَکُنْ بِکَ غَضَبٌ عَلَیَّ فَلَا اُبَالِیْ، وَلٰکِنْ عَافِیَتَکَ ہِیَ اَوْسَعُ لِیْ، اَعُوْذُ بِنُوْرِ وَجْہِکَ الَّذِیْ اَشْرَقَتْ لَہُ الظُّلُمَاتُ، وَصَلُحَ عَلَیْہِ اَمْرُ الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ مِنْ اَنْ تُنْزِلَ بِیْ غَضَبُکَ، اَوْ تَحُلَّ عَلَیَّ سَخَطُکَ، لَکَ الْعُتْبٰی حَتّٰی تَرْضٰی، لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِکَ، اے اللہ! میں تیرے حضور اپنی مصیبت اور الم وغم، بے بسی اوربے چارگی اور لوگوں کی نگاہ میں اپنی بے قدری وبے وقعتی کا شکوہ پیش کرتا ہوں۔ اے ارحم الراحمین! کمزوروں اور ضعیفوں کا تو رب ہے اور میرا رب بھی تو ہی ہے۔ اے اللہ تو مجھے کس کے حوالے کررہا ہے؟ کسی بیگانے کے حوالے جو میرے ساتھ درشت رویہ اختیار کرے یا کسی دشمن کے سپرد کررہا ہے جو مجھ پر حاوی ہوجائے۔ اے اللہ! اگر تو مجھ سے ناراض نہیں تو پھر مجھے کسی کی کوئی پروا ہے نہ کسی مصیبت کا غم۔ اگر تیری جناب سے مجھے عافیت نصیب ہوجائے تو اس میں میرے لیے کشادگی ہی کشادگی ہے۔ اے اللہ! تیری ذاتِ بابرکات کے اس نور کا واسطہ دے کر خود کو تیری پناہ میں دیتا ہوں جو تاریکیوں کو روشنی میں بدل دیتا ہے اور دنیا وآخرت کے ہر معاملے کو درست فرمادیتا ہے۔ اے اللہ! میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں کہ کبھی تیرا غضب مجھ پر نازل ہو یا میں تیری ناراضی کی زد میں آجاؤں۔ میں تو تیری رضا پہ راضی ہوں اور آرزو ہے کہ تو بھی مجھ سے راضی ہوجائے۔ مولاے کریم! تیرے بغیر نہ کوئی زور ہے نہ طاقت۔ (تفسیرابن کثیر، جزالسادس، سورئہ احقاف، ص۲۹۲؛ البدایۃ والنہایۃ، جلداول، ص۵۳۷)
ابن ہشام نے اپنی تصنیف السیرۃ النبویہ کے صفحہ ۴۲۰ پر یہی دعا لکھی ہے۔ یہ دعا اتنی عظیم الشان ہے کہ اللہ کے راستے میں کام کرنے والوں کو ہرروز مانگنی چاہیے۔ کچھ بعید نہیں کہ آں حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے طائف سے نکلنے پر بھی، پھر وادیِ نخلہ میں قیام اور اس کے بعد حرا پہنچنے تک کے دنوں میں مسلسل اس کا ورد کیا ہو۔ اس کا ایک ایک لفظ دل میں اترتا ہے اور اگر حضوریِ قلب اور مکمل عاجزی کے ساتھ یہ دعا رب ذوالجلال کے حضور پیش کی جائے تو اس کی قبولیت میں کوئی شک نہیں۔ آج اہلِ اسلام پوری دنیا میں ظلم کی جس چکی میں پس رہے ہیں، اسے دیکھ کر دل شق ہوجاتا ہے اور کلیجہ منہ کو آنے لگتا ہے۔
سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ ،سورۂ احقاف کے دیباچے میں لکھتے ہیں:’’دل شکستہ وغم گین پلٹ کر جب آپ قرن المنازل کے قریب پہنچے تو محسوس ہوا کہ آسمان پر ایک بادل سا چھایا ہوا ہے۔ نظر اٹھاکر دیکھا تو جبریلؑ سامنے تھے۔ انھوں نے پکار کر کہا: ’’[اے محمدؐ!] آپؐ کی قوم نے جو کچھ آپؐ کو جواب دیا ہے اللہ نے اسے سن لیا۔ اب یہ پہاڑوں کا منتظم فرشتہ اللہ نے بھیجا ہے، آپؐ جو حکم دینا چاہیں اسے دے سکتے ہیں۔ پھر پہاڑوں کے فرشتے نے آپؐ کو سلام کرکے عرض کیا: آپؐ فرمائیں تو دونوں طرف کے پہاڑ ان لوگوں پر الٹ دوں؟‘‘ آپ نے جواب دیا: ’’نہیں، بلکہ میں اُمید رکھتا ہوں کہ اللہ ان کی نسل سے وہ لوگ پیدا کرے گا جو اللہ وحدہٗ لاشریک کی بندگی کریں گے۔‘‘ (تفہیم القرآن، جلدچہارم، ص۵۹۷-۵۹۸ بحوالہ، بخاری و مسلم)
آپؐ کی زندگی کا نازک ترین لمحہ سفر ہجرت کے لیے نکلنا تھا۔ ہجرت کے موقعے پر آپؐ کے گھر کا محاصرہ کرنے والے چودہ افراد تھے جو آپؐ کو قتل کرنا چاہتے تھے۔ ان میں سے گیارہ بدر کے میدان میں قتل ہوگئے۔ باقی جو تین بچے انھیں فتح مکہ کے موقعے پر آں حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے اتنا نوازا کہ اس کی مثال نہیں ملتی۔ اسی سفر کے دوران جب آپؐ کو پکڑنے کے لیے لوگ آپؐ کا تعاقب کررہے تھے تو سراقہ بن مالک آپؐ تک پہنچنے میں کامیاب ہوگیا، مگر آپؐ اللہ کی حفاظت میں تھے۔ سواونٹوں کے لالچ میں آنے والا یوں بے بس ہوا کہ مجبوراً اسے کہنا پڑا اے عبدالمطلب کے بیٹے! مجھے معاف فرمادیجیے۔ آپؐ نے کہا میں نے تمھیں معاف کردیا۔ اس نے درخواست کی کہ مجھے لکھ بھی دیجیے تو آں حضوؐرنے حضرت ابوبکرؓ سے فرمایا کہ اسے لکھ کر دے دیں۔ یہ ایک معجزہ ہے جس میں آںحضورؐ کی علم دوستی کے ساتھ عفوودرگزر کا بھی اظہار ہوتا ہے۔ اس دور میں قیصر وکسریٰ کے لیے بھی ہنگامی سفر کے دوران کسی کو تحریر لکھ کر دینا ناممکن تھا۔ آںحضورؐ کے صحابہ پہلی وحی آنے کے بعد قلم ودوات اپنے ساتھ رکھتے تھے۔ (سیرۃ ابن ہشام، القسم الاول، ص۴۸۸-۴۸۹)
آپؐ نے سراقہ کو یہ بھی کہا کہ اس کے ہاتھوں میں ایک دن کسریٰ کے سونے کے کنگن پہنائے جائیں گے۔ سراقہ کو یقین نہ آیا، مگر تاریخ نے دیکھا کہ یہ قولِ رسولؐ سچ ثابت ہوا اور حضرت عمرؓ کے دور میں حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے مدائن فتح کیا تو کسریٰ کے سونے کے کنگن بھی مالِ غنیمت میں مدینہ بھیجے۔ حضرت عمرؓ نے یہ کنگن سراقہ کے ہاتھ میں پہنائے اور پھر فرمایا کہ یہ اپنی بیوی، بیٹی یا بہو کو دے دینا۔ کیوںکہ آںحضورؐ نے آخری ایام میں اپنی امت کے مردوں کے لیے سونا اور ریشم پہننا ممنوع قرار دے دیا تھا۔ فتح مکہ کے وقت سراقہ مسلمان ہوگئے اور آنحضورؐ کی خدمت میں مکہ کے باہر وادیِ جعرانہ میں حاضر ہوئے۔ آپؐ کی تحریر کردہ امان جو چمڑے کے ٹکڑے پر لکھی ہوئی تھی آپؐ کو دکھائی تو آپؐ نے فرمایا آج کا دن نیکی اور وفا کا دن ہے۔ پھر صحابہؓ کو حکم دیا کہ سراقہ کو سوبکریاں دے دو۔ یہ ہے اسوۂ رسولؐ۔ (البدایۃ والنہایۃ، ج۱، ص۵۶۶-۵۶۷)
آں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں لڑی جانے والی جنگوں میں پہلا معرکہ غزوۂ بدر تھا۔ اس میں ۳۱۳صحابہؓ کو کفارِ مکہ کے ایک ہزار کے لشکر پر عظیم الشان فتح ملی۔ ۷۰ دشمن تہہ تیغ ہوگئے اور ۷۰ جنگی قیدی بنا لیے گئے۔ آپؐ نے اپنے شہید ہونے والے چودہ صحابہ کو جب بدر کے میدان میں دفن کیا تو صحابہ کو حکم دیا کہ کفار کی بکھری ہوئی لاشوں کو بھی ایک گڑھا کھود کر اس میں دفن کردیں۔ اسی موقعے پر آپؐ نے ان دشمنوں کے بارے میں کہا کہ ہر انسان کا یہ حق ہے کہ اسے موت کے بعد دفن کیا جائے تاکہ درندے اس کی لاش کی بے حرمتی نہ کریں۔ جہاں تک جنگی قیدیوں کا تعلق ہے تو ان کے بارے میں آں حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ان میں سے ہر ایک کو کھانا کھلایا جائے، زخمیوں کی مرہم پٹی کی جائے اور جن کے کپڑے پھٹ گئے ہیں ان کو نئے کپڑے پہنائے جائیں۔ صحابہؓ نے اس پر عمل کیا۔ اس طرزِ عمل کے نتیجے میں بہت سارے جنگی قیدی اسلام میں داخل ہوئے۔
ایک جنگی قیدی سہیل بن عمرو قریش کے سرداروں میں سے تھا۔ وہ شعلہ نوا خطیب تھا اور اسلام کے خلاف کفار کو ابھارتا رہتا تھا۔ حضرت عمرؓ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ اس کے دانت تڑوادیں تاکہ اس کی شعلہ نوائی ختم ہوجائے۔ آپؐ نے فرمایا کہ اے عمر یہ جنگی قیدی ہے۔ اگر میں اس کے ساتھ یہ سلوک کروں گا تو اللہ میرے دانت تڑوا دے گا، حالانکہ میں اس کا سچا رسولؐ ہوں۔ ساتھ ہی فرمایا تمھیں کیا معلوم کہ ایک دن اس کی خطابت سے تمھارے دل ٹھنڈے ہوجائیں۔ (سیرۃ ابن ہشام، القسم الاول، ص۶۳۸، ۶۴۹)
آں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان آپؐ کی رحلت کے بعد مکمل طور پر امت کے سامنے آیا۔ جب ہر جانب اسلام کے خلاف بغاوت شروع ہوگئی تو مکہ میں سہیل بن عمروؓ تلوار لے کر خانہ کعبہ میں آئے اور تمام قریش کو پکارا۔ جب سب لوگ آگئے تو فرمایا: خبردار اگر کسی نے اسلام کے خلاف کوئی حرکت کی۔ اگر کوئی بغاوت کرے گا تو اس کی گردن کاٹ دی جائے گی۔ مکہ میں صورت حال ایسی تھی کہ مکہ کے گورنر حضرت عتاب بن اسیدؓ بھی مکہ سے نکل کر پہاڑوں میں چلے گئے تھے۔ اس موقعے پر حضرت سہیل بن عمروؓ نے صورت حال کو جس طرح سے سنبھالا اس کی خبر مدینہ میں پہنچی تو حضرت عمرؓ کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے اور انھوں نے کہا: اللہ کے رسولؐ کا ہرفرمان سچ ثابت ہوا۔ (الاصابہ، ج۲، ص۹۲، سیرۃ ابن ہشام،القسم الثانی، ص۶۶۵)
مکی زندگی میں آپؐ پر بے انتہا مظالم ڈھائے گئے۔ ان کی تفصیل پڑھ کر بندۂ مومن کی آنکھوں سے آنسو نکل آتے ہیں۔ جس شہر کے لوگوں نے آپؐ سے دشمنی میں ہر انسانی اخلاق پامال کیا، اسے اللہ نے آپؐ کے سامنے سرنگوں کردیا۔ مکہ میںآپؐ رمضان ۸ھ میں فاتحانہ داخل ہوئے تو آپؐ کے ایک علَم بردار سعد بن عبادہؓ جوش ایمانی سے پکار اٹھے: اَلْیَوْمَ یَوْمُ الْمَلْحَمَۃِ، اَلْیَوْمَ تُسْتَحَلُّ الْحُرْمَۃُ، یعنی آج خون ریزی اور قتل کا دن ہے، آج حرمتیں حلت میں بدل جائیں گی۔ یہ بات، آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے جاں نثار صحابہ عثمان بن عفانؓ اور عبدالرحمان بن عوفؓ نے بھی سنی اور سردار قریش، ابوسفیان، جو حضرت عباسؓ کی پناہ میں تھا اور یہ منظر دیکھ رہا تھا، اس کے کان بھی اس نعرے سے آشنا ہوئے۔ جب آپؐ کے علم میں یہ بات لائی گئی تو آپؐ نے فرمایا: نہیں، آج کا دن خون ریزی کا دن نہیں بلکہ کعبہ کی تعظیم اور اہل مکہ کی عزت کا دن ہے۔ فاتح اعظم ؐ فتح کی گھڑی میں فرمارہے تھے کہ خون کی ندیاں نہیں رحمت کا دریا بہے گا۔ پھر آپؐ نے حضرت سعدؓ سے جھنڈا واپس لے لیا۔ یہ جھنڈا کسی اور صحابی کو بھی دیا جاسکتا تھا مگر دُوررس نگاہ رکھنے والے سالارِ اعظم نے حضرت سعدؓ کے بیٹے حضرت قیسؓ کو جھنڈا مرحمت فرمادیا۔ اب مکہ میں فاتحانہ داخل ہونے کے بعد آپؐ نے سب سے پہلے خانہ کعبہ کو بتوں سے پاک کیا۔ خانہ کعبہ کے اندر آپؐ کے ساتھ اسامہ بن زیدؓ، علی بن ابی طالبؓ اور سیدنا بلالؓ موجود تھے۔ (البدایۃ والنہایۃ، جلد اول، ص۸۴۸)
خانہ کعبہ میں نفل ادا کرنے کے بعد آپؐ نے خانہ کعبہ کے دروازے میں کھڑے ہوکر مجمع پر نظرڈالی۔ سرکش قریش آج مغلوب تھے۔ اکڑی ہوئی گردنیں خمیدہ تھیں۔ آپؐ نے ایک مؤثر خطبہ دیا، جس میں اللہ کی توحید وعظمت، اس کی مدد ونصرت، اس کے وعدوں کی صداقت اور اسلام دشمن قوتوں کی شکست کا ذکر تھا۔ پھر آپؐ نے انسانیت کی مساوات کا تذکرہ فرما کر کبرونخوت کو اپنے پاؤں کے نیچے روند ڈالنے کا اعلان فرمایا۔ اب قریش دم سادھے منتظر تھے کہ ان کے بارے میں کیا حکم صادر ہوتاہے۔ آپؐ مجمع سے مخاطب ہوئے اور فرمایا: ’’اے اہلِ قریش، تمھارا کیا خیال ہے میں تمھارے ساتھ کیا سلوک کرنے والا ہوں؟‘‘ وہ بہ یک زبان پکار اٹھے، ہمیں آپؐ سے حُسنِ سلوک کی امید ہے۔ آپؐ ، ہمارے مہربان بھائی اور مہربان بھتیجے ہیں۔ یہ بے بسی کا اظہار بھی تھا اور حقیقت کا اعتراف بھی۔ یہ انھی لوگوں کی زبان سے سامنے آرہا تھا، جنھوں نے خود کو ہمیشہ سرکش اور ناقابلِ شکست قرار دیا تھا اوراس مہربان بھائی اور بھتیجے کو ہمیشہ بے وقعت گردانا تھا۔
اب ہمارے آقا ومولا عظمتوں اور رفعتوں کے امین نے فرمایا: ’’میں تم سے وہی بات کہوں گا، جو میرے بھائی یوسفؑ نے مصر کے تخت پر بیٹھے اپنے برادران سے کہی تھی: لَاتَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ، اِذْھَبُوْا فَاَنْتُمُ الطُّلَقَاء، یعنی آج تم سے کوئی مواخذہ نہیں کیا جائے گا۔ جاؤ تم سب آزاد ہو۔مکہ میں داخل ہوتے وقت آپؐ نے یہ بھی اعلان فرمایا تھا کہ جو شخص مسجد حرام میں داخل ہوجائے، اس سے کوئی مواخذہ نہ کیا جائے، جو ابوسفیان کے گھر میں داخل ہوجائے یا اس کی دیوار کے سایے میں بیٹھ جائے، اس سے بھی کوئی مواخذہ نہ کیا جائے۔ اللہ کے گھر کی تعظیم کرنے والے نے اپنے دشمن کو بھی تکریم کا مستحق قرار دیا، سبحان اللہ۔ (البدایۃ والنہایۃ، جلد اول، ص۸۴۸، ۸۵۴)
آپؐ نے کچھ دن مکہ میں قیام فرمایا، مختلف مواقع پر خطبات عام سے بھی اہلِ مکہ کو نوازا۔ اسی دوران آپؐ کی خدمت میں ابوجہل کی بہو اور عکرمہ کی بیوی ام حکیم حاضرہوئی، جس کے ساتھ عکرمہ کے چھوٹے چھوٹے بچے بھی تھے۔ آپؐ نے دشمن کی بیوی اور بہو کو بھی پورا پورا احترام دیا اور اپنے مدمقابل کے بچوں کے سرپہ دستِ شفقت رکھااور صرف یہی نہیں بلکہ کمالِ محبت سے ان کے باپ کا حال پوچھا اور اس کے بارے میں نیک جذبات کا اظہار کیا۔ پھر جب عکرمہ واپس مکہ آیا تو آںحضورؐ نے اسے حرم میں باب بنو شیبہ سے داخل ہوتے دیکھ کر فرمایا: ’’خوش آمدید گھر بار چھوڑ کر جانے والے‘‘ اور کھلے ہوئے بازؤں کے ساتھ اسے سینے سے لگا لیا۔ احد کے میدان میں آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو شدید بدنی وذہنی زخم لگائے گئے۔ آپؐ کے محبوب چچا، سیّدالشہدا حضرت حمزہ بن عبدالمطلبؓ کی لاش کا مثلہ کیا گیا۔ حضرت حمزہؓ کا کلیجہ چبانے والی ہند بنت عتبہ بھی بیعت کے لیے حاضرہوئی مگر اللہ کے رسولؐ نے نہ صرف یہ کہ اسے معاف فرمادیا بلکہ اس دردناک واقعے کی طرف کوئی اشارہ تک نہ کیا۔ انسان اگر بے بس ہو اور اپنے اعدا سے بدلہ نہ لے سکے تو بھی اس کا صبر، اس کے لیے باعث خیر ہے، تاہم وہ انتقام پر قادر ہو اور خوفِ خدا سے سرشار ہوکر انتقام کے بجاے عفوودرگزر کا مظاہرہ کرے، تو یہ انسانیت کی معراج ہے۔ (سیرۃ ابن ہشام، القسم الثانی، ص۴۱۸)
اسوۂ رسولؐ اس امت کی راہ نمائی کے لیے کمال حسن وخوبی کے ساتھ سیرت میں جلوہ افروز ہے۔ انسان کی عظمت یہ نہیں کہ وہ اینٹ کا جواب پتھر سے دے۔ عظمت یہ ہے کہ قوت کے باوجود انسان اپنے آپ پر کنٹرول رکھے اور مدمقابل کو معاف فرمادے۔ آپؐ کا ارشاد ہے: لَیْسَ الشَّدِیْدُ بِالصُّرَّعَۃِ، اِنَّمَا الشَّدِیْدُ مَنْ یَّمْلِکُ نَفْسَہُ عِنْدَ الْغَضَبِ (متفق علیہ، عن ابی ہریرہؓ)، قوت اور بہادری کسی کو پچھاڑ دینے کا نام نہیں بلکہ بہادر اور قوی وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے نفس کو آپے سے باہر نہ ہونے دے۔
ہم پستی سے بلندی کی طرف اٹھنا چاہیں تو یہ ارادہ بڑا مبارک ہے۔ اس ارادے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اسوۂ رسولؐ کی پیروی کامیابی کی یقینی کلید ہے۔ انسان کمزور ہے اور مغلوب الغضب ہوجاتا ہے۔ آتش انتقام بھڑک اٹھے تو اسے ٹھنڈا کرنا مشکل ہوتا ہے۔ ان سارے مشکل اور کٹھن مرحلوں کو کامیابی سے سرکرنے کے لیے ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے اتباع رسولؐ ۔ اسی سے بندہ، اللہ کا محبوب اور بخشش خداوندی کا مستحق بنتا ہے۔ خود اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’ اے نبیؐ! لوگوں سے کہہ دو کہ اگر حقیقت میں تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی اختیار کرو۔ اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمھاری خطاؤں سے درگزر فرمائے گا۔ وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحیم ہے‘‘۔(اٰلِ عمرٰن۳:۱۳)
قارئین محترم! آئیں سچے دل سے ارادہ باندھ لیں اور اللہ سے عہد کریں کہ اتباع رسولؐ میں ہم بھی غصہ وانتقام کی آگ بھڑکانے کی بجاے عفوودرگزر کا مرہم زخموں پر رکھیں گے۔ غصے پر قابو پانا سنتِ رسولؐ ہے۔ مخالفین کو معاف کردینے والا روزِ محشر اللہ کے ہاں معافی کا مستحق قرار پائے گا اور ہر ایک کا دل اور جسم زخمی کرنے والا، انتقام کی آگ میں جلنے والا رحمت ربّانی سے محروم ہوگا۔اسوۂ رسولؐ کی پیروی کرنے والا تو ایسا عظیم انسان ہوتا ہے کہ اللہ کی رضا اور مخلوق کی محبت ووفا اس کا مقدر بن جاتی ہے:
کی محمدؐ سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح وقلم تیرے ہیں
آپ معاشرے کے وہ منتخب، سنجیدہ اور فہمیدہ لوگ ہیں ، جو اپنے اپنے شعبۂ علم میں سند کا درجہ رکھتے ہیں۔ اس اعتبار سے دلی مبارک باد اور بھرپور تحسین کے مستحق ہیں کہ اسلام کے غلبے اور ملک و ملّت کی فلاح کے لیے کوشاں ہیں۔ پھر یہ حقیقت بھی اپنے ذہن میں تازہ رکھتے ہیں کہ علّامہ محمد اقبال جیسے عاشقِ قرآن اور عاشقِ رسولؐ نے اس مملکت کا تصور پیش کیا۔ قائداعظمؒ ایک اسلامی، فلاحی اور جمہوری ریاست کا قیام عمل میں لائے، اور مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی نے قیامِ پاکستان کے بعد اسے ایک واضح نظریاتی اور آئینی سمت دی۔
ہم آج جس ماحول میں سانس لے رہے ہیں، اس میں دنیا کی فکری سمت بڑی تیزی سے بدل رہی ہے۔ دنیا کا نقشہ بھی بدل رہا ہے، ٹکنالوجی کی تیزرفتار ترقی اور میڈیا کی یلغار نے معاشرے کی قدروں کو بدل کے رکھ دیا ہے۔ طریقۂ تعلیم اور معیارِ تعلیم کے زاویے بدل گئے ہیں۔ سرمایے کی گردش نے سوچ، فکر اور نظریات کو تبدیل کر دیا ہے۔ وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم نے خاص طور پر ہمارے معاشرے کو تتربتر کرنا شروع کر دیا ہے۔ اچھی حکمرانی ایک خواب لگتا ہے۔ معاشرتی نظم و ضبط زوال پذیر ہے۔ دورِحاضر کے ان چیلنجوں سے آج کا پاکستان اور اسلامی تحریک بھی اسی شدت سے دوچار ہیں۔ ان سے نکلنے کے لیے ایک نقشۂ کار کی ضرورت ہے۔
اس حوالے سے کرنے کا سب سے پہلا کام یہ ہے کہ اہلِ علم آپس میں ملیں اور ایک دوسرے کی صلاحیتوں کے بارے میں آگاہ ہوں۔ پھر درپیش مسائل و مشکلات سے نمٹنے کے لیے باہم مشورہ کریں۔
علم، اللہ تعالیٰ کا ایک نہایت بیش قیمت تحفہ ہے۔ اس لیے جو صاحب ِ علم ہیں، ان کی یہ ذمہ داری ہے کہ علم کی اس روشنی کو اللہ کی اطاعت اور بندوں کی فلاح کے لیے استعمال کریں۔
اسی طرح علم کا تعلق دعوت سے بھی ہے۔ دعوت نام ہے اسلام کی طرف بلانے اور دلائل کے ساتھ اسے اللہ کے بندوں کے سامنے پیش کرنے کا، اور زندگی کے مسائل کو اسلام کی روشنی میں حل کرنے کی کوشش کرنے کا۔ اسی طرح دعوت نام ہے شکوک و شبہات کو دُور کرنے کا۔ اسلام کا علم جتنا زیادہ پھیلے گا، شہادتِ حق کا کام اسی قدر آسان ہوگا اور عوام الناس اسی رفتار سے اسلام کے دامنِ رحمت میں پناہ لینے آئیں گے۔
سیاسی، معاشی، معاشرتی اور تہذیب و تمدن کی سطح پرکوئی پیش رفت، علمی جدوجہد کے بغیر نہیں کی جاسکتی، اور سیاسی کامیابی بھی دراصل علمی محاذ پر کامیابی کا نتیجہ ہوتی ہے۔ اسلام کا غلبہ علمی خدمت کے بغیر ممکن نہیں۔ اصحابِ علم و دانش کی قیادت، فکری رہنمائی اور علمی لحاظ سے برتری کامیابی کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔ اِسی فرض اور ذمہ داری کا شعور اُجاگر کرنا موجودہ زمانے کا سب سے اہم چیلنج ہے۔
مستقبل میں تحریک اسلامی کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ تحریک ِ اسلامی ایک علمی تحریک کے طور پر اپنی نظریاتی ساکھ کو ٹھوس بنیادوں پر مضبوط کرے، اپنے کارکنان اور اپنی قیادت کو علمی لحاظ سے مضبوط بنائے اور حق کی دعوت کو علم و دلیل کی قوت سے پیش کرے۔
پاکستان کی تعمیر و ترقی اور تحریک اسلامی کی جدوجہد سے وابستگی رکھنے والے تحقیق کاروں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ حق کی اشاعت کریں، باطل کے جھاڑ جھنکار کی صفائی کریں اور ایمان و یقین کی فضا کو چاروں طرف پھیلائیں۔ ان شاء اللہ، اس سے اسلام غالب ہوگا، معاشرے کی اصلاح ہوگی، سیاست، معیشت، معاشرت، ثقافت اور مملکت کے تمام شعبوں میں بہتری آئے گی۔
آج کی دُنیا پر نگاہ ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بظاہر بے پناہ مادی ترقی اور روز مرہ سہولتوں کی دست یابی کے باوجود انسانیت سسک رہی ہے، پریشان ہے، خوف زدہ ہے اور مایوس بھی۔ ان تکلیف دہ مسائل کی بڑی وجہ یہی ہے کہ دنیا کا نظامِ کار اور تبدیلی کا عمل توحید کے بنیادی تصورات پر مبنی نہیں ہے۔توحید سے انکار درحقیقت آخرت کی جواب دہی سے انکار ہے۔ یہ کمزوری یا بیماری ہی دراصل انسانی دُکھوں کا مرکز ہے۔ ہمیں توحید ، توحید کے پیغام اور توحید کے تقاضوں کو اپنے ایمان، اپنے علم اور اپنے طرزِ زندگی کا محور بنانا ہے۔
مولانا مودودی نے تحریکِ اسلامی کی کامیابی کی شرائط میں ایک جگہ فرمایا ہے: ’’دنیا میں جو نظامِ زندگی بھی قائم ہے اُن کو اعلیٰ درجے کے ذہین اور ہوشیار لوگ چلا رہے ہیں اور ان کی پشت پر مادی وسائل کے ساتھ عقلی اور فکری طاقتیں اور علمی و فنی قوتیں کام کر رہی ہیں۔ ان کے مقابلے میں ایک دوسرے نظام کو قائم کردینا اور کامیابی کے ساتھ چلا لینا کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہے۔ سادہ لوح خواہ کتنے ہی نیک اور نیک نیت ہوں اس سے عہدہ برآ نہیں ہوسکتے۔ اس کے لیے گہری بصیرت اور تدبر کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے دانش مندی اور معاملہ فہمی درکار ہے‘‘۔
اس پس منظر میں تحقیق،تحریر، مکالمے اور دانش کی دنیا سے تعلق رکھنے والے قابلِ قدر افراد سے تحریک اور اُمت کی بڑی توقعات وابستہ ہیں۔ انھیں رجحان ساز طبقے کی حیثیت سے رہنمائی کرنی ہے اور یہ کام کم از کم حسب ذیل نکات کی صورت میں ضرور کیا جانا چاہیے:
اس صورتِ حال میں ملک و ملّت کی آیندہ نسلوں کی ذمہ داری آپ کے سوا کون اُٹھا سکتا ہے کہ نوخیز نسل کے فکروعمل کو اسلام کی روح کے مطابق ڈھالا جائے۔ اس ضرورت کو اپنی تعلیم وتربیت کی بنا پر آپ ہی پورا کرسکتے ہیں۔
ہم چاہتے ہیں کہ آپ کی علمی کاوشیں تحریک اسلامی کی جدوجہد کا جزولاینفک بنیں۔ جماعت کے مرکزی شعبۂ تحقیق و تجزیہ اور ادارہ معارفِ اسلامی کراچی اور لاہور سے آپ کا براہِ راست تعلق بنے، تاکہ آپ کا تحقیقی کام تحریک اسلامی اور اسلامی و خوش حال پاکستان کے لیے ممدومعاون ثابت ہو۔
قائد اعظمؒ نے واشگاف لفظوں میں اس حقیقت کا اظہار کیا کہ تحریک پاکستان کا مقصد صرف ’آزادی ‘ نہیں بلکہ ’اسلامی نظریہ‘ ہے۔ سیکولر تہذیب کے علَم برداروں، انگریز اور کانگریس سے اس اصول کو تسلیم کرا لینا اور مغربی تہذیب کے غلبے کے دور میں ، جو مذہب اور ریاست کی علیحدگی کے اصول پر قائم ہے، اس نظریے کی بنیاد پر ایک آزاد ریاست کا قیام ملت اسلامیہ پر اللہ کا خصوصی کرم تھا۔ لیکن پاکستان میں سیکولر سوچ کا حامل ایک قلیل گروہ اس بنیاد کو کمزور اور پاکستان کے حقیقی وژن کو غبار آلود کرنے کے لیے مسلسل پروپیگنڈا کرتا رہتا ہے کہ قائد اعظمؒ تو پاکستان کو ایک سیکولر ریاست بنانا چاہتے تھے، اور نظریۂ پاکستان اور ’اسلام ‘ محض انتہا پسند ملاّئوں کی اختراع ہے۔ اس بات کو بعض سادہ لوح علما نے بھی قبول کر لیا کہ قائد اعظمؒ محض ایک سیاسی رہنما تھے اور ان کے پیش نظر کوئی اسلامی نظریہ نہ تھا۔
قائد اعظمؒ کی جس تقریر کی بنیاد پر ان کے تصّور ِ ریاست کو سیکولر قرار دیا جاتا ہے وہ ان کی ۱۱ ؍اگست ۱۹۴۷ء کی تقریر ہے۔ اقتباس ملاحظہ کریں:
You are free to go to your temples, you are free to go to your mosques or to any other places of worship in this state of Pakistan.
اب آپ آزاد ہیں۔ اس مملکت پاکستان میں آپ آزاد ہیں: اپنے مندروں میں جائیں، اپنی مساجد میں جائیں یا کسی اور عبادت گاہ میں___ مزید فرمایا :
میں سمجھتا ہوں کہ اب ہمیں اس بات کو ایک نصب العین کے طور پر اپنے پیش نظر رکھنا چاہیے اور پھر آپ دیکھیں گے کہ جیسے جیسے زمانہ گزرتا جائے گا نہ ہندو، ہندو رہے گا نہ مسلمان ، مسلمان۔ مذہبی اعتبار سے نہیں، کیوں کہ یہ ذاتی عقائد کا معاملہ ہے، بلکہ سیاسی اعتبار سے اور مملکت کے شہری کی حیثیت سے۔(قائداعظم: تقاریر و بیانات، ترجمہ: اقبال احمد صدیقی، بزمِ اقبال، لاہور،جلد چہارم، ۱۹۴۶ء- ۱۹۴۸ء،ص ۳۵۹-۳۶۰ )
یہ ہیں وہ الفاظ جن کی بنیاد پر قائد اعظمؒ کے ۱۹۳۷ء سے لے کر ۱۹۴۷ء تک کے تمام ارشادات کی نفی کی جاتی ہے۔ حالانکہ یہاں ان کا مقصد غیر مسلم اقلیتوں کو اس امر کا اطمینان دلانا ہے کہ تمام غیر مسلم اقلیتوں کو اس نئی اسلامی ریاست میں عقیدہ وعبادات اور معاشرتی ومذہبی رسوم ورواج کی ادایگی کی پوری آزادی ہو گی، نیز پاکستان میں کسی کو مذہبی جبر کا اختیار نہ ہو گا۔ قائد اعظمؒ جانتے تھے کہ مسلمانوں کی اکثریت کے ملک میں قانون سازی اسلامی اقدار کو سامنے رکھ کر ہی کی جائے گی۔ چنانچہ ۱۹۴۹ء میں جب ’قرار دار ِ مقاصد‘ پاس ہوئی تو اس میں وہ تمام باتیں شامل تھیں جو کسی بھی اسلامی دستور کا حصہ ہونا چاہییں۔
اب یہ بات انصاف کے منافی ہے کہ ایک شخص کے ایک جملے یا اقتباس کو لے کر اس کے دس سالہ تمام فرمودات اور اعلانات کی نفی کر دی جائے۔ قائد اعظمؒ کے بارے میں اس بات کو تو دوست دشمن سبھی تسلیم کرتے ہیں کہ وہ ہرگز دہرے کردار کے حامل سیاستدان نہ تھے۔ ایسے شخص کے بارے میں یہ کہنا کہ اس نے محض لوگوں کے جذبات کو اپیل کرنے کے لیے اسلام کا نام لیا ، بہت بڑی جسارت ہے۔ ذیل میںہم قائد اعظمؒ کے ان ارشادات کو پیش کرتے ہیں، جن سے یہ بات نکھر کر سامنے آتی ہے کہ قائد اعظمؒ نہ صرف اسلام کے مکمل ضابطہ ٔ حیات ہونے اور پاکستان کو اسلامی ریاست بنانے کے قائل تھے بلکہ وہ مغربی جمہوریت اور مغربی نظام معیشت سے نالاں تھے۔ بزمِ اقبال لاہور نے ان کے اخباری بیانات اور تقاریر اور ان کے ترجمے کو چار چار جلدوں میں شائع کیا ہے جن میں سے چند اقتباسات ملاحظہ ہوں۔
قائد اعظمؒ دین اسلام کو محض ایک پوجا پاٹ کا مذہب تصور نہ کرتے تھے بلکہ وہ اسے اجتماعی زندگی کا مکمل ضابطہ تصور کرتے تھے۔ وہ دین اسلام کو محض ایک مذہبی نظریہ نہیں بلکہ ایک حقیقت پسند اور عملی نظام تصور کرتے تھے۔ چنانچہ ۳فروری ۱۹۳۸ءکو طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا :
اسلام کے معنی صرف دین نہیں ہے۔ اسلام کا مطلب ہے ایک ضابطہ جس کا دنیا میں اور کوئی ثانی موجود نہیں ہے۔ یہ ہے ایک مکمل قانونی اور عدالتی نظام اور معاشرتی اور معاشی نظام۔ اس کے اساسی اور بنیادی اصول ہیں مساوات، اخوت اور آزادی۔
قائد اعظمؒ کے نزدیک اسلام محض روحانی نظریۂ نہیں بلکہ انفرادی واجتماعی زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی نظام ہے۔ ۸ ستمبر ۱۹۴۵ء میں قائد اعظمؒ کے ’پیغام عید ‘ کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
اسلام محض روحانی عقائد اور نظریات یا رسم و رواج کی ادایگی تک محدود نہیں ہے۔ یہ ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے اور پورے مسلم معاشرے پر محیط ہے۔ زندگی کے ہر شعبے پر من حیث المجموع اور انفرادی طور پر جاری و ساری ہے۔
کیا ان خیالات کے حامل شخص کو کسی طرح بھی سیکولر کہا جاسکتا ہے اور ان خیالات کا اظہار آپ نے پاکستان کے قیام سے صرف دو سال قبل کیا ہے۔
قائد اعظمؒ بھی علامہ اقبالؒ کی طرح قرآن کو روز مرّہ کے مسائل کا حل اور اجتماعی وانفرادی زندگی کا رہنما تسلیم کرتے تھے۔ ان کی نظر میں قرآن مسلمانوں کو سماجی وسیاسی ،معاشی وعسکری، عدالتی وتعلیمی میدانوں میں، نیز مذہبی رسوم سے لے کر روز مرہ زندگی تک، روحانی نجات سے لے کر جسمانی صحت تک، اخلاقیات سے لے کر جرم وسزا تک ہرمعاملے میں رہنمائی دیتا ہے۔ ۱۹۴۵ء میں اپنے ’عید کے پیغام‘ میں اس پر تفصیلی انداز سے فرمایا:
ہرمسلمان جانتا ہے کہ قرآنی احکام صرف مذہبی اور اخلاقی اُمور تک محدود نہیں ہیں۔ گبن کے بقول: اٹلانٹک سے گنگا تک قرآن کو ایک بنیادی ضابطےکے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے، نہ صرف دینیات کے اعتبا ر سے بلکہ سول اور فوجداری ضابطوں اور ایسے قوانین کے لحاظ سے جو بنی نوع انسان کے افعال اور املاک پر اللہ تعالیٰ کے غیرمبدل قوانین کے طور پر محیط ہے۔ جہلاکے سوا ہرشخص اس امر سے واقف ہے کہ قرآنِ کریم مسلمانوں کا عام ضابطۂ حیات ہے۔ ایک دینی، معاشرتی، سول، تجارتی، فوجی ، عدالتی ، فوجداری ضابطہ ہے۔ رسوم مذہب ہی سے متعلق نہیں بلکہ روزانہ زندگی سے متعلق بھی۔ روح کی نجات سے لے کر جسمانی صحت تک، حقوق العباد سے لے کر فردِ واحد کے حقوق تک، اخلاقیات سے لے کر جرائم تک، اس دنیا میں سزا سے لے کر عقبیٰ میں سزا تک۔ ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے لازمی قرار دیا کہ ہرمسلمان کے پاس قرآنِ کریم کا ایک نسخہ ہونا چاہیے تاکہ وہ اپنی رہنمائی خود کرسکے۔
قائد اعظمؒ نے ۱۴ فروری ۱۹۴۸ء کو سبّی دربار بلوچستان سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا :
میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات کا واحد ذریعہ اس سنہری اصولوں والے ضابطۂ حیات پر عمل کرنا ہے جو ہمارے عظیم واضع قانون (Law Giver ) پیغمبر ؐ اسلام نے ہمارے لیے قائم کر رکھا ہے ۔
سیکولر ازم کو جس بات سے سب سے زیادہ چڑہے، وہ اجتماعی وسیاسی معاملات میں دین ومذہب کا کردار ہے ، جب کہ انسانوں کی اصلاح وتربیت کے لیے اسلام کے پیش نظر جو انقلاب برپا کرنا ہے وہ اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک سیاست کو دین کے تابع نہ کر دیا جائے ورنہ بقول اقبال
قائد اعظمؒ پر مخالفین نے ایک الزام یہ لگایا کہ وہ سیاست کے اندر مذہب کو لا رہے ہیں جیسے کہ آج بھی نفاذِ اسلام چاہنے والوں پر یہ الزام لگایا جاتا ہے۔ قائد اعظمؒ بجاے اس پر کسی قسم کا معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرنے کے ،اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ ہمارے دین میں سیاست دین کے تابع ہے۔ یکم جنوری ۱۹۳۸ء کا ایک بیان ملاحظہ ہو:
بہت سے لوگ ہمیں غلط سمجھتے ہیں جب ہم اسلام کی بات کرتے ہیں، بالخصوص ہمارے ہندو دوست۔ جب ہم کہتے ہیں کہ یہ اسلام کا پرچم ہے، تو وہ سمجھتےہیں کہ ہم سیاست میں مذہب کو داخل کر رہے ہیں___ یہ ایک حقیقت ہے جس پر ہمیں فخر ہے!
قائد اعظمؒ کے بارے میں عمومی تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ وہ مغربی جمہوریت کے دل دادہ تھے۔ حالاںکہ جمہوریت پسند ہونے کے باوجود وہ مغربی جمہوریت سے سوفی فیصد متفق نہ تھے ۔ ان کے نزدیک ڈیمو کریسی گرگٹ کی طرح ہے جو حالات اور ماحول کے مطابق اپنا رنگ بدلتی رہتی ہے۔ ۱۱ نومبر ۱۹۳۹ء کو سول اینڈ ملٹری گزٹ میں ان کا شائع شدہ بیان ملاحظہ ہو جس میں وہ مغربی جمہوریت کے بجاے اسلامی مساوات اور آزادیِ اظہار کی تائید کرتے ہیں:
جمہوریت تخیل کے طور سے اور عمل کے اعتبار سے مختلف ہے، اور جمہوریت گرگٹ کی مانند ہے، جو ماحول کے مطابق اپنا رنگ بدلتی رہتی ہے۔ انگلستان میں جمہوریت اس وضع کی نہیں ہے جیسی کہ فرانس اور امریکا میں ہے۔ اسلام مساوات، آزادی اور اخوت کا قائل ہے، لیکن مغربی طرز کی جمہوریت کا نہیں۔
قائد اعظمؒ کس قسم کی جمہوریت چاہتے تھے وہ ہے اسلامی شورائیت ۔ چنانچہ ۱۴ فروری ۱۹۴۸ء کو سبّی دربار بلوچستان سے خطا ب میں فرمایا:
ہمیں اپنی جمہوریت کی بنیادیں سچے اسلامی اصولوں اور تصورات پر رکھنی چاہیے۔ اسلام کا سبق ہے کہ مملکت کے امور ومسائل کے بارے میں فیصلے باہمی مشورے سے کیا کرو۔
سیکولرازم قومیت کی بنیاد رنگ، نسل، وطن اور زبان کو قرار دیتا ہے لیکن اسلام قومیت کی ان تمام بنیادوں کو تسلیم نہیں کرتا۔ علی گڑھ یونی ورسٹی میں ۸ مارچ ۱۹۴۴ء کو اپنے خطاب میں فرمایا:
مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد صرف کلمۂ توحید ہے، نہ وطن ، نہ نسل۔ جب ہندستان کا پہلا فرد مسلمان ہوا تو وہ پہلی قوم کا فرد نہ رہا تھا، وہ ایک الگ قوم کا فرد بن گیا تھا۔ آپ نے غور کیا کہ پاکستان کے مطالبے کا جذبۂ محرّکہ کیا تھا ؟ اس کی وجہ نہ ہندوئوں کی تنگ نظری تھی اور نہ انگریزوں کی چال___ اسلام کا بنیادی مطالبہ تھا۔
قائد اعظمؒ قومیت کے مغربی تصور کی بجاے ملّت اسلامیہ کے نظریے کے داعی تھے۔ ۲جنوری ۱۹۳۸ء کو پرچم کشائی کے بعد جلسۂ عام سے خطاب کیا جس میں عالمی ملت اسلامیہ کے ساتھ اظہار یک جہتی کی جھلک نظر آتی ہے:
پرچم آپ کے وقار کی، مسلمانوں کے وقار کی اور اسلام کے وقار کی علامت ہے۔ مسلم لیگ کا پرچم اسلام کا پرچم ہے۔ یہ نئی چیز نہیں۔ یہ گذشتہ ۱۳سو برس سے موجود ہے۔ لیکن کچھ عرصے سے ہم اسے فراموش کربیٹھے تھے۔ اس پرچم کو بلند کرنے کا مطلب ہے اپنے وقار کو بلند کرنا۔
قائد اعظمؒ پوری ملت اسلامیہ کی وحدت کے علَم بر دار تھے۔ New York Times میں ۱۳ فروری ۱۹۴۶ء کو قائد اعظمؒ کا ایک انٹرویو شائع ہوا۔ نامہ نگار نے قائد سے پوچھا کہ عربوں کے ساتھ آپ کی ہمدردی کا کیا تصور ہے ؟قائد اعظمؒ نے جواب دیا:
اگر برطانیہ کی جانب سے فلسطین کے متعلق قرطاس ابیض میں اعلان کردہ حکمت عملی سے انحراف ہوا تو مسلمانانِ ہند خاموش تماشائی بنے نہیں رہ سکتے، اور وہ ہرممکن طریقے سے عربوں کی حمایت کریں گے۔
’’یعنی عربوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے طاقت بھی استعمال کرنا پڑی تو کریں گے‘‘ ۔
قائد اعظمؒ جیسے ٹھنڈے دل ودماغ کے شخص کا ایسی انتہائی بات کہنا اس بات کی علامت ہے کہ وہ عالم اسلام کی بقا کو کتنی اہمیت دیتے تھے۔ کیا ایسی بات کوئی سیکولر لیڈر کہہ سکتا ہے ؟
قیامِ پاکستان کے بعد ۱۱؍ اکتوبر ۱۹۴۷ء کو حکومت پاکستان کے اعلیٰ افسروں سے خطاب کرتے ہوئے قائد اعظمؒ نے فرمایا:
پاکستان کو معرض وجود میں لانا مقصود بالذات نہیں بلکہ مقصد کے حصول کے ذریعے کا درجہ رکھتا ہے۔ ہمارا نصب العین یہ تھا کہ ہم ایسی مملکت تخلیق کریںجہاں ہم آزاد انسانوں کی طرح رہ سکیں جو ہماری تہذیب وتمدن کی روشنی میں پھلے پھولے ۔ اور جہاں معاشرتی انصاف کے اسلامی اصولوں کو پوری طرح پنپنے کا موقع مل سکے۔
۱۳ جنوری ۱۹۴۸ء کو اسلامیہ کالج پشاور میں خطاب کرتے ہوئے اسی بات کا اعادہ کیا:
اسلام ہماری زندگی اور ہمارے وجود کا بنیادی سر چشمہ ہے۔ ہم نے پاکستان کا مطالبہ زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا تھابلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھےجہاں اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں۔
آل انڈیا مسلم لیگ کونسل کو خطاب کرتے ہوئے اسلام کی خدمت کو اپنی زندگی کی واحد تمنّا قرار دیا ۔ ۲۱ ؍اکتوبر ۱۹۳۹ء کے روزنامہ انقلاب لاہور کے الفاظ ملاحظہ ہوں:
میری زندگی کی واحد تمنّا یہ ہے کہ مسلمانوں کو آزاد وسربلند دیکھوں۔ میں چاہتا ہوں کہ جب مروں تو یہ یقین اور اطمینان لے کر مروں کہ میرا ضمیر اور میرا خدا گواہی دے رہا ہو کہ جناح نے اسلام سے خیانت اور غدّاری نہیں کی ۔ میں آپ سے اس کی داد اور شہادت کا طلبگار نہیں ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ مرتے دم میرا اپنا دل ، میرا ایمان اور میرا ضمیر گواہی دے کہ جناح تم نے واقعی مدافعت اسلام کا حق ادا کر دیا۔ میرا خدا یہ کہے کہ بے شک تم مسلمان پیدا ہوئے اور کفر کی طاقتوں کے غلبے میں عَلمِ اسلام کو سربلند رکھتے ہوئے مسلمان مرے۔
قائد اعظمؒ نے قیام پاکستان کی صورت میں اقلیتوں کو یہ اطمینان دلایا کہ ان کے ساتھ شودروں جیسا برتائو نہیں کیا جائے گا۔ اپنے اس عہد کی تائید میں انھوں نے قرآنی تعلیمات اور اسلامی تاریخ کا حوالہ دیا ۔ ۲۹ مارچ ۱۹۴۴ء کے سول اینڈ ملٹری گزٹ میں شائع شدہ رپورٹ ملاحظہ ہو:
کوئی حکومت اقلیتوں میں احساسِ تحفظ اور اعتماد پیدا کیے بغیر کامیاب نہیں ہوسکتی۔ کوئی حکومت کامیاب نہیں ہوسکتی جس کی حکمت عملی اور پروگرام اقلیتوں کے ساتھ غیرمنصفانہ، ناروا اور ظالمانہ ہو۔ ایک نمایندہ قسم کی حکومت کی کامیابی کی کسوٹی یہ ہے کہ اقلیتوں کو یہ احساس ہونا چاہیے کہ ان کے ساتھ عادلانہ اور منصفانہ برتائو کیا جائے گا۔ اس ضمن میں ہم دنیا کے کسی مہذب ملک سے پیچھے نہیں رہیں گے۔ مجھے اعتماد ہے کہ جب وقت آئے گا ہمارے وطنوں میں اقلیتیں یہ محسوس کریں گی کہ ہماری روایات، ہمارا ورثہ اور اسلام کی تعلیمات نہ صرف مناسب اور منصفانہ ہوں گی بلکہ فیاضانہ !
قائد اعظمؒ کی نظر میں مغرب کا معاشی نظام انسانیت کو خوش حال بنانے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ انھوں نے ملک کے معاشی نظام کو اسلامی بنیادوں پر استوار کرنے کے لیے سٹیٹ بنک میں ایک شعبۂ تحقیق قائم کیا۔ یکم جولائی ۱۹۴۸ء کو اس کی افتتاحی تقریب میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
مجھے اس بات سے بہت دل چسپی رہے گی کہ میں معلوم کرتا رہوں کہ یہ ریسرچ سیل بنکاری کے ایسے طریق کار کیوںکر وضع کرتا ہے جو سماجی ومعاشی زندگی کے اسلامی نظریات کے مطابق ہوں۔ مغربی معاشی نظام نے انسانیت کے لیے لاینحل مسائل پیدا کر دیے ہیں۔ مغربی نظام انسانوں کے درمیان عدل وانصاف کرنے اور بین الاقوامی میدان میں کش مکش اور چپقلش دُور کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اگر ہم نے معیشت کا مغربی نظام اختیار کیا تو عوامی خوش حالی کی منزل ہمیں حاصل نہ ہو سکے گی۔ ہمیں دنیا کے سامنے معاشی نظام پیش کرنا ہے جو مساوات اور معاشرتی انصاف کے سچے اسلامی اصولوں اور تصورات پر قائم ہو۔ ایسا کر کے گویا ہم مسلمان کی حیثیت سے اپنا فرض انجام دیں گے۔
ان خیالات کے حامل شخص کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ پاکستان کو مغربی تصور کے مطابق سیکولر سٹیٹ بنانا چاہتے تھے ، صریحاً علمی بد دیانتی ہے کہ ۳۷ء سے ۴۷ء تک ان کی ساری جدوجہد میں سواے ایک اقتباس کے کوئی ایسی بات نہیں جو بظاہر سیکولر ازم کی حمایت میں ہو ۔ اور جس جملے پر یہ ساری عمارت تعمیر کی جا رہی ہے، اس سے یہ مفہوم اصل عبارت کو سیاق وسباق سے کاٹنے سے ہی حاصل ہو سکتا ہے۔
مغربی لباس میں ملبوس انگریزی میں گفتگو کرنے والا یہ شخص بظاہر بودوباش کے اعتبار سے سیکولر نظر آتا تھا، مگر اس مغربی لباس کے اندر کے انسان کو دشمن بھی اسلام کا سپاہی تصور کرتے تھے۔ ۱۹۴۶ء میں برطانوی پارلیمنٹ کا ایک دس رکنی وفد ہندستان کے سیاسی زعما کے موقف کو سمجھنے کے لیے آیا ۔ اس وفد کے ایک رکن مسٹر سورنسن نے بعد میں My Impression of India نامی کتاب لکھی جس میں اس نے ۱۰؍جنوری ۱۹۴۶ء کو قائد اعظمؒ سے اپنی ملاقات کا تذکرہ کرتے ہوئے قائد اعظمؒ کو سیکولر نیا م میںرکھی ہوئی اسلام کی تلوار قرار دیا۔ الفاظ ملاحظہ ہوں:
He (Mr. Jinnah) is a sword of Islam resting in a secular scabbard.
سیکولر عناصر کا یہ کہنا بھی ایک مغالطہ آمیزی ہے کہ علما کی اکثریت نے تحریک پاکستان کی مخالفت کی یا قائد اعظمؒ علما کے خلاف تھے۔ علما کے ایک طبقے نے اگر کانگریس کا ساتھ دیا تو علما و مشائخ کے ایک بڑے طبقے نے اپنے اپنے انداز میں دو قومی نظریے اور تحریک پاکستان کے فروغ کے لیے خدمات انجام دیں۔ اور اس میں ہر مسلک اور مکتب فکر کے علما نے قائد اعظمؒ کے شانہ بشانہ جدوجہد کی: مولانا شبیراحمد عثمانی ؒ، مفتی محمد شفیعؒ ، مولانا احتشام الحق تھانویؒ، مولانا ظفر احمد انصاریؒ، مولانا اطہر علیؒ، مولانا راغب احسنؒ، مولانا ابن الحسن جارچویؒ، مولانا عبدالحامد بدایونی ؒ، مولانا عبدالستار خاں نیازیؒ، پیرجماعت علی شاہؒ، پیر صاحب مانکی شریفؒ، پیر صاحب زکوڑی شریفؒ، مولانا دائود غزنویؒ وغیرہ نے عوامی سطح پر لوگوں کو تحریک پاکستان کا پشتیبان بنایا۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے کانگریسی علما کے متحدہ قومیت کے نعرے کو مدلل انداز میں چیلنج کیا۔ مولانا اشرف علی تھانویؒ نے تحریک کی تائید کی۔ اسی لیے ان کے انتقال پر مسلم لیگ کی مرکزی ورکنگ کمیٹی نے قائداعظمؒ کی زیر صدارت ان کی خدمات کا اعتراف کیا۔ قیامِ پاکستان کے صرف چار ماہ بعد مولانا مودودیؒ سے ریڈیو پاکستان پر اسلام کے اخلاقی ، سیاسی، معاشرتی ، اقتصادی اور روحانی نظام پر تقاریر اس امر کا بیّن ثبوت ہے کہ قائد اعظمؒ پاکستان کو ایک اسلامی ریاست بنانا چاہتے تھے۔ ان تاریخی حقائق کو جھٹلائے بغیر قائداعظمؒ کو سیکولر سٹیٹ کاحامی قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ قائد اعظمؒ کے واضح نظریات اور نظریۂ پاکستان کے بارے میں نئی نسل کو ابہام اور کنفیوژن کا شکار کرنے والے ملک و قوم کی کوئی صحیح خدمت نہیں کررہے۔
تحریک اسلامی کے ایک بزرگ قائد کی توبہ کا اثر انگیز واقعہ پڑھا، اس کے راوی شیخ محمد احمد راشد ہیں۔ بیان کرتے ہیں: ’’صالح عشماوی، اخوان المسلمون کے ابتدائی ارکان میں سے تھے۔ ان کا شمار سابقون الاولون میں ہوتا تھا۔ بانی تحریک الاخوان، امام حسن البنا کے ساتھ ایک بہترین کارکن کی حیثیت سے اچھا خاصا وقت گزارا، اور مرکزی قیادت میں شامل ہوگئے۔ پھر تحریک پر آزمایشوں کا دور آیا اور اسی دوران میں ۱۲فروری ۱۹۴۹ء کو امام البنا شہید کردیے گئے۔ امیر کی جگہ خالی ہوئی تو تحریک پر فتنوں کے کچھ سیاہ بادل چھاگئے۔ صداقتیں اوٹ میں چھپ گئیں، غلط فہمیوں اور بدگمانیوں نے ڈیرے ڈالے، وسوسوں کے طوفان اٹھے، اور ایک گروہ فتنوں کا شکار ہوگیا۔ اس گروہ نے صالح عشماوی کو اپنا لیڈر بنالیا۔ تحریک پر کئی مشکل برس بیتے، اور آزمایش طویل ہوتی گئی۔ پھر ایک وقت وہ بھی آیا جب صالح عشماوی کو اپنے کیے پر ندامت ہوئی، اور انھوں نے سچی توبہ کی ایک شاہکار مثال قائم کی۔
راوی لکھتے ہیں: ’’ایک دن میں تحریکی ترجمان الدعوۃ کے آفس میں گیا، دیکھا فلیٹ کے دروازے پر ایک بزرگ چوکیدار، خاکساری کی تصویر بنے، خستہ سی بید کی پرانی کرسی پر بیٹھے ہیں۔ ان کے چہرے پر بلا کا وقار تھا، اور پیشانی پر نور دمک رہا تھا۔ میں نے سلام کیا، اجازت لی اور اندر داخل ہوگیا، وہاں ایک تحریکی ساتھی نے مجھ سے پوچھا: ’’اس باوقار شخص کو جو چوکیدار کی جگہ پر بیٹھا ہے، تم نے پہچانا؟‘‘ میں نے کہا: ’’پہچانا تو نہیں، مگر جاننے کی طلب ضرور پیدا ہوئی ہے‘‘۔
میرے ساتھی نے کہا: ’’یہ صالح عشماوی ہیں، توبہ کی تڑپ انھیں بے قرار رکھتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب کچھ ضدی قسم کے لوگوں نے مجھے اپنا سردار بنایا تھا، اور امیر کہہ کر پکارا تھا، اس وقت نفس کو یک گونہ لطف محسوس ہوا تھا۔ اپنے نفس کو اس غلط احساس کی نجاست سے پاک کرنے کے لیے میں نے طے کیا ہے کہ اب تحریک میں آخری صف کے سپاہی کی حیثیت سے زندگی گزاروں گا‘‘۔ ان کا اصرار ہے کہ :’’میری توبہ کی تکمیل اسی طرح ممکن ہے‘‘۔ اس لیے انھوں نے مرکز کا چوکیدار بن کر باقی زندگی گزارنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اگر انھیں معلوم ہوتا کہ اس سے کم درجے کی بھی تحریک میں کوئی جگہ ہے تو وہ اس کو دوڑ کر اختیار کرلیتے۔ دل میں اٹھنے والی منصب کی خواہش نے دل پر جو داغ لگادیے وہ اس طرح انھیں دھودینا چاہتے ہیں۔
میں اس پاکیزہ روح اور بڑے دل کے بارے میں جان کر حیرت ومسرت میں ڈوب گیا۔ امیر تحریک جناب عمر تلمسانی نے ہمیں بتایا کہ: ’’ہم نے ان کے لیے دعا بھی کی، اور انھیں دعوت بھی دی کہ وہ ہمارے بھائی بن کر دوسروں کی طرح ہماری ٹیم کا حصہ رہیں، اور اللہ تو توبہ کرنے والے کی توبہ قبول کرتا ہے، لیکن انھوں نے صاف انکار کردیا۔ ہم نے بہت اصرار کیا، انھیں مطمئن کرنے کی بہت کوشش کی، مگر ان کا شدید اصرار ہے کہ انھوں نے اپنے لیے آخری صف میں جو جگہ متعین کی ہے اسی پر انھیں رہنے دیا جائے‘‘۔
اس واقعے کے کئی سال بعد ایک بار مرشدعام عمر تلمسانی صاحب نے ایک تقریر کے دوران گلوگیر لہجے میں بڑے درد کے ساتھ کہا:’’شیخ صالح عشماوی نے جو توبہ کی ہے، میں سمجھتا ہوں کہ اگر قاہرہ کے تمام داعیان اسلام پر اسے تقسیم کردیا جائے، تو سب کے لیے کافی ہوگی‘‘۔
تحریکی قیادت کے خلاف ایک محاذ کی اگوائی کرنے والے صالح عشماوی کی توبہ اور تحریک کے قائد عمر تلمسانی کی کشادہ ظرفی میں تحریکی کارکنان اور تحریکی قیادت کے لیے نصیحت کا بڑا سامان ہے۔ ایسے واقعات تحریک کے حسن وجمال میں وہ اضافہ کرتے ہیں، جو فلک شگاف نعروں اور فلک بوس عمارتوں سے کبھی نہیں ہوسکتا۔
ہر کارکن اپنے اندرون میں جھانکتا رہے کہ کہیں اس سے کوئی غلطی تو سرزد نہیں ہوئی ہے؟ تحریک کے حوالے سے بہت سنگین غلطی یہ ہے کہ تحریک سے دنیا طلبی کی کوئی خواہش وابستہ ہوجائے۔ غلطی کا احساس ہوتے ہی کارکن ندامت میں ڈوب کر کفارہ ادا کرنے کے لیے بے چین ہوجائے۔ نہ غلطی کا احساس دیر سے ہو، اور نہ توبہ کرنے میں تاخیر ہو۔ اس کے لیے تحریک کے اندرونی ماحول کو ندامت وتوبہ کے لیے بہت سازگاراور حوصلہ بخش ہونا چاہیے۔
درحقیقت وہ تحریک اسلامی نہیں ہوسکتی ہے، جہاں کچھ لوگ دھڑلے کے ساتھ تحریک کے وقار کو اپنے پاؤں تلے روند رہے ہوں، اور ان کے خلاف کسی طرح کی کارروائی کی کسی کو جرأت نہ ہوتی ہو، یا جہاں غلطی کرنے والوں کے خلاف اخراج کی کارروائی ہوتی ہو، اور پھر وہ ہمیشہ ہمیش کے لیے تحریک سے الگ کردیے جاتے ہوں، یا جہاں لوگ کسی شکایت کی بنا پر استعفا دے کر نکلتے ہوں، اور یہ سمجھ کر نکلتے ہوں کہ اب ان کے لیے تحریک کے دروازے کبھی نہیں کھلیں گے۔
اسلامی تحریک میں غلطی کرنے والوں کے خلاف تادیبی کارروائی بھی ہو، توبہ کرنے کے لیے سازگار اور حوصلہ بخش مواقع بھی ہوں، اور توبہ کی قدر کرنے کا کشادہ ماحول بھی ہو، توبہ کرنے اور توبہ کو سراہنے کی مثالیں بھی دیکھنے والوں کو جہاں تہاں بار بار نظر آتی رہیں، یہ ایک صحت مند اسلامی تحریک کے لیے بے حد ضروری ہے۔
جو کارکن تحریک سے کسی غلط فہمی یا بدگمانی کی بنا پر نکل جائیں، ان کی واپسی کے لیے دروازے کھلے ہوں، اور جو کارکن تحریک سے کسی غلطی کی وجہ سے نکال دیے گئے ان کے لیے اپنی اصلاح کرکے دوبارہ قافلے میں شامل ہونے کا پورا پورا موقع ہو، ایسا ہوگا تو یہ خوش گوار احساس بھی ہوگا کہ اسلامی تحریک میں اسلام کی روح موجود ہے۔ کیونکہ جہاں توبہ کا نظام، رواج اور موقع نہ ہو، سمجھیے وہاں جو کچھ بھی ہو اسلام نہیں ہے، کیونکہ اسلام تو غلطی ہوجانے پر توبہ کرنے والوں کا دین ہے۔
اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی بہت سی قراردادیں بھارت اور پاکستان کو اس بات کی پابند بناتی ہیں کہ ریاست جموں و کشمیر کی حتمی حیثیت کا تعین عوام کی مرضی اور ایک آزادانہ اور غیر جانب دار استصواب راے (ریفرنڈم) کے ذریعے ہوگا، جو اقوامِ متحدہ کے زیرنگرانی منعقدہوگا۔بھارت کا کشمیریوں کے حق راے دہی سے انکار ان متفقہ عالمی قراردادوں کی صریح خلاف ورزی ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی ریاستی دہشت گردی اور اپنی افواج کے ذریعے نہتے بے گناہ کشمیری عوام پر بہیمانہ تشدد، قتل وغارت گری، زخمی کر کے لوگوں کو معذور بنا دینے کا جرم تو اپنی جگہ عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ رہا ہے، لیکن اب اس کے ساتھ کسی ملامت کے خو ف کے بغیر لوگوں کو اندھا کرنے جیسا وحشیانہ عمل، اقوامِ متحدہ کی مجرمانہ خاموشی کے حوالے سے بہت سے سنجیدہ سوال اُٹھاتا ہے۔
اقوامِ متحدہ کی قراردادو ں اور کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو ناکام بنانے کے لیے بھارت نے مختلف حربوں کو اختیار کیا ہے۔ ریاست جموں و کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت کو کم کرنے کے لیے آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنا اس حوالے سے ایک بڑا حربہ ہے۔ یہ وہی بات ہے جو سیمون پیریز نے جو اس وقت اسرائیل کا وزیرخارجہ تھا، ۲۸مئی ۱۹۹۳ء کو اپنے دورے کے موقعے پر بھارت کو مشورہ دیتے ہوئے کہی تھی: ’’بھارت کو کشمیر میں بھارت بھر سے لوگوں کو لاکر آباد کرنے سے گھبرانا یا جھجھکنا نہیں چاہیے۔ کشمیر میں صرف آبادی کے تناسب میں تبدیلی ہی بھارت کو اس پر دعویٰ کرنے میں مدد دے سکتی ہے۔ ایک مسلم اکثریتی ریاست کا ایک ہندو اکثریتی قوم کے ساتھ پُرامن طریقے سے رہنا ایک احمقانہ تصور ہے اور یہ تصور ایک قابلِ نفرت شے کے سوا کچھ نہیں ہے‘‘۔
۱۹۴۷ء میں جب برعظیم پاک و ہند دو خودمختار ریاستوں، یعنی پاکستان اور بھارت میں تقسیم ہوگیا، تب جموں و کشمیر ایک مسلم اکثریتی ریاست تھی۔ مسلمان اس وقت آبادی کے ۷۲ء۴۰ فی صد پر مشتمل تھے اور ۲۰۱۱ء کی مردم شماری کے مطابق ان کی آبادی ۶۲ء۲۷ فی صد ہے۔ بھارتی مقبوضہ کشمیر کی کُل آبادی اس وقت ایک کروڑ ۲۵لاکھ ۴۸ہزار ۹سو ۲۶ ہے۔
بھارتی مقبوضہ کشمیر ایک جغرافیائی وحدت کے طور پر تین خطوں پر مشتمل ہے: کشمیر، جموں اور لداخ۔ آبادی کے تناسب میں پہلی بار تبدیلی اگست سے نومبر ۱۹۴۷ء میں کی گئی جب ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت، جو اس وقت جموں و کشمیر کے ڈوگرہ راجا اور بھارتی نیشنل کانگریس کی ملی بھگت سے تیار کیا گیا تھا، جموں کے مسلمانوں کا وسیع پیمانے پر قتل عام کیا گیا اور جموں میں ان پر زندگی تنگ کر دی گئی۔ اس کے مصدقہ اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں، تاہم برٹش پریس کی شائع شدہ رپورٹیں اور ہورس الیگزینڈر کا ۱۶جنوری ۱۹۴۸ءکو سپیکٹرم میں شائع ہونے والا مضمون ایک معتبر حوالہ ہے۔ ہورس کے مطابق ۲لاکھ افراد کو ہلاک کیا گیا تھا۔ دوسری رپورٹ میں آئن اسٹیفن کا دعویٰ ہے کہ ۵لاکھ افراد کو مارا گیا، جب کہ دیگر ۲ لاکھ افراد لاپتا ہوگئے۔ یہ نسل کشی کا اور انسانیت کے خلاف جرائم کا ایک واضح مقدمہ تھا، لیکن عالمی برادری خاموش تماشائی بنی رہی۔ یوں مسلمانوں کے اس قتلِ عام اور بڑے پیمانے پر آبادی کی منتقلی سے جموں میں مسلمانوں کی آبادی ۶۱ فی صد اکثریتی آبادی سے کم ہوکر ۳۰فی صد اقلیت میں تبدیل ہوگئی۔
جموں کی آبادی کا تناسب ایک مرتبہ پھر تبدیل کیا گیا، جب Agrarian Reform Act 1976 کو قانون سازی کے ذریعے نافذ کیا گیا۔ اس ایکٹ نے کاشت کاروں کو ملکیتی حقو ق دے دیے۔ پھر ہزاروں غیرکشمیریوں کو ریکارڈ میں جعل سازی کے ذریعے کاشت کار ظاہر کیا گیا اور انھیں ملکیتی حقوق دے دیے گئے۔
ایک اور سازش ۲۰۰۱ء-۲۰۱۱ء کے دوران میں دیکھنے میں آئی، جب لداخ کے اضلاع لیہہ اور کارگل میں ہندو آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ لداخ میں مجموعی طور پر ہندو آبادی ۲۰۰۱ء کی ۶ء۲ فی صد تعداد سے بڑھ کر ۲۰۱۱ء میں ۱۲ء۱ فی صد ہوگئی۔ ماہرین کا خیال ہے اس بڑے پیمانے پر لداخ میں ہندو آبادی میں ۱۰۰ فی صد اضافہ صرف دس سال کی مدت میں ناقابلِ تصور ہے۔
جب سے بھارتیہ جنتا پارٹی نے نریندر مودی کی قیادت میں ۲۰۱۴ء میں نئی دہلی میں اقتدار سنبھالا ہے، بھارت کے جموں و کشمیر میں آبادی کے تناسب میں تبدیلی کے منصوبوں نے شدت پکڑ لی ہے، تاکہ مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدلا جاسکے۔ اپنے منشور اور سرکاری بیانات میں ، بی جے پی نے کھلے عام اعلان کر رکھا ہے کہ: کشمیر کا بھارتی آئین کے تحت آرٹیکل ۳۷۰ اور ۳۵-اےکے تحت اور اس کے ساتھ ساتھ بھارتی مقبوضہ کشمیر کے آئین کے آرٹیکل۶ کے تحت خصوصی استحقاق ختم کر دیا جائے گا‘‘۔ بی جے پی کے علی الرغم مختلف دستوری اور قانونی دھوکے بازیوں کے ذریعے، بھارت پہلے ہی کشمیر کے الگ تشخص کو محض دکھاوے کی حیثیت دے چکا ہے۔
’پارلیمانی اسٹینڈنگ کمیٹی آن ہوم آفیرز‘ بھارت، نے ۲۰۱۴ء میں سفارش کی تھی کہ: ’’مغربی پاکستان کے مہاجرین (غیرمسلم) کو جو جموں کے خطے میں رہ رہے ہیں، مستقل رہایشی سرٹیفکیٹ اور جموں و کشمیر میں ریاستی انتخابات میں انھیں راے دہی کا حق بھی دیا جانا چاہیے‘‘۔
یہ مہاجرین جنھوں نے ۱۹۴۷ء میں تقسیم برعظیم پاک و ہند کے موقعے پر پاکستان سے بھارت نقل مکانی کی تھی اور جموں کے خطے میں آباد ہوگئے تھے، مستقل رہایشی نہیں ہیں جیساکہ جموں و کشمیر کے آئین کے آرٹیکل ۶ میں اس کی وضاحت کی گئی ہے۔ اسی طرح بھارت کے آئین کے آرٹیکل ۳۵-اے کے تحت بھی مقبوضہ کشمیر میں ا ن کی آبادکاری غیر آئینی ہے۔ یہ غیرکشمیری ہندو جو مہاجر کہلاتے ہیں،ان کی تعداد ۶لاکھ بتائی جاتی ہے، جب کہ کچھ دیگر ذرائع کے مطابق ان کی تعداد ۱۰لاکھ سے زائد ہے۔
مقبوضہ کشمیر کی اتھارٹیز نے ان مہاجرین کو رہایشی سرٹیفکیٹ (ڈومیسائل) دینا شروع کردیے ہیں اور بھارتی ہوم منسٹر راج ناتھ سنگھ کی مقبوضہ کشمیر کی اتھارٹیز کو واضح ہدایت ہے کہ: ’’ریاستی آئین میں ضروری قانونی تبدیلیاں کرلی جائیں تاکہ یہ مہاجرین نہ صرف مستقل ریاستی رہایشی سرٹیفکیٹ (State Subject Certificate) حاصل کرسکیں، بلکہ جموں کے خطے میں آٹھ انتخابی حلقوں کو بھی تشکیل دے سکیں‘‘۔
سوال یہ ہے کہ ۱۹۴۷ء میں ان مہاجرین کو جموں میں کیوں منتقل کیا گیا، بھارت کے کسی اور علاقے میں کیوں نہیں بھیجا گیا؟نتیجے کے طور پر سامنے آنے والے واقعات نے اس بات کو واضح کردیا کہ اس کا مقصد خطے کی آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنا تھا۔ یہ بات قابلِ غور ہے کہ جموں ڈسٹرکٹ میں مسلمانوں کی آبادی آج بمشکل ۵ فی صد ہے، جب کہ ۱۹۴۷ء میں یہاں مسلمانوں کی آبادی ۳۹ فی صد تھی۔ اسی طرح ضلع کٹھوعہ میں مسلمانوں کی آبادی ۳۰ فی صد سے کم ہوکر اب صرف ۸ فی صد رہ گئی ہے۔
ایک اور حقیقت یہ ہے کہ ۱۹۴۷ء میں ہزاروں کی تعداد میں کشمیری مسلمان پاکستان اور آزاد کشمیر ہجرت کر گئے اور اپنے پیچھے اربوں روپے کی جایداد چھوڑ گئے تھے۔ مقبوضہ کشمیر کی ریاستی اسمبلی نے اپریل ۱۹۸۲ء میں ری اسٹیبلشمنٹ بل دو تہائی اکثریت سے منظور کرلیا کہ ان مہاجرین کو واپس آنے کی اجازت دی جائے، لیکن ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اسے سپریم کورٹ آف انڈیا لے جایا گیا، جہاں یہ فائل فیصلے کے انتظار میں عشروں سے گرد کے نیچے دبی ہوئی ہے۔ سپریم کورٹ نے اس پر عمل درآمد روکنے کے لیے stay کا حکم دے دیا۔
حقیقت یہ ہے کہ راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ (RSS)، بھارت کی ایک نسل پرست ہندو جماعت نے دھوکا اور دغابازی کے ذریعے ہزاروں بہاریوں، پنجابیوں اور بھارت کی دوسری ریاستوں کے ہزاروں شہریوں کے لیے اسٹیٹ سبجیکٹ سرٹیفکیٹ کے حصول کا پہلے ہی سے انتظام کرلیا ہے تاکہ انھیں جموں میں آباد کیا جاسکے۔ جون ۱۹۸۴ء میں، پنجاب میں سکھوں کے خلاف آپریشن بلیوسٹار کے نتیجے میں ہندوئوں کو جموں میں آباد ہونے کی اجازت دی گئی۔ انھیں شہریت کے حقوق بھی دیے گئے۔ ان مہاجروں کو شہریت کے حقوق عطا کرنے سے بلاشبہہ کشمیر کی آبادی کا تناسب تبدیل ہوجائے گا۔ جموں و کشمیر ایک متنازعہ خطہ ہے۔ ہوسکتا ہے کہ بعد میں آنے والی بھارتی حکومتیں طوطے کی طرح رٹنے کے باوجود کہ یہ ہمارا ’اٹوٹ انگ‘ ہے، حالات کے دبائو کے تحت ایک روز استصواب راے کے انعقاد پر مجبور ہوجائیں۔ یقینا ان مہاجروں کا ووٹ نتیجے کو فطری طور پر بھارت کے حق میں موڑ دے گا۔
جموں و کشمیر کے آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کے لیے دیگر منصوبوں پر بھی عمل درآمد جاری ہے، بالخصوص وادیِ کشمیر میں جہاں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب ۹۷ فی صد ہے۔ اس مقصد کے لیے غیر کشمیری ریٹائرڈ بھارتی آرمی افسروں کے لیے کالونیوں کی تعمیر کی جارہی ہے، جب کہ کشمیری ہندوئوں کے لیے بستیاں بھی بسائی جارہی ہیں۔ اسرائیل کی یہودی بستیوں کی تعمیر کی طرح یہاں بھارت غیرکشمیریوں کو مقبوضہ کشمیر میں آباد کررہا ہے۔
۲۰۱۶ء- ۲۰۲۶ء صنعتی پالیسی کے تحت ایک غیر ریاستی شخص مقبوضہ کشمیر میں ۴۰سال کے لیے زمین ٹھیکے (lease) پر حاصل کرسکتا ہے۔ پھر اسے زیادہ سے زیادہ ۹۰ سال تک توسیع دی جاسکتی ہے۔ یہ کاروباری مقتدرہ کی ایسٹ انڈیا کمپنی کی ہوبہو نقل ہے، جیساکہ اس سے پہلے اس نے برصغیر ہند پر قبضہ کیا تھا۔ بھارتی سپریم کورٹ نے اپنے حالیہ فیصلے میں کشمیر کی جایداد پر زبردستی قبضے اور اسے غیر ریاستی شہریوں کو منتقل کرنے کو قانونی طور پر جائز قرار دے دیا ہے۔ اس فیصلے کے بعد جن کو قبضہ دیا جائے گا، ان سب کے بارے میں توقع ہے کہ وہ غیرمسلم ہوں گے۔
بھارتی حکومت کا ان دنوں سب سے زیادہ زور جس بات پر ہے، وہ یہ ہے کہ اپنی عدلیہ کے ذریعے بھارتی آئین کے آرٹیکل ۳۵-اے کو کالعدم کرائے۔ اس سلسلے میں آر ایس ایس سے وابستہ تنظیموں اور افراد کے ذریعے بھارتی سپریم کورٹ میں عرضداشتیں داخل کی گئی ہیں۔ اگر آرٹیکل ۳۵-اے ختم ہوگیا، تو مقبوضہ کشمیر کے آئین کی ان دفعات کا جواز بھی ختم ہوگا جن کی رُو سے کوئی غیر ریاستی باشندہ کشمیر میں جایداد نہیں خرید سکتا ہے۔ نتیجتاً بھارت میں رہنے والے ہندو مقبوضہ جموں و کشمیر میں زمین اور جایداد خرید کر آباد ہوجائیں گے اور آبادی کا تناسب بگاڑ دیں گے۔
اقوامِ متحدہ کی ۳۰مارچ ۱۹۵۱ء کی منظورکردہ قرارداد کے مطابق کوئی دستور ساز یا قانون ساز اسمبلی قانون سازی سے ایسی تبدیلیاں نہیں کرسکتے، جو استصواب راے کے نتائج کو متاثر کرسکیں۔ لہٰذا، وہ تمام اقدامات جو بھارتی حکومت نے عالمی سطح پر تسلیم شدہ خطے کی آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کے لیے اُٹھائے ہیں، اقوامِ متحدہ کی قرارداد کی واضح خلاف ورزی ہے۔
کشمیر کے لوگ بھارت کے تمام غیرقانونی اور غیراخلاقی اقدامات اور منصوبوں کے خلاف سڑکوں پر سراپا احتجاج ہیں اور اپنا خون دے کر اس کے خلاف مزاحمت کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی یہ قانونی اور اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ آگے بڑھے اور بھارت کو جموں و کشمیر کی اُس حیثیت کو تبدیل کرنے سے روک دے، جو ۱۹۴۷ء میں تقسیم برعظیم پاک و ہند کے وقت تھی۔
امانت کی پہلی قسم ’امانت ِ شرعیہ‘ ہے جو اللہ نے بنی نوعِ انسانیت کو دی جس کی تفصیل بیان کی جاچکی ہے۔ امانت کی دوسری قسم ’منصبی امانت‘ ہے۔
خواص کے لیے امانت کا مفہوم: عہدے اور مناصب امانت ہیں، جیسا کہ نبی کریمؐ کا فرما ن ہے، جسے سیّدنا ابو ذر غفاریؓ نے روایت کیا ہے:
میں نے عرض کیا: اللّٰہ کے رسولؐ! کیا آپؐ مجھے عامل نہیں بنائیں گے؟ آپؐ نے میرے کندھے پر ہاتھ مار کر فرمایا: ابوذرؓ! تم کمزور ہو، اور یہ (امارت) امانت ہے اور قیامت کے دن یہ شرمندگی اور رسوائی کا باعث ہو گی، مگر وہ شخص جس نے اسے حق کے مطابق قبول کیا اور اس میں جو ذمہ داری اس پر عائد ہوئی تھی اسے (اچھی طرح) ادا کیا۔وہ شرمندگی اور رسوائی سے مستثنیٰ ہو گا۔(مسلم: رقم ۴۷۱۹)
ہرانسان کو دی جانے والی زندگی اللّٰہ کی امانت ہے، جو اللّٰہ تعالیٰ نے اسے اخذِ میثاق [عہدِ الست] کے بعد(کہ وہی ہمارا ربّ ہے/ توحیدِ ربوبیت) اس عہد کی تکمیل کے لیے دی ہے۔ ہرانسان اسلام میں مسئول و ذمہ دار ہے، اور اس سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ فرمانِ نبویؐ ہے جسے سیّدنا عبد اللّٰہ بن عمرؓ نے روایت کیا ہے:
كُلُّكُمْ رَاعٍ فَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، فَالأَمِيرُ الَّذِي عَلَى النَّاسِ رَاعٍ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْهُمْ، وَالرَّجُلُ رَاعٍ عَلَى أَهْلِ بَيْتِهِ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْهُمْ، وَالمَرْأَةُ رَاعِيَةٌ عَلَى بَيْتِ بَعْلِهَا وَوَلَدِهِ وَهِيَ مَسْئُولَةٌ عَنْهُمْ، وَالعَبْدُ رَاعٍ عَلَى مَالِ سَيِّدِهِ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْهُ، أَلاَ فَكُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ (بخاری: رقم ۲۵۵۴) تم میں سے ہر شخص حاکم ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہوگا۔ پس لوگوں کا حقیقی امیر ایک حاکم ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہوگا۔ (دوسرا) ہر آدمی اپنے گھر والوں پر حاکم ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہوگا۔ (تیسرا) عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے بچوں پر حاکم ہے، اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہوگا۔ (چوتھا ) غلام اپنے آقا ( سیّد ) کے مال کا حاکم ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔ پس جان لو کہ تم میں سے ہر ایک حاکم ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں (قیامت کے دن ) پوچھ ہوگی۔
چنانچہ یہ امانت او رذمہ داری ہرمسلمان کی اپنی ذات اور اپنے گھر پر ہے، بیوی کی اپنے شوہر کے گھر اور اولاد پر ہے، اور حاکم کی اپنی رعایاپر ہے، خادم کی اپنے مالک کے مال پر ہے۔ اور قیامت کے دن ہر امین ومسئول سے اس کی امانت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔
یاد رہے کہ عہدے ومناصب دینے والی ذات اللّٰہ عزوجل کی ہے، جیسا کہ واقعہ طالوت والی پہلی آیت میں آیا کہ ’’اللّٰہ جس کو چاہتا ہے ، اپنی بادشاہت سے عطا کرتا ہے‘‘۔ مزید فرمایا:
قُلِ اللّٰهُمَّ مٰلِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَآءُ وَ تَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَآءُ (اٰل عمرٰن۳:۲۶)آپ کہیے :’’اے اللّٰہ ! بادشاہت کے مالک! جسے تو چاہتا ہے حکومت عطا کرتا ہے اور جس سے چاہتا ہے چھین لیتا ہے‘‘۔
اِنَّ الْاَرْضَ لِلّٰهِ قف يُوْرِثُهَا مَنْ يَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖ ط(الاعراف۷:۱۲۸)یہ زمین اللّٰہ کی ہے۔ وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہے اس کا وارث بنا دے ۔
یہ زمین اللّٰہ کی ہے اور جس کو وہ چاہتا ہے ، اپنے بندوں پرحکومت عطا کرتا ہے۔ اس بنا پر ہر مسلمان حاکم امین ہے اور اللّٰہ نے مخصوص ذمہ داریوں کے ساتھ اس کو اپنی مسلم رعایا کی ذمہ داری سونپی ہے۔ جس کو جو منصب سونپا جائے ، وہ اس کو بخوبی پورا کرے تو یہ منصبی امانت دارہے ، جیساکہ سیّدنا جبریلؑ کو وحی کی ذمہ داری سونپی گئی تو وہ رسولِؐ امین ہوئے۔ نبی کریمؐ کو رسالت کا فرض سونپا گیا تو آپ نے شکوہ کیا کہ ’’آسمان والا تو مجھے امین مانتا ہے، اور تم مجھے امین نہیں سمجھتے‘‘ ۔ یعنی میں عظیم منصب امانت پر قائم ہوں، تو کہاں یہ چھوٹی سی مالی امانت میں کوتاہی ممکن ہے۔ اس بناپر امانت میں منصب کے تقاضے پورے کرنا بھی شامل ہے۔ حدیث میں ہے:
ایک دن سیّدنا ابو مسلم خولانی، سیّدنا معاویہ بن ابو سفیان کے پاس آئے اور کہنے لگے: السَّلَامُ عَلَیْكَ أَيُّهَا الْأَجِیْرُ! (اُجرت پر کام کرنے والے! آپ پر سلامتی ہو)۔ لوگوں نے کہا: أَیُّہَا الْاَمِیْرُکہیے، تو انھوں نے پھر السَّلَامُ عَلَیْكَ أَيُّهَا الْأَجِیْرُ! کہا۔ لوگوں نے پھر کہا : أَیُّہَا الْاَمِیْرُکہیکہیے، تو تیسری بار انھوں نے وہی جملہ دہرایا: السَّلَامُ عَلَیْكَ أَيُّهَا الْأَجِیْرُ! آخر سیّدنا معاویہ نے کہا: ابو مسلم کو اپنی بات کہنے دو، وہ اسے ہم سے زیادہ سمجھتے ہیں۔ اس کے بعد ابو مسلم بولے: اے معاویہ!تم اجیر (اُجرت پر کام کرنے والے ملازم) ہو۔ان بکریوں کے ریوڑ کے لیے تم کو ان بکریوں کے رب نے اُجرت پر رکھا ہے۔ اگر تم خارش زدہ بکریوں کی خبر گیری کرو گے اور مریض بکریوں کی دوا کروگے اور ان بکریوں کی اچھی طرح حفاظت کرو گے، تو بکریوں کا مالک تمھیں پوری اُجرت دے گا۔ اور اگر تم نے خارش زدہ بکریوں کی خبر گیری نہ کی، مریض بکریوں کی دوا نہ کی، ان کی اچھی حفاظت نہ کی تو بکریوں کا مالک تم کو سزا دے گا۔ (حلیۃ الاولیاء:۲/۱۲۵، سیر اعلام النبلاء: ۴/۱۳، مختصرا، تاریخ دمشق ابن عساکر: ۲۷/۲۲۳، بحوالہ السیاسۃ الشرعیۃ: ۳۶)
جب یہ مناصب سراسر امانت ہیں تو اس میں خیانت کرنے والے کی سزا روزِ قیامت جنت سے محرومی ہے:
وَقَالَ: لَا يَسْتَرْعِي اللهُ عَبْدًا رَعِيَّةً، يَمُوتُ حِينَ يَمُوتُ وَهُوَ غَاشٌّ لَهَا، إِلَّا حَرَّمَ اللهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ(مسلم: رقم ۳۶۴) اللّٰہ تعالیٰ کسی بندے کو کسی رعیت کا نگران بناتا ہے اور موت کے دن وہ اس حالت میں مرتا ہے کہ رعیت کے حقوق میں دھوکا بازی کرنے والا ہے تو اللّٰہ اس پر جنت حرام کر دیتا ہے۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ لکھتے ہیں:
فَإن الخلق عباد الله، والولاة نُوَّابُ اللهِ عَلٰى عِبَادِهِ، وَهُمْ وُكَلَاءُ الْعِبَادِ عَلٰى نفوسهم؛ بِمَنْزِلَةِ أَحَدِ الشَّرِيكَيْنِ مَعَ الْآخَرِ؛ فَفِيهِمْ مَعْنَى الْوِلَايَةِ وَالْوَكَالَةِ(السياسة الشرعية لابن تيمية مع شرح ابن عثيمين، ص ۳۷) اللّٰہ کی مخلوق اللّٰہ کے بندے ہیں، اور مسلم حکام اللّٰہ کے بندوں پر اللّٰہ کے نائب ہیں اور وہ بندوں پر ان کی جانوں کے ذمہ دار ہیں۔جیسا کہ دو شریک ایک دوسرے کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ سو، ان میں ولایت، یعنی حکومت اور وکالت، یعنی تفویض بیک وقت پائی جاتی ہے(یہاں نیابتِ الٰہیہ کے لیے زیادہ موزوں تعبیر ’اللّٰہ کے نمایندے‘ کی ہے)۔
اس عبارت کی شرح میں شیخ ابن عثیمین منصبِ حکومت کی امانت کی وضاحت کرتے ہیں: ’’ابن تیمیہؒ نے واضح کیا ہے کہ امرا وحکام، اللّٰہ کے بندوں پر اس کے نائب ہیں، یعنی اللّٰہ تعالیٰ نے ان کو بندوں پر اس لیے نائب بنایا ہے کہ وہ اللّٰہ کی شریعت کو ان میں قائم کردیں۔ اور خلیفہ وحاکم لوگوں کی جانوں پر ان کے وکیل بھی ہیں، کہ (مسلمانوں نے حکام کو یہ ذمہ دار سونپی ہے کہ ) ان کے اخلاق درست کریں اور ان کو اللّٰہ کی شریعت پر چلائیں۔اس دوسرے پہلو سے وہ بندوں کی جانوں پر بندوں کے وکیل ہوئے کہ عوام نے ان حکام کو اپنی جانوں کی یہ ذمہ داری سونپی ہے۔ گویا یہ کہا ہے کہ تم ہمارے حاکم بنو، تاکہ ہمیں سیدھا رکھو اور اللّٰہ کی شریعت کے مطابق ہم میں عدل قائم کرو۔
’’مذکورہ بالا وجوہ کی بنا پر امانت ہی مناصب کی ذمہ داری میں سب سے بنیادی وصف ہے، اور اس وصف کا اعتبار دُنیوی امانت سے بڑھ کر ، اللّٰہ کی امانت کی تکمیل، اللّٰہ کے احکام پر خود چلنا اور حاکم کا اپنے ماتحتوں کو اس پر چلانا ہے۔ جو مسلمان شخص اللّٰہ کے احکام کا امین نہیں، امانت ِ کبریٰ میں کوتاہی کرنے والا ہے، وہ لوگوں کے حقوق میں بھی کوتاہی کرنے والا ہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اسلامی سیاست کی رو سے وہی شخص لوگوں کا نمایندہ بن سکتا ہے، جو سب سے پہلے خود اللّٰہ کی امانت کو پورا کرنے والا ہے۔ اور اللّٰہ کی امانت کا سب سے بڑا اظہار نماز کی پابندی خود کرنا اور لوگوں سے کروانا ہے۔ اور جب کوئی حاکم اس امانت کو چھوڑ دیتا ہے تو وہ لوگوں سے اپنی اطاعت کا حق کھوبیٹھتا ہے‘‘۔(السياسة الشرعية لابن تيمية ، ۶۳:۱/۳۷، فتاویٰ ابن تیمیۃ: ۲۸/۲۶۱)
اسلام میں سیاست، یعنی عہدے اور اقتدار بھی خدمت اور فروغِ دین کے لیے ہیں، اسی لیے سیاسی حکمران اور نماز کے قائد دونوں کو ’امام‘ ہی کہتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمال وحکام کے لیے نماز کی امامت لازمی کررکھی تھی اور یہی کام خلفاے راشدین کرتے تھے، جیسا کہ:
۱-سیّدنا ابوبکر صدیقؓ کو جب نماز کا امام مقرر کیا گیا تو صحابہ کرامؓ نے ان کو مسلمانوں کی سیاست کا امام (خلیفہ) بنالیا۔
۲-نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عمال وحکام کو نماز سے آغاز کرنے کی تلقین فرمایا کرتے: بَعَثَ النَّبِيُّ مُعَاذًا إلَى الْيَمَنِ قَالَ: يَا مُعَاذُ! اِنَّ أَهَمَّ أَمْرِكَ عِنْدِي الصَّلَاةُ (ایضاً)’’جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدنا معاذ کو (یمن میں عامل بنا کر )بھیجا تو فرمایا کہ اے معاذ! میرے نزدیک تمھاری سب سے اہم شے نماز ہے‘‘۔
سَتَكُونُ أُمَرَاءُ فَتَعْرِفُونَ وَتُنْكِرُونَ، فَمَنْ عَرَفَ بَرِئَ، وَمَنْ أَنْكَرَ سَلِمَ، وَلَكِنْ مَنْ رَضِيَ وَتَابَعَ قَالُوا: أَفَلَا نُقَاتِلُهُمْ؟ قَالَ: لَا، مَا صَلَّوْا( مسلم:۴۸۰۰) جلد ہی ایسے حکمران ہوں گے کہ تم انھیں (کچھ کاموں میں ) صحیح اور (کچھ میں) غلط پاؤ گے۔ جس نے (ان کی رہنمائی میں) نیکی کے کام کیے وہ بَری ٹھیرا اور جس نے (ان کے غلط کاموں سے) انکار کر دیا وہ بچ گیا لیکن جو ہر کام پر راضی ہوا اور پیروی کی (وہ بَری ہوا، نہ بچ سکا)۔ صحابہؓ نے عرض کیا: کیا ہم ان سے جنگ نہ کریں؟ آپ نے فرمایا: ’’نہیں، جب تک کہ وہ نماز پڑھتے رہیں (جنگ نہ کرو)‘‘۔
۳- سیّدنا عمر فاروقؓ نے اپنے عمال کو حکم نامہ بھیجا: اِنَّ أَهَمَّ أَمْرِكُمْ عِنْدِي الصَّلَاةُ ، فَمَنْ حَفِظَهَا وَحَافَظَ عَلَيْهَا، حَفِظَ دِينَهُ ، وَمَنْ ضَيَّعَهَا فَهُوَ لِمَا سِوَاهَا أَضْيَعُ (موطا امام مالک، کتاب وقوت الصلاۃ ، حدیث۵ ) ’’میرے نزدیک تمھارا سب سے اہم کام نماز پڑھنا ہے۔ جو اس کی خود حفاظت کرے اور دوسروں سے حفاظت کرائے تو اس نے اپنے دین کی حفاظت کرلی۔ اور جس نے اسے ضائع کردیا تو اس کے ماسوا اُمور کو وہ زیادہ ضائع کرنے والا ہے‘‘۔
۴-امام ابن تیمیہؒ لکھتے ہیں: ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی کسی صحابی کو مدینہ پر نائب بناتے، جیساکہ عتاب بن اسیدؓ کو مکہ پر، عثمان بن ابو العاصؓ کو طائف پر، علیؓ، معاذؓ، ابوموسیٰؓ کو یمن اور عمر وبن حزمؓ کو نجران پر عامل بناکر بھیجا، تو آپ کا نائب / عامل ہی ان کی امامت کراتا اور ان میں حدود اور وہ ذمہ داریاں پوری کرتا جو عسکری قیادت سرانجام دیتی ہے۔یہی آپؐ کے بعد آپ ؐکے خلفا، اُموی بادشاہوں کا اور بعض عباسی حکام کا طریقہ تھا‘‘۔ (السياسة الشرعية لابن تيمية مع شرح ابن عثيمين، ص ۶۳)
عالمِ ربانی اور عظیم مجاہد شاہ اسماعیل شہیدؒ (م:۱۸۳۱ء) ’امام ‘کی وضاحت میں لکھتے ہیں: ’’ لفظ امام سے مراد مطلق امام نہیں، بلکہ وہ امام جس کا تعلق سیاست سے ہو… امام سے مراد صاحبِ دعوت ہے جس نے جہاد کا جھنڈا اعداے دین پربلند کیا اور تمام مسلمانوں کو اس معرکے میں بلایا، اور شرعِ مبین کی اعانت پر کمر باندھی، سیاست ِ دین کی مسند پر بیٹھاسواے ملت کے مذہب کے، دوسرے مذہب کو نہ پکڑا، اور طریقۂ سنت کے سوا دوسرا طریقہ اختیار نہ کیا۔ عدالت وسیاست میں آئین نبوی کے سوا کوئی دوسرا طریقہ نہ بنایا۔قوانین مصطفویؐ کے سوا کوئی دوسرا قانون نہ چھانٹا‘‘۔ (منصبِ امامت،از شاہ اسمٰعیل شہید، ناشر: حنیف اینڈ سنز، ۲۰۰۸ء ،ص۱۷۸)
شاہ صاحب اپنی معرکہ آرا کتاب منصب امامت میں حاکم اور امام کی حقیقت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’جوکوئی مذکورہ کمالات میں کسی کمال میں انبیاء اللّٰہ سے مشابہت رکھتا ہو، وہی امام ہے… بعض کاملین کو انبیا کے ساتھ ایک کمال میں مشابہت ہوتی ہے اور بعض کو دو کمال میں اور بعض کو تین میں۔ اسی طرح بعض کو تمام کمالات میں مشابہت ہوتی ہے۔ پس امامت بھی مختلف مراتب پُر ہوگی، کیوںکہ بعض کے مراتب، امامت میں دوسروں سے اکمل ہوں گے‘‘۔(ایضاً، ص ۸۶)
پھر ان احادیث سے شاہ صاحب نے استدلال کیا جن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد بالفرض نبی ہونے میں سیّدنا عمرؓ کا تذکرہ کیا، اور سیّدنا علیؓ کو سیّدنا ہارونؑ کے مشابہ (ماسواختم نبوت)قرار دیا۔
حاکم کا یہ بھی منصبی فرض ہے کہ اپنے نائب ان کو مقرر کرے، جو معاشرے اورحکومت کو شرعی مقاصد کی طرف لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ اگر وہ اپنی پسند ناپسند یا اپنی تائید ، یا خاندانی قوت کے فروغ، یا مال کو جمع کرنےکی غرض سے کسی کو حاکم مقرر کرے گا تو یہ بھی امانت کی خلاف ورزی ہے اور خیانت کے مترادف ہے ۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ لکھتے ہیں:
جب دنیا کے اکثر حکام پر دین کو نظر انداز کرتے ہوئے دنیوی مقاصد غالب آگئے، تو اُنھوں نے اپنی حکومتوں میں ایسے لوگوں کو عہدے دیے جو ان کے دنیوی مقاصد میں ان کی تائید کرسکتے۔ اور ہر وہ شخص جو اپنی حاکمیت چاہتا ہے، اسی کو آگے کرتا ہے جو اس کی حکومت وریاست کو تحفظ دے۔(السياسة الشرعية لابن تيمية مع شرح ابن عثيمين، ص۶۳)
منصبی امانت کو پورا کرنے والا شخص کون سا ہے؟… امام ابن تیمیہ لکھتے ہیں:
جب کوئی حاکم اللّٰہ کے حکم کے مطابق منصب دے گا، جب کہ صورت حال بالکل واضح ہو یا اپنے عمل سے اس کو عہدہ دے گا، جب مخفی ہونے کی صورت میں قرعہ کے ذریعے ترجیح دے ، تو یہی وہ حاکم ہے جس نے امانت کو مناصب دینے میں اس کے حقیقی اہل کے سپرد کردیا۔ (السياسة الشرعية لابن تيمية، ص۵۸)
او رجس حاکم نے یہ مناصب اہل افرا دکے سپرد نہ کیے تو :
جب حاکم اور وکیل، دونوں اپنی ذمہ داریوں کی تکمیل کے لیے ایسے شخص کو اپنا نائب بنالیں، اور تجارت وسامان کے لیے اصلح کو نظرانداز کردیں، سودے کو ایسی قیمت پر فروخت کریں، جب کہ اس قیمت سے اچھی قیمت مل سکتی تھی، تو تب اس والی اور وکیل نے اپنے ساتھی سے خیانت کی۔ بلاشبہہ اگر دونوں کے مابین محبت ومودّت یا قرابت داری تھی ، تب بھی اس کا ساتھی اس سے ناراض ہو کر اس کو برا ہی کہے گا اور یہ سمجھے گا کہ اس نے خیانت کی، اور اپنے قریبی یا دوست سے دھوکا کیا ہے۔(ایضاً)
چوںکہ حکومت او رمنصب سمیت دنیا کی ہر نعمت اللّٰہ ہی عطا کرتا ہے، اوربندہ مؤمن ایمان لانے اور کلمہ طیبہ پڑھ لینے کے بعد اس کا اقرار کرتا ہے، اس لیے وہ اپنی ہر صلاحیت واختیار کو اللّٰہ کے بتائے ہوئےطریقے کے مطابق ہی استعمال کرتا ہے۔ چنانچہ اللّٰہ نے حاکم کی یہ ذمہ داری قرار دی کہ :
اَلَّذِيْنَ اِنْ مَّكَّنّٰهُمْ فِي الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتَوُا الزَّكٰوةَ وَ اَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَ نَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ ط وَ لِلّٰهِ عَاقِبَةُ الْاُمُوْرِ(الحج۲۲:۴۱)اُنھیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، معروف کا حکم دیں گے اور منکر سے منع کریں گے اور تمام معاملات کا انجامِ کار اللّٰہ کے ہاتھ میں ہے۔
اس بنا پر حاکم کا یہ فرض ہے کہ لوگوں کو بھی امانت ِ شرعیہ کی طرف متوجہ کرے، ان کو نماز روزہ کی تلقین کرے اور ان میں امربالمعروف ونہی عن المنکر کو جاری وسار ی کرے۔ اور یہ فرض صرف حاکمِ وقت کا ہی نہیں، بلکہ ہرفرد، ہر گھر اور ہر ادارے کے سربراہ، ہر ماں کا فرض اور ہرخادم کی ذمہ داری ہے۔ حاکم کا جب فرض متعین ہوگیا تو جو حاکم اللّٰہ تعالیٰ کے احکام کے نفاذ کے بجاے لوگو ں کے مفاد اور خواہشات کو پورا کرنے لگ جائے تو گویا کہ وہ اللّٰہ کے مقرر کردہ حاکم کے بجاے ، شیطانی خواہشات کا مؤید بن گیا۔ جس فرض کے لیے اللّٰہ تعالیٰ نے اس کو اقتدار دیا تھا، اس نے اس کے بجاے اس کو دوسرے مقصد پر صرف کردیا اور یہ بدترین خیانت ہے۔ چنانچہ ایسا حاکم اللّٰہ کے بجاے شیطان کا ساتھی ہے اوراس کا انجام بھی شیطان کے ساتھ ہی ہے۔
امام ابن تیمیہ لکھتے ہیں:
جو اولی الامر (حاکم) منکرات وجرائم کو نہیں روکے گا اور حدود کا اجرا نہیں کرے گا اور مال لے کر چھوڑ دے گا، وہ چوروں کے سردار اور فحاشی کرنے والوں کے دلال جیسا ہے جو دو زانیوں کو باہم ملا دیتا ہے اور دونوں کا ناجائز حصہ دار بن کر مال لیتا ہے۔ اس کا حال وہی ہوگا جو لوطؑ کی بے حیا بیوی کا ہوا، جو فاسق وفاجر لوگوں کو لوط کے مہمانوں کی خبر دیتی تھی۔ سو، اس کے بارے میں اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’پس ہم نے لوط کو اور ان کے گھر والوں کو عذاب سے نجات دی، مگر اس کی بیوی کہ وہ پیچھے رہ جانے والوں میں تھی‘‘۔ اور دوسرے مقام پر فرمایا: ’’تو تم اپنے اہل وعیال کو لے کر راتوں رات نکل چلو اور تم میں سے کوئی مڑ کر بھی نہ دیکھےسواے تمھاری بیوی کے جو عذاب اوروں پر نازل ہوگا، وہ اس کو بھی پہنچے گا‘‘۔ دیکھیے اللّٰہ تعالیٰ نے اس بدترین بڑھیا کو جو دلالی کرتی تھی، اسی عذاب میں مبتلا کیا جو اس بدترین قوم اور خبیث وجرائم پیشہ لوگوں کو دیا۔ اور یہ اس لیے کہ تمام کا تمام مال لینا دراصل اثم وعدوان کی اعانت و امداد ہے۔ اور حاکم اس لیے بنایا جاتا ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فرض انجام دے۔ یہی حکومت اور مناصب کا اصل اسلامی مقصد ہے۔اگر حاکم مال لے کر اور رشوت وصول کرکے کسی منکر کو پھلنے پھولنے دے گا، تو گویا وہ اصل مقصد ِحکومت کے خلاف اور اس کی ضد پر قائم ہوگیا۔ اور یہ ایسا ہی ہے کہ تم نے کسی کو دشمن کے خلاف لڑنے کو بھیجا اور وہ تمھارے ہی خلاف تمھارے دشمن کی اعانت وامداد شروع کردے۔ اور یہ بمنزلہ اس مال کے ہے کہ تم نے کسی کو جہاد میں خرچ کرنے کے لیے مال دیا اور وہ اسے مسلمانوں کے قتل کرنے میں ہی خرچ کررہا ہے۔ (السياسة الشرعية لابن تيمية، ص۵۸)
شیخ ابن تیمیہؒ نے اس اقتباس میں ایسے مسلم حکام کی تردید کی اور اُنھیں ان کے انجام سے خبردار کیا ہے، جو اپنے مفادات کے لیے لوگوں پر اللّٰہ کے قانون کو نافذ کرنے سے گریز کرتے ہیں۔اور حاکم کے مفادات میں مال کے ساتھ، اس کی حمایت ونصر ت (آج کی زبان میں ووٹ) اور اس کی تائید شامل ہے کہ جب کوئی حاکم ان سستے دنیوی مفادات کے لیے اپنے اصل فریضہ ’اللّٰہ کے قانون کے نفاذ‘ سے دست بردار ہوجائے تو وہ گویا شیطان کا معاون اور مسلمان رعایا پر ظالم بن گیا۔ جب اللّٰہ تعالیٰ نے ان حکام کو حکومت اسی لیے دی ہے کہ وہ اللّٰہ کے قانون کو اللّٰہ کے بندوں پر نافذ کریں تو پھر اپنے اس فرض سے انحراف کرنا گویا لوگوں کے حق اطاعت کا استحصال ہے کہ مسلمان اپنے حاکم کی اطاعت اسی لیے ہی کرتے ہیں کہ وہ انھیں اللّٰہ کے راستے پر چلنے میں مدد دے گا، اور ان پر اللّٰہ کے دین کو قائم کرے گا۔جب حاکم یہ فریضہ ترک کرکے ، الٹا شیطان کا معاون بن گیا تو دنیا میں بھی خائب وخاسر اور آخرت میں بھی شرمسار اور جواب دہ ہوگا۔
’امانتِ مالیہ‘ سے مراد مالی امانت اور اس میں خیانت ہے۔امانت کو عام طور پر اسی معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔ قرآن کریم میں اس خیانت کی مذمت اور اس کی وجہ اللّٰہ تعالیٰ نے یوں بیان فرمائی:
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَخُوْنُوا اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ وَ تَخُوْنُوْٓا اَمٰنٰتِكُمْ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ O وَ اعْلَمُوْا اَنَّمَآ اَمْوَالُكُمْ وَ اَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ لا وَّ اَنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗٓ اَجْرٌ عَظِيْمٌO (الانفال۸:۲۷-۲۸)اے ایمان والو! دیدہ دانستہ اللّٰہ اور رسولؐ سے خیانت نہ کرو اور نہ تم آپس کی امانتوں میں خیانت کرو۔ اور جان لو کہ تمھارے مال اور تمھاری اولاد تمھارے لیے آزمایش ہیں اور اللّٰہ کے ہاں اجر دینے کو بہت کچھ ہے ۔
اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے مولانا مودودی لکھتے ہیں: ’آپس کی امانتوں‘سے مراد وہ تمام ذمہ داریاں ہیں، جو کسی پر اعتبار (trust) کرکے اس کے سپرد کی جائیں، خواہ وہ عہد ِ وفا کی ذمہ داریاں ہوں یا اجتماعی معاہدات کی، یا جماعت کے رازوں کی، یا شخصی و جماعتی اموال کی، یا کسی ایسے عہدہ و منصب کی جو کسی شخص پر بھروسا کرتے ہوئے جماعت [اجتماعیت] اس کے حوالے کرے‘‘۔ (تفہیم القرآن، دوم،ص ۱۳۹)
حصولِ اقتدار عموماً اختیار واقتدار اور حاکمیت کے لیے کیا جاتا ہے، اور اس کا دوسرا مقصد اموال کا جمع کرنا اورعزیز واقارب کے لیے منافع کا حصول ہے۔علامہ ابن تیمیہ لکھتے ہیں:
فَالْوَاجِبُ اتِّخَاذُ الْإِمَارَةِ دِينًا وَقُرْبَةً يُتَقَرَّبُ بِهَا إلَى اللهِ؛ فَإِنَّ التَّقَرُّبَ إلَيْهِ فِيهَا بِطَاعَتِهِ وَطَاعَةِ رَسُولِهِ مِنْ أَفْضَلِ الْقُرُبَاتِ. وَإِنَّمَا يَفْسُدُ فِيهَا حَالُ أَكْثَرِ النَّاسِ لِابْتِغَاءِ الرِّيَاسَةِ أَوْ الْمَالِ بِهَا (السياسة الشرعية لابن تيمية، ص ۱۳۰) ضروری ہے کہ دین داری اور اللّٰہ کے تقرب ورضا کے لیے ہی اقتدار کو قبول کیا جائے۔ اور اقتدار میں اللّٰہ کا تقرب اللّٰہ کی اطاعت اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کے ذریعے کرنا، تقرب کی بہترین شکل ہے لیکن اکثر لوگوں کا حال خراب ہے کہ اقتدار کو حاکمیت یا حصول مال کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
مزید فرماتے ہیں کہ اقتدار اصلاً بری چیز نہیں اور نہ حکام کے پاس بیٹھنا ہی لیکن:
وَلَمَّا غَلَبَ عَلَى كَثِيرٍ مِنْ وُلَاةِ الْأُمُورِ إرادة المال والشرف وصاروا بمعزل عن حقيقة الإيمان في ولايتهم رأى كثير من الناس أن الإمارة تنافي الْإِيمَانِ وَكَمَالِ الدِّينِ (ایضاً،ص ۱۳۲)جب اکثر حکام پر مال اور ناموری کی خواہش غالب آگئی اور اپنی حکومت میں انھوں نے حقیقت ایمان کو نظرانداز کردیا تو لوگوں نے بھی یہ سمجھنا شروع کردیا کہ اقتدار ایمان اور کمال دین کے منافی ہے۔
درحقیقت ان مقاصد کے لیے عہدے او رحصولِ اقتدار سراسر ناجائز ہے۔کیوںکہ اقتدار کے یہ دو ناجائز مقاصد فرعون وقارون کے تھےاور ان کا دنیا وآخرت میں بدانجام سب کے سامنے ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دو مقاصد اقتدار کو بدترین ہلاکتیں قرار دیا ہے:
مَا ذِئْبَانِ جَائِعَانِ أُرْسِلَا فِي غَنَمٍ بِأَفْسَدَ لَهَا مِنْ حِرْصِ الْمَرْءِ عَلَى الْمَالِ وَالشَّرَفِ لِدِينِهِ، (جامع الترمذی، رقم: ۲۳۷۶)دو بھوکے بھیڑیے اگر بھیڑوں کے ریوڑ میں چھوڑ دیے جائیں تو وہ اس کو اتنا نقصان نہیں پہنچاتے جتنا کہ دو چیزیں نقصان پہنچاتی ہیں: کثرتِ مال اور نام ونمود کی خواہش۔
اقتدار واختیار اور مال ودولت روزِقیامت کسی کام نہیں آئیں گے، جیساکہ قرآن نے جہنمیوں کا نقشہ کھینچا ہے:
مَآ اَغْنٰى عَنِّيْ مَالِيَه O هَلَكَ عَنِّيْ سُلْطٰنِيَهْ (الحاقۃ ۶۹: ۲۸-۲۹)،میرے مال نے مجھے کچھ نفع نہ دیا اور میری حکومت بھی مجھ سے جاتی رہی ۔
اور ان دو ناجائز مقاصد کے لیے سیاست کرنے والا کس کا جانشین ہے؟ ابن تیمیہ لکھتے ہیں: وَغَايَةُ مُرِيدِ الرِّيَاسَةِ أَنْ يَكُونَ كَفِرْعَوْنَ ، وَجَامِعِ الْمَالِ أَنْ يَكُونَ كَقَارُونَ، وَقَدْ بَيَّنَ اللهُ تَعَالٰى فِي كِتَابِهِ حَالَ فِرْعَوْنَ وَقَارُونَ (السياسة الشرعية لابن تيمية،ص ۱۳۲) ’’حاکمیت کا متلاشی فرعون جیسا اور مال کا حریص قارون جیسا ہے اور دونوں کا انجام اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں خوب کھول کر بیان کردیا ہے‘‘۔
شاہ اسماعیل شہید نے حکومت کی دوسری قسم ’سلطنتِ جابرہ‘ قرار دی اور اس کا نقشہ یوں کھینچا: ’’سلطانِ جابر سے وہ شخص مراد ہے جس پر نفس امارہ اس قد رحکمران ہو کہ نہ تو اسے خوفِ خدا مانع ہوسکتا ہے اور نہ مخلوق کی شرم۔ نفس امارہ جو بھی اس سے کہے، بلاتکلف بجا لاتا ہے بلکہ سلطنت کا ثمرہ لذاتِ نفسانیہ کو پورا کرنا ہی سمجھتا ہے… کسی کو تکبر وجبر مرغوب ہے، کسی کو ناز وتبختر، کسی کو تعدی وجور، کسی کو فسق وفجور، کسی کو منشیات ومُسکِرات، کسی کو لذیذ کھانے، کسی کو نفیس لباس، کسی کو لہوولعب اور کسی کو نَشاط وطرب…نفس امارہ کی ہوا وہوس کے ہزاروں مقدمات ہیں۔ سو، اس کے چند اُصول اور بے شمارفروع ہیں:
۱-ایک حبِ مال ہـے: مال جمع کرنا ان کا بہترین مشغلہ اور بہترین لذت ہوتی ہے، خزائن ودفائن کی زیادتی کے ہر رستے کو تلاش کرتے ہیں۔ خود بھی اور ان کے ہم نشین جمع مال میں ساری صلاحیتیں صرف کرتے ہیں، وہی مشیر باتدبیر اور امیر کبیر ہے جس نے جمع مال کی کوئی اچھی اور نئی تدبیر نکالی۔
۲- ان کا دوسرا اُصول غلبہ وتکبّر ہے: بعض لوگ فطرتاً اِدعا پسند، خود پسند، خود ستائی، سرکش ہوتے ہیں۔ اپنے کو بلند ، دوسروں کو حقیر جانتے ہیں۔ اپنے ادنیٰ ہنر کو دوسروں کے کمال کے مقابلے میں بلند رُتبہ سمجھتے ہیں۔ دوسرں کی ذلت کو اپنی عزت اور مسلمانوں کی عار کو اپنی عظمت خیال کرتے ہیں۔ ان کی حکومت کی انتہا یہ ہوتی ہے کہ کوئی ان سے مشارکت نہ کرسکے، مشابہت کی راہ نہ پاسکے۔ ایسا شخص منصبِ سلطنت پر پہنچ کر تکبر سے رفتار وگفتار، نشست وبرخاست، القاب وآداب اور تمام عادات ومعاملات میں اپنے آپ کو ممتاز سمجھتا ہے۔مساوات کی راہ مسدوداور ہراہم چیز کو اپنے لیے خاص کردیتا ہے۔ایسا حاکم چاہتا ہے کہ اس کے آئین وقوانین ،اصولِ دین اور احکام شرع متین کے مقابلے میں عوام میں زیادہ مقبول ہوں۔
۳- ان کا تیسرا اُصول عیاشی ہے: سلطانِ جابر کی ساری توجہ قوتِ شہوانی سے مغلوب اور ساری ہمتیں لذاتِ نفسانیہ کی تکمیل اور جسمانی راحت کے حصول میں مشغول رہتی ہیں۔رات دن طعام مرغوب، لباس خوش اسلوب وشربِ خمور میں مست رہتے ہیں۔ محافل رقص وسرود کے برپا کرنے، عمارتیں اور باغات بنانے میں لگے رہنے والے، فسق وفجور کی داد دینے والے۔ ان کے وزیر باتدبیر لہوولعب اور نشاط وطرب کے نت نئے طریقے ڈھونڈتے اور اس کو کمال فن تک پہنچاتے ہیں۔ جہاں حکام یہ کام کریں تو رعایا میں ظلم وجور پھیل جاتا اور سلاطین کی یہ خرابیاں فسق وفجور، ظلم وتعدی اور فسادِ ملک کا سبب بن جاتی ہیں‘‘۔(منصبِ امامت از شاہ اسماعیل شہید، ص۱۵۱-۱۶۴)
ہر مسلمان کو چاہیے کہ اپنی زندگی کی ترجیحات اور اپنی اپنی امانت کی تکمیل میں اپنے تعلقات: رشتے ناطے، دوستی ودشمنی، محبت وغیریت (الحبّ في الله) اورعزت و نسبت میں اسی بات کو پیش نظر رکھے کہ حاکمیت اور جمع مال کی بجاے رضاے الٰہی، اور اعلاے کلمۃ اللہ کی بنا پر اپنے فیصلے کرے جیساکہ اس پر بہت سی احادیث ِ نبویہ موجود ہیں۔ اس کے اور اس کے بچوں کی تعلیم اور پیشے، عادات و علامات بھی دُنیوی غلبہ اور حصولِ مال کے بجاے رضاے الٰہی اور اعلاے دین کے لیے ہوں۔ مسلمانوں کی اجتماعی ترقی کا رخ بھی علووفساد میں کثرت کی بجاے دینی ترقی کا مظہر ہو کیوںکہ حکام کی طرح ہرانسان بھی اپنے گھربار اور اپنے آپ کا مسئول وامین ہے۔جب عام مسلمان اپنی اس ذمہ داری کوسمجھیں گے اور اسی کے مطابق عمل کریں گے، تو ان کے حکام بھی اسی طرزِ فکر وعمل کے حامل ہوں گے۔یہی مسلم معاشرے کی اصلاح کا شرعی منہاج ہے۔
مالی امانت ادا کرنے کی جزا:نبی مکرّم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ گرامی سیّدنا ابو موسیٰ اشعریؓ نے روایت کیا ہے: الْخَازِنُ الْأَمِينُ الَّذِي يُؤَدِّي مَا أُمِرَ بِهِ طَيِّبَةً نَفْسُهُ أَحَدُ الْمُتَصَدِّقِينَ، امانت دار خزانچی جو اس کو حکم دیا جائے، ا س کے مطابق دل کی فراخی کے ساتھ ( صدقہ ادا کردے ) وہ بھی ایک صدقہ کرنے والوں ہی میں سے ہے۔(بخاری، کتاب الاجازہ، باب استجار الرجل الصالح، حدیث: ۲۱۶۲)
خیانت کی سزا : جو شخص بھی قومی مال میں سے ایک پائی بھی اپنے اوپر صرف کرتا ہے، اس کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ وعید کافی ہے جو سیّدنا عمر ؓسے مروی ہے:
لَمَّا كَانَ يَوْمُ خَيْبَرَ، أَقْبَلَ نَفَرٌ مِنْ صَحَابَةِ النَّبِيِّ ، فَقَالُوا: فُلَانٌ شَهِيدٌ، فُلَانٌ شَهِيدٌ، حَتَّى مَرُّوا عَلَى رَجُلٍ، فَقَالُوا: فُلَانٌ شَهِيدٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ : كَلَّا، إِنِّي رَأَيْتُهُ فِي النَّارِ فِي بُرْدَةٍ غَلَّهَا - أَوْ عَبَاءَةٍ -» ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللهِ : يَا ابْنَ الْخَطَّابِ، اذْهَبْ فَنَادِ فِي النَّاسِ، أَنَّهُ لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلَّا الْمُؤْمِنُونَ، قَالَ: فَخَرَجْتُ فَنَادَيْتُ: أَلَا إِنَّهُ لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلَّا الْمُؤْمِنُونَ (بخاری، رقم: ۲۲۶۰)خیبر (کی جنگ ) کا دن تھا ، نبیؐ کے کچھ صحابہؓ آئے اور کہنے لگے : فلاں شہید ہے ، فلاں شہید ہے ، یہاں تک کہ ایک آدمی کا تذکرہ ہوا تو کہنے لگے: وہ شہید ہے ۔ رسولؐ اللّٰہ نے فرمایا: ’’ہرگز نہیں، میں نے اسے ایک دھاری دار چادر یا عبا (چوری کرنے ) کی بنا پر آگ میں دیکھا ہے۔ پھر رسولؐ اللّٰہ نے فرمایا :’’ اے خطاب کے بیٹے ! جاکر لوگوں میں اعلان کر دو کہ جنت میں مومنوں کے سوا کوئی داخل نہ ہو گا‘‘ ۔ انھوں نے کہا : میں باہر نکلا اور اعلان کیا : متنبہ رہو! جنت میں مومنوں کے سوا اور کوئی داخل نہ ہو گا۔
اس حدیث میں مالِ غنیمت میں سے مال چوری کرنے والے کو جہنمی بتانےکے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مومن کی بات کی ہے۔ گویا ایسے شخص کا ایمان ہی خطرے میں ہے جو قومی مال میں خیانت کا مرتکب ہے۔
امانت میں خیانت ایسا بڑا جرم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لِكُلِّ غَادِرٍ لِوَاءٌ يَوْمَ القِيَامَةِ، قَالَ أَحَدُهُمَا: يُنْصَبُ ، وَقَالَ الآخَرُ: يُرَى يَوْمَ القِيَامَةِ، يُعْرَفُ بِهِ (مسلم، رقم:۳۰۹) قیامت کے دن ہر خائن (عہد شکن)کے لیے ایک جھنڈا ہوگا۔ ان میں سے ایک صاحب نے بیان کیا کہ وہ جھنڈا (اس کے پیچھے مقعد میں ) گاڑ دیا جائے گا اور دوسرے صاحب نے بیان کیا کہ اسے قیامت کے دن سب دیکھیں گے ، اس کے ذریعے اسے پہچانا جائے گا ۔
امانت یا امین سے مراد صرف لغوی امین نہیں ،بلکہ امانت ایک شرعی اصطلاح ہے جس کو قرآن وسنت نے متعدد مفاہیم کے لیے استعمال کیا ہے۔ان میں دین، اموال، علوم ومعارف، مناصب وذمہ داری، گواہیاں اور فیصلے لکھنا اور روایت کرنا، رازوں اور پیغامات کی حفاظت کرنا، سمع وبصر اور تمام حواس کی امانت داری کا خیال رکھنا وغیرہ شامل ہیں۔
l حاصل بحث : مذکورہ بالا سطور میں امانت کے ساتھ ساتھ مناصب کے لیے مطلوبہ دیگر اہم شرعی صفات کا قرآن واحادیث سے تذکرہ کرنےکے بعد یہ ثابت کیا گیا ہے کہ:
۱- امین وامانت شریعتِ اسلامیہ کا اہم حکم ہے جس میں ’اللہ کے تمام فرائض کو اس کے احکامات کے مطابق ’انجام‘ دینےکا مطالبہ پایا جاتا ہے۔ یہی وہ امانت ہے جو انسان کے اشرف المخلوقات ہونے اور دنیا میں آنے بلکہ عطاے عقل کی بنیاد بنی، اور اسی کی بنا پر روزِ محشر انسان کی جزاوسزا ہوگی۔ امانت کے شرعی تقاضے میں فرد او رمعاشرے کی ہر سطح مخاطب ہے کیوںکہ اللہ نے سب کو ہی ذمہ دار بنایا ہے۔
۲- فرمانِ نبویؐ ہے کہ ’’مناصب امانت اور ندامت ہیں‘‘۔ اور کسی منصب کے لیے حاکم پر اللہ کی کامل اطاعت از بس ضروری ہے اور عہدے دار کا کام ہے کہ قرابت داری اور اُمیدواری کی بجاے سراسر شرعی اہلیت کی بنا پر ہی ذمہ داریاں دے۔ ا س کے پیش نظر دنیوی جاہ وجلال، ذاتی تقویت اور جمع مال ہرگز نہ ہو۔ وہ اپنے ماتحتوں میں اللہ کے دین کو قائم کرنے والا ہو، وگرنہ وہ بقول امام ابن تیمیہؒ: ’’خائن اور چوروں کا سردار ہے اور اس کا ربّ اس سے ناراض ہے۔ فرمانِ نبویؐ کے مصداق ’’ایسا حاکم جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گا‘‘۔
۳-امانت کی تیسری صورت مالی ہے۔حب ِجاہ ومال فرعون وقارون کی صفات ہیں، ان کا بدتر انجام سب پر واضح ہے۔ حاکم کی مالی خیانت یہ بھی ہے کہ وہ مسلمانوں کا مال ذاتی جاگیر سمجھ کر لوگوں میں بانٹے، اعلاے کلمۃ اللہ کے بجاے اپنے اقتدار اور خواہشات کے لیے اس مال کو بے جا استعمال کرتا پھرے۔ لوگوں کے اموال کی بہانے بہانے سے لوٹ کھسوٹ اس کا مشغلہ ہو، تو اس کے اعوان وانصار کو ناجائز مال دینا گناہ میں اس کی مدد کرنا ہے اورایسے مال کو اصل مالکوں تک لوٹانے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ فرمانِ رسولؐ کے مطابق: ’’خائن حاکم روزِ قیامت اپنی مقعد پر رُسوائی کا جھنڈا ‘لے کر بدنامی کا شعار اور جہنم کا ایندھن بن جائے گا‘‘۔
آئین کی ۶۲، ۶۳ دفعات کے خاتمے کارجحان نہایت خطرناک ہے، اس کامطلب تو یہ ہوگاکہ اسلام کے جس حکم پربھی ہم عمل کرنا نہ چاہیں یاہمیں اس پرعمل کرنامشکل نظرآئے، توہم یہ مطالبہ کریں کہ اس کو سرے سے ختم ہی کردیاجائے۔ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری!!
پاکستان میں زیربحث دفعات، اسلامی احکام پرمبنی ہیں اوراسلام کاکوئی حکم ایسا نہیں ہے کہ انسانوں کے لیے اس پر عمل کر ناممکن نہ ہو۔جس وقت ۶۲، ۶۳ دفعات کو دستور کا حصہ بنایا گیا، صورتِ حال یکسر تبدیل ہو چکی تھی۔ سیاست دان یا غیر سیاسی لوگ سب دولت کی ہوس کا شکار تھے اور کرپشن کی داستانیں عام تھیں۔ اس کے سدباب کے لیے مذکورہ دفعات نافذ کی گئیں جو فی الواقع اخلاص پر مبنی تھیں، نہ کہ بدنیتی پر۔ اب کرپشن کی صورت حال پہلے سے کہیں زیادہ خراب ہے ۔ اس لیے یہ دفعات نہایت ضروری ہیں، تاکہ کرپٹ لوگ سیاست میں نہ آ سکیں اور اگر آ جائیں تو ان کا محاسبہ کیا جا سکے۔ اس لیے ان دفعات کی اہمیت، افادیت و ضرورت، بلکہ ناگزیریت مسلّم ہے۔ (مکمل)
سوال : حدیث میں آتا ہے کہ: ’’تین قسم کے آدمی ایسے ہیں جو اللہ تعالیٰ سے فریاد کرتے ہیں، مگر ان کی فریاد سنی نہیں جاتی۔ ایک وہ شخص جس کی بیوی بدخلق ہو اور وہ اس کو طلاق نہ دے۔ دوسرا وہ شخص جو یتیم کے بالغ ہونے سے پہلے اس کا مال اس کے حوالے کر دے۔ تیسرا وہ شخص جو کسی کو اپنا مال قرض دے اور اس پر گواہ نہ بنائے‘‘۔ سوال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تو بدخلق بیوی پر صبر کرنے کی تلقین کی ہے مگر یہاں معاملہ بالکل برعکس ہے؟
جواب: اس حوالے سے مختصر گزارش یہ ہے کہ یہ حدیث پہلے المستدرک میں آئی ہے: [جس کے الفاظ یہ ہیں:
ثَلَاثَةٌ يَّدْعُوْنَ اللهَ فَلَا يُسْتَجَابُ لَهُمْ، رَجُلٌ كَانَتْ تَحْتَهُ امْرَاَةٌ سَيِّئَةٌ فَلَمْ يُطَلِّقْهَا وَ رَجُلٌ كَانَ لَهٗ مَالٌ فَلَمْ يَشْهَدْ عَلَيْهِ وَ رَجُلٌ آتٰى سَفِيْهًا مَالَهٗ وَ قَدْ قَالَ اللهُ عَزَّ وَ جَلَّ : وَ لَا تُؤْتُوا السُّفَهَآءَ اَمْوَالَكُمْ۔ (المستدرک، حدیث ۳۵۵۴)
تین شخص ہیں جو اللہ سے دعائیں مانگتے ہیں، مگر ان کی دعائیں قبول نہیں ہوتیں۔ ایک وہ شخص جس کے نکاح میں بُری عورت ہو اور وہ اس کو طلاق نہیں دیتا۔ دوسرا وہ شخص کا [کسی کے ذمے] مال ہو اور وہ [کسی کو] اس پر گواہ نہیں بناتا۔ تیسرا وہ شخص جو بے وقوف کو اس کا مال دے دیتا ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ بے وقوفوں کو ان کے مال نہ دو۔]
امام حاکمؒ نےاس کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے:
ھٰذَا اِسْنَادٌ صَحِیْحٌ عَلٰی شَرْطِ الشَّیْخَیْنِ وَلَمْ یُخْرِجَاہُ لِتَوْقِیْفِ اَصْحَابِ شُعْبَۃَ ھٰذَا الْحَدِیْثَ عَلٰی اَبِیْ مُوْسٰی۔ (المستدرک،۴/ ۱۴۴)
اس حدیث کی سند شیخین (یعنی بخاری و مسلم) کی شرط کے مطابق صحیح ہے، مگر انھوں نے اس کی تخریج نہیں کی ہے،کیوں کہ شعبہ (جو اس حدیث کے ایک راوی ہیں) کے شاگردوں نے اس حدیث کو ابوموسیٰ اشعریؓ پر موقوف{ FR 565 } قرار دیا ہے۔
پھر یہی حدیث ابن جریر طبریؒ اور ابن کثیرؒ نے بھی نقل کی ہے۔ حافظ ابن کثیرؒ نے حاکم کا تبصرہ بھی نقل کیا ہے ( تفسیر القرآن العظیم، ۱/۵۹۳)۔ اسی طرح پھر جلال الدین سیوطیؒ نے الجامع الصغیر میں بھی ثبت فرمائی ہے اور الجامع الصغیر کے شارح [عبد الرؤف المناویؒ] نے اس کو تقریباً وہی درجہ دیا ہے، جو مصنف نے دیا تھا۔ (دیکھیے: فیض القدیر، ۲/ ۲۵۶) اس کے بعد شیخ احمد بن الصدیق غماریؒ اور علامہ ناصر الدین البانیؒ نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔ (دیکھیے: الغماری کی کتاب المداوی لعلل المناوی، ۳/۲۳۶، اور البانی کی کتاب السلسلۃ الصحیحۃ، ۴/۴۲۰)۔ ان دونوں نے لکھا ہے کہ اس حدیث کو مرفوع{ FR 566 } قرار دینے میں معاذ بن معاذ العنبری اکیلے نہیں ہیں، بلکہ عمرو بن حَکاّم اور دائود بن ابراہیم الواسطی بھی اس کے متابع{ FR 567 } ہیں۔ اسی طرح بعض محدثین کے نزدیک عثمان بن عمر بھی اس کے متابع ہیں۔
امام البانیؒ نے اس حدیث کی ایک اور سند کا بھی ذکر کیا ہے اور لکھا ہے کہ فَالسَّنَدُ ظَاھِرُہُ الصِّحَّۃُ (السلسلۃ الصحیحۃ ، ۴/۴۲۰)۔
مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ حدیث مرفوع نہیں ہے، یعنی یہ نبی علیہ السلام کا فرمان نہیں ہے بلکہ ابوموسیٰ اشعریؓ کا قول ہے۔ اس کی کئی وجوہ ہیں:
پہلی وجہ یہ ہے کہ جس دائود نے معاذ بن معاذ العنبری کی تائیدکی ہے وہ دائود وہ نہیں ہے جس کی ابو دائود طیالسیؒ نے اپنی مسند [۱/۳۴۹] میں توثیق کی ہے، بلکہ دائود بن ابراہیم ہے جوقزوین کا قاضی تھا اور یہ متروک{ FR 568 } ہے۔ دائود، جس کی طیالسیؒ نے توثیق کی ہے وہ حضرت نعمان بن بشیرؓ کے آزاد کردہ غلام سے روایات کرتے ہیں اور ان کی تائید ناقص ہے۔
پھر ان دونوں راویوں کے متن{ FR 569 } میں بھی اختلاف ہے، جیساکہ شیخ غماریؒ نے لکھا ہے:
اِلَّا اَنَّہٗ خَالَفَ فِیْ مَتْنِہٖ (المداوی ،۳/۲۳۶)
دوسری وجہ یہ ہے کہ ابونعیم کی سند کے یہ الفاظ ہیں:
ثَنَا علیُّ بنُ محمدُ بْنِ اِسماعیلَ واِبراہیمُ بنُ اسحاقَ قالا حدَّثنا ابوبکرِ بنُ خُزَیمۃَ ثَنَا محمدُ بْنُ خَلَفِ الحَدَّادیُّ ثَنَا عثمانُ وعَمْرُو بْنُ حَکَّامٍ قالا حدَّثنا شُعبۃُ فَذَکَرَہٗ وقالَ رَفَعہٗ عَمْرُو بْنُ حَکَّامٍ ثُمَّ ذَکرَ مَتْنَہٗ۔ (المداوی، ۳/۲۳۶)
اس کا مطلب یہ ہوا کہ صرف عمرو بن حکام نے اس کو ’مرفوع‘ کیا ہے اور عثمان نے اس کو موقوف روایت کیا ہے۔
تیسری وجہ یہ ہے کہ محمد بن جعفر غندر نے اس کو ’موقوف‘ روایت کیا ہے۔ شعبہ کی روایات میں وہ [غندر] سب سے زیادہ قابلِ اعتماد ہے ۔ امام ذہبیؒ نے لکھا: اَحَدُ الْاَثْبَاتِ الْمُتْقِنِیْنَ وَلَاسِیَّمًا فِیْ شُعْبَۃَ۔ غندر اثبت [زیادہ قوی] اور متقن [ماہر] لوگوں میں سے ہے، بطورِ خاص شعبہ سے روایت کرنے میں۔ یاد رہے وہ شعبہ کا ۲۰سال شاگرد رہا۔
پھر عبدالرحمٰن ابن مہدی سے نقل کیا: غُنْدُرُ فِیْ شُعْبَۃَ اَثْبَتُ مِنِّیْ۔ یعنی محمد بن جعفر غندر شعبہ سے روایت کرنے میں مجھ سے زیادہ قابلِ اعتماد ہے۔
اسی طرح عبداللہ بن المبارک سے بطور اصول یہ بات نقل کی ہے کہ جب لوگوں کے درمیان شعبہ کی روایت کردہ حدیث میں اختلاف ہوجائے تو فیصلہ محمد بن جعفر غندر کی کتاب کا ہی ہوگا: وقال ابنُ المبارکِ اِذَ اخْتَلَفَ النَّاسُ فِیْ حَدِیْثِ شُعْبَۃَ فَکِتَابُ غُنْدُرَ حَکَمٌ بَیْنَھُمْ (میزان الاعتدال ، ۵/۱۵)
اس لیے جب ہم ان اُمور پر غور کرتے ہیں تو یہ بات یقینی ہوجاتی ہے کہ یہ حدیث حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ پر موقوف ہے، مرفوع نہیں ہے۔ گویا چار لوگوں نے اس حدیث کو ’موقوف‘ کیا ہے: ۱-غندر ، ۲-یحییٰ بن سعید القطان ، ۳- روح بن عبادہ، ۴- اور عثمان بن عمر بن فارس۔
یہ لوگ ان راویوں سے یاد داشت میں بہت زیادہ پختہ کار ہیں، جنھوں نے اس کو ’مرفوع‘ کہا ہے۔
شیخ ابواسحاق نے تو ذرا سخت بات کی ہے کہ وَھُمُ الَّذِیْنَ یَتَرَجَّحُوْنَ عَلَی الَّذِیْنَ رَفَعُوا الْحَدِیْثَ فَھُمْ اَعْلٰی مِنْھُمْ ضَبْطًا وَاِتْقَانًا، خُصُوْصًا فِیْ حَدِیْثِ شُعْبَۃَ بَلْ لَیْسَ فِیْھِمْ مَّنْ یُّرْفَعُ لَہٗ رَأْسٌ اِلَّا مُعَاذُ الْعَنْبَرِیُّ وَقَدْ خَالَفَہٗ مَنْ ذَکَرْتُ۔ (اسعاف اللبیث فی فتاویٰ الحدیث، ۱/۲۱۶) [ان لوگوں کی راے اُن سے زیادہ وزنی ہے، جنھوں نے اس حدیث کو مرفوع کیا ہے۔ اس لیے کہ یادداشت اور پختگی میں اِن کا مقام اُن سے اونچا ہے، بطورِ خاص شعبہ سے حدیث نقل کرنے میں۔ بلکہ ان میں تو کوئی ایسا شخص بھی نہیں ہے جو قابل التفات ہو، سواے معاذ عنبری کے، اور اس کی مخالفت ان لوگوں نے کی ہے جن کا میں نے تذکرہ کیا ہے۔]
ہمارے نزدیک اگر موقوف کرنے والا فرد صرف محمد بن جعفر غندر ہوتا، تب بھی اس کا قول راجح [وزنی] ہوتا۔ کیوںکہ شعبہ سے روایت کرنے میں اتھارٹی وہ ہیں۔ مگر یہاں تو تین اور متقن [پختہ کار] راوی اس کے ساتھ ہیں۔
[چوتھی وجہ] یہ بھی ہے کہ اس حدیث میں نکارت{ FR 570 } ہے۔ اس کا اعتراف بھی اصحابِ تحقیق نے کیا ہے۔
مناویؒ نے لکھا کہ وَاَقَرَّہُ الذَّھَبِیُّ فِی التَّلْخِیْصِ لٰکِنَّہٗ فِی الْمُھَذَّبِ قَالَ: ھُوَ مَعَ نَکَارَتِہٖ اِسْنَادُہٗ نَظِیْفٌ (فیض القدیر، ۴/۲۵۶) [ذہبی نے تلخیص میں تو اس کو برقرار رکھا ہے، مگر مہذب میں کہا ہے کہ باوجود نکارت کے اس کی سند صاف ہے]۔
پھر عبدالرزاق مہدی نے لکھا کہ وَظَاھِرُہُ الصِّحَّۃُ لٰکِنْ اَعَلَّہُ الْحَاکِمُ بِاَنَّ اَصْحَابَ شُعْبَۃَ رَوَوْہُ مَوْقُوْفًا…… ثُمَّ اِنَّ لَفْظَ الْحَدِیْثِ الْاَوَّلِ صَدْرُہٗ مُنْکَرٌ فَاِنَّ الصَّبْرَ عَلَی الْمَرْاَۃِ السَّیِّئَۃِ الْخُلْقِ فِیْہِ ثَوَابٌ عَظِیْمٌ (تفسیر القرآن العظیم ھامش ، ۱/۵۹۳)
یعنی [یہ حدیث بظاہر صحیح ہے، مگر امام حاکم نے اس میں یہ علت بیان کی ہے کہ شعبہ کے شاگردوں نے اس کو موقوف روایت کیا ہے] …… اس طرح پہلی حدیث کا ابتدائی حصہ ’منکر‘ ہے کیوں کہ بدخلق عورت پر صبر کرنا بڑے ثواب کا کام ہے۔
اس کے ’منکر‘ ہونے کی وجہ یہ بھی ہے کہ سنن ابواؤد، مسنداحمد اور بیہقی میں ایک روایت وارد ہے، جس کا آخری حصہ یہ ہے:
قُلْتُ: یَارَسُوْلَ اللہِ! اِنَّ لِیْ اِمْرَاَۃٌ فِیْ لِسَانِھَا شَیْءٌ (یَعْنِی الْبَذَاءَۃَ) قَالَ: طَلِّقْھَا قُلْتُ: اِنَّ لِیْ مِنْھَا وَلَدًا وَلَھَا صَحْبَۃٌ ، قَالَ فَمُرْھَا (یَقُوْلُ) عِظْھَا فَاِنْ یَّکُ فِیْھَا خَیْرٌ فَسَتَقْبَلُ (البیہقی، ۷/۳۰۳)
یعنی میں نے کہا:یارسول اللہ! میری بیوی ہے، وہ ذرا بدزبان ہے تو نبی علیہ السلام نے فرمایا: ’اسے چھوڑ دے‘۔ میں نے کہا: ’اس سے میری اولاد بھی ہے۔ پھر اس کے ساتھ رفاقت بھی رہی ہے‘۔ تو نبی علیہ السلام نے فرمایا: ’اسے وعظ و نصیحت کرلیا کرو۔ اگر اس میں کچھ خیر ہوا تو وہ اس کو قبول کرے گی‘۔
شیخ ابواسحاق کا کہنا ہے کہ اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بدزبان اور بدخلق عورت کو رکھنا جائز ہے، اِلّا یہ کہ ہم اس حدیث کو بلاضرورت و حاجت پر محمول کریں۔ مگر یہ بعید ہے کیوں کہ بندہ عموماً جب کسی عورت کو نہ چاہتے ہوئے بھی رکھتا ہے تو اس کی کوئی وجہ ہوگی: فَھٰذَا الْحَدِیْثُ یَدُلُّ عَلٰی جَوَازِ اَنْ یُّمْسِکَ الْمَرْءَۃَ السَّیِّئَۃَ الْخُلْقِ سَلِیْطَۃَ اللِّسَانِ اِلَّا لَوْ حَمَلْنَا الْحَدِیْثَ عَلٰی غَیْرِ الضَّرُوْرَۃِ اَوِ الْحَاجَۃِ، وَفِیْہِ بُعْدٌ لِّاَنَّ الْمَرْءَ عَادَۃً لَّا یُمْسِکُ الْمَرْءَۃَ وَھُوَ کَارِہٌ اِلَّا لِمَعْنًی۔ واللہ اعلم (اسعاف اللبیث، ۱/۲۱۷)
مگر ہم تو کہتے ہیں کہ ایسی عورت کو برداشت کرنا، اور اس کے ساتھ زندگی گزارنا ثواب کا کام ہے۔
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ درج بالا حدیث نبی علیہ والسلام کا قول نہیں ہے بلکہ حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ پر موقوف ہے۔ اس لیے زیادہ پریشان ہونے کی بات نہیں ہے۔ واللہ اعلم وعلمہ اتم واحکم۔ (مولانا واصل واسطی)
الجامع الصغیر کی شرح فیض القدیر میں زیربحث حدیث کی جو تشریح کی گئی ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ جو شخص اپنی بدخو بیوی کو بد دعا دیتا ہے تو وہ قبول نہیں ہوتی، اس لیے کہ اس کو اختیار ہے کہ اسے علیحدہ کردے، چنانچہ اس نے خود ہی اپنے آپ کو عذاب میں ڈالا ہوا ہے۔ [فیض القدیر ، المکتبۃ التجاریۃ، مصر، طبع اول ۱۳۵۶ھ، ۳/۳۳۶)
گویا وہ اپنے اس اختیار کو استعمال کرنے کے بجاے اسے بددعا دیتا ہے تو اسے اس کا حق نہیں پہنچتا۔ اسی طرح کی تشریح باقی دو شخصوں کے بارے میں بھی کی گئی ہے کہ وہ اگر اپنے فریق مخالف کو بد دعا دیتے ہیں تو وہ ان کے حق میں قبول نہیں ہوتی، اس لیے کہ انھوں نے خود ہی کوتاہی کا ارتکاب کیا ہے۔ اس تشریح سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس حدیث کا اصل مقصد بددعا کی ممانعت ہے، نہ کہ طلاق کی ترغیب۔ اس صورت میں یہ حدیث چاہے رسولؐ اللہ کا ارشاد ہو یا حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ کا قول، ہر صورت میں اس کا مفہوم درست ہے۔ واللہ اعلم ![گل زادہ شیرپاؤ ]
_______________
رسائل و مسائل
مسلم سوسائٹی کا انحطاط اور اسلامی تحریک
سوال : قریب ترین تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ اسلامی راسخ العقیدہ یا مغرب کی اصطلاح میں ’بنیاد پرست‘ لوگوں کی جتنی بھی تحریکیں ہیں، وہ ایک سطح تک اپنی تحریک کو کامیابی تک پہنچاتی ہیں، مگر اس کے بعد مسلم قوم پرست بلکہ صحیح معنوں میں سیکولر گروہ اس پر قابض اور حاوی ہوجاتے ہیں۔ ۲۰ویں صدی کی تاریخ ہمارے سامنے ہے، کیا اسلامی تحریکیں ہمیشہ مغرب پسند مسلم قوم پرستوں کے سامنے ایک ثانوی کردار ہی ادا کرتی رہیں گی؟
جواب :یہ ایک بڑا ہی بنیادی سوال ہے۔ اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ مختلف وجوہ سے مغربی اقوام کے ہاتھوں معاشرے سیاسی شکست سے اس مقام پر پہنچ چکے ہیں۔ میری نگاہ میں قومی زوال کا آغاز سیاسی شکست سے منسوب کرنا درست نہیں۔ شکست بلاشبہہ ایک بُری شے ہے، مگر زندگی کے مدوجزر کا ایک لازمی حصہ بھی ہے۔ البتہ شکست کو تسلیم کرکے بیٹھ جانا موت کے مترادف ہے۔
فکری تحریکیں میدانِ جنگ میں نشیب و فراز کے علی الرغم نئی بلندیوں سے ہم کنار ہوسکتی ہیں اور تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ یہ چیز اچھی طرح ذہن نشین رہنی چاہیے کہ ایک فکری تحریک کا شیرازہ صرف اس وقت بکھرتاہے، جب شکست اس کی قیادت اور پھر کارکنوں کے دل و دماغ پر غالب آجائے اور وہ اپنی بنیاد اور شناخت کے باب میں تشکیک ، اضمحلال یا ارتداد کا شکار ہوجائے۔ اس لیے یہ جاننا چاہیے کہ سوال میں بیان کردہ شکست کے مختلف ماڈل، مسلم معاشروں کے گوناگوں تضادات کا ایک نتیجہ اور تسلسل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی تحریکات ایک بڑا ہی قابلِ قدر، تخلیقی اور ہمہ گیر شعور دینے کے باوجود ابھی تک مسلم معاشروں کو مکمل تبدیلی کی منزل سے ہم کنار نہیں کرسکی ہیں۔ البتہ اس جدوجہد میں وہ پوری لگن کے ساتھ مصروف ہیں۔
اس صبرآزما اور وقت طلب عمل کا سبب یہ ہے کہ اسلامی تحریکات نے بڑے نامساعد حالات میں کام کا آغاز کیا۔ یہ ایسا وقت تھا جب علمی، فکری، ذہنی اور اخلاقی طور پر مغربی تہذیب نے مسلمانوں پر ہمہ گیر تسلط حاصل کرلیا تھا۔ بگاڑ یہاں تک پہنچ گیا تھا کہ مصر جیسے مسلم ملک میں برطانوی اقتدار کے خلاف جنگ ِ آزادی کے دوران رمضان کے مہینے میں عوام کے سامنے سعدزغلول نے شراب پینے سے اجتناب نہ کیا،مگر پھر بھی لوگ اس کو زندہ بادکے نعروں سے ہی نوازتے رہے۔ اسی طرح نیاز فتح پوری کو تمام تر ملحدانہ نظریات کے باوجود مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ اور جامعہ ملّیہ دلی میں ہیرو سمجھا جاتا رہا۔ انھی حالات کے بارے میں علامہ محمد اقبال نے کہا:
تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
اس پس منظر میں تحریک اسلامی نے دنیا بھر میں مختلف قیادتوں کے تحت، مگر ایک واضح فکر کے ساتھ کام شروع کیا۔ ان کا کام دو پہلوئوں پر محیط ہے، اور دونوں نہ صرف برابر کی اہمیت رکھتے ہیں بلکہ ان کا اپنا اپنا مستقل کردار ہے اور ساتھ ہی ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔ یعنی پہلا یہ کہ فکر کی تشکیل نو اور نظریاتی انقلاب اور دوسرا قیادت کا انقلاب۔ اجتماعی تبدیلی بیسویں صدی کی اسلامی تحریکوں کو بھی ایک عظیم فکری چیلنج سے سابقہ درپیش تھا۔ انھیں باطل نظریات کے طلسم کو توڑنا تھا، تاکہ لوگوں کو اسلام کی حقانیت اور اسلام کے قابلِ عمل ہونے کا یقین حاصل ہو۔ دوسری فکر ان کو یہ دامن گیر تھی کہ مسلم سوسائٹی کی اعلیٰ قیادت، جس میں دانش ور، اہلِ قلم، اساتذہ اور اہل حل و عقد آتے ہیں اس کو مخاطب کیا جائے۔
لیکن، میرے خیال میں شاید اسلامی تحریکوں کی قیادتیں اس امر کا اندازہ نہ لگاسکیں کہ ملک میںقیادت اور عوام کے درمیان تعلقاتِ کار تبدیل ہوگئے ہیں۔ ہم ایک تبدیل شدہ صورتِ حال میں ہیں۔ جتنا بھرپور چیلنج درپیش تھا، اس میں بہرحال جان جوکھم ، جدوجہد، ایثار اور قربانی پر اسلامی تحریکوں کو کریڈٹ جاتا ہے کہ جو کام انھوں نے کیا وہ بڑا بنیادی اور غیرمعمولی نوعیت کا کام تھا۔ لیکن ساتھ ہی ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ کیا وجہ ہے کہ اس کے بعد پھر وہ کیفیت نہیں پیدا ہوسکی، جس کے نتیجےکے طور پر مقابل کی ساری قوتوں کو قائل کرکے ساتھ چلا جاسکے اور ہمہ گیر اجتماعی تبدیلی واقع ہو۔
یہ مثال اپنی جگہ غوروفکر کی دعوت دیتی ہے کہ اگر حضرت ابوذر غفاریؓ اسلام قبول کرتے ہیں تو پورا قبیلہ ان کے ساتھ آجاتا ہے۔ اگر طائف کے سردار اسلام قبول کرلیتے ہیں تو پورا طائف محسن عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت قبول کرلیتا ہے۔ لیکن دوسری طرف مولانا شبیراحمد عثمانیؒ تو بلاشبہہ آل انڈیا مسلم لیگ کے ساتھ آجاتے ہیں، مگر جمعیت العلمائے ہند نہیں آتی۔ اس اعتبار سے سیاسی و سماجی قیادت اور فکری قیادت: اسلامی تحریکات ان دونوں پہلوئوں سے آگے بڑھنے میں فیصلہ کن حد تک کامیاب نہیں رہیں۔ ابھی تک وہ اس کی transformation کو مکمل نہیں کرسکیں۔ یہی چیز ہے ایک دوراہا کہ جس پر ہمارے عوام دل سے اسلام چاہتے ہیں لیکن نہ وہ یہ جانتے ہیں کہ اسلام کیا ہے اور نہ اخلاقی طور پر اس بات کے لیے تیار ہوسکے ہیں کہ اسلام جو مطالبات ان سے کرتا ہے اور جو تبدیلیاں وہ چاہتا ہے، انھیں یہ اپنی زندگیوں میں جاری وساری کریں۔ اس بات کو یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ ہمارا اصل بحران یہ ہے کہ بلاشبہہ آج کا مسلمان، اسلام کے لیے جان اور مال کی قربانی دینے کے لیے تیارہے، لیکن اسلام کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے تیار نہیں۔ وہ سود کھانے سے تو نہیں شرماتے، مگر سور کھانے سے ضرور نفرت کرتے ہیں۔ اسلامی تحریکوں کے لیے یہ ایک کھلا چیلنج اور گمبھیر سوال ضرور ہے۔
سوال : ہمارے یہاں اسلامی تحریکیں خواص کے دلوں کو اس انقلابی دعوت کی طرف نہیں پھیر سکیں۔ کیا اسلامی تحریکوں کی حکمت عملی میں کوئی خامی رہ گئی ہے؟
جواب :گذشتہ جواب میں اسی طرف اشارہ کیا ہے ۔ اس وقت ہمارا سوسائٹی کا جو پاور اسٹرکچر ہے اس کو ہم نہ تو اسلام کے حقیقی تصور اور تقاضوں پر عمل درآمد کے لیے قائل کرسکے ہیں اور نہ اسے ہلا سکے ہیں اور نہ اس کی رکاوٹ کو پوری طرح عبور کرسکے ہیں۔ چنانچہ یہ ہمارے لیے بڑا چیلنج ہے۔ ہم نے چاہا کہ انتخابی عمل سے ایک ایسی حیثیت اختیار کرلیں، جس میں ہم لوگوں تک اپنی بات پہنچا سکیں۔ لیکن محسوس ہوا کہ اسلامی قوتوں (اسلامی تحریکوں کا نہیں) کا تقسیم در تقسیم ہونا بلکہ متحارب ہونا، اس راہ کی ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ ہم ان تحریکوں اور تلخ حقائق سے سیکھ رہے ہیں۔ اسلامی تحریک کو یہ جمود توڑنے کے لیے مستقبل میں زیادہ Populist (مقبول عام) پالیسی اختیار کرنا پڑے گی، جس کے معنی عوام کو متحرک اور بیدار کرنا ہے۔ اس بھرپور کاوش سے پاور اسٹرکچر کو تبدیل کرنے کا عمل تیز ہوگا۔ ممکن ہے کہ اس جدوجہد کے ابتدائی مرحلے میں عوامی سطح پر متوقع ابلاغ نہ ہوسکے، لیکن اگر ہدف واضح رہے اور تنظیم میں مضبوطی رہے اور تحریکِ اسلامی کی قیادتیں نعرہ زنی سے بلند ہوکر دین پر عمل میں پختگی، علم و فکر میں گہرائی، ایمان میں راستی، مشاہدے میں وسعت اور کشادہ روی کو اپنی زندگی کا شعار بنا لیں، تو پھر جہد مسلسل کے نتیجے میں ان شاء اللہ ضرور تبدیلی آئے گی۔محض مقبولِ عام نعرے اور نری تشہیر کبھی پاے دار بنیادیں فراہم نہیں کرسکتے۔(پروفیسر خورشیداحمد)
امام الانبیاؐ کا سفرِ حج، تالیف: انجینیرمحمد ارشد۔ ناشر: مکتبہ اسلامیہ،ہادیہ حلیمہ سنٹر، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۳۷۲۴۴۹۷۳- ۰۴۲۔صفحات:۲۰۰۔قیمت:۳۰۰ روپے۔
بقول مؤلّف: ’’اس کتاب کا مقصد امام الانبیاؐ کے حج و عمرے کے طریقے (سنّت)، واقعات کو ایک مسلمان تک پہنچانا ہے تاکہ وہ اس عظیم عبادت اور فرض کی ادایگی میں امام الانبیاؐ کی اِتباع کو حرزِ جاں بنائیں‘‘۔ بلاشبہہ مؤلف اس مقصد میں کامیاب رہے ہیں۔ اس کا بڑا سبب احادیث نبویؐ پر مصنف کی گہری نظر ہے۔
پہلے باب میں انھوں نے قرآنِ حکیم کی وہ آیات (مع ترجمہ) یک جا کی ہیں، جن میں کسی بھی پہلو سے حج اور عمرے کا ذکر آتا ہے۔بعدازاں رسولؐ اللہ کےعمروں کا تذکرہ ہے اور عمروں کے مسائل و احکامات، احادیث کی روشنی میں بتائے ہیں۔ مابعد ابواب میں آپؐ کے سفرِحجۃ الوداع،مکہ میں آمد اور مسجدالحرام میں مناسکِ حج کی ادایگی کا ذکر ہے۔ پھر قیامِ مکّہ، عرفات میں قیام و وقوف، مزدلفہ میں قیام و وقوف، منیٰ میں قربانی، حلق، طوافِ زیارت، ایام تشریق، طوافِ وِداع اور مکہ سے واپس مدینہ سفر کےواقعات اور حیاتِ طیبہ کے آخری ایام کی رُوداد۔ اسی طرح اُم المومنین حضرت عائشہؓ سے خواتین کے لیے عمرے کی راہ نمائی ملتی ہے۔جملہ واقعات، حدیث کے الفاظ (اُردو ترجمہ) میں بیان کیے گئے ہیں۔ مصنف نے اپنی طرف سے کہیں کہیں مختصراً وضاحت بھی کی ہے۔ ہرہرمرحلے کی تاریخ، دن اور کہیں کہیں وقت کی وضاحت بھی کی گئی ہے۔ مؤلف نے ’پیش لفظ‘ میں بطورِ مآخذ کتب ِ احادیث اور ویب لنکس کے نام بھی دے دیے ہیں۔ معیارِ طباعت و اشاعت اطمینان بخش ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
انگلستان میں اسلام، ڈاکٹر صہیب حسن ۔ناشر : دعوۃ اکیڈمی ،فیصل مسجد، اسلام آباد۔ صفحات:۲۰۹۔ قیمت :۳۳۰ روپے ۔
آں حضوؐر مبعوث ہوئے توکم وبیش نصف صدی کے اندر مسلمان ایشیا اور افریقا کے دُور دراز گوشوں تک پہنچ گئے۔ آج دنیا کا شاید ہی کوئی ایسا ملک ہو گا جہاں کوئی مسلمان موجود نہ ہو۔ انگلستان میں مسلمانوں کی زیادہ تر آمد ہندستان پر انگریزوں کے قبضے کے بعد شروع ہوئی لیکن ماقبل زمانے سے متعلق زیر نظر کتاب کے مصنف نے چند دل چسپ انکشافات کیے ہیں، مثلاً: آٹھویں صدی عیسوی میں انگلستان کا باد شاہ اوفا مسلمان تھا اور اس کے جاری کردہ سونے کے سکّوں پر عربی رسم الخط میں یہ الفاظ مرقوم ہیں: لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ لَا شَرِیکَ لَہٗ۔
گیارھویں اور بارھویں صدی میں صلیبی جنگوں میں مسلمانوں سے میل جول کے نتیجے میں متعدد انگریز مسلمان ہو گئے۔ سولھویں اور سترھویں صدی میں عثمانی ترکوں کی بحریہ وقتاً فوقتاً انگریزی جہازوں پر حملہ کر کے انگریزوں کو قیدی بنا لیا کرتی تھی۔ ان قیدیوں کی اکثریت مسلمانوں کے حُسنِ سلوک سے مسلمان ہو جاتی اور اپنی خوشی سے سلطنت عثمانیہ ہی میں سکونت اختیار کر لیتی تھی۔ انیسویں صدی میں انگلستان میں مساجد کا قیام شروع ہوا ۔ آج برطانیہ کی سوا چھے کروڑ کی آبادی میں مسلمانوں کی تعداد ۲۷ لاکھ کے قریب ہے اور مساجد کی تعدا د پندرہ سو کے لگ بھگ ہے۔
زیر نظر کتاب میں مصنّف نے برطانیہ میں مسلمانوں کی آمد اور نشوونما کی تاریخ کے ساتھ تقریباً تین سو مساجد کا مختصر تعارف کرایا ہے۔ مزید برآں برطانیہ میں مسلمانوں کے شب وروز خصوصاً دعوتی، تبلیغی اور تعلیمی جماعتوں اور اداروں کی سرگرمیوں ،مسلم صحافت کی صورتِ حال بھی بیان کی ہے۔ انگلستانی مسلمانوں کے بارے میں بعض باتیں خوش آیند ہیں، مثلاً یہ کہ کاروباری حضرات میں ۱۰ ہزار کے قریب لکھ پتی ہیں، یا دارالعوام میں آٹھ مسلمان ایم پی ہیںاور ہائوس آف لارڈ ز میں ۱۲لارڈز ہیں۔ لیکن افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ مسلمان ، تعلیم میں ہندوئوں اور سکھوں سے پیچھے ہیں۔ راقم کا مشاہد ہ یہ ہے کہ پونڈ کمانے کی مصروفیت میںمسلمانوں کی اکثریت یہ بھو ل چکی ہے کہ ہم سب سے پہلے ’مسلمان ‘ ہیں۔کتاب کے مقدمہ نگار کے بقول: ــ’’برطانیہ میں مسلمانوں کی سرگرمیوں کو سمجھنے کے لیے یہ کتاب کلید کی حیثیت رکھتی ہے‘‘۔ (رفیع الدین ہاشمی )
بلوچستان: تاریخ ، معاشرت ، ڈاکٹر محمد اشرف شاہین۔ ناشر: یونی ورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹکنالوجی، لاہور۔ ضخامت: ۳۸۰ مجلد، قیمت: ۸۰۰ روپے۔
صوبہ بلوچستان رقبے کے اعتبار سے پاکستان کا سب سے بڑا اور آبادی کے لحاظ سے سب سے چھوٹا صوبہ ہے۔ دوسرے صوبوں کے مقابلے میں یہ عدم تناسب کوئی عجیب بات نہیں ہے، کیوں کہ بلوچستان کی طبعی اور موسمیاتی صورتِ حال ایسی نہیں کہ وہاں پر آبادی کا ارتکاز ہوسکے۔ لیکن اس کے بالمقابل بہرحال یہ چیز بہت عجیب ہے کہ پاکستان کے بیش تر لوگ اپنے اس صوبے کے حالات، تاریخ، معاشرت وغیرہ سے افسوس ناک حد تک بے خبر ہیں۔ اس بے خبری کا نقصان جہاں صوبہ بلوچستان میں بسنے والے ہم وطنوں کو پہنچ رہا ہے، وہیں خود پاکستان کے دیگر صوبہ جات کے شہری بھی مسائل و مشکلات سے گھرے اس صوبے کے حقائق کے بارے میں اندھیرے میں ہیں اور انھیں اس صوبے کے وجود کے بارے میں اس وقت خبر ہوتی ہے جب کبھی وہاں پر کوئی افسوس ناک حادثہ رُونما ہوتا ہے۔
زیرنظر کتاب اگرچہ موجودہ دور میں، بلوچستان کے سیاسی مسائل اور مناقشات پر کوئی مفصل احوال پیش نہیں کرتی، لیکن بلوچستان کی قدیم اور حالیہ سماجی تاریخ، اور وہاں کے قبائل و مذاہب، ثقافت اور روایات کے بارے میں بہت سی مفید معلومات مہیا کرتی ہے۔ بلاشبہہ بلوچستان پر بہت لکھا گیا ہے، مگر اس کا زیادہ حصہ انگریزی میں ہے۔ اس کے برعکس اُردو میں عام فہم انداز اور رطب و یابس سے محفوظ یہ ایک مختصر اور جامع کتاب ہے۔
ڈاکٹر محمد اشرف شاہین قیصرانی اس خدمت پر شکریے کے مستحق ہیں۔ یو ایم ٹی پریس نے یہ کتاب شائع کر کے ایک خدمت انجام دی ہے۔ (سلیم منصورخالد)
تعارف کتب
$ باتیں سیاست دانوں کی ، ضیاشاہد۔ ناشر: قلم فائونڈیشن، یثرب کالونی، بنک اسٹاپ، والٹن روڈ، لاہوکینٹ۔ فون: ۰۵۱۵۱۰۱- ۰۳۰۰۔ صفحات: ۴۲۰۔ قیمت: ۱۲۰۰ روپے۔[اس کتاب میں پاکستان کے معروف صحافی ضیا شاہد نے ۲۲مختلف سیاسی و علمی شخصیات کے بارے میں اپنے مشاہدات و تاثرات قلم بند کیے ہیں۔ مجموعی طور پر کتاب دل چسپ ہے۔ اگر یہ کتاب مہنگے چکنے کاغذ کے بجاے اچھے سفید کاغذ پر بھی شائع کی جاتی تو اس سے آدھی قیمت پر دستیاب ہوتی۔]
پروفیسر سعید اکرم،چکوال
نومبر ۱۷ء کا شمارہ بالخصوص علامہ اقبال ؒ کے حوالے سے مضامین کے ہمراہ بہت معلومات افزا تھا۔ محترم عرفان صدیقی نے ایک عاشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، محمد رمضان عطائی کا اقبال کے ساتھ تعلق کا قصہ سنا کر ایمان تازہ کر دیا۔ سید ابوالحسن علی ندوی اور حبیب الرحمٰن چترالی کے مضامین بھی خاصے کی چیزیں ہیں۔ مولانا محمد صادق نے حسد کی برائیاں گنوا کر ، اس برائی سے بچنے کی بڑی مفید تدبیریں تجویز کی ہیں ۔ ڈاکٹر محی الدین غازی نے اُمہات المؤمنین ؓ کے درمیان محبت کے مثالی تعلق کا نقشہ کھینچ کر خواتین کو بڑی سبق آموز باتیں بتائی ہیں۔ ڈاکٹر معین الدین عقیل نے برصغیر میں مسلم تہذیبی اور ذہنی ارتقا کی کہانی بیان کر کے گویا دریا کو کوزے میںبند کر دیا ہے۔ بہر حال یہ موضوع ان سے ایک مکمل کتاب کا تقاضا کرتا ہے۔
طاہرہ مبین ، پشاور
نومبر کے شمارے میں افتخار گیلانی کے مضمون نے ، جموں وکشمیر میں مسلم آبادی کے بارے میں حقائق کو جس مدلل انداز سے پیش کیا ہے، ہم ان معلومات سے نہ صرف بے خبر تھے، بلکہ اس سے اُلٹ تاثر کے اسیر تھے۔ ایسے مضمون کی اشاعت پر ماہنامہ ترجمان القرآن مبارک باد کا مستحق ہے۔
محمد اسماعیل ، لاڑکانہ
پروفیسر خورشید احمد نے اشتراکیت کے زوال پر ایک مختصر مضمون میں، نہایت اعلیٰ درجے کا تجزیہ پیش کر کے واقعی دریا کو کوزے میں بند کر دیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ مضبوط استدلال کے ساتھ نقد وجرح کر کے، نئے سوال اٹھا ئے ہیں، جن کا جواب اہل دانش پر واجب ہے۔
احمد حسین، ملتان
ڈاکٹر حافظ حسن مدنی نے صادق وامین کی بحث کو اسلام کے ابتدائی دور کے مصنّفین کے حوالے سے زیربحث لا کر موضوع کو وسعت عطا کی ہے۔موضوع کے اعتبار سے اس شمارے کی یہ تحریر مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔
منیر احمد ، اسلام آباد
حبیب الرحمٰن چترالی کا مضمون ، علامہ اقبال کی فکر ، عرفان اور قدیم وجدید علوم اور ملت اسلامیہ کی زبوں حالی پر اختصار اور زور دار انداز میں بحث کرتا ہے۔