اَفَمَنْ شَرَحَ اللّٰہُ صَدْرَہٗ لِلْاِسْلَامِ فَھُوَ عَلٰی نُوْرٍ مِّنْ رَّبِّہٖط فَوَیْلٌ لِّلْقٰسِیَۃِ قُلُوْبُھُمْ مِّنْ ذِکْرِ اللّٰہِط اُوْلٰٓئِکَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ o (الزمر ۳۹:۲۲)
اب کیا وہ شخص جس کا سینہ اللہ نے اسلام کے لیے کھول دیا اور وہ اپنے رب کی طرف سے ایک روشنی پر چل رہا ہے(اُس شخص کی طرح ہوسکتا ہے جس نے اِن باتوں سے کوئی سبق نہ لیا؟)۔ تباہی ہے اُن لوگوں کے لیے جن کے دل اللہ کی نصیحت سے اور زیادہ سخت ہو گئے۔ وہ کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں۔
کسی بات پر آدمی کا شرحِ صدر ہو جانا یا سینہ کھل جانا دراصل اس کیفیت کا نام ہے کہ آدمی کے دل میں اُس بات کے متعلق کوئی خلجان یا تذبذب یا شک و شبہہ باقی نہ رہے ‘ اور اُسے کسی خطرے کا احساس اور کسی نقصان کا اندیشہ بھی اُس بات کو قبول اور اختیار کرنے میں مانع نہ ہو‘ بلکہ پورے اطمینان کے ساتھ وہ یہ فیصلہ کر لے کہ یہ چیزحق ہے لہٰذا خواہ کچھ ہوجائے مجھے اسی پر چلنا ہے۔ اس طرح کا فیصلہ کر کے جب آدمی اسلام کی راہ کو اختیار کر لیتا ہے تو خدا اور رسول کی طرف سے جو حکم بھی اسے ملتا ہے وہ اسے بکراہت نہیں بلکہ برضا ورغبت مانتا ہے۔ کتاب وسنت میں جو عقائد وافکار اور جو اصول و قواعد بھی اس کے سامنے آتے ہیں وہ انھیں اِس طرح قبول کرتا ہے کہ گویا یہی اس کے دل کی آواز ہے۔ کسی ناجائزفائدے کو چھوڑنے پر اسے کوئی پچھتاوا لاحق نہیں ہوتا بلکہ وہ سمجھتا ہے کہ میرے لیے وہ سرے سے کوئی فائدہ تھا ہی نہیں‘ اُلٹا ایک نقصان تھا جس سے بفضل ِخدا میں بچ گیا۔ اسی طرح کوئی نقصان بھی اگر راستی پر قائم رہنے کی صورت میں اسے پہنچے تو وہ اس پر افسوس نہیں کرتا بلکہ ٹھنڈے دل سے اسے برداشت کرتا ہے اور اللہ کی راہ سے منہ موڑنے کی بہ نسبت وہ نقصان اسے ہلکا نظر آتا ہے۔ یہی حال اس کا خطرات پیش آنے پر بھی ہوتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ میرے لیے کوئی دوسرا راستہ سرے سے ہے ہی نہیں کہ اس خطرے سے بچنے کے لیے اُدھر نکل جائوں۔ اللہ کا سیدھا راستہ ایک ہی ہے جس پر مجھے بہرحال چلنا ہے۔ خطرہ آتا ہے تو آتا رہے۔
شرحِ صدر کے مقابلے میں انسانی قلب کی دو ہی کیفیتیں ہو سکتی ہیں۔ ایک ضیقِ صدر(سینہ تنگ ہوجانے اور دل بھچ جانے) کی کیفیت جس میں کچھ نہ کچھ گنجایش اس بات کی رہ جاتی ہے کہ حق اُس میں نفوذ کر جائے‘ اور دوسری قساوتِ قلب ( دل کے پتھر ہوجانے) کی کیفیت‘ جس میں حق کے لیے نفوذ یا سرایت کرنے کی کوئی گنجایش نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ اس دوسری کیفیت کے متعلق فرماتا ہے کہ جو شخص اس حد تک پہنچ جائے اس کے لیے پھر کامل تباہی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اگر کوئی شخص‘ خواہ دل کی تنگی ہی کے ساتھ سہی‘ ایک مرتبہ قبولِ حق کے لیے کسی طرح تیار ہو جائے تو اس کے لیے بچ نکلنے کا کچھ نہ کچھ امکان ہوتا ہے۔ یہ دوسرا مضمون آیت کے فحویٰ سے خود بخود نکلتا ہے‘ مگر اللہ تعالیٰ نے اس کی صراحت نہیں فرمائی ہے‘ کیونکہ آیت کا اصل مقصود اُن لوگوں کو متنبہ کرنا تھا جو رسول اللہ صلی علیہ و سلم کی مخالفت میں ضد اور ہٹ دھرمی پر تلے ہوئے تھے اور فیصلہ کیے بیٹھے تھے کہ آپؐ کی کوئی بات مان کر نہیں دینی ہے۔ اس پر انھیں خبردار کیا گیا ہے کہ تم تو اپنی اس ہیکڑی کو بڑی قابلِ فخر چیز سمجھ رہے ہو‘ مگر فی الحقیقت ایک انسان کی اس سے بڑھ کر کوئی نالائقی او ربدنصیبی نہیں ہو سکتی کہ اللہ کا ذکر اور اس کی طرف سے آئی ہوئی نصیحت سُن کر وہ نرم پڑنے کے بجاے اور زیادہ سخت ہوجائے۔(ج ۴‘ ص ۳۶۷-۳۶۸)
اِنْ تَکْفُرُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ عَنْکُمْقف وَلَا یَرْضٰی لِعِبَادِہِ الْکُفْرَج وَاِنْ تَشْکُرُوْا یَرْضَہُ لَکُمْط (الزمر ۳۹:۷)
اگر تم کفر کرو تو اللہ تم سے بے نیاز ہے‘ لیکن وہ اپنے بندوں کے لیے کفر کو پسند نہیں کرتا‘ اور اگر تم شکر کرو تو اسے وہ تمھارے لیے پسندکرتا ہے۔
یعنی تمھارے کفر سے اس کی خدائی میں ذرہ برابر بھی کمی نہیں آسکتی۔ تم مانو گے تب بھی وہ خدا ہے ‘ اور نہ مانو گے تب بھی وہ خداہے اور رہے گا۔ اس کی فرمانروائی اپنے زور پر چل رہی ہے‘ تمھارے ماننے یا نہ ماننے سے اس میں کوئی فرق نہیں پڑسکتا۔ حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: یَاعِبَادِیْ لَوْ اَنَّ اَوَّلَکُمْ وَاٰخِرَکُمْ وَاِنْسَکُمْ وَجِنَّکُمْ کَانُوْا عَلٰی اَفْجَرِ قَلْبِ رَجُلٍ مِّنْکُمْ مَا نَقَصَ مِنْ مُلْکِیْ شَیْئًا۔’’اے میرے بندو‘ اگر تم سب کے سب اگلے‘ اور پچھلے انسان اور جنّ اپنے میں سے کسی فاجر سے فاجر شخص کے دل کی طرح ہو جائو تب بھی میری بادشاہی میں کچھ بھی کمی نہ ہوگی۔(مسلم)
]وہ اپنے بندوں کے لیے کفر پسند نہیں کرتا[‘ یعنی وہ اپنے کسی مفاد کی خاطر نہیں بلکہ خود بندوں کے مفاد کی خاطر یہ پسند نہیں کرتا کہ وہ کفر کریں‘ کیونکہ کفر خود انھی کے لیے نقصان دہ ہے۔ یہاں یہ بات ملحوظ رکھنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت اور چیز ہے اور رضا دوسری چیز۔ دنیا میں کوئی کام بھی اللہ کی مشیت کے خلاف نہیں ہو سکتا‘ مگر اس کی رضا کے خلاف بہت سے کام ہو سکتے ہیں اور رات دن ہوتے رہتے ہیں۔ مثلاً دنیا میں جباروں اور ظالموں کا حکمراں ہونا‘ چوروں اور ڈکوائوں کا پایا جانا‘ قاتلوں اور زانیوں کا موجود ہونا اسی لیے ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بنائے ہوئے نظامِ قدرت میں اِن برائیوں کے ظہور اور اِن اُشرار کے وجود کی گنجایش رکھی ہے۔ پھر ان کو بدی کے ارتکاب کے مواقع بھی وہی دیتا ہے اور اُسی طرح دیتا ہے جس طرح نیکوں کو نیکی کے مواقع دیتا ہے۔ اگر وہ سرے سے اِن کاموں کی گنجایش ہی نہ رکھتا اور ان کے کرنے والوں کو مواقع ہی نہ دیتا تو دنیا میںکبھی کوئی بُرائی ظاہر نہ ہوتی۔ یہ سب کچھ بربناے مشیت ہے۔ لیکن مشیت کے تحت کسی فعل کا صدور یہ معنی نہیں رکھتا کہ اللہ کی رضا بھی اس کو حاصل ہے۔ مثال کے طور پر اس بات کو یوں سمجھیے کہ ایک شخص اگر حرام خوری ہی کے ذریعے سے اپنا رزق حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اللہ اسی ذریعے سے اس کو رزق دے دیتا ہے۔ یہ ہے اس کی مشیت۔ مگر مشیت کے تحت چور یا ڈاکو یا رشوت خوار کو رزق دینے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ چوری‘ ڈاکے اور رشوت کو اللہ پسند بھی کرتا ہے۔ یہی بات اللہ تعالیٰ یہاں فرمارہا ہے کہ تم کفر کرنا چاہو تو کرو‘ ہم تمھیں زبردستی اس سے روک کر مومن نہیں بنائیں گے۔ مگر ہمیں یہ پسند نہیں ہے کہ تم بندے ہو کر اپنے خالق و پروردگار سے کفر کرو‘ کیونکہ یہ تمھارے ہی لیے نقصان دہ ہے‘ ہماری خدائی کا اس سے کچھ نہیں بگڑتا ۔
کفرکے مقابلے میں یہاں ایمان کے بجاے شکر کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ اس سے خود بخود یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ کفر درحقیقت احسان فراموشی و نمک حرامی ہے اور ایمان فی الحقیقت شکر گزاری کا لازمی تقاضا ہے۔ جس شخص میں اللہ جل شانہ کے احسانات کا کچھ بھی احساس ہو وہ ایمان کے سوا کوئی دوسری راہ اختیار نہیں کر سکتا۔ اس لیے شکر اور ایمان ایسے لازم و ملزوم ہیں کہ جہاں شکر ہوگا وہاں ایمان ضرور ہوگا۔ اور اس کے برعکس جہاں کفر ہو گا وہاں شکر کا سرے سے کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘کیونکہ کفر کے ساتھ شکر کے کوئی معنی نہیں ہیں۔ (ج ۴‘ ص ۳۶۰-۳۶۱)
قُلْ اِنَّ الْخٰسِرِیْنَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَھُمْ وَاَھْلِیْھِمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِط اَلَا ذٰلِکَ ھُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِیْنَ o (الزمر ۳۹:۱۵)
کہو‘ اصل دیوالیے تو وہی ہیں جنھوں نے قیامت کے روز اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو گھاٹے میں ڈال دیا۔ خوب سن رکھو‘ یہی کھلا دیوالہ ہے۔
دیوالہ عرفِ عام میں اس چیز کو کہتے ہیں کہ کاروبار میں آدمی کا لگایا ہوا سارا سرمایہ ڈوب جائے اور بازار میں اُس پر دوسروں کے مطالبے اتنے چڑھ جائیں کہ اپنا سب کچھ دے کر بھی وہ ان سے عہدہ برآنہ ہو سکے۔ یہی استعارہ کفارو مشرکین کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہاں استعمال کیا ہے۔ انسان کو زندگی‘ عمر‘ عقل‘ جسم ‘ قوتیں اور قابلیتیں‘ ذرائع اور مواقع ‘ جتنی چیزیں بھی دنیا میں حاصل ہیں‘ ان سب کا مجموعہ دراصل سرمایہ ہے جسے وہ حیاتِ دنیا کے کاروبار میںلگاتا ہے۔ یہ سارا سرمایہ اگر کسی شخص نے اس مفروضے پر لگا دیا کہ کوئی خدا نہیں ہے‘ یا بہت سے خدا ہیں جن کا میں بندہ ہوں‘ اورکسی کومجھے حساب نہیں دینا ہے‘ یا محاسبے کے وقت کوئی دوسرا آکر مجھے بچالے گا‘ تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس نے گھاٹے کا سودا کیا اور اپنا سب کچھ ڈبودیا۔ یہ ہے پہلا خُسران۔
دوسرا خُسران یہ ہے کہ اس غلط مفروضے پر اس نے جتنے کام بھی کیے ان سب میں وہ اپنے نفس سے لے کر دنیا کے بہت سے انسانوں اور آیندہ نسلوں اور اللہ کی دوسری بہت سی مخلوق پر عمر بھر ظلم کرتا رہا۔ اس لیے اس پر بے شمار مطالبات چڑھ گئے‘ مگر اُس کے پلّے کچھ نہیں ہے جس سے وہ ان مطالبات کا بھگتان بھگت سکے۔ اس پر مزید خُسران یہ ہے کہ وہ خود ہی نہیں ڈوبا بلکہ اپنے بال بچوں اور عزیز واقارب اور دوستوں اور ہم قوموں کو بھی اپنی غلط تعلیم و تربیت اور غلط مثال سے لے ڈوبا۔ یہی تین خسارے ہیں جن کے مجموعے کو اللہ تعالیٰ خُسرانِ مبین قرار دے رہا ہے۔(ج ۴‘ ص ۳۶۴-۳۶۵)
اَلنَّارُ یُعْرَضُوْنَ عَلَیْھَا غُدُوًّا وَّعَشِیًّاج وَیَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَۃُ قف اَدْخِلُوْٓا اٰلَ فِرْعَوْنَ اَشَدَّ الْعَذَابِ o (المومن ۴۰:۴)
دوزخ کی آگ ہے جس کے سامنے صبح وشام وہ پیش کیے جاتے ہیں‘ اور جب قیامت کی گھڑی آجائے گی تو حکم ہو گا کہ آلِ فرعون کو شدید تر عذاب میں داخل کرو۔
یہ آیت اُس عذابِ برزخ کا صریح ثبوت ہے جس کا ذکر بکثرت احادیث میں عذابِ قبرکے عنوان سے آیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں صاف الفاظ میں عذاب کے دو مرحلوں کا ذکر فرمایا ہے‘ ایک کم تر درجے کا عذاب جو قیامت کے آنے سے پہلے فرعون اور آلِ فرعون کو اب دیا جا رہا ہے‘ اور وہ یہ ہے کہ انھیں صبح وشام دوزخ کی آگ کے سامنے پیش کیا جاتا ہے جسے دیکھ کر وہ ہر وقت ہَول کھاتے رہتے ہیں کہ یہ ہے دوزخ جس میں آخر کار ہمیں جانا ہے۔ اس کے بعد جب قیامت آجائے گی تو انھیں وہ اصل اور بڑی سزا دی جائے گی جو ان کے لیے مقدر ہے‘ یعنی وہ اس دوزخ میں جھونک دیے جائیں گے جس کا نظارہ انھیں غرقاب ہو جانے کے وقت سے آج تک کرایا جا رہا ہے اور قیامت کی گھڑی تک کرایا جاتا رہے گا۔ اور یہ معاملہ صرف فرعون و آلِ فرعون کے ساتھ ہی خاص نہیںہے۔ تمام مجرموں کو موت کی ساعت سے لے قیامت تک وہ انجامِ بد نظر آتا رہتا ہے جو ان کا انتظار کر رہا ہے‘ اور تمام نیک لوگوں کو اُس انجامِ نیک کی حسین تصویر دکھائی جاتی رہتی ہے جو اللہ نے ان کے لیے مہیا کر رکھا ہے۔ بخاری ‘ مسلم اور مُسند احمد میں حضرت عبداللہؓ بن عمر کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا: ’’اِنَّ اَحَدَکُمْ اِذَا مَاتَ عُرِضَ عَلَیْہِ مَقْعَدُہٗ بِالْغَدَاۃِ وَالْعَشِیِّ ، اِنْ کَانَ مِنْ اَھْلِ الْجَنَّۃِ‘ وَاِنْ کَانَ مِنْ اَھْلِ النَّارِ‘ فَیُقَالُ ھٰذَا مَقْعَدُکَ حَتّٰی یَبْعَثَکَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ اِلَیْہِ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ۔’’ تم میں سے جو شخص بھی مرتا ہے اسے صبح و شام اس کی آخری قیام گاہ دکھائی جاتی رہتی ہے‘ خواہ جنتی ہو یا دوزخی۔ اس سے کہا جاتا ہے کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں تو اُس وقت جائے گا جب اللہ تجھے قیامت کے روز دوبارہ اُٹھا کر اپنے حضور بلائے گا‘‘۔ (ج ۴‘ ص ۴۱۲-۴۱۳)
لَھُمْ مَّا یَشَآئُ وْنَ عِنْدَ رَبِّھِمْ ط (الزمر ۳۹:۳۴)
انھیں اپنے رب کے ہاں وہ سب کچھ ملے گا جس کی وہ خواہش کریں گے۔
یہ بات ملحوظ رہے کہ یہاں فِی الْجَنَّۃِ (جنت) نہیں بلکہ عِنْدَ رَبِّھِمْ (ان کے رب کے ہاں) کے الفاظ ارشاد ہوئے ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ اپنے رب کے ہاں تو بندہ مرنے کے بعد ہی پہنچ جاتا ہے۔ اس لیے آیت کا منشا یہ معلوم ہوتا ہے کہ جنت میں پہنچ کرہی نہیں‘ بلکہ مرنے کے وقت سے دخولِ جنت تک کے زمانے میں بھی مومنِ صالح کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا معاملہ یہی رہے گا۔ وہ عذابِ برزخ سے‘ روزِ قیامت کی سختیوں سے‘ حساب کی سخت گیری سے‘ میدانِ حشر کی رسوائی سے‘ اپنی کوتاہیوں اور قصوروں پر مواخذے سے لازماً بچنا چاہے گا اور اللہ جل شانہ ‘ اس کی یہ ساری خواہشات پوری فرمائے گا۔ (ج ۴‘ ص ۳۷۳)
اَلَّذِیْنَ یَحْمِلُوْنَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَہٗ یُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّھِمْ وَیُؤْمِنُوْنَ بِہٖ وَیَسْتَغْفِرُوْنَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْاج رَبَّنَا وَسِعْتَ کُلَّ شَیْ ئٍ رَّحْمَۃً وَّعِلْمًا فَاغْفِرْ لِلَّذِیْنَ تَابُوْا وَاتَّبَعُوْا سَبِیْلَکَ وَقِھِمْ عَذَابَ الْجَحِیْمِ o رَبَّنَا وَاَدْخِلْھُمْ جَنّٰتِ عَدْنِ نِ الَّتِیْ وَعَدْتَّھُمْ وَمَنْ صَلَحَ مِنْ اٰبَآئِھِمْ وَاَزْوَاجِھِمْ وَذُرِّیّٰتِھِمْط اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ o (المومن ۴۰: ۷-۸)
عرشِ الٰہی کے حامل فرشتے‘ اور وہ جو عرش کے گرد و پیش حاضر رہتے ہیں‘ سب اپنے رب کے حمدکے ساتھ اس کی تسبیح کر رہے ہیں۔ وہ اس پر ایمان رکھتے ہیں اور ایمان لانے والوں کے حق میں دُعائے مغفرت کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: ’’اے ہمارے رب‘ تو اپنی رحمت اور اپنے علم کے ساتھ ہرچیزپرچھایا ہوا ہے‘ پس معاف کر دے اور عذابِ دوزخ سے بچالے اُن لوگوں کو جنھوں نے توبہ کی ہے اور تیرا راستہ اختیار کر لیا ہے۔ اے ہمارے رب‘ اور داخل کر اُن کو ہمیشہ رہنے والی اُن جنتوں میں جن کا تو نے اُن سے وعدہ کیا ہے‘ اور اُن کے والدین اور بیویوں اور اولاد میں سے جو صالح ہوں(اُن کو بھی وہاں اُن کے ساتھ ہی پہنچا دے)۔ توبلاشبہ قادرِمطلق اورحکیم ہے۔
یہ بات نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھیوں کی تسلی کے لیے ارشاد ہوئی ہے۔ وہ اس وقت کفارِ مکّہ کی زبان درازیاں اور چیرہ دستیاں ‘ اور ان کے مقابلے میں اپنی بے بسی دیکھ دیکھ کر سخت دل شکستہ ہو رہے تھے۔ اس پر فرمایا گیا کہ اِن گھٹیا اور رذیل لوگوں کی باتوں پر تم رنجیدہ کیوں ہوتے ہو‘ تمھارا مرتبہ تو وہ ہے کہ عرش الٰہی کے حامل فرشتے اور عرش کے گرد و پیش حاضر رہنے والے ملائکہ تک تمھارے حامی ہیں اور تمھاے حق میں اللہ تعالیٰ کے حضور سفارشیں کر رہے ہیں۔ عام فرشتوں کے بجاے عرش الٰہی کے حامل اور اس کے گرد و پیش حاضر رہنے والے فرشتوں کا ذکر یہ تصور دلانے کے لیے کیا گیا ہے کہ سلطنت خداوندی کے عام اہل کار تو درکنار‘ وہ ملائکہ مقربین بھی جو اس سلطنت کے ستون ہیں اور جنھیں فرمانروائے کائنات کے ہاں قرب کا مقام حاصل ہے ‘ تمھارے ساتھ گہری دلچسپی و ہمدردی رکھتے ہیں۔ پھر یہ فرمایا گیاکہ یہ ملائکہ اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہیں اور ایمان لانے والوں کے حق میں دعائے مغفرت کرتے ہیں۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ایمان کا رشتہ ہی وہ اصل رشتہ ہے جس نے عرشیوں اور فرشیوں کو ملا کر ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ کر دیا ہے‘ اور اسی تعلق کی وجہ سے عرش کے قریب رہنے والے فرشتوں کو زمین پر بسنے والے ان خاکی انسانوں سے دلچسپی پیدا ہوئی ہے جو انھی کی طرح اللہ پر ایمان رکھتے ہیں۔ اللہ پر فرشتوں کے ایمان رکھنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ کفر کر سکتے تھے‘ مگر انھوں نے اسے چھوڑ کر ایمان اختیار کیا‘ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ وحدہ‘ لاشریک ہی کا اقتدار مانتے ہیں۔ کوئی دوسری ہستی ایسی نہیں ہے جو انھیں حکم دینے والی ہو اور وہ اس کے آگے سراطاعت جھکاتے ہوں۔ یہی مسلک جب ایمان لانے والے انسانوں نے بھی اختیار کر لیا تو اتنے بڑے اختلافِ جنس اور بُعدِمقام کے باوجود اُن کے اور فرشتوں کے درمیان ہم مشربی کا مضبوط تعلق قائم ہوگیا۔ (ج ۴‘ ص ۳۹۴)