پروفیسر خورشید احمد | جولائی ۲۰۰۴ | اشارات
’’روشن خیالی‘‘ اور ’’اعتدال پسندی‘‘ بڑ ے خوش نما الفاظ ہی نہیں‘ بڑے دل پذیر تصورات بھی ہیں۔ اگر مسلمان تہذیب و ثقافت‘ معاشرت اور شریعت پر اسلام کے فکری‘ نظریاتی اور اخلاقی تناظر میں غور کیا جائے‘ تو یہ اس دین اور تہذیب کی امتیازی خصوصیات میں سے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ معاملہ عقیدے کا ہو یا عمل کا‘ فرد کی زندگی ہو یا اجتماعی زندگی‘ عبادت ہو یا معیشت‘ حتیٰ کہ دوستی کے امور ہوں یا دشمنی اور جنگ کے‘ ان سب میں اسلام نے عدل کا حکم دیا ہے جو اعتدال اور توازن کی علامت ہے۔ اسلام نے ہر سطح پر ہراقدام کے لیے احتساب کی شرط لگائی ہے جو شعور‘ اختیار اور روشن خیالی پر منحصر ہے اور تعصب‘ جہل اور جانب داری سے محفوظ رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے اُمت مسلمہ کو خیراُمت اور اُمت وسط قرار دیا ہے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام امور میں میانہ روی اور وسط کی راہ کو بہترین راستہ اور طریقہ قرار دیا ہے (خیر الامور اوسطہا)۔ اس لیے اگر روشن خیال اعتدال پسندی کی بات کی جائے تو اس پر تعجب یا اعتراض کچھ بے محل معلوم ہوتا ہے۔ لیکن مشکل یہ آپڑی ہے کہ آج جس ’روشن خیال اعتدال پسندی‘ کی بات کی جا رہی ہے اس کا پس منظر ہمارا اپنا دین‘ ہماری اپنی تہذیب‘ ہماری اپنی روایت اور ہماری ضرورت نہیں بلکہ وہ ایک خاص تاریخی عمل کا حصہ بن گئی ہے اور دنیا کے‘ خصوصیت سے‘ مسلم دنیا کے لیے جس نئے سیاسی اور تہذیبی نقشے میں رنگ بھرا جارہا ہے‘ اس کا اہم رنگ ہے۔ عالمی حالات اور رجحانات کا جائزہ لیجیے تو صاف نظر آ رہا ہے کہ اس کا تعلق بیرونی دبائو اور مطالبات سے ہے۔
جو نیا عالمی نظام وضع کیا جا رہا ہے وہ استعمار کی سب سے جامع اور گمبھیر صورت (version) ہے جس میں عسکری‘ سیاسی‘ معاشی اور ثقافتی پہلو مساوی اہمیت رکھتے ہیں۔ اس کا ہدف دنیا کے تمام ممالک اور اقوام کو ایک سوپر پاورامریکا کی صرف سیاسی اور عسکری چھتری تلے لانا نہیں بلکہ فکری‘ معاشی‘ مالیاتی اور ثقافتی طور پر بھی ایک ہی نظامِ اقدار (value system) سب پر مسلط کرنے کا منصوبہ ہے۔ اسے جبر واختیار اور ترغیب و ترہیب کے ہر ممکنہ ذرائع کے استعمال سے کامیاب کرانا مقصود ہے۔ اس ہمہ جہتی حکمت پر سرد جنگ کے دور کے ختم ہونے کے بعد سے‘ بڑی چابک دستی سے عمل کیا جا رہا ہے اور ۱۱ستمبر کے بعد کے اقدامات اس وسیع تر حکمت عملی کا حصہ ہیں۔ اسے سمجھے بغیر روشن خیالی اور میانہ روی کی جو آوازیں آج اٹھ رہی ہیں‘ ان کی حقیقت اور مضمرات کو سمجھنا ممکن نہیں۔ اس ’روشن خیال اعتدال پسندی‘ کا کوئی تعلق ہماری اپنی ضروریات سے نہیں‘ یہ ہمارے اپنے تہذیبی لنگر سے مربوط اور وابستہ نہیں بلکہ یہ عنوان ہے اس تبدیلی کا‘ جو اسلام اور مسلم معاشرے اور تہذیب کو‘ اس کی اپنی اساس سے ہٹاکر‘ مغرب سے ہم آہنگ کرنے کے لیے کی جا رہی ہے اور آج سے نہیں سامراج کی یلغار کے پہلے دور ہی سے کی جا رہی ہے۔ البتہ استعمار کی تازہ یورش میں اس کو ایک زیادہ مرکزی کردار دیا گیا ہے۔
گذشتہ ربع صدی میں امریکی دانش ور‘ پالیسی ساز اور میڈیا ایک نئی تہذیبی جنگ میں مصروف ہے اور اس کا ہدف مغرب کے لبرل‘ معاشی اور سیاسی نظام کو پوری دنیا پر مسلط کرنا ہے۔ ہم انھی صفحات میں اس سلسلے میں دسیوں کتب اور تحقیقی اور تجزیاتی رپورٹوں کا ذکر کر سکتے ہیں۔ اس پوری حکمت عملی کو مشہور امریکی رسالہ فارن پالیسی (Foreign Policy) کے ایڈیٹر جوزف نائی (Joseph Nye) نے اپنے ایک مضمون میں کسی تکلف کے بغیر مختصر طور پر بیان کردیا ہے۔ وہ کہتا ہے:
عالمی سیاست میں طاقت کی نوعیت میں تبدیلی آ رہی ہے۔ طاقت کا مطلب یہ ہے کہ آپ جو حاصل کرنا چاہتے ہیں حاصل کریں۔ اور اگر ضروری ہو تو اسے امر واقع بنانے کے لیے دوسروں کے رویوں کو تبدیل کر دیں۔
(Re-Ordering the World: The Long-term implications of 11th Sept. ed. by Mark Leonard. Foreword by Tony Blair, The Foreign Policy Centre, London 2002)
جنگ وہ آخری اور قطعی کھیل ہے جس میں عالمی سیاست کے کارڈ کھیلے جاتے ہیں اور طاقت کا تناسب ثابت کیا جاتا ہے۔
البتہ اب نیوکلیر اسلحے کے ایک کارفرما قوت بن جانے سے حالات کروٹ لے رہے ہیں۔ نیز دنیا کی مختلف اقوام میں قومیت کے تصور کے جاگزیں ہوجانے سے عالمی سیاست کے دروبست میں تبدیلی آگئی ہے۔ اسی طرح عالمی سرمایہ داری کی موجودہ شکل جس میں معاشی فوائد کا حصول‘ دنیا کے ممالک کی منڈیوں پر قبضے کے ذریعے ان سے فائدہ اٹھانے کے اسلوب‘ کثیرالقومی کمپنیوں کا کردار یہ سب جنگ اور محض قوت کے ذریعے دوسروں کو قبضے میں رکھنے کو اگر مشکل نہیں تو مہنگا (too costly)بنائے جا رہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں فوجی اورمعاشی قوت جسے وہ Hard Power کہتا ہے مؤثرتو ہیں لیکن اب جن عوامل کا کردار بڑھ رہا ہے انھیں جوزف نائی Soft Powerکہتا ہے:
اس صورت میں یہ بات اہمیت رکھتی ہے کہ عالمی سیاست کا ایجنڈا ترتیب دیا جائے اور دوسروں کو فوجی اور اقتصادی ہتھیاروں کی دھمکی یا استعمال کے ذریعے بزور طاقت اس طرف لایا جائے۔ طاقت کا یہ پہلو کہ دوسرے وہ چاہنے لگیں جوآپ چاہتے ہیں‘ نرم طاقت (Soft Power)کہا جاتا ہے۔ نرم طاقت کا انحصار سیاسی ایجنڈے کو اس طرح ترتیب دینے کی قابلیت پر ہوتا ہے جو دوسروں کی ترجیحات کا تعین کرے۔
اس حکمت عملی پر مؤثر عمل کے لیے ابلاغ کی قوت کا استعمال مرکزی اہمیت رکھتا ہے اور اقتصادی قوت کا ہدف افکار‘ اقدار‘ کلچر کی تبدیلی ہے۔ اس نئی جنگ میںاصل مزاحم قوت مقابل تہذیب کا عقیدہ‘ نظریہ‘ اصول اور اقدار بن جاتے ہیں۔ اسلامی دنیا میں عوام کی اسلام سے وابستگی اور اپنی تہذیب اور اقدار کے بارے میں استقامت--- مغرب کے لیے سب سے بڑا دردسر بنی ہوئی ہے۔ جوزف نائی اعتراف کرتا ہے کہ:
یقینی طور پر ایسے علاقے ہیں‘ جیسے شرق اوسط‘ جہاں امریکی کلچر کے حوالے سے گومگو یا مکمل مخالفت کی کیفیت اس کی ’نرم طاقت‘ کو محدود کر دیتی ہے۔
یہ ہے اصل مخمصہ! اور اس کا حل تجویز ہوا ہے مسلم ممالک میں ’روشن خیالی‘ اور ’اعتدال پسندی‘ کی حکمت عملی کا فروغ کہ اس طرح مسلم دنیا کو اس کی اپنی بنیادوں سے ہلا کر مغرب کے رنگ میں رنگنے کے امکانات پیدا ہو سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے مسلمان عورت کا حجاب بھی توپ اور میزائل کی طرح خطرناک تصور کیا جاتا ہے۔ اسلام سے مسلمانوں کی وابستگی اور اپنی ثقافت اور روایت سے محبت مغرب کی نگاہ میں اس کے عزائم کے حصول کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اسلام میں دین و سیاست کا ناقابلِ تقسیم ہونا اصل سدِّراہ ہے۔
جہاد کا جذبہ جو دفاع کا مؤثر ترین ذریعہ ہے‘ ان کی آنکھوں کا کانٹاہے۔ مسئلہ بنیاد پرستی نہیں‘ اسلام کا ایک مکمل نظامِ زندگی ہونے کا تصور ہے۔ یہ مغرب کی نگاہ میں اصل سنگِ راہ ہے۔ ایک جرمن مستشرق خاتون ایندریا لوئیگ (Andrea Lueg) اپنے ایک مضمون The Perception of Islam in Western Debate میں صاف الفاظ میں مغرب کے دانش وروں کے اس یقین کو یوں پیش کرتی ہے:
مغرب اسلام کو ایک ایسے مذہب کے طور پر زیربحث لاتا ہے جو اسلامی ممالک کے بے شمار سیاسی‘ ثقافتی اور سماجی مظاہرکا ذمہ دار ہے۔ یہ بالکل واضح ہے کہ اسلام ایک مذہب کی حیثیت سے مغربی ممالک میں خوف پیدا کرتا ہے۔ مذہب کا وہ خوف جو ہمارا خیال ہے کہ ہم نے اپنے روشن خیال معاشروں سے ختم کر دیا ہے۔
The Next Threat: Perception of Islam, ed. by Jochen Heppila and Andrea Lueg, Pluto Press, London 1995, p27)
مغرب اسلام کی بڑھتی ہوئی سیاسی مقبولیت کو خطرناک‘ یک رخی اور عجیب قرار دیتا ہے۔ جنگجو اسلام کے فروغ نے اس شدید بحث کا آغاز کر دیا ہے کہ مغرب اس کے بارے میں کیا کچھ کر سکتا ہے یا کرنا چاہیے۔ کچھ امریکی سرکاری افسران اور مبصرین نے پہلے ہی جنگجو اسلام کو مغرب کا اگلا دشمن قرار دے دیا ہے جس کو اسی طرح قابو میں رکھنے کی ضرورت ہے جس طرح سرد جنگ میں کمیونزم کو کیا گیا تھا۔ (ص ۱۳۱)
اس پس منظر میں امریکی اور یورپی دانش وروں اور پالیسی ساز اداروں کی کوشش ہے کہ اسلامی دنیا کو بنیاد پرست‘ جنگجو اور لبرل‘روشن خیال اور اعتدال پسندوں میں تقسیم کریں۔ جسے وہ بنیاد پرست‘ جہادی‘ اور مزاحم قوت سمجھتے ہیں اسے ختم کیا جائے اور اس کی جگہ اسلام کے ایک لبرل ورژن کو فروغ دیا جائے۔ نیوزویک کے مدیر بھارت نژاد امریکی فرید زکریا اسی حکمت عملی کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:
اوّلین طور پر ہمیں عرب اعتدال پسند ریاستوں کی مدد کرنی چاہیے لیکن اس شرط پر کہ وہ فی الواقع اعتدال پسندی کو مکمل طور پر اختیار کریں۔ ہم مسلمان اعتدال پسند گروہ اور اہل علم تیار کر سکتے ہیں اور ان کی تازہ فکر عرب دنیا میں نشر کرسکتے ہیں جن کا مقصد یہ ہو کہ بنیاد پرستوں کی طاقت کو توڑا جائے۔ (Re Ordering The World ‘ ص ۴۷)
یہ ہے وہ پس منظر جس میں جنرل پرویز مشرف صاحب کی ’روشن خیال اعتدال پسندی‘ کی تازہ حکمت عملی کی اصل معنویت اور مناسبت (relevance) کو سمجھا جا سکتا ہے۔ نیتوں کا معاملہ تو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے‘ لیکن انسانی جائزوں کا انحصار ظاہری عوامل ہی پر ہوتا ہے۔ جنرل صاحب نے اپنے اقتدار کے اولیں ایام میں اتاترک کی بات کی‘ پھر عوامی دبائو میں تاویلیں کیں‘ جب موقع ملا حدود قوانین اور اہانتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قانون کے بارے میں تحفظات کا اظہار کیا۔ موقع بے موقع اسلام میں لبرلزم کا ذکر کیا۔ پھر جہاد اور جنگِ آزادی اور دہشت گردی کے فرق کو یکسر نظرانداز کرنا شروع کیا اور اب کھل کر روشن خیال اعتدال پسندی کے نام سے اسلام میں نشات ثانیہ اور دہشت گردی کی تباہ کاریوں پر دل گرفتگی کا اظہار کرتے ہوئے اور تصادم کے مضراثرات سے خائف کرتے ہوئے نہ صرف روشن خیال اعتدال پسندی اور لبرلزم کا درس دے رہے ہیں بلکہ پہلی بار کھل کر کہہ رہے ہیں کہ اسلام کا جدت پسندی اور سیکولرازم سے کوئی تصادم نہیں‘ یہ ساتھ ساتھ چل سکتے ہیں۔ سیکولرازم کی اتنی کھلی تائید انھوں نے پہلی بار کی ہے اور اس طرح روشن خیالی کی بلی تھیلی سے باہرآگئی ہے۔ اب ان کے پورے وعظ و تلقین کی شان نزول اور روشنی کا منبع بھی کسی پردے میں نہیں رہا۔ نیز یہ بھی کہ یہ آواز نئی نہیں‘ بلکہ بار بار اٹھائی جاتی رہی ہے۔ لبرلزم کے ایسے ہی وعظ ہم سو سال سے سن رہے ہیں۔ اقبال نے مغرب کے مقاصد کی تکمیل کرنے والے دانش وروں اور حکمرانوں کے فکری اور تہذیبی دیوالیہ پن کا بہت پہلے ماتم کر کے ان سے اُمت کو ہوشیار کیا تھا:
ترا وجود سراپا تجلیِ افرنگ
کہ تو وہاں کے عمارت گروں کی ہے تعمیر
مگر یہ پیکر خاکی خودی سے ہے خالی
فقط نیام ہے تُو زر و نگار و بے شمشیر
لیکن مجھے ڈر ہے کہ یہ آوازۂ تجدید
مشرق میں ہے تقلیدِ فرنگی کا بہانہ
اسلام پر حملہ کبھی باہر سے ہوتا ہے ‘ کبھی اندر سے‘ کبھی کھل کر ہوتا ہے اور کبھی چھپ کر‘ اور کبھی تحریف کے ذریعے ہوتا ہے تو کبھی تعبیر کے نام پر۔ کبھی دشمنی کے انداز میں ہوتا ہے اور کبھی اصلاح کے نام پر۔ چراغ مصطفویؐ اور شرار بولہبی بہرصورت ہر دور میں اور ہر میدان میں برسرِپیکار رہے ہیں اور رہیں گے۔
روشن خیالی اور اعتدال پسندی وہی مطلوب ہے جو اللہ کی بندگی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے وابستہ ہو۔ ایمان‘ تقویٰ‘ عبادت‘ شریعت سے وفاداری‘ اُمت کے حقوق کی ادایگی اور آخرت کی جواب دہی کا احساس وہ فریم ورک فراہم کرتے ہیں جس میں اسلام کی انصاف‘ اعتدال اور توازن پر مبنی مثالی تہذیب کی صورت گری ہوتی ہے۔ یہ ہدایت پر مبنی اور ہویٰ (خواہشِ نفس) سے پاک روشن خیالی اور اعتدال پسندی ہے۔ جو روشن خیالی اور اعتدال پسندی اسلام میں معتبر ہے۔ اس کی بنیاد وہ دعا ہے جو ہر مسلمان نماز کی ہر رکعت میں اپنے رب سے مانگتا ہے یعنی:
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ o صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَا الضَّآلِّیْنَ
اے رب! ہمیں سیدھا راستہ دکھا‘ ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام فرمایا‘ جو معتوب نہیں ہوئے‘ جو بھٹکے ہوئے نہیں ہیں۔
ہدایت کوئی مبہم اور غیرمتعین شے نہیں‘ وہ اللہ کی وحی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے عبارت ہے اور روشنی کا اصل منبع یہی رہنمائی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روشن خیالی کا ماخذ اس سے ہٹ کر کوئی دوسری شے نہیں ہوسکتی۔ اللہ ہی کائنات کا نور ہے (اللّٰہ نور السموات والارض) اور اللہ کی کتاب ہی انسانوں کو تاریکیوں سے نور کی طرف لاتی ہے:
یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ قَدْ جَآئَ کُمْ بُرْھَانٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَاَنْزَلْنَآ اِلَیْکُمْ نُوْرًا مُّبِیْنًا (النساء ۴:۱۷۴)
لوگو! تمھارے رب کی طرف سے تمھارے پاس دلیل روشن آگئی ہے اور ہم نے تمھاری طرف ایسی روشنی بھیج دی ہے جو تمھیں صاف صاف راستہ دکھانے والی ہے۔
فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَاعْتَصَمُوْا بِہٖ فَسَیُدْخِلُہُمْ فِیْ رَحْمَۃٍ مِّنْہُ وَفَضْلٍ وَّیَہْدِیْہِمْ اِلَیْہِ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًا (النساء ۴:۱۷۵)
اب جو لوگ اللہ کی بات مان لیں گے اور اس کی پناہ ڈھونڈیں گے ان کو اللہ اپنی رحمت اور فضل و کرم کے دامن میں لے لے گا اور اپنی طرف آنے کا سیدھا راستہ ان کو دکھا دے گا۔
یَّہْدِیْ بِہِ اللّٰہُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَہ‘ سُبُلَ السَّلٰمِ وَیُخْرِجُہُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ بِاِذْنِہٖ وَیَہْدِیْہِمْ اِلَی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ (المائدہ ۵:۱۶)
تمھارے پاس اللہ کی طرف سے روشنی آگئی ہے اور ایک ایسی حق نما کتاب جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جو اس کی رضا کے طالب ہیں سلامتی کے طریقے بتاتا ہے اور اپنے اذن سے ان کو اندھیروں سے نکال کر اُجالے کی طرف لاتا ہے اور راہِ راست کی طرف ان کی رہنمائی کرتا ہے۔
واضح رہے کہ راہ راست ہی اعتدال کی راہ ہے۔ اسی لیے اس اُمت کو اُمت وسط (البقرہ ۲:۱۴۳) اور انصاف اور عدل کو‘ جو توازن‘ حسن‘ ہم آہنگی اور میانہ روی کا جامع ہے‘ اس اُمت کا مشن اور اس کی امتیازی شان قرار دیا (النساء ۴:۱۳۵‘ المائدہ ۵:۸‘ الاعراف ۷:۲۹‘ النحل ۱۶:۹۰) اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کی زندگی کے لیے یہ زریں اصول مقرر فرما دیا کہ خیرالامور اوسطھا --- تمام معاملات میں میانہ روی اور اعتدال پسندی ہی بہترین طریقہ ہے۔
حقیقی روشن خیالی اور اعتدال پسندی قرآن و سنت کی مکمل اطاعت اور پاسداری سے عبارت ہے جو ہمارے نظام زندگی میں پہلے سے موجود (built-in) ہے اسے کہیں باہر سے لانے اور دوسروں کی خواہشات اور مطالبات کی روشنی میں کسی انتخاب و اختیار (pick and choose) اور کسی تراش خراش کے ذریعے حاصل نہیں کیا جا سکتا کہ اللہ کی نگاہ میں اس کے دین میں کمی بیشی اور دوسروں کی خواہشات کی روشنی میں رد و قبول سے بڑا کوئی جرم نہیں۔ اس پر دنیا میں خسارے اور آخرت میں بدترین عذاب کی وعید ہے۔
اسلام میں روشن خیالی اور اعتدال پسندی کا جو مقام ہے‘ وہ شریعت کے اس کلّی مثالیے (paradigm) کا حصہ ہے‘ اس سے جدا کوئی جز نہیں۔ اس میں تحریف‘ غلو‘ قطع و برید اور جاہلانہ تعبیرات سے تحفظ اور الفاظ و معانی اور قانون اور روحِ قانون کا ناقابلِ انقطاع رشتہ ہے۔ حضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اُمت کو ہمیشہ صحیح راستے پر قائم رکھنے کے لیے جو نسخۂ کیمیا تجویز فرمایا ہے‘ وہی روشن خیالی اور اعتدال پسندی کے حدود اربعہ کو طے کر لیتا ہے۔ آپؐ کا ارشاد ہے:
عَنْ اِبْرَاھِیْمَ بْنِ عَبْدِالرَّحْمٰنِ الْعُذْرِیِّ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَحْمِلُ ھَذَا الْعِلْمَ مِنْ کُلِّ خَلَفٍ عُدُوْ لُہٗ یَنْفُوْنَ عَنْہٗ تَحْرِیْفَ الْغَالِیْنَ وَاِنْتِحَالَ الْمُبْطِلِیْنَ وَتَاْوِیْلَ الْجَاھِلِیْنَ (مشکوٰۃ)
اس علم کے حامل ہر نسل میں وہ لوگ ہوں گے جو دیانت و تقویٰ سے متصف ہوں گے وہ اس دین کی غلوپسندوں کی تحریف‘ اہلِ باطل کی غلط نسبت و انتساب اور جاہلوں کی تاویلات سے حفاظت فرمائیں۔
یہ ہے اسلام کی کھلی شاہراہ۔ لیکن جس لبرلزم‘ ماڈرنزم‘ روشن خیالی اور اعتدال پسندی کی بات امریکی دانش ور اور پالیسی ساز کر رہے ہیں اور جس کی بازگشت خود ہمارے کچھ حکمرانوں اور دانش وروں کی تحریروں اور تقریروں میں سنی جاسکتی ہے اُس میں اور اس میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔
چراغ مصطفویؐ سے جو روشن خیالی اور اعتدال پسندی رونما ہوتی ہے‘ وہ شریعت اسلامی کے بے کم و کاست اتباع سے عبارت ہے۔ اس کے مقابلے میں ’شراربولہبی‘ کا جو تقاضا اور مطالبہ ہے وہ یہ ہے کہ وقت کی جابر اور بالادست قوتوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ان کے دین‘ اقدار اور تصورِ زندگی کو قبول کیا جائے‘ ان کے تصور ترقی کو اختیار کیا جائے‘ ان کے رنگ میں اپنے کو رنگ لیا جائے اور ان کے دیے ہوئے معیار کے مطابق اور ان کے پسندیدہ پیمانوں میں اللہ کے دین کو ڈھال دیا جائے۔ گویا جس طرح اکبر بادشاہ نے اپنے دور کے باغیوں کو خوش کرنے کے لیے ایک ’’دین الٰہی‘‘ بنانے کی جسارت کی تھی‘ اسی طرح آج امریکہ اور مغرب کے مطالبات کو پورا کرنے کے لیے ایک نیا ’اسلام‘ وضع کیا جائے جو اُمت کے مرکز سے ہٹ کر ملک اور مقامی مفادات کو مرکز بنائے اور جس کا اصل ہدف شریعت کو عملاً معطل کرکے دین و دنیا کی تفریق اور ماڈرنائزیشن کے نام پر مغربیت کے لیے راہ ہموار کرے۔ اس طرح اسلام کا نام باقی رکھ کر ایک سیکولر نظامِ زندگی پروان چڑھایا جائے تاکہ اسے امریکہ اور مغرب کے حکمران اور دانش ور ’روشن خیال اور اعتدال پسند‘ تسلیم کریں‘ جس کو وہ فنڈامنٹلزم اور انتہاپسندی قرار نہ دیں بلکہ اس ’اسلام‘ میں وہ اپنی تہذیبی اقدار اور عادات و اطوار کی جھلک دیکھ سکیں اور اس پر ’ترقی پسندی‘ کی مہر لگا سکیں۔
’چراغ مصطفویؐ ،اور ’شرار بولہبی‘ کی دائمی ستیزہ کاری اور اللہ اور اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اسلام اور اکبری دین الٰہی کی پیکار کی یاد دہانی کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ ۱۱ستمبر کے بعد مسلم دنیا اور خصوصیت سے پاکستان پر امریکی اثرات بلکہ تسلط کا جو آغاز عسکری تعاون اور سیاسی تابع داری سے ہوا تھا‘ وہ اب نظریاتی‘ تعلیمی اور ثقافتی غلامی کے دائروں تک وسیع ہوتا جارہا ہے۔ اب اس کے لیے ایک تصوراتی خاکہ (conceptual framework) بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے‘ جس کی خصوصی سعادت ہمارے جنرل پرویز مشرف کو حاصل ہو رہی ہے۔ پہلے انھوں نے اپنی تقریروں میں اور اپنے مختلف سیاسی حلیفوں سے ملاقاتوں میں ایک نئے وژن اور ایک تصوراتی ہیولا کی طرف اشارے کیے‘ پھر او آئی سی کے کولالمپور میں منعقد ہونے والے سربراہی اجلاس میں اس ادارے کی تشکیلِ نو کے عنوان سے اُمت مسلمہ کے لیے ’روشن خیال اعتدال پسندی‘ کی ایک حکمت عملی پیش کرنے کی سعی بلیغ فرمائی اور اب ۲ جون ۲۰۰۴ء کو امریکی روزنامے واشنگٹن پوسٹ کے ایک مضمون کی شکل میں اپنے اس نئے فلسفے کو‘ غالباً اپنی پہلی تحریر کے طور پر پیش کیا ہے جسے پاکستان کے تمام اخبارات نے بھی نمایاں طور پر شائع کیا ہے۔ او آئی سی کے وزراے خارجہ کے اجلاس منعقدہ استنبول میں ان کی پیش کردہ حکمت عملی (روشن خیال اعتدال پسندی- Enlightened Moderation)کو خود او آئی سی کے ہدف کے طور پر قبول کر لیا گیا ہے۔ اس لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ اس تصوراتی خاکے اور حکمت عملی کا معروضی جائزہ لیا جائے اور اس کے حسن و قبح کو علمی تجزیے کے ذریعے واضح کیا جائے تاکہ اُمت کے رہے سہے گلشن کو شرار بولہبی کی آتش زنی سے محفوظ کیا جا سکے۔
دنیا ۹۰ء کے عشرے کے آغاز سے لے کر اب تک‘ ایک انتہائی ابتری اور افراتفری کے دور سے گزر رہی ہے اور اس تشویش ناک صورت حال میں بہتری کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔ انتہاپسندوں‘ دہشت گردوں اور عسکریت پسندوں کے ہاتھوں معصوم افراد جس المناک صورت حال سے دوچار ہیں اور خاص طور پر میرے ہم مذہب مسلمان بھائی جس عذاب سے گزر رہے ہیں اس نے مجھے اس بات پر مائل کیا ہے کہ میں اس ابتری اور انتشار سے بھری دنیا کو بہتر بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کروں۔
دہشت گردی اور انتہا پسندی کے جرائم میں ملوث افراد بھی مسلمان ہیں اور ان کا نشانہ بننے والے بدنصیب بھی اسلام ہی سے تعلق رکھتے ہیں۔
اور ان کی نگاہ میں اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ’’غیر مسلموں میں‘ غلط فہمی کی بنیاد ہی پر سہی مگر ایک عمومی تاثر یہ قائم ہو رہا ہے کہ اسلام عدم رواداری‘ انتہاپسندی اور دہشت گردی کا مذہب ہے‘‘۔
جنرل صاحب ان بے بنیاد تہمتوں سے اتنے خائف اور مرعوب ہیں کہ پہلے ہی شکست تسلیم کرلیتے ہیں یعنی ’’ہم اپنی دلیلوں کے ذریعے ذہنوں میں بیٹھے ہوئے اپنے خلاف تاثرات کو ختم کرنے کی جنگ جیتنے میں کامیاب نہیں ہو سکتے‘‘۔ اور یہ سب کچھ اس لیے کہ ’’مسلمان آج دنیا میں بہت غریب‘ سب سے زیادہ غیرتعلیم یافتہ‘ سب سے زیادہ بے بس اور سب سے زیادہ عدم اتحاد و استحکام کے شکار گروہ کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں‘‘۔
اس تجزیے کے بعد جنرل صاحب مسئلے کا حل یہ بتاتے ہیں کہ مسلمان اور غیرمسلم دنیا دونوں ان کی ’روشن خیال اعتدال پسندی‘ کی حکمت عملی کو قبول کرلیں تو سب ٹھیک ہو سکتا ہے۔
جنرل صاحب نے تلقین تو مغربی اقوام کو بھی یہی کی ہے اور بہ کمالِ شفقت مغربی دنیا اور بالخصوص امریکا کو مخاطب کرکے کہا ہے کہ ’’مسلم دنیا کو درپیش تمام سیاسی تنازعات کو عدل و انصاف کے ساتھ مل کرحل کرنا ہوگا اور محروم اور پسماندہ مسلم دنیا کی سماجی اور معاشی ترقی کے لیے معاونت کرنا ہوگی‘‘۔ لیکن ان کا سارا زور اسلام کی ’اصلاح‘ اور مسلمانوں کے رویوں اور عمل کو تبدیل کرنے پر ہے۔ جنرل صاحب نے اسلام اور مسلمانوں کے لیے جو وژن پیش فرمایا ہے ‘ اس کا مرکزی خیال یہ ہے کہ:
ہمیں اعتدال کا راستہ اختیار کرنا ہوگا اور ہمیں کشادہ نظری کے ساتھ ایک ایسے رویے کو فروغ دینا ہوگا جو اس غلط تصور کو باطل قرار دے سکے کہ اسلام ایک جارحیت پسند دین ہے اور اسلام جدت پسندی‘ جمہوریت اور سیکولرازم سے متصادم ہے۔
اور اس سب کے باوجود جنرل صاحب متنبہ فرما رہے ہیں کہ:
یہ سب کرتے ہوئے یہ بات بھی ہمیں پیشِ نظر رکھنا ہوگی کہ جس دنیا میں ہم رہ رہے ہیں‘ ضروری نہیں ہے کہ ہر وقت ہمارے ساتھ پوری طرح وہی سلوک روا رکھا جائے جو حق و انصاف کے اصولوں کے عین مطابق ہو۔
جنرل پرویز مشرف صاحب نے اسلامی دنیا کی جہادی تحریکوں کو‘ ایک ایسے ڈھکے چھپے انداز میں جو ان کی سوچ اور دل کی کیفیت کی غمازی کرتا ہے‘ افغانستان میں روس کے استعماری حملے کے خلاف تحریکِ مزاحمت کا نتیجہ قرار دیا ہے اور ۱۹۹۰ء کے بعد رونما ہونے والی نام نہاد دہشت گردی کو اس سلسلے کی ایک کڑی قرار دیا ہے۔ وہ جہاد اور آزادی کی تحریکات اور دہشت گردی کے فرق کو سمجھنے اور بیان کرنے کی کوئی کوشش نہیں کرتے اور امریکی دانش وروں اور پروپیگنڈے کے ماہرین کی تیار کردہ نئی تثلیث یعنی ’بنیاد پرستی، انتہاپسندی اور دہشت گردی‘ کو سارے مسائل کی جڑ قرار دے کر ’روشن خیال‘میانہ روی اور اعتدال پسندی‘ کے داعی بن کر اسلامی دنیا میں نشاتِ ثانیہ کی ضرورت کی نشان دہی کر رہے ہیں۔ مضمون میں ایک پیراگراف اسلام کے اولین دور اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ماڈل کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے ہے مگر اس کے بعد نہ مسلمانوں کے عروج اور عالمی قوت بننے کے اسباب پر کوئی روشنی ڈالی ہے اور نہ موجودہ حالت زار کا کوئی علمی تجزیہ کیا ہے۔ بس تان اس پر ٹوٹتی ہے کہ معاشی ترقی اور سائنس اور ٹکنالوجی کے میدان میں ہم پیچھے رہ گئے ہیں‘ مقابلے کی سکت ہم میں نہیں ہے۔ خرابی کی جڑ بنیاد پرستی‘ انتہا پسندی اور دہشت گردی ہے اور ہمارے لیے نجات کی کوئی راہ اس کے سوا نہیں کہ مغرب سے ہم آہنگی اختیار کریں اور ’’کشادہ نظری کے ساتھ ایک ایسے رویے کو فروغ دیں جو اس غلط تصور کو باطل کر دے کہ اسلام ایک جارحیت پسند دین ہے اور اسلام جدت پسندی‘ جمہوریت اور سیکولرازم سے متصادم نہیں۔
۱- جسے مغرب بنیاد پرستی‘ انتہا پسندی اور دہشت گردی کہتا ہے اسے ترک کر دو اور روشن خیال اعتدال پسندی اختیار کرو۔
۲- ساری توجہ معاشی ترقی‘ تعلیم‘ غربت کے خاتمے‘ صحت اور عدل و انصاف کے حصول پر مرکوز کر دو اور اس کے لیے جدت پسندی‘ جمہوریت اور سیکولرازم کا راستہ اختیار کرو۔
۳- اسلامی کانفرنس کی تنظیم کو مؤثر اور فعال بنائو اور اس میں نئی روح پھونکو تاکہ مسلم دنیا اکیسویں صدی کے چیلنجوں کا مقابلہ کر سکے۔
جنرل پرویز مشرف کے اس مضمون میں دو باتیں ایسی ہیں جن کو ہم مثبت سمجھتے ہیں۔ ایک‘ خواہ کتنے ہی ادب سے انھوں نے کہا ہو لیکن ان کا یہ ارشاد کہ ’’مغربی دنیا کو اور بالخصوص امریکا کو مسلم دنیا کو درپیش تمام سیاسی تنازعات کو عدل و انصاف کے ساتھ حل کرنا ہوگا اور محروم اور پس ماندہ دنیا کی سماجی اور معاشی ترقی میں معاونت کرنا ہوگی‘‘ اور دوسری یہ کہ مسلم دنیا کو اپنے گھر کی اصلاح کی فکر کرنی چاہیے اور اس کے لیے ’’اپنی ساری توانائیاں غربت کو دُور کرنے‘ تعلیم اور صحت اور عدل و انصاف کے مثالی نظام کے ذریعے اپنے افرادی وسائل کو فروغ دینے کے لیے‘‘ صرف کرنی چاہییں۔ ان دونوں باتوں سے کسی کو اختلاف نہیں لیکن جس پس منظر میں انھوں نے روشن خیال اعتدال پسندی کی اپنی حکمت عملی کو پیش کیا ہے اور جن دلائل اور شواہد کے بل بوتے پر کیا ہے‘ وہ بڑا خام اور حالات کی بڑی غلط عکاسی کرنے والا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ اُمت مسلمہ کا مقدمہ پیش کرنے میں بری طرح ناکام ہوئے ہیں اور عملاً ان کی اس تحریر سے اسلام اور مسلمانوں پر مغرب کے تمام غلط اور ناروا اعتراضات کی بالواسطہ یا بلاواسطہ تائید ہوتی ہے۔ ہم خود ان کے اور تمام سوچنے سمجھنے والے اہل فکرودانش کے غور کے لیے چند گزارشات پیش کرتے ہیں:
۱- دہشت گردی نہ ۱۹۹۰ء کے عشرے سے شروع ہوئی ہے اورنہ اس کا تعلق محض مسلمانوں سے ہے جیسا کہ زیربحث مضمون سے ظاہر ہوتا ہے۔ اول تو دہشت گردی کی تعریف ضروری ہے کیوں کہ قوت کے استعمال کی ہر کوشش کو دہشت گردی نہیں کہا جا سکتا۔ پھر دہشت گردی صرف افراد یا گروہوں کی طرف سے ہی نہیں ہوتی حکومتوں کی طرف سے بھی ہوتی ہے۔ آج دہشت گردی کا زیادہ ارتکاب حکومتوں ہی کی طرف سے ہو رہا ہے بلکہ عوامی سطح پر رونما ہونے والی دہشت گردی بالعموم نتیجہ ہوتی ہے تبدیلی کے سیاسی اور پُرامن مواقع کے مسدود کیے جانے اور ریاستی تشدد اور قومی اور بالاتر قوتوں کے طاقت کے بے محابا اور بے جواز استعمال سے۔ دہشت گردی کو ختم کرنے کے نام پر جو دہشت گردی حکومتیں اور ریاستی ایجنسیاں انجام دیتی ہیں‘ وہ اس کی بدترین شکل ہے جسے آج دہشت گردی کہا جا رہا ہے۔ وہ دراصل ریاستی ظلم اور استبداد اور بالاتر قوتوں کا اپنے کو قانون‘ انصاف اور جمہوری روایات سے آزاد قرار دے لینے اور طاقت ور عناصر کی کمزوریوں پر دست درازیوں کی پیداوار ہے۔ یہ سیاسی مسائل کو سیاسی طریق کار سے حل نہ کرنے اور محض قوت سے حل کرنے کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔
جنرل صاحب کے مضمون سے معلوم ہوتا ہے کہ جسے وہ اور امریکا دہشت گردی کہہ رہے ہیں وہ ۱۹۹۰ء میں افغانستان میں جہادی جدوجہد‘ روس کی پسپائی اور بعد میں امریکا کے تغافل سے پیدا ہوئی حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ نہ جہادی سرگرمیوں کا آغاز افغانستان میں روس کی فوج کشی سے ہوا اور نہ دنیا میں دہشت گردی کا آغازمسلم دنیا سے ہوا۔ بنیادی طور پر دہشت گردی یورپ کی استعماری اور فسطائی حکومتوں کے خلاف عوامی ردعمل کی ایک شکل کو قرار دیا گیا ہے جس میں غیر ریاستی عناصر مسلح سیاسی مقاصد کے لیے جدوجہد پر مجبور ہوئے ہیں۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں اورخصوصیت سے مغربی دنیا میں گذشتہ ڈیڑھ سو سال میں اور دنیا کے دوسرے ممالک میں بیرونی استعماری قوتوں کی مزاحمت کی مختلف تحریکوں نے اس راستے کو اختیار کیا ہے۔
یہ دورِ جدید کی تاریخ کا ایک خاص پہلو ہے جس کا کسی مذہب یا علاقے سے تعلق نہیں۔ سیکڑوں کتابیں اور ہزاروں مقالات اس کے مختلف پہلوئوں پرلکھے گئے ہیں۔ ہم صرف ایک کتاب کا حوالہ دیتے ہیں جسے مارتھا کرنسٹارڈ (Martha Crenstard )نے مرتب کیا ہے اور Terrorism in Context کے نام سے امریکا کی پینسلوانیا اسٹیٹ یونی ورسٹی پریس نے شائع کیا ہے۔ یہ کتاب ۱۱ستمبر کے واقعہ سے ۶ سال پہلے شائع ہوئی ہے اور اس میں مغرب اور مشرق کی درجنوں دہشت گرد تحریکوں کی پوری تاریخ بیان کی گئی ہے۔ نیز مغرب کے سیاسی مفکرین نے‘ خاص طور پر یورپ‘ لاطینی امریکا اور افریقہ کے دانش وروں نے ظالم حکمرانوں اور سامراجی حکومتوں کے خلاف مسلح جدوجہد کا کیا کیا جواز پیش کیا ہے اور اس بحث کو یورپ اور امریکا کے تاریخی تناظر میں انقلابی دہشت گردی (Revolutionary Terrorism) اور انارکسٹ دہشت گردی کے زمروں (Categories) میں بیان کیا ہے۔ شاید ہی دنیا کا کوئی حصہ ہو جہاں گذشتہ ڈیڑھ سو سال میں ایک نہیں‘ کئی کئی تحریکیں ایسی نہ اٹھی ہوں جنھیں آج کی اصطلاح میں دہشت گرد تحریک کہا جاتا ہے۔ ان کے کیا اسباب تھے‘ ذمہ داری کن عناصر پر تھی‘کن تحریکوں کے مثبت نتائج نکلے اور ان کے برپا کرنے والے قومی ہیرو ہی نہیں تاریخی کردار شمار کیے گئے۔ اگر جنرل صاحب اس پورے پس منظر سے واقف نہیں تو انھیں ایسے موضوع پر قلم نہیں اٹھانا چاہیے تھا۔
۲- جہادی تحریک کو بھی افغانستان سے وابستہ کردینا حقائق سے ناواقفیت ہے یا مسئلے کو الجھانے کی کوشش۔ جہاد اسی ماڈل کا ایک حصہ ہے جسے جنرل صاحب نے ضمنی طور پر اسلام کے ابتدائی دور کے نام سے پیش کیا ہے۔ دورِ جدید میں مغرب کی تمام استعماری قوتوں کا مقابلہ ہر مسلمان ملک میں جہاد ہی کے ذریعے سے کیا گیا اور اسی وجہ سے مغربی اقوام کا خصوصی ہدف جہاد کا تصور رہا جسے ’منسوخ‘ کرانے کے لیے ان کو جھوٹی نبوت تک کا کھیل کھیلنا پڑا۔ الجزائر کی جہادی تحریک جدید تاریخ کا ایک تابناک باب ہے۔ فلسطین میں صہیونی قوت کے خلاف جہاد کا آغاز جدیدانتفاضہ سے نہیں ۱۹۴۸ء کی جدوجہد سے ہوتا ہے جو آج تک جاری ہے۔ کشمیر میں بھی جہاد کا آغاز افغانستان سے روس کی پسپائی سے شروع نہیں ہوتا بلکہ ۱۹۴۷ء میں ڈوگرہ راج اور اس کے مظالم کے خلاف منظم انداز میں ہوا اور آزاد کشمیر اور شمالی علاقہ جات کسی سیاسی خیرات یا اتفاقی حادثہ کی بنا پر بھارت سے آزاد نہیں ہوئے‘ یہ منظم جہادی جدوجہد سے آزاد کرائے گئے۔
جنرل صاحب نے جو تاریخی پس منظر بیان کیا ہے‘ وہ حقائق پر مبنی نہیں۔ اس سے بڑا ظلم یہ ہے کہ انھوں نے دہشت گردی کا سارا ملبہ مسلمانوں پر گرا دیا ہے۔ نہ اس کے عالمی پس منظر کاذکر کیا ہے‘ نہ ان حقیقی تاریخی‘ سیاسی اور تہذیبی اسباب و عوامل کا تجزیہ کیا ہے اور نہ مغربی اقوام کے اس کردار کی طرف کوئی اشارہ کیا ہے جو اس صورت حال کو پیدا کرنے کا ذریعہ بنے ہیں۔ کاش انھوں نے جرمن محققہ ایندریا لوئیگ ہی کا مطالعہ کر لیا ہوتا جو The Next Threat کے آخری باب میں اپنے نتائج تحقیق بیان کرتے ہوئے اعتراف کرتی ہے کہ:
ان بہت سی خوفناک چیزوں کا اسلام سے بہت کم تعلق ہے‘ بلکہ ان کی بنیادیں کچھ دوسری ہیں۔ اور ان دل دہلا دینے والے (shocking) کاموں میں سے کئی جدید مغربی معاشروں میں بھی موجود ہیں۔ مثال کے طور پر ‘ انتہا پسندی کی لادینی جڑیں بھی ہوسکتی ہیں‘ چاہے اس کے علم بردار اس کا انکار کریں۔ اس سے پہلے کہ ہم دوسروں کی انتہاپسندی کے بارے میں غضب میں آجائیں‘ ہمیں اپنے کلچر کی انتہاپسندی کا انکار نہیں کرنا چاہیے۔ جب جرمن نوجوان تارکینِ وطن کے ہوسٹل جلا ڈالنا چاہتے ہیں تو ان کا تعلق بھی انتہاپسندی اور غیرمعقولیت سے ہوتا ہے‘ صرف شراب نوشی اور فہم و فراست کے فقدان سے نہیں۔ لیکن شاید ہم میں سے کوئی ان جرائم کی بنیاد مذہب میں بتانے کا نہ سوچے یا یہ کہے کہ ان کا سرچشمہ مغرب کی عیسائی روایات ہیں۔ پس شرق اوسط کے لوگوں کی انتہاپسندی یا غیرمعقولیت کا تعلق ہمیشہ مذہب سے نہیں ہوتا۔ (ص ۱۵۷)
کاش ہمارے اہلِ قلم حقائق کی گہرائی تک جانے کی کوشش کریں اور ان گمبھیرمسائل کی گہرائی میں جاکر سیاسی‘ عمرانی اور نفسیاتی عوامل کی روشنی میں تجزیہ کریں۔ جنرل صاحب کا مضمون اس پہلو سے یک طرفہ‘ سطحی اور ملامتیہ انداز کا حامل ہے۔ ؎
ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ
ایک وہ ہیں جنھیں تصویر بنا آتی ہے
۳- جنرل پرویز مشرف نے مسلمانوں کو بنیاد پرستی‘ انتہا پسندی اور دہشت گردی کا ذمہ دار قرار دیا ہے اور ان کے درمیان ایک عارضی تعلق (causal relationship)بھی دریافت کرنے کی کوشش کی ہے۔ حالانکہ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ بنیاد پرستی ایک مبہم اور خالص امریکی تصور ہے جس کا اسلام سے دُور کا بھی واسطہ نہیں۔ یہ انیسویں صدی کے آخر میں اور بیسویں صدی کے آغاز کی ایک عیسائی تبلیغی تحریک کی پیداوار تھا جسے گذشتہ چند برسوں سے مسلمانوں پر تھوپا جا رہا ہے۔ جنرل صاحب نے بے سوچے سمجھے اسے مسلمانوں سے وابستہ کردیا۔
انتہاپسندی ایک انسانی کمزوری ہے جو اہلِ مغرب میں بھی ہو سکتی ہے ‘ سیاست دانوں میں بھی‘ فوجیوں میں بھی اور کسی بھی گروہ یافرد میں۔ اس کا رشتہ نام نہاد بنیاد پرستی اور دہشت گردی سے جوڑنے کا کوئی منطقی جواز نہیں۔ دہشت گردی کے اپنے اسباب ہیں اور انتہاپسندی ایک بالکل دوسری شے ہے۔ ضروری نہیں کہ ہر دہشت گردی انتہا پسندی کا نتیجہ ہو اور ہر انتہا پسندی دہشت گردی پر منتج ہو۔ جنرل صاحب کی یہ ساری بحث محض مغالطوں پر مبنی ہے اور پاکستان اور اسلام دونوں کی بڑی غلط نمایندگی کا ذریعہ بنی ہے۔ تعجب ہے کہ انھوں نے ایک لمحے کے لیے یہ بھی نہیں سوچا کہ اسلام اور مسلمانوں پر بنیاد پرستی اور انتہا پسندی کا لیبل لگانے میں مغرب اور امریکا کے دانش وروں اور خصوصیت سے‘ صہیونی اہلِ قلم کا کیا کردار اور ان کے کیا مفادات وابستہ ہیں۔ کس طرح اسرائیل کے مظالم سے توجہ ہٹانے کے لیے وہ اسلام‘ عربوں اور مسلمانوں کی ایک خاص انداز میں منظرکشی کر رہے ہیں اور اس میں سیاسی مبصروں‘ دانش وروں اور صحافیوں کے ساتھ الیکٹرانک میڈیا بلکہ ہالی وڈ کی فلموں نے کیا کردار ادا کیا ہے۔ اگر ان تمام حقائق پر کسی کی نگاہ نہیں تو کیا ضروری ہے کہ جن موضوعات پر آپ کی گرفت نہیں ان پر آپ گوہر افشانی کریں۔ اسلام کے بارے میں مغرب کے خود ساختہ تصورات اور فضا کو خراب کرنے میں ان کے کردار کے بارے میں جوشین ہپلر اور ایندریا لوئیگ کا یہ جملہ قابلِ غور ہے کہ:
یہ کتاب اسلام کا نہیں ‘بلکہ اسلام کے بارے میں مغرب کے دشمنانہ رویے کا جائزہ لے گی] یا مزعومہ ’اسلامی خطرے‘ کا[۔ ہمارا ایک نظریہ ہے کہ اس وقت اسلامی خطرے کے بارے میں عوامی لٹریچر کا جو فیشن ہے‘ مفروضہ خطرے یعنی اسلام سے اس کا بہت کم سروکار ہے۔ اس کا زیادہ تعلق مغرب کے اندازِ فکر سے ہے جس کا ایک جزو سرد جنگ کے اختتام کی وجہ سے ہماری شناخت میں پایا جانے والا خلا ہے۔ یہ پہلو ہمارے اندر دل چسپی پیدا کرتا ہے۔ (ص -۱)
ان مصنفین نے یہ بھی کہا ہے کہ خود بنیاد پرستی کی ساری بحث پر بھی ازسرنو غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کی نگاہ میں:
ہمارا استدلال یہ ہے کہ اگرچہ بنیاد پرستی خراب ہے لیکن اس کے ناقد لامحالہ اچھے نہیں ہیں اور ضرور کچھ کے درپردہ محرکات ہو سکتے ہیں۔(ص -۳)
یورپ کے کچھ دانش ور اتنا غور کرنے کو تیار ہیں لیکن ہمارے اپنے ذمہ دار حضرات آنکھیں بند کر کے وہی بات کہنے اور لکھنے میں عار محسوس نہیں کرتے جس کا اظہار مغرب کے متعصب حکمران اور دانش ور کر رہے ہیں! اور جن کے اخلاقی اور ذہنی افلاس کا یہ حال ہے کہ جب ان سے کسی دعوے کے لیے دلیل طلب کی جاتی ہے اور شواہد کی عدم موجودگی پر احتساب ہوتا ہے تو ان کے پاس اس کے سوا کہنے کے لیے کچھ نہیں ہوتا کہ بس میں یہ کہہ رہا ہوں۔
ہمارے پاس کوئی قابلِ اعتماد شہادت نہیں ہے کہ عراق اور القاعدہ نے امریکا پر حملوں میں تعاون کیا۔
تو اس کے جواب میں امریکی صدر جارج بش صاحب نے جو جواب دیا وہ گنیزبک میں درج کیے جانے کے لائق ہے :
The reason I keep insisting that there was a relationship between Iraq and Saddam and Al-Qaeeda is because there was a relationship between Iraq and Al-Qaeeda.
اس کی وجہ کہ میں برابر اصرار کرتا رہاہوں کہ عراق‘ صدام اور القاعدہ میں تعلق تھا یہ ہے کہ عراق اور القاعدہ میں تعلق تھا۔ (ٹائم ۲۸ جون ۲۰۰۴ئ)
دہشت گردی اور مسلمانوں کے سلسلے میں ہمارے جنرل صاحب اور جارج بش کے اسلوبِ استدالال میں بھی کوئی زیادہ فرق نہیں!
۴- جنرل پرویز مشرف کے مضمون میں دہشت گردی کے سارے منظر اور پیش منظر میں نہ ریاستی دہشت گردی کا کوئی ذکر ہے اور نہ دہشت گردی کے ارتکاب‘ فروغ اور دوام بخشنے میں امریکہ کے کردار پر کوئی گرفت بلکہ اس کا کوئی تذکرہ میں نہیں۔ امریکی قیادت کی بنیاد پرستی‘ انتہا پسندی اور دہشت گردی کا کوئی تذکرہ ان کی تحریر ہی نہیں۔ افغانستان اور عراق میں امریکہ جس دہشت گردی کا ارتکاب کر رہا ہے‘ اس پر ان کے ضمیر کی کسی خلش کا کوئی سایہ ان کی تحریر پر نہیں پڑا حالانکہ یہ ایک اہم موقع تھا کہ وہ امریکی قوم سے خطاب کر رہے تھے اور کچھ ان کو بھی آئینہ دکھانے کی خدمت انجام دیتے۔
امریکی دانش وروں اور عوام کی ایک بڑھتی ہوئی تعداد امریکا کی اپنی دہشت گردی پر نالہ کناں ہے۔ چومسکی جیسے مفکر تو پہلے سے کہہ رہے ہیں کہ امریکا آج ایک غنڈہ ریاست (rogue state)بن چکا ہے۔ سابق امریکی اٹارنی جنرل ریمزے کلارک نے امریکا کے وحشیانہ مظالم پر کئی کتابیں لکھی ہیں اور عراق کی ۱۹۹۱ء کی جنگ سے پہلے‘ جنگ کے دوران اور جنگ کے بعد کے جنگی جرائم پر ایک بین الاقوامی ٹربیونل کی رپورٹ بھی موجود ہے جو ریمزے کلارک نے جنگی جرائم (War Crimes)کے نام سے قانونی مطالعوں اور ضروری شہادتوں کے ساتھ شائع کی ہے۔ دنیا بھر میں دہشت گردی کو فروغ دینے میں امریکہ کیا کردار ادا کر رہا ہے‘ اس پر درجنوں کتابیں شائع ہوچکی ہیں اور ناقابلِ تردید شواہد موجود ہیں۔ لیکن جنرل پرویز مشرف صاحب کی تحریر‘ امریکہ کے اس کردار کی طرف کوئی اشارہ تک نہیں کرتی۔ اس موقع پر شالمرز جانسن کی تحقیقی کتاب Blowback: The Costs and Consequences of American Empire سے دو اقتباس اصل حقیقت کے ادراک کے لیے مفید ہوں گے۔
ایک آدمی کی نظروں میں جو دہشت گرد ہے‘ بلاشبہہ وہی دوسرے کی نظروں میں آزادی کے لیے لڑنے والا ہے۔ جس چیز کو امریکی اہلکار اپنے معصوم شہریوں پر بلااشتعال دہشت گردحملے کہہ کر مذمت کرتے ہیں ‘ وہ اکثر سابقہ امریکی استعماری کارروائیوں کا ردعمل ہوتا ہے۔ دہشت گرد بے گناہ شہریوں اور غیرمحفوظ امریکی اہداف پر حملہ کرتے ہیں ‘ صرف اس وجہ سے کہ امریکی سپاہی اور ملاح اپنے بحری جہازوں سے کروز میزائل فائر کرتے ہیں اور آسمان کی بلندیوں پر بی-۵۲ طیاروں میں بیٹھ کر بم باری کرتے ہیں اور واشنگٹن سے جابر و استبدادی حکومتوں کی حمایت کی جاتی ہے۔ ڈیفنس سروس بورڈ کے اراکین نے اپنی ۱۹۹۷ء کی رپورٹ میں جو ڈیفنس کے انڈر سیکرٹری کو دی گئی‘ لکھا تھا: تاریخی حقائق عالمی حالات میں امریکا کی شرکت اور امریکا کے خلاف دہشت گرد حملوں میں اضافے کے درمیان واضح تعلق ظاہر کرتے ہیں۔ مزیدبرآں فوجی طاقت میں فرق کی وجہ سے قومی ریاستیں امریکا پر کھلم کھلا حملہ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتیں اور یوں وہ سمندر پار عامل استعمال نہیں کر سکتیں۔ (ص-۹)
دہشت گردی کی تعریف یہ ہے کہ جس طاقت پر حملہ نہیں کیا جا سکتا اس کے جرائم پر توجہ دلانے کے لیے بے گناہوں کو نشانہ بنایا جائے۔ ۲۱ویں صدی کے بے گناہ‘ حالیہ عشروں کی استعماری مہمات کے مابعد اثرات کی تباہیوں کی غیرمتوقع فصل کاٹیں گے۔ اگرچہ بیشتر امریکی اس امر سے ناواقف ہیں کہ ان کے نام پر کیا کچھ کیا جاچکا ہے اور کیا جا رہا ہے‘ سب ہی انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی قوم کی عالمی منظر پر غلبہ پانے کی مسلسل کوششوں کی گراں قیمت ادا کریں گے۔ (ص ۳۳)
خدا کرے مسلمان قیادتوں کو کبھی یہ توفیق حاصل ہو کہ وہ بھی امریکا کی قیادت کو بتا سکیں کہ دنیا میں جو دہشت گردی ہو رہی ہے وہ اس کی کن پالیسیوں اور اقدامات کا ردعمل ہے اور آخری ذمہ داری کس پر ہے ع
اٹھا زمانہ میں جو بھی فتنہ اٹھا تیری رہ گزر سے پہلے!
۵- جنرل پرویز مشرف نے اسلام کے تاریخی کردار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آج کی زبوں حالی کا ذکر کیا ہے اور اس سے نکلنے کے لیے روشن خیال اعتدال پسندی کا درس دیا ہے اور ساتھ ہی معاشی اور تعلیمی ترقی کی بات کی ہے۔ بلاشبہہ معاشی اور تعلیمی ترقی اُمت کی بڑی ضرورت ہے لیکن ہمارا عروج اور ہمارا زوال محض مادی اسباب کی وجہ سے نہ تھا۔ اسلام کی اصل قوت اس کی دعوت‘ اس کے پیغام‘ اس کے اصول اور اس عملی نمونے میں تھی جو اسلاف نے پیش کیا۔ وہ اخلاقی قوت ان کا اصل سرمایہ تھی۔ دین و دنیا کی وحدت‘ انسانی مساوات‘ قانون کی بالادستی‘ حکمرانوں کی جواب دہی‘ شریعت کی پابندی‘ انصاف کی فراوانی‘ معاشرتی اور معاشی مساوات--- علم اور وسائل کے ساتھ عقیدہ‘ اخلاق‘ سیرت و کردار‘ اداروں کا استحکام اور احتساب کا موثر نظام ہماری قوت کا راز تھا۔ جب ان اصولوں اور اقدار کو فراموش کیا جانے لگا‘ جب عیش و عشرت اور سہولت کی زندگی اختیار کر لی گئی‘ جب جہاد اور اجتہاد کو ترک کر دیا گیا تو ہم دوسروں کے لیے تر نوالہ بن گئے‘ کمزور سے کمزور تر ہوتے گئے‘ غلامی اور محکومی کا نشانہ بنے اور آج بھی آزادی کے حصول کے باوجود دوسروں پر محتاجی اور ان کی سیاسی اور معاشی بالادستی کے تحت جینے کی مہلتیں مانگنے میں مصروف ہیں۔ اقبال نے مرض کی صحیح تشخیص کی تھی کہ:
اگرچہ زر بھی جہاں میں ہے قاضی الحاجات
جو فقر سے ہے میسر‘ تونگری سے نہیں
اگر جواں ہوں مری قوم کے جسور و غیور
قلندری مری کچھ کم سکندری سے نہیں
سبب کچھ اور ہے‘ تو جس کو خود سمجھتا ہے
زوال بندۂ مومن کا بے زری سے نہیں
اگر جہاں میں مرا جوہر آشکار ہوا
قلندری سے ہوا ہے‘ تونگری سے نہیں
لیکن ہمارا کیا حال ہے؟ ہم کاسہ گدائی سے ترقی کی منزلیں طے کرنا چاہتے ہیں اور خداشناسی اور جہاد کا راستہ ترک کر کے عزت کے حصول کے خواب دیکھ رہے ہیں اور اقبال ہی کی اس بات کو بھول گئے ہیں کہ ؎
پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات
تو جھکا جب غیر کے آگے‘ نہ من تیرا نہ تن
عنقریب ایک وقت آئے گا جب دوسری قومیں اکٹھی ہو کر تم پر ٹوٹ پڑیں گی‘ جس طرح کھانے والے دسترخوان پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ کسی نے پوچھا کیا ہم اس وقت قلیل تعداد میں ہوں گے؟
آپؐ نے فرمایا: تمھاری تعداد تو بہت زیادہ ہوگی لیکن تم سیلاب کے اوپر بہنے والے خس و خاشاک کی مانند ہوگے۔ اللہ تمھارے دشمن کے سینے سے تمھارا رعب چھین لے گا اور تمھارے دلوں میں ’وہن‘‘ ڈال دے گا۔
پوچھا: اللہ کے رسولؐ! یہ وہن کیا ہے؟ فرمایا: دنیا کی محبت اور موت (شہادت) سے نفرت۔
مسلمانوں کی تاریخ کے نشیب و فراز اور ان کے عروج و زوال کے جس تذکرے میں تجزیے کا یہ رخ موجود نہ ہو‘ اسے حقیقت پسندانہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔
۶- جنرل مشرف نے معاشی ترقی‘ انصاف کی فراہمی‘ تعلیم کے فروغ اور جمہوریت کی بات بھی کی ہے لیکن کیا اس سوال سے اغماض برتا جا سکتا ہے کہ ان سب سے محرومی کے اسباب کیا ہیں اور وہ کون سے مفاد پرست طبقات ہیں جو وسائل پر قابض ہیں اور قوم کو ان سے محروم رکھے ہوئے ہیں؟ جمہوریت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ مفاد پرست عناصر اور خود فوجی حکمرانوں کا کیا کردار ہے؟ انصاف سے کون محروم رکھے ہوئے ہیں؟ اداروں کے استحکام کی راہ میں کون رکاوٹ ہے؟ اس ملک کے حکمران طبقوں نے کون سی میانہ روی اختیار کی ہے۔ ساری مسلم دنیا کا جائزہ لے لیجیے۔ جن طبقات نے سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے وہ وہی ہیں جن پر لبرل کا لیبل ہے‘ جو ماڈرنزم کے علم بردار ہیں‘ جو سیکولر نظام کے حامی ہیں۔ یہی سامراجی قوتوں کے رفیقِ کار تھے اور یہی آزادی کے بعد اپنی ہی قوم کا خون چوسنے میں مصروف ہیں۔ ماڈرنزم کی قوتوں نے یورپ میں تو کچھ اچھے کام بھی کیے ہیں لیکن مسلم دنیا میںتو اصل ناکامی نام نہاد لبرل اور سیکولر لیڈرشپ کی ہے۔ کمال اتاترک اور شاہِ ایران اس ماڈرنزم کی علامت تھے۔ جمال عبدالناصر‘ صدام حسین‘ حافظ اسد‘ معمر قذافی‘ حبیب بورقیبہ‘ حواری بومدین‘ کس کس کا نام لیا جائے‘ یہ سب لبرل اور سیکولر قیادت تھی جس نے اسلامی دنیا کو ذلیل او ررسوا کیا۔ پاکستان میں کون سی قیادت ناکام ہوئی--- یہی لبرل سیکولر قیادت: جنرل ایوب سے جنرل پرویز مشرف تک۔ اقبال نے صحیح ہی کہا تھا ؎
زندہ کر سکتی ہے ایران و عرب کو کیونکر
یہ فرنگی مدنیت کہ جو ہے خود لبِ گور
اور ؎
نہ مصطفی نہ رضا شاہ میں نمود اس کی
کہ روحِ شرق بدن کی تلاش میں ہے ابھی
۷- جنرل مشرف نے یہ بھی کہا ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ان اسباب کی فکر کرنا ہوگی جو ناانصافی پیدا کر رہے ہیں اور لوگوں کو انتہاپسندی کی طرف لے جا رہے ہیں۔ کیا جنرل صاحب بتا سکیں گے کہ خود اپنے ملک میں جسے وہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کہتے ہیں اس کے ازالے کے لیے اسباب کی تلاش اور ناانصافیوں اور محرومیوں کو دُور کرنے کے لیے انھوں نے کیا کیا؟ اور کیا وہ بھی صدر بش کی طرح محض قوت کے استعمال سے ان خرابیوں کا قلع قمع کرنے کی پالیسی پر گامزن نہیں جن کا حل صرف حقوق کی ادایگی‘ انصاف کے قیام‘ جمہوری عمل کے استحکام‘ مذاکرات اور سیاسی طریقے ہی سے کیا جا سکتا ہے۔
۸- جنرل مشرف نے سیکولرزم کے اسلام سے متصادم نہ ہونے کی بات بھی کی ہے جو اسلام کے تصورِ حیات اور پاکستان کے مقصدِ وجود کی نفی کے مترادف ہے۔ اگر یہ بات سیکولرازم کے تصور اور اس کے مضمرات سے عدمِ واقفیت کی بنا پر کی گئی ہے تو افسوس ناک ہے اور اگر جان بوجھ کر یہ شوشہ چھوڑا گیا ہے تو جنرل صاحب کو یاد رکھنا چاہیے کہ سکندر مرزا اور ایوب سے لے کر آج تک جس نے یہ بات کہی ہے‘ اس نے بالآخرمنہ کی کھائی ہے۔ اُمت مسلمہ لادینی نظریۂ حیات کو کبھی قبول نہیں کرسکتی۔ امریکی دین الٰہی کا اصل ہدف اسلامی دنیا میں دین و دنیا اور مذہب و سیاست کی تفریق کے نظام کو رائج کرنا اور اسلام کا ایک ایسا راہبانہ تصور فروغ دینا ہے جس میں دین گھر اور مسجد تک محدود ہو جائے اور دنیا کا نظام شیطانی نظریات کی پیروی میں چلایا جائے۔ شریعت معطل رہے اور جہاد منسوخ ہو جائے۔ لیکن یہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اعلانِ جنگ کے مترادف ہے۔
استعماری دور میں بیرونی حکمران ایسی دسیوں کوششیں کرکے ناکام رہے ہیں اور اب وہ اپنے دیسی ساجھیوں کے ذریعے یہ کرانا چاہتے ہیں تو ان شاء اللہ اسی طرح اب بھی ناکام رہیں گے البتہ اس سے بہتوں کی دنیا اور آخرت دونوں تباہ کر دیں گے۔ ماضی میں نہ دین اکبری چل سکا اور نہ اب دین امریکی کے پنپنے کا کوئی امکان ہے۔ اللہ نے اپنے دین کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے اور اس دین سے ٹکر لینے کی جس نے بھی کوشش کی ہے بالآخر پاش پاش ہوا ہے۔ ہمارا مخلصانہ مشورہ ہے کہ یہ راستہ اختیار نہ کریں۔ ؎
مٹ نہیں سکتا کبھی مردِ مسلماں‘ کہ ہے
اس کی اذانوں سے فاش سرِّ کلیمؑ و خلیلؑ
اور مسلمان فرد اورقوم دونوں کے لیے عزت اور زندگی کا ایک ہی راستہ ہے یعنی ؎
حدیث بے خبراں ہے‘ تو بازمانہ بساز
زمانہ با تو نہ سازد‘ تو بازمانہ ستیز