جولائی ۲۰۰۴

فہرست مضامین

کتاب نما

| جولائی ۲۰۰۴ | کتاب نما

Responsive image Responsive image

حیات رسول امی ﷺ ‘ خالد مسعود۔ ناشر: دارالتذکیر‘ رحمن مارکیٹ‘ غزنی سٹریٹ‘ اردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۵۹۷۔ قیمت: ۳۷۵ روپے۔

سیرت پاکؐ پر لکھنا ایک سعادت بھی ہے اور ذمہ داری بھی۔ یہ موضوع جتنی رفعتوں سے آشنا کرتا ہے‘ اس سے کہیں زیادہ نزاکتوں کے پُل صراط پر چلنے کا تقاضا کرتا ہے۔ خالد مسعود نے اس پیش کش کا آغاز اس دعویٰ سے کیا ہے کہ: ’’] سیرت نگاروں نے سیرت نگاری میں[ اگر  کسی حیثیت کونظرانداز کیا ہے تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اللہ کا رسول ہونے کی حیثیت ہے‘‘ (ص ۱۱)۔ جس کا مطلب یہ بھی ہے کہ خود خالد مسعود نے کم از کم اس کتاب میں اسی کمی کو پورا کرنے کے لیے قلم اٹھایا ہے۔ ہرچند کہ کتاب کے مندرجات‘ موضوعات کی پیش کش‘ زبان و بیان کی سلاست نے اسے انفرادیت تو دی ہے‘ لیکن چند مباحث کے علاوہ‘ یہ کتاب بھی سیرت نگاری کی روایت ہی کا ایک قابلِ قدر تسلسل ہے۔ (کتاب پر مفصل تبصرہ دیکھیے: توقیراحمد ندوی‘ معارف‘ اعظم گڑھ‘ بھارت‘ مئی ۲۰۰۴ئ)

انفرادیت کی ایک وجہ سیرت پاکؐ کے حوالے سے صدیوں سے بیان کی جانے والی بعض معروف روایات کا درایت کی بنیاد پر استرداد ہے‘ جن میں خصوصاً حضرت عائشہؓ کی نکاح کے وقت عمر‘ حضرت عمرؓ کا قبولِ اسلام کا واقعہ‘ تدوین قرآن کی روایت اور بعض دیگر روایات شامل ہیں۔ یہ مباحث تحیرآمیز اور بعض پہلوئوں سے ادھورے دعوے ہونے کے باوجود تقاضا کرتے ہیں کہ اس اختلافِ فکر ونظرکا علمی سطح پر ہی جائزہ لینا چاہیے۔ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ ان روایات پر نقدوبحث کو کسی فتوے کی زد میں لاکر رد کر دیا جائے‘ تاہم اس کتاب کا یہ مرکزی پہلو نہیں ہے‘ بلکہ مرکزیت اس اسپرٹ کو حاصل ہے‘ جس کے تحت قاری‘ مطالعے کے دوران‘ محبت‘ جذب‘ تعقل اور والہانہ وابستگی سے دوچار ہوتا ہے۔

حیاتِ رسول امیؐ میں مستشرقین کی یاوہ گوئی کا مسکت اور مدلل جواب بھی خوب ہے لیکن غزوات رسولؐ کے ابواب تو اس کتاب کا جوہر ہیں۔ آج کل ہمارے گاندھی زدہ یا بش گزیدہ دانش ور سیرت کے باب میں جس فکری افلاس سے قلم کاری کر رہے ہیں ‘اس کا ایک ہدف ’میثاق مدینہ‘ بھی ہے۔ اس حوالے سے خالد مسعود لکھتے ہیں: ’’ہمارے اہلِ تحقیق نے اس بات پر بڑا زور دیا ہے کہ ’میثاقِ مدینہ‘ کے تحت مسلمان‘ یہود اور مشرکین‘ جو بھی وادیِ یثرب میں آباد تھے‘ وہ ایک اُمّت قرار دیے گئے‘ اور ان کو مذہبی تحفظ فراہم کیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ معاہدے میں یہود کا نام قبیلوں کے تعین کے ساتھ آیا ہے‘ جب کہ مشرکین کا اس میں تذکرہ بھی نہیں ہوا۔ ] یہ[ اہلِ تحقیق بھول جاتے ہیں کہ رسولؐ اللہ کا کارِ رسالت ابھی پایۂ تکمیل کو نہیں پہنچا تھا‘ نیز آپؐ لوگوں کے  غلط ادیان کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے مبعوث نہیں ہوئے تھے۔ ] ان نام نہاد دانش وروں کی[   یہ غلط فہمی ] صرف[ اس صورت میں رفع ہو ]سکتی[ ہے‘ جب یہ مانا جائے کہ میثاق مدینہ کوئی ابدی دستاویز نہیں تھی‘ بلکہ ذمہ داریوں کا وقتی تعین تھا‘‘ ۔(ص ۲۸۷)

اس صدقہ جاریہ کا فیض بلاشبہہ مولانا امین احسن اصلاحی رحمۃ اللہ علیہ کے نامۂ اعمال کا بھی حصہ بنے گا‘ جن کے تحقیقی نکات اور خرد افروز تفردات اس کتاب کا حصہ ہیں‘ اور جنھوں نے اپنے محبوب شاگرد کی ایسی تربیت کی کہ وہ ان نکات کو حسنِ ترتیب سے پیش کر سکے۔ اس کتاب کو خوب صورتی سے شائع کرنے پر ناشرین بھی مبارک کے مستحق ہیں۔ تاہم‘ آیندہ اشاعت میں اشاریے کا اضافہ اور حوالہ جات کا درست اندراج کرنا ضروری ہے۔ (سلیم منصور خالد)


مسلم دنیا ‘فیض احمد شہابی۔ ناشر: ادارہ معارف اسلامی‘ منصورہ‘ لاہور۔ صفحات: ۸۲۴۔ قیمت: ۴۰۰ روپے۔

فاضل مرتب نے مختلف اردو‘ انگریزی اور عربی روزناموں‘ ہفت روزوں اور ماہناموں سے مسلم ممالک کے بارے میں ضروری معلومات جمع کی ہیں۔ یہ کام انتہائی محنت‘ جستجو اور   عرق ریزی سے کیا گیا ہے۔ اس سلسلے کی پہلی جلد ۱۹۹۰ء میں منظرعام پر آئی تھی۔ ۱۹۹۲ء اور ۱۹۹۷ء میں مزید دو جلدیں شائع ہوئیں ۔ تازہ جلد جنوری ۱۹۹۷ء سے دسمبر ۲۰۰۲ء تک کے حالات و واقعات پر مشتمل ہے۔

کتاب کے شروع میں مسلم ممالک کی آبادی اور غیر مسلم ممالک میں مسلمانوں کے تناسب آبادی کے اعداد و شمار کے علاوہ بعض مسلم ملکوں اور شہروں کے ناموں کے صحیح تلفظ و املا کی تصریح بھی کی گئی ہے۔

کتاب تین ابواب میں منقسم ہے۔ پہلے باب میں ۴۷ مسلم ممالک کے حالات و کوائف جمع کیے گئے ہیں۔ دوسرے باب (مسلم اقلیتیں) میں ایشیا‘افریقہ‘ یورپ اور شمالی و جنوبی امریکا سمیت ۳۲ غیر مسلم ممالک میں بسنے والے مسلمانوں کے حالات و واقعات‘ درپیش مسائل‘ امکانات اور چیلنجوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ باب سوم (متفرقات) میں دنیا بھر میں منعقد ہونے والی اسلامی کانفرنسوں کا احوال‘ مختلف ممالک کے باہمی معاہدوں اور قدرتی آفات و حادثات کا ذکر کیا گیا ہے۔

اس کتاب کے حوالے سے یہ کہنا غلط نہیں کہ ادارہ معارف اسلامی انتہائی اہم کام انجام دے رہا ہے۔ لیکن دسمبر ۲۰۰۲ء تک کے کوائف کا احاطہ کرنے والی یہ کتاب تاخیر سے منظرعام پر آئی ہے۔ یہ ضروری ہے کہ ہر نئے سال کے ابتدائی ہفتوں یا مہینوں میں پچھلے سال کی ایئربک مارکیٹ میں آجایا کرے۔

کتاب کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ مسلم ممالک بے پناہ قدرتی وسائل اور طرح طرح کی دیگر نعمتوں سے مالا مال ہیں مگر عسکری و افرادی قوت رکھنے کے باوجود‘ استعمار اور ان کے مسلط کردہ گماشتوں کے شکنجۂ استبداد میں کراہ رہے ہیں۔ اس کا ایک ہی سبب ہے کہ مسلمان ملکی معاملات میں دل چسپی لینے اور حکمرانوں کا احتساب کرنے کے بجاے ذاتی مفادات کی فصل کاٹنے اور لسانی‘ علاقائی اور مذہبی فرقہ پرستی میں مبتلا ہیں۔

بہرحال یہ کتاب معلومات کا ایک خزانہ ہے۔ اچھی طباعت‘ خوب صورت سرِورق اور جلد کے ساتھ قیمت انتہائی مناسب ہے۔ (عبدالجبار بھٹی)


دشت امکاں، ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر۔ ناشر: قرطاس‘ پوسٹ بکس ۸۴۵۳‘ کراچی یونی ورسٹی‘ کراچی۔صفحات: ۲۷۷۔ قیمت: ۲۵۰ روپے

پروفیسر ڈاکٹر نگار کی نصف درجن سے زائد کتب منصہ شہود پر آچکی ہیں جن میں شاعری اور افسانوں کے مجموعے بھی شامل ہیں لیکن ان کا اصل میدانِ تحقیق‘ اسلامی تاریخ خصوصاً پہلی صدی ہجری کی تاریخ ہے۔ سرزمینِ نجد وحجاز کے اس سفرنامے میں بھی تاریخی حقائق کا پہلو نمایاں نظر آتا ہے۔

اردو ادب میں سفرنامہ ایک دل چسپ اور اہم تخلیقی صنفِ نثر کی حیثیت حاصل کر چکا ہے۔ مختلف ممالک کے سفرناموں کے ساتھ ساتھ‘ سرزمین حجاز کے سفرناموں میں بھی ایک تسلسل سے اضافہ ہو رہا ہے لیکن ان میں سے اکثر‘ مقاماتِ مقدسہ کی تفاصیل اور قلبی واردات وکیفیات اور تاثرات کے بیان پر مشتمل ہیں۔ یہ سفرنامہ اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ مصنفہ نے نجد و حجاز کے سفر بار بار کیے اور دیگر سفرناموں کا گہری نظر سے مطالعہ کیا اور تقابلی جائزے سے نجدوحجاز کی بدلتی ہوئی صورت حال کو نمایاں کیا ہے۔ تاریخی واقعات کی تحقیق میں بنیادی ماخذ کے طور پر قرآن پاک کو مدنظر رکھا ہے۔ اس کے بعد مستند تاریخی کتب سے مدد لی ہے۔

مجموعی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ دشتِ امکاں نجدوحجاز کے سفرناموں میں ایک منفرد اور عمدہ اضافہ ہے۔ کتاب میں تاریخی مقامات کی تصاویر بھی دی گئی ہیں۔ ان میں عبدالوہاب خان سلیم (جن کے پاس حجاز کے اردو سفرناموں کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے) کی مہیا کردہ نادر تصاویر بھی شامل ہیں۔ (عبداللّٰہ شاہ ہاشمی)


تعلیم اور تہذیب و ثقافت کے رشتے ‘منیراحمد خلیلی۔ ناشر: ادارہ مطبوعات سلیمانی‘ غزنی سٹریٹ‘ اردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۱۷۶۔ قیمت: ۱۵۰ روپے۔

زیرنظر کتاب حسب ذیل چھے مضامین پر مشتمل ہے: ا- انسان سازی یا انسانیت سوزی ۲- تعلیم یا تدریس ۳- تعلیم اور تہذیب کا تعلق مولانا مودودی کی نظر میں ۴- تباہی ہے اس قوم کے لیے جس سے اس کی زبان چھن گئی ۵- استاد کمرۂ جماعت میں ۶- تدریس اُردو۔

مصنف نے اکبر الٰہ آبادی‘ علامہ اقبال اور مولانا مودودی کا ذکر کرتے ہوئے بتایا ہے کہ تینوں شخصیات نے تعلیم کو تہذیب کی حفاظت کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے اور ان کے نزدیک تعلیمی شعبے کی کوتاہی ثقافتی اور اخلاقی دولت کے زوال کا سبب بنتی ہے۔ بقول مولانا مودودیؒ: ’’عقل مند قومیں اپنی تہذیبی بقا کا ضامن تعلیم کے شعبے ہی کو سمجھتی ہیں۔ ان کی پالیسیوں کی بنیاد یہ ہوتی ہے کہ ایسا نظام تعلیم وضع اور نافذ کیا جائے جس سے ان کی تہذیبی روایات کے پنپنے کے امکانات روشن ہو سکیں‘‘۔

مصنف نے تعلیم کا رشتہ تہذیب و ثقافت سے استوار کرنے کی کوشش کی ہے۔مصنف کا اپنا تعلق بھی تدریس کے شعبے ہی سے ہے‘ اس لیے وہ تعلیم اور تہذیب و ثقافت کے نشیب و فراز سے بخوبی واقف اور جانتے ہیں کہ کسی قوم کی تہذیب صفحۂ ہستی سے ناپید ہوجاتی ہے تو یقینا وہ قوم ہمیشہ کے لیے ختم ہو جاتی ہے۔ مصنف کے نزدیک کسی قوم کی زبان کا بھی اس کی تہذیبی بقا سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔ فرانس کے آنجہانی متراں نے ایک مرتبہ کسی کانفرنس میں اپنی زبان کے حوالے سے کہا کہ فرانس کی عظمت اس کی زبان سے قائم ہے۔

کسی ملک کے تعلیمی نظام کی کامیابی کا انحصار بڑی حد تک استاد کی شخصیت پر ہوتا ہے۔ مصنف کہتے ہیں کہ ایک استاد میں تین چیزوں کا ہونا ضروری ہے‘ اول: وہ اپنے اخلاق و کردار کے اعتبار سے اتنا بلند ہو کہ طلبا اسے اپنے لیے نمونہ تصور کر سکیں۔ دوم: اپنے پیشے کی اہمیت سے اچھی طرح آگاہ ہو۔ سوم: جو مضمون وہ پڑھانے جا رہا ہو‘ اس پر مکمل عبور رکھتا ہو۔

ہر مضمون کی اپنی جگہ اہمیت ہے۔ یہ کتاب اساتذہ کے لیے رہنما بن سکتی ہے۔ سرورق خوب صورت ‘ طباعت مناسب ہے اور املا کی غلطیاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ کاغذ کے اعتبار سے قیمت زیادہ معلوم ہوتی ہے۔ (محمد رمضان راشد)


پاکستان میں ضلعی نظامِ حکومت اور الیکشن ۲۰۰۲ئ‘ رانا منیراحمدخان‘ شاہین اختر۔ ناشر: دارالشعور‘ ۳۲- میک لیگن  روڈ‘ چوک اے جی آفس‘ لاہور۔ صفحات: ۲۷۲۔ قیمت: ۱۸۰ روپے۔

کاروبارِ حکومت میں عوام الناس کی براہِ راست شرکت اور مقامی سطح پر مسائل کے جلد اور بہ سہولت حل کے لیے‘ فوجی حکومت نے ضلعی نظامِ حکومت متعارف کرایا۔ ۲۰۰۲ء میں ضلعی حکومتوں کے انتخابات میں مقامی قیادتوں کا انتخاب عمل میں آیا اور تحصیل اور ضلعی سطح پرمقامی حکومتوں نے کام کا آغاز کیا۔ بظاہر خیال یہ تھا کہ سرخ فائل کا شکار دفتری نظام‘ ایک نیا رُخ اختیار کر کے  بہتر صورت اختیار کرے گا۔

مصنفین کہتے ہیں کہ اس نظام کی خوبیاں بھی ہیں لیکن اس کی پیچیدگی اور طوالت نئے مسائل کو جنم دیتی ہے۔ مصنفین نے یونین کونسل‘ تحصیل کونسل اور ضلعی اسمبلی کے انتخاب کے طریق کار‘ اُن کے اختیارات اور اُن کی حدود و قیود کو واضح کیا ہے۔ علاوہ ازیں مسائل کے حل کے لیے جو طریقے ضلعی نظام میں استعمال کیے جاسکتے ہیں‘ اُن کی وضاحت بھی کی ہے۔

پاکستان میں ہونے والے گذشتہ انتخابات کا مختصر اور ۲۰۰۲ء کے انتخابات کا تفصیلی ذکر اور ریکارڈ اور ریفرنڈم ۲۰۰۲ء کا تذکرہ بھی کتاب میں شامل ہے۔ یہ بھی دکھایا گیا ہے کہ     اس غریب ملک میں انتخابات میں جیتنے والے لوگ کس طرح پانی کی طرح روپیا بہاتے ہیں۔ ضلعی نظام کو سمجھنے کے لیے یہ ایک مفید اور معلومات افزا کتاب ہے۔ (محمدایوب منیر)


امام ابوحنیفہؒ: حیات‘ فکر اور خدمات‘ ترتیب و تدوین: محمد طاہر منصوری‘ عبدالحی ابڑو۔ ناشر: ادارہ تحقیقات اسلامی‘ اسلام آباد۔ صفحات: ۲۸۲۔ قیمت: درج نہیں۔

نوآبادیاتی دور کے خاتمے پر اُمت مسلمہ ایک بار پھر اپنے ماضی کی روشن روایت اور دورحاضر کے تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے اسلامی معاشرے کی تشکیل و تعمیرمیں مصروف ہے۔ اس مرحلے پر دورِغلامی کے اثرات‘ جدید ٹکنالوجی کی وجہ سے دنیا کے سمٹ جانے‘ مغرب کی معاشی اور ابلاغی بالادستی کی وجہ سے درپیش عملی مسائل ہیں۔ ان میں شریعت کی رہنمائی معلوم کرنے کے لیے اسلاف کے کارناموں سے اکتسابِ نو ناگزیر ہے۔ ۵ تا۸ اکتوبر ۱۹۹۸ء امام ابوحنیفہؒ کی حیات‘ فکر اور خدمات پر اسلام آباد میں ادارہ تحقیقات اسلامی کی بین الاقوامی کانفرنس اس سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ زیرتبصرہ کتاب اس کانفرنس کے ۹منتخب مقالات اور ایک نہایت تاریخی معلومات سے پُر ’حرف اول‘ پر مشتمل ہے۔

اس وقت پاکستان‘ بھارت‘ بنگلہ دیش‘ ترکی‘مصر‘ شام‘ فلسطین‘ اُردن‘عراق‘ افغانستان‘ وسطی ایشیا‘ مشرقی یورپ اور کئی دوسرے ممالک میں مسلمانوں کی اکثریت حنفی المذاہب ہے۔ ماضی میں سلطنت مغلیہ اور سلطنت عثمانیہ کا سرکاری مذہب بھی حنفی فقہ تھا۔ اس فقہ کی مقبولیت کا راز شرعی فرائض میں رفع حرج و مشقت‘ تکلیف بقدر استطاعت اور سہولت و آسانی کے اصولوں کا لحاظ ہے جو دوسرے مسالک میں نہیں ملتا۔ اسی طرح استحسان کے حنفی اصول اسلامی قانون کو ترقی دینے اور معاشرے کی بدلتی ہوئی ضروریات اور تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ فاضل مقالہ نگاروں کی تحریروں سے یہ پہلو اجاگر ہوگئے ہیں۔

تاریخی و نظری لحاظ سے مقالات بہت خوب ہیں‘ لیکن ایک ایسے مقالے کی ضرورت باقی رہ گئی جس میں دورِحاضر کے بعض اہم متعین پانچ سات مسائل کے بارے میں فقہ حنفی کی رہنمائی پر بحث کی جاتی۔

ادارہ تحقیقات اسلامی نے اشاعت ِ کتب کے باب میں اعلیٰ معیار قائم کیا ہے‘ اس پر  وہ مبارک باد کا مستحق ہے۔ وسائل تو تمام سرکاری اداروں کو ملتے ہیں‘ لیکن ان کا بہترین اور دل و نظر کو خوش کر دینے والا مقصدی استعمال ہر کسی کے نصیب میں نہیں۔ (مسلم سجاد)


تذکرہ و سوانح حضرت مولانا سید سلیمان ندویؒ (ماہنامہ القاسم خصوصی نمبر) ‘ مرتب: مولانا عبدالقیوم حقانی۔ ناشر: جامعہ ابوہریرہ‘ خالق آباد نوشہرہ (صوبہ سرحد)۔ صفحات: ۴۵۱۔ قیمت: درج نہیں۔

۲۳ مضامین پر مشتمل یہ ایک اہم مجموعہ ہے۔ ایک ہی موضوع پر لکھے اور لکھوائے گئے مضامین میں عام طور پر تکرار کی صورت پیدا ہوجاتی ہے لیکن یہاں کوشش کی گئی ہے کہ سید سلیمان ندویؒ کے زندگی کے تمام گوشوں کے ساتھ ان کی شخصیت اور ان کی علمی و فکری دل چسپیوں کو بھی سامنے لایا جائے مگر تکرار محسوس نہ ہو۔ سید سلیمان سے جن لوگوں کا ارادت کا رشتہ رہا ‘ان پر بھی تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے۔ ڈاکٹر غلام محمد‘ ڈاکٹر نثاراحمد فاروقی اور محمدنعیم صدیقی ندوی کے مضامین مولاناؒ کی شخصیت کے مختلف زاویے اجاگر کرتے ہیں۔ ابوالحسن علی ندویؒ کا مضمون سید سلیمان ؒکی درس و تدریس سے دل چسپی اور علمی معاملات میں ان کے تحقیقی اندازِنظر‘نیز ان کی علمی تلاش و جستجو سے رغبت کے کئی پہلو سامنے لاتا ہے۔

سید سلیمانؒ سے روحانی و فکری تعلق کی بنا پر اکثر مضمون نگاروں کے ہاں عقیدت و احترام کا پہلو بطور خاص نمایاں ہے۔ اگر سلمان ندوی صاحب کا قلمی تعاون بھی شامل ہوتا تو اس مجموعے کی اہمیت میں گراں قدر اضافہ ہوجاتا۔ (محمدایوب لِلّٰہ)


تعارف کتب

  • علاماتِ قیامت کا بیان، مصنف: محمد اقبال کیانی۔ ناشر: حدیث پبلی کیشنز‘ ۲ شیش محل روڈ‘ لاہور۔ قیمت: ۹۰ روپے۔ صفحات: ۲۵۶۔] تین طرح کی علامات قیامت کی تفصیل: قیامت کے فتنے‘ علاماتِ صغریٰ‘ علامات کبریٰ‘ قرآن و حدیث (متن مع ترجمہ) کی روشنی میں ہر بات پورے حوالوں سے کی گئی ہے۔ [
  • خالد اسحاق‘ احباب کی نظر میں‘ مرتبین:ابوالامتیاز ع س مسلم نصرت مرزا۔ناشر: خالد اسحاق میموریل سوسائٹی‘ ۷۱۰ یونی شاپنگ سنٹر‘ صدر کراچی۔ صفحات: ۱۷۵۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔] معروف دانش ور اور وکیل خالد اسحاق (م: ۷ فروری ۲۰۰۴ئ) کے بارے میں ان کے احباب اور بعض معروف اہلِ قلم کے تاثراتی مضامین اور مرحوم سے چند مصاحبے۔ شخصیت کا معلومات افزا تعارف۔[
  • آخری صلیبی جنگ (حصہ چہارم) ‘مصنف: عبدالرشید ارشد۔ ناشر: النور ٹرسٹ (رجسٹرڈ) جوہر پریس بلڈنگ‘ جوہرآباد۔ صفحات: ۲۷۲۔ قیمت: ۱۰۰ روپے۔] عراق اور دیگر عالمی مسائل کے تناظر میں مصنف کے ۳۳مضامین کا مجموعہ۔ چند عنوانات: سب سے پہلے پاکستان‘ القاعدہ نیٹ ورک‘ صہیونی میڈیا اور پاکستانی سائنس دانوں کی تذلیل‘ یو این او‘ نادیدہ قوت کی لونڈی‘ friendly fireکا اگلا ٹارگٹ کون؟ وغیرہ۔ اسلامی فکروذہن رکھنے والے ایک صاحبِ قلم کا مفید مجموعہ۔[
  • سیرت کا پیغام، مرتب: ممتاز عمر۔ پتا: ٹی ۴۷۵‘ کورنگی ۲‘ کراچی۔ صفحات: ۶۴۔ قیمت: درج نہیں۔ ] سیرت پاکؐ پر مختلف اصحاب مفتی منیب الرحمن‘ ڈاکٹر محمد یونس حسنی‘ ڈاکٹر محمد سعید‘ قاری بشیراحمد‘ محمد وسیم اکبر شیخ‘ ظفرحجازی‘ خرم مراد‘ عذرا جعفری‘ سید مختار الحسن گوہر اور خود مؤلف کے مضامین کا مجموعہ۔[