جولائی ۲۰۰۴

فہرست مضامین

رسائل و مسائل

| جولائی ۲۰۰۴ | رسائل و مسائل

Responsive image Responsive image

انفاق کے آداب

سوال: ایک فرد کی ماہانہ بچت چار سے پانچ ہزار روپے ہے۔ اس کے نزدیک ایک طرف تحریک اسلامی کو دیگر وسائل کے علاوہ نقد رقوم کی بھی سخت ضرورت ہے‘  دوسری طرف اس شخص کو حج پر جانے کی بھی شدید خواہش ہے‘ اور تیسری طرف ایسے مستحق لوگ بھی اس کی نظر میں ہیں جنھیں لٹریچر کے ذریعے دین کا پیغام پہنچانا بھی وقت کا تقاضا ہے۔ ان حالات میں کیا اُسے رقم جوڑ کر حج کرنا چاہیے‘ یا دین کو قائم کرنے کی جدوجہد میں مال لگانا چاہیے؟

جواب: خوشی ہوئی کہ آج کے دور میں بھی معاشرے میں ایسے افراد بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں جو دین کی نشرواشاعت کے جذبے سے سرشار ہیں اور اپنی ضروریات پر دین کے تقاضوں کو فوقیت دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے اس جذبے میں مزید برکت ڈالے اور اس طرح کے لوگوں کی تعداد میں اضافہ فرمائے۔ آمین!

اس طرح کے جذبات کو بارآور کرنے کے لیے ضروری ہے کہ دین اور خدمتِ خلق کے کام کے لیے اجتماعی کوششیں کی جائیں‘ ایک یا چند افراد اگر اپنی بچتیں لوگوں میں لٹریچر تقسیم کرنے اور ان کی ضروریات پورا کرنے میں خرچ بھی کر دیں تو کام زیادہ نتیجہ خیز نہیں ہو سکتا‘ لہٰذا ضروری ہے کہ اس مقصد کے لیے کام کرنے والی تنظیم کو وسعت دی جائے۔ زیادہ سے زیادہ افراد سے مالی اعانت جمع کی جائے۔ لوگ اپنی اپنی توفیق کے مطابق مالی اعانتیں دیں‘ پھر جمع شدہ رقوم سے ایک طرف توسیع دعوت کا کام لیا جائے‘ لٹریچر تقسیم کیا جائے اور دروس قرآن و حدیث کے اجتماعات منعقد کیے جائیں‘ اور دوسری طرف حاجت مندوں کی حاجات پوری کی جائیں۔ ایک شخص کا اپنی بچت کی ساری رقم کو فی سبیل اللہ خرچ کرنا اس وقت ضروری ہوتا ہے جب اس کے بغیر چارہ نہ ہو۔ موجودہ حالات میں افراد سے اپنی ساری بچت فی سبیل اللہ خرچ کرنے کا تقاضا نہیں ہے‘ بلکہ اپنی اور اہل و عیال کی ضروریات کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ انفاق کا مطالبہ ہے۔ ایک شخص اگر مہینے میں چار پانچ ہزار روپے کی بچت کرتا ہے‘ اور وہ خود صاحب ِاہل و عیال ہے‘ اس کے پاس اپنا مکان نہیں ہے تو اس کے لیے مناسب یہ ہے کہ کچھ رقم مکان کے لیے‘ کچھ اہل و عیال کی ضروریات کے لیے اور کچھ فی سبیل اللہ خرچ کرنے کے لیے مخصوص کر دے اور اس بات کو بھی پیشِ نظر رکھے کہ وہ اپنی ضروریات کو خود پورا کر سکے اور بوقت ضرورت کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے۔ عام حالات میں اگر وہ شخص حج کے لیے بھی کچھ رقم مخصوص کرتا ہے تو اس کی بھی گنجایش ہے۔

صحابہ کرام نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ وہ کیا خرچ کریں‘ تو اللہ تعالیٰ نے آسمان سے جواب نازل فرمایا کہ یَسْئَلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَ قُلِ العَفْوَ (البقرہ ۲:۲۱۹) ’’آپ فرما دیجیے کہ جو بہ سہولت خرچ کر سکتے ہو‘ خرچ کرو‘‘۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا: بہترین صدقہ وہ ہے جو مال دار پشت سے ہو۔ پہلے ان پر خرچ کرو جو تمھاری پرورش میں ہیں (بخاری،عن ابی ھریرہ)‘ یعنی پورا مال ہی خرچ نہ کر دیا جائے‘ بلکہ کچھ بچا کر بھی رکھنا چاہیے۔ اسی طرح آپؐ نے فرمایا کہ ایک دینار وہ ہے جس کو تم فی سبیل اللہ خرچ کرو‘ ایک دینار وہ ہے جس کو غلام آزاد کرنے میں خرچ کرو‘ ایک وہ ہے جسے مسکین پر صدقہ کرو‘ اور ایک دینار وہ ہے جسے تم اپنے اہل و عیال پر خرچ کرو۔ ان میں افضل وہ ہے جسے تم اپنے اہل و عیال پر خرچ کرتے ہو۔مسکین پر صدقہ صدقہ ہے اور قرابت دار پر دہرا اجر ہے۔ صدقہ بھی ہے اور صلہ رحمی بھی (احمد‘ ترمذی‘ ابن ماجہ‘ نسائی)۔ یہ تمام روایات  مشکوٰۃ میں ذکر کی گئی ہیں۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب صدقے کی اپیل کیا کرتے تھے تو صحابہ کرامؓ اپنے اپنے حالات اور جذبے کے مطابق مال پیش کر دیتے تھے۔ غزوۂ تبوک کے موقع پر حضرت ابوبکر صدیق ؓنے سارا مال اور حضرت عمرؓ نے نصف مال فی سبیل اللہ پیش کیا۔ حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ اور حضرت علی ؓنے بڑی بڑی رقوم پیش کیں۔ دیگر صحابہ کرامؓ نے بھی ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔

اس طرح کی صورت حال اگر آج پیش آجائے اور اجتماعی نظم مالی اعانتوں کی اپیل کرے تو ایسی صورت میں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر رقوم پیش کر کے صحابہ کرامؓ کی سنت پر عمل کرنا ہوگا۔ لیکن عام حالات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انفاق میں بقدر استطاعت حصہ لینے کے ساتھ اہل و عیال اور قرابت داروں پر خرچ کرنے اور ان کی مالی حیثیت مضبوط کرنے کو ترجیح دی۔

جب قرآن پاک کی آیت لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ (نیکی کو ہرگز نہیں پاسکتے یہاں تک کہ خرچ کرو اس مال کو جو تمھیں محبوب ہے۔ اٰل عمرٰن ۳:۹۲) نازل ہوئی تو حضرت طلحہؓ رسولؐ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا میرا سب سے محبوب مال ’’بیرحا‘‘ کا باغ ہے‘ وہ اللہ کے لیے صدقہ ہے۔ میں اس کا ثواب حاصل کرنا چاہتا ہوں اور اسے اللہ کے ہاں ذخیرہ کرنا چاہتا ہوں۔ آپ اسے جہاں چاہیں صرف کریں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: واہ واہ! یہ تو بڑا قیمتی مال ہے۔ میں نے تمھاری بات سن لی۔ میں سمجھتا ہوں کہ تم اسے اپنے قرابت داروں پر خرچ کرو۔ ابوطلحہؓ نے کہا: میں اسی طرح کرتا ہوں۔ چنانچہ ابوطلحہؓ نے اسے اپنے قرابت داروں اور چچازادوں میں تقسیم کر دیا۔ (متفق علیہ)

بعض اوقات سارے مال کو خرچ کرنے پر آپ نے ناراضی بھی ظاہر فرمائی ہے۔ ایک دفعہ ایک شخص سونے کی ڈلی لے آیا۔ عرض کیا: یارسولؐ اللہ! یہ مجھے سونے کی کان سے ملی ہے‘ آپ اسے لے لیجیے۔ یہ صدقہ ہے۔ میں اس کے سوا کسی چیز کا مالک نہیں۔ آپ نے اس سے منہ موڑ لیا۔ وہ دائیں جانب سے آیا‘ پھر وہی بات کی۔ آپ نے اپنا چہرہ دوسری طرف موڑ لیا۔ پھر وہ بائیں جانب سے آیا‘ آپ نے پھر رخ موڑ لیا۔ پھر وہ پیچھے سے آیا۔ آپ نے وہ ’’ڈلی‘‘ لے لی اوراس کو دے ماری۔ اگر وہ اسے لگ جاتی تو اسے تکلیف پہنچاتی یا زخمی کر دیتی۔ اس کے بعد آپؐ نے فرمایا: تم میں سے ایک آدمی اپنا سارا مال لے کر آجاتا ہے اور کہتا ہے یہ صدقہ ہے۔ پھر لوگوں سے مانگنے بیٹھ جاتا ہے۔ بہترین صدقہ وہ ہے جو مال دار آدمی کا ہو۔ (ابوداؤد‘ کتاب الزکوٰۃ)

اس سے معلوم ہوا کہ غریب آدمی کو احتیاط سے کام لینا چاہیے۔ جذبات میںآکر سارا مال صدقہ کرنے کے بجاے کچھ صدقہ کرے اور باقی سے اپنی اور اہل و عیال کی ضروریات پوری کرے۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ غزوئہ تبوک کے موقعے پر حضرت ابوبکرؓنے اپنی ساری دولت پیش کر دی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قبول کرلیا۔ امام بخاریؒ نے اس کا جواب بخاری میں دیا ہے کہ جو شخص ابوبکرؓ کے مقام پر فائز ہو‘ صبروقناعت کر سکتا ہو‘ اس کے لیے بے شک ساری دولت خرچ کر دینے کی اجازت ہے۔ لیکن عام لوگوں کے لیے یہی ہدایت ہے کہ وہ دولت کے خرچ کرنے میں اعتدال اور توازن سے کام لیں۔ اس لیے جو صاحب چار پانچ ہزار روپے ماہوار بچت رکھتے ہیں‘ انھیں چاہیے کہ وہ کچھ رقم فی سبیل اللہ خرچ کریں‘ باقی گھریلوضروریات اور حج کے لیے پس انداز کر لیں۔ دعوت واقامت دین کا فریضہ اوراس کے تقاضے اپنی جگہ اہم ہیں‘ اس کے لیے فی سبیل اللہ خرچ کرنے کے لیے مالی معاونین بڑھانے چاہییں۔ اس سے دینی کام زیادہ بہتر اور مؤثر انداز میں ہو سکے گا۔ واللّٰہ اعلم!(مولانا عبدالمالک)


اطاعت امیر کی حدود

س:قرآن حکیم امیر کی اطاعت کا حکم دیتا ہے(النساء ۴:۵۹)۔ کیا امیر کے ہرحکم کی اطاعت و پیروی لازمی ہے یا بعض صورتوں میں نافرمانی بھی کی جا سکتی ہے؟ ہمیں قرآن و سنت سے کیا ہدایات ملتی ہیں؟

ج: آپ نے سورۂ نساء کی آیت کے حوالے سے جو سوال کیا ہے اس کا اصولی جواب خود اسی آیت میں موجود ہے۔ فرمایا گیا ہے: ’’اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور اطاعت کرو رسولؐ کی اور اپنے اولوالامر کی۔ اگر کسی معاملے میں اختلاف رائے واقع ہو تو اس کو اللہ اور اس کے رسولؐ کی طرف لوٹا دو‘ اگر تم اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو‘‘(النسائ۴: ۵۹)۔ اس آیت مبارکہ میں پہلی حقیقت یہ واضح کر دی گئی کہ جن اولی الامر کی اطاعت کی بات کی جارہی ہے وہ خود اُمت مسلمہ ہی کے اولی الامر ہیں۔

دوسری بات یہ فرمائی گئی کہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت غیرمشروط اور   ہمہ وقتی ہوگی۔ ان سے اختلاف اور روگردانی جائز نہیں۔ اس لیے اطاعت الٰہی اور اطاعت رسولؐ کو غیرمشروط رکھا گیا ہے۔ دوسرے مقام پر اس اصول کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا کہ مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ (النسائ۴:۸۰)،’’جس نے رسولؐ کی اطاعت کی اس نے دراصل خدا کی اطاعت کی‘‘۔ پھر ایک تیسری سطح اطاعت کے حوالے سے بیان کی گئی ہے جس میں اصحابِ امر کی اس وقت تک مشروط اطاعت کا حکم دیا گیا ہے جب تک وہ اپنے تمام معاملات میں اللہ اور اللہ کے رسولؐ کی دی ہوئی ہدایات کی پیروی کر رہے ہوں۔ اگلی بات یہ فرمائی گئی کہ اگر صاحب ِ امر سے کسی معاملے میں اختلاف ہوجائے‘ جو ایک مسلمان شہری کا بنیادی حق بھی ہے‘ تو پھر صاحب ِ امر اور ایک عام شہری کے اختلاف کا فیصلہ قرآن و سنت کی روشنی میں کیا جائے گا۔ ایسی صورت حال میں صاحب ِ امر کو یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ وہ اپنا حکم اور فیصلہ عوام الناس پر زبردستی نافذ کرے اور عوام الناس کے لیے ایسے حکم کی پیروی واجب نہیں ہے۔ مثال کے طور پر اللہ اور اللہ کے رسولؐ ایک مسلمان کو یہ حق دیتے ہیں کہ اگر وہ عدل قائم رکھ سکتا ہو تو ایک سے زائد نکاح کرسکتا ہے‘ لیکن اگر ایک حکمران یہ حکم دے کہ دوسری شادی غیرقانونی ہے تو ایسے قانون کی اطاعت جو شریعت سے ٹکراتا ہو‘ قطعاً جائز نہ ہوگی۔

صاحب ِ امر سے عموماً فرماں روا یا حاکم مراد لیا جاتا ہے۔ لیکن اپنے وسیع تر مفہوم میں اس میں وہ سب حضرات شامل ہیں جو کسی ذمہ داری کے منصب پر فائز ہوں‘ مثلاً علما و فقہا‘ کسی ادارے کے سربراہ‘ وہ متخصص افراد جو اپنے اپنے میدان میں فیصلہ کُن مقام رکھتے ہوں۔ اس غرض سے ایک اسکول یا کالج کے پرنسپل‘ یونی ورسٹی کے وائس چانسلر‘ ایک فیکٹری کے مینیجر یا ایک سربراہِ خاندان‘ ہر ایک کے لیے حکم یکساں ہوگا اور اُس کی اطاعت اسی وقت تک ہوگی جب تک وہ حکمِ شریعت‘ یعنی قرآن و سنت کی پیروی کر رہا ہو۔

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مشہور حدیث لاَطَاعَۃَ لِمَخْلُوْقٍ فِیْ مَعْصِیَۃِ الْخَالِقِ (اللہ کی نافرمانی میں کسی کی فرماںبرداری نہیں)‘ میں اس اصول کو متعین فرما دیا کہ اگر ایک شوہر‘ بیوی کو یا بیوی‘ شوہر کو کسی ایسے کام کے لیے کہے جو قرآن و سنت کے منافی ہے تو اطاعت نہیں کی جائے گی۔ یہی شکل دیگر شعبہ ہاے حیات میں ہوگی‘ مثلاً ایک سرکاری دفتر میں کسی افسر کا وہ حکم جو براہِ راست قرآن و سنت سے ٹکراتا ہو‘ قابلِ تعمیل نہیں قرار پائے گا۔

قرآن و سنت کے احکام میں اگر ایک سے زائد تعبیرات کا امکان ہو تو کسی ایک تعبیر کو اختیار کیا جاسکتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ ان تعبیرات اور قرآن وسنت کے بنیادی اصولوں میں کوئی تضاد نہ ہو۔

غیرشرعی احکام کے نہ ماننے کا طریقہ کیا ہوگا اور کن حالات میں کسی صاحب ِ امر کے خلاف کھلم کھلا عوامی مظاہرہ کیا جائے گا؟ یہ سوالات ہمارے معروف فقہا کے بھی پیش نظر تھے۔ چنانچہ ’سیاست شرعیہ‘ کے زیرعنوان اس مسئلے پر تفصیلی مباحث مختلف مقامات پر ملتے ہیں۔ امام ابن تیمیہ ؒنے بھی اس موضوع پر لکھا ہے۔ پہلی بات جو ہمارے علما نے واضح طور پر بیان کی‘وہ یہ ہے کہ جب بھی صاحب ِ امر گمراہی کی طرف جائیں انھیں نصیحت کی جائے‘کیونکہ حدیث صحیح سے ثابت ہے کہ اَلدِّیْنُ النَّصِیْحَۃُ   (بخاری)۔  مسلم کی روایت ہے کہ ’’تین چیزوں سے اللہ تعالیٰ تم سے بہت خوش ہوتا ہے۔ ایک یہ کہ اسی کی عبادت کرو‘ اور کسی کو اس کا شریک نہ گردانو۔ دوسری یہ کہ اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے تھامے رہو‘ فرقے فرقے مت بن جائو۔ تیسری یہ کہ جس شخص کو اللہ نے تمھارا صاحب ِ امر بنایا ہے اس کو نصیحت کیا کرو‘‘۔

نصیحت کے تمام ذرائع جب ناکام ہوجائیں تو راے عامہ کو ہموار کرنا اور ملک میں  فتنہ و فساد برپا کیے بغیر تبدیلی ٔ امامت اُمت مسلمہ پر واجب ہوجاتی ہے کیونکہ اسلامی شریعت کے قیام و نفوذ کے لیے صالح امامت کا ہونا ہی اُمت مسلمہ کے عمومی مصالح کا تحفظ کرسکتا ہے۔ چنانچہ جہاں تک ممکن ہو تشدد اور قتل و غارت سے بچتے ہوئے تبدیلی ٔ قیادت کی جدوجہد کرنا اُمت مسلمہ کا فریضہ بن جاتا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔(ڈاکٹر انیس احمد)