ہمارے مسلمان معاشرے میں امام مسجد کو ایک نمایاں مقام حاصل ہے۔ عام آدمی کی نظر میں وہ ایک عالمِ دین ہوتا ہے۔ یہ ایک بہت بلند مقام ہے۔ حدیث رسولؐ کے مطابق علما درحقیقت انبیا کے وارث ہیں۔ لہٰذا امامت کا فریضہ اپنے مرتبہ و مقام کے لحاظ سے خدا کی کسی بڑی نعمت سے کم نہیں‘ اور جسے وہ اپنی مشیت سے اس منصب کے لیے منتخب کرلے فی الواقع اسے ایک بڑی نعمت حاصل ہوگئی۔ اس پر جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے‘ اس لیے کہ اس کے پاس وہ علم ہے جو انبیاے کرام لے کر آئے‘ وہ انبیا کا وارث ہے‘ اور اسے لوگوں کی امامت و رہنمائی اور تزکیہ و تربیت کا موقع حاصل ہوتا ہے۔
بدقسمتی سے مسجد کی امامت ہمارے معاشرے میں ایک چلن بن کر رہ گیا ہے کہ گویا یہ صرف دو رکعت کی امامت ہے‘ لیکن حقیقت اس سے بالکل مختلف ہے۔ عملاً ایک امام اس مصلے پر کھڑا ہوتا ہے جس پر سیدالانبیا صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوتے تھے۔ یوں تمام ائمہ آپؐ کے وارث اور نائب ہیں۔ اس لیے ائمہ کو آج پھر وہی فرائض انجام دینے ہیں جو آپؐ نے انجام دیے۔
یہ بھی ہماری بدنصیبی ہے کہ ہمارے معاشرے میں مسجد کو وہ مقام حاصل نہیں رہا جو مسجدنبویؐ کو حاصل تھا ‘اور نہ ائمہ ہی کو وہ مقام حاصل ہے جو انھیں حاصل ہونا چاہیے۔ مسجد محض ایک عبادت گاہ بن کر رہ گئی ہے جہاں نمازی حضرات رسماً عبادت کے لیے آتے ہیں۔ اب اس بات کا شعور نہیں رہا کہ مسجد صرف ایک عبادت گاہ نہیں ہے بلکہ اسلامی بستی کے مرکز کی حیثیت رکھتی ہے‘ اور امام محض امامِ مسجد نہیں ہے بلکہ فی الواقع وہ اس بستی کا قائد و فکری رہنما ہے۔ مسجد تو اُمت کی زندگی کا مرکز ہے۔ اذان و نماز کے ذریعے ایک مسلمان کے ایمان و عہدِ بندگی کو تازہ کرنے اور اطاعت کی مشق دن میں پانچ مرتبہ کروائی جاتی ہے۔ اخوت‘ مساوات اور ہمدردی و غم خواری کا سبق سکھایا جاتا ہے۔ وہ اپنے بھائیوں سے بے تعلق نہیں رہ سکتا کہ ان کے دکھ درد میں شریک نہ ہو اور ان کے دکھ نہ بانٹے۔
یہ مرکز دعوت و ارشاد ہے۔ اس لیے کہ یہاں احکامات الٰہی سے روشناس کروایا جاتا ہے۔ مسجد تعلیم و تربیت کا مرکز ہے‘ مدرسہ و اسکول ہے اور لائبریری و مطالعہ گاہ ہے۔ سیاسی مرکز ہے جہاں قائدین و عوام اپنے مسائل باہم مشاورت سے حل کرتے ہیں۔ بیت المال ہے کہ زکوٰۃ وغیرہ جمع اور تقسیم کی جاتی ہے‘ اور حاجت مندوں کی کفالت کی جاتی ہے۔ عدالت ہے کہ جھگڑے نبٹائے جاتے ہیں‘ اور فیصلے کیے جاتے ہیں۔ مسجد مرکز ثقافت (کمیونٹی سنٹر) ہے جہاں شادی بیاہ اور مختلف مواقع پر تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ افسوس کہ آج نہ ہم مسجد کے مقام سے صحیح طرح آگاہ ہیں اور نہ امام ہی اپنے منصب و مقام اور تقاضوں کو جانتا ہے ع
رہ گئی رسمِ اذاں روح بلالی نہ رہی
۱- غارحرامیں نزولِ وحی کا آغاز ہوا۔ انسانیت کو قرآن دیا گیا جس پر اُمت کی پوری زندگی کی بنیاد ہے۔ قرآن وہ سرچشمۂ حیات ہے جس نے انسان کے لیے خدائی ہدایت کی تکمیل کی اور انسانیت کے لیے دین کو ایک مکمل اور جامع نظامِ حیات کے طور پر پیش کیا۔ نبی کریمؐ نے ایک جاں گسل جدوجہد کے بعد قرآنی نظام کو دنیا میں نافذ کر کے ایک جیتی جاگتی اسلامی ریاست کا نمونہ پیش کر کے دکھا دیا کہ انسانیت کو درپیش مسائل کے حل کے لیے اب دنیا میں قرآنی نظام کے علاوہ کسی اور نظام اور ازم کی گنجایش نہیں۔
۲- ۱۱ سال بعد مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کا واقعہ پیش آیا۔ یہ اتنا اہم واقعہ ہے کہ ہم اپنی تاریخ کے کیلنڈر کی بنیاد اس پر رکھتے ہیں۔ مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت‘ اسلام کی تاریخ میں ایک فیصلہ کن سفر تھا۔ اس سے ایک اسلامی ریاست کی بنیاد فراہم ہوئی۔ معرکہ حق و باطل کا یہ وہ تاریخ ساز لمحہ ہے جس نے یہ فیصلہ سنا دیا کہ حق حق ہے اور اسے بالآخر غالب آنا ہے‘ اور باطل باطل ہے‘ اسے ایک روز لازماً مٹ جانا ہے خواہ وہ کتنی ہی طاقت‘ کروفر اور جاہ و حشم کا مالک ہو۔ اس کا مقدر بہرحال ذلت‘ شکست اور مٹ جانا ہی ہے۔
۳- ۸ ہجری میں فتح مکہ کا واقعہ پیش آیا اور دنیا کو یہ پیغام ملا کہ مستقبل اسلام کا ہے۔ فتح مکہ نے عملاً یہ ثابت کر دیا کہ انسانیت کو اگر امن‘ انصاف اور مسائل زندگی کے حل کے لیے کوئی متوازن‘ معتدل اور پایدار نظامِ حیات چاہیے تو وہ اسلام ہی ہے‘ اور اگر کوئی قابلِ تقلید بہترین اسوہ کی کسی کو تلاش ہے تو وہ نبی اکرمؐ کی ذات میں ہے--- ایک فرد کی زندگی سے لے کر ایک انسانی ریاست کی تشکیل تک!
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ تشریف لانے کے بعد پہلا کام یہ کیا کہ مسجد کی تعمیر کی۔ اس بات سے ہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اسلام میں مسجد کا کیا مقام اور کتنی اہمیت ہے۔ اس مسجد کی تعمیر میں آپؐ خود شریک ہوئے اور اپنے ہاتھوں سے پتھر اٹھائے۔ اگرچہ مسجد نبویؐ اپنی عمارت اور زیبایش کے لحاظ سے ایک عام سی مسجد تھی لیکن یہ مسجد دراصل ان تمام عالی شان مساجد کے قیام کی بنیاد بنی جو بعد میں دہلی‘ قرطبہ‘ اصفہان‘تاشقند اور لاہور میں نظر آتی ہیں۔ مسجد کا تعلق اُمت کی زندگی سے اسی وقت قائم ہوگیا تھا۔ مسجد دعوت‘ عدالت اور سیاست کا مرکز بن چکی تھی۔ مقدمات کا فیصلہ یہاں کیا جاتا‘ جہاد کے لیے پکار کر لوگوں کو جمع یہاں کیا جاتا‘ لشکر کی روانگی بھی یہیں سے ہوا کرتی۔ مجلس شوریٰ کا اجلاس بھی یہاں ہی ہوا کرتا تھا۔ پنج وقتہ نماز مسجد میں ہوتی تھی حتیٰ کہ منافق بھی مسجد میں حاضر ہوتے تھے۔ یہ تصور نہیں تھا کہ کوئی فرد‘ اُمت کا ایک فرد ہو اور مسجد میں حاضر نہ ہو۔ فجر کی نماز کی خصوصیت سے اہمیت تھی۔ خلیفۂ وقت حضرت عمرؓ جب نماز فجر کے لیے مسجد جایا کرتے تھے تو لوگوں کو نماز کے لیے جگایا کرتے تھے۔ صفیں درست اور سیدھی رکھنے کا مکمل اہتمام کرتے تھے۔ گویا مسلمان معاشرے میں مسجد‘ اُمت کی پوری زندگی کا مرکز تھی۔ سیاست‘ عدالت اور اجتماعی زندگی کا مرکز بھی مسجد تھی اور تعلیم و تربیت کا مرکز بھی۔ اسلام کی تاریخ میں بڑے بڑے مدارس مساجد سے ملحق رہے۔ وہ مدارس ہماری بڑی جامعات تھیں‘ ملت مسلمہ کی کیمبرج اور آکسفورڈ تھیں۔ ان مساجد سے متصل طلبا کے قیام کے لیے حجرات تعمیر کیے گئے تھے۔ نظام تعلیم مساجد کے گرد قائم تھا۔
یہ ہمارا عروج کا دور تھا لیکن بعد میں‘ جیسے جیسے اُمت کا زوال زور پکڑتا گیا‘ اس کے ہاتھ سے دنیا کی قیادت نکلتی چلی گئی‘ اور ساتھ ہی مسجد کے ہاتھ سے اُمت کی قیادت بھی نکل گئی۔
ضروری ہے کہ مسجد کے ائمہ کو وہی مقام حاصل ہو جو مقام ان کا حق ہے۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ مسجد کے ائمہ اپنے آپ کو اس منصب اور مقام کو سنبھالنے کا اہل بنائیں۔ اس کے بغیر اُمت کی اجتماعی زندگی کا احیا اور اس کو درپیش چیلنج کا مقابلہ ممکن نہیں۔
اس وقت اُمت کے اتنی بڑی تعداد میں ہونے کے باوجود‘ ذلت و مسکنت ہمارا مقدر ہے۔ ہم پر غیراقوام کا غلبہ ہے۔ دنیا کی قومیں مسلمانوں پر ٹوٹ پڑی ہیں۔ اس وقت مسلمان اپنی زندگی کے ایک انتہائی خطرناک دور سے گزر رہے ہیں۔ لیکن جہاں خطرات ہیں وہیں امکانات بھی موجود ہیں۔ آج اُمت کو اتنا بڑا خطرہ درپیش ہے کہ تاریخ میں کبھی اس کی مثال نہیں ملتی۔ غالب تہذیب نے جس طرح مسلمانوں کو اپنا حریف اور نشانہ بنالیا ہے‘ اس کے لیے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ صرف تقاریر‘ قراردادوں اور ان کی سازشوں کو بے نقاب کرنے سے بات نہیں بنے گی۔ ان خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے ائمہ کرام کو اپنا حقیقی کردار ادا کرنا ہوگا۔ اپنا مقام و منصب پہچاننا ہوگا۔ یہ ناگزیر ہے کہ مسجد کے ائمہ اس بات کے اہل ہوں کہ وہ وہی مقام سنبھال سکیں‘ اُمت کی رہنمائی کر سکیں‘ اور مسجد کا اُمت کی زندگی میں وہی مقام ہو جو نبی اکرمؐ نے مسجد کو مدینہ کی اجتماعی زندگی میں دیا تھا۔
آج اُمت تاریخ کے انتہائی نازک موڑ پر کھڑی ہے اور اسے سنگین نوعیت کے خطرات لاحق ہیں‘ لیکن انھی خطرات میں روشن مستقبل پوشیدہ ہے۔ ہمارے لیے دنیا کی قیادت کے کھلے امکانات موجود ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دشمن ہمارے پیچھے پڑا ہوا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ دنیا کی ابلیسی تہذیب کے مستقبل کو اصل خطرہ مسلمان سے ہے۔ اس حقیقت کی نشان دہی علامہ اقبال نے ابلیس کی زبان سے کی تھی۔ مغرب کو نہ اشتراکیت سے خطرہ ہے نہ مزدکیت سے‘ اصل خطرہ اسلام سے ہے۔ اسلام ہی میں یہ قوت و صلاحیت پائی جاتی ہے کہ وہ اس کے مقابلے میں اٹھ کھڑا ہو اور اس کو چیلنج کرے۔
اُمت کی ہیئت ترکیبی کے اندر یہ خاصیت پوشیدہ ہے۔ رب العالمین کی طرف سے اعلان کیا گیا ہے: اُخرجت للناس، یہ تمام انسانوں کے لیے برپا کی گئی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تمام انسانوں کے لیے نبی بناکر بھیجے گئے تھے اور اُمت کو قیامت تک یہی مشن سونپا گیا: وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطاً لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ(البقرہ ۲:۱۴۳) ’’ہم نے تم مسلمانوں کو ایک ’امت وسط‘ بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو‘‘۔ اُمت کا شعار یہ بتایا گیا: وَجَاھِدُوْا فِی اللّٰہِ حَقَّ جِھَادِہٖط(الحج ۲۲:۷۸) ’’اللہ کی راہ میں جہاد کرو جیسا کہ جہاد کرنے کا حق ہے‘‘۔ قرآن نے رہنمائی کر دی ہے کہ یہ اُمت کس لیے وجود میں آئی ہے۔ یہ اُمت معاشی مفادات کے لیے‘ سیاست گری کے لیے یا دنیا میں محض ناموری کے لیے نہیں‘ بلکہ تمام انسانیت کو اللہ کی بندگی میں داخل کرنے کے لیے برپا کی گئی ہے۔ اس اُمت نے جب اپنے منصب کو پہچانا تو صرف ۳۰ سال کے اندر دنیا میں ایک عظیم انقلاب برپا کرکے رکھ دیا۔
اُس وقت مسلمان بے سروسامان تھے لیکن ان کے پاس ایمان تھا‘ یقین تھا‘ وحدت تھی۔ صرف ۳۰ سال کے اندر‘ ایران و روم اور صرف ۱۰۰ سال کے اندر اندر وہ اسپین کے غاروں اور چین کے ساحل تک پہنچ گئے۔ دنیا ورفعنالک ذکرک کی عملی صورت اپنی نگاہوں سے دیکھ رہی تھی۔
لیکن یہ سب کچھ خود بخود نہیں ہوگیا۔ اس کے کچھ تقاضے تھے جو پورے کیے گئے۔ آج درپیش چیلنجوں سے نمٹنے اور امکانات سے فائدہ اٹھانے کی بھی یہی صورت ہے کہ اُمت اپنے فرائض کو کماحقہ انجام دے اور اس کے لیے کمر کس لے۔
ائمہ کی ذمہ داریاں
اس کام میں مرکزی اہمیت ائمہ کرام کو حاصل ہے۔ آپ کو صرف نماز کا امام نہیں‘ بلکہ معاشرے کا امام و لیڈر بننا ہے اور معاشرے کو محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے راستے پر چلانا ہے ؎
بمصطفیٰ ؐبرساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ او نرسیدی تمام بولہبی است
اس کے لیے آپ کو ‘ اپنے آپ کو تیار کرنا ہے۔ مسجد کو اُمت کی اجتماعی زندگی کی تعلیم گاہ بنانا ہے۔ اپنے اندر یہ اہلیت پیدا کرنا ہے کہ اس مقام پر بیٹھ کر اُمت کی رہنمائی کا فریضہ انجام دے سکیں۔
معاشرے میں اس وقت مسجد کے حقیقی مقام و مرتبے کی حیثیت بہت کمزور ہے‘ اور امام عملاً اس قدر بے بس ہے کہ اسے (متولی کی اجازت کے بغیر) نماز کا وقت متعین کرنے کا بھی اختیار نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ آپ ‘ائمہ کے اندر بے پناہ قوت ہے۔ اگر آپ کے پاس اہلیت اور صلاحیت ہو تو معاشرے میں انقلاب برپا ہو سکتا ہے‘ مگر ہم ان صلاحیتوں اور امکانات سے آگاہ نہیں۔ عرب کے ریگستان میں پلنے والے لوگوں کے اندر یقین اور ایمان کی کیفیت پیدا ہوئی تو نتیجہ یہ نکلا کہ بہترین جرنیل پیدا ہوگئے۔ ان کو تاریخ کے چیلنجوں کا ادراک تھا۔ ان سے نبٹنے کی صلاحیتوں کا شعور تھا۔ انھوں نے دنیا میں عظیم فتوحات کا سلسلہ شروع کر دیا۔ ایک بڑی دنیا نے ان کے پیغام کو قبول کیا اور تاریخ کا دھارا موڑ کر رکھ دیا۔
آپ کو اس کا ادراک کرنا ہے کہ آپ کا مقام کیا ہے؟ منصب کیا ہے؟ اگر مسجد کو مرکز بننا ہے‘ اور آپ کو اس مرکز میں دعوت و ارشاد اور قیادت کا وہ کام انجام دینا ہے‘ تو آپ کے سامنے ایک ہی روشنی کا مینارہ ہے اور وہ ہیں مسجد نبویؐ کے امام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم۔ آپؐ کا اخلاق‘ شہرت‘ کردار‘ اخلاص‘دلسوزی--- اس کے بغیریہ عظیم کام انجام نہیں پاسکتا ہے۔
۱- سب سے پہلی اور اہم ترین بات یہ ہے کہ آپ کو صحیح چیزوںکا علم ہو جائے۔ اللہ کی وحدانیت اور رسولؐ کی شہادت آپ کی زندگی کا جزو ہو جائے۔ اسلام کی پوری روح اور اس کی پوری عمارت توحید پر قائم ہے۔ مسجد میں آنے والوں میں اللہ کی محتاجی کی کیفیت پیدا کریں۔ زندگی کے ہر مسئلے میں ہم اللہ اور اس کے رسولؐ کے محتاج ہوں۔ شعوری طور پر اس کی کوشش کرنا ہوگی اور اس کے لیے تدابیر اختیار کرنا ہوں گی۔ اللہ کی محتاجی کی نسبت پیدا کرنا‘ اللہ کے ساتھ لوگوںکا تعلق قائم کرنا‘ یہ آپ کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔
۲- آپ اپنے مقتدیوں میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور اطاعت کا جذبہ پیدا کریں۔ ذات مصطفویؐ سے عشق پیدا کریں‘ اس سے ملت کے جسد میں قوت پیدا ہوگی۔ نبی اکرمؐ کی ذات گرامی سے محبت‘ قوت کا وہ سرچشمہ ہے جو صرف آپ کے پاس ہے‘ کسی اور اُمت کے پاس نہیں۔ صنعتی ترقی اور کارخانوں کی قوت اصل قوت نہیں۔ ان سے وہ کام نہیں بنے گا جو آپ کے پیشِ نظر ہے۔
۳- اُمت کی زندگی میں دین و دنیا کی وحدت پیدا کرنا بھی آپ کا کام ہے۔
۴- علم صرف احکام اور مسائل کو جاننے کا نام نہیں‘ بلکہ احکام و مسائل کے ساتھ ساتھ حکمت اور مصلحت کو جاننے کا نام ہے۔ نبی اکرم ؐکتاب کے ساتھ ساتھ حکمت کی تعلیم بھی دیتے تھے۔ حکمت وہ چیز ہے جسے خیرکثیر کہا گیا ہے: وَمَنْ یُّؤْتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا کَثِیْرًا ط (البقرہ ۲:۲۶۹) ’’اور جس کو حکمت ملی‘ اُسے حقیقت میں بڑی دولت مل گئی‘‘۔
اگر آدمی حکمت سے آشنا نہ ہو تو دین پر چلنا‘ دین پر چلانا‘ دین کو قوت بنانا ممکن نہیں۔ صرف احکام و مسائل کے بیان سے دین پر عمل نہیں ہوتا۔ ایسا صرف اس وقت ہوتا ہے جب لوگوں کو حکمت کے ساتھ دین کی راہ پر لایا جائے۔ لوگوں کو آمادہ کیا جائے کہ وہ دین کی ذمہ داریوں کے متحمل ہوسکیں‘ ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھاسکیں‘ یعنی ان میں اطاعت کی استعداد پیدا ہو۔ اس حکمت کے بہت سارے پہلو ہیں:
ایک حکمت‘ احکام کے درمیان مدارج کا فہم ہے۔ سارے احکام ایک جیسے نہیں۔ عمل کرنے والوں کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ احکام کے اندر مدارج ہیں۔
ایک دفعہ مسجد نبویؐ میں لوگ نماز میں فرض ادا کرنے کے بعد اسی مقام پر کھڑے ہوکر جہاں فرض ادا کیے تھے‘ سنتیں ادا کرنے لگے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا: پہلی امتیں اسی وجہ سے تباہ ہوئیں۔ جب فرائض‘ سنن‘ مستحبات کے درمیان فرق ختم ہوجائے تو اُمت زوال کے راستے پر آجاتی ہے۔ پھر سارا زور مستحبات اور سنن پر ہوجاتا ہے اور فرائض کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے۔
قرآن کے اندر صرف سؤر کے گوشت اور شراب نوشی ہی کی ممانعت نہیں ہے بلکہ حسد کو اور غیبت کو بھی حرام کیا گیا ہے‘ نیز اللہ کی راہ میں جدوجہد اور جانفشانی کو بھی بڑی نیکیوں میں شمار کیا ہے۔
اَجَعَلْتُمْ سِقَایَۃَ الْحَآجِّ وَعِمَارَۃَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ کَمَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَجٰھَدَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِط (التوبہ ۹:۱۹)
کیا تم لوگوں نے حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجد حرام کی مجاوری کرنے کو اُس شخص کے کام کے برابر ٹھیرا لیا ہے جو ایمان لایا اللہ پر اور روزِ آخر پر اور جس نے جانفشانی کی اللہ کی راہ میں؟
اللہ کے رسول ؐنے ان احکامات کو بھی اچھی طرح واضح فرمایا ہے اور عملی نمونہ پیش کیا ہے۔ گویا احکامات کے ساتھ ساتھ اخلاقی تعلیمات اور راہ خدا میں جدوجہد کو بھی اتنی ہی اہمیت حاصل ہے۔ لہٰذا ایمان کے ساتھ ساتھ اخلاق اور کردار سازی اور دین کی سربلندی کے لیے جدوجہد کی طرف بھی توجہ رہنی چاہیے۔ اس کے نتیجے میں ایک مسلمان کا وہ اخلاق اور کردار تعمیر ہوسکے گا جو اصلاً مطلوب ہے اور غلبۂ دین کے لیے جدوجہد کے نتیجے میں ایک صحیح اسلامی معاشرت سامنے آسکے گی جو اسلام کا طرئہ امتیاز ہے۔ یوں معاشرہ اسلام کے مکمل نظامِ حیات کی حقیقی برکات سے مستفید ہو سکے گا۔
اس کے ساتھ ساتھ آپ کو یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ ہر کام تدریج کے ساتھ ہو سکتا ہے۔ پورا دین لوگوں پر ایک ہی دفعہ میں نافذ نہیں کیا جا سکتا۔ طبیعت اور نفس کی استعداد کے ساتھ ساتھ تدریج کے ساتھ لوگوں کو چلایا جائے۔ سب سے پہلے دل کے اندر ایمان پیدا کیا جائے۔ یہی سلف کا طریق کار تھا۔ وہ تدریج کا اہتمام کرتے تھے۔ دین کے سارے مطالبات ایک ساتھ ہی سامنے نہیں رکھے دیتے تھے۔
سیرت پاکؐ کا مطالعہ کیا جائے تو نبی اکرمؐ کی کامیابی کا راز یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ محبت‘ رحمت اور شفقت کے پیکرِ مجسم تھے۔ قرآن گواہ ہے: فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنْتَ لَھُمْج وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لاَنْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَص (اٰل عمرٰن۳:۱۵۹) ’’(اے پیغمبرؐ) یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ تم ان لوگوں کے لے بہت نرم مزاج واقع ہوئے ہو۔ ورنہ اگر کہیں تم تندخو اور سنگ دل ہوتے تو یہ سب تمھارے گردوپیش سے چھٹ جاتے‘‘۔
آپؐ نرم دل تھے‘ تادیب وتعزیر میں نرمی کرتے تھے۔ ایک بدو مسجد نبویؐ کے صحن میں پیشاب کرنے لگا۔ صحابہ روکنے کے لیے اٹھے۔ آپؐ نے منع کر دیا۔بعد میں صحابہؓ سے فرمایا: اس کو دھو کر صاف کر دو۔ آپؐ کے اس طرزعمل کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ شخص ہمیشہ کے لیے مطیع و فرماں بردار ہوگیا۔
سید قطبؒ سورۃ الاعلیٰ کی تفسیر میں واقعہ نقل کرتے ہیں کہ ایک شخص رسولؐ اللہ کے پاس آیا۔ کچھ مانگا‘ آپ ؐنے عطا کیا۔ اس نے بے اطمینانی ظاہر کی۔ آپؐ نے اس کو اور دیا۔ پھر وہ خوش ہوکر گیا۔
آپؐ نے صحابہ کرامؓ کو مخاطب کر کے فرمایا کہ میری اور تمھاری مثال ایسی ہے جیسے ایک اونٹنی ہو جو بدک گئی ہو‘ اور تم ڈنڈے لے کر اس کے پیچھے لگ جائو جس سے وہ اور زیادہ خوف زدہ ہو جائے اور بدک جائے۔لیکن مالک محبت و شفقت سے اس کو قابو کر لیتا ہے۔
آج ہمیں بھی اس قوم کے اوپر سواری کرنے کے لیے‘ اس کی صحیح سمت میں رہنمائی اور تربیت کے لیے‘ اسی نرمی اور محبت و شفقت کی ضرورت ہے۔ مسجد کے منبر سے دین کی تعلیم اس انداز سے ہو تو نتیجہ خیز ہوگی۔
مسجد کا معاشرے سے تعلق قائم کرنے اور رکھنے میں بھی فیصلہ کن کردار امام کا ہی ہوگا۔ مسجد کو صاف رکھنا چاہیے۔ نظافت و طہارت کو دین میں بڑی اہمیت ہے۔ اس کا اہتمام مسجد میں نظرآنا چاہیے۔ مسجد محلے کے لوگوں کا مرکز ہو‘ لوگ وہاں بیٹھیں اور اپنے مسائل پر بات کریں۔
مسجد تو وہ جگہ ہے جہاں ہم سجدہ کرتے ہیں لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے خصائص نبوت میں سے یہ ہے کہ پوری زمین کو آپؐ کے لیے سجدہ گاہ بنا دیا گیا۔ مسلمان کسی بھی جگہ خاک پر سر رکھ کر سجدہ کر سکتا ہے۔
اس کے ایک معنی یہ ہیں کہ مسلمان جہاں چاہے نماز پڑھ سکتا ہے۔ دوسرے معنی یہ ہیں کہ مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ پوری دنیا اللہ کی بندگی میں آجائے۔ نبی اکرمؐ نے مسجد کی تعمیر کے بعد ساری توجہ مسجد پر ہی نہیں دی۔ محض اس کی آرایش و زیبایش کو مرکز توجہ نہیں بنایا۔ آپؐ کی اصل توجہ اور سرگرمی دین کو غالب کرنے‘ دنیا کو دین پر چلانے پر رہی۔ آپؐ لوگوں کو انسانوں کی غلامی سے نکال کر اور دنیا کی تنگیوں سے نکال کر‘ ایک اللہ کی بندگی کی وسعت و کشادگی میں لائے۔ ائمہ مساجد کا اصل فریضہ یہی ہے اور اسے ترجیحِ اول ہونا چاہیے۔
آپ مسجد کو نور کا مینارہ بنایئے۔ امامت کی ذمہ داری دے کر آپ کو اعلیٰ مقام پر فائز کیا گیا ہے۔ اللہ نے آپ کو آزمایش میں ڈالا ہے۔ آپ پر بڑی بھاری ذمہ داریاں عائد کی ہیں۔ آپ انھیں اپنی وسعت اور استعداد کے مطابق انجام دیں۔ اسوہ رسولؐ کی ہدایت‘ رہنمائی اور روشنی میں اپنی صلاحیتوں کو کام میں لائیں۔ اسوہ رسولؐ کا فہم حاصل کرنے کے لیے سیرت کا خوب مطالعہ کریں‘ خود بھی عمل کریں‘ نمازیوں کو بھی آمادہ کریں۔ اس سے امت میں وہ طاقت اور قوت پیدا ہوگی کہ وہ دنیا کی قیادت کر سکے گی۔
خطبۂ جمعہ اسلام کے نظامِ تعلیم و تربیت میں مرکزی اہمیت رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نمازجمعہ کو فرض قرار دیا گیا ہے اور کوئی شخص جماعت سے الگ انفرادی طور پر نماز جمعہ ادا نہیں کرسکتا۔ بستی کا مرکز ہونے کی وجہ سے ہر شخص کا مسجد پہنچنا لازم قرار دیا گیا ہے اور خطبۂ جمعہ کے ذریعے فکری رہنمائی اور تزکیہ و تربیت کا سامان کیا گیا ہے۔ اس طریقے سے ہر ہفتے اس عمل کو دہرایا جاتا ہے۔ لہٰذا خطبۂ جمعہ خصوصی اہمیت اور توجہ چاہتا ہے۔ اگر ائمہ حضرات گذشتہ نکات کی روشنی میں ترجیحات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے‘ ایمان‘ اخلاق اور تدریج اور عوام کے مسائل کو موضوع بناتے ہوئے خطبہ دیں تو جہاں یہ فریضہ بہ احسن ادا ہوسکے گا‘ وہاں عوام کی دل چسپی بھی بڑھے گی اور بتدریج مسجد بستی کے مرکز کا مقام حاصل کر لے گی۔ البتہ ایک بات کا خصوصی اہتمام کیا جائے کہ ائمہ جو خطبہ دیں‘ اس میں صرف وہ باتیں بیان کریں جو تمام علما کے ہاں مسلّمہ ہیں۔ اس سے فکری ہم آہنگی اور ملّی یک جہتی پیدا ہوگی اور اختلاف و انتشار کا خاتمہ بھی ہو سکے گا اور مسلمان جسدِواحد بن کر اُمت کا وہ مطلوبہ کردار بھی ادا کرسکیں گے جو وقت کا تقاضا اور ضرورت ہے۔
آج اُمت زوال کا شکار ہے۔ ایمان اور اعمال میں زوال اور کمزوری رونما ہوگئی ہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ لوگوں کو دین کی صحیح صحیح تعلیم دی جائے۔ اس راہ میں مشکلات لازمی ہیں لیکن آپ کی ذمہ داری یہ ہے کہ اپنا کام جاری رکھیں‘ مشکلات کو خاطر میں نہ لائیں اور اپنے کام میں لگے رہیں۔ عزم‘ ارادہ اور کوشش--- اپنے اپنے دائرے میں اخلاص نیت کے ساتھ کام کریں۔ اس کے ثمرات ضرور نکلیں گے۔ اس دور میں رواداری اور وسعت نظر کی ضرورت ہے۔ اس کا اظہار آپ کے رویے سے‘ آپ کی باتوں سے ہونا چاہیے۔
یقین ہے کہ ان امور کا خیال رکھ کر اگر آپ منصبِ امامت کی ذمہ داری ادا کریں اور اس تحریک کو ائمہ مساجد میں عام کردیں‘ تو معاشرے پر جلد مثبت اثرات نظر آئیں گے۔
(کتابچہ دستیاب ہے۔ منشورات‘ منصورہ‘ لاہور)