اس کے بعد مولانا ]عبیداللہ سندھی[ کے تخیل کی آخری منزل ہمارے سامنے آجاتی ہے۔ شرائع اور سنن کو وقتی اور قومی قرار دینے کے بعد مولانا یہ چاہتے تھے کہ اُس دین مطلق کو‘ جس کا تصور اوپر بیان ہوا ہے‘ لے لیا جائے اور اس کے ساتھ قرآنی و محمدی شرائع و سنن کے بجاے اُن شرائع وسنن کا جوڑ لگا لیا جائے جو ہم کو یورپ اور اشتراکی روس وغیرہ سے ملتے ہیں۔ ان کے نزدیک یورپ اور اشتراکی روس کے طریقوں میں اگر کوئی قصور ہے تو صرف یہ کہ ان کے ساتھ دین مطلق کا جوڑ لگا ہوا نہیں ہے …… صاف اور سیدھی زبان میں اگر اسے بیان کیا جائے تو یوں کہا جا سکتا ہے کہ صرف چند مطلق مذہبی تصورات قرآن سے لے لیے جائیں۔اور قرآن ہی سے کیوں؟ وہ تو تمام مذاہب و ادیان میں ہیں ہی مشترک!--- رہی شریعت اور تہذیب و تمدن و معاشرت کی مخصوص شکل‘ تو اس معاملے میں قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ پیش کیا تھا وہ صرف عرب کی قوم کے لیے تھا‘ لہٰذا ہمیں آزادی ہے کہ اسے کلاً یا جزاً‘ اپنے لیے منسوخ ٹھیرا کر شریعتِ فرنگ اور سننِ روسیہ کو اختیار کرلیں۔
تخیل کی ان بے پایاں وسعتوں کو لیے ہوئے مولانا جب تاریخِ اسلام پر نگاہ ڈالتے ہیں تو انھیں خلفاے راشدین‘ بنوامیہ‘ بنوعباس‘ اکبر اور اورنگ زیب‘ سب ہی یکساں قابلِ قدر اور قابلِ تعریف نظر آتے ہیں‘ کیونکہ مذکورئہ بالا نظریات کو ایک نظامِ فکر کی شکل میں مرتب کر کے جو شخص بھی دنیا پر نگاہ ڈالے‘ اسے باطل تو کہیں نظر آہی نہیں سکتا۔ تمام مختلف چیزیں خواہ وہ بالکل ایک دوسرے کی ضد ہی کیوں نہ ہوں‘ اس کے تخیل کی فضاے مطلق میں حق کی حیثیت سے جگہ پاسکتی ہیں۔
اگر ہم حسنِ ظن سے کام لیں‘ توکہہ سکتے ہیںکہ مولانا مرحوم کے نظامِ فکر کے بیشتر اجزا ایسے تھے جو ان کا اصل عقیدہ و مسلک نہ تھے بلکہ انھوں نے یہ ایک جدید علم کلام محض اس لیے مرتب کیا تھا کہ ان کے نزدیک موجودہ زمانے میں دین کی دعوت انھی اصولوں پر پھیلائی جاسکتی تھی‘ لیکن اس حسنِ ظن کے باوجود ہمیں یہ کہنے میں کوئی باک نہیں ہے کہ یہ فلسفہ و کلام قطعی غلط اور سراسر ضلالت ہے‘ اور اگر دین کی دعوت پھیلنے کی بس یہی ایک صورت رہ گئی ہے تو اس طرح اس کے پھیلنے سے نہ پھیلنا ہزار درجہ بہتر ہے۔ (’’مطبوعات‘‘ مولانا عبیداللّٰہ سندھی‘ تالیف پروفیسر محمد سرور‘ ترجمان القرآن‘ جلد۲۵‘ عدد ۱‘۲‘ ۳‘۴‘ رجب‘ شعبان‘ رمضان‘ شوال ۱۳۶۳ھ‘ جولائی‘ اگست‘ ستمبر‘اکتوبر۱۹۴۴ئ‘ص ۱۱۸-۱۱۹)