جولائی ۲۰۰۴

فہرست مضامین

غلبۂ اسلام کی بشارتیں اور عملی تقاضے

علامہ یوسف قرضاوی | جولائی ۲۰۰۴ | اُمت مسلمہ

Responsive image Responsive image

اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لیے کچھ اٹل قوانین مقرر فرمائے ہیں جن کو سنت ِ الٰہی کہا جاتا ہے۔ یہ خدائی ضابطے جس طرح آدم علیہ السلام کی اگلی نسلوں میں نافذ تھے ‘ ٹھیک اسی طرح   اُن کے بعد کی نسلوں میں بھی جاری اور نافذ ہیں۔ اس سنت ِ الٰہی کا معاملہ مسلمانوں اور کافروں کے ساتھ یکساں ہوتا ہے۔ یہ قوانین الٰہی کبھی اور کسی کے معاملے میں ذرا بھی تبدیل نہیں ہوتے۔ فَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰہِ تَبْدِیْلًاج وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰہِ تَحْوِیْلًاo (فاطر۳۵:۴۳)   ’’تم اللہ کی سنت میں ہرگز کوئی تبدیلی نہ پائو گے‘ اور تم اللہ کی سنت کو ٹلتی ہوئی ہرگز نہ دیکھو گے‘‘۔

اگر ہم ماضی وحال میں سنت ِ الٰہی کی کارفرمائیوں کا جائزہ لے کر دیکھیں تو مستقبل میں ہمیں غلبۂ اسلام کی متعدد بشارتیں ملتی ہیں۔ جب ہم دنیا میں رونما ہونے والے حوادث و واقعات اور حالات کی بدلتی ہوئی کروٹوں کا بنظرِغائر مطالعہ کرتے ہیں تو واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ    یہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ اُمتِ مسلمہ اور داعیانِ اسلام کے حق میں فالِ نیک ہے‘ اور آخرکار ان  سب کا فائدہ اسلام کو پہنچے گا۔ اس کائنات میں جاری سنت ِ الٰہی کے ضابطوں میں سے بعض کا  ہم یہاں ذکر کریں گے۔

تبدیلی اقوام کا الٰہی ضابطہ

اس کائنات میں کارفرما الٰہی قوانین میں سے ایک اہم قانون‘ اقوام و ملل کے     عروج و زوال کا ہے۔ اس سنت ِ الٰہی کی توثیق اس آیت سے ہوتی ہے جس میں مسلمانوں کو  غزوئہ اُحد کی عارضی شکست پر تسلی دی گئی ہے‘ اور اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ نے اقوام و ملل کے  باب میں اپنی سنتِ ثابتہ کا بھی ذکر فرمایا ہے۔ ارشادِ خداوندی ہے:

اِنْ یَّمْسَسْکُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِّثْلُہٗط وَتِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُھَا بَیْنَ النَّاسِ وَلِیَعْلَمَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَیَتَّخِذَ مِنْکُمْ شُھَدَآئَ ط (اٰل عمرٰن ۳:۱۴۰)

اگر تمھیں زخم لگا تو اس سے پہلے ایسا ہی زخم تمھارے فریق مخالف کو بھی لگ چکا ہے۔ یہ تو گردشِ زمانہ ہے جسے ہم لوگوں کے درمیان اَدل بدل کر لاتے رہتے ہیں اور ایسا اس لیے ہوا کہ اللہ تعالیٰ یہ جان لینا چاہتا تھا کہ تم میں سچے مومن کون ہیں اور اُن لوگوں کو چھانٹ کر الگ کر لینا چاہتا تھا جو واقعی حق کے گواہ ہوں۔

یہ روز کا مشاہدہ ہے کہ حالات بڑی تیزی سے بدل رہے ہیں۔ پوری دنیا میں تغیر اور تبدیلی کا عمل انتہائی سرعت کے ساتھ جاری ہے۔ کتنی قومیں اور افراد ایسے ہیں جن کی عزت و سرفرازی کا کبھی ڈنکا بجتا تھا‘ آج وہ ذلیل و خوار ہو رہے ہیں۔ اس کے برعکس کتنی ہی پست و حقیر قوموں کے سر پر عزت و وقار کا تاج رکھا جا رہا ہے۔ کتنی ہی خوش حال زندگیاں تنگ حالی و بدحالی کا شکار ہوگئیں اور کتنے ہی تنگ حال و پریشان حال لوگ فارغ البالی و خوش حالی سے شادکام ہو رہے ہیں: فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا o اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا o (الشرح ۹۴:۵-۶) ’’پس یقینا تنگی کے ساتھ فراخی بھی ہے۔ بلاشبہہ تنگی کے ساتھ فراخی بھی ہے‘‘۔ سَیَجْعَلُ اللّٰہُ بَعْدَ عُسْرٍ یُّسْرًا (الطلاق ۶۵:۷) ’’عنقریب اللہ تعالیٰ تنگی کے بعد فراخی پیدا کردے گا‘‘۔

جن لوگوں کی نظر اقوامِ عالم کی تاریخ پر ہے وہ جانتے ہیں کہ تہذیب و تمدن کی شمع یا اقتدار اور حکومت کی کنجیاں کبھی ایک قوم یا فرد کے ہاتھ میں ہمیشہ نہیں رہی ہیں بلکہ یہ ایک قوم سے دوسری قوم اور ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں منتقل ہوتی رہتی ہیں۔ ہم مسلمانوں کی یہ  خوش قسمتی ہے کہ اس وقت اقوامِ عالم کے درمیان تبدیلی کا یہ الٰہی ضابطہ ہمارے خلاف نہیں بلکہ ہمارے حق میں ہے‘ جیسا کہ امام حسن البنائؒ کا قول ہے کہ: ’’اب گردشِ دوراں ہمارے موافق ہے‘ ہمارے مخالف نہیں ہے‘‘۔

اقوامِ عالم کی تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے زمانۂ قدیم میں فرعونی‘ آشوری‘ بابلی‘ کلدانی‘ فینفی‘ ایرانی‘ ہندستانی اور چینی تہذیبوں کے غلبے و تسلط کے باعث دنیا کی قیادت و سیادت مشرقی اقوام کے ہاتھوں میں تھی۔ پھر جب یونانی تہذیب اپنے ایک خاص فکروفلسفے کے ساتھ دنیا کے نقشے پر نمودار ہوئی اور ساتھ ہی رومی تہذیب ایک مخصوص نظامِ حکمرانی کے ساتھ دنیا میں جلوہ گر ہوئی تو ساری دنیا میں اِن دونوں تہذیبوں کے غالب آجانے کے نتیجے میں مغربی اقوام‘ دنیا کی قیادت کے منصب پر فائز ہو گئیں‘ اور ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ طلوعِ اسلام کے نتیجے میں پوری دنیا میں اسلام اور عربی تہذیب و ثقافت کا بول بالا ہوگیا۔ اس طرح عالمی قیادت ایک بار پھرمشرق کے حصے میں آگئی۔ اسلامی تہذیب دوسری تہذیبوں کے مقابلے میں اس لحاظ سے ممتاز و منفرد ہے کہ اس کے اندر سائنس‘ ایمان و عقیدہ‘ مادی ترقی اور روحانی بلندی‘ الغرض سب کے لیے گنجایش پائی جاتی ہے۔ لیکن جب عالمِ مشرق پر مجرمانہ خوابیدگی طاری ہوئی اور وہ اپنے اصل مشن سے غافل ہوگیا تو انجامِ کار مغرب نے زمامِ اقتدار چھین لی‘ اور اس طرح مغربی اقوام کا عالمی قیادت پر دوبارہ قبضہ ہوگیا۔ لیکن مغرب اس امانت عظمیٰ کا حق ادا نہ کر سکا اور بُری طرح روحانی واخلاقی انحطاط کا شکار ہو گیا جس کا لازمی انجام یہ ہوا کہ مغرب نے دنیا میں ’’جس کی لاٹھی اُس کی بھینس‘‘ کا قانون چلا دیا۔ چنانچہ اعلیٰ اخلاقی قدریں ذاتی مفادات کے مقابلے میں دب کر رہ گئیں اور مادیت‘ روحانیت پر غالب آگئی‘ اورانسان کی حیثیت اور قدروقیمت حیوانات و جمادات کے مقابلے میں کم تر ہوگئی۔ انسانی مسائل کے حل کے سلسلے میں دہرا معیار رائج ہوگیا۔ قوموں کی زندگی میں یہی وہ فیصلہ کن موڑ ہوتا ہے جب سنت ِ الٰہی کے مطابق دنیا کی قیادت اور سربراہی نااہل لوگوں سے چھین کر کسی اور کے حوالے کردی جاتی ہے۔

تاریخی شواہد سے اس بات کا واضح اشارہ مل رہا ہے کہ تہذیب و تمدن کی شمع پھر مشرق کے ہاتھوں میں آنے والی ہے۔ کیوں کہ مشرقی دنیا کے پاس اسلام کا ایک ایسا زندہ پیغام ہے جو مغرب کے پیغام سے بالکل مختلف اور منفرد ہے۔ مغرب نے اپنی بے خدا تہذیب کے ذریعے سے دنیاے انسانیت کو روحانی کرب اور اخلاقی بے راہ روی کی جس دلدل میں پھنسا دیا ہے‘ صرف اسلام کا طاقت ور اور روحانی پیغام ہی اُسے اس دلدل سے نکال سکتا ہے۔ مگر شرط یہ ہے کہ مشرقی دنیا کے لوگوں کو اپنی اس حیثیت کا صحیح ادراک ہو اور وہ دنیا کی امامت و قیادت کے منصب پر فائز ہونے کے لیے پوری تیاری کریں اور اپنے اندر اِس بارگراں کو اٹھانے کی اہلیت پیدا کریں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: عَسٰی رَبُّکُمْ اَنْ یُّھْلِکَ عَدُوَّکُمْ وَیَسْتَخْلِفَکُمْ فِی الْاَرْضِ فَیَنْظُرَکَیْفَ تَعْمَلُوْنَ o (الاعراف ۷:۱۲۹) ’’قریب ہے وہ وقت کہ تمھارا رب تمھارے دشمن کو ہلاک کر دے اور تم کو زمین میں خلیفہ بنائے‘ پھر دیکھے کہ تم کیسے عمل کرتے ہو‘‘۔ وَلَقَدْ کَتَبْنَا فِی الزَّبُوْرِ مِنْم بَعْدِ الذِّکْرِ اَنَّ الْاَرْضَ یَرِثُھَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوْنَo (الانبیاء ۲۱:۱۰۵) ’’اور زبور میں ہم نصیحت کے بعد لکھ چکے ہیں کہ زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہوں گے‘‘۔

اِن آیات کی روشنی میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اگر عالمی قیادت کاپہیہ مغرب سے گھوم کر مشرق کی طرف آجائے تو یہ کوئی تعجب خیز بات نہ ہوگی‘ حالانکہ مغرب کو اس وقت دنیا کے سارے علوم و فنون میں مہارت اور ہر قسم کا غلبہ و اقتدار حاصل ہے‘ جب کہ مشرق بالکل پس ماندہ اور درماندہ ہے۔

امرواقع یہ ہے کہ اس وقت مغرب کی فکری و عملی زندگی پر مادیت بُری طرح چھائی ہوئی ہے اور مغربی معاشرہ اخلاقی بگاڑ اور بے راہ روی میں سر سے پائوں تک ڈوبا ہوا ہے۔ اور   سنت الٰہی یہ ہے کہ دنیا کی کوئی بھی تہذیب‘اخلاقی قدروں کو پامال کر کے دیر تک باقی نہیں رہ سکتی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اخلاقی قدروں پر جب تک ایمان و عقیدہ سایہ فگن نہ ہو‘ اس وقت تک نہ اُن کی نشوونما ہو سکتی ہے اور نہ وہ انسانی معاشرے میں ہی کوئی مؤثر کردار ادا کرسکتی ہیں۔

یہ چند برس قبل ہی کی بات ہے کہ دنیا کی دوسری بڑی طاقت (سوویت یونین) بغیر کسی قابلِ ذکر علامت کے زوال کا شکار ہوگئی‘ جب کہ اُس کے پاس ایٹمی اور بے پناہ اسٹرے ٹیجک ہتھیار تھے اور اُسے ہوش ربا فوجی و اقتصادی قوت حاصل تھی۔ ان سب ظاہری قوتوں کے باوجود چونکہ اُس کے باطن میں اس کی تباہی کا سامان پیدا ہوچکا تھا اور اس کی مادی تباہی سے قبل اُس کی روحانیت پامال ہوچکی تھی‘ اس لیے دنیا کی یہ دوسری بڑی طاقت سنت ِالٰہی کے اٹل قانون کے زد میں آگئی اور وہ اپنے آپ کو زوال سے نہ بچا سکی۔

تبدیلی احوال کے لیے سنتِ الٰہی

اس کائنات میں کارفرما الٰہی سنتوں میں سے جن کو اس وقت ہم مسلمانوں کے حق میں پارہے ہیں اور اُنھیں ہم غلبۂ اسلام کی بشارتوں میں شمار کرتے ہیں‘ اُن میں سے ایک‘ قوموں اور افراد کے حالات کی تبدیلی کا الٰہی ضابطہ بھی ہے۔ قرآن کریم نے متعدد آیات میں اس سنت ِ الٰہی کو بیان کیا ہے۔ جب لوگ خیر کو چھوڑ کر شراختیار کرلیتے ہیں‘ بنائو کے بجاے بگاڑ کے کام کرنے لگتے ہیں‘ اور ہدایت کے مقابلے میں گمراہی کو ترجیح دینے لگتے ہیں‘ تواللہ تعالیٰ اپنے ضابطے اور سنت کے مطابق اُن کی خوش حالی کو بدحالی سے‘ طاقت کو ضعف سے‘ عزت کو ذلّت سے اور ان پر جاری اپنی نوازشوں کو اپنے غضب اور عذاب سے بدل دیتے ہیں۔ قرآن میں  آلِ فرعون اور اُن سے پہلے لوگوں کا انجام بیان کرنے کے بعد اسی سنت الٰہی کا ذکر کیا گیا ہے:

ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ لَمْ یَکُ  مُغَیِّرًا نِّعْمَۃً اَنْعَمَھَا عَلٰی قَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَابِاَنْفُسِھِمْ لا وَاَنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ o کَدَاْبِ اٰلِ فِرْعَوْنَلا وَالَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْط کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّھِمْ فَاَھْلَکْنٰھُمْ بِذُنُوْبِھِمْ وَاَغْرَقْنَآ اٰلَ فِرْعَوْنَ وَکُلٌّ کَانُوْا ظٰلِمِیْنَo  (الانفال ۸:۵۳-۵۴) یہ اللہ کی اِس سنت کے مطابق ہوا کہ وہ کسی نعمت کو جو اُس نے کسی قوم کو عطا کی ہو اُس وقت تک نہیں بدلتا جب تک کہ وہ قوم خود اپنے طرزِعمل کو نہیں بدل دیتی۔ اللہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔ آلِ فرعون اور اُن سے پہلے کی قوموں کے ساتھ جو کچھ پیش آیا وہ اِسی ضابطے کے مطابق تھا۔ اُنھوں نے اپنے رب کی آیات کو جھٹلایا تب ہم نے اُن کے گناہوں کی پاداش میں انھیں ہلاک کیا اور آلِ فرعون کو غرق کر دیا۔ یہ سب ظالم لوگ تھے۔

اب وہ وقت آگیا ہے کہ اس سنت ِ الٰہی کا نفاذ مغربی تہذیب کے علم برداروں پر ہو‘ جنھیں اللہ تعالیٰ نے اِس سرزمین پر قوت و اقتدار بخشا‘ اس کی ساری قوتوں کو اُن کے لیے مسخر کردیا‘ اُن پر سارے علوم و فنون کے دروازے کھول دیے اور اُنھیں رزق کی فراوانی سے ہم کنار کیا‘ لیکن اہلِ مغرب نے اللہ کی نعمتوں کو پاکر زمین میں سرکشی کی اور اُسے بگاڑ اور فساد سے بھر دیا۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا کی قیادت و سربراہی کی جو امانت اُن کے حوالے کی تھی‘ انھوں نے اُس کا حق ادا کرنے کے بجاے اس میں خیانت کی۔ مختصراً یہ کہ وہ اس کے سزاوار ہوگئے کہ اللہ تعالیٰ اُن کے معاملے میں اپنی سنت کو بروے کار لائے اور دنیا کی قیادت کا منصب اُن سے چھین کر دوسروں کے حوالے کر دے۔

اس سنت ِ الٰہی کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے جس کے بغیر یہ سنت مکمل نہیں ہوتی۔ اس کا ظہور اس وقت ہوتا ہے جب لوگ اپنے اندر یا اپنے طرزِعمل میں مثبت تبدیلی لانے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔ جب اُن کی اِس تبدیلی کا رجحان شر سے خیر‘ گمراہی سے ہدایت‘ انحراف سے استقامت‘ بگاڑ سے بنائو‘ کسل مندی سے عمل اور رذائلِ اخلاق سے اعلیٰ اخلاق کی طرف ہوجاتا ہے‘ تو وہ اس ضابطہء الٰہی کی رو سے اس بات کے مستحق ٹھیرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اُن کی بدحالی کو خوش حالی ‘ اُن کی کمزوری کو طاقت وقوت ‘ ذلت کو عزت ‘ ہزیمت کو فتح و نصرت اور حالت ِ خوف کو حالت ِ امن سے بدل دے۔ جس طرح وہ اپنی بداعمالیوں کے سبب سے اس دنیا میں دوسروں کی نگاہ میں بے حیثیت اور بے وزن ہوگئے تھے‘ اب انھیں اسی دنیا میں اقتدار و تمکنت عطا کرے۔   اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَابِاَنْفُسِھِمْط (الرعد۱۳:۱۱) ’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی‘‘۔

سنت ِ الٰہی کا یہی وہ پہلو ہے جس سے ہم مسلمانوں کے دلوں میں یہ اُمید جاگزیں ہوتی ہے کہ ہماری حالت بھی ایک دن لازماً بدلے گی اور اس میں بہتری آئے گی۔ ہم سب کا مشاہدہ ہے کہ جب سے احیاے اسلام کا عمل شروع ہوا ہے‘ بیشتر مسلمانوں کی زندگیوں میں بنیادی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ وہ اپنی روزمرہ زندگی اسلام کے مطابق گزارنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اسلامی احکام سے ناواقفیت پر قانع ہونے کے بجاے اُن کے اندر اسلامی افکار سے واقف ہونے کا رجحان بڑی تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ جو لوگ اسلامی تعلیم سے دانستہ یا نادانستہ فرار کی زندگی گزار رہے تھے‘ اب وہ اسلامی ہدایات کی پابندی میں ذہنی و قلبی اطمینان پاتے ہیں۔ جو کبھی اپنے آپ میں مگن تھے اور اُمت کے مسائل و معاملات سے اُنھیں کوئی دل چسپی نہیں ہوتی تھی‘ وہ اُس کے مسائل کو حل کرنے کی مخلصانہ اور مثبت کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ وہ نوجوان جو دنیوی لذتوں اور خواہشاتِ نفس کے پیچھے دیوانہ وار دوڑ رہے تھے‘ اب وہ احیاے اسلام کے عمل میں لگ گئے ہیں‘ اور اُنھوں نے دین اسلام اور اُس کے مقدسات کے دفاع کے لیے جہاد کا راستہ اختیار کر لیا ہے۔ اسی طرح عورتوں میں پردے کا اہتمام بڑھ رہا ہے اور مسجدیں جو کبھی نمازیوں سے خالی ہوتی تھیں‘ اب وہ نمازوں کے علاوہ دینی تعلیمات کے پروگراموں کے سبب بھری نظرآتی ہیں۔

یہی وہ اعمال وآثار ہیں جنھیں دیکھ کر یہ محسوس ہوتا ہے کہ اُمت مسلمہ کے اندر مجموعی طور پر بڑی حد تک تبدیلی پیدا ہوئی ہے۔ اس لیے اب اللہ تعالیٰ کے عدل اور اس کی سنت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اُمت مسلمہ کو یوں ہی بے یارومددگار نہ چھوڑ دے‘ بلکہ اُس کی اِس گہری نفسیاتی اور عملی تبدیلی پر اُسے اپنے بھرپور صلے سے نوازے‘ اور اُس کی بدحالی و زبوں حالی کو خوش حالی و سرفرازی سے بدل دے‘ اور اُس کے جملہ حالات کو سنوار دے۔

آج یہ ضروری ہے کہ شعاعِ اُمید سے ہر مسلمان کا سینہ روشن ہو‘ اُس کی روشنی اس کے دل میں بھی پہنچ گئی ہو‘ یاس و قنوطیت کے بادل چھٹ گئے ہوں‘ دلوں میں یہ شعورواحساس جاگزیں ہو کہ نصرتِ الٰہی ہر آن اُس کے مومن بندوں سے قریب ہو رہی ہے۔ ہرچند کہ مسلمانوں کے گرد سازشوں کا جال بُنا جا رہا ہے‘ اور اسلام پر کبھی انتہاپسندی‘ کبھی دہشت گردی اور اکثر وبیشتر بنیاد پرستی کے نام سے رکیک حملے کیے جا رہے ہیں۔یہ بات درست ہے کہ اس وقت احیاے اسلام کی تحریک پر سخت دبائو ہے اور اسے کچلنے کے لیے ہر طرح کے وحشیانہ حربے آزمائے جا رہے ہیں۔ اُمت مسلمہ کو نیست ونابود کرنے کے لیے ہر طرف علانیہ اقدامات اور خفیہ سازشیں ہو رہی ہیں۔ یہ سب کچھ مسلمانوں کی غفلت اور ان پر مسلط حکمرانوں کے تعاون سے ہو رہا ہے۔ لیکن اس کے باوجود اُمت مسلمہ کے روشن مستقبل اور اسلامی بیداری اور دعوت اسلامی کی کامیابی کے امکانات کم نہیں۔

اگر اُنیسویں صدی سرمایہ داری کی صدی تھی اور بیسویں صدی اشتراکیت کی صدی تھی‘ تو اکیسویں صدی اسلام کی صدی ہوگی۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اگر انیسویں صدی مسیحیت کی صدی تھی اور بیسویں صدی یہودیت کی صدی تھی کہ اسی بیسویں صدی میں یہودیت کو ۲۰ سے زائد عرب ملکوں اور ۴۰ سے زیادہ اسلامی ملکوں پر غلبہ حاصل ہوا‘ لیکن اکیسویں صدی اسلام کی صدی ہوگی۔

ہم جب بحیثیت دین و مذہب کے یہودیت و مسیحیت کے مقابلے میں اسلام پر نگاہ ڈالتے ہیں‘ یا بحیثیت ایک نظامِ حیات کے سرمایہ داری اور اشتراکیت کے مقابلے میں اسلام کا جائزہ لیتے ہیں‘ تو اسلام ہر دو پہلو سے ممتاز اور نمایاں نظرآتا ہے۔ اسلام اپنے آپ میں ایک ایسا منفرد و یکتا مذہب ہے‘ جس کے مزاج میں زندہ اور باقی رہنے کی صلاحیت موجود ہے۔ یہی نہیں بلکہ اسلام کے اندر اپنی ملت کو زندہ رکھنے اور اپنی دعوت کو پھیلانے کی صلاحیت بھی پائی جاتی ہے۔ مزیدبرآں یہ کہ آج دنیا کو اسلام کی سخت ضرورت بھی ہے‘ کیوں کہ آج پوری دنیا میں عدمِ توازن کے باعث ہر سطح پر فساد اور بگاڑ پھیلا ہوا ہے۔ دنیاے انسانیت کو اِس بگاڑ اور فساد سے نجات کے لیے ایک متوازن اور صالح نظام کی ضرورت ہے اور وہ صرف اور صرف اسلام کے پاس ہے۔

اس حقیقت کا اعتراف کہ آنے والی صدی ان شاء اللہ اسلام کی صدی ہوگی‘ ڈاکٹر مراد ہاف مین نے اپنی مشہور کتاب اسلام بیسویں صدی میںبڑے پُراعتماد لہجے میں کیا ہے کہ اب اسلام کے سامنے اس کے پورے مواقع ہیں کہ وہ اکیسویں صدی میں اوّلین حیثیت کا مذہب بن کر اُبھرے۔

امریکی کانگریس میں خارجہ امورکمیٹی کے ایک ممتاز رکن جیمس میران نے بھی یہی بات کہی ہے۔ انھوں نے امریکیوں کو اس بات کی دعوت دی ہے کہ وہ اسلام کے بارے میں صحیح واقفیت حاصل کرنے کی کوشش کریں‘ کیوں کہ اسلام امن و سلامتی اور رواداری کا دین ہے۔ یہ وہ مذہب ہے جو لوگوں کو محنت اور مشقت اور جدوجہد پر اُبھارتا ہے اور نظم و ضبط کو پسند کرتا ہے۔ اس کے چشمۂ صافی سے محبت و ہمدردی کے سوتے پھوٹتے ہیں۔ وہ نہ صرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تاریخ کا ایک عظیم ترین انسان تصور کرتا ہے بلکہ اس سے آگے بڑھ کر صحابہ کرامؓ میں سے بیشتر کی زندگیوں سے بھی واقفیت حاصل کرنے پر زور دیتا ہے۔ اُس کے خیال میں دنیا کی ساری اقوام کے لیے ضروری ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی تعلیمات سے بخوبی واقف ہوں۔ لیکن افسوس کہ دو سبب سے ایسا نہ ہوسکا:

۱- پہلا سبب یہ ہے کہ غیرمسلموں نے اُن تعلیمات کے سلسلے میں تعصب و تنگ نظری اور جانب داری اور جہالت کا رویہ اختیار کیا۔

۲- دوسرا اہم اور بڑا سبب یہ ہے کہ خود مسلمانوں نے بھی دین اسلام سے اغیار کو کماحقہ روشناس کرانے کی کوشش نہیں کی۔

جیمس میران نے المجتمع سے انٹرویو ان الفاظ پر ختم کیا: ’’میں پورے یقین سے کہتا ہوں کہ اکیسویں صدی اسلام کی صدی ہوگی‘ اور اس صدی میں اسلامی تہذیب و ثقافت کو دنیا بھر میں فروغ حاصل ہوگا اور یہی وہ وقت ہوگا جب دنیا کے چپے چپے کو اسلام کے زیرسایہ امن و سلامتی اور خوشحالی و فارغ البالی سے بہرہ ور ہونے کا موقع ملے گا۔ (۵مارچ ۱۹۹۶ئ)

فلسفۂ عمرانیات کا نقطۂ نظر

سب ماہرین عمرانیات اِس بات کے قائل ہیں کہ آج جو چیزیں حقیقت بن کر ہمارے سامنے آگئی ہیں‘ ماضی میں ان کی حیثیت محض خواب وخیال کی تھی اور آج ہم جس چیز کو خواب اور ناممکن سمجھ رہے ہیں وہ بھی مستقبل میں حقائق کا روپ دھارلے گی۔ یہ ایک ایسا نقطۂ نظر ہے جس کی تائید پیش آمدہ واقعات سے بھی ہوتی ہے اور منطقی دلائل و براہین بھی اس کے حق میں ہیں‘ بلکہ یہی وہ محور ہے جس کی بنیاد پر انسانیت درجہ بدرجہ منزلِ کمال کو پہنچتی ہے۔ آج ہمارے سامنے جو ایجادات و انکشافات ہو رہے ہیں‘ اِن کے وجود میں آنے سے چند سال پہلے تک کون یقین کرسکتا تھا کہ سائنس دان یہاں تک پہنچ جائیں گے‘ بلکہ خود اساطینِ علم وفن بھی اپنے ابتدائی دور میں اُنھیں اَن ہونی خیال کرتے تھے۔ یہاں تک کہ وہ وقت آگیا کہ حقائق نے انھیں ثابت کردکھایا اور دلائل نے اُن کی تائید کر دی۔ اس کی مثالیں بے شمار ہیں اور وہ اتنی واضح ہیں کہ  اُن کے تذکرے کی چنداں ضرورت نہیں۔

تاریخ کا نقطۂ نظر

تاریخ کے اوراق بھی اس بات پر شاہد ہیں کہ جتنی قومیں تعمیروترقی کے بامِ عروج پر پہنچی ہیں‘ سب نے ابتداً انتہائی ضعف کی حالت میں قدم آگے بڑھایا اور بظاہران کا اپنے منتہاے مقصود کو پالینا ایک امرمحال تھا۔ مگر صبروثبات اور حکمت اور پیہم جدوجہد نے معمولی حیثیت اور قلیل وسائل کی حامل ان قوموں کو عظمت و سربلندی کی انتہا پر پہنچا دیا۔

اگر جزیرۃ العرب کا جائزہ لیا جائے تو کیا کوئی یہ یقین کر سکتا تھا کہ اِس خشک اور     بے آب و گیاہ سرزمین سے ایک دن نوروعرفان کے سوتے پھوٹیں گے‘ اور اِسے دنیا کے ایک بڑے حصے پر روحانی و سیاسی غلبہ حاصل ہوجائے گا۔ کون یہ گمان کر سکتا تھا کہ صلاح الدین ایوبی عرصۂ درازتک صلیبی یلغار کے سامنے ایک مردِ آہن بن کر کھڑا رہے گا۔ اس نے سلاطین یورپ کو اُن کی کثرتِ تعداد اور فوجی کروفرکے باوجود پسپائی پر مجبور کر دیا حالانکہ ۲۵ بڑے ملکوں کے سربراہان اُس کے خلاف صف آرا تھے۔

کامیابی کا واحد راستہ: جدوجہد

راستہ خواہ کتنا ہی طویل ہو اور خواہ کتنے ہی مسائل کا سامنا ہومگر قوموں اور ملکوں کی تعمیروترقی کا واحد راستہ جدوجہد ہی ہے اور تجربے نے بھی اس نقطۂ نظر کو درست ثابت کیا ہے۔

دعوت الی اللہ کا کام کرنے والوں کے سامنے یہ تصور ہمیشہ واضح رہنا چاہیے کہ یہ کام کرکے دراصل وہ اسلام کے تئیں اپنی ذمہ داری کو ادا کر رہے ہیں۔ پھر دوسرے درجے میں اِس عمل کے ذریعے سے اجرِآخرت کا حصول اُن کا مطمح نظرہونا چاہیے۔ ان دعوتی سرگرمیوں کے ذریعے سے حاصل ہونے والے دنیوی فوائد کو تیسرے اور آخری درجے میں رکھنا اس جدوجہد کا تقاضا ہے۔

اگر اِس نقطۂ نظر سے دعوتِ الی اللہ کاکام کیا جائے توگویا ذمہ داری ادا کر دی گئی۔ اور اگر اخلاص و للہیت اور بے نفسی کی مطلوبہ شرائط کے ساتھ اس کارِعظیم کو انجام دیا جائے تو اس میں شک نہیں کہ اللہ کے یہاں اِس کام کے اجروانعام اور اس کارِدعوت کے ممکنہ دنیوی فوائد بھی حاصل ہوں گے۔ لیکن کون سا فائدہ کب اور کس شکل میں ظاہر ہوگا‘ اس کا فیصلہ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ بسااوقات کسی مرحلے میں اِس دعوتی جدوجہد کے ایسے عظیم اور بابرکت ثمرات ظاہر ہوسکتے ہیں جن کا پیشگی اندازہ نہیں ہوسکتا۔

اگر اپنی دعوتی ذمہ داریوں سے غفلت برتی جائے تو گناہ کے مرتکب قرار پائیں گے اور دعوتی جدوجہد کے اُخروی انعام کو بھی نہ پاسکیں گے اور اس کے دنیوی فائدوں سے بھی یقینا محروم رہ جائیں گے۔ اب یہاں فیصلہ کیا جاسکتا ہے کہ اِن دونوں میں کون سا طرزِعمل حسنِ انجام کا مستحق ہے۔ قرآن کریم نے اسی بات کو بڑے عمدہ اور واضح انداز میں پیش کیا ہے: ’’جب ان میں سے ایک گروہ نے دوسرے گروہ سے کہا کہ تم ایسے لوگوں کو کیوں نصیحت کرتے ہو‘ جنھیں اللہ ہلاک کرنے والا یا سخت سزا دینے والا ہے‘ تو انھوں نے جواب دیا کہ ’’ہم یہ سب کچھ تمھارے رب کے حضور اپنی معذرت پیش کرنے کے لیے کرتے ہیں اور اس امید پر کرتے ہیں کہ شاید یہ لوگ نافرمانی سے پرہیز کرنے لگیں۔ آخرکار جب وہ ان ہدایات کو بالکل ہی فراموش کر گئے جو انھیں یاد کرائی گئی تھیں تو ہم نے ان لوگوں کو بچا لیا جو برائی سے روکتے تھے اور باقی سب ظالموں کو ان کی نافرمانیوں کی پاداش میں ہم نے سخت عذاب میں پکڑلیا‘‘۔(الاعراف ۷:۱۶۴-۱۶۵)

عملی تقاضے

اسلام کے غلبے سے متعلق جن بشارتوں کو پیش کیا گیا ہے‘ ہم اُن ہی پر تکیہ کرکے     بے فکری سے سو نہ جائیں۔ ہمارے لیے یہ مناسب نہیں ہے کہ ہم ان بشارتوں کو جاننے کے بعد آرام طلبی اور کسل مندی کو اپنا شیوہ بنائیں اور کسی طرح کی جدوجہد اور مجاہدانہ کوشش کے بغیر اِس کا انتظار کریں کہ ہمارے اوپر نصرتِ الٰہی کا نزول ہوگا۔ یہ بشارتیں تو ہم سے اپنی زندگی میں ہر پہلو سے انقلابی جدوجہد اور عملِ پیہم کا مطالبہ کرتی ہیں۔

  • اپنے تہذیبی ورثے سے ہمیں بھرپور فائدہ اٹھانا اور اُسے اپنے لیے رہنما بنانا چاہیے لیکن اسے رسم و روایات کی ایسی زنجیر نہیں بننے دینا ہے جو ہمارے قدموں کو شل کر دے اور ہماری پیش رفت کے لیے سدِراہ بن کر رہ جائے۔
  • حکمت و دانائی کی باتیں جہاں کہیں سے بھی حاصل ہوں اُن کو بے تکلف لے لیں اور اس کی فکر ہرگز نہ کریں کہ ان کا مصدر و منبع کیا ہے۔ ہم اپنے آپ کو کسی ایک اسلامی مکتب فکر کا پابند نہ بنائیں اور نہ کسی مسلک کی اس طرح پیروی کرنے لگیں کہ اُس سے نکلنا ناممکن ہو جائے‘ بلکہ ہم متفق علیہ قواعد و ضوابط کی روشنی میں سارے ہی مکاتب فکر اور مسالک و مذاہب سے استفادہ کریں۔ اس سلسلے میں ہمیشہ مشتبہات کے بجاے محکمات‘ ظنیات کے بجاے قطعیات‘ جزئیات کے بجاے کلیات اور فروع کے بجاے اصول کو اساس قرار دیں۔
  •  ہمیں مغربی افکار و نظریات اور اہلِ مغرب کے تجربات سے بھی نفع بخش چیزیں اخذ کر کے اُنھیں اپنے معیار‘ ضروریات اور حالات کے پیشِ نظر اس طرح ڈھالنا چاہیے کہ وہ ہمارے ماحول سے بالکل ہم آہنگ ہوجائیں اور ہمارے نظامِ حیات کا جزو بن جائیں۔ ایسا کرنے میں ہمارے لیے کوئی حرج بھی نہیں ہے‘ کیوں کہ حکمت مومن کی متاع گمشدہ ہے‘ جہاں کہیں بھی وہ اُسے پاتا ہے لوگوں میں سب سے زیادہ اس کا حق دار وہی ہوتا ہے۔
  • اب ہمارے لیے ناگزیر ہے کہ ہم پس ماندگی کی قید سے آزاد ہو کر تمدن و ترقی کی وسعتوں میں قدم رکھیں اور معاشی‘ انسانی‘ مادی و روحانی‘ ہر سطح پر حقیقی معنوں میں ترقی کریں۔ اپنی اُن تمام قوتوں اور صلاحیتوں کو انسان اور زندگی کی ہمہ جہت ترقی کے لیے وقف کر دیں‘ جن کا بڑا حصہ اب تک ہم ضائع کرتے رہے ہیں یا کم از کم معطل تو اُن کو کر ہی رکھا ہے۔ ان قوتوں کو مجتمع کرنے اور انھیں تقویت پہنچانے کے لیے ہمیں خود اسلام کو ایک بڑے محرک کی حیثیت سے اختیار کرنا ہوگا اور صحیح معنوں میں اِن طاقتوں کو اور صلاحیتوں کو بروے کار لانے کے لیے عام جدوجہد کے مقابلے میں اُس کی دس گنا قوت کا استعمال ضروری ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے میدانِ جہاد کے ضمن میں اِس امر کی طرف اشارہ کیا ہے: یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِیْنَ عَلَی الْقِتَالِط اِنْ یَّکُنْ مِّنْکُمْ عِشْرُوْنَ صٰبِرُوْنَ یَغْلِبُوْا مِائَتَیْنِج وَاِنْ یَّکُنْ مِّنْکُمْ مِّائَۃٌ یَّغْلِبُوْا اَلْفًا مِّنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِاَنَّھُمْ قَوْمٌ لَّا یَفْقَھُوْنَo (الانفال ۸:۶۵) ’’اے نبی، مومنوں کو جنگ پر اُبھارو اگر تم میں سے ۲۰ شخص ثابت قدم رہنے والے ہوں تو وہ ۲۰۰ پر غالب ہوںگے اور اگر تم میں سے ۱۰۰ آدمی ہوں تو وہ ۱۰۰۰ کافروں پر غالب ہوں گے‘ کیوں کہ یہ لوگ سمجھ نہیں رکھتے ہیں‘‘۔

قرآن کریم نے اس بات کو نہایت واضح انداز میں بیان کیا ہے کہ نصرتِ الٰہی کا ظہور ہمیشہ مومن گروہ کے ذریعے سے ہوتا ہے اور اسی کے ذریعے سے اُس کا اِتمام بھی ہوتا ہے اور یہ چیز صرف مومنین کے لیے مخصوص ہے‘ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو مخاطب کر کے فرمایا ہے: ھُوَ الَّذِیْٓ اَیَّدَکَ بِنَصْرِہٖ وَبِالْمُؤْمِنِیْنَo (الانفال ۸:۶۲) ’’وہی وہ ذات ہے جس نے اپنی مدد اور مومنوں کے ذریعے سے تمھاری تائید فرمائی‘‘۔

ہمیں اس بات کی توقع ہرگز نہیں رکھنی چاہیے کہ غزوئہ بدر‘ غزوئہ احزاب اور غزوئہ حنین میں جو فرشتے آسمان سے اُترے تھے‘ وہ آج ایسے لوگوں پربھی اتریں گے جن کے قلوب ایمانی حرارت سے خالی ہیں اور جن کی زندگیاں اسلامی اخلاق اور مومنانہ اعمال سے بالکل بے بہرہ ہیں۔

کسی پیغام یا دعوت کی کامیابی کا انحصار محض اس کی ذاتی خوبیوں پر نہیں ہوا کرتا‘ بلکہ بڑی حد تک اُس کی کامیابی کا انحصار پیروئوں اور متبعین کے عمل اور کردار پر ہوتا ہے۔ اسی طرح حق کی سربلندی تنہا حق کے سبب نہیں ہوتی ہے بلکہ سنت ِ الٰہی یہ ہے کہ داعیانِ حق کی ایک ایسی جماعت اُسے بلندیوں پر پہنچاتی ہے جو علم و عمل اور اخلاص کے جوہر سے آراستہ ہوتی ہے۔

  • وہ قوم کبھی اپنے دشمنوں پر غالب نہیں آ سکتی ہے جو خود اپنے شریف عناصر سے برسرِپیکار ہو اور اپنے ہی سپوتوں کو نکیل ڈالنے کے لیے کوشاں ہو۔ یہاں میری مراد اسلامی عناصر سے ہے۔ یہ عزم و ارادے کے پکے اور پاکیزہ اخلاق کے حامل ہیں۔ یہ قومی اور اجتماعی مقاصد کے لیے دوسرے گروہوں کے مقابلے میں سب سے بڑھ کر مالی و جانی قربانیاں دینے والے لوگ ہیں۔ بحیثیت اُمت اس صالح عنصر کو پذیرائی ملنی چاہیے۔
  • ایک ایسی قوم کا اپنے دشمنوں پر غلبہ پانا امر محال ہے جس کی دل چسپیوں کا بڑا حصہ کھیل تماشوں کی نذر ہوجاتا ہو اور جس کے اخبارات کا بڑا اور اہم حصہ اور جس کے ریڈیو اور       ٹیلی ویژن کا طویل اور اہم ترین وقت ناچ گانے اور بیہودہ ڈراموں کے لیے مختص ہو۔ جس قوم کا سماجی اور اجتماعی مزاج اتنا فاسد ہوگیا ہو کہ اس کے درمیان علما اورمفکرین اور قیادت و رہنمائی کی صلاحیت رکھنے والوں کے بجاے فلمی اداکاروں کو عزت و توقیر سے نوازا جارہا ہو‘ تو بھلا ایسی قوم اپنے دشمن کو کیسے زیر کرسکتی ہے۔
  •  مقتدر اشخاص کی‘ جو ملت اسلامیہ کی قیادت کے منصب پر فائز ہیں اور جن کا اُمت کے معاملات و مسائل میں ایک مؤثر کردار ہے‘ ذمہ داری ہے کہ وہ باہمی تعاون سے ملّت کو ہرمیدان میں اوپر اٹھانے اور ترقی کی راہوں پر گامزن کرنے کے لیے سعی و جہد کریں۔ ان سب کاموں کی تکمیل کے لیے ایک مستحکم منصوبہ بندی اور مستقبل پر گہری نظر کی ضرورت ہے۔
  •  خود ملت اسلامیہ کے لیے بھی ناگزیر ہے کہ وہ اپنے دیرینہ امراض کا نہایت سنجیدگی سے جائزہ لے اور دقت نظری کے ساتھ اسباب و علل کا تجزیہ کرے۔ پھر اس یقین کے ساتھ کہ اللہ نے ہر مرض کی دوا پیدا کی ہے ان کے علاج کی فکر کرے۔ ہم جانتے ہیں کہ کامیاب علاج کے لیے مرض کی تشخیص اور مناسب دوا کا استعمال دونوں ضروری ہیں۔
  • اُمت مسلمہ کو معاشی منصوبہ بندی اور قوم کو اسراف سے بچانے کے لیے رہنمائی کی بھی ضرورت ہے۔ اس کی بھی ضرورت ہے کہ دولت و ثروت کی عادلانہ تقسیم کی طرف توجہ دی جائے‘ کیوں کہ اس کے بغیر سرماے کی گردش صحیح طریق پر ممکن نہیں۔
  • ملّت اسلامیہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے سماجی اور اجتماعی پہلو پر بھی توجہ دے۔ افراد کے درمیان جذبۂ اخوت و محبت کو پروان چڑھائے اور سماج کے مختلف طبقات کے مابین تعاون کی اور مختلف قوموں کے درمیان اتحاد و یک جہتی کی فضا قائم کرے۔ اغنیا اور فقرا کے درمیان فاصلہ کم کر کے ان میں قربت پیدا کرنے کی کوشش کرے تاکہ باہمی میل جول عام ہوسکے۔ اسی طرح عورتوں‘ بچوں اور بوڑھوں کے حقوق کا خیال رکھے اور خاندانی نظام کو ایسی ٹھوس بنیادوں پر قائم کرے کہ امن وسکون قائم ہو اور محبت و رحمت ہمیشہ اس پر سایہ فگن رہے۔
  •  ضرورت ہے کہ ملت اسلامیہ عقلی اور ثقافتی پہلو پر بھی توجہ دے۔ اُمت مسلمہ کو چاہیے کہ جتنی جلد ممکن ہو تعلیم و تربیت اور ثقافت و ذرائع ابلاغ کے میدان میں جس فکری یلغار سے سابقہ ہے‘ اس سے اور ثقافتی و تمدنی استعمار کے نقوش و اثرات سے آزادی حاصل کرے۔ کیوں کہ ان ہی اسباب کے ذریعے سے انسانی ذہن کی تربیت ہوتی ہے اور عام لوگوں کے نفسیاتی اور فکری رجحانات درحقیقت ان ہی کے ذریعے سے نشوونما پاتے ہیں۔
  • سیاسی پہلوسے بھی اُمت مسلمہ کو بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ سیاسی محاذ پر سب سے پہلے استبداد اور سرکشی پر مبنی نظام کا مقابلہ کر کے اس کا خاتمہ کرنا ہوگا اور پھر اس کی جگہ شورائی نظام کی بنیادوں کو مستحکم کرنا ہوگا۔ انسانی حقوق کے لیے ایک واضح پالیسی مرتب کرنی ہوگی اور لوگوں کی تربیت کا ایک ایسا جامع نظام وضع کرنا ہوگا جس میں اصلاً باہمی نصیحت وخیرخواہی اور فریضہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکی روح کارفرما ہو۔ جو شخص کسی برائی کو بزورِقوت دُور کرسکتا ہو تووہ اُس کو دُور کرے۔ اور اگر کوئی صرف زبان سے اُس پر اظہار نکیرکرسکتاہے تواُسی حد تک وہ اپنے فرض کو انجام دے۔ یاد رکھیے کہ برائی کو دل سے برا جاننا عجز و بے بسی کی علامت ہے اور یہ طرزِعمل خدا کے ہاں نامقبول ہے۔
  • ضرورت ہے کہ ایسا واضح دستور وضع کیا جائے جس میں حقوق و فرائض تفصیل سے بیان کیے گئے ہوں‘ اور ہرایک کی ذمہ داریوں کا ٹھیک ٹھیک تعین ہو‘ اور ہر ذمہ دار (authority) کی حدود واضح ہوں تاکہ ادارہ جاتی حکومت کا قیام عمل میں آسکے۔ اس دستور میں ہر انسان کے لیے یکساں طور پر عزت و احترام‘ آزادی اور ذمہ دارانہ منصب کے حصول کے جواز کی ضمانت دی گئی ہو۔ دستور کی رو سے اگرکسی کو کوئی امتیازی حیثیت حاصل ہو تو وہ محض تقویٰ اور خوفِ الٰہی کی بنیاد پر حاصل ہو۔

بلاشبہہ غلبۂ اسلام کی بشارتوں کے ذریعے سے ہمارے اندر ایک نئی قوت اورنیا عزم وحوصلہ پیدا ہونا چاہیے تاکہ ہم اُمت کی ضرورتوں کے مطابق ہرسطح پر مزید جدوجہد اور سرگرم عمل ہونے کا مظاہرہ کرسکیں۔ اُمت مسلمہ کو ہرگز اس کی توقع نہیں رکھنی چاہیے کہ اُس کی موجودہ بدحالی و بداعمالی کے باوجود اللہ تعالیٰ اس کو اپنی نصرت سے نوازے گا‘ بلکہ نصرتِ الٰہی کے حصول کے لیے اُمت کو اپنی موجودہ حالت بدلنی ہوگی تاکہ اللہ تعالیٰ بھی اُس کی ذلت و رسوائی اور نکبت کو عزت و سرفرازی اور نصرت سے بدل دے۔

اگر اُمت مسلمہ یہ توقع رکھتی ہے کہ وہ اپنی پس ماندگی‘ انتشار و اضطراب‘ باہمی عداوت اور دشمنی‘ بے بسی و کسل مندی اور بے پروائی و بربادی کی جس صورت حال سے دوچار ہے‘ اس کے ہوتے ہوئے بھی یہود پر غالب آجائے گی‘ تو اُس کی یہ توقع سراسر باطل ہے۔

یہ امرمحال ہے کہ اللہ تعالیٰ سرگرم عمل لوگوں کے مقابلے میں کاہلوں کی اور متحدومنظم لوگوں کے مقابلے میں ان لوگوں کی مدد فرمائے جو انتشار کا شکار ہوں۔ یہ سنت ِ الٰہی کے خلاف ہے کہ وہ منظم گروہ کے مقابلے میں پراگندہ حال لوگوں کی اور منصوبہ بند لوگوں کے مقابلے میں الل ٹپ کام کرنے والوں کی مدد کرے‘ یا نظم وضبط کے پابند لوگوں کے مقابلے میں بے پروا لوگوں کامددگار ہو‘ یا اپنی ملّت کے غم میں فکرمند رہنے والوں کو چھوڑ کر وہ ان لوگوں کی مدد کو پہنچے جنھیں اپنے ذاتی مفاد کے سوا کسی چیزکی فکر دامن گیر نہیں ہوتی۔

اب یہ داعیانِ حق اور مصلحین کرام کی ذمہ داری ہے کہ وہ باہمی تعاون کے جذبے سے سرشار ہوکر اُمت مسلمہ کو اندر سے بدلنے کی حتی المقدور کوشش کریں اور اس کی پوشیدہ وپنہاں ذاتی قوتوں کو پھر سے بروے کار لائیں تاکہ تلافی مافات ہوسکے اور اُمت مسلمہ ترقی یافتہ دنیا کی بہترین چیزیں جذب کرے اور اپنی بہترین چیزوں سے اُنھیں روشناس کرائے۔

ہمیں اللہ کی نصرت پر یقین رکھتے ہوئے پورے اخلاص‘ عزمِ مصمم اور ثابت قدمی کے ساتھ اس میدان میں کام کرتے ہوئے آگے بڑھنا ہے اور اس کام کو ایسے عزم کے ساتھ انجام دینا ہے کہ کسی طرح کی اُکتاہٹ و گھبراہٹ آڑے نہ آئے۔ اور اس کام کی کامیابی پر ہمیں اتنا یقین ہو کہ کوئی شک و تردد اُسے متزلزل نہ کر سکے۔ یاس و قنوط کی زنجیروں سے آزاد ہوکر اور اپنے ہاتھوں میں اُمید کی شمع لے کر اگر ہم نے جہد ِ مسلسل کے ساتھ اس کام کو جاری رکھا تو کامیابی لازماً ہمارے قدم چومے گی۔ اور یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے:

وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا ط وَ اِنَّ اللّٰہَ لَمَعَ الْمُحْسِنِیْنَ o (العنکبوت۲۹:۶۹) ’’جو لوگ ہماری خاطر مجاہدہ کریں گے ‘ اُنھیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے اور یقینا اللہ نیکوکاروں ہی کے ساتھ ہے‘‘۔