عام طور پر اس قسم کی باتیں سننے میں آتی ہیں کہ یہ دور نفسانفسی‘ مادیت اور مفاد پرستی کا دور ہے۔لوگوں میں بے حسی پائی جاتی ہے۔ رہی سہی کسر ثقافتی یلغار‘میڈیا اور کیبل وغیرہ نے پوری کر دی ہے۔ لوگ معاشی مسائل میں اس بری طرح جکڑے گئے ہیں کہ انھیں کسی اور کام کے متعلق سوچنے یا کرنے کی فرصت ہی نہیں۔
ایسے میں‘ گذشتہ دنوں لاہور میں فہم قرآن کلاس کے ذریعے سے ایک خوش گوار اور ایمان افروز منظر دیکھنے میں آیا۔ کیفیت یہ تھی کہ لوگ بلامبالغہ جوق در جوق فہم قرآن کلاس میں شرکت کے لیے امڈے چلے آرہے تھے‘ شدید گرمی اور حبس کے باوجود ہزاروں لوگوں نے اس میں شرکت کی۔ خواتین‘ حاضری میں سبقت لے گئیں۔
جماعت اسلامی پاکستان کے شعبہ فہم دین کے تحت ۱۰ روزہ فہم قرآن کلاسوں کا سلسلہ گذشتہ کئی برسوں سے جاری ہے۔ ملک کے مختلف شہروں اور قصبات میں پروگرام ہو چکے ہیں۔ لاہور میں ۱۰ روزہ فہم قرآن کلاس کے تین پروگرام: وحدت روڈ‘ سمن آباد اور گلشن راوی میں ماہ مئی اور جون میں ترتیب دیے گئے۔ پروفیسر عرفان احمد چودھری اس کے روح رواں ہیں۔ ان پروگراموں کی تشہیر کے لیے بڑی تعداد میں دعوت نامے‘ ہینڈبل اور اشتہارات پھیلائے گئے۔ مناسب جگہوں پر بینر آویزاںکیے گئے اور بڑے پیمانے پر دعوت دی گئی۔ کارکنان جماعت متحرک ہوئے‘ عوام سے رابطہ کیا گیا اور ان پروگراموں میں ان کی شرکت ممکن بنانے کے لیے بھرپور کوشش کے ساتھ جہاں ممکن ہوا آمدورفت کی سہولت بھی فراہم کی گئی۔ ۱۰ روزہ کلاس کے لیے خصوصی نصاب میں شامل آیات اور احادیث کا انتخاب ایک خاص ترتیب اور حکمت کو پیش نظر رکھ کر کیا گیا ہے۔ تمام شرکا کو اس کا کتابچہ فراہم کیا گیا جو دوران کلاس ان کے سامنے رہا۔ کلاس کے اوقات بعد نماز فجر ۱۵:۵ تا ۳۰:۶ مقررکیے گئے‘ جب کہ عام طور پر فجر کے بعد پروگراموں میں شرکت ایک مشکل امر خیال کیا جاتا ہے۔ارزاں نرخوں پر لٹریچر کی فراہمی کے لیے اسٹال لگائے گئے اور شرکا کو حقیقت اسلام تحفے میں دی گئی۔
اس کلاس کی خاص بات یہ ہے کہ ہر روز حاضرین کی تعداد بڑھتی چلی جاتی ہے۔ آخری پروگرام‘ حاضری اور شرکا کے اعتبار سے اپنی جگہ ایک تاریخ ساز اجتماع ثابت ہوا کہ اس نوعیت کا اتنا بڑا دعوتی اجتماع لاہور میں کم ہی دیکھنے میں آیا ہے۔
پروفیسر عرفان احمد نے اسلام کی دعوت اور قرآن کا پیغام نہایت موثر پیرایے میں پیش کیا۔ ان کی کوشش تھی کہ وہ مخاطبین کا تعلق قرآن سے قائم کر دیں۔ ۱۰ روزہ نصاب میں دین کے تقریباً تمام بنیادی موضوعات شاملِ گفتگو رہے۔ آخری روز غُلِبَتِ الرُّوْم کی تفسیر میں حالاتِ حاضرہ خصوصاً اُمت مسلمہ پر امریکی یلغار اور اسلام کے روشن مستقبل پر بھی خوب تبصرہ ہوگیا۔
درس قرآن کے ساتھ حدیث‘ فقہ اور تجوید کا مختصر پروگرام بھی رکھا جاتا ہے۔ یوں قرآن کی دعوت کو قرآن و حدیث‘ اسوہ رسولؐ اور سیرت صحابہؓ کی روشنی میں اس طرح سے پیش کیا گیا کہ وہ حالات کا تقاضا اور ضرورت محسوس ہوئی۔ سننے والوں کو اپنا ایمان بڑھتا ہوا محسوس ہوتا تھا۔ شرکا محض سامع نہ تھے بلکہ شریکِ گفتگو تھے۔ انھوں نے جانا کہ داعی دین کی حیثیت سے ان کا فرض ہے کہ قرآن کی دعوت انھیں دوسروں تک پہنچانا ہے۔ لہٰذا سب شرکا اپنی اپنی جگہ داعی بن گئے جس کا ایک واضح اظہار حاضری میں روزانہ اضافہ تھا۔لوگوں میں اس احساس کا بیدار ہونا ہی اس تمام جدوجہد کا حاصل ہے۔
گلشن راوی میں فہم قرآن کلاس کے آخری روز قیم جماعت اسلامی پاکستان سید منور حسن نے بھی خطاب کیا۔ انھوں نے کہا کہ اصل کش مکش معروف و منکر کی ہے۔ ہماری تمام تر توانائیاں اسی جدوجہد میں کھپنا چاہییں۔ یہ پیغام عملاً اقامت دین کا پیغام ہے اور شرکاے قرآن کلاس کے لیے ’ہوم ورک‘ بھی‘ جو اس ایمان پرور پروگرام کے اختتام کے بعد عمربھر انھیں انجام دیتے رہنا ہے۔
میری زندگی کا واحد نصب العین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوئہ حسنہ کے مطابق اللہ کی بندگی‘ اقامت دین اور اللہ کی راہ میں جان و مال سے جہاد کے ذریعے اس کی رضا اور جنت کا حصول ہے۔
میں‘ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت‘ وفاداری کو ہر چیز پر مقدم رکھوں گا۔ فرائض کا پابند اور کبائر سے دُور رہوں گا۔ عدل و احسان اور صلہ رحمی کے رویے پر قائم رہوں گا‘ اور ہر قسم کے کھلے اور چھپے فواحش اور ظلم و زیادتی کے کاموں سے بچوں گا۔
انسان جن مسائل سے دوچار ہے‘ وہ ان سے نجات کے لیے کسی پایدار حل کی تلاش میں ہے۔ قرآن مجید مختصر جملوں میں ان کا ایسا حل پیش کرتا ہے کہ دل ٹھک کر رہ جاتا ہے۔ یہ قرآن کی تعلیمات ہیں جو انسان کو اس کی اصل حیثیت یاد دلاتی ہیں‘ اس کی کمزوریوں سے اسے آگاہ کرتی ہیں اور پھر اس کو سیدھے راستے کی طرف رہنمائی بھی دیتی ہیں۔ دراصل قرآن انسان کی فطرت کی پکار کا جواب ہے۔ یہی اس کی کشش کا راز ہے۔
قرآن سے تعلق کی اصل بنیاد تو مسلم معاشرے کی یہ روایت ہے کہ ہر بچے کو ابتدا میں ہی قرآن ضرور پڑھایا جاتا ہے۔ لیکن بعد میں عموماً عملی زندگی میں اس سے کوئی تعلق نہیں رہتا۔ روز کا مطالعہ بھی کم خوش نصیبوں کے حصے میں آتا ہے۔ فہم قرآن کا یہ پروگرام‘ اور اس نوعیت کے ہونے والے دوسرے تمام پروگرام جو مختلف افراد‘ تنظیموں اور اداروں کی جانب سے ہو رہے ہیں‘ انتہائی قابلِ تحسین اور وقت کی ضرورت ہیں۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ ایک عام مسلمان قرآن کو خود سمجھے اور اسے اپنی زندگی کا راہنما بنائے۔ مکہ کے باشندوں نے جب قرآن کی یہ دعوت قبول کی تو عرب و عجم ان کے زیرنگیں آگئے‘ آج ہم قرآن کے نام لیوا تو ہیں لیکن ضرورت ہے کہ اس کی دعوت کو قبول بھی کیا جائے۔