جولائی ۲۰۰۴

فہرست مضامین

۱۰ روزہ فہم قرآن کلاسیں ایک دعوتی تجربہ

امجد عباسی | جولائی ۲۰۰۴ | تحریک اسلامی

Responsive image Responsive image

عام طور پر اس قسم کی باتیں سننے میں آتی ہیں کہ یہ دور نفسانفسی‘ مادیت اور مفاد پرستی کا دور ہے۔لوگوں میں بے حسی پائی جاتی ہے۔ رہی سہی کسر ثقافتی یلغار‘میڈیا اور کیبل وغیرہ نے پوری کر دی ہے۔ لوگ معاشی مسائل میں اس بری طرح جکڑے گئے ہیں کہ انھیں کسی اور کام کے متعلق سوچنے یا کرنے کی فرصت ہی نہیں۔

ایسے میں‘ گذشتہ دنوں لاہور میں فہم قرآن کلاس کے ذریعے سے ایک خوش گوار اور ایمان افروز منظر دیکھنے میں آیا۔ کیفیت یہ تھی کہ لوگ بلامبالغہ جوق در جوق فہم قرآن کلاس میں شرکت کے لیے امڈے چلے آرہے تھے‘ شدید گرمی اور حبس کے باوجود ہزاروں لوگوں نے اس میں شرکت کی۔ خواتین‘ حاضری میں سبقت لے گئیں۔

جماعت اسلامی پاکستان کے شعبہ فہم دین کے تحت ۱۰ روزہ فہم قرآن کلاسوں کا سلسلہ گذشتہ کئی برسوں سے جاری ہے۔ ملک کے مختلف شہروں اور قصبات میں پروگرام ہو چکے ہیں۔ لاہور میں ۱۰ روزہ فہم قرآن کلاس کے تین پروگرام: وحدت روڈ‘ سمن آباد اور گلشن راوی میں ماہ مئی اور جون میں ترتیب دیے گئے۔ پروفیسر عرفان احمد چودھری اس کے روح رواں ہیں۔ ان پروگراموں کی تشہیر کے لیے بڑی تعداد میں دعوت نامے‘ ہینڈبل اور اشتہارات پھیلائے گئے۔ مناسب جگہوں پر بینر آویزاںکیے گئے اور بڑے پیمانے پر دعوت دی گئی۔ کارکنان جماعت متحرک ہوئے‘ عوام سے رابطہ کیا گیا اور ان پروگراموں میں ان کی شرکت ممکن بنانے کے لیے بھرپور کوشش کے ساتھ جہاں ممکن ہوا آمدورفت کی سہولت بھی فراہم کی گئی۔ ۱۰ روزہ کلاس کے لیے خصوصی نصاب میں شامل آیات اور احادیث کا انتخاب ایک خاص ترتیب اور حکمت کو پیش نظر رکھ کر کیا گیا ہے۔ تمام شرکا کو اس کا کتابچہ فراہم کیا گیا جو دوران کلاس ان کے سامنے رہا۔ کلاس کے اوقات بعد نماز فجر ۱۵:۵ تا ۳۰:۶ مقررکیے گئے‘ جب کہ عام طور پر فجر کے بعد پروگراموں میں شرکت ایک مشکل امر خیال کیا جاتا ہے۔ارزاں نرخوں پر لٹریچر کی فراہمی کے لیے اسٹال لگائے گئے اور شرکا کو حقیقت اسلام تحفے میں دی گئی۔

اس کلاس کی خاص بات یہ ہے کہ ہر روز حاضرین کی تعداد بڑھتی چلی جاتی ہے۔ آخری پروگرام‘ حاضری اور شرکا کے اعتبار سے اپنی جگہ ایک تاریخ ساز اجتماع ثابت ہوا کہ اس نوعیت کا اتنا بڑا دعوتی اجتماع لاہور میں کم ہی دیکھنے میں آیا ہے۔

پروفیسر عرفان احمد نے اسلام کی دعوت اور قرآن کا پیغام نہایت موثر پیرایے میں پیش کیا۔ ان کی کوشش تھی کہ وہ مخاطبین کا تعلق قرآن سے قائم کر دیں۔ ۱۰ روزہ نصاب میں دین کے تقریباً تمام بنیادی موضوعات شاملِ گفتگو رہے۔ آخری روز غُلِبَتِ الرُّوْم کی تفسیر میں حالاتِ حاضرہ خصوصاً اُمت مسلمہ پر امریکی یلغار اور اسلام کے روشن مستقبل پر بھی خوب تبصرہ ہوگیا۔

درس قرآن کے ساتھ حدیث‘ فقہ اور تجوید کا مختصر پروگرام بھی رکھا جاتا ہے۔ یوں قرآن کی دعوت کو قرآن و حدیث‘ اسوہ رسولؐ اور سیرت صحابہؓ کی روشنی میں اس طرح سے پیش کیا گیا کہ وہ حالات کا تقاضا اور ضرورت محسوس ہوئی۔ سننے والوں کو اپنا ایمان بڑھتا ہوا محسوس ہوتا تھا۔ شرکا محض سامع نہ تھے بلکہ شریکِ گفتگو تھے۔ انھوں نے جانا کہ داعی دین کی حیثیت سے  ان کا فرض ہے کہ قرآن کی دعوت انھیں دوسروں تک پہنچانا ہے۔ لہٰذا سب شرکا اپنی اپنی جگہ داعی بن گئے جس کا ایک واضح اظہار حاضری میں روزانہ اضافہ تھا۔لوگوں میں اس احساس کا بیدار ہونا ہی اس تمام جدوجہد کا حاصل ہے۔

گلشن راوی میں فہم قرآن کلاس کے آخری روز قیم جماعت اسلامی پاکستان سید منور حسن نے بھی خطاب کیا۔ انھوں نے کہا کہ اصل کش مکش معروف و منکر کی ہے۔ ہماری تمام تر توانائیاں اسی جدوجہد میں کھپنا چاہییں۔ یہ پیغام عملاً اقامت دین کا پیغام ہے اور شرکاے قرآن کلاس کے لیے ’ہوم ورک‘ بھی‘ جو اس ایمان پرور پروگرام کے اختتام کے بعد عمربھر انھیں انجام دیتے رہنا ہے۔

آخری روز سب شرکا نے بآواز بلند ایک عہدنامے: ’عزم و دعا‘ کو پڑھا اور اس پر دستخط کیے جس میں ہر ایک نے یہ عزم کیا اور خدا سے استعانت کی دعا مانگی کہ:

میری زندگی کا واحد نصب العین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوئہ حسنہ کے مطابق اللہ کی بندگی‘ اقامت دین اور اللہ کی راہ میں جان و مال سے جہاد کے ذریعے اس کی رضا اور جنت کا حصول ہے۔

میں‘ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت‘ وفاداری کو ہر چیز پر مقدم رکھوں گا۔ فرائض کا پابند اور کبائر سے دُور رہوں گا۔ عدل و احسان اور صلہ رحمی کے رویے پر قائم رہوں گا‘ اور ہر قسم کے کھلے اور چھپے فواحش اور ظلم و زیادتی کے کاموں سے بچوں گا۔

سوچنے کی باتیں

اس دعوتی تجربے سے فکروعمل کے کئی پہلو سامنے آتے ہیں:

  • قرآن کی کشش: قرآن مجید کی کشش آج بھی اسی طرح ہے‘ جس طرح پہلے دن تھی۔ قرآن جس طرح اپنے پہلے سننے والوں کو متاثر کرتا تھا‘ ان پر اثرانداز ہوتا تھا‘ دلوں کی کیفیت کو بدل دیتا تھا‘ لوگ لرز جاتے تھے‘ آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے تھے‘ آج بھی یہ اسی طرح اثرانداز ہوسکتا ہے‘ دلوں کی دنیا کو بدل کر آن کی آن میں ایک نیا انسان بنا سکتا ہے۔ کل بھی لوگ قرآن سننے کے منتظر رہتے تھے اور مخالفین رسولؐ بھی چھپ چھپ کر قرآن سنا کرتے تھے کہ اس کی اپنی ایک لذت ہے۔ آج بھی یہ کیفیت موجود ہے‘ بشرطیکہ قرآن کو اس طرح سے پیش کیا جائے جس طرح کہ اسے پیش کرنے کا حق ہے۔

انسان جن مسائل سے دوچار ہے‘ وہ ان سے نجات کے لیے کسی پایدار حل کی تلاش میں ہے۔ قرآن مجید مختصر جملوں میں ان کا ایسا حل پیش کرتا ہے کہ دل ٹھک کر رہ جاتا ہے۔ یہ قرآن کی تعلیمات ہیں جو انسان کو اس کی اصل حیثیت یاد دلاتی ہیں‘ اس کی کمزوریوں سے اسے آگاہ کرتی ہیں اور پھر اس کو سیدھے راستے کی طرف رہنمائی بھی دیتی ہیں۔ دراصل قرآن انسان کی فطرت کی پکار کا جواب ہے۔ یہی اس کی کشش کا راز ہے۔

  • مدرس کا انداز: اس دعوتی تجربے کی کامیابی کا بڑا سبب پیغام کو پیش کرنے کا مدرس کا مؤثر انداز ہے۔ قرآن کا اسلوب خود تقریری ہے اور اگر سامعین کی نفسیات‘ ذہنی کیفیت‘ علمی سطح‘ دل چسپی‘ پریشانیوں و الجھنوں اور درپیش مسائل کو پیش نظر رکھتے ہوئے عام فہم لیکن جدید اسلوب میں قرآنی تعلیمات پیش کی جائیں تو وہ لازماً اثرانداز ہوتی ہیں۔ سامعین اپنے آپ کو قرآن کا براہِ راست مخاطب سمجھیں‘ اور آیاتِ قرآنی موجودہ حالات پر منطبق ہوں‘ بلکہ یوں محسوس ہو کہ جیسے قرآن آج ان کے لیے نازل ہو رہا ہے‘ یہ کیفیت پیدا کرنے میں مقرر کا انداز بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔
  • عملی جدوجہد میں شرکت: یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ جو بڑی تعداد ذوق شوق سے قرآن فہمی کے پروگراموں میں آئی ہے وہ قرآن سن کر اور واہ واہ کر کے نہ رہ جائیں‘ بلکہ یہ دعوت ان کی زندگیوں میں انقلاب برپا کرے۔ نہ صرف ذاتی کردار کی اصلاح ہو‘ معاملات درست ہوں‘ حقوق کی ادایگی ہو‘ بلکہ اسوہ رسولؐ کی پیروی میں اقامت دین کی منظم جدوجہد میں ان کی شرکت کو یقینی بنایا جائے۔ مقامی نظم پر یہ ذمہ داری عاید ہوتی ہے کہ اس بڑی تعداد کو ساتھ لے اور اپنے ساتھ چلائے۔
  • دعوت عمل: کیا اسی انداز سے قرآن کا پیغام آبادی کے بڑے حصے تک نہیں پہنچایا جا سکتا؟ ہم جانتے ہیں کہ اس اُمت کو عروج اگر نصیب ہونا ہے تو قرآن کے ذریعے ہی ہونا ہے۔ یہی ہمارے مسائل کے حل کی شاہ کلید ہے۔ پھر کیوں نہ قرآن سے شغف رکھنے والے اعلیٰ درجے کے مقرر نوجوان‘ اپنی زبان و بیان کی صلاحیت کو قرآن کا پیغام اپنی قوم تک پہنچانے میں لگائیں‘ اور اسے اپنی زندگیوں کا مشن بنائیں۔ قوم نے قرآن سے تعلق قائم کر لیا‘ توحید و آخرت زندہ تصورات بن گئے تو معاشرے کی خرابیاں بھی دُور ہوں گی اور افراد کو زندگی کا چین اور سکھ بھی ملے گا۔
  • خیر کا عنصر : اس پروگرام میں جس ذوق و شوق سے لوگ بالخصوص خواتین اور نوجوان شریک ہوئے ہیں وہ اس کا ثبوت ہے کہ معاشرے میں‘ ہر طرح کے مفاسد کے باوجود خیر کا عنصر موجود لیکن منتشر ہے۔ ضرورت صرف اسے منظم کرنے اور قوت بنانے کی ہے تاکہ منکر کو شکست دی جائے۔ ہمارے ذرائع ابلاغ منکر کو پھیلانے میں جس طرح بزور مصروف ہیں‘ اس سے حوصلہ شکنی ہوتی ہے‘ لیکن ایسے پروگرام امید کا پیغام ہیں۔ خیر کے علم بردار گھروں میں بیٹھ کر حالات پر تبصرے کرنے کو کافی نہ سمجھیں‘ میدان میں آئیں اور خیر کو منظم اور طاقت ور کریں۔
  • وسائل کی قلت کا مسئلہ : دعوت دین اور فریضہ اقامت دین کی ادایگی کے لیے وسائل کی کمی کو ایک رکاوٹ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے‘ جو اپنی جگہ ایک حقیقت بھی ہے۔ اس پروگرام میں یہ بات بھی مشاہدے میں آئی ہے کہ دعوت کے کام کے لیے وسائل کی کمی کوئی ایسا بڑا مسئلہ نہیں۔ فہم قرآن کلاس کے لیے وسیع پیمانے پر انتظام و اہتمام کیا گیا‘ دعوت نامے‘ ہینڈبل‘ اشتہارات‘ بینر‘ شامیانوں اور کرسیوں وغیرہ کا انتظام‘ ٹرانسپورٹ کا اہتمام‘ لٹریچر اور اسناد و تحائف وغیرہ کی تقسیم--- لاکھوں روپے کے اخراجات تھے جن کے لیے بظاہر وسائل کی فراہمی عملاً ناممکن نظر آتی تھی۔ منتظمین کا کہنا ہے کہ اللہ کے فضل و کرم سے شرکاے کلاس و دیگر اہل ثروت نے خود سے دل کھول کر عطیات دیے اور وسائل کی فراہمی کا انتظام غیرمحسوس طور پر خود بخود ہوگیا۔ لہٰذا اصل ضرورت دعوتی منصوبہ عملاً برپا کرنے کی ہے۔ اگر کام ہوتا ہوا نظر آئے تو وسائل بھی من جانب اللہ فراہم ہو جاتے ہیں۔

قرآن سے تعلق کی اصل بنیاد تو مسلم معاشرے کی یہ روایت ہے کہ ہر بچے کو ابتدا میں ہی قرآن ضرور پڑھایا جاتا ہے۔ لیکن بعد میں عموماً عملی زندگی میں اس سے کوئی تعلق نہیں رہتا۔ روز کا مطالعہ بھی کم خوش نصیبوں کے حصے میں آتا ہے۔ فہم قرآن کا یہ پروگرام‘ اور اس نوعیت کے ہونے والے دوسرے تمام پروگرام جو مختلف افراد‘ تنظیموں اور اداروں کی جانب سے ہو رہے ہیں‘ انتہائی قابلِ تحسین اور وقت کی ضرورت ہیں۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ ایک عام مسلمان قرآن کو خود سمجھے اور اسے اپنی زندگی کا راہنما بنائے۔ مکہ کے باشندوں نے جب قرآن کی یہ دعوت قبول کی تو عرب و عجم ان کے زیرنگیں آگئے‘ آج ہم قرآن کے نام لیوا تو ہیں لیکن ضرورت ہے کہ اس کی دعوت کو قبول بھی کیا جائے۔