جولائی ۲۰۰۴

فہرست مضامین

مدیر کے نام

| جولائی ۲۰۰۴ | مدیر کے نام

Responsive image Responsive image

سید حامد عبدالرحمٰن الکاف ‘صنعا‘ یمن

اشاعت خاص-۲ ملی۔ اس نمبر میں مرکزی حیثیت’’مکاتیب سید‘‘ اور مکتوب بنام قاضی عبدالقادر اور  مکتوب بنام مولانا وصی مظہر ندوی کو حاصل ہے جو خاصے کی چیز ہیں۔ بلوچستان قانون کمیشن کے سوال نامے کے جوابات از مولانا مودودیؒ نہایت اہم اور مربوط تحریر ہے۔ افسوس کے وہ خط جو مولانا نے کمیشن کے صدر کے نام‘ اپنے دستخط سے لکھا‘ اور جس کا ذکر محمد اسلم سلیمی صاحب کے خط بنام ڈاکٹر فضل الٰہی قریشی میں آیا ہے‘ درج نہیں ہے ۔ اگر یہ بھی ہوتا تو یہ مضمون مکمل ہوجاتا۔

ڈاکٹر حسن صہیب مراد کا مضمون اس اعتبار سے اچھوتا ہے کہ اب تک اس موضوع پر کسی نے بھی قلم نہیں اٹھایا ہے۔ یوں وہ ایک غیر دریافت کردہ میدان (unexplored field) کے رائد (pioneer) ہیں۔ اگر اس کو پروفیسر خورشیداحمد کے مضمون: ’’مولانا مودودیؒ: مفکر‘مصلح اور مدبر‘‘ سے ملا کر پڑھا جائے تو خاندان‘ معاشرہ اور جماعت اور ریاست کی تنظیم اور حکمتِ عملی میں شوریٰ‘اطاعت‘ اظہارِ راے کی آزادی‘ احتساب اور بحیثیت مجموعی شورائی نظام حیات‘ خاندان سے ریاست تک کے پیچیدہ مسائل میں بڑی رہنمائی حاصل ہوجاتی ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر خالد علوی کا مقالہ:’ ’تجدید دین حق اور مولانا مودودی ؒ،، پچھلی تجدیدی کوششوں پر  گہرے تبصروں اور ان کی جان دار تحلیل کے ساتھ مولانا مودودیؒ کی کتاب: تجدید و احیاے دین کی مختصرمختصر تحدیث (updating) ہے۔ میرے نزدیک اس کے بعض اجزا کو ترتیب دے کر مذکورہ کتاب کے آخر میں شامل بھی کیا جا سکتا ہے۔

پروفیسر عبدالجبار شاکر نے: ’’سیرت پر ان کی تحریروں کا اسلوب اور منہج ماقبل کے تمام ذخیرئہ سیرت سے جدا اور منفرد تشخص رکھتا ہے‘‘، کہہ کر سیرت پر پچھلی ساری نگارشات پر ایک جامع تبصرہ کر دیا۔ پھر وہ        مولانا مودودیؒ کی سیرت نگاری کے عصرِحاضر میں اثرات کو بھی نہ بھول سکے۔ انھوں نے ۱۲ کتبِ سیرت میں مولانا کے اثرات کی نشان دہی کی ہے۔ ان سے چوک ہوگئی کہ ان کو مولانا صفی مبارک پوری کی عربی زبان میں الرحیق المختوم یاد نہیں رہی۔اس میں بھی مولانا مودودیؒ کے اثرات نمایاں ہیں۔ اس کے ذریعے یہ اسلوبِ تفکر و تحریر عربی سیرت نگاروں کے لیے ایک نمونے کا کام دے سکتا ہے۔

ڈاکٹر محمود احمد غازی: ’’مولانا مودودیؒ اور ابن تیمیہؒ ،، میں لکھتے ہیں: یہی وجہ ہے کہ غزالیؒ اور رازیؒ اور ان کے بعد ابن تیمیہؒ کی تنقیدوں کے جواب میں جو آوازیں منطق اور فلسفے کے دفاع میں اٹھیں ان کو کسی حکومت یا سیاسی قوت کی تائید حاصل نہ تھی… لیکن کیا یہ امر واقعہ نہیں کہ یہ حضرات ایک ایسے فلسفے اور نظریے پر تنقید کر رہے تھے جس کو ہم بلاخوف تردید سیاسی اعتبار سے ایک یتیم فلسفہ قرار دے سکتے ہیں۔ اس کے برعکس جس فلسفے اور نظریے کو مولانا مودودیؒ اور ان کے معاصرین نے تنقید کا نشانہ بنایا ‘ اس کی پشت پر بڑی بڑی مضبوط سلطنتیں اور سیاسی قوتیں موجود تھیں جن کا سوچا سمجھا مطمح نظر اور طے شدہ ایجنڈا ہی یہ تھا کہ اپنی سیاسی قوت کو اپنے نظریات کے فروغ میں استعمال کیا جائے‘‘۔ اس طرح ڈاکٹر محمود احمد غازی اس چیلنج کی گہرائی اور ہمہ گیری ثابت کرنا چاہتے ہیں جو مولانا مودودیؒ کو درپیش تھا۔ مجھے یہاں صرف یہ اضافہ کرنا ہے کہ جس  صورتِ حال کا نقشہ ڈاکٹر صاحب نے کھینچا ہے وہ ابھی ’’تھا‘‘ کے صیغے میں بیان نہیں کی جا سکتی‘ کیونکہ یہ استعماری حکومتیں اور طاقتیں اس وقت سے زیادہ طاقت ور ہوکر افغانستان اور عراق پر قبضہ کر چکی ہیں۔ اب ان کا ایجنڈا یہ ہے کہ ’’وسیع تر شرقِ اوسط‘‘ میں اپنے طرز کے نظام حکم‘ نظامِ تعلیم اور نظامِ ثقافت اور اقتصادی و مالی نظام بالجبر اور بالقوۃ قائم کریں۔

مجھے ڈاکٹر مالک بدری کا موازنہ ’ایک طرح سے غیرمتوازن نظرآیا‘۔ الحمدللہ اخوان مصر‘ شام وغیرہ میں ناقابل برداشت سختیوں کے علی الرغم ابھی تک اپنے اصولوں پر پامردی سے ثابت قدم ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ان کا یہ مشاہدہ سوڈان کی حد تک صحیح ہو‘ مگر اس کو سارے ممالک میں تحریکِ اخوان پر عام کر دینا سراسر زیادتی ہے۔

میرے محسن اور کرم فرما جناب میاں طفیل محمد صاحب اور محترمہ سیدہ حمیرا مودودی کے مضامین قندِمکرر کی حیثیت رکھتے ہیں‘ جن کا مزہ ہر بار کچھ نیا نیا سا لگتا ہے!!


قانتہ رابعہ ‘ گوجرہ

اشاعت خاص-۲ زیرمطالعہ ہے۔ اس میں ’’ہمارے والدین شجر سایہ دار‘‘ سب سے پہلے پڑھا۔ بلاشبہہ یہ ایسی تحریر ہے جو دلوں کے تار ہلا دیتی ہے۔ مثالی لوگ کہلانا اور بات ہے‘ مثالی بن کے دکھانا اور بات۔ مولانا کی صاحبزادی نے اپنے قلم کے جوہر دکھائے‘ یہ صفت انھیں والدین سے ورثے میں ملی۔ ایک آئیڈیل بیوی اور ماں بننے کے لیے کس قدر حوصلے‘ صبر ‘ استقامت اور خدا پر توکل کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ سب کچھ بتاتے ہوئے انھوں نے امیرخسرو اور دیگر شعراے کرام کے اشعار نگینوں کی طرح پروئے ہیں۔ لطف آگیا! محترمہ اپنی قیمتی یادداشتوں کا سرمایہ پڑھنے والوں تک ضرور منتقل کریں۔ یہ ان کے پاس امانت ہے۔


ڈاکٹر ممتاز احمد ‘ امریکا

اشاعت خاص کے دونوں شمارے ملے۔ دوسرا شمارہ علمی مضامین کے حوالے سے‘ اول الذکر سے بڑھ کر ہے‘ تاہم اس میں بھی والہانہ وابستگی سے لبریز تحریریں حاوی دکھائی دیتی ہیں۔ پروفیسر خورشیداحمد کا مضمون: ’’سید مودودیؒ: مفکر‘مصلح اورمدبر‘‘ نہایت فکرانگیز تحریر ہے۔ مالک بدری کا مضمون تجزیے اورمشاہدے کا خوب صورت امتزاج ہے۔ میرے لیے یہ مضمون اس لیے بھی دل چسپی کا باعث ہوا کہ اس میں مذکورہ بہت سے سوڈانی دوستوں سے مجھے تعلق خاطر رہا ہے۔ اس طرح یہ تذکرہ زمانۂ رفتہ کی خوش گوار بازگشت بھی ہے۔ حسین خان اس سے بھی زیادہ مؤثر مضمون لکھ سکتے تھے۔ اس قابلِ قدر اشاعت پر تشکر اور مبارک باد قبول کیجیے۔


ابراہیم حسن‘ لاہور

اشاعت خاص‘ اول دوم ایک اہم علمی اضافہ ہے۔ اس کے ذریعے مولانا محترم کی شخصیت و افکار ایک بار پھر تازہ ہوگئے۔ اس حوالے سے یہ ایک نئی دریافت ہے۔ بالخصوص نئی نسل کے لیے مولانا مودودیؒ کی فکر کو جدید تناظر میں پیش کیا گیا ہے۔ تحریکِ اسلامی کو اب جن مسائل کا سامنا ہے اور آیندہ جو مراحل درپیش ہیں‘ ان کے لیے فکری رہنمائی دی گئی ہے۔ یہ اشاعت اپنے موضوع پر ابتدا ہے‘ بیج کی حیثیت رکھتی ہے۔ امید کی جا سکتی ہے کہ اس کی روشنی میں لوگ مزید لکھنا چاہیں گے۔ یوں علمی و فکری رہنمائی کا یہ سفر صدیوں پر محیط ہوجائے گا۔


ارشد علی آفریدی ‘ خیبرایجنسی

’’نئی صلیبی جنگ کا سب سے مہلک ہتھیار--- تعلیم پر وار‘‘ (جون ۲۰۰۴ئ)‘ میں نظریاتی نظامِ تعلیم اور نصابِ تعلیم کی اہمیت اور ثقافتی یلغار کے ساتھ ساتھ مسلم ممالک کے نظامِ تعلیم کے لیے استعمار کی شیطانی منصوبہ بندی اور نصابِ تعلیم پر یلغار کا بروقت مفصل تجزیہ کیا گیا ہے۔ یقینا یہ بہت حساس مسئلہ ہے اور اُمت مسلمہ کے مستقبل کا سوال ہے۔


چودھری سراج الدین ‘ سرگودھا

’’علم، طاقت اور استعمار‘‘ (جون ۲۰۰۴ئ) کے ذریعے عالمِ عرب کے معروف مفکر مالک ؒبن نبی سے تعارف اور ان کے افکار سے آگاہی ہوئی۔ مولانا مودودیؒ کے علاوہ عالمِ اسلام کے دیگر مفکرین کے افکار دینا بھی مفید ہوگا۔


سلمان عباسی‘ ایبٹ آباد

جون کا شمارہ اہم موضوعات پر فکرانگیز اور چشم کشا نگارشات کا مجموعہ ہے۔ تعلیم‘ نئی صلیبی جنگ کے مہلک ہتھیار‘ عصرِحاضر میں خواتین کے لیے کام کے امکانات‘ عراق میں انسانیت کی تذلیل‘ انڈونیشیا‘ ملایشیا اور الجزائر کے انتخابات اہم مضامین ہیں۔ شیخ احمد یٰسین شہیدؒ اور عبدالعزیز رنتیسیؒ کی زندگی کے چھپے گوشوں نے بہت متاثر کیا۔


اظہر محمد شیخ ‘ اٹک

’’گلستان شہادت میں،فلسطین کے دو پھول‘‘ (جون ۲۰۰۴ئ) چھلکتی آنکھوں کے ساتھ پڑھا۔ فاضل مضمون نگار نے دونوں فلسطینی رہنمائوں کی زندگی کے چھپے گوشے نہایت مؤثر اور دل نشیں انداز میں پیش کیے۔


پروفیسر الطاف طاہر اعوان ‘ سرگودھا

پاک وطن کو غلامی کے شکنجے میں جکڑنے اور تعلیم و تہذیب کو سامراجی عزائم اور استعماری سازشوں  کا شکار کرنے کا جو بھیانک کھیل منافقین اور نام نہاد مسلمانوں کے ذریعے کھیلا جا رہا ہے‘ اس کا پردہ ’’اشارات‘‘ (جون ۲۰۰۴ئ) میں خوب چاک کیا گیا ہے۔ کاش! دردمند اور بہی خواہ اس پر سنجیدگی سے غور کرسکیں۔