افتخار گیلانی


دوحہ میں امریکا اور طالبان کے درمیان، مذاکرات کے از سر نو آغاز کے ساتھ اب یہ یقینی لگ رہا ہے کہ فریقین سنجیدگی کے ساتھ کسی معاہدے کو حتمی شکل دینے میں مصروف ہیں۔ حال ہی میں افغانستان کی حزب اسلامی کے ایک اہم رہنما اور ملکی انتخابات میں نائب صدر کے لیے امیدوار پروفیسر فضل ہادی وزین (شعبہ اسلامیات، سلام یونی ورسٹی، کابل) سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے دھیمے لہجے اور دل کو چھو لینے والے دلائل سے سوالات کے جواب دیے۔
- ان سے پہلا سوال کیا: ’’افغانستان میں امن کے حوالے سے کیا پیش رفت ہورہی ہے اور ’امریکا،طالبان مذاکرات‘ کا کیا مستقبل ہے؟‘‘
پروفیسر وزین نے بتایا: ’’دوحہ میں مذاکرات کا مثبت پہلو یہ ہے کہ فی الوقت فریقین افغانستان میں امن و استحکام کے متمنی ہیں۔ افغانستان نہ صرف جنوبی ایشیا اور وسط ایشیا بلکہ مغربی ایشیا، یعنی ایران کے لیے بھی ایک پُل کا کام کرتا ہے۔ اس لیے افغانستان میں عدم استحکام کا براہ راست اثر پورے خطے پر پڑتا ہے۔ افغانستان سے غیرملکی افواج کا انخلا صرف طالبان ہی کی منزل نہیں ہے، بلکہ افغان عوام میں غیر ملکی مداخلت کے خلاف ایک ماحول سا بن گیا ہے۔ وہ اپنے اندرونی معاملات میں اب بیرونی مداخلت کے قائل نہیں ہیں۔ امریکیوں کو معلوم ہے کہ وہ ۱۸سالہ جنگ ہارچکے ہیں۔ وہ بس ایک باعزت واپسی کا بہانہ ڈھونڈ رہے ہیں۔ مغربی ممالک کی یہ پالیسی کہ بہانہ ایران، ٹھکانہ افغانستان اور نشانہ پاکستان، اب فرسودہ ہو چکی ہے‘‘۔
دوحہ میں طالبان،امریکی مذاکرات کے حوالے سے ان کا کہنا تھا: ’’ملک میں سیاسی جماعتیں خاصی پُرامید ہیں۔ اگرچہ امریکا کے سیماب صفت صدر ٹرمپ نے پچھلے ستمبر میں ان مذاکرات کو منسوخ کر دیا تھا، مگر پس پردہ فریقین روابط قائم رکھے ہوئے تھے۔ ابھی تک امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے دس دور ہو چکے ہیں۔ تاہم، طالبان کو جنگ بندی پر آمادہ کرانے اور انخلا کے ساتھ ساتھ کابل میں ایک وسیع البنیاد حکومت کے قیام پر ابھی تک معاملہ واضح نہیں ہوسکا۔ توقع ہے کہ سمجھوتے میں اب زیادہ وقت درکار نہیں ہوگا ۔ ایسا نہیں ہے کہ امریکا ، طالبان یا افغان عوام کو  کوئی رعایت دے رہا ہے، وہ خو د ہی افغانستان سے جلد از جلد چھٹکارا حاصل کرنا چاہتا ہے‘‘۔
پروفیسر وزین نے  خبردار کیا کہ: ’’امریکا اور طالبان کے درمیان معاہدہ، امن مساعی کے زینے کا بس ایک پہلو ہے، اس کو کئی اور مراحل سے گزرنا ہے۔ اس معاہدے کے فوراً بعد اگر افغانستان کے اند ر فریقین کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ شروع نہیں ہوا، تو ملک ایک بار پھر   خانہ جنگی کی آگ میں جھلس جائے گا۔ اس لیے تمام فریقوں کے لیے لازم ہے کہ ایک حتمی اور پاے دار امن کی خاطر افغانستان کی سبھی سیاسی جماعتوں، طالبان اور کابل حکومت کے درمیان مذاکرات کے سلسلے اور روابط پر دھیان مرکوز رکھیں۔ ورنہ ان امن مساعی کا بھی وہی حشر ہوگا ، جو ماضی میں ہوتا آیا ہے۔ دوسرے مرحلے کے یہ مذاکرات ’امریکا،طالبان مذاکرات‘ سے زیادہ پیچیدہ ہوں گے۔  ان مذاکرات میں ملک کے آئین، نظام حکومت اور دیگر اہم امور کا تعین کیا جائے گا‘‘۔
- ان سے سوال پوچھا: ’’سوویت جنگ کے دوران تو حزب اسلامی اور اس کے قائد گل بدین حکمت یار کا طُوطی بولتا تھا۔ حکمت یار اس کے بعد دو بار وزیر اعظم کے عہدے پر بھی فائزرہے، مگر طالبان کے وجود میں آنے کے بعد وہ اچانک منظرنامے سے غائب ہو گئے اور پھر ۲۰۱۶ء میں دوبارہ کابل میں وارد ہوگئے۔ اس وقت ان کی کیا حیثیت ہے؟‘‘
پروفیسر وزین صاحب نے بتایا کہ ’’حکمت یار منظر نامہ سے غائب نہیں ہوئے تھے۔ وہ بس بیک گراونڈ میں تھے۔ امریکی افواج کی مداخلت اور طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد حزبِ اسلامی ہی حکمت یار کے حکم کے مطابق امریکی افواج سے برسرپیکار تھی، کہ جب تک طالبان نے مجتمع ہوکر دوبارہ طاقت حاصل کی۔ دوسال قبل ہم نے محسوس کیاکہ ملک ایسی جنگ و جدل کا متحمل نہیں ہوسکتا، کہ اس کے حالات کا براہ راست اثر ہمسایہ ممالک خصوصاً پاکستان پر پڑتا ہے۔ اس لیے حکمت یار نے کابل آکر پس پردہ امن کے لیے کوششیں شروع کردیں۔ انھوں نے کافی کام کیا، جن کے نتائج اب آپ کے سامنے ہیں۔ ۲۰۱۹ءکے صدارتی انتخابات سے قبل حکمت یار نے ’امن وعدل اسلامی پارٹی‘ اور اس نئی پارٹی کے ٹکٹ پر انتخابات میں قسمت آزمائی کی۔ افغانستان میں ہر کوئی آپ کو بتائے گا کہ انتخابی مہم کے دوران ، افغانستان کے طول و عرض میں سب سے بڑے اور پر ہجوم جلسے اور جلوس ، اسی پارٹی کے تھے ۔ہم نے ثابت کر دیا کہ ہماری پارٹی کسی خاص نسل اور علاقے کی نمایندگی نہیں کرتی ہے، بلکہ پورے ملک کی نمایندہ تنظیم ہے‘‘۔
- صدارتی انتخابات پر پوچھا : ’’افغانستان میں انتخابات اکثر اختلاف راے کا شکار ہوجاتے ہیں۔ آخر شفاف انتخابات کو روبۂ عمل میں لانے میں کیا رکاوٹ ہے؟‘‘
پروفیسر وزین نے کہا: ’’بیرونی مداخلت ، ذاتی مفادات اور ایک ٹولے کا رویہ ، جو ہرحالت میں اقتدار کے ساتھ چمٹ کر رہنا چاہتا ہے ، اس نے انتخابات کی غیر جانب داری پر سوالیہ نشان کھڑے کر دیے ہیں۔ افغانستان کی ۳ کروڑ ۵۰ لاکھ کی آبادی میں صرف ۵۰ لاکھ افراد نے حالیہ ووٹنگ میں حصہ لیا، جب کہ۷۰لاکھ ۹۰ ہزار افراد نے اپنے آپ کو بطور ووٹر رجسٹر کرالیا تھا۔بیرون ملک مقیم۶۰ لاکھ افغان تارکینِ وطن بھی راے دہی کے حق سے محروم تھے۔ ان کے علاوہ ملک کے اندر بسنے والے ۳۰ لاکھ مہاجرین نے بھی ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ علاوہ ازیں ووٹنگ کا عمل بھی خاصا پیچیدہ تھا۔ کافی ووٹرز حق راے دہی سے محروم رہ گئے۔ علاو ہ ازیں کئی غیر ملکی سفارت خانوں نے کھلے عام اپنے چہیتے امیدواروں کے لیے کام کیا۔ اگر کسی اور ملک میں اس طرح کا کوئی واقعہ ہوجاتا تو ایک طوفان کھڑا ہو جاتا۔ کسی بھی ملک کے جمہوری نظام میں غیر ملکی مداخلت کا مطلب اس کوسبوتاژ کرنا ہے۔ اس کےلیے بین الاقوامی سطح پر سخت قوانین بننے چاہییں۔انتخابی نتائج کچھ بھی ہوں، یہ تناؤ کو کم کرنے میں مدد نہیں کریں گے، بلکہ ان سے مزید بحران پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔ لہٰذا، سبھی فریقوں کو انٹرا افغان مذاکرات کی تیاری کرکے اس پر اپنی توجہ مرکوز رکھنی چاہیے۔ یہ جتنی جلد ہوگا ، افغانستان کے حق میں اتنا ہی اچھا ہوگا ۔ امریکا کے ساتھ مذاکرات کے اختتام پر طالبان کو اس میں شرکت کرنی چاہیے، تاکہ کابل میں حکومت سازی پر اتفاق راے پیدا ہو، اور یہ اتفاق راے کسی بھی بیرونی مداخلت سے پاک ہو‘‘۔
- پروفیسر صاحب سے پوچھا: ’’افغانستان تو فی الوقت بھارت، پاکستان، چین اور امریکا کے درمیان ایک مسابقت کا میدان بنا ہوا ہے۔ وہ آخر کیوں کر اتنی جلدی افغانستان کو بخش دیں گے؟‘‘
موصوف کا کہنا تھا کہ: ’’ہم بھی ان ممالک سے کہہ رہے ہیں کہ افغانستان میں مداخلت بند کردیں۔ جس طرح افغانستان کسی دوسرے ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرتا ہے، آپ بھی افغانستان کی خود مختاری اور آزادی کا احترام کریں‘‘۔
- پھر سوال پوچھا:’’ بھارت کو خدشہ ہے کہ کابل میں طالبان کی واپسی سے اس خطے میں دوبارہ بد امنی پیدا ہوسکتی ہے؟‘‘
پروفیسر وزین نے سخت لہجے میں کہا کہ: ’’طالبان کوئی آسمانی مخلوق تو نہیں ہیں، وہ افغانستان کے شہری ہیں۔ اس ملک پر ان کا اتنا ہی حق ہے، جتنا کسی اور کا ہے۔   ہم سبھی ممالک سے اپیل کرتے ہیں کہ کابل میں اقتدار کے لیے اپنی پسند و ناپسند کو معیار نہ بنائیں ، بلکہ یہ حق افغان عوام کو دیں۔ بلاشبہہ بھارت کے افغانستان کے ساتھ قدیمی تاریخی روابط ہیں اور پاکستان کے ساتھ ہمارے گہرے برادرانہ تعلقات اور مشترکہ مفادات ہیں۔ گذشتہ برسوں میں، بھارت نے افغانستان کی تعمیر و ترقی کے لیے جو سرمایہ کاری کی ہے، افغان عوام میں اس کی پذیرائی ہے، مگر جو کچھ آج کل کشمیر میں ہو رہا ہے، اور اس کی خبریں بھی افغانستان پہنچ رہی ہیں، اس سے افغان عوام خاصے رنجیدہ ہیں۔ دنیا کے دیگر امن پسند عوام کی طرح ان کا بھی بھارت سے مطالبہ ہے کہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے کشمیری عوام کی خواہشات کو مد نظر رکھ کر اس مسئلے کا پاےدار اور منصفانہ حل ڈھونڈ نکال لیں، ورنہ ایک طرف افغانستان میں امن قائم ہو رہا ہے ، تو دوسری طرف اسی خطے کا دوسرا حصہ عدم استحکام کا باعث بنایا جا رہا ہے۔ اس کا خمیازہ ہم سب کو بھگتنا پڑے گا۔ یہ کسی ملک کا اندرونی معاملہ نہیں ہے۔اس خطے کے ممالک کو اس پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے‘‘۔
- میں نے پوچھا: ’’افغانستان میں داعش کے حوالے سے خبروں میں کتنی حقیقت ہے؟
 ان کا کہنا تھا کہ: ’’ایک باضابطہ منصوبے کے ذریعے چند عناصر داعش کا ہوّا کھڑا کرکے غیرملکی افواج کے انخلا کو روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حالانکہ داعش کا افغانستان میں کبھی کوئی وجود نہیں رہا ہے۔ کئی بار ان کو یہاں کھڑا کرنے کی سازشیں ہوئیں، مگر وہ ناکام ہو گئیں۔ امریکی محکمہ   سی آئی اے اور امریکی محکمہ دفاع متضاد بیانات دے رہے ہیں۔ آخر شام اور عراق میں شکست سے دوچار ہونے کے بعد داعش مشرقی افغانستان میں کیسے نمودار ہوگئی؟ اور وہ بھی ایسے علاقے میں جہاں امریکی اور افغان فوج خاصی سرگرم ہے۔ افغانستان ، افغان عوام کا ہے اور وہ اس کا بُرا بھلا سمجھتے ہیں اور اس کی آزادی اور خودمختاری کو برقرار اور بحال رکھنا بھی خوب جانتے ہیں___ افغان باقی کوہسار باقی‘‘۔
ملاقات ختم ہونے پر، پروفیسر وزین کی یہ بات رہ رہ کر کانوں میں گونج رہی تھی: ’’کشمیر کی صورت میں جنوبی ایشیا کے پچھواڑے میں ایک اور افغانستان بنایا جا رہا ہے‘‘، جہاں فی الوقت ۸۰لاکھ سے زیادہ نہتے اور مظلوم عوام اسیری کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ایک لاوا پک رہا ہے، جو کسی بھی وقت پھٹ کر پورے خطے کو لپیٹ میں لے سکتا ہے۔ مسئلہ کشمیر اور اس کےانسانی عوامل کو نظر انداز کرنا کسی کے مفاد میں نہیں ہے۔ جتنی جلد یہ حقیقت عالمی برادری کی سمجھ میں آجائے ، بہتر ہے۔ مانا کہ بھارت ایک بڑی تجارتی منڈی ہے، مگر خود تجارت کے لیے بھی تو امن لازمی ہے۔

۶دسمبر ۱۹۹۲ء کو جب بھارت کے ایودھیا شہر میں بابری مسجد کو مسمار کیا جا رہا تھا، میں   ان دنوں صحافتی شعبے میں کام کا آغاز کرکے بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں ایک زیرتربیت فرد کے طورپر ایک ابلاغی ادارے وابستہ تھا ۔مجھے یاد ہے کہ دن کے گیارہ بجے تک رپورٹر ’ویشوا ہندوپریشد‘ اور ’بھارتیہ جنتا پارٹی‘ کی طرف سے منعقدہ پروگرام کی خبریں بھیج رہے تھے۔ پھر ایک دم سے ایودھیا سے خبروں کی ترسیل کا سلسلہ منقطع ہوگیا۔ رات گئے تک بس کانگریسی حکومتی ذرائع سے یہی خبر آرہی تھی کہ’’ انتظامیہ مسجد کو بچانے کے لیے مستعد ہے اور خاصی تعداد میں مرکزی فورس وہاں بھیجی گئی ہے‘‘۔ اس واقعے سے دودن قبل ہی ریاست اتر پردیش کے وزیرا علیٰ کلیان سنگھ نے سپریم کورٹ میں مسجد کی حفاظت کی حلفیہ ضمانت دی تھی اور عدالت نے ایودھیا میں ہندوئوں کو تقریب کرنے کی اجازت دی تھی۔

ریڈیو سے ہم مسلسل بی بی سی کی نشریات سن رہے تھے۔ رات گئے بی بی سی نے اپنی معمول کی نشریات روک کر اعلان کیا کہ: ’’ سنڈے آبزرور کے نمایندے قربان علی ابھی ابھی ایودھیا سے فیض آباد پہنچے ہیں‘‘۔ ریڈیائی لہروں پر اگلی آواز قربان علی کی تھی۔ جن کا کہنا تھا کہ: ’’بابری مسجد کو مسمار کردیا گیا ہے۔ جس وقت میں ایودھیا سے بڑی مشکل سے جان بچا کر نکلا، اس وقت مسجد کے ملبے پر ایک عارضی مندر کی تعمیر کا کام شروع ہو گیا تھا اور بھگوان رام کی مورتی کو ایک شیڈ کے نیچے اس جگہ منتقل کیا جا رہا تھا ، جہاں چند گھنٹے قبل مسجد کا مرکزی گنبد موجود تھا‘‘۔ اس کے بعد انھوں نے بتایا: ’’مسجد کی طرف چڑھائی کرنے سے قبل صحافیوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر مندر وں اور کئی مکانوں میں بند کر دیا گیا تھا۔ان کے کیمرے توڑدیے گئے تھے۔ کئی صحافیوں کے ساتھ مارپیٹ بھی کی گئی تھی‘‘۔ قربان علی اور بی بی سی کے شہرۂ آفاق نمایندے مارک ٹیلی کو ایک مندر کے بوسیدہ کمرے میں بند کردیا گیا تھا۔ قربان علی نے بتایا: ’’دوپہر کے بعد ہم کو ’ویشوا ہندو پریشد‘ کے لیڈر اشوک سنگھل کے دربار میں پیش کردیا گیا، جس نے ہماری رہائی کے احکامات صادر کر دیے۔ کھیتوں اور کھلیانوں سے ہوتے ہوئے ہم فیض آباد کی طرف روانہ ہوئے، کیونکہ ہندو انتہاپسندوں یا کار سیوکوں نے سڑکوں پر ناکے لگا رکھے تھے اور وہ کسی بھی صحافی کو باہر جانے نہیں دے رہے تھے‘‘۔فیض آباد پہنچ کر انھوں نے دنیا کو بتایا کہ: ’’۱۵۲۸ءمیں مغل فرماںروا ظہیر الدین بابر کے جنرل میر باقی کی تعمیر کردہ تاریخی بابری مسجد مسمار کر دی گئی ہے‘‘۔ 
دہلی میں ہماری رہایش گاہ سے متصل ایک معروف کیمرہ مین سلیم شیخ رہتے تھے۔ ان کا اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ بس نام کا رشتہ تھا ۔ اس کے علاوہ شب برأت کے موقعے پر اپنی والدہ کو یاد کرکے نماز پڑھتے تھے۔ جونہی شب برأت ختم ہوتی تو وہ بوتل نکال کر شراب پینا شروع کردیتے تھے۔ سال بھر اسی طرح گزارتے اور پھر اگلی شب برأت سے ایک روز قبل و ہ بوتل الماری میں  بند کردیتے تھے۔ عید ہو یا کوئی اور دن، ان کو کوئی فرق ہی نہیں پڑتا تھا۔ شب برأت کے متعلق ان کا کہنا تھا کہ: ’’میرے بچپن میں، میری والدہ اس رات بڑے اہتمام سے اور پوری رات عباد ت میں مصروف رہا کرتی تھیں‘‘۔ اس لیے وہ اپنی والدہ کو یاد کرنے کے لیے کچھ گھنٹوں کے لیے مسلمان بن جاتے تھے۔ خیر جونہی بابری مسجد کی شہادت کی خبر نشر ہوئی، تو ہمارے کمرے کے دروازے پر بڑے زور زور سے دستک ہوئی۔ دروازہ کھولنے پر دیکھا کہ سلیم بھائی بوتل پکڑے خاصے غصے میں بھارتی حکومت اور اس کے آئین کو گالیوں سے نواز رہے تھے۔ میری کتابوں کے شیلف سے انھوں نے بھارتی آئین کی کتاب نکال کر اس کو پھاڑا اور پھر نیچے گلی میں لے جاکر آگ کے حوالے کردیا۔ ایک تو وہ پورا علاقہ ہندوؤں کا تھا، دوسرا مجھے کتاب کے تلف ہونے پر بھی افسوس ہو رہا تھا۔ خدشہ  یہ بھی تھا کہ ان کی حرکت سے فساد پھوٹ سکتا ہے۔ خیر ہوگئی کہ رات خاصی بیت چکی تھی اور لوگوں نے بھی ان کی حرکت کو دیکھ کر یہی سمجھا کہ نشے میں دھت وہ اپنی کوئی کتاب جلا رہے ہیں۔

اس موقعے پر یہ واقعہ بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ سلیم شیخ جیسے فرد کو بھی اس دن ا پنی  مسلم شناخت یاد آگئی اور مسجد کی مسماری پروہ اس قدربے چین ہوگیا۔ بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے ایک سابق لیڈر مرحوم جاوید حبیب نے مجھے ایک بار کہا تھا: ’’بابری مسجدکا سانحہ اس خطے کی جدید تاریخ کا یہ چھٹا بڑا واقعہ ہے: lپہلا ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی lدوسرا یہ کہ۱۹۲۰ء میںمہاتما گاندھی کی قیادت میں کانگریس کا نیا آئین اور سوراج کا مطالبہ lتیسرا یہ کہ ۱۹۴۷ء میں تقسیم ہند اور آزادی  lچوتھایہ کہ ۱۹۷۱ء میں بنگلہ دیش کا وجود میں آنا lپانچواں یہ کہ ۱۹۸۴ء میں سکھوں کی مقدس عبادت گاہ گولڈن ٹمپل پرحملہ اور lچھٹا یہ کہ ۱۹۹۲ء میں بابری مسجد کا انہدام‘ جو دراصل اعتماد کا انہدام تھا‘‘۔ (اب اس میں ساتواں واقعہ ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کو ریاست جموں و کشمیر کو تحلیل کرکے اس کو مرکزی انتظام والا علاقہ بنانا، اور اس کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنا ہے)۔

  • بابری مسجد پر ہندوو ٔں کے دعوے کی حقیقت: بھارتی سپریم کورٹ کے پانچ رکنی عدالتی بنچ نے اب ان زخموں کو مزید کرید کر انصاف، قانون و استدلال کے بجاے عقیدے کو بنیاد بناکرمسجد کی زمین، اساطیری و افسانوی شخصیت اور ہندو دیوتا رام للاکے سپرد کرکے، وہاں پر ایک مندر بنانے کے لیے راستہ صاف کردیا۔ تقریباً ایک ہزار صفحات پر مشتمل عدالتی فیصلے کو پڑھتے ہوئے ، مجھے محسوس ہورہا تھا ، کہ جیسے میں کشمیری نوجوان افضل گورو [م:۹ فروری ۲۰۱۳ء ]کو دی گئی، سزاے موت کا فرمان پڑھ رہا ہوں۔ اس فیصلے میں بھی کورٹ نے استغاثہ کے دلائل کی دھجیاں بکھیر دی تھیں۔ حتیٰ کہ یہ بھی لکھا تھا کہ: استغاثہ، افضل گورو کے دہشت گردوں کے ساتھ روابط اور جیش محمد کے ساتھ اس کی قربت و رفاقت ثابت نہیں کر پایا ہے‘‘۔ جب لگ رہا تھا کہ شاید کورٹ اپنے ہی دلائل کی روشنی میں گورو کر بری کردے گی، کہ فیصلے کا آخری پیراگراف پڑھتے ہوئے، جج نے فرمان صادر کیا کہ:’’’ اجتماعی ضمیر‘ کو مطمئن کرنے کی خاطر، ملزم گورو کو سزاے موت دی جاتی ہے‘‘۔

بالکل اسی طرح بابری مسجد سے متعلق فیصلے میں بھی سپریم کورٹ نے ہندو فریقین کے دلائل کا پول کھول کر رکھ دیا۔ ان کی یہ دلیل بھی رد کردی کہ مسجد کسی مندر کو توڑ کر بنائی گئی تھی۔سپریم کورٹ نے بابری مسجد کے اندر مورتیاں رکھنے اور مسجد کو منہدم کرنے کے واقعات کو بھی غیر قانونی اور مجرمانہ سرگرمی قرار دیا ۔ کورٹ نے یہ بھی تسلیم کیا کہ وہاں بابری مسجد ایستادہ تھی، اور جبری طور پر نماز کا سلسلہ منقطع ہوجانے سے مسجد کا وجود ختم نہیں ہوجاتا۔عدالت نے مسجد کے نیچے کسی تعمیر کا تو اشارہ دیا ہے، لیکن یہ بھی کہا ہے کہ محکمہ آثار قدیمہ نے یہ نہیں بتایا کہ مسجد کی تعمیر مندر توڑ کر کی گئی تھی۔   جج صاحبان نے دراصل ہندوئوں کی آستھا، یعنی عقیدے کو اپنے فیصلے کی بنیادبنایا ہے۔ عدالت کا کہنا ہے کہ ’’ہندوئوں کا عقیدہ ہے کہ بھگوان رام کا جنم ’گربھ گرہ ‘، یعنی مسجد کے مرکزی گنبد کے نیچے، عین محراب و منبر کے پاس ہوا تھا ۔’’ایک بار اگر آستھا قائم ہوجائے تو عدالت کو معاملے سے دُور رہنا چاہیے اور عدالت کو عقیدت مندوں کی آستھا اور عقیدے کے معاملے میں مداخلت سے پرہیز کرنا چاہیے‘‘۔
اسی عدالت نے مقدمے کی سماعت سے قبل یہ واضح کیاتھا کہ’’ وہ اس مقدمے کا فیصلہ کسی  عقیدے کی بنیاد پر نہیں بلکہ حقِ ملکیت کی بنیاد پر کرے گی‘‘۔فیصلے کا دل چسپ پہلو یہ ہے، کہ عدالت نے فیصلہ ہندوئوں کے حق میں تو دیا، مگر مسمار شدہ مسجد کی زمین، ہندو فریقین کو دینے کے بجاے ، ’’بھگوان رام کے سپرد کرنے کے احکامات‘‘ صادر کر دیے۔ پھر یہ بھی بتایا کہ ’’چونکہ رام للا، نابالغ ہے، اس لیے اس کی سرپرستی کے لیے حکومت کو ایک ٹرسٹ بنانے کے لیے تین ماہ کا وقفہ دیا جارہا ہے‘‘۔ فریقین پر قانون و نظم کو برقرار رکھنے کی بھی ذمہ داری ڈالی گئی۔کورٹ نے بتایا:’’چونکہ رام للا کی مورتی بابری مسجد کی جگہ پر تعمیر کیے گئے عارضی مندر میں براجمان ہے، اس لیے وہ جگہ  ان کی ملکیت ہے‘‘۔ کورٹ نے رام للا کو یعنی معنوی و اعتباری لحاظ سے ایسی شخصیت قرار دیا ہے، جس پر قانون کے سبھی حقوق و فرائض کا اطلاق ہوتا ہے۔ 
ہندو فریقین ، کورٹ کے اس رخ سے خود بھی حیران ہیں، کہ رام مندر کی تعمیر میں اب وہ وزیر اعظم مودی کے دست نگر ہوں گے۔ٹرسٹ کے ممبران اور رام مندر کے نگرانوں کا تعین مودی کی مرضی سے ہوگا۔ نرموہی اکھاڑہ ، رام جنم بھومی نیاس ، ہندو مہاسبھا ا ور ویشوا ہندو پریشد سے تعلق رکھنے والے سادھو سنتوں اور پجاریوں کی نیند یں اُڑی ہوئی ہیں، جن کی عظیم الشان رام مندر کے کنٹرول اور وہاں زائرین کے چڑھاووں پر حق جمانے کی آس میں رال ٹپک رہی تھی۔

  • عدالتی فیصلہ، قانونی جائزہ:بھارتی سپریم کورٹ ایک آزاد اور خود اختیار اتھارٹی ہی سہی، مگر جب اس طرح کامعاملہ یہاں پہنچتا ہے تو انصاف کی دیوی حقیقت میں آنکھوں پر پٹی باندھ لیتی ہے۔ ۱۹۸۴ء کے آغاز میں معروف وکیل کپل سبل نے چیف جسٹس وائی پی چندرا چوڑ کی عدالت میں زور دار بحث کرکے دلیل دی تھی کہ: ’’جموں و کشمیر نیشنل لبریشن فرنٹ کے بانی مقبول بٹ کی، سزاے موت [۱۱فروری ۱۹۸۴ء] پر عمل درآمدنہیں ہوسکتا ہے، کیونکہ جموں و کشمیر ہائی کورٹ نے سزاکی توثیق نہیں کی ہے‘‘۔ اس سلسلے میں انھوں نے ہائی کورٹ کے رجسٹرار کی دستخط و مہر شدہ سند بھی پیش کی،مگر اٹارنی جنرل کے وکلا نے دلائل کا جواب دیے بغیر بس ایک سادہ ٹائپ شدہ کاغذ  چیف جسٹس کے حوالے کیا ، جس پر کسی کے دستخط نہیں تھے، اور دعویٰ کیا کہ یہ جموں و کشمیر ہائی کورٹ کا توثیق نامہ ہے۔ چیف جسٹس نے اپیل مسترد کی اور بلیک وارنٹ کو مؤخر کرنے سے انکار کردیا۔

سپریم کورٹ کے سبک دوش جج جسٹس گنگولی نے بی بی سی ہندی سروس کو بتایا کہ: ’’ان کے لیے اس فیصلے کو تسلیم کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ قانون کے ایک طالب علم کی حیثیت سے مَیں مانتا ہوں کہ یہ سپریم کورٹ کی ذمہ داری نہیں ہے کہ بھارتی آئین کے وجود میں آنے سے پہلے وہاں کیا موجود تھا۔اگر اس کو عدالتی بحث کا موضوع بنایا جاتا ہے ، تو بہت سے مندروں، مساجد اور دیگر عمارتوں کو توڑنا پڑے گا۔ ہم افسانوی حقائق کی بنیاد پر عدالتی فیصلے نہیں کرسکتے۔‘‘ بھارت کے طول و عرض میں لاتعداد مندر تو بودھ مت اور جین مت کی عبادت گاہوں کو توڑ کر بنائے گئے ہیں۔ آٹھویں صدی میں آدی شنکر آچاریہ [م: ۸۲۰ء] نے جب ہندو مت کے احیا کی خاطر ملک کے طول و عرض کا دورہ کرکے بودھ بھکشووںکے ساتھ مکالمہ کیا، تو بودھ عبادت گاہوں کو مندروں میں تبدیل کرایا۔ اشوکا [زمانہ:۱۴۴-۱۲۰ءق م ]اور کنشکا [زمانہ: ۲۶۸-۲۳۲ ق م ]کے عہد حکومت میں تو بھارت کی کثیر آبادی بودھ مت اختیار کرچکی تھی، تو اس وقت بھارت میں بود ھ آبادی محض ۸۵لاکھ، یعنی کُل آبادی کا صفر اعشاریہ سات فی صد ہی کیوں ہے؟
جسٹس گنگولی نے کہا: ’’اقلیتوں نے نسلوں سے دیکھا ہے کہ وہاں ایک مسجد تھی۔ مسجد کو  توڑ دیا گیا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق وہاں ایک مندر تعمیر ہوگا۔ اس فیصلے نے میرے ذہن میں بہت سے شکوک و شبہات پیدا کر دیے ہیں۔ آئین کے طالب علم کی حیثیت سے مجھے اس فیصلے کو قبول کرنے میں مشکل پیش آ رہی ہے‘‘۔ آئین کی دفعات کی روشنی میں تاریخی مسجد کی حفاظت کرنا سپریم کورٹ کی ذمہ داری ہے۔ لیکن سپریم کورٹ کے فیصلے نے ایک خطرناک نظیر پیش کر دی ہے کہ مسلم دور کی کسی بھی عمارت کو لے کر تنازع کھڑا کیا جاسکتا ہے۔ پھر محکمہ آثار قدیمہ سے کھدائی کرا کے اس کے نیچے کوئی ہندو عمارتی ڈھانچا بتایا جاسکتا ہے۔

فیصلہ سنائے جانے سے چند روز پہلے جس طرح بڑی تعداد میں مسلمانوں سے امن وامان برقراررکھنے اور سپریم کورٹ کا فیصلہ بسر و چشم قبول کرنے کی اپیلیں کی جارہی تھیں اور انھیں جس طرح صبر وتحمل سے کام لینے کے لیے کہا جارہا تھا۔ اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ عدالت یقینا کوئی ایسا فیصلہ صادر کرنے والی ہے، جس پر مسلمانوں کو صرف اور صرف صبر ہی کرنا ہوگا۔ بھارت کے قومی سلامتی مشیر اجیت دوول سے لے کر راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے نفرت بھرے وہ لیڈر تک، جو مسلمانوں کو منہ تک نہیں لگاتے ہیں۔ وہ بھی مسلم لیڈروں ،دانش وروں اور اردوصحافیوں کو کہیں چائے پر اور کہیں کھانے پر بلا کر یہ بتانے کی کوشش کر رہے تھے کہ ’’مسلمانوں کو سپریم کورٹ کے فیصلے کو بے چون وچرا قبول کرنا چاہیے‘‘۔

’آل انڈیا ملّی کونسل‘ کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر محمد منظور عالم کا کہنا ہے: ’’فیصلہ لکھنے کے دوران جج حضرات نے حقائق کو سامنے نہیں رکھا ہے اور خاص طور پر ٹائٹل سوٹ (ملکیت کے مقدمے) کو انھوں نے بنیاد نہیں بنایاہے۔جہاں تک کورٹ کی طرف سے مسلمانوں کو معاوضے کے طور پر ایودھیا میں مسجد تعمیر کرنے کے لیے پانچ ایکڑ زمین دینے کا تعلق ہے، کئی مسلم گروپ اس کو پہلے ہی یہ کہہ کر مسترد کرچکے ہیں کہ خیرات کی زمین پر مسجد نہیں بنائی جاتی۔

عدالت کے فیصلے کا سب سے اہم پہلو وہ ہے جس میں اس نے بابری مسجد کے انہدام کو ایک مجرمانہ فعل قرار دیا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ ’’سیکولرزم، ہندستان کے آئین کی بنیادی روح ہے‘‘۔بابری مسجد انہدام سازش مقدمے کی تحقیقات کرنے والے جسٹس من موہن سنگھ لبراہن نے بھی اپنی رپورٹ میں ’’بابری مسجد انہدام کو ایک منصوبہ بند سازش‘‘ قرار دیا تھا۔  قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ جس وقت سپریم کورٹ میں بابری مسجد کے مقدمے کی سماعت شروع ہونے والی تھی، تو جسٹس لبراہن نے اس بات پر زور دیا تھا کہ ’’سپریم کورٹ کو حق ملکیت کا مقدمہ فیصل کرنے سے پہلے بابری مسجد انہدام سازش کیس کی سماعت کرنی چاہیے،کیونکہ یہ مقدمہ زیادہ اہمیت کا حامل ہے‘‘۔اب،جب کہ سپریم کورٹ نے از خود ’’بابری مسجد کے انہدام کو ایک مجرمانہ سرگرمی‘‘ قرار دے دیا ہے، تو اسے ان لوگوں کے خلاف عدالت میں جاری مقدمے پر بھی غور کرنا چاہیے، جنھوں نے بابری مسجد شہید کی تھی۔

با بری مسجد انہدام کا مقدمہ کچھوے کی رفتار سے چل رہا ہے، جس میں لال کرشن اڈوانی، مرلی منوہر جوشی ،اوما بھارتی ،کلیان سنگھ اور ونئے کٹیار سمیت سنگھ پریوار کے۳۲ لیڈروں کے خلاف فردِ جرم عائد کی جاچکی ہے۔مسلمان با بری مسجد تو کھو چکے ہیں، لیکن وہ ان لوگوںکے خلاف کارروائی ضرور چاہتے ہیں، جنھوں نے قانون ،دستور اور عدلیہ کی دھجیاں اڑاتے ہوئے بابری مسجد کو دن کے اُجالے میں شہید کیا تھا۔ 
ہندی کے ایک معروف صحافی اور سماجی کارکن شتیلا سنگھ نے اپنی ایک حالیہ تصنیف ایودھیا - رام جنم بھومی بابری مسجد وواد  کا سچ میں انکشاف کیا ہے کہ کس طرح تین عشرے قبل ان کی موجودگی میں پرم ہنس رام چندر داس کی قیادت میں فریقین نے ایک فارمولے پر اتفاق کیا تھا۔ ویشوا ہندو پریشد کے سربراہ اشوک سنگھل جب اس فارمولے پر مہر لگانے کے لیے ہندو انتہا پسندو ں کی مربی تنظیم آرایس ایس کے سربراہ بالا صاحب دیورس کے پاس پہنچے ، تو ان کو خوب پھٹکار لگائی گئی۔ دیورس کا کہنا تھا ’’ رام مندر تو ملک میں بہت ہیں، اس لیے اس کی فکر (یعنی رام مندر کی تعمیر) چھوڑ کر اس کے ذریعے ہندو وٗں میں آرہی بیداری کا فائدہ اٹھانا ہے۔‘‘ یعنی اگر معاملہ سلجھ جاتا ہے تو فرقہ وارانہ سیاست کی آگ سرد پڑ جائے گی اور اقتدار تک پہنچنے کا راستہ بند ہوجائے گا۔

  • انصاف کی نفی اور ہندو ذہنیت: بابری مسجد کا معاملہ سب سے پہلے۱۸۵۳ء میں فیض آباد کی عدالت کے سامنے آیا، جب ایک ہندو مہنت نے دعویٰ کیا کہ ’’مسجد کے گنبداور محراب کے پاس کئی لاکھ سال قبل بھگوا ن رام پیدا ہوئے تھے‘‘۔ برطانوی جج نے کئی سماعتوں کے بعد اس دعوے کو خارج کر دیا۔ اس کے بعد ۱۹۴۹ء میں مقامی وقف بورڈ اور ایک شخص ہاشم انصاری نے کورٹ میں فریاد کی ، کہ ’’رات کے اندھیرے میں چند افراد نے دیوار پھلانگ کر محراب کے پاس ایک مورتی رکھ دی ہے، لیکن مقامی انتظامیہ نے مورتی کو ہٹانے کے بجاے خود مسجد ہی پر تالہ لگاکر مسلمانوں کی عبادت پر پابندی لگادی ہے۔ کورٹ سے درخواست ہے کہ اس جگہ کی ملکیت طے کی جائے‘‘۔ ضلعی عدالت میں کئی برسوں تک اس قضیے پر جب کوئی کارروائی نہیں ہوئی تو اس کو الٰہ آباد ہائی کورٹ کے سپردکر دیا گیا۔ جس نے ۲۰۱۰ء میں ایک ایسا عجیب و غریب فیصلہ سنایا کہ جس نے کسی بھی فریق کو مطمئن نہیں کیا۔ فریقین نے اس کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر دی۔

بابری مسجدکی شہادت میں عدلیہ اور انتظامیہ نے بھرپور کردار ادا کرکے اپنی فرقہ وارانہ ذہنیت کا پول کھول دیا ۔ اعتبار کی رہی سہی کسر ۳۰ دسمبر ۲۰۱۰ء کو الٰہ آباد ہائی کورٹ کے تین ججوں کے بنچ نے اس وقت پوری کر دی، جب برسوں فریقین کے دلائل سننے کے بعد قانون اور شواہد کو بالاے طاق رکھ کر ایک فریق کے عقیدے اور یقین کو بنیاد بناتے ہوئے بابری مسجد پر حق ملکیت کا فیصلہ ہندوئوں کے حق میں سنا دیا۔ ایک جج نے زمین کے بٹوارے کی تجویز دی۔ بنچ نے ان نکات پر بھی فیصلہ دیا، جو شاملِ بحث ہی نہ تھے۔ یہ ایک سیدھا سادا سا ملکیتی معاملہ تھا۔ ۱۹۴۹ء کو جب مسجد کے منبر پر مورتی رکھی گئی اور مقامی انتظامیہ نے تالہ لگا کر مسلمانوں کی عبادت پر پابندی لگائی، تو مقامی وقف بورڈ اور ایک شخص ہاشم انصاری نے اس کے خلاف کورٹ میں فریاد کی کہ اس جگہ کی ملکیت طے کی جائے۔ جج صاحبان نے برسوں کی عرق ریزی کے بعد قانون اور آئین کی پروا کیے بغیر کہا کہ ’’ Law of Limitations کا اطلاق ہندو دیوی دیوتائوں پر نہیں ہوتا ہے اور نہ ان جگہوں ہی پر ہوتا ہے جہاں ان کی نشانیاں ہوں۔ دوسرے لفظوں میں کسی بھی جگہ پر کوئی شخص کوئی مورتی، چاہے وہ پتھرکا ٹکڑا یا کسی درخت کی شاخ یا پتا ہی کیوں نہ ہو، رکھ کر اس پر مالکانہ حقوق جتاسکتا ہے، چاہے اس جگہ کا مالک وہاں صدیوں سے ہی مقیم کیوں نہ ہو۔

اس فیصلے کا اعتبار اُس وقت اور بھی مضحکہ خیز ہو جاتا ہے جب جج صاحبان نے یہ تسلیم کرلیا کہ ’’بھگوان رام کا جنم اسی مقام پر ہوا تھا جہاں بابری مسجدکا منبر واقع تھا‘‘ اور یہ بھی کہا کہ ’’ان کے مطابق رام آٹھ لاکھ سال قبل مسیح میں اس جگہ پر موجود تھے‘‘۔ دنیا بھر کے تاریخ دان اور آثارِ قدیمہ کے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ ’’جنوبی ایشیا میں اتنی پرانی آبادی کے کوئی آثارابھی تک نہیں ملے ہیں‘‘۔ ہائی کورٹ کے جج صاحبان نے اپنے طویل فیصلے میں مسلم حکمرانوں کے خلاف بھی ایک لمبا چوڑا تبصرہ کیا اور ان کے ہاتھوں ہندو عبادت گاہوں کو نقصان پہنچانے کے عمل کو بھی اپنے فیصلے کا جواز بنایا۔ اگر یہ بات درست ہے تو ہندو حکمرانوں کے ذریعے لاتعداد بودھ خانقاہوں کی بے حرمتی اور ان کی مسماری کس کے کھاتے میں ڈالی جائے؟ کشمیر کے ایک ہندو بادشاہ ہرش دیو نے اپنے خالی خزانوں کو بھرنے کے لیے جنوبی کشمیر کے مندروں کو لوٹا اور جب پجاریوں نے مزاحمت کی تو ان کو تہہ تیغ کر دیا۔ اگر ان تاریخی واقعات کا انتقام موجودہ دور میں لینے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے، تو اس کا اختتام کہیں نہیں ہو گا کیونکہ ہر قوم نے، ماضی میں جب وہ غالب رہی، کوئی نہ کوئی ایسی حرکت ضرور کی جو کسی نہ کسی کو تکلیف پہنچانے کا سبب بنی۔ تاہم، اب آباواجداد کے گناہوںکی سزا ان کی اولادوں کو تو نہیں دی جا سکتی۔

  • بابری مسجد اور مسجد شہید گنج کی مثال:   بابری مسجد کے قضیے کا لاہورکی مسجد شہید گنج مقدمے کے ساتھ موازنہ کرنا بے جا نہ ہو گا۔ یہ مقدمہ اور اس پر پاکستانی مسلمان معاشرے کا رویہ ہندستان کے سیکولرزم او ر اس کے لبرل اقدار پر ایک زوردار طمانچا ہے۔ ۱۷۶۲ء میں لاہور پر سکھوں کے قبضے کے بعد اس مسجد پر ان کے فوجیوں نے ڈیرا ڈالا اور پھر اس کوگوردوارہ کے   طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا۔ مسلمان ۱۸۵۰ء سے ۱۸۸۰ء تک قانون کے مختلف دروازوں پر دستک دیتے رہے، مگر ہر بار عدالتیں ان کی اپیلوں کو خارج کرتی رہیں۔ ۱۹۳۵ء میں انگریز گورنر نے اس عمارت کو محکمہ آثار قدیمہ کے سپرد کرنے کی تجویز دی تھی کہ سکھوں نے رات کے اندھیرے میں مسجد کی عمارت ڈھا دی۔ مسلم لیگ کے اراکین نے پنجاب اسمبلی میں قانون سازی کے ذریعے یہ جگہ مسلمانوں کے سپرد کرنے کی تجویز پیش کی۔ معروف قانون دان اے جی نورانی [پ:۱۹۳۰ء] کے بقول: ’’قائد اعظم محمد علی جناح نے اسے رد کر دیا‘‘، اور پھر جناح صاحب نے اس قضیے کو کبھی سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہیںکیا، بلکہ قانون کی عمل داری کا پاس کیا۔ پاکستان بننے کے ۷۲ سال بعد بھی یہ گوردوارہ لنڈا بازار میں آب و تاب کے ساتھ کھڑا ہے،حالانکہ کوئی سِکھ اب اسے عبادت کے لیے استعمال بھی نہیں کرتا۔ ۱۹۴۷ء کے بعدامکان تھاکہ اس کو دوبارہ مسجد میں تبدیل کیا جاسکتا ہے، مگر کسی پاکستانی سیاست دان یا مذہبی شخصیت نے عدالت کا فیصلہ رد کرنے کی کوشش نہیں کی۔ 

اس کے برعکس بھارتی عدلیہ کی جانب داری کا عالم یہ ہے کہ ایک سابق چیف جسٹس جے ایس ورما نے ’ہندوتوا‘ کو مذہبی علامت کے بجاے بھارتی کلچرکی علامت اور ایک نظریۂ زندگی بتایا۔ انھوں نے ہندو انتہا پسندوںکے گورو ہیڈگیوار [م: ۱۹۴۰ء] ، ساورکر [م:۱۹۶۶ء] یا گولوالکر [م:۱۹۷۳ء]کی تصنیفات کے بجاے مولانا وحیدالدین خان کی تحریروںپر تکیہ کر کے ہندو انتہا پسندی کو ایک جواز فراہم کردیا۔ ۱۹۹۲ء میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس وینکٹ چلیا کے طریقۂ کار نے بھی مسجد کی مسماری کی راہ ہموارکی۔ وہ مسجد کو بچانے اور آئین و قانون کی عمل داری کو یقینی بنانے کے بجاے کار سیوکوں (مسجد کو مسمار کرنے والے) کی صحت کے بارے میں زیادہ فکرمند تھے۔ ۱۹۹۸ء میں بی جے پی حکومت نے انھیں ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیشن کا سربراہ مقرر کر دیا۔

اے جی نورانی نے اپنی کتابDestruction of Babri Masjid: A National Dishonour میں کئی حقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کانگریس کے اندرا گاندھی کے دور اقتدارمیں ہی بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر کی تعمیر کی راہ ہموار کرنے کے لیے ویشوا ہندو پریشد کے ساتھ ایک سودے بازی ہوئی تھی۔اگرچہ پریشد نے اندرا گاندھی کی ہلاکت [۱۹۸۴ء] کے بعد اپنی تحریک روک دی، مگر راجیو گاندھی نے اس ڈیل کو پھر زندہ کیا۔ ان کے حواریوں نے ایک مسلم مطلقہ خاتون شاہ بانو کا قضیہ کھڑا کیا اور پارلیمنٹ سے ایک قانون پاس کروایا کہ مسلم پرسنل لا میں عدالت کوئی ترمیم نہیں کر سکتی۔ راجیو گاندھی کو مشورہ دیا گیا تھا کہ اس قضیے کو کھینچنے کا کو ئی فائدہ نہیں ہے، مگر وہ مسلمانوںکو بے وقوف بنانے پر تلے ہوئے تھے تاکہ پریشد کے ساتھ سودے بازی کو آگے بڑھایا جاسکے اور یہی ہوا۔کانگریس کے علاوہ دیگر جماعتوں سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی، جن کی سانسیں ہی مسلمانوں کے دم سے ٹکی ہیں، ان کا رویہ بھی افسوس ناک رہا۔ ان دونوں پارٹیوں نے جو پچھلے ۲۰برسوں سے اتر پردیش میں حکومت کر رہی تھیں ، بابری مسجد کی مسماری کے ملزمان کے خلاف کارروائی کرنے میں کوئی دل چسپی نہیں دکھائی۔

سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے ۴۰روز تک مسلسل اس معاملے کی سماعت کی، جس کے دوران عدالت میں ۱۱ہزار۵ سو دستاویزات پیش کی گئیں۔ان میں کئی دستاویزات سنسکرت اور فارسی میں تھیں۔ اتر پردیش کے الٰہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف جب اپیل کو سپریم کورٹ نے سماعت کے لیے منظور کیا، تو الٰہ آباد سے ۱۵ بڑے ٹرنکوں میں دستاویزات دہلی پہنچا دی گئیں۔ ہائی کورٹ کا ٖفیصلہ ۸ہزار ایک سو ۷۰ صفحات پر مشتمل تھا اور اس کے ساتھ ۱۴ہزار ۳سو ۸۵ صفحات بطور ضمیمہ منسلک تھے۔ مسلم فریق کے وکلا نے باربار یہ دلیل دی کہ بابری مسجد کا معاملہ  ایک سیدھا سادہ ملکیتی معاملہ ہے۔ وہاں پر مندر یا مسجد طے کرنے کا معاملہ شاملِ بحث ہی نہیں ہے۔

میجر جنرل الیگزندر کنیگہم کے مطابق ۱۵۰۰ قبل مسیح میں اس شہر کو تباہ و برباد کردیا گیا تھااور پھر ۱۳۰۰برسوں تک یہ غیر آباد رہا۔تب تک نہ عیسائی اور نہ مسلمان ہی جنوبی ایشیا میں آئے تھے۔ اس دورا ن دریاے سورو نے بھی کئی رخ بدلے ہوں گے۔ آخر اب یہ کیسے طے ہوسکے گا کہ  بھگوان رام کئی لاکھ برس قبل اسی مسجد کے محراب کے پاس پیدا ہو گئے تھے؟ مسلم فریقین کے وکیل راجیو دھون نے کورٹ کو بتایا کہ صرف پچھلے ۵۰۰برسوں میں ہی دریا نے کئی رخ بدلے ہیں۔ بینچ کے ایک رکن جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ نے ہندو فریقین سے کہا کہ ’’دنیا کا ایک دستور ہے کہ تہذیبیں دریا کے کناروں پر بستی چلی آ ئی ہیں، اور برباد ہوئی ہیں۔اب آپ کیسے یہ ثابت کریں گے کہ مسجد کے نیچے کے کھنڈرات کسی عبادت گاہ کے ہی تھے اور وہ بھگوان رام کی رہایش گاہ بھی تھی‘‘۔ جب جج نے ہندو فریق نرموہی اکھاڑہ کو زمین کی دستاویزات فراہم کرنے کو کہا، تو ان کا جواب تھا: ’’یہ نزول زمین ہے، مگر ٹیکس ریکارڈ میں یہ اکھاڑہ کی جایداد ہے‘‘۔ جب جج نے ٹیکس ریکارڈ مانگا تو جواب ملا:’’ ۱۹۸۲ء میں ایک ڈکیتی کی واردات میں وہ ضائع ہو گیاہے‘‘۔

  • مصالحت کی کوششیں: سپریم کورٹ نے سماعت سے قبل معاملے کو ایک تین رکنی ثالثی کمیٹی کے حوالے کرکے عدالت کے باہر فریقین کو کسی تصفیے تک پہنچنے کی ہدایت کی۔سابق جج جسٹس خلیفۃ اللہ کی قیادت میں ہندو گورو سری روی شنکر اور ایڈووکیٹ سری رام پنچو پر مشتمل اس کمیٹی نے فریقین کے ساتھ کئی ملاقاتیں کی، جو بے سود رہیں۔ اس کمیٹی کی کارروائی خفیہ رکھنے کی ہدایت دی گئی تھی اور میڈیا کو بھی اسے کور کرنے سے منع کردیا گیا تھا۔ تاہم، جو خبریں اب چھن چھن کر آرہی ہیں، ان کے مطابق ایک مسلم فریق ’سنی وقف بورڈ‘ نے بابری مسجد کے معاملے سے دست برداری کی پیش کش کی تھی اگر حکومت اور ہندو فریقین چند شرائط تسلیم کرتے ہیں۔ ان میں ایودھیا کی کچھ مسجدوں کی مرمت کے علاوہ محکمہ آثار قدیمہ کے زیر انتظام مسجدوں میں عبادت کی منظوری اور تمام مذہبی مقامات پر ۱۹۴۷ءسے پہلے والی صورت حال برقرار رکھنے کے قانون کے نفاذ کی شرط بھی شامل تھی۔ جس کو ۱۹۹۱ء میں وزیراعظم نرسمہا رائو حکومت نے تسلیم اور منظور کیا تھا۔ 

معروف صحافی معصوم مراد آبادی کے بقول: ’’ان میں آثارقدیمہ کے زیر انتظام سیکڑوں تاریخی مسجدوں میں نماز کی آزادی دینے کی شرط سب سے اہم تھی۔ دہلی سمیت ملک کے مختلف شہروںمیں موجود مسلم دورحکومت کی تعمیرشدہ یہ مساجد زبانِ حال سے اپنی بے کسی کا نوحہ بیان کررہی ہیں، جہاں سیاحوں کو جوتوں سمیت گھومنے کی تو آزادی ہے، لیکن مسلمانوں کو نماز پڑھنے کی اجازت نہیں ہے۔اس کے علاوہ وشوا ہندو پریشد نے تین ہزار مسجدوں کی فہرست بنارکھی ہے، جو اس کے خیال میں مندروںکو توڑ کر بنائی گئی ہیں۔ بابری مسجد کے بعد وہ ان مسجدوں کے معاملے کو اٹھا کر عوامی جذبات بھڑکا نے کے لیے پوزیشن بنائے بیٹھے ہیں۔ اکھاڑہ پریشد نے تو پہلے ہی دھمکی دی ہے کہ رام مندر کے بعد اب کاشی اور متھرا کے لیے بھی تحریک تیز کی جائے گی‘‘۔

بتایا جاتا ہے کہ مذکورہ کمیٹی کے سامنے ایک اور تجویز یہ آئی تھی کہ ’’اگر حکومت آئین کی  دفعہ ۳۴۱ میں ترمیم کرکے عیسائیت یا اسلام اختیار کرنے والے دلتوںکے لیےکوٹہ برقرار رکھتی ہے، تو اس صورت میں بھی مسلمان مسجد سے دست بردار ہو سکتے ہیں‘‘۔ اس شق کی رُو سے ’’اگر کوئی دلت [شودر]، اسلا م یا عیسائیت اختیار کرتا ہے، تو وہ تعلیمی اداروں اور نوکریوں میں ریزرویشن [کوٹا]کا حق کھو دیتا ہے‘‘۔ یہ شق ہندو مذہب کے پس ماندہ طبقات اور نچلی ذاتوں کو تبدیلی مذہب سے روکنے کے لیے آئین میں رکھی گئی ہے۔ اس شرط کو ہندو فریقین نے خارج کردیا۔ ان کو خدشہ پیدا ہوا کہ اگرآئین کی اس شق میں ترمیم کی جاتی ہے، تو دلت اور دیگر نچلی ذاتوں کے ہندو عیسائیت یا اسلام کی طرف جوق در جوق رجوع کرسکتے ہیں۔ تاہم، معصوم مراد آبادی کے مطابق ’’اگر کسی بھی نوعیت کی وقتی شرطوں پر بابری مسجد طشتری میں سجا کرہندوؤں کو پیش کردی گئی، تو بھارت میں مسلمانوں کی مذہبی شناخت خطرے میں پڑ جائے گی‘‘۔

بابری مسجد کے مقدمے میں مسلمانوں کی پیروی ایک ہندو وکیل راجیو دھون نے کی اور اس خدمت پر کوئی پیسہ وصول نہیں کیا ۔سپریم کورٹ میںسماعت کے آخری دن ایک ہندو فریق نے رام مندر کا ایک فرضی نقشہ پیش کر کے عدالت کو گمراہ کرنا چاہا تو راجیو دھون نے بھری عدالت میں اس نقشے کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے اور کہا: ’’بابری مسجد پر عدالت کا فیصلہ یہ طے کرے گا کہ کیا اصولِ حکمرانی میں عقیدے کو استدلال پر فوقیت حاصل ہے؟ استدلال کو عقیدے پر فوقیت دی جانی چاہیے‘‘۔ اپنی بحث سمیٹتے ہوئے راجیو دھون نے عدالت کے سامنے علامہ اقبال کے یہ شعر بھی پڑھے:

وطن کی فکر کر نا داں مصیبت آنے والی ہے
تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں

نہ سمجھو گے تو مٹ جائو گے اے ہندستاں والو
تمھاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں

پاکستان کے ایک سابق سفارت کار اشرف جہانگیر قاضی نے حال ہی میں اپنے ایک مضمون میں پاکستان کو کشمیر کی صورت حال کے حوالے سے ایک متبادل راستہ اختیار کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ: ’’کشمیریوں کو اپنے حال پر چھوڑ کر ، سفارتی محاذ پر کوششیں جاری رہنی چاہییں‘‘۔ اور ساتھ ہی انھوں نے ان کاوشوں کو بے مصرف قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ ’’پاکستان میں  کئی حلقے اسی راستے کو اپنانے کی وکالت کرتے ہیں، تاکہ ملک کو کسی امکانی بحران سے بچایا جاسکے‘‘۔ ان کے مطابق: ’’حکومت کے اندر بھی کئی مقتدر حلقے اس پالیسی کی تائید کرتے ہیں‘‘۔
 اگر یہ محض کسی کالم نویس یا کسی ’تھنک ٹینک‘ کے دانش ور کی اختراع ہوتی، تو اس بات کو نظرانداز کیا جاسکتا تھا، یا اس کو قلم کار کے ذاتی خیالات سمجھ کر بے حیثیت قرار دیا جاسکتا تھا۔ تاہم، ایک زیرک سفارت کار ، جو بھارت میں انتہائی مخدوش حالات میں پاکستان کی نمایندگی کر چکا ہو اور  عالمی سفارت کاری میں بھی نام کما چکا ہو، کی طرف سے اس طرح کا مشورہ دینے سے یہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے، کہ پسِ پردہ ضرور کوئی کھچڑی پک رہی ہے۔ جس پہ رد عمل دیکھنے کے لیے قاضی صاحب کو میدان میں لایا گیا ہے۔ سفارت کاری یا حکومتی معاملات میں جب بھی کوئی ایسا غیرمتوقع یا سخت فیصلہ لینا ہوتا ہے، تو ’باوثوق ذرائع‘ کے حوالے سے یا کسی ایسے ہی سابق سفارت کار یا فوجی افسر کے ذریعے میڈیا میں اس کی تشہیر کی جاتی ہے۔ اگر رد عمل نا موافق ہوا، تو اس کو قلم کار کی ذاتی راے بتا کر حکومت کے ذمہ داران اپنا دامن چھڑا  لیتے ہیں۔ دوسری صورت میں اس کو پالیسی کا جز بنا لیا جاتا ہے۔

پاکستانی ہائی کمشنر ریاض حسین کھوکھر [۱۹۹۲ء-۱۹۹۷ء] کی ایک جارحانہ سفارت کاری کے بعد ۱۹۹۷ء سے ۲۰۰۲ء تک قاضی صاحب نئی دہلی میں پاکستان کے ہائی کمشنر [سفیر] کے طور پر تعینات رہے۔ نئی دہلی میں ان کی آمد بالکل ایسی تھی کہ جیسے ایک سوکلومیٹر کی رفتار سے دوڑتی گاڑی ایک دم ۲۰ کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار پر آجائے۔ پاکستانی سفارت کاری میں ان کو سفارتی دستاویزات کی تدوین میں الفاظ کےبرتائو میں کمال حاصل ہے۔ ان کی دہلی آمد کے ایک سال بعد ہی اٹل بہاری واجپائی کی قیادت میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی پہلی حکومت معرض وجود میں آئی۔ جس وقت واجپائی کی پہلی حکومت ۱۳ماہ بعد پارلیمنٹ میں ایک ووٹ سے شکست سے دوچار ہوئی، تو اس وقت وہ بھارتی پارلیمنٹ میں سفارت کاروں کے لیے مخصوص گیلری میں موجود تھے۔ چونکہ سفارتی گیلری اور پریس گیلری متصل ہے، مجھے یاد ہے کہ وہ اس کے کنارے پر آکر صحافیوں سے پوچھ کر تصدیق کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ ’کیا واقعی واجپائی حکومت گر گئی ہے؟ ‘

جہانگیر قاضی کے دور میں بھارتی وزیراعظم واجپائی کا لاہور کا دورہ، کرگل جنگ اور پھر پاکستان میں وزیراعظم نواز شریف کی معزولی اور جنرل پرویز مشرف کی آمد، آگرہ مذاکرات اور بھارتی پارلیمنٹ پر ’حملے‘ جیسے اہم واقعات وقوع پذیر ہوئے۔ بھارتی پارلیمان پر حملے کے بعد ان کو بھارت چھوڑنے کا حکم دیا گیا۔ انھی کے دور میں حریت کانفرنس میں لیڈروں کے درمیان اختلافات شدید ہوگئے تھے، جو بعد میں اس کی تقسیم کا سبب بن گئے۔ مرحوم عبدالغنی لون ، اس کی ایک وجہ اشرف جہانگیر قاضی کو بھی قرار دیتے تھے۔

ریاض حسین کھوکھر کے برعکس حُریت کے لیڈروں سے ان کا برتاؤ ، روایتی افسرشاہی جیسا ہوتا، جو کئی مواقع پر لیڈروں کو ناگوار گزرتا تھا۔ ایک قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ معروف صحافی کرن تھاپر کے ذریعے انھوںنے ان دنوں طاقت ور بھارتی لیڈر نائب وزیر اعظم لال کشن ایڈوانی تک رسائی حاصل کی تھی اور کئی بار کرن تھاپر کی گاڑی میں ان کی رہایش گاہ پر خفیہ ملاقاتیںکی تھیں۔ وہ شاید ایڈوانی کے ذریعے ایک بیک چینل بنانے کی کوشش کر رہے تھے ، کہ پارلیمنٹ پر حملے نے اس کو ناکام بنادیا اور یہ بیک چینل ان کے کسی کام نہ آیا۔ سب سے پہلے ان کو ہی ملک چھوڑنے کا حکم دیا گیا۔ 

اشرف جہانگیر قاضی نے پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کو مشورہ دیا ہے کہ ’’میری آؤٹ آف بکس تجویز پر عمل کرکے، جس طرح واجپائی نے لاہور آکر دنیا کو حیران و پریشان کردیا تھا،  اسی طرح وہ بھی نئی دہلی جاکر دنیا کو ششدر کردیں اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ ایک مشترکہ بیان جاری کریں، جس میں ماحولیات کو ناقابل تلافی نقصانات سے بچانے کی خاطر ایک مشترکہ لائحہ عمل کا تعین کرنا اور دہشت گردی کو ختم کرنے کے حوالے سے عہد و پیمان باندھنا ، کشمیر پہ کسی حل پر بات چیت ، جو فریقین کو منظور ہو، میڈیا میں ایک دوسرے کے خلاف پراپیگنڈا کم کرنا وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی تجاویز میں ’لائن آف کنٹرول پر اعتماد سازی کے اقدامات، تجارت کی بحالی ، سرمایہ کاری اور باہم کانفرنسوں وغیرہ کا احیا‘ کا بھی ذکر ہے۔
 یہ معلوم نہیں کہ یہ تجاویز کسی ذریعے سے بھارت کو بھیجی گئی ہیں یا نہیں، مگر آثار و قرائن بتارہے ہیں کہ پاکستان کا پورا زور مذاکرات کے سلسلے کی بحالی پر لگا ہوا ہے۔ ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کو مودی حکومت نے جس طرح ریاست جموں و کشمیر کی ’خصوصی حیثیت‘ کو نہ صرف ختم کیا، بلکہ ریاست ہی تحلیل کردی، لگتا ہے کہ اسلام آباد میں حکمران طبقے اب اس کو تقریباً ’حقیقت حال‘ تسلیم کرنے لگے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا کے ممالک نے سرکاری طورپر بہت زیادہ رد عمل نہیں دکھایا، مگر غالباً ۱۹۹۰ء کے بعد پہلی بار کشمیر کو عالمی میڈیا اور سول سوسائٹی گروپوں نے خوب کوریج دی۔ 

حکومتوں کو چھوڑ کر ان ممالک میں موجود سول سوسائٹی گروپوں، خواتین اراکین پارلیمان اور بچوں سے متعلق حقوق کی تنظیموں پر کام کرکے ان کو فعال کیا جاسکتا تھا۔ مغربی ممالک میں  یہ بطور ایک مؤثر پریشر گروپ کے کام کرتے ہیں۔ بھارت کے ساتھ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے تعلقات کا فائدہ اٹھاکر ان ممالک کو پس پردہ ثالثی کے کردار کے لیے آمادہ کیا جاسکتا تھا۔ کیونکہ جب بھی مذاکرات کا سلسلہ شروع ہو، تو بجاے اشرف جہانگیر قاضی کی متعلق اور غیرمتعلق تجاویز کے، یہ صرف اور صرف جموں و کشمیر کے تنازعے کے حتمی حل کے سلسلے میں ہی ہونے چاہییں۔ 

جہانگیر قاضی کا مزید کہنا ہے کہ ’’پاکستان کو اپنے اعصاب پر قابو رکھنے کی ضرورت ہے، اور اسے تمام محاذوں پر اپنے کام کو صاف کرنا ہوگا۔ استحکام اور خوش حالی کے حصول کے لیے اسے سیاسی، معاشی اور معاشرتی طور پر اپنے آپ کو تبدیل کرنا ہوگا ، تاکہ دنیا کے سامنے ایک مثبت تاثر پیش کرسکے، جس سے اس کے نقطۂ نظر کو دنیا میں وقعت ملے، مگر ان میں سے کچھ بھی نہیں ہورہا‘‘۔ 

دوسری طرف بھارت کے وزیر خارجہ جے شنکر کا کہنا ہے کہ ’’پاکستان کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ تب ہی ممکن ہے ، جب پاکستان میں موجود مطلوب دہشت گرد اس کے حوالے کیے جائیں‘‘۔ انڈین ایکسپریس اخبار کی طرف سے منعقد ایک تقریب میں خطاب کے دوران اور بعد میں فرانسیسی اخبار لی موندے کو انٹرویو دیتے ہوئے، جے شنکر نے صاف کہا کہ ’’بھارت اب بدل چکا ہے۔ اس کی ترجیحات میں کشمیر سے علیحدگی کا رجحان ختم کرنا اور دہشت گردی کا مؤثر جواب دینا ہے۔دنیا کو جان لینا چاہیے کہ نومبر ۲۰۰۸ء کے ممبئی حملوں اور اوڑی میں ہوئے حملوں کے سلسلے میں بھارت کا رد عمل مختلف تھا۔ پچھلی حکومتوں نے امن کی خاطر بھارت کے لیے پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کی اسٹرے ٹیجک افادیت کو نظرانداز کر دیا تھا‘‘۔ شاید دبے لفظوں میں ان کا کہنا تھا کہ ’’آزاد کشمیر پر بھارت کسی بھی وقت اب کوئی عملی قدم اٹھانے والا ہے‘‘۔ بھارتی وزیرخارجہ نے تاسف کا اظہار کیا کہ ’’ایک اُبھرتی ہوئی طاقت کے ہوتے ہوئے بھی بھارت ابھی تک اپنے سرحدی تنازعات کو سلجھا نہیں پا رہا ہے‘‘۔ 

بھارتی حکومت میں اس وقت اقتدار کے تین ستون، یعنی مودی ، امیت شا اور قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول کا خیا ل ہے کہ: ۷۰ برسوں بعد یہ پہلا اور آخری موقع آگیا ہے کہ کشمیری عوام اور پاکستان کو باور کرایا جائے کہ ان کا مطالبہ ناقابلِ حصول ہے ۔اس کے علاوہ ان کا تسلیم کرنا ہے کہ کشمیر یوں کو اس حقیقت سے رو شناس کرانا ضروری ہے کہ ان کی تحریک یا مطالبے کو عالمی سطح پر کوئی پذیرائی حاصل نہیں ہے اور پاکستان بھی ان کی مدد کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ اس لیے ایسے اداروں اور تنظیموں کے خلاف کارروائی کرنا اور حوصلہ شکنی کرنا ضروری ہے، جو ایسا تاثر دے رہے ہوں۔ پاکستان میں بلوچستان اور گلگت بلتستان پر ہاتھ ڈال کر، اس کو کشمیر سے باز رکھنا ہے۔ اور کسی بھی دبائو کو خاطر میں لائے بغیر کشمیر پر فورسز کے ذریعے علاقائی برتری حاصل کرکے ، پاکستان اور کشمیری عوام کی سوچ تبدیل کروانا ہے۔ اس کے علاوہ بھارت نواز کشمیر ی پارٹیاں نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کو یہ احساس دلانا ہے، کہ وہ نئی دہلی کو بلیک میل کرکے او ر سیاسی حل پیش کرکے اب مزید سیاست نہیں کرسکتیں۔

دوسری طرف کشمیر میں بھی عوام نے یہ تہیہ کر رکھا ہے کہ ’’جس چیز کو مودی اور اس کے حواری ناقابلِ حصول بتانا اور بنانا چاہتے ہیں، وہ اس کوحاصل کرکے ہی دم لیں گے‘‘۔ نئی دہلی کے کئی حلقوں میں اس بات کا اعتراف ہے کہ پاکستان یا اس کی فوج کشمیر کی صورت حال کا اس طرح فائدہ نہیں اُٹھا رہی ہے، جس کا اندیشہ تھا۔ ورنہ حریت کو بے دست و پا کرکے، نیز پی ڈی پی اور نیشنل کانفرنس کو بے وزن کرکے ایک انارکی کا ماحول تیار کرواکے حالات ۹۰-۱۹۸۹ء کی نہج تک پہنچ چکے ہیں۔ 
آخر کون امن نہیں چاہتا؟ اس کی سب سے زیادہ ضرورت تو کشمیریوں کو ہی ہے۔ اشرف جہانگیر قاضی سے بس اتنی سی گزارش ہے کہ امن، قدرو منزلت ، انصاف و وقار کا دوسرا نام ہے، ورنہ امن تو قبرستان میں بھی ہوتا ہے۔ جن تجاویز پر آپ امن کے خواہاں ہیں، وہ تجاویز صرف قبرستان والا امن ہی فراہم کر سکتی ہیں۔ 

کشمیر ی قوم پر اس وقت جو آفت آن پڑی ہے اور جس طرح بھارت کی ہندو انتہا پسند حکومت نے ان کے تشخص اور انفرادیت پر کاری وار کیا ہے، ہونا تو چاہیے تھا کہ مذہبی عناد سے اوپر اٹھ کر اس کا مقابلہ کیا جاتا۔ افسوس کا مقام ہے کہ کشمیری پنڈتوں (ہندوئوں) کے بااثر طبقے اور اکثریت نے ایک بار پھر اپنے ہم وطنوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپ کر تاریخ کے مختلف اَدوار کو دہرایا، اور ظلم و جبر کے آلات (Instruments of Tyranny) بننے کا کام کیا۔ سابق انڈین ایئر وائس مارشل کپل کاک، مقتدر اسپورٹس صحافی سندیپ، اشوک بھان، نتاشا کول، فلم میکر سنجے کاک اور  ایم کے رینہ وغیرہ کے علاوہ پنڈت برادری، کشمیریو ں پر آئی اس آفت پر جھوم اٹھی ہے۔ قومی میڈیا میں موجود اسی کمیونٹی کے تین افراد، سیکورٹی کے ہمراہ کشمیر میں گھوم کر یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کررہے تھے کہ: ’’کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے سے کشمیری خوش ہیں اور کسی بھی طرح کے رد عمل کا اظہار نہیں کر رہے ہیں‘‘۔ یہ تو بھلا ہو بین الاقوامی میڈیا کا، جس نے ان کا پول کھول دیا۔ 

حیرت کا مقام ہے کہ جہاں بقیہ تمام میڈیا ، انٹرنیٹ، فون کی عدم دستیابی کی وجہ سے بے دست و پا ہوگیا تھا، یہ تین افراد لمحہ بہ لمحہ تصویریں اور رپورٹیں سوشل میڈیا پر اَپ لوڈ کر رہے تھے۔ وہ کشمیر کو بھول کر نسل پرستی کے پیمانے سے معاملات کو جانچ رہے تھے۔ سوشل میڈیا پر دعویٰ کیا گیا کہ: ’’۱۹۹۰ء میں کشمیری پنڈتوں کے ساتھ جو کچھ ہوا، آج مودی حکومت نے اس کا بدلہ چکادیا ہے‘‘۔ سوال یہ ہے کہ چند افراد کے مبینہ افعال کی سزا اجتماعی طور پر پوری کشمیری قوم کو کیسے دی جاسکتی ہے؟ ویسے ۱۹۹۰ء سے لے کر اب تک کشمیر میں تو بھارت ہی کی عمل داری ہے۔ جن لوگوں نے کشمیری پنڈتوں کو بے گھر ہونے پر مجبور کیا، ان کے خلاف تادیبی کاروائی کیوں نہیں کی گئی؟ بلکہ اس کو محض پروپیگنڈا کا ہتھیار بنایا گیا۔ یہ خود کشمیری پنڈتوں کے لیے بھی سوچنے کا مقام ہے۔ 
یہ سچ ہے کہ۱۹۸۹ء میں کشمیر میں عسکری تحریک کے آغاز کے ساتھ ہی خوف کی فضا طاری ہوگئی تھی۔ عسکریت پسندی پر کسی کا کنٹرول نہ ہونے کے باعث، آوارہ اور غنڈا عناصر نے بھی اس میں پناہ لی۔ کئی افراد توبغیر کسی مقصد کے یا کسی سے بدلہ چکانے کی نیت سے بھی عسکریت میںشامل ہوگئے۔ جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ (جے کے ایل ایف) اور حزب المجاہدین کو چھوڑ کر، ایک وقت تو وادی میں ایک سو سے زائد عسکری تنظیمیں تھیں۔اس طوائف الملوکی کو مزید ہوا دینے میں بھارتی ایجنسیوں نے بھی بھر پور کردار ادا کیا۔ ۱۹۸۹ء میں گورنر بننے کے فوراً بعد نئی دہلی حکومت کے گورنر جگ موہن نے پوری سیاسی قیادت کو ، جو حالات کنٹرول کر سکتی تھی، گرفتار کرکے بھارت کے دُور دراز علاقوں کی جیلوں میں بند کردیا۔بھارت نواز سیاسی قیادت تو پہلے ہی فرار ہوکر جموںاور دہلی منتقل ہوچکی تھی۔ وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ بھی اپنے خاندان کے ساتھ لندن منتقل ہوگئے تھے۔ اس انارکی کا خمیازہ کشمیری پنڈتوں کو ہی نہیں بلکہ مقامی اکثریتی آبادی مسلمانوں کو بھی بھگتنا پڑا۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق: ’’۳۰سالوں میں۲۵۰ پنڈت قتل ہوئے، جس کی وجہ سے [مبینہ طور پر] ڈھائی لاکھ کی آبادی نقل مکانی پر مجبور ہوگئی‘‘۔اگر یہ نسل کشی ہے تو اس دوران کشمیر میں اندازاً جو ایک لاکھ مسلمان بھی شہید کیے گئے، وہ کس کھاتے میں ہیں؟ جموں خطے کے دُور دراز علاقوں میں مجموعی طور پر ۱۵۰۰ کے قریب غیر پنڈت ہندو ، جو زیادہ تر دلت، اور راجپوت تھے، قتل عام کی وارداتوں میں ہلاک ہوئے، مگر اس کے باوجود ان خطوں سے آبادی کا کوئی انخلا نہیں ہوا۔ 
چونکہ میں خود ان واقعات کا چشم دید گواہ ہوں، اس لیے مکمل ذمہ داری کے ساتھ یہ تحریر کرسکتا ہوں کہ گورنر جگ موہن، پنڈتوں کے انخلا میں براہ راست ملوث ہوں یا نہ ہوں، مگر انھوں نے حالات ہی ایسے پیدا کیے کہ ہر حساس شخص محفوظ پناہ گاہ ڈھونڈنے پر مجبور تھا۔ اگر معاملہ صرف پنڈتوں کی سلامتی کا ہوتا، توسوپور اور بارہ مولا کے پنڈت خاندانوں کو پاس ہی بھارتی فوج کے ۱۹ویں ڈویژن کے ہیڈکوارٹر منتقل کیا جا سکتا تھا۔ایک تو اپنے گھروں کے ساتھ ان کا رابطہ بھی رہتا اور حالات ٹھیک ہوتے ہی واپس بھی آجاتے۔جگ موہن کے آتے ہی افواہوں کا بازار گرم تھا، کہ: ’’آبادیوں پر بمباری ہونے والی ہے‘‘۔ کوئی ان افواہوں کی تردید کرنے والا نہیں تھا۔
۱۹۹۰ء کے اوائل میں انارکی اور عسکریت کی وجہ سے، کئی بے گناہوں کی جانیں گئیں۔ مرنے والوں میں پنڈت بھی شامل تھے اور کشمیری مسلمان بھی۔ تاہم، کشمیر ی پنڈتوں کی گھر واپسی کے موضوع پر جہاں بھارتی حکومت سے لے کر بھارتی میڈیا کے بااثر حلقے تک، اکثریتی طبقے کے جذبات کو منفی انداز میں پیش کر رہے ہیں، وہیں یہ بھی حقیقت ہے کہ پنڈتوں کو مارنے والے وہ بندوق بردار جب تائب ہوئے تو انھیں بھارتی سکیورٹی ایجنسیوں نے سر آنکھوں پر بٹھایا۔ 
کشمیر کی آزاد حیثیت کو زیر کرکے جب مغل بادشاہ اکبر نے آخری تاج دار یوسف شاہ چک کو قید اور جلا وطن کیا، تو مغل اگرچہ مسلمان تھے، مگر اس خطے میں ان کی سیاسست کا انداز سامراجیوں جیسا تھا۔ چونکہ کشمیر میں مسلمان امرا نے ہی مغل فوج کشی کی مزاحمت کی تھی، اسی لیے انھوں نے کشمیری پنڈتوں کی سرپرستی کرکے اقلیت گری (minority complex) کو ابھارا اور مسلمان امرا کو نیچا دکھانے کے لیے کشمیری پنڈتوں کو اپنا حلیف بنایا۔ بقول شیخ محمد عبداللہ :’’پنڈتوں کے  جذبۂ امتیاز کو تقویت دینے کے لیے آدتیہ ناتھ بٹ کو ان کی مراعات کا نگہبان مقر ر کیا۔ جنوبی و شمالی کشمیر میں کشمیری پنڈت ہی گورنر بنائے گئے‘‘۔ 

زبان و ادب پر یلغار

ریاست جموں و کشمیر کو تحلیل کرنے کے بعد اب کشمیری عوام کی غالب اکثریت کے تشخص، تہذیب و کلچر پر کاری ضرب لگانے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ جہاں ابھی حال ہی میں بھارتی وزیرداخلہ امیت شا نے: ’’ہندی کو قومی زبان قرار دینے کا عندیہ دیا‘‘، وہیں دوسری طرف حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے چند عہدےداروں نے ایک عرضداشت میں مطالبہ کیا ہے کہ: ’’علاقائی زبانوں کا اسکرپٹ، یعنی رسم الخط دیوناگری، یعنی ہندی میں تبدیل کرکے ملک کو جوڑا جائے‘‘۔ اس کی زد میں براہ راست کشمیری (کاشئر) اور اردو زبانیں آتی ہیں، جو فارسی، عربی، یعنی نستعلیق    رسم الخط کے ذریعے لکھی اور پڑھی جاتی ہیں۔ یہ مہم تو کئی برسوں سے جاری ہے، مگر حال ہی میں بی جے پی کے لیڈروں ، بشمول دہلی میں مقیم چند کشمیر پنڈت گروپوں نے اس کو مہمیز لگائی ہے۔ بھارت کے موجودہ قومی سلامتی مشیر اجیت دوبال نے عرصے سے کشمیر کو سیاسی کے بجاے ’تہذیبی جنگ کا مرکز‘ قرار دیا ہے۔

چند برس قبل حیدر آباد (تلنگانہ، بھارت) کی تقریب سے خطاب میں اجیت دوبال نے کہا تھا: ’’اس مسئلے کا حل تہذیبی جارحیت اور اس خطے میں ہندو ازم کے احیا میں مضمر ہے‘‘۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ پچھلے سال کشمیر میں گورنر انتظامیہ نے کشمیری ثقافتی لباس پھیرن پر پابندی لگادی تھی۔ پہلے تو اسے سیکورٹی رسک قرار دیا گیا، جس کے بعدتعلیمی و سرکاری اداروں میں عام لوگوں اور صحافیوں کے پھیرن پہن کر داخل ہونے پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔ کسی قوم کو ختم کرنے کے لیے صدیوں سے قابض طاقتوں کا طریقہ رہا ہے کہ اس کو اس کی تاریخ و ثقافت سے دور کردو۔ کشمیریوں کی نسل کشی (ethnic cleansing)کے ساتھ کشمیر کی ثقافت کو بھی ختم کرنا اسی منصوبے کا حصہ ہے۔ 
    ایک منصوبے کے تحت ’’کشمیر کی ۶۴۷سالہ مسلم تاریخ کو ایک تاریک دور‘‘ کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ ویسے ان چھے صدیوں میں کشمیری مسلم سلاطین کا دور تو صرف ۲۴۷برسوں تک ہی محیط تھا، باقی وقت تو بیرونی حکمرانوں نے ہی کشمیر پر گورنروں کے ذریعے حکومت کی ہے۔ کشمیری زبان کے رسم الخط کو قدیمی شاردا اور پھر دیوناگری میں تبدیل کرنے کی تجویز اس سے قبل دوبار۲۰۰۳ء اور پھر ۲۰۱۶ء میں بھارت کی وزارت انسانی وسائل نے دی تھی، مگر ریاستی حکومت نے اس پر سخت موقف اپنا کر اس کو رد کردیا تھا۔ بی جے پی کے لیڈر اور اس وقت کے مرکزی وزیر مرلی منوہر جوشی نے ۲۰۰۳ء میں تجویز دی تھی: ’’کشمیری زبان کے لیے دیوناگری کو ایک متبادل رسم الخط کے طور پر سرکاری طور پر تسلیم کیا جائے اور اس رسم الخط میں لکھنے والوں کے لیے ایوارڈ وغیرہ تفویض کیے جائیں۔ یوں کشمیری زبان کا قدیمی شاردا اسکرپٹ بھی بحال ہو جائے گا‘‘۔ سوال یہ ہے کہ اگر کشمیری زبان کا اسکرپٹ شاردا میں بحال کرنا ہے، تو سنسکرت اور دیگر زبانوں کا بھی قدیمی رسم الخط ہی بحال کرو، یہ کرم صرف کشمیری زبان پر ہی کیوں؟ 
وزیر موصوف نے یہ دلیل بھی دی تھی، چونکہ بیش تر کشمیری پنڈت پچھلے ۳۰ برسوں سے کشمیر سے باہر رہ رہے ہیں، ان کی نئی جنریشن اردو یا  فارسی رسم الخط سے نا آشنا ہے۔ اس لیے ان کی سہولت کی خاطر ہندی رسم الخط کو کشمیر ی زبان کی ترویج کا ذریعہ بنایا جائے‘‘۔ اس میٹنگ میں مرحوم وزیرا علیٰ مفتی محمد سعید نے پروفیسر مرلی منوہر جوشی کو قائل کرلیا کہ ان کے فیصلے سے پچھلے ۶۰۰برسوں سے وجود میں آیا کشمیری زبان و ادب بیک جنبش قلم نابود ہو جائے گا۔ مجھے یاد ہے کہ ’’کشمیری زبان کے چند پنڈت اسکالروں نے بھی وزیر موصوف کو سمجھایا کہ کشمیری زبان میں ایسی چند آوازیں ہیں ، جن کو دیو ناگری رسم الخط میں ادا نہیں کیا جاسکتا ہے‘‘۔ ان کا کہنا ہے کہ ان آوازوں کو فارسی رسم الخط کے ساتھ ہم آہنگ کرنے میں بھی خاصی تحقیق و مشقت کرنی پڑی ہے۔ ان کو اب قدیمی شاردا اسکرپٹ میں بھی ادا نہیں کیا جاسکتا ہے‘‘۔ کشمیری زبان میں ۱۶حروف علت یا واولز اور۳۵حروف صحیح ہیں،نیز چھے ڈیگراف یا Aspirated Consonents ہیں۔ وزیرموصوف، جو خود بھی ایک اسکالر تھے، کسی حد تک قائل ہوگئے اور یہ تجویز داخل دفتر کی گئی۔ 
مودی حکومت نے برسرِاقتدار آنے کے بعد جب شمال مشرقی صوبہ اڑیسہ میں بولی جانے والی اوڑیہ زبان کو کلاسک زبان کا درجہ دیا، تو کشمیر کی ادبی تنظیموں کی ایما پر ریاستی حکومت نے بھی کشمیر ی زبان کو یہ درجہ دینے کے لیے ایک یادداشت مرکزی حکومت کو بھیجی۔ فی الحال تامل، سنسکرت، کنڑ، تیلگو، ملیالم اور اوڑیہ کو بھارت میں کلاسک زبانوں کا درجہ ملا ہے۔ کلاسک زبان قرار دیے جانے کا پیمانہ یہ ہے کہ زبان کی مستند تاریخ ہو اور اس کا ادب وتحریریں ۱۵۰۰سے ۲۰۰۰سال قدیم ہوں۔ اس کے علاوہ اس کا ادب قیمتی ورثے کے زمرے میں آتا ہو۔ نیز اس کا ادب کسی اور زبان سے مستعار نہ لیا گیا ہو۔ چونکہ ان سبھی پیمانوں پر کشمیر ی یا کاشئر زبان بالکل فٹ بیٹھتی تھی، اس لیے خیال تھا کہ یہ عرض داشت کسی لیت و لعل کے بغیر ہی منظور کی جائے گی۔ عرض داشت میں بتایا گیا تھا کہ ’’کشمیر ی زبان سنسکرت کی ہم عصر رہی ہے نہ کہ اس سے ماخوذ ہے‘‘۔ 
بھارت میں جہاں آج کل تاریخ کو مسخ کیا جا رہا ہے، وہیں مختلف زبانوں کے مآخذ بھی سنسکرت سے جوڑے جارہے ہیں۔ خیر اس عرض داشت پر مرکزی حکومت نے بتایا کہ ’’کشمیری واقعی کلاسک زبان قرار دیے جانے کی اہل ہے، مگر شرط یہ ہے کہ اس کے لیے اس کا رسم الخط سرکاری طور پر دیوناگری، یعنی ہندی تسلیم کرناہوگا‘‘۔ اس کے فائدے یہ بتائے کہ ہر سال دواہم ایوارڈ ان زبانوں کے فروغ کا کام کرنے والے اسکالروں کو دیے جاتے ہیں۔ نیز ان کی ترویج کے لیے ایک اعلیٰ ریسرچ سینٹر کا قیام اور یونی ورسٹی گرانٹس کمیشن کی طرف سے چند یونی ورسٹیوں میں چیئرز کی منظوری دینا شامل ہے۔ 

آخر بھارتی حکومت کو کشمیری زبان کے رسم الخط کی تبدیلی پہ اصرار کیوں ہے؟

کشمیر کے آخری تاجدار یوسف شاہ چک کی ملکہ حبہ خاتون (زون) ہو یا محمود گامی یا عبدالاحد آزاد ، غلام احمد مہجور یا مشتاق کشمیری چونکہ عام طور پر سبھی کشمیری شاعروں نے اس خطے پر ہوئے ظلم و ستم کو موضوع بنایا ہے اور تحریک آزادی کو ایک فکری مہمیز عطا کی ہے، اسی لیے شاید   ان کے کلام کو بیگانہ کرنے کے لیے زبان کے لیے تابوت بنایا جا رہا ہے۔ پچھلے سات سو سالوں میں علمدار کشمیر شیخ نورالدین ولی ہو یا لل دید، رسو ل میر، وہا ب کھار یا موجودہ دو ر میں دینا ناتھ نادم ، سوم ناتھ زتشی رگھناتھ کستور، واسدیو ریہہ وغیرہ ، غرض سبھی نے نستعلیق کو ہی اپنے اظہار کا ذریعہ بنایا ہے۔ 
۲۰۱۱ءکی مردم شماری کے مطابق وادیِ کشمیر اور وادیِ چناب میں۸۰ لاکھ ۶۰ہزار افراد کشمیری زبان بولنے والے رہتے ہیں۔ آزاد کشمیر کے نیلم اور لیپا کی وادیوں میں مزید ایک لاکھ ۳۰ہزار افراد کشمیری کو مادری زبان گردانتے ہیں۔ علاقوں کی مناسبت کے لحاظ سے کشمیری زبان کی پانچ بولیاں یا گفتار کے طریقے ہیں۔ کسی کشمیری کے گفتار سے ہی پتا چلتا ہے کہ وہ ریاست کے کس خطے سے تعلق رکھتا ہے۔ ان میں: مرازی(جنوبی کشمیر)کمرازی (شمالی کشمیر) یمرازی (وسطی کشمیر)، کشتواڑی (چناب ویلی) اور پوگلی(رام بن ) ہیں۔ 
جرمنی کی لیپزیگ یونی ورسٹی کے ایک محقق جان کومر کے مطابق کشمیر ی زبان آرین زبانوں کی ایک مخصوص فیملی سے تعلق رکھتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ قواعد اور تاریخی جائزوںکے مطابق اس کا ایرانی یا انڈین زبانوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ چونکہ سنسکرت اور کشمیری زبانیں   ہم عصر رہی ہیں، اس لیے لفظوں کی ادلا بدلی موجود ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کشمیری کو انڈو۔داردک فیملی کے ساتھ جوڑا جا سکتا ہے۔ اس گروپ میں چترالی، شینا، سراجی، کوہستانی، گاوی اور توروالی زبانیں آتی ہیں۔ گو کہ کشمیر کی قدیم تاریخ راج ترنگنی سنسکرت میں لکھی گئی ہے، مگر اس میں کشمیری زبان بہ کثرت استعمال کی گئی ہے۔ 
کشمیری وازہ وان، یعنی انواع قسم کے پکوانوں کے ساتھ ساتھ کشمیر ی زبان اور اس کا ادب بھی کشمیر کے باسیوں کی ہنرمندی اور ان کے ذوق کی پہچان ہے۔مگر و ہ وقت دور نہیں، جب یہ بھارت کی ثقافتی یلغار اور دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ جائے گی۔ بھارت کے اندر اور باہر انسانی حقوق کے عالمی اداروں، خاص طور پر حکومت پاکستان کو اس کا نوٹس لے کر اس امر کا ادراک کروانا چاہیے کہ کس طرح دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ، سیکولرزم کے دعووں کے پسِ پردہ ایک قوم کے مستقبل کے ساتھ کھیل رہی ہے۔ اس صورتِ حال کو اُجاگر کرنے کے لیے مؤثر اقدامات اٹھانے ضروری ہیں۔

ضمانتی جبر کا شاخسانہ

 اب بھارت کی جانب سے، کشمیر کے صف اوّل کے رہنمائوں سمیت کشمیر میں سیاسی گرفتارشدگان کو اپنی رہائی کے لیے شرط کے طور پر ایک ضمانت نامے (bonds) پر دستخط کرنے کے لیے مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ ریاست میں ’حالیہ واقعات‘کے متعلق بات نہیں کریں گے۔
ڈیلی ٹیلی گراف ، انڈیا کے مطابق،دوگرفتارشدہ خواتین جنھیں حال ہی میں رہا کیا گیا ، انھیں ضابطہ فوجداری کی شق ۱۰۷ کے ایک ضمانت نامے پر چھپی دستاویز پر دستخط کرنے پڑے، جو عام طور پر ان مقدمات میں استعمال ہوتی ہے، جب ایک ضلعی مجسٹریٹ کسی کو حفاظتی حراست میں لینے کی خاطر اپنے انتظامی اختیارات استعمال کرتا ہے۔ اس ضمانت کی عمومی شرائط کے مطابق،قیدی کو یہ عہد کرنا ہوتا ہے کہ وہ’امن میں خلل نہیں ڈالے گا،یا کسی بھی ایسے فعل کا مرتکب نہیں ہوگا جس کے باعث امن میں خلل واقع ہونے کا امکان ہو‘۔ اس عہد کی کوئی بھی خلاف ورزی کرنے پر اس شخص کی ایک غیرمتعین کردہ رقم ریاست کے حق میں ضبط کر لی جاتی ہے۔ 

تاہم، زیربحث نئے ضمانت نامے میں دوپہلوئوں کا احاطہ کیا گیا ہے:

پہلا یہ کہ دستخط کنندگان عہد کرتے ہیںکہ وہ ’’ریاست جموں وکشمیر میں اس وقت پیش آئے واقعات کے متعلق ایک برس تک کوئی بات نہیں کہے گا، یا عوامی سطح پر کوئی تقریر نہیں کرے گا، یا کسی عوامی اجتماع میں شرکت نہیں کرے گا۔
دوسرے یہ کہ ’’انھیں ضمانت نامے کی خلاف ورزی کی صورت میں’ضمانت‘کے طور پر ۱۰ہزار روپے جمع کرانے ہوںگے اور مزید ۴۰ہزار روپے جمع کرانے کا اقرار کرنا ہو گا۔اس عہد کی خلاف ورزی کے باعث انھیںدوبارہ بھی حراست میںلیا جا سکتاہے‘‘۔
ذہن میں رہے کہ اس وقت ہزاروں بے گناہ بچے، جوان، بوڑھے، حتیٰ کہ خواتین بھارتی انتظامیہ کی قید میں ہیں۔ ان میں حقِ خود ارادیت کے علَم بردار لیڈر بھی شامل ہیں اور عشروں سے بھارت کے ساتھ وابستگی رکھنے اور سہولت کاری کرنے والے بھارت نواز سیاسی لیڈر بھی ہیں۔
قانونی ماہرین اور انسانی حقوق کے کارکنوں کے مطابق یہ نئی شرائط حددرجہ پریشان کن اور غیرآئینی ہیں۔ معروف ماہر قانون گوتم بھاٹیا کے مطابق آئین کی شق۱۹(۲)کے مطابق،  آزادیِ تقریر پر محض اس وقت پابندی عائد کی جاسکتی ہے، جب کہ متوقع تشدد کے لیے کسی کو اُکسایا جائے۔ سپریم کورٹ نے بارہا یہ فیصلہ دیا ہے کہ آزادیِ تقریر، حتیٰ کہ انقلابی نظریات کے اظہار کی اس وقت تک اجازت ہے، جب تک اس کے ذریعے کسی کو تشدد پر نہ اکسایا جائے۔اس لیے مجموعہ ضابطہ فوجداری کو ایک ایسے طریقے کے طور پر استعمال نہیں کیا جا سکتا جس کے ذریعے آزادیِ تقریر کے حق کو غیرآئینی پابندی کا شکار بنایا جائے‘‘۔

ڈیلی ٹیلی گراف کے مطابق جموں و کشمیر کی سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی کی بیٹی اجتجٰی مفتی نے اپنی والدہ کے ٹویٹر اکائونٹ سے پیغام بھیجا ہے: ’’حکام، قیدیوں کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دے کر ضمانت ناموں پر دستخط کروا رہے ہیں، والدہ نے اس ضمانت نامے پر دستخط کرنے سے انکار کیا ہے‘‘۔
ان خبروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ تمام سیاسی قیدیوں کو اپنی رہائی کی شرط کے طور پر اس ضمانت نامے پرد ستخط کرنے ہوتے ہیں ۔ جب ڈیلی ٹیلی گرافنے ریاستی ایڈووکیٹ جنرل، ڈی سی رائناسے رابطہ کیا،تو انھوں نے ضمانت نامے کادفاع کیا اور کہا کہ’’: اس کی زبان ذرا مختلف ہے لیکن روح عام ضمانت نامے کے مطابق ہی ہے‘‘۔اسی طرح سینیر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل بشیراحمد ڈار نے تو سرے سے انکار کر دیا ہے کہ ’’ایسا کوئی ضمانت نامہ جاری ہوا ہے‘‘۔
جموں وکشمیرہائی کورٹ کے وکیل الطاف خان،جو ایک ایسی خاتون کے وکیل تھے، جس نے اس ہفتے اس نئے ضمانت نامے پردستخط کیے،کہتے ہیں:’’یہ آئین کی خلاف ورزی ہے‘‘۔ یاد رہے خرم پرویز نے ڈیلی ٹیلی گراف کو بتایا: گذشتہ دوماہ کے لاک ڈائون کے دوران گرفتارکیے جانے والوں کو نئے ضمانت نامے کی شرائط پر رہا کیا گیا، جو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے سوا کچھ نہیں‘‘۔

ریاست جموں و کشمیر کو تحلیل و تقسیم کرنے جیسے غیر آئینی اقدامات، مواصلاتی ناکہ بندی اور ملٹری آپریشنوں کے ذریعے مقامی آبادی کو ہراساں کرنے پر، جہاں دنیا بھر میں وزیراعظم نریندر مودی اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) حکومت پر لعن طعن ہو رہی ہے، وہیں بھارتی مسلمانوں کی قدیمی تنظیم جمعیۃ العلماء ہند کے دونوں دھڑوں نے سادگی میں یا دانستہ طور پر ایسے بیانات داغے کہ بھارتی حکومت کی باچھیں کھل گئیں۔ یہ پہلا موقع ہے کہ یورپ و امریکا میں سول سوسائٹی و میڈیاکو بھارت میں اُبھرتے ہوئے فاشزم کا ادراک ہوا اور ہندو انتہا پسندوں کی مربی تنظیم آرایس ایس (راشٹریہ سیویم سیوک سنگھ) کی مقامی شاخوں کی سرگرمیوں پر قدغن لگانے کی مانگ زور پکڑتی جارہی ہے۔ چاہے بابری مسجد کی شہادت کا واقعہ ہو یا ’گھر واپسی‘ یا ہندو فرقہ پرستوں کی دیگر انتہاپسندانہ مہمات، اس کے لیے خاصی بڑی رقوم بیرون ملک بھارتیوں کی طرف سے ہی آتی رہی ہیں۔ 
پہلے جمعیۃ العلماء ہند کے ایک دھڑے کے رہنما مولانا ارشد مدنی صاحب نے آر ایس ایس کے سربراہ موہن سنگھ بھاگوت سے ملاقات کر کے اس کی خوب تشہیر کی۔ مسلم اور یورپی ممالک میں جہاں بھارتی سفیروں کوکشمیر میں یلغار اور فاشزم کے خلاف مہم کی وجہ سے کوئی جواب نہیں بن پا رہا تھا۔ اس پس منظر میں مولانا مدنی صاحب اور موہن بھاگوت کی ملاقات ان کے لیے نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوئی۔ اگرچہ مدنی صاحب کا کہنا ہے کہ ’’یہ ملاقات فرقہ وارانہ ہم آہنگی برقرار رکھنے اور مسلمانوں کے خلاف ’ہجومی تشدد‘ کو قابو کرنے کے لیے رکھی گئی تھی‘‘، مگر اس کا انعقاد اس موقعے پر ہوا کہ یورپ و امریکا میں آر ایس ایس کی ذیلی تنظیموں نے سکون کا سانس لیا، جس سے برہمنی فاشزم کے خلاف مہم پر کاری ضرب لگ گئی۔ بھارتی سفار ت کاروں نے اس میٹنگ کی رپورٹ میڈیا میں پیش کرکے یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی کہ ’’آر ایس ایس تو ایک غیر سرکاری فلاحی تنظیم ہے، جو مسلمانوں کی بہبود کے لیے بھی کوشاں ہے ۔ اس لیے اس کو فاشزم کے ساتھ نتھی کرنا ایک پروپیگنڈا ہے‘‘۔ 

جمعیۃ العلماء ہند کی طرف سے آسام میں شہریت کے معاملے پر مسلمانوں کی رہنمائی اور جیلوں میں بند مسلم نوجوانوں کو مفت قانونی امداد کی فراہمی پر ہم نے ہمیشہ تحسین کی ہے۔ ان کے قدردان اور دینی خدمات کے معترف کے طور پر گزارش ہے کہ دشمنوں کے ساتھ ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رکھتے وقت کی نزاکت کو بھی سنجیدگی کے ساتھ لینے کی ضرورت ہے۔ اگر ملاقات ناگزیر ہی تھی، تو اس کو میڈیا کی تشہیر سے دُور رکھنا چاہیے تھا، مگر کیا کریں: ’ناداں گر گئے سجدے میں جب وقت قیام آیا‘۔ 
جب چچا مولانا ارشد مدنی صاحب نے آرایس ایس کے سربراہ سے ملاقات کرکے بھارتی میڈیا اور حکومت کی واہ واہ لوٹی ، تو بھتیجا صاحب بھلا کیوں پیچھے رہتے۔مولانا محمود مدنی صاحب کی سربراہی میں جمعیۃ العلماء کے دوسرے دھڑے نے، کشمیر پر ایک قرارداد منظور کرکے اور بیانات داغ کر، مظلوم کشمیریوں کے زخموں پر نمک چھڑکا۔ پھر مغل بادشاہ اورنگ زیب عالم گیر (۱۶۱۸ء-۱۷۰۷ء) اور شیواجی مرہٹہ (۱۶۲۷ء-۱۶۸۰ء) کا موازنہ کرکے، اور شیواجی کو قابلِ تقلید بتا کر تاریخ کو ایسا مسخ کیا، کہ مسلم اُمت کی حُرمت اور تاریخ کا تقدس ایک طرف رہے، انھوں نے خود اپنے علم و فراست پر ہی سوالیہ نشان کھڑے کردیے۔ کاش! وہ امریکی محقق خاتون پروفیسر آڈری تروشکی (Audrey Truschke) کی کتابیں Aurangzeb:The Man and the Myth اور Aurangzeb: The Life and Legacy ،یا جواہر لال نہرو کی مشہور کتاب The Discovery of India  میں شیوا جی پر تبصرہ، یا مغربی اسکالر جیمس لاویا کی نگارشات پڑھ لیتے۔ 

بدقسمتی سے کشمیریوں کی جمہوری آواز کو دبانے کے لیے بھارتی حکومت نے کئی بار جمعیۃ العلماء اور دیگر مسلم لیڈران کو استعمال کیا ہے۔ مولانا محمود مدنی نے فرمایا ہے: ’’کشمیر، بھارت کا اٹوٹ انگ ہے۔ ہندستان کی وحدت ہمارے نزدیک بہت اہمیت رکھتی ہے۔ اس لیے ہم کسی علیحدگی پسند تحریک کی ہرگز تائید نہیں کرسکتے اور میری نظر میں کشمیر کی فلاح ہندستان کے ساتھ جڑی ہوئی ہے‘‘۔ قرارداد میں پاکستان کا نام لیے بغیر اسے ’’تمام مسائل کی جڑ‘‘ بتایا گیا ہے۔ قرارداد کے مطابق: ’’ملک اور دشمن طاقتیں کشمیر کو برباد کرنے کے درپے ہیں۔ دشمن نے ہندستان کے خلاف کشمیر کو  محاذ بنار کھا ہے جو مظلوموں کی فریاد رسی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ‘‘۔ ستمبر میں محمود مدنی صاحب سوئٹزرلینڈ تشریف لے گئے اور جنیوا میں پریس کانفرنس سے خطاب میں فرمایا: ’’دفعہ ۳۷۰ اور ۳۵،اے کا خاتمہ بھارتی حکومت کا داخلی مسئلہ ہے اور ہم مودی حکومت کے ساتھ ہیں‘‘۔ 
اس پریس کانفرنس کے لیے جانے سے قبل جمعیت العلماء کے صدر محمد عثمان منصور پوری، مولانا محمود مدنی اور مولانا اصغر علی سلفی جنرل سیکرٹری مرکزی جمعیت اہلِ حدیث ہند نے مشترکہ طور پر بھارتی وزیرداخلہ امیت شا سے ملاقات کے بعد یہ اعلانات کیے۔ مولانا اصغرعلی سلفی نے کہا: ’’ہم ۳۷۰دفعہ میں کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کی حمایت کرتے ہیں‘‘۔ مولانا عثمان منصورپوری نے فرمایا: ’’ہم مودی حکومت کے اقدامات کی مکمل حمایت کا اعلان کرتے ہیں‘‘ اور محمود مدنی صاحب نے کہا: ’’ہم حکومت ِ ہند کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں‘‘۔ پھر اجمیرشریف کے مہتمم سلمان چشتی صاحب نے کہا: ’’کشمیر کے حوالے سے کوئی سوال جواب نہیں، وہ بھارت کا اٹوٹ انگ ہے‘‘۔

معروف بھارتی دینی ماہ نامہ الفرقان لکھنؤ میں مذکورہ علما کے موقف کا نوٹس لیتے ہوئے مدیر مولانا عتیق الرحمٰن سنبھلی صاحب نے بجاطور پر لکھا ہے: ’’ [ہمارے علما کی] آج جو ’ملاقاتیں‘ ہورہی ہیں، اور جو قراردادیں اور بیانات صادر ہورہے ہیں یا کروائے جارہے ہیں، ان کا مقصد عالمی برادری میں [مودی حکومت کی] بُری طرح بگڑتی ہوئی شبیہوں کو درست کرنے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں، اور افسوس ہے کہ ہمارے لوگ استعمال ہورہے ہیں‘‘۔(اکتوبر ۲۰۱۹ء، ص۱۰)
اب اگر کوئی نیازمند، ان محترم حضرات سے یہ پوچھے:’’کون اپنے اٹوٹ انگ پر تیر و نشتر چلاتا ہے؟‘‘ کشمیری پنڈتوں کے ساتھ بھارت کی طرف دار کشمیری مسلم قیادت نے جموں وکشمیر میں جمہوریت پر شب خون مارا، اور اپنے ہاتھ نہتے کشمیریوں کے خون سے رنگے ہیں۔ ۱۹۴۷ء سے ۱۹۹۰ء تک اگر بھارتی قیادت نے بار بار دغا بازیاں نہ کی ہوتیں، مہاتما گاندھی ،جواہر لال نہراور دیگر لیڈروں کے وعدوں کو نبھا کر بھارتی آئین کے اندر بھی جمہوری حقوق ملے ہوتے، انتخابات میں بے پناہ دھاندلیاں نہ کی گئی ہوتیں، تعصب نہ برتا گیاہوتا، تو شاید کشمیر میں جذبات اتنے شدید   نہ ہوتے۔یہ بھی شاید یا د دلانا پڑے گا کہ خاص طور پر ۱۹۷۱ءکے بعد اور پھر شیخ عبداللہ کے برسرِاقتدار آنے کے بعد تو تحریک آزادی کب کی ٹھنڈی پڑچکی تھی۔ کشمیریوں نے بھی لاچار، حالات سے سمجھوتہ کر لیا تھا۔ چاہے ۹؍اگست ۱۹۵۳ءمیں وزیر اعظم شیخ محمدعبداللہ کی گرفتاری اور برخاستگی ہو، یا جون۱۹۸۴ء میں وزیر اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی معزولی، یا ۱۹۸۷ء کے اسمبلی انتخابات میں بے پناہ دھاندلیاں ہوں، بھارتی مسلمان لیڈروں کو کشمیریوں کے سینوں میں خنجر گھونپنے کے لیے برابر استعمال کیا گیا۔ 
شیخ محمد عبداللہ کے انتقال (۸ستمبر ۱۹۸۲ء)کے اگلے برس ۱۹۸۳ء کے اسمبلی انتخابات میں کانگریس پارٹی، نیشنل کانفرنس کے خلاف میدان میں اتری تھی۔ وزیر اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی طرف سے این ٹی راما رائو، جیوتی باسو ، جارج فرنانڈس کے ساتھ اتحاد و قربت پر بھارتی وزیراعظم اندراگاندھی سخت ناراض تھیں۔ جموں خطے میں مسز اندرا گاندھی نے خود ہی نودن قیام کرکے انتخابی مہم کو خوب فرقہ وارانہ رنگ دیا۔ کشمیر میں ڈاکٹر فاروق عبداللہ اور میرواعظ مولوی محمد فاروق کے اتحاد کا حوالہ دے کر ہندو ووٹروں کو خوب بڑھکایا۔ دوسری طرف کشمیر میں جمعیۃ العلما کے لیڈروں نے فاروق عبداللہ کے مذہبی رجحان وغیرہ کو ایشو بناکر عوام کو ان سے متنفر کرنے کی بھر پور کوشش کی۔ 

اگست ۱۹۵۳ءکو شیخ عبداللہ کی گرفتاری اور غیر آئینی معزولی میں بھی مولانا ابولکلام آزاد اور رفیع احمد قدوائی نے کردار ادا کیا۔ شیخ صاحب بھارت سے علیحدگی نہیں چاہتے تھے۔ ۱۹۴۷ء میں بھارتی فوج کشمیر وارد ہوئی، اور پھر نہرو نے ۳جون ۱۹۵۲ء کو ’دہلی ایگریمینٹ‘ پر دستخط کرکے کشمیر کی ’خودمختاری‘ مان لی۔ تب شیخ صاحب، نہرو سے ’دہلی ایگریمنٹ‘ کی بھارتی پارلیمنٹ سے توثیق چاہتے تھے، تاکہ آیندہ کوئی حکومت اس کو تحلیل نہ کرسکے۔ جموں کے مسلم کش فسادات، میں ۶۰فی صد سے زائد مسلم آبادی کو راتوں رات اقلیت میں تبدیل کرکے ۳۰فی صد کردیا گیا ، اور کپور تھلہ ، بھرت پور، اور آلوار جیسے علاقوں میں سے مسلمانوں کا نام و نشان مٹادیا گیا۔ شیخ عبداللہ کو خدشہ تھا کہ   ایسی سازش کسی وقت کشمیر میں بھی دہرائی جاسکتی ہے۔ اس لیے کشمیری مسلمانوں کی شناخت اور انفرادیت کو بچانے کے لیے کسی آئینی ضمانت کے وہ خواست گار تھے۔ 
بھارتی حکومت کی طرف سے اُٹھایا گیا ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کا قدم، فلسطین میں اسرائیلی کارروائیوں سے بھی کہیں زیادہ سنگین ترین ہے۔ پوری دنیا میں یہودی ایک کروڑ سے زیادہ نہیں ہیں۔ اس سے کچھ آدھے ہی اسرائیل میں رہتے ہیں۔ وہ اگر چاہیں تو بھی عرب ممالک یا پورے فلسطین کا آبادیاتی تناسب بگاڑنہیں سکتے۔ کشمیر میں تو مقابلہ ایک ارب ۲۵ کروڑ آبادی کے ساتھ ہے، جو چند ماہ میں ہی خطے کا آبادیاتی تناسب بگاڑ کر کشمیری عوام کو اپنے ہی گھروں میں اجنبی بنا دے گی۔
 ۲۰۱۴ء کے کشمیر اسمبلی انتخابات میں بی جے پی نے وادیِ کشمیر کے بجاے پوری توجہ جموں اور لداخ پر مرکوز کیے رکھی۔ امیت شا نے جموں کی ۱۳؍اور لداخ کی دو مسلم اکثریتی نشستوں پر مسلم ووٹ کو بے وقعت بنانے کے لیے زرکثیر خر چ کر کے مسلم امیدواروں کی فوج کھڑی کردی تھی۔ اس خطے کے مسلم علاقوں کا بھار ت کے مسلم اداروں خاص طور پر دارالعلوم دیوبند وغیرہ کے ساتھ نسبت اور رابطہ ہے، اس لیے کئی خیر خواہوں نے تجویز دی تھی: ’’اس علاقے میں بی جے پی کے رتھ کو روکنے کے لیے بھارتی مسلم زعما سے مدد لی جائے‘‘۔ دوسری جانب تشویش کی بات یہ بھی تھی کہ ’جماعت علما‘ کے نام کی ایک تنظیم ان علاقوں میں بی جے پی کے لیے ووٹ مانگ رہی تھی اور   عوام اس کو ’جمعیۃ العلماء‘ سے خلط ملط کر رہے تھے۔ خیرخواہوں نے دہلی میں جمعیۃ العلماء کے دروازوں پر دستک دے کر ان سے صورت حال کو واضح کرنے کی گزارش کی، مگر کسی کے کانوں پر جوں نہ رینگی۔ جب بہت خرابی ہوچکی تو جمعیۃ العلماء نے لاتعلقی کا ایک بیان جاری کیا، مگر تب تک انتخابی عمل ختم ہو چکا تھا۔ معلوم نہیں کہ یہ حرکت دانستہ تھی یا نادانستہ۔ بھارتی مسلمانوں کی اس تنظیم کے لیڈر نے بتایا ، کہ مشورہ کرنے کے بعد وہ اطلاع دیں گے کہ آیا وہ جموں اور لداخ کے مسلم علاقوں میں رہنمائی کے لیے کوئی ٹیم بھیجیں گے یا نہیں؟ بعد میں ان کا پیغام آیا کہ ’’مسلم لیڈران اپنے آپ کو کشمیر کی سیاست کے ساتھ نتھی نہیں کرنا چاہتے ہیں، اس لیے وہ دعا کے سوا کچھ نہیں کرپائیں گے‘‘۔ 
چند برس قبل کشمیر اسمبلی کے ایک رکن انجینئر عبدالرشید اور کچھ صحافیوں کے ہمراہ مولانا وحید الدین خان صاحب سے دہلی میں شرفِ نیاز حاصل ہوا۔ انجینیر صاحب رکن اسمبلی ہونے کے سبب کشمیر میں بھارتی جمہوریت کا چہرہ تھے۔ وہ بضد تھے کہ مولانا صاحب سے جموں وکشمیر کی صورتِ حال پر راے معلوم کر کے ان کے وسیع تجربے سے رہنمائی حاصل کی جائے۔ نمازِ ظہر تک مولانا کی تقریر اور سوال وجواب کا دلچسپ سلسلہ جاری رہا۔ ممبر اسمبلی نے مولانا کی توجہ کشمیر کی صورتِ حال خاص طور سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی جانب مبذول کراکے مسئلہ کشمیر کے پاے دار حل کے لیے مولانا کا نقطۂ نظر جاننا چاہا۔ 

مولانا وحید الدین خان صاحب نے مسئلہ کشمیر کا صرف ایک ہی حل بتایا: ’’کشمیری ’امن‘ کا راستہ اپنائیں، لیکن اس سے پہلے انھیں تسلیم کرناہوگاکہ ان کی گذشتہ کئی عشروں کی جدوجہد غلط تھی‘‘۔  رشید صاحب نے مولانا سے عرض کیا کہ امن کی خواہش کشمیریوں سے زیادہ کسی اور کو نہیں ہوسکتی، لیکن انصاف کے بغیر امن کاقیام کیسے ممکن ہے؟‘‘ تو مولانا نے فرمایا: ’’انصاف کو امن کے ساتھ جوڑنے والے لوگوں کی یہ ذہنی اختراع ہے۔ میرے نزدیک کشمیر کا بھارت کے ساتھ الحاق حتمی ہے اور اس کو متنازع کہنے والے غیر حقیقت پسند ہیں‘‘۔جب ان سے پوچھا گیا: ’’جموںوکشمیر کے تنازعے کو تو خودہی بھارتی لیڈر اقوام متحدہ میں لے گئے تھے،اس میں کشمیریوں کا کیا قصور؟ وہ بے چارے تو صر ف وعدے کے ایفا ہونے کامطالبہ کرنے کے لیے جدوجہد کررہے ہیں‘‘۔ اس سوال پر مولانا غصّے سے لال پیلے ہوگئے اوروہاں سے اُٹھ کر دوسرے کمرے میں چلے گئے۔ کچھ منٹ انتظار کے بعدہم بھی وہاں سے واپس چلے آئے۔اس سے قبل میز پر ان کا لکھا ہوا ایک پمفلٹ دیکھا، جس میں انھوں نے کشمیری مسلمانوں کو ہدایت دی تھی، کہ اپنے کردار اور تبلیغ سے وہاں موجود ۷لاکھ بھارتی فوجیوں اور نیم فوجی دستو ں تک اسلام کا پیغام پہنچائیں، اور ان کے ساتھ دشمنی پر مبنی رویے کو بند کریں ۔سوال یہ ہے کہ کشمیریوں کو تبلیغ کا مشورہ دینے والے ہمارے یہ محترم مولانا صاحب پھر بھارت میں بسنے والے کروڑ ہندوؤں کو مسلمان کیوں نہیں بناتے۔ 
اگست ۲۰۱۹ء میں دہلی کے ’جنتر منتر چوراہے‘ پر بائیں بازو کی طلبہ تنظیموں نے کشمیر پر ہونے والی آر ایس ایس کی فسطائی یلغار کے خلاف مظاہرے کا اہتمام کیا تھا، مگر وہاں بھارتی مسلمانوں کی کوئی تنظیم نہیں آئی۔ پچھلے ۲۶برسوں کے دوران کشمیر میں سیکورٹی ایجنسیوں اور اس کے حاشیہ برداروں کے ہاتھوں معصوم بچیو ں، لڑکیوں اور عورتوں کی عصمتیں پامال کی گئی ہیں، اس کا ہلکا سا اشارہ ایڈرین لیوی اور کیتھی اسکاٹ کلارک نے اپنی معرکہ آرا تصنیف The Meadows  [۱۹۹۵ء: ۵۷۶ صفحات] میں کیا ہے۔ ا ن برطانوی مصنّفین نے لکھا ہے: ’’کس طرح ایک سرکاری بندوق بردار نے ایک ماں کی گود سے اس کے شیرخوار بچے کو چھین کر اس کی آنکھوں کے سامنے ہی یخ بستہ پانی میں ڈبو دیا اور تڑپاتڑپا کر مارڈالا۔ اس کشمیری مسلمان خاتون کا قصور یہ تھا کہ اس نے اپنی عصمت اس بندوق بردار سرکاری اہلکار کے حوالے کرنے سے انکار کردیا تھا‘‘۔ کتاب کے مصنّفین نے ایک اور واقعے کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’راشٹریہ رائفلز کے زیرسایہ ایک اور سرکاری بندوق بردار نے ایک دیہاتی لڑکی نسیمہ کو اغوا کرکے اس وقت تک اسے جنسی تشدد کا نشانہ بنایا، جب تک کہ وہ لڑکی حاملہ نہ ہوگئی۔ا سی دوران اس سرکاری بندوق بردار کی نگاہ نسیمہ کی بہن پر بھی پڑ گئی تو اسے بھی اغوا کرلیا۔ جب بدقسمت والدین نے پولیس میں شکایت کی تو دوسرے ہی دن بندوق بردار نے بھرے بازار میں پہلے تو اپنی بندوق کی نوک پر ہجوم کو اکٹھا کیا اور پھر آٹھ ماہ کی حاملہ نسیمہ کا لباس تار تار کرکے سب کے سامنے گولیاں اس کے پیٹ میں اتار دیں۔ نسیمہ نے وہیں دم  توڑ دیا اور اس کے پیٹ میں پلنے والا بچہ اس دنیا میں آنے سے پہلے ہی موت کے آغوش میں چلاگیا۔ کشمیر کی موجودہ تاریخ ایسے اَن گنت واقعات سے بھری پڑی ہے! ‘‘
چند روزقبل دہلی کی شاہی جامع مسجدکے امام سید احمد بخاری صاحب نے شکوہ کیا: ’’کشمیری مسلمانوں نے کبھی ان کا ساتھ نہیں دیا‘‘۔ محترم بخاری صاحب کو معلوم ہونا چاہیے: ’’گذشتہ ۶۰برس میں جب بھی بھارت کے کسی کونے میں مسلمانوں کے ساتھ زیادتی ہوئی، تو کشمیریوں نے اپنے جلتے ہوئے گھروں کے شعلوں کو فوراًفراموش کرکے ان کے ساتھ اظہار یک جہتی کے لیے کسی نہ کسی طرح سے اپنی آوازبلند کی۔ مراد آباد کے فسادات کے وقت کئی روز تک کشمیر بند رہا۔ سوپور میں تو مظاہروں کے دوران ایک شخص سرکاری فائرنگ کا نشانہ بن کر ہلاک بھی ہوگیا۔ یہ واقعی سخت شرم کی بات ہے کہ بھارت کے مسلم لیڈروں اور دانش وروں نے جموں وکشمیر میں روا رکھی جانے والی زیادتیوں کے متعلق اپنے منہ ایسے بند کیے ہیں، جیسے ان کی چابیاںہندو انتہا پسندوں کے پاس ہوں۔
ان بھارتی مسلمان لیڈروں کو کشمیرکے مسئلے کے حل کے حوالے سے کئی خدشات اور واہمے لاحق ہیں۔ سب سے پہلا وہم یہ ہے کہ اگر کشمیر الگ ہواتو ان کے بقول ملک کی اکثریتی آبادی پورے ملک کے مسلمانوں کو ملک دشمن اورعلیحدگی پسندوں کے طور پر دیکھے گی۔ غرض یہ کہ، مسلمان لیڈروں کی غالب اکثریت جموں و کشمیر کے سیاسی مسئلے کو عدل اور انصاف سے زیادہ اپنے اوپراس کے پڑنے والے اثرات کے نقطۂ نگاہ سے دیکھتی ہے اور اس مخصوص سوچ سے باہر نکلنے کے لیے وہ تیار نہیں۔ کوئی بھارتی مسلم دانش وَراورحساس طبقے سے یہ پوچھے کہ اگرآپ کشمیری مسلمانوں کو کسی بھی قیمت پر جدا نہیں کرنا چاہتے ہیں، تو پھرکم از کم جموں و کشمیر میں ہورہی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف کبھی اپنے لبوں کو معمولی سی جنبش دینے کی زحمت گوارا کیوں نہیں کرتے؟ آپ جموں وکشمیر میں روز ہونے والی زیادتیوں کے خلاف صرف اس لیے آواز اٹھانے سے گھبرارہے ہیں کہ کہیں آپ پر ملک دشمنی کا لیبل لگنے نہ پائے اور بھارتی انتہاپسندوں سے محفوظ رہیں۔

خوش آیند پہلو یہ ہے کہ بھارت میں مسلمان، عمومی طور پر کشمیر میں مسلمان بھائیوں کی حالت ِ زار پر خاصے اضطراب میں ہیں۔ پچھلے کئی برسوں کے دوران جب بھی مجھے بھارت کے اندرونی اور دُوردراز علاقوں کا دورہ کرنے کا موقع ملا ، تو عوام کو کشمیر کے سلسلے میں خاصا فکرمند پایا۔ چند برس قبل خواجہ معین الدین چشتی درگاہ کے دیوان زین العابدین اور خادم پیر نسیم میاں نے جب یہ اعلان کیا: ’’ہم اپنے حامیوں اور مریدوں کی فوج سرینگر لے جا کر ایک ہزار بھارتی پرچم لہرائیں گے‘‘ تو وہ خود اپنے ہی مریدوں کی ناراضی کا شکار ہوگئے۔ بریلی میں حضرت امام احمد رضا خاں بریلویؒ کے خانوادے کے ایک رہنما نے مجھے بتایا:’’ہماری گردن شرم سے جھک جاتی ہے کہ بے بس اور مظلوم کشمیری بھائیوں کی کوئی مدد کرنے سے قاصر ہیں، اس لیے خاموشی کو ترجیح دیتے ہیں‘‘۔ 
امیر جماعت اسلامی ہند، سیّد سعادت اللہ حسینی نے ۷؍اگست کو اپنے بیان میں کہا:  ’جموں و کشمیر سے متعلق بھارتی حکومت کے اقدامات، پارلیمانی جمہوریت کے مسلّمہ اصولوں کی صریح خلاف ورزی ہیں۔ دفعہ۳۷۰ کے تحت ریاست کی خصوصی حیثیت کو وہاں کے عوام اور ان کے نمایندوں سے مشاورت کے بغیر یک طرفہ، محض صدارتی حکم نامے کے ذریعے یک لخت ختم کر دیا گیا ہے۔ اسی پر اکتفا نہیں کیا گیا، بلکہ جموں و کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔کشمیر کے عوام کے بنیادی حقوق مجروح کیے جارہے ہیں۔ ریاست میں فوجی چوکیاں غیرمعمولی طور پر بڑھانا اور جبر کے اس ماحول میں یک طرفہ فیصلوں کو مسلط کرنا باعث تشویش ہے۔ ان یک طرفہ فیصلوں اور اقدامات کو واپس لیا جائے۔ گرفتار قائدین کو رہا کیا جائے، تعلیمی ادارے کھولےجائیں، عوام کی نقل و حرکت اور مواصلات پر پابندیاں ہٹائی جائیں اور خوف و دہشت کا ماحول ختم کیا جائے۔ جموں و کشمیر کے معاملات وہاں کے عوام اور ان کے نمایندوں کے ساتھ بات چیت اور ان کی مشاورت ہی سے طے ہونے چاہییں‘___ پھر  امیرجماعت اسلامی ہند، سیّد سعادت اللہ حسینی نے یکم اکتوبر کو پریس کانفرنس میں کہا: ’ہم چاہتے ہیں کہ حکومت کشمیری عوام پر سے سخت پابندیوں کو ہٹائے۔ وہاں کے لوگ تقریباً دو ماہ سے انٹرنیٹ اور مواصلاتی سہولیات سے محروم ہیں۔ ریاست کے سیاسی قائدین کو نظربند کرنا جمہوری اقدار کے خلاف ہے۔ تنظیم براے انسانی حقوق اور  سول سوسائٹی کی سربراہی میں فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے وادیِ کشمیر کے سلسلے میں جورپورٹیں پیش کی ہیں، وہ شدید تشویش کا باعث ہیں۔ ان میں کہا گیا ہے کہ کشمیر میں بڑے پیمانے پر نوجوانوں کو قید کیا جارہا ہے، احتجاج پر قابو پانے کے لیے ضرورت سے زیادہ فوج تعینات کی گئی ہے اور طب و صحت کی سہولیات بھی بُری طرح متاثر ہیں‘۔
مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اور حیدرآباد سے رکن پارلیمنٹ اسدالدین اویسی نے، جموں و کشمیر پر غیرآئینی حملہ کرنے کی مذمت کی اور اس کی خصوصی حیثیت ختم کرنے پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا: ’’گوڈسے کی اولاد کے ہاتھوں ناگالینڈ، میزورام، نئی پور اور آسام پر بھی ایسا وار ہوسکتا ہے‘‘۔ مولانا توقیر رضا خاں بریلوی نے کہا: ’’دفعہ ۳۷۰ کے خاتمے کے ساتھ کشمیر پر جو ظلم ہورہا ہے، وہ محض کشمیریت کا نہیں بلکہ انسانیت کا بھی نقصان ہورہا ہے۔ ہم خود کشمیر جاکر برسرِزمین، حالت ِ زار دیکھنا چاہتے ہیں۔ مسلمانوں کے بارے میں ہندستان کے عوام کو گمراہ کیا جارہا ہے ۔ کشمیر پر روا اس ظلم کا واحد سبب، اس علاقے کا مسلم اکثریتی علاقہ ہونا ہے‘‘۔

کتنی حیرت کا مقام ہے کہ اسیرانِ مالٹا مولانا محمودحسنؒ اور مولانا سیّد حسین احمد مدنیؒ کے جانشین، اپنے بیانات اور اقدامات سے کشمیری عوام کے زخموں کو مزید کریدکر ناسور بنار ہے ہیں۔ تاریخ خاصی بے رحم ہوتی ہے۔آئین کی دفعات اور ملک تحلیل ہو سکتے ہیں، مگر قانونِ قدرت تحلیل نہیں ہوسکتا۔ تاریخ کا پہیہ ساکت نہیں رہتا، اور اُس قوم کے لیے خاصا بے رحم ثابت ہوتا ہے، جو اکثریت اور طاقت کے بل بوتے پر کمزور اور ناتواں کی زندگیاں اجیرن بنادے۔ بے بسی پر ہنسنے والو، تاریخ سے سبق لے کر مستقبل کے آئینے میں اپنی بربادی کا منظر دیکھو۔ چلیے اگر درد کا علاج نہیں کرسکتے تو درد کی لاج رکھنے کے لیے خاموش ہی رہو   ع  ’شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات‘۔

بھارت کے موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی ، جب بھارتیہ جنتا پارٹی کے جنرل سیکرٹری تھے، تو ایک دن پارٹی صدر دفتر میں پریس بریفنگ کے دوران ’’بھارت کی روایتی مہمان نوازی ، ہندو کلچر کے بے پناہ برداشت اور تحمل‘‘ پر گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’’صدیوں سے بھارت نے غیر ملکیوں کو پناہ دی اور ان کو سر آنکھوں پر بٹھا کر بلندیوں تک پہنچایا‘‘۔ روزنامہ دی ہندو میں سیاسی اُمور کی ایڈیٹر نینا ویاس نے سوال کیا:’’آپ کی پارٹی نے پھر اس تاریخی ہندو کلچر کے برعکس ، بنگلہ دیشی پناہ گزینوں کو ملک بدر کرنے کے مطالبے کو انتخابی موضوع کیوں بنایا ہے؟‘‘ اس پر مودی کا پارہ چڑھ گیا اور انھوں نے پریس بریفنگ ختم کرنے کا اعلان کیا۔ اسی طرح ایک بار بی جے پی کی مجلس عاملہ کے اجلاس میں سیاسی قرارداد پر بحث کے دوران ایک مسلمان ممبر نے، جو اٹل بہاری واجپائی حکومت میں وزیر بھی تھے ، شکوہ کیا: ’’پارٹی کو دیگر فرقوں کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔ قرار داد صرف مسلمانوں کی مخالفت کے ایشوز سے بھری پڑی ہے۔ قرارداد میں بنگلہ دیشیوں کی شناخت کرکے ان کو ملک بدر کرنا، جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنا، یونیفارم سول کوڈ نافذ کرنااور بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر وغیرہ، یہ سبھی ایشو تو مسلمانوں ہی کے متعلق ہیں‘‘۔

حال ہی میں شمال مشرقی صوبہ آسام میں غیر ملکیوں کو ملک بدر کرنے سے قبل ان کی شناخت کا مرحلہ اور اس کے نتائج حکمران بی جے پی کے لیے ایک طرح سے سانپ کے منہ میں چھچھوندر والا معاملہ بن گیا ہے  اور ’نیشنل رجسٹریشن آف سٹیزنز‘ یعنی NRC  کی لسٹ ، ان سے نگلتے نہ اُگلتے بنتی ہے۔ نگلے تو اندھا، اگلے تو کوڑھی والی مثال ہندو فرقہ پرستوں پر صادق آرہی ہے۔ سپریم کورٹ کی مانیٹرنگ اور سات سال کی عرق ریزی کے بعد صوبہ کی۹۰ لاکھ ۳۹ ہزار آبادی میں ۱۹لاکھ ۶ ہزار افراد ایسے پائے گئے، جو شہریت ثابت نہیں کرسکے۔ برسرِزمین کام کرنے والے رضا کاروں کے مطابق: ’’ان میں سے۱۱ لاکھ افراد ہندو ہیں اور صرف ۸لاکھ ہی مسلمان ہیں‘‘۔ اُن میں سے بھی بیش تر ایسے ہیں، جو فارم وغیرہ بھرنے میں غلطیاں کرگئے۔ خاندان کے متعدد افراد میں ناموں کے ہجے کا فرق ہے۔

۲۰۱۱ءکی مردم شماری کے مطابق آسام میں مسلمانوں کی آبادی ۳۴ء۲۲ فی صد ہے اور تناسب کے اعتبار سے بھارت میں جموں و کشمیر کے بعد مسلمانوں کی سب سے بڑی آبادی ہے۔  اس لیے۹؍اضلاع میں ان کی واضح اکثریت فرقہ پرستوں کی آنکھوں میں کھٹکتی آرہی ہے۔ گذشتہ سال این آرسی کی پہلی فہرست آئی تھی اُس میں تقریباً ۴۰ لاکھ افراد کے نام شامل نہیں تھے، فہرست میں بے شمار غلطیاں تھیں۔ بہت سے ایسے تھے جن کااپنا نام توشامل تھا، لیکن ان کے لڑکوں کا نہیں تھا۔ کسی لڑکے کا تھا تو اْس کے والدین میں دونوں یا کسی ایک کا نام شامل نہیں تھا۔ ایسا بھی تھا کہ ماں کی جگہ بیوی کا نام، بیوی کی جگہ بہن کا نام درج کیا گیا تھا۔

ابھجیت شرما ، جن کی درخواست پر سپریم کورٹ نے شہریوں کی شناخت کرنے کا آپریشن شروع کیا تھا، ان کا کہنا ہے کہ ’’نتائج ان کی توقع کے برعکس ہیں‘‘۔ گوہاٹی سے فون پر راقم سے ان کا کہنا تھا: ’’غیر ملکی افراد کی تعداد ۴۰سے ۵۰لاکھ کے قریب ہونی چاہیے تھی۔ فی الحال جن ۱۹لاکھ افراد کی شہریت پر سوالیہ نشان لگا ہے، ان میں بیش تر ایسے لوگ ہیں ، جو صدیوں سے آسام میں رہ رہے ہیں‘‘۔ شرما نے اب سپریم کورٹ میںشہریوں کی فہرست کی از سر نو تصدیق کی درخواست کی ہے، اور پوچھا ہے: ’’ اس پورے عمل پر ۱۳؍ارب روپے کیسے خرچ ہوئے ہیں؟‘‘ اسی طرح بھارتیہ گھورکھا پری سنگھ کی آسام شاخ کے سربراہ نیتیانند اوپادھیائے نے بتایا: ’’ہماری کمیونٹی کے تقریباً ایک لاکھ افراد شہریت کی فہرست میں نہیں ہیں، یعنی ان کو غیر ملکی قرار دیا گیا ہے‘‘۔ نیپال نژاد گھورکھا جوان، بھارتی فوج میں کام کرتے ہیں ۔ ان کی شہریت سے بے دخلی کے دورس نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ 

آل آسام اسٹوڈنٹس یونین (AASU)، جس نے ۸۰ء کے عشرے میں آسامی بمقابلہ غیرآسامی کے ایشو کو لے کر احتجاجی تحریک کی قیادت کی تھی، کا کہنا ہے: ’’این آر سی کی فہرست ہم کو منظور نہیں ہے۔ یہ تعداد حکومت کے اپنے اعداد و شمار سے بھی کم ہے‘‘۔ ۲۰۱۶ءمیں وزیرمملکت براے داخلہ نے پارلیمان کو بتایا تھا:’’ملک بھر میں تقریباً۲کروڑ غیرقانونی بنگلہ دیشی مقیم ہیں۔  اس سے قبل۲۰۰۴ء میں ایک اور وزیر داخلہ سری پرکاش جیسوال نے یہ تعداد ایک کروڑ ۲۰لاکھ  بتائی تھی اور ان کا کہنا تھا اس میں ۵۰ لاکھ آسام میں مقیم ہیں۔

جغرافیائی اعتبار سے صوبہ آسام تین حصوں میں بٹا ہوا ہے: نشیبی آسام مغربی علاقہ ہے، بالائی آسام مشرقی علاقہ ہے، اور بارک وادی جنوب میں واقع ہے۔آسام  بنیادی طور پر ایک قبائلی ریاست ہے، جہاں کی تقریباً۴۰ فی صد آبادی مختلف قبائل پر مشتمل ہے، مگر ان کو زبردستی ہندو بنا کر رکھا گیا ہے۔ دوسری طرف مسلمانوں اور بنگلہ دیشی پناہ گزینوں کے نام پر ان کو خوف کی نفسیات میں مبتلا کرکے بی جے پی صوبہ کی راے عامہ اپنے حق میں ہموارکر نے میں کامیاب ہوگئی۔

معروف تجزیہ کار کلیان بروا کے مطابق: ’’مسلم اکثریتی علاقوں میں نہایت کم افراد غیرملکیوں کی فہرست میں شامل کیے گئے ہیں‘‘۔ جب یہ مشق شروع ہوئی تو معلوم تھا کہ اس کا ہدف مسلمان ہی ہوں گے۔ اس لیے مسلم تنظیموں خاص طور پرجمعیۃ علما ہند ، اس کے مقامی لیڈر مولانا بدرالدین اجمل، ان کے رفقا اور کئی غیر سرکاری تنظیموں نے مسلمانوں کو دستاویزات تیار کرانے اور قانونی مدد فراہم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ مولانا اجمل آل انڈیا یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ (AIUDF) کے سربراہ اور لوک سبھا کے ممبر بھی ہیں۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ، علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی اور کئی دیگر اداروں سے مسلم طلبہ نے بھی رضاکارانہ طور پر ان سے تعاون کیا۔ دُور دراز کے علاقوں میں پہنچ کر ان نوجوانوں نے شہریت ثابت کرنے کے لیے مطلوب دستاویزات تیار کرنے میں لوگو ں کی مدد کی۔

کلیان بروا کے نزدیک: ’’چونکہ ہندو اس عمل سے زیادہ خائف نہیں تھے، انھوں نے اس کو سنجیدگی سے نہیں لیا، جس کی وجہ سے ان کی خاصی تعداد شہریت کی فہرست سے باہر ہوگئی ہے۔ اب،جب کہ بی جے پی کے ہی ووٹروں کی اچھی خاصی تعداد غیر ملکیوں کے زمرے میں آگئی ہے ، بی جے پی نے اس این آر سی کے پورے عمل پر سوالیہ نشان کھڑے کر دیے ہیں۔ آسام کے وزیرخزانہ اور بی جے پی کے مقتدر لیڈر ہیمنت بیسواسرما نے این آر سی کے عمل میں متعین افسران پر اپنا غصہ نکالتے ہوئے کہا ہے کہ: ’’ان افسران نے۱۹۷۱ءمیں بنگلہ دیش سے ہجرت کرکے آئے ہندو ؤں کو دی گئی ریفیوجی اسناد کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔اور بھگوان کرشنا، بھگوتی درگا کے ماننے والوں کو غیر بھارتیہ قرار دیا گیا ہے۔ آسام میں مقیم بنگلہ دیشی اب بھارت کے دیگر علاقوں میں   بس گئے ہیں۔ اس لیے آسام کی طرز کا آپریشن پورے ملک میں لاگو کیا جانا چاہیے، جس پر ۱۷کھرب روپے لگیں گے‘‘۔

’مہاجرین کے بحران‘ پر کام کرنے والے سہاس چکما کا کہنا ہے: ’’آسام میں آبادی کو یہ ثابت کرنا تھا کہ ۲۴مارچ۱۹۷۱ء سے قبل وہ اسی صوبے میں مقیم تھے، جو بہت مشکل کام ہے۔ ۱۹۷۱ءمیں آسام کی ۴۴فی صد آبادی خواندہ تھی۔ باقی آبادی آخر کہاں سے پیدایشی سند حاصل کرے؟ اس عمل میں اکثر بے زمین مزدور شہریت ثابت کرنے میں ناکام رہے ہیں‘‘۔ سہاس چکما کا کہنا ہے: ’’چائے کے باغات میں کام کرنے والے قبائلیوں کو چھوڑ کر کوئی بھی کمیونٹی آسام کی اصل رہایشی ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتی‘‘۔ آل انڈیا ڈیموکریٹک فرنٹ کے جنرل سیکرٹری امین الاسلام کا کہنا ہے: ’’پچھلے ۴۰برسوں سے مسلمانوں کے سروں پر شہریت کی جو تلوار لٹک رہی تھی،   وہ ہٹ گئی ہے، کیوں کہ سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق شہریت کا پیمانہ مذہب نہیں ، بلکہ ’آسام ایکارڈ‘ تھا، جس کی رُو سے ’’مارچ ۱۹۷۱ءتک آسام میں رہنے والوں کو شہری تسلیم کرنا تھا‘‘۔

سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق پہلا، یعنی شناخت کا مرحلہ ختم ہو گیا ہے۔ دوسرا مرحلہ  ووٹر اور شہریت کی فہرست سے ایسے افراد کا اخراج کرنا ہے۔ تیسرے مرحلے میں ملک بدر کرنا۔ حکومت پریشان ہے کہ ہندوؤں کی اتنی بڑی تعداد کو کہاں بھیجے؟ حکومت قانون میں ترمیم کرنا چاہتی ہے کہ: ’’بنگلہ دیش، پاکستان،ا ور افغانستان سے بھارت آنے والے ہندو، سکھ، جین اور پارسی بھارتی شہریت کے حق دار ہوں گے‘‘۔ اس کے لیے ان کو کوئی بھی دستاویز پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ لیکن دوسری طرف اگر ملک بدر یا نظر بند ہوں گے تو، صرف مسلمان ہی ہوںگے۔

تقسیم ہند ۱۹۴۷ء اور ۱۹۷۱ء میںسقوط مشرقی پاکستان کے عرصے کے دوران مجموعی طور پر دعوئوں کے مطابق تقریباً ایک کروڑ افراد ہجرت کرکے شمال مشرقی ریاستوں میں بس گئے تھے۔ ۱۹۷۱ء میں تو پاکستان کو سفارتی سطح پر زچ کرنے کے لیے سرحدیں کھول دی گئیں تھیں۔ لیکن جب بنگلہ دیش وجود میں آیا تو اکثر لوگ واپس اپنے گھروں میں چلے گئے۔۱۹۷۸ء سے ۱۹۸۵ء کے درمیان آل آسام اسٹوڈنٹس یونین سمیت کچھ تنظیموں نے پروپیگنڈا شروع کیا کہ ’’بہت سے پناہ گزین بنگلہ دیش جانے کے بجاے آسام میں بس گئے ہیں‘‘۔۱۹۷۸ء کے انتخابات میں ۱۷مسلمان اسمبلی کے لیے منتخب ہو گئے، جس پر آسمان سر پر اٹھا لیا گیا: ’’آسام کو ’اسلامی ریاست‘ میں تبدیل کرنے کے لیے بنگلہ دیشی مسلمانوں کا ریلا چلا آرہا ہے‘‘۔پہلے تو غیر آسامیوں، یعنی ہندی بولنے والوں کے خلاف تحریک شروع کی گئی، پھر اس کا رُخ خاص کر بنگلہ دیشیوں کے خلاف موڑدیا گیا۔ بعدازاں اسے آر ایس ایس اور دیگر فرقہ پرستوں کی شہ پر خوں ریز مسلم مخالف تحریک میں تبدیل کردیا گیا، جس میں ہزاروں بے گناہ مسلمان مردوں، عورتوں اور بچوں کی جانیں لیں، مسلمان عورتوں کی بے حُرمتی اورکروڑوں روپے مالیت کی جایدادیں تباہ و برباد کی گئیں۔

آسام میں ’بنگلہ دیشی‘ کہہ کر مسلمانوں کی نسل کشی کی گئی، جس میں ۱۶فروری ۱۹۸۳ءکو نیلی (Nillie: ضلع ناگائوں) اور چولکاوا میں قتل عام کے روح فرسا واقعات کبھی فراموش نہیں کیے جاسکتے، جن میں تقریباً ۳ ہزار (غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ۱۰ ہزار) افراد کو محض چھے گھنٹوں میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیاتھا۔ اس المیے کی تحقیقات کے لیے ’تیواری کمیشن‘ نے ۶۰۰صفحوں پر پھیلی مفصل رپورٹ میں ظلم کی رُوداد کو مرتب کیا، جو فروری ۱۹۸۴ء میں شائع ہوئی۔ پھر ۱۵؍اگست ۱۹۸۵ء کو بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی کی مرکزی حکومت، آسام حکومت اور احتجاجی طلبہ لیڈروں کے درمیان معاہدہ ’آسام آکارڈ‘ وجود میں آیا۔پولیس نے نیلی قتل عام میں ملوث ۶۸۸؍ افراد کے خلاف فردِ جرم عائد کی، مگر ’آسام اکارڈ‘کی ایک شرط کے تحت معلوم قاتلوں اور فسادیوں کے خلاف قتل کے تمام مقدمات واپس لے لیے گئے۔ اس طرح آج تک مسلمانوں کی اس نسل کشی کے لیے کسی ایک قاتل اور فسادی کو سزا تک نہیں ملی۔

بنگالی مسلمانوں کے خلاف یہ مہم چلانے والی ’آل آسام سٹوڈنس یونین‘ کے بطن سے نکلی ’آسام گن پریشد‘ کو بطور انعام اقتدار سونپ دیا گیا۔معاہدے کے مطابق مارچ ۱۹۷۱ء (کو ایک حتمی تاریخ) بنیاد مان کر اس سے پہلے آسام آکر رہایش اختیار کرنے والوں کو شہری تسلیم کیا گیا تھا۔ چنانچہ اس معاہدے کے بعد مر کزی حکومت نے پارلیمنٹ میں ایک ترمیمی بل کے ذریعے ’’شہریت کے قانون مجریہ ۱۹۵۵ء‘‘ میں سیکشن ۶ (الف) داخل کر کے اسے منظور کیا،جس پر اس وقت کسی نے کوئی اعتراض نہیں کیا بلکہ بشمول کانگریس، بی جے پی،کمیونسٹ جماعتوں، نیز تمام غیرسیاسی وسماجی تنظیموں نے بھی اسے تسلیم کیا تھا۔ چونکہ یہ مسئلہ ریاست میں مسلمانوں کو ایک سیاسی قوت بننے سے روکنے کی غرض سے کھڑا کیا گیا ہے۔ اس لیے پہلے ۲۰۰۹ء میں اور پھر ۲۰۱۲ء میں آسام سنمیلیٹا مہاسنگھـ سمیت مختلف فرقہ پرست اور مفاد پرست افراد اور تنظیموں نے سپریم کورٹ میں اس معاہدے کے خلاف مفاد عامہ کی ایک عرض داشت داخل کرکے ۵مارچ ۱۹۷۱ءکے بجاے، ۱۹۵۱ءکی ووٹرلسٹ بنیاد پر آسام میں شہریت کا فیصلہ کرنے کی استدعا کی۔ نیز اسی طرح مذکورہ معاہدے کی قانونی حیثیت اور پارلیمنٹ کے ذریعے’شہریت کے ترمیمی قانون ۱۹۵۵ء‘ کو بھی چیلنج کیا گیا۔

بعد ازاں سپریم کورٹ نے ۱۹۷۱ءکو بنیاد تسلیم کرتے ہوئے شہریوں کی ایک نئی فہرست تیار کرنے کا فرمان جاری کیا۔ ممبر پارلیمنٹ اجمل نے جو ریاست کی ڈھبری حلقے سے پارلیمنٹ میں نمایندگی کرتے ہیں، ان کی جماعت کے ریاستی اسمبلی میں ۱۳؍ ارکان ہیں۔ ان کے بقول: ’’سابق کانگریسی وزیر اعلیٰ ترون گو گوئی نے اپنے ۱۵سالہ دورِ حکومت (۲۰۰۱ء-۲۰۱۶ء) میں ریاست کی لسانی اور مذہبی اقلیتوں کو تین کاری ضربیں لگائیں: پہلے انھوں نے۲۰۰۵ء میں آئی ایم ڈی ٹی ایکٹ کا سپریم کورٹ میں کمزور دفاع کرکے اس کو منسوخ کرایا، جس کے تحت کسی شخص کو غیر ملکی ثابت کرنے کی ذمہ داری انتظامیہ پر تھی۔ بنگلہ دیش سے آنے والوں کا پتا لگانے اور شناخت کرنے کی غرض سے آئی ایم ڈی ٹی ایکٹ ۱۹۸۳ء میں پاس کیا گیا تھا۔ اس ایکٹ کے تحت کسی فرد کو غیر ملکی ثابت کرنے کی ذمہ داری استغاثہ پر تھی ۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اس کو ختم کردیا گیا ۔ اس کے بعد ان کی حکومت نے آسام میں ’بارڈر پولس ڈیپارٹمنٹ‘ تشکیل دے کر اسے اس بات کا مکمل اختیار دے دیا کہ وہ جسے چاہے غیر ملکی قرار دے کر گرفتار کرسکتا ہے۔ ہزاروں معصوم لوگ اس ڈیپارٹمنٹ کے ظلم و ستم کا شکار ہو چکے ہیں۔ واضح رہے کہ ملک کی دیگر ریاستوں میں اس طرح کا کوئی محکمہ نہیں ہے۔ مزید ستم یہ کیا گیا کہ گرفتار شدہ لوگوں سے راشن کار ڈ بھی چھین لیے گئے‘‘۔

 مسلمانوں کو کس حد تک پاور اسٹرکچر سے باہر رکھنے کا کام کیا گیا، اس کی واضح مثال بھارتی حکومت اور ’بوڈو لبریشن ٹائیگرز‘ (BLT) کے درمیان۲۰۰۵ء کا معاہدہ ہے، جس کی رُو سے   آسام کے کھوکھرا جار اور گوپال پاڑہ میں بوڈو علاقائی کونسل قائم کی گئی۔ یہ معاہدہ جنوبی افریقہ کی سفیدفام اقلیت کی نسلی حکمرانی (اپارتھیڈ رول) کی یاد دلاتا ہے۔ کیوں کہ جن اضلاع میں یہ کونسل قائم کی گئی، ان میں بوڈو قبائل کی تعداد محض ۲۸ فی صد ہے۔ بنگالی بولنے والی آبادی نے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ۸۰ء کے عشرے میں ’یونائیٹڈ مائنارٹیز فرنٹ‘ (UMF) کے نام سے ایک سیاسی تنظیم بنائی تھی، لیکن یہ تجربہ باہمی اختلافات کی وجہ سے زیادہ کامیاب نہ ہو سکا، حالانکہ اسے اسمبلی اور پارلیمنٹ میں قابل ذکر کامیابی ملی تھی۔ فرنٹ سے منتخب ہونے والے رکن پارلیمان بیرسٹر ایف ایم غلام عثمانی اور دیگر لیڈر کانگریس میں چلے گئے۔ ریاست کے حالات اور کانگریسی حکومت کے رویے سے مایوس ہو کر اکتوبر ۲۰۰۵ء میں اس تجربے کا احیا کیا گیا۔ چنانچہ صوبے کی ۱۳ملّی تنظیموں نے ایک نیا سیاسی محاذ ’آل انڈیا ڈیموکریٹک فرنٹ‘ (AIDF)کے نام سے تشکیل دیا۔ اس کی تشکیل میں ایڈووکیٹ عبدالرشید چودھری کا اہم کردار رہا، لیکن وہ بے زری کے سبب قیادت نہ نبھاسکے۔ چنانچہ قرعہ فال عْود اور عطر کے بڑے تاجر مولانا بدرالدین اجمل قاسمی صاحب کے نام نکلا۔ ان کی قیادت میں فرنٹ ریاست میں حزب مخالف کی سب سے بڑی جماعت بن گئی۔

آسام کا دوسرا بڑا مذہب اسلام ہے، جہاں ۱۳ویں صدی میں سلطان بختیار خلجی کے دور میں مسلمانوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس وقت تک آہوم سلطنت وجود میں بھی نہیں آئی تھی۔جب برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی نے ۱۷۵۷ءمیں جنگ پلاسی کے بعد بنگال پر قبضہ کیا، تو اس کے زیر تسلط آسام کا علاقہ بھی آیا۔ کمپنی نے یہاں بڑے پیمانے پر بنگالیوں کو لاکر بسانا شروع کیا۔ چونکہ آسام میں زمینیں زرخیز تھیں اورمشرقی بنگال سے بڑی تعداد میں بے زمین کسان یہاں آکر آباد ہوگئے،ان میں ۸۵فی صد مسلمان تھے۔ آج تین صدیوں سے آباد انھی مسلمانوں کو ’غیر ملکی یا بنگلہ دیشی‘ قرار دے کر ان کے لیے زمین تنگ کی جارہی ہے۔ 

ریاست میں اکثر یت قبائلی فرقوں کی ہے، جو کل آبادی کا لگ بھگ ۴۰ فی صد ہیں۔ قبائلیوں کی کل ہند تنظیم راشٹریہ آدیواسی ایکتا پریشد کے نیشنل کو آرڈی نیٹر پریم کمار گیڈو کہتے ہیں: ’’آئین ہندکی رو سے قبائلی ہندو نہیں ہیں۔ پھر مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کا فیصلہ بھی موجود ہے، جس نے قبائلیوں کو غیر ہندو قرار دیا ہے‘‘۔ چنانچہ ریاست میں ہندو حقیقی معنوں میں اکثریت میں نہیں ہیں۔یہ چیز بھی فرقہ پرستوں کو کھٹکتی ہے۔ انھوں نے مسلمانوں کی شہریت چھیننے اور ان کو بے حیثیت کر نے کی کوششیں شروع کی تھیں، اور یہ معاملہ برما کے اراکانی مسلمانوں سے بھی سنگین تر ہوتا جا رہا تھا۔ سرکار ی اعداد و شمار کے مطابق اگست ۲۰۱۷ءسے جاری اس کارروائی میں اب تک ۳۹ہزار ۵سو ۸۹؍ افراد کو غیر ملکی قرار دے کر حراستی کیمپوں میں نظر بند کیا جا چکا تھا۔

انصاف کے دہرے معیار کی اس سے بڑھ کر اور کیا مثال ہو سکتی ہے کہ ایک طرف آسام میں مذہب کی بنیاد پر شہریت میں تفریق کی جارہی ہے، تو دوسری طرف بھارت کی مرکزی حکومت لاکھوں غیرملکی ہندو پناہ گزینوں کو شہریت دلانے کے لیے قانون سازی کر رہی ہے۔اس سے بڑی اور کیا ستم ظریفی ہوسکتی ہے کہ آسام میں تو مقامی ہندو آبادی کی نسلی اور لسانی برتری قائم رکھنے کے لیے لاکھوں بنگالی نژاد مسلمانوں کو بنگلہ دیشی قرار دے کر شہریت سے محروم کر نے کی کوشش ہو رہی ہے، وہیں دوسری طرف جموں و کشمیر کی نسلی ، لسانی و مذہبی شناخت کو ختم کرنے کے لیے علانیہ دوہرے پیمانے صرف اس لیے اختیار کیے جا رہے ہیں کہ آسام کی ۳۵ فی صد اور جموں و کشمیر کی ۶۸ فی صد مسلم آبادی ہندو فرقہ پرستوں اور موجودہ بھارتی حکومت کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹک رہی ہے۔ بھارتی حکومت کے حالیہ اقدامات کا مقصد یہ ہے کہ ہندو فرقہ پرست دیگر ریاستوں سے ہندو آبادی کو کشمیر میں بساکر مقامی کشمیری مسلمانوں کو اپنے ہی وطن میں اقلیت میں تبدیل کردیں۔

چاروں طرف پہاڑوں سے گھرے ازبکستان [آبادی: ایک کروڑ ۸۴ لاکھ اور رقبہ ۲۷ لاکھ ۲۴ہزار ۹۰۰ مربع کلومیٹر] کے درو دیوار خاصی حد تک کشمیر سے مماثلت رکھتے ہیں۔ اس علاقے کے سفر سے معلوم ہوتا ہے کہ کشمیر جنوبی ایشیا سے زیادہ وسطی ایشیا کے قریب ہے۔ فن تعمیر، رہن سہن، خوراک، غرض ہر چیز میں کشمیر کی پرچھائیں نظر آتی ہیں۔ تاشقند اور سمر قند کے درمیان ۴۵۰کلومیٹر طویل شاہراہ پر سڑک کے دونوں اطراف درختوں کی ایستادہ قطاریں سرینگر، بارہمولہ، مظفر آباد روڈ کی یاد تازہ کرتی ہیں۔

ایرانی نژاد میر سیّد علی ہمدانیؒ [۱۳۱۴ء-۱۳۸۴ء]نے بھی اسی خطے کو وطن بنایا۔ وہ  سات سو مبلغوں اور ہنرمندوں کے قافلے کے ساتھ وادیِ کشمیر میں تشریف لائے، جو جنوبی ایشیا کا خطہ ہے۔یہاں پر بڑی تعداد میں اونچی ذات کے ہندو یا برہمن سیّدعلی ہمدانیؒ کی تبلیغ سے اسلام کی پناہ میں آگئے۔ ان کی آخری آرام گاہ تاجکستان کے شہر کلوب میں ہے۔ پھر بخارا کے نواح میں سلسلۂ نقشبندیہ کے بانی محمد بہاؤالدین نقشبندیؒ [۱۳۲۷ء- ۱۳۹۰ء]کا مزار ہے۔ سمر قند اور بخارا میں خانقاہوں کی کثر ت ہے، جن کی حالت اس وقت بہت ناگفتہ بہ ہے۔ یہ کسی زمانے میں تلاشِ حق کے مسافروں، صوفیوں اور درویشوں کی پناہ گاہ ہوا کرتی تھیں۔ ایک معمر ازبک تیمور تیلیفوف کے مطابق: ’’انیسویں صدی تک یہ خانقاہیں ، ان درویشوں سے آباد رہتی تھیں، جو ترکی اور جنوبی ایشیا سے روحانی فیض حاصل کرنے کے لیے ازبکستان کا رخ کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا: ’’ہمارے بزرگ بتاتے تھے کہ درویشوں کی آمد ایک طرح سے جشن کا سا ماحول بنادیتی تھی اور ان کو کھانا وغیرہ پہنچانے کے لیے مقامی آبادی میں مقابلہ آرائی ہوتی تھی۔ اشتراکی روس کے استبدادی اور سامراجی دور میں خانقاہوں پر تالے لگائے گئے۔ سرحدیں بند ہوگئیں، لوگوں کا آنا جانا بند کردیاگیا ۔ اس طرح تمدن و تہذیب کے صدیوں پرانے رشتے ٹوٹ گئے۔

سکندر اعظم [م:۳۲۳ ق م]اور چنگیز خان [م: ۱۲۲۷ء]کے گھوڑوں کی ٹاپیں، امیرتیمور[۱۴۰۵ء] کی جلالی نگاہیں، محمد شیبانی خان [م: ۱۵۱۰ء]اور مغل شاہزادے ظہیرالدین بابر [م:۱۵۳۰ء]کی معرکہ آرائیاں اور پھر گذشتہ صدی عیسوی کے چوتھے  عشرے میں اشتراکی روسی فوج کی بمباری، ازبکستان کی تاریخ کے سنگ ِ میل ہیں۔ یہ ملک ایک طرح سے قدیم اور وسطی دور کی شاہراہ ریشم کا مرکز تھا۔ اناطولیہ (ترکی)اور بحر روم سے چین اور دوسری طرف جنوبی ایشیا سے یورپ و افریقہ کو ملانے والی شاہراہیں سمر قند کے ریگستانی چوراہے پر بغل گیر ہو جاتی تھیں۔ موجودہ ازبک صدر شوکت مرزیوف کے مطابق: ’’ازبکستان، چین کے ’بلٹ روڑ پروجیکٹ ‘ کے مکمل ہونے کے بعد ایک بار پھر تہذیب و تمدن کا گہوارہ بنے گا‘‘۔ ازبکستان ترکی کی قیادت میں ترک کونسل کا ممبر بھی بننے والا ہے۔ ترک نسل کے ملکوں پر مشتمل اس تنظیم میں آذربائیجان، قازقستان، کرغیزستان اور ترکی شامل ہیں، جو مشترکہ تہذیب، وراثت، شناخت اورکلچرکی پاسداری کے لیے یک جا ہوئے ہیں۔

ازبکستان کی فرغانہ وادی سے ہی نوجوان سردار ظہیر الدین بابر نے پامیر اور ہندو کش کے بلند و بالا پہاڑوں کو عبور کرکے پہلے کابل اور پھر درۂ خیبر کو عبور کرکے ۱۵۲۶ء میں دہلی پر قبضہ کرکے مغل سلطنت کی بنیاد ڈالی۔ اس سے قبل بابر کا پایۂ تخت سمر قند ہی تھا، مگر ازبک سردار شیبانی خان نے اس کو شکست دے کر کابل کی طرف بھاگنے پر مجبور کردیا۔ بابر کے جد امجد امیر تیمور کو ازبکستان میں قومی ہیرو کا درجہ حاصل ہے۔ تاشقند کی ایک خوب صورت سبز گنبد والی عمارت میں امیر تیمور میوزیم ہے۔ یہاں امیر تیمور سے متعلق پانچ ہزار نوادرات محفوظ کیے گئے ہیں۔ یہاں جس دوسرے مقام پر بہت زیادہ ہجوم ہوتا ہے، وہ خوست امام چوک کے پاس لائبریری میوزم ہے۔ یہاں وہ قرآن شریف کا نسخہ محفوظ ہے، جس کی حضرت عثمان غنیؓ شہادت کے وقت تلاوت کر رہے تھے۔ ہرن کی کھال پر تحریر قرآن شریف کے اس نادر نسخے کے اوراق پر خون کے دھبے نمایاں ہیں۔

میں شیشے میں بند اس نسخے کو دیکھنے میں محو تھا ، کہ میوزم کے ایک ملازم عظمت اکمتوف نے پوچھاکہ: ’کیا تم مسلمان ہو؟‘ میں نے سر ہلا کر ’ہاں‘ کہا، تو اس نے دوسرا سوال داغا، کہ: ’کس فرقے سے تعلق رکھتے ہو؟‘ پھر خود ہی ازبک لہجے میں ٹوٹی پھوٹی انگریزی میںپوچھا کہ: ’کیا تم حنفی ہو؟‘ میں نے جواب دیا کہ: ’میں حضرت عثمان غنیؓ کے مسلک سے ہوں‘۔ وہ شاید ابھی جواب تول ہی رہا تھا، کہ میں نے پوچھا کہ: ’حضرت عثمانؓ کس فرقے سے تعلق رکھتے تھے؟ آخر زچ ہوکر پوچھا کہ: ’تم کس ملک سے تعلق رکھتے ہو، ہندستان یا پاکستان؟‘ میں نے کہا: ’کشمیر سے ہوں‘۔ وہ پھر بغلیں جھانک کر کشمیر کے محل وقوع کے بارے میں استفسار کرنے لگا۔ افسوس کہ پچھلی ایک صدی میں جس طرح سرحدوں نے روابط کو محدود کرکے رکھ دیا ہے، اس سے یہ ازبک شخص کشمیر کے نام سے ہی واقف نہیں تھا۔ مجھے بتایا گیا کہ: ’’قرآن شریف کا یہ نسخہ امیر تیمور، سمرقند لے کر آگیا تھا۔ لیکن ۱۸۶۸ء میں روسیوں نے اس کو ماسکو منتقل کیا۔ پھر ۱۹۲۴ء میں لینن نے ترکستان کے مسلمانوں کو خوش کرنے کے لیے یہ نسخہ تاشقند بھیج دیا‘‘۔ اس میوزیم میں اور بھی نادر و نایاب کتب کا ذخیرہ ہے۔

تاشقند میں لال بہادر شاستری کا مجسمہ ،۱۹۶۵ءکی جنگ ستمبر کی یاد دلاتا ہے۔ جنوری ۱۹۶۶ء میں تاشقند معاہدے پر دستخط ہونے کے چند گھنٹوں بعد ہی بھارت کے وزیر اعظم لال بہادر شاستری کا انتقال ہوگیا۔ اسی شہر میں صدر پاکستان ایوب خان اور وزیر خارجہ ذوالفقارعلی بھٹوکے درمیان اختلاف پیدا ہوگیا۔ پانچ ماہ بعد وہ وزارت سے الگ ہوگئے، اور دسمبر ۱۹۶۷ء میں پاکستان پیپلز پارٹی بنالی اور چند برسوں میں وزیراعظم بن گئے۔

جہاں تاشقند میں اشتراکی حکمرانی کے آثار ابھی تک نظر آتے ہیں، وہاں سمر قند میں    ان آثار کو اُکھاڑ کر پھینک دیا گیا ہے۔ مسجدوں اور میناروں کا ایک لامتناہی سلسلہ شہر کی تاریخ اور انفرادیت بیان کرتا ہے۔ حکومت نے ان قدیم تاریخی عمارتوں اور مقامات کو محفوظ بنانے، ان کی روایتی خوب صورتی کو برقرار رکھنے کے لیے بہت رقم خرچ کی ہے۔ صفائی ستھرائی کا معیار یورپ سے کم نہیں۔ پارکوں اور سیر گاہوں کاکوئی شمار نہیں۔شہر کی سیر کے دوران ایک پہاڑی پر موجود قلعے کے کھنڈرات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ہماری گائیڈ انارہ نے کہا کہ: ’’یہ وہ سمر قند ہے جس کو چنگیز خان نے تباہ کردیا تھا۔ اس ۲۶۵۰سالہ قدیم شہر کا اصل نام افراسیاب تھا‘‘۔ مسلم دنیا کے موتی کہلانے والے اس شہر نے متعدد حملہ آورں کو دیکھا ہے۔ ابن بطوطہ نے اس شہر کے نواح میں باغات اور ان کے میووں کی شیرینی کا خصوصی تذکرہ کیا ہے۔

سمرقند کے وسط میں امیر تیمور کا مزار ایرانی و ترک فن تعمیر کا شاہکار ہے۔ تاج محل کی طرح اصل قبریں مقبرے کے تہہ خانے میں ہیں، مگر اس کے دروازے پر سخت پہرا ہے۔ گائیڈ نے بتایا: ’’۱۹۴۱ء میں کمیونسٹ حکومت نے اس مقبرے کی کھدائی کرکے امیر تیمور کی باقیات کو ماسکو منتقل کیا۔ مقامی افراد نے ان کو بہت روکا، مگر وہ باز نہ آئے، اور باقیات کی ماسکو روانگی کے دو دن بعد ہی نازی جرمنی نے کمیونسٹ روس کے خلاف اعلانِ جنگ کیا اور وہ روسی فوجوں کو روندتے ہوئے ماسکو کے نواح میں پہنچ گئے۔ تین سال کے بعد روسی آمر اسٹالن نے کسی کے کہنے پر باقیات کو ماسکو سے سمرقند واپس لا کر سرکاری اعزاز کے ساتھ مقبرے میں دفن کرکے تہہ خانے کو سیل کردیا۔ اس کے ایک ماہ بعدہی کمیونسٹ فوجوں نے وولگو گراڈ کی فیصلہ کن جنگ میں نسل پرست جرمنوں کی کمر توڑ دی، اور پھر جرمن فوج مسلسل پیچھے ہٹتی رہی تاآنکہ روسی فوج برلن میں داخل ہوگئی‘‘۔

سمر قند،الجبرا کے موجد محمد ابن موسیٰ خوارزمی [م: ۸۵۰ء]اور مشہور سائنس دان بوعلی سینا [م: ۱۰۳۷ء] کی علمی مشغولیت کی سرزمین بھی ہے جس کے علم نے حساب کی دنیا میں انقلاب برپا کردیا۔ مزارِ تیمور سے کچھ دُور، جو ریگستانی چوراہا ہے، وہ قدیم شاہراہ ریشم کا مرکز تھا۔ جہاں پر نہ صرف اشیا کا بلکہ افکار و خیالات کا بھی تبادلہ ہوتا تھا۔ اسی لیے اس چوراہے کے دونوں اطراف دو عظیم الشان مدرسے اور سامنے ایک وسیع وعریض مسجد ہے۔ سمر قند میں، امیر تیمور کے روحانی پیشوا  شیخ برہان الدین اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی قاسم بن عباس یا شاہ زندہ کی  آرام گاہیں بھی ہیں۔ شاہ زندہ کے مقبرے تک جانے کے لیے تقریباً ۴۰سیڑھیاں چڑھنی پڑتی ہیں۔ ہمیں اسی گائیڈ نے بتایا: ’’سیڑھیاں چڑھتے اور اترتے وقت اس کے پایہ گنتے ہوئے اگر کسی خواہش کا اظہار کیا جائے، تو وہ پوری ہو جاتی ہے۔ شرط ہے کہ اترتے اور چڑھتے وقت سیڑھیوں کے پایوں کے عدد یکساں آنے چاہییں‘‘۔ لگتا ہے کہ کسی نے یہ ایک طرح کی مائنڈ گیم ایجاد کی ہے۔ ایک طرف سیڑھیاں گننا اور ہرسیڑھی چڑھتے ہوئے خواہش کا اظہار کرنا بھی دماغی ورزش اور منفرد مصروفیت ہے۔

سمر قند کے نواح میں تقریباً ۲۵کلومیٹر کے فاصلے پر محدث امام بخاریؒ کاعالی شان روضہ  فنِ تعمیر کا عمدہ نمونہ ہے۔ اس سے ملحق مسجد، عجائب گھر، لائبریری اور یونی ورسٹی ہے۔ امام بخاریؒ نے احادیث جمع کرکے اور ان کو کتابی شکل دینے کا ایک بڑا کارنامہ انجام دیا۔ اشتراکی دورِ حکومت میں یہ روضہ بند کر دیا گیا تھا۔ ۱۹۵۴ء میں جب انڈونیشیا کے صدر [۶۷-۱۹۴۵ء] احمدسوکارنو [م:۱۹۷۰ء] ماسکو کے دورے پر آئے، تو انھوں نے امام بخاریؒ کے روضے پر جانے کو خواہش ظاہر کی۔ فی الفور ایک ٹیم روانہ کی گئی، جس نے صفائی کی۔ اس سے متصل مسجد ایک کھنڈر بن چکی تھی۔ اس کے بعد جب صومالیہ کے صدر نے بھی اپنے دورے کے دوران ، روٖضے پر جانے کی خواہش ظاہر کی، تو اشتراکی حکام نے اس مقبرے کی دیکھ بھال کے لیے ایک کمیٹی مقر رکی۔ ۱۹۹۸ء میں اسلام کریموف نے مزار کی تعمیر شروع کی ۔سرینگر کی جامع مسجد کی طرز پر صحن خاصاسرسبز ہے اور ایک حصے میں ایک تالاب ہے، جس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ اس کا پانی شفا بخش ہے۔

ہوٹل سے تاشقند ایرپورٹ واپس جاتے ہوئے میں نے بڑی عمر کے ڈرائیور رفیق کریموف سے پوچھا کہ: ’’اشتراکی دور حکومت کی زندگی کیسی تھی؟‘‘ تو اس نے کہا: ـ’’کہ ایک آہنی خول تھا،  ہم دنیا سے کٹے ہوئے تھے۔ جس کسی بھی چیز کے لیے کمیونسٹ پارٹی کی رضامندی نہیں ہوتی تھی وہ قابل تعزیر تھی، چاہے تحریر ، تقریر یا آپس میں ذاتی سطح پر گفتگو ہی کیوں نہ ہو۔ قطار میں کھڑے ہوکر زندگی گزارنا ہی زندگی کا مستقل حصہ تھا۔ راشن لینے سے لے کر ہر چیز حاصل کرنے کے لیے حکومت پر انحصار کرنا پڑتا تھا۔ بلاشبہہ اس زمانے میں بھونکنے، یعنی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنانے پر تو پابندی تھی، مگر کھانے کے لیے کچھ نہ کچھ مل ہی جاتا تھا۔ بھوکے پیٹ سونے کاسوال ہی نہیں تھا،   نہ کوئی بھیک مانگتا تھا۔ صرف ۱۰۰روبل میں ماسکو کا ہوائی ٹکٹ مل جاتا تھا، مگر اس وقت سو روبل بچانا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ اب میرے پاس لاکھوں روبل ہیں، مگر میں ماسکو کا ہوائی ٹکٹ خریدنے کی طاقت نہیں رکھتا۔لیکن مجھے اس پر کوئی افسوس اور غم نہیں، کیوں کہ اب ہم آزاد تو ہیں۔ میں دل کھول کر آپ سے بات کرسکتا ہوں، رات کو بھوکے پیٹ سوؤں تو کیا ہوا۔ بس یہی فرق ہے‘‘۔ ڈرائیور کی باتیں سن کر مجھے پاکستان میں پہلے مارشل لا نافذ ہوتے و قت حکومتی پابندیوں کی مناسبت سے قدرت اللہ شہاب اور قرۃ العین حیدر کے درمیان مکالمہ یاد آرہا تھا۔ عینی نے بڑے کرب سے کہا تھا:’’تو گویا اب بھونکنے پر بھی پابندی عائد ہے؟‘‘ [شہاب نامہ، ص۵۱۳]۔ ازبک بزرگ ڈرائیور کے دہرائے ہوئے آخری الفاظ میرے کانوں کی گھنٹیاں بجا رہے تھے: ’آزادی ایک نعمت ہے، جو پیٹ بھر کر کھانے سے کئی گنا زیادہ آسودگی عطا کرتی ہے۔‘

مئی ۲۰۱۴ءکو جب پاکستانی وزیر اعظم محمد نواز شریف ،نئی دہلی کے صدارتی محل میں، بھارت کے نو منتخب وزیر اعظم نریندر مودی کی حلف برداری کی تقریب میں شریک ہونے کے بعد ہوٹل پہنچے، تو لابی میں مَیں نے ا ن سے گزارش کی تھی کہ: ’’چونکہ تاجکستان، اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکوکے تعاون سے معروف صوفی بزرگ میر سید علی ہمدانیؒ کی ۷۰۰سالہ تقریبات کا انعقاد کر رہا ہے ، کیا ہی اچھا ہوتا کہ دونوں ممالک بھارت اور پاکستان بھی اس کا حصہ بن جائیں‘‘۔ اگلے دن دونوں وزراے اعظم کی ملاقات طے تھی۔ میرے اندازے کے مطابق اس سے کشمیر کا وسط ایشیا کے ساتھ رشتہ استوار ہوجاتا۔ اس طرح اعتماد سازی کے طور پر عوامی سطح پر اچھے اثرات نمایاں ہوتے۔ تاہم، میں نے محسوس کیا کہ گفتگو میں میاں صاحب کے توجہ دینے کا دورانیہ نہایت ہی   کم ہے اور انھیں ایسی کسی تجویز کی افادیت یا اس کے محرکات گوش گزار کرانا نہایت ہی پیچیدہ عمل ہے۔ پاکستانی سیاست دان موقع و محل کا استعمال کرکے سیاسی یا سفارتی مراعات حاصل کرنے میں پس و پیش کا شکار رہتے ہیں۔
ایران کے شہر ہمدان میں پیدا ہونے والے میر سید علی ہمدانی ؒنے وسط ایشیا کو اپنا وطن بنایا اور یہیں سے انھوں نے کشمیر کا دورہ کرکے اسلام کی ترویج و تبلیغ کی۔ اقبال نے کہا ہے:

تنم گْلے ز خیابانِ جنتِ کشمیر
 دل از حریمِ حجاز و نوا ز شیراز است

[میرا بدن ، کشمیر کی جنّت میں کیاری کا ایک پھول ہے، دل حریم حجاز سے آباد ہے اور میری نوا، شیراز سے اثر لیتی ہے۔ پیامِ مشرق]

 مرا بنگر کہ در ہندوستاں دیگر نمے بینی
 برہمن زادۂ رمز آشنائے روم وتبریز است

[مجھے دیکھ کہ، ہندستان میں تجھے میرے سوا کوئی اور ایسا برہمن زادہ نہیں ملے گا، جو مولانا رومیؒ اور شمس تبریزیؒ کی رمز طریقت و تصوف سے باخبر ہو۔ زبورِعجم]

میر سید علی ہمدانیؒ تین بارکشمیر کے دورے پر آئے۔ دوسری بار انھوں نے ڈھائی سال کشمیر میں قیام کیا۔ ان کی قیام کی جگہوں پر آج بھی کشمیر میں خانقاہیں قائم ہیں، جو اس زمانے میں ایک طرح کے ’اسلامی مراکز تعلیم و تربیت‘ تھے۔ اقبال نے ہمدانی، جنھیںکشمیر میں عرف عام میں شاہ ہمدان کہتے ہیں، کے بارے میں کہا ہے:

 سیّد السادات ، سالار عجم
 دست او معمار تقدیر اُمم

[(سیّد علی ہمدانیؒ) عجم کے سردار اور سیّدوں کے قائد ہیں کہ جنھوں نے یہاں بسنے والی اُمتوں کی تقدیر بنا ڈالی۔ جاوید نامہ]

مجھے یقین تھا، چونکہ ۲۰۱۴ء میں نریندر مودی کو سفارتی سطح پر راستے نکالنے کی سخت ضرورت تھی، وہ نواز شریف کی اس تحویز کو ہاتھوں ہاتھ لے سکتے تھے۔ کیوںکہ چند ماہ قبل تک گجرات کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے ان کے خونیں پس منظر کے باعث کئی ممالک نے ان کے داخلے پر پابندی لگائی ہوئی تھی۔ چونکہ صوفی بزرگ سید ہمدانیؒ کی آرام گاہ تاجکستان کے صوبہ کلوب میں واقع ہے، اس لیے بھارت اور پاکستان کا تاجکستان اور یونیسکو کے ساتھ سال بھر کی تقریبات میں شرکت اور اس میں کشمیر کو شامل کرنا ، بین الاقوامی دانش وروں کی وادیِ کشمیر میں آمدورفت کا ذریعہ بن سکتا تھا۔ دونوں ممالک وسط ایشیا کے ساتھ صوفی بزرگ کی اس عظیم شخصیت کو علامت کے طور پر نمایاں کر سکتے تھے۔ 

اس صورت حال میں کشمیر کو وسط ایشیا کے ساتھ جوڑنے کا عمل ایک نئی جہت دے سکتا تھا۔معروف اسکالر اور سابق وائس چانسلر ڈاکٹر صدیق واحد کے بقول: ’’وسط ایشیا کے دورے کے دوران میں قائل ہو گیا تھاکہ کشمیر، جنوبی ایشیا کے بجاے وسط ایشیا کے زیادہ قریب ہے۔ کھانے پینے کی عادتیں، کلچر ، آرٹ، فن تعمیر، غرض قدم قدم پر وسط ایشیا میں کشمیر ہی کی جھلک نظر آتی تھی۔ ایک عشرہ قبل کشمیر کے دورے پر آئے یورپی یونین کے ایک رکن جان والز کوشانن نے اس خطے کو دنیا کی ’خوب صورت ترین جیل‘ قرار دیاتھا۔ شایدفوجی جمائو اور حالات کی وجہ سے ان کو یہ خطہ قید خانہ لگا ہوگا، مگر اس کی اور بھی کئی وجوہ ہیں۔ بیسویں صدی کے دوسرے نصف نے بیرون دنیا کے ساتھ کشمیر کے روابط مکمل طور پر سلب کر لیے۔ اشتراکی روسی اقتدار میں تاجکستان، کشمیریوں سے دُور ہوگیا۔ میر سید علی ہمدانی ؒکی آرام گاہ تک ان کی رسائی بند ہوگئی۔ بعد میں کاشغر  تک آنا جانا بھی بند ہوگیا ، جہاں سے کشمیری قالین اور شالوں کے لیے خام مال فراہم ہوتا تھا۔ اکتوبر ۱۹۴۷ء کے بعد ایسا قہر ڈھایا گیا، کہ لائن آف کنٹرول نے زمین پر بلکہ کشمیریوں کے سینوں پر ایک خونیں لکیر کھینچ ڈالی۔ بلاشبہہ پچھلی چار صدیوں سے ہی اس خطے کے باسی مجبور و مقہور رہے ہیں، مگر وسطی اور جنوبی ایشیا کی رہ گزر پر ہونے کی وجہ سے باقی دنیا کے ساتھ روابط کی وجہ سے ان میں طمانیت کا کچھ احساس تھا۔ لیکن لائن آف کنٹرول نے وہ سبھی روابط منقطع کر دیے۔
اس سامراجی جبر واستبداد سے شمالی کشمیر اور پیرپنچال کے وسیع علاقے سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ یہاں تقسیم شدہ خاندان حسرت و یاس سے آج بھی دوسری طرف دیکھ کر آہیں بھرتے ہیں۔ اس گھیرا بندی اور بھارتی فوجی ارتکاز نے خوف کی نفسیات کے ساتھ ساتھ prison mindset یا اسیرانہ ذہنیت کو پروان چڑھایا ہے۔ اس ذہنیت کے شکار لوگوں کا حکمران کے ساتھ رشتہ وہی ہوتا ہے، جو ایک قیدی اور جیل سپرنٹنڈنٹ کا ہوتا ہے۔ بھارتی حکمرانوں اور دانش وررں سے میں یہ بات ہمیشہ کہتا ہوں کہ: ’’اگر آپ کشمیر کی سڑکوں پر سونا بھی بچھا دیں، مگر اس اسیرانہ ذہنیت کا علاج     نہ کریں، تو شاید ہی کبھی حالات بہتر ہوں‘‘۔ کشمیر کے بھارت نواز سیاستدان بھی کہتے ہیں کہ: ’’اگر بھارت کو آزادی کے نعرے کا توڑ کرنا ہے تو اسے ایسے حالات پیدا کرنے پڑیں گے، جہاں عوام نفسیاتی طور پر کشادگی محسوس کریں‘‘۔بھارت اور پاکستان کے درمیان جب بھی حالات معمول پر آجائیں، تو دونوں ممالک کو وادیِ کشمیر کے وسط ایشیا کے ساتھ روابط کو بحال کرنے میں بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے۔ قازقستان سے بذریعہ کشمیر گیس پائپ لائن کا منصوبہ ابھی فائلوں میں پڑا ہوا ہے، جس کو میز پر لانے کی ضرورت ہے۔

آج خلیجی ممالک میں توانائی اور ایندھن کے ذرائع تیزی سے سکڑ رہے ہیں، جب کہ  وسط ایشیائی ممالک توانائی کے حصول کے متبادل ذریعہ بن سکتے ہیں۔ ازبکستان میں دنیا کے بڑے گیس کے ذخائر ہیں اور یہ بجلی برآمد کرنے والے ممالک میں سے ہے۔ اس صدی کے اواخر تک پانی کی وافر مقدار ہونے کی وجہ سے تاجکستان ایک طاقت ور ملک کے طور پر ابھرے گا۔ جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک میں تب تک پانی کے ذرائع خشک ہو چکے ہوں گے، اور سبھی کو تاجکستان پر انحصار کرنا پڑے گا۔ اس لیے وسط ایشیا کے ساتھ تاریخی اور تہذیبی روابط کو استوار کرنا سبھی کے مفاد میں ہے اور اگر ان روابط کے لیے کشمیر کو ذریعہ بنایا جائے، تو یہ خطے کے لیے ایک صدر دروازہ ثابت ہوگا۔

قتل و غارت اور دہشت گردی کے الزامات میں ملوث پرگیہ سنگھ ٹھاکر کو جب حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے بھوپال سے انتخابی میدان میں اتارا، تو ایک ساتھی نے ازراہِ مذاق جملہ اُچھالا کہ: ’’بھارت کے لیے ایک نیا وزیر داخلہ تیار ہو رہا ہے‘‘۔ درحقیقت وہ ایسے بھارت کی منظر کشی کر رہے تھے، جس میں اتر پردیش کے حالیہ وزیر اعلیٰ اجے سنگھ بشٹ (یعنی یوگی آدتیہ ناتھ) کو مستقبل میں بھارت کا وزیر اعظم اور پرگیہ سنگھ ٹھاکر کو وزارت داخلہ سنبھالے دیکھ رہے تھے۔  اسی طرح یاد آرہا ہے کہ محض چند برس قبل ہم نیوز روم میں ازراہِ تفنن امیت شا(موجودہ بی جے پی صدر، جو ان دنوں جیل میں تھے)کے وزیر داخلہ بننے کی پیش گوئی کرتے اور اسے ہنسی میں اُڑاتے تھے۔ کسے معلوم تھا کہ ۲۰۱۹ء میں یہ مذاق بالکل حقیقت کا رُوپ دھار لے گا۔ 
اپنی دوسری مدت میں بھاری اکثریت حاصل کرنے کے بعد وزیر اعظم مودی نے وزارتِ داخلہ کا اہم قلم دان اپنے دست راست امیت شا کے سپرد کرکے پیغام دیا ، کہ نہ صرف و ہ حکومت میں دوسرے اہم ترین فرد ہیں، بلکہ ان کے جانشین بھی ہیں۔ اگرچہ بظاہر پارٹی کے سینیر لیڈر راج ناتھ سنگھ کی نمبر دو پوزیشن سرکار ی طور پر برقرار رہے گی، مگر وزارت دفاع ان کو منتقل کرنے کا مطلب یہی لیا جا رہا ہے کہ ان کی پوزیشن کمزور کر دی گئی ہے۔
کابینہ کے ۲۶؍اراکین میں سے ۲۱؍ارکان اُونچی ذاتوں سے تعلق رکھتے ہیں، جن کی بھارت میں مجموعی آبادی ۱۵ فی صد سے بھی کم ہے۔سینیر وزیروں میں ۱۳ برہمن ہیں،تین نچلی ذاتوں سے  اور ایک سکھ ہے۔ بطور مسلم وزیر بی جے پی لیڈر مختار عباس نقوی کو شامل کیا گیا ہے، جنھوں نے برسوں پہلے ایک بار رام پور سے انتخاب میں کامیابی حاصل کی تھی۔ حکمران اتحاد نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (NDA) میں بہار سے ’لوک جن شکتی پارٹی‘ کی ٹکٹ پر واحد مسلمان محبوب علی قیصر دوسر ی بار منتخب ہوکر ایوان میں آتو گئے ہیں، لیکن حیر ت کا مقام ہے کہ ان کو وزارت کے قابل نہیں سمجھا گیا۔    بی جے پی کے ایک لیڈر نے اس کی وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا کہ: ’’مودی جی تو ان کو وزیر بنانا چاہتے تھے ، مگر ان کی پارٹی نے پارٹی صدر رام ولاس پاسوان کو وزیر بنانے کی سفارش کی ہے۔ چونکہ سبھی اتحادیوں کو صرف ایک ہی وزارت دی گئی ہے، اس لیے لوک جن شکتی پارٹی سے دو ارکان کو وزارت میں شامل کرنے سے توازن بگڑ سکتا تھا‘‘۔ اس ضمن میں رام ولاس پاسوان کی ذہنیت پر افسوس کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ ایک مسلم ممبر پارلیمنٹ کو وزیر بنانے کے بجاے، وہ خود ہی وزارت کے دعوے دار بن گئے۔ حالانکہ رام پاسوان، پچھلے ۲۰برسوں کے دوران چاہے کانگریس کی حکومت تھی یا بی جے پی کی، مسلسل وزارت میں شامل رہے۔ 
بھارت میں وزارت داخلہ کا قلم دان انتہائی اہم تصور کیا جاتا ہے۔ اس لیے وزراے اعظم اکثر اس عہدے پر یاتو اپنے انتہائی قریبی یا نہایت کمزور افراد کا تعین کرتے آئے ہیں، جو ان کے لیے خطرے کا باعث نہ بن سکیں۔ بی جے پی کی پچھلی حکومت میں راج ناتھ سنگھ اوروزارت عظمیٰ کے دفتر کے درمیان کشمیر کی صورت حال سے نمٹنے کے معاملے پر کئی دفعہ اختلافات سامنے آئے۔ جون۲۰۱۸ء کو جب راج ناتھ سنگھ، جموں و کشمیر کی حلیف وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کے ہاتھ مضبوط کرنے پر زور دے رہے تھے، تو دوسری طرف امیت شا کی رہایش گاہ کے باہر پارٹی جنرل سیکرٹری رام مادھو صحافیوں کو بتا رہے تھے کہ: ’میری پارٹی نے محبوبہ مفتی حکومت سے حمایت واپس لے کر گورنر راج لاگو کرنے کی سفارش کی ہے‘۔ بتایا جاتا ہے کہ راج ناتھ سنگھ کو یہ معلومات ٹی وی چینل سے موصول ہورہی تھیں۔ نجی گفتگو میں کئی بار انھوں نے اشار ے دیے کہ کشمیر اور شمال مشرقی صوبوں کے لیے پالیسی ترتیب دیتے ہوئے ان کی راے کو اہمیت نہیں دی جاتی ہے۔ سابق وزیر خزانہ یشونت سنہا اور ایک ریٹائرڈ ہائی کورٹ جج کو انھوں نے کشمیر میں بیک چینل کھولنے کی ترغیب دی تھی، مگر اس کوشش کو بُر ی طرح سبوتاژ کیا گیا۔ سنہا سے وزیر اعظم نے ملنے سے انکار کرتے ہوئے ان کو قومی سلامتی مشیر  اجیت دوول سے ملنے کے لیے کہا، جس نے شکایت کی کہ: ’سنہا کے مشن سے حریت پسندوں کے حوصلے بلند ہوگئے ہیں‘۔ مذکورہ جج کے خلاف کشمیر واپسی پر ہی مرکزی تفتیشی بیورو نے ایک کیس کی فائل کھول کر اس کو جیل میں پہنچادیا۔ 
مودی اور امیت شا کی رفاقت کا رشتہ ۳۰سال پرانا ہے۔ ۲۰۰۱ء میں مودی کے گجرا ت کے وزیر اعلیٰ بننے کی راہ کو آسان کرنے کے لیے ’شا‘ نے پارٹی میں ان کے مخالفوں، یعنی ہرین پانڈیا اور کیشو بائی پاٹل کو ٹھکانے لگانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ہرین پانڈیا کو تو قتل کیا گیا۔ گجرات میں  ’شا‘ کو وزارتِ داخلہ کا قلم دان دیا گیا تھا اور ان کا دورِ وزارت کئی جعلی پولیس مقابلوں کے لیے یاد کیا جاتا ہے۔ قومی تفتیشی بیورو نے تو ان کو سہراب الدین اور ان کی اہلیہ کوثر کے قتل کیس میں ایک کلیدی ملزم ٹھیرایا تھا۔ اس کے علاوہ ۱۹سالہ عشرت جہاں کے اغوا اور بعد میں قتل کے الزام میں بھی ان کے خلاف تفتیش جاری تھی۔ ۲۰۱۳ء میں ان کی ایک ریکارڈنگ میڈیا میں آئی تھی ، جس میں وہ ایک دوشیزہ کا فون ٹیپ کرنے اور اس کی نگرانی کرنے کی ہدایت دے رہے تھے۔ یاد رہے کہ   وہ دوشیزہ ان کے باس کو پسند آگئی تھی۔۲۰۱۴ء کے عام انتخابات میں مودی نے ’شا‘ کو سب سے اہم صوبہ اتر پردیش کا انچارج بنایا تھا، جہاں موصوف نے بی جے پی کوسب سے زیادہ سیٹیں دلا کر پارٹی کے لیے اقتدار کی راہ ہموار کر دی تھی۔ اس کامیابی کے بعد ان کو پارٹی کا صدر بنایا گیا۔
 بطور وزیر داخلہ کشمیر کی صورت حال تو امیت شا کے لیے چیلنج ہوگی، مگر کشمیریوں کے لیے بھی ان سے نمٹنا ایک بڑے امتحان سے کم نہیں ہوگا۔ افواہیں گردش کررہی ہیں کہ جس طرح ۱۹۷۳ء کے شملہ سمجھوتے میں بھارتی وزیراعظم اندراگاندھی نے اس مسئلے کی بین الا قوامی نوعیت کو بھارت اور پاکستان کے درمیان دوطرفہ معاملے میں تبدیل کرواکے تاریخ میں اپنا نام درج کروایا تھا، اسی طرح اب نریندر مودی بھی اپنا نام امرکروانے کے لیے کشمیر کو پوری طرح بھارت میں ضم کروانا چاہتے ہیں۔
کشمیرکی بین الاقوامی حیثیت کو چیلنج کرنے کے ساتھ ساتھ امیت شا ایک اور پلان پر بھی کام کررہے ہیں۔ اس پلان کا کوڈ نام ’مشن ۴۴‘ ہے اور اس کے تحت کشمیر میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں ہندو اکثریتی خطے جموں اور بودھ اکثریتی ضلع لیہہ کی تمام نشستوں پر بی جے پی کے اُمیدواروں کو کامیاب بنانا ہے۔ اس کے علاوہ وادیِ کشمیر کی ایسی نشستوں کی بھی نشان دہی کی گئی ہے جہاں حریت کانفرنس کی بائیکاٹ کال کا سب سے زیادہ اثر ہوتا ہے۔ ان نشستوں پر جموں اور دہلی میں مقیم کشمیری پنڈتوںکے ووٹوں کی زیادہ سے زیادہ رجسٹریشن کرواکر ان کے پوسٹل بیلٹوں کے ذریعے ان علاقوں میں بھی بی جے پی کے امیدواروں کی کامیابی یقینی بنائی جائے۔ امیت شا کی حکمت عملی کا مقصد ریاست میں مسلمان ووٹوںکو بے اثرکرناہے۔ کشمیر اسمبلی کی ۸۷منتخب نشستیں ہیں جن میں سے ۳۷جموں، ۴۶ وادیِ کشمیر اور۴ لداخ خطے سے ہیں۔ بی جے پی جموں،کٹھوعہ، یعنی خالص ہندو پٹی کی سبھی نشستوں پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اس طرح بی جے پی متنازعہ خطے کی اسمبلی میں بڑی پارٹی کے طورپر ابھر سکتی ہے اور بعد میں ہم خیال ارکان اورکانگریس کے ہندوارکان کی مدد سے بھارتی آئین کی دفعہ ۳۷۰کو ختم یا اس میں ترمیم کروائی جاسکتی ہے۔۱۹۵۴ء اور۱۹۶۰ء میںکشمیر اسمبلی نے اس شق میں ترمیم کی سفارش کی تھی، جس کے بعد بھارتی صدر نے ایک حکم نامے کے ذریعے بھارتی سپریم کورٹ، الیکشن کمیشن اور دوسرے اداروں کا دائرہ کشمیر تک بڑھادیاتھا اور ریاست کے صدراور وزیر اعظم کے عہدوںکے نام تبدیل کرکے انھیں دوسرے بھارتی صوبوں کے مساوی بنادیا تھا۔ 
جموں وکشمیر کے انتخابی نقشے پر اگر ایک نگاہ ڈالی جائے ، توجموں ریجن کی ۳۷نشستوں میں ۱۸ حلقے ہندو اکثریتی علاقوںمیں ہیں۔ یہ سیٹیں اکثر کانگریس کے پاس ہوتی تھیں۔ اس کے علاوہ اسی ریجن میں نو ایسی سیٹیں ہیں جہاں ہندو مسلم تناسب تقریباً یکساں ہے۔ یہاں پرامیت شا وہی فارمولا اپنانے کے لیے کوشاں ہے ،جو اس نے حالیہ لوک سبھا انتخابات میں ریاست اترپردیش اور بہار کی مسلم اکثریتی سیٹوں میں اپنایا کہ مسلم ووٹوں کو تقسیم کرکے ان کو بے اثر بنایا جائے، جب کہ ہندوووٹروں کو خوف میں مبتلا کر کے ان کو پارٹی کے پیچھے یک جا کیا جائے۔دوسری طرف لداخ کے بودھ اکثریتی لیہہ ضلع کی دو اسمبلی نشستوں پر بھی بی جے پی آس لگائے ہوئے ہے، تاکہ آیندہ اسمبلی میںزیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل کرکے وادیِ کشمیر اور مسلم اکثریت کے سیاسی اثر و رسوخ کو ختم کرکے مسئلہ کشمیر کو ایک نئی جہت دے۔ 
حالیہ الیکشن سے قبل جب بھارت بھر میں مودی لہر شروع ہوئی تو ریاست کے سیاسی پنڈتوں اور بھارت نواز لیڈروں کے ساتھ ساتھ مزاحمتی قیادت نے بھی پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کی طرح یہ کہنا شروع کیا تھاکہ:’ کشمیر کے بارے میں اگر کوئی روایت سے ہٹ کر اقدام کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے تو وہ بی جے پی ہی ہے‘۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ اس سے قبل بھی کشمیر کے سلسلے میں  اٹل بہاری واجپائی کی سرکارہی نے بولڈ فیصلے لینے کی جرأت کی تھی۔ ’لاہور اعلامیہ‘، ’اسلام آباد ڈیکلریشن‘ اور انسانیت کے دائرے میں بات کرنے کا اعلان اور اس کے بعدمزاحمتی کیمپ سے  لے کر پاکستان تک کے ساتھ بات چیت کی شروعات بی جے پی نے ہی کی تھی۔ تاہم، جو لوگ   اِس اُمید کے ساتھ جی رہے ہیں کہ ’انسانیت کے دائرے ‘میں بات ہوگی، انھیں جان لینا چاہیے کہ اٹل بہاری واجپائی اور نریندر مودی میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ پاکستان اور کشمیر کی زمینی صورت حال ۱۹۹۹ء اور ۲۰۰۴ء کے مقابلے میں خاصی مختلف ہے۔ایسے حالات میں کشمیر کے مسئلے کے حل میں کسی پیش رفت کی اُمید رکھنا بے معنی ہے ۔ 
امیت شا کے وزار ت داخلہ کا قلم دان سنبھالنے کے بعد تو کشمیر کی شناخت اور تشخص ہی خطرے میں پڑ گیا ہے۔ کشمیر کی مختلف الخیال پارٹیوں کو فی الحال اس کے بچائو کے لیے قابل عمل اور فوری اقدامات کرنے میں کوئی تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔ بد قسمتی سے ایسا نظر آ رہا ہے کہ کشمیرکی  سیاسی جماعتیں نہ صرف اپنی اصل قومی وعوامی ذمہ داریوں سے دامن چھڑا کر بھاگ رہی ہیں،بلکہ ان میں سے بعض لوگ تو نریندرمودی کا نام سن کر ہی گویا مرعوب ہو جاتے ہیں۔
بات واضح ہے کہ قوم کے وسیع تر مفا دمیں سوچنے کے بجاے اقتدار کی شدید ہوس اور اقتدار کے لیے رسہ کشی نے کشمیر کی سب سے بڑی قوم پرست پارٹی ’نیشنل کانفرنس‘ کو نہ صرف بزدل بنایا ہے بلکہ اس کی نفسیاتی صورت حال کی بھاری قیمت سادہ لوح کشمیریوں کو چکانی پڑ رہی ہے۔ فی الحال اس جماعت کا محور اقتدار کی نیلم پری سے ربط وتعلق رکھنے کے لیے کس سے رشتہ جوڑا جائے اور کس سے ناتا توڑا جائے کا سوال اہم ہے۔ اگر واقعی اس جماعت میں کشمیریوں کے حوالے سے ذرہ بھر بھی ہمدردی ہے تواسے دیگر کشمیر ی جماعتوں کے ساتھ گفت و شنید کے دروازے کھول کر آگے کے تمام خطرات کی پیش بینی کر کے، ریاست میں بی جے پی کے بڑھتے ہوئے قدموں کو روکنا ہوگا۔ 
اٹانومی (خودمختاری) اور سیلف رول ___ کے ایجنڈوں کے خواب دیکھنا دُور کی بات ہے، فی الحال جس تیز رفتار ی سے مودی سرکار کشمیریوں کے تشخص اور انفرادیت کو پامال کرنے کے حوالے سے جنگ آزمائی کے راستے پر چل نکلی ہے، اس کا توڑ کرنے میں نیشنل کانفرنس، پیپلزڈیموکریٹک پارٹی اور دیگر جماعتوں کو باہمی تعاون کرنے میں ہر گز ہچکچانا نہیں چاہیے۔ کشمیریوں کے وکیل اور غم خوار، پاکستان کی داخلی صورت حال بھی نئی دہلی سرکار کے عزائم کا ٹمپر یچر بڑھارہی ہے۔ ایسے میں صاف لگتا ہے کہ کشمیر کے سلسلے میں ہندو انتہا پسند وں کے دیرینہ خوابوں کے پورا ہونے کے لیے شاید راستہ ہموار کیا جارہا ہے۔
مودی کی کابینہ میں ایک اور اہم وزیر سبرامنیم جے شنکر ہیں، جن کو وزیر خارجہ بنایا گیا ہے۔ بھارتی محکمہ خارجہ میں امریکی ڈیسک کے سربراہ کے طور پر وہ سابق وزیر اعظم من موہن سنگھ (کانگریس) کے چہیتے افسر تھے۔ آخر کیوں نہ ہوتے، انھوں نے ’بھارت-امریکا جوہری معاہدہ‘ کو حتمی شکل دینے اور اس کو امریکی کانگریس سے منظوری دلوانے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ ۲۰۱۳ء میں   من موہن سنگھ نے ان کا نام خارجہ سیکرٹری کے لیے تجویز کیا، مگر کانگریس پارٹی نے سخت مخالفت کی جس پر سجاتا سنگھ کو خارجہ سیکرٹری بنایا گیا۔ تاہم، جنوری ۲۰۱۵ءکو امریکی صدر بارک اوباما کے بھارتی دورے کے بعد نریندر مودی نے سجاتا سنگھ کو معزول کرکے جے شنکر کو سیکرٹری خارجہ بنایا دیا، تب جے شنکر امریکا میں بھارت کے سفیر تھے اور اوباما کے دورے کے سلسلے میں نئی دہلی آئے ہوئے تھے۔
 اس طرح غیر رسمی طور پر یا اکھڑ پن سے خارجہ سیکرٹری کو معزول کرنے کا بھارت میں یہ دوسرا واقعہ تھا۔ اس سے قبل۱۹۸۷ء میں اس وقت کے وزیر اعظم راجیو گاندھی نے ایک پریس کانفرنس کے دوران ہی اپنے سیکرٹری خارجہ اے پی وینکٹ شورن کو معزول کیاتھا۔ اس کی کہانی کچھ یوں ہے ۔ نئی دہلی میں مقیم پاکستانی صحافی عبدالوحید حسینی نے پریس کانفرنس کے دوران راجیوگاندھی سے ان کے پاکستان کے دورے کے بارے میں سوال کیا۔ راجیو نے کہا کہ: ’’میرا پاکستان کے دورے کا کوئی پروگرام نہیں ہے‘‘۔ مگر حسینی نے دوسرا سوال داغا کہ: ’’سر،آپ کے خارجہ سیکرٹری تو صحافیوں کو بتار ہے ہیں کہ وزیر اعظم کا دورہ پائپ لائن میں ہے؟‘‘راجیو نے جواب دیا کہ: ’’خارجہ سیکرٹری اب اپنے عہدے پر نہیں ہیں۔ جلد ہی نئے فارن سیکرٹری کا تعین کیا جا رہا ہے‘‘۔ وینکٹے شوارن نے جو پریس کانفرنس ہال میں ہی بیٹھے تھے، چپکے سے اپنا استعفا تحریرکرکے وزیراعظم کو ہال میں ہی تھمادیا۔ 
جے شنکر کو خارجہ سیکرٹری کے عہدے پر فائز کرنے کی کانگریسی لیڈروں نے اس لیے مخالفت کی تھی کہ ان کے مطابق ایک امریکا نواز افسر کو اس اہم عہدے پر فائز کرانے سے بھارت کی غیر جانب دارانہ تصویر متاثر ہوگی۔ وکی لیکس فائلز نے جے شنکر کی امریکا کے ساتھ قربت کو طشت از بام کردیا تھا۔ بتایا گیا کہ جے شنکر کی تعیناتی سے ہمسایہ ممالک سے تعلقات خراب ہونے کا بھی اندیشہ ہے۔ ۲۰۰۴ء سے۲۰۰۷ء تک جے شنکر دفترخارجہ میں امریکی ڈیسک کے انچارج تھے۔ ان کا نام بار بار امریکی سفارتی کیبلز میں آیا ہے۔
۱۹دسمبر۲۰۰۵ء کو ایک کیبل میں امریکی سفارت خانے کا کہنا ہے کہ جے شنکر نے ان کو خارجہ سیکرٹری شیام سرن کے دورۂ امریکا کے ایجنڈے کے بارے میں معلومات دی ہیں۔ امریکی عہدے داروں کے ساتھ ملاقاتوں میں بھارتی موقف سے واقفیت خارجہ سیکرٹری کے واشنگٹن پہنچنے سے قبل ہی امریکی انتظامیہ کو مل چکی تھی، مگر سب سے زیادہ ہوش ربا معلومات بیجنگ میں امریکی سفارت خانے نے واشنگٹن بھیجی۔ اس میں بتایا گیا کہ چین میں بھارت کے سفیر جے شنکر نے چین کے ہمسایہ ممالک کے تئیں جارحارنہ رویے کو لگام دینے کے لیے امریکا کی معاونت کرنے کی   پیش کش کی ہے۔ گویا ایک طرح سے وہ نئی دہلی میں حکومت کی رضامندی کے بغیر امریکا کے   ایک معاون کے طور پر کام کر رہے تھے۔ ایک اور کیبل میں اپریل۲۰۰۵ء میں رابرٹ بلیک لکھتے ہیں کہ گوانتانامو بے کے معاملے پر بھارت ، جنوبی ایشیائی ممالک کاسا تھ نہیں دے گا، جنھوں نے اقوام متحدہ میں ووٹنگ میں حصہ نہ لینے کا مشترکہ فیصلہ کیا تھا۔ اس کےعلاوہ جے شنکر نے ایک نان پیپر امریکی انتظامیہ کو تھما دیا تھا ، جس میں تھائی لینڈ کے ایک سیٹلائٹ کی اطلاع تھی، جو بھارتی راکٹ کے ذریعے مدار میں جانے والا تھا۔ 
جے شنکر بھارت کے مشہور اسٹرے ٹیجک امور کے ماہر آنجہانی آر سبرامنیم کے صاحبزادے ہیں۔ انھوں نے ۱۹۷۷ءمیں دفترخارجہ میں ملازمت شروع کی۔ معروف دفاعی تجزیہ کار بھارت کرناڈ کے مطابق جے شنکر کی کابینہ میں شمولیت سے بھارت کا امریکی پٹھو ہونے کا آخری پردہ بھی چاک ہو گیا ہے۔ ان کی تعیناتی بھارت کی اسٹرے ٹیجک آٹونامی کے حوالے سے خاصی اہم ہے۔ ریٹائرمنٹ کے فوراً بعد ہی جے شنکر نے کارپوریٹ گروپ ٹاٹا کے بیرون ملک مفادات کے ڈویژن کے سرابراہ کا عہدہ سنبھالا۔ اس حوالے سے بھارتی فضائیہ کے لیے ایف-۱۶طیاروں کی خریداری کے لیے امریکی فرم لاک ہیڈ مارٹن کے لیے وکالت کا کام کر رہے تھے۔ لاک ہیڈ مارٹن کو کنٹریکٹ ملنے سے ٹاٹا کو ان کی دیکھ بھال ،پرزے سپلائی کرنے، اور بھارت میں ان طیاروں کو تیار کرنے کا کام مل جاتا۔ 
بتایا جاتا ہے کہ ۱۹۸۰ء میں واشنگٹن میں بھارتی سفارت خانے میں تعیناتی کے دوران ہی امریکی انتظامیہ نے ان پر نظر کرم کی بارش کر کے ان کی ایک دوست کے رُوپ میںشناخت کی تھی، اور بعد میں ان کے کیریر کو آگے بڑھانے میں بلاواسط طور پر خاصی مدد کی۔ امریکا میں   بطور بھارتی سفیر ، انھوں نے مقامی بھارتی نژاد افراد کو جمع کرکے نئے وزیر اعظم مودی کا استقبال کرکے ان کا دل جیت لیا۔ ان کے دور میں بھارت نے امریکا کے ساتھ دو اہم معاہدوں پر دستخط کیے، جن میں امریکی افواج کو خطے میں رسل و رسائل کی سہولتیں فراہم کرنا اور فوجی اطلاعات کا تبادلہ شامل ہیں۔ ان معاہدوں کے مسودات بھارتی دفترخارجہ کے بجاے واشنگٹن سے ہی تیار ہوکر آئے تھے۔ 
تجزیہ کاروں کے مطابق جے شنکر کی تعیناتی کا ایک اور مقصد قومی سلامتی مشیر اجیت دوول کو قابو میں رکھنا ہے۔ خفیہ ایجنسیوں کی کمان ان کے ہاتھوں میں ہوتے ہوئے وہ مودی کے رفقا میں خاصے طاقت ور ہوگئے تھے۔گذشتہ حکومت میں دوول، قومی سلامتی کے مشیر تھے اور اب وزیر ہیں۔ 
جے شنکر کے لیے سب سے بڑا امتحان ایران سے تیل، چاہ بہار بندرگاہ، اور روس سے ایس-۴۰۰  میزائل شیلڈخریداری کے سلسلے میں امریکا سے مراعات حاصل کروانا ہے۔ صدر ٹرمپ نے بھارت کو ایران سے تیل کی خریداری کے متعلق خبردار کیا ہے۔ جس پر بھارت ایرا ن کے تیل کی قربانی دینے کے لیے تیار ہے، مگر چاہ بہار بندر گاہ اور میزائل شیلڈ کے سلسلے میں امریکی معاونت کا خواست گار ہے۔ 
 

مشرق وسطیٰ میں جہاں اس وقت امریکا اور ایران کے مابین کشیدگی عروج پر ہے، وہیں فلسطین کے حوالے سے امریکی صدر ٹرمپ، یورپی یونین، ان کے عرب حکمران اور اسرائیل ایک فارمولے کو حتمی شکل دینے میں مصروف ہیں، جس کو ’ڈیل آف سنچری‘ کا نام دیا جا رہا ہے۔  چند ماہ قبل دہلی کے دورے پر آئے ایک یہودی عالم ڈیوڈ روزن نے عندیہ دیا تھا کہ: ’’سابق امریکی صدر بارک اوباما جس خاکے کو تیار کرنے میں ناکام ہو گئے تھے، ٹرمپ، سعودی عرب و دیگر عرب ممالک کے تعاون سے فلسطین کے حتمی حل کے قریب پہنچ گئے ہیں‘‘۔ 
آئر لینڈ کے چیف ربی ڈیوڈ روزن، اسرائیل کی چیف ربائیٹ، یعنی مذہبی امورکے رکن ہیں اور امریکی جیوش کونسل (AJC) کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں۔یہ واشنگٹن میں طاقت ور ترین لابی ہے، جس نے ’بھارت -امریکا‘ جوہری معاہدے کو کانگریس اور سینیٹ سے منظوری دلوانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ مشرق وسطیٰ میں خصوصاً اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیا ن بیک چینل تعلقات کے حوالے سے وہ خاصے سرگرم چلے آرہے ہیں۔ وہ سابق سعودی فرمانروا شاہ عبداللہ کی ایما پر قائم کنگ عبدالعزیز انٹرنیشنل سینٹر فار انٹر ریلیجنز اینڈ کلچر ڈائیلاگ کے بورڈ ممبر بھی ہیں۔ میں نے جب ان سے پوچھا کہ: ’’جہاں ایک طرف اسرائیل نے فلسطینیوں کا ناطقہ بند کر رکھا ہے، آئے دن ان پر حملے ہو رہے ہیں، آخر امن آئے گا تو کیسے؟‘‘تو ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل کی تمام تر جارحانہ کارروائیوں کے باوجود ایک حقیقت کا ادراک یہودیوں اور اسرائیلی حکام کو ہو گیا ہے کہ وہ ناقابلِ تسخیر نہیں ہیں۔ ویسے تو اس بات کا اندازہ ۱۹۷۳ء کی جنگِ مصر اور بعد میں ۲۰۰۶ء میں جنگ ِلبنان کے موقعے پر ہی ہوگیا تھا ، مگر حالیہ کچھ عرصے سے یہ بات شدت کے ساتھ محسوس کی جارہی ہے۔اس لیے دنیا بھر کے یہودی چاہتے ہیں کہ اس سے پہلے کہ تاریخ کا پہیہ کوئی اور رخ اختیار کرے، اسرائیل کی سرحدوں کا تعین کرکے، پڑوسی ممالک سے اس کا وجود تسلیم کرایا جائے‘‘۔روزن کا کہنا تھا کہ: ’’توسیع پسندی اب کسی بھی صورت میں اسرائیل کے مفاد میں نہیں ہے۔ فوجی اعتبار سے اسرائیل چاہے تو سرحدوں کو وسیع کرنے کی قوت رکھتا ہے، مگر پھر مقبوضہ علاقوںکی آبادی کو بھی ملک میں شامل کرنا پڑے گا، جس سے ظاہر ہے کہ یہودیوں کے اقلیت میں تبدیل ہونے کا خدشہ لاحق ہوگا۔ دنیا بھر میں یہودی محض ایک کروڑ ہیں ، جن میں ۶۰لاکھ کے قریب اسرائیل میں رہتے ہیں۔ اس لیے فلسطینیوں سے زیادہ اسرائیلیوں کے لیے بھی اپنی بقا کے لیے سرحدوں کا تعین کرنا ضروری ہے۔ ٹرمپ کے لیے شاید اس لیے بھی ضروری ہے کہ شام کے بحران میں اگر کسی کو سب سے زیادہ فائدہ حاصل ہوا ہے تو وہ روسی صدر ولادی میر پوتن ہیں۔  اس سے قبل شاید ہی روس کا مشرقِ وسطیٰ میں اس قدر مفاد وابستہ تھا۔ 
جب میں نے ربی ڈیوڈ روزن سے پوچھا کہ: ’’اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو تو خود کئی بار د و ریاستی فارمولے کو مسترد کر چکے ہیں؟‘‘، تو ان کا کہنا تھا کہ حکومتوں کے رویے میں اُتار چڑھائو آتے رہتے ہیں، مگر یک ریاستی حل کسی بھی طور پر اسرائیل کے مفاد میں نہیں ہے۔ ایک اسٹیٹ کا مطلب ہے کہ مستقبل میں عرب اسٹیٹ کا قیام اور یہودی اسٹیٹ کا خاتمہ‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ: ’’اسرائیلی علاقوں میں مسلمانوں کی افزایش نسل یہودیو ں سے کئی گنا زیا دہ ہے۔ ۱۹۶۷ءمیں عرب، اسرائیل کی آبادی کا ۱۴ فی صد تھے ، جو اب لگ بھگ ۲۲ فی صد ہو چکے ہیں۔یہ وہ مسلمان ہیں جنھوں نے اسرائیل کی شہریت اختیار کی ہوئی ہے اور وطنی طور پر اسرائیلی-عرب کہلاتے ہیں۔ اس حقیقت کے پیش نظر اسرائیل کسی بھی صورت میں ۵۰لاکھ فلسطینی مہاجروں کو واپس لانے کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے۔ جن ممالک میں و ہ پناہ گزین ہیں ، انھی کو ان کی مستقل رہایش کا بندوبست کرنا پڑے گا ،کیوںکہ مغربی کنارہ اور غزہ بھی شاید ان کو بسا نہیں پائے گا‘‘۔
ربی ڈیوڈ روزن کا مزید کہنا تھا کہ: ’’القاعدہ اور داعش جیسی تنظیمیں اسرائیل کی نسبت  عرب ممالک کے لیے زیادہ خطرہ ہیں۔ اس لیے اسرائیل کے ساتھ معاہد ہ کرنا ان عربوں کے مفاد میں ہے۔ اس وقت خلیجی ممالک سعودی عرب، اردن، مصر وغیرہ سبھی مسئلہ فلسطین کا حل چاہتے ہیں، کیونکہ فلسطین کے نام پر ہی دہشت گر د تنظیمیں مسلم نوجوانوں کو اپنی طرف راغب کرتی ہیں اور تشدد کا جواز فراہم کراتی ہیں‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ اس مسئلے کے حل کی صورت میں مسلمانوں اور یہودیوں کے مابین مکالمے کا دروازہ بھی کھل سکتا ہے‘‘۔ انھوں نے یاد دلایا کہ: ’’یہودی ، اسلام سے زیادہ عیسائیت سے خائف رہتے تھے اور مختلف ادوار میں عیسائیوں نے ان پر خوب ظلم ڈھائے ہیں۔ لیکن اس کے برعکس میں یہ بھی کہوں گاکہ مسلم حکومتوں کے اَدوار میں یہودی پکنک تونہیں منا تے تھے، مگر بہترحالات میں تھے۔اگر اس قدر خوں ریز تاریخ کے ہوتے ہوئے بھی عیسائی اور یہودی ایک دوسرے کو معاف کرکے مفاہت کا راستہ اختیار کر سکتے ہیں ، تو آخر اسلام اور یہودی کیوں نہیں‘‘۔
 صدر ٹرمپ اور ان کے معاونین کی طرف سے فلسطینی مسئلے کا جو فارمولا فی الحال منظرعام پر آیا ہے، اس سے شاید ہی امن کی امید بندھ سکتی ہے۔ خدشہ ہے کہ یہ اس خطے کے لیے مزید پیچیدگیاں پیدا نہ کردے۔ اس کے اہم نکات یہ ہیں کہ مغربی کنارہ و غزہ پر مشتمل علاقے کو نئی فلسطینی اسٹیٹ قرار دینا ہے۔ فلسطینی مہاجرین کی اپنے گھروں کو واپسی کا معاملہ ہمیشہ کے لیے بند ہوجائے گا۔یا تو ان کو اس نئی فلسطینی اسٹیٹ میں رہنا ہوگا یا جس ملک میں مقیم ہیں وہیں ضم ہونا پڑے گا۔ 
۱۹۹۳ء میںاوسلو میں اسرائیلی اور فلسطینی قیادت کے درمیان طے پائے گئے سمجھوتے میں ایک فلسطینی اتھارٹی کا قیام عمل میں آیا تھا اور ۴۰ لاکھ کی آبادی کو دو خطوں مشرق میں غزہ اور اُردن کی سرحد سے متصل مغربی کنارے میں تقسیم کیا گیا تھا۔ نسبتاً وسیع مغربی کنارے کا انتظام الفتح کی قیادت کی حامل فلسطین لبریشن آرگنائزیشن، یعنی پی ایل او کے پاس ہے اور غزہ میں اسلامک گروپ حماس برسرِ اقتدار ہے۔ جہاں پی ایل او اسرائیل کو تسلیم کرتا ہے، وہاں حماس فلسطینی بستیوں میں بسائی گئی یہودی ریاست کے وجود سے انکاری ہے۔ چونکہ مغربی کنارہ اور غزہ کے درمیان کوئی زمینی رابطہ نہیں ہے، اس لیے ان کو منسلک کرنے کے لیے اسرائیلی علاقوں سے ۳۰میٹر اُوپر ایک ۱۰۰کلومیٹر طویل فلائی اوور بنایا جائے گا، جس کے لیے چین سے رابطہ کیا جا رہا ہے۔
متوقع معاہدے کی رُو سے اسرائیل مرحلہ وار فلسطینی قیدیوں کی رہائی عمل میںلائے گا اور اس میں تین سال کا عرصہ لگ سکتا ہے۔ القدس یا یروشلم شہر کو تقسیم نہیں کیا جائے گا، بلکہ اس کا کنٹرول اسرائیل کے پاس ہی رہے گا۔ شہر میں مکین عرب مسلمان اسرائیل کے بجاے فلسطین کے شہری ہوں گے۔ ان کی بہبود ،تعلیم و صحت کے لیے نئی فلسطینی اسٹیٹ اسرائیلی بلدیہ کو رقوم فراہم کرے گی۔ الاقصیٰ حرم پر جو ں کی توں پوزیشن برقرار رہے گی، یعنی یہ بدستور اردن کے اوقاف کے زیرنگرانی رہے گا۔ ویسے سعودی عرب اس کے کنٹرول کا متمنی تھا، تاکہ ریاض میں موجود فرماںروا سبھی تین حرمین، یعنی مکہ ، مدینہ و مسجد اقصیٰ کے متولی یا خادم قرار پائیں۔ 
اسرائیل، مسجد اقصیٰ کے تہہ خانے تک رسائی کا خواہش مند ہے۔ جس کے لیے اس نے مغربی سرے پر کھدائی بھی کی ہے ، تاکہ وہاں تک پہنچنے کے لیے مسجدکی دیواروں کے نیچے سے ایک سرنگ بنا سکے۔ یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ تہہ خانے میں ہی معبد سلیمان کے کھنڈرات موجود ہیں۔  اس کے علاوہ مصر ، فلسطینی ریاست کے لیے ایر پورٹ، کارخانہ لگانے اور زراعت کے لیے زمین فراہم کرے گا، مگر اس زمین پر فلسطین کے مالکانہ حقوق نہیں ہوں گے، نہ وہ اس پر بس سکیں گے۔ امریکا، پورپی یونین اور خلیجی ممالک اگلے پانچ سال تک فلسطینی ریاست کو انتظام و انصرام کے لیے ۳۰؍ارب ڈالر کی رقم فراہم کریں گے۔ اس میں ۷۰ فی صد خلیجی ممالک ،۲۰ فی صد امریکا اور ۱۰ فی صد یورپی ممالک دیں گے۔ یہ رقم ہرسال ۶؍ارب ڈالر کی صورت میں خرچ کی جائے گی۔نئی فلسطینی حکومت فوج نہیں رکھ سکے گی،مگر ایک پولیس فورس تشکیل دے سکے گی۔ اس کی سرحدوں کی حفاظت اسرائیل کی ذمہ داریوں میں شامل ہوگی ۔ صدی کی اس ڈیل پر دستخط ہونے کے بعد حماس اپنے تمام ہتھیار مصر کو سونپ دے گا۔ ایک سال کے اندر انتخابات ہوں گے۔ غزہ کے راستے اسرائیل اورمصر کی سرحدیں نقل و حمل اور تجارت کے لیے کھول دی جائیں گی۔ اسی طرح اردن اور مغربی کنارے کی سرحدکی تین چیک پوسٹیں فلسطینی حکام کے حوالے کی جائیں گی۔ 
اس پورے معاہدے میں ترکی کے کردار کا کوئی ذکر نہیں ہے ، جس نے پچھلے سال اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں القدس یا یروشلم کو اسرائیلی دارلحکومت قرار دیے جانے کے فیصلے کے خلاف ووٹ ڈلوانے میں قائدانہ کردار ادا کرکے امریکا کے فیصلے کی سینہ تان کرمخالفت کی تھی۔چند برس قبل امریکی صدر بارک اوباما کی حوصلہ افزائی پر مسلم ممالک سعودی عرب ، مصر اور ترکی نے مصالحت کا کردار ادا کرکے حماس کو قائل کرلیا تھاکہ وہ مغربی کنارے کی محمود عباس کی قیادت والی فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کے درمیان کسی بھی مجوزہ براہِ راست بات چیت میں روڑے نہیں اٹکائے گا اور نہ بات چیت میں شریک افراد کو غداری وغیرہ کے القابات سے نوازے گا۔ تاہم، اس سعی سے اگر معاہدے کی صور ت میں کوئی نتیجہ برآمد ہوتا ہے تو درحقیقت یہ طے ہوا تھا کہ فلسطینی علاقوں میں ریفرنڈم کرایا جائے گا اور عوامی قبولیت کی صورت میں سبھی فریقوں کو منظور ہوگا۔ 
دوسال قبل دوحہ میں راقم کو مقتدر فلسطینی لیڈر خالد مشعل سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ جب میں نے ان سے پوچھا کہ: ’’آپ تو دو ریاستی فارمولے کو رد کرتے ہیں اور اسرائیل کے وجود سے ہی انکاری ہیں، تو مفاہمت کیسے ہو؟‘‘ انھوں نے کہا:’’حماس کا رویہ کسی بھی طرح امن مساعی میں رکاوٹ نہیں ہے۔ یاسر عرفات اور محمود عباس نے تو اسرائیل کو تسلیم کیا، مگر ان کے ساتھ کیا سلوک ہوا؟ تحریک میں شارٹ کٹ کی گنجایش نہیں ہوتی۔ اس کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے استقامت ضروری ہے۔ اپنے آپ کو مضبوط بنانا اور زیادہ سے زیادہ حلیف بنانا بھی تحریک کی کامیابی کے لیے ضروری ہے۔ تاریخ کا پہیہ سست ہی سہی مگر گھومتا رہتا ہے‘‘۔ تاہم، اس کے ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی کہا کہ: ’’حماس ۲۰۰۶ء کے ’نیشنل فلسطین اکارڈ‘ پر کار بند ہے، جس کی رُو سے وہ دیگر گروپوں کے ذریعے اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنے گی، مگر مجھے یہ بھی یقین ہے کہ ان مذاکرات کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ کمزور اور طاقت ور کے درمیان کوئی معاہدہ ہو ہی نہیں سکتا۔ سیاسی لحاظ سے ہمیں طاقت ور بننے کی ضرورت ہے‘‘۔ 
 چند برس قبل ان علاقوں کا دورہ کرکے میں نے محسوس کیا کہ عرب ممالک اور امریکی امداد کے بدولت غزہ کے مقابلے میں مغربی کنارے میں خاصی خوش حالی اور ترقی نظر آتی ہے۔ جریکو قصبے میںایک عالی شان کیسینو (جواخانہ) کے علاوہ مختلف شہروں رملہ، حبرون (الخلیل)، بیت اللحم میں نئے تھیٹرکھل گئے ہیں، جہاں تازہ ترین ہالی وڈ فلمیں دیکھنے کے لیے بھیڑ لگی ہوتی ہے۔ جریکو کے کیسینو میں اسرائیلی علاقوں سے جوئے کے شوقین یہودی بھی داؤ لگانے کے لیے ہر رات پہنچ جاتے ہیں۔ حضرت عیسیٰؑ کی جاے پیدایش بیت اللحم کے چرچ آف نیٹیوٹی یا کنیستہ المھد اور یروشلم کے درمیان مشکل سے ۱۰کلومیٹر کا فاصلہ ہے، مگر وہاں کے مکینوں کے لیے یہ صدیوں پر محیط ہے۔ وہ اسرائیلیوں کی اجازت کے بغیر یروشلم نہیں جاسکتے ہیں۔ وہ صرف دُور سے اس شہر کو دیکھ سکتے ہیں۔ 
اقوام متحدہ کے زیر انتظام ایک اسکول کے استاد نے بتایا کہ: ’’چودہ سال قبل، میں ایک بار یروشلم گیا تھا اور مسجد اقصیٰ میں نماز ادا کی تھی‘‘۔ اسرائیلی حکومت نے فلسطینی علاقوں کو محصور کرکے ایک مضبوط دیوار کھڑی کی ہے۔ یروشلم سے بحرمُردار (Dead Sea) جانے کے لیے یہودیوں اور فلسطینیوں کے لیے دو الگ راستہ بنائے گئے ہیں اوران کے بیچ میں اونچی دیوار ہے۔ یہ نسل پرستی کا ایک بد ترین مظاہرہ ہے۔ اردن اور فلسطین کے درمیان بحرمُردار میں نمک کی مقدار ۳۰ فی صد سے زیادہ ہے، اس لیے اس میںکوئی ذی روح زندہ نہیں رہ سکتا۔یہ وہی سمندر ہے جس میں حضرت لوط ؑ کی قوم تباہ و برباد ہوگئی تھی۔ یہ علاقہ سطح سمندر سے۴۰۰میٹر نیچے ہے۔ چونکہ اس سمندر میں کوئی ڈوب نہیں سکتا، یہاں سیاح آرام سے پانی کی سطح پر لیٹ کر اخبار وغیرہ کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔ اسرائیل کی ایک کثیر ملکی کمپنی اس سمندر سے کان کنی کرکے دنیا بھر میں جلدکی خوب صورتی اور علاج کے لیے Dead Sea Products سپلائی کرتی ہے۔ اس بحر کی تہہ کو جلدی امراض کے علاج کے لیے استعمال کرنے کا سہرا کراچی سے منتقل ہونے والے پاکستانی یہودی سائنس دان زیوا گلاڈ کے سر ہے۔ 
اسرائیلی علاقوں کے رکھ رکھائو اور تر قی دیکھ کر جہاں یورپ اور امریکا بھی شرما جاتا ہے، وہیں چند کلومیٹر کے فاصلے پر ہی فلسطینی علاقوںکی کسمپرسی دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ سیاحو ں کو دیکھ کر بھکاری لپک رہے ہیں، نو عمر فلسطینی بچے سگریٹ، لائیٹر وغیرہ کچھ ایسی چیزیں بیچنے کے لیے آوازیں لگا رہے ہیں۔ ایک جم غفیر نے پانی کے ایک ٹینکر کے آس پاس حشر برپا کیا ہوا تھا۔ پھول جیسے بچے کتابوں کے بستوں کے بجاے پینے کے پانی کے حصول کے لیے دھینگا مشتی کر رہے تھے۔ شہر کے گورنر صالح التماری سے جب استفسار کیا، تو ان کا کہنا تھا، کہ: ’’پانی کے سبھی ذرائع پر اسرائیل کا قبضہ ہے اور وہ صرف ایک مقدار تک فلسطینی علاقوں میں پانی فراہم کرتے ہیں۔ کبھی کبھی ہفتوں تک ٹینکر نہیں آتا ہے‘‘۔ ان کے مطابق: ’’اسرائیل نے کربلا جیسی کیفیت برپا کی ہوئی ہے‘‘۔
گورنر سے ملاقات کے بعد جب ہمارے وفد کے دیگر اراکین مارکیٹ میں خریدوفروخت کر رہے تھے، میں چند فلسطینی نوجوانوں سے گفتگو کر رہا تھا۔ ان میں سے ایک نوجوان گورنر کے ساتھ ہماری بریفنگ میں بھی موجود تھا۔ اس نے کہا ، کہ: ’’کیا آپ جاننا چاہتے ہیں کہ پانی آخر کہاں جاتا ہے اور عوام تک کیوں نہیں پہنچتا ہے؟‘‘ جب میں نے ہاں کہا، تو اس نے مجھے اپنے موٹر سائیکل پر بیٹھنے کے لیے کہا۔ چند لمحوں کے تذبذب کے بعد میں اللہ کا نام لے کر سوار ہوگیا۔بعد میں اس جرأت کا خمیازہ مجھے واپسی پر تل ابیب ایئر پورٹ پر بھگتنا پڑا۔ جب وہاں سیکورٹی اہلکار نے یہ کہہ کر مجھے چونکا دیا، کہ: ’’تم اپنے ساتھیوں کو چھوڑ کر ایک فلسطینی کے موٹر سائیکل پر کہاں گئے تھے؟ ‘‘
خیر چند گلیوں سے گزرنے کے بعد ہم ایک پوش علاقے میں وارد ہوگئے تو اس نوجوان نے کہا کہ: ’’فلسطینی اتھارٹی کے عہدے داران اسی علاقے میں رہتے ہیں‘‘۔ ایک عالی شان مکان کے گیٹ کے باہر موٹر سائیکل روک کر اس نے گھنٹی کا بٹن دبایااور عربی میں آواز بھی لگائی۔ خیر کسی نے دروازہ کھول کر علیک سلیک کے بعد اندر جانے دیا۔ مکان کے مالک شاید موجود نہیں تھے۔ جس نے بھی دروازہ کھولا تھا، وہ ملازم ہی لگ رہا تھا۔ مکان کے ارد گرد وسیع باغیچہ اور ایک وسیع سوئمنگ پول بنا تھا۔ ایک اور مکان کا بھی یہی حال تھا۔ معلوم ہوا کہ مکین یا تو رملہ میں یا بیرون ملک دورے پر گئے ہیں۔کربلا جیسے حالات میں جہان عام فلسطینی العطش کی صدائیں بلند کر رہا تھا، لیڈروں کے ذریعے پانی کا یہ ضیاع تکلیف دہ مشاہدہ تھا! 

کئی تجزیہ کار بھارت کی حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو یورپ کی قدامت مگر غیر فرقہ پرست جماعتوں، یعنی جرمنی کی ’کرسچن ڈیموکریٹ‘ یا برطانیہ کی ’ٹوری پارٹی‘ سے تشبیہہ دے کر دھوکا کھا جاتے ہیں۔ ان یورپی سیاسی جماعتوں کے برعکس بی جے پی کی کمان اس کے اپنے ہاتھوں میں نہیں ہے۔ اس کی طاقت کا اصل سرچشمہ اور نکیل ہندو نسل پرستوں کی تنظیم راشٹریہ سیویم سنگھ (آرایس ایس)کے پاس ہے، جو بلاشبہہ فی الوقت دنیا کی سب سے بڑی خفیہ تنظیم ہے۔ جس کے مالی وانتظامی معاملات کے بارے میں بہت ہی کم معلومات ابھی تک منظر عام پر آئی ہیں۔ اگرچہ آر ایس ایس اپنے آپ کو ایک ’ثقافتی تنظیم ‘کے طور پر متعارف کرواتی ہے، مگر حال ہی میں اس کے سربراہ موہن بھاگوت نے یہ کہہ کر چونکا دیا کہ: ’ہنگامی صورت حا ل میں ہماری تنظیم صرف تین دن سے بھی کم وقفے میں ۲۰لاکھ سیوم سیوکوں (کارکنوں) کو اکٹھا کر کے میدان جنگ میں لا سکتی ہے، جب کہ فوج کو ’لام بندی‘ (اپنے سپاہیوں کی تیاری) میں کئی ما ہ درکار ہوتے ہیں‘‘۔ دراصل وہ یہ بتا رہے تھے، کہ آرایس ایس کی تنظیمی صلاحیت اور نظم و ضبط فوج سے بدرجہا بہتر ہے۔ 
معروف مصنف اور قانون دان اے جی نورانی نے حال ہی میں اپنی ۵۰۰صفحات پر مشتمل جامع، تحقیقی اور گہری تصنیف A Menace to India  The RSS:میں اس تنظیم کے حوالے سے کئی انکشافات کیے ہیں۔ اس کتاب کو لیفٹ ورڈبکس نے مارچ ۲۰۱۹ء میں شائع کیا ہے۔اگرچہ بی جے پی کے لیڈر روز مرہ کے فیصلے کرنے میں آزاد ہوتے ہیں، مگر اہم فیصلوں کے لیے ان کوآرایس ایس سے اجازت کی ضرورت ہوتی ہے۔ بی جے پی میں سب سے طاقت ور آرگنائزنگ جنرل سیکرٹری آر ایس ایس ہی کا نمایندہ ہوتا ہے۔ آر ایس ایس کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ ایک خاص پوزیشن کے بعد صرف غیر شادی شدہ کارکنان کو ہی اعلیٰ عہدوں پر فائز کیا جاتا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے بھارت کے موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی اہلیہ جسودھا بن کو شادی کے چند سا ل بعد ہی چھوڑ دیاتھا، یعنی آر ایس ایس کی پوری لیڈرشپ ’کنواروں‘ پر مشتمل ہے۔ 
آر ایس ایس کے سب سے نچلے یونٹ کو ’شاکھا‘ کہتے ہیں۔ ایک شہر یا قصبے میں کئی ’شاکھائیں‘ ہوسکتی ہیں۔ ہفتہ میں کئی روز دہلی کے پارکوں میں یہ ’شاکھائیں‘ دفاعی اور جارحانہ مشقوں کے ساتھ ساتھ لاٹھی ، جوڈو، کراٹے اور یوگا کا اہتمام کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ ورزش کے ساتھ ساتھ یونٹ کا انچارج ذہن سازی کا کام بھی کرتا ہے۔آر ایس ایس کے سربراہ کو ’سرسنگھ چالک‘ کہتے ہیں اور اس کی مدد کے لیے چار ’راشٹریہ سہکرواہ‘ یعنی سیکرٹری ہوتے ہیں۔ اس کے بعد یہ چھے تنظیمی ڈھانچوں پر مشتمل ہے۔ جن میں: کیندریہ کاریہ کاری منڈل، اکھل بھارتیہ پرتیندی سبھا، پرانت یا ضلع سنگھ چالک، پرچارک، پرانت یا ضلع کاری کاری منڈل اور پرانت پرتیندی سبھا شامل ہیں۔ پرانت پرچارک علاقے یا ضلع کا منتظم ہوتا ہے، اس کا غیرشادی شدہ یا گھریلو مصروفیات سے آزاد ہونا لازم ہوتا ہے۔ بی جے پی کی اعلیٰ لیڈرشپ میں فی الوقت وزیراعظم مودی اور صدر امیت شاہ آرایس ایس کے کارکنان رہے ہیں۔ 
اے جی نورانی کے بقول: ’’اس تنظیم کی فلاسفی ہی فرقہ واریت، جمہوریت مخالف اور فاشزم پر استوار ہے ۔ سیاست میں چونکہ کئی بار سمجھوتوں اور مصالحت سے کام لینا پڑتا ہے، اس لیے اس میدان میں براہ راست کودنے کے بجاے، آر ایس ایس نے ۱۹۵۱ء میں جَن سنگھ اور پھر ۱۹۸۰ء میں بی جے پی تشکیل دی‘‘۔ بی جے پی پر اس کی گرفت کے حوالے سے نورانی کا کہنا ہے کہ: ’’آر ایس ایس کے ایما پر اس کے تین نہایت طاقت ور صدور ماولی چندر ا شرما، بلراج مدھوک اور ایل کے ایڈوانی کو برخاست کیا گیا۔ ایڈوانی کا قصور تھا کہ ۲۰۰۵ء میں کراچی میں اس نے بانیِ پاکستان محمد علی جناح کو ایک عظیم شخصیت قرار دیا تھا‘‘۔
نورانی صاحب کے بقول: ’’آر ایس ایس کے تقریباً ۱۰۰سے زائد شعبہ جات الگ الگ میدانوں میں سرگرمِ عمل ہیں۔ جیسا کہ سیاسی میدان میں بی جے پی، حفاظت یا سکیورٹی کے لیے (بالفاظ دیگر غنڈا گردی کے لیے) بجرنگ دل، مزدورں یا ورکروں کے لیے بھارتیہ مزدور سنگھ، دانش وروں کے لیے وچار منچ، غرض یہ کہ سوسائٹی کے ہر طبقے کی رہنمائی کے لیے کوئی نہ کوئی تنظیم ہے۔ حتی ٰکہ پچھلے کچھ عرصے سے آر ایس ایس نے ’مسلم راشٹریہ منچ‘ اور جماعت علما نامی دو تنظیمیں قائم کرکے انھیں مسلمانوں میں کام کرنے کے لیے مختص کیا ہے۔ گذشتہ انتخابات کے دوران یہ تنظیمیں کشمیر میں خاصی سرگرم تھیں۔ان سبھی تنظیموں کے لیے آر ایس ایس کیڈر بنانے کا کام کرتی ہے، اور ان کے لیے اسکولوں اور کالجوں ہی سے طالب علموں کی مقامی شاخوں کے ذریعے ذہن سازی کی جاتی ہے۔ اس وقت کُل شاخوں کی تعداد کم وبیش۸۷۷ ۸۴, ہے۔ گذشتہ برس ۲۰سے ۳۵سال کی عمر کے ایک لاکھ افراد تنظیم میں شامل ہوئے۔ بھارت کے ۸۸ فی صد بلاک میں یہ تنظیمیں پھیل چکی ہیں، جو ملک اور بیرون ملک کے مختلف مقامات پر ہندوؤں کو انتہاپسندانہ نظریاتی بنیاد پر جوڑنے کا کام کررہی ہیں۔ 
’’بھارت سے باہر کے ممالک میں ان کی ۳۹ممالک میں شاخیں ہیں۔ یہ شاخیں ’ہندو سوئم سیوک سنگھ‘ (HSS)کے نام سے کام رہی ہیں۔بھارت سے باہر آر ایس ایس کی سب سے زیادہ شاخیں نیپال میں ہیں۔ پھر امریکا میں اس کی شاخوں کی تعداد۱۴۶ ہے اور برطانیہ میں ۸۴شاخیں ہیں۔ یہ کینیا کے اندر بھی کافی مضبوط پوزیشن میں ہے اور ان کا دائرۂ کار پڑوسی ممالک تنزانیہ، یوگنڈا، موریشس اور جنوبی افریقا تک پھیلا ہوا ہے۔دل چسپ بات یہ ہے کہ ان کی پانچ شاخیں مشرق وسطیٰ کے مسلم ممالک میں بھی ہیں۔ چوں کہ عرب ممالک میں جماعتی اور گروہی سرگرمیوں کی کھلی اجازت نہیں ہے، اس لیے وہاں کی شاخیں خفیہ طریقے سے گھروں تک محدود ہیں۔ بتایا جاتا ہے، کہ بابری مسجد کی مسماری اور رام مندر کی تعمیر کے لیے سب سے زیادہ چندا خودعرب ممالک ہی سے آیا تھا۔ فن لینڈ میں ایک الیکٹرانک شاخ ہے، جہاں ویڈیو کیمرے کے ذریعے ۲۰ممالک کے افراد جمع ہوتے ہیں، حالاں کہ ان ممالک میں آر ایس ایس کی باضابطہ شاخ موجود نہیں ہے۔ بیرون ملک آر ایس ایس کی سرگرمیوں کے انچارج رام مادھو اس وقت بی جے پی کے قومی جنرل سیکریٹری بھی ہیں۔ وہی کشمیر امور کو بھی دیکھتے ہیں، اور وزیراعظم مودی کے بیرونی دوروں کے دوران بیرون ملک مقیم بھارتیوں کی تقاریب منعقد کراتے ہیں‘‘۔
آر ایس ایس کے ایک مرکزی لیڈر سے گفتگو کے دوران مَیں نے پوچھا کہ: ’مسلمان، جو بھارت کے صدیوں سے رہنے والے شہری ہیں، ان کے بارے میں آپ کی کیا راے ہے‘؟ تو ان کا کہنا تھا کہ: ’مسلمانوں سے ان کو کوئی شکایت نہیں ہے، اگر وہ ہندو جذبات کا خیال رکھیں‘۔ میں نے پوچھا کہ: ’ہندو جذبات سے آپ کی کیا مراد ہے؟‘ توان کا کہنا تھاکہ: ’ہندو کم و بیش ۳۲کروڑدیو ی دیوتائوں پر یقین رکھتے ہیں۔ ہمارے لیے یہ کوئی ناک کا مسئلہ نہیں کہ ہم پیغمبرؐاسلام کی بھی اسی طرح عزت افزائی کرنا چاہتے ہیں، مگر مسلمان اس کی اجازت نہیں دیتے، اور نہ اپنے یہاں کسی ہندو دیوی دیوتا کی تصویر یا مورتی رکھتے ہیں‘۔ اپنے دفتر کی دیوار پربابا گورو نانک اور گورو گوبند سنگھ کی لٹکتی تصویر اور کونے میں مہاتما بدھ اور مہاویر کی مورتیوںکی طرف اشارہ کرتے ہوئے، انھوںنے کہا کہ: ’دیگر مذاہب، یعنی سکھوں، بدھوں اور جینیوں نے ہندوئوں کے ساتھ رہنے کا سلیقہ سیکھا ہے، جو مسلمانوں کو بھی سیکھنا پڑے گا‘۔
’گجرات فسادات کے بعد ۲۰۰۲ء میں ایک مسلم وفد آر ایس ایس کے اُس وقت کے سربراہ کے سدرشن جی سے ملنے ان کے صدر دفتر ناگ پور چلا گیا جس میں اعلیٰ پایہ کے مسلم دانش ور شامل تھے۔ ملاقات کا مقصد ملک میں بڑھتی ہوئی فرقہ پرستی کو کم کرنے کے لیے انھیں قائل کرنا تھا۔ اس وفد کے ایک رکن نے بتایا: ’’جب ہم نے سدرشن جی سے پوچھا کہ کیا مسلمانوں اور ہندوؤں میں مفاہمت نہیں ہوسکتی ہے؟ کیا دوستانہ ماحول میں نہیں رہا جاسکتا ہے؟‘‘ جواب میں سدرشن نے مسلم وفد کو بتایا کہ: ’آر ایس ایس جیسی شدت پسند تنظیم، مسلمانوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرسکتی ہے، لیکن اس کے لیے شرط ہے۔ آپ لوگ(مسلمان)کہتے ہیں کہ اسلام ہی برحق اور سچا دین ہے، آپ یہ بات کہنا چھوڑ دیجیے اور کہیے کہ اسلام بھی سچا دین ہے تو ہماری آپ کے ساتھ مفاہمت ہوسکتی ہے‘۔ ’اسلام ہی حق‘ ہے، کے بجاے ’اسلام بھی حق‘ ہے، کا مطالبہ کرنا بظاہر ایک معمولی بات ہے اور یہ مطالبہ اب فرقہ پرست ہی نہیں ، بلکہ خود ساختہ لبرل مسلمانوں کی طرف سے بھی کیا جاتاہے۔ تاہم، آرایس ایس اُس وفد کواس بات پر قائل نہیں کرسکی کہ وفد کے تمام لوگ دینی علوم سے واقفیت رکھتے اور یہ جانتے تھے کہ ا س مطالبے کو ماننے سے ان کے ایمان کا کیا حشر ہوگا۔ 

گذشتہ دنوں خبر آئی کہ ’’پاکستانی پنجاب میں گوردوارہ کرتار پور کے درشن کی خاطر، سکھ عقیدت مندوں کے لیے ایک راہداری کی منظوری کے بعد اب پاکستانی حکومت، جموں و کشمیر میں لائن آف کنٹرول کے پاس ہندو زائرین کے لیے ’شاردا پیٹھ مندر‘ جانے کے لیے بھی ایک کوریڈور کھولنے پر غور کر رہی ہے‘‘۔ اس کے مضمرات کا جائزہ لیے بغیر، لائن آف کنٹرول کے دونوں طرف، خصوصاً آزاد کشمیرمیں اپنی روشن خیالی ثابت کروانے والوں کی باچھیں کھل گئیں۔ نئی دہلی اور اسلام آباد میں بھی کریڈٹ لینے کے لیے ماحول خاصا گرم ہوا۔ بھارتی وزارت خارجہ نے ذرائع کے حوالے سے بیان داغا کہ: ’’کرتار پور اور شاردا کو زائرین کے لیے کھولنے کی تجویز تو بھارت نے کئی عشرے قبل پیش کی تھی، مگر اسلام آباد ہی ٹالتا رہا تھا‘‘۔
کرتار پور سکھوں کے لیے ایک مقدس مقام ہے۔ مگر پچھلے ایک ماہ سے بھارت اصرار کررہا تھا کہ گوردوارہ کرتار پور جانے کے لیے سبھی بھارتی شہریوں کو راہداری ملنی چاہیے۔ آخری اطلاعات کے مطابق پاکستان نے اس شرط کو منظور کرلیا ہے۔ ان سے نہیں پوچھا کہ آخر کیرالا میں گورو دہار، اڑیسہ میں جگن ناتھ، اتر پردیش میں کاشی وشواناتھ جیسے بے شمار مندروں میں غیرہندوؤں کا داخلہ کیوں ممنوع ہے؟
پھر بھارتی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ: ’’جب شاردا پر بات چیت کا عمل شروع ہوجائے گا، تو نہ صرف جموں و کشمیر کے پنڈتوں، بلکہ سبھی بھارتی شہریوں کے لیے راہداری کھلنی چاہیے‘‘۔ 
 چند برس قبل ہندو قوم پرستوںکی مربی تنظیم راشٹریہ سیویم سنگھ(RSS) کی ایک شاخ کی طرف سے دہلی اور جموں میں ایک تقریب میں آزاد کشمیر کے کسی فارسٹ کنزویٹر رئیس احمدکی طرف سے بذریعہ ڈاک ارسال کی گئی، ’شاردا پیٹھ مند ر‘ کی مٹی کی پوجا کی گئی۔ اس موقعے پر کشمیریوں اور پاکستان کے خلاف جارحانہ تقریریں بھی ہوئیں۔ مقررین نے لائن آف کنٹرول کو کھولنے کا مطالبہ کیا، تاکہ بھارت سے ہندو زائرین جوق در جوق اس مندر کی زیارت کرسکیں۔  (ویسے تو اس کنزویٹر کے خلاف قانونی چارہ جوئی ہونی چاہیے کہ آثارِ قدیمہ کی ایک یادگار کی اس نے غیرقانونی طور پر کھدائی کر کے مٹی کیوں نکالی)۔ مظفر آباد سے ۱۵۰کلومیٹر اور سری نگر سے ۱۳۰کلومیٹر دُور شمال میں اٹھ مقام اور دودنیال کے درمیان، شاردا کھنڈرات کو، کشمیر کی مبینہ طور پر پانچ ہزار سال پرانی تہذیب کا گواہ قرار دیا جارہا ہے، جو نیلم اور مدھومتی کے سنگم پر واقع ہے۔ چارلس الیسن بیٹس نے ۱۸۷۲ء میں جب ’گزیٹئر  آف   کشمیر‘ ترتیب دیا، تو اس مقام پر   ایک قلعے کی موجودگی کا ذکر کیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ قلعہ سے ۴۰۰گز کی دُوری پر ایک مندر کے کھنڈرات ملے۔ بیٹس اور والٹر لارنس ، جنھوں نے کشمیر کے قریہ قریہ گھو م کر معمولی سے واقعات تک قلم بند کیے ہیں، انھوں نے کہیں بھی ’شاردا مندر کی یاترا ‘کا ذکر نہیں کیا ہے۔ 
بھارت میں ہندو قوم پرست آرایس ایس کی طرح پاکستان میں بھی آج کل تاریخ کو توڑ مروڑ کر اَز سرِ نو لکھنے کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ بھارت میں یہ کام ہندو انتہا پسندو ں کا خاصہ ہے، لیکن پاکستان میں یہ کام وہ افراد کررہے ہیں ، جن پر اپنے آپ کو اعتدال پسند اور روشن خیال کہلوانے کا خبط سوار ہے۔ ان افراد کا کہنا ہے کہ: ’۱۹۴۷ءسے قبل امر ناتھ کی طرز پر اس علاقے میں بھی ہندو یاترا ہوتی تھی‘۔ اگر ایسا ہوتا تو لارنس اور بیٹس کے گزیٹئر میں اس کا ضرور ذکر ہوتا۔ 
۱۳۷۲ء میں میر سید علی ہمدانی کے آمد تک کشمیر میں وقتاً فوقتاً بدھ مت اور ہندو شیوازم کے درمیان انتہائی کشیدگی جاری تھی۔ اور وہ ایک دوسرے کی عبادت گاہوں کو مسمار کرتے رہتے تھے۔ اس خطے میں اسلام کی عوامی پذیرائی کی ایک وجہ شاید یہ بھی تھی۔ کشمیر میں ۱۲۶۰  قبل مسیح میں سریندرا پہلا بدھ بادشاہ تھا۔ ۲۳۲قبل مسیح اشوکا کی حکومت کے خاتمے کے بعد راجا جالو نے ہندو شیوازم قبول کیا، تو اس نے بدھ مت پر ایک قیامت توڑ دی۔ بدھ اسٹوپوں اور دانش گاہوں کو تاراج کرکے شیو مندر بنائے گئے۔ ۶۳ء میں دوبارہ بدھ مت کو عروج حاصل ہوا۔ راجہ کنشک کے عہد میں بارہمولہ کے کانس پورہ میں چوتھی بدھ کونسل منعقد ہوئی اور بدھ مت کے ایک لبرل مہایانہ فرقہ کی بنیاد ڈالی گئی، جو چین اور کوریا میں آج بھی رائج ہے۔ ساتویں صدی میں چینی سیاح اور بھکشو ہیون سانگ جب یہاں سیر کے لیے آیا تو اس کے مطابق: ’سرینگر سے وادی نیلم کے علاقے میں سو بدھ عبادت گاہیںاور پانچ ہزار بھکشو موجود تھے‘۔ بد ھ مت کو چیلنج دینے کے لیے آٹھویں صدی میں کیرالا کے ایک ہندو برہمن آدی شنکر نے بیڑا اٹھایا۔ پورے خطے میں گھوم پھر کر اس نے ہندو ازم کا احیا کرایا۔ جہاں اس نے بدھ بھکشو وں کے ساتھ مکالمہ کرکے ان کو ہرایا، وہاں اس نے ’شاردا‘ یعنی ’علم کی دیوی‘ کے نام پر چند مندر تعمیر کروائے، جن میں سب سے بڑا مندر کرناٹک میں دریاے تنگ کے کنارے سرنگری میں واقع ہے۔ 
اگرچہ اس علاقے کو ہندو زائرین کے لیے کھولنے اور انھیں اپنے مذہب کے مطابق عبادت کرنے کا موقع فراہم کرنے میں بظاہر اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ مگر جو لوگ اس کی وکالت کر رہے ہیں، انھیں چند منٹ جنوبی کشمیر میں امرناتھ اور شمالی بھارت کے صوبہ اترا کھنڈ کے چار مقدس مذہبی مقامات بدری ناتھ ،کیدارناتھ، گنگوتری اوریمنوتری کی مذہبی یاترا کو سیاست اور معیشت کے ساتھ جوڑنے کے مضمرات پر بھی غور کرنا چاہیے۔
ایک عشرہ قبل تک امرناتھ یاترا میں محدودتعداد میں لوگ شریک ہوتے تھے، لیکن اب ہندو قوم پرستوں کی طرف سے چلائی گئی مہم کے نتیجے میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ آتے ہیں۔ سال بہ سال ان کی تعداد میں اضافہ ہورہاہے۔ اس یاتراکو فروغ دینے کے پیچھے کشمیر کو دراصل ہندوئوں کے لیے ایک مذہبی علامت کے طور پر بھی ابھار نا ہے، تاکہ کشمیر پر بھارت کے دعوے کو مزید مستحکم بنانے کا جواز پیدا کیا جاسکے۔بھارت کے موجودہ قومی سلامتی مشیر اجیت دوبال نے تو کشمیر کو سیاسی مسئلےکے بجاے تہذیبی جنگ قرار دیتے ہوئے کہا ہے: ’’اس مسئلے کا حل ہی تہذیبی جارحیت اور اس علاقے میں ہندو ازم کے احیا میں مضمر ہے‘‘۔ 
ایک باضابطہ منصوبہ کے تحت کشمیر کی پچھلی ۶۴۷ سال کی مسلم تاریخ کو ایک ’تاریک دور‘ کے بطور پیش کیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں کشمیری زبان کے اسکرپٹ کو فارسی سے دوبارہ ’قدیمی شاردا‘ میں تبدیل کرنے کی تیاریا ں ہو رہی ہیں۔ اب ان سے کوئی پوچھے کہ: ’’اگر کشمیری کا اسکرپٹ واپس شاردا میں لانا ہے، تو سنسکرت اور دیگر زبانوں کا اسکرپٹ بھی تبدیل کرو۔ کشمیر ی کی طرح سنسکرت بھی قد یم زمانے میں شاردا اسکرپٹ میں ہی تحریری کی جاتی تھی‘‘۔
امرناتھ علاقے میں ۱۹۹۶ء میں برفانی طوفا ن کی وجہ سے ۲۰۰ سے زائد ہندو یاتریوں کی موت ہوگئی تھی۔ اس حادثے کی انکوائری کے لیے بھارتی حکومت کی وزارت داخلہ کی طرف سے مقرر کردہ ’ڈاکٹر نتیش سین گپتا کی قیادت میں ‘ ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں یاتریوں کو ایک محدود تعداد میںکرنے کی سفارش کی تھی۔اس کمیٹی کی سفارش کی بنیاد پر ریاستی حکومت نے یاتریوں کی تعداد کو ضابطے کا پابند بنانے کی جب کوشش کی، تو بزعم خود ہندو دھرم کے محافظ بعض ہندو رہنمائوں نے اسے مذہبی رنگ دے کر ان کوششوں کو ناکام بنادیا۔ حدتو اس وقت ہوگئی جب ۲۰۰۵ء میں کشمیر کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ مرحوم مفتی محمد سعید نے اپنے دور میں  گورنر ایس کے سنہا کی طرف سے یاترا کی مدت میں اضافے کی تجویز پر اعتراض کیا ،تو ان کی کابینہ کے تمام ہندو وزیروں نے استعفے پیش کر دیے۔ دوسری طرف ہندو شدت پسند لیڈروں نے بھی پورے ملک میںمہم شروع کرکے بڑے پیمانے پر ہندووں کو امرناتھ یاترا کے لیے راغب کرنا شروع کردیا۔اتراکھنڈ کے چار دھام کی طرح آج امر ناتھ کو بھی سیا حت اور بھارت کی شدت پسند قومی سیاست کے ساتھ جوڑنے کی کوششیں ہورہی ہیں۔ تاکہ ماحولیات کے لحاظ سے اس نازک خطے میںلاکھوںیاتریوں کی یاترا کو ممکن بنانے کے لیے سڑکیںاور دیگر سہولیات فراہم کی جاسکیں۔ حتیٰ کہ بھارت کی سپریم کورٹ نے بھی یہاں پر یاتریوں کے لیے ایک ٹریک بنانے کا حکم دے ڈالا، مگر دوسری جانب یہی عدالت دیگر مقدمات میں ماحولیات کو بچانے کے لیے سخت موقف اختیار کرتی ہے۔
 سابق گورنر ایس کے سنہا تو ہر تقریب میں اعلان کرتے تھے کہ: ’’مَیں اس علاقے میں ہندوئوں کے لیے مخصوص 'شاردایونیورسٹی‘ قائم کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں‘‘۔ اسی لیے انھوں نے جنگل والی زمین کا ایک وسیع قطعہ ’امرناتھ شرائن بورڈ‘ کے سپرد کیا تھا۔ اس فیصلے نے ۲۰۰۸ء میں کشمیر کے طول وعرض میں آگ لگادی۔ ’امرناتھ مندر بورڈ‘ کے خلاف، وادی کے عوام کا جو غصہ پھوٹا اس کا تعلق ہندومسلم مسئلے سے قطعی نہیں تھا۔ ۱۸۶۰ء سے ہی جب امرناتھ کی یاترا کا آغاز ہوا، مسلمان اس کے نظم و نسق اور اسے حسن و خوبی کے ساتھ تکمیل تک پہنچانے میں اہم رول ادا کرتے آرہے ہیں۔لیکن گورنر سنہا نے امرناتھ مندر بورڈ کے چیئرمین کا عہدہ سنبھالتے ہی سب سے پہلاکام بٹ گنڈ گائوں کے مسلمان چرواہوں کے پیٹ پر لات مارنے کا کیا۔ حالاںکہ پچھلے تقریباً ڈیڑھ سو سال سے یہی چرواہے ہندوئوں کے اس مقدس مقام کی نگرانی کرتے آرہے تھے۔ جنرل سنہا کے پرنسپل سکریٹری اور ’امرناتھ شرائن بورڈ‘ کے سربراہ ارون کمار نے یہاں چھوٹی چھوٹی دکانیں لگا کر اپنی روزی کمانے والوںسے ان کا روزگار بھی چھین لیا۔ جس زمین کے وہ بے چارے مالک تھے، انھی سے’جزیہ‘ وصول کرنا شروع کردیا۔ اس علاقے کی مقامی آبادی کا امرناتھ مندر سے کتنا گہرا تعلق ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ۱۹۹۵ء میں جب حرکت الانصار نامی تنظیم نے امرناتھ یاترا کے نظم و نسق میں مسلمانوں کی شمولیت پر پابندی لگانے کا اعلان کیا تو مسلمانوں نے ہی بڑے پیمانے پر اس کی مخالفت کی اور اسے ۱۲دن کے اندر ہی اپنا حکم واپس لینا پڑا۔ اب تو مقامی مسلمانوں اور تاجروں کو اس یاترا کے انتظام سے پوری طرح بے دخل کردیا گیا ہے۔
 بہر حال ہر سال لاکھوں یاتریوں کے امرناتھ آنے کی وجہ سے ماحولیات پر بھی خاصا بُرا اثر پڑ رہا ہے۔۲۰۰۵ء میں مشہور ماہر ماحولیات پروفیسر ایم این کول کی قیادت میں ملک کے چوٹی کے ماہرین ماحولیات نے اپنی ایک رپورٹ پیش کی، جس میں کہا کہ: ’’اگر بال تل کے راستے امر ناتھ کے مقدس گپھا تک ہزاروں یاتریوں کی آمدورفت کا سلسلہ یوں ہی جاری رہا، تو ماحولیات اور گلیشیر کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا‘‘۔لیکن اس مشورے پر کان دھرنے کے بجاے بھارتی حکومت زیادہ سے زیادہ یاتریوں کو بال تل کے راستے ہی امرناتھ بھیج رہی ہے۔ بھارتی حکومت نے اگرچہ بیشتردریائوں اورندیوں کے منبعے یعنی گنگا کے گلیشیرو ں کی حفاظت کے لیے متعدد اقدامات کیے ہیں، لیکن وادی کشمیر اور پاکستان کو پانی فراہم کرنے والے سند ھ طاس گلیشیر کی تباہی پر وہ ذرا بھی فکر مند نہیںنظر آتی ہے۔ ۲۰۰۸ء میں ہی اتراکھنڈ صوبے میں ماحولیات کے تحفظ کے لیے وہاں پر اس وقت ہندو قوم پرست بی جے پی حکومت نے ایک حکم نامہ جاری کیا، جس کی رو سے ہر روز صرف ۲۵۰ سیاح اور زائرین دریائے گنگا کے منبعے گومکھ گلیشیر جا سکتے ہیں۔اس کے برعکس    سندھ طاس کو پانی فراہم کرنے والے کشمیر کے کولہائی گلیشیر کے ساتھ موازنہ کریں، تو وہاں ہر روز امرناتھ یاترا کے نام پر اوسطاً۲۰ہزار افراد مئی اور اگست کے درمیان اسے روندتے ہوئے نظر آئیں گے۔
نتیش سین گپتا کمیٹی نے ۱۹۹۶ء میں اپنی سفارشات میں یہ بھی کہا تھا کہ: ’’امرناتھ کی ایک مہینے کی یاترا کے دوران صرف ایک لاکھ یاتریوں کو جانے کی اجازت دی جائے‘‘۔ لیکن حکومت نے پہلے تو یاترا کی مدت ایک ماہ سے بڑھا کر دو ماہ کردی۔اس کے بعد یاتریوں کی تعداد کو محدود کرنے سے انکار کردیا۔۲۰۱۸ء میں تقریباًساڑھے چھے لاکھ یاتریوں نے امرناتھ کی یاترا کی تھی۔ آیندہ برسوں میں یہ تعداد ۱۰لاکھ تک پہنچ جانے کا اندازہ ہے۔گپتا کا کہنا تھا کہ: ’’یاترا کے دوران ایک وقت میں ایک جگہ صرف ۳ہزاریاتریوں کو ٹھیرانے کی اجازت ہونی چاہیے‘‘۔ مگر آج حالت یہ ہے کہ پہلگام جیسی چھوٹی سی جگہ پر ، جو یاترا کا ایک بیس کیمپ بھی ہے، ۲۰ہزار سے ۵۰ہزار تک یاتری جمع ہوجاتے ہیں۔ ماہرین ماحولیات کہتے ہیں کہ: ’’ایسے وقت میں جب کہ دنیا موسمیاتی تبدیلیوںکی وجہ سے ایک نئی آفت سے دوچار ہونے والی ہے اور اس مصیبت کو ٹالنے کے لیے دنیا کے بیش تر ممالک پہاڑی علاقوں میں سیاحوں کی آمد کو بھی ریگولیٹ کررہے ہیں۔ حکومت بھارت کو بھی چاہیے تھا کہ کشمیر کے قدرتی ماحول کو برقرار رکھنے کے لیے امرناتھ میں یاتریوں کی تعدادکو ریگولیٹ کرنے کی تجویز پر مذہبی نقطۂ نگاہ کے بجاے سائنسی نقطۂ نگاہ سے غور کرے‘‘۔ آزادکشمیر اور پاکستان میں مقیم ان دانش وروں اور زعما سے بھی گزارش ہے کہ جو’ شاردا پیٹھ‘ کو زائرین کے لیے کھولنے کی وکالت کر رہے ہیں: ’’کہیں اٹھ مقام اور دودنیال کی سرسبز چراگاہیں دوسرا پہلگام اور بال تل نہ بن جائیںاور حریص طاقتیںان کو سیاست ومعیشت کے ساتھ جوڑ کر  کسی سانحے کا سامان پیدا نہ کریں‘‘۔ روشن خیالی تو ٹھیک ہے، مگر اس کے ساتھ شرارت کی نیت سے اگر بے ضمیری شامل ہوجائے تو یہ زہر ہلاہل بن جاتی ہے! 

۷۰ءکے عشرے میں میرے چچا ڈاکٹر مشتاق گیلانی نے ہمارے آبائی قصبہ سوپور میں ایک تختی اور بستہ میرے کاندھوں پر لاد کر، ہاتھ پکڑتے ہوئے مرکزی درس گاہ، محلہ مسلم پیر میں پہلی جماعت میں داخل کرا دیا۔ یہ درس گاہ، براہِ راست جماعت اسلامی کے شعبۂ تعلیم کے تحت تھی۔ مدت گزرنے کے باعث اکثر یادیں دھندلی ہوچکی ہیں، مگر جن مشفق اساتذہ نے ہاتھ تھام کر تعلیم کا آغاز کرایا، ان محسنوں کی یادیں ابھی تک ذہن میں نقش ہیں۔
 لیکن پھر ہوا یہ کہ بس د و ہی سال بعد اندرا گاندھی اور شیخ عبداللہ کے درمیان ہونے والے فروری ۱۹۷۵ء میں معاہدے کے نتیجے میں شیخ عبداللہ صاحب وزارت اعلیٰ کے منصب پر فائز ہوئے۔اپوزیشن کے دبائو اور اعلیٰ عدالت کے ایک فیصلے سے پریشان وزیر اعظم اندرا گاندھی نے جون ۱۹۷۵ءکو پورے ملک میں ایمرجنسی نافذ کرنے کا اعلان کر دیا۔ اقتدار کی دیوی کی آغوش میں تازہ تازہ آئے شیخ صاحب نے بھی دیکھا دیکھی کشمیر میں ایمرجنسی نافذ کی اور جماعت اسلامی اور اس سے ہمدردی رکھنے والے تعلیمی، معالجی اور رفاہی اداروں کو بھی مقفل کردیا۔ اس ایک فیصلے سے جموں و کشمیر میں، ہم ۲۰ ہزار طلبہ و طالبات پر اسکولوں کے دروازے بند ہوگئے، اور انھیں پریشانیوں میں دھکے کھاتے ہوئے سرکاری اسکولوں میں پناہ لینا پڑی۔ جماعت اسلامی تو ان دنوں جموں و کشمیر کی انتخابی سیاست میں پیش پیش تھی اور اسمبلی میں اس کی نمایندگی بھی تھی۔ ’اندراعبداللہ ایکارڈ‘ کی مخالف جماعت اسلامی نے گاندر بل حلقے سے شیخ عبداللہ کے مقابل محمداشرف صحرائی کو بطور اُمیدوار میدان میں اتارا تھا۔ یہ ایک طرح سے ہاتھی اور چیونٹی کا مقابلہ تھا ، مگر نیشنل کانفرنس معمولی سا اختلاف راے برداشت کرنے کی بھی متحمل نہیں تھی۔ صحرائی صاحب کے الیکشن ایجنٹ ڈوڈہ کے سعداللہ تانترے کو سید پورہ آلسٹینگ کے مقام پر کھیتوں میں نہ صرف زدوکوب کیا گیا، بلکہ ان کی ایک آنکھ بھی نکال دی گئی۔ طرفہ تماشہ دیکھیے کہ چند ہفتے پیش تر یہاں پر جماعت اسلامی پہ جو پابندی عائد کی گئی ہے، اس میں ایک ’جرم‘ یہ بھی ہے کہ یہ انتخابی سیاست میں یقین نہیں رکھتی ہے۔ اب اس سادگی پر مر نہ جائے کوئی!
۱۴فروری کو پلوامہ میں بھارتی فوجی دستوں کے قافلے پر ایک خود کش حملے کے جوا ب میں پاکستان پر ہوائی حملوں کے بعد کھسیانی بلی کھمبا نوچنے کے مصداق بھارتی وزیرا عظم نریندر مودی نے اپنی انتخابی حکمت عملی کا رخ دوبارہ کشمیر کی طرف موڑ دیاہے۔ حُریت کے لیڈورں کو نظربند رکھنے اور فوجی آپریشن وغیرہ کی ناکامی کے بعداب بتایا جا رہا تھا کہ حریت کانفرنس پر پابندی عائد کرکے لیڈروں کو پابند سلاسل کیا جائے گا۔ 
سید علی گیلانی پچھلے نو سالوں سے مسلسل گھر پہ نظربند ہیں۔ پچھلے دنوں سرینگر سے دہلی واپس آتے ہوئے ایرپورٹ روڈ پر جب ان کی رہایش گاہ پر پہنچا، تو دیکھا کہ گلی میں تین بکتر بند گاڑیاں ان کے گیٹ کو بلاک کیے ہوئے ہیں۔ سخت سردی میں د و درجن کے قریب سیکورٹی کے اہل کار باہر کھڑے ، اندر جانے کے لیے نام وغیرہ کا اندراج کر رہے تھے۔اندر جانے کی اجازت دینا ان کے موڈپر منحصر ہے۔ گیلانی صاحب خاصے کمزور نظر آرہے تھے ۔ اگرچہ اخبارات و غیرہ کا مطالعہ کر رہے تھے، مگر بتایا کہ کمزوری اور نقاہت کے باعث اب کچھ تحریر نہیں کر پاتا۔ پہلی بار ڈائری سے ساتھ چھوٹ گیا ہے۔ ان کے دفتر کے افراد اور رفقا زیر حراست ہیں۔ گھر کا ملازم چند ماہ قبل گائوں گیا تھا، واپسی پر اس کو اندر جانے کی اجازت ہی نہیں ملی۔ مجھے بٹھا کر خود ہی اندر اطلاع کرنے چلے گئے۔
اسی سلسلے میں جماعت اسلامی جموں وکشمیرپر پانچ سال تک پابندی عائد کرکے اس کے امیر ڈاکٹر عبدالحمید فیاض، ترجمان ایڈووکیٹ زاہد علی سمیت ۴۰۰ کے قریب اراکین کو اب تک گرفتار کیا جا چکا ہے۔ اور یہ سطور لکھنے تک روزانہ کہیں نہ کہیں سے، جماعت کے کسی کارکن کی گرفتاری کی خبر موصول ہوتی ہے۔جماعت کے دفاتر اور تعلیمی ادارے بھی سیل کر دیے گئے ہیں۔  کئی جگہوں سے اطلاعات ہیں کہ ارکان کے ذاتی رہایشی گھر بھی سیل کر دیے گئے ہیں۔ شدیدسردی اور برف باری کے موسم اور رات کے اندھیرے میں گھر کی عورتوں، بچوں اور بزرگوں کو بے دخل کرکے گھر سیل کیے گئے ہیں۔ ان بے قصور افراد سے آشیانہ چھین کر مبتلاے عذاب کرنا انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی ہے، جب کہ گھر کے مرد یا تو پہلے سے حراست میں ہیں، یا پھر روپوش۔ 
۱۹۷۷ء میں جب جماعت اسلامی پر پابندی اٹھائی گئی تو تعلیمی اداروں کے انتظام و انصرام کے لیے اس نے ’فلاح عام ٹرسٹ‘ قائم کیا۔ اس وقت اس ٹرسٹ کے تحت براہ راست ۳۵۰؍ اسکولوں میں ایک لاکھ سے زائد طلبہ زیر تعلیم ہیں۔ پھر بالواسطہ طور پر تقریباً اتنے ہی اسکول ’فلاح عام ٹرسٹ‘ کی تعلیمی کاوشوں کے ساتھ منسلک ہیں۔ پابندی کے فوراً بعد جب دنیا کے دور دراز خطوں سے، ان اداروں سے فارغ التحصل طلبہ، یعنی ایلومنائی کے پیغامات آنا شروع ہوئے، تو پہلی بار معلوم ہوا کہ ان اداروں سے اٹھا ہوا ابر تو سارے جہاں پر برس رہا ہے۔ تقریباً ۳۰۰؍ایلومنائی نے ایک مشترکہ یادداشت میں حکومت کو بتانے کی کوشش کی ہے کہ یہ ادارے غریب اور دُور دراز کے دیہات میں تعلیمی معیار کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ اس لسٹ میں ایسے محقق اور پروفیسر شامل ہیں، جو فی الوقت نام ور اداروں، یعنی ہارورڈ یونی ورسٹی، امپیریل کالج، سوئزرلینڈ ، ویسٹ منسٹر، امریکا کے طبی تحقیق کے اعلیٰ اداروں، بھارت کے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی، جواہر لال نہرو یونی ورسٹی، علی گڑھ و جامعہ ملیہ اسلامیہ وغیرہ میں کام کر رہے ہیں۔ 
ان ماہرین، اسکالرز اور سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ان کی کامیابی میں ان اسکولوں اور وہاں کے اساتذہ کی محنت، لگن اور خلوص بھی شامل ہے۔اس یادداشت پر دستخط کرنے والوں میں ایک کشمیری پنڈت خاتون نتاشا کول بھی ہیں ، جو اس وقت یونی ورسٹی آف ویسٹ منسٹر، لندن[تاسیس: ۱۸۳۸ء] میں پڑھاتی ہیں۔ ایک طرف حکومت تو خود معیاری تعلیم دینے سے عاری ہے، دوسری طرف جو ادارے اس طرف عوامی خدمت، محنت اور لگن سے دن رات مگن ہیں، ان کا گلہ گھونٹے سے نہیں کتراتی ہے۔جموں و کشمیر میں اعلیٰ عہدوں پر برا جمان، خو د گورنر کے دفتر میں افسران کی ایک بڑی تعداد انھی اسکولوں سے فارغ التحصیل ہے۔ اس یادداشت میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ۱۹۹۰ء میں بھی اس وقت کے گورنر جگ موہن نے ان اداروں پر پابندی عائد کی تھی، مگر بعد میں سپریم کورٹ نے اس غیرمنصفانہ پابندی کو ختم کر دیا تھا۔ ان ایلومنائی کا کہنا ہے کہ: ’’آخر سیاسی صورت حال سے نمٹنے میں ناکامی کا نزلہ ان تعلیمی اداروں پر کیوں اتارا جاتا ہے؟‘‘ ۱۹۹۷ء سے جماعت عسکری جدوجہد سے لاتعلق ہے۔ ایسے حالات میں، جب کہ جماعت اسلامی کشمیر، عسکریت میں براہِ راست یا بالواسطہ شریک بھی نہیں ہے اور تعلیمی ، تبلیغی او ررفاہی کاموں میں مشغول ہے، اس پر پابندی لگاناسمجھ سے باہر ہے۔ ایسی کارروائی ا ور پکڑ دھکڑ سے کشمیر میں حالات مزید خراب ہونے کااحتمال ہے۔ بھارت نواز نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی بھی اس پابندی کو غلط اقدام قراردے رہی ہے۔ 
پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی لیڈر اور جموں و کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے سوال اٹھایا ہے: ’’حکومت ِدہلی کو آ خر جماعت اسلامی کشمیر سے اتنی پریشانی کیوں ہے؟ ہندو انتہا پسند  گروپوں کو جھوٹ پھیلانے اور ماحول خراب کرنے کی پوری آزادی ہے، جب کہ ایک ایسی تنظیم پر پابندی لگائی جارہی ہے، جس نے کشمیریوں کی تعلیمی، سماجی اور فلاحی محاذوں پر لوگوں کی اَن تھک مدد کی ہے‘‘۔ کوئی سیاسی نظریہ جب میدان عمل میں پوری طرح ناکام ہوجاتا ہے، تو اس کے حاملین زور زبردستی پر اُتر آتے ہیں۔ بی جے پی جب فکری سطح پر اشترا کی دانش وروں کا مقابلہ نہیں کرسکی تو اس نے ’شہری نکسل واد‘ کی اصطلاح گھڑکر اپنے خلاف اْٹھنے والی آوازوں کو دبانے کی خاطر حقوق انسانی کا کام کرنے والوں کو’ باغی اور دہشت گردوں کے حامی ‘قرار دے دیا۔ ملک بھر میں ’شہری نکسل واد‘ کے نام پر جو کارروائی کی گئی،اب اسی کا اعادہ جموں وکشمیر میں جماعت اسلامی پر پابندی لگا کر   کیا گیا ہے۔ 
نئی دہلی میں وزارتِ داخلہ کے ایک سینیر اہل کار سے جب میں نے جماعت پر پابندی کے پیچھے حقائق جاننے کی کوشش کی، تو انھوں نے فرمایا:’’جماعت اسلامی کشمیر سوسائٹی کو انتہا پسندی کی طرف لے جاکر ان کو ’سلفیت‘ کی طرف مائل کرکے مقامی خانقاہوں اور حنفیت سے متنفر کرواتی ہے‘‘۔ جب میں نے کہا: ’’اگر واقعی یہ بنیاد ہے تو خود اہل حدیث اور سلفی گروپوں پر پابندی کیوں نہیں  لگائی گئی ؟ اگر سلفی واقعی اتنے ہی خطرناک ہیں ،تو جہاں تک مجھے یاد ہے کشمیر میں ۱۹۹۰ء میں صرف دو اہل حدیث مساجد تھیں ، جو اب حکومتی اعداد و شمار کے مطابق ۴۰۰ سے تجاوز کر گئی ہیں۔  کون اس کی پشت پر ہے؟ اکتوبر۲۰۰۳ء میں ڈاکٹر ذاکر نائیک کشمیر تشریف لائے تھے اور شہر کے وسط میں پولوگراؤنڈ میں، اننت ناگ کے اسٹیڈیم  میں ان کی تقاریر ہوئی تھیں۔ اس کے علاوہ خود گورنر ہائوس میں بھی ان کے اعزاز میں ایک تقریب منعقد ہوئی تھی‘‘۔میں نے ان سے کہا کہ: ’’شیخ نورالدین ولیؒ [۱۳۷۷ء-۱۴۴۰ء] المعروف ’نندہ رشی‘ { FR 648 }کے کشمیری زبان میں کلام کا اردو ترجمہ کرنے کا سہرا جماعت اسلامی کے رہنما قاری سیف الدین کے سر ہے۔ اسی طرح میرسید علی ہمدانی ؒ [۱۳۱۴ء-۱۳۸۴ء]کا کشمیری مسلمانوں کو دیے گئے وظیفہ ’اوراد الفتیحہ‘ کا ترجمہ اور تفسیر بھی جماعت اسلامی کی مرہونِ منت ہے‘‘۔یہ سن کر مذکورہ افسر بغلیں جھانکنے لگا اور کہا کہ: ’’کوئی پرانی فائل جماعت کے متعلق بنی ہوگی ، جو ایسے مواقع پر نکالی جاتی ہوگی‘‘۔ ایک عشرہ قبل حکومت کو یہ باور کرایا گیا تھا کہ: ’’کشمیر میں حریت اور تحریک آزادی کے خلاف فکری رہنمائی کے لیے سلفی حضرات کو استعمال کیا جائے‘‘۔ اب کچھ عرصے سے یہ باور کرایا جا رہا ہے کہ: ’’صوفی ازم کا دامن تھا م کر اس تحریک کو دبایا جائے‘‘۔ تین سال قبل دہلی میں بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی کی صدارت میں منعقدہ ایک صوفی کانفرنس میں ایک صاحب کو تو یہ بھی کہتے سنا ، کہ: ’’اب ہندو قوم پرستوں کی مربی تنظیم آر ایس ایس کے کارکنان اور مشائخ، مشترکہ طور پر وہابیوں اور دیوبندیوں کے خلاف شانہ بہ شانہ لڑیں گے‘‘۔
۱۴فروری کو پلوامہ واقعے میں مبینہ خود کش حملہ آور عادل احمد ڈار کا تعلق ایک بریلوی یا صوفی طرزِفکر رکھنے والے گھرانے سے تھا۔ پلوامہ کے گونڈی باغ گاؤں میں اس کے والد غلام حسن ڈار صاحب کے بقول: ’’عادل ڈار، مقامی درگاہ میں نعت خوانی اور امام صاحب کی عدم موجودگی میں امامت کے فرائض بھی انجام دیتا تھا۔ قرآن کے چند پار ے حفظ کرنے اور نعت خوانی کی مشق کے لیے اس نے چند ماہ ایک بریلوی دارالعلوم میں گزارے تھے اور حنفی اعتقاد سے اختلاف رکھنے والوں کے ساتھ بحث و مباحثہ کرنے سے چُوکتا نہیں تھا‘‘۔ 
یہ امرواقعہ، حکومتی پالیسی سازی کرنے والوں کے لیے ایک تازیانہ ہے ، جو کشمیری تحریک کو مذہبی انتہاپسندی اور فرقہ پرستی سے جوڑ تے ہیں۔ یہ لوگ بھول جاتے ہیں، کہ مغربی طاقتوں نے اپنے مفاد کے لیے پہلے طالبان، القاعدہ اور داعش جیسی تنظیموں کی پرورش کی۔ عراق میں تو داعش کو ہتھیار اور پھر ان کے خلاف لڑنے والی تنظیموں کو فوجی تربیت بھی دی۔پھر یہ نعرے بلند کیے، کہ: ’’مسلمانوں میں شدت پسندی آرہی ہے‘‘ جسے لگام دینے کی ضرورت ہےاور اس کے لیے تصوف کی تشہیر کی جانے لگی۔ یہ لوگ جان بوجھ کر اس حقیقت کو نظر انداز کرتے ہیں، کہ شدت پسند اور اعتدال پسند ہرفرقہ اور مسلک میں موجود ہوتے ہیں۔ 
بھارت میں توہمیشہ سے ہی حکومتیں مسلمانوں کو مولانا ابولکلام آزاد اور مولانا حسین احمد مدنی کی تقلید کی تاکید کرتی آئی ہیں، کیوںکہ ان دونوں رہنمائوں نے آل انڈیا مسلم لیگ اور نظریۂ پاکستان کے خلاف انڈین نیشنل کانگریس کو ایک متبادل نظریاتی اساس فراہم کی تھی، مگر کیا بھارت میں ان کے ارادت مندوں کو سکون مل سکا؟
یہ سچ ہے کہ دہشت گردی کی اسلام میں کوئی گنجایش نہیں ہے، نہ کوئی فرقہ یامسلک ہی اس کی اجازت دیتا ہے۔ مظلوم علاقوں کے عوام اگر جبری قبضوں اور ظلم کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں، تو اس کو دہشت گردی کے ساتھ منسلک نہیں کیا جاسکتا۔ مغربی طاقتوں نے تصوف کی حوصلہ افزائی صرف اس وجہ سے کی، کہ اپنی سلگائی ہوئی آگ کے شعلے اس کے قابو میں نہیں آرہے تھے۔ ان کے یہاں ’تصوف کے نظریے‘ کا یہ پیغام ہونا چاہیے کہ مسلمان ہر حالت میں مہر بہ لب رہنے کی عادت بناڈالے۔ حالات سازگار ہوں تو شکر کے ساتھ خاموش رہے، اور اگر ظلم و ستم اور عزت و آبرو کا خون ہوتا ہوا دیکھے، تب بھی خاموشی اور بے حسی کو شعار بناڈالے۔ بس ایسی صوفیانہ پروڈکشن کی مغرب کو ضرورت ہے، نہ کہ سید سالار مسعود غازی کی طرح ظلم کے خلاف آواز بلند کرے۔تصوف کا مقصد انسانیت سے پیار ، محبت ، شفقت سے پیش آنا اور کردار سازی کرنا ہے، تاکہ نہ صرف گفتار، بلکہ اپنے کردار سے بھی ایک مسلمان دیگر مذاہب کے ساتھ مکالمہ کرے، جو صوفی بزرگوں کا خاصا رہا ہے، چاہے، کشمیر میں میر سیّد علی ہمدانی، نورالدین ولی ہوں یا بھارت میں خواجہ معین الدین چشتی یا نظام الدین اولیا ہوں!