جنوری کے مہینے میں ویسے ہی کشمیر میں ہر چیز جم جاتی ہے، مگر شمالی کشمیر کے سوپور قصبہ میں ۱۹۷۲ءکی سردیاں گرمی کا احساس دلاتے ہوئے ایک تاریخ رقم کررہی تھیں۔ جب ماضی کو کریدتے ہوئے میں معلوم کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ ابّا جی، یعنی سیّد علی گیلانی کو میں نے پہلی بار کب اور کہاں دیکھا تھا؟ تو یادوں کی دھند صاف کرتے ہوئے مجھے ایک چار سالہ بچہ نظر آیا، جو اپنے چچا ڈاکٹر مشتاق گیلانی (جو ان دنوں سرینگر میڈکل کالج میں طالب علم تھے) کے کندھے پر سوار رات گئے میر سیّد علی ہمدانی کی درگاہ، یعنی خانقاہ کے صحن میں ایک پُرجوش ہجوم کے ساتھ کھڑا ہے۔ ایک دراز قد، بارعب مگر شفیق اورخوش لباس شخص درگاہ کے دروازے سے نمودار ہوتا ہے اور نعروں میں مزید ارتعاش آجاتا ہے ۔ جوں جوں یہ شخص قد م بہ قدم سیڑھیوں سے نیچے اترتا ہے، ہجوم بے قابو ہوکر اس کے قریب جانے اور مصافحہ کرنے میں سبقت لینے کے لیے پُرجوش نظر آتا ہے۔ معلوم ہوا کہ یہ شخص علی شاہ گیلانی صاحب ہیں، جو ریاستی اسمبلی کا الیکشن جیت گئے ہیں۔
وہ ہمار ے قر یب آئے اور میرے چچا سے علیک سلیک کرکے میرے سر پر ہاتھ رکھا اور گالوں پر تھپکی دی۔ ان کے خاندان کے ساتھ ہمارا بس اتنا تعلق تھا کہ وہ میرے تایا پروفیسر سعید گیلانی کے استاد تھے۔ بعد میں اباًجی بتاتے تھے کہ سوپور انٹرمیڈیٹ اسکول میں جب وہ سعید صاحب کو پڑھاتے تھے، تو ان کو اپنا بچپن اور غربت میں پڑھائی کے لیے تگ و دو یاد آجاتی تھی۔ اسی وساطت سے وہ میرے دادا غلام نبی کو، جو ابن حسام کے نام سے شاعر اور عربی فارسی کے عالم بھی تھے، بچوں کی تعلیم کے لیے ترغیب اور حوصلہ دیتے تھے۔ اس الیکشن میں انھوں نے دھاندلیوں کے باوجود اس خطے سے کانگریس کے ایک بت کو پاش پاش کردیا تھا۔
سوپور قصبہ اور اس کے اطراف میں ۶۰ اور ۷۰ کے عشرے میں پیدا ہونے والے افراد کے لیے شعلہ بیان سیّد علی گیلانی، انقلابی شخصیات چے گویرا، ہوچی منہ یاآیت اللہ خمینی تھے۔ وہ اپنے خطاب سے بدن میں بجلیاں بھر دیتے تھے۔ چاہے مقامی مسائل ہوں، یا ۱۹۷۹ءمیں افغانستان پر اشتراکی روسی فوجوں کی چڑھائی، یا اس کے ایک سال بعد اسرائیل کے ہاتھوں یروشلم شہر کو ضم کرنے کا واقعہ ہو، وہ اپنی اسٹریٹ پاور کا استعمال کرتے ہوئے ریاست کے تجارتی مرکز کو جام کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ جس طرح چے گویرا نے کہا ہے: ’’انقلاب کوئی پکا ہوا سیب نہیں ہوتا ہے، جو خود بخود ہی جھولی میں آگرے، اس کو گرانے کے لیے مشقت کرنی پڑتی ہے‘‘، ۱۹۸۹ء میں کشمیر میں جو بھارت مخالف انقلاب برپا ہوا، وہ اس کے اہم محرک تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ ریاست کے حالات اور اندیشہ ہائے دُور دراز کے سبب ان کی اپنی پارٹی نے اس سیب کو حاصل کرنے میں خاصی ہچکچاہٹ دکھائی۔
ان کا بچپن نہایت ہی مفلسی کی داستان ہے۔ تب کئی کئی دن فاقے کرنے پڑتے تھے، لیکن اس کے باوجود ان کے والد بچوں کو پڑھانا چاہتے تھے۔ منجھلے بچے علی پر تو علم حاصل کرنے کا جنون طاری تھا۔ گاؤں کے اسکول سے امتیازی نمبر حاصل کرکے ان کو نو کلومیٹر دور سوپور میں پرائمری اور مڈل میں داخلہ ملا۔ گاؤں سے اسکول جانے کے لیے یہ بچہ روز پیدل ۱۸کلومیٹر کا فاصلہ طے کرتا تھا۔ شاید اسی پس منظر نے ان کو سختیاں جھیلنے اور نظم و ضبط کی عادت ڈال دی تھی۔
۱۹۶۳ءمیں پہلی گرفتاری کے دوران ہی ان کے والد صاحب انتقال کرگئے۔ ان کو بعد میں بتایا گیا کہ ان کے والد ان کی یاد میں آنسو بہاتے ہوئے کھڑکی میں بیٹھ کر سوپور کی طرف کی سڑک پر نگاہ جمائے رہتے تھے اور جب کبھی دُور سے سیاہ قراقلی پہنے کسی شخص کو آتے دیکھتے تو علی علی پکار کر کمرے سے باہر آجاتے۔ آخرکار جدائی کا یہی گھائو لیے دارفانی سے کوچ کر گئے۔ ان کے والد ایک معمولی یومیہ مزدور تھے۔ وسائل کی کمی کے باوجود بچوں کوپڑھانے کے لیے کوشاں تھے۔ یہی وصف بعد میں شاید گیلانی صاحب کی زندگی کا حصہ بن گیا۔ تمام تر مشکلات و طعنے سہنے کے باوجود انھوں نے اپنی بیٹیوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا۔ جیل سے جو خطوط بیٹیوں کو لکھتے تھے، ان میں بھی ان کو تعلیم جاری رکھنے کی تاکید کرتے تھے۔
گیلانی صاحب کے خاندان کے ساتھ میرا براہ راست تعلق ۱۹۹۶ء میں ہوا، جب ان کی صاحبزادی آنسہ میرے عقد میں آئیں۔ لیکن ایک لیڈر کی حیثیت اور میرے قصبہ سوپور کے ایک باسی کی نوعیت سے یہ تعلق میرے آنکھ کھولتے ہی شروع ہوگیا تھا۔ سوپور یا اس کے اطراف میں منعقد ہونے والا شاید ہی کوئی ایسا جلسہ ہوگا جس میں، مَیں نے شرکت نہ کی ہو۔ اپنے دیگر بھائیوں کے برعکس میرے والد کوروایتی پیروں کی طرح جماعت اسلامی سے چڑ تھی ۔ ان کولگتا تھا کہ ان جلسے ، جلوسوں کی وجہ سے میری پڑھائی میں ہرج ہوتا ہے۔ اسی فکرمندی میں کئی دفعہ میری پٹائی بھی کرتے تھے، مگر کبھی خود ہی جیب خرچ دے کر سرینگر عید گاہ میں جماعت اسلامی کے سالانہ اجتماع میں جانے کے لیے بھی کہتے تھے۔ ان کا یہ تضاد میری سمجھ میں کبھی نہیں آیا۔ گھریلو ذمہ داریوں کی وجہ سے انھوں نے تعلیم ادھوری چھوڑ کر سرکاری ملازمت اختیار کی تھی اور اپنی محرومی کا ازالہ شاید مجھے زندگی میں کامیاب ہوتے دیکھ کر کرنا چاہتے تھے۔ اس دوران ان کی ڈیوٹی گیلانی صاحب کے گاوٗں ڈورو میں ہوتی تھی اور اس طرح ان کے گھر تک ان کی رسائی ہوئی ۔
ان دنوں میں دہلی میں صحافت کی تعلیم مکمل کرکے برسر روزگار ہوا تھا، لہٰذا انھوں نے ہی میرے عقد کی بات چلاکر طے بھی کر لی۔ میری ساس بھی داماد کے طور پر ایسے فرد کو پسند کرتی تھیں، جس کا سیاست کے ساتھ دور دور کا واسطہ نہ ہو۔ اکثر افراد گیلانی صاحب کو طعنہ دیتے تھے کہ انھوں نے اپنے قریبی رشتہ داروں کو تحریک میں شامل نہیں کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کے ایک داماد ظہور جو ان کے بھتیجے بھی ہیں، کشمیر کے اوّلین عسکریت پسندوں میں ہیں اور نوے کی ابتدا میں ہی گرفتار ہوکر نوسال قید میں رہے۔ ایک اور داماد الطاف احمد شاہ تو پہلے دن سے ہی سیاست سے وابستہ تھے۔ نیشنل کانفرنس فیملی سے تعلق رکھنے کے باوجود اسلامی جمعیت طلبہ اور جماعت اسلامی سے ان کی وابستگی رہی۔ وہ پچھلے پانچ برسوں سے دہلی کی تہاڑ جیل میں نظر بند ہیں اور اس سے پہلے بھی کئی بار جیل جاچکے ہیں۔
ان کے بڑے داماد ، غلام حسن، جن کا اب انتقال ہوچکا ہے، ان کے چچا جماعت اسلامی کے رکن تھے، جن کو سرکاری بندوق برداروں نے دن دہاڑے ہلاک کردیا۔ اور پھر آئے دن کے چھاپوں اور تلاشیوں سے ان کی پوری فیملی کو دردبد ر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور کر دیا گیا۔ ۲۰۰۲ء میں جب ان کو قید کیا گیا، تو دہلی میں میرے مکان پر بھی بھارتی ایجنسیوں نے چھاپا مارا اور مجھے نو دن انٹروگیشن میں رکھنے کے بعد تہاڑ جیل پہنچادیا گیا۔ چونکہ لیڈران پر دبائو ڈالنے کے لیے ان کے قریبی رشتہ داروں پر شکنجا کسنا اور ان کے آس پاس کے افراد کا قافیۂ زندگی تنگ کرنا ایک آزمودہ فارمولا رہا ہے، اس لیے میری گرفتاری سے وہ گیلانی صاحب کو پیغام پہنچانا چاہ رہے تھے۔ مگر پانچ ، چھے ماہ تک ان کو میری گرفتاری کے بارے میں علم ہی نہیں تھا ، کیونکہ ان کو سرینگر سے سیدھے جھارکھنڈ کی رانچی جیل لے جایا گیا تھا اور پورے چھے ماہ تک ان کو اخبار، ریڈیو سے معلومات لینے یا کسی کو ان سے ملنے نہ دیا گیا۔ جب ان کے بھتیجے ظہور کی چھے ماہ بعد ان سے ملاقات ہوئی، تب ان کو میری گرفتاری کا پتہ چلا۔ انھوں نے رانچی جیل سے ایک پوسٹ کارڈ لکھ کر مجھے صبرکی تلقین کی۔
ایک بار حُریت لیڈران نے انسانی حقوق کی صورت حال پر توجہ حاصل کرنے کے لیے دہلی کے مرکز انڈیا گیٹ پر احتجاج کا پروگرام بنایا۔ اس دن سیّد علی گیلانی میری ہی رہایش گاہ پر ٹھیرے تھے، کیونکہ حُریت کے دفتر میں دیگر قائدین جمع تھے اور وہاں شاید رہنے کی گنجایش نہیں تھی۔ پروگرام تھا کہ سبھی لیڈران حریت دفتر سے انڈیا گیٹ کی طرف روانہ ہوں گے۔ صبح وہ جونہی گھر سے حریت آفس کی طرف روانہ ہوئے، کہ اسی دوران ہمارے گھر پر پولیس آدھمکی۔ جب ان کو معلوم ہوا کہ وہ گھر سے نکل چکے ہیں، تو وہ ان کے تعاقب میں نکل پڑے۔ شاید گیلانی صاحب کو اندازہ تھا، کہ ان کو احتجاج کے لیے نہیں جانے دیا جائے گا، اس لیے حریت آفس جانے کے بجائے وہ سیدھے انڈیا گیٹ ہی پہنچ گئے، جہاں احتجاج کے بعد ان کو پولیس اسٹیشن لے جایا گیا۔ باقی سبھی قائدین دن بھر آفس میں ہی نظر بند رہے۔کئی گھنٹے بعد جب ہم پولیس اسٹیشن ان سے ملنے گئے،تو میں نے ان سے کہا کہ ’’آپ کو گوریلا موومنٹ جوائن کرنی چاہیے تھی‘‘۔
۸۰ کے عشرے کے دوران سوپور میں ایک بار ان کی زبردست تلاش ہو رہی تھی۔ جگہ جگہ چھاپے پڑ رہے تھے۔ اسی اثناء میں معلوم ہوا کہ وہ جامع مسجد میں نماز جمعہ سے قبل خطاب کرنے والے ہیں۔ کسی کو یقین نہیں آرہا تھا۔ جامع مسجد جانے والے راستوں اور اس کے آس پاس چپہ چپہ پر پولیس اور خفیہ ایجنسیوں کا جال بچھا ہوا تھا۔خطبہ شروع ہونے سے بس پانچ منٹ قبل وہ محراب کے پاس نمودار ہوئے اور تقریر شروع کی۔ ۱۹۷۵ء میں جب بھارت میں ایمرجنسی نافذ ہوئی، تو شیخ محمدعبداللہ نے جموں و کشمیر میں بھی اس کا اطلاق کرکے جماعت اسلامی پر پابندی لگادی، اور اس کے لیڈروں اور ارکان کو پابند سلاسل کر دیا۔ کئی روز تک گیلانی صاحب کو گرفتار کرنے کے لیے چھاپے پڑتے رہے۔ سوپور میں معروف تاجران محمد اکبر بساطی و غلام حسن بساطی، جن کے ہاں وہ اکثر ٹھیرتے تھے، ان کے گھروں اور دکانوں کی ایسی تلاشی ہوئی ، جیسے سوئی ڈھونڈی جاری ہو۔ اسمبلی کا سیشن جاری تھا، اور وہاں بھی سخت پہرہ تھا۔ چند روز بعد وہ اسمبلی فلور پر نمودا ر ہوئے اور دھواں دھار تقریر کرکے باہر آئے اور اپنے آپ کو پولیس کے حوالے کردیا۔
جذبات سے مغلوب نوجوانوں کو ان کی یہ باتیں بہت کھٹکیں۔چند لوگ کہہ رہے تھے کہ یہ بوڑھا سنکی ہو گیا ہے، نہ خود کچھ کرنا چاہ رہا ہے، نہ ہمیں کچھ کرنے دے رہا ہے۔ اننت ناگ کے کھنہ بل میں جہاں وہ غلام نبی سمجھی کے گھر پر ٹھیرے تھے، نوجوانوں کا ایک گروپ ان سے ملنے آیا اور کہا کہ’’ آپ یہ کہہ کر کہ جدوجہد طویل اور صبر آزما ہے، مایوسی کی باتیں کر رہے ہیں۔ لوگ تو مارچ کے مہینے میں کھیتیاں جوتنے سے پہلے آزادی کی نیلم پری سے ہم کنار ہونا چاہ رہے ہیں۔سیاسی لیڈر ہماری غلط رہنمائی کر رہے ہیں یا خود بے بصیرت ہو گئے ہیں‘‘۔ گیلانی صاحب کی صاف گوئی نے ان کے لیے کئی دشمن پیدا کیے۔ کئی حضرات جو اس وقت ان کی موت کا سوگ منا رہے ہیں، ان دنوں ان کے قتل تک کے درپے تھے۔ سوپور میں ان کی سیاسی ساکھ کو ختم کرنے کے لیے نئی سیاسی بساط بچھائی گئی اور چہرے ڈھونڈے گئے، اور اُن کی سرپرستی بدقسمتی سے مظفر آباد اور اسلام آباد سے کی گئی۔ اگر ابتدا سے تحریک کی سیاسی باگ ڈور ان کے ہاتھوں میں رہنے دی گئی ہوتی، تو شاید منزل اتنی کٹھن نہ ہوتی۔
اس صاحب ِبصیرت نے نہایت ہی سلجھے ہوئے انداز میں کشمیر میں عسکری جدوجہد کی پرتیں کھول کر اس پر تبصرہ کرتے ہوئے پانچ فروگذاشتوں کا ذکر کیا ہے:
پہلی یہ کہ’’ سرفروش نوجوانوں نے سمجھا کہ انھوں نے بھارت کو بھگا دیا ہے اور مسئلہ کشمیر کو زندہ رکھنے والے سیاسی گروہ یا لیڈروں کو اب ان کے ذریعے حاصل کیے ہوئے مقام و مرتبے میں شریک ہونے کا کوئی حق نہیں ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ عوامی جدوجہد سیاسی قیادت سے محروم ہو گئی‘‘۔ اس طرح کی ہدایات سرحد پار سے بھی ملتی تھیں۔
دوسرا یہ بتایا کہ ’’مسلح جدوجہد شروع ہونے کے مرحلے میں اخلاقی تربیت پر توجہ نہیں دی گئی۔ کئی افراد نے بندوق اپنی ذاتی خواہشات اور انتقام گیری کی تکمیل کے لیے حاصل کی‘‘۔ گیلانی صاحب کے بقول ’’مسلح جدوجہد حصول آزادی کے لیے آخری مرحلہ ہوتا ہے اور اسی پر ان کی کامیابی اور روشن مستقبل کا انحصار ہوتا ہے۔ اس کے لیے برسہا برس کی منصوبہ بندی کی ضرورت ہوتی ہے‘‘۔
تیسری فروگذاشت کی طرف یوں توجہ دلائی کہ ’’مسلح نوجوانوں کی سرفروشانہ جدوجہد نے کشمیر کی متنازعہ حیثیت کو سرد خانے سے نکال کر عالمی سطح پر ابھارنے میں کامیابی حاصل تو کرلی اور جمود توڑ دیا، مگر عوام کی بے پناہ پذیرائی نے ان میں سے بیش تر کو خود سری کے جنون میں مبتلا کر دیا ، جو گروہی تصادم کی شکل میں سامنے آیا۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ تمام گروپ، مشترکہ دشمن کے خلاف مشترکہ حکمت عملی اختیار کرتے، یا اپنے اپنے دائرۂ کار کے اندر کام کرتے، مگر ایسا نہیں ہوا۔ اس باہمی ٹکراؤ میں ایسے افراد قوم سے چھین لیے گئے ، جو ایک ایک ہزار افراد پر بھاری تھے ‘‘۔
چوتھی فروگذاشت یہ بیان کی ’’مسلح جدوجہد شروع کرنے والوں میں کوئی گروپ اس غلط فہمی میں مبتلا نہ تھا کہ کلا شنکوف کے بل بوتے پر بھارت کی فوجی قوت کو قبضہ سے دست برداری پر مجبور کیا جائے، بلکہ مقصد یہ تھا کہ بھارت کو متنازعہ حیثیت تسلیم کرنے پر مجبور کیا جائے اور نتیجہ خیز بامقصد اور دیرپا حل تلاش کرنے کے لیے بات چیت کا آغاز کروایا جائے۔ مگر بہت جلد یہ ہدف نوجوانوں کی نگاہوں سے اوجھل ہو گیا ‘‘۔
پانچویں فروگذاشت یہ تھی کہ’’ہردور میں مسلح جدوجہد کے کھلے دشمن کے ساتھ چھپے دشمن بھی ہوتے ہیں۔اس تلخ حقیقت کا اعتراف کرنا چاہیے کہ ہم جدوجہد آزادی کے دوران فضائے بد ر پیدا نہیں کر سکے۔ اندھی فوجی قوت نے وسیع ترین پیمانے پر انسانی حقوق کی پامالی کا ارتکاب کیا ہے، ان کے مقابلے میں ہمارا ریکارڈ صاف و شفاف ہو نا چاہیے تھا، جو نہیں رکھ پائے‘‘۔
۲۰۰۳ء میں جیل سے رہائی اور پھر گردوں کے آپریشن کے بعد انھوں نے قریہ قریہ گھوم کر، حتیٰ کہ گریز ، پونچھ، راجوری، ڈوڈہ، کشتواڑ جیسے دُور دراز علاقوں کا دورہ کرکے سیاسی جدوجہد کے لیے راہ ہموار کی۔ اس دوران حکومت نے بھی موقف اپنایا تھا کہ ’’حریت کا سیاسی میدان میں مقابلہ کیا جائے‘‘۔ ان دنوں پٹن اور سنگرامہ حلقہ میںضمنی انتخابات منعقد ہونے تھے۔ امیدوار کی تقریر ختم ہوتے ہی ، گیلانی صاحب پہنچتے تھے، اور اسی اسٹیج سے عوام کو انتخاب کا بائیکاٹ کرنے کی اپیل کرتے تھے۔ حکومت ان کو تقریر یا دورہ کرنے سے روکتی نہیں تھی، مگر ان کی میزبانی کرنے والوں پر قہر ڈھاتی تھی۔ بارہمولہ شہر کے چوراہے پر جب انھوں نے تقریر ختم کی، تو پاس ہی رہایشی ایک رکن جماعت نے ان کو چائے کی دعوت دے دی۔ چائے پینے کے بعد گیلانی صاحب سرینگر روانہ ہوگئے، تو اس معمر رکن جماعت کی شامت آگئی اور اس کو پبلک سیکورٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا۔ ان کی گرفتاری کی وجہ یہ بتائی گئی کہ اس نے سیّد علی گیلانی کی میزبانی کی ہے۔ یہ حضرت کئی سال جیل میں رہے ۔ اس لیے ان دوروں کے دوران وہ کسی کے گھر کے بجائے مسجد میں رات بھر رہنے کو ترجیح دیتے تھے۔
۲۰۰۸ء کے دوران میں کشمیر کی سڑکوں پر امرناتھ لینڈ ایجی ٹیشن اور پھر ۲۰۱۰ء اور ۲۰۱۶ءمیں بُرہان وانی کی شہادت کے بعد جو تحریکیں برپا ہوئیں، وہ ان کی ۲۰۰۴ء سے ۲۰۰۸ءتک اس زمینی جدوجہد کا نتیجہ تھیں۔ وہ جوانوں کی پرامن رہنے کی تاکید کرتے تھے اور بتاتے تھے، جب پولیس روکے گی تو بجائے محاذآرائی کے، سڑک پر دھرنا دیا کریں ۔ پلوامہ ضلع میں ایسا ہی ہوا۔ ایک بھاری جلوس نیوہ سے قصبہ کی طرف جارہا تھا کہ نیم فوجی دستوں نے ان کو آگے جانے سے روکا تو لوگ سڑک پر بیٹھ گئے۔ مگر اس پُرامن ہجوم پر گولیاں برسائی گئیں۔ ایک جوان ہلاک اور درجنوں زخمی ہوگئے۔ ۱۱۷ دن کی ہڑتال اور ایک سو دن کے سخت کرفیو کے بعد انھوں نے کاروبار بتدریج کھولنے کی اپیل کی، جس پر ان کو سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ کئی افراد نے لکھا کہ ’’گیلانی ، مہاتما گاندھی کا راستہ اپنا رہے ہیں‘‘۔ جس پر انھوں نے جواب دیا کہ ’’گاندھی کا فلسفہ تو خود ان کی زندگی میں ہی مسترد کیا جا چکا ہے۔ امن کا نعرہ ہم دیتے ہیں۔ امن سے ہی حل طلب مسائل کا حل نکل سکتا ہے۔ مگر بھارتی قیادت اس سنگین مسئلے کو طول دے کر خود بدامنی پھیلا رہی ہے اور الزام ہمارے سر تھوپ رہی ہے۔کب تک اس سلسلے کو جاری رکھا جاسکتا تھا‘‘۔
اسی طرح یہ اپریل ۲۰۰۵ء کی بات ہے۔پاکستان کے صدر جنرل پرویز مشرف کے دورۂ دہلی کا اعلان ہوچکا تھا۔ چونکہ امن کوششیں عروج پر تھیں، بھارتی حکومت اور پاکستانی ہائی کمیشن، دورہ کو کامیاب بنانے کی کوششیں کررہے تھے۔ انھی دنوں اس وقت دہلی میں پاکستان کے ڈپٹی ہائی کمشنر منور سعید بھٹی صاحب نے مجھے فون کیا۔ بھٹی صاحب وضع داری،رواداری اور معاملات کو سلجھانے کے حوالے سے دہلی میں پاکستان کے مقبول ترین سفارت کار شمار ہوتے تھے۔فون پر انھوں نے ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔ طے ہوا کہ سفارتی علاقہ چانکیہ پوری ہی میں ایک ریسٹورنٹ میں چائے نوش کریں گے۔مگر ریسٹورنٹ میں سیٹ پر بیٹھتے ہی، بھٹی صاحب مجھے بلوچستان کی تاریخ اور شورش کا پس منظر سمجھانے لگے۔ میں حیران تھا، کہ آخر اس بات کا مجھ سے کیا لینا دینا ہے۔ کچھ منٹ کے بعد وہ مدعا زبان پر لائے۔ کہنے لگے ، کہ ’’کیا آپ گیلانی صاحب کو آمادہ کرسکیں گے، کہ مشرف صاحب کے ساتھ ملاقات میں وہ بلوچستان کے مسائل کا تذکرہ نہ کریں؟‘‘ صدر پاکستان اپنے دورے کے دوران کشمیری رہنمائوں سے ملاقات کرنے والے تھے۔میں نے معذرت کی، کہ ’’گیلانی صاحب کی سیاست میں،میرا کوئی عمل دخل نہیں ہے اور نہ میں ان کو کوئی مشورہ دینے کی حیثیت رکھتا ہوں‘‘۔
دراصل گیلانی صاحب نے سرینگر میں بلوچستان میں پاکستان کے فوجی آپریشن کے خلاف چند بیانات دیئے تھے اور نواب اکبر خان بگٹی کے ساتھ افہام و تفہیم سے معاملات حل کرنے کا پُرزور مشورہ دیا تھا۔بھٹی صاحب کا کہنا تھا کہ ’’کشمیری رہنمائوں اور خصوصاً گیلانی صاحب کا پاکستان کی چوٹی کی لیڈرشپ سے ملاقات کا موقع ملنا نا ممکنات میں سے ہے اور یہ ایک نایاب موقع ہے، جس میں کشمیر کی تحریک کو درپیش مسائل سے حل بھی کروایا جاسکتا ہے‘‘۔
چنانچہ میں معذرت کرکے رخصت ہوگیا اور گھر آکر میں نے اپنی اہلیہ سے کہا، کہ تمھارے والد (سیّد علی گیلانی) نے ایک تو بھارت کے خلاف علم بلند کیا ہوا ہے ، اور دوسر ی طرف ا ب’واحد دوست اور وکیل‘ پاکستان کی لیڈرشپ کی مخالفت پر بھی کمر بستہ ہیں۔آخر میڈیا کی رپورٹس کی بنیاد پر ان کو پاکستان کے صوبے بلوچستان کے مسائل پر بیان دینے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘ میٹنگ سے ایک روز قبل ۱۶؍اپریل ۲۰۰۵ء کو گیلانی صاحب دہلی وارد ہوئے تو میری اہلیہ ان سے ملنے گئیں، اور یہ بات ان کے گوش گزار کی۔ اور دیگر ذرائع سے بھی پاکستانی حکومت نے شاید ان تک یہ بات پہنچائی تھی، کہ انھیں صدر پاکستان کے ساتھ ملاقات میں احتیاط سے کام لینا ہوگا۔اگلے روز صبح سویرے میرے گھر آکر پہلے انھوں نے مسکرا کر کہا کہ ’’اپنے دوست اور محسن کو یہ کہنا کہ اپنے گھر کاخیال رکھو، اور اس کو بے جا مصیبتوں سے بچنے کے لیے خبردار کرنا آخرکیوں کر سفارتی آداب کے منافی ہے ؟‘‘ و ہ شاید متفق ہو گئے تھے کہ گفتگو کشمیر تک ہی مرکوز رکھیں گے۔
بہر حال دوپہرچار بجے جب وہ لیاقت علی خان مرحوم کی دہلی میں رہایش گاہ اور موجودہ پاکستان ہائوس میں پہنچے، تو طاقت کے نشے میں سرشار مشرف صاحب نے ان کے وفد میں شامل دیگر اراکین سے ہاتھ نہیں ملایا جن میں سیّد حسن الصفوی، صدر انجمن شرعی شیعان، نعیم احمد خاں، صدر نیشنل فرنٹ، سعداللہ تانترے، فریدآباد، شیخ علی محمد، جماعت اسلامی کشمیر بھی شامل تھے۔
کرسیوں پر بیٹھتے ہی گیلانی صاحب نے دوٹوک الفاظ میں صدرجنرل مشرف سے کہا کہ ’’ان سے ہاتھ ملانے سے آپ کے ہاتھ میلے نہیں ہوں گے‘‘۔ اس ’والہانہ‘ استقبال کے بعد مشرف نے چھوٹتے ہی کہا،‘گیلانی صاحب آپ آئے دن بلوچستان کے معاملات میں ٹانگ اڑاتے رہتے ہیں۔آخر آپ کو وہاں کی صورت حال کے بارے میں کیا پتہ ہے؟ آپ بلوچستان کی فکر کرنا چھوڑیں‘‘۔ اس طرح مشرف صاحب نے خود ہی بلوچستان کا ذکر چھیڑا اورتہذیب و شائستگی کا دامن چھوڑا۔ حاضرین مجلس کے مطابق گیلانی صاحب نے جواب دیا، کہ ’’کشمیر کاز پاکستان کی بقا سے منسلک ہے۔ اس لیے، اس کی جغرافیائی سلامتی اور اس کی نظریاتی سرحدوں کے تحفظ کی ہم کو فکر ہے۔ آپ اپنے لوگوں کے خلاف طاقت کا استعمال نہ کریں‘‘۔ اس پر مشرف صاحب نے کہا: ’’گیلانی صاحب، آپ ہماری اپوزیشن کی بولی بولتے ہیں‘‘۔پھر جنرل مشرف نے اپنے کشمیر فارمولے کی مخالفت پر گیلانی صاحب سے ذرا تلخی سے بات کی۔ گیلانی صاحب نے جواب میں بڑے محتاط لفظوں میں مشرف صاحب کی افغانستان پالیسی اور امریکا کی مدد سے اپنے ہی شہریوں کو قتل کروانے کے عمل پر قدرے سخت بات کی۔ یوں صرف ۲۰منٹ کی یہ میٹنگ اس طرح کی ’خیر سگالی‘ پر ختم ہوئی توگیلانی صاحب ساتھیوں کے ساتھ اُٹھ کر کمرے سے باہر چلے گئے، اور وزیرخارجہ خورشید محمود قصوری صاحب نے آگے بڑھ کر الگ کمرے میں ملاقات میں کہا: ’’ہمیں کشمیرپر کمپرومائز کے نکات پر غور کرنا چاہیے‘‘۔ گیلانی صاحب نے کہا: ’’محترم قصوری صاحب، اگر آپ لوگ یہ بوجھ نہیں اُٹھانا چاہتے تو ہمیں ہمارے حال پر چھوڑ دیں۔ ہم اللہ کے بھروسے پر جدوجہد جاری رکھیں گے‘‘۔ واپسی پر مشرف کے حکم پر پاکستان میں ان کے دفاتر بند کردیے گئے۔
ایک سال بعد نواب اکبر بگٹی کو جب ایک غار میں ہلاک کیا گیا، تووہ اس پر سخت نالاں تھے۔ اس کا ذکر بعد میں ۲۰۱۱ء میں دہلی میں انھوں نے اس وقت پاکستان کی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر صاحبہ کے ساتھ ملاقات میں بھی کیا۔
مشرف صاحب کی تجاویز پر میں نے بھی ایک بار ان کو قائل کرنے کی کوشش کی تو ان کا جواب تھا کہ’’ اگر یہ حل قابلِ عمل ہے اور اس میں واقعی کوئی جان ہے تو اس کو لاگو کرنے کے لیے علی گیلانی کو قائل کرنا کیوں ضروری ہے؟ اگر بھارت آمادہ ہے، تو جنرل مشرف صاحب کے بجائے اس کے لیڈراس کا اعلان خود کیوں نہیں کرتے؟‘‘۔
ریاستی کانگریس کے صدر غلام رسول کار اور معروف دانشور اور ممتاز قانون دان اے جی نورانی نے گیلانی صاحب کو ایک بار کہا کہ ’’آپ اس لیے اس امن مساعی کی مخالفت کرتے ہیں، کیونکہ کوئی داغ لیے بغیر دنیا سے جانا چاہتے ہیں اور مرتے وقت شیخ عبداللہ کی طرح کا دھوم دھام کا جنازہ چاہتے ہیں‘‘۔ گیلانی صاحب نے کہا کہ، ’’نُورانی صاحب، میں کوئی سودے بازی کرنے کے بجائے گمنامی کی موت پسند کروں گا‘‘۔دہلی سے سرینگر آتے ہوئے ڈاکٹرفاروق عبداللہ نے ایک بار مجھے بتایا کہ ’’یہ واحد ناقابل تسخیر لیڈر ہے جس کو خریدا نہیں جاسکتا ہے‘‘۔ انھوں نے کہا کہ ’’ہم کو معلوم ہے کہ ان کے پاس بھی مالی وسائل آتے ہیں ،مگر وہ ان کو اپنی ذات پر خرچ کرنے کے بجائے مستحقین تک پہنچاتے ہیں‘‘۔
حتیٰ کہ گیلانی صاحب نے اپنے آبائی گاؤںمیں اپنی اور اہلیہ کی پراپرٹی وہاں ایک اسکول کو وقف کر دی ہے۔ یہ وقف کرنے سے قبل گیلانی صاحب نے اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کو جمع کرکے بتایا کہ ’’اگر آپ سب کو یا آپ میں سے کسی کو اعتراض ہے، تو وہ اپنا حصہ یا اس کی قیمت لے سکتے ہیں‘‘۔ سرینگر میں ان کی رہایش گاہ جماعت کی ملکیت تھی، جس کو بعد میں تحریک حریت سے متعلق ٹرسٹ کو ٹرانسفر کیا گیا تھا۔ ۱۹۷۰ء میں ممبر اسمبلی بننے سے قبل ہی انھوں نے ڈورو گاؤں میں مکان بنانا شروع کیا تھا، جو کہیں ۱۹۸۸ء میں تیار ہوسکا۔ مگر اس میں ان کو رہنا ہی نصیب نہیں ہوا کہ وہ جلد ہی جیل چلے گئے اور پھر پارٹی اور احباب کی ہدایت پر سرینگر منتقل ہو گئے۔ اس مکان کو بعد میں سرکاری جنگجوؤں نے بلاسٹ کرکے تہس نہس کر دیا ۔ پھر جب ان سرکاری جنگجوؤں کا دبدبہ ختم ہوگیا اور وہ معتوب ہوئے، تو گیلانی صاحب نے ان سب کو جانتے ہوئے بھی معاف کردیا۔
بیس سے زائد مرتبہ ان پر قاتلانہ حملے ہوئے، بس یہ اللہ کا ہی کرم تھا کہ وہ ان سے بچتے رہے۔ ایک بار دہلی میں چند روز گزار کر وہ سرینگر چلے گئے۔ میں نے ہی ان کو ایر پورٹ پہنچا کر وداع کیا۔ اس دن موسم کی خرابی کے باعث سرینگر سے رات گئے فلائٹ واپس دہلی آگئی یا شاید ان کو امرتسر میں کسی ہوٹل میںٹھیرایا گیا۔ اسی را ت ان کی رہایش گاہ پر راکٹوں سے حملہ ہوا۔ ایک راکٹ دیوار کو گراتے ہوئے، ٹھیک اس مقام پر گرا، جہاں وہ عام طور پر سوتے تھے۔ ان کے اہل خانہ اور بیٹیاں مکان میں ہی موجود تھیں۔ ان کا بیڈ روم تو پوری طرح تہس نہس ہو چکا تھا۔
اے جی نورانی صاحب کی معیت میں ایک بار نیشنل کانفرنس کے ایک سینیر لیڈر اور فاروق عبداللہ کے کزن شیخ نذیر نے ہمیں بتایا کہ ’’وہ کشمیر میں بھارت کے سب سے بڑے مخالف شخص ہیں۔ جب شیخ محمد عبداللہ دہلی کے کوٹلہ لین میں نظر بند تھے، تو ان کو ان کی بیٹی ثریا کی شادی میں شرکت نہیں کرنے دی گئی تھی۔ شیخ صاحب نے میرے ہاتھ ثریا کے لیے تحفہ دے کر منہ دوسری طرف کرلیا تھا ، کیونکہ وہ رو رہے تھے‘‘۔
بالکل یہی تاریخ اکتوبر ۱۹۹۹ء میں دہرائی جا رہی تھی۔ ستم ظریفی یہ تھی کہ خود شیخ نذیر اور فاروق عبداللہ اس وقت اقتدار میں تھے ،اور گیلانی صاحب کی صاحبزادی ، جس کا نام بھی ثریا تھا، ان کی شادی ہو رہی تھی۔ پارلیمانی انتخابات کے موقعے پر ان کو گرفتار کرکے جودھ پور جیل میں بند کر دیا گیا تھا۔ جہاں طبیعت کی ناسازی کے باعث دہلی لاکر ان کو آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنس کے آئی سی یو وارڈ میں داخل کر دیا گیا تھا۔ آئی سی یو کے باہر کسی رشتہ دار کا بطور اٹنڈنٹ ہونا ضروری ہے۔ اس رات میں آئی سی یو کے باہر بیٹھا رہا۔ تاہم، اگلے روز ان کو کمرہ میں منتقل کیا گیا۔ جہاں باہر پولیس کا پہرا تھا، جو فون اندر لے جانے نہیں دیتے تھے۔ ان کی بیٹی کی شادی کے دن میں نے ان سے درخواست کی کہ ان کو فون پر ہی نکاح کی تقریب میں شمولیت کی اجازت دی جائے۔ پولیس نے جس وقت اجازت دی، اُس وقت تک نکاح کی مجلس اختتام کو پہنچ چکی تھی اور ثریا وداع ہو کر گاڑی میں بیٹھ رہی تھی۔ وہ تقریباً ایک سال سے زائد عرصہ جودھ پور جیل میں رہے۔ کچھ مدت بعد اپریل ۲۰۰۱ء میں ثریا کا انتقال ہو گیا، اناللہ وانا الیہ رٰجعون۔
فن خطابت پر ان کو ملکہ حاصل تھا۔ بقول پروفیسر بھیم سنگھ، جو ان کے ساتھ اسمبلی میں ممبر تھے، ’’ گیلانی صاحب کی تقریر کے وقت سناٹا چھا جاتا تھا ۔ اراکین اسمبلی کے ساتھ اسٹاف سے گیلریاں بھر جاتی تھیں۔ان کی تقریر اردو لغت کا ایک ذخیرہ ہوتی تھی‘‘۔ ان کی کتاب رُوداد قفس پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک بار کلدیپ نیر نے کہا کہ ’’یہ اُردو ادب کی بدقسمتی ہے کہ یہ شخص سیاستدان بن گیا۔ کاش! ان کی تقریروں کے ریکارڈ محفوظ کیے جاسکتے‘‘۔ سوپور کالج میں پڑھائی کے دورا ن ہم ایک بار جنوبی کشمیر کے مقام پہلگام پکنک منانے گئے تھے۔ پہلگام قصبہ سے آرو پہاڑ پر چڑھائی کے دوران جنگل میں ایک کوٹھا نظر آیا، جہاں ایک گوجر فیملی چائے اور بسکٹ پیش کر رہی تھی۔ وہاں ہمارے رکنے کی وجہ یہ تھی کہ وہاں ٹیپ ریکارڈ پر گیلانی صاحب کی تقریر لوگ سن رہے تھے۔ جب ہم نے تعارف کرایا کہ ہمارا گرو پ سوپور سے آیا ہے، تو انھوں نے چائے، بسکٹ کے پیسے لینے سے انکار کردیا۔
دہلی میں حریت کے دفتر کے قیام سے قبل وہ شہید مقبول بٹ کے وکیل رمیش چندر پاٹھک کے گھر پر ہی ٹھیرتے تھے۔ رمیش چندر کی اہلیہ نے ان کو اور شبیر احمد شاہ کو اپنا بھائی بنایا ہوا تھااوروہ کسی بھی جیل میں ہوتے تو ہندوؤں کے تہوار رکھشا بندھن کے روز وہ ملنے چلی جاتی تھی۔۱۹۹۷ء میںپاٹھک کی اچانک موت نے ان کے خاندان کو بکھیر کر رکھ دیا تھا، کیونکہ ان کے تینوں بچے ابھی اسکول میں ہی تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ یہ تو مجھے معلوم ہے کہ گیلانی صاحب نے اور شبیر احمد شاہ نے ہی ان کی فیملی کو مالی سہارا دیا۔ان کی لائق بیٹی وسندھرا پاٹھک اب ایک نامور وکیل ہیں۔ اسی طرح دہلی میں میرے گھرسے ذرا دوری پر جس دو کمرے کے فلیٹ میں وہ سردیوں میں رہنے آتے تھے، اس کے اوپر ایک کشمیری پنڈت فیملی رہتی ہے، جن کے ساتھ ان کا گھر جیسا تعلق تھا۔ خاص طور پر ان کے بچوں کو ان سے بڑی انسیت تھی۔ وہ بھی سرینگر سے ان کے لیے کوئی نہ کوئی چیز بھیجتے رہتے تھے۔ ان کا علاج بھی ایک کشمیر پنڈت ڈاکٹر سمیر کول کرتے تھے، جو اکثر ان کے پاس آتے تھے۔
۲۰۰۳ء میں رانچی جیل میں جب ان کے گردوں میں کینسر کی تشخیص ہوئی تھی، تو اس ہسپتال کے چارو ں طرف سیکورٹی کا حصار بنا دیا گیا تھا اور بتایا گیا تھا کہ ’’ایک خطرناک دہشت گرد‘‘ کو علاج کے لیے لایا جا رہا ہے۔ انھی دنوں میں ممبئی پریس کلب کے ایک پروگرام میں شرکت کرنے کے لیے ممبئی آیا ہوا تھا۔ ایک عیسائی نرس نے گیلانی صاحب کو بتایا کہ ’’آپ تو دہشت گرد نہیں لگتے ہیں۔ آپ تو بہت نیک شخص ہیں۔ میں آپ کی دوسری دنیا کے لیے فکرمند ہوں۔ آپ عیسائی کیوں نہیں بن جاتے؟‘‘اور اس کے بعد وہ ڈھیر سارا لٹریچر ان کو دیتی رہی۔ مسکراتے ہوئے وہ وصول کرتے رہے، اور جواب میں اسے کبھی کبھی اسلام کی تعلیمات بھی سمجھاتے رہے۔
دہلی میں ان کے اسی فلیٹ میں ایک صبح دیکھا سفید قمیص اور خاکی نیکروں میں ملبوس ہندو انتہا پسندوں کی تنظیم آرایس ایس سے وابستہ افراد ان کے ساتھ ہم کلام ہیں۔ اس منظر کو دیکھ کر میں خاصا ڈر گیا اور اپنی اہلیہ سے بھی کہا کہ تمھارے والد صاحب کے ساتھ ہمارا اس کالونی میں رہنا بھی دوبھر ہو جائے گا‘‘۔ بعد میں معلوم ہوا کہ مالویہ نگر کی پارک میں صبح سویرے آرایس ایس شاخ کی جسمانی مشق ہوتی ہے۔ وہ چونکہ اسی پارک میں چہل قدمی کرنے جاتے تھے، اس لیے ان کی اس گروپ کے ساتھ علیک سلیک ہوئی ہے ۔ وہ ان لوگوں کے لیے مرکز جماعت اسلامی ہند سے ہندی زبان میں اسلامی لٹریچر لاتے ہیں اور یہ افراد وہی لینے آئے تھے۔
۱۹۸۶ء میں وزیر اعلیٰ غلام محمد شاہ کو برطرف کرنے کا بہانہ ڈھونڈنے کے لیے کشمیر میں پہلا فرقہ وارانہ فساد برپا کروایا گیا۔ گیلانی صاحب نے جماعت کے کارکنوں کی قیادت کرتے ہوئے جنوبی کشمیر میں مختلف جگہوں پر ہجوم کو مندروں اور پنڈت علاقوں پر حملہ کرنے سے باز رکھا۔ ان کے حکم پر سوپور میں ان کے دست راست غلام رسول مہرو اور عبدالمجید ڈار ایک دیوار کی طرح مندر اور پنڈت دکانوں کے باہر کھڑے ہوکر پتھرائو کرنے والوں کو للکار رہے تھے۔ گیلانی صاحب اس سعی میں خود بھی زخمی ہوگئے ۔ اس کا اعتراف اس وقت کے پولیس ایس ایس پی نے بھی کیا۔
سوپور کو گیلانی صاحب نے بڑی حد تک سماجی ناشائستگی سے پاک کردیاتھا۔ ہاں، وہ ہفت روزہ چٹان کے مدیر طاہر محی الدین سے خفا تھے اور کہتے تھے کہ وہ مایوسی پھیلا تے ہیں، اس لیے ایک مدت تک وہ ان کو انٹرویو نہیں دیتے تھے۔ ٹائمز آف انڈیا کے سرینگر کے نمایندے نے ان کے خلاف ایک بار انتہائی بہتان آمیز خبر شائع کی تھی۔ ان کے آفس کے ایک رفیق نے اخبار اور اس نمایندے کے خلاف عدالت میں ہتک عزّت کا کیس درج کیا تھا۔ مگر وہ اس اقدام کے خلاف تھے اور ان کو بار بار کہہ رہے تھے، کہ ’’اس کیس کی پیروی ختم کریں‘‘۔
بطور ایک والد کے ان کا رویہ سبھی بچوں کے ساتھ مشفقانہ تھا۔ ان کی ضروریات اور آزادی کا خیال رکھتے تھے۔ میری بیٹی ابیض سرینگر میں ہی پیدا ہوئی تھی۔ ایک سال کے بعد جب اس کا دودھ چھوٹ گیا، تو وہ انھی کے پاس رہتی تھی۔ جب ان کو دہلی آنا ہوتا تھا، تو اس کو ساتھ لاکر ہمیں ملایا کرتے تھے۔ وہ ہماری اس کم سن بیٹی کو حریت کانفرنس کی میٹنگوں میں بھی کئی بار ساتھ لے جاتے تھے۔ فروری ۲۰۲۰ء میں جب وہ حالت نزاع میں تھے، ان کی موت کی افواہیں گردش کررہی تھیں اور میںترکی شفٹ ہو گیا تھا تو میری اہلیہ سری نگر چلی گئیں۔ اس کے وہاں پہنچتے ہی ان کی طبیعت میں بتدریج بہتری آنا شروع ہو گئی۔ کئی روز بعد مجھے فون کرکے خوب شکریہ ادا کیا کہ تم نے آنسہ کو سرینگر آنے اور میری تیمارداری کرنے کی اجازت دی۔
۱۴۷۰ء میں سلطان زین العابدین کے سنہری دور اور پھر ۱۵۸۵ء میںکشمیر پر مغل تسلط اور آخری بادشاہ یوسف شاہ چک کی قید و جلا وطنی کے بعد کشمیر ی مسلسل کسی ایسے لیڈر کی تلاش میں ہیں، جو ان کو صدیوں کے گرداب سے باہر نکالے اور قابض قوتوں کے سامنے سینہ سپر ہوکر ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرے۔ اس دوران کئی سرابوں کے پیچھے بھاگ بھاگ کر وہ ویسے ہی پیاسے رہے۔ لوگوں کے خیال میں گیلانی صاحب میں کئی کوتاہیاں سہی، مگر وہ اس مذکورہ بالا معیار پر پورے اترے اور انھوں نے لوگوں کو مایوس نہیں کیا۔ کوئی بھی حاکم وقت ان کی گردن جھکا نہیں سکا۔
حیدر پور ہ کے قبرستان میں سیکورٹی کے باوجود ان کواہل خانہ اور پڑوسیوں کی موجودگی میں باوقار طریقے سے دفنایا جا سکتا تھا ۔پورے کشمیر میں ویسے ہی کرفیو نافذ تھا۔ مگر طاقت کے نشے میں صبح تین بجے پولیس نے ان کے گھر پر دھاوا بول کر اہل خانہ کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ مکان کی بجلی بند کرکے ان کی اہلیہ کو جوتوں تلے روند ڈالا گیا ۔ یہ دھاوا بولنے والی پارٹی اسٹریچر تک اپنے ساتھ نہیں لائی تھی۔ پہلے ان کی نعش کو اٹھانے کی کوشش کی گئی، مگر پھر گھسیٹتے ہوئے میّت کو باہر لے گئے۔ ۱۰محرم الحرام کو میدانِ کربلا میں امام عالی مقام حضرت امام حسین کی لا ش کو بعد از مرگ اسی طرح گھسیٹ کر پامال کیا گیا۔ ۲۳محرم الحرام ۱۴۴۳ھ ،یعنی ۲ ستمبر۲۰۲۱ء کا یہ واقعہ بھارت اور کشمیر کی تاریخ میں ایک سیاہ دھبے کی حیثیت سے یاد رکھا جائے گا۔ جس طرح ابھی حال ہی میں سومنات میں وزیر اعظم نریندر مودی نے ایک ہزار سال بعد محمود غزنوی کو یاد کیا، اسی طرح کشمیر کی تاریخ اور اس کی نسلیں اس واقعہ کو یاد رکھیں گی۔ جس طرح دھرنوں کے دوران پولیس یا اسمبلی میں سیکورٹی گارڈ، ابّاجی کو اٹھا کر اور گھسیٹ کر گاڑی میں ڈالتے تھے، بالکل اسی طرح کا سلوک ان کی میّت کے ساتھ، ان کے آخری سفر کے دوران کیا گیا۔
کسی نے کہا ہے کہ تارے تو ہمیشہ ٹوٹتے ہیں، اب کے مہِ کامل ٹوٹ گیا!
مجھے یہ واقعہ یاد ہے کہ دسمبر ۲۰۱۶ء میں جب بھارتی پنجاب کے سرحدی شہر امرتسر میں ’ہارٹ آف ایشیا کانفرنس‘ منعقد ہوئی تھی۔ اس موقعے پر افغانستان کے صدر اشرف غنی نے سفارتی آداب کو بالائے طاق رکھ کر، اسٹیج ہی سے پاکستان کی طرف سے ۵۰۰ملین ڈالر کی امداد کو مسترد کرتے ہوئے پاکستانی مندوب اور وفاقی وزیر جناب سرتاج عزیز کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’’آپ اس امداد کو اپنی جیب میں رکھ کر اسے اپنے ملک میں انتہاپسندی کو لگام دینے کے لیے استعمال کریں‘‘۔جس طرح کے تکبر اور بدتہذیبی کا مظاہرہ اشرف غنی اور ان کے وفد نے اس میٹنگ کے دوران کیا، سفارتی تاریخ میں اس کی مثال کم ہی ملے گی۔چونکہ اس میٹنگ سے قبل ہی بھارت نے پاکستان میں مجوزہ سارک سربراہ کانفرنس کا بائیکاٹ کرکے اس کو سبوتاژ کر دیا تھا، اس لیے سرتاج عزیز صاحب کو میزبان بھارت اور افغان مندوبین نے ایک ناقابلِ برداشت ہستی بنا کر رکھ دیا تھا۔
پھر ہم نے دیکھا کہ جس تیزی کے ساتھ افغان طالبان نے پیش قدمی کرکے ۱۵؍اگست ۲۰۲۱ء کو افغانستان کے دارالحکومت کابل پر کنٹرول سنبھال لیا، اس نے پوری دنیا کو تو حیران کرکے رکھ ہی دیا ہے، مگر طالبان کی اس فتح کے بعد، افغان فوج کی شکست اور اشرف غنی کا فرار ، کابل میں موجود افغان و دیگر غیر ملکی میڈیا کے نمایندوں کو خود احتسابی کی دعوت دیتا ہے، کہ کس طرح وہ پچھلے کئی برسوں سے زمینی حقائق کو سمجھنے میں ناکام رہے، یا جان بوجھ کر اشرف غنی اور امریکا کی خوشنودی کے لیے اپنے قارئین یا ناظرین کو دھوکا دیتے رہے۔ میڈیا سے متعلق تحقیقی اداروں کو بطور مثال اس جانب دارانہ اور دھوکا دینے والی کوتاہ اندیش رپورٹنگ کو ماس کمیونی کیشن کے نصاب میں شامل کرنا چاہیے۔ یاد رہے دنیا بھر کے تھنک ٹینک اور خارجہ پالیسی کے ادارے اسی رپورٹنگ کی بنیاد پر اپنی پالیسیاں ترتیب دیتے تھے۔
ابھی تک معروف دفاعی اور ملٹری اکیڈیمیوں سے فارغ شدہ ماہرین کی سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی ہے کہ آخر تقریباً ساڑھے تین لاکھ افغان افواج ریت کی دیوار کی طرح کیوں بیٹھ گئیں؟ جدیدترین اسلحہ سے لیس فوج، جس کی تربیت امریکا ،ناٹو اتحادیوں اور بھارت نے کی تھی، اس نے چندہزار عسکریوں کے سامنے کیسے لڑے بغیر ہی ہتھیار ڈال دیئے؟
مشی گن یونی ورسٹی کے جنوبی ایشیا سے متعلق شعبہ میں پروفیسر جویوان کول نے افغان فوج کی حالت زار کے بارے میں پہلے ہی پیشن گوئی کی تھی: ’’جس طرح ۲۰۰۱ء میں شمالی اتحاد نے امریکا کی مدد سے طالبان کو شکست دی تھی، اسی طرح موجودہ افغان فوج بھی طالبان سے جنگ میں ٹھیر نہیں پائے گی‘‘۔ ان کا استدلال تھا کہ ’’دیہی اور دور دراز کے علاقوں میں امریکی افواج نے عام افغانی کا جینا دوبھر کر دیا تھا۔ جب ان پر کوئی حملہ ہوتا تھا ، تو اس کا بدلہ لینے کے لیے وہ پورے علاقے میں آپریشن کرکے آدھی رات کو گھروں میں گھس کر خواتین و بچوں کو بے عزّت کرتے تھے، جس کی وجہ سے ظاہرہے کہ اس آبادی کی ہمدردیاں طالبان کے ساتھ ہوجاتی تھیں اور امریکیوں کے ساتھ ان کی نفرت میں اضافہ ہوجاتا تھا۔ انھی آبادیوں سے طالبان کو نئے رضاکار بھی مل جاتے تھے‘‘۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’فوج کی بددلی کی ایک اور وجہ افغان کے (کٹھ پتلی) صدور حامد کرزئی اور اشرف غنی کی حکومتوں میں بے پناہ بد عنوانی تھی۔ ان سیاسی لیڈروں اور افسران نے بیرون ملک نہ صرف محلات تعمیر کیے، بلکہ خلیجی ممالک میں جزیرہ تک خریدے ہیں‘‘۔
اس نئی پیش رفت کے بعد اب لگتا ہے کہ افغانستان میں قتل و غارت گری کا جو باب انقلابِ ثور کے ساتھ اپریل ۱۹۷۸ء میں شروع ہوا، جس کے تقریباً ایک سال بعد کمیونسٹ روسی فوجوں نے ۲۴دسمبر ۱۹۷۹ء کو افغانستان پر دھاوا بول دیا تھا۔ اور پھر ایک خوں ریز جنگ کے بعد روسی فوجیں پسپا ہوکر ۱۵فروری ۱۹۸۹ء کو واپس چلی گئی تھیں۔ یہ خونیں ’گریٹ گیم‘ اب اختتام کو پہنچ رہی ہے۔ غیر ملکی فوجوں کے انخلا اور ان کی حمایت یافتہ حکومت کی برطرفی کے۴۳ سال کے بعد اب فریقین کے لیے جنگ جاری رکھنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا۔ اسی لیے بین الاقوامی برادری کے لیے بھی ضروری ہے کہ طالبان کو الگ تھلگ کرنے کی پالیسی ترک کرکے ان کوتسلیم کریں اور سفارتی سطح پر ربط قائم کریں۔ حد تو یہ ہے کہ اب بھی بعض شخصیات طالبان کو تسلیم نہ کرنے اور ان کے لیڈران پر سفری پابندیا ں عائد کرنے کا مشورہ دے رہی ہیں۔
۲۳ برس قبل ۱۹۹۸ء میں امریکا کے اقوام متحدہ میں سفیر بل رچرڈسن جب کابل کے دورہ پر تھے، تو انھوں نے طالبان کے ساتھ بات چیت کرکے ان کوخواتین کی اعلیٰ تعلیمی اداروں میں تعلیم جاری رکھنے اور اسپتالوں میں خواتین کا علاج کرنے کے لیے خواتین ڈاکٹروں و نرسوں کی تعیناتی پر رضامند کیا تھا۔ اسی طرح طالبان نے افغانستان سے پوست کی کاشت مکمل طور پر ختم کرنے پر بھی آمادگی ظاہر کی تھی۔ رائے گٹمین (Roy Gutman) اپنی کتابHow We Missed the Story: Osama Bin Laden, the Taliban and the Hijacking of Afghanistan کے دوسرے ایڈیشن ۲۰۱۳ء میں لکھتے ہیں کہ رچرڈسن نے طالبان کو شمالی اتحاد کے ساتھ بات چیت اور جنگ بندی پر بھی منوا لیا تھا۔ اس کے بدلے وہ امریکا سے سفارتی سطح کے روابط قائم کرنے کے خواہاں تھے۔ پورے ۲۰سال کی قتل و غارت گری اور ۲ء۲۶ کھرب ڈالر خرچ کرنے کے بعد امریکا نے بل رچرڈسن کے مسودے کو کوڑے دا ن سے نکال کر دوحہ میں میز پر رکھا۔ آخر یہی کام اگر کرنا تھا ، تو ڈیڑھ لاکھ افراد کی ہلاکت، ڈھائی ہزار امریکی افواج کی اموات اور لاتعداد زخمیوں کو کس کھاتے میں درج کیا جائے گا؟
اس بار ایک اہم بات یہ ہو گئی ہے کہ ۲۰سال تک افغانستان کے قضا و قدر کا مالک ہونے کے باوجود اب عملاً افغانستان میں امریکا کا کردار ختم ہو گیا ہے۔ امریکی تھنک ٹینک اٹلانٹک کونسل کی ریسرچ فیلو نیلوفر ساخی کے مطابق ’’افغانستان کے حوالے سے پاکستان، ایران، چین اور روس کی پوزیشن خاصی مضبوط ہو گئی ہے‘‘۔ بروکنگز انسٹی ٹیوٹ کے مطابق امریکا نے ایک طرح سے افغانستان، چین کو پلیٹ میں سجا کرپیش کر دیا ہے۔ چین نے حال ہی میں طالبان کے لیڈر مُلّاعبدالغنی برادر کا بیجنگ میں خاصا پُرجوش استقبال کیا۔ اس کے برعکس امریکی نائب وزیر خارجہ وینڈی شرمین کو خاصی سردمہری کا سامنا کرنا پڑا۔
حالات بہتر ہونے کی صورت میں وسط ایشیا کو پاکستانی بندر گاہ گوادر سے منسلک کرنے والے نارتھ ، ساؤتھ ٹریڈ کوریڈور ، اور بیلٹ اینڈ روڑ کو مزید آگے بڑھانے میں افغانستان معاون ثابت ہوگا۔ ۱۹۸۹ء کے بعد روس، افغانستان کے حوالے سے بالکل لاتعلق ہو گیا تھا۔ مگر موجودہ صورت حال میں روس پہلا ملک ہے، جس نے طالبان کی اہمیت کو تسلیم کرکے ان کے ساتھ سفارتی روابط استوار کیے ہیں۔ حال ہی میں اشرف غنی کی حکومت نے جب امریکا اور بھارت سے فضائی مدد مانگی، تو روس نے افغانستان کی سرحد سے متصل تاجکستان اور ازبکستان کی افواج کے ساتھ مل کر جنگی مشقوں کا آغاز کردیا۔ دوسری طرف چین کے ساتھ مل کر بھاری ہتھیارو ں کے ساتھ سنکیانگ میں سرحد کے پاس مشقیں کیں۔ غرض امریکا اور بھارت تک یہ پیغام پہنچایا کہ اس موقع پر ان کی مداخلت کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔
اگر افغانستان کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے، تو اس سرزمین پر تاریخ اکثر اپنے آپ کو دہراتی رہی ہے۔ ۱۸۳۹ء میں برطانوی فوج کشی کا مقصد دوست محمد کو برطرف کرنا اور شاہ شجاع کو اقتدار میں لانا تھا۔ یہ ہدف برطانوی افواج نے حاصل تو کرلیا، مگر افغانیوں نے جلد ہی اپنی شکست کا بدلہ لے کر برطانوی فوج کا قتل عام کیا۔ اس کا بدلہ لینے کے لیے برطانیہ نے ایک بار پھر فوج کشی کرکے قتل و غارت گری کا بازار گرم کر دیا۔ حالات کے کسی حد تک ٹھیک ہونے کے بعد برطانیہ نے طویل مذاکرات کے بعد تخت پھر دوبارہ دوست محمد کے حوالے کردیا، کہ جس کو ہٹانے کے لیے فوج کشی کی گئی تھی، کیونکہ شاہ شجاع کو قتل کر دیا گیا تھا۔
۲۰۰۱ء میں طالبان کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے لیے امریکی قیادت میں دنیا بھر کی افواج نے افغانستان پر دھاوا بول دیا تھا، مگر اب طالبان کی واپسی کی راہ ہموار کرکے پھر وہی تاریخ دُہرائی جا رہی ہے۔ وقت آگیا ہے کہ افغانستان میں اب تاریخ کو آرام کا موقع دے کر کسی بیرونی مداخلت کے بغیر اقتدار افغانوں کے حوالے کیا جائے اور طالبان کو تسلیم کرکے ان کو سفارتی سطح پر دنیا سے جوڑا جائے، اور یہ بتایا جائے کہ افغانستان کے حکمران تاریخ و واقعات سے سبق لے کر اس جنگ زدہ ملک میں ایک نئی صبح کا آغاز کریں گے۔ بین الاقوامی برادری پر بھی لازم ہے کہ اس صبح کی تعمیر میں کابل انتظامیہ کی مدد کریں۔
گذشتہ صدی کے آخری عشرے میں نئی دہلی میں کشمیر سے متعلق خبروں کی ترسیل کرنے والے صحافیوں اور تجزیہ کاروں کو بخوبی علم ہوگا کہ جموں و کشمیر کے قضیہ اور انسانی حقوق کی دگرگوں صورت حال کے حوالے سے بھارت کس قدر شدید عالمی دباؤ کا شکار تھا۔ مارچ ۱۹۹۴ءمیں کانگریس پارٹی کی جانب سے بھارتی وزیراعظم نرسمہا رائونے ’چانکیائی شاطرانہ چال‘ کااستعمال کرکے ایران کو جھانسہ دے کر اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن سے کسی طرح جان تو چھڑوائی، مگر اس کے عوض ایرانی صدر ہاشمی رفسنجانی سے وعدہ بھی کیا کہ ’’کشمیر پر پیش رفت کریں گے‘‘۔ یادرہے کمیشن میں قرار داد پاس ہونے کی صورت میں یہ براہِ راست سلامتی کونسل کے سپرد کی جانے والی تھی، جہاں مغربی ممالک بھارت کے خلاف اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کی تیاریا ں کر رہے تھے۔ بھارت کا دیرینہ دوست روس، سوویت یونین کے بکھرنے کے بعد زخم چاٹ کر مغربی ممالک کو خوش کرنے میں مصروف تھا۔
ایران سے کیے گئے وعدے کے پیش نظر، غالباً ۱۹۹۵ءمیں فاروق عبداللہ کی نیشنل کانفرنس نے ایک مفصل میمورنڈم وزیر اعظم نرسمہا راؤ کے سپرد کیا، جس میں ۱۹۵۰ءمیں بھارت کے وزیراعظم جواہر لال نہرو اور شیخ عبداللہ کے درمیان طے پائے گئے ’دہلی ایگریمنٹ‘ کو قانونی شکل دینے، اس کو بھارتی پارلیمنٹ سے پاس کروانے اور ریاست کی ۱۹۵۳ءسے قبل کی پوزیشن بحال کرنے کا ایک طریقۂ کار وضع کیا گیا تھا۔ نیشنل کانفرنس کی ایما پر یہ میمورنڈم کس نے لکھا تھا، یہ بات تاحال سربستہ راز ہے۔ اس کے چند روز بعد ہی ۴نومبر ۱۹۹۵ءکو نرسمہا راؤ نے افریقی ملک برکینو فاسو کا دورہ کرتے ہوئے کشمیر کے مسئلے کو سلجھانے کا عندیہ دیا، اور یہ کہا کہ ’’زیادہ سے زیادہ خودمختاری دینے کے لیے ہم کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں‘‘۔ اس دوران بھارت کے ریاستی ادارے، مئی ۱۹۹۶ء میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں حصہ لینے کے لیے نیشنل کانفرنس کی خوشامدیں کررہے تھے، مگر اس کے لیڈر ڈاکٹر فاروق عبداللہ اور نئی دہلی میں ان کے نمایندے پروفیسر سیف الدین سوز ٹس سے مَس نہیں ہو رہے تھے۔ ان کا مطالبہ تھا کہ: ’’پہلے اٹانومی یاکوئی سیاسی فارمولا ہمارے حوالے کیاجائے، جس کو لے کر ہم عوام کے پاس جائیں گے‘‘۔ کوئی واضح یقین دہانی نہ ملنے پر ان کی پارٹی نے لوک سبھا کے انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کرکے ان کی افادیت پر ہی سوالیہ نشان لگادیا۔ ان ملک گیر انتخابات میں کانگریس پارٹی کو شکست ہوگئی، مگر ’جنتا دل‘ کی قیادت میں دیو گوڑا اور بعد میں اندر کمارگجرال کی قیادت میں کانگریس ہی کی بیساکھیوں پر نئی حکومت قائم ہوگئی۔
وزیر اعظم دیو گوڑا کے دست راست سی ایم ابراہیم نے و زارت داخلہ کے اہم افسران کے ہمراہ لندن میں فاروق عبداللہ کے ساتھ گفت وشنید میں وعدہ کیا: ’’جموں و کشمیر اسمبلی میں ا ن کو قطعی اکثریت دلانے میں مدد کی جائے گی اور اس کے فوراً بعد وہ نرسمہا راؤ کو دیئے گئے میمورنڈم کو ایک ریزولوشن کی صورت میں بھاری اکثریت سے اسمبلی میں پاس کرواکے مرکزی حکومت کو بھیج دیا جائے گا۔ جس کو پارلیمنٹ میں پیش کرکے ایک قانون کے طور پر پاس کیا جائے گا‘‘۔ ۸۷رکنی اسمبلی میں نیشنل کانفرنس کو ۵۷، کانگریس کو ۲۶ اور اپوزیشن بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو محض دونشستیں حاصل ہوئیں۔ مگر انتخابات کے بعد ان کو بتایا گیا کہ اس میمورنڈم کا جائزہ لینے کے لیے پہلے ایک کمیشن تشکیل دیں۔ لیکن جب تک کہ یہ کمیشن اپنی رپورٹ اسمبلی میں پیش کرتا، خود جنتا دل حکومت ختم ہوچکی تھی، اور سارے وعدے ہوا میں بکھر کر رہ گئے تھے۔ تاہم، بھارتی حکومت کشمیر کے مسئلے پر عالمی دبائو سے نکلنے میں کامیاب ہوگئی۔
پچھلے دو برسوں کے دوران دنیا بھر میں بھارت کے سفیر وہ نہیں کر پائے، جو کام ۲۴جون کو دن کے تین بجے وزیر اعظم نریندر مودی کی سرکاری رہایش گاہ پر لی گئی اس گروپ فوٹو نے کیا، جس کی پہلی قطار میں وزیراعظم، ان کے دست راست وزیر داخلہ امیت شا، ڈاکٹر فاروق عبداللہ، ان کے فرزند عمر عبداللہ اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی سربراہ محبوبہ مفتی کے ہمراہ نظر آئے۔ دکھائی دیتا تھا کہ ایک بار پھر مودی کی بغل میں یہ لیڈر صاحبان شیروشکر ہورہے تھے، جس طرح ۱۹۴۷ءمیں شیخ عبداللہ نے لال چوک میں نہرو کا استقبال کرتے ہوئے دل و نگاہ فرشِ راہ کیے ہوئے تھے۔ فروری ۲۰۲۱ء میں پاکستان اور ہندستان کے درمیان لائن آف کنٹرول پر سیز فائر کے حیران کن معاہدے کے بعد ہی اس طرح کی میٹنگ کی تیاری شروع ہو چکی تھی، اور بھارتی وزارت داخلہ کے اہلکار اندازہ لگارہے تھے کہ اس طرح کی دعوت دینے کی صورت میں نیشنل کانفرنس کا کیا رد عمل ہوگا؟ ڈسٹرکٹ ڈیویلپمنٹ کونسل کے انتخابا ت نے کنگز پارٹیوں کو دن میں تارے دکھا دیئے، تو نئی دہلی کو یہ ادراک ہو گیا تھا کہ کسی سیاسی عمل کے لیے نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی پر ہی تکیہ کرنا پڑے گا۔ اس میٹنگ میں اگرچہ ان جماعتوں نے ریاستی درجہ اور خصوصی حیثیت کی بحالی کا مطالبہ کیا، تو بھارتی وزیراعظم اور وزیرداخلہ نے دوٹوک الفاظ میں جواب دیا کہ: ’’دفعہ ۳۷۰ ،اور ۳۵-اے کا معاملہ تو اب عدالت کے سپرد ہے، اس لیے اس کے فیصلہ کا انتظار کیا جائے‘‘۔البتہ ریاستی درجہ کی بحالی کے لیے امیت شا نے ایک غیرواضح روڈ میپ ان کے گوش گزار کر دیا۔
اس سے قبل جسٹس رنجنا ڈیسائی کی قیادت میں ایک حدبندی کمیشن تشکیل دیا گیا تھا، جو اسمبلی حلقوں کی اَز سرِ نو حد بندی کرے گا اور بعد میں اس نئی حد بندی کے تحت اسمبلی کے انتخابات منعقد ہوں گے۔ پھر یہ اسمبلی ایک قرارداد پاس کرکے پارلیمنٹ سے ریاستی درجہ کی بحالی کے لیے کہے گی۔ جس کے بعد وزرات داخلہ قانون سازی کرنے کا کام شروع کرسکتی ہے۔
مودی حکومت نے اس اجلاس میں سب سے بڑی یہ چیز حاصل کی کہ نیشنل کانفرنس نے مذکورہ حدبندی کمیشن میں شرکت کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ اس سے قبل اس نے اس کمیشن کا بائیکاٹ کیا ہوا تھا۔ چونکہ نیشنل کانفرنس سے تعلق رکھنے والے لوک سبھا کے تین اراکین اس کے بربنائے عہدہ ممبران ہیں، اس لیے ان کی عدم موجودگی کی وجہ سے کمیشن اپنا کام نہیں کر پا رہا تھا۔ جس وقت یہ کمیشن ترتیب دیا گیا تھا تو اس وقت اس کے دائرہ اختیار میں جموں و کشمیر کے علاوہ آسام، منی پور، ارونا چل پردیش اور ناگالینڈ میں اسمبلی حلقوںکی بھی حد بندی بھی شامل تھی ۔ مگر اس سال مارچ میں جب اس کی مدت ایک سال اور بڑھا دی گئی، تو اس کے دائرۂ اختیار سے شمال مشرقی صوبوں کو نکال دیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ بھارتی حکومت کے مطابق اگر جموں و کشمیر اب ملک کے دیگر صوبوں کی ہی طرح ہے تو صرف اسی خطے میں الگ سے حد بندی کیوں کرائی جا رہی ہے؟
اس کی وجہ یہی لگتی ہے کہ کمیشن اسمبلی نشستوں کو کشمیر اور جموں کے ڈویژنوں میں برابر تقسیم کرنا چاہتا ہے، یعنی آبادی زیادہ ہونے کی وجہ سے وادیِ کشمیر کو اسمبلی میں جو برتری حاصل تھی، اس کو ختم کیا جائے۔ ۲۰۱۱ءکی مردم شماری کے مطابق وادیِ کشمیر کی آبادی ۶۸ء۸ لاکھ اور جموں کی ۵۳ء۷ لاکھ تھی۔ ظاہر سی بات ہے کہ آبادی زیادہ ہونے کی وجہ سے وادیِ کشمیر کی اسمبلی نشستوں کی تعداد ۴۶ اورجموں کی ۳۶تھی۔ مگر کمیشن کے سامنے بھارتیہ جنتا پارٹی کے نمایندے مرکزی وزیر جیتندر سنگھ نے دلیل دی ہے کہ آبادی کے بجائے رقبہ کو حد بندی کا معیار بنایا جائے۔ چونکہ جموں کا رقبہ ۲۶,۲۹۳ مربع کلومیٹر اور کشمیر کا ۱۵,۵۲۰ مربع کلومیٹر ہے، اسی لیے ان کا کہنا ہے کہ جموں کی سیٹوں میں اضافہ ہونا چاہیے۔ نئی اسمبلی میں اب ۹۰نشستیں ہوں گی۔ مگر جغرافیہ کو معیار بنانے کے بعد ان کی پارٹی کو ادراک ہوگیا کہ جموں خطے کی سیٹیں تو بڑھ جائیں گی ، مگر اس سے مسلم اکثریتی علاقوں پیر پنچال اور چناب ویلی کو فائدہ ہو رہا ہے، کیونکہ ان کا رقبہ جموں کے ہندو اکثریتی علاقے سے زیادہ ہے۔ ’مجرم بھی خود، مدعی بھی خود اور منصف بھی خود‘ کے مصداق اب نئے فارمولا کے تحت کل ۹۰نشستوں میں ۱۸سیٹیں دلتوں اور قبائل کے لیے مختص ہوں گی ۔ اس کے علاوہ جموں میں رہنے والے پاکستانی مہاجرین اور کشمیری پنڈتوں کے لیے بھی سیٹیں مخصوص رکھنے کے مطالبات پر غور ہو رہا ہے۔ دونوں خطوں کو برابر ۴۵سیٹیں دی جائے گی۔ پھر ان میں سیٹیں مخصوص ہوں گی، تاکہ وادیِ کشمیر سے مسلمان ممبران کم سے کم تعداد میں اسمبلی میں پہنچیں۔ جس ریاست میں مسلم آبادی کا تناسب ۶۸ء۵ فی صد ہے ، وہاں اسمبلی میں ان کا تناسب ۵۰ فی صد تک رہ جائے گا۔
۲۰۰۵ء میں حکومت کی طرف سے قائم جسٹس راجندر ’سچر کمیٹی‘ نے اس پر خوب بحث کی ہے کہ جن سیٹوں سے مسلم اُمیدواروں کی کامیابی کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں، ان کو دلتوں کے لیے مخصوص نشتوں کی فہرست میں ڈال کر وہاں سے کسی مسلم امیدوار کی قسمت آزمائی کے امکانات ہی ختم کردیئے گئے ہیں۔ اترپردیش کے نگینہ میں مسلمانوں کا تناسب ۲۱ء۴۳ فی صد اور دلتوں کا ۵ء۲۲ فی صد ہے، مگر اس کو دلتوں کے لیے ریزرو کرنے سے کوئی مسلم امیدوار انتخاب لڑ ہی نہیں سکتا ہے۔ اس کے برعکس دھورریا میں جہاں دلت ۳۰فی صد ہیں اور مسلمان کم ہیں ، انھیں جنرل نشستوں کی فہرست میں رکھا گیا ہے ۔ سچر کمیٹی نے ایسی بہت سی نشستوںکی فہرست شائع کرتے ہوئے مطالبہ کیا تھا کہ دلتوں کے لیے انھی نشستوںکو مخصوص کیا جائے ، جہاں دلت آبادی ۳۰فی صد سے زیادہ ہے۔ اس فارمولا کی وجہ سے قانون ساز اداروں میں مسلم نمایندگی قابو میں رہتی ہے اور چونکہ مسلمان ان سیٹوں کو ریزرو کرنے کی مخالفت کرتے ہیںتو ان کو دلتوں کے حقوق کے مخالفین کے طور پر پیش کرکے ان دونوں طبقوں کو آپس میں لڑوانے کا بھی کام ہو جاتا ہے۔ یہی کچھ اب جموں و کشمیر میں بھی دہرایا جانے والا ہے ۔
جموں خطے میں مسلمان ۳۱فی صد، دلت ۱۸فی صد، برہمن ۲۵فی صد، راجپوت یا ڈوگرہ ۱۲فی صد ، ویشیا، یعنی بنیا ۵فی صد اور دیگر، یعنی سکھ وغیرہ ۹فی صد کے لگ بھگ ہیں۔ افسر شاہی میں تو پہلے ہی مقامی مسلمانوں کو پتہ صاف ہوچکا تھا۔ خود حکومت جموں و کشمیر کے اعداد و شمار کے مطابق ۲۴سیکرٹریوں میں بس پانچ مسلمان ہیں۔ ۵۸؍اعلیٰ سرکاری افسران میں بس ۱۲مسلمان ہیں۔ دوسرے درجہ کے افسران، یعنی کشمیر ایڈمنسٹریٹو سروس میں بھی ۴۲فی صد مسلمان ہیں، جب کہ ان کی آبادی ۶۸فی صد سے زائد ہے۔ پولیس کے ۶۶؍اعلیٰ افسران میں صرف سات ہی مقامی مسلمان ہیں۔
سنکیانگ میں ایغور مسلمانوں پر مظالم کو مغربی دنیا، چین کے خلاف ایک ہتھیار بنانے سے قبل بھارت کو ایک جمہوری اقدار والے ملک کے بطور پیش کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ اس ضمن میں امریکا سمیت مغربی ممالک بھارت پر زور دے رہے ہیں کہ ’’کشمیر پر کچھ پیش رفت دکھا کر اپنے آپ کو چین کے مقابلے ایک فراخ دل پاور کے رُوپ میں پیش کرے‘‘۔ ۲۴جون کی مذکورہ میٹنگ سے قبل برطانیہ میں منعقد گروپ ۷کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے، نریندرا مودی نے بھارت کو ’جمہوری اقدار اور آزادی کا محافظ‘ قرار دیا۔ یہ مذاق ہی سہی، مگر اس مذاق کو حقیقت کا رُوپ ڈھالنے کے لیے بھارت سے مطالبہ کیا جانا چاہیے تھا کہ ’’وہ ان جمہوری اقدار اور جمہوری آزادی کا اطلاق کشمیر میں بھی کرے اور کم از کم سیاسی قیدیوں کی رہائی ہی یقینی بنائے‘‘۔ شاید ۲۴جون کی اس میٹنگ میں آنے سے قبل نیشنل کانفرنس اور بیک چینل سے جاری مذاکرات میں خود پاکستان اس کو پیشگی شرط کے طور پر پیش کرسکتا تھا۔ مگر کیا کیا جائے، ناز ک اوقات میں مسلم نمایندگی کرنے والے، حیران کن جلدبازی کا شکار ہوجاتے ہیں۔
یہاں ہم جموں و کشمیر کی زمینی صورتِ حال کا جائزہ پیش کریں گے کہ خود بھارتی دانش ور اس صورتِ واقعہ کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں اور وہاں نئی دہلی حکومت جس انداز سے اپنے آپ کو مسلط کیے ہوئے، اس کا اثر کشمیر کے بے بس اور مجبور شہریوں پر کس طرح اثرانداز ہورہا ہے۔
جموں و کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر بھارت اور پاکستان کی افواج کے درمیان فائربندی فروری ۲۰۲۱ء کے آخری ہفتے میں ہوئی۔ اس دوران دو افسوس ناک واقعات کے علاوہ عمومی طور پر فائربندی پر دونوں افواج نے عمل کیا۔ سرحدی علاقوں کی آبادی نے دونوں اطراف میں خوفناک فائرنگ، مارٹرز اور توپوں کی گھن گرج سے آزادی تو حاصل کرلی، مگر ان چار ماہ کے دوران وادیٔ کشمیر میں پُرتشدد واقعات کے نتیجے میں ۵۷؍افراد جاں بحق ہوگئے۔ اسی عرصے میں بھارتی سیکورٹی افواج نے آپریشنز کے دوران ۲۰سے زائد مکانات کو جلاکر راکھ کر دیا، یا زمین بوس کرکے اس کے مکینوں کوبے گھر کر دیا ہے۔
حال ہی میں بھارت کے سابق وزیر خارجہ جناب یشونت سنہا، سابق معروف بیوروکریٹ اور سابق چیئرمین ماینارٹیز کمیشن جناب وجاہت حبیب اللہ ، بھارتی فضائیہ کے ائروائس مارشل کپیل کاک، سوشل ورکر سوشوبھا بھاروے اور سینیرصحافی اور ایڈیٹر جناب بھارت بھوشن نے ’فکرمند شہریوں‘ (Concerned Citizens Group: CCG) کے ایک معتبر گروپ نے مارچ، اپریل ۲۰۲۱ء میں وادیٔ کشمیر کا دورہ کیا (یاد رہے یہ گروپ غیرسرکاری سطح پر رضاکارانہ طور پر خدمات انجام دے رہا ہے۔ اس کے تمام ارکان اپنے سفرخرچ اور قیام و طعام کے اخراجات ذاتی جیب سے کرتے ہیں)۔ نئی دہلی واپسی پر انھوں نے اپنی آٹھویں رپورٹ میں خبر دار کیا ہے کہ ’’خطے میں جاری مایوسی اور ناامیدی کی کیفیت ایک خطرناک رخ اختیار کر سکتی ہے۔ اگرچہ شہروں اور قصبوں میں بظاہر حالات معمول پر ہیں، سڑکوں اور گلیوں میں سیکورٹی فورزسز کے اہلکار نسبتاً کم تعداد میں گشت کرتے نظر آئے، مگر احساسِ شکست اور اس کے خلاف زمینی سطح پر تہہ در تہہ اضطراب سے پریشرککر جیسی صورت حال پیدا ہو رہی ہے‘‘۔
یہ امرواقعہ یاد رہنا چاہیے کہ یہ خطۂ کشمیر ’عالمی کورونا وبا‘ پھوٹنے سے قبل ہی جبری لاک ڈاؤن کی زد میں ہے۔ پچھلے دوبرسوں سے کاروباری اور دیگر اجتماعی خدمت کے ادارے تہس نہس ہوچکے ہیں۔ لگتا ہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت اپنا ہر قدم مقامی آبادی کو زیر کرنے اور دہلی میں ہندو قوم پرستوں کو اپنی کامیابی و سرشاری کا لطف اُٹھانے کا موقع عطا کررہی ہے۔ کشمیر کی سول سوسائٹی سے وابستہ افراد نے اس گروپ کو بتایا کہ ’’پچھلے دو برسوں میں ہم نے اس قدر ذلّت و رُسوائی کا سامنا کیا ہے کہ ۷۰برسوں میں کبھی اپنے آپ کو اتنا زخم خوردہ نہیں پایا ‘‘۔
یکے بعد دیگرے احکامات: ’روشنی ایکٹ‘ کو کالعدم کرنا، غیر ریاستی باشندوں کو شہریت دینا، اردو زبان کو پس پشت ڈالنا اور اسمبلی حلقوں کی نئی حد بندیاں کرنا، جیسے اقدامات کشمیریوں کی نفسیات کو گہری ضرب لگانے کاکام کر رہے ہیں۔ان احکامات و اقدامات کی حالیہ مثال ’ملک دشمن سرگرمیوںــ‘ کا نوٹس لینے کے نام پر چھے سرکاری ملازمین کو برطرف کرنا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ فہرست خاصی لمبی ہے اور اگلے کئی ماہ تک مزید افراد ملازمت سے ہاتھ دھو سکتے ہیں۔سرکاری ملازمین کی سرگرمیوںپر نظر رکھنے کے لیے ایک ٹاسک فورس تشکیل دی گئی ہے۔ نئی دہلی حکومت نے لیفٹیننٹ گورنر کو اختیار دیا ہے کہ وہ سرکاری ملازمین کو بغیر کسی تفتیش کے، اپنے صواب دیدی اختیارات استعمال کرتے ہوئے ملازمت سے برطرف کرسکتا ہے۔ حیرت کا مقام ہے کہ گورنر صاحب نے اپنے صواب دیدی اختیارات کا استعمال تو کردیا، مگر دوسری طرف خود پولیس کا کہنا ہے کہ ان عتاب زدہ یا برطرف کردہ افراد کا ہمارے پاس کوئی ’مجرمانہ ‘ ریکارڈ نہیں ہے۔
مگر ایسا لگتا ہے کہ جموں و کشمیر ایک ایسا بدقسمت خطہ ہے، جوقانون و آئین کی عملداری سے ہاتھ دھوئے بیٹھا ہے۔ یہاں نئی دہلی سرکار کے مقرر کردہ حکمران، مقامی لوگوں سے روزی روٹی کا بنیادی حق چھیننے اور ان کے اہل خانہ، ان کے زیر کفالت افراد کو محرومی اور پریشانی کے جہنّم میں دھکیلنے پر کوئی عار محسوس نہیں کرتے ہیں۔
حکومت کے کسی بھی اقدام سے اختلاف کا اظہار کرنے کی کوئی گنجایش نہیں رکھی گئی ہے۔ صحافیوں کے خلاف تادیبی کارروائیوں کے نتیجے میں طباعتی و ابلاغی صحافت کا وجود اور اس کی افادیت ختم ہوکر رہ گئی ہے۔ مقامی اخبارات کے ادارتی صفحات غیر سیاسی موضوعات پر مضامین شائع کرنے پر مجبور ہیں ، تاکہ کسی پریشانی میں نہ پھنس جائیں۔ ’فیس بک‘ تو دُور کی بات ’وٹس ایپ گروپس‘ پر معمولی سے اختلاف رائے کا اظہار کرنے پر کئی افراد کو تختۂ مشق بنایا گیا ہے۔ بہت سوں کے خلاف دہشت گردی سے متعلق قوانین کے تحت مقدمے درج کیے گئے ہیں۔
ایک کشمیری دانش ور نے دورہ کرنے والے اس گروپ کو بتایا کہ ’’اس سے قبل کشمیری قوم نے مجموعی طور پر کبھی اپنے آپ کو اس قدر بے بس، بے زبان اور یتیم محسوس نہیں کیاہے، کیونکہ بھارت نواز اور آزادی نواز قیادتیں بھی بحران سے دوچار ہیں۔ ان میں کوئی ایسا لیڈر سامنے نہیں آرہا، جو نئی دہلی حکومت کے ساتھ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکے۔ بھارت نوا ز کشمیری لیڈروں یا مقامی سیاسی قیادت کو دیوار سے لگا دیا گیا ہے اور بیش تر حریت لیڈر یا تو جیلوں میں ہیں یا گھروں میں نظربند ہیں۔عمومی طور پر بھارت کی سیکولر لبرل لیڈرشپ نے بھی کشمیریوں کو مایوس کیا ہے۔ یہاں کے لوگ اُمید رکھتے تھے کہ شاید وہ مودی حکومت کے تنگ نظری پر مبنی اقدامات کے خلاف سینہ سپر ہو جائیں گے۔ مگر وہ تو اپنے مقامی اتحادیوں نیشنل کانفرنس یا پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی بھی مدد نہیں کر پائے‘‘۔
سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کے دست راست وحید پرہ کو دہشت گردی سے متعلق دفعات کے تحت حراست میں لے کر الزام لگایا گیا ہے کہ وہ ’’ایک ارب روپے عسکریت پسندوں میں تقسیم کر رہا تھا‘‘۔ مقامی لوگ اس الزام کو ایک بے پر کا بھونڈا مذاق سمجھتے ہیں۔ چند سال قبل تک وحیدپرہ، بھارتی حکومت اور بھارتی سیکورٹی فورسز کی آنکھوں کا تارا تھا۔ نئی دہلی میں بھارتی حکومت کا دفاع کرنے کے لیے اس کو متعدد کانفرنسوں، مباحثوں اور سیمیناروں میں بلایا جاتا تھا۔ بھارت کے موجودہ وزیردفاع راج ناتھ سنگھ نے ایک بار اس کو ’’کشمیر ی نوجوانوں کا رول ماڈل اور امید کی کرن بتایا تھا‘‘۔ ایک بھارت نواز لیڈر نے اس گروپ کو بتایا کہ ’’اگر یہ سب کچھ وحید پرہ کے ساتھ ہوسکتا ہے ، تو پھرآخر کون بھارت کے ساتھ پیار کی پینگیں بڑھا کر اپنا سر اوکھلی میں دیتے ہوئے دین و دنیا سے ہاتھ دھو بیٹھنا چاہے گا‘‘۔
ایک مقامی تجزیہ کار نے گروپ کو بتایا کہ ’’۱۹۵۳ءکے بعد سے بھارت نے ایک ایسے سیاسی ڈھانچے کو مؤثرانداز سے تشکیل دیا تھا، جو بڑی حد تک کشمیر یوں اور بھارت کے درمیان ایک نفسیاتی پُل کا کام کرتا تھا اور آڑے وقت میں نئی دہلی کی مدد بھی کرتا تھا۔ مگر ۵؍اگست۲۰۱۹ء کے اقدامات نے اس پل کو ڈھا دیاہے‘‘۔ گروپ کے مطابق ’’کشمیر کو پوری طرح نئی دہلی میں موجود افسر شاہی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ پہلے کی حکومتیں بھی کچھ معیاری رویے کی آئینہ دار نہیں تھیں، مگر ایک سسٹم کے تحت کام کررہی تھیں۔ کشمیر کو اب ’حکم ناموں‘ (Orders)کے ذریعے چلایا جا رہا ہے اور ہر نیا حکم ایک نیا زخم لے کر آتا ہے‘‘۔
پاکستان کی پالیسی کے حوالے سے بھی عوام میں خاصی مایوسی ہے۔ کئی افراد نے اس گروپ کو بتایا کہ ’’ہمیں توقع تھی کہ پاکستان کی ایما پر بین الاقوامی برادری یکجا ہوکر بھارت کو ان اقدامات کو واپس لینے پر مجبور کردے گی، مگر یہ توقعات پوری نہیں ہوسکیں۔ غالب اکثریت کا خیال ہے کہ ان کو بے یار و مددگار چھوڑدیا گیا ہے‘‘۔ کشمیری آبادی میں پاکستانی قیادت کے لیے یہ رجحان لمحۂ فکریہ ہے۔ اس کے علاوہ پہلی بار کشمیر ی عوام، بھارت میں بسنے والے مسلمانوں کو پیش آنے والے واقعات کا بغور جائزہ لیتے ہوئے دکھائی دیئے۔ اس کی شاید وجہ یہ ہے کہ دونوں آج کل ایک ہی کشتی میں سوار ہیں۔ بھارتی مسلمانوں کی کشمیری تحریک سے لاتعلقی اور بسا اوقات اس کی شدید مخالفت کی وجہ سے کشمیری مسلمان بھی ان کے سیاسی معاملات سے بیگانہ ہی رہتے تھے۔
اس گروپ کی رپورٹ کے مطابق ’’ایک واحد مثبت قدم جو پچھلے دو برسوں میں اٹھایا گیا وہ ڈسٹرکٹ ڈویلپمنٹ کونسلوں (ڈی ڈی سی) کے کسی حد تک آزادانہ انتخابات تھے، جس میں نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی کے اتحاد کو واضح برتری حاصل ہوئی۔ مگر یہ انتخابات ۵؍اگست۲۰۱۹ء کے اقدامات کے خلاف ایک ریفرنڈم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان انتخابا ت کا بھارتی حکومت سفارتی سطح پر خوب چرچا کر رہی ہے۔ مگران نو منتخب ڈی ڈی سی اراکین کا کوئی پُرسان حال نہیں ہے‘‘۔ جنوبی کشمیر کے کولگام علاقے کے ڈاک بنگلہ میں منتخب ڈی ڈی سی اراکین نے وفد کو بتایا کہ ’’انھیں عوام سے ملنے نہیں دیا جارہا ہے اور ایک مقامی ہوٹل میں ان کو محصور کردیاگیا ہے۔ ان کو لگتا ہے کہ جیسے وہ ایک جیل میں بندہیں۔ افسران تک ان سے بات کرتے ہوئے ڈرتے، جھجکتے اور بدکتے ہیں۔ اپنے علاقوں میں وہ بجلی کا ایک ٹرانسفارمر تک ٹھیک نہیں کرا پاتے ہیں۔ حکومت میں کرپشن انتہا پر ہے۔ پہلے بیوروکریٹ کسی سیاسی نظام کے تابع ہوتا تھا، مگر اب یہ نظام بھی ٹوٹ چکا ہے‘‘۔
ایک ڈی ڈی سی ممبر عنایت اللہ راتھر نے وفد کو بتایا کہ ’’مجھ کو بتایا گیا تھا کہ کشمیر ہندستان کا تاج ہے، مگر یہ تاج آج کل ٹھوکروں کی زد میں ہے‘‘۔ اس کا کہنا تھا کہ ’’میرے علاقے کے کئی نوجوانوں کو حراست میں لے کر بھارت کی دُور دراز جیلوں میں رکھا گیا ہے، جہاں ان کے اعزا و اقارب ملاقات کے لیے نہیں جا سکتے ہیں۔ ایک دودھ بیچنے والے شخص کو، جس کو اس کی بھاری بھرکم جسمانی ساخت کی وجہ سے مقامی لوگ ’کرنل ستار‘ کے نام سے پکارتے تھے، حراست میں لے کر اترپردیش کے وارانسی شہرکی جیل میں رکھا گیا ہے۔ حالانکہ اس شخص کا کسی عسکریت سے دُور دُور تک کا کچھ بھی واسطہ نہیں ہے‘‘۔ ایک اور ڈی ڈی سی ممبر عباس راتھر کا کہنا ہے کہ ’’مجھے حفاظت کے لیے جو سیکورٹی اہلکار دیے گئے ہیں، و ہ میری جاسوسی کرتے ہیں۔ جوں ہی کوئی مجھ سے ملنے آتا ہے، و ہ فون پر اپنے اعلیٰ افسران کو باخبر کردیتے ہیں‘‘۔ نیشنل کانفرنس سے تعلق رکھنے والے عارف زرگر ، جو ڈی ڈی سی کے چیئرمین بھی ہیں، بتایا کہ ’’ڈی ڈی سی دراصل Dumb Driven Cellکا مخفف ہے‘‘۔ جن دنوں یہ گروپ کشمیر کے دورہ پر تھا، حکومتی اہلکاروں نے بتایا: ’’حریت لیڈر میر واعظ عمر فاروق گھر میں نظربند نہیں ہیں اور کہیں بھی آ جا سکتے ہیں۔ مگر جب اگلے روز یہ گروپ ان کی رہایش گا ہ پر پہنچا، تو سیکورٹی اہلکاروں نے ان کو اندر جانے کی اجازت نہیں دی‘‘۔
۲۰۱۱ءکی مردم شماری کے مطابق وادیٔ کشمیر میں ۸۰۸کشمیری ہندو، یعنی پنڈت خاندان رہتے ہیں۔ ان لوگوں نے ۱۹۹۰ءمیں دیگر پنڈتوں کی طرح نقل مکانی نہیں کی۔ مقامی کشمیری پنڈتوں کے لیڈر سنجے تکو نے اس وفد کو بتایا: ’’۲۰۱۱ء کے بعد مختلف وجوہ کی بنا پر ۶۴ خاندان ہجرت کرچکے ہیں۔ اس کے علاوہ۳۹۰۰ ایسے پنڈت خاندان ہیں، جنھیں جموں سے کشمیر میں نوکری دلوانے کے نام پر لاکر کیمپوں میں رکھا گیا ہے‘‘۔ سنجے تکو کے مطابق: ’’کشمیر میں رہنے والے پنڈتوں کا کوئی پُرسان حال نہیں ہے۔ اس کے برعکس جموں اور دہلی میں مقیم ہندو قوم پرست تنظیم راشٹریہ سیوئم سیوک سنگھ کے پروردہ پنڈتوں کو ان کی آواز بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ آرایس ایس نے حال ہی میں عالمی دارالحکومتوں میں (Global Kashmiri Pandit Diaspora - GKPD) کے نام سے ایک نئی تنظیم بنائی ہے، تاکہ اس کو عالمی سطح پر کشمیری تارکین وطن کے خلاف کھڑا کرکے ان کے بیانیہ کو کمزور کرنے کی کوشش کی جائے۔ کشمیری پنڈت لیڈروں کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی فورموں اور انتخابات کے موقعے پر حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے قائدین پنڈتوں کا نام خوب استعمال کرتے ہیں، مگر ان کی فلاح و بہبود کے لیے عملاً کچھ بھی نہیں کرتے ہیں‘‘۔
وادیٔ کشمیر میں رہنے والے کشمیری پنڈتوں نے مذکورہ گروپ کے سامنے اس خدشے کا اظہارکیا کہ: ’’عام انتخابات سے قبل کہیں وہ کسی False Flag [خود مار کر دوسرے پر الزام دھرنے جیسے]آپریشن کا شکار نہ ہوجائیں، تاکہ اس کو بنیاد بناکر ووٹروں کو اشتعال و ہیجان میں مبتلا کرکے ایک بار پھر ووٹ بٹورے جاسکیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بعض عسکریت پسندوں میں بھی بھارت کے خفیہ اداروں کے افراد ہوسکتے ہیں، جو اس طرح کی کارروائی انجام دے سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ پنڈتوں کو شکایت تھی کہ مرکزکے ’اسمارٹ سٹی پراجیکٹ‘ کے نام سے دریا کے کنارے پر واقع متعدد مندروں کی آرایش و تزئین کی جا رہی ہے، مگر اس سلسلے میں مقامی پنڈت آبادی کو پوچھا بھی نہیں جاتا ہے۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ یہ کام سیکورٹی فورسز کے افراد کررہے ہیں، جو ایک خطرناک رجحان ہے اور اس سے مقامی مسلم آبادی کو ان سے متنفر کیا جا رہا ہے‘‘۔
گروپ کے مطابق: ’’آئے دن ہلاکتوں کے باوجود مقامی نوجوانوں میں ہتھیار اٹھانے کے رجحان میں کوئی کمی نظر نہیں آرہی، اور عسکری تنظیموں کے اراکین میں بھی کوئی کمی نہیں ہو رہی ہے۔ سیکورٹی فورسز کی طرف سے مارٹر اورآتش گیر مواد سے مکانات کو زمین بوس کرنے کے نئے سلسلے نے عوامی ناراضی میں مزید اضافہ کیا ہے۔ آج کل جس گھر میں بھی کسی عسکریت پسند کے ہونے کا کچھ بھی اندیشہ ہوتا ہے، سیکورٹی افواج اس کو بھاری ہتھیاروں سے نشانہ بناکر زمین بوس کردیتے ہیں‘‘۔ سول سوسائٹی سے وابستہ ایک سرکردہ شخصیت نے اس گروپ کو بتایا کہ: ’’چندبرس قبل تک کشمیری، مقبول بٹ اور افضل گورو کو اپنے گھروں سے دُور تہاڑ جیل میں دفنانے پر ماتم کر رہے تھے، مگر اب کسی بھی عسکریت پسند کی لاش ان کے لواحقین کو نہیں دی جاتی، اور ان کو نامعلوم جگہوں پر دفنا دیا جاتا ہے‘‘۔
فوجی سربراہ جنرل منوج مکند نروانے، حال ہی میں سرینگر میں بتایا کہ پاکستان کی طرف سے جنگ بندی معاہدے پر سختی سے عمل درآمد سے دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد کی راہیں ہموار ہوسکتی ہیں،مگر کیا صرف سرحدوں پر امن کے قیام سے اس پورے خطے میں امن قائم ہوسکتا ہے؟ کیا کشمیر میں عوام کا اعتماد اور بھروسا جیتنا ضروری نہیں ہے؟
اسی طرح پچھلے کئی ہفتوں سے کشمیر میں افواہوں کے بازار نے یہاں رہنے والوں کا سُکھ چین چھین لیا ہے۔ لگتا ہے کہ دانستہ طور پر اور سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کشمیر ی عوام کو مستقل عذاب میں مبتلا رکھ کے ان کو ذہنی مریض بنایا جارہا ہے۔ ان افواہوں کا ماخذ خود مقامی حکومت ہی کے چندایسے اقدامات کے ساتھ ساتھ، دہلی اور جموں میں رہنے والے شدت پسند کشمیری پنڈتوں کا ایک اجتماع ہے۔ جہاںحال ہی میں کشمیری مسلمانوں پر مزید ظلم و ستم ڈھانے اور ان کو فلسطینیوں کی طرح اپنے ہی گھروں میں بیگانہ کرنے کی تجویزیں پیش کی گئیں، برملا دُہرائی گئیں اور افواہوں کی صورت میں پھیلائی گئیں۔ تقریباً ۳۰۰ مزید نیم فوجی دستوںکی کمپنیوں کی تعیناتی اور ان میں سے بیش تر کی شمالی کشمیر میں تعیناتی اور بھارتی فوج کی غیر معمولی نقل و حرکت نے پورے خطے میں اضطرابی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ ہرکوئی دوسرے سے یہی سوال کر رہا ہے کہ ’’کیا کچھ بڑا ہونے والا ہے؟‘‘
شاید کشمیر دُنیا کا واحد خطہ ہے، جہاں بسا اوقات یہ افواہیں سچ کا رُوپ بھی دھار لیتی ہیں۔
لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے ان افواہوں کے خاتمے کی یقین دہانی توکرائی ہے،مگر ۵؍اگست ۲۰۱۹ءکو جب بھارتی آئین میں درج جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو کالعدم قراردینے کے بعد ریاست کو تقسیم کرتے ہوئے مرکزی انتظام والا علاقہ بنایا گیا تھا، تو اس یلغار سے پہلے بھی کچھ اسی طرح کی افواہوں کا بازار گرم تھا۔ اس وقت بھی گورنر ستیہ پال ملک نے ’سیکورٹی یا سلامتی‘ سے متعلق اٹھائے گئے اقدامات کو معمول کی کارروائی بتایا تھا۔ حتیٰ کہ نیشنل کانفرنس کے رہنما ڈاکٹرفاروق عبداللہ اور ان کے بیٹے عمر عبداللہ [یعنی شیخ عبداللہ کے پوتے] نے دہلی میں وزیراعظم نریندر مودی سے ملاقات کی، جنھوں نے ان کو یقین دہانی کرائی کہ ’’دفعہ ۳۷۰، اور دیگر آئینی اقدامات پر کوئی قدم اٹھانے سے قبل کشمیر کی سیاسی جماعتوں سے صلاح مشورہ کیا جائے گا‘‘۔ مگر سرینگر آنے کے تیسرے ہی دن ان کو حراست میں لیا گیا۔ اس پس منظر اور تاریخ کی موجودگی میں اب موجودہ لیفٹنٹ گورنر کی یقین دہانی پر کتنا یقین کیا جائے؟
مئی کے آخری اور جون کے پہلے ہفتے کے دوران جاری ہونے والے پے در پے احکامات، جیسے سرینگر ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی طرف سے نقل و حمل کے لیےراہداری پاس کی ضرورت، پولیس کی جانب سے ریلوے حکام کو وادی کے اندر چلنے والی ٹرین سروس کو معطل رکھنا، پولیس اسٹیشنوں سے ۵؍اگست ۲۰۱۹ء سے قبل اور اس کے بعد سیاسی شخصیات کی گرفتاریوں اور ان کے خلاف کارروائیوں کا ریکارڈ مانگنا، جموں و کشمیر جماعت اسلامی اور جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے کارکنان اور ہمدردان کی تفصیلات کے علاوہ خطے میں سرگرم صحافیوں کا ریکارڈ مانگنا، وہ اقدامات ہیں کہ جن سے ان اندیشوں اور وسوسوں کو تقویت ملی ہے ۔لوگوں میں اضطرابی کیفیت ہے، مگروہ یہ بھی کہتے ہیں دفعہ ۳۷۰ اور ۳۵-اےکی صورت میں کشمیریوں کے پاس تن بدن کو برہنہ کرنے کے بعد بس ایک زیرجامہ ہی بچا تھا، جسے ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کو تار تار کردیا گیا۔ اب ان کے پاس کھونے کے لیے بچا ہی کیا ہے۔
یہ خبریں بھی گشت کر رہی تھیں کہ ’’شاید خطے کو ریاستی درجہ واپس دیا جائے گا‘‘۔ مگر معروف صحافی مزمل جلیل کا اصرار رہا ہے کہ ’’ایسا ابھی ممکن نہیں ہو سکے گا‘‘۔ اور ان کا اندازہ درست ثابت ہوا، کیونکہ ۲۴ جون کو بھارتی وزیراعظم مودی نے اپنی رہایش گاہ پر نئی دہلی نواز آٹھ پارٹیوں کے چودہ رہنمائوں سے ملاقات کی۔ جس میں مودی نے ریاست بحال کرنے کے بجائے یہ کہا کہ مناسب وقت پر ریاست کا درجہ بحال کریں گے مگر کب؟ یہ کہا نہیں جاسکتا۔ دوسرا یہ کہ آپ سب مل کر کام کریں۔ ہم انتخابی حلقہ جات کی نئی حدبندی کرکے انتخاب کرائیں گے‘‘۔ اس طرح عملاً یہ میٹنگ بے نتیجہ رہی۔ موجودہ حالات میں بی جے پی حکومت اگرچہ ریاستی اسمبلی دفعہ ۳۷۰ یا ۳۵-اےکو واپس تو نہیں لے گی، مگرڈاکٹر فاروق عبداللہ کی نیشنل کانفرنس یا محبوبہ مفتی کی پیپلزڈیموکریٹک پارٹی کے برسراقتدار آنے کی صورت میں، کئی اقدامات کی راہ میں رکاوٹ پیدا ہوسکتی ہے۔ جس کی فی الحال آر ایس ایس اسٹیبلشمنٹ متحمل نہیں ہوسکتی ہے۔ اسی لیے اگر ریاست کا درجہ واپس آتا بھی ہے، تو وہ شاید ایسا ہی سسٹم ہوگا ، جو دارالحکومت دہلی میں ہے، جہاںکے وزیراعلیٰ کی حیثیت بس ایک شہر کے مئیر جیسی ہے۔ نظم و نسق، افسران کے تبادلے وغیرہ کا اختیار مرکزی حکومت کے پاس ہی ہے۔
اس سلسلے میں حال ہی میں جموں و دہلی میں مقیم شدت پسند کشمیری پنڈت گروپوں نے ایک باضابطہ اجلاس میں وادیٔ کشمیر کے اندر اسرائیل طرز کا ایک خطہ بنانے کی تجویز بھی دی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’اس سلسلے میں ایک مجوزہ قانون وزارت داخلہ میں ڈرافٹ کیا جا چکا ہے اور وہ اس بات پر نالاں تھے،کہ مودی حکومت اس کو پارلیمنٹ میں پیش کرنے میں ٹال مٹول سے کام لے رہی ہے‘‘۔ایک مقرر سشیل پنڈت کا کہنا تھا کہ ’’۵؍اگست ۲۰۱۹ء کے اقدامات ایک عارضی چمک تھی اور مودی حکومت اس کا فالو اَپ کرنے میں ناکام رہی ہے‘‘۔ ایک اور مقرر ڈاکٹر مکیش کول کا کہنا تھا کہ ’’مودی کو بھاری مینڈیٹ تعمیر و ترقی یا نظم و نسق کے نام پر نہیں ،بلکہ ہندو احیاے نو کے لیے ملاہے‘‘۔ للت امبردار نے تو بی جے پی کو اس وجہ سے آڑ ے ہاتھوں لیا ،کیونکہ ’’وہ کئی صوبوں میں مسلمانوں کو لبھا رہی ہے‘‘۔للت امبردار ہی کا کہنا تھا کہ ’’لداخ کو کشمیر سے الگ کرنے سے وہاں کی بدھ آبادی کو آزادی ملی، مگر جموں کا ہندو اور کشمیر ی پنڈت ابھی تک غلام ہے‘‘۔ کئی مقررین نے ’’اسرائیل میں یہودی آباد کاروں کی طرز پر وادیٔ کشمیر کے اندر ’پنن کشمیر‘ تشکیل دینے اور اس میں آبادکشمیری پنڈت آبادی کو مسلح کرنے اور ان کو عسکری تربیت دینے کی بھی سفارش کی‘‘۔
اس ساری صورتِ حال کو ذہن میں رکھ کر ذرا سوچیے کہ افواہوں کا یہ بازار ایسے وقت کشمیریوں کا سکون اور چین چھین رہا ہے ، کہ جب دوسری طرف پچھلے کئی ماہ سے بھارت اور پاکستان کے درمیان خاموش اور پس پردہ سفارت کاری کا عمل جاری ہے۔ پاکستان نے بین الاقوامی فورموں میں موجودہ بھارتی حکومت کو فاشسٹ قرار دینے اور براہِ راست نشانہ بنانے سے کچھ عرصے سے واضح طور سے اجتناب برتنا شروع کردیا ہے۔ جس سے آر ایس ایس کو امریکا، کینیڈا اور مغربی ممالک میں خاصا سُکھ کا سانس لینے کا موقع ملا ہے۔
مگر یہاں پر ایک بہت بڑا اور نہایت بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا ’اعتماد سازی‘ کے یہ سب اقدامات صرف پاکستان کی طرف سے یک طرفہ ہیں یا بھارت کی طرف سے بھی کچھ بامعنی پیش رفت ہورہی ہے؟ یہ موقع ہے کہ پاکستانی حکمران ، پاکستانی قوم اور کشمیریوں کو بتائیں کہ اس کے عوض بھارت نے کشمیریوں کو مثبت طور پر کس حد تک مراعات دینے پر رضامندی ظاہر کی ہے؟ ہم نے یہاں جن پانچ افواہوں کا ذکر کیا ہے اور کشمیری مسلمان آبادی کو گھر سے بے گھر کرنے کی جو سازش ہو رہی ہے، اس سے کشمیری قوم کو ذہنی مریض بننے سے بچانے کے لیے کون کردار اداکرنے کے لیے آگے بڑھ سکتا ہے یا بڑھ رہا ہے؟ کیا یہ دردناک انسانی ، تہذیبی اور تاریخی سوال، غفلت میں ڈوبے اور ہرآن دھوکا کھانے والوں کو کچھ جھنجھوڑ سکتا ہے؟ کیا عالمی ضمیر اور مسلم اُمہ کے دل و دماغ میں انسانی شرف و حُرمت کی کوئی علامت نمودار ہوسکتی ہے؟
مولانا وحید الدین خان مرحوم کے حوالے سے ذاتی یادوں اور مشاہدات کا ایک سلسلہ ہے۔ نئی دہلی میں ۳۰برسوں پر پھیلے قیام کے دوران مجھے، مولانا سے کبھی بالمشافہ گفتگو کرنے اور کبھی ان کے درس میں بیٹھنے کا موقع ملتا رہا۔ اس طالب علمانہ ربط و تعلق سے متعلق چند واقعات کا ریکارڈ پر آنا ضروری ہے۔ مولانا وحیدالدین خان بلاشبہہ ایک قابلِ ذکر شخصیت تھے۔ میں زمانہ طالب علمی سے ہی ان کے ماہنامہ الرسالہ کا قاری رہا ہوں۔ اپنے نقطۂ نظر کو جس سہل ،نپے تلے، منفرد اور سائنسی انداز میں وہ مشکل ترین موضوعات کو قارئین کے دماغ میں اُتارتے تھے، وہ انھی کا خاصہ تھا۔
مولانا صاحب سے میری پہلی ملاقات ۹۰ کے عشرے میں ہوئی، جب میں اعلیٰ تعلیم کے لیے دہلی وارد ہوا۔ نظام الدین ویسٹ میں انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز کا دفتر تھا۔ میں کسی کام سے دفتر گیا تھا تو وہاں پر پونا یونی ورسٹی شعبۂ صحافت کے ایک طالب علم عبدالباری مسعود ، (آج کل ایک معروف صحافی) سے ملاقات ہوئی۔ ابتدائی تعارف کے بعد ، انھوں نے بتایا کہ ’’مولانا وحیدالدین خان صاحب سے ملاقات کے لیے آج کا وقت طے ہے‘‘۔ میں بھی خان صاحب کو بالمشافہ دیکھنے کے شوق میں ان کے تین رکنی قافلے میں شامل ہوگیا۔ ان کی کوٹھی پر پہنچے۔ وہ مسند لگائے ہوئے تھے، اور سامنے ڈیسک پر کاغذوں کا ڈھیر تھا۔ پورے کمرے میں کتابیں، قومی اور بین الاقوامی جرید ے ترتیب کے ساتھ سجے ہوئے تھے۔
ابتدائی نوعیت کا تعارف ختم ہوتے ہی اچانک خود انھوں نے عبدالباری صاحب سے سوال کیا کہ ’’آخر آپ کیوں مجھ سے ملنا چاہتے ہیں؟‘‘ انھوں نے کہا: ’’میں الرسالہ کا قاری اور آپ سے متاثر ہوں‘‘۔اس پر انھوں نے فوراً یہ سوال پوچھا کہ’’ الرسالہ میں کون سی بات آپ کو اچھی لگتی ہے، اور کس نے آپ کو متاثر کیا ہے؟‘‘ابھی ان کی جانب سے تفتیش کا سلسلہ جاری تھا کہ تبلیغی مرکز سے ایک وفد کمرے میں داخل ہوا، تو ہمیں دم لینے کا موقع ملا۔ و ہ وفدبھی مہاراشٹرا سے تعلق رکھتا تھا اور ان کو کسی پروگرام میں شرکت کی دعوت دینے آیا تھا ۔ اس لیے گفتگو اب تبلیغ اور اس کے طریق کار کی طرف مڑگئی۔
ان دنوں ’بابری مسجد کمیٹی ‘اور اس کے روح رواں سید شہاب الدین [ ۱۹۳۵ء- ۲۰۱۷ء]، مولانا صاحب کے نشانے پر ہوا کرتے تھے۔ اس ملاقات میں بھی انھوں نے شہاب الدین صاحب پر بھرپور وار کیے اور بتایا کہ ’’علامہ اقبال [م:۱۹۳۸ء]کی طرح شہاب الدین بھی مسلمانوں کا استحصال کرنے پر تلے ہوئے ہیں‘‘۔ اس پہلی ملاقات میں ہی مجھے یہ انداز ہو گیا تھا کہ وسعت علم کے باوجود وہ ایک طرح کے ’معلوماتی تکبر‘ (Information Arrogance) کا شکار ہیں۔ انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کی جلدوں اور ٹائم، نیوز ویک رسالوں کی طرف اشار ہ کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ’’ الرسالہ کی تیاری کے لیے ان سبھی بیش قیمت کتابوں و رسائل کا مطالعہ کرنا پڑتا ہے اور اس میں زر کثیر خرچ ہوتا ہے‘‘۔
اس ملاقات کے بعد بھی اپنی صحافتی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے دوران ان سے متعدد بار ملنا ہوا۔ نمازِ عصر کے بعد وہ اپنے اسی کمرے میں ملتے تھے یا اتوار کے روز صبح ان کا درس ہوتا تھا، جو نمازِ ظہر پر ختم ہو تا تھا۔ یہ واقعہ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک بار درس کے دوران انھوں نے حضرت عمرؓ کے زمانے میں ہونے والی فتوحات پر نکتہ چینی کی۔ ان کا استدلال تھا کہ ’’اُن فتوحات کی وجہ سے دعوت کا کام دب گیا‘‘۔ اسی طرح ان کی ایک دلیل یہ تھی: ’’صلاح الدین ایوبی اور صلیبی جنگو ں کی وجہ سے یورپ میں اسلام کے دعوتی پیغام کو نقصان پہنچا‘‘۔ عراق اور افغانستان میں امریکا اورناٹو افواج کی جانب سے مسلط کردہ خونیں جنگ کو وہ ’خدائی آپریشن‘ کا نام دیتے تھے۔
بھارت میں ہندو مسلم فسادات ہوتے، تو وہ اس میں مسلمانوں کو ظالم قرار دیتے تھے۔ معلوم نہیں کس ذریعے سے حاصل کردہ اطلاعات کی بنیاد پر ان کا کہنا ہوتا تھا: ’’فسادات کی ابتدا مسلمان کرتے ہیں‘‘۔ یہ بات سنتے ہوئے میں نے ایک بار ہمت کرکے ان سے پوچھا کہ ’’یہ نتیجہ آپ نے کہاں سے اخذ کیا ہے؟ سوال پوچھنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مجھے کئی بار فسادات کی کوریج کرنے کا موقع ملا ہے اور میں نے ہمیشہ یہی دیکھا ہے کہ جانی اور مالی نقصان مسلمانوں کا ہی ہوتاہے۔ آخر اپنے آ پ کو نقصان پہنچانے کے لیے کیوں کوئی اپنا سر آگ میں جھونکے گا؟‘‘ اسی طرح ان کا موقف تھا کہ ’’بابری مسجد سے مسلمانوں کو دست بردار ہونا چاہیے، اور وہاں پر ایک عالی شان رام مندر بنانے میں معاونت کرنی چاہیے‘‘۔ خان صاحب کی اس تجویز یا خواہش کے مطابق اب تو اس جگہ پر رام مندر کی تعمیر ہو رہی ہے۔ لیکن کیا اس سے قوم پرست ہندوؤں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت میں کمی واقع ہوئی ہے؟ بلکہ وہ تو اب شیرہوکر دیگر مساجد کو بھی مندر بنانے کا مطالبہ کررہے ہیں۔
کشمیری مسلمانوں کے ساتھ تو سچ پوچھئے خان صاحب کو خدا واسطے کا بیر تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’بجائے آزادی کی تحریک کے، ان کو اپنے کردار و تبلیغ سے وہاں موجود سات لاکھ بھارتی فوجیوں اور نیم فوجی دستوں تک اسلام کا پیغام پہنچانا چاہیے‘‘۔ یاد رہے، خان صاحب کے رسالے الرسالہ کی سب سے زیادہ فروخت کشمیر میں ہی ہوتی تھی۔ بلاشبہہ کچھ لوگ تو واقعی خریدتے تھے، مگر کشمیریوں کے گھروں کی تلاشی آپریشنوں کے دوران بھارتی فوج اور نیم فوجی دستوں کے ساتھ آئے ہوئے انٹیلی جنس کے افراد اس رسالے کو نوجوانوں میں بانٹتے بھی تھے۔ سوپور کی جامع مسجد کے پاس بارڈر سکیورٹی فورس کا بینکر تھا۔ ایک روز نماز جمعہ سے قبل مسجد میں داخل ہونے والوں کو بینکر کا ایک سپاہی الرسالہ اور مولانا کا ایک تحریر کردہ پمفلٹ بانٹ رہا تھا اور تاکید کر رہا تھا کہ ’’اس اسلام کو اپنا کر پاکستان والا اسلام ترک کردیں‘‘۔ میرے لیے اس سپاہی کے ساتھ بحث کا تو کوئی موقع نہیں تھا، مگر دہلی واپس آکر میں نے یہ واقعہ براہِ راست مولانا صاحب کے گوش گزار کیا۔ انھوں نے میری اس آنکھوں دیکھی رُوداد کے جواب میں کہا: ’’کشمیریوں نے میر سید علی ہمدانی کے مشن کو فراموش کردیا ہے‘‘۔
یہ غالباً ۲۰۱۵ءکی بات ہے کہ جموں وکشمیر کی قانون ساز اسمبلی کے ایک رکن انجینئر عبدالرشید کچھ کشمیری صحافیوں کے ہمراہ دہلی آئے۔ انھوں نے مولانا صاحب سے ملاقات کا شرف حاصل کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ چونکہ بطور ممبر اسمبلی وہ کشمیر میں بھارتی جمہوریت کا ایک چہرہ تھے، اسی لیے ان کا اصرار تھا کہ ’’مولانا صاحب سے جموں و کشمیر کی صورت حال کے بارے میں رائے معلوم کر کے ان کے وسیع تجربے سے کچھ مفید اور قابل عمل اقدامات کے لیے ہم رہنمائی حاصل کریں گے‘‘۔ خیر ان کی کوٹھی پر پہنچ کر پہلے تو ہم نے درس میں شرکت کی۔ نمازِ ظہر تک مولانا کی تقریر اور سوال و جواب کا دل چسپ سلسلہ جاری رہا۔ اس کے بعد مولانا صاحب نے انجینئر عبدالرشید صاحب کے ساتھ گرم جوشی سے مصافحہ کیا اور بھارتی آئین کے تحت کشمیر اسمبلی میں رکنیت حاصل کرنے پر ان کو سراہا۔ علیک سلیک کے بعد ممبر اسمبلی نے مولانا کی توجہ کشمیر کی صورت حال، خاص طور سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی جانب مبذول کراتے ہوئے مسئلہ کشمیر کے پائیدار حل کے حوالے سے ان کا نقطۂ نظر جاننا چاہا۔ مولانا نے مسئلہ کشمیر کا صرف ایک ہی حل بتایا کہ ’’کشمیری ’امن‘ کا راستہ اپنائیں، لیکن اس سے پہلے انھیں یہ بات تسلیم کرنا ہوگی کہ گذشتہ کئی عشروں کے دوران ان کی جد و جہد غلط تھی‘‘۔ عبدالرشید صاحب نے مولانا سے عرض کیا کہ’’ امن کی خواہش کشمیریوں سے زیادہ کسی اور کو نہیں ہوسکتی، لیکن انصاف کے بغیر امن کا قیام کیسے ممکن ہے؟‘‘ تو مولانا صاحب نے فرمایا کہ ’’انصاف کو امن کے ساتھ جوڑنا آپ لوگوں کی ذہنی اختراع ہے‘‘۔
مولانا صاحب کے بقول: ’’کشمیر کا بھارت کے ساتھ الحاق حتمی ہے اور اس کو متنازعہ کہنے والے غیر حقیقت پسند ہیں‘‘۔ ممبر اسمبلی نے ان سے سوال کیا کہ ’’جموں وکشمیر کے تنازعے کو تو خود بھارتی لیڈر ہی اقوام متحدہ میں لے گئے تھے، اس میں کشمیریوں کا کیاقصور ہے؟ وہ بے چارے تو صرف وعدہ پورا کرانے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں‘‘۔ یہ بات سننا تھا کہ مولانا صاحب غصّے سے لال پیلے ہوگئے اور ہال چھوڑ کر دوسرے کمرے میں چلے گئے۔ کچھ منٹ انتظارکے بعد ہم بھی وہاں سے واپس چلے آئے۔
انڈین سپریم کورٹ کی طرف سے ۱۹۹۵ءمیں ’ہندو توا‘ کو مذہب کے بجائے بھارتی کلچر کی علامت اور ایک نظریۂ زندگی قرار دینے کے پیچھے مولانا کی سوچ کارفرما تھی۔ ۱۹۹۰ءکے انتخابات میں مہاراشٹرا میں شیو سینا کے لیڈر بال ٹھاکرے [م:۲۰۱۲ء]، منوہرجوشی [پ:۱۹۳۷ء] اور کئی دیگر اراکین کی طر ف سے انتخابی جلسوں میں ہندو ووٹروں کو لبھانے کے لیے مذہبی نعرے اور مذہبی شعار کے کھلم کھلا استعمال کرنے پر ’ری پرزنٹیشن آف دی پیپلز ایکٹ ۱۹۵۱ء‘ کے تحت ان کو ناا ہل قرار دیتے ہوئے، انتخابات لڑنے پر پابندی عائد کی گئی، جس کو بمبئی ہائی کورٹ نے درست قرار دیا۔ لیکن جب یہ مقدمہ سپریم کورٹ میں پہنچا ، جہاں جسٹس جے ایس ورما [م:۲۰۱۳ء] کی قیادت میں ایک بنچ نے ہندو انتہا پسندوںکے گورو دمودر ساورکر [م:۱۹۶۶ء]، ایم ایس گولوالکر [م:۱۹۷۳ء]کی تصنیفات سے استدلال کرنے کے بجائے مولانا وحیدالدین خان کی تحریروںپر تکیہ کر کے ’ہندو توا‘ کو نظریۂ زندگی قرار دے کر ہندو انتہا پسندی کو جواز فراہم کردیا۔
اس کیس کی سماعت کے دوران ہی معروف قانون دان اے جی نورانی صاحب کی دلیل تھی کہ ’’عدالت مولانا وحید الدین خان کی تحریروں کی غلط تشریح کر رہی ہے‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’مولانا اگرخود عدالت میں پیش ہو کر یا کسی تحریر کے ذریعے یہ موقف اختیار کریں، تو شاید کورٹ کو ساورکر یا ایم ایس گولوالکر کو ریفر کرنا پڑے گا‘‘۔ عدالت کا یہ فیصلہ بہت دُور رس اہمیت کا حامل تھا۔ اسی فیصلے نے انتخابی جلسوں میں ’جے شری رام‘ کے نعروں کوجواز بخش کر بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیے ہندو ووٹروں کو لام بند کرنے کا کام کیا۔ اگرچہ مولانا وحیدالدین خان صاحب کا نجی محفلوں میں یہ موقف تو تھا کہ ’’میری تحریروں کی غلط تشریح ہو رہی ہے‘‘، لیکن اپنی تحریروں کی درست تعبیروتشریح کے لیے کبھی کوئی عملی قدم انھوں نے کیوں نہیں اٹھایا؟ یہ معاملہ اُن کے دم واپسیں تک ایک راز ہی رہا۔ بقول نورانی صاحب اسی فیصلے کی وجہ سے بطور انعام جسٹس ورما کو دو سال بعد چیف جسٹس اور بعد میں قومی انسانی حقوق کمیشن کا چیئرمین مقرر کیا گیا اور اٹل بہاری واجپائی کی زیر قیادت بی جے پی حکومت نے مولانا وحیدالدین صاحب کو ۲۰۰۰ء میں تیسرا اعلیٰ سویلین ایوارڈ’پدما بھوشن‘ سے سرفراز کیا۔ جنوری ۲۰۲۱ء میں وزیراعظم نریندر مودی حکومت نے ان کو ’پدما و بھوشن‘ سے نوازا۔
ہندو فسطائی تنظیموں ، خاص طور پر آر ایس ایس کے ساتھ ان کے خاصے دوستانہ تعلقات تھے۔ اگرچہ ایسے سماجی تعلقات رکھنا کوئی غلط بات نہیں ہے، مگر مولانا اس دوستی میں بہت دُور نکل گئے تھے۔ تقریباً بیس برس قبل آر ایس ایس کے ایک چوٹی کے لیڈراور ویشوا ہندو پریشد کے جنرل سیکرٹری پروین بائی توگڑیا سے گفتگو کرتے ہوئے ایک بار میں نے پوچھا کہ ’’ مسلمان ، جو بھارت کے مکین ہیں، ان کے مستقبل کے بار ے میں آپ کی کیا رائے ہے؟‘‘ تو ان کا کہنا تھا کہ ’’مسلمانوں سے ہم کو کوئی شکایت نہیں ہے، اگر وہ ہندو جذبات کا خیال رکھیں‘‘۔ میں نے پوچھا کہ ’’ہندو جذبات سے آپ کی کیا مراد ہے؟‘‘ان کا کہنا تھاکہ ’’ہندو کم و بیش ۳۲کروڑدیو ی دیوتائوں پر یقین رکھتے ہیں۔ ہمارے لیے یہ کوئی ناک کا مسئلہ نہیں کہ ہم پیغمبر اسلام کی بھی اسی طرح عزت افزائی کریں۔ مگر مسلمان اس کی اجازت نہیں دیتے ہیں، اور نہ اپنے یہاں کسی ہندو دیوی دیوتا کی تصویر یا مورتی رکھتے ہیں‘‘۔ اپنے دفتر کی دیوار پربابا گورو نانک اور گورو گوبند سنگھ کی لٹکتی تصویر اور کونے میں مہاتما بدھ اور مہاویر کی مورتیوںکی طرف اشارہ کرتے ہوئے انھوںنے کہا کہ ’’یہ دیکھو، دوسرے مذاہب، یعنی سکھوں، بدھوں اور جینیوں نے ہندو ئوں کے ساتھ رہنے کا سلیقہ سیکھا ہے، جو مسلمانوں کو بھی سیکھنا پڑے گا‘‘۔
گجرات فسادات کے بعد ۲۰۰۲ء میں، ایک مسلم وفد آر ایس ایس کے اُس وقت کے سربراہ کے ایس سدرشن [م:۲۰۱۲ء] سے ملنے، ان کے صدر دفتر ناگ پور گیا، جس میں اعلیٰ پایہ کے مسلم دانش ور شامل تھے۔ ملاقات کا مقصد ملک میں بڑھتی ہوئی نسل پرستی کو کم کرنے کے لیے اُن کے سامنے مسلمانوں کا نقطۂ نظر رکھنا تھا۔اس وفد کے ایک رکن کے بقول ’’جب ہم نے سدرشن صاحب سے پوچھا کہ کیا مسلمانوں اور ہندوؤں میں مفاہمت نہیں ہوسکتی ہے؟ اور کیا رسہ کشی کے ماحول کا جواب، دوستانہ ماحول سے نہیں دیا جاسکتا ہے؟‘‘ تو اس کے جواب میں کے سدرشن صاحب نے مسلم وفد کو بتایا ’’آر ایس ایس جیسی شدت پسند تنظیم مسلمانوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرسکتی ہے، لیکن اس کے لیے ایک شرط ہے، اور وہ یہ ہے کہ آپ لوگ (مسلمان) کہتے ہو کہ اسلام ہی برحق اور سچا دین ہے۔ آپ ایسا کہنا چھوڑ دیجیے اور کہیے کہ اسلام بھی برحق اور سچا دین ہے تو ہماری آپ کے ساتھ مفاہمت ہوسکتی ہے‘‘۔ ’اسلام ہی حق ہے‘ کے بجائے اسلام بھی حق ہے، کا مطالبہ کرنا بظاہر ایک معمولی بات ہے اور یہ مطالبہ اب فرقہ پرست ہی نہیں، بلکہ خود ساختہ لبرل مسلمانوں کی طرف سے بھی کیا جانا شروع ہوچکا ہے۔ مگر غور کرنے کا مقام ہے کہ ا س مطالبے کو ماننے سے خود ایمان کی بنیادوں کا کیا حشر ہوگا! آر ایس ایس کی ایسی فکری یلغار کا جواب دینے کے لیے مولانا وحیدالدین خان صاحب نے کیا کبھی کوئی عملی قدم اُٹھایا؟ یہ بات اسلامیانِ ہند کے علم میں نہیں ہے۔
مولانا وحیدالدین، سہل اور سائنسی اندازِ تحریر اور امن و امان پر زور صرف کرنے کی وجہ سے بھارتی میڈیا کے بھی لاڈلے تھے۔ جب کبھی ادارتی صفحات کے ایڈیٹروں کو اسلام کے حوالے سے مضمون کی ضرورت ہوتی تو ان کی جانب سے حکم ملتا تھا کہ’’ مولانا وحیدالدین سے رابطہ کرکے ان سے مضمون لکھوایا جائے‘‘۔اگر کبھی مولانا کے بجائے میں ان کے فاضل صاحبزادے اور ملّی گزٹ کے ایڈیٹر ڈاکٹر ظفرالاسلام خاں صاحب کا نام تجویز کرتا تو ادارتی صفحے کے انچارج پارسا وینکٹیشورا راوہ اور مونوبینا گپتا، انکار کرتے ہوئے مولانا ہی کے مضمون پر اصرار کرتے تھے۔
اپنی تعلیم ختم ہونے کے بعد میں نوکری کی تلاش میں تھا، تو ایک دن خان صاحب سے درخواست کی کہ اردو اخبار قومی آواز میں رپورٹر کی جگہ خالی ہے، شاید آپ کی سفارش سے کام بن جائے، تو ان کا جواب تھا کہ ’’کبھی اردو اخبار کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھنا‘‘۔ انھوں نے کہا کہ ’’کسی انگریزی اخبار میں اگر چپراسی کی بھی نوکری کرنی پڑے تو اس کو فوقیت دینا‘‘۔ اسی طرح ایک بار علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے سابق وائس چانسلر سیّد حامد [م: ۲۰۱۴ء] اور مولانا سیّد ابو الحسن علی ندوی [م:۱۹۹۹ء] نے ملک گیر سطح پر چندہ جمع کرکے مسلمانوںکے ایک قومی انگریزی اخبار کی اشاعت کا بیڑا اُٹھایا۔ یہ اخبار پہلے ہفتہ وار One Nation Chronicle اور بعد میں ماہ نامہ کی صورت میں Nation and The World کے نام سے منظر عام پر آکر غروب بھی ہو گیا۔ تاہم، اس کی تیاری کے دوران میں نے اس پرچے میں ملازمت کے لیے مولانا صاحب سے سفارش کی درخواست کی۔ جواب میں انھوں نے کہا کہ ’’یہ اخبار زیا دہ دیر چلنے والا نہیں ہے۔ بس انگریزی مین اسٹریم میڈیا کا دامن تھام کر جرنلزم کی سیڑھیاں طے کر لو‘‘۔ سوچتا ہوں کہ ان کا مشورہ نہایت ہی مناسب تھا۔
وہ مسلم مخالف ہندوتنظیموں اور مسلمانوں کے درمیان رابطے کا ایک ذریعہ ہوسکتے تھے اور شاید وہ کوئی بڑا رول بھی ادا کرسکتے تھے، مگر افسوس، اکثر معاملات میں وہ خاصے دُور چلے گئے تھے۔ جس میانہ روی کی و ہ تلقین کرتے تھے، وہ خود ان کے ہاں موجود نہیں تھی۔ کبھی یوں محسوس ہوتا تھا کہ وہ اپنے موقف کی آبیاری کے لیے بی جے پی کے آلۂ کار بنے ہوئے تھے اور اپنے دعووں کو اسی سانچے میں ڈھالنے کی کوششیں کرتے تھے۔وَاللہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ۔ دعا ہے کہ اللہ ان کی لغزشوں کو معاف کرکے، ان کی مغفرت فرمائے۔
امریکا نے افغانستان سے فوجوں کی واپسی کا اعلان کرکے فی الحال امن مذاکرات اور طالبان کو منوانے کا ٹھیکہ ترکی کے سپرد کیا ہے۔ اس سلسلے میں ۲۴؍اپریل ۲۰۲۱ءکو استنبول میں مشترکہ اجلاس کا اعلان کیا گیا، مگر طالبان نے اس میں شرکت نہ کرنے کا اعلان کر دیا، جس سے یہ اجلاس فی الحال ملتوی کر دیا گیا ہے۔ حالات و واقعات بتاتے ہیں کہ امریکا، قطر اور ترکی کی مدد سے کسی ایسے معاہدے کے خد و خال تیار کرنے میں مصروف ہے، جس سے شام کی طرز پر افغانستان میں جنگ بندی عمل میں لائی جاسکے اور زمینی صورتِ حال کو جوں کا توں رکھا جائے ۔ گویا جس فریق کو جس علاقے پر برتری یا کنٹرول حاصل ہو، اس کو تسلیم کرکے اور چھیڑے بغیر مذاکرات کے سلسلے کو آگے بڑھایا جائے اور پھر ایک طرح سے افغانستان کو اپنے حال پر یا وقت کے دھارے پر چھوڑ دیاجائے ۔ پاکستان کے ذریعے طالبان کے لیڈروں کو بتایا گیا ہے کہ ’’کابل کی اشرف غنی کی حکومت کے پاس تو بس ۳۳ فی صد علاقے کا کنٹرول ہے، ۱۹ فی صد علاقہ طالبان کے براہِ راست قبضے میں ہے اور ملک کا بقیہ ۴۸ فی صد علاقہ حالت جنگ میں ہے، جہاں آئے دن زمینی صورت حال تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ اس لیے تنازعے کو منجمد کرنا ان کے مفاد میں بھی ہے‘‘۔
فی الحال امریکا اشرف غنی کو یہ باور کروانے میں کامیاب ہوا ہے کہ اس کا وجود مذاکرات کی پیش رفت میں ایک بڑی رکاوٹ ہے ۔ ویسے اس حقیقت کا ادراک امریکا کو ۲۰۱۹ء میں قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کے دوران ہی ہوگیا تھا ۔ باوثوق ذرائع کے مطابق طے پایا تھا کہ ’’ستمبر میں جو متنازعہ صدارتی انتخابات منعقد ہوئے تھے، ان کو کالعدم کرکے ایک وسیع البنیاد یا غیر جانب دار اشخاص پر مشتمل ایک عبوری حکومت کا قیام عمل میں لایا جائے گا، جو بعد میں طالبان کے ساتھ دیگر امو ر پر گفت و شنید کرکے معاملات طے کرکے غیر ملکی افواج کے انخلا کا راستہ ہموار کرے گی‘‘ ۔تاہم دوحہ معاہدے پر دستخط کرنے سے صرف ۱۰روز قبل افغانستان کے الیکشن کمیشن نے اچانک ۱۸ فروری ۲۰۲۰ءکو اشرف غنی کو صدارتی انتخابات میں فاتح قرار دے دیا۔ اس سے پانچ روز قبل بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول اچانک ایک خصوصی طیارے سے کابل پہنچے تھے۔ انھوں نے اشرف غنی کو دوحہ میں جاری مذاکرات اور امریکا کے طالبان کے ساتھ معاہدے کے خد و خال سے آگاہ کرکے بتایا کہ اس کے بعد آپ کی حکمرانی کا جواز ختم ہوجائے گا ۔ اسی لیے الیکشن کمیشن کو ہدایت کریں کہ وہ دوحہ میں اس معاہدے کے اعلان سے قبل ہی نتائج کا اعلان کرے ، تاکہ آپ کی حکومت کی آئینی حیثیت برقرار رہ سکے ۔
اشرف غنی کا ابھی تک اصرار ہے کہ وہ حکومت سے دستبردار ہو جائیں گے ، مگر عبوری انتظامیہ کے ذریعے جلد ہی انتخابات منعقد کرائے جائیں۔ انھوں نے وعدہ کیا ہے کہ ان انتخابات میں وہ شرکت نہیں کریں گے ۔ تاہم، ۳کروڑ ۵۰ لاکھ آبادی والے ملک میں جہاں صرف ۹۶ لاکھ افراد رجسٹرڈ ووٹر ہیں اور ان میں سے بھی ۱۹ فی صد ہی ووٹ ڈالنے پولنگ بوتھ تک آتے ہیں۔ اس سے ان انتخابات کی اخلاقی حیثیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔
چونکہ ناٹو اتحاد کے تحت ترکی کے۶۰۰ فوجی افغانستان میں مقیم ہیں ، اس لیے امریکا چاہتا ہے کہ غیر ملکی فوجوں کے انخلا کے بعد لیبیا اور شام کی طرح ترکی افغانستان کی سیکورٹی کی ذمہ داری سنبھال لے ۔ اس لیے یورپی یونین سے لے کر بھارت تک اس وقت ترکی کی ناز برداری کرکے افغانستان میں اپنی سرمایہ کاری اور اثاثوں کی حفاظت کی گارنٹی چاہتے ہیں ۔ گذشتہ دنوں تاجکستان کے دارالحکومت دو شنبہ میں ’ہارٹ آف ایشیا کانفرنس‘ کے موقعے پر بھارتی وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر نے ترکی کے اپنے ہم منصب میولوت چوشوولوسے اپیل کی کہ ’’ہمارے اقتصادی پروجیکٹس کو طالبان کی پیش قدمی کے دوران کوئی نقصان نہ پہنچنے پائے‘‘۔ فی الحال ترکی نے فوجوں کی تعیناتی کے حوالے سے کوئی وعدہ نہیں کیا ہے۔ ابھی تک انقرہ میں ایسی ذمہ داری قبول کرنے کے مضمرات پر غور و خوض جاری ہے ، کہ کہیں ہمارا حشر ۱۹۸۷ء میں بھارت کی اُس امن فوج جیسا نہ ہو، جو ۱۹۸۷ء میں تقریباً ان ہی حالات میں سری لنکا میں حکومت اور تامل علیحدگی پسندوں کی مشترکہ اپیل پر امن قائم کرنے گئی تھی، مگر جلد ہی تامل ٹائیگرز کے ساتھ ان کی جھڑپیں شروع ہو گئیں اور بعد میں کولمبو کی حکومت بھی ان کے خلاف برسرِپیکار ہو گئی ۔
مغربی ممالک کا خیال ہے کہ چونکہ ترکی کے پاکستان کے ساتھ تعلقات اچھے ہیں ، اس لیے کابل میں کسی مستحکم اور پائیدار حکومت کے قیام تک اس کی فوج کی تعیناتی طالبان برداشت کرلیں گے۔ بتایا جاتا ہے کہ اشرف غنی کی حکومت نیز سابق شمالی اتحاد کے اکثر رہنمائوں بشمول رشید دوستم اس تجویز کی حمایت کرتے ہیں ۔ دوسری طرف طالبان کی پیش قدمی سے خوف زدہ اشرف غنی، بھارت اور افغانستان میں اس کے حوارین ایک بار پھر پاکستان کو کٹہرے میں لانے کی کوششیں کررہے ہیں اور ڈو مور اور مغربی ممالک کے ذریعے پاکستان پر دبائو بڑھانے کی فکر میں ہیں ، تاکہ وہ طالبان کی مدد کرنے سے باز رہے ۔
سوال یہ ہے کہ اگر ۲۰۱۹ء میں ہی امریکا کو ادراک ہو گیا تھا کہ اشرف غنی کی حکومت مذاکرات اور امن کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے، تو ۲۰۲۱ءتک اس انتظامیہ کو بے دخل کرنے کےلیے کیوں انتظار کرایا گیا؟ کسی اتفاق رائے والی حکومت کا قیام عمل میں لائے بغیر فوجوں کے انخلا کا اعلان کرانا ملک کو ایک بار پھر شدید خانہ جنگی کی طرف دھکیلنے کے مترادف تو نہیں ہے؟ ;
ان سوالات کا جواب یہی ہے کہ ۱۸۳۹ء سے ہی افغانستان میں یہی تاریخ بار بار دہرائی جاتی رہی ہے اور مغربی ممالک پچھلی غلطیوں سے کوئی سبق حاصل کرنے کو تیار نہیں ہیں ۔
کسی غیر جانب دار اور اتفاق رائے والی حکومت کے قیام کے بغیر امریکی فوجوں کے انخلا سے۱۹۸۸ء کے ’جنیوا معاہدے‘ کی یادیں تازہ ہوجاتی ہیں ، جس کی رو سے سوویت فوجیں اپنے زخم چاٹتے ہوئے افغانستان سے واپس تو ہو گئیں ، مگر پیچھے ایک میدان کارزار چھوڑ کر چلی گئیں ۔ پاکستانی سفارت کاروں کے مطابق، جو اس معاہدے کی تشکیل اور مذاکرات میں شامل تھے، اس وقت کے پاکستانی صدر جنرل محمد ضیاء الحق کی طرف سے واضح ہدایات تھیں ، کہ ’’کابل میں صدر نجیب اللہ کی کمیونسٹ حکومت کو بے دخل کرکے ایک وسیع البنیاد حکومت کے قیام تک، کسی بھی صورت میں سوویت فوجوں کا انخلا نہیں ہونا چاہیے‘‘۔ مگر امریکا بھی اس وقت افغانستان میں ’جنیوامعاہدے‘ پر دستخط ثبت کرنے کےلیے بے چین تھا۔ اس کے خیال میں کابل میں پاکستان کی حمایتی اسلامی حکومت کے بدلے ایک لولی لنگڑی کمیونسٹ حکومت اس کے مفادات کےلیے بہتر ہے۔ امریکیوں کو خدشہ تھا کہ جنرل ضیاء الحق کہیں افغانستان کو بنیاد بنا کروسطی ایشیا کو اسلامی رنگ میں رنگ نہ دیں ، کیونکہ جلد ہی سوویت یونین ٹوٹ پھوٹ کا شکار اور وسطی ایشیا کے ممالک آزاد ہونے والے تھے ۔ ’جنیوا معاہدے‘ پر دستخط کرنے کےلیے پاکستان پر دباؤ ڈالنے کےلیے امریکا نے ۱۲۰دن تک امداد پر پابندی بھی لگائی تھی۔
پاکستان چونکہ اس معاہدہ کو تسلیم کرنے پر ہچکچا رہا تھا، کہ اسی دوران ۱۰؍اپریل ۱۹۸۸ء کو راولپنڈی شہر کے قلب میں افغان مجاہدین کےلیے مخصوص اوجڑی کیمپ کے ایمو نیشن ڈپو میں خوفناک دھماکا ہوا ۔ اسلام آباد اور راولپنڈی کے شہروں پر راکٹوں اور میزائیلوں کی بارش ہوئی، جس میں کم از کم۱۰۰؍ افراد ہلاک ہو گئے ۔ اس کے چار دن بعد، یعنی ۱۴؍اپریل کو جنیوا میں پاکستان، افغانستان، امریکا،سوویت یونین اور اقوام متحدہ کے مندوبین نے معاہدے پر دستخط کرکے سوویت فوجوں کے انخلا پر رضامندی ظاہر کی ۔
صدر ضیاء الحق نے اگرچہ اس کا خیر مقدم کیا، مگر نیویارک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ کو دیئے گئے انٹرویو میں وہ اپنی ناراضی چھپا نہیں سکے ۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’آخر پاکستان کس طرح نجیب اللہ حکومت کے ساتھ کوئی معاہدہ کرسکتا ہے، جس کے ہاتھ افغانیوں کے خون سے رنگین ہیں؟‘‘ دستاویزات کے مطابق جنرل ضیاء الحق نے نجیب اللہ کے بغیر دیگر کمیونسٹ لیڈرو ں اور مجاہدین پر مشتمل ایک عبوری حکومت کی تجویز بھی پیش کی تھی ۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’اس حکومت کے قیام کے بعد ہی ’جنیوا معاہدے‘ پر دستخط ہونے چاہییں۔ یہ امرواقعہ ہے کہ مجاہدین کمانڈروں یونس خالص اور گلبدین حکمت یار نے بڑے اصرار سے کمیونسٹوں کے ساتھ اقتدار میں شریک ہونے سے انکار کردیا تھا، مگر پاکستانی افسر بتاتے ہیں کہ نجی ملاقاتوں میں ان دونوں لیڈران نے آخرکار نرمی دکھائی تھی۔
’جنیوامعاہدے‘ کے فوراً بعد ہی پاکستان میں واقعات کا ایک تسلسل شروع ہوا ۔ ایک ماہ بعد، یعنی مئی میں وزیر اعظم محمد خان جونیجو کی حکومت کو برطرف کیا گیا اور پھر اگست میں خودجنرل ضیاء الحق طیارہ حادثے میں پُراسرار موت سے دوچار ہوگئے ۔ اس کے ساتھ ہی کابل پر قبضہ کرنے کےلیے کمیونسٹوں اور مجاہدین کے درمیان افغانستان میں جنگ کا آغاز ہوگیا ۔ ۱۹۹۲ء میں مجاہدین نے کابل کو فتح تو کرلیا، مگر اس کے بعد وہ اگست ۱۹۹۴ء تک آپس میں برسرپیکار رہے، تا آنکہ طالبان نے آکر ان سبھی گروپوں کو شکست دیتے ہوئے کابل پر قبضہ کرلیا ۔
اس سے قبل ۱۹۹۳ء میں مسجد الحرام میں مجاہدین لیڈروں نے جنگ بندی پر رضامندی ظاہر کی تھی اور طے پایا تھا کہ اگلے ۱۸ماہ تک برہان الدین ربانی بدستور صدر رہیں گے اور گلبدین حکمت یار ان کے وزیر اعظم کے طور پر حکومت سنبھا ل لیں گے ۔ یہ معاہدہ سحری کے وقت مسجد الحرام میں سعودی فرمانروا شاہ فہد اور پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کی موجودگی میں طے پایا تھا اور اس کو مزید تقدس فراہم کرنے کےلیے اس کی ایک کاپی خانہ کعبہ کی دیوار کے ساتھ آویزاں کی گئی۔ وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ’’ چونکہ یہ معاہدہ، اسلام کی مقدس ترین جگہ پر طے پایا ہے، اسی لیے کسی کو اس کی خلاف ورزی کرنے کی جرأت نہیں ہوگی ۔ اور اگر کسی نے ایسا کرنے کی کوشش کی تو وہ اللہ کو جواب دہ ہوگا‘‘۔ مگر اس معاہدے کی سیاہی خشک نہیں ہوئی تھی، کہ خانہ جنگی میں ایک بار پھر شدت آگئی ۔ افغانستان جسٹس رپورٹ کے مطابق ۱۹۹۴ءکے پہلے چھے ماہ میں ہی کابل میں ۲۵ہزار افراد ہلاک ہوگئے ۔ آئے دن شہر پر راکٹوں کی بارش ہو رہی تھی، جو اگست ۱۹۹۴ءکو طالبان کی آمد کے بعد ہی تھم سکی ۔ ۲۰۰۱ء کے آخر میں امریکی افواج نے طالبان کو کابل بدر کردیا ۔
دل چسپ بات یہ ہے کہ ۲۰۲۰ء میں امریکی خصوصی نمایندے زلمے خلیل زاد نے دوحہ میں طالبان کے ساتھ جس معاہدے پر دستخط کیے، تقریباً ۱۹سال قبل اپریل ۱۹۹۸ء کو امریکا کے اقوام متحدہ میں سفیر بل رچرڈسن یہی کچھ طالبان رہنما ملا عمر سے منوا چکے تھے ۔ رائے گٹمین کی کتاب How We Missed the Story: Osama bin Laden, the Taliban, and the Hijacking of Afghanistan میں درج ہے کہ’’ طالبان نے نہ صرف جنگ بندی پر رضامندی ظاہر کی تھی، بلکہ شمالی اتحاد کے ساتھ وہ گفت و شنید کےلیے بھی تیار ہو گئے تھے ۔ پاکستانی سفیر کی موجودگی میں رچرڈسن نے طالبان سے منوا لیا کہ ملک میں خواتین کےلیے تعلیمی ادارے کھل جائیں گے اور ہیلتھ ورکروں اور ڈاکٹروں کو خواتین کا معائنہ کرنے اور علاج کرنے کی اجازت ہوگی۔ اس میں خواتین سے متعلق دیگر حقوق کی بھی باتیں درج تھیں‘‘ ۔ اور اب ۱۹ سال کے بعد ڈیڑھ لاکھ افغانوں کی ہلاکت، جس میں ڈھائی ہزار سے زیادہ امریکی فوجی بھی شامل ہیں اور دو اعشاریہ ۲۶۱کھرب ڈالر جھونکنے کے بعد دوحہ میں بھی تقریباً انھی باتوں کا اعادہ کیا گیا ۔
افغانستان میں یہ تاریخ دُہرانے کی شروعات ۱۸۳۹ءکی پہلی برطانوی فوج کشی سے ہوئی تھی ۔ اس فوج کشی کا مقصد دوست محمد کو اقتدار سے ہٹانا اور اس کی جگہ پر اپنے حلیف شاہ شجاع کو تخت پر بٹھانا تھا ۔ یہ ہدف آسانی کے ساتھ پورا تو ہو گیا، مگر جلد ہی سردیوں کی آمد پر افغانیوں نے برطانوی فوجوں کا ایسا قتل عام کیا ، جس کی تاریخ میں نظیر نہیں ملتی ہے ۔ برطانوی فوجوں نے کمک بلاکر اس کا بھر پور بدلہ چکایا ۔ کابل اور اس کے گر دو نواح میں کشت و خون کا بازار گرم کردیا۔ مؤرخ ولیم ڈال رمپل اپنی کتاب Return of a King: The Battle for Afghanistan میں رقم طراز ہیں کہ ’’اس قتل عام اور اجتماعی عصمت دری پر خود کئی برطانوی افسران بعد میں شرمسار تھے۔ خون ریزی کے طوفان کے بعد اب سوال تھا کہ کابل کے تخت پر کس کو بٹھایا جائے؟ شاہ شجاع کو قتل کردیا گیا تھا۔ قرعہ فال پھر دوست محمد کے نام نکلا، جس کو ہٹانے کےلیے تین سال قبل فوج کشی کی گئی تھی ۔ ۲۰ہزار فوجی گنوانے اور ہزاروں شہریوں کی ہلاکت کے بعد بادشاہ دوست محمد کو باعزت طریقے سے واپس کابل بلا کر برطانیہ نے اقتدار اس کے حوالے کردیا ۔ برطانوی فوج کشی، سوویت یونین کے قبضے اور پھر امریکی فوجی مداخلت اور اب انخلا کسی قدیم یونانی ٹریجڈی تھیٹر کی داستان معلوم ہوتی ہے۔
بڑا سوال یہ ہے کہ کیا امریکی فوجوں کے انخلا سے افغانستان میں امن کا قیام ممکن ہوپائے گا یا یہ بدنصیب ملک مزید گرداب میں گھر جائے گا؟ آخر مغربی طاقتیں بار بار کیوں ایک ہی بل میں ہاتھ ڈالتی ہیں اور ہلاکتوں کے طوفان کے بعد پھر گھوم کر اسی نکتے پر لوٹ آتی ہیں؟ افغانستان میں ایک عوامی مستحکم حکومت کے قیام کے بدلے وہ آخر کیوں کرپٹ اور کمزور حکمرانوں کی پشت پناہی کرتے ہیں؟ ; ان کی اس حکمت عملی نے ایشیا کے اس دل کو بیمار کر کے رکھ دیا ہے ۔ اس دل کو صحت مند بنانے کےلیے ضروری ہے کہ افغان عوام کو بلالحاظ قبائلی اور نسلی وابستگیوں کے با اختیار بنایا جائے ۔ انتخابات کے عمل کو شفاف اور پوری آبادی اور ملک سے باہر مہاجرین کو اس میں شامل کرایا جائے ۔ مزید یہ کہ پڑوسی ممالک کے جائز مفادات کا خیال رکھ کر ہی افغانستان کو مستحکم اور محفوظ بنایا جاسکتا ہے ۔ ایک مستحکم افغانستان یقینا براعظم ایشیا کے عروج کا نقیب ہوگا ۔
ویسے تو جموں و کشمیر کو تقسیم کرنے والی خونی لکیر، یعنی لائن آف کنٹرول پر ۲۰۰۸ء کے بعد ہی سے توپوں اور مارٹرز کی گھن گرج جاری تھی، مگر ۲۰۱۹ء میں پلوامہ اور بالا کوٹ پر فضائی حملوں کے بعد اس میں خاصی شدت آگئی تھی۔ اب ۲۵فروری ۲۰۲۱ءکو جس طرح اچانک بھارت اور پاکستان کے ڈائرکٹر جنرل ملٹری آپریشنز لیفٹیننٹ جنرل پرم جیت سنگھ سانگھا اور میجر جنرل نعمان زکریا نے بندوقوں کو خاموش کرنے کا اعلان کیا۔ یہ اقدام خوش آیند، مگر حیران کن اور خدشات سے بھرا پڑاہے۔
اس سے قبل بھارت اور چین نے بھی لداخ خطے کی پنگانگ جھیل سے فوجیوں کا انخلا کرکے چھے ماہ سے جاری کشیدگی کو لگام دی۔ لائن آف کنٹرول کی خاموشی سے درہ حاجی پیر سے اکھنور تک کے علاقے میں رہنے والی ایک بڑی آبادی نے سکون کا سانس لیا ہے۔ پچھلے دوبرسوں سے شدید گولہ باری کی وجہ سے بیش تر کسان یاتو نقل مکانی یا بنکروں میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے تھے۔ یہ علاقے اکھنور، بشنہ، سانبہ، ہیرا نگراور کھٹوعہ، باسمتی چاول کی کاشت کے لیے مشہور ہیں۔ فائر بندی، تنازعے کو کنٹرول (Conflict Management ) کرنے میں کسی حد تک کارگر ہوسکتی ہے اور اگر اسے Conflict Resolution (تنازعہ کو حل کرنے) کے لیے استعمال نہیں کیا جاتا، تو ایسے اہتمام دیرپا ثابت نہیں ہوتے۔ پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب کبھی نئی دہلی کے حکمرانوں پر عالمی دبائو پڑتا ہے، تو وہ کسی ایسے اقدام کا اعلان کرکے سبزباغ دکھاتے ہیں، جو بعد میں سراب ثابت ہوتا ہے۔ پاکستانی اور کشمیری رہنما کئی بار اس سراب کے شکار ہو چکے ہیںاور گھڑی کی سوئیوں کی طرح واپس اسی مقام تک پہنچتے ہیں، جہاں سے سفر شروع کیا تھا۔
ملٹری افسران کی طرف سے فائربندی کے اعلان سے صرف ایک روز قبل بھارتی فوج کے سربراہ جنرل ایم ایم ناراوا نے دہلی میں ایک سیمی نار کے دوران بڑے اعتماد سے کہا تھا: ’’پاکستان کے ساتھ مسلسل رابطے سے ہی کسی افہام و تفہیم تک پہنچا جا سکتا ہے۔ کیونکہ غیرمتعین سرحدوں کا ہونا کسی کے بھی مفاد میں نہیں ہے۔ بھارت اپنی سرحدوں پر امن و سکون چاہتا ہے، چاہے و ہ مغربی سرحد ہو یا جنوبی سرحدیں ہوں یا میانمار سے لگی سرحد ہو‘‘۔ ان کے اس بیان سے ان افواہوں اور تجزیوں کو تقویت ملتی ہے کہ یہ فائر بندی کوئی اچانک فیصلہ نہیں تھا، بلکہ اس کے لیے اچھا خاصا پس پردہ کام کیا گیا تھا۔ اگرچہ یہ بھی حقیقت ہے کہ دونوں ملکوں کے یہ فوجی افسران ہر ہفتے منگل کی دوپہر کو ہاٹ لائن پر بات کرتے ہیں۔
ایک ما ہ قبل پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی کہا تھاکہ ’’وقت آگیا ہے کہ سبھی اطراف سے امن کے ہاتھ آگے بڑھائے جائیں‘‘۔ اسی کے ساتھ کورونا وائرس سے نپٹنے کے لیے سارک کے پلیٹ فارم پر ہونے والے آن لائن اجلاس میں پاکستانی مندوب نے بھی شرکت کی، جنھیں وزیر اعظم نریندر مودی نے مخاطب کیا۔ سکھوں کے لیے کرتار پور راہداری کھولنے کے علاوہ بھی پاکستانی فوج کے سربراہ کئی برسوں سے اس طرح کے پیغامات دے رہے تھے، مگر نئی دہلی کے حکمران ٹس سے مس نہیں ہو رہے تھے۔ پلوامہ اور بالاکوٹ کے بعد ایک قدم اور آگے جاکر انھوں نے بنیادی تنازعہ جموں و کشمیر ریاست کو ہی دولخت کرکے اس کی نہ صرف خصوصی آئینی پوزیشن کالعدم کردی، بلکہ کشمیری عوام کی زبان و کلچر کو ختم کرنے اور ان کی آبادیاتی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے بھرپور سامان بھی مہیا کرنے شروع کر دیے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ پچھلے دوبرسوں کے دوران جنرل باجوہ کے سبھی بیانات کو نظرانداز کرکے ، اب اس وقت ان کی امن سعی کا جواب کیوں دیا گیا؟
کئی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ۲۰۱۶ء کے اوڑی اور بعد میں ۲۰۱۹ء کے پلوامہ حملوں کے بعد جس طرح بھار ت نے دنیا بھر میں پاکستان کو الگ تھلگ کرنے کی کوشش کی تھی، وہ ناکام ہوگئی ہے ۔ ۲۰۱۶ء میں پاکستان میں جنوبی ایشیا، یعنی سارک سربراہان مملکت کے ہونے والے اجلاس کا نہ صرف بھارت نے بائیکاٹ کیا، بلکہ بنگلہ دیش، افغانستان، بھوٹان، سری لنکا اور مالدیپ کو بھی تنبیہ کی گئی کہ وہ اس کانفرنس میں شرکت کے لیے یا پاکستان کے ساتھ یک جہتی دکھانے کے نام پر قطعی طور پر اسلام آباد نہ جائیں۔
پاکستان کو الگ تھلگ کرنے کے لیے سارک کے اندر کئی ذیلی گروپ بھی بنائے گئے۔ پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے سری لنکا کے حالیہ دورہ نے بھارت کی اس پالیسی کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی ادارہ ایف اے ٹی ایف میں بھارت کی ایما پر گو کہ پاکستان کو ’گرے لسٹ‘ (مشکوک فہرست)میں رکھا گیا ہے۔ بڑی کوشش کے باوجود اس کو ’بلیک لسٹ‘ (مجرم فہرست)میں دھکیلنے میں بھارت ناکام رہا ہے۔ ابتدا میں جب بھارت نے پورا زور لگاکر ترکی اور ملائیشیا کو اس کے لیے معاف نہیں کیا تھا کہ وہ پاکستان کی حمایت میں آگے بڑھے تھے۔ دو سال قبل ایک اہم شخصیت نے مجھے دہلی میں کہا تھا کہ: ’’پاکستان کی حمایت پر ترک صدر رجب طیب اردوان کو معاف نہیں کیا جائے گا‘‘۔ اسی دوران چین کے ساتھ چپقلش کے بعد بھارت کو اندازہ ہو گیا ہے کہ وہ دومحاذوں پر جنگ کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے۔
دوسری طرف اگست ۲۰۱۹ءکو جموں و کشمیر میں کیے گئے بھارتی اقدامات کے خلاف پاکستان نے عالمی برادری سے جس طرح کی حمایت کی امید کی تھی، وہ پاکستان کی داخلی سیاسی کش مکش اور سفارتی حلقوں کی بے توجہی کے باعث پوری نہیں ہوسکی۔ بھارت کے ان اقدامات کے بعد پاکستان نے بھارتی سفیر کو اسلام آباد سے نکلنے کا حکم دے کراور دہلی سے اپنے سفیر کو واپس بلا کر سخت پیغام دے کر بھارت پر دبائو ڈالنے کی کوشش کی۔ دوسری طرف عالمی برادری دونوں ایٹمی ملکوں کے درمیان باضابطہ جنگ سے خوف زدہ تو ہے، مگر تنازعے کو سلجھانے کے بجائے جوں کی توں پوزیشن پر ہی گزارا کرنے کے لیے دونوں ملکوں کو آمادہ کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ اس دوران بھارت نے جو بریفنگ عالمی برادری کو یا دہلی میں مقیم سفیروں کو دی، اس میںاس موقف کا اعادہ کیا گیا کہ ’’وہ مسئلہ کشمیر کو گراس روٹ ڈیموکریسی اور ترقی کے ماڈل کے ذریعے حل کرنا چاہتا ہے اور اس میں پاکستان ایک رکاوٹ ہے‘‘۔ وہ ان ممالک کو یہ باور کروانے میں کامیاب نظر آتا ہے کہ کشمیر کو اگر کنٹرول نہ کیا گیا تو وہاں عالمی دہشت گرد تنظیمیں اپنا اثر بڑھا کر اس کو شام، یمن اور افغانستان کی راہ پر ڈال دیں گی۔
ہوسکتا ہے کہ فائر بندی کے اس فیصلہ سے لائن آف کنٹرول کے آس پاس زندگی کی رونقیں معمول کی طرف لوٹ آئیں ۔ مگر خاص طور پر۲۰۰۸ء، ۲۰۱۰ء اور پھر ۲۰۱۶ء میں کشمیر کی سڑکیں یہ پیغام دے چکی ہیں کہ معمول کی زندگی یا سرحدوں پر خاموشی امن کا نام نہیں ہے۔ عوام اب زیا دہ دیر تک اس کیفیت کے ساتھ جینا نہیں چاہتے ہیں۔ ۲۰۰۳ء اور ۲۰۲۱ء کے سیز فائر میں ایک بنیادی فرق ہے۔ نومبر ۲۰۰۳ء میں جب دونوں ممالک سیز فائر پر آمادہ ہوگئے، تو سیاسی قیادت کے بیانات سے اتنا تو ادراک ہو رہا تھا کہ یہ ایک مثبت قدم کا آغاز ہے، جو مسئلے کو حل کرنے پر منتج ہوگا۔ دونوں ممالک نے اس کے بعد گفت و شنید کا سلسلہ بھی شروع کیا، اور اس کے نتیجے میں بھارتی وزیراعظم واجپائی، سارک کے سربراہ اجلاس میں اسلام آباد میں شریک ہوئے تھے۔ ان کا یہ دورہ صدر جنرل پرویز مشرف کے نو نکاتی فارمولا کی بنیاد بن گیااور اس کے نتیجے میں لائن آف کنٹرول کے آر پار بس سروس اور تجارت کے لیے راہداری کھل گئی۔ مگر حالیہ فائر بندی کے متعلق کشمیر میں خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ’’یہ کہیں بجائے خود ہی اختتا م تو نہیں ہے‘‘۔
ہوسکتا ہے کہ ۲۰۰۳ءکی ہی طرز پر یہ قدم بھی اسلام آباد میں اس سال سارک سربراہ کانفرنس منعقد کروانے میں معاون ثابت ہو۔ مگر واجپائی یا من موہن سنگھ کی طرح نریندرا مودی کا کشمیر پر کسی پیش رفت کرنے کی یقین دہانی بھی کرانا فی الحال ناممکن نظرآرہا ہے۔ اگر وہ ایسا کرتے بھی ہیں، تو کیا وہ اپنی پارٹی اور ہندو قوم پرستوں کی مربی تنظیم راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کو اس پر آمادہ کرواسکیں گے؟۲۰۱۴ء کہ جب سے مودی نے اقتدار سنبھالا ہے، انھوں نے پارٹی کے دیگر رہنماؤں و وزیروں کے لیے کسی بھی عہدے پر براجمان رہنے کے لیے ۷۰سال کی عمر کا پیمانہ بنایا اور چند ایک کو چھوڑ کر سختی کے ساتھ عمل بھی کروایا۔ اب ان کی اپنی عمر ۷۰سال سے تجاوز کررہی ہے۔ کیا آر ایس ایس اب ان کو برسر اقتدار رہنے دے سکتی ہے، جب کہ انھوں نے ایل کے ایڈوانی، مرلی منوہر جوشی ، سمترا مہاجن سمیت متعدد لیڈروں کو ان کی عمر کی وجہ سے ریٹائر کروایا ہے؟ کیا ان کا جانشین ان کے ذریعے کسی پیش رفت کے وعدے کا ایفا کر سکے گا؟
نئی دہلی میں اب یہ خبریں بھی گشت کر رہی ہیں کہ حالیہ ضلعی ترقیاتی کونسل کے انتخابات میں ناکامی کے بعد حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈران اب ریاست کی ایک اور تقسیم کے خواہاں ہیں۔ اب جموں ڈویژن کو بھی الگ کرنے کی سازشیں ہو رہی ہیں۔ ان کا خیا ل ہے کہ جموں ڈویژن کے مسلم اکثریتی پیر پنچال اور وادی چناب میں بی جے پی کی شکست کی وجہ ان علاقوں کا وادیٔ کشمیر کے ساتھ رابطہ ہے۔ کرگل کو بھی اسی وجہ سے وادیٔ کشمیر سے الگ کرکے بودھ اکثریتی علاقہ لہیہ کے ساتھ نتھی کیا گیا۔ بی جے پی کے لیڈروں کا پہلے خیال تھا کہ حدبندی کمیشن کے ذریعے جموں کے ہندو علاقوں کی اسمبلی سیٹوں میں اضافہ کرکے ا ن کو وادیٔ کشمیر کے برابر کیا جائے۔ مگر جب اس کمیشن کی سربراہ جسٹس رنجنا ڈیسائی نے بتایا کہ ’’وادیٔ کشمیر کی آبادی جموں سے ۱۰لاکھ زیادہ ہے‘‘، تو یہ شوشہ چھوڑا گیا کہ ’’حد بندی آبادی کے حساب سے نہیں بلکہ رقبے کی بنیاد پر ہونی چاہیے‘‘۔ اسی وجہ سے فی الحال حد بندی کمیشن کی میعاد ایک سال اور بڑھادی گئی ہے۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق وادیٔ کشمیر کی آبادی ۶۸لاکھ ۸۸ہزار ۴ سو ۷۵ ہے، جب کہ جموں میں۵۳ لاکھ ۷۸ ہزار ۵سو۳۸ نفوس رہتے ہیں۔ جموں کا رقبہ ۲۶ہزار ۲سو ۹۳ مربع کلومیٹر ہے، جب کہ وادیٔ کشمیر کا رقبہ ۱۵ہزار ۹ سو ۴۸ مربع کلومیٹر ہے۔
بھارت اور پاکستان کے درمیان جب بھی تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوتی ہے، اس کا خمیازہ ریاست جموں وکشمیر کے عوام بالخصوص سرحدی آبادیوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔کرگل سے حاجی پیر درہ تک کنٹرول لائن کے علاقے تو سرینگر میں مقیم صحافیوں اور سول سوسائٹی کی دسترس سے بھی دُور رہتے ہیں۔ اس لیے ان علاقوں میں عوام پر کیا بیتتی ہے، بہت کم ہی باہر کی دنیا کے علم میں آتا ہے۔ کیا کشمیر میں بھارت اور پاکستان کی سرحدوں میں بٹے عوام یک جا نہیں ہوسکتے ؟کیا یہ خونی لکیر مٹ نہیں سکتی؟ کیا یہ فوجیوںکے جمائو اور فائرنگ کے تبادلوں کے بدلے میں امن اور استحکام کی گزرگاہ نہیں بن سکتی ؟ کیا بھارت اور پاکستان بنیادی مسائل پر توجہ مرکوز کرکے ان کوعوام کی خواہشات کی بنا پر حل کرکے کیوں امن کی راہیں تلاش نہیں کرسکتے؟ امید ہے کہ یہ فائر بندی مسئلہ کشمیر کو سردخانے میں ڈالنے کے بجائے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اس مسئلے کو حل کروانے کی طرف ایک قدم ہوگا۔
جب نوّے کے عشرے میں مَیں نے صحافت کی وادی میں قدم رکھا تو دہلی سے سری نگر واپسی کے دوران جموں شہر میں اکثر رُک جاتا تھا، جس کی ایک بڑی وجہ کشمیر ٹائمز کے ایڈیٹر وید بھسین، دانش ور بلراج پوری، کرشن دیو سیٹھی اور اوم صراف سے ملاقات تھی۔ ان مشاہیر کے ساتھ چند منٹ کی ملاقات، تاریخ کے ایسے دریچے کھول دیتی، جو سیکڑوں کتابیں پڑھنے پر بھی نہیں کھل سکتے تھے۔ جی چاہتا یہ ملاقات جلد ختم نہ ہو۔ اس قافلے کے آخری فرد کرشن دیو سیٹھی اس سال فروری میں ۹۳سال کی عمر میں جموں میں انتقال کرگئے۔ وہ پہلی جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی کے واحد بقیدِ حیات رکن تھے۔ وید بھسین اور سیٹھی مصلحتوں کو خاطر میں نہیں لاتے تھے،اسی لیے وہ اکثر حکومت کے عتاب کا شکار رہتے تھے۔ دونوں بھارت نواز ہونے کے باوجود کشمیر میں استصواب رائے کے حامی تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’اگر استصواب ہوتا ہے تو ہم بھارت کے حق میں ووٹ ڈالیں گے، مگر صرف اس بنیاد پر کہ غالب آبادی بھارت کو تسلیم نہیں کرے گی، ان کے حق رائے دہی کو دبایا نہیں جاسکتا‘‘۔
سیٹھی صاحب ۱۹۲۸ء میں آزاد کشمیر کے شہر میر پور میں پیدا ہوئے۔ ۱۵سال کی عمر میں انھوں نے ڈوگرہ حکومت کے جاگیر دارانہ نظام کے خلاف علَم بغاوت بلند کیا۔ وہ اپنی تربیت کے حوالے سے سردار بدھ سنگھ، راجا محمد اکبر خان، مولانا عبداللہ ، حاجی عبدالرحمان اور حاجی وہاب الدین جیسے مقامی لیڈروں کے احسان مند تھے۔ وہ زمانہ جب جموں میں اور خاص طور پر آزاد کشمیر میں شعوری طور پر یہ کوشش کی جا رہی تھی کہ ریاست جموں و کشمیر کے نجات دہندہ کے طور پر ڈوگرہ حکمران مہاراجا گلاب سنگھ اوران کے جانشین راجوںکو تاریخ کا ہیرو بناکر پیش کیا جائے، تو کرشن سیٹھی اس پر خاصے آزردہ تھے۔ انھوں نے اس روش کے خلاف آوازاٹھائی ۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’ڈاکٹرکرن سنگھ اور ان کے کاسہ لیس متواتر یہ کوشش کرتے آئے ہیں، تاکہ ان کے آبائو اجداد کو ہیرو اور خود انھیں، ان کا وارث قراردے کر اس خطے میں جاگیر دارانہ نظریات کااحیا کیا جائے‘‘۔ سیٹھی کا کہنا تھا کہ ’’جب گلاب سنگھ نے جموں کے عوام سے بے وفائی کرکے جبر وتشدد کے ذریعے جموں و کشمیر کی ریاست میں اقتدار حاصل کیا اور ان کے لواحقین نے جانشین بن کر جاگیر دارانہ لوٹ کھسوٹ کی، تو بھلا ایسے بدنما اور سفاک پس منظر کے حامل راجے کو جموںکا ہیروکیسے قرار دیا جا سکتا ہے؟ ‘‘
تواریخ بیان کرتے ہوئے وہ کہتے تھے کہ ’’جب راجا رنجیت سنگھ نے پیش قدمی کرکے جموں کو فتح کرنے کی کوشش کی تو یہاں اس کی زبر دست مزاحمت ہوئی اور لاہور دربار کے خلاف زبردست گوریلا جنگ لڑی گئی۔ گلاب سنگھ نے رنجیت سنگھ کی فوج میں ملازمت اختیار کرکے مزاحمتی لیڈر میاں ڈیڈو اوردوسرے کئی سرفروشوں کو قتل کیا اور اس غداری کے عوض ڈوگرہ گلاب سنگھ کو جموں کی باج گزار ریاست عطا ہوئی۔ جس نے سکھ دربار کو خوش کرنے کے لیے جسروٹہ، بلاور، بسوہلی،بھمبر، ٹکری، کرمچی،کشتواڑ، بھدرواہ، سراج، کوٹلی، راجوری، پونچھ ، میر پور اور دوسرے علاقوں کے راجگان کے سرقلم کیے یا انھیں ملک بدرکیا۔سبز علی خان اور مالی خان کی کھالوں میں بھوسہ بھرکر درختوں کے ساتھ لٹکایا گیا۔ تاہم، راجا رنجیت سنگھ کی وفات کے بعد جب سکھ سلطنت کا زوال شروع ہوا اور انگریزوں نے پنجاب پر یلغار کی تو جموں کا یہ ’ہیرو‘ انگریزوں سے مل گیا۔ اس ’خدمت خاص‘ کے عوض اور ۷۵ لاکھ روپے نانک شاہی رقم، جو انگریزوںنے تاوانِ جنگ متعین کیا تھا، اس کی ادائیگی کرکے’ بیع نامہ امرتسر‘ کے ذریعے کشمیر کا صوبہ راجا گلاب سنگھ نے حاصل کیا۔ اس کے بعد جموں کے اس ڈوگرہ خانوادے نے جموں وکشمیر کے عوام کے ساتھ جو سلوک کیا، وہ تاریخ کے گھنائونے باب کی صورت میں رقم ہے‘‘۔ کرشن سیٹھی کا کہنا تھا کہ ’’جموں کے اصل ہیرو تو میاںڈیڈو، کیسری سنگھ، پونچھ کے راجا علی خان، سبز علی خان، شمس خان، بھمبرکے راجا سلطان خان وغیرہ اَن گنت لوگ ہیں، جنھوں نے اپنی آزادی کی حفاظت کی خاطر جانیں دیں‘‘۔
کرشن سیٹھی، ۱۹۴۷ء کے خونیں واقعات کے چشم دید گواہ تھے ۔ وہ اس وقت میر پور جیل میں نظر بند تھے، کہ ایک ہجوم نے جیل پر حملہ کرکے قیدیوں کو آزاد کروایا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’جموں میں مسلم کش فسادات کروانے میں راجا ہری سنگھ اور اس کے وزیر اعظم مہر چند مہاجن نے بھر پور کردار ادا کیا‘‘۔ جموں کی سڑکوں پر قتل و غارت کو روکنے کے لیے وہ ، وید بھسین، بلراج پوری اور اوم صراف کے ہمراہ راجا کے محل پہنچے۔ جہاں ان کو مہرچند مہاجن کے روبرو لے جایا گیا۔ پڑھے لکھے نوجوانو ں کودیکھ کر مہاجن انھیں سمجھانے لگا کہ ’’آپ کو اسمبلی اور دیگر اداروں میں مسلمانوں کے برابر نشستوںکا مطالبہ کرنا چاہیے کیونکہ اب جمہوری دورکا آغاز ہو چکا ہے اور عددی قوت کے بل پر ہی اقتدار پر قبضہ برقرار رکھا جاسکتا ہے‘‘۔ اوم صراف نے جرأت کا مظاہر ہ کرتے ہوئے پوچھا کہ ’’یہ آخر کس طرح ممکن ہے، جب کہ جموں و کشمیر تو ایک مسلم اکثریتی ریاست ہے؟‘‘ ویدبھسین اور کرشن دیو سیٹھی کے بقول ’’اس پر مہاجن نے محل کی دیوار سے متصل کھائی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ’بالکل اس طرح‘۔ اورجب ہم نے بغور دیکھا تو وہاں متعدد مسلم گوجروں کی بے گور وکفن لاشیں نظر آئیں، جو شاید صبح سویرے محل میں دودھ فراہم کرنے آئے تھے۔ دراصل مہرچند مہاجن ریاست کی آبادی کا فرقہ وارانہ تناسب قتل و غارت سے تبدیل کرنے پر مصرتھا‘‘۔
ان فسادات کے دوران ہی شیخ محمد عبداللہ کو ’ایمرجنسی ایڈمنسٹریشن‘ کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا اور اسی حیثیت میں وہ جموں وارد ہوئے۔ سیٹھی صاحب کا کہنا تھا کہ ’’مَیں موتی لال بیگھڑا اور مولوی محمدسعید مسعودی کے ہمراہ شیخ صاحب کے ساتھ مسلم مہاجر کیمپ پہنچا۔ بجائے اس کے کہ شیخ عبداللہ ان لٹے پٹے لوگوں کی ڈھارس بندھاتے، اور ان کی آباد کاری کے احکامات جاری کرتے، انھوں نے انھی بے خانماں مسلمانوں کو کوسنا شروع کیا‘‘۔ بقول سیٹھی: ’’شیخ کے یہ الفاظ کہ جموں کے مسلمانوں نے مجھے کبھی لیڈر تسلیم ہی نہیں کیا‘‘۔ ہمارے اور سبھی حاضرین کے لیے صدمے کا باعث بنا کہ اس وقت یہ شکوہ کرنے کا کوئی جواز ہی نہیں بنتا تھا۔ ’’ان کی آباد کاری کے بجائے مہاجن کی طرح شیخ عبداللہ بھی ان تباہ حال مسلمانوں کو پاکستان بھیجنے کی جلدی میں تھے‘‘۔
سیٹھی صاحب اس کے بعد چودھری غلام عباس اور چودھری اللہ رکھا ساغر سے ملاقات کرنے کے لیے جیل چلے گئے اور ان کو ایک حد تک راضی کروایا کہ وہ جموں چھوڑ کر نہ جائیں، ورنہ یہ خطہ مسلمانوں سے پوری طرح صاف ہوجائے گا۔ ساغر نے ان کو کہا کہ شیخ کو اس ملاقات کے بارے میں نہیں بتانا ’’مگر میں نے بے وقوفی میں شیخ صاحب کو ملاقات کے بارے میں بتایا اور ان سے گزارش کی کہ جموں کی مسلم لیڈرشپ کو جانے نہ دیں۔ مگر اگلے ہی دن انھوں نے حکم جاری کرکے مجھے راجوری، پونچھ کے لیے آباد کاری افسر مقرر کیا اور پیچھے چودھری عباس اور اللہ رکھا ساغر کو میر پور پہنچا دیا گیا‘‘۔
راجوری،پونچھ میں بطور آبادکاری افسر کام کرنے کے چند ہفتوں کے بعد ہی بھارتی فوج نے سیٹھی کو اس الزام کے تحت گرفتار کرلیا کہ ’’ہمارے ہاتھ چینی حکومت کا ایک خط لگا ہے، جو تمھارے نام ہے اور جس میں اس علاقے میں مسلمانو ں کی مدد کرنے پر تمھاری تحسین کی گئی ہے‘‘۔ میجر جنرل مسری چند نے اس پر سیٹھی کو راجوری قلعے میں قید کر لیا۔ ان کے ایک ساتھی ترال کے عنایت اللہ نے پیدل سرینگر پہنچ کر شیخ عبداللہ کو خبر دی، جس نے وزیر اعظم جواہر لال نہرو سے مداخلت کی اپیل کی۔ نومبر ۱۹۴۷ء کی ایک رات، سیٹھی صاحب کو ایک سپاہی نے بتایا کہ آپ کو گولی مارنے کے احکامات موصول ہوئے ہیں۔ اسی دوران دہلی سے آنے والے سرکاری اہلکار ان کو اپنے ساتھ جموں لے گئے اور اس پورے قضیے کی تفتیش کے احکامات کا اجرا ہوا۔ معلوم ہوا کہ خط جعلی تھا جسے بھارتی فوج اور خفیہ پولیس نے تیار کیا تھا۔
سیٹھی صاحب ایک ادیب، صحافی اور کمیونسٹ نظریات کے حامل دانش ور تھے۔ وہ ۱۹۶۲ء میں بھارت چین جنگ کے دوران ڈھائی سال تک قید میں رہے۔ وہ بھارتی پارلیمانی جمہوری نظام کے بارے میں کہا کرتے تھے کہ ’’اس جمہوری نظام کے ستون، یعنی سیاسی پارٹیاں سرمایہ دارانہ نظام کی غلام ہیں، کیونکہ انتخابات لڑنے کے لیے کثیر سرمایہ کی ضرورت پیش آتی ہے‘‘۔ وہ بھی اُردو زبان کے دیرینہ محبوں اور بہی خواہوں میں شمار ہوتے تھے اور ریاست کی ایک چلتی پھرتی تاریخ تھے۔ منظور انجم نے درست لکھا: ’’جموں وکشمیر کی تاریخ اور سیاست کا یہ سرگرم کردا ر اپنے پیچھے دو بچوں کے علاوہ کچھ بھی نہیں چھوڑ کر گیا ۔ نہ کوئی بنک بیلنس ، نہ کوئی مکان ، نہ گاڑی اور سامان۔اس کی موت پر آنسو بہانے والوں میں ایسے بے شمار لوگ تھے ،جوا س کے دھرم ، قبیلے اور لسانی و نسلی گروپ سے تعلق نہیں رکھتے تھے‘‘۔
سیٹھی صاحب نے ایک بار شیخ عبداللہ سے کہا تھا کہ ’’میں تو لادین ہوں، مگر آپ اسلام کے پیرو کار ہیں اور آپ کا مذہب بتاتا ہے کہ مسلمان ایک سوراخ سے بار بار نہیں ڈسا جاتا۔ آخر آپ بار بار دہلی کے حکمرانوں پر اعتبار کیسے کرتے ہیں؟‘‘کرشن دیو سیٹھی صاحب، الوداع، شہر جموں اب درد مند دانش وروں سے خالی ہوگیا ہے۔
نریندر مودی کی بھارتی حکومت نے اپنے طور پر مسئلہ کشمیر ختم کرنے کے لیے آخری وار کردیا۔ ان کے وزیرداخلہ امیت شا نے پارلیمنٹ میں بھارتی آئین کی دفعہ ۳۷۰اور دفعہ ۳۵- اے کو ختم کردیا۔اس طرح ریاست کو تحلیل کرنے اور اس کو تقسیم کرکے مرکز کے زیر انتظام دوخطوں میں تبدیل کرنے کا قانون بھی پاس کیا۔ اب لداخ ، جو مسلم اکثریتی ضلع کرگل اور بودھ اکثریتی لیہ اضلاع پر مشتمل ہے، وہاں اسمبلی نہیں ہوگی۔ ۹۰کے عشرے میں اس خطے کی۶۵ء۳۹ فی صد بود ھ آبادی نے لداخ کو مرکز کے زیر انتظا م علاقہ بنانے کا مطالبہ کیا تھا، مگر اس خطے میں آباد۴۰ء۴۶ فی صد مسلم آبادی نے اس کی شدید مخالفت کی۔ حیرت کا مقام ہے کہ جب دانش وَر حضرات اور میڈیا جس میں پاکستانی میڈیا بھی شامل ہے، بے خبری میں لداخ کو بودھ اکثریتی علاقہ تصور کرتے ہیں۔
جموں و کشمیر بھی مرکز کے زیرانتظام ہوگا، جس میں اسمبلی تو ہوگی ،مگر وہ دہلی و پانڈیچری اسمبلی کی طرز پر ایک میونسپل کارپوریشن کی طرح کام کرے گی۔ تمام تر اختیارات مرکز کے نمایندے گورنر کے پاس ہوں گے۔ کشمیر ایڈمنسٹریٹو سروس کو معطل کر دیا گیا ہے۔ اور بیوروکریسی کا تعین مرکز حکومت کرے گا۔ معروف دانش ور مزمل جمیل کا کہنا ہے کہ: ’’کشمیر میں تاریخ کا پہیہ واپس ۱۸۴۶ء میں پہنچ گیا ہے، جب ’بیع نامہ امرتسر‘ کے بعد ڈوگرہ حکمران گلاب سنگھ نے سرینگر کی باگ ڈور سنبھالی‘‘۔
ریاست جموں و کشمیر کو تحلیل کرنے اور اس کو بھارتی یونین میں ضم کرنے کے حکم نامے کی سیاہی ابھی خشک بھی نہیں ہوئی تھی کہ حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی ( بی جے پی) کے لیڈروں بشمو ل ہریانہ صوبہ کے وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹرنے اعلان کیا: ’’بھارت کے کنوارے نوجوان اب کشمیر کی گوری لڑکیوں کے ساتھ شادیاں کرسکتے ہیں‘‘۔ اس طرح کے طنز آمیز آوارگی ، جنسی اور نسلی تعصب سے لتھڑے ہوئے جملے بھارت کے گلی کوچوں میں سنائی دے رہے ہیں۔ کئی ساہوکار اور بنیے تو فون پر گلمرگ اور سونہ مرگ کی وادیوںمیں زمینوں کے بھاؤ پوچھ رہے ہیں۔
۱۹۹۰ء کے عشرے کے شروع میں تعلیم اور روزگار کے لیے میں جب میں دہلی وارد ہوا، تو ایک روز معلوم ہوا،کہ کانسٹی ٹیوشن کلب میں ہندو قوم پرستوں کی سرپرست تنظیم راشٹریہ سیویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کی طلبہ تنظیم ’اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد‘ (ABVP) کی طرف سے کشمیر پر مذاکرہ ہو رہا ہے۔ بطور سامع میں بھی وہاں چلاگیا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک اعتدال پسند لیڈر ارون جیٹلی خطاب کر رہے تھے۔ وہ ان دنوں ابھی بڑے لیڈروں کی صف میں نہیں پہنچے تھے اور تب تک سپریم کورٹ کے زیرک وکیلوں میں ہی شمار کیے جاتے تھے۔ چونکہ وہ مقتدر ڈوگرہ کانگریسی لیڈر گردھاری لال ڈوگرہ کے داماد ہیں، اس لیے جموں و کشمیر کے ساتھ ان کا تعلق ہے۔ اپنے خطاب میں جیٹلی صاحب کا شکوہ تھا کہ: ’’پچھلے ۵۰برسوں میں مرکزی حکومتوں نے کشمیر میں غیر ریاستی باشندوں کو بسانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ اگر ہندستان کے دیگر علاقوں سے لوگوں کو کشمیر میں بسنے کی ترغیب دی گئی ہوتی، اور اس کی راہ میں قانونی اور آئینی پیچیدگیوں کو دُور کیا جاتا، تو کشمیر کا مسئلہ کبھی بھی سر نہیں اٹھاتا۔ اسی طرح کشمیریت اور کشمیری تشخص کو بڑھاوادینے سے کشمیری نفسیاتی طور پر اپنے آپ کو برتر اور الگ سمجھتے ہیں اور ہندستان میں ضم نہیں ہو پاتے ہیں‘‘۔
اسی طرح مجھے یاد ہے کہ کانگریسی رہنما من موہن سنگھ کی وزارتِ عظمیٰ کے دور میں ایک بار پارلیمنٹ میں کشمیر پر بحث ہو رہی تھی۔ تب بی جے پی نے اتر پردیش کے موجودہ وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کو بطور مقرر میدا ن میں اتارا تھا۔ تقریر ختم کرنے کے بعد وہ پارلیمنٹ کمپلیکس کے سینٹرل ہال میں آکر سوپ نوش کررہے تھے، کہ میں نے جاکر ان سے کہا کہ: ’’آپ نے بڑی دھواں دھار تقریر کرکے حکومت کے چھکے تو چھڑائے، مگر کوئی حل پیش نہیں کیا‘‘۔
یوگی جی نے مسکرا کر مجھے کہا کہ: ’’اگر میں حل پیش کرتا تو ایوان میں آگ لگ جاتی‘‘۔
میں نے پوچھا کہ ’’ایسا کون سے حل ہے کہ جس سے دیگر اراکین پارلیمان بھڑک جاتے؟‘‘
آدتیہ ناتھ یوگی نے فلسفیانہ انداز میں اسلام اور مسلمانوں کی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے نتیجہ اخذ کیا کہ :’’مسلمان جہاں بھی اکثریت میں ہوتے ہیں یا ان کی آبادی کچھ زیادہ ہوتی ہے، تو جہادی، جھگڑالو اور امن عامہ کے لیے خطرہ ہوتے ہیں‘‘۔ ایک طویل تقریر کے بعد یوگی جی نے فیصلہ صاد ر کر دیا کہ: ’’مسلمانو ں کی آبادی کو کسی بھی معاشرے میں ۵ فی صد سے زیادہ نہیں بڑھنے دینا چاہیے۔ اس لیے ہندستان اور دیگر تمام ممالک کو مسلمانوں کی آبادی کو کنٹرول کرنے کے طریقے ڈھونڈنے چاہیے۔ ا ن کو مختلف علاقوں میں بکھرا کر اور ان کی افزایش نسل پر پابندی لگاکر ہی دینا میں امن و امان قائم ہوسکتا ہے۔ بس یہی مسئلہ کشمیر کا حل ہے۔وہاں کی آبادی کو پورے ملک میں بکھیر کر وہاں بھاری تعداد میں ہندو آبادی کو بسایا جائے‘‘۔
آج ان دو واقعات کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ معلوم ہو کہ کس ذہنیت کے افراد بھارت کے تخت پر برا جمان ہیں۔بھارت میں اس وقت کی حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی جب سے وجود میں آئی ہے، وہ لگا تار تین نکاتی ایجنڈے پر انتخابات لڑتی آئی ہے:
بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر , یونیفارم سول کوڈ کا نفاذ اور کشمیر کی آئینی خصوصی حیثیت ختم کرنا۔ اگرچہ اس سے قبل بی جے پی دوبار اقتدار میں رہی ہے، مگر اس نے عددی قوت کی کمی کے باعث ان تین ایشوز کو عملی جامہ پہنانے سے گریز کیا۔ اب ۲۰۱۹ء میں اکثریت کے ساتھ اقتدار میں واپس آئی تو بی جے پی کے لیڈروں نے کہا کہ: ’’ہمارے کور ایجنڈے کو نافذ کرنے کا وقت آن پہنچا ہے‘‘۔ ۲۰۱۴ء میں جب کشمیر میں مقامی پیپلز ڈیموکریٹک فرنٹ اور بی جے پی کے اتحاد سے مفتی سعید کی حکومت بنی، تو کہا گیا تھا کہ: ’’بی جے پی آئین کی دفعہ ۳۷۰ کے تحت کشمیر کو دیے گئے خصوصی اختیارات کو موضوعِ بحث نہیں بنائے گی‘‘۔
اور پھر دفعہ ۳۷۰ کے ساتھ دفعہ ۳۵- اے کو نشانہ بنا دیا گیا۔ دفعہ ۳۵-اے کے تحت غیر ریاستی باشندوں کے نوکری حاصل کرنے، ووٹ دینے اور جایداد خریدنے پر پابندی عائد تھی۔ اس دفعہ کے ختم ہونے کے نتائج دفعہ ۳۷۰ کے خاتمے سے بھی زیادہ خطرناک ہوں گے۔
مسلم دشمنی اور متعصب ذہنیت کے حامل افراد کوآئین کی اسی طرح کی اور شقیں نظر نہیں آتیں، جو بھارت کے دیگر علاقوں، یعنی ناگالینڈ، میزورام، سکم، اروناچل پردیش، آسام، منی پور، آندھرا پردیش اورگوا کو خاص اور منفرد حیثیت عطا کرتی ہیں۔ ان کے تحت وہاں بھی دیگر شہریوں کو غیر منقولہ جایدادیں خریدنے پر پابندی عائد ہے یا اس کے لیے خصوصی اجازت کی ضرورت ہوتی ہے۔
یاد رہے مارچ ۲۰۰۸ء میں جب امریکی صدر بل کلنٹن نے دہلی کی سرزمین پر قدم رکھا تو جنوبی کشمیر کے گائوں چھٹی سنگھ پورہ میں نامعلوم حملہ آوروں کے ہاتھوں ۳۶ سکھوں کا قتل عام ہوا تھا۔ فاروق خان ان دنوں پولیس کے اسپیشل آپریشنز گروپ میں ایس ایس پی تھے اور عمومی تاثر یہ تھا کہ واردات کے ذمہ دار یہی صاحب ہیں۔ کلنٹن کی بھارت موجودگی کے دوران اعلان کر دیا کہ ’’اس قتل عام کے ذمے دار لشکر طیبہ کے چاروں حملہ آور مار دیے گئے ہیں‘‘۔ فاروق عبداللہ حکومت نے فاروق خان کو معطل کرکے جسٹس پانڈیان پر مشتمل عدالتی کمیشن کو سکھوں کے قتل کی تحقیقات کا حکم دیا۔مگر وہ اس بارے میں تو پوری طرح کام نہ کرسکے۔ تاہم جسٹس پانڈیان نے فاروق خان کو اُن چار افراد کے قتل کا حصہ دار بتایا، جنھیں ’دہشت گرد‘ قرار دے کر مار دیا گیا تھا۔مگر پانڈان کی ہدایت کے باوجود فاروق خان کو نہ تو الزام لگا کر قتل کیے جانے والے مقدمے میں ماخوذ کیا گیا، اور نہ سکھوں کے قتل عام کے ضمن میں تفتیش کی گئی۔۲۰۰۳ء میں مفتی سعید حکومت نے بھی ان کے خلاف چارہ جوئی کی کوشش کی، لیکن جب ۲۰۰۸ء میں غلام نبی آزاد نے وزارتِ اعلیٰ سنبھالی، تو نئی دہلی کے حکم پر فاروق خان کو بحال کر دیا گیا۔ فاروق خان کے خلاف سکھوں میں آج بھی شدید ردعمل پایا جاتا ہے۔
۱۹۴۷ء میں بھارت کی آزادی سے بہت پہلے کشمیرکے ہندوحکمران ہری سنگھ نے ایک حکم نامے کے تحت: ’’شہریت اور غیرمنقولہ جایداد کی خرید کے علاوہ ریاستی حکومت میں ’غیرملکیوں‘ پر پابندی عائد کر دی تھی‘‘۔ ۲۰؍اپریل۱۹۲۷ء کے ایک نوٹیفیکیشن میں راجا ہری سنگھ نے ’ریاستی عوام‘ کی وضاحت کی تھی اور اسی قانون کو بعدازاں کشمیری اوربھارتی آئین میں شامل کر دیا گیا۔
کشمیری ہندو جنھیں ’پنڈت‘کہتے ہیں، یہ قانون ان کے احتجاج کے ردعمل میں منظور کیا گیا تھا۔ انھوں نے اس وقت ’کشمیر،کشمیریوں کا ہے‘کا نعرہ بلند کیا تھا، کیونکہ پنجابی مسلمان انتظامیہ میں رسوخ حاصل اور زمینیں خرید رہے تھے۔لیکن،ایک صدی گزرنے کے بعد کشمیری مسلمانوں کو وہی خدشات لاحق ہیں، جو۱۹۲۰ءکے عشرے میں ہندئووں کولاحق تھے۔۱۹۲۰ء ہی کے عشرے میں،ہندوؤںنے راجا ہری سنگھ کو اس قانون میں ایک اور دفعہ شامل کرنے پر زور دیا تھا کہ: ’’اگر ایک کشمیری خاتون،کسی غیرکشمیری سے شادی کرے تو وہ وراثت کے حق سے محروم ہو جائے گی‘‘۔
مؤرخ پنڈت پریم ناتھ بزاز نے اپنی کتاب Kashmir Saga (داستانِ کشمیر ) میں لکھا ہے:’’کشمیر کے اندر’غیرملکیوں کا داخلہ بند ہے‘ کا شوروغوغا بذات خود کشمیری پنڈتوں نے بلند کیا تھا۔مسلمانوں کی راے کی کوئی اہمیت نہیں تھی کیونکہ ہندوحکمران نے انھیںریاستی ملازمتوں سے بے دخل کر دیا تھا اور وہ اس قدرغریب تھے کہ اپنے ہی وطن میں زمین کا ٹکڑا بھی نہیںخرید سکتے تھے۔مسلمان اکثریت غربت میں ہولناک زندگی گزار رہی تھی۔ چیتھڑوں میں ملبوس،جن سے وہ بمشکل ہی اپنا بدن ڈھانپ سکتے تھے اور ننگے پائوں۔ ایک مسلم کسان کا حلیہ ،ریاستی خزانے کے بھرنے والے ایک فرد کے بجاے محض ایک فاقہ زدہ بھکاری ہی کا نظر آرہا تھا،جب کہ ہری سنگھ ہندونواز پالیسی کا علَم بردار تھا۔ جموں کے عوام، خاص طور پر راجپوت ہندووں نے زیادہ تر ملازمتیں حاصل کیں،جب کہ پنڈتوں کو پنجابیوں کی جگہ دفاتر میں کلرکوں کی حیثیت سے بھرتی کیاگیا۔ایک حکم نامے کے ذریعے پنجابیوں کی ہرسطح پر بھرتی روک دی گئی‘‘۔
پنڈت پریم ناتھ بزاز کا کہنا ہے کہ: ’’اس پورے قضیے میں کشمیر ی مسلمانوں کی کسی کو کوئی فکر نہیں تھی، اور نہ کوئی ان سے راے لی جاتی تھی، ملازمت کے دروازے کشمیری مسلمان پر بند تھے۔ انتہائی خستہ حال اور غریب کشمیری مسلمان زیادہ تر کاریگر یا زرعی مزدور تھے۔ سوسائٹی میں ہندو ہونا عزت و توقیر کی علامت تھی۔ مسلمان کوصرف اپنے مذہب کی بنیاد پر حقارت کی نظروں سے دیکھا جاتا تھا‘‘۔ جب ۳۵-اے کا یہ قانون بنایا گیا تھا، تو اس وقت کسی کو مسلم خواتین کے حقوق یاد نہیں تھے۔ ایک صدی بعد انھی کشمیری پنڈتوں نے اس قانون کو ہٹانے کا مطالبہ اس لیے کیا ہے کہ اب کشمیری مسلمان تعلیم یافتہ اور ترقی کی دوڑ میں ان کے ہم پلہ ہوگئے ہیں۔ یہ قانون جو ایک صدی قبل تک تو ٹھیک نظر آتا تھا ،مگر اب پنڈتوںکی آنکھوں میں کھٹکنے لگا‘‘۔
’بھارت کے تکثیری کلچر اور تنوع میں اتحاد‘ جیسے نعرے مہاتما گاندھی،پنڈت نہرو، اور ان کے پیروکار، دنیا میںبھارت بیچا کرتے تھے۔ مرحوم شیخ محمد عبداللہ دفعہ ۳۷۰ کو کشمیری خواتین کے جسم پر موجود لباس سے تشبیہ دیتے تھے۔ ان کی نیشنل کانفرنس کا کشمیر میں مقبول انتخابی نعرہ ہوتا تھا :’’ازء ہوند عزت فضء ہوند عزت، ترہت ستت ترہت ستت‘‘ ۔ ازء اور فضء کشمیر میں خواتین کے مقبول نام ہیں۔ اس نعر ے کا مفہوم تھا کہ ’’خواتین کی عزت و آبرو ۳۷۰ میں ہے‘‘۔ شیخ عبداللہ صاحب سے تو میری ملاقات نہیں ہوسکی، تاہم ان کے فرزند اور سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ سے جب بھی مکالمہ ہوا تووہ آزادی پسند جماعتوں پر طنز یہ جملے کستے تھے کہ: ’’مسلم اکثریتی پاکستان میں ہم کشمیریوں کی انفرادیت کبھی کی ضم ہوگئی ہوتی، جب کہ بھارت کا جمہور ی اور آئینی تکثیری معاشرہ ہی ریاست جموں وکشمیر کی وحدت اور ہماری کشمیری انفرادیت کا ضامن ہے‘‘۔ ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کو امیت شا نے پارلیمان کے ایوان بالا، یعنی راجیہ سبھا میں صبح ۱۱بجے کشمیریوں کے تن بدن سے یہ زیرجامہ اُتار کر ان کو سر عام برہنہ کردیا ہے۔ ہزاروں کلومیٹر دُور مجھے لگ رہا تھا کہ جیسے بھرے بازار میں میر ی عزت بھی تار تار کر دی گئی ہو۔
ممتاز قانون دان اور اُمورِ کشمیر پر گہری نظر رکھنے والے دانش ور جناب اے جی نورانی کے بقول: ’’آرٹیکل ۳۷۰ اگرچہ ایک عبوری انتظام تھا، کیوںکہ حکومت ہند کی ۶۰ کے عشرے تک یہ پالیسی تھی کہ جموں و کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ استصواب راے سے کیا جائے گا۔ ۱۹۴۸ء میں جموں و کشمیر پر حکومت کے وائٹ پیپر میں سردار پٹیل کا یہ بیان موجود ہے: الحاق کو تسلیم کرتے ہوئے حکومت ہند نے یہ واضح کر دیا ہے کہ وہ اسے بالکل عارضی مانتی ہے، جب تک کہ اس بارے میں ریاست کے لوگوں سے ان کی راے نہیں معلوم کی جائے گی‘‘۔
اے جی نورانی صاحب کے بقول:’’جن سنگھ کے بانی شیاما پرساد مکھرجی ’جن کا نام آرٹیکل ۳۷۰ کی مخالفت کرتے وقت بی جے پی اُچھالا کرتی ہے‘ انھوں نے اس کی مکمل حمایت کی تھی۔ بی جے پی اس وقت کے وزیر داخلہ سردار پٹیل کا نام بھی اس پروپیگنڈے کے لیے استعمال کرتی ہے کہ انھوں نے اس معاملے پر پنڈت جواہر لعل نہرو کی مخالفت کی تھی‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ پٹیل نے بھی آئین کی اس دفعہ کی مکمل تائید کی تھی۔ اس خلط مبحث کے برعکس کشمیر واحد ریاست تھی، جس نے الحاق کے لیے اپنی شرائط پر حکومت سے مذاکرات کیے تھے۔ وہ ہندستان میں ضم نہیں ہوئی تھی بلکہ اس نے الحاق کیا تھا۔ اس لیے بھارتی حکومت اور ریاست کے مطابق آرٹیکل ۳۷۰ دونوں کے درمیان ایک مقدس معاہدہ ہے۔ جس کی کسی شق میں کوئی بھی فریق یک طرفہ ترمیم نہیں کر سکتا۔ تاہم، ’’این گوپال سوامی نے ۱۶؍اکتوبر ۱۹۴۹ء کو اس سلسلے میں پہلی’خلاف ورزی‘ کرتے ہوئے یک طرفہ طور پر مسودے میں تبدیلی کو پارلیمنٹ کی لابی میں حتمی شکل دی۔ جیسے ہی شیخ عبداللہ اور مرزا افضل بیگ کو اس تبدیلی کا علم ہوا، وہ دونوں ایوان کی طرف دوڑے، لیکن تب تک یہ ترمیمی بل پاس ہو چکا تھا، جو افسوس ناک اعتماد شکنی اور بداعتمادی کا معاملہ تھا۔ اگر اصل مسودہ پاس کیا جاتا تو ۱۹۵۳ء میں شیخ عبداللہ کو اقتدار سے بے دخل کیا جانا ممکن نہ تھا‘‘۔
ترکی کی نیوز ایجنسی سے بات کرتے ہوئے اے جی نورانی کا کہنا ہے کہ: ’’سپریم کورٹ میں اس اقدام کو چیلنج کرنے کا کام شروع ہو چکا ہے۔ لیکن حکومتی فیصلے کی قانونی حیثیت کے متعلق فیصلہ کرنے کے لیے دورانیے اور وقت کے لحاظ سے بھارتی اعلیٰ عدلیہ کی رفتارِ کار کے مشکوک ہونے کا خطرہ موجود ہے۔ مودی حکومت نے بھارتی آئین کی دفعہ ۳۷۰کی تمام دفعات کو منسوخ کرتے ہوئے دنیا کو حیران وششدر کر دیا تھا جو جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت کاضامن ہونے کے علاوہ ہندواکثریت میں اس کی مسلم شناخت کی حفاظت کرنے کا تحفظ بھی کر رہا تھا۔ اس دفعہ کے تحت بھارت کے ساتھ خطے کے پیچیدہ تعلق کی بھی وضاحت کی گئی تھی۔ ان حالات میں اپنی اعتباریت اور شفافیت قائم رکھنے کی خاطر بادی النظر میں بھارتی سپریم کورٹ پر لازم ہے کہ اس فیصلے کو کالعدم قرار دے ‘‘۔
نورانی کے خیال کے مطابق: ’’ان دفعات کی منسوخی نے کشمیری آبادی کی بقا کے لیے خطرات پیدا کر دیے ہیں۔ دفعہ ۳۷۰کو منسوخ کرنے کابھارتی اختیار تو ۱۹۵۶ء میں کشمیر کی آئین سازاسمبلی کی تحلیل کے بعد ختم ہو گیا تھا۔خصوصی حالات میں دفعہ۳۷۰ سے مرادجموں وکشمیر کی شناخت کا اظہار تھا کہ جس میں اس کے بھارت سے الحاق کا دعویٰ کیا گیا تھا۔ اس دفعہ کو منسوخ کرنے کے ذریعے ہندوقوم پرست حکومت کا مقصد یہ نہیں کہ کشمیر کو بھارت کے ساتھ متحدکیا جائے بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ کشمیری عوام کی شناخت ختم کی جائے‘‘۔
نورانی نے کہا: ’’قانونی لحاظ سے بھارتی پارلیمان کو یہ دفعہ منسوخ کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں تھا۔ اس مقصد کی خاطرریاست جموںوکشمیر کی آئین سازاسمبلی کی منظوری ضروری تھی۔ریاستی حکومت کی طرف سے کوئی بھی منظوری ہمیشہ سے منتخب اسمبلی کی حتمی منظوری سے مشروط رہی ہے۔ جب ریاست گورنر یا صدر راج کے تحت ہو،کوئی بھی یہ رضامندی نہیں دے سکتا۔ اس لیے مرکزی حکومت اپنے کٹھ پتلی نامزدفرد کے ذریعے یہ منظوری حاصل نہیں کر سکتی اور زمینی حقائق یہ ہیں کہ اس وقت جموں و کشمیر پر صدر راج نافذ ہے۔ حالانکہ بھارتی آئین نے از خود یہ وضاحت کر دی ہے کہ ریاستی حکومت سے مراد ریاست میں وزرا کی ایک کونسل ہے۔اور اس وقت تو کشمیرکے وزیراعلیٰ کی سربراہی میں وزرا کی کسی بھی قسم کی کوئی کونسل بھی موجودنہیں‘‘۔
نورانی صاحب نے مزید بتایا: ’’کشمیر کی موجودہ صورت ِ حال پر سری لنکا کی سپریم کورٹ کے نومبر ۲۰۱۲ء کے فیصلے کا اطلاق ہوتا ہے، جس میں سری لنکا حکومت کا یہ فیصلہ مسترد کر دیاتھا، جسے صوبائی کونسل کی توثیق حاصل نہیں تھی۔ اُس وقت دو درخواستوں کے ذریعے Divineguma Bill کو سری لنکا سپریم کورٹ کے روبرو چیلنج کیا گیا تھا کہ شمالی سری لنکا میں کسی صوبائی کونسل کی غیرموجودگی میں،گورنر نے شمالی صوبے کی طرف سے قانون کی توثیق کی تھی۔ یہ درخواستیں ’تامل نیشنل الائنس‘ نے کی تھیں۔ یکم نومبر کو سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ گورنر، صوبائی کونسل کی جگہ اس قانون کی توثیق نہیں کر سکتا‘‘۔
اے جی نورانی کہتے ہیں کہ:’’ آئین کی دفعہ ۲۴۹ کے تحت جاری کردہ ’صدارتی حکم نامہ‘ جس کا اطلاق کشمیر پر بھی کیا گیا، اس کا تعلق ریاست کی فہرست سے تھا اور مرکز کے مقرر کردہ گورنر نے اس کی توثیق کی تھی۔ یہ چالاکی لا سکریٹری کی مخالفت اور ریاستی کابینہ کی عدم موجودگی میں انجام دی گئی تھی۔۱۹۵۱ء میں کشمیر اسمبلی کے بدترین دھاندلی زدہ انتخابات کے انعقاد سے کشمیر میں بھارت کے جمہوری دعووں کی قلعی کھل گئی۔ انتخابی دھاندلیوں کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے گئے۔ تمام امیدوار ’بلامقابلہ‘منتخب قرار پائے۔ یہ وہی اسمبلی تھی، جس نے ریاست کا دستور وضع کیا اور الحاق کے دستاویز کی ’توثیق‘ کی تھی۔ یہ اسمبلی ریاست کی مستقبل گری اور اس کی حیثیت طے کرنے کے سلسلے میں دستور ساز اسمبلی کا درجہ رکھتی تھی۔ کشمیر کی اس آئین ساز اسمبلی کی حقیقت اور حیثیت کی قلعی خود اس وقت کے انٹیلی جنس سربراہ بی این ملک نے یہ کہہ کر کھول دی:’’ان امیدواروں کے کاغذات نامزدگی کو مسترد کر دیا گیا، جو حزب مخالف کا کردار ادا کرنے کی اہلیت رکھتے تھے‘‘۔ اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ الحاق کی مبینہ دستاویز کی توثیق اور کشمیر کے آئین کی منظوری کو کوئی عوامی تائید حاصل نہیں تھی‘‘۔
یاد رہے امیت شا ایک اور منصوبے پر بھی کام کررہے ہیں۔اس کے تحت غالباً نومبر، دسمبر میں کشمیر میں ہونے والے براے نام اسمبلی کے لیے انتخابات میں ہندو اکثریتی خطے جموں کی تمام نشستوں پر بی جے پی کے امیدواروں کو کامیاب بنانا ہے، اور ساتھ ہی وادیِ کشمیر کی مطلوب نشستوں کی بھی نشان دہی کی گئی ہے، جن پر جموں اور دہلی میں مقیم کشمیری پنڈتوں کے ووٹوں کی رجسٹریشن کا کام سرعت سے جاری ہے، تاکہ ان کے پوسٹل بیلٹوں کے ذریعے ان علاقوں میں بھی بی جے پی کے امیدواروں کی کامیابی یقینی بنائی جائے۔ اس حکمت عملی کا مقصد ریاست میں مسلمان ووٹوں کو بے اثرکرناہے۔کشمیر اسمبلی کی اب ۸۲ نشستیں رہ گئی ہیں۔ امیت شا نے پارلیمنٹ میں بل پیش کرتے وقت بتایا ہے کہ: ’’اسمبلی حلقوں کی از سر نو حد بندی ہوگی‘‘۔فی الحال ۳۷ نشستیں جموں، ۴۵ نشستیں وادی کشمیر خطے سے ہیں۔ کشمیر اسمبلی میں ۲۴مزید نشستیں آزاد کشمیر و گلگت کے لیے مختص رکھی گئی ہیں، جو خالی رہیں گی۔ ان میں سے آٹھ نشستیں پاکستان سے ۱۹۴۷ء، ۱۹۶۵ء اور ۱۹۷۱ء میں آئے ہندو پناہ گزینوں کے لیے وقف کی جائیں گی، تاکہ اسمبلی میں ان کی نمایندگی ہو اور ہندو ممبرا ن کی تعداد میں بھی اضافہ ہو۔
کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت حکمران ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈران کی نظروں میں برسوں سے کھٹک رہی تھی۔ اس پارٹی نے صوبوں و مرکز کے اختیارات کے تعین کرنے والے سرکاری کمیشن کے سامنے صوبوں کو انتہائی حساس سکیورٹی کے علاوہ بقیہ سبھی اختیارات تفویض کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ حال ہی میں جنیوا میں بھارت کے سفیر نے سر ی لنکا کو مشورہ دیا تھا کہ: ’’وہ اپنے آئین کی ۱۳ویں ترمیم کو جلد از جلد لاگو کرکے شمالی سری لنکا میں مقیم تامل ہندو اکثریت کو تحفظ اور پاور فراہم کرے‘‘۔یعنی اورں کو نصیحت ، خود میاں فضیحت ۔ کشمیر چونکہ مسلم اکثریتی خطہ ہے، اس لیے بھارتی حکمرانوں کے نزدیک انسانی حقوق وہاں لاگو نہیں ہوتے۔
چین کے عالمی امور میں رویے اور بین الاقوامی میڈیا کی کوریج کی وجہ سے، اپنی تمام تر معاشی قوت کے باوجود سفارتی محاذ پر بھارت ایک طرح سے دبی دبی پوزیشن پر چلا گیا ہے۔ اس لیے اب بھارت کی کوشش ہے کہ ستمبر۲۰۱۹ء میں سرحدی تنازعے پر ہونے والے مذاکرات میں، چین کو کوئی بھاری پیش کش کرے۔ سرحدی تنازعے سے متعلق دونوں ممالک کے خصوصی نمایندوں اجیت دوبال اور چینی وزیر خارجہ وانگ ہی کے درمیان اس ملاقات میں، بھارت ، چین کو بتاسکتا ہے کہ: ’’ریاست جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت دینے والی دفعہ ۳۷۰کی وجہ سے ہی وہ لداخ خطے میں چین کے ساتھ سرحدی تنازعے کو سلجھا نہیں پارہا تھا ۔ جموں و کشمیر کی اس خصوصی حیثیت کے ختم ہونے کے بعد اب چونکہ بھارتی آئین کی سبھی دفعات کا اطلاق جموں و کشمیر پر ہوتا ہے، نیز لداخ اب براہِ راست نئی دہلی کے زیر انتظام آگیا ہے، اس لیے اب چین کے ساتھ سرحدی تنازعات کو سلجھانا بھارت کے لیے آسان ہو گیا ہے‘‘۔
چین کے سابق خصوصی نمایندے دائی بینگو نے ایک عشرہ قبل تجویز پیش کی تھی:’’ بھارت اگر لداخ کے علاقے میں ’اکسائی چن‘ کے دعوے سے دست بردار ہوجائے، تو چین بھی مشرقی بھارت میں اروناچل پردیش پر اپنا دعویٰ واپس لے سکتا ہے‘‘۔ اس کے علاوہ بھارت، گلگت اور ’سی پیک‘ کے حوالے سے اپنے اعتراضات کو بھی ختم کرنے پر تیار ہوسکتا ہے، تاکہ اس تجارتی راستے کو چین بھارت تجارت کے لیے برتا جاسکے۔ اگر ایسا ہوجاتا ہے اور چین، کشمیر کے حوالے سے اپنے موقف کو لچک دار بناکر بھارت سے مادی مفادات کو دو تین گنا بڑھا لیتا ہے، تو پھر اس بات کا امکان بھی موجود ہے کہ پاکستان سے چینی تعلقات کا وہ بلند مقام متاثر ہو، جو گذشتہ ۶۰برسوں سے بلند معیار پر چلا آرہا ہے۔ اس لیے پاکستان کو سفارت کاری کے میدان میں بڑی محنت اور حددرجہ ہوشیاری سے کام لینا ہوگا، جب کہ بھارت پہلے ہی مسلم دنیا میں سفارتی اور مضبوط معاشی پیش رفت کرچکا ہے۔
آج کشمیر ی قوم کا تشخص اور اس کی انفرادیت پامال ہو چکی ہے۔ امن عالم کے دعوے دار ایک طرف افغانستان میں امن قائم کرنے کے لیے کوشاں ہیں، دوسر ی طرف خطے میں افغانستان سے زیادہ خطرناک ماحول پروان چڑھایا جا رہا ہے۔ اپنی اصل کے اعتبار سے، بھارتی حکومت کی طرف سے اٹھایا گیا یہ قدم ، فلسطین میں اسرائیلی جارحانہ کارروائیوں سے بھی کہیں زیادہ سنگین ترین ہے۔ پوری دنیا میں یہودی ایک کروڑ سے زیادہ نہیں ہیں۔ اس سے آدھے ہی اسرائیل میں رہتے ہیں۔ وہ اگر چاہیں تو بھی عرب ممالک یا پورے فلسطین کاآبادیاتی تناسب بگاڑنہیں سکتے۔
ان کے برعکس کشمیر میں تو مقامی مسلمانوں کا مقابلہ ایک ارب ۱۰ کروڑ بھارتی غیرمسلموں کی آبادی کے ساتھ ہے، جو چند ماہ میں ہی خطے کا آبادیاتی تناسب بگاڑ کر کشمیری عوام کو اپنے ہی گھروں میں اجنبی بنا دیں گے۔ سابق بھارتی فوجیوں اور ریٹائرڈ بیوروکریٹوں اور ان کے اہل خانہ کو کشمیر میں بسانے کی مہم تو پہلے سے ہی جاری ہے۔ وزیر اعظم مودی نے ایک دلیل یہ بھی دی، کہ: ’’بیرون ریاست بیورکریٹ کشمیر جانے سے کتراتے ہیں، کیونکہ و ہ اور ان کے اہل خانہ وہاں زمین نہیں خرید سکتے ہیں‘‘۔ جب بھارت، برطانوی سامراجی تسلط سے آزادی مانگ رہا تھا، تو ایک بار برطانوی وزیراعظم ونسٹن چرچل نے کانگریسی لیڈروں کو مخاطب کرکے کہا:’’ تم کو آزادی اس لیے چاہیے کہ دبے کچلے طبقوں اور مظلوموں پر حکومت کرکے ان کو دبادو‘‘۔
کشمیر ایک شدید صدمے سے دوچار ہے، اور ابھی شاید ویسے ردعمل کا اظہار نہیں کرپائے گا، جس کی بظاہر توقع کی جارہی ہے۔ یہ ایک پُرفریب آتش فشاں کی سی خاموشی ہے۔ ۱۹۸۷ء کے انتخابی دھاندلی زدہ انتخابات کا بدلہ کشمیریوں نے ۱۹۸۹ء میں چکایا۔ کشمیر میں نئے مزاحمتی کلچر کا آغاز تو ہوچکا ہے، جس میں فکری مزاحمت کا مرکز مظلومیت کے بجاے تخلیقی سطح پریادوں کو اُجاگر کرکے باوقار طور پر اُبھرنے کی صلاحیت حاصل کرنا ہے۔
بھارتی آئین کی دفعہ ۳۷۰ اور دفعہ ۳۵-اے کے خاتمے کے ساتھ بظاہر کاغذوں میں ریاست جموں و کشمیر تحلیل ہو گئی ہے، مگر قانونِ قدرت تحلیل نہیں ہوسکتا۔ تاریخ کا پہیہ ساکت نہیں رہتا، یہ گھومتا ہے اور اس قوم کے لیے خاصا بے رحم ثابت ہوتا ہے ، جو اکثریت اور طاقت کے بل بوتے پر کمزور اور ناتواں کی زندگیاں اجیرن بنادے۔ ۱۹۸۴ء میں تہاڑ جیل میں پھانسی سے قبل مقبول بٹ نے کہا تھا کہ: ’’میری بے بسی پر مت مسکرائو ، تم اپنی خیر منائو ، کہ ظلم کی سیاہ رات جاتی ہے‘‘۔ اور صرف چھے سال بعد ۱۹۸۹ء میں کشمیر نے کروٹ لی اور ایک نئے دور کا آغاز ہو گیا!
انعام یافتہ برطانوی صحافیوں ایڈریان لیوی اور کیتھی اسکاٹ کلارک نے کتاب The Meadow میں بتایا ہے کہ جولائی ۱۹۹۵ء میںجنوبی کشمیر میں ایک غیر معروف عسکری تنظیم ’الفاران‘ کے ذریعے اغوا کیے گئے پانچ مغربی سیاحوں کو بچایا جا سکتا تھا،کیونکہ ’را‘ اور دیگر بھارتی سیکورٹی ایجنسیوں کے اہلکار اغوا کے پورے واقعے کے دوران نہ صرف سیاحوں ا ور اغواکاروں پر مسلسل نگاہ رکھے ہوئے تھے بلکہ ان کی تصویریں بھی لیتے رہے تھے۔دونوں برطانوی صحافیوں نے ٹھوس شواہد کی بنیاد پر لکھا ہے کہ ’’سرکاری اداروں نے چاروں سیاحوں کو مرنے کے لئے چھوڑ دیا تاکہ پاکستان کے خلاف ایک بڑی سرد جنگ جیتی جا سکے‘‘۔
اسی طرز پر ۲۶ نومبر ۲۰۰۸ء کو بھارت کے اقتصادی مرکز ممبئی پر ہونے والا دہشت گرد حملہ بھی اس لحاظ سے منفردتھاکہ امریکی سی آئی اے اور بھارتی خفیہ ایجنسیوں یعنی ’انٹیلی جنس بیورو‘، ’را‘ سمیت تقریباً سبھی خفیہ اداروں حتیٰ کہ ممبئی پولیس اور پانچ ستارہ ہوٹل تاج کی انتظامیہ کو بھی کسی نہ کسی شکل میں اس کی پیشگی اطلاع تھی۔ان دونوں مصنفین نے اپنی دوسری کتاب The Seige میں انکشاف کیا ہے کہ ’’اس حملے سے پہلے ایک سال کے دوران مختلف اوقات میں۲۶؍اطلاعات ان اداروںکوموصول ہوئیں، جن میں ایسے حملوں کی پیش گوئی کے علاوہ حملہ آوروں کے راستوں کی بھی نشان دہی کی گئی تھی۔ اتنی واضح خفیہ اطلاعات کے باوجود بھارتی سکیورٹی ایجنسیوں نے ان حملوں کو روکنے کی پیش بندی کیوں نہیں کی؟ یہ ایک بڑا سوال ہے جس سے پردہ اٹھنا باقی ہے۔
خفیہ معلومات اس حد تک واضح تھیں کہ اگست ۲۰۰۸ء میں جب ممبئی پولیس کے ایک افسر وشواس ناگرے پا ٹل نے شہر کے فیشن ایبل علاقے کے ڈپٹی کمشنر آف پولیس کا چارج سنبھالا تو ان کی نظر اس خفیہ فائل پر پڑی، جس میں نہ صرف حملوں کا ذکر تھا بلکہ اس کے طریق کار پر بھی معلومات در ج تھیں۔ اس افسر نے فوراً تاج ہوٹل کی انتظامیہ کو متنبہ کیا کہ وہ معقول حفاظتی انتظامات کا بندوبست کریں۔ستمبر ۲۰۰۸ء میں اسلام آبادکے میریٹ ہوٹل میں دھماکا اور اکتوبر میں دوبارہ اسی طرح کی خفیہ معلومات ملنے کے بعد پاٹل نے تاج ہوٹل کی سکیورٹی کے ساتھ گھنٹوں ریہرسل کی،کئی دروازے بند کروائے اور اس کے ٹاور کے پاس سکیورٹی پکٹ قائم کی۔ ان انتظامات کے بعد پاٹل چھٹی پر چلے گئے۔اس دوران حفاظتی بندشیں اورسکیورٹی پکٹ ہٹوا دی گئی ، تاکہ حملہ آوروں کو ہوٹل تک پہنچنے میں کوئی تکلیف نہ ہو‘‘۔
پچھلے دو عشروں سے زائد عرصے کے دوران ان سبھی واقعات کا مشاہدہ اور رپورٹنگ کرنے کے بعد جب یہ خبر آئی کہ بھارت کے ایک انتہائی قوم پرست ٹی وی چینل ری پبلک کے اینکر اور منیجنگ ڈائرکٹر ارناب گوسوامی کو فروری ۲۰۱۹ء میں کشمیر کے پلوامہ علاقے میں ہوئے خود کش حملے اور بعد میں پاکستان کے بالا کوٹ پر بھارتی فضائیہ کے حملوں کی پیشگی اطلاع تھی، تو مجھے کوئی حیرت نہیں ہوئی۔
دراصل ممبئی پولیس نے ٹی وی ریٹنگ، یعنی ٹی آر پی میں ہیرا پھیری کے الزام میں گوسوامی اور براڈکاسٹ آڈینس ریسرچ کمپنی کے سربراہ پارتھو داس گپتا کے خلاف ۴۰۰۳صفحات پر مشتمل چارج شیٹ کورٹ میں دائر کی ، جس میں ۱۰۰۰صفحات پر مشتمل ان دونوں کے درمیان ’وٹس ایپ‘ پر ہوئی گفتگو کی تفصیلات ہیں۔ ان ’پیغامات‘ سے گوسوامی کی وزیر اعظم مودی کے ساتھ اس قدر قربت ظاہر ہوتی ہے، کہ بالا کوٹ پر ہوئے فضائی حملوں سے سرینگر کی ۱۵ویں کور کے سربراہ کو لاعمل رکھا گیا تھا ، مگر گوسوامی کو ۲۳فروری ۲۰۱۹ء، یعنی تین دن قبل ہی بتایا گیا تھا۔ گوسوامی ’چیٹنگ‘ کے دوران داس گپتا کو بتا رہے ہیں کہ ’’پاکستان کے خلاف کچھ بہت ہی بڑا ہونے والا ہے، جس سے بڑے آدمی( مودی )کو انتخابات میں بڑا فائدہ ہوگا‘‘۔ اسی دن رات کو۱۰بجے وہ بتار ہے ہیں کہ ’’کشمیر پر مودی حکومت ایک بڑا قدم اٹھانے والی ہے‘‘۔ ۲۳فروری کو جب خود کش حملے میں ۴۰سیکورٹی اہلکاروں کے مارے جانے کی اطلاع آئی ، تو اس کے چند منٹ بعد گوسوامی ’وٹس ایپ‘ پر شادیانے بجا رہے ہیںاورگویا کہہ رہے ہیں کہ ’’ایک بڑا معرکہ سر ہوگیا‘‘۔ یہ موڈ اس کے برعکس تھا جو شام کو ری پبلک ٹی وی کے اسٹوڈیومیں تھا، جہاں سوگوارای کا عالم تھا اور لمحہ بہ لمحہ جنگی جنون طاری کیا جا رہا تھا۔
مجھے یاد ہے کہ ۲۰۰۱ء میں بھارتی پارلیمان پر حملہ کے بعد دہلی یونی ورسٹی کے مرحوم پروفیسر عبدالرحمٰن گیلانی کو سزائے موت صرف اس بنا پر سنائی گئی تھی کہ انھوں نے کشمیر ی زبان میں ٹیلی فون پر بات کرکے اپنے بھائی سے اس واقعے پر مبینہ طور پر خوشی کا اظہار کیا تھا اور پوچھا تھا ’’کہ دہلی میں آج کیا ہوگیا؟ ‘‘ جس کا ترجمہ ہندی میں کیا گیا تھا کہ ’’ دہلی میں آج آپ نے کیا کردیا؟ ‘‘ پروفیسر صاحب نے ہنستے ہوئے کشمیری میں جواب دیا ــ: ـ’چھایہ ضروری‘ یعنی کہ’’ کیا یہ ضروری تھا؟‘‘ پولیس نے اس کو لکھا ’یہ چھے ضروری‘ یعنی ’یہ ضروری تھا‘۔ یہ تو ہائی کورٹ کا بھلا ہوا کہ وہ بری ہوگئے۔ اوراگراسی روایت کو بنیاد بنایا جائے، تو گوسوامی کے لیے سزائے موت سے بھی بڑی سزا تجویز ہونی چاہیے۔
اس گفتگو کے تین ماہ بعد مودی نے انتخابات میں اپوزیشن کا صفایا کرکے واضح برتری حاصل کی۔ اس سے عیاں ہوتا ہے کہ بالا کوٹ پر فضائی حملے کسی فوجی یا اسٹرے ٹیجک نکتہ نگاہ سے نہیں بلکہ قومی تفریح اور ووٹ حاصل کرنے کے لیے کیے گئے تھے۔چنگیز خان اور ہلاکو خان کو فوت ہوئے صدیاں بیت چکی ہیں۔ مگر مُردہ جسموں پر خوشیاں منانا اور ان کو انتخابات میں بھنانا اور اس پر مستزاد اپنے آپ کو قوم پرست بھی جتلانا، مودی اور اس کے حواریوں ہی کا خاصّہ ہے۔ ان کے اس طرح کے رویوں سے چنگیز اور ہلاکو کی روحیں بھی شرم سے پانی پانی ہوتی ہوںگی۔
یہ جولائی ۱۹۸۷ء کی بات ہے، جب سری لنکا کے صد جے آر جئے وردھنئے اوربھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی کے درمیان طے پائے گئے معاہدے کے بعد سری لنکا نے اپنے آئین میں ترمیم کرکے شمالی اور شمال مشرق میں تامل اکثریتی علاقوں کو متحد کرکے ایک علاقائی کونسل تشکیل دینے پر رضامندی ظاہر کی تھی اور یہ طے پایا تھا کہ ’’دفاع، خارجہ پالیسی اور مالی معاملات، یعنی کرنسی کے علاوہ بقیہ تمام معاملات میں یہ کونسل خود مختار ہوگی‘‘۔ اس کے بعد سری لنکا حکومت نے پارلیمنٹ میں باضابطہ قانون سازی کرکے آئین میں ۱۳ویں ترمیم کی مگر اس پر ابھی تک عمل درآمد نہیں ہوا۔ تامل ٹائیگرز، یعنی ایل ٹی ٹی ای اور سنہالا بدھ قیادتوں نے اس ترمیم کو مسترد کردیاتھا۔ تامل ٹائیگرز تو مکمل آزادی سے کم کسی بھی فارمولا پر راضی نہیں تھے، سنہالا بدھ ملک کے اندر تامل خود مختار علاقہ قائم کرنے کے مخالف تھے۔
سری لنکا کے آئین میں اس۱۳ویں ترمیم کو وہی حیثیت حاصل ہے، جو بھارتی آئین میں دفعہ ۳۷۰اور ۳۵-اے کو حاصل تھی، جس کی رُو سے ریاست جموں و کشمیر کو چند آئینی تحفظات حاصل تھے۔ ان دفعات کو اگست ۲۰۱۹ء میں بھارتی حکومت نے نہ صرف منسوخ کرکے ریاست ہی تحلیل کردی۔ اب بھارتی حکومت کا سری لنکا حکومت کو تامل ہند و اقلیت کے سیاسی حقوق کی پاس داری کرنے کا وعدہ یاد دلانا حددرجے کا تضاد ہے۔
بنگلہ دیش میں مکتی باہنی کی طرز پر ہی بھارت نے سری لنکا میں تامل اقلیت کو شمالی صوبہ جافنا کو آزاد کروانے پر اُکسایا تھا، اور اس کے لیے بھارتی ریاست تامل ناڈوکو مستقر (بیس)بنا کر تامل انتہا پسندوںکوگوریلا جنگ کے لیے تربیت دینی شروع کردی تھی۔ کانگریس کے ایک مقتدر لیڈراور ایک سابق وزیر نے ایک بار مجھے بتایا کہ ’’اگر ۱۹۸۴ء میںوزیر اعظم اندرا گاندھی کو سکھ باڈی گارڈ ہلاک نہ کرتے تو بنگلہ دیش کی طرز پر سری لنکا کے شمالی علاقے جافنا پر مشتمل ایک علیحدہ مملکت وجود میں آگئی ہوتی‘‘۔ تامل ناڈو کے سابق وزیرا علیٰ کے کرونا ندھی نے بھی ایک بار دہلی کی ایک نجی محفل میں بتایا کہ ’’مسزگاندھی نے سری لنکا کو۱۹۷۱ء کی جنگ میں پاکستان کی معاونت کرنے پر کبھی معاف نہیں کیاتھا‘‘۔ یاد رہے سری لنکا نے پاکستانی فضائیہ اور ڈھاکا جانے والے پاکستانی سویلین جہازوں کے لیے کولمبو میں ایندھن بھرنے کی سہولت فراہم کی تھی۔ بنگلہ دیش بننے کے فوراً بعد بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی اور ان کے رفقا نے تامل علیحدگی تحریک کا رخ سری لنکا کی طرف موڑدیا۔ کروناندھی یہ بھی یاد دلاتے تھے کہ ’’۱۹۸۷ء میں دہلی کے اشوکا ہوٹل کے ایک کمرے میں وزیر اعظم راجیو گاندھی نے وزارت خارجہ کے ایک اعلیٰ عہدے دار کی موجودگی میں۴۰لاکھ روپوں سے بھرا ایک سوٹ کیس تامل ٹائیگرز کے کمانڈر ویلوپلائیپربھاکرن کے حوالے کیا تھا‘‘۔
جب بھارتی حکومت نے کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کی، تو سری لنکا کے سنہالا بدھ لیڈروں اور سری لنکا کے موجودہ وزیرا عظم مہندا راجاپکشا نے خوشی کا اظہار کیا۔ ان کے مطابق اب بھارت، سری لنکا پر ۱۳ویں ترمیم کے نفاذ کے لیے زور نہیں ڈال سکے گا۔ تامل تجزیہ کار شاستری راما چندرن کے مطابق جموں و کشمیر پر آئینی سرجیکل اسٹرائیک کرنے کے بعد بھارتی حکومت کے پاس سری لنکا کو ۱۳ویں ترمیم کے نفاذ پر مجبور کرنے کے لیے کوئی اخلاقی جواز نہیں بچتا ہے۔ جنوبی صوبہ تامل ناڈو کے ایک بزرگ سیاست دان وی گوپال سوامی المعروف ویکو نے مودی حکومت کو خبردار کیا تھا کہ ’’کشمیر پر اس کے فیصلے کے مضمرات سفارتی سطح پر خاصے پیچیدہ ہوں گے اور سری لنکا کی تامل آبادی کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا‘‘۔ راما چندرن ، جنھوں نے سری لنکا پر ایک کتاب بھی تصنیف کی ہے ، ان کا کہنا ہے کہ ’’گوٹا بایا راجا پکشا اور ان کے بھائی مہندا راجا پکشا نے اکثریتی سنہالا بدھ آبادی کو تامل ہندو آبادی اور بھارت کا خوف دلا کر انتخابات میں اسی طرح لام بند کیا، جس طرح مودی نے بھارت میں مسلمانوں اور پاکستان سے، ہندو اکثریتی آبادی کو خوف زدہ کرکے ووٹ بٹورے‘‘۔
یاد رہے بھارت کے خفیہ اداروں کی نظر میں حساس صوبوں کی فہرست میں جموں و کشمیر کے بعد تامل ناڈو دوسرے نمبر پر ہے۔
بھارت میں ۱۹۹۸ء کے عام انتخابات کے موقعے پر جب بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی) کی قیادت میں پارٹی اتحادی سطح پر انتخابی منشور تیار کیا جا رہا تھا ، تو اس کی ابتدائی ڈرافٹنگ کا کام ماہر اقتصادیات موہن گوروسوامی کو سونپا گیا تھا ۔ منشور کی تیاری کمیٹی میں اٹل بہاری واجپائی، لال کشن ایڈوانی، جارج فرنانڈیز، موجودہ نائب صدر وینکییا نائیڈو، پرمود مہاجن، شرد یادو اور چند دیگر لیڈران شامل تھے۔
گوروسوامی پر واجپائی صاحب نے زور دیا کہ ’’ملک کو جوہری طاقت بنانے اور تبدیلیٔ مذہب کو روکنے کے سلسلے میں قانون سازی کرنے کے وعدے منشور میں شامل ہونے چاہییں‘‘۔ جوہری دھماکا کرنے کے معاملے پر کمیٹی میں کچھ زیادہ بحث نہیں ہوئی، صرف اس بات پر اتفاق ہوا کہ اس کو مبہم انداز میں لکھا جائے گا۔ تبدیلی ٔمذہب کے مسئلے پر اجلاس کے شرکا تذبذب میں تھے، کیونکہ تبدیلی ٔمذہب پر پابندی لگانا، بھارتی آئین کے بنیادی ڈھانچے اور اس کی روح، یعنی مذہبی شخصی آزادی کے منافی تھا۔
بھارت اور پاکستان کے جو لوگ بے جا غلط فہمی کا شکار ہوکر واجپائی کو ’سیکولر رواداری‘ کا منبع اور ’امن کا دیوتا‘ سمجھتے ہیں، ان کو جان لینا چاہیے کہ آنجہانی وزیر اعظم واجپائی، لازمی طور پر اپنی دھوتی کے نیچے راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ، یعنی آر ایس ایس کی نیکر پہنتے تھے۔ واجپائی کا اصرار تھا کہ ’’اگر تبدیلیٔ مذہب پر مکمل طور پرپابندی عائد نہیں کی جاتی ہے، پھر بھی اس کو لازمی طور پر ڈسٹرکٹ کلکٹر یا مجسٹریٹ کی اجازت کے ساتھ نتھی کردینا چاہیے‘‘۔ گورو سوامی نے پاس میں بیٹھے لال کشن ایڈوانی کو کان میں بتایا کہ ’’یہ وعدہ آج کربیٹھنا ایک تنازعے کا باعث ہوگا، جب کہ بی جے پی اقتدار کے بالکل قریب ہے‘‘۔ ایڈوانی ، جنھوں نے بابری مسجد کو مسمار کرنے کے لیے رتھ یاترا کی قیادت کرکے، بی جے پی کو اقتدار کی دہلیز تک پہنچایا تھا، اب اپنا تاثر (Image) درست کروانے میں لگے ہوئے تھے۔ اپنی اسی انتہاپسندانہ مشکل کی وجہ سے اتحادیوں کے لیے وہ وزارت عظمیٰ کے اُمیدوار کی حیثیت سے قبول کیے جانے کی دوڑ سے نکال دیے گئے تھے، اور دُور رس نتائج پر نظررکھنے والے پارٹی کے شہ دماغوں نے واجپائی کو آگے کردیا تھا۔ گوروسوامی کے بقول ۱۹۹۸ءمیں ایڈوانی ہندو قوم پرستی کا جامہ اتار کر اپنے آپ کو سماجی اور اقتصادی قدامت پسند لیڈر کے بطور متعارف کروانا چاہتے تھے‘‘۔
مجھے یاد ہے کہ جس دن یہ منشور جاری ہو رہا تھا ، دہلی کے ہماچل پردیش بھون میں تقریب کے بعد ظہرانے کا اہتمام تھا۔ میں جس کھانے کی میز پر بیٹھا تھا، اسی پر ایڈوانی ، معروف صحافی راج دیپ ڈیسائی اور چند دیگر صحافی بھی تشریف فرما ہوئے تھے۔ چونکہ تب تک بی جے پی کے لیڈران کو حکومت کی ہوا نہیں لگی تھی، اس لیے ان تک رسائی آسان تھی۔ ڈیسائی نے کسی غیر ملکی مصنف کا حوالہ دے کر بتایا کہ ’’دنیا بی جے پی کے اقتدار میں آنے سے خائف ہے‘‘۔ تو ایڈوانی نے سوال کیا کہ ’’جرمنی میں کرسچن ڈیموکرٹیک پارٹی، امریکا میں ری پبلکن اور برطانیہ میں ٹوری پارٹی کام کررہی ہیں تو بطور کنزر ویٹو پارٹی کے بی جے پی سے خائف ہونے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘
اس اجلاس میں جب گوروسوامی نے آئین کے بنیادی ڈھانچے کا حوالہ دے کر تبدیلیٔ مذہب کے خلاف قانون بنانے کے وعدے کو منشور میں شامل کرنے سے انکار کردیا، تو ’امن کے دیوتا‘ واجپائی نے غصّے سے لال پیلا ہوکر کہا کہ ’’ہارورڈ اور اوکسفرڈ کے ڈگری یافتہ لوگ، تبدیلیٔ مذہب کی شدت اور ہندو سماج کے بچاؤ کے معاملات کو نہیں سمجھ سکتے ہیں‘‘۔ ایڈوانی نے مداخلت کرکے واجپائی کا غصّہ ٹھنڈا کرکے کہا کہ ’’اقتدار میں آنے کے بعد اس پر سوچا جاسکتا ہے‘‘۔ وزیراعظم بننے کے بعد واجپائی نے ایک عوامی جلسے میں اس ایشو کو اٹھایا اور کہا کہ ’’اس پر کھل کر بحث ہونی چاہیے‘‘۔ ان کی اس تقریر کے فوراً بعد مشرقی صوبہ اڑیسہ میں ایک آسٹریلین پادری گراہم اسٹین اور اس کے دو بچوں کو زندہ جلادیا گیا۔ اس واقعے میں ملوث ایک ملزم پرتاپ سارنگی آج کل مرکزی حکومت میں وزیر ہیں۔ گوروسوامی تب تک حکومت کے اقتصادی مشیر مقرر ہو چکے تھے۔ واجپائی کی تقریر اور پادری کی ہلاکت کے سانحے کے بعد انھوں نے انڈین ایکسپریس میں ایک مضمون لکھ کر وزیرا عظم واجپائی کا نام لیے بغیر تبدیلی ٔمذہب کی مخالفت کرنے والوں کی خوب خبر لی۔ چند روز بعد ہی واجپائی کی ایما پر انھیں حکومت کی پیش کردہ ذمہ داریوں سے فارغ کردیا گیا۔
آج اس واقعے کے تذکرہ کرنے کا مقصد یہ ہے کہ تبدیلی ٔمذہب کے احق کو سخت مشکل بنانے کے ساتھ ساتھ اب ہندو قوم پرست بی جے پی کی قیادت والے صوبے یکے بعد دیگر ے بین المذہبی شادیوں کو روکنے کے لیے قانون سازی کر رہے ہیں۔ خاص طور پر اس صورتِ حال میں، جب کہ لڑکا مسلمان اور لڑکی ہندو ہو۔
۲۰۱۷ءمیں جب اتر پردیش کی صوبائی اسمبلی کے لیے انتخابات کا بگل بج گیا، تو موجودہ وزیرا علیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے انتخابی حلقہ گھورکھپور اور خوشی نگر کے دورے کے دوران مسلم خواتین کے اغوا اور پھر ان کو ہندو مذہب قبول کروانے کے کئی واقعات میرے علم میں آئے۔اس سے دو سال قبل لوک سبھا کے انتخابات کے موقع پر آدتیہ ناتھ نے واضح طور پر دھمکی دی تھی:’’اگر وہ (مسلمان) ہماری (ہندؤ) ایک لڑکی لے جائیں گے، تو ہم ان کی ۱۰۰ لڑکیاں لے جائیں گے‘‘۔ ان کا اشارہ اس پروپیگنڈا کی طرف تھا، جس میں مسلمان نوجوانوں پر الزام لگایا جاتا رہا ہے کہ وہ ہندو لڑکیوں کو دامِ محبت میں پھنسا کر ان کے ساتھ شادیاں رچاتے ہیں‘ اور اس کو ’لو جہاد‘ کا نام دیا گیاہے۔
اترپردیش کے مشرقی حصے میں تو معاملہ بالکل اُلٹ ہے۔ایک خاتون ساتھی رپورٹر شوئیٹا ڈیسائی کے ساتھ اس علاقے کے کئی دیہات خاک چھاننے کے بعد معلوم ہوا کہ مسلم لڑکیوں کے اغوا اور غائب کر دیے جانے کی سیکڑوں وارداتیں پولیس اسٹیشنوں کی فائلوں میں بند ہیں۔ معلوم ہوا کہ ان لڑکیوں کا’شُدھی کرن‘ کرکے ان کی شادیاں ہندو نوجوانوں کے ساتھ کرا دی جاتی ہیں۔وہیں پر ہمیں بنجاریہ گاؤں کی ۱۷ سالہ آسیمہ نے بتایا کہ اغواکرنے کے بعد اس پر ایک ہندو لڑکے کے ساتھ شادی کرنے کے لیے دباؤ ڈالا گیا‘ مگر وہ کسی طرح ان کے چنگل سے بھاگ نکلی۔ صرف اس ایک گاؤں میں نو ایسے خاندان تھے، جن کی لڑکیوں کو اغوا کرکے بعد میں زبردستی شادیاں کر وا ئی گئی تھیں۔
چوپیہ رام پور گاؤں میں ’زبیدہ‘ اب ’امیشا ٹھاکر‘ کے نام سے ایک ہندو خاندان میں اروند ٹھاکر کی بیوی بن کر زندگی گزار رہی تھی۔ہلکےنیلے اور گلابی رنگ کی ساڑھی زیب تن کیے، ماتھے پر تلک اور مانگ میں سندور کو دیکھ کر یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ لڑکی کبھی زبیدہ رہی ہوگی۔ اس کو ۱۳سال کی ہی عمر میں اغوا کیا گیا تھا۔ سڑک کی دوسری طرف ہی اس کی ننھیال ہے، جن کے لیے زبیدہ مرچکی ہے۔ اس کے ماموں عبداللہ کا کہنا تھا کہ ’’اغوا کے کئی ہفتوں بعد ان کی بیٹی کو بھری پنچایت میں پیش کرکے زبردستی ہندو بنایا گیا اور اب وہ ایک زندہ لاش کی مانند زندگی گزارنے پر مجبور ہے‘‘۔ پولیس نے تو پہلے رامیشور ٹھاکر کے دو بیٹوں کے خلاف نابالغ لڑکی کو اغوکرنے کے الزام میں رپورٹ درج کی تھی مگر بعد میں اس پر کوئی کارروائی نہیں کی۔ عبداللہ کا کہنا تھا کہ ’’طاقت وَر ٹھاکر خاندان کے خلاف لڑنے کی مجھ میں ہمت نہیں تھی‘۔ اپنے تین سالہ بیٹے کو گود میں لیے زبیدہ یا امیشہ نے ہم کو بتایا کہ ’’میں اب زندگی کے ساتھ سمجھوتا کر چکی ہوں، کیونکہ واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہے‘‘۔ پولیس ریکارڈ سے معلوم ہوا کہ اس علاقے میں ۳۸۹ نابالغ مسلمان لڑکیوں کے غائب ہونے کی وارداتیں ہوئی تھیں۔
دہلی واپس آکر ایک دن پارلیمنٹ کے اجلاس کے دوران میں نے آدتیہ ناتھ یوگی کو، جو ممبر پارلیمنٹ ہونے کے ساتھ ساتھ گھورکھ پور کے سب سے بڑے مندر کے مہنت بھی تھے ، سینٹرل ہال کے ایک کونے میں اکیلے سوپ نوش کرتے دیکھا۔ بیٹھنے کی اجازت مانگنے کے بعد ان سے اس ’ریورس لو جہاد‘ کے بارے میں جاننے کی کوشش کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’مسلم لڑکیاں خود ہی ہندو لڑکوں سے شادیاں کرکے بہ رضاو رغبت مذہب تبدیل کرتی ہیں‘‘۔ میں نے پوچھا کہ ’’آپ آئے روز مسلمانوں کے خلاف بیانات داغتے رہتے ہیں۔ بھارت میں سرکاری ریکارڈ کے مطابق ۱۷کروڑ سےزیادہ مسلمان بستے ہیں۔ ان سبھی کو ختم کیا جا سکتا ہے اور نہ پاکستان کی طرف دھکیلا جاسکتا ہے اور نہ ہندو بنایا جا سکتا ہے۔ کیا کوئی طریقہ نہیں ہے کہ اس ملک میں ہندو اور مسلمان شانہ بشانہ پُرامن زندگی گزار سکیں؟‘‘یوگی صاحب کہنے لگے :’’ہندو حکمرانوں کے کبھی توسیع پسندانہ عزائم نہیں رہے ہیں‘ مگر اب وہ بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں، کیونکہ ان کا مذہب، تہذیب و تمدن مسلمانوں اور عیسائیوں کی زد میں ہیں، اور ان مذاہب کے پیشوا اور مبلغ‘ ہندوؤں کو آسان چارہ سمجھتے ہیں‘‘۔ ٹوسٹ کا آخری لقمہ حلق میں اتارتے ہوئے آدتیہ ناتھ نے کہا: ’’مسلمان، ہندو دھرم کو عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھتے اور ہماری رسوم پر ناک بھوں چڑھاتے ہیں۔ پھر ہر روز پانچ وقت مساجد سے اذان کی آوازیں آتی ہیں‘‘۔ لوک سبھا کی کارروائی کے لیے کورم کی گھنٹی بجائی جارہی تھی۔ وہ ایوان میں جانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے اور جاتے جاتے کہا:’’مسلمانوں کو دیگر اقلیتوں سکھوں، جین فرقہ اور پارسیوں کی طرح ہندو دھرم کی برتری تسلیم کرتے ہوئے چین سے رہنا سیکھنا چاہیے‘‘۔
آج یہی ادتیہ ناتھ بھارت کے سب سے بڑے صوبہ کے وزیرا علیٰ ہیں، اور وزیراعظم نریندر مودی، وزیر داخلہ امیت شا کے بعد حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے تیسرے بڑے لیڈر ہیں، جو وزارت عظمیٰ کی کرسی حاصل کرسکتے ہیں۔
اتر پردیش کی بی جےپی حکومت نے ۲۶نومبر۲۰۲۰ء کو ایک آرڈی ننس منظور کیا اور پھر ۴۸گھنٹوں کے اندر اندر اس کا اطلاق کرکے لکھنؤ میں ایک ایسی شادی کو رکواتے ہوئے ایک مسلم نوجوان کو جیل بھیج دیا۔ اسی طرح ایک مسلم جوڑے کو نکاح کی تقریب کے دوران حراست میں لے کر ان کو پولیس اسٹیشن میں مبینہ طور پر اذیتیں دیں، اس سے ہلکا سا اندازہ ہوتا ہے کہ مستقبل میں اس قانون کی آڑ میں مسلم نوجوانوں کو کس طرح ہراساںکیا جائے گا۔ لگتا ہے کہ اب رفتہ رفتہ مسلمانوںکو شادی یا نکاح کی تقریب منعقد کرنے سے قبل مقامی پولیس سے باضابطہ اجازت لینی پڑے گی ، اور یہ یقین بھی دلانا پڑے گا ، کہ دلہن کسی دوسرے مذہب کی نہیں بلکہ پیدایشی اور نسلی مسلمان ہی ہے۔ جہاں ایک طرف اب حکومتی اداروں نے مسلمان لڑکوں کی دیگر مذاہب کی لڑکیوں کے ساتھ شادی پر سخت موقف اختیار کرکے قانون سازی تک کر ڈالی، وہیں دوسری طرف ہندو تنظیمیں باضابطہ مسلم لڑکیوں کے اغوا اور ہندو نوجوانوں کے ساتھ ان کی شادیاں کرنے کے واقعات سے صرفِ نظر کرتی آئی ہیں۔
بین المذہبی شادیوں میں مسلمانوں کو ’لوجہاد‘ کا نام دے کر مطعون کیا جارہا ہے۔ بڑے پیمانے پر پروپیگنڈا کرکے یہ بتایا جاتا ہے کہ ’’مسلمان لڑکے ہندوؤں کے بھیس میں دیہاتوں اور قصبوں میں گھومتے رہتے ہیں اور ہندو لڑکیوں کو محبت کے جا ل میں پھنساتے ہیں۔ شادی کے بعد جب پتہ چلتا ہے کہ لڑکا مسلمان ہے،تب تک بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے اور پھر لڑکی کا زبردستی مذہب تبدیل کیا جاتا ہے‘‘۔
اس بے بنیاد، مبالغہ آمیز اور لغو پروپیگنڈے کو نام نہاد تحقیقی رنگ دینے کی غرض سے ایک تنظیم کا دعویٰ ہے کہ ’’ہمارے ہاتھ توایک ریٹ لسٹ بھی لگی ہے، جس کے تحت ایک برہمن لڑکی کو بھگانے اورنکاح کرنے پر مسلم نوجوانوں کو سعودی عرب اور دیگر خلیجی ملکوں سے ۱۰ سے ۱۵ لاکھ روپے دلائے جاتے ہیں، جب کہ دیگر ذاتوں کی لڑکیوں کے لیے سات سے دس لاکھ اور نچلی ذات، یعنی دلت لڑکیوں کے لیے یہ ریٹ پانچ لاکھ ہے‘‘۔شکر ہے کہ اس میں ابھی تک پاکستان یا اس کی کسی ایجنسی کا نام شامل نہیں ہوا۔ ایسی پروپیگنڈا بریگیڈ کے مطابق ’’ایک سازش کے تحت ہندو اکثریتی آبادی کے تناسب کو بگاڑنے کی کوشش ہو رہی ہے‘‘۔
اب ان کو کون بتائے کہ اگربھارت میں رہنے والے تقریباً ۲۰کروڑ مسلمان صرف ہندو لڑکیوں سے ہی شادیا ں کرتے ہیں، تو اس کے باوجود ۹۸کروڑ ہندوؤں کو اقلیت میں تبدیل نہیں کرسکتے۔ اس نئے ’لو جہاد‘ کے نعرہ کے نام پر ہندو تنظیموں نیز کئی جگہوں پر مقامی انتظامیہ نے اترپردیش، راجستھان، کرناٹک میں مسلم نوجوانوں کی زندگیاں اجیرن بناکے رکھ دی ہیں۔اگر ان کو دہشت گردانہ واقعات کے ساتھ جوڑنے کے لیے ثبوت نہ مل رہے ہوں ، تو ’لو جہاد‘ کے نام پر یا کسی ہندو لڑکی کی طرف دیکھ لینے ہی کی پاداش میں انھیں نشانِ عبرت بنادیا جاتا ہے اوربنایا جاسکتاہے۔ ۲۰۱۳ء میں دہلی سے صرف ۱۰۰کلومیٹر دُور مظفر نگرکے خونیں فساد اسی طرح کی افواہ سے شروع ہوئے تھے۔ ان میں تقریباً ۶۰؍ افراد اپنی جانیں گنوا بیٹھے۔
مغربی اتر پردیش اور ہریانہ میں ہندو جاٹوں کا سماجی تانا بانا خاصا پیچیدہ ہے۔ ایک تو ان علاقوں میں مردوںاور عورتوں کی آبادی کا تناسب سب سے کم ہے، دوسری طرف یہ ایک گوت اور ایک ہی گاؤں میں شادی نہیں کرتے۔ چچا زاد، ماموں زاد نیز گاؤںکی تمام لڑکیوں کو بہن کا درجہ دیا جاتا ہے، اور اس روایت کو اس حد تک سختی کے ساتھ نبھایا جاتا ہے، کہ خلاف ورزی کرنے والوں کو کئی موقعوں پر گاؤں کی جاتی پنچایت یا ان کے اعزا و اقارب ہی موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں۔ان علاقوں میں کئی مواقع پر لڑکیاںگاؤں کے مسلم یا نچلی ذات کے ہندو دلت نوجوانوں کو دل دے بیٹھتی ہیں۔ کیوںکہ صرف یہی دو گروہ بھائیوں کے زمرے میں نہیں آتے ہیں۔ مگر اس کے باوجود اس علاقے میں ابھی تک کوئی ایسا مقدمہ سامنے نہیں آیا ہے، جہاں کسی ہندو لڑکی نے باضابطہ طور پر کسی مسلم لڑکے کے ساتھ شادی کی ہو یا مذہب تبدیل کیا ہو۔
چند برس قبل تک اسرائیل میں بھی ’اسرائیلی عربوں‘ (یہ اصطلاح ان فلسطینیوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے، جو اسرائیل کو اپنا وطن تسلیم کرتے ہیں) پر بھی یہودی لڑکیوں کو بہلا پھسلا کر اپنے آپ کو یہودی جتلا کر ان کے ساتھ شادیا ں کروانے کے الزام لگائے جاتے تھے۔ اس سارے پروپیگنڈے کا ماخذ۲۰۱۰ء میں عدالت میں ایک یہودی لڑکی کی طرف سے دائر کیا گیا مقدمہ تھا، جس میں اس نے اپنی شادی منسوخ کرنے کی درخواست دی تھی کیونکہ ’’اس کے شوہر نے اپنی شناخت چھپا کر اور اپنے آپ کو یہودی جتلا کر اس کے ساتھ شادی کی تھی۔ بعد میں اس کو پتہ چلا تھا کہ وہ ایک عرب نوجوان تھا‘‘۔اس واقعہ کے نتیجے میںتل ابیب، عسقلان، بحرلوط اور دیگر تفریحی ساحلی مقامات پر اسرائیلی عرب نوجوانوں کا داخلہ بند کردیاگیا تھا۔
دوسری عالمی جنگ سے پہلے کچھ اسی طرح کے حربے نازی جرمنی نے یہودیوں کے خلاف اپنائے ، تاکہ ملک گیر سطح پر ان کے خلاف نفرت کا ایک طوفان کھڑا کیا جائے۔تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ ہٹلر نے اس پروپیگنڈے کو عام کرنے میں خاصی دل چسپی دکھائی، کہ ’’یہودی نوجوان ایک پلاننگ کے تحت جرمن خواتین کی آبرو کے درپے ہیں‘‘، تاکہ بقول ہٹلر ’’اعلیٰ جرمن آرین نسل کو آلودہ کیا جائے‘‘۔ ایڈولف ہٹلر نے اپنی خود نوشت سوانح حیات مین کیمف (Mein Kampf) میں لکھا ہے: ’’چہرے پر شیطانی مسکراہٹ سجائے کالے بالوں والے یہودی نوجوان، جرمن لڑکیوں کے لیے گھات لگائے بیٹھے ہیں ، تاکہ ان کے خون کو گندا کریں اور ان سے ان کی نسل چھین لیں‘‘۔ بالکل اسی طرح کا کھیل ۸۰برس کے بعد اب بھارت میں کھیلا جا رہا ہے۔
حیر ت کا مقام ہے کہ '’لو جہاد‘ کا یہ مفروضہ۲۰۰۶ء میں تعلیمی اور سماجی لحاظ سے ترقی یافتہ صوبہ کیرالا سے شروع ہوا، اور بعد میں یہ وبا پڑوسی صوبہ کرناٹک تک پہنچی۔حتیٰ کہ ۲۰۰۹ء میں کرناٹک کی ہائی کورٹ نے دونوں صوبوں کی پولیس سے رپورٹ طلب کی۔ پولیس نے بتایا کہ ’’محبت کا جھانسہ دے کر مسلمان بنانے کا کو ئی واقعہ ہمارے ریکارڈ پر نہیں ہے، تاہم ۲۵جون۲۰۱۴ء کو وزیراعلیٰ اومن چاندی نے اسمبلی میں انکشاف کیا کہ ان کے صوبہ میں ۲۰۰۶ء اور ۲۰۱۴ء کے درمیان ۲۶۶۷ہندو خواتین نے اسلام قبول کیا ہے۔ مگر پولیس تفتیش سے یہ بات سامنے آئی ہے، کہ ان خواتین کو کسی نے زبردستی یا لالچ دے کر تبدیلیٔ مذہب پر مجبور نہیں کیا۔ ان میں سے اکثر خواتین نے یہ بتایا کہ وہ ہندو مذہب کے ذات پات کے بندھنوں سے چھٹکارا پانا چاہتی تھیں، یا پھر شادی کے لیے ان کی اپنی ذات یا معاشی سطح کے ہندو لڑکوں نے انکار کردیا تھا‘‘۔
چونکہ رام مندر کی تعمیر ، کشمیر کی خصوصی آئینی پوزیشن ختم کرنے جیسے امور پر عمل درآمد ہوچکا ہے۔ ہندو انتہا پسند تنظیمیں جو اعلیٰ ذاتوں کی نمایندہ ہیں، انھیں مسلمانوں کو ہدف بنانے کے لیے ایک اور ایشو کی ضرورت ہے، جس سے اکثریتی آبادی کی توجہ بنیادی ایشوز سے ہٹائی جائے اور منافرانہ ماحول گرم رکھ کر ملک بھر میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز فضا برقرار رکھی جائے۔ مظلوم اور کمزور طبقات میں بڑھتی ہوئی سماجی بیداری نے نسل پرست بی جے پی کی فکر مندی کو دوچند کردیا ہے۔ لہٰذا وہ اپنے پس پردہ اہداف کے حصول کے لیے پسماندہ طبقات اور دلتوں کو نشانہ بنانے کی جرأت نہیں کر سکتے ہیں۔ البتہ انتہاپسند ہندو تنظیمیں مسلمانوںکو نرم چارا تصور کرتی ہیں۔ ان تنظیموں کے لیے بہتر تھا کہ ہندو معاشرہ کی معاشرتی خرابیوں کی طرف توجہ د یتیں، جن کے سبب ہندو خاندانوں کی خانگی زندگیاں عذاب بن جاتی ہیں۔ ایسے ایسے سماجی بندھن اور قانونی شقیں ہیں کہ نہ آسانی سے طلاق لے سکتے ہیں اور نہ کسی مجبوری کی وجہ سے دوسری شادی کر سکتے ہیں۔ لیکن ان کے نزدیک یہ مسائل کوئی اہمیت نہیں رکھتے کیونکہ اس کی بنیاد پر سیاسی مفادات پورا کرنا ممکن نہیں ہے۔
بہرحال ضرورت اس بات کی ہے کہ بھارت میں مسلمان خود کو اس شر و فساد کی سیاست سے محفوظ رکھیں۔ جو نوجوان غیر اخلاقی حرکتوں میں ملوث ہوتے ہیں، غیر مذہب کی خواتین کے ساتھ راہ و رسم بڑھاتے ہیں، ان کی اصلاح کی کوشش کریں اور ان کی حوصلہ شکنی کریں۔ کہیں ان کی حرکتوں کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا نہ پڑے۔ کیوںکہ آثار و قرائن بتا رہے ہیں، کہ ہندو انتہا پسندوںکا سازشی ٹولہ اسی بہانے مسلمانوں کے سماجی بائیکاٹ کی سازش کر رہا ہے۔
آذربائیجان کی فوجیں ۱۷نومبر ۲۰۲۰ء کو جب نگورنوقاراباغ کے اہم شہر شوشا میں داخل ہوگئیں ، تو ترکی کے دارلحکومت انقرہ کے نواح میں رہنے والی ایک ضعیف العمر آذربائیجانی خاتون زلیخا شاناراوف نے گھر کے اسٹور سے ایک پرانا زنگ آلود صندوق نکالا، جس کو اس کی فیملی نے ماضی میں کئی بار کوڑے میں پھینکنے کی کوشش تھی۔مگر بڑی بی کا اس صندوق کے ساتھ ایسا جذباتی رشتہ تھا کہ و ہ آسمان سر پر اٹھا کر ہرایسی کوشش کو ناکام بنا دیتی تھی۔ شوشا شہر کے آزاد ہونے کی خبر نے اس عمر رسیدہ خاتون کو گویا پھر سے جوان کردیا ، اوراس نے پورے خاندان کو جمع کرکے اس صندوق کو کھولنے کا حکم دیا۔ اس چھوٹے سے بکس میں اس نے شوشا میں واقع اپنے مکان کی چابی حفاظت کے ساتھ رکھی ہوئی تھی، جہاں سے اس کو ۱۹۹۲ء میں آرمینیائی قبضے کے بعد بے سرو سامانی کی حالت میں بچوں کے ساتھ نکالا گیا تھا۔
ترکی کے شہر انقرہ، عدبر اور آذربائیجان کے باکو اور دیگر علاقوں میں ہجرت کی زندگی بسر کرنے والے ایسے ہزاروں مہاجر خاندان اب اپنے آبائی گھرو ں کو جانے کے لیے بے تاب ہیں۔ فی الحال دسمبر تک علاقوں سے آرمینیائی افواج کا انخلا طے پایا ہے اور آذر بائیجانی افواج مفتوحہ علاقوں میں بارودی سرنگیں ہٹانے کا کام کر رہی ہیں۔ اس کے بعد ہی شہریوں کو واپس آنے کی اجازت دی جائے گی۔ تقریباً ڈیڑھ ماہ پر پھیلی اس جنگ کے بعد آرمینیا نے جب اعتراف شکست کیا، تو یہ گذشتہ سو سالوں میں کسی مسلم ملک کی پہلی مکمل فوجی فتح تھی۔ گذشتہ ۲۷ برسوں کے بعد پہلی بار اعدام اور دیگر شہروں کی مسجدوں کے منارے اور منبر آباد ہوگئے، جہاں آذری افواج نے داخل ہوکر اذانیں دیں اور شکرانے کے نوافل پڑھے۔ پچھلی تین دہائیوں سے یہ مسجدیں جانوروں کے باڑوں یا موٹر گاڑی گیراج کا کام دے رہی تھیں۔ صرف اعدام کے علاقے سے ہی گذشتہ صدی کے آخری عشرے کے اوائل میں ۲لاکھ کے قریب آذری اپنے آبائی علاقے سے نقل مکانی پر مجبور کر دیے گئے تھے۔ آرمینیوں نے قبضے کے دوران علاقے میں کافی لوٹ مار مچائی اور شہر کے مرکزی علاقوں کو تباہ کر دیا تھا۔
جنگ بندی اور آرمینیا کے وزیرا عظم نکول پاشہینان کے اعتراف شکست کے بعد جو معاہدہ طے پایا ہے، اس کے مطابق مفتوحہ علاقوں ، جن میں پانچ اہم شہر، چار قصبے اور ۲۸۶دیہات شامل ہیں، پر آذر بائیجان کا قبضہ تسلیم کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ دسمبر تک مزید سات علاقو ں سے آرمینیائی افواج کے انخلا کے بعد آذر بائیجان کے حوالے کر دیے جائیں گے۔ قاراباغ علاقے سے ۱۹۹۰ء میں آرمینیا نے جس مسلمان آذری آبادی کو بے دخل کرکے، اس علاقے کاآبادیاتی تناسب تبدیل کر دیا تھا، ان سب افراد کو واپس اپنے علاقوں میں جانے اور بسنے کی نہ صرف اجازت ہوگی، بلکہ ان کی حفاظت کی ذمہ داری مقامی حکمرانوں پر عائد ہوگی۔ آرمینیا سے آذربائیجان کے راستے ترکی جانے والے سبھی ٹرانزٹ راستوں کو کھولا جائے گا اور ترک افواج ان کی نگرانی کریں گی۔ ان میں سب سے اہم ترکی اور آذر بائیجا ن کے درمیان قدیم سلک روٹ، یعنی ناچیوان کوریڈو ر کی بحالی ہے۔ اس سے ترکی کو براہِ راست چین تک رسائی حاصل ہوجائے گی اور یہ جلد ہی ’بیلٹ اینڈ روڈ پراجیکٹ‘ کا حصہ بن جائے گا۔ اس راستے کی عدم دستیابی کے نتیجے میں آذر بائیجان تک پہنچنے کے لیے ترکی کو ایران یا جارجیا کا راستہ اختیار کرنا پڑتا تھا۔ اگرچہ لنچن علاقے کو بھی آذربائیجان کا حصہ تسلیم کیا گیا ہے، مگر آرمینیا کو قاراباغ کے دارالحکومت اسٹیپن کرت تک رسائی کے لیے لنچن میں ایک کوریڈور کے ذریعے رسائی دی گئی ہے، جس کی حفاظت روسی افواج کریں گی۔
بلاشبہہ آذربائیجانی صدر الحام علی یوف پر سخت دباؤ تھا کہ جنگ جاری رکھ کے شوشا شہر کے بعد ۱۰کلومیٹر دور دارلحکومت اسٹیپن کرت پر بھی فوج کشی کرکے آزاد کروائیں، مگر جس طرح آرمینیائی افواج آذربائیجان کے اند ر شہری علاقوں پر میزائلوں اور راکٹوں کی بارش کرکے سول آبادی کو نشانہ بنارہی تھی، اس میں بڑی طاقتوں کی طرف سے جنگ بندی کی اپیل کے بعد الگ تھلگ پڑنے کے خوف سے علی یوف نے امن کے دامن کو تھام لیا۔
کہتے ہیں کہ جنگ مسائل کا حل نہیں ہے، یہ خود مسائل کو جنم دیتی ہے، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب بار بار تاکید کے بعد بھی مذاکرات مسائل حل کرانے میں ناکام ہوجاتے ہیں، تو جوں کی توں صورتِ حال (اسٹیٹس کو) بدلنے کا واحد حل جنگ ہی رہ جاتا ہے۔ ۱۹۹۴ء سے قاراباغ پر بھی اقوام متحدہ نے چاربار قرار دادیں منظور کرکے آرمینیا کو یہ علاقے خالی کرکے آذربائیجان کے حوالے کرنے کی اپیل کی تھی، مگر طاقت کے زعم کے ساتھ روس اور فرانس کی پشت پناہی کی وجہ سے آرمینیا نے ان قراردادوں پر کوئی کان نہ دھرا۔ اس دوران آرمینیا نے ان علاقوں کو مکمل طور پر آذری مسلم آبادی سے خالی کرواکے وہاں آرمینیائی نسل کی حکومت قائم کردی۔ جس نے اس علاقے کے اصل باشندوں، یعنی آذری مسلم آبادی کی عدم موجودگی میں نام نہاد ریفرنڈم کروایا، اور قاراباغ کا الحاق آرمینیا سے کرنے کا اعلان کیا۔ تاہم، بین الاقوامی برادری نے اس ریفرنڈم کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ آذربائیجانی صحافی جیحون علییوف کے مطابق ۱۹۹۰ء سے مذاکرات اور بین الاقوامی برادری کے توسل سے متواتر آذر بائیجان بتانے کی کوشش کررہا تھا ، کہ اگر آرمینیا ٹرانزٹ کوریڈورز میں آمد و رفت بحال کرنے، مہاجرین کی واپسی اور قاراباغ کے نچلے علاقوں کو واپس کرنے پر آمادہ ہوتا ہے ، تو وہ اس کو بطور حتمی حل ماننے کے لیے آمادہ ہے، مگر آرمینیا ہمیشہ اس پیش کش کو ٹھکراتا آیا ہے۔
اب جنگ کے بعد روس اور ترکی کی ایما پر ایسا ہی معاہدہ عمل میں آیا ہے۔ اب نچلے تمام علاقوں سے ہاتھ دھونے کے ساتھ ساتھ آرمینیا کو بالائی قاراباغ کے اہم شہر شوشا سے بھی ہاتھ دھونا پڑا ہے، جو اس علاقے کا ثقافتی اور تجارتی قلب ہے۔ تزویراتی لحاظ سے بھی اس کی اہمیت دوچند ہے، کیونکہ یہ اونچائی پر واقع ہے، اور اس کو حاصل کرنے کے لیے آذری افواج کو خاصی محنت کرنی پڑی ۔ یہاں آرمینیائیوں کا آپوسٹولک چرچ بھی واقع ہے۔
شمالی قفقاز ( North Caucasus) میں نگورنو قاراباغ کو ۱۹۲۳ء میں آذربائیجان کا علاقہ بنادیا گیا تھا۔ سوویت یونین کے آخری زمانے اور پھر تحلیل و انہدام کے بعد سے اس علاقے کے کنٹرول کے سوال پر آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان ۱۹۸۸ء سے ۱۹۹۴ءتک چھے سال طویل جنگ ہوئی، جس میں ۳۰ہزار افراد ہلاک ہوئے، جب کہ لاکھوں افراد کو وہاں سے ہجرت کرنا پڑی۔ اس وسیع پیمانے کی جنگ کو ختم کرنے کے لیے روس نے ثالث کا کردار ادا کیا ، لیکن کوئی معاہدہ نہیں ہوسکا۔ اس جنگ کی وجہ سے لاکھوںآذریوں کو ہجرت کرنا پڑی، جس کے نتیجے میں یہاں آرمینیائی باشندوں کی اکثریت ہوگئی، جب کہ حکومت بھی آرمینیا کی حمایت یافتہ بن گئی۔
۲۰۱۶ءمیں بھی اس علاقے میں پانچ روز تک دونوں ممالک کے درمیان جنگ جاری رہی، جس کی وجہ سے سیکڑوں افراد ہلاک ہوگئے اور پھر روس کی مداخلت کی وجہ سے جنگ پھر رک گئی۔ مگر حال ہی میں اختتام پذیر جنگ ۹۰ء کے عشرے کے بعد چھڑنے والی سب سے بڑی جنگ تھی۔ اس میں خاص بات آذر بائیجان کو ترکی کی حمایت کا حاصل ہونا اور ڈرون طیاروں کا حصول، جس نے آرمینیا کی فضائی قوت کو تباہ کردیا۔ مزید یہ کہ آرمینیا کے اتحادیوں روس اور ایران کا اس دورا ن غیر جانب دار رہنا بھی آذربائیجان کے حق میں گیا۔ تاہم روس نے خبردار کیا تھا کہ ’’آرمینیا کی سرحدوں کے اندر کسی بھی فوجی کارروائی کی صورت میں وہ مداخلت کرنے پر مجبور ہوگا‘‘۔ آذربائیجان نے اسی لیے جنگ کو قاراباغ تک ہی محدود رکھا ۔ آرمینیا نے اگرچہ آذر بائیجان کے شہری علاقوں پر راکٹوں کی بارش کی، مگر روس کی مداخلت کے خوف سے آذر بائیجان نے ان کا جواب نہیں دیا،اور فوج کشی قاراباغ تک ہی محدود رکھی۔
معاہدے کی رُو سے جو علاقے اب آرمینیا خالی کر رہا ہے ، اس کی فوج اور لوگ مکانات، سرکاری عمارات اور جنگلاتی اراضی کو نذرِ آتش کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا اور روسی نیوز سائٹ سے نشر ہونے والے ویڈیو مناظر میں کیل بیجیر کے مختلف علاقوں میں مقیم آرمینیوں کو نکلنے سے پہلے عمارتوں کو نذرِ آتش کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ خاص طور پر ۲۷سال قبل آذریوں کے پیچھے چھوڑے ہوئے گھروں کی کھڑکیاں اور دروازے توڑ کر انھیں آگ لگاتے ہوئے نظر آئے۔ صرف گھروں کو نہیں اسکولوں اور درختوں تک کو تباہ کیا جا رہا ہے۔ قارا باغ کے شمال مغربی علاقے کیل بیجیر پر ۱۹۹۳ء کو آرمینیا نے جب قبضہ کیا تھا تو اس علاقے میں مقیم تقریباً ۶۰ہزار آذری اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہو گئے تھے۔ ۱۰ نومبر کو طے پانے والے سمجھوتے کی رُو سے آرمینی فوج کو ۱۵ نومبر تک کیل بیجیر کو خالی کرنا تھا۔
آذربائیجان کی خاص بات یہ ہے کہ اس کے پہاڑی علاقوں میں ازخود آگ بھڑک اٹھتی تھی۔ اس مناسبت سے زرتشت اس کو ایک مقدس جگہ مانتے تھے۔ مگر ماہرین کے مطابق اَزخود بھڑک اٹھنے والی آگ کا موجب علاقے میں پائے جانے والے تیل اور گیس کے ذخائر ہیں۔ بحرگیلان یا بحرکیسپین سی کے کنارے آباد اس علاقے میں ہمہ وقت چلنے والی تیز ہوائیں بھی ا س آگ کو بھڑکاتی رہتی ہیں۔
عالمی جریدے کونسل آن فارن ریلیشنز کے مطابق آذربائیجان روزانہ آٹھ لاکھ بیرل تیل کی پیداوار کرتا ہے، جو یورپ اور وسطی ایشیا کو تیل برآمد کرنے والا بڑا ملک ہے۔ اس تیل اور گیس کو یورپ پہنچانے کے لیے دوراستے ہیں، ایک شمال مغربی روس اور دوسرا جنوب مغربی قفقاز یا کاکیشیائی ریاستوں سے ہوکر ترکی سے گزرتا ہے۔ یورپ اپنی گیس کی ضروریات کو یہاں سے پورا کرنے کے لیے مستقبل میں یہاں سے مزید پائپ لائنوں کی تعمیر کا خواہش مند ہے۔گو کہ قاراباغ کا پہاڑی علاقہ خود گیس یا تیل کی پیداوار نہیں کرتا، مگر اس کے کیل بیجیر ، لاچن، زنگی لان اور تار تار اضلاع میں سونے، چاندی، پارے، تانبے، جست اور کوئلہ کے وافر ذخائر موجود ہیں۔
اس جنگ سے ایک بات تو طے ہے کہ شرق اوسط کے بعد قفقاز میں بھی ترکی کا قد خاصا بلند ہوا ہے۔ ایک طرح سے اس کا سفارتی اور عسکری رتبہ روس کے ہم پلہ ہوگیا ہے۔آذر بائیجان ، آرمینیا کی یہ جنگ شاید نئے ورلڈ آرڈر کی نوید ہے، جس میں ترکی، روس اور چین ایک اہم رول ادا کرنے والے ہیں۔جنگی برتری حاصل کرنے بعد ترکی اور آذر بائیجا ن کے لیے بھی لازم ہے کہ آرمینیا کی اشک شوئی کرکے اس کو بھی اتحاد میں شامل کرکے اقتصادی طور پر اس کی مدد کرکے اسے مغربی ممالک کا کھلونا نہ بننے دیںاور مفتوحہ علاقوں میں آرمینیائی مذہبی علامتوں کی حفاظت کی جائے۔ شاید اسی لیے ترکی کی ایما پر آذربائیجان کی افواج نے اسٹیپن کرت پر فوج کشی نہ کرکے مفاہمانہ پالیسی کی گنجایش رکھ دی ہے۔