افتخار گیلانی


یہ ۲۰۱۸ء کی بات ہے، جب بھارت کے جنوبی صوبہ کرناٹک، میں اسمبلی انتخابات کی مہم جاری تھی، تو یہاں پر بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک مقتدر لیڈر، اننت کمار (مرکزی وزیر) پارلیمنٹ کے سنٹرل ہال میں انتخابات کے لیے اپنی پارٹی کی حکمت عملی پر گفتگو کر رہے تھے۔ جب اننت کمار سے پوچھا گیا کہ ’’بی جے پی کیا ایجنڈا لے کر میدان میں اتر رہی ہے؟‘‘ تو انھوں نے صاف اعتراف کیا کہ ’’پولرائزشن ہی ہمارا ہتھیار ہے۔ تعمیر و ترقی کے نام پر کہاں عوام ہمیں ووٹ دیتے ہیں‘‘۔ اُن دنوں شیر میسور ٹیپو سلطان، ہندو نسل پرستوں کی زد میں تھے۔ تب کانگریس کے ایک لیڈر کے۔ رحمان خان ٹیپو سلطان یونی ورسٹی بنانا چاہتے تھے اور کانگریسی وزیر اعلیٰ سدھا رمیا نے ٹیپو سلطان کی برسی منانے کا اعلان کیاہوا تھا۔ اننت کما ر کا کہنا تھا کہ ’’یہ ایشوہماری انتخابی مہم کے لیے غذا ہے اور اس کا بھرپور استعمال کیا جائے گا‘‘۔ پولرائزیشن کے اس ہتھیار نے اسمبلی میں بی جے پی کی سیٹوں کی تعداد ۴۰ سے بڑھا کر ۱۰۴کردی۔

۲۰۰۴ء میں جب کانگریس کے زیر قیادت اتحاد نے انتخابات میں اٹل بہاری واجپائی کی حکومت کو شکست دی، اس وقت بی جے پی کے سربرا ہ اور ملک کے موجودہ نائب صدر وینکیا نائیڈو نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ ’’یہ انتخاب ان کی پارٹی نے تعمیری ایشوز یعنی ’شائینگ انڈیا‘ کے نعرے پر لڑا تھا ۔ مگر اس شکست نے ان میں احساس پیدا کر دیا ہے کہ عوام کو جذباتی ایشوز پر ہی لبھایا جاسکتا ہے‘‘۔ تب سے بی جے پی نے اقتدار کی کرسی کو مضبوطی کے ساتھ پکڑنے کے لیے تین آزمودہ ہتھیاروں کا استعمال کیا ہے ، اور وہ ہیں:’’ گائے، مسلمان اور پاکستان‘‘۔

۲۰۱۴ء سے ابھی تک ’گائے کی حفاظت‘ کے نام پر ہجومی تشدد کے ۸۰ واقعات میں ۵۰؍افراد ہلاک کیے جا چکے ہیں۔ لیکن اب گائے کا ایشو کچھ ٹھنڈا پڑچکا ہے۔ ’پاکستان‘ کے ایشو کو آیندہ کے لیے اُٹھا رکھا گیا ہے، جس طرح پلوامہ کے المیے کے بعد ۲۰۱۹ء میں اس کا استعمال کیا گیا تھا۔ تاہم، آج اس وقت ہندو شدت پسند اور ان کی سیاسی تنظیم بی جے پی ، مسلمان کارڈ کا بھرپور استعمال کر رہی ہے۔خود وزیراعظم نریندر مودی نے اپنے انتخابی حلقہ ورانسی میں تاریخی شخصیات اورنگ زیب عالم گیر اور صوفی بزرگ سید سالار مسعود غازی کو مطعون کرکے الیکشن کو ہندو بنام مسلمان بناکر مخالفین کو شکست دی۔

  لکھنؤ شہر کے ایک معروف صحافی حسام صدیقی کے مطابق: ’’ہندو شدت پسندوں کی مربی تنظیم راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) مسلمانوں کے خلاف اکثر طرح طرح کے تجربے کرتی رہتی ہے، تاکہ عام ہندوؤں کو بھڑکا کر بی جے پی کی حمایت میں پولرائز کیا جاسکے‘‘۔ اس وقت حجاب کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، جس کا آغاز کرناٹک کے اڈپی قصبے سے ہوا، جہاں گورنمنٹ پری یونی ورسٹی کالج فار گرلز میں نصف درجن مسلم لڑکیوں کودسمبر میں کلاس میں جانے سے روکا گیا، کیونکہ انھوں نے حجاب پہن رکھا تھا۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے بجائے صوبہ کی بی جے پی حکومت نے ۵فروری کو حکم نامہ جاری کرکے تمام اسکول اور کالجوں میں حجاب پر پابندی لگانے کا اعلان کردیا۔

سوال یہ ہے کہ حجاب سے کس طرح نظم و نسق اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی خراب ہو رہی تھی؟جو لوگ حجاب کی مخالفت کر رہے ہیں، اب ان سے کوئی پوچھے کہ ہندو خواتین جو گھونگھٹ میں رہتی ہیں، تو ان کے گھونگھٹ بھی اتار کر پھینک دو۔ مرکزی وزیر گری راج سنگھ تو دُور کی کوڑی لاتے ہوئے سب سے آگے نکل گئے۔ انھوں نے کہا:’’حجاب کے ذریعے کچھ لوگ ملک میں ’اسلامک اسٹیٹ‘ (داعش) کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں، لیکن ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے‘‘۔ نفرت کی خلیج کو گہرا کرنے کے لیے بی جے پی کی زیر قیادت دیگر صوبائی حکومتیں بھی حجاب پر پابندی عائد کرنے پر غور کر رہی ہیں۔ ہندو شدت پسند تنظیمیں بڑی تعداد میں حجاب کے خلاف بطورِ احتجاج طلبہ کو بھگوا مفلر تقسیم کر رہی ہیں۔ اسے چھوٹے چھوٹے بچوں تک میں نفرت پھیلانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔

ہندو نسل پرست ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے ’ لوّ جہاد‘ سے شروع کی جانے والی لہر،  شہریت قانون، تبدیلیِ مذہب پر پابندی کا قانون، گائے کے نام پر ہجومی تشدد اور ایسے اَن گنت اقدامات کے تسلسل میں اب حجاب کے سوال پر جھگڑا کھڑا کیا گیاہے۔ اس طرح سے بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کو بتایا جا رہا ہے کہ ان کے لیے یہاں کوئی جگہ نہیں ہے اور اگر رہنا ہے تو دوسرے درجے کے شہری کی حیثیت سے رہنا ہوگا۔۲۰۱۷ء میں خاتون رپورٹر شوئیٹا ڈیسائی نے اترپردیش کے موجودہ وزیر اعلیٰ یوگی مہنت آدتیہ ناتھ کے حلقہ انتخاب گورکھپور اور خوشی نگر کا دورہ کرنے کے بعد اپنی رپورٹ میں لکھا تھا کہ ’’اس علاقے میں مسلم لڑکیوں کے اغوا اور غائب کردیے جانے کی سیکڑوں وارداتیں پولیس اسٹیشنوں کی فائلوں میں بند ہیں۔ ان میں سے اکثر لڑکیوں کا ’شدھی کرن ‘کرکے ان کی شادیاں ہندو نوجوانوں کے ساتھ کرادی جاتی ہیں۔بنگالی پٹی بنجاریہ گائوں کی ۱۷سالہ عاصمہ نے بتایا، کہ اغوا کرنے کے بعد اس پر ایک ہندو لڑکے کے ساتھ شادی کرنے کے لیے دباؤ ڈالا گیا۔ مگر وہ کسی طرح ان کی گرفت سے بھاگ نکلی‘‘۔ خاتون رپورٹر نے  بتایا کہ ’’ صر ف اس ایک گاؤں میں نو ایسے خاندان ہیں، جن کی لڑکیوں کو اغوا کرنےکے بعد ان کی زبردستی کی شادیاں کردی گئی ہیں‘‘۔

چوپیہ رام پور گاؤں میں زبیدہ اب امیشا ٹھاکر کے نام سے ایک ہندو خاندان میں زندگی گزار رہی ہے۔ اس کا شوہر اروند گاؤں کے مکھیا ٹھاکر کا بیٹا ہے۔ ماتھے پر بندی سجائے اور ہندووانہ لباس میں ملبوس امیشا نے رپورٹر کو بتایا، کہ ’’جب وہ ۱۳سال کی تھی، تو ٹھاکروں نے اس کو گھر سے اٹھا کر اغوا کیا‘‘۔ مشرقی اتر پردیش کا یہ علاقہ کافی پسماندہ اور بدحالی کا شکار ہے۔ اکتوبر ۲۰۱۶ء میں حبیب انصاری نے اپنی بیٹی نوری کے اغوا میں ملوث چار ہندو لڑکوں کے خلاف مقدمہ واپس لینے کی درخواست عدالت میں دائر کی۔ دو سا ل قبل نوری کو گوری سری رام گاؤں سے اغوا کرکے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ۔ نوری نے مجسٹریٹ کے سامنے ہندو واھنی سے وابستہ چارافراد کی شناخت بھی کی، جن میں ایک نابالغ لڑکا بھی تھا۔ بتایا جاتا ہے، کہ ادتیہ ناتھ کے کارکنوں نے انصاری پر مقدمہ واپس لینے کے لیے دباؤ ڈالا، جس کے بعد ہی اس کو گاؤں میں دوبارہ رہنے اور کھیتی باڑی کرنے کی اجازت ملی‘‘۔

پانچ سا ل پہلے کی بات ہے کہ جب میں اتر پردیش کے انتخابات کی رپورٹنگ کر رہا تھا۔ کالج کے ایک پروفیسر، جو سماج وادی پارٹی کے سربراہ کے قریبی رشتہ دار تھے، انھوں نے بتایا کہ ’’میں مودی کے بدترین مخالفین میں سے ہوں، مگر ایک کام اس نے بہت اچھا کیا اور وہ یہ ہے کہ اس نے مسلمانوں کی عقل ٹھکانے لگائی ہے اور انھیں ٹھیک کنٹرول میں رکھا ہے‘‘۔ بھارت میں بے بنیاد طور پر یہ تاثر پھیلایا گیا ہے کہ ’’مسلمانوں نے یا تو ملکی وسائل پر قبضہ کیا ہوا ہے یا ان کے ادا کیے گئے ٹیکسوں پر ہی وہ زندہ ہیں‘‘۔یہ مذہبی منافرت کا دوسرا مرحلہ ہے، جو فسطائیت کے زمرے میں آتا ہے۔ اسی طرح کا پراپیگنڈا یورپ میں دوسری عالمی جنگ سے قبل یہودیوں کے خلاف عام تھا۔

بھارت میں مذہبی منافرت اُبھارنے کا یہ کام نہایت منظم انداز میں ہو ا ہے۔ ہندو قوم پرستوں کی سرپرست تنظیم آر ایس ایس کی ذیلی تنظیموں سے وابستہ چھے ہزار سے زائد سکول سرکاری امداد پر چلتے ہیں۔ ان میں زیرتعلیم بچوں کے معصوم ذہنوں کو مذہبی نفرت سے مسموم کیا گیا ۔ اس کے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں شیشو مندر ہیں‘ جہاں نوجوان نسل کی برین واشنگ کی گئی۔ یہاں سے فارغ ہونے والے تعلیم یافتہ افراد ہی آگے چل کر مختلف میدانوں میں مختلف حوالوں سے مذہبی تعصب پھیلاتے ہیں۔ اس کی ایک جھلک صاف طور پر بھارتی میڈیا میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ 

۲۰۱۴ء کے دوران کشمیر میں انتخابات کی رپورٹنگ کرتے ہوئے میں نے دیکھا، کہ جموں کے مسلم اکثریتی علاقے ’چناب ویلی‘ میں دشوار گزار اور انتہائی دور دراز علاقوں میں آر ایس ایس کے پُرجوش کارکنوں نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ کارپوریٹ اور دیگر سیکٹروں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز یہ اراکین راجستھان، مدھیہ پردیش، کرناٹک حتیٰ کہ کیرالا سے عیش وآرام کی زندگی چھوڑ کر ایک سال کی چھٹی لے کر دیہات میں رات دن ’ہندوتوا‘ کا پاٹھ پڑھارہے تھے۔

شہید بابری مسجد کی جگہ پر عالی شان رام مندر کی تعمیر کے بعد مسلمانوں کو مزید کنارے لگانے اور ووٹ حاصل کرنے کے لیے آر ایس ایس کا نشانہ اب۱۹۹۱ء کا عبادت گاہوں کا قانون ہے، جس کی رُو سے بابری مسجد کو چھوڑ کر بقیہ تمام عبادت گاہوں کی۱۹۴۷ء والی حیثیت کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ اس قانون کو کالعدم کرانے کے مطالبے میں تیزی آنے کا اندیشہ ہے۔ اسی لیے بنارس کی گیان واپی مسجد اور متھرا کے عید گاہ کے قضیے کو ہوا دی جار ہی ہے۔ بنارس کی گیان واپی مسجد کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ اسے مغل بادشاہ اورنگزیب عالم گیر نے سترھویں صدی میں تعمیر کرایا تھا، لیکن تاریخی طور پر یہ بات ثابت نہیں ہے۔ کیونکہ بعض مخطوطوں کے مطابق مغل بادشاہ جلال الدین اکبر کے عہد حکومت میں بھی یہ مسجد موجود تھی ۔ یہ جامع مسجد شہر کے قلب میں دریائے گنگا کے کنارے للتا گھاٹ کے قریب واقع ہے۔ متھرا کی شاہی عیدگاہ اور مسجد کے بارے میں اب بتایا جاتا ہے کہ یہ بھگوان کرشن کے جنم استھان کا حصہ ہے ۔ یہ دونوں ہی قدیم مساجد ہیں، جہاں مسلمان برسہا برس سے نمازیں پڑھتے آئے ہیں۔

بنارس کی اس مسجد کے بارے تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ آسام پر فوج کشی سے واپسی کے بعد جب اورنگ زیب کی فوجوں نے اس شہر میں پڑاو ڈالا، تو اس کے راجپوت کمانڈروں کی بیویاں مندر میں پوجا کرنے کے لیے گئیں۔ رات تک جب گجرات کے کچھ علاقہ کے مہارانا گیان سنگھ کی رانی اور اس کی دو داسیاں واپس نہیں لوٹیں ، تو اگلی صبح مندر کے تہہ خانے کی تلاشی کے دوران گیان سنگھ نے دیوار سے لگے بھگوان گنیش کے بت کو جھنجھوڑ ڈالا، تو اس کے نیچے تہہ خانے کو جاتی سیڑھیاں  نظر آئیں۔ نیچے جا کر پتاچلا کہ کچھ کی مہارانی ادھ موئی پڑی تھی اور اس کے کپڑے تار تار تھے۔ اورنگ زیب نے یہ مقدمہ کچھ کے راجا کے حوالے کر دیا، جس نے مندر کے برہمن پجاریوں کو احاطہ کے اندر ہی موجود کنوئیں میں پھینکوا کر، اوپر سے کنواں بند کرا دیا اور اس کے اوپر مندر کو اَزسر نو تعمیر کرادیا۔ مغل بادشاہ کو خوش کرنے کے لیے اس مندر کی دیوار سے متصل ایک مسجد بھی تعمیر کرائی۔مگر کچھ تاریخ دانوں کا خیال ہے کہ اس نے مسجد کی مرمت کروائی، کیونکہ یہ پہلے سے ہی موجود تھی۔ یہ بھارت میں واحد مسجد ہے جو اپنے سنسکرت نام یعنی گیان واپی( علم کا کنواں) کے نام سے موسوم ہے۔ 

بھارت کے مشہور دانش وَر سعید نقوی نے اپنی کتاب Being the Other  میں لکھا تھا کہ ’’میں اب اپنے آپ کو ’غیر‘ محسوس کرتا ہوں‘‘۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عام مسلمان کا کیا حال ہوگا۔اتر پردیش میں صوبائی انتخابی مہم دیکھنے والے صحافیوں کا بھی کہنا ہے کہ ’’مسلمانوں میں اپنی تعلیم و ترقی کے بجائے اپنے تحفظ کا احساس زیادہ گھر کر گیا ہے‘‘۔

سعید نقوی کے مطابق: ہر گزرتے دن کے ساتھ بھارت کا مسلمان اپنے خول میں سمٹتا جا رہا ہے۔ غیر فرقہ پرست ہندو بھی بھونچکا رہ گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جہاں کہیں ممکن ہوتا ہے وہ ’’سیکولر ‘‘ کی اصطلاح سے اجتناب کرتے ہیں ، کیونکہ بھارت میں اس لفظ سے وابستہ حُرمت کو بہت زیادہ پامال کیا گیا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ ایک ایسا پلیٹ فارم بن گئی ہے، جس پر ہندو قوم پرستی کا عالی شان مندر تعمیر اور ترشول بلند کیا جارہا ہے۔یہ کوئی معمولی اتفاق نہیں کہ ہزاروں مسلم نوجوانوں کو جھوٹے الزامات میں گرفتار کیا جاتا رہا ہے اور اکثریتی قوم کو ان بے گناہوں سے ذرا بھی ہمدردی نہیں ہے۔ گویا فرض کرلیا گیا ہے کہ خواہ ان کے خلاف کوئی شہادت نہ ہو تب بھی وہ مجرم ہیں۔ پس ماندہ مسلم بستیوں میں رہنے والوں کے اندر سلگتی ہوئی شکایتوں سے ذہنوں کے اندر خلیج تقویت پاتی ہے۔ نقوی صاحب کا مزید کہنا ہے کہ ’’مجھ پر ایک اور حقیقت منکشف ہوئی ہے کہ جہاں کوئی مسلمان اعلیٰ عہدہ تک پہنچتا ہے، وہ اپنی کمیونٹی کے افراد کی مدد کرنے سے منہ موڑتا ہے، مبادا اس پر ’فرقہ پرست‘ ہونے کا لیبل نہ لگا دیا جائے۔حال یہ ہے کہ پچھلے چاربرسوں میں دہلی میں اورنگ زیب روڑ کا نام تبدیل ہوگیا ہے۔ گورکھپور کا اردو بازار، ہندی بازار ہوگیاہے، ہمایوں نگراب ہنومان نگر ہوگیا، اتر پردیش اور بہار کی سرحد پر تاریخی مغل سرائے شہر دین دیال اپدھائے نگر ہوگیا اور مغل بادشاہ اکبر کا بسایا ہوا الٰہ آباد اب پریاگ راج ہوگیا ہے، فیض آباد ایودھیا ہو گیا ہے۔ ہریانہ کا مصطفےٰ آباد اب سرسوتی نگر ہوگیا ہے‘‘۔

 احمد آباد کو اب کرناوتی نگر اور فیروز آباد کو چندرا نگر بنانے کی تیاریاں چل رہی ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ تاریخ مٹائی نہیں جاسکتی، مگر یہاں تو تاریخ مسخ ہورہی ہے۔ یہ مٹتے ہوئے نام ، مسخ ہوتی تاریخ مسلمانوں کی آنے والی نسلوں سے خود اعتمادی چھین کر احساس کمتری میں دھکیل دے گی۔ کیونکہ یہ صرف نام نہیں تھے بلکہ مسلمانوں کے شان دار ماضی کی جھلک تھی ، جو ثابت کرتی تھی کہ مسلمان اس ملک میں کرائے دار نہیں بلکہ حصہ دار اور اس کی تاریخ کا حصہ تھے۔ لیکن شاید غیرمحسوس طریقے سے ۱۵ویں صدی کے اواخر کے اسپین کے واقعات دہرائے جا رہے ہیں۔

مسلمانوںکی سیاسی حالت حددرجہ ناگفتہ بہ ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو پتا ہے کہ مسلمان ان کے امیدوار کو ووٹ نہیں دیتا۔ اس لیے اسے ان کی کوئی پروا نہیں۔ اس کے لیڈروں کی کوشش ہوتی ہے کہ مسلم ووٹ تقسیم اور ہندو ووٹ یکجا ہو۔ وقت کا تقاضا ہے کہ وزیر اعظم مودی اوران کی پارٹی کے لیڈر اپنے ضمیر سے سوال کریں کہ کیا ۲۰کروڑ مسلمانوں کو خوف کی نفسیات میں مبتلا رکھ کر وہ بھارت کو ایک آسودہ حال ملک بنا سکیںگے؟

صحافتی ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے، جب بھی کسی دوسرے شہر یا ملک میں پہلی بار جانا ہو، تو اس علاقے کا پریس کلب ہی پہلی منزل ہوتا ہے۔ خبر وہاں سے ملے یا نہ ملے، مگر رابطہ، رہبری یا کم از کم خبر نگاری کے لیے رسی کا سرا ہاتھ میں آ ہی جاتا ہے۔اس جگہ کوئی نہ کوئی مقامی صحافی رضاکارانہ طور پر آپ کو بریف کرنے کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔ باقی یہ آپ کی اپنی پیشہ ورانہ تربیت پر منحصر ہوتا ہے کہ کس طرح اس خبر یا ایشو کو پرکھتے ہیں اور پیش کرتے ہیں۔

۲۰۱۸ء سے قبل جب کشمیر کے مرکزی شہر سرینگر میں پریس کلب موجود نہیں تھا۔ اس لیے دورے پر آئے صحافیوں کے لیے لال چوک سے متصل بی بی سی اور دی ٹیلی گراف جیسے معروف میڈیا اداروں سے وابستہ سینیر صحافی یوسف جمیل کا یہ دفتر پہلا پڑاؤ ہوتا تھا۔ ۹۰ کے عشرے میں چونکہ وادیِ کشمیر کے حالات مخدوش تھے، وہ اس دومنزلہ کوارٹر کی دوسری منزل میں قیام پذیر تھے، جب کہ پہلی منزل میں ان کا دفتر، ڈرائنگ روم اور کچن تھا۔ مغربی ممالک اور دہلی سے آئے صحافیوں کا ایک جم غفیر وہاں موجود ہوتا تھا۔ شہرت کی بلندیوں کو چھونے کے باوجود ، حلم، بُردباری اور آداب میزبانی نبھانا، جمیل صاحب کا ہی خاصہ تھا۔ میں نے چونکہ صحافت کی تعلیم اور ملازمت دہلی سے شروع کی تھی، اس لیے رپورٹنگ یا چھٹیاں منانے کے لیے سال میں ایک دو بار سرینگر وارد ہوتا تو جمیل صاحب سے ملاقات لازماً ہوتی۔ وہ خندہ پیشانی کے ساتھ پیش آتے تھے اور رہنمائی کرتے۔اسی طرح دوسرا ٹھکانہ جہاں باہر سے آئے صحافی دروازہ کھٹکھٹا تے تھے، وہ انگریزی روزنامہ کشمیر ٹائمز کا سرینگر کا بیورو ہوتا تھا۔ اس کا دفتر بھی اسی لین میں تھا۔

اخبار ان دنوں صرف جموں سے شائع ہوتا تھا، مگر سرینگر میں اس کا بیورو ظفر معراج کی سربراہی میں خبروں کا سرچشمہ تھا۔ کشمیر میں دہلی سے شائع ہونے والے انڈین ایکسپریس اور جموں سے شائع ہونے واے کشمیر ٹائمز کی دھوم تھی۔ ارون شوری کی ادارت میں انڈین ایکسپریس نے تفتیشی صحافت میں خاصا نام کمایا تھا اور آئے دن اس وقت کی کانگریسی حکومت اور وزیر اعظم راجیو گاندھی کے خلاف ان کے پاس کوئی نہ کوئی اسٹوری ہوتی تھی۔ ظفر معراج بھی ایک طرح سے جموں و کشمیر کے ارون شوری تھے۔ ان کی تفتیشی صحافت کاری نے تو ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی حکومت کا ناک میں دم کررکھا تھا۔

بات ہو رہی تھی سرینگر پریس کلب کی۔کشمیر میں حالیہ واقعات اور اس سے قبل بھی یہ بات تو ثابت ہوگئی ہے کہ وہاں کام کرنے والے صحافیوں کو تلوار کی دھار پر چلنا پڑتا ہے۔ مگر ۲۰۱۸ء کے بعد کشمیر پریس کلب کی صورت میں خطے کے صحافیوں کو ایک آواز ملی تھی۔ یہ واحد صدا تھی، جو صحافیوں کی زندگی کا ثبوت پیش کر رہی تھی۔اگرچہ پوری دنیا میں ہی اس وقت صحافت بحران کا شکار ہے، مگر کشمیر میں یہ کن حالا ت کا شکار ہے، اس کا ہلکا سا اندازہ سرینگر سے شائع ہونے والے مختلف اخباروں کے اداریوں اور ادارتی صفحات کو دیکھ کر لگایا جا سکتا ہے۔ ایک آزمودہ فارمولہ جس میں پہلے اداروں کی شبیہ داغ دار کی جاتی ہے اور پھر ان کو متنازعہ بتایا جاتا ہے، اس کا استعمال کرکے نہایت بے دردی کے ساتھ پریس کلب کو دھوکے اور فریب کے ذریعے بند کر ادیا گیا۔ یہ ادارہ نہ صرف صحافیوں کے لیے مرکزی حیثیت رکھتا تھا، بلکہ باہر سے دورہ پر آئے صحافیوں کے لیے بھی پہلا ٹھکانہ ہوتا تھا۔ فری لانس یا جو پیشہ ور صحافی، جن کے ادراوں کے سرینگر میں دفاتر نہیں ہیں، ان کے لیے کلب اور اس کے ذریعے پیش کی جانے والی سہولیات کسی نعمت سے کم نہیں تھیں۔

 سرینگر میں پریس کلب کا قیام ۲۰۱۸ء میں ایک طویل جدوجہد کے بعد عمل میں آیا تھا۔ حکومت نے پریس انکلیو اور لال چوک سے ذرا فاصلے پر ایک سرکاری ادارے کی خالی کی ہوئی بلڈنگ میں پریس کلب بنانے کی پیش کش کی تھی۔ جس کے بعد باضابطہ انتخابات کے بعد انتظامیہ تشکیل دی گئی، جو ایک عرصہ قبل اپنی انتظامی مدت مکمل کر چکی تھی۔ مگر چونکہ ۲۰۱۹ء میں جموں و کشمیر کے قوانین تبدیل کر دیئے گئے، اس لیے کلب کو نئے قوانین کے تحت دوبارہ رجسٹریشن کرنے کے لیے کہا گیا۔

 جولائی ۲۰۲۱ءکو کلب نے رجسٹریشن کی درخواست دی، اور چھے ماہ بعد دسمبر میں اس کی منظوری آگئی، جس کے بعد فروری میں نئی انتظامیہ کی تشکیل کے لیے انتخابات کی تاریخوں کا اعلان کیا گیا۔اس کے فوراً بعد بتایا گیا کہ ’’کلب کی انتظامیہ کے خلاف انٹیلی جنس کی منفی رپورٹوں کی وجہ سے رجسٹریشن منسوخ کی جارہی ہے۔ مگر صحافیوں کے ایک گروپ نے ریاستی پولیس کی قیادت میں، جب کورونا وائرس کی وجہ سے پابندیاں نافذ تھیں، بلڈنگ پر قبضہ کرکے ایک عبوری انتظامیہ کے قیام کا اعلان کردیا۔ حالانکہ اس قبضے سے قبل پریس کلب کے اگلے انتخابات کا اعلان ہوچکا تھا۔ اس گروپ کے ایک ممبر نے ۲۰۱۸ء میں اس کلب کےقیام کے وقت دہلی میں ’پریس کلب آف انڈیا‘ کے ذمہ داروں کو باور کرانے کی کوشش کی، کہ ’’کشمیر کے پریس کلب کو انتخابات کے بغیر ہی تسلیم کرلیا جائے کیونکہ انتخابات کی صورت میں ’علیحدگی پسند گروپ‘ کلب پر قبضہ کرسکتا ہے۔ کشمیر میں تو ویسے صحافیوں کی کئی تنظیمیں ہیں، مگر یہ واحد جگہ تھی، جو سبھی کی مشترکہ وراثت تھی اور سبھی اکٹھے بیٹھتے تھے۔ اس قضیہ کے اگلے ہی دن، جب پریس کلب آف انڈیا سے لے کر دیگر صحافتی انجمنوں نے انتخابات سے قبل اس طرح کے قبضے پراعتراض کیا، تو حکومت نے کلب کو ہی تحلیل کرکے بلڈنگ کو اپنی تحویل میںلے لیا۔ بہانہ یہ بنایا کہ ’’صحافیوں میں اختلاف رائے پیدا ہو گیا ہے اور اس سے قانون و نظم کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے‘‘۔

کشمیر میں صحافیوں کے لیے عملی صحافت کا راستہ کبھی آسان نہیں تھا۔اس خطے میں ۱۹۹۰ءسے لے کر اب تک ۱۹صحافی جانوں کا نذرانہ دے چکے ہیں۔ اس کی کڑی کے طور پر ۲۰۱۸ء میں رائزنگ کشمیر گروپ کے چیف ایڈیٹر اور مقتدر صحافی شجاعت بخاری کو موت کی نیند سُلایاگیا۔آصف سلطان تو ۲۰۱۸ءسے ہی جیل میں ہیں۔ اب حال ہی میں نوجوان صحافی سجاد گل کو بھی پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت جیل بھیج دیا گیا ہے۔ اس سے قبل فوٹو جرنلسٹ کامران یوسف کو بدنامِ زمانہ ’یوایل پی اے‘ (Unlawful Activities Prevention Act) کے تحت گرفتار کرکے چھے ماہ تک دہلی کی تہاڑ جیل میں پابند سلاسل رکھا گیاتھا۔ وہ اب ضمانت پر باہر ہیں۔

پچھلے تین برسوں میں کم از کم ۱۲صحافیوں کو پولیس نے پوچھ گچھ کے لیے طلب کیا ہے۔ جبراً لاپتا کردیے جانے کا سب سے پہلا واقعہ جو۱۹۸۹ء میں پیش آیا وہ ایک صحافی کا ہی تھا۔ محمدصادق شولوری اردو کے پندرہ روزہ تکبیر میں سینئر کاتب تھے۔ ایک دن وہ دفتر گئے اور پھرکبھی لوٹ کر گھر نہیں آئے۔ ۱۹۹۰ء میں اس وقت کے جموں و کشمیر کے گورنر جگ موہن نے ایک نوجوان صحافی سریندر سنگھ اوبرائے کو گرفتارکرنے اور تین اخبارات بند کرنے کا حکم دیا تھا۔ ان کے پرنٹنگ پریس سیل کردیے گئے اور ان کے خلاف بدنام زمانہ ’ٹاڈا‘(TADA) قانون کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔ ۲۰۱۰ء کی ایجی ٹیشن کے دوران بھارت کی وزارت داخلہ نے نوٹیفیکیشن جاری کرکے رائزنگ کشمیر اور دو دیگر کثیرالاشاعت روزناموں گریٹرکشمیر اورکشمیر ٹائمز کے سرکاری اشتہارات بند کرنے کا حکم صادرکیا۔

اگر دنیامیں کسی بھی صحافت کے طالب علم کو یہ مطالعہ کرنا ہو کہ کس طرح اور کس حد تک اسٹیٹ کسی میڈیا ادارے کو ہراساں اور اس کی مالی حیثیت پر ضرب لگاسکتی ہے تو اس کو سری نگر اور جموں سے شائع ہونے والے انگریزی روزنامہ کشمیر ٹائمز کے کیس کو مطالعے میں ضرور لانا چاہیے۔ کشمیر ٹائمز کے سلسلے میں تمام سرکاری اور پبلک سیکٹر اداروں کو بھی ایک سرکلر جاری کیا گیا کہ ’’چونکہ اخبار ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہے، اس لیے اسے اشتہارات دینا بند کر دیا جائے‘‘۔ حتیٰ کہ پرائیویٹ سیکٹر اور کاروباریوں کو بھی ہدایت دی گئی کہ وہ بھی کشمیر ٹائمز سے دُور رہیں۔سابق وزیرداخلہ اور کانگریسی رہنما پی چدمبرم ، جو آج کل اپنے کالموں کے ذریعے مودی حکومت کو آزادیِ اظہار پر قد غن لگانے پر خوب تنقید کرتے ہیں، نے اپنے دور اقتدار میں کشمیر میڈیا کو ہراساں کرنے میں کلیدی رول ادا کیا۔ کشمیر ٹائمز کے معاملے میں بھارتی اسٹیبلشمنٹ اس لیے بھی کچھ زیادہ ہی خار کھائے ہوئے تھی کہ اس کے مالک جموں سے تعلق رکھنے والے ایک وسیع القلب ہندو وید بھسین تھے ۔ ان کے بے باکانہ قلم کو ملک دشمنی ، بنیاد پرستی و انتہا پسندی کے کھاتہ میں ڈالنا ممکن نہیں تھا۔ کشمیر ٹائمز کی رپورٹنگ اور ایڈیٹوریل کسی بھی صورت نئی دہلی کو ہضم نہیں ہوتے تھے۔ حالت یہاں تک پہنچی کہ ۲۰۱۵ء میںاس ادارہ کو سری نگر کا انتہائی جدید پریس زمین سمیت بیچنا پڑے اور سرکولیشن خاصی کم کرنی پڑی‘ ۔

ایک اور کشمیری فوٹو جرنلسٹ محمد مقبول کھوکھر (جو مقبول ساحل کے نام سے مشہور تھے) ساڑھے تین سال تک مقدمہ چلائے بغیر جموں کی بدنام زمانہ کوٹ بلاول جیل میں قید رہے۔ مقبول کھوکھرکو ۲۰۰۴ء میں ان دنوںگرفتارکیا گیا، جب جنوبی ایشیائی صحافیوںکی تنظیم ’سیفما‘ کی قیادت میں پاکستانی صحافیوںکا وفد بھی ریاست کا دورہ کر رہا تھا۔ ہائی کورٹ نے حکومت سے دومرتبہ کہا کہ مقبول کھوکھر کے خلاف الزامات واپس لے لیے جائیں‘‘۔ لیکن اس کا کوئی اثر نہ ہوا۔ ۱۹۹۱ء میں الصفا کے ایڈیٹر محمد شعبان وکیل کے قتل کی طرح دوسرے صحافیوں کے قتل اور ان پر حملوں کے درجنوں واقعات پر اب تک دبیز پردے پڑے ہوئے ہیں۔ ۱۹۹۲ء میں ایک اخبار کے کاتب غلام محمد مہاجن کو پرانے سرینگر میں ان کی رہایش گاہ سے نکال کر ان کے چھوٹے بھائی کے ساتھ سرعام گولی مارکر ہلاک کردیا گیا۔

کشمیر میں صحافت پریس کلب کے بغیر ۲۰۱۸ء سے قبل بھی کام کرتی تھی۔ اس کے ہونے یا نہ ہونے سے شاید ہی کوئی فرق پڑے گا۔ مگر جس طرح اس کو نشانہ بنایا گیا، وہ دیگر جگہوں پر پریس پر قد غن لگانے کا ایک ماڈل ہو سکتا ہے۔ دہلی میں ’پریس کلب آف انڈیا ‘کی طرح بھارت کے دیگر شہروں میں بھی کلبوں کی بلڈنگیں ، حکومت نے ہی عاریتاً دی ہوئی ہیں۔سرینگر کی طرح اب وہ کسی بھی وقت ان کو واپس لے کر پریس کلب کے ادارے کو ہمیشہ کے لیے دفن کرنے کا سامان کرسکتی ہے۔

بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں تقریباً تین عشروں تک بطور صحافی کام کرتا رہا۔ اس دوران میں  جب کبھی حساس اداروں سے وابستہ حاضر سروس یا ریٹائرڈ افسران سے آف دی ریکارڈ گفتگو کا موقع ملتا ، تو وہ بتاتے کہ ’’پاکستان کو الجھا ئے رکھنے کےلیے وہاں مذہب، مسلک اور لسانی قومیت کے مسائل کو اٹھا کر آگ جلائے رکھنا ضروری ہے اور آسان بھی‘‘ ۔ بھارت میں حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے انفارمیشن ٹکنالوجی سیل سے وابستہ ایک سابق اہلکار نے ایک بار مجھ سے کہا تھا: ’’بھرتی کے دوران ہمیں مسلمانوں میں اشتعال دلانے کی باضابطہ تربیت دی جاتی ہے ۔ ہمیں یہ بتایا جاتا ہے کہ مسلمان جذباتی ہوتے ہیں اور جلد ہی اشتعال میں آجاتے ہیں اور اس کا فائدہ اٹھا کر ان کو اُلجھائے رکھنا بہت ہی آسان ہے‘‘۔

 ۱۹۶۰ء کے عشرے میں پاکستانی خفیہ ایجنسیوں کے مقابلے کے لیے بھارتی خفیہ اور حساس اداروں کے افسران کی ایک میٹنگ طلب کی گئی۔ اس میٹنگ میں شریک ایک اعلیٰ افسر مولائی کرشنا دھر بھی شریک تھے۔ انھوں نے بعدازاں ایک کثیرالاشاعت کتاب Mission to Pakistan  (ناشر: مانس پبلی کیشنز، نئی دہلی،۲۰۰۲ء، صفحات:۷۰۲) لکھی، جس میں بتایا: ’’اس میٹنگ میں طے پایا تھا کہ پاکستان کے مرکزی شہر کراچی میں مسلکی منافرت کو شہ دے کر پاکستانی خفیہ ایجنسیوں کو جوابی طور پر سبق سکھایا جائے‘‘۔ اسی کتاب میں انھوں نے مزید لکھا: ’’انٹیلی جنس ایجنسی کے سربراہ کے حکم پر شدت پسند نظریات رکھنے والے ہندو نوجوانوں کی ایک ٹیم تیار کی گئی اور ان کو دین اسلام کے باریک سے باریک نکات سے واقف کرایا گیا، تاکہ وہ ایک جیّدعالم کی طرح بحث ومباحثہ کر سکیں ۔ ان کی ابتدائی تربیت دہلی سے متصل ایک فارم ہاؤس میں ایک افسر شیام پروہت المعروف ’مولوی رضوان‘ نے کی ۔ حساس ادارہ جوائن کرنے سے پہلے پروہت ایک شدت پسند ہندو تنظیم کاسرگرم رکن تھا اور دین اسلام کے متعلق اس کی معلومات قابلِ رشک تھیں ۔ ابتدائی تعلیم کے بعد پروہت نے اپنے ایک شاگردگوتم رے المعروف ’مہم خان‘ کو مزید تعلیم کے لیے دارالعلوم دیوبند بھیجا ۔ جہاں اس نے مناظرے کے فن میں خاصی مہارت حاصل کی۔ فراغت کے بعد ٹریننگ کے ایک اگلے حصے کے طور پر مہم خان صاحب نے بریلی جاکر علمائے بریلی کو مناظرے کی دعوت دی ۔ مگر مناظرے سے ایک رات قبل گوتم رے صاحب (یعنی ’مہم خان‘) دادِعیش دینے ایک طوائف کے کوٹھے پر جاپہنچے۔ طوائف اس بات پر حیران ہوئی کہ مولوی کی صورت والا یہ شخص غیر مختون کیوں ہے؟ اس نے جب مسٹر رے یا ’مہم خان صاحب‘ کو لانے والے دلال سے یہ ماجرا پوچھا تو وہ بھی حیران و پریشان ہوگیا اور سیدھا ’خان صاحب‘ کے تعاقب میں ان کی قیام گاہ تک پہنچ گیا۔ وہاں اسے معلوم ہوا کہ یہ ’جید مولوی صاحب‘ تو علمائے دیوبندکے اس وفد میں شامل ہیں، جو علمائے بریلی کے ساتھ مناظرہ کرنے آیا ہے تو مزید حیرت میں گم ہوگیا۔  یہ بات اس نے علمائے بریلی کو جاکر بتائی۔ اس طرح یہ بات پھیل گئی کہ دیوبندی، ختنہ نہیں کراتے۔ صورت حال کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے خان صاحب یا گوتم رے پہلی ہی بس میں سوار ہوکر دہلی فرار ہوگئے‘‘۔

ان کے بعد دیگر سیدھے سادے مولویوں کا کیا حشر ہوا؟ مسٹر دھر، نے اس سے پردہ نہیں اٹھایا  بلکہ ان کا کہنا ہے: ’’اس واقعے کے بعد چیف صاحب نے پہلا حکم یہ دیا:’’آیندہ ایسے آپریشنز کے لیے بھرتی کیے گئے اہلکاروں کو سب سے پہلے ’حسب حال‘ بنایا جائے‘‘۔ دھر بھارتی انٹیلی جنس بیورو کے نائب سربراہ کے عہدے سے ریٹائر ہوئے، انھوں نے یہ کتاب ایک ناول کی شکل میں لکھی ہے، مگر وہ دیباچے میں واضح طور پر لکھتے ہیں: ’’یہ حقیقی آپریشن کی روداد ہے، جس میں مَیں نے صرف افراداور جگہوں کے نام بدل دیے ہیں‘‘ ۔ ایم کے دھر کا چند برس قبل انتقال ہوگیا، مگر ان کی کتاب شائع ہورہی ہے۔

قصّہ مختصر یہ کہ صرف بھارتی خفیہ ادارے کا کوئی ایسا سربستہ راز نہیں ہے، جس پر سے دھر صاحب نے پردہ اٹھایا ہو ۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر مصروف مغربی ممالک کی متعدد ایجنسیاں نظریۂ اسلام کے خلاف علانیہ جنگ ا ور مسلمانوں کی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کی تگ ودو میں نہ صرف خود مصروف ہیں ، بلکہ مسلمانوں کے اندر سے بھی چند عناصر کو اُکسا کر اسلام کی شبیہ کو خراب کرکے اور غیر مسلموں اور مسلمانوں کے اندر لبرل عناصر کو اس سے متنفر کرکے، اسلامو فوبیا کے ایجنڈے میں گہرا رنگ بھر نے کا کا م کررہی ہیں ۔

اسی طرح دہلی کی ایک عدالت میں بھارت کے مرکزی تفتیشی بیورو یعنی سینٹر ل بیورو آف انوسٹی گیشن(CBI) کی ایک رپورٹ موجود ہے، جس کو بنیاد بناکر ;عدالت نے دو مسلم نوجوانوں ارشاد علی اور نواب معارف قمر کو گیارہ سال بعد رہا کردیاتھا ۔ یہ دونوں افرادبھارت کے خفیہ ادارے اینٹلی جنس بیورو (IB) اور دہلی کی اسپیشل پولیس کے مخبر تھے، جو بعد میں انھی کے عتاب کا شکار ہوکر جیل میں چلے گئے ۔ ان کے ہوش ربا انکشافات ’سی بی آئی‘ اور کورٹ کے ریکارڈ پر موجود ہیں ۔ بہار کا مکین ارشاد علی اپنے ساتھی معارف قمر کے ساتھ کشمیر میں مخبری کا کام کرتا تھا اور چند افسران اس کو لائن آف کنٹرول پار کرکے ’لشکر طیبہ‘ میں شامل ہونے کےلیے دبائو ڈال رہے تھے ۔ جب خوف کے مارے ارشاد نے انکار کیا، تو ملاقات کےلیے موصوف کودہلی بلاکردو ماہ تک قید میں رکھا گیا۔ بعد میں ایک کشمیری گروپ سے وابستہ دہشت گرد قرار دے کر جیل میں ڈال دیا گیا۔

ارشاد علی کے بیان کے مطابق: کسی مسلم علاقے میں زاہدانہ وضع قطع کا کوئی نہ کوئی مولوی ٹائپ شخص روانہ کیا جاتا ہے، جو اسلامی علوم میں دسترس رکھتا ہے اور یہ حضرت یا تو کسی مسجد کے آس پاس مکان کرایہ پر لیتے ہیں یا مسجد میں ہی ڈیرہ جماتے ہیں ۔ اس کے متقی پن اور پرہیزگاری سے متاثر ہوکر محلّے یا گاوں کے افراد اس کے گرویدہ ہوجاتے ہیں ۔ یہ حضرت، رقت آمیز بیانات میں مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم کی داستانیں سناکر جذباتی اور پڑھے لکھے نوجوانوں کو منتخب کرکے جہاد کی ترغیب دیتے ہیں ۔ لوہا جب خوب گرم ہوجاتا ہے، تو ایک دن یہ حضرت معتقدین کے اس گروپ پر ظاہر کرتے ہیں ، کہ وہ دراصل کسی تنظیم کے کمانڈر ہیں ۔ جذبات میں مغلوب نوجوان اب کسی بھی حد تک جانے کےلیے تیار ہوجاتے ہیں ۔ ان کو ہتھیار چلانے کی معمولی ٹریننگ دی جاتی ہے ۔ یہ مولوی صاحب اس دوران مسلسل افسران کے رابطے میں ہوتے ہیں ۔ ٹارگٹ متعین بھی کر دیا جاتا ہے ۔ آخر میں یہ نوجوان پکے پھلوں کی طرح ان سیکورٹی ایجنسیوں کے بنے جال میں گر جاتے ہیں اور اگر ان کا ’انکاونٹر‘ [جعلی مقابلے میں قتل] نہ ہوجائے ، تو زندگی کا بیش تر حصہ مختلف جیلوں میں گزار تے ہیں ۔ میڈیا میں خبر آتی ہے، کہ ’’دہشت گردوں کے ایک بڑے نیٹ ورک کا پردہ فاش کیا گیا ۔ مگر اس کا سرغنہ یا ایک دہشت گرد فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا ہے ۔ ان پکڑے گئے افراد کو بتایا جاتا ہے، کہ آپ پر رحم کھاکر جیل بھیجا جارہا ہے، ورنہ ’انکاونٹر‘ میں مارا جانا لازمی تھا ۔ وہ بھی پولیس اور اداروں کے احسان مند رہتے ہیں ، کہ مارنے کے بجائے ان کو جیل بھیج دیا گیا، جہا ں اگلے سات تا دس سال گزارنے کے بعد وہ رہا ہوجاتے ہیں ۔

وادیٔ کشمیر کے تجارتی اور سیاسی لحاظ سے اہم قصبے سوپور میں اسکول اور کالج کے دور میں ، میں میر سید علی ہمدانیؒ [۱۳۱۴ء-۱۳۸۴ء]کی خانقاہ میں نماز جمعہ ادا کرتا تھا ۔ سیّد علی ہمدانیؒ کا تحریر کردہ وظیفہ اورادِ فتحیہ   وحدانیت پر مشتمل کلام ہے۔ نماز سے قبل شمالی کشمیر کے مفتی اعظم مولوی غلام حسن، مسلم امت میں خلفشار اور تفرقوں کا ذکر کرتے ہوئے، اتحاد بین المسلمین کے لیے رقت آمیزدعا کرواتے تھے ، مگر اسی دوران فوراً ہی ان کا ٹریک تبدیل ہو جاتا تھا ۔ وحدت کا درس دینے کے چند منٹ بعد وہ جماعت اسلامی، مولانا مودودی، ایرانی انقلاب وغیرہ کو ہدفِ تنقید بنانا شروع کر دیتے تھے۔ ان کا اصل نشانہ تو جماعت اسلامی ہی ہوتی تھی، اور وہ کہتے تھے کہ ’’جماعت کے لوگ اورادِ فتحیہ  پڑھنے سے لوگوں کو روکتے ہیں‘‘۔ یہ بات سن کر حاضرین کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوجاتے، اور وہ نفرت کی چنگاری سلگانے میں کامیاب ہوجاتے۔ حالانکہ جماعت اسلامی سے وابستہ قاری سیف الدین صاحب ہی نے اورادِ فتحیہ   کا اُردو اور کشمیری میں ترجمہ کر رکھا تھا، جو وہاں خاص و عام میں مقبول تھا۔ اور جماعت نے کبھی کسی کو اس کے پڑھنے سے منع نہیں کیا تھا۔

 جب ۲۰۰۲ء میں مجھے تہاڑ جیل، دہلی میں ایام اسیر ی گزارنے سے قبل دہلی پولیس کی اسپشل سیل کے انٹروگیشن روم میں رکھا گیا ، تو ایک دن خفیہ ادارے کا ایک بزرگ اہلکار راقم سے ملنے آیا ۔ یہ اہلکار ریٹائرمنٹ کے قریب تھا، سوپور کا حال و احوال پوچھنے لگا ۔ میں اس کے سوالات کو انٹروگیشن ہی کا حصہ سمجھ رہا تھا ۔ مگر اس نے جلد ہی وضاحت کر دی کہ ’’میں کافی مدت تک سوپور میں ڈیوٹی دے چکا ہوں، اور وہاں کے گلی کوچوں اور مقتدر افراد سے واقفیت کی یاد تازہ کرنے کےلیے ملنے آیا ہوں‘‘۔ باتوں باتوں میں اس نے مفتی غلام حسن صاحب کا بھی ذکر چھیڑا، کہ کس طرح ۱۹۷۵ء میں شیخ محمد عبداللہ [م:۱۹۸۲ء]کو دام حکومت میں پھنسا کر،رہے سہے جذبۂ آزادی کو جڑسے اکھاڑ پھینکنے کےلیے جماعت اسلامی اور دیگر ایسی تنظیموں کا نظریاتی توڑ کرنے کےلیے مقامی پیروں اور مولویوں کو ایک منصوبے کے تحت آلۂ کار بنایاگیا تھا۔ سادگی میں اعتقادی اور بداعتقادی کا ہوّا کھڑا کرکے اپنی جگہ مخلص افراد نے بھی اَنجانے میں اس ہدف کو تقویت فراہم کردی تھی۔

پختہ کار مذہبی ہندو ہونے کے باوجود یہ اہلکار، اسلام کے عقائد اورمسالک کے درمیان اختلافات کی باریکیوں پر بھرپور عبور رکھتا تھا ۔ سبھی فرقوں کے عقائد اس کو اَزبر تھے ۔ شاہ ولی اللہ، شاہ عبدالعزیز کے فرمودات کے علاوہ مغل شہنشاہ اورنگ زیب کے ساتھ ان کے فکری اختلافات، جن سے راقم بھی ناواقف تھا،وہ سیرحاصل لیکچر دے سکتا تھا۔ اب مسئلہ دیکھنے کا یہ ہے کہ اتحاد بین المسلمین کا درد سینے میں سمیٹے مفتی صاحب، اسی اتحاد کو پار ہ پارہ کرنے کےلیے کیوں مجبور ہو جاتے تھے؟ خفیہ ادارے کے اس بزرگ اہلکار نے مجھے ماضی کی ا ن کڑیوں کو جوڑنے اور سوچنے پر مجبور کیا، کہ کس طرح اچانک مذکورہ مولوی صاحب وعظ و نصیحت کرتے کرتے ٹریک سے اتر جاتے تھے؟

یہ الگ بات ہے کہ جب کشمیر میں عسکری دور کا آغاز ہوا، تو بارہمولہ میں بھارتی فوج کی ۱۹ویں ڈویژن کے کمانڈر جوگندر جسونت سنگھ، (جو بعد میں بھارتی آرمی کے ۲۱ویں چیف [۲۰۰۵ء- ۲۰۰۷ء]بھی بنے)۔ انھوں نے کشمیر میں سب سے پہلے مساجد کے اماموں کوہی تختۂ مشق بنایا ۔ سوپور کی خانقاہ کے انھی مشہور ۷۰سالہ واعظ کو بھی طلب کیا، اور ان کے جھریوں زدہ ہاتھوں پر گرم استری پھیر دی گئی تھی ۔ کانگریس کے ریاستی یونٹ کے صدر غلام رسول کار کی کوششوں سے جب ان کو رہائی ملی، اور میں ان کی خیریت دریافت کرنے گیا، تو دیکھا کہ ان کے ہاتھوں کی جلد جھلس چکی تھی، چربی اور گوشت کی تہیں صاف دکھائی دے رہی تھیں ۔

ان واقعات کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ قوم کے لیڈر،ان نزاکتوں کا ادراک کرتے ہوئے، گلی محلے کی مساجد پر نظر رکھیں کہ وہاں مقامی امام یا مولوی صاحب کس طرح کی وعظ خوانی کررہے ہیں؟ ; کیا اس سے معصوم ذہنوں کو قربانی کا بکرا تو نہیں بنایا جارہا ہے؟ ; ناموس رسالت کی اہمیت اور عوام کو اس کی افادیت اور معنویت بتانا اور اس پر زور دینا بجاطور پر اپنی جگہ لازم ہے،  مگر اس کو بنیاد بناکر عوام کوقانون ہاتھ میں لینے کےلیے اُکسانے والوں کو بھی سمجھنا،پرکھنا اور انجام تک پہنچانا چاہیے ۔

 یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ مختلف جداگانہ قومیّتوں کے نہایت گہرے تضادات اور تصادم تک پہنچے تفرقات کے باوجود، بھارت نے انڈین نیشنل ازم کو قابلِ لحاظ حد تک تشکیل دینے میں کامیابی حاصل کی۔ اگرچہ ۲۰۱۴ء کے بعد ہندو قوم پرستوں کے اقتدار میں آنے کی وجہ سے اس میں دراڑیں پڑ رہی ہیں۔ مگر اس کے مقابلے میں پاکستان ایک ہی مذہب اور صرف چارپانچ لسانی قومیّتوں کے باوجود شناخت کے حوالے سے عدم تحفظ کا شکار کیوں بن رہا ہے؟ معصوم ذہنوں کو روز تنگ نظر قومیتی احساساتِ محروی اور نفرت بھرے مذہبی وعظوں کے انجکشن دینا بھی قومی سلامتی کو چیلنج کرنے کے زمرے میں آتا ہے ۔ اس لیے تنگ نظرقوم پرستوں کا معاملہ حکومت پر چھوڑ کر، کم از کم مذہبی حوالے سے نسبت رکھنے والے فسادی عناصر کو دینی قیادت ہی رضاکارانہ طور پر درست کرے، ان کی تطہیر کرے اور ان پر نظررکھے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان کے بین الاقوامی شہرت یافتہ شہر سیالکوٹ میں سری لنکا کے باشندے کے ہجومی قتل اور پھر لاش کو جلانے کا واقعہ چیخ چیخ کر یہ پیغام دے رہا ہے کہ اس میں فی الحقیقت کوئی دینی تنظیم ملوث نہیں تھی، مگر جن افراد نے یہ قدم اٹھایا، وہ ضرور کسی کے زیر اثر ہیں، اس لیے صرف اس یا اس نوعیت کے واقعے کی محض مذمت کر نا کافی نہیں ہے، اس طرح کے واقعات کے تدارک کےلیے عملی اقدامات اٹھانا بھی انتہائی ضروری ہے ۔

آخر وہی ہوا، جس کا خدشہ تھا۔ کشمیر کی مسلم آبادی کو ہمیشہ کے لیے سیاسی طور پر بے وزن بنانے کی غرض سے بھارت کی طرف سے قائم جسٹس رنجنا ڈیسائی کی قیادت میں ’حد بندی کمیشن‘ نے ریاستی اسمبلی کے لیے ہندو اکثریتی علاقے جموں سے نشستیں بڑھانے کی سفارشات پیش کی ہیں۔ ۵؍اگست ۲۰۱۹ءکو جب ریاست جموں و کشمیر کو تحلیل کرکے اس کو دو مرکزی تحویل والے علاقوں میں تقسیم کیا گیا تھا، تو اسی وقت بتایا گیا تھا کہ ’’جموں و کشمیر کی نئی اسمبلی میں ۱۱۴نشستیں ہوں گی، جس میں ۹۰نشستوں پر انتخابات ہوںگے، بقیہ ۲۴نشستیں آزاد کشمیر یا پاکستان کے زیر انتظام خطے کشمیر کے لیے مخصوص رکھی جائیں گی‘‘۔ کمیشن نے جموں کے لیے چھے سیٹیں اور کشمیر میں محض ایک نشست بڑھانے کی سفارش کی ہے۔

گویا ا ب نئی اسمبلی میں وادیِ کشمیر کی ۴۷ اور جموں کی ۴۳سیٹیں ہوں گی۔ان میں نچلی ذات کے ہندوؤں یعنی دلتوں یا شیڈیولڈ کاسٹ اور قبائلیوں کے لیے ۱۶نشستیں مخصوص ہوں گی۔ چونکہ وادی کشمیر میں شیڈ یولڈ کاسٹ آبادی صفر ہے، اس لیے مخصوص نشستوں سے انتخابات لڑوانے کے لیے امیداواروں کو باہر سے لانا پڑے گا۔ کشمیر ی اُمیدوار، ان نشستوں سے انتخاب لڑہی نہیں سکیں گے۔ اس سے قبل کشمیر کی ۴۶ اور جموں کی ۳۷سیٹیں تھیں۔ وادیِ کشمیر کی سیٹیں اس لیے زیادہ تھیں کیونکہ ۲۰۱۱ءکی سرکاری مردم شماری کے مطابق اس کی آبادی ۶۸ لاکھ تھی، جب کہ جموں خطے کی آبادی ۵۳لاکھ ریکارڈ کی گئی تھی، یعنی کشمیر کی آبادی جموں سے ۱۳لاکھ زیادہ تھی۔ جس کی وجہ سے اسمبلی میں اس کے پاس جموں کے مقابلے میں نو سیٹیں زیادہ تھیں،جب کہ اصولاً یہ فرق ۱۲سیٹوں کا ہونا چاہیے تھا۔ کیونکہ کشمیر میں اوسطاً ایک لاکھ ۵۰ ہزار نفوس پر ایک اسمبلی حلقہ ترتیب دیا گیا تھا، جبکہ جمو ں کے اسمبلی حلقوں کی اوسطاً آبادی ایک لاکھ ۴۵ ہزار رکھی گئی تھی۔

یہ طے شدہ بات ہے کہ کمیشن نے ہندو قوم پرست ’بھارتیہ جنتا پارٹی‘ کے لیڈروں کے ایما پر ہی یہ ساری حد بندی ترتیب دی ہے، تاکہ مسلم آبادی کو سیاسی طور پر بے وزن کیا جائے اور ۶۸ء۳۱ فی صد مسلم خطے پر ہندو وزیر اعلیٰ مسلط کرایا جائے۔ ویسے پچھلے دو سو برسوں کے دوران میں یعنی ۱۸۱۹ء میں سکھوں کی فوج کشی کے بعد،۱۹۴۸ء سے ۲۰۱۸ءتک ۷۰برسوں میں مسلمان لیڈر حکومتی مسندوں پر براجمان ہوتے رہے۔ اب شاید محبوبہ مفتی اس خطے کے آخری مسلم وزیر اعلیٰ کے طور پر تاریخ میں درج ہوں گی۔

اگر مقامی بیوروکریسی کاجائزہ لیا جائے، تو فی الوقت ۲۴سیکرٹریوں میں پانچ مسلمان ہیں۔ اس کے علاوہ ۵۸ اعلیٰ سول سروس افسران میں ۱۲ مسلمان ہیں۔ یعنی ۶۸فی صد آبادی کا تناسب اعلیٰ افسران میں محض۱۷ء۴  فی صد ہے۔ دوسرے درجے کے افسران میں کُل ۵۲۳ میں ۲۲۰ مسلمان ہیں۔ یعنی تناسب ۴۲ء۰۶ فی صد ہے۔ اسی طرح ۶۶ اعلیٰ پولیس افسران میں سات مسلمان ہیں۔ دوسرے درجہ کے ۲۴۸ پولیس افسران میں ۱۰۸ مسلمان ہیں۔ اس خطے کے ۲۰؍اضلاع میں صرف چھے میں، یعنی بانڈی پورہ، بڈگام، کلگام، پلوامہ، رام بن اور سرینگر میں مسلمان ڈپٹی کمشنر یا ضلعی مجسٹریٹ ہیں۔

کمیشن نے اسمبلی حلقوں کی نئی حد بندی میں آبادی کے بجائے رقبے کو معیار بنایا ہے۔ اگر یہ معیار واقعی افادیت اور اعتباریت رکھتا ہے، تو اس کو پورے بھارت میں بھی نافذ کردینا چاہیے۔ کمیشن کے اس استدلال کے مطابق تو آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبہ اتر پردیش کی ۵۴۳ رکنی پارلیمنٹ میں ۸۰نشستیں یا تو پھر کم ہونی چاہییں یا دیگر صوبوں پر بھی رقبہ کا فارمولہ لاگو کرکے رقبہ کے لحاظ سے بھارت کے سب سے بڑے صوبہ راجستھان کو پارلیمنٹ میں ۱۱۳نشستیں ملنی چاہییں، جب کہ فی الوقت اس کے پاس صرف ۲۵سیٹیں ہیں۔ اسی طرح دہلی شہر، جس کے پاس سات پارلیمانی سیٹیں ہیں، اس کو رقبہ کے لحاظ سے ایک بھی سیٹ نہیں ملنی چاہیے۔

کشمیر کی مین اسٹریم یا بھارت نواز مسلم پارٹیوں نے پہلے تو ’انتخابی حد بندی کمیشن‘ کا بائیکاٹ کیا تھا، مگر جون ۲۰۲۱ء میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ میٹنگ کے بعد نیشنل کانفرنس اس کھیل میں شامل ہوگئی۔ چونکہ صرف بی جے پی اور نیشنل کانفرنس کے لیڈر لوک سبھا کے اراکین ہیں، اس لیے وہ اس کمیشن کے ایسوسی ایٹ اراکین بھی تھے۔ ان کی غیر موجودگی کی وجہ سے کمیشن کی ساکھ  مشکوک تھی۔ سرینگر اور جموں میں کمیشن کی طرف سے بلائے گئے اجلاسو ں میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے بغیر دیگر جماعتوں نے بھی میمورنڈم پیش کیے۔

ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی نیشنل کانفرنس کی پہلے یہ دلیل تھی، کہ ’’یہ کمیشن غیر قانونی ہے، اور جس ایکٹ کے تحت اس کی تشکیل ہوئی ہے، اس کے وجود کو نیشنل کانفرنس نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہوا ہے۔ اس لیے وہ کمیشن کو تسلیم ہی نہیں کرتے‘‘۔ مگر جون میں دہلی میں اس کے لیڈروں پر کیا جادو ہوا، کہ انھوں نے نہ صرف اس کمیشن کو تسلیم کیا، بلکہ اس کے اجلاسوں میں بطور ایسوسی ایٹ ممبر بھی حصہ لیا۔ اپنی کمزور سیاسی ساکھ کے باوجود اس وقت بھی اس کے لیڈر مفادات کا سودا کرنے سے گریز نہیں کر رہے۔ اقتدار کی ہوس نے کشمیر کی سب سے بڑی قوم پرست پارٹی ’نیشنل کانفرنس‘ کو بزدل بناکر رکھ دیا ہے۔ بد قسمتی سے اس جماعت کا محور صرف یہ ہے کہ اقتدار سے کسی طرح تعلق استوار کیا جائے۔

ایک عشرہ قبل دہلی کے کانسٹی ٹیوشن کلب میں ایک مذاکرہ کے دوران بی جے پی کے لیڈر آنجہانی ارون جیٹلی نے کہا تھاکہ ’’کشمیر کا واحد مسئلہ اس کا مسلم اکثریتی کردار ہے اور کشمیر کی ترقی میں بھی یہی سب سے بڑی رکاوٹ ہے، کیونکہ بھارت کے دیگر علاقوں کے لوگ وہاں بس نہیں سکتے ہیں،جس کی وجہ سے سرمایہ کاری نہیں ہوسکتی ہے‘‘۔ پھر کئی مواقع پر خود کشمیری لیڈروں نے اپنی عزت نفس کا خیال نہ کرتے ہوئے، آئینی خلاف ورزیوں کے لیے راہ ہموار کی۔ دفعہ ۳۷۰ اور دفعہ ۳۵اے کی صورت میں سیاسی گرداب سے بچنے کے لیے جو معمولی سا پردہ رہ گیا تھا، اس کو بھی ہٹاکر کشمیریو ں کی عزت نیلام کرکے، ان کو اب اپنے ہی وطن میں اقلیت میں تبدیل کروانے اور بیگانہ کرنے کا یہ ایک گھناؤنا کھیل جاری ہے۔ جس میں حصہ ڈالنے کے لیے خود کشمیر کے متعدد لیڈر ایک دوسرے پر بازی لے جا رہے ہیں۔

کوئی سنگ دل انسا ن ہی حیدر پورہ، سرینگر میں ۱۵نومبر کو ہونے والے ’جعلی مقابلے‘ کے دوران جاں بحق محمد الطاف بٹ اور ڈاکٹر مدثر گل کے لواحقین اور ان کی کم سن بچیوں کی فریادیں سن کر خون کے آنسو نہ رویا ہوگا۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ وہ انصاف کے حصول یا ظالموں کو سزا دینے کا مطالبہ کرنے کے بجائے الطا ف اور مدثر کی لاشوں کی تدفین اور نماز جنازہ کے حق کا مطالبہ کر رہے تھے۔ شدید عوامی دبائو کے بعد ان کی لاشیں ورثا کے سپرد تو کی گئیں ، مگر پولیس کی نگرانی میں چند لوگوں کی معیت میں رات کے اندھیرے میں تدفین کی اجازت سے مشروط کرکے۔جموں کے رام بن ضلع کا مزدر عامر ماگرے ، بھی اس مقابلے میں ہلاک ہوا۔ اس کی لاش بھی روتے پکارتے وارثوں کے سپر د نہیں کی گئی۔ اس کے والد کو بھارتی فوج نے ۲۰۰۴ء میں ’حب الوطنی‘ کی سند عطا کی تھی، کیونکہ اس نے پتھر سے ایک عسکریت پسند کو ہلاک کردیا تھا۔

اگرچہ کشمیر میں اس طرح کی ہلاکتیں کوئی نئی بات نہیں ہے، مگر ۲۰۱۹ء کے بعدلاشوں کو ورثا ء کو سپرد کرنے کے بجائے کئی سو کلومیٹر دور نامعلوم قبروں میں دفنانے کا ایک سلسلہ شروع کردیا گیا ہے۔ پچھلے تین برسوں کے دوران کشمیر میں حکومتی اور میڈیا سے لیے گئے اعداد و شمار کے مطابق سیکورٹی فورسز کے ۱۷۲ ؍اہل کاروں کے مقابلے میں ۸۳۷؍افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ ان میں سے اکثر افراد کو لائن آف کنٹرل کے پاس آخری رسومات کے بغیر ہی پولیس نے نامعلوم قبروں میں دفن کر دیا ہے۔

 جموں وکشمیر کے طول وعرض میں گذشتہ ۳۰ برسوں کے دوران ایسے لاتعداد المناک واقعات رُونما ہوئے ہیں، جنھیں ضبط تحریر میں لانے سے خوف اور دہشت کے طوفانوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ دنیا کے دیگر تنازعات کی رپورٹنگ پیش کرتے ہوئے احساس ہوتا ہے کہ ان کے مقابلے میں کشمیر میں ہلاکتوں اور انسانی حقوق کی پامالی بہت کم عالمی پریس میں آتی ہے۔ کشمیر میں ایسے علاقے بھی ہیں، جہاں میڈیا کی رسائی ہی نہیں ہوسکتی۔

مجھے یاد ہے کہ ۹۰کے عشرے میں ہندواڑہ کے لنگیٹ علاقے میں جنگلوں سے ایندھن کی لکڑیا ں لادنے والے گھوڑا گاڑی والوں کے لیے لازم ہوتا تھا کہ وہ لکڑیوں کا ایک حصہ راستے میں  ملٹری کیمپوں میں جمع کرائیں۔یہ سلسلہ برسوں تک چلتارہا۔ پھر ایک دن ۱۹۹۷ء میں منزپورہ کا غلام احمد وانی، جو مقامی ممبر اسمبلی عبدالاحد کار کا رشتہ دار تھا، اس نے کچھ کم مقدار میں لکڑیاںجمع کروائیں جس پر ملٹری کے سیکورٹی گارڈ کے ساتھ اس کی تو تو مَیں مَیں ہوگئی۔ چونکہ ۱۹۹۶ء میں اسمبلی انتخابات کے بعد ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی قیادت میں نام نہاد حکومت قائم ہوئی تھی، اس لیے وانی، ممبر اسمبلی کے ساتھ اپنی رشتہ داری کو طاقت سمجھنے کی حماقت کر بیٹھا۔ چند میٹر دُور اسکول کے بچے یہ سارا منظر دیکھ رہے تھے ۔ ملٹری گارڈ نے مورچے سے باہر نکل کر اپنی بندوق گھوڑاگاڑی بان کے سینے کی طرف موڑکر گولی چلا دی اور وانی کے سینے سے گرم گرم خون کے فوارے سڑک کو لہورنگ کرگئے۔ گھوڑا فائرنگ کی آواز سن کر بھاگنے کے بجائے اپنے مالک کی لاش کے گرد محافظ کی طرح کھڑا ہوگیا۔ اس گھوڑے کی وفاداری کو آج بھی اس علاقے میں لوگ یاد کرتے ہیں۔

اسی علاقے میں شاہ نگری گائوں میں حزب المجاہدین سے وابستہ غلام حسن کمارکا گھر تھا۔ اس کی بوڑھی ماں اوربیوی کا سپاہیوںنے جینا دوبھر کر دیا تھا۔ وہ بدنصیب ساس اور بہو علاقے سے ہجرت کرجاتے، لیکن ان کے پاس نہ کوئی وسائل تھے اور نہ گھر میں کوئی مرد موجود تھا۔ غلام حسن کا دوسرا بھائی محمدیوسف کمار بھی فوج کے ہاتھوں کافی تشدد برداشت کرنے کے بعد جیل میں تھا، جب کہ غلام حسن کی دس سالہ اکلوتی بیٹی آنکھوں کی مہلک بیماری کے سبب دیکھنے سے معذور تھی۔ غلام حسن کی بیوی جانہ بیگم کاپائوں بھاری تھا ۔ پھر ایک رات لگ بھگ نو بجے اخوانیوں (سرکاری بندوق برداروں)کی ایک ٹولی نے ان کے گھر پر دستک دی۔ جیسے ہی جانہ بیگم دروازہ سے باہر نکلی تو بندوق برداروںنے اس پر گولیوں کی بوچھاڑ سے جسم میں اتنی زیادہ گولیاں پیوست کیں کہ اس کے بطن میں پلنے والے بچے کی ٹانگ، بازو اور جسم کے ٹکڑے ہوکر باہر بکھر گئے۔ اگلے دن جب جانہ بیگم اور اس کے بچے کا جنازہ اٹھا تو کسی کو رونے کی اجازت نہیں تھی۔ بدنصیب اندھی بیٹی نے اپنی ماں کی قبر پر ننھے معصوم ہاتھوں سے کچھ مٹی بھی ڈال دی ۔ بوڑھی ساس نے آخری بار قبر اور اس کے ساتھ اپنے اُجڑے ہوئے گھر کی طرف دیکھا اور پھر آنکھوں سے معذور ننھی پوتی کو لے کر وہ کسی نامعلوم منزل کی جانب چل دی۔ سارا گائوں بھیگی پلکوں اور گھٹی آہوں کے ساتھ بڑھیا اور اس کی پوتی کو الوداع کہہ رہا تھا، لیکن کسی میں بھی ان کو روکنے یا ان کے ساتھ ہمدردی کرنے کی ہمت نہ تھی، کیونکہ یہ موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔ اس کے آدھے گھنٹے کے بعد دیہاتیوں کو حکم ملا کہ ان کا مکان گرا دیا جائے اور اس کی ساری لکڑی اپنے کاندھوں پر لاد کر  چار کلومیٹر دُورقلم آباد کے ملٹری کیمپ میں جمع کرا دی جائے۔

اسی طرح سیرعلاقے کے ۷۰سالہ نمبردار شمس الدین کو ملٹری کیمپ میں بلا کر بتا یا گیا کہ اس کے گائوں میں عسکریت پسندوں کی نقل و حرکت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے اور اس کی ساری ذمہ داری اس پر عائد ہوتی ہے۔ ابھی وہ اپنی صفائی دینے کے لیے کچھ کہنے ہی والے تھے کہ بھارتی میجر نے انھیںپاس ہی کیچڑ کے گڑھے میں کھڑا ہونے کو کہا۔ سپا ہیوں کو حکم دیا گیا کہ وہ کیچڑ نمبردار صاحب کے چہرے اور کپڑوں پر مَل دیں۔ علاقے کی اس ذی عزت شخصیت کو بتایا گیا کہ وہ بھر ے بازار سے ہوتے ہوئے ایسے ہی گھر جائے۔ اس واقعے کا ان پر اتنا گہرا اثر ہوا کہ وہ بیمار پڑ گئے اور پھر کچھ عرصے کے بعد داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔

ذرا آپ کو پیچھے لے کر چلتے ہیں:

یہ ۲۰۱۶ء کی بات ہے۔ بھارتی دارالحکومت نئی دہلی کے آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز میں زیر علاج آٹھ سالہ آصف کو بہلانے، اس کا دھیان بٹانے اور آنکھوں کے نُور کے بغیر زندگی گزارنے پر آمادہ کرنے کے لیے اس کے والد عبدالرشید جب بچے کو صبر کی تلقین کی باتیں سنارہے تھے، تو ظالم سے ظالم انسان بھی ان کی باتیں سن کر خون کے آنسو رونے پر مجبور ہوجاتا تھا۔

 شوپیاں کی ۱۴سالہ انشاء بی بی کا پورا چہرہ چھرّوں سے چھلنی تھا۔ پیلٹ گنوں سے شدید مجروح پانچ مریضوں کو سرینگر سےیہاں ریفر کیا گیا تھا۔ کانگریس کے مرکزی رہنما راہول گاندھی نے جب اس ہسپتال کا دورہ کیا تو وارڈ میں بینائی سے محروم اور اپنے کنبے کے واحد کفیل، سوپور کے اس ۲۵سالہ آٹو ڈرائیور فردوس احمد نے ان کو بتایا: ’’کشمیر میں مجھ جیسے سیکڑوں افراد مصیبت میں مبتلا ہیں۔ میں آنکھوں کے نور سے محروم ہو گیا ہوں تو کیا ہوا، اگر میری بینائی سے محرومی بھارت کے سیاسی رہنمائوں کی آنکھیں کھول دیتی ہے تو یہ سودا برا نہیں۔‘‘ اس صابر نوجوان کے سوال پر کانگریسی لیڈر گردن جھکا کر چلے گئے۔ بھارت کے امراض چشم کے معروف سرجن ڈاکٹر ایس نٹراجن کے مطابق: ’’اس طرح کے کیسوں کے ساتھ ہمیں پہلی بار واسطہ پڑا ہے۔ دنیا کے کسی بھی جنگ زدہ خطے میں اس طرح کے مریض دیکھنے میں نہیں آتے‘‘۔

جموں وکشمیر ہائیکورٹ کے سابق جج جسٹس حسنین مسعودی کے مطابق سرینگر کے صدر ہسپتال میں امراض چشم کا وارڈ اس وقت کسی ڈرائونے خواب سے کم نہیں، کیوں کہ بیش تر زخمیوں کو کئی بار سرجری کے عمل سے گزار کر بھی آنکھوں کی روشنی واپس ملنے کی اُمید بہت کم ہے۔ وارڈ نمبر۸ کا منظر کسی بھی خوفناک فلم سے کم نہیں، جہاں مضروب نوجوان معمولی سی آہٹ سے بھی خوف محسوس کرتے۔ وارڈ میں ان دنوں آنکھوں کی سرجری سے گزرنے والے غیر معمولی مریضوں کی بڑی تعداد زیر علاج تھی۔ بیش تر زیر علاج زخمیوں کو دوبار عمل جراحی سے گزرنا پڑا۔ تاہم ان کی آنکھوں میں بصارت نہیں لوٹی۔ ایسے مریض بھی بڑی تعداد میں تھے، جن کے ساتھ کوئی تیماردار نہیں تھا۔ والدین اپنے بچوں کی حالت ِ زار دیکھ کر رو رہے تھے اور ان کا مستقبل تاریک ہونے پر افسردگی کے سمندر میں ڈوبے ہوئے تھے۔ جج مسعودی صاحب کے بقول ’’ہر طرف آنکھوں پر پٹیاں باندھے ہوئے کم عمر بچوں کو دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے‘‘۔

۲۰۱۰ء میں بھارت کے سینئر صحافیوں کے ہمراہ مجھے اسرائیل اور مقبوضہ فلسطین کے دورے کا موقع ملا۔ تل ابیب میں اسرائیلی وزیراعظم کے مشیر ڈیوڈرائزنر بریفنگ دے رہے تھے۔ وہ اسرائیلی فوج میں اہم عہدے دار رہ چکے تھے، اور انتفاضہ [یعنی ’حماس تحریک ‘ کے زیراثر عوامی سطح پر غیرمسلح مزاحمتی تحریک] کے دوران فوج اور پولیس کے اہم عہدوں پر فائز رہے تھے۔ اس پس منظرمیں بھارتی صحافی ان سے یہ معلوم کرنے کے لیے بے تاب تھے کہ ’’آخر آپ غیرمسلح فلسطینی مظاہرین سے کیسے نمٹے تھے؟‘‘ موصوف نے کہا: ’’۱۹۸۷ء کے ’انتفاضہ‘ کے دوران ہماری آرمی پولیس نے پوائنٹ 4 کے پیلٹ گن استعمال کیے تھے، مگر اس  کے نتائج کا تجزیہ کرنے کے بعد ان پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ اب ان ہتھیاروں کی کھیپ کو اسلحہ خانہ کا زنگ کھا رہا ہے۔‘‘ رائزنر نے تسلیم کیا: ’’مسلح جنگجوئوں کے برعکس،پُرامن مظاہرین سے نمٹنا کوئی آسان کام نہیں ہوتا، خصوصاً جب عالمی میڈیا اس کی رپورٹنگ بھی کر رہا ہو۔‘‘ لیکن یہ کیسی خوف ناک حقیقت ہے کہ ہمارے دورے کے چند ہی مہینوں کے بعد وہ ہتھیار جو اسرائیل کے اسلحہ خانوں میں زنگ آلود ہو رہے تھے، کشمیر میں استعمال کرنے کے لیے بھارت کی وزارت داخلہ نے خرید لیے۔

اسی نشست میں رائزنر نے بتایا تھا: ’’ہم نے ربر سے لپٹی ہوئی اسٹیل کی چھوٹی چھوٹی گولیوں اور بے ہوش کرنے والی گیس کا بھی فلسطینی مظاہرین پر تجربہ کیا تھا، مگر فلسطینی بچوں پر ان کے دُور رس مہلک اثرات کے سبب ان کے استعمال پہ بھی پابندی لگا دی گئی۔‘‘ اس اسرائیلی افسر نے بھارتی صحافیوں کو یہ بتاکر شرمندہ اور دُکھی کر دیا، جب اس نے کشمیر میں تعینات بھارتی فوجی افسروں کے ’کارنامے‘ سنانے شروع کیے، اور یہ بتایا: ’’بھارتی افسر اس بات پر حیران ہو جاتے ہیں کہ شورش زدہ علاقوں میں بھلامسلح اور غیر مسلح کی تفریق کیوں کی جائے؟‘‘ اسرائیلی افسر نے بتایا: ’’حال ہی میں اسرائیل کے دورے پرآئے ہوئے ایک بھارتی جنرل نے ہم کو بتایا کہ کشمیر میں پوری آبادی کو گھیر کر ہم گھروں میں گھس کر تلاشیاں لیتے ہیںکیونکہ ہمارے نزدیک کشمیر کا ہر گھر دہشت گرد کی پناہ گاہ ہے‘‘۔  رائزنر نے کہا: ’’ہم نے بھارتی جنرل کو جواب دیا کہ اسرائیل دنیا میں بدنام ہونے کے باوجود اس طرح کے آپریشن بغیر کسی انٹیلی جنس اطلاع کے نہیں کرتا‘‘۔

خیر، یہ تو اسرائیل کا اپنی وکالت میں بیان تھا، اوریہاں پر اس واقعے کو بیان کرنے کا مقصد اسرائیلی جرائم کی شدت کو کم کرنا نہیں بلکہ صرف اس طرف متوجہ کرانا ہے کہ کشمیر کس حد تک عالمی ذرائع ابلاغ میں اور سفارتی سطح پر مظالم کی کم ترین تشہیر کے درجے پر واقع ہے۔ رائزنر نے بھارتی جنرل کا نام تو نہیں لیا، مگر کہا:’’ہم نے بھارتی فوجی وفد کو مشورہ دیا کہ عسکری اور غیر عسکری میں تفریق نہ کرکے آپ کشمیر میں صورت حال کو بہت زیادہ پیچیدہ بنا رہے ہیں‘‘۔

دنیا کے دیگر جنگ زدہ خطوںکے برعکس عالمی میڈیا نے بڑی حد تک کشمیر کو نظر انداز کیا ہے۔ اگر ابلاغی سطح پر رپورٹنگ ہوئی بھی ہے تو دُور دراز علاقوں تک رسائی نہیں ہو سکی، حتیٰ کہ سرینگر کا میڈیا بھی کشمیر کے بیش تر علاقوں میں جانے سے قاصر ہے۔ چند برس قبل بھارت کے ایک معروف دانش وَر اور قانون دان اے جی نورانی صاحب کے ہمراہ میں نے شمالی کشمیر میں لنگیٹ تحصیل کے ایک خوب صورت مقام ریشی واری کا دورہ کیا تھا۔ سرسبز جنگلوں اور پہاڑی نالوں سے پُر اس وادی میں داخل ہوتے ہی تقریباً ۳۰ کلومیٹر تک سڑک سے ملحق سبھی گھروں کی دوسری منزل پر ہمیں بھارتی فوجی جوان نظر آئے۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ اپنے گھروں کے مالک تو پہلی منزل پر رہتے ہیں اور ان تمام گھروں کی دوسری منزل بھارتی فوج کے اہل کاروں کے لیے مخصوص ہے۔ ان دیہاتیوں نے پہلی بار میڈیا سے وابستہ افراد کو دیکھا تھا۔

اسی طرح اگر شیرِ کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز، سری نگر کے آرکائیوز کو کھنگالا جائے تو ایسے ہوشربا کیسوں کی تفصیلات ملیں گی، جو وہاں کے ڈاکٹروں کے مطابق: ’’میڈیکل کی تاریخ میں آخری بار صرف جنگ عظیم دوم [۴۵-۱۹۳۹ء] کے دوران جرمن انٹیلی جنس کے بدنامِ زمانہ ادارے ’گسٹاپو‘ کے تفتیشی اور اذیتی مراکز میں رپورٹ ہوئے ہیں‘‘۔ یہاں ایک فائل عربی کے استاد ۳۷سالہ مظفر حسن مرزا کی میری نظروں سے گزری، جس کو ترال سے گرفتار کیا گیا تھا۔ جب اس کو ہسپتال لایا گیا تو اذیتوں کی وجہ سے وہ Rhabdomylosis نامی بیماری کی انتہائی پیچیدہ نوعیت کا شکار ہو چکا تھا۔ جس کے نتیجے میں اعصاب تیزی سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتے ہیں، اور سارا مدافعتی نظام مائع کی صورت تحلیل ہو کر پیشاب کے راستے باہر آ رہا تھا۔ دورانِ تفتیش پٹرول اور ڈیزل سے تر لوہے کی سلاخ اس کی مقعد میں داخل کی گئی تھی جس نے مرزا مظفر کی انتڑیوں، معدے اور پردہ شکم کو چاک کرکے پھیپھڑوں کو بھی نشانہ بنایا تھا۔ ہسپتال میں جان کنی کے عالم میں رہ کر تین ہفتے بعد ان کا انتقال ہو گیا تھا۔

اس خطّے میں ایسی بہت سی رودادیں منظر عام پر آنے کےلیے محنتی و جرأت مند صحافیوں اور دردمند دل رکھنے والے مصنفوں کی منتظر ہیں۔ وقت آچکا ہے کہ واقعات سے پردہ اٹھایا جائے۔ یہ بات اب عیاں ہے کہ کشمیر تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہا ہے۔ اس دوران جو نسل تیار ہوئی ہے، اس کے زخموں پر مرہم رکھنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔

میں نے چند سال قبل اپنے ایک مضمون میں خبردار کیا تھا کہ ’’ممکن ہے کشمیر میں بظاہر عسکریت دم توڑتی نظر آرہی ہو، مگر یہ خیال کرنا کہ وہاں امن و امان ہوگیا ہے، خود کو دھوکا دینے کے سوا کچھ نہیں۔ بندوقوں کی آوازیں خواہ تھم گئی ہوںمگر جو جنگ دماغوں میں جاری ہے، جو لاوا اندر ہی اندر پک رہا ہے اس کا سدباب کیسے ہوگا؟‘‘ کشمیر میں آئے روز مظاہروں نے یہ تسلیم کرا دیا ہے کہ کشمیر میں خوف کی نفسیات بڑی حد تک ختم ہو چکی ہے، تاہم فوجی طاقت کا زور اب بھی باقی ہے۔ اگر کشمیر میں آگے پیچھے آنے جانے والی حکومتیں اس تبدیلی کو سمجھنے سے قاصر رہیں گی تو یہ خطہ بدترین عدم استحکام کا شکار ہی رہے گا۔ مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے لیے سنجیدہ ہونا پڑے گا۔ اس کے لیے جمہوریت، رحم دلی اور مفاہمت پر مبنی ایک ماحول تیار کرنا ہوگا۔ علاقے پر تسلط کے بجائے علاقے کے عوام کے بارے میں سوچنا ہوگا۔

بھارت کی سیاسی پارٹیوں میں ،چاہے وہ کانگریس ہو یا بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)، دونوں کا رویہ کشمیریوں کے ساتھ یکساں رہا ہے۔ بی جے پی نے مخملیں دستانے اُتار کر پھینک دیے ہیں، جب کہ کانگریس حکومت مرنے مارنے کے بعد لفظی جمع خرچ سے مرہم لگانے کا کام کیا کرتی تھی۔ معروف بھارتی دفاعی جریدہ Force میں غزالہ وہاب نے لکھا ہے کہ ’’کشمیر ایک بڑی اوپن جیل بن چکا ہے، جہاں کے مکینوں کو لگتا ہے کہ وہ قید ی ہیں‘‘۔

بھارتی حکومت کی پالیسی ہے کہ اہل کشمیر کے دلوں میں خوف و دہشت کی دھاک بٹھائی جائے۔ اس کی حالیہ مثال اس طرح سامنے آتی ہے کہ ٹی-۲۰ ورلڈ کپ کے افتتاحی میچ میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کی بھارتی ٹیم کے مقابلے میں جیت کے بعد آگرہ کے تاریخی شہر میں انجینیرنگ کالج کے کشمیری طلبہ پر غداری کا مقدمہ درج کردیا گیا، اور خود سرینگر میڈیکل کالج کے طلبہ پر انسداد دہشت گردی قانون کے تحت مقدمات قائم کر دیئے گئے۔ آگرہ کی بار ایسوسی ایشن نے ان طلبہ کو قانونی معاونت فراہم نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے کہ طلبہ کی طرف سے پاکستانی کرکٹ ٹیم کی کامیابی پر معمولی سی خوشی کا اظہار بھی دہشت گردی سے کم جرم نہیں ہے۔

ادھر جنوبی ہند میں کرناٹک میں انڈین نیشنل کانگریس کی طلبہ تنظیم نے کشمیری طلبہ کے خلاف شکایت درج کرائی ہے۔اسی طرح کشمیر میں سرکاری ملازمین کو بیک جنبش قلم برطرف کرکے بے روزگارکرنے کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ ان سے کوئی وضاحت بھی طلب نہیں کی جاتی ہے۔ بس اتنا بتایا جاتا ہے کہ و ہ ’ملک دشمن سرگرمیوں‘ میں ملوث ہیں۔

ایسا لگتا ہے کہ جموں و کشمیر ایک ایسا خطہ ہے، جوقانون و آئین کی عمل داری سے بالکل آزاد ہے۔ یہاں حکمران لوگوں سے روزی روٹی کا بنیادی حق چھیننے اور ان کے اہل خانہ، ان کے زیر کفالت افراد کو محرومی اور پریشانی کی طرف دھکیلنے میں کوئی شرم اور ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔ کشمیر نے پچھلے تین عشروں میں ایسے ہیبت ناک مظالم دیکھے ہیں،جنھیں بیان کرنے کے لیے پتھر کا دل چاہیے۔ پتہ نہیں کب تک یہ بدقسمت اور مظلوم قوم تاریخ کے بھنور میں پھنسی رہے گی؟یہ بھی سچ ہے کہ ظلم و درندگی کی ٹہنی کبھی پھلتی نہیں۔ بس اس دن کا انتظار ہے  ؎

جب ظلم و ستم کے کوہ گراں
روئی کی طرح اُڑ جائیں گے

جنوبی ایشیائی ممالک میں ہر سال کہیں خشک سالی، سیلاب، تپش، سمندری طوفان اور اب جاڑوں میں ہوائی آلودگی کی وجہ سے سیکڑو ں افراد لقمۂ اجل بن جاتے ہیں۔۲۰۰۹ء میں کوپن ہیگن میں ماحولیاتی کانفرنس سے قبل اس وقت بھارت کے وزیرماحولیات نے پاکستانی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ اقبال خان سے ملاقات کے بعد بتایا تھا کہ ’’دونوں ممالک ماحولیات سے متعلق مشترکہ موقف اپنائیں گے اور اشتراک کی راہیں ڈھونڈیں گے‘‘۔ مگر اس سمت میں ایک قدم بھی آگے بڑھ نہ سکا۔ بجائے کسی مشترکہ حکمت عملی کے، ۲۰۱۴ءکے بعد تو ایسے حالات پیدا کیے گئے کہ مشترکہ دریاؤں کے پانی کو بھی روکنے کی دھمکیاں دی گئیں۔

ماحولیاتی تباہی کے سوال پر بھارت اور پاکستان کے درمیان اشتراک اس لیے اشد ضروری ہے، کیونکہ دریائے سندھ اور اس کے معاون دریائوں کو پانی فراہم کرنے والے کشمیر اور لداخ کے پہاڑوں میں موجود گلیشیر تیزی کے ساتھ پگھل کر ختم ہو رہے ہیں۔ پچھلے دو عشروں سے کشمیر کے سب سے بڑے ’کلاہوئی گلیشیر‘ کی ناک ٹاپ۲۲میٹر سے زائد پگھل چکی ہے۔ یہ اعداد و شمار ۲۰۰۷ء کے ہیں ۔ اس کے بعد تو مزید تباہی آچکی ہے۔ اس کے اطراف کے چھوٹے گلیشیر تو کب کے ختم ہوچکے ہیں۔ ہمالیہ خطے کے۱۵ہزار گلیشیر دنیا کے چاربڑے دریاؤں سندھ، گنگا، میکانگ اور برہم پترا کے لیے منبع کا کام کرتے ہیں۔ تقریباً تین ارب افراد کی زندگی ان کے پانیوں کی مرہون منت ہے۔

ایک بھارتی سائنس دان ایم این کول کے بقول ان ۱۵ہزار گلیشیروں میں ۶ہزار۵سو بھارت میں اور پھر ان میں۳ہزار ایک سو۳۶کشمیر اور لداخ خطے میں ہیں۔ پاکستان کا مرکزی دریا سندھ، تبت سے نکل کر لداخ اور پھر گلگت کے راستے پاکستان میں داخل ہوتا ہے۔ اس کی ایک شاخ کارگل کے پاس الگ ہوکر سونہ مرگ کے راستے وادیٔ کشمیر کے ایک حصے کو سیراب کرتی ہوئی، گاندربل میں دریائے جہلم میں ضم ہو جاتی ہے۔ پاکستان کی تین چوتھائی آبادی سندھ طاس میں آباد ہے اور اس کی ۸۰فی صد خوراک کی ضروریات سندھ اور اس کی معاون ندیوں خاص طور پر جہلم اور چناب پر منحصر ہے۔

ان گلیشیروں کو سب سے زیادہ خطرہ پہاڑی علاقوں میں بلا روک ٹوک آمد و رفت اور ہندو مذہبی یاترائوں سے منسلک ہے۔ جنوبی کشمیر میں امرناتھ اور شمالی بھارت کے صوبہ اترا کھنڈ کے چارمقدس مذہبی مقامات بدری ناتھ ،کیدارناتھ، گنگوتری اوریمنوتری اس کی بڑی مثال ہیں۔ دوعشرے قبل تک کشمیر میں امرناتھ یاترا کے لیے محدودتعداد میں لوگ شریک ہوتے تھے، لیکن اب ہندو نسل پرستوں کی مہم کے نتیجے میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ آتے ہیں۔ سال بہ سال ان کی تعداد میں اضافہ ہورہاہے۔ اس یاتراکو فروغ دینے کے پیچھے کشمیر کو ہندوئوں کے لیے ایک مذہبی علامت کے طور پر بھی ابھارنا ہے، تاکہ اس پر بھارت کے دعوے کو مزید مستحکم بنایا جاسکے۔

۱۹۹۶ء میں برفانی طوفا ن کی وجہ سے اس علاقے میں ۲۰۰ سے زائد ہندو یاتری مرگئے تھے۔ اس حادثے کی انکوائری کے لیے بھارتی وزارت داخلہ کی طرف سے مقرر کردہ ڈاکٹر نتیش سین گپتا کی قیادت میں اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی نے یاتریوں کو ایک محدود تعداد میں یاترا کرنے کی سفارش کی تھی۔اس سفارش کی بنیاد پر ریاستی حکومت نے یاتریوں کی تعداد کو محدود اور ضابطہ بند بنانے کی جب کوشش کی، تو ہندو دھرم کے علَم بردار لیڈروں نے اسے مذہبی رنگ دے کر حکومت کی کوششوں کو ناکام بنادیا۔ حدتو اس وقت ہوگئی جب ۲۰۰۵ء میں کشمیر کے اس وقت کے وزیراعلیٰ مفتی محمد سعید نے اپنے دور میں گورنر جنرل (ر)ایس کے سنہا کی طرف سے یاترا کی مدت میں اضافے کی تجویز پر اعتراض کیا، تو ان کی کابینہ کے تمام ہندو وزیروں نے استعفے پیش کر دیئے۔

دوسری طرف ہندو شدت پسند لیڈروں نے پورے ملک میںمہم شروع کرکے بڑے پیمانے پر ہندوؤں کو امرناتھ یاترا پر اُبھارنا شروع کردیا۔ اتراکھنڈ کے چار دھام کی طرح امرناتھ کو بھی سیاحت اور بھارت کی نسل پرست قومی سیاست کے ساتھ جوڑنے کی کوششیں کی گئیں۔ پروفیسر کول کے مطابق اگر اس علاقے میں اسی طرح ہزاروں یاتریوں کی آمدورفت کا سلسلہ جاری رہا تو ماحولیات اور گلیشیروں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔لیکن اس مشورے پر کان دھرنے کے بجائے بھارتی حکومت زیادہ سے زیادہ یاتریوں کو بال تل کے راستے ہی امرناتھ بھیج رہی ہے۔

بھارتی حکومت نے بھارت کے بیش تر دریائوں اورندیوں کے منبع، یعنی گنگا کے گلیشیرو ں کی حفاظت کے لیے متعدد اقدامات کیے ہیں، لیکن وادیٔ کشمیر اور پاکستان کو پانی فراہم کرنے والے ’سند ھ طاس گلیشیروں‘ کی تباہی پر وہ ذرا بھی فکر مند نہیںنظر آتی ہے۔۲۰۰۶ء ہی میں اتراکھنڈ صوبہ میں ماحولیات کے تحفظ کے لیے وہاں پر ہندو قوم پرست بی جے پی حکومت نے ایک حکم نامہ جاری کیا، جس کی رُو سے ہر روز صرف ۲۵۰ سیاح اور زائرین دریائے گنگا کے منبع ’گومکھ گلیشیر‘ جا سکتے ہیں۔  اس کا موازنہ اگر آپ سندھ طاس کو پانی فراہم کرنے والے کشمیر کے ’کلاہوئی گلیشیر‘ کے ساتھ کریں تو وہاں ہر روز اوسطاً۲۰ہزار افراد مئی اور اگست کے درمیان اسے روندتے ہوئے نظر آئیں گے۔

ماہرین ماحولیات کہتے ہیں کہ ’’ایسے وقت میں، جب کہ دنیا موسمیاتی تبدیلیوںکی وجہ سے ایک نئی آفت سے دوچار ہونے والی ہے اور اس مصیبت کو ٹالنے کے لیے دنیا کے بیش تر ممالک پہاڑی علاقوں میں سیاحوں کی آمد کو ریگولیٹ کررہے ہیں، بھارت کو بھی چاہیے تھا کہ کشمیر کے قدرتی ماحول کو برقرار رکھنے کے لیے امرناتھ میں یاتریوں کی تعدادکو ضابطے کا پابند بنانے کی تجویز پر مذہبی نقطۂ نگاہ کے بجائے سائنسی نقطۂ نگاہ سے غور کرتا‘‘۔ بھارت کے ایک اہم ادارے ’دی انرجی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ‘ (TERI) نے بھی اپنے ایک تحقیقی مطالعے میں دعویٰ کیا تھا کہ دریائے چناب کے طا س کے گلیشیروں میں ۲۱ فی صد کمی واقع ہوئی ہے۔

غیر سرکاری تنظیم ’ایکشن ایڈ‘ نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ ’نجوان اکل گلیشیر‘ تو پوری طرح پگھل چکا ہے۔ تھجواسن، زوجیلا اور ناراناگ کے گلیشیر بھی بُری طرح متاثر ہو چکے ہیں۔ امرناتھ مندر کے غار کے اوپر کا گلیشیر ، جس کی وجہ سے غار کے اندر برف کا ’شیولنگ‘ بنتا ہے، وہ بھی تقریباً ۱۰۰میٹر تک گھٹ چکا ہے۔ شمالی کشمیر کے سیاحتی مقام گلمرگ کے نزدیک ’افروئٹ گلیشیر ‘کا وجود ہی ختم ہو چکا ہے، جب کہ ایک وقت یہ ۴۰۰میٹر طویل ہوا کرتا تھا۔ اسی طرح جنوبی کشمیر کے ناگی نند، ہانجی پورہ اور وندرنند کے گلیشیر بھی ختم ہو چکے ہیں۔۵۰سال قبل چناب طاس میں ۸ہزار مربع کلومیٹر کے قریب گلیشیر ہوتے تھے، جو اس وقت صرف ۴ہزار ایک سو مربع کلومیٹر تک رہ گئے ہیں۔ سیاچن گلیشیر پر فوجی سرگرمیوں کی وجہ سے اس کی کیا حالت ہو چکی ہوگی، اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

خود بھارت میں گلیشیروں کا ڈیٹا حاصل کرنا بھی خاصا مشکل ہے، کیونکہ یہ سرحدی علاقوں میں آتے ہیں اور وزارت دفاع و فوج ان علاقوں کے سروے کی اجازت نہیں دیتی ۔ جے رام رمیش نے اپنی وزارت کے دوران گلیشیروں کے سروے اور ان کا ڈیٹا اکٹھا کرنے کا حکم صادر کیا تھا، مگر وزارت دفاع نے محققین کو ان علاقوں تک رسائی دینے سے انکار کر دیا۔ اب بھی بھارت میں گلیشیروں کے حوالے سے معتبر ڈیٹا موجود نہیں ۔

 گلیشیروں کے علاوہ کشمیر میں گھنا جنگلاتی رقبہ بھی ۳۷ فی صد سے گھٹ کر ۱۱فی صد رہ گیا ہے۔ پہلگام کے علاقے میں گھنے جنگلات کا رقبہ جو ۱۹۶۱ءمیں ۱۹۱مربع کلومیٹر تھا، ۲۰۱۰ء میں ۳ء۹  مربع کلومیٹر ریکارڈ کیا گیا، وہ اب اور بھی سکڑ گیا ہے۔ اسی طرح پانی کے سب سے بڑے ذخیرے ولر جھیل کی قسمت بھی کشمیریوں کی قسمت کی طرح سکڑ گئی ہے۔ اس کا رقبہ پچھلی تین دہائیوں میں ۱۵۷مربع کلومیٹر سے گھٹ کر ۸۶مربع کلومیٹر رہ گیا ہے۔ دریائے جہلم کو پانی فراہم کرنے والا یہ ایک بڑا ماخذ اور سرچشمہ ہے۔

 فوجی کشیدگی یا سرحدی تنازعات کے خطرات تو ہیں، مگر ایسا لگتا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیاں، خاص طور پر جب وہ جان بوجھ کر عمل میں لائی جاتی ہوں،ان سے بھی شدید ترین خطرات لاحق ہوجاتے ہیں۔ اس جہالت، دھونس اور ظالمانہ غیر ذمہ داری کے نتیجے میں جنگوں سے بھی زیادہ افراد کی ہلاکت کا اندیشہ ہے۔ بھارت اور پاکستان کو چاہیے کہ کم از کم اس معاملے میں ایک دوسرے کے ساتھ اشتراکِ عمل کرکے خطے کو ماحولیاتی تبدیلی کے ہلاکت انگیز طوفان سے بچائیں۔ دوسرا طریقہ ہے کہ سارک تنظیم کے ذریعے کوئی نظامِ کار ترتیب دیا جائے۔

سفارتی مؤرخ رچرڈ اولمین نے قومی سلامتی کو درپیش خطرات کی تشریح پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ہر وہ چیز جس سے عوامی زندگی یا اس کا معیار متاثر ہوتا ہے، سلامتی کے زمرے میں آتی ہے‘‘۔ بھارت اور پاکستان کو چاہیے کہ خطۂ کشمیر کو ماحولیاتی تباہی سے بچانے اور اس کے جنگلات، گلیشیر اور پانی کے ذخائر کو بچانے کا عہد کریں۔ اگر یہ ناپید ہوجاتے ہیں توہمالیہ، ہندو کش اور پھر نشیب میں ایک بڑی آبادی کی زندگی دائوپر لگ سکتی ہے۔ یاد رہے کہ یہ خطرہ کسی ایٹمی جنگ کے نتیجے میں پیدا ہونے والی تباہی سے کم نہیں ہوگا، کہ جس کی طرف ہم بہت تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔

حالیہ عرصے میں کشمیر میں ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے سویلین افراد کی ہلاکتوںکا ایک سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ پولیس کے مطابق اب تک ۲۸؍افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں گیارہ غیرمسلم ہیں۔ ان میں تین کشمیری پنڈت، ایک سکھ خاتون اور دیگر غیر کشمیری مزدور ہیں۔ وادی کشمیر میں ہرسال بھارت کے مشرقی صوبہ بہار سے تین لاکھ کے قریب مزدود کام کرنے کے لیے آتے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ ان ہلاکتوں کی وجہ سے ان میں سے ۱۰ سے ۲۰ہزار تک واپس چلے گئے ہیں۔

۱۹۹۰ میں عسکری سرگرمیوں کی ابتداء میں ہی کشمیری ہندوؤں جنھیں ’پنڈت‘ کہا جاتا ہے، کی ایک بھاری تعداد نے جموں اور دہلی کی طرف ہجرت کی۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق ۶۰ہزار خاندانوںنے ہجرت کی تھی۔ ان میں ایک لاکھ ۳۵ہزار ہندو،۱۲ ہزار ایک سو۲۱ سکھ، ۶ہزار۶سو۶۹ مسلمان اور ۱۹دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے تھے۔بھارت میں لیڈران اور صحافی ان اعداد و شمار کو اکثر بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔ تقریباً ۸۰۰کے قریب پنڈت خاندانوں نے وادی میں ہی رہنے کو ترجیح دی تھی۔ کشمیری پنڈتوں اور بہاری مزدوروں کی ہلاکتوں نے  پورے بھارت میں ایک طوفان سا برپا کردیا ہے۔

بھارت کے کئی مقتدر مسلم رہنمابھی کشمیری مسلمانوں کو باور کرا رہے ہیں، کہ اقلیتوں کی حفاظت کے لیے ان کو میدان میں آنا چاہیے۔ ایک نیوز ویب سائٹ نے تو ایک بھارتی خفیہ افسر کے حوالے سے لکھا ہے کہ اگر سید علی شاہ گیلانی زندہ اور سرگرم ہوتے، تو اس طرح کی ہلاکتوں کی وہ فوری طور پر روک تھام کرلیتے۔یہ سچ ہے کہ اقلیت کی سلامتی اور ان کا تحفظ اکثریتی طبقہ کی اہم ذمہ داری ہوتی ہے۔ مگر کشمیر میں اکثریتی طبقہ تو اپنے جان و مال پر بھی قدرت نہیں رکھتا۔ فوجی گرفت کے بیچوں بیچ اْدھار زندگی گزارنے والا کیسے کسی اور کی زندگی کی ضمانت دے سکتا ہے؟

اگرچہ ان تمام مقتدر افراد نے ٹارگٹ کلنگ کی مذمت کرکے اکثریتی طبقے کو اپنی ذمہ داری یاد دلائی ہے، مگر و ہ اتنے بے حس ہیں کہ ان کے لیے اننت ناگ میں ۷؍ اکتوبر کو ریاستی آرمڈ فورسز کی فائرنگ کا نشانہ بننے والے پرویز احمد خان کے لیے کسی ہمدردی کا ایک لفظ موجود نہیں ہے۔ گولیوں کا نشانہ بننے کے بعد پرویز خان کی لاش کو آدھی رات کو دفن کر دیا گیا ۔ ان کے والدین کو اس کی لاش پر آنسو بھی بہانے نہیں دیئے گئے ۔ کشمیر کی سبھی جماعتیں ، کشمیری پنڈتوں کی وادیِ کشمیر میں واپسی کی خواہاں ہیں۔ مگر اس دوران جن کشمیر پنڈتوں نے اپنی جائیدادیں قانونی طریقوں سے بیچ ڈالی تھیں، ان کو اب اکسایا جا رہا ہے کہ وہ اپنی جائیدادیں واپس حاصل کریں۔ پچھلے کئی ماہ سے ان میں رہنے والے مسلمان خاندانوں کو بے دخلی کے نوٹس دیے جانے کی خبریں متواتر موصول ہورہی ہیں۔ حالانکہ یہ جائیدادیں انھوں نے قانونی طور پر خریدی ہوئی ہیں۔

 ۵؍ اگست ۲۰۱۹ءکو ریاست کو جارحانہ انداز سے بھارتی یونین میں ضم کرنے اور بعد میں کووڈ وباء کے نام پر جہاںتما م بڑی مساجد اور درگاہوں میں اجتماعات یا محرم کے جلوسوں کی ممانعت کی گئی ، وہیں ۱۵؍ اگست کی بھارت کی یوم آزادی کی تقریب، جنم اشٹمی، مہاتما گاندھی کے جنم دن و دیگر ایسی تقریبات کو اس سے مستثنیٰ رکھ کر عوامی اجتماعات کا انعقاد کیا گیا۔ اس دوہرے رویے پر مقامی آبادی کا سوالات اٹھانا لازمی ہے۔ کشمیری پنڈتوں اور ایک سکھ خاتون کے قتل کی وجہ سے کشمیر میں اضطراب تو ہے ہی، مسلسل تلاشیوں، اندھا دھند گرفتاریوں، محاصروں اور فوجی آپریشنوں نے مسلمانوں کی زندگی مزید اجیرن بنا کر رکھ دی ہے۔

اسی سال مارچ میں بھارت کے سابق وزیر خارجہ جناب یشونت سنہا، سابق معروف بیوروکریٹ اور سابق چیئرمین ماینارٹیز کمیشن جناب وجاہت حبیب اللہ ، بھارتی فضائیہ کے ائروائس مارشل کپیل کاک، سوشل ورکر سوشوبھا بھاروے اور سینیرصحافی اور ایڈیٹر جناب بھارت بھوشن نے ’فکرمند شہریوں‘ (Concerned Citizens Group: CCG) کے ایک معتبر گروپ کے نام سے جب کشمیر کا دورہ کیا، تو وہاں رہنے والے کشمیری پنڈتوں نے ان سے اس خدشے کا اظہارکیا تھا: ’’ بھارت میں عام انتخابات سے قبل کہیں وہ کسی False Flag [خود مار کر دوسرے پر الزام دھرنے جیسے]آپریشن کا شکار نہ ہوجائیں، تاکہ اس کو بنیاد بناکر بھارت میں ووٹروں کو اشتعال و ہیجان میں مبتلا کرکے ایک بار پھر ووٹ بٹورے جاسکیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بعض عسکریت پسندوں میں بھی بھارت کے خفیہ اداروں کے افراد ہوسکتے ہیں، جو اس طرح کی کارروائی انجام دے سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ پنڈتوں کو شکایت تھی کہ مرکزکے ’اسمارٹ سٹی پراجیکٹ‘ کے نام سے دریا کے کنارے پر واقع متعدد مندروں کی آرایش و تزئین کی جا رہی ہے، مگر اس سلسلے میں مقامی پنڈت آبادی کو پوچھا بھی نہیں جاتا ہے۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ یہ کام سیکورٹی فورسز کے افراد کررہے ہیں، جو ایک خطرناک رجحان ہے اور اس سے مقامی مسلم آبادی کو ان سے متنفر کیا جا رہا ہے‘‘۔

۵؍ اگست ۲۰۱۹ء کو جموں و کشمیر کے شہریوں پرجو قیامت ٹوٹ پڑی ہے اور جس طرح نریندرا مودی کی حکومت نے ان کے تشخص و انفرادیت پر کاری وار کیا ، ا س پر ہونا تو چاہیے تھا کہ مذہبی عناد سے اُوپر اٹھ کر اس کا مقابلہ کیا جاتا۔ مگر افسوس کا مقام ہے کہ کشمیری پنڈتوں (ہندوؤں) کے بااثر طبقے نے ، جو ہندو انتہاپسند گروپ راشٹریہ سیوئم سیوک سنگھ (RSS)کے ایک بازو کے بطور کام کرتا ہے، اس پر خوشی کے شادیانے بجائے۔ وہ کشمیر کو بھول کر مذہبی اور نسلی تقسیم کے پیمانے سے معاملات کو جانچ رہے تھے۔ سوشل میڈیا پر بتایا گیا کہ ’’۱۹۹۰ء میں کشمیری پنڈتوں کے ساتھ جو کچھ ہوا، جس کی وجہ سے وہ ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے، آج مودی حکومت نے اس کا بدلہ چکایا ہے‘‘۔ آخر مبینہ طور پر چند مجرموں کے انسانیت کش اقدام کی سزا اجتماعی طور پر پوری کشمیری قوم کو کیسے دی جاسکتی ہے؟ ویسے ۱۹۹۰ء سے لے کر اب تک کشمیر میں تو بھارت ہی کی فوجی، سیاسی اور انتظامی عمل داری ہے۔ جن لوگوں نے کشمیری پنڈتوں کو بے گھر ہونے پر مجبور کیا، ان کے خلاف تادیبی کارروائی کیوں نہیں کی گئی؟ ان کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے اس کو محض پروپیگنڈے کا ہتھیار بنایا گیا۔ یہ خود کشمیری پنڈتوں کے لیے بھی سوچنے کا مقام ہے۔

اب ہم ذرا پیچھے جاکر ۱۹۹۰ء کو ہی یاد کرلیں۔جھیل ولرکے مغربی سرے پر واقع وادیِ کشمیر کے سوپور قصبہ سے دریائے جہلم نئی آب وتاب کے ساتھ جھیل ولر سے نئی توانائی لے کر اپنا سفر پھر شروع کرتا ہے۔پرانے شہر میں برلب دریا میر سید علی ہمدانی کی خانقاہ سے متصل میرے محلے کے اطراف میں دو پنڈت بستیاں تھیں۔ ویسے بھارتی شہروں اور دیہات کی طرح، کشمیر میں ہندوئوں اور مسلمانوں کی کوئی علیحدہ بستیاں نہیں ہوتی تھیں۔ لکیروں کے بغیر ہی یہاںدونوں طبقے مل جل کر رہتے تھے۔ ہمارے محلے کے مشرقی سرے پر جامع قدیم میں آسودہ حال پنڈت آباد تھے۔   ان میںاکثر اعلیٰ سرکاری ملازم تھے، جو سردیوں میں جموں منتقل ہوجاتے تھے۔ مگر مغربی سرے پر صوفی حمام محلہ میں جو پنڈت رہتے تھے، وہ ہمسایہ مسلمانوں کی طرح ہی پس ماندہ اور معمولی درجے کے ملازم تھے۔ کشمیر میں عسکری تحریک کے آغاز کے ساتھ ہی خوف کی فضا طاری ہوگئی۔ عسکریت پسندی پر کسی مرکزی کنٹرول کے نہ ہونے کے باعث، بعض غنڈہ عناصر نے بھی اس میں پناہ لی۔ کئی افراد تو تحریک آزادی سے وابستگی کے بغیر محض کسی سے بدلہ چکانے کی نیت سے بھی عسکریت پسندوں میںشامل ہوگئے۔ حزب المجاہدین اور جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کو چھوڑ کرایک وقت تو وادی میں ایک سو سے زائد عسکری گروہ متحرک تھے۔

اس الائو کو مزید ہوا دینے میں بھارتی سرکار کی خفیہ ایجنسیوں نے بھی بھر پور کردار ادا کیا۔ ۱۹۸۹ء میں گورنر بننے کے فوراً بعد جگ موہن نے پوری سیاسی قیادت کو ، جو حالات کنٹرول کر سکتی تھی، گرفتار کرکے بھارت کے دور دراز علاقوں کی جیلوں میں بند کردیا۔جموں و کشمیر میں بھارت نواز سیاسی قیادت تو پہلے ہی فرار ہوکر جموںاور دہلی منتقل ہوچکی تھی۔ وزیر اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ اپنے خاندان کے ساتھ لندن منتقل ہوگئے تھے۔اس انارکی کا خمیازہ محض کشمیری پنڈتوں کو ہی نہیں بلکہ مقامی اکثریتی آبادی مسلمانوں کو بھی بھگتنا پڑا۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پچھلے ۳۰ برسوں میں ۲۵۰ پنڈت قتل ہوئے، جس کی وجہ سے وہ نقل مکانی پر مجبور ہوگئے۔مگر اسی دوران کشمیر میں اندازاً ایک لاکھ مسلمان بھی مارے گئے۔ جموں خطہ کے دور دراز علاقوں میں۱۵۰۰ کے قریب غیرپنڈت ہندو، جو زیادہ تر دلت، اور راجپوت تھے، قتل عام کی وارداتوں میں ہلاک ہوئے، مگر ان افسوس ناک واقعات کے باوجود ان خطوں میں آبادی کا انخلا نہیں ہوا۔

جموں و کشمیر میں گورنر جگ موہن نے حالات ہی ایسے پیدا کردیے کہ ہر حساس شخص محفوظ پناہ گاہ ڈھونڈنے پر مجبور تھا۔ اگر معاملہ صرف پنڈتوں کی سکیورٹی کا ہوتا، توسوپور اور بارہ مولا کے پنڈت خاندانوں کو پاس ہی بھارتی فوج کے ۱۹ویں ڈویژن کے ہیڈکوارٹر منتقل کیا جا سکتا تھا۔ یادرہے جگ موہن کے آتے ہی افواہوں کا بازار گرم تھا کہ ’’آبادیوں پر بمباری ہونے والی ہے‘‘۔ سردیوں کے آتے ہی دارالحکومت سری نگر سے جموں منتقل ہو جاتا ہے۔ چنانچہ اس بار سردیوں میں جونہی دارالحکومت جموں منتقل ہوا‘ میرے محلے کے اطراف کے آسودہ حال ہندو بھی معمول کے مطابق جموں چلے گئے۔ مگر صوفی حمام کے ہندو وہیں مقیم رہے۔ ایک د ن بھارت کی نیم فوجی تنظیم ’انڈیا تبت بارڈر پولیس‘ (ITBP) کے ایک کمانڈنٹ مقامی پولیس افسران کے ساتھ محلے میں آئے، اور پنڈتوں کی سکیورٹی کا جائزہ لیا۔ مگرپنڈتوں نے کمانڈنٹ سے کہا کہ ’’ہماری سکیورٹی کی فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ، ہمارے پڑوسی (مسلمان) ہی ہماری سکیورٹی ہیں‘‘۔ محلے کے مقتدر افراد نے بھی افسر کو یقین دلایا کہ ’’اقلیتی افراد کی حفاظت کرنا ان کافرض ہے اور وہ یہ فرض نبھائیں گے‘‘۔

مگر دو دن بعد ہی آدھی رات کے لگ بھگ لائوڈ سپیکروں سے کرفیو کا اعلان ہو گیا۔ سڑک پر فوجی بوٹوں کی ٹاپوں اور ٹرکوں کی آوازیں آرہی تھیں۔ پنڈت مکانوں سے بھی چیخ پکار کی آوازیں بلند ہوئیں۔ گھپ اندھیرے میں پتہ نہیں چل رہا تھا کہ کیا ہورہا ہے؟ لگ یہی رہا تھا کہ شاید فوجی آپریشن شروع ہو گیا ہے۔ اسی دوران میں گلی میں کوئی سایہ نمودار ہو کر ہمارے دروازے پر دستک دینے لگا۔ میرے والد نے دروازہ کھولا تو سامنے ان کے دیرینہ بے تکلف پنڈت دوست اور آفس کے ساتھی امر ناتھ بھٹ کہہ رہے تھے کہ ’’نیم فوجی تنظیم کا افسر پورے لائو لشکر اور ٹرکوں کے ساتھ وارد ہو ا ہے، اور سبھی پنڈت برادری کو جموں لے جارہا ہے۔ وہ ہم سے کہہ رہے ہیں کہ اگلے چند روز کے اند ر کوئی بڑا آپریشن ہونے والا ہے۔ہوسکتا ہے کہ فضائی بمباری بھی ہو‘‘۔ امرناتھ بضد تھا، کہ ہم بھی اس کے ساتھ منتقل ہوجائیں۔ اس کا کہنا تھا کہ ’’میں نے اس سلسلے میں افسر سے بات کی ہے‘‘۔ مگر جب میرے والد نے انکار کیا، تو امر ناتھ نے میرا ہاتھ پکڑکر ’’میرے والد سے فریاد کی کہ 'اگر تمھیں مرنا ہی ہے، تو کم از کم اپنے بیٹے کو ہمارے ساتھ روانہ کردو‘ اسے تو زندہ رہنے دو‘‘۔ مگرمیرے والد کے مسلسل انکار کے بعد امر ناتھ روتے ہوئے تاریکی میں گم ہوگیا۔ اگلے دن صبح یہ عقدہ کھلا ، کہ پوری پنڈت برادری کو ٹرکوں میں ساز و سامان کے ساتھ زبردستی بٹھا کر جموں کے پناہ گزیں کیمپوں میں منتقل کردیا گیا ہے، جہاں وہ ابھی تک مقیم ہیں۔ امرناتھ کا اب انتقال ہوچکا ہے‘ مگر میرے والد جب تک دہلی میں میرے پاس آتے رہے، وہ راستے میں جموں میں ٹھیر کر امرناتھ کے پاس ضرور رُکتے تھے۔

بھارتی حکومت اور بھارتی میڈیا کا ایک بااثر حلقہ جہاں کشمیر ی پنڈتوں کی گھر واپسی کے موضوع پر اکثریتی طبقہ کے جذبات واحساسات کو جان بوجھ کرمنفی انداز میں پیش کر رہے ہیں، وہیں یہ بھی حقیقت ہے کہ پنڈتوں کو مارنے والے مخصوص بندوق بردار جب ’تائب‘ ہوئے تو انھیں بھارتی سکیورٹی ایجنسیوں نے سرآنکھوں پر بٹھایا۔کشمیری پنڈتوں کی چند تنظیمیں بھارتی حکومت کی شہ پراب کھلے عام ’ہوم لینڈ‘ کا مطالبہ کر رہی ہیں، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہندو پرستوں نے کشمیری پنڈتوں کو یہودی طرز پر یہاں الگ بسا کر کشمیر کو دوسرا فلسطین بنانے کا پکا ارادہ کر لیا ہے۔ اب دو ٹوک لفظوں میں کہا جا رہا ہے کہ ’’پنڈت ہوم لینڈ کے لیے عدلیہ، انتظامیہ اور پولیس کے علاوہ سب کچھ علیحدہ ہوگا‘‘۔ ان کے بعض بااثر لوگ برملا کہتے ہیں کہ ’’تین فی صد آبادی ۹۷فی صد آبادی کے ساتھ نہیں رہ سکتی، اس لیے پنڈتوں کے لیے الگ سے ’سمارٹ زون‘ بنایا جائے‘‘۔

کشمیر کی آزاد حیثیت کو زیر کرکے جب مغل بادشاہ اکبر [م:۱۶۰۵ء]نے آخری تاجدار یوسف شاہ چک [م:۱۵۹۲ء] کو قید اورجلا وطن کیا، تو اگرچہ مغل حاکم مسلمان تھے، مگر اس خطے میں ان کی سیاسست کا انداز سامراجیوں جیسا تھا۔ چونکہ کشمیر میں مسلمان امرا نے مغل فوج کشی کی مزاحمت کی تھی، اسی لیے مغلوں نے کشمیری پنڈتوں کی سرپرستی کرکے انھیں اْبھارا اور مسلمان امرا کو نیچا دکھانے کے لیے کشمیری پنڈتوں کو اپنا حلیف بنایا۔

 بقول شیخ محمد عبداللہ ’’پنڈتوں کے جذبۂ امتیاز کو تقویت دینے کے لیے آدتیہ ناتھ بٹ کو ان کی مراعات کا نگہبان مقر ر کیا۔ جنوبی و شمالی کشمیر میں کشمیری پنڈت ہی گورنر بنائے گئے‘‘۔ معروف مؤرخ جادو ناتھ سرکار کے مطابق ’’مغل سلطنت کے دوران کشمیری مسلمانوں کو امور سلطنت سے دُور رکھا گیا‘‘۔ اس طرح کشمیر کے بطن سے مغلوں نے ایک قابلِ اعتماد ضمیرفروش، گھر کا بھیدی طبقہ پیدا کیا۔ مسلمانوں پر فوج کے دروازے بند، مگرپنڈتوں کے لیے کھلے تھے۔ کشمیری میرو پنڈت نو ر جہاںکی ذاتی فوج کا نگرانِ اعلیٰ تھا۔ پنڈتوں کی یہی بالا دستی اورنگ زیب تک کے دور میں بھی جاری تھی۔ اس کے دربار میں مہیش شنکر داس پنڈت کا خاصا اثر و رُسوخ تھا۔

افغان دورکی ظلم و ستم کی کہانیاں جہاں کشمیر میں زباں زدِ عام ہیں، اس وقت بھی کشمیری پنڈت ظالموں کی صف میں اپنے ہم وطنوں سے کٹ کر کھڑے تھے۔ بلند خان سدوزئی نے کیلاش در پنڈت کو وزیر اعظم بنایا تھا۔ حاجی کریم داد خان نے پنڈت دلا رام کوپیش کار کا عہدہ دیا تھا۔ افغان حکومت کے زوال کے بعد سکھ اور ہندو ڈوگرہ دور میں بھی پنڈتوں ہی کا طوطی بولتا تھا۔ یہ دونوں دور ظلم و ستم میں افغانوں سے بازی لے گئے۔ کشمیر کے مشہور’ در‘ خاندان کا عروج اسی دور میں ہوا۔ سکھوں کے دور ہی میں کشمیری پنڈتوں کی ایما پر نہ صرف گاوٗکشی بلکہ گائے کا گوشت برآمد ہونے پر سزائے موت کا فرمان جاری ہوا، جس کو بعد میں ازراہِ ترحم ڈوگرہ حکمرانوں نے عمر قید میں تبدیل کیا۔ تب تک۱۹کشمیری مسلمان اس جرم میں پھانسی کی سزا پا چکے تھے۔ ڈوگرہ حکمران مہاراجا گلاب سنگھ نے راج کاک در کو کشمیر کا گورنر بنایا، جس کی سختیوں اور شال بُننے والے کاریگروں پر اس کے ٹیکس کی بھرمار نے ۱۸۶۵ء میں سرینگر کی سڑکوں پر دْنیا کی پہلی مزدو ر بغاوت برپا کی۔

بندوبست اراضی کے کمشنر سر والٹر لارنس کے مطابق ’’ڈوگرہ حکومت میں ساری قوت کشمیری پنڈتوں کے ہاتھوں میں تھی۔ مسلمان کا شت کار کو برہمنوں کے آرام و آسایش کے لیے بیگار پر مجبور کیا جاتا تھا۔۱۹ویں صدی کے اواخر میں جب پنجاب سے آنے والے ہندو اور کشمیری نژاد مسلمانوں نے ڈوگرہ دربار میں نوکریاں حاصل کرنی شروع کیں، تو کشمیری پنڈتوں نے کشمیر ، کشمیریوں کے لیے اور اسٹیٹ سبجیکٹ کا نعرہ بلند کرکے علاحدہ شہریت کا مطالبہ کیا۔ اب ایک صدی کے بعد کشمیری پنڈتوں ہی نے اسی قانون کی مخالفت میں زمین و آسمان ایک کیے۔ ۱۹۳۱ء میں جب تحریک کشمیر کا باقاعدہ آغاز ہوا، تو ڈوگرہ حکمرانوں نے کشمیری پنڈتوں کو ڈھال بناکر پروپیگنڈا کیا کہ  یہ دراصل ہندو مہاراجا کے خلاف مسلمانوں کی بغاوت ہے۔ شاید یہی تاریخ اب دوبارہ دہرائی جا رہی ہے۔ پورے بھارت میں ظالم و مظلوم کی جنگ کو ’کشمیری مسلمان بنام پنڈت‘ بناکر پیش کیا جا رہا ہے۔

ڈوگرہ حکومت کے دور میں جب چند پڑھے لکھے مسلمانوں کو معمولی سرکاری نوکریا ں ملنی شروع ہوئیں، تو کشمیری پنڈتوں نے اس کے خلاف ’روٹی ایجی ٹیشن ‘ شروع کی۔ انھوں نے مہاراجا کو ایک میمورنڈم پیش کیاکہ ’’کولگام علاقے میں ہمارے لیے ایک علاحدہ وطن بنایا جائے‘‘۔ یہ وہی مطالبہ ہے جو کشمیری پنڈت آج کل ایک علاحدہ ہوم لینڈ یعنی’ پنن کشمیر ‘کے نام سے کر رہے ہیں۔ بھلا ہو چند روشن خیال کشمیری پنڈتوں کا، خاص طور پر پنڈت پریم ناتھ بزاز کا ، جس نے برطانوی حکومت کی ایما پر بنائے گئے گلینسی کمیشن کو بتایا کہ مسلمانوں کے مقابلے میں کشمیری پنڈتوں کی حالت خاصی بہتر ہے۔ خود جواہر لعل نہرو نے کشمیری پنڈتوں کے گڑھ شیتل ناتھ جاکر ان کو مشورہ دیا تھا کہ و ہ ظالم و مظلوم کی جنگ میں مظلوم کا ساتھ دیں۔ نہرو اس وقت اپنے دوست شیخ عبداللہ کے لیے پنڈتوں کی حمایت چاہتے تھے۔ مگر پنڈت ڈوگرہ مہاراجا کا دامن چھوڑنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ انفرادی طور پر کئی پنڈت لیڈر کشمیری مسلمانوں کے شانہ بہ شانہ رہے ، مگر طبقاتی حیثیت سے وہ تحریک آزادی کے دھارے سے کٹے ہی رہے۔اسی مہاراجا نے ۱۹۴۷ءمیں قبائلی حملوں سے خوف زدہ ہوکر رات کے اندھیرے میں بھاگ کر ان کو اپنے حال پر چھوڑ دیا۔ یہ تو کشمیری مسلمان ہی تھے، جنھوں نے ان کی حفاظت یقینی بنائی۔

پنڈت پران ناتھ جلالی ایک واقعہ سناتے تھے، کہ شیخ عبداللہ نے بطور چیف ایڈمنسٹریٹر جب زمامِ کار سنبھالی تو ان کو کشمیری پنڈتوں کی بازآباد کاری کا کام سونپا گیا۔ ان کو اطلاع ملی کہ ہندواڑ ہ تحصیل کے کسی گاؤں میں کشمیری پنڈتوں کے کئی خاندان ہفتوں سے غائب ہیں۔ سرینگر سے روانہ ہوکر سوپور تھانے سے سپاہیوں کی کمک لے کر وہ اس گاؤں میں پہنچے تو معلوم ہوا کہ اطلاع صحیح تھی۔ گاؤں کے سرکردہ افراد کو بلا کر ان کا انٹروگیشن کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پولیس نے ان کی سخت پٹائی کی ، حتیٰ کہ ان کی خواتین و بچوں تک کو نہیں بخشا۔ سبھی گاؤں والے عذا ب تو سہتے رہے اور بس یہی کہتے رہے کہ ان کو کچھ نہیں معلوم کہ یہ پنڈت خاندان کہاں چلے گئے ہیں۔

 خیر جلالی صاحب کا کہنا تھا کہ ایک خالی پنڈت مکان میں انھوں نے اور سپاہیوں نے ڈیرا ڈالا۔ ایک رات ایک سپاہی نے ان کو بتایا کہ رات گئے گاؤں میں لوگوں کی کچھ غیر معمولی نقل و حرکت محسوس ہوتی ہے تو پران ناتھ جلالی اور سپاہیوں نے ہوشیاری کے ساتھ ان کا پیچھا کیا۔ چند ایک میل چلنے کے بعد معلوم ہوا کہ نالے کے دوسری طرف ایک محفوظ و تنگ گھاٹی میں کشمیری پنڈت خاندان چھپے ہوئے تھے اور گاؤں والے ہر رات ٹوکریوں میں ان کو کھانا پہنچا رہے تھے۔ جلالی صاحب کا کہنا تھا کہ ’’ندامت سے میرے پاوٗں زمین میں گڑ گئے۔ گذشتہ کئی روز سے ہم نے ان گاؤں والوں کا جس طرح ٹارچر کیا تھا، اس پر پشیمان تھے۔ اِن اَن پڑھ دیہاتیوں نے ٹارچر اور گالیا ں کھانا برداشت تو کیا، مگرکیا بچے اور کیا خواتین ، کسی نے پنڈتوں کے ٹھکانے کا راز افشا نہیں کیا‘‘۔ یہ واقعہ اس وقت کا ہے، جب جموں میں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی جا رہی تھی۔ ایک باضابطہ نسل کشی کے ذریعے ان کی آبادی کو اقلیت میں تبدیل کیا جا رہا تھا۔ مگراس کے باوجود مسلمانوں نے پنڈتوں کے لیے اس حفاظتی طرزِعمل کو اختیار کیا جس پر گاندھی جی نے کہا تھا کہ ’’جب پورا برصغیر فرقہ وارانہ آگ میں جل رہا تھا مگر کشمیر سے مجھے روشنی کی کرن نظر آرہی تھی‘‘۔

تاریخ گواہ ہے کہ جب مسلمانوں کو تعلیمی اور سیاسی میدانوں میں اپنی صلاحیتیں منوانے کا موقع ہاتھ آیا تو یہ اقلیتی طبقہ (پنڈت) احساسِ کمتری کا شکار ہونے لگا۔ یہ نفسیات اب بھی بعض انتہا پسند پنڈتوںکو اس غلط فہمی میں مبتلا کر چکی ہے کہ وہ نئی دہلی کی پشت پناہی سے کشمیری مسلمانوں کو ایک مرتبہ پھر اپنے غلاموں اور ماتحتوں کے طور پر گزر بسر کرنے پر مجبور کرسکتے ہیں۔ اس مسئلے کو لے کرارباب سیاست ایک ایسا ’گھنائونا کھیل‘ کھیل رہے ہیں، جو نہ تو پنڈت برادری کے حق میں ہے اور نہ کشمیر کی اکثریت کے لیے بہتر ہے، جس اکثریت نے پنڈت اقلیت کو کبھی اقلیت نہیں سمجھا بلکہ انھیں ہمیشہ ہی اپنے بیچوں بیچ رکھتے ہوئے اپنے عزیزوں اور پیاروں کی مانند، اپنی محبتوں سے نوازا ہے۔ مگر کشمیری قوم کی بد قسمتی یہ رہی کہ جب بھی کوئی تاریخی موڑ آیا، یہاں کی اقلیت اکثریت کے ہم قدم نہیں تھی، نہ صرف ہم قدم اور ہم خیال نہیں تھی بلکہ بار بار ایک ایسا راستہ اختیار کیا گیا، جو اکثریتی شاہراہ سے قدرے دور رہا۔اگر بھارت کے مفادات کی بھی بات کریں، جس طرح کی رسائی پنڈتوں کی دہلی دربار میں تھی، وہ بھارت کے لیے بھی ایک طرح کے پل کا کام کرسکتے تھے۔ مگر دہلی کے ففتھ کالم کا کردار ادا کرکے انھوں نے کشمیر میں بھارت کے مفادات کو بھی زِک پہنچائی۔ چند کشمیری پنڈتوں کو چھوڑ کربلعموم انھوں نے مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے کے لیے وقتاً فوقتاً اپنا کندھا پیش کرکے سبھی کا نقصان کیا ہے۔جس نے کشمیری مسلمانوں کو نہ صرف بھارت مخالف بنایا، بلکہ نفرت کرنے کی حد تک پہنچادیا۔

پنڈتوں کو اپنا دامن بھی دیکھ لینا چاہیے کہ آخر ان میں اور مسلمانوں دونوں کے درمیان نفسیاتی خلیج کو کس نے جنم دیا؟ جس کی وجہ سے آج کشمیر آگ اور خون کے دہانے پر کھڑا ہے۔ کشمیر کا اکثریتی طبقہ اپنے جان و مال پر بھی قدرت نہیں رکھتا۔وہ تو فوجی گرفت کے بیچوں بیچ اُدھار زندگی گزاررہا ہے۔

اگست ۲۰۱۹ء کو بتایا گیا کہ ان اقدامات سے ترقیاتی کاموں میں تیزی آئے گی اور نظم و نسق بہتر ہو جائے گا۔ مگر یہ سبھی وعدے ہوا میں تحلیل ہوتے نظر آ رہے ہیں۔انتہائی جدید ٹکنالوجی کے ذریعے کڑی نگرانی کے باوجود حکومت مقامی اور غیر مقامی سویلین افراد کو بچا نہیں سکی۔ حکومت اسے ایک سلامتی کے مسئلے کے طور پر پیش کر رہی ہے اور اس کے سیاسی پس منظر سے نظریں چرا رہی ہے۔ کیا نظم و نسق عوام کی شمولیت کے بغیر قائم کیا جا سکتا ہے؟ کیا کشمیر کے سیاسی لیڈروں کو جیلوں میں بند کر کے یا ان تک عوام کی رسائی محدود بنا کر تعمیر و ترقی کا کوئی خواب پورا ہو سکتا ہے؟ حکومت کشمیر میں ایک قبرستان جیسی خامشی پیدا کر نے میں کامیاب تو ہوئی ہے، مگر مُردوں کو بھی زیادہ دیر تک خاموش نہیں رکھا جا سکتا ہے۔ یہاں کے لوگ کب تک معصوم افراد کو قربانی کا بکرا بنتے ہوئے دیکھیں گے؟ کیا وہ وقت ابھی نہیں آیا ہے کہ بھارت ، پاکستان اور کشمیری قیادت ، مسئلہ کے حتمی حل کے سلسلے میں متفق ہو جائیں؟ یہی ایک طریقہ ہے جس سے نہ صرف مسئلہ کا دیرپا حل نکل سکتا ہے بلکہ اس کے نتیجے میں یقینا جموں و کشمیر کے تمام شہری ماضی کی طرح ایک بار پھر گلے مل کر ساتھ رہنے لگیں گے۔

جنوری کے مہینے میں ویسے ہی کشمیر میں ہر چیز جم جاتی ہے، مگر شمالی کشمیر کے سوپور قصبہ میں ۱۹۷۲ءکی سردیاں گرمی کا احساس دلاتے ہوئے ایک تاریخ رقم کررہی تھیں۔ جب ماضی کو کریدتے ہوئے میں معلوم کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ ابّا جی، یعنی سیّد علی گیلانی کو میں نے پہلی بار کب اور کہاں دیکھا تھا؟ تو یادوں کی دھند صاف کرتے ہوئے مجھے ایک چار سالہ بچہ نظر آیا، جو اپنے چچا ڈاکٹر مشتاق گیلانی (جو ان دنوں سرینگر میڈکل کالج میں طالب علم تھے) کے کندھے پر سوار رات گئے میر سیّد علی ہمدانی کی درگاہ، یعنی خانقاہ کے صحن میں ایک پُرجوش ہجوم کے ساتھ کھڑا ہے۔ ایک دراز قد، بارعب مگر شفیق اورخوش لباس شخص درگاہ کے دروازے سے نمودار ہوتا ہے اور نعروں میں مزید ارتعاش آجاتا ہے ۔ جوں جوں یہ شخص قد م بہ قدم سیڑھیوں سے نیچے اترتا ہے، ہجوم بے قابو ہوکر اس کے قریب جانے اور مصافحہ کرنے میں سبقت لینے کے لیے پُرجوش نظر آتا ہے۔ معلوم ہوا کہ یہ شخص علی شاہ گیلانی صاحب ہیں، جو ریاستی اسمبلی کا الیکشن جیت گئے ہیں۔

وہ ہمار ے قر یب آئے اور میرے چچا سے علیک سلیک کرکے میرے سر پر ہاتھ رکھا اور گالوں پر تھپکی دی۔ ان کے خاندان کے ساتھ ہمارا بس اتنا تعلق تھا کہ وہ میرے تایا پروفیسر سعید گیلانی کے استاد تھے۔ بعد میں اباًجی بتاتے تھے کہ سوپور انٹرمیڈیٹ اسکول میں جب وہ سعید صاحب کو پڑھاتے تھے، تو ان کو اپنا بچپن اور غربت میں پڑھائی کے لیے تگ و دو یاد آجاتی تھی۔ اسی وساطت سے وہ میرے دادا غلام نبی کو، جو ابن حسام کے نام سے شاعر اور عربی فارسی کے عالم بھی تھے، بچوں کی تعلیم کے لیے ترغیب اور حوصلہ دیتے تھے۔ اس الیکشن میں انھوں نے دھاندلیوں کے باوجود اس خطے سے کانگریس کے ایک بت کو پاش پاش کردیا تھا۔

سوپور قصبہ اور اس کے اطراف میں ۶۰ اور ۷۰ کے عشرے میں پیدا ہونے والے افراد کے لیے شعلہ بیان سیّد علی گیلانی، انقلابی شخصیات چے گویرا، ہوچی منہ یاآیت اللہ خمینی تھے۔ وہ اپنے خطاب سے بدن میں بجلیاں بھر دیتے تھے۔ چاہے مقامی مسائل ہوں، یا ۱۹۷۹ءمیں افغانستان پر اشتراکی روسی فوجوں کی چڑھائی، یا اس کے ایک سال بعد اسرائیل کے ہاتھوں یروشلم شہر کو ضم کرنے کا واقعہ ہو، وہ اپنی اسٹریٹ پاور کا استعمال کرتے ہوئے ریاست کے تجارتی مرکز کو جام کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ جس طرح چے گویرا نے کہا ہے: ’’انقلاب کوئی پکا ہوا سیب نہیں ہوتا ہے، جو خود بخود ہی جھولی میں آگرے، اس کو گرانے کے لیے مشقت کرنی پڑتی ہے‘‘، ۱۹۸۹ء میں کشمیر میں جو بھارت مخالف انقلاب برپا ہوا، وہ اس کے اہم محرک تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ ریاست کے حالات اور اندیشہ ہائے دُور دراز کے سبب ان کی اپنی پارٹی نے اس سیب کو حاصل کرنے میں خاصی ہچکچاہٹ دکھائی۔

  • تحریکِ آزادی کشمیر کے بـے باک ترجمان: ۱۹۷۵ءکے بعد کشمیر کی اکثر آزادی پسند تحریکیں زیرزمین ہوچکی تھیں۔ ویسے ۱۹۴۷ءکے بعدمسلم کانفرنس کی اعلیٰ لیڈرشپ چودھری غلا م عباس اور میر واعظ یوسف شاہ کی ہجرت کے بعد شیخ محمد عبداللہ کو سیاسی میدان میں چیلنج کرنے کے لیے کوئی موجود نہیں تھا۔ ۱۹۷۵ء کے بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی اور شیخ عبداللہ کے معاہدے کے بعد بھارت مخالف سیاست کو گیلانی صاحب کی صورت میں بلالحاظ نظریہ ایک آواز، ایک روشن چہرہ اور سدابہار سرپرست ملا۔ اگرچہ جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کو عسکری جدوجہد کا آغاز کرنے کا اعزاز حاصل ہوا، لیکن اس کے بیج گیلانی صاحب نے ہی بوئے تھے۔ ۱۹۸۷ءکے ریاستی اسمبلی انتخابات میں بے انتہا دھاندلیوں سے قبل ہی بارہمولہ میں ایک درزی اور اس کے معاون کی بھارتی فوج کے ہاتھوں حراستی موت کے خلاف ایجی ٹیشن کی قیادت کرتے ہوئے انھوں نے تین الف، یعنی اتحاد، اسلحہ اور اسلام کا نعرہ دیا تھا ۔ ان کی تقریر کا مفہوم تھا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ’’اپنی حفاظت کے لیے اسلحہ رکھا جائے کیونکہ سیاسی دروازے بند کیے جا رہے ہیں‘‘۔

ان کا بچپن نہایت ہی مفلسی کی داستان ہے۔ تب کئی کئی دن فاقے کرنے پڑتے تھے، لیکن اس کے باوجود ان کے والد بچوں کو پڑھانا چاہتے تھے۔ منجھلے بچے علی پر تو علم حاصل کرنے کا جنون طاری تھا۔ گاؤں کے اسکول سے امتیازی نمبر حاصل کرکے ان کو نو کلومیٹر دور سوپور میں پرائمری اور مڈل میں داخلہ ملا۔ گاؤں سے اسکول جانے کے لیے یہ بچہ روز پیدل ۱۸کلومیٹر کا فاصلہ طے کرتا تھا۔ شاید اسی پس منظر نے ان کو سختیاں جھیلنے اور نظم و ضبط کی عادت ڈال دی تھی۔

۱۹۶۳ءمیں پہلی گرفتاری کے دوران ہی ان کے والد صاحب انتقال کرگئے۔ ان کو بعد میں بتایا گیا کہ ان کے والد ان کی یاد میں آنسو بہاتے ہوئے کھڑکی میں بیٹھ کر سوپور کی طرف کی سڑک پر نگاہ جمائے رہتے تھے اور جب کبھی دُور سے سیاہ قراقلی پہنے کسی شخص کو آتے دیکھتے تو علی علی پکار کر کمرے سے باہر آجاتے۔ آخرکار جدائی کا یہی گھائو لیے دارفانی سے کوچ کر گئے۔ ان کے والد ایک معمولی یومیہ مزدور تھے۔ وسائل کی کمی کے باوجود بچوں کوپڑھانے کے لیے کوشاں تھے۔ یہی وصف بعد میں شاید گیلانی صاحب کی زندگی کا حصہ بن گیا۔ تمام تر مشکلات و طعنے سہنے کے باوجود انھوں نے اپنی بیٹیوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا۔ جیل سے جو خطوط بیٹیوں کو لکھتے تھے، ان میں بھی ان کو تعلیم جاری رکھنے کی تاکید کرتے تھے۔

گیلانی صاحب کے خاندان کے ساتھ میرا براہ راست تعلق ۱۹۹۶ء میں ہوا، جب ان کی صاحبزادی آنسہ میرے عقد میں آئیں۔ لیکن ایک لیڈر کی حیثیت اور میرے قصبہ سوپور کے ایک باسی کی نوعیت سے یہ تعلق میرے آنکھ کھولتے ہی شروع ہوگیا تھا۔ سوپور یا اس کے اطراف میں منعقد ہونے والا شاید ہی کوئی ایسا جلسہ ہوگا جس میں، مَیں نے شرکت نہ کی ہو۔ اپنے دیگر بھائیوں کے برعکس میرے والد کوروایتی پیروں کی طرح جماعت اسلامی سے چڑ تھی ۔ ان کولگتا تھا کہ ان جلسے ، جلوسوں کی وجہ سے میری پڑھائی میں ہرج ہوتا ہے۔ اسی فکرمندی میں کئی دفعہ میری پٹائی بھی کرتے تھے، مگر کبھی خود ہی جیب خرچ دے کر سرینگر عید گاہ میں جماعت اسلامی کے سالانہ اجتماع میں جانے کے لیے بھی کہتے تھے۔ ان کا یہ تضاد میری سمجھ میں کبھی نہیں آیا۔ گھریلو ذمہ داریوں کی وجہ سے انھوں نے تعلیم ادھوری چھوڑ کر سرکاری ملازمت اختیار کی تھی اور اپنی محرومی کا ازالہ شاید مجھے زندگی میں کامیاب ہوتے دیکھ کر کرنا چاہتے تھے۔ اس دوران ان کی ڈیوٹی گیلانی صاحب کے گاوٗں ڈورو میں ہوتی تھی اور اس طرح ان کے گھر تک ان کی رسائی ہوئی ۔

 ان دنوں میں دہلی میں صحافت کی تعلیم مکمل کرکے برسر روزگار ہوا تھا، لہٰذا انھوں نے ہی میرے عقد کی بات چلاکر طے بھی کر لی۔ میری ساس بھی داماد کے طور پر ایسے فرد کو پسند کرتی تھیں، جس کا سیاست کے ساتھ دور دور کا واسطہ نہ ہو۔ اکثر افراد گیلانی صاحب کو طعنہ دیتے تھے کہ انھوں نے اپنے قریبی رشتہ داروں کو تحریک میں شامل نہیں کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کے ایک داماد ظہور جو ان کے بھتیجے بھی ہیں، کشمیر کے اوّلین عسکریت پسندوں میں ہیں اور نوے کی ابتدا میں ہی گرفتار ہوکر نوسال قید میں رہے۔ ایک اور داماد الطاف احمد شاہ تو پہلے دن سے ہی سیاست سے وابستہ تھے۔ نیشنل کانفرنس فیملی سے تعلق رکھنے کے باوجود اسلامی جمعیت طلبہ اور جماعت اسلامی سے ان کی وابستگی رہی۔ وہ پچھلے پانچ برسوں سے دہلی کی تہاڑ جیل میں نظر بند ہیں اور اس سے پہلے بھی کئی بار جیل جاچکے ہیں۔

ان کے بڑے داماد ، غلام حسن، جن کا اب انتقال ہوچکا ہے، ان کے چچا جماعت اسلامی کے رکن تھے، جن کو سرکاری بندوق برداروں نے دن دہاڑے ہلاک کردیا۔ اور پھر آئے دن کے چھاپوں اور تلاشیوں سے ان کی پوری فیملی کو دردبد ر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور کر دیا گیا۔ ۲۰۰۲ء میں جب ان کو قید کیا گیا، تو دہلی میں میرے مکان پر بھی بھارتی ایجنسیوں نے چھاپا مارا اور مجھے نو دن انٹروگیشن میں رکھنے کے بعد تہاڑ جیل پہنچادیا گیا۔ چونکہ لیڈران پر دبائو ڈالنے کے لیے ان کے قریبی رشتہ داروں پر شکنجا کسنا اور ان کے آس پاس کے افراد کا قافیۂ زندگی تنگ کرنا ایک آزمودہ فارمولا رہا ہے، اس لیے میری گرفتاری سے وہ گیلانی صاحب کو پیغام پہنچانا چاہ رہے تھے۔ مگر پانچ ، چھے ماہ تک ان کو میری گرفتاری کے بارے میں علم ہی نہیں تھا ، کیونکہ ان کو سرینگر سے سیدھے جھارکھنڈ کی رانچی جیل لے جایا گیا تھا اور پورے چھے ماہ تک ان کو اخبار، ریڈیو سے معلومات لینے یا کسی کو ان سے ملنے نہ دیا گیا۔ جب ان کے بھتیجے ظہور کی چھے ماہ بعد ان سے ملاقات ہوئی، تب ان کو میری گرفتاری کا پتہ چلا۔ انھوں نے رانچی جیل سے ایک پوسٹ کارڈ لکھ کر مجھے صبرکی تلقین کی۔

  • مجاہـدانہ طرزِ زنـدگی : ۹۰ کے اوائل میں، جب میں دہلی آیا تو دیگر کشمیری  طالب علموں کے ساتھ مل کر ہم نے ایسا ماحول بنایا تھا کہ کشمیر لیڈرشپ کے اختلافات سے بالاتر سبھی لیڈروں کی میزبانی کرکے ان کو فورم مہیا کروائے جائیں۔ اسی لیے چاہے شبیر شاہ ہوں یا یٰسین ملک، عبدالغنی لون ہوں یا سیّد علی گیلانی، سبھی کے لیے ملاقاتوں کا انتظام کروانا اور ان کی سہولت کا خیال رکھنے کی ذمہ داری اٹھاتے تھے۔ یہ سلسلہ ۱۹۹۵ء میں دہلی میں حریت کا دفتر کھلنے تک جاری رہا، جو ۲۰۰۳ء تک کشمیر ایورنس بیورو کے نام سے کام کرتا رہا۔

ایک بار حُریت لیڈران نے انسانی حقوق کی صورت حال پر توجہ حاصل کرنے کے لیے دہلی کے مرکز انڈیا گیٹ پر احتجاج کا پروگرام بنایا۔ اس دن سیّد علی گیلانی میری ہی رہایش گاہ پر ٹھیرے تھے، کیونکہ حُریت کے دفتر میں دیگر قائدین جمع تھے اور وہاں شاید رہنے کی گنجایش نہیں تھی۔ پروگرام تھا کہ سبھی لیڈران حریت دفتر سے انڈیا گیٹ کی طرف روانہ ہوں گے۔ صبح وہ جونہی گھر سے حریت آفس کی طرف روانہ ہوئے، کہ اسی دوران ہمارے گھر پر پولیس آدھمکی۔ جب ان کو معلوم ہوا کہ وہ گھر سے نکل چکے ہیں، تو وہ ان کے تعاقب میں نکل پڑے۔ شاید گیلانی صاحب کو اندازہ تھا، کہ ان کو احتجاج کے لیے نہیں جانے دیا جائے گا، اس لیے حریت آفس جانے کے بجائے وہ سیدھے انڈیا گیٹ ہی پہنچ گئے، جہاں احتجاج کے بعد ان کو پولیس اسٹیشن لے جایا گیا۔ باقی سبھی قائدین دن بھر آفس میں ہی نظر بند رہے۔کئی گھنٹے بعد جب ہم پولیس اسٹیشن ان سے ملنے گئے،تو میں نے ان سے کہا کہ ’’آپ کو گوریلا موومنٹ جوائن کرنی چاہیے تھی‘‘۔

۸۰ کے عشرے کے دوران سوپور میں ایک بار ان کی زبردست تلاش ہو رہی تھی۔ جگہ جگہ چھاپے پڑ رہے تھے۔ اسی اثناء میں معلوم ہوا کہ وہ جامع مسجد میں نماز جمعہ سے قبل خطاب کرنے والے ہیں۔ کسی کو یقین نہیں آرہا تھا۔ جامع مسجد جانے والے راستوں اور اس کے آس پاس چپہ چپہ پر پولیس اور خفیہ ایجنسیوں کا جال بچھا ہوا تھا۔خطبہ شروع ہونے سے بس پانچ منٹ قبل وہ محراب کے پاس نمودار ہوئے اور تقریر شروع کی۔ ۱۹۷۵ء میں جب بھارت میں ایمرجنسی نافذ ہوئی، تو شیخ محمدعبداللہ نے جموں و کشمیر میں بھی اس کا اطلاق کرکے جماعت اسلامی پر پابندی لگادی، اور اس کے لیڈروں اور ارکان کو پابند سلاسل کر دیا۔ کئی روز تک گیلانی صاحب کو گرفتار کرنے کے لیے چھاپے پڑتے رہے۔ سوپور میں معروف تاجران محمد اکبر بساطی و غلام حسن بساطی، جن کے ہاں وہ اکثر ٹھیرتے تھے، ان کے گھروں اور دکانوں کی ایسی تلاشی ہوئی ، جیسے سوئی ڈھونڈی جاری ہو۔ اسمبلی کا سیشن جاری تھا، اور وہاں بھی سخت پہرہ تھا۔ چند روز بعد وہ اسمبلی فلور پر نمودا ر ہوئے اور دھواں دھار تقریر کرکے باہر آئے اور اپنے آپ کو پولیس کے حوالے کردیا۔

  • عسکریت کا حقیقت پسندانہ تجزیہ : اگرچہ گیلانی صاحب عسکری تحریک کے حامیوں اور اس کے سرپرستوں میں شمار کیے جاتے ہیں، مگر وہ کسی رُو رعایت کے بغیر اس کی خامیوں پر براہ راست مخاطب بھی ہوتے تھے، جس کی وجہ سے کئی نوجوان اور لائن آف کنٹرو ل کے دوسری طرف کے لوگ بھی ان سے ناراض ہو گئے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ فروری ۱۹۹۰ء، میں سوپور میں اور پھر یاری پوری اننت ناگ میں انھوں نے بھرے جلسہ میں کہا کہ ـ’’سفر بڑا طویل اور راستہ بڑا ہی کٹھن اور دشوار گزار ہے۔ ٹھیر ٹھیر کر اور سنبھل کر چلنے کی ضرورت ہے‘‘۔ انھوں نے عوام سے کہا کہ غلط اندازے نہیں لگانے چاہییں، کیونکہ پنجۂ استبداد ابھی کھل کر سامنے نہیں آیا ہے۔ ایک مثال دیتے ہوئے ، انھوں نے کہا، ’’ اگر آپ کے پاس گاڑی نہ ہو اور سرینگر جانا پڑے ، تودوڑ لگا کر زیادہ سے زیادہ ایک یا دوکلومیٹر تک چل کر پھر نڈھال ہو کر گر جائوگے۔ اس کے برعکس اگر آپ آہستہ آہستہ پڑاؤ بہ پڑاؤ چلنا شروع کریں گے۔ رات کسی بستی میں گزاریں گے اور کچھ زادِراہ ساتھ لے کر چلیں گے تو سلامتی کے ساتھ منزل پالیں گے‘‘۔

جذبات سے مغلوب نوجوانوں کو ان کی یہ باتیں بہت کھٹکیں۔چند لوگ کہہ رہے تھے کہ یہ بوڑھا سنکی ہو گیا ہے، نہ خود کچھ کرنا چاہ رہا ہے، نہ ہمیں کچھ کرنے دے رہا ہے۔ اننت ناگ کے کھنہ بل میں جہاں وہ غلام نبی سمجھی کے گھر پر ٹھیرے تھے، نوجوانوں کا ایک گروپ ان سے ملنے آیا اور کہا کہ’’ آپ یہ کہہ کر کہ جدوجہد طویل اور صبر آزما ہے، مایوسی کی باتیں کر رہے ہیں۔ لوگ تو مارچ کے مہینے میں کھیتیاں جوتنے سے پہلے آزادی کی نیلم پری سے ہم کنار ہونا چاہ رہے ہیں۔سیاسی لیڈر ہماری غلط رہنمائی کر رہے ہیں یا خود بے بصیرت ہو گئے ہیں‘‘۔ گیلانی صاحب کی صاف گوئی نے ان کے لیے کئی دشمن پیدا کیے۔ کئی حضرات جو اس وقت ان کی موت کا سوگ منا رہے ہیں، ان دنوں ان کے قتل تک کے درپے تھے۔ سوپور میں ان کی سیاسی ساکھ کو ختم کرنے کے لیے نئی سیاسی بساط بچھائی گئی اور چہرے ڈھونڈے گئے، اور اُن کی سرپرستی بدقسمتی سے مظفر آباد اور اسلام آباد سے کی گئی۔ اگر ابتدا سے تحریک کی سیاسی باگ ڈور ان کے ہاتھوں میں رہنے دی گئی ہوتی، تو شاید منزل اتنی کٹھن نہ ہوتی۔

اس صاحب ِبصیرت نے نہایت ہی سلجھے ہوئے انداز میں کشمیر میں عسکری جدوجہد کی پرتیں کھول کر اس پر تبصرہ کرتے ہوئے پانچ فروگذاشتوں کا ذکر کیا ہے:

پہلی یہ کہ’’ سرفروش نوجوانوں نے سمجھا کہ انھوں نے بھارت کو بھگا دیا ہے اور مسئلہ کشمیر کو زندہ رکھنے والے سیاسی گروہ یا لیڈروں کو اب ان کے ذریعے حاصل کیے ہوئے مقام و مرتبے میں شریک ہونے کا کوئی حق نہیں ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ عوامی جدوجہد سیاسی قیادت سے محروم ہو گئی‘‘۔ اس طرح کی ہدایات سرحد پار سے بھی ملتی تھیں۔

دوسرا یہ بتایا کہ ’’مسلح جدوجہد شروع ہونے کے مرحلے میں اخلاقی تربیت پر توجہ نہیں دی گئی۔  کئی افراد نے بندوق اپنی ذاتی خواہشات اور انتقام گیری کی تکمیل کے لیے حاصل کی‘‘۔ گیلانی صاحب کے بقول ’’مسلح جدوجہد حصول آزادی کے لیے آخری مرحلہ ہوتا ہے اور اسی پر ان کی کامیابی اور روشن مستقبل کا انحصار ہوتا ہے۔ اس کے لیے برسہا برس کی منصوبہ بندی کی ضرورت ہوتی ہے‘‘۔

تیسری فروگذاشت کی طرف یوں توجہ دلائی کہ ’’مسلح نوجوانوں کی سرفروشانہ جدوجہد نے کشمیر کی متنازعہ حیثیت کو سرد خانے سے نکال کر عالمی سطح پر ابھارنے میں کامیابی حاصل تو کرلی اور جمود توڑ دیا، مگر عوام کی بے پناہ پذیرائی نے ان میں سے بیش تر کو خود سری کے جنون میں مبتلا کر دیا ، جو گروہی تصادم کی شکل میں سامنے آیا۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ تمام گروپ، مشترکہ دشمن کے خلاف مشترکہ حکمت عملی اختیار کرتے، یا اپنے اپنے دائرۂ کار کے اندر کام کرتے، مگر ایسا نہیں ہوا۔ اس باہمی ٹکراؤ میں ایسے افراد قوم سے چھین لیے گئے ، جو ایک ایک ہزار افراد پر بھاری تھے ‘‘۔

چوتھی فروگذاشت یہ بیان کی ’’مسلح جدوجہد شروع کرنے والوں میں کوئی گروپ اس غلط فہمی میں مبتلا نہ تھا کہ کلا شنکوف کے بل بوتے پر بھارت کی فوجی قوت کو قبضہ سے دست برداری پر مجبور کیا جائے، بلکہ مقصد یہ تھا کہ بھارت کو متنازعہ حیثیت تسلیم کرنے پر مجبور کیا جائے اور نتیجہ خیز بامقصد اور دیرپا حل تلاش کرنے کے لیے بات چیت کا آغاز کروایا جائے۔ مگر بہت جلد یہ ہدف نوجوانوں کی نگاہوں سے اوجھل ہو گیا ‘‘۔

پانچویں فروگذاشت یہ تھی کہ’’ہردور میں مسلح جدوجہد کے کھلے دشمن کے ساتھ چھپے دشمن بھی ہوتے ہیں۔اس تلخ حقیقت کا اعتراف کرنا چاہیے کہ ہم جدوجہد آزادی کے دوران فضائے بد ر پیدا نہیں کر سکے۔ اندھی فوجی قوت نے وسیع ترین پیمانے پر انسانی حقوق کی پامالی کا ارتکاب کیا ہے، ان کے مقابلے میں ہمارا ریکارڈ صاف و شفاف ہو نا چاہیے تھا، جو نہیں رکھ پائے‘‘۔

  • پُرامن جدوجہد کے لیـے کوشاں  : ۱۹۹۹ء کی جنگ کرگل کے بعد حریت کانفرنس کے رہنماؤں میں تحریک کے حوالے سے رویہ میں تبدیلی آنی شروع ہوگئی تھی۔ میر واعظ عمر فاروق، عبدالغنی لون اور دیگر زعماء کا خیال تھا کہ ’’نئی دہلی کے ساتھ مذاکرات کا دروازہ کھولنا چاہیے‘‘۔مگر گیلانی صاحب کا موقف تھا کہ ’’جب تک بھارت اٹوٹ اَنگ کی رٹ بند نہیں کرتا ہے اور مذاکرات کے لیے ماحول نہیں بناتا ہے ، تب تک اس کا کوئی مطلب نہیں ہے‘‘۔ ان اختلافات کی وجہ سے تحریک حریت تقسیم ہوگئی۔ گیلانی صاحب کا استدلال تھا کہ ’’سیاسی تحریک کی عدم موجودگی کی وجہ سے عسکری تحریک زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہ سکتی، اس لیے کھلے میدان میں جاکر سیاسی جدوجہد کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے‘‘۔

۲۰۰۳ء میں جیل سے رہائی اور پھر گردوں کے آپریشن کے بعد انھوں نے قریہ قریہ گھوم کر، حتیٰ کہ گریز ، پونچھ، راجوری، ڈوڈہ، کشتواڑ جیسے دُور دراز علاقوں کا دورہ کرکے سیاسی جدوجہد کے لیے راہ ہموار کی۔ اس دوران حکومت نے بھی موقف اپنایا تھا کہ ’’حریت کا سیاسی میدان میں مقابلہ کیا جائے‘‘۔ ان دنوں پٹن اور سنگرامہ حلقہ میںضمنی انتخابات منعقد ہونے تھے۔ امیدوار کی تقریر ختم ہوتے ہی ، گیلانی صاحب پہنچتے تھے، اور اسی اسٹیج سے عوام کو انتخاب کا بائیکاٹ کرنے کی اپیل کرتے تھے۔ حکومت ان کو تقریر یا دورہ کرنے سے روکتی نہیں تھی، مگر ان کی میزبانی کرنے والوں پر قہر ڈھاتی تھی۔ بارہمولہ شہر کے چوراہے پر جب انھوں نے تقریر ختم کی، تو پاس ہی رہایشی ایک رکن جماعت نے ان کو چائے کی دعوت دے دی۔ چائے پینے کے بعد گیلانی صاحب سرینگر روانہ ہوگئے، تو اس معمر رکن جماعت کی شامت آگئی اور اس کو پبلک سیکورٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا۔ ان کی گرفتاری کی وجہ یہ بتائی گئی کہ اس نے سیّد علی گیلانی کی میزبانی کی ہے۔ یہ حضرت کئی سال جیل میں رہے ۔ اس لیے ان دوروں کے دوران وہ کسی کے گھر کے بجائے مسجد میں رات بھر رہنے کو ترجیح دیتے تھے۔

 ۲۰۰۸ء کے دوران میں کشمیر کی سڑکوں پر امرناتھ لینڈ ایجی ٹیشن اور پھر ۲۰۱۰ء اور ۲۰۱۶ءمیں بُرہان وانی کی شہادت کے بعد جو تحریکیں برپا ہوئیں، وہ ان کی ۲۰۰۴ء سے ۲۰۰۸ءتک اس زمینی جدوجہد کا نتیجہ تھیں۔ وہ جوانوں کی پرامن رہنے کی تاکید کرتے تھے اور بتاتے تھے، جب پولیس روکے گی تو بجائے محاذآرائی کے، سڑک پر دھرنا دیا کریں ۔ پلوامہ ضلع میں ایسا ہی ہوا۔ ایک بھاری جلوس نیوہ سے قصبہ کی طرف جارہا تھا کہ نیم فوجی دستوں نے ان کو آگے جانے سے روکا تو لوگ سڑک پر بیٹھ گئے۔ مگر اس پُرامن ہجوم پر گولیاں برسائی گئیں۔ ایک جوان ہلاک اور درجنوں زخمی ہوگئے۔ ۱۱۷ دن کی ہڑتال اور ایک سو دن کے سخت کرفیو کے بعد انھوں نے کاروبار بتدریج کھولنے کی اپیل کی، جس پر ان کو سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ کئی افراد نے لکھا کہ ’’گیلانی ، مہاتما گاندھی کا راستہ اپنا رہے ہیں‘‘۔ جس پر انھوں نے جواب دیا کہ ’’گاندھی کا فلسفہ تو خود ان کی زندگی میں ہی مسترد کیا جا چکا ہے۔ امن کا نعرہ ہم دیتے ہیں۔ امن سے ہی حل طلب مسائل کا حل نکل سکتا ہے۔ مگر بھارتی قیادت اس سنگین مسئلے کو طول دے کر خود بدامنی پھیلا رہی ہے اور الزام ہمارے سر تھوپ رہی ہے۔کب تک اس سلسلے کو جاری رکھا جاسکتا تھا‘‘۔

  • پاکستان سے محبت اور جرأت مندانہ موقف: پاکستان میں وقتاً فوقتاً جمہوریت کا خون ہوتے دیکھ کر وہ تاسف کا اظہار کرتے تھے۔ نومبر۱۹۹۶ء میں جب وزیراعظم بے نظیر بھٹوکی حکومت کو برطرف کیا گیا، تو وہ ان دنوں دہلی میں مقیم تھے۔ اس دوران ان کے سیکرٹری نے ان کو بتایا کہ ’’جماعت اسلامی پاکستان کے امیر قاضی حسین احمد صاحب فون لائن پر ہیں‘‘۔ گیلانی صاحب نے فون اٹھاتے ہی حکومت کی بر طرفی کے حوالے سے قاضی صاحب سے ناراضی کا اظہار کیا۔ گیلانی صاحب کے سیکرٹری نے کہاکہ یہ ’’پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے ، آپ کیوں اس میں پڑتے ہیں؟‘‘ تو انھوں نے کہاکہ ’’ان کے اندرونی معاملات سے ہمارے معاملات بھی متاثر ہوتے ہیں‘‘۔

اسی طرح یہ اپریل ۲۰۰۵ء کی بات ہے۔پاکستان کے صدر جنرل پرویز مشرف کے دورۂ دہلی کا اعلان ہوچکا تھا۔ چونکہ امن کوششیں عروج پر تھیں، بھارتی حکومت اور پاکستانی ہائی کمیشن، دورہ کو کامیاب بنانے کی کوششیں کررہے تھے۔ انھی دنوں اس وقت دہلی میں پاکستان کے ڈپٹی ہائی کمشنر منور سعید بھٹی صاحب نے مجھے فون کیا۔ بھٹی صاحب وضع داری،رواداری اور معاملات کو سلجھانے کے حوالے سے دہلی میں پاکستان کے مقبول ترین سفارت کار شمار ہوتے تھے۔فون پر انھوں نے ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔ طے ہوا کہ سفارتی علاقہ چانکیہ پوری ہی میں ایک ریسٹورنٹ میں چائے نوش کریں گے۔مگر ریسٹورنٹ میں سیٹ پر بیٹھتے ہی، بھٹی صاحب مجھے بلوچستان کی تاریخ اور شورش کا پس منظر سمجھانے لگے۔ میں حیران تھا، کہ آخر اس بات کا مجھ سے کیا لینا دینا ہے۔ کچھ منٹ کے بعد وہ مدعا زبان پر لائے۔ کہنے لگے ، کہ ’’کیا آپ گیلانی صاحب کو آمادہ کرسکیں گے، کہ مشرف صاحب کے ساتھ ملاقات میں وہ بلوچستان کے مسائل کا تذکرہ نہ کریں؟‘‘ صدر پاکستان اپنے دورے کے دوران کشمیری رہنمائوں سے ملاقات کرنے والے تھے۔میں نے معذرت کی، کہ ’’گیلانی صاحب کی سیاست میں،میرا کوئی عمل دخل نہیں ہے اور نہ میں ان کو کوئی مشورہ دینے کی حیثیت رکھتا ہوں‘‘۔

دراصل گیلانی صاحب نے سرینگر میں بلوچستان میں پاکستان کے فوجی آپریشن کے خلاف چند بیانات دیئے تھے اور نواب اکبر خان بگٹی کے ساتھ افہام و تفہیم سے معاملات حل کرنے کا پُرزور مشورہ دیا تھا۔بھٹی صاحب کا کہنا تھا کہ ’’کشمیری رہنمائوں اور خصوصاً گیلانی صاحب کا پاکستان کی چوٹی کی لیڈرشپ سے ملاقات کا موقع ملنا نا ممکنات میں سے ہے اور یہ ایک نایاب موقع ہے، جس میں کشمیر کی تحریک کو درپیش مسائل سے حل بھی کروایا جاسکتا ہے‘‘۔

چنانچہ میں معذرت کرکے رخصت ہوگیا اور گھر آکر میں نے اپنی اہلیہ سے کہا، کہ تمھارے والد (سیّد علی گیلانی) نے ایک تو بھارت کے خلاف علم بلند کیا ہوا ہے ، اور دوسر ی طرف ا ب’واحد دوست اور وکیل‘ پاکستان کی لیڈرشپ کی مخالفت پر بھی کمر بستہ ہیں۔آخر میڈیا کی رپورٹس کی بنیاد پر ان کو پاکستان کے صوبے بلوچستان کے مسائل پر بیان دینے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘ میٹنگ سے ایک روز قبل ۱۶؍اپریل ۲۰۰۵ء کو گیلانی صاحب دہلی وارد ہوئے تو میری اہلیہ ان سے ملنے گئیں، اور یہ بات ان کے گوش گزار کی۔ اور دیگر ذرائع سے بھی پاکستانی حکومت نے شاید ان تک یہ بات پہنچائی تھی، کہ انھیں صدر پاکستان کے ساتھ ملاقات میں احتیاط سے کام لینا ہوگا۔اگلے روز صبح سویرے میرے گھر آکر پہلے انھوں نے مسکرا کر کہا کہ ’’اپنے دوست اور محسن کو یہ کہنا کہ اپنے گھر کاخیال رکھو، اور اس کو بے جا مصیبتوں سے بچنے کے لیے خبردار کرنا آخرکیوں کر سفارتی آداب کے منافی ہے ؟‘‘ و ہ شاید متفق ہو گئے تھے کہ گفتگو کشمیر تک ہی مرکوز رکھیں گے۔

 بہر حال دوپہرچار بجے جب وہ لیاقت علی خان مرحوم کی دہلی میں رہایش گاہ اور موجودہ پاکستان ہائوس میں پہنچے، تو طاقت کے نشے میں سرشار مشرف صاحب نے ان کے وفد میں شامل دیگر اراکین سے ہاتھ نہیں ملایا جن میں سیّد حسن الصفوی، صدر انجمن شرعی شیعان، نعیم احمد خاں، صدر نیشنل فرنٹ، سعداللہ تانترے، فریدآباد، شیخ علی محمد، جماعت اسلامی کشمیر بھی شامل تھے۔

کرسیوں پر بیٹھتے ہی گیلانی صاحب نے دوٹوک الفاظ میں صدرجنرل مشرف سے کہا کہ ’’ان سے ہاتھ ملانے سے آپ کے ہاتھ میلے نہیں ہوں گے‘‘۔ اس ’والہانہ‘ استقبال کے بعد مشرف نے چھوٹتے ہی کہا،‘گیلانی صاحب آپ آئے دن بلوچستان کے معاملات میں ٹانگ اڑاتے رہتے ہیں۔آخر آپ کو وہاں کی صورت حال کے بارے میں کیا پتہ ہے؟ آپ بلوچستان کی فکر کرنا چھوڑیں‘‘۔ اس طرح مشرف صاحب نے خود ہی بلوچستان کا ذکر چھیڑا اورتہذیب و شائستگی کا دامن چھوڑا۔ حاضرین مجلس کے مطابق گیلانی صاحب نے جواب دیا، کہ ’’کشمیر کاز پاکستان کی بقا سے منسلک ہے۔ اس لیے، اس کی جغرافیائی سلامتی اور اس کی نظریاتی سرحدوں کے تحفظ کی ہم کو فکر ہے۔ آپ اپنے لوگوں کے خلاف طاقت کا استعمال نہ کریں‘‘۔ اس پر مشرف صاحب نے کہا: ’’گیلانی صاحب، آپ ہماری اپوزیشن کی بولی بولتے ہیں‘‘۔پھر جنرل مشرف نے اپنے کشمیر فارمولے کی مخالفت پر گیلانی صاحب سے ذرا تلخی سے بات کی۔ گیلانی صاحب نے جواب میں بڑے محتاط لفظوں میں مشرف صاحب کی افغانستان پالیسی اور امریکا کی مدد سے اپنے ہی شہریوں کو قتل کروانے کے عمل پر قدرے سخت بات کی۔ یوں صرف ۲۰منٹ کی یہ میٹنگ اس طرح کی ’خیر سگالی‘ پر ختم ہوئی توگیلانی صاحب ساتھیوں کے ساتھ اُٹھ کر کمرے سے باہر چلے گئے، اور وزیرخارجہ خورشید محمود قصوری صاحب نے آگے بڑھ کر الگ کمرے میں ملاقات میں کہا: ’’ہمیں کشمیرپر کمپرومائز کے نکات پر غور کرنا چاہیے‘‘۔ گیلانی صاحب نے کہا: ’’محترم قصوری صاحب، اگر آپ لوگ یہ بوجھ نہیں اُٹھانا چاہتے تو ہمیں ہمارے حال پر چھوڑ دیں۔ ہم اللہ کے بھروسے پر جدوجہد جاری رکھیں گے‘‘۔ واپسی پر مشرف کے حکم پر پاکستان میں ان کے دفاتر بند کردیے گئے۔

ایک سال بعد نواب اکبر بگٹی کو جب ایک غار میں ہلاک کیا گیا، تووہ اس پر سخت نالاں تھے۔ اس کا ذکر بعد میں ۲۰۱۱ء میں دہلی میں انھوں نے اس وقت پاکستان کی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر صاحبہ کے ساتھ ملاقات میں بھی کیا۔

مشرف صاحب کی تجاویز پر میں نے بھی ایک بار ان کو قائل کرنے کی کوشش کی تو ان کا جواب تھا کہ’’ اگر یہ حل قابلِ عمل ہے اور اس میں واقعی کوئی جان ہے تو اس کو لاگو کرنے کے لیے علی گیلانی کو قائل کرنا کیوں ضروری ہے؟ اگر بھارت آمادہ ہے، تو جنرل مشرف صاحب کے بجائے اس کے لیڈراس کا اعلان خود کیوں نہیں کرتے؟‘‘۔

ریاستی کانگریس کے صدر غلام رسول کار اور معروف دانشور اور ممتاز قانون دان اے جی نورانی نے گیلانی صاحب کو ایک بار کہا کہ ’’آپ اس لیے اس امن مساعی کی مخالفت کرتے ہیں، کیونکہ کوئی داغ لیے بغیر دنیا سے جانا چاہتے ہیں اور مرتے وقت شیخ عبداللہ کی طرح کا دھوم دھام کا جنازہ چاہتے ہیں‘‘۔ گیلانی صاحب نے کہا کہ، ’’نُورانی صاحب، میں کوئی سودے بازی کرنے کے بجائے گمنامی کی موت پسند کروں گا‘‘۔دہلی سے سرینگر آتے ہوئے ڈاکٹرفاروق عبداللہ نے ایک بار مجھے بتایا کہ ’’یہ واحد ناقابل تسخیر لیڈر ہے جس کو خریدا نہیں جاسکتا ہے‘‘۔ انھوں نے کہا کہ ’’ہم کو معلوم ہے کہ ان کے پاس بھی مالی وسائل آتے ہیں ،مگر وہ ان کو اپنی ذات پر خرچ کرنے کے بجائے مستحقین تک پہنچاتے ہیں‘‘۔

حتیٰ کہ گیلانی صاحب نے اپنے آبائی گاؤںمیں اپنی اور اہلیہ کی پراپرٹی وہاں ایک اسکول کو وقف کر دی ہے۔ یہ وقف کرنے سے قبل گیلانی صاحب نے اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کو جمع کرکے بتایا کہ ’’اگر آپ سب کو یا آپ میں سے کسی کو اعتراض ہے، تو وہ اپنا حصہ یا اس کی قیمت لے سکتے ہیں‘‘۔ سرینگر میں ان کی رہایش گاہ جماعت کی ملکیت تھی، جس کو بعد میں تحریک حریت سے متعلق ٹرسٹ کو ٹرانسفر کیا گیا تھا۔ ۱۹۷۰ء میں ممبر اسمبلی بننے سے قبل ہی انھوں نے ڈورو گاؤں میں مکان بنانا شروع کیا تھا، جو کہیں ۱۹۸۸ء میں تیار ہوسکا۔ مگر اس میں ان کو رہنا ہی نصیب نہیں ہوا کہ وہ جلد ہی جیل چلے گئے اور پھر پارٹی اور احباب کی ہدایت پر سرینگر منتقل ہو گئے۔ اس مکان کو بعد میں سرکاری جنگجوؤں نے بلاسٹ کرکے تہس نہس کر دیا ۔ پھر جب ان سرکاری جنگجوؤں کا دبدبہ ختم ہوگیا اور وہ معتوب ہوئے، تو گیلانی صاحب نے ان سب کو جانتے ہوئے بھی معاف کردیا۔

بیس سے زائد مرتبہ ان پر قاتلانہ حملے ہوئے، بس یہ اللہ کا ہی کرم تھا کہ وہ ان سے بچتے رہے۔ ایک بار دہلی میں چند روز گزار کر وہ سرینگر چلے گئے۔ میں نے ہی ان کو ایر پورٹ پہنچا کر وداع کیا۔ اس دن موسم کی خرابی کے باعث سرینگر سے رات گئے فلائٹ واپس دہلی آگئی یا شاید ان کو امرتسر میں کسی ہوٹل میںٹھیرایا گیا۔ اسی را ت ان کی رہایش گاہ پر راکٹوں سے حملہ ہوا۔ ایک راکٹ دیوار کو گراتے ہوئے، ٹھیک اس مقام پر گرا، جہاں وہ عام طور پر سوتے تھے۔ ان کے اہل خانہ اور بیٹیاں مکان میں ہی موجود تھیں۔ ان کا بیڈ روم تو پوری طرح تہس نہس ہو چکا تھا۔

اے جی نورانی صاحب کی معیت میں ایک بار نیشنل کانفرنس کے ایک سینیر لیڈر اور فاروق عبداللہ کے کزن شیخ نذیر نے ہمیں بتایا کہ ’’وہ کشمیر میں بھارت کے سب سے بڑے مخالف شخص ہیں۔ جب شیخ محمد عبداللہ دہلی کے کوٹلہ لین میں نظر بند تھے، تو ان کو ان کی بیٹی ثریا کی شادی میں شرکت نہیں کرنے دی گئی تھی۔ شیخ صاحب نے میرے ہاتھ ثریا کے لیے تحفہ دے کر منہ دوسری طرف کرلیا تھا ، کیونکہ وہ رو رہے تھے‘‘۔

 بالکل یہی تاریخ اکتوبر ۱۹۹۹ء میں دہرائی جا رہی تھی۔ ستم ظریفی یہ تھی کہ خود شیخ نذیر اور فاروق عبداللہ اس وقت اقتدار میں تھے ،اور گیلانی صاحب کی صاحبزادی ، جس کا نام بھی ثریا تھا، ان کی شادی ہو رہی تھی۔ پارلیمانی انتخابات کے موقعے پر ان کو گرفتار کرکے جودھ پور جیل میں بند کر دیا گیا تھا۔ جہاں طبیعت کی ناسازی کے باعث دہلی لاکر ان کو آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنس کے آئی سی یو وارڈ میں داخل کر دیا گیا تھا۔  آئی سی یو کے باہر کسی رشتہ دار کا بطور اٹنڈنٹ ہونا ضروری ہے۔ اس رات میں آئی سی یو کے باہر بیٹھا رہا۔ تاہم، اگلے روز ان کو کمرہ میں منتقل کیا گیا۔ جہاں باہر پولیس کا پہرا تھا، جو فون اندر لے جانے نہیں دیتے تھے۔ ان کی بیٹی کی شادی کے دن میں نے ان سے درخواست کی کہ ان کو فون پر ہی نکاح کی تقریب میں شمولیت کی اجازت دی جائے۔ پولیس نے جس وقت اجازت دی، اُس وقت تک نکاح کی مجلس اختتام کو پہنچ چکی تھی اور ثریا وداع ہو کر گاڑی میں بیٹھ رہی تھی۔ وہ تقریباً ایک سال سے زائد عرصہ جودھ پور جیل میں رہے۔ کچھ مدت بعد اپریل ۲۰۰۱ء میں ثریا کا انتقال ہو گیا، اناللہ وانا الیہ رٰجعون۔

فن خطابت پر ان کو ملکہ حاصل تھا۔ بقول پروفیسر بھیم سنگھ، جو ان کے ساتھ اسمبلی میں ممبر تھے، ’’ گیلانی صاحب کی تقریر کے وقت سناٹا چھا جاتا تھا ۔ اراکین اسمبلی کے ساتھ اسٹاف سے گیلریاں بھر جاتی تھیں۔ان کی تقریر اردو لغت کا ایک ذخیرہ ہوتی تھی‘‘۔ ان کی کتاب رُوداد قفس پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک بار کلدیپ نیر نے کہا کہ ’’یہ اُردو ادب کی بدقسمتی ہے کہ یہ شخص سیاستدان بن گیا۔ کاش! ان کی تقریروں کے ریکارڈ محفوظ کیے جاسکتے‘‘۔ سوپور کالج میں پڑھائی کے دورا ن ہم ایک بار جنوبی کشمیر کے مقام پہلگام پکنک منانے گئے تھے۔ پہلگام قصبہ سے آرو پہاڑ پر چڑھائی کے دوران جنگل میں ایک کوٹھا نظر آیا، جہاں ایک گوجر فیملی چائے اور بسکٹ پیش کر رہی تھی۔ وہاں ہمارے رکنے کی وجہ یہ تھی کہ وہاں ٹیپ ریکارڈ پر گیلانی صاحب کی تقریر لوگ سن رہے تھے۔ جب ہم نے تعارف کرایا کہ ہمارا گرو پ سوپور سے آیا ہے، تو انھوں نے چائے، بسکٹ کے پیسے لینے سے انکار کردیا۔

  • غیر مسلم اقلیت کـے مخالف  کا پروپیگنڈا : ’انتہا پسند‘ قرار دینے کے ساتھ ساتھ ان کو ’غیر مسلم اقلیت کا مخالف‘ بھی مشہور کیا جاتا ہے۔ ۱۹۷۲ء سے ۱۹۸۳ء تک سوپور میں ٹاؤن ایریا کمیٹی کا چیئرمین ایک کشمیر ی پنڈت اوتار کشن گنجو تھا۔ جب نیشنل کانفرنس کے اراکین نے ایک بار ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کی، تو گیلانی صاحب کی ایما پر جماعت اسلامی سے وابستہ وارڈ ممبران نے ان کو عہدہ پر برقرار رہنے میں مدد کی۔ ہاں، وہ کشمیری پنڈتوں کو علیحدہ کالونیوں میں بسانے کے مخالف تھے۔ سنجے صراف کی معیت میں انھوں نے کولگام میں دیسو کے مقام پر کشمیری پنڈتوں کی بستی میں جاکر ان کو بتایا کہ ’’آپ مطمئن رہیں، آپ کو پڑوسیوں کی طرف سے کسی خوف و ہراس کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ ہماری جدوجہد فوجی قبضے کے خلاف ہے اور یہ کوئی نسل پرستانہ جدوجہد نہیں ہے‘‘۔

 دہلی میں حریت کے دفتر کے قیام سے قبل وہ شہید مقبول بٹ کے وکیل رمیش چندر پاٹھک کے گھر پر ہی ٹھیرتے تھے۔ رمیش چندر کی اہلیہ نے ان کو اور شبیر احمد شاہ کو اپنا بھائی بنایا ہوا تھااوروہ کسی بھی جیل میں ہوتے تو ہندوؤں کے تہوار رکھشا بندھن کے روز وہ ملنے چلی جاتی تھی۔۱۹۹۷ء میںپاٹھک کی اچانک موت نے ان کے خاندان کو بکھیر کر رکھ دیا تھا، کیونکہ ان کے تینوں بچے ابھی اسکول میں ہی تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ یہ تو مجھے معلوم ہے کہ گیلانی صاحب نے اور شبیر احمد شاہ نے ہی ان کی فیملی کو مالی سہارا دیا۔ان کی لائق بیٹی وسندھرا پاٹھک اب ایک نامور وکیل ہیں۔ اسی طرح دہلی میں میرے گھرسے ذرا دوری پر جس دو کمرے کے فلیٹ میں وہ سردیوں میں رہنے آتے تھے، اس کے اوپر ایک کشمیری پنڈت فیملی رہتی ہے، جن کے ساتھ ان کا گھر جیسا تعلق تھا۔ خاص طور پر ان کے بچوں کو ان سے بڑی انسیت تھی۔ وہ بھی سرینگر سے ان کے لیے کوئی نہ کوئی چیز بھیجتے رہتے تھے۔ ان کا علاج بھی ایک کشمیر پنڈت ڈاکٹر سمیر کول کرتے تھے، جو اکثر ان کے پاس آتے تھے۔

۲۰۰۳ء میں رانچی جیل میں جب ان کے گردوں میں کینسر کی تشخیص ہوئی تھی، تو اس ہسپتال کے چارو ں طرف سیکورٹی کا حصار بنا دیا گیا تھا اور بتایا گیا تھا کہ ’’ایک خطرناک دہشت گرد‘‘ کو علاج کے لیے لایا جا رہا ہے۔ انھی دنوں میں ممبئی پریس کلب کے ایک پروگرام میں شرکت کرنے کے لیے ممبئی آیا ہوا تھا۔ ایک عیسائی نرس نے گیلانی صاحب کو بتایا کہ ’’آپ تو دہشت گرد نہیں لگتے ہیں۔ آپ تو بہت نیک شخص ہیں۔ میں آپ کی دوسری دنیا کے لیے فکرمند ہوں۔ آپ عیسائی کیوں نہیں بن جاتے؟‘‘اور اس کے بعد وہ ڈھیر سارا لٹریچر ان کو دیتی رہی۔ مسکراتے ہوئے وہ وصول کرتے رہے، اور جواب میں اسے کبھی کبھی اسلام کی تعلیمات بھی سمجھاتے رہے۔

دہلی میں ان کے اسی فلیٹ میں ایک صبح دیکھا سفید قمیص اور خاکی نیکروں میں ملبوس ہندو انتہا پسندوں کی تنظیم آرایس ایس سے وابستہ افراد ان کے ساتھ ہم کلام ہیں۔ اس منظر کو دیکھ کر میں خاصا ڈر گیا اور اپنی اہلیہ سے بھی کہا کہ تمھارے والد صاحب کے ساتھ ہمارا اس کالونی میں رہنا بھی دوبھر ہو جائے گا‘‘۔ بعد میں معلوم ہوا کہ مالویہ نگر کی پارک میں صبح سویرے آرایس ایس شاخ کی جسمانی مشق ہوتی ہے۔ وہ چونکہ اسی پارک میں چہل قدمی کرنے جاتے تھے، اس لیے ان کی اس گروپ کے ساتھ علیک سلیک ہوئی ہے ۔ وہ ان لوگوں کے لیے مرکز جماعت اسلامی ہند سے ہندی زبان میں اسلامی لٹریچر لاتے ہیں اور یہ افراد وہی لینے آئے تھے۔

۱۹۸۶ء میں وزیر اعلیٰ غلام محمد شاہ کو برطرف کرنے کا بہانہ ڈھونڈنے کے لیے کشمیر میں پہلا فرقہ وارانہ فساد برپا کروایا گیا۔ گیلانی صاحب نے جماعت کے کارکنوں کی قیادت کرتے ہوئے جنوبی کشمیر میں مختلف جگہوں پر ہجوم کو مندروں اور پنڈت علاقوں پر حملہ کرنے سے باز رکھا۔ ان کے حکم پر سوپور میں ان کے دست راست غلام رسول مہرو اور عبدالمجید ڈار ایک دیوار کی طرح مندر اور پنڈت دکانوں کے باہر کھڑے ہوکر پتھرائو کرنے والوں کو للکار رہے تھے۔ گیلانی صاحب  اس سعی میں خود بھی زخمی ہوگئے ۔ اس کا اعتراف اس وقت کے پولیس ایس ایس پی نے بھی کیا۔

  • آزادیِ اظہار کے داعی : وہ شاید کشمیر کے مزاحمتی اور بھارت نواز قیادت کے واحد لیڈر تھے، جو واقعی اظہار آزادی رائے کے قائل تھے۔ سرینگر میں کام کرنے والا کوئی بھی صحافی یہ شکایت نہیں کرسکتا ہے کہ اس کو کبھی ہراساں کیا گیا ہو، چاہے وہ ان کے خلاف لکھتے ہوں۔ کیونکہ ہر لیڈر نے جب بھی اس کے پاس وہاں کی کمانڈ تھی، کشمیر میں پریس کو ہراساں کیا ہے۔ ایک مزاحمتی لیڈر نے تو ایک بار ایک ایڈیٹر کو لال چوک میں جاڑوں کے دوران ننگے پیر دوڑایا۔ ایک اور لیڈر کے حامیوں نے ایک ہفت روزہ کے دفتر پر حملہ کرکے توڑ پھوڑ کی۔یہ معمول کی کاروائیاں ہوتی تھیں۔ دراصل شیخ عبداللہ نے کشمیر میں جس سیاست کی بنیاد ڈالی تھی، و ہ غنڈہ گردی، دھونس اور کسی کو برداشت نہ کرنے کی سیاست تھی۔

سوپور کو گیلانی صاحب نے بڑی حد تک سماجی ناشائستگی سے پاک کردیاتھا۔ ہاں، وہ ہفت روزہ چٹان کے مدیر طاہر محی الدین سے خفا تھے اور کہتے تھے کہ وہ مایوسی پھیلا تے ہیں، اس لیے ایک مدت تک وہ ان کو انٹرویو نہیں دیتے تھے۔ ٹائمز آف انڈیا کے سرینگر کے نمایندے نے ان کے خلاف ایک بار انتہائی بہتان آمیز خبر شائع کی تھی۔ ان کے آفس کے ایک رفیق نے اخبار اور اس نمایندے کے خلاف عدالت میں ہتک عزّت کا کیس درج کیا تھا۔ مگر وہ اس اقدام کے خلاف تھے اور ان کو بار بار کہہ رہے تھے، کہ ’’اس کیس کی پیروی ختم کریں‘‘۔

  • متبادل قیادت کی فراہمی : ہر انسان مکمل نہیں ہوسکتا ہے۔ یقینا گیلانی صاحب میں بھی کمزوریا ںتھیں اور ان سے لغزشیں سرزد ہوئی ہوں گی۔ تحریک کی قیادت کرتے ہوئے وہ اپنے پیچھے متبادل قیادت چھوڑ نہیں سکے۔ ۸۰ کے عشرے میں سو پور میں انھوں نے غلام قادر وانی ، عبدالوحید کرمانی، غلام محمد صفی، محمداشرف صحرائی اور سرینگر میں شیخ تجمل اسلام اور کئی دیگر احباب کو تیار کرنے کی کوشش کی۔ مگر  ان حضرات میں سے اکثر جماعت اسلامی کے کڑے ڈسپلن کی تاب نہیں لاسکے۔صحرائی صاحب آخری دم تک ان کے ہم رکاب رہے، مگر کرشماتی شخصیت ان کی ذات میں منتقل نہیں ہوسکی۔ گیلانی صاحب کے خطبات میں بار بار اسلام، قرآن اور اقبال کے تذکرہ سے بھی سیکولر معاشرے کے کئی لوگ نالاں رہتے تھے۔ تاہم، بھارت میں بائیں بازو کے افراد کے ساتھ ان کے قریبی تعلقات تھے اور وہ بھی ان کو خوب نبھاتے تھے۔ ممبئی میں ایک بار آندھرا پردیش سے تعلق رکھنے والے بائیں بازو کے ایک لیڈر نے جن کا کشمیر آنا جانا رہتا تھا اوران کو میری رشتہ داری کا علم نہیں تھا، انھوں نے بتایاکہ ’’گیلانی صاحب کشمیر کے گنے چنے مخلص اور سنجیدہ لیڈروں میںسے ہیں‘‘۔ وہ مجھے سمجھانے کی کوشش کررہے تھے کہ ’’بطور کشمیری ان کی قدر کیا کروں‘‘۔
  • تادمِ  آخر جدوجہد : لا تعداد عارضوں کے باوجود ان کا چلنا پھرنا بس ان کے سخت ڈسپلن کی ہی بدولت ممکن تھا۔ تہجد اور پھر فجر کی نماز، تلاوت کے بعد خاصی دیر تک ورزش کرنا ان کا معمول تھا۔ چاہے کوئی ملاقاتی بھی آجائے، ورزش کرتے ہوئے ہی ان سے بات چیت کرتے تھے۔ اسی دوران وہ بی بی سی اردو سروس بھی سنتے تھے۔ پھر چہل قدمی کے بعد وہ ناشتہ کرتے تھے اور نہایت ہی سادہ کھانا کھاتے تھے۔ کسی دعوت میں جب ہم وازہ وان اڑاتے تھے، اگر ان کو بھی جانا پڑتا، تو نیم گرم پانی کے بس چند گھونٹ حلق سے نیچے اتارتے تھے۔

بطور ایک والد کے ان کا رویہ سبھی بچوں کے ساتھ مشفقانہ تھا۔ ان کی ضروریات اور آزادی کا خیال رکھتے تھے۔ میری بیٹی ابیض سرینگر میں ہی پیدا ہوئی تھی۔ ایک سال کے بعد جب اس کا دودھ چھوٹ گیا، تو وہ انھی کے پاس رہتی تھی۔ جب ان کو دہلی آنا ہوتا تھا، تو اس کو ساتھ لاکر ہمیں ملایا کرتے تھے۔ وہ ہماری اس کم سن بیٹی کو حریت کانفرنس کی میٹنگوں میں بھی کئی بار ساتھ لے جاتے تھے۔ فروری ۲۰۲۰ء میں جب وہ حالت نزاع میں تھے، ان کی موت کی افواہیں گردش کررہی تھیں اور میںترکی شفٹ ہو گیا تھا تو میری اہلیہ سری نگر چلی گئیں۔ اس کے وہاں پہنچتے ہی ان کی طبیعت میں بتدریج بہتری آنا شروع ہو گئی۔ کئی روز بعد مجھے فون کرکے خوب شکریہ ادا کیا کہ تم نے آنسہ کو سرینگر آنے اور میری تیمارداری کرنے کی اجازت دی۔

۱۴۷۰ء میں سلطان زین العابدین کے سنہری دور اور پھر ۱۵۸۵ء میںکشمیر پر مغل تسلط اور آخری بادشاہ یوسف شاہ چک کی قید و جلا وطنی کے بعد کشمیر ی مسلسل کسی ایسے لیڈر کی تلاش میں ہیں، جو ان کو صدیوں کے گرداب سے باہر نکالے اور قابض قوتوں کے سامنے سینہ سپر ہوکر ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرے۔ اس دوران کئی سرابوں کے پیچھے بھاگ بھاگ کر وہ ویسے ہی پیاسے رہے۔ لوگوں کے خیال میں گیلانی صاحب میں کئی کوتاہیاں سہی، مگر وہ اس مذکورہ بالا معیار پر پورے اترے اور انھوں نے لوگوں کو مایوس نہیں کیا۔ کوئی بھی حاکم وقت ان کی گردن جھکا نہیں سکا۔

  • سفرِ آخرت : ان کے آخری سفر سے ہی اندازہ ہوتا ہے کہ مخالفین ان سے کس قدر خائف تھے۔ ۱۸سال قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے کے بعد پچھلے گیارہ برسوں سے وہ گھر میں نظر بند تھے۔ اس دوران میرے والد ، ان کے بڑے داماد اور ان کے دو بھائیوں کے انتقال پر بھی ان کو سوپور نہیں جانے دیا گیا۔ حیدر پورہ کی مسجد کے پاس قبرستان میں انھوں نے دس سال قبل خود ہی دو قبروں کے لیے زمین خریدی تھی۔ مگر پچھلے سال جب وہ انتہائی علیل تھے، تو عید گاہ سے متصل مزارشہدا کے ذمہ داروں سے انھوں نے گزارش کی تھی، کہ ان کے جسد خاکی کو وہاں دفن کرنے کی اجازت دی جائے۔ مگر سرکاری حکام نے اس کی اجازت نہیں دی۔

حیدر پور ہ کے قبرستان میں سیکورٹی کے باوجود ان کواہل خانہ اور پڑوسیوں کی موجودگی میں باوقار طریقے سے دفنایا جا سکتا تھا ۔پورے کشمیر میں ویسے ہی کرفیو نافذ تھا۔ مگر طاقت کے نشے میں صبح تین بجے پولیس نے ان کے گھر پر دھاوا بول کر اہل خانہ کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ مکان کی بجلی بند کرکے ان کی اہلیہ کو جوتوں تلے روند ڈالا گیا ۔ یہ دھاوا بولنے والی پارٹی اسٹریچر تک اپنے ساتھ نہیں لائی تھی۔ پہلے ان کی نعش کو اٹھانے کی کوشش کی گئی، مگر پھر گھسیٹتے ہوئے میّت کو باہر لے گئے۔ ۱۰محرم الحرام کو میدانِ کربلا میں امام عالی مقام حضرت امام حسین کی لا ش کو بعد از مرگ اسی طرح گھسیٹ کر پامال کیا گیا۔ ۲۳محرم الحرام ۱۴۴۳ھ ،یعنی ۲ ستمبر۲۰۲۱ء کا یہ واقعہ بھارت اور کشمیر کی تاریخ میں ایک سیاہ دھبے کی حیثیت سے یاد رکھا جائے گا۔ جس طرح ابھی حال ہی میں سومنات میں وزیر اعظم نریندر مودی نے ایک ہزار سال بعد محمود غزنوی کو یاد کیا، اسی طرح کشمیر کی تاریخ اور اس کی نسلیں اس واقعہ کو یاد رکھیں گی۔ جس طرح دھرنوں کے دوران پولیس یا اسمبلی میں سیکورٹی گارڈ، ابّاجی کو اٹھا کر اور گھسیٹ کر گاڑی میں ڈالتے تھے، بالکل اسی طرح کا سلوک ان کی میّت کے ساتھ، ان کے آخری سفر کے دوران کیا گیا۔

کسی نے کہا ہے کہ تارے تو ہمیشہ ٹوٹتے ہیں، اب کے مہِ کامل ٹوٹ گیا!

مجھے یہ واقعہ یاد ہے کہ دسمبر ۲۰۱۶ء میں جب بھارتی پنجاب کے سرحدی شہر امرتسر میں ’ہارٹ آف ایشیا کانفرنس‘ منعقد ہوئی تھی۔ اس موقعے پر افغانستان کے صدر اشرف غنی نے سفارتی آداب کو بالائے طاق رکھ کر، اسٹیج ہی سے پاکستان کی طرف سے ۵۰۰ملین ڈالر کی امداد کو مسترد کرتے ہوئے پاکستانی مندوب اور وفاقی وزیر جناب سرتاج عزیز کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’’آپ اس امداد کو اپنی جیب میں رکھ کر اسے اپنے ملک میں انتہاپسندی کو لگام دینے کے لیے استعمال کریں‘‘۔جس طرح کے تکبر اور بدتہذیبی کا مظاہرہ اشرف غنی اور ان کے وفد نے اس میٹنگ کے دوران کیا، سفارتی تاریخ میں اس کی مثال کم ہی ملے گی۔چونکہ اس میٹنگ سے قبل ہی بھارت نے پاکستان میں مجوزہ سارک سربراہ کانفرنس کا بائیکاٹ کرکے اس کو سبوتاژ کر دیا تھا، اس لیے سرتاج عزیز صاحب کو میزبان بھارت اور افغان مندوبین نے ایک ناقابلِ برداشت ہستی بنا کر رکھ دیا تھا۔

پھر ہم نے دیکھا کہ جس تیزی کے ساتھ افغان طالبان نے پیش قدمی کرکے ۱۵؍اگست ۲۰۲۱ء کو افغانستان کے دارالحکومت کابل پر کنٹرول سنبھال لیا، اس نے پوری دنیا کو تو حیران کرکے رکھ ہی دیا ہے، مگر طالبان کی اس فتح کے بعد، افغان فوج کی شکست اور اشرف غنی کا فرار ، کابل میں موجود افغان و دیگر غیر ملکی میڈیا کے نمایندوں کو خود احتسابی کی دعوت دیتا ہے، کہ کس طرح وہ پچھلے کئی برسوں سے زمینی حقائق کو سمجھنے میں ناکام رہے، یا جان بوجھ کر اشرف غنی اور امریکا کی خوشنودی کے لیے اپنے قارئین یا ناظرین کو دھوکا دیتے رہے۔ میڈیا سے متعلق تحقیقی اداروں کو بطور مثال اس جانب دارانہ اور دھوکا دینے والی کوتاہ اندیش رپورٹنگ کو ماس کمیونی کیشن کے نصاب میں شامل کرنا چاہیے۔ یاد رہے دنیا بھر کے تھنک ٹینک اور خارجہ پالیسی کے ادارے اسی رپورٹنگ کی بنیاد پر اپنی پالیسیاں ترتیب دیتے تھے۔

ابھی تک معروف دفاعی اور ملٹری اکیڈیمیوں سے فارغ شدہ ماہرین کی سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی ہے کہ آخر تقریباً ساڑھے تین لاکھ افغان افواج ریت کی دیوار کی طرح کیوں بیٹھ گئیں؟ جدیدترین اسلحہ سے لیس فوج، جس کی تربیت امریکا ،ناٹو اتحادیوں اور بھارت نے کی تھی، اس نے چندہزار عسکریوں کے سامنے کیسے لڑے بغیر ہی ہتھیار ڈال دیئے؟

 مشی گن یونی ورسٹی کے جنوبی ایشیا سے متعلق شعبہ میں پروفیسر جویوان کول نے افغان فوج کی حالت زار کے بارے میں پہلے ہی پیشن گوئی کی تھی: ’’جس طرح ۲۰۰۱ء میں شمالی اتحاد نے امریکا کی مدد سے طالبان کو شکست دی تھی، اسی طرح موجودہ افغان فوج بھی طالبان سے جنگ میں ٹھیر نہیں پائے گی‘‘۔ ان کا استدلال تھا کہ ’’دیہی اور دور دراز کے علاقوں میں امریکی افواج نے عام افغانی کا جینا دوبھر کر دیا تھا۔ جب ان پر کوئی حملہ ہوتا تھا ، تو اس کا بدلہ لینے کے لیے وہ پورے علاقے میں آپریشن کرکے آدھی رات کو گھروں میں گھس کر خواتین و بچوں کو بے عزّت کرتے تھے، جس کی وجہ سے ظاہرہے کہ اس آبادی کی ہمدردیاں طالبان کے ساتھ ہوجاتی تھیں اور امریکیوں کے ساتھ ان کی نفرت میں اضافہ ہوجاتا تھا۔ انھی آبادیوں سے طالبان کو نئے رضاکار بھی مل جاتے تھے‘‘۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’فوج کی بددلی کی ایک اور وجہ افغان کے (کٹھ پتلی) صدور حامد کرزئی اور اشرف غنی کی حکومتوں میں بے پناہ بد عنوانی تھی۔ ان سیاسی لیڈروں اور افسران نے بیرون ملک نہ صرف محلات تعمیر کیے، بلکہ خلیجی ممالک میں جزیرہ تک خریدے ہیں‘‘۔

اس نئی پیش رفت کے بعد اب لگتا ہے کہ افغانستان میں قتل و غارت گری کا جو باب انقلابِ ثور کے ساتھ اپریل ۱۹۷۸ء میں شروع ہوا، جس کے تقریباً ایک سال بعد کمیونسٹ روسی فوجوں نے ۲۴دسمبر ۱۹۷۹ء کو افغانستان پر دھاوا بول دیا تھا۔ اور پھر ایک خوں ریز جنگ کے بعد روسی فوجیں پسپا ہوکر ۱۵فروری ۱۹۸۹ء کو واپس چلی گئی تھیں۔ یہ خونیں ’گریٹ گیم‘ اب اختتام کو پہنچ رہی ہے۔ غیر ملکی فوجوں کے انخلا اور ان کی حمایت یافتہ حکومت کی برطرفی کے۴۳ سال کے بعد اب فریقین کے لیے جنگ جاری رکھنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا۔ اسی لیے بین الاقوامی برادری کے لیے بھی ضروری ہے کہ طالبان کو الگ تھلگ کرنے کی پالیسی ترک کرکے ان کوتسلیم کریں اور سفارتی سطح پر ربط قائم کریں۔ حد تو یہ ہے کہ اب بھی بعض شخصیات طالبان کو تسلیم نہ کرنے اور ان کے لیڈران پر سفری پابندیا ں عائد کرنے کا مشورہ دے رہی ہیں۔

۲۳ برس قبل ۱۹۹۸ء میں امریکا کے اقوام متحدہ میں سفیر بل رچرڈسن جب کابل کے دورہ پر تھے، تو انھوں نے طالبان کے ساتھ بات چیت کرکے ان کوخواتین کی اعلیٰ تعلیمی اداروں میں تعلیم جاری رکھنے اور اسپتالوں میں خواتین کا علاج کرنے کے لیے خواتین ڈاکٹروں و نرسوں کی تعیناتی پر رضامند کیا تھا۔ اسی طرح طالبان نے افغانستان سے پوست کی کاشت مکمل طور پر ختم کرنے پر بھی آمادگی ظاہر کی تھی۔ رائے گٹمین (Roy Gutman) اپنی کتابHow We Missed the Story: Osama Bin Laden, the Taliban and the Hijacking of Afghanistan کے دوسرے ایڈیشن ۲۰۱۳ء میں لکھتے ہیں کہ رچرڈسن نے طالبان کو شمالی اتحاد کے ساتھ بات چیت اور جنگ بندی پر بھی منوا لیا تھا۔ اس کے بدلے وہ امریکا سے سفارتی سطح کے روابط قائم کرنے کے خواہاں تھے۔ پورے ۲۰سال کی قتل و غارت گری اور ۲ء۲۶ کھرب ڈالر خرچ کرنے کے بعد امریکا نے بل رچرڈسن کے مسودے کو کوڑے دا ن سے نکال کر دوحہ میں میز پر رکھا۔ آخر یہی کام اگر کرنا تھا ، تو ڈیڑھ لاکھ افراد کی ہلاکت، ڈھائی ہزار امریکی افواج کی اموات اور لاتعداد زخمیوں کو کس کھاتے میں درج کیا جائے گا؟

اس بار ایک اہم بات یہ ہو گئی ہے کہ ۲۰سال تک افغانستان کے قضا و قدر کا مالک ہونے کے باوجود اب عملاً افغانستان میں امریکا کا کردار ختم ہو گیا ہے۔ امریکی تھنک ٹینک اٹلانٹک کونسل کی ریسرچ فیلو نیلوفر ساخی کے مطابق ’’افغانستان کے حوالے سے پاکستان، ایران، چین اور روس کی پوزیشن خاصی مضبوط ہو گئی ہے‘‘۔ بروکنگز انسٹی ٹیوٹ کے مطابق امریکا نے ایک طرح سے افغانستان، چین کو پلیٹ میں سجا کرپیش کر دیا ہے۔ چین نے حال ہی میں طالبان کے لیڈر مُلّاعبدالغنی برادر کا بیجنگ میں خاصا پُرجوش استقبال کیا۔ اس کے برعکس امریکی نائب وزیر خارجہ وینڈی شرمین کو خاصی سردمہری کا سامنا کرنا پڑا۔

حالات بہتر ہونے کی صورت میں وسط ایشیا کو پاکستانی بندر گاہ گوادر سے منسلک کرنے والے نارتھ ، ساؤتھ ٹریڈ کوریڈور ، اور بیلٹ اینڈ روڑ کو مزید آگے بڑھانے میں افغانستان معاون ثابت ہوگا۔ ۱۹۸۹ء کے بعد روس، افغانستان کے حوالے سے بالکل لاتعلق ہو گیا تھا۔ مگر موجودہ صورت حال میں روس پہلا ملک ہے، جس نے طالبان کی اہمیت کو تسلیم کرکے ان کے ساتھ سفارتی روابط استوار کیے ہیں۔ حال ہی میں اشرف غنی کی حکومت نے جب امریکا اور بھارت سے فضائی مدد مانگی، تو روس نے افغانستان کی سرحد سے متصل تاجکستان اور ازبکستان کی افواج کے ساتھ مل کر جنگی مشقوں کا آغاز کردیا۔ دوسری طرف چین کے ساتھ مل کر بھاری ہتھیارو ں کے ساتھ سنکیانگ میں سرحد کے پاس مشقیں کیں۔ غرض امریکا اور بھارت تک یہ پیغام پہنچایا کہ اس موقع پر ان کی مداخلت کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔

اگر افغانستان کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے، تو اس سرزمین پر تاریخ اکثر اپنے آپ کو دہراتی رہی ہے۔ ۱۸۳۹ء میں برطانوی فوج کشی کا مقصد دوست محمد کو برطرف کرنا اور شاہ شجاع کو اقتدار میں لانا تھا۔ یہ ہدف برطانوی افواج نے حاصل تو کرلیا، مگر افغانیوں نے جلد ہی اپنی شکست کا بدلہ لے کر برطانوی فوج کا قتل عام کیا۔ اس کا بدلہ لینے کے لیے برطانیہ نے ایک بار پھر فوج کشی کرکے قتل و غارت گری کا بازار گرم کر دیا۔ حالات کے کسی حد تک ٹھیک ہونے کے بعد برطانیہ نے طویل مذاکرات کے بعد تخت پھر دوبارہ دوست محمد کے حوالے کردیا، کہ جس کو ہٹانے کے لیے فوج کشی کی گئی تھی، کیونکہ شاہ شجاع کو قتل کر دیا گیا تھا۔

۲۰۰۱ء میں طالبان کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے لیے امریکی قیادت میں دنیا بھر کی افواج نے افغانستان پر دھاوا بول دیا تھا، مگر اب طالبان کی واپسی کی راہ ہموار کرکے پھر وہی تاریخ دُہرائی جا رہی ہے۔ وقت آگیا ہے کہ افغانستان میں اب تاریخ کو آرام کا موقع دے کر کسی بیرونی مداخلت کے بغیر اقتدار افغانوں کے حوالے کیا جائے اور طالبان کو تسلیم کرکے ان کو سفارتی سطح پر دنیا سے جوڑا جائے، اور یہ بتایا جائے کہ افغانستان کے حکمران تاریخ و واقعات سے سبق لے کر اس جنگ زدہ ملک میں ایک نئی صبح کا آغاز کریں گے۔ بین الاقوامی برادری پر بھی لازم ہے کہ اس صبح کی تعمیر میں کابل انتظامیہ کی مدد کریں۔

گذشتہ صدی کے آخری عشرے میں نئی دہلی میں کشمیر سے متعلق خبروں کی ترسیل کرنے والے صحافیوں اور تجزیہ کاروں کو بخوبی علم ہوگا کہ جموں و کشمیر کے قضیہ اور انسانی حقوق کی دگرگوں صورت حال کے حوالے سے بھارت کس قدر شدید عالمی دباؤ کا شکار تھا۔ مارچ ۱۹۹۴ءمیں کانگریس پارٹی کی جانب سے بھارتی وزیراعظم نرسمہا رائونے ’چانکیائی شاطرانہ چال‘ کااستعمال کرکے ایران کو جھانسہ دے کر اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن سے کسی طرح جان تو چھڑوائی، مگر اس کے عوض ایرانی صدر ہاشمی رفسنجانی سے وعدہ بھی کیا کہ ’’کشمیر پر پیش رفت کریں گے‘‘۔ یادرہے کمیشن میں قرار داد پاس ہونے کی صورت میں یہ براہِ راست سلامتی کونسل کے سپرد کی جانے والی تھی، جہاں مغربی ممالک بھارت کے خلاف اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کی تیاریا ں کر رہے تھے۔ بھارت کا دیرینہ دوست روس، سوویت یونین کے بکھرنے کے بعد زخم چاٹ کر مغربی ممالک کو خوش کرنے میں مصروف تھا۔

ایران سے کیے گئے وعدے کے پیش نظر، غالباً ۱۹۹۵ءمیں فاروق عبداللہ کی نیشنل کانفرنس نے ایک مفصل میمورنڈم وزیر اعظم نرسمہا راؤ کے سپرد کیا، جس میں ۱۹۵۰ءمیں بھارت کے وزیراعظم جواہر لال نہرو اور شیخ عبداللہ کے درمیان طے پائے گئے ’دہلی ایگریمنٹ‘ کو قانونی شکل دینے، اس کو بھارتی پارلیمنٹ سے پاس کروانے اور ریاست کی ۱۹۵۳ءسے قبل کی پوزیشن بحال کرنے کا ایک طریقۂ کار وضع کیا گیا تھا۔ نیشنل کانفرنس کی ایما پر یہ میمورنڈم کس نے لکھا تھا، یہ بات تاحال سربستہ راز ہے۔ اس کے چند روز بعد ہی ۴نومبر ۱۹۹۵ءکو نرسمہا راؤ نے افریقی ملک برکینو فاسو کا دورہ کرتے ہوئے کشمیر کے مسئلے کو سلجھانے کا عندیہ دیا، اور یہ کہا کہ ’’زیادہ سے زیادہ خودمختاری دینے کے لیے ہم کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں‘‘۔ اس دوران بھارت کے ریاستی ادارے، مئی ۱۹۹۶ء میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں حصہ لینے کے لیے نیشنل کانفرنس کی خوشامدیں کررہے تھے، مگر اس کے لیڈر ڈاکٹر فاروق عبداللہ اور نئی دہلی میں ان کے نمایندے پروفیسر سیف الدین سوز ٹس سے مَس نہیں ہو رہے تھے۔ ان کا مطالبہ تھا کہ: ’’پہلے اٹانومی یاکوئی سیاسی فارمولا ہمارے حوالے کیاجائے، جس کو لے کر ہم عوام کے پاس جائیں گے‘‘۔ کوئی واضح یقین دہانی نہ ملنے پر ان کی پارٹی نے لوک سبھا کے انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کرکے ان کی افادیت پر ہی سوالیہ نشان لگادیا۔  ان ملک گیر انتخابات میں کانگریس پارٹی کو شکست ہوگئی، مگر ’جنتا دل‘ کی قیادت میں دیو گوڑا اور بعد میں اندر کمارگجرال کی قیادت میں کانگریس ہی کی بیساکھیوں پر نئی حکومت قائم ہوگئی۔

وزیر اعظم دیو گوڑا کے دست راست سی ایم ابراہیم نے و زارت داخلہ کے اہم افسران کے ہمراہ لندن میں فاروق عبداللہ کے ساتھ گفت وشنید میں وعدہ کیا: ’’جموں و کشمیر اسمبلی میں ا ن کو قطعی اکثریت دلانے میں مدد کی جائے گی اور اس کے فوراً بعد وہ نرسمہا راؤ کو دیئے گئے میمورنڈم کو ایک ریزولوشن کی صورت میں بھاری اکثریت سے اسمبلی میں پاس کرواکے مرکزی حکومت کو بھیج دیا جائے گا۔ جس کو پارلیمنٹ میں پیش کرکے ایک قانون کے طور پر پاس کیا جائے گا‘‘۔ ۸۷رکنی اسمبلی میں نیشنل کانفرنس کو ۵۷، کانگریس کو ۲۶ اور اپوزیشن بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو محض دونشستیں حاصل ہوئیں۔ مگر انتخابات کے بعد ان کو بتایا گیا کہ اس میمورنڈم کا جائزہ لینے کے لیے پہلے ایک کمیشن تشکیل دیں۔ لیکن جب تک کہ یہ کمیشن اپنی رپورٹ اسمبلی میں پیش کرتا، خود جنتا دل حکومت ختم ہوچکی تھی، اور سارے وعدے ہوا میں بکھر کر رہ گئے تھے۔ تاہم، بھارتی حکومت کشمیر کے مسئلے پر عالمی دبائو سے نکلنے میں کامیاب ہوگئی۔

 پچھلے دو برسوں کے دوران دنیا بھر میں بھارت کے سفیر وہ نہیں کر پائے، جو کام ۲۴جون کو دن کے تین بجے وزیر اعظم نریندر مودی کی سرکاری رہایش گاہ پر لی گئی اس گروپ فوٹو نے کیا، جس کی پہلی قطار میں وزیراعظم، ان کے دست راست وزیر داخلہ امیت شا، ڈاکٹر فاروق عبداللہ، ان کے فرزند عمر عبداللہ اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی سربراہ محبوبہ مفتی کے ہمراہ نظر آئے۔ دکھائی دیتا تھا کہ ایک بار پھر مودی کی بغل میں یہ لیڈر صاحبان شیروشکر ہورہے تھے، جس طرح ۱۹۴۷ءمیں شیخ عبداللہ نے لال چوک میں نہرو کا استقبال کرتے ہوئے دل و نگاہ فرشِ راہ کیے ہوئے تھے۔ فروری ۲۰۲۱ء میں پاکستان اور ہندستان کے درمیان لائن آف کنٹرول پر سیز فائر کے حیران کن معاہدے کے بعد ہی اس طرح کی میٹنگ کی تیاری شروع ہو چکی تھی، اور بھارتی وزارت داخلہ کے اہلکار اندازہ لگارہے تھے کہ اس طرح کی دعوت دینے کی صورت میں نیشنل کانفرنس کا کیا رد عمل ہوگا؟ ڈسٹرکٹ ڈیویلپمنٹ کونسل کے انتخابا ت نے کنگز پارٹیوں کو دن میں تارے دکھا دیئے، تو نئی دہلی کو یہ ادراک ہو گیا تھا کہ کسی سیاسی عمل کے لیے نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی پر ہی تکیہ کرنا پڑے گا۔ اس میٹنگ میں اگرچہ ان جماعتوں نے ریاستی درجہ اور خصوصی حیثیت کی بحالی کا مطالبہ کیا، تو بھارتی وزیراعظم اور وزیرداخلہ نے دوٹوک الفاظ میں جواب دیا کہ: ’’دفعہ ۳۷۰ ،اور ۳۵-اے کا معاملہ تو اب عدالت کے سپرد ہے، اس لیے اس کے فیصلہ کا انتظار کیا جائے‘‘۔البتہ ریاستی درجہ کی بحالی کے لیے امیت شا نے ایک غیرواضح روڈ میپ ان کے گوش گزار کر دیا۔

اس سے قبل جسٹس رنجنا ڈیسائی کی قیادت میں ایک حدبندی کمیشن تشکیل دیا گیا تھا، جو اسمبلی حلقوں کی اَز سرِ نو حد بندی کرے گا اور بعد میں اس نئی حد بندی کے تحت اسمبلی کے انتخابات منعقد ہوں گے۔ پھر یہ اسمبلی ایک قرارداد پاس کرکے پارلیمنٹ سے ریاستی درجہ کی بحالی کے لیے کہے گی۔ جس کے بعد وزرات داخلہ قانون سازی کرنے کا کام شروع کرسکتی ہے۔

مودی حکومت نے اس اجلاس میں سب سے بڑی یہ چیز حاصل کی کہ نیشنل کانفرنس نے مذکورہ حدبندی کمیشن میں شرکت کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ اس سے قبل اس نے اس کمیشن کا بائیکاٹ کیا ہوا تھا۔ چونکہ نیشنل کانفرنس سے تعلق رکھنے والے لوک سبھا کے تین اراکین اس کے بربنائے عہدہ ممبران ہیں، اس لیے ان کی عدم موجودگی کی وجہ سے کمیشن اپنا کام نہیں کر پا رہا تھا۔ جس وقت یہ کمیشن ترتیب دیا گیا تھا تو اس وقت اس کے دائرہ اختیار میں جموں و کشمیر کے علاوہ آسام، منی پور، ارونا چل پردیش اور ناگالینڈ میں اسمبلی حلقوںکی بھی حد بندی بھی شامل تھی ۔ مگر اس سال مارچ میں جب اس کی مدت ایک سال اور بڑھا دی گئی، تو اس کے دائرۂ اختیار سے شمال مشرقی صوبوں کو نکال دیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ بھارتی حکومت کے مطابق اگر جموں و کشمیر اب ملک کے دیگر صوبوں کی ہی طرح ہے تو صرف اسی خطے میں الگ سے حد بندی کیوں کرائی جا رہی ہے؟

اس کی وجہ یہی لگتی ہے کہ کمیشن اسمبلی نشستوں کو کشمیر اور جموں کے ڈویژنوں میں برابر تقسیم کرنا چاہتا ہے، یعنی آبادی زیادہ ہونے کی وجہ سے وادیِ کشمیر کو اسمبلی میں جو برتری حاصل تھی، اس کو ختم کیا جائے۔ ۲۰۱۱ءکی مردم شماری کے مطابق وادیِ کشمیر کی آبادی ۶۸ء۸ لاکھ اور جموں کی ۵۳ء۷ لاکھ تھی۔ ظاہر سی بات ہے کہ آبادی زیادہ ہونے کی وجہ سے وادیِ کشمیر کی اسمبلی نشستوں کی تعداد ۴۶  اورجموں کی ۳۶تھی۔ مگر کمیشن کے سامنے بھارتیہ جنتا پارٹی کے نمایندے مرکزی وزیر جیتندر سنگھ نے دلیل دی ہے کہ آبادی کے بجائے رقبہ کو حد بندی کا معیار بنایا جائے۔ چونکہ جموں کا رقبہ ۲۶,۲۹۳  مربع کلومیٹر اور کشمیر کا ۱۵,۵۲۰ مربع کلومیٹر ہے، اسی لیے ان کا کہنا ہے کہ جموں کی سیٹوں میں اضافہ ہونا چاہیے۔ نئی اسمبلی میں اب ۹۰نشستیں ہوں گی۔ مگر جغرافیہ کو معیار بنانے کے بعد ان کی پارٹی کو ادراک ہوگیا کہ جموں خطے کی سیٹیں تو بڑھ جائیں گی ، مگر اس سے مسلم اکثریتی علاقوں پیر پنچال اور چناب ویلی کو فائدہ ہو رہا ہے، کیونکہ ان کا رقبہ جموں کے ہندو اکثریتی علاقے سے زیادہ ہے۔ ’مجرم بھی خود، مدعی بھی خود اور منصف بھی خود‘ کے مصداق اب نئے فارمولا کے تحت کل ۹۰نشستوں میں ۱۸سیٹیں دلتوں اور قبائل کے لیے مختص ہوں گی ۔ اس کے علاوہ جموں میں رہنے والے پاکستانی مہاجرین اور کشمیری پنڈتوں کے لیے بھی سیٹیں مخصوص رکھنے کے مطالبات پر غور ہو رہا ہے۔ دونوں خطوں کو برابر ۴۵سیٹیں دی جائے گی۔ پھر ان میں سیٹیں مخصوص ہوں گی، تاکہ وادیِ کشمیر سے مسلمان ممبران کم سے کم تعداد میں اسمبلی میں پہنچیں۔ جس ریاست میں مسلم آبادی کا تناسب ۶۸ء۵ فی صد ہے ، وہاں اسمبلی میں ان کا تناسب ۵۰ فی صد تک رہ جائے گا۔

۲۰۰۵ء میں حکومت کی طرف سے قائم جسٹس راجندر ’سچر کمیٹی‘ نے اس پر خوب بحث کی ہے کہ جن سیٹوں سے مسلم اُمیدواروں کی کامیابی کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں، ان کو دلتوں کے لیے مخصوص نشتوں کی فہرست میں ڈال کر وہاں سے کسی مسلم امیدوار کی قسمت آزمائی کے امکانات ہی ختم کردیئے گئے ہیں۔ اترپردیش کے نگینہ میں مسلمانوں کا تناسب ۲۱ء۴۳ فی صد اور دلتوں کا ۵ء۲۲ فی صد ہے، مگر اس کو دلتوں کے لیے ریزرو کرنے سے کوئی مسلم امیدوار انتخاب لڑ ہی نہیں سکتا ہے۔ اس کے برعکس دھورریا میں جہاں دلت ۳۰فی صد ہیں اور مسلمان کم ہیں ، انھیں جنرل نشستوں کی فہرست میں رکھا گیا ہے ۔ سچر کمیٹی نے ایسی بہت سی نشستوںکی فہرست شائع کرتے ہوئے مطالبہ کیا تھا کہ دلتوں کے لیے انھی نشستوںکو مخصوص کیا جائے ، جہاں دلت آبادی ۳۰فی صد سے زیادہ ہے۔ اس فارمولا کی وجہ سے قانون ساز اداروں میں مسلم نمایندگی قابو میں رہتی ہے اور چونکہ مسلمان ان سیٹوں کو ریزرو کرنے کی مخالفت کرتے ہیںتو ان کو دلتوں کے حقوق کے مخالفین کے طور پر پیش کرکے ان دونوں طبقوں کو آپس میں لڑوانے کا بھی کام ہو جاتا ہے۔ یہی کچھ اب جموں و کشمیر میں بھی دہرایا جانے والا ہے ۔

جموں خطے میں مسلمان ۳۱فی صد، دلت ۱۸فی صد، برہمن ۲۵فی صد، راجپوت یا ڈوگرہ ۱۲فی صد ، ویشیا، یعنی بنیا ۵فی صد اور دیگر، یعنی سکھ وغیرہ ۹فی صد کے لگ بھگ ہیں۔ افسر شاہی میں تو پہلے ہی مقامی مسلمانوں کو پتہ صاف ہوچکا تھا۔ خود حکومت جموں و کشمیر کے اعداد و شمار کے مطابق ۲۴سیکرٹریوں میں بس پانچ مسلمان ہیں۔ ۵۸؍اعلیٰ سرکاری افسران میں بس ۱۲مسلمان ہیں۔ دوسرے درجہ کے افسران، یعنی کشمیر ایڈمنسٹریٹو سروس میں بھی ۴۲فی صد مسلمان ہیں، جب کہ ان کی آبادی  ۶۸فی صد سے زائد ہے۔ پولیس کے ۶۶؍اعلیٰ افسران میں صرف سات ہی مقامی مسلمان ہیں۔

سنکیانگ میں ایغور مسلمانوں پر مظالم کو مغربی دنیا، چین کے خلاف ایک ہتھیار بنانے سے قبل بھارت کو ایک جمہوری اقدار والے ملک کے بطور پیش کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ اس ضمن میں امریکا سمیت مغربی ممالک بھارت پر زور دے رہے ہیں کہ ’’کشمیر پر کچھ پیش رفت دکھا کر اپنے آپ کو چین کے مقابلے ایک فراخ دل پاور کے رُوپ میں پیش کرے‘‘۔ ۲۴جون کی مذکورہ میٹنگ سے قبل برطانیہ میں منعقد گروپ ۷کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے، نریندرا مودی نے بھارت کو ’جمہوری اقدار اور آزادی کا محافظ‘ قرار دیا۔ یہ مذاق ہی سہی، مگر اس مذاق کو حقیقت کا رُوپ ڈھالنے کے لیے بھارت سے مطالبہ کیا جانا چاہیے تھا کہ ’’وہ ان جمہوری اقدار اور جمہوری آزادی کا اطلاق کشمیر میں بھی کرے اور کم از کم سیاسی قیدیوں کی رہائی ہی یقینی بنائے‘‘۔ شاید ۲۴جون کی اس میٹنگ میں آنے سے قبل نیشنل کانفرنس اور بیک چینل سے جاری مذاکرات میں خود پاکستان اس کو پیشگی شرط کے طور پر پیش کرسکتا تھا۔ مگر کیا کیا جائے، ناز ک اوقات میں مسلم نمایندگی کرنے والے، حیران کن جلدبازی کا شکار ہوجاتے ہیں۔

یہاں ہم جموں و کشمیر کی زمینی صورتِ حال کا جائزہ پیش کریں گے کہ خود بھارتی دانش ور اس صورتِ واقعہ کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں اور وہاں نئی دہلی حکومت جس انداز سے اپنے آپ کو مسلط کیے ہوئے، اس کا اثر کشمیر کے بے بس اور مجبور شہریوں پر کس طرح اثرانداز ہورہا ہے۔

جموں و کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر بھارت اور پاکستان کی افواج کے درمیان فائربندی فروری ۲۰۲۱ء کے آخری ہفتے میں ہوئی۔  اس دوران دو افسوس ناک واقعات کے علاوہ عمومی طور پر فائربندی پر دونوں افواج نے عمل کیا۔ سرحدی علاقوں کی آبادی نے دونوں اطراف میں خوفناک فائرنگ، مارٹرز اور توپوں کی گھن گرج سے آزادی تو حاصل کرلی، مگر ان چار ماہ کے دوران وادیٔ کشمیر میں پُرتشدد واقعات کے نتیجے میں ۵۷؍افراد جاں بحق ہوگئے۔ اسی عرصے میں بھارتی سیکورٹی افواج نے آپریشنز کے دوران ۲۰سے زائد مکانات کو جلاکر راکھ کر دیا، یا زمین بوس کرکے اس کے مکینوں کوبے گھر کر دیا ہے۔

سرزمین کشمیر کی صورتِ حال

حال ہی میں بھارت کے سابق وزیر خارجہ جناب یشونت سنہا، سابق معروف بیوروکریٹ اور سابق چیئرمین ماینارٹیز کمیشن جناب وجاہت حبیب اللہ ، بھارتی فضائیہ کے ائروائس مارشل کپیل کاک، سوشل ورکر سوشوبھا بھاروے اور سینیرصحافی اور ایڈیٹر جناب بھارت بھوشن نے ’فکرمند شہریوں‘ (Concerned Citizens Group: CCG) کے ایک معتبر گروپ نے مارچ، اپریل ۲۰۲۱ء میں وادیٔ کشمیر کا دورہ کیا (یاد رہے یہ گروپ غیرسرکاری سطح پر رضاکارانہ طور پر خدمات انجام دے رہا ہے۔ اس کے تمام ارکان اپنے سفرخرچ اور قیام و طعام کے اخراجات ذاتی جیب سے کرتے ہیں)۔ نئی دہلی واپسی پر انھوں نے اپنی آٹھویں رپورٹ میں خبر دار کیا ہے کہ ’’خطے میں جاری مایوسی اور ناامیدی کی کیفیت ایک خطرناک رخ اختیار کر سکتی ہے۔ اگرچہ شہروں اور قصبوں میں بظاہر حالات معمول پر ہیں، سڑکوں اور گلیوں میں سیکورٹی فورزسز کے اہلکار نسبتاً کم تعداد میں گشت کرتے نظر آئے، مگر احساسِ شکست اور اس کے خلاف زمینی سطح پر تہہ در تہہ اضطراب سے پریشرککر جیسی صورت حال پیدا ہو رہی ہے‘‘۔

یہ امرواقعہ یاد رہنا چاہیے کہ یہ خطۂ کشمیر ’عالمی کورونا وبا‘ پھوٹنے سے قبل ہی جبری لاک ڈاؤن کی زد میں ہے۔ پچھلے دوبرسوں سے کاروباری اور دیگر اجتماعی خدمت کے ادارے تہس نہس ہوچکے ہیں۔ لگتا ہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت اپنا ہر قدم مقامی آبادی کو زیر کرنے اور دہلی میں ہندو قوم پرستوں کو اپنی کامیابی و سرشاری کا لطف اُٹھانے کا موقع عطا کررہی ہے۔ کشمیر  کی سول سوسائٹی سے وابستہ افراد نے اس گروپ کو بتایا کہ ’’پچھلے دو برسوں میں ہم نے اس قدر ذلّت و رُسوائی کا سامنا کیا ہے کہ ۷۰برسوں میں کبھی اپنے آپ کو اتنا زخم خوردہ نہیں پایا ‘‘۔

یکے بعد دیگرے احکامات: ’روشنی ایکٹ‘ کو کالعدم کرنا، غیر ریاستی باشندوں کو شہریت دینا، اردو زبان کو پس پشت ڈالنا اور اسمبلی حلقوں کی نئی حد بندیاں کرنا، جیسے اقدامات کشمیریوں کی نفسیات کو گہری ضرب لگانے کاکام کر رہے ہیں۔ان احکامات و اقدامات کی حالیہ مثال ’ملک دشمن سرگرمیوںــ‘ کا نوٹس لینے کے نام پر چھے سرکاری ملازمین کو برطرف کرنا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ فہرست خاصی لمبی ہے اور اگلے کئی ماہ تک مزید افراد ملازمت سے ہاتھ دھو سکتے ہیں۔سرکاری ملازمین کی سرگرمیوںپر نظر رکھنے کے لیے ایک ٹاسک فورس تشکیل دی گئی ہے۔ نئی دہلی حکومت نے لیفٹیننٹ گورنر کو اختیار دیا ہے کہ وہ سرکاری ملازمین کو بغیر کسی تفتیش کے، اپنے صواب دیدی اختیارات استعمال کرتے ہوئے ملازمت سے برطرف کرسکتا ہے۔ حیرت کا مقام ہے کہ گورنر صاحب نے اپنے صواب دیدی اختیارات کا استعمال تو کردیا، مگر دوسری طرف خود پولیس کا کہنا ہے کہ ان عتاب زدہ یا برطرف کردہ افراد کا ہمارے پاس کوئی ’مجرمانہ ‘ ریکارڈ نہیں ہے۔

مگر ایسا لگتا ہے کہ جموں و کشمیر ایک ایسا بدقسمت خطہ ہے، جوقانون و آئین کی عملداری سے ہاتھ دھوئے بیٹھا ہے۔ یہاں نئی دہلی سرکار کے مقرر کردہ حکمران، مقامی لوگوں سے روزی روٹی کا بنیادی حق چھیننے اور ان کے اہل خانہ، ان کے زیر کفالت افراد کو محرومی اور پریشانی کے جہنّم میں دھکیلنے پر کوئی عار محسوس نہیں کرتے ہیں۔

حکومت کے کسی بھی اقدام سے اختلاف کا اظہار کرنے کی کوئی گنجایش نہیں رکھی گئی ہے۔ صحافیوں کے خلاف تادیبی کارروائیوں کے نتیجے میں طباعتی و ابلاغی صحافت کا وجود اور اس کی افادیت ختم ہوکر رہ گئی ہے۔ مقامی اخبارات کے ادارتی صفحات غیر سیاسی موضوعات پر مضامین شائع کرنے پر مجبور ہیں ، تاکہ کسی پریشانی میں نہ پھنس جائیں۔ ’فیس بک‘ تو دُور کی بات ’وٹس ایپ گروپس‘ پر معمولی سے اختلاف رائے کا اظہار کرنے پر کئی افراد کو تختۂ مشق بنایا گیا ہے۔ بہت سوں کے خلاف دہشت گردی سے متعلق قوانین کے تحت مقدمے درج کیے گئے ہیں۔

ایک کشمیری دانش ور نے دورہ کرنے والے اس گروپ کو بتایا کہ ’’اس سے قبل کشمیری قوم نے مجموعی طور پر کبھی اپنے آپ کو اس قدر بے بس، بے زبان اور یتیم محسوس نہیں کیاہے، کیونکہ بھارت نواز اور آزادی نواز قیادتیں بھی بحران سے دوچار ہیں۔ ان میں کوئی ایسا لیڈر سامنے نہیں آرہا، جو نئی دہلی حکومت کے ساتھ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکے۔ بھارت نوا ز کشمیری لیڈروں یا مقامی سیاسی قیادت کو دیوار سے لگا دیا گیا ہے اور بیش تر حریت لیڈر یا تو جیلوں میں ہیں یا گھروں میں نظربند ہیں۔عمومی طور پر بھارت کی سیکولر لبرل لیڈرشپ نے بھی کشمیریوں کو مایوس کیا ہے۔ یہاں کے لوگ اُمید رکھتے تھے کہ شاید وہ مودی حکومت کے تنگ نظری پر مبنی اقدامات کے خلاف سینہ سپر ہو جائیں گے۔ مگر وہ تو اپنے مقامی اتحادیوں نیشنل کانفرنس یا پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی بھی مدد نہیں کر پائے‘‘۔

سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کے دست راست وحید پرہ کو دہشت گردی سے متعلق دفعات کے تحت حراست میں لے کر الزام لگایا گیا ہے کہ وہ ’’ایک ارب روپے عسکریت پسندوں میں تقسیم کر رہا تھا‘‘۔ مقامی لوگ اس الزام کو ایک بے پر کا بھونڈا مذاق سمجھتے ہیں۔ چند سال قبل تک وحیدپرہ، بھارتی حکومت اور بھارتی سیکورٹی فورسز کی آنکھوں کا تارا تھا۔ نئی دہلی میں بھارتی حکومت کا دفاع کرنے کے لیے اس کو متعدد کانفرنسوں، مباحثوں اور سیمیناروں میں بلایا جاتا تھا۔ بھارت کے موجودہ وزیردفاع راج ناتھ سنگھ نے ایک بار اس کو ’’کشمیر ی نوجوانوں کا رول ماڈل اور امید کی کرن بتایا تھا‘‘۔ ایک بھارت نواز لیڈر نے اس گروپ کو بتایا کہ ’’اگر یہ سب کچھ وحید پرہ کے ساتھ ہوسکتا ہے ، تو پھرآخر کون بھارت کے ساتھ پیار کی پینگیں بڑھا کر اپنا سر اوکھلی میں دیتے ہوئے دین و دنیا سے ہاتھ دھو بیٹھنا چاہے گا‘‘۔

ایک مقامی تجزیہ کار نے گروپ کو بتایا کہ ’’۱۹۵۳ءکے بعد سے بھارت نے ایک ایسے سیاسی ڈھانچے کو مؤثرانداز سے تشکیل دیا تھا، جو بڑی حد تک کشمیر یوں اور بھارت کے درمیان ایک نفسیاتی پُل کا کام کرتا تھا اور آڑے وقت میں نئی دہلی کی مدد بھی کرتا تھا۔ مگر ۵؍اگست۲۰۱۹ء کے اقدامات نے اس پل کو ڈھا دیاہے‘‘۔ گروپ کے مطابق ’’کشمیر کو پوری طرح نئی دہلی میں موجود افسر شاہی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ پہلے کی حکومتیں بھی کچھ معیاری رویے کی آئینہ دار نہیں تھیں، مگر ایک سسٹم کے تحت کام کررہی تھیں۔ کشمیر کو اب ’حکم ناموں‘ (Orders)کے ذریعے چلایا جا رہا ہے اور ہر نیا حکم ایک نیا زخم لے کر آتا ہے‘‘۔

پاکستان کی پالیسی کے حوالے سے بھی عوام میں خاصی مایوسی ہے۔ کئی افراد نے اس گروپ کو بتایا کہ ’’ہمیں توقع تھی کہ پاکستان کی ایما پر بین الاقوامی برادری یکجا ہوکر بھارت کو ان اقدامات کو واپس لینے پر مجبور کردے گی، مگر یہ توقعات پوری نہیں ہوسکیں۔ غالب اکثریت کا خیال ہے کہ ان کو بے یار و مددگار چھوڑدیا گیا ہے‘‘۔ کشمیری آبادی میں پاکستانی قیادت کے لیے یہ رجحان لمحۂ فکریہ ہے۔ اس کے علاوہ پہلی بار کشمیر ی عوام، بھارت میں بسنے والے مسلمانوں کو پیش آنے والے واقعات کا بغور جائزہ لیتے ہوئے دکھائی دیئے۔ اس کی شاید وجہ یہ ہے کہ دونوں آج کل ایک ہی کشتی میں سوار ہیں۔ بھارتی مسلمانوں کی کشمیری تحریک سے لاتعلقی اور بسا اوقات اس کی شدید مخالفت کی وجہ سے کشمیری مسلمان بھی ان کے سیاسی معاملات سے بیگانہ ہی رہتے تھے۔

 اس گروپ کی رپورٹ کے مطابق ’’ایک واحد مثبت قدم جو پچھلے دو برسوں میں اٹھایا گیا وہ ڈسٹرکٹ ڈویلپمنٹ کونسلوں (ڈی ڈی سی) کے کسی حد تک آزادانہ انتخابات تھے، جس میں  نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی کے اتحاد کو واضح برتری حاصل ہوئی۔ مگر یہ انتخابات ۵؍اگست۲۰۱۹ء کے اقدامات کے خلاف ایک ریفرنڈم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان انتخابا ت کا بھارتی حکومت سفارتی سطح پر خوب چرچا کر رہی ہے۔ مگران نو منتخب ڈی ڈی سی اراکین کا کوئی پُرسان حال نہیں ہے‘‘۔ جنوبی کشمیر کے کولگام علاقے کے ڈاک بنگلہ میں منتخب ڈی ڈی سی اراکین نے وفد کو بتایا کہ ’’انھیں عوام سے ملنے نہیں دیا جارہا ہے اور ایک مقامی ہوٹل میں ان کو محصور کردیاگیا ہے۔ ان کو لگتا ہے کہ جیسے وہ ایک جیل میں بندہیں۔ افسران تک ان سے بات کرتے ہوئے ڈرتے، جھجکتے اور بدکتے ہیں۔ اپنے علاقوں میں وہ بجلی کا ایک ٹرانسفارمر تک ٹھیک نہیں کرا پاتے ہیں۔ حکومت میں کرپشن انتہا پر ہے۔ پہلے بیوروکریٹ کسی سیاسی نظام کے تابع ہوتا تھا، مگر اب یہ نظام بھی ٹوٹ چکا ہے‘‘۔

ایک ڈی ڈی سی ممبر عنایت اللہ راتھر نے وفد کو بتایا کہ ’’مجھ کو بتایا گیا تھا کہ کشمیر ہندستان کا تاج ہے، مگر یہ تاج آج کل ٹھوکروں کی زد میں ہے‘‘۔ اس کا کہنا تھا کہ ’’میرے علاقے کے  کئی نوجوانوں کو حراست میں لے کر بھارت کی دُور دراز جیلوں میں رکھا گیا ہے، جہاں ان کے اعزا و اقارب ملاقات کے لیے نہیں جا سکتے ہیں۔ ایک دودھ بیچنے والے شخص کو، جس کو اس کی بھاری بھرکم جسمانی ساخت کی وجہ سے مقامی لوگ ’کرنل ستار‘ کے نام سے پکارتے تھے، حراست میں لے کر اترپردیش کے وارانسی شہرکی جیل میں رکھا گیا ہے۔ حالانکہ اس شخص کا کسی عسکریت سے دُور دُور تک کا کچھ بھی واسطہ نہیں ہے‘‘۔ ایک اور ڈی ڈی سی ممبر عباس راتھر کا کہنا ہے کہ ’’مجھے حفاظت کے لیے جو سیکورٹی اہلکار دیے گئے ہیں، و ہ میری جاسوسی کرتے ہیں۔ جوں ہی کوئی مجھ سے ملنے آتا ہے، و ہ فون پر اپنے اعلیٰ افسران کو باخبر کردیتے ہیں‘‘۔ نیشنل کانفرنس سے تعلق رکھنے والے عارف زرگر ، جو ڈی ڈی سی کے چیئرمین بھی ہیں، بتایا کہ ’’ڈی ڈی سی دراصل Dumb Driven Cellکا مخفف ہے‘‘۔ جن دنوں یہ گروپ کشمیر کے دورہ پر تھا، حکومتی اہلکاروں نے بتایا: ’’حریت لیڈر میر واعظ عمر فاروق گھر میں نظربند نہیں ہیں اور کہیں بھی آ جا سکتے ہیں۔ مگر جب اگلے روز یہ گروپ ان کی رہایش گا ہ پر پہنچا، تو سیکورٹی اہلکاروں نے ان کو اندر جانے کی اجازت نہیں دی‘‘۔

۲۰۱۱ءکی مردم شماری کے مطابق وادیٔ کشمیر میں ۸۰۸کشمیری ہندو، یعنی پنڈت خاندان رہتے ہیں۔ ان لوگوں نے ۱۹۹۰ءمیں دیگر پنڈتوں کی طرح نقل مکانی نہیں کی۔ مقامی کشمیری پنڈتوں کے لیڈر سنجے تکو نے اس وفد کو بتایا: ’’۲۰۱۱ء کے بعد مختلف وجوہ کی بنا پر ۶۴ خاندان ہجرت کرچکے ہیں۔ اس کے علاوہ۳۹۰۰  ایسے پنڈت خاندان ہیں، جنھیں جموں سے کشمیر میں نوکری دلوانے کے نام پر لاکر کیمپوں میں رکھا گیا ہے‘‘۔ سنجے تکو کے مطابق: ’’کشمیر میں رہنے والے پنڈتوں کا کوئی پُرسان حال نہیں ہے۔ اس کے برعکس جموں اور دہلی میں مقیم ہندو قوم پرست تنظیم راشٹریہ سیوئم سیوک سنگھ کے پروردہ پنڈتوں کو ان کی آواز بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ آرایس ایس نے حال ہی میں عالمی دارالحکومتوں میں (Global Kashmiri Pandit Diaspora - GKPD) کے نام سے ایک نئی تنظیم بنائی ہے، تاکہ اس کو عالمی سطح پر کشمیری تارکین وطن کے خلاف کھڑا کرکے ان کے بیانیہ کو کمزور کرنے کی کوشش کی جائے۔ کشمیری پنڈت لیڈروں کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی فورموں اور انتخابات کے موقعے پر حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے قائدین پنڈتوں کا نام خوب استعمال کرتے ہیں، مگر ان کی فلاح و بہبود کے لیے عملاً کچھ بھی نہیں کرتے ہیں‘‘۔

وادیٔ کشمیر میں رہنے والے کشمیری پنڈتوں نے مذکورہ گروپ کے سامنے اس خدشے کا اظہارکیا کہ: ’’عام انتخابات سے قبل کہیں وہ کسی False Flag [خود مار کر دوسرے پر الزام دھرنے جیسے]آپریشن کا شکار نہ ہوجائیں، تاکہ اس کو بنیاد بناکر ووٹروں کو اشتعال و ہیجان میں مبتلا کرکے ایک بار پھر ووٹ بٹورے جاسکیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بعض عسکریت پسندوں میں بھی بھارت کے خفیہ اداروں کے افراد ہوسکتے ہیں، جو اس طرح کی کارروائی انجام دے سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ پنڈتوں کو شکایت تھی کہ مرکزکے ’اسمارٹ سٹی پراجیکٹ‘ کے نام سے دریا کے کنارے پر واقع متعدد مندروں کی آرایش و تزئین کی جا رہی ہے، مگر اس سلسلے میں مقامی پنڈت آبادی کو پوچھا بھی نہیں جاتا ہے۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ یہ کام سیکورٹی فورسز کے افراد کررہے ہیں، جو ایک خطرناک رجحان ہے اور اس سے مقامی مسلم آبادی کو ان سے متنفر کیا جا رہا ہے‘‘۔

گروپ کے مطابق: ’’آئے دن ہلاکتوں کے باوجود مقامی نوجوانوں میں ہتھیار اٹھانے کے رجحان میں کوئی کمی نظر نہیں آرہی، اور عسکری تنظیموں کے اراکین میں بھی کوئی کمی نہیں ہو رہی ہے۔ سیکورٹی فورسز کی طرف سے مارٹر اورآتش گیر مواد سے مکانات کو زمین بوس کرنے کے نئے سلسلے نے عوامی ناراضی میں مزید اضافہ کیا ہے۔ آج کل جس گھر میں بھی کسی عسکریت پسند کے ہونے کا کچھ بھی اندیشہ ہوتا ہے، سیکورٹی افواج اس کو بھاری ہتھیاروں سے نشانہ بناکر زمین بوس کردیتے ہیں‘‘۔ سول سوسائٹی سے وابستہ ایک سرکردہ شخصیت نے اس گروپ کو بتایا کہ: ’’چندبرس قبل تک کشمیری، مقبول بٹ اور افضل گورو کو اپنے گھروں سے دُور تہاڑ جیل میں دفنانے پر ماتم کر رہے تھے، مگر اب کسی بھی عسکریت پسند کی لاش ان کے لواحقین کو نہیں دی جاتی، اور ان کو نامعلوم جگہوں پر دفنا دیا جاتا ہے‘‘۔

 فوجی سربراہ جنرل منوج مکند نروانے، حال ہی میں سرینگر میں بتایا کہ پاکستان کی طرف سے جنگ بندی معاہدے پر سختی سے عمل درآمد سے دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد کی راہیں ہموار ہوسکتی ہیں،مگر کیا صرف سرحدوں پر امن کے قیام سے اس پورے خطے میں امن قائم ہوسکتا ہے؟ کیا کشمیر میں عوام کا اعتماد اور بھروسا جیتنا ضروری نہیں ہے؟

کشمیر پر افواہوں کی یلغار یا کشمیریوں کا نفسیاتی قتل عام؟

اسی طرح پچھلے کئی ہفتوں سے کشمیر میں افواہوں کے بازار نے یہاں رہنے والوں کا سُکھ چین چھین لیا ہے۔ لگتا ہے کہ دانستہ طور پر اور سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کشمیر ی عوام کو مستقل عذاب میں مبتلا رکھ کے ان کو ذہنی مریض بنایا جارہا ہے۔ ان افواہوں کا ماخذ خود مقامی حکومت ہی کے چندایسے اقدامات کے ساتھ ساتھ، دہلی اور جموں میں رہنے والے شدت پسند کشمیری پنڈتوں کا ایک اجتماع ہے۔ جہاںحال ہی میں کشمیری مسلمانوں پر مزید ظلم و ستم ڈھانے اور ان کو فلسطینیوں کی طرح اپنے ہی گھروں میں بیگانہ کرنے کی تجویزیں پیش کی گئیں، برملا دُہرائی گئیں اور افواہوں کی صورت میں پھیلائی گئیں۔ تقریباً ۳۰۰ مزید نیم فوجی دستوںکی کمپنیوں کی تعیناتی اور ان میں سے بیش تر کی شمالی کشمیر میں تعیناتی اور بھارتی فوج کی غیر معمولی نقل و حرکت نے پورے خطے میں اضطرابی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ ہرکوئی دوسرے سے یہی سوال کر رہا ہے کہ ’’کیا کچھ بڑا ہونے والا ہے؟‘‘

 شاید کشمیر دُنیا کا واحد خطہ ہے، جہاں بسا اوقات یہ افواہیں سچ کا رُوپ بھی دھار لیتی ہیں۔

لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے ان افواہوں کے خاتمے کی یقین دہانی توکرائی ہے،مگر ۵؍اگست ۲۰۱۹ءکو جب بھارتی آئین میں درج جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو کالعدم قراردینے کے بعد ریاست کو تقسیم کرتے ہوئے مرکزی انتظام والا علاقہ بنایا گیا تھا، تو اس یلغار سے پہلے بھی کچھ اسی طرح کی افواہوں کا بازار گرم تھا۔ اس وقت بھی گورنر ستیہ پال ملک نے ’سیکورٹی یا سلامتی‘ سے متعلق اٹھائے گئے اقدامات کو معمول کی کارروائی بتایا تھا۔ حتیٰ کہ نیشنل کانفرنس کے رہنما ڈاکٹرفاروق عبداللہ اور ان کے بیٹے عمر عبداللہ [یعنی شیخ عبداللہ کے پوتے] نے دہلی میں وزیراعظم نریندر مودی سے ملاقات کی، جنھوں نے ان کو یقین دہانی کرائی کہ ’’دفعہ ۳۷۰، اور دیگر آئینی اقدامات پر کوئی قدم اٹھانے سے قبل کشمیر کی سیاسی جماعتوں سے صلاح مشورہ کیا جائے گا‘‘۔ مگر سرینگر آنے کے تیسرے ہی دن ان کو حراست میں لیا گیا۔ اس پس منظر اور تاریخ کی موجودگی میں اب موجودہ لیفٹنٹ گورنر کی یقین دہانی پر کتنا یقین کیا جائے؟

مئی کے آخری اور جون کے پہلے ہفتے کے دوران جاری ہونے والے پے در پے احکامات، جیسے سرینگر ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی طرف سے نقل و حمل کے لیےراہداری پاس کی ضرورت، پولیس کی جانب سے ریلوے حکام کو وادی کے اندر چلنے والی ٹرین سروس کو معطل رکھنا، پولیس اسٹیشنوں سے ۵؍اگست ۲۰۱۹ء سے قبل اور اس کے بعد سیاسی شخصیات کی گرفتاریوں اور ان کے خلاف کارروائیوں کا ریکارڈ مانگنا، جموں و کشمیر جماعت اسلامی اور جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے کارکنان اور ہمدردان کی تفصیلات کے علاوہ خطے میں سرگرم صحافیوں کا ریکارڈ مانگنا، وہ اقدامات ہیں کہ جن سے ان اندیشوں اور وسوسوں کو تقویت ملی ہے ۔لوگوں میں اضطرابی کیفیت ہے، مگروہ یہ بھی کہتے ہیں دفعہ ۳۷۰ اور ۳۵-اےکی صورت میں کشمیریوں کے پاس تن بدن کو برہنہ کرنے کے بعد بس ایک زیرجامہ ہی بچا تھا، جسے ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کو تار تار کردیا گیا۔ اب ان کے پاس کھونے کے لیے بچا ہی کیا ہے۔

  • پہلی افواہ یہ ہے کہ جموں و کشمیر کا نام تبدیل کرکے اس کو ’جموں پردیش‘ رکھا جائے گا، یعنی اس سے لفظ کشمیر حذف کر دیا جائے گا۔ مگر اس کی تو خود کشمیری پنڈت اور سخت گیر ہندو ہی مخالفت کریںگے۔ اس سے تو اس خطے کی ہندو اساطیری شخصیت کشپ رشی کے ساتھ نسبت ہی ختم ہو جائے گی، جس کا حوالہ دے کر کشمیر کو ’ہندوتوا‘ کے وسیع ایجنڈے کا حصہ بنایا جاتا ہے۔
  • دوسری افواہ یہ ہے کہ جنوبی کشمیر کے کئی اضلاع کو جموں کے ساتھ ملاکر ، ایک علیحدہ صوبہ تشکیل دیا جائے گا۔ مگر اس میں مشکل یہ ہے کہ جموں ڈویژن میں تقریباً ۳۵فی صد مسلمان آباد ہیں اور جنوبی کشمیر کے اضلاع کے ساتھ ان کے الحاق کے نتیجے میں ۱۵سے ۲۰لاکھ تک مزید مسلمان ساتھ مل جائیں گے۔ اس طرح یہ مسلم اکثریتی علاقہ بن جائے گا۔ فی الحال آر ایس ایس کی سرپرستی میں وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت، ملک میں ایک اور مسلم اکثریتی صوبہ کی متحمل نہیں ہوسکتی ہے۔ جموں ڈویژن میں مسلم اکثریتی علاقے پیر پنچال اور چناب ویلی پہلے ہی سے ہندو  نسل پرستوں کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتے ہیں۔حتیٰ کہ بھارت کے سیکولر رہنماؤں نے بھی پچھلے ۷۰ برسوں سے ان علاقوں کو وادیٔ کشمیر سے الگ تھلگ رکھنے کی کوششیں کی ہیں۔ ان علاقوں کو پہلی بار ۲۰۰۴ء کے بعد مفتی محمد سعید اور غلام نبی آزاد کے دورِ حکومت میں پونچھ اور شوپیاں کو ملانے والے مغل روڈ اور دیگر رابطوں کی تعمیرات نے ملانے کا کام کیا تھا۔
  • تیسری افواہ یہ ہے کہ شمالی کشمیر کو لداخ میں ضم کر کے ریاست لداخ قائم کی جائے اور کشمیر کو ختم کر دیا جائے گا۔ یہ قدم اُٹھانے سے مجوزہ لداخ صوبہ میں ۲۵لاکھ کے قریب آبادی کا اضافہ ہوگا اور یہ پوری آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہوگی۔ یعنی وادی کشمیر کو تقسیم کرنے اور اس کو جموں اور لداخ میں ضم کرنے سے یہ دونوں خطے مسلم اکثریتی بن جائیں گے۔
  • چوتھی افواہ یہ ہے کہ جموں کو موجودہ صورت میں ہی الگ صوبہ کا درجہ دیا جائے گا۔ خودبخود یا کسی نادیدہ قوت کے اشارے پر جموں میں کئی گروپ آج کل ایسا ہی مطالبہ کر رہے ہیں۔ مگر حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈروں نے فی الحال اس کو مسترد کر دیا ہے۔ بلاشبہہ جموں کو الگ صوبے کی حیثیت دینا اور وادیٔ کشمیر کو الگ تھلگ کرناہندو قوم پرستوں کی سرپرست تنظیم راشٹریہ سیوئم سیوک سنگھ کا پرانا ایجنڈا رہا ہے۔ ایک نسل پرست لیڈر بلراج مدھوک [م: ۲۰۱۶ء] اس مطالبے کے پُرزور حمایتی تھے۔ ۵؍اگست۲۰۱۹ء سے قبل جب پارلیمنٹ میں ریاست کو تقسیم کرنے اور اس کی حیثیت تبدیل کرنے کے قانون کا مسودہ تیار ہو رہا تھا، تو اس وقت بھی ریاست کے دوکے بجائے تین حصے کرنے کی تجویز پر وزارت داخلہ اور وزارت عظمیٰ کے دفتر میں خاصی بحث ہوئی تھی۔ مگر مضمرات کا جائزہ لینے کے بعد جموں کو الگ حیثیت دینے کی تجویز کو مسترد کر دیا گیا تھا۔

یہ خبریں بھی گشت کر رہی تھیں کہ ’’شاید خطے کو ریاستی درجہ واپس دیا جائے گا‘‘۔ مگر معروف صحافی مزمل جلیل کا اصرار رہا ہے کہ ’’ایسا ابھی ممکن نہیں ہو سکے گا‘‘۔ اور ان کا اندازہ درست ثابت ہوا، کیونکہ ۲۴ جون کو بھارتی وزیراعظم مودی نے اپنی رہایش گاہ پر نئی دہلی نواز آٹھ پارٹیوں کے چودہ رہنمائوں سے ملاقات کی۔ جس میں مودی نے ریاست بحال کرنے کے بجائے یہ کہا کہ مناسب وقت پر ریاست کا درجہ بحال کریں گے مگر کب؟ یہ کہا نہیں جاسکتا۔ دوسرا یہ کہ آپ سب مل کر کام کریں۔ ہم انتخابی حلقہ جات کی نئی حدبندی کرکے انتخاب کرائیں گے‘‘۔ اس طرح عملاً  یہ میٹنگ بے نتیجہ رہی۔ موجودہ حالات میں بی جے پی حکومت اگرچہ ریاستی اسمبلی دفعہ ۳۷۰ یا ۳۵-اےکو واپس تو نہیں لے گی، مگرڈاکٹر فاروق عبداللہ کی نیشنل کانفرنس یا محبوبہ مفتی کی پیپلزڈیموکریٹک پارٹی کے برسراقتدار آنے کی صورت میں، کئی اقدامات کی راہ میں رکاوٹ پیدا ہوسکتی ہے۔ جس کی فی الحال آر ایس ایس اسٹیبلشمنٹ متحمل نہیں ہوسکتی ہے۔ اسی لیے اگر ریاست کا درجہ واپس آتا بھی ہے، تو وہ شاید ایسا ہی سسٹم ہوگا ، جو دارالحکومت دہلی میں ہے، جہاںکے وزیراعلیٰ کی حیثیت بس ایک شہر کے مئیر جیسی ہے۔ نظم و نسق، افسران کے تبادلے وغیرہ کا اختیار مرکزی حکومت کے پاس ہی ہے۔

  • پانچویں افواہ جس نے بڑے پیمانے پر خوف و ہراس پھیلایا ہے، وہ یہ ہے کہ ’’وادیٔ کشمیر کے کل رقبہ ۱۵۵۲۰ مربع کلومیٹر میں سے ۸۶۰۰مربع کلومیٹر پر جموں اور دہلی میں رہنے والے کشمیری پنڈتوںکو بسا کر مرکز کے زیر انتظام ایک علیحدہ علاقہ تشکیل دیے جانے کی تجویز ہے، جس کا نام ’پنن کشمیر‘ ہوگا۔ یعنی وادیٔ کشمیر کو مرکز کے زیر انتظام دو علیحدہ علاقوں میں تقسیم کر دیا جائے‘‘۔ ’پنن کشمیر‘ کے زیرگردش نقشے سے معلوم ہوتا ہے کہ وادیٔ کشمیر کا پورا میدانی اور زرعی علاقہ قاضی گنڈ سے کپواڑہ تک اس کی زد میں آئے گا، لیکن محض ٹونگ ڈار، اوڑی اور پہاڑی اور جنگلات کے سلسلوں میں مسلمانوں کو ’غزہ‘ کی طرح بسنے دیاجائے گا۔

اس سلسلے میں حال ہی میں جموں و دہلی میں مقیم شدت پسند کشمیری پنڈت گروپوں نے ایک باضابطہ اجلاس میں وادیٔ کشمیر کے اندر اسرائیل طرز کا ایک خطہ بنانے کی تجویز بھی دی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’اس سلسلے میں ایک مجوزہ قانون وزارت داخلہ میں ڈرافٹ کیا جا چکا ہے اور وہ اس بات پر نالاں تھے،کہ مودی حکومت اس کو پارلیمنٹ میں پیش کرنے میں ٹال مٹول سے کام لے رہی ہے‘‘۔ایک مقرر سشیل پنڈت کا کہنا تھا کہ ’’۵؍اگست ۲۰۱۹ء کے اقدامات ایک عارضی چمک تھی اور مودی حکومت اس کا فالو اَپ کرنے میں ناکام رہی ہے‘‘۔ ایک اور مقرر ڈاکٹر مکیش کول کا کہنا تھا کہ ’’مودی کو بھاری مینڈیٹ تعمیر و ترقی یا نظم و نسق کے نام پر نہیں ،بلکہ ہندو احیاے نو کے لیے ملاہے‘‘۔ للت امبردار نے تو بی جے پی کو اس وجہ سے آڑ ے ہاتھوں لیا ،کیونکہ ’’وہ کئی صوبوں میں مسلمانوں کو لبھا رہی ہے‘‘۔للت امبردار ہی کا کہنا تھا کہ ’’لداخ کو کشمیر سے الگ کرنے سے وہاں کی بدھ آبادی کو آزادی ملی، مگر جموں کا ہندو اور کشمیر ی پنڈت ابھی تک غلام ہے‘‘۔ کئی مقررین نے ’’اسرائیل میں یہودی آباد کاروں کی طرز پر وادیٔ کشمیر کے اندر ’پنن کشمیر‘ تشکیل دینے اور اس میں آبادکشمیری پنڈت آبادی کو مسلح کرنے اور ان کو عسکری تربیت دینے کی بھی سفارش کی‘‘۔

اس ساری صورتِ حال کو ذہن میں رکھ کر ذرا سوچیے کہ افواہوں کا یہ بازار ایسے وقت کشمیریوں کا سکون اور چین چھین رہا ہے ، کہ جب دوسری طرف پچھلے کئی ماہ سے بھارت اور پاکستان کے درمیان خاموش اور پس پردہ سفارت کاری کا عمل جاری ہے۔ پاکستان نے بین الاقوامی فورموں میں موجودہ بھارتی حکومت کو فاشسٹ قرار دینے اور براہِ راست نشانہ بنانے سے کچھ عرصے سے واضح طور سے اجتناب برتنا شروع کردیا ہے۔ جس سے آر ایس ایس کو امریکا، کینیڈا اور مغربی ممالک میں خاصا سُکھ کا سانس لینے کا موقع ملا ہے۔

مگر یہاں پر ایک بہت بڑا اور نہایت بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا ’اعتماد سازی‘ کے یہ سب اقدامات صرف پاکستان کی طرف سے یک طرفہ ہیں یا بھارت کی طرف سے بھی کچھ بامعنی پیش رفت ہورہی ہے؟ یہ موقع ہے کہ پاکستانی حکمران ، پاکستانی قوم اور کشمیریوں کو بتائیں کہ اس کے عوض بھارت نے کشمیریوں کو مثبت طور پر کس حد تک مراعات دینے پر رضامندی ظاہر کی ہے؟ ہم نے یہاں جن پانچ افواہوں کا ذکر کیا ہے اور کشمیری مسلمان آبادی کو گھر سے بے گھر کرنے کی جو سازش ہو رہی ہے، اس سے کشمیری قوم کو ذہنی مریض بننے سے بچانے کے لیے کون کردار اداکرنے کے لیے آگے بڑھ سکتا ہے یا بڑھ رہا ہے؟ کیا یہ دردناک انسانی ، تہذیبی اور تاریخی سوال، غفلت میں ڈوبے اور ہرآن دھوکا کھانے والوں کو کچھ جھنجھوڑ سکتا ہے؟ کیا عالمی ضمیر اور مسلم اُمہ کے دل و دماغ میں انسانی شرف و حُرمت کی کوئی علامت نمودار ہوسکتی ہے؟

مولانا وحید الدین خان مرحوم کے حوالے سے ذاتی یادوں اور مشاہدات کا ایک سلسلہ ہے۔ نئی دہلی میں ۳۰برسوں پر پھیلے قیام کے دوران مجھے، مولانا سے کبھی بالمشافہ گفتگو کرنے اور کبھی ان کے درس میں بیٹھنے کا موقع ملتا رہا۔ اس طالب علمانہ ربط و تعلق سے متعلق چند واقعات کا ریکارڈ پر آنا ضروری ہے۔ مولانا وحیدالدین خان بلاشبہہ ایک قابلِ ذکر شخصیت تھے۔ میں زمانہ طالب علمی سے ہی ان کے ماہنامہ الرسالہ کا قاری رہا ہوں۔ اپنے نقطۂ نظر کو جس سہل ،نپے تلے، منفرد اور سائنسی انداز میں وہ مشکل ترین موضوعات کو قارئین کے دماغ میں اُتارتے تھے، وہ انھی کا خاصہ تھا۔

مولانا صاحب سے میری پہلی ملاقات ۹۰ کے عشرے میں ہوئی، جب میں اعلیٰ تعلیم کے لیے دہلی وارد ہوا۔ نظام الدین ویسٹ میں انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز کا دفتر تھا۔ میں کسی کام سے دفتر گیا تھا تو وہاں پر پونا یونی ورسٹی شعبۂ صحافت کے ایک طالب علم عبدالباری مسعود ، (آج کل ایک معروف صحافی) سے ملاقات ہوئی۔ ابتدائی تعارف کے بعد ، انھوں نے بتایا کہ ’’مولانا وحیدالدین خان صاحب سے ملاقات کے لیے آج کا وقت طے ہے‘‘۔ میں بھی خان صاحب کو بالمشافہ دیکھنے کے شوق میں ان کے تین رکنی قافلے میں شامل ہوگیا۔ ان کی کوٹھی پر پہنچے۔ وہ مسند لگائے ہوئے تھے، اور سامنے ڈیسک پر کاغذوں کا ڈھیر تھا۔ پورے کمرے میں کتابیں، قومی اور بین الاقوامی جرید ے ترتیب کے ساتھ سجے ہوئے تھے۔

ابتدائی نوعیت کا تعارف ختم ہوتے ہی اچانک خود انھوں نے عبدالباری صاحب سے سوال کیا کہ ’’آخر آپ کیوں مجھ سے ملنا چاہتے ہیں؟‘‘ انھوں نے کہا: ’’میں الرسالہ کا قاری اور آپ سے متاثر ہوں‘‘۔اس پر انھوں نے فوراً یہ سوال پوچھا کہ’’ الرسالہ  میں کون سی بات آپ کو اچھی لگتی ہے، اور کس نے آپ کو متاثر کیا ہے؟‘‘ابھی ان کی جانب سے تفتیش کا سلسلہ جاری تھا کہ تبلیغی مرکز سے ایک وفد کمرے میں داخل ہوا، تو ہمیں دم لینے کا موقع ملا۔ و ہ وفدبھی مہاراشٹرا سے تعلق رکھتا تھا اور ان کو کسی پروگرام میں شرکت کی دعوت دینے آیا تھا ۔ اس لیے گفتگو اب تبلیغ اور اس کے طریق کار کی طرف مڑگئی۔

ان دنوں ’بابری مسجد کمیٹی ‘اور اس کے روح رواں سید شہاب الدین [ ۱۹۳۵ء- ۲۰۱۷ء]، مولانا صاحب کے نشانے پر ہوا کرتے تھے۔ اس ملاقات میں بھی انھوں نے شہاب الدین صاحب پر بھرپور وار کیے اور بتایا کہ ’’علامہ اقبال [م:۱۹۳۸ء]کی طرح شہاب الدین بھی مسلمانوں کا استحصال کرنے پر تلے ہوئے ہیں‘‘۔ اس پہلی ملاقات میں ہی مجھے یہ انداز ہو گیا تھا کہ وسعت علم کے باوجود وہ ایک طرح کے ’معلوماتی تکبر‘ (Information Arrogance) کا شکار ہیں۔ انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کی جلدوں اور ٹائم، نیوز ویک  رسالوں کی طرف اشار ہ کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ’’ الرسالہ کی تیاری کے لیے ان سبھی بیش قیمت کتابوں و رسائل کا مطالعہ کرنا پڑتا ہے اور اس میں زر کثیر خرچ ہوتا ہے‘‘۔

اس ملاقات کے بعد بھی اپنی صحافتی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے دوران ان سے متعدد بار ملنا ہوا۔ نمازِ عصر کے بعد وہ اپنے اسی کمرے میں ملتے تھے یا اتوار کے روز صبح ان کا درس ہوتا تھا، جو نمازِ ظہر پر ختم ہو تا تھا۔ یہ واقعہ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک بار درس کے دوران انھوں نے حضرت عمرؓ کے زمانے میں ہونے والی فتوحات پر نکتہ چینی کی۔ ان کا استدلال تھا کہ ’’اُن فتوحات کی وجہ سے دعوت کا کام دب گیا‘‘۔ اسی طرح ان کی ایک دلیل یہ تھی: ’’صلاح الدین ایوبی اور صلیبی جنگو ں کی وجہ سے یورپ میں اسلام کے دعوتی پیغام کو نقصان پہنچا‘‘۔ عراق اور افغانستان میں امریکا اورناٹو افواج کی جانب سے مسلط کردہ خونیں جنگ کو وہ ’خدائی آپریشن‘ کا نام دیتے تھے۔

بھارت میں ہندو مسلم فسادات ہوتے، تو وہ اس میں مسلمانوں کو ظالم قرار دیتے تھے۔ معلوم نہیں کس ذریعے سے حاصل کردہ اطلاعات کی بنیاد پر ان کا کہنا ہوتا تھا: ’’فسادات کی ابتدا مسلمان کرتے ہیں‘‘۔ یہ بات سنتے ہوئے میں نے ایک بار ہمت کرکے ان سے پوچھا کہ ’’یہ نتیجہ آپ نے کہاں سے اخذ کیا ہے؟ سوال پوچھنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مجھے کئی بار فسادات کی کوریج کرنے کا موقع ملا ہے اور میں نے ہمیشہ یہی دیکھا ہے کہ جانی اور مالی نقصان مسلمانوں کا ہی ہوتاہے۔ آخر اپنے آ پ کو نقصان پہنچانے کے لیے کیوں کوئی اپنا سر آگ میں جھونکے گا؟‘‘ اسی طرح ان کا موقف تھا کہ ’’بابری مسجد سے مسلمانوں کو دست بردار ہونا چاہیے، اور وہاں پر ایک عالی شان رام مندر بنانے میں معاونت کرنی چاہیے‘‘۔ خان صاحب کی اس تجویز یا خواہش کے مطابق اب تو اس جگہ پر رام مندر کی تعمیر ہو رہی ہے۔ لیکن کیا اس سے قوم پرست ہندوؤں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت میں کمی واقع ہوئی ہے؟ بلکہ وہ تو اب شیرہوکر دیگر مساجد کو بھی مندر بنانے کا مطالبہ کررہے ہیں۔

کشمیری مسلمانوں کے ساتھ تو سچ پوچھئے خان صاحب کو خدا واسطے کا بیر تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’بجائے آزادی کی تحریک کے، ان کو اپنے کردار و تبلیغ سے وہاں موجود سات لاکھ بھارتی فوجیوں اور نیم فوجی دستوں تک اسلام کا پیغام پہنچانا چاہیے‘‘۔ یاد رہے، خان صاحب کے رسالے الرسالہ کی سب سے زیادہ فروخت کشمیر میں ہی ہوتی تھی۔ بلاشبہہ کچھ لوگ تو واقعی خریدتے تھے، مگر کشمیریوں کے گھروں کی تلاشی آپریشنوں کے دوران بھارتی فوج اور نیم فوجی دستوں کے ساتھ آئے ہوئے انٹیلی جنس کے افراد اس رسالے کو نوجوانوں میں بانٹتے بھی تھے۔ سوپور کی جامع مسجد کے پاس بارڈر سکیورٹی فورس کا بینکر تھا۔ ایک روز نماز جمعہ سے قبل مسجد میں داخل ہونے والوں کو بینکر کا ایک سپاہی الرسالہ اور مولانا کا ایک تحریر کردہ پمفلٹ بانٹ رہا تھا اور تاکید کر رہا تھا کہ ’’اس اسلام کو اپنا کر پاکستان والا اسلام ترک کردیں‘‘۔ میرے لیے اس سپاہی کے ساتھ بحث کا تو کوئی موقع نہیں تھا، مگر دہلی واپس آکر میں نے یہ واقعہ براہِ راست مولانا صاحب کے گوش گزار کیا۔ انھوں نے میری اس آنکھوں دیکھی رُوداد کے جواب میں کہا: ’’کشمیریوں نے میر سید علی ہمدانی کے مشن کو فراموش کردیا ہے‘‘۔

یہ غالباً ۲۰۱۵ءکی بات ہے کہ جموں وکشمیر کی قانون ساز اسمبلی کے ایک رکن انجینئر عبدالرشید کچھ کشمیری صحافیوں کے ہمراہ دہلی آئے۔ انھوں نے مولانا صاحب سے ملاقات کا شرف حاصل کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ چونکہ بطور ممبر اسمبلی وہ کشمیر میں بھارتی جمہوریت کا ایک چہرہ تھے، اسی لیے ان کا اصرار تھا کہ ’’مولانا صاحب سے جموں و کشمیر کی صورت حال کے بارے میں رائے معلوم کر کے ان کے وسیع تجربے سے کچھ مفید اور قابل عمل اقدامات کے لیے ہم رہنمائی حاصل کریں گے‘‘۔ خیر ان کی کوٹھی پر پہنچ کر پہلے تو ہم نے درس میں شرکت کی۔ نمازِ ظہر تک مولانا کی تقریر اور    سوال و جواب کا دل چسپ سلسلہ جاری رہا۔ اس کے بعد مولانا صاحب نے انجینئر عبدالرشید صاحب کے ساتھ گرم جوشی سے مصافحہ کیا اور بھارتی آئین کے تحت کشمیر اسمبلی میں رکنیت حاصل کرنے پر ان کو سراہا۔ علیک سلیک کے بعد ممبر اسمبلی نے مولانا کی توجہ کشمیر کی صورت حال، خاص طور سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی جانب مبذول کراتے ہوئے مسئلہ کشمیر کے پائیدار حل کے حوالے سے ان کا نقطۂ نظر جاننا چاہا۔ مولانا نے مسئلہ کشمیر کا صرف ایک ہی حل بتایا کہ ’’کشمیری ’امن‘ کا راستہ اپنائیں، لیکن اس سے پہلے انھیں یہ بات تسلیم کرنا ہوگی کہ گذشتہ کئی عشروں کے دوران ان کی جد و جہد غلط تھی‘‘۔ عبدالرشید صاحب نے مولانا سے عرض کیا کہ’’ امن کی خواہش کشمیریوں سے زیادہ کسی اور کو نہیں ہوسکتی، لیکن انصاف کے بغیر امن کا قیام کیسے ممکن ہے؟‘‘ تو مولانا صاحب نے فرمایا کہ ’’انصاف کو امن کے ساتھ جوڑنا آپ لوگوں کی ذہنی اختراع ہے‘‘۔

مولانا صاحب کے بقول: ’’کشمیر کا بھارت کے ساتھ الحاق حتمی ہے اور اس کو متنازعہ کہنے والے غیر حقیقت پسند ہیں‘‘۔ ممبر اسمبلی نے ان سے سوال کیا کہ ’’جموں وکشمیر کے تنازعے کو تو خود بھارتی لیڈر ہی اقوام متحدہ میں لے گئے تھے، اس میں کشمیریوں کا کیاقصور ہے؟ وہ بے چارے تو صرف وعدہ پورا کرانے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں‘‘۔ یہ بات سننا تھا کہ مولانا صاحب غصّے سے لال پیلے ہوگئے اور ہال چھوڑ کر دوسرے کمرے میں چلے گئے۔ کچھ منٹ انتظارکے بعد ہم بھی وہاں سے واپس چلے آئے۔

انڈین سپریم کورٹ کی طرف سے ۱۹۹۵ءمیں ’ہندو توا‘ کو مذہب کے بجائے بھارتی کلچر کی علامت اور ایک نظریۂ زندگی قرار دینے کے پیچھے مولانا کی سوچ کارفرما تھی۔ ۱۹۹۰ءکے انتخابات میں مہاراشٹرا میں شیو سینا کے لیڈر بال ٹھاکرے [م:۲۰۱۲ء]، منوہرجوشی [پ:۱۹۳۷ء] اور کئی دیگر اراکین کی طر ف سے انتخابی جلسوں میں ہندو ووٹروں کو لبھانے کے لیے مذہبی نعرے اور مذہبی شعار کے کھلم کھلا استعمال کرنے پر ’ری پرزنٹیشن آف دی پیپلز ایکٹ ۱۹۵۱ء‘  کے تحت ان کو ناا ہل قرار دیتے ہوئے، انتخابات لڑنے پر پابندی عائد کی گئی، جس کو بمبئی ہائی کورٹ نے درست قرار دیا۔ لیکن جب یہ مقدمہ سپریم کورٹ میں پہنچا ، جہاں جسٹس جے ایس ورما [م:۲۰۱۳ء] کی قیادت میں ایک بنچ نے ہندو انتہا پسندوںکے گورو دمودر ساورکر [م:۱۹۶۶ء]، ایم ایس گولوالکر [م:۱۹۷۳ء]کی تصنیفات سے استدلال کرنے کے بجائے مولانا وحیدالدین خان کی تحریروںپر تکیہ کر کے ’ہندو توا‘ کو نظریۂ زندگی قرار دے کر ہندو انتہا پسندی کو جواز فراہم کردیا۔

اس کیس کی سماعت کے دوران ہی معروف قانون دان اے جی نورانی صاحب کی دلیل تھی کہ ’’عدالت مولانا وحید الدین خان کی تحریروں کی غلط تشریح کر رہی ہے‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’مولانا اگرخود عدالت میں پیش ہو کر یا کسی تحریر کے ذریعے یہ موقف اختیار کریں، تو شاید کورٹ کو  ساورکر یا ایم ایس گولوالکر کو ریفر کرنا پڑے گا‘‘۔ عدالت کا یہ فیصلہ بہت دُور رس اہمیت کا حامل تھا۔ اسی فیصلے نے انتخابی جلسوں میں ’جے شری رام‘ کے نعروں کوجواز بخش کر بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیے ہندو ووٹروں کو لام بند کرنے کا کام کیا۔ اگرچہ مولانا وحیدالدین خان صاحب کا نجی محفلوں میں یہ موقف تو تھا کہ ’’میری تحریروں کی غلط تشریح ہو رہی ہے‘‘، لیکن اپنی تحریروں کی درست تعبیروتشریح کے لیے کبھی کوئی عملی قدم انھوں نے کیوں نہیں اٹھایا؟ یہ معاملہ اُن کے دم واپسیں تک ایک راز ہی رہا۔ بقول نورانی صاحب اسی فیصلے کی وجہ سے بطور انعام جسٹس ورما کو دو سال بعد چیف جسٹس اور بعد میں قومی انسانی حقوق کمیشن کا چیئرمین مقرر کیا گیا اور اٹل بہاری واجپائی کی زیر قیادت بی جے پی حکومت نے مولانا وحیدالدین صاحب کو ۲۰۰۰ء میں تیسرا اعلیٰ سویلین ایوارڈ’پدما بھوشن‘ سے سرفراز کیا۔ جنوری ۲۰۲۱ء میں وزیراعظم نریندر مودی حکومت نے ان کو ’پدما و بھوشن‘ سے نوازا۔

ہندو فسطائی تنظیموں ، خاص طور پر آر ایس ایس کے ساتھ ان کے خاصے دوستانہ تعلقات تھے۔ اگرچہ ایسے سماجی تعلقات رکھنا کوئی غلط بات نہیں ہے، مگر مولانا اس دوستی میں بہت دُور نکل گئے تھے۔ تقریباً بیس برس قبل آر ایس ایس کے ایک چوٹی کے لیڈراور ویشوا ہندو پریشد کے جنرل سیکرٹری پروین بائی توگڑیا سے گفتگو کرتے ہوئے ایک بار میں نے پوچھا کہ ’’ مسلمان ، جو بھارت کے مکین ہیں، ان کے مستقبل کے بار ے میں آپ کی کیا رائے ہے؟‘‘ تو ان کا کہنا تھا کہ ’’مسلمانوں سے ہم کو کوئی شکایت نہیں ہے، اگر وہ ہندو جذبات کا خیال رکھیں‘‘۔ میں نے پوچھا کہ ’’ہندو جذبات سے آپ کی کیا مراد ہے؟‘‘ان کا کہنا تھاکہ ’’ہندو کم و بیش ۳۲کروڑدیو ی دیوتائوں پر یقین رکھتے ہیں۔ ہمارے لیے یہ کوئی ناک کا مسئلہ نہیں کہ ہم پیغمبر اسلام کی بھی اسی طرح عزت افزائی کریں۔ مگر مسلمان اس کی اجازت نہیں دیتے ہیں، اور نہ اپنے یہاں کسی ہندو دیوی دیوتا کی تصویر یا مورتی رکھتے ہیں‘‘۔ اپنے دفتر کی دیوار پربابا گورو نانک اور گورو گوبند سنگھ کی لٹکتی تصویر اور کونے میں مہاتما بدھ اور مہاویر کی مورتیوںکی طرف اشارہ کرتے ہوئے انھوںنے کہا کہ ’’یہ دیکھو، دوسرے مذاہب، یعنی سکھوں، بدھوں اور جینیوں نے ہندو ئوں کے ساتھ رہنے کا سلیقہ سیکھا ہے، جو مسلمانوں کو بھی سیکھنا پڑے گا‘‘۔

گجرات فسادات کے بعد ۲۰۰۲ء میں، ایک مسلم وفد آر ایس ایس کے اُس وقت کے سربراہ کے ایس سدرشن [م:۲۰۱۲ء] سے ملنے، ان کے صدر دفتر ناگ پور گیا، جس میں اعلیٰ پایہ کے مسلم دانش ور شامل تھے۔ ملاقات کا مقصد ملک میں بڑھتی ہوئی نسل پرستی کو کم کرنے کے لیے اُن کے سامنے مسلمانوں کا نقطۂ نظر رکھنا تھا۔اس وفد کے ایک رکن کے بقول ’’جب ہم نے سدرشن صاحب سے پوچھا کہ کیا مسلمانوں اور ہندوؤں میں مفاہمت نہیں ہوسکتی ہے؟ اور کیا رسہ کشی کے ماحول کا جواب، دوستانہ ماحول سے نہیں دیا جاسکتا ہے؟‘‘ تو اس کے جواب میں کے سدرشن صاحب نے مسلم وفد کو بتایا ’’آر ایس ایس جیسی شدت پسند تنظیم مسلمانوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرسکتی ہے، لیکن اس کے لیے ایک شرط ہے، اور وہ یہ ہے کہ آپ لوگ (مسلمان) کہتے ہو کہ اسلام ہی برحق اور سچا دین ہے۔ آپ ایسا کہنا چھوڑ دیجیے اور کہیے کہ اسلام بھی برحق اور سچا دین ہے تو ہماری آپ کے ساتھ مفاہمت ہوسکتی ہے‘‘۔ ’اسلام ہی حق ہے‘ کے بجائے اسلام بھی حق ہے، کا مطالبہ کرنا بظاہر ایک معمولی بات ہے اور یہ مطالبہ اب فرقہ پرست ہی نہیں، بلکہ خود ساختہ لبرل مسلمانوں کی طرف سے بھی کیا جانا شروع ہوچکا ہے۔ مگر غور کرنے کا مقام ہے کہ ا س مطالبے کو ماننے سے خود ایمان کی بنیادوں کا کیا حشر ہوگا! آر ایس ایس کی ایسی فکری یلغار کا جواب دینے کے لیے مولانا وحیدالدین خان صاحب نے کیا کبھی کوئی عملی قدم اُٹھایا؟ یہ بات اسلامیانِ ہند کے علم میں نہیں ہے۔

مولانا وحیدالدین، سہل اور سائنسی اندازِ تحریر اور امن و امان پر زور صرف کرنے کی وجہ سے بھارتی میڈیا کے بھی لاڈلے تھے۔ جب کبھی ادارتی صفحات کے ایڈیٹروں کو اسلام کے حوالے سے مضمون کی ضرورت ہوتی تو ان کی جانب سے حکم ملتا تھا کہ’’ مولانا وحیدالدین سے رابطہ کرکے ان سے مضمون لکھوایا جائے‘‘۔اگر کبھی مولانا کے بجائے میں ان کے فاضل صاحبزادے اور ملّی گزٹ کے ایڈیٹر ڈاکٹر ظفرالاسلام خاں صاحب کا نام تجویز کرتا تو ادارتی صفحے کے انچارج پارسا وینکٹیشورا راوہ اور مونوبینا گپتا، انکار کرتے ہوئے مولانا ہی کے مضمون پر اصرار کرتے تھے۔

اپنی تعلیم ختم ہونے کے بعد میں نوکری کی تلاش میں تھا، تو ایک دن خان صاحب سے درخواست کی کہ اردو اخبار قومی آواز میں رپورٹر کی جگہ خالی ہے، شاید آپ کی سفارش سے کام بن جائے، تو ان کا جواب تھا کہ ’’کبھی اردو اخبار کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھنا‘‘۔ انھوں نے کہا کہ ’’کسی انگریزی اخبار میں اگر چپراسی کی بھی نوکری کرنی پڑے تو اس کو فوقیت دینا‘‘۔ اسی طرح ایک بار علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے سابق وائس چانسلر سیّد حامد [م: ۲۰۱۴ء] اور مولانا سیّد ابو الحسن علی ندوی [م:۱۹۹۹ء] نے ملک گیر سطح پر چندہ جمع کرکے مسلمانوںکے ایک قومی انگریزی اخبار کی اشاعت کا بیڑا اُٹھایا۔ یہ اخبار پہلے ہفتہ وار One Nation Chronicle اور بعد میں ماہ نامہ کی صورت میں Nation and The World کے نام سے منظر عام پر آکر غروب بھی ہو گیا۔ تاہم، اس کی تیاری کے دوران میں نے اس پرچے میں ملازمت کے لیے مولانا صاحب سے سفارش کی درخواست کی۔ جواب میں انھوں نے کہا کہ ’’یہ اخبار زیا دہ دیر چلنے والا نہیں ہے۔ بس انگریزی مین اسٹریم میڈیا کا دامن تھام کر جرنلزم کی سیڑھیاں طے کر لو‘‘۔ سوچتا ہوں کہ ان کا مشورہ نہایت ہی مناسب تھا۔

وہ مسلم مخالف ہندوتنظیموں اور مسلمانوں کے درمیان رابطے کا ایک ذریعہ ہوسکتے تھے  اور شاید وہ کوئی بڑا رول بھی ادا کرسکتے تھے، مگر افسوس، اکثر معاملات میں وہ خاصے دُور چلے گئے تھے۔ جس میانہ روی کی و ہ تلقین کرتے تھے، وہ خود ان کے ہاں موجود نہیں تھی۔ کبھی یوں محسوس ہوتا تھا کہ وہ اپنے موقف کی آبیاری کے لیے بی جے پی کے آلۂ کار بنے ہوئے تھے اور اپنے دعووں کو اسی سانچے میں ڈھالنے کی کوششیں کرتے تھے۔وَاللہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ۔ دعا ہے کہ اللہ ان کی لغزشوں کو معاف کرکے، ان کی مغفرت فرمائے۔