افتخار گیلانی


 وزیر اعظم نریندر مودی حکومت نے ۵؍اگست ۲۰۱۹ء میں جموں و کشمیر کی آئینی خود مختاری ختم اور ریاست کو تحلیل کرکے مرکز کے زیر انتظام دو علاقے بنانے کا جو قدم اُٹھایا تھا،اس کے خلاف دائر کی گئی درخواستوں پر فی الوقت بھارتی سپریم کورٹ روزانہ سماعت کر رہی ہے۔ پیر اور جمعہ چھوڑ کر ہفتے کے بقیہ تین دنوں میں سپریم کورٹ کا پانچ رکنی آئینی بینچ صرف اسی مقدمے کی سماعت کر رہا ہے۔ ۲؍اگست ۲۰۲۳ء کو جب سماعت شروع ہوئی، تو چیف جسٹس ، جسٹس دھنن جے یشونت چندرا چوڑ نے اعلان کیا کہ ’’اس ایشو پر کُل ۶۰گھنٹے کی سماعت ہوگی‘‘۔ اس لیے اگست کے آخر تک سماعت مکمل ہونے کا امکان ہے۔

اس مقدمے کا فیصلہ جو بھی ہو ، مگر وکیلوں کے دلائل، ججوں کے سوالات اور کورٹ میں جمع کرایا گیا تحریری مواد ، کشمیر کے موضوع سے دلچسپی رکھنے والوں کے علاوہ قانون و سیاست کے کسی بھی طالب علم کے لیے ایک بڑ ا خزانہ ہے۔ عدالت میں۱۳ہزار ۵ سو ۱۵ صفحات پر مشتمل دستاویزات کے علاوہ ۲۸جلدوں پر مشتمل ۱۶ ہزار ایک سو۱۱ صفحات پر مشتمل کیس فائلز دائر کی گئی ہیں۔ کئی شہرۂ آفاق کتابیں Oxford Constitutional Theory, The Federal Contract اور The Transfer of Power by V P Menonکی جلدیں بھی کورٹ کے سپرد کردی گئی ہیں اور وکلا دلائل کے دوران ان کے نظائر اور شواہد پیش کر رہے ہیں۔ لیکن جس کتاب کے حوالوں کو سب سے زیادہ عدالت اور وکلا نے سوالات یا دلائل کے دوران استعمال کیا ہے وہ شہرۂ آفاق مصنف اے جی نورانی کی مدلل کتاب: Article 370: Constitutional History of Jammu and Kashmir  ہے۔ بطور ایک ریسرچر کے اس کتاب میں تحقیقی معاونت سے منسلک ہونے کا مجھے اعزاز حاصل ہے۔

معروف وکیل کپل سبل نے ۲؍اگست کو بحث کا آغاز کرتے ہوئے ججوں کو یاد دلایا: ’’ یہ ایک تاریخی لمحہ ہے۔ تاہم، اس کیس کی سماعت کا آغاز کرنے میں عدالت کو پانچ سال لگے۔ یہ اس لیے بھی تاریخی ہے کہ پچھلے پانچ برسوں کے دوران میں، جموں و کشمیر میںکوئی نمایندہ حکومت نہیں ہے‘‘۔ اس کے بعد کپل سبل نے ترتیب زمانی کے ساتھ تاریخوں کی ایک فہرست پڑھی، جس میں ان عوامل کی نشاندہی کی گئی کہ جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ کیوں دیا گیا تھا؟ انھوں نے کہا: ’’کشمیر کے لیے ایک علیحدہ ستور ساز اسمبلی تشکیل دی گئی تھی۔ پارلیمنٹ خود کو دستور سا ز اسمبلی میں تبدیل نہیں کرسکتی۔ جب ایک بار آئین منظور ہو جاتا ہے، تو ہر ادارہ اس پر عمل کرنے کا پابند ہوتا ہے۔

۱۸۴۶ء کے ’معاہدۂ امرتسر‘ سے لے کر ۱۹۴۷ء کی ’دستاویزالحاق‘ کی شقوں کو بنیاد بنا کر کپل سبل نے تقریباً ڈھائی دن تک بحث کی۔ انھوں نے گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن کا وہ خط بھی پڑھا، جس میں انھوں نے الحاق کے سوال کو عوامی رائے کے ذریعے طے کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ ان دستاویزات کے مطابق، بھارت کی دیگر ریاستوں کے لیے وفاق کے پاس جو اختیارات ہیں، ان کے برعکس ،بقیہ اختیارات جموں و کشمیر ریاست کے پاس ہی ہیں۔ انھوں نے مزید کہا:میرا نکتہ یہ ہے کہ، حکومت ہند اور ریاست کے درمیان ایک مفاہمت تھی کہ ان کی ایک آئین ساز اسمبلی ہوگی جو مستقبل کے لائحہ عمل کا تعین کرے گی‘‘۔

کپل سبل نے کہا: اس لیے آرٹیکل ۳۷۰ ایک عارضی انتظام تھا، کیونکہ یہ جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کو طے کرنا تھا کہ وہ اس کو مستقل بنیادوں پر رکھنا چاہتی ہے یا منسوخ کرنا چاہتی ہے؟ اس دوران چیف جسٹس نے بار بار پوچھا کہ ’’آئین ساز اسمبلی تو سات سال کی مدت ختم کرنے کے بعد اس دفعہ پر کوئی فیصلہ کرنے سے قبل ہی تحلیل ہوگئی ، تو ا ب اس دفعہ کی ترمیم وغیرہ کے لیے کیا طریقۂ کار ہے؟‘‘ سبل نے استدلال پیش کیا کہ ’’چونکہ جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کا وجود ختم ہو گیا ہے، اس لیے آرٹیکل ۳۷۰ کو منسوخ نہیں کیا جا سکتا۔ لہٰذا، آرٹیکل ۳۷۰ کی شق (۳) ناقابل اطلاق ہو جاتی ہے‘‘۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ’’ اگر سبل کی طرف سے پیش کردہ استدلال کو مدنظر رکھا جائے تو آرٹیکل ۳۷۰، جو کہ ایک 'عبوری پروویژن ہے، مستقل پوزیشن کا کردار ادا کرتا ہے کیونکہ اب کوئی آئین ساز اسمبلی موجود نہیں ہے‘‘۔ جسٹس کانت نے یہ بھی استفسار کیا کہ آرٹیکل ۳۷۰ کو کیسے عارضی سمجھا جا سکتا ہے جب یہ دلیل دی جاتی ہے کہ اس دفعہ کو کبھی منسوخ نہیں کیا جا سکتا؟‘‘ جسٹس کھنہ کے مطابق: ’’جس مسئلے پر توجہ دینا باقی ہے وہ یہ ہے کہ کیا آرٹیکل ۳۷۰ کی عارضی نوعیت، جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کی موروثی عارضی نوعیت سے ہم آہنگ ہے؟یعنی، ایک بار جب جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کا وجود ختم ہو گیا، کیا آرٹیکل ۳۷۰ کی شق (۳)، جو آرٹیکل ۳۷۰ کو منسوخ کرنے کی اجازت دیتی ہے، ناقابل عمل بن جاتی ہے؟‘‘

بحث کے دوسرے د ن کپل سبل نے عدالت کو بتایا:’’ آرٹیکل ۳۷۰(۱) کی شق (b )(i) بھارتی پارلیمنٹ کے وفاق کے تحت جموں و کشمیر کے لیے قانون بنانے کے اختیارات کو محدود کرتی ہے اور بھارتی آئین کے ساتویں شیڈول کی کنکرنٹ لسٹوں میں الحاق کی دستاویز میں مذکور مضامین کے سلسلے میں جموں و کشمیر حکومت کی ’مشاورت‘ کا لفظ درج ہے۔ دوسری طرف، آرٹیکل ۳۷۰(۱) کی شق (b) (ii)، پارلیمنٹ کو یونین کے تحت جموں و کشمیر کے لیے قانون بنانے کے اختیار میں توسیع کرتی ہے اور آئین کے ساتویں شیڈول کی کنکرنٹ لسٹیں معاملات کا احترام کرتی ہیں۔

اس سماعت کے آغاز میں، چیف جسٹس نے آرٹیکل ۳۷۰ پر چند مشاہدات پیش کیے: آرٹیکل ۳۷۰(۱) کی شق (b) پارلیمنٹ کو ریاست جموں و کشمیر کے لیے قانون بنانے کا اختیار نہیں دیتی۔ یعنی قانون بنانے کااختیار آرٹیکل ۳۷۰(۱)کے علاوہ کہیں اور ہے۔اس بحث میں حصہ لیتے ہوئے جسٹس کول نے کہا کہ آرٹیکل ۳۷۰(۱) کی شق (b) ایک محدود شق ہے۔ مزید یہ کہ آرٹیکل ۳۷۰(1) کی شق (b) (i) کے تحت جموں و کشمیر کے لیے قانون بنانے کی بھارتی پارلیمنٹ کی طاقت دو چیزوں پر محدود ہے۔سب سے پہلے، پارلیمنٹ کا دائرہ جموں و کشمیر پر لاگو قوانین بنانے کا اختیار صرف 'یونین اور کنکرنٹ لسٹ کے معاملات تک محدود ہے۔دوسرا، حکومت جموں و کشمیرکے ساتھ مشاورت یونین اور کنکرنٹ لسٹوں میں ایک شرط ہے جو دستاویز الحاق کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے۔ یعنی جموں و کشمیر سے متعلق کسی بھی معاملے میں ریاستی حکومت کی آمادگی اور رائے کی ضرورت ہے۔

دوسرا، یہاں تک کہ اگر صدر کوئی استثنیٰ اور ترمیم نہیں کر رہے ہیں، لیکن ہندستانی آئین کی کچھ شقوں کو جموں و کشمیر پر لاگو کیا جا رہا ہے، تب بھی جموں و کشمیر حکومت کی مشاورت یا 'اتفاق رائے کی ضرورت ہے۔ جسٹس کول نے یہ مسئلہ بھی اٹھایا کہ اگر دفعہ ۳۷۰ کا کوئی مستقل کردار نہیں ہے، تو پھر اس کو کس طریقے سے ختم کیا جا سکتا ہے اور کیا جو طریقۂ کار اپنایا گیا، وہ درست تھا؟‘‘

سبل کی دلیل تھی کہ آرٹیکل ۳۷۰ مختلف مراحل سے گزرا ہے۔ اس کا آغاز ایک عبوری انتظام کے طور پر ہوا، جس میں جموں و کشمیر میں ایک دستور ساز اسمبلی تشکیل کرنے کی سہولت فراہم کی گئی تھی۔ جب ایک بار جموں و کشمیر کی دستور ساز اسمبلی نے جموں و کشمیر کا ایک آئین بنا کر اپنا مقصد پورا کر لیا، جس میں ہندستانی آئین کے آرٹیکل ۳۷۰ کی توثیق کرنے والی مخصوص اور واضح دفعات موجود تھیں ، اس کے تحلیل ہونے کے بعد آرٹیکل ۳۷۰'منجمدہو گیا۔اس طرح اس دفعہ کے مستقل کردار کو قبول کیا گیا۔ اس کے بعد، سبل نے عرض کیا کہ جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی کےپاس ہندستانی آئین کے آرٹیکل ۳۷۰ کی شق (۳) کے تحت جموں و کشمیر کو دیے گئے اختیارات کو منسوخ کرنے کا اختیار نہیں ہے، کیونکہ اس طرح کے اختیارات کو منسوخ کرنے کا اختیار صرف آئین ساز اسمبلی کو دیا گیا تھا۔

جب جسٹس کول نے پوچھا کہ کیا ہندستانی پارلیمنٹ کے پاس ایسا کرنے کا اختیار ہے، تو سبل نے جواب دیا کہ یہ طے شدہ قانون ہے کہ قانون ساز ادارہ کسی ایسے اختیارپر مداخلت نہیں کرسکتا، جو پہلے اس کے پاس نہیں تھا، جیسا کہ سپریم کورٹ نے ایس آر بومائی بمقابلہ میں مشاہدہ کیا تھا۔اب سوال یہ تھا کہ کیا پارلیمنٹ آئین ساز اسمبلی کا کردار ادا کرسکتی ہے؟ اس پر چیف جسٹس نے خود ہی کہا کہ جب پارلیمنٹ آئین میں ترمیم کرتی ہے، تب بھی وہ آئین ساز اسمبلی کے اختیارات کا استعمال نہیں کر رہی ہوتی، بلکہ ایک جزوی طاقت کا استعمال کرتی ہے۔ جسٹس چندر چوڑ نے استدلال دیاکہ پارلیمنٹ اور آئین ساز اسمبلی دوالگ الگ ادارے ہیں اور پارلیمنٹ کے لیے خود کو آئین ساز اسمبلی میں تبدیل کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

سماعت کے تیسرے دن سبل نے عدالت کو بتایا: جموں و کشمیر کے گورنر ، جو خود ہی وفاق کا نمایندہ ہے کے ذریعے خصوصی حیثیت کو چھین لیا گیا اور بتایا گیا کہ ریاست کے ساتھ مشاورت کی گئی ہے۔ جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعظم شیخ عبداللہ کی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے، سبل نے نشاندہی کی کہ اگرچہ آرٹیکل ۳۷۰ کو ایک عارضی شق قرار دیا جاتا ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ دفعہ ۳۷۰ کو 'یک طرفہ طور پر منسوخ، ترمیم یا تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ ۱۱؍ اگست ۱۹۵۲ء کی تقریر میں شیخ عبداللہ نے کہا تھا کہ آرٹیکل ۳۷۰ کی عارضی نوعیت جموں و کشمیر اور یونین آف انڈیا کے درمیان آئینی تعلقات کو حتمی شکل دینے کے پہلو میں ہے، جس کا اختیار خاص طور پر جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کے پاس ہے۔ ہندستان کے آئین نے یونین کے اختیارات کے دائرہ کار اور دائرہ اختیار کو الحاق کی شرائط کے ذریعے محدود کر دیا ہے ۔شیخ عبداللہ نے کہا کہ آرٹیکل ۳۷۰ ہندستان کے ساتھ ہمارے تعلقات کی بنیاد ہے۔ اس میں چھیڑ چھاڑ ، ہماری ریاست کی ہندستان کے ساتھ وابستگی پر اثر انداز ہو سکتی ہے اور اس کے سنگین نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ یہ بھی شیخ عبداللہ نے کہا کہ یہ دو حکومتوں کے درمیان معاہدے کی طرح ہے۔

 سبل نے دلیل دی کہ دونوں خودمختارریاستوں یا مملکتوں کے ذریعے طے شدہ اور دستخط شدہ معاہدے کی ایک توقیر ہوتی ہے اور اس کو ختم نہیں کیا جاسکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کو جو کچھ ہوا، وہ ایک صدارتی حکم کے تحت کیا گیا۔ اس صدارتی آرڈرکے جاری ہونے سے پہلے راجیہ سبھا میں ایک قرارداد پیش کی گئی تھی، جس کے ذریعے جموں و کشمیر کی تنظیم نو کرکے اس کو دولخت کردیا گیا، جب کہ ضابطے میںیہ طے ہے کہ ریاست جموں و کشمیر کے نام یا حدود کو تبدیل کرنے والا کوئی بل ریاستی مقننہ کی رضامندی کے بغیر پارلیمنٹ میں پیش نہیں کیا جاسکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ گورنر ایک 'مکمل اتھارٹی نہیں ہے بلکہ ایک آئینی مندوب ہے۔سبل نے سوال کیا: اگر صدر مرکزی کابینہ کی مدد اور مشورے کے بغیر پارلیمنٹ کو تحلیل نہیں کر سکتے تو گورنر اس اختیار کا استعمال کیسے کر سکتا ہے؟سبل نے اپنی گذارشات کو یہ کہتے ہوئے ختم کیا:جموں و کشمیر کے لوگوں کی آواز کہاں ہے؟ کہاں ہے نمایندہ جمہوریت کی آواز؟ پانچ سال گزر چکے ہیں ۔ انھوں نے دوبارہ کہا کہ عدالت اس وقت تاریخ کے ایک کٹہرے میں ہے۔ امید کی جا سکتی ہے کہ عدالت خاموش نہیں رہے گی بلکہ عدل و انصاف کی گواہی دے گی۔

سبل کی تقریباً تین دن تک محیط اس بحث کے بعد سینیر وکیل گوپال سبرامنیم نے دلائل کا آغاز کیا۔ انھوں نے اس سے بحث شروع کی کہ بھارتی آئین کی طرح ، جموں و کشمیر کا بھی اپنا آئین ہے ، جو ۱۹۵۷ءمیں آئین ساز اسمبلی نے تشکیل دیا۔ انھوں نے کہا کہ دفعہ ۳۷۰کے ذریعے دونوں آئین ایک دوسرے سے مطابقت پیدا کرتے ہیں۔ سبرامنیم نے دوسرا نکتہ یہ پیش کیا کہ موجودہ کیس میں، عدالت کا تعلق صرف ایک نہیں بلکہ دو آئین ساز اسمبلیوں کے مینڈیٹ سے ہے، یعنی ہندستان کی دستور ساز اسمبلی اور جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی۔سبرامنیم نے آئین سے متعلق ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کی تعارفی تقریر کا حوالہ دیا، جس میں کہا گیا ہے کہ ہندستانی آئین کا وفاقی ڈھانچا ریاست میں لوگوں کو خصوصی حقوق اور مراعات دینے کی اجازت دیتا ہے۔

سبرامنیم نے کہا کہ عدالت کو اس حقیقت کو دھیان میں رکھنا چاہیے کہ ’’جموں و کشمیر کسی دوسری ریاست کی طرح نہیں تھا‘‘۔انھوں نے اس دلیل کو یہ بتاتے ہوئے واضح کیا کہ دیگر راجواڑوں کے برعکس، جموں و کشمیر کا اپنا ۱۹۳۹ء کا آئین تھا، یہاں تک کہ ہندستان کے تسلط کے ساتھ الحاق کے معاہدے پر دستخط کرنے سے پہلے بھی وہاں ایک پرجا پریشد تھی۔ انھوں نے جموں و کشمیر کی دستور ساز اسمبلی کے مباحثوں کی اہمیت پر زور دیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ یہ جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی تھی جس نے آرٹیکل ۳۷۰(۱)(d) کے تحت ہندستان کو ۱۹۵۰، ۱۹۵۲ء اور ۱۹۵۴ء کے صدارتی احکامات کے ذریعے جموں و کشمیر پر ہندستانی آئین کے اطلاق کے سلسلے میں کچھ مستثنیات کو لاگو کرنے کی دعوت دی۔

سبرامنیم نے کہا کہ ہندستان ان صدارتی احکامات کی پابندی کرنے پر راضی ہے۔    واضح رہے کہ ۱۹۵۴ء کے صدارتی حکم نامے کی، جس نے پہلے کے احکامات کی جگہ لے لی تھی، بالآخر جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی نے توثیق کی۔ اس طرح جموں و کشمیر کی دستور ساز اسمبلی نے ایک رسمی قرارداد منظور کی جس میں کہا گیا کہ ہندستان کو ۱۹۵۴ء کے صدارتی حکم کی پابندی کرنی چاہیے اور اسے آرٹیکل ۳۷۰ کی شق (۱) اور شق (۳) کے ساتھ جاری رہنا چاہیے۔ اس دوران سبرامنیم نے خود سپریم کورٹ کے ہی پچھلے فیصلوں کا حوالہ دیا۔ انھوں نے کہا کہ اگر آرٹیکل ۳۷۰ کو منسوخ کرنا جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کا مینڈیٹ نہیں تھا اور ریاستی مقننہ کے ذریعے منسوخی کا اختیار کبھی بھی استعمال نہیں کیا جاسکتا ہے، تو ایسا کوئی طریقہ نہیں ہے کہ وفاق یا پارلیمنٹ خود کو ریاست کی آئین ساز اسمبلی میں تبدیل کرکے اس دفعہ کو منسوخ کرادے۔

سبرامنیم ، جو لندن سے آن لائن دلائل دے رہے تھے، ان د س گھنٹے کی بحث کے بعد پوڈیم جموں و کشمیر کے معروف وکیل ظفر شاہ نے سنبھالا۔ انھوں نے وضاحت کی کہ آرٹیکل ۳۷۰ نے جموں و کشمیر کے آخری ڈوگرہ مہاراجا، مہاراجا ہری سنگھ کے ذر یعے دستاویز الحاق میں درج اختیارات کو برقرار رکھا۔انھوں نے کہا کہ مہاراجا نے جموں و کشمیر کا ہندستان کے ساتھ الحاق کیا تھا مگر انضمام کا کوئی معاہدہ عمل میں نہیں آیا تھا۔انھوں نے الحاق اور انضمام کی تشریح کی۔ شاہ نے کہا کہ چونکہ انضمام کے کسی معاہدے پر دستخط نہیں ہوئے تھے، جموں و کشمیر نے اپنی آئینی خودمختاری کو برقرار رکھا۔ انھوں نے مزید کہا کہ قانون بنانے کے بقایا اختیارات کے ذریعے ہی ریاست نے اپنی خودمختاری کا استعمال کیا۔آرٹیکل ۳۷۰(۱) کے حوالے سے، انھوں نے کہا کہ یہ شق ہندستانی آئین کے ساتویں شیڈول کے تحت تین فہرستوں کے قوانین کے اطلاق کے بارے میں بات کرتی ہے جو جموں و کشمیر پر لاگو ہوگی۔ظفر شاہ نے واضح کیا کہ چونکہ جموں و کشمیر کے لیے تین موضوعات یعنی دفاع، خارجی امور اور مواصلات پر قانون بنانے کے لیے ہندستان کو پہلے ہی مکمل اختیارات دیے گئے تھے، اس لیے آرٹیکل ۳۷۰(۱)(i) لفظ ’مشاورت‘ کا استعمال کرتا ہے۔اس موقع پر، شاہ نے یہ بھی نشاندہی کی کہ آرٹیکل ۳۷۰(۱)(ii) یا ۳۷۰(۱)(d) میں استعمال ہونے والے اظہار ’اتفاق‘ کا مطلب ہے کہ دونوں فریقوں کو متفق ہونا پڑے گا۔انھوں نے کہا کہ انسٹرومنٹ آف ایکشن کے تحت متعین کیے گئے ہندستانی قوانین میںیہ واضح ہے کہ دونوں فریقین کا رضامند ہونا ضروری ہے۔

ظفر شاہ نے کہا کہ آرٹیکل ۳۷۰ کے تحت، یہ تصور نہیں کیا جا سکتا کہ پارلیمنٹ کوئی یک طرفہ فیصلہ کرے۔ جسٹس کھنہ نے شاہ کی اس بات کا جواب دیتے ہوئے کہ جموں و کشمیر کا ہندستان کے ساتھ انضمام مکمل نہیں ہوا، کہا کہ انضمام کا سوال 'مکمل طور پر یقینی ہے۔انھوں نے ہندستانی آئین کے آرٹیکل (۱) کا حوالہ دیا جس میں لکھا ہے کہ ہندستان ریاستوں کا ایک یونین ہے جو جموں و کشمیر کے آئین کے آرٹیکل ۳ سے مطابقت رکھتا ہے۔کھنہ نے واضح کیا کہ آرٹیکل ۳۷۰ صرف ریاستی مقننہ کو اپنے لیے قانون بنانے کا خصوصی حق دیتا ہے۔جسٹس کھنہ نے ریمارکس دیئے: مجھے مکمل انضمام کے لفظ کے استعمال پر تحفظات ہیں۔ انھوں نے مزید کہا: 'بھارتی آئین کے آرٹیکل(۱) کے لحاظ سے مکمل انضمام ہوا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے جموں و کشمیر کے ذریعے الحاق کے مسودہ پر دستخط کرنے کے بعد انضمام کی بحث ختم ہوتی ہے۔ ظفرشاہ، بنچ کے استدلال سے متفق نہیں ہوسکے۔ انھوں نے اپنے استدلال کو دہرایا کہ خودمختاری دستاویز الحاق کے ذریعے منتقل نہیں کی گئی۔ اسے صرف انضمام کے معاہدے کے ذریعے منتقل کیا جا سکتا ہے۔

اس پر چیف جسٹس نے نشاندہی کی کہ آج بھی، پارلیمنٹ کے پاس ریاستی فہرست میں اندراجات کے لیے قانون بنانے کے مکمل اختیارات نہیں ہیں لیکن اس سے اس حقیقت پر کوئی اثر نہیں پڑتا کہ بالآخر خودمختاری ہندستان کے پاس ہے۔انھوں نے مزید کہا: 'ایک بار جب ہندستانی آئین کا آرٹیکل (۱) کہتا ہے کہ ہندستان ریاستوں کا ایک یونین ہوگا، جس میں ریاست جموں و کشمیر شامل ہے، خودمختاری کی منتقلی مکمل ہوگئی تھی۔ ہم ہندستانی آئین کو ایک دستاویز کے طور پر نہیں پڑھ سکتے جو آرٹیکل ۳۷۰ کے بعد جموں و کشمیر کو کچھ خودمختاری برقرار رکھے۔اس دلیل کو آگے بڑھاتے ہوئے، چیف جسٹس نے کہا کہ لفظ ’اتفاق‘ کا استعمال جموں و کشمیر کے آئینی حوالہ جات کے لیے منفرد نہیں ہے، ہندستان کے آئین میں ’اتفاق‘ کے بہت سے مختلف شیڈز کی ضرورت ہے۔ چیف جسٹس نے ہندستانی آئین کے آرٹیکل ۲۴۶-اےکی مثال پیش کی، جو گڈز اینڈ سروسز ٹیکس (جی ایس ٹی) کے لیے جواز فراہم کرتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس دفعہ کے تحت پارلیمنٹ ریاستی مقننہ کی منظوری کے بغیر کچھ نہیں کر سکتی۔

ظفرشاہ، جنھوں نے اسی معاملے پر پھر بنچ سے کہا کہ وہ ہندستانی آئین کے آرٹیکل ۲۵۳ جو بین الاقوامی معاہدوں، معاہدوں اور کنونشنز سے متعلق ہے، میں ایک شرط شامل کی گئی، کہ ریاست جموں و کشمیر کے اختیار کو متاثر کرنے والا کوئی فیصلہ ریاست کی حکومت کی رضامندی کے بغیر انڈیا کی حکومت نہیں کرسکتی ہے۔ شاہ نے مزید کہا کہ جموں و کشمیر کی صورت حال کی ایک اندرونی اور ایک بیرونی جہت ہے اور دونوں ایک ساتھ ہندستانی آئین کے آرٹیکل ۳۰۶-اے کے مسودہ میں شامل ہیں جو کہ حتمی فیصلہ تک زیر التوا ہے۔شاہ نے اپنی دلیل کا اختتام بھارت کے سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کی۲۰۰۵ء کی سری نگر کی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے کیا کہ 'مسئلہ کشمیر کو انسانیت اور جمہوریت کے دائرے میں حل کیا جائے گا۔ شاہ نے امید ظاہر کی کہ عدالت اس بیان کی روشنی میں اپنا فیصلہ صادر کرے گی۔

شاہ کی آٹھ گھنٹے طویل بحث کے بعد ڈاکٹر راجیو دھون نے مختصر بحث میں عدالت کو بتایا کہ بھارت ایک ملک کے بجائے ایک براعظم ہے اور اس کے تنوع کے لیے خود مختاری کے انتظامات کی ضرورت ہے جیسا کہ آئین کے آرٹیکل ۳۷۰ کے تحت جموں و کشمیر میں موجود تھا۔ راجیو دھون نے دلیل دی کہ آئینی اخلاقیات تجویز کرتی ہے کہ اس طرح کے انتظامات کو محفوظ رکھا جانا چاہیے۔انھوں نے نشاندہی کی کہ بحث کے دوران چیف جسٹس نے آرٹیکل ۲۴۹ اور ۲۵۲ کا حوالہ دیا۔انھوں نے ان آرٹیکلز کے حوالے سے بینچ کی طرف سے اٹھائے گئے سوالات کو بہت اہم قرار دیا اور کہا کہ اس نے درخواست گزاروں کو 'بنیادی ڈھانچا کے خطوط پر بحث کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ بینچ نے انضمام کے معاہدوں کی حیثیت سے کئی سوالات اٹھائے ہیں۔ اس پر دھون نے کہا کہ دستاویز الحاق کی رو سے بیرونی خودمختاری ختم ہو جاتی ہے، لیکن اندرونی خودمختاری ختم نہیں ہوتی ہے۔

دھون نے نشاندہی کی کہ مہاراجا ہری سنگھ نے ہندستان کے ساتھ جوں کے توں یعنی اسٹینڈ اسٹل کے معاہدے پر دستخط نہیں کیے تھے۔اس طرح کا معاہدہ مہاراجا نے پاکستان کے ساتھ کیا تھا۔ دھون نے اپنی دلیل کو مضبوط کرنے کے لیے پریم ناتھ عدالتی فیصلہ کا حوالہ دیا کہ آرٹیکل ۳۷۰ اسٹینڈ اسٹل یا انضمام کے معاہدے کا آئینی متبادل ہے۔ انھوں نے کہا کہ دستاویز الحاق کے ذریعے مہاراجا نے اس حقیقت کو تسلیم کیا کہ جموں و کشمیر ہندستان کے تسلط کا حصہ بن چکا ہے۔ لیکن مہاراجا نے الحاق کے ذریعے اپنی خودمختاری کو منتقل نہیں کیا۔دھون نے نشاندہی کی کہ خودمختاری کی منتقلی کا عمل جزوی طور پر سیاسی وجوہ اور جزوی طور پر آرٹیکل ۳۷۰ کی وجہ سے شروع ہوا۔ انھوں نے آرٹیکل ۳ کے مندرجات کا حوالہ دے کر کہا کہ اس کی رُو سے کسی بھی ریاست کے نام یا حدود کو تبدیل کرنے والا کوئی بل ریاستی مقننہ کی رضامندی کے بغیر پیش نہیں کیا جا سکتا۔

 انھوں نے مزید کہا کہ ۱۹۵۴ء (صدارتی حکم CO 48) نے آرٹیکل ۳ میں ایک اور شرط شامل کی، جس میں کہا گیا ہے کہ جموں و کشمیر کے رقبے کو بڑھانے یا کم کرنے یا ریاست کے نام یا حدود کو تبدیل کرنے کا کوئی بل جموں و کشمیر مقننہ کی رضامندی کے بغیر ہندستانی پارلیمنٹ میں پیش نہیں کیا جاسکتا ہے۔ دھون نے سوال کیا کہ ریاستی مقننہ کی مشاورتی طاقت کو پارلیمنٹ کے ساتھ کیسے بدل دیا گیا؟دھون نے ہندستانی آئین کے آٹھویں شیڈول کے ساتھ پڑھے گئے آرٹیکل ۳۴۳ کا بھی حوالہ دیا، جو کشمیری کو ایک زبان کے طور پر تسلیم کرتا ہے۔انھوں نے اس بات کی نشاندہی کی کہ ایک ایگزیکٹو ایکٹ کے ذریعے کشمیری کو بطور زبان نہیں چھینا جا سکتا۔انھوں نے کہا کہ آرٹیکل ۳۵۶ کے تحت صدر کو جو اختیارات دیئے گئے ہیں وہ مکمل نوعیت کے نہیں ہیں۔ اختیارات کا اس حدتک استعمال اور غلط استعمال کیا گیا ہے کہ ان کے استعمال میں کچھ نظم و ضبط لازمی ہے۔ دھون نے متنبہ کیا کہ صدارتی راج کی آڑ میں جموں و کشمیر کے ساتھ جو ہوا وہ کسی اور ریاست کے ساتھ ہوسکتا ہے اگر آرٹیکل ۳۵۶ کے تحت اختیارات پر قدغن نہیں لگائی گئی۔انھوں نے دلیل دی کہ آرٹیکل ۳اور ۴ کے تحت نہ تو صدر اور نہ پارلیمنٹ ہی ریاستی مقننہ کا متبادل ہو سکتے ہیں۔

چیف جسٹس نے دھون سے سوال کیا کہ ’’کیا پارلیمنٹ آرٹیکل ۲۴۶(۲) کے تحت صدر راج کے دوران ریاست کے لیے قانون بنا سکتی ہے؟‘‘اس پر دھون نے جواب دیا: پارلیمنٹ ریاستی فہرست کے تحت قانون بنا سکتی ہے لیکن جب وہ آرٹیکل ۳ کے تحت کوئی قانون پاس کرتی ہے، تو اسے مذکورہ شرائط کی پابندی کرنی ہوگی۔انھوں نے نشاندہی کی کہ جموں و کشمیر میں ایک قانون ساز کونسل بھی تھی جسے آئینی ترمیم کے بغیر ختم نہیں کیا جا سکتا تھا۔ دھون نے کہا کہ آرٹیکل۲۴۴-اے خود مختار ریاستوں کے قیام کا انتظام کرتا ہے۔ یہ ریاستوں کی خود مختاری کو تقویت دیتا ہے جو آرٹیکل ۳۷۰ میں جموں و کشمیر کو دی گئی خود مختاری کے مطابق ہے۔دھون نے کہا کہ آئین کو اخلاقیات کے ساتھ پڑھا جانا چاہیے۔ بھارتی حکومت نے کشمیری عوام کے ساتھ جو وعدے کیے ہیں کہ ان کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق ہوگا۔ انھوں نے یاد دلایا کہ کئی مواقع پر بھارتی لیڈران نے عزم کا اظہار کیا کہ وہ رائے شماری کے ذریعے لوگوں کی مرضی جاننے کے لیے پابند ہیں بشرطیکہ پُرامن اور معمول کے حالات بحال ہوں اور رائے شماری کی غیر جانب داری کی ضمانت دی جا سکے۔ دھون نے کہا کہ ہم نے اس بات پر بھی اتفاق کیا ہے کہ آئین ساز اسمبلی کے ذریعے لوگوں کی مرضی ریاست کے آئین کے ساتھ ساتھ یونین کے دائرۂ اختیار کا تعین کرے گی۔انھوں نے کہا کہ یہ وہی عہد ہے جو آرٹیکل ۳۷۰ کی روح ہے۔

دھون کے بعد وشانت دوئے نے دلیل دی کہ ۲۰۱۹ء کے آئینی احکامات تضادات کا مجموعہ اورآئین ہند کے ساتھ دھوکا دہی ہیں۔ انھوں نے عدالت کو کہا کہ انصاف صرف ہونا ہی نہیں چاہیے، ہوتا ہوا نظر آنا چاہیے۔آرٹیکل ۳۷۰ کے عارضی ہونے کی وجہ بتاتے ہوئے دوئے نے کہا کہ یہ ہندستان کے لیے کبھی بھی عارضی نہیں تھا۔ یہ جموں و کشمیر کے لوگوں کے لیے اس حد تک عارضی تھا کہ وہ جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کے ہاتھوں اپنی قسمت کا فیصلہ کر سکتے تھے۔ انھوں نے کہا کہ جموں و کشمیر کے آخری ڈوگرہ مہاراجا ہری سنگھ نے ہندستان کے اس وقت کے گورنر جنرل لارڈ لوئس ماؤنٹ بیٹن کے ساتھ مشروط طور پر ہندستان کے تسلط میں الحاق کے لیے جو معاہدہ کیا تھا، اس کی تشریح آرٹیکل ۳۷۰ کی روشنی میں کی جانی چاہیے۔وشانت دوئے نے کہا کہ معاہدہ سازی کی طاقت کو آئین کے زیر غور طریقے سے استعمال کرنا ہوگا اور اس کی طرف سے عائد کردہ حدود کے تابع ہونا پڑے گا۔ آیا یہ معاہدہ عام قانون سازی کے ذریعے نافذ کیا جا سکتا ہے یا آئینی ترمیم کے ذریعے یہ قدرتی طور پر خود آئین کی دفعات پر منحصر ہوگا۔دوئے نے کہا کہ آرٹیکل ۳۷۰ کی تشریح آرٹیکل ۳۷۰ میں ہی موجود ہے۔

کشمیر کے معاملے پر وہ چاہے سپریم کورٹ ہو یا انڈین قومی انسانی حقوق کمیشن ، بھارت کے کسی بھی ادارے کا ریکارڈ کچھ زیادہ اچھا نہیں رہا ہے، مگر چونکہ اس مقدمے کے بھارت کے عمومی وفاقی ڈھانچے پر بھی دُور رس اثرات مرتب ہوں گے، اس لیے شاید سپریم کورٹ کو اس کو صرف کشمیر کی عینک سے دیکھنے کے بجائے وفاقی ڈھانچے اور دیگر ریاستوں پر اس کے اثرات کو بھی دیکھنا پڑے۔ اس تناظر میں امید ہے کہ وہ ایک معروضی نتیجے پر پہنچ کر کشمیری عوام کی کچھ دادرسی کا انتظام کر پائے گا۔خیر اس وقت تمام نگاہیں بھارتی سپریم کورٹ کی طرف لگی ہوئی ہیں۔ کیا سپریم کورٹ واقعی کوئی تاریخ رقم کرے گا؟ ایک بڑا سوال ہے، جس کا جواب وقت ہی دے گا۔

؍اگست ۲۰۱۹ء کو بھارتی حکومت نے جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ دینے والے آرٹیکل ۳۷۰ کے اہم مندرجات کو ختم کر دیا تھا۔ اسی کے ساتھ دفعہ ۳۵-اے، جس کی رو سے ریاستی باشندوں کو خصوصی اور علیحدہ شہریت کے حقوق حاصل تھے، اسے بھی منسوخ کردیا گیا تھا۔ اس اقدام کے خلاف انڈین سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا، جس کے جواب میں چارسال گزرنے کے بعد، سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے ۲؍اگست ۲۰۲۳ء سے سماعت شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جب کہ فریقین کو ۲۷جولائی ۲۰۲۳ء تک دستاویزات جمع کرانے کے لیے ہدایت کی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ چیف جسٹس جسٹس دھنن جے چندراچوڑ نے سرینگر کے ایک روزہ دورہ سے واپسی پر دفعہ۳۷۰ کے حوالے سے زیر التوا درخواستوں پر سماعت کرنے کا اچانک فیصلہ کرلیا۔ آخر سرینگر میں ان کو کیا کچھ نظر آیا ، جس کی وجہ سے انھوں نے سماعت کا فیصلہ کیا؟

اگرچہ کشمیر کے معاملے پر چاہے سپریم کورٹ ہو یا قومی انسانی حقوق کمیشن ، بھارت کے کسی بھی مؤثر ادارے کی تاریخ کچھ زیادہ اچھی نہیں رہی، مگر چونکہ اس مقدمے کے بھارت کے عمومی وفاقی ڈھانچے پر دور رس اثرات مرتب ہوںگے، اس لئے شاید سپریم کورٹ کو اس کو صرف کشمیر کی عینک سے دیکھنے کے بجائے وفاقی ڈھانچے اور دیگر ریاستوں پر اس کے اثرات کو بھی دیکھنا پڑے گا۔ اس تناظر میں مثبت نتائج پر نظر رکھنے والے لوگوں کو اُمید ہے کہ سپریم کورٹ ایک معروضی نتیجے پر پہنچ کر کشمیری عوام کی کچھ داد رسی کا انتظام کرسکے گی۔

 دفعہ ۳۷۰ کی قانونی حیثیت و افادیت کے علاوہ سپریم کورٹ کے سامنے یہ بڑے سوالات ہیں:(۱) بھارتی پارلیمان کی بالادستی کو تسلیم کرتے ہوئے بھی، کیا یہ ممکن ہے کہ عددی طاقت کے بل پر کسی بھی ریاست کو دولخت کرکے اس کو مرکزی زیر انتظام علاقہ بنایا جا سکتا ہے؟ (۲)کیا اس سلسلے میں اس خطے کی اسمبلی یا اس خطے کے اراکین پارلیمان کی رائے کو نظر انداز کیا جاسکتا ہے؟

پچھلی صدی کے اواخر میں اتراکھنڈ، چھتیس گڈھ، جھاڑکھنڈ، نئے صوبے تشکیل دیئے گئے۔ ان میں جو طریق کار اپنایا گیا، وہ یہ تھا کہ ریاستی اسمبلیوں نے پہلے صوبہ کی تشکیلِ نو کے لیے ایک قرار داد منظور کرکے اس کو مرکزی حکومت کو بھیجا۔ مرکزی کابینہ نے اس کی منظوری دے کر ایک بل ڈرافٹ کرکے اس کو پھر ریاستی اسمبلی کو منظوری کے لیے بھیجا۔ اس کے بعد اس بل کو پارلیمنٹ میں پیش کرکے پاس کرنے سے قبل ہاؤس کمیٹی کے سپرد کرکے اس کے خدوخال کا جائزہ لیاگیا۔ صرف تلنگانہ کے معاملے میں اس طریقے کو تبدیل کیا گیا۔ مگراس معاملے میں بھی کئی برس قبل آندھرا پردیش کی اسمبلی قرار داد پاس کر چکی تھی۔ بعد میں اس اسمبلی نے اپنا موقف تبدیل کردیا تھا، مگر اس وقت کانگریس کی قیادت میں مرکزی حکومت نے پچھلی قرار داد کی بنیاد پر زبردست ہنگامہ اور شور شرابہ کے دوران پارلیمنٹ سے اس نئے صوبہ کی تشکیل کا بل پاس کروایا۔

اگر ریاستوں کو تحلیل کرنے اور ان کو مرکز کے زیر انتظام علاقہ بنانے کے عمل کو بھارتی سپریم کورٹ تسلیم کرتا ہے، تو اس سے بھارت کے پورے وفاقی ڈھانچا کے مسمار ہونے کا خطرہ ہے۔ ماضی میں نظم و نسق وغیرہ کا بہانہ بناکر مرکزی حکومتوں نے تو کئی بار اپوزیشن کی زیر قیادت صوبوں کی منتخب حکومتوں کو برخواست کیا ہے،مگر بعد میں سپریم کورٹ نے ایس آر بومئی کیس میں اس پر کئی رہنما اصول طے کر دیئے، جس کے بعد نئی دہلی حکومتوں کے لیے صوبائی حکومتیں برخواست کرنے کے اختیار پر روک لگ گئی۔

 چیف جسٹس ڈی وائی چندراچوڑ کی سربراہی میں پانچ ججوں کا بنچ اس معاملے کی سماعت کرے گا۔ اس بنچ میں جسٹس سنجے کشن کول، جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس بھوشن رام کرشن گاوائی اور جسٹس سوریا کانت ہوں گے۔ جسٹس کول کے بغیر بقیہ تینوں جج اگلے کئی برسوں میں باری باری چیف جسٹس کے عہدے پر فائز ہوں گے۔ جسٹس چندراچوڑکے والد یشونت ویشنو چندراچوڑ بھی ملک کے ۱۶ویں چیف جسٹس ( ۱۹۷۸ءسے ۱۹۸۵ء)رہے ہیں۔ وہ بھارت کی سول سوسائٹی کے لیے کچھ اچھی یادیں چھوڑ کر نہیں گئے۔ ۱۹۸۴ء میں بھوپال شہر میں زہریلی گیس کے اخراج کے بعد، جس میں ہزاروں لوگوں کی جانیں چلی گئیں، تو انھوں نے امریکی کمپنی یونین کاربائیڈ کے سربراہ وارن اینڈرسن کو ملک سے باہر جانے میں مدددی۔ ان پر مقدمہ بھی نہیں چلایا جاسکا۔ اس کے علاوہ جموں و کشمیر ہائی کورٹ کی تصدیق کے بغیر ہی فروری ۱۹۸۴ءمیں انھوں نے کشمیری لیڈر مقبول بٹ کی سزائے موت کے فرمان کے خلاف پٹیشن خارج کی،اور اگلے ہی دن مقبول بٹ کو تہاڑ جیل میں پھانسی دے دی گئی۔

مگر ان کے فرزند موجودہ چیف جسٹس اپنے اعتدال پسندانہ رویہ اور معرکہ آرا فیصلوں کی وجہ سے اپنے والد کے برعکس سول سوسائٹی کے چہیتے ہیں۔ انھوں نے اظہارِآزادی، شخصی آزادی، حق راز داری وغیر ہ جیسے قوانین کی تشریح کرکے اور ان پر فیصلہ دیتے وقت عوامی مفاد کو مقدم رکھ کر خوش گوار تاثر قائم کیا ہے۔ ۲۰۰۰ء میں ممبئی ہائی کورٹ میں جج کے عہدے پر فائز ہونے سے قبل ان کو ۱۹۹۸ءمیں اٹل بہاری واجپائی کے اقتدار میں آتے ہی اڈیشنل سولسٹر جنرل مقرر کیا گیا تھا۔ اس دوران مجھے ان سے کئی بار ملنے کا موقع ملا ہے۔ دوسرے جج جسٹس سنجے کشن کول کشمیری پنڈت ہیں۔ وہ سورج کشن کول کے خاندان سے نسبت رکھتے ہیں، جو ڈوگرہ حکومت میں وزیر مالیات ہوتے تھے۔ وہ اور ان کے ایک اور برادر دہلی ہائی کورٹ کے جج رہ چکے ہیں۔بطور دہلی ہائی کورٹ جج انھوں نے معروف مصور مرحوم ایم ایف حسین کے خلاف ہندو تنظیموں کی پٹیشن کی سماعت کرتے ہوئے ، بزرگ مصور کی دادرسی کی تھی۔اس فیصلے میں انھوں نے لکھا تھا: ــ’’تکثیریت اور یگانگت جمہوریت کی روح ہوتی ہے۔ جس سوچ کو ہم پسند نہیں کرتے ہیں، اس کے اظہار کی بھی آزاد ی ہونا ضروری ہے۔ اگر تقریر یا اظہار رائے کے بعد آزادی نہ ہو، تو یہ آزادی کوئی معنی نہیں رکھتی ہے۔ جمہوریت کی حقیقت آزادی اور ناقدین کو برداشت کرنے میں مضمر ہے‘‘۔

تیسرے جج جسٹس سنجیو کھنہ پنجاب سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ بھی ججوں کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں، اور نومبر ۲۰۲۴ء کو وہ چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالیں گے۔ ان کے والد ونود راج کھنہ دہلی ہائی کورٹ میں جج تھے۔ وہ بھارت کے ایک معروف جج جسٹس ہنس راج کھنہ کے بھتیجے ہیں، جنھوں نے ۱۹۷۶ء میں آنجہانی وزیر اعظم اندراگاندھی کی طرف سے ایمرجنسی کے نفاذ اور بنیادی حقوق کی معطلی کے خلاف فیصلہ دیا تھا، حالانکہ بینچ کے دیگر ججوں نے اس کی حمایت کی تھی۔ جس کی وجہ سے ان کو چیف جسٹس نہیں بننے دیا گیا تھا۔ انھوں نے سپریم کورٹ سے استعفا دے دیا تھا۔ ۱۹۸۲ءکے صدارتی انتخابات میں گیانی ذیل سنگھ کے خلاف وہ اپوزیشن کے مشترکہ امیدوار تھے۔ جسٹس سنجیو کھنہ مئی ۲۰۲۵ءکو چیف جسٹس بن جائیں گے۔

اس بینچ کے چوتھے جج بھوشن رام کرشن گاوائی ہیں۔ وہ اس وقت سپریم کورٹ کے واحد دلت جج ہیں۔وہ مئی ۲۰۲۵ء  چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالیں گے۔ ۲۰۱۰ء میں جسٹس بالا کرشنن کی ریٹائرمنٹ کے بعد وہ پہلے دلت چیف جسٹس اور بھارت کی تاریخ میں دوسرے دلت چیف جسٹس ہوں گے۔ فی الوقت بھارتی سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے کل ۵۶۹ ججو ں میں صرف ۱۷دلت کمیونٹی سے ، نو درجہ فہرست قبائل سے، ۱۵؍اقلیتی برادریوں سے اور ۶۴دیگر پسماندہ طبقات سے تعلق رکھتے ہیں۔ بھوشن کے والد آر، ایس گاوائی مہاراشٹرہ کے مشہور دلت رہنما اور ری پبلکن پارٹی کے سربراہ تھے۔ یہ پارٹی بھارت کے معروف دلت لیڈر ڈاکٹر بھیم راو امیبڈکر نے تشکیل دی تھی۔ گاوائی بود ھ مت سے تعلق رکھتے ہیں۔

پانچویں جج جسٹس سوریہ کانت کا تعلق ہریانہ صوبہ سے ہے۔ جج بننے سے قبل وہ قیدیوں کے حقوق کے حوالے سے خاصے سرگرم رہے ہیں۔ پنجاب اور ہریانہ میں جج کے عہدے پر رہتے ہوئے بھی انھوں نے جیلوں میں اصلاحات کے نفاذ میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ممبئی میں بھارت کے معروف ادارے ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسز، جو جیلوں کی اصلاحات کے سلسلے میں ورکشاپ کا انعقاد کرتے ہیں۔ ان سے ملاقات اور ان کے لیکچر سننے کا کئی بار موقع ملا ہے۔

مارچ ۱۹۹۴ء جنیوا میں تنظیم اسلامی کانفرنس نے جموں و کشمیر میں ابتر ہوتی انسانی حقوق کی صورت حال کے حوالے سے ’اقوام متحدہ کے حقوق انسانی کمیشن‘ (جو اب ’کونسل‘ کہلاتا ہے) میں ایک مشترکہ قرار داد پیش کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے طے کیا تھا کہ کمیشن سے منظور ی کے بعد اس پر سلامتی کونسل میں بحث کرائی جائے اور اقوام متحدہ کی طرف سے بھار ت پر اقتصادی اور دیگر پابندیاں عائد کرائی جائیں۔

بھارت کا قریبی دوست اور ویٹو کی طاقت رکھنے والا ملک اشتراکی روس (USSR: سوویت یونین) تمام انسانی ضابطوں کو روندتا ہوا، بھارت کے دفاع میں ہرحد کو پھلانگتا تھا اور جو اس کی حمایت میں مسلسل ویٹو کرتا تھا۔ لیکن جب دسمبر۱۹۹۱ء میں اشتراکی روس ٹوٹ گیا تو روس کے نئے صدر بورس یلسن مغرب سے مدد کے طلب گار تھے۔ دراصل بھارتی قیادت کو خدشہ تھا کہ ماضی کی طرح اب کی بار سلامتی کونسل میں روس اس کی مدد کرنے سے قاصر ہوگا۔ اس دوران بھارتی وزیراعظم نرسمہا راؤ (م:۲۰۰۴ء)نے رات کی تاریکی میں اپنے علیل وزیر خارجہ دنیش سنگھ کے ہاتھ ایرانی صدر اکبر ہاشمی رفسنجانی (م: ۲۰۱۷ء)کے نام ایک پیغام بھیجا، جس سے پوری بازی پلٹ گئی۔ یہ تفصیل تو ابھی تک معلوم نہیں ہوئی کہ راؤ نے ایران کو کیا درس دیا؟ لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ ایران نے اس قرارداد کی حمایت سے دستبردار ہوکرمشکل وقت میں بھارت کو خاصا سہارا دیا۔

اس بحران سے نکلنے کے لیے بھارت نے بین الاقوامی برادری کے سامنے دو وعدے کیے، جن میں: ایک قومی سطح پر اعلیٰ اختیار والے انسانی حقوق کے کمیشن کا قیام، دوسرا بین الاقوامی ریڈ کراس کو   نئی دہلی اور سرینگر میں دفتر کھولنے کی اجازت ، نیز اس کے عملے کو مختلف جیلوں میں بند کشمیری نظربندو ں سے وقتاً فوقتاً ملاقاتوں کی اجازت دینا شامل تھا۔

لیکن ۲۰۱۴ءکے بعد سے ریڈ کراس کے عملے نے تو کشمیری قیدیوں کی خیریت معلوم کرنے کے لیے جیلوں میں جانا ہی بند کردیا ہے۔ وہ اپنے اس عمل یا فیصلے کے سلسلے میں آج تک کوئی وضاحت بھی پیش نہیں کر رہے ہیں۔ اگر معاہدہ کی خلاف ورزی کرکے بھارتی حکومت ان کو جیلوں میں جانے سے روک رہی تھی یا روک رہی ہے، تو اسے آن ریکارڈ لانے میں کیا رکاوٹ درپیش ہے؟ ریڈکراس کے نمایندوں کے جیلوں میں جانے سے بے نوا قیدیوں کو راحت ملتی تھی کہ دُنیا میں کوئی تو ہے جو اُن کے بارے میں فکرمند ہوکر اُن کے دُکھ درد کو دوسروں کے سامنے پیش کرے گا۔ خاص طور پر جو افراد دُور دراز کی جیلوں میں قید کیے جاتے ہیں اور جہاں ان کے رشتہ داروں کے لیے پہنچنا مشکل ہوتا تھا،یہ ریڈ کراس کا عملہ ہی خیرخبر پہنچانے کا ذریعہ ہوتا تھا۔ ان کی وجہ سے قیدیوں کی صحت وغیر ہ کا بھی خیال رکھا جاتا تھا۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ سفارتی سطح پر جنیوا میں موجود ان کے صدر دفتر سے اس بار ے میں باز پُرس کی جاتی؟

بتایا جاتا ہے کہ نرسمہماراؤ کی کابینہ میںوزیر وٹھل نارائین گاڈگل (جو بعد میں کانگریس پارٹی کے طویل عرصے تک ترجمان بھی رہے) نے ہی ’قومی انسانی حقوق کمیشن‘ تشکیل دینے کی تجویز دی تھی اور وزیراعظم راؤ کو یہ تجویز پسند آگئی۔اس کمیشن کے قیام کے قانون پر بحث کا جواب دیتے ہوئے اس وقت کے وزیر داخلہ شنکر راؤ چوان نے بتایا تھا:’’ یہ کمیشن کسی بھی قسم کی بین الاقوامی جانچ پڑتال کے خلاف بفر کے طور پر کام کرے گا اور حکومت کی لا اینڈ آرڈر مشینری کو متاثر نہیںکرے گا‘‘۔ اس سے بھارت کو یقیناً خاصا فائدہ پہنچا۔

جب بھی کسی عالمی فورم پر بھارت میں انسانی حقوق کی بُری صورتِ حال کا معاملہ اٹھتا ہے، تو مندوبین کے سامنے  ایک ہی دفاعی موقف پیش کیا جاتا ہے کہ: ’’انڈیا کے پاس ملک میں ہی حقوق انسانی کی دیکھ بھال کے لیے ایک مضبوط نظامِ کار (میکانز م) موجود ہے‘‘۔مگر حال ہی میں اقوام متحدہ کے ایک ذیلی ادارے نے بھارت کے اس کمیشن کو درجہ اوّل کی ایکریڈیٹیشن دینے سے انکار کر دیا۔ اقوام متحدہ کی گلوبل الائنس آف نیشنل ہیومن رائٹس انسٹی ٹیوشنز ، جس کا بھارت بھی ممبر ہے، کا کہنا ہے:’’انسانی حقوق کا یہ کمیشن غیرفعال ہوچکا ہے‘‘۔ دراصل بھارت کی کئی غیر سرکاری تنظیموں نے ہی اقوام متحدہ کے اس ذیلی ادارے کی توجہ اس طرف دلائی کہ یہ کمیشن خاموش تماشائی بن کر بیٹھا ہوا ہے۔

’قومی انسانی حقوق کمیشن‘ کاوجود کشمیر کی وجہ سے عمل میں آیا تھا، مگر شاید ہی اس نے کبھی کشمیر کے بارے میں کسی شکایت یا کیس کی شنوائی کی ہو۔ تاہم، دیگر ایشوز پر اس نے کئی بار خاصی فعالیت کا مظاہرہ کیا ہے۔ ۲۰۰۲ء کے گجرات کے مسلم کش فسادات میںملوث افراد کو سزا دلوانے کے لیے اس کمیشن نے خود فریق بن کر سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ چونکہ اس کمیشن کا سربراہ سپریم کورٹ کا سابق چیف جسٹس ہوتا ہے، اس لیے اس کی آواز میں وزن بھی ہوتا ہے۔ مگر گجرات کے شاید واحد ایسے فسادات تھے، جہاں ملزموں کو عدالت نے سزائیں دیں، اور اس پیش قدمی کا کریڈٹ قومی حقوق انسانی کمیشن کو جاتاہے ۔

تاہم، بھارت میں جہاں دیگر اداروں کو زوال آگیا ہے ، وہیں یہ ادارہ بھی سخت زوال کا شکار ہے۔ اس کے موجودہ سربراہ اور ممبران کو دیکھ کر یہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس کی سانس روکی گئی ہے۔ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ارون کمار مشرا اس کے سربراہ ہیں۔ یہ وہی چیف جسٹس ہیں، جن کی جانب داری کے خلاف سپریم کورٹ کے حاضر سروس ججوں کو پریس کانفرنس کرنی پڑی تھی۔ اس کے دیگر ممبران وزارت خارجہ کے سابق افسر دھنونشور منوہر مولے اور انٹیلی جنس بیورو کے سابق سربراہ راجیو جین ہیں۔

’ساؤتھ ایشیا ہیومن رائٹس ڈاکومنٹیشن سینٹر‘ (SAHRDC)کے سربراہ روی نیّر کے مطابق: ’’نہ صرف ممبران ، بلکہ کمیشن کا عملہ بھی انٹیلی جنس بیورو (IB) اور خارجی خفیہ ادارہ ’را‘ (RAW)سے ڈیپوٹیشن پر منگوایا جاتا ہے‘‘۔ ان کا کہنا ہے: ’’اس وقت آئی بی کا ایک سابق اسپیشل ڈائریکٹر کمیشن کے تفتیشی سیل کا سربراہ ہے۔ اس کے علاوہ دو اور افسران کا تعلق بھی خفیہ اداروں سے ہے‘‘۔ جب انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے اکثر کیس ہی حکومت ، پولیس اور خفیہ اداروں کے خلاف آتے ہوں، تو یہ اسٹاف اور ممبران بھلا کس حد تک انصاف کر تے ہوں گے؟

۲۰۱۹ء میں، انڈین حکومت نے تقرریوں کے معیار میں ردوبدل کرتے ہوئے سول سوسائٹی سے مشاورت کے بغیر انسانی حقوق کے تحفظ کے ایکٹ میں ترمیم کی۔ ترامیم سے پہلے، قانون کا تقاضا تھا کہ کمیشن کا سربراہ سپریم کورٹ کا سابق چیف جسٹس ہو،جب کہ دیگر چارممبران سپریم کورٹ کے موجودہ یا سابق جج، ہائی کورٹ کے موجودہ یا سابق چیف جسٹس ہوں اور دو ممبران کو انسانی حقوق سے متعلق معاملات کا علم، یا عملی تجربہ ہونا چاہیے۔

اس ترمیم میں یہ کہا گیا کہ ’’کمیشن کا سربراہ سپریم کورٹ کا کوئی بھی سابق جج ہو سکتا ہے،اور دیگر ممبران کے بارے میں بھی حکومت کو اختیار دیا گیا‘‘۔ دوسری طرف کمیشن کے فیصلہ ساز ادارے میں ایک سابق اعلیٰ انٹیلی جنس اور سیکورٹی اہلکار کا تقرر واضح طور پر بین الاقوامی اصولوں کی خلاف ورزی ہے ۔ راجیو جین کا تقرر انٹیلی جنس بیورو میں ان کی مدت کار کے دوران مختلف کارروائیوں کی وجہ سے بھی تشویش کا باعث ہے۔ ان کا کارنامہ یہ بتایا جاتا ہے کہ ان کے دور میں سول سوسائٹی کی تنظیموں کو نشانہ بنایا گیااور ان میں سے کچھ پر مسلح گروپوں کی پشت پناہی کا خانہ زاد الزام لگایا گیا۔ تنظیموں پر غیر ملکی فنڈنگ حاصل کرنے کے الزامات عائد کرکے قدغن لگائی گئی۔

روی نیّر کا کہنا ہے کہ ’’اس پورے کمیشن کاڈھانچا ابتدا سے ہی غلط تھا۔ اس کو ایک آزاد ادارے کے بجائے وزارت داخلہ کے تحت رکھا گیا تھا۔ اس طرح یہ ادارہ بین الاقوامی برادری کی آنکھوں میں دھول جھونکے کے لیے تشکیل دیا گیا تھا۔ مگر اب عالمی ایجنسیوں کو اس کی کارگزاری کا ادراک ہوچکا ہے۔ یہ معاملہ عالمی سطح پر بھارت کے لیے شرمندگی کا باعث بن رہا ہے۔مگر مغرب کی بدلی ترجیحات کی وجہ سے ان کی حکومتوں نے بھارت کے حوالے سے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔

۱۹۹۴ءسے دریائے جہلم میں پانی کے ساتھ اب مظلوم انسانوں کا کافی خون بھی بہہ چکا ہے۔ سیاست دانوں کی دھوکے بازیوں اور کرشمہ سازیوں نے کشمیری عوام کو اندھیر نگری میں دھکیلنے میں کردار ادا تو کیا ہی تھا، کہ انسانی حقوق کمیشن ا ور بین الاقوامی ریڈ کراس بھی اپنے وعدوں کو نبھا نہ سکے۔

قضیۂ کشمیر پر جن دومحققین کی کتابیں آج تک بطورِ حوالہ ایک مقام رکھتی ہیں، وہ سابق امریکی وزیر خارجہ میڈلین البرٹ کے والد اور اقوم متحدہ میں چیکوسلواکیہ کے سفیر جوزف کاربل اور برطانوی مصنف الیسٹر لیمب ہیں۔

جوزف کاربل (Joseph Korbel) نے ۱۹۵۴ء میں اپنی کتاب Danger in Kashmir (پرنسٹن یونی ورسٹی، نیوجرسی)میں دُنیا کو خبردار کیا تھا کہ یہ قضیہ امنِ عالم کے لیے شدید خطرہ ثابت ہوسکتا ہے۔ انھوں نے اس کتاب میں اقوام متحدہ کی کوششوں میں آنے والی رکاوٹوں کا ذکر کیا ہے۔

اسی طرح ڈاکٹر الیسٹر لیمب [۹جنوری ۱۹۳۰ء- ۱۵مارچ ۲۰۲۳ء]کی کتب: The Crisis in Kashmir 1947-1966 (۱۹۶۶ء)، Kashmir: A Disputed Legacy 1846-1990 (۱۹۹۲ء)، Birth of a Tragedy, Kashmir 1947 (۱۹۹۷ء)،  Incomplete Partition 1947-1948 (۱۹۹۷ء) میں مسئلہ کشمیر اور۱۹۴۷ء میں رونما ہونے والے واقعات پر سیرحاصل بحث کی گئی ہے۔ انھی ۹۳ سالہ برطانوی مصنف کا ۱۵مارچ ۲۰۲۳ءکو لندن میں انتقال ہوا۔

ڈاکٹر الیسٹر لیمب سے کبھی براہِ راست ملاقات کا شرف تو حاصل نہیں ہوا، مگر ۲۰۱۰ء میں جب بھارت کے مشہور محقق اور کالم نویس اور ’بھارت-پاکستان تعلقات‘ پر ایک اتھارٹی اے جی نورانی نے دو جلدوں پر مشتمل اپنی کتاب The Kashmir Disputeپر کام شروع کیا، تو انھوں نے مجھے بطور ریسرچ ایسوسی ایٹ کی ذمہ داری سونپی۔ اس مناسبت سے مجھے فون، ای میل وغیر ہ پر ڈاکٹر الیسٹر لیمب سے وقتاً فوقتاً رابطہ کرنے کا موقع نصیب ہوا۔ان کا کہنا تھا:’’نہ صرف کشمیر بلکہ بھارت- چین سرحدی تنازعے کے سلسلے میں خاص طور پر بھارت میں معروضی تحقیق کا فقدان ہے‘‘۔

پروفیسر لیمب کا کہنا تھا:’’۱۹۶۲ء میں جب چین - بھارت سرحدی تنازع زور پکڑ رہا تھا اور دونوں ممالک جنگ کے دہانے پر کھڑے تھے، تو لندن میں پبلک ریکارڈ آفس اور انڈیا آفس لائبریری کے برطانوی آرکائیوز میں مجھ کو متعدد ایسی دستاویزات ملی تھیں، جو بھارتی وزارت خارجہ کے دعوؤں کی یکسر نفی کرتی تھیں۔ مجھ کو لگا شاید بھارتی حکومت کی نگا ہ میںیہ دستاویزات نہیں آئی ہوں گی۔ اس لیے میں نے لند ن میں بھارتی ہائی کمیشن کے ایک سینئر اہلکار سے ملاقات کرکے ان کو صورت حال سے آگاہی دی اور بھارتی حکومت کو بھی یہ دستاویزات بھیجیں۔ مگر بعدازاں میں اس نتیجے پر پہنچا کہ بھارتی حکومت کو ان اصل دستاویزات کے ساتھ کوئی دلچسپی نہیں ہے اور وہ دانستہ تحریف شدہ (tempered) دستاویزات کی بنیاد پر چین کے خلاف اپنا مقدمہ بنا رہے ہیں‘‘۔

 اے جی نورانی نے بھی اپنی کتاب  India, China Boundary Problem میں تذکرہ کیا ہے کہ کس طرح بھارت کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو [م: ۱۹۶۴ء]نے چین کے ساتھ سرحدی تنازع کھڑا کرنے کے لیے تمام پرانی دستاویزات اور نقشوں کو تلف کرکے نئی دستاویزات اور نئے نقشے بنانے کا حکم صادرکیا تھا اور پھر اسی حوالے سے ۱۷صفحات پر مشتمل ایک ’خفیہ یادداشت‘ وزارتوں میں تقسیم کی تھی۔

چینی اُمور کے ماہر اور چین میں متعین برطانوی سفارت کار لاینل لیمب، کے ہاں ۹جنوری ۱۹۳۰ء کو چینی صوبے ہیلونگجیانک کے شہر ہاربن میں الیسٹر لیمب پیدا ہوئے۔ انھوں نے پبلک اسکول ہیرو میں تعلیم حاصل کی، جہاں اُن سے تقریباً ۴۰سال قبل جواہر لعل نہرو بھی تعلیم حاصل کرچکے تھے، اور پھر کیمبرج یونی ورسٹی میں تاریخ کا مطالعہ کیا۔ لیمب کا ڈاکٹریٹ مقالہ برطانوی دورِ حکومت میں ہندستان کی سرحدوں اور خاص طور پر چین کے ساتھ حدبندی لائن کے موضوع پر تھا۔ ۱۹۶۰ء کے عشرے میں لیمب نے ملایا یونی ورسٹی اور بعد میں آسٹریلیا اور گھانا میں پڑھایا۔ اس دوران انھوں نے کشمیر کی تاریخ پر اپنی پہلی کتاب مکمل کی۔ ۱۹۹۰ءکے عشرےمیں، انھوں نے کشمیر کی ۲۰ ویں صدی کی تاریخ اور خاص طور پر الحاق کے بحران کے بارے میں یکے بعد دیگرے تین مزید تفصیلی کتابیں شائع کیں۔

پروفیسر لیمب کو مسئلہ کشمیر کی قانونی اور سفارتی تاریخ کا ماہر تسلیم کیا جاتا ہے۔ وہ بتاتے ہیں: ’’اگست ۱۹۴۷ءکو جب برٹش انڈیا دو آزاد مملکتوں میں تقسیم ہوگیا، تو جموں وکشمیر کے اُس وقت کے مہاراجا ہری سنگھ [م: اپریل ۱۹۶۱ء]نے بھارت یا پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے میں تاخیر کی۔ بعد ازاں اکتوبر کے مہینے میں جب پونچھ اور دوسرے خطوں میں مہاراجا کے خلاف تحریک شروع ہوئی اور پاکستان کے صوبہ سرحد [خیبرپختونخوا]سے مسلح قبائلی جنگجو کشمیر میں داخل ہوئے تو مہاراجا نے نئی دہلی، بھارت سے فوجی امداد طلب کی۔چنانچہ ۲۷؍ اکتوبر کو انڈین فوج کشمیر پہنچی، جس کے بعد مہاراجا نے جموں وکشمیر کا مشروط الحاق بھارت کے ساتھ کیا‘‘__ لیمب ٹھوس حقائق اور دستاویزات کی بنیاد پر ثابت کرتے ہیں کہ ’’بھارتی فوج کی جموں و کشمیر میں دراندازی اور سرینگر پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد ہی الحاق کی دستاویز پر دستخط لیے گئے‘‘۔

 چند سال قبل جواہر لال نہرو اور اندارا گاندھی کے ایک معتمد خاص آنجہانی جی پارتھا سارتھی [م: اگست ۱۹۹۵ء]کی یادداشتوں پر مشتمل کتاب نے بھی آزادانہ الحاق کی تھیوری کے غبارے سے ہوا نکال کر رکھ دی۔ جی پارتھاسارتھی کے بیٹے اشوک پارتھا سارتھی ، جو خود بھی بھارت میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے ہیں، انھوں نے اپنی کتاب جس کا ٹائٹل GP:1912-1995 تھا، ۲۰۱۸ء  میں شائع کی ہے۔ ان کے مطابق پشتون قبائلی حملے سے ایک ماہ قبل ۲۳ستمبر۱۹۴۷ء ہی کو کشمیر کی بھارت کے ساتھ الحاق کی بساط بچھ چکی تھی۔ راجا ہری سنگھ کے تذبذب کو ختم کرنے کے لیے نہرو نے گوپال سوامی آئینگر [م: فروری ۱۹۵۳ء]، جو جی پارتھا سارتھی کے والد تھے، انھیں ایک خفیہ مشن پر سرینگر روانہ کیا تھا۔ پارتھا سارتھی کا کہنا ہے کہ میرے والد نے سرینگر میں دو دن قیام کیا اور اس دوران وہ مہاراجا کو قائل کرنے میں کامیاب ہوگئے کہ بطور ایک ہندو راجا ان کا مستقبل بھارت ہی میں محفوظ ہے۔ کتاب کے مطابق دہلی واپس آکر جب آئینگر، نہرو کو رپورٹ دے رہے تھے تو وزیراعظم نہرو نے برجستہ کہا:ـ’’مجھے یقین تھا کہ تم اچھی خبر لے کر ہی آؤ گے اور یہ صرف تم ہی کرسکتے تھے‘‘___ گوپال سوامی آئینگر کشمیر کے وزیراعظم بھی رہ چکے تھے۔ بھارتی حکومت نے ۱۲ سے ۱۷؍اکتوبر ۱۹۴۷ء کے درمیان انڈین آرمی کی ۵۰ویں پیرا شو ٹ بریگیڈ کے ۴کمانڈو پلاٹون اور پٹیالہ پولیس کے دستے کشمیر بھیج دیئے، جنھوں نے سرینگر ہوائی اڈے کو گھیرے میںلیے رکھا۔

ڈاکٹر لیمب نے بھی اپنی کتاب Birth of a Tragedy, Kashmir 1947 کے چھٹے باب میں ’الحاق کی دستاویز‘ پر سوالات اٹھائے ہیں۔ نا معلوم وجوہ کی بنا پرمبینہ طور پر ’الحاق کی اس دستاویز‘ کو بھارتی وزراتِ داخلہ کی جانب سے ۱۹۴۸ء میں شائع White Paper on States میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔ اسی طرح نہ یہ ان دستاویزات میں شامل تھی، جو حکومت نے اسی سال اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو بھیجیں تھیں۔ محققین کو بھی اس تک رسائی نہیں دی گئی تھی۔ ۲۰۰۵ء میں جب بھارت میں معلومات کے حق کا قانون پاس ہوا، تو اس حق کو استعمال کرکے میں نے اس ’دستاویزِ الحاق‘ اور سپریم کورٹ رجسٹری سے مقبول بٹ کی کیس فائل کا مطالعہ کرنے کی درخواست دائر کی تھی، اور یہ درخواست قومی سلامتی کا حوالہ دے کر خارج کردی گئی۔

وی پی مینن [م: ۱۹۶۶ء]،جو بھارت سرکار کے ریاستوں سے متعلق امور کے محکمے کے سربرا ہ تھے اور جن کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ انھوں نے دستاویز الحاق پر مہاراجا کے دستخط حاصل کیے،وہ اپنی کتاب The Story of The Integration of Indian States (1956)  میں لکھتے ہیں:’’میں ۲۶؍اکتوبر ۱۹۴۷ء کو دہلی سے بذریعہ ہوائی جہاز جموں آیا اور جموں میں ’دستاویزِ الحاق‘ پر مہاراجا کے دستخط لیے اور واپس دہلی چلا گیا‘‘۔مگر لیمب کا کہنا ہے: ’’یہ دعویٰ کسی بھی طرح صحیح قرار نہیں دیا جاسکتا، کیونکہ ۲۶؍اکتوبر کی صبح ہی مہاراجا اپنے خاندان کے ساتھ کشمیر چھوڑ کر جموں کی جانب روانہ ہوا، اور جموں سرینگر شاہراہ، جسے ان دنوں بانہال کارٹ روڈ کہاجاتا تھا،کی حالت دیکھتے ہوئے اور ان عینی شاہدین، جنھوں نے مہاراجا کے کاررواں کو راستے میں جاتے ہوئے دیکھا،کے بیانات کو مدنظر رکھتے ہوئے مہاراجا کے لیے شام۷بجے سے قبل جموں پہنچنا ناممکن تھااور چونکہ ان دنوں جموں ہوائی اڈے پر رات کے وقت اُڑان بھرنے اور اُترنے کی سہولت میسر نہ تھی، تو اس زمینی صورتِ حال کے مطابق یہ ناممکنات میں تھا کہ کوئی شخص دہلی سے جموں آئے اور شام کو جموں میں مہاراجا کے دستخط لے کر رات کو ہی واپس دہلی چلاجائے‘‘۔

اس طرح سے انھوں نے مینن کے دعوے کا جھوٹ بے نقاب کردیا۔اتنا ہی نہیں، برطانوی ہائی کمیشن کے ریکارڈLP&S/13/1845b,ff 283-95-India Office Recordsکے مطابق اس وقت کے بر طانوی ڈپٹی ہائی کمشنربرائے بھارت،الیگزنڈر سائمن ۲۶؍اکتوبرکو نئی دہلی میں مینن سے ملے اور انھیں بتایا گیا کہ وہ۲۷؍اکتوبر کو جموں جارہے ہیں، یعنی بھارتی فوج کی لینڈنگ کے بعد ’دستاویز ِالحاق‘ پر دستخط کروانے جا رہے تھے۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ گورنر جنرل لارڈماؤنٹ بیٹن [م: اگست ۱۹۷۹ء]نے پہلے ہی مہاراجا ہری سنگھ کو فوجی امداد کی یقین دہانی کرائی تھی۔

بھارتی حکومت کی طرف سے نامعلوم وجوہ کی بنا پر ’دستاویزِ الحاق‘ کی اصل کاپی کو خفیہ رکھنے سے لیمب کی تھیوری کو تقویت ملتی تھی۔ بی بی سی سے تعلق رکھنے والے صحافی اور مصنف اینڈریو وائٹ ہیڈ نے بھی کئی بار اس دستاویز کو دیکھنے اورمطالعہ کرنے کی درخواست کی تھی، جو مسترد کر دی گئی۔

مجھے یاد ہے کہ دہلی میں ’نیشنل آرکائیوز ‘کے تہہ خانہ کے ایک کونے کی الماری میں بقیہ تمام ریاستوں کی دستاویزاتِ الحاق عوام اور محققین کے مطالعے کے لیے رکھی ہوئی تھیں، مگر ان میں صرف کشمیر کی دستاویز غائب تھی۔ ۲۰۱۰ء میں جب معروف ماہر تعلیم اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سابق وائس چانسلر اور مؤرخ ڈاکٹر مشیر الحسن [م: دسمبر۲۰۱۸ء]کو ’نیشنل آرکائیوز‘ کا سربراہ مقرر کیا گیا، تو اے جی نورانی صاحب کے باقاعدہ قانونی مطالبے کی تعمیل کرتے ہوئے انھوں نے اپنے دفتر میں مجھے اس ’دستاویزِ الحاق‘ کا محض مطالعہ کرنے کی اجازت دی، مگر اس کی کاپی یا فوٹو کھنچنے کی سختی کے ساتھ ممانعت کی۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ’’آخر بھارتی حکومت اس کو کیوں خفیہ رکھنا چاہتی تھی؟ ‘‘

ڈاکٹر مشیرصاحب بھی اس پر حیران و پریشان تھے۔ تاہم ۲۰۱۶ء میں رائٹ ٹو انفارمیشن مہم چلانے والے کارکن وینکٹیش نائک نے اس دستاویز تک باقاعدہ رسائی حاصل کی۔ دستاویز کے آخر میں گورنر جنرل کے دستخط سے قبل ٹائپ کیا ہوا ’اگست‘ کاٹ کر ہاتھ سے سبز روشنائی سے ’اکتوبر‘ کیا گیا ہے۔ ان کے دستخط بھی سبز روشنائی میں ہیں۔ مگر دستاویز کے اندر نیلی روشنائی میں خالی جگہ کو پُر کرکے ’اندر مہندر راجیشور شری ہری سنگھ والی جموں و کشمیر‘ لکھا گیا ہے اور ٹائپ شدہ ۲۶؍اگست کاٹ کر اکتوبر کیا گیا ہے۔ اس ساری جعل سازی کی ایک یہ توضیح کی جاسکتی ہے کہ شاید گوپال سوامی آئینگر نے ستمبر ہی میں مہاراجا ہری سنگھ سے دستاویز پر دستخط حاصل کیے ہوں گے، اور اکتوبر میں گورنر جنرل سے دستخط حاصل کیے گئے۔ یعنی یہ دستاویز پہلے ہی شاید دہلی میں موجود تھی، مگر یہ وضاحت بھی گھماپھرا کر کہانی کاری سے زیادہ وزن نہیں رکھتی۔

پروفیسر الیسٹر لیمب کو ممتاز تاریخ دانوں میں شمار کیا جائے گا۔ اسکالر ایان کوپلینڈ کے مطابق ’’ان کو مکمل تحقیق اور تفصیل حاصل کرنے میں ملکہ حاصل تھا‘‘۔ پرشوتم مہرا نے انھیں امتیازی اور عظیم مؤرخ قرار دیا ہے، ’’جن کا کام،اُن کی بے پناہ محنت اور حددرجہ باریک بینی سے باوزن تھا‘‘۔ معروفمصنف وکٹوریہ شوفیلڈ کے مطابق ’’لیمبنے کامیابی کے ساتھ اہم مسائل اور غلطیوں کی نشاندہی کی ہے۔ ان کا کام حقائق سے اتنا بھرپور ہے کہ ہر باب کے ساتھ اضافی نوٹ فراہم کیے گئے ہیں‘‘۔ لیوراس ایچ منرو کا کہنا ہے کہ ’’لیمب نے کشمیر کی مستند تاریخ لکھی ہے اور کشمیر کو پیچیدگیوں کے گرداب میںڈالنے کے لیے اپنے ہم وطن ماؤنٹ بیٹن کو موردِ الزام ٹھیرایا ہے‘‘۔  وکٹرکیرن کے مطابق: ’’لیمبجنوبی ایشیا  پر ایک اعلیٰ ترین اتھارٹی ہے‘‘۔ مؤرخ ہیو ٹنکر نوٹس کا کہنا ہے: ’’اگرچہ لیمب نے کشمیر کی سیاسی تاریخ کو ماہرانہ انداز میں بیان کیا ہے، مگر بھارتی محققین ان کی تھیوری کو قبول نہیں کریں گے‘‘۔ مؤرخ سری ناتھ راگھون کا کہنا ہے: ’’یہ دریافت لیمب کے ہی سر جاتی ہے کہ کشمیر کے الحاق کے معاہدے پر ۲۷؍ اکتوبر ۱۹۴۷ء کو بھارتی فوجوں کے اُترنے کے بعد ہی دستخط ہوئے تھے‘‘۔

بلاشبہہ آج ان تھیوریوں کی محض ایک علمی قدر ہی رہ گئی ہے۔ جس طرح جوزف کاربل نے ۱۹۵۴ءمیں کشمیر کو عالمی امن کے لیے ایک خطرہ بتایا تھا، و ہ خطرہ اور عوامل آج بھی برقرار ہیں اور ان میں کچھ زیادہ ہی شدت آگئی ہے ۔کیونکہ اس خطے کے تین ممالک بھارت، پاکستان اور چین، جوہری ہتھیاروں سے لیس ہیں اور کسی کشیدگی کی صورت میں یہ پورا خطہ تباہ و برباد ہوسکتا ہے۔

پروفیسر الیسٹر لیمب اپنی کتاب Incomplete Partition  کے اختتام پر لکھا ہے:’’ہرفردکا ایک نکتے پر دوسروں کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ تاہم، یہ ضروری ہے کہ مسئلے کے تمام پہلوؤں پربحث کرکے ان کا دوبارہ جائزہ لیا جائے۔ میری تحقیق کا مقصد کشمیر پر کوئی پتھر پر لکیر کھنچنا نہیں ہے، بلکہ تاریخی اور دستاویزی شوا ہد کو سامنے لاکر ان پر بحث کروانا ہے‘‘۔ بلاشبہہ ایک معروضی بحث و مباحثہ کروانا ہی مؤرخ کشمیر الیسٹر لیمب کے لیے سب سے بڑا خراج عقیدت ہوگا۔

۲۳مارچ ۲۰۲۳ء کو جموں و کشمیر میں لائن آف کنٹرول سے متصل ٹیٹوال،کرناہ میں بھارتی وزیر داخلہ امت شا نے ’ماتادا دیوی‘ کے مندر کا افتتاح کیا، کہ آزاد کشمیر سے آوازیں بلند ہونے لگیں کہ ’’کرتار پور کی طرز پر اس علاقے میں بھی ایک کوریڈور کا قیام عمل میں لایا جائے، تاکہ ہندو زائرین اصلی شاردا پیٹھ کے درشن کر سکیں اور اس علاقے کی آمد ن کے ذرائع پیدا ہوں‘‘۔ امت شا نے کہا کہ ’’یہ سب دونوں جانب سول سوسائٹی سمیت لوگوں کی مشترکہ کوششوں سے ممکن ہوا ہے‘‘۔

پھر دیکھتے ہی دیکھتے آزاد کشمیر کی قانون ساز اسمبلی نے متفقہ طور پر ایک قرار داد بھی پاس کی، جس میں مذکورہ کوریڈور بنانے کا مطالبہ کیا گیا۔ اگرچہ بعد میں حیرت انگیز طور پر حکومت نے اس سے لاتعلقی کا اظہار کیا، مگر جو نقصان ہونا تھا، وہ ہو چکا تھا۔ ۲۰۱۹ء میں پنجاب میں کرتار پور گوردوارہ کے درشن کی خاطر سکھ عقیدت مندوں کے لیے ایک راہداری کی منظوری کے فوراً بعد سے یہ خبریں آنا شروع ہو گئیں تھیں کہ ’’اسی طرز پر اب پاکستانی حکومت لائن آف کنٹرول کے پاس ہندو زائرین کے لیے شاردا پیٹھ جانے کے لیے بھی ایک کوریڈور کھولنے پر غور کر رہی ہے‘‘۔

لائن آف کنٹرول کو کھولنے، آمد و ررفت کو آسان بنانے اور آر پار کشمیری عوام کے ملنے جلنے جیسے اقدامات کی کون مخالفت کرسکتا ہے۔ ۲۰۰۵ء میں سرینگر۔مظفر آباد بس سروس اور پھر ۲۰۰۸ء میں تجارت کے لیے اس کو کھولنے سے دونوں طرف کے عوام نے خاصا بہتر محسوس کیا تھا، مگر ۲۰۱۴ء میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت کے آنے کے بعد اس سمت میں رکاوٹیں کھڑی ہونا شروع ہوگئیں تھیں، تاآنکہ اس کو بند ہی کردیا گیا۔ ویسے تو پاکستان میں بھارت کے ساتھ تجارتی روابط بحال اور استوار کرنے کا طرف دار ایک طبقہ ہر لمحہ پنجاب میں واہگہ اور سندھ میں کھوکھراپار کے راستے تجارتی راہداریاں کھولنے کا مطالبہ کرتا آیا ہے، مگر وہ اتنی سنجیدگی کے ساتھ جموں و کشمیر لائن آف کنٹرول کے اطراف میں راہداریاں کھولنے پر اصرار کرتے نہیں دیکھے گئے۔

آزاد کشمیر کے دارلحکومت مظفر آباد سے ۲۲۱کلومیٹر دور شمال میں اٹھ مقام اور دودنیال کے درمیان، شاردا کھنڈرات، کشمیر کی قدیم تہذیب اور علم و فن کے گواہ ہیں۔ بودھ مت کی عظیم دانش گاہوں نالندہ اور ٹیکسلا کی طرح شاردا بھی ایک قدیم علمی مرکز تھا۔ نیلم اور مدھومتی کے سنگم پر واقع ان یادگاروں کو صرف ایک مندر یا عبادت گاہ کے طور پر فروغ دینا، تاریخ اور اس دا نش گاہ کے ساتھ انتہائی زیادتی ہے۔ اس جگہ پر اب بغیر چھت کے پتھروں کی ایک عمارت کھڑی ہے اور یہ علاقہ لائن آف کنٹرول سے صرف ۱۰کلومیٹر دُور ہے۔

چند برسوں سے ہندو خاص طور پر کشمیری پنڈتوں کے ایک طبقے کو اس بات پر اصرار رہا ہے کہ یہ ان کا مقدس مقام ہے اور ’’۱۹۴۷ءتک یہاں شاردا یا علم کی دیوی سرسوتی کے نام پر ایک مندر قائم تھا اور اس مندر کی زیارت کے لیے بھی ہر سال ہزاروں ہندو یاتری اس علاقے میں آتے تھے۔ دونوں اطراف خصوصاً آزاد کشمیرمیں اپنی روشن خیالی ثابت کروانے والے کئی لوگ بھی بغیر تحقیق کے اسی مسخ شدہ تاریخ کو تسلیم کرتے ہوئے اس یاترا کی بحالی کا مطالبہ کرنا شروع کرتے ہیں۔ بھارت میں ہندو قوم پرست آرایس ایس کی طرح پاکستان میں بھی تاریخ کو توڑ مروڑ کر اَزسرنو لکھنے کی دوڑ لگی ہے۔ بھارت میں یہ کام ہندو انتہا پسندوں کا خاصہ ہے، پاکستان میں یہ کام وہ افراد کررہے ہیں، جن پر اپنے آپ کو ’اعتدال پسند‘ اور ’روشن خیال‘ کہلوانے کا خبط سوار ہے۔

چارلس الیسن بیٹس نے ۱۸۷۲ء میں جب گزیٹئر آف کشمیر اینڈ لداخ مرتب کیا تواُس نے اس مقام پر ایک قلعے کی موجودگی کا ذکر کیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ قلعے سے ۴۰۰گز کی دوری پر ایک عبادت گاہ کے کھنڈرات ہیں۔ اس نے لکھا ہے کہ یہ عمارت نہایت خستہ اور ویران حالت میں ہے۔ یاد رہے یہ ہندو ڈوگرہ حکمرانوں کا دور تھا، لہٰذا یہ دعوی ٰ کرنا کہ ’’اس علاقے میں ایک عالی شان مندر واقع تھا اور وہاں ۱۹۴۷ءتک جوق در جوق یاتری آتے تھے، ایک لغو بات اور غلط بیانی کی انتہا ہے۔ بیٹس اورانگریز سرویر جنرل والٹر لارنس نے اس دور میں کشمیر کا قریہ قریہ گھوم کر معمولی واقعات تک قلم بند کیے ہیں۔ ان کی نگارشات میں کہیں بھی، کسی شاردا مندر کی یاترا کا تذکرہ نہیں ہے۔کہتے ہیں کہ ۱۹ویں صدی میں ادھورے من سے ڈوگرہ حکمرانوں نے اس کی تزئین کی کوشش کی تھی، مگر اس کو اَدھورا چھوڑ دیا گیا تھا، اور بس اس عبادت گاہ کے ارد گرد مٹی کی ایک دیوار بنائی گئی۔ اگر اس جگہ پر عقیدت مند وں کا تانتا بندھا ہوتا، تو ہندو حکمرانوں نے اس جگہ پر عالیشان مندر یقینا تعمیر کرایا ہوتا۔ 

تاریخ سے یہ بات ثابت ہے کہ یہ جگہ بودھ مت کے عروج کے دوران ایک یونی ورسٹی کا درجہ رکھتی تھی۔نالندہ اور ٹیکسلا کے برعکس یہاں بدھ اشرافیہ یا چیدہ اسکالرز فلسفہ، سائنس اور بودھ مت کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے آتے تھے۔ مشہور چینی سیاح و محقق ہیون سانگ[۶۰۲ء-۶۶۴ء] نے ساتویں صدی میں جب اس علاقے کا دورہ کیا، تو اس کے مطابق اس یونی ورسٹی میں بدھ بھکشو انتہا درجہ کی ریاضت اور تعلیم حاصل کرتے تھے۔ شاردا سے سرینگر تک اپنے سفر کے دوران اس نے کئی سو بودھ خانقاہیں دیکھیں، جن میں ہزاروں بھکشو مقیم تھے۔ اس دور میں یہاں ہر سال ۵۰ہزار کے قریب عقیدت مند آتے تھے اور اس دانش گاہ کے قلب میں واقع عبادت گاہ میں جانے سے قبل پاس کے شاردایا مدھومتی یا کھوچل دریا میں ڈبکی لگاتے تھے۔

شاردا کے کھنڈرات دراصل تاریخ کی اس کڑی کی نشاندہی کرتے ہیں، جب ہندو مت کو دوبارہ عروج حاصل ہوا اور بود ھ مت کو نشانہ بناکر ان کی عبادت گاہوں کو مندروں میں تبدیل کرایا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ آٹھویں صدی میں جب کیرالا سے ہندو برہمن آدی شنکر آچاریہ نے بودھ مت کے خلاف محاذ کھول کر پورے جنوبی ایشیا کا دورہ کیا، اس نے شاردا یعنی علم کی دیوی کے نام پر مندر تعمیر کروائے، جن میں سب سے بڑا مندر کرناٹک میں دریائے تنگ کے کنارے سرنگری میں واقع ہے۔جب وہ کشمیر آئے اور اس جگہ پر ان کا بد ھ بھکشوؤں کے ساتھ مکالمہ ہوا۔ ہندو تاریخ نویسوں کے بقول انھوں نے بدھ بھکشوؤں کو مکالمے میں چت کردیا۔ چونکہ اس دور میں اکثر راجے مہاراجے دوبارہ ہندو مت میں داخل ہو گئے تھے، شنکر آچاریہ نے ان کی مدد سے بھکشوؤں کا ناطقہ بند کرادیا اور ان کی عبادت گاہوں کو تہس نہس کرکے ان کی جگہوں پر مندروں کی عمارات کھڑی کردیں۔ یہی کچھ اس شارد ا پیٹھ کے ساتھ بھی ہوا ہے۔

۱۳۷۲ء میں میر سید علی ہمدانی کی آمد تک کشمیر میں وقتاً فوقتاً بودھ مت اور ہندو شیوازم کے درمیان انتہائی کشیدگی جاری تھی۔ ایک دوسرے کی عبادت گاہوں کو مسمار کرنا ایک طرح سے معمول تھا۔ اسلام کو جس طرح اس خطے میں عوامی پذیرائی ملی، اس کی شاید ایک وجہ یہ بھی تھی۔ کشمیر میں ۱۲۶۰ء قبل مسیح میں سریندرا پہلا بودھ بادشاہ تھا۔ اشوکا [۳۰۴ ق م- ۲۳۲ ق م]کی حکومت کے خاتمے کے بعد راجا جالو نے ہندو شیوا زم قبول کیا اور بودھ مت پر ایک قیامت ٹوٹ پڑی۔ بودھ اسٹوپوں، وہاروں کو تاراج کیا گیا۔ بودھ مت کی دانش گاہوں پر شیو مندر بنائے گئے۔ پھر ۶۳ء میں دوبارہ بودھ مت کو عروج حاصل ہوا۔ راجا کنشک کے عہد حکمرانی [۱۲۷ء-۱۵۰ء]میں بارہمولہ کے کانس پورہ میں چوتھی بودھ کونسل منعقد ہوئی اور بودھ مت کے ایک لبرل مہایانہ فرقہ کی بنیاد ڈالی گئی، جس کے پیروکار چین اور کوریا میں فی الوقت پائے جاتے ہیں۔

  جولوگ اس علاقہ کو ہندو زائرین کے لیے کھولنے کی وکالت کرتے ہیں، انھیں چند منٹ جنوبی کشمیر میں امرناتھ اور شمالی بھارت کے صوبہ اترا کھنڈ کے چار مقدس مذہبی مقامات بدری ناتھ، کیدارناتھ، گنگوتری اوریمنوتری کی مذہبی یاترا کو سیاست اور معیشت کے ساتھ جوڑنے کے مضمرات پر بھی غور کرنا چاہیے۔ایک عشرہ قبل تک امرناتھ یاترا میں محدودتعداد میں لوگ شریک ہوتے تھے، لیکن اب ہندو قوم پرستوں کی طرف سے چلائی گئی مہم کے نتیجے میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ آتے ہیں۔ اس کی یاتراکو فروغ دینے کے پیچھے کشمیر کو ہندوؤں کے لیے ایک مذہبی علامت کے طور پر بھی اُبھار نا ہے، تاکہ بھارت کے دعویٰ کو مزید مستحکم بناکر جواز پیدا کیا جاسکے۔

بھارت کے موجودہ قومی سلامتی مشیر اجیت دوبال تو کشمیر کو سیاسی مسئلہ کے بجائے تہذیبی جنگ قرار دیتے ہیں اور ان کے مطابق اس مسئلہ کا حل ہی تہذیبی جارحیت اور اس علاقہ میں ہندو ازم کے احیا میں ہے۔ ایک باضابطہ منصوبے کے تحت کشمیر کی پچھلی ۶۴۷سال کی مسلم تاریخ کو ایک تاریک دور کے بطور پیش کیا جاتا ہے۔ خطرہ تو بس یہ ہے کہ نام نہاد اعتدال پسندی کا دکھاوا کرکے وادیٔ نیلم یا شاردا کا علاقہ حقیر مفادات کے لیے کہیں دوسرا پہلگام اور بال تل نہ بن جائیں اور حریص طاقتیں ان کو سیاست ومعیشت کے ساتھ جوڑ کرکسی سانحے کا سامان پیدا نہ کریں۔ ایسی روشن خیالی کے ساتھ اگر بے ضمیری شامل ہے تو یہ زہر ہلاہل ہے!

ترکیہ کے گیارہ صوبوں میں جس طرح زلزلے نے قہر برپا کیا، اسی پیمانے پر شمالی شام کے چھ صوبوں کا ۶۰ہزار مربع کلومیٹر علاقہ بھی اس کی زد میںآگیا۔ مگر بین الاقوامی برادری جس تیزی کے ساتھ ترکیہ میں مدد لے کر پہنچی، شاید ہی کسی کو ان شامی علاقوں کے متاثرہ افراد کی مدد کرنے یا ان کی اشک شوئی کرنے کی توفیق ہوئی۔ ترکیہ کے حتائی صوبے کے سرحدی قصبہ ریحانلی سے صرف ۱۲ کلومیٹر دُور بال الحوا کراسنگ پوائنٹ پر ۴۲سالہ شامی شہری محمد شیخ نے مجھے بتایا کہ وہ اپنی اور اپنے ہم وطنوں کی قسمت پررو رہا ہے۔ وہ ۱۲سال قبل حلب یا الیپو سے جنگ کی وجہ سے نقل مکانی کرکے ترکیہ میں پناہ گزین ہو گیا تھا اور اب اپنے رشتہ داروں کی خیریت جاننے اور زلزلہ سے متاثرہ علاقوں میں مدد کرنے کے لیے واپس جا رہا تھا۔ وہ شکوہ کر رہا تھا: ’’ہماری زندگیاں تو پہلے ہی پچھلے ۱۲برسوں سے جنگ و شورش کی نذر ہوگئی تھیں۔ پھر کورونا وبا نے ہمیں نشانہ بنایا۔ اس میں جوں ہی کمی آگئی تو ہیضہ اور خشک سالی نے اس پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اور اب زلزلے نے توہماری زندگیاں برباد کرکے رکھ دی ہیں‘‘۔

رومی دورِ حکومت کی کئی ہزار سالہ پرانی سڑک ، جس نے تاریخ کے کئی اَدوار دیکھے ہیں، اس پر اقوام متحدہ کے ٹرکوں کا ایک کاروان امدادی سامان لے کر رواں تھا۔ ترکیہ کی سرحد کے پار شام کے مقامی لوگوں کا کہنا تھا کہ ’’امدادی ٹیموں، نیزبھاری اوزاروں اور سامان کی عدم موجودگی کی وجہ سے ہم کو اپنے ہاتھوں سے ملبہ کو ہٹا کر زندہ بچنے والوں کو نکالنا پڑا‘‘۔ اقوام متحدہ کے مطابق ملبے سے اب تک صرف ۶ہزار لاشیں نکالی جا سکی تھیں، جن میں شام کے حاکم بشار کے مخالفین کے زیرقبضہ شمال مغرب میں ۴ہزار۴سو لاشیں ملی تھیں۔ ابتدائی اندازوں کے مطابق۲ہزار ۷سو ۶۲ سے زائد عمارتیں منہدم ہوچکی ہیں۔ شام کی ایک غیر سرکاری تنظیم ’رسپانس کوآرڈینیٹرز گروپ‘،  جس کے ترکیہ میں دفاتر ہیں ، نے کہا کہ خطے میں ۴۵  فی صد انفراسٹرکچر کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ اقوام متحدہ سے لوگ شکایت کر رہے تھے۔ اس کی جانب سے پہلا امدادی ٹرک چار دن بعد تباہ شدہ شہر دیر الزور پہنچا، تو مکینوں نے اقوام متحدہ کے جھنڈوں کو اُلٹا لٹکا کر احتجاج درج کروایا۔ بین الاقوامی دباؤ کی وجہ سے شام کے صدر بشار الاسد نے ۱۰ فروری کو حزب اختلاف کے زیرقبضہ علاقوں میں انسانی امداد بھیجنے کا اعلان تو کیا تھا، مگر یہ امدادی سامان نو دن بعد بھی نہیں پہنچا تھا۔ ان کے وزیروں کا کہنا تھا کہ انھوں نے امداد تو روانہ کی تھی ، مگر عسکریت پسند گروپ حیات تحریر الشام کے سربراہ ابومحمدالجولانی نے ان امدادی رضاکارگروپوں میں شامل افراد کی جانچ پڑتال کرنے میں کافی وقت صرف کردیا۔ ان کو خدشہ تھا کہ شامی حکومت شاید امدادی ٹیموں کی آڑ میں انٹیلی جنس اور کمانڈو اہل کار بھیج رہی ہے۔

’وائٹ ہیلمٹس‘ نام سے شامی شہری دفاع گروپ کے لیے کام کرنے والی رضاکار سورمر تمر نے مجھے بتایا: ’’زلزلہ آنے کے کئی روز بعد تک ملبوں سے انسانی ہاتھ نمودار ہوکر ہاتھ ہلاہلا کر مدد کی دہائی دے رہے تھے۔ منجمد کرنے والی سردی کے دوران بھی ملبو ں سے انسانی چیخ پکار کی آوازیں آرہی تھیں۔ یہ ہولناک یادیں اور آوازیں مجھے ساری زندگی پریشان کرتی رہیں گی۔پھر جب ہم ان تباہ حالوں میں سے کسی کا ہاتھ پکڑتے تھے تو وہ ہاتھ ہی نہیں چھوڑتے تھے۔ ان کو خوف ہوتا تھا کہ اگر انھوں نے ہاتھ چھوڑا تو ہم ان کو چھوڑ کر آگے بڑھ جا ئیں گے ‘‘۔

اپنے آنسو پونچھتے ہوئے تمر نے کہا:’’سچ تو یہ ہے کہ مجھ کو ایسے کئی ہاتھ چھوڑنے پڑے، کیونکہ ملبہ ہٹانے اور ان کو نکالنے کے لیے کوئی سامان نہیں تھا۔ ہم آگے بڑھ کر دیکھتے تھے کہ ننگے ہاتھوں سے کون سا ملبہ ہٹایا جاسکتا ہے او ر کون سی جان بچائی جاسکتی ہے۔ اور پھر دو دن بعد ان ملبوں سے انسانی آوازیںآنا بند ہوگئیں‘‘۔اُس وقت تک علاقے میں کوئی امدادی ٹیم نہیں پہنچ پائی تھی۔ میں ان تمام مرنے والوں سے معافی مانگتی ہوں، جنھیں ہم بچانے میں ناکام رہے‘‘۔ امدادی کارکنوں کا کہنا ہے کہ ’’صرف پہلے ۷۲گھنٹوں میں پانچ فی صد علاقے میں ریسکیو کا کام ہوسکا‘‘۔

زلزلے کے بعد پہلے ۷۲گھنٹوں ہی میں کسی زندہ وجود کو ملبہ سے نکالنے کا امکان موجود رہتا ہے۔ ’وائٹ ہیلمٹس‘ کے سربراہ رائد صالح نے بتایا: ’’ہم نے بے بسی کے ساتھ بہت جدوجہد کی کہ زندہ لوگوں تک پہنچ سکیں۔ مگر مناسب آلات کی کمی ہماری اس بے بسی کی ایک بڑی وجہ تھی، لیکن قسم کھا کر کہتا ہوں کہ ہم نے اپنی سی پوری کوشش کی۔ تاہم، اقوام متحدہ کا غفلت برتنا بہت صدمہ خیز ہے۔ ان علاقوں میں ہزاروں شامی خاندان منفی درجہ حرارت میں سڑکوں پر یا ایسے خیموں میں زندگی گزار رہے تھے ، جن میں کمبل ، بستر یا گرمی کا کوئی انتظام نہیں تھا‘‘۔ مغربی ادلب صوبہ کے گاؤں امرین کے ندال مصطفےٰ بتا رہے تھے: ’’اپنی پوری فیملی کے ساتھ پہلے تین دن ہم نے کھلی سڑک پر گزارے۔ باب الحوا کی سرحد کے اس پار، ادلب صوبے میں تقریباً ۴۰ لاکھ افراد آباد ہیں، جن میں ۲۸ لاکھ ایسے افراد ہیں ، جو جنگ زدہ علاقوں سے ہجرت کر کے آئے ہیں‘‘۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ ۲۰۱۱ءسے اب تک شام کے تقریباً ساڑھے تین لاکھ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق ملک کے شمال مغرب میں بے گھر ہونے والوں کی تعداد تقریباً ۵۳ لاکھ ہے۔ تقریباً ڈ یڑھ کروڑ شامی شہری جنگ اور سخت مغربی پابندیوں کی وجہ سے شدید معاشی بحران کا شکار ہیں۔ ترکیہ کا یہی متاثرہ جنوبی علاقہ ان کے لیے ایک ڈھال تھا، مگر زلزلہ کی وجہ سے ترکیہ کے اس خطے کا انفرا اسٹرکچر تباہ و برباد ہو چکا ہے۔ ترکیہ میں ۳۵ لاکھ رجسٹرڈ شامی پناہ گزینوں میں سے ۱۷ لا کھ زلزلے سے متاثرہ صوبوں میں رہتے ہیں۔

 امدادی اداروں کے مطابق اگرچہ کئی عرب ممالک اور بین الاقوامی انسانی امداد کے کئی اداروں نے دمشق کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر امداد پہنچائی تھی، مگر یہ امداد اپوزیشن کے زیراثر شمال مغربی شام تک نہیں پہنچ سکی، جہاں ۸۵ فی صد متاثرہ افراد رہ رہے ہیں۔ رسپانس کوآرڈینیٹرز گروپ نے الزام لگایا کہ ۹۰ فی صد امداد حکومت کے زیر قبضہ علاقوں میں تقسیم کی گئی۔ ۲۰۱۴ء میں ، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے انسانی امداد کی ترسیل کے لیے شام میں چار بارڈر کراسنگ کی منظوری دی تھی۔ مگر اب لے دے کے صرف باب الحوا ہی قانونی طور پر اقوام متحدہ کی نگرانی میں واحد سرحدی گزرگاہ رہ گئی ہے۔

زلزلہ کی وجہ سے مقامی آبادی پریشان حال تو تھی ہی، کہ اسی دوران شامی حکومتی افواج اور باغی افواج کے درمیان حلب کے نواح میں جھڑپوں کے دوران دونوں نے ایک دوسرے پر  خوب گولہ باری کی۔ جس کی وجہ سے امدادی کارکنوں کو اپنی جانیں بچانے کے لیے بھاگنا پڑا۔ سیریئن ابزرویٹری فار ہیومن رائٹس میں اس جنگ کی نگرانی کرنے والے کارکن ابو مصطفےٰ الخطابی کا کہنا تھا کہ اسد فورسزکی بیس ۴۶ سے گولہ باری شروع ہوئی اور انھوں نے مغربی حلب کو نشانہ بنایا۔ اس کے علاوہ عطریب قصبہ ،کفر اما ، کفر تال اور کفر نو دیہاتوں میں بھی شدید جھڑپیں ہوئیں۔ یاد رہے کہ عطریب اور اس کے نواح میں زلزلے کے نتیجے میں ۲۳۵؍ افراد ہلاک ہوگئے تھے اور متعدد افراد ملبے کے نیچے دبے ہوئے تھے۔ ایسے وقت میں اس طرح کی مسلح جھڑپوں سے ابتدائی امدادی کام بھی نہیں ہوسکے۔

حقیقت یہ ہے کہ جو شامی زلزلے کے دوران ملبے میں دب کر مارے گئے اور کئی روز تک ہاتھ ہلا ہلا کر مدد کی دہائی دے رہے تھے، ان کا خون بین الاقوامی برادری اور شامی متحارب گروپوں کے ہاتھوں پر ہے۔

جمہوریہ ترکیہ کے جنوب مشرق میں شام کی سرحد سے متصل ۶فروری ۲۰۲۳ءکو آئے زلزلے نے ملک میں قہر مچا دیا ہے۔ تقریباً ایک لاکھ مربع کلومیٹر پر محیط علاقہ اس کی زد میں آیا ہے۔ دس صوبوں، قہرمان مارش، حاتائی، عثمانیہ، غازی ان تپ، شانلی عرفہ، دیاربکر، مالاتیہ، کیلس، آدانا اور آدیمان کی ایک کروڑ ۲۰ لاکھ کی آبادی متاثر ہوئی ہے۔ اس متاثرہ علاقے کے ایک سرے یعنی آدانا سے دوسرے سرے یعنی دیار بکر یا مالاتیہ تک ۷۰۰کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔   یہ سارا علاقہ تباہی اور بربادی کی ایک داستان بیان کر رہا ہے۔ ۵۰ہزار سے زیادہ افراد کی ہلاکت کا اندیشہ ہے ۔ اتنے بڑے علاقے میں بچائو اور سہارے کے لیے حکومتی اہل کاروں اور رضاکاروں کی ایک بڑی فوج کی ضرورت ہے۔ ترکی کے ان صوبوں کے علاوہ سرحد کی دوسری طرف شام کے پانچ صوبہ لاتیکا، ادلیب، رقہ اور الحکہ بُری طرح متاثر ہوئے ہیں۔

تین سال قبل جب ترکیہ کی قومی نیو ز ایجنسی انادولو سے دارالحکومت انقرہ میں وابستگی اختیار کی تو مجھے بتایا گیا: ’’ترکیہ میں زلزلے آتے رہنا تو ایک عام سی بات ہے، اس سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ بلڈنگوں کے ڈیزائن و تعمیر ایسی ہے کہ یہ ہلتی تو ہیں، مگر گرنے کا احتمال کم ہی ہوتا ہے۔ ترکیہ دوٹیکٹونک پلیٹوں کے بیچ میں واقع ہے اور یہ پلیٹ ایک دوسرے سے ٹکراتے رہتے ہیں‘‘۔ آج صورت حال یہ ہے کہ ہمارے دفتر میں کئی ترک ساتھیوں کو اپنے اہل خانہ یا والدین کا پتہ نہیں چل رہا تھا۔

شانلی عرفہ کے سرحدی سوروج قصبہ میں مقامی صحافی آیان گلدووان مجھے بتا رہے تھے: ’’جب زلزلے کے جھٹکے سے مَیں بیدار ہوا تو پہلے تو مجھے یوں لگا کہ ترکیہ نے شاید شام میں امریکا کے حلیف کرد باغیوں کے خلاف آپریشن شروع کر دیاہے اور بمباری ہو رہی ہے۔ زلزلہ مقامی وقت کے مطابق ۴بج کر ۱۷منٹ پر آیا، جب کہ باہر برف باری ہو رہی تھی۔ آج کل فجر کی اذا ن ۶بج کر ۴۵ منٹ پر ہوتی ہے۔ اپنے والدین کے ساتھ جان بچانے کے لیے میں بلڈنگ سے باہر نکلا۔ دُور سے تاریخی عرفہ شہر سے گرد و غبار آسمان کی طرف بلند ہوتا دکھا ئی دیا۔زمین کی تھرتھراہٹ ۶۵ سیکنڈ تک جاری رہی اور پندرہ منٹ کے بعد، میں برف باری اور منجمد کرتی سردی سے بچنے کے لیے اپنی بلڈنگ کی طرف جانے لگا۔ اسی دوران ایک اور زلزلہ آگیا اور مَیں نے اپنی آنکھوں سے اس بلڈنگ کو گرتے دیکھا ، جس میں میرا فلیٹ تھا۔ یوں دیکھتے ہی دیکھتے بے گھر ہوچکا تھا‘‘۔

متمول صوبہ غازی ان تپ، جس کے دارالحکومت کا نام بھی غازی ان تپ ہے، کے نواح میں ایک پہاڑی پر نیوز اینکر اوکتے یالچن کا فلیٹ تھا۔ ان کی بلڈنگ بھی زلزلے کے دوسرے جھٹکے سے گر گئی۔ پہاڑی سے وہ شہر پر آئی قیامت دیکھ رہے تھے۔ ان کا کہناہے: ’’ہمیں یوں لگا جیسے کوئی ایٹم بم گرادیا گیا تھا۔ ماہرین نے بتایا کہ اس زلزلہ کی شدت ۵۰۰میگاٹن ایٹم بم جتنی تھی۔ جاپان کے ہیروشیما شہر پر جو ایٹم بم امریکا نے گرایا تھا اس کی طاقت تو بس ۱۵کلو ٹن تھی۔ زلزلہ تھمنے کے بعد میں شہر کے مرکز کی طرف روانہ ہوا، تو دیکھا کہ شاپنگ مال، کلبس اور ریسٹورنٹس ، جہاں کل رات تک لوگ چمکتی ہوئی بھڑکیلی روشنیوں کے جلو میں ویک اینڈ جشن منا رہے تھے، زمین بوس ہو چکے تھے۔ قہر مان مار ش صوبہ کے دو قصبے پزارجک اور البستان کا نام و نشان مٹ چکا ہے۔ زلزلہ کا مرکز یہیں تھا‘‘۔

حاتائی میں ہی انادولو نیوزایجنسی کے ایک اور رپورٹر اپنے مکان کے گرنے سے اپنے خاندان کے ساتھ زندہ ہی ملبے میں دفن ہو گئے تھے۔ وہ بتا رہے تھے:’’ہر طرف اندھیر ا تھا اور  لگتا تھا کہ ہم زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔ چند گھنٹوں کے بعد مَیں نے محسوس کیا کہ زلزلہ کے مزید جھٹکوں نے دیوار میں شگاف ڈال دیا، جس سے روشنی نظر آنا شروع ہوئی۔ پھر میں نے کئی گھنٹوں کی مشقت کے بعد وہاں پڑی ایک سخت چیز سے اس سوراخ کو بڑا کیا۔ مجھے کچھ یاد نہیں کہ و ہ آلہ کیا تھا اور کیسے ہاتھ میں آگیا تھا۔ سوراخ تھوڑا بڑا ہوگیا ، تو پہلے اپنے بچوں کو باہر نکالا اور پھر اپنے والدین اور پھر خود اپنی اہلیہ کے ساتھ باہر آگیا۔ ہم دو دن تک خون جمانے والی سردی اور بارش میں بغیر جوتوں کے نائٹ سوٹ پہنے سڑک پر کسی ریسکیو ٹیم کا انتظار کر رہے تھے‘‘۔

 بحیرۂ روم کے ساحل پر حاتائی صوبہ کی بندرگاہ اسکندرون تو آگ کی نذر ہو گئی ۔ یہاں ترکیہ کی قومی بحریہ کا ایک اسٹیشن بھی ہے۔ زلزلہ سے کئی کنٹینر الٹ گئے اور آگ بھڑک اٹھی، کئی روز کے بعد آگ پر قابو پایا گیا۔ پڑوس میں آدانا صوبہ میں انجیرلک کے مقام پر ناٹو اور امریکی فوج کی فارورڈ بیس کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ مگر اس کے ایئرپورٹ کو ٹھیک کرکے بھاری طیاروں کے اترنے کے قابل بنا دیا گیا ہے۔

 غازی ان تپ کے دو ہزار سال پرانے تاریخی قلعے نے کئی زمانے دیکھے ،مگر اس زلزلہ کی وجہ سے اس کا ایک بڑا حصہ مسمار ہو گیا ہے۔ آثار قدیمہ کے ماہرین کے لیے اس کی مرمت اور بحالی ایک بڑا چیلنج ہوگا۔ ترکیہ کا یہ متاثرہ علاقہ تاریخی لحاظ سے خاصا اہم ہے۔ شان لی عرفہ کے صوبے میں عرفہ شہر کو فلسطین کی طرح پیغمبروں کی سرزمین کہا جاتا ہے۔ اس کا قدیم نام شہر’ ار‘ ہے۔ یہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام پیدا ہوئے تھے اور ان کو نمرود نے آگ میں ڈالا تھا۔ جس جگہ ان کو آگ میں ڈالا گیا تھا وہاں اب ایک خوب صورت تالاب ہے، جس میں ہزاروں مچھلیاں تیرتی رہتی ہیں۔ یہ حضرت شعیبؑ ، حضرت ایوبؑ اور حضرت الیاس علیہم السلام کا بھی وطن ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی اپنی زندگی کے سات سال یہاں گزارے۔

جمہوریہ ترکیہ میں آفات سے نمٹنے والی ایجنسی AFADدنیا بھر میں اپنی کارکردگی اور مہارت کی وجہ سے مشہور ہے ۔ مگر یہ تباہی جس بڑے پیمانے پر اور جس وسیع خطے میں آئی ہے،  اس وجہ سے اکیلے یہ بحالیات کرنے والی ایجنسی شاید ہی اس سے نپٹ سکے۔ فی الحال دینا بھر کے نوّے ممالک کی ٹیمیں میدا ن میں ہیں۔ان میں پاکستان اور بھارت کی ریسکیو ٹیمیں بھی شامل ہیں۔ پاکستان ریسکیو ٹیم نے آدیمان میں ایک ۱۵ سالہ بچے کو ملبے سے زندہ نکالا، جو یقینا ایک کرشمۂ قدرت ہے۔ اس ٹیم نے اب اس جگہ پر ریسکیو آپریشن ختم کر دیا تھا کہ اس کے ایک کارکن نے موہوم آواز میں کسی کو کلمۂ شہادت پڑھتے ہوئے سنا ۔انھوں نے دوبارہ آلات نصب کیے، تو معلوم ہو اکہ آواز ملبے سے آرہی ہے۔ کئی گھنٹوں کی مشقت کے بعد اس بچے کو برآمد کیا گیا، جو منفی درجہ حرارت میں ۱۳۷گھنٹوں تک ملبہ میں دبا رہا ۔ ایسے اَن گنت واقعات منظر عام پر آرہے ہیں۔چونکہ زندہ افراد کے ملبے سے نکلنے کا سلسلہ جاری رہا، اس لیے بلڈوزر اور بھاری مشینری استعمال کرنے سے پرہیز کیا گیا ہے۔ ہاتھوں سے ملبہ اٹھانا اور اس میں زندہ وجود کا پتہ لگانا انتہائی صبر آزما کام ہے۔

اب صورتِ حال یہ ہے کہ ایک بڑی متاثرہ آبادی کی آبادکاری اور ان کی متبادل رہایش کا انتظام کرنا، شہروںاور قصبوں کا پورا انفراسٹرکچر کھڑا کرنا ایک بہت بڑا اور سخت کٹھن کام ہے۔ یاد رہے، عددی اعتبار سے ترکیہ، امریکا کے بعد دُنیابھر میں بیرونِ ملک انسانی امداد پر خرچ کرنے والا دوسرا بڑا ملک ہے۔ چاہے بنگلہ دیش، میانمار، روہنگیا کے متاثرین ہوں یا افغانی، شامی، جنوبی امریکی اور افریقی آفت زدگان۔ ۲۰۲۱ء میں طیب اردوان کی حکومت نے بیرونِ ملک انسانی امداد کے لیے ۵ء۵ بلین ڈالر خرچ کیے تھے۔

ترکیہ کا ایک ادارہ ’ترکش کوآپریشن اینڈ کوآرڈی نیشن ایجنسی‘ انھی خدمات کے لیے مختص ہے۔ علاوہ ازیں مذہبی اُمور کی وزارت اور بہت سی غیر سرکاری تنظیمیں بھی امداد اور زکوٰۃ جمع کرکے دُوردراز ممالک میں ضرورت مندوں تک پہنچاتی ہیں۔ اس طرح جمہوریہ ترکیہ کی مجموعی قومی پیداوار کا اعشاریہ ۸۶ فی صد بیرون ملک انسانی امداد پر مختص کرکے، ترکیہ امریکا سے کافی آگے ہے۔ اب آزمایش دیکھیے کہ سخاوت، دریا دلی اور خود داری کے لیے مشہور یہ ملک،جس کے پاس عرب دنیا کی طرح تیل کے چشمے بھی نہیں ہیں، اس مصیبت کی گھڑی میں خود امداد کامستحق ہوگیا ہے۔

ان آفت زدہ علاقوں کے اوپر سے پرواز کرتے ہوئے دور دور تک صرف ملبے کے ڈھیر نظر آتے ہیں اور ان کے درمیان جزیروں کی طرح چند عمارتیں کھڑی نظر آ رہی ہیں۔ مقامی افراد کے مطابق یہ حکومت کی طرف سے رعایتی نرخوں پر غریبوں کے لیے بنائے گئے مکانات ہیں، جو شدید زلزلوں کے جھٹکوں کو سہہ سکے ہیں، جب کہ اسکائی اسکریپرز، پُر تعیش کثیر منزلہ عمارات، ان میں سے کئی تو بس چند ماہ پہلے ہی مکمل ہو چکی تھیں، اور ان کو بیچنے کے لیے کئی شہروں میں ہورڈنگس لگی ہوئی تھیں، زمین بوس ہو چکے ہیں۔ اسی طرح  زلزلہ کے مرکز قہرمان مارش صوبہ کے پزارجک قصبہ سے صرف ۸۰کلومیٹر دُور ایرزان قصبہ کا بال بھی بیکا نہیں ہوا۔ اس کے سبھی مکین مع مکانات صحیح و سلامت ہیں۔

آفت زدہ علاقے کے باسی ابھی تک دہشت زدہ ہیں، اور ابھی تک گھروں کے بجائے سڑکوں اور پارکوں میں خیموں میں رہ رہے ہیں۔آفٹر شاک آنے کا سلسلہ جاری ہے ۔حکومتی اعداد و شمار کے مطابق ۱۹ہزار کثیر منزلہ عمارات زمین بوس ہو چکی ہیں اور مزید ۳۰ہزار ناقابل رہایش ہوچکی ہیں۔ اس کے علاو ہ لاتعداد عمارتوں کو انتہائی مرمت کی ضرورت ہے۔ چونکہ ۱۹۸۰ءسے ہی ترکیہ میں قانونی طور پر انفرادی مکانات یا بنگلے تعمیر کرنے پر پابندی عائد ہے، اس لیے کم و بیش پوری آبادی کثیر منزلہ عمارات میں ہی رہتی ہے۔

۱۹۹۹ء میں ازمت اور استنبول کے آس پاس آئے زلزلے کے بعد بلڈنگ قوانین میں بڑی تبدیلیاں کرکے یہ لازم کردیا گیا تھا کہ زلزلہ کو سہنے والی عمارات ہی بنائی جائیں۔ مگر ایسا لگتا ہے کہ جنوب مشرق کے ان صوبوں کی مقامی بلدیہ نے ان قوانین کا سختی کے ساتھ اطلاق نہیں کیا ہے۔ مالاتیہ صوبہ میں ایک ایسی بلڈنگ گر گئی، جس کا پچھلے سال ہی افتتاح ہوا تھا۔ حاتائی کے انتاکیا شہر میں جب ایک ۱۲منزلہ عمارت گرنے کی خبر آئی تو اس کے بنانے والے مہمت یاسا ر ملک سے باہر فرار ہو رہے تھے، ان کو استنبول ایرپورٹ پر گرفتار کیا گیا۔ اسی شہر میں بحر روم کے کنارے ایک ۲۵۰  فلیٹوں پر مشتمل سپر لگزری ۲۴منزلہ عمارت ایک ڈویلپر نے بنائی تھی، جس کے ہورڈنگس ملک بھر کے خریداروں کو لبھا رہے تھے۔ یہ عمارت تاش کے پتوں کی طرح بکھر گئی ہے۔

زلزلوں کے ماہر اور اسٹرکچر انجینئر مہدی زارا کے مطابق اکثر ہلاکتیں زلزلہ کے بجائے بلڈنگوں کے گرنے سے ہوئی ہیں اور اگر کوئی بلڈنگ شاک سے گر جاتی ہے، تو یہ تسلیم کیا جانا چاہیے کہ اس کی تعمیر میں کوئی نقص تھا۔ ان کے مطابق جدید ٹکنالوجی کے ذریعے بلڈنگوں کو شاک پروف بنایا جاسکتا ہے اور یہ تکنیک عمارت بنانے کے لیے استعمال کرنا تو ترکیہ میں لازمی ہے۔ اس کا بڑاثبوت اسی علاقے میں غریب افراد کے لیے بنائی گئی عمارات ہیں، جو بالکل سلامت کھڑی ہیں۔ لگتا ہے کہ بلڈنگ قوانین یا کوڈ کو سختی سے ان علاقوں میں لاگو نہیں کیا گیا تھا۔ حالانکہ ایک بہتر ڈیزائن والی عمارت اس سے بھی زیادہ شدت کے زلزلے برداشت کر سکتی ہے۔کسی بھی بلڈنگ کو شاک پروف بنانے کے لیے اس کی بنیاد میں اسٹیل کی راڈیں ڈالی جاتی ہیں اور پھر استونوں کے کالم بھی اسٹیل سے ہی کھڑے کیے جاتے ہیں۔ زلزلہ کے وقت لچک کی وجہ سے اسٹیل کالم جھٹکے کے بعد واپس اپنی پوزیشن میں آتے ہیں اور بلڈنگ محفوظ رہتی ہے۔

انقرہ میں حکومت کا کہنا ہے کہ ان علاقوں میں چونکہ بلدیاتی ادارے اپوزیشن گڈ پارٹی اور کرد ایچ ڈی پی کے پاس ہیں، انھوں نے مقبولیت حاصل کرنے کے لیے اور رئیل اسٹیٹ بوم دکھانے کے لیے بلڈنگ بنانے کی شرائط اور ان پر عمل درآمد کروانے میں نرمی برتی ہے۔ نائب صدر فواد اوکتہ کے مطابق ابھی تک ۱۳۱ٹھیکے داروں، انجینئرو ں اور معماروں کی نشان دہی کی گئی ہے، جن کے خلاف مقدمے درج کیے جائیں گے۔ وزارت انصاف نے تو باضابطہ تفتیش کے لیے ایک ٹیم بھی تشکیل دی ہے۔ ترکیہ میں ہر گھر کا انشورنس کرنا لازمی ہوتا ہے، اس کے بغیر بجلی، پانی اور گیس کا کنکشن مل ہی نہیں سکتا۔ اس طرح ہر سال انشورنس کمپنیاں مکان مالکان سے ۲ء۱۹ بلین لیرا اکٹھا کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ حکومت کی طرف سے عائد زلزلہ ٹیکس میں بھی ۸۸بلین لیرا حکومت کے خزانے میں جمع ہیں۔ ہر سال بلدیہ کے ضابطہ محکمہ کے افراد جدید آلات لیے عمارتوں کی چیکنگ کرتے رہتے ہیں۔ انقرہ میں جس علاقے میں، مَیں رہایش پذیر ہوں ، صرف پچھلے ایک سال کے دوران پانچ بلڈنگوں کو غیر محفوظ قرار دے کر مسمار کردیا گیا ۔ ضابط محکمہ مکینوں کو نوٹس دیتا ہے اور پھر ان کو ایک سال تک متبادل رہایش اور سامان کے نقل و حمل کے لیے خرچہ دے کر مسمار شدہ جگہ پر نئی عمارت بغیر کسی خرچہ کے تعمیر کراتا ہے۔ اس کا خرچہ مکان مالک کے بجائے انشورنس کمپنی سے لیا جاتا ہے۔

یہ زلزلہ ایسے وقت آیا ہے کہ جب صدر رجب طیب اردوان اپنی سیاسی بقا کی جنگ لڑرہے ہیں ۔ انھوں نے پہلے ہی ۱۴مئی ۲۰۲۳ء کو صدارتی اور پارلیمانی انتخابات کے انعقاد کا اعلان کردیا تھا۔ ان زلزلوں کا ایک ضمنی مثبت اثر یہ رہا کہ ترکیہ اور یونان میں مفاہمت کے آثار نظر آرہے ہیں۔ سیاسی کشیدگی ہوتے ہوئے بھی یونان نے سب سے پہلے اپنی ریسکیو ٹیموں کو بھیجا اور ان کے وزیر خارجہ نکوس ڈنڈیاس خود اس کی نگرانی کرنے پہنچ گئے۔ دوسری طرف آرمینیا اور ترکیہ کے درمیان بارڈر پوسٹ ۳۰سال بعد کھولی گئیں۔ کاش! اسی طرح کی کوئی مفاہمت شام اور ترکیہ کے درمیان بھی ہوتی، تاکہ اس خطے میں امن بحال ہوسکے اور شورش کی وجہ سے ۴۰لاکھ کے قریب بے گھر شامی اپنے گھروں کو جاکر زندگی گزار سکیں۔

پچھلے ۳۰برسوں کے دوران جموں و کشمیر کی شورش میں ۲۵۰ کے قریب پنڈتوں کی ہلاکت کےلیے ۲۰۲۲ءمیں بنی ایک فلم ’کشمیر فائلز‘ کے ذریعے کشمیری مسلمانوں کو پوری دنیا میں معتوب و مغضوب بنانے اور مزاحمتی تحریک کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کے بعد آخرکار سچ پھوٹ ہی پڑا۔ پچھلے ہفتے جموں و کشمیر کے گورنر منوج سنہا نے ہی بھارتی عوام سے اپیل کی کہ ’’خطے میں اقلیتی افراد کی ہلاکت کو مذہب کی عینک سے دیکھنا بند کردیں ، کیونکہ اس شورش زدہ خطے میں دوسری برادریوں [یعنی مسلمانوں]کے لوگ بھی بڑی تعداد میں مارے گئے ہیں‘‘۔ میڈیا اور دیگر ذرائع کے مطابق۱۵ ہزار ۶سو ۹۶ ؍ افراد اور سرکاری ذرائع کے مطابق ۴۰ہزار افراد ۱۹۹۰ءسے لے کر اب تک کشمیر میں ہلاک ہو چکے ہیں ، جن میں بڑی تعداد مقامی مسلمانوں کی ہے ۔

اسی دوران خطے کے پولیس سربراہ دلباغ سنگھ اور ان کے نائب وجے کمار نے سال کا جائزہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’’سال ۲۰۲۲ء سیکورٹی کے محاذ پر پچھلے چار برسوں کے مقابلے میں پُرامن سال تھا جس میں ۵۶غیر ملکیوں سمیت ۱۸۶ عسکریت پسندوں کو مارا گیا‘‘ ۔ ان کا کہنا تھا کہ سال ۲۰۲۳ءمیں پولیس کی توجہ دہشت گردی ختم کرنے پر مرکوز ہوگی، یعنی سیاسی جماعتوں اور سویلین آبادی میں مزاحمتی تحریک کے حمایتی یا سرکردہ افراد کو تختۂ مشق بنایا جائے گا ۔ جس کا آغاز پہلے ہی ہوچکا ہے ۔ سنگھ کے مطابق پچھلے سال پولیس نے ۵۵گاڑیاں اور ۴۹ جائیدادیں ضبط کیں، کیونکہ ان کے مالکان علیحدگی پسندی کو شہ دیتے تھے ۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ سال ۲۰۲۲ء میں ۱۰۰ نوجوانوں نے عسکریت میں شمولیت اختیار کی، جن میں سے ۱۷ کو گرفتار کیا گیا اور باقی مختلف مقابلوں میں مارے گئے ۔ اب صرف ۱۸ باقی ہیں ۔ اب اگر ان سے کوئی پوچھے کہ ان ۱۸عسکریت پسندوں سے نپٹنے کےلیے فوج کی دو کورز، نیم فوجی دستوں کی سیکڑوں بٹالین اور پولیس کی ہزاروں کی تعداد میں نفری کی آخر کیاضرورت ہے؟ لیگل فورم فار کشمیر کے مطابق اپریل ۲۰۲۲ء میں نیم فوجی دستوں کی مزید۳۰۰کمپنیاں اور پھر مئی میں مزید ۱۵۰۰فوجی کشمیر میں تعینات کیے گئے ۔ اس نئی تعیناتی کی بھی پھر کیوں ضرورت پیش آئی؟

اگر دیکھا جائے تو پولیس سربراہ کا یہ دعویٰ کہ انھوں نے کشمیر میں نسبتاً امن و امان قائم کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے، کچھ غلط نہیں ہے ۔ مگر یہ قبرستان کی پُراسرار خاموشی جیسی ہے ۔ خود بھار ت کے سیکورٹی اور دیگر اداروں میں بھی اس پر حیرت ہے کہ کشمیریوں کی اس خاموشی کے پیچھے مجموعی سمجھ داری یا نااُمیدی؟ آیا یہ کسی طوفان کا پیش خیمہ ہے ؟

’لیگل فورم فار کشمیر‘ کے سال ۲۰۲۲ء کے جائزے میں بتایا گیا ہے کہ اس سال کے دوران خطے میں ۳۱۲ ہلاکتیں ہوئیں ، جن میں ۱۸۱عسکریت پسند، ۴۵شہری اور ۸۶سیکورٹی کے افراد شامل ہیں ۔ ان ۱۲ماہ کے دوران سیکورٹی دستوں نے ۱۹۹سرچ آپریشن کیے اور عسکریت پسندوں کے ساتھ تصادم کے ۱۱۶واقعات پیش آئے ۔ ان سرچ آپریشنز کے دوران ۲۱۲شہری جائیدادوں کو تختۂ مشق بنایا گیا ۔ اسی طرح سال میں ۱۶۹ بار انٹرنیٹ بند کر دیا گیا ۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کی تنبیہ کے باوجود جموں خطے کے مسلم اکثریتی علاقوں پیر پنچال اور چناب ویلی میں عسکریت سے نپٹنے کےلیے سویلین ملیشیا ولیج ڈیفنس کمیٹیوں کا احیا کیا گیا ۔ اس میں ہندو آبادی کو بھرتی کیا جاتا ہے۔ مقامی آبادی کو ہراساں کرنے کےلیے اس ملیشیا کے خلاف ۲۱۲ فوجداری مقدمات درج ہیں ۔ حالانکہ ۲۰۱۲ء میں بھارتی سپریم کورٹ نے سکیورٹی ایجنسیوں کی طرف سے سول افراد کو مسلح کرنے اور شورش سے نمٹنے کے لیے انھیں ہراول دفاعی دستوں کے طورپراستعما ل کرنے پر پابندی لگائی تھی ۔ عدالت عظمیٰ کا استدلال تھا کہ عوام کی جان و مال کو تحفظ فراہم کرناحکومت کے اوّلین فرائض میں شامل ہے اورسکیورٹی کی نج کاری کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔ عدالت نے یہ فیصلہ ایک پٹیشن کی سماعت کے بعد صادر کیا، جس میں وسطی بھارت کے قبائلی علاقوں میں بائیں بازو کے انتہاپسندوں کے خلاف حکومتی اداروں کی طرف سے قائم کردہ ایک سویلین آرمی ’سلواجدوم‘ کے وجود کوچیلنج کیا گیا تھا ۔ اس آرمی نے شورش سے نمٹنے کے نام پر مقامی آبادی کو ہراساں اور پریشان کر رکھا تھا ۔

لیگل فورم کی رپورٹ کے مطابق ۱۹؍اکتوبر کو سیکورٹی دستوں نے ایک نوجوان عمران بشیر کو شوپیاں علاقہ میں اس کے گاؤں ہرمین سے گرفتار کیا ۔ اس پر عسکریت پسندوں کی معاونت کا الزا م تھا ۔ آج کل سیکورٹی ایجنسیوں نے ایک ٹرم ’ہائبرڈ ملی ٹنٹ‘ وضع کی ہے، یعنی وہ عسکریت پسند جس کے پاس ہتھیار نہ ہوں ۔ پولیس نے بعد میں بتایا کہ عمران نوگام میں تصادم کے دوران مارا گیا، جو اس کے گھر سے ۱۵کلومیٹر کی دوری پر ہے ۔ گویا حراست میں لینے کے بعد اس کوہلاک کیا گیا ۔ اسی طرح ۹ جولائی کی صبح کو سرینگر کے ایک رہائشی مسلم منیر لون کو حراست میں لیا گیا ۔ دوپہر کو اس کی لاش اس کی والدہ شفیقہ کے حوالے کی گئی ۔ لیگل فورم کے مطابق اس سال کے دوران سیکورٹی دستوں کا خصوصی نشانہ سویلین جائیدادیں رہیں ۔ بلڈوزروں کا استعمال یا اگر کسی مکان میں کسی عسکریت پسند کی موجودگی کا شک ہو، تو اس کو پوری طرح تباہ کرنا اس نئی حکمت عملی کا حصہ تھا ۔ اس رپورٹ کے مطابق جنگ زدہ علاقوں میں بھی بین الاقوامی قوانین کی رو سے اور جنیوا کنونشن کی کئی دفعات کے تحت سویلین جائیدادوں کو تحفظ حاصل ہے ۔ حریت کانفرنس کے معروف لیڈر شبیر احمد شاہ، جو خود جیل میں ہیں کی رہایش گا ہ کو سیل کردیا گیا ۔ ان کے اہل خانہ کو دس دن کے نوٹس پر مکان خالی کرنے کے لیے کہا گیا ۔ جماعت اسلامی ، جس پر پابندی لگائی گئی ہے، کی جائیدادوں، جن میں اسکول، دفاتر اور اس کے کئی لیڈروں کی رہایش گاہیں شامل ہیں ، کو سیل کر نے کا عمل متواتر جاری ہے ۔

اپریل میں قومی تفتیشی ایجنسی نے ایک اسکالر عبدل اعلیٰ فاضلی کو گرفتار کرکے اس کے دس سال قبل ایک ویب سائٹ پر لکھے آرٹیکل کا حوالہ دے کر اس کے خلاف انسداد دہشت گردی کے قانون کے تحت مقدمہ درج کیا ۔ ایک قابل احترام پروفیسر شیخ شوکت حسین کو یونی ورسٹی سے صرف اس لیے برطرف کیاگیا کیونکہ ۲۰۱۶ء میں انھوں نے دہلی میں ایک سیمینار میں شرکت کی تھی ۔ جن دیگر اسکالروں کو نوکریوں سے نکالا گیا ان میں ڈاکٹر مبین احمد بٹ اور ڈاکٹر ماجد حسین قادری بھی شامل ہیں۔

عام بھارتیوں کو جموں و کشمیر میں جائیدادیں خریدنے اور ڈومیسائل حاصل کرنے کے اختیار سے پیدا شدہ صورت حال سے پریشان سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی بھی چیخ اُٹھی ہیں ۔ بھارت کے چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کے نام ایک خط میں انھوں نے لکھا ہے کہ ۲۰۱۹ء میں دفعہ ۳۷۰ کی منسوخی کے بعد سے جموں و کشمیر میں اعتماد کی کمی اوربیگانگی میں اضافہ ہوا ہے ۔ بھارتی آئین میں درج بنیادی حقوق اب بس صرف ان منتخب شہریوں کو عطا کیے جا رہے ہیں ، جو نئی دہلی حکومت کی صف میں شامل ہیں ۔ انھوں نے لکھا ہے کہ کشمیر کے ہر باشندے کے بنیادی حقوق من مانی طور پر معطل کیے گئے ہیں اور خطے کو الحاق کے وقت دی گئی آئینی ضمانتوں کو اچانک اور غیر آئینی طور پر منسوخ کر دیا گیا ہے ۔ سیکڑوں نوجوان جموں و کشمیر سے باہر جیلوں میں بند ہیں ۔ ان کی حالت نہایت خراب ہے ۔ فہد شاہ اور سجاد گل جیسے صحافیوں کو ایک سال سے زیادہ عرصے سے انسداد دہشت گردی کے قوانین کے تحت قید رکھا گیا ہے ۔

محبوبہ مفتی نے بھی بھارتی عدلیہ کے رویے کی شکایت کی ہے: ’’میری بیٹی کی طرف سے ۲۰۱۹ء میں دائر کردہ اپنے حبس بے جا کیس میں ، سپریم کورٹ کو میری رہائی کا حکم دینے میں ایک سال سے زیادہ کا وقت لگا، جب کہ مجھے پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت من مانی طور پر حراست میں لیا گیا تھا ۔ میری بیٹی التجا کے علاوہ اور میرا پاسپورٹ بھی بغیر کسی واضح وجہ کے روک لیا گیا ہے ۔ میں نے یہ مثالیں صرف اس حقیقت کو اُجاگر کرنے کے لیے پیش کی ہیں کہ اگر سابق وزیر اعلیٰ اور رکن پارلیمنٹ ہونے کے ناطے میرے اپنے بنیادی حقوق کو اتنی آسانی سے معطل کیا جا سکتا ہے تو آپ کشمیر میں عام لوگوں کی حالت زار کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں ‘‘۔

دفعہ ۳۷۰ کے خاتمے سے پہلے صرف جموں و کشمیر کے رہائشی ہی ریاست میں جائیداد کی  خرید و فروخت کر سکتے تھے ۔ لیکن اب کوئی بھی بھارتی شہری یہاں جائیداد خرید سکتا ہے ۔ اسی طرح سے صرف مستقل رہایشی ہی جموں وکشمیر میں ووٹ ڈال سکتے تھے یا یہاں امیدوار کے بطور انتخابات لڑسکتے تھے ۔ اب یہ پابندی ختم ہو گئی ہے ۔ اس کے علاوہ اب کوئی بھی شخص جو کشمیر میں پچھلے ۱۵سال سے مقیم ہے، ڈومیسائل حاصل کر سکتا ہے ۔ مرکزی حکومت کے حکام اور ان کے بچوں کے لیے یہ حد ۱۰سال ہے، جب کہ کسی طالب علم کو سات سال بعد ہی ڈومیسائل مل سکتا ہے ۔ یعنی اگر بھار ت کے کسی بھی خطے کا کوئی طالب علم کشمیر کے کالج یا یونی ورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے آتا ہے، تو وہ بھی ڈومیسائل کا حق دار ہوگا ۔

اس سب سے بھارتی حکومت حاصل کیا کرنا چاہتی ہے؟ ایک بڑا سوال ہے ۔ کشمیر میں لوگ بات کرنے سے کتراتے ضرور ہیں لیکن بھارت اور کشمیریوں کے درمیان جو بھروسے اور اعتماد کی پہلے سے ہی کمی تھی وہ کم ہونے کے بجائے مزید بڑھ گئی ہے ۔ کسی سیاسی عمل کی غیر موجودگی میں یا اعتماد بحال کیے بغیر اور عوام کو خوف کی نفسیات میں مبتلا رکھنے سے قبرستان کی خاموشی ہی پیدا کی جاسکتی ہے، امن و امان کی گارنٹی نہیں دی جاسکتی۔

اور یاترائوں کا ہتھیار

بھارت میں کانگریس پارٹی کے لیڈر راہول گاندھی نے ’بھارت جوڑو یاترا‘ کے نام سے ملک کے انتہائی جنوبی سرے بحر ہند کے ساحل پر کنیا کماری سے جو مارچ ۷ستمبر ۲۰۲۲ء کو شروع کیا تھا، وہ ساڑھے تین ہزار کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد اس کی آخری منزل جموں و کشمیر کا دارالحکومت سرینگر قرار دی گئی ہے۔

۱۹۸۳ءمیں جب پنجاب میں سکھ علیحدگی تحریک عروج پر تھی، تو جنتا پارٹی کے لیڈر چندر شیکھر نے اسی طرح کنیا کماری سے دہلی تک چھ ماہ تک مارچ کیا۔ تجزیہ کاروں کا خیا ل ہے اس مارچ نے وزیر اعظم اندرا گاندھی کے خلاف عوامی ماحول بنانے میں خاصی کامیابی حاصل کی تھی، مگر ان کی ہلاکت نے پانسہ پلٹ دیا اور ان کے فرزند راجیو گاندھی کی قیادت میں ہمدردی کا ووٹ بٹور کر کانگریس نے بھاری اکثریت کے ساتھ اقتدار میں واپسی کی۔

مگر موجودہ دور میں جس یاترانے بھارتی سیاست پر اَن مٹ نقوش ثبت کیے ہیں وہ ۱۹۹۰ء میں بی جے پی کے لیڈر لال کشن ایڈوانی کی ”رتھ یاترا“ہے، جو ایودھیا میں بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر اور ہندوتوا نظریہ کے احیا کے لیے شروع کی گئی تھی۔ دس ہزار کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے لیے ایڈوانی کے لیے ایک خصوصی ایر کنڈیشنڈ رتھ تیار کیا گیا تھا۔ ۱۹۹۲ءمیں بابری مسجد کی مسماری،بی جے پی کا سیاسی عروج اور اس کا اقتدار تک پہنچنا اسی یاترا کا ’پھل‘ ہے۔

ایڈوانی کی اس یاترا کے بعد ان کے جانشین مرلی منوہر جوشی نے ۱۹۹۱ء میں ’ایکتا یاترا‘ کے نام سے کنیا کماری سے کشمیر تک مارچ کرنے کا اعلان کیا۔ اس یاترا کے منتظم نریندر مودی تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ چونکہ ’رتھ یاترا‘ کی وجہ سے ایڈوانی اور اس کے منتظم پر مودمہاجن کا پروفائل کافی اُونچا ہوگیا تھا، اس لیے پارٹی کی اندرونی چپقلش کے شاخسانہ کے بطور جوشی اور مودی نے بالترتیب ایڈوانی اور مہاجن کے قد کی برابری کرنے کے لیے یہ یاتراترتیب دی تھی۔ اس سفر کے دوران جوشی دعویٰ کر رہے تھے کہ ’’میرے پاس کشمیر ی عسکریت پسندوں کی گولیوں سے زیادہ رضا کار ہیں اور میں ان سب کے ساتھ سرینگر کے لال چوک میں بھارت کے یوم جمہوریہ یعنی ۲۶ جنوری، ۱۹۹۳ءکو قومی پرچم ترنگا لہرائوں گا‘‘۔ مگر جب وہ سرینگر پہنچے، تو ان کے ساتھ صرف ۶۷کارکنان ہی تھے، اور تقریب بھی بس ۱۲منٹ میں ختم کرنی پڑی۔ زمینی سفر کے بجائے جوشی اور ان کے رفقا جموں سے ایر فورس کے اے این ۳۲  طیارہ میں رات کے اندھیرے میں سرینگر پہنچے اور ان کو ایر پورٹ کے پاس ہی بارڈر سیکورٹی فورس کے میس میں ٹھیرایا گیا۔

اس سے دو دن قبل یعنی ۲۴جنوری [۱۹۹۳ء] کو سرینگر کے پولیس ہیڈ کوارٹر میں جب اس یاترا کے انتظام کے حوالے سے پولیس سربراہ جے این سکسینہ دیگر حکام کے ساتھ میٹنگ میں مصروف تھے، تو اسی کمرے میں بم دھماکہ ہوا، جس میں کئی افسران ہلاک ہوگئے۔ سکسینہ شدید زخمی ہوگئے تھے۔ ۲۳جنوری کو پنجاب سے گزرتے ہوئے اس قافلہ پر حملہ ہوا، جس سے جموں تک پہنچتے پہنچے اس یاترا کا جوش و خروش ٹھنڈا پڑ چکا تھا۔ گورنر گریش چند سکسینہ نے بی جے پی کے لیڈروں کو بتایا کہ اگر وہ بذریعہ سڑک کشمیر جانے پر بضد ہیں، تو و ہ سیکورٹی فراہم کر سکتے ہیں اورپوری قومی شاہراہ کو فوج کے حوالے کر سکتے ہیں، مگر اس کے باوجود ان کی زندگیوں کی ضمانت نہیں دے سکتے۔ اگلے روز ادھم پور سے پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ بی ایل نمیش نے شاہرائوں پر لینڈسلائیڈنگ کا خطرہ بیان کرکے قافلے کو روک دیا اور اس یاترا کے منتظم مودی نے شامل افراد کو گھر جانے کا مشورہ دیا۔ اس پر راجستھان کے ایک ممبر اسمبلی تارا بھنڈاری اس قدر بدکے کہ انھوں نے الزام لگایا کہ ’’ان کو بے وقوف بنایا گیا ہے اور آخر اس جگہ تک لانے کی کیا ضرورت تھی؟‘‘

 شمالی بھارت کے اکثر شہروں میں اس یاترا کی رپرٹنگ کرتے ہوئے مجھے ادراک ہوا کہ شاید ہی کسی کو پتہ تھا کہ اس کا موضوع کشمیر ہے، اکثر افراد اس کو رام مندر تحریک کا ہی ایک جز تصور کر رہے تھے۔انتہائی سیکورٹی کے درمیان جب جوشی کا قافلہ سرینگر کے لال چوک میں پہنچا، تو معلوم ہوا کہ جو جھنڈا کنیا کماری سے بطور خاص اس جگہ پر نصب کرنے کے لیے ساتھ تھا، وہ جموں میں بھول گئے یا پھر طیارہ میں ہی رہ گیا ہے۔ خیر مودی نے جوشی کو ایک جھنڈا تھما دیا، مگر وہ اس کو لگا نہیں پارہے تھے۔ کہیں قریب ہی گولیوں کی آوازیں بھی آرہی تھیں۔ جس پر مدن لال کھورانہ نے لقمہ دیا کہ ’’عسکریت پسند اس جھنڈے کو سلامی دے رہے ہیں‘‘۔ کئی بار کی کوشش کے بعد بھی جب جھنڈا نصب نہیں ہوا تو بارڈر سیکورٹی فورس کے اہلکاروں نے جوشی کے ہاتھ میں متبادل جھنڈ ا تھما دیا، جس کو انھوں نے نصب کرکے تقریب کے ختم ہونے کا اعلان کیا اور ایرپورٹ کی طرف روانہ ہوگئے۔ اس پوری تقریب میں شاید ہی کوئی مقامی فرد شریک ہو ا ہوگا۔ پوری وادی میں انتہائی سخت کرفیو نافذ تھا۔

راہول گاندھی کی یاترا کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ ایک طویل مدت کے بعد کانگریس نے بی جے پی اور اس کی سرپرست تنظیم راشٹریہ سیویم سیوک سنگھ یعنی آر ایس ایس کو آڑے ہاتھوں لینا شروع کردیا ہے۔ اس سے قبل خاص طور پر راہول گاندھی بی جے پی کے سخت گیر ہندو توا کے مقابلے میں نرم ہندو توا کے علَم بردار بن گئے تھے۔ اس لیے ان کو بی جے پی کی ’بی‘ ٹیم سے بھی تشبیہہ دی جاتی تھی۔ مگر اس مارچ کے دوران پارٹی کواَز سرِ نو منظم کرنے کے علاوہ راہول نے سول سوسائٹی کے افراد کے ساتھ مل بیٹھ کر ’ہندوتوا‘ نظریے کے مخالفین کو منظم کرکے ایک نظریاتی محاذ بنانے کی کوشش کی ہے۔

بی جے پی ۲۰۲۳ء میں بھارت کی گروپ ۲۰ممالک یعنی جی ۲۰کی صدارت، ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر اور اسکو درشن کے لیے اگلے سال جنوری میں کھولنے کو اہم انتخابی موضوع بنارہی ہے۔اس دوران سب سے اہم بات یہ ہو گئی ہے کہ رام مندر کے مہنت اور اس کے دیگر  ذمہ داروں نے بھی راہول گاندھی کی یاترا کی حمایت کی ہے، مگر یہ بھی طے ہے کہ اگلے عام انتخابات میں بی جے پی ہندوتوا کو اپنے اہم ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے جا رہی ہے۔ اس لیے پاکستانی حکمران اور اس کے تجزیہ کار کتنی ہی خوشامد اور تعلقات کی بہتری کی بات کریں، فی الحال مودی حکومت ان کی بات سننے کے موڈ میں نہیں ہے۔ انتخابات تک آئے دن ہندوؤں کو یاد دلایا جائے گا کہ ’’اس ملک کو مسلمان حملہ آوروں نے زخم لگائے ہیں‘‘، پاکستان پر لفظی یا حقیقی حملے ہوں گے، تاکہ اس شور میں بے روزگاری اور مہنگائی جیسے موضوعات دب جائیں۔

یہ کوئی اتفاق نہیں تھا کہ برطانوی شہر لیسٹر میں جب ستمبر میں اس ملک کی تاریخ میں پہلی بار ’ہندو- مسلم فساد‘ برپا ہوا۔ اس سے قبل ہندوانتہا پسندوں کی سرپرست تنظیم راشٹریہ سیویم سیوک سنگھ  (RSS) کے کئی لیڈروں نے برطانیہ کا دورہ کیا۔ یہ فساد ٹھیک اسی طرح کیا گیا، جس طرح عام طور پر بھارت میں فرقہ وارانہ فسادات برپا کروانے کے لیے بہانہ سازی کی جاتی ہے ، یعنی یہ کہ مسلم علاقوں سے زبردستی جلوس نکال کر، اور جان بوجھ کر اشتعال انگیز نعرے بلند کرکے مسلمانوں کو رد عمل پر مجبور کیا جاتاہے۔ بھارت میں ہونے والے تقریباً تمام فسادات کی یہ کہانی ایک جیسی ہی ہوتی ہے۔ کبھی رام نومی، تو کبھی گنیش، تو بھی کسی اور جلوس کو زبردستی مسلم علاقوں سے گزارنا ، یا کسی مسجد کے پاس عین نماز کے وقت اس جلوس کو روک کر بلند آواز میں میوزک بجانا وغیرہ ۔ پھر ایسے جلوس یا فساد سے قبل اسی شہر یا علاقے میں آر ایس ایس یا اس سے وابستہ کسی تنظیم کا اجتماع ہوتا تھا اور واردات کے وقت پولیس دانستہ طور پر غائب ہوجاتی تھی، تاکہ فسادیوں کو کھل کھیلنے کا موقع دیا جائے ۔ پولیس کی آمد کا وقت بھی اس بات پر منحصر ہوتا ہے، کہ فساد میں کس کا پلڑا بھاری ہو رہا ہے ، اور پھر موقع پر پہنچ کر پولیس اُجڑے پجڑے مسلمانوں ہی کو غضب کا نشانہ بناتی ہے ۔ ایک سینئر پولیس آفیسروبھوتی نارائین رائے نے فسادات میں بھارتی پولیس کے اس رویے پر ڈاکٹریٹ کا تحقیقی مقالہ لکھا ہے۔

بھارت میں ’جیتند نارائین کمیشن‘ سے لے کر ’سری کرشنا کمیشن‘ تک، یعنی فسادات کی تحقیق کےلیے جتنے بھی کمیشن یا کمیٹیاں آج تک بنی ہیں ،ان سب نے آر ایس ایس یا اس سے وابستہ کسی نہ کسی تنظیم کو قتل و غارت یا لوٹ مار کا ذمہ دار ٹھیرایا ہے ۔ مگر دوسرے یورپی ممالک ویزا حاصل کرنے والے مسلمانوں سے لمبی چوڑی ضمانتیں اور بیان حلفی لیتے ہیں کہ ان کا تعلق کسی انتہاپسند تنظیم یا کسی بنیاد پرست سوچ کی حامل تنظیم سے تو نہیں ہے؟ مگر دوسری طرف انھوں نے ہندو انتہاپسند تنظیموں کو اس زمرے سے خارج کیا ہوا ہے ۔ ایل کے ایڈوانی اور بی جے پی کے حامی تجزیہ کار بھارت کی حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو جرمنی کی کرسچن ڈیموکریٹ یا برطانیہ کی ٹوری پارٹی سے تشبیہہ دیتے ہیں ۔ مگر یہ بات کہتے وقت وہ بھول جاتے ہیں کہ بی جے پی کی کمان اس کے اپنے ہاتھوں میں نہیں ہے ، بلکہ اس کی طاقت کا اصل سرچشمہ اور نکیل ہندو قوم پرستوں کی سرپرست ایک فاشسٹ اور نسل پرست تنظیم آر ایس ایس کے پاس ہے۔ جو فی الوقت دنیا کی سب سے بڑی خفیہ تنظیم ہے، جس کے مالی وانتظامی معاملات کے بارے میں بہت ہی کم معلومات منظر عام پر موجود ہیں ۔ چند برس قبل تو برطانیہ کی ہندو ممبر پارلیمنٹ پریتی پٹیل نے آرایس ایس کے جوائنٹ جنرل سیکریٹری دتارے ہوشبولے کی برطانیہ آمد کے موقعے پر برطانوی حکومت سے درخواست کی تھی، کہ ان کا استقبال کیا جائے ۔ آر ایس ایس کی بیرو ن ملک شاخ ’ہندو سیوا سنگھ‘(HSS) نے ہوشبولے کو لندن میں ایک پروگرام RSS: A Vision in Action کی صدارت کےلیے مدعو کیا تھا ۔

 حیرت کا مقام ہے کہ مغرب نے جس فاشسٹ نظریے کو ۱۹۴۵ء میں شکست دے کر ایک جمہوری، لبرل اور تکثیری معاشرے کو تشکیل دینے میں کامیابی حاصل کی تھی، انھوں نے آخر کس طرح بھارت میں پروان چڑھتے وحشت ناک فاشز م سے نہ صرف آنکھیں بندکرلی ہیں ، بلکہ ا پنے ملکوں میں بھی اس نظریے کی اشاعت و تقویت کی اجاز ت دے کر اس سے وابستہ لیڈروں کو گلے بھی لگا رہے ہیں۔

برطانیہ میں رُونما ہونے والے ان فسادات سے عندیہ ملتا ہے کہ ’ہندو توا نظریے‘ نے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہندوؤں میں جگہ بنا کر دُنیا کے مؤثر ممالک کی سرحدیں عبور کر لی ہیں ۔ برطانیہ میں بھارتی نژاد آبادی کل آبادی کا ۲ء۵ فی صد اور پاکستانی نژاد۵ء۱ فی صد ہے۔ امریکا میں ۲ء۷ملین بھارتی نژاد آبادی ہے ۔ میکسیکن کے بعد شاید تارکین وطن کی یہ سب سے بڑی آبادی ہے اور یہ خاصے تعلیم یافتہ اور اعلیٰ عہدوں پر براجماں ہیں ۔ آر ایس ایس کی دیگر شاخیں یعنی ’ویشوا ہندو پریشد‘ (VHP) بھی ان ملکوں میں خاصی سرگرم ہے۔ یاد رہے کہ یہ تنظیم ۱۹۹۲ء میں بابری مسجد کی شہادت میں شامل تھی، جس کی وجہ سے اس پر بھارت میں کچھ سال تک پابندی بھی لگی تھی ۔ اس دوران جب پولیس اور دیگر تفتیشی اداروں نے اس کے دفاتر کی دہلی اور دیگر شہروں میں تلاشی لی، تو معلوم ہوا کہ بابری مسجد کی مسماری کےلیے بڑے پیمانے پر فنڈنگ یورپ اور خلیجی ممالک ہی سے آئی تھی۔

دراصل ونایک دمودر ساوارکر [م:۱۹۶۶ء] جو ’ہندو توا نظریہ‘ کے خالق ہیں ، انھوں نے ہندوؤں پر زور دیا تھا کہ وہ نئی زمینیں تلاش کرکے ان کو نو آبادیوں میں تبدیل کریں ۔ ان کو رہ رہ کر یہ خیال ستاتا تھا کہ مسلمان او ر عیسائی دنیا کے ایک وسیع رقبہ میں پھیلے ہوئے ہیں اور ہندو صرف جنوبی ایشیا میں بھارت اور نیپال تک ہی محدود ہوکر رہ گئے ہیں ۔ اپنی کتابEssentials of Hindutva میں وہ آر ایس ایس کے اکھنڈ بھارت کے فلسفے سے ایک قدم آگے جاکر عالمی ہندو نظام یا عالمی ہندو سلطنت کی وکالت کرتے ہیں ۔ ایک صدی بعد اس وقت آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیمیں اس نظریے کو عملاً نافذ کروانے کا کام کررہی ہیں۔

اگرچہ یہ تنظیمیں یورپ میں ۱۹۶۰ء ہی سے کام کرتی آرہی ہیں، مگر ان کا دائرہ ۲۰۱۴ء میں مودی کے برسر اقتدار آنے کے بعد بڑا وسیع اور فعال ہو گیا ۔ آر ایس ایس، ایچ ایس ایس اور دیگر تنظیمیں اب ۴۸ممالک میں سرگرم ہیں۔ امریکا میں ’ہندوسیوا سنگھ‘ نے ۳۲ریاستوں میں ۲۲۲شاخیں قائم کی ہیں اور اپنے آپ کو ہندو فرقہ کے نمائندہ کے بطور پیش کیا ہوا ہے ۔ متحدہ عرب امارات اور دیگر خلیجی ممالک میں بھی وہ سرگرم ہیں ۔ ابھی حال ہی میں آر ایس ایس کے تھینک ٹینک ’انڈیا فاؤنڈیشن‘ کے ذمہ داروں نے ترکیہ کا دورہ کرکے وہاں حکومتی شخصیات اور تھینک ٹینک کے ذمہ داروں سے بات چیت کی، جو اپنی جگہ نہایت چونکا دینے والا واقعہ ہے اور اس کا نوٹس لینے کی اشد ضرورت ہے۔

آر ایس ایس افریقی ملک کینیا کے اندر بھی کافی مضبوط پوزیشن اختیار کرچکی ہے ۔ کینیا میں اس کی شاخوں کا دائرۂ کار پڑوسی ممالک تنزانیہ، یوگنڈا، موریشس اور جنوبی افریقہ تک پھیلا ہوا ہے، اور وہ ان ممالک کے ہندوؤں پر بھی اثر انداز ہورہی ہے۔

حیران کن بات یہ کہ ان کی پانچ شاخیں مشرق وسطیٰ کے مسلم ممالک میں بھی ہیں ۔ چوں کہ عرب ممالک میں جماعتی اور گروہی سرگرمیوں کی کھلی اجازت نہیں ہے، اس لیے وہاں کی شاخیں خفیہ طریقے سے گھروں تک محدود ہیں اور اکثر یوگا کے نام پر اجتماع منعقد کرتے ہیں ۔ فن لینڈ میں ایک الیکٹرونک شاخ ہے، جہاں ویڈیو کیمرے کے ذریعے بیس ممالک کے افراد جمع ہوتے ہیں ۔ یہ ممالک وہ ہیں جہاں پر آر ایس ایس کی باضابطہ شاخ موجود نہیں ہے ۔

امریکی تنظیم کی ایک رپورٹ Hindu Nationalist Influence in The US  میں بتایا گیا کہ ۲۰۰۱ءسے ۲۰۱۹ء تک آر ایس ایس سے وابستہ سات تنظیموں نے امریکا میں۱۵۸ء۹ ملین ڈالر اکٹھے کیے، جس میں اکثر رقم بھارت میں مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے پر خرچ کی گئی۔ پھر ۱۳ ملین ڈالر ایک تنظیم Civilization Foundation کو دیئے گئے، تاکہ امریکی یونی ورسٹیوں میں تحقیقی کاموں پر اثر انداز ہوں ۔ ٹیکس گوشواروں کے مطابق ایک تنظیم ’اوبیرائی فاونڈیشن‘ نے امریکی ریاستوں میں نصابی کتابوں اور اساتذہ کی تربیت پر ۶ لاکھ ڈالر خرچ کیے، ان میں سے ڈیڑھ لاکھ ڈالر کیلے فورنیا کے اسکولوں پر خرچ کیے گئے ۔ اسی تنظیم نے سان ڈیاگو اسٹیٹ یونی ورسٹی کو تحقیق کے لیے ایک بڑی بھاری رقم دی۔ جس میں سکھ مت، جین مت، بدھ مت اور ہندو مت کی چار دھرم روایات میں کام کرنے والے اسکالرزکے بارے میں معلومات کا ڈیٹا بیس بنانے کا ایک پروجیکٹ بھی شامل تھا ۔ امریکی محکمۂ انصاف کے مطابق کئی تنظیموں کو بھارتی حکومت نے ہرماہ ۱۵ہزار سے ۵۸ہزار ڈالر مختلف امریکی ادارو ں میں لابی کرنے کےلیے دیئے ۔ امریکا میں سرگرم آرایس ایس سے وابستہ ۲۴تنظیموں نے اپنے گوشواروں میں ۹۷ء۷ ملین ڈالر اثاثے ظاہر کیے ہیں ، جس میں ’ویشوا ہندو پریشد‘ کی امریکی شاخ کے پاس ۵ء۳ملین ڈالر تھے ۔ نومبر ۲۰۲۰ءکو سنگھ نے دیوالی منانے کےلیے ایک ورچوئل جشن منعقد کیا، جس میں سان فرانسسکو کے آٹھ میئرز اور دیگر منتخب افراد نے شرکت کی۔۲۰۰۱ء اور ۲۰۲۲ء کے دوران سنگھ سے منسلک پانچ اداروں: ’ایکل ودیالیہ فاوَنڈیشن آف یو ایس اے‘، ’انڈیا ڈویلپمنٹ اینڈ ریلیف فنڈ‘، ’پرم شکتی پیٹھ‘، ’سیوا انٹرنیشنل‘، ’امریکا کی وشوا ہندو پریشد‘ کے ذریعے امریکا سے ۵۵ملین ڈالر بھارت منتقل کیے گئے ۔ یہ سبھی تنظیمیں بھارت میں اقلیتوں پر حملوں اور سماجی خلیج وسیع کرنے کی ذمہ دار ہیں ۔

بھارتی تارکین وطن کا دوغلا پن اس بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ جن ممالک میں یہ رہتے ہیں وہاں پر تو وہ لبر ل اور جمہوری نظام کے نقیب اور اقلیتوں کے محافظ کے طورپر اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں، مگر بھارت میں ان کا رویہ اس کے برعکس رہتا ہے ۔ مغرب یا خلیجی ممالک میں وہ غیر سرکاری تنظیموں کو کام کرنے کی آزادی کے خواہاں ہیں ،مگر بھارت میں مودی حکومت کی طرف سے انسانی حقوق و دیگر ۲۵۰غیرسرکاری تنظیموں پر بیرون ملک سے فنڈ حاصل کرنے پر پابندی لگانے کی حمایت کرتے ہیں ، حتیٰ کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل جیسے ادارے کے اثاثے بھارت میں منجمد کردیئے  گئے ہیں۔ کسی اور ملک میں اس طرح کا اقدام تو عالمی پابندیوں کو دعوت دینے کے مترادف تھا ۔ بھارتی تارکین وطن اور سفارت کار دنیا بھر میں مہاتما گاندھی کو اخلاقیات کے ایک اعلیٰ نمایندے کے طور پر پیش کرتے ہیں ، مگر اپنے ملک میں اسی گاندھی کے قاتل ناتھو را م گوڑسے اور اس قتل کے منصوبہ سازوں ، جن میں ویر ساواکر اور آر ایس ایس سے وابستہ افراد بھی شامل ہیں ، ان کی پذیرائی کرتے ہیں ۔

کانگریس پارٹی کی بیرون ملک شاخ کے ایک لیڈر کمل دھالیوال کے مطابق جو طالب علم آج کل بھارت سے یورپ یا امریکا کی درسگاہوں میں آتے ہیں ، لگتا ہے کہ جیسے ان کا ’غسلِ ذہنی‘ (برین واشنگ) کی گئی ہو ۔ صحافی روہنی سنگھ کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں انھوں نے بتایا کہ ایسا لگتا ہے کہ نظریاتی طور پر ان کی پرورش ہندو قوم پرستی کے سخت خول میں ہوئی ہے اور وہ اس نظریے کو اپنے ساتھ لے کر آتے ہیں ، جس میں مسلمانوں کے ساتھ نفرت کا عنصر بڑا نمایا ں ہوتا ہے ۔ ان میں سے ہرفرد بھارت سے چلنے والے کسی نہ کسی ’وٹس ایپ گروپ‘ کا ممبر ہوتا ہے، جہاں اقلیتوں کے خلاف روزانہ شرمناک ہرزہ سرائی کی جاتی ہے ۔

معروف قانون دان اے جی نورانی نے اپنی ضخیم تجزیاتی اور تحقیقی کتابThe RSS: A Menace to India میں لکھا ہے کہ اس تنظیم کی فلاسفی ہی فرقہ واریت، جمہوریت مخالف اور فاشزم کی اشاعت و ترویج پر ٹکی ہے ۔ سیاست میں چونکہ کئی بار سمجھوتوں اور مصالحت سے کام لینا پڑتا ہے، اس لیے اس میدان میں براہِ راست کُودنے کے بجائے اس نے فرنٹ آرگنائزیشن کے طور پر پہلے۱۹۵۱ء میں جن سنگھ اور پھر ۱۹۸۰ء میں بی جے پی تشکیل دی ۔ بی جے پی پر اس کی گرفت کے حوالے سے نورانی کا کہنا ہے کہ آر ایس ایس کے ایما پر اس کے تین نہایت طاقت ور صدور ماولی چندر ا شرما، بلراج مدھوک اور ایل کے ایڈوانی کو برطرف کیا گیاتھا ۔ ایڈوانی کا قصور صرف یہ تھا کہ ۲۰۰۵ء میں کراچی میں اس نے بانی ٔپاکستان محمد علی جناح کے مزار پر حاضری دے کر ان کو ایک عظیم شخصیت قرار دیا تھا ۔

۲۰۱۹ءمیں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے دوران پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے دنیا کو آر ایس ایس اور اس کے عزائم سے خبردار کیا تھا ۔ اس تقریر کے وسیع اثرات کو زائل کرنے کے لیے آرایس ایس کے سربراہ کو پہلی بار دہلی میں غیر ملکی صحافیوں کے کلب میں آکر میٹنگ کرکے وضاحتیں دینی پڑیں ۔ ورنہ آر ایس ایس کا سربراہ کبھی میڈیا کے سامنے پیش نہیں ہوتا۔ مگر شاید پاکستانی حکمرانوں کی تقدیر میں گفتار کے غازی کا ہوناہی لکھا ہے یا وہ صرف ایونٹ مینجمنٹ پر یقین رکھتے ہیں اور اس لیے ہمیشہ کی طرح تقریر کے بعد واہ واہ لوٹ کر خوش ہو جاتے ہیں ۔ اپنی تقریر کا فالو اَپ کرنے کی ان کو توفیق نصیب نہیں ہوتی ۔ کیا وقت نہیں آیا ہے کہ مغرب کو بتایا جائے کہ جس فاشزم کو انھوں نے شکست دی تھی، وہ کس طرح ان کے زیرسایہ، خود اُن کی جھولی میں کس طرح دوبارہ پنپ رہا ہے، اورجو بہت جلد امن عالم کےلیے ایک شدید خطرہ ثابت ہو سکتا ہے؟

؍اکتوبر ۲۰۲۲ء کی رات جب آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز، دہلی سے تہاڑ جیل میں پانچ برسوں سے قید حریت لیڈر اور بزرگ کشمیری رہنما مرحوم سید علی گیلانی کے داماد ، الطاف احمد شاہ کے انتقال کی خبر آئی، تو شاید ہی کسی کو اس الم ناک خبر پر حیرت ہوئی ہو۔ قیدیوں کو علاج معالجے کی سہولیات فراہم نہ کرنے کی وجہ سے صرف پچھلے ایک سال میں یہ کسی سیاسی قیدی کی موت کا چھٹا واقعہ ہے۔ جن میں کشمیر سے جماعت اسلامی کے رکن غلام محمد بٹ، تحریک حریت کے صدر محمد اشرف صحرائی کے علاوہ مہاراشٹرا میں ماؤ نواز کمیونسٹوں کی حمایت کے الزام میں قید ۸۳سالہ پادری سٹن سوامی، ۳۳ سا ل کے پانڈو ناروتے اور ۳۸برس کے کنچن نانووارے شامل ہیں۔ افسوس کہ عدالتیں ، پولیس اور تفتیشی ایجنسیوںکے اس استدلال کو تسلیم کرتی ہیںکہ جیلوں میں علاج کی سہولیات موجود ہیں، اس لیے اس بنیاد پر ضمانت نہیں دی جاسکتی۔ مگر جیل میں کس قدر علاج معالجے کی سہولیات دستیاب ہیں اور وہاں ڈاکٹروں کا رویہ کیسا ہوتا ہے، اس کا میں خود گواہ ہوں۔

تہاڑ ، جسے ایک ماڈل جیل کے بطور پیش کیا جاتا ہے، اس کی جیل نمبر تین میں واقعی ایک خوش کن ہسپتال ہے، جس کو ججوں اور معائنے پر آئے افسروں اور بعض اوقات غیر ملکی ٹیموں کو دکھا کر متاثر کیا جاتا ہے ۔ ۲۰۰۲ء میں جب نو روز تک دہلی پولیس کی اسپیشل سیل کے انٹروگیشن بھگتنے کے بعد مجھے تہاڑ جیل منتقل کیا گیا ، تو داخلے کے وقت ہی جیل کے ڈاکٹروں کے رویے کا اندازہ ہوگیا تھا۔ جیل سپرنٹنڈنٹ کے آفس میں باقاعدہ پٹائی ہونے کے بعد، کاغذی کارروائی پورا کرنے کے لیے مجھے جیل آفس سے متصل ڈاکٹر کے سامنے پیش کیا گیا، تو وہ ڈاکٹر بجائے میری حالت دیکھنے کے،  اُلٹا مجھ پر لگائے گئے الزامات دریافت کرنے لگا۔ جب اس کو معلوم ہوا کہ میں آفیشل سکرٹس ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا ہوں، تو اس نے پاکستانی ایجنٹ ہونے کا الزام لگا کر مجھے بُرابھلا کہنا شروع کردیا۔

ڈاکٹر اور اس کے اسسٹنٹ پر لازم ہے کہ نئے قیدیوں کو سیل یا وارڈوں میں بھیجنے سے قبل ان کی طبی جانچ اور اگر وہ زخمی ہوں، تو اس کیفیت کا اندراج کرنا ہوتا ہے۔ میری ناک اور کان سے خون رس رہا تھا۔ جیل کے ڈاکٹر نے ان زخموں کو پولیس اور انٹروگیشن کے کھاتے میں ڈال کر مجھے دستخط کرنے کے لیے کہا۔ میں نے جواب میں کہا کہ ’’یہ خاطرمدارات چند لمحے قبل جیل آفس میں ہی ہوئی ہے، اس کا پولیس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے‘‘۔

جیل نمبر تین کے اس ہسپتال میں ، جہاں الطاف شاہ کو کئی ماہ تک کینسر کا علاج کرنے کے بجائے بس درد روکنے کی ادویات دے کر واپس سیل میں بھیج دیا جاتا تھا۔ یہاں کی او پی ڈی کا بھی مَیں نے باربار مشاہدہ کیا تھا۔ اسٹتھ سکوپ لگاکر دیکھنا تو دُور کی بات ہے، ڈاکٹر قیدیوں کو دُور سے انھیں ہاتھ لگائے بغیر علاج تجویز کرتے ہیں۔ بجائے مریض سے ا س کی تکلیف کے بارے میں پوچھنے کے، وہ اس کے کیس کے بارے میں تفتیش کرکے، سزا ئیں بھی تجویز کرتے رہتے ہیں۔ میڈیکل سائنس کی پوری اخلاقیات کا جیل کے ان ڈاکٹروں نے جنازہ نکال کر رکھ دیا ہے۔ علاج کے نام پر تمام مریضوں کو ایک ہی دوا دیتے تھے، چاہے پیٹ کا درد ہو یا نزلہ، زکام۔ ایک بار ہمارے وارڈ میں ایک قیدی کو شدید نزلہ ، زکام لاحق ہو گیا تھا اور دوسرے قیدی کو پیچش ہوگئی تھی۔ دونوں جب ہسپتال سے واپس جیل وارڈ میں آئے تو معلوم ہوا کہ ان کو ایک ہی طرح کی دوا دی گئی ہے۔

تہاڑ میں ایک رات میرے پیٹ میں سخت درد اٹھا کہ برداشت سے باہر ہوگیا اور کئی بار قے ہوگئی۔ جیل میں، رات کی ڈیوٹی پر مامور جیل حکام، بیرکوں اور وارڈوں کو بند کر کے جیل آفس میں جاکر آرام کرتے ہیں۔ میرے ساتھی قیدیوں نے شور مچاکر جیل آفس تک آواز پہنچانے کی کوشش کی۔ آدھے گھنٹے کے بعد ایک وارڈن آگیا اور بیرک کی سلاخوں کے باہر سے ڈانٹ کر پوچھا: ’’کیوں شور مچارہے ہو؟‘‘ انھوں نے کہا:’’قیدی کی طبیعت خراب ہے‘‘۔ اس نے نام پوچھا۔ گیلانی کا نام سنتے ہی اس نے کہا کہ ’’مرنے دو‘‘ اور واپس چلا گیا۔ قیدیوں کو اس پر سخت صدمہ ہوا۔ تھوڑی دیرکے بعد بیرک میں موجود پچاس سے زائد قیدیوں نے دوبارہ چیخ پکار بلند کی۔ دراصل کچھ عرصہ قبل اسی وارڈ میں ایک قیدی کی رات کے وقت موت واقع ہوگئی تھی اور صبح سویرے پورے وارڈ کے قیدیوں کو سخت بُرا بھلا کہا گیا تھا کہ: ’’آپ نے جیل حکام کو کیوں آگاہ نہیں کیا؟‘‘۔جیل سپرنٹنڈنٹ نے ہدایت دی تھی، کہ ’’ایسی صورت حال میں گلاپھاڑ کر چیخ پکا ر بلند کیا کریں، تاکہ آواز جیل کنٹرول روم تک پہنچے‘‘۔ ایک گھنٹے کے بعد دوسرا وارڈن، ڈاکٹر سمیت آگیا اور بیرک کھول کر مجھے ہسپتال میں داخل کروایا۔ اگلے روز پہلے والے وارڈن نے ہسپتال میں آکر معذرت کرتے ہوئے کہا: ’’میں سمجھ رہا تھا کہ یہ پارلیمنٹ حملہ کیس والا گیلانی (مرحوم عبدالرحمان گیلانی، جو اُن دنوں اسی جیل میں تھے، اور بعد میں بری ہوگئے) ہے۔ اس لیے اس نے دھیان نہیں دیا‘‘۔

پرانے سرینگر شہر کے خانقاہ معلی محلہ میں الطاف شاہ کے والد محمد یوسف شاہ، شیخ محمد عبداللہ کے دست راست اور ایک معروف تاجر تھے۔ سری نگر کے مرکز لال چوک میں’ فنتوش ہوزری‘ کے نام سے ان کی دکان تھی، جس کی نسبت سے بعدازاں الطاف احمد کو الطاف فنتوش کے نام سے جانا جاتا تھا۔ جب شیخ عبداللہ ’’محا ذِ رائے شماری‘‘ کی قیادت کررہے تھے، تو وہ ان کے ساتھ جیل بھی گئے۔ مذکورہ دکان میں پہلے ’ محاذِ رائے شماری‘اور پھر ’نیشنل کانفرنس‘کے لیڈروں غلام محمد بھدروائی، بشیراحمد کچلو، شیخ نذیر وغیرہ اپنی دوپہر یہیں پر گزارتے۔ الطاف شاہ ایک پختہ کار نیشنل کانفرنس گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ مگر زمانہ طالب علمی ہی میں وہ شیخ عبداللہ کے سحر سے اس وقت آزاد ہوگئے، جب نیشنل کانفرنس کے خلاف شہر سرینگر میں ہلکی سی کانا پھوسی بھی موت کو دعوت دینے کے مترادف ہوا کرتی تھی۔ شیخ عبداللہ کے علاوہ شہر کے چند علاقوں میں میرواعظ خاندان کا طوطی بولتا تھا اور یہ دونوں مل کر کسی تیسری قوت کو شہر میں پیر جمانے نہیں دیتے تھے۔ چونکہ دونوں ایک دوسرے سے برسرِپیکار رہتے تھے ، ان کی ساری اساس غنڈا سیاست پر ہی ٹکی ہوئی تھی اور عدم برداشت ان کے کارکنوں میںکوٹ کوٹ کر بھری تھی۔

۱۹۷۸ء میں جموں و کشمیر، اسلامی جمعیت طلبہ کا قیام عمل میں آیا اور اس کی ذمہ داری محمداشرف صحرائی کو سونپ دی۔ الطاف شاہ کو ۲۱سال کی عمر میں اس کا پہلا جنرل سیکرٹری بنادیا گیا۔ ۱۹۷۹ء میں جب اس تنظیم کا پہلا اجلاس گول باغ (حال ہائی کورٹ کمپلیکس) میں منعقد ہوا، تو اس میں تقریباًدس ہزار طلبہ نے شرکت کی۔ ۱۹۸۰ء میں اس تنظیم نے شیخ تجمل اسلام کی قیادت میں ایک اسلامی کانفرنس بلانے کا اعلان کردیا، جس پر حکومت نے پابندی لگاکر اس کے منتظمین کو حراست میں لے لیا۔یہ الطاف احمد شاہ کی غالباً پہلی گرفتاری تھی۔ و ہ اس وقت کشمیر یونی ورسٹی کے شعبۂ تعلیم میں ایم اے کے طالب علم تھے۔ ان کو پہلے ادھم پور اور پھر ریاستی جیل میں رکھا گیا۔۱۹۸۱ءتک جمعیت بیشتر تعلیمی اداروں میں اپنی شاخیں قائم کر چکی تھی۔ اسی دوران جماعت میں یہ خدشہ سر اٹھانے لگا کہ آگے چل کر یہ کہیں ایک متوازی تنظیم نہ بن جائے۔ ایک سال بعد جماعت اسلامی نے اسلامی جمعیت طلبہ کی انفرادی خودمختار حیثیت ختم کرنے کا فیصلہ کردیا۔ جب جمعیت نے یہ فیصلہ ماننے سے انکار کیا، تو جماعت نے اس طلبہ تنظیم میں موجود اپنی افرادی قوت کو واپس بلایا اور ان کو شعبۂ طلبہ کی ذمہ داری دی، ان افراد میں الطاف احمد بھی شامل تھے۔

میں نے پہلی بار ان کو غالباً اکتوبر ۱۹۸۳ءمیں دیکھا، جب اسکول کے امتحانات ختم ہوچکے تھےاور سوپور سے اپنے ننھیال سرینگر کے قدیمی علاقے مہاراج گنج آیا ہوا تھا۔ سرینگر سے شائع ہونے والے روزنامہ آفتا ب میں الطاف صاحب کے مضامین پڑھتا تھا۔ ان دنوں اسمبلی انتخابات کی مہم زوروں پر تھی ۔ شیخ عبداللہ کی وفات کے ایک سال بعد ’نیشنل کانفرنس‘ یہ انتخابات فاروق عبداللہ کی قیادت میں اور میرواعظ کی پارٹی ’عوامی ایکشن کمیٹی‘ کے اشتراک کے ساتھ لڑ رہی تھی۔ جماعت اسلامی نے زینہ کدل کی نشست سے الطاف احمد کو کھڑا کیاہوا تھا، جو شیروں کی کچھار میں پنجہ آزمائی کے مترادف تھا۔ ان دنوں مجھے وہاں گھر کے باہر کچھ شور سنائی دیا۔ ایک نوجوان دروازہ کھٹکھٹا کر لوگوں سے جماعت اسلامی کے نشان ترازو پرووٹ ڈالنے کی استدعا کر رہا تھا۔ ان سے علیک سلیک تو نہیں ہوئی، مگر میں نے دیکھا کہ گلی میں لوگ اس نوجوان کو گالیاں بک رہے تھے کہ وہ کیسے  شیخ عبداللہ کی پارٹی کی مخالفت کی جرأت کر رہا ہے۔مقامی مسجد کے پاس چند لوگ باتیں کر رہے تھے کہ یوسف شاہ صاحب جیسے شریف آدمی نے کیسی ناخلف اولاد کو جنم دیا ہے اور وہ کیسے اس کو برداشت کر رہے ہیں؟ اس الیکشن میںالطاف صاحب کو بس ۴۶۱ ووٹ ملے تھے۔

جیساکہ پہلے بتایا گیا ہے کہ ’فنتوش ہوزری‘کی دکان نیشنل کانفرنس وغیرہ کا گڑھ ہوا کرتی تھی، لیکن جب الطاف احمد نے کاروبار میں اپنے والد صاحب کا ہاتھ بٹانا شروع کیا تو یہ دکان جماعت اسلامی، پیپلزلیگ اور آزادی پسند کشمیری تنظیموں کے لیڈروں کا بھی ٹھکانا بن گئی۔ کمال یہ کہ یہ دکان دونوں متحارب خیالات کے لیڈروں کے مل بیٹھنے کا میٹنگ پوائنٹ بن گئی۔ الطاف احمد کی جان توڑ کوششوں سے سری نگرشہر شیخ عبداللہ اور ان کی نیشنل کانفرنس کے جادو سے آزاد ہوگیا۔

۱۹۸۶ءمیں جب ان کی شادی، محترم سیّد علی گیلانی کی تیسری بیٹی زاہدہ سے طے ہوئی، تو وہ کئی بار جیل کی صعوبتیں برداشت کرچکے تھے اور جماعت اسلامی کے سرگرم ارکان میں شامل تھے۔ اس رشتہ کی وجہ سے اگلے سال ۱۹۸۷ءکے ریاستی الیکشن میں ان کو ٹکٹ نہیں دیا گیا،کیونکہ ’مسلم یونائیٹڈ فرنٹ‘ (MUF) کا اتحاد جو ’نیشنل کانفرنس-کانگریس اتحاد‘ کے خلاف بنا تھا،اس نے علی گیلانی صاحب کو پارلیمانی بورڈ اور انتخابی مہم کا سربراہ بناکرا میدواروں کو منتخب کرنے کا کام سپرد کر دیاتھا۔ اس وقت حکومتی اتحاد کے خلاف ایک زبردست لہر چل رہی تھی۔ فاروق عبداللہ کے کانگریس کے ساتھ اتحاد نے شہر میں غم و غصہ کی لہر دوڑا دی تھی۔ بھارت میں اس امرواقعہ پر اتفاق رائے ہے کہ ان انتخابات میں بے تحاشا دھاندلیوں اور نتائج میں ہیر پھیر کی وجہ سے ہی ۱۹۸۹ءمیں عسکری تحریک کا جنم ہوا۔ الطاف احمد شاہ، شہر سرینگر میں انتخابی اسٹریجی کی کمان کر رہے تھے۔ حزب المجاہدین کے سربراہ محمد یوسف شاہ (صلاح الدین) لال چوک حلقے سے انتخابی میدان میں تھے، اور جموں کشمیر لبریشن فرنٹ (JKLF) کے سربراہ محمد یاسین ملک ان کے انتخابی ایجنٹ تھے۔

الطاف شاہ سے میری پہلی ملاقات کشمیر ہاؤس دہلی میں ۱۹۹۰ءمیں ہوئی، جب میں پڑھائی کے لیے دہلی میں مقیم تھا۔ ہمارے ایک رشتہ دار کشمیر یونی ورسٹی میں پروفیسر وجیہہ احمد علوی امریکا جا رہے تھے۔ انھوں نے مجھے شام کو کشمیر ہاؤس آنے کے لیے کہا، جہاں و ہ ٹھیرے تھے۔ انھی کے کمرے میں الطاف شاہ بھی ٹھیرے تھے، جو دہلی میں سفارتی اور میڈیا اداروں کو کشمیر کی خراب صورتِ حال کے بارے میں آگاہ کرنا چاہتے تھے۔ وہ کشمیر ہاؤس سے باہر کہیں رہایش چاہتے تھے۔ ڈنر کے بعد وہ میرے کمرے میں ہی مقیم ہوئے۔ کچھ عرصے بعد انھوں نے علیحدہ رہایش کا انتظام کرلیا۔ چند ماہ بعد جب وہ عیدکے لیے سرینگر جا رہے تھے، تو ایئر پورٹ پر ان کو گرفتار کرکے جموں کے ’جائنٹ انٹروگیشن سینٹر‘ (JIC) پہنچادیا گیا۔

انھی دنوں وہاںسیّد علی گیلانی کو بھی پہنچایا گیا تھا۔ ان کے سامنے الطاف شاہ کو پورے آٹھ ماہ تک ایک تاریک قبر نما ’سیل‘ میں رکھا گیا ۔ رُوداد قفس میں سید علی گیلانی لکھتے ہیں: ’’یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ نوجوان اس قبر میں کیسے زندہ رہا؟ کسی جاندار شے کو ایک طویل عرصے تک سورج کی روشنی سے محروم رکھا جائے، تو اس کی جان دھیرے دھیرے نکلتی ہے ۔ جسم پھول جاتاہے اور اعضاء پر کائی جم جاتی ہے۔ پھر خودبخود اس کی موت واقع ہو جاتی ہے۔الطاف احمد شاہ صرف اس لیے اس مقتل سے زندہ لوٹ آیا کہ اللہ نے ابھی اس کی زندگی باقی رکھی تھی، ورنہ پروگرام تو یہی نظر آرہا تھا کہ گھٹ گھٹ کر، سڑ سڑ کر ، ایڑیا ں رگڑتے رگڑتے، وہ جان جانِ آفریں کے سپرد کردے‘‘۔

آٹھ ماہ تک اس اندھیری قبر میں رہنے کے بعد ان کو جموں سینٹرل جیل منتقل کیا گیا۔ جب ان کے والد اور بچے ملنے آئے، تو وہ الطاف شاہ کو پہچان ہی نہیں پا رہے تھے۔ ان کا بدن پھول چکا تھا اور آنکھیں بے نور ہو چکی تھیں۔ اس لیے ان کی فیملی نے جموں ہی میں قیام کیا ، تاکہ ادویات اور خوراک کی فراہمی سے ان کی بحالی صحت کی کوشش کریں۔ غالباً چار سال اس جیل میں قید رہنے کے بعد ان کو اس زمانے میں رہائی ملی،جب حریت کانفرنس کی تشکیل ہورہی تھی۔

الطاف احمد شاہ اور حسام الدین ایڈووکیٹ دو ایسے اشخاص ہیں، جو سید علی گیلانی کے ساتھ حکمت کار اور منصوبہ ساز کے طور پر کام کرتے تھے۔ یہ دونوں کوئی شعلہ بیان مقرر تو نہیں تھے، مگر پلاننگ اوراسٹرے ٹیجی ترتیب دینا ان کا کمال تھا۔ الطاف شاہ اپنے آپ کو خاصے لو پروفائل میں رکھتے تھے۔ پورا اسیٹج وغیرہ ترتیب دے کر وہ خود پیچھے یا سامعین میں ہی بیٹھ جاتے تھے۔ ۲۰۰۳ء کے بعد جب کچھ کشمیری لیڈروںکو سیاسی ماحول حاصل ہو گیا تھا، تو ان کے مشورے پر سیّدعلی گیلانی نے اس کا بھر پور استعمال کرکے عوامی رابطہ مہم شروع کی۔ الطاف شاہ اس گھر گھر مہم کے آرگنائزر تھے۔ جس کے نتیجے میں پونچھ، راجوری اور جموں شہر سے لے کر گریز، اوڑی اورکرنا کے دُور دراز علاقوں تک علی گیلانی نے گھر گھر جا کر لوگوں سے ملاقاتیں کیں اور مجالس میں تقاریر کیں۔

جب بارہمولہ میں ان کے میزبان کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا ، تو اس کے بعد سیّدعلی گیلانی رات کو کسی مسجد میں رکتے تھے۔ اس سے عوامی رابطہ کی اور راہیں نکلتی تھیں، کیونکہ ان کے ساتھ مسجد میں پورا محلہ یا کم و بیش قصبہ کے لوگوں کا ازدحام بیٹھتا تھا۔ ۲۰۰۸ء میں کشمیر کی سیاسی تحریک کو جو جہت ملی، تو یہ عوامی رابطہ مہم، اس کی ایک بڑی بنیاد تھی۔ پھر ۲۰۱۰ء اور ۲۰۱۴ءکی اسٹریٹ ایجی ٹیشن، جس کو کشمیر کا ’انتفادہ‘ کہا جاتا ہے، وہ اسی مہم کی پیداوار تھی۔ اس مہم کی کامیابی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں تھی۔ اس بامعنی اُبھار سے بوکھلا کر ۱۵ستمبر ۲۰۰۴ءکو حسام الدین ایڈووکیٹ جیسے دانش ور اور محسن کو سرینگر میں ان کے گھر پر نامعلوم بندوق بردارو ں نے ہلاک کردیا۔ اس کے دو ماہ بعد ۷نومبر ۲۰۰۴ء کو الطاف احمد شاہ جب افطار کرنے کے بعدنماز مغرب ادا کرنے مسجد کی طرف جارہے تھے، انھیں فائر کرکے شدید زخمی کردیا گیا۔ان کے ایک پڑوسی ڈاکٹر نے بروقت طبی امداد دے کر خون روکنے کا کام کیا اور پھر سرینگر اور دہلی میں ڈاکٹروں کی اَن تھک محنت اور متعدد آپریشن کروانے کے ایک سال بعد وہ شفا یاب ہوگئے۔ ان دونوں پر قاتلانہ حملوں کی وجہ اس کے سوا کچھ نہیں تھی کہ لوگ سیّدعلی گیلانی صاحب کے قریب آنے اور کھل کر سرگرمیاں کرنے سے باز رہیں۔  علی گیلانی صاحب نے ۲۰۰۷ء میں اپنی تنظیم ’تحریکِ حریت کشمیر‘ بنائی تو اس کی تشکیل میں الطاف احمد شاہ نے مرکزی کردار نبھایا اور اسی تنظیم کے ساتھ وابستہ ہوگئے۔

جب نوے کے عشرے میں بدبختی کے نتیجے میں ’العمر‘، ’حزب‘ اور ’جے کے ایل ایف‘ کے درمیان تنازعات نے سر اُٹھایا تو یہ الطاف احمد ہی تھے، جنھوں نے اپنے رابطوں سے معاملات کو سلجھانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ دراصل ان کے قدرشناس ہرگروپ میں موجود تھے کہ جنھیں بُرے وقتوں میں الطاف صاحب نے مدد اور پناہ مہیا کی تھی۔ دُنیا میں کوئی فرد ایسا نہیں کہ جس سے شکایت پیدا نہ ہو۔ غلام قادروانی، سیّدعلی گیلانی صاحب کو بہت عزیز تھے۔ پہلے اُن کو اور پھر  بعض دیگر احباب کو شکایت ہوئی کہ الطاف شاہ عام لوگوں اور گیلانی صاحب کے درمیان رکاوٹ پیدا کرتےہیں۔ وانی صاحب جب مایوس ہوکر کنارہ کش ہوئےتو کچھ مدت بعد نامعلوم دہشت گردوں نے ۴نومبر ۱۹۹۸ء کو انھیں بانڈی پورہ میں ہلاک کر دیا۔

لگتا ہے کہ ۱۹۹۰ءمیں جے آئی سی اور پھر ۲۰۰۴ء میں نامعلوم بندوق بردار جس مہم میں ناکام ہوئے، ’نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی‘ ( این آئی اے) کے ذمہ داروں، تہاڑ جیل کے افسروں اور جیل ڈاکٹروں نے اس امر کو یقینی بنادیا کہ الطاف احمد شاہ اس دنیا سے کوچ کرجائیں۔ یکم اکتوبر ۲۰۲۱ء کو این آئی اے کی درخواست کے جواب میں رام منوہر لوہیا ہسپتال کی میڈیکل رپورٹ میں درج ہے: ’’مریض ایک سے زیادہ اعضاء کی خرابی کے ساتھ شدید بیمار ہے، اس کو زندہ رکھنے کے لیے وینٹی لیٹر اور سپورٹ کی ضرورت ہے۔ مریض کو آنکولوجی سپورٹ اور پی ای ٹی اسکین کی ضرورت ہے جو ہمارے ہسپتال میں دستیاب نہیں ہیں، اس لیے مریض کو اوپر بیان کردہ مرکز میں منتقل کرنے کی ضرورت ہے‘‘۔ ان کی بیٹی روا شاہ آخری وقت تک ان کے علاج کی اپیل کرتی رہی۔

بی بی سی، لندن سے بات کرتے ہوئے روا شاہ نے بتایا تھا کہ’’ ڈاکٹروں نے بتایا کہ  اُن کا دل اور گردے بیکار ہو گئے ہیں،اور اب صرف دماغ کام کر رہا ہے۔ ابو نے کچھ کہنے کے لیے کاغذ اور قلم کا اشارہ کیا، لیکن اس کی اجازت نہیں دی گئی‘‘ ۔ جیل کے ڈاکٹر مہینوں تک ان کو  پین کلر دے کر واپس سیل میں بھیج دیتے تھے ۔ جب ان کی طبیعت بگڑ گئی، تو پہلے ’دین دیال اپادھیائے ہسپتال‘ میں اور پھر دہلی کے ’رام منوہر لوہیا ہسپتال‘ میں منتقل کیا گیا، جہاں ڈاکٹروں نے تشخیص کی کہ ’’کینسر ان کے جسم میں آخری اسٹیج پر پہنچ چکا ہے اور اُن کے اہم اعضا ناکارہ ہو چکے ہیں‘‘۔ روا شاہ اپیلیں کرتی رہیں کہ ’’میرے والد کو آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز منتقل کیا جائے، جہاں سرطان کے علاج کے لیے باقاعدہ شعبہ ہے‘‘۔ دہلی ہائی کورٹ کے آرڈر پر جب ان کو آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ منتقل کیا گیاتو اس وقت تک وہ کوما میں چلے گئے تھے۔

واضح رہے تہاڑ جیل میں قید کشمیری رہنمائوں یاسین ملک، شبیر احمدشاہ ، آفتاب شاہ عرف شاہد الاسلام اور انجینیر رشید سمیت متعدد کشمیری لیڈروں کو کئی عارضوں کا سامنا ہے۔ یاسین ملک کی اہلیہ اور ہمشیرہ ، شبیر احمد شاہ اور آفتاب شاہ کی بیٹیاں بھی آئے روز حکام سے اپیل کرتی رہتی ہیں کہ اْن کے علاج کی خاطر انھیں انسانی بنیادوں پر گھروں میں ہی نظر بند رکھا جائے یا کم از کم ان کا تسلی بخش علاج کرایا جائے۔ الطاف احمد شاہ کی کسمپرسی میں موت اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ ان قیدی لیڈروں کی زندگیوں کی بھی کوئی ضمانت نہیں ہے اور وہ موت کی لکیر پر چل رہے ہیں۔

  جو میدان الطاف شاہ نے چنا تھا، اس میں یہ نتیجہ معلوم ہی تھا کہ موت و حیات ہمیشہ باہم دست و گریباں رہے گی۔ اس میدان میں زندگی بہت مہنگی اور موت ارزاں ہوتی ہے۔موت، زندگی سے ایک لمحے کے فاصلے پہ تعاقب میں پھرتی ہے ۔ اس میدان میں جمے رہنے کے لیے ایمان، عزم اور ثابت قدمی چاہیے۔ دوبار انھوں نے موت کو چکمہ دیا تھا۔ شاید وہ تیسری بار بھی اس کو شکست دیتے، اگر ان کا خاطر خواہ علاج کرایا جاتا یا تہاڑ جیل کے ڈاکٹر اپنے پیشے کے اصولوں سے انحراف نہیں کرتے___انا للہ وانا الیہ راجعون۔

انسانی حقوق کے لیے سرگرم معروف عالمی تنظیم ’ایمنسٹی انٹرنیشنل‘(A1) نے حال ہی میں جاری اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے:’’جموں و کشمیر میں پچھلے دو برسوں یعنی اپریل ۲۰۲۰ءسے مارچ ۲۰۲۲ءتک پولیس مقابلوں میں سب سے زیادہ ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ اگست ۲۰۱۹ء کے بعد سے ا ب تک شہریوں کی ہلاکتوں میں ۲۰ فی صد کا اضافہ ہوا ہے‘‘۔ رپورٹ کے مطابق: ’’مقامی قوانین کی منسوخی کے نتیجے میں سات اداروں بشمول انسانی حقوق کمیشن کو تحلیل کر دیا گیا، جس سے خطے کے لوگوں کے لیے انصاف کا حصول مشکل تر ہو گیا ہے‘‘۔ اس تنظیم کے مطابق: ’’خطے کے ہائی کورٹ میں اس وقت ایک ہزار۳سو۴۶ حبس بے جا مقدمات التواء میں ہیں۔ مجموعی طور پر حبس بے جا کی درخواستو ں میں پچھلے تین برسوں میں ۳۲ فی صد کا اضافہ ہوا ہے۔ عدالت نے جن ۵۸۵ درخواستوں کی سماعت شروع کی ہے، ان میں اب تک صرف ۱۴ درخواستیں ہی نمٹائی گئی ہیں‘‘۔

 رپورٹ نے ۶۰ ایسے واقعات کی تفصیلات درج کی ہیں، جن میں صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو یا تو پوچھ گچھ کے لیے بلایا گیا یا پھر حراست میں لیا گیا۔ اس کے علاوہ متعدد نیوز میڈیا اداروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں پر مالی بے ضابطگیوں کے الزامات لگا کر قومی تحقیقاتی ایجنسی اور محکمۂ انکم ٹیکس کی طرف سے مسلسل چھاپوں اور تحقیقات کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ہراساں کیے جانے اور ڈرانے دھمکانے کی وجہ سے بہت سے صحافی یا تو اپنی ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں یا پیشہ ہی چھوڑ گئے ہیں۔ اس کے علاوہ صحافیوں، وکلا، سیاست دانوں، انسانی حقوق کے کارکنان، اور تاجروں سمیت ۴۵۰ سے زائد افراد کو بغیر کسی عدالتی حکم کے ’نو فلائی لسٹ‘ میں رکھا گیا‘‘۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بتایا ہے: ’’۵؍ اگست ۲۰۱۹ء سے ۵؍ اگست۲۰۲۲ء کے درمیان صحافیوں، انسانی حقوق کے کارکنوں اور ماہرین تعلیم سمیت کم از کم چھ افراد کو بغیر کسی وجہ کے بیرون ملک سفر کرنے سے روک دیا گیا‘‘۔ انسانی حقوق کے ایک محافظ نے جسے بیرون ملک پرواز کرنے سے روک دیا گیا تھا ایمنسٹی انٹرنیشنل کو بتایا:’’ سفری پابندیاں جبر کے انداز کا ایک اور پہلو ہیں۔یہ ایک ایسا حربہ ہے جس کو حکام نے ملک کے اندر اور باہر آزاد، تنقیدی آوازوں کو دبانے کے لیے استعمال کیا ہے‘‘۔

پچھلے تین برسوں میں بھارتی حکومت نے۱۶۴ مقامی قوانین منسوخ کیے اور ۲۴۳ مرکزی قوانین کی اس خطے تک توسیع کی، مگر بد نامِ زمانہ مقامی قانون پبلک سیفٹی ایکٹ کو برقرار رکھا۔ اس کے علاوہ ’آرمڈ فورسز اسپیشل پاور ایکٹ‘ جو فوجی اہل کاروں یا نیم فوجی تنظیم کے اہل کاروں کو کسی بھی شخص کو مکمل استثنیٰ کے ساتھ گولی مارنے یا قتل کرنے کا اختیار دیتا ہے،مضبوطی سے نافذ ہے۔ ’نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو‘ (NCRB) کے اعداد و شمارکے مطابق جموں و کشمیر میں انسداد دہشت گردی قانون (UAPA) کے استعمال میں ۱۲ فی صد اضافہ ہوا ہے۔ اس قانون کے تحت حکام کسی بھی فرد کو بغیر چارچ شیٹ دیئے، ۱۸۰ دن تک حراست میں رکھ سکتے ہیں۔

            ایمنسٹی انٹرنیشنل نے شکایت کی ہے کہ ’’بھارت میں اس کے لیے برسرِزمین کام کرنے کی صلاحیت کو محدود کر کے رکھ دیا گیا ہے۔ اس کے دفاتر پر یلغار کرکے اس تنظیم کے خلاف منی لانڈرنگ کی روک تھام ایکٹ ۲۰۰۲ء، فارن ایکسچینج مینجمنٹ ایکٹ ۱۹۹۹ء اور فارن کنٹری بیوشن (ریگولیشن) ایکٹ۲۰۱۰ء اور دیگر قوانین کے تحت مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ ستمبر۲۰۲۰ء میں، بھارتی حکام کی جانب سے تنظیم کے خلاف مسلسل مہم جوئی کے بعد، ایمنسٹی انٹرنیشنل کو بھارت میں اپنا دفتر بند کرنے پر مجبور کیا گیا،اور بغیر کسی پیشگی اطلاع کے اس کے تمام بنک اکاؤنٹس منجمد کردیے گئے۔ اس رپورٹ میں ایمنسٹی نے بتایا:’’برسرِزمین کام کرنے کی اجازت نہ دینے کی وجہ سے اس رپورٹ کو تیار کرنے کے لیے مختلف افراد سے انٹرویو کا سہارا لینا پڑا۔ انٹرویو دینے والوں نے تنظیم کو بتایا کہ ان کے نام ظاہر ہونے کی صورت میں ان کو اور ان کے رشتہ داروں کو انتقامی کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ کئی صحافیوں نے ایمنسٹی کے اہل کاروں سے بات کرنے سے ہی انکار کردیا‘‘۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ۲۲؍ اگست ۲۰۲۲ء کو بھارتی حکومت کو اس صورت حال کے حوالے سے خط لکھا ، مگر رپورٹ کی اشاعت تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

رپورٹ میں جمع کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق، ۵؍ اگست ۲۰۱۹ء سے جموں و کشمیر میں کم از کم ۲۷ صحافیوں کو بھارتی حکام نے گرفتار اور نظر بند کیا ہے۔پریس کونسل آف انڈیا (PCI) نے اپنی ’فیکٹس فائنڈنگ رپورٹ‘ میں بتایا ہے کہ ۲۰۱۶ء سے اب تک اس خطے میں کم از کم ۴۹صحافیوں کو گرفتار کیا گیا ہے جن میں سے آٹھ کو غیر قانونی سرگرمیوں کی (روک تھام) ایکٹ (UAPA) کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔ اسی طرح حکومتی یا آر ایس ایس میڈیا نے گیارہ صحافیوں کو کٹہرے میں کھڑا کرکے انھیں حکومت سے جواب دہی کا مطالبہ کرنے پر ’ریاست مخالف بیانیہ‘ بتایا اور ا ن پر الزام لگایا کہ ان کو پاکستان کی سرپرستی حاصل ہے۔

            جولائی ۲۰۲۰ء میں، سیکورٹی اہل کاروں نے کشمیر کے ضلع شوپیاں میں تین افراد کو ’دہشت گرد‘ ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے ہلاک کیا۔ تین افراد نے گمشدگی کی شکایت درج کرائی۔ انکوائری کے نتیجے میں طے پایا کہ مسلح افواج کے ارکان نے اختیارات سے تجاوز کیا تھا، مگر ان فوجیوں کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر مقدمہ چلاناکسی کے بس میں نہیں ہے۔ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے مبینہ مجرموں، خاص طور پر حراستی تشدد اور ماورائے عدالت ہلاکتوں کے ملزمان کو قانونی چارہ جوئی اور جواب دہی سے بچانے کے لیے سکیورٹی اہل کاروں کے ٍمقدمات فوجی عدالتوں میں چلائے جاتے ہیں۔

ایمنسٹی کا کہنا ہے کہ اگست ۲۰۱۹ء تک، جموں و کشمیر کا اپنا ریاستی انسانی حقوق کمیشن تھا جس کو ختم کر دیا گیا۔ایمنسٹی انٹرنیشنل سے بات کرتے ہوئے، ریاستی انسانی حقوق کمیشن کے سابق سربراہ جسٹس بلال نازکی نے کہا: ’’جس وقت اس ادارے کو تحلیل کیا گیا، اس وقت اس میں ۸ہزار سے زیادہ زیر التوا مقدمات تھے‘‘۔دوسری طرف بھارتی سپریم کورٹ نے آرٹیکل۳۷۰ کی منسوخی کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی تین برسوں سے سماعت نہیں کی۔ ایک وکیل نے تنظیم کو بتایا کہ ’’عدالتیں مناسب وجوہ بتائے بغیر مقدمات کی سماعت میں تاخیر کرتی ہیں۔اس خطے میں،  جموں و کشمیر رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ موجود تھا جس کی جگہ نیشنل رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ، نے لے لی۔ مگر مرکزی حق اطلاعات ایکٹ کو برسوں کے دوران مسلسل کمزور کیا گیا ہے ‘‘۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھارتی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ’’وہ انتظامی حراست اور دیگر جابرانہ قوانین کے تحت من مانی طور پر حراست میں لیے گئے افراد کو فوری طور پر رہا کرے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ ان کے خلاف باقاعدہ عدالت میں فوری اور منصفانہ مقدمہ چلایا جائے۔ اس کے علاوہ حکومت کو فیصلہ سازی کے عمل میں جموں و کشمیر کے لوگوں کی نمایندگی اور شرکت بڑھانے کے لیے بھی اقدامات کرنے چاہییں۔ غیر قانونی نگرانی کے اقدامات، من مانی حراست، اور آزادیٔ اظہار پر پابندیاں لگانے اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے اقدامات کو چھپانے کی حکومت کی کوششیںجموں و کشمیر میں انسانی حقوق کے بین الاقوامی قانون کی صریح خلاف ورزی ہے‘‘۔

بھارت میں مذہبی تفریق کی بنیاد پر فسادات کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ۱۹۴۷ءمیں آزادی کے بعد سے پچھلے ۷۴برسوں کے دوران بھارت کے طول و عرض میں ۶۰ ہزار سے زیادہ فسادات ہوئے ہیں۔ انڈین نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے مطابق ۲۰۱۴ء سے ۲۰۲۰ءکے عرصے میں ۴ہزار ایک سو ۷۵ فسادات ریکارڈ کیے گئے ہیں۔جس کا مطلب ہے کہ بھارت کے طول و عرض میں ہر روز دوفسادات ہوئے ہیں۔ ان فسادات کے نہ ختم ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ فسادات میں ملوث افراد کو شاید ہی کبھی سزا ملتی ہے۔ جہاں تک ہمارے علم میں ہے، ۱۹۸۴ءکے سکھ مخالف فسادات اور ۲۰۰۲ءکے گجرات کے مسلم کش فسادات، صرف دوایسی مثالیں ہیں، جن کی پیروی کی گئی اور قصورواروں کو عدالتوں نے سزائیں بھی سنائیں۔

سکھوں کے خلاف بلوہ کرنے والے کانگریسی رہنماؤں اور فسادیوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا کام گوردوارپرببندھک کمیٹی نے کیا، تو گجرات کے فسادات میں ملوث بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے لیڈروں اور کارکنوں کو جیلوں تک پہنچانے کا کریڈٹ سماجی کارکن تیستا سیٹلوارڑ، ان کے شوہر جاوید آنند اور چند باضمیر پولیس افسران کے سر جاتا ہے۔ جنھوں نے ہزاروں مشکلات کے باوجود برسوں تک عدالتوں میں گجرات فسادات کی پیروی کی،گواہوں اور مقدمے کی دستاویزات اور ثبوتوں کی حفاظت کروائی، کئی کیسوں کو گجرات سے باہر مہاراشٹرہ منتقل کروایااور قصور واراں کو سزائیں دلوائیں۔ شاید یہ ایک بڑی وجہ تھی کہ ۲۰۰۲ءکے بعد گجرات میں کوئی بڑی فرقہ وارانہ واردات برپا نہیں ہوئی۔ ورنہ ایک سابق سینیر پولیس افسر وبھوتی نارائین رائے کے بقول جنھوں نے ۱۹۸۹ء میں اترپردیش کے میرٹھ شہر میں ہاشم پورہ اور ملیانہ قتل عام کی ابتدائی تحقیقات کی تھیں، ’’فسادات سے نپٹنے کے نام پر پولیس اکثر مسلمان نوجوانوں کو ہی حراست میں لیتی ہے، پھر فسادیوں کے ساتھ تصفیہ کرواکے رہا کراتی ہے‘‘۔

تین عشروں پر پھیلے صحافتی کیریر کے دوران فسادات کو کور کرتے ہوئے میں نے بھی یہی دیکھا ہے کہ ایک توپولیس کا کردار جانب دارانہ رہتا ہے اور پھر فسادات تھمنے کے بعد وہ دونوں اطراف کے لوگوں کے خلاف مقدمہ درج کرکے ان کو جیل بھیج دیتی ہے، تاآنکہ وہ جیل میں ہی سمجھوتہ کرکے ایک دوسرے کے خلاف مقدمہ واپس لینے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔چند سال قبل آسام میں انتخابات کے دوران جب میں نے وہاں چند سیاسی رہنماؤں کو یاد دلایا کہ ’’۱۹۸۳ء میں اس صوبہ میں نیلی کے مقام پر دس ہزار بنگالی مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا تھا، اس کی تفتیش کہاں تک پہنچی ہے؟ ‘‘ تو وہ میرا منہ تکتے رہے او ر کہا کہ ’’ہم اب آگے بڑھ گئے ہیں اور ان فسادات کو ہم نے یادداشت سے کھرچ دیا ہے۔ کیا ایسا دنیا میں کہیں ممکن ہے؟‘‘

گجرات فسادات کیس میں نہ صرف اب تیستا سیتلواڑ اور ان کی تنظیم ’سب رنگ ٹرسٹ‘ کو حکومت اور خاص طور پر وزیر اعظم نریندر مودی سے پنجہ آزمائی کی سزا دی جارہی ہے،بلکہ جن قصور واروںکو انھوں نے عدالتوں کے ذریعے کیفر کردار تک پہنچایا تھا ، اب ان کی سزائیں معاف کی جارہی ہیں یا ان کو ضمانتوں پر رہا کیا جا رہا ہے۔ سیتلواڑ کی تنظیم پر پہلے غیر ملکی عطیہ لینے پر پابندی عائدکی گئی اور اس کے بعد ان کے خلاف تفتیش کا ایک ایسا سلسلہ شروع کیا گیا کہ ابھی جون میں ان کی ممبئی میں واقع رہایش گاہ پر گجرات پولیس نے یلغار کرکے ان کو حراست میں لے لیا۔ سیتلواڑ کے علاوہ سابق ڈائریکٹر جنرل آف پولیس آر بی سری کمار اورایک اور پولیس آفیسر سنجیو بھٹ پر بھی مقدمہ دائرکر کے جیل پہنچا دیا گیاہے۔

گجرات ہی میں ایک کیس بلقیس بانو کا تھا، جنھیں ۳مارچ ۲۰۰۲ء کو فسادات کے دوران اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ وہ اس وقت ۱۹ سال کی تھیں اور حاملہ تھیں۔ احمد آباد کے قریب فسادیوں نے اس کی تین سالہ بیٹی سمیت اس کے خاندان کے چودہ افراد کو قتل کر دیا تھا۔ ایک آدمی نے بیٹی کو اس کی ماں کے بازو سے چھین کر اس کا سر پتھر پر دے مارا تھا۔عدالت کے فیصلہ کو ،جس میں یہ واقعات تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں، پڑھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ آخر ایک انسان اس قدر درندہ صفت کیسے ہوسکتا ہے؟ یہ سبھی قصور وار اور مجرمان بلقیس بانو کے پڑوسی تھے۔ پچھلے ہفتے اس کیس میں عمر قید کی سزا پانے والے گیارہ افراد کو گودھرا جیل سے رہا کر دیا گیا، کیوں کہ گجرات حکومت نے معافی کی پالیسی کے تحت ان کی درخواست منظور کر لی ہے۔صوبہ کے ایڈیشنل چیف سکریٹری (داخلہ) راج کمار نے صحافیوں کو بتایا ’’چونکہ مجرموں نے ۱۴سال جیل میں گزارے ہیں اور ساتھ ہی دیگر عوامل جیسے عمر، جرم کی نوعیت، جیل میں سلوک کی بنیاد پر یہ درخواست منظور کی گئی ہے۔ تاہم، راج کمار یہ بتانا بھول گئے کہ خواتین کو ہراساں کرنے اور زنا بالجبر جیسے جرائم میں معافی نہیں ہے۔ پھر ان مجرموں کی رہائی کے وقت ان کا جس طرح استقبال کیا گیا، اس سے ایک پیغام تو واضح ہے کہ مسلمانوں کے خلاف کسی بھی جرم کو برداشت کیا جائے گا اور اس کو انجام دینے والا ہیرو ہے۔ دراصل مجرموں میں سے ایک، رادھے شیام شاہ نے ۱۴ سال قید کی سزا کاٹنے کے بعد معافی کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا اور کورٹ نے اس کو قیدیوں سے متعلق صوبہ کی کمیٹی سے رجوع کرنے کے لیے کہا تھا۔ اس کمیٹی کے ایک رکن اور گودھرا کے موجودہ بی جے پی ممبر اسمبلی سی کے راؤلجی کا کہنا ہے کہ ’’یہ مجرمین ’برہمن‘ ہیں اور ’اچھے اخلاق‘ کے مالک ہیں‘ ‘۔

یہ صرف بلقیس بانو کا کیس نہیں ہے۔ ۲۰۱۴ء کے بعد سے نئی دہلی میں مودی کی حکومت آنے کے بعد سے تو کئی قصورواروں کو رہا کیا گیا ہے۔ آنند ضلع کے اوڈ گاؤں کے ۴۰سالہ ادریس نے حال ہی میں بی بی سی کو بتایا کہ:’’میری دادی، والدہ اور ایک قریبی دوست کو میرے سامنے ایک ہجوم نے قتل کر دیا تھا۔ قاتلوں کی اس بھیڑ میں میرے سکول کے دوست اور پڑوسی بھی شامل تھے۔ میرے خاندان کے افراد کے قتل کے معاملے میں ۸۰ ملزمان نامزد تھے، لیکن ان میں سے کوئی بھی جیل میں نہیں ہے۔ سب کو عدالت سے ضمانت مل چکی ہے‘‘۔

                احمد آباد سے متصل نرودا پاٹیہ میں ہوئے قتل عا م میں نچلی عدالت نے بی جے پی کی وزیر مایا کوڈنانی کو فسادات کا ماسٹر مائنڈ قرار دیتے ہوئے اسے ۲۸ سال قید کی سزا سنائی تھی۔ اس معاملے میں ’بجرنگ دل‘ کے بابو بجرنگی کو بھی قصوروار ٹھیرایا گیا تھا ۔جج نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ کوڈنانی نے بطور مقامی ممبر اسمبلی اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی۔ جب انھیں گرفتار کیا گیا تو وہ نریندرا مودی کی حکومت میں خواتین اور بچوں کی فلاح و بہبود کی وزیر تھیں۔ اس معاملے میں موجودہ مرکزی وزیر داخلہ امیت شا نے مایا کوڈنانی کے حق میں گواہی دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’میں نے کوڈنانی کو ریاستی اسمبلی میں دیکھا تھا‘‘۔اس کیس کے ۳۲ قصورواروں میں سے۱۸کو ہائی کورٹ نے بری کر دیا، جن میں کوڈنانی بھی شامل ہیں، جب کہ ۱۳؍ افراد کو قصوروار پایا گیا۔ سزا پانے والوں میں بابو بجرنگی بھی شامل ہیں، تاہم ان کی عمر قید کی سزا کو کم کر کے ۲۱ سال کر دیا گیا۔

                شمالی گجرات کے پٹن ضلع کے سردار پورہ گاوٗں میں ۳۳مسلمانوں نے ایک گھر میں پناہ لی تھی۔ فسادیوں نے اس کا گھیراؤ کرکے اس میں بجلی کے ایک ننگے تار سے کرنٹ دوڑا دیا جس سے ۲۹؍افراد کی جائے حادثہ پر ہی موت واقع ہو گئی تھی۔ہجوم نے گاؤں کی تمام سڑکیں بند کر دیں تاکہ مسلم کمیونٹی کے لوگوں کو اپنی جان بچانے کا موقع نہ ملے۔سپریم کورٹ کی جانب سے ایک اسپیشل انوسٹیگیشن ٹیم ( ایس آئی ٹی) کی تشکیل کر دی گئی اور ۲۲ لوگوں کو گرفتار کیا گیا۔اس سے قبل بھی کئی افراد کو پولیس نے گرفتار کیا تھا۔ دی وائر کی ایک رپورٹ کے مطابق اس قتل عام میں دو سرکردہ افراد سرپنچ کچرا بھائی پٹیل اور سابق سرپنچ کنو بھائی پٹیل ملوث تھے اور ان دونوں کا مبینہ طور پر بی جے پی سے تعلق تھا۔ان فسادات کے ایک اہم گواہ ادریس وورا ، جس نے اپنی دادی، اپنی ماں اور اپنے ایک قریبی دوست کو کھو دیا تھا، صرف اس لیے بچ گئے کہ انھوں نے خود کو ۱۰گھنٹے سے زیادہ بیت الخلا میں بند رکھا تھا ۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’میں یہ حقیقت ہضم نہیں کر سکتا کہ سب کچھ تباہ کرنے والے کھلے عام گھوم رہے ہیں اور ۲۰سال بھٹکنے کے بعد بھی انصاف نہیں ملا‘‘۔

                اسی طرح مہسانہ کے وِس نگر کے دیپدا دروازہ علاقے میں گیارہ مسلمانوں کے قتل کے الزام میں پولیس نے ۷۹؍ افراد کو گرفتار کیا تھا اور پھر ان سبھی کو ضمانت دے دی گئی ۔ ا ن میں اب ۶۱لوگوں کو بری کر دیا گیا ہے، جن میں وس نگر کے سابق بی جے پی ممبر اسمبلی پرہلاد پٹیل اور میونسپل کارپوریشن میں بی جے پی کے صدر داہیا بھائی پٹیل بھی شامل ہیں۔ان فسادات کے دوران تین برطانوی شہریوں کو بھی اور ان کے ڈرائیور کو ایک ہجوم نے قتل کر دیا تھا۔بتایا جاتا ہے کہ برطانیہ سے آنے والے عمران داؤد اپنے تین رشتہ داروں کے ساتھ گاڑی میں سفر کر رہے تھے۔ہجوم نے گاڑی کو روک کر ایک ہی جگہ دو افراد کو نذر آتش کر دیا۔ دو افراد جان بچا کر بھاگے، لیکن ہجوم نے ان کا پیچھا کیا اور انھیں مار ڈالا۔ پولیس کی مدد سے عمران داؤد خود کو بچانے میں کامیاب رہے۔ اس معاملے میں چھ لوگوں کو گرفتار کیا گیا تھا، لیکن ان سبھی کو نچلی عدالت سے رہا کر دیا گیا۔

۲۸ فروری ۲۰۰۲ءکو چمن پورہ کی گلبرگ سوسائٹی میں رہنے والے ۶۹؍ افراد کو ہجوم نے قتل کر دیا۔ کانگریس کے سابق رکن پارلیمنٹ احسان جعفری بھی ہلاک ہونے والوں میں شامل تھے۔ سوسائٹی میں ۱۹بنگلے اور ۱۰؍ اپارٹمنٹس تھے۔ مقامی پولیس نے میگھانی نگر پولیس سٹیشن میں شکایت درج کرنے کے بعد ۴۶ لوگوں کو گرفتار کیا۔ ایس آئی ٹی کی جانچ شروع ہونے کے بعد اس معاملے میں ۲۸دیگر کو گرفتار کیا گیا اور کل ۱۲ چارج شیٹ داخل کی گئیں۔ کل ملزمان میں سے ۲۴کو سزا سنائی گئی،جب کہ ۳۹ کو بری کر دیا گیا۔اس قتل عام میں اپنے رشتہ داروں کو کھونے والی ۶۴سالہ سائرہ بانو کا کہنا ہے کہ جن لوگوں کو پولیس نے گرفتار کیا تھا، شناخت ہونے کے بعد بھی انھیں ضمانت دے دی گئی جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔اس کے مطابق ملزموں کی گرفتاری تیستا سیتلواڑ اور آر بی سری کمار جیسے انسانی حقوق کے کارکنوں کی مدد سے ہی ممکن ہوئی تھی۔ ہلاک ہونے سے چند منٹ قبل تک احسان جعفری، پولیس ، وزارت داخلہ کے افسران ، حتیٰ کہ وزیر اعلیٰ کے دفتر مسلسل فون کرتے ہوئے مدد کی درخواست کررہے تھے۔

                بھارت میں فرقہ وارانہ فسادات تو پہلے بھی ہوتے تھے اور ان میں فسادیوں کا چھوٹنا بھی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ فرق تو یہ ہے کہ عدالتوں سے مجرم ثابت ہونے اور سزائیں پانے کے بعد بھی انصاف کے عمل کا منہ چڑا کر اس کو بے دست و پا کردیا جاتا ہے۔ اس طریقے سے ۲۰کروڑ سے زیادہ مسلمانوں کو بتایا جارہا ہے کہ یا تو وہ دوسرے درجے کے شہری بننا منظور کریں یا کہیں اور چلے جائیں۔ چونکہ کانگریسی دور میں سیکولرازم کا ملمع چڑھا ہوتا تھا، اس لیے فسادات کے بعد کوئی مرکزی وزیر یا حکمران پارٹی کا بڑا لیڈر دورہ پر آتا تھا۔ پہلے تو وہ ہندو علاقوں میں جاکر ان کی پیٹھ تھپتھپاتا تھا اور پھر مسلم علاقے میں آکر اشک شوئی کرکے ریلیف بانٹتے ہوئے فرقہ وارانہ ہم آہنگی پر   ایک لیکچر دے کر چلا جاتا تھا۔ اب رسمی طور پر بھی کوئی لیڈر مسلم علاقے کا رخ نہیں کرتا ہے۔ بھارت کی مرکزی کابینہ میں اقلیتی امور کے وزیر مختار عباس نقوی کے مستعفی ہونے کے بعد اب کوئی ایک مسلمان وزیر نہیں ہے۔ بی جے پی کی حکومت والے ۱۶صوبوں میں کوئی مسلم وزیر نہیں ہے۔ صرف اتر پردیش جہاں کل آبادی کا ۲۶ء۲۹ فی صد مسلمان ہیں ایک مسلم وزیر ہے۔ بھارت میں صوبائی اسمبلیوں میں کل ۴۱۲۱ نشستیں ہیں۔ ان میں صرف ۲۳۶ مسلمانوں اراکین ہیں۔کل ۲۸صوبوں میں ۵۳۰کے قریب وزرا ہیں۔ جن میں صرف ۲۴مسلمان ہیں۔ ان میں سے بھی پانچ وزیر حال ہی میں بہار میں اس لیے شامل کیے گئے، کیونکہ وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے اتحادی بی جے پی سے ناتا توڑ کر سیکولر راشٹریہ جنتا دل کے ساتھ مل کر اَزسر نو حکومت تشکیل دی۔ یہ تو طے ہے کہ مسلمانوں کو اس حد تک کنارے لگایا جاچکا ہے کہ ان کی نمایندگی کی کوئی ضروت ہی محسوس نہیں ہوتی ہے۔ بھارت کی سیاست نے ایک طویل فاصلہ طے کیا ہے۔ مگر سوال ہے کہ کیا ۲۰کروڑ سے زائد افراد کو پس پشت ڈال کر اور ان کو ہیجان میں مبتلا رکھ کر اور کسمپرسی کا احساس دلا کر اس نظام کو قائم و دائم رکھا جا سکتا ہے؟ بھارتی سیاستدانوں اور حکمرانوں کے لیے یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے۔