۲۶جون ۲۰۱۷ء عیدالفطر کے مبارک موقعے پر، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی واشنگٹن میں ملاقات سے صرف دو گھنٹے پہلے، امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ایک ’حکم نامے‘ بعنوان ’Diplomacy in Action‘ (اقدامی سفارتی حکمت عملی) کے ذریعے ’حزب المجاہدین‘ کے سپریم کمانڈر جناب سیّد صلاح الدین کو ایک ’نادر تحفہ‘ دیتے ہوئے ان کا نام اس فہرست میں شامل کر دیا گیا ہے۔ جسے امریکا اپنی اصطلاح میں ’خصوصی طور پر نامزد عالمی دہشت گرد‘ (Specially Designated Global Terrorist) کہتا ہے، اور جس کی تعریف خود اس حکم نامے میں یہ درج ہے:
غیر ملکی افراد جنھوں نے دہشت گردی کی ایسی کارروائیاں کی ہیں، یا جن کی طرف سے ایسی کارروائیوں کا واضح خدشہ موجود ہے، جو امریکی شہریوں یا امریکا کی قومی سلامتی ، خارجہ پالیسی یا معیشت کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔
اس حکم نامے میں سیّد صلاح الدین صاحب کے جن ’جرائم‘ کا ذکر ہے، دُور و نزدیک سے ان کا کوئی تعلق امریکا، اس کی سلامتی اور امریکیوں کی زندگی سے نہیں ہے۔مجمل انداز میں کہا گیا ہے کہ:
ستمبر ۲۰۱۶ء میں صلاح الدین نے عہد کیا کہ وہ کشمیر کے تنازعے کے کسی بھی پُرامن حل کا راستہ روکے گا۔ اس نے مزید کشمیری خودکش بمبار وں کو تربیت دینے کی دھمکی دی اور عہد کیا کہ وہ وادیِ کشمیر کو بھارتی فوجیوں کے قبرستان میں بدل دے گا۔ صلاح الدین کے ’حزب المجاہدین‘ کے سینیر رہنما ہونے کی مدت کے دوران حزب المجاہدین نے کئی حملوں کی ذمہ داری قبول کی، جن میں بھارت کے زیر انتظام جموں وکشمیر میں اپریل ۲۰۱۴ء میں ہونے والا بارودی حملہ بھی شامل ہے، جس میں ۱۷ لوگ زخمی ہوئے۔
اس ’چارج شیٹ‘ کی بنیاد پر حکم صادر ہوا ہے کہ :
صلاح الدین دہشت گردی کی کارروائیوں کا مرتکب ہوا ہے یا اس کی طرف سے ایسی کارروائیوںکے ارتکاب کا شدید خطرہ ہے، اس لیے اس کو ’عالمی دہشت گرد‘ قرار دیا جاتا ہے۔
اگر اس ’حکم نامے‘ کا تجزیہ کیا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ یہ قانون اور انصاف کے متفق علیہ اصولوں کی سراسر ضد ہے۔ وہ امریکا جو جمہوریت اور قانون کی بالادستی کے باب میں اپنے کو عالمی برادری کا لیڈر قرار دیتا ہے، یہاں کس ڈھٹائی اور سفّاکی سے انصاف، قانون اور جمہوری اقدار کا خون کر رہا ہے۔ یہ کام محض بھارت سے معاشی فوائد کے حصول اور علاقائی سیاسی مفادات کی خاطر دنیا کی معتبر اور مقتدر شخصیات پر دہشت گردی کی چھاپ لگا کر کیا جا رہا ہے۔
اس ’حکم نامے‘ کا بغور مطالعہ کریں تو اس میں سیّد صلاح الدین صاحب کے مبیّنہ ’جرائم‘ کا کہیں دُور و نزدیک، کسی امریکی شہری یا خود امریکا کے کسی مفاد پر پڑنے والی ضرب، یا اس کے لیے کسی واضح یا موہوم خطرے تک کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ کشمیر کی تحریکِ آزادی، ان چند تحریکوں میں سے ہے، جو صرف اور صرف اپنے علاقے تک محدود ہیں۔ اس تحریک کا ہدف صرف اہلِ کشمیر کے مادرِ وطن پر غاصب اور ناجائز طور پر قابض فوج (Occupying Force) کا مقابلہ اور اس کے تسلط سے آزادی کا حصول ہے۔
’ حزب المجاہدین‘ تو وہ تنظیم ہے، جس نے پہلے دن سے اقوامِ متحدہ کی قراردادوں اور بھارت اور عالمی اقوام کے وعدوں کی بنیاد پر جمہوری طریقے (عوامی استصواب) سے عمل کا مطالبہ کیا ہے۔ سیّد صلاح الدین نے اس منزل کے حصول کے لیے اصلاً معروف جمہوری راستے کو بھی اختیار کیا اور خود ۱۹۸۷ء کے انتخابات میں حصہ لیا۔ یوں گویا الیکشن کا وہ ذریعہ بھی اختیار کرکے دیکھ لیا، جسے بھارتی سرکاری مشینری نےمحض بھارتی جمہوری ڈراما بناکر حسب ِ روایت دھاندلی کی بھینٹ چڑھا دیا۔ اسی طرح بعد کے مراحل میں کشمیر کی حق خود ارادیت کی تحریک میں ان اصولوں کی مکمل پاس داری کے ساتھ جدوجہد کی، جو اقوامِ متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قانون اور معاہدوں (conventions) کے دائرے میں آتی ہیں۔ حتیٰ کہ ’حزب المجاہدین‘ نے کبھی کوئی کارروائی ریاست جموں و کشمیر کی حدود سے باہر اس قابض قوت کے خلاف نہیں کی۔ ’حزب المجاہدین‘ نے ’حُریت کانفرنس‘ کی سیاسی جدوجہد کی ہمیشہ تائید کی ہے۔ اس کی ساری جدوجہد کا صرف ایک ہدف ہے:
جموں و کشمیر کے عوام کا یہ حق کہ وہ اپنی آزاد مرضی سے، اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کریں۔ وہ حق جو ان کا پیدایشی حق ہے، جس کی ضمانت اقوامِ متحدہ کا چارٹر آرٹیکل ۱ اور ۵۵ اسے دیتے ہیں۔ جس کا وعدہ ان سے اقوامِ متحدہ نے ۲۲ سے زیادہ قراردادوں کی شکل میں کیا ہوا ہے۔جس کا وعدہ خود بھارت کی حکومت، پاکستان کی حکومت اور پوری عالمی برادری نے کیا ہے، اور جس کے سلسلے میں اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے صاف الفاظ میں یہ تک کہہ دیا ہے کہ جموں و کشمیر میں کوئی نام نہاد دستورساز اسمبلی یا کسی اسمبلی کے انتخابات اس استصواب اور عوامی راے شماری کا بدل نہیں ہوسکتے، جس استصواب راے کا وعدہ بھارت، پاکستان اور اقوامِ متحدہ نے ان سے کیا ہے۔
آگے بڑھنے سے پہلے ہم تاریخ کے سینے پر نوشتۂ دیوار کے طور پر اس ضابطۂ اخلاق کا پورا متن دے رہے ہیں، جس کا ’حزب المجاہدین‘ اپنے تمام مجاہدین کو پابند کرتی ہے۔ یہ اس تحریکِ آزادی کے لیے Standing Code of Conduct (مستقل ضابطۂ اخلاق)کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس ضابطے اور آدابِ کار کے لوگوں کو دہشت گرد قرار دینا بدترین ظلم اور ناانصافی ہے:
ریاست جموں و کشمیر میں جاری تحریک جہاد سے وابستہ ہرمجاہد کو اس بات کا عہد کرنا ہوگا کہ:
اس صاف شفاف لائحۂ عمل اور بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ ضابطوں کی پاس داری کے علی الرغم ’حزب المجاہدین‘ اور اس کے سربراہ کو عالمی دہشت گرد قرار دینا، دراصل اپنی جگہ پر عالمی دہشت گردی کی بدترین مثال ہے، جو امریکا کی جانب داری، مفاد پرستی اور اس کے ناقابلِ اعتماد ہونے کی واضح دلیل ہے۔ بی بی سی لندن (اُردو سروس) نے اس پہلو کی یوں نشان دہی کی ہے:
’حزب المجاہدین‘ ، جس کے دیرینہ سربراہ صلاح الدین ہی ہیں، کشمیریوں کی مقامی مسلح تنظیم ہے۔ حزب نے ۲۷سال کے دوران کبھی کسی عالمی ایجنڈے کا ذکر نہیں کیا۔ یہ تنظیم اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیر میں راے شماری چاہتی رہی ہے اور اس نے اکثر اوقات القاعدہ اور دولت اسلامیہ [داعش] کی لہر سے اعلاناً فاصلہ بنائے رکھا۔
بی بی سی کے اسی نامہ نگار نے اس خطرے تک کا اظہار کیا ہے کہ:
صلاح الدین کو عالمی دہشت گرد قرار دیے جانے کے بعد کشمیری عسکریت پسند لوکل ایجنڈے کی افادیت پر سوال اُٹھا سکتے ہیں اور کشمیر کی مسلح مزاحمت کو شام اور افغانستان میں جاری مزاحمت کے خطوط پر استوار کرنے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔ اس طرح کشمیر کی مسلح تحریک جس کا ابھی تک کردار بھی مقامی اور ایجنڈا بھی مقامی رہا ہے، ممکن ہے کہ ایک گلوبلائزڈ جہادی نیٹ ورک کا حصہ بننے میں عافیت سمجھے۔(’’صلاح الدین کو دہشت گرد قرار دیے جانے کا تحریکِ کشمیر پر کیا اثر پڑے گا؟‘‘ از ریاض مسرور، بی بی سی ڈاٹ کام، سری نگر، ۲۷جون ۲۰۱۷ء)
یہ ہیں اصل حقائق___ کیا ہم یہ پوچھنے کی جسارت کرسکتے ہیں کہ امریکا اپنے ان حالیہ اقدامات سے عالمی دہشت گردی کو قابو کرنے کی کوشش کر رہا ہے، یا پھر اسے فروغ دینے میں دانستہ طور پر حصہ ڈال رہا ہے؟ اور جو عالمی سطح پر کسی کے لیے کوئی نہ کبھی خطرہ تھے اور نہ آج خطرہ ہیں، ان کو خطرہ بنانے کی خدمت انجام دے رہا ہے؟
امریکا اور بھارت کے اس مذموم کھیل سے ’حزب المجاہدین‘ اور تحریک ِ آزادی کشمیر کو باخبر رہنا چاہیے اور اس جال (Trap)سے بچنے کی ہرممکن کوشش کرنی چاہیے۔ اپنی آواز کو عالمی سطح پر پہنچانے اور عالمی راے عامہ کو ساتھ لے کر چلنے کی ہرکوشش بجا، لیکن سمجھ لینا چاہیے کہ تحریک کا مقامی، محدود اور متعین کردار ہی اس کی بڑی طاقت ہے۔ اس سلسلے میں تحریکِ آزادی اور حزب المجاہدین کا پہلے دن سے اب تک جو کردار پورے تسلسل کے ساتھ رہا ہے، اس کی حفاظت ضروری ہے۔
ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ اس اقدام کے ذریعے امریکا نے ایک مسلّمہ اور جائز تحریک ِ مزاحمت کا رُخ بلاوجہ اپنی طرف موڑنے کی حماقت کی ہے یا بھارت کی چال میں آکر یہ اقدام کیا ہے اور اس کے تمام اثرات اور نتائج کا ادراک نہیں کیا ہے۔ آج تک اس تحریک کا رُخ صرف ایک قابض قوت بھارت کی طرف تھا اور ہے۔ امریکا سے یہ توقع کی جارہی تھی کہ وہ حق و انصاف، اقوامِ متحدہ کی قراردادوں اور خود اپنے ماضی کے وعدوں کا پاس کرتے ہوئے بھارت پر اثرانداز ہوگا، اور حق و انصاف کے مطابق مسئلے کے حل کے لیے کردار ادا کرے گا۔لیکن امریکا کے اس غیرمنصفانہ اقدام نے اس کی پوزیشن کو بُری طرح مجروح کیا ہے۔ یوں امریکا سے جو توقعات کشمیر کے مظلوم عوام کو تھیں، وہ بُری طرح متاثر ہوئی ہیں۔
اہلِ کشمیر نے آج تک صرف بھارت کا جھنڈا جلایا ہے اور بھارت کے ناجائز قبضے کے خلاف آواز اُٹھائی ہے۔ صرف بھارت کی اس فوجی قوت کو، جو اِن پر مظالم کے پہاڑ توڑ رہی ہے، نشانہ بنایا ہے۔ بھارت کا شاطرانہ کھیل یہ ہے کہ اب بھارت کے ساتھ امریکا بھی کشمیری عوام کے غم و غصے کا ہدف بنے۔ نادانی اور جلدبازی میں امریکا اس دلدل میں پھنس گیا ہے، جس سے اسے جلداز جلد نکلنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ یہاں پر تحریک ِ آزادی کشمیر کے ذمہ داران سے بھی ہماری اپیل ہے کہ وہ بھارت کی حکومت اور افواج ہی کو اپنا مخاطب اور ہدف رکھیں اور امریکا کو اپنے کیس کے مؤید اور اس کے حل کے لیے سہولت کار ہی کی حیثیت سے متحرک کرنے کی کوششیں جاری رکھیں۔ اگرچہ خود اس نے ہدف بننے کی جو حماقت کی ہے، اس کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنی اصل جدوجہد جاری رکھیں۔
اس ’حکم نامے‘ کا اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ بھارت کے شاطر اہل کاروں نے امریکا کو بڑی چابک دستی سے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے۔ ان الزامات کا سہارا لیا ہے، جو خود مشتبہ ہیں (اور اگر صحیح ہیں تب بھی)، ان کا تعلق صرف اور صرف بھارت سے ہے، جو اس علاقے پر قابض قوت ہے۔ ان کا کوئی تعلق امریکا، امریکی شہریوں یا امریکی مفادات سے نہیں ہے۔ ہم یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ امریکا نے کیوں ان کو بہانہ بناکر بھارت کے غاصبانہ تسلط میں شریکِ کار اور اس کا محافظ بننے کی حماقت کی ہے؟ جتنی جلد ہوسکے، امریکا کا اس کھیل سے نکلنا علاقائی اور عالمی امن کے لیے بہتر ہے۔
اس حکم نامے میں ایک لفظ ایسا ہے جس کو بڑی مرکزی اہمیت حاصل ہے اور جو خود امریکا اور اقوامِ متحدہ کے اصولی موقف کا عکاس ہے۔ یہی وہ لفظ ہے، جس کی روشنی میں بھارت کے بُنے ہوئے اس جال سے نکلا جاسکتا ہے اور وہ ہے اس امر کا اعتراف کہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں بلکہ ایک Indian Administrated Jammu and Kashmir (بھارتی زیرانتظام جموں و کشمیر) ہے۔ جس کے صاف معانی یہ ہیں کہ یہ متنازع علاقہ (Disputed Territory) ہے، اور Indian Administration (بھارتی انتظامیہ)دراصل Indian Occupation (بھارتی قبضے) کا نتیجہ ہے۔ نیز علاقے کے مستقبل کا فیصلہ یہاں کے عوام کے حق خود ارادیت کے اصول کے مطابق ہونا باقی ہے۔
یہی مسئلے کا اصل حل ہے اور یہی وہ چیز ہے، جو جموں و کشمیر کے عوام صبح و شام کہہ رہے ہیں کہ: ’’ہمارا معاملہ نہ مالیات اور ملازمتوں کے حصول کا ہے اور نہ سیاسی و سماجی مفادات کا ہے، بلکہ آزادی اور حق خود ارادیت کا ہے‘‘۔ اور یہی وہ بات ہے جس پر پردہ ڈالنے کے لیے بھارت نے دہشت گردی کے پردئہ ابہام (smoke-screen) سے مسئلے کو اُلجھانے کی کوشش کی ہے۔ کشمیری عوام سادہ الفاظ میں یک زبان ہوکر اپنی بات کہہ رہے ہیں: ’’ہم کیا چاہتے؟ ___ آزادی، آزادی!‘‘۔
تحریکِ آزادی کشمیر کا آغاز تو ۱۹۳۱ء میں ہی ہوگیا تھا، لیکن ۱۹۴۷ء سے آج ۷۰سال گزر نے تک اس منزل کے حصول کے لیے تقریباً پانچ لاکھ افراد کی قربانی، لاکھوں شہریوں کی خانماں بربادی اور دربدری، اربوں کھربوں روپوں کی مالیت کے نقصانات کے علی الرغم، نت نئے جوش و خروش کے ساتھ یہ تحریک برپا اور جاری ہے۔ خصوصیت سے ۱۹۸۹ء سے جو دور شروع ہوا ہے، وہ تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔ یہ ایک قومی تحریکِ آزادی ہے، جس میں آبادی کا بڑا حصہ عملاً شریک ہے۔ یہ ایک عوامی اور جمہوری تحریک ہے، جسے بھارت جبر، ظلم اور ننگی قوت کے وحشیانہ استعمال سے دبانے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن یہاں کے بے بس عوام نے بھارتی اندھی بہری قوت کے آگے سپر ڈالنے سے انکار کر دیا ہے اور بوڑھے اور جوان، مرد اور عورتیں، حتیٰ کہ اسکولوں اور کالجوں کے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں بھی بے خوف و خطر اس میں اپنا کردار ادا کررہے ہیں اور کیفیت یہ ہے کہ ع
بڑھتا ہے یہاں ذوقِ جرم ، ہر سزا کے بعد
یہاں اس بات کو اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے کہ: ’’سیاسی مقاصد کے لیے ’دہشت گردی‘ عسکریت کے ایسے استعمال کو قرار دیا جاتا ہے، جس سے عام شہری نشانہ بنیں۔ ’تحریکِ آزادی‘ اس کے بالکل برعکس ایک مظلوم قوم کے حق خودارادیت کی سیاسی جدوجہد کا نام ہے، جسے بالعموم قابض قوتیں محض طاقت اور ریاستی ظلم و جبر (State Violence) کے ذریعے کچلنے کی کوشش کرتی ہیں۔ اس کش مکش میں مزاحمت کے دوران مظلوم انسانوں کو بھی جوابی طور پر مزاحمت کرنا اور ضرب لگانا پڑتی ہے۔ حق خود ارادیت اور آزادی کی یہ جدوجہد (struggle for self determination) ایک سیاسی عمل ہے۔ حتیٰ کہ اگر اس میں غاصب ریاست کی قوتوں کے خلاف عسکری قوت بھی استعمال کرنا پڑجائے، تب بھی وہ جدوجہد ایک تحریکِ مزاحمت ہی رہتی ہے، کسی صورت میں بھی اسے ’دہشت گردی‘ نہیں کہا جاسکتا اور نہیں کہا جاتا۔۔ اس جائز اور فطری حق کو اقوامِ متحدہ کے چارٹر (دفعہ ۱، شق ۲ اور دفعہ ۵۵) اور اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کی متعدد قراردادوں، خصوصاً قرارداد نمبر۱۵۱۴ (xv) ۱۹۶۰ء جسے Declaration on Granting Independence to Colonial Countries and People (نوآبادیات اور وہاں کے لوگوں کو آزادی عطا کرنے کا فرمان) قرار دیا ہے اور جس میں ملک ہی نہیں، ایک متعین علاقے کے عوام کو بھی نوآبادیاتی یا قابض قوتوں کے خلاف جدوجہد کا حق دیا گیا ہے۔ اسی طرح جنرل اسمبلی کی دوسری اہم قرارداد نمبر ۲۶۲۵ (xxv) ۱۹۷۰ء ہے جس کا عنوان ہے:
Declaration on Principles of International Law concerning Friendly Relations and Cooperation among States.
ریاستوں کے مابین دوستانہ تعلقات اور تعاون سے متعلقہ بین الاقوامی قانون کے اصولوں کا اعلامیہ۔
یہ دونوں قراردادیں اب بین الاقوامی قانون کا تسلیم شدہ حصہ ہیں۔ اسی طرح International Covenant on Civil and Political Rights (شہری اور سیاسی حقوق کا عالمی اقرار نامہ ) اور International Covenant on Economic, Social and Cultural Rights (معاشی ، سماجی اور ثقافتی حقوق کا عالمی عہد نامہ )۔
دفعہ ۱، شق ۱ میں کہا گیا ہے کہ:
.....all people have the right of self determination. By virture of that right they freely determine their political status and freely pursue their economic, social and cultural development.
تمام اقوام کو حق خود اختیاری حاصل ہے ۔ اپنے اس حق کی وجہ سے وہ اپنی سیاسی حیثیت کو آزادانہ طور پر متعین کرتے ہیں اور اپنی معاشی ، سماجی اور ثقافتی ترقی کے لیے آزادانہ جستجو کرتے ہیں۔
اس جدوجہد کے دوران اگر قابض قوت ان کے خلاف طاقت کا استعمال کرتی ہے اور اقتدار کی شکل وہ ہوجاتی ہے، جسےجارحانہ اور جنگ جویانہ قبضہ (Belligerent Occupation) کہتے ہیں، تو اس کے مقابلے کے لیے سول نافرمانی (Civil Disobedience) اور جائز قوت (Legitimate Force) کا استعمال بھی تحریکِ مزاحمت کا حق ہے اور اسے قانون کی اصطلاح میں Right to Self Defence (ذاتی تحفظ کا حق)تسلیم کیا جاتا ہے۔ تھامس جیفرسن [۱۷۴۳-۱۸۲۶ء] کی قیادت میں امریکی جنگ ِ آزادی سے لے کر آئرلینڈ، الجزائر، کینیا، جنوبی افریقا، غرض سو سے زیادہ ممالک کی آزادی کی تحریکات کا شمار اسی ذیل میں ہوتا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثالیں جنوبی سوڈان، مشرقی تیمور، بوسنیا، کوسووا، فلسطین اور کشمیر ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ بین الاقوامی قانون، طاقت کے ہراستعمال کو تشدد اور ’دہشت گردی‘ قرار نہیں دیتا۔ مبنی برحق جنگ، جو دفاعی مقاصد کے لیے بھی ہوسکتی ہے اور آزادی اور حقوق کے لیے مثبت جدوجہد بھی، ایک معروف اور معلوم حقیقت ہے۔ اقوام متحدہ کے چارٹر میں دفاعی جنگ اور حصولِ آزادی کے لیے اجتماعی طور پر قوت کا استعمال اس کی واضح مثالیں ہیں۔ حقِ خود ارادیت کے حصول کے لیے جو جنگیں لڑی گئیں، مجلسِ اقوامِ متحدہ نے ان کی تائید کی اور ان اقوام کے حصولِ آزادی کے بعد انھیں آزاد اور جائز مملکت تسلیم کیا ہے۔بین الاقوامی قانون کا ایک ماہر کرسٹوفر او کوے (Christopher O. Quaye) نے اس اصول کا ان الفاظ میں اعتراف کیا ہے:
تقریباً تمام ہی آزادی کی تحریکوں میں ایک لازمی عنصر طاقت کا استعمال ہے۔ اقوام متحدہ نے اپنی قراردادوں میں جس تسلسل سے آزادی کی تحریکوں کی حوصلہ افزائی کی ہے اور کچھ کو جرأت مند قرار دیا ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ طاقت کے عنصر کو جائز قرار دیتی ہے۔ (Liberation Struggle in International Law، فلاڈلفیا، ٹمپل یونی ورسٹی پریس، ۱۹۹۱ء، ص ۲۸۲)
اسی مصنف نے صاف لفظوں میں لکھا ہے کہ:
دہشت گردی اور آزادی کی جدوجہد ایک جیسی سرگرمیاں نہیں ہیں۔ (ایضاً، ص ۱۷)
نیز یہ کہ:
اقوامِ متحدہ کے تمام ادارے جس ایک چیز پر متفق ہیں، وہ یہ ہے کہ حقِ خود ارادی کی ہرجدوجہد قانونی اور جائز ہے۔ (ایضاً، ص ۲۶۱)
بین الاقوامی اُمور کے وہ ماہر جو اس پوزیشن کو اتنے واضح الفاظ میں قبول نہیں کرتے، وہ بھی یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ قوت کے ہراستعمال کو دہشت گردی ہرگز نہیں کہا جاسکتا۔
بین الاقوامی تعلقات کی پینگوئن ڈکشنری میں اس بات کو یوں ادا کیا گیا ہے:
دہشت گردی کے مسئلے پر ممانعت کرنے والا کوئی خصوصی معاہدہ تیار نہیں ہوسکا ہے۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ سیاسی ترجیحات کے حوالے سے اس کی تعریف میں مسائل ہیں۔ ایک آدمی، ایک کے لیے ’دہشت گرد‘، دوسرے کے نزدیک ’آزادی کا سپاہی‘ ہے، اسی لیے بین الاقوامی قانون ابھی تک اس عمل کا احاطہ نہیں کرسکا ہے۔ (The Penguin Dictionary of International Relations، از گراہم ایونز، رچرڈ نیون ہیم، ،ص ۱۷۷)
تاہم، اس کے ساتھ وہ اس بات کا بھی اعتراف کرتے ہیں کہ حق خود ارادیت آج ایک مسلّمہ حق ہے، جس کا تعلق ایک علاقے کے عوام کے اس حق سے ہے کہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کریں:
سیاسی حق خود ارادی کے اصولوں کے تحت لوگوں کا یہ حق ہے کہ وہ اپنی تقدیر کا اپنے طریقے کے مطابق فیصلہ کریں۔ یہ تصور ۱۷۷۶ء کے [امریکی] اعلانِ آزادی اور ۱۷۸۹ء میں فرانس کے اعلان حقوقِ انسانی میں مضمر ہے۔ اقوام متحدہ نے مختلف مواقع پر یہ کوشش کی ہے کہ اس تصور کو نوآبادیاتی دور کے خاتمے کے ساتھ منسلک کرے اور اس طرح اسے محض ایک تمنا نہیں بلکہ قانونی حق اور مثبت فرض قرار دے۔ (ایضاً،ص ۴۷۷-۴۷۸)
اس بحث کی روشنی میں صاف دیکھا جاسکتا ہے کہ کشمیر کی تحریکِ آزادی کا کوئی تعلق دہشت گردی سے نہیں ہے اور سیّد صلاح الدین کو ’عالمی دہشت گرد‘ قرار دے کر امریکا نے بین الاقوامی قانون اور عالمی عرف کے اصولوں سے صریح انحراف کیا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اس کا ایک منطقی نتیجہ یہ بھی ہے کہ اس طرح امریکا نے سیّد صلاح الدین کو جس قافلۂ حُریت میں شامل کر دیا ہے، وہ مختلف اقوام کی جدوجہد ِ آزادی کے حوالے سے پہلے امریکی صدر جیفرسن سے لے کر نیلسن منڈیلا، جومو کنیاٹا، موگابے، عبدالقادر الجزائری، سبھاش چندربوس اور بھگت سنگھ وغیرہ تک پھیلا ہوا ہے۔
امریکا کے رویے کے تضادات کی ایک اور چشم کشا مثال خود بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے بارے میں اس کا رویہ ہے، جس پر گجرات کے فسادات میں ۲ہزار معصوم مسلمان مردوں، عورتوں اور بچوں کے قتل کی سرپرستی کے الزام کے تحت، امریکا میں اس کے داخلے پر ۲۰۰۵ء میں پابندی لگائی گئی تھی، اور جو ۲۰۱۴ء تک جاری رہی۔ ان ۹برسوں کے دوران میں باربار کوشش کے باوجود مودی صاحب کو امریکا کا ویزا ’دہشت گردی‘ کی سرپرستی کے الزام کی وجہ سے نہیں دیا گیا تھا، لیکن جب ۲۰۱۴ء میں وہ وزیراعظم منتخب ہوگئے تو دامن کے ان تمام خونیں دھبوں سمیت نہ صرف ان کو ویزا دے دیا گیا، بلکہ وہ بڑے طمطراق سے ہرسال امریکا کے دورے کر رہے ہیں۔ وائٹ ہائوس میں ان کا استقبال ہورہا ہے، امریکی پارلیمنٹ سے وہ خطاب کر رہے ہیں اور اب انھیں جون ۲۰۱۷ء میں سیّد صلاح الدین کو عالمی دہشت گرد قرار دیے جانے کا تحفہ بھی دےدیا گیا ہے، جس پر وہ اور بھارت کی سیاسی قیادت بغلیں بجارہی ہے، اور ایک دوسرے کو مبارک باد دے رہی ہے۔ البتہ، کہنے والے تو یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ صدر ٹرمپ نے الیکشن مہم کے دوران بھارت کو کوئی گھاس نہیں ڈالی، بلکہ ’پیرس معاہدہ‘ اور ’ماحول کی حفاظت کے مسئلے‘ پر مودی پر الزام لگایا گیا کہ بھارت نے اس معاہدے کے تحت ایک ارب ڈالر اینٹھ لیے ہیں۔ لیکن اب بھارت جو کہ امریکا سے پچھلے پانچ برسوں میں ۱۵؍ارب ڈالر کا اسلحہ خرید چکا ہے اور چوں کہ پھر مودی صاحب نے امریکا آنے سے پہلے دو ارب کے ۲۲؍امریکی ڈرون (گارڈین، ایم کیو ۹بی) خریدنے کا معاہدہ بھی کیا ہے۔ یوں ٹرمپ اور مودی شیروشکر ہیں۔
ایک بھارتی اسکالر وجے پرشاد (Vijay Prashad)نے جو Left World Book کے چیف ایڈیٹر ہیں ، الجزیرہ ڈاٹ کام ۲۷جون ۲۰۱۷ء پر شائع شدہ اپنے مضمون Modi and Trump: When the Titans of Hate Meet (مودی اور ٹرمپ: جب نفرت کے دیوتا ملتے ہیں) میں، امریکاکی بے اصولی کا تذکرہ اس طرح کیا ہے:
نو برس تک مودی پر امریکا میں داخلے پر پابندی تھی۔ [لیکن] امریکی مفادات کی آبیاری کے لیے مودی سے راہ و رسم کا آغاز کیا گیا ہے، جس کے نتیجے میں گجرات کے خونیں فسادات کے سرپرست کے لیے مودی پر الزامات بے معنی ہوکر رہ گئے ہیں۔ گویا کہ ’عملیت پسندی‘ (Pragmatism) کا مطلب یہ ہوا کہ اخلاقیات جائے جہنّم میں۔
مودی اور ٹرمپ نہ صرف ایسی تحریکوں کی رہنمائی کر رہے ہیں جن کی بنیاد نفرت پر ہے، بلکہ وہ مادہ پرستی کی ایک قدیم فیشن کی شکل کا سہارا بھی لے رہے ہیں۔ لیکن مودی ٹرمپ کے لیے جو کر سکتا ہے، وہ یہ ہے کہ وہ مزید امریکی ہتھیار خرید لے۔ بھارت دنیا میں ہتھیاروں اور اسلحے کا سب سے بڑا درآمد کنندہ ہے، جب کہ امریکا دنیا میں اسلحے کاسب سے بڑا فروخت کنندہ ہے۔
کشمیر کی تحریکِ آزادی کے مردِ مجاہد سیّد صلاح الدین کو آج امریکا دہشت گرد قرار دے رہا ہے اور کشمیری عوام پر بھارتی مظالم اور تشدد کے باب میں اس کی آنکھیں بند اور اس کے لب خاموش ہیں۔ ہم امریکی صدر اور امریکی عوام کو یاد دلانا چاہتے ہیں کہ انسانی حقوق اور ایک مظلوم قوم کے حق خود ارادیت کے سلسلے میں ماضی میں ان کا موقف کیا رہا ہے؟ آج جو کچھ کیا جا رہا ہے، ذرا اس کا مقابلہ خود ’امریکی کانگریس کی سب کمیٹی براے ایشیا اینڈ پیسفک‘ کی یکم جون ۱۹۹۳ء کی رپورٹ سے کرلیں، کہ اس تحریک ِ آزادی کے بارے میں کمیٹی کا فیصلہ کیا تھا، اور آج اسے کس رنگ میں پیش کیا جارہا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ آج ۲۰۱۷ء کی تحریک بھی اسی تحریک کا تسلسل اور اس کا حقیقی فراز ہے: ’’تمھیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو‘‘:
مسئلۂ کشمیر انسانی حقوق کے حوالے سے، بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک اور جنگ کی امکانی وجہ کے طور پر خطرناک حیثیت رکھتا ہے۔ یہ ایک [اہم] مسئلے کے طور پر بھارت اور امریکا کے تعلقات میں خلل ڈال رہا ہے۔ یہ مسئلہ گذشتہ چندبرسوں میں فوری توجہ اور کارروائی کا متقاضی ہو گیا ہے۔
بھارت کو جموں اور کشمیر میں ایک پُر زور ، بنیادی طور پر مقامی بغاوت کا سامنا ہے اور ایسی علامات کم ہی ہیں جن سے یہ اشارہ ملے کہ جموں وکشمیر کے عسکریت پسند یا بھارتی حکومت اس جدوجہد سے عاجز آ رہے ہیں۔ اس بات کا امکان بالکل نہیں ہے کہ دونوں میں سے کوئی ایک فریق دوسرے پر فوجی حل ٹھونس سکے، یا پھر مسلسل خوں ریزی ہی قابلِ قیاس مستقبل کا سب سے زیادہ ممکنہ منظر نامہ لگتا ہے۔
ذیلی کمیٹی نے بھارتی حکومت اور کشمیری عسکریّت پسندوں دونوں پر زور دیا ہے کہ وہ ایک منصفانہ اور پایدار سیاسی حل کے لیے جستجو کریں، لیکن ساتھ ہی کمیٹی یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہے کہ دہلی اور کشمیر یوں کے درمیان کسی حقیقی سیاسی مکالمے کے امکانات حوصلہ شکن ہیں۔ عوامی سطح پر ، دہلی کے بارے میں لگتا ہے کہ اسے یقین ہے کہ بغاوت بنیادی اور اوّلین طور پر پاکستانی دخل اندازی کا شاخسانہ ہے۔ اگرچہ شواہد اس نظریے کی تائید نہیں کرتے۔ کمیٹی ایسی کسی قابلِ فہم حکومتی حکمت عملی سے بے خبر ہے جس کا مقصد کشمیری عوام کی جائز سیاسی شکایات کا ازالہ کرنا ہو۔
اس معاملے پر ایک روز افزوں اتفاق راے سامنے آ رہا ہے کہ بھارتی مسلح افواج، کشمیرمیں باغیوں اور شہریوں کے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث ہیں ، سرسری سماعت کے بعد سزاے موت، قیدیوں پر تشدد ، منظم طریقے سے آتش زنی، اور طبی عملے اور انسانی حقوق پر نظر رکھنے والوں پر حملوں میں حالیہ مہینوں میں ڈرامائی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ذیلی کمیٹی نے بھارتی حکومت سے اپیل کی ہے کہ وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے ذمہ داروں کو دیوانی اور فوج داری سزائیں دے۔ اور مسلح افواج کے ان ارکان کی فہرستیں مہیا کرے جنھیں ان کے غیر قانونی اقدامات پر سزائیں دی گئی ہیں۔
ارکان اس بات پر بھی زور دیتے ہیں کہ سینیر بھارتی سیاست دانوں کا تشدد پھیلانے میں کردار رہا ہے اور یہ کہ ایسے پولیس افسران بھی ہیںجو بلوائیوں کی کاروائیوں کے شکار معصوم لوگوں کو تحفظ دینے کے بجاے ایک طرف کھڑے رہے۔( تشدد کے شکار ) ان لوگوں کی اکثریت مسلمان تھی۔ اگر اس قسم کا تشدد جس نے دسمبر اور جنوری میں ملک ہلا ڈالا تھا جاری رہا تو بھارتی سیکولرزم کی بنیادیں تک مشکوک ہو سکتی ہیں۔ ذیلی کمیٹی کے ارکان اپنے اس عقیدے اور یقین کے اظہار میں قطعاً مبالغہ نہیں کر رہے کہ بھارت میں جمہوریت کے تحفظ کے لیے مذہبی اور سیاسی رواداری قطعی طور پر ضروری ہے۔ (US Parliamentry Sub Committee on Asia and Pacific )
اصل سوال یہ ہے کہ جو کچھ کشمیر میں قابض بھارتی حکمران اور افواج کر رہی ہیں، ان کی روشنی میں دہشت گرد کون ہے؟ حکمران اور افواجِ ہند دہشت گرد ہیں یا کشمیر کے مظلوم انسان اور مزاحمت کرنے والے بڑی حد تک غیرمسلح نوجوان؟ خود بھارتی حکومت کے ذمہ دار افراد کے مطابق مسلح افراد کی تعداد آج چندسو سے زیادہ نہیں اور چند ہزار سے زیادہ کبھی بھی نہ تھی، جب کہ وہاں بھارتی فوج اور پیراملٹری جوانوں کی تعداد ۷ لاکھ اور پولیس کی تعداد ۵ لاکھ ہے۔
امریکی وزارتِ خارجہ کے فرمان میں سیّد صلاح الدین کی ۲۷سالہ جدوجہد میں متعین طور پر صرف ایک واقعے کا ذکر ہے، جس میں ۱۷؍افراد صرف زخمی ہوئے تھے۔ اس کے مقابلے میں ٹرمپ صاحب اور امریکی محکمہ خارجہ کا ان تمام مظالم اور ریاستی دہشت گردی کے واقعات کے بارے میں کیا ارشاد ہے، جن کا اعتراف امریکی پارلیمنٹ کی کمیٹی کی اس رپورٹ میں کیا گیا ہے، اور جن میں گذشتہ برسوں کے دوران دسیوں گنا اضافہ ہوگیا ہے، جس کا اعتراف خود اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے تک کر رہے ہیں؟
نوجوان بُرہان مظفر وانی [۱۹۹۴ء داداسرا، ترال- ۸جولائی ۲۰۱۶ء بوم ڈورا، کوکرناگ] کی شہادت سے تحریک کے جس دور کا آغاز ہوا اور جس کے دوران تین سو سے زائد معصوم بچے، جوان، بوڑھے اور خواتین جامِ شہادت نوش کرچکے ہیں، تین ہزار سے زیادہ بینائی سے محروم ہوچکے ہیں، زخمیوں کی تعداد ۱۲ہزار سے متجاوز ہے اور حراست میں لیے جانے والوں اور لاپتا ہوجانے والوں کی تعداد ۲۰ہزار سے زائد بتائی جارہی ہے۔ کئی مہینے مسلسل ہڑتال رہی ہے، ۶۰دن سے زیادہ عرصے تک کرفیو مسلط رہا ہے، لیکن ایسے ہرظلم اور تشدد کے باوجود تحریکِ آزادی شباب پر ہے۔ ہر کوئی اعتراف کر رہا ہے کہ یہ ایک عوامی تحریک ہے۔ ہرگھر اس میں شریک ہے، اسکولوں کے بچوں، بچیوں سے لے کر ہرطبقے سے متعلق افراد سبھی دل و جان سے شرکت کرر ہے ہیں۔ بھارتی اخبارات کی رپورٹوں کے مطابق فوجی، پولیس افسراور سول حکمران کھلے اور چھپے اعتراف کررہے ہیں کہ پوری قوم بغاوت پر آمادہ ہے۔ اس دوران دو ضمنی انتخاب ہوئے اور ووٹ ڈالنے والوں کا تناسب ۷ فی صد اور ۲ فی صد رہا۔ قابض بھارتی حکومت حیران ہے کہ لوگوں کے دلوں سے ریاستی جبر اور گولی کا خوف بالکل ختم ہوکر رہ گیا ہے اور لوگ جان کی بازی کھیلنے پر تلے ہوئے ہیں۔ بھارتی اخبار The Economic Times کے نمایندے نے۸ مئی ۲۰۱۷ء کے شمارے میں تعجب سے لکھا ہے:
جموں اور کشمیر آج عسکریت پسندی کا جو نمونہ پیش کر رہے ہیں، اس نے ۰۳-۲۰۰۲ء کے بڑے عسکری حملوں کے تقریباً ۱۵ برس کے وقفے کے بعد ریاست کو ایک پُرتشدد چیلنج سے دوچار کر دیا ہے۔ اپنی بدلتی ہوئی حکمت عملی اور سماجی تصرف کی بدولت عسکریت پسندی، پولیس کے مشاہدے میں، نہ صرف اپنا وجود برقرار رکھنے میں کامیاب ہے، بلکہ بڑے پیمانے پر اپنی طرف توجہ بھی مبذول کروا رہی ہے۔ لوگ عسکریت پسندوں کو اپنے سیاسی نظریے کا محافظ خیال کرتے ہیں۔
اسی طرح بھارتی اخبار The Wire میں عدنان بھٹ نے، جو دہلی اور سری نگر سے رپورٹنگ کرتے ہیں ، لکھا ہے:
لڑائی سے فرار کا راستہ اختیار کرنے کے بجاے، نوجوان مرد اور لڑکے مقابلے کی جگہوں پر بھاری ہتھیاروں سے لیس مسلح افواج کا پتھروں سے مقابلہ کرنے کے لیے ہجوم در ہجوم جمع ہو جاتے ہیں۔ اس سیاسی تعلق نے کشمیر میں اکیسویں صدی کی نوجوان نسل کے غصے کو اور بھی ہوا دی ہے۔
حکومت اور علیحدگی پسنددونوں سے غیر مطمئن ہو کر ، مقامی عسکریت پسند نوجوان، جن میں سے کئی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں، اپنی پُرآسایش زندگیاں ترک کر کے احتجاج کنندگان کی حمایت میں نکل آئے ہیں، ان کو ایسے لوگوں کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جو کشمیری نوجوانوں کی خاطر لڑ رہے ہیں۔ لہٰذا، بھارتی فوج اور پولیس سے مقابلوں کے دوران موت کا شکار ہونے سے بچ نکلنے کے لیے وہ ان کی مدد کی کوشش کرتے ہیں۔ اس دوران، چاہے اس میں ان کی اپنی جان ہی کیوں نہ چلی جائے، واحد درست کام لگتا ہے۔
گذشتہ برس (۲۰۱۶ء)سے، عسکریت پسندی کی عوامی حمایت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا کئی پولیس افسروں نے اعتراف کیا ہے۔ پولیس کے ایک سینیرعہدے دار نے دی وائر کو بتایا: میں کہوں گا گذشتہ سال سے حالات بہت زیادہ بدل گئے ہیں، خصوصاً جنوبی کشمیر میں۔ ہمیں کچھ خفیہ اطلاعات ملی ہیں کہ کچھ نوجوانوں نے عسکریت پسندوں کی صفوں میں شمولیت اختیار کرلی ہے اور اس کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ کس طرح سوشل میڈیا ان نوجوانوں کے جذبات کو مشتعل کرنے کے لیے استعمال ہورہا ہے۔
وجوہ جو بھی رہی ہوں، نوجوان عسکریت پسندوں کو اپنے نصب العین کے لیے حتمی قربانی دینے کے فیصلے نے کشمیری عوام اور خصوصاً کشمیری نوجوانوں میں ان کے مداحوں میں بہت زیادہ اضافہ کیا ہے۔
یہ تحریکِ مزاحمت ایک فطری، قومی اور عوامی تحریک ہے۔ اسے دہشت گردی سمجھنا یا کہنا، خودفریبی کے سوا کچھ نہیں۔ سیّد صلاح الدین کو عالمی دہشت گرد کہہ کر اس تحریک کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ اس کا حل صرف ایک ہے، اور وہ یہ کہ عوام کی آواز کو سنا جائے اور ان کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا موقع دیا جائے۔
پاکستان، امریکا اور پوری عالمی برادری کا فرض ہے کہ ان مظلوم انسانوں کا ساتھ دیں، ان کی آواز کے ساتھ اپنی آواز ملائیں، ظالموں کے ہاتھ کو روکیں اور خطے کو حقیقی امن کی طرف لانے کے لیے سیاسی عمل کو متحرک و مؤثر کریں۔ ’دہشت گرد سازی‘ سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔ سمجھ لینا چاہیے کہ یہ حالات کو بگاڑنے کا مجرب نسخہ ہے، اصلاحِ احوال کا نہیں۔
یہ بھی اللہ تعالیٰ کی ایک حکمت ہے کہ وہ کبھی ’شر‘ سے ’خیر‘برآمد کرتا ہے:
عَسٰٓی اَنْ تَکْرَھُوْا شَیْئًا وَّ ھُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ وَ عَسٰٓی اَنْ تُحِبُّوْا شَیْئًا وَّ ھُوَ شَرٌّ لَّکُمْ وَاللّٰہُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ o (البقرہ ۲:۲۱۶) ہوسکتا ہے کہ تمھیں ایک چیز ناگوار ہو اور وہی تمھارے لیے بہتر ہو، اور ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمھیں پسند ہو اور وہی تمھارے لیے بُری ہو، اللہ جانتا ہے تم نہیں جانتے۔
امریکی حکومت کا یہ اقدام اور بھارتی حکومت کا اس پر فخرو اطمینان، اس امر کا پیش خیمہ ہے کہ کشمیر کے جس مسئلے کو ’شملہ معاہدے‘ (۲جولائی ۱۹۷۲ء) کا سہارا لے کر بھارت نے محض ’دو طرفہ‘ (Bilateral) قضیہ بنانے کی کوشش کی تھی، امریکا کے اس اقدام (۲۶ جون ۲۰۱۷ء) نے اسے پھر عالمی مسئلہ بنادیا ہے،جو وہ پہلے دن سے تھا۔ پنڈت نہرو نے ۸جولائی ۱۹۴۹ء کو اپنے بیان میں مسئلۂ کشمیر کو ’ایک عالمی مسئلہ‘(A World Problem) کہا تھا۔
آج اس اقدام کی روشنی میں نہ صرف اس مسئلے کو بین الاقوامی مسئلے کی حیثیت سے تسلیم کیا گیا ہے، بلکہ بھارت کے لیے دوبارہ شملہ معاہدے کا نام لے کر اسے محض دو ملکوں کا قضیہ قرار دلوانا ممکن نہیں رہے گا۔
امریکا کے اس حالیہ اقدام کی وجہ سے پاکستانی حکومت اور پاکستانی قوم کی ذمہ داری دوچند ہوگئی ہے۔ اس اقدام پر وزارتِ خارجہ کا رِدّعمل کمزور اور روایتی تھا۔ صدر آزاد کشمیر جناب مسعود خان اور چودھری نثار علی خاں صاحب نے کھل کر اور دلیل کے ساتھ بات کی ہے، لیکن جناب وزیراعظم، مشیرخارجہ اور فوج کا رِدّعمل یہ سطور لکھنے تک سامنے نہیں آیا۔ سب سے زیادہ پریشان کن خاموشی پاکستان کی کشمیر کمیٹی کی ہے، جسے اپنے فرض کی ادایگی کا کوئی احسا س ہی نظر نہیں آرہا۔
ہماری نگاہ میں یہ وقت ہے کہ پاکستانی پارلیمنٹ اور خصوصیت سے اس کی قومی سلامتی کمیٹی فوری طور پر تمام معاملات پر غور کرے اور پاکستان کے تاریخی موقف اور وقت کی ضرورت کی روشنی میں کشمیر پالیسی اور قومی سلامتی کی پالیسی کو مرتب اور اس پر مؤثر انداز میں نقشۂ کار وضع کرنے اور اس نقشے کے مطابق کارکردگی کو یقینی بنانے کا اہتمام کرے۔
ہم اس موقعے پر اپنی ان معروضات کا اعادہ کرنا چاہتے ہیں، جو ہم مسئلۂ کشمیر کے سلسلے میں باربار قوم کے سامنے پیش کرچکے ہیں۔ لیکن بصد افسوس کہ تھوڑے بہت ارتعاش کے سوا کوئی حقیقی پیش رفت (break through ) نظر نہیں آرہی۔ بہرحال، ایک بار پھر پوری دردمندی اور دل سوزی کے ساتھ قومی پالیسی کی تجدید اور سب سے بڑھ کر تنفیذ کی درخواست کرتے ہیں کہ پاکستان کی کشمیر پالیسی کا مقصد، پاکستان اور علاقے کے مسلمانوں کے لیے امن اور حقیقی مفادات کا حصول ہونا چاہیے___ اس سلسلے کے بنیادی حقائق یہ ہیں:
۱- مسئلۂ کشمیر، ریاست جموں و کشمیر کے سوا کروڑ سے زائد مسلمانوں کے ایمان، عزت، آزادی اور سیاسی اور تہذیبی مستقبل کا مسئلہ ہے۔ یہ تقسیم ہند [۱۹۴۷ء] کے نامکمل ایجنڈے کا حصہ ہے۔ پاکستان کے لیے زندگی اور موت کا سوال ہے۔ یہ محض دو ملکوں کے درمیان سرحدی تنازعہ نہیں ہے، اس لیے ہماری سیاسی ترجیحات میں اسے اوّلیت دینا چاہیے۔
۲- مسلمانانِ جموں و کشمیر نے اپنی بیش بہا قربانیوں کے ذریعے اس مسئلے کو زندہ رکھا ہے، اور اس وقت اسے اس مقام تک پہنچا دیا ہے، جہاں بھارت اور دنیا کے دوسرے ممالک یہ محسوس کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ اس مسئلے کو حل کیے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ لیکن جموں و کشمیر کے عوام کے ساتھ ساتھ، اس مسئلے کے فریق پاکستان، بھارت اور اقوام متحدہ بھی ہیں۔ پاکستان کا فرض ہے کہ ایک فریق کی حیثیت سے مسئلے کو لے کر اُٹھے اور ہرمیدان میں اس کے حل کے لیے سرگرم ہو۔ تحریکِ آزادی کی مدد کے ذریعے بھی، اور عالمی راے عامہ کو منظم اور مسخر کر کے بھی۔
۳- پاکستان کا اصل موقف یہ ہے کہ مسئلۂ کشمیر کا حل صرف ایک ہی ہے، اور وہ ہے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق استصواب راے۔ پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے موقف کو پوری جرأت، تسلسل اور دانش مندی سے پیش کرے۔ پاکستان یہ بات بھی واضح کردے کہ الحاق کے فیصلے کے بعد، پاکستان اور ریاست جموں و کشمیر میں تعلقات کی نوعیت، نظم و نسق اور انتظام و انصرام کا نقشہ اور خود اختیاری کی شکل و نوعیت کیا ہو؟ یہ تمام اُمور ریاست جموں و کشمیر کے عوام کی مرضی کے مطابق طے ہوں گے۔
۴- پاکستان کا فرض ہے کہ تحریک ِ آزادیِ کشمیر کی بھرپور مدد کرے اور اس کے اعلان میں شرمندگی نہ محسوس کرے۔ پاکستان نے کشمیر کی خاطر گذشتہ ۷۰برسوں میں بے شمار قربانیاں دی ہیں۔ آج جب کشمیر کے نوجوان کشمیر اور پاکستان کی جنگ لڑ رہے ہیں، پاکستان کی ریاست اور پاکستان کے عوام کا فرض ہے کہ اپنا پیٹ کاٹ کر ان کی مدد کریں اور ان کی ہرضرورت کو پورا کریں۔
۵- اسی طرح اس جدوجہد میں آزاد کشمیر کی حکومت اور عوام پر بھی بڑی ذمہ داری ہے۔ پاکستان کی حکومتوں کی طرح آزاد کشمیر کی حکومت بھی اپنے اصلی مشن کو بھول چکی ہے۔ وہ محض آزاد علاقے کی حکومت نہیں بلکہ پوری ریاست جموں و کشمیر کی آزاد حکومت ہے، اور مقبوضہ کشمیر کی جدوجہدِ آزادی اس کا اوّلین مقصد ہے۔ اسی لیے اسے ’بیس کیمپ‘ کا لقب دیا گیا تھا۔ اب ضرورت یہ ہے کہ گروہی سیاست سے بالاتر ہوکر آزاد کشمیر کی حکومت اور عوام، تحریک میں بھرپور حصہ لیں اور اپنی ترجیحات کو یکسر بدل کر تحریکِ آزادی کو اس کے منطقی اور فطری نتیجے تک پہنچانے کے لیے سرگرم ہوجائیں۔
۶- حکومت ِ پاکستان کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اگرچہ یہ مقصد محض سیاسی اور سفارتی جدوجہد سے حاصل نہیں ہوسکتا، مگر اس کے باوجود سیاسی اور سفارتی مہم بہت اہم ہے اور اب تک اس کے تقاضے بھی پورے نہیں کیے جاسکے ہیں۔ محض چند وفود باہر بھیجنے سے بات نہیں بنے گی، اس کے لیے بڑے ہمہ گیر، منظم اور مؤثر کام کی ضرورت ہے، جس کے تحت پوری دنیا میں ہرعلاقے کے حالات کے مطابق، تحریک ِ آزادیِ کشمیر کے تعارف اور اس کی تائید کے حصول کے لیے جدوجہد کرنا ہوگی۔ ہماری وزارتِ خارجہ بالعموم اس مقصد میں ناکام رہی ہے۔
اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ کشمیر کی تحریک کو کامیاب بنانے کے لیے وزارتِ خارجہ کی تنظیمِ نو ہو اور کشمیر ڈیسک سب سے اہم ڈیسک ہو۔ ہراس ملک میں جہاں پاکستانی سفارت خانہ ہے، کشمیر سیل (Cell) قائم کیا جائے۔ علم اور صلاحیت رکھنے والے افراد کو، جو کشمیر کے لیے صحیح جذبہ رکھتے ہوں، اس کام پر لگایا جائے اور اس طرح عالمی سطح پر ایک مؤثر تحریک چلائی جائے۔
۷- پوری پاکستانی قوم کو حالات سے آگاہ رکھنا اور قومی سلامتی کے لیے جذبۂ جہاد سے سرشار کرنا بھی اس پالیسی کا اہم جزو ہونا چاہیے۔ جب تک پوری قوم کو اس تحریک کے لیے متحرک نہیں کیا جائے گا، کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی۔ ہراسکول، کالج اور یونی ورسٹی میں، ہرشہر، قصبے اور دیہات میں، ہرمسجد اور مدرسے میں، ہرکارخانے اور بازار میں، جہادِ کشمیر سے لوگوں کو متعارف کرایا جائے اور اس میں شرکت کے لیے مال سے اور جان سے، ہرصورت میں آمادہ کیا جائے۔ قوم میں حقیقی جذبہ موجود ہے، لیکن اسے آج تک صحیح انداز میں متحرک و منظم نہیں کیا گیا۔
۸- حکومت پاکستان کو اپنا بجٹ بھی ان ترجیحات کی روشنی میں ازسرِنو مرتب کرنا ہوگا۔ جہادِکشمیر کی ضروریات کو اوّلیت دینا ہوگی۔ اس کے ساتھ ساتھ نیوکلیر پاور کی مناسب ترقی، فوج کو چوکس رکھنا اور قوم کے نوجوانوں کو تیار کرنا ضروری ہے۔ اس بات کا خطرہ ہے کہ جب کشمیر میں حالات بھارت کی گرفت سے بالکل نکلنے لگیں گے تو وہ پاکستان پر جنگ مسلط کرنے کی کوشش کرے گا۔ کشمیر پالیسی کا ایک حصہ یہ بھی ہے کہ پاکستان جنگ کے خطرات کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہے۔ تاریخ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ جو قوم جنگ سے خائف رہی ہے، وہ اپنی آزادی سے بھی محروم ہوگئی ہے اور جو قوم جنگ کے لیے تیار رہی ہے، وہی اپنے ایمان، عزت و آزادی کو محفوظ رکھ سکی ہے۔
سابق امریکی صدر رچرڈ نکسن[م: اپریل ۱۹۹۴ء] نے بہت صحیح کہا تھا کہ ’’ہمیں اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ قوت کے استعمال سے دست برداری ، دراصل دشمن کو اپنے خلاف قوت کے استعمال کی دعوت دینے کے مترادف ہے‘‘، بلکہ نکسن نے تو یہاں تک کہا ہے: ’’صرف تیار ہی نہ رہو، مخالف کو یہ پیغام بھی دے دو کہ تم ہرقوت کے استعمال کے لیے تیار ہو، یہ وہ چیز ہے جو دشمن کو تم پر دست درازی سے روکے گی‘‘۔
اسی بات کو امریکی پالیسی ساز ہنری کسنجر نے دوسرے انداز میں کہا ہے: ’’اگر امن کے معنی محض جنگ سے بچنا ہی لیے جائیں، اور یہ چیز ایک قوم یا بہت سی اقوام کے مجموعے کا بنیادی مقصد بن جائے، تو سمجھ لو عالمی سیاسی نظام سب سے زیادہ بے رحم اور سنگ دل ملک کے رحم و کرم پر ہوگا‘‘۔ اس لیے جنگ سے بچنے کا بھی سب سے مؤثر راستہ جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار رہنا ہے۔
۹- بھارت پر مؤثر دبائو ڈالنے کے لیے چار ہی اہم طریقے ہیں اور ان چاروں کو مؤثرانداز میں اور مربوط منصوبہ بندی کے ذریعے استعمال ہونا چاہیے:
۱۰- اس عظیم جدوجہد کو اپنی اصل بنیادوں پر قائم رکھنے اور کامیابی سے ہم کنار کرانے کے لیے جہاں یہ امر ضروری ہے کہ بھارت اور اس کے ہم نوائوں کی سازشوں سے نہ صرف باخبر رہا جائے، بلکہ پورے اتحاد اور یک جہتی کے ساتھ ان کا بھرپور مقابلہ بھی کیا جائے۔ تحریکِ آزادیِ کشمیر، الحمدللہ ، مخلص نوجوانوں اور تجربے کار مخلص قائدین کے ہاتھوں میں ہے۔ ان کے درمیان بے اعتمادی پیدا کرنے، غلط فہمیوں کو ہوا دینے اور خلیج ڈالنے کی خطرناک کوششیں شروع ہوچکی ہیں، جن سے باخبر رہنا اور مکمل باہمی اعتماد کے ذریعے انھیں ناکام بنانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جب غاصب اور جابر قوتیں، اپنے بہیمانہ جبر اور عریاں جارحیت کے ہتھیاروں سے، مزاحمت اور آزادی کی تحریکوں کو کچلنے میں ناکام ہوجاتی ہیں، تو پھر وہ لازوال قربانی کی تاریخ رکھنے والی تحریکوں کے مختلف عناصر کو ایک دوسرے کے خلاف بدگمان اور صف آرا کرنے کی مذموم کوششیں کرتی ہیں۔ ظالموں کی ان دونوں حکمت عملیوں کا پوری سمجھ داری سے مقابلہ کرنے کے لیے: اتفاق و اتحاد، تحمل و دُور اندیشی اور اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھروسے کی ضرورت ہے۔ اللہ کی تائید آزادی کے لیے کوشاں تحریکوں کو ان شاء اللہ ثمرآور کرے گی۔ ضرورت ہے کہ جدوجہد کو پوری قوت، بہترین حکمت عملی اور مکمل یک جہتی کے ساتھ جاری رکھا جائے۔ ان شاء اللہ کامیابی اہلِ کشمیر کے قدم چومے گی۔
۱۱- مندرجہ بالا خطوط پر مرتب کردہ کشمیر پالیسی کی کامیابی کے لیے ضروری ہوگا کہ اس کے نفاذ کے لیے بھی ایک مؤثر مشینری وجود میں لائی جائے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ یہ پالیسی اور اس کی تنفیذی مشینری، قومی بنیادوں پر استوار کی جائے۔ تمام سیاسی اور دینی جماعتوں کا فرض ہے کہ اس سلسلے میں مثبت کردار ادا کریں۔ پارلیمنٹ کو اس بارے میں مناسب ابتدائی اقدامات کرنے چاہییں۔ میڈیا اور سوشل میڈیا دونوں کا کردار بھی غیرمعمولی اہمیت کا حامل ہے۔ اس کام کے لیے ایک قومی تحریک کی ضرورت ہے۔
جس طرح کشمیر کے نوجوانوں نے چند برسوں میں وہاں کی فضا تبدیل کر دی ہے ، اسی طرح اگر پاکستان کی حکومت، سیاسی جماعتیں اور عوام اپنے فرض کی ادایگی کے لیے اُٹھ کھڑے ہوں، تو حالات بہت کم وقت میں بدل سکتے ہیں۔ اس کا فائدہ صرف تحریکِ آزادیِ کشمیر اور بالآخر کشمیر کے پاکستان سے الحاق کی شکل میں ہی نہیں ہوگا، بلکہ قوم کو نئی زندگی اور نیا جذبہ ملے گا، اور اس نئی زندگی اور نئے جذبے سے پاکستان کو ایک حقیقی اور مضبوط اسلامی فلاحی مملکت بنانے کے لیے استعمال کیا جاسکے گا۔ یہی تحریکِ پاکستان کا اصل مقصد تھا اور یہی تحریکِ کشمیر کی بھی قوتِ محرکہ ہے۔
انسان بہت زود اثر واقع ہوا ہے ۔ اس کی نگاہ بڑی محدود ہے۔ ذرا سی بات بھی اگر خلافِ توقع ہو جائے تو اس کے دل ودماغ پر تاریکیوں کے بادل چھا جاتے ہیں۔ ایک معمولی سا واقعہ بھی اسے کبھی نااُمیدی کی پستیوں میں گرا دیتا ہے اور کبھی مسرت کی اوجِ ثریا پر پہنچا دیتا ہے۔ اسلام نام ہی اس کیفیت سے سرشار رہنے کا ہے کہ خوشی اور ناخوشی دونوں صورتوں میں اعتدال وصداقت پر انسان قائم رہے، لیکن فطرت کے ہاتھوں مجبور انسان صبر کم ہی کرتا ہے۔ اور جہاں ذرا بھی توقعات کا طلسم ٹوٹا، اس کا حال یہ ہوتا ہے کہ ؎
کس طرف جائوں ، کدھر دیکھوں ، کسے آواز دوں
اے ہجوم نااُمیدی ، جی بہت گھبرائے ہے
بلکہ اگر چوٹ ذرا بھی سخت ہو تو عالم یہ ہو جاتا ہے ع
کہ دامانِ خیالِ یار چُھوٹا جائے ہے مجھ سے
یہ انسانی فطرت کا ایک عجیب وغریب پہلو ہے۔ فرد کتنا ہی سمجھ دار ہو، لیکن اپنے ارد گرد رُونما ہونے والے واقعات سے پیہم اثر لیتا ہے۔ جس چیز سے جتنا زیادہ متعلق ہوتا ہے ، اور جتنا گہرا تعلق ہوتا ہے، وہ اس سے اتنا ہی شدید اثر بھی قبول کرتا ہے۔ جہاں توقعات جتنی زیادہ ہوں، وہاں ان کے ٹوٹنے پر شد ّتِ تاثر بھی اتنا ہی زیادہ ہوتا ہے۔ انفرادی اور اجتماعی زندگی میں ایک نہیں ہزاروں مواقع ایسے آتے ہیں، جب بظاہر امیدوں کے چراغ گل ہوتے نظر آتے ہیں اور اضطراب ومایوسی انسان کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے ۔ سمجھ دار سے سمجھ دار اور حقیقت آشنا شخص بھی فوری طور پر تو ایک دھچکا محسوس کرتا ہے۔
کہا جا سکتا ہے کہ دنیا نام ہی امیدوں کے ٹوٹنے اور توقعات کے پامال ہونے کا ہے۔ یہاں کا چلن ہمیشہ سے یہی ہے اور اس زمانے میں جب ہرطرف مادہ پرستی اور ذاتی منفعت طلبی کا دور دورہ ہے، جب ہر اخلاقی قدر پامال ہو رہی ہے، اور دولت و منصب اور شہرت کا حصول کامیابی کا اصل پیمانہ بن گئی ہے، تو شکایت بھی کچھ بے جا سی نظر آتی ہے ؎
جب توقع ہی اٹھ گئی غالبؔ
کیوں کسی کا گلہ کرے کوئی
لیکن حقیقت یہ ہے کہ خود غرضی کے اس سیلاب کے باوجود کچھ مقامات ومناصب ایسے ہیں کہ انسانی فطرت ان سے توقعات وابستہ کرنے پر اپنے کو مجبور پاتی ہے۔ ہزار معیارات بدل جائیں، لیکن ماں باپ سے ، استاد اور معلم سے، دوست اور ساتھی سے، معاشرے کے شریف اور مقتدر لوگوں سے، علما اور فضلا سے ، قاضی اور منصف سے انسان بہترین توقعات وابستہ کرنے پر اپنے کو مجبور پاتا ہے۔ ماں باپ کتنے ہی شقی ہوں لیکن اولاد کی امیدوں کا مرکز رہیں گے۔ استاد کتنا ہی گیا گزرا ہو، طالب علموں کی توقعات کا محور رہے گا۔ معاشرے کے مقتدر لوگوں کے ہاتھوں کتنے ہی چرکے لگیں، لیکن پھر نگاہ انھی کی طرف اٹھے گی۔ منصف اور جج کتنی ہی بُری مثال قائم کرے، پھر بھی مظلوم انسان ظلم کی دادرسی اور حق وانصاف کے حصول کی امیدیں انھی سے وابستہ کریں گے۔ ارباب حکومت اور قائدین و محافظ خواہ کیسی ہی زیادتیاں اور بے قاعدگیاں کریں، لیکن ان سے رشتۂ اُمید کُلی طور پر منقطع نہ ہوگا___
ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے انسانی معاشرے میں اُمیدوں کا گویا ایک قانون ثقل جاری وساری ہے۔ توقعات آپ سے آپ کچھ مقامات اور مناصب کی طرف کھنچتی اور مرکوز ہوتی ہیں۔ بلالحاظ اس کے کہ ان کا استقبال کس طرح ہو اور پھر جب اپنے مرجع پر جا کر وہ لوٹ آتی ہیں یا پاش پاش ہوجاتی ہیں تو دل پر ناقابلِ برداشت چوٹ لگتی ہے۔ احساس کے تاروں میں ارتعاش پیدا ہوتا ہے، مایوسی اور ناامیدی کی تاریکی چھانے لگتی ہے___ لیکن یہ بھی ایک عجب حقیقت ہے کہ نااُمیدی کے انھی بادلوں میں سے پھر توقعات کے نئے آفتاب وماہتاب رُونما ہوتے ہیں ،اور انھی کے سہارے زندگی اپنا راستہ طے کرتی چلی جاتی ہے۔
یہ واقعہ بھی ایک ایسے ہی دن کا ہے ! صبح ہی جو پہلی خبر مجھ کو ملی وہ توقعات کے بہت سے گھروندوں کو توڑ دینے والی تھی، ذہنی کش مکش تو شروع ہی سے تھی۔ کبھی دل توقعات وابستہ کرتا اور اُمیدوں کے چراغ روشن کرتا تھا اور کبھی ان پر شک کے پردے ڈالتا تھا ۔ اسی پیچ وتاب میں ذہن ناامیدی کی طرف جھک گیا، لیکن پھر ایک خیال اُبھرا ؎
وہ اور پاس خاطر اہلِ وفا کرے
اُمید تو نہیں ہے، مگر ہاں ، خدا کرے
اس ’ہاں خدا کرے‘ نے پھر توقعات کے رشتے استوار کر لیے اور میں اسی چنیں اور چناں میں تھا کہ وہ اطلاع مل گئی جس کا خطرہ تھا ،لیکن جسے ماننے کے لیے دل تیار نہ ہورہا تھا۔ ذہن کو ایک جھٹکا سا لگا ___ جھوٹی اُمیدوں اور مصنوعی توقعات کا طلسم بھی بڑا حسین اور طرح دار ہوتا ہے، مگر جب وہ طلسم ٹوٹتا ہے تو اس کے جلو میں تاریکیوں کا ایک سیلابِ بلاخیز اُمڈا چلا آتا ہے۔ میں بھی ایک لمحے کے لیے سکتے میں آ گیا ع
جن پہ تکیہ تھا ، وہی پتّے ہوا دینے لگے
پھر وہ چوٹ اور بھی سخت ہوتی ہے، جب ایسا سلوک ایک حق دار کے ساتھ کیا جائے، جب چرکے پر چر کے اس مظلوم کو لگیں، جو حق وانصاف پر ہواور جس کے حقوق پامال ہو رہے ہوں ۔ جب ایسا مستحق محروم کیا جاتا ہے تو اس کا زخم بڑا گہرا ہوتا ہے!
جو زخم میرے لگا تھا وہ بھی بڑا سخت تھا ! لیکن یہی وہ مقام ہے جہاںسے خدا پر یقین رکھنے والے اور رب کے دامن کو چھوڑ دینے والے ایک ہی جیسے حالات کا شکار ہو کر بھی دو مختلف راہیں اختیار کرتے ہیں ۔ ہجوم غم اور یورش اضطراب میں میرا دل چوٹ کھانے کے باوجود مایوسی اور بغاوت کا شکار نہ ہوا بلکہ لوحِ حافظہ پر یہ ارشار ربانی ابھرنا شروع ہوا:
وَعَسٰٓی اَنْ تُحِبُّوْا شَیْئًا وَّ ھُوَ شَرٌّ لَّکُمْط وَ اللّٰہُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَo (البقرہ ۲: ۲۱۶ )عجب نہیں کہ ایک چیز تم کو بھلی لگے اور وہ تمھارے لیے مضر ہو اور ان باتوں کو اللہ ہی بہتر جانتا ہے،تم نہیں جانتے۔
اور ___
فَعَسٰٓی اَنْ تَکْرَھُوْا شَیْئًا وَّ یَجْعَلَ اللّٰہُ فِیْہِ خَیْرًا کَثِیْرًا(النساء۴:۱۹) پس، عجب نہیں کہ تم کسی چیز کو ناپسند کر و اور اللہ اس میں بہت سی بھلائی پیدا کرے۔
میں ان آیات کو پڑھتا رہا ___ ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے یہ ابھی نازل ہوئی ہیں، جیسے میں نے آج ہی ان کو پایا ہے ۔ زبان ان الفاظ کو خموشی کے ساتھ ادا کرتی رہی ، دل ان کو جذب کرتا رہا، نااُمیدیوں کے بادل چھٹتے رہے ، توقعات کے ٹوٹنے سے جو زخم لگے تھے وہ مندمل ہونے لگے، ایسا محسوس ہوا کہ اس پر اکسیر صفت پھاہا رکھ دیا گیا ہے، جس نے زخم میں فوراً ٹھنڈک ہی نہیں ڈال دی بلکہ دیکھتے ہی دیکھتے وہ بھرنے بھی لگے۔
میرا دل پکار اٹھا کہ تقدیر کا عقیدہ یقینا ایک عظیم انسانی ضرورت ہے: والقدر خیرہ وشرِّہ من اللہ تعالٰی میں وہ گہری تاثیر ہے کہ اس کا جواب نہیں ہو سکتا ۔ اس میں قدرت کا خزانہ اور رحمت کا ذخیرہ ہے۔ یہ تصور، جہاں ایک طرف تقدیر کو بنانے کے داعیے اور ذوق عمل کو بیدار کرنے کا کام کرتا ہے تو وہیں نتائج کے بارے میں ایک عدیم المثال بے نیازی بھی پیدا کر دیتا ہے___ انسان محسوس کرنے لگتا ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے، اس کے پیچھے ایک حکمت بالغہ کار فرما ہے۔ وہ تنہا نہیں، نتائج اس کے یا کسی اور کے نکالے نہیں نکل رہے۔ اس پر دے کے پیچھے کوئی عظیم الشان قدرت کار فرما ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ اس کا کام اپنا فرض ادا کرنا ہے، نتائج اپنی فکر آپ کریں ! جودن میں رات اور رات میں سے دن کو پیدا کرتا ہے، جو زندہ میںسے مُردہ اور مُردہ میں سے زندہ کو نکالتا ہے، جو ہر چیز پر قادر ہے، اس کی تدبیر ہرشے میں کار فرما ہے۔ انسان کیسی ہی چالیں چلے، شیطان کیسے ہی منصوبے بنائے ، اس کی تدبیر کو غیر مؤثر نہیں بناسکتا ؎
اچھا یقین نہیں ہے تو کشتی ڈبو کے دیکھ
ایک تو ہی ناخدا نہیں ظالم ، خدا بھی ہے
یہی وہ احساس ہے جو انفرادی اور اجتماعی دونوں قسم کی ما یوسیوں میں ایک مسلمان کو تخریب پسندی اور شکست ِ ہمت سے بچاتا ہے اور اس میں زندگی کی نئی روح پھونک دیتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کافر جس مقام پر ما یوس ہو کر خود کشی تک کر لیتا ہے، مسلمان اعتماد الٰہی اور تقدیر خداوندی پر اطمینان کے سہارے اصلاحِ حال کی بیش از بیش محنت اور جدوجہد میں مصروف ہو جاتا ہے۔ کافر جس مقام سے اجتماعی بگاڑ اور فسادوتخریب کی راہ پر لگ جاتا ہے، مومن وہاں سے اصلاح اور تعمیر کے راستے کو اختیار کرتا ہے ۔
خیالات کا یہ سلسلہ نہ معلوم کب تک جاری رہا، زمانی اعتبار سے خواہ اس میںچند منٹ ہی صرف ہوئے ہوں، لیکن معلوم ہوتا تھا جیسے طائر خیال ،زمان ومکان [Time and Space]کی وسعتوں کو کھنگال کر واپس آیا تھا، میری پریشانی اب بڑی حد تک دُور ہو گئی تھی۔ عزم وہمت کا ایک چشمہ سا اُبلنے لگا تھا ،تاریکیاں چھٹ رہی تھیں اور روشنی پھیل رہی تھی___ میں نے کتاب اللہ کو اٹھایا، اسے چوما اور غیرارادی طورپر جو سورت مطالعے کے لیے میرے سامنے کھلی، وہ سورت الفتح تھی:
اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا o لِّیَغْفِرَ لَکَ اللّٰہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَ منْـبِکَ وَمَا تَاَخَّرَ وَیُتِمَّ نِعْمَتَہٗ عَلَیْکَ وَیَھْدِیَکَ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًا o وَّیَنْصُرَکَ اللّٰہُ نَصْرًا عَزِیْزًا o (الفتح ۴۸:۱-۳) [اے محمدؐ ! ] ہم نے تم کو فتح دی، فتح بھی صریح اور صاف تا کہ خدا تمھارے اگلے اور پچھلے گناہ بخش دے اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دے اور تمھیں سیدھے راستے پر چلائے اور خدا تمھاری زبر دست مدد کرے ۔
معلوم نہیں، قرآن سے فال نکالنے والے اسے کیا کہیں گے___میرا نہ یہ ذوق ہے اور نہ میں نے کبھی ایسا کیا ہی ہے، البتہ یہ ایک حقیقت ہے کہ اس سورۃ کا نکلنا ایک عطیۂ رحمانی ثابت ہوا۔ اس کے مطالعے نے ایک عجیب کیفیت پیدا کر دی ۔ بار بار پڑھتا تھا اور چشم تخیل چودہ سو سال پہلے کے ایک عظیم تاریخی واقعے کا نظارہ کر رہی تھی۔
کعبہ ویسے تو ساری ملت ابراہیمی ہی کا مرکز ومحور ہے، لیکن امت مسلمہ کا تو یہ دل ہے، دھڑکتا ہوا دل ! خدا کی زمین پر خدا کا پہلا گھر، جسے ابوالانبیا حضرت ابراہیم ؑ اور ان کے صابر وشاکر فرزند نے اپنے ہاتھوں سے بنایا، خداے واحد کی مناجاتوں کے ساتھ اس کی تعمیر کی، ساری انسانیت کے لیے اسے مسجود بنایا___ یہی وہ کعبہ تھا جہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے شب وروز عبادتِ الٰہی میں گزارے ، جہاں معبود حقیقی کا کلمہ بلند کرنے پر آپ کو طرح طرح کے مصائب کا نشانہ بنایا گیا۔ جس کے سایے میں صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے دعوتِ اسلامی کے اوّلین ماہ و سال گزارے۔ جہاں سورئہ رحمٰن کی تلاوت کر کے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے مار کھائی۔ جہاںابوذر غفاری رضی اللہ عنہ اعلانِ حق کرکے پٹے۔ جہاں عمر فاروق ؓ نے نماز باجماعت ادا کرا کے اسلام کی حقانیت کا اعلان کیا___ کتنے خوش نصیب تھے وہ اور اپنی اس قسمت پر کتنے نازاں تھے کہ ؎
وہ کعبہ جسے دیکھ لینا عبادت ہے
مسلسل ہے پیش نظر اللہ اللہ
لیکن ظالموں نے اس کعبے کی رفاقت سے اہل ایمان کو محروم کر دیا۔ انھیں مکہ مکرمہ چھوڑنے پر مجبور کیا اور اس کے بعد اللہ کے اس گھر اور حق کی اس آیت کو ایک نظر دیکھنا تک ان پر حرام کر دیا۔ مسلمانوں کے لیے اس کا طواف بھی ’غیر قانونی‘ قرار دیا گیا۔ اور ایک نہیں کئی واقعات ایسے ہیں، جب خاموشی سے بھی اگر کوئی مسلمان ایمان کے اس محور کی زیارت کو چلا گیا تو اس کے لیے جان بچاکر واپس آنا مشکل ہوگیا۔
اپنے اس ’ محبوبِ نظر ‘ کو دیکھے ہوئے مسلمانوں کو چھے سال بیت گئے۔ ظلم کا قانون ان کے اور ان کے محبوب نظر کے درمیان حائل ہو گیا، اور وہ اسے ایک جھلک دیکھنے کے لیے بے تاب تھے۔ اس کا تو ایک لمحے کے لیے بھی ان کی نگاہوں سے اوجھل ہونا ان کے دل پر شاق تھا، کجا فرقت میںچھے طویل اور صبر آزما سال گزر گئے۔ جس سے رخصت ہوتے وقت خود پیکر حلم وصفا اور صبروثبات صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حال تھا کہ بار بار اس کی طرف نگاہ اُٹھا کر ارشاد فرماتے تھے کہ: ’’خدا کی قسم تو اللہ کی بہترین زمین ہے اور اللہ کی نگاہ میں سب سے بڑھ کر محبوب ہے۔ اگر یہاں سے مجھے نکالا نہ جاتا تومیں کبھی نہ نکلتا۔ (ترمذی، کتاب المناقب، باب فی فضل مکۃ، حدیث: ۳۹۲۵)
تصور کیجیے، پھر چھے سال محرومیِ نظارہ کے بعد آپؐ کا اور آپؐ کے ساتھیوں کی بے قراری کا کیا حال ہوگا؟ ایک خلش تھی جو ہر وقت بے چین کیے رکھتی تھی، ایک چبھن تھی کہ جو بے تاب کیے ہوئے تھی ، ایک بے قراری تھی کہ جو کسی طرح دُور نہ ہوتی تھی اور ایک ٹیس تھی کہ رفیقِ جان بن گئی تھی۔ سب کچھ میسر تھا مگر ایک خلا تھا کہ اسے کوئی شے پر نہ کر سکتی تھی۔ ہر شخص کا عالم یہ تھا کہ ع
جیسے ہر شے میں کسی شے کی کمی پاتا ہوں میں
حضرت بلال ؓ مکہ میں کتنے ستائے گئے، تپتی ریت پر گھسیٹے گئے ، جلتی سلوں کے نیچے دبائے گئے، جسم اور روح اذیت کا نشانہ بنائے گئے، لیکن محبوب سے تعلق میں ان باتوں سے کب کمی ہوتی ہے! مکہ کی یاد بے کل کیے رہتی ، پہروں اسے یاد کر کر کے روتے اور پکارپکار کر یہ اشعار پڑھتے (بخاری، باب مقدم النبیؐ و اصحاب المدینہ) :
الا لیت شعری ھل أبیتن لیلۃ
بوادٍ وحولی اذخرٌ و جلیلٌ
(کاش! مَیں مکہ کی وادی میں ایک رات بسر کرسکتا اور میرے چاروں طرف اذخر و جلیل ہوتیں)۔(البدایۃ والنہایۃ، ج۳، ص ۲۲۱)
وھل اردن یومًا میاہ مجنہ
وھل یبدون لی شَامَۃ و طفیل
(کاش! ایک دن میں مجنہ کے چشموں سے اُترتا اور شامہ و طفیل (پہاڑوں) کو دیکھ سکتا۔)
یہی مکہ تھا جسے دیکھ لینے کی ایک اُمید پیدا ہو گئی ___کعبے سے، اس محبوب نظر اور مقصود و مسجود کے نظارے سے ، آنکھوں کو پھر شاد کام کرنے کی صورت نکل آئی، حجرِ اَسود کو پھر چوم لینے کا امکان رُونما ہوگیا،بیت اللہ کے گرد پروانہ وار گردش کرنے کی توقع اُبھر آئی، یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رویاے مبارکہ دیکھا کہ آپؐ اور آپؐ کے ساتھی (اللہ کی رحمتیں ہوں ان سب پر) عمرے کی سعادت حاصل کر رہے ہیں۔ ’’پیغمبرؑ کا خواب بھی وحی کی اقسام میں سے ایک قسم ہے اور اللہ تعالیٰ نے خود توثیق فرما دی کہ یہ خواب ہم نے رسولؐ کو دکھایا تھا‘‘۔ (تفہیم القرآن، ج۵، ص ۳۴)
لَقَدْ صَدَقَ اللّٰہُ رَسُوْلَہٗ الرُّءْ یَا بِالْحَقِّ ج لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ اِنْ شَآئَ اللّٰہُ اٰمِنِیْنَ لا مُحَلِّقِیْنَ رُئُ وْسَکُمْ وَمُقَصِّرِیْنَ لاَ تَخَافُوْنَ ط (الفتح ۴۸:۲۷) فی الواقع اللہ نے اپنے رسولؐ کو سچّا خواب دکھایا تھا جو ٹھیک ٹھیک حق کے مطابق تھا۔ ان شاء اللہ تم ضرور مسجد ِ حرام میں پورے امن کے ساتھ داخل ہوگے، اپنے سر منڈوائو گے اور بال ترشوائو گے اور تمھیں کوئی خوف نہ ہوگا۔
اس اشارۂ غیبی سے زندگی کی نئی رو پھوٹ پڑی ، اُمیدوں کا ایک سمندر ٹھاٹھیں مارنے لگا، سوکھے ہوئے چشمے ابل پڑے ، گرمی وحرارت کی ایک لہر دوڑ گئی، خوشیوں کے شادیانے بجنے لگے، دل بھر گئے اور آنکھیں نم ہو گئیں___ کعبے کی زیارت کی راہ پیدا ہوتی نظر آئی۔ درحقیقت یہ نرا خواب نہ تھا، بلکہ ایک الٰہی اشارہ تھا، جس کی پیروی کرنا آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ضروری بھی تھا۔
پھر کیا تھا؟ ذوق وشوق سے تیاریاں شروع ہو گئیں۔ کفارِ قریش نے چھے سال سے مسلمانوں کے لیے بیت اللہ کا راستہ بند کر رکھا تھا۔ اس پوری مدت میں کسی مسلمان کو انھوں نے حج اور عمرے تک کے لیے حدودِ حرم میں قدم نہ رکھنے دیا تھا (ایضاً، ص ۳۴)۔ اعلان کر دیا گیا کہ مشرق ومغرب، شمال وجنوب ہر سمت میں اطلاعات بھیج دی گئیں کہ زیارت بیت اللہ کے لیے اللہ کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھی نکلنے والے ہیں۔ جس کے پاس جو کچھ تھا، اس نے اس مقدس سفر کے لیے لاکر پیش کرڈالا ___ چودہ سو مسلمان راہ حق میں نکل کھڑے ہوئے ___کتنی خوش نصیب تھی وہ سرزمین جس سے نبیؐ کی دعوت پر چودہ سو مسلمان اپنے محبوب تک پہنچنے کے لیے سر ہتھیلی پر رکھ کر نکل کھڑے ہوئے:
وَّمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ یُدْخِلْہُ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُج(الفتح ۴۸:۱۷) اور جو شخص خدا اور اس کے پیغمبرؐ کے فرمان پر چلے گا ، اللہ اس کو بہشتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں۔
حق کے فدا کاروں کا یہ اعلان جہاں ان کی قوت کا اظہار ، ان کی وحدت اور یک جہتی کا اعلان اور ان کے عزم وجاں فروشی کا آئینہ دار تھا، اور اس سے جہاں سارے عرب کے حق پرستوں میں بجلی کی ایک نئی لہر دو ڑ گئی تھی، وہیں اس خبر نے اہل باطل کے ہوش اُڑا دیے۔ان کے تن بدن میں آگ لگ گئی، ان کی راتوں کی نیند حرام ہو گئی۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) جسے ہم نے غربت کے عالم میں یہاں سے نکالا، پھر اپنے ساتھیوں کے ساتھ پوری شان سے یہاں داخل ہو___ ہمارے جیتے جی یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ اس طرح تو سارے کیے دھرے پر پانی پھر جائے گا۔ ہم نے تو نکالا ہی اس لیے تھا کہ اس کے اثر سے محفوظ ہو جائیں۔
پھر اس کی قوت کا خاتمہ کرنے کے لیے بار بار ہم نے لشکر کشی کی تھی، لیکن کسی طرح اس کی قوت ٹوٹتی ہی نہیں ۔ سب وشتم کا طوفان ہم نے اٹھایا ، سختیاں اور شدائد ہم نے کر لیے ، مارپیٹ ، جیل اور مقاطعہ، غرض ہر حربہ استعمال کر لیا۔ معاملہ قاضی شمشیر کے سپرد بھی کیا، لیکن وہاں بھی بدر کے میدان میں ہمارے ہی جوانوں کی لاشیں تڑپتی نظر آئیں۔ محاصرہ بھی کر دیکھا، لیکن اس چٹان میں کوئی شگاف ہی نہیں پڑا۔ یہ ساری ذلتیںہم نے اٹھائیں لیکن یہ تو بالکل ہی ناقابلِ برداشت ہے کہ ہمارے ہوتے ہوئے وہ مکہ میں قدم رکھے، کعبہ کا طواف کرے، توحید کا کلمہ بلند کرے، ہمارے بتوں کی نفی کرے او ردرو دیوار لَبَّیْکَ اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ ، لَا شَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکَ کے نعروں سے گونجیں ___نہیں، یہ نہیں ہو سکتا !
لیکن آہ! ہم بڑی مشکل میں گرفتار ہیں۔ اس نے یہ سفر جنگ کے لیے نہیں، خالص زیارتِ کعبہ کے لیے اختیار کیا ہے۔ عام مہینوں میں نہیں حرام مہینوں میں اختیار کیا ہے، اسلحے سے لیس ہو کر نہیں آرہا___ بجز ایک تلوار ( اور وہ بھی نیام میں ) اس کے پاس کوئی ہتھیار نہیں۔ تمام زائرین حرم کو عرب کے معروف قاعدے کے مطابق سفر کی حفاظتی ضرورت کے لیے ایک تلوار رکھنے کی اجازت تھی، سو اس قاعدے سے تجاوز نہ کیا اور نہ کوئی سامانِ جنگ ساتھ لیا۔اس نے قربانی کے جانور بھی لے لیے ہیں ___قانون کی پوری پابندی کر رہا ہے ، روایات کا مکمل احترام کررہا ہے، کہیں انگلی رکھنے کی گنجایش نہیں۔
اُدھر کفّارِ مکہ اس الجھن میں گرفتار ہوکر رہ گئے کہ اگر ان محترم مہینوں میں ہم ان سے جنگ کرتے ہیں تو ہم برسوں کی روایات کا خون کرنے کے مرتکب ہوتے ہیں۔ اگر زیارت سے روکتے ہیں تو اہل عرب کے ایک بنیادی اور فطری حق سے، جسے ہر دور میں اور ہر گروہ اور قبیلے نے تسلیم کیا ہے،اگر ان کو محروم کرتے ہیں تو یہ انصاف ، قانون اور روایات کے صریح خلاف مانا جائے گا۔ سب اسے مذہبی اُمور میں مداخلت قرار دیں گے۔ لوگوں کو یقین دلانے کی اپنی سی کوشش بھی کریں، لیکن اسے مانے گا کون ؟
سب اہلِ عرب صاف کہیں گے کہ اگر محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) اور اس کے ساتھیوں کے لیے اس قدیمی حق کو پامال کیا جاسکتا ہے تو کل ہمارے لیے بھی کیا جا سکتا ہے۔ اگر آج ان کے باب میں یہ مذہبی مداخلت اور یہ سیاسی دخل اندازی ہو سکتی ہے، تو پھر دوسروں کے لیے بھی ان حقوق اور ان مہینوں کے محترم رہنے کا کیا امکان ہو گا___ پھر غضب یہ ہے کہ یہ بات چوری چھپے بھی نہیں کی۔ عرب میں اپنے اس سفر اور اس کے مقاصد کا اعلان بھی کر دیا ہے___ یہ سوچ سوچ کر ان کے ذہن مائوف ہورہے تھے کہ کس مشکل میں گرفتار ہو گئے ہیں۔
’’لیکن، کیا ہم اسے آنے دیں؟ نہیں، یہ تو نہیں ہو سکتا۔ ہم کہیں گے کہ زیارت تو محض ایک بہانہ ہے، اصل مقصد تو ہمیں مکہ کے اقتدار سے محروم کرنا ہے۔ یہ صریح طور پر ہمارے خلاف ایک سیاسی انقلاب کا قدم ہے۔ یہ لوگ سماجی قانون ومذہب کے پردے میں ہمارے اقتدار سے کھیلنا چاہتے ہیں۔ ان کی قانون پسندی کے پیچھے قوت کے استعمال کے عزائم موجود ہیں۔ کوئی مانے نہ مانے، ہم یہی سمجھتے ہیں، ہم یہی کہیں گے ، ہمارے حلیف قبائل اس کی تائید کریں گے___ ہم اکیلے ان کے خلاف نہیں لڑیں گے، ہم بھی اپنے تمام حلیفوں کو جمع کریںگے، ان سے ان کے خلاف فتویٰ لیں گے بلکہ ملک بھر میں اس بات کا چرچا کریں گے اور چاہے کچھ ہو جائے مکہ میں ان کو دوبارہ داخل نہ ہونے دیں گے___ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم تو طواف کعبہ کو ان کے لیے ’غیرقانونی‘ قرار دیں اور یہ سیدھے وادی القریٰ میں داخل ہو جائیں‘‘۔
قانون ، روایات ، انصاف ، دلیل وبرہان کو شکست ہوئی اور ضد، ہٹ دھرمی اور سیاسی دھاندلی نے بازی جیت لی ! قریش نے کاروان حق اور زائران حرم کا راستہ روکنے کا فیصلہ کر لیا۔ سارے ملک میں ہرکارے دوڑائے گئے کہ ایک فیصلہ کن جنگ لڑ کر اس تحریک کو اب ختم ہی کر دینا ہے:
اِذْ جَعَلَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فِیْ قُلُوْبِہِمُ الْحَمِیَّۃَ حَمِیَّۃَ الْجَاہِلِیَّۃِ (الفتح ۴۸:۲۶) جب کافروں نے اپنے دلوں میں ضد کی ___اور ضد بھی خالص جاہلیت کی۔
ھُمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَصَدُّوْکُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَالْہَدْیَ مَعْکُوْفًا اَنْ یَّبْلُغَ مَحِلَّہُ ط (الفتح ۴۸:۲۵) یہ وہی لوگ ہیں جنھوں نے کفر کیا اور تم کو مسجد حرام سے روک دیا۔ اور قربانیوں کو بھی روک دیا کہ وہ اپنی جگہ پہنچنے سے رک جائیں۔
مخالفین اپنی چالیں چل رہے تھے، قبائل کو جمع کیا جا رہا تھا اور جاہلیت کے نام پر انھیں من مانی کارروائی کے لیے آمادہ کیا جا رہا تھا۔ فوجی تربیت دی جارہی تھی ۔ مکّہ کے نوجوانوں اور سرپھروں کی ٹولیاں مختلف سمتوں سے بھیجی جا رہی تھیں تا کہ کوئی موقع لڑائی کا پیدا ہو جائے اور کوئی واقعہ ایسا رُونما ہو جائے کہ قافلۂ حق پرہاتھ ڈالنے کی صورت نکل آئے ___ اور دوسری طرف ان حرکتوں سے بے نیاز، اللہ کا آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چودہ سو جاں نثاروں کے ساتھ خاموشی اور وقار کے ساتھ سوے حرم رواں تھا۔
جب قافلۂ حق عفان کے پاس پہنچا تو قبیلہ کعب کے ایک شخص نے اطلاع دی کی مکہ سے باہر کے مقام پر قریش اور ان کے حلیف بڑی تعداد میں فوجیں جمع کر رہے ہیں اور خالد بن ولید اور عکرمہ ابن ابو جہل ۲۰۰سواروں کے ساتھ مقدمہ الجیش کے طور پر کُراعُ الغمیم تک آگئے ہیں۔ قبیلہ خزاعہ کے رئیس اعظم بُدَیل بن وَرَقانے صورت حال پر آپؐ کی راے معلوم کی اور اپنی خدمات پیش کیں۔ خدا کے نبی اور قافلۂ زائران کے سردار( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے ایک طرف مسلمانوں کو حکم دیا کہ قریش مقام الغمیم تک آگئے ہیں، اس لیے اس راستے کو چھوڑ کر داہنی طرف سے چلو اور دوسری طرف بذیل بن ورقا اپنے چند معتبر ساتھیوں کے ساتھ آپؐ کے پاس آیا، اور پوچھا:
’’آپ کس غرض سے آئے ہیں؟‘‘
آپؐ نے فرمایا: ’’ہم کسی سے لڑنے نہیں آئے، صرف بیت اللہ کی زیارت اور اس کا طواف ہمارے پیش نظر ہے۔ اس لیے بہتر ہے کہ ایک معین مدّت کے لیے مجھ سے صلح کا معاہدہ کر لیں اور اگر وہ اس پر راضی نہیں ہیں تو :
فَمَا تظَنُّ قریش فَوَاللّٰہِ لَا ازال اجاھد علی الَّذِی بَعثَنِی اللہ بِہٖ حَتّٰی یُظھِرَہُ اللہ اَو تَنْفِرْدَ ھٰذہِ السَّا لِفۃُ ، معلوم نہیں قریش کس گھمنڈ میں ہیں۔ اللہ کی قسم ! میں دین کے لیے اس وقت تک جہاد کروںگا، جب تک اللہ، دین کو غلبہ نہ عطا کر دے یا دستِ اجل مجھ پر قبضہ نہ کر لے۔ (تاریخ الطبری، ج۲، ص ۱۱۷)
عزم وہمت اور یقین اور جاں بازی کے اس اعلان سے قریش میں کھلبلی مچ گئی۔
داعیِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے تدبیر اور حکمت عملی، اظہار عزم اور پختگی دونوں کو بیک وقت استعمال فرمایا۔ ایک طرف صحیح وقت کا انتخاب ، صحیح طریقے کی پابندی ، راے عامہ کی ہمواری ، اصول وقانون کی پابندی ، صلح وسفارت کی پروقار کوششیں ، قدم قدم پر رُونما ہونے والی اشتعال انگیزیوں (provocations ) پر صبر وتحمل___ اور دوسری طرف پختہ عزم اور حق کی خاطر جان لڑا دینے اور آخری بازی تک کھیل جانے کا برملا اظہار!
قریش شدید پریشانی اور خلفشار میں مبتلا ہوگئےاور باطل کی قوتیں سخت کش مکش کا شکار۔ ایک گروہ کہتا کہ ’’ہم لڑے بغیر نہیں مانیں گے۔ ہماری آنکھوں میںخون اترا ہوا ہے اور اس تحریک کو مٹائے بغیر ہماری پیاس نہیں بجھے گی‘‘۔ یہ گروہ نہ صرف سب کو جنگ کرنے اور قانون کو پامال کرنے پر اُکسا رہا تھا، بلکہ خود اپنی ہی تحریک پر ایسی حرکتیں بھی کر رہا تھاکہ کسی طرح لڑائی کی آگ بھڑک اٹھے ۔ اس اونٹنی کو مار دیاگیا، جس پر سوار ہو کر حضرت خراش شہر میں گئے تھے۔
ایک دستے نے مسلمانوںسے چھیڑ چھاڑ کی اور پتھر اور تیر تک پھینکے، لیکن مسلمانوں نے لڑنے کے بجاے ان کو گرفتار کر لیا، اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو رہا کر دیا لیکن اس کے باوجود یہ گروہ جنگ کی آگ کو بھڑکانے کے لیے بے چین تھا، اور سارے حقوق وروایات کو پامال کرنے کے در پے۔ دوسرا گروہ اپنی ضد اور ہٹ دھرمی پر تو قائم تھا لیکن اس تبدیل شدہ صورتِ حال نے اس کی پریشانی کو چند در چند کر دیا تھا، اور حضوؐر کی حکمت عملی اور عزم وثبات نے اس کے قدموں کو متزلزل کر دیا تھا۔ پھر قبائل میں سے ایسے بھی تھے جو قریش سے مفاد کی وابستگی اور دوستی کے معاہدے کی وجہ سے جمع تو ہو گئے تھے، لیکن ان کے دل مطمئن نہ تھے اور وہ برابر ضمیر کی چبھن محسوس کر رہے تھے۔ تاہم، قریش بحیثیت مجموعی اپنی ہٹ پر قائم تھے اوران کا اصرار تھا کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں کبھی داخل نہیں ہو سکتے۔
ضد وہٹ دھرمی ومفاد طلبی اور باطل پرستی کے اس ماحول میںایک واقعہ ایسا بھی رُونما ہوا، جس نے بُرے حالات میں بھی رفقا کو بچا لیا۔ قریش کی صفوں میں ایک سے ایک شقی اور دشمن حق تھا اور وہ قافلۂ حق کا راستہ روکنے کے لیے ہر اوچھی سے اوچھی حرکت کرنے کے لیے بھی تلا ہوا تھا ___لیکن انھی صفوں سے احابیش کا سردار حُلیس بن عَلقمہ بھی نکل کر سامنے آیا۔
حُلیس کے سامنے جب بدیل بن ورقا نے یہ شہادت پیش کی، پھر مکر زبن حفض نے بھی اس امر سے مطلع کیا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اور ان کے ساتھی قانون پسند اور پُرامن ہیں اور جنگ کرنے نہیں بلکہ زیارت حرم کے لیے آئے ہیں، تو اس کے ضمیر نے قریش کی زیادتی ، قانون کی خلاف ورزی اور فطری انصاف اور صدیوں کی روایات کی پامالی پر سرزنش کی۔ اور وہ کہتا ہے کہ میں تحقیقِ حال کے لیے جاتاہوں۔ پھر جب اس غیر مسلم نے زائرین کعبہ کو دیکھا اور اسے اپنے سامنے، زائرین کے لائے ہوئے قربانی کے اونٹ نظر آئے، تو اس نے مفاد پرست قریش اور ان کے ناجائز دبائو کے خلاف بغاوت کی اور قریش کے سامنے ان کی افواج کی موجودگی میں پوری ہمت اور قوت کے ساتھ اعلان کیا کہ :
محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) تو زیارت کے لیے آئے ہیں ۔ تمھیںان کو اس حق سے محروم کرنے کا اختیار کب ہے؟ میں نے قربانی کے اونٹ اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں___قانون کی خلاف ورزی تم کررہے ہو، وہ نہیں___[اس پر قریش کے سر پھرے نوجوان مذاق اڑانے لگے___اسے دیکھو ! دیہاتی آدمی ہے ! یہ ان باتوں کو کیا جانے۔]
حُلیس کوئی معمولی آدمی نہ تھا۔ عرب کے مشہور تیر اندازوں میں سے تھا۔ اس کا قبیلہ تیراندازی میں اپنا نام رکھتا تھا۔ اس وقت مختلف قبیلوں کی فوج کا سردار تھا۔ اس بے ہودگی پر اسے سخت غصہ آیا اور اس نے صاف اعلان کر دیا ___
اے قریش ! قسم ہے معبود کی، ہم نے تم سے اس بات پر عہد نہیں کیا ہے اور نہ ہم نے قسم کھائی ہے کہ جو شخص خانہ کعبہ کی زیارت کو آئے ہم اس کو روک دیں___سم ہے خدا کی جس کے قبضے میں حلیس کی جان ہے___ یا تو محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کو زیارت کرنے دو، ورنہ میں ایک دم میں اپنا تمام لشکر لے کر چلا جاتا ہوں ۔(سیرت ابن ہشام، ص ۴۵۰)
تھی تو یہ ایک ہی آواز ! لیکن قریش میں کھلبلی مچ گئی ۔ سب سکتے میں آگئے ۔ انھوں نے پریشان ہو کر کہا :’’ٹھیرو تو ! غصہ کاہے کاہے ؟ ہم ذرا اطمینان تو کر لیں‘‘۔
اس کشیدگی کو دُور کرنے کے لیے ایک تجربہ کار آگے بڑھا __ یہ تھا عروہ بن مسعود ثقفی۔
عروہ نے کہا : کیوں قریش ، کیا میں تمھارا باپ اور تم میرے بچے نہیں ؟
بولے :ہاں، بلاشک۔
عروہ : میری نسبت تمھیں کوئی بدگمانی تو نہیں۔
سب نے کہا : نہیں۔
عروہ : اچھا تو مجھے اجازت دو کہ میں خود جا کر معاملہ طے کروں۔
محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) نے صلح کی معقول شرطیں پیش کی ہیں ___ھچائو کم ہوا ___ور سفارت کا باقاعدہ آغاز ہو گیا ۔
ادھر سفارت اپنا کام کر رہی تھی اور ادھر شرپسند خاموش نہ تھے ۔ وہ کسی طرح لڑائی شروع کرا دینا چاہتے تھے۔ بار بار اشتعال انگیزی کی کوشش کرتے تھے۔ چھوٹی چھوٹی ٹولیاں مسلمانوں کے پڑائو میں گھستی تھیں، پتھر پھینکتے تھے، تیر چلاتے تھے ___لیکن قافلۂ حق کے راہی صبرو تحمل کی تصویر بنے ہوئے تھے۔ قائد صادق صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت فرما دی تھی کہ: ہمیں ہر زیادتی کو برداشت کرنا ہے اور لڑائی سے حتی الامکان بچنا ہے، اِلّا یہ کہ ہم مجبور کر دیے جائیں___کیا مجال تھی کہ مسلمان اس ہدایت سے سرمو انحراف کریں۔ ہر شخص پوری ہوشیاری اور سمجھ داری کے ساتھ اس بنیادی ہدایت کی روشنی میں ہر نئی صورت حال کا مقابلہ کر رہا تھا۔
یہی حلم ، تدبر، حکمت ، صلح پسندی، صبر وثبات اور اطاعت امر کا جذبہ تھا، جس کی وجہ سے مخالفین حق اپنی ایک زبردست چال میں ناکام ہوگئے اور ان کی ساری فتنہ انگیزیاں بے نتیجہ رہیں۔
لیکن کیا یہ صلح پسندی اور تحمل وبرداشت کسی کمزوری کا نتیجہ تھا ؟ یا اس سے اہل حق کے عزم میں کوئی کمی واقع ہو گئی تھی ؟___نہیں، ان کا جذبۂ سر شاری اپنے عروج پر تھا، حق کی حمیت اپنے حقیقی رنگ میں موجود تھی، فدا کاری کا داعیہ ہر ہر عمل سے نمایاں تھا___اور پھر تحمل وبرداشت کی بھی ایک حد تھی۔ داعی اپنے اصلی عزم کا اظہار بر ملا کر رہا تھا اور حق کی خاطر جینے اور حق کی خاطر جان دے دینے کا جذبہ پورے کاروان حق میں کار فرما تھا۔
اور اس کا اعلیٰ ترین مظہر،بیعت رضوان ہے !
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سفارت ہی کے سلسلے میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو مکہ مکرمہ بھیجا ۔ ان کے جانے کے بعد یہ خبر اڑ گئی کہ: ’’قریش نے ان کو شہید کر دیا ہے‘‘۔یہ وہ ظلم تھا جسے ایک لمحے کے لیے بھی برداشت نہ کیا جا سکتا تھا۔ حضوؐر اور آپؐ کے ساتھی سب زیادتیوں کو گوارا فرما رہے تھے لیکن اعلیٰ مقصد کے لیے___ اگر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو جو حضوؐر کے سفیر تھے، شہید کردیا گیاہے، تو یہ کھلا کھلا اعلان جنگ ہے۔ امن پسندی اور عفوورحم اسلام کا شعار ہے لیکن ظالم جب ساری حدود کو پھاند جانے کے در پے ہو تو پھر انصاف کا تقاضا یہی ہوتا ہے کہ ظالم کا ہاتھ پکڑ لیا جائے اور جو تلوار مظلوموں پر اٹھی ہے اسے توڑ ڈالاجائے۔
آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سارے ساتھیوں کو جمع کیا اور ان سے حضرت عثمانؓ کے خون کا بدلہ لینے کی بیعت کی۔ یہ بیعت مرنے مٹنے کے وعدے پر تھی۔ آپؐ نے فرمایا: ’’عثمانؓ کے خون کا قصاص لینا فرض ہے ‘‘۔ ایک ببول کے درخت کے نیچے بیٹھ کر آپؐ نے صحابہؓ سے جاں نثاری اور آخری سانس تک لڑنے کی بیعت لی۔ اس بیعت میں مردوزن سبھی شامل تھے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کے جوش اورولولے کا یہ عالم کہ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لیے کوشاں اور بے چین اور بڑھ چڑھ کر آپؐ کے ہاتھ پر بیعت کرتے گئے۔ خدا قرآن میں اس کا ذکر اس طرح کرتا ہے:
اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰہَ یَدُ اللّٰہِ فَوْقَ اَیْدِیْھِمْ(الفتح ۴۸:۱۰) اور جو لوگ تم سے بیعت کرتے ہیں وہ خدا سے بیعت کرتے ہیں۔ خدا کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہے ۔
لَقَدْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ یُبَایِعُوْنَکَ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ فَعَلِمَ مَا فِیْ قُلُوْبِھِمْ فَاَنْزَلَ السَّکِیْنَۃَ عَلَیْھِمْ(الفتح ۴۸:۱۸) اے پیغمبرؐ ، جب مومن تم سے درخت کے نیچے بیعت کر رہے تھے، تو خدا ان سے خوش اور راضی ہوا اور جو( صدق وخلوص ) ان کے دلوں میں تھا وہ اس نے معلوم کر لیا اور ان پر سکینت اور اطمینان نازل فرمایا۔
دعوتِ اسلامی کی خصوصیت ہے کہ آزمایش کے وقت اس کے پیروکاروں کے جذبۂ عمل اور شوقِ قربانی میں بے پناہ اضافہ ہوتا ہے، فدا کاری کی ایک لہر صرف افراد کے سراپے ہی میں نہیں، بلکہ ان کی اجتماعیت تک میں دوڑ جاتی ہے، حق کے لیے جان کی بازی لگادینے کا ولولہ ہر فرد میں پیدا ہوجاتا ہے___ اور یہ وہ ادا ہے جو حق تعالیٰ کو بے حد پسند ہے۔ اس نے ایسے لوگوں کے لیے اپنی رضا مندی اور جنت لکھ دی ہے ؎
نگاہ یار جسے آشناے راز کرے
وہ اپنی خوبیِ قسمت پہ کیوں نہ ناز کرے
محبوب کی رضا طلبی کی خواہش اور اس کی خوشی پر فخر ونازہی کی کیفیت میں حضرت براء رضی اللہ عنہ نے محبت میں ڈوبے ہوئے تاریخی الفاظ کہے تھے جو بخاری میں مرقوم ہیں:
’’ تم فتح مکہ کو فتح سمجھتے ہو اور ہم بیعت رضوان کو (اصل فتح ) سمجھتے ہیں‘‘۔
اس بیعت نے مسلمانوں کے جذبات کو کہیں سے کہیں پہنچا دیا تھا۔ ہر شخص کفن سر سے باندھے، حق کے لیے جان کی بازی کھیل جانے کے لیے تیار تھا اور اس میں کیف وسرشاری محسوس کر رہا تھا ؎
دست از طلب ندارم تاکار من برآید
یاتن رسد بہ جاناں یا جاں زتن برآید
عزم واستقلال کے اس مظاہرے نے قریش کے ہوش اڑا دیے___ اپنی ساری اکڑفوں اور کبرواستکبار کے باوجود وہ صلح پر آمادہ ہو گئے۔
لیکن، مسلمانوں کے لیے ابھی کچھ اور آزمایشیں بھی تھیں ۔ دارورسن کے لیے تو وہ آمادہ وتیار تھے ہی۔ لیکن نئی آزمایش ایک اور ہی نوعیت کی تھی!
اب انھیں ایک ایسی صورت کے لیے تیار ہونا تھا جس میں کمزوری اور شکست خوردگی کی سی کیفیت کا نمایاں اظہار تھا، جس کی وجہ سے کعبۃ اللہ کے دیدار سے آنکھوں کے مشرف ہونے کا جو امکان پیدا ہو گیا تھا، اس سے محرومی تھی۔ جذبۂ جہاد میں جو قدم آگے بڑھے تھے، ان کو حکمت الٰہی کے تحت پیچھے ہٹانا تھا___
یہ آزمایش جان لٹانے سے بھی زیادہ سخت تھی !
دعوت اسلامی کی اخلاقی قوت
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر غلط نکلی ! عروہ بن مسعود ثقفی قریش کے نمایندے کی حیثیت سے آیا اور صلح کی گفت وشنید کی۔ بظاہر عروہ بہت رکھ رکھائو سے معاملات طے کر رہا تھا۔ قریش کا سراُونچا رکھنے ، ان کی ضد پر پردے ڈالنے اور ان کی مٹی میں ملتی ہوئی ساکھ کو سنبھالنے کے لیے اس نے ہر ممکن جتن کیے۔ اپنی بڑائی کو ظاہر کرنے کے لیے بہت سی نازیبا حرکتیں بھی کیں ۔ کبارصحابہ ؓ سے، جن میں حضرت ابو بکر ؓ اور حضرت مغیرہ ؓ شامل تھے بدزبانی تک سے باز نہ آیا لیکن داعیانِ حق کے اس کیمپ میں جو منظر اس نے دیکھا، اس نے اس کے دل کو مسخر کر لیا ۔ کم تعداد اور نہتے مسلمانوں کا رعب اس کے دل ودماغ پر قائم ہو گیا، اور قریش کو شرائط پر آمادہ کرنے کے لیے اس نے ہر ممکن کوشش کی اور بالآخر کامیاب رہا۔
وہ کیا چیز تھی جس نے اس کے دل ودماغ کو مائوف کر دیا ؟ وہ کون سی قوت تھی جس کے آگے اس نے ہتھیار ڈال دیے ؟ صحابہ کرامؓ کی وہ کون سی خصوصیت تھی، جس نے مخالفین کو بھی خاموشی کے ساتھ مسخر کر لیا؟ عروہ ہی کی زبانی سنیے۔ قریش میں واپس جا کر وہ کہتا ہے:
اے قریش ، میں نے کسریٰ اور قیصر اور نجاشی جیسے باد شاہوں کے دربار دیکھے ہیں ۔ مگر خدا کی قسم! میں نے اصحابِ محمدؐ کو جس طرح محمدؐ کا فدائی دیکھا ہے، ایسا منظر کسی بڑے سے بڑے بادشاہ کے ہاں نہیں دیکھا۔ ان لوگوں کا حال تو یہ ہے کہ جب محمدؐ وضو کرتے ہیں تو صحابہؓ آپؐ کے وضو کے پانی کی ایک بوند بھی زمین پر گرنے نہیں دیتے___ پس، اب تم لوگ سوچ لو کہ تمھارا مقابلہ کس سے ہے؟ (سیرت ابن ہشام ، ص ۴۵۱)
قریش کے ہاں سنّاٹا چھا گیا ___ وہ کہنے لگے: ’’اے چچا ، جیسے تم مناسب سمجھتے ہو کرو‘‘۔
دیکھیے ! وہ کیا چیز ہے جس نے دلوں کو فتح کر لیا، مادی قوت نہیں، اسلحے کی سج دھج نہیں ، فوج کی تعداد نہیں ، ظاہری رعب ودبدبہ نہیں___ وہ چیز ہے اخلاقی قوت ، باہمی محبت___ یک رنگی، وحدت اور نظم واطاعت ! اخلاق کی قوت مادی طاقت اور ابلیسی سیاست پر غالب آئی اور بحث کے لیے صفحۂ تاریخ پر یہ فیصلہ ثبت کر گئی کہ :’’آخر ی فتح اخلاق ہی کی قوت کو حاصل ہوتی ہے ‘‘۔
رسولؐ اللہ ، کیا یہ الفاظ مٹائے سے مٹ جائیں گے !
اب آزمایش کا ایک دوسرا ورق کھلتا ہے۔ انسان کی نگاہ چند قدم ہی تک دیکھتی ہے لیکن حکمت الٰہی کے لیے زمان ومکان کی کوئی حد اور قید نہیں۔ انسان اپنی سمجھ اور خواہشات اور تمنّائوں کے مطابق فیصلے چاہتا ہے، لیکن مشیّت ربانی کی جو حکمت بالغہ کار فرما ہے وہ ہماری تمنّائوں کی پابند نہیں۔
مسلمانوں کا دل اب صلح سے زیادہ معرکے اور زیارت بیت اللہ کے لیے بے تاب تھا، لیکن اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حکمت عملی کسی اور ہی طرف اشارہ کر رہی تھی۔
مسلمانوں کے لیے ایک بڑا ہی دل پاش پاش کر دینے کا لمحہ آیا، آزمایش نے ایک نیا رُوپ دھارا۔ صلح کی شرائط طے ہو گئیں، قریش کی طرف سے سُہیل بن عَمرو، ایک وفد کے ساتھ آیا اور حضوؐر سے گفت وشنید کے بعد منجملہ اور چیزوں کے یہ طے پایا کہ:
۱- دس سال تک فریقین کے درمیان جنگ بند رہے گی، اور ایک دوسرے کے خلاف خفیہ یا علانیہ کوئی کارروائی نہ کی جائے گی۔
۲- اس دوران میں قریش کا جو شخص اپنے ولی کی اجازت کے بغیر بھاگ کر محمد[صلی اللہ علیہ وسلم] کے پاس جائے گا، اسے آپؐ واپس کردیں گے، اور آپؐ کے ساتھیوں میں سے جو شخص قریش کے پاس چلا جائے گا، اسے وہ واپس نہ کریں گے۔
۳- قبائلِ عرب میں سے جو قبیلہ بھی فریقین میں سے کسی ایک کا حلیف بن کر اس معاہدے میں شامل ہونا چاہے گا، اسے اس کا اختیار ہوگا ۔
۴- محمد[صلی اللہ علیہ وسلم] اس سال واپس جائیں گے اور آیندہ سال وہ عمرے کے لیے آکر تین دن مکّہ میں ٹھیر سکتے ہیں، بشرطیکہ نیاموں میں صرف ایک ایک تلوار لے کر آئیں، اور کوئی سامانِ جنگ ساتھ نہ لائیں۔ ان تین دنوں میں اہلِ مکّہ، ان کے لیے شہر خالی کردیں گے (تاکہ تصادم نہ ہو) مگر واپس جاتے ہوئے وہ یہاں کے کسی شخص کو اپنے ساتھ لے جانے کے مجاز نہ ہوں گے۔
ان شرائط پر مسلمانوں میں ایک خاموش اضطراب ، ایک دبی ہوئی بے چینی اور ایک شدید گھٹن کی سی فضا پیداہوگئی تھی۔ کوئی شخص ان مصلحتوں کو نہیں سمجھ پا رہا تھا کہ جنھیں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دُور رس نگاہیں دیکھ رہی تھیں۔ پھر جب معاہدہ لکھنے کا آغاز ہوا توحضرت علی ؓ نے لکھنا شروع کیا: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔
سہیل نے کہا: ’’ہم اس کو پسند نہیں کرتے باسمِکَ اللّٰھم لکھو ‘‘۔
آپؐ نے فرمایا: ’’اچھا یہی سہی‘‘ ___
دوسرا جملہ تھا: من محمد رسول اللہ ___ سہیل نے پھراختلاف کیااور کہا: ’’اگر ہم آپ کو رسول اللہ مانتے تو جھگڑا ہی کیا تھا، ’’محمد بن عبداللہ ‘‘ لکھیے۔ مسلمانوں کے لیے یہ اعتراض ناقابلِ برداشت تھا۔ ان کی بے چینی اپنی انتہا کو پہنچ گئی۔
حضور ؐ نے حضرت علی ؓ سے کہا کہ ’رسول اللہ کے لفظ مٹا دو‘___ لیکن حضرت علی ؓ کے ہاتھوں کی جنبش رُک گئی۔ حضوؐر نے حکم دیا، مگر علی ؓ تعمیل نہیں کر پاتے ! آہ! محبت میں ایک ایسا مقام بھی آتا ہے کہ محبوب کی عزت اور مقامِ نبوت کی عظمت وعصمت کی خاطر اطاعت کیش ہاتھ پائوں بھی رُک گئے___ یہ عدم اطاعت نہیں تقدیس اور عظمت وعقیدت کا وہ نازک مقام ہے کہ جہاں اطاعت بھی محبت کے آگے سپر ڈال دیتی ہے۔ علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ ان الفاظ کو، جن کے لیے ساری دنیا کو چھوڑا تھا، کیسے مٹا سکتے تھے؟
حضوؐر اس پر خفا نہیں ہوئے، اپنے دست مبارک سے وہ الفاظ مٹا دیے اور محمد بن عبداللہ لکھ دیا۔ یہ تھی نبی برحق کی حکمت عملی ___ !
باطل پرستوں کی نادانی پر زمین وآسمان کی قوتیں خندہ زیرلب کے ساتھ گویا تھیں کہ ان الفاظ کے مٹانے سے کہیں حق مٹ سکتا ہے ! یہ تو محض ایک قانونی وسیلہ ہے تمھاری اس چھچھوری حرکت پر، اس میں کیا فرق پڑجائے گا۔ ایسے قانونی کرتب کہیں دعوت اسلامی کو بھی متاثر کرتے ہیں!
زمین وآسمان کے اس اعلان پر حق تعالیٰ نے خود شہادت دی:
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗٓ اَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآئُ بَیْنَھُمْ(الفتح ۴۸:۲۹ ) محمد، اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفّار پر سخت اور آپس میں رحیم ہیں۔
یہ زور دار اعلان قریش کی اوچھی حرکت کی کلّی تردید ہے ! قرآن کے ان تین اہم ترین مقام میں سے ایک، جہاں نام لے کر حضور ؐ کی رسالت کا اثبات واظہار نہایت قوت وتہدی کے ساتھ کیا گیا ہے ۔
لیکن یہ ساری باتیں تو کچھ بعد کی ہیں، فوری طور پر تو مسلمانوں کے جذبات میں شدید ارتعاش پیدا ہو گیا ۔ ان کی نگاہیں مستقبل کے دھندلکوں میں پوشیدہ کامیابیوںکو دیکھنے سے قاصر تھیں۔ وہ ان حکمتوں سے بھی ناواقف تھے، جو اللہ کے فیصلوں میں پوشیدہ ہوتی ہیں ___ ان کے سامنے تو غلبے کی اُمید کے بعد ظاہری کم زوری یا کھلے لفظوں میں ناکامی کا منظر دکھائی دے رہا تھا۔ وہ تو زیارتِ کعبہ کی توقعات کو ہوا میں تحلیل ہوتا دیکھ رہے تھے۔ وہ تو ظالموں کی بات کے وقتی طور پر بظاہر حاوی ہوجانے پر مضطرب تھے۔ وہ اپنی امیدوں کے ٹوٹنے پر پریشان اوربے چین تھے___ وہ آئے تو اس ارادے سے تھے کہ متکبروں کی اکڑی ہوئی گردن کو جھکا دیں گے یا قلم کر دیں گے ___ لیکن بظاہر انھیں نظر ا ٓ رہا تھا کہ اس گردن کے خم میں تو کچھ اور بھی کجی رُونما ہو گئی ہے۔
ابھی صلح نامہ پر آخری دستخط نہ ہوئے تھے کہ ایک مسلمان حضرت ابو جندل ؓ آئے۔ وہ مسلمان ہو چکے تھے۔ سہیل ان پر سخت مظالم کر رہا تھا۔ اس وقت بھی ہاتھ اور پائوں میں زنجیریں تھیں اور انھوں نے مسلمانوں کے سارے مجمعے کے سامنے اپنے زخم اور دھنکی ہوئی کمر دکھائی___ یہ منظر دیکھ کر سب کے دل دہل گئے، خون جوش میں آگیا۔ حضوؐر نے ابو جندل ؓ کو معاہدے سے مستثنیٰ کرانے کی بہترین کوشش کی، لیکن سہیل بن عَمرو اڑ گیا۔ بالآخر آپؐ نے معاہدے کی پابندی کی اور فرمایا:
’’ابو جندلؓ ، چند روز اور صبر کرو، اجر کی اُمید رکھو، عنقریب اللہ تعالیٰ تمھارے اور دوسرے مظلوموں کے لیے کشادگی پیدا کرے گا۔ میں مجبور ہوں کہ میں نے عہد کر لیا ہے اور عہد کے خلاف نہیں کر سکتا ‘‘۔ اور حضرت ابو جندلؓ کو پابہ زنجیر واپس جانا پڑا ۔
یہ آزمایش مسلمانوں کے لیے بہت کڑی تھی___ ذلت گوارا کریں اور پھر اپنے بھائیوں کو آنکھوں دیکھے ظالموں کے ہاتھ میںدے دیں۔
ہم دین میں یہ ذلت کیوں گوارا کریں ؟
ان واقعات پر سب ہی مضطرب تھے، لیکن زبان کھولنے کی ہمت کسی میں نہیں ہورہی تھی، بالآخر حضرت عمر ؓ کو ضبط کا یارانہ رہا اور وہ بے چین ہوکر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس گئے، اور بوجھل دل سے کہا: ’’کیا حضوؐر، اللہ کے رسول نہیں ہیں؟ کیا ہم مسلمان نہیں ہیں؟ کیا یہ لوگ مشرک نہیں ہیں؟ پھر آخر ہم اپنے دین کے معاملے میں یہ ذلّت کیوں اختیار کریں؟‘‘
ابوبکر صدیقؓ نے جواب دیا: ’’اے عمر، وہ اللہ کے رسولؐ ہیں ، اور اللہ ان کو ہرگز ضائع نہیں کرے گا‘‘۔
حضرت عمرؓ کا اضطراب ختم نہ ہوا، اور وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے :
عمر ؓ : یا رسولؐ اللہ ! کیا آپ پیغمبرؐ برحق نہیں ہیں؟
حضور ؐ نے فرمایا : ہاں، ہوں۔
عمر ؓ : کیا ہم حق پر نہیں ہیں ؟
فرمایا : ہاں، ہم حق پر ہیں۔
عمر ؓ : تو ہم دین میں یہ ذلت کیوں گوارا کریں؟
فرمایا : میں خدا کا پیغمبرؐ ہوں اور خدا کے حکم کی نافرمانی نہیں کر سکتا ، خدا میری مدد کرے گا۔
عمرؓ: کیا آپؐ نے یہ نہیں فرمایا تھا کہ ہم لوگ کعبہ کا طواف کریں گے؟
فرمایا: ہاں، لیکن یہ تو نہیں کہا تھا کہ اس سال ہی کریں گے۔ (بخاری، سیرت النبی ؐ ، از شبلی نعمانی، ص ۴۵۵-۴۵۶)
معاہدے کی تکمیل کے بعد آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیاکہ یہیں قربانی کی جائے لیکن جو کعبہ کی زیارت کی ولولہ انگیزتوقعات کے ساتھ نکلے تھے، جوببول تلے ابھی جاں نثاری کی بیعت کر چکے تھے، جو شہادت کو چشم تصور سے دیکھ رہے تھے اور خوش ہو رہے تھے، جو پرشوق اُمیدوں کے سہارے تخیل ہی تخیل میں معلوم نہیں کتنی بار کعبہ کا پروانہ وار طواف کر چکے تھے___ سکتے کے عالم میں تھے ___ ہر شخص دل شکستہ ، ہر جانباز پژمُردہ اور نااُمید ___ حضوؐر نے قربانی کے لیے کہا، مگر کوئی نہیں اٹھا ۔ تین بار زبانِ رسالتؐ سے اس خواہش کا اظہار ہوا ہے، لیکن پرستارانِ حق اور عازمین حرم کی توقعات ابھی بالکل نہیں ختم ہوئی تھیں۔ وہ ابھی تک سوچ رہے تھے کہ شاید اب بھی زیارت کی کوئی صورت نکل آئے ! حضوؐر بے چین ہوکر اپنے خیمے میں تشریف لے گئے۔ اُم المومنین حضرت اُمِ سلمہؓ سے فرمایا: میرے ان ساتھیوں کو کیا ہو گیا ہے ؟ حضرت اُمِ سلمہؓ نے مشورہ دیا کہ آپؐ کچھ خیال نہ فرمائیں بلکہ خود اپنی قربانی کر دیں اور احرام اتارنے کے لیے بال منڈوا لیں۔ آپ نے باہر نکل کر اپنی قربانی کر دی___ اب آخری توقع بھی ٹوٹ گئی اورسب کو یقین ہوگیا کہ خدا کا فیصلہ آ چکا ہے۔ ہماری توقعات وخواہشات کچھ بھی ہوں لیکن اس سال ہم اپنے محبوب کی زیارت سے محروم ہی رہیں گے ___ ابھی کچھ دن اور صبر کرناہوگا، ابھی ہجر کی کچھ اور گھڑیاں باقی ہیں۔ زیارت محبوب کی تمنّا کو ابھی سوزِ قلب کی بھٹیوں میںاور پکانا ہوگا ؎
نالہ ہے بلبل شوریدہ، ترا خام ابھی
اپنے سینے میں اسے اور ذرا تھام ابھی
جب یہ یقین ہو گیا تو اطاعت کا دریا پھر جوش میں آگیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانی کے بعد سب نے اپنی اپنی قربانیاں پیش کر دیں اوراحرام اتار دیے۔
یہاں پر یہ گمان نہ ہو کہ اس نازک لمحے میں جاں نثارانِ محمد ؐ میں عدم اطاعت کا مرض پیدا ہوگیاتھا۔ ہرگز نہیں، اطاعتِ رسولؐ تو ان کا ایمان اور ان کی معراج تھی۔ اس کی وجہ صرف اضطراب اور پریشانی کے عالم میں زیارت کعبہ کی ایک آخری امید تھی___ توقعات ٹوٹ رہی تھیں، اضطراب بڑھ رہا تھا، لیکن اس اُمید شکن ماحول میں بھی بار بار یہ خواہش ابھر رہی تھی کہ کاش! کوئی صورت نکل آئے ___ اور اسی لیے قربانی کرنے میں ہچکچاہٹ تھی۔ لیکن جب یہ توقع بالکل ختم ہو گئی تو اس کے باوجود اطاعت میں کوئی کمی نہ رہی۔
ان سخت صبر آزما حالات میںبھی اطاعت کی مثال اگر دیکھنی ہے تو صلح نامہ پر دستخط کرنے والوں کی فہرست پر نگاہ ڈالیے۔ جب حضوؐر کی مہر اس پر ثبت ہوئی تو وہی عمر ؓ جو سخت مضطرب تھے، انھوں نے ایک اشارے پر اس معاہدے پر بطورِ گواہ دستخط کر دیے ہیں۔کیا اس اطاعت شعاری کا کوئی جواب ہو سکتا ہے!
جسے تم ذلّت سمجھ رہے ہو !
مسلمانوں کا یہ اضطراب حق کے جوش اور اس کی محبت میں تھا ، کسی جاہلی جذبے کی بنا پر نہیں تھا۔ اس لیے دیکھیے حق تعالیٰ اس پر نکیر فرمانے کے بجاے کس کس پیار سے ان کو سمجھاتا ہے۔ فرمایا کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوا ہے اور اس میں بے شمار حکمتیں اور مصلحتیں پوشیدہ ہیں۔ ہم ہی نے تم کو ان کافروں پر فتح یاب کرنے کے بعد سرحد مکہ میں ان کے ہاتھ تم سے اور تمھارے ہاتھ ان سے روک دیے تھے اور جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اس کو دیکھ رہا ہے:
وَھُوَ الَّذِیْ کَفَّ اَیْدِیَھُمْ عَنْکُمْ وَاَیْدِیَکُمْ عَنْھُمْ بِبَطْنِ مَکَّۃَ مِنْم بَعْدِ اَنْ اَظْفَرَکُمْ عَلَیْھِمْ وَکَانَ اللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرًاo (الفتح ۴۸: ۲۴) وہی ہے جس نے مکہ کی وادی میں ان کے ہاتھ تم سے اور تمھارے ہاتھ ان سے روک دیے، حالاں کہ وہ ان پر تمھیں غلبہ عطا کر چکا تھا، اور جو کچھ تم کر رہے تھے، اللہ اسے دیکھ رہا تھا۔
پھر سمجھایا جارہا ہے کہ اہل مکہ میںبہت سے چھپے ہوئے مسلمان ہیں جو اس وقت جنگ کی شکل میں مشکل میں پھنس جاتے بلکہ تمھارے ہی ہاتھوں قتل ہو جاتے۔ ہم نے تاخیر اس لیے کی ہے کہ وہ کھل کر دائرۂ حق میں داخل ہو جائیں:
وَلَوْلَا رِجَالٌ مُّؤْمِنُوْنَ وَنِسَآئٌ مُّؤْمِنٰتٌ لَّمْ تَعْلَمُوْھُمْ اَنْ تَطَؤُھُمْ فَتُصِیْبَکُمْ مِّنْھُمْ مَّعَرَّۃٌ م بِغَیْرِ عِلْمٍ ج لِیُدْخِلَ اللّٰہُ فِیْ رَحْمَتِہٖ مَنْ یَّشَآئُ ج (الفتح ۴۸: ۲۵) اگر [مکّہ میں] ایسے مومن مرد و عورت موجود نہ ہوتے جنھیں تم نہیں جانتے، اور یہ خطرہ نہ ہوتا کہ نادانستگی میں تم انھیں پامال کردو گے اور اس سے تم پر حرف آئے گا (تو جنگ نہ روکی جاتی۔ روکی وہ اس لیے گئی) تاکہ اللہ اپنی رحمت میں جس کو چاہے داخل کرلے۔
حضوؐر نے ایک مختصر جملے میں کتنی بلیغ بات ارشاد فرمائی کہ ’’ میں نے یہ تو نہیں کہا تھا کہ اس سال ہی عمرہ کریں گے‘‘، یعنی خدا کا وعدہ سچا ہے ، لیکن اس کا وقت بھی متعین ہے۔ بے صبری اور جلد بازی اس راہ میں حرام ہے۔ اپنے وقت پر اس کا وعدہ لازماً پورا ہو گا۔ ہمارا یہ کام نہیں کہ خدا کے فیصلوںکے لیے وقت متعین کریں___ وہ اپنے ہر کام کو اس کے مناسب وقت پر خود انجام دیتاہے۔
مسلمانوں کو اس کا یقین دلایا جا رہا ہے کہ تمھاری مدد اور منکرین حق کی تعذیب کے لیے خدا کے لشکر ہر وقت تیار ہیں، پلک جھپکتے میںوہ فیصلہ کر دیں گے___ تاخیر خدانخواستہ کسی کمزوری کی بنا پر نہیں تھی، مصلحت اور حکمت اس کی وجہ تھی اور خدا کی ساری حکمتیں تمھارے سامنے نہیں تھیں:
وَلِلّٰہِ جُنُوْدُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَکَانَ اللّٰہُ عَلِیْمًا حَکِیْمًاo (الفتح ۴۸: ۴) اور آسمان اور زمین کے سب لشکر اللہ ہی کے ہیں اور اللہ جاننے والا ہے اور حکمت والا ہے۔
پھر بڑے لطیف انداز میں ان کو متوجہ کیا گیا کہ اصل کامیابی تو آخرت کی کامیابی ہے، دنیا میں غلبہ ملانہ ملا___ یہ تو کوشش اور جدوجہد کا زمانہ ہے۔ اس میں نتائج کے بارے میں اتنے نازک طبیعت نہ ہو جائو ۔
ایمان واطاعت کی راہ میں بہت سے مراحل آئیں گے، تمھاری نگاہ ہر مرحلے میں رب کی رضا اور آخرت کی کامیابی پر ہونی چاہیے ___ یہی اصل کامیابی ہے:
لِّیُدْخِلَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا وَیُکَفِّرَ عَنْھُمْ سَیِّاٰتِھِمْ وَکَانَ ذٰلِکَ عِنْدَ اللّٰہِ فَوْزًا عَظِیْمًاo(الفتح ۴۸: ۵) تاکہ مومن مردوں اور عورتوں کو ہمیشہ رہنے کے لیے ایسی جنتوں میں داخل فرمائے گا، جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی اور اُن کی بُرائیاں اُن سے دُور کر دے___ اللہ کے نزدیک بڑی کامیابی ہے۔
سمجھایا جا رہا ہے کہ اسلام نام ہے خوشی اور ناخوشی میں اللہ اور اس کے رسولؐ کی پیروی کا۔ تمھاری توجہات کا مرکز یہ نہ ہو کہ کیا پایا ؟ یہ ہو کہ حکم کی اطاعت کہاں تک اور کس جذبے سے کی___ اگر تلوار اٹھانے کا حکم ہے تو اس وقت تلوار اٹھانا نیکی ہے،اور اگر تلوار کھینچ لینے کا حکم ہے تو اس وقت تلوار کھینچ لینا نیکی ہے۔ اگر زیارت کے لیے چلنے کا حکم ہے تو محبوب کی زیارت کا شوق دل ونگاہ کی تسکین کا سامان ہے اور اگر حکم مزید انتظار کا ہے تو سکون وراحت کا منبع ہجر اور لذتِ انتظار کو بن جانا چاہیے ع
ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیم جاں ہے زندگی
نگاہ ہمیشہ اصل جو ہر پر رہے اور وہ یہ ہے کہ :
وَّمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ یُدْخِلْہُ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ وَمَنْ یَّتَوَلَّ یُعَذِّبْہُ عَذَابًا اَلِیْمًاo (الفتح ۴۸: ۱۷) جو شخص اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرے گا، اللہ اسے جنتوں میں داخل کرے گا، جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہوں گی اور جو منہ پھیرے گا، اسے وہ دردناک عذاب دے گا۔
اس محبت بھری تفہیم کے بعد یہ بھی بتایا جارہا ہے کہ تمھارے خلوص کی بنا پر ہم نے تمھارے دلوں پر سکینت نازل کر دی ہے، تا کہ پریشانی اطمینانِ قلب میں بدل جائے اور پھر جمعیت خاطر کی نعمت سے تم مالا مال ہو جائو ۔ یہ خدا کی مددونصرت کا ایک پہلو ہے___ اور نادانو! تم جس چیز کو ذلت سمجھ رہے ہو، وہ صرف تمھاری کوتاہ بینی ہے ، یہ تو ہم نے فتح کے لیے زمین تیار کی ہے۔ دعوت کے پھیلنے کے لیے راہ ہموار کی ہے۔ غلبے کے امکانات روشن کیے ہیں اور ایک نہیں کئی کئی فتوحات تمھارے لیے مقرر کر دی ہیں ۔ بہت جلد تم کو خیبر میں فتح حاصل ہو گی، مال ودولت بھی ہاتھ آئے گا، اور پھر قریش پر غلبہ بھی حاصل ہو گا:
فَعَلِمَ مَا فِیْ قُلُوْبِھِمْ فَاَنْزَلَ السَّکِیْنَۃَ عَلَیْھِمْ وَاَثَابَھُمْ فَتْحًا قَرِیْبًا o وَّمَغَانِمَ کَثِیْرَۃً یَّاْخُذُوْنَھَا وَکَانَ اللّٰہُ عَزِیْزًا حَکِیْمًا o (الفتح ۴۸: ۱۸-۱۹ ) اور جو (صدق وخلوص ) ان کے دلوں میں تھا، وہ اس نے معلوم کر لیا تو ان پر تسلی اور سکینت نازل فرمائی اور انھیں جلد فتح عنایت کی___ اور بہت سی غنیمتیں جو انھوں نے حاصل کیں اور خدا غالب اور حکمت والا ہے۔
خلوصِ دل ، اطمینان قلب، دنیوی فتح اور مالی خوش حالی میں جو ربط وتعلق ہے، وہ ان آیات میں پوری طرح ہمارے سامنے آ جاتا ہے۔ توقعات کے حسین تاج محل اس لیے منہدم کیے جاتے ہیں کہ خلوص اور دل کی کیفیت معلوم کر لی جائے۔ اگر اس میں کھوٹ نہیں ہے تو پھر انعامات کی بارش شروع ہو جاتی ہے۔ دل میں اطمینان القا کیا جاتا ہے، مادی وسائل فراہم کیے جاتے ہیں، اور بالآخر فتح وغلبہ عطا کیا جاتا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے، اور ہمیشہ رہے گی:
وَلَوْ قٰتَلَکُمْ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَوَلَّوْا الْاَدْبَارَ ثُمَّ لاَ یَجِدُوْنَ وَلِیًّا وَّلاَ نَصِیْرًا o سُنَّۃَ اللّٰہِ الَّتِیْ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلُ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبْدِیْلًا o (الفتح ۴۸: ۲۲-۲۳) اور اگر تم سے انکار کرنے والے لڑتے تو پیٹھ پھیر کر بھاگ جاتے پھر کسی کونہ دوست پاتے اور نہ مدد گار ۔ یہی خدا کی سنت ہے جو پہلے سے چلی آتی ہے، اور تم خدا کی سنت کو کبھی بدلتے نہ دیکھو گے۔
اپنے پیغمبر ؐ کو اس نے دین حق اور ہدایت دے کر بھیجا ہے اور اس لیے بھیجا ہے کہ اس دین کو تمام نظاموں پر غالب کر دے اور یہ ہو کر رہے گا ۔ حق ظاہر کرنے کے لیے اللہ ہی کافی ہے:
ھُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَکَفٰی بِاللّٰہِ شَہِیْدًاo(الفتح ۴۸: ۲۸) وہی تو ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت کی کتاب اور دین حق دے کر بھیجا ہے، تا کہ اس کو تمام ادیان پر غالب کرے اور حق ظاہر کرنے کے لیے اللہ کافی ہے۔
اس لیے وہ چیز جسے مسلمان کمزوری سمجھ رہے تھے اور جس میں دین کی ذلت دیکھ رہے تھے، حق تعالیٰ نے اپنی حکمت بالغہ سے اسے ’فتح مبین ‘قرار دیا:
اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا(الفتح ۴۸: ۱) اے نبیؐ، ہم نے تم کو کھلی فتح عطا کردی۔
یعنی وہ صلح جس کو شکست سمجھا جارہا تھا، اللہ کے نزدیک وہ فتح عظیم تھی۔ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو جمع کیا اور فرمایا: ’’آج مجھ پر وہ چیز نازل ہوئی ہے، جو میرے لیے دنیا و مافیہا سے زیادہ قیمتی ہے‘‘۔ پھر یہ سورت تلاوت فرمائی اور خاص طور پر حضرت عمرؓ کو بلا کر سنایا، کیوںکہ وہ سب سے زیادہ رنجیدہ تھے۔
اور جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ آیت سن کر حضوؐر سے پوچھا : ’’یارسولؐ اللہ ! کیا یہی فتح ہے ‘‘۔
آپؐ نے فرمایا: ’ہاں ‘۔(ابن جریر)
ایک اور صحابیؓ حاضر ہوئے اور انھوں نے بھی یہی سوال کیا، تو آپؐ نے فرمایا: ’’قسم ہے اس ذات کی، جس کے ہاتھ میں محمدؐ کی جان ہے، یقینا یہ فتح ہے‘‘۔(مسنداحمد، ابوداؤد)
یہی ارشاد تھا جس نے مضطرب دل کو مطمئن کر دیا ___ ایمان اور ہے ہی کیا ؟ اللہ اور اس کے رسولؐ کی بات پر یقین واطمینان ___ اس کی تائید وتصدیق ___اور اس کے وعدے پر اعتماد اور پھر بھروسا!
اِنَّ وَعْدَ اللّٰہِ حَقٌّ وَّ لٰکِنَّ اَکْثَرَھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ (یونس ۱۰:۵۵) اللہ کا وعدہ سچا ہے، مگر اکثر انسان جانتے نہیں۔
شکست ، فتح میں بدل گئی
بے شک اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ ! یہی صلح جو بظاہر ذلت کا نشان معلوم ہوتی تھی دراصل فتح کا سبب ، اس کا پیش خیمہ اور ذریعہ بنی ___ ایک نہیں متعدد فتوحات کا ۔ !
پھر اگلے سال مسلمانوں نے پوری شان وشوکت کے ساتھ عمرہ کیا۔ چودہ سو کے بجاے دوہزار زائرین حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آئے ۔ مشرکین مکہ کو چھوڑ کر چلے گئے اور وہی جنھیں مکہ سے نکالا گیا تھا، سینہ تان کر اور سر حضورِ رب میں جھکا کر لبیک اللّٰھم لبیک لا شریک لک لبیک کہتے ہوئے داخل ہوئے___ اللہ اللہ ، کیا منظر ہوگا! سات سال کے بعد ترسی ہوئی آنکھوں نے بیت اللہ کا دوبارہ نظارہ کیا ہو گا، سوکھے ہوئے ہونٹوں نے حجرِ اسود کو چوما، اورخشک زبانوں نے آب زم زم سے دہن ودل کی پیاس بجھائی ہو گی!
کفار نے یہ افواہ اڑا دی تھی کہ مسلمان کمزور ہو گئے ہیں۔ اسی لیے حکم ہوا کہ طواف میں جب ان مقامات سے گزر و جو مشرکین کے سامنے ہیں تو تیز تیز چلو ، سینہ تان کر چلو، کندھے ہلائو ، اور اپنی قوت اور شان وشوکت کا مظاہرہ کرو ___ آج تک یہ چیز مناسک حج کا جزو ہے ۔
مکہ میں مسلمانوں کا یہ داخلہ فتح مکہ کی ریہرسل تھا___ ایک ہی سال بعد مسلمان فاتح کی حیثیت سے داخل ہوئے اور اللہ کا وعدہ پورا ہو گیا … اور یہ چھٹی فتح تھی!
فَعَسٰٓی اَنْ تَکْرَھُوْا شَیْئًا وَّ یَجْعَلَ اللّٰہُ فِیْہِ خَیْرًا کَثِیْرًا(النساء۴:۱۹) عجب نہیں کہ تم کسی چیز کو ناپسند کر و اور اللہ اس میں بہت سی بھلائی پیدا کر دے۔
میں سورئہ فتح کا مطالعہ نہیں کر رہا تھا، تاریخ میری آنکھوں کے سامنے گردش کر رہی تھی اور دل ودماغ کے فتح ابواب کا کام انجام دے رہی تھی۔ نئے نئے گوشے میرے سامنے ابھر رہے تھے۔ میں نے ذرا غور کیا تو معلوم ہوا کہ یہ سفر زیارت بیت اللہ کے لیے تھا، اسی کا اہتمام تھا، لیکن جو معاہدہ ہوا وہ خالص سیاسی تھا۔ دینی سفر کا سیاسی پہلو، زیارتِ کعبہ اور معاہدۂ صلح؟
اسلام میں دین وسیاست کس طرح ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں۔ طواف کے وقت بھی مسلمانوں کے دبدبے کو قائم کرنے کا خیال___ معروف اصطلاح میں سیاست، لیکن اس مقدس مقام پر بھی اس کا لحاظ ! قربانی کے اونٹ لائے گئے تو ان میں ابو جہل کا اونٹ بھی تھا، تا کہ مسلمانوں کی قوت معلوم ہو اور مشرکین کو کڑھن ہو___کیا اسے بھی سیاست کہیں گے؟___ افسوس ! اسلام کا جو امتیاز تھا، اب اس پر کچھ کور ذہنوں کو وحشت و شرمندگی ہونے لگی۔ نبیِؐ برحق نے تو دین اور سیاست کو ایک وحدت میں اس طرح سمو دیا تھا کہ ان میں کوئی فرق باقی نہ رہا تھا، وہ ایک ہی حقیقت کے دوپہلو بن گئے تھے۔ اور حیرت اس بات پر کہ ’ کم کوشوں ‘ نے اس حقیقت کو گم کر دیا۔
منافقین کا رول اس موقعے پربھی وہی تھا، جیسا ہمیشہ رہا ہے۔ وہ سمجھتے تھے کہ اللہ کا رسولؐ اور اس کے یہ ساتھی اب کیا واپس آئیں گے ___ خوش ہو رہے تھے___ چلو قصہ ختم ہوا، لیکن اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ وہ آئے بھی اور فاتح بھی ہوئے اور منافقین آگ پر لوٹنے لگے۔ مخالفینِ حق کے اندازے اللہ تعالیٰ ہمیشہ غلط کرا دیتا ہے اور بالآخر ان کو ہزیمت اٹھانا پڑتی ہے۔
اہلِ حق کی محبت کا اصل سر چشمہ اللہ اور اس کے آخری رسولؐ کی اطاعت ہے۔ ان کی طاقت باہمی محبت واخوت اور باطل اور ظلم کے لیے سختی میں ہے۔ ان کی کامیابی کا راز اللہ کے حضور سجدہ ریز ہونے ، اس سے مغفرت طلب کرنے اور صرف اسی پر بھروسا کرنے میں ہے۔ فتح کی خوش خبری کے ساتھ ہی ان کے جو اوصاف بتائے جا رہے ہیں، وہ یہی ہیں:
اَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآئُ بَیْنَھُمْ تَرٰھُمْ رُکَّعًا سُجَّدًا یَّبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰہِ وَرِضْوَانًا سِیْمَاھُمْ فِیْ وُجُوْہِھِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ (الفتح ۴۸: ۲۹) وہ کافروں کے حق میں تو سخت ہیں اور آپس میں رحم دل ہیں۔ تو ان کو دیکھتا ہے کہ خدا کے آگے جھکے ہوئے سربسجود ہیں اور اللہ کا فضل اور اس کی خوش نودی طلب کر رہے ہیں۔ کثرتِ سجود سے ان کی پیشانیوں پر نشان پڑے ہوئے ہیں۔
یہی وہ ہتھیار ہیں جن سے اہل حق اپنی لڑائی لڑتے اور بالآخر بازی جیتتے ہیں۔
___ ___ ___ ___ __
میں سورۃ الفتح کو پڑھ رہا تھا___ کئی بار اس کی تلاوت کی، میرے ذہن پر سے بوجھ اَب اُتر چکا تھا، تاریکیوں اور مایوسیوں کا ایک ایک پردہ اٹھ گیا اور اجالا پھیلنے لگا۔ میرے دل نے گواہی دی کہ حق کا پیغام باطل پرستوں کی ریشہ دوانیوں کے باوجود پھیلے گا اور ان شا اللہ غالب ہوگا۔ یہ نام کہیں مٹائے سے نہیں مٹتا !___ راہ میں نشیب وفراز تو بہت سے ہیں، لیکن آخری کامیابی حق ہی کی ہے___ اور ایک نہیں بہت سی کامیابیاں ہیں۔
حق سے وابستگی اور اس پر استقامت خود اپنی جگہ ایک کامیابی ہے۔ مایوسیوں کے عالم میں اللہ کی ذات بابرکات پر اطمینان اور اس کی سکینت کا نازل ہونا بھی ایک کامیابی ہے۔ نتائج سے بے پروا ہو کر حق کے لیے ڈٹ جانا ایک کامیابی ہے، پھر غلبۂ حق بھی ایک کامیابی ہے ___ اور سب سے بڑی کامیابی تو اللہ کا راضی ہو جانا ہے۔ اگر وہ حاصل ہو جائے تو سب کچھ حاصل ہو گیا !
غم اورپریشانی کے بادل اَب چھٹ چکے تھے، اطمینان اور سکون کی ایک نئی دولت سے دل مالا مال تھا، فَالْحَمْدُ لِلہِ عَلٰی ذٰلِکَ۔
میں اپنے آپ کو خوش نصیب سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے ایسے گھر میں پیدا کیا جو مسلمان گھرانا تھا، جہاں ہر آن اچھائی اور خیر کا ماحول غالب تھا۔ پھر ایسے ماں باپ میسر آئے، جنھوں نے شروع ہی سے ایک خاص رُخ پر تربیت کی۔ بچپن ہی سے علمی، دینی اورادبی ماحول ملا ۔ ہم قرول باغ، دلّی میں رہتے تھے اور جامعہ ملیہ بھی قریب ہی تھی۔ ہر سال ’محمد علی جوہر ٹرافی‘ کے مقابلے ہوا کرتے تھے، جس میں بچوں کے لیے الگ اور بڑوں کے لیے الگ کھیلوں، نظمیں پڑھنے اور تقریروں کے مقابلے ہوتے تھے۔ میں نے سات آٹھ سال کی عمر ہی سے نظمیں پڑھنے اور مباحثوں میں حصہ لینے کے ساتھ، کھیلوں میں بھی شرکت شروع کی۔ اس تین روزہ ٹرافی پروگرام کے دنوں میں وہیں ٹھیرنا پڑتا اور زمین پر سونا ہوتا تھا۔ یہ کیمپنگ میری زندگی کا بڑا دل چسپ اور سبق آموز تجربہ تھا۔
انگریزی راج سے آزادی کے لیے جدوجہد میں شرکت، ہندو مسلم فسادات کا دل گرفتہ کرنے والا تذکرہ اور تجربہ، اور قیامِ پاکستان کی تحریک میری ابتدائی زندگی کے نقوش ہیں۔۱۹۴۲ء میں تحریکِ آزادی کو قوت سے کچلنے کی کوشش کو بچشمِ سر دیکھا اور ۴۶-۱۹۴۵ء کے انتخابات کا مشاہدہ بھی کیا۔ میرا پورا خاندان آل انڈیا مسلم لیگ سے وابستہ تھا اور میں بچوں کی انجمن ’بچہ مسلم لیگ‘ دہلی کا سب سے کم عمر صدر منتخب ہوا تھا۔ اینگلو عریبک ہائیر سیکنڈری اسکول میں ثانوی تعلیم حاصل کی۔ یاد رہے کہ یہ اسکول تحریکِ پاکستان کا مرکز تھا اور اس کی بزمِ ادب کا سیکرٹری بننے کا بھی مجھے شرف حاصل ہوا۔ پاکستان کی تائید کے لیے ہمارے جلوس ہر ہفتے اسمبلی کی طرف جایا کرتے تھے۔ ۱۹۴۵ء کے الیکشن میں ہم نے شب وروز کوشش کی۔ ڈاکٹر عبدالغنی قریشی دلّی میں ہمارے اُمیدوار تھے، وہ میرے والد کے گہرے دوست تھے۔ انتخابات میں وہ کامیاب بھی ہوئے۔
۳جون ۱۹۴۷ء کو قائداعظم کی تقریر میں نے ریڈیو سے اپنے کانوں سے سنی اور ’پاکستان زندہ باد‘ کا نعرہ سنا اور لگایا بھی۔ اس کے بعد ۳ستمبر ۱۹۴۷ء کو ہمارے گھرپر حملہ ہوا، ہمیں فی الفور گھر چھوڑنا پڑا۔ ہم گھر سے اس حالت میں نکلے کہ جو کچھ ہمارے بدن پر تھا یا ہاتھوں میں تھا، بس اسی کو ہم اپنے ساتھ لاسکے۔ ہمارا گھر لوٹا اور جلایا گیا ۔ پھر ہم مسلم اکثریت کے محلے باڑہ ہندو رائو منتقل ہوگئے۔ جہاں ہم نے پناہ لی تھی، وہاں پر بھی جلد ہی حملہ ہوا۔ اس صورتِ حال میں کئی راتیں ایسی گزریں کہ پوری پوری رات ہم جاگے اور ایک مکان سے دوسرے مکان میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک رات میں ہم نے چھے جگہیں بدلی تھیں۔ انھی راتوں میں ایک وہ رات بھی تھی، جب میں نے انسانی چربی جلنے کی بدبو سونگھی۔ پھر میں اپنے والدین کے ساتھ ایک ماہ تک مہاجر کیمپ میں بھی رہا۔ ہمایوں کے مقبرے میں بھی رہنا پڑا۔ یہاں اگرچہ ہم عملاً خود مقید تھے، اس کے باوجود ہم بے گھر لوگوں کی بساط بھر خدمت کرتے رہے۔ الحمدللہ، میرے والد متمول لوگوں میں سے تھے، اس لیے ہم نے ہوائی جہاز سے پاکستان آنے کا فیصلہ کیا۔ یوں ہمارے خاندان کا ایک حصہ دسمبر۱۹۴۷ء میں پاکستان پہنچا اور میں خود اپنے والدین کے ساتھ ۱۲فروری ۱۹۴۸ء کو پاکستان منتقل ہوا۔ وہ دن اور آج کا دن، میں نے دہلی کی وہ جگہیں یا اپنا گھر پھر نہیں دیکھا۔
بڑے بھائی ضمیراحمد مجھ سے پہلے پاکستان آگئے تھے، انھیں ایف سی کالج لاہور میں داخلہ مل گیا۔میں چونکہ فروری میں پاکستان آیاتھا اور تعلیمی سال کئی ماہ پہلے شروع ہوچکا تھا، اس لیے داخلہ نہیں ملا۔ ان دنوں لاہور میں تعلیم الاسلام کالج میں داخلہ کھلا ہوا تھا۔ چنانچہ میں وہاں داخل ہوا۔ اتفاق سے وہاں میرے کلاس فیلو بہار سے آئے ہوئے اقبال احمد تھے۔ ہم دونوں کلاس فیلو اور اچھے دوست تھے۔ وہیں ہمیں پہلی مرتبہ سوشلزم اور اسلام کے بارے میں بات چیت کرنے کا موقع ملا۔ اقبال صاحب بعد میں ایک سوشلسٹ دانش وَر کی حیثیت سے معروف ہوئے۔ ہم لوگ کہا کرتے تھے کہ نوجوانوں کا مستقبل یا سوشلزم ہے یا اسلام۔ وہ سوشلزم کی طرف چلے گئے، اور یہ اللہ کا کرم ہے کہ مَیں اسلام کی طرف آگیا۔
۱۹۴۹ء میں پہلی مرتبہ مولانا مودودی کی تحریروں سے آشنا ہوا۔ الحمدللہ، ہم پہلے سے روایتی دینی زندگی تو گزارتے آرہے تھے، لیکن یہ فہم کہ اسلام کیسا انسان چاہتا ہے؟ اسلام کیسا معاشرہ چاہتا ہے؟ اسلام زندگی کو کس سمت میں لے جانا چاہتا ہے؟ اس کا ہمیں کوئی زیادہ شعور نہیں تھا۔ اس چیز کا شعور ۱۹۴۹ءکے وسط میں اس وقت ہوا، جب مَیں اسلامی جمعیت طلبہ سے متعارف ہوا۔ پھر ۱۹۵۰ءمیں مَیں اسلامی جمعیت طلبہ کا رکن بنا اور فوراً بعد کراچی جمعیت کا ناظم منتخب ہوگیا۔ اس کے بعد ناظم سندھ جمعیت اور بعد میں اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کا ناظم اعلیٰ منتخب ہوا۔ اُس زمانے میں ہم نے اسکولوں کے طلبہ کا جو حلقہ مدارس بنایا، اس میں شیخ محبوب علی، مسلم سجاد، تنظیم واسطی اور انیس احمد وغیرہ شامل تھے۔ برادرم عبداللہ جعفر صدیقی اس پورے پراجیکٹ کے انچارج اور روح رواں تھے۔ مجھے اس پورے گروپ کے اسٹڈی سرکل چلانے اور ان کو تحریک اور ملکی اور عالمی تناظر سے متعارف کرانے کی سعادت حاصل ہوئی۔ یہ بات ہے ۱۹۵۱ء، ۱۹۵۲ء کی۔
یہاں ایک بار پھر اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے ایک ایسے گھرانے میں پیدا کیا، جو دینی، ملّی اور علمی ذوق رکھتا تھا۔ اس ماحول نے میری زندگی کو ایک رخ پر ڈالا اور تحریک اسلامی کو جاننے کی توفیق عطا فرمائی۔ تحریکِ اسلامی جس دعوت کو لے کر کارزارِ حیات میں سرگرم ہے، اسلامی تاریخ میں یہ کوئی نئی بات نہیں، بلکہ یہ دعوت اور سرگرمی دورِ رسالتؐ سے ترقی اور آزمایش کی منزلوں کے ساتھ جاری و ساری ہے۔ بلاشبہہ ہر دور میںا س کے لیے چیلنج اور چیلنج سے نبردآزما ہونے کے وسیلے اور اس کی شکلیں بدلتی رہی ہیں، مگر دعوت کا مرکز اللہ کی طرف بلانا، رسولؐ کی اطاعت، اور تزکیہ نفوس اصل بنیاد کے طور پر کارفرما رہا ہے اور انفرادی اصلاح کے ساتھ اجتماعی جدوجہد اس کی امتیازی شناخت رہے ہیں۔
اوّل: ۲۳مارچ ۱۹۴۰ء کو قرارداد پیش ہوئی، جو سیرحاصل بحث کے بعد منظور کی گئی۔ اگرچہ سیاسی و اجتماعی زندگی میں قراردادیں بہت سی پیش ہوتی ہیں اورقبول بھی ہوتی ہیں، لیکن وہ قراردادیں جو تاریخ کے رخ کوموڑ دیں، وہ بہت کم ہوتی ہیں۔ اس پہلو سے ۲۳ مارچ ۱۹۴۰ء کی قراردادِ لاہور کا منظورہونا ایک بڑے اہم اور تاریخی فیصلے کی بنیاد بنا۔
دوم: اسی تسلسل میں دوسری بڑی اہم قرارداد، اپریل ۱۹۴۶ء میں دلّی میں ہمارے اسکول کے کیمپس میں مسلم لیگ کے منتخب ارکان قومی و صوبائی اسمبلیوں کے کنونشن کی قرارداد ہے، جو ۲۳مارچ ۱۹۴۰ء کی قرارداد کی تکمیل، اس کی تشریح اور تعبیر اور اسے عملی شکل دینے کا ذریعہ بنی۔ اس قرارداد کے ساتھ ایک عہدنامہ بھی تھا، جس پر تمام منتخب ارکان اسمبلی نے دستخط کیے، اور اس میں تحریک ِ پاکستان کے محرک اور منزل دونوں کا معتبرترین تصور ہمیشہ کے لیے متعین اور محفوظ کر دیا گیا۔
اس سلسلے کا تیسرا سنگ ِ میل قراردادِ مقاصد ہے، جو پاکستان کی دستورساز اسمبلی میں ۹مارچ ۱۹۴۹ء کو پیش ہوئی اور ۱۲مارچ ۱۹۴۹ء کو منظور ہوئی۔ پاکستان کی پہلی دستورسازاسمبلی جو پاکستان بنانے کی جدوجہد میں ہراول دستہ تھی، اور جسے پوری قوم نے یہ کام سونپا تھا کہ ملک کا مستقبل، اس کا آیندہ کانظام ، اس کا دستور، اس کی منزل متعین کرے۔ یہ قرارداد اسی اسمبلی کا کارنامہ تھی۔
چوتھا سنگ ِ مل ۱۹۵۶ء کا متفقہ دستورِ پاکستان تھا۔ اس دستور کا نفاذ بھی ۲۳مارچ ۱۹۵۶ء کو ہوا اور ملک کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان متعین کیا گیا۔ یہ ہماری تاریخ کا بہت بڑا سانحہ ہے کہ مسلح افواجِ پاکستان کے سپہ سالار جنرل محمد ایوب خان نے اکتوبر ۱۹۵۸ء میں اس دستور کو منسوخ کردیا۔ ۱۹۵۶ء کا دستور آج بھی پاکستان میں دستور سازی کی تحریک اور تاریخ کا سنگِ بنیاد ہے۔ منسوخی کے باوجود، بعد میں جتنے دساتیر بنے، وہ اس بنیاد سے نہ ہٹائے جاسکے، جو بنیاد اس دستور نے فراہم کی تھی۔
پاکستان میں دستور سازی کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ جنرل ایوب خان نے ۱۹۵۶ء کے متفقہ دستور کو منسوخ کرنے کے ساتھ ہی یہ اعلان بھی کیا تھا کہ پاکستان ایک سیکولر ریاست ہوگا، نیز ان کے اس وقت کے شریکِ کار صدر اسکندر مرزا صاحب سے منسوب یہ بات بھی زبان زدعام کی گئی تھی کہ وہ لوگ جو اسلامی دستور کی بات کرتے ہیں ان کو کشتیوں میں بٹھاکر بحیرۂ عرب کی لہروں کے سپرد کردیا جائے گا۔ البتہ مشیت اور تاریخ کا فیصلہ کچھ اور تھا۔ فوجی انقلاب کے ایک ماہ کے اندر ہی اسکندر مرزا کو اقتدار سے ہٹا دیا گیا، اور پھر اسلام کے داعیوں کو نہیں بلکہ خود ان کو سمندرپار رخصت کر دیا گیا، فَاعْتَبِرُوْا یٰٓاُولِی الْاَبْصَارِ۔
۱۹۶۲ء میں انھی فیلڈ مارشل ایوب خان نے ملک کو دستور دیا۔ جس میں ملک کا نام ’اسلامک ری پبلک آف پاکستان‘ (اسلامی جمہوریہ پاکستان) کے بجاے ’ری پبلک آف پاکستان‘ (جمہوریہ پاکستان) تھا، اور اس میں سے قراردادمقاصد کے چند نمایاں دینی پہلو نکال دیے گئے۔ ۱۹۵۶ء کے دستور میں جو ایک دفعہ تھی کہ: ’’کوئی قانون سازی قرآن وسنت کے خلاف نہیں ہوگی‘‘ اسے بھی تحلیل کردیا گیاتھا۔ بہرحال فوجی اقتدار کے زور پر ۱۹۶۲ءمیں یہ دستور نافذ کیا گیا۔ اس کے تین ماہ بعد پاکستان کی قومی اسمبلی بنی اور اس اسمبلی کے اندر جو پہلی بھرپور بحث ہوئی وہ ’سیاسی پارٹیوں کے قانون‘ پر ہوئی تھی۔ اس اسمبلی نے اس قانون میں زور دے کر یہ شق شامل کی تھی کہ پاکستان کی ہرسیاسی پارٹی کے لیے لازمی ہوگا کہ وہ اسلامی آئیڈیالوجی سے مطابقت رکھے۔ اس پر بحث کے دوران سیکولر طبقے نے ایڑی چوٹی کا زور لگادیا کہ اسلامی نظریے اور اس سے مطابقت کی شرط قانون میں نہ آئے، مگر اس میں انھیں بُری طرح شکست ہوئی اور ایوب خان کے دستور ہی کے تحت بننے والی اسمبلی نے سیکولرزم کو مسلط کرنے کی سازش کو شکست دی اور پاکستان کی اسلامی شناخت کو بحال اور تحفظ دینے کا اہتمام کیا۔
واضح رہے کہ اس وقت جسٹس محمد منیر وزیرقانون تھے اور یہ اس قانون کو پیش کررہے تھے۔ یہاں یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ ہماری اعلیٰ عدلیہ میں منیرصاحب جیسا فرد بھی موجودتھا، جس نے پاکستان کی اسلامی بنیاد اور شناخت پر ضرب لگانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ، لیکن بالآخر اس کو منہ کی کھانا پڑی اور اس کی بھی دیانت کا پردہ چاک ہوگیا۔ واضح رہے کہ انھوں نے اپنی کتاب From Jinnah to Zia میں لکھا ہے کہ: ’’اسلامی آئیڈیالوجی یا پاکستان آئیڈیالوجی کا لفظ جنرل ضیاء الحق نے متعارف کرایا‘‘۔ لیکن آپ ۱۹۶۲ء کی اسمبلی کی کارروائی اٹھا کر پڑھ لیں۔ اس شخص نے سب سے پہلے تو اسلامک آئیڈیالوجی کے الفاظ کی نفی کی۔ لیکن پھر جب اسمبلی نے اصرار کیا کہ ہم یہ رکھیں گے تو اس نے یہ کہاکہ:’’سلکیٹ کمیٹی نے آئیڈیالوجی آف پاکستان کی تعریف بطور اسلام کی ہے، تاہم میں اس سے بے تعلق ہوں کہ آئیڈیالوجی ہونا چاہیے یا نکال دینا چاہیے، یا اس کی تعریف بطور اسلام کی جانی چاہیے‘‘ ( قومی اسمبلی رُوداد، ۱۱جولائی ۱۹۶۲ء)۔ یہی جسٹس منیرصاحب اگلے روز کہتے ہیں: ’’میں نے اس معاملے پر خوب غوروفکر کیا ہے اور میں یہ قرارداد پیش کرتا ہوں کہ آئیڈیالوجی کے الفاظ کو شامل کرنا کسی بھی طرح اقلیتوں کی مذہبی آزادی کو متاثر نہیں کرے گا اور یہ اقلیتوں کو اجازت دے گا کہ وہ اپنی سیاسی سرگرمیوں کو ایسے پروپیگنڈے میں تبدیل نہ کریں جو اسلامی تعلیمات کے خلاف ہوں‘‘(ایضاً، ۱۲جولائی ۱۹۶۲ء)۔ یہ الفاظ تھے پاکستان میں سیکولرزم کے علَم بردار جسٹس محمد منیر کے اور ہماری تاریخ کاحصہ ہیں۔
۱۹۶۲ ء کے دستور میں پہلی آئینی ترمیم ہوئی تو وہ یہ تھی کہ پاکستان کا نام ’اسلامک ری پبلک آف پاکستان‘ ہوگا۔ قرارداد مقاصد کو ان الفاظ کے ساتھ، جن میں وہ مارچ ۱۹۴۹ء میں پاس ہوئی تھی بحال کیاگیا اور دستورکی یہ شق کہ: ’’قرآن وسنت کے خلاف کوئی قانون سازی نہیں ہوگی‘‘، اسے بھی اصل شکل میں بحال کیاگیا۔ یہ تینوں چیزیں ۱۹۶۴ء میں اس وقت منظور ہوئیں، جب مَیں اور جماعت اسلامی کی پوری مرکزی قیادت جیل میں تھی۔
اسلامی آئیڈیالوجی کا یہی تسلسل ۱۹۷۳ء کے دستور میں بھی ملے گا۔ یاد رہے کہ جب اس کا پہلا ڈرافٹ پیپلزپارٹی نے پیش کیا تو اس میں ملک کو سوشلسٹ ری پبلک آف پاکستان قرار دیاگیا۔ مجوزہ آرٹیکل ۳یہ تھا کہ: ’’پاکستان ایک سوشلسٹ ریاست ہوگی‘‘ مگر پیپلز پارٹی نے عوام کی اسلام سے وابستگی کا احترام و اعتراف کیا۔ بالآخر ایک محدود، لادین اور سوشلسٹ اقلیت کی راے پر عوام کی اُمنگوں کو ترجیح دی۔ پھر دستور کے اندر وہ تمام اسلامی شقیں جو ۱۹۵۶ء کے دستورکاحصہ تھیں، ان کو اور زیادہ بہتر انداز سے دستور کا حصہ بنالیا۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ ۱۹۷۳ء کا دستور بنیادی طور پر ایک اسلامی، جمہوری، فلاحی اور ایک وفاقی دستور ہے۔ یہ دستور مذکورہ چاروں خوبیاں رکھتا ہے اور یہ دستور بھی ۱۰اپریل ۱۹۷۳ء کو منظور ہوا۔ اور ۱۴اگست ۱۹۷۳ء کو نافذالعمل ہوا۔ اس طرح ۲۳مارچ ۱۹۴۰ء میں جس سفر کا آغاز ہوا تھا، اور جس کے نتیجے میں اپریل ۱۹۴۶ء، مارچ ۱۹۴۹ء اور مارچ ۱۹۵۶ء میں ایسے سنگ ہاے میل طے کیے تھے کہ جن سے ہمیشہ کے لیے پاکستان کی شناخت اور منزل کا تعین ہوگیا۔
اس ضمن میں یہ نکتہ بھی گوش گزار کرنا چاہتا ہوں کہ مارچ ۱۹۴۰ء کی قرارداد کی حقیقت کو سمجھنا بہت ضروری ہے مگر بدقسمتی سے آج کل ایک خاص گروہ کی طرف سے اس کی غلط تشریح کی جارہی ہے۔
بنیادی بات یہ ہے کہ مسلمان پہلے دن سے ایک نظریاتی امت ہیں۔ اس اُمت کی بنیاد رنگ پر نہیں، نسل پرنہیں، زبان پر نہیں ، خطے پر نہیں ہے، مفادات پر بھی نہیں ہے، حتیٰ کہ مشترکہ تاریخ پر بھی نہیں ہے، بلکہ اس کی بنیاد عقیدے اور ایمان پر ہے ۔ اس کی بنیاد نظریے پر ہے، جو قرآن وسنت سے ماخوذ ہے۔ یہی ہماری شناخت ہے مگر ہماری قیادتوں نے نہ صرف یہ کہ اس کا احترام نہیں کیا ہے، بلکہ عملاً اس سے انحراف بھی کیا ہے۔
برعظیم میں آنے والا پہلا مسلمان محمد بن قاسم نہیں تھا، بلکہ دورِ رسالت مآبؐ میں صحابۂ کرامؓ سندھ میں تشریف لائے تھے۔ ان کے بعد محمد بن قاسم آئے اور اسلامی حکمرانی قائم ہوئی۔ پھر شمال سے مسلمان آئے تو مسلمانوں کے اقتدار کا دور شروع ہوا۔
تاریخ کا کوئی بھی منصف مزاج طالب علم اور اسکالر یہ کبھی نہیں کہہ سکتا کہ برعظیم پاک و ہند کے پورے دور میں کبھی مسلمانوں نے اسلام دوسروں پر زبردستی مسلط کیا۔ یہی نہیں بلکہ ہندوئوں کے ذات پات کے نظام اور ستّی کے رواج سے شدید اختلاف اور انقباض کے باوجود اسے ختم کرنے کے لیے سرکاری طاقت کا استعمال کرنے سے اجتناب برتا اور افہام و تفہیم کا راستہ اختیار کیا۔ زبردستی مذہب قبول کرنے کاکوئی تاریخی واقعہ نہیں ملتا۔ اورنگ زیب عالم گیر کے بارے میں جو باتیں کہی گئی ہیں، وہ صریح تاریخی جھوٹ ہے۔ اس کی تردید خود بھارت کے غیرمسلم محققین نے کی اور کررہے ہیں۔
مسلمانوں نے اپنے تشخص اور اپنی اجتماعی زندگی کی بہتری کے لیے ادارے قائم کیے اور غیرمسلموں کو بھی پورا پورا موقع دیا کہ وہ اپنے عقیدے اور روایات کے مطابق کام کریں۔ صرف دعوت وتبلیغ سے برہمن ازم میں دراڑیں پڑیں اور لوگ اس کے چنگل سے نکل آئے۔علماے کرام اور صوفیاے عظّام نے اس سلسلے میں بڑی روشن اور تاب ناک خدمات انجام دیں۔ تاہم، مسلمانوں کی طرف سے کوئی واقعہ ظلم وجبر کا اس زمانے میں نہیں ملتا اور ریاستی قوت کے ذریعے کبھی اسلام کو مسلط کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں تک بھی تاریخ کا مطالعہ کریں مسلمانوں کے پورے دورِ حکمرانی میں ہندو مسلم فسادات کاکوئی تصور نہیں ملتا۔ بلاشبہہ ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان جنگیں ہوئی ہیں، مگر اس کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ مسلمانوں کی وسعت ِ قلبی اور حُسنِ سلوک کے باعث مسلمانوں کی فوج میں ہندو جرنیل اور ہندو سپاہی بھی رہے۔ مسلمان سلاطین کی حکومتوں، وزارتوں اور انتظامیہ میں بھی ہندو رہے، کبھی کم اور کبھی زیادہ، لیکن ہندوئوں پر اعتماد کیا گیا اور بعض اوقات انھیں اہم ذمہ داریاں بھی سونپی گئیں۔
پہلی مرتبہ ۱۹ویں صدی کے آخری عشرے میں یہ تذکرہ سامنے آنا شروع ہوتا ہے کہ مسلمانوں اور ہندوئوں میں فاصلے بڑھ گئے ہیں۔ اس وقت سے برطانیہ نے آپس میں لڑانے کے لیے رسوخ پیدا کرلیا تھا۔ اس سے قبل ہم البیرونی کا سفرنامہ پڑھتے ہیں، جس میں اس نے بتایا ہے کہ ہندستان کے ہندوکیسے ہیں، بدھ مت کے پیروکار کیسے ہیں، مسلمان کیسے ہیں اور کس طرح باہم رہتے بستے ہیں؟ یہ ہماری تاریخ ہے جس میں ایک طرف مسلمانوں نے اپنی شناخت کو محفوظ کیا اور چارچاند لگائے ہیں، تو دوسری طرف دوسروں کی شناخت کی بھی حفاظت کی ہے۔ اس طرح ایک حقیقی تکثیری (Pluralistic) معاشرے کو تاریخ میں قائم کرکے روشن مثال پیش کی ہے۔
بلاشبہہ تاریخ میں نشیب و فراز کا ظہور ایک حقیقت ہے، اور جو لوگ اقتدارمیں رہے، ان میں اچھے بھی تھے اور بُرے بھی ۔ وہ بھی رہے ہیں جنھوں نے اسلام کانفاذ کیا ، اسلامی نظام کو ترویج دیا، اور وہ بھی رہے جنھوں نے اسلام سے اِعراض کیا اور اس کی تعلیم کو اور تاریخ کو بھی بدلنے کی کوشش کی۔ لیکن دو چیزیں مشترک اور محکم ہیں: ایک یہ کہ اپنی نظریاتی ، دینی اور تہذیبی شناخت کا تحفظ و ترقی، اور دوسرے یہ کہ اوروں کی تہذیب اور معاشرتی روایات کا احترام، اور دین کے معاملے میں جبر سے اجتناب۔
تاریخ یہ بتاتی ہے کہ بیرونی قوت نے جب کسی ملک پر قبضہ کیا اور وہاں حکمرانی کرنے کے بعد کسی وجہ سے اسے جانا پڑا، تو جاتے ہوئے اُس نے اقتدار اسی طبقے کو دیا، جن سے اقتدار چھینا تھا۔ یہ تاریخ کی روایت تھی۔ اسی لیے مسلمانوں کو یہ گمان تھا کہ انگریز جب جائے گا تووہ اقتدار ہم کو دے کر جائے گا، کیوں کہ اس نے ہم سے اقتدار چھینا تھا، اس لیے ہم ہی آئیں گے۔ پھر آزادی کی تحریک میں بھی مسلمان پیش پیش تھے۔ اسی پس منظر میں ۱۸۵۷ء کا واقعہ ہوا اور اس سے پہلے تحریک ِ مجاہدین کی جدوجہد ، بنگال میں فرائضی تحریک یا اس کے بعد کے سرفروشانہ واقعات ہوں___ تاہم، آہستہ آہستہ مسلمانوں پر یہ حقیقت روشن ہوگئی کہ اب جمہوریت کادور ہے اور یہ گنتی کا معاملہ ہے۔ اس میں جس کی تعداد زیادہ ہوگی وہی حاوی (dominate) ہوگا۔ میونسپل ریفارمز کی تحریک ہندستان میں ۱۸۹۰ء کے عشرے میں شروع ہوگئی تھی۔ سرسیداحمدخاں ان پہلے لوگوںمیں سے ہیں، جنھوں نے اس کا ادراک کیا۔ انھوں نے کہا کہ مسلمانوں اور غیرمسلموں کے سیاسی مستقبل کی ازسرِنو تشکیل کرنی پڑے گی، وگرنہ مسلمان اس خیال میں تھے کہ ہم غالب آجائیں گے۔
خوش قسمتی یا بدقسمتی کے ملے جلے رنگوں کے ساتھ تحریکِ خلافت جیسی پہلی عوامی تحریک کا کردار ہے۔ اس تحریک کا نیوکلیس اور جوہر مسلمان ہی تھے۔ یہ ایک ایسی عوامی تحریک تھی جس میں کئی لاکھ افراد شامل تھے اور اس کی قیادت مسلمان کررہے تھے۔ ہندوئوں نے محسوس کیا کہ اگر یہ عوامی تحریک ہی آزادی کی تحریک بن جاتی ہے او رمسلمان اس کی قیادت کرتے ہیں تو سیاسی نقشہ مختلف ہوگا۔ یہ تھی وہ چیز جس کے سبب انڈین نیشنل کانگریس اور دوسری ہندو تنظیموں نے ایک جارحانہ ہندو قوم پرستانہ حکمت عملی تیار کی۔ سرسیّد احمد خاں مرحوم کے دیے ہوئے شعور کے مطابق مسلمان یہ بات سمجھنے لگے تھے کہ عددی اکثریت کی موجودگی سے مسلمانوں کو نقصانات پہنچیں گے۔
اسی احساس کے تابع ۱۹۰۶ء میں آل انڈیا مسلم لیگ، ڈھاکہ میں قائم ہوئی۔ بنیادی مقصد یہ تھا کہ مسلمانوںکے مفادات کاتحفظ ہو۔ مسلمانوں کو ان کی ثقافت، ان کے دین اور ان کی تعلیم و معاشرت اور ان کی روایات، ان کے حقوق سے آگاہی ہو۔ اس طرح مسلم لیگ ۱۹۰۶ء سے لے کر ۱۹۳۶ء تک محض مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ کرنے کے لیے آواز بلند کرتی رہی۔ اس عرصے میں ایک بڑا اہم سنگ ِ میل دسمبر۱۹۱۶ء کا ’میثاقِ لکھنؤ ‘ ہے۔ پھر اگست ۱۹۲۸ء میں ’نہرو رپورٹ‘ آئی، جو واضح طور پر ہندو مفادات کی محافظ تھی۔ اس کے جواب میں قائداعظم کی زیرصدارت مسلم لیگ نے مارچ ۱۹۲۹ء میں ’۱۴نکات‘ پیش کیے، جو مسلم مفادات کے تحفظ کی نہایت اہم دستاویز تھی، جو آگے چل کر قیامِ پاکستان کی بنیاد بنی۔ اس میں جداگانہ انتخاب، مسلمانوں کے جداگانہ وجود کے تحفظ کا وسیلہ بنے۔ یہ اقدامات مسلمانوں کا سیاسی وزن بڑھانے کے لیے کیے گئے۔ پھر ان کے سیاسی، تعلیمی اور معاشرتی حقوق کے تحفظ کو زبان دی گئی۔ یاد رہے کہ سائمن کمیشن رپورٹ ۱۹۳۰ء کو ہندوئوں نے جس طریقے سےاستعمال کیا اور جس طرح یہ واضح کر دیا کہ ہندو غلبہ ہی ہندستان کاسیاسی مستقبل ہوگا، تو یہ تھا وہ موقع جب مسلمان ہل گئے اور پھر انھوں نے ایک نئی حکمت ِعملی وضع کی۔ آخری منزل جن کی دو قومی نظریے کے تحت مسلمانوں کے لیے جداگانہ اور آزاد ملک کا حصول ٹھیرا۔
غالباً ۱۸۸۸ء میں عبدالحلیم شررنے اس پہلو پر ایک متعین شکل میں توجہ دلائی تھی۔ اُن سے لے کر کے ڈاکٹر سیّدعبداللطیف تک تقریباً ۱۷۰ افراد نے کھل کرکے یااشارتاً،سیاسی زبان میں یا علمی اسلوب میں تقسیمِ ہند اور دو قومی نظریے کی بات کی۔ لیکن اس میں فیصلہ کن چیز ۱۹۳۰ء میں علامہ محمد اقبال کا خطبۂ الٰہ آباد ہے۔ اس میں علامہ اقبال نے اپنی سوچ کو بڑی قوت اور دلیل کے ساتھ اور دردمندی اور سیاسی فہم و فراست کے ساتھ پیش کیا ہے۔ خود میری نگاہ میں قراردادِ پاکستان کی صورت گری کے مرحلوں کو سمجھنے کے لیے ۱۹۳۰ء کاخطبۂ اقبال ایک جوہری حیثیت رکھتا ہے۔ اس کو اگر آپ تنقیدی نگاہ سے دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ یقینی طورپر اقبال نے بڑے دُور رس اثرات کے حامل امکانات کا نقشہ واضح کیا تھا۔
اقبال نے اپنے خطاب میں کہا تھا: ’’یہ ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ بہ حیثیت ایک اخلاقی نصب العین اور نظامِ سیاست، اس آخری لفظ سے میرا مطلب ایک ایسی جماعت ہے، جس کا نظم و انضباط کسی نظامِ قانون کے ماتحت عمل میں آتا ہو، لیکن جس کے اندر ایک مخصوص اخلاقی روح سرگرمِ کار ہو۔ اسلام ہی وہ سب سے بڑا جزوِ ترکیبی تھا، جس سے مسلمانانِ ہند کی تاریخِ حیات متاثر ہوئی۔ اسلام ہی کی بدولت مسلمانوں کے سینے ان جذبات سے معمور ہوئے، جن پر جماعتوں کی زندگی کا دارومدار ہے۔ ہندستان میں اسلامی جماعت کی ترکیب صرف اسلام کی رہینِ منت ہے‘‘۔
آگے چل کر انھوں نے یہ بھی کہا تھا: ’’میں دوسری قوموں کے رسوم و قوانین اور ان کے معاشرتی اور مذہبی اداروں کا دل سے احترام کرتا ہوں، بلکہ بہ حیثیت مسلمان میرایہ فرض ہے کہ اگر ضرورت پیش آئے تو قرآنی تعلیمات کے حسب ِ اقتضا، میں اُن کی عبادت گاہوں کی حفاظت کروں۔ تاہم، مجھے اس انسانی جماعت سے دلی محبت ہے، جو میرے طور طریقوں اور میری زندگی کا سرچشمہ ہے۔ جس نے اپنے دین اور اپنے ادب، اپنی حکمت اور اپنے تمدن سے بہرہ مند کر کے مجھے وہ کچھ عطا کیا، جس سے میری موجودہ زندگی کی تشکیل ہوئی۔ یہ اُسی کی برکت ہے کہ میرے ماضی نے ازسرِنو زندہ ہوکر مجھ میں یہ احساس پیدا کر دیا ہے کہ وہ اب میری ذات میں سرگرمِ کار ہے‘‘۔
دوسری طرف ہم قائداعظم کے ہاں تدریج دیکھتے ہیں۔ قائداعظم پہلے ’ہندو مسلم اتحاد‘ کے نقیب تھے۔ لیکن جب انھوں نے محسوس کیا کہ ہندو قوم اور قیادت کے اصل عزائم کیا ہیں؟ تو وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ اس مصنوعی ’اتحاد‘ میں مسلمانوں کا مفاد نہیں۔ ۱۹۲۹ء سےلے کر ۱۹۳۶ء تک وہ اس موقف پر واضح اور مطمئن ہوگئے کہ مسلمانوں کے لیے الگ ریاست ضروری ہے۔ ۱۹۳۷ء کے انتخابات اور ہندوئوں کی زیادتیوں نے اس موقف کو مزید تقویت دی۔
یہ ہے وہ پس منظر ، جس میں مارچ ۱۹۴۰ء میں قراردادِ لاہور پاس ہوئی۔ اس میں پہلی بات یہ کہی گئی ہے کہ مسلمان ایک قوم ہیں، ان کا اپنا نظام ہے۔ اس حیثیت سے ان کا سیاسی مستقبل بھارت یاہندوئوں کے ساتھ مل کر چلنے میںنہیں ہے، انھیں اپناراستہ الگ نکالنا چاہیے۔ دوسری بات یہ کہ جن جن صوبوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے، ان پر مبنی مسلمانوں کی ایک ریاست بنادی جائے۔ قرارداد میں لفظ states استعمال ہوا ہے۔ گمان غالب یہ ہے کہ قرارداد کے مختلف مسودے تھے، جن میں اسے آخری شکل دی گئی۔ جمع کے اس صیغے کو ٹائپ کی غلطی یا تسوید کا ابہام ہی قرار دیا گیا، ورنہ یہ کیسے ممکن تھا، قیامِ پاکستان تک کبھی ایک سے زیادہ مسلم ریاستوں کی بات نہ ہوئی، بلکہ ایک ہی ریاست کی بات ہوئی اور یہ سب رضاکارانہ طور پر بڑی جان دار قیادت کے ہاتھوں ہوا۔ جو اس بات کی دلیل ہے کہ سب کے ذہنوں میں ایک ہی مسلم ریاست، پاکستان کا قیام پیش نظر تھا، جب کہ ۱۹۴۱ء سے لے کر ۱۹۴۶ء تک کی قائداعظم کی تمام تقاریر سے یہ ظاہر ہے اور جسے اپریل ۱۹۴۶ء میں مسلم لیگ کے منتخب ارکانِ اسمبلی کی قرارداد میں دوٹوک الفاظ میں واضح کردیا گیا۔
تیسری بات یہ کہ جہاںمسلمانوں کا اقتدارہوگا، وہاں غیرمسلم آبادی کے حقوق کاتحفظ ہوگا۔ ایک اور نکتہ جس کی طرف عام طورپر ہم توجہ نہیں کرتے، وہ یہ ہے کہ اجلاس ۲۲مارچ کوشروع ہوا، ۲۳مارچ کو قراردادپیش ہوئی اور ۲۴ مارچ ۱۹۴۰ء کو منظور ہوئی۔ لیکن مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی نے چند ہی ہفتے کے بعد یہ اعلان کیا ہے کہ قراردا دِ لاہور ۲۳مارچ سے منسوب ہوگی، اور اس قرارداد کو ۲۳مارچ کی قرارداد کہا جائے گا، اور ۲۳مارچ ہی کا دن ہرسال منایا جائے گا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کیوں؟ جہاں تک میں نے غور کیا ہے اس میں حکمت یہ ہے کہ اصل چیز قراردادکے الفاظ اور منظوری نہیں بلکہ اصل چیز وہ جوہری ٹرننگ پوائنٹ ہے، جو اس قرارداد میں واضح کیاگیا تھا، کہ اب تک ہم اپنے حقوق کے لیے ایسے فریم ورک میں راستے تجویز کر رہے تھے جو ایک ہندستان میں تھا۔ اب ہم نے یہ طے کرلیا ہے کہ ہندو انڈیا اور مسلم انڈیا پر مشتمل ایک فیڈریشن نہیں چلے گی بلکہ دو الگ ممالک ہونے چاہییں۔
اس تاریخی اجلاس میں سب سے اہم تقریر قائداعظم کی ہے۔ ان کے علاوہ مولوی فضل الحق، خلیق الزماں، قاضی عیسیٰ ، بیگم محمد علی جوہر اور دوسرے افراد نے بڑی اہم تقریریں کیں۔ سب نے اسی ایک نکتے پر بات کی۔
اس کے بعد اپریل ۱۹۴۶ء کی قرارداد کو میں سنگِ میل قراردیتاہوں۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے منتخب اراکینِ پارلیمنٹ جن میں مرکزی وصوبائی دونوں اسمبلیوں کے افراد شامل تھے، ان کی کانفرنس ہوئی۔ اس میں انھوں نے ایک ریاست کا وجود واضح کیا۔ یہ قرارداد حسین شہید سہروردی نے پیش کی تھی، جب کہ مارچ ۱۹۴۰ء کی قرارداد مولوی فضل الحق نے پیش کی تھی (ان دونوں حضرات کا تعلق بنگال سے تھا)۔ قرارداد کے الفاظ تھے:
ہرگاہ کہ اس وسیع برصغیر پاک و ہند میں بسنے والے مسلمان ایسے دین کے پیرو ہیں، جو ان کی زندگی کے ہرشعبے(تعلیمی، معاشرتی، معاشی اور سیاسی) پر حاوی ہے، اور جس کا ضابطہ محض روحانی حکمتوں، احکام، اعمال اور مراسم تک محدود نہیں۔
میں اس دوسری کانفرنس میں ایک کارکن کی حیثیت سے شریک تھا۔ ہمارے اسکول کی عمارت میں یہ اجلاس ہوا تھا۔ اس میں کچھ لوگوں نے اپنے خون سے دستخط کیے تھے۔ اس قرارداد کے ساتھ ایک حلف نامہ پڑھا گیا جس کا آغاز اس آیت سے کیا گیا تھا: اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ o (الانعام ۶:۱۶۲)’’میری نماز، میرے تمام مراسمِ عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا، سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے‘‘۔ اور یہ کہ ہم عہد کرتے ہیں کہ اس قرارداد میں پاکستان کے قیام کے لیے: ’’جو خطرات اور آزمایشیں پیش آئیں گی، اور جن قربانیوں کا مطالبہ ہوگا، انھیں برداشت کروں گا۔ آخر میں یہ دُعا درج تھی: رَبَّنَآ اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَ انْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ o (البقرہ ۲:۲۵۰) ’’اے ہمارے رب، ہم پر صبر کا فیضان کر، ہمارے قدم جما دے اور اس کافر گروہ پر ہمیں فتح نصیب کر‘‘۔ اس دستاویزپر ہرایک رکن نےدستخط کیے۔
پاکستان بننے کے بعد قراردادِ مقاصد (مارچ ۱۹۴۹ء) کا بھی اگر تجزیہ کریں تو آپ دیکھیں گے کہ اسلامی، جمہوری، فلاحی اور وفاقی ان چاروںبنیادوں کے اوپر ریاست کی تشکیل کا عہد اور اعلان کیا گیا ہے۔
یہاں اس بات کو بھی پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ دوقومی نظریہ کوئی نئی چیز نہیں ہے، یہ پہلے دن سے ہے۔ دوقومی نظریے کی بنیاد اسلام کا یہ تصور ہے کہ زندگی گزارنے کے دو ہی طریقے ہیں۔ ایک یہ ہے کہ اللہ کو الٰہ مان کر اس کی عبادت اور اس کی اتباع میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بتایا ہوا طریق زندگی اختیار کیا جائے، جب کہ دوسرا راستہ چاہے وہ کسی دوسرے مذہب پر مبنی ہو، یا لادینیت کی بنیاد پر یا الحاد کے نا م پر ہو، یا کسی بھی نام پر، وہ الگ راستہ اور الگ نظریہ ہے۔ اس کی تلقین ہمیں سورئہ فاتحہ میں دن میں پانچ نمازوں میں بار بار کرائی جاتی ہے کہ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ o صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ لا غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْنَo ’’ہمیں سیدھا راستہ دکھا، اُن لوگوں کا راستہ جن پر تُو نے انعام فرمایا، جو معتوب نہیں ہوئے، جو بھٹکے ہوئے نہیں ہیں‘‘۔ یہ دو واضح طریقے ہیں۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ دوقومی نظریہ اس بات کی ضمانت ہے کہ اسلام سے ہٹ کر جو نظام ہوگا، اسے بھی باقی رہنے کا حق ہے۔ یہ دنیا دارالامتحان ہے۔ اللہ نے انسان کو یہاں ایک مقصد کے لیے پیدا کیا ہے ، اور وہ مقصد اس کی آزمایش ہے۔ آزمایش یہ ہے کہ اسے عقل دی گئی ہے، تقویٰ دیاگیا ہے اور ساتھ ساتھ اسے اختیار بھی دیا گیا ہے، فَاَلْہَمَھَا فُجُوْرَھَا وَتَقْوٰھَا (الشمس ۹۱:۸) ، یعنی بدی اور پرہیزگاری کے اختیارمیں سے اب اسے منتخب کرنا ہے خیر یا شر ، اسلام یا غیر اسلام، حلال یا حرام ، اللہ کی عبادت یا طاغوت کی عبادت۔ لیکن جو انتخاب بھی وہ کرلے، اسے اس پر قائم رہنے کا حق ہے۔ کسی دوسرے کو اختیارنہیں کہ زبردستی اس کے اوپر اپنی بات کو ٹھونسنے کی کوشش کرے۔ اسی طرح جو استدلال وہ اختیار کرے گا اس کے نتائج بھی اسے بھگتنے پڑیں گے، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ لیکن اختیار بہرحال اسے حاصل ہے، جس سے اس کو محروم نہیں کیا جاسکتا۔ لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ لا (دین کے معاملے میں کوئی زور زبردستی نہیں۔ البقرہ ۲:۲۵۶)اور لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِیَ دِیْنِ o(تمھارے لیے تمھارا دین ہے اور میرے لیے میرا دین۔ الکافرون ۱۰۹:۶) میں اس حقیقت کو دوٹوک الفاظ میں بیان کردیا گیا ہے۔
سورۃ البقرۃ میں لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ کا جو پس منظر ہے وہ یہ واضح کردیتا ہے کہ پہلے آیۃ الکرسی ہے، جس میں اللہ کے دین کا شعور ہے، اس کی کرسی اور اس کے اقتدار کا تذکرہ ہے۔ پھر اس آیت کے بعد فرمایا گیا: قَدْ تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ ج فَمَنْ یَّکْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَ یُؤْمِنْم بِاللّٰہِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰی ق (البقرہ ۲:۲۵۶)’’صحیح بات غلط خیالات سے الگ چھانٹ کر رکھ دی گئی ہے۔ اب جو کوئی طاغوت کا انکار کرکے اللہ پر ایمان لے آیا، اس نے ایک ایسا مضبوط سہارا تھام لیا، جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں‘‘۔
گویا لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ کی دلیل کے ساتھ غلط اور صحیح کو واضح کر دیا گیا ہے، خیر اور شر کو ایک دوسرے سے واضح کردیاگیا ہے، اور حق اور باطل کو واضح کردیاگیا ہے۔ اب جو اللہ کا راستہ اختیار کرے گا، وہ ظلمات میں نہیں نُور میں رہے گا، اور جو طاغوت کی عبادت کرے گا وہ نُو رسے دُور رہے گا۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ دو قومی نظریے کی اس بنیاد کے باوجود، جو اس سے ہٹ کر رہنا چاہتا ہے اسے اپنے کیے کا آخرت میں جواب دینا ہے۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ دوقومی نظریہ اگر پاکستان کی بنیاد بنتا ہے تو پھر کیا باقی لوگوں کے لیے یہاں رہنے کی گنجایش نہیں ہے؟ وہ بات کو اُلجھانے کی کوشش کررہے ہیں۔ بلاشبہہ یہ اُن کا انتخاب ہے کہ وہ اسلام قبول کریں، لیکن اگر وہ اسلام قبول نہیں کرتے تو ملک سے وفاداری کے تقاضے پورے کرنے کے ساتھ وہ ایک شہری کی حیثیت سے اپنے تمام حقوق وفرائض کے ساتھ زندگی گزار سکتے ہیں۔اگر ایسا ہے تو سرآنکھوں پر۔ ہمارا یہ عہد ہے کہ ہم قوت سے اسلام مسلط نہیں کریں گے۔ بلاشبہہ ان دوسرے مذاہب یا افکار کے حاملین کو بھی مسلمانوں کے حقیقی جذبات و احساسات کا پاس و لحاظ رکھنا ہوگا۔ اگر وہ اس میدان میں بے ضابطگی کا ارتکاب کریں گے تو قانون کے مطابق انھیں جواب دہ بھی ہونا پڑے گا۔ آزادیِ افکار کا حق انھیں حاصل ہے، مگر دستور اور قانون کے دائرے کے اندر۔ اس طرح خود مسلمانوں کو بھی جو حقوق حاصل ہیں، وہ قانون کے دائرے کے اندر ہیں۔ کسی کو بھی قانون اپنےہاتھ میں لینے کا اختیار نہیں ہے۔ اسلامی معاشرے کے بھی یہ آداب ہیں، اور ایک معروف جمہوری معاشرے میں بھی ان آداب کا احترام لازمی امر ہے۔
حال ہی میں عوامی راے کے جائزے پیش کرنے والے اداروں PEW اور گیلپ نے جو سروے شائع کیے ہیں، ان میں آپ دیکھیں گے کہ بہت سے مسلم ممالک میں تو مسلمانوں کی اس اُمنگ کا اظہار کرنے والوں کی تعداد کہ شریعت کو ہماری اجتماعی زندگی کی بنیاد ہونا چاہیے، ۷۰سے ۹۹ فی صد آبادی تک نے کیا ہے۔ باقی ممالک میں بھی مسلمان ۲۰سے ۴۰فی صد تک کہتے ہیں کہ شریعت کو ہمارا قانون اور نظام ہوناچاہیے۔ اگر جمہور کی عظیم اکثریت کا یہ فیصلہ ہے تو اس کا احترام دوسرے مذاہب کے لوگوں کے لیے بھی ضروری ہے، ورنہ یہ سب ’اقلیت کے استبداد‘ (Tyranny of the Minority) کے مترادف ہوگا۔
دوقومی نظریے کی حکمت عملی یہ ہے کہ مسلمان جہاں اکثریت میں ہیں اور جہاں اس پوزیشن میں ہیں کہ اپنے مستقبل کو خود طے کرسکتے ہیں، وہاں ان کے لیے صحیح راستہ یہی ہے کہ وہ اپنی زندگی اسلام کے مطابق گزاریں اور نظام حکومت اس کی بنیاد پر کارفرما ہو۔ جہاں وہ اقلیت میں ہیں تو ان کے لیے صحیح راستہ یہ ہے کہ وہاں امن سے رہیں۔ وہ دوسروںکے حقوق کا بھی خیال کریں، لیکن اپنے نظریے ، کمیونٹی، معاشرت ، روایات کی جس حدتک حفاظت کرسکتے ہیں، ان کا تحفظ کریں۔ اس تشخص کو تحلیل نہ ہونے دیں۔ اس کے لیے جدوجہد کریں اور دعوت وتبلیغ کاعمل جاری رکھیں، البتہ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ آج کی اقلیت کل کی اکثریت میں بدل سکتی ہے، لیکن یہ عمل دعوت و تبلیغ کے ذریعے جاری رکھنا چاہیے۔
جہاں مسلمان کسی ایسے نظام میں رہ رہے ہیں، جو ظالمانہ اور جابرانہ نظام ہے، وہاں بھی آپ اپنے وجود کے لیے اس نوعیت کی جدوجہد کرسکتے ہیں، جس میں ان اخلاقی حدود کا پورا پورا خیال رکھا جائے جو اللہ اور اس کے آخری رسولؐ نے اُمت کو تعلیم کی ہیں۔اسی لیے اسلامی تاریخ اور قانون کے اندر عدل، توازن اور توسع کی تعلیم دی گئی ہے۔ واضح رہے کہ جہاد کا ایک مستقل ضابطہ اور طریقہ ہے، جو اسے دہشت گردی سے یک سر مختلف بنادیتا ہے۔ یہ محض اقتدار کی جنگ نہیں ہے۔ سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ وہ جہاد فی سبیل اللہ ہو، اور پھر دوسری شرط یہ ہے کہ جہاد ان آداب، قیود اور اصولوں اور ضابطوں کے مطابق ہو، جو اللہ اور اس کے رسولؐ نے طے کیے ہیں۔ اس سے ہٹ کر کوئی راستہ جائز نہیں ہے۔ گویا کہ دو قومی نظریہ ایک ابدی اصول ہے اور اس کے یہ مختلف ماڈل ہیں۔
جہاں اکثریت ہے، وہاں کم ازکم اسلامی نظام کے مطابق زندگی گزارنے کی کوشش کریں۔ جہاں پر اکثریت یا عددی طاقت حاصل نہیں ہم وہاں کے حالات کے مطابق اپنے تشخص کی حفاظت کی کوشش کریں، اپنے حقوق کی حفاظت کی کوشش کریں اور ان مشترکات میں، جن میں دوسرے بھی شریک ہیں ہم ایک دوسرے کے ساتھ مل کر چلیں۔ اس فریم ورک پر چل کر ہم پُرامن اور کامیاب پیش رفت کے لیے راستہ نکال سکتے ہیں۔
جہاںتک مسلم دنیا کا تعلق ہے ،ہم اس وقت بلاشبہہ ایک بہت بڑی آزمایش اور بڑے ہی نازک دور سے گزر رہے ہیں۔ ۲۰ویں صدی میں ہم پر اللہ کے بے پناہ انعامات برسے ہیں، لیکن ہم نے ان کا حق ادا نہیں کیا۔ بیسویں صدی کاآغاز اس طرح ہوا تھا کہ صرف چار مسلم ممالک دنیا کے نقشے پر آزاد نظر آتے تھے، باقی ساری مسلم دنیا مغربی سامراجی طاقتوں کی غلام تھی ۔
یہ تقریباً ۲۰۰ سال کا تاریک دور تھا، تاہم ۲۰ویں صدی میں مسلمان دوسروں کی سیاسی غلامی سے نکلنے میں کامیاب ہوئے اور آج آزاد مسلمان ممالک کی تعداد ۵۷ ہے۔ ۱۹۷۳ء تک دنیا کی معاشی قوت، مغربی ممالک کے ہاتھوں میں تھی، لیکن اکتوبر ۱۹۷۳ء میں سعودی فرماں روا شاہ فیصل کی جانب سے امریکا کوتیل بند کرنے کی دھمکی کے ایک معمولی سے جھٹکے نے، مغرب کے ہوش ٹھکانے لگادیے۔ اس طرح تیل کی قیمتوں پر مغربی معاشی اجارہ داری کا توازن تبدیل ہوگیا۔ پھر ۲۰ویں صدی میں اللہ نے دین کاصحیح تصور پیش کرنے کے لیے پے درپے عظیم شخصیات پیدا فرمائیں۔ ۱۸ویں اور ۱۹ویں صدی میں اسلامی احیائی جدوجہد کے لیے حضرت شاہ ولی اللہ اور سیّداحمدشہید کا بڑاحصہ ہے۔ لیکن ۱۹ویں صدی کے آخر اور ۲۰ویں صدی میں مولانا شبلی نعمانی، مولاناابوالکلام آزاد ، علامہ محمد اقبال، مولانا مودودی، امام حسن البنا، سید قطب شہید، مالک بن نبی، سعید نورسی جیسے بڑے علما کی ایک کہکشاں ہے، جس نے بڑی وسعت کے ساتھ اپنا موقف پیش کیا ۔ ان کے بیانیے میں اختلافات بھی ہیں، لیکن ایک ہی مرکزی نکتے پر سب کا اتفاق بھی تھا۔ وہ یہ کہ اسلام ایک مکمل نظامِ زندگی ہے، اور اُمت مسلمہ کی کامیابی کا انحصار جہاں انسانوں کی زندگی اور کردار کو تقویٰ اور للہیت پر تعمیر کرنا ہے، وہیں ان کی خاندانی، معاشی، اجتماعی، سیاسی، قومی اور بین الاقوامی زندگی کو بھی اللہ کی ہدایت کی روشنی میں تشکیل و تعمیر کرنا ہے۔ گویا ایک ہی مکمل نظام کو قائم کرنے کی پوری کوشش ہمارا فرض ہے۔
مجھے یہ بات سن کر الجھن ہوتی ہے، جب لوگ کہتے ہیں کہ: ’’ریاست کو اسلامی نہیں کہنا چاہیے‘‘۔ قانونی اعتبار سے ریاست ایک ’قانونی وجود‘ ہے اور ایک ’قانونی وجود‘ کی طرح اس کا ایک طبعی مقام ہے۔ بالکل اسی طرح اس کا سیاسی اور نظریاتی وجود اور مقام بھی ہے۔ اگر ایک ریاست کرسچن ریاست ہوسکتی ہے، ایک جمہوری ریاست ہوسکتی ہے، ایک ویلفیئر اسٹیٹ ہوسکتی ہے، ایک یہودی اسٹیٹ ہوسکتی ہے، ایک بدھسٹ اسٹیٹ ہوسکتی ہے ، ایک ہندو اسٹیٹ ہوسکتی ہے، تو ایک اسلامک اسٹیٹ کیوں نہیں ہوسکتی؟
مسلمانوں کا ایک گروہ کہتا ہے: ’’اس کے لیے کوشش کی ضرورت نہیں بلکہ یہ تو ایک انعام ہے‘‘۔ لیکن وہ اس بات کا جواب نہیں دیتا کہ ریاست تو کیا زندگی میں کوئی بھی چیز آپ سے آپ حاصل نہیں ہوسکتی، بلکہ اس کے لیے کوشش کرنا ہوگی۔ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جانے سے یہ انعام نہیں مل سکتا۔ رزق اللہ کی نعمت ہے، لیکن کیا رزق کے لیے کوشش نہیں کی جاتی۔ اسلامی ریاست کا وجود اللہ کی نعمت اور انعام ہے تو اس کے قیام کے لیے جدوجہد اور کوشش بھی ضروری ہے۔ اور پھر جب قرآن خود کہتا ہے کہ وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتُوا الزَّکٰوۃَ اور امربالمعروف ونہی عن المنکر یعنی ہمیں یہ کہاجاتا ہے کہ جہاں تم نماز قائم کرتے ہو، زکوٰۃ ادا کرتے ہو، وہاں امربالمعروف ونہی عن المنکر کی ذمہ داری ادا کرنا بھی تمھارا فرضِ منصبی ہے۔’امر‘ کے معنی درخواست کرنا نہیں اور ’نہی‘ کے معنی محض متنبہ کرنا نہیں ہے، بلکہ نیکی کو قائم کرنا اور بدی سے روکنا ہے۔ یہ کام ریاستی قوت کا متقاضی ہے۔ محض وعظ و تلقین اس کے لیے کافی نہیں۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ ریاست بھی ان حدود کی پابند رہے، جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر فرما دیے ہیں۔
۲۰ویں صدی کے آخری عشروں میں بدقسمتی سے ہم نے اُس معاشی انعام کا فائدہ نہیں اُٹھایا جو اللہ تعالیٰ نے مسلم اُمہ کو عطا کیا تھا۔ ہمارے ریاستی نظام اور ہماری قومی قیادتیں جاہلیت کی بنیاد پر خود مسلمانوں ہی کے خلاف ظلم و زیادتی کا ارتکاب کرتی چلی آرہی ہیں۔ تاہم، اس ظلم و جَور اور بے اعتنائی کے باوجود اصلاح اور تبدیلی کی قوتیں ہرجگہ کارفرما ہیں۔ اگر مصر میں ۴۰ سال تک الاخوان المسلمون پر پابندی عائد کرنے اور ہزاروں کی تعداد میں کارکن شہید کرنے یا جیلوں اور تعذیب خانوں میں ڈالنے کے باوجود اسلام وہاں اُبھر سکتا ہے تو پھرمایوسی کیوں؟ ترکی جہاں اذان دینا ممنوع تھا، سر پر ٹوپی اوڑھ نہیں سکتے تھے، کوئی کتاب عربی میں نہیں چھاپ سکتے تھے لیکن وہاں بھی آخرکار مثبت تبدیلی آئی ہے۔ وسطی ایشیا میں ۷۰سال تک کیا مسلمانوں کو محکوم نہیں رکھا گیا؟ اور پھر ایک وقت ایسا آیا کہ گولیاں چلے بغیر وسطی ایشیا کے ممالک ماسکو کی غلامی سے نکل کر خودمختاری کی راہ پر چل نکلے۔ تمام خرابیاں، تضادات اور کمزوریاں اپنی جگہ، مگر ہمارے پاس وہ استعداد و قوت اور جذبہ بھی موجود ہے، جسے متحرک ، منظم اور علمی و اخلاقی اعتبار سے تقویت بہم پہنچانے کی ضرورت ہے، اور جہاں جہاں ہم کوشش کریں گے، ان شاء اللہ اس کے نتائج بھی ملیں گے۔ نشیب وفراز اپنی جگہ، لیکن ان سب کے باوجود ان شاء اللہ حالات بدلیں گے اور تبدیلی کی یہ اُمید بالخصوص نوجوانوں سے ہے ۔ آج مسلم دنیا کی ۵۰سے ۶۰فی صد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ یہ ایک بڑا قیمتی اثاثہ اور بہت بڑی قوت ہے۔ ان سب کے لیے ہمارا ایک ہی مشورہ ہے کہ زندگی کو محض کھانے پینے اور آرام کے لیے استعمال نہ کریں، بلکہ زندگی کا مقصد پہچانیں، سمجھیں اور پھر اس مقصد کے مطابق اپنے آپ کو تیار بھی کریں اور اس مقصد کو بروے کار لانے کی کوشش بھی کریں۔
تبدیلی کے لیے کام انفرادی سطح پر بھی ہورہا ہے اور اجتماعی سطح پر بھی۔ یہ کام کرتے ہوئے جو کچھ ہمیں کرنا ہے، اسے اگر تین لفظوں میں ادا کروں تو وہ ہیں: خداشناسی، خود شناسی اور خلق شناسی۔
اسی طرح مسلم دنیا میں پروپیگنڈے کے زور پر ایک مسئلہ پیدا کیا گیا ہے، اور وہ ہے: خواتین کے بارے میں اسلامی تعلیمات کی مسخ شدہ تعبیر اور اتہام بازی۔ اس ضمن میں یہ واضح رہنا چاہیے کہ اسلام کی نظر میں کامیابی کے معیار کے اعتبار سے مردوزن کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا گیا۔ قرآن نے اپنے اسلوب میں اس معاملے میں واضح طور پر وضاحت کی ہے کہ ایمان لانے والے مرد، ایمان لانے والی عورتیں، تقویٰ اختیار کرنے والے مرد، تقویٰ اختیار کرنے والی عورتیں۔پھر امربالمعروف ونہی عن المنکر کو جس طرح مردوں کے لیے فریضہ قرار دیاگیا ہے اسی طرح عورتوں کے لیے بھی حکم دیاگیا ہے۔ یہ ضرور ہے کہ اپنی صلاحیت ، اپنی ذمہ داریوں اور اپنے ماحول کے اعتبار سے وہاں فرق ہوسکتا ہے، لیکن مقام میں، حقوق میں، اور کردار میں کوئی فرق نہیں ہے۔ یہ بھی اللہ کا کرم ہے کہ اس نے عقیدے کی بنیادیں تفصیل سے بتا دی ہیں، جن میں نہ کوئی اضافہ ہوسکتا ہے اور نہ کمی۔ عبادات کا معاملہ جو اللہ سے انسانوں کو جوڑتا ہے اور بندوں کو اللہ کی مرضی اور بندگی کے لائق کرتا ہے، اس کی پوری تفصیل دے دی۔ اس میں بھی کوئی تبدیلی نہیں کی جاسکتی۔ حلال کو حرام نہیں کیاجاسکتا اور حرام کو حلال نہیں کیا جاسکتا۔ رہے زندگی کے اجتماعی اُمور اور تبدیلی کے وسائل کا حصول اور ان کا استعمال، تو زندگی کے اس وسیع دائرے کے باب میںاور ان تمام ہی معاملات میں بڑی حکمت کے ساتھ صرف ضروری ہدایات دے کر آزادی دی ہے کہ آپ موقعے اور حالات کی مناسبت سے اپنا راستہ خود متعین کریں۔
مقاصد ِ شریعت کی روشنی میں متعین احکامات کا مکمل احترام کرتے ہوئے حکمت عملی کے ساتھ اپنا راستہ نکالیں۔ ایک طرف دین کے مکمل فریم ورک کا احترام کریں اور حدود اللہ کے اندر تمام معاملات کو طے کریں، تو دوسری طرف اس وسعت (flexibility) سے پورا پورا فائدہ اُٹھائیں جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عطا فرمائی ہے۔ اس طرح تسلسل اور تبدیلی دونوں کی برکتوں سے فیض یاب ہوں۔
واضح رہے کہ خاندان کے بارے میں قرآن میں تفصیل سے رہنمائی دی گئی ہے۔ البتہ معاشی، سیاسی، اجتماعی اور بین الاقوامی معاملات کے بارے میں صرف رہنما اصول (guide lines) دیے ہیں، تاکہ حالات کے مطابق اور زمانے کی ضروریات کی مناسبت سے ان کی روشنی میں راستہ بنائیں۔ یہی وجہ ہے کہ حضور پاکؐ نے جہاں قرآن پہنچایا، اور اس کی تعلیم دی، وہیں قرآن کے مطابق تزکیہ کیا اور حکمت کی تعلیم دی۔ حکمت کی تعلیم نام ہے اس بات کا کہ الہامی ہدایت کی روشنی میں آپ اپنے دور میں، اپنے حالات کے مطابق کیسے کام کریں۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل سے یہ کردکھایا۔ اس لیے سنت وحدیث میں ہمارے لیے یہی نمونہ ہے۔ یہ ایک طرزِ فکروعمل ہے، جس نے ہر دور میں اُمت کو اور افراد کو بھی راستہ دکھایا ہے۔
عصرِحاضر کے تقاضوں کو جاننے کے لیے علمی و تحقیقی جدوجہد ناگزیر ہے۔ تحقیق کے باب میں میری درخواست یہ ہے کہ تحقیق سے پہلے پڑھنے کی عادت ڈالیے۔ مجھےیہ دیکھ کر دُکھ ہوتا ہے کہ ہماری قوم میں بحیثیت مجموعی پڑھنے کی عادت کم ہورہی ہے۔ یہ اس امت کا بہت بڑا نقصان ہے۔ اللہ نے انسانوں کی رہنمائی کے لیے جو کتاب بھیجی ہے اس کے معنی ہی یہ ہیں کہ پڑھنا، سننا۔ جدید ٹکنالوجی سے ضرور آپ فائدہ اٹھائیں، لیکن کتاب سے آپ کا تعلق رہنا چاہیے۔
دوسری چیز یہ ہے کہ پڑھنے کے ساتھ ساتھ سوچنا سمجھنا اور پھر تحقیق کے لیے اداراتی سطح پر کام کرنا وقت کا تقاضا ہے۔ تحقیقی ذوق کے بغیر مکھی پہ مکھی مارناسخت کمزوری بلکہ حماقت کی بات ہے۔ ایک غالب و قاہر تہذیب کے مقابلے میں آگے بڑھ کر اسلامی تہذیب کو پیش کرنے کے لیے ماضی سے ربط، غوروفکر اور آج کے پیش آمدہ مسائل و مشکلات کا جواب دینے کی صلاحیت پروان چڑھانا اشد ضروری ہے۔
تیسری چیز یہ ہے کہ حقائق (Facts) کے بارے میں کبھی کمپرومائز نہ کیجیے۔ حقائق کے بارے میں نہ انکار کیجیے اور نہ اس کے باب میں من مرضی (selective)کے اسیر بنیے۔ یہ ضرور متعین کیجیے کہ کیاحقائق ہیں اور کیا زیبِ داستاں ہے؟ پھر حقائق کی روشنی میں زیرمطالعہ مسئلے کی تفہیم کیجیے۔ حقائق راستہ نہیں روکتے، وہ صرف یہ بتاتے ہیں کہ کیا چیلنجز اور کیا امکانات ہیں، یعنی حقائق، تحقیق اور تفہیم کا کام بہت باریک اور نازک ہے۔ اس ضمن میں سہل انگاری کی کوئی گنجایش نہیں۔یہی وجہ ہے کہ جو لوگ محنت نہیں کرتے،ان کی تحقیق معیار کے اعتبار سے کمزور چیز ہوتی ہے۔اس عیب سے بچنے کی ضرورت ہے۔ مختصر یہ کہ ہمارا سارا کام پروفیشنل انداز میں ہوناچاہیے۔
o
سوال: میں نے عملی زندگی میں قدم رکھا تو میں یہ مشن لے کر چلاتھا کہ زندگی بھر صادق اور امین رہوں گا۔ ۱۵سال تک کوشش کرتا رہا مگر یہ صداقت اور امانت مشاہدے میں نہیں آئی۔ کیا یہ انتظامی مسئلہ ہے، یا ہمارے سماجی اخلاقی نظام کا بحران ہے؟ میں کس منڈی میں اسے دیکھوں اور کس منڈی سے اسے خریدوں؟
جواب: پہلی بات تو یہ ہے کہ صادق اور امین ہونا کوئی قانونی یا آفیشل بات نہیں ہے۔ ایک اچھا انسان ہونا ہماری زندگی کا لازمی جزو ہے۔ آپ اگر کسی کے ساتھ تجارت کر رہے ہیں تو کیا آپ یہ توقع نہیں کرتے کہ وہ جو بھی معاملہ آپ سے کرے، وہ معاملہ شفاف ہو اور اس میں دھوکا نہ ہو۔ آپ کسی کو قرض دیتے ہیں یا کسی سے قرض لیتے ہیں، اس وقت کیا نیت اور توقع رکھتے ہیں! جس مقام پر آپ کام کررہے ہیں، وہاں وقت کو آپ کس طرح استعمال کر رہے ہیں؟ گویا صادق اور امین ہونا تو انسان کا شرف ہے اور قدم قدم پر اس کی ضرورت پڑتی ہے۔ اگر یہ نہیں ہے تو ہماری زندگی ایک خوف ناک خلا ہی میں رہے گی۔
صداقت اور امانت ایسی بنیادی انسانی خوبیاں ہیں کہ اس کے لیے مسلمان اور غیر مسلم کے اندر فرق کی بھی زیادہ گنجایش نہیں۔ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نبوت سے پہلے بھی صادق اور امین تھے اور ان کا صدق اور امانت اس معیار کا تھا کہ جنھوں نے نبوت کا انکارکیا، انھوں نے ہی آپؐ کے بارے میں برملا کہا کہ: ’’آپؐ صادق اور امین ہیں‘‘۔جو آپؐ کے خون کے پیاسے تھے، انھوں نے اپنی امانتیں بھی آپ ہی کے پاس رکھیں۔ نبی پاکؐ کی دیانت کا یہ عالم تھا کہ ہجرت کے وقت آپؐ نے وہ تمام امانتیں جو مشرکینِ مکہ کی تھیں، حضرت علی ؓکے سپرد کیں کہ یہ فلاں فلاں کی امانت ہے ان کو واپس کردینا۔ یہ ہے صداقت اور امانت کا بلندترین معیار۔
اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ صداقت اور امانت محض سیاست کے لیے نہیں بلکہ یہ خوبی شوہر اور بیوی کے درمیان، باپ اور بیٹے کے درمیان، آجر اور ملازم کے درمیان، یعنی ہر جگہ نافذالعمل ہونی چاہیے، قطع نظر مذہب و عقیدہ کے۔
سر آئیورجننگز ((Ivor Jennings کا نام پولیٹیکل سائنس میں ایک اتھارٹی ہے۔ ان کی کتاب Cabinet Government ملاحظہ کیجیے۔ انھوں نے کہا ہے کہ: برٹش نظام میں ایک وزیرکے لیے عالم اور ماہر ہونا ضروری نہیں ہے کیوں کہ ان مہارتوں میں اہلِ علم اور ماہرین سے مدد لی جاسکتی ہے۔ لیکن وزارت کا قلم دان سنبھالنے کے لیے صداقت و امانت (integraty ) کا ہونا نہایت ضروری ہے ،اور اگر یہ صداقت و امانت نہیں ہے تو پھروہ عوامی اعتماد کا حق دار نہیں ہوسکتا۔ دراصل یہ ایک آفاقی، عالمی اور انسانی ضرورت ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ اس خوبی کو بازار سے خریدا نہیںجاسکتا، یہ تو انسان کے کردار کا جوہر ہے۔
قومی سطح پر ہمارے ہاں اس وقت نظریاتی انتشار اور اخلاقی بگاڑ ہے ۔ ادارے تباہ حال ہیں اور احتساب کانظام موجود نہیں ہے۔ لیکن اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ ہم مایوس ہوجائیں۔ نہیں، بلکہ انھیں درست کرنے کے لیے کوشش جاری رکھیے۔ اپنی مثال بہتر سے بہتر قائم کیجیے اور پھر آپ دیکھیں گے کہ اس کے مثبت اثرات رُونما ہوں گے۔
ذاتی تجربے اور مشاہدے کی صرف ایک مثال دیتا ہوں کہ جب میں نے ۱۹۷۸ء میں پلاننگ کمیشن کا چارج سنبھالا تو پہلا کام یہ کیا کہ کمیشن میں کام کرنے والے افسروں اور ملازموں کے لیے قواعد و ضوابط بنائے تاکہ ان اصولوں کے تحت جس کی کوئی ذمہ داری ہو یا اس کے نتیجے میں اسے کوئی فائدہ پہنچتا ہو اس کو وہ فائدہ پہنچنا چاہیے، اور یہ کام اصول اور ضابطے کے مطابق خود بخود ہونا چاہیے۔ اتفاق کی بات یہ ہے کہ ان قواعد کے نافذ ہونے کے بعد سب سے پہلے جس فرد کو فائدہ پہنچا، وہ صاحب قادیانی تھے۔اُس وقت کے سیکرٹری پلاننگ کمیشن میرے پاس آئے اور اُس فرد کی مذہبی شناخت بتاتے ہوئے اظہار کیا کہ ’’اب کیا کیا جائے؟‘‘ میں نے ان سے کہا کہ: ’’یہ بتانے کے لیے آپ کو میرے پاس نہیں آنا چاہیے تھا۔ بلاشبہہ وہ قادیانی ہے، مگر ہمارے دفتر میں ملازم ہے۔ اگر ان قواعد کے مطابق اس کا فائدہ ہوتا ہے اور اس نے جاپان جانا ہے تو بھیج دیا جائے‘‘۔ یہ بتانے سے مقصود یہ ہے کہ اگر آپ اپنی اپنی جگہ اس طرح مثال قائم کرنی شروع کردیں تو ان شاء اللہ حالات بدلتے ہیں۔
سوال: قومیت اور دو قومی نظریے میں ہم توازن کس طرح رکھ سکتے ہیں؟خود اقبال نے بھی وطن پرستی پر تنقید کی ہے، یعنی: ’’اِن تازہ خدائوں میں بڑاسب سے وطن ہے‘‘۔ اس کے علاوہ مولانا مودودی نے بھی جو اسلامی ریاست کی بنیاد بتائی ہے، اس میں اقتدارِ اعلیٰ کے بعد دوسرا نکتہ قومیت ہے۔ ہم بحیثیت پاکستانی ایک طرف پاکستانیت کا نعرہ بلند کرتے ہیں، دوسری طرف ایک ایرانی اور ایک افغانی اپنی قومیت کا نعرہ بلند کرتا ہے۔سوال یہ ہے کہ اس میں اور ایک امت کے تصور میں توازن کیسے ہوسکتا ہے؟
جواب: بہت ہی اہم سوال ہے، جزا ک اللہ خیر۔ دیکھیے مولانا مودودی ہوں یا علامہ اقبال یا دیگر مفکرین ، انھوں نے یہ بات کہی ہے کہ اگر قومیت کی بنیاد علاقے سے اس طرح جڑی ہوئی ہو کہ میرا ملک چاہے غلط ہے یا صحیح، میں اپنے ملک کا وکیل ہوں۔ یہ چیز اسلام کی بنیاد سے متصادم ہے۔ اس بنیاد پر بننے والی قومیت اپنے حتمی نتیجے میں انسانیت کے لیے فساد کا ذریعہ ہے، اور اس سے خیر رُونما نہیں ہوسکتا۔
حضور پاکؐ نے اسی بات کو ایک اور پس منظر میں، لیکن انتہائی خوب صورتی سے بیان فرمایا ہے کہ اس کی نظیر نہیں مل سکتی۔ ذہن میں رکھیے کہ عربوں میں ایک محاورہ تھا: ’’میرا بھائی درست ہویا نادرست، مجھے اپنے بھائی کا ساتھ دینا ہے۔ اپنے قبیلے کا ساتھ دینا ہے چاہے وہ حق پر ہو یا ناحق پر‘‘۔ اس پر حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایک مرتبہ یہ فرمایا کہ: ’’اپنے بھائی کا ساتھ دو، خواہ وہ حق پر ہو یا ناحق پر‘‘۔ اس فرمان پر صحابہؓ چونک گئے کہ یہ تو اسلام میں ہو ہی نہیں سکتا۔ انھوں نے پوچھا: ’’حضوؐر یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ اگر ہمارا بھائی حق پر ہے تو اس کی مدد بجا لیکن اگر ناحق پر ہے تو اس کی مدد کیسے کرسکتے ہیں؟‘‘ حضوؐر نے فرمایا: ’’اگر وہ حق پر ہے تو اس کا ساتھ دیجیے اور اگر ناحق پر ہے تو اس سے اسے روک کر اس کا ساتھ دیجیے‘‘۔
یہ ہے قومیت کا وہ تصور جس کو ہم نے آئیڈیل بنانا ہے۔ لیکن اگرکہیں علاقہ خود مسئلہ بن جائے تو پھر ان کے درمیان مطابقت کا سوال ضرور پیدا ہوگا۔ حدیث میں آتا ہے کہ اپنے وطن سے تعلق اور لگائو ایک فطری عمل ہے۔ اپنی پیدایشی زمین سے ایک انس اور محبت فطری چیز ہے۔ مکہ اور بیت اللہ کا تو معاملہ ایسا تھا کہ اس کے لیے انسان تڑپے، لیکن چونکہ ایک وقت خود بیت اللہ کے قرب میں رہنا حق کی مصلحت کے منافی ہوگیا تھا، تو ہجرت کا مرحلہ آن پہنچا۔ وہ بیت اللہ جسے صحابہؓ اور حضور پاکؐ شوق سے دیکھا کرتے تھے، اسے چھوڑنا پڑا۔ عقیدہ اور حق پرستی کو اولیت حاصل ہے لیکن جب معاملہ ایک سے زیادہ شناختوں کا ہو، جو فطری ہے، تو ان میں تطبیق کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس لیے قرآن نے جہاں یہ کہا ہے کہ تمھیں ایک ماں باپ سے پیدا کیا ہے وہیں یہ بھی نشان دہی کردی کہ شعوب و قبائل میں تقسیم بھی اک فطری عمل ہے لیکن صرف شناخت کے لیے۔ اصل چیز تقویٰ کا دامن تھامنا ہے اور معاملات کو طے کرنے میں حق پرستی کا راستہ اختیار کرنا ہے۔ اس وجہ سے اللہ کو سب سے زیادہ وہ انسان پسند ہے جو تقویٰ میں سب سے آگے ہو۔
اس طرح فکری اور نظریاتی طور پر صحیح رویہ اختیار کرنے کے بعد جس امر پر غور کرنا ہے، وہ یہ کہ ان کے درمیان مطابقت اور توازن کیسے پیدا کیا جائے؟ اسی کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
اسلام یہ کہتا ہے کہ قومیت کی بنیاد نظریے پر ہے۔ اسلام کو اپنا دین ماننے والے ایک امت ہیں، خواہ ان کی زبان، ان کی نسل اور ان کا وطن کوئی بھی ہو۔ وہ کہیں پر بھی رہ رہے ہوں یا ان کا رنگ کیسا ہی ہو۔ اس کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ اگر انسان اللہ کاخلیفہ ہے تو جس بنیاد پر انسان کو اپنی زندگی کامقصد اور اپنی زندگی کی روش طے کرنی چاہیے، اسے بنیاد کی حیثیت حاصل ہونی چاہیے، جو ہر ایک کے لیے ممکن ہو۔ آپ اپنا رنگ نہیں بدل سکتے، زبان شاید بدل سکیں لیکن پھر بھی فرق رہتا ہے ۔ نسل میں کوئی تبدیلی نہیں لاسکتے۔ زمیں بدل کر آپ ہجرت کر سکتے ہیں۔ مگر اسلام نے قومیت کی اصل بنیاد عقیدے کورکھا، تاکہ ہر نسل، ہر مقام اور ہر زبان بولنے والے اس میں آسکیں اور سب آکرکے ایک ہوجائیں۔ لیکن خوبی اس کی یہ رہی کہ اس نے سب کو ایک بنانے کے بعد بھی معاشرے میں تشخص اور تنوع کو ختم نہیں کیا۔ زبان اور نسل کی نفی نہیں کی، رنگ کی نفی نہیں کی، بلکہ یہ کہا گیا کہ یہ سب ہم نے اس لیے بنائے ہیں کہ لِتَعَارَفُوْا (تمھاری پہچان کے لیے)۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ تمھارے سامنے زندگی گزارنے اور فیصلے کرنے کا معیار ، اخلاق اور اصول ہونا چاہیے اور وہ ہے: اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰکُمْ ط(الحجرات ۴۹:۱۳)’’درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمھارے اندر سب سے زیادہ پرہیزگار ہے‘‘۔ یہ بھی بتادیا کہ تمھاری صف ایک ہی ہے ، کچھ اُمور میں اگر اختلاف ہے تو اختلاف کو تسلیم کرنا، اختلاف میں ہم آہنگی و مطابقت (accommodation ) پیدا کرنا اور اس کو ایک نظام کے تحت لینا آپ کی ذمہ داری ہے۔
جب ہم تصورِ قومیت دیتے ہیں تو اس سے ان باقی عناصر کی نفی نہیں کرتے۔ ہم انھیں صرف ایک تصور کے دائرے میں اپنے وجود کے ساتھ جمع کرتے ہیں۔ اس میں وطن سے محبت یقینا ایک جائز اور فطری چیز ہے۔ میثاق مدینہ میں نبی پاکؐ نے ہمارے سامنے وہ ماڈل بھی رکھ دیا کہ جس میں ایک سے زیادہ قومیں، ایک سے زیادہ مذاہب کے لوگ مل کر ایک ریاست بناسکیں۔ اگر آپ اس کا مطالعہ کریں تو اس کی کُل ۸۸ شقیں ہیں۔ جن میں سے ۴۴ کا تعلق مسلمان امت سے ہے اور۴۴ کا تعلق دیگر قبائل و مذاہب سے ہے۔ ان میں صاف طور پر لکھا اور تسلیم کیا گیا ہے کہ تمھارا تشخص ، تمھارا مذہب، تمھاری روایات کو تحفظ حاصل ہوگا۔لیکن اس پورے نظام کا جو سربراہ ہوگا وہ نبی پاکؐ ہوں گے، وہی آخری اتھارٹی ہوں گے اور سیاسی بالادستی اور فیصلہ کُن حیثیت نبی پاکؐ کو حاصل ہوگی۔ اس فریم ورک میں ان سب کو لے کر چلا گیا۔یہ ہماری تاریخ ہے کہ اس میں یہودی، عیسائی، ہندو، بدھسٹ، اللہ کو نہ ماننے والے، سب موجود رہے اور انھیں ان کے حقوق دیے گئے۔ ان کے لیے ایک مقام رکھا گیا اور اسی کی مناسبت سے ان سے توقعات بھی وابستہ کی گئیں۔
عالمی تناظر میں ہمارے فقہا نے انٹرنیشنل لا میں بلاشبہہ دنیا کو ایک بڑی حد تک اور اُس دور کے حالات کی روشنی میں ’دارالحرب‘ اور ’دارا لاسلام‘ میں تقسیم کیا ہے اور اس پہلو سے ’دارالحرب‘ اور ’دارا لاسلام‘ ایک بنیادی تقسیم ہے، لیکن دنیا صرف ان دو ماڈلز تک محدود نہیں ہے۔ اگر کسی ملک سے آپ برسرِجنگ ہیں تو یہی تقسیم اور اس کے احکام فیصلہ کن ہوں گے۔ لیکن اس کے علاوہ اور درجہ بندیاں ہمارے انٹرنیشنل لا کے اندر موجود ہیں، جن میں دو اور نوعیتیں قابلِ ذکر ہیں، یعنی: ’دارالامن‘ کہ جن سے آپ جنگ نہیں کررہے اور وہ غیرمسلم ہیں، اور ’دارالعہد‘ کہ جہاں غیرمسلم ہوں جن سے آپ کا کوئی معاہدہ اور کوئی معاملہ فہمی (انڈرسٹینڈنگ) ہو۔ اس کی بنیاد پر ایک فریم ورک ہوگا۔ تاریخ شاہد ہے کہ حبشہ میں عیسائیوں کی حکومت رہی، لیکن مسلمانوں نے کبھی اس پر چڑھائی نہیں کی اور اسے کبھی ’دارالحرب‘ قرار نہیں دیا گیا۔
اس فریم ورک کی روشنی میں آج کے دور اور آج کے حالات کے مطابق ہمیں تسلیم کرنا ہوگا کہ ہماری نظریاتی اساس اسلامی قومیت ہے۔ پھر جس ریاست میں ہم عملاً رہ رہے ہیں، اس میں ایک سے زیادہ اگر قومیں رہتی بستی ہیں تو ان قوموں کے وجود اور حقوق کا اتنا ہی پاس و لحاظ کیا جائے گا۔ قانون کی نظر میں ان کے ساتھ برابری اور مشترکہ قومی مفادات میں مل کرکام کرنا لازم ہے۔ اسی ماڈل کو سامنے رکھ کر علما نے ۱۹۵۱ءمیں اسلامی ریاست کے جو ۲۲ اُصول مرتب کیے تھے، اگر آپ انھیں پڑھیں تو ان میں علما نے یہ بتایا ہے کہ آج کے دور میں ہم کس طرح اس نظریے کو ایک طبعی و جغرافیائی ریاست کے اندر سمو سکتے ہیں۔ اسی کی روشنی میں پہلے قرارداد مقاصد پاس ہوئی اور پھر پاکستان کا دستور بنا ۔
پاکستان کا دستور ہمیں وہ فریم ورک دیتا ہے جس کے اندر سب کے لیے مل جل کر رہنے کا پورا پورا حق موجود ہے۔اس جغرافیائی ملک سے وفاداری اور اس کی خدمت اور تشکیل و تعمیر و ترقی کے ساتھ ہماری یہ کوشش رہے گی کہ مسلمان ممالک آپس میں ملیں اور قریب آئیں۔ پاکستان کے دستور کا آرٹیکل۴۱ بھی اس کوشش کو ایک رہنما اصول قرار دیتا ہے کہ تمام مسلم ممالک کے ساتھ ہمارے خصوصی تعلقات ہوں گے اور زیادہ سے زیادہ اسلامی اتحاد اور تعاون و مفاہمت کے لیے ہم کوشش کریں گے۔اقبال نے اپنے انگریزی خطبات Reconstruction of Religious Thought in Islam میں یہ بات بڑی خوب صورتی سے کہی ہے کہ آئیڈیل اگرچہ خلافت ہے، لیکن موجودہ دور میںمسلم دنیا کی دولتِ مشترکہ (Common Wealth of Muslim Nations) اس کا متبادل فراہم کرسکتی ہے، اور OIC (اسلامی تعاون تنظیم) اسی سوچ کا ایک نتیجہ ہے، جو بدقسمتی سے حکمرانوں کے ہاتھوں اب تک غیرمؤثر ہے۔
اسلامی تاریخ میں یہ بڑی دل چسپ بات ہے کہ جو لہر مصر تک گئی، اس میں اسلامائزیشن اور عربائزیشن ساتھ ساتھ تھے ،لیکن ایران اور اس کے ساتھ کے علاقوں میں ہم دیکھتے ہیں کہ زبان اور مقامی کلچر، مقامی روایات ان سب کو باقی رکھنے کا پورا پورا اہتمام کیاگیا۔ کوئی ایسی مثال نہیں ملتی کہ علاقائی زبانوں کی حوصلہ شکنی کی گئی ہو، یا ان علاقوں کے لوگوں کو ان کے حقوق نہ دیے گئے ہوں۔ خلافت ِ عثمانیہ میں کم ازکم سات وزیراعظم ایسے ہیں، جن کا تعلق بوسنیا ہرزیگووینا کے علاقے سے تھا۔ گویا احساسِ شراکت کے ساتھ ان کو خودمختاری بھی ملتی تھی اور جو والی یا گورنر بنائے جاتے تھے، وہ بالعموم وہیں سے بنائے جاتے تھے باہر سے نہیں لائے جاتے تھے۔
صدر ٹرمپ کی آمد کے ساتھ نہ صرف امریکا بلکہ دنیا بھر میں بے چینی اور اضطراب کی ایک لہر دیکھی جاسکتی ہے۔ بے خدا اور نسلی تفاخر کی بنیاد پر استوار مغربی تہذیب کے ایسے کردار وقتاً فوقتاً صفحۂ ہستی پر اُبھرتے ہیں، انسانیت کے لیے ایک نئی مصیبت کھڑی کر کے ماضی کے دھندلکوں میں گم ہوجاتے ہیں۔ یوں سالہا سال تک اس کے نتائج یا اپنے ناکردہ گناہوں کی سزا نوعِ انسانی بھگتتی رہتی ہے۔
امریکی حکومت اور اس کے عالمی کردار کے بارے میں اضطراب اور احتجاج کا سبب لوگوں اور قوموں کے مزاجوں میں کوئی رچی بسی امریکا دشمنی یا مخاصمت نہیں ہے۔ یہ وہی ملک اور لوگ ہیں، جو امریکا کی طرف اس اُمید سے دیکھتے تھے کہ یہ عصرِحاضر میں جمہوری اور دستوری دور کا آغاز کرنے والی ریاست ہے، جو بین الاقوامی سیاسی اُفق پر جمہوریت، حقوقِ انسانی اور قوموں کے حق خود ارادیت کی علَم بردار بن کر جلوہ گر ہوئی تھی۔ اور یہ ایک ایسی ریاست ہے جو کسی خاص نسل کا وطن نہیں تھی، بلکہ دنیا کی بہت سی نسلوں نے جس کی صورت گری کی تھی، اور جس کی تعمیر میں محض اس ملک ہی کے نہیں، دنیا بھر کے بہترین دماغوں نے سائنسی تحقیق سے انسانیت کو صحت مند بنایا اور اسے قوت عطا کی۔ افسوس کہ دنیا بھر کے بہترین دماغوں کی ایک لگن کے ساتھ کی جانے والی تحقیق کے ثمرات کو، امریکی مقتدر قوتوں نے دنیاپر دھونس جمانے کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا، اور انصاف پر مبنی عالمی نظام کی داعی بننے کے بجاے ایک استعماری قوت (Imperial Power) کا کردار ادا کرنے لگی۔ دنیا اگر آج امریکا سے خو ف زدہ ہے اور اس کے حکمرانوں اور پالیسیوں سے نفرت کا اظہار کر رہی ہے تو یہ نتیجہ ہے ان پالیسیوں اور اقدامات کا، جن کی دنیا ستم زدہ ہے۔
حالات کی صحیح تفہیم کے لیے اس امر کا اعتراف ضروری ہے کہ آج امریکا سے بہ حیثیت ایک عالمی طاقت ایسی مایوسی اور بے زاری اور اتنی تیزی اور شدت سے اس کا ہمہ گیر اظہار نہ کوئی اتفاقی حادثہ ہے اور نہ محض کسی سازش کا شاخسانہ۔ اس کے ٹھوس اسباب اور عوامل ہیں۔ ان کا سمجھنا امریکا کی قیادت کے لیے بھی ضروری ہے اور ان اقوام کے لیے بھی، جو اضطراب، احتجاج اور مایوسی سے دوچار ہیں۔ اس تفہیم کا مقصد حالات کی اصلاح اور عالمی تصادم کے اسباب و عوامل کا تدارک ہے، تاکہ دنیا جنگ و جدل اور خون خرابے سے محفوظ رہ سکے۔
انسانوں اور قوموں میں، طاقت کا عدم توازن اور وسائل کا غیرمتناسب وجود ایک حقیقت ہے۔ محض اس کی وجہ سے اضطراب اور تصادم ایک غیرفطری عمل ہوگا۔ لیکن ایسا فرق جب ایک قوت کی دوسروں پر بالادستی،استیلا اور ان کے استحصال (exploitation) کی شکل اختیار کرنے لگتا ہے، تو بے زاری، اضطراب اور تصادم کے دروازے کھلنے لگتے ہیں جو آخرکار ٹکرائو اور خون خرابے پر منتج ہوتے ہیں۔ یہی ہے وہ عمل جو امریکا اور دنیا کی دوسری اقوام کے درمیان دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ عمل ۱۹۸۹ء میں اشتراکی روس کے ایک سوپرپاور کی حیثیت سے میدان سے نکل جانے کے بعد اور بھی تیز ہوگیا ہے۔
امریکا کے پاس مادی اور قدرتی وسائل کی اتنی بہتات رہی ہے کہ اپنے باشندوں کے لیے وہ زندگی کی تمام سہولتیں بہ افراط فراہم کرسکتا ہے، لیکن عالمی بالادستی کا خواب، دنیا کی دوسری اقوام کے وسائلِ حیات کو اپنی گرفت میں لینے کے عزائم، دنیا کو اپنے تصورات کے مطابق ڈھالنے اور دوسروں پر اپنی اقدار اور نظریے کو بہ زور مسلط کرنے کے منصوبے ہی دراصل تصادم اور ٹکرائو کی جڑ ہیں۔ یہ خواہشات دراصل دوسری عالمی جنگ کے بعد سے امریکا کی عالمی حکمت عملی کے اجزا بنتی جارہی ہیں۔ سردجنگ کے دور میں امریکا نے آزاد دُنیا کے تحفظ اور اشتراکیت دشمنی کے نام پر ان اہداف کو حاصل کرنے کی سعی کی، لیکن سردجنگ کے بظاہر خاتمے کے بعد امریکا نے اس لہر کو باندازِ دگر اور بھی تیز کردیا۔
بدقسمتی سے اب اس کے نئے اہداف میں سرفہرست اسلامی دنیا، احیاے اسلام کی تحریکات اور خود اسلام بن گئے ہیں، جس کا دبے لفظوں میں اور ہیرپھیر کے ساتھ اعتراف تو گذشتہ ۳۰برسوں میں ہوتا رہا ہے، مگر اب امریکا کی نئی قیادت اور اس کے پیچھے دائیں بازو کے مفکرین، ’مراکز دانش‘ (Think Tanks) ،میڈیا اور منظم گروہ کھلے بندوں اعتراف کر رہے ہیں۔ صدرٹرمپ کے دستِ راست اور قومی سلامتی کے ایڈوائزر جنرل فلِن کو صرف تین ہفتوں میں مستعفی ہونا پڑا، تاہم صدرٹرمپ نے اس کو اپنا معتبر ترین ساتھی قرار دیا ہے۔ جنرل فلِن نے متعدد بار اسلام کے بارے میں توہین آمیز الفاظ استعمال کیے۔ ۲۰۱۶ء میں اپنی کتاب The Field of Fight میں اسلام کو کینسر قرار دیتے ہوئے خبث ِ باطن کا اظہار کیا اور متعدد بار ان خیالات کا بہ تکرار اعادہ کیا۔
اکیسویں صدی کو ’امریکا کی صدی‘ اور ساری دنیا کو ’امریکا کے رنگ میں رنگنے ‘کی مہم کا نام ’عالم گیریت‘ (Globalisation) رکھا گیا ہے۔ یوں امریکا انا ولاغیری کے زعم میں مبتلا ہوگیا۔ اس خبط میں دوسروں پر اپنی طاقت کا رُعب جمانا اس کا مقصد ِوجود بن گیا۔ یہی ہے وہ دوراہا ہے جہاں دوسری اقوام میں بھی اپنی آزادی، اپنی عزت اور اپنی اقدار کے تحفظ کے لیے سینہ سپر ہونے کی اُمنگ پیدا ہوئی۔ ہم دیکھتے ہیں کہ آج عالمی سیاست تصادم کے خطرناک راستے کی طرف بڑھ رہی ہے۔
امریکا کاواحد عالمی قوت ہونا، ظاہربین نگاہوں میں ممکن ہے ایک حقیقت ہو، لیکن اس واحد سوپر پاور کا دوسروں پر غلبہ حاصل کرلینا اور ان کو اپنا تابع مہمل بنالینے کی کوشش میں مگن رہنا ایک خطرناک کھیل ہے، جس نے عالمی امن کو تہ و بالا کر دیا ہے۔ غلبہ اور جہانگیری کے انھی عزائم کے حصول کے لیے خارجہ سیاست کے ساتھ فوجی حکمت عملی اور معاشی اثراندازی کا عالم گیر جال اور جاسوسی اور تخریب کاری کا ایک ہمہ پہلو نظام،امریکا نے پوری دنیا کے لیے قائم کیا ہے، اور اسے روز بروز زیادہ مؤثر بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
فوجی معاہدات اور معاشی زنجیروں کا جال ہے جو ریاستی، عالمی مالیاتی اور تجارتی اداروں کے ذریعے پوری دنیا کو اپنے دام میں گرفتار کیے ہوئے ہے۔ سامراجی ایجنڈے کو آگے بڑھانے والے غیرسرکاری اداروں (NGO's) کی ایک فوج اس عالم گیر استیلا کا ہراول دستہ ہے اور جاسوسی کا نظام ہے جو صرف سی آئی اے ہی تک محدود نہیں ہے، بلکہ متعدد بلاواسطہ اور بالواسطہ ایجنسیوں کے ذریعے کام کر رہا ہے۔ یہ تمام مظاہر امریکا کے عالمی سامراجی آکٹوپس کے مختلف پنجے ہیں۔
اس نظام کو قائم رکھنے کے لیے امریکا، جہاں دنیا کے دوسرے ممالک کے مادی وسائل کو ہضم یا بھسم کر رہا ہے، وہیں اپنے شہریوں کے وسائل استعمال کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی جواز پیش کرنے کے لیے مجبور ہے۔ اس مقصد کے لیے ایک زمانے میں اشتراکیت اور روس کا ہوّا تھا، اور ماضی قریب میں سرکش ریاستوں(Rogue States) کا ڈرائونا خواب دکھایا گیا تھا۔ ان کا مقابلہ کرنے کے لیے سی آئی اے کو جو مینڈیٹ سردجنگ کے زمانے میں دیا گیا تھا، وہی اختیاراس کے مقتدر طبقے کو آج چاہیے۔ اس ذہنیت کی عکاسی کرتے ہوئے ۱۹۵۴ء میں وائٹ ہائوس کی ایک خفیہ رپورٹ میں کہا گیا تھا:
اس کھیل کے کوئی قواعد نہیں۔ ہمارے دشمن ہمارے خلاف جو طریقے استعمال کرتے ہیں، ہمیں ان سے زیادہ مؤثر، سوچے سمجھے طریقوں کو ہوشیاری سے استعمال کر کے دشمن کو سبوتاژ کرنا ، مٹانا اور تباہ کرنے کے اسباب مہیا کرنے ہیں۔(Brave New World Order، از جیک نیلسن پال میر، ص ۴۳)
امریکا کی سیاسی اور فوجی قیادت نے ۲۰ویں صدی کے آخری عشرے ہی سے پورے زوروشور سے عوامی جمہوریہ چین، شمالی کوریا اور چند مسلمان ملکوں (ایران، افغانستان، لیبیا، سوڈان) کو امریکا اور مغربی دنیا کے لیے ’اصل خطرہ‘ بنا کر پیش کرنا شروع کیا تھا، اور اب ان میں چار مزید مسلم ممالک عراق، شام، یمن، صومالیہ کا اضافہ کر دیا ہے، اور اس نام نہاد ’خطرے‘ سے مختلف سطحوں پر نبٹنے کے لیے ’جواز‘ کی فضا بنائی جارہی ہے۔
اب سے ۳۴ برس قبل امریکی صدر جمی کارٹر (۸۱- ۱۹۷۷ء) کے قومی سلامتی کے مشیر زبگینیو بریزنسکی نے اپنی کتاب The Grand Chessboard میں صاف لفظوں میں لکھا تھاکہ امریکا کی خارجہ سیاست کا اصل ہدف ہونا ہی یہ چاہیے کہ اکیسویں صدی میں امریکا دنیا کی سوپرپاور رہے اور اس کا کوئی مدمقابل اُٹھنے نہ پائے___ کم از کم پہلی ربع صدی میں تو میدان صرف امریکا ہی کے ہاتھ میں رہنا چاہیے:’’یورپ اور ایشیا دنیا کو کنٹرول کرتے ہیں۔ یہاں امریکا کی برتری برقرار رہنی چاہیے۔ یہ ناگزیر اور لازم ہے کہ یور پ اور ایشیا میں کوئی ایسی طاقت نہ اُبھر پائے جو امریکا کو چیلنج کرسکے‘‘۔
یہی وہ ذہنیت ہے جو امریکا کے پالیسی سازوں اور سیاسی قیادت میں ایک قسم کی رعونت پیدا کرتی آئی ہے۔ اس رعونت کے جواب میں بجاطور پر باقی دنیا میں مایوسی اور بے زاری کی لہریں اُٹھ رہی ہیں۔ کچھ عرصہ پیش تر ایک امریکی وزیرخارجہ نے کسی تکلف اور تردّد کے بغیر امریکا کی اس ذہنیت اور عزائم کا جو اعلان کیا، وہ کالمیرجانسن کی کتاب میں ان الفاظ میں ملتا ہے:
ہمیں طاقت استعمال کرنی پڑتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم امریکا ہیں۔ ہم نوعِ انسانی کے لیے ایک ناگزیر قوم ہیں۔ ہم سربلند ہیں اور ہم مستقبل میں دُور تک دیکھتے ہیں۔ (Blowback: The Costs and Consequences of American Empire، ص ۲۱۷)
واحد عالمی طاقت ہونے کا زَعم ہی وہ چیز ہے جس نے امریکی قیادت میں اس فرعونیت کو جنم دیا ہے۔ اس کی ایک چشم کشا مثال وہ الفاظ ہیں، جن میں اپنی حیثیت کا اظہار امریکی صدر لنڈن بی جانسن (۶۹- ۱۹۶۳ء) نے قبرص کے تنازعے کے موقعے پر یونان کے سفیر سے کیا تھا۔ یونان، امریکا کا ایک دوست ملک اور امریکی قیادت میں فوجی اتحاد ناٹو میں اس کا رفیقِ کار ہے۔ جب یونان کے سفیر گیرانینوز گیگ نیٹس نے امریکا کا حکم نہ ماننے کے لیے، اپنی مجبوری کا اظہار کرتے ہوئے اپنی پارلیمنٹ اور اپنے دستور کے حوالے سے التجا کے لہجے میں بات کی، تو امریکی صدر جانسن طیش میں آگئے اور انھوں نے گالی دے کر یونانی سفیر سے کہا:
بھاڑ میں جائے تمھاری پارلیمنٹ اور جہنم رسید ہو تمھارا دستور___ امریکاایک ہاتھی ہے اور قبرص ایک چھوٹا سا پسّو۔ اگر یہ پسّو ہاتھی کو تنگ کرے گا تو ہاتھی کی سونڈھ اسے کچل دے گی۔ مسٹر سفیر، ہم یونان کو بہت سے امریکی ڈالر دیتے ہیں۔ اگر تمھارا وزیراعظم مجھ سے جمہوریت، پارلیمنٹ اور دستور کی بات کرتا ہے تو یاد رکھو: وہ، اس کی پارلیمنٹ اور اس کا دستور زیادہ دیر باقی نہیں رہیں گے۔ (Should Have Died، از فلپ ڈین، ۱۹۷۷ء، ص ۱۱۳-۱۱۸)
ذرا مختلف پس منظر میں، لیکن اسی ذہنیت کا مظاہرہ امریکا کے چیف آف اسٹاف جنرل کولن پاول (بعدازاں صدر بش جونیئر کے زمانے میں وزیرخارجہ) نے باربار کیا تھا۔جن دنوں امریکا نے بین الاقوامی قانون کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے پانامہ جیسے ایک آزاد ملک پر فوج کشی کی، اس کے صدر کو اغوا کیا اور سزا دی تو اعتراض کرنے والوں کے جواب میں جنرل پاول نے کہا تھا:
ہمیں کنکر کو اپنے دروازے سے یہ کہہ کر باہر پھینکنا ہے کہ یہاں سوپرپاور رہتی ہے۔(Brave New World Order، ص ۸۷)
پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر اپنی برہمی کا اظہار بھی امریکا اسی ذہنیت سے کرتا آیا ہے۔ پاکستان کی سفیر سیّدہ عابدہ حسین سے جو گفتگو جنرل پاول نے کی تھی، وہ نوٹ کرنے کے لائق ہے۔ امریکا سے شائع شدہ کتاب Between Jihad and Salam میں جوائس ڈیوس نے عابدہ حسین کا انٹرویو شامل کیا ہے، جس میں انھوں نے بتایا:
جنرل پاول نے مجھ سے پوچھا: ’’امریکی اعتراضات اور مالی امداد ختم کر دینے کے باوجود پاکستان کو اپنے جوہری پروگرام پر اتنا اصرار کیوں ہے؟ آپ یہ بات جانتی ہیں کہ یہ بم آپ استعمال نہیں کرسکتی ہیں تو اس کے باوجود آپ انھیں کیوں رکھنا چاہتی ہیں؟‘‘
میں نے کہا:’’ جنرل، آپ کیوں ایٹم بم رکھتے ہیں؟‘‘
جنرل پاول نے کہا:’’ ہم کم کر رہے ہیں‘‘۔
میں نے پوچھا: ’’کتنے سے کتنے، جنرل؟‘‘
پاول نے جواب دیا: ’’چھے ہزار سے دو ہزار‘‘۔
میں نے کہا: ’’جنرل، آپ دو ہزار بم رکھیں گے اور چاہتے ہیں کہ ہمارے جو چند بُرے بھلے زمین میں پوشیدہ ہیں، ہم ان سے بھی فارغ ہوجائیں۔ آپ تو ہم سے خودکشی کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ ہم ایک جوہری ریاست کے پڑوس میں رہتے ہیں۔ کیا اگر کینیڈا اور میکسیکو کے پاس بم ہوں تو آپ اپنے بم ختم کردیں گے؟ کیا آپ ایسا کریں گے؟‘‘
جنرل پاول نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا: ’’دیکھیے سفیرصاحبہ، میں اخلاقیات کی بات نہیں کر رہا ہوں، میں آپ سے صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ ہم ریاست ہاے متحدہ امریکا ہیں اور آپ پاکستان ہیں‘‘۔
میں نے کہا: جنرل، آپ کا شکریہ کہ آپ نے صاف صاف بات کی ہے‘‘۔
اپنے اقتدار اور قوت کے نشے میں بدمست ہونا، دوسروں کو خاطر میں نہ لانا، ہرکسی کو اپنے مقابلے میں حقیر سمجھنا اور خودپسندی، تکبر اور زعم میں مبتلا ہوکر دوسروں کی تضحیک کرنا، انسان اور اقوام کے وقار کو بڑھاتا نہیں، کم کرتا ہے۔
ایسی ہی ذہنیت، ان عزائم اور ایسے مطالبات کے ساتھ امریکا دنیا میں جمہوریت کا علَم بردار، حقوقِ انسانی کا محافظ، قانون کی مساوات اور پاس داری کا داعی اور انصاف کا پرچارک ہونے کا دعویٰ کرتا ہے___ اور اس کی اسٹرے ٹیجی کا ہدف یہ ہے کہ پوری دنیا کو امریکا کے وژن اور اقدار کو قبول کرلینا چاہیے۔ یہی دراصل سامراجیت کی روح ہے جس کی بنا پر امریکا اور باقی دنیا کے درمیان اجنبیت، فاصلہ اور تلخی پیدا ہورہی ہے۔
امریکا کی ٹفٹس یونی ورسٹی میں علمِ سیاسیات کے پروفیسر ٹونی اسمتھ نے ایتھکس اینڈ انٹرنیشنل افیئرز میں ۱۶برس پیش تر اپنے مضمون میں متنبہ کیا تھا کہ نہ امریکا کی طاقت غیرمحدود ہے اور نہ اسے یہ حق حاصل ہے کہ اپنے نظام اور اقدار کو دوسروں پر مسلط کرے، کیوں کہ یہ لبرل امپریلزم ہی کی ایک شکل ہے جس کا موجودہ زمانے میں کوئی جواز نہیں:
امریکی طرزِ حیات، اقدار اور اداروں کو دنیا کی دوسری اقوام میں رُوبہ عمل لانے کی کوشش میں ناکامی کا اندیشہ ہے۔ اس لیے نہیں کہ امریکی طاقت محدود ہے، بلکہ اس لیے کہ بڑے پیمانے پر اس کا استعمال بھی ان عقائد اور طریقوں میں اصلاح نہ کرسکے گا جو بنیادی طور پر امریکی طریقۂ کار کے مخالف ہیں۔ چین، مسلم دنیا یا روس کا امریکی مطالبوں کے آگے سپر ڈالنے کے لیے آمادہ ہونا بعید از امکان ہے۔ (Ethics & International Affairs ، ج ۱۴، ص ۶۰، مئی ۲۰۰۱ء)
بلکہ ا س سے بھی پہلے معروف امریکی مفکر والٹرلپ مین نے بڑی پتے کی بات کہی تھی:
جب ایک قوم ساری دنیا کے نظام کو یکساں شکل دینے کی ذمہ داری خود سنبھال لیتی ہے تو اس طرح دراصل وہ دوسروں کو اپنے خلاف متحد ہونے کی دعوت دیتی ہے۔ ایک ایسی دنیا میں جہاں اس بات کا امکان ہے کہ جوہری اسلحہ وسیع پیمانے پر تشکیل پائے۔ یہ چیز کسی بھی صورت میں امریکی عوام کی قومی سلامتی کے لیے کوئی خوش کُن راستہ نہیں ہوگا۔(رچرڈ بارنیٹ، Intervention and Revolution ، ۱۹۶۸ء، ص ۳۱۲)
اگرچہ امریکا اپنی موجودہ عظیم طاقت کو دنیا میں ایک ایسا ماحول پیدا کرنے کے لیے استعمال کرسکتا ہے، مگر اس کے برعکس جب تک امریکی یہ خام خیالی نہ چھوڑ دیں گے کہ دنیا بھر میں تبدیلی لانا ان کا حق اور فرض ہے، اس وقت تک خود امریکیوں کو بھی امن نصیب نہیں ہوسکے گا۔(ایضاً، ص ۳۳۲)
ہم سمجھتے ہیں کہ امریکا پر بے اعتمادی اور اس کی مخالفت کا پہلا اور سب سے اہم سبب دنیا کے ممالک میں کوئی خرابی یا مرض نہیں بلکہ امریکا کا یہی زعمِ باطل ہے کہ: ’’وہ واحد سوپر پاور ہے اور ہمیشہ سوپر پاور ہی رہے گا۔ اس کا حق ہے کہ دنیا اس کے سامنے جھکے اور اس کی بالادستی قبول کرے‘‘۔
زمینی حقائق کے مطابق دنیا اسے ایک بڑی طاقت تو تسلیم کرے گی، مگر اس کے آگے سجدہ ریز ہونے کے لیے کبھی تیار نہ ہوگی۔ وہ اس سے دوستی کا تعلق بخوشی رکھے گی، مگر غلامی اور چاکری کا مقام کبھی قبول نہیں کرے گی۔ اگر امریکی حکومتیں تھوڑی سی حقیقت پسندی قبول کرلیں اور بالادستی اور شہنشاہی کی حکمتِ عملی کو ترک کرکے تکبر اور رعونت کے راستے کو چھوڑدیں، تو دُنیا ان کے لیے بھی اور دوسروں کے لیے بھی ایک بہتر جگہ بن سکتی ہے، اور ان کے عزت و وقار میں اضافہ ہوگا۔
امریکا سے دنیا کی بے زاری کے اسباب کو سمجھنے کے لیے امریکا کو خود اپنے رویے اور اپنے وعدوں اور عمل کے فرق پر غور کرنا ہوگا۔ اکیسویں صدی کے بالکل آغاز میں ایک چشم کشا کتاب Blowback: The Costs and Consequences of American Empire
۲۰۰۰ء میں شائع ہوئی تھی (’بلوبیک‘ سی آئی اے کی اصطلاح ہے، جس کا مفہوم امریکی عوام کی لاعلمی میں کیے جانے والے اقدامات کا ردّعمل ہے۔ اس کا ترجمہ ’مکافات‘ بھی کیا سکتا ہے)۔ تب اس کے مصنف کالمیر جانسن، یونی ورسٹی آف کیلی فورنیا، سان ڈیاگو (امریکا) کے پروفیسر تھے۔ یہ کتاب امریکا اور برطانیہ سے بہ یک وقت شائع ہوئی تھی۔ مصنف نے امریکا کو اپنے رویے پر غور کرنے کی دعوت دی تھی اور تقریباً وہی بات کہی ہے، جو باقی دُنیا کے سوچنے سمجھنے والے عناصر کی زبان پر ہے:
مجھے یقین ہے کہ غیرمتعلق اسلحے کے سسٹم پر ہمارے وسائل کا غیرمعمولی ضیاع، عسکری ’حادثوں‘ کا مسلسل جاری رہنا اور امریکی سفارت خانوں اور چوکیوں پر دہشت گرد حملے، ۲۱صدی میں امریکا کی غیر رسمی سلطنت کے لیے بحران پیدا کرنے والے بنیادی عناصر ہیں۔ امریکا، ایک ایسی سلطنت جو دنیا کے ہرحصے پر فوجی طاقت کے دبائو اور اپنی شرائط، مگر دوسروں کی قیمت پر امریکی سرمایے اور منڈی کو استعمال کرکے عالمی اقتصادی اتحاد قائم کرنا چاہتی ہے۔ ہم نے اپنے آپ کو ضمیر کی ہرایسی خلش سے بھی آزاد کرلیا ہے، کہ ہم اس دنیا کے دوسرے لوگوں کو کتنے بُرے نظر آرہے ہیں۔ بیش تر امریکی غالباً جانتے ہی نہیں ہیں کہ واشنگٹن ، دنیا کی اقوام پر کس طرح اپنی بالادستی استعمال کرتا ہے، کیونکہ اس سرگرمی کا کافی حصہ خفیہ یا دوسرے حیلوں بہانوں کے پردے میں انجام پاتا ہے۔ اس حوالے سے بہت سوں کو یہ یقین کرنے میں دقّت پیش آئے گی کہ دنیا میں ہماری حیثیت ایک عالمی سلطنت کی سی ہوگئی ہے۔ لیکن جب ہم کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا ملک خود اپنی بنائی ہوئی سلطنت کا اسیر ہوگیا ہے تو ہمارے لیے دنیا کے بہت سے واقعات کی تشریح کرنا ممکن نہیں رہتا..... سوچنا چاہیے کہ انسانی حقوق، جوہری پھیلائو، دہشت گردی اور ماحول کے بارے میں غیرملکیوں کو امریکی پالیسیاں تضاد کا شکار کیوں نظر آتی ہیں؟ (کالمیر جانسن، حوالۂ مذکورہ، ص ۷-۸)
امریکا اور امریکیت کے اس عالمی رُوپ کو سامنے رکھتے ہوئے اُمت مسلمہ اور پاکستان کو یہ اُمور مدنظر رکھنے چاہییں:
امریکا اور مغربی اقوام آج خواہ کتنی ہی قوی کیوں نہ ہوں، ان کی موجودہ بالادستی اور وسائل پر غلبے اور دسترس کا اِدراک کرنے کے ساتھ، اس عزم کا اعادہ بھی ضروری ہے کہ مسلمان اپنا جداگانہ تشخص رکھتے ہیں ۔ ان کی منزل اپنی آزادی اور اپنی تہذیب کی ترقی اور فروغ ہے، جو دوسروں کی غلامی یا بالادستی کے تحت جاے پناہ پر قناعت سے حاصل نہیں ہوسکتی۔ اگر امریکا کا ایک بڑی مادی قوت ہونا ایک حقیقت ہے، تو مسلم اُمت کے ایک ارب ۳۰کروڑ نفوس بھی ایک حقیقت ہیں، جنھیں نہ نظرانداز کیا جاسکتا ہے اور نہ محض طاقت سے غلام بنایا جاسکتا ہے۔
اس لیے ضروری ہے کہ تصادم سے پہلو بچاتے ہوئے اپنے گھر کی اصلاح، دینی و دُنیوی علم میں پختگی ، اپنے داخلی اتحاد کا حصول، اپنے وسائل کی ترقی اور اپنی قوت کا استحکام ہمارا بنیادی ہدف ہونا چاہیے۔ اس کے لیے اپنے ایمان، اپنے دین اور اپنے نظریے پر مضبوطی سے قائم رہنا، وقت کے چیلنج کو سمجھنا اور اپنی بنیادوں کو استوار کرکے اس کا مقابلہ کرنے کی تیاری ہماری فکروسعی کا محور ہونا چاہیے۔
اس کام کو انجام دینے کے لیے ہمیں کچھ عالم گیر اصولوں کو اپنی دعوت اور حکمت عملی کی بنیاد بنانی چاہیے اور دنیا کے تمام انسانوں اور تمام اقوام کو ان کی طرف لانے کی کوشش کرنا چاہیے۔ ہمیں نہ دوسروں کا کاسہ لیس ہونا چاہیے، اور نہ ہر ایک سے الگ تھلگ رہنے اور تعلقات توڑنے کا راستہ اختیار کرنا ہی کوئی صحیح طرزِعمل ہوسکتا ہے۔ قدرِ مشترک کی تلاش اور اس پر تعلقات استوار کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ دنیا کے حالات بھی اس مقام پر ہیں کہ کچھ اصولوں اور مشترک اقدار پر سب کو جمع کیا جاسکتا ہے۔ اس لیے کہ اسی میں تمام انسانوں کی بھلائی ہے۔ بجاے اس کے کہ مسلمان محض دوسروں کے اقدامات پر ردعمل تک اپنے آپ کو محدود رکھیں، ہمیں آگے بڑھ کر پوری انسانیت (بشمول مغربی اقوام) کو کچھ بنیادوں پر متفق کرنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ اس سلسلے میں درج ذیل اصول ہماری عالمی دعوت کا محور بن سکتے ہیں:
۱- تمام اقوام کی آزادی، حاکمیت اور سلامتی کا تحفظ ناگزیر ہے۔ اقوامِ متحدہ کے چارٹر کی بنیاد، تمام انسانوں کی برابری، تمام اقوام کی آزادی اور ان کا حقِ خود ارادیت ہے۔ اسلام نے اسی اصول کو انسانیت کے سامنے پیش کیا تھا اور یہ اصول استعماریت اور امپریلزم کی جڑ کاٹ دیتا ہے۔
۲- کسی ایک ملک یا تہذیب کی بالادستی پر اُستوار نظام عالمی امن کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ سب اس اصول کو تسلیم کریں کہ ہرقوم کو اپنی تہذیب و ثقافت کی پاس داری کا حق ہے اور دنیا کی یک رنگی، فطرت کے خلاف اور انصاف کے تقاضوں سے متصادم ہے۔ اس لیے سب کو اپنے اپنے اصول و اقدار کی روشنی میں ترقی کے مواقع حاصل ہونے چاہییں۔
۳- تمام انسانی معاملات کو دلیل اور مکالمے (Dialogue) کے ذریعے حل کیا جائے اور قوت کے استعمال کو قانون اور عالمی انصاف کے تابع کیا جائے۔ ہرقسم کے تشدد کے خلاف عالمی راے عامہ کو منظم کیا جائے اور اس میں دہشت گردی کی ہرشکل میں مخالفت شامل ہو۔ نیز دہشت گردی اور آزادی کے حصول یا ملک و ملّت کی حفاظت کے لیے جدوجہد کو اس سے ممتاز و ممیز کیا جائے اور قوت کے استعمال کی حدود اور اس کا ضابطۂ کار متعین کیا جائے۔
۴- انصاف کے حصول کے لیے دنیا کے تمام انسانوں اور اقوام کو ایک منصفانہ عالمی نظام کا حصہ بنایا جائے۔ انصاف ہی وہ مثبت بنیاد ہے جس پر عالمی امن قائم ہوسکتا ہے اور ظلم کی دراندازیوں سے انسانوں کو بچایا جاسکتا ہے۔
۵- بین الاقوامی تعاون اور اشتراک کے ساتھ ساتھ قوموں یا ملکوں کے الحاق کی اجتماعی خودانحصاری کے اصول کا احترام کیا جائے۔ اس سے عالم گیریت کا ایک ایسا نظام وجود میں آسکتا ہے جس کے تحت اگر ایک طرف انسانوں، مالِ تجارت، مالی اور دوسرے وسائل کی نقل و حمل میں سہولت ہو، تو دوسری طرف ایسے عالمی ادارے وجود میں آسکیں جس کے نتیجے میں سب کو خوش حالی، استحکام اور باعزت زندگی حاصل ہوسکے۔
ان پانچ بنیادوں کی طرف دنیا کے تمام انسانوں کو دعوت دے کر اُمت مسلمہ اور پاکستان ایک ایسے عالمی نظام کی داغ بیل ڈال سکتے ہیں ، جو حقیقی امن و انصاف کا ضامن ہوسکتا ہے۔
بلاشبہہ آج کے طاقت ور اس کی راہ میں حائل ہوں گے، لیکن دنیا کے تمام دوسرے ممالک کو منظم اور متحرک کر کے اور پُرامن ذرائع سے عالمی راے عامہ کو منظم کرکے اس قدرِ مشترک کو نئے نظام کی بنیادبنایا جاسکتا ہے۔ نیز یہ اسی وقت ممکن ہوگا جب دنیا کے ممالک دوسروں پر بھروسا کرنے کے بجاے اپنے اُوپر بھروسا کر کے اپنے وسائل کو صحیح صحیح استعمال کرنے اور منظم کرنے کی جدوجہد کریں اور تعاون اور اشتراک کی منصفانہ شکلوں کو رواج دیں۔ جس طرح دنیا کے بہت سے ممالک میں، بشمول آج کے ترقی یافتہ مغربی ممالک، اندرونِ ملک دولت کی تقسیم اور قوت کے توازن کو حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور اس میں ایک درجہ کامیابی بھی حاصل ہوتی ہے، اسی طرح عالمی سطح پر ایک متوازن اور منصفانہ نظام کا قیام ممکن ہے، بشرطیکہ اس کے لیے صحیح طریقے پر مسلسل جدوجہد ہو۔
اس ایجنڈے کو عالمی سطح پر محض پیش کرنا مطلوب نہیں۔ اس ایجنڈے پر دنیا کو لانا اسی وقت ممکن ہوگا جب مسلمان ممالک خود اپنے گھر کو درست کریں اور اس کا آغاز خود احتسابی سے کریں۔
آج جو کچھ ہو رہا ہے، اسے ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہونا چاہیے۔ جو افراد یا ملک یہ سمجھتے تھے کہ امریکا سے دوستی کے ذریعے ان کو حفاظت، عزت اور سلامتی مل جائے گی اور جو اپنی دولت اپنے ملکوں میں رکھنے کے بجاے امریکا اور یورپ میں اسے محفوظ سمجھ رہے تھے، ان کو اندازہ ہو جانا چاہیے کہ انھوں نے کیسا کمزور سہارا تھاما تھا اور کس طرح خود کو دوسروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا تھا۔
اس سے یہ سبق بھی حاصل کرنے میں کوتاہی نہیں کرنی چاہیے کہ مانگے کا اُجالا کبھی روشنی کی ضمانت نہیں دے سکتا۔ یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ خودانحصاری اور اپنی قوت کی تعمیر کے بغیر آپ اپنی آزادی، اپنے ایمان اور اپنی عزت کی حفاظت نہیں کرسکتے۔ مقصد کسی سے لڑنا نہیں لیکن اپنے گھر کی تعمیر اور اپنے ممالک کی مضبوطی اور دوسروں پر محتاجی سے نجات، قومی سلامتی کے لیے ازبس ضروری ہے۔
اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ مسلم ممالک میں خود اپنے عوام پر اعتماد کی فضا پیدا کی جائے۔ شخصی اور سیاسی آزادیاں حاصل ہوں، اختلاف کو برداشت کیا جائے ، اور معیشت اور سیاست پر چند خاندانوں کی اجارہ داری کو ختم کیا جائے، کہ اسی میں اصحابِ اقتدار کے لیے بھی خیر ہے اور مسلم عوام کے لیے بھی۔
کسی بھی قوم کی ترقی کے لیے جہاں نظریہ اور قومی تشخص ضروری ہے وہیں سیاسی، معاشی اور اداراتی نظام کا ایسا آہنگ درکار ہے، جس میں سب کی شرکت ہو، عوام اور حکمرانوں کے درمیان کش مکش کے بجاے تعاون اور اشتراک کا رشتہ قائم ہو۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرف ان الفاظ میں اشارہ فرمایا ہے: ’’تمھارے بہترین حکمران وہ ہیں جن سے تم محبت کرتے ہو اور جو تم سے محبت کرتے ہیں، اور بدترین حکمران وہ ہیں جن سے تم نفرت کرتے ہو اور جو تم سے نفرت کرتے ہیں‘‘۔ (مسلم، کتاب الامارۃ، حدیث: ۳۵۳۶)
پھر اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ آزادی اور اشتراک کے ساتھ تعلیم، زندگی کی بنیادی سہولتوں کی فراہمی، روزگار کے مواقع اور دولت کی منصفانہ تقسیم کو ملکی پالیسی میں مرکزیت کا مقام حاصل ہو۔ وقت کی ٹکنالوجی کو حاصل کیا جائے اور ایجاد و اختراع اور تحقیق و تفتیش کے ذریعے علم اور سائنس پر عبور حاصل کیا جائے۔ نیز معیشت اور ٹکنالوجی کے میدانوں میں بھی خودانحصاری کی پالیسی اختیار کی جائے۔
عالمی طاقتوں کے دبائو سے نکلنے کے لیے خود انحصاری کی جانب گام زن ہونے کا مطلب دنیا سے الگ تھلگ ہونا نہیں ہے۔ اس کے صرف یہ معنی ہیں کہ ہمیں وسائل پر اتنی دسترس حاصل ہو کہ ہم اپنی پالیسیاں، اپنے مقاصد اور اہداف کے مطابق خود طے کرسکیں، اور دوسروں کی ایسی محتاجی نہ ہو کہ وہ ہماری پالیسی پراثرانداز ہوسکیں۔ دنیا کے تمام ممالک سے تعاون اور تجارت سب کے لیے اسی وقت بہتری کا باعث ہوسکتے ہیں، جب خودانحصاری کے ساتھ یہ تعاون ہو ورنہ یہی بین الاقوامی رشتے اور معاملات ظلم اور استحصال کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔
مسلمان ممالک کی تعمیر و ترقی میں یہ بات بھی سامنے رہے کہ یہ اُمت ، ’اُمت ِ وسط‘ ہے جس کا کام دنیا کے سامنے خدا کے پیغام کی شہادت دینا ہے اور جو انصاف کے فروغ اور نیکیوں کی ترویج اور بُرائیوں سے نجات کی داعی ہے۔ اس اُمت میں اگر تشدد کی سیاست دَر آئی ہے تو یہ اس کے مشن اور مزاج سے مطابقت نہیں رکھتی اور یہ اس کے اصل کردار پر ایک بدنما دھبّا ہے۔ انفرادی زندگی ہو یا اجتماعی، اسلام: تشدد، زور زبردستی اور اکراہ کا مخالف ہے اور محبت، بھائی چارے، رواداری اور تعاون و اشتراک کو فروغ دینا چاہتا ہے۔
جہاد کا مقصد انصاف کا قیام اور تمام انسانوں کے لیے آزادی، عزت اور عدل کی ضمانت ہے۔ جہاد اپنی تمام صورتوں میں___یعنی نفس کے ساتھ جہاد، زبان اور قلم سے جہاد، مال سے جہاد اور جان سے جہاد___ واضح اخلاقی حدود اور مقاصد کا پابند ہے۔ ہرسطح پر اس کے تصور، تعلیم اور تبلیغ کی ضرورت ہے تاکہ جہاد کا صحیح فہم و ادراک ہو اور اس کی نعمتوں سے مسلمان اور غیرمسلم سب فیض یاب ہوسکیں۔ یوں تو جہاد کے اس تصور کا فہم اور احترام ہر دور میں ضروری تھا مگر آج جب جہاد کو بدنام کرنے کی کوشش ہورہی ہے اور اسے تشدد اور دہشت گردی کے مترادف قرار دیا جارہا ہے، اس وقت جہاد کی تفہیم اور جہاد کے آداب کے مکمل احترام کی ضرورت ہمیشہ سے زیادہ ہے۔ جہاد اسلام کی ابدی تعلیم اور اس کا رکن رکین ہے۔ اس کا یہ کردار سب سے پہلے خود مسلمانوں کے سامنے واضح ہونا چاہیے تاکہ غیرمسلم بھی اس کی گواہی دے سکیں۔
عصرِحاضر میں اسلامی تحریکات کی خدمات میں سے ایک نمایاں خدمت یہ ہے کہ ایک طرف اس نے جہاد اور روحِ جہاد کے احیا کا کارنامہ انجام دیا ہے، تو دوسری طرف جہاد کے مقاصد، آداب اور ضابطۂ کار کی وضاحت اور احترام کر کے اس کے اصل کردار پر توجہ مرکوز کی ہے اور مسلمانوں کو اس کا پابند بنانے کی کوشش کی ہے۔
مسلم ممالک کے درمیان معاشی، سیاسی، تعلیمی، ٹکنالوجی اور میڈیا کے میدانوں میں قریب ترین تعاون بلکہ اتحاداورالحاق کی ضرورت ہے، جو نظریے اور تاریخ کے اشتراک کے ساتھ مفادات کے اشتراک اور سیاسی اور معاشی حوالوں سے باہمی تعاون اور احترام کی محکم بنیادوں پر استوار ہونا چاہیے۔ یہ ایسی ضرورت ہے، جسے مؤخر نہیں کیا جاسکتا۔ اس نظام میں تنازعات کے تصفیے کا بھی مناسب انتظام ہونا چاہیے، تاکہ حقیقت پسندی سے اتحاد کو مستحکم کیا جاسکے۔ عالمی سطح پر مسلم نقطۂ نظر کو پیش کرنے کے لیے میڈیا کی مؤثر ترقی و تنظیم بھی ضروری ہے۔
اسلام کے عالمی کردار کی مؤثر ادائی اسی وقت ممکن ہے جب تمام مسلمان ملک اور اُمت مسلمہ ان خطوط پر اپنی اجتماعی زندگی کی تشکیل کرے۔ ’اُمت ِ وسط‘ کی حیثیت سے اللہ کی بندگی اور انسانوں کے لیے انصاف اور فلاح کے نظام کی داعی کی حیثیت سے اپنے گھر کی تعمیر کرے اور دنیا کے سامنے اس کا نمونہ پیش کرے۔
وقت کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے پاکستان اور اہلِ پاکستان پر بھی ایک بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ہمارے اندرونی معاملات میں بیرونی قوتوں کی چھپی اور کھلی دراندازیاں مشکلات میں اضافے اور آزادی کے لیے خطرات کا باعث ہیں۔ ان حالات کا تقاضا ہے کہ تصادم، عدم مشاورت اور وقت گزاری کی پالیسی ترک کرکے ایک ایسی پالیسی اپنائی جائے، جس میں پاکستان، اس کے نظریے اور قوم کی سلامتی اور ترقی کو یقینی بنایا جاسکے۔ اس کے لیے درج ذیل اُمور فوری توجہ کے طالب ہیں:
۱- اللہ سے وفاداری اور اس پر بھروسے کو سب چیزوں پر اولیت دی جائے۔ اللہ کی طرف رجوع ہو اوراپنی غلطیوں اور کمزوریوں کا اپنے مالک کے حضور اعتراف کرکے اس سے طاقت اور رہنمائی طلب کی جائے۔ پوری قوم اور اس کی قیادت اپنے خالق و مالک کا دامنِ رحمت تھامے اور اس سے مدد مانگے۔
۲- عوام پر اعتماد کیا جائے اور ان کو اعتمادمیں لیا جائے اور مؤثر طور پر ان کو قومی سلامتی، ترقی اور تعمیرنو کے لیے متحرک کیا جائے۔
۳- ایسی نظریاتی کش مکش اور لاحاصل بحث سے بچا جائے جس میں مغربی میڈیا اور دانش ور ہمیں مبتلا کردینا چاہتے ہیں۔ ’بنیاد پرستی‘، ’انتہاپرستی‘ اور ’فرقہ پرستی‘ ہمارے مسائل نہیں۔ جدید اور قدیم کی بحثیں بھی بہت پرانی باتیں ہیں اور ہم ان سے گزر چکے ہیں۔ اسلام کی بنیادی تعلیمات بہت صاف اور واضح ہیں۔ اسلام ایک مکمل نظامِ زندگی ہے جو بنیادی اخلاقی اقدار کی روشنی میں انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی تشکیل کرتا ہے۔ سیکولرزم ایک مُردہ گھوڑا ہے ، اس پر سواری کے خواب دیکھنا ایک حماقت ہے۔ پاکستان کے دستور نے جن تین بنیادوں کو واضح طور پر پیش کر دیا ہے، یعنی: اسلام، جمہوریت اور وفاقی طرزِحکومت انھیں متفق علیہ بنیاد بناکر قومی پالیسی کی تشکیل کی جائے اور ان طے شدہ اُمور کو ازسرِنو زیربحث لانے کی جسارت نہ کی جائے۔ اسلام اعتدال کا دین ہے۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد، دونوں برابر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ضرورت اس پر عمل کی ہے۔ ہمارا ایجنڈا، ہماری تحریک ِ آزادی اور ہماری قراردادِ مقاصد، ہمارے دستور میں طے ہے۔ اسے مضبوطی سے تھام لیجیے۔
۴- ملک کی دفاعی قوت کی حفاظت کو اولیت حاصل ہے۔ اس خطے میں امریکی فوجوں کی موجودگی پاکستان کے لیے ایک خطرہ ہے۔ اسی طرح بھارت کے عزائم کا ادراک اور مقابلے کے لیے فوج اور قوم میں ہم آہنگی اور دونوں کا متحرک و فعال ہونا ضروری ہے۔
۵- پاکستان اور اسلامی دنیا میں ایسی معاشرتی ترقی کا حصول جو ملکی پیداوار اور پیداآوری صلاحیت میں ہمہ افزوں اضافے کا باعث ہو، ترقی کی رفتار میں نمایاں اضافہ کیا جائے، تاکہ ملک کی مارکیٹ وسیع تر ہو۔ جدید ٹکنالوجی کا حصول اور ترقی جس کا لازمی جزو ہو۔ معاشی انصاف اور دولت کی منصفانہ تقسیم جس کا مرکزی ہدف ہو اور جس کا مطلوب معاشی ترقی کے ساتھ عدلِ اجتماعی کا قیام اور خود انحصاری کا حصول ہو۔ عسکری قوت کے ساتھ معاشی قوت کا حصول بھی باعزت زندگی کے لیے لازمی شرط ہے۔
۶- جموں و کشمیر میں بھارتی افواج کی بہیمانہ سرگرمیوں کی مذمت کرنے اور مظلوم کشمیری مسلمانوں کے حقِ خود ارادیت کے بارے میں مکمل یکسوئی اور مضبوط و متحرک موقف پر عمل درآمد کی راہوں پر چلنے کی ضرورت ہے۔ حکومت ِ پاکستان کو کشمیر کمیٹی کی ازسرِنو تشکیل کرکے، دنیا بھر کے سامنے کشمیر کے مقدمے کو پوری قوت سے پیش کرنا چاہیے۔
۷- افغانستان میں بدامنی کی فضا کو قائم رکھنا امریکا اور بھارت کی ضرورت ہے، تاکہ وہاں ان کی موجودگی کا کوئی نہ کوئی جواز پیش کیا جاسکے۔ اس ضمن میں چین اور روس کے ساتھ مل کر وہاں امن قائم کرنے کی جو کوششیں ہورہی ہیں، انھیں تیز تر کیا جائے اور کابل میں محدود انتظامیہ کو افغانستان کی نمایندہ قوت تصور کرنے کے بجاے وہاں کی اصل قوت کے مراکز کو شریکِ مشورہ کیا جائے۔ دین، تاریخ اور مشترک مفادات کی بنیاد پر امن اور باہمی تعاون کو فروغ دیا جائے۔
۸- فلسطین پر مغربی اقوام کی زیرسرپرستی صہیونی سلطنت کے ناجائز وجود کو ختم کیا جائے اور اعلانِ بالفور کے بعد ایک سو سال سے مسلط کردہ جبری خوں ریزی کا خاتمہ کیا جائے۔
۹- مسلم ممالک بالخصوص عرب ممالک سے تعلقات میں گہرائی پیدا کی جائے اور مشترکہ حکمت ِعملی کی ضرورت و اہمیت کو اُجاگر کیا جائے۔
۱۰- ایران اور وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ مشترک مفادات میں باہم تعاون کو بڑھایا جائے۔
ہمیں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ ایک جانب یہ اُمور حکومت ِ پاکستان کے مثبت اور مؤثر کردار کا تقاضا کرتے ہیں تو دوسری جانب وطن عزیز کے اہلِ دانش اور ماہرین کو بھی حق کی گواہی اور وقت کے چیلنج کا جواب دینے کے لیے پکارتے ہیں۔
امریکی صدارتی نظام میں، روایتی طور پر نئے صدر کے پہلے سو دن بڑے فیصلہ کن سمجھے جاتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے جہاں اپنے بارے میں خاص و عام کے بہت سے اندازوں کو غلط ثابت کیا ہے اور قدم قدم پر حیرت میں مبتلا کیا ہے، وہیں اپنی صدارت کے پہلے دس دن میں وہ کچھ کرڈالا جو دوسرے سو دن میں نہیں کرپاتے۔ یہ اور بات ہے ان ’حیرتوں‘ کے نتیجے میں خوشی کے نغمے کم ہی بلند ہوئے ہیں اور خوف و ہراس اور اضطرابی احتجاج کی لہروں نے امریکا ہی نہیں پوری دنیا میں ہلچل مچا دی ہے۔ سی این این پر ایک امریکی تجزیہ نگار نے خوب کہا ہے کہ: Trump's ten days as President have created a Tsunami of humam misery (ٹرمپ کے بطور صدر، دس دنوں نے انسانی بدبختی کا سونامی دکھا دیا ہے۔)
معروف سیاسی تجزیہ کار خیال کرتے تھے کہ ڈونلڈ ٹرمپ، ری پبلکن پارٹی کی اُمیدواری کی منزل سر نہیں کرسکیں گے لیکن موصوف نے بڑی چابک دستی سے اپنے تمام گھاگ اور تجربہ کار حریفوں کو مات کر دیا۔ اسی طرح ڈیموکریٹک پارٹی کی صدارتی اُمیدوار امریکا اور امریکا کے باہرعالمی سیاست پر نظر رکھنے والے بیش تر دانش وروں، صحافیوں، سفارت کاروں اور سیاسی مبصرین کا خیال تھا اور راے عامہ کے تمام ہی سروے یہ خبر دے رہے تھے کہ ہیلری کلنٹن انتخاب جیت جائیں گی، لیکن ۹نومبر۲۰۱۶ء کو سب ورطۂ حیرت میں ڈوب گئے کہ ہیلری سے ۲۹لاکھ کم ووٹ حاصل کرنے کے باوجود صدارتی بازی ٹرمپ نے جیت لی۔
اسی طرح سبھی سمجھ رہے تھے کہ انتخابی مہم کے دوران بلند بانگ دعوے، دل خوش کُن وعدے، ہوش ربا اعلانات، حتیٰ کہ جو متضاد پالیسی اہداف پوری تحدی اور خطابت کی گرم گفتاری کے ساتھ اس صدارتی امیدوار نے بیان کیے تھے، وہ محض سب انتخابی مہم کا حصہ تھے۔ صدارت کی ذمہ داری پڑنے کے بعد یہ صاحب ہوش کے ناخن لیں گے اور منقسم قوم کو جوڑنے اور حقیقت پسندی کی دنیا میں سب کو ساتھ لے کر چلنے کے جذبے سے ملکی اور عالمی سیاست کو ایک مثبت جہت دینے کے لیے اُمید اور روشنی کے پیامی بن کر اپنے صدارتی دور کا آغاز کریںگے لیکن ٹرمپ صاحب نے نہ صرف اپنی صدارتی تقریر میں ان سب توقعات کو پاش پاش کر دیا، بلکہ اپنی ٹیم کے انتخاب اور صدارت کے پہلے دس دنوں ہی کے اقدامات میں وہ تشویش ناک صورتِ حال پیدا کردی، جس میں حالات کی سنگینی پر نظر رکھنے والے ’تباہی اور بربادی کے سونامی‘ کے خطرات دیکھ رہے ہیں۔ صاف نظر آرہا ہے کہ آنے والے چار سال امریکا ہی نہیں پوری دنیا کے لیے بڑے طوفانی سال ہوں گے اور امریکی عوام اور دنیا کی تمام ہی اقوام کو سیاسی زلزلوں کے جھٹکوں اور ان کے جلو میں پیدا ہونے والے بعد از تلاطم صدمات ( after-shocks)سے سابقہ رہے گا۔
۲۱ویں صدی کا آغاز ’نائن الیون‘ (۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء) کے نیویارک ورلڈ ٹریڈ سنٹر اور واشنگٹن کے پینٹاگون پر ہوائی حملے سے ہوا جس کے نتیجے میں مسئلے سے نبٹنے کے لیے کوئی مثبت اور سوچی سمجھی حکیمانہ پالیسی بنانے کے بجاے، نشۂ قوت کی بدمستی میں پوری دنیا کو دہشت گردی کے خلاف ایک عالمی جنگ کی آگ میں جھونک دیا گیا۔ جدید تاریخ کی یہ عجیب و غریب جنگ ۱۵سال سے جاری ہے۔ جس میں افغانستان، عراق، شام اور لیبیا تباہ کر دیےگئے ہیں۔ ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کو امریکا میں ۴۰ممالک کے تقریباً ۳ہزار افراد کی ہلاکت کا بدلہ لینے کے لیے امریکا نے اپنی سربراہی میں جو جنگ شروع کی تھی، اس میں ۶لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ امریکا اور ناٹو کے ہلاک ہونے والے فوجی افسروں اور جوانوں کی تعداد ۳ہزار سے تجاوز کرگئی ہے۔اس سے چارگنا زیادہ زخمی اور اپاہج ہوچکے ہیں۔ ۸۰لاکھ سےزائد افراد بے گھر ہوچکے ہیں، جن میں سے ایک بڑی تعداد اپنے اپنے تباہ کردہ ممالک میں یا پھر دیگر ممالک میں مہاجرت پر مجبور ہوئی ہے۔ مالی اعتبار سے دنیا اس جنگ کی جو قیمت اب تک ادا کرچکی ہے اس کا اندازہ ۶ سے ۸ ٹریلین ڈالر ہے، جس کا اگر نصف بھی دنیا کے انسانوں کو غربت، بھوک اور بیماری سے نجات دلانے کے لیے استعمال ہوتا تو دنیا کی آبادی کا ۵۰ فی صد (۳ء۶ ملین افراد) جو اس وقت غربت ، جہالت اور فاقہ کشی کا شکار ہے۔ترقی یافتہ ممالک کی اوسط آمدنی کی آبادی کے معیار کے برابر آسکتا تھا۔
ٹرمپ کی سربراہی میں امریکا کی نئی قیادت جو زبان استعمال کر رہی ہے اور جن عزائم کا اظہار کر رہی ہے، اس کے نتیجے میں ذہن یہ بات سوچ کر مائوف ہو جاتا ہے کہ ’الیون نائن‘ (۹نومبر) کے صدارتی انتخابی نتائج دنیا کو ’نائن الیون‘ کے زلزلے سے بھی بڑے زلزلے کی طرف لے جارہے ہیں۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ ’الیون نائن‘ کے نتیجے میں ۲۰جنوری ۲۰۱۷ء کو جس قیادت نے امریکا کی زمامِ کار سنبھالی ہے، اس کے ذہن، تصورِ جہاں، سیاسی شاطرانہ چالوں، معاشی حکمت عملی اور اندازِ کار کو ٹھنڈے دل و دماغ سے سمجھا جائے۔ پھر دنیا کو اس تباہی سے بچانے کے لیے سوچ بچار سے کام لیا جائے اور عملی اقدام کیے جائیں، تاکہ ۲۱ویں صدی کو جنگ و جدال اور تباہی و بربادی سے محفوظ کیا جاسکے اور انسانیت کو امن و سلامتی اور ترقی و خوش حالی کی راہ پر گامزن کرنے کی خدمت انجام دی جاسکے۔ واضح رہے کہ دنیا کو تباہی سے بچانے کی اس کوشش کے ذریعے ہی ہم جہاں خود اپنے گھر کو بچانے کی جدوجہد کریں گے، وہیں ہم اُمت مسلمہ کو محفوظ و مستحکم بنانے اور پوری انسانیت کو خیروفلاح کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے بھی ایک کردار ادا کرسکیں گے۔
یاد رکھیے، جو پالیسیاں بھی خوف، نفرت، غصے اور انتقام کے جذبے کے تحت بنتی ہیں، وہ ہمیشہ تباہی کا ذریعہ بن جاتی ہیں۔ حقیقت پسندی کا تقاضا ہے کہ حالات کو ٹھیک ٹھیک سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ حقائق کے بارے اغماض، جانب داری اور پسند کے انتخاب (selectivity) کے تباہ کن راستے سے بچیں، نیز مسائل اور زمینی رجحانات کو نظرانداز کر کے محض اپنی خواہشات کی بنیاد پر پالیسی بنانے سے مکمل احتراز کریں کہ یہ بڑے ہی خسارے کا سودا ہے۔
امریکا بلاشبہہ آج بھی دنیا کی درجہ اوّ ل کی طاقت ہے۔ ۳۳کروڑ کی آبادی کا یہ ملک جس کی آبادی دنیا کا صرف ۵ فی صد ہے، اس وقت دنیا کی دولت کے ۲۲ فی صد پر قابض ہے۔ اس ملک کی مادی ترقی اور خوش حالی کا آغاز انیسویں صدی کے شروع میں ہوا۔ اس وقت امریکا کے پاس دنیا کی دولت کا صرف ۱ء۴ فی صد تھا، جو دوسری جنگ عظیم(۴۵-۱۹۳۹ء) کے اختتام تک دنیا کی دولت کے ۴۵فی صد تک پہنچ گیا تھا۔ گذشتہ ۷۰برسوں کے دوران میں اگرچہ امریکا دنیا کا امیرترین اور طاقت ور ترین ملک رہا لیکن اس کی تقابلی پوزیشن میں بڑی تبدیلی آئی ہے۔
فوجی اعتبار سے امریکا آج بھی دوسرے تمام ممالک پر فوقیت حاصل ہے۔ اس کی فوج کا بجٹ آج بھی روس، چین، جرمنی، جاپان، فرانس اور برطانیہ کے مجموعی دفاعی بجٹ سے زیادہ ہے۔ دنیا کے ۸۹ممالک میں اس کے فوجی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں اور ۴۰ ممالک میں اس کے فوجی اڈے قائم ہیں۔ لیکن دوسری جانب معیشت کے میدان میں اسے ماضی جیسی برتری حاصل نہیں رہی۔ چین، روس، جرمنی، جاپان، برازیل اور چند دوسرے ممالک اس دوڑ میں برابر آگے بڑھ رہے ہیں اور چین اس وقت اس معاشی دوڑ میں دوسرے نمبر پر آچکا ہے اور اگلے ۱۵، ۲۰ سال میں پہلی پوزیشن میں آنے کا اُمیدوار ہے۔
ٹکنالوجی کے میدان میں جو تبدیلی گذشتہ ۵۰برسوں میں آئی ہے اور عالم گیریت (Globalization)کے نتیجے میں امریکا کی صنعتی پیداواری صلاحیت میں جو کمی ہوئی ہے۔ اس کے نتیجے میں علاقوں کے علاقے ’غیرصنعتی بحران‘ (de-industrialization ) کا شکار ہوئے ہیں، جس کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ درمیانی آمدنی والا طبقہ شدید معاشی دبائو کا شکار ہے۔ اس پس منظر میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کا مالی بوجھ اور پھر ۲۰۰۸ء سے شروع ہونے والے عالمی مالیاتی بحران نے آبادی کے ایک بڑے طبقے کو بُری طرح کچل کر رکھ دیا ہے۔ افریقی امریکیوں میں تو غربت اور بے روزگاری پہلے ہی بہت زیادہ تھی، لیکن گذشتہ ۲۰، ۲۵ برسوں میں سفیدفام آبادی میں بھی غربت اور بے روزگاری میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ پھر تقسیمِ دولت کے سرمایہ دارانہ نظام کے ہاتھوں ملک میں شدید عدم مساوات کا دور دورہ اور معاشی ترقی کے اصل فوائد سے صرف مال دار طبقہ فیض یاب ہوا ہے، جب کہ آبادی کا بڑا حصہ محرومیوں کا شکار ہے۔
امریکا میں آبادی کے ۵۰ فی صدی کا حال یہ ہے کہ اس کی حقیقی اُجرت (real wages) تقریباً ۳۵، ۴۰ سال سے ایک ہی سطح پرہے یا اس میں کچھ کمی ہوئی ہے۔ لیکن آبادی کا ایک فی صد جو امیرترین ہے، اس کی دولت میں ہوش ربا اضافہ ہوا ہے۔ عالم گیریت، مارکیٹ اکانومی، آزاد تجارت اور آبادی کی منتقلی کی سہولت نے امیروں کو امیرتر اور غریبوں کو غریب تر کردیا ہے۔ جنوری ۲۰۱۶ء اور جنوری ۲۰۱۷ء میں Oxfam کی جو دوسالانہ رپورٹیں شائع ہوئی ہیں، وہ معاشی ناانصافی، دولت کی عدم مساوات اور اکثریت کی زبوں حالی کا بڑا دردناک نقشہ پیش کرتی ہیں:
۲۰۱۶ء کی رپورٹ کا نام ہے: An Economy for the 1%: How Privilage and Power in the Economy Drive Extreme Inequality and how this can be stopped.
اور ۲۰۱۷ء کی رپورٹ کا عنوان ہے: An Economy for the 99%. Its time to build a Human Economy that benefits everyone, not just the Privileged Few.
۲۰۱۷ء کی رپورٹ سے ہم صرف چند حقائق پیش کرتے ہیں، تاکہ زمینی صورتِ حال کو سمجھنے، عوامی سطح پر اصل اضطراب کی نوعیت کا فہم حاصل کرنے کے ساتھ تبدیلی کی خواہش کا صحیح اِدراک کیا جاسکے اور اس کی وجوہ کا اندازہ کیا جاسکے جو اضطراب اور بے چینی کے سیلاب کا ذریعہ ہیں:
l FTSE-100 کا چیف آفیسر تنہا ایک سال میں اتنا کما لیتا ہے، جتنا کہ بنگلہ دیش کے ملبوسات کے کارخانوں میں کام کرنے والے ۱۰ہزار کارکن مل کر کماتے ہیں۔
اس صورتِ حال کے لیے حکومتوں اور کمپنیوں کے پالیسی سازوں کو کم از کم جزوی طور پر تو ذمہ دار قرار دیا جاسکتا ہے۔ کرئہ ارض پر ہونے والے حالیہ سیاسی واقعات نے ایک اور بڑی تقسیم؍تفریق کاری کو جنم دیا ہے اگر ہم عدم مساوات سے نبٹنا چاہتے ہیں تو اس کی طرف فوری طور پر توجہ منعطف کرنا بہت ضروری ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق بریگزٹ (Brexit) { FR 891 } سے لے کر ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارتی مہم کی کامیابی تک، نسل پرستی میں پریشان کُن اضافہ اور مین سٹریم سیاست سے وسیع پیمانے پر مایوسی اور بددلی تک، اس بات کے روزافزوں اشارے مل رہے ہیں کہ مال دار ملکوں میں زیادہ لوگ اب اسٹیٹس کو برداشت کرنے کے لیےمزید آمادہ نہیں ہیں۔ یہ آخر اسے برداشت کریں بھی تو کیوں، جب کہ تجربے سے یہ اشارے ملے ہیں اس کی وجہ سے جو کچھ حاصل ہو رہا ہے، وہ جامد معاوضے، غیرمحفوظ ملازمتیں اور صاحب ِ ثروت اور نادار لوگوں میں بڑھتی ہوئی خلیج ہے ۔ چیلنج جس کا سامنا ہے، وہ یہ ہے کہ ایک مثبت متبادل (Alternative)تعمیر کیا جائے، ایسا نہیں جو تقسیم در تقسیم کو ہوا دے۔
واضح رہے کہ آج دنیا بھر میں صرف آٹھ افراد اتنی دولت کے مالک ہیں جتنی دنیا کے ۳؍ارب ۳۰کروڑ کا مقدر ہے اور ان میں آٹھ میں سے چھے افراد امریکی ہیں۔ یہ بھی ذہن میں رہے کہ ۲۰۱۰ء میں دنیا کی ۵۰ فی صد آبادی کی دولت کے برابر دولت کے مالک افراد کی تعداد ۳۸۸ تھی، جو ۲۰۱۵ء میں ۶۲ رہ گئی تھی اور ۲۰۱۶ء کے آخر میں اب دولت کا یہ ارتکاز اورسمٹائو صرف آٹھ افراد تک ہوگیا ہے۔ علامہ اقبال نے اسی کا تصور کر کے اللہ تعالیٰ سے گریہ کیا تھا کہ ؎
کب ڈُوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ
دُنیا ہے تری منتظر روزِ مکافات!
ڈونلڈ ٹرمپ نے ’تبدیلی‘ کے نعرے کو بڑی ہوشیاری اور چابک دستی سے اپنے حق میں استعمال کیا ہے، حالاں کہ اس کا تعلق اسی سفاک سرمایہ دار طبقے سے ہے، جو اس ہوش ربا استحصال کا ذمہ دار ہے۔ اس نے امریکا میں باہر سے آکر آباد ہونے والے پردیسیوں اور عالم گیریت کو، سفیدفام آبادی کی غربت اور معاشی ابتری کا ذمہ دار ٹھیرایا ہے۔ پھر اس نظام کو بدلنے اور امریکا کے معاشی اور سیاسی حکمران طبقے کو چیلنج کرکے اپنے کو متبادل کے طور پر پیش کیا ہے۔ سوشل میڈیا کی قوت کو استعمال کر کے اقتدار کے محافظوں اور طاقت کے روایتی کارگزاروں اور دلالوں (brokers) کو ایک طرف دھکیل کر عوام کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا۔
یہ امریکی تاریخ کا ایک عجوبہ ہے کہ ایک ایسا شخص جسے نہ اعلیٰ تعلیم کا اعزاز حاصل ہے، نہ کوئی سیاسی یا انتظامی تجربہ اس کے دامن میں ہے، جس کا پورا کردار یا پراپرٹی ڈیلر یا ڈویلپرکا سا ہے، یا ٹی وی کے ہنرمند بازی گر (entertainer ) کا سا۔ جس کی اپنی امریکیت کی عمر بھی کچھ زیادہ طویل نہیں ہے۔ جس کا دادا جرمنی سے امریکا مہاجرت کرکے آیا تھا۔ جس کی تیسری بیوی کی پیدایش سلاوینیطا (Salavinita) کی ہے اور جسے امریکی شہریت ۲۰۰۵ء میں حاصل ہوئی ہے۔ اس نے متوسط طبقے کی معاشی بدحالی اور مہاجرت کرنے والے (immigrants) لوگوں کو جن میں: میکسی کن ، لاطینی امریکی، چینی، برعظیم پاک و ہند، افریقہ اور عرب دنیا سے آنے والے نوامریکی لوگوں کو جن کی تعداد اس وقت آبادی کا ۱۴ فی صد سے زیادہ نہیں ہے، انھی کو نشانہ بناکر اور زیرزمین نفرت اور خوف کے لاوے کو پکاکر اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے۔ ووٹ کی طاقت کے ذریعے امریکا کے مقتدر طبقات کو چیلنج کیا ہے۔ خود اپنی پارٹی کے روایتی قائدین کے چھکے چھڑا دیے اور بالآخر صدارت پر براجمان ہوگیا ہے۔
یہ صحیح ہے کہ اس کی سیاست قوم کو تقسیم کرنے سے چمکی ہے اور اس نے تمام اقلیتوں اور خصوصیت سے مسلمانوں کو ہدف بناکر قربانی کا بکرا ( scapegoat) بنا کر اپنا مقصد حاصل کیا ہے۔ امریکا کے انتخابات میں سیاسی گرماگرمی تو ہمیشہ ہی ہوتی تھی، لیکن ۲۰۱۶ء کے انتخابات میں جس طرح نفرت، غصے، خوف اور انتقام کا دور دورہ رہا، وہ غیرمعمولی واقعہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انتخابات اور انتقالِ اقتدار کے بعد بھی تنائو اور تصادم کی فضا موجود ہے۔
امریکا کی سوسالہ تاریخ میں انتخابات کے بعد اور صدارتی حلف برداری کی تقریب اور اس کے بعد مظاہروں کی وہ کیفیت کبھی رُونما نہیں ہوئی جو اس بار ہوئی ہے اور اس کے تھمنے کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا۔ اس لیے کہ صدرٹرمپ نے لوگوں کو جوڑنے اور انتخابی معرکے کے ٹکرائو کو پیچھے چھوڑ کر نئے اتحاد اور قومی یک جہتی اور مشترکات پر قوم کو جمع کرنے کا راستہ اختیار نہیں کیا ہے۔ اس کے برعکس رنگ و نسل کی بنیاد پر اس تقسیم کو ملک ہی نہیں عالمی سطح تک پھیلا کر اپنے ایجنڈے پر عمل، اس کا ہدف نظر آرہا ہے جو دنیا کو اور زیادہ غیرمحفوظ بنائے گا اور تصادم اور دہشت گردی کو فروغ دینے کا باعث ہوگا۔
اس انتخاب سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ جمہوریت میں قیادت کے لیے ازبس ضروری ہے کہ ان کا ہاتھ عوام کی نبض پر ہو اور ان کے مسائل، ان کے متعلقات (concerns)، ان کی مشکلات، ان کے عزائم اور تمنائوں کا صحیح ادراک ہو۔ پھر وہ زبان استعمال کی جائے جسے عوام سمجھتے ہوں اور جو ان کے دل کی گہرائیوں میں اُتر سکے اور ان کو سیاسی تائید، تحرک اور ووٹ کی قوت سے تبدیلی کے لیے اُٹھا سکے۔
صدر ٹرمپ نے بڑی ہوشیاری اور چالاکی کے ساتھ عوام خصوصیت سے محروم طبقات کے جذبات کوسمجھا اور ان کو اپنے سیاسی عزائم کے لیے متحرک اور استعمال کیا۔ اسے اندازہ تھا کہ زمینی معاشی حقائق کیا ہیں؟آبادی کے تناسب میں جو تبدیلیاں واقع ہورہی ہیں اور ان کو سفیدفام آبادی کس طرح محسوس کر رہی ہے۔ ان پر اس کی نگاہ تھی۔ پھر اسے یہ بھی اندازہ تھا کہ کوئی کھل کر اسے ایشو بنانے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس نے ایک طاقت کے روایتی مراکز کی مخالفت مول لے کر، اس طبقے کی تائید حاصل کی جو اس کی کامیابی کے لیے ذریعہ بن سکتا تھا، کہ جن سے خود اس کو اپنی سوچ بھی جِلدکی رنگت اور مذہب سے نسبت سے ہم آہنگ تھی۔
گلوبلائزیشن جسے امریکی انتظامیہ نے اپنے مفاد کی خاطر ’تقدیس‘ کے درجے پر پہنچادیا تھا اور اس کے خلاف بات کرنا گویا کفر کے مترادف ہوگیا تھا، ٹرمپ نے اسے کھل کر چیلنج کیا اور اس کے نتیجے میں جو مسائل مقامی یا قومی سطح پر پیدا ہوئے تھے، ان کو مبالغہ آمیز حد تک نمایاں کیا۔ مسائل کا ٹھیک ٹھیک ادراک کرنا، تبدیلی کے نعرے کو صحیح انداز میں اپنانا اور اس کی علامت بن جانا، مقتدر قوتوں کو چیلنج کرنا اور عوام کو یہ اعتماد دینا کہ ان قوتوں سے ٹکر لینے کی ہمت اور صلاحیت چیلنج کرنے والے میں موجود ہے اور اس کے لیے وہ کسی بھی حد تک جاسکتا ہے۔ پھر یہ سارا کام روایتی ذرائع ابلاغ کے ساتھ غیرروایتی ابلاغ کے ان تمام ذرائع کو استعمال کر کے انجام دیا، جن سے بلاواسطہ عوام تک پہنچا جاسکتا ہے۔ ٹرمپ نے سوشل میڈیا کا استعمال بڑی مہارت سے کیا۔ ۳۰لاکھ سے زائد افراد اس کے twitter کے ساجھی تھے۔
ٹرمپ کی مہم کے سلسلے میں تحقیق کرنے والوں نے چند بڑی اہم چیزوں پر روشنی ڈالی ہے جو قابلِ غور ہیں:
ان کا کہنا ہے کہ راے عامہ کے تمام ہی جائزے اس بنا پر صحیح تصویر پیش کرنے میں ناکام رہے کہ ٹرمپ کے ووٹروں کی ایک بڑی تعداد نے اپنی تائید کو صرف ووٹ کی شکل میں ظاہر کیا اور انتخاب سے پہلے یا انتخاب کے روز راے عامہ کے سروے (exit poll) تک میں اپنے جذبات کا اظہار نہیں کیا۔ چونکہ مسئلہ اسٹیبلشمنٹ سے ٹکرائو کا تھا، اس لیے یہ راستہ تک اختیار کیا گیا۔
خواتین کے ووٹ نے بھی ایک غیرمتوقع کردار ادا کیا۔ سب کا خیال تھا کہ ٹرمپ نے خواتین کے بارے میں جو نازیبا باتیں کہی ہیں، ان کی وجہ سے خواتین کی ایک بڑی تعداد اس سے متنفر ہوگئی ہوگی۔ حالاںکہ ایسا نہیں ہوا اور خواتین ووٹروں کی ۵۳ فی صد نے ٹرمپ کو ووٹ دیا۔ ہیلری کلنٹن کا خاتون ہونا بھی اس کے کام نہیں آسکا۔ امریکی اسٹیبلشمنٹ سے وابستگی یا قربت کا تاثر اس کے لیے ووٹ کی راہ میں حائل ہوگیا اور خواتین ووٹروں نے محض خاتون ہونے کے ناتے نسوانی خوداختیاریت (Feminism)کے نعروں کے زیراثر ووٹ کو استعمال نہیں کیا۔
یہ انتخابات امریکی معاشرے کی اخلاقی حالت اور سماجی اقدار کو سمجھنے کا بھی ایک آئینہ ہیں۔ ذاتی زندگی اور پبلک لائف کو الگ الگ دائروں میں محصور کرنا سیکولر معاشرے کی ریت ہے۔ ایک وقت تھا کہ جب سیاسی قیادت کے لیے کچھ خاص اخلاقی اقدار کا حامل ہونا ضروری سمجھا جاتا تھا۔ مذہب اور ریاست کی تقسیم کو تسلیم کرنے کے باوجود کچھ اخلاقی صفات اور کردار کی کچھ خاص خوبیوں کو سیاسی قیادت کے لیے ضروری سمجھا جاتا تھا۔ فرد کی جنسی زندگی کے بارے میں عام معاشرے میں خواہ کتنی بھی رواروی اور آزاد خیالی ہو، مگر سیاسی قیادت سے ایک خاص کردار کی توقع ہوتی تھی۔
یہ ہمارے مشاہدے کی بات ہے کہ ۱۹۶۰ء اور ۱۹۷۰ء کی دہائیوں تک امریکی صدارتی اُمیدوار کی اگر کسی بداخلاقی اور مالی معاملات میں بے قاعدگی کی بات منظرعام پر آتی تھی، تو کم از کم صدارتی اُمیدوار کے لیے راہ کھوٹی ہوجاتی تھی۔ لیکن اب نوبت بہ اینجا رسید کہ ایک درجن سے زائد خواتین برملا دست درازی کی شکایت کرتی ہیں، مگر نہ صدارتی اُمیدوار میدان چھوڑتا ہے اور نہ ووٹروں پر اس کا کوئی اثر ہوتا ہے۔ حالاں کہ ۳۰، ۴۰ سال پہلے تک یہ روایت تھی کہ ایسے حالات میں صدارتی اُمیدوار خود بخود دست کش ہو جاتا تھا۔
امریکا ہی نہیں، مغربی دنیا کے تمام ہی جمہوری ممالک میں سیاسی قیادت کے لیےاخلاقی مضبوطی (integrity) ایک لازمی صفت تھی۔ سر آئی ورجے نگز (Jennings) اپنی کتاب Cabinet Goverment میں پورے وثوق کے ساتھ یہ دعویٰ کرتا ہے کہ سیاسی قیادت اور پارلیمان کے ارکان کے لیے یہ صفت ہر دوسری صفت سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ امریکا کا ایک مشہور پارلیمانی مشیر اسٹیو سمڈٹ (Steve Schmidt) جس نے بہت اہم انتخابی مہموں کی نگرانی کی ہے صاف الفاظ میں کہتا ہے کہ قیادت میں صداقت او ر حق پرستی جمہوریت کی بقا کے لیے ناگزیر ہیں۔ (ملاحظہ ہو نیویارک ٹائمز، ۳۱جنوری ۲۰۱۷ء میں ڈیوڈہارسٹر کا صفحہ اوّل کا مضمون: Trump and his long history of untruths)
آج بھی دنیا کی بیش تر پارلیمنٹوں میں ’اخلاقی اُمور کمیٹی‘ ایک اہم کمیٹی ہوتی ہے، جو پارٹی کی وفاداری اور گروہی عصبیت سے بالا ہوکر آزادانہ کام کرتی ہے۔ امریکی کانگرس میں بھی ’اخلاقی اُمورکمیٹی‘ آج بھی موجود ہے ۔ گو یہ اور بات ہے کہ اب اس میں بھی تبدیلی لانے کی باتیں ہورہی ہیں۔ واضح رہے ایک وقت وہ بھی تھا جب امریکا کے قانون میں ملک کی شہریت کے لیے بھی اچھا کردار ایک لازمی شرط تھی۔ ۱۷۹۰ء کے شہریت کے قانون میں جہاں ہرشہری کے لیے آزاد ’سفیدفام مرد و عورت‘ہونا ضروری تھا (کہ غلام اورسیاہ فام اس زمانے میں شہری نہیں بن سکتے تھے) وہاں دو مزید شرائط یہ بھی تھیں، یعنی: ’اچھا اخلاقی کردار اور کم از کم دوسال سے امریکا میں قیام‘۔
لیکن اب اخلاقی اقدار اور کردار قصۂ پارینہ بن چکے ہیں اور اس صدارتی انتخاب میں یہ بات بہت ہی کھل کر سامنے آئی ہے۔ صدر ٹرمپ نے اپنی دولت کس طرح کمائی، ٹیکس ادا کیے یا نہیں؟ بار بار دیوالیہ ہوکر قرض داروں سے کیسے نجات پائی؟ ٹرمپ یونی ورسٹی میں طلبہ سے لاکھوں ڈالر غلط بیانی سے کس طرح حاصل کیے؟{ FR 893 } ___ یہ سب کھلے حقائق ہوتے ہوئے بھی انتخاب میں غیرمتعلق ہی رہے۔ حتیٰ کہ صدارت کے عہدے پر پہنچنے کے بعد بھی مطالبے کے باوجود ٹیکس کا ریکارڈ پیش کرنے سے انکار اور اپنے یہودی داماد کو وائٹ ہائوس کی انتظامیہ میں اہم کردار دینے اور بین الاقوامی سیاست، خصوصیت سے اسرائیل سے امریکا کے تعلقات کی نگہداشت کے لیے ذمہ داریاں سونپنے میں بھی کوئی باک محسوس نہیں کیا گیا۔ حالاں کہ اہم سیاسی دانش ور اس پر چیخ پکار کر رہے ہیں اور مفادات کے ٹکرائو کی دہائی دے رہے ہیں۔
صدر ٹرمپ کی شخصیت، ان کا اندازِ گفتگو، ذاتی اخلاق، معاشرتی معاملات، طریق تجارت، کاروباری دیانت اور معاملات میں عدم شفافیت کے بارے میں جو شہرت ہے، اسے امریکی جمہوریت کا غارت گرِ حُسن ہی کہا جاسکتا ہے۔
نومبر کے صدارتی انتخابات کے بارے میں ایک بات یہ بھی کہی جارہی ہے کہ اس انتخاب میں مقابلہ ’کون بہتر ہوگا؟‘ کی بنیاد پر نہیں بلکہ کون کم خراب ہوگا کی میزان پر ہوئے۔ گویا ٹرمپ کی کامیابی کا اصل سبب ہیلری کلنٹن اور ڈیموکریٹک پارٹی کی ناکامی ہے۔ پھر ایک اور بڑا اہم سبب خود طریق انتخاب ہے جس پر انگلی اُٹھائی جارہی ہے۔ ہیلری کو ڈیموکریٹک پارٹی کی ساری غلطیوں کے باوجود ۳۸ لاکھ ووٹ زیادہ ملے مگر ریاستی بنیاد پر ہونے والے الیکٹورل کالج اور اس کے متعین ووٹ کے نظام کی وجہ سے صدارتی انتخابی ادارے میں ٹرمپ صاحب کو اکثریت حاصل ہوگئی۔ الیکشن میں بدعنوانی ہونے کی بات پہلے خود ٹرمپ صاحب نے انتخابی مہم کے دوران کہی تھی اور پھر سی آئی اے اور تمام انٹیلی جنس ایجنسیوں نے مشترکہ طور پر روس کی hacking کا دعویٰ کیا۔ اس سب کے باوجود یہ امریکی جمہوریت ہی کا حصہ کہ ووٹ کے ذریعے اور دستور اور قانون کے دائرے کے اندر اقتدار کی منتقلی واقع ہوئی۔ گو عوامی سطح پر صدر ٹرمپ کو وہ مقبولیت حاصل نہیں، جو ان سے پہلے کے صدور کو حاصل رہی ہے۔ وہ تاریخ کے سب سے کم مقبول منتخب صدر کی حیثیت سے وائٹ ہائوس میں تشریف لائے ہیں۔
جارج بش کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ ان کو پہلی صدارت کی تقریب حلف برداری کے وقت ۴۵ فی صد عوام کی تائید حاصل تھی اور اس طرح وہ گویا ۵۰ فی صد کی سطح سے نیچے تھے ،لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کو مختلف جائزوں کی روشنی میں ۳۲ سے ۳۷ فی صد امریکی عوام کی تائید حاصل تھی۔ واضح رہے کہ صدر اوباما کو جب انھوں نے جنوری ۲۰۰۹ء میں حلف اُٹھایا، تو مختلف راے عامہ کے جائزوں کے مطابق۵۳ فی صد سے ۶۰فی صد عوام کی تائید حاصل تھی اور جب صدر اوباما صدارت سے فارغ ہوئے اس وقت بھی عوامی جائزوں میں ان کی مقبولیت ۵۲ فی صد سے زیادہ تھی۔
صدر ٹرمپ کی نہ صرف یہ کہ مقبولیت کا گراف کم تھا بلکہ وہ جدید تاریخ کے پہلے صدر ہیں جن کے خلاف ملک بھر میں ان کے انتخاب کے اعلان کے بعد سے لے کر ان کی تقریب حلف برداری اور اس کے بعد بھی امریکا ہی نہیں دنیا کے مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے ہوتے رہے ہیں اور ایک بڑی تعداد نے ان کو ایک ’جائز صدر‘ (Legimate president ) تسلیم نہیں کیا۔
بدقسمتی سے صدارت کے پہلے دس دنوں ہی میں انھوں نے جو احکامات جاری کیے ہیں، ان میں سے چند نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ خصوصاً ۲۷جنوری کو مسلمان ممالک سے آنے والے افراد کے بارے میں بالعموم اور مسلمانوں کے بارے میں بالخصوص ان کے احکامات نے جو افراتفری برپا کی ہے، اس نے دنیا بھر میں احتجاجی مظاہروں کو جنم دیا ہے جس سے بین النسلی اور سیاسی فضا بُری طرح مکدر ہوگئی ہے۔ آبادی میں تلخی اور بے اعتمادی میں نمایاں اضافہ ہوا ہے جس نے امریکا کے شہریوں کے درمیان باہمی اخوت، بھائی چارے اور امریکا اور دنیا کے دوسرے ملکوں اور اقوام کے مابین، خصوصیت سے مسلمانوں سے تعلق کو بُری طرح متاثر کیا ہے۔ کچھ حلقے تو اس خطرے تک کی طرف اشارہ کررہے ہیں کہ ان حالات کے دبائو میں صدرٹرمپ کوئی ایسی حرکت نہ کر گزریں کہ جو دنیا کو خدانخواستہ جنگ کی طرف لے جانے کا باعث بن جائے۔
انسان کو امریکا سے ہمدردی محسوس ہوتی ہے کیوں کہ یہ اس کا نقصان ہے۔ اس سے امریکا کا عالمی اثر اور قیادت اس سے چھن جائیں گے اور یہ وہ قیمت ہوگی جو اسے ان پالیسیوں؍ حکمت عملیوں کے عوض دینا ہوگی جن کا وہ مثلاً چین کے حوالے سے منصوبہ بنائے ہوئے ہے اور اس کی بیش تر معاشی قیمت امریکا ہی کو ادا کرنا ہوگی۔ امریکا کا دوسرے ملکوں سے الگ تھلگ رکھنے کا رویّہ ہمیں نقصان نہیں پہنچائے گا کیوں کہ دنیا اس کے ساتھ نبٹ سکتی ہے، مگر یہ بنیادی طور پر امریکا کو نقصان پہنچائے گا، جسے اس معرکے میں فتح کے بجاے شکست کا سامنا ہوگا۔ ایشیائی قوم کے سفیر نے، جس پر چینی پالیسیوں کا گہرا اثر ہے، دلیل دی کہ امریکا کی پسپائی چین کے عروج کو تیز تر کردے گی، کیوں کہ چین اس خلا کو پُر کرنے کے لیے تیار بیٹھا ہے۔ ’’تاہم ہمارا سب سے بڑا خوف یہ ہے کہ ٹرمپ کی احمقانہ پالیسیوں کے نتیجے میں امریکا کے معاشی مصائب بدتر ہوجائیں گے اور اس چیز سے تحریک پاکر اس کا یہ عقیدہ ہوجائے گا کہ اب اسے اس نقصان کا ازالہ کرنے کے لیے کہیں جنگ کی ضرورت ہے۔
ایک اور پہلو جس کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، یہ ہے کہ صدر ٹرمپ کا انتخاب کسی خلا میں منعقد نہیں ہوا ہے۔ ۲۰۱۶ء کے انتخابی نتائج کو اس پس منظر سے کاٹ کر نہیں دیکھا جاسکتا کہ ان سے پہلے باراک اوباما آٹھ سال امریکا کے صدر رہے۔ وہ بھی تبدیلی کے نعرے کے ساتھ ہی صدارتی انتخاب میں کامیاب ہوئے تھے۔ ان سے قبل جارج بش کے آٹھ سال امریکا اور دنیا کے لیے ترقی معکوس کے سال تھے۔ صدر اوباما، کانگرس کے ان چند نمایاں ارکان میں سے تھے، جنھوں نے ۲۰۰۳ء سے عراق کی جنگ کی کھل کر مخالفت کی تھی اور اسے تباہی کا راستہ قرار دیا تھا۔ صدراوباما امریکی تاریخ کے پہلے سیاہ فام صدر تھے اور جن لوگوں نے یہ پیش گوئی کی تھی کہ وہ دوسری باری نہیں لے سکیں گے، ان ’مستقبل بینوں‘ نے منہ کی کھائی۔ اس طرح ۲۰۱۲ء میں بھی اوباما بڑی اکثریت سے کامیاب ہوئے لیکن چند محاذوں پر انھیں بُری طرح ناکامی ہوئی۔
امریکا کے قومی ایجنڈے کے مطابق ان کے سامنے سب سے اہم محاذ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ تھا۔ اوباما جنگ ختم کرنے کے دعوے کے ساتھ صدر بنے تھے، لیکن: نہ صرف یہ کہ وہ عراق میں جنگ ختم نہ کرا سکے بلکہ مشرق وسطیٰ میں ایک اور جنگ کی آگ انھی کے دور میں پھیلی۔ لیبیا اور شام جنگ کی لپیٹ میں آگئے۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں کی کارستانیوں کی وجہ سے تباہی کا یہ بازار گرم ہوا۔ یمن بھی اپنے انداز میں آگ کی لپیٹ میں آگیا۔ یوکرائن میں بھی جنگ کے شعلے بلند ہوئے، خواہ اس کی بڑی ذمہ داری روس کی سیاسی انگڑائیوں پر تھی۔ افغانستان، امریکی کامیابیوں کے سارے دعوئوں کے باوجود، برابر جنگ کی آماج گاہ بنا ہوا ہے اور صدراوباما کو افواج کم کرنے کے بعد دوبارہ ان کی تعداد کو بڑھانا پڑا، اور اس کے باوجود افغانستان کے ایک چوتھائی حصے پر طالبان کی حکمرانی ہے اور عملاً ان کے اثرات مزید ۳۰ فی صد علاقے پر ہیں، حتیٰ کہ کابل بھی ان کی دسترس سے باہر نہیں۔ صدراوباما کے زمانے میں ڈرون حملے امریکی صدربش کے دور سے ۱۰گنا زیادہ ہوئے۔ صدراوباما کے اقتدار کے آخری سال (۲۰۱۶ء) میں امریکا نے دنیا کے سات ممالک میں ۲۶ہزار ۱۷۱ بم گرائے، اور یہ تعداد صدر بش کے دور سے کہیں زیادہ تھے۔
یہی معاملہ گوانتاناموبے کے عقوبت خانے کا ہے۔ صدراوباما اسے ختم کرنے کے دعوے کے ساتھ آئے تھے۔ وہ اپنی صدارت کے پہلے سال ہی میں یہ کارنامہ انجام دینا چاہتے تھے۔ لیکن آخری وقت تک ان کا کوئی بس نہ چلا اور آج بھی گوانتاناموبے کا تعذیب گھر امریکا کے چہرے پر کلنک کا ٹیکہ بنا ہوا ہے۔
انسانی حقوق کی پاس داری کے باب میں بھی صدر اوباما کا ریکارڈ مایوس کن رہا۔ امریکی فوج اور خفیہ ایجنسیوں کے ہاں بدترین تعذیب اور مبغوض ترین حربوں کا استعمال جاری رہا۔ عام انسانوں کی نجی زندگی کی نگرانی بلکہ ایک طرح کی غلامی کا ملک گیر ہی نہیں بلکہ عالم گیر نظام قائم کیا گیا۔ صدراوباما کو دنیا میں امن کے قیام کی خدمت کے سلسلے میں پیشگی نوبل انعام سے نوازا گیا، لیکن ان کے آٹھ سالہ دور میں نہ جنگ ختم ہوسکی اور نہ دہشت گردی، بلکہ اس کی تباہ کاریوں اور وسعتوں میں اضافہ ہی ہوا۔
دوسرا محاذ جس پر صدراوباما کو شدید ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا، وہ نسل و رنگ کی بنیاد پر امریکا میں قتل و غارت اور ظلم و استحصال پر مکمل قابو پانے کا دعویٰ تھا۔ کس قدر عبرت کا مقام ہے کہ خود ان کے دورِ اقتدار میں صرف پولیس کے ہاتھوں سیاہ فام نوجوانوں کے ظالمانہ قتل کے واقعات میں نہ صرف یہ کہ کوئی کمی نہیں ہوئی بلکہ اس میں اضافہ ہوا اور ہرواقعے پر وہ آنسو بہانے کے سوا کچھ نہ کرسکے۔
صدراوباما کو بہت مشکل معاشی حالات کا مقابلہ کرناپڑا اور پوری کوشش کے باوجود، کچھ میدانوں میں جزوی کامیابی کے باوصف، وہ امریکا کے معاشی بحران پر قابو نہ پاسکے۔ مسلم دنیا سے بھی امریکا کے تعلقات کو بہتر بنانے کا دعویٰ کیا گیا تھا اور ۲۰۰۹ء میں قاہرہ کی تقریر اس ضمن میں ایک اہم آغاز تھا، مگر یہ آرزو بھی پوری نہ ہوسکی۔ بالآخر امریکا اور اسلامی دنیا میں بے اعتمادی اور بے زاری میں اضافہ ہی ہوا۔ ایران سے ایٹمی معاہدہ اور کیوبا سے تعلقات کی بحالی اہم مثبت کامیابیاں ہیں لیکن بحیثیت مجموعی ذاتی شرافت اور باوقار اسلوب کے باوجود، امریکا اور عالمی سطح پر ان آٹھ برسوں کو ترقی اور کشادگی کے سال نہیں کہا جاسکتا۔
ڈیموکریٹک پارٹی کے سیاہ فام صدراوباما کی یہ ناکامیاں ایک سفیدفام، دائیں بازو کے انتہاپسند صدر کی کامیابی کی راہ ہموار کرنے میں اہم محرک ثابت ہوئیں۔ صدر ٹرمپ اور صدراوباما رنگ و نسل کے اعتبار سے ہی نہیں، نظریات، سیاسی ترجیحات، اخلاق و کردار، غرض ہراعتبار سے دوبالکل مختلف ماڈل پیش کرتے ہیں۔ ایسے نمونے جن میں بعدالمشرقین کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ ۲۰۱۶ء کے صدارتی انتخابات میں سیاست کی اس جست (swing) کا منظر بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ اور یہ کہا جاسکتا ہے کہ ۲۰۰۸ء میں صدراوباما کو منتخب کرکے امریکی جمہوریت نے اپنے جس جوہر کا مظاہرہ کیا تھا، وہ اپنی جڑیں اس زمین میں پیوست نہ کرسکا، بلکہ ایک واضح ردعمل رُونما ہوا، جسے سیاست کا انتقام بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔ وہ قوتیں جنھوں نے ۲۰۰۸ء اور ۲۰۱۳ء کے انتخابی رجحان کو مجبوراً قبول کرلیا تھا، انھوں نے ایک نئے اور زیادہ جارحانہ انداز میں اپنی بالادستی کو قائم کیا اور جو کچھ برتن کے اندر تھا وہ کھل کر باہر آگیا۔ اس سے یہ پہلو بھی سب کے سامنے آگیا کہ ہرمعاشرے کی طرح امریکی معاشرے میں بھی خیر اور شر دونوں کے عناصر بڑی تعداد میں موجود ہیں اور عمل اور ردعمل کا سلسلہ ہرجگہ دوسرے ملک اور معاشرے کی طرح وہاں بھی جاری وساری ہے۔
جہاں صدرٹرمپ اور اس کی پوری ٹیم کے چند واضح اہداف ہیں اور وہ ہے: ’سب سے پہلے امریکا‘ (America First ) اور ’امریکا کو عظیم بنانا‘ (Making America Great) ۔ ان نعروں کو اپنی اوّلین ترجیح بناکر سیاسی، معاشی، عسکری، ثقافتی ہر میدان میں کچھ بنیادی تبدیلیاں لانا صدر ٹرمپ کا ہدف ہے۔ یوں جارحانہ قوم پرستانہ دور کا آغاز ٹرمپ کی خواہش ہے جس میں امریکا کی سفیدفام آبادی کا کردار مرکزی ہوگا اور قومی اور عالمی دونوں سطح پر پالیسی سازی اور پالیسی کے نفاذ دونوں پہلوئوں سے نسبتاً سخت گیر اور صرف صدر کی شخصیت کے گرد (president centered) اسلوبِ کار اختیار کیا جائے گا۔ نظریاتی اور اخلاقی پہلوئوں کو غلبہ اور فیصلہ کن حیثیت حاصل نہیں ہوگی اور پوری پالیسی محدود اہداف کے حصول پر مرکوز ہوگی۔ مشاورت اور فیصلہ سازی کے معروف طریقوں سے بھی انحراف کیا جائے گا اور امریکا کے سیاسی نظام میں جو توازن اور تحدید کی روایت ہے، اس پر بھی بُرے اثرات پڑیں گے، جو اداروں کے درمیان تنائو اور تصادم کی حدوں کو بھی چھوسکتے ہیں۔ اسی طرح خارجہ تعلقات میں جو مقام اسٹرے ٹیجک غوروفکر اور حکمت کار کو حاصل رہا ہے اس میں تبدیلیاں آئیں گی اور زیادہ اہمیت نعروں پر مبنی، فوری نتائج کے حصول کو حاصل ہوجائے گی۔ عالم گیریت اور دوسری جنگ کے بعد قائم ہونے والے عالمی نظام اور اس کی صورت گری کرنے والے اداروں پر بھی نظرثانی کرنا ہوگی۔امریکا کی اپنی فوجی اور معاشی قوت کی ترقی کو زیادہ اہمیت دی جائے گی اور امریکا کی عالمی کردار کی ازسرِنو صورت گری ہوگی۔
۲۰۱۷ء اس پہلو سے بڑا اہم سال ہوگا جس میں جنم لینے والی تبدیلی کے بڑے دُور رس اثرات امریکا میں جمہوریت کے مستقبل پر بھی پڑیں گے۔ یہ دور تخریب اور تعمیر دونوں پہلوئوں سے عبارت ہوگا۔ اس لیے اس امر کی ضرورت ہے کہ امریکا کے عوام اور تمام ہی سوچنے سمجھنے والے افراد، ادارے اور گروہ محض ’دیکھو اور مست رہو‘ ( wait & see) کا راستہ اختیار نہ کریں اور نہ اندھی تائید اورخون آشام مخالفت کا راستہ اختیار کریں۔ ہماری نگاہ میں کھلے ذہن کے ساتھ اس منظرنامے کا ادراک کرنا اور اس میں مثبت کردار ادا کرنے کے لیے مکالمے (ڈائیلاگ) کا راستہ اختیار کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ اس غلط فہمی سے نکلنا ضروری ہے کہ اب امریکا سے معاملات اس طرح ہوسکیں گے جس طرح ماضی میں ہوتے رہے ہیں۔ ’جس طرح ہوتا آیا ہے‘ والا دور بظاہر رخصت ہوگیا ہے۔ اب وقت نئی سوچ اور نئی راہیں تجویز کرنے کا ہے___ اور یہ چیلنج جس طرح امریکا میں آباد افراد اور تنظیموں کے سامنے ہے، اسی طرح عالمی سطح پر تمام ممالک اور اقوام کو بھی درپیش ہے۔ خصوصیت سے پاکستان اور مسلم دنیا کے حالات کا گہری نظر سے مطالعہ و تجزیہ کرکے نئے خطوط کار کی ترتیب کا اہتمام کرنا چاہیے۔ ہم اللہ کی توفیق کے طالب ہیں کہ اللہ ہمیں اس بارے میں اپنے خیالات پیش کرنے کی توفیق سے نوازے۔ ہم سب اہلِ فکر کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ وقت کے اس چیلنج کے مقابلے کے لیے اپنا اپنا کردار ادا کرنے کے لیے مستعد ہوجائیں، اس لیے کہ:
یہ بزمِ مے ہے ، یاں کوتاہ دستی میں ہے محرومی
جو بڑھ کر خود اُٹھا لے ہاتھ میں مینا اسی کا ہے
۲۰۱۶ء اس حیثیت سے یاد رکھا جائے گا کہ پورے سال میں مختلف حلقوں کی طرف سے ’جمہوریت کو خطرہ ہے‘ کی گھنٹیاں بجائی جاتی رہی ہیں۔ ستمبر اور نومبر تو وہ مہینے ہیں جب سول اور نیم عسکری ہرحلقے سے یہ راگ کچھ زیادہ ہی اُونچے سُروں میں الاپا گیا۔ اللہ اللہ کر کے نومبر اپنے اختتام کو پہنچا۔
جنرل راحیل شریف بڑی عزت اور اعزاز سے اپنی دستوری مدت ملازمت پوری کرکے، کسی توسیع سے دامن بچاتے ہوئے رخصت ہوئے اور فوج کی نئی کمانڈ نے ذمہ داریاں سنبھال لیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکر کیا جائے کم ہے۔ اللہ تعالیٰ اس ملک کو ہر طرح کی آمریت اور جبر کی حکمرانی سے محفوظ رکھے۔ دستور اور اس کے قائم کردہ سب ادارے اپنے اپنے دائرے میں مؤثر خدمات انجام دیں۔ ریاستی اُمور اور قومی زندگی کو چلانے کے لیے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور نے جو سرخ لکیر یں واضح طور پر کھینچ دی ہیں، ان کا سب احترام کریں۔ پھر نظم و ضبط یا چیک اینڈ بیلنس کا جو نظام دستور نےقائم کیا ہے اور جو جمہوری کلچر میں معتبر ہے، وہ مؤثر اور متحرک رہے، انحراف کی تمام مخلصانہ یا شرانگیز کوششیں ناکام و نامرا د ہوں، اور یہ ملک سارے خطرات سے محفوظ رہے۔ آمین!
اس سخت اور خطرناک مرحلے سے کامیابی سے گزرنے پر، جہاں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں، اور جنرل راحیل شریف کو ان کے معیاری پیشہ ورانہ کردار اور ہر طرح کی اشتعال انگیز یوں اور ترغیبات سے دامن بچا کر گزر جانے پر ہدیۂ تبریک پیش کرتے ہیں، وہیں قوم اور اس کے تمام بہی خواہوں اور خصوصیت سے سوچنے سمجھنے والے باثر افراد کو غوروفکر کی دعوت دینا چاہتے ہیں، کہ جمہوریت کو بچانے یا جمہوریت کی بساط لپیٹنے کے باب میں اس زمانے میں جو کچھ ہوا، اس کا بے لاگ جائزہ لیں۔ خرابی جہاں بھی ہے اور خطرات جن دروازوں پر دستک دیتے رہے ہیں، ان کو شناخت کرنا اور آیندہ کے لیے پیش بندی کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے اور اس سلسلے میں غفلت بڑی مہنگی پڑسکتی ہے۔
ہم پوری دل سوزی سے بات کا آغاز اس حوالے سے کرنا چاہتے ہیں کہ کیا یہ لمحۂ فکریہ نہیں ہے کہ پاکستان ہی کی تاریخ میں غالباً یہ منفرد واقعہ ہے کہ جس میں فوج کے ایک سربراہ کو وزیراعظم اور صدرِمملکت نے اس طرح رخصت کیا ہے کہ جیسے کسی بڑے خطرے کے ٹلنے پر وہ سُکھ کا سانس لے رہے ہوں۔
حکومتی حلقے جس انداز میں ہفتوں سے اس مہم کے مقابلے میں جوابی مہم چلائے ہوئے تھے، ملک کے دَر و دیوار پر باربار جس قسم کی تحریریں رُونما ہورہی تھی، میڈیا کےدانش ور اور بعض جیالے جس جوش و خروش سے اور جس زبان میں اپنے اپنے خوابوں کو حقیقت کے رُوپ میں پیش کر رہے تھے اور تاریخوں تک کا ورد کرنے میں کسی بھی احتیاط کو ملحوظ رکھنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کر رہے تھے___ الحمدللہ وہ پورا منظرنامہ بدل گیا ہے۔ تاہم، خود جمہوریت کو جو خطرہ اس پورے کھیل سے اور اس کی ہرشکل اور ہرپہلو سے تھا اور آیندہ پھر کسی نئے عنوان سے سر اُٹھا سکتا ہے اس پر ٹھنڈے دل و دماغ سے غور کرنے اور مستقبل میں اس صورتِ حال سے بچنے کی تدابیر نہ کرنا بڑا عاقبت نااندیشانہ رویہ ہوگا۔
یہ امر تسلیم کرنا ہوگا کہ حکومت اور فوج کے درمیان تنائو یا کش مکش (tension) موجود تھی اور اس کا اظہار عجیب و غریب صورتوں میں ہوتا رہا ہے۔ فوجی ترجمانوں کے بیانات اور سوشل میڈیا پر مختصر پیغامات (tweets) کا تبادلہ یا سہارا بھی معمول کے مطابق نہیں تھا۔ پھر عسکری اور سیاسی قیادت کے درمیان مناقشے پر مبنی گمراہ کن خبر کا روزنامہ ڈان میں شائع ہونا اور اس کے بعد حکومت اور عسکری ذرائع دونوں کی طرف سے حقائق کو بے نقاب کرنے یا معاملات کو اور زیادہ گنجلک کرنے کے سلسلے میں جو کچھ کیا گیا، وہ بڑا تکلیف دہ تھا۔ ایسی بدنما صورتِ حال سے آیندہ بچنے کی فکر ازبس ضروری ہے۔ اس سلسلے میں میڈیا کے ایک بڑے حصے کا کردار بھی بڑا پریشان کن ہے۔ ہم نے دنیا کے کسی بھی مہذب جمہوری ملک کے میڈیا پر ساری آزادی کے باوجود ایسے حساس اُمور پر اس قسم کی لاف زنی کی کوئی مثال نہیں دیکھی۔ ہم اس غیر ذمہ دارانہ رویے کو ملک میں جمہوریت کے مستقبل اور اداروں کے درمیان غلط فہمیوں کے فروغ، نیز تعاون اور توازن کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔
اس پس منظر میں سینیٹ کے چیئرمین جناب میاں رضا ربانی کا انٹرنیشنل پارلیمانی یونین کے پلیٹ فارم سے بیان بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ انھوں نے بجا طور پر جمہوریت کو لاحق خطرات کی احتیاط سے نشان دہی کی ہے اور پارلیمنٹ کی بالادستی، تمام اداروں کے اپنے اپنے حدود میں کام کرنے اور احتساب کے باب میں سب کے لیے مؤثر نظام وضع کرنے اور کسی کے لیے بھی ’مقدس گائے‘ نہ ہونے کی بات کر کے قوم کو بڑے بنیادی مسائل کی طرف متوجہ کیا ہے۔
چیئرمین سینیٹ کی باتوں سے عمومی اتفاق کے ساتھ ہم یہ کہنا بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ پارلیمنٹ کی بالادستی دستور کے فریم ورک کے اندر ہے اور پارلیمنٹ بھی اسی طرح دستور کی تخلیق (creature) ہے، جس طرح دوسرے تمام ادارے، خصوصیت سے انتظامیہ، عدلیہ، فوج اور آزادیِ صحافت۔
جمہوریت کو جو حقیقی خطرات آج درپیش ہیں، ان میں جہاں فوج، بیوروکریسی اور عدلیہ کا اپنے اپنے دائرے کے اندرمحدود رہنا ضروری ہے، وہیں پارلیمنٹ اور پارلیمانی نظام کی پیداوار حکومت کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ دستور اور جمہوری کلچر اور ان کے اصول و آداب کا پورا پورا احترام کرے۔ سیاسی جماعتوں کی تنظیم اور ان کا کردار بھی جمہوری، دستوری اور آئین کی حکمرانی کے باب میں مرکزی اہمیت رکھتے ہیں۔
پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ سیاسی اُمور میں فوج کی مداخلت، خواہ وہ کسی بھی عنوان سے ہوئی ہو اور اس نے کیسی ہی تائیدِ اعتبار (validation) حاصل کرلی ہو، وہ فی الحقیقت ملک کے لیے نہایت نقصان دہ ثابت ہوئی ہے۔ بات صرف ملک کی سیاست، معیشت، معاشرت اور خارجہ تعلقات تک محدود نہیں رہی، خود ملک کی سلامتی، اس کے نظریاتی اور جمہوری تشخص اور فوج کی پیشہ ورانہ صلاحیت ہرچیز پر اس کے منفی اثرات پڑے ہیں۔ دفاعی صلاحیت بھی متاثر ہوئی ہے۔ سیاست میں فوج کی شرکت سے نہ صرف کرپشن میں اضافہ ہوا بلکہ خود فوج کا دامن جس طرح کرپشن سے پاک ہونا چاہیے، وہ بھی داغ دار ہوا ہے۔ اس سب پر مستزاد فوج کا بیرونی حکومتوں سے براہِ راست تعلق، بیرونی قوتوں کا ملک میں دراندازیوں میں خطرناک حد تک اضافے کا ذریعہ بنا ہے۔ یہ عمل جنرل محمد ایوب خان کے زمانے ہی میں شروع ہوگیا تھا، جو جنرل پرویز مشرف کے دور میں اپنی انتہا کو پہنچا ۔ اللہ کا شکر ہے کہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کے زمانے میں ایک عرصے تک یہ سلسلہ جاری رہنے کے بعد، اس میں کمی آنا شروع ہوئی اور جنرل راحیل شریف کے زمانے میں نمایاں فرق پڑا۔ ہم کس مقام تک گر گئے تھے، اس کا ادراک ضروری ہے، تاکہ بگاڑ کو اس کی ہرشکل میں روکا جاسکے۔
جنرل پرویز مشرف نے نہ صرف امریکی صدربش اور وزیرخارجہ کولن پاول کے حکم (ستمبر ۲۰۰۱ء) پر ملک کو امریکیوں کی آماج گاہ بنایا بلکہ ملک کی آزادی و خودمختاری کو پارہ پارہ اور امن و امان کو تباہ و برباد کیا۔ اسی پر بس نہیں، بلکہ ملک کے سیاسی معاملات میں بھی امریکا کو وہ اثر و نفوذ فراہم کیا، جس کا تصور بھی دل ودماغ کو مفلوج کردیتا ہے۔ پاول کے بعد کونڈالیزا رائس امریکا کی وزیرخارجہ اور بش کے زمانے میں کرتا دھرتا تھیں۔ موصوفہ نے اپنی خودنوشت میں جو صورتِ حال بیان کی ہے، وہ غور سے پڑھنے کی چیز ہے۔ اس کے آئینے میں اپنی سیاسی اور فوجی قیادت کی کارگزاریوں سے واقف ہونے کی ضرورت ہے تاکہ اس قسم کے سیاسی کھیل اور ملک کی سلامتی اور مفادات کا سودا کرنے کا دروازہ بندکیا جاسکے۔ جنرل مشرف صاحب آج دستور کی دفعہ۶ سے بھاگتے پھر رہے ہیں اور اب بھی ٹی وی شوز پر غداری کے الزام پر غصے میں آجاتے ہیں، لیکن واقعہ یہ ہے کہ کونڈالیزارائس کی خودنوشت کے آئینے میں ان کی جو اصل شکل نظر آتی ہے، وہ بڑی عبرت ناک ہے۔ اس میں اس وقت کی پیپلزپارٹی کی چیئرپرسن بے نظیر بھٹو صاحبہ کا بھی جو کردار سامنے آتا ہے، وہ پاکستان کی آزادی اور خودمختاری کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں۔ بات جب ذاتی مفاد کی ہو تو بدقسمتی سے ہرقیادت، چاہے وہ عسکری راستے سے اقتدار میں آئی ہو یا سیاسی دروازے سے، اس کی جو شکل قوم کے سامنے ہے اس پر شرمندگی ہوتی ہے۔
۲۰۰۷ء کے شروع میں جنرل مشرف صاحب نے خود امریکیوں سے درخواست کی کہ: ’’مَیں بے نظیر بھٹو صاحبہ سے مفاہمت چاہتا ہوں اور اس کے لیے امریکا کی معاونت چاہیے‘‘۔ ان کی اس خواہش کے جواب میں کونڈا لیزا رائس نے درمیانی کردار ادا کیا، جو بالآخر ۴؍اکتوبر ۲۰۰۷ء کو باقاعدہ معاہدے پر منتج ہوا۔ اس سلسلے میں امریکی سفیر متعینہ اسلام آباد پیٹرسن نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ معاہدے کے تین بنیادی نکات تھے:
۱- جنرل پرویز مشرف اپنی وردی اُتار دیں گے۔
۲- بے نظیر صاحبہ اور ان کے شوہر کے خلاف کرپشن کے جو مقدمات ہیں، انھیں ان کی گرفت سے خلاصی اور ضمانت دی جائے گی کہ اس سلسلے میں کوئی کارروائی نہیں ہوگی۔
۳- دستوری ترمیم کی جائے گی جس کے نتیجے میں تیسری بار وزیراعظم بننے پر [۱۷ویں ترمیم کے ذریعے] جو پابندی ہے، وہ ختم کردی جائے گی۔
اس سارے بول تول اور معاملہ بندی میں امریکی صدر بش براہِ راست شریک تھے اور بے نظیر صاحبہ نے انھیں صاف کہا تھا کہ مَیں جنرل مشرف کے وعدے پر اعتماد نہیں کرتی، اور صرف امریکا کی ضمانت پر اس معاہدے میں شریک ہوسکتی ہیں۔ کونڈا لیزا رائس کے الفاظ:
"She didn’t trust Musharraf", adding that "I am taking this as a US guarantee that he will".
واضح رہے کہ خفیہ طور پر یہ معاہدہ اس وقت ہو رہا تھا، جب ’لندن معاہدے‘ کے تحت بے نظیر صاحبہ اور میاں نوازشریف صاحب نے یہ عہد کیا تھا کہ ہم میں سے کوئی بھی فوجی حکمرانوں سے بات چیت نہیں کرے گا۔ بلاشبہہ مشرف صاحب نے ۳نومبر ۲۰۰۷ء کی ایمرجنسی کے ذریعے بے نظیر سے کیے گئے معاہدے کی خلاف ورزی کی اور بے نظیر صاحبہ نے بھی اس سے براءت کا اعلان کرتے ہوئے اس وقت کے معزول چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی حمایت کا اعلان کردیا۔ ڈاکٹر فرخ سلیم ۱۳نومبر ۲۰۱۶ء کے دی نیوز میں یہ ساری تفصیل دینے کے بعد ہماری سیاست اور اس میں امریکا کے کردار کا جو خلاصہ پیش کرتے ہیں وہ یہ ہے:
۱- امریکی پاکستان میں حکومتوں کے بننے اور ٹوٹنے میں کردار ادا کرتے ہیں۔
۲- امریکی پاکستان میں ایسی قیادت کے پلڑے میں اپنا وزن ڈالتے ہیں، جسے وہ ’ماڈریٹ‘ تصور کرتے ہیں۔
۳- ہمارے سیاست دان ایک دوسرے پر اعتماد نہیں کرتے اور عموماً امریکا کی ضمانت چاہتے ہیں۔
۴- امریکی کرپٹ سیاست دانوں کو ’محفوظ‘ کرنے میں مدد کرتے ہیں ۔ (دی نیوز، ۱۳نومبر ۲۰۱۶ء)
واضح رہے کہ کونڈا لیزا رائس اپنی سوانح میں اپنے اس کردار کے بارے جو بات لکھتی ہیں وہ ہرپاکستانی کو اچھی طرح سمجھنی چاہیے اور جو نظریاتی جنگ آج عالمی سطح پر ہورہی ہے اس کی نوعیت کو سمجھنا چاہیے۔ پرویز مشرف اور بے نظیر کو شراکت ِ اقتدار کے اسٹیج پر لانے کے لیے امریکا کا اصل محرک کیا تھا؟ اس بارے میں کونڈا لیزا رائس کے الفاظ بہت واضح، اور قوم کے لیے چشم کشا ہیں:
اگر دو حریف طاقت میں تعاون کا معاہدہ کرسکیں، تو اس سے سیاست کا وزن ماڈریٹ (قیادت) کی طرف منتقل ہوجائے گا اور اسلام پسندوں کے وزن کو کم کردے گا۔ جیساکہ سابق وزیراعظم نوازشریف، جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ پاکستانی سیاست میں دیگر نمایاں شخصیات کے مقابلے میں وہ عسکریت پسندوں سے تعلقات نبھانا چاہتے ہیں۔
مشرف صاحب نے یہی نہیں کیا بلکہ بھارت کی شرائط پر کشمیر کے مسئلے کو پانی پانی کرنے (liquidate ) اور بھارتی قیادت کی وضع کردہ ’دہشت گردی‘ کی تعریف کو قبول کرنے کے جرم کا بھی فخریہ انداز میں ارتکاب کیا جس کے نتیجے میں اصل دہشت گردی کو تحریکِ آزادی اور حقِ خوداختیاری (right of self determination) کی اس جدوجہد کے برابر کی سطح پر لاکھڑا کیا گیا جس بارے میں خود بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے مسئلۂ کشمیر پر ہمارے قومی موقف کو تسلیم کر رکھا ہے۔ اس پسپائی نے ہمارے قومی موقف کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔
پھر مشرف صاحب نے خود ملک کی سیاست میں ان عناصر کو گلے سے لگایا اور انھیں اپنے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کیا، جو منظم عسکری قوت کو سیاست میں بے دریغ استعمال کر رہے تھے۔ وہ بھتّا خوری، قتل و غارت گری، ٹارگٹ کلنگ، ناجائز قبضے اور میڈیا اور سیاسی مخالفین کو دہشت زدہ کرنا، ان عناصر کا معمول تھا۔ ان کی قیادت بھارت کی تقسیم کو تاریخی غلطی قرار دیتی تھی، اس نے بھارت کی سرزمین پر پاکستان کے قیام کی مخالفت کی، اور اس کے بارے میں تمام انٹیلی جنس ایجنسیوں بشمول آئی ایس آئی اور ایم آئی کو یقین تھا کہ بھارت اور اس کی ایجنسی ’را، ان کی مالی سرپرستی کر رہی ہے، ان کی دہشت گردی کی عسکری تربیت کا اہتمام کرتی ہے اور یہ بھارت اور برطانیہ دونوں کے آلۂ کار کے طور پر کام کر رہے ہیں۔
حال ہی میں صوبہ سندھ میں ۱۴برس تک براجمان رہنے والے گورنر عشرت العباد اور جنرل مشرف کے منظورِ نظر کراچی کے میئر نے ایک دوسرے کے خلاف جو کچھ کہا ہے، حقیقت میں دونوں کے ’ارشادات‘ حرف بہ حرف درست ہیں۔ البتہ سوال ان قیادتوں پر ہے، خواہ ان کا تعلق فوج کے دائرۂ اقتدارسے تھا یا سیاست دانوں کے میدانِ کار سے: یعنی پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ’ن‘ اور مسلم لیگ ’ق‘ وغیرہ کہ جنھوں نے ان عناصر کی نازبرداری کی، انھیں سینے سے لگایا اور انھیں کھل کھیلنے کا ہرموقع فراہم کیا۔
پرویز مشرف چونکہ صدر ہی نہیں، فوج کے سربراہ بھی تھے، اس لیے ان کے دور میں جو کچھ ہوا، عوام کی نگاہ میں اس کی ذمہ داری میں فوج بہ حیثیت ادارہ بھی شریک تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اس دور میں خود فوج کو اپنے جوانوں کو یہ ہدایت دینا پڑی کہ وہ فوجی وردی میں سول ٹرانسپورٹ میں سفر کرنے سے اجتناب کریں۔ اللہ کا شکر ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے رخصت ہونے کے بعد یہ صورتِ حال ختم ہوئی۔ یوں فوج اور قوم کے اعتماد کا رشتہ بحال ہوا اور خصوصیت سے جنرل راحیل شریف کے دور میں فوج نے پھر وہ عزت اور اعتماد حاصل کرلیا، جو پاکستان کی قومی زندگی میں ہمیشہ اس کا طرئہ امتیاز رہا ہے۔
آگے بڑھنے سے پہلے ہم دل پر پتھر رکھ کر اور ندامت کے احساس کے ساتھ امریکی مداخلت کی ایک اور مثال ضرور قوم کے سامنے لانا چاہتے ہیں تاکہ قوم کو اندازہ ہوسکے کہ ملک کے سیاسی اور فوجی معاملات میں امریکی مداخلت اور اثراندازی کہاں تک پہنچ چکی ہے اور اسلام آباد میں امریکی سفارت خانہ جو اخباری اطلاعات کے مطابق دنیا میں سب سے بڑا امریکی سفارت خانہ ہے، کیا کیا گُل کھلاتا رہتا ہے اور ہماری سیاسی قیادت کس حد تک اس کے ہاتھوں کھیلنے کے لیے تیار ہوجاتی ہے۔
بروس ریڈل جو امریکی سی آئی اے میں اعلیٰ افسر اور امریکا کے چار صدور کے مشیر بھی رہے، وہ اپنی یادداشتوںDeadly Embrace میں لکھتے ہیں:
واشنگٹن پس پردہ اس مقصد کے لیے متحرک تھا کہ جنرل پرویز کیانی کی اُس مدتِ ملازمت میں توسیع ہو، جو ۲۰۱۰ء میں ختم ہورہی تھی، جب کہ [یوسف رضا] گیلانی کی حکومت جو بعض وجوہ سے جنرل کیانی کو برقرار رکھنا چاہتی تھی اور تین سال کی توسیع دینا چاہتی تھی۔
جمہوریت کو خطرہ سیاست میں فوج کی مداخلت ہی سے نہیں ہے بلکہ فوج اور سیاسی معاملات میں امریکا اور دوسری بیرونی قوتوں کی کارفرمائیوں سے بھی یہ خطر ہ ہے۔ سیاسی قیادت بھی ان معالات میں شریکِ کار رہی ہے۔ یہ رویے جمہوریت، پاکستان کی سلامتی، آزادی، شناخت کی حفاظت، ترقی، عوام کی آرزوئوں اور عزائم کے مطابق تعمیروتشکیل میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ ویسے تو آج جمہوریت کو ساری دنیا ہی میں خطرات سے سامنا ہے۔ یورپ اور امریکا میں شدت پسند اور بند ذہن والی دائیں بازو کی سیاسی قوتوں کے عروج اور سیاسی اُفق پر چھا جانے کے امکانات نے ان خطرات کو اور بھی بڑھا دیا ہے۔ خود امریکا میں حالیہ صدارتی انتخاب (۸نومبر ۲۰۱۶ء) کے جو نتائج سامنے آئے ہیں، وہ آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہیں۔ پاکستان میں امریکی سفیر نے، اخباری اطلاعات کے مطابق، انتخابات پر ایک تقریب میں اقبال کا سہارا لیتے ہوئے اشارتاً اعتراف کیا ہے کہ ؎
جمہوریت اِک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گِنا کرتے ہیں ، تولا نہیں کرتے
ہم موصوف کی خوش ذوقی، سیاسی جرأت اور سخن فہمی کی تو داد دیتے ہیں، لیکن ان کو یاد کرانے کی جسارت کرتے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے سلسلے میں تو امریکی جمہوریت اس (گنتی والے) معیار سے بھی دُور ہی نظر آتی ہے، کیونکہ ہیلری کلنٹن صاحبہ نے ان سے بیس لاکھ ووٹ زیادہ حاصل کیے ہیں۔ تین ریاستوں میں ووٹوں کی گنتی میں گڑبڑ کی بھی خبریں ہیں اور فنڈ ریزنگ مہم جاری ہے کہ وہاں دوبارہ گنتی کرائی جائے جسے Physical recountکہا جاتا ہے ۔
سیاسی معاملات میں فوج کی کھلی یا پس پروہ مداخلت اور قومی سیاسی اُمور پر پبلک اظہارِ راے، جمہوری روایات اور دستور کے الفاظ اور روح سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اسی طرح فوج پر ناروا تنقید اور اسے سیاسی مخالفت یا سیاسی کردار پر اُبھارنا بھی دستور کی روشنی میں ایک سنگین جرم ہے، جس کا یہاں کھلے بندوں ارتکاب کیا جا رہا ہے۔ یہ سلسلہ اب مستقل بنیادوں پر ختم ہونا چاہیے۔ جمہوریت کے استحکام کے لیے یہ اولین ضرورت ہے۔
رضاربانی صاحب نے صحیح کہا ہے کہ فیصلہ سازی کا محل پارلیمنٹ اور اسلام آباد ہے۔ راولپنڈی [یعنی جی ایچ کیو]کا کردار قومی سلامتی اور دفاع کے نقطۂ نظر سے سیاسی قیادت کو باخبر رکھنا اور پالیسی سازی میں بلارُو رعایت اپنی راے پیش کر دینا مسلّم ہے۔ لیکن اصل فیصلہ باہمی مشاورت سے اور سیکورٹی، ڈپلومیسی، ملکی مفادات، عوام کے جذبات و احساسات اور نظریاتی، اخلاقی اصولوں اور ملکی مصالح کی روشنی میں سیاسی قیادت ہی کو کرنا چاہیے، اور معرو ف طریقے سے دستوری اداروں کے ذریعے کرنا چاہیے۔ جنھیں ذاتی اور شخصی ترجیحات اور مفادات سے پاک ہونا چاہیے۔
اس سلسلے میں اگر فوجی قیادت کے لیے لازم ہے کہ وہ حدود کا احترام کرے تو سیاسی قیادت کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ فیصلہ سازی کا وہی طریقہ اختیار کرے، جو دستور نے طے کیا ہے، جس کی حدود اور آداب کو قانون اور اعلیٰ عدالت کے فیصلوں میں بھی واضح کر دیا گیا ہے، مگر بدقسمتی سے ہماری سیاسی حکومتیں ان کا احترام نہیں کرتیں۔ اس طرح وہ صرف جمہوریت ہی کو پامال کرنے کی مرتکب نہیں ہوتیں بلکہ ملک و قوم کو بھی بہترین اور مفید ترین فیصلوں سے محروم رکھتی ہیں۔ یوں اپنے شخصی رجحانات کو فیصلہ سازی پر مسلط کرکے دستور، قوم اور جمہوری کلچر سے بے وفائی کی مرتکب ہوتی ہیں۔
بدقسمتی سے ہماری سیاسی قیادت جمہوری رویہ اختیار کرنے کے بجاے خالص آمرانہ رویہ اختیار کرنے کی بھی مجرم ہے۔ وہ جمہوریت کی جگہ ’بادشاہت‘ کو اپنا ماڈل سمجھتی ہے اور عملاً شاہانہ انداز ہی میں فیصلے کرتی ہے اور شاہانہ انداز ہی میں زندگی گزارتی ہے۔ ہم بڑے دُکھ سے کہتے ہیں کہ دونوں بڑی حکمران جماعتیں اور ان کی قیادتیں اس باب میں ایک ہی جیسا رویہ رکھتی ہیں۔ حزبِ اختلاف اور حکمران جماعت دونوں ہی میں ایک مختصر ٹولا ہے، جو سیاہ و سفید کا مالک بنا ہوا ہے۔
جماعت اسلامی کے سوا کوئی پارٹی ایسی نہیں ہے، جس کے اندر جمہوریت ہو۔ ’پلڈاٹ‘ اور ’فافن‘ کی رپورٹیں اس پر شاہد ہیں، لیکن اگر یہ رپورٹیں نہ بھی ہوتیں تو پوری قوم بچشم سر اس کا مشاہدہ کر رہی ہے۔ مسلم لیگ کی قیادت پر ایک خاندان اور اس کے چند معتمدعلیہ ساتھیوں کو مکمل غلبہ حاصل ہے۔ پارٹی کی نہ حقیقی ممبرشپ ہے اور نہ پارٹی کا اپنا کوئی مشاورتی اور فیصلہ کرنے کا نظام ہے۔ عدالت اور الیکشن کمیشن کے حکم پر نمایشی انتخابات کیے گئے ہیں۔ مجلس عاملہ کا اجلاس ساڑھے تین سال کے بعد صرف انتخابات کی خانہ پُری کے لیے منعقد کیا گیا ہے۔ غضب ہے کہ پارلیمانی پارٹی کا کوئی اجلاس برسوں گزر جاتے ہیں، منعقد نہیں ہوتا۔ حتیٰ کہ مرکزی کابینہ کا اجلاس بھی کئی کئی مہینے منعقد نہیں ہوتا، حالاں کہ ’رولز آف بزنس‘ [ضوابطِ کار]کی رُو سے ہفتے میں ایک بار کابینہ کا اجلاس ہونا چاہیے۔
مَیں گواہی دیتا ہوں کہ جنرل محمد ضیاء الحق کی حکومت جو ایک فوجی حکومت تھی لیکن ایک معاہدے کے تحت ’پاکستان قومی اتحاد‘ جس طرح ساڑھے آٹھ مہینے حکومت میں شریک رہا، اس کی کابینہ کا اجلاس ہرہفتے ہوتا تھا اور کئی کئی گھنٹے بلکہ پورا پورا دن جاری رہتا تھا اور ایک ایک پالیسی ایشو پوری بحث کے بعد طے ہوتا تھا۔ یہ بدقسمتی ہے کہ ۱۹۹۰ کے عشرے میں ’اسلامی جمہوری اتحاد‘ (آئی جے آئی) کی حکومت کے زمانے میں کابینہ کے اجلاسوں کی باقاعدگی میں خلل کا آغاز ہوگیا اور اب تو ایسا بھی ہوا ہے کہ کابینہ کا اجلاس سات یا آٹھ مہینے کے بعد منعقد ہوا ہے، اور سپریم کورٹ کو باقاعدہ اپنے فیصلے میں احتساب کرنا پڑا ہے کہ: ’’وزیراعظم کابینہ کے فیصلے کے بغیر ایسے فیصلے اور اقدام کر رہے ہیں جن کے وہ مجاز نہیں‘‘۔ حد یہ ہے کہ ٹیکس لگانے، لیوی کا اطلاق کرنے اور ٹیکس سے چھوٹ دینے تک کا کام جو کابینہ کے فیصلے کے بغیر ہوہی نہیں سکتا، وہ بھی بے دریغ انداز میں کیا جارہا ہے۔ دسیوں وزیر ایسے ہیں کہ جو وزیراعظم کا چہرہ مہینوں تک نہیں دیکھ پاتے۔
اسی طرح قومی اسمبلی اور سینیٹ کا بھی یہ حال ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے اور قومی معاملات کے سلسلے میں فیصلوں پر اثراندازی سے مکمل طور پر محروم ہیں۔ حکمران پارٹی کے ارکان تک کسی شمار قطار میں نہیں۔ ان کی سعادت بس یہ ہے کہ اگر وزیراعظم صاحب اسمبلی میں آئیں، جو وہ شاذونادر ہی آتے ہیں کہ گذشتہ ساڑھے تین سال میں وہ صرف ۱۹ فی صدی اجلاس میں شریک ہوئے ہیں، تو اس وقت ممبر لائن لگاکر اپنے کام درخواستوں کی شکل میں پیش کرتے ہیں___ یہ ایک ایسی بدنما مثال ہے جس کی کوئی نظیر جمہوری ملک کی پارلیمنٹوں میں دُور دُور تک نہیں ملتی۔
اسی طرح جو دستوری ادارے ہیں، یعنی: کونسل آف کامن انٹرسٹ، نیشنل اکانومک کونسل، این ایف سی اوارڈ کمیٹی، پارلیمانی کمیٹی براے دفاع و قومی سلامتی، ان کے اجلاس مہینوں تک نہیں ہوتے، جس کے نتیجے میں تمام دوسرے متعلقہ ادارے بروقت مشاورت میں شرکت سے محروم رہتے ہیں۔ اگر چار و ناچار اجلاس ہوتے بھی ہیں تو نہایت عجلت میں، مناسب ایجنڈے اور ورکنگ پیپرز کے بغیر، بس رواروی میں معاملات کو نمٹانے کے لیے۔اصل فیصلہ وزیراعظم خودیا ان کے چند چہیتے وزیر اور مشیر کرتے ہیں ۔ یہ رویہ جمہوریت کی ضد اور اس کے فروغ کے لیے سمِ قاتل کی حیثیت رکھتا ہے۔ جمہوریت کو خطرہ صرف طاقت کے دوسرے ماخذ ہی سے نہیں، سیاسی قیادت کے مجرمانہ رویے کے نتیجے میں طاقت کے اس ارتکاز سے بھی ہے۔جب تک یہ درست نہ ہو جمہوریت پروان نہیں چڑھ سکتی۔
ہم دُکھ سے عرض کرتے ہیں کہ پارلیمان بھی اپنا کردار ادا نہیں کر رہی۔ نصف کے قریب ارکان وہ ہیں، جنھوںنے کبھی تقریر کرنے یا بحث میں حصہ لینے کی زحمت ہی نہیں کی۔ ایک بڑی تعداد بشمول بہت سی پارٹیوں کے سربراہ، وہ کلیدی ارکان ہیں جن کی اجلاسوں میں شرکت ۱۰ فی صد سے بھی کم ہے۔ اسمبلی میں جن ۱۵؍ارکان کی کارکردگی سب سے بہتر ہے، ان میں حکومتی پارٹی کا صرف ایک رکن ہے۔ الحمدللہ اس سلسلے میں جماعت اسلامی کے ارکان کا کردار مثالی ہے۔سب سے بہتر کارکردگی کا اعزاز جمعیت علماے اسلام کی خاتون رکن نعیمہ کشور کا ہے، جن کا اسکور ۷۰ فی صد رہا ہے۔ جماعت اسلامی کے چاروں ارکانِ اسمبلی اوّلین ۱۰؍ارکان میں شامل ہیں اور اس طرح جماعت اسلامی کا اسکور ۱۰۰ فی صد رہا ہے ، جب کہ اسمبلی میں کارکردگی کے حوالے سے سب سے کم شرکت کا سہرا فریال تالپور صاحبہ کا ہے، جو زرداری صاحب کی بہن اور پیپلزپارٹی کی بڑی حد تک کرتا دھرتا ہیں۔ بدقسمتی سے کم ترین کارکردگی دکھانے والوں میں محترم عمران خان صاحب، مسلم لیگ ن کے ’گلِ سرسبد‘ حمزہ شہباز شریف بھی شامل ہیں، ان کا اسکور ۲۰ فی صد سے بھی کم ہے۔ جماعت اسلامی کو اعلیٰ کارکردگی کا یہ اعزاز پہلی مرتبہ حاصل نہیں ہو رہا۔ ۱۹۷۲ء کی اسمبلی میں پروفیسر عبدالغفور احمد کو یہ اعزاز حاصل تھا۔ ۱۹۸۵ء کی اسمبلی میں لیاقت بلوچ سرفہرست تھے۔ سینیٹ کے ۲۱برسوں میں الحمدللہ، راقم الحروف کی اوّل پوزیشن رہی۔ آج بھی سینیٹ کے ۱۰ مؤثر ترین ارکان میں امیرجماعت برادرم سراج الحق اپنی تمام دوسری ذمہ داریوں کے باوجود شامل ہیں۔
اگر پارلیمنٹ اور ارکانِ پارلیمنٹ اپنی ذمہ داری ادا نہیں کریں گے، تو پارلیمنٹ کی بالادستی کے بارے میں کتنے ہی خوش کُن دعوے آپ کیوں نہ کرڈالیں، پارلیمنٹ بالادست نہیں ہوسکتی۔ آج پارلیمنٹ ایک نمایشی ادارہ بنادی گئی ہے۔ ہرسال دسیوں بار کورم پورا نہ ہونے کی وجہ سے اجلاس برخاست کرنا پڑتے ہیں۔ سوالات کرنے والے کم ہیں اور جو سوال کیے جاتے ہیں، ان میں تین چوتھائی جواب سے محروم رہتے ہیں۔ آدھی قانون سازی آرڈی ننس کے ذریعے کی جاتی ہے اور انتظار کیا جاتا ہے کہ اسمبلی برخاست ہو اور آرڈی ننس نازل کر دیا جائے۔ کمیٹیاں کچھ ہی متحرک ہیں، تاہم سینیٹ کی کمیٹیاں زیادہ مؤثر کردار ادا کر رہی ہیں۔ چودھری نثار علی خاں کے دورِ صدارت میں قومی اسمبلی کی پبلک اکائونٹس کمیٹی نے اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کیا، لیکن موجودہ دور میں گو کہ قائد حزبِ اختلاف اس کے سربراہ ہیں، اس کی کارکردگی اطمینان بخش نہیں ہے۔ سب سے بڑا ستم یہ ہے کہ پیپلزپارٹی کے دورِحکومت کے اکائونٹس کا احتساب اس کمیٹی کا ایجنڈا ہے، جس کے سربراہ پیپلزپارٹی کے نمایندہ ہیں ؎
گر ہمیں مکتب و ہمیں ملا
کار طفلاں تمام خواہد شد
عدلیہ کے کردار کو محدود کرنے کی کوشش
سپریم کورٹ کے محترم چیف جسٹس ظہیرجمالی صاحب اور دوسرے جج حضرات نے گذشتہ دو مہینوں میں چار مرتبہ حکومت کو متنبہ کیا ہے کہ وہ بدترین حکمرانی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ ’اچھی حکمرانی‘ کا فقدان ہے۔ ذاتی پسندوناپسند رہنما اصول بن گئے ہیں اور بادشاہت کے انداز میں کارِ حکمرانی انجام دیے جارہے ہیں۔ احتساب کا دُور دُور پتا نہیں، تقرریاں میرٹ سے محروم ہیں۔ اعلیٰ عہدے خالی پڑے ہوئے ہیں۔ بہت سے اہم محکمے قائم مقام سربراہوں کی نگرانی میں چل رہے ہیں اور وہاں بھی بالعموم مطلوبہ گریڈ سے ایک گریڈ کم کے افسر کو لگایا گیا ہے تاکہ وہ حکمرانوں کے اشارئہ چشم و ابرو پرکام کرے اور اختلاف کی جرأت نہ کرسکے۔ جو افسر اصول اور قواعد کا احترام کرتا ہے، وہ نظروں سے گرتا ہے اور انتقامی کارروائی کا مستحق بن جاتا ہے۔ یہ معاملہ کسی ایک شعبے کا نہیں، اہم ترین شعبوں کا بھی یہی حال ہے۔
وزیراعظم صاحب کے اہلِ خانہ (جن کی کوئی نمایندہ حیثیت نہیں اور جنھوں نے ’رازداری‘کا حلف بھی نہیں لیا ہے) سرکاری معاملات میں دخیل اور پالیسی بنانے،نافذ کرنے یا نگرانی کرنے پر مامور ہیں۔ سرکاری تقاریب میں شریک ہوتے ہیں۔ جن محفلوں اور اجتماعات میں ’رازداری‘ اصل الاصول ہے، ان میں شرکت کرتے ہیں اور اخباری اطلاعات کے مطابق اپنی مرضی سے جو معلومات آشکارا (leak) کرنا چاہتے ہیں ، بے دھڑک کرتے ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ یہ اندازِ حکمرانی جمہوریت کے لیے سمِ قاتل ہے اور اقتدار میں نوازشریف ہوں یا بے نظیر صاحبہ یا زرداری صاحب، سب جمہوریت کے اس قتل میں شریک ہیں۔ جمہوریت کو آج اصل خطرہ اسی طرزِ حکمرانی سے ہے۔اور جب تک اس کی اصلاح نہیں ہوتی، جمہوریت ایک خواب رہے گی، حقیقت نہیں بن سکتی۔ چیف جسٹس صاحب نے اورنج ٹرین کے مقدمے کی سماعت کے دوران بڑے دُکھ سے جو بات کہی ہے، وہ نوشتۂ دیوار اور پاکستان کے ہرمخلص بہی خواہ کے دل کی آواز ہے۔ ان کا ارشاد ہے:
جمہوریت کے نام پر بادشاہت اور اچھی طرزِ حکمرانی پر بُری حکمرانی اس امر کا تقاضا کرتی ہے کہ پاکستان کے عوام اس کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں .... عوام کو چاہیے کہ ووٹ دیتے وقت دُور اندیشی سے ان معاملات پر نظر رکھیں۔
چیف جسٹس کے ان ریمارکس پر حکومت کے ترجمان اور کاسہ لیس بڑے سیخ پا ہوئے ہیں اور عدالت کے رویے کو جمہوریت کے لیے ’خطرہ‘ بنا کر پیش کر رہے ہیں، لیکن دستور کی دفعہ۱۸۴ (ج) اور دفعہ ۱۸۷ ، اعلیٰ عدالت کی یہ ذمہ داری مقرر کرتی ہیں کہ مفادِ عامہ، بنیادی حقوق کی حفاظت اور انصاف کی فراہمی کے لیے اپنے غیرمحدود اختیارات کو استعمال کرے اور اصلاحِ احوال کے لیے ضروری احکام جاری کرے۔ دستور نے نظم و ضبط کا یہ نظام قائم کیا ہے اور جمہوریت کے قیام اور استحکام کے لیے اس کی کلیدی اہمیت ہے اور یہ حکومت کو اُن مواقع پر لگام دینے کے لیے ضروری ہے جب وہ جمہوری اصولوں اور دستور کے الفاظ اور روح سے انحراف کرتے ہوئے بادشاہت، آمریت یا جمہوری اقدار کی پامالی کی راہ پر گامزن ہو:
دفعہ ۱۸۷: ۱- عدالت ِ عظمیٰ کو بہ اخراج ہر دیگر عدالت کے، کسی دو یا دو سے زیادہ حکومتوں کے درمیان کسی تنازع کے سلسلے میں ابتدائی اختیارِ سماعت حاصل ہوگا۔
تشریح: اس شق میں ’حکومتوں‘ سے وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتیں مراد ہیں۔
۲- شق (۱) کی رُو سے تفویض کردہ اختیارِ سماعت کے استعمال میں عدالت ِ عظمیٰ صرف استقراری فیصلے صادر کرے گی۔
۳- آرٹیکل ۱۹۹ کے احکام پر اثرانداز ہوئے بغیر ، عدالت ِ عظمیٰ کو، اگر وہ یہ سمجھے کہ حصہ دوم کے باب۱ کے ذریعے تفویض شدہ بنیادی حقوق میں سے کسی حق کے نفاذ کے سلسلے میں عوامی اہمیت کا کوئی سوال درپیش ہے، تو مذکورہ آرٹیکل میں بیان کردہ نوعیت کا کوئی حکم صادر کرنے کا اسے اختیار ہوگا۔
اسی طرح دفعہ۱۸۷ بہت واضح ہے:
دفعہ ۱۸۷ : (۱) (آرٹیکل ۱۷۵ کی شق (۲) کے تابع) عدالت عظمیٰ کو اختیار ہوگا کہ وہ ایسی ہدایات، احکام یا ڈگریاں جاری کرے، جو کسی ایسے مقدمے یا معاملے میں جو اس کے سامنے زیرسماعت ہو، مکمل انصاف کرنے کے لیے ضروری ہوں، ان میں کوئی ایسا حکم بھی شامل ہے، جو کسی شخص کے حاضر کیے جانے، یا کسی دستاویزکو برآمد کرنے یا پیش کرنے کے لیے صادر کیا جائے۔
(۲) ایسی کوئی ہدایت، حکم یا ڈگری پاکستان بھر میں قابلِ نفاذ ہوگی اور جب اس کی تعمیل کسی صوبے میں، یا کسی ایسے قطعے یا علاقے میں کی جانی ہو، جو کسی صوبے کا حصہ نہ ہو، لیکن اس صوبے کی عدالت عالیہ کے دائرۂ اختیار میں شامل ہو، تو اس کی اسی طرح سے تعمیل کی جائے گی گویا کہ اسے اس صوبے کی عدالت ِ عالیہ نے جاری کیا ہو۔
دونوں دفعات بہت واضح ہیں اور عدالت ِ عالیہ کو صرف یہ اختیار ہی نہیں دیتیں، بلکہ اس پر یہ لازم کرتی ہیں کہ وہ حقوق کی حفاظت اور عدل کی فراہمی کے سلسلے میں ہرحکومت اور حکومت کے ہر فرد اور ہرحکم، خواہ اس کا تعلق ان میں سے کسی بھی ادارے سے ہو، یعنی سیاسی قیادت، انتظامیہ، میڈیا، عسکری حکام اپنی ذمہ داری ادا کرے۔ عدالت: دستور، قوم اور اللہ تعالیٰ سب کے سامنے جواب دہ ہے۔ وہ یہ حلف لیتی ہے کہ خدا کو حاضروناظر جان کر اسلامی نظام کے قیام اور دستور اور قانون کے مکمل نفاذکے لیے ہرمفاد سے بالا ہوکر اپنی ذمہ داری ادا کرے گی۔
موجودہ وفاقی حکومت، اعلیٰ عدلیہ کے اس دستوری کردار سے اتنی خائف ہے کہ اس نے رات کی تاریکی میں ۲۴ویں دستوری ترمیم لانے کی کوشش کی، کہ دفعہ ۱۸۴ (ج) کے تحت عدالتی احکام پر نظرثانی کی کارروائی کا اسے اختیار دیا جائے۔ یہ جمہوریت اورعدل کے نظام کو کمزور کرنے اور انصاف کے تقاضوں کے نفاذ میں تاخیری حربے استعمال کرنے کے مترادف ہے اور پارلیمنٹ، عوام اور تمام سیاسی اور دینی قوتوں کو اس ترمیم کا راستہ روکنا چاہیے۔
اس موقعے پر ایک قومی امانت کو قوم تک پہنچانے کے جذبے سے میں اپنا ایک واقعہ ضبط ِ تحریر میں لارہا ہوں جو وزیراعظم محمد نواز شریف کے ذہن اور اندازِ حکمرانی کو سمجھنے میں مددگار اور ان کے رفقاے کار کی اپنی ذمہ داری بہ حُسن و خوبی انجام نہ دینے کی مثال ہے:
یہ بات ہے ۱۹۹۰ء کی آئی جے آئی کے زمانۂ حکومت کی۔ہم نے وزارت میں شرکت نہیں کی تھی، لیکن پارلیمنٹ میں پارٹی آئی جے آئی کی تھی، جس میں مسلم لیگ اور جماعت اسلامی اہم شریکِ کار تھیں۔ اقتدار میں آنے کے چند ہی مہینے بعد، نواز شریف صاحب نے بارھویں دستوری ترمیم ۱۹۹۱ء کا سلسلہ شروع کیا۔ اصل مسودے کے دو اہم حصے تھے: ایک یہ کہ نفرت انگیز اور وحشیانہ جرائم کے لیے اپیل کورٹس مقرر کی جائیں، اور دوسرے یہ کہ وزیراعظم کو یہ اختیار دیا جائے کہ وہ اپنے صواب دیدی اختیارات کے تحت، دستور کی جس شق کو چاہے وقتی طور پر معطل کرسکے اور معطلی کی مدت کے تعین کا اختیار بھی وزیراعظم ہی کو حاصل ہو۔ جب یہ مسوّدہ ہمارے سامنے آیا تو قاضی حسین احمد مرحوم اور میں نے اس کی بھرپور مخالفت کی، جو نوازشریف صاحب کے لیے بڑی ناگوار تھی۔ ہم نے صاف صاف کہہ دیا کہ یہ حق نہ ہم اپنے لیے لینا پسند کریںگے، نہ آپ کے لیے اور نہ کسی اور کے لیے، بشمول صدرِ مملکت۔ پھر صدر غلام اسحاق خان صاحب نے بھی اس کی سخت مخالفت کی اور میاں صاحب کو دستوری ترمیم کا یہ حصہ مسوّدے سے خارج کرنا پڑگیا۔ نوازشریف صاحب سے ہماری گفتگو کے دوران مسلم لیگ کے کئی وزرا بھی شریک تھے، جو پوری میٹنگ میں تو مکمل طور پر خاموش رہے لیکن میٹنگ ختم ہونے کے بعد ان میں سے تین نے، یعنی: جنرل مجید ملک، وسیم سجاد اور حامدناصر چٹھہ نے مجھ سے فرداً فرداً اپنی خوشی کا اظہار کیا۔ ان میں سے دو نے یہ تک کہا کہ ہم آپ کے ممنون ہیں کہ آپ حضرات نے اس ترمیم کا راستہ رکوا دیا، ورنہ ہم اس پر مضطرب تھے مگر کابینہ میں ہم اسے نہ روک سکے۔ جنرل مجید ملک صاحب اللہ کو پیارے ہوچکے ہیں، لیکن باقی دونوں حضرات الحمدللہ بقید حیات ہیں اور میری اس بات کی تائید کریں گے۔
دراصل یہ نواز شریف صاحب کا مزاج اور ذہن ہے۔ انھوں نے ایک بار پھر۱۵ویں دستوری ترمیم کے ذریعے ایسے ہی اختیارات حاصل کرنے اور اسلام کے نام پر کُلی اختیارات کے حصول کی کوشش کی، جو کامیاب نہ ہوسکی۔
ہم دراصل اس نکتے کی طرف توجہ مبذول کرانا چاہتے ہیں کہ جمہوریت کو جہاں بہت سے بیرونی اور اندرونی خطرات لاحق ہیں، وہاں خود جمہوریت کا نام لینے والوں، اس کی دہائی دینے والوں اور اس کے نام پر حکمرانی کرنے والوں کے اپنے ذہن اور رویے بھی خطرات کو دعوت دینے کا باعث ہیں۔
ملک میں جمہوریت کے مستقبل کو محفوظ کرنے کے لیے ہرکسی کو دستور، قانون اور اداروں کی مشاورت کا پابند کرناہوگا اور چیک اینڈ بیلنس کا ایسا نظام وضع کرنا، اور پھر اس پر عمل بھی کرنا ہوگا کہ سب اپنی اپنی حدود میں رہیں اور کوئی بھی ایسے اختیارات حاصل نہ کر پائے جو اسے مشاورت اور اداراتی ڈسپلن سے آزاد کردے۔ فوج اور عدلیہ کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ اپنی حدودِ کار میں رہیں اور میڈیا بھی۔ اجتماعی اُمور اور دستور میں دیے ہوئے حقوق کی پاس داری اور دوسروں کے حقوق پر دست درازی سے اجتناب بھی اشد ضروری ہے۔ اسی طرح پارلیمنٹ، حکومت اور وزیراعظم اور وزرا کے لیے بھی مشاورت کا التزام اور اس کا احترام اور دستور، قانون اور ضابطۂ کار کی پابندی لازم ہے۔ انتظامیہ، حکمرانوں کی ملازم نہیں ریاست کی ملازم ہے۔ پولیس ہو یا سول انتظامیہ، اس کے لیے قانون اور ضوابط کا پابند ہونا ضروری ہے اور حکومت ِ وقت کے اشارۂ چشم و ابرو پر اور ان کے ملازم کی حیثیت سے کردار کی ادایگی نہ صرف عزتِ نفس کے خلاف ہے بلکہ دستور اور قانون کی حکمرانی کی بھی ضد ہے۔
اخبارات میں پنجاب کے ایک چیف سیکرٹری کی تابع داری کا ایک واقعہ شائع ہواہے، جو سب کے لیے شرم کا باعث ہے۔ ہوا یہ کہ وزیراعلیٰ کے ہاتھ سے کوئی چیز چھٹ کر زمین پر گرگئی، تو قبل اس کے کہ وہ افراد جو ان کی خدمت پر مامور ہیں، آگے بڑھیں، چیف سیکرٹری صاحب نے جست لگائی اور وہ چیز اُٹھا کر وزیراعلیٰ کی خدمت میں پیش کر دی۔
انتظامیہ ہو یا پولیس، ایک بڑی تعداد حکمرانوں کی ذاتی پسند و ناپسند کے چکّر میں رہتی ہے اور اس کو اپنی ترقی اور اپنے مفادات کے حصول کے لیے زینہ بناتی ہے___ یہ رویہ جمہوریت، قانون کی حکمرانی، عدل و انصاف کے قیام اور عوام کی فلاح و بہبود کی راہ میں سنگین رکاوٹ ہے۔ جمہوریت کو خطرہ اس رویے سے ہے اور جب تک یہ طرزِفکر اور طرزِ عمل نہ بدلے گا، جمہوریت کا مستقبل تاریک رہے گا۔ الحمدللہ، ایسے لوگ بھی موجود ہیں، جو اصول اور ضابطے کا احترام کرتے ہیں اور جان پر کھیل کر ان کی پاس داری کرتے ہیں، لیکن افسوس ناک حقیقت یہ بھی ہے کہ ایسےلوگوں کی تعداد کم ہوتی جارہی ہے، وہ اُٹھ رہے ہیں یا ریٹائر ہورہے ہیں۔ ان کی جگہ لینے والوں کی تعداد بہت کم ہے۔
اس زمانے میں عدالتِ عظمیٰ نے دو بڑے اہم فیصلے کیے ہیں، جو آرڈر کی شکل میں جاری ہوچکے ہیں۔ ان کا پیغام یہ ہے کہ وزیراعظم کو اپنی صواب دید (discretion) میں حکمرانی کا کوئی اختیار نہیں، بجز ان چیزوں کے جو دستور نے ان کو متعین طور پر بطور اختیار دی ہیں۔ وزیراعظم کابینہ کے ذریعے فیصلے کرنے کا پابند ہے اور دستور کی دفعہ ۹۰ اور ۹۱ وفاقی حکومت کی صاف لفظوں میں تعریف دے رہی ہیں۔ اصل اختیار کابینہ کا ہے جس کا سربراہ وزیراعظم ہے۔ برطانوی قانون کے مطابق کابینہ کے تمام ارکان بشمول وزیراعظم برابر ہیں۔ صرف انتظامی وجوہ سے وزیراعظم کو اوّلیت حاصل ہے لیکن فیصلے اجتماعی ہونے چاہییں۔ملاحظہ کیجیے، دستور کی متعلقہ دفعات:
دفعہ ۹۰: (۱) دستور کے مطابق، وفاقی حکومت کی جانب سے وفاق کا عاملانہ اختیار صدر کے نام سے استعمال کیا جائے گا، جو وزیراعظم اور وفاقی وزرا پر مشتمل ہوگا، جو وزیراعظم کے ذریعے کام کریں گے۔
(۲) دستور کے تحت اپنے کارہاے منصبی کو وزیراعظم ، خواہ بلاواسطہ یا وفاقی وزرا کے ذریعے بجا لائے گا۔
دفعہ ۹۱: (۱) صدر کو اس کے کارہاے منصبی کی انجام دہی میں مدد اور مشورہ دینے کے لیے وزرا کی ایک کابینہ ہوگی، جس کا سربراہ وزیراعظم ہوگا۔
سپریم کورٹ نے اسی دستوری تقاضے کو پورا کرنے کے لیے واضح کر دیا ہے کہ وزیراعظم کے لیے لازمی ہے کہ وہ کابینہ کے فیصلوں کے ذریعے کام کریں اور تمام قانون سازی بھی اسی طریقے سے ہونی چاہیے۔
عدالت ِ عظمیٰ کے ان فیصلوں کے علاوہ سندھ ہائی کورٹ نے بھی ایک بڑا اہم فیصلہ صادر کیا ہے کہ: صوبائی وزیراعلیٰ کے لیے جہاں یہ ضروری ہے کہ وہ کابینہ کے ذریعے کام کرے، وہیں دستور انھیں ایسے مشیر (adviser) بنانے کا اختیار نہیں دیتا، جو وزیر کے درجے پر کام اور فیصلے کرسکیں۔
یہ بھی بڑا اہم فیصلہ ہے، اس لیے کہ وفاقی حکومت کے سلسلے میں دستور کی دفعہ ۹۳ وزیراعظم کے مشورے پر صدرپانچ مشیر مقرر کرسکتاہے، جن کا مرتبہ وزیرکے برابر ہوتا ہے لیکن صوبے کے لیے دستور میں ایسی کوئی گنجایش نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہرصوبے میں مشیروں اور خصوصی معاونین کی فوج ظفرموج مقرر ہے، جو بالکل وزرا کی طرح اختیارات استعمال کررہی ہے اور مراعات لے رہی ہے حالاں کہ ان سے ’رازداری‘ تک کا حلف نہیں لیا جاتا۔ یہ دستور اور جمہوریت کے ساتھ مذاق اور اپنوں کو نوازنے کا ذریعہ تھا۔ ہمیں توقع ہے کہ سپریم کورٹ، سندھ ہائی کورٹ کے اس فیصلے کی توثیق کرے گی اور اس کا اطلاق تمام صوبوں پر ہوگا۔ یوں دستور کی خلاف ورزی اور اقرباپروری اور احباب نوازی کا یہ دروازہ بند ہوگا۔
کابینہ اور مشاورت کے تمام اداروں کے بارے میں ہم یہ بات بھی واضح کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ ہرسطح پر مشاورت کے معنی یہ ہیں کہ مشورے کے نتیجے میں جو فیصلہ کیا جائے گا، اس پر عمل بھی ہوگا۔ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کو مشاورت کے سربراہ کی حیثیت سے شوریٰ کے فیصلے کو ویٹو کرنے کا اختیار نہیں ہوگا۔ اسلامی فکر کے ماہرین میں بھی اگرچہ ماضی میں اس سلسلے میں ایک سے زیادہ آرا رہی ہیں، اور کچھ علما کی نگاہ میں شوریٰ کا فیصلہ لازم اور غالب حیثیت رکھتا ہے۔ تاہم، کچھ علما کی نگاہ میں یہ صرف مشورہ ہوتا ہے، جس کے قبول یا رد کرنے کا اختیار امیر یا صدر کو حاصل ہے، لیکن اب اُمت کے اہلِ علم کا اس پر تقریباً اجماع ہے کہ شوریٰ کا فیصلہ ہی اصل فیصلہ ہوتا ہے، محض مشورہ نہیں ہوتا کہ جسے امیریا صدر ویٹو کر سکے۔ یہ شورائیت اور جمہوریت کی روح کے عین مطابق ہے۔
سیاسی جماعتوں میں جمہوریت پر کاری ضرب لگانے والی ایک اور روایت، پارٹیوں میں اور خود حکومتوں میں ایک خاندان کا غلبہ اور قیادت کا وراثت کے طور پر منتقل ہونا ہے۔ وراثت کے ذریعے اقتدار دراصل بادشاہت کی علامت ہے، جب کہ جمہوریت کی روح سے یہ متصادم اور اس کے اصولوں کی ضد ہے۔ بلاشبہہ بے نظیرصاحبہ نے اپنی ذہانت، قابلیت اور صلاحیت سے اپنی قیادت کا لوہا منوایا، لیکن جناب ذوالفقار علی بھٹو کا اپنی اہلیہ کو صدر مقرر کرنا اور پھر بے نظیر صاحبہ کا شریکِ صدر ہوتے ہوئے اپنی والدہ کو قیادت سے محروم کرنا۔ پھر ان کے بعد زرداری صاحب کا شوہر ہونے کے ناتے ایک مشتبہ وصیت کی بنیاد پر اقتدار سنبھالنا، اور پارٹی کا اس کے آگے سرتسلیم خم کر دینا، ایک عجیب اور بُری مثال ہے (بے نظیر صاحبہ نے اپنے دورِ اقتدار میں زرداری صاحب کو تلخ تجربات اور ان کی مجروح شہرت کی وجہ سے حکومت سے دُور رکھنے کی براہِ راست کوشش کی)۔ اسی طرح یہ بھی طرفہ تماشا ہے کہ بے نظیر صاحبہ کے انتقال کے بعد ان کے زیرتعلیم صاحب زادے پارٹی کے چیئرمین بن گئے اور مرحومہ کے شوہر شریک چیئرمین کی کرسیِ صدارت پر متمکن ہوگئے۔ پھر ایوانِ صدر بھی ان کے تصرف میں آگیا اور صدرصاحب کی ہمشیرہ صاحبہ ڈرائیونگ سیٹ پر تشریف فرما ہوگئیں۔
یہی معاملہ مسلم لیگ ’ن‘ اور اس کی تمام ہم جولی لیگوں کا ہے۔ نیز وہ سب جماعتیں بھی، جن کو لبرل، آزاد خیال، بائیں بازو کی (Leflist) اور نہ معلوم کیا کیا ہونے کا دعویٰ ہے، وراثت کے اس دھندے سے پاک نہیں ہیں۔ کچھ دینی جماعتوں میں بھی بدقسمتی سے وراثت ہی کا سکّہ رائج ہے۔ ان میں واحد استثنا جماعت اسلامی پاکستان ہے، جس نے قیادت، تنظیم، فیصلہ سازی، اندرونی نظامِ احتساب، ہر پہلو سے حقیقی اسلامی جمہوری آداب کا پورا پورا احترام کیا ہے اور جس میں الحمدللہ جمہوریت اپنے آداب اور اپنی روح کے مطابق جاری و ساری ہے۔
اسی طرح معاملہ صلاحیت، دیانت، فنی مہارت کی ضرورت و اہمیت کا ہے۔ جمہوری نظام میں سیاسی قیادت کا ہرفن مولا ہونا ضروری نہیں، لیکن اہلیت اور دیانت دولازمی صفات ہیں، جن کے بغیر قیادت مؤثر نہیں ہوسکتی۔ قرآن نے اہلیت کو ذمہ داری کے مناصب کے لیے اوّلین اہمیت دی ہے اور حکم دیا ہے کہ اپنی امانتیں اہل لوگوں کے سپرد کرو (اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓی اَھْلِھَا لا - النساء۴:۵۸)، اور اہلیت کے باب میں بھی صاف اشارہ کر دیا ہے کہ اس میں علم اور جسم، یعنی فکری صلاحیت اور کام کی مناسبت سے جسمانی قوت اور مہارت ضروری ہیں (اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰہُ عَلَیْکُمْ وَ زَادَہٗ بَسْطَۃً فِی الْعِلْمِ وَ الْجِسْمِط - البقرہ ۲:۲۴۷)۔
بدقسمتی سے ہماری سیاسی جماعتوں میں جماعتی اور سرکاری ذمہ داریوں کے باب میں فیصلے ذاتی تعلق، شخصی وفاداری اور مفادات کے اشتراک کی بنیاد پر ہوتے ہیں اور بالعموم کسی معروضی معیار کا احترام نہیں کیا جاتا۔ ’اندھا بانٹے ریوڑیاں، ہر پھر اپنوں ہی اپنوں کو دے‘ پر عمل ہوتا ہے۔ احتساب کے ادارے غیرمؤثر اور مذاق بن گئے ہیں۔ کرپشن کا دور دورہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ قومی وسائل ایک مخصوص طبقے (اشرافیہ) کے ہاتھوں کا میل بن گئے ہیں اور عوام بنیادی ضرورتوں سے محروم ہیں۔ستم یہ ہے کہ مشہور عالمی ادارے ’انٹرنیشنل فوڈ پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ‘ کی تازہ ترین رپورٹ جو Global Hunger Index کے عنوان سے ۱۲؍اکتوبر ۲۰۱۶ء کو شائع ہوئی ہے، اس کی رُو سے دنیا کے ۱۱۸ترقی پذیر ملکوں میں پاکستان پست ترین ۱۱ملکوں میں سے ایک ہے، یعنی نیچے سے ہمارا نمبر ۱۱ ہے۔ پاکستان کی آبادی کا ۲۲ فی صد، یعنی تقریباً ساڑھے چار کروڑ افراد خوراک کی کم سے کم مقدار سے بھی محروم ہیں اور پاکستانی بچوں کا ۴۵فی صد فطری ترقی کی رفتار سے محروم ہے۔ گویا چار سال کے بچے کی نشوونما کی وہ کیفیت ہے جو دو سے تین سال کے بچے کی ہوتی ہے۔
معاملہ وسائل کی کمی کا نہیں ہے، ان کی غیرمنصفانہ تقسیم ، بے دریغ استحصال اور غلط استعمال کا ہے۔ اس کی ایک تازہ ترین مثال عدالتِ عظمیٰ کے زیرغور اس مقدمے میں سامنے آئی ہے۔ ضلع مظفرگڑھ کے ایک مخیر زمین دار نے اپنی ہزاروں ایکڑ زمین تعلیم اور فلاحی کاموں کے لیے وقف کی تھی مگر اس پر بااثر افراد نے ناجائز قبضہ کرلیا ہے اور اس کے بڑے حصے کو کوڑیوں کے مول اور سرکاری افسران نے اپنے اور اپنے مصاحبین کے مفاد میں پٹے (لیز ) پر دے دیا ہے۔ ان اربوں روپوں مالیت کی زمین ایک مخیر فرد نے عوام کے بچوں کی تعلیم، صحت اور دوسری ضرورتوں کے لیے وقف کی تھی۔
سپریم کورٹ کے جج جسٹس شیخ عظمت سعید صاحب نے اس مقدمے کے سلسلے میں پنجاب کے محکمہ اوقاف کی نااہلی اور بددیانتی پر نہ صرف سخت گرفت کی ہے، بلکہ یہاں تک کہہ دیا ہے کہ: ’’پنجاب حکومت اس قابل ہی نہیں کہ اس پر اعتماد کیا جائے‘‘ اور یہ کہ ’’کروڑوں روپے خردبرد کر لیے گئے لیکن نیب کو کیس نہیں بھیجا گیا۔ پنجاب حکومت زمین نہیں سنبھال سکتی تو اس کو سنبھالنے کا ٹھیکا کسی اور کے سپرد کردے۔ کچھ شرم و حیا بھی ہونی چاہیے۔ لگتا ہے کہ مظفرگڑھ میں ریاست کی رٹ بہت ہی کمزور ہے، اس لیے وہاں کی انتظامیہ ناجائز قابضین کے سامنے اتنی بے بس ہے‘‘۔ (روزنامہ جنگ، ۲۵نومبر ۲۰۱۶ء)
یہ اس صوبے کا حال ہے جس کے وزیراعلیٰ صاحب اپنے کو ’خادمِ اعلیٰ‘ کہلوانا پسند کرتے ہیں اور شب وروز سرگرم نظر آتے ہیں۔ یہ صورتِ حال صرف صوبہ پنجاب کے ساتھ خاص نہیں ہے، سب ہی صوبوں کا اور خود مرکز کا حال بھی یہی ہے۔ عوام مصائب کا شکار ہیںاور حکمران اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ ایک لاوا ہے جوزیرزمین پک رہا ہے اور وقتاً فوقتاً یہ لاوا پھٹ کر فضا کو مکدر کر رہا ہے۔ جمہوریت کو ایک حقیقی خطرہ اس زمینی اور زیرزمین صورتِ حال سے ہے۔ امریکا کے حالیہ صدارتی انتخاب کے بے شمار پہلو ہیں لیکن محروم طبقات میں انتہاپسندی اور انتقام کی آگ کو بھڑکانے میں ایسے ہی حالات کا بھی بڑا دخل ہے۔ جمہوریت کے لیے خطرے کی اس جہت سے نظریں چُرانا بڑے خسارے کا سودا ہوسکتا ہے۔
اسی طرح کرپشن، پھر کرپشن اور دہشت گردی کا گٹھ جوڑ جمہوریت کے لیے ہوش ربا خطرے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ ایک کھلی حقیقت ہے لیکن اربابِ اختیار کو اس کا کوئی شعور نہیں یا پھر ان کے اپنے ہاتھ رنگے ہوئے ہیں اور خود وہ مسئلے کا حصہ ہیں۔ اس طرح ان سے مسئلے کے حل کی توقع عبث ہے۔
اس وقت عالم یہ ہے کہ قومی آمدنی کا تقریباً نصف کالے دھن اور کالے کاروبار (بلیک اکانومی) کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو جتنا ٹیکس وصول کرنا چاہیے، وہ اس کے نصف سے بھی کم وصول کر رہی ہیں اور ریاست کا کاروبار قرضوں کے سہارے چل رہا ہے۔ زراعت اور صنعت خصوصیت سے ایکسپورٹ انڈسٹری چارپانچ سال سے رُوبہ زوال ہیں۔ حالات کی اصلاح کےلیے کوئی مؤثر پالیسی وضع کرنے میں حکومت ناکام ہے۔ توانائی کا بحران جاری ہے، گیس کی قلت دردِسر بن چکے ہیں۔ مہنگائی ناقابلِ برداشت ہے، بے روزگاری روزافزوں ہے۔ پاکستانی کرنسی روز بروز بیرونی مارکیٹ میں اپنی قدر کھو رہی ہے۔ ملک سے سرمایہ باہر جارہا ہے اور حکومت ہے کہ محض ’پاک چین راہداری‘ (سی پیک) کی ڈفلی بجارہی ہے اور باور کرا رہی ہے کہ صرف سی پیک ہی گویا ہمارے سارے معاشی مسائل کا حل ہے۔ ان سب پر مستزاد پانی کی قلّت کا خطرہ اور تیل کے ذخائر کا خطرناک حد تک کم ہوجانا، ہوش اُڑا دینے والی کیفیات ہیں۔ یہ سب کچھ اس وقت ہورہا ہے، جب بھارت نے لائن آف کنٹرول پر عملاً جنگ برپا کی ہوئی ہے اور تین دریائوں کے پانیوں کی بوند بوند سے ملک کو محروم کرنے کی دھمکیاں دے رہا ہے۔ یہ ہیں وہ حالات جو جمہوریت کے لیے اندرونی خطرہ ہیں اور اس خطرے کا کوئی ادراک اور اس کے مقابلے کی کوئی تیاری ایوانِ اقتدار میں نظر نہیں آرہی۔
عالمی سطح پر جو تبدیلیاں ہورہی ہیں اور خصوصیت سے امریکا کےحالیہ انتخابات کے نتیجے میں جنوری ۲۰۱۷ء میں جو نئی قیادت امریکا کی زمامِ کار سنبھال رہی ہے، ڈونلڈ ٹرمپ صاحب جس قسم کی ٹیم اپنے صدارتی انتظام و انصرام کے لیے ترتیب دے رہے ہیں اور امریکا، یورپ، جنوبی ایشیا اور شرقِ اوسط کے لیے جن پالیسیوں کا اشارہ دے رہے ہیں، اور خصوصیت سے امریکا بھارت تعلقات اور بھارت کے ذریعے اس علاقے میں جو کردارادا کرنا چاہتے ہیں، وہ بڑے سنجیدہ اور ٹھنڈے غوروفکر کا تقاضا کرتا ہے۔ اس مناسبت سے قومی مفادات کے تحفظ اور دیرپا پالیسی سازی کے لیے پوری قوم کو اعتماد میں لینے، قوم کو متحد کرکے اندرونی اور بیرونی خطرات کے مقابلے کی مؤثر منصوبہ سازی وقت کا اہم ترین چیلنج ہے اور اس پورے عمل کے لیے سول اور عسکری قیادت میں مکمل ہم آہنگی___ وہ پہلو ہے جس کو اولین اہمیت دینے کی ضرورت ہے۔
بلاشبہہ اس پورے عمل میں پارلیمنٹ کا بڑا بنیادی اور مرکزی کردار ہے، لیکن کیا ہماری پارلیمنٹ اپنے اس فرضِ منصبی کا شعور رکھتی ہے؟ اور کیا اس فریضے کی انجام دہی کے لیے کمربستہ ہے؟ کیا ہمارا میڈیا پوری سنجیدگی سے ان موضوعات پر عوام کی تعلیم، بیداری اور انھیں متحرک کرنے میں اپناکردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے؟ کیا ہماری سیاسی جماعتیں اپنی ذمہ داری محسوس کرتی ہیں؟ ہم پوری دردمندی کے ساتھ یہی کہہ سکتے ہیں کہ ؎
یہ گھڑی محشر کی ہے ، تُو عرصۂ محشر میں ہے
پیش کر غافل ، عمل کوئی اگر دفتر میں ہے
۲۴؍اکتوبر ۲۰۱۶ء پاکستانی قوم کے لیے ایک سیاہ دن کی حیثیت رکھتاہے۔ اس روز کوئٹہ شہر سے ۱۷کلومیٹر دُور سبّی روڈ پر واقع پولیس ٹریننگ سنٹر میں تین دہشت گردوں نے یورش کی۔ ۵۰۰ کے قریب زیرتربیت نوجوان اہل کاروں (عمر ۱۶ سے ۲۵ سال) کو یرغمال بنالیا۔ دہشت گردوں نے چارگھنٹے کے خونیں معرکے میں ۶۳معصوم انسانوں کو شہید اور تقریباً ۱۵۰ کو زخمی کیا، جن میں سے ایک درجن سے زیادہ جوان زندگی اور موت کی کش مکش سے دوچار ہیں۔
یہ دل خراش واقعہ، کوئٹہ ہی میں دہشت گردی کے ایک اور دل دہلا دینے والے واقعے کے صرف اڑھائی ماہ بعد رُونما ہوا ہے۔ تب دہشت گردوں نے دن کی روشنی میں پہلے ایک نام وَر وکیل کو نشانہ بنایا اور پھر جب شہر کے چوٹی کے وکلا غم سے نڈھال ہسپتال پہنچے، تو دہشت گردوں نے ہسپتال میں ۷۰؍افراد کو بے دردی سے بھون ڈالا۔ ان شہدا میں سے تقریباً ۵۰ کا تعلق وکالت کے پیشے سے تھا اور یہ بلوچستان کی وکیل برادری کے گل ہاے سرسبد کی حیثیت رکھتے تھے۔
’ضربِ عضب‘ کی تمام قابلِ قدر کوششوں کے باوجود، صرف صوبہ بلوچستان میں اس آپریشن کے شروع ہونے کے بعد، اس اندوہناک واقعے سے پہلے بھی، دہشت گردی کے آٹھ بڑے واقعات رُونما ہوچکے ہیں، جن میں مجموعی طور پر ۲۰۰ سے زائد افراد شہید ہوئے ہیں، جن میں ایک نمایاں تعداد خود قانون نافذ کرنے والوں کی ہے، جن کا تعلق فوج، ایف سی اور پولیس سے تھا۔ واضح رہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں میں پولیس خصوصیت سے دہشت گردوں کا نشانہ رہی ہے۔
’ضربِ عضب‘ پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر سفاکانہ حملے کے بعد وقت کی اہم ضرورت تھی اور بہ حیثیت مجموعی اس کے مثبت اثرات بھی رُونما ہوئے، جس کا ہرحلقے نے اعتراف کیا ہے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ’دہشت گردی کا قلع قمع کرنے‘ کا جو دعویٰ کیا گیا تھا، وہ ابھی پوری طرح شرمندئہ تعبیر نہیں ہوا ہے۔ باربار دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ’دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی ہے‘ لیکن یہ کمر معلوم نہیں کتنی مضبوط ہے کہ ساری کوشش کے باوجود ٹوٹنے کا نام نہیں لے رہی۔ ایسے ہر اندوہناک واقعے کے بعد جس ردعمل کا اظہار کیا جاتا ہے، وہ اب اپنی معنویت کھوتا نظر آتا ہے۔ وہی گھسی پٹی مذمت! وہی وحشیانہ کارروائیاں کرنے کی اجازت نہ دینے کے دعوے، وہی مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچانے کے عزائم، وہی آہنی ہاتھوں کے حرکت میں آنے کی نوید، پھر دہشت گردوں کے بارے میں معلومات فراہم کرنے پر انعامات کا اعلان! اور ان سب پر مستزاد حالیہ چند واقعات بشمول حالیہ کوئٹہ کے سانحے کی یہ توجیہ کہ: ’’اگر بروقت دہشت گردوں کو زیر نہ کرتے تو بڑی تباہی ہوتی‘‘۔ گویا ۶۳ نوجوانوں کی شہادت اور ۱۵۰کا زخمی ہونا تو کم تباہی ہے۔
بلاشبہہ آج ہر آنکھ اَشک بار ہے، ہر دل افسردہ اور مغموم ہے اور ہرزبان دُکھ اور شہیدوں اور مظلوموں کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کر رہی ہے، لیکن اس کے ساتھ ہر صاحب ضمیر فرد، شرم سار ہے کہ ۱۹۸۰ء سے دہشت گردی کے جس عفریت نے پاکستان میں سر اُٹھایا ہے اور جسے قابو کرنے اور تہ تیغ کرنے کی ہرسطح پر کوششیں کی جارہی ہیں، حتیٰ کہ شخصی آزادیوں اور قانون کے باقاعدہ عمل (due process) تک کی بھی قربانی دی گئی ہے اور سویلین معاملات میں فیصلے کا دستوری اختیار بھی فوجی عدالتوں کو سونپ دیا گیا ہے، اس کے باوجود یہ عفریت بدستور اپنی تباہ کاریوں میں مشغول ہے۔
’ضربِ عضب‘ کو بھی اب دو سال ہورہے ہیں۔ شروع میں اس کے اثرات زیادہ نمایاں تھے۔ مگر اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ روایتی عسکری آپریشن اپنے مثبت نتائج کے باوجود اس عفریت کو نیست و نابود کرنے میں کامیاب نہیں ہو رہا۔ سرکاری اعداد و شمار سے جو تصویر سامنے آتی ہے، وہ بہت خوش آیند نہیں ہے۔۲۰۱۴ء میں ملک بھر میں ۲۷۵ افراد دہشت گردی کے نتیجے میں جاں بحق ہوئے تھے، وہ ۲۰۱۵ء میں کم ہوکر ۲۰۲ کی سطح پر آگئے تھے لیکن ۲۰۱۶ء کے ۱۰ماہ میں بدقسمتی سے یہ تعداد ۳۲۰ہوگئی ہے۔ لہٰذا، اس امر کی فوری ضرورت ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جو حکمت عملی اپنائی گئی ہے، اور جسے قوم کی تائید حاصل رہی ہے، نتائج کی روشنی میں اس پر نظرثانی کی جائے اور تمام حالات کے بے لاگ تجزیے کے بعد پالیسی کی ازسرِنو شیرازہ بندی کی جائے۔
چند بنیادی سوال جن پر فوری غوروفکر ضروری ہے،انھیں ہم ملک کے تمام پالیسی سازوں اور متاثر اداروں اور افراد کے غوروفکر کے لیے پیش کرنے کی جسارت کر رہے ہیں:
۱- سب سے پہلا اور پریشان کن سوال یہ ہے کہ انٹیلی جنس کے ذرائع کی جانب سے جب واضح اور متعین معلومات، انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مہیا کی جاتی ہیں،تو پھر کیا وجہ ہے کہ اس کی روشنی میں مؤثر اقدامات نہیں کیے جاتے اور دہشت گرد قانون نافذ کرنے والوں کو چکما دے کر اپنا کام کر جاتے ہیں اور خود قانون نافذ کرنے والوں ہی کو ہدف بنا لیتے ہیں۔ اخباری نہیں، سرکاری اطلاعات اور اعترافات کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ کوئٹہ کے حالیہ واقعے اور اس سے پہلے رُونما ہونے والے ایک ہولناک واقعے سے قبل بھی متوقع دہشت گردی کے حملے کی واضح اطلاعات موجود تھیں اور متعلقہ اداروں کو ان سے باخبر کیا جاچکا تھا۔
اسی طرح کراچی میں بحریہ کے بیس پر حملے کا واقعہ ہو یا ایئرفورس بیس کا ، جی ایچ کیو کا واقعہ ہویا کراچی ایئرپورٹ پر حملے کا، پشاور آرمی پبلک اسکول کا واقعہ ہو یا ولی خان یونی ورسٹی کا واقعہ، ہرموقعے پر متوقع حملے کے بارے میں ہوشیار رہنے کے لیے ’الرٹ سگنل‘ جاری کیے گئے، مگر ان پر خاطرخواہ توجہ نہیں دی گئی، اور سانحے پر سانحہ نمودار ہوتا رہا۔ حالیہ واقعے کے بارے میں تو بلوچستان کے وزیراعلیٰ نے ٹی وی پر اعتراف کیا ہے کہ: ’’ہمیں پولیس پر حملے کی اطلاع تھی‘‘ مگر وزیراعظم اور اپیکس کمیٹی کے ایک سال سے زیادہ پرانے فیصلے کے باوجود کہ کوئٹہ کو ’محفوظ شہر‘ بنایا جائے گا اور ہر اہم مقام پر چوکیاں قائم کی جائیں گی، کیمرے لگائے جائیں گے، لیکن عملاً کچھ نہ ہوا۔ حالیہ وارننگ کے باوجود پولیس ٹریننگ کالج جہاں ۵۰۰ سے زیادہ اہل کار تھے، اس کے احاطے کی نہ دیوار درست تھی{ FR 551 } اور نہ حفاظت کا کوئی معقول انتظام تھا۔ صرف ایک سپاہی واچ ٹاور پر تھا، جس نے مزاحمت کے دوران شہادت دے دی اور حملہ آور دندناتے ہوئے کمپائونڈ میں داخل ہوگئے اور بے باکی سے خون کی ہولی کھیلتے رہے۔ ایک تربیت کار نوجوان جو زخمی ہوا، اس کے یہ الفاظ دل کو دہلا دینے والے اور آنکھوں کو شرم سار کرنے والے ہیں کہ ’’حملہ آوروں کے ہاتھوں میں کلاشنکوف تھی، اور ہمارے پاس ہتھیار نہیں تھے‘‘۔
واضح رہے کہ پشاور آرمی اسکول اور ولی خاں یونی ورسٹی کے واقعات کے بعد کہا گیا تھا کہ ہر اسکول اور کالج میں دفاع کے لیے اسلحہ فراہم کیا جائے گا۔ ان تمام اعلانات کا کیا بنا؟
بلاشبہہ انٹیلی جنس اداروں کی ناکامی بھی بار بار سامنے آئی ہے، لیکن انٹیلی جنس کی فراہم کردہ اطلاعات کے بعد انتظامی اور سیکورٹی کے اداروں کی غفلت بھی ایک حقیقت ہے۔ جب تک یہ کیفیت رہتی ہے محض فوج کی ’ضربِ عضب‘ کے باب میں سرگرمی نتائج نہیں نکال سکتی۔
۲- بات صرف انٹیلی جنس کی معلومات، انتظامی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی غفلت اور کوتاہی تک محدود نہیں، ہماری نگاہ میں فوج اور پولیس کو بیش قیمت قربانیوں کے باوجود دہشت گردی پر نہ قابو پانے میں درج ذیل پہلو غیرمعمولی اہمیت کے حامل ہیں:
ا- دہشت گردی کے خلاف ۲۰ نکاتی حکمت عملی کے بیش تر نکات پر عمل درآمد نہ کیا جانا اور اس سلسلے میں جن بنیادی اداراتی اور پالیسیوں کی تبدیلیوں کی ضرورت تھی اور حکومت کے تمام متعلقہ اداروں کے درمیان جس ہم آہنگی کی ضرورت تھی، ان کی طرف قرارِواقعی توجہ نہیں دی گئی۔ نیز اس پوری حکمت عملی پر عمل کرنے کے لیے جن مالی اور انسانی وسائل کی حاجت تھی، اس کی بھی کوئی فکر نہ کی گئی۔ ایسی صورتِ حال میں بہتر نتائج کی توقع کیسے کی جاسکتی تھی۔
ب- بات نازک ہے لیکن اس کا اظہار اور ادراک بھی ضروری ہے کہ ملک کی سیاسی قیادت اور عسکری قیادت میں جس فکری ہم آہنگی، باہمی اعتماد اور حقیقی تعاون کی ضرورت تھی، نیز وفاق اور صوبوں کے درمیان فوج، ایف سی اور صوبائی اسمبلیوں کے درمیان جس قسم کی ہم آہنگی ناگزیر تھی، بدقسمتی سے وہ بڑی کمزور رہی۔
ج- ملک میں بحیثیت مجموعی اور تقریباً ہرسطح پر اور ہر ادارے میں جس ناقص طرزِحکمرانی کا رواج ہے، انتظامی بدنظمی جس سطح تک پہنچ چکی ہے، کرپشن نے جس طرح پورے ملک کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے، اہلیت و قابلیت کا خون کر کے نااہل افراد کو اہم ترین مناصب پر فائز کرنے کا جو چلن عام ہوگیا ہے، پھر ایک ہی حکومت کے مختلف وزیروں اور مشیروں، مختلف محکموں میں باہمی ربط اور تعاون کا جو فقدان دکھائی دیتا ہے، ان سب نے حکمرانی کے پورے نظام کو اتنا تباہ کردیا ہے کہ ایک اچھی پالیسی بھی مطلوبہ نتائج دینے میں بُری طرح ناکام ہوجاتی ہے۔
د-کوئی قانونی اور کوئی انتظامی پالیسی اس وقت تک بارآور نہیں ہوسکتی، جب تک اس کے نفاذ کا معقول انتظام نہ ہو۔ اس سلسلے میں جہاںعمل درآمد کا نظام ( delivery system) بنیادی اہمیت رکھتا ہے، وہیں قانون کی خلاف ورزی اور پالیسی کے بارے میں انحراف اور عدم تعمیل پر احتساب اور سزا کا نظام ضروری ہے۔ جس معاشرے میں قانون کا نفاذ نہ ہو، جہاں انصاف کے تقاضوں کو پورا نہ کیا جائے، جہاں قانون توڑنے اور ذمہ داریاں ادا نہ کرنے یا بدعنوانی کا ارتکاب کرنے پر سزا کا نظام مفقود ہو، وہاں اچھی سے اچھی پالیسی اور بہتر سے بہتر قانون بھی بے کار ہوں گے___ اور آج ہمارا مسئلہ بھی یہی ہے۔
۳- دہشت گردی کے سدباب کے لیے جہاں عسکری کارروائیاں ضروری ہیں اور قانون اور قانون نافذ کرنے والوں کا بڑا کلیدی کردار ہے، وہیں سیاسی، فکری، سماجی، معاشی اور اخلاقی پہلوئوں سے بھی بڑی اہم اصلاحات اور پالیسیاں درکار ہیں۔ فوجی کارروائی سے جن علاقوں کو دہشت گردی سے پاک کرا لیا جاتا ہے ان کی دوبارہ آبادکاری، تباہ شدہ انفراسٹرکچر کی بحالی، پُرامن شہری زندگی کی صورت گری بھی اتنی بلکہ اس سے زیادہ ضروری ہوتی ہے۔ اسی طرح پوری سول انتظامی مشینری کا مؤثر وجود اور متحرک کردار تاکہ لوگ اعتماد سے نئی زندگی کا آغاز کرسکیں۔ اسی طرح دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بھی اپنے سیاسی، سماجی، اخلاقی، علمی اور معاشی پہلو ہیں، جن کی طرف ۲۰نکاتی پالیسی میں اشارے موجود ہیں لیکن ان کے لیے مؤثر پالیسیاں، انتظامی اور اداراتی سہولتیں اور صحیح مردانِ کار کا وجود مفقود ہے۔ ایسے ٹوٹے پھوٹے اور بے ربط (disjointed) انداز میں اگر دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی جائے، تو کامیابی کیسے حاصل کی جاسکتی ہے۔ دوسری طرف دہشت گرد منظم ہیں، تربیت یافتہ ہیں، ان کا اپنا انٹیلی جنس کا نظام ہے اور وہ مسلح بھی ہیں بلکہ کچھ حالات میں عام قانون نافذ کرنے والوں سے کہیں بہتر اسلحہ اور ٹکنالوجی کے حامل ہیں۔
کوئٹہ کا خونیں حادثہ خون کے آنسو رُلانے والا واقعہ ہے۔ لیکن کیا یہ ہماری اور ہماری قیادت کی آنکھیں کھولنے کا تازیانہ ثابت ہوسکتا ہے؟ ___ فَاعْتَبِرُوْا یٰٓاُولِی الْاَبْصَارِ !
۱-
۲-
۳-
۴-
۵-
ہر دور کے کچھ مخصوص نعرے ہوتے ہیں، جن کا چلن آہستہ آہستہ بڑھتا چلا جاتا ہے، حتیٰ کہ وہ ہرشخص کی زبان پر رواں ہوجاتے ہیں اور ہرکس و ناکس بلاادنیٰ غوروفکر، انھی کے انداز میں سوچنے اور انھی کی زبان میں بولنے لگتا ہے۔
ان نعروں کا رواجِ عام ہونا، عقل و فہم کی موت کے مترادف ہے۔ جب یہ ذہنوں پر چھا جاتے ہیں تو آزادیِ فکر باقی نہیں رہتی۔ عامی اور عالم، اَن پڑھ اور پڑھے لکھے، سب انھی کا سہارا لینے لگتے ہیں اور سمجھ بوجھ کی صلاحیتیں اِس آکاس بیل کے تحت مرجھا جاتی ہیں۔
ہمارے دور میں بھی کچھ خاص نعرے ہیں، جو رواجِ عام اختیار کرتے جارہے ہیں۔ ان میں سب سے نمایاں نعرہ ہے: ’با زمانہ بساز‘۔ آئے دن یہ بات زورشور سے دُہرائی جارہی ہے کہ:
زمانہ بدل چکا ہے۔ مذہب کو زمانے کی تبدیلیوں کا ساتھ دیتے ہوئے نئے حالات کے مطابق بدلنا چاہیے۔ اگر مذہب دورِ حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہ کیا گیا ، تو اس کے خلاف بغاوت ہوجائے گی اور وہ زندگی سے بے دخل ہوجائے گا۔ جمود کا نتیجہ موت ہے۔ ہم کو زمانے کی تبدیلی کے ساتھ بدلنا ہوگا، ورنہ موت کے لیے تیار ہو جانا چاہیے۔
آج جسے دیکھو وہ کسی نہ کسی عنوان سے یہی درس دیتا نظر آتا ہے۔ ضرورت ہے کہ اس نعرے پر ’ایمان بالغیب‘ لانے کے بجاے اس کے تمام پہلوئوں پر عقل و تجربے کی روشنی میں غور کیا جائے اور محض اس لیے کسی بات کو قبول کرنے کی غلطی نہ کی جائے کہ اس کا اظہار بہ تکرار ہو رہا ہے۔
اس امر میں شبہے کی کوئی گنجایش نہیں کہ زمانہ ہمیشہ بدلتا رہا ہے، بہت کچھ بدل چکا ہے اورمزید رنگ بدلے گا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جمود ایک مصیبت ہے ، جو قوم کی تخلیقی قوتوں کو یخ بستہ کردیتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہر تبدیلی صحت مند ہے؟ کیا ہرخیر باعث ِ تغیر ہے؟ کیاتاریخ کا ہر قدم عروج ہی کی طرف اُٹھتا ہے؟ اور کیا ہر حرکت بلندی ہی کی سمت جاتی ہے؟
ان سوالات پر جب آپ تاریخ کی روشنی میں غور کریں گے، تو لازماً اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ ان کا جواب نفی میں ہے۔ ہرحرکت لازماً ترقی کے مترادف نہیں۔ ایک نوع کی حرکت اگر آپ کو ثریا کی بلندیوں تک لے جاسکتی ہے، تو ایک دوسری قسم کی حرکت تحت الثریٰ کی پستیوں تک گرا دیتی ہے ۔ مطلوبِ نفس،محض حرکت نہیں بلکہ صحیح سمت میں حرکت ہے۔
ترقی ایک نسبتی یا اضافی (relative) اصطلاح ہے۔ ترقی اور تنزل کا فیصلہ منزل کے لحاظ ہی سے ہوسکتا ہے۔ ہم صرف اسی حرکت کو ’ترقی‘ کہہ سکتے ہیں، جو صحیح راستے سے ہمیں اپنی منزل کی طرف لے جارہی ہو۔ جو حرکت منزل کے برعکس سمت میں لے جائے، وہ ترقی نہیں بلکہ تنزل ہے۔
اس سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ حرکت سے پہلے سمت ِ حرکت اور منزلِ مقصود کا تعین ہونا چاہیے، ورنہ محض جمود کو توڑنے کے شوق میں کوئی حرکت کرکے آپ اپنی منزل سے اور دُور بھی ہٹ سکتے ہیں۔ تمدنی اور تہذیبی زندگی میں اصل معیار وہ مقصد ہوتا ہے، جو آپ حاصل کرنا چاہیں۔ اگر آپ کا مقصد اور آپ کی منزل اسلام ہے، تو پھر ہر وہ حرکت جو اس کی مخالف سمت میں لے جائے، خواہ وہ کتنی ہی سبک خرام کیوں نہ ہو، ترقیِ معکوس ہوگی، بلکہ یہ حرکت جتنی تیز ہوگی، تنزل اتنا ہی تیز رفتار ہوگا۔
اسی طرح اندھی تقلید اور کورانہ نقالی صرف ماضی ہی کی نہیں ہوتی۔ یہ حال کے مروّجہ طریقوں اور ضابطوں کی بھی ہوسکتی ہے۔ اور کسی فرد یا قوم کی خودی اور اس کے صحت مندانہ ارتقا کے لیے جتنی مہلک ماضی کے بتوں کی اندھی پرستش ہے، اتنی ہی مہلک حال کے نئے بتوں کی پوجا بھی ہے، بلکہ اگر گہری نظر سے دیکھا جائے تو نقالی دراصل ’جمود‘ ہی کی ایک شکل ہے۔ اگرچہ ہے بڑی پُرفریب! عقل و فکر کو دونوں ہی صورتوں میں معطل کر دیا جاتا ہے۔ ’جمود‘ میں آپ ماضی کی پرستش کرتے ہیں اور لکیر کے فقیر بنے رہتے ہیں، تو نقالی میں آپ ماضی کے بجاے کسی نئے سورج کی پرستش شروع کر دیتے ہیں۔ آپ کی خودی کے لیے دونوں تباہ کُن ہیں۔
جو لوگ زمانے کے چلن کی پیروی کا بلاوا دیتے ہیں، وہ بھول جاتے ہیں کہ شعوری یا غیرشعوری طور پر وہ دراصل دوسروں کی تقلید ہی کی دعوت دے رہے ہیں، اور ’جدید‘ کی تقلید اگر کی جائے تو وہ کوئی فخر کے قابل چیز نہیں بن جاتی۔ اُس کے نقصانات علیٰ حالہٖ قائم رہتے ہیں، جن کی بناپر قوم کی اپنی تخلیقی صلاحیتیں کبھی اُبھرنے نہیں پاتیں۔ اس کی وجہ سے انسان کی روح میں جمود اور احساسِ کمتری پیوست ہوجاتا ہے۔ انجام کار، پوری قوم زمانے کو بدلنے کے بجاے بس خود اپنے ہی آپ کو بدلنے میں لگی رہتی ہے اور دوسروں کی ’شاگردی‘ کے مقام سے آگے بڑھنا کبھی اسے نصیب نہیں ہوتا۔
پھر زمانے کی تبدیلی کا ڈھنڈورا پیٹنے والے اس امر کو بھی ملحوظ نہیں رکھتے کہ زمانہ تو بدلنے ہی کے لیے بنا ہے۔ آج وہ ایک خاص سمت میں تبدیل ہورہا ہے تو کل کسی دوسری سمت میں تبدیل ہوجائے گا۔ چڑھتے سورج کی پوجا کرنے والے ہمیشہ اپنے ہی دور کی غالب تہذیب کو ترقی کا کمال سمجھتے رہتے ہیں۔
چشمِ تاریخ نے اس امر کا بارہا مشاہدہ کیا ہے کہ بڑی سے بڑی طاقت ور تہذیب بھی ایک دن زوال کی نذر ہوجاتی ہے:
اگر ماضی کی تمام غالب تہذیبیں قابلِ تسخیر ثابت ہوئیں، اور ایک دن کامیاب وہی لوگ ہوئے جو ان کی نقالی نہیں کرتے تھے، بلکہ ان کی جگہ ایک دوسرا نظام پیش کرتے تھے تو مستقبل کے متعلق یہ کیوں تصور کرلیا جائے کہ جدید مغربی تہذیب کوباوجود اس کے موجودہ غلبے کے،مسخر نہیں کیا جاسکتا؟
محض یہ چیز کہ آج ایک خاص تہذیب کو غلبہ حاصل ہے، اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ: ’’یہی تہذیب مبنی برحق بھی ہے۔ نہ اس سے یہ لازم آتا ہے کہ اسی کو ہمیشہ قائم رہنا ہے اور نوعِ انسانی کے لیے اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ اپنے آپ کو اسی کے مطابق ڈھال لے‘‘۔
طاقت اور غلبہ، حق کے معیارات کو تبدیل نہیں کردیتے اور اقتدار کسی چیز کو محاسن کا پیکر نہیں بنا دیتا۔ نہ ہر رائج شدہ چیز ناقابلِ تغیر اور ناقابلِ تسخیر ہوتی ہے۔ یہ کمزوروں کی روش دکھائی دیتی ہے کہ وہ طاقت کی پوجا کرتے ہیں اور ہرچڑھتے سورج کے آگے جھک جاتے ہیں۔ یہ کم نظروں کا طریقہ ہے کہ وہ محض اس بناپر کسی مسلک کو اختیار کرلیتے ہیں کہ اسے اقتدار اور غلبہ حاصل ہے اوریہ نہیں دیکھتے کہ وہ کہاں تک صحیح ہے اور کہاں تک غلط؟
اصل قدر غلبہ نہیں، سچائی ہے
حالاںکہ دیکھنے کی اصل چیز غلبہ اور طاقت نہیں بلکہ کسی چیز کا حق یا باطل ہونا ہے۔ اگر زمانہ بدل رہا ہے تو اس کو مزید بھی بدلا جاسکتا ہے۔ لیکن محض زمین و آسمان کی گردش اور ماہ و سال کی آمدورفت کی وجہ سے زندگی کے اصول، خیروشر کی تمیز اور حق و باطل کے معیار نہیں بدلے جاسکتے۔
جدید ذہن کی تعمیر جن عوامل نے کی ہے، ان میں وہ فکروفلسفہ بھی شامل ہے، جو ہرنئی چیز کو خوب تر اور قابلِ احترام اور لائقِ اختیار سمجھتا ہے۔ مغرب کے ذہن کو ہیومنزم (Humanism) کے فلسفے نے بہت متاثر کیا ہے۔ اس فلسفے کی اساس، تاریخ میں ناگزیر ترقی کا اصول (Inevitability of progress)ہے۔ اس کی رُو سے:’’ہر آنے والا دن، گزرے ہوئے دن سے بہتر ہے۔ انسان کا ورثہ روز بروز بڑھ رہا ہے۔ حال، ماضی سے اچھا ہے اور مستقبل، حال سے بہتر ہوگا۔ ہمارے قدم لازماً ترقی کی طرف اُٹھ رہے ہیں اور اب پیچھے ہٹنے کا کوئی امکان نہیں‘‘۔
اس اصول کو فریڈرک ہیگل کے’ فلسفۂ جدلیاتی تاریخ‘ اور کارل مارکس کی ’معاشی تعبیرتاریخ‘ نے بڑی تقویت پہنچائی۔ یہ اسی اندازِ فکر کا نتیجہ ہے کہ ماضی کی ہرچیز کو کم مایہ اور حقیر، اور حال کی ہرشے کو قابلِ قدر سمجھا جا رہا ہے۔ ترقی کا لازمی تقاضا یہ فرض کرلیا گیا ہے کہ تغیر زمانہ کے نام پر ہرقدیم چیز کو بدل ڈالا جائے۔
یہ نظریہ بدیہی، منطقی اور عقلی طور پر غلط ہے۔ ہمیں انسانی تاریخ میں ارتقا کی کوئی سیدھی لکیر نظر نہیں آتی۔ یہ ’تاریخ‘ بڑی کج رو واقع ہوئی ہے: اس میں ترقی بھی ہے اور تنزل بھی، عروج بھی ہے اور زوال بھی، ارتقا بھی ہے اور انحطاط بھی، فراز بھی ہے اور نشیب بھی۔ ہربعد کے دور کو پچھلے دُور سے بہتر سمجھنا تاریخی لحاظ سے ایک بالکل غلط مفروضہ ہے، جسے ہرگز صحیح ثابت نہیں کیا جاسکتا۔
جدید تاریخ کے فلسفیوں میں سے کوئی ایک بھی ہیگل اور مارکس کی اس توجیہ کو صحیح نہیں سمجھتا اور خود تاریخی حقائق اس کی توثیق کرنے سے انکاری ہیں۔ ’مسلسل ارتقا‘ کا نظریہ آج علمی حیثیت سے ایک متروک نظریہ ہے۔ لیکن اس کے بطن سے جس فاسد تصور نے جنم لیا ہے، وہ عام پڑھے لکھے لوگوں کے دماغ پر مسلط ہے۔ وہ اپنی ترقی پسندی کا ڈھول پیٹنے کے لیے محض فیشن کے طور پر ہرقدیم چیز پر ناک بھوں چڑھاتے اور ہرنئی چیز کی طرف بے سوچے سمجھے لپک پڑتے ہیں۔ حالانکہ قدیم کو لازماً بُرا اور جدید کو لازماً اچھا سمجھنا اور تمام قدیم چیزوں کو تبدیلی کے خراد پر چڑھا دینا، ایک غلط روش ہے، جس کے لیے کوئی معقول دلیل موجود نہیں۔
اسی طرح سوال یہ بھی ہے کہ: ’’زمانے کے تغیر کی نوعیت کیا ہے؟ اور یہ تغیر زندگی کے کس دائرے میں واقع ہو رہا ہے؟‘‘
کائنات کا وہ دور جو زمین پر انسان کی آمد سے شروع ہوا ہے، اب تک جاری ہے۔ ارتقاے کائنات کے نقطۂ نظر سے اگر غور کیا جائے، تو یہ امر صاف ظاہر ہے کہ موجودہ دَور اپنی چند متعین خصوصیات رکھتا ہے، جو انسانی تہذیب کے سارے ہی مرحلوں میں نمایاں نظر آتی ہیں۔ ان خصوصیات میں کوئی اساسی تبدیلی اسی وقت واقع ہوگی، جب یہ دَور ختم ہوجائے گا اور کوئی دوسرا دَور شروع ہوگا، یعنی دورِ آخرت۔
اس پورے زمانے میں انسان کی فطرت، کائنات کے فطری قوانین، انسانی زندگی کے اساسی اصول، حیات و موت کے ضابطے، انفرادی اور اجتماعی زندگی کی بنیادیں، ہدایت و ضلالت کے قواعد، یہ تمام ایک ہی رہے ہیں اور ایک ہی رہیں گے۔ افراد پیدا ہوتے ہیں اور مرتے ہیں۔ تہذیبیں اُبھرتی ہیں اور معدوم ہوجاتی ہیں۔ سلطنتیں بنتی ہیں اور بگڑکر ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتی ہیں: کُلُّ مَنْ عَلَیْہَا فَانٍ(الرحمٰن۵۵:۲۶)، لیکن قدرتِ حق کے تحت فطرت کے قوانین غیرمتبدل ہیں۔ زندگی کی اصل غیرمتغیر ہے، اور اجتماع و تمدن کے اساسی ضابطے ثابت و مستحکم ہیں۔ ایک ہی اصول ہے جو کارفرما ہے، ایک ہی حقیقت ہے جو جلوہ گر ہے۔
تغیر و تبدل صرف ظاہری اور سطحی چیزوں میں ہے، بنیادی اور اساسی چیزوں میں نہیں۔ اس لیے یہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ زندگی کے موجودہ دور میں جو تغیرات بھی واقع ہو رہے ہیں، وہ ایک محدود دائرے میں ہیں۔ بنیادوں میں نہیں۔ صرف فروع میں ہیں، اور ان کی بناپر قدیم و جدید کا جھگڑا بجز کوتاہ نظری کے اور کچھ نہیں۔ بقولِ علامہ محمد اقبال ؎
زمانہ ایک، حیات ایک، کائنات بھی ایک
دلیلِ کم نظری، قصۂ جدید و قدیم
محض تبدیلی مذموم نہیں
ہم تغیر کے وجود کے منکر نہیں ہیں۔ یہ تو ایک ایسی حقیقت ہے، جس سے انکار ممکن ہی نہیں۔ لیکن جس چیز کا سمجھنا ضروری ہے، وہ یہ ہے کہ اس تغیر کی نوعیت کیا ہے؟ اس لیے کہ اس کی نوعیت کو سمجھے بغیر کوئی صحت مند اجتماعی پالیسی اختیار نہیں کی جاسکتی۔
انسان کی اجتماعی زندگی میں جو تبدیلی بھی آرہی ہے، وہ ذرائع اور رسل کی دنیا میں ہے، مقاصد اور اصول و اَخلاق کی دنیا میں نہیں۔ فنی ایجادات اور تکنیکی انکشافات، انسان کے وسائل اور فطری قوتوں پر اس کے اختیار کو برابر بڑھا رہے ہیں۔ زمان و مکان کی رکاوٹیں دُور ہورہی ہیں اور انسان کا اقتدار بڑھ رہا ہے۔ لیکن یہ ساری تبدیلی ذرائع اوروسائل ہی کی حد تک ہورہی ہے۔ اس تبدیلی کا یہ تقاضا ہرگز نہیں ہے کہ مقاصد ِ زندگی، اُصولِ اخلاق اور اقدارِ حیات کو بھی تبدیل کر دیا جائے۔
اگر ہوائی جہاز، جیٹ اور راکٹ کے استعمال سے زمین کی طنابیں کھنچ گئی ہیں، تو اس کے یہ معنی کب ہیں کہ زنا جو کل تک حرام تھا، آج حلال ہوجائے؟ اگر برقی قوت کے ذریعے انسان کے پاس وہ طاقتیں آگئی ہیں، جو پہلے صرف جنوں اور فرشتوں سے منسوب تھیں، تو اس کا آخر کیا اثر خیروشر کے اصولوں کی صداقت پر پڑتا ہے؟ میزائل اور خلائی راکٹوں کے استعمال کا آخر یہ تقاضا کب ہے کہ جھوٹ، سُود، سٹہ، دھوکا دہی، شراب اور دوسرے منکرات کو جائز قرار دے دیا جائے؟ صنعتی ترقی کا آخر یہ تقاضا کب ہے کہ اصولِ انصاف کو بھی بدل دیا جائے؟
جو حضرات سطحی نظر رکھتے ہیں، وہی اس قسم کی باتیں کرتے ہیں کہ یہ تغیرات اصولوں میں ردّوبدل کے مقتضی ہیں۔ درحقیقت تمام ایجادات و اکتشافات انسان کے لیے ہیں، انسان ان کے لیے نہیں۔ تمام مادی ترقیات اسی وقت مفید ہوسکتی ہیں، جب وہ انسان کی بھلائی کے لیے استعمال ہوں۔ خود بھلائی اور بُرائی کے اصول، ان کی خاطر نہ بدل جائیں۔ یہ قوتیں جو انسان کو حاصل ہوئی ہیں، اُسی وقت نافع ہیں جب وہ اعلیٰ مقاصد ِ حیات کے تابع ہوں، اپنے ریلے میں وہ ان اعلیٰ مقاصد ِ زندگی کو بہا کر نہ لے جائیں۔ مقاصد اور اصول کو ان کے مطابق نہیں، بلکہ ان کو مقاصد و اصول کے مطابق بدلنا چاہیے۔ مقاصد اور اصولوں کی حیثیت تو اُن معیارات کی ہے، جن سے تکنیکی ترقیات کے حُسن و قبح کو ناپا جائے گا۔ اگر ان ترقیات کے باوجود انسان ہی پریشان و مضطرب رہتا ہے، تو پھر ساری مادی ترقی بے کار ہے ؎
نہ کلی ہے وجہ نظر کشی، نہ کنول کے پھول میں تازگی
فقط ایک دل کی شگفتگی، سببِ نشاطِ بہار ہے
انسانی زندگی میں تغیر کا منہاج (methodology)کچھ ایسا ہے کہ تبدیلی کے ساتھ ساتھ ثبات اور دوام کا بھی ایک پہلو موجود ہے۔ تبدیلی ہرلحظہ آتی ہے، لیکن بنیادی حقیقت کو متاثر کیے بغیر۔
مثال کے طور پر انسان کے جسم اور اس کی ذات ہی کو لیجیے:میڈیکل سائنس کے مشاہدات ہمیں بتاتے ہیں کہ انسان کے جسمانی نظام میں ہرلمحہ تغیرات ہورہے ہیں۔ ایک بچے کے جسم کا ایک ایک ریشہ جوان ہونے تک بدل جاتا ہے۔ اس کے بعد بھی یہ سلسلہ برابر جاری رہتا ہے، حتیٰ کہ ایک خاص مدت میں ہر انسان کا جسم اپنے کو بالکل تبدیل کر کے ایک نیا جسم بن جاتا ہے، لیکن اس تبدیلی میں بنیادی نظام وہی رہتا ہے اور ہرشخص کی اساسی شخصیت اور اس کی اَنا (ego) جوہری طور پر غیرمتبدل رہتی ہے۔
اسی کیفیت کو نکولائی بردائیف (Nicoli Berdyve) نے ان الفاظ سے تعبیر کیا ہے: Personality is Changelessness in Change(انسانی ذات، تغیرات کے جلو میں عدم تغیر کا نام ہے)۔
اور برگسان نے اس بات کو یوں بیان کیا ہے:’’ہم میں تغیر تو آتا ہے، لیکن ہماری بنیادی حقیقت معدوم نہیں ہوتی‘‘۔
اسی طرح درختوں کو دیکھیے: ایک درخت، ایک خاص مدت میں اپنے پھول پتّے بالکل تبدیل کر لیتا ہے۔ اس کی نباتاتی زندگی میں تبدیلیاں واقع ہوتی رہتی ہیں۔ لیکن یہ تبدیلی اس کی اصل کو نہیں بدلتی بلکہ اس سے ہم آہنگ رہتی ہے۔ اس درخت کا ایک بنیادی رنگ اور ایک بنیادی تاثیر ہوتی ہے ،جو بہرصورت غالب رہتے ہیں اور یہی اس درخت کی انفرادیت ہے ؎
صبحِ بہار آئی ہے لے کر، رُت بھی نئی، شاخیں بھی نئی
غنچۂ و گل کے رُخ پر لیکن، رنگ قدامت آج بھی ہے
زندگی محض تغیر نہیں
یہ فطرت کا قانون ہے جو ہر شعبۂ زندگی میں جاری و ساری ہے۔ انسان کی اجتماعی اورتہذیبی زندگی میں بھی ہمیں یہی جلوہ گر نظر آتا ہے۔ اسی بنیاد پر علامہ محمداقبال نے کہا تھا:
ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ زندگی محض تغیر ہی نہیں، اس میں حفظ و ثبات کا ایک عنصر بھی موجود ہے… لہٰذا، اس ہرلحظہ آگے ہی آگے بڑھنے والی حرکت میں، انسان اپنے ماضی کو نظرانداز نہیں کرسکتا… اسی بات کو ہم دوسرے لفظوں میں یوں ادا کریں گے کہ زندگی چونکہ ماضی کا بوجھ اُٹھائے آگے بڑھتی ہے، اس لیے ہمیں چاہیے کہ جماعت میں تغیر و تبدل کا جو نقشہ بھی ہم نے قائم کیا ہو، اس میں قدامت پسند قوتوں کی قدروقیمت اور وظائف کو فراموش نہ کریں۔(ڈاکٹر محمد اقبال، تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ ، ترجمہ:سید نذیر نیازی، ص۲۵۷)
ان اُمور کے واضح ہو جانے کے بعد اب مسئلے کا سمجھنابہت آسان ہوجاتا ہے۔
اسلام، اللہ تعالیٰ کی اس ہدایت کا نام ہے، جو اس نے اپنے برگزیدہ نبیوں کے ذریعے انسان کی رہنمائی کے لیے وقتاً فوقتاً بھیجی ہے اور جو اپنی آخری اور مکمل شکل میں ہم کو محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے پہنچی ہے۔ یہ وہ ضابطۂ حیات ہے، جو عین فطرت کے اصولوں پر قائم ہے اورانسان اسی کے ذریعے سے دنیاوی اور اُخروی دونوں کامیابیاں حاصل کرسکتا ہے۔ یہ زندگی کا مکمل قانون ہے۔ اس قانون کو انسان نے نہیںاللہ تعالیٰ نے بنایا ہے۔ یہ ابدالآباد تک کے لیے ہے اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی جاسکتی۔
قرآن پاک کی یہ آیات بالکل صاف اور واضح ہیں، اور اس امر کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ اللہ کا دین، اس کے احکام اور قوانین ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہیں اور محض زمانے کی تبدیلی کی وجہ سے ان میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی۔ تبدیلی زمانے میں کرنی ہوگی، اللہ کے قانون میں نہیں۔ اس پس منظر میں مردود وہ ہیں جو ع
نبی اکرمؐ نے فرمایا کہ: فَمَنْ أَحْدَثَ حَدَثًا أو آوَی مُحْدِثًا فَعَلَیْہِ لَعْنَۃُ اللّٰہِ وَالْمَلَائِکَۃِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ (بخاری:۳۱۷۹) ’’جو بدعت نکالے یابدعتی کو پناہ دے اس پر اللہ اور فرشتوں کی اور تمام انسانوں کی لعنت ہے‘‘۔
اگر اس مسئلے پر عقلِ سلیم کی روشنی میں غور کیا جائے،تو فکرونظر کا ہر گوشہ اس بات پر گواہی دیتا ہے کہ اللہ کے قانون میں کسی تبدیلی کی نہ ضرورت ہے اور نہ گنجایش۔ اور اس کی وجہ بھی بہت واضح ہے۔ زمانے کی تبدیلی کا اثر اُس قانون اور اصول پر پڑتا ہے، جسے انسان نے بنایا ہو۔
انسانی فکر زمان و مکان [time and space]کی حدود میں مقید ہے۔ وہ ماضی، حال اور مستقبل کے تمام حقائق سے واقف نہیں۔ وہ ایک محدود بصیرت کے ساتھ آج ایک چیز کو صحیح سمجھ کر پیش کرتی ہے، مگر کل جب وہ حالات سامنے آتے ہیں، جن کا کوئی تصور پہلے موجود نہ تھا، تو وہ غلط ثابت ہوجاتی ہے۔ لیکن اللہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ اس کا علم ہرشے پر محیط ہے۔ زمان و مکان کی قیود اس کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتیں۔ جو قانون ایسے اللہ کی طرف سے ہو، اس کا کسی ایک مخصوص زمانے کے ساتھ محدود ہوجانا کیسے ممکن ہے۔ اللہ کے علم اور دیے ہوئے قانون کے لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ کبھی ازکار رفتہ ہوجائے۔ وہ تو ہمیشہ اتنا ہی تازہ رہے گا، جتنی صبحِ نو!
ثانیاً: اللہ کا یہ قانون بنیادی طور پر ہدایت و ضلالت کی حقیقت کو واضح کرتا ہے اور اُن اصولوں اور اُن اقدار کو بیان کرتا ہے جن پر وقت کے تغیرات، تہذیبوں کے عروج و زوال اور ماہ و سال کی آمدورفت کا کوئی اثر نہیں پڑتا۔ یہ فطرت کے اصولوں کو بیان کرتا ہے اور فطرت کا قانون قائم و مستحکم ہے۔
ثالثاً: قرآن و سنت اصولی رہنمائی دیتے ہیں، انفرادی اور اجتماعی زندگی کی بنیادیں فراہم کرتے ہیں اور ان اساسی اداروں کو قائم کرتے ہیں، جنھیں ہر زمانے میں قائم رہنا چاہیے۔ ان چیزوں پر زمان و مکان کے تغیر کا کوئی اثر نہیں پڑتا۔ یہ اصول غیرمتبدل ہیں اور ان میں تبدیلی فطرت کے قانون کے خلاف ہوگی۔
ان وجوہ کی بنا پر زمانے کی تبدیلی کے مطابق اسلام میں تبدیلی کا قطعاً کوئی امکان نہیں۔
یہی چیز ہے،جو انبیاؑ کی سنت اور صلحا کی کی قابل قدر زندگیوں کے مطالعے سے معلوم ہوتی ہے۔ ہر نبی ایسے حالات میں مبعوث ہوا، جب زمانے کا بگاڑ اپنی انتہا کو پہنچ گیا تھا اور زندگی کا دریا بالکل غلط رُخ پر رواں دواں تھا۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ کسی بھی نبی نے زمانے کے چلن کے مطابق اسلام کو تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ وہ زمانے کے رنگ سے متاثر نہ ہوئے، بلکہ زمانے کو اپنے رنگ میں رنگنے کی سعی میں مصروف ہوگئے، اور بالآخر اس پر صبغۃ اللہ کو غالب کردیا۔ قرآن میں اس حقیقت کو اللہ تعالیٰ یوں بیان فرماتا ہے:
ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ o(الصف ۶۱:۹)وہی تو ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پورے کے پورے دین پر غالب کردے، خواہ مشرکوں کو کتنا ہی ناگوار ہو۔
ہدایت اور دینِ حق ہیں ہی اس لیے، کہ انبیاؑ ان کو دنیا کے باقی تمام نظاموں اورطریقوں پر غالب کریں۔ اللہ کا دین اس لیے نہیں ہے کہ اسے زمانے کے چلن کے مطابق بدلا جائے بلکہ اس لیے ہے کہ زمانے کو اس کے مطابق بدلا جائے اور اس کو غلبہ و اختیار کا مقام حاصل ہو۔ مشرکوں، کافروں اور منافقوں کی تو دلی تمنا ہی یہ ہوتی ہے کہ دین کو ان کے منشا کے مطابق بدلا جائے، لیکن اللہ اس بات کو صاف کردیتا ہے کہ ان کی ناخوشی کا ہرگز کوئی خیال نہیں کیا جاسکتا۔ سربلندی دین کو حاصل ہونی چاہیے اور زمانے پر اس کی حکمرانی قائم ہونی چاہیے۔
انبیاؑ کی سیرت اسی حقیقت پر شاہد ہے ۔ حضرت نوحؑ ^کی قوم بغاوت پر تلی رہی۔ آپ نے ساڑھے نو سو سال تک دینِ حق کی دعوت دی، لیکن ایک دن کے لیے بھی وہ ’وقت کے تقاضوں‘ کے مطابق دین کو تبدیل کرنے پر راضی نہ ہوئے۔ ان کی دعوت یہی رہی کہ:
یٰـقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ ط(الاعراف۷:۶۵)اے برادرانِ قوم! اللہ کی بندگی کرو، اس کے سوا تمھارا کوئی خدا نہیں ہے۔
تمام انبیاؑ کی سنت یہی رہی ہے۔ نبی اکرمؐ کے زمانے میں مشرق سے مغرب تک جو نظام چل رہا تھا، اسے قبول کرنے اور اس کے مطابق اپنے آپ کو اور اپنے دین کو ڈھالنے کے بجاے آپ نے اسے ایک فاسد نظام قرار دیا: ظَہَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ (الروم۳۰ :۴۱) ’’خشکی اور تری میں فساد برپا ہوگیا ہے‘‘ لیکن اللہ کے نبیؐ نے زمانے کے تقاضوں سے compromise اور اس کے ساتھ مصالحت کرنے کے بجاے اس کی ہرہر خرابی کے خلاف جنگ لڑی۔
وَاللّٰہِ لَوْ وَضَعُوا الشَّمْسَ فِی یَمِیْـنِی وَالْقَمَر فِی یَسَارِیْ عَلٰی اَنْ اَتَرُکَ ہٰذَا الْاَمْرَ مَا تَرَکْتُہٗ حَتٰی یظہر اللّٰہ اَوْ اہلک فیہ (سیرۃ ابن ہشام، جلد اول، استمرار رسول اللہ فی دعوتک، ص۲۶۶) خدا کی قسم! اگر یہ میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند رکھ کر کہیں کہ آفتاب و مہتاب کے عوض میں اس دعوت کو ترک کردوں، تو میں ہرگز اسے ترک نہ کروں گا، یہاں تک کہ یا تو اللہ اس دعوت کو غالب کردے یا مَیں اس راہ میں جان دے دوں۔
انبیاؑ کا طریقہ یہ نہیں رہا کہ وہ زمانے کے آگے جھکیں اور لوگوں کو راضی کرنے کے لیے اللہ کے دین کو بدلیں۔ وہ حق کے پیغامبر ہوتے ہیں اور زمانے کی رُو کے خلاف اپنی دعوت پیش کرکے اسے تبدیل کرنے کی جدوجہد کرتے ہیں۔ اگر وہی زمانے سے مطابقت اختیار کرلیں تو پھر انسانیت کی فلاح و اصلاح کا کوئی امکان باقی نہ رہے۔
اِس اسوئہ انبیاؑ کے اتباع کی بہترین مثال ہمیں حضرت ابوبکرؓ کی زندگی میں نظر آتی ہے۔ حضور اکرمؐ کے وصال کے بعد یکایک عرب کا نقشہ پلٹ گیا۔ ہر طرف سے بغاوتوں نے سراُٹھالیا۔ جھوٹے نبی اُٹھ کھڑے ہوئے۔ بہت سے قبائل نے زکوٰۃ ادا کرنے سے انکار کردیا۔ صحابۂ کبار تک اس صورتِ حال پر پریشان ہوگئے اور لوگ یہ راے پیش کرنے لگے کہ: ’’وقتی مصلحت کا تقاضا ہے کہ قبائل کے ساتھ نرمی برتی جائے اور وقت کی نزاکت کا لحاظ کیا جائے‘‘ مگر حضرت صدیق اکبرؓ کا جواب یہ تھا کہ:
واللہ، مجھ پر یہ فرض ہے کہ جو کام میں رسولؐ اللہ کو کرتے دیکھ چکا ہوں، خود بھی وہی کروں اور اس سے سرِمو انحراف نہ کروں۔ اگر جنگل کے بھیڑیے مدینہ میں داخل ہوکر مجھے اُٹھا لے جائیں تو بھی مَیں وہ کام کرنے سے باز نہ آئوں گا، جسے رسولؐ اللہ نے کرنے کا حکم دیا ہے۔ واللہ، اگر مانعینِ زکوٰۃ اُونٹ باندھنے کی ایک رسّی دینے سے بھی انکار کریں گے، جسے وہ رسولؐ اللہ کے زمانے میں ادا کرتے تھے، تو بھی مَیں ان سے جنگ کروں گا۔ اللہ کی قسم! میں زکوٰۃ اور نمازمیں فرق کرنے والے لوگوں سے ضرور لڑوں گا۔
اسلام عبارت ہی نبیؐ کی سنت کی پیروی سے ہے۔ اگر زمانے کی سنت نبیؐ کی سنت سے متصادم ہے تو وہ شخص اپنے دعواے ایمان میں جھوٹا ہے، جو نبیؐ کی سنت کو چھوڑ کر زمانے کی سنت اپناتا ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ اللہ کا دین ثابت و محکم ہے اور محض زمانے کے انداز دیکھ کر اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی جاسکتی۔ لیکن یہ خیال کرنا بھی غلط ہوگا کہ زمانے کے تغیرات کو دین اسلام کلّی طور پر نظرانداز کرتا ہے۔ اسلام کا طریق کار یہ ہے کہ وہ ہدایت و ضلالت کے بنیادی اصول بتادیتا ہے۔ انفرادی و اجتماعی زندگی کے لیے وہ حدود واضح کردیتا ہے، جو انسان کو صراطِ مستقیم پر قائم رکھنے کے لیے درکار ہیں۔ رہے جزوی اور وقتی اُمور، تو ان کو شریعت کے دیے ہوئے بنیادی اصولوں کی روشنی میں اور اس کے مقرر کیے ہوئے حدود کے اندر ہروقت اور ہر زمانے میں طے کرنے کی اجازت ہے۔ یہ کام اجتہاد کے ذریعے انجام پاتا ہے اور اسی کے ذریعے نظامِ دین میں حرکت و ارتقا کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہتا ہے۔
زمانے کے تغیرات پر دو قسم کے جواب (response) اسلامی تاریخ میں نظر آتے ہیں۔ ایک کا نام ’تجدید‘ ہے اور دوسرے کا ’تجدّد‘۔
’تجدید‘ یہ ہے کہ زمانے کے تغیرات کو ملحوظ رکھتے ہوئے اصل دین کو بلاکم و کاست پیش کیا جائے اور اپنے دور، اپنے زمانے کی زبان میں محکم استدلال کے ساتھ پیش کیا جائے۔ نیز تدبر و اجتہاد کے ذریعے دین کو اپنے دور کے حالات پر نافذ کرنے کی عملی جدوجہد کی جائے۔ اُن تمام ذرائع سے پورا پورا فائدہ اٹھایا جائے، جو قدرت نے انسان کو فراہم کیے ہیں، اور اسلامی بصیرت کے ساتھ نئے پیش آمدہ مسائل کو قرآن و سنت کی روشنی میں طے کیا جائے۔
’تجدید‘ کے ذریعے ہر زمانے میں دین کی تعلیمات اور زندگی کے بہائو کے درمیان تعلق اوررابطہ گہرا ہوتا جاتا ہے اور زندگی کا دریا اسلام کی شاہراہ سے ہٹ کر چلنے نہیں پاتا۔ یہاںمخلصانہ اجتہاد کے ذریعے نئے مسائل اور نئی مشکلات کو حل کیا جاتا ہے اور دین اپنے رنگ پر قائم رہتا ہے۔
’تجدّد‘ اس کے مقابلے میں وہ کوشش ہے، جو زمانے کے تقاضوں کے نام پر خود دین کو بدل ڈالنے کے لیے کی جاتی ہے۔ زندگی اور زمانے کے درمیان ربط اس طریقے سے بھی قائم ہوجاتا ہے، لیکن یہ ربط اسلام کی سرزمین پر نہیں غیراسلام کی سرزمین پر قائم ہوتا ہے۔ اس میں اسلام کو اصل قرار دے کر،حالات کو اس کے مطابق ڈھالنے کے بجاے زمانے کی چلتی ہوئی تہذیب کو اصل مان کر اُس کے پیدا کیے ہوئے حالات پر اسلام کو ڈھال دیا جاتا ہے۔ اس طریق کار کو اگر مسلمان ہر زمانے میں اختیار کرتے چلے جائیں، تو اسلام کی کوئی چیز بھی اپنی جگہ پر باقی نہیں رہ سکتی، بلکہ اسلام سرے سے کسی متعین مذہب و مسلک اور نظریہ و نظام کا نام ہی نہیں رہتا۔
اسلام میں ’تجدید‘ کے دروازے ہمیشہ کھلے رہے ہیں اور پوری تاریخ میں اسلام کے سچے خادم یہ کارنامہ انجام دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ لیکن ’تجدّد‘ کی اس میں کوئی گنجایش نہیں۔ ماضی میں جب بھی ’تجدّد‘ نے سر اُٹھایا ہے، مسلمانوں نے سختی کے ساتھ اس کا مقابلہ کیا ہے اور ہر ایسی تخریبی کوشش ملّت کی راے عام سے ٹکرا کر آخرکار ختم ہوگئی ہے۔
آج بھی بنیادی کش مکش ’تجدید‘ اور ’تجدّد‘ ہی کے درمیان ہے اور ہماری پوری تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ دین کو متجدّدین کی خاطر نہ کبھی ماضی میں بدلا گیا ہے اور نہ آج بدلا جاسکتا ہے۔ کسی مصطفیٰ کمال، کسی جمال ناصر، یاکسی اور حکمران یا صاحب ِ اثر شخصیت کی یہ طاقت نہیں ہے کہ زمانے کے تقاضوں کا نام لے کر اسلام کو بدل سکے۔ اس معاملے میں جو انجام مغل بادشاہ اکبر کی کوششوں کا ہوچکا ہے، وہی انجام اِن نئے متجدّدین کے لیے بھی مقدر ہے۔
دین میں مسخ و تحریف کی کوئی تدبیر اگر طاقت کے بل پر زبردستی نافذ کر بھی دی جائے، تواسے مسلمانوں کے اجتماعی ضمیر نے نہ ماضی میں کبھی قبول کیا ہے اور نہ آج قبول کرسکتا ہے۔ اس دین کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ نے لی ہے اور اُس نے ایسے ذرائع بھی پیدا کر دیے ہیں کہ اس کی حفاظت ہوتی رہے:
اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَo(الحجر۱۵:۹) ہم نے ہی اس ذکرکو نازل کیا ہے، اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔
آخر میں ہم ایک اور بات کی طرف اشارہ کرنا چاہتے ہیں۔ پوری انسانی تاریخ اس امر پر گواہ ہے کہ ہمیشہ عظیم کارنامے انھی لوگوں نے انجام دیے ہیں، جو حالات کی رُو پر بہنے کے بجاے ان کا مقابلہ کرنے اُٹھے ہیں۔ زندگی پر اَنمٹ نقوش انھوں نے نہیں چھوڑے جو مرغ بادِ نما کی طرح ہوا کے رُخ پر مڑتے اور دوسروں کی نقالی کرتے رہے، بلکہ ان لوگوں نے چھوڑے ہیں جو ہوا کے رُخ سے لڑے ہیں اور زندگی کے دھارے کو موڑ کر رکھ دیا ہے۔ بڑے کام مکھی پر مکھی مارنے والوں نے نہیں کیے، اپنی راہ آپ نکالنے والوں نے کیے ہیں۔ بہادر وہ نہیں ہے جو دوسرے کے مارے ہوئے شکار کو کھاتا ہے۔ بہادر وہ ہے جو اپنا شکار خود کرتا ہے۔ قابلِ تقلید وہ نہیں ہے جو گرگٹ کی طرح صبح و شام رنگ بدلتا ہے، بلکہ وہ ہے جو خود اپنا کوئی رنگ رکھتا ہے اوردنیا کو اپنے رنگ میں رنگ دیتا ہے۔
مسلمان دنیا میں زمانے کے پیچھے چلنے کے لیے پیدا نہیں کیے گئے ہیں، وہ تو پوری انسانیت کی طرف اس لیے بھیجے گئے ہیں کہ جسے اللہ تعالیٰ نیکی کہتا ہے: اس کا حکم دیں، جسے اللہ تعالیٰ بدی کہتا ہے اسے مٹائیں اور دنیا میں اللہ کی اطاعت کی روش کو عام کردیں۔ وہ دوسروں کے رنگ میں رنگے جانے کے لیے نہیں ہیں، دوسروں کو اپنے رنگ میں رنگنے کے لیے ہیں:
کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ ط (اٰل عمرٰن ۳:۱۱۰) اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔
یہ ہے مسلمانوں کا اصل مقام …مگر انھیں ڈالا کس راہ پر جا رہا ہے؟ بقولِ اقبال ؎
کرسکتے تھے جو اپنے زمانے کی امامت
وہ کہنہ دماغ اپنے زمانے کے ہیں پیرو
درحقیقت، مسلمان کے لیے اس سے بڑی ذلّت کوئی نہیں ہوسکتی کہ وہ اللہ کے پیغام کا امین ہونے کے باوجود، زمانے کو اپنے دین کے مطابق بدلنے کے بجاے خود زمانے کی رُو پر بہنے لگے اور اس کے ساتھ اپنے دین کو بھی مسخ کرنے کی کوشش کرے۔ یہ بزدلوں اور کم نظر لوگوں کا طریقہ ہے۔ یہ ان لوگوں کا طریقہ ہے جنھیں ہوائیں خس و خاشاک کی طرح اُڑائے لیے پھرتی ہیں، جن کی اپنی کوئی جڑ نہیں ہے کہ وہ اس پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہوسکیں۔ یہ مسلمان کا شیوہ نہیں ہے، مسلمان کا شیوہ تو یہ ہے کہ ع
زمانہ با تو نہ سازد ، تو بازمانہ ستیز
۱-
۲-
۳-
۴-
۵-
’زندگی کی سب سے بڑی حقیقت موت ہے ‘___ یہ ایک ایسا جملہ ہے جسے باربار سنا اور سوچا، مگر اس امر کے اعتراف سے بھی چارہ نہیں کہ ہر صدمے کے موقعے پر ایک عالمِ استعجاب (shock) میں اسے ایک نئی بات ہی محسوس کیا جاتا ہے۔ افسوس ہماری غفلت کا یہ عالم ہے کہ موت جو ہرلمحے ہمارے تعاقب میں ہے، ہم اسے بھولے رہتے ہیں۔ خود اپنی غفلت کا یہ حال ہے کہ کبھی وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ مسلم کو بھی ’مسلم مرحوم‘ کہنا اور لکھنا پڑے گا۔ جنوری ۱۹۵۰ء میں خرم بھائی کے پیرالٰہی بخش کالونی والے گھر میں مسلم کے ہاتھوں پانی پینے سے تعلقات کا جو باب شروع ہوا تھا، وہ محسوسات کی دنیا کی حد تک ۲۸؍اگست ۲۰۱۶ء کو عزیزی سلیم منصور خالد کے دل و دماغ کو شل کر دینے والے پیغام کے ذریعے کہ ’’مسلم بھائی بھی ہم سے رخصت ہوگئے ہیں‘‘ بند ہوگیا___ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ۔
اللہ کا حکم ہر چیز پر غالب ہے اور اپنی حکمتوں کو وہ ہی خوب سمجھتا ہے، لیکن میرے لیے یہ صدمہ بہت بڑی آزمایش ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ گویا میرا ہاتھ ہی ٹوٹ گیا ہو ؎
مصائب اور تھے، پر دل کا جانا
عجب ایک سانحہ سا ہوگیا ہے
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں اس غم کو برداشت کرنے کی توفیق دے، اور مسلم بھائی کو مغفرت، ابدی راحت اور جنّت کے اعلیٰ درجات سے نوازے، آمین۔
مسلم، تحریکِ اسلامی کا ایک بڑا قیمتی سرمایہ تھے اور خصوصیت سے گذشتہ ۲۲برسوں میں ترجمان القرآن کے نائب مدیر اور خرم بھائی اور میرے دست ِ راست کی حیثیت سے جو گراں قدر خدمات انھوں نے انجام دی ہیں، وہ علمی، دعوتی اور تحریکی ہر اعتبار سے بڑی قابلِ تحسین اور ناقابلِ فراموش ہیں۔ لیکن میرے ساتھ ان کا تعلق اس سے بہت پرانا اور گہرا ہے۔ میرے لیے وہ سگے چھوٹے بھائی کے مانند تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انیس [ڈاکٹر انیس احمد]کے بعد وہ مجھ سے سب سے زیادہ قریب رہے۔ مقامِ شکرہے کہ پوری زندگی ہم ایک ہی خاندان کے افراد کی طرح ایک دوسرے سے رشتہ نبھاتے رہے اور کبھی ہمارے درمیان کوئی دراڑ نہیں پڑی، بلکہ خفگی اور بدمزگی کی کیفیت بھی کبھی رُونما نہیں ہوئی۔ الحمدللّٰہ علٰی ذٰلک۔
یہ تو تعلق کا صرف ایک پہلو ہے۔ وہ چھوٹے بھائی کے ساتھ ایک نہایت ہونہار، ذہین اور شوخ و شریر شاگرد، بڑے مخلص، روشن دماغ اور صاحب الراے تحریکی ساتھی اور رفیق کار اور ادب و احترام کے رشتے کا پاس کرتے ہوئے بے باک ناقد اور نہ بخشنے والے محتسب بھی تھے۔
مسلم کی شخصیت اور خود میرے ساتھ ۶۶برسوں پر پھیلے ہوئے تعلقات کی نوعیت ان چار رنگوں کی ایک قوسِ قزح کے مانند ہے، اور مَیں ہی نہیں شاید اپنے اپنے انداز میں بہت سے افراد نے ان کی شخصیت سے ان متنوع پہلوئوں کا تجربہ اور مشاہدہ کیا ہوگا۔
مسلم سے تعلقِ خاطر کا آغاز خرم بھائی سے تعلق کا پرتو تھا۔ میں اسلامی جمعیت طلبہ سے اپنے بڑے بھائی احمد ضمیر مرحوم، جو خرم بھائی کے کلاس فیلو اور دوست تھے اور خود خرم اور ظفراسحاق انصاری کے ذریعے روشناس ہوا، اور ان دونوں کی محبت اور رفاقت اور مولانا مودودیؒ کے لٹریچر کی دل و دماغ کو مسخر کرنے کی لازوال قوت کے سیلاب میں بہتا ہوا چند ہی مہینے میں جمعیت کا رکن بن گیا۔
رکن بننے کے چند مہینے کے بعد ہی مجھے کراچی جمعیت کا ناظم منتخب کرلیا گیا اور اس طرح جنوری ۱۹۵۰ء سے جون ۱۹۵۶ء تک جمعیت کا رکن اور مختلف ذمہ داریوں کا امین رہا۔ پہلے دو ڈھائی برس ہم گھروں ہی میں کام کرتے رہے۔ کوئی باقاعدہ دفتر نہیں تھا۔ پہلا اور شاید سب سے متحرک اور مصروف دفتر ۲۳-اسٹریچن روڈ ۱۹۵۲ء میں حاصل کیا گیا۔ یہ جگہ حاصل تو کی گئی تھی مجلّہ Student's Voice اور اسٹوڈنٹس سوشل سروس کے دفتر کے طور پر، لیکن پھر وہ جمعیت ہی کا دفتر بن گیا۔ اس سے پہلے ہمارے تین گھر بطور دفتر، اجتماع گاہ اور تحریکی دسترخوان کے طور پر استعمال ہوتے تھے، یعنی ہمارا فریر روڈ کا فلیٹ، خرم بھائی کا پیرالٰہی بخش کالونی کا کمرہ، اور ظفراسحاق انصاری کا بندر روڈ پر سعیدمنزل کے سامنے والا فلیٹ۔
خرم بھائی کا کمرہ ان کی کراچی کی نظامت اور مرکزی نظامتِ اعلیٰ کے زمانے میں بہت زیادہ استعمال ہوتا تھا۔ جہاں چائے اور پانی کی فراہمی کی خدمت ان کے چھوٹے بھائی حسن قاسم اور مسلم سجاد انجام دیتے تھے۔ ہمارے تعلقات کا آغاز اس مہمان داری کے دل نواز ربط سے ہوا۔ پھر پہلے حسن قاسم اور پھر مسلم سجاد فکری، تحریکی اور تنظیمی اعتبار سے قریب آتے گئے۔ قاسم میری نظامتِ اعلیٰ کے دوران میرے ہمراہ بطور معاون خصوصی رہے اور برادرم ڈاکٹر اسرار احمد کے ساتھ جو قلمی معرکے ہوئے، ان میں میری معاونت کرتے رہے۔
خرم کے تینوں چھوٹے بھائی جمعیت میں سرگرم رہے اور مجھے ذاتی طور پر قاسم اور مسلم سے زیادہ قربت رہی۔ پھر قاسم، راجا بھائی (ظفراسحاق انصاری) سے زیادہ قریب رہے۔ اس طرح قاسم کے تمام تر نظریاتی نشیب و فراز کے باوجود رفاقت اور دوستی کی گرم جوشی آخری وقت تک برقرار رہی۔ مسلم کا زیادہ تعلق خرم سے اور مجھ سے رہا اور الحمدللہ مکمل طور پر نظریاتی استقلال اور وفاداری کے ساتھ یہ رشتہ قائم رہا۔ جیسا میں نے عرض کیا، شروع میں تو مسلم سے صرف مہمان داری والا تعارف تھا۔ پھر اسکولوں کے طلبہ کے لیے جمعیت کا ’حلقہ مدارس‘ منظم ہوا اور اس کی قیادت اور مرکزی شخصیت ہمارے بڑےعزیز ساتھی عبداللہ جعفر صدیقی تھے، جن کی حکمت اور محبت سے بھرپور قیادت میں کراچی جمعیت کے حلقہ مدارس نے غیرمعمولی ترقی کی، اور واقعہ یہ ہے کہ جمعیت کے دامن میں بہت سے ہیرے جمع کرنے کا وسیلہ بنا۔
۵۲-۱۹۵۱ء میں اس حلقے کے ذہین ترین طلبہ کے اسٹڈی سرکل کی ذمہ داری مجھ پر عائد ہوئی۔ مسلم سجاد، ظفرآفاق انصاری، انیس احمد، محبوب علی، محمود علی، تنظیم واسطی، سیّد محمود، یہ سب اسی سرکل کے گل ہاے سرسبد تھے۔ میں نے تین مراحل پر مبنی اسٹڈی سرکل کئی سال چلایا، اور یہی وہ دور تھا جس میں مسلم مجھ سے بے حد قریب ہوگئے۔ ان کا سب سے پہلا ادبی کارنامہ میرے ساتھ جمعیت کے دفتر پر ایک وال پیپر کی شکل میں ایک رسالے کا اجرا تھا، جسے ہم ہرہفتے تبدیل کرتے تھے اور جس میں دعوتی نکات کے علاوہ کچھ ہلکی پھلکی چیزیں بھی ہوتی تھیں۔ تاہم، اسٹوڈنٹس وائس میں مسلم کوئی کردار ادا نہیںکرسکے۔ اس رسالے میں راجا بھائی اور مَیں مرکزی کردار ادا کرتے تھے اور زبیرفاروقی، جمیل احمد خان، منظور احمد، انصار اعظمی اور جمیل احمد ہمارے قابلِ قدر معاونین تھے۔ حسین خاں اور محبوب الٰہی نے بھی کچھ عرصے کردار ادا کیا۔
مسلم کی فکری، اخلاقی اور تحریکی تربیت میں سب سے زیادہ حصہ ان کی والدہ ماجدہ کا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ خرم بھائی کی والدہ ایک مثالی والدہ تھیں۔ جماعت کی اوّلین ارکان میں سے تھیں اور انھوں نے اپنے سبھی بیٹے، بیٹیوں کی تربیت گہرے دینی شعور، بڑے شوق اور سلیقے سے کی۔ اس کے ساتھ گھر کی زندگی اور تحریکی زندگی میں بڑا حسین توازن قائم کیا۔ مجھے بھی یہ سعادت حاصل ہے کہ وہ مجھے اپنی اولاد ہی طرح سمجھتی تھیں۔ مشورے اور نصیحت میں کوئی فرق نہ کرتی تھیں اور زبانی ہی نہیں خطوں کے ذریعے بھی میری رہنمائی فرماتیں۔ اس زمانے میں میرا کردار صرف ان اسٹڈی سرکلز ہی تک محدود نہیں تھا بلکہ ان تمام نوجوان ساتھیوں کے ساتھ علمی اورتحریکی دونوں ہی دائروں میں بڑا گہرا inter-action رہا۔ ہمارے درمیان ’استاد‘ اور ’شاگرد‘ کے رشتے کے ساتھ ساتھ رفاقت اور دوستی کا تعلق بھی پیدا ہوا، جس کے نتیجے میں باہم افہام و تفہیم زیادہ کھلے طور پر ہوتی تھی۔ اس ضمن میں سوال، اعتراض، تنقید اور احتساب سبھی کا کچھ نہ کچھ کردار تھا، مگر تعلقات کا حُسن یہ تھا کہ ان میں برادرانہ محبت، پدرانہ شفقت، احترامِ استاد کے ساتھ دوستانہ رفاقت اور تحریکی نقدواحتساب کا ایک صحت مند امتزاج نہ صرف موجود تھا، بلکہ محسوس کیا جاسکتا تھا___ اور یہ الحمدللہ، تحریک اسلامی کی نعمتوں میں سے ایک بیش قیمت نعمت ہے۔
مسلم کے ساتھ جو رشتہ اور تعلق اسٹڈی سرکل سے شروع ہوا تھا، وہ ماہ نامہ چراغِ راہ میں ان کے ادارتی تعاون سے ایک نئے مرحلے میں داخل ہوگیا۔ ۱۹۵۸ء میں یہ سلسلہ شروع ہوا۔ ۱۰سال چراغِ راہ کے دور میں اور پھر ۲۰سال ترجمان القرآن کے زیرسایہ یہ تعلق مستحکم تر ہوتا گیا۔ مَیں بے حد خوش نصیب ہوں کہ زندگی کے ہر دور میں مجھے بڑے لائق، مخلص اور تعاون کرنے والے ساتھی ملے۔ Student's Voice، New Era اور Voice of Islam کے دور میں ظفراسحاق انصاری کا بھرپور تعاون ملا، اور یہ تعلق باقی زندگی میں بھی دسیوں شکلوں میں جاری و ساری رہا۔ چراغِ راہ میں محمود فاروقی، مسلم سجاد، ممتاز احمد، نثاراحمد کا تعاون، ماہ نامہ The Criterion میں سیّدمنور حسن اور کوکب صدیق کا تعاون، اور ترجمان القرآن میں مسلم سجاد، سلیم منصور خالد، رفیع الدین ہاشمی اور عبدالغفار عزیز کی رفاقت۔ ان تمام ساتھیوں کی مخلصانہ اور اَن تھک کوششوں کے بغیر وہ خدمت انجام نہیں دی جاسکتی تھی، جو اللہ تعالیٰ نے ان اداروں سے لی۔ اس پر ہرلمحے اللہ تعالیٰ کا شکر واجب ہے۔
مجھے یہ بات کہنے میں کوئی باک نہیں کہ ترجمان القرآن کی ادارتی ذمہ داریوں کا بڑا بوجھ مسلم ہی پر تھا۔ خرم بھائی کی طبیعت جب زیادہ خراب ہوئی اور دسمبر ۱۹۹۵ء کے بعد انھیں خاصا وقت انگلستان میں گزارنا پڑا، تو ہم دونوں کی نگاہ مسلم ہی پر پڑی کہ ان کو وقت سے پہلے ریٹائرمنٹ لے کر لاہور منتقل ہونے اور پرچے کی روزمرہ کی ذمہ داری سنبھالنے کی ترغیب دیں اور مسلم نے کسی تامل کے بغیر یہ ذمہ داری قبول کرلی۔خرم بھائی نے پانچ سال ترجمان کی ادارت کی ذمہ داری ادا کی ہے، یعنی ۱۹۹۲ء سے ۱۹۹۶ء تک۔ ان کے آخری سال ادارتی امور کی عملاً ذمہ داری مسلم ہی پر تھی اور اس زمانے میں ہمیں یہ اندازہ ہوگیا کہ وہ کس خوش اسلوبی سے یہ ذمہ داری نبھا رہے ہیں۔
خرم بھائی دسمبر۱۹۹۶ء میں ہم سے رخصت ہوئے اور جنوری ۱۹۹۷ء میں یہ ذمہ داری مجھے سونپی گئی۔ اس پورے عرصے میں مضامین کا حصول، ان کی ترتیب و تدوین، اہلِ قلم سے ربط و تعلق، انتظامی عملے سے رابطہ، یہ سب کام مسلم ہی بحسن و خوبی انجام دیتے رہے۔ بلاشبہہ اہم اُمور پر وہ مجھ سے مشورہ کرتے تھے، کہیں شک یا اضطراب ہوتا تو معاملہ میری طرف بڑھا دیتے، لیکن عملاً سارا کام وہی انجام دیتے رہے۔ بلاشبہہ اس میں عزیزی سلیم منصور خالد، برادرم ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، مولانا عبدالمالک، عزیزی عبدالغفار عزیز ، حافظ محمد ادریس، برادرم ظفرحجازی، امجدعباسی اور دیگر مجلس ادارت کے ارکان کا تعاون بھی شامل ہے، لیکن شدید بیماری کے چند مہینوں کو چھوڑ کر بنیادی ذمہ داری مسلم ہی نے انجام دی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی گراں قدر خدمات کو شرفِ قبولیت سے نوازے اور اپنی بیش بہا نعمتیں اور انعامات ان پر نچھاور فرمائے۔
اداراتی اُمور میں اتنے انہماک اور کارکردگی کے ساتھ وہ پرچے کی اشاعت میں اضافے کے لیے بھی ہرلمحہ سرگرم رہتے تھے۔ جس وقت خرم بھائی نے یہ ذمہ داری قبول کی تھی ترجمان القرآن کی اشاعت چھے ہزار تھی۔ خرم بھائی اور مسلم کی ہمہ جہتی کوششوں سے یہ ۱۹۹۶ء تک ۲۲ہزار پر پہنچ گئی، جو الحمدللہ اِس وقت ۳۴ہزار سے زیادہ ہے۔ لیکن ۲۰۰۵ء اور ۲۰۰۹ءکے درمیان یہ اشاعت ۳۸ سے ۵۰ہزار تک بھی رہ چکی ہے۔ اشاعت کے فروغ میں تحریکی ساتھیوں اور حلقوں کا تعاون تو اصل چیز ہے اور اس کی منصوبہ بندی اور اس کے لیے مسلسل کوششوں میں مسلم بھائی کا بڑا حصہ ہے۔
مسلم کے علمی ذوق اور ادبی صلاحیتوں کا ادراک تومجھے اسٹڈی سرکل کے زمانے سے تھا، لیکن ان کی تنظیمی صلاحیتوں کی دریافت کراچی میں ’سمع و بصر‘ کے ادارے کے قیام کے زمانے میں ہوئی۔ اس میں برادرم شاہد شمسی کا بھی حصہ تھا لیکن ان میدانوں میں کام اور نئے نئے تجربات کے سلسلے میں جس ندرت اور creativity [خلّاقیت]کا مظاہرہ مسلم نے کیا، وہ ان کی شخصیت کے اس پوشیدہ پہلو کو آشکارا کرنے کا ذریعہ بنا۔ اسی زمانے میں ان کا ایک منفرد کارنامہ تفہیم القرآن کو صفحۂ قرطاس کے ساتھ ویڈیو اور دوسرے برقی ذرائع ابلاغ کے ذریعے حق کے متلاشیوں تک پہنچانے کے پراجیکٹ کو سوچنے اور عمل میں ڈھالنے کی کاوش ہے۔ جس کے لیے پوری تفہیم القرآن برادرم عبدالقدیر سلیم، سیّد سفیرحسن اور عظیم سرور نے دل کش آواز میں ریکارڈ کرائی۔ اسی طرح انھوں نے خود ترجمان القرآن کے تمام شماروں کو ۱۹۳۲ء سے آج تک الیکٹرانک ریکارڈ کی شکل میں فراہم کرنے کی خدمت انجام دی جو ’محفوظات‘ کے نام سے دستیاب ہے۔ اس کے ساتھ ’منشورات‘ کی شکل میں ایک کامیاب طباعتی ادارہ قائم کیا اور بڑے اچھے معیار پر، اچھی کتابوں اور دعوتی کتابچوں کی اشاعت کا اہتمام کیا۔ مسلم نے ادارتی اور تنظیمی دونوں صلاحیتوں کا مظاہرہ کرکے ہم سب کو بے حد متاثر کیا اور ان کی کوشش ہمیشہ رہی کہ خوب سے خوب تر کی تلاش جاری رکھیں۔
اس سلسلے میں وہ دوسروں کی لاپروائی اور بے اعتنائی کا شکوہ بھی کرتے رہتے تھے اور کبھی کبھی اس تنقید و احتساب میں اپنے کھرے پن کو کھردرے پن تک لے جاتے تھے۔ لیکن ان کی تنقید کا مقصد دوسروں کی تحقیر نہیں بلکہ اصلاح کا جذبہ اور معیار کے معاملے میں دوسروں کی سہل انگاری پر گرفت ہوتا تھا۔ میں نے اس ۶۶سالہ تعلق کے دوران ان کی تنقید میں دوسروں کی تحقیر کا پہلو نہیں دیکھا، اگرچہ اپنی افتادِ طبع کے مطابق وہ حسبِ توفیق آزادی (Liberty) لینے میں تکلف نہیں برتتے تھے(بعض اصحاب اس ’آزادی‘ کو پسند نہیں کرتے تھے)۔
انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز سے بھی مسلم کا تعلق تعاون اور خیرخواہی کا تھا۔ تعلیم کے میدان میں ان کی کئی علمی کاوشیں آئی پی ایس کے زیراہتمام شائع ہوئیں۔ مجلّہ تعلیم کے بھی کئی شمارے انھوں نے اور برادرم سلیم منصور خالد نے مرتب کیے۔
ان کی علمی اور تحریکی خدمات میں خرم بھائی کی چیزوںکی تلاش، حفاظت اور طباعت سرفہرست ہے۔ میرا اندازہ ہے کہ خرم بھائی کی اُردو میں جو چیزیں آج موجود ہیں، ان کا نصف سے زیادہ اثاثہ مسلم کی محنت اور خرم بھائی سے وفاداری کا تحفہ ہے، جزاھم اللہ خیر الجزاء۔
مسلم کا قرآن سے تعلق بچپن ہی سے گہرا رہا ہے۔ نماز اور نمازِ باجماعت کے باب میں بھی انھوں نے غیرمعمولی شوق اور اہتمام کی مثال قائم کی ہے۔ افراد اور خصوصیت سے اپنے قریبی ساتھیوں کے مسائل میں دل چسپی اور خاموشی سے ان کی مدد اور تعاون بھی ان کی شخصیت کا بڑا دل آویز پہلو تھا۔ بارہا مجھ سے بڑے دُکھ اور کرب کے ساتھ اپنے کسی ساتھی کی مشکل کے علم میں آنے کا ذکر کیا، اور اس مشکل میں ان کا بوجھ کم کرنے کے لیے مَیں نے حسبِ توفیق کردار ادا کیا، اور یہ سب بڑی خاموشی اور حقیقی انسانی ہمدردی کے جذبے کے ساتھ کیا۔
نام و نمود اور ظاہرداری سے مسلم کی زندگی بالکل پاک تھی۔ سادگی، قناعت اور خیرخواہی ان کا شعار تھا۔ بس زبان کے معاملے میں تھوڑے سے بے باک تھے۔ خرابی اور بُرائی جہاں نظر آتی اور جہاں تضاد اور رخصت کی فراوانی نظر آتی، اس پر تنقید اور احتساب سے وہ اپنے کو روکنے پر قادر نہیں پاتے تھے اور اس سلسلے میں زبان اور قلم دونوں ہی کا سہارا لیتے تھے۔ لیکن میں یقین سے کہہ سکتا ہوںکہ یہ تنقید و احتساب: نہ خودپسندی اور خودپرستی کی پیداوار تھے اور نہ دوسروں کی تحقیر یا ان کو اذیت دینے کے جذبے اور محرک کا نتیجہ تھے۔ یہ ان کے خلوص اور اصول پرستی اور تحریک کے سلسلے میں معیارِ مطلوب کے شوق اور لگن کی پیداوار تھے۔ گو الفاظ کے انتخاب میں کبھی کبھار ان کی شوخی اپنی حدود سے بڑھ جاتی تھی اور دوسروں کے جذبات کو مجروح کرنے کا باعث بھی ہوجاتی تھی، لیکن میں نے ان کی بات میں malice (بدخواہی یا عناد)کا کوئی شائبہ نہیں دیکھا۔ کئی بار دوسروں کے ردعمل پر انھوں نے اپنے اضطراب کا اظہار بھی کیا اور تلافیِ مافات کی بات بھی کی، جس سے ان کے خلوص اور دیانت کی خوشبو آتی ہے۔
جہاں تک مجھے یاد ہے مسلم کی پہلی کتاب مخلوط تعلیم پر تھی، جو اسلامی جمعیت طلبہ نے شائع کی تھی۔ مجھے خوشی ہے کہ اس کتاب کی تحریک مَیں نے ہی کی تھی اور اس کی تیاری، تحقیق اور تسوید میں میرا تعاون اور حوصلہ افزائی کا بھی ایک حصہ تھا۔ لیکن اس کتاب نے ان میں اعتماد پیدا کیا اور اس طرح یہ کتاب ان کی علمی، تحقیقی، تجزیاتی اور ادبی زندگی کا ایک نیا باب کھولنے کا ذریعہ بنی۔
مسلم کو دمے کی بیماری لڑکپن ہی سے تھی اور پھر یہ ان کی جیون ساتھی بن گئی۔ گذشتہ چند برسوں سے ذیابیطس اور دل کی بیماری نے بھی ڈیرے ڈال لیے تھے۔ دو تین بار ہسپتال میں کچھ دن گزارنے کی نوبت بھی آئی۔ گذشتہ برس طبیعت کچھ زیادہ خراب ہوگئی تھی، جس کے بعد کراچی چلے گئے اور چار مہینے وہاں گزارے۔ لاہور اور کراچی میں مسلم بھائی کی تیمارداری اور علاج معالجے کے لیے، جس محبت، توجہ اور مثالی انداز سے ان کے بیٹے عزیزم انس حماد نے خدمت کی، اس پر اللہ تعالیٰ اجرعظیم سے نوازے___لاہور واپسی پر مسلم خوش تھے اور باربار مجھے یقین دلایا کہ اب میں بہت بہتر ہوں۔ ۲۷؍اگست کو پائوں پھسل گیا تھا، جس سے کچھ چوٹ آئی۔ میں نے ان کے بڑے بیٹے انس سے اصرار کیا کہ ایکسرے کرائیں، جو ۲۸کو کرایا اور مجھے فون پر اطلاع دی کہ: ’’کوئی فریکچر نہیں ہے اور مَیں بالکل ٹھیک ہوں‘‘۔ یہ پاکستانی وقت کے مطابق چار ساڑھے چار بجے سہ پہر ان سے میری آخری بات تھی۔ مگر اس کے چار گھنٹے کے بعد یہ اَلم ناک اطلاع آئی کہ مسلم بھائی، اللہ کو پیارے ہوگئے ہیں___ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ۔
میں گواہی دیتا ہوں کہ مسلم نے اللہ سے وفاداری کا جو عہدکیا تھا، اسے مقدور بھر پورا کرنے میں پوری زندگی کوشش کی اور اسی کوشش کے دوران جان جانِ آفریں کے سپرد کی۔ اللہ تعالیٰ ان کی خدمات کو قبول فرمائے اور اپنی رحمت اور جنّت کے اعلیٰ مقامات سے ان کو نوازے!
یٰٓاَیَّتُھَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ o ارْجِعِیْٓ اِِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً o فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰدِیْ o وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ o (الفجر ۸۹:۲۷-۳۰) اے نفسِ مطمئن! چل اپنے رب کی طرف اس حال میں کہ تو (اپنے انجام نیک سے) خوش (اور اپنے رب کے نزدیک) پسندیدہ ہے۔ شامل ہو جا میرے (نیک) بندوں میں اور داخل ہو جا میری جنّت میں۔
اُمتِ مسلمہ اس اعتبار سے بڑی خوش نصیب ہے کہ اس پر اللہ تعالیٰ کے انعام و اکرام بے پایاں ہی نہیں، بڑی حد تک منفرد اور بے مثال بھی ہیں۔ قرآن اور اسوۂ رسولؐاگر الطاف و عنایات کی اس کہکشاں کے آفتاب و مہتاب ہیں، تو نماز، زکوٰۃ، روزہ، رمضان، لیلۃ القدر، حج، عمرہ اور جہاد اس کے روشن اور تابناک ستارے ہیں، جن سے نہ صرف یہ کہ حُسنِ کائنات اور جمالِ ہستی دوبالا ہے، بلکہ نور کے یہ مینار، دکھی انسانیت کی رہنمائی اور منزل مقصود کی طرف رہبری کی خدمت بھی انجام دے رہے ہیں۔
ماضی کے جھروکوں میں جھانکیں یا حال کے اداروں اور تجربات کا جائزہ لیں، صاف معلوم ہوتا ہے کہ انسانیت کی اور خود امت مسلمہ کی ہدایت اور اس کے ذریعے باقی انسانوں کی رہنمائی کے لیے جو انتظام زمین و آسمان کے خالق اور مالک نے مرتب فرمایا ہے، وہ اپنی نظیر آپ ہے۔ آقا کی ہر نعمت یکتا اور عظیم ہے اور اس کی ہر نوازش، نور کا منبع اور زندگی کی پیام بر ہے۔
اگر رب کریم و رحیم کے ان الطاف و عنایات کے باوجود اُمت کا حال پریشان ہے اور انسانیت کے ستارے گردش میں ہیں، تو یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے! سوچنے کی بات ہے کہ بگاڑ کہاں کہاں سے دَر آیا ہے؟ اور کوتاہی اور کمی کس کس مقام پر ہوئی ہے کہ آب حیات کی موجودگی کے باوجود یہ اُمت صحت مند اور باعزت زندگی، توانائی اور تابندگی سے محروم ہے۔ چاند اور سورج ضوفشاں ہیں، لیکن تاریکی چھٹنے کا نام نہیں لیتی۔
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ حَاسِبُوْا قَبْلَ اَنْ تُحَاسَبُوْا (اپنا احتساب کر لو قبل اس کے تمھارا احتساب کیا جائے) کی روشنی میں احتساب کیا جائے۔ تجدید عہد اور خود احتسابی کے لیے تھوڑا سا وقت، امت کے سوچنے سمجھنے والے تمام افراد، مرد اور عورتیں، انفرادی اور اجتماعی طور پر نکالیں۔ پوری دیانت داری سے جائزہ لیں کہ نماز دن میں پانچ مرتبہ اور روزہ سال میں ایک ماہ اور پھر ہرذی استطاعت مسلمان مرد اور عورت پر حج زندگی میںکم از کم ایک بار فرض کیا گیا ہے۔ یہ سب اس لیے ہے کہ بندہ ہرلمحے اور ہرحال میں رب کو یاد رکھنے، اس کی معیت میں زندگی گزارنے کی سعی و جہد کرے، اور اس طرح دینی اور دنیاوی، روحانی اور جسمانی ہر قسم کے بے پناہ و بے شمار فوائد اور برکتوں سے اُمت اور اس کے ہر ہر فرد کا دامن بھر جائے۔
سوال یہ ہے کہ آخر اس کے وہ اثرات جو مطلوب و موعود ہیں، وہ ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی میں کیوں رونما نہیں ہو رہے؟
اسلام اور دوسرے مذاہب اور تہذیبوں کے موازنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں کے تصور عبادت میں بڑا بنیادی فرق ہے۔ دوسرے مذاہب اور تہذیبوں میں عبادت محض پوجا پاٹ کا ایک نظام بن کر رہ گئی ہے، یا دنیاوی زندگی سے کٹ کر اپنے اپنے خدا سے لو لگانے کے لیے مراقبہ، نفس کشی، مجاہدات وریاضات یا چند ذہنی اور بدنی التزامات کا نام ہے، جن سے دیوتا کو خوش کیا جاسکے اور اس طرح اخروی نجات حاصل ہو سکے۔
اس کے برعکس اسلام کا تصور یہ ہے کہ عبادت ہی دراصل وہ مقصد ہے، جس کے لیے انسانوں کو پیدا کیا گیا ہے: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِo(ذاریات۵۱:۵۶) ’’میںنے جن اور انسانوں کو اس کے سوا کسی کام کے لیے پیدا نہیں کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں‘‘۔ عبادت ہی کی زندگی کی طرف ان کو بلایا گیا ہے: یٰٓاَیُّہَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ وَالَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ o(البقرہ۲:۲۱)،’’ لوگو، بندگی اختیار کرو اپنے اس رب کی جو تمھارا اور تم سے پہلے جو لوگ ہو گزرے ہیں ان سب کا خالق ہے تاکہ تم تقویٰ کی زندگی حاصل کرسکو‘‘۔ رب کی اس بندگی کی طرف ساری انسانیت کو، خصوصاً پہلے انبیاؑ کی اُمتوں کو، دعوت دی گئی ہے: قُلْ یٰٓاَہْلَ الْکِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَآئٍم بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ اَلاَّ نَعْبُدَ اِلَّا اللّٰہَ( اٰل عمرٰن۳:۶۴)،’’اے نبیؐ، کہو، اے اہل کتاب، آئو ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمھارے درمیان یکساں ہے۔ یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں‘‘۔
یہ عبادت محض چند مراسم عبادت تک محدود نہیں، اگرچہ متعین عبادات اس کے ستون اور مقصود بالذات سنگ میل ہیں۔ اسلام کا تصور عبادت یہ ہے کہ انسان کی ساری زندگی، اللہ کی بندگی میں بسر ہو۔ ہمارا اٹھنا بیٹھنا، سونا جاگنا، کھانا پینا، آرام اور محنت، حضرو سفر، غرض سب کچھ اللہ تعالیٰ کی بندگی اور اس کے قانون اور ہدایت کی پابندی میں ہو اور زندگی کا جو مشن اور شب و روز کے لیے جو ترجیحات ہمارے مالک اور آقا نے مقرر کی ہیں، پوری زندگی انھی کے مطابق بسر کی جائے۔
گویا اسلام اور عبادت ہم معنی اور ایک ہی طرز زندگی کے دو عنوان ہیں۔ اسلام انسان کی پوری زندگی کو عبادت میں تبدیل کردینا چاہتا ہے اور اس کا مطالبہ یہ ہے کہ انسان کی زندگی کا کوئی لمحہ بھی اللہ کی عبادت سے خالی نہ ہو۔ کلمہ شہادت کا اقرار کرنے کے ساتھ ہی یہ بات لازم آجاتی ہے کہ جس اللہ کو انسان نے اپنا رب اور معبود تسلیم کیا ہے، اس کا بندہ بن کر پوری زندگی گزارے۔ گویا کامیاب زندگی عبادت گزار بندہ بن کر رہنے ہی سے عبارت ہے۔ اس کا تقاضا ہے کہ بندہ نفس کی خواہشات پر قابو پائے اور اپنے جسم و جان اور قلب و نظر کی تمام صلاحیتیں زندگی کے اُن مقاصد کے حصول کے لیے صرف کرے، جو اللہ اور اس کے آخری رسولؐ نے متعین کر دیے ہیں۔
ہر مرد اور عورت جو بندگی کا راستہ اختیار کرے، اس کے اخلاق اور سیرت و کردار اُن سانچوں میں ڈھل جائیں، جو شریعت نے مقرر کیے ہیں۔ دنیوی زندگی میں، جہاں قدم قدم پر آزمایش اور راہ حق سے پھسل جانے کے مواقع پیش آتے ہیں، بندہ حیوانی اور شیطانی طرزِعمل سے بچتے ہوئے، اور پورے شعور اور ارادے سے بندگیِ رب کی راہ پر گام زن رہے۔ یہ ہے وہ چیز جو رب کو پسند ہے۔ یہ عبادت کی روح اور اس کا جوہر بھی ہے اور پوری زندگی میں اس کا مظہر اور مطلوب بھی۔
پوری زندگی کا اس طرح عبادت کا مظہر بن جانا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ اس کے لیے ایمان کی لازوال قوت کے ساتھ ساتھ بڑی زبردست اور ہمہ گیرذہنی، روحانی، بدنی، انفرادی اور اجتماعی تربیت کی ضرورت ہے، تاکہ فکر و نظر میں بھی یہ انقلاب مستحکم ہو جائے اور انفرادی اور اجتماعی سیرت و کردار بھی ایسے پیمانوں میں ڈھل جائیں، جو فرد اور ملت کو اس عبادت کے لیے تیار کرسکیں۔
منصوص عبادات: نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج، عمرہ، ذکر، استغفار اور دعا ایسا ہی انسان مطلوب اور امت بنانے کا ذریعہ ہیں۔ مراد یہ ہے کہ یہ خود بھی عبادت ہیں اور پوری زندگی کو عبادت بنانے کا ذریعہ بھی۔ یہ خود بھی مالک کو پسند اور محبوب ہیں اور انسان کو مالک کا پسندیدہ اور محبوب بندہ بنانے کا ذریعہ بھی ہیں، تاکہ وہ مالک کے بتائے ہوئے محبوب اور مطلوب مشن___ دعوت الیٰ الخیر، شہادت حق، امربالمعروف، نہی عن المنکر، قیام قسط اور نصرت دین کے لیے سرگرم عمل ہو جائے۔ یہی وجہ ہے کہ ان عبادات کو ارکان اسلام کہا گیا ہے، یعنی یہ وہ ستون ہیں، جن پر اسلامی زندگی کی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔ یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ ہم نے ان ربّانی ستونوں کا تعلق اس رحمانی عمارت سے منقطع کر دیا ہے اور سمجھ یہ رہے ہیں کہ ستون ہی عمارت ہیں اور بس ؎
تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا
ورنہ گُلشن میں علاجِ تنگیِ داماں بھی ہے
عبادت اور شریعت کا تعلق
دوسری چیز عبادات کا شریعت کے پورے نظام سے ربط اور تعلق ہے، جہاں: ایمان، احتساب اور تقویٰ عبادات کے جسم میں جان ڈالنے کا وظیفہ انجام دیتے ہیں اور ان کے بغیر وہ بس ایک رسم اور ایک عادت رہ جاتے ہیں۔ اسی طرح اگر ان عبادات کا ربط و تعلق پوری شریعت اور اسلامی نظام زندگی سے کٹ جائے، تو یہ اس پرزہ کی مانند ہو جاتی ہیں، جو خواہ خود حرکت کر لے مگر پوری مشین کو چلانے میں اس کا کردار غیر مؤثر ہو جاتا ہے۔ نیز پوری مشینری سے جو تقویت ان اجزا کو ملتی ہے، وہ بھی مفقود رہتی ہے۔
اس وقت امت مسلمہ کا المیہ ہی یہ ہے کہ عبادات کے ستون تو موجود ہیں، لیکن ان ستونوں کو جس عمارت کو اٹھانا اور سنبھالنا ہے، وہ موجود نہیں ہے۔ جب تک وہ عمارت وجود میں نہیں آتی یہ ستون ان درختوں کی مانند ہیں، جن کا تنا تو موجود ہے، مگر پتے، پھول اور پھل ناپید ہیں۔ نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج انسان کو جس کش مکش اور جدوجہد کے لیے تیار کرتے ہیں، وہ انفرادی سطح پر سیرت سازی کے ساتھ ساتھ اجتماعی زندگی کی تنظیم و تشکیل اور زندگی کے ہر شعبے میں شریعت کے مطابق حالات کی صورت گری کے بغیر اپنے اصل اہداف کو نہیں پا سکتے۔ نظام زندگی کی تصویر ان کے بغیر نامکمل ہے۔ شریعت کے کتنے ہی احکام اور قوانین ہیں، جو اجتماعی زندگی کی اصلاح اور معاشرت، معیشت، عدالت اور حکومت پر اسلامی شریعت کی بالادستی کے بغیر نافذ العمل نہیں ہوسکتے، جس کے نتیجے میں زندگی دوئی اور تضاد کا شکار اور شترگر بگی کا نمونہ ہے۔
یہی وجہ ہے کہ امت اس بگاڑ کی آماج گاہ بنی ہوئی ہے، جو کچھ معاملات میں اللہ کی ہدایت کی پیروی اور کچھ میں اس سے اغماض بلکہ بغاوت کے نتیجے میں ہوتا ہے اور جس پر اللہ رب العزت نے بندوں پر یہ چارج شیٹ لگائی تھی:
اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْکِتٰبِ وَتَکْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ ج فَمَا جَزَآئُ مَنْ یَّفْعَلُ ذٰلِکَ مِنْکُمْ اِلاَّ خِزْیٌ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا ج وَیَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یُرَدُّوْنَ اِلٰٓی اَشَدِّ الْعَذَابِ ط وَمَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ (البقرہ۲:۸۵)،تو کیا تم کتاب کے ایک حصے پر ایمان لاتے ہو اور دوسرے حصے کے ساتھ کفر کرتے ہو؟ پھر تم میں سے جو لوگ ایسا کریں، ان کی سزا اس کے سوا اور کیا ہے کہ دنیا کی زندگی میں ذلیل و خوار ہو کر رہیں اورآخرت میں شدید ترین عذاب کی طرف پھیردیے جائیں؟ اللہ ان حرکات سے بے خبر نہیں ہے، جو تم کر رہے ہو۔
یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بڑی سخت وعید ہے۔ اُمت کی کمزوریوں، تضادات اور تباہ حالیوں میں بڑا دخل ان تضادات کا ہے جن میں یہ مبتلا ہے اور جو بیک وقت اللہ اور اہرمن، ایمان اور کفر، دین اور سیکولرزم سے رشتہ استوار کرنے سے عبارت ہے۔
عبادتوں کے غیر مؤثر ہونے کی ایک اور وجہ نظام احتساب کا فقدان اور امربالمعروف اور نہی عن المنکر سے مجرمانہ غفلت کا چلن ہے۔ قرآن پاک میں اس امت کی جو امتیازی خصوصیات بیان ہوئی ہیں، ان میں تین بہت نمایاں ہیں: یہ اُمت ایک اُمت ہے، یہ امت وسط ہے اور یہ اُمت ایک مشن اور دعوت کی علم بردار ہے، جو صاحب شریعت امت اور اس شریعت اور پیغام کی تمام انسانیت کے لیے گواہ اور شاہد اور اس کی نصرت اور غلبے کے لیے جدوجہد کی ذمہ دار ہے۔
یہی وہ تین خصوصیات ہیں جو اس اُمت کے امت ابراہیمی سے تسلسل کی ضامن ہیں۔
قرآن کہتا ہے کہ وَاِنَّ ہٰذِہٖٓ اُمَّتُکُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّاَنَا رَبُّکُمْ فَاتَّقُوْنِ (المومنون ۲۳:۵۲) ’’اور یہ تمھاری امت ایک ہی امت ہے اور میں تمھارا رب ہوں، پس مجھی سے تم ڈرو‘‘ ۔
دوسری اور تیسری خصوصیت کو قرآن اس طرح بیان کرتا ہے: وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الْرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْدًا o (البقرہ ۲:۱۴۳)، ’’اور اسی طرح تو ہم نے تم مسلمانوں کو ایک ’اُمتِ وسط‘ بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسولؐ تم پر گواہ ہو۔‘‘
وَجَاھِدُوْا فِی اللّٰہِ حَقَّ جِھَادِہٖ ط ھُوَ اجْتَبٰکُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَج ٍط مِلَّۃَ اَبِیْکُمْ اِبْرٰھِیْمَ ط ھُوَ سَمّٰکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ لا مِنْ قَبْلُ وَفِیْ ھٰذَا لِیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ شَھِیْدًا عَلَیْکُمْ وَ تَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ ج فَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ وَاعْتَصِمُوْا بِاللّٰہِ ط ھُوَ مَوْلٰکُمْج فَنِعْمَ الْمَوْلٰی وَنِعْمَ النَّصِیْرُ o (الحج۲۲:۷۸)اللہ کی راہ میں جہاد کرو جیسا کہ جہاد کرنے کا حق ہے۔ اس نے تمھیں اپنے کام کے لیے چُن لیا ہے اور دین میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی۔ قائم ہو جائو اپنے باپ ابراہیمؑ کی ملت پر۔ اللہ نے پہلے بھی تمھارا نام ’مسلم‘ رکھا تھا، اور اس (قرآن) میں بھی (تمھارا یہی نام ہے)۔ تاکہ رسولؐ تم پرگواہ ہو اور تم لوگوں پر گواہ۔ پس نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو اور اللہ سے وابستہ ہوجائو۔ وہ ہے تمھارا مولیٰ، بہت ہی اچھا ہے وہ مولیٰ اور بہت ہی اچھا ہے وہ مددگار۔
اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔ (اٰل عمران۳:۱۱۰، مزید ملاحظہ ہو ۳:۱۰۶)
اُمت کے اس مشن اور کردار کے تعین کے ساتھ ساتھ یہ بھی صاف لفظوں میں بتا دیا کہ نیکی محض دین داری کے نام پر ایک خاص طرح کی وضع قطع اور طاعت اور بندگی کے محدود اعمال میں نہیں، بلکہ پوری زندگی کو اللہ کی ہدایت کے مطابق ڈھالنے، اللہ کے بندوں کے حقوق ادا کرنے اور اللہ کی راہ میں جان اور مال سے جہاد کرنے میں ہے۔ صرف اسی راستے کو اختیار کرنے سے ہماری عبادتیں حقیقی معنی میں ثمر آور ہو سکیں گی اور دنیا خوف اور بھوک کے عفریتوں سے محفوظ ہو کر حقیقی امن گاہ بن سکے گی:
لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْھَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلٰکِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَالْمَلٰٓئِکَۃِ وَالْکِتٰبِ وَالنَّبِیّٖنَ ج وَاٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ ذَوِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ لا وَالسَّآئِلِیْنَ وَفِی الرِّقَابِ ج وَاَقَامَ الصَّلٰوۃَ واٰتَی الزَّکٰوۃَ ج وَالْمُوْفُوْنَ بِعَھْدِھِمْ اِذَا عٰھَدُوْا ج وَالصّٰبِرِیْنَ فِی الْبَاْسَآئِ وَالضَّرَّآئِ وَحِیْنَ الْبَاْسِ ط اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا ط وَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَo(البقرہ۲:۱۷۷)نیکی یہ نہیں ہے کہ تم نے اپنے چہرے مشرق کی طرف کر لیے یامغرب کی طرف، بلکہ نیکی یہ ہے کہ آدمی اللہ کو اور یوم آخر اور ملائکہ کو اور اللہ کی نازل کی ہوئی کتاب اور اس کے پیغمبروں کو دل سے مانے اور اللہ کی محبت میں اپنا دل پسند مال رشتے داروں اور یتیموں پر، مسکینوں اور مسافروں پر، مدد کے لیے ہاتھ پھیلانے والوں پر اور غلاموں کی رہائی پر خرچ کرے، نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے۔ اور نیک وہ لوگ ہیں،کہ جب عہد کریں تو اسے وفا کریں، اور تنگی و مصیبت کے وقت میں اور حق و باطل کی جنگ میں صبر کریں۔ یہ ہیں راست بازلوگ اور یہی لوگ متقی ہیں۔
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْا وَجٰھَدُوْا بِاَمْوَالِھِمْ وَاَنْفُسِھِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ط اُولٰٓئِکَ ھُمُ الصّٰدِقُوْنَ o (الحجرات۴۹:۱۵) حقیقت میں تو مومن وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے، پھر انھوں نے کوئی شک نہ کیا اور اپنی جانوں اور مالوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا۔ وہی سچے لوگ ہیں۔
لُعِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْم بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ عَلٰی لِسَانِ دَاوٗدَ وَ عِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ ط ذٰلِکَ بِمَا عَصَوْا وَّ کَانُوْا یَعْتَدُوْنَ o کَانُوْا لَا یَتَنَاھَوْنَ عَنْ مُّنْکَرٍ فَعَلُوْہُ ط لَبِئْسَ مَا کَانُوْا یَفْعَلُوْنَo (المائدہ ۵:۷۷-۷۸)بنی اسرائیل میں جن لوگوںنے کفر کی راہ اختیار کی ان پر دائودؑ اور عیسیٰ ابن مریمؑ کی زبان سے لعنت کی گئی کیونکہ وہ سرکش ہو گئے تھے اور زیادتیاں کرنے لگے تھے، انھوں نے ایک دوسرے کو بُرے افعال کے ارتکاب سے روکنا چھوڑ دیا تھا، برا طرز عمل تھا جو انھوں نے اختیار کیا۔
اور حضور اکرمؐ نے تنبیہ فرمائی کہ:’’قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، تم امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرتے رہو اور اگر ایسا نہیں کرو گے تو ضرور ایسا ہو گا کہ اللہ تعالیٰ تم پر اپنی طرف سے کوئی عذاب بھیجے۔ پھر تم اس سے دعائیں کرو گے اور تمھاری دعائیں قبول نہ ہوں گی‘‘۔ (ترمذی)
اسی طرح حضوؐرنے فرمایا:’’جو شخص کسی قوم میں رہتا ہو اور ان کے اندر رہ کر اللہ تعالیٰ کی نافرمانیاں کرتا ہو، اور وہ لوگ اس کے اس طرز عمل کے بدلنے کی قدرت رکھتے ہوں، لیکن اس کے باوجود نہ بدلیں تو اللہ تعالیٰ مرنے سے پہلے دنیا ہی میں ان کو عذاب میں مبتلا کرے گا‘‘۔ (ابوداؤد، ابن ماجہ)
اور قرآن میں اس امت کو مخاطب کرکے صاف لفظوں میں متنبہ کر دیا گیا کہ اگر برائی کا مقابلہ نہ کرو گے، تو محض تمھاری نیکی اور تمھاری عبادتیں تم کو تباہی سے نہ بچا سکیں گی:
وَاتَّقُوْا فِتْنَۃً لَّا تُصِیْبَنَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْکُمْ خَآصَّۃً ج وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِo (انفال۸:۲۵)’’اور بچو اس فنتے سے جس کی شامت مخصوص طور پر صرف انھی لوگوں تک محدود نہ رہے گی جنھوں نے تم سے گناہ کیا ہو۔ اور جان رکھو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔
قرآن و حدیث کے ان واضح ارشادات،ا حکام اور تنبیہات سے یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ ہماری عبادتیں، ہماری دعائیں اور ہماری نیکیاں اسی وقت دنیا میں اپنے ثمرات اورحسنات سے زندگی کا دامن بھر سکیں گی، جب ہم فرداً فرداً اور اجتماعی طور پر امت کے سپرد کردہ مشن دعوت الیٰ الخیر، شہادت حق، امر بالمعروف، نہی عن المنکر، جان اور مال سے جہاد اور اداے حقوق کی ذمہ داری کو کماحقہ ادا کریں گے۔اگر اس میں ہم کوتاہی برتتے ہیں تو پھر انفرادی نیکیوں کے باوجود ہم فتنے کا شکار ہونے اوراللہ کے عذاب کی مار سے نہیں بچ سکیں گے اور ہماری دعائیں بے اثر ہوجائیں گی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ایسے حالات سے بچائے۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ امت اور اس کے برسرِاختیار طبقے بڑی غفلت اور بڑی نادانی سے ان خطرات کی طرف بڑھ رہے ہیں جن سے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے متنبہ کیا تھا۔ ان حالات میں امت کو تباہی سے بچانے کا راستہ عبادتوں کے ساتھ احقاق حق، ابطال باطل اور اقامت دین کی جدوجہد میں جان اورمال کی بازی لگا دینا ہے۔
اس خلفشار کا ایک پہلو نظام اقتدار کا سند جواز (Legitimacy)سے محروم ہونا اور مسلم ممالک میں بنیادی حقوق کی پامالی، آزادی کا فقدان اور نظام شوریٰ کا عدم وجود ہے۔ اسلام میں اقتدار کے لیے سند جواز دو ہی چیزوں سے حاصل ہوتا ہے، یعنی: شریعت کی بالادستی اور ارباب اقتدار کا امت کا امین اور معتمد علیہ ہونا، جو شوریٰ کے ذریعے وجود میں آئے اور نظام زندگی کواللہ کی ہدایت کی روشنی میں چلائے۔ آج مسلم دنیا میں سیاسی آزادی کے حصول کے بعد بھی بیش تر ممالک میں جواز کی یہ دونوں بنیادیں ناپید ہیں۔ پھر اجتماعی زندگی اسلام کی برکتوں اور نعمتوں سے کیسے شادکام ہو اور دشمن کے مقابلے کے لیے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کیسے بنے؟ ؎
آج بھی ہو جو براہیمؑ کا ایماں پیدا
آگ کر سکتی ہے انداز گُلستاں پیدا
عبادت کے اسلامی تصور کی تفہیم اور انسانی زندگی میں اس کے گہرے اور ہمہ گیر انقلابی کردار کو سمجھنے کے لیے حج کی حقیقت اور اس کے پیغام پر تدبر کی نگاہ ڈالنا ضروری ہے۔ ویسے تو جتنی بار بھی انسان کو حج بیت اللہ اور عمرہ کی سعادت حاصل ہو، وہ اس کی خوش نصیبی ہے۔ لیکن صرف ایک بار ہرصاحب استطاعت پر اسے فرض کرنے میں غوروفکر کا یہ پہلو بھی پایا جاتا ہے کہ زندگی میں ایک بار بھی ایمان اور احتساب کے ساتھ اس تجربے سے گزرنے سے عبودیت کے سارے ہی پہلوئوں سے انسان ہم آغوش ہو سکتا ہے اور اس سے اس کی زندگی میں وہ تبدیلیاں رُونما ہوسکتی ہیں جو اسے پوری زندگی راہِ حق پر قائم رکھ سکیں۔
حج ایک جامع ہے: عبادت کے جملہ مراسم و آداب کا، اور اسلام کی عالم گیر اور ازلی دعوت کے نمایاں ترین تاریخی پہلوئوں کا۔ یہی وجہ ہے کہ زندگی کے دھارے کو عبدیت کی راہ پر رواں دواں کرنے کے لیے یہ تجربہ اگر اپنے پورے آداب کے ساتھ ایک بار بھی ہو جائے، تو یہ اتنا قوی اور جان دار ہے کہ پھر عیدالاضحی کی تجدید کے ساتھ ساری زندگی اس رخ پر بسر ہو سکتی ہے۔
حج کے لغوی معنی ’زیارت کا ارادہ‘ کرنے کے ہیں۔ حج کو ’حج‘ اس لیے کہا گیا ہے کہ اس میں انسان ان متعین دنوں میں (۸تا۱۳ذوالحجہ) جو اس کے لیے مقرر کیے گئے ہیں (عمرہ یا زیارت کسی وقت بھی ہو سکتی ہے) کعبۃ اللہ کی زیارت کا ارادہ کرتا ہے اور مناسک حج ادا کرتا ہے۔ حج ہربالغ اور صاحب ِاستطاعت مسلمان پر زندگی میں ایک بارفرض کیا گیا ہے اور جو شخص حج کی طاقت (جسمانی اور مالی) رکھنے کے باوجود حج نہیں کرتا، وہ ایک عظیم ترین سعادت ہی سے محروم نہیں رہتا، بلکہ اپنے مسلمان ہونے کو بھی عملاً جھٹلاتا ہے:وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلًا ط وَمَنْ کَفَرَ فَاِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ عَنِ الْعٰلَمِیْنَo(اٰل عمرٰن۳:۹۷)‘ ’’لوگوں پر اللہ کا یہ حق ہے کہ جو اس گھر تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو، وہ اس کا حج کرے، اورجو کوئی اس حکم کی پیروی سے انکار کرے، تو اسے معلوم ہو جانا چاہیے کہ اللہ تمام دنیا والوں سے بے نیاز ہے‘‘۔ اس آیت کریمہ میں قدرت رکھنے کے باوجود قصداً حج نہ کرنے کو کفر کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔
آں حضوؐر نے بھی یہی بات صراحت سے فرمائی ہے:’’جو شخص زاد راہ اور سواری رکھتا ہو جس سے بیت اللہ تک پہنچ سکتا ہو اور پھر حج نہ کرے، تو اس کا اس حالت پر مرنا اور یہودی یا نصرانی ہو کر مرنا یکساں ہے‘‘۔ (متفق علیہ)
وہ مسلمان عورت یا مرد جو تمام احکام اور آداب کے ساتھ حج کا فریضہ انجام دیتا ہے، اس کے بارے میں شفیع المذنبین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ’’حج اور عمرہ گناہوں کو اس طرح صاف کر دیتے ہیں، جس طرح بھٹی لوہے، سونے اور چاندی کے میل اور کھوٹ کو صاف کر دیتی ہے، اورجو مومن اس دن (یعنی عرفہ کا دن) احرام کی حالت میں گزارتا ہے، اس کا سورج جب ڈوبتا ہے تو اس کے گناہوں کو لے کر ڈوبتا ہے‘‘۔ (نسائی و ترمذی)
سرور کائناتؐ نے فرمایا: ’’جس نے صرف اللہ کے لیے حج کیا، اور اس میں ہوس رانی اور گناہ نہ کیا، تو وہ ایسا ہو کر لوٹا، جیسے اس دن تھا جس دن اس کی ماں نے اس کو جنا۔‘‘
غور کرنے کی بات ہے کہ حج کی وہ کیا اہمیت اور خصوصیت ہے، کہ جس کی بنا پر ایک طرف قصداً اس کے کرنے کے انکار کو کفر کے مترادف قرار دیا گیا ہے اور دوسری طرف ایمان اور احتساب کے ساتھ اس کی ادایگی کو پچھلے گناہوں سے پاکی کاضامن قرار دیا گیا ہے اور اس کے بعد بالکل ایک نئی پاک و صاف زندگی کا باب کھول دیا گیا ہے؟
سب سے پہلی بات یہ ہے کہ حج کا کعبہ سے تعلق ہے، جو زمین پر اللہ کا گھر، امت مسلمہ اورانسانیت کا مرکزومحور اور رب کعبہ سے خصوصی نسبت رکھتا ہے۔ حج کی اصل بیت اللہ کی زیارت اور اسوۂ ابراہیمی کا تجربہ اور تجدید ہے۔ اس پورے عمل میں ایک طرف دعوت اسلامی کے سارے تاریخی مراحل سے انسان کو گزار دیا جاتا ہے، تو دوسری طرف تمام منصوص عبادات کی روح اور ان کے خلاصے کو بھی اس میں سمو دیا گیاہے۔ اس طرح یہ مراسم عبادات کا جامع اور ایک جلوے میں ہزار جلوں کی تجلی گاہ بن جاتا ہے۔
کعبہ، اللہ تعالیٰ کا پہلا گھر اور بندوں کی پہلی عبادت گاہ ہے، جو توحید کی علامت اور رب کے حضور بندگی کے لیے پہلی سجدہ گاہ ہے۔ زمین پر انسان کے سفر عبودیت اور شمال و جنوب سب اطراف کے رہنے والے اسی کی طرف رخ کرکے اپنے مالک کو پکارتے اور اس کے آگے سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ یہی وہ چیز ہے جس نے اسے بندگی کا محور اور ملت اسلامیہ کا مرکز بنا دیاہے۔ اس گھر کی زیارت حج کا مقصودو مطلوب ہے تاکہ بیت اللہ کی زیارت سے رب بیت اللہ سے رشتہ استوار کیا جائے اور حقیقت یہ ہے کہ خدا کی زمین پر اس سادہ تعمیر سے زیادہ حسین، دیدہ زیب اور ایمان افروز مقام کوئی دوسرا نہیں۔
دوسرا قابلِ غور پہلو یہ ہے کہ کعبہ بیت اللہ ہی نہیں ہے، اس کے ساتھ اللہ کے برگزیدہ نبی ابوالانبیا حضرت ابراہیمؑ اور ان کے فرزند حضرت اسماعیلؑ کی دعوت حق، شانِ اطاعت و فدائیت اور یکسوئی اور قربانی کے مثالی نمونوں کی یادیں وابستہ ہیں۔ اللہ کے حکم سے انھی برگزیدہ انبیاؑ نے بیت اللہ کی موجودہ تعمیر مکمل کی تھی۔ اس پر بیت عتیق اور مکہ کے گردونواح کے چپے چپے پر اسوۂ ابراہیمی کے نقوش ثبت ہیں۔ دعوت اسلامی کی تاریخ میں حضرت ابراہیمؑ کی زندگی اور عالمی مساعی ایک فیصلہ کن موڑ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ آپ نے ایمان و یقین، اطاعت و سپردگی، عبودیت و فدویت، ایثار وقربانی اور جہد مسلسل کا وہ نمونہ پیش کیا، جو ہمیشہ کے لیے روشنی کا مینار ہے۔
اللہ سے آپ کی محبت اور اللہ کا آپ کو اپنا ’خلیل‘[دوست] کہنا وہ شرف ہے، جس نے آپ کو پوری انسانیت کا محبوب بنا دیا۔ یہی وجہ ہے کہ جس انسان کامل پر نبوت کے سلسلۃ الذہب کا خاتمہ اور تکمیل ہوئی وہ اور آپ شانہ بشانہ کھڑے ہیں اور حضوؐر پر درود وسلام کے ساتھ اگر کسی نبی کی طرف مسلسل درود وسلام کی سوغات بھیجی جاتی ہے، وہ حضرت ابراہیمؑ ہیں:
اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی ٰالِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاہِیْمَ وَعَلٰی ٰالِ اِبْرَاہِیْمَ
حضرت ابراہیمؑ کو یہ مقام ان کے مثالی کردار کی وجہ سے حاصل ہوا۔ ان کو آزمایشوں کی کسوٹی پر بار بار پرکھا گیا، اور وہ ہر بار آزمایش کی کٹھالی سے کامیاب و کامران نکلے۔ انھوں نے عین عالم جوانی میں اپنے رب کے حکم کی تعمیل میں اپنی قوم کے بت کدے میں اذان دی اور ان بتوں کو پاش پاش کر دیا، جن کو انھوں نے معبود بنا رکھا تھا۔
جب حضرت ابراہیمؑ کو دین آبا کی توہین کی پاداش میں آگ میں ڈالا گیا تو ’’بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق‘‘۔ فرعون نے جب اپنے جبرواقتدار کا سہارا لے کر اپنی الوہیت کا دعویٰ کیا، تو انھوں نے برہان قاطع سے اس کو لاجواب کر دیا اور اپنی جان کی کوئی پرواتک نہ کی۔ جب انھیں دعوت حق پھیلانے کے لیے اپنے خاندان، قوم اور وطن سب کچھ چھوڑنے اور اللہ کے لیے ہجرت کرنے کا حکم ہوا تو سب کچھ چھوڑ کر کمربستہ ہو گئے اور چار دانگ عالم میں اللہ کے کلمے کو پہنچانے کے لیے مصروف دعوت و جہاد ہو گئے۔ اور پھر جب ان کو اپنے محبوب لخت جگر کو اللہ کی راہ میں قربان کرنے کا حکم ملا، تو بلاتوقف اس کی جان کا نذرانہ پیش کرنے کے لیے تیار ہو گئے۔ حکم الٰہی کی تعمیل، دعوت حق کی تشریح و توضیح اور آقا کی مرضی اور محبوب کے اشارۂ چشم و ابرو پر سب کچھ قربان کردینے کی یہی وہ ادا ہے، جس نے جاں بازی، جاں نثاری اور جاں سپاری کی وہ روشن مثال قائم کی، جو اسوۂ ابراہیمی ؑ کی اصل اور انسانیت کے لیے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نمونہ اورمعیار بنا دی گئی۔
حج اسی تاریخ دعوت وعزیمت کی یاد دہانی اور اس تاریخ کو از سر نورقم کرنے کی دعوت اور اس کے لیے تیاری کی مشق ہے۔ حج کا مقصد اللہ کے حکم کے مطابق حضرت ابراہیمؑ کے حقیقی حج کے ساتھ تشبہ اختیار کرکے ان کے نمونۂ ایمان و للہیت، جذبۂ عبدیت اور کمال فدویت و فدائیت کو یاد کرنا اور ان کی روشن مثال سے خود اپنے اندر ایمان، اطاعت اور ایثار و قربانی کے جذبے کی آبیاری کرنا ہے۔ مالک کی پکار پر لبیک کہنا اور ساری زندگی کو پوری آمادگی شوق اور وارفتگی سے اس کی رضا طلبی کے لیے وقف کر دینا ہے:
لَبَّیْکَ اَللّٰہُمَّ لَبَّیْکَ، لَبَّیْکَ لَاشَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکَ، اِنَّ الْحَمْدَ وَالْنِعْمَۃَ لَکَ وَالْمُلْکَ لَاشَرِیْکَ لَکَ ،اے اللہ! میں حاضر ہوں، میرے اللہ، میں حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں، میں حاضر ہوں، اس میں کوئی شک نہیں کہ حمد تیری ہی ہے، نعمتیں تیری ہی دین ہیں اور بادشاہی اور اقتدار صرف تیرا ہی ہے، اور ان سب میں تیرا کوئی شریک نہیں۔
یہ صرف ایام حج کا تلبیہ اور ترانہ ہی نہیں ہے،بلکہ اللہ کے بندوں کے لیے پوری زندگی کا وظیفہ ہے۔ یہ مالک کے حضور مکمل سپردگی کاعہد ہے۔ اپنے اللہ کے سامنے خود جس کی مثال اورنمونہ حضرت ابراہیمؑ، حضرت اسماعیلؑ اور حضور اکرمؐ نے انسانیت کے سامنے رکھا۔ حج کا اصل سبق اور پیغام اپنے اللہ کے سامنے یہی خود سپردگی ہے۔ ستم ہے کہ ہم زبان سے یہ تلبیہ ادا کرتے ہیں لیکن اللہ کی وحدانیت کی گواہی کے ساتھ اس میں جن تین صفاتِ الٰہی پر توجہ کو مرکوز کیا ہے ان پر غور نہیں کرتے، یعنی حمد کا مستحق صرف اللہ ہے، ہرنعمت اللہ کی طرف سے ہے، اور اقتدار اور بادشاہی اللہ اور صرف اللہ کی ہے۔ لہُ الملک کا اس تلبیہ کا آخری اعلان ہونا اپنے اندر جو معنویت رکھتا ہے افسوس آج وہ آنکھوں سے اوجھل رہتی ہے۔
حج کے مناسک پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ گھر بار اور کاروبار کو چھوڑنے، سفر کی صعوبتیں انگیز کرنے اور روایتی لباس ترک کرکے احرام کے فقیرانہ لباس زیب تن کرنے سے لے کر طواف، سعی، وقوف عرفات، مزدلفہ کی شب باشی، منیٰ کا قیام، قربانی، رمی جمار اور حلق (سر کے بال منڈوانا) تک ہر چیز سے بندگی کی تصویر ابھرتی ہے۔ ان میں سے ہر عمل کی اسوۂ ابراہیمی کے کسی نہ کسی پہلو سے نسبت ہے۔ للہیت، سپردگی، اطاعت اور فداکاری کی شان ہر ہر عمل سے نمایاں ہے اور یہی حج کی اصل رمز ہے اور اس پورے تجربے میں تعلیم و تربیت کا بڑا مؤثر سامان ہے، تاکہ بندہ یہاں سے یہ سبق لے جائے کہ حضرت ابراہیمؑ، حضرت اسماعیلؑ اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا راستہ ہی ہمارا راستہ، ان کا نمونہ ہی ہمارے لیے نمونہ، اور اس راستے پر چلنا اور اس نمونے کا اتباع ہی ہماری زندگی کا مقصود ہوگا اور اس راہ میں ہمارے قدم کبھی سُست نہیں پڑیں گے۔
حج پر غور وفکر کا تیسرا پہلو اس کی جامعیت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حج تمام ہی مراسم عبادت کا جامع ہے۔ نماز کا آغاز اگر نیت کی درستی، قبلے کے استقبال اور بدن کی طہارت سے ہوتا ہے اور اس کی روح ذکر الٰہی ہے، تو حج پہلے ہی مرحلے سے ان سب کو اپنے اندر لیے ہوئے ہے۔ بیت اللہ کی طرف رخ ہی نہیں اس کا قصد اور اس کی طرف سفر،اور پھر اس کا طواف اور اس کی طرف سجدے ہی سجدے، احرام اور جسم اور روح کی طہارت اور حج کی نیت سے لے کر طواف وداع تک ذکر ہی ذکر۔ نماز اگر فحش اور منکرات سے روکنے کا ہتھیار ہے، تو احرام بھی فحش اورمنکرات کے باب میں ایک حصار ہے۔
حج کے پورے عمل کو خواہش نفس سے پاک کرنا اور گناہوں سے بچانا، آداب حج کا حصہ ہے۔ زکوٰۃ مالی عبادت ہے، جو ایک طرف حب دنیا اور حبِ دولت سے انسان کو بچاتی ہے تو دوسری طرف معاشرے سے بھوک اور غربت کو مٹانے اور معاشی عدم مساوات کو کم کرنے کا ذریعہ بنتی ہے۔ حج میں بھی انسان کو کثیر مالی قربانی کرنا پڑتی ہے۔ صرف زاد راہ اور قربانی ہی کے لیے نہیں بلکہ ایک عرصے کے لیے ترکِ معاش اور اہل خاندان کے لیے معاش کے انتظام کی شکل میں۔
احرام پوری امت کے لیے مساوات کا اعلیٰ ترین نمونہ پیش کرتا ہے اور امیرغریب، بادشاہ فقیر، سب ایک ہی لباس میں آجاتے ہیں۔ روزے کا مقصد بھی تقویٰ پیدا کرنا، ضبط نفس کی تربیت دینا، جسمانی مشقت انگیز کرنے کے لیے تیار کرنا، تعلقات زن و شو سے احتراز (صرف دن ہی میں نہیں، حج کی راتوں میں بھی)، بے آرامی اور ذکر کی کثرت کی فضا بنانا ہے۔ حج میں یہ سب اپنے اپنے انداز میں موجود ہیں۔
روزے کو قرآن سے خصوصی نسبت ہے۔ حج میںبھی قرآن کی تلاوت اور مقاماتِ نزول قرآن کی زیارت، روزے کے ان پہلوئوں کا لطف پیدا کر دیتے ہیں۔ نماز کی باجماعت ادایگی، زکوٰۃ کی بیت المال کے نظام کے ذریعے منظم تقسیم اور روزے کو ایک ہی مبارک مہینے میں تمام اُمت کے لیے فرض کرنے میں اجتماعیت کی جو شان ہے، حج اس کی معراج ہے۔ غرض اس ایک عبادت میں، جو بالعموم کئی مہینوں پر پھیلی ہوئی ہے اور سفر کی جدید سہولتوں کے باوجود کئی ہفتوں کا اعتکاف اور انہماک تو لازماً چاہتی ہے۔ عبادت کے تمام ہی مراسم اور ان کے اہداف کسی نہ کسی شکل میں جمع کردیے گئے ہیں، جو اپنی نوعیت کا ایک منفرد اوریادگار تجربہ ہے۔
حج کا ایک اور منفرد پہلو امت کی وحدت اور انسانیت کے ایک خاندان اور برادری ہونے کو نمایاں کرنا ہے۔ رنگ، نسل، وطن، زبان، مرزبوم، سماجی تنوع، معاشی تفاوت، غرض ہر فرق ختم ہو جاتا ہے۔ ایک اللہ کے ماننے والے بیت اللہ کی زیارت اور طواف کے لیے دنیا کے گوشتے گوشے سے ایک مرکز پر جمع ہوتے ہیں اور ایک خاندان کی طرح ایک امام کی قیادت میں ایک ہی تلبیہ کا ورد کرتے ہوئے دن رات ساتھ گزارتے ہیں۔
تہذیب وتمدن کے سارے خول اتر جاتے ہیں اور صرف للہیت اور انسانیت کا نمونہ پیش کرتے ہیں اور ان سب کا آخری ہدف اللہ کی رضا کا حصول، زمین پر اس کی مرضی پوری کرنے کا عزم، استخلاف فی الارض کے مشن کی تنفیذ کے جذبے کو تازہ کرنا اور دین کی دعوت اور نصرت کی جدوجہد میں زندگی وقف کرنے کا داعیہ اجاگر کرنا بن جاتا ہے۔ یہ وہ انقلابی مقصد ہے، جس کے لیے اس امت کو برپا کیا گیا اور اس کی تذکیر حج کا اصل وظیفہ ہے۔
’’خانہ کعبہ اس دنیا میں عرش الٰہی کا سایہ اور اس کی رحمتوں اور برکتوں کا نقطۂ قدم ہے… یہ وہ منبع ہے، جہاں سے حق پرستی کا چشمہ ابلا، اور اس نے تمام دنیا کو سیراب کیا۔ یہ روحانی علم و معرفت کا وہ مطلع ہے، جس کی کرنوں نے زمین کے ذرے ذرے کو درخشاں کیا۔ یہ وہ جغرافیائی شیرازہ ہے، جس میں ملت کے وہ تمام افراد بندھے ہوئے ہیں، جو مختلف ملکوں اور اقلیتوں میں بستے ہیں، مختلف زبانیں بولتے ہیں، مختلف لباس پہنتے ہیں، مختلف تمدنوں میں زندگی بسر کرتے ہیں، مگر وہ سب کے سب، باوجود ان فطری اختلافات اور طبعی امتیازات کے، ایک ہی خانہ کعبہ کے گرد چکر لگاتے ہیں، اور ایک ہی قبلے کو اپنا مرکز سمجھتے ہیں اور ایک ہی مقام کو اُم القریٰ مان کر وطنیت، قومیت، تمدن ومعاشرت، رنگ روپ اور دوسرے تمام امتیازات کو مٹا کر، ایک ہی وطن، ایک ہی قومیت (آلِ ابراہیمؑ) ایک ہی تمدن و معاشرت (ملت ابراہیمی) اور ایک ہی زبان (عربی) میں متحد ہو جاتے ہیں۔
’’لوگ آج یہ خواب دیکھتے ہیں کہ قومیت وو طنیت کی تنگ نائیوں سے نکل کر وہ انسانی برادری کے وسعت آباد میں داخل ہوں، مگر ملت ابراہیمی کی ابتدائی دعوت اور ملت محمدیؐ کی تجدیدی پکارنے سیکڑوں ہزاروں برس پہلے اس خواب کو دیکھا اور دنیا کے سامنے اس کی تعبیر پیش کی۔ لوگ آج تمام دنیا کے لیے ایک واحد زبان کے ایجادوکوشش میں مصروف ہیں، مگر خانہ کعبہ کی مرکزیت کے فیصلے نے آلِ ابراہیمؑ کے لیے مدت دراز سے اس مشکل کو حل کر دیا ہے۔ لوگ آج دنیا کی قوموں میں اتحاد پیدا کرنے کے لیے ایک ورلڈ کانفرنس یا عالم گیر مجلس کے انعقاد کے درپے ہیں، لیکن جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے، ساڑھے [چودہ صدیوں] سے یہ مجلس دنیا میں قائم ہے اور اسلام کے علم، تمدن، مذہب اور اخلاق کی وحدت کی علم بردار ہے۔
’’مسلمان ڈیڑھ سو برس تک جب تک ایک نظم حکومت یا خلافت کے ماتحت رہے، یہ حج کا موسم ان کے سیاسی اور تنظیمی ادارے کا سب سے بڑا عنصر رہا۔ یہ وہ زمانہ ہوتا تھا، جس میں اُمور خلافت کے تمام اہم معاملات طے پاتے تھے۔ اسپین سے لے کر سندھ تک مختلف ملکوںکے حکام اور والی جمع ہوتے تھے، اور خلیفہ کے سامنے مسائل پر بحث کرتے تھے اور طریق عمل طے کرتے تھے، اور مختلف ملکوں کی رعایا آکر اگر اپنے والیوں اور حاکموں سے کچھ شکایتیں ہوتی تھیں، تو ان کو خلیفہ کی عدالت میں پیش کرتی تھیں، اور انصاف پاتی تھیں۔
’’اسلام کے احکام اور مسائل جودم کے دم میں اور سال ہا سال دُور دراز اقلیموں، ملکوں اور شہروں میں اس وقت پھیل سکے، جب سفر اور آمدورفت کا مسئلہ آسان نہ تھا۔ اس کا اصل راز یہ سالانہ حج کا اجتماع ہے اور خود رسولؐ اللہ نے اپنا آخری حج جو حجۃ الوداع کہلاتا ہے، اسی اصول پر کیا۔ وہ انسان جو تیرہ برس تک مکہ میں یکہ و تنہا رہا، ۲۳برس کے بعد وہ موقع آیا جب اس نے تقریباً ایک لاکھ کے مجمع کو بیک وقت خطاب کیا اور سب نے سَمْعاً وَ طَاعَۃً کہا۔ آپؐ کے بعد خلفاے راشدینؓ اور دوسرے خلفا کے زمانے میں صحابہ کرامؓ اور ائمہ اعلام نے اسی طرح سال بہ سال جمع ہو کر احکام اسلام کی تلقین و تبلیغ کی خدمت ادا کی، اس کا نتیجہ تھا کہ نت نئے واقعات اور مسائل کے متعلق، دنیا کے مختلف گوشوں میں اسلام کے جوابی احکام اور فتوے پہنچتے رہے اور پہنچتے رہتے ہیں‘‘۔(سیدسلیمان ندوی، سیرت النبیؐ، پنجم، ص۲۱۹،۳۲۱)
ہم نے مولانا سید سلیمان ندویؒ کی تحریر سے یہ طویل اقتباس اس لیے دیا ہے کہ حج کے اس منفرد پہلو کو ایک روایتی عالم دین کے الفاظ میں اجاگر کریں۔ ورنہ محدود مذہبی ذہن رکھنے والے تو اس پر ’دین کی سیاسی تعبیر‘یا ’سیاسی اسلام‘ کی پھبتی کستے نہیں تھکتے۔ حالانکہ یہ اسلام کا ایک ایسا اعجاز اور تاریخی کارنامہ ہے، جس پر مخالف بھی ششدر رہ جاتے ہیں۔ کچھ ہی عرصہ پیش تر شائع ہونے والی اوکسفرڈ انسائی کلوپیڈیامیں مقالہ نگار رابرٹ بیانشی (Robert Bianchi) کے یہ جملے قابلِ غور ہیں(انگریزی سے ترجمہ):
دنیا کی تمام زیارتوں میں حج منفرد بھی ہے اور اہم ترین بھی۔ عیسائیت اور ہندومت کے قدیم اور اعلیٰ ترقی یافتہ بین الاقوامی زیارت کے نظاموں سے مقابلہ کیا جائے تو عقیدے کی مرکزیت، جغرافیائی ارتکاز اور تاریخی تسلسل کے لحاظ سے نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔(اوکسفرڈ انسائی کلوپیڈیا آف ماڈرن اسلامک ورلڈ ( اوکسفرڈ یونی ورسٹی پریس، ۱۹۹۵ئ، جلد۲،ص۱۸۸)، ’حج‘)
اس پہلو سے اگر غور کیا جائے تو جس طرح حفظِ قرآن، کتابت وتعلیم قرآن اور رمضان المبارک میں قرآن سے تجدید تعلق نے اللہ کی کتاب کو محفوظ رکھا ہے، اسی طرح حج نے اسلام کی اصل روح…للہیت، عبدیت اور امت کی وحدت اور اخوت کو اس طرح ایک تاریخی نظام میں پرو دیا ہے۔ ایک ادارے کے طور پر یہ روایت اپنے مرکز سے پوری دنیا میں اور ایک نسل سے دوسری نسل اورایک دور سے دوسرے دور کی طرف برابر منتقل ہو رہی ہے اور ان شاء اللہ تاابد ہوتی رہے گی۔
پس اگر میں یہ کہوں تو بے جانہ ہوگا کہ جس طرح رمضان کا مہینہ تمام اسلامی دنیا میں تقویٰ کا موسم ہے، اسی طرح حج کا زمانہ تمام روے زمین میں اسلام کی زندگی اور بیداری کا زمانہ ہے۔ اس طریقے سے شریعت بنانے والے حکیم ودانا نے ایسا بے نظیر انتظام کر دیا ہے کہ ان شاء اللہ قیامت تک اسلام کی عالم گیر تحریک مٹ نہیں سکتی۔ دنیا کے حالات خواہ کتنے ہی بگڑ جائیں اور زمانہ کتنا ہی خراب ہو جائے، مگر یہ کعبے کامرکز اسلامی دنیا کے جسم میں کچھ اس طرح رکھ دیا گیا ہے، جیسے انسان کے جسم میں دل ہوتا ہے۔ جب تک دل حرکت کرتا رہے، آدمی مر نہیں سکتا، چاہے بیماریوں کی وجہ سے وہ ہلنے تک کی طاقت نہ رکھتا ہو۔ بالکل اسی طرح اسلامی دنیا کا یہ دل بھی ہر سال اس کی دُور دراز رگوں سے خون کھینچتا رہتا ہے اور پھر اس کو رگ رگ تک پھیلادیتا ہے۔ جب تک اس دل کی یہ حرکت جاری ہے اور جب تک خون کے کھینچنے اور پھیلنے کا سلسلہ چل رہا ہے، اس وقت تک یہ بالکل محال ہے کہ اس جسم کی زندگی ختم ہو جائے، خواہ بیماریوں سے یہ کتنا ہی زار ونزار ہو۔(خطبات،چہارم،ص۲۴۵-۲۴۶)
حج کی یہ برکتیں اورمنافع ہیں کہ ساری خرابیوں کے باوجود اس امت میں زندگی اور حرارت ہے۔ اگر شر کی قوتیں ہر طرف سے حملہ آور ہیں تو حق کی قوتیں بھی مدافعت، مزاحمت اور پیش رفت میں سرگرمِ عمل ہیں، اور یہ سب اس کے باوجود ہے کہ حج اور تمام ہی عبادات، مختلف وجوہ سے اپنے اثرات بکمال و تمام پیدا نہیں کر پا رہیں اور اسلام نے تجدید واصلاح کا جو نظام بنایا ہے وہ بڑی حد تک مفلوج ہے۔
بلاشبہہ امت میں نیک نفوس بھی موجود ہیں اور چند متحرک گروہ بھی، جو دین کو اس کی اصل اسپرٹ میں قائم کرنے کی جدوجہد کر رہے ہیں، لیکن بحیثیت مجموعی امت غفلت اور دین کے بارے میں بے توجہی کا شکار ہے۔ خصوصیت سے بااثر طبقات، جدید تعلیم یافتہ لوگ اوربرسرِاقتدار عناصر اپنی ذمہ داریوں سے غافل، نفس پرستی اور دنیا داری میں مگن اور قیامِ دین اور احیاے شریعت سے کنارہ کش ہیں۔
عبادتیں بڑی حد تک اپنی اصل روح سے عاری اور محض رسم اور عادت بن گئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن و سنت اور شریعت کی موجودگی، نماز روزہ، زکوٰۃ اور حج کی پاس داری، مسجدوں اور مدرسوں کے قیام و انصرام اور دعوتی اور تبلیغی اجتماعات کی ریل پیل کے باوجود نمازیں اثر سے خالی ہیں، روزے تقویٰ کی فصل بہار پیدا نہیں کر پا رہے، زکوٰۃ معاشی اور سماجی انصاف کے قیام پر منتج نہیں ہو رہی، اور حج میں لاکھوں کے اجتماع کے باوجود ملت کے جسم میں تازہ خون نہیں آ رہا اور بدن فساد خون کا شکار ہے۔
تمام خرابیوں اور کمزوریوں کے باوجود جو مثبت اثرات حج اور دوسری عبادات کے رونما ہورہے ہیں، ان کے اعتراف اور ان پر اللہ تعالیٰ کے شکر کے ساتھ ہم امت کے تمام ہی ارکان کو، اور خصوصیت سے اس کے سوچنے سمجھنے والے عناصر اور دینی اجتماعی قیادت کو ان اسباب کی طرف متوجہ کرنا چاہتے ہیں، جن کی وجہ سے پوری عبادتیں پوری طرح اپنے ثمرات پیدا نہیں کر پا رہیں۔
سب سے پہلی چیز عبادات کی ظاہری ادایگی اور ان کی اصل روح اور دین کی تعلیمات اور اصلاح کی مجموعی اسکیم میں ان کا رول اور کردار ہے۔ مذہب اور ثقافت کی تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک انقلابی تصور اس وقت تک انقلابی رہتا ہے، جب تک اس کی اصل روح بیدار رہتی ہے اور وہ محض ایک رسم اور بے جان جسم نہیں بن جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن و سنت نے نیت کی اصلاح اور ہر عبادت کے ایمان اور احتساب کے ساتھ انجام دینے کو بڑی اہمیت دی ہے۔
آج مسلمانوں کا بڑا بنیادی مسئلہ دین سے ناواقفیت، عمومی جہالت اور تعلیم کی پستی ہے، حالانکہ اسلام تو آیا ہی ایک تعلیمی انقلاب برپا کرنے کے لیے تھا اور حصول علم کو ہر مسلمان مرد اورعورت کے لیے واجب قرار دیا گیا تھا۔ عبادات اور خصوصیت سے حج کے غیر مؤثر ہونے میں بڑا دخل ان عبادات کو بلا سمجھے ادا کرنے کا مرض ہے۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ قرآن کی تعلیم، دین و شریعت سے واقفیت اور نظام زندگی میں ان کے کردار کا پورا پورا فہم و ادراک پیدا کیا جائے۔ محض حفظ کرکے چند سورتوں کو نہ دہرا لیا جائے،بلکہ ہر عبادت کو پوری طرح سمجھ کر، الفاظ کے معنی کا پورا پورا ادراک کرکے اور ہر عبادت کو اس کے مقصد اور منشا کے مکمل شعور کے ساتھ اس کو ادا کیا جائے۔ علم کا یہ حصول ہر فرد کی ذمہ داری بھی ہے اور معاشرے کے تمام بااثر افراد کی بھی(یہاں ہم حفظ کرنے کی فضیلت اور کلماتِ قرآنی کے دہرانے کی فضیلت اور اعزازکا درجہ کم تر نہیں کر رہے بلکہ اس کی تاثیر اور اثر پذیری میں اضافے کے لیے مفہوم اور معانی تک رسائی کی اہمیت واضح کر رہے ہیں)۔
حضوؐرنے فرمایا ہے کہ: کُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلَّکُمْ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَعِیَّتَہِ (بخاری، ۸۹۳)، تم میں سے ہر ایک چرواہے کے مانند ہے اور ہر ایک اپنے اپنے ریوڑ کے بارے میں جواب دہ ہے۔ جس کے معانی یہ ہیں کہ ماں، باپ، استاد، گھر کے بزرگ، محلے کے پنچ، معاشرے کے لیڈر، مملکت کے ذمہ دار سب کی ذمہ داری ہے کہ جہالت کی اس وبا سے قوم کو نجات دلائیں۔ تعلیمی انقلاب، اصلاحِ احوال کی طرف پہلا قدم ہے۔
اس تعلیمی انقلاب کے تین پہلو ہیں:
عبادات سکڑ کر اگر صرف رسوم و رواج بن جائیں اور جنھیں اللہ سے ملاقات کا ذریعہ اورمناجات کا وسیلہ ہونا چاہیے، وہ محض ایک بے روح اور بے جان عادت کی شکل اختیار کر لے، تو وہ زندگی میں کوئی تبدیلی کیسے لا سکتی ہے۔ آج ہماری نمازیں، ہمارے روزے اور ہمارے حج اس وجہ سے بے اثر ہو گئے ہیں کہ ہم نے ان کو بس ایک رسم، ایک عادت، ایک جسدِ بے روح بنادیا ہے اور سمجھ رہے ہیں کہ ہم عبادات کا حق ادا کر رہے ہیں۔
شیخ عثمان بن علی ہجویریؒ [م:۲۵ستمبر۱۰۷۲ئ]کشف المحجوب میں فرماتے ہیں کہ: ’’ایک صاحب حضرت جنید بغدادی[م:۹۱۰ئ] کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ نے پوچھا: کہاں سے آرہے ہو؟ جواب ملا: حج سے واپس آ رہا ہوں۔ پوچھا: حج کر چکے؟ عرض کیا: کر چکا۔ پوچھا: جس وقت گھر سے روانہ ہوئے اور عزیزوں سے جدا ہوئے تھے، اپنے تمام گناہوں سے بھی مفارقت کی نیت کرلی تھی؟ کہا: نہیں یہ تو نہیں کیا تھا۔ فرمایا: بس سفر پر روانہ ہی نہیں ہوئے! پھر فرمایا:کیا راہ میں جوں جوں تمھارا جسم منزلیں طے کر رہا تھا، تمھارا قلب بھی قربِ حق کی منازل طے کرنے میں مصروف تھا؟ جواب دیا: یہ تو نہیں ہوا… ارشاد ہوا: پھر تم نے سفرِ حج کی منزلیں طے ہی نہیں کیں۔ پھر یہ پوچھا کہ جس وقت احرام کے لیے اپنے جسم کو کپڑوں سے خالی کیا تھا، اس وقت اپنے نفس سے بھی صفات بشریہ کا لباس اتارا تھا؟ کہا: یہ تو نہیں کیا تھا۔ ارشاد ہوا: پھر تم نے احرام باندھا ہی نہیں۔ پھر پوچھا: جب عرفات کے وقوف اور مزدلفہ کے قیام میں اپنی مراد کو پہنچ چکے تو خواہشات نفسانی کے ترک کا بھی عہد کیا تھا؟ کہا: یہ تو نہیںکیا۔ ارشاد ہوا: پھر عرفات اور مزدلفہ میں تم حاضر ہی نہیں ہوئے۔ پھر پوچھا: قربانی کے وقت اپنے نفس کی گردن پر بھی چھری چلائی تھی؟ کہا: یہ تو نہیں کیا۔ ارشاد ہوا: تم نے قربانی نہیں کی۔ اسی طرح سارے سوال پوچھنے کے بعد شیخ نے آخر میں فرمایا کہ ’’تمھارا حج کرنا، نہ کرنا برابر رہا، اب پھر جائو اور صحیح طریقے پر حج کرو‘‘۔
دین کی تعلیم، عبادات کی تعلیم اور ان کی حقیقی روح کا شعور پیدا کرنا ہی تعلیم کی اصل ہے۔ ضروری ہے کہ امت کے تمام افراد کو تعلیم وتعلّم کے تمام قدیم اور جدید ذرائع استعمال کرکے دین کی بنیادی تعلیمات اور ان کی حقیقی روح اور مطلوبہ نتائج سے روشناس کیا جائے۔ تب ہی ہماری عبادات پوری طرح ثمر آور ہو سکتی ہیں۔ ورنہ خدشہ ہے کہ عبادات ہی نہیں ہر دینی عمل، ایمان، احتساب اور تقویٰ کے بغیر بے جان اور غیر مؤثر رہے گا، اور حج جیسی جامع بھی غیرمؤثر ہوکر رہ جاتی ہے۔
۸جولائی۲۰۱۶ء کشمیر کی تحریکِ آزادی کی تاریخ میں ایک روشن سنگ ِ میل کی حیثیت اختیار کرگیا ہے۔ ۲۱سالہ مجاہد بُرہان وانی اور اس کے ساتھیوں کی شہادت نے اس تحریک کوایک نئے اور فیصلہ کن دور میں داخل کردیا ہے۔ ہماری نگاہ میں یہ ایک تاریخی موڑ ہے جسے اچھی طرح سمجھنا اور حالات کے گہرے ادراک اور مستقبل کے حقیقت پسند انہ امکانات کی روشنی میں صحیح، جامع اور مؤثر پالیسیاں بنانے کی ضرورت ہے۔ بُرہان وانی شہید کو جتنا بھی خراجِ تحسین پیش کیا جائے کم ہے لیکن وقت کی اصل ضرورت حالات کے دھارے کو سمجھنے اور اس عظیم تحریک کی حفاظت ، اس کی ترقی اور اسے حقیقی کامیابی کی منزل تک پہنچانے کے لیے جن اقدامات کی ضرورت ہے ان پر توجہ مرکوز کرنے کی ہے۔ شہدا کی قربانیوں کو صحیح خراج تحسین اس تحریک کوآگے بڑھانے اور کامیابی سے ہم کنار کرنے کی سعی و جہد میں ہے اور اس کی فکر پاکستانی قوم، اس کی سیاسی اور عسکری قیادت اور پوری اُمت مسلمہ اور حق پرست انسانوں اور آزادی کے پرستاروں کو کرنی چاہیے۔
کشمیر کے سلسلے میں جولائی کا مہینہ ہر دواعتبار سے تو گذشتہ ۸۵برس سے اہم تھا، یعنی ۱۳جولائی ۱۹۳۱ء کو ڈوگرہ راج کے خلاف جموں و کشمیر کے مسلمانوں کی تاریخی جدوجہد کا آغاز ہوا، جسے برعظیم کے مسلمانوں کی مکمل تائید حاصل تھی۔ ۱۹جولائی ۱۹۴۷ء کو جموں و کشمیر مسلم کانفرنس (جسے ۱۹۴۷ء کے کشمیر کے انتخابات میں مسلمانوں کی ۱۶ نشستیں حاصل کر کے جموں و کشمیر کے مسلمانوں کی ترجمانی کا مقام حاصل ہوگیا تھا) کی الحاقِ پاکستان کی قرارداد کے ذریعے جموں و کشمیر کے مسلمانوں کی سیاسی منزل کا تعین ہوگیا۔
جولائی ۱۹۳۱ء سے جولائی ۲۰۱۶ء تک تحریکِ آزادی مختلف اَدوار میں بڑے بڑے نشیب و فراز سے اسے گزرتی رہی ہے لیکن ۸جولائی کو مجاہد بُرہان وانی اور اس کے ساتھیوں کی شہادت ، بھارتی حکومت کی اندھی قوت کے ذریعے تحریکِ آزادی کو کچلنے کی کوشش اور اس پر کشمیری مسلمانوں کے شدید ردعمل نے عوامی تحریک اور جذبات کو قوت کے ذریعے ختم کرنے کی پالیسی کے دیوالیہ پن کو ایک بار پھر دو اور دو چار کی طرح واضح کر دیا ہے۔
ان سطور کے ضبط ِ تحریر میں لانے تک ۶۰سے زیادہ افراد شہید ہوچکے ہیں۔ ساڑھے تین ہزار زخمی ہیں، کرفیو کا سلسلہ صرف ایک دن کے خونی استثنا کے ساتھ جاری ہے۔ کاروبارِ زندگی مفلوج ہے، اخبارات اور معلومات کے تمام معروف ذرائع کا بشمول ٹیلی فون اور انٹرنیٹ گلا گھونٹ دیا گیا ہے۔ اس کے باوجود عوامی جذبات کا ریلا پوری طرح رواں دواں ہے اور سرکاری دہشت گردی کے باوجود آزادی کا نعرہ اس طرح بام و دَر میں گونج رہا ہے جس طرح نوجوان مجاہدین کی شہادت کے بعد رُونما ہواتھا۔ بھارت کے ذرائع ابلاغ، دانش ور، پالیسی پر اثرانداز ہونے والے ادارے اور عالمی قوتیں جس بے حسی اور بے دردی سے کشمیر کی تحریکِ آزادی کو نظرانداز کررہے تھے، ان میں بھی ایک ارتعاش پیدا ہوا ہے اور جو منقار زیر پر تھے، وہ بھی اب یہ سوچنے اور آہستہ آہستہ بڑبڑانے پر مجبور ہورہے ہیں کہ یہ سب کیا ہے اور اس صورتِ حال کا مقابلہ کرنے کے لیے اب تک جن پالیسیوں پر عمل کیا گیا ہے، کیا ان پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔
مجاہد بُرہان وانی کی شہادت کی جگہ خاص و عام کے لیے زیارت کا مقام بن گئی ہے اور الجزیرہ ٹیلی وژن کا نمایندہ شہادت کے پانچ دن کے بعد جاے شہادت یعنی کاوپور کے علاقے میں واقع چھوٹے سے گائوں ’بمدور‘ اور بُرہان کی جاے پیدایش اور مقامِ تدفین ترال پہنچا۔ اس نے اپنے اور کشمیر کے عوام کے جو تاثرات الجزیرہ کے ۱۵جولائی کے پروگرام میں نشر کیے ہیں، وہ زمینی حقائق کو سمجھنے میں مددگار ہیں۔ رپورٹ الجزیرہ کی ویب سائٹ پر موجود ہے اور خاصی طویل ہے۔ ہم صرف چند اقتباسات دے رہے ہیں:
بمدور( اننت ناگ) بھارتی مقبوضہ کشمیر___ کالے کوّوں کی آواز کے سوا جو ٹین کی ہر چھت سے آرہی ہے،یہاں مکمل خاموشی ہے۔ یہ بدھ کی صبح ہے، اور تھوڑی دیر کے لیے تو ایسا لگتا ہے کہ یہاں کوئی نہیں رہتا۔ دروازے اور کھڑکیاں بند ہیں، درجنوں کوّے ہیں اور خاموشی ہے۔ یہ کاوپور کے علاقے میں ہے جس کے لفظی معنی کوّوں کے مسکن کے ہیں جو ’بمدور‘ گائوں کے نزدیک واقع ہے۔ جہاں چھوٹے چھوٹے بہت سے مکانات ہیں۔ جھاڑیاں، چشمے اور وسیع و عریض دھان کے کھیت ہیں۔ اس بغاوت کا گذشتہ جمعے کو یہاں سے آغاز ہوا جس نے پورے کشمیر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔
ایک تنگ راستے پر جو مرکزی سڑک سے مکانات کی طرف جاتا ہے پتھروں، لاٹھیوں اور رسیوں کے چوکور رقبے میں کوّے اور کالے اور ہرے جھنڈوں کے درمیان اس جگہ کا نشان ہے جہاں ۲۲سالہ لڑکے بُرہان وانی کو قتل کیا گیا۔ یہ زیارت کی ایک جگہ بن گئی ہے۔ پچھلے ہفتے تک کوئی کبھی یہاں نہیں آیا تھا۔ اس گائوں میں کبھی کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔ ۲۴سالہ انجینیرنگ کے طالب علم شوکت احمد نے کہا: ’’گذشتہ پانچ دنوں سے روزانہ یہاں ایک ہزار سے بھی زیادہ لوگ آتے ہیں کہ بُرہان کو یہاں قتل کیا گیا تھا‘‘۔
اس رپورٹ میں بُرہان کے خنجربکف مجاہد بننے، دوسروں کو بیدار کرنے اور پھر شہادت کے بعد آخری سفر کا ذکر اس طرح کیا گیا ہے:
۲۰۱۰ء میں وانی نے جب وہ ۱۵سال کا لڑکا تھا، بندوق اُٹھائی۔ لیکن دوسرے لڑنے والوں کی طرح اس نے اپنا دوسرا نام یا لقب نہ رکھا اور اپنی شناخت کو نہ چھپایا۔ اس کے بجاے اس نے اپنی تصاویر اور وِڈیو فیس بک جیسے سوشل میڈیا پر پوسٹ کیں اور یہ کرتے ہوئے اس نے کشمیریوں کی نئی نسل کو اپیل کی۔ اس طرح عوام کے تصور میں مسلح مزاحمت عود کرآئی۔ وانی ہرگھر کا جانا پہچانا نام بن گیا۔ ہفتے کی صبح تقریباً ۲لاکھ افراد نے ترال میں اس کی نمازِ جنازہ ادا کی۔ جب اسے دفن کیا گیا تو بھارتی مقبوضہ کشمیر میں ایک بغاوت برپا ہوچکی تھی۔
دوسری رپورٹوں میں مزید تفصیل ہے کہ ترال میں مسلسل ۴۰بار نمازِ جنازہ ہوئی اور نمازیوں کا اندازہ ۶لاکھ بتایا گیا ہے۔ اس طرح سری نگر کی جامع مسجد میں غائبانہ نمازِ جنازہ میں تل دھرنے کو جگہ نہیں تھی۔ کشمیر کی وادی کا کوئی قابلِ ذکر مقام ایسا نہیں جہاں نمازِ جنازہ نہ ہوئی ہو۔ بیرونی ممالک میں بھی یہی کیفیت تھی۔
الجزیرہ کا نامہ نگار پورے علاقے میں گھوم پھر کر، ان ہسپتالوں کے چکّر لگاکر جہاں زخمی زیرعلاج ہیں، ان حالات کا خلاصہ بیان کرتا ہے جن سے کشمیر کے مسلمان مرد وزن، بوڑھے اور بچے دوچار ہیں اور ان کے ساتھ ان جذبات، احساسات اور عزائم کا بھی کھل کر ذکر کرتا ہے جو اس وقت ان کے سینوں میں موجزن ہیں اور جو تحریک کے موجودہ اور آنے والے مرحلوں کو سمجھنے اور ان کو صحیح رُخ پر آگے بڑھانے کے لیے سامنے رکھنا ضروری ہیں۔
وہ کہتی ہے کہ مقامی پولیس افسروں نے اسے گوریوان کے قریب اس کے مکان پر اسے زد و کوب کیا جب وہ اس کے سب سے چھوٹے بیٹے کی تلاش میں جو کہ ایک جاناپہچانا احتجاج کرنے والا ہے، آئے تھے۔ اس کی سیدھی ٹانگ سوجی ہوئی ہے اور ٹخنے سے گھٹنے تک زخمی ہے۔ اس کی دوسری ٹانگ پر ۱۳ٹانکے لگے ہوئے ہیں۔ انھوں نے مجھے مارا اور یہ بھی نہ دیکھا کہ میں ایک بیمار اور بوڑھی عورت ہوں۔ وہ گھٹی گھٹی آواز میں کہتی ہے کہ ان میں سے ایک نے مجھے فرش پر لٹا دیا اور میرے سینے پر چڑھ بیٹھا۔ اس کا پوتا محمدآصف بتاتا ہے کہ پولیس والوں نے قیمہ بنانے والے لکڑی کے ڈنڈے سے جو قریب ہی پڑا تھا، اسے مارا۔ انھوں نے گھر میں موجود تمام عورتوں کو مارا۔ ایک دوسرا ۱۵سالہ پوتا بتاتا ہے کہ انھوں نے میری ۱۲سالہ بہن کو برہنہ کر دیا۔ میں خواہش ہی کرسکتا ہوں کہ کاش! میں گھر میں نہ ہوتا۔ تین راتوں سے میں سو نہیں پایا۔ میری عریاں بہن کا تصور مجھے پریشان کرتا رہتا ہے، یہ مجھ کو سونے نہیں دیتا۔ پچھلے تین دن سے میں نے صرف یہ سوچا ہے کہ ان پولیس والوں کو جنھوں نے میری بہن کو عریاں کیا، قتل کردوں۔
اس طرح کے جانے پہچانے احتجاج کرنے والوں کو پولیس جب گرفتار کرتی ہے تو بغاوت اُٹھتی نظر آتی ہے۔ عمر جیسے سیکڑوں نوجوان احتجاج میں شریک ہوجاتے ہیں۔
ہم یہ حقائق دل سخت کر کے اور بڑی شرمساری کے جذبات کے ساتھ شائع کر رہے ہیں لیکن یہ دنیا کو پہلی مرتبہ معلوم ہو رہا ہے کہ کشمیری مسلمان ۸۵سال سے کس عذاب سے گزر رہے ہیں۔ اُفق پر روشنی کی لکیر وہ بے خوفی اور حالات کے مقابلے کا نیا عزم ہے جو اَب نوجوانوں کے سینے میں موجزن اور آنکھوں سے عیاں ہے۔ نامہ نگار لکھتا ہے:
ہسپتال سے باہر میں زبیر سے ملا جو کہ فری میڈیکل کیمپ کا ایک رضاکار تھا۔ اس دفعہ کے احتجاج میں پہلے سے فرق کے بارے میں گفتگو کے دوران وہ بے خیالی میں چھروں والی گن سے بنے ہوئے سوراخوں کو کھجانے کے لیے اپنی نیلی ٹی شرٹ اُٹھاتا ہے جو بھارتی فورسز احتجاج کرنے والوں کو روکنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ اس دفعہ لوگوں کے کوئی بھی مطالبات نہیں ہیں، کوئی بھی نہیں۔ وہ قانون میں کوئی بہتری نہیں چاہتے، نہ کسی مقدمے کی تفتیش چاہتے ہیں، کچھ بھی نہیں۔ یہ بُرہان کی موت کے غم کا اظہار تھا یا اس کی زندگی کی تقریب تھی،یا اس سے بھی زیادہ تھا۔ وہ کہتا ہے کہ ’’یہ وقت ہے کہ ہم نے لفظ آزادی کو ایک بار پھر دُہرایا‘‘۔ ۱؎
بھارتی اور مغربی میڈیا نے کشمیر کے حالات کے باب میں مجرمانہ بلیک آئوٹ کی روش اختیار کر رکھی تھی۔ غالباً یہ پہلی مرتبہ ہے کہ چند بھارتی اخبارات اور تھوڑے بہت مغربی میڈیا پر کچھ چیزیں آنا شروع ہوئی ہیں۔ کشمیر کے اندر ظلم و استبداد پر خاموشی اور سپردگی (surrender) کے مقابلے میں مزاحمت اور بے خوفی کے ساتھ جوابی جدوجہد کا عزم نمایاں ہے اور اس میں نوجوانوں کا کردار سب سے اہم اور نمایاں ہے جو اس وقت آبادی کا ۶۰ فی صد ہیں۔ ایک طرف بھارتی حکمرانی اور بھارت نواز مقامی حکومتوں اور عناصر سے بے زاری اور نفرت اور دوسری طرف قوت کے خوف کی جگہ بے خوفی اور حالات سے ٹکر لینے کا عزم جسے جدید سیاسی اصطلاح میں انتفاضہ (popular uprising) اور بندوق کے مقابلے میں پتھر (Stone vs Gun) سے جواب کے عنوان سے بیان کیا جا رہا ہے۔ یہ وہ مرحلہ ہے جس میں تحریکِ آزادی اب داخل ہوچکی ہے اور اس جوہری تبدیلی کی روشنی میں حالات کے ازسرِنو جائزہ لینے اور نئے حالات کے مطابق کشمیر میں، پاکستان میں، بھارت میں، عالمِ اسلام میں، اور عالمی محاذوں پر نئی پالیسی اور اقدامات کی فکر، وقت کی سب سے بڑی ضرورت بن گئی ہے۔
آگے بڑھنے سے پہلے ہم ضروری سمجھتے ہیں زمینی صورتِ حال میں جو تبدیلی آئی ہے اور اس کا جو تھوڑا بہت ادراک اب تمام ہی حلقوں میں ماسواے بھارت کی مودی سرکار اور پاکستان کے کچھ لبرل دانش وروں، اینکر پرسنز اور سیمفا جیسے اداروں سے وابستہ صحافیوں کے ہو رہا ہے، اس پر ایک نظر ڈال لی جائے۔ ہم نمونے کے طور پر چند مثالیں کر رہے ہیں جو دیگ کے چند چاولوں کے مانند حالات کو سمجھنے میں مددگار ہوسکتے ہیں۔
کلدیپ نائر بھارت کا ایک نام وَر صحافی ہے، سفارت کی ذمہ داریاں بھی ادا کرچکا ہے۔ بھارت کے مفادات کی حفاظت میں کسی سے پیچھے نہیں لیکن بھارتی حکومت کی کشمیر پالیسی پر دل گرفتہ ہے اور بھارت کے مفاد میں اسے غلط سمجھتا ہے اور فوری تبدیلی کا خواہش مند ہے۔ اس کے چند حالیہ مضامین میں اس فکرمندی کو صاف دیکھا جاسکتاہے۔ ۹؍اگست ۲۰۱۵ء کے Syndicated Article میں جو پاکستان ٹوڈے میں بھی شائع ہوا ہے، وہ بڑے دُکھ کے ساتھ اعتراف کرتا ہے کہ:
پانچ سال سے کم عرصے میں کشمیر اتنا زیادہ بدل چکا ہے کہ پہچانا نہیں جاتا۔ گذشتہ مرتبہ جب میں سری نگر آیا تھا تو وادی کا بھارت دشمن ہونا نظر آتا ہے۔ اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ وہ پاکستان کے حمایتی ہوگئے ہیں، اگرچہ اندرونِ سری نگر کچھ سبز پرچم نظر آتے ہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ علیحدگی جو پہلے بھی نظر آتی تھی، وہ اب غصے میں بدل گئی ہے۔
کشمیریوں کا احتجاج جو کم یا زیادہ پُرامن ہے، اپنے انداز اور آہنگ میں اسلامی ہے۔ ایسا نظر آتا ہے کہ یہ اظہار کا ایک ذریعہ ہے، نہ کہ اصل بات۔ اصل بات یہ ہے کہ کشمیری اپنا ملک چاہتے ہیں۔ بھارت میں بہت سے لوگ یہ شبہہ کرتے ہیں کہ ایک خودمختار کشمیر صرف ایک واہمہ ہے۔ کشمیریوں کا اصل ارادہ پاکستان میں شامل ہونے کا ہے مگر میں اس سے اتفاق نہیں کرتا۔ آزادی کا تصور ایک خواب کی طرح ہے اور اس نے کشمیریوں کو اپنے ساتھ بہا لیا ہے، اس لیے کشمیریوں کی اصل خواہش کے بارے میں کچھ شبہہ نہیں ہونا چاہیے۔ اس لیے جب میں نے اپنی تقریر میں کہا کہ خودمختار کشمیر کا مطالبہ اگر ماناگیا تو بھارت میں بھی مسلمانوں پر بڑا کڑا وقت آئے گا تو میں ان کے غصے سے بھرے چہرے دیکھ سکتا تھا۔ ہندو یہ دلیل دیتے ہیں کہ اگر کشمیری مسلمان ۷۰سال تک بھارت کے ساتھ رہنے کے باوجود آزادی چاہتے ہیں تو ۱۶کروڑ مسلمانوں کی وفاداری کی کیا ضمانت ہے؟
اس کے بعد کلدیپ نائر نے ذاتی اور انسانی سطح پر مسلمانوں اور ہندوئوں میں بُعد کا بھی ذکر بڑے چشم کشا انداز میں کیا ہے:
جس بات نے مجھے سب سے زیادہ مایوس کیا، وہ کشمیر میں درمیانی صورتِ حال (grey area) کا غائب ہوجانا ہے جو کچھ برس پہلے نظر آتی تھی۔ موقف اتنے سخت ہوگئے ہیں کہ مسلمانوں اور ہندوئوں میں معاشرتی روابط ختم ہوگئے ہیں۔ میں ذاتی مثال افسوس کے ساتھ دے رہا ہوں۔
پھر وہ لکھتا ہے: سیف ملک اور سیّدشاہ جیسے قائدین جن سے اس کے برسوں سے ذاتی اور گہرے تعلقات تھے، ان تک نے اس سے ملنے کی ضرورت محسوس نہ کی جس کا اسے بے پناہ افسوس ہے اور جو دونوں کمیونٹیز کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج کی علامت ہے جو بالآخرعلیحدگی پر منتج ہوئی ہے۔ کلدیپ نائر اس سماجی تبدیلی پر بھی اپنی شدید پریشانی کا اظہار کرتا ہے۔
کلدیپ نائر مئی ۲۰۱۶ء میں کشمیر پھر جاتا ہے۔ مجاہد بُرہانی کی شہادت سے صرف ایک دو مہینے پہلے، اپنے ۱۳مئی ۲۰۱۶ء کے مضمون میں جو بھارتی اخبار The Daily........ میں شائع ہوا ہے وہ ایک طرف عسکریت میں کمی کا اعتراف کرتا ہے تو دوسری طرف پوری آبادی کے اضطراب، بے چینی اور بے زاری کے احساس کو شدت سے محسوس کرتا ہے۔ بھارت سے آزادی کو تو وہ ناقابلِ تصور سمجھتا ہے۔ البتہ بھارت کے اندر خودمختاری اور مسئلے کے عسکری کے مقابلے میں سیاسی حل کے لیے حکومت کو پوری قوت سے متوجہ کرتا ہے۔ ریاست میں جو لاوا پک رہا ہے، اس کا اسے پورا احساس ہے اور ۸جولائی کے بعد جو دیکھنا نہیں چاہتے تھے، وہ بھی دیکھنے پر مجبور ہوگئے ہیں:
کشمیر اس مفہوم میں معمول کے مطابق ہے کہ وہاں پتھر پھینکنے کے واقعات نہیں ہورہے۔ عسکریت بھی آخری دموں پر ہے لیکن وادی میں اشتعال پایا جاتا ہے۔ اگر ایک دفعہ بھی آپ وہاں جائیں تو آپ اس کا ذائقہ چکھ لیں گے۔ اس کی کوئی ایک وجہ بتانا مشکل ہے۔ اس کے بہت سے اسباب ہیں۔ سب سے زیادہ پورے بھارت پر چھایا ہوا یہ احساس ہے کہ یہ بھارت کی طرف سے سب کچھ ہے ۔اگر کشمیر کو صرف تین اُمور میں اختیار دے دیا جائے، یعنی: دفاع، اُمورخارجہ اور مواصلات۔ شکایت صحیح لگتی ہے اس لیے کہ ایک ریاست خودمختاری کرسکتی ہے جتنی وہ چاہے، لیکن وفاق دیگر اختیارات غصب نہیں کرسکتا۔ نئی دہلی نے ٹھیک یہی بات کی ہے۔ یہی بات وزیراعظم جواہر لال نہرو اور شیخ عبداللہ کے راستے میں آئی جو بڑے گہرے دوست تھے۔ شیخ عبداللہ نے ۱۲سال قید میں گزارے۔ نہرو کو اپنی غلطی کا احساس ہوگیا۔ ایسا ہی شدید مسئلے میں آج بھی نئی دہلی اور کشمیرگرفتار ہیں۔ ایک وزیراعلیٰ مرکز سے اچھے تعلقات کس طرح رکھے اور وادی کو ایک آزاد تشخص بھی دے؟ ریاست کی سیاسی جماعتوں کے لیے یہ ایک مستقل مسئلہ ہے۔
وہ جو کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ سمجھتے ہیں دستور کی دفعہ ۳۷۰ کو جو کشمیر کو خصوصی حیثیت دیتی ہے، ختم کرنا چاہتے ہیں۔ وہ ایک طرف دستور سے انحراف کر رہے ہیں اور دوسری طرف کشمیریوں کے اعتماد کو مجروح کر رہے ہیں۔ یہ سب سے بڑی وجہ ہے کہ بھارت سے الحاق پر سنجیدہ سوالات اُٹھ رہے ہیں ۔ ماضی میں خودمختار کشمیر کا نعرہ جو بہت کم لوگوں کی توجہ حاصل کرتا تھا، اب بہت زیادہ لوگوں کی توجہ حاصل کرتا ہے اور یہ تعجب کی بات نہیں کہ ہر روز ان کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔
اس کے بعد کلدیپ نائر اُردو کے بارے میں مرکزی حکومت کے رویے اور کشمیری عوام کے اضطراب اور بے زاری کا ذکر کرتا ہے جو کلچرل سطح پر کشمیر اور بھارت کو دُور لے جانے کا ذریعہ بن رہا ہے۔ اس لیے کہ اس کے الفاظ میں:
کشمیری شدت سے محسوس کرتے ہیں اور مرکزی حکومت اُردو کے ساتھ سوتیلا سلوک کررہی ہے، وہ مطالبہ کرتا ہے کہ اس صورتِ حال کی فوراً تلافی کی جائے۔
اس کے بعد وہ اس دل چسپ سوال سے تعرض کرتا ہے کہ عوام خود عسکریت کے خلاف کیوں نہیں اُٹھتے؟ اس کا جواب سننے کے لائق ہے:
مگر وہ جو خود عسکریت پسندوں کو باہر نکالنے کے لیے بندوقیں اور دوسرا اسلحہ نہیں اُٹھا رہے، اس کی پہلی وجہ یہ ہے کہ وہ ان سے خوف زدہ ہیں اور دوسری وجہ ایک عام احساس ہے کہ عسکریت پسند ان کو ایک شناخت دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس لیے وادی کے اندر اگر عسکریت کو مزاحمت نہیں مل رہی تو اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ علیحدگی کا ایک حصہ ہے۔
کلدیپ نائر متنبہ کرتا ہے کہ مسئلے کا سیاسی حل نکالنا ازبس ضروری ہے اور اس کی نگاہ میں ۱۹۵۳ء کے معاہدے کی بنیاد پر آج بھی کشمیریوں کو ساتھ رکھا جاسکتاہے بشرطیکہ مرکزی حکومت دیانت داری کے ساتھ، کشمیر میں عوام کو اعتماد میں لے کر، سیاسی حقوق کی بحالی، معاشی امداد اور مواقع کی فراہمی ، بھارت کی منڈیوں کو کشمیر کے لیے کھولنے، کشمیر کی شناخت کے احترام، فوری طور پر تین اُمور___ یعنی اُمورِ خارجہ، مالیات اور کمیونی کیشنز کے سوا تمام اختیارات ریاست کو دے۔ ان تمام قوانین کو منسوخ کردے جو ان اُمور کے علاوہ مرکز نے بنا کر ریاست میں نافذ کیے ہیں اور فوج اور فوجی کارروائیوں کو جو تحفظ اور اختیارات The Armed Forces میں حاصل ہے اور جس کے سہارے ۲۵سال سے مرکزی حکومت قوت کا استعمال کر رہی ہے ، جو اسے ختم کیا جائے۔ اگر یہ نہ کیا گیا تو حالات مزید بگڑنے کا خطرہ ہے۔
کلدیپ نائر نے اصل زمینی حالات کو ٹھیک سے بھانپ لیا ہے مگر جو حل وہ تجویز کر رہا ہے وہ نہ ۱۹۵۳ء میں کسی کام آیا، بلکہ شیخ عبداللہ کو ۱۲سال جیل کی ہوا کھانا پڑی اور نہ آج یہ کوئی حقیقی حل ہے بلکہ نہ ۱۹۵۳ء میں اس سے کشمیری عوام کو مطمئن کیا گیا اور نہ آج کیا جاسکتا ہے۔ اصل مسئلہ حق خودارادیت (right of self-determination) کا ہے جس کی اصل یہ ہے کہ ڈوگرہ راج اور بھارتی راج دونوں سامراجی اقتدار (occupation) کی حیثیت رکھتے ہیں۔ بھارت نے دھوکے، چالاکی، عسکری یلغار اور قوت کے بے محابا استعمال سے استبداد اور غلبے کا ہرحربہ استعمال کرتے ہوئے ۱۹۴۷ء سے ریاست جموں و کشمیر کے ۶۰ فی صد رقبے پر قبضہ کیا ہوا ہے اور اس قبضے سے آزادی اور نجات اصل مسئلہ ہے۔
دوسرا پہلو بھی کچھ کم اہم نہیں اور اس کا تعلق ریاست اور اس کی عظیم اکثریت کی نظریاتی، دینی، اخلاقی، تہذیبی اور سماجی شناخت کا ہے اور اس کا بھی تقاضا ہے کہ ریاست کے لوگوں کو مکمل آزادی ہو، تاکہ وہ اپنی مرضی سے اپنا نظامِ زندگی وضع کریں اور سیاسی غلامی کی وجہ سے جو دینی، نظریاتی، اخلاقی، تہذیبی اور لسانی بگاڑ پیدا ہو رہا ہے، اس سے بھی نجات پائیں اور اپنی اصل شناخت کے مطابق اپنی زندگی اور اپنا مستقبل تعمیر کرسکیں۔ صوبائی خودمختاری، ۱۹۵۳ء کا معاہدہ اور دستورہند کی دفعہ ۳۷۰ کو بھی ان دونوں بنیادی ایشوز کا جواب نہیں اور ۶۹برسوں پر پھیلی ہوئی ناکام اور خون آشام تاریخ کو جزوی اور نمایشی معمولی تبدیلیوں کے ذریعے کشمیری عوام کے لیے قابلِ قبول نہیں بنایا جاسکتا ۔۸جولائی۲۰۱۶ء اس سیاسی حکمت عملی کے خلاف اعلانِ جہاد ہے اور آزادی اور اسلامی شناخت کی مکمل بحالی کے راستے کو روکنے کی جو کوشش بھی ہوگی خواہ وہ دولت اور قوت کے کیسے ہی بے محابا استعمال سے عبارت ہو ، تحریکِ آزادی کا راستہ نہیں روک سکتی۔ اور اگر سیاسی، جمہوری اور عوامی راستوں کو بند کیا جائے گا تو پھر فطرت کا تقاضا اور تاریخ کا تجربہ ہے کہ لوہے کو کاٹنے کے لیے لوہا میدان میں آکر رہتا ہے۔
یہی وہ چیز ہے جس کی طرف شیخ عبداللہ کے صاحب زادے فاروق عبداللہ نے جنوری ۲۰۱۶ء میں ایک مضمون لکھ کر توجہ دلائی ہے وہ ایک مدت تک جموں و کشمیر کے وزیراعظم رہ چکے ہیں اور انھیں ۱۹۹۰ء میں اس وقت کان پکڑ کر نکال دیا گیا تھا جب ۱۹۸۷ء کے دھاندلی کے انتخابات کے نتیجے میں ریاست گیر عوامی تحریک نے سیلابی کیفیت اختیار کرلی تھی اور جمہوری راستوں کو بند کرنے کے نتیجے میں عسکری تحریک اُبھری اور ایوانِ اقتدار کو متزلزل کرنے کا ذریعہ بنی۔ انھی فاروق عبداللہ صاحب نے کشمیر کے اخبارات میں اُردو میں ایک مضمون لکھا ہے جسے پڑھ کر کلدیپ نائر صاحب نے سرپکڑ لیا ہے اور خون کے آنسو بہا رہے ہیں۔ کلدیپ نائر اپنے ایک مضمون ’پاکستان، ہندستان اور کشمیر‘ میں جو پاکستان ٹوڈے میں ۷فروری ۲۰۱۶ء کی اشاعت میں شائع ہوا ہے، لکھتے ہیں:
سری نگر کے ایک معروف اُردو رسالے میں ایک مضمون میں فاروق عبداللہ نے کہا ہے کہ اس کے مرحوم باپ شیخ عبداللہ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ کشمیر کے نوجوان اپنے حقوق کے لیے بندوق اُٹھا رہے ہیں۔
کلدیپ نائر صاحب نے سارا مضمون فاروق عبداللہ کو جھاڑ پلانے کے لیے وقف کر دیا ہے، اسے شیخ عبداللہ سے بے وفائی قرار دیا ہے۔ کشمیر کے ’صوفی اسلام‘ کے تصور سے بغاوت کہا ہے۔ شیخ عبداللہ کے سیکولرزم اور عالم گیریت کی شان میں قصیدے پڑھے ہیں اور اسے مشورہ دیا ہے کہ اسے عسکریت کے حق میں ایسی بات نہیں کہنی چاہیے تھی بلکہ دستورِہند کی دفعہ۳۷۰ کے اندر خودمختاری پر سارا زور صرف کرنا چاہیے تھا۔ اس کا کہنا ہے:
وہ لوگ جو ہروقت یہ کہہ رہے ہیں کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے، اس غلط فہمی سے دوچار ہیں کہ ریاست کشمیر کو دستور کی دفعہ ۳۷۰ کے تحت خودمختاری حاصل ہے جس کے تحت صرف تین اُمور: دفاع، خارجہ اور مواصلات، جب کہ دستور کی دوسری دفعات جو حکومت کو اختیار دیتی ہیں کہ ریاست جموں و کشمیر پر ان کا اطلاق ریاست کی دستور ساز اسمبلی کی مرضی سے ہوگا۔
فاروق عبداللہ نے قدوقامت کم کرنے کے لیے اسے کشمیر تک محدود کرنے کی کوشش کی۔ وہ نئی دہلی کو ریاست میں ایسے حالات پیدا کرنے پر ڈانٹ ڈپٹ کرتا رہا کہ کشمیری اپنے حق کے لیے بندوق اُٹھانے پر مجبور ہوگئے اس لیے کہ نئی دہلی اپنا وعدہ پورا کرنے میں ناکام رہی کہ مرکز کے پاس صرف تین اُمور ہوں گے: دفاع، اُمورِخارجہ اور مواصلات، جب کہ باقی ریاست کے اختیار میں ہوں گے۔
کلدیپ نائر اور دوسرے بھارتی دانش وروں کا سیاسی حل کا تصور کشمیری عوام کے لیے ناقابلِ قبول ہے اور آج بے وقت کی راگنی ہے۔ لیکن ہمارے لیے اصل اہم پہلو اس بحث کا یہ ہے کہ کلدیپ نائر جیسے لوگ بھی کھل کر یہ بات کہہ رہے ہیں کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ نہیں ہے۔ بھارتی دستور کے مطابق، جس پر کوئی عمل نہیں کر رہا اور جسے ۱۹۵۳ء ہی سے عملاً معطل کیا ہوا ہے، کشمیر پر بھارت کی حاکمیت (sovereignty)مکمل اور غیرمنقسم (absolute) نہیںبلکہ مشروط (conditional) ہے اور باقی تمام صوبوں سے مختلف ہے۔ جس کے صاف معنی یہ ہیں کہ اگر بھارت نے ان شرائط کو توڑ دیا ہے تو وہ معاہدہ بھی پارہ پارہ ہوچکا ہے جس کے سہارے بھارت نے کشمیر پر قبضہ کیا ہوا ہے اور اس کے ساتھ یہ بات بھی نوٹ کیے جانے کے لائق ہے کہ فاروق عبداللہ صاحب بھی آج دبے لفظوں میں وہی بات کہنے کی کوشش کررہے ہیں جو حُریت کانفرنس اور حزب المجاہدین کہہ رہی ہیں یعنی___ بھارت کا قبضہ غیرقانونی ہے اور اس کے خلاف عوامی جدوجہد نہ صرف عوام کا حق بلکہ غلامی سے نجات کا واحد ذریعہ ہے اور مزاحمت کی اس تحریک کو اگر کچلنے کے لیے ریاستی قوت کا استعمال کیا جائے تو اس قوت کا مقابلہ کرنے کے لیے عوامی عسکریت بھی تحریکِ آزادی (Liberation War) کا حق ہے۔
فاروق عبداللہ کے صاحبزادے عمر عبداللہ نے جو خود بھی وزیراعظم رہ چکے ہیں، مجاہد بُرہان مظفر وانی کی شہادت پر جو الفاظ کہے ہیں وہ بھی نہ صرف تحریکِ مزاحمت اور تحریکِ آزادی کی صداقت اور افادیت کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے بلکہ بھارت کی حکومتی دہشت گردی کی پالیسی کی ناکامی کا اعتراف بھی ہے۔
میرے الفاظ سن لو، بُرہان مظفر وانی کی قبر کے اندر سے جہادی بھرتی کرنے کی صلاحیت، اس کی سوشل میڈیا کے ذریعے بھرتی کرنے کی صلاحیت سے کہیں زیادہ ہوگی۔
کسے توقع تھی کہ شیخ عبداللہ کے صاحب زادے اور ان کے پوتے ایک دن یہ بات کہیں گے ع
ہاے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا!
بھارت کی معروف دانش ور ارون دھتی راے تو ایک مدت سے یہ بات کہہ رہی ہے کہ کشمیر میں بھارت کی حیثیت ایک قابض حکمران (occupying forces) کی ہے اور جو جدوجہد ریاست میں ہورہی ہے وہ ایک قانونی اور جائز (legitimate) تحریکِ آزادی ہے اور جو اس کی تائید نہ کرے، وہ اخلاقی طور پر اپنی ذمہ داری ادا نہیں کر رہا ہے۔ ۲۰۱۱ء میں ارون دھتی راے کی ایک کتاب Kashmir: A Case for Freedom شائع ہوچکی ہے جس میں اس نے ریاست جموں و کشمیر پر بھارت کے قبضے کو غیرقانونی اور غیراخلاقی قرار دیا ہے ۔ بُرہان وانی کی شہادت کے بعد اس کا مضمون بھارت کے رسالے Outlook کی ۲۳جولائی ۲۰۱۶ء کی اشاعت میں شائع ہوا ہے۔ ہم اس کے چند اقتباسات نذرِ قارئین کرنا چاہتے ہیں:
کشمیر کے عوام نے ایک دفعہ پھر واضح کر دیا ہے سال بہ سال، عشرہ بہ عشرہ، قبربہ قبر واضح کر دیا ہے کہ جو وہ چاہتے ہیں وہ آزادی ہے (عوام کا مطلب ان لوگوں سے نہیں ہے جو فوجی سنگینوں کے سایے میں کیے گئے انتخابات جیت گئے ہیں، اس کے معنی وہ لیڈر نہیں ہیں جنھیں اپنے گھروں میں چھپنا ہوتا ہے اور اس طرح کے حالات میں باہر آنے کی جرأت نہیں کرتے)۔
جب ہم مذمت کرتے ہیں، جیساکہ ہمیں کرنا چاہیے، سیکورٹی فورسز کی غیرمسلح احتجاج کرنے والوں پر گولی چلانے کی، ایمبولینسوں اور ہسپتالوں پر پولیس کے حملوں کی، اور چھرے والی بندوق سے نوعمروں کو نابینا بنانے کی، تو ہمیں دماغ میں یہ بات رکھنی چاہیے کہ حقیقی بحث کشمیر کی وادی میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہی کی ہے۔
یہ خلاف ورزی جو بہت قبیح ہے، یہ ناگزیر اور لازمی نتیجہ ہے: عوام کی جدوجہدِ آزادی کو فوج کے ذریعے دبانے کا۔ کشمیری، قانون کی بالادستی قائم کرنے کے لیے نہیں لڑ رہے ہیں، اور نہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو ختم کرنے کے لیے لڑرہے ہیں، وہ آزادی کے لیے لڑرہے ہیں۔ اس کے لیے وہ گولیوں کا مقابلہ پتھروں سے کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اس کے لیے وہ بڑی تعداد میں مرنے کے لیے تیار ہیں اور کرفیو وغیرہ کی کھلی خلاف ورزی کرنے کے لیے بھی تیار ہیں جو خواہ انھیں موت کی طرف لے جائے، یا دنیا کے سب سے زیادہ فوجی علاقے میں ہرطرح کی قیدوبند کے لیے بھی تیار ہیں۔ اس کے لیے وہ ہتھیار اُٹھانے کے لیے تیار ہیں۔ موت تک سے لڑنے کے لیے بھی تیار ہیں یہ اچھی طرح جانتے ہوئے کہ نوجوان ہی مریں گے۔ انھوں نے یہ بات نہایت باقاعدگی سے ثابت کی ہے۔ اس کا وہ مستقل مزاجی سے مظاہرہ کررہے ہیں۔
یہ پیش گوئی کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے کہ بھارتی حکومت کو مستقل امن عامہ کے مسئلے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جو ایک چھوٹا سا گروہ پیدا کر رہا ہے۔ جو کچھ ہو رہا ہے وہ ایک خطرناک بڑھتا ہوا بحران ہے جس پر قابو نہیں پایا جاسکتا۔ ایک ایسے علاقے میں جو دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان ہے۔ صرف اس وجہ سے ہی اسے پوری دنیا کا مسئلہ ہونا چاہیے۔
اگر ہم بحران کو واقعی حل کرنا چاہتے ہیں، اگر ہم قتل کرنے اور مارنے کے نہ ختم ہونے والے چکر کو واقعی ختم کرنا چاہتے ہیں، اگر ہم خون بہنے کو روکنا چاہتے ہیں، تو پہلا قدم یہ ہوگا کہ ہم دیانت داری کی طرف قدم بڑھائیں۔ہمیں ایک دیانت دارانہ گفت و شنید کرنا ہوگی۔ ہمارا نقطۂ نظر کتنا ہی مختلف کیوں نہ ہو، ایک دوسرے کے مخالف ہی کیوں نہ ہوں،اس گفتگو کا موضوع آزادی کو ہونا ہے۔ کشمیریوں کے لیے آزادی کے لیے ٹھیک ٹھیک مسئلہ کیا ہے؟ اس پر بحث کیوں نہیں ہوسکتی؟ نقشے کب سے اتنے مقدس ہوگئے ہیں؟ کیا کچھ لوگوں کے حق خودارادیت کا کسی بھی قیمت پر انکار کیا جاسکتا ہے؟ کیا بھارت کے عوام اس کے لیے تیار ہیں کہ ہزاروں آدمیوں کے خون کا بوجھ اپنے ضمیر پرلیں؟کس اخلاقی حیثیت سے ہم بات کرتے ہیں جو ہمارے ساتھ ہورہی ہیں؟ کیا بھارت میں کشمیر پر اتفاق راے حقیقی ہے یا خودساختہ ہے؟ کیا یہ وزن رکھتا ہے ؟ اصل تو یہ ہے کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ اصل بات یہ ہے کہ کشمیری کیا چاہتے ہیں اور کس طرح ایک پُرامن، جمہوری اور معلوم نظریے تک پہنچا جائے۔
یہ آوازیں بدلتے ہوئے حالات کی طرف اشارہ کر رہی ہیں اور اس اُمید کو قوی تر کر رہی ہیں کہ استبداد کے نظام کے خلاف جدوجہد میں اعوان و انصار ایسے مقامات سے بھی مل سکتے ہیں جہاں سے گمان بھی نہیں تھا۔ حالات کو بدلنا اور بدلتے ہوئے حالات سے فائدہ اُٹھانا ہی صحیح سیاسی حکمت عملی ہوسکتے ہیں۔
اس سلسلے میں ہم بھارت کے مؤقر جریدے اکانومک اینڈ پولیٹیکل ویکلی کے ادارتی نوٹ (۱۶ جون ۲۰۱۶ئ) کو بھی بڑی اہمیت دیتے ہیں جس کے بغور تجزیے کی ضرورت ہے۔ دو باتیں ایسی ہیں جن پر مذکورہ جریدے نے غور کرنے کی خصوصی دعوت دی ہے: ایک یہ کہ تحریکِ آزادیِ کشمیر کے مقامی (indigenous) ہونے کا اعتراف اور پورے معاملے کو پاکستان کی ’ریشہ دوانی‘ قرار دینے کی بھارتی پالیسی پر تحفظات کا اظہار۔ یہ چیز دوسرے ادارتی نوٹس اور مضامین میں بھی اب آرہی ہے۔ دوسری چیز یہ کہ ’آزادی‘ کے مطالبے کو سنجیدگی سے لینا ہوگا۔ سیاسی حل اس ایشو کا سامنا کیے بغیر ممکن نہیں اور لازماً فیصلہ وہی غالب آسکے گا جسے کشمیری عوام کی تائید حاصل ہوگی۔ جمہوری حل (Democratic Solution) کے معنی محض سیاسی اصلاحات نہیں بلکہ پورے مستقبل کے نظام کے بارے میں کشمیری عوام کی راے کو معلوم کرنا اس کے لیے ضروری ہوگی۔ یہ غالباً پہلی مرتبہ ہے کہ مؤقر قومی جریدے میں اس حوالے سے ریفرنڈم کا لفظ بھی استعمال کیا گیا ہے۔ یہ بہت ہی اہم آغاز ہوسکتا ہے۔
جموں و کشمیر میں مسلح مزاحمت ۹۰-۱۹۸۹ء میں شروع ہوئی جب پُرامن سیاسی حل کی ۴۰سالہ کوششیں ناکام ہوگئیں۔ ۸-۲۰۰۷ء تک عسکریت ذیلی سطح پر آئی تھی اور عوامی سطح پر چھا گئی تھی۔ مسلح عسکریت کا انکار کا مطلب یہ لیا گیا کہ یہ تحریک کی شکست ہے نہ کہ عوامی احتجاج کی ایک شکل جسے احتجاجی دہشت گردی کا نام دیا گیا۔ اس کے بعد آنے والے انتخابات میں ووٹوں سے آنے کے مطلب کی یہ تعبیر کی گئی ہے کہ لوگوں نے بھارت کی تائید کردی ہے اور آزادی یا تحریک ِ آزادی کو marginalise کردیا گیا ہے۔معاشی بہتری کا مطلب یہ لیا گیا کہ جو کچھ بھی ظلم کیا گیا ہے یہ اسی کی تلافی کردے گا۔ ماضی قریب میں غیرریاستی عوام کو زمین کی منتقلی کا مسئلہ ظاہر کرتا ہے کہ حقیقی مسائل کو کتنا پیش نظر رکھا گیا ہے۔
ہم نے ۹۲-۱۹۸۹ء ، ۱۰-۲۰۰۸ء اور ۲۰۱۳ء میں خونی کریک ڈائون کا مشاہدہ کیا ہے جب بڑی تعداد میں لوگ غیرمسلح باہر آئے اور ان کی ننگی طاقت سے مقابلہ کیا گیا جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر اموات واقع ہوئیں، مگر اس دفعہ واضح طور پر کچھ مختلف ہے۔ ۲۰۰۸ء میں ایک قابلِ لحاظ غیرمسلح احتجاج کی طرف بندوقوں سے منتقلی تھی۔ آج یہ چیزیں واضح طور پر مسلح عسکریت کی طرف پیچھے پلٹ آئی ہے۔ بغاوت کا مقابلہ کرنے کے لیے خوف اہمیت رکھتا ہے۔ اگر عسکریت پسندوں کے جنازے لوگوں کے بڑے ہجوم کے لیے کشش رکھیں اور وہ وہاں بڑی تعداد میں جمع ہوں جہاں مقابلہ ہو رہا ہو، تو یہ عوام کی طرف سے اس بات کی علامت ہے کہ وہ بے خوف ہوگئے ہیں۔ یونائیٹڈ پراگرس الائنس کی حکومت ۱۰-۲۰۰۸ء میں تحریک کو روکنے میں ناکام ہوگئی، اس لیے کہ اس کے پاس پیش کرنے کے لیے کچھ بھی نہ تھا۔ خودمختاری کی پیش کش اب زیادہ متعلق نہ تھی کیونکہ نئی دہلی نے اس کی بنیاد ختم کرنے کے لیے ۶۹سال تک کام کیا تھا۔ جموں و کشمیر میں ریاست کی شہریت کا مسئلہ، شمال مشرق اور وسطی ہند کے نزدیک کے پہاڑی علاقوں کی طرح تھا، اسے زمین اور حکومتی ملازمتوں سے ……… جموں و کشمیر کے حالیہ وزیرخزانہ نے کہا کہ جموں و کشمیر کے لیے مرکز کی پالیسی طاقت کے اظہار پر مبنی ہے۔ اس لیے جب ہم کو بتایا جاتا ہے کہ تاریخ کو ۱۹۵۳ء سے پہلے کی طرف لوٹایا نہیں جاسکتا تو یہ اس بات کا اظہار ہے کہ حکومت ہند کے پاس دینے کے لیے کچھ نہیں۔
یہ وہ سیاق و سباق ہے جس میں آج کی مسلح مزاحمت ہوئی ہے۔ بُرہان وانی اور اس کے کمانڈر عسکریت کے نئے مرحلے کی نمایندگی کرتے ہیں۔ وجوہات، تحریکات اور ہتھیار اُٹھانے کی تحریک ان حالات کے نتیجے میں ہے جس کا سامنا بھارتی قبضے میں علاقوں میں ہے یہ وہ نسل ہے جو فوجی جارحیت میں پَل کر جوان ہوئی ہے۔ جس نے ۲۰۱۳ء کی غیرمسلح بغاوت کو کچلتے ہوئے دیکھا ہے اور پھر یہ عسکریت کی طرف بتدریج گئی ہے۔ بُرہان وانی جب قتل کیا گیا تو۲۲سال کا تھا۔ وہ حزب المجاہدین میں ۱۶سال کی عمر میں شامل ہوا تھا۔ا س نے سوشل میڈیا میں جس طرح سے تصاویر اور پیغام کو پھیلایا، اس نے اس کو مقبول بنا دیا۔ اس کا ایک آخری بیان امرناتھ کے زائرین سے خطاب پر مبنی تھا۔ جب بارڈر سیکورٹی فورس نے زائرین پر ایک یقینی حملے کے خدشے کا اظہار کیا تھا۔ بُرہان وانی نے ان کو خوش آمدید کہا اور انھیں یقین دہانی کروائی کہ وہ بغیر کسی اندیشے اور خوف کے آئیں۔ اس کی ہلاکت کے بعد جو کریک ڈائون ہوا، اس نے غم زدہ عوام کو مزید مشتعل کر دیا۔ اب تک ۳۶؍افراد ہلاک ہوچکے ہیں، ۱۵۳۸ زخمی ہوچکے ہیں۔ جن میں سے ایک ہزار سے زیادہ چھروں سے زخمی ہوئے ہیں۔ قابلِ اعتبار ثبوت موجود ہیں کہ قانون نافذ کرنے والوں نے ہسپتال اور ایمبولینس پر حملے کیے۔ اس سے پہلے بھی یہ واقعہ ہوچکا تھا اور مہلک ہتھیار استعمال نہ کرنے کی یقین دہانیاں اب سنگین مذاق بن گیا ہے۔ ۱۱ہزار نئے فوجی بھیجنا اور ۶لاکھ جو پہلے سے موجود ہیں، اس کا مطلب ہے کہ کوئی سبق نہیں سیکھا گیا۔
وہ اسکالر جو حکمت عملی کے مسائل پر لکھتے ہیں وہ زور دے کر کہتے ہیں کہ کشمیر کے مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں ہے۔ مقامی لوگ فوجیوں کے سوشل ورک کی تحسین تو کرسکتے ہیں لیکن وہ فوجیوں کو ایک قابض فوج کا حصہ سمجھتے ہیں، اور آزادی کی حمایت کرتے ہیں۔ امن و امان کی صورت قابو میں آسکتی ہے لیکن اگر ہم بھارت سے آزادی کے عوامی مطالبے سے انکار کریں تو یہ صورتِ حال زیادہ دیر تک برقرار نہیں رکھی جاسکتی۔ بندوق کی نوک پر اختیارات کے نفاذ کو لوگوں کو ان کی غلامی پر مرضی سے اُلجھاکر (کنفیوز کرکے) یا لوگوں کا ووٹ دینے کے لیے آنے کو تائید سمجھنے کا مطلب بھارت سے علیحدگی کے جذبے کو نظرانداز کرنے کے مترادف ہے۔ بھارت کمزور وکٹ پر ہے، ہندوئوں کے پھیلائو سے مسلمانوں کے ساتھ ادارتی امتیازی سلوک کی انڈین سیکولرزم کی رفتار تیز کردی ہے۔ پاکستان اور اسلامسٹوں کے پروپیگنڈے کو بُرا بھلا کہنے، اور عسکریوں کو دہشت گرد قرار دینا درست نہیں لگتا کیوں کہ سب کچھ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں ہورہا ہے۔………………
……………
ایک آدمی یہ یقین کرنا پسند کرے گا کہ اسٹیبلشمنٹ کے سمجھ دار عناصر حالات کی سنگینی سے آگہی حاصل کریں گے۔ ایک حل جس سے ہم بچتے رہے ہیں ایک جمہوری حل ہے کہ ہم جموں و کشمیر کے عوام کی خواہشات کا ایک ریفرنڈم کے ذریعے متعین کریں، جس کا وعدہ فوجی تنازعے کو بڑھنے سے روک سکتا ہے…
ہم نے بھارتی دانش وروں اور اخبارات کے خیالات اپنے قارئین اور ملک کے پالیسی ساز اداروں اور افراد کے غوروفکر کے لیے پیش کیے ہیں کہ ان میں مسئلے کے حل کی تلاش کی ایک کوشش دیکھی جاسکتی ہے۔ خود انھیں بنیاد بنا کر افہام و تفہیم کی نئی کوششیں بروے کار لائی جاسکتی ہیں۔ جگہ کی قلت کے باعث ہم دوسری ایسی کوششوں کو پیش کرنے سے قاصر ہیں لیکن ۸جولائی کے واقعہ کے بعد ہمارے علم و مطالعہ میں دو درجن سے زیادہ جریدوں، اخبارات اور معروف اہلِ قلم کی طرف سے کھلے طور پر یا کچھ ملفوف انداز میں جو باتیں اب کہی جارہی ہیں وہ یہ ہیں:
۱- جموں وکشمیر کا مسئلہ حل طلب ہے۔ اسے ایک طے شدہ یا حل شدہ معاملہ قرار دینا صحیح نہیں ہے۔
۲- مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں۔ فوجی حل کی دو ہی صورتیں ہیں یا ریاستی قوت سے تحریکِ آزادی کو کچل دیا جائے جس کے بہت ہی خون آشام نتائج کم از کم ۱۹۹۰ء سے دیکھے جارہے ہیں۔ اس زمانے میں تحریک کو نشیب و فراز سے سابقہ پیش آیا ہے لیکن ایک لاکھ سے زیادہ افراد کی ہلاکت، اس سے زیادہ افراد کے زخمی یا معذور کردیے جانے، ہزاروں کی تعداد میں اغوا، گرفتاریاں، گم شدگیاں، جمہوری آزادیوں پر قدغنیں، عصمت دری کو جنگی حربے کے طور پر استعمال کرنے کے علی الرغم تحریک کو ختم نہیں کیا جاسکا۔ صرف وادیِ کشمیر میں ۶لاکھ سے زیادہ بھارتی فوجی اور معاون operational forces کے استعمال اوران افواج کی کارروائیوں کو ہرقسم کی بازپُرس اور جواب دہی سے روکنے کے باوجود ۲۶سال میں تحریکِ مزاحمت کو نہ صرف ختم نہیں کیا جاسکا بلکہ کیفیت یہ ہے ع
فوجی حل کی دوسری صورت بھارت اور پاکستان کے درمیان فوجی قوت کے استعمال کے ذریعے کشمیر کے مسئلے کا حل ہے جس کی کوششیں بھی تین سے چار بار ہوچکی ہیں۔ اس کے کچھ نہ کچھ نتائج ضرور نکلے ہیں لیکن مسئلہ حل نہیں ہوسکا اور اب دونوں کے ایٹمی طاقت ہونے کے ناتے یہ راستہ اور بھی خطرناک اور ناقابلِ تصور ہوگیا ہے۔ لہٰذا اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ مسئلے کا سیاسی حل نکالا جائے جو جمہوری اور معتبر ہو۔ یہ راستہ آزادانہ استصواب راے کے سوا کوئی راستہ نہیں۔ یہ ایک تاریخی موقع ہوگا، جس کی طرف پیش رفت ہونی چاہیے۔
۳- کشمیر کی تحریکِ آزادی کے کشمیری کیرکٹر (indigenous character مقامی ہونے) کا بھی اب برملا اعتراف کیا جارہا ہے۔ حزب المجاہدین پہلے دن سے خالص کشمیری تنظیم تھی۔ آل پارٹیز حُریت کانفرنس کی بھی یہی حیثیت ہے جو سیاسی محاذ پر سب سے آگے ہے۔ واجپائی، من موہن سنگھ اور پرویز مشرف جو بیچ کا راستہ نکالنے کی کوشش کر رہے تھے، وہ بُری طرح ناکام ہوئی اور ۲۰۰۸ء کے امرناتھ ٹرسٹ کو زمین دینے کے معاملے کے خلاف تحریک سے لے کر ۸جولائی تک کے سانحے تک تحریکِ آزادیِ کشمیر کے عسکری پہلوئوں میں کمی اور عوامی جمہوری حمایت اور شرکت کی وسعت نے زمینی صورتِ حال کو تبدیل کر دیا ہے اور ۸جولائی کے واقعے کے بعد کی صورتِ حال نے تحریک کی اصل قوت اور سیاسی اعتبار سے اس کے ناقابلِ تسخیر ہونے کا لوہا منوا لیا ہے۔ یہ وہ جوہری فرق ہے جو تحریک کے موجودہ مرحلے کو ماضی کے تمام مراحل سے ممیز کررہا ہے۔ اس کا اعتراف بھی پہلی بار اس طرح بھارت میں اور ایک حد تک عالمی میڈیا اور تحقیقی اداروں اور تھنک ٹینکس کی نگارشات میں ہو رہا ہے۔ امریکا کے مؤقر جریدے فارن پالیسی کے ایک مقالہ نگارنے مئی ۲۰۱۶ء میں ایک مقالہ INDIA IS LOSING KASHMIR اس کی ویب سائٹ پر شائع کیا ہے جو جولائی کے واقعے سے دو ماہ پہلے کی بات ہے۔
نیویارک ٹائمز نے بھی ۲۱جولائی ۲۰۱۶ء کی اشاعت میں ادارتی طور پر کشمیر کی بدلتی ہوئی صورتِ حال اور تحریک کے مقامی ہونے کا اعتراف کیا ہے۔ پچھلے دو ہفتوں میں دسیوں مضامین بھارت کے اخبارات میں شائع ہوئے ہیں جن میں کسی نہ کسی شکل میں اس زمینی حقیقت کا اعتراف کیا گیا ہے۔ مسئلے کے حل کی تلاش میں اس تبدیلی کا ایک اہم کردار ہوسکتا ہے۔
۴- چوتھی چیز جو اَب بالعموم صرف دبے الفاظ میں لیکن کہیں کہیں نسبتاً کھل کر تسلیم کی جارہی ہے، یہ ہے جو کچھ مقبوضہ کشمیر میں ہو رہا ہے، اسے صرف پاکستان کی کارستانی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ پرویز مشرف کے دور سے تحریکِ آزادی میں پاکستان کا کردار نمایاں طور پر کم ہوا ہے۔ خصوصیت سے جہادی سرگرمیوں کی مدد تو تقریباً ختم ہوچکی ہے۔ ۲۰۰۳ء کے بعد جس طرح بارڈر پر اسرائیلی حکمت عملی کے تحت باڑیں اور الیکٹرانک وائرز لگائے گئے ہیں، ان کے نتیجے میں افرادی قوت کا آرپار جانا یا اسلحے کے باب میں مدد تقریباً ناممکن ہوگئے ہیں۔ اور اس سے بھی زیادہ اہم پاکستان کی حکومتی پالیسی کے باب میں کنفیوژن، کمزوری اور تنکوں کا سہارا___ اس نے تو پاکستان کے اصولی اور عملی ہردو کرداروں کو بُری طرح مجروح کیا ہے۔ پاکستان سے جو اُمیدیں مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کو بجاطور پر تھیں، ان پر اوس پڑگئی ہے۔ گو پاکستان سے ان کی محبت آج بھی قائم ہے، ان کے دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتے ہیں، پاکستانی جھنڈا آج بھی ان کو مرغوب و محبوب ہے۔ بُرہان مظفر وانی کا جسد ِ خاکی پاکستان ہی کے پرچم میں قبر میں اُتارا گیا ہے، مقبوضہ کشمیر میں گھڑیاں پاکستان کے وقت کے مطابق ہی نظامِ اوقات کی صورت گری کرتی ہیں۔ عید اہلِ کشمیر بھارت کے ساتھ نہیں پاکستان کے ساتھ مناتے ہیں۔ یہ سب اپنی جگہ مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے، اور ہم بحیثیت قوم اس پر نادم ہیں اور پاکستانی عوام کے جذبات کا خون کر کے پاکستانی حکمرانوں نے اور خصوصیت سے پرویز مشرف کے دور میں ۲۰۰۲ء کے بعد سے جو پالیسیاں اختیار کی گئیں، وہ اصولی اور اسلامی اعتبار سے غلط اور سیاسی اور علاقائی سلامتی و استحکام کے اعتبار سے تباہ کن رہیں جن کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ لیکن ۱۴سال کے اس کنفیوژن، کمزوری اور بے وفائی کے دو ضمنی نتائج ایسے ضرور نکلے جن میں اللہ تعالیٰ نے شر میں سے خیر کے نکلنے کا معجزہ سب کو دکھاد یا۔ ایک یہ کہ بھارت کا یہ ہتھیار کند ہوگیا کہ جو کچھ ہو رہا ہے، وہ پاکستان کا کیا دھرا ہے اور آئی ایس آئی اور پاکستان کی جہادی تنظیمیں تحریکِ مزاحمت کی ریڑھ کی ہڈی اور اصل سہارا ہیں۔ دوسرے یہ کہ جو دُکھ بھی اہلِ کشمیر کو پاکستان کی قیادت کی اس کمزوری اور بے وفائی سے پہنچا، انھوں نے اپنا سارا بھروسا اللہ پر اور خود اپنے زورِبازو پر کیا اور اس طرح یہ تحریک تقریباً صد فی صد مقامی تحریک بن گئی اور سب سے زیادہ وہاں کے نوجوانوں نے اس کی باگ ڈور سنبھال کر اسے نئی زندگی، نئی ٹکنالوجی اور نئی سیاسی حکمت عملی سے شادکام کیا۔
اللہ پر بھروسا ان کا سب سے بڑا سہارا بن گیا۔ پاکستان یاترا، ٹریننگ کے لیے باہر جانے کا تصور، باہر سے اسلحہ حاصل کرنے پر بھروسا، عسکری پہلو پر ساری توجہ اور سیاسی، عوامی اور خدمتی میدانوں پر توجہ کی کمی، ان سب اُمور پر ازسرِنو غور کیا جانے لگا۔ نئی حکمت عملی بنائی گئی۔ خودانحصاری کو طریق واردات قرار دیا گیا۔ اسلامی اخلاقی تعلیمات پر بھی زیادہ سختی سے عمل کی فکر کی گئی اور اسلام کے نام پر جو غلط طریقے دنیا کے مختلف مقامات پر اختیار کیے جارہے ہیں جن کی وجہ سے اسلامی جہاد اور دہشت گردی میں جو جوہری اور ہمہ جہتی فرق ہے وہ متاثر اور مجروح ہوا ہے، اس کی تلافی کی فکر کی گئی۔ یہ بڑی بنیادی اور انقلابی تبدیلیاں ہیں جو اس دور میں نمایاں طور پر کی گئیں اور کی جاتی ہوئی نظر آنے لگیں۔ بُرہان وانی اس عسکریت کی علامت بن گیا جو اَخلاق کی پابند، فساد سے پاک اور صلاح کا ذریعہ ہے۔ بلاشبہہ حزب المجاہدین کا ۱۹۷۱ء کی مشرقی پاکستان کی البدر کی طرح پہلے دن سے یہی مقصد اور ہدف رہا ہے اور ان کی سرگرمیاں اس عہد پر مبنی تھیں کہ وہ آلۂ ظلم نہیں بنیں گے اور جہاد کے اسلامی آداب و احکام کی مکمل پاس داری کریں گے۔ الحمدللہ تحریکِ آزادیِ کشمیر کے اس موجودہ دور میں یہ پہلو بہت نمایاں ہے اور اس کا گہرا تعلق اس تصور سے بھی ہے کہ جموں و کشمیر کی تحریکِ آزادی صرف بھارت کی استعماری قوت کی غلامی سے آزادی کی جدوجہد ہونے کے ساتھ ساتھ جموں و کشمیر کی اصل شناخت___ اسلام اور اسلامی تہذیب و تمدن کی حفاظت، ترویج اور ترقی کے لیے ہے۔ یہ صرف سیاسی مقصد کے لیے ایک تحریک نہیں بلکہ سیاسی تحریک کے اصل مقاصد نظریاتی، دینی ، تاریخی، تہذیبی، ثقافتی اور اخلاقی ہیں۔ تحریک کے اس رنگ اور مزاج کا آئینہ وہ انٹرویو ہے جو بُرہان اور خالد کے والد مظفراحمد وانی نے خالد کی شہادت کے بعد اور بُرہان کی شہادت سے پہلے ہندستان ٹائمز کے نامہ نگار ہریندر بویجا کو اکتوبر ۲۰۱۵ء میں دیا:
جواب: ہندستان سے آزادی، یہ نوجوانوں کا ہی نہیں بلکہ ہم سب کا مقصد ہے۔ آپ کو معلوم ہے کشمیر کے حالات کیسے ہیں، ٹرک ڈرائیور یہاں سے جاتا ہے، مار دیا جاتا ہے، کیوں کہ مسلمان ہے۔ ہم حلال جانور ذبح کرتے ہیں فساد ہوجاتے ہیں۔ پھر سوال کیا: آپ کو پتا ہے ہندستان کی فوج کو ہرانا بہت مشکل ہے لیکن اس نے کیا جذبۂ ایمانی سے بھرپور جواب دیا: بہت مشکل ہے، بہت مشکل ہے، لیکن ہمارا اللہ پر یقین ہے، ہمیں یقین ہے کہ جو اس تحریک میں ہندستان کے ظلم و ستم سے مرتا ہے وہ مرتا نہیں بلکہ اپنے اللہ کے پاس جاتا ہے۔ دوسری دنیا میں ٹرانسفر ہوجاتا ہے۔ سوال کیا گیا کہ آپ کو تکلیف ہوگی کہ آپ کا بیٹا گولی سے مرے گا۔ جواب دینے والے باپ کی ہمت اور ایمان دیکھیے، کہا: ہاں تھوڑی تکلیف تو ہوتی ہے لیکن پھر یاد آتا ہے۔ پہلے خدا پھر بیٹا، پہلے محمدصلی اللہ علیہ وسلم، پھر بیٹا، پہلے قرآن ، پھر بیٹا، پہلے بیٹا نہیں ہے۔ اس کے بعد پوچھا: بُرہان آج ایک رول ماڈل بن چکا ہے۔ اس کی ویڈیو سامنے آئی ہیں۔ وہ جو کہتا ہے لوگ اس کے پیچھے چلتے ہیں۔ جواب دیا: آج ۹۰ فی صد لوگ اُسے دعائیں دیتے ہیں کہ بُرہان زندہ رہے تاکہ ہماری جدوجہد آگے بڑھے۔ آج اسے مجاہد بنے ہوئے پانچ سال ہوگئے، یہ دوہزار دن بنتے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم وہ کھاتا کہاں سے ہے، پہنتا کہاں سے ہے، آخر لوگ اس کی مدد کرتے ہیں نا۔ آخری سوال کیا: آپ اس کے لیے دعا کرتے ہیں؟ کہا: میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ اسے کامل ایمان عطا کرے۔
جواب: اللہ کے لیے جان دینے والوں کو بخوبی علم ہے کہ دنیا میں ۲۰۰ سے زیادہ ملکوں میں سے صرف ایک ملک ایسا ہے جو رنگ، نسل، زبان اور علاقے کی بنیاد پر نہیں بلکہ کلمہ طیبہ لا الٰہ الا اللہ کی بنیاد پر بنا ہے۔ کشمیر کے لیے مرو یا دنیا کے کسی اور ملک کے لیے اس کا مقصد دنیاوی، علاقائی اور قومی جدوجہد میں مر کر امر ہونا ہوگا۔ لیکن پاکستان کے لیے مرنا اللہ کے لیے مرنا ہے، شہادت کی موت ہے۔
مجاہد بُرہان وانی کی شہادت سے صرف ایک ماہ پہلے جون ۲۰۱۶ء میں آنے والی ویڈیو اسلامی جہاد کے تصور اور اس سے وفاداری کی منہ بولتی تصویر ہے، اخلاقیات کی علَم بردار تھی۔ اس نے کہا: مجاہدین امرناتھ یاترا پر حملہ نہیں کریں گے۔ ہندو پنڈت جموں میں آکر رہ سکتے ہیں لیکن ان کے لیے اسرائیل کی طرح علیحدہ بستیاں مت بنائو۔ اس نے کہا: ہم صرف اور صرف یونیفارم والوں پر حملے کریں گے کہ ان سے ہی ہماری لڑائی ہے۔۱؎
۱- یہ انٹرویو روزنامہ دنیا میں برادرم اوریا مقبول جان کے کالم مورخہ ۱۱جولائی ۲۰۱۶ء سے لیا گیا ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ یہ انٹرویو آج بھی یوٹیوب پر موجود ہے۔
لندن کے روزنامہ دی گارڈین میں اس کے نمایندے جان بون کا کالم ۱۱جولائی کو شائع ہوا ہے۔ اس میں بُرہان وانی کی شہادت اور ان کے والد کے تصورات کو اس طرح بیان کیا گیا ہے:
کشمیر میں تشدد کا حالیہ رائونڈ جس کے بارے میں بھارت اور پاکستان دونوں ہی دعویٰ کرتے ہیں جمعہ کو اس وقت شروع ہوا جب ایک بُرہان وانی مقبول کمانڈر جو کشمیر کی سب سے مقبول عسکری تنظیم حزب المجاہدین سے وابستہ تھا، جنگلات میں، دیہات میں، سری نگر میں ہلاک ہوگیا تھا۔
وانی ایک نئی نسل کا حصہ ہے جو ویب کی شوقین سائٹس پر مبنی ہے جو اپنے مطالبات اور کشمیر کی آزادی کو قبول کرنے کے لیے سوشل میڈیا کو استعمال کرتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ایک لاکھ سے زیادہ افراد نے ہفتے کے روز اس کے جنازے میں شرکت کی۔
آزادی کے حامیوں نے سڑکوں پر آکر ردعمل کا اظہار کیا۔ بند دکانوں پر نعرے پینٹ کیے ہیں۔وانی نے اپنی تازہ ترین وڈیو میں پولیس افسروں سے اپیل کی ہے کہ وہ بھارتی قبضے کی حمایت ترک کردیں اور آزادی کی جنگ میں شریک ہوجائیں۔ ایک سینیر پولیس افسر نے حالیہ برسوں میں وانی کی ہلاکت کو militants کے خلاف سب سے بڑی کامیابی قرار دیا ہے جب کہ دوسروں نے تصدیق کی کہ اس کی موت تشددپسند علیحدگی پسندوں کے لیے اپیل میں اضافہ کرے گی۔
جموں و کشمیر کے ساتھ وزیراعلیٰ عمرعبداللہ نے ٹویٹ کیا کہ وانی کی قبر میں صلاحیت اس سے زیادہ عسکریت پیدا کرنے کی صلاحیت ہے جتنی اس نے سوشل میڈیا سے پیدا کی۔ اس کے والد مظفروانی کے بقول: وانی ۱۵سال کی عمر میں حزب المجاہدین میں شریک ہوا۔ جب سیکورٹی فورسز نے اس پر حملہ کیا اور اس کی توہین کی۔ اس کے والد نے ANP کو ۲۰۱۴ء میں بتایا کہ اگر وہ اپنی عزت اور عوام کے لیے مرتا ہے تو وہ شہید ہوگا۔ (دی گارڈین،………)
جہاد اور مجاہد کے بارے میں ایسی رپورٹ ایک مؤقر انگریزی روزنامے میں دہشت گردی کے خلاف نائن الیون کے بعد کی جنگ اور اسلامی دہشت گردی اور اسلاموفوبیا کے اس ماحول میں ایک بڑی نادر شے ہے___ اور یہ بھی ۸جولائی کے ثمرات میں سے ایک ہے۔
روزنامہ دی ایکسپریس ٹربیون (۲۵ جولائی ۲۰۱۶ئ) میں مرکزی حکومت کے ایک سابق سیکرٹری جناب طارق محمود نے بُرہان وانی پر The Robin Hood of Kashmir کے عنوان سے دل چسپ مضمون لکھا ہے۔اس سے ایک اقتباس اس لیے پیش خدمت ہے کہ انگریزی اخبارات کے اس انبوہ میں جس میں ہر دہشت گرد گردن زدنی قرار دیا جاتا ہے اور اچھے عسکری (Good Militant)اور بُرے عسکری (Bad Militant) کے تصور کو ٹکسال سے باہر کر دیا گیا ہے بلکہ سیاسی اور نظریاتی جرم بنادیاگیا ہے۔ ایک مجاہد کی جو تصویرآئی ہے وہ ہوا کا ایک تازہ جھونکا ہی تصور کی جاسکتی ہے:
بُرہان مظفروانی ایک ملیشیا کمانڈر تھا جو کچھ مختلف تھا۔وہ ایک کمانڈر تھا جس نے اپنے ساتھیوں کو خودکش جیکٹ پہن کر عوامی مقامات پر دھماکا کرکے بے گناہ انسانوں کو ہلاک کرنے کی ہدایت نہیں کی تھی۔ وہ ایک ایسا کمانڈر تھا جو کمین گاہوں میں چھپتا پھرتا نہ تھا بلکہ لوگوں کے دلوں میں رہتا تھا۔ وہ ان لوگوں کو ہدف بنانے کا کہتا تھا جنھوں نے کشمیریوں کی واضح توہین کی ہو، ذہنی و نفسیاتی ٹارچر کیا ہو۔ وہ ایسا کمانڈر تھا جو نوجوانوں سے اپیل کرتا کہ امرناتھ یاترا میں ہندو یاتریوں کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔ اس کے پاس کوئی وقت نہیں تھا کہ وہ لائن آف کنٹرول کے پار عناصر سے مدد لیتا۔ بلاشبہہ وہ کشمیریوں میں ظالم ڈوگرہ راج کے خلاف جدوجہد کا تسلسل ہے جو ۱۹۳۱ء میں شروع ہوئی تھی۔
تحریکِ آزادی کے نئے دور کا یہ ایک بڑا خوش گوار پہلو ہے کہ تحریکِ آزادی اور دہشت گردی کے جس فرق کو نائن الیون کے بعد ختم کر دیا گیا تھا اس کا احساس ایک بار پھر بیدار ہونے لگا ہے۔ ہرہتھیار اُٹھانے والا لازماً دہشت گرد نہیں۔ گولی معصوم انسانوں کا خون بہانے کے لیے بھی استعمال ہوسکتی ہے اور مجبور اور کمزور انسانوں کی جان، مال اور عزت کے تحفظ کے لیے بھی۔ تلوار دوسروں کو غلام بنانے کے لیے بھی استعمال ہوسکتی ہے اور انسانوں کی غلامی سے نجات دلانے کے لیے بھی۔ قوت کا استعمال خیر اور صلاح کے قیام اور انصاف اور عدل کے فروغ کے لیے بھی ہوسکتا ہے اور ظلم اور کفر کے فروغ کے لیے بھی۔ دونوں کا فرق مقصد، آداب و ضوابط ، کردار اور کارکردگی بالآخر عملی نتائج کی روشنی میں دیکھا جاسکتا ہے ؎
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
کرگس کا جہاں اور ہے، شاہیں کا جہاں اور
۵- ۸ جولائی کے بعد جو تحریریں سامنے آرہی ہیں ان میں ایک اور بڑے بنیادی اصولی مسئلے کی بازیافت کے بھی اشارے مل رہے ہیں۔ تاریخ میں ’مبنی برحق جنگ ‘ (just war) اور ’مبنی برظلم جنگ‘ (unjust war) میں ہمیشہ فرق کیا گیا ہے اور ایک یعنی ’جسٹ وَار‘ کو خارجہ سیاست کا ایک ہتھیار اور خیر اور فلاح کے حصول کا ایک ذریعہ تصور کیا گیا ہے اور صرف زر، زمین اور قوت حاصل کرنے اور دوسروں کو ان کے حقوق کے محروم کرنے کے لیے تلوار کے استعمال کو قابلِ مذمت قرار دیا گیا ہے۔ اس بنیاد پر جدید بین الاقوامی قانون میں سامراجی اقتدار اور غلبہ ظلم کی ایک شکل قرار دیا گیا اور سامراج کے خلاف جنگ ِ آزادی اور حق خود ارادیت کے حصول کے لیے جدوجہد خواہ وہ سیاسی ہو یا وہ عسکری جنگ کی شکل اختیار کرے، میں فرق کیا گیا ہے۔ اس وجہ سے جنگ ِ آزادی (war of liberation) کو دہشت گردی تسلیم نہیں کیا گیا۔ امریکا کی برطانوی سامراج کے خلاف جنگ کو ’جنگ ِ آزادی‘ کا نام دیا گیا اور جارج واشنگٹن کو خواہ تاجِ برطانیہ کے نمایندے غدار اور دہشت گرد قرار دیتے رہے ہوں لیکن دنیا نے اور بین الاقوامی قانون نے اسے آزادی کا ہیرو قرار دیا۔ موجودہ اقوامِ متحدہ کے ۱۹۲؍ارکان ممالک میں تقریباً ۱۵۰ ایسے ہیں جو سیاسی اور عسکری جنگ کے نتیجے میں آزادی حاصل کرسکے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی دہشت گردی کی تعریف پر آج تک متفق نہیں ہوسکی کہ عظیم اکثریت کی نگاہ میں جنگ ِ آزادی دہشت گردی نہیں۔ اور اس امر پر اقوامِ متحدہ کے تمام ہی ادارے متفق ہیں۔(دیکھیے: کرسٹوفر کوئے، Liberation Struggle in International Law، ٹمپل یونی ورسٹی پریس، فلاڈلفیا، ۱۹۹۱ئ)
اس پس منظر میں ۸جولائی کے بعد کم از کم میری نظر سے پہلی بار ایک مشہور بھارتی صحافی آکار پٹیل کی یہ تحریر آئی ہے کہ بھارت میں ریاست جموں و کشمیر میں مزاحمت کی تحریک اور ملک کے دوسرے حصوں خصوصیت سے وسط ہند کی آرمی واسی بیلٹ جس کی سرحدیں جھارکھنڈ ، اڑیسہ اور چاٹس گڑھ تک پہنچتی ہیں اور تیسری شمال مشرق قبائلی بیلٹ میں برپا بغاوت کی تحریکوں میں فرق کرنے کی ضرورت ہے۔ اپنے موقف کے ثبوت میں جو نقشہ وہ کشمیر اور اس میں برپا تحریک ِ آزادی کا کھینچتا ہے اس میں یہ پیغام بہ صراحت موجود ہے کہ کشمیر کی جدوجہد کو محض دہشت گردی کہنا قرین انصاف نہیں۔("Misapplying the term terrorism in India"،دی ایکسپریس ٹربیون، ۱۶ جولائی ۲۰۱۶ئ)
۶- ایک اور پہلو جو تحریک ِ آزادی کے موجودہ مرحلے کے سلسلے میں سامنے آرہا ہے اس کا تعلق نوجوانوں کے کردار سے ہے۔ ویسے تو تاریخ کی ہربڑی تحریک کے روحِ رواں جوان ہی رہے ہیں لیکن دورِ جدید کی آزادی کی تحریکات میں قیادت بالعموم پختہ عمر کے لوگوں کی رہی ہے۔ کشمیر کی تحریکِ آزادی کے موجودہ مرحلے میں جوانوں کے کلیدی کردار نے اس تحریک میں نئی جان ڈال دی ہے۔ پرانی قیادت آج بھی محترم ہے اور عزت اور رہنمائی کے اعلیٰ مقام پر متمکن ہے۔ لیکن اب ایک فطری انداز میں نئی قیادتیں اُبھر رہی ہیں اور یہ ایک نعمت ہے۔
تحریک ِ آزادیِ کشمیر کے یہ چھے پہلو ہیں جو ہماری نگاہ میں ۸جولائی کے بعد نئی اہمیت کے ساتھ سامنے آئے ہیں اور آیندہ کی پالیسی سازی کے باب میں ان سب کو سامنے رکھنا ضروری ہے۔
آیندہ گزارشات سے پہلے میں تحریکِ آزادیِ کشمیر کے پورے تاریخی ، نظریاتی، سیاسی اور عسکری پس منظر کی روشنی میں جو سب سے اہم بات کہنا چاہتا ہوں اور جو میرے اپنے۷۰سالہ مطالعہ اور غوروفکر کا حاصل ہے وہ یہ ہے کہ ۸جولائی جہاں تحریک کے تسلسل کی علامت ہے وہیں وہ تحریک کو ایک ایسے فیصلہ کن تاریخی موڑ تک لے آیا ہے جہاں صحیح حکمت عملی اور اس پر عمل کرنے کے لیے ایک مؤثر ، قرارواقعی ، حقیقت پسندانہ اور جامع پالیسی تحریک کو اپنی منزل سے بہت قریب کرسکتی ہے۔ ہماری نگاہ میں اس حکمت عملی اور پالیسی کو ان حقائق کی روشنی میں مرتب کرنا وقت کی اصل ضرورت ہے:
(الف) مقبوضہ کشمیر پر بھارت کا ۶۹سالہ قبضہ اپنے اصل مقاصد کے حصول میں ناکام رہا ہے۔ فوجی قوت اور سرکاری استبداد کے ہرممکن حربے کے باوجود جموں و کشمیر کے عوام کو محکومی کو قبول کرنے یا اس پر خاموش ہوجانے میں حکمران قوت کو کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے جسے تسلیم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں لیکن بھارت کے حکمران اور بااثر طبقے اس صورتِ حال کو سمجھنے کے باوجود ابھی اسے تسلیم نہیں کر رہے لیکن اسے تسلیم کرنے کے سوا کوئی چارئہ کار نہیں۔
(ب) حالات کو اس مقام تک لانے میں سب سے اہم کردار جموں و کشمیر کے عوام اور تحریکِ آزادی کی قیادت کا ہے۔ یہ تحریک بنیادی طور پر سیاسی ہے اور بالآخر اس کا حل بھی سیاسی ہی ہوگا لیکن اقتدار کی ظالمانہ اور استبداد پر مبنی پالیسی کے نتیجے میں عسکریت نے بھی ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ تاہم اصل چیز ان کے درمیان صحیح توازن اور سیاسی پہلو کا غلبہ ہے۔ جہاں عسکریت کا ایک اہم مثبت کچھ حالات میں فیصلہ کن حد تک اہم کردار ہے، وہیں عسکریت پسندی اصل فیصلہ کن عامل نہیں۔ اس کا کردار یا معاونت کا ہے یا سدجارحیت کا۔ اور اس سے بھی بڑھ کر عسکریت کا چہرہ اور کردار مثبت اور اخلاقی برتری کا ہوگا (جس کا سمبل آج بُرہان وانی ہے) تو وہ مفید اور فیصلہ کن ہوگا اور اگر فساد، عدم تواز ن اور نتائج اور اثرات سے بے نیاز ہوکر انتقام اور غصہ کا ہوگا تو عسکریت اپنا اخلاقی وزن کھو دیتی ہے۔ جدید اور قدیم تاریخ اس کی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ خود کشمیر کی تحریک کی تاریخ میں خصوصیت سے ۱۹۹۰ کے عشرے کے وسط میں اسے دیکھا جاسکتا ہے۔ ۸جولائی کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے عسکریت کے معتبر چہرے کو ایک بار پھر اس جدوجہد میں نمایاں کر دیا ہے اور تحریک ِ آزادی کی اخلاقی اور سیاسی برتری کو اس حد تک واضح کردیا ہے کہ جو اپنوں کے لیے قوت اور نئے جذبے کا ذریعہ اور مخالفین کے لیے نہ صرف سوالیہ نشان بلکہ کڑوی گولی بنتا جارہا ہے۔ یہ وہ نازک لمحہ ہے جب اس توازن کی حفاظت اور سیاسی جدوجہد کی اوّلیت اور مرکزیت کا سختی سے اہتمام تحریک کی کامیابی کے لیے ضروری ہے۔
ان بنیادی حقائق کی روشنی میں اور تحریک کو ان میں نظر آنے والے مقاصد اور حقائق کے ذریعے منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے جس وژن، جس حکمت عملی اور جس پالیسی اور جس نوعیت کے اقدام کی ضرورت ہے___ آیندہ سطور میں ان کی نشان دہی کی جارہی ہے۔
اب ہم بہت ہی اختصار کے ساتھ سب سے پہلے ان اُمور کو واضح کرنا چاہتے ہیں جو پاکستان کی کشمیر پالیسی کی اصل بنیاد ہیں اور موجودہ حالات کی روشنی میں حکومت، قوم اور اس کی سیاسی، دینی اور عسکری قیادت اور ان تمام عناصر کو کرنے چاہییں جو سیاسی پالیسیوں کو متاثر کرسکتے ہیں۔
۱- جموں و کشمیر کی ریاست ایک وحدت ہے، اور اس کے مستقبل کا فیصلہ ایک وحدت کے طور پر کیا جانا ہے۔
۲- ریاست کے مستقبل کا فیصلہ ہونا باقی ہے، اس کے ۶۰ فی صد علاقے پر بھارت کا غاصبانہ قبضہ ہے، نام نہاد الحاق ایک ڈھونگ اور دھوکا ہے، جسے کوئی دستوری، قانونی، سیاسی اور اخلاقی جواز حاصل نہیں۔
۳- ریاست کے مستقبل کا فیصلہ اس کے عوام کو اپنی آزاد مرضی سے کرنا ہے جسے معلوم کرنے کے لیے بین الاقوامی انتظام میں استصواب راے کرایا جائے گا۔
۴- کشمیر کا مسئلہ نہ زمین کا تنازعہ ہے، نہ سرحد کی صف بندی کا معاملہ ہے، اور نہ محض پاکستان اور بھارت میں ایک تنازعہ ہے بلکہ اس کے تین فریق ہیں: پاکستان، بھارت اور جموں و کشمیر کے عوام___ جنھیں آخری فیصلہ کرنا ہے۔
۵- کشمیر بھارت کے لیے غاصبانہ ہوسِ ملک گیری کا معاملہ ہے اور پاکستان کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے کیوں کہ اس کا تعلق ان بنیادوں سے ہے جن پر پاکستان قائم ہوا اور تقسیم ہند عمل میں آئی۔ اس کے ساتھ اس کا تعلق ریاست کے مسلمانوں (جن کو عظیم اکثریت حاصل ہے) کے مستقبل اور پاکستان کے اسٹرے ٹیجک مفادات، نیز معاشی اور تہذیبی وجود سے بھی ہے۔
ان پانچ اُمور پر قومی اجماع تھا اور ہے۔ اسی وجہ سے پاکستان کا اصولی موقف یہ ہے کہ اس مسئلے کا حل اقوامِ متحدہ کی ۱۳؍اکتوبر ۱۹۴۸ئ، ۵ جنوری ۱۹۴۹ء اور سلامتی کونسل کی دوسری قرارداوں کی روشنی میں کشمیری عوام کی مرضی کے مطابق ہونا چاہیے۔
بدقسمتی سے جنرل پرویز مشرف نے ۲۰۰۳ء میں اس پالیسی سے انحراف کا راستہ اختیار کیا۔ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کو بائی پاس کرنے کی بات کی اور پھر ایک چار نکاتی فارمولے کا ڈھونگ رچایا جواللہ کی اعلیٰ تر تدبیر کے طفیل بھارت اور پاکستان دونوں کی اندرونی سیاسی صورتحال کے باعث زمین بوس ہوگیا۔ البتہ فکری انتشار، پالیسی کے باب میں کنفیوژن، اور سب سے بڑھ کر عملاً جموں و کشمیر کی تحریک ِ آزادی کے لیے شدید نقصان کا باعث ہوا۔ جیساکہ ہم نے پہلے عرض کیا: اللہ تعالیٰ نے تلافی کے دوسرے سامان پیداکیے لیکن ایک مدت تک تحریک ٹھٹھری ٹھٹھری رہی اور اس کی ترقی کی رفتار بُری طرح متاثر ہوئی۔ نیز پاکستان سے جو توقعات کشمیری عوام کو ہیں، انھیں بھی بڑا دھچکا لگا۔ افسوس کا مقام ہے، پرویز مشرف کے اقتدار کے خاتمے کے بعد جو حکومتیں بنیں انھوں نے بھی پالیسی کو اصل اجماعی پوزیشن کے مطابق ازسرِنو تشکیل دینے اور پوری قوت سے متحرک کرنے کے باب میں کوئی اہم قدم نہیں اُٹھایا۔ کشمیر کمیٹی بھی کوئی مفید اور مؤثر کردار ادا کرنے سے قاصر رہی۔ نوازشریف صاحب نے عوامی اور خود اپنی جماعت کے کچھ اہم لوگوں کے دبائو میں چندبیانات کی حد تک اصولی موقف کا اعادہ کیا لیکن عملاً کوئی اقدام نہیں اُٹھایا بلکہ اپنی ذاتی ترجیحات کے زیراثر بھارت سے خوش گوار تعلقات، اعتماد سازی کے لیے اقدامات کے سلسلے میں نئی دل چسپی اور بھارت سے تجارت کے ناکام تجربات کو ایک بار پھر دُہرانے کا راستہ اختیار کرنے کی کوشش کی اور ہرقدم پر ٹھوکر کھائی۔ اس پس منظر میں۸جولائی پاکستان اور اس کی موجودہ قیادت کو ایک تاریخی موقع فراہم کر رہا ہے اور ہم ملک کی پوری قیادت سے پوری درمندی اور دل سوزی سے استدعا کرتے ہیں کہ اس تاریخی موقعے سے پورا پورا فائدہ اُٹھائیں۔ اس سلسلے میں پارلیمنٹ کی قرارداد ایک اچھا ابتدائی اقدام ہے لیکن اصل امتحان یہ ہے کہ ہم ایک طرف اس قومی موقف پر سختی سے ڈٹ جائیں جس کا آغاز علامہ اقبال کی رہنمائی میں ۱۳جولائی ۱۹۳۱ء کو شروع ہونے والی تحریکِ آزادیِ کشمیر کے موقعے پر ہوا، جسے تحریکِ پاکستان کے دوران نکھار اور تقویت ملی اور جس پر قیامِ پاکستان کے بعد پاکستانی قوم قائم ہے۔
کشمیر کا مسئلہ تمام مسلمانانِ ہندستان کی سیاسی حیات اور موت کا مسئلہ ہے۔ اہلِ کشمیر سے ناروا سلوک، ان کی جائز اور دیرینہ شکایات سے بے اعتنائی اور ان کے سیاسی حقوق کا تسلیم نہ کرنا، مسلمانانِ ہند کے حقوق کو تسلیم کرنے سے انکار ہے۔ حق بات بھی یہی ہے کہ اہلِ خطہ کشمیر ملّت ِ اسلامیہ کا جزولاینفک ہے۔ ان کی تقدیر کو اپنی تقدیر نہ سمجھنا تمام ملّت کو تباہی و بربادی کے حوالے کر دینا ہے۔ اگر مسلمانوں کو ہندستان میں ایک مضبوط و مستحکم قوم بننا ہے تو دو نکات کو ہر وقت ذہن میں رکھنا ہوگا۔ اوّل یہ کہ شمال مغربی سرحدی صوبے کو مستثنیٰ کرتے ہوئے حدود ہند کے اندر جغرافیائی اعتبار سے کشمیر ہی وہ خطہ ہے جو مذہب اور کلچر کی حیثیت سے خالصتاً اسلامی ہے۔ دوسری بات جسے مسلمانانِ ہند کبھی نظرانداز نہیں کرسکتے، یہ ہے کہ ان کی پوری قوم میں سب سے بڑھ کر اگر صناعی و ہنرمندی اور تجارت کو بخوبی پھیلانا……… نمایاں طور پر کسی طبقے میں موجود ہیں تو وہ اس خطے کا گروہ ہے۔ بہرحال وہ قوم اسلامی ہند کے جسم کا بہترین حصہ ہیں۔ اگر وہ حصہ درد و مصیبت میں مبتلا ہے تو یہ ہو نہیں سکتا کہ باقی افراد ملّت فراغت کی نیند سو جائیں۔ (بحوالہ کشمیری مسلمانوں کی جدوجہد آزادی، ص ۴۷۱)
مسلمان جغرافیائی حدود کے قائل نہیں ہیں۔ اس لیے اسلامی برادری کے نام پر ہندستان کے مسلمان آپ کی مدد کے لیے کمربستہ ہیں۔ اگر آپ پر ظلم ہوا یا آپ سے بدسلوکی کی گئی تو ہم بیکار تماشائی کی صورت میں نہیں رہ سکتے۔ ایسی صورت میں برطانوی ہند کے مسلمان آپ کی خدمت کے لیے حاضر ہوجائیں گے کیونکہ بحیثیت مسلمان ہم آپ کی مدد کے پابند ہیں۔
آج ہمارے حکمران’جہاد‘ کے لفظ سے خائف اور اس پر شرمندہ ہی نہیں ہیں بلکہ اپنی آزادی کی جنگ لڑنے والوں اور ان کی مدد کرنے والوں کو ’دہشت گرد‘ تک قرار دے رہے ہیں۔ لیکن دیکھیے جب اپنے کشمیری بھائیوں کی مدد کے لیے قبائلی مسلمان، وہی قبائلی مسلمان جن پر آج امریکا کی خوش نودی کے حصول یااس کے حکم کے تحت پاکستانی فوج کو بم باری اور آگ اور خون کی ہولی کھیلنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے، ان قبائلی مسلمانوں نے کشمیر کے جہاد میں شرکت کی اور اس پر جب بھارتی گورنر جنرل نے ان کے خلاف اقدام کا مطالبہ کیا تو قائداعظم نے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کیا فرمایا:
ہم اس کی ذمہ داری لینے پر تیار نہیں اور نہ ہم قبائلیوں پر دبائو ڈال سکتے ہیں کہ وہ کشمیر کو خالی کردیں۔ مسلمانانِ کشمیر نے ڈوگرہ آمریت سے تنگ آکر ہری سنگھ کی گورنمنٹ کو فتح کرنے کے لیے جہاد شروع کر رکھا ہے اور قبائلیوں نے مجاہدین کا ہم مذہب ہونے کی مناسبت سے ان کی امداد کی ہے۔ لہٰذا ہم اس معاملے میں کسی قسم کا دخل دینے کو تیار نہیں ہیں۔ کیونکہ مجاہدین کی یہ جنگ ِ آزادی ہے اور کوئی آزادی پسند ملک آزادی کی خاطر لڑنے والوں کے مخالفین کے ہاتھ مضبوط نہیں کرسکتا۔ اس لیے جن قبائلیوں کو برطانوی حکومت نہ دبا سکی، ہم انھیں کیسے روک سکتے ہیں۔ وہ ایک نصب العین کے لیے نبردآزما ہیں۔ (۳ نوبر ۱۹۴۷ء کو قائداعظم اور مائونٹ بیٹن کے مابین ایک کانفرنس کی رُوداد ملاحظہ ہو، رشحاتِ قائد ، مرتبہ: نجمہ منصور، العبد پبلی کیشنز، سرگودھا، ۱۹۹۲ئ، ص ۱۶۷-۱۶۸)
عوام نے متعدد بار راجا سے اپیل کی کہ وہ پاکستان میں شامل ہوجائیں لیکن راجا پر اس مسئلے کا اُلٹا اثر ہوا، اور اس نے عوام کی آواز کو طاقت کے بل پر دبانے کی کوششیں کیں۔ اس پر عوام نے بھی طاقت کا جواب طاقت سے دینا شروع کر دیا۔ جب راجا ان کی چوٹ برداشت نہ کرسکا تو اپنا اقتدار ختم ہوتے دیکھ کر اسے ہندستان میں شامل ہونے کی سوجھی۔ دراصل کشمیر ہندستان میں شامل نہیں ہوا، بلکہ ہری سنگھ شامل ہوا ہے۔ جب ہندستان میں ہری سنگھ کی شمولیت کے خلاف کشمیری عوام ہتھیار اُٹھانے پر مجبور ہوگئے تو ان سے یہ راے طلب کرنے کی تجویز کہ وہ ہندستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں یا پاکستان میں، نہ صرف فریب بلکہ مضحکہ خیز بھی ہے۔
کسی قسم کی لگی لپٹی رکھے بغیر قائداعظم نے مائونٹ بیٹن سے یہ بھی کہا: کشمیر جہاں اقتصادی اور معاشی لحاظ سے پاکستان کا ایک جز ہے، وہاں سیاسی اعتبار سے بھی اس کا پاکستان میں شامل ہونا ضروری ہے۔ (رشحاتِ قائد، مذکورہ بالا)
کشمیر کے بارے میں قائداعظم کی پالیسی کیا تھی؟ اس کا اظہار انھی کے الفاظ میں ان کے معالج ڈاکٹر الٰہی بخش نے کیا ہے:
کشمیر سیاسی اور فوجی حیثیت سے پاکستان کی شہ رگ ہے۔ کوئی خوددار ملک اور قوم اسے برداشت نہیں کرسکتی کہ وہ اپنی شہ رگ دشمن کی تلوار کے آگے کردے۔ کشمیر پاکستان کا حصہ ہے۔ ایک ایسا حصہ ہے جسے پاکستان سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ کشمیر کا مسئلہ نہایت نازک مسئلہ ہے لیکن اس حقیقت کو کوئی انصاف پسند قوم اور ملک نظرانداز نہیں کرسکتا کہ کشمیر تمدنی، ثقافتی، مذہبی، جغرافیائی، معاشرتی اور سیاسی طور پر پاکستان کا ایک حصہ ہے اور جب بھی اور جس زاویے سے بھی نقشے پر نظر ڈالی جائے یہ حقیقت بھی اتنی ہی واضح ہوتی چلی جائے گی۔(قائداعظم کے آخری ایام)
آج اس امر کی ضرورت ہے کہ اقبال اور قائداعظم کے ارشادات کی روشنی میں اور ان تمام زمینی اور تاریخی حقائق اور پاکستان او ریاست جموں و کشمیر کے مسلمانوں کے حقیقی جذبات، عزائم اور تمنائوں کے مطابق پاکستان اپنی کشمیر پالیسی مرتب کرے اور اس پر مؤثر عمل درآمد کے لیے ضروری اقدام کرے جن پر پوری تندہی اور شفافیت کے ساتھ ہرسطح پر عمل کیا جائے۔ پارلیمنٹ اور قوم کو اعتماد میں رکھا جائے، احتساب کا نظام متحرک اور مؤثر ہو اور پاکستانی قوم اور مسلمانانِ جموں و کشمیر ایک دوسرے کے لیے تقویت کا ذریعہ بن کر مشترکہ مفادات اور مقاصد کے لیے اس تحریک کو اپنے منطقی انجام تک لے جائیں جس کی آبیاری ہمارے نوجوان اپنے خون سے کر رہے ہیں۔
اصولی بات تو ایک جملے میں ادا کی جاسکتی ہے: پاکستان کی کشمیر پالیسی کا مقصد پاکستان اور ریاست جموں و کشمیر کے مسلمانوں کے عزائم، حقیقی مفادات اور پورے علاقے کے لیے ترقی، استحکام، سلامتی اور خوش حالی کا حصول ہونا چاہیے۔
۱- مسئلہ کشمیر ، ریاست جموں و کشمیر کے سوا کروڑ سے زائدمسلمانوں کے ایمان، عزت، آزادی اور سیاسی اور تہذیبی مستقبل کا مسئلہ ہے۔ یہ تقسیم ملک کے نامکمل ایجنڈے کا حصہ ہے۔ پاکستان کے لیے زندگی اور موت کا سوال ہے۔ یہ محض دو ملکوں کے درمیان سرحدی تنازعہ نہیں۔ اس لیے ہماری سیاسی ترجیحات میں اسے اولیت دینا چاہیے۔
۲- مسلمانانِ جموں و کشمیر نے اپنی بیش بہا قربانیوںکے ذریعے اس مسئلے کو زندہ رکھا ہے اور اس وقت اسے اس مقام تک پہنچا دیا ہے جہاں ہندستان اور دنیا کے دوسرے ممالک یہ محسوس کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ اس مسئلے کو حل کیے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ لیکن جموں و کشمیر کے عوام کے ساتھ ساتھ، اس مسئلے کے فریق پاکستان، ہندستان اور اقوامِ متحدہ بھی ہیں۔ پاکستان کا فرض ہے کہ ایک فریق کی حیثیت سے مسئلے کو لے کر اُٹھے اور ہرمیدان میں اس کے حل کے لیے سرگرم ہو… تحریکِ آزادی کی مدد کے ذریعے بھی اور عالمی راے کو منظم اور مسخر کر کے بھی۔
۳- پاکستان اس موقف کے بارے میں ذرہ برابر بھی کمزوری نہ دکھائے کہ مسئلۂ کشمیر کے حل کا صرف ایک طریقہ ہے وہ ہے اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق استصواب راے۔ اس استصواب راے میں بھی صرف دو ہی راستے ہیں: یعنی ہندستان یا پاکستان سے الحاق۔ کسی تیسرے آپشن کا دروازہ کھولنا خودکشی کے مترادف ہے، پاکستان کے لیے بھی اور مسلمانانِ جموں و کشمیر کے لیے بھی۔
پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے موقف کو پوری جرأت اور دانش مندی سے پیش کرے۔ پاکستان یہ بات بھی واضح کردے کہ الحاق کے فیصلے کے بعد، پاکستان اور ریاست جموں و کشمیر میں تعلقات کی نوعیت، نظم و نسق اور انتظام و انصرام کا نقشہ، اور خود اختیاری کی شکل و نوعیت کیا ہو۔ یہ تمام اُمور ریاست جموں و کشمیر کے عوام کی مرضی کے مطابق طے ہوں۔ پاکستان کے دستور کی دفعہ ۲۵۷ بہت واضح ہے جو ریاست کے عوام کی راے کو حرفِ آخر تسلیم کرتا ہے۔
۴- پاکستان کا فرض ہے کہ مجاہدین کشمیر کی بھرپور مدد کرے اور اس کے اعلان میں شرمندگی نہ محسوس کرے۔ پاکستان نے کشمیر کی خاطر گذشتہ ۶۹سال میں بے شمار قربانیاں دی ہیں۔ آج جب کشمیر کے نوجوان کشمیر اور پاکستان کی جنگ لڑ رہے ہیں ہم ان کو تنہا نہیں چھوڑ سکتے۔ وہ ہماری جنگ لڑ رہے ہیں اور ہمارا فرض ہے کہ اپنا پیٹ کاٹ کر بھی ان کی مدد کریں۔ ان کی ہرضرورت کو پورا کریں، اور ہندستان نے ان پر مظالم کے جو پہاڑ توڑے ہیں، ہم صحیح معنی میں ان کے پشتی بان بن جائیں۔
۵- پاکستان کی حکومت اور عوام کے ساتھ ساتھ، اس جدوجہد میں آزاد کشمیر کی حکومت اور عوام کی بھی بڑی ذمہ داری ہے۔ پاکستان کی حکومتوں کی طرح، آزاد کشمیر کی حکومت بھی اپنے اصلی مشن کو بھول چکی ہے۔ وہ محض آزاد علاقے کی حکومت نہیں، بلکہ پوری ریاست جموں و کشمیر کی آزاد حکومت ہے، اور مقبوضہ کشمیر کی آزادی کی جدوجہد اس کا اوّلین مقصد ہے۔ اسی لیے اسے بیس کیمپ کا لقب دیا گیا تھا۔ اب ضرورت یہ ہے کہ گروہی سیاست سے بالا ہوکر، آزاد کشمیر کی حکومت اور عوام تحریک میں بھرپور حصہ لیں اور اپنی ترجیحات کو یکسر بدل کر تحریکِ آزادی کو اس کے منطقی اور فطری نتیجے تک پہنچانے کے لیے سرگرم ہوجائیں۔
۶- حکومت ِ پاکستان کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اگرچہ یہ مقصد محض سیاسی اور سفارتی جدوجہد سے حاصل نہیں ہوسکتا، مگر سیاسی اور سفارتی مہم بہت اہم ہے اور اب تک اس کے تقاضے بھی پورے نہیں کیے جاسکے ہیں۔ محض چند وفود باہر بھیجنے سے کام نہیں ہوگا۔ اس کے لیے بڑے ہمہ گیر، منظم اور مؤثر کام کی ضرورت ہے، جس کے تحت پوری دنیا میں ہر علاقے کے حالات کے مطابق تحریکِ کشمیر کے تعارف اور اس کے لیے تائید کے حصول کے لیے جدوجہد کرنا ہوگی۔ ہماری وزارتِ خارجہ بالعموم اس مقصد میں ناکام رہی ہے۔
اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ کشمیر کی تحریک کو کامیاب بنانے کے لیے وزارت کی تنظیم نو ہو، اور کشمیر ڈیسک سب سے اہم ڈیسک ہو۔ ہر اس ملک میں جہاں ہمارا سفارت خانہ ہے کشمیرسیل قائم کیا جائے، علم اور صلاحیت رکھنے والے افراد کو جو کشمیر کے لیے صحیح جذبہ رکھتے ہوں، اس کام پر لگایا جائے، اور اس طرح عالمی سطح پر ایک مؤثر تحریک چلائی جائے۔
۷- پوری پاکستانی قوم کو حالات سے آگاہ رکھنا اور جذبۂ جہاد سے سرشار کرنا بھی اس پالیسی کا اہم جزو ہونا چاہیے۔ جب تک پوری قوم کو اس تحریک کے لیے متحرک نہیں کیا جائے گا، کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی۔ ہراسکول، کالج اور یونی ورسٹی میں، ہرشہر، قصبہ اور دیہات میں، ہرمسجد اور مدرسے میں، ہرکارخانہ اور بازار میں، جہادِ کشمیر سے لوگوں کو متعارف کرایا جائے اور اس میں شرکت کے لیے مال سے، جان سے، ہر صورت میں آمادہ کیا جائے۔ قوم میں بڑا جذبہ ہے لیکن اسے آج تک صحیح انداز میں متحرک و منظم نہیں کیا گیا۔
۸- حکومت پاکستان کو اپنے بجٹ کو بھی ان ترجیحات کی روشنی میں ازسرِنو مرتب کرنا ہوگا۔ جہادِکشمیر کی ضروریات کو اوّلیت دینا ہوگی، اس کے ساتھ ساتھ ایٹمی طاقت کی مناسب ترقی، فوج کو چوکس رکھنا اور قوم کے نوجوانوں کو تیار کرنا ضروری ہے۔ اس بات کا خطرہ ہے کہ جب کشمیر میں حالات ہندستان کی گرفت سے بالکل نکلنے لگیں گے تو وہ پاکستان پر جنگ مسلط کرنے کی کوشش کرے گا۔ کشمیر پالیسی کا ایک حصہ یہ بھی ہے کہ ہم جنگ کے لیے تیار رہیں۔ تاریخ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ جو قوم جنگ سے خائف رہی ہے وہ اپنی آزادی سے بھی محروم ہوگئی ہے اور جو قوم جنگ کے لیے تیار رہی ہے، وہی اپنے ایمان، عزت و آزادی کو محفوظ رکھ سکی ہے ۔
سابق امریکی صدر نکسن نے بہت صحیح کہا تھا کہ ’’ہمیں اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ قوت کے استعمال سے دستبرداری، دراصل دشمن کو اپنے خلاف قوت کے استعمال کی دعوت دینے کے مترادف ہے‘‘۔ نکسن نے تو یہاں تک کہا ہے کہ ’’صرف تیار ہی نہ رہو، مخالف کو یہ پیغام بھی دے دو کہ تم ہرقوت کے استعمال کے لیے تیار ہو۔ یہ وہ چیز ہے جو دشمن کو تم پر دست درازی سے روکے گی‘‘۔ اسی بات کو ہنری کسنجر نے ایک دوسرے انداز میں کہا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ’’اگر امن کے معنی محض جنگ سے بچنا لے لیے جائیں، اور یہ چیز ایک قوم یا بہت سی اقوام کے مجموعے کا بنیادی مقصد بن جائے، تو سمجھ لو عالمی سیاسی نظام کا سب سے زیادہ بے رحم اور سنگ دل ملک کے رحم و کرم پر ہوگا‘‘۔ اس لیے جنگ سے بچنے کا بھی سب سے مؤثر راستہ جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار رہنا ہے۔
۹- ہندستان پر مؤثر دبائو ڈالنے کے لیے چار ہی اہم طریقے ہیں اور ان چاروں کو مؤثر انداز میں اور مربوط منصوبہ بندی کے ذریعے استعمال ہونا چاہیے:
o تحریکِ آزادی کشمیر کی بھرپور اور مؤثر مدد، تاکہ مقبوضہ کشمیر میں قابض قوت پر اتنا دبائو پڑے اور اسے قبضے کی اتنی گراں قیمت ادا کرنی پڑے کہ وہ پُرامن حل کے لیے تیار ہوجائے۔
o عالمی راے عامہ کو منظم کرنا، اور اس کا دبائو اتنا بڑھانا کہ ہندستان اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق استصواب راے کے لیے مجبور ہو۔ اگر فرانس کو الجزائر چھوڑنا پڑا، اگر اقوامِ متحدہ کو نمیبیا میں استصواب راے کروانا پڑا، اور اگر جنوبی افریقہ ۳۰۰سالہ نسلی امتیاز کے نظام کو ختم کرنے پر مجبور ہوا، تو ہندستان کو بھی کشمیر میں استصواب راے پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔ گذشتہ ۲۰برسوں میں جنوبی سوڈان، مشرقی تیمور اور شمالی آئرلینڈ میں ریفرنڈم ہوئے ہیں۔ اوّل الذکر دونوں آزاد مملکت کے طور پر وجود میں آچکی ہیں۔ شمالی آئرلینڈ نے ساتھ رہنے کا فیصلہ کیا اور ’گڈفرائیڈے‘ معاہدے کے تحت مل کر تمام عناصر حکومت چلا رہے ہیں جسے ۱۵سال ہوچکے ہیں۔ کینیڈا میں کیوبک کے علاقے میں اور برطانیہ میں اسکاٹ لینڈ میں ریفرنڈم ہوا۔ گو دونوں جگہ اس کے نتیجے میں نئی ریاستیں قائم نہ کرنے کا فیصلہ ہوا۔ انگلستان نے ابھی دو ماہ پہلے یورپی یونین سے نکلنے کے بارے میں ریفرنڈم کرایا اور یورپ سے نکلنے کا فیصلہ کرلیا جس پر اگلے دو سال میں عمل ہونا ہے۔ اگر دنیا میں ان تمام ممالک میں بین الاقوامی قانون کے تحت ریفرنڈم ہوسکتے ہیں تو کشمیر کے باب میں اقوامِ متحدہ میں ۲۰ سے زیادہ قراردادوں کی موجودگی میں اور بھارت کے حکمرانوں کے اپنے عہدوپیمان کے مطابق اور سب سے بڑھ کر وہاں کی عوام کی راے کو احترام میںریفرنڈم کیوں نہیں ہوسکتا؟
o ہندستان اور اس کی مصنوعات کے بائیکاٹ کی عالمی مہم: پاکستان خود اس کا آغاز تمام تجارتی تعلقات منقطع کر کے کرے۔ تمام مسلمان ممالک کو اس کی ترغیب دی جائے کہ اوآئی سی کی اپریل۱۹۹۳ء کی قرارداد کے مطابق ہندستان کی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں۔ اس وقت صرف مشرقِ وسطیٰ میں ہندستان کی کُل برآمدات کا تقریباً ۵۰ فی صد جا رہا ہے۔ اگر ایک مؤثر عوامی اور سرکاری تحریک چلائی جائے تو یہ معاشی دبائو بھی ہندستان کو مجبور کرے گا کہ کشمیر میں استصواب راے کرائے۔ پھر عالمی پلیٹ فارم پر بھی معاشی پابندیوں کا مطالبہ کیا جائے۔ سیکورٹی کونسل میں، جنرل اسمبلی میں، دنیا کی مختلف پارلیمانوں میں یہ قراردادیں منظور کرائی جائیں۔ عوامی بائیکاٹ کی مہم کے ساتھ ساتھ سرکاری پابندیوں کی تحریک بھی چلائی جائے۔فلسطین کے مسئلے کے باب میں دنیا میں اس وقت اسرائیل کے خلاف بائیکاٹ کی مہم چل رہی ہے۔ آغاز میں یہ کام ناممکن محسوس ہوتا تھا مگر چندبرسوں کی کوشش سے تحریک نے اب تقویت حاصل کرلی ہے اور اسرائیل اس پر آتش زیرپا ہے۔ ہندستان کے سلسلے میں بھی ایسی ہی تحریک کی ضرورت ہے۔اگر اس واضح ہدف کے لیے کام کیا جائے تو جلد فضا تبدیل ہوسکتی ہے۔
o قوم کو جہاد کے لیے تیار کرنا، فوج کا چوکس رہنا اور ایٹمی صلاحیت کا صحیح درجے میں موجود ہونا بہت ضروری ہے۔ایک طرف یہ چیز بیرونی جارحیت کے لیے مؤثر مانع ثابت ہوگی، اور دوسری طرف ہم کو وہ استطاعت حاصل رہے گی کہ اگر دشمن کوئی دست درازی کرتا ہے تو اس کا مؤثر جواب دیا جاسکے۔ ایٹمی طاقت کا ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس کی وجہ سے محدود جنگ کے امکانات کی نوعیت بدل گئی ہے اور مکمل جنگ سے اجتناب ممکن ہوسکتا ہے۔ اس لیے اس دفاعی اسٹرے ٹیجی میں ایٹمی طاقت کا مؤثر کردار ہے۔
۱۰- مندرجہ بالا خطوط پر مرتب کردہ کشمیر پالیسی کی کامیابی کے لیے ضروری ہوگا کہ اس کے نفاذ کے لیے بھی ایک مؤثر مشینری وجود میں لائی جائے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ یہ پالیسی اور اس کی تنفیذی مشینری قومی بنیادوں پر استوار کی جائے۔ تمام سیاسی اور دینی جماعتوں کا فرض ہے کہ اس سلسلے میں مثبت کردار ادا کریں۔ پارلیمنٹ کو اس بارے میں مناسب ابتدائی اقدامات کرنے چاہییں۔ میڈیا کا کردار بھی غیرمعمولی اہمیت کا حامل ہے۔ اس کام کے لیے ایک قومی تحریک کی ضرورت ہے۔
جس طرح کشمیر کے نوجوانوں نے چند برسوں میں وہاں کی فضا تبدیل کردی ہے ،اسی طرح اگر پاکستان کی حکومت، سیاسی جماعتیں اور عوام اپنے فرض کی ادایگی کے لیے اُٹھ کھڑے ہوں تو حالات بہت کم وقت میں بدل سکتے ہیں۔ اس کا فائدہ صرف تحریکِ آزادیِ کشمیر اور بالآخر کشمیر کے پاکستان سے الحاق کی شکل میں ہی نہیں ہوگا، بلکہ قوم کو نئی زندگی اور نیا جذبہ ملے گا، اور اس نئی زندگی اور نئے جذبے کو پاکستان کو ایک حقیقی اور مضبوط اسلامی، فلاحی مملکت بنانے کے لیے استعمال کیا جاسکے گا۔ یہی تحریکِ پاکستان کا اصل مقصد تھا اور یہی تحریکِ کشمیر کی بھی قوتِ محرکہ ہے۔
جمہوری معاشرے میں سالانہ قومی بجٹ اور پارلیمنٹ کا بجٹ سیشن بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ اس موقعے پر قوم کو ملک کی معاشی حالت، اس کے مالی وسائل اور ان کے استعمال کی صورتِ حال، حکومت کی معاشی اور مالیاتی پالیسیوں اور ترجیحات کی کیفیت سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ حال اور مستقبل کے سیاسی، دفاعی اور ہرقسم کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت اور اس کے استعمال کی منصوبہ بندی کیا ہے؟ اس پر بحث و گفتگو کرنے اور قوم اور ملک کے معاشی اور اجتماعی مقاصد اور اہداف کی صورت گری کرنے کا موقع میسر آتا ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور اس کے اتحادیوں کی حکومت نے اپنے اقتدار کے تین سال مکمل کرلیے ہیں اور یہ چوتھا بجٹ اس حکومت کی تین سال کی کارکردگی کے جائزے کا بہت ہی مناسب موقع ہے۔
ویسے تو جمہوری ممالک میں نئی حکومت کے پہلے ۱۰۰دن ہی اس کی کارکردگی اور سفر کے رُخ کو سمجھنے کے لیے کافی سمجھے جاتے ہیں لیکن تین سال کی مدت تو ہراعتبار سے حکومت کی صلاحیت ِکار اور مستقبل کے باب میںا س سے توقعات کے بارے میں ایک معروضی راے قائم کرنے کے لیے کافی مدت ہے۔ واضح رہے کہ دنیا کے بیش تر ممالک میں تو حکومت کی ٹرم چار سال ہی ہوتی ہے جس کی سب سے اہم مثال خود امریکا ہے لیکن چونکہ ہمارے دستور میں یہ مدت پانچ سال ہے، اس لیے اس کے دوسرے نصف کے آغاز کو ہراعتبار سے جائزے اور محاسبے کے لیے ایک مناسب میقات تصور کیا جانا چاہیے۔
جیساکہ ہم نے اشارہ کیا ، قومی بجٹ صرف گذشتہ سال کے دوران حکومت کے زیرتصرف مالی وسائل کے حصول اور خرچ کا ایک میزانیہ اور اگلے سال کے لیے وسائل اور ان کے استعمال کا ایک پروگرام ہی نہیں ہوتا بلکہ دراصل ان مالی اعداد و شمار کے آئینے میں حکومت کی معاشی منزل اور وژن، پالیسیوں اور حکمت عملی، ترجیحات اور اہداف کی ایک معتبر اور مکمل تصویر دیکھی جاسکتی ہے۔
بجٹ سے پہلے سالانہ معاشی جائزہ پیش کیا جاتا ہے جو گزرے ہوئے سال کے معاشی حالات، طے شدہ اہداف کے حصول یا حصول میں ناکامی اور معاشی اور مالی پالیسیوں کی کامیابیوں اور ناکامیوں کو پیش کرتا ہے، اور جس کے اسٹیٹ بنک کی سہ ماہی اسٹیٹ آف دی ایکونومی رپورٹوں کے ساتھ مطالعے سے ملک کی تاریخ کے پس منظر میں گزرے ہوئے سال کی پوری صورتِ حال کو سمجھا جاسکتا ہے۔ پھر اس کی روشنی میں نئے سال کا بجٹ اور سالِ گذشتہ کے اخراجات اور آمدنیوں کی پوری تفصیل کئی ہزار صفحات پر پھیلی ہوئی دستاویزات کی شکل میں قومی اسمبلی، سینیٹ اور قوم کے سامنے پیش کی جاتی ہیں تاکہ قوم، ملک کے معاشی، سیاسی اور علمی حلقے، میڈیا اور متاثر ہونے والے تمام عناصر اپنی اپنی راے کا اظہار کرسکیں۔ سینیٹ اگرچہ بجٹ منظور نہیں کرتا لیکن اسے دو ہفتے کے اندر اپنی سفارشات پیش کرنے کا اختیار ہے۔قومی اسمبلی کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ان سب آرا کی روشنی میں بجٹ کو آخری شکل دے۔ اس کے تین مرحلے ہوتے ہیں، یعنی بجٹ کے پیش ہونے کے بعد اس پر عام بحث۔ پھر متعین اخراجات پر احتساب جنھیں کٹوتی کی تحریکات (Cut Motions) کہا جاتا ہے اور پھر بجٹ کی منظوری۔ کٹوتی کی تحریک بھی اتنا اہم مرحلہ ہوتا ہے کہ اگر حزبِ اختلاف کی طرف سے صرف ایک تحریک منظورہوجائے تو حکومت کو مستعفی ہونا پڑتا ہے اور بجٹ کی ازسرِنو تشکیل ضروری ہوجاتی ہے۔
دنیا کے بیش تر جمہوری ممالک میں بجٹ سازی کا کام چار سے چھے مہینوں پر پھیلا ہوا ہوتا ہے تاکہ ہرسطح پر معاشی اور مالی معاملات کا گہرائی میں جائزہ لیا جاسکے۔ امریکا میں اسمبلی اور سینیٹ کی متعلقہ کمیٹیاں سال بھر کام کرتی ہیں۔ برطانیہ میں یہ عمل بجٹ پیش ہونے سے تین مہینے پہلے شروع ہوجاتا ہے اور برطانیہ اور نصف سے زیادہ جمہوری ممالک میں پارلیمنٹ میں بجٹ پیش ہونے کے بعد پارلیمنٹ اس پر چار سے آٹھ ہفتے گفتگو کرتی ہے اور پھر افہام و تفہیم کے ساتھ اسے متفقہ طور پر یا اکثریت کی بنیاد پر منظور کیا جاتا ہے۔
بجٹ سازی کا عمل جس سنجیدگی، ملک گیر بحث و گفتگو اور ان تمام عناصر کے درمیان جو کسی نہ کسی درجے میں متاثر ہورہے ہوں، معنی خیز افہام و تفہیم کے جس عمل کا متقاضی ہے، بدقسمتی سے اس کا پاکستان میں کوئی اہتمام نہیں کیا جاتا۔ پارلیمنٹ خود بھی اپنا دستوری کردار ادا کرنے میں بُری طرح ناکام رہی ہے اور تمام ہی حکومتوں نے بجٹ کو محض ایک رسم اور حکومت کی مرضی کو آمرانہ انداز میں مسلط (bulldoze) کرنے کی روایت قائم کر دی ہے۔ مسلم لیگ (ن) جب حزبِ اختلاف میں تھی تو پیپلزپارٹی کی روش پر سیخ پا تھی اور اس رویے کو ننگی آمریت کہتی تھی، اب اقتدار میں ہے تو اس سے بھی بدتر رویہ اختیار کرنے میں وہ کوئی باک محسوس نہیں کرتی۔ جس کی بدترین مثال اس سال پیش کی گئی ہے۔
سینیٹ کی سفارشات میں سات آٹھ سال سے مسلسل یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ سالانہ معاشی جائزہ بجٹ سے کم از کم ایک ہفتہ پہلے شائع ہو تاکہ اس کا گہرائی سے مطالعہ کیا جاسکے۔ ۲۴گھنٹے پہلے لانا ایک مذاق ہے۔ موجودہ وزیرخزانہ ہمارے ساتھ اس مطالبے میں پورے جوش و خروش سے شریک تھے مگر ان کی اپنی حکومت کے چوتھے بجٹ کے موقعے پر بھی معاشی جائزہ وہی ایک دن پہلے شائع کیا گیا ہے۔ اس طرح ان کے دور میں بھی ہرسال اسی طرح بجٹ کے ساتھ اضافی اخراجات کی پوری کتاب آرہی ہے جس طرح پہلے آتی تھی، جو دستور اور جمہوری اصولوں کی روح کے خلاف ہے اور دستور کی کسی بہت ہی خاص مجبوری کے حالات کے لیے ایک گنجایش کا صریح غلط استعمال ہے۔ اس سال میں یہ اضافی اخراجات ۲۶۱؍ارب روپے پر پھیلے ہوئے ہیں اور لگژری گاڑیوں کی خریداری بھی اس کا حصہ ہے۔ بجٹ کی تیاری کے دوران جس نوعیت کی مشاورت ضروری ہے، اس کا اہتمام نظر نہیں آتا۔ سب سے افسوس ناک صورت حال بجٹ کے پیش کیے جانے کے ساتھ وہ سلوک ہے جو اس کے اور پارلیمنٹ کے ساتھ کیا گیا ہے۔ سینیٹ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہے کہ سینیٹ کی سفارشات کی منظوری کے وقت وزیرخزانہ بحث میں موجود نہیں تھے اور ان کی اختتامی گفتگو کے بغیر سینیٹ کو اپنی سفارشات بھیجنا پڑیں۔ قومی اسمبلی میں نصف درجن سے زائد مواقعے پر بجٹ اجلاس کو کورم نہ ہونے کے باعث ملتوی کرنا پڑا۔وزیرخزانہ بحث کے تین چوتھائی وقت اسمبلی میں موجود نہ تھے۔ سرکاری ارکان تک شکوہ سنج تھے کہ انھیں کوئی سننے والا نہیں ہے اور ایک مسلم لیگی ایم این اے نے تو اپنی تقریر پھاڑ دی اور تقریر کرنے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ نہ کوئی وزیر ہے اور نہ کوئی سننے والا ۔ اخباری اطلاع ہے کہ اسمبلی کی تاریخ میں پہلی مرتبہ سرکاری جماعت کے ۶۰ سے زیادہ ارکان نے احتجاجاً واک آئوٹ کیا اور ان کو مناکر واپس لانے کی رسم بھی ادا کرنا پڑی۔ افسوس صد افسوس! ع
بجٹ اور بجٹ سیشن کی اتنی بے توقیری کی کوئی مثال خود ہماری اپنی پارلیمنٹ کی تاریخ میں موجود نہیں۔ ایک موقعے پر تو حکومت اور حزبِ اختلاف کے تمام حاضر ارکان کی تعداد صرف نو بیان کی گئی ہے۔
سیشن میں کیے جانے والے مباحث کا جائزہ لیا جاتا ہے تو افسوس ہوتا ہے کہ دو یا زیادہ سے زیادہ تین تقاریر کو تسلی بخش قرار دیا جاسکتا ہے۔ ستم ہے کہ خود حکومت کے وزرا کی فوج ظفرموج بھی بجٹ کی تشریح یا دفاع کرتی نظر نہیں آتی۔ کوئی ایک تقریر بھی سرکاری بنچوں کی طرف سے ایسی نہیں ہوئی جسے قابلِ ذکر قرار دیا جاسکے۔ رہا میڈیا تو وہی چار پانچ وزیر اور ایک مشیر ہیں جو گھسی پٹی باتیں ایوان میں اور میڈیا پر دہراتے رہے ہیں اور اصل ایشوز پر کسی کو کوئی مدلل بات کرنے کی توفیق نصیب نہیں ہوئی۔ حزبِ اختلاف کی تقاریر کا معیار بھی تسلی بخش نہیں قرار دیا جاسکتا حالانکہ یہ حکومت اور اس کی پوری کارکردگی پر گرفت کا بہترین موقع تھا۔ خود حکومت کا رویہ بڑا تشویش ناک رہا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وزیراعظم (جو خود بھی پارلیمنٹ میں بہت کم رونق افروز ہوتے تھے) کی عدم موجودگی کے سبب حکومت کا کوئی سرپیر ہی نہیں ہے۔ بجٹ بنانے میں بھی سارا بوجھ وزارتِ خزانہ پر ہے حالانکہ اس میں پلاننگ کمیشن اور تجارت، معاشی اُمور، بجلی، گیس اور پٹرولیم، زراعت، تعلیم، صحت، لیبر وغیرہم کا بھی ایک نمایاں کردار ہونا چاہیے ۔ اس سال خصوصیت سے جو صورتِ حال سامنے آئی ہے اس سے محسوس ہوتا ہے کہ بجٹ سازی اور اس کے دفاع میں ان کا کوئی دخل نہیں۔ حتیٰ کہ خوراک کے لیے خودانحصاری کے حصول کے لیے جو نئی وزارت بڑے طمطراق سے قائم کی گئی تھی، اس تک کا دُور دُور کوئی پتا نظر نہیں آتا۔ حکومت کا حال یہ ہوگیا ہے کہ ؎
رو میں ہے رخش عمر کہاں دیکھیے تھمے
نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں
ہمیں دُکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمیں اتنے سپاٹ، بے روح، وژن سے محروم اور سطحیت کے شکار بجٹ کی توقع وزیرخزانہ اور ان کی ٹیم سے نہ تھی___ ۲۰۱۳ء کے انتخابات کے موقعے پر مسلم لیگ کا تو دعویٰ ہی یہ تھا کہ ہمارے پاس پروگرام، تجربہ اور لائق ٹیم ہے اور ہم چھے مہینے میں ملک کی قسمت کو بدل کر رکھ دیں گے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ تیسرا سال ختم ہوگیا ہے اور پرنالہ وہیں کا وہیں ہے۔ عوام کی مشکلات میں اضافہ ہورہا ہے، خوش حالی نایاب ہے، اور غربت بڑھ رہی ہے، روزگار معدوم ہے، قرضوں کا بوجھ بڑھتا جا رہا ہے اور معیشت کا پہیہ ہے کہ گردش میں نہیں آرہا۔ مالی سال ۱۶-۲۰۱۵ء میں زراعت پچھلی دو دہائیوں میں پہلی مرتبہ نہ صرف یہ کہ ترقی کا اپنے ہدف حاصل نہ کرسکی بلکہ عملاً منفی پیداوار کا منظر پیش کر رہی ہے اور گذشتہ سال کی پیداوار کے مقابلے میں پیداوار کا کُل حجم کم ہوگیا ہے۔ معاشی ترقی کی شرحِ نمو میں زراعت کا کردار منفی رہا ہے۔ اسی طرح برآمدات جو زرمبادلہ کے حصول کا اہم ترین ذریعہ ہیں، وہ تین سال سے جمود کا شکار ہیں اور جون ۲۰۱۶ء میں سالانہ برآمدات کا حجم ۲۰۱۳ء کی برآمدات سے کم ہے۔ یہی معاملہ بیرونی سرمایہ کاری کا ہے جو ساڑھے تین بلین ڈالر سالانہ سے کم ہوکر صرف ایک بلین ڈالر پر آگئی ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ یہ حالات غیرمتوقع طور پر رُونما ہوگئے ہوں۔ ان تینوں برسوں کے اکانومک سروے دیکھ لیجیے، اسٹیٹ بنک آف پاکستان کی سہ ماہی رپورٹوں کا مطالعہ کرلیجیے۔ ورلڈبنک اور آئی ایم ایف کی تبصراتی رپورٹوں سے رجوع کر لیجیے۔ کہیں کھلے الفاظ میں ، کہیں اشارتاً معیشت کی مخدوش صورتِ حال اور خصوصیت سے زراعت، برآمدات کا جمود، توانائی کی قلّت کی تباہ کاریاں، پیداواری inputs کی قیمتوں کے اضافے، قوتِ خرید کی کمی، قرضوں کے بوجھ میں مسلسل اضافہ، بیرونی سرمایہ کاری میں کمی اور قومی بچت کے غیرتسلی بخش رجحانات، تعلیم اور صحت کی زبوں حالی، غیرمنظم اور غیرمتوازن شہرکاری سب کا ذکر موجود ہے لیکن حکومت آزاد معیشت (liberalization) اور گلوبلائزیشن کے عشق میں ایک گھسی پٹی لکیر پیٹتی رہی اور اب بوکھلاہٹ کا شکار ہے۔ کبھی کسان پیکج کی بات کرتی ہے اور کبھی برآمدات کے لیے نئے محرکات کی۔ بلاشبہہ ان دونوں میدانوں میں فوری اقدامات کی ازحد ضرورت ہے لیکن مسئلہ پوری معاشی پالیسی، حکمت عملی کی ترجیحات، وسائل کے منصفانہ استعمال اور اچھی حکمرانی کے قیام کا ہے۔ بحران صرف زراعت اور برآمدات کا نہیں بحران پوری معاشی پالیسی اور تمام ہی اہم ادارات کی ناکامی اور خستہ حالی کا ہے۔ جب تک پالیسی کے جملہ پہلوئوں کی اصلاح کی فکر نہ کی جائے اور جو structural اور اداراتی بحران ہے، اس کو درست نہ کیا جائے، حالات میں کسی بڑی تبدیلی اور عوام اور ملک کی مشکلات دُور ہونے کی کوئی سبیل نظر نہیں آتی۔ ان سب پر مستزاد ملک گیر کرپشن اور قومی دولت کو قوم کی فلاح کے لیے استعمال کرنے کے بجاے ذاتی مفادات کے لیے استعمال کا مسئلہ ہے جو معیشت کو گھن کی طرح کھا رہا ہے اور عوام اور حکمرانوں کے درمیان دُوریاں بڑھا رہا ہے۔
بجٹ اور حکومت کی معاشی کارکردگی کو جانچنے کے کم از کم تین معیار ہوسکتے ہیں۔ سب سے آسان اور سطحی معیار یہ ہے کہ سابقہ بجٹ میں جو اہداف رکھے گئے تھے وہ کہاں تک پورے ہوئے ہیں اور کہاں گاڑی مطلوبہ رفتار سے نہیں چل سکی؟ اس پہلو سے آپ جائزہ لیں تو ۲۰واضح اہداف رکھے گئے تھے جن میں سے نو کے بارے میں حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ حاصل کرلیے ہیں ، جب کہ ۱۱ میں کامیابی حاصل نہیں ہوسکی___ خصوصیت سے زراعت جس کا قومی پیداوار میں حصہ ۲۱ فی صد اور ملک کی لیبر فورس میں ۴۵ فی صد ہے۔ برآمدات اور بیرونی سرمایہ کاری کے اہداف بھی پورے نہیں ہوسکے۔ معیشت میں مجموعی نمو کی شرح میں گو سالِ گذشتہ کی شرح سے زیادہ اضافہ ہوا ہے لیکن ہدف سے معیشت بہت پیچھے رہی ہے، یعنی ۵ئ۵ فی صد متوقع اضافے کے مقابلے میں اضافہ ۷ئ۴ فی صد ہے جس کے بارے میں بھی آزاد معاشی ماہرین کی ایک تعداد کا خیال ہے کہ اصل اضافہ اس سے بہت کم ہے، یعنی سالِ گذشتہ کے اضافے ہی کے لگ بھگ ہے، یعنی ۱ئ۳ فی صد۔ البتہ افراطِ زر، بیرونی ذخائر اور بجٹ کے خسارے کے باب میں حکومت کی کوششیں نسبتاً مؤثر رہی ہیں۔ گو وہاں بھی بہت سے سوالات ہیں جو نتائج کو مخدوش بنادیتے ہیں، مثلاً بجٹ خسارے کے اعداد و شمار میں گردشی قرضوں (circular debt) کے ساڑھے تین سو ارب کو شامل نہ کرنا اور اسی طرح اڑھائی ارب کے نجی شعبے کے برآمدات کے باب میں refunds کو تین مہینے میں واپس کردینے کے وعدوں کے باوجود دو سال سے زیادہ لٹکاکر رکھنا کسی صورت میں بھی صاف شفاف قرار نہیں دیا جاسکتا۔ سب سے کامیاب سیکٹر سروسز کا ہے اور اس میں بھی بنکاری سیکٹر، کاروں کا اور آٹو موبائل (automobile) سیکٹر اور سیل فون اور متعلقہ آئی ٹی سیکٹر نمایاں ہیں۔ سروسز سیکٹر کی کامیابی کی ایک وجہ سرکاری اخراجات، تنخواہوں اور پنشن کے اضافے وغیرہم بھی ہیں جو مالی اور حسابیاتی حد ( Accounting terms) تک تو معیشت کی ترقی اور پیداوار میں اضافے کا ذریعہ بنتے ہیں لیکن عملاً ملک کے پیداواری عمل اور پیدا آوری صلاحیت کو بڑھانے میں ان کا حصہ محلِ نظر ہے۔
بنکاری کے شعبے میں تیزرفتاری سے اضافہ ہوا ہے لیکن بنکوں نے جو قرضے دیے ہیں ان کا ۹۰ فی صد مرکزی اور صوبائی حکومتوں اور سرکاری اداروں نے لیا ہے، جب کہ نجی شعبے میں ان کے ذریعے سرمایہ کاری کا حصہ بمشکل ۱۰ فی صد رہا ہے جو تشویش ناک ہے۔ بنکوں کے اپنے منافع میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے اور بنکوں کے اعلیٰ افسران کی تنخواہوں، بونس اور مراعات میں محیرالعقول اضافے دیکھے جاسکتے ہیں لیکن بنکوں میں عام کھاتہ داروں کو ان کے جائز حق سے بھی بُری طرح محروم رکھا گیا ہے جس کے نتیجے میں امیر امیرتر ہو رہا ہے اور غریب غریب تر۔ بنک حکومت کو قرضے دے کر خطیر رقم سود کے باب میں کما رہے ہیں۔ بنک سے عام کھاتہ دار افراطِ زر کی شرح کے بھی نیچے اپنا حصہ وصول کر رہے ہیں جس کے معنی ہیںکہ حقیقی معنوں میں تو وہ اپنے اصل زر میں بھی کمی کا بوجھ اُٹھا رہے ہیں۔ بنکوں کا اپنوں کو نوازنے کے باب میں کیا کردار ہے؟ اس کا اس رپورٹ سے اندازہ کریں جو روزنامہ ایکسپریس ٹربیون میں ۲۹فروری ۲۰۱۶ء کو شائع ہوئی ہے، یعنی نیشنل بنک آف پاکستان کے صدر کی تنخواہ اور بونس وغیرہ میں سال کے دوران (۲۰۱۵ئ) میں ۵۱فی صد اضافہ ہوا ہے، جب کہ اس زمانے میں بنک کے حصص میں مارکیٹ میں ۲۲ فی صد کمی ہوئی ہے۔ بنک کے صدر نے اس سال ۷کروڑ ۱۱لاکھ روپے مشاہرہ وصول کیا جو سالِ گذشتہ (۲۰۱۴ئ) سے ۲کروڑ ۳۹ لاکھ زیادہ تھا۔ اسی طرح یونائٹیڈ بنک کے صدر اور سی ای او کو ۲۰۱۵ء میں جو ادایگی کی گئی وہ ۱۲کروڑ۷۳لاکھ روپے تھی۔ حبیب بنک کے سربراہ کے مشاہرے میں ۳ئ۴۱ فی صد اضافہ ہوا اور ان کو ۷کروڑ ۵۱لاکھ کی ادایگی کی گئی۔ واضح رہے کہ اس سال حبیب بنک کو ۳۵؍ارب روپے کا منافع ہوا جو سالِ گذشتہ سے ۱۴فی صد زیادہ تھا، جب کہ معیشت کی عمومی رفتار ترقی سرکاری دعوے کے مطابق ۷ئ۴ فی صد تھی۔ مسلم کمرشل بنک کا معاملہ بھی یہی ہے۔ اس کے سربراہ کا مشاہرہ ۸کروڑ ۴۷لاکھ ادا کیا گیا جو سالِ گذشتہ سے ۹ئ۱۴ فی صد زیادہ تھا، حالانکہ اس سال کے دوران اس بنک کے حصص کی قیمت میں بھی ۲۹ فی صد کمی ہوئی۔ پانچویں بڑے بنک الائیڈ بنک کا معاملہ بھی مختلف نہیں۔ اس کے سربراہ کا مشاہرہ ۴کروڑ ۶۳ لاکھ تھا جو سالِ گذشتہ سے ۷ فی صد زیادہ تھا۔
معیشت کے جن جن گوشوں میں تھوڑی بہت مثبت تبدیلی ہوئی ہے، اس کا کریڈٹ حکومت کو ضرور دیا جانا چاہیے لیکن اس کے ساتھ تصویر کے دوسرے رُخ کو بھی سامنے رکھنا ضروری ہے، تاکہ مجموعی طور پر صحیح صورتِ حال قوم کے سامنے آسکے اور حالات کی اصلاح کے لیے مناسب حکمت عملی بنائی جاسکے۔ سابقہ دو برسوں کی کارکردگی کے پس منظر میں اس سال کا جائزہ لیا جائے تو وزیرخزانہ کی اس بات میں ایک حد تک صداقت ہے کہ مجموعی طور پر معیشت کے استحکام کے ہدف کی طرف جزوی پیش رفت ہوئی ہے۔ گو بجٹ کے اخراجات پر، خصوصیت سے انتظامی اخراجات پر کوئی مؤثر گرفت نہیں کی جاسکی اور حسبِ سابق غیر ترقیاتی اخراجات میں بجٹ کے ہدف سے زیادہ اضافہ ہوا ہے اور ترقیاتی مصارف میں کمی۔ ترقیاتی بجٹ کی حد تک اصل allocations طے شدہ بجٹ کا ۶۰ فی صد ہوسکے ہیں۔ قرضوں، قرضوں پر سود کی ادایگی اور حد پوری کرنے والے قرضوں کی واپسی کی مد میں سب سے زیادہ اخراجات ہوئے ہیں جو اَب دفاع کے کُل بجٹ کا بھی تقریباً دگنا ہوکر قومی خزانے پر سب سے بڑا بوجھ ہیں۔ قرض لے کر قرض ادا کرنے کی رِیت قائم کی گئی ہے، اور جو بھی قرضے حاصل ہوئے ہیں بدقسمتی سے ان کا بڑا حصہ انتظامی اخراجات میں عدم توازن کو کم کرنے اور قرضوں اور سود کی ادایگی کی نذر ہوگیا ہے۔ ترقیاتی مقاصد کے لیے ان کا استعمال واجبی ہی رہا ہے۔ قرض لینے کا یہ طریقہ معاشی اور سیاسی دونوں اعتبار سے تباہ کن ہے اور اسے بجٹ خسارے کا پیٹ بھرنے کا ذریعہ تو ضرور قرار دیا جاسکتا ہے مگر ملک کی ترقی میں اس کا کوئی حصہ نظر نہیں آتا۔ اس لیے ایسے قرضوں کو معاشیات کے جدید مباحث میں Odius Loansکہاجارہا ہے۔ بدقسمتی سے گذشتہ آٹھ سال میں ہم نے ترقیاتی قرضوں کو کریہہ، ناگوار اور قابلِ نفرت قرضوں میں تبدیل کر دیا ہے جن کے مثبت اثرات نہ ہونے کے برابر ہیں اور منفی اثرات میں اضافہ ہو رہا ہے اور ملک قرضوں کی دلدل میں دھنستا جا رہا ہے جس سے نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔ قرضوں کی یہ ’فاقہ مستی‘ رنگ دکھا رہی ہے اور ہم مصر ہیں کہ اس زہر کو جو صحت کو تباہ کر رہا ہے دوا سمجھ کر جاری رکھیں۔
وزیرخزانہ نے ضمانت دی تھی کہ SRO's کا سلسلہ ختم کیا جائے گا اور ٹیکس سے چھوٹ کے نظام کو ختم کر دیا جائے گا لیکن تین سال مکمل ہوجانے کے باوجود اور بظاہر SRO's پر کچھ تحدیدات لگانے کے باوصف ٹیکس چھوٹ کا سلسلہ جاری رہا ہے اور سالِ گذشتہ میں بھی ۵ئ۳۹۴؍ارب روپے ٹیکس میں چھوٹ کی نذر ہوگئے ہیں۔ زراعت کو تو ٹیکسوں کے بوجھ تلے دم توڑنے پر مجبور کیا جاتا رہا لیکن آٹوموبائل کے سیکٹر کو سالِ گذشتہ میں بھی ۵ئ۲۲ ارب روپے کی چھوٹ ( waiver) دی گئی۔ نئے سرکلر قرضوں کے پہاڑ بلند ترہورہے ہیں اور ان کا ان کی مکمل شکل میں بوجھ اب بھی پردۂ خفا میں ہے لیکن مختلف اعلانات سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ۲۵۰ سے ۳۰۰؍ارب کے پیٹے میں ہیں۔ اور یہ سب اس ۵۰۰؍ارب کی ادایگی کے بعد ہے جو نوازحکومت نے اقتدار میں آتے ہی لوڈشیڈنگ سے نجات کے نسخۂ کیمیا کے نام پر قواعد و ضوابط کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے بڑی عجلت میں ادا کر دیے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ بجلی کی پیداوار اور لوڈشیڈنگ میں کمی پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑا۔
بجٹ میں ٹیکس کی وصولی کے لیے جو ہدف رکھا گیا تھا اسے قریب قریب پورا کرلیا گیا ہے جو ایک قابلِ قدر چیز ہے لیکن یہ سوال پھر بھی ہے کہ یہ سب کچھ کس قیمت پر ہوا ہے۔ مقصد تو یہ تھا کہ جو لوگ ٹیکس نہیں دے رہے ہیں ان کو ٹیکس کے دائرے میں لایا جائے، اور ٹیکس چوری کو آہنی گرفت کے ذریعے ختم کیا جائے لیکن ٹیکس چوری کا بازار اسی طرح گرم ہے اور محصولات وغیرہ کی جو رقم وصول ہورہی ہے وہ بمشکل اس کا نصف ہے جو صرف موجودہ قوانین کے ٹھیک ٹھیک اطلاق سے ملنی چاہیے۔ معتبر اندازوں کے مطابق جن میں ورلڈبنک کے اندازے بھی شامل ہیں، وصول کی جانے والی رقم کا ۸۰ فی صد سالانہ چوری کی نذر ہو رہا ہے جو ۳۰؍کھرب روپے کے لگ بھگ ہے۔ اس وقت ملک میں کم از کم ۴۰لاکھ افراد اور ادارے ہیں جنھیں بلاواسطہ ٹیکس نیٹ ورک کا حصہ ہونا چاہیے، جب کہ عملاً جو افراد اور ادارے ٹیکس ریٹرن داخل کر رہے ہیں ان کی تعداد ۹ اور ۱۰ لاکھ کے درمیان ہے، یعنی مطلوبہ تعداد کا بمشکل ایک چوتھائی۔ ان حضرات اور اداروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے ٹیکس کی چھوٹ (Tax Amnesty) کے نام پر نو اسکیموں پر عمل ہوچکا ہے مگر بے نتیجہ۔ ایف بی آر اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں بُری طرح ناکام رہا ہے اور اس کے ازسرِنو جائزے اور کارکردگی کی بہتری کے لیے کوئی مؤثر کوشش نہیں کی جاسکی۔ سارا انحصار نئے ٹیکسوں، ٹیکسوں میں اضافے اور راست ٹیکسوں (direct taxes) کو بھی withholding tax کے ذریعے بالواسطہ( indirect tax) میں تبدیل کرنے پر ہے جو اصولی طور پر غلط اور عملاً ملک میں سماجی ناانصافی کے فروغ کا سبب بن رہا ہے۔ ایک مدت سے اس غلطی کا پورے تسلسل سے اعادہ کیا جارہا ہے۔ یہی وہ جادو کی چھڑی بن گئی ہے جس کے ذریعے ٹیکس ہدف کو پورا کرنے کا معجزہ سرانجام دیا گیا ہے۔ اس کارنامے کو ایک جملے میں یوں ادا کیا جاسکتا ہے کہ یہ ٹیکس کے نظام میں اصلاح کے بغیر محصولات میں اضافہ ہے، یعنی Revenue generation without tax reforms۔
Tax Base وہی قومی دولت کا ۵ئ۸ سے ۹ فی صد ہے حالانکہ یہ ۲۰سال پہلے ۱۳ بلکہ ۱۴فی صد تک کی حد چھو چکا ہے اور موجودہ حکومت کا بھی دعویٰ تھا کہ تین سے پانچ سال میں اسے ۹فی صد سے بڑھا کر ۱۲اور پھر ۱۴ فی صد تک لے آیا جائے گا، وہ دھرے کا دھرا رہ گیا ہے۔ ٹیکس وصولی کے ہدف کے پورا ہونے میں اس امر کا بھی دخل ہے کہ برآمد کنندگان کی فاضل ادایگیوں کی جو ادایگی (refund) حکومت کی ذمہ داری تھی اور جن کی جلد ادایگی کا باربار وعدہ بھی کیا گیا تھا وہ ادا نہیں کی گئی اور اس طرح تقریباً ۲۵۰؍ارب روپے، جو حکومت کا حق نہیں، وہ بھی اسی ہدف کے پورے کرنے کے دعوے کا حصہ ہیں۔ بجٹ میں اس سلسلے میں ضروری شفافیت کی کمی ہے۔
حکومت کی سالِ گذشتہ کی کارکردگی کا اس کے اپنے اہداف اور دعوئوں کی روشنی میں جائزہ لیا جائے تو تصویر بڑی پراگندا نظر آتی ہے جسے macro-stabilization کہنا مبالغہ اور growth economy کے لیے زینہ کہنا حقائق سے مطابقت نہیں رکھتا۔ چند مثبت پہلو ضرور ہیں لیکن پلڑا اب بھی منفی پہلوئوں کا بھاری ہے جن کو خوش نما الفاظ کے سہارے پردئہ خفا میں چھپایا نہیں جاسکتا۔ مجموعی ترقی بس رکھ رکھائو کی حد تک ہوئی ہے۔ معیارِ زندگی میں کوئی بہتری دُور دُور نظر نہیں آتی۔ غربت کے سلسلے میں جو نئے اعداد و شمار خود پلاننگ کمیشن نے جاری کیے ہیں ان کی رُو سے آبادی کا ۳۰ فی صد شدید غربت کی لپیٹ میں ہے حالانکہ چندماہ پہلے تک یہ دعویٰ کیا جارہا تھا کہ غربت کی سطح ۹فی صد تک لے آئی گئی ہے۔ تعلیم اور صحت کے شعبوں کا حال سب سے خراب ہے حالانکہ انسانی ضرورت کے اعتبار سے ہی نہیں، خود معاشی ترقی کے لیے بھی ان شعبوں کو ترقی اور ان میں مؤثر سرمایہ سرکاری ازبس ضروری ہے۔ تقسیم دولت کی صورت حال بد سے بدتر ہے۔ اُوپر کے ۵ سے ۱۰فی صد آبادی کے پاس وسائلِ دولت کا ۸۰ فی صد سے زیادہ حصہ ہے، جب کہ ۶۰ سے ۷۰ فی صد آبادی کے پاس وسائل کا ۱۰ فی صد بھی نہیں۔ ۳۰ فی صد شدید غربت کا شکار ہیں اور ۶۰ فی صد معقول زندگی کی سطح سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ دولت کی عدم مساوات میں شب و روز اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک طرف بھوک، فاقہ اور خودکشی کے اَلم ناک مناظر ہیں تو دوسری طرف لگژری مالز پر دولت کی ریل پیل، پوش علاقوں میں پُرتعیش زندگی کے مناظر اور شادیوں کی تقریبات میں اسراف و تبذیر کی بدترین مثالیں ہیں۔ ڈاکٹر اکمل حسین نے اپنے ایک مضمون (دی نیوز، ۵مئی ۲۰۱۶ئ) میں اپنی تحقیق کے نتائج پیش کیے ہیں جو عالمی بنک کے اعداد و شمار کے تجزیے پر مبنی ہیں کہ پاکستان میں صرف ۲۰ہزار افراد ایسے ہیں جن کی فی کس آمدنی ایک ملین ڈالر، یعنی سوا ۱۰ کروڑ روپے سالانہ سے زیادہ ہے، جب کہ آبادی کے نچلی سطح کے ۶۰ فی صد افراد کی فی کس آمدنی ۱۴-۲۰۱۳ء کے پاکستان اکانومک سروے کے مطابق ۷۳۰ ڈالر، یعنی ساڑھے ۷۰ ہزار روپے سالانہ ہے۔ یہ فرق ایک اور ۱۳۰۰ کا ہے، جب کہ کسی مہذب معاشرے میں دولت میں تفاوت میں اتنے فرق کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ قرآن تو اسلامی معاشرے کی شناخت ہی یہ بتاتا ہے کہ اس میں دولت صرف امیروں کے درمیان گردش نہیں کرتی بلکہ تمام طبقات کے درمیان رواں دواں ہوتی ہے:
کَیْ لاَ یَکُوْنَ دُولَۃًم بَیْنَ الْاَغْنِیَآئِ مِنْکُمْ (الحشر ۵۹:۷) تاکہ وہ تمھارے مال داروں ہی کے درمیان گردش نہ کرتا رہے۔
دولت کی یہ عدم مساوات جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام کا خاصہ ہے اور ا س کے خلاف مغربی دنیا میں بھی تحریکیں زور پکڑ رہی ہیں، خصوصیت سے وال سٹریٹ تحریک اور ۹۹ فی صد vs ایک فی صد۔ لیکن مغربی ممالک میں بھی عدم مساوات ایک اور ۱۳۰۰ کی حدود نہیں چھوتی___ جو بدقسمتی سے آج پاکستان اور چند مسلم ممالک کا چلن بن گئی ہے اور عوام کی بڑی تعداد کی محرومی ہی وہ حقیقت ہے جو معاشرے میں نفرت، بغاوت اور انتہاپسندی کے جذبات کو جنم دے رہی ہے۔ اس پس منظر میں ان مشاہروں پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے جو پانچ بڑے بنکوں کے سربراہوں کے ہم نے اُوپر بیان کیے ہیں اور اس تناظر میں خود ملک کے صدر اور وزیراعظم کے سرکاری دفتر اور توشہ خانے کے مصارف پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ حالیہ بجٹ کے مطابق ایوانِ صدر کے سالانہ اخراجات ۸۶ کروڑ ۳۰ لاکھ ہیں اور ایوانِ وزیراعظم کے ۸۸ کروڑ ۱۰ لاکھ جو ۱۷-۲۰۱۶ء کے لیے ۸ئ۷ فی صد اور ۷ئ۴ اضافے کے ساتھ بجٹ کا حصہ ہیں۔ ۸؍اپریل ۲۰۱۶ء کے اخبارات میں پاکستان پلاننگ کمیشن کے جاری کردہ غربت کے جائزے کے مطابق ہر ۱۰ میں سے تین پاکستانی شدید غربت کے جال میں پھنسے ہوئے ہیں جس کے معنی یہ ہیں کہ ملک میں تقریباً ۶کروڑ افراد غربت و افلاس کی پست ترین سطح پر ہیں۔ ماضی کے جائزوں کی روشنی میں دعویٰ کیا جارہا تھا کہ یہ تعداد صرف ۲کروڑ ہے جس کی بڑی وجہ وہ تعریف (definition)تھی جو غربت کی کی گئی تھی اور وہ پیمانے (indicators) تھے جس کے ذریعے اسے ناپا جارہا تھا۔ تازہ تحقیق کی روشنی میں غربت کی لکیر کے تحت ۶کروڑ کے علاوہ ۲کروڑ مزید ایسے ہیں جو صرف سرحد پر ہیں اور معیشت کی معمولی سی تبدیلی ان کے لیے معاشی دھچکا (economic shock) بن سکتی ہے اور انھیں غربت کی اس لکیر کے نیچے دھکیل سکتی ہے۔ ۱۹کروڑ کی آبادی کے ملک میں ۸کروڑ ضروریاتِ زندگی کی کم سے کم حد سے بھی نیچے زندگی گزار رہے ہیں حالانکہ مجبوروں، یتیموں اور سائل و محروم کے حق سے غفلت اور بے پروائی کو قرآن نے دین کے انکار سے تعبیر کیا ہے۔
معاشی حالت کو جانچنے کا ایک اور پیمانہ خوراک کا عدم تحفظ ہے۔ اس اعتبار سے تقریباً نصف آبادی پر خوراک کے محرومی کے سایے منڈلا رہے ہیں، بطور مثال تھرپارکر کے حالات کی طرف اشارہ ضروری ہے۔ مقصد کسی ایک صوبے یا علاقے پر تنقید نہیں۔ دوسرے صوبوں میں بھی ایسے رستے ہوئے ناسور بے شمار ہیں لیکن چونکہ میڈیا نے اس علاقے پر توجہ دی ہے اس لیے اس امر کا بڑے دُکھ کے ساتھ اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ اتنی توجہ اور میڈیافوکس کے باوجود آٹھ سال کے عرصے میں ایک ہی پارٹی کی حکومت ہونے کے باوجود حالات میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے اور خوراک اور پانی کی قلت اور علاج کی کم سے کم سہولتوں سے محرومی علاقے کا مقدر بنی ہوئی ہے۔ ۱۶جون ۲۰۱۶ء کے دی نیشن میں چھپنے والے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صرف اس سال بھوک پیاس اور علاج سے محرومی کے سبب مرنے والے بچوں کی تعداد ۲۲۲ ہوگئی، جب کہ علاقے کے لوگ یہ تعداد ۳۵۵ بتاتے ہیں۔ ملک کے شہری علاقوں میں رہنے والے ۱۷لاکھ نوجوان روزگار سے محروم اور شدت پسندی اور دہشت گردی کے لیے نوجوانوں کی تاک میں رہنے والوں کے لیے تر نوالہ ہیں۔ بدقسمتی سے ان ۱۷لاکھ میں سے ۴۱ فی صدسندھ کے شہری علاقوں میں ہیں، جب کہ سندھ میں ملک کی آبادی کا صرف ایک چوتھائی اقامت پذیر ہے۔
اس سلسلے میں ایک تازہ رپورٹ، کے مطابق جسے سوشل پالیسی اینڈ ڈویلپمنٹ سنٹر (SPDC) نے شائع کیا ہے ، ۲۰۱۵ء میں ۱۵ سے ۲۴ سال کے درمیانی عمر کے بے روزگار نوجوانوں کی تعداد پنجاب میں ۸لاکھ ۶۱ ہزار، سندھ میں ۷لاکھ ۱۱ ہزار، بلوچستان میں ۱۰لاکھ ۷۰ہزار اور خیبرپختونخوا میں ۵۷ہزار ہے۔ یہ خطرے کا ایک بڑا الارم ہے جسے حکومتیں مسلسل نظرانداز کررہی ہیں۔۱؎
عالمی جائزوں میں انسانی ترقی کے باب میں پاکستان کا مقام بڑا ہی شرم ناک ہے۔ دنیا کے ۱۸۸ ممالک میں پاکستان کا نمبر ۱۴۷ ہے اور Human Development Index میں ہمارا اسکور ۵۳۸ئ۰ آتا ہے۔
UNDP کی رپورٹ کے مطابق ہمارا شمار کم ترقی یافتہ ممالک کے بھی ان ممالک میں ہوتا ہے جو اس دوڑ میں اپنے کنبے میں بھی پیچھے رہ گئے ہیں۔ نیپال (۵۴۸ئ۰)، بنگلہ دیش (۵۷۰ئ۰)، بھارت (۶۰۹ئ۰)، سری لنکا (۷۵۷ئ۰) ہم سے آگے ہیں۔ تمام تر تباہی کے باوجود فلسطین (غزہ اور ویسٹ بنک) بھی ہم سے بہت آگے ہیں (۶۷۷ئ۰)۔ صحت کی حالت دیکھیں تو وہ بھی نہایت ناگفتہ بہ ہے۔ بچوں کی اموات کی شرح پاکستان میں ہرہزار بچے پر ۶۶ ہے، جب کہ بھارت میں یہ شرح ۳۸ اور سری لنکا میں صرف ۸ ہے۔ عورتوں کی اوسط عمر پاکستان میں ۶۷ سال ہے، جب کہ بنگلہ دیش میں ۷۳ اور تھائی لینڈ میں ۷۸ ہے۔ دورانِ ولادت ماں کی موت کی شرح پاکستان میں ایک لاکھ میں ۱۷۰ ہے، جب کہ سری لنکا میں یہ شرح صرف ۳۰ اور تھائی لینڈ میں ۲۰ ہے۔ پاکستان میں سرکاری ذرائع سے فراہم کی جانے والی علاج کی سہولتوں تک آبادی کے صرف ۳۰ فی صد کو بہ مشکل رسائی حاصل ہے اور ۷۰ فی صد اس سے مکمل طور پر محروم ہیں۔ اور یہ بھول جایئے کہ جو ’سہولتیں‘ حاصل ہیں ان کا کیا حال ہے، کیا معیار ہے۔ ملک بھر میں رجسٹرڈ ڈاکٹروں کی تعداد ایک لاکھ ۸۴ہزار ۷سو۱۱ ہے۔ گویا ۱۰۳۸ ؍افراد کے علاج کے لیے ایک ڈاکٹر۔ہسپتالوں کا حال یہ ہے کہ ۱۶۱۳؍ افراد کے لیے ہسپتال میں ایک بستر موجود ہے۔ ہر کمرے میں کئی کئی مریض زمین پر لیٹنے پر مجبور ہوتے ہیں اور دسیوں ناکام و نامراد واپس بھیج دیے جاتے ہیں۔ یہ ہے عام آدمی کی صورتِ حال۔ اگر اسی کا نام مجموعی سطح پر ’معیشت کا استحکام‘ ہے تو ایسے استحکام کو سلام!
موجودہ حکومت بحیثیت مجموعی ان تین برسوں میں معیشت کی گاڑی کو پٹڑی پر لانے میں بُری طرح ناکام رہی ہے۔ ریلوے کے نظام میں جزوی بہتری آئی ہے لیکن توانائی کی فراہمی، پیداوار میں اضافہ، عوامی سہولتوں میں اضافہ ، معیارِ زندگی میں بہتری، عالمی تجارت میں افزونی، ملکی اور بیرونی سرمایہ کاری، ہر اشاریہ غیرتسلی بخش ہے۔ پینے کے صاف پانی کی کمیابی اور تعلیم اور صحت کی زبوں حالی ناگفتہ بہ ہے۔ زراعت اور برآمدات معیشت کے بڑے اہم ستون ہیں۔ یہ دونوں بُری طرح متزلزل ہیں اور یہ کیفیت صرف سالِ رواں میں نہیں ہوئی ہے بلکہ ان تین برسوں میں حالات بتدریج بگاڑ کی طرف بڑھے ہیں اور اسٹیٹ بنک کی رپورٹوں اور متعلقہ حلقوں کی چیخ پکار کا حکومت پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ اس بجٹ میں زرعی مداخل (inputs) کے سلسلے میں جو سبسڈی دی جارہی ہے، بجلی کی فراہمی کے لیے جن اقدامات کا وعدہ کیا جارہا ہے، اور برآمدات کے لیے جن پانچ میدانوں میں zero-rating کی نوید دی جارہی ہے، ان کا مطالبہ تین سال سے ہورہا تھا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سبسڈی اور زیرو ریٹنگ دونوں کے سلسلے میں پانچ سال پہلے تک یہ سب سہولتیں حاصل تھیں جن سے پیپلزپارٹی کے دور میں آئی ایم ایف کی خوشنودی کی خاطر محروم کیا گیا تھا اور مسلم لیگ کی حکومت نے بھی تین سال تک اس سلسلے میں کوئی اقدام نہ کیا۔ اب بعد از خرابیِ بسیار چند اقدام کرنے کا اعلان کیا ہے جو ہماری نگاہ میں صحیح سمت میں قدم ہے ، گو بہت دیر سے ہے لیکن ہم صاف کہنا چاہتے ہیں کہ یہ ہرگز کافی نہیں اور ہم آیندہ سطور میں سفارش کریں گے کہ ان اقدامات کے ساتھ جو structural bottlenecks ہیں جب تک ان کو دُور کرنے کے لیے مؤثر اقدامات نہیں کیے جاتے، حالات کا رُخ بدلنا اور ملک کو واقعی ترقی اور خوش حالی کے راستے پر ڈالنا ممکن نہیں ہوگا۔ اس کے لیے طرزِ فکر ( mind-set) اور معاشی ترقی کے مفہوم اور فریم ورک، حکومتی ترجیحات اور مالیاتی پالیسی، ٹیکس اور سرکاری اخراجات، مالیاتی پالیسی، تجارتی پالیسی ، زرعی اصلاحات، لیبرپالیسی اور تعلیم اور صحت کے میدان میں بنیادی اصلاحات ضروری ہیں۔
حکومت کی کارکردگی کو جانچنے کا ایک اور پیمانہ مسلم لیگ کا ۲۰۱۳ء کے انتخابات کے موقعے پر قوم کے سامنے پیش کیے جانے والا منشور ہے۔ اس منشور میں معاشی اصلاحات کے سلسلے میں کئی درجن وعدے کیے گئے تھے اور بڑے واضح الفاظ میں کچھ صورتوں میں وقت اور مدت کے تعین کے ساتھ باتیں کی گئی تھیں۔ حکمرانی کے تین سال بعد اس امر کی ضرورت ہے کہ مسلم لیگ کی قیادت خود بھی یہ زحمت گوارا کرے کہ ایک چارٹ بنا کر دعوئوں اور عملی پالیسیوں اور تین برسوں میں حاصل نتائج کا گوشوارہ بنائے اور اپوزیشن کی جماعتوں، میڈیا اور تھنک ٹینکس کو بھی یہ کام کرنا چاہیے۔ ہم صرف چند موٹی موٹی چیزوں کی طرف توجہ دلاتے ہیں۔
اس منشوراور اس کی تشریح میں کی جانے والی تقاریر میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ توانائی کے مسئلے کو اولیت دی جائے گی اور چھے ماہ سے لے کر دو سال تک بجلی کے بحران کو ختم کر دینے کا دعویٰ کیا گیا تھا، بلکہ جنابِ شہباز شریف نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ ’’اگر ہم ایسا نہ کرسکے تو میرا نام بدل دینا‘‘۔ تین سال بعد جو صورتِ حال ہے، سب کے سامنے ہے۔
وعدہ کیا گیا تھا کہ توانائی کی ایک وزارت بنائی جائے گی تاکہ واٹر پاورز، منرل ریسورسز اور پٹرولیم کی وزارتیں اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد نہ بنائیں بلکہ ایک جامع توانائی پالیسی بن سکے اور اس طرح مسئلے کا مستقل حل نکالا جاسکے۔ لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شد!
ٹیکس کے نظام کو یکسر بدلنے کا دعویٰ تھا۔ٹیکس کے دائرے کو بڑھانے اور بالواسطہ (indirect)ٹیکس کو کم کرنے اور بلاواسطہ (direct)ٹیکس کو بڑھانے کا دعویٰ تھا۔ اس کے برعکس نہ صرف بالواسطہ ٹیکسوں میں اضافہ ہوا، سیلزٹیکس جو پہلے ۱۵ فی صد تھا وہ اب ۱۷ فی صد اور کچھ اشیا پر اس سے بھی زیادہ ہے۔ حالانکہ سینیٹ کی ۱۳-۲۰۱۲ء سفارشات میں موجودہ وزیرخزانہ نے ہم سب کے ساتھ ہم آواز ہوکر مطالبہ کیا تھا کہ سیلزٹیکس میں ۱۵ سے ۱۶ فی صد اضافہ معاشی ترقی کے لیے بے حد مضر اور عوام پر ناقابلِ برداشت بوجھ ہے جسے واپس لیا جائے۔ ان کے دور میں یہ اب ۱۷ فی صد اور چند اشیا پر اس سے بھی زیادہ ہے۔ دوسرا ستم یہ کیا گیا ہے کہ بلاواسطہ ٹیکسوں کے سلسلے میں with holding tax کا طریقہ اختیار کرنے کی وجہ سے انھیں بھی ایک طرح کا بالواسطہ ٹیکس بنادیا گیا ہے جس کا آخری بوجھ اب عوام اور عام صارفین پر پڑتا ہے۔ اس طرح اس وقت جو ٹیکس کا نظام رائج ہے اس میں فی الحقیقت ۸۵ فی صد ٹیکس عملاً بالواسطہ ہوگئے ہیں۔
ایک اور مسئلہ جس پر بڑی تحدی سے بات کی گئی تھی اور بجا طور پر کی گئی تھی، اس کا تعلق معیشت کو دستاویزی (documentation) بنانے سے تھا۔ افسوس ہے کہ اس زمانے میں اس طرف بھی کوئی پیش قدمی نہیں ہوئی ہے بلکہ حکومت نے اسٹیٹ بنک کے ذریعے جو cash flow پالیسی اختیار کی ہے اور with holding tax کی جو تلوار بے نیام کی ہوئی ہے اس کے نتیجے میں ملک میں cash economy میں اضافہ ہو رہا ہے اور دستاویزی معیشت میں کمی واقع ہورہی ہے۔ اس سلسلے کی تازہ ترین رپورٹیں سخت تشویش کا باعث ہیں۔
۲۰ جون ۲۰۱۶ء کے اخبارات میں اسٹیٹ بنک آف پاکستان کی طرف سے زیراستعمال کرنسی کے بارے میں جو اعداد و شمار آئے ہیں وہ سخت پریشان کن ہیں۔ یکم جولائی ۲۰۱۵ء کے مقابلے میں ۳جون ۲۰۱۶ء کے درمیان زیرگردش کرنسی میں ۶۷ فی صد اضافہ ہوا ہے، جب کہ حکومت کے دعوے کے مطابق معیشت میں بحیثیت مجموعی ترقی کی رفتار صرف ۷ئ۴ فی صد رہی ہے جو آزاد تحقیقی اداروں کی نگاہ میں دراصل ۱ئ۳ فی صد اور ۴فی صد کے درمیان ہے۔
معاشیات کے طالب علم جانتے ہیں کہ ملک میں مسلسل کرنسی ان سرکولیشن M-2 (Broad Money) کی نسبت سے زیادہ رہی ہے اور اس کی وجہ دستاویزی معیشت کے مقابلے میں کیش اکانومی کا کردار ہے۔ مرکزی بنک کے ایک سابق ڈپٹی گورنر نے اس پر بجاطور پر ان الفاظ میں اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے:
حالیہ مالی سال میں جس رفتار سے CIC میں اضافہ ہوا ہے، وہ تکلیف دہ ہے اور خصوصیت سے اس لیے کہ یہ سب کچھ معیشت کو دستاویزی کرنے کی متعدد کوششوں کے باوجود ہوا ہے۔ (ڈان، ۳جون ۲۰۱۶ئ)
اگر CIC اور M-2 کے تناسب کا تقابلی مطالعہ کیا جائے تو یہ مالیاتی سال ۲۰۱۲ء میں ۴ئ۲۲ فی صد تھا جو ۲۰۱۳ء میں ۳ئ۲۲ فی صد، ۲۰۱۴ء میں ۲ئ۲۲ فی صد ہوگیا تھا مگر ۲۰۱۵ء میں پھر بڑھ کر ۵ئ۲۲ فی صد ہوگیا تھا، اور خطرہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اگر خدانخواستہ زیرگردش کرنسی میں اضافے کی یہی رفتار رہتی ہے تو یہ کہیں ۲۶ فی صد تک نہ پہنچ جائے جس کے نتیجے میں افراطِ زر کے خطرات چند درچند بڑھ جائیں گے۔
مسلم لیگ کے منشور میں پیداوار بڑھانے، شرح پیداور کو سات اور آٹھ فی صد تک لے جانے اور برآمدات کے اضافے کو اہمیت دینے کا بھی وعدہ کیا گیا تھا۔ عملی صورت حال یہ ہے کہ درآمدات برابر بڑھ رہی ہیں اور برآمدات کمی ہی نہیں جمود کا شکار ہیں۔ جیساکہ ہم نے عرض کیا یہ صورتِ حال محض ۲۰۱۵ء کی پیداوار نہیں۔ ۲۰۱۳ء سے برابر رجحان یہی ہے مگر برآمدات کو بڑھانے اور درآمدات میں نمایاں کمی لانے کی کوئی مؤثر اور جامع کوشش نہیں ہوئی۔ یورپین یونین کے ۲۸ممالک سے تین سال کے لیے ٹیرف ریلیف (Tariff Relief) سے بڑی توقعات باندھی گئی تھیں مگر عملاً اس سے کوئی بڑافائدہ نہیں اُٹھایا جاسکا۔ پاکستان اکانومک سروے ۱۶-۲۰۱۵ء کے مطابق:
پاکستان کی برآمدات کی کارکردگی شدید تشویش کا باعث ہے۔ گذشتہ ۱۸مہینے سے ہرمہینے ان میں مسلسل کمی ہورہی ہے۔ جولائی ۲۰۱۵ء سے مارچ ۲۰۱۶ء تک برآمدات صرف ۶ئ۱۵ بلین ڈالر تھیں جو گذشتہ سال کے اس زمانے کے دوران ۹ئ۱۷ بلین ڈالر تھیں۔ گویا صرف ان مہینوں میں برآمدات میں عملاً ۹ئ۱۲ فی صد کمی واقع ہوئی۔
اس تباہ کن کارکردگی کے بارے میں روزنامہ ڈان کے مضمون نگار ڈاکٹر منظور احمد کا یہ تبصرہ چشم کشا ہے:
درحقیقت ملک کی تاریخ میں پہلی دفعہ یہ ہوگا کہ کسی حکومت کی مدت کے اختتام پر برآمدات اس سے کم تر ہوں گی جتنی حکومت کی مدت کے آغاز کے وقت تھیں۔
ایک طرف یہ سنگین صورت حال ہے اور دوسری طرف وزارتِ تجارت اور پلاننگ کمیشن یہ خواب دیکھ رہے ہیں کہ اگلے ۱۰سال میں ’وژن ۲۰۲۵‘ کے تحت پاکستان کی برآمدات کو بڑھا کر ۱۵۰بلین ڈالر سالانہ کردیا جائے گا، یعنی ۲۴ فی صد سالانہ اضافہ!
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وزارتِ خزانہ، وزارتِ تجارت اور پلاننگ کمیشن میں کوئی ربط اور تجارتی پالیسی تک کے باب میں کوئی ہم آہنگی نہیں۔ ہر ایک الگ الگ wave length پر ہے اور اس کا نام ہے معاشی ترقی کی گرینڈ اسٹرے ٹیجی!
منشور کے اور بھی پہلو موازنہ طلب ہیں لیکن ہم صرف ان چند نکات پر قناعت کرتے اور فیصلہ قارئین پر چھوڑتے ہیں کہ اس میزان پر حکومت کی کارکردگی کتنی کامیاب یا ناکام رہی؟
بجٹ اور حکومت کی معاشی کارکردگی کو جانچنے کے لیے سب سے اہم میزان ملک کا دستور ہے جو قومی مقاصد اور اہداف کے باب میں قومی مقاصد کا ترجمان ہے۔ دستور کی دفعہ ۲ اور ۲-اے اسلام کے کلیدی کردار کو واضح کرتی ہیں۔ دفعہ۳ معاشرے سے استحصال، ظلم کے خاتمے اور اجتماعی انصاف کے حصول کو ہدف مقرر کرتی ہے اور ریاست کی رہنمائی کے اصول خصوصیت سے دفعہ۳۱، دفعہ ۳۷ اور دفعہ ۳۸ بڑی تفصیل سے معاشی اصلاحات، اسلامی معاشی اصولوں کی ترویج اور ایک ترقی پذیر، خوش حال اور مبنی برانصاف فلاحی معاشی نظام کا تصور دیتے ہیں۔ یہی وہ مقاصد ہیں جو اقبال اور قائداعظم نے اپنے مختلف خطبات میں بیان کیے ہیں۔ علامہ اقبال نے دوٹوک الفاظ میں اپنے ۲۸مئی ۱۹۳۷ء کے خط بنام قائداعظم محمدعلی جناح میں شریعت اسلامی پر مبنی معاشی نظام کے قیام کی اولیں ضرورت کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا، اور خود قائداعظم نے اپنے متعدد بیانات میں خصوصیت سے آل انڈیا مسلم لیگ کے ۱۳ویں سیشن میں جو ۲۴؍اپریل ۱۹۴۳ء دہلی میں منعقد ہوا تھا پاکستان کے معاشی نظام کے خدوخال واضح کیے تھے۔ پھر قیامِ پاکستان کے بعد ۲۷ستمبر ۱۹۴۷ء کو ولیکا ٹیکسٹائل ملز کے افتتاح کے موقعے پر اور خصوصیت سے اپنے آخری خطبے میں جو اسٹیٹ بنک آف پاکستان کے افتتاح کے موقعے پر جولائی ۱۹۴۸ء میں دیا، اپنے تصورات کی وضاحت کر دی تھی۔ علامہ اقبال نے ایک شعر میں پورے تصور کا جوہر یوں بیان فرمایا ہے: اسلام کا اصل مقصود انسان کو انسان کی محتاجی سے نجات دلانا، محرومی اور استحصال کا خاتمہ اور ہر فرد کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کے لائق بنانا ہے ؎
کس نہ باشد در جہاں محتاج کس
نکتۂ شرعِ مبیں این است و بس!
پاکستان کے دستور سے وفاداری اور تحریک پاکستان کے مقاصد کا حصول اسی وقت ممکن ہے جب پاکستان کے لیے معاشی ترقی کی ایسی حکمت عملی تیار کی جائے جو معیشت اور معاشرے کو عدل و انصاف، ترقی اور خوش حالی، اور عوامی فلاح و بہبود سے شادکام کرسکے۔ حکومت اور پارلیمنٹ کی اصل ناکامی یہ ہے کہ وہ نہ معاشی ترقی کا صحیح وژن مرتب کرسکی ہے اور نہ ایسی حکمت عملی، ترجیحات اور مربوط پروگرام اور منصوبہ بناسکی جو ان مقاصد کے حصول پر منتج ہوسکیں۔ لبرل معیشت کے نام پر اور گلوبلائزیشن کے خوش نما الفاظ کے چکّر میں مغرب کے سودی اور سرمایہ دارانہ نظام کو ملک پر مسلط کردیا گیا ہے۔ ریاست کے معیشت میں کردار کو مشتبہ بنادیا گیا ہے۔ ایک طرف جاگیردار اور سرمایہ دار حکومت پر قابض ہیں تو دوسری طرف بغلیں بجابجا کر اعلان کیا جارہا ہے کہ حکومت کا کام بزنس نہیں حالانکہ زیادہ صحیح امر یہ ہے کہ بزنس مین کا یہ کام نہیں کہ وہ حکمرانی کرے۔ وہ تو ریاست کو بھی ذاتی کاروبار ہی کی طرح چلانے کی صلاحیت رکھتا ہے، اور نتائج بتاتے ہیں کہ ایسے حکمران اپنی مخصوص ذہنیت کی گرفت سے نہیں نکل پاتے ہیں جو بالآخر پاناما لیکس کے ڈرائونے انجام کی طرف لے جاتی ہے!
حکومت کا کام ملک و معاشرے کو صرف امن دینا اور سرحدوں کا دفاع نہیں، بلکہ انصاف اور عدل و احسان کے نظام کا قیام، سب کے لیے معاشی، سماجی اور سیاسی مساوات کا فروغ اور معاشرے کو حقیقی انسانی فلاح اور خوش حالی کا گہوارا بنانا ہے۔ ریاست محض تماشائی نہیں ایک فیصلہ کن قوت ہے جسے زندگی کے اجتماعی معاملات میں ایک مثبت کردار ادا کرنا ہے اور اصحابِ اقتدار کی کامیابی یا ناکامی کا انحصار اس میدان میں اور اس میزان پر کامیابی ہے۔
اس پہلو سے اگر اب تک پیش کیے جانے والے چاروں بجٹوں کا جائزہ لیا جائے اور جو پالیسیاں اس حکومت نے اختیار کی ہیں تو بڑی مایوس کن صورت حال سامنے آتی ہے۔ معاشی منزل کا کوئی واضح تصور موجود نہیں۔ قومی مفادات کے مقابلے میں ذاتی مفادات ہر طرف غالب نظر آتے ہیں۔ مربوط اور کلّی پالیسی کا فقدان ہے۔ بھانت بھانت کی بولیاں بولی جارہی ہیں۔ مختلف وزارتوں کے درمیان کوئی تعاون اور توافق نظر نہیں آتا۔ کابینہ میں بھی کوئی ہم آہنگی نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ قومی سطح اور حتیٰ کہ بجٹ تک میں کوئی مربوط اور تضادات سے پاک لائحہ عمل پیش نہیں کیا جاسکا ہے، بلکہ عالم یہ ہے کہ کابینہ کے اجلاس کئی کئی مہینے منعقد ہی نہیں ہوتے۔ غضب ہے کہ گذشتہ آٹھ مہینے میں کابینہ کا کوئی باقاعدہ اجلاس نہیں ہوا۔ پلاننگ کمیشن ایک عضومعطل بن کر رہ گیاہے۔ کوئی وسط مدتی پلان ایک عرصے سے وجود ہی میں نہیں آیا ہے ۔ پلاننگ کمیشن کا اصل وژن یہ تھا کہ وہ ایک طویل عرصے کے perspective plan کے فریم ورک میں پانچ سالہ منصوبے بنائے گا جو ایک طرف معروضی تحقیق پر مبنی ہوں گے تو دوسری طرف ریاست اور معیشت کے تمام متعلقین کی شرکت سے حقیقت پسندانہ منصوبہ بندی کا نمونہ پیش کرسکیں گے اور پھر پوری آزادی اور پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ اس منصوبے پر عمل درآمد کا جائزہ لے گا۔ صرف مالیاتی پہلو ہی سے نہیں بلکہ Physical achievment کے باب میں بھی۔نیز پلاننگ کمیشن محض فیڈریشن ہی نہیں، بلکہ صوبائی سطح پر بھی قائم کیے جائیں گے اور وفاق صوبائی پلاننگ کمشنر کی رہنمائی، معاونت اور صلاحیت کی تعمیر (capacity building) کا کام انجام دے گا۔ پلاننگ کمیشن کے تحقیقی بازو کی حیثیت سے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس کام کرے گا جس کا سربراہ پلاننگ کمیشن کا ڈپٹی چیئرمین ہوا کرتا تھا۔ مگر اب PIDC ایک آزاد تعلیمی ادارہ بن گیا ہے جو ڈگریاں دے رہا ہے اور پلاننگ کمیشن اپنے تحقیقی بازو سے محروم ہوگیا ہے۔ پلاننگ کمیشن کا ایک کلیدی کردار پوری معاشی پالیسی، حکمت عملی اور ترجیحات کے تعین میں ناگزیر ہے لیکن ا س وقت سارا اختیار وزارتِ خزانہ ہی کے پاس ہے اور پلاننگ کمیشن اور وزارتِ خزانہ دو الگ الگ جزیرے بن گئے ہیں۔
اسی طرح دستورکا تقاضا ہے کہ اسٹیٹ بنک آف پاکستان ایک حقیقی، خودمختار ادارہ ہو اور مالیاتی پالیسی وہ خود وضع کرے اور وزارتِ خزانہ کی گرفت سے آزاد ہوکر بنائے۔ لیکن عملی صورت حال یہ ہے کہ مرکزی بنک ایک مدت سے وزارتِ خزانہ کا ضمیمہ بن چکا ہے اور عملاً اس کی آزاد حیثیت باقی نہیں رہی ہے۔ اب بھی یہ ادارہ بہت غنیمت ہے لیکن اس کی پیشہ ورانہ قدروقیمت (professional worth) اور پالیسی سے مناسبت (policy relevance) میں بڑی کمی آگئی ہے۔
ایک اور بڑا اہم دستوری ادارہ کونسل آف کومن انٹرسٹس (Council of Common Interests) ہے جس کی اہمیت اور کردار ۱۸ویں دستوری ترمیم کے بعد دوچند ہوگیا ہے اور فیڈریشن کے نظام کی صحیح خطوط پر استواری کے لیے اس کا فعال ہونا ضروری ہے۔ لیکن اسے بھی عملاً عضومعطل بنادیا گیا ہے۔ دستور کا تقاضا ہے کہ اس کا اجلاس ۹۰روز کے اندر اندر ہو مگر یہاں مہینوں گزر جاتے ہیں اور اس ادارے کا اجلاس ہی نہیں ہوتا۔ اور جب ہوتا ہے تو نہ پوری تیاری سے ہوتا ہے اور نہ گہرائی میں جاکر فیصلے کیے جاتے ہیں۔
پارلیمنٹ نے، اور اس میں سینیٹ کا بڑا کردار تھا، بڑی جدوجہد کے بعد ایف بی آر (Federal Bureau of Revenue)کو وزارتِ خزانہ کے ایک شعبے کی حیثیت سے نکال کر ایک خودمختار ادارہ بنایا۔ ا س سلسلے میں سینیٹ کی کمیٹی براے خزانہ و معاشی ترقی نے میری صدارت میں ۸۰صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ تیار کی تھی اور پھر ایف بی آر کو عملاً ایک ڈویژن بنایا گیا مگر آج کیفیت ’من تو شدم تو من شدی‘ کا منظر پیش کر رہی ہے۔
اسی طرح سینیٹ اور اسمبلی کی تحریک پر شماریاتی بیورو کو وزارتِ خزانہ کے ایک شعبے کے مقام سے نکال کر ایک خودمختار ادارہ بنایا گیا تاکہ اعداد و شمار صحیح صورت میں آزاد ذریعے سے پارلیمنٹ ، حکومت اور قوم کے سامنے آسکیں اور پالیسی سازی کا کام حقائق کی بنیاد پر ہو، حقائق کو سیاسی مصلحتوں کا اسیر نہ بنایا جائے۔ قانونی اور لفظی کارروائی ہوگئی ہے مگر عملاً اعداد وشمار سیاسی دراندازیوں اور حکومت ِ وقت کی کرم فرمائیوں سے آزاد نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس سال بھی بجٹ اور اکانومک سروے کے پیش کردہ اعداد و شمار کے بارے میں بڑے تحفظات کا اظہار کیا جارہا ہے۔
۱۶-۲۰۱۵ء میں ترقی کی شرحِ نمو کے بارے میں علمی حلقوں اور تحقیقی اداروں نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے وہ حکومت اور قوم کے لیے فخر کا باعث نہیں۔ ۱۶-۲۰۱۵ء کے سال کے لیے معاشی ترقی کی نمو کی شرح کے بارے میں جو باتیں باہر آئی ہیں ان کو پڑھ کر انسان سر پکڑ لیتا ہے کہ ہم معاشی حقائق کے ساتھ کیا کر رہے ہیں اور ہمارے فراہم کردہ اعداد و شمار پر اگر عالمی ادارے اور آزاد تھنک ٹینکس اعتبار نہیں کرتے تو وہ کتنے حق بجانب ہیں۔ ہم یہ اصول بھول گئے ہیں کہ آرا اور تعبیرات میں اختلاف فطری ہے لیکن حقائق کو شک و شبہے (tempering) سے بالا ہونا چاہیے اور ان کے بارے میں selectivityبھی پیشہ ورانہ بددیانتی کے مترادف ہے۔ اس سال کی ۷ئ۴ فی صد کی شرح کے بارے میں اس اخباری اطلاع پر ایک نظر ڈالیے کہ اس میں ہماری تصویر کیا نظر آتی ہے۔
روزنامہ ایکسپریس ٹریبون کی ۲۱ مئی ۲۰۱۶ء کی اشاعت میں اکانومک سروے کی اشاعت سے ۱۰ دن پہلے اس کے نامہ نگار شہباز رعنا کی یہ رپورٹ شائع ہوئی، جس کی کوئی تردید شائع نہیں ہوئی:
گزرے ہوئے مالی سال میں حکومت نے مجموعی ملکی پیداوار (GDP) کی شرحِ نمو میں اضافے کے لیے۵ئ۵ فی صد کا ہدف رکھا تھا۔ ملک میں نوجوانوں کی آبادی میں اضافے کو جذب کرنے کے لیے ۷ فی صد سالانہ شرحِ نمو کی ضرورت تھی۔ اگر اضافے کی رفتار اس شرح سے کم ہوجائے تو اس کا نتیجہ بڑھتی ہوئی بے روزگاری کی شکل میں سامنے آئے گا۔
ذرائع کے مطابق پاکستان کے اعداد و شمار کے بیورو چیف آصف باجوہ نے ۱۸مئی کو وزیرخزانہ اسحاق ڈار کو مطلع کیا کہ ۱۶-۲۰۱۵ء کے لیے شرحِ نمو کا تخمینہ ۲ئ۴ فی صد کے قریب آرہا ہے۔ باجوہ نے اسحاق ڈار کو یہ بھی بتایا کہ سابقہ دو مالی برسوں کے نظرثانی شدہ اعداد و شمار ۴ فی صد سے نیچے جارہے ہیں۔ بہرکیف اسحاق ڈار نے ان اعدادوشمار کو قبول نہیں کیا اور باجوہ صاحب سے کہا کہ وہ پھر سے اعداد و شمار کا جائزہ لیں۔ جب رابطہ کیا گیا تو باجوہ صاحب نے ۱۸مئی کی نشست کی نہ تردید کی اور نہ تصدیق۔
باجوہ صاحب نے ایکسپریس ٹربیون سے بات کرتے ہوئے کہا: اعداد و شمار بدلتے رہتے ہیں یہاں تک کہ آخری اعداد و شمار منظور کیے جاتے ہیں اور ۱۵-۲۰۱۴ء کے لیے مجموعی ملکی پیداوار میں اضافے کی عارضی شرح ۷ئ۴ فی صد ہے ۔ جب زرعی سیکٹر کی پیداوار میں نمایاںکمی ہوئی ہے۔ نجی اور سرکاری سرمایہ کاری میں مجموعی قومی پیداوار کے لحاظ سے بہت زیادہ اضافہ نہیں ہو رہا، تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ ’’۷ئ۴ فی صد کی شرح نمو کہاں سے آگئی؟‘‘ وزارتِ خزانہ کے سابق معاشی مشیر ڈاکٹر اشفاق حسن خان نے سوال کیا۔ خان صاحب نے کہا: اعداد و شمار کے باب میں ان کا اپنا حساب کتاب یہ ظاہر کرتا ہے کہ گزرے ہوئے مالی سال میں شرحِ نمو ۵ئ۳ فی صد سے زیادہ نہیں تھی۔
تمام پہلوئوں پر نگاہ ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ سرکار نے جس شرحِ نمو کو پسند کیا وہ ۷ئ۴ تھی۔ کیوں نہ ہو۔ ۷ئ۴ فی صد کی شرحِ نمو گذشتہ سال کی حاصل کردہ ۴فی صد کی شرح سے بہتر تھی اور آئی ایم ایف کے اندازے کے مطابق، یعنی ۵ئ۴ فی صد سے بھی تھوڑی بہتر ہی تھی۔
بس طے ہوگیا کہ وزیرخزانہ اسحاق ڈار ۲ جون کو معاشی سروے آف پاکستان ۱۶-۲۰۱۵ء جاری کرنے کے ساتھ ۷ئ۴ فی صد کی عارضی شرحِ نمو کا رسمی اعلان کریںگے۔
اعداد و شمار کے ساتھ کھیل کی یہ ایک مثال ہے۔ ورنہ حال یہ ہے کہ ہرمیدان میں اصل حقائق سے اغماض اور پسند کے ’حقائق‘ کی صورت گری بائیں ہاتھ کا کھیل بن گئی ہے اور ملک اور ملک سے باہر ہمارے اعتماد کو مجروح کرنے اور معاشی منصوبہ بندی کو مضبوط بنیادوں سے محروم کرکے نمایشی بنانے میں اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔ ڈاکٹر ثاقب شیرانی ایک معروف معاشی ماہر اور سابق معاشی مشیر ہیںاس کا نوحہ ان الفاظ میں کرتے ہیں اور اس پس منظر میں کرتے ہیں کہ مشرف صاحب اور شوکت عزیز صاحب کے دور میں بھی اعداد و شمار کے ساتھ یہی کھیل کھیلا جاتارہا ہے:
تازہ ترین واقعہ، حکومت نے دو دائروں میں جو سرکاری اعداد و شمار دیے ہیں، اس سے تعلق رکھتا ہے: نیشنل اکائونٹس (گروتھ) اور قومی حسابات (ایف بی آر کا جمع کردہ ٹیکس اور مالی خسارہ)دونوں مشرف اور شوکت عزیز کے دورکے محرکات ہی کا تسلسل ہیں۔ مسلم لیگ(ن) کی حکومت میں بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اعداد و شمار کو مسخ کیا گیا ہے، تاکہ گذشتہ برسوں میں بلندترین شرحِ نمو سامنے آسکے۔ ۱۶-۲۰۱۵ء میں سرکاری جی ڈی پی کی شرحِ نمو کا ۷ئ۴ فی صد ہونا ایک ایسے وقت میں جب کپاس کی پیداوار میں ۴۰ لاکھ گانٹھوں کی کمی ہوئی ہو، کپاس کی معیشت کی شرح ۶ فی صد میں مضمر ہے۔ یہ ناقابلِ یقین ہے۔ معیشت کے کسی بھی پیمانے ___ برآمدات، صنعتی پیداوار، توانائی کا استعمال اور نجی سطح پر سرمایہ کاری___ سے اس کی تائید نہیں ہوتی۔
حقیقت یہ ہے جیساکہ نمایاں مبصروں نے اس کی نشان دہی کی ہے، کہ پاکستان کے شماریات کے ادارے کا اعدادو شمار میں تبدیلی کرنا غیرپیشہ ورانہ ہے۔ ہرسیکٹر کی پیداوار کے معاملے میں اضافے کی شرح حقائق پر مبنی نہیں ہے۔ پھر یہ ہیرپھیر بھی فنی مہارت سے عاری ہے۔ پیداواری سیکٹرز میں تو تبدیلی کردی گئی مگر اس کے متوازی تبدیلی اخراجات کے باب میں نہیں کی گئی جس کے نتیجے میں پیداوار (production) اور اخراجات (expenditures)کا تعاون درہم برہم ہوگیا۔نتیجہ یہ ہوا کہ ۱۶-۲۰۱۵ء کے قومی حسابات ۲۳ئ۱ مارجینل رجحان کو ظاہر کرتے ہیں، جو کہ اعداد و شمار کے لحاظ سے ممکن نہیں۔
دوسرا شماریاتی ہاتھ کا کرتب سرکاری فنانس میں دکھایا گیا ہے۔ٹیکس جمع کرنے کی رقم کو بڑھایا گیا اوراس میں ان مدّات کو بھی شمار کرلیا گیا جو ۲۰۱۳ء سے بھی پہلے نان ٹیکس ریونیو کے تحت ریکارڈ کیے جارہے تھے۔ اسی طرح ۲۰۱۳ء اور ۲۰۱۶ء کے درمیان مالی خسارے میں کمی کو بھی بڑھا چڑھا کر مبالغے کے ساتھ پیش کیا گیا ہے جس کا موازنہ نہیں کیا جاسکتا۔
آخری بات یہ ہے کہ حالیہ تحفظات سرکاری اعداد و شمار کے معیار اور درست ہونے کے حوالے سے بہت زیادہ ناقابلِ اطمینان ثابت ہورہے ہیں۔
اگر معیشت کے تمام رجحانات کو سامنے رکھا جائے تو ۷ئ۴ فی صد کی شرحِ نمو کو تسلیم کرنے میں آزاد تحقیق کے تحفظات میں بڑا وزن ہے۔ ٭ ہمارا رجحان بھی ان معاشی ماہرین کی طرف ہے جن کی نگاہ میں ۷ئ۴ فی صد کا دعویٰ درست نہیں اور اصل شرحِ نمو ۱ئ۳ فی صد اور ۴ فی صد کے درمیان رہی ہے۔ حتمی طور پر کوئی بات کہنا مشکل ہے لیکن ماضی کی روایات کی روشنی میں سرکاری اعداد و شمار پر مکمل اعتماد بڑی آزمایش کا معاملہ ہے۔
اعداد و شمار پر شبہے کی داستان پرانی ہے لیکن ان تین برسوں میں موجودہ حکومت نے دستور کی دو بڑی پریشان کن خلاف ورزیاں اور بھی کی ہیں جو معاشی منصوبہ بندی، پالیسی سازی، بجٹ سازی اور مرکز اور صوبوں کے درمیان وسائل کی تقسیم کے باب میں مشکلات کا باعث ہیں اور باہمی اعتماد کو مجروح کرنے والی ہیں۔
ملک کی آبادی، اس کی جغرافیائی تقسیم، اس کی معاشی اور تعلیمی کیفیات یہ سب وہ بنیادی لوازمہ ہے جس کی روشنی میں معاشی منصوبہ بندی اور بجٹ سازی کی جاتی ہے۔ آخری مردم شماری ۱۹۹۸ء میں ہوئی تھی اور دستور کا تقاضا ہے کہ ہر ۱۰سال پر مردم شماری ہو۔ ۲۰۰۸ء سے یہ واجب ہے مگر حکومت (پیپلزپارٹی ۲۰۰۸-۲۰۱۳ء اور مسلم لیگ ۲۰۱۳-۲۰۱۶ئ)نے اب تک اپنی ذمہ داری ادا نہیں کی۔ اپریل ۲۰۱۶ء کے بارے میں بڑی یقین دہانی تھی کہ مردم شماری ضرور کرائی جائے گی مگر عین وقت پر فوجی دستوں کی عدم دستیابی کے نام پر اسے ملتوی کردیا گیا ہے اور اس طرح یہ چوتھا بجٹ بھی ملک کے اور اس کی آبادی کے بارے میں معتبر معلومات کی جگہ تخمینوں اور اندازوں کی بنیاد پر مرتب کیا گیا ہے۔ یہ حکومت کی مجرمانہ غفلت اور ناقابلِ معافی کوتاہی ہے۔
اسی طرح دستور (دفعہ ۱۶۰-الف) کا تقاضا ہے کہ ہر پانچ سال پر نیشنل فنانس کمیشن ایوارڈ (NFC Award) آئے جن میں آبادی اور دوسرے طے شدہ بنچ مارکس کی روشنی میں مرکز اور صوبوں کے درمیان ریونیو کی تقسیم کی جائے۔ ساتواں ایوارڈ دسمبر ۲۰۰۹ء میں منظور ہوا تھا جس کی مدت دسمبر ۲۰۱۴ء میں ختم ہوگئی تھی۔ آٹھواں ایوارڈ ۲۰۱۵ء میں آجانا چاہیے تھا مگر نہ کمیشن بنا ہے اور نہ ایوارڈ آیا ہے۔ سابقہ ایوارڈ ہی کی روشنی میں محصولات کی آمدنی کو تقسیم کیا جا رہا ہے جو آئین اور قانون کے مطابق ہی نہیں زمینی حقائق اور انصاف کے اصولوں کے بھی منافی ہے۔ حکومت اس پورے معاملے کو بہت ہی ہلکا لے رہی ہے حالانکہ اس کے بڑے دُور رس آئینی، معاشی اور سیاسی مضمرات ہیں۔اسی طرح صوبوں میں بھی صوبائی فنانس کمیشن بننے چاہییں اور صوبے اور لوکل گورنمنٹ میں وسائل کی تقسیم قانون اور انصاف کے مطابق ہونی چاہیے۔ ۱۸ویں دستوری ترمیم ۲۰۱۰ء میں منظور ہوئی تھی۔ چھے سال گزرنے کے باوجود اس پر قانون اور اس کی روح کے مطابق عمل نہیں ہو رہا جس کے اثرات قومی یک جہتی کے لیے بڑے نقصان دہ ہوسکتے ہیں۔ دستور، قانون اور اجتماعی عدل کے تقاضوں سے کھیل کر کوئی قوم خیر اور اعتمادِ باہمی کو مجروح کیے بغیر نہیں رہ سکتی۔
ایک اور بڑا ہی اہم دینی اور دستوری تقاضا ہے جس کو مسلسل نظرانداز کیا جا رہا ہے اور ملک جہاں معاشی تباہی کی طرف بڑھ رہا ہے اللہ کے غضب کو بھی دعوت دی جارہی ہے اور رزق اور معاشی ترقی کے باب میں بے برکتی کی شکل میں اس کی جھلکیاں دیکھی جاسکتی ہیں۔ قرآن کا واضح اعلان ہے کہ سودی لین دین اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جنگ کی حیثیت رکھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اس معیشت کا مٹھ مار دیتا ہے جو سود کی بنیاد پر قائم ہو۔ ہم سود کے نظام کو مستحکم اور سود سے پاک معیشت کے دعوئوں اور واضح دستوری مطالبے سے رُوگردانی کر رہے ہیں اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ آج سود اور سودی قرضوں میں ہمارا بال بال گرفتار ہے۔ بجٹ کا سب سے بڑا مصرف سود اور سودی قرضوں کی ادایگی اور اس مکروہ عمل کو جاری رکھنے کے لیے مزید سودی قرضے لیناہوگیا ہے۔ ہم بڑے دُکھ اور افسوس کے ساتھ اس امر کا اظہار کرتے ہیں کہ اس سلسلے میں جناب نوازشریف کی حکومت کا رویہ ظالمانہ اور شریعت اور دستور سے عملاً باغیانہ ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے اپنے پہلے دور میں ۹۰کے عشرے میںوفاقی شریعت کورٹ کے سود کو ختم کرنے اور متبادل نظام کو سرکاری سطح پر رائج کرنے کا فیصلہ دیا تھا جس کے خلاف حکومت اور اس کے ایما پر مسلم کمرشل بنک جسے اس حکومت نے نجی بنایا تھا۔ سپریم کورٹ میں اپیل کی، جس کی وجہ سے یہ عمل ۱۱سال معطل رہا۔ پھر سپریم کورٹ نے مشرف دور میں اپنا تاریخی فیصلہ دیا جسے غیرمؤثر بنانے کے لیے مشرف صاحب نے شریعت کورٹ اور سپریم کورٹ کے شریعت بنچ کو بدل دیا اور مسئلے کو پھر ازسرِنو سماعت کے لیے فیڈرل شریعت کورٹ کو بھیج دیا جہاں وہ آج بھی معلق ہے۔
یہ تو معاملے کا ایک پہلو ہے۔ موجودہ حکومت نے اپنے پہلے بجٹ میں اس بارے میں خاموش برتی جس پر احتجاج ہو اور اس کے نتیجے میں وزیرخزانہ نے مرکزی بنک کے نائب گورنر کی صدارت میں ایک کمیٹی بنائی جسے یہ کام سونپا گیا کہ ایک سال کے اندر اس سلسلے میں اپنی رپورٹ دے گی اور تبدیلی کا نقشۂ کار پیش کرے گی۔ ذمہ دار حضرات نے خود مجھے یقین دلایا اور ڈپٹی گورنرصاحب نے خود بھی اپنے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ اس معاملے کو پوری سنجیدگی سے لیتے ہیں بلکہ رفاہ انٹرنیشنل یونی ورسٹی کی ایک کانفرنس میں جس کا کلیدی خطبہ مَیں نے دیا تھا یہاں تک کہا کہ میرے ڈپٹی گورنر کی ذمہ داری قبول کرنے کا ایک بنیادی مصرف بھی یہ ہے کہ ملک میں غیرسودی بنکنگ کے نظام کو قائم کرنے میں کردارادا کرسکوں۔ میرے اندازے کے مطابق اس کمیٹی کی رپورٹ ۲۰۱۵ء کے وسط تک آجانی چاہیے تھی لیکن قوم کو اس کی کوئی خبر نہیں کہ کمیٹی نے کیا کام کیا ہے اور اس لعنت سے نجات کے لیے کوئی منصوبۂ کار ہے بھی یا نہیں۔ وزیراعظم صاحب اور وزیرخزانہ اس باب میں ناقابلِ معافی غفلت اور کارکردگی کے فقدان کے ذمہ دار ہیں۔ بجٹ میں اس کا کوئی ذکر نہیں حالانکہ ماضی کے بجٹ میں اس کمیٹی کے قیام کو حکومت کے ایک کارنامے کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔
کیا وزیراعظم صاحب کو یہ یاد دلانے کی ضرورت ہے کہ میری موجودگی میں ان کے والد ِ محترم نے ۱۹۹۰ء کی دہائی میں ان کو تلقین کی تھی کہ سود سے معیشت کو پاک کرنے کا کام ذمہ داری سے انجام دیں اور میری اطلاع کی حد تک اپنی جلاوطنی کے دور میں مدینہ منورہ میں جناب نوازشریف نے کچھ افراد کے سامنے یہ اظہار کیا تھا کہ ماضی میں ان سے کوتاہی ہوئی اور اگر ان کو آیندہ موقع ملا تو وہ اس کی تلافی کریں گے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو ایک اور موقع دیا جسے ان تین برسوں میں انھوں نے بُری طرح ضائع کیا ہے۔ اللہ کے قانون میں ڈھیل تو ہے لیکن اس کی گرفت بھی بہت ہی سخت ہے۔
ان تمام دستوری، قانونی، سیاسی اور اخلاقی تقاضوں کے باب میں موجودہ حکومت، پارلیمنٹ اور سیاسی جماعتوں کا رویہ فوری نظرثانی کا محتاج ہے۔
بجٹ میں ملک کو درپیش معاشی چیلنج کا صحیح ادراک ہی موجود نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اصلاحِ احوال کے لیے جن اقدامات کا ذکر کیا گیا ہے خصوصیت سے زراعت اور برآمدات کے بحران کا مقابلہ کرنے کے لیے وہ جزوی اور خام ہیں۔ معاشی ترقی کے پورے تصور (paradigm) کی ازسرِنو تشکیل کی ضرورت ہے۔ ملک کے زمینی حقائق اور دستور اور قوم کے عزائم اور توقعات کی روشنی میں مقاصد، حکمت عملی، ترجیحات اور پروگرام کے ازسرِنو تعین اور وسائل کی فراہمی اور ان کے استعمال کی صحیح منصوبہ بندی درکار ہے۔ معاملہ محض جزوی اور وقتی اصلاحات کا نہیں بنیادی پالیسی اور ترجیحات کا اور اس کے ساتھ صحیح وژن، اداروں کی اصلاح، تحقیق اور مشاورت سے مربوط پالیسیوں کی تشکیل، فیصلہ سازی اور ان کے نفاذ کے باب میں مؤثر تعمیرِصلاحیت (capacity building) اور صرف میرٹ کی بنیاد پر مردانِ کار کا انتخاب، معاشی اور سماجی انفراسٹرکچر کی اصلاح، delivery system کی تنظیم نو___ ان میں سے ہرپہلو فوری توجہ اور مناسب تنظیم نو کا متقاضی ہے۔ موجودہ حکومت کی اب تک کی کارکردگی سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس کے پاس نہ وژن ہے اور نہ حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے مناسب ڈھانچا اور افرادِ کار۔
ایک اطلاع کے مطابق ۴۰ سے زیادہ اہم مرکزی ادارے باقاعدہ سربراہ سے محروم ہیں۔ دو اہم ترین وزارتیں ہمہ وقت وزیر کو ترس رہی ہیں۔ جامعات اور تحقیقی اداروں میں اپنے ملک کے مسائل کے بارے میں تحقیق اور زمینی حقائق کی روشنی میں نئی ٹکنالوجی کی دریافت کا کام معطل ہے۔ ماحول کی تبدیلی کی وجہ سے جو اثرات پڑ رہے ہیں اور ان کی روشنی میں جس قسم کی فصلوں اور ان کی کون سی اقسام کو فروغ دینے کی ضرورت ہے، اس طرف کوئی توجہ نہیں ۔ زرعی میدان میں ریسرچ اور توسیعی خدمات (extension service) غیرمتعلق ہوکر رہ گئے ہیں۔ ایک اخباری تحقیقی رپورٹ کے مطابق، ایک طرف کپاس کی کاشت بحران کا شکار ہے اور موسم کے اثرات کے علاوہ بیج کے ناقص ہونے اور جراثیم کش ادویات کی ضرورت سے مطابقت نہ ہونے نے تباہی مچائی ہوئی ہے۔ چین سے جو بیج درآمد کیا گیا وہ ہمارے حالات سے کوئی مطابقت نہ رکھتا تھا لیکن سیاسی مصالح یا معاشی مفادات کی خاطر یہ ظلم ملک اور کاشت کار طبقے پر کیا گیا جس کی سزا پورا ملک اور پوری فارم کمیونٹی بھگت رہی ہے مگر حکومت کو نہ حالات کا اِدراک ہے اور نہ اصلاح کا جذبہ۔ نمایشی اقدامات کیے جارہے ہیں اور اس وقت جب کپاس کی فصل تباہ اور اس کی کاشت کرنے والی پوری برادری پریشان ہے حکومت کی غفلت کا یہ حال ہے کہ سنٹرل کاٹن ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ملتان مستقل افسر تک سے محروم ہے۔ تین سال سے دفتر ایسے انچارج کے ہاتھوں چل رہا ہے جو اس شعبے میں مہارت نہیں رکھتا اور عارضی چارج لیے ہوئے ہے۔ مرکزی سطح پر اسلام آباد میں کیا گل کھلائے جارہے ہیں اس کی ایک مثال یہ ہے کہ کاٹن ریسرچ کو وزارت زراعت کے بجاے وزارتِ ٹیکسٹائل کے حوالے کردیا گیا ہے جہاں کپاس کی کاشت کے اُمور سے متعلق کوئی کام ہو ہی نہیں رہا (روزنامہ دنیا، ۴مئی ۲۰۱۶ئ)
زراعت کے مسائل ہوں یا برآمدات کے___ ان جزوی اصلاحات سے ان کا حل ممکن نہیں جن کا بجٹ میں اعلان کیا گیا ہے۔ اس کے لیے ان دونوں شعبوں میں پورے نظامِ کار میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ پالیسی کے اہداف سے لے کر پورے نظامِ کار بشمول Extension Services اور Delivery System کے ازسرِنو جائزے کی ضرورت ہے۔ ہر میدان میں ریسرچ اور جدید ٹکنالوجی کے استعمال کا اہتمام کرنا ہوگا۔ ہر کام کے لیے اس کے لیے مناسب مہارت رکھنے والے قابل افراد کے تقرر اور احتساب اور باقاعدگی سے نگرانی (regulation)کے مؤثر انتظام کی ضرورت ہوگی۔ محض اَشک شوئی سے بحرانوں کی اس دلدل سے نکلنا ممکن نہیں۔ مسئلہ structural ہے صرف سبسڈیز اور زیرو ریٹنگ سے اس بحران پر قابو پانا ممکن نہیں۔
بلاشبہہ اس پورے کام کے لیے صحیح قیادت اور مردانِ کار کے ساتھ مالی وسائل کی بھی ضرورت ہے۔ ہماری نگاہ میں ملک میں وسائل کی کمی نہیں۔ کمی دیانت داری اور مہارت و اہلیت کے ساتھ ساتھ وسائل کے حصول اور ان کے مناسب استعمال کی ہے۔ ملکی وسائل کی صحیح مو بلائزیشن اور بیرونِ وطن پاکستانیوں کو معاشی ترقی میں مؤثر انداز میں شریک کر کے قرضوں کے بغیر خطیر وسائل کا حصول ممکن ہے۔ کرپشن پر قابو پاکر حقیقی وسائل کو دوچند کیا جاسکتا ہے۔ صرف اسمگلنگ پر قابو پاکر اربوں ڈالر کے وسائل سرکاری خزانے میں لائے جاسکتے ہیں۔ ٹیکس کے نظام کی اصلاح سے ٹیکس کی آمدنی کو دگنا اور اس سے بھی زیادہ ترقی دینا چند سال میں ممکن ہے۔ پیداوار کو value added کی سمت میں ڈھال کر اور جدید ٹکنالوجی سے بھرپور فائدہ اُٹھا کر ملک کی comptiveness کو کہیں سے کہیں پہنچایا جاسکتا ہے۔ ملک میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں، اس ٹیلنٹ سے فائدہ اُٹھانے کی کمی ہے۔ اس کے لیے ایک نئے طرزِفکر (mind-set) کی، ایک نئی ٹیم کی اور محرکات (incentives) کے ایک نئے نظام کی ضرورت ہے۔ دیانت دار اور باصلاحیت قیادت جو اپنی ذات کے مفاد کی پجاری نہ ہو بلکہ ملک و قوم کی ترقی کے لیے کمربستہ ہو، وہ چند سال میں ملک کا نقشہ بدل سکتی ہے۔ جس تبدیلی کی ملک کو ضرورت ہے وہ وہ ہے جس کی ہم نے اُوپر نشان دہی کی ہے۔ ہمیں افسوس سے کہنا پڑتاہے کہ حالیہ بجٹ اور موجودہ حکومت اس تبدیلی کی سمت میں کوئی قدم بڑھانے میں بُری طرح ناکام رہی ہے اور یہی ہمارا اصل مسئلہ ہے ؎
ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا
ورنہ جو دُکھ ہمیں تھے، بہت لادوا نہ تھے
(کتا بچہ دستیاب ہے، منشورات، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور۔۱۷ روپے،۱۰۰ ۱روپے سیکڑہ۔ فون:35252211)