پروفیسر خورشید احمد


دنیا کی سیاسی لغت میں نائن الیون کی اصطلاح ایک منفرد اضافہ ہے۔ دوسرے الفاظ میں اضافہ ایک لفظ کا نہیں، بلکہ اب تو ایک اصطلاح کا ہے جو ایک مخصوص عالمی جنگ یعنی وار آن ٹیرر  (war on terror) کا عنوان بن گیا ہے۔ بلاشبہہ یہ وہ دن ہے جب نیویارک میں امریکا کے تجارتی مرکز ٹوئن ٹاورز اور واشنگٹن میںامریکی وزارت دفاع کے ہیڈکوارٹر پینٹاگان پر ہوائی حملہ ہوا اور چشمِ زدن میں بش کی قیادت میں امریکا کسی تحقیقات کا انتظار کیے بغیر دہشت گردی کے خلاف ایک نہ ختم ہونے والی جنگ میں کود پڑا۔ چھے سال گزرجانے کے بعد بھی یہ ایک معمّا ہے کہ۱۱ستمبر کو جو کچھ ہوا، وہ کیسے ہوا؟ کس نے کیا؟اور وہ اصل اہداف کیا تھے جن کے حصول کے لیے یہ خونی کھیل کھیلا گیا؟-- امریکا اس کا ہدف تھا یا خود امریکا اور اس کے ایک ساجھی ملک نے اپنے اپنے سیاسی عزائم کے حصول کے لیے ایسے ہولناک اقدام کا اہتمام کیا؟ یہ عجیب اتفاق ہے کہ ۲۰ویں صدی کی دوعظیم جنگوں کو کسی خاص تاریخ (date) سے نسبت نہیں دی جاتی لیکن اکیسویں صدی کی دہشت گردی کے خلاف اس جنگ کا عنوان نائن الیون بن گیا ہے اور اب لغت میں باقاعدہ اس ایک نئے لفظ کااضافہ ہو گیا ہے۔

ایک نظریہ یہ ہے کہ اس واقعے کے پیچھے اسامہ بن لادن اورالقاعدہ کا ہاتھ ہے۔ جو    نام نہاداسلامی شدت پسندی اور دہشت گردی کے سرخیل ہیں اور انھی کی سرکوبی کے لیے امریکا کی قیادت میں افغانستان ، عراق اور کسی نہ کسی شکل میں تمام دنیا میں جنگ کی جارہی ہے۔

ایک دوسرا نظریہ یہ ہے کہ نائن الیون کے پیچھے دراصل امریکا اور اسرائیل کی خفیہ ایجنسیوں کا کردار ہے اور دونوں ممالک کی قیادت ہی اس کی beneficiaryہے یعنی اس سے فائدہ اٹھا رہی ہے اور اپنے اپنے عزائم کے حصول کے لیے اسے استعمال کر رہی ہے۔

بظاہر یہ دونوںنقطہ ہاے نظر ہی اپنے اپنے انداز میں سازشی نظریوں(conspiracy theories ) کی حیثیت رکھتے ہیں اور صرف پروپیگنڈے کی قوت ہے جس کے ذریعے ایک کو حقیقت اور دوسرے کو واہمہ اور سازش بناکر پیش کیا جارہا ہے۔ مگر اصل حقیقت کیا ہے، اب تک ایک معمّا بنا ہوا ہے___ لیکن کیا یہ ہمیشہ معمّا ہی رہے گا اور اصل حقیقت کبھی بھی سامنے نہیں آئے گی--؟

نائن الیون کے بارے میں چبھتے ہوئے سوالات اور ٹھوس سائنسی حقائق اور اصولوں پر مبنی اشکالات تو تواتر کے ساتھ اٹھائے جاتے رہے ہیں لیکن ابھی تک کوئی ایسا دھماکا نہیں ہوا تھا جو اُوپر کے حلقوں کو چونکا سکے۔ اہل علم وفکر کی ساری سرگوشیوں پر امریکا کی انتظامیہ اور میڈیا کا وِژن بری طرح چھایارہا ہے۔ بی بی سی کے پروگرام پنوراما کی چار قسطیں اور Michael More کی ڈاکومنٹری Fahrenheit 9/11 بھی ذہنوں میںسوال اٹھانے کے باوجود عالمی حلقوں میں کوئی بڑا ارتعاش پیدا نہ کرسکیں۔ اب تک بیسیوں کتابیں بڑی دیدہ ریزی کے ساتھ کی جانے والی تحقیق کی بنیاد پر شائع ہو چکی ہیں لیکن یہ بھی بس ساحل پر ہی کچھ جنبش پیدا کرسکی ہیں اور جس سنجیدگی سے اس معمّے کو سلجھانے کی کوشش اور امریکا کی فکری یلغار کے پوسٹ مارٹم کی ضرورت ہے اس کی طرف کوئی پیش قدمی نہیں ہوسکی۔ البتہ دسمبر ۲۰۰۷ء میں ایک بیان ایسا آیا ہے جس نے یورپ کے  حلقوں میں ہلچل مچادی ہے اس کے باوجود کہ امریکا میں اسے بالکل  ہی دَبا (kill کر)  دیاگیا ہے اور مسلم دنیا میں بھی اسے قرار واقعی اہمیت نہیںملی، حالانکہ وہ بیان ایسا ہے جس سے اب تک کے علمی، سیاسی اور صحافتی حلقوںمیں امریکی اسرائیلی وِژن کو چیلنج کرنے والوں کے کام کو بڑی تقویت حاصل ہوئی ہے اور عالمی سطح پر ایک نئی بیداری کی ضرورت سامنے آئی ہے۔

یہ بیان اٹلی کے سابق صدر فرانسیسکو کوسی گا (Francesco Cossiga)  کا ہے جو اس نے اٹلی کے سب سے مقبول اخبار Corriere della Sera کو دسمبر ۲۰۰۷ء کے پہلے ہفتے میں دیا ہے۔ اس بیان میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ نائن الیون دراصل ایک خود کیا ہوا کام (Inside Job) تھا اور اس کی اصل ذمہ داری امریکی سی آئی اے اور اسرائیلی موساد پر آتی ہے اور اب یہ حقیقت ایک نہ ایک دن پوری دنیا کے سامنے آکر رہے گی۔ اٹلی کے سابق صدر کے بیان کے بنیادی نکات یہ ہیں:

[Bin Laden supposedly confessed] to the Qaeda September [attack] to the two towers in New York [claiming to be] the author of the attack of the 9/11, while all the [intelligence services] of America and Europe... now know well that the disastrous attack has been planned and realized from the CIA American and the Mosad with the aid of the Zionist world in order to put under accusation the Arabic Countries and in order to induce the western powers to take part .. in Iraq [and] Afghanistan.

بن لادن نے مفروضہ طور پر نیویارک کے دو ٹاوروں پر القاعدہ کے ستمبر حملے کااعتراف کیا، اور دعویٰ کیا کہ وہ نائن الیون کے حملے کا ذمہ دارہے، جب کہ امریکا اور یورپ کی تمام خفیہ ایجنسیاں اب یہ بات اچھی طرح جانتی ہیں کہ صہیونی دنیا کے تعاون سے امریکی سی آئی اے اور موساد نے  اس تباہ کن حملے کی منصوبہ بندی کی اور اس پر عمل کیا تاکہ عرب ممالک پر الزام لگایا جاسکے اور مغربی دنیا کو عراق [اور] افغانستان پر حملے کے لیے آمادہ کیا جاسکے۔

کوسی گایورپ کے واقفانِ راز میں سے ہے۔ اسے ایک جرأت منداورسچ بولنے والے سیاست دان کی شہرت حاصل ہے۔ اس نے ۱۱/۹ کے واقعے کے فوراً بعد بھی مجملاً اپنے خدشات کا اظہار چند نظری مسلّمات کی بنیاد پر کیا تھا جس کا ذکر کئی مصنفین نے بشمول Webster Tarpley نے اپنی کتا ب میں کیا تھا کہ کوسی گاکے تجزیے کی روشنی میں :

The mastemind of the attack must have been a sophisticated mind, provided with ample means not only to recruit fanatic kamikazes, but also highly specialized personnel. I add one thing: it could not be accomplished without infiltrations in the radar and flight security personnel.

اس حملے کا ماسٹر مائنڈ ایک انتہائی منظم اور اعلیٰ درجے کا ذہن ہونا چاہیے جس کو جنونی فدائیوں بلکہ انتہائی خصوصی تربیت یافتہ عملے کے بھرتی کرنے کے وافر مواقع حاصل ہوں۔ میں ایک بات کا اضافہ کرتا ہوں کہ یہ حملے راڈار اور فضائی سلامتی کے ذمہ دار عملے میں سرایت کیے بغیر تکمیل کو نہیں پہنچ سکتے تھے۔

لیکن اب چھے سال بعد اس نے پورے یقین سے یورپ کے بیش تر خفیہ ایجنسیوں کے تجزیے کی بنیاد پر کہا ہے کہ یہ کارنامہ سی آئی اے اور موساد کے سوا کسی اور کا نہیں ہوسکتا۔

کوسی گانے یہ بھی کہا ہے کہ بحیثیت صدر اٹلی اس کو یہ علم تھا کہ یورپ، امریکا اوراسرائیل کی خفیہ ایجنسیاں کس طرح ہر دور میں افراد اور ممالک کے خلاف دہشت گردی کے واقعات کا ارتکاب کرتی رہی ہیں، اور کس طرح ان کے ذریعے ان حکومتوں نے اپنے مخصوص سیاسی اہداف حاصل کیے ہیں۔ اس سلسلے میں اس نے خودنیٹو کے ایک بڑے کارنامے Operation Gladio کا ذکر کیا ہے جس کے بارے میں اٹلی کی پارلیمانی کمیٹی کے سامنے سارے حقائق ۲۰۰۰ء میں آئے اور جس سے ثابت ہوا کہ یہ سارا آپریشن امریکی جاسوسی ایجنسی کی سرپرستی میںخود نیٹو کی ایجنسیوں نے انجام دیا تھا۔

واضح رہے کہ فرانسیسکو کوسی گا جولائی ۱۹۸۳ء میں اٹلی کے سینیٹ کا صدر منتخب ہوا تھا اور ۱۹۸۵ء میں اٹلی کا صدر منتخب ہوا اور اپریل ۱۹۹۲ء تک اٹلی کی صدر کی حیثیت سے کام کرتا رہا۔  کوسی گا کو یورپ کے صاحب نظر سیاسی اکابرین میں شمار کیا جاتا ہے۔  

یہاں اس امرکا اعادہ بھی مفیدہوگا کہ امریکا کے لیے اپنے سیاسی مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے صریح جھوٹ اور غلط بیانی کی بنیاد پر پالیسیاں بنانا اور اقدام کرنا کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بارے میں بعد کی تحقیقات نے ثابت کر دیا ہے کہ پرل ہاربر پر حملہ ردعمل تھا ایک جاپانی آب دوز کوہوائی کے پانیوں میں بلااشتعال نشانہ بنانے کا ۔ اسی طرح اب یہ حقیقت پوری دنیا کے سامنے ہے کہ عراق پر حملہ کے لیے وسیع پیمانے پر تباہی کے ہتھیاروں (WMD) کا ڈھونگ رچایا گیا اور بعد میں خود کولن پاول نے معذرت کی کہ اس کو صحیح معلومات نہیں دی گئیں۔ اس ہفتے امریکا کی دوممتاز صحافتی تنظیموں نے اپنی ایک تحقیقی رپورٹ میں ثابت کیا ہے کہ امریکی صدر بش اور ان کی انتظامیہ نے ۱۱/۹ کے بعد کے دوسالوں میں عراق میں وسیع پیمانے کی تباہی کے ہتھیاروں کی موجودگی کے سلسلے میں ۵۳۲بار جھوٹ پر مبنی اعلانات کیے اور عراق میں القاعدہ کی موجودگی اور عراق- القاعدہ تعاون کے سلسلے میں جھوٹ بولنے کا اسکور ۹۳۵ تک پہنچ جاتا ہے۔ جھوٹ، دھوکا اورغلط دعووں کی بنیاد پر پالیسی سازی مغربی اقوام کا وطیرہ ہے لیکن جھوٹ کی نائو ایک نہ ایک دن ڈوب کر رہتی ہے۔

امریکا اور یورپ میں بھی ۱۱/۹ پر اب نئی تحقیق اور تنقیدی کتب کا انبار لگتا جا رہا ہے لیکن افسوس ہے کہ مسلم ممالک میں عام آدمی کا احساس خواہ کتنا ہی گہرا کیوں نہ ہولیکن علمی حلقوں اورپالیسی ساز اداروں کو اس کا کوئی احساس نہیں کہ پروپیگنڈے کے دھوئیں کو چھانٹ کر حقیقت کو جاننے کی کوشش کریں اور آنکھیں بندکرکے امریکا اوراسرائیل کے مفاد کی دہشت گردی کے خلاف اس نام نہاد جنگ کی حقیقت کو سمجھیں اور جس جنگ کا اصل ہدف اسلام اور مسلمان ہیں، اس میں  آلۂ کار نہ بنیں۔

یہ بات امر واقع کے طور پر عرض کر رہا ہوں کہ مدیر ترجمان القرآن کو پہلے دن سے ۱۱/۹ کی امریکی توجیہہ کوتسلیم کرنے میں بڑا تردّد تھا جس کا بار بار اظہار ۹ستمبر کے بعد لکھے جانے والے اشارات میں کیا گیا ہے، جن کامجموعہ امریکا سے مسلم دنیا کی بے اطمینانی، ۹ستمبر سے پہلے اور اس کے بعد (۲۰۰۳ئ) انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز ، اسلام آباد نے شائع کیا ہے۔     اسی طرح اس حادثے کے صرف۷ ہفتے بعد برطانیہ میں مسلم تنظیموں کے ایک اہم اجتماع میں  اظہار خیال کرتے ہوئے میں نے بڑے بنیادی سوال اٹھائے۔ یہ تقریر امریکا سے شائع ہونے والی ایک کتاب The Blackwell Companion  to Contemporary Islamic Thought (مطبوعہ ۲۰۰۶ئ) میں شائع ہو چکی ہے۔۱ ؎

امریکا اور یورپ میں پہلے ایک دوسال تو اتنا ذہنی دبائو تھا کہ اختلافی آرا حلق سے باہر نہیں آرہی تھیں مگر آہستہ آہستہ بحث وگفتگو کا دروازہ کھلا اور ایک فرانسیسی تجزیہ نگار اور محقق Thierry Meyssan وہ پہلا معروف مصنف ہے جس نے اس موضوع پر کھل کر امریکی نظریے کو چیلنج کیا اور متبادل نظریہ پیش کیا۔ اس کی اہم ترین کتاب 9/11: The Big Lie پہلے فرانسیسی زبان میں اور پھر انگریزی میں ۲۰۰۲ء میں ہی شائع ہوئی تھی جسے نیویارک ٹائمزنے ایک چیلنج قرار دیا اور لکھا ہے کہ یہ کتاب: challanges the entire offical version of the Sept. 11 attacks۔

اسی مصنف کی دوسری کتاب Pentagate لندن سے ۲۰۰۲ء میں شائع ہوئی جس میں پینٹاگان پر جہازی حملے کا پول کھولا گیا ہے۔ مسلمان محققین میں سب سے قیمتی اور مدلل کتاب پروفیسر نفیس مصدق احمد کی ہے جو ۲۰۰۵ء میں شائع ہوئی ہے یعنی The War on Truth: 9/11, Disinformaton and the Anatomy of Terrorism"۔

موصوف کی ایک اور کتاب بھی بڑی قیمتی کاوش ہے گو اس کا مرکزی موضوع عراق کی امریکی جنگ ہے یعنی Behind the War on Terror: Western Strategy and the Struggle for Iraq

دواو ر کتابیں جو دونام ور صحافیوں کی محنت کا حاصل ہیں قابل ذکر ہیں۔ پہلی کتاب 9/11 Revealed ہے جو ۲۰۰۵ء میں لندن سے شائع ہوئی ہے اور اس کے لکھنے والے ایان ہینشال اور رونالڈ مارگن (Ian Henshall and Ronald Morgan)ہیں اور دوسری رونالڈ مارگن کی کتاب Flight 93 revealed ہے جو واشنگٹن میں پینٹاگان پر حملے کے پوسٹ مارٹم پر مشتمل ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ اب تحقیقی کام میں کہیں اضافہ ہورہا ہے۔کئی ادارے نائن الیون کے بارے میں سچ کی تلاش کے مقصد سے تحقیق کا کام انجام دے رہے ہیں اور یورپ اور امریکا    کے چند چوٹی کے مفکرین اور سائنس دانوں نے بھی اس موضوع پر قلم اٹھایا ہے۔ اس سلسلے میں


1- Khurshid Ahmed: "The World Situation after September 11, 2001", in The Blackwell Companion to Contemporary Islamic Thought, edited by Ibrahim M.Abu-Rabi, Blackwell Publishing, USA, 2006, pp 408-422

نوم چومسکی کے بعد سب سے وقیع کام کلیرمونٹ گریجویٹ یونی ورسٹی کے فلسفہ و الٰہیات کے پروفیسر ڈیوڈ رے گریفین (David Ray Griffin) کا ہے جن کی دوکتابیں علمی حلقوں میں تہلکہ مچاچکی ہیں یعنی:The New Pearl Harbour: Disturbing Questions about the Bush Administration and 9/11 (2004)   اورThe 9/11 Commission Report: Omissions and Distortions 2005

پروفیسرگریفین کی تازہ ترین کتاب جو ان کے اپنے متفرق مضامین کا مجموعہ ہے ۲۰۰۶ء میں شائع ہوئی ہے یعنی Christian Faith and the Truth about 9/11 اور ان کی تازہ ترین علمی کاوش ان کی مرتب کردہ کتاب 9/11 and American Empire: Intellectuals Speak Out ہے جو ۲۰۰۷ء میں شائع ہوئی ہے اور جس میں امریکا، کینیڈا اور یورپ کے ۱۱ مفکرین اور سائنس دانوں کے مضامین شائع کیے گئے ہیں جواپنے اپنے علم اور تجربے کی بنیاد پر ۱۱/۹ کے بارے میں امریکی وژن کی دھجیاں بکھیرتے ہیں۔

ایک اور اہم مجموعہ مضامین ہالینڈ سے شائع ہوا ہے جس کا مؤلف Paul Zarmenlke ہے جو The Hidden History of 9-11-2001 کے نام سے ایمسٹرڈم سے ۲۰۰۶ء میں شائع ہوئی ہے۔ نیز اس سے خاصا پہلے رسائل اور اخبارات میں شائع شدہ مضامین پر مشتمل ایک مجموعہ لندن سے شائع ہوا تھا  Beyond September 11: An Anthology of Dissent (مرتبہ فل اسکریٹن) لیکن اس نے زیادہ تر اصولی مباحث اور استعماری عزائم پر گفتگو کی ہے اور نائن الیون کے واقعاتی پہلوئوں کو اس طرح چیلنج نہیںکیا جیسا حالیہ دنوں میں شائع ہونے والے لٹریچر میں کیا گیا۔ بہرحال اس مختصر مضمون میں سارے لٹریچر کا احاطہ تو ممکن نہیں، نہ فی الوقت یہ مقصود ہے، صرف ضروری مآخذ کی نشان دہی کی گئی ہے تاکہ یہ حقیقت سامنے آسکے کہ اب پردہ آہستہ آہستہ اٹھ رہا ہے اور امریکا اور اسرائیل کا اصل کردار کھل کر سامنے آنے لگاہے۔ ۲؎ بلّی آخر کب تک تھیلے میں رہ سکتی ہے؟ لیکن کیا مسلمان دنیا کے بصیرت سے محروم قائدین کی آنکھیں بھی کبھی کھلیں گی اور وہ دوسروں کے مفاد کی خدمت کرنے کی بجاے امت مسلمہ کے مفاد کے محافظ بن سکیں گے؟


۲-            چند اہم ترین کتابوں کا پورا حوالہ دیا جارہا ہے تاکہ جو حضرات اس موضوع پر کام کرنا چاہتے ہوں، وہ ان مآخذ کی طرف رجوع کر سکیں:

1- 9/11: The Big Lie by Thierry  Meyssan, Carnot Publishing, London, 2002.

2-  Pentںagate: by Thierry Meyssan, Carnot Publishing, London, 2002

3- Beyond September 11: An Anthology of Dissented. By Phil Scranton, Pluto Press, London, 2002.

4-9.11 Revealed: Challenging the Facts Behind the War on Terror, by Ian Henshall and Rowland Morgan, Constable and Robinson, London, 2005

5- Flight 93 Revealed: What Really Happened on the 9/11 'Let's Roll' Flight? By Rowland Morgan, Constable and Robinson, London, 2006.

6- Behind the War on Terror: Western Strategy and Struggle for Iraq, by Nafees Mossadiq Ahmad. New Society Publications, Gabriele, 2002

7- The War on Truth: 9/11, Disinformation and the Anatomy of Terrorism, by Nafez Mussadiq Ahmed, Olive Branch, Northampton, MA., 2005,

8.-The New Pearl Harbour: Disturbing Questions about the Bush Administration and 9/11, by David Ray Greffin, Olive Branch, Northampton, 2005, 

9- The 9/11 Commission Report: Omissions and Distortions, by David Ray Griffin, Olive Branch Press, Northampton, 2005.

10-Christian Faith and the Truth Behind 9/11, by David Ray Griffin, Westminster, John Knox, Louisville, 2006.

11- Painful Questions: An Analysis of the September 11 Attack, by Erie Hufschmid, Endpoint Software, Golete C.A. 2002.

12- 9/11 Synthetic Terror: Made in USA, by Webster Griffin Tarpley, Progressive Press, Joshua Tree, 2005

13- 9/11 and American Empire: Intellectuals Speak Out.  Ed. By David Ray Griffin and Peter Dale Scott, Arris Books, Glostanshire, 2007.

_________________

۲۱ویں ویں صدی کا آغاز ہو چکا اور عالم انسانیت تیسرے ہزاریے میں داخل ہو گیا۔ اس کے ساتھ ہی ہماری دنیا چونکا دینے والے نئے نئے دعووں، اضطراب انگیز وسوسوں اور خدشات کے طوفان کی زد میں آچکی ہے۔

ایک طرف تو کمیونزم کے انہدام اور سرد جنگ کے خاتمے کے دعوے کیے جا رہے ہیں، اور اس کے ساتھ مغرب کی آزاد روی (liberalism) ، معیشت اور سیاست کی آخری فتح کے نقارے بجا کر ’تاریخ کے خاتمے، کا اعلان کیا جا رہا ہے۔۱  لیکن دوسری جانب عالمی سطح پر مذہبی احیا اور ’بنیاد پرستی، کا شور برپا ہے ، جس میں ایک نئے دور کی آمد آمد کے خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے جو مختلف تہذیبوں کے درمیان تصادم سے عبارت ہوگا۔۲

چنانچہ وقت آگیا ہے کہ متوازن سوچ کے حامل دانش ور، خصوصاً وہ جو مسلم اُمّہ کی نمایندگی کرتے ہیں، ان افکار و مسائل کی طرف متوجہ ہوں جو: علم و دانش کی دنیا اور قوت و اقتدار کی غلام گردشوں میں زیربحث ہیں۔ ان چیلنجوں کے مقابلے کے لیے اسلام اور مسلم اُمّہ کی حکمت عملی پر ازسرنو غور کریں۔ آج کے چند بڑے مسائل، جن پر انسانیت کو تشویش لاحق ہے اور جو خصوصاً مسلم اُمّہ سے براہِ راست متعلق ہیں، ان میں: عالم گیریت(globalisation) ،زندگی کے ہر شعبے (مذہب سمیت) میں آزاد خیالی(liberlisation)جمہوریت، نج کاری (privatisation) اور لادینیت (secularisation) شامل ہیں۔ ان میں مذہبی احیا  اور بین الاقوامی دہشت گردی کے آسیب بھی شامل ہیں۔

میں اس مقالے میں، جمہوریت کے حوالے سے جاری مباحث کا جائزہ لوں گا۔

اس مقالے کا استدلال یہ ہے کہ وہ جمہوریت ، جو مغربی تہذیب اور سیاست کی رُو سے فروغ پا چکی ہے، نہ تو مکمل طور پر کوئی یکساں نوعیت کا نظریہ ہے اور نہ ایسا نظریہ ہی ہے کہ جسے چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ بلکہ، یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ جمہوریت تو ایک ایسا کثیر جہتی مظہر ہے جس کے نظریاتی اور عملی اعتبار سے کئی پہلو ہیں۔ چنانچہ یہ فرض کر لینا کہ: ’’جمہوریت کا کوئی مخصوص مغربی نمو نہ پوری انسانیت اور خاص طور پر مسلم اُمّہ کے لیے مثالی نظام سیاست کے طور پر تسلیم کر لیا جانا چاہیے‘‘۔علمی طور پر ناقابل قبول اور ثقافتی اعتبار سے ناقابل مدافعت ہے۔ مسلم اُمّہ کی تو اپنی الگ اخلاقی اور نظریاتی پہچان ہے، اور مسلمان تاریخی و ثقافتی اعتبار سے اپنا الگ تشخص رکھتے ہیں۔ ہاں، عالم گیریت اپنی موجودہ شکل میں تاریخ کے رواں دور کا ایک رجحان ضرور ہے، لیکن اسے نئی استعماریت کا پیش خیمہ بننے کی  ہرگزاجازت نہیں دی جا سکتی جس کا بڑا خدشہ ہے۔

میرے نزدیک مغرب کی جمہوری فکراور تجربہ، اپنی افادیت اور تنوع کے باوجود، گہری سوچ بچار اور منطقی تجزیے کی کسوٹی پر پورا نہیں اترتے بلکہ ان میں کئی نقائص ہیں اور وہ عملی تضادات، تصوراتی خامیوں اور ناکامیوں سے عبارت ہیں۔ ڈبلیو جی گیلی نے بجا طور پر مغربی جمہوریت کو ’’بنیادی طور پر قابل حجت تصور‘‘ قرار دیا ہے۔۳ عالم اسلام اور تیسری دنیا کے ممالک کو ، مغربی جمہوریت کی ’برآمد، (export) کوئی حقیقت پسندانہ طرزِ عمل نہیں۔چنانچہ امریکا اور دوسری مغربی طاقتوں کی خارجہ پالیسی کے واضح ہدف کے طور پر دبائو، دھاندلی، سازشوں یا براہِ راست قوت کے ذریعے کسی ملک میں مغربی سیکولر جمہوریت کو بلاامتیاز ٹھونسنے کی کوشش انتہائی نامناسب ہوگی۔

بہتر ہوگا کہ جمہوریت کی دو اہم جہتوں کے درمیان خط امتیاز کھینچ لیا جائے۔ پہلی جہت یہ کہ جمہوریت کی فلسفیانہ بنیاد: عوامی خود مختاری کا تصور اور اس کے نتیجے میں عوامی حمایت پر مبنی حکومت کے جواز کا اصول ۔ دوسری یہ کہ اس نظام کو چلانے کے طریقے، تاکہ کاروبار مملکت میں عوام کی شرکت یقینی بنائی جائے ، اور حکمرانوں کے انتخاب میں اور حکومتی پالیسیوں کی تشکیل اور منصوبوں میں عوام کی شمولیت ممکن ہو سکے ۔ میرا یہ موقف بھی ہے کہ اسلامی عقاید، ثقافت، تاریخ اور فی زمانہ تجربات کے حوالے سے ایسے رہنما خطوط موجود ہیں جو ایک واضح اور منفرد سیاسی ڈھانچے کی شکل متعین کرتے ہیں۔ جسے صحیح معنوں میں روح (spirit) اور عمل، دونوں لحاظ سے حقیقی عوامی شرکت کا حاصل قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس کے مطابق ایک ایسا سیاسی نظام قائم کیا جاسکتا ہے، جو عدل و انصاف اور شوریٰ و مشاورت دونوں مقاصد کو پورا کرے۔ جو کسی بھی برسرِکار جمہوریت کی حقیقی روح ہوتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ نقطۂ نظر مغربی سیکولر جمہوریت کے کئی دیگر تضادات، نزاعات اور ناکامیوں کے لیے بھی تریاق ثابت ہو سکتا ہے۔ خود یہ بات بڑی اہم ہے کہ مسلم اُمّہ پر سیکولر جمہوریت زبردستی ٹھونسنے کی کوشش صرف جابر حکومت کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ حقیقی جمہوری عمل، جس میں عوام کو یہ آزادی حاصل ہو کہ وہ اپنے تصورات اور خواہشات کے مطابق اپنے معاملات چلا سکیں۔ بس دین و دنیا کی تفریق اور سیکولر جمہوریت کے لیے کوئی گنجایش نہیں ہوسکتی۔ مسلم دنیا میں حقیقی جمہوری عمل جہاں اور جب بھی کارفرما ہوگا آخرکار یہ عمل اسلامی نظام ہی کی طرف رہنمائی کرے گا، کیونکہ اُمت مسلمہ کے کینوس پر اسلام اور جمہوریت ایک ہی سکّے کے دو رُخ ہیں۔

اسلامی سیاسی نظام کی بنیاد نظریۂ توحید پر ہے اور یہ نظام عوامی خلافت کی صورت میں  برگ و بار لاتا ہے ۔جس کے تحت منتخب حکمران (خلیفہ)، شوریٰ کے ذریعے امور حکمرانی بجا لاتا ہے، جو انسانوں میں مساوات کے اصول پر قائم ہوتی ہے۔ اسی نظام میں قانون کی حکمرانی، انسانی حقوق، اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ، حکمرانوں کا احتساب، سیاسی عمل کا صاف شفاف ہونا اور نظام کے قانونی، سیاسی، سماجی، اقتصادی اور بین الاقوامی پہلوئوں میں عدل اور صرف عدل کی بالادستی ہی اوّلیں ترجیح ہوتی ہے۔ اسلامی شریعت ایک ایسا وسیع نظم ِریاست پیش کرتی ہے جس کے اندر رہتے ہوئے عوام، وحی الٰہی کی رہنمائی میں:ایک مہذب معاشرے اور اس کے معاشرتی ادارے، جن میں ریاست کے تمام شعبے (organs) بھی شامل ہوتے ہیں، تشکیل دیتے ہیں۔ اسلامی طرز حکومت کثیر جہتی اجتماعی اور سیاسی نظام قائم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ چنانچہ ایسے معاشرے میں مختلف مذاہب اور نسلی اور لسانی گروپوں کے درمیان صحت مندانہ بقاے باہمی کا جذبہ پروان چڑھتا ہے اور قومی اور بین الاقوامی سطح پر مختلف ثقافتوں اور تہذیبوں کے درمیان باہمی تعامل کی فضا کو فروغ حاصل ہوتا ہے۔ اسلامی نظام کے تحت معاشرے میں ہر طرح کی ہم آہنگی اور اتحاد و اتفاق پیدا ہوتا ہے۔ جس کے باعث، موجودہ دور میں ، جب کہ پوری دنیا ایک عالمی شہر کی شکل اختیار کر چکی ہے، امن کے قیام اور تمام انسانوں کے لیے ایک منصفانہ سماجی و سیاسی نظام کے قیام کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔

جمھوریت --- مغربی تناظر میں

جمہوریت (democracy)کا لفظ انگریزی زبان میں ۱۶ویں صدی میں فرانسیسی زبان کے لفظ democratie سے اخذ کیا گیا۔یہ لفظ اپنے اصل کے اعتبار سے یونانی ہے، جو یونانی زبان کے لفظ demokratie سے مشتق ہے۔اس لفظ کی اصل دو الفاظ demos یعنی ’عوام‘ اور krato ’حکمرانی‘ ہیں۔ گویا یہ لفظ دویونانی الفاظ کا مجموعہ ہے۔

جہاں تک مسلم لٹریچر کا تعلق ہے، ’جمہوریت‘ کی اصطلاح پہلی بار ۱۸ ویں صدی میں ترکی زبان میں استعمال کی گئی۔ یہ لفظ عربی کے لفظ ’جمہور‘ سے نسبت رکھتا ہے ،جس کے معانی عوام یا اسمبلی یا عوامی اجتماع ہیں۔یہ اصطلاح ’فرانسیسی جمہوریہ‘ کے حوالے سے استعمال کی گئی تھی۔۴

جمہوریت ایک ایسا طرز حکومت ہے، جس میں طبقۂ امرا، یا خواص کی حکومت، بادشاہت، آمریت یا استبدادی حکومت کے برعکس عوام ہی کو اقتدار کا حقیقی سرچشمہ تصور کیا جاتا ہے۔ حکومتی اصولوں اور طرزِ حکمرانی کا محور عوام تصورکیے جاتے ہیں، بلکہ تمام اقدار، تصورات اور پالیسیوں کا اصل منبع سمجھے جاتے ہیں۔ عوام ہی کو اقتدار اعلیٰ کا حامل تصور کیا جاتا ہے ۔جنھیں یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ ملک پر حکومت کریں اور ان کے حکمران بھی ان کے سامنے ہی جواب دہ تصور کیے جاتے ہیں۔

جمہوریت کی اصطلاح سے ان تصورات اور اصولوں کے علاوہ ایک سیاسی نظام بھی مراد ہے جس کے تحت حکمرانی کا نظم قائم ہوتا ہے اور ایک سیاسی و قانونی نظام معرض وجود میں آتا ہے۔ جمہوریت کا اصل امتحان تو ’جواز‘ (legitimacy)کا اصول ہے ،جس کے تحت یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ اقتدار صرف اور صرف اس وقت جائز ہوتا ہے جب یہ عوامی قوت سے حاصل کیا گیا ہو اور اس کی بنیاد عوام کی مرضی پر رکھی گئی ہو۔

یورپ کی تاریخ میں ’نشاتِ ثانیہ‘ (renaissance)کے بعد کے دور میں بادشاہوں کے حق حکمرانی کے ’مقدس دعووں، کو چیلنج کیا گیا۔ یورپ کی بادشاہتوں کے خلاف عوامی بغاوت برپا ہوئی۔ عوام، خواص کی حکمرانی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ انھوں نے کلیسا کی اتھارٹی کو بھی   چیلنج کیا اور پادریوں کی حکمرانی (divine right to rule)کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ چنانچہ اسی تناظر میں عوام کی حکمرانی کا اصول وضع کیا گیا ہے، جس کے تحت مذہب اور بادشاہوں کی تقدس مآبی سے سیاست کا رشتہ منقطع کر دیا گیا، عوام کو سیاسی قوت کا اصل منبع اور اپنی قسمت کا حقیقی معمار تسلیم کیا گیا۔ تمام اقدار کی تشکیل اور اختیارات کے استعمال کا تاج ان کے سر پر سجا دیا گیا اور ہرنوع کی سیاسی جدوجہد کا اصل مقصد عوام کا اقتدار اور ان کی فلاح وبہبود قرار پایا۔

سیکولر جمہوریت کی فلسفیانہ جڑیں عوام کے اقتدارِ اعلیٰ کے نظریے میں پوشیدہ ہیں۔ جمہوریت ایک طرف تو دائمی مذہبی رہنمائی سے انکار، یا کم از کم ایسی رہنمائی سے لاتعلقی کا اظہار کرتی ہے اور سیاسی حکمرانی میں اعلیٰ اخلاقی اقدار کو بھی تسلیم نہیں کرتی، جب کہ دوسری طرف اس بات پر اصرار کرتی ہے کہ عوام اور عوام کی مرضی اور راے ہی کو ہر نوع کے اختیارات اور اقتدار کا حقیقی منبع تسلیم کیا جائے۔ مختصر یہ کہ جمہوریت کے تحت قانونی اور سیاسی اقتدار اعلیٰ، عوام کے پاس ہے، جس کے تحت جمہوری سیاست کی متعدد شکلیں سامنے آچکی ہیں۔ جن میں: براہِ راست، بذریعہ نمایندگی، پارلیمانی، متناسب نمایندگی،ری پبلکن، وفاقی اور پرولتاری جمہوریت وغیرہ شامل ہیں۔

رچرڈ جے کا دعویٰ ہے : ’’۱۹ویں صدی کے دوران جمہوری مطالبات کوآگے بڑھانے والا مرکزی اصول عوام کا اقتدار اعلیٰ ہی رہا‘‘۔۵ بہرحال ’حاکمیتِ عوام، کا نظریہ، عملی اور نظریاتی طور پر جتنا بھی مبہم اور غیر واضح ہو لیکن مغرب کی لادینی جمہوریت کی اساس یہی نظریہ ہے۔ اسلام کا تصورِ سیاست بنیادی طور پر اس سے مختلف ہے۔ حاکمیت زمین و آسمان کے مالک اور خالق کی ہے اور یہی وجہ ہے کہ الہامی ہدایت اور قانونِ الٰہی کو بالادستی حاصل ہے، البتہ اس قانون کے عملی نفاذ کے لیے ذمہ دار انسان پر ہے جو ’عمومی خلافت‘ کے تصور سے عبارت ہے۔ فلسفیانہ اور فکری بنیادوں کے اعتبار سے مغربی جمہوریت اور اسلامی جمہوریت میں یہی جوہری فرق ہے۔

جمہوریت کے دوسرے رُخ کا تعلق عوامی حکومت کی مختلف اشکال اور سیاسی فیصلوں میں عوام کی شرکت، مثلاً ریاست کے معاملات کو چلانے کے لیے عوام کی مرضی معلوم کرنے کا سیاسی طریق کار طے کرنے اور اسے ترقی دینے سے ہے۔ جمہوریت کے عملی نمونوں کی بنیاد انسانی مساوات اور آزادی کے اصولوں، آئین و دستور کی پابندی، قانون کی حکمرانی، حکومت کے مختلف شعبوں، یعنی انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ کے درمیان تقسیم اختیارات، بنیادی انسانی حقوق جن میں اقلیتوں کے حقوق، مذہبی آزادی، اظہارِ راے کی آزادی، انجمن سازی کی آزادی، پریس اور ابلاغ کی آزادی پر ہے۔ جمہوریت کی حقیقی روح کا اظہار اس حکومت کے وِژن میں ہوتا ہے جسے لوگ منتخب کرتے ہیں، جو عوام کی خواہشات اور ترجیحات کے مطابق ان کی خدمت کرتی ہے اور ان کے سامنے جواب دہ ہوتی ہے۔

مغربی جمہوریت کا نظام مذہب اورسیاست کے درمیان مکمل علیحدگی کے تصور پر مبنی ہے۔ چنانچہ اس کا تعلق لوگوں کی دنیاوی فلاح و بہبود تک محدود ہے۔ اس جمہوریت کے تحت قانون اور انسانی حقوق کے پورے نظام میں یہی جذبہ کارفرما ہے۔ اس امر سے انکار نہیں کہ مغربی ممالک نے حکومت میں عوام کی شرکت کا نظام وضع کرنے میں نہایت قیمتی تجربات کیے ہیں۔ کئی جماعتوں پر مشتمل نظام، ایک مخصوص مدت کے لیے سیاسی قیادت کا انتخاب، مختلف النوع انتخابی طریقے، انتظامیہ سے عدلیہ کی مکمل علیحدگی، قانون سازی کے لیے اداروں کا نظام جو یک ایوانی یا دو ایوانی ہوسکتا ہے، اس سیاسی نظام کے بڑے نمایاں پہلو ہیں۔

مغرب کے جمہوری تجربات کی برکتیں بغیر ملاوٹ کے نہیں تھیں۔ بعض تاریخی کامیابیاں ضرور حاصل کی گئیں لیکن مضبوط اخلاقی بنیادیں نہ ہونے کی وجہ سے ناکامیاں اور خرابیاں بھی ان جمہوریتوں کے حصے میں آئی ہیں۔ چونکہ اس نظام میں مطلق اقدار کا کوئی مقام نہیں ہے، لہٰذاکسی بات کے صحیح یا غلط ہونے کا معیار عوام کی ترنگ پر چھوڑ دیا گیا ہے، جنھوں نے اخلاقی اقدار میں بھی اسی طرح تبدیلی شروع کر دی جس طرح وہ اپنا لباس یا فیشن تبدیل کرتے ہیں۔ چنانچہ اسی طرزِعمل کے نتیجے میں بڑی بڑی غیر اخلاقی سرگرمیوں اور اخلاقی برائیوں کو گناہ یا جرم قرارنہ دینے کا چلن شروع ہو گیا، جس کے نتیجے میں انسانی معاشرہ اخلاقی پستی میں گرتا چلا گیا۔ اکثریت کی حکومت کے نظریے سے پیدا ہونے والے ذہنی اور اخلاقی رویے، نسلی، لسانی اور طبقاتی کشیدگی،اقتصادی چشمک، استحصال اور سب سے بڑھ کر ان بنیادی خوبیوں کا زوال ہے، جنھوں نے انسانی معاشرے کو باہم منضبط کر رکھاتھا۔ یہ اخلاقی بحران اور خانگی انتشار مغربی سیکولر جمہوریت کا ثمرہے۔

مغربی جمہوریت نے خوبی و معیار کی جگہ محض تعداد اور افراد کے بدلتے ہوئے رجحانات کو دے دی۔ خیر، سچ اور عدل کے مستقل معیار کے بجاے ہاتھوں کی گنتی کو شعار بنا لیا۔ تنگ دلی پر مبنی جماعتی نظام کی سیاست، جمہوری نظام کے انحطاط کا باعث بنی۔ بعض ممالک میں یک جماعتی نظام متعارف کرا دیا گیا جس کے نتیجے میں جمہوریت کے نام پرایک پارٹی کی آمریت وجود میں آگئی۔ جمہوریت کے بعض بنیادی اصولوں میں اس قدر ملاوٹ کر دی گئی کہ جمہوریت کا تصور ہی دھندلا گیا۔ جمہوری عمل اپنے بنیادی نظریات کی پٹڑی سے اُتر گیا اور ایک مذاق بن کر رہ گیا۔

گیووانی سارتوری کا کہنا ہے:

کم از کم معیار کے مطابق بھی دیکھا جائے توتقریباً آدھی دنیا جمہوریت کے دائرہ عمل  (realm) میں ہے۔ اوسط معیار کی رُو سے دنیا میں جمہوری ممالک کی تعداد میں کمی ہوئی ہے اور اعلیٰ معیار کے مطابق تو ایک درجن یا اس کے لگ بھگ ممالک ہی اطمینان بخش جمہوری معیار کے تحت کام کر رہے ہیں۔ اس بات کا تصور کرنے کے لیے کچھ زیادہ تردد کی ضرورت نہیں کہ کسی بھی ملک پر سے جمہوریت کا لیبل کس قدر آسانی کے ساتھ ’غیر جمہوری‘ میںتبدیل کیا جا سکتا ہے۔ اس مقصد کے لیے صرف ایک معیار سے دوسرے معیار میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ مغربی ممالک تو جمہوری طرزِ حکومت میں اتنا وقت گزار چکے ہیں کہ اب وہ جمہوری التباس سے گلو خلاصی کے مرحلے سے   گزر رہے ہیں…ہم یہ بات واضح کر چکے ہیں کہ جمہوریت کیا ہے، ایک جمہوری اور غیرجمہوری نظام کی حدفاصل آج بھی بالکل واضح ہے ۔لیکن جونہی ہم لفظ جمہوریت کا اطلاق تیسری دنیا، خاص طورپر نام نہاد ترقی پذیر اقوام پر کرتے ہیں،تو جمہوری معیار اتنا گرا ہوا محسوس ہوتا ہے کہ انسان حیرت سے سوچنے لگتا ہے کہ کیا لفظ ’جمہوریت‘ آج بھی اپنے اصل معانی کے ساتھ موجود ہے۔۶

معروف جریدہ  فارن افیئرز کے ایک حالیہ شمارے میں تھامس کیروتھرز نے اس بات پر اظہارِ افسوس کیا ہے کہ ’’دنیا بھر میں برپا ہونے والا جمہوری انقلاب، اب ٹھنڈا پڑرہا ہے‘‘۔ تھامس نے لکھا ہے:

چند سال قبل جو بات بعض جوشیلے افراد کو متحد کر دینے والی ایک عظیم تحریک محسوس ہوتی تھی، وہ آیندہ چند عشروں میں مغربی دنیا (جس میں لاطینی امریکا، شمالی یورپ اور سابق سوویت یونین کے بعض علاقے شامل ہیں) اور غیر مغربی دنیا کے درمیان سیاسی تقسیم کو بڑھا سکتی ہے۔یہ تہذیبوں کے درمیان تصادم کی کوئی پیش گوئی نہیں بلکہ سہل پسندانہ آفاقیت (یونی ورسل ازم) کے خلاف ایک انتباہ ہے۔۷

سی بی میک فرسن نے’اژدہام کی قابل نفرت حکومت‘ سے اس وقت ’عالمی محبوب‘ کا درجہ حاصل کرنے تک کے جمہوریت کے سفر کا حال اس طرح بیان کیا ہے:

جمہوریت ایک بُرا لفظ سمجھا جاتا تھا۔ ہر کوئی، وہ کوئی بھی ہو، یہ جانتا تھا کہ: جمہوریت اپنے حقیقی معنوں میں، عوام کی اکثریت کی مرضی کے مطابق حکومت، ایک بُری بات ہوگی جو فرد کی انفرادی آزادی اور مہذب زندگانی کی تمام خوبیوں کے لیے زہرقاتل ہے۔ جمہوریت کے بارے میں یہ راے، ابتدائی تاریخی دَور سے کوئی ایک سو سال تک، ہر دانش مند فرد کی راے رہی ۔لیکن اس کے بعد صرف نصف صدی کے عرصے میں جمہوریت بہت اچھی چیز بن گئی۔۸

اگرچہ اب، خصوصاً اشتراکی روس کے انہدام کے بعد، جمہوریت بہت اچھی چیز قرار پا چکی ہے لیکن زیرک مبصر، جمہوری قراردیے جانے والے نظام حکومت کی خامیوں، تضادات، اصولوں سے انحراف اور دوسری خرابیوں سے صرفِ نظر نہیں کر سکتے ،جو اب اس نظام کا خاصا بن چکی ہیں۔

تاریخ نگار ای ایچ کیر نے جمہوریت کے بارے میں ۵۰ کے عشرے میں جو کچھ کہا تھا، ۲۰ویں صدی کے آخری عشرے کے دوران بھی اس کی بازگشت سنائی دیتی رہی ۹ اور آج ۲۱ویں صدی میں قدم رکھتے وقت اس میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ ایک اور مبصر انتھونی اور بلاسٹر تو اس تکلیف دہ نتیجے پر پہنچا ہے کہ: ہر نوع کے بلند بانگ دعووں اور بعض کامیابیوں کے باوجودجمہوریت جدید سیاست کے ایجنڈے کی ایک نامکمل کارروائی ہے۔۱۰ ووٹ کا حق مل جانے کے باوجود خواتین اور مردوں کو اقتدار میں اپناصحیح حصہ نہیں مل سکا۔ ’بورژوا جمہوریت‘ بڑی حد تک ایک مصنوعی چہرہ ہے جس کے پیچھے رہ کر سرمایہ دار طبقہ معاشرے پر حکومت کر رہا ہے۱۱ اور اسی نے اپنی بالادستی قائم کر رکھی ہے۔ ۱۹۶۰ء کے عشرے میں خواتین کے حقوق کی تحریک کے احیا سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ خواتین، مردوں کے مقابلے میں مساوی مقام اور اصناف کے درمیان مساوات کے حصول میں ناکام رہی ہیں بلکہ وہ ’جمہوری، معاشروں میں خواتین کے خلاف بدترین امتیازات کو ختم بھی نہیں کرسکیں۔۱۲یہی مصنف اس بات پر بھی افسوس کرتا ہے کہ ’’سیاسی اقتدار میں مساوات کا اصول جو ہرشہری کے ووٹ میں شامل ہے، سیاسی اقتدار کی تقسیم میں ناانصافی اور بدترین عدم مساوات کا شکار بن چکا ہے‘‘۔۱۳ چنانچہ اربلاسٹر بھی جمہوریت کے بارے میں اس نتیجے پر پہنچا ہے جو ای ایچ کیر نے اخذ کیا تھا۔ وہ کہتا ہے: ’’اس لیے ہمیں کم از کم یہ نتیجہ ضرور نکالنا چاہیے کہ عام شہری جس مقصد کے لیے سیاسی جمہوریت کے طالب تھے، یا ووٹ کا حق حاصل کرنا چاہتے تھے، وہ مقصد کسی بھی ذریعے سے پورا نہیں ہو رہا۔۱۴ اس نے بالکل صحیح طور پر یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ’’یہ تصور کرنا نری حماقت ہوگی کہ مغربی جمہوریت کو ہی تمام متعلقہ بامقصد تجربات پر اجارہ داری حاصل رہے‘‘۔۱۵

میری راے میں مغربی سیکولر جمہوریت کااپنا مخصوص مزاج ہے۔ چنانچہ اس جمہوریت کی دنیا کے دوسرے خطوں کو بلاامتیاز ’برآمد‘ سے منصفانہ جمہوری اور مستحکم سیاسی نظام معرض وجود میں نہیں آسکتا۔ دنیا کے مختلف حصوں میں جو مختلف جمہوری تجربات کیے گئے ہیں، بلاشبہہ ان سے متعدد سبق سیکھے جا سکتے ہیں، لیکن مغرب کے سوا دنیا کے دیگر خطوں کے عوام، خصوصاً مسلم اُمّہ کو جمہوریت کے کسی بھی مغربی ماڈل کی اندھا دھند تقلید نہیں کرنی چاہیے۔ اس کے بجاے انھیں خود اپنے نظریاتی اور تاریخی مآخذ کو کھنگالنا چاہیے اور ایسے ادارے قائم کرنے چاہییں جو ان کی دینی اقدار اور نظریات کے حامل ہوں۔ بنی نوع انسان نے جو تجربات حاصل کیے ہیں، ان سے سبق سیکھنے میں کوئی حرج نہیں اور مغربی دنیا سے بھی ہم بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں، لیکن صرف وہ نظام ، جس کی جڑیں ہماری تاریخ میں ہوں، جو ہمارے تجربات کا ماحصل ہوں، ہماری اقدار کے ڈھانچے کے اندر اور ہمارے قومی ثقافتی مزاج سے ہم آہنگ ہوں، ہمارے ممالک میں حقیقی معنوں میں کامیاب اور ثمرآور ہو سکتے ہیں۔

اسلام کا سیاسی نظام

اسلام مغربی فلسفہ اور مذہبی لٹریچر میں استعمال ہونے والی مخصوص اصطلاح : مذہب کے محدود معانی کے مطابق مذہب نہیں ہے۔ ’اسلام، کے لفظی معانی ہی تسلیم و رضا ہیں۔ اسلامی عقیدے کے تحت بندہ خود کو مکمل طور پر اللہ تعالیٰ کے حوالے کر دیتا ہے اور اس عہد کے نتیجے میں اللہ کی مرضی کے تابع ہو جاتا ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کے احکام اور ہدایت پر عمل کرنے کا پختہ ارادہ کرتا ہے۔ چنانچہ اوّلین اور بہترین بات یہ ہے:

اسلام، انسان اور اللہ تعالیٰ کے درمیان ایک رشتے کا مظہر ہے۔

یہ ایک عہد ہے کہ بندہ اس ہدایت پر عمل کرنے کا پابند ہے جو اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے نازل کی ہے اور جس کا بہترین نمونہ اللہ کے آخری رسول حضرت محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی حیات طیبہ کی صورت میں موجود ہے۔

مسلمان اللہ تعالیٰ کو ماننے والوں کی جماعت، یعنی اُمہ کا رکن ہے۔ وہ جماعت جو بنی نوع انسان کو سچائی کے راستے کی طرف بلانے کے لیے قائم ہوئی ہے، حق کا کلمہ بلند کرتی ہے اور غلط باتوں سے روکتی ہے۔

اسلام ایک مکمل ضابطۂ اخلاق ہے، یہ ایک جامع اور ہمہ گیر طرزِحیات ہے۔ یہ ایک ’دین، ہے جو انسانی وجود کے تمام انفرادی اور عوامی، اخلاقی اور دنیاوی، مادی اور روحانی، قانونی اور سماجی، معاشی اور تعلیمی، قومی اور بین الاقوامی پہلوئوں پر محیط ہے۔ دین ہی اس وفاداری اور تشخص کی بنیاد ہے اور شریعت وہ مقررہ راستہ ہے جو عبادت ، سماجی اور اقتصادی پالیسیوں تک زندگی کے تمام شعبوں میں رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ اسلامی نظام سیاست کوئی آزاد رو نظم نہیں ہے، بلکہ یہ اسلامی طرز حیات کا ایک حصہ ہے اور اسے دین کے دوسرے پہلوئوں سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔

دین اسلام کے تحت زندگی ایک مکمل اکائی ہے، جب کہ ایمان ایک بیج اور نقطۂ آغاز ہے۔ اس بیج سے جو درخت پیدا ہوتا ہے اس کا سایہ انسانی وجود کے تمام پہلوئوں پر محیط ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی وحی جو قرآن و سنت کی شکل میں موجود ہے ، ازلی و ابدی، قطعی اور آفاقی ہے۔ یہ ایک ایسا نظم اور ڈھانچا فراہم کرتی ہے جس کے اندر زبردست قوت موجود ہے۔ یہ نظم اتنا وسیع و ہمہ گیر ہے کہ ہر زمانے کے درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے۔ دین اسلام، انسانی نقطۂ نظر کو انتہائی وسعت بخشتا  اور ایک تصور عطا کرتا ہے۔ ہمہ جہتی اقدار فراہم کرتا اور مختلف مقامات پر اور مختلف اوقات میں تفصیلات طے کرنے کے مواقع تفویض کرتا ہے۔ اسلام کا اصل مقصد اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا حصول اور آنے والی ابدی زندگی میں کامیابی کی تمنا ہے۔

دین اور معاشرہ (سوسائٹی) اور دین اور ریاست اسی طرح باہم جزولاینفک ہیں، جس طرح دین میں تقویٰ اور عبادت۔ توحید، دین کا عظیم ترین اصول ہے جس پر اسلامی زندگی کا دارومدار ہے۔ اس طرح زندگی کے ہر شعبے میں خواہ اس کا تعلق خاندان سے ہو، معاشرے سے ہو، معیشت سے ہو، سیاست سے ہو، یا بین الاقوامی تعلقات سے ہو، دین کی اصولی رہنمائی ہر شعبۂ زندگی کی رہنما اور صورت گر ہے۔ دین کی اصطلاح کا یہی جامع مفہوم ہے، جو مذہب کے محدود تصور سے یکسر مختلف ہے۔

اس بنیادی اصول کی روشنی میں اسلام کے سیاسی نظم کے کلیدی عناصر یہ ہیں:

۱- اقتدار اعلیٰ کا مالک صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ وہ خالق، مالک، پالنے والا (رب)، قانون دینے والا اور رہنما ہے۔ انسان اس کی مخلوق، اس کا عبد اور خلیفہ ہے۔ زمین پر انسان کا مشن اللہ تعالیٰ کی بندگی اور اس کی مرضی کے مطابق زندگی بسر کرنا ہے، شریعت پرمبنی نظام قائم کرنا ہے جو انسان کی رہنمائی کے لیے بذریعہ وحی نازل کی گئی ہے، تاکہ انسان، اس کائنات میں اور اپنے خالق و مالک کی رہنمائی میں حسن و خوبی کے مطابق زندگی بسر کرے۔ ایساکرنے سے اس کو دنیا میں امن، انصاف، روحانی مسرت اور ترقی حاصل ہو گی اور آنے والی دنیا (آخرت) میں صحیح معنوں میں نجات ملے گی۔

۲- اللہ کے ہاںتمام انسان برابر ہیں اور اسی قانون کے تابع ہیں جو اللہ تعالیٰ نے دیا ہے۔ اسلامی نظام سیاست کی بنیاد اللہ تعالیٰ کے اقتدار اعلیٰ اور شریعت کی بالادستی پر ہے۔ اس نظام کی بنیاد اللہ تعالیٰ کی بندگی، اس سے وفاداری اور اس عزم و عہد سے عبارت ہے کہ شریعت کی پیروی کی جائے گی اور اس کو نافذ کیا جائے گا۔ قرآن حکیم کا اس بارے میں فرمان نہایت واضح اورغیر مبہم ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:

خبردار رہو! اُسی کی خلق ہے اور اُسی کا امر ہے (الاعراف ۷: ۵۴)

فرماںروائی کا اقتدار اللہ کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے ۔ اُس کا حکم ہے کہ خود اُس کے سوا تم کسی کی بندگی نہ کرو۔ یہی ٹھیٹھ سیدھا طریق زندگی ہے۔ (یوسف ۱۲:  ۴۰)

اے نبیؐ، ہم نے یہ کتاب حق کے ساتھ تمھاری طرف نازل کی ہے تاکہ جو راہِ راست اللہ نے تمھیں دکھائی ہے، اس کے مطابق لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو۔(النسائ۴: ۱۰۵)

جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی کافر ہیں… اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی ظالم ہیں اور وہی فاسق ہیں۔(المائدہ  ۵:۴۴-۴۵)

۳- انسان کا مرتبہ اللہ تعالیٰ کے خلیفہ کا ہے۔ یہ منصب ان سب لوگوں کو بخشا گیا ہے جو اللہ تعالیٰ کو ہی اپنا رب اور حاکم اعلیٰ تسلیم کرتے ہیں۔ ’خلافت‘ کا تصور عام نیابت کا تصور ہے اور اس میں سبھی مسلمان شامل ہیں، یعنی ہر مسلمان خدا کا نائب ہے۔ نیابت کا یہ بھی مطلب اور مقصد ہے کہ عوام کو محدود اتھارٹی تفویض کی گئی ہے تاکہ کاروبارِ حیات کو چلا سکیں۔ اللہ تعالیٰ کی یہ نیابت کسی مخصوص فرد کو تفویض نہیں کی جاتی اور نہ کسی خاندان، قبیلے یا گروہ کو اس کا سزاوار قرار دیا جاتا ہے، بلکہ یہ نیابت ہر مسلمان مرد و زن کو تفویض کی گئی ہے۔ چنانچہ انھی لوگوں (مسلمانوں )کویہ اختیار شوریٰ کے اسلامی اصول کے مطابق استعمال کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی آخری الہامی کتاب میں ارشاد فرماتا ہے:

اللہ نے وعدہ فرمایا ہے تم میں سے ان لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں کہ وہ ان کو اُسی طرح زمین میں خلیفہ بنائے گا جس طرح اُن سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو بنا چکا ہے۔(النور۲۴:۵۵)

قرآن حکیم کے اسی حکم اور دوسرے احکامات کے مدّنظر ریاست کا جو نظریہ اُبھر کر سامنے آتا ہے، اس کے مطابق قرآن حکیم نے دو بنیادی اصول پیش کیے ہیں۔ پہلا اصول اللہ تعالیٰ کا اقتدار مطلق اور دوسرا مسلمانوں کی عوامی ’نیابت‘ (خلافت) ہے۔ چنانچہ اسلامی سیاسی نظام کی بنیاد اولاً: اللہ تعالیٰ کو قادر مطلق تسلیم کرنے اور اس کے قانون، شریعت کو بالاترین قانون تسلیم کرنے، اور ثانیاً: معاشرے پر حکومت عوام کی مرضی کے مطابق کرنے پر استوار ہے۔ جو لوگ برسرِاقتدار ہوں انھیں اُمّہ کی اور مسلمانوں کی حمایت اور تائید حاصل ہونی چاہیے کہ جو خلافت کے اصل امین ہیں۔ درج بالا قرآنی آیت سے ظاہر ہے کہ زمین پر حکومت کا وعدہ مسلمانوں کی پوری جماعت (اُمّہ) سے کیا گیا ہے،کسی خاص فرد، طبقے ، خاندان یا گروہ سے نہیں۔مسلمانوں کو جو خلافت بخشی گئی ہے، وہ عمومی نیابت کی طرح ہی ہے اور اسی کے تحت ہر مسلمان کو اور سب کو یہ فرض سونپا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُمّہ کے لیے فیصلے کرنے کے طریق کو ’شوریٰ‘ قرار دیا گیا ہے، یعنی مسلمانوں کے معاملات باہمی مشاورت سے چلائے جائیں گے۔ (امرھم شوریٰ بینھم) معاشرے کے ارکان کے طور پر تمام مسلمان برابر ہیں۔ ان کے معزز ہونے اور قیادت پر سرفراز ہونے کی کسوٹی ان کی اعتماد، تقویٰ اور اہلیت کی خوبیاں، یعنی اللہ پر مکمل ایمان، فرض شناسی اور احتساب کا شعور ہیں۔ قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے:

درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمھارے اندر سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔ (الحجرات ۴۹: ۱۳)

اللہ تعالیٰ کے آخری رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: تم میں سے ہر ایک گلہ بان کی طرح ہے اور ہر شخص سے اس کی زیرنگرانی لوگوں کے بارے میں احتساب ہوگا۔

ذات پات ، رنگ و نسل اور قبائلی امتیازات ختم کر دیے گئے ہیں اور انسانوں کے درمیان حقیقی مساوات قائم کر دی گئی ہے (ہم نے اولاد آدم کو عزت بخشی ہے)۔

قرآنحکیم کے مطابق فضیلت کا انحصار تو پاک بازی اور نیکی پر ہے، جس میں علم، جسم (عمدہ صحت بدنی قوت) اور تقویٰ (خوفِ خدا اور پاک بازی)شامل ہیں۔

۴- اسلامی سیاسی نظام میں حقوق اور فرائض کے حوالے سے اطاعت کے دو نمایاں پہلو ہیں۔ اول: اللہ اور اس کے رسولؐ کی فرماں برداری اور دوم: عوام کا آزادیِ تقریر، بحث و مباحثہ، اختلافِ راے اور شرکت کا حق جس میں کسی امر میں اختلاف راے اور صاحبانِ اقتدار پر نقد و جرح کا حق شامل ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

اے لوگو، جو ایمان لائے ہو، اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسولؐ کی اور اُن لوگوں کی جو تم میں سے صاحب ِ امر ہوں، پھر اگر تمھارے درمیان کسی معاملے میں نزاع ہوجائے تو اسے اللہ اور رسولؐ کی طرف پھیر دو ، اگر تم واقعی اللہ اور روزِ آخر پر ایمان رکھتے ہو۔ (النساء ۴: ۵۹)

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: بہترین جہا د جابر حکمران کے سامنے  کلمۂ حق کہنا ہے۔ نبی کریمؐ نے مزید فرمایا: اگر تم میں سے کوئی کسی برائی کو دیکھتا ہے تو ہاتھ سے اسے درست کرنا چاہیے۔ اگر وہ ایسا نہ کر سکتا ہو تو اسے زبان سے بُرا کہے اور اگر وہ ایسا بھی نہ کر سکے تو  وہ دل میں اس کی مذمت کرے۔ مگر آخری عمل ایمان کی کمزور ترین صورت ہے۔ (مسلم)

ان رہنما خطوط سے اسلامی نظام سیاست کی جو تصویر ابھرتی ہے وہ بالکل واضح ہے۔ مسلمانوں کے معاشرے کی بنیاد اللہ اور اس کے رسولؐ پر ایمان سے عبارت ہے۔ اس کا سب سے بڑا ستون اللہ اور اس کے رسول پاکؐ سے وفاداری ہے۔ مسلم معاشرے میں فیصلے ان اقدار، اصولوں اور احکامِ الٰہی کے تحت ہوتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی رہنمائی اورشریعت کی صورت میں موجود ہیں۔ اس نظام میں کسی مراعات یافتہ طبقے یا پاپائیت کے لیے کوئی گنجایش نہیں۔ دنیاوی طاقت و اقتدار میں معاشرے کے تمام افراد شریک ہوتے ہیں، جو قانون کی نظر میں بالکل برابر ہوتے ہیں۔ ان سب کے حقوق اور ذمہ داریاں بھی مساوی ہیں۔ ہر فرد کے ذاتی، شہری، سیاسی، سماجی، ثقافتی  اور اقتصادی حقوق کی الوہی قوانین کے تحت ضمانت دی جاتی ہے۔ حکمرانوں کو کوئی یک طرفہ استحقاق و اختیار حاصل نہیں ہوتا۔ قانون کے سامنے سب یکساں ذمہ دار اور جواب دہ ہیں۔ درحقیقت حکمرانوں کا یہ فرض ہے کہ وہ ان تمام حقوق کی فراہمی کی ضمانت دیں، خصوصاً معاشرے کے کمزور افراد کے حقوق کا خاص خیال رکھیں۔ شریعت میں بنیادی انسانی حقوق کی ضمانت دی گئی ہے اور کسی کو ان حقوق سے صرفِ نظر کرنے یا انھیں نظرانداز کرنے کاہرگز کوئی اختیار نہیں ہے۔ آزادی اور مساوات اسلامی معاشرے کی روح رواں ہیں۔ امر بالمعروف ونہی عن المنکر اس کا زندگی بھر کا مشن ہیں۔ شوریٰ (مشاورت اور فیصلوں میں شرکت) اس معاشرے کا طرزِ عمل ہے، فیصلے کرنے کا عمل ہر سطح پر اور ہر معاملے میں جاری و ساری رہتا ہے، خواہ یہ فیصلے سماجی ہوں یا اقتصادی، سیاسی ہوں یاکسی بھی دوسرے امور کے بارے میں ہوں۔ حکمرانوں کو عوام کا اعتماد حاصل ہونا ضروری ہے اور وہ عوام کے سامنے جواب دہ ہوتے ہیں۔ چنانچہ سیاسی اقتدار و اختیار کی بنیاد شریعت کی بالادستی، عوام کی مرضی اور عوامی اعتماد پر ہے۔ حاکم صرف خدا کے سامنے ہی جواب دہ نہیں، بلکہ وہ قانون اور عوام کے سامنے بھی جواب دہ اور قابل احتساب ہے۔ کسی بھی نوع کے سیاسی انتظامات ممکن ہیں لیکن یہ شریعت کی قائم کردہ اقدار اور اصولوں کے اندر ہی ہوں گے۔ چونکہ اسلام کی رہنمائی مکمل، قطعی، آفاقی، عالم گیر اور الوہی ہے، چنانچہ اُمّہ کو یہ اجازت دی گئی ہے کہ وہ اپنے معاشروں کی معاشرتی و تاریخی ضروریات کے مطابق مختلف ادارے اور نظام (مشینری) قائم کریں اور انھیں ترقی دیں۔ اسلام نے سیاسی نظام کا جو ڈھانچا فراہم کیا ہے، اس کے اندر رہتے ہوئے مختلف النوع انتظامات بالکل ممکن ہیں۔ بعض ایسے انتظامات کا ماضی میں تجربہ کیا جا چکا ہے۔ آج یا کل، نئے انتظامات اور نئے تجربات روبہ عمل لانا ممکن ہے کہ یہی اسلام کی خوبی اور آزادیِ عمل کی امتیازی شان ہے۔ مسلمانوں کے تاریخی تجربات کے یہی وہ روشن پہلو ہیں، جو ۱۴ صدیوں پر پھیلے ہوئے ہیں۔

مسلمانوں کے تجربات

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف اپنی ذاتی زندگی میں بندے اور خداکے درمیان مضبوط روحانی رشتے کا قابلِ تقلید نمونہ پیش کیا ،بلکہ انھوں نے ایک ایسامعاشرہ، اور ایک ایسی ریاست بھی قائم کی، جو مسلمانوں کے سیاسی و تاریخی تجربات کے لیے ایک مثال اور نمونہ بنی رہی۔ بیعت عقبہ ثانی اور میثاق مدینہ نے وہ مضبوط بنیادیں فراہم کیں جن پر مدینہ کا معاشرہ اور ریاست کی تعمیر ہوئی۔ اُمّہ کی نظر میں، اسلامی سیاسی ماڈل حضور نبی کریمؐ اور ان کے بعدچاروں خلفاے راشدین  کے ادوار میں بھی پیش کیا گیا۔ اس سیاسی نمونے کے بعض نمایاں پہلو یہ ہیں:

۱- قانون کی حکمرانی اور قانون کے سامنے مساوات ، جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے۔

۲- قرآن و سنت کی بالادستی اور جو معاملات ان دونوں مآخذ کی ذیل میں نہ آتے ہوں، ان کے بارے میںاجتہاد کرنا (نئے قانونی نکات اور مسائل کے حل کے لیے شریعت کے عمومی اصولوں کی روشنی میں فیصلہ کرنے کا نام اجتہادہے)۔

مسلم قوانین کا مجموعہ’فقہ‘ ایک عوامی، جمہوری اور شعوری عمل کے تحت تشکیل پایا ہوا ہے، جس کے دوران علما اور متعلقہ اصحاب نے علمی بحث و مباحثہ، عملی مسائل و مشکلات کے ادراک اور تجزیہ اور باہم افہام و تفہیم کے ذریعے مسائل کا حل تلاش کیا۔ انفرادی فتووں اور قاضیوں کے فیصلوں کے ساتھ اجتماعی بحث ونظر کے ذریعے فقہ کا یہ سنہری اثاثہ وجود میں آیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسانی تہذیب و تمدن کی تاریخ میں اسلامی قانون، مسلمانوں کا شاید سب سے بڑا تحفہ ہے۔   اُمت مسلمہ نے اس طرح جو قانون سازی کی، اسے رضاکارانہ طور پر تسلیم کرنے اور اس کا احترام کرنے ہی سے قانون کے مختلف مکاتبِ فکر وجود میں آئے۔ یہ تاریخ کا ایک عظیم اور منفرد پہلو ہے کہ مسلم معاشرے میں رواج اور نفاذ پانے والا قانون کبھی بھی حکمران کی مرضی سے نہیں بنایا گیا، جیسا کہ دوسرے معاصر غیر مسلم معاشروں اور ثقافتوں کا دستور رہا ہے۔ اسلام کا پورا نظام قانون، سیاسی قوت و اقتدار کی غلام گردشوں سے باہر ہی ارتقا پذیر ہوا۔ اہلِ علم و تقویٰ کے بنائے ہوئے اس قانون کے نفاذ کے بعد حکمران بھی ایک عام آدمی کی طرح اس قانون کے پابند بن گئے۔ حکمرانوں کے جابرانہ اختیارات پر اسلامی قانون ایک زبردست تحدید ثابت ہوا، اور اسی کی بنا پر مسلمان معاشروں میں ایسی سیاست روبہ عمل آئی، جس میں سب لوگ واقعی شریک تھے۔

جان ایل ایسپوزیٹو اور جان وول نے اپنی (مشترکہ) تصنیف اسلام اور جمہوریت میں لکھا ہے: ’’مشرق میں مطلق العنانی کا جو تصور عرصہ دراز سے موجود ہے، اس میں طاقت اور اقتدار کی تقسیم یا حکمران کے اختیارات پر قدغن کا کوئی تصور نہیں۔ لیکن قدیم مسلم معاشروں میں اس نوع کے غیر محدود اختیارات کا کوئی وجود نہیں ملتا۔ یہ صورت احوال سیاسی ڈھانچے کے بارے میں اسلامی قانون اور حقیقی تاریخی تجربات دونوں میں پوری طرح موجود ہے۔ اسلامی معاشرے میں کسی خلیفہ یا حکمران کے احکام یا قواعد سے نہیں، بلکہ مسلم علما کے درمیان اتفاقِ راے سے قوانین مرتب کیے جاتے تھے۔ کوئی حکمران، قانون سے بالاتر تصور نہیں کیا جاتا تھا اور تمام حکمرانوں کا احتساب بھی قانون کے مطابق کیا جاتا تھا‘‘۔ ۱۶

۳- ہرسطح پر سیاسی قیادت کے اسلامی قانون کے ارتقا اور نفاذ کے اس منفرد پہلو کا ذکر اور مختلف فیصلوں کے لیے شورائی نظام سے استفادہ کیا جاتا تھا۔ پہلے چاروں خلفاے راشدین کا انتخاب (مسلمانوں کی) جمعیت ہی نے کیا تھا، اگرچہ انتخاب کا طریق کار اور پھر اس کی توثیق کا طریقہ مختلف تھا۔ اس انتخاب میں مشترکہ اصول عوام کی منظوری اور ان کا اظہارِ اعتماد ہی تھا اور   خلفا عوام کے سامنے جواب دہ تھے۔ جب عوام کے مشورے اور معاونت سے انتخاب کا طریقہ ترک کردیا گیا اور خاندانی حکومت کا طریقہ در آیا تو بھی بیعت (عوام کی طرف سے حکمران کی قبولیت)کا تصور موجود رہا۔ نصیحت، شوریٰ ، اختلافِ راے، امر بالمعروف ونہی عن المنکر اور احتساب کے ادارے ہر دور میں، مختلف النوع طریقوں سے اہم کردار ادا کرتے رہے۔

۴- انسانی حقوق اور عوام سے کیے گئے وعدوں، خصوصاً اقلیتوں، ہمسایہ ممالک اور دوست جماعتوں، قبائل وغیرہ کے ساتھ کیے گئے معاہدوں پر پوری طرح عمل کیا گیا۔ یہ عمل مسلم سیاست کا مستقل عنوان رہا۔

۵- مسلمانوں کے حکومتی تجربے میں انتظامیہ سے عدلیہ کی علیحدگی، اور ہر سطح پر عدلیہ کی مکمل آزادی ایک نمایاں پہلو رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قانون کی حکمرانی اور ایوانِ عدل تک ہر شخص کی آسانی کے ساتھ رسائی مسلم معاشروں کا جزو لاینفک رہی ہے۔ اسی وجہ سے ، بڑی حد تک، مسلم مملکتوں میں من مانی حکمرانی کے مظالم سے لوگ محفوظ رہے۔ اقتدار اور اختیارات کی علیحدگی کا اصول جو خلفاے راشدینؓ کے ادوار میں شروع ہوگیا تھا۔ بعد کے ادوار میں بھی قائم رہا اور اس نظام میں بعض خرابیاں دَر آنے کے باوجود قائم رہا۔ آئین، یعنی اسلامی شریعت کی بالادستی مسلمانوں کی حکمرانی کا ناگزیر حصہ رہی۔

پروفیسر ایسپوزیٹو اور پروفیسر وول نے اس کے ایک اہم پہلو کا سلطنت عثمانیہ کے  حوالے سے ذکر کیا ہے۔ شاہی نظام سے منسلک علما کا یہ حق تسلیم شدہ تھا کہ وہ سلطان کے کسی بھی ایسے حکم کو کالعدم قرار دے سکتے تھے جسے وہ اسلامی قانون کے مطابق درست تصور نہیں کرتے تھے۔ اگرچہ اس اختیار کا استعمال، سیاسی وجوہ کی بنا پر ، عام نہیں تھا۔ سلطنت میں علما کے نظام کا سربراہ،  شیخ الاسلام، اسلا م کے بنیادی قوانین کی خلاف ورزی کے جرم میںسلطان کی معزولی کا حکم جاری کرسکتا تھا۔ اگرچہ یہ اختیار کم کم ہی استعمال کیا گیا، تاہم سلطان ابراہیم (۱۶۴۸ئ) سلطان محمود چہارم (۱۶۸۷ئ) سلطان احمد ثالث (۱۷۳۰ئ) اور سلطان سلیم ثالث (۱۸۰۷ئ) کو ان کے ادوار کے شیخ الاسلام نے معزول کیا تھا۔ ان رسمی کارروائیوں سے حکمران کے اختیارات کی تحدید اور یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ علما ہی اسلامی آئین کے نمایندہ تھے ۔ اس سے اسلامی ورثے میں اختیارات کی مکمل اور موثر علیحدگی کا بھی اظہار ہوتا ہے۔۱۷

۶- مسلم تجربے کا ایک اہم پہلو سماجی تحفظ سے تعلق رکھتا ہے ۔جس کی بنیاد زکوٰۃ ، صدقات، وقف، انفاق، وصیت، وراثت کے تحت ترکہ چھوڑنا اور ہبہ ہے۔ اس سے مسلم معاشرے میں انسانی مساوات پر مبنی سماجی و اقتصادی نظام روبہ عمل آیا ۔جس کے باعث معاشرے کے تمام افراد کے لیے باعزت زندگی گزارنے کی سبیل پیدا ہو گئی۔ معاشرے کا اقتصادی نظام ایسا تھا کہ مستضعفین اپنے پائوں پر کھڑے ہو گئے اور سیاسی و اقتصادی عمل میں حصہ لینے لگے۔

۷- مسلم تجربے کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ اس میں انفرادی اور اجتماعی طور پر اختلاف اور مخالفت کے حق کو تسلیم کیا گیا ہے۔ اس عمل کو کوئی اجنبی چیز تصور نہیں کیا گیا۔ ہاں، اختلاف اور فتنے میں فرق ضرور روا رکھا گیا۔ یہ بات بے حد اہم ہے کہ اسلامی قانون کے بعض اہم مکاتب فکر میں، بعض مخصوص صورتوں یا مواقع پر، پہلے سے معروف شرائط کے تحت، اختلاف بلکہ مسلح بغاوت (خروج) تک کو بھی جواز بخشا گیا ہے۔ پروفیسر ایسپوزیٹو اور پروفیسر وول تسلیم کرتے ہیں کہ قرآن و سنت کی حتمی اور مطلق اتھارٹی کے باعث پوری اسلامی تاریخ میں موجود حالات پر نقد و جرح کی بنیاد فراہم ہوئی۔ اسلامی بنیاد پر مخالفت کی تحریکوں، اصلاحات اور تجدید کے عمل کو اسی بنیاد پر جواز اور وجوب ملا۔ دورِحاضر میں یہی خوبیاں آئین و دستوریت کی بنیاد بن سکتی ہیں جوریاست کی تعریف اور حزب اختلاف کو تسلیم کیے جانے کا جواز پیش کرتی ہیں۔۱۸

یہ سات اصول اسلامی حکمرانی کی بے مثال روایات کا مظہر ہیں اور اس بات کی طرف بلیغ اشارہ کرتے ہیں کہ اسلام کے تحت جمہوری حکمرانی کا ایک جداگانہ اور عمدہ نمونہ وجود میں لایا جا سکتا ہے۔ چنانچہ یہ رہنما اصول عصرِحاضر کی دنیا میں اسلامی جمہوری ماڈل وجود میں لانے کے لیے تحرک اور رہنمائی کا بہترین ذریعہ ثابت ہو سکتے ہیں۔(جاری)


حواشی

۱-  فرانسس یوکوہاما ، The End of History and the Last Man ،(نیویارک، ۱۹۹۳ئ)

۲- سیموئل پی ہن ٹنگٹن The Clash of Civilizations? ،جریدہ فارن افیرز، ج ۷۲، شمارہ ۳ (موسم گرما ، ۱۹۹۳ئ،ص ۲۲-۴۹)۔ اسی طرح ’تہذیبوں کے تصادم‘ پر مباحثے کے لیے دیکھیے: جریدہ فارن افیرز، ج ۷۲، شمارہ ۴ اور ۵۔ ہن ٹنگٹن  کی کتاب The Clash of Civilization and the Remaking of World Order   (نیویارک، ۱۹۹۶ئ)

۳- ڈبلیو بی گیلی Philosophy and the Historical Understanding (لندن، ۱۹۶۴ئ)، ص ۱۵۸۔

۴- انسائی کلوپیڈیا آف اسلام

۵- رچرڈ جے کامقالہ ’ڈیموکریسی‘ Political Ideologies: An Introduction مرتبہ: رابرٹ اکلیشل، (لندن ، ۱۹۹۴ئ)، ص ۱۲۴۔

۶- انسائی کلوپیڈیا آف سوشل سائنسز، ج ۳، (میک ملن) ، ص ۱۱۳-۱۱۸

۷- تھامس کیروتھرز ،  Democracy without illusion مجلہ، فارن افیرز، (جنوری ۱۹۹۷ئ)، ص ۹۰۔

۸- سی بی میک فرسن ،  The Real World of Democracy (اوکسفرڈ ، ۱۹۹۶ئ)

۹- ’’آج اگر جمہوریت کے تحفظ کی بات کی جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہم ایک ایسی بات کا دفاع کر رہے ہیں جسے ہم جانتے ہیں اور جو اگرچہ عشروں اور صدیوں پر محیط ایک حقیقت ہے مگر ایک خود فریبی اور دھوکا ہے۔ اصول یا ضابطے کا تعین کیا جاناچاہیے۔محض روایتی اداروں کے تحفظ کے لیے نہیں بلکہ اس بات کے پیش نظر کہ قوت کا منبع کہاں ہے اور کس طرح سے اس کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اس تناظر میں جمہوریت ایک متنازع مسئلہ (matter of degree ) ہے۔اگر جمہوریت کے کسی اعلیٰ پیمانے پر پرکھا جائے تو آج کچھ ممالک دیگر ممالک کے مقابلے میں زیادہ جمہوری ہیں لیکن کوئی بھی مثالی جمہوری نہیں ہے‘‘۔ (ای ایچ کار،The New Society  لندن، میک ملن، ۱۹۵۱ئ،ص ۷۶)۔

۱۰- انتھونی اربلاسٹر Democracy (اوپن یونی ورسٹی، ۱۹۹۴ئ) ، ص ۹۶۔

۱۱- ایضاً، ص  ۹۶۔

۱۲- ایضاً، ص ۹۷۔

۱۳- ایضاً، ص ۹۸۔

۱۴- ایضاً، ص ۹۸۔

۱۵- ایضاً، ص ۱۰۰

۱۶- جان ایسپوزیٹو، جان وول، Islam and Democracy (نیویارک،  ۱۹۹۶ئ) اوکسفرڈ یونی ورسٹی پریس، ص ۴۱۔

۱۷- ایضاً ، ص ۴۸-۴۹۔

۱۸- ایضاً،  ص  ۴۱۔

مغربی جمھوریت اور اسلامی شوریٰ : ایک موازنہ

مندرجہ بالا بحث کی روشنی میں بہتر ہوگا کہ دونوںنظاموں کے درمیان بعض بنیادی اختلاف اور فاصلوں کا تعین کر لیا جائے اور ایسے شعبوں اور مشترکہ امور کی بھی نشان دہی کر لی جائے جن میں ایک دوسرے کے تجربات سے سیکھنا فائدہ مند ہو سکتا ہے۔

اسلام کی حکمت عملی بے مثال ہے۔ اسلام انسان کو، اس کے روحانی اور اخلاقی وجود اورشخصیت کو مرکز بناتا ہے۔ یہ ہر فرد کی ، مرد ہو یا عورت، روحانی بالیدگی، اخلاقی ترقی اور سعادت کی زندگی ہی اسلامی نظام کا اصل مقصد رہے۔ تبدیلی کا عمل فرد کے اپنے کو تبدیل کرنے سے داخلی سطح پر شروع ہوتا ہے۔ اس کا آغاز ایک فرد میں اخلاقی حس بیدار ہونے سے ہوتا ہے جو ایک باکردار اور منصفانہ معاشرے کے قیام میں اپنا کردار ادا کرتا یا کرتی ہے۔ مسلم اُمّہ ایک عالم گیر برادری ہے۔ اسی وسیع تر اُمّہ میں چھوٹے گروپ، بستیاں اور ریاستیں بھی ہو سکتی ہیں، اس کے باوجود وہ سب ایک ہی تسبیح کے دانے ہیں۔ اسلام ایک ایسے مہذب معاشرے کی تعمیر کرتا ہے، جو صحت مند اور فعال اداروں سے عبارت ہوتا ہے۔ ریاست انھی اداروں میں سے ایک ہے۔ یہ نہایت اہم اور کئی اعتبار سے دوسرے سب اداروں سے بلند تر ہے لیکن یہ واضح رہے کہ اسلام میں سب سے بالا ادارہ اُمت مسلمہ کا ہے اورباقی سب ادارے ہر ہر مسلمان (فرد) کی تقویت کے ساتھ اُمت مسلمہ کے استحکام کے ستون ہیں۔

اسلامی معاشرے کے سماجی، سیاسی اور اقتصادی اصولوں میں مکمل ہم آہنگی ہوتی ہے اور یہ سب مل کر ایک ایسے معاشرے کی تخلیق کرتے ہیں جو نظریاتی سطح پر توحید و ایمان، اتباعِ سنت، فکری یگانگت اور عدل اور احسان کے حسین امتزاج کا مظہر ہوتا ہے۔ یہ معاشرہ انسانی مساوات، اخوت، باہمی تعاون، سماجی ذمہ داری، انصاف اور سب کے لیے مساوی مواقع کی روایات کے خیر سے تعمیر کیا جاتا ہے۔ یہ قانون کا پابند معاشرہ ہوتا ہے جس میں ہررکن کے حقوق اور فرائض، جن میں اقلیتوں کے حقوق بھی شامل ہوتے ہیں، کا احترام کیا جاتا ہے۔ ریاست کا مقصد معاشرے کے ہر رکن کی خدمت اور انسانوں کے درمیان عدل کا قیام ہے۔ اسلامی معاشرے میں آمریت، جوروجبر اور استبدادی مطلق العنان حکومت کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوتی۔

اسلامی ریاست سیکولر جمہوریت سے بالکل مختلف ہوتی ہے، کیونکہ اسلامی ریاست عوام کے اقتدار اعلیٰ کے نظریہ تسلیم نہیں کرتی۔ مسلم ریاست میں اللہ تعالیٰ ہی قانون ساز ہے اور شریعت ہی ریاست کا قانون ہے۔ جو بھی نئے نئے مسائل درپیش ہوں، ان سے نمٹنے کے لیے شریعت کے دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے حل دریافت کیے جاتے ہیں۔ یہ بات سیکولر جمہوریت اور مسلم ریاست کے درمیان سب سے بڑا اختلاف ہے۔

جہاں تک قانون کی حکمرانی کے اصول، بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ، عدلیہ کی آزادی، اقلیتوں کے حقوق، ریاست کی پالیسیوں اور حکمرانوں کے عوام کی خواہش کے مطابق انتخاب کا تعلق ہے، اسلام اپنے دائرۂ کار کے اندر رہتے ہوئے ان سب امور کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ ان میں سے بعض امور کے متعلق اسلام اور مغربی جمہوریت کے درمیان بعض مشترکہ بنیادیں موجود ہیں اور ان تمام میدانوں میں مسلمان اپنے معاصر مغربی ممالک کے تجربات سے استفادہ کر سکتے ہیں اور دوسرے لوگ بھی مسلمانوں کے تجربات سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ لیکن دونوںنظاموں کے قوانین کے منابع اور فطرت میں چونکہ بنیادی اختلاف ہے لہٰذا ان اساسی امور میں دونوں نظام ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں اور اپنا اپنا جداگانہ تشخص اور مزاج رکھتے ہیں۔

اسلامی ریاست میں شریعت کو بالادستی حاصل ہے۔ اس کے باوجود یہ کوئی مذہبی حکومت (تھیاکریسی) نہیں ہوتی، جیسی کہ تاریخ میں مذکور فرعونوں، بابلیوں، یہودیوں، مسیحیوں، ہندوئوں یا بودھوں کی حکومتیں گزرچکی ہیں۔

ان مذہبی حکومتوں اور اسلامی حکومت میں بنیادی فرق ہے۔ یہ مذہبی حکومتیں اگرچہ’خدائی حکومت‘ کی دعوے دار تھیں، لیکن وہ ’خدائی حکومت‘ ایک مخصوص مذہبی طبقے کی حکومت ہوتی تھی،جس کے حکمران کا ہر لفظ قانون تھا، جسے نہ تو کوئی چیلنج کر سکتا تھا اور نہ اس کے خلاف آواز بلند کر سکتا تھا۔ مگر اسلام میں ایسا کوئی حاکم مذہبی طبقہ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی اقتدار اعلیٰ کا مالک ہے۔ اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے اور جواس کی مرضی ہے، وہ قرآن و سنت کی صورت میں موجود ہے۔ شریعت کا سبھی کو علم ہے۔ یہ کوئی ایسا خدائی راز نہیں ہے جس کاعلم صرف پادریوں کی طرح صرف مفتی یا مذہبی رہنما کو ہو۔ اسلام میں ایساہرگز کوئی امکان نہیں کہ لوگوں کا کوئی گروہ دوسروں پر اپنی ذاتی مرضی ٹھونس سکے یا اللہ کے نام پر دوسروں پر اپنی ترجیحات کو نافذ کر سکے۔ اسلامی نظام میں قوانین کھلے بحث و مباحث کے بعد ہی تشکیل دیے جاتے اور نافذ کیے جاتے ہیں۔ سب لوگ اس عمل میں شریک ہوتے ہیں۔

ان دونوں نظاموں کے درمیان اختلافات مختصراً یہ ہیں:

ا -  شریعت جو اللہ تعالیٰ کی مرضی اوررضا کی حامل اور اس کا مظہر ہے، بالکل اصل صورت میں محفوظ اور موجود ہے۔ اس میں کسی نوع کی کوئی آمیزش نہیں ہوئی اور نہ بدلے ہوئے حالات میں کسی تبدیلی یا کسی کی مداخلت سے اس میں کوئی تبدیلی ممکن ہے۔

ب- اسلام میں مذہبی متوسلین کا کوئی طبقہ نہیں اور محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہ اللہ تعالیٰ کا کوئی ترجمان ہے۔ اللہ کی رہنمائی مکمل ہو چکی، اب یہ اُمّہ کا کام ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رہنمائی کو سمجھیں، اس کا ادراک کریںاور انسانی معاشرے کے بدلتے ہوئے حالات کے مطابق اس پر عمل پیرا ہوں۔

ج- فرد معاشرے کا بنیادی عنصر ہے۔ اسلام، فرد کی آزادی، قانون کی حکمرانی ، مخالفانہ آرا اور مخالفوں کی توقیر کی ضمانت خود دیتا ہے۔ اہل دانش اور عوام آزادی کے ساتھ اپنے مسائل پر بحث مباحثہ کر سکتے ہیں اور باہم مشاورت کے ذریعے ان کا حل نکال سکتے ہیں۔ پوری اسلامی فقہ ایک ایسے عمل کے ذریعے فروغ پذیر ہوئی ہے، جس کے دوران اُمّہ اور اس کے نمایندوں نے عام بحث مباحثہ میں حصہ لیا۔ اسلامی ریاست اور معاشرے کا انسانوں کی طبیعی اور دنیاوی مشکلات و مسائل سے گہرا تعلق ہوتا ہے اور وہ انصاف اور سماجی بہبود کے اصولوں کے مطابق ان مشکلات و مسائل کا حل تلاش کرتے ہیں۔

بلاشبہہ جسے زندگی کا سیکولر (دنیاوی) حصہ کہا جاتا ہے اس سے اسلام اور مسلمانوں کا تعلق ہے لیکن اسلامی اور سیکولر رویوں میں ایک بنیادی فرق ہے۔ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ دنیا کی ساری زمین میرے لیے مسجد کی مانند ہے۔ چنانچہ اسلام کا دنیا کے تمام حصوں، علاقوں سے گہرا تعلق ہے۔ اسلام نہ شرقی ہے اور نہ غربی، بلکہ صحیح معنوں میں ایک عالم گیر اور آفاقی نظام ہے۔ اسلامی نظام انسانی زندگی کے تمام روحانی اور دنیاوی معاملات پر محیط ہے۔ اس حد تک اسلام کاسیکولرزم سے کوئی تنازع نہیں ہے۔ مغرب میں سیکولرزم کے غلبے کی وجہ مذہب کا سیکولر معاملات سے لاتعلق ہوجانا اور دنیاوی زندگی کو شیطانی قوتوں کے حوالے کر دینا تھا۔ یہ پوری تحریک دراصل ان مذہبی روایات کا رَدّعمل تھی جن کی رو سے سیکولر دنیا کو نظرانداز کیا گیا اور اپنا دائرہ عمل کو صرف روحانی دنیا تک ہی محدود رکھا گیا تھا۔

اسی طرح سیکولرزم کی تحریک کو تقویت دینے والا ایک دوسرا سبب مذہبی عدم رواداری تھی جس میں جبر کے ذریعے ایک مذہب بلکہ ایک فرقے کے نظریات کو دوسرے تمام فرقوں پر مسلط کیا جاتا تھا اور ایک سے زیادہ نقطہ ہاے نظر کو کفر اور بغاوت قرار دیا جاتا تھا۔ اس کے برعکس اسلام تکثیر (pluralism) اور رواداری کے اصول کو تسلیم کرتا ہے (قرآن حکیم کا ارشاد ہے: ’’دین میں کوئی جبر نہیں)۔ تمام انسانوں کو پیشہ اور مذہب کے معاملے میں انتخاب کا حق دیتا ہے۔ اسلام ثقافتی کثرت اورکسی بھی سماج کے اندازِ حیات کو تسلیم کرتا ہے۔ یہ سب کچھ اسلام کے منشا کے مطابق ہے۔

سیکولرزم سے اسلام کا بنیادی اور جوہری اختلاف اس کے اس دعوے کے باعث ہے کہ سیکولرزم، مذہب سے کسی نوع کے تعلق، اللہ تعالیٰ کی طرف سے رہنمائی اور مطلق اخلاقی اقدار کے بغیر تمام انسانی مسائل کا حل پیش کرتا ہے، یہ بات زندگی کے بارے میں اسلامی رویے کے بالکل برعکس ہے۔ انھی وجوہ کی بنا پر اسلام اور سیکولرازم، دو بالکل مختلف دنیائوں کی نمایندگی کرتے ہیں۔

اگرچہ اب کمیونزم اور فاشزم کوئی غالب سیاسی نظریات نہیں رہے، لیکن ایسے لوگ آج بھی موجود ہیں جو ان دونوں نظریات کے مختلف پہلوئوں سے اتفاق رکھتے ہیں۔ یہ دونوں نظریات مغربی تہذیب و تمدن کے تناظر میں بعض تاریخی اور سماجی و سیاسی حالات کی پیداوار ہیں۔ ان کی تہ میں ریاست کی مطلق العنانیت کا تصور کارفرما رہا ہے۔ مگر یہ دونوں نظریات بھی مختلف النوع آمریت کے ہی نمایندہ تھے اور ان کے تحت بھی مطلق العنان حکومت ہی قائم ہوتی رہی۔ اگرچہ ان دونوں نظاموں میں انتخابات اور پارلیمنٹ کے قیام کاڈھونگ بھی رچایا جاتا رہا۔

اسلام میں یک طرفہ یا مطلق العنان اقتدار کا کوئی تصور نہیں۔ اسلام میں ریاست تو اُمت کا ہی ایک ادارہ اور شعبہ ہوتا ہے۔ وہ فرد کی مرکزیت، اس کے حقوق اور سیاسی فیصلوں میں فرد کے کردار کی توثیق کرتا ہے۔ اسلامی ریاست، قانون کی تخلیق ہوتی ہے۔حکمران، ریاست کے دوسرے شہریوں کی طرح ہی قانون کے سامنے جواب دہ ہوتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی ریاست اپنے عمال اور کارپردازوں کو وہ خصوصی مراعات اور تحفظات بھی فراہم نہیں کرتی جو کئی مغربی ملکوں کے عمال کو عام طور پر حاصل ہوتی ہیں۔

اسلام میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہو سکتی کیونکہ وہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تفویض کردہ مقدس امانت ہیں۔ فرد کو معاشرے کی بنیادی اکائی اور ایک پاک باز مخلوق تصور کیا جاتا ہے، جو اپنے اعمال کے لیے آخرکار اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہے۔ ہر انسان ایک قابل احترام وجود ہے اور اخلاقی طور پر اپنے تمام اعمال اور پسند و ناپسند کے لیے دنیا اور آخرت میں بھی جواب دہ ہے۔ فرد کو معاشرے میں عقل و دانش اور سماجی ذمہ داری کے احساس کے ساتھ اپنا رویہ متعین کرنا ہوتا ہے، لیکن وہ ریاست کی مشین کا کوئی بے جان پرزہ نہیں ہوتا۔ اس اعتبار سے اسلام کے سیاسی نظم اور ہمارے دور کے مطلق العنان اور آمرانہ نظاموں کے درمیان بے حد فرق ہے۔

اسی تقابلی تجزیے سے ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ اسلام کا سیاسی نظام ، دوسرے سیاسی نظریات کی بعض باتوں میں مماثلت اور مشابہت کے باوجود، بے مثال ہے۔ اسلام، اساسی اعتبار سے ایک مکمل نظام ہے۔ اس کا مقصد ایک ایسے معاشرے کا قیام ہے جس میں رہتے ہوئے ایک اچھے اور نیک انسان کو یہ محسوس نہ ہو کہ وہ تو کسی اجڈ معاشرے میں پھنس گیا ہے یا انسانوں کو یہ احساس نہ ستائے کہ وہ تو جانوروں کے کسی باڑے میں دھکیل کر بند کر دیے گئے ہیں۔ اسلام تمام انسانوں کی ذہنی اور مادی نشوونما، ساتھ ساتھ، چاہتا ہے تاکہ انسان امن اور انصاف کے ساتھ زندگی گزارسکیں۔ زندگی کی اعلیٰ اقدار و نظریات کی پرورش کر سکیں، جن کے نتیجے میں وہ اس دنیا اور پھر آخرت میں اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی اور الوہی سعادت کے حق دار ٹھہرسکیں۔ اسلامی ریاست ایک نظریاتی، تعلیمی اور مشاورتی بنیادوں پر مبنی ریاست ہوتی ہے جو ایک ایسا سماجی و سیاسی ڈھانچہ فراہم کرتی ہے جس میں حقیقی جمہوریت پھل پھول سکتی ہے۔ اس میں ایک طرف مستقل اقدار کا دائمی فریم ورک ہے جس میں پوری سیاسی اور اجتماعی زندگی مرتب ہوئی ہے تو دوسری طرف اجتہاد کے ذریعے وقت کی بدلتی ہوئی ضروریات کو پورا کرنے کابھرپور سامان ہے۔

مجھے یہ دعویٰ ہرگز نہیں کہ مسلمان اپنی تاریخ میں اس نظریے پر مکمل طور پر عمل کرسکے ہیں۔ بلاشبہہ خلافت راشدہ اس کا عملی نمونہ اور ایک مکمل paradigm کا مظہر تھا مگر بعد کے ادوار میں اصل ماڈل سے انحراف اور انحراف کے بعد اصل کی طرف مراجعت کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری رہا ہے۔ البتہ اصل ماڈل ہی تمنائوں کا محورو مرکز رہا ہے اور آج بھی اسی آورش کی روشنی میں تعمیرنو کی جدوجہد مطلوب ہے۔

احیاے اسلام اور جمھوریت

معاصر مسلم دنیا کو، تاریخ میں پہلی بار، ایک منفرد چیلنج کا سامنا ہے۔ مسلمانوں کو اقتدار اور بالادستی حاصل نہیں رہی اور پوری مسلم دنیا نوآبادیاتی حکمرانوں کے پائوں تلے دبے ہوئی ہے۔ نوآبادیاتی اور سامراجی غلبے کی اس طویل، اندھیری رات کے دوران، جو تقریباًدو صدیوں پر محیط ہے، مسلمانوں کو ذہنی، اخلاقی، معاشی اور ثقافتی طور پر بھی سخت نقصان سے دوچار ہونا پڑا۔ اس طویل ابتلا کا بدترین نقصان یہ ہوا کہ وہ اسلامی ادارے بتدریج ٹوٹ پھوٹ اور انحطاط کا شکار ہو گئے، جن کے باعث مسلم دنیا تقریباً ۱۲ صدیوں تک اپنے پائوں پر کھڑی رہی اور اندرونی و بیرونی چیلنجوں کاکامیابی سے مقابلہ کرتی رہی۔ سامراجی حکومتوں کے ادوار میں ہی مغرب سے درآمدشدہ کئی ادارے اسلامی مملکتوں میں رائج کیے گئے۔ اسے دوسروں کو نام نہاد تہذیب سکھانے کے مشن کاحصہ  (white man's burden) قرار دیا گیا لیکن درحقیقت یہ سامراج کا بدترین استحصالی عمل تھا۔ چنانچہ اس استحصال کی وجہ سے قانون، عدلیہ، معیشت، تعلیم، انتظامیہ، زبان و ادب، فنون لطیفہ، فن تعمیر غرض معاشرے کے تمام عناصر کو زبردستی مغربیت کے رنگ میں رنگنے کی کوشش کی گئی۔

نوآبادیاتی ، سامراجی نظام کے دوران مسلم معاشرے کے اندر سے ایک نئی قیادت پیدا کی گئی، جسے مورخ آرنلڈ ٹائن بی نے ’بابو کلاس‘کا نام دیا ہے۔ یہ لوگوں کا ایک ایسا طبقہ تھا جس کی جڑیں اپنے مذہب، ثقافت اور تاریخ میں نہیں تھیں اور جس نے نوآبادیاتی حکمرانوں کے سائے میں اپنا نیا تشخص بنانے کی کوشش کی۔ اس طبقے نے نہ صرف حکمرانوں کی اقدار اور اخلاقی طرزِ عمل اپنانے کی سعی کی، بلکہ مقامی اور بیرونی مفاد پرستوں سے مل کر حکمرانوں کے مفادات کا تحفظ بھی کیا۔ غیر ملکی غلامی سے نجات کے لیے عوامی تحریک بنیادی طور پر، آزادی کے تصور اور ایمان کی قوت سے عبارت تھی۔ مسلم دنیا میں نیشنلزم کی قوتوں نے بھی اسلامی تشخص قائم کر لیا تھا لیکن اس  ’بابو طبقہ‘ اور اس کے زیراثر حلقوں نے مغربی اقدار کو ہی حرزِ جاں بنائے رکھا اور شعوری یا غیر شعوری طور پر سامراجی قوتوں کے ایجنٹوں کا کردار ادا کیا(۲۱)۔ آزادی کے بعد، ان ملکوں میں قیادت بڑی حد تک اسی مغرب زدہ قیادت کے ہاتھ میں آئی یا لائی گئی جن کی سیاسی تربیت بھی سامراجی دور میں ہوئی تھی۔ اس قیادت کا تعلق مغرب کی ثقافت اور ان کے سیاسی عزائم سے ہی برقرار رہا۔ یہ ایک المناک حقیقت ہے کہ عالم اسلام میں صرف سرحدوں کا تعین ہی غیر ملکی سامراجی آقائوں نے نہیں کیا تھابلکہ نئے ادارے اور نئی قیادت بھی سامراجی دور کی ہی پیداوار تھی۔عالم اسلام میں اس وقت جو بحران اور بے اطمینانی محسوس کی جا رہی ہے، اس کی بنیادی وجہ یہی صورت احوال ہے۔

احیاے اسلام اور سیاسی عمل میں عوامی شرکت اور ان کے ذریعے تبدیلی کا عمل جو جمہوریت کی روح ہے ایک ہی صورت حال کے دو پہلو ہیں۔ اقتدار میں موثر عوامی شرکت اور اسلامی تصورات کے مطابق معاشرہ، نیز مسلم سیاست کی تشکیل نو بھی اسی عمل کا حصہ ہیں۔ یہ کام صرف اس صورت میں ممکن ہے کہ عوام اور حکمرانوں کے درمیان باہمی اعتماد، ہم آہنگی اور تعاون موجود ہو۔ لیکن جن حکمرانوں نے سامراجی آقائوں سے ہی اقتدار کی وراثت پائی ہے ان کی اور عوام کی نظریاتی،اخلاقی اور سیاسی سوچ ایک جیسی نہیں ہے۔ حکمران معاشرے اور اس کے اداروں کو مغربی اقدار و نظریات اور مغرب کے نظریاتی نمونوں، سیکولرزم ، قوم پرستی، سرمایہ داری اور نوآبادیاتی نظم کے مطابق ڈھالنا چاہتے ہیں۔ وہ اپنے ’زیرتسلط‘ ملکوں میں ایسے قوانین، ادارے اور پالیسیاں روبہ عمل لانا چاہتے ہیں جو مغربی نمونوں سے اخذ کی گئی ہیں مگر عوام یہ سب کچھ اپنے ایمان (معتقدات) اقدار اور امنگوں کے منافی سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بظاہر حصولِ آزادی کے باوجود حکومتی نظام بعض استثنائوں کے ساتھ جابرانہ اور مطلق العنانیت پر مبنی رہا۔

تاریخ کا سبق تو بڑا ہی واضح ہے اور وہ یہ کہ: مسلمان ممالک کو سیکولر مملکت بنانا اور مغربی رنگ میں رنگنا، یک طرفہ اور جابرانہ قوت کے بغیر ممکن نہیں۔ اقتدار میں عوام کی شرکت اور حصے پر مبنی حقیقی جمہوری نظام اور اسلام میں کوئی عدم مطابقت نہیں۔ اس کے برعکس عوام کی آزادی، بنیادی حقوق، اقتدار میں عوام کی شرکت پر مبنی جمہوریت اور اسلامی نظام فطری حلیف ہیں۔ اصل تصادم تو عوام کی اسلامی امنگوں اور حکمران طبقے کے سیکولر مغربی نظریات اور پالیسیوں کے درمیان ہے۔ چنانچہ مسلمانوں پر جابرانہ اور استبدادی قوت کے بغیر غیر اسلامی نظریات و تصورات اور قوانین مسلط نہیں کیے جا سکتے۔ اصل تضاد ان دونوں (اسلامی اور مغربی) تصورات میں ہے اور حقیقی جمہوریت مغربی سیکولر بلڈوزر کا پہلا شکار ہے۔ امریکا کے ایک ماہر عمرانیات فلمر ایس سی نارتھ روپ (F.C. Northrop) نے گہرے شعور کے ساتھ کہا ہے: ’’مجھے یقین ہے کہ یہی وجہ ہے جو اس قسم کے (مثلاً سیکولر) قوانین عام طور پر پہلے آمر حکمران ہی نافذ کرتا ہے۔ ایسے قوانین کسی عوامی تحریک کا نتیجہ تو ہو نہیں سکتے کیونکہ عوام تو پرانی روایات کے حامل ہوتے ہیں‘‘(۲۲)۔

پروفیسر ویلفرڈ کینٹ ول اسمتھ نے پاکستان کی صورت حال کے حوالے سے نہایت دل چسپ بات کہی ہے: ’’ایک مشرقی ملک کی حیثیت میں کوئی مملکت جب صحیح معنوں میں جمہوری مملکت بن جاتی ہے تو وہ اپنی فطرت کا اظہار کرتی ہے، چنانچہ وہ جتنی جمہوری ہو گی، اتنی ہی مغربی رنگ سے دُور ہوتی چلی جائے گی… یہاں تک کہ اگر پاکستان ایک حقیقی جمہوری ملک ہو، محض دکھاوے کا نہیں، جس حد تک وہ جمہوری ہو گا اسی حد تک اسلامی بھی ہوگا، مغربی نہیں‘‘(۲۳)۔

کینٹ ول اسمتھ نے تو بڑے صاف الفاظ میں کہا ہے کہ اسلام کے بغیر جمہوریت محض ایک بے معنی نعرہ ہے جو کسی طور بھی قابلِ قبول نہیں ہوسکتا۔ یوں جمہوریت اپنے اسلامی ہونے کے حوالے سے ان (یعنی مسلم اُمہ) کی اسلامی ریاست کی تعریف کا حصہ بن جاتی ہے(۲۴)۔

ایسپوزیٹو اوروال بھی معاصر مسلم ریاستوں کے حوالے سے اسی نتیجے پر پہنچے ہیں کہ موجودہ دور کی مسلم ریاستوں میں دونوں رجحانات، یعنی احیاے اسلام اور جمہوریت ساتھ ساتھ چل رہے ہیں اور یہ ان ریاستوں کے کردار کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔ وہ معاصر مسلمانوں کے ذہن کا مطالعہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

بہت سے مسلم (اسکالر) اسلامی جمہوریت کو کھول کر بیان کرنے میں سرگرمی سے مصروف ہیں۔ ان کو یقین ہے کہ عالمی سطح پر مذہبی احیا اور جمہوری عمل، مسلم ریاستوں کے تناظر میں، ایک دوسرے کی تکمیل کر رہے ہیں۔(۲۵)

حال ہی میں دواسکالروں ڈیل ایکل مین اور جیمز پسکا ٹوری نے ’مسلم سیاست‘ کے حوالے سے ایک مطالعاتی رپورٹ میں تجویز کیا ہے کہ مسلمانوں میں اس وقت جمہوریت کے بارے میں جو خیالات پائے جاتے ہیںاور جو ان کی اپنی اقدار اور امنگوں کے مطابق ہیں، ان پر نئے زاویوں سے غور کیا جانا چاہیے۔ اس کے ساتھ ہی مسلمانوں میں، اسلامی ریاستوں پر مغربی طرز کی جمہوریت کا پیوند لگانے کے خلاف جو نفرت پائی جاتی ہے ، اسے بھی پیش نظر رکھا جانا ضروری ہے۔ ان دونوں اسکالروں نے اپنی بات اس طرح ختم کی ہے:

مسلم سیاست کے خصوصی تناظر میں طے شدہ مثالوں پر زور نہ دینے اور ان چیلنجوں کا ازسرنو جائزہ لینے کی ضرورت ہے، جو مستقبل قریب میں پالیسی سازوں کو درپیش ہو سکتی ہیں۔ اس ضمن میں ضروری ہے کہ صرف مغرب زدہ اشرافیہ کی بات نہ سنی جائے بلکہ بہت سی دیگر مسلم آوازوں پر بھی توجہ دی جائے۔ اس جانب پہلا قدم، یہ معلوم کرنا ہے کہ مسلمانوں میں سندجواز اور عدل کے تہذیبی تصورات کیا ہیں؟ یہ بھی تسلیم کرنا چاہیے کہ مذہبی یا غیر مذہبی منصفانہ حکومت کا تصوربھی متعین نہیں  ہے۔ مسلمانوں کے ان تصورات کی تفہیم بعض لوگوں کے اس ناروا تاثر کو دُور کرنے میں ممد ثابت ہو گی کہ دوسری اقوام کے ساتھ مسلمانوں کے تعلقات اکثر معاندانہ ہی ہوتے ہیں اور مسلمانوں کا طرزِ حکومت لازماً جابرانہ اور آمرانہ ہوتا ہے(۲۶)۔

اسلام اور مسلم اُمہ نے آمرانہ اور جابرانہ حکومت کو کبھی پسند کی نظر سے نہیں دیکھا۔ جہاں کہیں مسلمانوں میں آمرانہ یا استبدادانہ حکومتیں ہیں، وہ نوآبادیاتی سامراج اور مغرب زدگی کا نتیجہ ہیں۔ ان کا مسلمانوں کے تصورات، تاریخ یا مسلمانوں کی آج کی امنگوں اور آرزوئوں سے کوئی تعلق نہیں۔ مسلمان، مغرب کی سیکولر جمہوریت کو اپنے اصولوں، اقدار اور روایات سے بیگانہ تصور کرتے ہیں۔ لیکن جمہوریت کی ان شان دار روایات سے ہم آہنگی محسوس کرتے ہیں جس کا تعلق اقتدار میں عوام کی شرکت جس کے نتیجے میں انصاف کی حکمرانی، ہر سطح پر مشاورت کا عمل، فرد کے حقوق اور اختلاف کے حق کی ضمانت سے ہے ۔ وہ اس کو اشد ضروری سمجھتے ہیں کہ عدلیہ کی آزادی اور سیاسی ثقافت میں تکثیر کا تسلسل یقینی ہو، ان کے بارے میں ان کے اپنے تصورات اور تاریخی روایت ہے۔ چنانچہ اسلام اور جمہوریت کی اس حقیقی روح میں کوئی تصادم یا تضاد نہیں۔ بعض مسلم ممالک میں جو آمرانہ اور جابرانہ حکومتیں نظر آ رہی ہیں،وہ ان غیر ملکی اور اوپر سے بذریعہ طاقت ٹھونسی گئی روایات کا حصہ ہیں، جن کے خلاف جدوجہد میں احیاے اسلام کی قوتیں مصروف ہیں۔ اسلام اور حقیقی جمہوریت ایک ہی سکّے کے دو رخ ہیں۔ چنانچہ استبدادانہ اور جابرانہ حکومتوں کا قیام اور فروغ، ایسی حکومتیں خواہ شہری ہوں یا فوجی آمریت، منتخب شدہ ہوں یا وراثتی، یہی جمہوریت کی نفی اور بنیادی انسانی حقوق غصب کرنے کی ذمہ دار ہیں۔ ایسی حکومتیں مغربیت اور لادینیت کا ثمرہ ہیں، اسلام کا نہیں۔ اسی طرح عوامی جمہوریت سے انکار اور اسے دبا کر رکھنے کا عمل اسلام کا نہیں، لادینیت اور مغرب زدگی کا ایجنڈا ہے۔ اسلامی احکام اور عوام کی مرضی، خواہشات اور امنگیں تو ایک ہی ہیں۔ جمہوری عمل یقینا نفاذ اسلام میںناگزیر پیش رفت ہے۔ اسلامی امنگوں کی تکمیل جمہوری عمل کو آگے بڑھنے سے ہی ممکن ہے۔ نوآبادیاتی دور کے بعد کے عالم اسلام کی حالیہ تاریخ میں آمرانہ نظام، سیکولرزم یاسوشلزم ایک ساتھ آگے بڑھے ہیں، جب کہ احیاے اسلام، آزادی جمہور اور اقتدار میں عوام کی شرکت ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔

نوآبادیاتی طاقتوں کے تسلط سے آزادی کے باوصف مسلم اُمہ آج بھی اپنے جمہوری حقوق، اپنی سیاست کو اپنے انداز میں آزادانہ طور پر ترقی دینے، اپنے تصورات، امنگوں اور نظریات کی روشنی میں اپنے عوام کی اقتصادی حالت بہتر بنانے اور اسلامی معاشرے کے قیام کے لیے مصروف ِ جہد ہے۔ مسلم اُمہ ایسے احکام، نظریاتی جبر اور ایسے جمہوری نمونوں کے تحت زندگی گزارنے سے انکاری ہے جو اس کے دین سے متصادم ہوں، اس کی اقدار کے منافی ہوں۔ اس کی تاریخ سے لگا نہ کھاتے ہوں، اور اس کی روایات کے علی الرغم ہوں۔ اگر جمہوریت کا مطلب کسی قوم کا حق خود ارادیت اور اپنے بل پر تکمیل خودی ہے، تو یہی وہ مقصد ہے جس کے لیے اسلام اور مسلمان روزِ اوّل سے جدوجہد کرتے رہے ہیں۔ وہ نہ تو اس سے زیادہ کچھ چاہتے ہیں اور نہ اس سے کم پر راضی ہوںگے۔


۲۱- ایچ اے آر گب، Modern Trends in Islam میں لکھتے ہیں کہ ’’نیشنلزم … اپنی مغربی توضیح میں صرف ان دانش وروں تک محدود ہے جن کا مغربی افکار سے براہِ راست یا گہرا ربط ہے۔ مگر قوم پرستی کے اس نظریے کی جب عام ذہن تک رسائی ہوئی تو اس کی ہیئت میں تبدیلی واقع ہوئی اور اس تبدیلی سے قدیم جبلی محرکات اور مسلم عوام کے قوت محرکہ کے دبائو کی وجہ سے بچنا ممکن بھی نہ تھا‘‘ ( Modern Trends in Islam شکاگو، شکاگو یونی ورسٹی پریس، ۱۹۴۷ئ، ص ۱۱۹)۔ ولفرڈ سی اسمتھ Islam in Modern History میں لکھتے ہیں: ’’مسلمانوں میں کبھی قومیت کی سوچ نے ارتقاء نہیں پایا جس کا مفہوم وفاداری یا کسی ایسی قوم کے لیے تشویش کا پایا جانا ہو، جو اسلام کی حدود کو پامال کر رہی ہو… ماضی میں صرف اسلام نے ہی لوگوں کے اندر اس قسم کے نظم و ضبط، تحریک اور قوت پیدا کی ہے‘‘۔ (Princeton N.J ۱۹۵۷ئ، ص ۷۷)۔

۲۲-  فلمر ایس- سی نورتھروپ، Colloquium on Islamic Culture (پرنسٹن، ۱۹۵۳ئ) ، یونی ورسٹی پریس، ص ۱۰۹۔

۲۳- ولفرڈ- سی اسمتھ، Pakistan as an Islamic State (لاہور، ۱۹۵۴ئ) ، ص ۵۰۔

۲۴- ایضاً، ص ۴۵۔

۲۵- جان ایسپوزیٹو ، جان وول، op.cit  ص ۲۱۔

یہ مضمون ہارٹ فورڈ سمینری امریکا کے مجلے The Muslim World  (جنوری تا مارچ ۲۰۰۰ئ) میں شائع ہوا جس کا ترجمہ جناب نذیر حق نے بڑی محنت اور خوب صورتی سے کیا ہے جس کے لیے مقالہ نگار ممنون ہے۔ صاحبِ مضمون نے ترجمہ پر نظرثانی کرتے ہوئے چند اضافے کیے ہیں۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

دورِ جدید کی سیاسی تاریخ اور تجربات کا گہری نظر سے مطالعہ کیا جائے تو جمہوریت اور آمریت کا بنیادی فرق سمجھنے میں ذرا بھی مشکل پیش نہیں آتی۔ تاہم اصطلاحات، الفاظ اور اداروں کی ظاہری شکل و صورت قدم قدم پر دھوکے اور الجھائو میں جکڑ لیتی ہے۔ اس کے باوصف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آمریت، بار بار جمہوری لبادے میں خود کو قابلِ قبول بنانے کے لیے طرح طرح کے کرتب دکھاتی رہتی ہے۔

اس سلسلے کی ایک اہم مثال تو خود انتخابات کا ادارہ ہے۔ بظاہر انتخاب کا عمل جمہوریت اور آمریت دونوں میں مشترک نظر آتا ہے۔ ہٹلر کے دور کا جرمنی ہو، یا مسولینی کی گرفت میں پھڑپھڑاتا اٹلی، اسٹالن کا روس ہو یا مارشل ٹیٹو کا یوگوسلاویہ، فرانکو کا اسپین ہو یا پنوشے کا چلی،    حسنی مبارک کا مصر ہو یا موگابے کا زمبابوے___ انتخابات تو ان سب ممالک میں ہوتے رہے ہیں اور بڑے بلندبانگ دعووں اور زور و شور کے ساتھ ہوتے رہے ہیں۔ بلکہ ان ممالک میں راے دہی کا اوسط (turn-out) مغرب کے بہت سے جمہوری ممالک بشمول امریکا اور برطانیہ سے کہیں زیادہ رہا ہے مگر اس کے باوجود، ان انتخابات نے ان ممالک کو نہ جمہوری بنایا اور نہ ایسے انتخابات کو کسی نے بھی عوام کی آزادانہ مرضی کے اظہار کا ذریعہ تسلیم کیا۔

جمہوری نظام میں انتخابات کی امتیازی حیثیت یہ ہے کہ:

                ا               دستور اور قانون کو بالادستی حاصل ہوتی ہے اور کوئی بھی فرد نہ دستور اور قانون سے بالا ہوتا ہے، اور نہ اسے دستور اور قانون میں دراندازی اور ترمیم و تبدیلی یا تحریف کا کسی درجے میں بھی کوئی اختیار یا موقع حاصل ہوتا ہے۔

                ب            ملک میں اظہار راے، تنظیم سازی، اجتماع اور بحث و اختلاف کی آزادی ہوتی ہے، سیاسی جماعتیں برابری کی بنیاد پر سیاسی عمل میں حصہ لیتی ہیں اور عوام کے سامنے  اپنا پروگرام اور اپنی کارکردگی کا میزانیہ پیش کرتی ہیں۔ ذرائع ابلاغ آزادی کے ساتھ تمام نقطہ ہاے نظر کااظہار کرتے ہیں اور قوم کے ضمیر کی حیثیت سے معلومات کی فراہمی کے ساتھ ساتھ محتسب کا کردار بھی ادا کرتے ہیں۔

                ج             عدلیہ آزاد اور دستوری اختیارات سے مسلح ہوتی ہے، جو پوری مستعدی اور   غیرجانب داری سے دستور کی حفاظت اور نفاذ کے ساتھ بنیادی حقوق کے باب میں ہرشہری اور ہرمظلوم انسان کی داد رسی کی ذمہ داری ادا کرتی ہے، جس کے نتیجے میں کسی کے لیے بھی فرعون بننے کا خطرہ باقی نہیں رہتا۔

                د              الیکشن کمیشن، انتظامیہ کی گرفت سے آزاد ہوتا ہے اور دستور کے تحت پوری آزادی اور غیر جانب داری کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں ادا کرتا ہے۔ الیکشن کے قواعد و ضوابط اور انتظامِ کار بھی شفاف اور ہر شک و شبہے سے بالا ہوتے ہیں اور یہ ادارہ اس کا   پورا عمل برسرِاقتدار جماعت اور حزبِ اختلاف دونوں کی نگاہ میں معتبر ہوتا ہے۔

                ہ               جہاں اس بات کا خطرہ ہو کہ حکومت انتخابی عمل میں مداخلت کرسکتی ہے، وہاں انتخاب کے دوران غیر جانب دار عبوری حکومت کا قیام عمل میں لایا جاتا ہے۔

اس پانچ نکاتی نقشۂ کار میں منعقد ہونے والے انتخابات کو ملک اور بیرون ملک اعتماد کی نظر سے دیکھا جاتا ہے، سب اسے قابلِ بھروسہ اور قانونی و اخلاقی اعتبار سے درست تسلیم کرتے ہیں۔ اگر یہ نقشۂ کار موجود نہ ہو  تو پھر انتخابات ایک ڈھونگ اور تماشے سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتے اور اس کے نتیجہ میں حکومتوں کے بننے اور بدلنے کے اس عمل میں عوام کا کردار محض ایک تماشائی کا سا بن کر رہ جاتا ہے اور خود بیلٹ بکس کا تقدس ختم اور سیاسی تبدیلی کے لیے اس کا کردار  دم توڑ دیتا ہے۔

بلاشبہہ جمہوری نظام میں صدارتی اور پارلیمانی انتخابات کو مرکزی حیثیت حاصل ہے اور پورا سیاسی عمل اسی محور کے گرد گھومتا ہے۔ نیز یہی وہ طریقہ ہے جس کے ذریعے انتقالِ اقتدار ہوتا ہے، اور عوام کی آزاد مرضی سے قیادت کا چنائو عمل میں آتاہے۔ متعین وقفوں پر ایسے ہی آزاد اور شفاف انتخابات جمہوری نظام کی پہچان ہیں۔

جماعت اسلامی پاکستان نے مارچ ۱۹۴۹ء میں دستورساز اسمبلی میں ’قرارداد مقاصد‘ کے منظور کیے جانے کے بعد سے سیاسی تبدیلی کے لیے جمہوری ذرائع اور انتخابی راستے کو اختیار کیا ہے اور وہ اس پر سختی سے قائم ہے لیکن جماعت اسلامی نے پہلے دن سے انتخابی عمل کے دستور اور قانون کے مطابق اور اس پورے عمل کو قواعد و ضوابط اور انتظامِ کار کے اعتبار سے غیر جانب دار اور شفاف ہونے کو ضروری قرار دیا ہے۔ پنجاب میں ۱۹۵۱ء سے صوبائی انتخابات سے لے کر آج تک انتخابات کی ضرورت بلکہ ان کے ناگزیر ہونے کے ساتھ ان کے صحیح ماحول میں اور صحیح طریقے سے انعقاد کو بھی لازمی قرار دیا ہے اور انتخابات کے یہ دونوں پہلوباہم مربوط اور ناقابل تفریق ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان دونوں میں فرق وامتیاز اور انہیں ایک دوسرے سے بھی کاٹ دینے (de-link)  کی بھرپور مزاحمت کی ہے۔

آج بھی قوم کو جو امتحان درپیش ہے، اس کا تعلق نفسِ انتخاب سے نہیں، انتخاب کے پورے نظام اور انتظامِ کار سے ہے، جس کی اصلاح کے بغیر انتخابات بے معنی ہوجاتے ہیں اور اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وقت کا آمر اور اس کے حواری انتخابی ڈھونگ رچا کر ایک فسطائی نظام کے لیے سندِجواز (legitimacy) حاصل کر لیتے ہیں، جو دستور کی بالادستی، قانون کی حکمرانی، عدلیہ کی آزادی اور بنیادی حقوق کی حفاظت کے لیے پیغامِ موت کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایسا عمل ملک اور قوم کو شخصی آمریت، سیاسی غلامی اور ننگے استبداد کے نظام کی جہنم میں جھونکنے کے مترادف ہوتا ہے۔ اس نظام کو چیلنج کیے بغیر اور دستوری، قانونی و انتظامی نقشۂ کار کی اصلاح کے بغیر انتخابات میں شرکت کا منطقی نتیجہ نہ صرف جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کے اصول کی نفی ہے، بلکہ خود اپنے ہاتھوں سے آمریت کی زنجیروں کو مستحکم کرنا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اس ناپاک اور خطرناک کھیل کا پردہ چاک کرنے کے لیے مؤثر احتجاج کی ضرورت ہے اور موجودہ حالات میں اس کا بہترین ذریعہ انتخابات میں شرکت نہیں بلکہ ان کا بائیکاٹ ہے___ واضح رہے کہ بائیکاٹ خود مطلوب نہیں، وہ احتجاج کا ایک ذریعہ ہے، تاکہ اقتدار پر قابض عناصر کے اصل عزائم کو بے نقاب کیا جاسکے اور قابل قبول انتخابات کا اہتمام ہوسکے۔

  •  بائیکاٹ، پس منظر اور جمھوری روایت: بائیکاٹ کی ایک نوعیت ووٹ کا منفی استعمال ہے، جس کا مقصد ووٹ کے تقدس کی حفاظت اور بیلٹ بکس کو آمریت کی خدمت کے لیے استعمال کیے جانے سے روکنا ہے۔ انتخابی بائیکاٹ کوئی جذباتی یا منفی عمل نہیں، بلکہ احتجاج اور سیاسی مقاصد کو جمہوری طریقے سے حاصل کرنے کا ایک معروف اور جانا پہچانا طریقہ ہے۔ جو لوگ بائیکاٹ کو ایک جذباتی، منفی اور غیرمؤثر حربے کے طور پر پیش کر رہے ہیں اور یہ کہہ رہے ہیں کہ اس طرح ووٹ کے ضائع ہونے کے سوا کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا، ہم ان کو غوروفکر کی دعوت دیتے ہیں۔ وہ ٹھنڈے دل سے غور کریں کہ ووٹ کو ضائع کرنے بلکہ اس کے استحصالی استعمال کا راستہ انجینیرڈ الیکشن (دھاندلی زدہ انتخابات) میں شرکت ہے یا بائیکاٹ کے ذریعے نظامِ انتخاب کو جمہوری ضوابط کا پابند بناکر انتقالِ اقتدار کے لیے صحیح فریم ورک کو وجود میں لانے کے لیے جدوجہد کرنا، مؤثر ذریعہ ہے؟

قانون کی مستند کتاب Black's Law Dictionary میں اصطلاح ’بائیکاٹ‘ کی تعریف ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے:

کسی خاص فرد یا کاروبار سے اتفاقِ راے سے معاملہ یا تجارت کرنے سے انکار تاکہ رعایتیں حاصل کی جائیں یا اُن اقدامات یا طرزِعمل سے اظہارِ ناپسندیدگی کیا جائے جو معاملات میں مستعمل ہوں۔ (ص ۱۸۹)

پینگوین کی شائع کردہ Dictionary of International Relations میں ’بائیکاٹ‘ کی تشریح ان الفاظ میں کی گئی ہے: ’’اس سے کسی ریاست یا ریاستوں کا سماجی، اقتصادی، سیاسی اور عسکری تعلقات سے منظم انکار ہے، تاکہ انہیں سزا دی جاسکے یارویے کو مطلوبہ صورت کی طرف لایا جاسکے‘‘، جب کہ اوکسفرڈ لغت براے علم سیاست اسے یوں بیان کرتی ہے: ’’ناپسندیدگی کے اظہار کے لیے وضع کردہ ایک طریقہ، مثلاً کسی اجلاس میں شریک نہ ہونا، یا کسی ملک یا کمپنی کی مصنوعات نہ خریدنا، تاکہ اُسے سزا دی جاسکے یا اُس پر پالیسی، موقف یا رویہ تبدیل کرنے کے لیے دبائو ڈالا جاسکے۔ (۱۹۹۶ئ،ص ۴۲)

تجارت ہو یا سیاست، بین الاقوامی تعلقات ہوں، یا سماجی روابط و معاملات، بائیکاٹ اظہارِ احتجاج اور مطلوبہ اہداف کے حصول کے لیے پُرامن ذرائع سے سیاسی قوت کے استعمال کا ایک معتبر راستہ ہے۔ نیز شدید نکتہ چینی (strictures)، پابندیاں اور بائیکاٹ سب ہی اس ترکش کے مختلف تیر ہیں۔ اسرائیل اور شمالی افریقہ کی نسل پرست اور غاصب حکومتوں کے خلاف برسوں اسے استعمال کیا گیا ہے اور اس کے قرارواقعی اثرات رونما ہوئے ہیں۔ ایران اور عراق کے خلاف بھی یہ ہتھیار استعمال ہواہے اور ہم بھی اس کا نشانہ بنے ہیں۔ خود برعظیم کی سیاسی جدوجہد میں برطانوی اقتدار کے خلاف بائیکاٹ کے ہتھیار کو بار بار استعمال کیا گیا ہے اور مکمل بائیکاٹ یا   جزوی بائیکاٹ کی بحثوں میں پڑے بغیردونوں ہی شکلوں میں اس کا استعمال کیا گیا ہے، جس نے بالآخر سامراجی اقتدار کی چولیں ہلا دیں۔ اس عمل کا آغاز ۱۹۲۰ء میں ناگ پور کانگریس سے ہوا، اور  اس حکمت عملی کے چار ستون تھے:

  • قانون ساز اداروں کا بائیکاٹ
  • عدالتوں کا بائیکاٹ l تعلیمی اداروں کا بائیکاٹ
  • مناصب اور اعزازات واپس کرنے کا اعلان۔

وکلا اور سیاسی جماعتیں، آج کے حالات میں ان سیاسی ہتھیاروں کو استعمال کر رہی ہیں، عدالتوں کے میدان میں بھی اور اب انتخابات کے میدان میں بھی۔ انھیں کسی اعتبار سے بھی جذباتی یا منفی اقدام قرار نہیں دیا جاسکتا۔ تاریخ شاہد ہے کہ یہ اور دوسرے پُرامن سیاسی ہتھیار جب بھی ٹھیک طرح اور استقلال کے ساتھ استعمال ہوئے ہیں، ان کے اثرات لازماً نکلے ہیں۔

البتہ جو بات اچھی طرح ذہن نشین کرلینی چاہیے، وہ یہ ہے کہ بائیکاٹ فی نفسہٖ نہ کوئی سیاسی مقصد اور ہدف ہے اور نہ اسے مستقل حکمت عملی ہی کہا جاسکتا ہے۔ یہ تو موجودہ آمرانہ نظام اور ایک غاصب گروہ کے ہاتھوں قوم کو بے دست و پا کرنے جیسے اقدامات کو قانونی تحفظ دلانے کے مذموم منصوبوں کے خلاف احتجاج کا ایک ذریعہ اور سیاسی دبائو کا وہ حربہ ہے، جس سے اس نظام کی خباثت اور اس کے ناقابلِ قبول ہونے کو ظاہر و باہر کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح ملک کو لاقانونیت، فردِ واحد کی حکمرانی اور من مانی سے نجات دلانے اور اس کے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے آلۂ کار بننے کے بجاے، اس ایجنڈے کو تبدیل کر کے ایک حقیقی جمہوری اور دستوری نظام کی طرف ملک کو لانے کی کوشش ہے، تاکہ بالآخر صحیح معنوں میں آزاد، غیرجانب دار، منصفانہ اور شفاف انتخابات منعقد ہوسکیں اور ملک اور قوم جمہوریت کی طرف صحیح معنی میں پیش قدمی کرسکیں۔

  • موجودہ حالات کی نزاکت :مسئلے کی اصل نوعیت کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ آج کے انتخابات عام حالات میں منعقد نہیں ہو رہے۔ پرویزی آمریت کے آٹھ سال، ان کا اصل پس منظر ہیں اور اس سے بھی زیادہ اہم وہ پیش منظر ہے جس کا تانا بانا ۹مارچ ۲۰۰۷ء سے بُنا جا رہا ہے، اور جسے آخری شکل ۳نومبر کی ایمرجنسی (دراصل جنرل مشرف کے مارشل لا نمبر۲)، عبوری دستور اور ۱۵دسمبر کو ایمرجنسی اور پرویزی دستور کو مستقل شکل دے کر انتخابات کا جال پھیلایا گیا ہے۔ جس کے بعد اپنی من پسند عدلیہ اور اپنی تابع مہمل عبوری حکومت اور الیکشن کمیشن کے ذریعے قوم کے حق حکمرانی کو اغوا کرنے کا انتظام کیا جارہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا آنکھوں دیکھے اس جال میں قدم رکھا جائے، یا اس جال کو تارتار کرنے کے لیے بائیکاٹ کاراستہ اختیار کیاجائے، اور دستوری و عوامی نظام کو بحال کرا کر ایک غیرجانب دار حکومت اور ایک آزاد اور معتمدعلیہ الیکشن کمیشن کے تحت انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنایاجائے۔ انتخاب تبدیلی کا راستہ ہیں اور ان سے فرار کا تصور بھی کوئی جمہوری قوت نہیں کرسکتی، لیکن انتخابات کو صحیح معنوں میں انتخابات ہونا چاہیے، ورنہ وہ ایک ایسا جال بن جاتے ہیں جس میں گرفتار ہو کر انسان آمریت کے تسلسل کے لیے آلۂ کار بن کر رہ جاتا ہے۔

ایک طرف ملک کے پورے نظامِ حکومت، دستوری انتظام، بنیادی قانون اور اداروں کو پامال کیا جا رہا ہے تو دوسری طرف ستم یہ ہے کہ جمہوریت کے بڑے بڑے علَم بردار اور جمہوریت کی دعوے دار سیاسی جماعتیں صرف ’میدان دوسروں کے لیے نہ چھوڑنے‘ کا سہارا لے کر ایسے انتخابات میں شرکت کر رہی ہیں۔ یہ سب اسی ’نظریۂ ضرورت‘ کا ایک نیا اڈیشن ہے جس کی تباہ کاریاں ملک اور قوم ۱۹۵۴ء سے دیکھ رہے ہیں۔ سیاسی دروبست کا حلیہ بگاڑنے کے اس عمل کا آغاز ۱۹۵۴ء میں پہلی دستورسازاسمبلی کی تحلیل اور پھر پہلے قومی انتخابات سے چند ماہ قبل اکتوبر ۱۹۵۸ء میں مارشل لا کے نفاذ سے شروع ہوا۔ یہ سب اس لیے ہوا کہ ملک کی اعلیٰ عدالتوں نے نظریۂ ضرورت کے نام پر دستور کے توڑنے اور لاقانونیت کو قابل قبول قرار دے کر انہیں قانونی سندجواز دینے کے جرم کا ارتکاب کیا، اور سیاسی جماعتوں نے کمزوری دکھا کر مزاحمت کے بجاے مصالحت کا راستہ اختیار کیا۔ یہی وہ پہلی ٹیڑھی اینٹ تھی جس نے پورے قومی و قانونی ڈھانچے کو اس کی بنیادوں سے ہلاکر رکھ دیا اور پھر سیاسی نظام کی دیوار ٹیڑھی ہی اٹھتی چلی گئی۔

اسی نظریۂ ضرورت کی نئی شکل کو، پرویزی آمریت کے ایک ناقابلِ اعتبار الیکشن کمیشن اور ایک ناقابلِ قبول عبوری حکومت کے ذریعے انتخابات میں شرکت کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب تک قوم اس ’نظریۂ ضرورت‘ سے نجات نہیں پاتی، نہ وہ اپنی آزادی کی حفاظت کرسکتی ہے اور نہ جمہوریت کی روشن صبح یہاں کبھی طلوع ہوسکے گی۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ الیکشن کے اکھاڑے میں اترنے والے بڑے بڑے پہلوان ان انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی ہونے کا واویلا بھی کر رہے ہیں اور اس نظام کو چیلنج کرنے کے بجاے اس میں شریک بھی ہو رہے ہیں۔ آج ہم سب امتحان کی کسوٹی پر پرکھے جا رہے ہیں۔ وقتی، ذاتی اورجماعتی مصلحتیں ایک طرف ہیں۔ دوسری طرف اصول، دستور اور نظام کی اصلاح اور خرابی کے اس عمل کو ہمیشہ کے لیے روک دینے کی خواہش اور کوشش ہے۔

پرویزی آمریت کے آٹھ سال اور مستقبل کا ایجنڈا

جنوری ۲۰۰۸ء کے انتخابات دراصل پرویزی آمریت کے آٹھ سالہ دور کو ایک نئی شکل میں، آیندہ پانچ سالوں کے لیے وسعت دینے کا ایک منصوبہ ہیں۔ آگے بڑھنے سے پہلے ضروری ہے کہ اس نظام کے خدوخال کو اچھی طرح سمجھ لیا جائے، تاکہ قوم اور تمام سوچنے سمجھنے والے اچھی طرح جان لیں کہ اس وقت ملک و قوم کے سامنے اصل ایشو کیا ہیں؟

۱- شخصی حکومت کو دوام: اس نظام کا سب سے نمایاں پہلو عملاً ایک فرد کی شخصی حکومت کو دوام بخشنا ہے، خواہ   اس پر کیسا ہی لبادہ کیوں نہ اوڑھایا جائے اور وردی زیب تن ہویا شیروانی!

پرویز مشرف کے پورے دور حکومت کا مرکزی نکتہ صرف ایک ہے، اور وہ یہ کہ قومی مفاد وہ ہے جسے پرویز مشرف ’قومی مفاد‘ کہیں۔ انھوں نے بار بار کہا ہے کہ نہ دستور اہم ہے اور نہ جمہوریت۔ جسے وہ ’پاکستان‘ اور ’سب سے پہلے پاکستان‘ کہتے ہیں وہ صرف یہ ہے کہ ’سب سے پہلے میں___ یعنی صرف پرویز مشرف! ‘

جمہوریت میں ’قومی مفاد‘ کا سب سے بڑا ترجمان قومی دستور ہوتا ہے جس پر پوری قوم کا اجماع (consensus) ہوتا ہے اور جسے بنیادی قانون کہا جاتا ہے۔ اس دستور کے فریم ورک میں قومی مفاد وہ ہے، جس کا اظہار خود قوم اپنے منتخب نمایندوںکے ذریعے کرے اور اس قومی مفاد کی کچھ لہریں عوامی جلسوں، سیاسی جماعتوں کے اظہارِ خیال، میڈیا کے ذریعے عوام کی ترجمانی اور پبلک کی راے عامہ کے دوسرے معتبر مظاہر ہیں۔ لیکن پرویز مشرف کا فلسفہ یہ ہے کہ قومی مفاد کا تعین کرنا صرف ان کا استحقاق (prerogative) ہے۔ ان کی راے اور ان کی ذات ہی دستور، قانون، ملک، جمہوریت، عدلیہ ہر چیز پر حاوی ہے۔ یہ وہی مطعون و مذموم فلسفہ ہے جس کا دعویٰ فرانس کے بادشاہ لوئی ہفتم نے کیا تھا: ’’میں قانون ہوں‘‘۔ہٹلر، مسولینی، اسٹالین، شاہ ایران،  حسنی مبارک، صدام حسین سب کی ذہنیت یہی تھی۔ اور آج پرویز مشرف انہی کے نقش قدم پر   چل رہے ہیں جس کا ثبوت وہ کچھ ہے جو پرویز مشرف نے پہلے ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء میں کیا اور پھر ۳نومبر ۲۰۰۷ء کو جو اقدام کیا اور جس کا تازہ ترین اظہار۱۵دسمبر کے روز فردِواحد کے ہاتھوں دستور کا حلیہ بگاڑنے کے سارے عمل کو نہ صرف دستور کا حصہ قرار دے کر کیا گیا بلکہ اپنے ہی قلم سے اپنے ان تمام اقدامات کو نام نہاد ’قانونی تحفظ و جواز‘ بھی دے دیا جنھیں بین الاقوامی میڈیا کے سامنے ’غیرقانونی (illegal) اور ماوراے دستور (extra-constitutional) ہونے کا خود ہی اعتراف کیا تھا۔

  • عوامی ردعمل: پاکستان میں عوامی راے کے جتنے بھی جائزے لیے گئے ہیں، وہ سب یہ ظاہر کرتے ہیں کہ پرویز مشرف کی کسی بات پر قوم کو اعتبار نہیں اور آج وہ سب سے زیادہ ناپسندیدہ سیاسی حکمران ہیں۔ وہ ’درمدح خود‘ خواہ کچھ بھی کہیں لیکن دنیا بھر میں آج کوئی ان کے ایسے شیخی پر مبنی دعووں کو کوئی وزن نہیں دیتا اس لیے کہ یہ سارا کھیل ان کی اپنی ذات کے گرد گھومتا ہے۔ پاکستان، جمہوریت یا قومی مفاد سے اس کا دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں۔

گیلپ پاکستان نے ۵ اور ۶ نومبر ۲۰۰۷ء (ایمرجنسی کے لبادے میں مارشل لا ) کے دو اور تین دن بعد جو سروے کیا، وہ قوم کے جذبات کا حقیقی ترجمان ہے:

  • ایمرجنسی کی مخالفت ۶۷ فی صد… تائید ۱۹ فی صد۔
  • کیا ایمرجنسی پاکستان کے مفاد میں ہے؟ ۶۸ فی صد نہیں… ۱۸ فی صد ہاں
  • کیا چیف جسٹس کی برطرفی صحیح تھی؟ ۷۰ فی صد نہیں… ۱۴ فی صد ہاں۔
  • ایک نقطہ نظر یہ ہے کہ ایمرجنسی کا نفاذ پاکستان کے مفاد میں تھا جب کہ دوسرا نقطۂ نظر یہ ہے کہ یہ مشرف کے اپنے مفاد میں تھا___ آپ کیا کہتے ہیں؟ پاکستان کے مفاد میں ۱۸ فی صد … مشرف کے مفاد میں ۶۸ فی صد۔

انٹرنیشنل ری پبلکن انسٹی ٹیوٹ کے زیراہتمام کیے جانے والے راے عامہ کے جائزے کے مطابق، جو ۱۹سے ۲۸ نومبر ۲۰۰۷ء کے درمیان ہوا، یہ بتایا گیا ہے کہ بحیثیت مجموعی، ۶۶ فی صد سے لے کر ۷۵ فی صد تک آبادی مشرف ، ان کی پالیسیوں اور اقدامات کے مخالف ہے، جب کہ ان کی تائید آبادی کے صرف ایک چوتھائی تک سکڑ گئی ہے۔ ایمرجنسی کے نفاذ کے لیے مشرف کے موقف کو آبادی کے ۶۶ فی صد نے رد کیا ہے اور ان کا خیال ہے کہ یہ سارا اقدام عدلیہ کو اس خدشہ سے میدان سے ہٹانے کے لیے کیا گیا تھا کہ وہ پرویز مشرف کو صدارت کے لیے نااہل قرار دے دے گی۔ ہوا کے رخ کا اندازہ عوام کی اس راے سے کیا جاسکتا ہے جس میں انھوں نے ’ہاں‘ میں جواب دیا ہے:

  • دستور کی معطلی غلط تھی ۷۱ فی صد
  • سپریم کورٹ کے ججوں کی حراست غلط تھی   ۷۷ فی صد
  • ٹی وی نیوز چینلوں پر پابندی غلط تھی              ۷۶ فی صد
  • سپریم کورٹ کے ججوں کا نیا حلف غلط تھا      ۷۳ فی صد
  • سیاسی جلسوں اور جلوس پر پابندی غلط تھی     ۷۰ فی صد
  • وکلا، سول سوسائٹی، سیاسی قائدین کی نظربندی غلط تھی ۷۶ فی صد
  • بین الاقوامی ردعمل: صاف ظاہر ہے کہ ملک کی عظیم اکثریت، پرویز مشرف کے اقدامات کو غلط اور قومی مفاد کے خلاف سمجھتی ہے۔ ان کا اپنا دعویٰ یہ ہے کہ انھوں نے فیاضی کا ثبوت دیتے ہوئے ملک کو جمہوریت کا ’تحفہ‘ دیا ہے اور پریس اور الیکٹرانک میڈیا کو آزادی سے نوازا ہے۔ لیکن ان کے دعووں کو نہ ملک کی عظیم اکثریت تسلیم کرتی ہے اور نہ ان کے بیرونی سرپرست، جن کی بیساکھیوں پر انھوں نے اپنی بساط بچھائی ہے۔ واشنگٹن پوسٹ لکھتا ہے: ’’گذشتہ دوہفتوں میں جنرل پرویز مشرف نے جو بھی اقدام اٹھایا ہے اُس کا ایک ہی مقصد ہے کہ اقتدار پر اپنے کنٹرول کو استحکام بخشا جائے‘‘۔ (دی نیشن، ۳دسمبر ۲۰۰۷ئ)

واشنگٹن پوسٹ ہی نے اپنے ۱۹دسمبر کے اداریے میں ان کے اس دور کے کارناموں کا یوں احاطہ کیا ہے:

’’اگرچہ اُنھوں نے باضابطہ طور پر اُس حالت کو ختم کردیا ہے جو اُنھوں نے ۶ہفتے قبل نافذ کی تھی، مگر اس کے باوجود پرویز مشرف پر تنقید کرنے کا مطلب جیل جانا ہے۔ عدالتی نظام وکلا کے بائیکاٹ کی وجہ سے مفلوج ہوچکا ہے کیونکہ مشرف نے سپریم کورٹ کے اُن ججوں کو بحال کرنے سے انکار کردیا ہے جن کو اُنھوں نے غیرقانونی طور پر برطرف کردیا تھا۔ ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کے سربراہ بارہا انتباہ کرچکے ہیں کہ صدر کا منصوبہ ہے کہ اگلے ماہ پارلیمانی انتخابات میں جعل سازی کی جائے تاکہ اُن کی اپنی پارٹی، جوبے انتہا غیرمقبول ہوچکی ہے، برسرِاقتدار رہے۔

حقیقت میں اُن کی واحد کامیابی یہ ہے کہ اُنھوں نے سپریم کورٹ کے ہاتھوں اپنی برخاستگی سے اپنے آپ کو بچایا ہے۔ اس کی قیمت یہ ادا کی گئی ہے کہ ملک کو مزید غیرمستحکم کردیا گیا ہے‘‘۔

کلدیپ نیر، مشرف صاحب کے مداح رہے ہیں، وہ اپنے مضمون میں واشنگٹن پوسٹ کو دیے گئے انٹرویو کی روشنی میں موصوف کی خودپسندی اور خودآرائی پر یوں اظہار کرتے ہیں:

بدقسمتی سے مارشل لا انتظامیہ کی طرف سے دستور میں بار بار ترامیم کی گئی ہیں، لیکن جس انداز سے مشرف نے اِسے مسخکیا ہے وہ سب پر بازی لے گئے ہیں۔ اُنھوں نے ایسے وقت میں عدلیہ کو برباد کردیا کہ جب اس کی آزادی کی طرف جمہوری ممالک بشمول بھارت میں رشک کی نگاہ سے دیکھا جا رہا تھا۔ عدلیہ کے علاوہ مشرف نے میڈیا کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔ اس کے باوجود بھی مشرف نڈر بنے ہوئے ہیں۔ واشنگٹن پوسٹ کو دیے گئے ایک انٹرویو سے اُن کے مستقبل کے عزائم کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ جب اُن سے سوال کیا گیا کہ وہ وردی اُتار دینے کے بعد فرق محسوس کریں گے تو مشرف نے جواب دیا: ’’فوج کا انتظام چیف آف اسٹاف کے حوالے ہے جو اپنے کام سے انہماک رکھتا ہے اور میں پاکستان کا صدر بن جائوں گا۔ اگر دونوں ہم آہنگ رہیں تو صورت حال بہتر رہے گی‘‘۔ پھر ایک اور سوال کے جواب میں اُنھوں نے کہا کہ ’’میں چیف آف اسٹاف کو مقرر کروں گا‘‘۔ اس میں وزیراعظم کا کوئی ذکر نہیں جو عوام کا منتخب نمایندہ ہے۔ ایمرجنسی کا نفاذ اس لیے کیا گیا ہے تاکہ سپریم کورٹ سے اپنے آپ کو بچایا جاسکے۔ (ہندستان ایکسپریس، ۱۳ نومبر ۲۰۰۷ئ)

لندن کا ہفت روزہ دی اکانومسٹ لکھتا ہے:

پاکستان میں نہ جمہوریت ہے اور نہ استحکام۔ جنرل پرویز مشرف کی یہ اُلٹی منطق ہے کہ: آرمی ڈکٹیٹر نے پاکستان کو جمہوریت عطا کی ہے اور مارشل لا کا سایہ بھی موجود ہے تاکہ دستور کی حفاظت کی جائے۔ عدلیہ پر اُنھوں نے جو تازہ ترین حملہ کیا ہے، وہ اُن کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سپریم کورٹ کے انتہائی مؤثر ۱۷ میں سے ۱۲ ججوں کو یک قلم برخاست کرنا ہے۔ ان میں چیف جسٹس افتخار محمد چودھری گرفتار ہیں۔ ان کی جگہ فوج کے منتخب کردہ خوشامدی لگا دیے گئے ہیں۔ اسی وجہ سے جنرل مشرف نے اقتدار پر قبضہ جمایا۔

یہ ہے شخصی حکمرانی کا وہ آہنگ، جو پرویز مشرف کے آٹھ سالہ دورِ حکومت کا حاصل ہے۔ دستور مملکت جس کی پابندی کا حلف اس نے اٹھایا ہے، اس کوبار بار تارتار کرنے کا یہ انداز! مشرف صاحب جب چاہیں تلوار کی نوک سے دستور کے ٹکڑے ٹکڑے کرڈالیں۔جس ادارے کو چاہیں   تباہ و برباد کرڈالیں، جس کی آزادی چاہیں سلب کرلیں، بیرونی حکومتوں سے جو چاہیں عہدوپیماں کرلیں، اپنی ملازمت میں جب چاہیں اور جن مراعات کے ساتھ چاہیں توسیع کرلیں، عدالتِ عالیہ کے جس جج کو چاہیں گردن دبوچ کر باہر نکال دیں، میڈیا پر جب چاہیں من پسند قدغنیں عائد کردیں اور دستور کا حلیہ بگاڑ کر اپنے اقدامات کو خود ہی تحفظ بھی دے ڈالیں___ یہ ہے اس شخص کا طرزِ حکمرانی۔ کیا اس طرزِ حکمرانی میں جمہوریت، قانون کی بالادستی اور اداروں کے استحکام اور انتخابات کے ذریعے سیاسی قیادت کی تبدیلی کا کوئی تصور کیا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بالغ نظر سیاسی رہنما ہوں یا بار اور بنچ (Bar & Bench)کے سوچنے سمجھنے والے عناصر___ سب یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ پرویزمشرف کسی بھی صورت میں منظور نہیں، خواہ وردی میں ہو یا وردی کے بغیر۔ اور عدالتِ عالیہ کو اسی فیصلہ سے روکنے اور اپنی ذات کو ملک پر مسلط کرنے کے لیے ایمرجنسی     اور عبوری دستور جو دراصل پرویزی دستور ی آرڈر (PCO) تھا، اس کا راستہ اختیار کیا گیا۔ اسی  پی سی او کو اب پوری عیاری سے دستور کا حصہ بنا دیا گیا ہے اور انتخابات کا ڈراما اسی کے تحت اسٹیج کیا جارہا ہے۔

۲- ملکی آزادی اور خودمختاری پر زد: پرویزی تلوار کی دوسری زد ملک کی آزادی، حاکمیت اور خودمختاری پر پڑی ہے۔ دوسرے ممالک، خصوصیت سے امریکا اور اس کے زیراثر ممالک، جس درجے میں اور جس نوعیت کی مداخلت کا نشانہ آج پاکستان کو بنا رہے ہیں اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ قائداعظم نے تو لارڈ مائونٹ بیٹن تک کو عارضی طور پر گورنر جنرل ماننے سے انکار کردیا تھا۔ جب اس وقت کی پاکستانی فوج کے برطانوی کمانڈر نے سربراہ ِ مملکت کے احکام ماننے میں تردّد کا راستہ اختیار کیا تو ان سے بھی خلاصی حاصل کرلی گئی، لیکن آج صورت حال یہ ہے کہ امریکا کے سفارت کار وائسراے کا سا مقام حاصل کرچکے ہیں۔ ان کے تیسرے درجے کا افسر بھی صدرِ مملکت، فوج کے سربراہ، آئی ایس آئی کے چیف اور جس سطح کے حکام سے چاہیں ملاقات کرتے ہیں اور احکام جاری کرتے ہیں۔ صدر بش سے لے جارج گیٹس تک کھلے الفاظ میں کہہ رہے ہیں کہ: ہم جب ضرورت سمجھیں گے پاکستان کی سرزمین پر اپنے اہداف کے حصول کے لیے بلاواسطہ فوجی کارروائی کریں گے___ اور وہ صرف یہ دعویٰ ہی نہیں کر رہے، بلکہ عملاً متعدد بار افغانستان سے امریکی اور ناٹو افواج پاکستان کی حدود میں کارروائیاں کرچکی ہیں اور پرویزمشرف کی حکومت کو احتجاج کی توفیق بھی نہیں ہوئی بلکہ چند مواقع پر تو غیرت و حمیت کو دفن کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا گیا:’’ وہ کارروائی امریکا نے نہیں خود ہم نے کی تھی‘‘۔

بات صرف دہشت گردی کے خلاف امریکا کی نام نہاد جنگ اور اس میں پاکستان کے کردار تک محدود نہیں، معاشی پالیسیوں سے لے کر تعلیمی پالیسی تک اور اس سے بھی بڑھ کر اب پاکستان کے لیے مستقبل کی قیادت کا اصل انتخاب اور ان کی ’رسم تاج پوشی‘ تک واشنگٹن کے  دستِ شفقت کے ذریعہ ہو رہی ہے۔ پرویز مشرف کو کن کن کے ساتھ اشتراکِ اقتدار کرنا چاہیے اور امریکا کے چہیتوں کو ملک میں لانے اور اقتدار کے منصب تک پہنچانے کے لیے ان کے کن کن جرائم کو معاف کرنا اور قومی مصالحت کے نام پر کرپشن کے کن کن داغوں کو دھونے اور ملک اور ملک سے باہر مقدمات کو واپس لینا ہے؟ یہ بھی امریکا اور اس کے گماشتوں کے اشاروں پر طے ہو رہا ہے۔ امریکا ہی نہیں اب تو یورپ اور شرق اوسط کے سفرا بھی ملکی سیاست کے دروبست کو اپنے ڈھب میں ڈھالنے میں مصروف ہیں۔ امریکا نے ۲۰۰۷ء میں ایک نہیں بلکہ دو ایسے قوانین دونوں ایوانوں سے پاس کرالیے ہیں، جن کے تحت پاکستان کو دی جانے والی امداد کو صرف دہشت گردی کے خلاف جنگ ہی نہیں، بلکہ ملک کی اندرونی سیاست، تعلیم اور سب سے بڑھ کر ملک میں سیکولرزم اور امریکا کی دل پسند ’روشن خیالی‘ کے فروغ سے مشروط کردیا گیا ہے۔ پرویز مشرف اور ان کے حواریوں کی غیرت نے اس ظلم یا بہ الفاظ صحیح تر غلامی کو بھی گوارا کرلیا ہے اور اس لیے کرلیا ہے کہ تاکہ ہرسال چند سوملین ڈالر حاصل ہوتے رہیں۔ افسوس کا مقام ہے کہ بڑے ہی اہم امور پر   اب ہماری خارجہ سیاست کی صورت گری امریکا اور بیرونی قرضے اور امداد دینے والے ادارے کر رہے ہیں۔ بھارت سے دوستی، کشمیر کے مسئلے پر یو ٹرن اور کشمیر کی تحریک مزاحمت سے بے وفائی، اسرائیل سے پینگیں بڑھانے کا خطرناک اور شرمناک کھیل بھی اسی قوم فروشی کے مظاہر اوراس میں     پرویز مشرف اور خورشید محمود قصوری کے ساتھ بے نظیر بھٹو بھی اپنے اپنے انداز میں اور ’حسب توفیق‘ امریکا اور اسرائیل کی خوش نودی حاصل کرنے کے لیے شریک ہیں۔

یہ صرف پرویز مشرف کے دور میں ہوا ہے کہ پاکستان کے وزیرخارجہ نے اسرائیل کے وزیرخارجہ سے ملاقات کی ہے۔ پرویز مشرف نے امریکن جیوش کانگرس سے نہ صرف خطاب کیا ہے، بلکہ اسرائیل سے سلسلۂ کلام شروع کرنے اور اسرائیل اور فلسطینی قیادت کے درمیان کردار اداکرنے کی باتیں کی ہیں۔ پاکستان نے ۶۰سال میں پہلی بار اقوام متحدہ میں اسرائیل کے پیش کردہ ریزولیوشن کے حق میں ووٹ دیا ہے، جب کہ ان عرب ممالک نے بھی، جو ضمیر کا سودا کرکے اسرائیل کو تسلیم کرچکے ہیں، اس راے شماری کے دوران غیرحاضر رہنے کو ترجیح دی ہے۔ پاکستانی اخبارات میں یہ خبر شائع ہونے نہیں دی گئی کہ نومبر ۲۰۰۷ء میں جان نیگروپونٹے کے دورۂ پاکستان اور پرویز مشرف سے ملاقات سے چند دن پہلے امریکی جیوش کانگرس کی ورلڈ جیوری کے چیئرمین جیک روزن نے خاموشی اور رازداری سے پاکستان کا سفر کیا اور وہ پرویز مشرف صاحب کے علاوہ اس وقت کے ڈپٹی چیف آف اسٹاف جنرل کیانی اور کئی مرکزی وزرا اور اعلیٰ سرکاری حکام سے ملا۔ اس نے امریکا جاکر امریکی لابی کو پرویز مشرف کے حق میں متحرک کرنے کی کوشش کی۔ اس کی تفصیلی رپورٹ یہودی روزنامے Foreward میں شائع ہوئی ہے، جو ۲۱ نومبر ۲۰۰۷ء کے شمارے میں دیکھی جاسکتی ہے۔ (www.foreward.com/articles/12080)

بے نظیر صاحبہ بھی اسرائیلی صدر شیمون پیریس سے اور اقوام متحدہ میں اسرائیل کے سفیر سے بنفس نفیس ملی ہیں اور اقتدار میں آکر اسرائیل کوتسلیم کرنے کے اشارے بھی دے رہی ہے اور محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیرخان کو ’ایٹمی توانائی کی بین الاقوامی ایجنسی‘ (IAEA) کے حوالے کرنے کے عزائم کا بھی اظہار کر رہی ہیں۔

پرویز مشرف اور ان کے حالیہ اور مستقبل کے شریک اقتدار کس کے ایجنڈے پر کام کررہے ہیں اور امریکا کی خوش نودی کے لیے ملک کی آزادی، حاکمیت اور خودمختاری پرسمجھوتوں کو کہاں تک لے گئے ہیں، اس کا پورا اندازہ شاید ان کے اقتدار سے رخصت ہوجانے کے بعد ہی ہوسکے!

۳- نظریاتی اور دینی تشخص کا مجروح ھونا: پرویزی دور کا تیسرا تحفہ ملک کے نظریاتی، دینی اور اخلاقی تشخص کا بری طرح مجروح ہونا ہے۔ مغربی تہذیب و تمدن سے شیفتگی، تعلیم میں سیکولر ازم کا فروغ اور پوری اجتماعی زندگی میں عریانی اور فحاشی کی کھلی چھوٹ کی جو کیفیت آج ہے،پہلے کبھی نہ تھی۔ زندگی کے ہرشعبے کی سیکولر بنیادوں پر تشکیل کی جارہی ہے۔ رواداری اور معروضیت کے نام پر دینی تعلیمات، تہذیبی اقدار، اُمت کے جداگانہ تشخص، اپنے اخلاقی نظام اور رسم و رواج سب کو پامال کیا جا رہا ہے۔ جس قوم کی نئی نسلیں اپنے دین، اپنی تہذیب اور اپنی تاریخ سے واقف نہیں ہوںگی اور ان پر فخر نہیں کریں گی، وہ اپنی آزادی کو کیسے برقرار رکھ سکیں گی اور دنیا پر اپنا نقش کیسے قائم کرسکیں گی۔

بات صرف اس تہذیبی انتشار تک محدود نہیں۔ قوم جو پہلے ہی فرقوں میں بٹی ہوئی تھی، اس میں فرقہ واریت بلکہ فرقہ وارانہ تصادم کو فروغ دینے کا کھیل بھی کھیلا جا رہا ہے۔ اس میں بیرونی ممالک اور ان کے گماشتے (افراد اور این جی اوز) اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ یہ تو قوم کی دینی بصیرت اور دینی جماعتوں اور خصوصیت سے متحدہ مجلس عمل کا کارنامہ ہے کہ فرقہ واریت کی آگ نہ پھیل سکی، ورنہ امریکی پالیسی سازوں اور ملکی ایجنسیوں نے اس آگ کو بھڑکانے میں کوئی کسرنہیں چھوڑی تھی۔

پرویز مشرف نے قوم کو انتہا پسندوں اور روشن خیالوں میں تقسیم کرکے اور ان کو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کرنے کی بھی بہت کوشش کی ہے، اور اس طرح ملک میں نظریاتی   کش مکش کو فروغ دینے کی امریکی حکمت عملی کو آگے بڑھانے میں بڑا خطرناک کردار اداکیا ہے۔ اختلاف راے خواہ سیاسی ہو یا مذہبی اور نظریاتی، ہر معاشرے کا حصہ ہے اور افہام و تفہیم اور    بحث و مذاکرے کے ذریعے ہی فکرانسانی کی ترویج ہوتی ہے۔ مہذب معاشرے کی بنیاد فکرونظر کے تنوع پر ہے اور اسی سے زندگی میں حُسن اور ترقی کے راستے پھوٹتے ہیں    ؎

گل ہاے رنگ رنگ سے ہے زینتِ چمن

اے ذوق، اس جہاں کو ہے زیب اختلاف سے

ہاں یہ ضروری ہے کہ اپنے نظریات کو دوسروں پر مسلط کرنے کی کوشش نہ ہو، تشدد اور قوت کا  استعمال نہ کیا جائے ( لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْن)۔ لیکن حدود کے اندر اختلاف اور تنوع کو انتہاپسندی اور روشن خیالی کانام دے کر، لوگوں کو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کرنا تباہی کا راستہ ہے۔ کسی کی نگاہ میں کیا انتہاپسندی ہے اور کیا روشن خیالی___ یہ حکمران طے نہیں کریںگے، قوم کا ضمیر ہی اس کا فیصلہ کرے گا۔ رواداری ضروری ہے مگر امریکا کے ایجنڈے کے مطابق مسلمان معاشرے اور قوم کو انتہاپسندی اور روشن خیالی کے نام پر تقسیم کرنا اور تصادم کی فضا بنانا، اپنی قوم کے ساتھ ظلم ہے  اور یہ بھی پرویزی دور کا ایک تباہ کن تحفہ ہے اور خود انتہاپسندی اور جبر کی قوت سے اپنی بات دوسروں پر مسلط کرنے کی بدترین مثال ہے۔

۴- اداروں کو کمزور کرنے کی کوشش: چوتھا کارنامہ اس دور کا یہ ہے کہ ایک ایک کر کے ملک کے تمام اداروں کو کمزور، مضمحل بلکہ تباہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے، اور صرف اپنی ذات کو استحکام کا ذریعہ بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں سب سے پہلا نشانہ دستور بنا، پھر سیاسی جماعتوں کی باری آئی۔ الیکشن کے نظام کو صدارتی ریفرنڈم اور پھر ۲۰۰۲ء کے قومی اور صوبائی انتخابات کے موقع پر من مانی اور ایجنسیوں کی دراندازی کی آماج گاہ بنا دیا گیا۔

  • دستور کی پامالی: ۲۰۰۲ء میں پارلیمنٹ وجود میں آئی، مگر اس طرح کہ پہلے سال تو صرف احتجاج ہوتا رہا۔ باقی چار برسوں کی کارکردگی بھی مایوس کن رہی ہے۔ صدر نے پارلیمنٹ کو خطاب کرنے کی دستوری ذمہ داری چار سال تک پوری نہیں کی اور پارلیمنٹ کو ’غیرمہذب‘ کہہ کر نظرانداز کردیا۔ قانون سازی کے لیے صدارتی فرمان کا راستہ اختیار کیا اور ۷۵ فی صد قانون سازی آرڈی ننس کے ذریعے ہوئی۔ سیاسی جماعتوں کو توڑ پھوڑ اور ضمیروں کی کھلی خریدوفروخت کے ذریعے اپنی گرفت میں رکھا گیا۔ قومی اسمبلی کے پانچ سال پورے کرنے کو ایک کارنامے کے طور پر تو پیش کیا جا رہا ہے لیکن اس کا کوئی ذکر نہیں کیا جا رہا کہ اسمبلی نے کتنے دن کام کیا؟ کتنے گھنٹے اپنے فرائض منصبی پورے کرنے کے لیے صرف کیے، کتنی بار کورم ٹوٹا، کُل ارکان میں سے کتنے ایسے ہیں جنھوں نے پانچ سال میں کوئی ایک تقریر بھی نہیں کی، ایک سوال نہیں پوچھا، ایک تحریک نہیں پیش کی؟ اور پھر اسمبلی نے آخری ایام میں ایک نااہل شخص کو صدر منتخب کر کے اور ایمرجنسی اور دستور کی معطلی کی تائید کرکے اپنے منہ پر کتنی کالک ملی؟ پارلیمنٹ کے ادارے کو نیم جان کرنے کے ساتھ ریاست کے دوسرے بنیادی ستون عدلیہ کے ساتھ جو کچھ کیا گیا، وہ عبرت ناک ہے۔ اپنی مرضی کے لوگوں کو عدالت میں مقرر کرنے، چیف جسٹس کو دو بار اوردوسرے ۵۴ ججوں کی برطرفی (جو کُل اعلیٰ عدالتی ججوں کا ۶۰ فی صدہیں) ایک ایسا مجرمانہ فعل ہے جو تاریخ میں سیاہ ترین باب کی حیثیت رکھے گا، اور جس کی مذمت پوری دنیا میں ہوئی ہے۔
  • انتظامیہ کی بے توقیری: انتظامیہ کو اپنی ذاتی پسند اور ناپسند کا تابع بنانا، سرکاری ملازمین کے تبادلے، برطرفی اور ان سے وہ کام لینا جو ان کے منصب سے مطابقت نہیں رکھتا، انتظامیہ کوتباہ کرنے کا نسخہ ہے۔ پھر پبلک سروس کمیشن کو اس زمانے میں عضو معطل بنا دیا گیا۔    اس کے دائرہ کار کو محدود، اس کے ارکان کی مدت کی تخفیف ، اس کو نظرانداز کرکے بلکہ اس کی سفارشات کے برعکس تقرریاں، فوج کے حاضرسروس اور ریٹائرڈ افراد کا تقرر ___ کس کس بات کا رونا رویا جائے۔
  • آزادیِ اظھار پر قدغن: میڈیا ریاست کاایک چوتھا ستون ہے اور اس کی آزادی اور چینلوں کی ترویج کو اپنے ’بڑے کارناموں‘ میں پیش کیا جاتا ہے، مگر جس طرح میڈیا کو لگام دی گئی، ویج بورڈ کے ساتھ جو کچھ کیا گیا، ’پیمرا‘ نے کس طرح اخبارات اور ٹی وی چینلوں کو اپنے شکنجے میں کسا، پولیس نے کس طرح آزاد میڈیا پر یورش کی، ضمیر خریدنے کے لیے کیا کیا پاپڑ بیلے گئے، براہِ راست ٹیلی کاسٹنگ کا کس طرح گلا گھونٹا گیا، صحافیوں پر قیدوبند اور ظلم و تشدد کے کون کون سے ہتھکنڈے استعمال کیے گئے___ اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار اس دور میں ایک دو نہیں ۲۴صحافیوں کواپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑے۔ یہ ہے میڈیا کی ’آزادی‘ کی حقیقت جسے پرویزی دور کا کارنامہ بناکر پیش کیا جاتا ہے۔
  • فوج بحیثیت ادارہ کی چیرہ دستی:مسلح افواج کا محترم ادارہ جس نے اس دور کے حکمران کو اصل قوت فراہم کی، وہ بھی اس دور کی چیرہ دستیوں سے محفوظ نہ رہا۔ جو فوج دفاع وطن کے لیے تیار کی گئی تھی اسے ان دوسرے مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا، جن کے لیے وہ بنائی ہی نہیں گئی تھی اور نہ اس کی اہلیت رکھتی تھی۔ نائن الیون کے بعد فوج کو آنکھیں بند کر کے امریکا کی ’دہشت گردی کے خلاف‘ نام نہاد جنگ میں جھونک دیا گیا۔ جس کے نتیجے میں فوج کے اقدامات اور قوم کے احساسات کے درمیان دُوری رونما ہوئی۔ بلوچستان، وفاقی قبائلی علاقوں اور دوسرے مقامات پر فوج کے استعمال کی قوم ہی نے نہیں خود فوج نے بھی بھاری قیمت ادا کی ہے۔ ایک ہزار سے زیادہ فوجی جوانوں اور افسروں اور اس سے دوگنا یا اس سے بھی زیادہ سویلین افراد بشمول خواتین اور بچوں کی ہلاکت ایک قومی سانحہ ہے۔ اس سے کچھ کم سانحہ یہ نہیں کہ فوج کا جو وقار، اس سے جو محبت قوم کو تھی، اس میں نمایاں کمی آئی ہے۔ راے عامہ کے جائزوں کی رو سے ۱۹۹۹ء میں ۸۰ فی صد آبادی فوج کو سب سے محترم اور قابلِ اعتماد ادارہ قرار دیتی تھی جو ۲۰۰۷ء میں گر کر    ۵۴ فی صد پر آگئی ہے۔ یعنی فوج کے وقار میں ۴۰ فی صد کمی واقع ہوئی ہے، جو بڑا قومی خسارہ ہے۔ بے اعتمادی اب یہاں تک بڑھ گئی ہے کہ وزارتِ داخلہ کو چند ماہ قبل باقاعدہ یہ تحریری ہدایت جاری کرنی پڑی اور فوجی عام پبلک مقامات پر تنہا فوجی وردی میں نہ جائیں، انا للّٰہ وانا الیہ رٰجعون!

ہم نے دل کڑا کر کے یہ صورت حال بیان کی ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ پرویزی دور میں ریاست کے تمام ہی ادارے مجروح اور متزلزل ہوچکے ہیں گویا   ؎

ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں

تڑپے ہے مرغ قبلہ نما آشیانے میں

۵- وفاق کا کمزور ھونا: اس دور کا پانچواں تحفہ فیڈریشن کی کمزوری ہے۔ اولین دومارشل لا، وہ تاریک ادوار ہیں، جب مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان میں بے اعتمادی اور مغائرت واقع ہوئی اور بالآخر بھارت نے اپنی پاکستان دشمنی میں اس کا فائدہ اٹھایا اور قائداعظم کا پاکستان دولخت ہوگیا۔ مشرف کے مارشل لا میں مرکز اور صوبوں کے درمیان بے اعتمادی اور دُوری کی نئی لہر اُبھری ہے اور خصوصیت سے بلوچستان اور سرحد کے صوبوں میں مرکز گریز رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔ اکبربگٹی جو اپنی قوم کا سردار ہی نہیں تھا بلکہ بلوچستان میں فیڈریشن کا نمایندہ بھی تھا، فوج کے ہاتھوں قتل ہوکر مرکز کے خلاف نفرت کا عنوان بن گیا ہے۔ اصلاحِ احوال کی ہرکوشش کو حکمران ٹولے نے سبوتاژ کیا اور بلوچستان اور صوبائی مفاہمت کے لیے پارلیمانی کمیٹی نے جو محنت کی، وہ سب رائیگاں گئی۔ صوبوں کو ان کے وسائل پر اختیار حاصل نہیں ہے اور دستور کے مطابق جو رائلٹی اور ملازمتوں میں حصہ انہیں ملنا چاہیے، وہ نہیں مل رہا، اور سارے دعووں کے باوجود حالات میں سرِمو فرق واقع نہیں ہو رہا۔ مرکز کی بے حسی کا یہ عالم ہے کہ وزیراعظم اور صوبائی حکومت کے باہم اتفاق راے سے بجلی کے نفع میں صوبہ سرحد کے حق کے تعین کے لیے جو ثالثی ٹربیونل بنا تھا اور جس کا متفقہ اوارڈ آیا، اس تک پر عمل نہیں کیا گیا۔

فیڈریشن آج جتنی کمزور ہے اتنی کبھی نہ تھی___ یہ ہے اس دور کا حاصل!

۶- حقیقی معاشی ترقی سے محرومی: اس دور کا چھٹا تحفہ یہ ہے کہ معاشی اور مالیاتی وسائل کا جو سیلاب آیا اور کسی محنت اور پالیسی کے نتیجے کے بغیر ۶۵ ارب ڈالر کی جو مالی کشادگی حاصل ہوئی، اسے حقیقی معاشی ترقی اور عوام کی خوش حالی کے حصول کے لیے استعمال نہیں کیا گیا۔ معاشی ترقی کا سارا رخ آبادی کے ۱۰سے ۱۲فی صدطبقات کے لیے مخصوص کردیا گیا۔ باقی ملک کی عظیم اکثریت کے حصہ میں جو کچھ آیا ہے وہ بے روزگاری، افراطِ زر، اشیاے ضرورت کی کمیابی، تعلیم اور صحت کی سہولتوں کا فقدان، زراعت کی ضرورتوں سے اغماض، تجارتی اور ادایگیوں کے  عدم توازن میں ناقابلِ برداشت اضافہ، بیرونی دنیا پر انحصار کی محتاجی، ملکی اور بیرونی قرضوں میں بڑھوتری اور معیشت اور زندگی کی ہر سطح پر کرپشن میں محیرالعقول اضافہ___ عام آدمی کی زندگی اجیرن ہوگئی ہے اور ۸۰فی صد آبادی کے لیے حالات میں کوئی تغیر نہیں ہوا یا مزید خراب ہوگئے۔

پلاننگ کمیشن کا وہ سروے جس کی بنیاد پر دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ غربت میں کمی ہوئی ہے  اس میں یہ صورت حال سامنے آئی ہے کہ آبادی کے ۵۰ فی صد کا دعویٰ ہے کہ اس کے حالات میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ ۲۸ فی صد آبادی کہتی ہے کہ ہمارے حالات بدتر ہوگئے ہیں اور جن کی حالت کسی درجے میں بہتر ہوئی ہے، وہ بمشکل ۲۰ سے ۲۳ فی صد ہے۔اس میں بھی اوپرکے      ۱۰ فی صد ہی اصل فائدہ اٹھانے والے ہیں۔ یہی بات عالمی بنک اور ایشیائی ترقیاتی بنک کے سروے سے معلوم ہوتی ہے۔گویا معاشی ترقی کے سارے دعووں کے باوجود اس دور کا اصل تحفہ غریبوں کا غریب تر ہونا اور امیروں کا امیر تر بن جانا ہے۔

۷- فوجی مداخلت کا دائرہ اثر بڑہانا: پرویزی دور کا ساتواں تحفہ سیاست میں فوج کی مداخلت اور فوج کو سیاست، معیشت، انتظامیہ غرض ہر اہم شعبے میں ایک باقاعدہ رول اداکرنے کی کوشش ہے، جس نے دستور میں طے کردہ نظامِ کار کو درہم برہم کردیا ہے، اور فوج کے بارے میں جو تاثر عام ہے وہ سابق خارجہ سیکرٹری ڈاکٹر تنویراحمد خان کے ایک حالیہ مضمون میں کچھ     اس طرح بیان کیا گیا ہے:

مسلح افواج پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ ۲۰ ارب ڈالر کے برابر اثاثوں اور ایک کروڑ ۲۰لاکھ ایکڑ اراضی کی مالک بن چکی ہے۔ چنانچہ وہ بدعنوانی کے معاملات میں سب سے زیادہ نمایاں ہوچکی ہے۔

اس جلتی پر تیل کا کام پرویزمشرف کے اس فلسفے نے کیا ہے کہ ملک میں اقتدار کے تین سرچشمے ہیں: صدارت، فوج کا سربراہ اور وزیراعظم جسے وہ Troika (تکونی حکمرانی) کہتے ہیں۔ وہ ان کے درمیان یک رنگی کو استحکام کی شرط قرار دیتے ہیں۔ اپنے اس فلسفے کا اظہار وہ بار بار کرتے رہے ہیں، لیکن اس کا تازہ ترین اعلان واشنگٹن پوسٹ اور بی بی سی کو انٹرویو میں کیا ہے۔ حالانکہ پارلیمانی جمہوریت میں اقتدار کا مرکز اور محور پارلیمنٹ اور ان کا منتخب کردہ وزیراعظم ہوتا ہے۔ دستور کے تحت صدر کو غیرمتنازع شخصیت کا حامل ہونا چاہیے اور وہ فیڈریشن کی علامت ہے کسی حکمرانی کی تکون کا حصہ نہیں۔

رہی فوج تو دستور کے تحت وہ سول حکومت کے ماتحت ہے، خود مرکز اقتدار نہیں۔ بلاشبہہ ’نگرانی اور توازن‘ (checks and balances )کا نظام دستوری حکومت کا خاصہ ہے، لیکن ’نگرانی اور توازن‘ کا یہ نظام مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ کے اختیارات کے ذریعے کارفرما ہوتا ہے۔ اس میں صدر اور فوج کا کوئی آزادکردار نہیں۔ پرویز مشرف کے ’تکونی حکمرانی‘ کے تصور نے دستور کے طے کردہ نظام کو جس پر قوم کا اتفاق راے ہے اور جو ایک معاہدۂ عمرانی کی حیثیت رکھتا ہے، درہم برہم کردیا ہے اور دراصل انتشار کی یہی اصل وجہ ہے۔ پرویز مشرف کی موجودگی میں دستور اپنی اصل شان میں کارفرما ہو ہی نہیں سکتا۔ اس لیے اصل مسئلہ دستور کی بحالی، عدلیہ کی ۲نومبر ۲۰۰۷ء کی حیثیت میں بحالی اور فوج کو دفاع تک محدود کرنا ہے جس کے لیے پرویز مشرف کے تصور حکمرانی کو مکمل طور پر رد کرنا اور جو بھی اس کا داعی ہو اس کو اقتدار سے فارغ کرنا ضروری ہے۔

  • سیاسی جماعتوں کے بدلتے موقف:ایمرجنسی کے نفاذ، دستور معطل کرنے، عبوری دستور نافذ کرنے، عبوری دستور کے نام پر اصل دستور میں ایسی بنیادی تبدیلیاں کرنے سے اس دستور کا حلیہ خراب ہوگیا ہے اور اس پر ایک  ’تکون‘ کو مسلط کردیا گیا ہے اور پھر اس مسخ شدہ دستور (vandalized constitution) کے تحت ان کی پسند کی عبوری حکومت اور ان کے انگوٹھے تلے کام کرنے والے الیکشن کمیشن کے ذریعے انتخابات کا ناٹک رچا کر اپنے نظام کو چلانے والے لوگوں کو منتخب کرانا ان کا ایجنڈا ہے۔ پرویز مشرف کی اصل ضرورت ایک ایسی تابع مہمل پارلیمنٹ اور ایسی تابع فرمان مرکزی اور صوبائی اسمبلیاں ہیں، جو اُن مذموم آمرانہ، غیر جمہوری اور غیرقانونی مقاصد کو پورا کرسکیں۔اپنی گرتی ہوئی مقبولیت کے پیش نظر وہ اپنے اصطبل میں کچھ اور گھوڑوں کا اضافہ تو کرنے کو تیار ہیں اور اس کے لیے امریکا کے اشارے یا حکم پر، کچھ دوسری لبرل اور سیکولر قوتوں کو اپنی شرائط پر شریکِ اقتدار کرنے کوبھی تیار ہیں، مگر وہ اپنے اندر دستور کی پاس داری کا کوئی داعیہ نہیں پاتے اور نہ عوام کے حقیقی نمایندوں کے اقتدار سنبھالنے کی ان کے نظام میں کوئی گنجایش ہے، اس لیے انھوں نے تین کام کیے ہیں:

ا- دستور میں ایسی تبدیلیاں، جن کے نتیجے میں یہ دستور پارلیمانی جمہوریت کے بجاے صدارتی اور شخصی حکمرانی کی راہ ہموار کرسکے اور کوئی ان پر گرفت کرنے والا نہ ہو۔ خصوصیت سے آزاد عدلیہ کو تباہ کرکے اپنے نامزد ججوں پر مشتمل ایسی عدلیہ کو وجود میں لانا، جو موم کی ناک ہو اور ان کے ہراقدام پر مہرتصدیق ثبت کرنے والی ہو۔

ب- عبوری حکومت اور تابع فرمان الیکشن کمیشن اور انتظامیہ کے ذریعے ایسی قومی اور صوبائی اسمبلیوں کا انتخاب جو ان کے احکام کے مطابق خدمت انجام دے سکیں۔آج خود     پرویز مشرف کے اپنے سیاسی وجود کا انحصار ان کی مفید مطلب پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے وجود میں آنے پر ہے اور یہی وجہ ہے کہ انتخابات میں دھاندلی ان کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ بن گئی ہے۔

ج- امریکا اور مغربی اقوام سے اپنے لیے ’نئی زندگی اور ہنگامی غذا‘  کا حصول۔ اس سلسلے میں صدربش اور کونڈولیزارائس نے بالکل کھل کر تائید کردی ہے۔ بش نے ایک بار پھر پرویز مشرف کو جمہوریت پسندی کا سرٹیفیکیٹ جاری کیا ہے۔ امریکی نائب وزیرخارجہ بائوچر نے صاف کہا کہ انتخابات بے عیب نہیں ہوں گے، لیکن اس کے باوجود امریکا کے لیے قابلِ قبول ہوں گے (flawed but acceptable)۔ برطانوی ہائی کمشنر نے صراحت سے کہہ دیا ہے کہ عدلیہ کا مسئلہ پاکستان کا اندرونی مسئلہ ہے اور گویا عدلیہ کی آزادی اور عدلیہ کی ۲نومبر کی پوزیشن میں بحالی دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ دراصل مشرف صاحب کی شخصی آمریت کے جاری رہنے کی راہ میں سب سے بڑا خطرہ ایک تو عوامی غیظ و غضب ہے اور اس کے بعد عدلیہ کی اس شکل میں بحالی ہے جو ۲نومبر ۲۰۰۷ء کو وجود تھی اور جس عدلیہ نے دستور سے ماورا اقدامات پر احتساب کا عمل شروع کردیا تھا۔ نیز انتخابات میں دھاندلی (رگنگ) کے ذریعے من پسند (انجینیرڈ) نتائج حاصل کرنے کی راہ میں بھی سب سے بڑا خطرہ وہی عدلیہ تھی، جس نے اپنی آزادی کے مقام کو پہچان لیا تھا۔شخصی حاکمیت کے لیے دستور کی ایک محافظ عدلیہ ناقابلِ برداشت تھی، اور ہے۔ اس کا بڑا تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ جمہوریت کا دعویٰ کرنے والے امریکا اور مغرب کے حکمران محض اپنے اپنے مفادات کے کھیل میں عدلیہ کی بحالی کے باب میں خاموش ہیں، اور ملک کی وہ تمام سیاسی قوتیں جو یا      پرویز مشرف کے ساتھ شریکِ اقتدار رہی ہیں یا شرکت کی توقع رکھتی ہیں وہ بھی خاموش ہیں، یا کہہ مکرنیوں سے کام لے رہی ہیں۔ پیپلزپارٹی کی قیادت کا معاملہ اس سلسلے میں سب سے زیادہ مخدوش ہے ۔ ایک طرف بے نظیرصاحبہ سے ۷نومبر کو جب مشرف کی اہلیت اور نئے آرڈی ننس جیسے اہم مسائل کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے کہا کہ ’’میں صرف یہ چاہتی ہوں کہ گرفتار شدہ عدلیہ اس مسئلے کا فیصلہ کرے اورجو فیصلہ بھی وہ کرے وہ اسے قبول کرلیں گی‘‘۔

پھر ۱۱نومبر کو بے نظیر صاحبہ ، سپریم کورٹ کے ججوں کے رہایشی علاقے میں گئیں۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری سے نہ مل سکیں، مگر برملا کہا:

چیف جسٹس افتخار محمد چودھری اور وہ تمام جج حضرات جنھوں نے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کردیا ہے، ان کو بحال کردیا جائے اور اُن کی نظربندی کے احکامات واپس لیے جائیں۔

مگر پانچ چھے روز بعد ۱۶ نومبر ۲۰۰۷ء کو ایک سیاسی زلزلہ آیا۔ جان نیگرو پونٹے پاکستان پر نازل ہوئے۔ ۱۷ نومبر کو انھوں نے بے نظیر صاحبہ سے ٹیلی فون پر بات کی اور پھر عدلیہ کی بحالی پر ان کا موقف تبدیل ہوگیا، بلکہ چارٹر آف ڈیمانڈ کے لیے بھی سب سے اہم اختلافی نکتہ یہی بن گیا کہ پیپلزپارٹی عدلیہ کی آزادی کی بات تو کرتی ہے مگر بحالی کو قبول نہیں کرسکتی اور بالآخر ۱۳ دسمبر کو انھوں نے کراچی میں برملا کہہ دیا:

جج حضرات آتے جاتے رہتے ہیں___جسٹس سلیم الزمان صدیقی اور ناصراسلم زاہد کی طرح جنہوں نے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کردیا۔ اگر کوئی جج سیاست کرنا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ اپنی سیاسی جماعت بنا لے۔

یہ ہے وہ دل خراش داستان، جسے سمجھے بغیر انتخابات میں شرکت اور بائیکاٹ کے درمیان انتخاب کے فیصلہ کن رویہ کے بہت سے پہلو واضح نہیں ہوتے۔ پرویز مشرف کا ایجنڈا اور سیاسی جماعتوں میں سے کچھ کے بدلتے ہوئے موقف، اپنے اندر غوروفکر کے بہت سے گوشے رکھتے ہیں۔

موجودہ حالات کا تقاضا

پرویز مشرف کے اقتدار کے بچائو اور تسلسل کے عزائم کی تکمیل کا انحصار صرف ان تین چیزوں پر ہے، جس کا ہم بار بار ذکر کر رہے ہیں:

                ۱-            عدلیہ ان کی تابع مہمل رہے، جو اسی وقت ممکن ہے جب ۲ نومبر کی عدلیہ بحال نہ ہو اور پرویز مشرف کے بنائے ہوئے دستوری عفریت (constitional monstocity)کو تحفظ حاصل رہے۔

                ۲-            انتخابات کی منصوبہ بند دھاندلی (انجینیرڈ رگنگ) کے ذریعے ان کے مفیدمطلب پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیاں وجود میں آجائیں۔

                ۳-            امریکا اور مغربی اقدام کی تائید انھیں حاصل رہے۔

اس تجزیے کا ناقابلِ انکار منطقی تقاضا یہ ہے کہ ایسے انتخابات کے جال میں نہ پھنسا جائے، جو اس ایجنڈے کی تکمیل میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں اور ساری توجہ اس پر مرکوز کی جائے کہ:

  • عدلیہ اپنی اصل شکل میں بحال ہو اور پرویز مشرف کا بنایا ہوا یہ گھروندا زمین بوس ہوجائے تاکہ دستور کی اس شکل میں بحالی ہوسکے جو ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء کو اس کی تھی۔ خصوصیت سے جو اقدامات ۳نومبر ۲۰۰۷ء سے ۱۵ دسمبر تک کیے گئے ہیں وہ کالعدم ہوںاور کسی شکل میں بھی ان کو تحفظ نہ دیا جائے، اس کے بغیردستور کے تحت سیاسی نظام بحال نہیں ہو سکتا۔
  • انتخابات کا انعقاد دستور کے مطابق ہو اور اس صورت میں ہو کہ انھیں آزاد، منصفانہ اور شفاف قرار دیا جاسکے۔ اس کے لیے غیر جانب دار عبوری حکومت کی تشکیل، آزاد، بااختیار اور اعتماد کا حامل الیکشن کمیشن بشمول چیف الیکشن کمشنر اور اس کے ماتحت کام کرنے والی پوری انتخابی مشینری کا شکوک و شبہات سے بالاتر ہونا ہے۔ نیز فہرستوں سے لے کر پولنگ اسٹیشنوں کی درستی، پولنگ کے انتظامات، بوگس ووٹ اور بوگس اسٹیشنوں کا سدباب اور صحیح گنتی وغیرہ تمام امور کا صحیح خطوط پر طے ہونا اور شفاف انداز میں ان پر عمل درآمد اور انتخابات کے موقع پر امن و امان اور قوت کا استعمال کرنے والے عناصر خصوصیت سے ایم کیو ایم اور وڈیروں اور چودھریوں کی پرائیویٹ افواج کے مقابلے کا انتظام شامل ہے۔
  • تیسری چیز انتخابی عمل میں بیرونی قوتوں اور ایجنسیوں کی دراندازی کا مکمل خاتمہ اور خصوصیت سے امریکا کے پاکستان کے اندرونی معاملات میں کردار کی نفی ___ امریکا اپنی نام نہاد جنگ کی خاطر پاکستان سے اپنی کالونی کے طورپر معاملہ کررہا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے عوام جن کی ۹۴ فی صد آبادی امریکی کھیل پر سخت برہم ہے ، اسے لگام دینا چاہتی ہے اور اپنی قسمت کے فیصلے اپنے ہاتھوں کرنا چاہتے اور ان افراد سے نجات کے لیے کوشاں ہیں جو واشنگٹن سے احکامات لے رہے ہیں یا لینے کے لیے تیار ہیں۔

۸ جنوری ۲۰۰۸ء کے انتخابات کے بارے میں ملک کی ہر جماعت ماسواے مشرف حکومت کے سابقہ شرکا برملا اظہار کر رہی ہے کہ انتخابات کے آزاد اور منصفانہ ہونے کا کوئی امکان دُور دُور تک نہیں۔ حد یہ ہے کہ پرویزی جماعتوں میں سے بھی کچھ چیخ اُٹھی ہیں، جیساکہ مسلم لیگ فنکشنل پنجاب کے صوبائی صدر احمدمحمود کا بیان ہے جس میں انھوں نے دعویٰ کیا ہے کہ چودھری پرویز الٰہی اس وقت بھی عملاً وزیراعلیٰ کے طور پر کام کر رہے ہیں اور پوری انتظامی مشینری ان کے زیرتصرف ہے۔ اس پر دی نیشن نے اپنے ادارتی کالم میں یوں اظہار کیا ہے:’’احمد محمود کے بیان کا خصوصی وزن ہے کیونکہ اُن کی پارٹی صدر مشرف کی حمایت کر رہی ہے‘‘۔

تقریباً تمام عوامی سروے یہی صورت حال پیش کرتے ہیں، انتخابات آزادانہ اور منصفانہ نہیں ہوسکتے، اور بائیکاٹ ہی وہ راستہ ہے جس سے بالآخر انتخابات کو آزاد اور شفاف بنانے کا کوئی امکان ہوسکتا ہے۔

آئی آر آئی کے سروے کے مطابق ۶۶ فی صد عوام کی راے میں ایمرجنسی کے نظام تلے انتخابات آزادانہ اور منصفانہ نہیں ہوسکتے۔ گیلپ پول کے مطابق ۵۶ فی صد لوگ ۸ جنوری کے انتخابات کے بائیکاٹ کے حق میں ہیں، جب کہ ۴۱ فی صد کا خیال ہے کہ الیکشن میں حصہ لینا چاہیے۔ آئی آر آئی کے سروے کے مطابق ۶۲ فی صد افراد نے بائیکاٹ کے حق میں راے دی جب کہ ۳۷ فی صد نے اس کے خلاف راے دی۔ لطف کی بات ہے کہ پی پی پی اور مسلم لیگ ن دونوں کے حامیوں میں بائیکاٹ کے حق میں راے دینے والوں کی تعداد ۷۴ فی صد تھی۔ آئی آر آئی کے سروے میں ۷۲ فی صد نے پرویز مشرف کے خلاف ووٹ دینے کا عندیہ ظاہر کیا ہے کہ ان میں سے بھی ۶۱ فی صد بہت سختی سے پرویز مشرف کے دوبارہ منتخب ہونے کی مخالف ہیں جبکہ ۶۷فی صد کی خواہش ہے کہ مشرف فوری طور پر مستعفی ہوجائیں۔ عوام پرویز مشرف اور بے نظیر صاحبہ کے اشتراک اقتدار کے بھی خلاف ہیں اور اس سروے میں۶۰ فی صد نے مشرف اور بے نظیر کی مفاہمت کی مخالفت کی ہے۔

ملک اور ملک کے باہر تجزیہ نگاروں کی بڑی اکثریت بھی کھلے بندوں اس راے کا اظہار کررہی ہے کہ انتخابات دھاندلی زدہ اور ناقابلِ اعتماد ہوں گے، اور نتیجتاً سیاسی صورت حال کے  حل کے لیے غیر مؤثر ثابت ہوں گے۔ صرف چند آرا ملاحظہ فرمائیں:

جوں جوں ۸جنوری قریب آرہی ہے دھاندلی کے الزامات میں قوت آتی جارہی ہے۔ بدھ کے روز نیویارک میں قائم حقوق گروپ نے کہا کہ آزاد اور شفاف انتخابات   ممکن نہیںہوں گے، کیونکہ حکومت نے ججوں اور وکیلوں پر کریک ڈائون کیا ہے۔  ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ ایمرجنسی کے اُٹھا لیے جانے کے بعد کئی جج اور وکیل ابھی تک گرفتار ہیں۔ یہ تو ایک غیرملکی گروپ کے خیالات ہیں لیکن سیاسی جماعتیں بھی ہر روز اس خوف کا اظہار کر رہی ہیں کہ ۸جنوری کے انتخابات میں دھاندلی ہوگی۔(روزنامہ ڈان، ایڈیٹوریل ۲۱ دسمبر ۲۰۰۷ئ)

سیاسیات کے پروفیسر محمد وسیم نے لکھا: ’’اس پر کم و بیش اتفاق راے پایا جاتا ہے کہ پاکستان میں ۸ جنوری ۲۰۰۸ء کو ہونے والے انتخابات اپنی نوعیت کے لحاظ سے ’مذاق‘ ہوں گے‘‘۔(روزنامہ ڈان، ۱۲ دسمبر ۲۰۰۷ئ)

واشنگٹن پوسٹ ۱۲ دسمبر ۲۰۰۷ء میں گریفے ود ھ(Griffe Withe) نے لکھا ہے کہ: ’’آزاد ماہرین کا خیال ہے کہ اس کے بہت کم امکانات ہیں کہ انتخابات آزادانہ یا منصفانہ ہوں، نیز یہ کہ انتخابی نتائج کو تبدیل بھی کیا جاسکے گا اور ان کو عدالتوں میں چیلنج بھی نہ کیا جاسکے گا‘‘۔

تمام اہم اخبارات و رسائل بشمول وال اسٹریٹ جرنل، دی گارڈین، بوسٹن گلوب، دی اکانومسٹ، فارن پالیسی بیک زبان انتخابات کے دھاندلی زدہ اور     ناقابلِ اعتماد ہونے کی بات کر رہے ہیں اور یہی بات بے نظیر بھٹوصاحبہ اور نواز شریف صاحب بھی کہہ رہے ہیں۔ پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اتنی واضح بات کے باوجود انھوں نے اپنی ہی قائم کردہ کمیٹی کے مرتب کردہ چارٹر آف ڈیمانڈ کو کیوں نظرانداز کردیا جو انتخابات کو منصفانہ اور شفاف بنانے کے لیے تقریباً متفقہ طورپر تیار کیا گیاتھا ، اور آنکھیں بند کرکے انتخابات میں کود پڑے، اور اس تاریخی موقع کو ضائع کردیا جو بائیکاٹ کی شکل میں پرویز مشرف کے پورے کھیل کا پردہ چاک کرنے کا ان کو حاصل تھا۔

ملکی مستقبل پر نظر رکہنے کی ضرورت

ہماری بحث کا حاصل یہ ہے کہ غلط نظام کے تحت دھاندلی زدہ انتخابات میں شرکت سے یا اس کے بعد بننے والی اسمبلی کے ذریعہ نظامِ کار کی درستی کا کوئی امکان نہیں، انتخابات کے بعد تبدیلی کا خیال محض ایک واہمہ ہے، کہ بار بار کے تجربوں کے بعد بھی ہماری سیاسی جماعتوں کی آنکھیں ابھی تک نہیں کھلیں، اور ایک ہی سوراخ سے بار بار ڈسے جانے کے لیے وہ بے چین ہیں۔ معیاری صورت صرف بائیکاٹ کی ہے، لیکن اس زریں موقع کو بیش تر سیاسی جماعتوں نے اقتدار میں شرکت کے خواب، یا اپنے جوشیلے کارکنوں کے دبائو میں ضائع کردیا۔ حالانکہ اے پی ڈی ایم،ججوں کی بڑی تعداد، پوری لیگل کمیونٹی اور سول سوسائٹی کے ذمہ داروں کے علاوہ آزاد سیاسی تجزیہ نگاروں نے بھی بروقت متنبہ کردیا تھا کہ یہ الیکشن دھوکہ ہوں گے اورصرف تماشے (fair) کے معنی میں فیئر ہوسکتے ہیں! اس لیے کہ اب آزاد عدلیہ کے بغیر آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے منعقد ہونے یا انتخابی  بے ضابطگیوں اور غلط کاریوں کے سدباب کی کوئی سبیل نہیں ہوسکتی۔

ہمیں اعتراف ہے کہ یہ بڑا نازک اور مشکل مرحلہ تھا اور بلاشبہہ دونوں طرف کچھ نہ کچھ دلائل اور سیاسی مصالح موجود ہیں۔ لیکن اس تاریخی لمحہ میں اصل انتخاب تو اصول اور مصلحت کے درمیان ہے۔ قوم کے سامنے مسئلہ ان دونوں میں سے کسی ایک راستے کو منتخب کرنے کا ہے۔، ہمیں خوشی ہے کہ اے پی ڈی ایم کی بیش تر جماعتوں نے اصول کی سیاست کو، مفاد کی سیاست پر ترجیح دے کر قوم کے سامنے ایک ایسی متبادل سیاست کی راہ کو روشن کردیاہے، جس کی تمنا تو ۶۰سال سے کی جارہی تھی، مگر اس طرف مؤثر اور قابلِ لحاظ قوت کے ساتھ پیش قدمی نہیں ہو پارہی تھی۔ نظریۂ ضرورت کی گرفت سے نکلنا آسان نہیں تھا اور انتخابی حلقے کے دبائو (pressure) سے بالا ہوکر ملک اور قوم کی قسمت اور مستقبل کے ایک اصولی نقشے کے مطابق تعمیر کے جاں گسل راستے کی طرف پیش رفت کا فیصلہ بھی آسان نہیں تھا ___ لیکن وقت کی اصل ضرورت یہی تھی کہ وقتی فوائد کے مقابلے میں قوم کو اس کام اور جدوجہد کے لیے تیار کیا جائے جس کے بغیر اصول، انصاف اور حق پرستی پر مبنی نظامِ سیاست وجود میں نہیں آسکتا یہ فیصلہ انشاء اللہ ملکی سیاست میںایک بالکل نئے باب کے اضافے کا موجب ہوگا۔

جن جماعتوں نے بائیکاٹ کا راستہ اختیار کیا ہے، ان کے عوام میں اثرات ہیں اور انھیں علم ہے کہ ان کے لیے ایک معتدبہ تعداد میں مرکزی اور صوبائی نشستیں جیتنا ممکن تھا، لیکن ان کی نظر صرف ۸ جنوری پر نہیں، بلکہ ملک کے مستقبل کے نظام اور عوام کے حقیقی مسائل اور ان کو حل کرنے والی قیادت اور جدوجہد پر ہے، فوری اقتدار یا اقتدار میں شرکت پر نہیں۔محض اقتدار مطلوب نہیں، اقتدار وہی مطلوب ہے اور وہی ذریعہ خیر بن سکتا ہے جو ایک حقیقی اسلامی، جمہوری، وفاقی اور فلاحی معاشرے اور ریاست کے قیام کو آسان اور ممکن بنائے۔ اس کے لیے صحیح ایشوز کا تعین، صحیح موقف کا اختیار، صحیح خطوط پر عوام کی تنظیم اور ان مقاصد کے حصول کے لیے مؤثر سیاسی جدوجہد برپا کرنا ضروری ہے۔ کسی کو یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ جو لوگ نظریاتی کارکن ہیں اور برسوں سے   دعوتی اور سیاسی میدان میں کام کر رہے ہیں اور جو بائیکاٹ کے باوجود عوام میں ہیں اور عوام کو اپنے ساتھ لے کر چل رہے ہیں، انھیں وقتی اور ہنگامی قوتیں میدان سے باہر کرسکتی ہیں۔ ایسی قوتیں خودرو پودوں کی طرح اُبھرتی ہیں اور مرجھا جاتی ہیں، لیکن نظریاتی بنیادوں پر کام کرنے والوں کے کام کو الحمدللہ دوام حاصل ہے، اور بالآخر وہی کامیاب ہوں گے۔

  • بائیکاٹ، میدان چہوڑنا نھیں: بائیکاٹ کے معنی میدان چھوڑنا نہیں، بلکہ میدان میں اور زیادہ سرگرمی کے ساتھ مصروفِ کار ہونا ہے۔ جیسا ہم نے عرض کیا یہ احتجاج کا ایک ذریعہ اور اصل مقاصد کی طرف لوگوں کو دعوت دینے کا اسلوب اور پروگرام ہے۔ اس کے ذریعے عوامی رابطے کی مہم اور زیادہ مؤثر بنائی جاسکتی ہے اور ۸جنوری کو بھی کامیابی سے مسخر کیا جاسکتا ہے۔ ۸جنوری کے بعد جو حالات رونما ہونے والے ہیں اور جو فیصلہ کن دور اس کے بعد شروع ہوگا، اس میں بھرپور کردار ادا کرنے کا آغاز اس بائیکاٹ کی مہم کا حصہ ہے۔ اس امر میں شبہے کی کوئی گنجایش نہیں کہ ۸جنوری کے انتخابات ایک دھوکا ہوں گے اور جو آج بڑے شوق سے ان میں حصہ لے رہے ہیں، وہ بھی اس ڈرامے کے بعد اپنی غلطی کو محسوس کر رہے ہوں گے۔ ان کے نتیجے میں جو پارلیمنٹ بنے گی وہ نہ قانونی طور پر جائز ہوگی اور نہ ملک کو قابلِ اعتماد رہنمائی ہی دے سکے گی۔ جن سات چیلنجوں کی ہم نے نشان دہی کی ہے وہ اور بھی زیادہ گمبھیر شکل اختیار کرلیں گے۔ حالات اشارہ کر رہے ہیں کہ دھاندلی کے باوجود اسمبلی میں غالباً کسی کو بھی واضح اکثریت حاصل نہیں ہوسکے گی جس کے بعد ایک طرف حکومت سازی کے لیے سیاسی انجینیرنگ کا نیا دور شروع ہوگا تو دوسری طرف شخصی آمریت کے خلاف اور حقیقی جمہوریت کے قیام، عدلیہ کی بحالی اور حقوق کے تحفظ اور سماجی انصاف کے حصول کی جدوجہد نئی قوت سے اُبھرے گی۔
  • سیاسی قیادت کا امتحان: اس وقت ملک کی تمام سیاسی قوتیں اور جماعتیں چار گروپوں میں قوم کے سامنے آچکی ہیں۔ ایک گروپ وہ ہے جو پرویز مشرف کی اصل سیاسی فوج ہے اور جس میں مسلم لیگ ق، پیپلزپارٹی شیرپائو اور ایم کیو ایم شامل ہیں۔ یہ مشرف کے اصل ساتھی ہیں اور مشرف کے ساتھ ہی ان کا بھی زوال مقدر ہے۔

دوسری قوت پی پی پی، اے این پی، جمعیت علماے اسلام (ف) وغیرہم ہیں جو اپنے نظریاتی، سیاسی اور علاقائی اختلافات کے باوجود اشتراکِ اقتدارہی کی راہ پر گامزن ہیں۔ یہ ایک طرح پرویز مشرف کے ساتھ بھی ہیں اور اس کی مخالفت کا بھی دم بھر رہے ہیں۔مشرف کے دام سیاست میں داخل بھی ہوگئے ہیں اور اس کو توڑنے کی  بھڑک کا بھی سہارا لے رہے ہیں۔ نیتوں کا حال تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے، لیکن عملی سیاست کے نقطۂ نظر سے یہ مشرف ہی کے ایجنڈے پر اپنے اپنے انداز میں کام کررہے ہیں اور اسی کے دیے ہوئے نقشے میں اپنا مقام بنانے کی کوشش کر رہے ہیں اور ان میں سے کچھ وہ بھی ہیں جو اپنی قیمت بڑھا کر اقتدار میں اپنا حصہ حاصل کرنے ہی کو اپنا اصل ہدف بنائے ہوئے ہیں۔ یہ سارے تضادات ان کا اوڑھنا بچھونا ہیں۔یہ بظاہر ’اینٹی مشرف‘ ہیں لیکن فی الحقیقت ’پرو مشرف‘ کردار ادا کر رہے ہیں___ کل یہ مشرف کی ٹیم کا حصہ بھی بن سکتے ہیں اور اس سے الگ بھی راستہ اختیار کرسکتے ہیں۔گویا  ع

جناب شیخ کا نقش قدم یوں بھی ہے اور یوں بھی

تیسرا گروہ وہ ہے جس کا مرکزی کردار مسلم لیگ (ن) ہے۔ اس نے اپنا اینٹی مشرف موقف برقرار رکھا ہے اور عدلیہ کی بحالی کو بھی اپنے ایجنڈے میں سرفہرست رکھا ہے۔ لیکن نظام باطل سے مزاحمت کے بجاے اس کے اندر جاکر تبدیلی کا راستہ چنا ہے، جس نے ان کو بھی تضادات کی دلدل میں جھونک دیا ہے اور ان کے  لیے امکانات کی دنیا کو بھی محدود کردیا ہے۔ ان کا یہ رویہ فکری اور عملی یکسوئی سے بھی محرومی کا باعث ہے۔ لیکن اس امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ ۸جنوری کے بعد یا شاید اس کے بھی پہلے یہ اپنے لیے ایک دوسرے کردار کی تلاش پر مجبور ہوجائیں ۔

رہا چوتھا گروہ تو وہ پوری یکسوئی کے ساتھ مشرف کے بنائے ہوئے نظام کو چیلنج کر رہا ہے اور دستور کی بحالی، عدلیہ کی آزادی اور ۲نومبر کی حیثیت میں عدلیہ کی بحالی اور غیرجانب دار قومی حکومت کے ذریعے نئے انتخابات اور سیاسی دروبست کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔ کُل جماعتی جمہوری تحریک (اے پی ڈی ایم) اس سیاسی جدوجہد کی مرکزی قوت ہے، لیکن اس تحریک کی روحِ رواں طبقۂ وکلا، جج، طلباء صحافی اور سول سوسائٹی کے وہ تمام عناصر بھی ہیں جو ۹مارچ سے سرگرم عمل ہیں اور سب مل کر دستور کی بحالی اور حقیقی جمہوریت کے قیام کے لیے ایک اصولی اور تاریخی جنگ لڑرہے ہیں۔ یہ سب ایک ہی کارواں کا حصہ ہیں اور مشترکہ مقاصد کے لیے انھیں پوری ہمت اور حکمت سے اس جدوجہد کو اس وقت تک جاری رکھنا ہے، جب تک یہ مقاصد حاصل نہ ہوجائیں ۔ مجھے یقین ہے کہ کامیابی ان شاء اللہ اسی گروہ کا مقدر ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قوم میں   صحیح شعور اور بیداری پیدا کی جائے اور مسلسل جدوجہد کا اہتمام کیا جائے تاکہ عوام کو وقتی سیاسی مصالح اور مفادات کے مقابلے میں ملک کے اصل ایشوز کا ادراک حاصل ہو۔

اس کام کو انجام دینے کے لیے فوری جدوجہد کے ساتھ لمبے عرصے کی منصوبہ بندی، تنظیم اور ہمہ گیر تحریک کا لائحہ عمل تیار کرنے اور اپنی صفوں کو مضبوط رکھتے ہوئے زیادہ سے زیادہ لوگوں، جماعتوں اور گروہوں کو شریکِ جدوجہد کرنا ضروری ہے۔ پرویز مشرف نے ۹ مارچ کو اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے جو اقدام کیا تھا، اللہ تعالیٰ کی مشیت نے اسی اقدام کو اس کے تنزل اور پسپائی کا نقشِ اوّل بنا دیا۔ پھر ۳نومبر کو جو کچھ کیا گیا، اس نے عالمی سطح پر پرویزمشرف کے پائوں تلے سے زمین کھسکا دی۔ اب ۸جنوری اور اس کے بعد جاری رہنے والی تحریک، مشرف سے نجات کے ساتھ ساتھ مفاد پرست سیاست سے بھی ملک اور قوم کی نجات کا ذریعہ بنے گی اور اصول پر مبنی سیاست کے دور کا آغاز ہو گا اوریہی وہ جوہری فرق ہے جو اشتراکِ اقتدار کے لیے کام کرنے والوں اور اصول اور نظامِ حیات کی اصلاح کے لیے جدوجہد کرنے اور قربانیاں دینے والوں میں ہے۔ بائیکاٹ اس منزل کی طرف لے جانے والا پہلا قدم ہے اور ہماری دعا ہے کہ جو قدم اس حیات بخش منزل کے حصول کے لیے اُٹھ گیا ہے، اب اپنی اسی منزل کی طرف اس کی پیش قدمی پوری مستعدی کے ساتھ جاری رہنی چاہیے اس لیے کہ جدوجہد اور قربانی کے ذریعہ ہی قومیں عزت کا مقام حاصل کرتی ہیں۔ آج کا پیغام صرف ایک ہے  ___ رفتار تیز کرو اور مزید تیز کرو کہ منزل دُور نہیں!  ع

تیز ترک گام زن منزل ما دُور نیست


(کتابچہ دستیاب ہے۔ منشورات، منصورہ، لاہور)

جموں و کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کااہلِ پاکستان پر جو حق ہے، وہ انسانیت، اسلام، اخلاق اور سیاسی، معاشی اور تہذیبی اوامر اور تقاضوں (imperatives) ہراعتبار سے محکم ہے۔ صدافسوس! ہماری موجودہ قیادت نے اس باب میں نہ صرف مجرمانہ غفلت برتی ہے، بلکہ عملاً فرار اور بے وفائی کی راہ اختیار کرلی ہے، جسے اللہ، ملت اسلامیہ پاکستان اور تاریخ کبھی معاف نہیں کریں گے___ لیکن سوال غلط کار حکمرانوں کو معاف کرنے یا ان کے احتساب سے کہیں زیادہ کا ہے۔ جب کوئی قوم اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنے کے بجاے دوسروں کے ہاتھ میں اپنی قسمت کا اختیار دے دیتی ہے تو اس کے مفادات، اس کی عزت، اس کی آزادی اور بالآخر اس کا وجود معرضِ خطر میں ہوتے ہیں۔ آج پاکستانی قوم کے سامنے ایک ایسا ہی چیلنج ہے___ ۲۱ دسمبر کو عیدالاضحی اور سنت ابراہیمی کی روشن مثال نے ہمارے ضمیر کو جھنجھوڑا ہے اور اس سلسلے میں کشمیر کے قائد اور کشمیریوں کی آرزوئوں کے ترجمان سید علی شاہ گیلانی نے جو پیغام اہلِ پاکستان کو بھیجا ہے، اس پر دل کی گہرائیوں سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ تاکہ پاکستانی قوم اپنی تاریخی ذمہ داری کو ادا کرنے کے لیے ایک بار پھر کمربستہ ہوجائے اور حکمرانوں کے فرار، بے وفائی بلکہ غداری کی تلافی کا سامان کرسکے۔ سب سے پہلے اس مردِمجاہد کے بیان کا خلاصہ اس توجہ اور یکسوئی سے پڑھ لیجیے کہ ہرلفظ دل میں اُتر جائے۔ اس لیے کہ یہ پیغام جس داعیِ حق کا ہے، وہ آج اقبال کے اسی شعر کی زندہ تصویر بنا ہوا ہے    ؎

ہوا ہے گو تُند و تیز لیکن چراغ اپنا جلا رہا ہے

وہ مردِ درویش جس کو حق نے دیے ہیں انداز خسروانہ

’’کشمیریوں کو نہ بھارت ظلم و ستم سے جھکا سکا ہے اور نہ پاکستان کے حکمرانوں کی بے وفائی ہمیں اپنی منزل سے مایوس کرسکے گی۔ پاکستان اسلام کا قلعہ ہے اور افسوس اس قلعے کے محافظ مسلسل پسپائی کی پالیسی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ ہم اول روز سے پاکستانی ہیں اور خون کے  آخری قطرے تک پاکستان کی بقا، سالمیت اور تکمیل کی جنگ لڑتے رہیں گے۔ جب میرے یہ حروف آپ کی نظروں سے گزر رہے ہوں گے، تو یقینا مملکت خداداد پاکستان میں ہر جانب عید کی خوشیاں جلوہ گر ہوں گی۔ میں چشمِ تصور سے اپنے خوابوں کی سرزمین کو دیکھتا رہتا ہوں۔ قیامِ پاکستان سے قبل میں نے ابتدائی تعلیم لاہور سے حاصل کی تھی، اور ۶۰برس گزر جانے کے باوجود وہ مناظر، گلیاں، بازار اور کوچے دل و نگاہ میں بس رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم پاکستان سے جنون کی حد تک محبت کرتے ہیں اور یہ محبت کسی زمین، رنگ، نسل، زبان کی وجہ سے نہیں ہے۔ یہ وہ محبت ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اسلام کے رشتے سے ہمارے دلوں میں جاگزیں کیا۔ ہم چاہتے ہیں کہ اگر اس وقت میں قومی اور ملّی اُمنگوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کا حل ممکن نہیں تو اس مسئلے کا نامناسب حل مسلط کرنے کے بجاے مناسب وقت کا انتظار کیا جائے۔ ہم نہ تھکے ہیں اور نہ   ہمت ہاری ہے۔ ہمارے جذبے ماند نہیں پڑے۔ ہمارے جوان، بوڑھے اور عفت مآب خواتین ہمت اور حوصلے کے ساتھ برسرِپیکار ہیں۔ عید کے موقع پر میں تمام اہلِ پاکستان کو حریت کانفرنس اور ریاست جموں و کشمیر کے وفاشعاروں کی طرف سے عیدمبارک کہتا ہوں‘‘۔

اقبال نے صرف یہ نوحہ ہی نہیں کہا تھا کہ    ؎

آج وہ کشمیر ہے محکوم و مجبور و فقیر

کل جسے اہلِ نظر کہتے تھے ایرانِ صغیر

بلکہ یہ دعوت بھی دی تھی کہ     ؎

نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسمِ شبیری

کہ فقرِ خانقاہی ہے فقط اندوہ و دلگیری

۲۵دسمبر کو ہم نے قائداعظم کا یومِ پیدایش بھی منایا ہے، لیکن اصل ضرورت یہ ہے کہ آج ہم کشمیر کے بارے میں قائداعظم کے وِژن، عزائم اور پالیسی خطوط کار کو ایک بار پھرذہنوں میں تازہ کریں تاکہ قوم مسندِاقتدار پر براجمان ٹولے کی آزادی کش، بھارت نواز اور دینی اور ملّی تقاضوں کے شعور سے محروم پالیسیوں اور پسپائیوں کا راستہ ترک کر کے، اللہ پر بھروسے اور اپنی تاریخی    ذمہ داریوں کے احساس کے ساتھ اصول اور حقیقی ملّی مفاد پر مبنی جرأت مندانہ پالیسیاں اختیار کرسکے۔

ہم کشمیر کے سلسلے میں قائداعظم کے چند بیانات، بلکہ احکام و ہدایات کو زمانی ترتیب کے ساتھ پیش کر رہے ہیں اور قوم کو یاد دلا رہے ہیں کہ قائداعظم نے وہی کہا تھا جو آج سید علی گیلانی کہہ رہے ہیں، اور کشمیر کے غیور مسلمان، جناب گیلانی اور حزب المجاہدین کی قیادت میں عملاً قائداعظم ہی کے احکام پر عمل پیرا ہیں، جب کہ قائد کا نام لینے اور ان کے مزار پر چادر چڑھانے اور گارڈز کی ڈیوٹیاں تبدیل کرانے والے حکمران ان احکام کی کھلی کھلی خلاف ورزی اور پاکستان اور مسلمانانِ جموں و کشمیر سے بے وفائی کا راستہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔

جموں و کشمیر میں مسلمانوں کی تحریکِ مزاحمت و حریت ۱۹۳۰ء کے عشرے میں شروع ہوئی اور ڈوگرہ مظالم بھی اسی وقت سے ہر حد کو پار کر گئے۔ قائداعظم نے آل انڈیا مسلم لیگ کے پٹنہ اجلاس میں ۲۶دسمبر ۱۹۳۸ء کو فرمایا:

میں کانگریس سے پوچھتا ہوں کہ وہ کشمیر میں کیا کر رہی ہے؟ آریہ سماجی، ہندو مہاسبھائی، کانگریسی قوم پرست اور کانگریسی اخبارات، یہ سب کشمیر کے معاملے میں کیوں چپ سادھے بیٹھے ہیں۔ کیا اس وجہ سے کہ کشمیر ہندو ریاست ہے؟ یا اس وجہ سے کہ کشمیر کی آبادی میں مسلمانوں کی اکثریت ہے؟

افسوس کہ آج خود مسلمان حتیٰ کہ پاکستانی مسلمان اور خصوصیت سے وہ قیادت جس کا فرض کشمیر کی تحریک حریت کی پشتی بانی ہے، چپ سادھے بیٹھی ہے۔قائداعظم کی روح آج خود ہم سے، پاکستان کی موجودہ قیادت سے وہی سوال کر رہی ہے جو ہندوقیادت سے ۱۹۳۸ء میں کیا تھا!

۱۹۴۴ء میں مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے سپاس نامے کا جواب دیتے ہوئے قائداعظم نے کشمیر کے بارے میں فرمایا:

مسلمان جغرافیائی حدود کے قائل نہیں ہیں۔ اس لیے اسلامی برادری کے نام پر ہندستان کے مسلمان آپ کی مدد کے لیے کمربستہ ہیں۔ اگر آپ پر ظلم ہوا یا آپ سے بدسلوکی کی گئی تو ہم بے کار تماشائی کی صورت میں نہیں رہ سکتے۔ ایسی صورت میں برطانوی ہند کے مسلمان آپ کی خدمت کے لیے حاضر ہوجائیں گے۔ کیونکہ بحیثیت مسلمان ہم آپ کی مدد کے پابند ہیں۔

آج ہمارے حکمران ’جہاد‘ کے لفظ سے خائف اور اس پر شرمندہ ہی نہیں ہیں، بلکہ اپنی آزادی کی جنگ لڑنے والوں اور ان کی مدد کرنے والوں کو ’دہشت گرد‘ تک قرار دے رہے ہیں۔ لیکن دیکھیے جب اپنے کشمیری بھائیوں کی مدد کے لیے قبائلی مسلمان، وہی قبائلی مسلمان جن پر آج امریکا کی خوش نودی کے حصول یا اس کے حکم کے تحت پاکستانی فوج کو بم باری اور آگ اور خون کی ہولی کھیلنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے، ان قبائلی مسلمانوں نے کشمیر کے جہاد میں شرکت کی اور اس پر جب بھارتی گورنر جنرل نے ان کے خلاف اقدام کا مطالبہ کیا تو قائداعظم نے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کیا فرمایا:

’’ہم اس کی ذمہ داری لینے پر تیار نہیں اور نہ ہم قبائلیوں پر دبائو ڈال سکتے ہیں کہ وہ کشمیر کو خالی کر دیں۔ مسلمانانِ کشمیر نے ڈوگرہ آمریت سے تنگ آکر ہری سنگھ کی گورنمنٹ کو فتح کرنے کے لیے جہاد شروع کر رکھا ہے اور قبائلیوں نے مجاہدین کا ہم مذہب ہونے کی مناسبت سے ان کی امداد کی ہے۔ لہٰذا ہم اس معاملے میں کسی قسم کا دخل دینے کو تیار نہیں ہیں۔ کیونکہ مجاہدین کی یہ جنگِ آزادی ہے اور کوئی آزادی پسند ملک آزادی کی خاطر لڑنے والوں کے مخالفین کے ہاتھ مضبوط نہیں کرسکتا۔ اس لیے جن قبائلیوں کو برطانوی حکومت نہ دبا سکی، ہم انھیں کیسے روک سکتے ہیں۔ وہ ایک نصب العین کے لیے نبرد آزما ہیں‘‘۔

(۳ نومبر ۱۹۴۷ء کو قائداعظم اور مائونٹ بیٹن کے مابین ایک کانفرنس کی روداد ملاحظہ ہو: رشحات قائد، مرتبہ نجمہ منصور، العبد پبلی کیشنز، سرگودھا، ۱۹۹۲ئ، ص ۱۶۷-۱۶۸)۔

اس موقع پر قائداعظم نے مائونٹ بیٹن سے بڑی صفائی سے یہ بھی کہا تھا:

عوام نے متعدد بار راجا سے اپیل کی کہ وہ پاکستان میں شامل ہوجائیں، لیکن راجا پر اس مسئلے کا اُلٹا اثر ہوا، اور اس نے عوام کی آواز کو طاقت کے بل پر دبانے کی کوششیں کیں۔ اس پر عوام نے بھی طاقت کا جواب طاقت سے دینا شروع کردیا۔ جب راجا ان کی چوٹ برداشت نہ کرسکا تو اپنا اقتدار ختم ہوتے دیکھ کر اسے ہندستان میں شامل ہونے کی سوجھی۔ دراصل کشمیر ہندستان میں شامل نہیں ہوا، بلکہ ہری سنگھ شامل ہوا ہے۔ جب ہندستان میں ہری سنگھ کی شمولیت کے خلاف کشمیری عوام ہتھیار اٹھانے پر مجبور ہوگئے تو ان سے یہ راے طلب کرنے کی تجویز کہ وہ ہندستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں یا پاکستان میں، نہ صرف فریب بلکہ مضحکہ خیز بھی ہے۔

کسی قسم کی لگی لپٹی رکھے بغیر قائداعظم نے مائونٹ بیٹن سے یہ بھی کہا: ’’کشمیر جہاں اقتصادی اور معاشی لحاظ سے پاکستان کا ایک جز ہے۔ وہاں سیاسی اعتبار سے بھی اس کا پاکستان میں شامل ہونا ضروری ہے‘‘۔(رشحاتِ قائد، مذکورہ بالا)

کشمیر کے بارے میں قائداعظم کی پالیسی کیا تھی، اس کا اظہار انھی کے الفاظ میں ان کے معالج ڈاکٹر الٰہی بخش نے کیا ہے:

’’کشمیر، سیاسی اور فوجی حیثیت سے پاکستان کی شہ رگ ہے۔ کوئی خوددار ملک اور قوم اسے برداشت نہیں کرسکتی کہ وہ اپنی شہ رگ دشمن کی تلوار کے آگے کردے۔ کشمیر پاکستان کا حصہ ہے۔ ایک ایسا حصہ ہے جسے پاکستان سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ کشمیر کا مسئلہ نہایت نازک مسئلہ ہے۔ لیکن اس حقیقت کو کوئی انصاف پسند قوم اور ملک نظرانداز نہیں کرسکتا کہ کشمیر تمدنی، ثقافتی، مذہبی، جغرافیائی، معاشرتی اور سیاسی طور پر پاکستان کا ایک حصہ ہے اور جب بھی اور جس زاویے سے بھی نقشے پر نظرڈالی جائے، یہ حقیقت بھی اتنی ہی واضح ہوتی چلی جائے گی‘‘۔ (قائداعظم کے آخری ایام)

یہی پاکستان کی وہ کشمیر پالیسی ہے کہ جس پر پوری قوم کو مکمل یکسوئی رہی ہے۔ تاریخی تسلسل کے ساتھ ہم اس پر قائم رہے ہیں اور اس کے حصول کے ۱۹۴۷ء سے جموں و کشمیر کے مسلمان جدوجہد کر رہے ہیں اور قربانیاں دے رہے ہیں۔ موجودہ حکمرانوں نے اس پالیسی سے انحراف اور بے وفائی کی ہے اور کشمیری مسلمانوں کو مایوس کیا ہے، لیکن الحمدللہ جموں وکشمیر کے مسلمانوں کی ہمتیں اب بھی جوان ہیں___ کیا پاکستانی قوم قرآن کے اس حکم پر عمل کرتے ہوئے اپنے مظلوم بھائیوں کا ساتھ نہیں دے گی؟

آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں ان بے بس مردوں اور عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو کمزور پاکر دبا دیے گئے ہیں اور فریاد کر رہے ہیں کہ خدایا! ہم کو اس بستی سے  نکال جس کے باشندے ظالم ہیں اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی حامی و مددگار پیدا کردے۔ (النساء ۴:۷۵)

اسلام مساواتِ مرد و زن کا علَم بردار ہے ،مگر اس کا یہ تصور اس الٰہی قانون پر مبنی ہے، جس کی رُو سے خالق کائنات نے تمام انسانوں کو بحیثیت انسان ایک ہی فطرت پر پیدا کیا ہے۔ ان کے درمیان فطری صلاحیتوں اور سماجی اور تہذیبی ذمہ داریوں کے باب میں تو فرق اور تنوع ہوسکتا ہے مگر قانونی اور اخلاقی حیثیت کے اعتبار سے نہ مردوزن میں فرق ہے اور نہ کالے اور گورے اور  امیر اور غریب میں۔ لقد کرمّنا بنی اٰدم کے الٰہی حکم نے سب کو مساوی عزت کا مقام دیا ہے اور اس پہلو سے کسی بھی امتیازی یا ترجیحی سلوک کی کوئی گنجایش نہیں چھوڑی۔

پاکستان کا شہریت کا قانون مجریہ ۱۹۵۱ (Pakistan Citizenship Act) اینگلو سیکسن لا کی بنیاد پر بنایا گیا تھا۔ اس میں یہ سقم تھا کہ اگر ایک پاکستانی مرد کی کسی غیرپاکستانی عورت سے شادی ہو تو شادی کے بعد پاکستانی شوہر کی غیرپاکستانی بیوی کو شہریت کا حق حاصل ہوجاتا تھا۔ لیکن اس کے برعکس اگر ایک پاکستانی خاتون کی کسی غیرپاکستانی مرد سے شادی ہو تو پھر اس شوہر کو شہریت کا یہ حق حاصل نہیں تھا۔ یہ ایک ایسا امتیازی اور غیرمنصفانہ قانون تھاکہ جس کا نہ اخلاقی اعتبار سے کوئی جواز تھا، اور نہ الٰہی قانون کی رو سے ایسے امتیاز کے لیے کوئی گنجایش تھی۔ لیکن حقوقِ نسواں کے علَم بردار  اس مسئلے کے بارے میں خاموش تھے۔ حالانکہ ۲۰۰۰ء میں قائم ہونے والے ایک اعلیٰ اختیاراتی ادارہ یعنی ’نیشنل کمیشن اَون دی اسٹیٹس آف ویمن‘ نے بھی اپنی رپورٹ میں اس امتیازی سلوک کی نشان دہی کی تھی اور اس سلسلے میں ضروری قانون سازی کی طرف متوجہ کیا تھا۔ نیز پاکستان، اقوام متحدہ کے Convention on Elimination of All Forms of Discrimination Against Women پر دستخط کرکے بھی عورتوں کے اس حق کو تسلیم کرچکا ہے، مگر پھر بھی اس کنونش کا اطلاق پاکستانی خاتون کے غیرپاکستانی شوہر پر نہیں کیا گیا۔

پچھلے دنوں اخبارات میں خبر آئی کہ اس قانونی سقم کی وجہ سے بہت سی پاکستانی خواتین اپنے شوہروں کو پاکستان کی شہریت نہ دلوانے کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہیں، اور متاثرہ شوہروں کے پاکستان میں قیام کے باب میں انھیں شدید پریشانیاں درپیش ہیں۔ ’روشن خیالی‘ کے اس پرویزی دور میں نہ ’روشن خیال‘ حکومت کو اس مسئلے کا شعور تھا اور نہ ’روشن خیال‘ این جی اوز ہی کی نگاہ میں اس کی کوئی اہمیت تھی اور اس کا بڑا سبب یہ بھی تھا کہ اس قانونی سقم سے متاثر خواتین کا تعلق غالباً اُونچے طبقات سے نہیں تھا۔

وفاقی شرعی عدالت نے اس امتیازی سلوک کا ازخود (Suo Moto) نوٹس لیا اور دسمبر ۲۰۰۷ء کے دوسرے ہفتے میں شرعی عدالت کے فل بنچ نے قانون کے اس حصے کو اسلام کے قانون اور اقدار سے متصادم قرار دیا ہے اور حکومت کو ہدایت کی ہے کہ ۶ ماہ کے اندر اندر شہریت کے قانون میں ضروری ترامیم کر کے شادی شدہ پاکستانی عورت کو بھی وہی حقوق دے، جو شادی شدہ پاکستانی مرد کو حاصل ہیں۔

عدالت کا یہ فیصلہ کئی اعتبار سے اہم ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ مرد و زن کے حقیقی حقوق کا مسئلہ مغرب کا مسئلہ نہیں، ہمارا اپنا مسئلہ ہے اور ایسے تمام مسائل کو اسلام کے قانونی ڈھانچے اور اس کی روح کے مطابق حل کیا جانا چاہیے۔

دوسری بنیادی بات یہ ہے کہ حکومت اپنے تمام دعووں کے باوجود نہ عورتوں کے حقوق کے بارے میں اپنی ذمہ داریاں ادا کر رہی ہے، اور نہ مردوں اور خصوصیت سے کمزور انسانوں اور طبقات کے حقوق کا تحفظ کرنے کو تیار ہے۔ عام عدالتیں بھی اس باب میں خاموش ہی رہی ہیں۔یہ توفیق وفاقی شرعی عدالت کو حاصل ہوئی ہے۔ جس نے اس سقم کا نوٹس لیا اور اس کی اصلاح کے لیے قانونی کارروائی کی۔ دیکھیں اب بھی حکومت اس پر کہاں تک عمل کرتی ہے۔ ہمارے علم میں وفاقی شرعی عدالت کے کئی ایسے فیصلے ہیں جن میں وہ وقت کے تعین کے ساتھ قانون میں شرعی بنیادوں پر تبدیلی کا حکم دے چکی ہے، مگر حکومت یا تو اپیل میں چلی گئی یا ان فیصلوں کو نظرانداز کردیا گیا۔ مثلاً ’زنا‘ کے قانون کے بارے میں وفاقی شرعی عدالت کا کم از کم ایک فیصلہ ایسا ہے، جس میں قانون کی تبدیلی کے لیے وقت کے تعین کے ساتھ ہدایات دی گئی تھیں، مگر انھیں نظرانداز کر دیا گیا۔ یہی معاملہ فیملی آرڈی ننس کے بارے میں عدالت کے احکام کے ساتھ ہوا ہے___ یہ ہے ہمارے لبرل طبقے کی مساواتِ مرد و زن اور حقوقِ نسواں کے باب میں سنجیدگی کا حال۔

تیسرا قابلِ غور پہلو یہ ہے کہ مشرف حکومت جو عورتوں کی ’خود اختیاریت‘ کا بہت واویلا کرتی ہے اور اسی کے نام پر اسمبلیوں میں خواتین کی ایک بڑی تعداد بھی موجود ہے، لیکن ان سب کی طرف اس ضمن میں کوئی پیش قدمی نہیں کی گئی اور اگر کسی نے پہل کی بھی تو وہ وفاقی شرعی عدالت ہے۔ وہ شریعت کورٹ جسے عورتوں کے حوالے سے لبرل طبقے نے مطعون کرنے کی مذموم کوشش میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

ایک چوتھا پہلو یہ بھی ہے کہ آج کل عدالتِ عالیہ کو اس طرح سے ازخود امور کو زیرغور لانے اور حقوق انسانی کے باب میں مداخلت کرنے اور اصلاح کرانے پر بڑی لے دے کی جارہی ہے، بلکہ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری اور ان کے ساتھیوں کو تواس کی سزا دی جارہی ہے۔ حالانکہ جیساکہ حالیہ مثال سے ظاہر ہوتا ہے، عدالت اپنے ازخود سماعت کے دستوری اختیارات سے  عوام کے لیے دادرسی کی مفید خدمات انجام دے سکتی ہیں اور اس طرح انتظامیہ کی غفلت کا کچھ علاج بھی ہوسکتا ہے۔

ویسے تو ہمارا لبرل اور روشن خیال طبقہ مساواتِ مرد و زن کے شب و روز نعرے لگانے کا مرغوب شغل اپنائے ہوئے ہے، لیکن تعجب ہے وفاقی شرعی عدالت کے اس فیصلے کو لبرل پریس (صرف ایک انگریزی روزنامے The News کی استثناء کے ساتھ) نے چھاپنے تک کی زحمت گوارا نہیں کی۔

اگر یہی فیصلہ کوئی لبرل کورٹ کرتی تو شادیانے بجائے جاتے۔ لیکن چونکہ یہ خدمت وفاقی شرعی عدالت نے انجام دی ہے، اس لیے ان کے لیے یہ ایک ناقابلِ ذکر اور ناقابلِ التفات قدم ہے یا کہیں ایسا تو نہیں کہ بُغض اب اس مقام تک پہنچ گیا ہے کہ    ؎

واعظ ثبوت لائے جو مے کے جواز میں

اقبال کو یہ ضد ہے کہ پینا بھی چھوڑ دے

آج پاکستانی قوم سوگوار ہے اور ایک گونہ سکتے کے سے عالم میں ہے___  کراچی میں ۱۲مئی کے بعد ۱۸ اکتوبر کا کشت و خون‘ بلوچستان اور وزیرستان میں گذشتہ تین سال سے فوج کشی اور اس کے نتیجے میں ہزاروں افراد کی ہلاکت‘ جولائی میں لال مسجد اور جامعہ حفصہ کا خونیں حادثہ اور معصوم بچوں‘ بچیوں‘ اساتذہ اور طالبان علم کے خون کی ارزانی‘ ۲۷ رمضان المبارک کو لیلۃ القدر کے موقع پر ڈھائی تین سو کلمہ گوؤں کا قتل اور وہ بھی ’ایمان، تقویٰ اور جہاد فی سبیل اللہ‘ کا موٹو رکھنے والی فوج اور جہاد کا علَم بلند کرنے والے قبائل کے باہم تصادم کے نتیجے میں ___  یہ سب کیا ہے؟

سوچتے سوچتے ذہن ماؤف ہونے لگتا ہے۔یہ قوم کن خطرناک وادیوں میں گم ہوگئی ہے؟ جن کے ہاتھوں میں ملک کی زمامِ کار ہے وہ ہمیں کہاں لیے جارہے ہیں اور کس کا کھیل کھیل رہے ہیں؟ انتہاپسند کون ہے؟دہشت گردی کا مرتکب کون ہو رہا ہے؟ جمہوریت کی بحالی کے نام پر جو ڈراما رچایا جا رہا ہے اس کی حقیقت کیا ہے؟___  اور حقیقی جمہوریت کی طرف یہ قوم کیسے گامزن ہوسکتی ہے۔ یہ سوالات محض نظری اور علمی موضوع نہیں۔ پاکستانی قوم کے لیے زندگی اور موت کا ایشو بن چکے ہیں جسے انتہاپسندی اور اعتدال پسند روشن خیالی کی کش مکش بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ جنرل مشرف نے قوم کو تصادم‘ تشدد اور تباہی کی جنگ میں جھونک دیا ہے۔ اس کا اصل مقصد آمریت اور اپنے شخصی اقتدار کا تحفظ ہے اور عالمِ اسلام پر مسلط کی جانے والی امریکا اور مغربی اقوام کی دم توڑتی ہوئی جنگ کو سہارا دینا ہے۔ پاکستان ایک امانت ہے اور اس کے اصل امین پاکستان کے ۱۶ کروڑ عوام ہیں۔ ہر ادارہ خواہ اس کا تعلق پارلیمنٹ سے ہو یا عدالت سے‘ فوج سے ہو یا سول نظام سے‘ سیاسی جماعتیں ہوں یا دینی ادارے اور قوتیں___  ان سب کی اس وقت اصل ذمہ داری یہ ہے کہ پاکستان کو اس تباہی سے بچائیں جس کی آگ میں عالمی ایجنڈے کے تحت اسے جھونکا جارہا ہے___  پاکستان کی آزادی اور حاکمیت‘ اس کی سلامتی اور استحکام‘ اس کا تشخص اور وجود ہرچیز دائو پر لگی ہوئی ہے۔ اگلے چند مہینے بڑے فیصلہ کن ہیں اور اگر عوام اور تمام سیاسی‘ دینی اور اداراتی قوتوں نے جن میں فوج‘ عدلیہ اور میڈیا مرکزی اہمیت کی حامل ہیں‘ نے اپنا اپنا فرض ادا نہ کیا تو ہمیں ڈر ہے کہ ایک لحظہ کی غفلت صدیوں کی منزلوں کو کھوٹا کرسکتی ہے۔

جنرل پرویز مشرف نے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے اور ملک کے ہر ادارے پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے جس خطرناک کھیل کا آغاز ۹ مارچ ۲۰۰۷ء کو چیف جسٹس آف پاکستان کی برطرفی (دراصل عدالت عالیہ پر حملہ) سے کیا تھا‘ ۱۲ مئی کا خونیں ڈراما‘ ۲۹ستمبر کا شاہراہِ دستور پر پولیس ایکشن‘ ۵ اکتوبر اور پھر ۱۸ اکتوبر کو ایک اور سابق وزیراعظم کی بش-مشرف ’مفاہمت‘ کی چھتری تلے ملک میں آمد‘ ملک بھر سے ایک سیاسی جماعت کو استقبال کے لیے ہر موقع اور سہولت کی فراہمی۔ پھر اس استقبالی ریلی میں دہشت گردی کے ایک ایسے واقعہ کا ظہور جس سے سیاست کا نقشہ اور انتخابات کے طریق واردات ہی کو تبدیل کیا جاسکے، یہ سب ایک ہی سنگین کھیل کی کڑیاں اور ایک ہی ڈرامے کے مختلف ایکٹ معلوم ہوتے ہیں جو تمام سیاسی قوتوں کو بشمول پیپلزپارٹی حالات کا ازسرنو جائزہ لینے کی دعوت دے رہے ہیں۔ ہم قومی زندگی کے اس فیصلہ کن اور نازک ترین موقع پر پوری دل سوزی کے ساتھ تمام اہلِ وطن کو چند بنیادی امور کی طرف متوجہ کرنا اپنا دینی اور قومی فرض سمجھتے ہیں اور زمین و آسمان کے مالک سے اس دعا کے ساتھ یہ گزارشات پیش کررہے ہیں کہ اگر یہ حق ہیں تو سب کے دل ان کے لیے کھول دے۔


سب سے پہلے ہم اس اصولی بات کا اعلان اور اعادہ کرنا چاہتے ہیں کہ اجتماعی معاملات کے حل کا اصل راستہ صرف ایک ہے اور وہ ہے شوریٰ اور دلیل کے ذریعے سیاسی مسائل اور اختلافات کا حل۔ انسانی زندگی اور سیاسی نظام میں قوت کے استعمال کا ایک متعین مقام ہے اوروہ ملکی دفاع‘ شر اور فساد سے معاشرے کو پاک کرنے‘ قانون کی بالادستی اور انصاف کے قیام کے لیے ہے اور قانون اور ضابطے کے مطابق ہے۔ کسی کو یہ اختیار نہیں کہ قانون اپنے ہاتھ میں لے یا سیاسی مسائل و معاملات کو قوت‘ جبر اور گولی کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کرے۔ ریاست‘ حکومت‘ جماعتیں‘ گروہ‘افراد سب قانون اور ضابطے کے تابع ہیں اور شریعت نے ظلم کی تعریف بھی یہ کی ہے کہ وَضْعُ شَیْ ئِ فِیْ غَیْرِ مَحَلِّہٖ ___  یعنی جہاد اور دہشت گردی میں فرق ہی یہ ہے کہ جہاد ایک واضح مقابلے اور قانون کا پابند ہے جب کہ دہشت گردی قوت کے ناحق اور غلط استعمال سے وجود میں آتی ہے۔ بقول اقبال    ؎

پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضامیں
کرگس کا جہاں اور ہے‘ شاہیں کا جہاں اور

اس اصولی بات کی روشنی میں ہم یہ بات بالکل صاف الفاظ میں کہنا چاہتے ہیں کہ ۱۸اکتوبر کو جو کچھ کراچی میں ہوا‘ جس میں ۱۴۰ جانیں تلف ہوئیں اور کئی سو زخمی ہوئے‘ دہشت گردی کی بدترین مثال ہے۔ یہ انسانیت‘ سیاست اور شرافت اور تہذیب پر حملہ تھا اور اسلام اور مہذب معاشرے کی ہر قدر کی نفی ہے‘ جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ سیاسی سرگرمی ایک جمہوری معاشرے کی جان ہے اور تہذیبی ترقی کے لیے ناگزیر ہے۔ اختلاف راے اور سیاسی اور دینی مسالک کا تنوع انسانی معاشرے کے لیے رحمت ہے‘ اور سیاسی یا مذہبی اختلاف کو قوت اور تشدد  کے ذریعے سے مٹانے کی کوشش فساد اور فتنے کا راستہ کھولنے کے مترادف ہے جو شوریٰ کی ضد اور لَااِکراہَ فِی الدّین کے قرآنی حکم سے بغاوت اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بشارت کی توہین ہے کہ میری امت میں اختلاف راے ایک رحمت ہے۔

جہاں ہم ۱۸ اکتوبر کی دہشت گردی کی بھرپور مذمت کرتے ہیں اور تمام ہی جاں بحق ہونے والوں کے لیے دعاے مغفرت کرتے ہیں‘ زخمیوں کے لیے صحت و زندگی کی دعاگو ہیں اور تمام ہی متاثرین اور خصوصیت سے پیپلزپارٹی کی قیادت اور کارکنوں سے تعزیت اور ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں‘ وہیں اس امر کا اظہار بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ اس واقعے کی آخری ذمہ داری  جنرل پرویز مشرف کی حکومت اور ان کی سیاسی پالیسیوں اور حکمت عملی پر عائد ہوتی ہے جس کی پوری پوری جواب دہی ایک نہ ایک دن انھیں قوم کے سامنے کرنی ہوگی۔ تمام واقعات کی اعلیٰ ترین سطح پر آزاد اور غیرجانب دار تحقیقات ضروری ہیں تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوسکے۔

بدقسمتی سے پاکستان میں پہلے وزیراعظم خان لیاقت علی خان کے قتل پر پردہ ڈالنے سے جو روایت شروع ہوئی ہے‘ وہ آج تک جاری ہے اور جنرل پرویز مشرف کے دورمیں تو ڈھٹائی کا عالم یہ ہوگیا ہے کہ ۱۲ مئی کی کھلی کھلی دہشت گردی اور ۴۰ سے زیادہ جانوں کے اتلاف کے بارے میں نہ صرف آزاد تحقیقات سے صاف انکار کیا گیا بلکہ اسے اپنی قوت کے اظہار تک کا نام دیا گیا۔ جولائی کے لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے کربلاے ثانی کے بارے میں بھی یہی رویہ اختیار کیا گیا۔ بلوچستان اور وزیرستان میں خون آشامی کے باب میں بھی کسی آزاد تحقیق تو کیا آزاد رپورٹنگ تک کا راستہ بند کیا ہوا ہے۔ اور اب کراچی کے واقعے کی بھی آزاد تحقیق کے مطالبات کو پوری رعونت کے ساتھ نظرانداز کیا جا رہا ہے‘ حالانکہ خود پیپلزپارٹی کی قیادت نے اس کا مطالبہ کیا ہے اور پولیس کی تفتیشی ٹیم پر عدمِ اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ ملکی اور غیرملکی میڈیانے بڑے سنگین سوال اٹھائے ہیں کہ ۲۰ہزار پولیس اور رینجرز کی موجودگی میں جن کے بارے میں دعویٰ تھا کہ سیکورٹی کے فول پروف انتظامات کر لیے گئے ہیں‘ اتنا بڑا حادثہ کیسے ہوگیا؟ سڑکوں کی بجلیاں کیوں بند ہوگئیں؟ ’خودکش حملے‘ کے مجرب نسخے کا پروپیگنڈا پہلے ہی لمحے سے کیوں کیا جانے لگا جب کہ ابھی تک کوئی واضح ثبوت اس کا نہیں ملا ہے بلکہ عینی شاہدوں اور ملکی اور بین الاقوامی صحافیوں کے مطابق پہلا دھماکا ایک شعلے کی شکل میں دیکھا گیا‘ دو گاڑیوں سے آگ نکلی‘ اور جو ایک سر ملا ہے اس کے بارے میں بی بی سی نے اپنی ۲۳ اکتوبر کے سیربین پروگرام میں پولیس ذرائع سے اس شبہہ کا اظہار کیا ہے کہ یہ سر ایک پولیس اہل کار کا ہے اور ایسا ہی ایک واقعہ کراچی ہی میں اس سے پہلے سندھ مدرسے میں بھی ہوچکا ہے کہ جسے خودکش حملہ کہا گیا تھا وہاںسر پولیس اہل کار کا نکلا۔ اس صورت حال کو اس سے تقویت ملتی ہے کہ خود پیپلزپارٹی کی قیادت نے خصوصیت سے محترمہ بے نظیرصاحبہ اور ان سے زیادہ ان کے شوہر جناب آصف زرداری نے صاف کہا ہے کہ ہمارا شبہہ طالبان یا کسی جہادی گروپ پر نہیں بلکہ حکومت میں شامل کچھ عناصر پر ہے۔

ایک اور بڑا سنگین سوال وہ ہے جو خود محترمہ نے اٹھایا ہے اور جسے عالمی پریس نے نمایاں شائع کیا ہے حالانکہ پاکستان میں اسے دبا دیا گیا ہے۔ لندن کے اخبار دی انڈی پنڈنٹ نے اپنے رپورٹر Andrew Buneombeکے حوالے سے جو محترمہ کے ساتھ تھا‘ لکھا ہے کہ:

انھوں نے یہ بھی کہا کہ حملے کے دوران ان کی گاڑی پر کئی گولیاں چلائی گئیں‘ جب کہ ایک آدمی جو پستول سے مسلح تھا اور دوسرا جس نے خودکش بیلٹ باندھ رکھی تھی‘ اس سے پہلے گرفتار کیے گئے تھے۔

سوال یہ ہے کہ ان دونوں افراد سے کیا معلومات ملیں‘ یہ کہاں ہیں اور ان کا تعلق کس سے تھا؟ اس سلسلے میں یہ بات بھی نظرانداز نہیں کی جاسکتی کہ اصل واقعہ کے چند گھنٹے کے اندر موقع واردات سے تمام شہادتوں کو ختم کردیا گیا اور راستہ کھول دیا گیا حالانکہ دنیابھر میں یہ ایک مسلّمہ اصول مانا جاتا ہے کہ موقع واردات کو تحقیقات مکمل ہونے تک محفوظ رکھا جاتا ہے۔ مغربی ممالک میں تو جہاں ایسا حادثہ ہو اسے فوری طور پر گھیر دیا جاتا ہے اور کئی دن تحقیق کرنے والوں کے سوا کسی کو ان مقامات کے قریب بھی پھٹکنے نہیں دیا جاتا۔ لیکن یہ عجیب بات ہے کہ اتنے بڑے حادثے کے سارے آثار و کوائف کو چند گھنٹے میں رفع دفع کردیا گیا۔ بالکل اسی طرح جس طرح کراچی اسٹاک ایکسچینج کے ۲۰۰۵ء کے اسیکنڈل کے سارے کوائف حتیٰ کہ کمپیوٹر ریکارڈ تک تلف کردیے گئے اور دیگر کے لیے تمام شہادتوں کو تباہ کرنے کے بعد ایک امریکی کمیشن کو بلایا گیا جس نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ شہادتوں کے تلف ہوجانے کے بعد ہم اسباب کی نشان دہی نہیں کرسکتے۔ نیویارک کے جڑواں ٹاوروں کے سلسلے میں بھی یہی حکمت عملی اختیار کی گئی جس پر آزاد تحقیق کرنے والے آج تک واویلا کر رہے ہیں۔

اس پورے معاملے میں انٹیلی جنس کی ناکامی کے پہلو کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا اور خصوصیت سے اس پس منظر میں کہ ایک طرف بڑے یقین کے ساتھ کہا جاتا ہے کہ اتنے خودکش بمبار بھیجے گئے ہیں اور دوسری طرف ایک نہیں‘ سیکورٹی کے تین تین حصاروں کے باوجود یہ واقعہ ہوجاتا ہے۔ حالانکہ بتایا گیا تھا کہ پہلا حصار پیپلزپارٹی کے ۲ سے ۵ ہزار جاں نثاروں کا ہے۔   اس کے بعد ۱۰سے ۲۰ہزار پولیس اور رینجرز کا ہے۔ پولیس کی گاڑیاں ہر چارسمت میں موجود ہیں جو اعلیٰ ترین ٹکنالوجی سے لیس ہیں۔

حکومت اور خصوصیت سے سیکولر اور امریکی لابی کے سرخیل آنکھیں بند کرکے الزام جہادی تنظیموں اور طالبان پر تھوپ رہے ہیں۔ اس کے لیے ۱۸ اکتوبر سے قبل ہی ایک فضا بنائی جارہی تھی اور طرح طرح کی جھوٹی گمراہ کن اطلاعات (dis-information) سے ذہنوں کو آلودہ کیا جا رہا تھا‘ حالانکہ طالبان کے ذرائع اس کی بار بار تردید کرچکے ہیں اور کوئی وجہ نہیں کہ ان کو اس میں ملوث کیا جائے‘ البتہ امریکا اور یورپ حتیٰ کہ آسٹریلیا کے سرکاری حلقوں نے بھی اس واقعے کے فوراً بعد حسبِ عادت طالبان کو اس کا ذمہ دار ٹھیرانے میں بڑی مستعدی دکھائی ہے۔ پاکستان میں امریکی اور سیکولر لابی کے سرخیل ڈیلی ٹائمز نے پوری تحدی کے ساتھ ادارتی کالم میں فتویٰ صادر کردیا تھا کہ:

القاعدہ نے کراچی میں ۱۳۸ معصوم لوگوں کو قتل کیا ہے اور ۵۰۰ سے زیادہ کو زخمی کیا ہے۔ (ڈیلی ٹائمز‘ ۲۰ اکتوبر ۲۰۰۷ء)

اداریہ نویس کو شکایت ہے کہ پیپلزپارٹی کی قیادت کیوں اس سلسلے میں پس و پیش کا مظاہرہ کر رہی ہے اور وزارتِ داخلہ کے سیکرٹری نے یہ کیوں کہہ دیا کہ اسلام آباد میں پیپلزپارٹی کے کیمپ پر حملے کا ہدف پیپلزپارٹی نہیں‘ پولیس تھی۔ اسے یہ بھی دکھ ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کو امریکی جنگ اور اس میں معاونت سے کیوں مربوط کیا جا رہا ہے اور اس پورے معاملے کو جمہوریت کے فقدان کا نتیجہ کیوں قرار دیا جا رہا ہے۔ اصل مسئلہ جمہوریت نہیں‘ مذہبی دہشت گردی ہے۔ امریکی سیکولرلابی کے ذہن اور عزائم کو سمجھنا بے حد ضروری ہے اور یہی مشرف کی تباہ کن پالیسیوں کی مدافعت کرنے والے عناصر ہیں۔

حزبِ اختلاف یہ نتیجہ نکالتی رہی ہے کہ حکومت ایک دفعہ امریکی ڈیزائن ترک کرنے کا اعلان کردے تو ساری دہشت گردی فی الفور ختم ہوجائے گی۔ یہ بھی کہنا چاہیے کہ پیپلزپارٹی کے بعض رہنما بھی سینیٹ میںاپنے امریکا دشمن جذبے میں یہی بات کہتے رہے ہیں… پاکستان میں یہ فرض کیا جاتا ہے کہ پاکستان میں مقابلہ اور مزاحمت جمہوریت کی خدمت ہے جس کی غیرموجودگی کو ملک کا سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا جاتا ہے۔ یہ غلط ہے‘ غلط ہے‘ غلط ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ جمہوریت نہیں‘ بلکہ دہشت گردی اور ریاست کی داخلی خودمختاری کا ختم ہوجانا‘ سب سے بڑا مسئلہ ہے۔

یہ ہے وہ سیکولر ذہن جو اپنے سوچے سمجھے کھیل کے مطابق حالات کو ایک خاص رخ دینا چاہتا ہے۔ اسی اداریے کے آخری جملے کو غور سے پڑھیے کہ کس طرح خود پیپلزپارٹی کو سبق پڑھایا جارہا ہے___ ہم محترمہ کے بارے میں تو کچھ نہیں کہہ سکتے لیکن پیپلزپارٹی کی قیادت کے ان افراد کو جو آزاد سوچ رکھتے ہیں اور اس کے کارکنوں اور ہمدردوں کو اس اقتباس پر غوروفکر کی خصوصی دعوت دیتے ہیں:

آخری بات یہ کہ پیپلزپارٹی نے ملک کی خفیہ ایجنسیوں کے ’بدمعاش (rogue) عناصر‘ پر مسزبھٹو کو نشانہ بنانے کا الزام لگایا ہے اور آئی بی کے ڈی جی کی معطلی کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ غلط موقع پر متعین بات کہنا ہے۔ ان اداروں کی ماضی کی بدمعاشی کی تاریخ کو دیکھتے ہوئے ریاستی اداروں میں بدمعاش عناصر کی موجودگی کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن   آئی بی کے ڈی جی کو نشانہ بنانا‘ ایک واہیات بات ہے۔ یہ بالکل ایسے ہے جیسے خود جنرل مشرف پر الزام لگایا جائے۔ آئی بی کے ڈی جی پر جو بھروسا اور اعتماد مشرف رکھتے ہیں اس کو دیکھتے ہوئے اور اس بات کے پیش نظر کہ وہ ان کے ایک اچھے ذاتی دوست بھی ہیں‘ زیادہ مناسب ہوتا اگر صاف صاف القاعدہ کے عناصر کوالزام دیا جاتا جنھوں نے کھلے عام جنرل مشرف اور مسزبھٹو دونوں کو ختم کر دینے کا اعلان کیا ہے۔ آخری بات جو جنرل مشرف اور مسزبھٹو چاہ سکتے ہیں وہ اُن لوگوں کے ہاتھوں میں کھیل جانا ہے جو ان دونوں کے درمیان خلیج پیدا کردینا چاہتے ہیں اور جو لبرل جمہوری اتحاد زیرتشکیل ہے‘ اس کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔

ہم نے کراچی کے سانحے کے ان پہلوؤں کی طرف اس لیے قدرے تفصیل سے توجہ دلائی ہے کہ قوم‘ ملک کی سیاسی اور دینی جماعتیں اور خود فوج‘ انتظامیہ اور میڈیا کے سوچنے سمجھنے والے عناصر اس حقیقت کو جان لیں کہ اصل مسئلہ وہ نہیں ہے جسے سیکولر اورامریکی لابی اور آمریت اور سیاست میں فوجی مداخلت کے ہم نوا پیش کر رہے ہیں یعنی اصل مسئلہ انتہاپسندی اور دہشت گردی کا ہے۔ جمہوریت‘ دستور کی بحالی‘ قانون کی حکمرانی‘ فوج کے سیاسی کردار کی مکمل نفی اور سیاسی مسائل کا سیاسی عمل کے ذریعے حل کا نہیں۔ انتہاپسندی اور دہشت گردی دونوں اپنی اپنی جگہ ناپسندیدہ ہیں اور اسلام اور ہرمہذب معاشرے کو ان سے پاک ہونا چاہیے لیکن استعماری تسلط اور سامراجی ثقافت‘ تہذیب اور مداخلت پر گرفت اور تنقید کو انتہاپسندی قرار دینا اور بیرونی قبضے اور تسلط کے خلاف مزاحمت کو دہشت گردی قرار دے کر استعماری عزائم کو تحفظ بلکہ تقویت دینا ایک مجرمانہ فعل ہے۔ ہمارے سارے سیاسی خلفشار کی جڑ ہے اور جب تک ان اسباب کا سدباب نہیں ہوتا اور ان پالیسیوں کو قوت اور جبر کے ذریعے بیرونی ایجنڈے کو قوم پر مسلط کرنے کا کھیل ختم نہیں ہوتا‘ حالات کی اصلاح ممکن نہیں اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب تمام سیاسی اور دینی قوتیں اور ریاست کے تمام اداروں کے ذمہ دار افراد ٹھنڈے دل سے حالات کا تجزیہ کرکے آمریت اور ملک پر بیرونی عناصر کی گرفت کے مقابلے کے لیے سینہ سپر نہیں ہوتے‘ ملک تباہی سے نہ بچ سکے گا۔


دنیا کے وہ اہلِ نظر اور اصحابِ تحقیق جنھوں نے امریکا کی نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ کا بے لاگ تجزیہ کیا ہے‘ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ جسے انتہاپسندی اور دہشت گردی کہاجارہا ہے‘ وہ نتیجہ ہے امریکا اور مغربی اقوام کی سامراجی‘ ظالمانہ اور نوآبادیاتی پالیسیوں اور تیسری دنیا کے خودساختہ اور امریکا کے پروردہ حکمرانوں کا‘ جو ان ممالک میں امریکی ایجنڈے پر عمل درآمد کرکے ان کے آلۂ کار کا کردار ادا کر رہے ہیں‘ پاکستان کی اس کیفیت کی منظرکشی ایک سابق سفیر شمشاداحمد نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں اس طرح کیا ہے:

ایک فوجی حکومت کے لیے اس وقت مقابلے کے لیے کھڑے ہونا آخری بات تھی جو وہ کرسکتی تھی۔ نائن الیون کے بعد پاکستان کی پالیسی میں تیزی سے آنے والی تبدیلی نے اسے دہشت گردی کے خلاف امریکا کی عالمی جنگ میں اہم کھلاڑی بنادیا اور اسے عالمی برادری میں اہمیت دے دی جس نے فوجی حکومت کو اپنے جواز کی تلاش میں مدد دی۔ جنرل مشرف کے لیے یہ ایک فرد کا اسٹرے ٹیجک اتحاد تھا لیکن پاکستان کے لیے یہ اس کی تلاطم خیز تاریخ کا ایک نیا تکلیف دہ باب تھا۔ پلک جھپکتے میں پاکستان نے اپنی آزادی اور خودمختاری چھوڑ دی۔ ایک پراکسی وار میں ایک تابع دار فریق بن گیا جس میںاس کا فیصلہ سازی میں کوئی کردار نہ تھا۔ اس نے اپنے آپ کو ایک کرایے کی (mercenary) ریاست کے طور پر بھرتی ہونے کی اجازت دی جس کی ہم نے خوشی خوشی قیمت قبول کی۔ لیکن اب پاکستان کے عوام اس اسٹرے ٹیجک تعلق کی بڑی بھاری قیمت ادا کر رہے ہیں۔ ہم امریکا کی افغانستان کی طالبان کے خلاف جنگ کو پاکستان میں لے آئے ہیں۔ وزیرخارجہ قصوری نے کھلے عام قبول کیا کہ ہم یہ جنگ امریکی قیادت میں ۳۷ رکنی طالبان دشمن اتحاد کی طرف سے افغانستان میں لڑ رہے ہیں۔ ان کا مطلب یہ تھاکہ یہ ہماری جنگ نہیں ہے پھر بھی ہم اپنے لوگوں کو قتل کر رہے ہیں۔ اس جاری مہم میں بہت بڑے پیمانے پر ضمنی نقصان کے طور پر ہمارے شہری اورفوجی ہلاک ہو رہے ہیں۔ سب سے بڑا نقصان پاکستان کی سالمیت اور خودمختاری کا خاتمہ ہے۔

اس پالیسی کا نتیجہ کیا ہے؟ آج ہم ہر طرف سے معتوب ہیں اور جنرل پرویز مشرف    ان لوگوں کو شریکِ اقتدار کرنے کے لیے مجبور کردیے گئے ہیں جن کو کل تک وہ خود چور‘ ڈاکو‘   خزانہ لوٹنے والے اور سیکورٹی رسک قرار دے رہے تھے۔ رہی بین الاقوامی اہمیت تو اس کا حال سابق سفیر شمشاد احمد کے الفاظ میں یہ ہے:

ستم ظریفی یہ ہے کہ پاکستان نے اس پراکسی وار میں سب کچھ دائو پر لگادیا ہے اور اپنے ہزاروں افراد کو قتل کردیا ہے‘ اور پھر بھی اس پر الزام لگ رہا ہے کہ اس نے کافی نہیں کیا۔ قوم کو یہ صدمہ بھی ہے کہ خطے میں اپنے کردار اور اہمیت کے حوالے سے اب    ہم بھارت نہیں بلکہ افغانستان کے ساتھ بریکٹ کیے جاتے ہیں۔ اکتوبر ۹۹ء سے پہلے ایسا ہرگز نہ تھا جب ایک سویلین قیادت کے تحت پاکستان بھارت کے برابر ایک   ایٹمی طاقت بن گیا اور ایک ذمہ دار علاقائی اور عالمی طاقت کے طور پر آگے بڑھ رہا تھا۔ اب ہم کو ایک ذمہ دار علاقائی طاقت نہیں سمجھا جاتا۔ جنرل مشرف کو پاکستان کے مسائل اور چیلنجوں کے بہت زیادہ ہونے کا ادراک ہونا چاہیے اور غور کرنا چاہیے کہ  یہ حالات لانے میں خود ان کا کردار کیا ہے۔ آٹھ سال قبل انتہاپسندی‘ تشدد‘ جرائم   اور کرپشن اس پیمانے کی اتنی سنگین ہرگز نہ تھی۔ آج دنیا پاکستان کو صرف امریکا کی دہشت گردی کی جنگ کا گرائونڈ زیرو اور مذہبی انتہاپسندی اور تشدد کا واحد مقام سمجھتی ہے جہاں یہ پرورش پاتی ہے___ یہ کس کا ورثہ ہے!

انتہاپسندی اور دہشت گردی کے بارے میں پاکستان اور امریکا کے ہم نوا مسلم ممالک ہی نہیں خود امریکا کی پالیسی حالات کے غلط تجزیے پر مبنی ہے اور اس پالیسی کی ناکامی کا اعتراف حکمران تو کھل کر نہیں کر رہے لیکن تمام عوامی جائزے خواہ وہ امریکا اور یورپ کے ممالک میں کیے جارہے ہوں یا پاکستان اور مسلم دنیا میں کھلے الفاظ میں کر رہے ہیں۔ امریکا میں اب ۷۹ فی صد آبادی بش کی پالیسیوں سے غیرمطمئن ہے۔ یورپ میں بھی بے اطمینانی کی یہ کیفیت ۷۰‘ ۸۰ فی صد آبادی کی ہے‘ جب کہ اسلامی دنیا میں یہ ۸۰ اور ۹۰ فی صد تک پہنچ چکی ہے۔ لیکن حالات کی ستم ظریفی ہے‘ یا مفادات کا کھیل کہ جنرل پرویز مشرف اور محترمہ بے نظیر بھٹو ابھی تک یہی راگ الاپ رہے ہیں کہ اصل مسئلہ انتہاپسندی اور دہشت گردی ہے‘ اور اصل کش مکش آمریت اور جمہوریت اور فوجی حکمرانی اور عوامی حکمرانی میں نہیں‘ انتہاپسندی اور روشن خیالی ہی ہے۔ ’خودکش حملے‘ انسانیت کے چہرے پر ایک بدنما داغ ہیں‘ لیکن یہ اسی وقت ختم ہوسکتے ہیں جب ان حالات پر قابو پایا جائے جو ریاستی ظلم اور تشدد کے ستم زدہ انسانوں کو جان سے کھیل جانے کی ترغیب دے رہے ہیں۔ مغرب کے آزاد محقق اس بات کو محسوس کر رہے ہیں اور پکار پکار کر اپنی اندھی قیادتوں کو ان حقائق کو دیکھنے اور ان پر غور کرنے کی دعوت دے رہے ہیں۔ پاکستان کے حکمرانوں اور سیاسی اور عسکری قیادت کو اس سے ہوش کے ناخن لینے چاہییں۔


دہشت گردی اور خودکش حملوں کے اسباب و عوامل کے بارے میں متعدد تحقیقی کتب گذشتہ چند برسوں میں شائع ہوئی ہیں۔ ان میں کرسٹوف ریوٹر کی کتاب My Life is a Weapon: A Modern History of Suicide Bombing ،پرنسٹن یونی ورسٹی‘ ۲۰۰۴ء بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ اس میں وہ لکھتا ہے:

مغربی میڈیا میں خودکش حملوں کی جو سادہ وجوہات بیان کی جاتی ہیں‘ ان سے نئے سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ اگر ان حملوں کو انقلابی اسلام سے جوڑ دیا جائے تو پھر یہ پچھلے ۲۰سال ہی میں کیوں ہوئے ہیں؟ اگر غربت‘بدحالی ہی فیصلہ کن عوامل ہیں تو ہم اس حقیقت کی کیا توجیہہ کریں گے کہ ۱۱ستمبر کے تمام حملہ آور جہاں تک ہم جانتے ہیں پُرآسایش اور متوسط طبقے کے خاندانوں سے آئے‘ اور اگر مسلم حملہ آور اپنے آپ کو اس لیے اڑا دیتے ہیں کہ ۷۲دوشیزائیں ان کو جنت میں ملیں گی تو ہم اس کی کیا وجہ بتائیں گے کہ یہی اقدام غیرمسلم بھی کرتے ہیں‘ عورتیں بھی کرتی ہیں یا کوئی بھی جسے جنسی فوبیا ہو؟ یہ اسباب مخصوص حالات میں ان حملوں کی کثرت کی وجہ نہیں بتاپاتے۔ شاید سب سے پریشان کن سوال یہ ہے کہ ایک معاشرہ کس طرح ایک ایسے عمل کو برداشت کرسکتا ہے بلکہ مریضانہ حد تک بڑھا سکتا ہے جو بقا کی حِس کے مخالف ہو۔ ہم ان ماؤں اور باپوں کے بارے میں کیا کہیں گے جو اپنے اس بیٹے یا بیٹی پر فخر کرتے ہیں جس نے دوسروں کو مارنے کے لیے اپنے آپ کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔ کس چیز نے ایک ایرانی ماں کو ۱۹۸۰ء کی ایران عراق جنگ کے ابتدائی دنوں میں یہ اعلان کرنے پر آمادہ کیا کہ وہ خوش ہے کہ اس کے پانچ بیٹے شہید ہوئے اور بس یہ افسوس ہے کہ اس کے پاس پیش کرنے کے لیے اور بیٹے نہیں ہیں۔ آج ۲۰سال بعد وہ کیا کہتی ہوگی۔(ص ۱۱)

دوسرا محقق جس کی کتاب نے امریکا اور یورپ میں تہلکہ مچا دیا ہے‘ وہ شکاگو یونی ورسٹی کے پروفیسر رابرٹ پاپ کی Dying To Winہے۔ مصنف کا بنیادی پیغام یہ ہے کہ:

بہرکیف خودکش دہشت گردی اور اسلامی بنیاد پرستی کے درمیان مفروضہ تعلق گمراہ کن ہے‘ اور اس سے ان داخلی اور خارجی پالیسیوں کی حوصلہ افزائی ہورہی ہے جو امریکا کے حالات خراب کر رہی ہیں اور خواہ مخواہ بہت سے مسلمانوں کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔

رابرٹ پاپ اپنے طریق کار اور نتائج تحقیقی کو یوں بیان کرتا ہے:

میں نے ۱۹۸۰ء سے ۲۰۰۳ء تک پوری دنیا میں ہونے والے خودکش بمباریوں کے‘ جن کی تعداد ۳۱۵ ہے‘ ہر ایک کے اعدادو شمار جمع کیے ہیں۔ اس میں ہر وہ حملہ شامل ہے جس میں کسی مرد یا خاتون دہشت گرد نے دوسروں کو مارنے کی کوشش میں اپنے آپ کو مار لیا۔ اس میں وہ حملے شامل نہیں کیے گئے جن کی کسی قومی حکومت نے اجازت دی‘ مثلاً شمالی کوریا کے خلاف جنوبی کوریا کے۔ یہ ڈیٹابیس دنیا بھر میں خودکش حملوں کی پہلی مکمل تفصیل ہے جو میں نے جمع کی ہے اور تمام متعلقہ معلومات کی تصدیق کی ہے جو انگریزی‘ عربی‘ روسی یا تامل زبانوں میں بذریعہ انٹرنیٹ یا مطبوعہ ملتی ہیں۔ یہ معلومات خودکش دہشت گرد گروہوں سے حاصل کی گئی ہیں‘ یا ان بڑی تنظیموں سے جو متعلقہ ملک میں ایسی معلومات جمع کرتی ہیں‘ اور پوری دنیا کے نیوزمیڈیا سے۔ یہ ڈیٹابیس خودکش حملوں کا ایک فہرست سے زیادہ جامع ترین اور قابلِ اعتماد سروے ہے جو اس وقت دستیاب ہے۔ یہ ڈیٹا بتاتاہے کہ خودکش دہشت گردی اور اسلامی بنیاد پرستی یا دنیا کے کسی مذہب کے درمیان بہت کم تعلق ہے۔ خودکش حملوں کے سب سے بڑے ذمہ دار سری لنکا کے تامل ٹائیگر ہیں جو ایک مارکس نواز گروپ ہیں جس کے ارکان اگرچہ ہندو خاندانوں سے ہیں لیکن وہ مذہب کے سخت مخالف ہیں۔ اس گروپ نے ۳۱۵ میں سے ۷۶ حملے کیے‘ حماس سے بھی زیادہ۔ تقریباً تمام خودکش دہشت گرد حملوں میں جو چیز مشترک ہے وہ ایک مخصوص سیکولر اور اسٹرے ٹیجک ہدف ہے: جدید جمہوری طاقتوں کو مجبور کرنا کہ وہ اس علاقے سے اپنی افواج واپس بلائیں جن کو دہشت گرد اپنا وطن سمجھتے ہیں۔ مذہب شاذ ہی اصل وجہ ہوتا ہے‘ گو کہ اسے اکثر دہشت گرد تنظیموں کی جانب سے بھرتی کے لیے ایک ہتھیار کے طور پر اور وسیع تر اسٹرے ٹیجک مفادات کے حصول کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ (ص ۳-۴)

رابرٹ پاپ کا کہنا ہے کہ ۱۹۸۰ء سے لے کر ۲۰۰۳ء تک جن حملوں کا انھوں نے مطالعہ کیا ہے‘ اس میں مسلمانوں کا تناسب ۵۰ فی صد ہے‘ یعنی یہ محض مسلمانوں کا مسئلہ نہیں بلکہ تمام ہی مذاہب اور سیکولر عناصر اس میں کارفرما نظر آتے ہیں۔ نیز یہ کسی خاص تعلیمی پس منظر یا سماجی اور معاشی حالت کی پیداوار نہیں۔ ان کا کہنا ہے:

مسلمانوں میں بھی خودکش حملے ایک تہائی سیکولر گروپوں نے کیے ہیں۔ کردوں کی تنظیم ’پی کے کے‘ جس نے خودکش حملہ آوروں کو کرد خودمختاری حاصل کرنے کے لیے حکمت عملی کے ایک جزو کے طور پر استعمال کیا ہے‘ اسلام کے بجاے اپنے لیڈر عبداللہ ادکلان کے سیکولر مارکس لینن کے نظریے کو مانتی ہے۔ ان تنازعات میں بھی جن پر اسلامی بنیاد پرستی کی چھاپ ہے‘ خودکش حملوں کی ایک بڑی تعداد سیکولر نظریوں کے حامل گروپوں کی طرف سے ہوتے ہیں۔ فلسطین کی آزادی کے لیے پاپولرفرنٹ (مارکس لینن گروپ)‘ اور الاقصیٰ شہدا بریگیڈ جس کا تعلق یاسرعرفات کی سوشلسٹ الفتح موومنٹ سے ہے‘ دونوں مل کر اسرائیل کے خلاف کیے جانے والے ۹۲ حملوں میں سے ۳۱ کے ذمہ دار ہیں‘ جب کہ کمیونسٹ اور سوشلسٹ گروپ جیسے لبنانی قومی مزاحمتی فرنٹ‘ لبنانی کمیونسٹ پارٹی اور شام کی قومی سوشلسٹ پارٹی ۸۰ کے عشرے میں ہوئے ۳۶ حملوں میں سے ۲۷ کے ذمہ دار ہیں۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ نفسیاتی اسباب اس سوال کا جواب نہیں دے سکتے کہ خودکش حملے صرف چند مخصوص معاشروں میں صرف مخصوص مواقع پر کیوں ہوتے ہیں۔ خودکش حملوں کی تعداد میں ایک معاشرے سے دوسرے معاشرے میں فرق ہوتا ہے لیکن یہ اتنا زیادہ نہیں ہوتا کہ یہ معلوم ہوسکے کہ کیوں معاشروں کی اکثریت میں___ حالانکہ ان میں سے بہت سے معاشرے سیاسی تشدد سے گزر رہے ہیں___ کسی خودکش دہشت گردی کا مظاہرہ نہیں ہوتا۔ لیکن معاشروں کی ایک تعداد میں‘ ہر ایک میں درجنوں ہوجاتے ہیں۔ اس سوال کا سیاسی یا عمرانی جواب چاہیے۔ اسی طرح خودکش حملے کرنے والے افراد کی فراہمی میں ایک خاص مدت میں کچھ فرق پڑسکتا ہے۔ اس کا کوئی نفسیاتی سبب نہیں معلوم ہوتا کہ کیوں خودکش حملوں کے ۹۵ فی صد منظم مہموں میں ہوتے ہیں جو ایک خاص وقت میں مرکوز ہوتے ہیں۔ پھر یہ کہ خودکش حملہ آوروں کی شخصیت خودکشی کرنے والوں کے ساتھ نہیں ملتی۔ ابھی تک خودکش حملہ آوروں کی نفسیاتی شخصیت کے بارے میں ماہرین کا کہنا تھا کہ غیرتعلیم یافتہ‘ بے روزگار‘ معاشرے میں تنہا‘ غیرشادی شدہ‘ ۱۷/ ۱۸ سے ۲۲/۲۳ برس کی عمر کے ہوتے ہیں۔ اس مطالعے میں خودکش حملہ آوروں کی شخصیت کے بارے میں جامع ڈیٹا جمع کیا گیا ہے (دیکھیے‘ باب ۱۰) جو بتاتا ہے کہ وہ کالج کے تعلیم یافتہ اور غیرتعلیم یافتہ‘ شادی شدہ غیرشادی شدہ‘ مرداور عورت‘ معاشرے سے تنہا اور معاشرے میں مربوط‘ ۱۵ سے ۵۲ برس کی عمر تک کے رہے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں‘ لائف اسٹائل کے ایک وسیع پس منظر سے آتے ہیں۔

اسی طرح موصوف ثابت کرتے ہیں کہ غربت اس کا اصل سبب نہیں جیساکہ کچھ حلقوں میں دعویٰ کیا جاتا ہے (ص ۱۸-۱۹)۔ پروفیسر پاپ کی تحقیق جس طرف اشارہ کرتی ہے وہ بڑی بنیادی حقیقت ہے یعنی سیاسی ظلم و استبداد اس کا اہم ترین سبب ہے:

خودکش دہشت گردی کی حکمت عملی کا مقصد سیاسی دبائو ہے۔ خودکش حملوں کی بڑی اکثریت چند جنونیوں کے اتفاقی یا غیرمربوط افعال نہیں ہے بلکہ ایک منظم گروہ کی طرف سے کسی مخصوص سیاسی ہدف کو حاصل کرنے کے لیے ایک بڑی مہم کے حصے کے طور پر  کئی کئی ایک ساتھ ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں خودکش دہشت گرد گروپوں کے بنیادی مقاصد عموعی طور پر اسی دنیا سے متعلق ہوتے ہیں۔ یہ مہمیں بنیادی طور پر قوم پرست ہوتی ہیں‘ مذہبی نہیں ہوتیں اور خاص طور پر نہ اسلامی ہی۔

گذشتہ دو عشروں میں‘ جس گروپ نے بھی خودکش مہم چلائی‘ لبنان میں حزب اللہ سے لے کر مغربی کنارے میں حماس تک‘ اور سری لنکا میں تامل ٹائیگرز تک‘ ہر ایک کا ایک مرکزی مقصد رہا ہے: ایک بیرونی ریاست کو مجبور کرنا کہ وہ اپنی فوجیں وہاں سے نکالیں جسے یہ گروپ اپنا وطن سمجھتے ہیں۔

پروفیسر پاپ امریکی پالیسی کے یک رخے پن کا نوحہ کرتا ہے‘ اور ایک ایسی حکمت عملی کی بات کرتا ہے جو محض عسکری قوت پر انحصار نہ کرے‘ بلکہ اصل اسباب اور پالیسی کے پہلوؤں کو توجہ کا مرکز بنائے۔

آخری نتیجہ یہ ہے کہ خودکش دہشت گردی دراصل غیرملکی قبضے کے خلاف ردعمل ہے۔ دیگر حالات میں متفرق واقعات ہوئے ہیں‘ مذہب کا بھی ایک کردار ہے لیکن جدید خودکش دہشت گردی کو قومی آزادی کے لیے ایک انتہاپسند حکمت عملی کے طور پر بہتر سمجھا جاسکتا ہے۔ قومی آزادی ان جمہوریتوں سے جن کی افواج ان علاقوں کے کنٹرول  کے لیے ایک فوری خطرہ ہیں جن کو دہشت گرد اپنا وطن سمجھتے ہیں۔

خودکش دہشت گردی کے اسٹرے ٹیجک‘ سوشل اور انفرادی اسباب کو سمجھنے کے امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے اہم مضمرات ہیں۔ ہمارا پالیسی پر حالیہ بحث و مباحثہ صحیح سمت میں نہیں ہے۔ فوجی طاقت سے حملے اور محض رعایتیں طویل مدت تک کام  نہ آئیں گی۔ (ص ۲۳)

اس لیے جس نئی حکمت عملی کی طرف وہ امریکی قیادت کو متوجہ کرتا ہے‘ وہ دوسرے ذرائع سے امریکا کے تیل کی ضرورت پر توجہ مرکوز کرنے سے عبارت ہے‘ نہ کہ قبضہ (occupation) اور عسکری قوت کے ذریعے مسلم دنیا کو اپنے زیرتسلط رکھنا۔

یہ سمجھنے کے کہ خودکش دہشت گردی اسلامی بنیاد پرستی کا نتیجہ نہیں بلکہ غیرملکی قبضے کا ردعمل ہے‘ امریکا اور اس کے اتحادیوں کے لیے اہم مضمرات ہیں کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کس طرح کریں کیونکہ خودکش دہشت گردی کا اصل سبب مسلمانوں میں بھی کسی نظریے میں نہیں ہے۔بحیرۂ فارس میں جمہوریت کو پھیلانا امرت دھارا ثابت نہیں ہوگا جب تک کہ غیرملکی افواج جزیرہ نما عرب میں موجود ہیں۔

خلیج فارس کے تیل میں دنیا کی دل چسپی کو ایک طرف رکھ دیں تو واضح حل‘ جیساکہ رونالڈ ریگن کے لیے تھا جب امریکا کو لبنان میں خودکش دہشت گردی کا سامنا تھا‘ یہ ہوسکتا ہے کہ علاقے کو بالکلیہ چھوڑ دیں۔ یہ بہرحال ممکن نہیں ہے‘ یقینا مستقبل قریب میں بھی نہیں۔ اس طرح اب سوال یہ ہے کہ کیا ہم خودکش دہشت گردی کا کوئی ایسا مستقل حل تلاش کرسکتے ہیں جو ہمارے بنیادی مفاد‘ یعنی دنیا کے تیل پیدا کرنے والے بڑے علاقوں میں سے ایک پر ہماری رسائی کو متاثر نہ کرے۔ اس کا جواب ایک مشروط ہاں میں ہے۔ گو کہ اِکا دکا خودکش حملے ہوتے ہیں‘ امریکا اور اس کے اتحادی فتح کے لیے ایک ایسی حکمت عملی اختیار کرسکتے ہیں جو ہماری عالمی سلامتی کو قربان کیے بغیر خودکش دہشت گردی کی مہموں کو کم کردیں۔ یہ کرنے کے لیے ہمیں فوجی حملوں اور رعایتوں دونوں کی حدود کو پہچاننا ہوگا اور ساتھ ہی اپنے ملک میں سلامتی کی بڑھتی ہوئی کوششوں کی حدود کو بھی۔ ہمیں اپنی خلیج فارس میں آف شور بیلنسنگ (off shore balancing)کی روایتی پالیسی خوبیوں کو یاد کرنا چاہیے اور اسی حکمت عملی کی طرف واپس آنا چاہیے۔ یہی حکمت عملی دنیا کے تیل پیدا کرنے والے علاقوں میں دہشت گردی کو مزید اُبھارے بغیر ہمارے مفادات کے تحفظ کے لیے بہترین راستہ ہے۔(ص ۲۳۵-۲۳۶)

اسی ماہ پرنسٹن یونی ورسٹی کے عالمی شہرت کے ماہرمعاشیات پروفیسر ایلان کروٹیگر کی کتاب What Makes a Terroristشائع ہوئی ہے جس میں وہ برسوں کی تحقیق کے بعد یہ ثابت کرتا ہے کہ دہشت گردی کا تعلق نہ غربت سے ہے اور نہ مذہبی تعلیم یا تعلیم کی کمی سے اور صاف کہتا ہے کہ:

مجھے یقین ہے کہ مغرب کی غلطی یہ ہے کہ وہ یہ سمجھنے میں ناکام ہے کہ ہماری پالیسیاں منفی یا تشدد آمیز نتائج کی طرف لے جاسکتی ہیں۔ (ص ۵۱)

اسی طرح مذہب کے عنصر کو بھی اس نے غیر اہم قرار دیا ہے:

ہماری تحقیق کے نتائج نے دنیا کے بڑے مذاہب کے درمیان کوئی اہم فرق ظاہر نہیں کیا۔ ان نتائج کی میری تعبیر یہ ہے کہ مذہبی اختلافات ان بہت سے امکانی ذرائع میں سے ہیں جن سے دہشت گردی بڑھتی ہے۔ یہ اس طرح کی شکایات کی کوئی ایک وجہ نہیں ہے‘ اور کسی ایک مذہب سے وابستہ نہیں ہے۔ اگرچہ آج کل دنیا کی توجہ   اسلامی دہشت گرد تنظیموں کی طرف ہے‘ یہ کسی بھی طرح دہشت گردی کا منبع نہیں ہیں۔ دہشت گردی پر کسی مذہب کی اجارہ داری نہیں ہے۔

پروفیسر کروٹیگر نے انھی خطبات کے بعد سوال جواب کے موقع پر ایک بڑی عجیب بات کہی ہے جس سے جسے دہشت گردی کہا جاتا ہے اس کے عقلی جواز پر روشنی پڑتی ہے۔ سوال اور جواب ملاحظہ ہو:

سوال: آپ نے اپنے لیکچر کے آغاز میں کہا کہ دہشت گردی ایک حکمت عملی ہے‘ ایک مقصد حاصل کرنے کا ذریعہ۔ آپ نے اس بات پر اختتام کیا کہ دہشت گردی کے مقاصد حاصل نہیں ہوئے۔ کیا آپ ہمیں ذرائع اور مقاصد کی معاشی اصطلاحات میں دہشت گردی کے طریقے اور اس کے نتائج کا شروع سے آخر تک کا ایک قیمت اور نفع کا تجزیہ (cost benefit analysis) دے سکتے ہیں؟

جواب: میں آپ کو ایک مکمل طور پر معاشی تخمینہ نہیں دے سکتا لیکن میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ میں یقین رکھتا ہوں کہ اکثر دہشت گرد تنظیموں کی جانب سے دہشت گردی ایک عقل میں آنے والا اقدام ہوتا ہے۔ قیمت اور نفع کے جو حساب وہ لگا رہے ہوتے ہیں غالباً درست ہوتے ہیں۔ یہ ہمیشہ ٹھیک نہیں ہوتا۔ اس لیے دہشت گردی بعض اوقات بے وقت اور مقاصد کے برعکس کام کرتی ہے۔ دہشت گرد تنظیموں کی اہلیت کو سامنے رکھا جائے تو میرے خیال میں وہ بہترین طریقے استعمال کرتے ہیں جو انھیں دستیاب ہوتے ہیں۔ میں یہ اس لیے کہہ رہا ہوں کہ یہ تنظیمیں جس انداز سے صنعتوں کو نشانہ بناتی ہیں یا دہشت گردوں کے کام سپرد کرتی ہیں وہ سوچا سمجھا ہوتا ہے۔ مجھے یہ بھی نظر آتا ہے کہ ان حملوں کے اوقات بھی اکثر سوچے سمجھے ہوتے ہیں اس لحاظ سے کہ یہ اپنے ہدف کو بہ نسبت اپنی قربانی کے بہت زیادہ نقصان پہنچاتے ہیں۔(ص ۱۶۱)

بات لمبی ہو رہی ہے لیکن دنیا میں جو آزاد تحقیق ہو رہی ہے‘ وہ بڑی اہمیت کی حامل ہے اور ہمارے یہاں جو بے سروپا دعوے کیے جا رہے ہیں اور جس طرح مذہبی جنونیت اور جہادی کلچر کی بات کر کے اصل مسائل کو الجھایا جا رہا ہے‘ وہ افسوس ناک تو ہے ہی مگر خطرناک‘ نتائج کے اعتبار سے مہلک اور اپنے مقصد کو آپ شکست دینے والا (self defeating) ہے۔ مشرف صاحب اور بے نظیر صاحبہ دونوں ایک ہی راگ الاپ رہے ہیں جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ اس سلسلے میں ایک چوٹی کے مؤرخ اور محقق Eric Hobsbawm کی تازہ ترین کتاب Globalisation, Democracy and Terrorism جو ان کے مضامین کے انتخاب پر مشتمل ہے‘ بڑی دل چسپ رہنمائی کرتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ۲۱ویں صدی میں عالمی سطح پر قوت کے استعمال کو فروغ امریکا کی پالیسیوں کی وجہ سے ہوا ہے اور یہ کہ دہشت گردی کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے والے پڑھے لکھے لوگ ہیں‘ مذہبی جنونی یا فاقہ زدہ عوام نہیں۔

تیسرے مرحلے میں جسے موجودہ صدی کے آغاز پر غلبہ حاصل ہے‘ سیاسی تشدد جارج بش کے تحت امریکا کی پالیسیوں اور اسٹیبلشمنٹ کی وجہ سے منظم طور پر عالمی ہوگیا ہے‘ ۱۹ویں صدی کی انارکیت کے بعد شاید پہلی مرتبہ۔

دو باتیں ان نئی تحریکوں کی خاصیت ہیں۔ یہ چھوٹی اقلیتوں پر مشتمل ہیں گو کہ ان اقلیتوں کو عام لوگوں کی خاموش ہمدردی حاصل ہے جن کی خاطر یہ عمل کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ان کا مخصوص طریقۂ کار چھوٹے گروپ ایکشن کا طریقۂ کار ہے۔

پرویژنل آئی آر اے کی نام نہاد سرگرم یونٹ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ایک وقت میں اس میں دو یا تین سو سے زیادہ لوگ نہیں ہوتے تھے اور میرا خیال ہے کہ اٹلی کی ریڈبریگیڈ اور باسک ای ٹی اے میں بھی اس سے زیادہ نہیں تھے۔ عالمی دہشت گرد تنظیموں اور تحریکوں میں سب سے بڑی القاعدہ میں افغانستان کے دنوں میں بھی ۴ہزار سے زیادہ لوگ نہیں تھے۔ ان کی دوسری خاصیت یہ تھی کہ عام طور پر وہ بہ نسبت اپنی برادری کے دوسرے لوگوں کے زیادہ تعلیم یافتہ تھے‘ اور اعلیٰ سماجی پس منظر سے تعلق رکھتے تھے۔ افغانستان میں جن لوگوں نے القاعدہ سے تربیت حاصل کی وہ متوسط اور اعلیٰ طبقوں کے لوگ تھے جو مستحکم خاندانوں سے آئے تھے‘ زیادہ تر کالج کے تعلیم یافتہ تھے اور سائنس اور انجینیرنگ کے طالب علم تھے‘ جب کہ دینی مدارس سے بہت کم آئے تھے۔ فلسطین میں بھی خودکش حملہ آوروں میں سے ۵۷ فی صد ہائی اسکول سے زیادہ تعلیم یافتہ تھے‘ جب کہ آبادی میں یہ تناسب ۱۵ فی صد سے کم تھا۔ (ص ۱۳۲-۱۳۳)

Eric Hobsbawm جس نتیجے پر پہنچا ہے وہ بہت اہم ہے اور اس میں ہمارے لیے  بڑا سبق ہے:

ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ کی عالمیت اور ایک فوجی طاقت کی جانب سے مسلح بیرونی مداخلت کے احیا نے‘ جس نے ۲۰۰۲ء میں‘ بین الاقوامی تنازعات کے اب تک کے تسلیم شدہ ضوابط کو سرکاری طور پر مسترد کیا ہے‘ حالات کو بدتر کردیا ہے۔ ترقی یافتہ دنیا میں مستحکم ریاستوں کی حکومتوں کو اور ایشیا میں بھی‘ نئی عالمی دہشت گرد تنظیموں کا حقیقی خطرہ ناقابلِ ذکر ہے۔ لندن یا میڈرڈ میں شہری ٹرانسپورٹ میں چند درجن یا چند سو زخمی بمشکل ایک بڑے شہر کی کارکردگی میں چند گھنٹوں کا تعطل ڈالتے ہیں۔ نائن الیون کا حادثہ کتنا ہی ہولناک سہی‘ یہ امریکا کی عالمی طاقت اور اس کے اندرونی نظام کے حوالے سے بالکل بے اثر رہا۔ اگر حالات بدتر ہوئے ہیں تو یہ دہشت گردوں کی کارروائی سے نہیں‘ بلکہ حکومتِ امریکا کی کارروائی سے ہوئے ہیں۔ (ص ۱۳۵)


ہماری معروضات کا حاصل یہ ہے کہ اس وقت پاکستان میں خاص طور پر اور عالمِ اسلام بلکہ پوری دنیا میں بالعموم انتشار‘ تصادم اور خون ریزی کا اصل سبب وہ ظلم و تشدد‘ وہ ریاستی جبر اور تسلط‘ اور حکمرانوں کا قانون اور انصاف سے بالا ہونا ہے جس کے نتیجے میں مزاحمت رونما ہوئی ہے اور مزاحمت کے سوا کوئی اور ردعمل نہیں ہوسکتا۔ اسے انتہاپسندی کا نام دینا غلط ہے‘ اور اسے دہشت گردی قرار دے کر عسکری قوت سے دبانا مسئلے کو بگاڑنے اور تشدد اور خون خرابے کو وسیع کرنے کا نسخہ ہے۔ عالمی صف بندی میں ایک طرف امریکا اور اس کے حلیف ہیں جو ظلم اور استبداد کے مرتکب ہیں‘ اور دوسری طرف عوام ہیں جو اپنے حقوق‘ اپنی آزادی اور اپنے تہذیبی تشخص کے لیے جمہوری جدوجہد کرنا چاہتے ہیں اور جب اس کے دروازے بند پاتے ہیں تو بم کا جواب پتھر سے دینے پر مجبور ہوتے ہیں۔ قوت کا بے محابا استعمال اس صورت حال کو اور بگاڑ رہا ہے اور اب دونوں ہی طرف سے کیے جانے والے اقدامات بگاڑ کو بڑھانے کا ذریعہ بن رہے ہیں۔

پاکستان میں اصل مسئلہ جنرل پرویز مشرف کا آمرانہ نظام‘ فوج کی قیادت اور فوج کا سیاسی استعمال‘ جمہوری عمل اور دستور اور قانون کی بالادستی کو درہم برہم کرنا اور نظامِ حکومت کو ایک اقتدار کو مستحکم کرنے کے لیے غلط طور پر استعمال کرنا ہے‘ اور گرتی ہوئی دیوار کو سہارا دینے کے لیے امریکا اور برطانیہ کے تعاون سے ایک سیاسی پارٹی کو شریکِ اقتدار کرنا اور حزبِ اختلاف کو بانٹنے اور ان کے درمیان تفریق اور بے اعتمادی پیدا کرنا ہے اور ان ہتھکنڈوں کے استعمال میں اس حد تک چلے جانا ہے‘ وہ جو قتل‘ لُوٹ مار‘ قومی دولت کے خردبرد‘ بھتہ خوری اور کرپشن کے ذریعے جسے اپنے نام نہاد صدارتی انتخاب سے چند گھنٹے پہلے بڑی بول تول اور بیرونی قوتوں کی مداخلت کے بعد مرتب کیا گیا تھا‘ عام معافی تک دینے کے گھنائونے جرم تک کا کاروبار کرنے میں کوئی شرم محسوس نہیں کی۔ اصل مسئلہ یہ غاصب قیادت‘ اور ان کا بنایا ہوا یہ نظام اور سیاسی کھیل ہے جسے دوست دشمن سب دیکھ رہے ہیں‘ مگر مفاد کے پجاری ملک میں بھی اور باہر بھی اس کھیل کو جاری رکھنا اور اپنے مقاصد کے حصول کے لیے اسے کامیاب بنانا چاہتے ہیں‘ حالانکہ مجرم ضمیر ’جو چپ رہے گی زبانِ خنجر لہو پکارے گا آستیں کا‘ کے مصدق اپنی کوئی نہ کوئی جھلک دکھا دیتا ہے۔ نیویارک ٹائمز اور گارڈین دونوں نے جنرل مشرف اور محترمہ بے نظیربھٹو کی پیٹھ ٹھونکی ہے‘ مگر یہ کہے بغیر بھی نہیں رہ سکے کہ یہ کھیل کتنا گھنائونا ہے۔

نیویارک ٹائمز نے مشرف-بے نظیر معاہدے کو جسے امریکا نے ممکن بنایا dubious dealقرار دیا ہے اور لکھا ہے:

بے نظیر کی واپسی کو جمہوریت کی فتح سمجھنا مشکل ہے‘ خاص طورپر اس لیے کہ یہ جنرل پرویز مشرف کے ساتھ ایک مشکوک ڈیل کا نتیجہ ہے جو اس کو مزید پانچ سال کے لیے صدارت دیتی ہے۔ نہ یہ قانون کی حکمرانی کے لیے کوئی بڑی فتح ہے کیونکہ جنرل کے ساتھ بال کھیلنے کے بدلے میں مسزبھٹو کو ایک مناسب معافی دی گئی ہے جو ان کی وزارتِ عظمیٰ کے دور کے سنگین کرپشن کے الزامات سے ان کو بری کردیتی ہے۔

جنرل صاحب کی عزت امریکا میں کیا ہے اور ہمارے داخلی معاملات اور اپنے مطلب کی سیاسی قیادت کو بروے کار لانے میں امریکا کیا کردار ادا کررہا ہے‘ وہ بھی نیویارک ٹائمز ہی کے الفاظ میں یہ ہے:

ایک طویل عرصے تک اس نے جنرل مشرف کو اس کی مفروضہ طور پر طالبان اور القاعدہ کے خلاف پالیسیوں کی وجہ سے اپنی تائید سے نوازا۔ لیکن اب حال ہی میں وہ پالیسیاں اس کے جمہوریت اور قانون قبول کرنے یا شفاف انتخابات کرانے کے اس کے ایک کھوکھلے وعدے سے زیادہ قابلِ اعتماد نہیں رہیں۔ تاخیر سے یہ احساس ہونے کے بعد کہ جنرل کی پالیسیاں خطرناک طور پر انتہاپسندقوتوں کو کمزور نہیں مضبوط کر رہی ہیں۔ واشنگٹن نے اس ڈیل کے ہونے میں مدد دی جس سے مسزبھٹو کی واپسی ممکن ہوئی۔ اس سے پاکستان اور اسے جمہوریت کی طرف واقعی پیش قدمی کرنے میں مدد ملنا چاہیے۔

گارڈین کا تبصرہ بھی قابلِ غور ہے۔ سارا کھیل مفادات کی سیاست کا ہے‘ ورنہ جنرل مشرف اور محترمہ بے نظیر دونوں کی پارسائی کا حال سب کو معلوم ہے:

مسزبھٹو نے نہ حکومت پر اور نہ جنرل پرویز مشرف پر کراچی کے سانحے میں جس میں ۱۴۰افراد ہلاک ہوگئے‘ ملوث ہونے کا الزام لگایا۔ انھوں نے پاکستان کے سابق فوجی ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق‘ جنھوں نے ان کے والد کی حکومت کو ختم کیا اور ان کے باپ کو پھانسی چڑھایا‘ ان کے حامیوں کی طرف اشارہ کیا۔

ان میں سے کوئی بات بھی اسے خارج از امکان نہیں کرتی کہ آئی ایس آئی کے اندر بدمعاش عناصر یا اس کے سابقہ ممبروں نے اسلامی عسکریت پسندوں کے فراہم کیے ہوئے خودکش حملہ آور مسزبھٹو سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کرنے کے لیے استعمال کیے ہوں۔ اس بات میں کوئی شبہہ نہیں کہ ایک حقیقی معنوں میں سویلین مقبول سیاسی رہنما پاکستان کے ارب پتی جنرلوں کی طاقت کے لیے خطرہ ہے۔ مسزبھٹو اور ان کے شوہر پر جو بھی کرپشن کے الزامات ہوں (انھیں نظرانداز نہیں کیا جاسکتا) لیکن ان کی غیرحاضری میں سینیر آرمی جرنیلوں نے جو مال اور جایداد جمع کی ہے اس کے مقابلے میں وہ ایک ہلکا سا عکس ہے۔ وہ پاکستانی جو ہزاروں کی تعداد میں سڑکوں پرآئے بھٹوؤں کے سروں پر کرپشن کے چھائے ہوئے بادلوں سے آگاہ تھے لیکن حکومت کا آٹھ سالہ پروپیگنڈا اور متعدد عدالتی اقدامات سے کوئی فرق نہیں پڑا۔ ان کی اپنی پارٹی میں ان کے مقام کو جو نقصان پہنچا ہے وہ مشرف سے آٹھ ہفتے کی پس پردہ ڈیلنگ سے ہوا ہے۔ اسی کے نتیجے میں واپسی ہوئی اور ان کی واپسی کا راستہ صاف ہوا۔ اس سے ہی معلوم ہوجانا چاہیے کہ عوام کی ہمدردیاں کہاں ہیں۔ ایک سیاسی لیڈر کی حیثیت سے جنرل مشرف کا وقت ختم ہوچکا ہے۔ ان کے لیے اب واحد قابلِ عمل راستہ یہ ہے کہ وہ ایک براے نام صدر بن جائیں اور وزیراعظم اور فوج کے درمیان رابطہ کاری کریں۔ (گارڈین‘ ۲۰ اکتوبر ۲۰۰۷ء)

یہ ملک کی بدقسمتی ہے کہ کچھ جرنیل اور سیاست دان اس ناپاک کھیل میں شریک ہیں اور ملک کو مزید تباہی کی طرف لے جارہے ہیں‘ لیکن یہ ملک ۱۶کروڑ عوام کا ہے‘ کسی جرنیل یا کسی خاندان کی جاگیر نہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ اصل مسائل کو سمجھا جائے اور جو کچھ معرضِ خطر میں ہے‘ اس کے حقیقی ادراک کے ساتھ ملک کو بچانے اور اصل دستور کے مطابق حقیقی جمہوری نظام قائم کرنے کی جدوجہد کی جائے۔ اس سلسلے میں عدالت‘سیاسی اور دینی جماعتیں‘ عام فوجی‘ انتظامیہ‘ میڈیا‘ وکلا برادری‘ دانش ور اور عوام اپنا اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ    نظریۂ ضرورت کو اس کی ہرشکل میں اور روح اور جسد دونوں کے ساتھ ہمیشہ کے لیے دفن کردیا جائے اور اتنا گہرا گاڑا جائے کہ پھر اس سے باہر آنے کا خطرہ باقی نہ رہے۔ ملک عزیز کو جتنا نقصان نظریۂ ضرورت نے پہنچایا ہے کسی اور نظریے‘ حکمت عملی یا پالیسی نے نہیں پہنچایا‘ اور اس میں ساری ذمہ داری کسی ایک ادارے پر نہیں۔ عدالتیں‘ سیاسی جماعتیں‘ پارلیمنٹ‘ میڈیا سب ہی کسی نہ کسی درجے میں اس ذمہ داری میں شریک رہے ہیں اور اس سے نجات کی جدوجہد میں بھی ہر ایک کو   اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ ہم اپنی تاریخ کے اس نازک لمحے پر جب ایک طرف عدالت بہت ہی اہم دستوری‘ سیاسی اور اخلاقی امور پر غور کر رہی ہے اور ایسے فیصلے کرنے جارہی ہے جن کے دُوررس اثرات ہوںگے‘ اور دوسری طرف ملک نئے انتخابات کے دروازے پر کھڑا ہے اور    ایک طرف یہ امکان ہے کہ عدالت‘ دستور اور قانون کی بالادستی کو اولیت دے اور عوام‘ سیاسی اور  دینی جماعتیں اور میڈیا جمہوریت کی بحالی کے لیے سیاست میں فوج کی بلاواسطہ اور بالواسطہ مداخلت کا ہردروازہ بند کرنے اور آزاد‘ غیر جانب دار اور شفاف انتخابات کے ذریعے عوام کے  حقیقی نمایندوں کو زمامِ کار سونپنے کی خدمت انجام دیں‘ اور دوسری طرف یہ خطرہ ہے کہ ایک بار پھر نظریۂ ضرورت کا سہارا لے کر خدانخواستہ غلام محمد ‘ جنرل ایوب خان‘ جسٹس منیر‘ جسٹس انوارالحق‘ ضیاء الحق اور جسٹس ارشاد کے دکھائے ہوئے تباہی کے راستے کی طرف رجعت قہقہری کا ارتکاب کیا جائے‘ یا ایمرجنسی اور مارشل لا کے جہنم میں ملک کو جھونکنے کی خودکشی کی راہ اختیار کی جائے۔

یہ سب تباہی کے راستے ہیںاور ہمیں یقین ہے کہ باربار دھوکا کھانے والے عوام اب اس سنگین مذاق کو گوارا نہیں کریں گے۔ وہ اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ اب ملک کو نظریۂ ضرورت کے نام پر آمروں اور مفاد پرستوں کی گرفت سے نکالنے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ آخر یہ ملک کب تک اس ظالمانہ تصور کی کسی نہ کسی شکل کی زنجیروں میں پابہ جولاں رہے گا۔ غاصبوں کو اس کے ذریعے تحفظ ملا ہے۔ بیرونی دبائو اور مداخلت کو اس کے نام پر قبول کیا گیاہے۔ نائن الیون کے بعد یو ٹرن کو اس نظریۂ ضرورت کے سہارے جواز فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ وزیرستان میں فوج کشی کے لیے بھی یہی بھونڈا جواز دیا جا رہا ہے کہ اگر ہم نہیں کرتے تو امریکا خود کرڈالے گا۔ یہ سب نظریۂ ضرورت ہی کے مختلف مظاہر ہیں جن کے نتیجے میں ملک کا ہر ادارہ اور اب ملک کی آزادی خطرے میں ہے۔ نظریۂ ضرورت ہی کا ایک مظہر یہ دلیل ہے کہ اگر جنرل پرویز مشرف کو صدر نہیں بنایا جاتا تو ایمرجنسی یا مارشل لا آسکتا ہے۔ عارضی دور (transition) اور تدریجی عمل کے ذریعے فوج کے تسلط اور مداخلت سے نجات کا فلسفہ بھی اسی کا شاخسانہ ہے‘ اس لیے اب اسے پورے  شرح صدر کے ساتھ ختم ہونا چاہیے۔

۱- ہمیں عدالت عالیہ سے توقع ہے کہ وہ دستور‘ قانون‘ انصاف اور میرٹ پر فیصلے کرے گی اور نظریۂ ضرورت کا کسی شکل میں سہارا نہیں لے گی۔

۲- فوج سے توقع ہے کہ وہ اپنے دستوری فرائض پر قانع ہوگی اور سول نظام کی بالادستی کو کھلے دل سے قبول کرے گی‘ اور کسی نظریۂ ضرورت کا سہارا لے کر کسی غیردستوری اور ماوراے دستور انتظام کا خواب نہیں دیکھے گی۔

۳- سیاسی جماعتیں سمجھوتے کے راستے کو ترک کریں گی اور ڈیل اور شراکت اقتدار کے گرداب سے نکلیں گی۔ نیز فوج کی مداخلت کو مکمل طور پر ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کا راستہ اختیار کریں گی۔ ماضی میں خواہ آٹھویں ترمیم ہو یا سترھویں ترمیم‘ فوج کو راستہ دینے اور فوجی حکمرانوں کو  جواب دہ کرنے کی کوششیں تھیں اور یہ حکمت عملی ناکام رہی ہے۔ اب دوٹوک انداز میں پوری قوم کو یک زبان ہوکر اعلان کردینا چاہیے کہ دستوری‘ پارلیمانی اور وفاقی نظام کی بحالی کے سوا کوئی راستہ نہیں اور اس کا نقطۂ آغاز ۱۹۷۳ء کا دستور ہے جیساکہ وہ ۱۲اکتوبر ۱۹۹۹ء کو تھا۔ یہ عمل ضروری ہے اور اس کے تحت حقیقی آزاد‘ شفاف انتخاب ہی تبدیلی کا صحت مند راستہ ہیں۔ باقی سب نظریۂ ضرورت کے شاخسانے ہیں جن کے لیے اب کوئی گنجایش نہیں۔

اس لیے وقت کی سب سے اہم ضرورت نظریۂ ضرورت سے نجات ہے اور اس کے لیے عدالت‘ سیاسی جماعتوں‘ میڈیا اور خود فوج کو یک سو ہوجانا چاہیے‘ اور ان چاروں کو ایک ہی ہدف کے حصول کے لیے کارفرما ہونا چاہیے۔ نیز جنرل پرویز مشرف کے کسی بھی حیثیت سے صدر ہوتے ہوئے آزاد اور غیر جانب دار انتخاب ممکن نہیں‘ اس لیے ضروری ہے کہ تمام سیاسی قوتیں مل کر طے کریں کہ ایک غیرجانب دار اور حقیقی عبوری نظام قائم ہو جس کے تحت ایک آزاد‘ خودمختار اور باہم مشورے سے قائم کیا جانے والا الیکشن کمیشن جلداز جلد نئے انتخابات کا انعقاد کرے جس میں تمام سیاسی قوتوں اور شخصیات کو برابر کے مواقع حاصل ہوں۔

یہی وہ راستہ ہے جس سے ملک اس دلدل سے نکل سکتا ہے جس میں جرنیلی آمریت نے اسے پھنسا دیا ہے۔ یہ مقصد مؤثر سیاسی جدوجہد اور بنیادی نکات پر حقیقی قومی اتفاق راے پیدا کیے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا۔ وقت کم ہے اور چیلنج بہت عظیم۔

زندہ قوموں کا شیوہ یہی ہے کہ وہ بڑے سے بڑے چیلنج کا مردانہ وار مقابلہ کرتی ہیں اور اپنی آزادی‘ اپنی حاکمیت‘ اپنی شناخت اور اپنی قسمت پر حرف نہیں آنے دیتیں۔ آج پھر ملّت پاکستان کو ایک ایسا ہی معرکہ درپیش ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس امانت کی حفاظت کی توفیق بخشے جو پاکستان کی شکل میں ہمارے پاس ہے۔

 

صدرجارج بش کا دعویٰ ہے کہ جن افراد اور اقوام کو وہ ’دہشت گرد‘ قرار دے کر افغانستان اور عراق میں خون کی ہولی کھیل رہے ہیں اور پوری دنیا میں خوف و ہراس‘ قانون شکنی اور انصاف سے محرومی کی فضا قائم کیے ہوئے ہیں‘ وہ آزادی‘ حقوق انسانی‘ رواداری اور شرافت کی ان اقدار اور تصورات کے مخالف بلکہ دشمن ہیں جن کا امریکا علَم بردار ہے۔ اس دعوے کو اقوامِ عالم نے کبھی بھی درخورِاعتنا نہیں سمجھا اور دنیا بھر میں امریکا اور اس کی موجودہ قیادت کے خلاف غم و غصے بلکہ نفرت کا جو طوفان اُمڈ آیا ہے‘ وہ عوام الناس کے اصل جذبات اور احساسات کا ترجمان اور امریکا کے بارے میں ان کی بے لاگ راے کا مظہر ہے۔ گذشتہ چار ہفتوں میں عراق اور امریکا میں تین ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں جن سے امریکی قیادت کا اصل چہرہ اور دہرا کردار ایک بار پھر کھل کر  سب کے سامنے آگیا ہے اور خود امریکی دانش ور اور باضمیر صحافی بھی ان پر چیخ اُٹھے ہیں۔

پہلا واقعہ ۱۶ستمبر ۲۰۰۷ء کو بغداد میں رونما ہوا جس میں عراق میں امریکا کی ایک نجی سیکورٹی کمپنی بلیک واٹر (Black Water) کے محافظوں نے ۱۷معصوم عراقی شہریوں کو چشم زدن میں بھون ڈالا جس پر عراقی عوام ہی نہیں‘ امریکا کی سرپرستی میں کام کرنے والی عراقی حکومت بھی  چیخ اُٹھی اورساری دنیا میں ایک کہرام برپا ہوگیا۔واضح رہے کہ یہ کوئی منفرد واقعہ نہیں___ جب سے امریکا نے عراق پر فوج کشی (۲۰۰۳ء )کی ہے‘ وہاں امریکا اور اس کے اتحادیوںکے ڈیڑھ لاکھ فوجیوں کے علاوہ امریکا کی نجی سیکورٹی کمپنیوں کے تقریباً ایک لاکھ محافظ تعینات ہیں جن کو عراق ہی کے نہیں‘ ہرملکی اور بین الاقوامی قانون اور ضابطے سے مستثنا اور بالا رکھا گیا ہے‘ اور عراق میں امریکا کے پہلے منتظم اعلیٰ (administrator) پال بریمر سوم نے باقاعدہ ایک حکم نامے (order 17 transitional administrative laws) کے ذریعے تمام امریکی فوجی اور نیم فوجی کارندوں کو ان کے تمام اعمال و اقدامات کے بارے میں مکمل تحفظ دیا تھا۔ یہ اس تحفظ کا کرشمہ ہے کہ یہ محافظ جس کو چاہتے ہیں‘ ہلاک کر دیتے ہیں‘ جس علاقے پر چاہیں گولہ باری کرسکتے ہیں‘ جس شخص کو چاہیں گرفتار کرسکتے ہیں___اور امریکی فوجیوں کے مقابلے میں‘ جن کے اپنے مظالم کچھ کم نہیں ہیں‘ یہ نجی سیکورٹی گارڈز کہیں زیادہ قتل و خون اور بہیمیت کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں۔

لندن کے مشہور ہفت روزے نیو اسٹیٹمین کے شہرۂ آفاق کالم نگار جان پائیلگر (John Pilger) نے جو کئی کتابوں کے مصنف اور اہم ٹی وی دستاویزی فلموں کے پروڈیوسر ہیں‘ بارہا لکھا ہے کہ عراق میں شیعہ سنی فسادات کو انگیخت کرنے اور دونوں فرقوں کے لوگوں کو نہ صرف مارنے بلکہ ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کرنے میں ان کا کلیدی کردار ہے۔بلیک واٹر کی طرح کی درجنوں کمپنیاں عراق میں ظلم کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں اور ان کو مکمل تحفظ حاصل ہے۔ یہ سب کچھ صدر بش‘ ان کے نائب صدر ڈک چینی‘ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور اس کی سربراہ کونڈولیزارائس کی ناک تلے ہو رہا ہے۔ عراق کے عوام چیخ رہے ہیں‘ عالمی میڈیا اب ان خبروں کو چھاپ رہا ہے مگر آزادی‘ عدل و انصاف‘ حقوقِ انسانی کی علَم برداری کے دعویٰ کرنے والی امریکی قیادت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی اور وہاں کی عدالتیں‘ جن کی انصاف پسندی کا بڑا غلغلہ ہے‘ اس کا کوئی نوٹس نہیں لیتیں۔

دوسرے واقعے کا تعلق امریکا کی سپریم کورٹ کی بے حسی یا بے بسی سے ہے۔ جس عدالت کا کام سب انسانوں کو انصاف فراہم کرنا ہے اور جس کا دعویٰ امریکا کے دستور کی پہلی ہی دفعہ میں تمام انسانوں کے مساوی مقام کے دعوے کی شکل میں کیاگیا ہے‘ عملاً وہ دہشت گردی کے خلاف قوانین کا سہارا لے کر بے شمار مظلوم اور معصوم انسانوں کو انصاف سے محروم رکھ رہی ہے اور دلیل وہی گھسی پٹی: ’قومی سلامتی ‘کا تحفظ ہے۔

اس واقعے کا مرکزی کردار ایک لبنانی ذی حیثیت مسلمان ہے جو جرمن شہریت حاصل کرچکا تھا اور ۲۰۰۳ء میں اپنے خاندان کے ساتھ مقدونیہ میں چھٹیاں گزار رہا تھا کہ دہشت گردی کے شبہے میں سی آئی اے نے اسے دھر لیا‘ پھر ایک سال تک وہ امریکی خفیہ ایجنسی کے ہاتھوں افغانستان اور البانیا میں خوار ہوتا رہا۔ تشدد اور تعذیب کا نشانہ بنایا گیا اور اس ظلم کے شکنجے میں   کسا گیا جسے renditionکہا جاتاہے۔ المصری پر کوئی الزام تک نہیں لگایا جاسکا اور بالآخر اسے اپریل ۲۰۰۴ء میں البانیا سے رہا کردیا گیا۔ اس وقت سے وہ امریکا کی عدالتوں میں ٹھوکریں کھا رہا ہے اور انصاف تلاش کر رہا ہے۔ اکتوبر۲۰۰۷ء میں سپریم کورٹ تک نے اس کی بے گناہی کا اعتراف کیا‘ اس کے باوجود محض تکنیکی وجوہ کی بنا پر اسے کوئی ریلیف نہیں دیا۔ وجہ: ’قومی سیکورٹی‘ اور یہ کہ ریاستی رازوں کے افشا ہونے کے خطرات ہیں۔

انصاف کے اس خون پر انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون تک اپنے ۱۲ اکتوبر ۲۰۰۷ء کے اداریے بعنوان: Supreme Disgrace میں چلّا اٹھا‘ اس نے لکھا:

امریکا کی سپریم کورٹ صرف اپنے فیصلوں سے نہیں بلکہ مقدمات کے انتخاب سے بھی نظامِ عدل کی رہنمائی کرتی ہے‘ یعنی جن کی وہ سماعت کرنا قبول کرے اور جن کی  سماعت سے انکار کردے۔ منگل کو اس نے بالکل غلط رخ میں رہنمائی دی۔ عدالت وہ چار ووٹ نہیں لا سکی جن کی ایک بے گناہ لبنانی نژاد جرمن شہری خالدالمصری کے مقدمے پر نظرثانی کے لیے ضرورت تھی۔ جسے بش انتظامیہ کے اخلاقی‘ قانونی اور  عملی طور پر غلط دہشت گردی کے پروگرام کے تحت اغوا کیا گیا‘ گرفتار کیا گیا‘ اور ایک خفیہ سمندرپار قیدخانے میں ٹارچر کیا گیا۔

مظلوم خالد المصری کو زیریں وفاقی عدالتوں سے بھی انصاف نہیں ملا جنھوں نے اس کے سول مقدمے کو‘ حکومت کے اس نہایت کمزور دعوے کے آگے جھکتے ہوئے کہ اس مقدمے کو آگے بڑھانے سے قومی سلامتی کے راز خطرے میں پڑجائیں گے‘  خارج کردیا۔

اداریے کا اختتام ان الفاظ پر ہوتا ہے:

مصری کی اپیل کو مسترد کر کے ہائی کورٹ نے ایک بے گناہ شخص کو اس کی غلط قید اور ٹارچر کے لیے کسی قسم کا مداوا فراہم نہیں کیا۔ اس نے دنیا میں امریکا کے مقام کو نقصان پہنچایا اور انتظامیہ کی اپنے افعال کی جواب دہی سے بچنے کی کوششوں میں عدالت کو   اعلیٰ درجے کا مددگار بنا دیا۔ یہ ایسے کام نہیں جن پر فخر کیا جائے۔

تیسرے واقعے کا تعلق بھی اسی عدل کشی اور انسانیت کی تذلیل اور تعذیب سے ہے۔ امریکا کا دعویٰ ہے کہ اس نے ٹارچر کو خلافِ قانون قرار دے دیا ہے اور زیرحراست افراد پر تشدد اور تعذیب کے ذریعے اقبال جرم امریکی قانون اور اقدار کے خلاف ہے‘ لیکن عملاً امریکا‘ اس کی افواج‘ نجی محافظ اور سی آئی اے کے تفتیش کار نہ صرف تعذیب کے گھنائونے حربے دن رات استعمال کر رہے ہیں‘ بلکہ اس کارروائی کی باقاعدہ اجازت امریکی صدر نے نائب صدر اور اٹارنی جنرل کی سفارش پر دی ہے جسے ایک خفیہ دستاویز (secret memo) کا درجہ دیا گیا ہے۔ اس شرمناک دستاویز کی رو سے امریکی تفتیش کاروں کو تعذیب کے وہ ذرائع استعمال کرنے کی اجازت دی گئی ہے جو روس میں اسٹالن کے تاریک دور میں استعمال کیے جا رہے تھے۔ اس دستاویز کو کانگریس کی انٹیلی جنس کمیٹی تک سے خفیہ رکھا گیا۔ بھلا ہو نیویارک ٹائمز کا ‘جس نے اکتوبر ۲۰۰۷ء کے دوسرے ہفتے میں اس دستاویز کا راز فاش کردیا اور اس طرح امریکا کی قیادت کا اصل چہرہ خود امریکی صدر کی ہدایات کی مکروہ شکل میں دنیا کے سامنے آگیا۔ ری پبلکن سینیٹر آرلین سپیکٹر تک چیخ اٹھا کہ یہ وحشت ناک انکشاف ہے اور امریکا کے نام نہاد جسٹس ڈیپارٹمنٹ نے ٹارچر کو سندِجواز فراہم کی ہے۔ دی بوسٹن گلوب اور انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون کا مضمون نگار ایچ ڈی ایس گرین وے (H.D.S. Greenway) اپنے مضمون Undermining Americans Value میں اس صورت حال کا یوں اظہار و اعتراف کرتا ہے:

ساری دنیا سے نصف صدی تک خبریں بھیجنے کے دوران میرا یہ تاثر تھا کہ امریکا آزادی‘ انسانی حقوق اور انسان کے عزوشرف کا علَم بردار تھا۔ بش انتظامیہ نے ہم کو اس   سنہری معیار سے ہٹا دیا ہے اور یہ عزت بڑی حد تک خاک میں ملا دی ہے۔ ابوغریب اور گوانتانامو کے واقعات نے امریکا کی ساکھ اور اخلاقی مقام کو ختم کردیا ہے جس سے ہمارے دوستوں کو دکھ ہوا ہے‘ اورہمارے دشمنوں کو طاقت ملی ہے۔

گرین وے بڑے دکھ سے کہتا ہے کہ:

سب سے زیادہ حوصلہ شکن انکشاف یہ تھا کہ جس وقت امریکا کے عوام سعودی عرب‘ مصر جیسے اپنے حلیفوں سے جمہوریت اور کھلے پن کا تقاضا کر رہے تھے‘ دوسرے امریکیوں کو___ انتظامیہ کی مرضی اور خوشی سے ___خفیہ کمروں میں بتایا جا رہا تھا کہ قیدیوں کو ’بہترین‘ ٹارچر کس طرح کیا جاسکتا ہے۔ حتیٰ کہ سوویت یونین کے تفتیشی طریقے‘ جو اَب ترک کیے جاچکے ہیں‘ بھی زیرعمل لائے گئے۔

وہ لوگ جو تفتیش سے واقفیت رکھتے ہیں‘ ان کا کہنا ہے کہ جس طرح کا تشدد بش انتظامیہ روا رکھ رہی ہے‘ وہ غیر ضروری ہے اور معکوس نتائج دیتا ہے۔ سوویت یونین کے طریقوں کی نقل کرنے میں مسئلہ یہ ہے کہ سوویت تفتیش کار اکثر مذہبی معلومات حاصل کرنا نہ چاہتے تھے۔ وہ صرف ان کاموں کے اعترافات چاہتے تھے جووہ جانتے تھے کہ قیدیوں نے نہیں کیے‘ خالص سیاسی وجوہات پر پھانسی دینے کے لیے…

ٹارچر پر قومی اور بین الاقوامی پابندیوں کی خلاف ورزی کرنے میں بش انتظامیہ کو طویل مدتی مسئلہ یہ ہے کہ یہ ہمیں اسلامی انتہاپسندی کے خلاف جدوجہد میں سخت نقصان پہنچاتا ہے۔ یہ عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ دیتا ہے جس کی وجہ سے مغرب کے لیے  مشکل ہوجاتا ہے کہ وہ مسلمانوں کو قائل کریں کہ ہم اسلام کے دشمن نہیں ہیں۔ یہ القاعدہ کے حامیوں کی تعداد میں اضافہ کرتا ہے۔ یہ ان اعتدال پسند مسلمانوں کو روکتا ہے جو بہ صورت دیگر ہمارے ساتھ تعاون کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ہماری عالمی حیثیت اور قومی سلامتی کو نقصان پہنچاتا ہے۔ (ہیرالڈ ٹربیون‘ ۱۲ اکتوبر ۲۰۰۷ء)

وہ اقوام جو مہذب ہونے کا دعویٰ کرتی ہیں‘ ان کا المیہ ہی یہ ہے کہ ان کا پورا نظام سیاست و حکمرانی اخلاقی اقدار سے خالی ہے‘ اور اصل مقصد صرف مفادات کا حصول اور قوت کے ذریعے دوسروں کا استحصال ہے جسے آج ’میانہ روی‘ اور ’روشن خیالی‘ کا نام دیا جا رہا ہے۔ وہ ظلم و استحصال کے اس خونیں کھیل کا خوش نما عنوان ہے جس سے انسانیت کو دھوکا نہیں دیاجاسکتا۔ البتہ افسوس کا مقام ہے کہ خود مسلمان ممالک میں ایسے ارباب اقتدار اور اقتدار کے متلاشی بھی کم نہیں جو ایک شرمناک کھیل میں امریکی قیادت کے شریکِ جرم ہیں یا شرکت کے لیے بے چین!

قوم اس سانحے پر دل گرفتہ تھی‘ اور خود فوج سے نسبت رکھنے والے دردمند افراد بھی شرمندہ تھے کہ شمالی وزیرستان میں ڈھائی سو فوجی افسروں اور جوانوں کے ایک پورے دستے (garrison) کو ایک گولی چلائے بغیر‘ قبائلی جوانوں نے زیرحراست لے لیا۔ یہ مغوی فوجی تقریباً دو ماہ سے قبائل کے قبضے میں ہیں اور اپنی رہائی کے لیے تڑپ رہے ہیں۔ مشرقی پاکستان میں افواجِ پاکستان کے ہتھیار ڈالنے کے بعد‘ اتنی بڑی تعداد میں فوجیوں کے ہتھیار ڈالنے (سرنڈر) کا یہ دوسرا واقعہ ہے۔  اس پر جنرل پرویز مشرف نے ایوانِ صدر کے پُرتکلف ماحول میں جس پر اقبال کا یہ شعر صادق آتا ہے   ؎

ترے صوفے ہیں افرنگی‘ ترے قالین ہیں ایرانی
لہو مجھ کو رُلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی

جرنیلی شان سے جنگی حکمتِ عملی کی کتاب کا ورق کھولتے ہوئے فرمایا کہ ان کو پہلے مورچے لگانے چاہییں تھے اور پھر قبائل سے بات چیت کرنا چاہیے تھی اور چونکہ انھوں نے یہ ’پروفیشنل‘ راستہ اختیار نہیں کیا‘ اس لیے ۱۸ فوجی گاڑیوں کا یہ قافلہ جس میں بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق ایک چوتھائی حصہ سامانِ رسد اور تین چوتھائی اسلحے پر مشتمل تھا‘ قبائل کی گرفت میں آگیا۔ جنرل صاحب کا    یہ تجزیہ ممکن ہے کتابی اعتبار سے درست ہو‘ لیکن کیا فی الحقیقت پیشہ ورانہ رویے سے محرومی صرف اس ایک دستے کا معاملہ ہے یا جنرل پرویز مشرف کے دورِاقتدار میں جو سب سے اندوہناک سانحہ رونما ہوا ہے‘ اس کا تعلق فوج کے پیشہ ورانہ کردار کی کمزوری ہی سے ہے۔

فوج کو فی الحقیقت پیشہ ورانہ مہارت کے اعلیٰ ترین معیار کا پیکر ہونا چاہیے لیکن جس   فوج کو سیاست میں زبردستی کھینچ کر لایا گیا ہو‘ جو ہمہ وقتی سربراہ کی خدمات سے محروم ہو‘ جس کے  اعلیٰ صلاحیت رکھنے والے سیکڑوں افراد کو سول انتظامیہ میں گھسیٹ لیا گیا ہو‘ جس کو کاروباری معاملات میں اتنا الجھا دیا گیا ہو کہ ایک تازہ تحقیقی کتاب Military Inc. کے مطابق ۲۰۰ ارب روپے سے زیادہ کے کاروبار میں افواج‘ یا ان سے وابستہ ادارے ملوث ہیں‘ اور فوج Mili-Bisکی شکل اختیار کرتی جارہی ہے‘ اس سے کسی پیشہ ورانہ مہارت کی توقع کی جاسکتی ہے؟

گستاخی معاف‘ فوج میں پروفیشنلزم پیدا ہوتا ہے فوجی مقاصد‘ آداب اور جان دینے کے کلچر سے مکمل وابستگی کے ماحول میں۔ اگر ماحول سیاسی کھیل میں کھلاڑی بننے اور دنیا بنانے کا ہو تو پھر جان کی بازی لگانے والی کیفیت کیسے پیدا ہو۔ اگر توجہ کا مرکز سیاست میں الجھنا‘ مادی‘ معاشی اور کاروباری معاملات میں ملوث ہونا اور کیریر بنانا اور زمینوں کی ہوس بن جائیں تو پھر پروفیشنلزم کہاں سے پیدا ہو۔ اگر فوجی قیادت ہی نہیں‘ جوانوں کو دوسروں کی حفاظت کی جگہ خود اپنی حفاظت کی فکر ہو تو پھر ملک کی حفاظت کا خدا حافظ اور فوجی پروفیشنلزم قصہ پارینہ بن جاتے ہیں۔

بدقسمتی سے جس فوج کی شہرت (حقیقت جو بھی ہو اور جتنی بھی ہو) یہ ہوجائے کہ اس کے بارے میں دنیا میں کہا جائے کہ سینیر جنرلوں نے مال و جایداد جمع کرنے میں بے نظیر اور ان کے شوہر کوبہت پیچھے چھوڑ دیا ہے  (دی گارڈین‘۲۰ اکتوبر ۲۰۰۷ء) تو پھر اس کے افسروں اور سپاہیوں سے کون سے پروفیشنلزم کی توقع کی جائے۔ یہ چیزیں فوج کی پیشہ ورانہ مہارت کو فروغ دیں گی‘ یا اسے اس سے بتدریج دُور کرتی چلی جائیں گی۔ یہ بڑا بنیادی سوال ہے جس کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔

پھر فوج کی پیشہ ورانہ مہارت کا بڑا گہرا تعلق اس امر سے ہے کہ جس آپریشن میں فوج کو لگایا گیا ہے‘ اس کے بارے میںاس کے اور قوم کے جذبات کیا ہیں۔ پیشہ ورانہ مہارت محض کوئی فنی چیز نہیں ہے‘ اس کا تعلق انسان کی پوری شخصیت‘ اس کے محرکات و عزائم اور ان حالات و کوائف سے ہے جن میں کوئی اس سے عملی کام لیتا ہے۔ اگر فوج اور قوم اپنے دل کی گہرائیوں میں یہ سمجھتی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ کوئی حقیقی جنگ نہیں ہے‘ یہ پاکستان‘ اسلام یا اُمت مسلمہ کی جنگ نہیں ہے بلکہ امریکا کی عالمی ہوسِ اقتدار اور اسلام دشمنی کی جنگ کا حصہ ہے‘ جس میں فوج کو جھونکا جا رہا ہے تو اس فوج میں پیشہ ورانہ مہارت کہاں سے آسکتی ہے۔ آپ کتنے بھی دعوے کریں کہ یہ ہماری اپنی جنگ ہے‘ قوم اور خود فوج کا ذہن اور دل اسے تسلیم نہیں کرتے۔ بلکہ آپ خود باربار کہہ چکے ہیں کہ اگر ہم یہ کام نہ کریں‘ تو امریکا کرے گا۔ آپ کے وزیرخارجہ نے اسی ہفتے کہا ہے کہ اگر ہم قبائلی علاقوں میں کارروائی نہ کریں‘ تو ناٹو کے تیس ممالک کی فوجیں خاموش نہیں بیٹھیں گی‘ جس کے صاف معنی یہ ہیں کہ یہ پاکستان کی نہیں امریکا اور ناٹو کی جنگ ہے۔ جس فوج کے افسر اور جوان ضمیر کی یہ خلش رکھتے ہوں‘ ان میں پیشہ ورانہ رویہ کہاں سے آئے گا؟ آپ نے فوج کو تیار تو کیا تھا بھارت کی فوج کے مقابلے کے لیے اور یہ معرکہ جب بھی ہوا‘ فوج کے جوانوں نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ لیکن جس فوج کو ایک جانے پہچانے دشمن کے لیے تیار کیا گیا تھا‘ اسے اپنے ہی اہل و عیال کے کشت و خون کے لیے استعمال کیا جائے اور پھر اسے‘ اس کے غیرپیشہ ورانہ رویے کا طعنہ دیا جائے تو اس سے بڑا ستم اور کیا ہوسکتا ہے۔

پھر ایک اور بڑا بنیادی سوال ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ہماری فوج کی ساری تربیت ہی منظم جنگ کے لیے ہوئی ہے۔ منظم اور روایتی جنگ اور گوریلا جنگ میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ جس فوج کی ساری پیشہ ورانہ صلاحیتیں اور تربیت روایتی جنگ کے لیے ہو‘ اسے آپ گوریلا جنگ کے ایک ایسے میدان میں جھونک دیں جس کی نہ اُونچ نیچ سے وہ واقف ہو اور نہ جس کی مخصوص حکمت عملی  پر اس کی گرفت ہو اور پھر اس میں پیشہ ورانہ رویے کی کمی کی بات کی جائے‘ تو یہ فوج میں پیشہ ورانہ رویے کی کمی کا مظہر ہے یا پیشہ ورانہ رویے کا درس دینے والوں کے غیرپیشہ ورانہ طرزِعمل کا ثبوت؟مناسب ہوگا اگر اس پس منظر میں خود امریکا اور ناٹو ممالک کے نہایت ہی    اعلیٰ پیشہ ورانہ صلاحیت اور تربیت رکھنے والی افواج کی زبوں حالی کو بھی نگاہ میں رکھا جائے۔ امریکا کی فوج کی تربیت اور فنی برتری کے بارے میں تو دو آرا نہیں ہو سکتیں‘ لیکن غیرتربیت یافتہ مجاہدین اور مزاحمت کاروں کے ہاتھوں عراق اور افغانستان میں اور اس سے پہلے ویت نام میں اس کا کیا حشر ہوچکا ہے۔ اسرائیل کی فوج کے پروفیشنلزم کا تو بڑا چرچا ہے مگر لبنان میں حزب اللہ کے غیرفوجی مجاہدین نے جس طرح اسرائیل اور اس کے مددگاروں کو شکست سے دوچار کیا‘ وہ تاریخ کا حصہ ہے۔

امریکا کے سابق کمانڈر کا بیان ۱۴ اکتوبر ۲۰۰۷ء کے امریکی اخبارات میں شائع ہوا ہے اور پوری دنیا میں بشمول پاکستان‘ میڈیا نے اسے بڑی اہمیت دی ہے۔ اس نے عراق میں امریکی افواج کی ناکامی کی پوری ذمہ داری وائٹ ہائوس کی جنگی حکمت عملی پر ڈالی ہے اور اس کے الفاظ یہ ہیں:

امریکا ایک ڈرائونے خواب سے گزر رہا ہے جس کا کوئی اختتام سامنے نہیں ہے۔ ہمارے قومی رہنمائوں نے غیرمعمولی نااہل اسٹرے ٹیجک قیادت کا مظاہرہ کیا ہے۔ بڑے پیمانے پر غلطیوں سے پُر‘ غیرحقیقت پسندانہ حد تک پُرامید جنگی منصوبے سے   لے کر انتظامیہ کی جدید ترین حکمت عملی تک‘ یہ انتظامیہ ممکنہ معاشی اور فوجی طاقت کو ہم آہنگ کرنے اور استعمال کرنے میں ناکام رہی ہے۔ موجودہ انتظامیہ‘ کانگریس‘ خفیہ ایجنسیوں خصوصاً اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کو اس عظیم ناکامی کی ذمہ داری کو قبول کرنا چاہیے‘ اور امریکی عوام کو انھیں جواب دہ قرار دینا چاہیے۔ (دی نیشن‘ ۱۴ اکتوبر ۲۰۰۷ء)

جو کچھ وزیرستان میں ہو رہا ہے‘ وہ اس کی کاربن کاپی ہے۔ جو ڈھائی ہزار فوجی حراست میں آئے ہیں‘ وہ جنرل پرویز مشرف کی لہر کا شاخسانہ تھے۔ امریکا کی حکمت عملی کا جو حشر عراق میں ہو رہا ہے‘ وہی جنرل پرویزمشرف کی حکمت عملی کا وزیرستان میں ہونا مقدر ہے۔ جنرل صاحب کی آنکھیں کھلی ہوں یا نہ کھلی ہوں لیکن امریکی کانگریس کی House Armed Services Committee کی جو کارروائی امریکی اخبارات میں ۱۱اکتوبر ۲۰۰۷ء کو شائع ہوئی ہے‘ اس میںاعتراف کیا گیا ہے کہ:

صدرپرویز مشرف سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کچھ زیادہ کرنے کے لیے امریکا کا دبائو معکوس نتائج دے رہا ہے‘ اور قبائلی علاقوں میں انتہا پسندوں کے خلاف جنگ ہاری جاچکی ہے۔

ڈاکٹر مارون وین بام نے جو واشنگٹن کے مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ ہیں‘ کمیٹی کے سامنے اپنی شہادت میں کہا ہے:

ہم میں سے بیش تر جن کی موجودہ مرحلے میں پاکستان پر نظر ہے‘ یقین رکھتے ہیں کہ پاکستان شمال مغربی صوبے میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ ہارچکا ہے۔

جس طرح امریکی جنرل ریکارڈو سان شیز نے کہا ہے کہ پروفیشنلزم کی کمی فوج میں نہیں‘ اس قیادت میں ہے‘ جس نے فوج کو اس آزمایش میں ڈالا ہے اور جواب دہی اس قیادت کی ہونی چاہیے‘ جو اس اسٹرے ٹیجک تباہی کی اصل ذمہ دار ہے   ع

ہم الزام ان کو دیتے تھے‘ قصور اپنا نکل آیا

 

امتحان اور آزمایش کی وہ گھڑی جو کئی مہینے سے سروں پر منڈلا رہی تھی‘ اب قوم کے سامنے ہے اور صدارت پر قابض جنرل پرویز مشرف نے دستور‘ قانون ‘ آدابِ سیاست اور اصولِ اخلاق کو بالاے طاق رکھ کر پورے فوجی کروفر کے ساتھ موجودہ اسمبلیوں سے وردی میں صدارتی انتخاب لڑنے کا اعلان کردیا ہے اور سپریم کورٹ تک کو ایک دھمکی آمیز بیان سے نوازا ہے کہ ’’اگر میں صدر منتخب ہوگیا تو ۱۶ نومبر ۲۰۰۷ء تک چیف آف آرمی اسٹاف کے عہدے سے فارغ ہوجائوں گا‘‘۔

الیکشن کمیشن نے بھی ۱۹۸۸ء کے انتخابی قواعد میں ۱۰ستمبر یہ تبدیلی کر کے (اس تبدیلی کی منظوری بھی جنرل پرویز مشرف ہی سے لی گئی ہے) کہ صدر کے انتخاب پر دستور کی دفعہ ۶۳ کا  اطلاق نہیں ہوگا‘اپنی تابع داری کا بھرپور اظہار کردیا ہے۔سپریم کورٹ میں یہ مسئلہ زیرغور    (sub judice) ہے کہ صدر دو عہدے رکھ سکتا ہے یا نہیں اور کیا فوج کا چیف آف اسٹاف صدارت کا امیدوار بن سکتا ہے یا نہیں‘ لیکن عدالت کے فیصلے کا انتظار کیے بغیر الیکشن کمیشن نے صدارتی انتخاب کا شیڈول جاری کردیا ہے اور دستور کی دفعہ ۶۳ کی بے دخلی کے ساتھ ایک اور ترمیم یہ بھی کردی ہے کہ چیف الیکشن کمشنر کے سوا کوئی اور ریٹرننگ آفیسر کسی امیدوار کے کاغذات کو رد یا قبول نہیں کرسکتا۔ .ُ

جنرل صاحب نے جس آخری مُکے کی دھمکی دی تھی‘ اس کا بھرپور استعمال شروع ہوگیا ہے۔ اس کاآغاز ۱۰ستمبر کو جناب نواز شریف کے ساتھ بدسلوکی‘ سپریم کورٹ کے ۲۳ اگست کے فیصلے کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے انھیں اپنے ملک میں واپس آنے کے حق سے محروم کرنے‘ نیز ان کے اغوا اور ملک بدری سے کیا گیا‘ اور اب ہر ممکن ہتھکنڈے سے جمہوری سیاسی جدوجہد کا راستہ قوت سے روکنے اور ریاست کی مشینری کو حزبِ اختلاف کے قائدین اور سیاسی کارکنوں کی بڑے پیمانے پر گرفتاری‘ راستوں کی بندش‘ اور جمہوری احتجاج کے ہر عمل کو ناکام بنانے کا عمل زورشور سے پورے ملک میں جاری ہے۔

اس وقت قوم کو اور اس کے ساتھ‘ قوم اور دستور کی حفاظت کرنے والے اعلیٰ ترین ادارے __سپریم کورٹ __ دونوں کو ہماری تاریخ کے نازک ترین امتحان سے سابقہ ہے۔ سپریم کورٹ کا امتحان یہ ہے کہ اس نے بڑی عظیم قربانی اور جدوجہد کے بعد ۲۰ جولائی کو جو آزادی اور عزت حاصل کی ہے‘ وہ اس کی حفاظت کرپاتی ہے یا’نظریۂ ضرورت‘ کے جس دیو استبداد کو دفن کرنے کی بشارت دی گئی تھی اسے اور بھی گہرا دفن کیا جاتا ہے یا خدانخواستہ نئی زندگی دینے کا سامان کیا جاتا ہے؟

صدارتی انتخاب اور اس کے لیے اہلیت کے سلسلے میں جو مقدمات اس وقت سپریم کورٹ کے زیرسماعت ہیں‘ ان کا فیصلہ چند دن میں آنے کی توقع ہے اور ہم یہ امید رکھتے ہیں اور یہی دعا کرتے ہیں کہ عدالت پوری آزادی اور دیانت کے ساتھ دستور کے مطابق حق و انصاف کی روشنی میں خالص میرٹ پر فیصلہ کرے۔ ہم کوئی بدگمانی نہیں کرنا چاہتے لیکن کسی خوش فہمی کی بھی گنجایش نہیں۔ اصل مسئلہ ملک اور قوم کے مستقبل کا‘ اس کی آزادی اور حاکمیت کا‘ اور اس ملک کے آیندہ کے نظامِ حکمرانی کا ہے کہ یہ ملک جمہوریت اور دستور اور قانون کی بالادستی کا گہوارہ بنتا ہے یا خدانخواستہ آمریت اور سیاست میں فوج کی مداخلت کی دلدل میں گھرا رہتا ہے اور ایک تباہی کے بعد دوسری تباہی کا سفر شروع کر دیتاہے؟

اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ اس نازک لمحے پر قوم اور عدالت دونوں کی توجہ ایک بار پھر نہایت اختصار سے اصل مسائل (issues) پر مرکوز کرا دیں۔ عدالت جو بھی فیصلہ کرے‘ دستوری نظام کا تقاضا ہے کہ اس کا احترام کیا جائے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے اور پاکستان کی ۶۰سالہ تاریخ اس پر گواہ ہے کہ سیاست دانوں اور پارلیمنٹ کی طرح عدالت نے بھی بودے سہاروں کے     بل بوتے پر ’نظریۂ ضرورت‘ کے تحت دستوری اور جمہوری نظام کو فروغ دینے اور اس کے تحفظ کرنے کے باب میں ہمیشہ وہ کردار ادا نہیں کیا جس کی قوم کو ان سے توقع تھی اور جو بے لاگ  عدل و انصاف کی اعلیٰ روایات سے مطابقت رکھتا ہو۔ بلاشبہہ قانون کے مسلمہ اصول courts' right to revisit کی بنیاد ہی یہ ہے کہ انسانوں کا اعلیٰ ترین ادارہ بھی غلطی کرسکتا ہے اور اس کی اصلاح کا دروازہ کھلا رہنا چاہیے ___اس لیے کہ اصل فیصلہ تو پھر تاریخ کے قاضی ہی کا ہوتا ہے اور تاریخ بڑی بے لاگ نقاد ہے۔ نیز درست فیصلہ وہی ہوتاہے جو قوم کے ضمیر کی آواز ہو‘ اس لیے کہ ملک کے اصل نگہبان ۱۶ کروڑ عوام ہیں‘ جو قرارداد مقاصد کے واضح الفاظ میں اللہ کی حاکمیت کے تابع حکمرانی کے اختیارات کے اصل امین (trustee) ہیں اور ان کے دیے ہوئے اختیار کے تحت جس کا اظہار ایک طرف دستور اور قانون کی شکل میں ہوتاہے تو دوسری طرف ان کی آزاد مرضی سے منتخب ہونے والے افراد اور ادارے انجام دیتے ہیں اور ان سے بار بار متعین وقفوں سے مینڈیٹ (اختیار) حاصل کرتے ہیں۔ قانون کسی کی ذاتی مرضی کا نام نہیں بلکہ اس پورے دستوری نظام اور اداراتی انتظام سے عبارت ہے اور عدلیہ کا اس میں بڑا اہم مقام اور کردارہے۔ بات نامکمل رہے گی اگر اس امر کی تذکیر بھی نہ کی جائے کہ عوام اور تاریخ دونوں اپنا فیصلہ دیتے ہیں اور وہ بڑا کھرا فیصلہ ہوتا ہے لیکن ایک آخری فیصلہ جو سب سے بھاری ہے‘وہ ہے جو خود اللہ تعالیٰ فرمائے گا اور اس فیصلے سے کوئی بچ نہیں سکتا۔ عدالت اور عوام سب کو اس آخری فیصلے کے پورے احساس اور شعور کے ساتھ اپنا اپنا کردار اداکرنا چاہیے کہ کامیابی کا یہی راستہ ہے۔


اس وقت عدالت اور قوم دونوں کے سامنے اصل سوال ایک اور صرف ایک ہے ___ یعنی ملک کا مستقبل کا نظام کیساہوگا ___آمریت یا جمہوریت‘ شخصی حکمرانی یا دستور اور قانون کی بالادستی‘ انصرامِ حکومت کا عوام کے حقیقی نمایندوں کے ہاتھوں میں ہونا یا جبر اور قوت سے مسلط کیے جانے والے افراد کی حکمرانی‘ اور واضح الفاظ میں سیاسی نظام میں فوج کی مداخلت بلکہ بالادستی یا فوج کے کردار کا دستور کے مطابق سول قیادت کے ماتحت صرف دفاعی ذمہ داریوں تک محدود ہونا۔ عدالت کے فیصلے کا اصل موضوع یہی ایشو ہے‘ مجوزہ صدارتی انتخاب کامرکزی نکتہ بھی یہی مسئلہ ہے‘ ملک میں سیاسی جماعتوں‘ وکلا اور سول سوسائٹی کی جدوجہدکا محور بھی یہی چیز ہے‘ اور آنے والے قومی اور صوبائی انتخابات کی جدوجہد کا محور بھی یہی چیز ہے‘اور آنے والے قومی اور صوبائی انتخابات کا مرکزی موضوع بھی یہی فیصلہ کن امر ہے۔

عدالت میں جس مرکزی سوال پر بحث ہو رہی ہے وہ یہ ہے کہ:

کیا موجودہ اسمبلیاں نیا صدر منتخب کرسکتی ہیں‘ یا اس کا سیدھا راستہ غیر جانب دار نظام کے تحت‘ آزاد اور معتمد علیہ الیکشن کمیشن کے ذریعے‘ شفاف انتخابات ہیں جن کے ذریعے قوم نیامینڈیٹ دے اور اس کی روشنی میں صدر‘ پارلیمنٹ اور انتظامیہ سب اپنا اپناکردار ادا کریں۔

دوسرا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ کیا کوئی شخص فوج کے چیف آف اسٹاف کے عہدے پر فائز ہوتے ہوئے صدارتی انتخاب میں حصہ لے سکتا ہے اور کیا کوئی قانون یا ضابطہ کسی فردکو یہ ’حق‘  دے سکتا ہے؟

تیسرا مسئلہ جو ماضی کے کچھ عدالتی فیصلوں کی بنا پر پیدا کردیا گیا ہے‘ یہ ہے کہ کیا صدر کے انتخاب کے لیے دستور کی دفعہ ۶۳ لاگو ہوتی ہے یا نہیں؟ دستور میں قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کی اہلیت کے لیے دو شقیں ہیں یعنی دفعہ ۶۲ اور دفعہ ۶۳۔ لیکن کیا صدر کے لیے صرف دفعہ ۶۲ لاگو ہوتی ہے اور دفعہ ۶۳ کا اس انتخاب سے کوئی تعلق نہیں‘ جیساکہ سرکاری حلقے دعویٰ کررہے ہیں اور الیکشن کمیشن سے انھوں نے اس تعبیر کے مطابق ضوابط کار میں تبدیلی کرا لی ہے۔

چوتھا مسئلہ جو نسبتاً ٹیکنیکل نوعیت کا ہے یہ ہے کہ کیا اس مرحلے پر عدالت عظمیٰ کو اس باب میں مداخلت کرنی چاہیے؟

عدالت جو بھی فیصلہ کرے ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ عوام کی تفہیم کے لیے ان چاروں امور کے بارے میں چند اہم گزارشات پیش کردیں:

سب سے پہلے یہ بات سامنے رہنی چاہیے کہ دستور کے تحت ہمارے ملک کا نظام پارلیمانی نظام ہے اورآٹھویں ترمیم اور سترھویں ترمیم میں جو بھی اختیارات صدر کو دیے گئے ہیں اور اس کے نتیجے میں توازن اختیارات میں جو بھی سقم رونما ہوا ہے ‘اس کے علی الرغم نظامِ حکومت پارلیمانی ہے اور چند صواب دیدی اختیارات (discretionary powers) کے سوا صدر‘ وزیراعظم کے مشورے کا پابند ہے جو چیف ایگزیکٹو کی حیثیت رکھتا ہے۔ صدر‘ حکومت کا سربراہ نہیں’’مملکت کا سربراہ اور جمہوریہ کے اتحاد کی نمایندگی کرتا ہے‘‘۔ دفعہ ۴۱ کی اس حیثیت کا تقاضا ہے کہ صدر غیر جانب دار ہو‘ جماعتی سیاست سے بالا ہو‘ اور غیرمتنازع شخصیت کا حامل ہو۔ عدالت نے متعدد فیصلوں میں اس اصول کو بیان کیا ہے کہ جس نے صدر کی اس حیثیت کو ایک قانونی تقاضے (settled law) کا درجہ دے دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے ’میاں نواز شریف بنام صدر پاکستان‘ (PLD 1993 SC 473) کے فیصلے میں اس اصول کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے:

بلاشبہہ وفاق کے اتحاد کی علامت کے طور پر صدر کو دستور میں غیر جانب دار مقام حاصل ہے‘ اور اس حیثیت میںاس کو ریاست کے تمام عمّال میں سب سے زیادہ احترام اورعزت کا حق حاصل ہے۔ لیکن یہ بھی اتنا ہی اہم ہے کہ اس اعلیٰ منصب کے وقار کی حفاظت وبقا کے لیے اور دستورکے تحت غیر جانب دار حیثیت سے صدرکو سیاسی جھگڑوں سے اپنے کو الگ رکھنا چاہیے۔ اگر صدر سیاسی کھیل کی کشش سے اپنے کو دُور نہ رکھ سکے یا وہ اسمبلی میں دوسرے سیاسی عناصر کے ساتھ فریق بنے تو قومی معاملات میں ایک غیرجانب دار ثالث اور وفاق کے اتحاد کی علامت کے طور پر اس کی حیثیت مجروح ہوجائے گی۔

سپریم کورٹ کی طرف سے دستور کے اس واضح تقاضے کی نشان دہی کی موجودگی میں جنرل پرویز مشرف جو کردار ادا کر رہے ہیں‘ وہ دستور کے الفاظ اور روح دونوں کے منافی بلکہ دستور کو مسخ (subvert) کرنے کے مترادف ہے جو ان کے اس عہد کے بھی خلاف ہے جو بطور صدر دستور کی اطاعت اور فرماں برداری کے لیے وہ ایک نہیں دو بار لے چکے ہیں اور اس باب میں صرف ان کے یہی کارہاے نمایاں انھیں آیندہ انتخاب کے لیے نااہل بنا دیتے ہیں‘ اس لیے کہ دستور کی دفعہ ۴۷(۱) کے تحت ’’دستور کی خلاف ورزی یا فاش غلط روی کے کسی الزام میں اس کا مواخذہ کیا جاسکتا ہے‘‘۔ بلاشبہہ مواخذے کا ایک خاص طریق کار ہے مگر دستور کی خلاف ورزی دستور کے تحت عہدہ صدارت کے لیے نااہل بنا دینے والا ایک جرم ہے۔

جنرل پرویز مشرف کو صدارت کے لیے نااہل بنا دینے والی دوسری بات ان کا چیف آف اسٹاف کا عہدہ ہے۔ اگر یہ تسلیم کربھی لیا جائے کہ سترھویں ترمیم کے ذریعے انھیں دوعہدے رکھنے کی رخصت دے دی گئی تھی تب بھی یہ تو ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ یہ حد ۳۱ دسمبر ۲۰۰۴ء کو ختم ہوگئی اور پارلیمنٹ سے جس قانون کا سہارا لے کر اسے آج تک توسیع دی گئی ہے‘ وہ خود سترھویں ترمیم کی ضد ہے اور ایک فاسد قانون (bad law) ہے۔ نیز یہ توسیع اس معاہدے (covenant) کی خلاف ورزی ہے جس کے تحت ۳۱ دسمبر ۲۰۰۴ء تک کے لیے یہ رخصت دی گئی تھی۔اس معاہدے کا عوام کے سامنے اقرار جنرل صاحب ۲۴ مارچ ۲۰۰۳ء کو اپنے خطاب میں کیا ہے جسے سترھویں ترمیم کے ساتویں نکتۂ اقرار (seventh point of agreement) کے طور پر انھوں نے تسلیم کیا ہے۔ یکم جنوری ۲۰۰۵ء سے دو عہدوں کے باعث ان کی صدارت امرواقع (de facto) تو قرار دی جاسکتی ہے لیکن امر جائز (de jure) کسی پہلو سے تسلیم نہیں  کیا جاسکتا۔ لیکن اب ان کا دعویٰ ہے کہ وہ آیندہ پانچ سال کے لیے وردی میں صدارت کے امیدوار بن سکتے ہیں‘ خواہ منتخب ہونے کے بعد وردی اتارنے کا وہ وعدہ ایک بار پھر کیوں نہ کر رہے ہوں۔ جس نے پہلا وعدہ وفا نہ کیا ہو‘ اس کے دوسرے وعدے پر اعتبار کون کرے گا۔ لیکن مسئلہ آیندہ پانچ سال کے لیے اپنے آپ کو صدارت کے لیے پیش کرنے والے امیدوار کی الیکشن کے وقت اہلیت کا ہے اور وہ جنرل صاحب کو حاصل نہیں۔ اس لیے کہ دستور اور کسی بھی قانون کے تحت ایک حاضرسروس جرنیل کو کسی سیاسی عہدے کے لیے اپنے کو امیدوار بناکر پیش کرنے کا اختیار نہیں دیا گیا بلکہ یہ ایک جرم ہے جس کی سزا ملک کے قانون کے تحت ۱۰ سال قید ہے‘ اور وہ تمام افراد بھی اس سزا کے مستوجب ہوسکتے ہیںجو کسی فوجی افسر کو ایک سیاسی عہدے کے لیے نامزد کریں۔

اسی نااہلیت سے فرار کی خاطریہ ڈراما رچایا جا رہا ہے کہ دستور کی دفعہ ۶۳ کا اطلاق صدارتی امیدوار پر نہیں ہوتا۔ دیکھیے عدالت کیا فیصلہ دیتی ہے لیکن عقل و تجربے دونوں اس بارے میں کسی ابہام کی گنجایش نہیں چھوڑتے۔ دستور کی دفعہ ۴۱ (۲) صاف الفاظ میں کہتی ہے کہ:

کوئی شخص اس وقت تک صدر کی حیثیت سے انتخاب کا اہل نہیں ہوگا تاوقتیکہ وہ کم از کم ۴۵ سال کی عمر کا مسلمان نہ ہو اور قومی اسمبلی کا رکن منتخب ہونے کا اہل نہ ہو۔

انگریزی میں الفاظ shall not be qualified for election ہیں اور پھر    قومی اسمبلی کی رکنیت کے سلسلے میں بھی is qualified to be elected ہیں۔

اب جو بقراطی نکتہ لایا جا رہا ہے وہ یہ ہے کہ دفعہ ۶۲ qualifications بیان کرتی ہے اور دفعہ ۶۳disqualifications۔ساتھ ہی اعتراف کیا جاتا ہے کہ قومی اور صوبائی اسمبلی کے رکن کے لیے تو ۶۲ اور ۶۳ دونوں لاگو ہیں لیکن صدر کے لیے ۶۳ لاگو نہیں۔

اس کا سیدھا جواب یہ ہے کہ ۶۲ اور ۶۳ دونوں مل کر اہلیت کا تعین کرتی ہیں اور یہ دونوں دفعات composite ہیں‘ separable نہیں۔ دوسرے الفاظ میں اہلیت کے لیے پہلی شرط یہ ہے کہ ’عدم اہلیت‘ کی کوئی بات اس میں نہ پائی جاتی ہو۔ یہ منفی پہلو ہے۔ جس میں کوئی بھی عدم اہلیت کی بات پائی جائے گی‘ وہ پہلے ہی مرحلے میں اہلیت کی دوڑ سے باہر ہوجائے گا۔ البتہ جس میں عدم اہلیت کی کوئی کیفیت نہ ہو‘ وہ بھی آپ سے آپ اہل نہیں بن جاتا بلکہ اس میں مزید اہلیت کی کچھ مثبت صفات ہونی چاہییں۔ اس طرح منفی اور مثبت دونوں پہلوؤں کے تناظر میں کسی شخص کی اہلیت کا تعین ہوسکتا ہے۔ ان میں سے ایک کو دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔

بھارت کی سپریم کورٹ نے بھی ڈاکٹر ذاکر حسین صاحب کی صدارت کے سلسلے میں دائر کیے جانے والے ایک مقدمے میں یہی فیصلہ دیاتھا کہ ’نااہلیت‘ اور ’اہلیت‘ کے بارے میں دستور کی دفعات کو ملا کر لیا جائے گا۔ یہی عقل کا تقاضا ہے لیکن ناطقہ سر بہ گریباں ہے کہ کیسے کیسے لائق فائق حضرات یہ فرما رہے ہیں کہ منفی صفات (دفعہ ۶۳) کا اہلیت اور اس کی مثبت صفات (دفعہ ۶۲) سے کوئی تعلق نہیں۔ لیکن وہ ایک لمحہ اس بات پر بھی غور نہیں کرتے کہ جس سترھویں ترمیم کا اتنا شور ہے‘ خود اس میں صاف الفاظ میں لکھا گیا ہے کہ دفعہ ۴۷ (۷ بی):

بشرطیکہ آرٹیکل ۶۳ کی دفعہ ۱ کا پیراگراف د: دسمبر ۲۰۰۴ء کے ۳۱ویں دن سے نافذ ہوگا۔

ساری بات بھول جائیے اور اسے بھی نظرانداز کردیجیے کہ دفعہ ۶۳ میں کیا گنجایش ہے اور کیا نہیں ہے‘ صرف یہ بات کہ دستور کی اس شق میں صدر کے لیے دفعہ ۶۳ کے operative ہونے کا واضح اقرار موجود ہے اس دلیل کے تار وپود بکھیر دیتا ہے کہ دفعہ ۶۳ کا تعلق صرف رکن اسمبلی سے ہے‘ صدر سے نہیں۔

رہا یہ مسئلہ کہ کیا موجودہ اسمبلیاں اگلے پانچ سال کے نئے صدر کا انتخاب کرسکتی ہیں یا نہیں‘ اس کا تعلق دستور اور علم سیاست کے ایک بنیادی اصول سے ہے۔ معاملہ اسمبلی کا ہو یا صدر کا‘ ایک خاص مدت کے بعد انتخاب کی ضرورت صرف ایک وجہ سے ہوتی ہے اوروہ یہ ہے کہ عوام‘ جو اصل حکمران ہیں اور جن کی تائید اور اعتماد کے بغیر نظام کو جواز (legitimacy) حاصل نہیں ہوتا‘ ان سے زندگی میں صرف ایک بار استصواب کافی نہیں بلکہ وقفہ وقفہ سے ان سے نیا مینڈیٹ لیے بغیر نظامِ حکمرانی جمہوری اور دستوری قرار نہیں دیا جاسکتا۔ نیا انتخاب دراصل نیا مینڈیٹ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو اسمبلی اپنا مینڈیٹ ختم کرچکی ہو وہ آیندہ کے لیے کسی اور کو مینڈیٹ کیسے دے سکتی ہے؟ اتنی صاف بات اور ایسے مسلمہ اصول کو نظرانداز کرکے قانونی موشگافیاں کی جارہی ہیں اور بظاہر پڑھے لکھے لوگ یہ کھیل کھیل رہے ہیں اور بڑی ڈھٹائی سے یہاں تک کہتے ہیں کہ اگر صوبائی اسمبلیاں‘ سینٹ کے ارکان کو ۹ سال کے لیے منتخب کرسکتی ہیں تو قومی اسمبلی‘ سینٹ اور صوبائی اسمبلیاں صدر کو ۱۰ سال کے لیے کیوں منتخب نہیں کرسکتیں حالانکہ یہ صریح خلط مبحث ہے۔ سینٹ ناقابلِ تحلیل ہے اور اس میں نیا مینڈیٹ حاصل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ ہر تین سال کے بعد نصف ارکان کا نیا انتخاب ہوتا ہے اور اس پورے عمل میں سینٹ اور صوبائی اسمبلیاں فطری تبدیلی کے ساتھ کام کرتی ہیں۔ رہا معاملہ صدر کے انتخاب کا تو وہ الیکٹرول کالج کے ہر بار نئے مینڈیٹ کا تقاضا کرتا ہے اوریہ مینڈیٹ مرکزی اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے نئے انتخاب ہی سے حاصل ہوسکتا ہے ورنہ اسے صریح انتخابی دھاندلی کے کوئی اور نام نہیں دیا جاسکتا۔

البتہ اس سلسلے میں ایک اعتراف ضروری ہے۔ ایل ایف او کے ذریعے دستور کی دفعہ ۲۲۴ میں ایک لفظ کی تبدیلی سے قومی اسمبلی کے انتخاب کے دورانیے کو تبدیل کردیا گیا جس نے موجودہ دھاندلی کے لیے گنجایش پیدا کی ورنہ اسمبلیاں اپنی مدت پوری کرنے سے ۶۰ دن پہلے نئے انتخاب کے لیے آپ سے آپ تحلیل ہوجاتیں۔ ہمیں اس غلطی کا اعتراف کرنا چاہیے کہ سترھویں ترمیم کے موقعے پر ایم ایم اے کی مذاکراتی ٹیم نے اس دُور رس تبدیلی کا نوٹس نہیں لیا۔ اصل دفعہ یہ تھی:

"A general election to the National Assembly or a Provincial Assembly shall be held within a period of sixty days immediately PRECEDING the  day on which the term of the Assembly is due to expire".

ایل ایف او کے ذریعے لفظ PRECEDING کو تبدیل کر کے FOLLOWING لکھ دیا گیا۔ اس کی آج implication یہ ہے کہ اسمبلیوں کا انتخاب ۱۶ اکتوبر کے ۶۰دن بعد تک کیا جاسکتا ہے‘ جب کہ اصل دستوری شق کی روشنی میں یہ انتخاب ۱۶ اکتوبر سے پہلے ۶۰ دن قبل  ہوجانا چاہیے تھا۔ اس طرح صدر کی مدت (پانچ سال) ختم ہونے سے پہلے اسمبلیوں کے انتخابات لازماً ہوچکے ہوتے۔ کمال ہوشیاری بلکہ عیاری سے یہ یک لفظی ترمیم دستور میں کی گئی اور ’انتہاے سادگی سے کھا گیا مزدورمات‘ کے مترادف ہم سب یہ دھوکا کھا گئے۔ ضمناً یہ بھی عرض کردیں کہ دستور کی دفعہ ۴۱ (۷ بی) میں بھی اگر ۶۳ (۱ڈی) کے ساتھ دفعہ ۴۳ کا اندراج کرا لیا جاتا تو پھر ۳۱ دسمبر ۲۰۰۴ء کے بعد باوردی صدارت کے لیے آگے بڑھنے کا کوئی چور دروازہ باقی نہ رہتا۔ خود احتسابی کا تقاضا ہے کہ ان پہلوؤں پر بھی نگاہ ڈالی جائے اور دستوری اور قانونی معاملات کو جس قانونی مہارت اور عرق ریزی سے انجام دینے کی ضرورت ہے‘ اس کا پورا پورا اہتمام کیا جائے۔ جو دھوکا حکمرانوں نے دیا‘ وہ صریح وعدہ خلافی تھی اور دو عہدوں کا قانون دستور اور معاہدہ دونوں کے خلاف تھا مگر کچھ کوتاہیاں ہماری طرف سے بھی رہیں جن کے بارے میں آیندہ سبق سیکھنا ضروری ہے۔

رہا معاملہ ان امور کے بارے میں عدالت کی مداخلت کی ضرورت کا‘ تو ہم صرف اتنا ہی عرض کریں گے کہ عدالت عظمیٰ کی ذمہ داری دستور کے تحت قانون کی تعبیر اور دستور کی حفاظت کی ہے اور اس وقت دستور اور اس کے تحت وجود میں آنے والا پورا نظام معرضِ خطر میں ہے۔ اگر اس وقت عدالت عظمیٰ اپنے فرض منصبی کو ادا نہیں کرتی تو تاریخ اور یہ قوم اسے کبھی معاف نہیں کرے گی۔ اس موقعے پر ہم عدالت عظمیٰ اور قوم دونوں کو اپنے الفاظ میں نہیں‘ سپریم کورٹ کے جج جسٹس محمدیعقوب علی (جو بعد میں چیف جسٹس بنے) کے اس تاریخی ارشاد کی طرف متوجہ کریں گے جو انھوں نے عاصمہ جیلانی کے مشہور زمانہ کیس میں رقم کیے تھے:

میونسپل کورٹس کے جج جنھوں نے دستور کے تحفظ‘ بقا اور دفاع کاحلف اٹھایا ہے‘ حلف نہیں توڑیں گے اور نہ اعلان کریں گے کہ غاصب کی بالاتر قوت کی وجہ سے وہ اپنے قانونی فرائض سے فارغ ہوگئے ہیں۔ اگر ججوں کو معلوم ہو کہ ریاست کے انتظامی عہدے دار ان کے احکامات نافذ کرنے کے لیے رضامندنہیں ہیں تو ان کے لیے صرف یہی راستہ کھلا ہے کہ اپنا منصب چھوڑ دیں۔ جو لوگ غاصب کی خدمت کرنے کے خواہش مند ہوں وہ اس کے مسلط کردہ لیگل آرڈر کے تحت عہدہ سنبھال سکتے ہیں لیکن یہ ججوں کے ذاتی فیصلے اور صواب دید پر منحصر ہے‘ اس کا کوئی قانونی اثر نہیں ہوگا۔ اگر وہ دوسرا راستہ اختیار کریں تو وہ یہ تسلیم کر رہے ہوں گے کہ ’جس کی لاٹھی اُس کی بھینس‘ اور یوں غاصب کے شریک کار ہوجائیں گے۔ یہی نتیجہ ہوگا اگر وہ اپنے حلف کو نظرانداز کردیں‘ قومی نظام کی تباہی کو جائز تسلیم کرلیں اور غاصب کے غیر قانونی‘ انتظامی اقدامات کو تسلیم کریں۔

آج جنرل پرویز مشرف کی پوزیشن جنرل یحییٰ خان کی پوزیشن سے سرِمُو بھی مختلف نہیں۔ کیاآج کی عدالت اپنا فرض ادا کرے گی اور حقیقی فراست اور جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے عدل و انصاف کا بول بولا کرکے اس ملک میں عدلیہ کی عزت اور وقار اور اس پر عوام کے اعتماد کو نئی بلندیوں سے ہم کنار کرنے کا کارنامہ انجام دے گی؟


بلاشبہہ عدالت دستور اور قانون کے دائرے میں ہی اپنافیصلہ دے گی اور یہی اس کی ذمہ داری ہے لیکن یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ عدالت دستور اور قانون کے الفاظ کے ساتھ اصولِ قانون‘ تعبیر ِدستور کے مسلمہ قواعد اور اپنے فیصلوں کے سیاسی اور اخلاقی مضمرات سے صرفِ نظر نہیں کرسکتی۔ یہ ’نظریۂ ضرورت‘ کی قبیل کی کوئی شے نہیں بلکہ اس کا تعلق مقاصدِ قانون اور روحِ دستور سے ہے___ یعنی ملک میں دستور کا بنیادی ڈھانچا اور نظامِ حکومت کے اصول اور فریم ورک۔ دستور کا گہری نظر سے مطالعہ کیا جائے تو اس کے چار ہی بنیادی ستون ہیں:

1  قرارداد مقاصد اور دستور کا اسلامی کردار

2  پارلیمانی جمہوریت

3  وفاقی نظام

4 عوام دوست فلاحی معاشرے کا قیام

ان چاروں بنیادی ستونوں کی روشنی میں اگر حالات کا جائزہ لیا جائے تو اس وقت جنرل مشرف اور ان کے صدارتی انتخاب کا تعلق محض ایک فرد کی ذات سے نہیں بلکہ وہ اب عنوان ہیں اس پورے سیاسی‘ نظریاتی اور تہذیبی کش مکش کا جس میں آج ملک اور قوم مبتلا ہیں۔ اس کے پانچ پہلو ایسے ہیں جن پر توجہ مرکوز کیے بغیر اس کش مکش کا صحیح شعور و ادراک ممکن نہیں جو آج درپیش ہے۔

  •  پہلی چیز آمریت اور جمہوریت میں سے ایک کا انتخاب ہے۔جمہوریت اور شخصی حکمرانی ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے‘ یہ ایک دوسرے کی ضد ہیں۔جنرل پرویز مشرف کے آٹھ سالہ دور سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ ان کا مزاج‘طریق کار‘ اندازِ حکمرانی شخصی آمریت کی بدترین شکل ہے۔ انھوں نے ملک کے دستور کو ہر سطح پر مسخ کر دیا ہے۔ پارلیمانی نظام پر صدارتی نظام کو مسلط کردیا ہے۔ وزیراعظم‘ کابینہ اور پارلیمنٹ ان کے مُہرے ہیں اور تابع مہمل۔ وزیراعظم شامل باجا ضرور ہیں لیکن ملک کے چیف ایگزیکٹو کا کردار جنرل صاحب ادا کر رہے ہیں اور نظامِ حکومت ان کے اشارے پر اور ان کے معتمد علیہ ساتھیوں کے ذریعے (جو فوجی اور سول بیورو کریسی کا ایک مخصوص ٹولہ ہے) چلایا جا رہا ہے۔ اس کا سب سے واضح مظاہرہ پیپلز پارٹی کی رہنما محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ سے صدر کی مذاکراتی ٹیم کی شکل میں ہوا‘ جو صدر‘ ان کے چیف آف اسٹاف‘ آئی ایس آئی کے حاضر سروس جرنیل اور قومی سلامتی کونسل کے سیکرٹری اور صدر صاحب کے معتمدعلیہ بیورو کریٹ پر مشتمل تھی۔

یہی وجہ ہے کہ جنرل صاحب وردی اتار کر نئے انتخابات کے ذریعے وجود میں آنے والی قومی و صوبائی اسمبلیوں سے عام شہری کی طرح دستور کے تحت صدارت کے حصول کے لیے مقابلہ کرنے کی ہمت نہیں رکھتے۔وہ چاہتے ہیں کہ وردی سمیت اپنے کو قوم پر مسلط کردیں اور پھر اپنے زیرانتظام اور صرف اپنی مرضی کے مطابق انتخابات کا ڈھونگ رچائیں۔ موجودہ اسمبلیوں سے اور وردی کے ساتھ صدارت کا انتخاب جمہوریت کا گلا گھونٹنے اور جمہوریت کو بیخ و بُن سے اُکھاڑنے کے منصوبے کا حصہ ہے۔ یہ کھلی کھلی شخصی آمریت کے لیے راہ ہموار کرنے کی سازش ہے ۔ اور اگر اس کا راستہ اس پہلے قدم پر نہ روکا گیا تو پھر دستور کی بالادستی اور عوام کی ان کے حقیقی نمایندوں کے ذریعے حکمرانی کا خواب شرمندئہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔

  •  دوسرا بنیادی مسئلہ (issue) ملک کی سیاست میں فوج کے کردار کا ہے اور فوج کے ساتھ ہیئت حاکمہ (establishment) کے گٹھ جوڑ کا ہے۔ جس کے دوسرے شریک سول انتظامیہ کا ایک بااثر گروہ اور سیاسی میدان کے مفاد پرست عناصر ہیں۔ یہ وہ ہیئت حاکمہ ہے    جو ملک پر قابض ہے اور کسی صورت اقتدار پر اپنی گرفت چھوڑنے اور ملک کے عوام کو اپنی قسمت   کا مالک ہونے کا موقع نہیں دینا چاہتی بلکہ عوام کی حاکمیت میںاپنے اقتدار کی موت دیکھتی ہے۔ مسلم لیگ (ق) جو ق نہیں دراصل پرویز مشرف لیگ (PML)بن چکی ہے اور ایم کیو ایم اس کے کلیدی کردار ہیں۔ آیندہ انتخاب اس سلسلے میں ایک فیصلہ کن مرحلے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ کیا یہی پیران تسمہ پا ملک پر مسلط رہتے ہیں یا عوام کے حقیقی نمایندے منصفانہ سیاسی عمل کے ذریعے اقتدار کی باگ ڈور سنبھالتے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اس فوجی سول ہیئت حاکمہ سے نجات طویل اور   دانش مندانہ حکمت عملی کے ذریعے ہی حاصل کی جاسکے گی لیکن اس کا پہلا قدم آزاداور منصفانہ انتخاب کے ذریعے ایسی اسمبلیوں کا وجود میں آنا ہے جو فوج اور انتظامیہ (بشمول لوکل گورنمنٹ اور پولیس) کی بیساکھیوں اور ایجنسیوں کی سیاست سے آزاد ہوں اور عوام کے حقیقی نمایندوں کا کردار ادا کرسکیں۔
  •  تیسرا بنیادی مسئلہ اس وقت پاکستان کی آزادی اور خودمختاری کا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آج ہماری خارجہ سیاست‘ ہماری معیشت‘ حتیٰ کہ ہمارا نظامِ تعلیم اور ہماری تہذیبی زندگی پر امریکا اور اس کا سامراجی ایجنڈا اس حد تک حاوی ہوگیا ہے کہ اب حکمران نہ صرف بیرونی قوتوں کے دبائو میں ہیں بلکہ ان کے آلۂ کار بن گئے ہیں۔ جس طرح ملک کی فوج کو اپنی قوم کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے‘ جس طرح پورے قبائلی علاقے کو سول وار کی آگ میں دھکیل دیا گیا ہے‘ جس طرح بلوچستان میں خانہ جنگی کی کیفیت پیدا کر دی گئی ہے‘ جس طرح اسلام آباد میں مسجد اور مدرسے کی تقدیس کو پامال اور معصوموں کے خون سے ہولی کھیلی گئی ہے ‘ جس طرح دینی تعلیمی نظام کو تباہ و برباد کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں‘ جس طرح قومی تعلیمی پالیسی کو بیرونی طاقتوں کے اشاروں پر بدلا جا رہا ہے‘ جس طرح کراچی جیسے شہر کو فسطائی قوتوں کی گرفت میں دے دیا گیا ہے‘ جس طرح عدالتوں کو متاثر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے‘ جس طرح پاکستان کی نیوکلیر صلاحیت کو منجمد کیا گیا ہے اور ملک کی خارجہ اور داخلہ ہر پالیسی کو امریکا کے نئے قانون بسلسلہ نائن الیون کمیشن کی زد میں دے دیا گیا ہے اور ہر قسم کی بیرونی امداد کو اس سے نتھی کردیا گیا ہے___ وہ ملک کی آزادی اور حاکمیت پر ضربِ کاری ہے۔

اب تو یہ مداخلت اس مقام پر پہنچ گئی ہے کہ امریکا‘ برطانیہ اور اس کے اشاروں پر چلنے والے دوسرے حکمران آیندہ کے سیاسی دروبست کی صورت گری فرما رہے ہیں۔ سیاسی اتحاد بنانے کا کام ان کے اشارے پر اور ان کی عملی شراکت سے ہو رہا ہے‘ اور کسے ملک میں آنے دیا جائے گا اور کسے اغوا کرکے ملک بدر کردیا جائے گا‘ اس کام میں بھی حکمران‘ بیرونی ایجنسیاں‘ برطانیہ کا دفترخارجہ اور امریکا کا اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ‘ سب ملوث (involve) ہیں۔اس کے بعد ہماری آزادی اور خودمختاری کی کیا حیثیت رہ گئی ہے۔

اس وقت قوم کے سامنے یہ بنیادی سوال ہے کہ آیندہ اس کے حکمران امریکا اور برطانیہ کے مقرر کردہ اور پسندیدہ افراد ہوں گے یا وہ جو پاکستانی قوم کے معتمدعلیہ‘ صرف اپنی ملت کے مفاد اور عزائم کے ترجمان ہوں اور اس کے سامنے جواب دہ ہوں۔ بھارتی کالم نگار پرافل بیدوائی (Praful Bidwai) جس کے مضامین پاکستانی اخبارات میں باقاعدگی سے شائع ہوتے ہیں‘ کتنا لطف لے کر ہماری قیادت کے امریکا کے کٹھ پتلیوں کا کردا ر ادا کرنے کا ذکر کرتا ہے:

امریکا پاکستان کے معاملات میں جارحانہ طور پر مداخلت کر رہا ہے اور اس کی فوجی حکومت کو خفیہ لیکن مضبوط حمایت فراہم کر رہا ہے۔ اگرچہ امریکا کا کہناہے کہ نوازشریف کی جلاوطنی پاکستان کا داخلی مسئلہ ہے‘ سب کو معلوم ہے کہ جنوبی وسطی ایشیا کے اسسٹنٹ سکرٹری آف اسٹیٹ رچرڈ بائوچر خاص اس موقع پر‘ جب کہ نواز شریف کے اخراج کا ڈراما روبۂ عمل تھا‘ اسلام آباد میں موجود تھے۔ رچرڈ بائوچر نے عملاً واشنگٹن کے وائس راے کی حیثیت سے کام کیا ہے اور اس مفروضے پر کہ طالبان اور القاعدہ کے خلاف امریکا کی جنگ میں وہ ایک قابلِ اعتماد حلیف ہے‘ حکومت کو مشورہ دینے اور اس کی بقا یقینی بنانے کے لیے ہر چھٹے ہفتے اوسطاً ایک چکر لگاتے رہے۔ اسلام آباد میں ڈپٹی سکرٹری آف اسٹیٹ اور سابق نیشنل انٹیلی جنس ڈائرکٹرجان نیگرو پونٹے بھی     ان کے ساتھ شریک تھے۔ واضح رہے کہ امریکا چاہتا ہے کہ مشرف اور پاکستان کی سیاسی طاقتوں خصوصاً مسز بھٹو کی پیپلز پارٹی کے درمیان شراکت اقتدار کے نظام کی  براہِ راست نگرانی کرے۔ گذشتہ مہینے ہی پرویز مشرف ایمرجنسی لگانے کا ارادہ کر رہے تھے لیکن رات کو ۲ بجے سکرٹری آف اسٹیٹ کونڈولیزارائس نے ۱۷منٹ کی طویل ٹیلی فون کال میں انھیں اس سے متنبہ کیا۔ ہر کوئی اندازہ لگاسکتا ہے کہ موجودہ حالات میں امریکا کا رویہ کیا ہوگا۔ اگر وہ اپنے مخصوص فوری مقاصد کے حصول کے طریقے کے مطابق، یعنی ’کسی بھی قیمت پر دہشت گردی کے خلاف‘اس کی اصل دل چسپی ہوئی تو پرویز مشرف کے ان مہم جویانہ اقدامات کا ساتھ دے گا جو وہ پُرتشدد ہنگاموں کو   محدود رکھنے کے لیے اور کسی طرح اس ڈیل کو بچانے کے لیے کرے جو وہ مسزبھٹو سے کرنا چاہ رہا ہے…

امریکا بے نظیر بھٹو کی شراکت اقتدار کی ڈیل صرف اس لیے نہیں چاہتا ہے کہ انھوں نے امریکا کا کہا پورا کرنے کا وعدہ کیا ہے‘ بلکہ اس لیے بھی کہ اسے اندیشہ ہے کہ نوازشریف معتدل اسلامی ایم ایم اے سے پھر مل جائیں گے۔

بھارت ہی کی ایک دوسری کالم نگار سیما مصطفی ایشین ایج میں لکھتی ہے:

یہ بالکل واضح ہے کہ انھوں نے مکمل کنٹرول کی پوزیشن حاصل کرلی ہے۔ وہ پاکستان آتے جاتے ہیں اوربہت مدت ہوئی کہ ان کے بیانات نے اس ملک کی خودمختاری کی مقدس حد کو پار کرلیا ہے  جسے انھوں نے اپنا اتحادی کہا ہے‘ اور جس کی اندرونی سیاست میں انھیں غیرمعمولی دل چسپی ہے۔صدر مشرف کو پھر امریکا سے کھلی اجازت مل گئی ہے۔ بش انتظامیہ کی طرف سے ان کی حمایت بالکل واضح الفاظ میں کی جارہی ہے…

کسی کو بھی پاکستان میں حقیقی جمہوریت واپس آتی نظر نہیں آرہی۔ امریکا سترپوشی (figleaf) کے طور پر اسے استعمال کر رہا ہے تاکہ علاقے میں اپنی مسلسل موجودگی برقرار رکھے اور دہشت گردی کے خلاف اپنی حامی قیادت کو برسرِاقتدار لاسکے۔ موت کا بوسہ اپنا زہر قوم میں پھیلا رہا ہے‘ جب کہ کسی کے پاس بھی مطلوبہ تریاق نہیں ہے۔

لندن کے اخبار گارجین میں Declan Walsh رقم طراز ہے:

مشرف کے سیاسی عزائم کے لیے بھی گھڑی کی سوئیاں آگے بڑھ رہی ہیں۔ وہ موجودہ پارلیمنٹ سے ۱۵ستمبر اور ۱۵ اکتوبر کے درمیان صدر منتخب ہونا چاہتے ہیں۔ طاقت ور حلیف ان کی پشت پر ہیں‘ خاص طور پر برطانیہ اور امریکا۔ وہ پرویز مشرف کو ایک نیوکلیر اسلحے سے مسلح ملک کو مستحکم کرنے کے لیے اپنا محفوظ ترین بہترین خیال کرتے ہیں۔

سعودی انٹیلی جنس چیف کی ایک ایسی مداخلت کے بعد‘ یعنی ان کا گذشتہ ہفتے پاکستان آنا کہ جس کی کوئی مثال نہیں ملتی‘ اب نواز شریف جدہ میں بے بس ہیں۔ پاکستان کے خفیہ ادارے کے سربراہ لیفٹیننٹ کرنل اشفاق کیانی نے بھی حالیہ بھٹو مذاکرات میں کلیدی کردار ادا کیا۔ صرف یہی بات کہ مسلم دنیا میں امریکا اور برطانیہ کے اہم ترین حلیفوں کے معاملات میں خفیہ سربراہوں کو بالادستی حاصل ہے‘ جمہوریت کی نازک صورت حال کی نشان دہی کرتی ہے--- (گارجین‘ ۱۱ستمبر ۲۰۰۷ء)

  •  بیرونی مداخلت اور غیرملکی آقائوں کی خوشنودی کی تلاش ہی کا ایک شاخسانہ وہ نظریاتی  کش مکش ہے جس میں غیرفطری طور پر ملک کو جھونک دیا گیا ہے اور قومی اتفاق راے پیدا کرنے کے بجاے قوم کو دو بڑے دھاروں میں بانٹنے اور ان کو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کرنے کا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ ہمارا اشارہ ہے ایک طرف نام نہاد انتہا پسندی اور مذہبی شدت پسندی کا کیمپ اور دوسری طرف روشن خیال‘ میانہ رو اور لبرل عناصر کا اکٹھ۔کبھی مُلّا ملٹری اتحاد کی بات کی جاتی ہے اور کبھی ملٹری اور لبرل عناصر کے الائنس کی‘ حالانکہ اصل کش مکش مفاد پرست عناصر اور  عوام الناس اور ملک کی عظیم اکثریت کے درمیان ہے۔ اس سے توجہ ہٹانے اور اپنے مفادات کو مستحکم کرنے کے لیے ہر جرم معاف اور ہر گناہ ثواب بن جاتا ہے اور جن کو جنرل صاحب نے اپنی کتاب میں چور‘ لٹیرے اور قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیاتھا‘ ان ہی سے سیاست کی پینگیں بڑھائی جاتی ہیں‘ شراکت اقتدار کی بساط بچھانے کے لیے بھاگ دوڑ کی جاتی ہے۔ حالانکہ نہ تو انتہاپسندی ہمارا مسئلہ ہے اور نہ نام نہاد روشن خیالی۔ یہ سب امریکا کے شاطروں کے کھیل ہیں اور ہمارے جرنیل اور نام نہاد لبرل اس کے مہرے بنے ہوئے ہیں۔ شیعہ سُنّی کی کش مکش کا ڈراما بھی اس کھیل کا حصہ ہے۔

قوم کو اس نظریاتی کش مکش سے نکالنے اور پاکستان کی نظریاتی بنیادوں کی روشنی میں قومی یک جہتی اور مفاہمت پیدا کرنے کی ضرورت ہے جس کی راہ میں جرنیلی قیادت اور امریکا سے حکمرانی کی پرچیاں حاصل کرنے والے سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔

  •  ایک پانچواں مسئلہ جسے بہت سوچ سمجھ کر نہایت ماہرانہ انداز میں اٹھایا جا رہا ہے وہ دو حکمت عملیوں کے درمیان مقابلے کا ہے جس میں سے ایک کو تصادم خیز (confrontationist) اور دوسرے کو تدریجی تبدیلی (transitionalist) کے داعی کے روپ میں پیش کیا جا رہا ہے اور تصادم انگیزی کی تہمت دینی قوتوں اور مسلم لیگ (ن) پر لگائی جارہی ہے‘ جب کہ مشرف لیگ‘ ایم کیو ایم اور پی پی پی کو تدریجی تبدیلی کے علَم بردار بناکر پیش کیا جا رہا ہے۔ یہ اندازِ بیاں صرف امریکا اور جنرل پرویز مشرف ہی نے اختیار نہیں کیا بلکہ خود محترمہ بے نظیر بھٹو بھی اسی زبان میں کلام فرما رہی ہیں اور اپنے مضامین میں یہی ہّوا کھڑا کررہی ہیں۔ لطف یہ ہے کہ دعوے تو یہ کیے جارہے ہیں لیکن تصادم کا راستہ مُکے دکھا کر خود جرنیل صاحب اختیار کر رہے ہیں۔ وکلا اور سول سوسائٹی کے پُرامن احتجاج کا راستہ ۱۲ مئی کو ایم کیو ایم کے مسلح دستوں (armed squads) نے روکا     اور جنرل صاحب نے ادھر اسلام آباد میں ہاتھ اٹھا کر اسے عوامی قوت کی فتح قرار دیا۔سپریم کورٹ کے میاں نوازشریف کے حق واپسی اور ملک میں محفوظ داخلے کے حکم کے پرخچے اڑانے اور  عدالت کی کھلی کھلی خلاف ورزی کرنے اور سینہ زوری کا رویہ اختیار کیاگیا۔ اے پی ڈی ایم کے پُرامن جمہوری احتجاج کو قوت کے ذریعے روکنے‘ ہزاروں کارکنوں اور قائدین کو گرفتار کرنے اور اظہار راے پر پابندیاں لگانے کا کام کیا جا رہا ہے۔ عدالت عظمیٰ کے فیصلے کا انتظار کیے بغیر صدارتی اعلان کا نامناسب عجلت (indecent haste) سے اہتمام کیا جا رہا ہے اور مقابل کی جمہوری قوتوں کو تصادم انگیزی کے عنوان سے اُچھالا جا رہا ہے۔

یہ پانچ بڑے بڑے مسائل ہیں جو اس وقت قوم کے سامنے ہیں اور آنے والے انتخابات ہی وہ میدان ہیں جن میں ان تمام مسائل اور چیلنجوں کا حل نکالا جاسکتا ہے۔ راستہ صرف ایک ہے ___ منظم اور پُرامن عوامی قوت کے ذریعے صدارتی انتخاب کے ڈھونگ کو روکنا اور آزاد اور شفاف انتخابات کو حقیقت بنانا ہے۔ اس کے لیے ضروری اقدام یہ ہیں:

  • جنرل پرویز مشرف اور موجودہ حکومت کا استعفا اور ایک مکمل طور پر غیرجانب دار قومی حکومت کا قیام جس کی اولین ذمہ داری انتخابات کا انعقاد ہو۔
  • آزاد اور بااختیار الیکشن کمیشن کا قیام جو تمام پارلیمانی سیاسی جماعتوں کے مشورے سے ہو اور جو ووٹروں کی صحیح فہرستوں کے مطابق مکمل غیر جانب داری کے ساتھ قومی اور صوبائی انتخابات کا اہتمام کرے۔
  •  سب جماعتوں اور قائدین کو مساوی بنیاد پر سیاسی سرگرمیوں میں شرکت اور انتخابات میں حصہ لینے کا موقع۔
  • فوج اور فوج اور سول نظام سے متعلق تمام ایجنسیوں کا سیاست سے مکمل احتراز اور    ان کے فرائض کو ان کے اپنے پیشہ ورانہ دائرے تک سختی سے محدود کرنا۔
  • عدلیہ اور میڈیا کی آزادی۔
  •  ملکی پالیسیوں کی تشکیل میں بیرونی مداخلت کا خاتمہ ۔
  • انتخابات کے عمل کے عالمی میڈیا کو بلاکسی رکاوٹ cover کرنے کے مواقع ۔

اگر حکومت اس خالص دستوری اور جمہوری عمل کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کرے تو اپوزیشن کی تمام جماعتوں کی مشترکہ حکمت عملی کے ذریعے آمریت کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا‘ اسمبلیوں سے استعفے‘ عوام کو متحرک کرنا اور عوامی جدوجہد کے ذریعے آزاد اور منصفانہ انتخابات کا انعقاد‘ یہی وہ راستہ ہے جس سے ملک کو غیروں کی گرفت سے محفوظ رکھا جاسکتاہے اور اقتدار پر غاصبانہ قبضہ کرنے والوں کی گرفت سے بھی نکالا جاسکتا ہے۔ ایک ملک گیر پُرامن لیکن مؤثر عوامی جدوجہد ہی کے راستے سے تبدیلی لائی جاسکتی ہے اور اس سلسلے میں غفلت‘ کوتاہی‘ اور سمجھوتوں کی تلاش سمِ قاتل کی حیثیت رکھتی ہے    ؎

اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ
جن  دِیوں میں جان ہوگی وہ دِیے رہ جائیں گے

 اونٹ بے چارہ تو ویسے ہی بدنام ہے کہ جسے دیکھو فٹ سے کہہ دیتا ہے: ’اونٹ رے اونٹ تیری کونسی کل سیدھی‘۔ جنرل پرویز مشرف اور ان کے بینکر وزیراعظم جناب شوکت عزیز کی حکومت کے دعووں اور کارناموں پر زمینی حقائق کی روشنی میں نظر ڈالیے تو اونٹ سے ہمدردی بڑھ جاتی ہے کہ بے داد کے اصل مستحق کون ہیں اور بدنام کون!

’کشکول ٹوٹنے‘ کی بات گذشتہ چند سال سے اس تکرار کے ساتھ کہی گئی ہے کہ اب، جب کہ الیکشن کے موسم کی آمد آمد ہے‘ ہر سرکاری ترجمان کی زبان پر اس طرح رواں ہے کہ لوگ اسے حکمرانوں کا تکیہ کلام سمجھنے پر مجبورہیں۔ بات دراصل یہ ہے کہ اس حکومت کے کارپرداز ہٹلر کے وزیراطلاعات (بہ الفاظ صحیح تر دروغیات) کے اس ’نسخۂ کیمیا‘ پرعمل پیرا ہیں کہ ’’ایک جھوٹ کا اس تکرار سے اظہار کرو کہ لوگ اسے سچ ماننے لگیں‘‘۔

جس طرح صد ربش اور امریکی انتظامیہ نے خصوصیت سے نائن الیون کے بعد ہر محاذ پر اور خصوصیت سے ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ (امریکا کی سلامتی کو خطرہ اور’عراق کے عام تباہی کے اسلحہ‘ (weapons of mass destruction) کے عنوان سے جس ڈھٹائی سے تھوک کے بھائو غلط بیانیوں کو اپنی پالیسی کا مؤثر آلہ بنایا ہے اسی طرح جنرل پرویز مشرف ، وزیراعظم شوکت عزیز اور ان کے اشتہار بازوں نے’معاشی فتوحات‘ کا سماں باندھا ہوا ہے لیکن وہ ابراہم لنکن کے اس تاریخی قول کو شاید بھول گئے کہ ’’سب انسانوں کو کچھ دیر کے لیے اور کچھ افراد کو بڑی دیر تک بے وقوف بنایا جاسکتا ہے مگر تمام انسانوں کو مستقل طورپر جھانسہ دینا ممکن نہیں‘‘۔ انسانی کیفیات اور تاریخ دونوں کا فیصلہ ہے کہ جھوٹ اورغلط بیانی خواہ کیسی ہی تکرار اور کتنی ہی تحدّی سے کی جائے بالآخر اس کا پردہ چاک ہوکر رہتا ہے اور پھر دونوں کا دودھ کاد ودھ اور پانی کا پانی ہوجاتا ہے۔ جادو سر چڑھ کر بولے یا نہ بولے مگر سچ کابالآخر بول بالا ہوکر رہتا ہے اور یہی اللہ کا قانون بھی ہے کہ جب حق ظاہر ہوجاتا ہے تو پھر باطل کے لیے پادر ہوا ہونے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا۔ اس لیے کہ باطل کا تو مقد ر ہی ہے کہ حق کی آمد پردم دبا کر میدان چھوڑ دے۔(جَآئَ الْحَقُّ وَ زَھَقَ الْبَاطِلُ اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا )۔

اگست ۲۰۰۷ء میں اسٹیٹ بنک آف پاکستان نے پاکستان پر قرضوں کی اصل بوجھ کے جو اعدادوشمار شائع کیے ہیں وہ ’کشکول توڑدینے‘ کے فسانے کی حقیقت کو کھول کر رکھ دیتے ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق گذشتہ چار سال میں‘ یعنی ۲۰۰۳ء سے مئی ۲۰۰۷ء تک موجودہ حکومت نے بیرونی ممالک اور اداروں سے ۱۵ ارب ڈالر (۱۵ بلین ڈالر) کے نئے قرضے حاصل کیے ہیں۔ اب‘ یعنی اگست ۲۰۰۷ء میں بیرونی قرضوں اور ذمہ داریوں کا کل حجم ۴۰ارب ڈالر (۴۰بلین ڈالر) سے متجاوز ہے۔ لطف یہ ہے کہ ۲۰۰۳ء سے ۲۰۰۷ء کے چار برسوں میں پاکستان نے ۷ء۹ ارب ڈالر کی مالیت کے قرض واپس بھی کیے ہیں جس کے نتیجے میں ۲۰۰۳ء میں کل بیرونی قرضہ جو اس وقت ۳۵ء۳۳بلین ڈالر تھا کم ہوکر ۶۴ء۲۳ارب ڈالر ہوجانا چاہیے تھا مگر ۱۵ارب ڈالر سے زائد کے نئے قرضے لے لیے گئے جن کی وجہ سے یہ دوبارہ ۶۹۹ء۳۸ بلین ڈالر کی حدوں کوچھونے لگا‘ اور  اس میں اگر دوسری غیر ملکی ذمہ داریوں (liabilities) کا اضافہ کر لیا جائے تو اگست ۲۰۰۷ء میں  وہ ملک جس کے کشکول توڑنے کے ڈھول پیٹے جارہے ہیں ۱۷۲ء۴۰ بلین ڈالر کا مقروض تھا۔  واضح رہے کہ اس وقت ان قرضوں کی وجہ سے صرف سود کی مد(debt-servicing) میں پاکستان کو ۳۱۴ء۳ بلین ڈالر سالانہ ادا کرنا پڑ رہے ہیں جو دراصل نئے قرضے لے کر ادا کیے جاتے ہیں اور قرض کا اصل بار نہ صرف کم نہیں ہوتا بلکہ مزید بڑھ جاتا ہے اور سب سے بڑا ظلم یہ کہ اس  گراں باری کے باوجود ملک کی پیداوار ی صلاحیت (productive capacity) میں کوئی حقیقی اضافہ نہیں ہوتا۔

جنرل پرویز کی حکومت کے دور میں بیرونی قرضوں اور کل بیرونی ذمہ داریوں کا موازنہ کیا جائے تو صورت حال یہ بنتی ہے:

                ۲۰۰۰ء   ۲۰۰۷ء

  • بیرونی قرضہ جات                ۴۶۹ء۳۲ بلین ڈالر  ۶۹۹ء۳۸ بلین ڈالر
  • مجموعی مقروضیت‘ یعنی بیرونی قرضہ جات +بیرونی ذمہ داریاں  ۹۷۶ء۳۴بلین ڈالر   ۱۷۲ء۴۱بلین ڈالر

 اگر ہم ایک نظرمیں کشکول ٹوٹنے کی کرامات کو دیکھنا چاہیں تو کچھ یہ تصویر سامنے آتی ہے:

واضح رہے کہ ملک میں کی جانے والی جس بیرونی سرمایہ کاری کا بڑا شور ہے وہ ملک کی عام صنعتی پیداوار بڑھانے کا قرارواقعی ذریعہ نہیں بنی بلکہ اس کا سارا بہائو سروس انڈسٹری کی طرف سے جس میں برقی مواصلات (telecommunications) اور بنکاری کو مرکزی اہمیت حاصل ہے یا اسٹاک ایکسچینج میں سٹّے (speculation) پر مبنی سرمایہ کاری ۔

تازہ اعدادوشمار کی روشنی میں یہ ادارے نفع کی شکل میں جو مبادلہ خارجہ ملک سے باہر لے جارہے ہیں وہ ۲۰۰۷ء میں ایک بلین ڈالر کے قریب ہوگیا ہے اورسال گذشتہ میں اس رقم میں ۶۰فیصدی اضافہ ہوا ہے۔

 اس کے ساتھ اگر ملکی قرضہ جات (domestic debt) پر بھی نگاہ ڈال لی جائے تو ہماری ’فاقہ مستی‘ کی تصویر مکمل ہوجاتی ہے۔ اس حکومت نے اسٹیٹ بنک کے تازہ اعدادوشمار   کے مطابق جولائی ۲۰۰۶ء سے مئی ۲۰۰۷ء تک صرف ۱۱ مہینوں میں ۳۴ء۳۰۲ ارب روپے کے قرضے لیے جس کے نتیجے میں حکومت پر قرض کا کُل بار بڑھ کر ۵۹۹,۲ ارب روپے ہوگیا جو اگر  ڈالر کی شکل میں ظاہر کیا جائے تو ۶ء۴۲ بلین ڈالر بن جاتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں بیرونی اور    ملکی قرضوں کا بوجھ ۷ء۸۲ بلین ڈالر سے متجاوز ہے۔ اس کا سب سے افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ   یہ قرضے ملک کی پیداواری صلاحیت میں اضافے کے سلسلے میں بڑا محدود کردار ادا کر رہے ہیں اوریہ اربوں روپے بڑی حد تک سرکار کی شاہ خرچیوں اور ملک میں ہر سطح پر کرپشن کی وجہ سے صرف  دولت مندوں اور مفاد پرست طبقات کی ہوس زر اندوزی کی نذر ہورہے ہیں‘جب کہ بوجھ ملک کے ۱۶ کروڑ عوام پر پڑ رہا ہے جس سے ان کی کمر ٹوٹ رہی ہے۔ تشویش کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ اس صورت حال کو پیدا کرنے کا بڑا سبب بجٹ کا خسارہ ہے جو ۰۳-۲۰۰۲ء میں ۱۳۴ارب روپے تھا،جو ۰۷-۲۰۰۶ء میں بڑھ کر ۵۳ء۳۷۷ ارب روپے ہو چکا ہے۔ دوسری طرف بین الاقوامی تجارت کا خسارہ ہے جو اس سال ۱۷ بلین ڈالر سے زیادہ ہے اور توازن ادایگی (balance of payments) کا خسارہ ۶ارب ڈالر سے بھی بڑھ گیا ہے۔

ایک طرف قرضوں کا یہ پہاڑ ہے اور تجارت اور ادایگیوں اور بجٹ کا خسارہ ہے اور دوسری طرف عوا م کی غربت اور بھوک۔ بین الاقوامی معیار کے مطابق ۲ ڈالر یومیہ فی کس آمدنی کو بنیاد بنایا جائے تو ملک کی کل آبادی کا ۷۳ فی صد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہا ہے۔بے روزگاری جو ۱۹۹۰ء کی دہائی میں ۵فی صد سے کچھ زیادہ تھی اب بڑھ کر ۷ اور ۸ فی صد ہو چکی ہے۔ اور مہنگائی کا یہ حال ہے کہ غریب تو غریب متوسط طبقے کے لیے بھی زندگی کی کم سے کم ضروریات بھی پورا کرنا محال ہے___کیا یہی وہ معاشی فتوحات ہیں جن کی خاطر اس جرنیلی آمریت نے ملک کی آزادی، سلامتی اور حاکمیت تک کو امریکا کی گرفت میں دے دیا ہے؟

 

جنرل پرویز مشرف کے آٹھ سالہ دورِاقتدار میںزندگی کے ہر شعبے میں خرابی اور بگاڑ میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے لیکن اس کا سب سے خطرناک پہلو وہ ضرب کاری ہے جو ملک کی آزادی اور حاکمیت‘ سلامتی اور استحکام اور نظریاتی اور تہذیی شناخت پر لگی ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے آزادی کی ۶۰سالہ تاریخ میں یومِ آزادی کے موقع پر سوگواری‘ بے یقینی اور اضطراب کا جو عالم اس سال تھا   وہ کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔ قوم کے سر شرم سے جھک گئے جب یہ خبر آئی کہ قبائلی علاقوں میں  سیاہ جھنڈے تک لہرائے گئے اور اسلام آباد میں وزیراعظم کو یہ جرأت نہیں ہوئی کہ کھلی فضا میں  قومی پرچم کی رونمائی کریں۔ اس تقریب کا اہتمام بھی کانفرنس ہال کی پختہ چھت تلے کیا گیا!

اس یومِ آزادی پر لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے خونی المیے کا سایہ تھا اور معصوم بچوں اور بچیوں کی دل گداز چیخیں اور قران پاک کے انسانوں کے خونی لوتھڑوں میں گڈمڈ اوراق نوحہ کناں تھے۔ وزیرستان‘ سوات‘ ہنگو‘ بنوں‘ کوئٹہ اور کوہلو میں بندوقوں کی گھن گرج اور بموں کی بارش اور انسانی لاشوں کے کشتے تھے۔ اور ان سب پر مستزاد امریکی انتظامیہ اور صدارتی امیدواروں کی دھمکیاں اور اعلانات تھے کہ اپنی آزادی اور خودمختاری کی اوقات پہچانو‘ سیدھے سیدھے ہمارے احکام کی تعمیل کرو اور ساتھ ہی تیار رہو کہ’قابل اعتماد‘ معلومات ملنے پر ہم خود تمھارے علاقوں پر بھی فوج کشی سے دریغ نہیں کریں گے۔ یہ کچھ توافغانستان میں امریکا اور ناٹو کے کمانڈر اور واشنگٹن میں ترجمان کہہ رہے تھے‘ جب کہ صدربش خود بھی گول مول انداز میں یہی پیغام دے رہے تھے مگر وہاں کے ایک صدارتی امیدوار نے تو تمام حدود کو پھاند کر صرف پاکستان ہی نہیں‘ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ پر بھی بم باری اور لشکرکشی کی دھمکیاں دے ڈالیں۔

امریکی کانگریس نے ۲۷ جولائی کو نائن الیون کمیشن کی سفارشات پر وہ قانون منظور کرلیا جس کے نتیجے میں پاکستان کے لیے امریکی امداد کو شرم ناک اور ذلت آمیز شرائط اور سالانہ    سرٹی فکیٹ کے اجراسے مشروط کر کے پاکستانی قیادت کو آئینہ دکھایا گیا ہے کہ تمھاری چھے سالہ ’گراںقدر خدمات‘ اور امریکا کی خوش نودی کے لیے خود اپنے مسلمان بھائیوں‘ بہنوں اور بچوں کا خون بہانے کا یہ ہے صلہ۔ ساتھ ہی بھارت سے نیوکلیر تعاون کے معاہدے کو قانون کا درجہ دے دیا گیا تاکہ علاقے پر بھارت کی بالادستی کے قیام‘ پاکستان پر نیوکلیر دبائو میں اضافے اور اس کی توانائی کی ضروریات کے بارے میں ہتک آمیز تمسخر کا مظاہرہ‘ اور پاکستان کے سب سے قابلِ اعتماد دوست چین کے گرد ائرہ تنگ کرنے کا امریکی منصوبہ آگے بڑھایا جاسکے۔

نائن الیون کمیشن کی سفاشات پر مبنی قانون صرف ہماری آزادی اور حاکمیت پر ہی ضرب نہیں لگاتا بلکہ ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت کے لیے ایک قانونی بنیادی ڈھانچا (infra-structure) وضع کردیتا ہے۔ یہ پاکستان اور اس کی قیادت پر کھلی بے اعتمادی کا اظہار ہے اور پاکستان کو دائمی غلامی کی زنجیروں میں جکڑنے کا انتظام بھی۔ اس میں یہ لازم کیا گیا ہے کہ ہرسال صدرِ امریکا کو یہ سرٹی فکیٹ جاری کرنا ہوگا کہ پاکستان امریکی احکام پر قرارواقعی عمل کر رہا ہے اور ان احکام میں صرف نام نہاد دہشت گردی کا قلع قمع کرنے کے لیے فوج کشی‘ گرفتاریاں اور دوسری تمام کارروائیاں ہی شامل نہیں‘ بلکہ پاکستان اور قبائلی علاقوں میں طالبان کے اثرورسوخ کو ختم کرنا‘ اور پاکستان میں ’سیکولر تعلیم‘ کا فروغ اور ’اسلامی شدت پسندی‘ کے خلاف مستقل کارروائی بھی سرفہرست ہے۔

غلامی کی اس دستاویز کو امریکی کانگریس نے بھاری اکثریت سے منظورکیا ہے اور اس پر عمل کے لیے نہ صرف جنرل پرویز مشرف پر دبائو ہے بلکہ دوسری لبرل قوتوں کو بھی ان کا حلیف اور شریک کار بنانے کے لیے سارے ہتھکنڈے استعمال کیے جارہے ہیں۔ جمہوریت کے نام پر ملک کے اندرونی نظام میں ہرطرح کی مداخلت کا راستہ استوار کیا جا رہا ہے جس کا کھلا ثبوت برطانیہ میں جیک اسٹراکے ذریعے پیپلزپارٹی کی قیادت کو مشرف سے تعاون پر تیار کرنا‘ امریکی انتظامیہ اور میڈیا کی مشرف بے نظیر اتحاد بنانے کی کوششیں‘ اور ۹ اگست کو امریکی وزیرخارجہ کونڈولیزارائس کی جنرل پرویز مشرف سے ۱۷منٹ کی ٹیلی فون کال ہے جس کے نتیجے میں ایمرجنسی کے اعلان کوروکا گیا اور انکار کے بعد سجدۂ سہو کرتے ہوئے کابل یاترا اختیار کرلی گئی۔

۲۰۰۷ء کا یومِ آزادی قوم نے آزادی‘ حاکمیت‘ عزت و وقار اور نظریاتی تشخص پر حملوں کی اس فضا میں منایا ہے___ لیکن غم و اندوہ اور اضطراب اور بے چینی کے ساتھ ساتھ اس نئے احساس  اور اس عزم کے ساتھ منایا ہے کہ قوم کو اپنی آزادی اور اپنی شناخت کے تحفظ کے لیے ایک نئی جدوجہد کرنا ہوگی۔ ۲۰جولائی کے بعد عدلیہ کی آزادی سے جس دور کا آغاز ہواہے‘ اس کی تکمیل جرنیلی آمریت سے مکمل اور مستقل آزادی کے حصول اور بیرونی استعمار کی نئی زنجیروں سے گلوخلاصی کے ذریعے اپنے انجام تک پہنچانا ہوگا ___ عزت اور آزادی کی زندگی کا صرف اور صرف یہی ایک راستہ ہے۔ اس موقع پر ذرا سی کمزوری بھی بہت مہنگی پڑسکتی ہے۔

جنرل پرویز مشرف کا اقتدار فوج اور امریکا کی بیساکھیوں پر قائم ہے‘ لیکن وقت آگیا ہے کہ ان دونوں بیساکھیوں سے نجات حاصل کی جائے۔ سیاست میں فوج کی مداخلت کے باب کو یک سربند کردیا جائے‘ اور امریکا سے تعلقات کو ازسرنو اپنی حاکمیت اور نظریاتی شناخت کی بنیاد پر استوار کیاجائے۔ خصوصیت سے نائن الیون کے بعد جنرل پرویز مشرف نے جس طرح خارجہ پالیسی اورداخلی سیاست دونوں کو امریکی ایجنڈے کے تابع کردیاہے‘ اس کو یک سر تبدیل کیا جائے تاکہ ملک ایک بار پھر ایک آزاد اور خودمختار ملک کی حیثیت سے عزت سے سر اُٹھاکر اپنا سفر جاری رکھ سکے۔

پاک امریکا تعلقات: ایک جائزہ

امریکا سے پاکستان کے تعلقات کے ابتدائی خطوطِ کار قائداعظم اور قائدملّت لیاقت علی خان کے دور میں مرتب ہوئے لیکن جلد ہی اس آزاد اور باوقاردوستانہ تعلق کو سردجنگ کے پس منظر میں امریکا کی چھتری تلے آنے کے نام پر ایک نئی محکومی اور محتاجی کی شکل دے دی گئی‘ اور خارجہ سیاست کی گاڑی کو پٹڑی سے اتارنے اور اس نئی سمت میں ڈالنے میں کلیدی کردار غلام محمد‘ سرظفراللہ خاں اور جنرل محمد ایوب خان کا تھا۔ قائداعظم نے برملا کہا تھا کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست اور دنیا کی پانچویں بڑی مملکت ہے اور ہم برابری کی بنیاد پر اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی روشنی میں امریکا سے دوستانہ تعلقات رکھنا چاہتے ہیں۔ لیاقت علی خان نے بہت کھل کر پاکستان کی آزاد پالیسی اور نظریاتی کردارکا اعلان و اظہار کیا تھا اوریہاں تک کہہ دیا تھا کہ پاکستان کی آزادی اور ہماری روحانی شناخت کوئی قابلِ فروخت شے نہیںہے۔ لیکن بعد کی قیادتوں نے ان دونوں ہی کا لحاظ نہ رکھا اور امریکی سیاست کے جال میں پھنس گئے۔ امریکا نے خاص طور پر اپنے تعلقات اور اثرات کو محکم کرنے کے لیے فوج سے بلاواسطہ تعلقات کو ذریعہ بنایا اور پاکستانی قوم اور پارلیمنٹ کو کبھی بھی سارے حقائق سے آگاہ نہیں کیا گیا۔ اس سے انکار نہیں کہ معاشی اور عسکری اعتبار سے کچھ مثبت فوائد بھی حاصل ہوئے لیکن جن بنیادوں کو محفوظ نہ رکھا جاسکا‘ وہ آزادی‘ حاکمیت اور نظریاتی تشخص ہیں جس کی بڑی بھاری قیمت ہر دور میں اور سب سے زیادہ جنرل پرویز مشرف کے دورِاقتدار میں قوم کو ادا کرنا پڑی۔

اس سب کے باوجود پاکستان اور امریکا کے تعلقات پراگر نظر ڈالی جائے تو ان میں بڑے نشیب و فراز صاف دیکھے جاسکتے ہیں۔ کبھی دوستی کی پینگیں بڑھائی جاتی ہیں اور کبھی صاف پیٹھ دکھا دی جاتی ہے۔ یہ تجربہ بار بار ہوا اور یہ صرف پاکستان ہی کے ساتھ نہیں‘ امریکا کی خارجہ سیاست کا طریق واردات یہی ہے۔ ایک اسرائیل کو چھوڑ کر کوئی ملک ایسا نہیںہے جس کے ساتھ امریکا نے مستقل دوستی نبھائی ہو۔ ضرورت پڑنے پر ساتھ ملانے کے لیے ہرحربہ استعمال کیا ہے جسے carrot and stick ،یعنی چارہ اور چابک کی پالیسی کہا گیا ہے۔ اگرچارے (political bribe) سے کام چل گیا تو فہوالمراد‘ورنہ چابک اور ڈنڈا بے دریغ استعمال کیا گیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ امریکا  گاہک(client) اور غلام (serf)تو حاصل کرسکا ہے مگر کبھی دوسروں کو وہ دوست اور ساتھی نہیں بناسکا۔ پاکستان کو اس کا تجربہ ۱۹۶۵ء میں‘ پھر ۱۹۷۱ء میں‘ پھر ۱۹۷۶ء میں‘ پھر ۹۰-۱۹۸۸ء میں‘ پھر ۱۹۹۸ء میںہوا‘ مگر مجال ہے جو ہماری قیادتوں نے اس سے کوئی سبق سیکھا ہو۔ کہنے والے تو کہتے ہیں کہ  ع

ٹھوکریں کھا کر تو کہتے ہیں سنبھل جاتے ہیں لوگ

لیکن افسوس صد افسوس کہ اس ملک کی قیادتوں نے تو ٹھوکریں ہی نہیں‘ جوتے کھانے کے بعد بھی سبق نہیں سیکھا۔

پاک امریکا تعلقات کا سب سے ذلت آمیز دور پرویز مشرف کا دورِاقتدار ہے۔ اس کا آغاز بل کلنٹن کے دورۂ جنوبی ایشیا سے ہوتا ہے جس میں بھارت کو اسٹرے ٹیجک پارٹنر بنایا گیا‘ پانچ دن وہاں شادیانے بجائے گئے اور پانچ گھنٹے کے لیے پاکستان میں اس انداز میں آئے کہ جنرل پرویز مشرف کے ساتھ کوئی تصویر نہیں کھنچوائی‘ کوئی مشترک پریس کانفرنس نہیں کی‘ اور بلاواسطہ ریڈیو اور ٹی وی کے ذریعے پاکستانی قوم سے خطاب فرمایا۔ وردی پوش جنرل صاحب نے یہ سب ذلت بخوشی قبول کی اور شکریہ ادا کیا کہ انھیں اس لائق توسمجھا گیا! لیکن اس کے بعد جو کچھ ہوا‘ وہ اس سے بھی زیادہ ہے۔

۹ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد امریکی رعونت اپنے عروج پر تھی اور پاکستان کی گوشمالی کا بدترین دور ۱۲ستمبر کی اس ٹیلی فون کال سے شروع ہوتا ہے جو جنرل کولن پاول نے جنرل پرویز مشرف کو کی۔  یہ گفتگو اس دھمکی کے زیرسایہ ہوئی تھی جو پہلے ہی امریکی نائب وزیرخارجہ رچرڈ آرمی ٹیج نے پاکستانی آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل محمود کو واشنگٹن میں دے دی تھی‘ اور بش صاحب کا فرمان شاہی پہنچا دیا تھا کہ یا ہمارا ساتھ دو ورنہ تمھیں پتھر کے دور میں پھینک دیاجائے گا۔ اس کی پوری تفصیل امریکی صحافی باب ووڈورڈ نے اپنی کتاب Bush at Warمیں دی ہے اور دسیوں کتابوں میں وہ پوری صورت حال آچکی ہے جس میں دھونس‘ دھمکی اور ننگی جارحیت کی تلوار دکھا کر پاکستان کی فوجی قیادت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبورکیا گیا‘ اور جس کا اعتراف ’محکوم کی دانش مندی‘ کی مغالطہ آمیز منظرکشی کے روپ میں خود جنرل پرویز مشرف نے اپنی خودنوشت In the Line of Fire میں کیا ہے۔

آج جو ہتک آمیز سلوک امریکا‘ جنرل صاحب اور پاکستان سے کر رہا ہے‘ وہ نتیجہ ہے اس ہمالیہ کے برابر غلطی کا جو ستمبر۲۰۰۱ء میں جنرل صاحب نے کی۔ اس کے بعد سے مسلسل امریکا کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں‘ غلامی کی زنجیروں کو زیور بنا کر پیش کر رہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اب اس شیطانی گرفت سے نکلنے کی ان کوکوئی سبیل نظر نہیں آرہی ہے۔

نائن الیون کے بعد

بحیثیت سوپر پاور روس کے خاتمے کے بعد سے امریکا کی خارجہ پالیسی کا ایک ہی ہدف ہے اور وہ پوری دنیا پر اپنی سیاسی‘ عسکری‘ معاشی اور تہذیبی بالادستی کا قیام‘ دنیا کے دوسرے ممالک کے وسائل اور خصوصیت سے توانائی کے ذخائر پر قبضہ‘ اور نیوکلیر اثاثوں پر کنٹرول اور اس امر کو  واقعی بنانا ہے کہ امریکا کی اس بالادستی کو چیلنج کرنے والی کوئی قوت کسی شکل میں بھی اُبھر نہ سکے۔ نائن الیون دراصل اس سامراجی عمل (hubris)کا ایک حصہ ہے اور اس کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر انھی مقاصد کو زیادہ بھونڈے اور زیادہ خون آشام انداز میں حاصل کرنے کی عالم گیر جدوجہد کاآغاز ہوا ہے۔ البتہ اس فرق کے ساتھ کہ اب ایک فوری ہدف چند مسلمان ممالک (خصوصیت سے افغانستان‘ عراق‘ ایران‘ شام اور پاکستان)‘ اور اسلام کا وہ تصور قرار پایا جسے سیاسی اسلام‘ اسلامی بنیادپرستی‘ جہاد اور زیادہ اکھڑاور صاف الفاظ میں اسلامی دہشت گردی اور اسلامی فاشزم کہا جا رہا ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک کو ترغیب اور ترہیب کا ہرحربہ استعمال کرکے اپنا شریک کار بنایا گیا ہے اور یہی وہ جال ہے جس میں جنرل پرویز مشرف بخوشی قدم افروز ہوئے ہیں اور چھے سال تک ذلت آمیز خدمات انجام دینے کے بعد بھی ھل من مزید (more, more and more)کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں۔

صدربش نے اپنے عالمی دہشت گردی کے مقاصد کوکسی پردے میں نہیں رکھا۔ بقول  باب ووڈ ورڈ امریکا نے اپنا ہدف بہت صاف لفظوں میں دنیا کو بتا دیا ہے کہ:

ہم اپنی عظیم قوم کے دفاع میں دنیا کے کونے کونے میں موت اور تشدد پھیلائیں گے۔ (Bush At War،باب وڈ ورڈ‘ سائمن اینڈ شوسٹر‘ نیویارک‘ ۲۰۰۲ء‘ ص ۳۵۲)

دیکھیے پاکستان کے جنرل پرویز مشرف کو قابو میں کر کے کس طرح اس شکنجے میں کساگیا ہے۔ بش صاحب نے نائن الیون کے فوراً بعد اپنی پالیسی کو ان الفاظ میں بیان کیا: ’’ہمیں طاقت کا استعمال کر کے ملکوں سے فیصلے کروانا ہوں گے‘‘۔(ص ۳۳)

آرمی ٹیج نے جنرل محمود سے کہا:

پاکستان کو ایک اہم فیصلہ کرنا ہے ___ یا وہ ہمارے ساتھ ہے یا نہیں ہے۔ یہ سفیداور سیاہ میں سے کسی ایک کا انتخاب ہے۔ درمیان میں کوئی راستہ نہیں ہے۔ یہ الفاظ کہ ’’مستقبل آج شروع ہورہا ہے‘‘ پاکستانی صدر جنرل مشرف کو بتا دو: ’’ہمارے ساتھ یا ہمارے مخالف‘‘۔ (ص ۴۷)

جنرل کولن پاول نے صدربش سے کہہ دیا تھا کہ افغانستان پر حملہ اور بن لادن اور القاعدہ پر گرفت پاکستان کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں‘ اس لیے :

پاکستانیوں کو نوٹس دینے کی ضرورت ہے… مشرف پر بہت زیادہ دبائو ڈالنے میں اندیشہ ہے‘ لیکن بالکل دبائو نہ ڈالنے میںزیادہ اندیشہ ہے۔(ص ۵۸)

۱۲ ستمبر کورات کو ۳۰:۱۲ بجے کولن پاول نے جنرل پرویز مشرف سے "As one general to another"بات کی اور ’’یا ہمارے ساتھ ہو، یا ہمارے مقابلے میں ہو‘‘ کی دھمکی دی‘ نیز سات مطالبات کیے جن کے نتیجے میں پاکستان امریکا کے جنگی پشتے (war base)میں تبدیل ہوگیا۔ کولن پاول نے باب ووڈ ورڈ سے کہا اور پھر اپنی خودنوشت میں اعتراف کیا ہے کہ وہ سمجھتا تھا کہ مشرف سات میں سے ایک دو مطالبات مان لے گا لیکن اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ ہمارے جنرل صاحب نے ساتوں مطالبات بے چون وچرا ں مان لیے۔ ووڈ ورڈ لکھتا ہے:

پاول کو حیرت ہوئی جب مشرف نے کہا کہ پاکستان امریکا کے ساتوں میں سے ہر ایک اقدام میں حمایت کرے گا۔ (ص ۵۹)

بعد میں صدر بش سے جنرل پرویز مشرف نے دو درخواستیںکیں۔ ایک یہ کہ: ’’افغانستان کے بارے میںانھیں خدشہ ہے کہ شمالی اتحاد جسے امریکا بھی مانتا ہے کہ وہ قبائلی ٹھگوں کے گروہ سے زیادہ نہیں‘ افغانستان پر قابض ہوجائے گا‘‘۔ جس کے جواب میں صدربش نے خسروان شاہی سے فرمایا کہ: ’’شمالی اتحاد کے بارے میں آپ کی تشویش کا مجھے بخوبی احساس ہے‘‘۔

ملاقات کے بعد پریس کے سامنے بش نے وعدہ کیا کہ:

ہم اپنے دوستوں کی جنوب میں شامالی میدان کی طرف پیش قدمی کی حوصلہ افزائی کریں گے نہ کہ شہر کابل پر قبضہ کے لیے‘ بش نے کہا۔ (ص ۳۰۴)

اور پھر ہوا کیا؟ پورا افغانستان طشتری میں سجا کر شمالی اتحاد کی خدمت میں پیش کردیا گیا اور جنرل صاحب دیکھتے رہ گئے۔ دوسری گزارش جنرل صاحب نے صدربش سے یہ کی کہ پاکستان کے نیوکلیر اثاثہ جات کو اسرائیل سے خطرہ ہے‘ آپ ان کے تحفظ کا یقین دلائیں۔ بش نے بات کو مذاق میں اڑا دیا اور جنرل صاحب خوش ہوگئے کہ امریکا پاکستان کی ایٹمی صلاحیت پر دست درازی نہیں کرے گا۔

جنرل صاحب نے بڑی ہمت کر کے افغانستان میں روس کے خلاف جہادکے خاتمے پر امریکا کے آنکھیں پھیر لینے کے پاکستانی احساس کا ذکر کیا تو بش نے پوری ڈھٹائی سے کہا: ایسا نہیں ہوگا۔ ملاحظہ فرمایئے:

مشرف نے کہاکہ اس کو یہ خطرہ ہے کہ امریکا آخر میں پاکستان کو چھوڑ دے گا اور دوسرے مفادات دہشت گردی کے خلاف جنگ کی اہمیت کم کردیں گے۔ بش نے اپنی نگاہ مرکوز کرکے کہا: پاکستانی عوام کو بتا دیں کہ امریکی صدر نے آپ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بتایا ہے کہ ہم ایسا نہیں کریں گے۔ (ص ۳۰۳)

حسب عادت امریکا نے وہی کیا اور کر رہا ہے‘ یعنی آنکھیں پھیر لینا۔ بدعہدی اور طوطا چشمی کے علاوہ اس سے کوئی توقع رکھنا خوش فہمی ہی نہیں حماقت ہے۔ اس موقع پر صدر نکسن کی دل چسپ مگر عبرت آموز گواہی بھی ریکارڈ پر لانا مفید ہوگی جس میں امریکا کا ساتھ دینے والے چار کرداروں کا ذکر ہے جن میں سے دو کا تعلق پاکستان سے ہے۔ رچرڈ نکسن نے اپنی کتاب In the Arena: A Memoir of Victory, Defeat and Renewalمیں جو ۱۹۹۲ء میں شائع ہوئی تھی‘ لکھا ہے:

بیرونی سفر میں میرا سب سے زیادہ افسوس ناک تجربہ جولائی ۱۹۸۰ء میں‘قاہرہ میں‘  شاہِ ایران کے جنازے میں شرکت تھی۔ واشنگٹن سے کوئی بھی امریکا کی نمایندگی کے لیے ایک ایسے لیڈر کے جنازے میں نہیں بھیجا گیا جو ہمارے نہایت وفادار اور گہرے دوستوں میں سے تھا۔ مجھے پاکستان کے صدر ایوب خان کا ایک جملہ یاد آیا جو انھوں نے ۱۹۶۴ء میں‘ جنوبی ویت نام کے صدر ڈیم کے قتل میں امریکا کی شرکت پر تبصرہ کرتے ہوئے مجھ سے کہا تھا کہ اس واقعے نے ثابت کردیا ہے کہ امریکا کا دوست ہونا خطرناک ہوتا ہے۔ غیرجانب دار ہونے کا فائدہ ہوتا ہے‘ اور بعض وقت دشمن ہونے سے کام نکلتا ہے۔ یہ بات میرے ذہن میں اس وقت پھر آئی جب امریکا کے ایک اور گہرے دوست پاکستان کے صدر ضیاء الحق کی پُراسرار موت کی اطلاع ملی جو ہوائی جہاز کے حادثے میں ہوئی جو بظاہر سبوتاژ کا نتیجہ تھی۔

قومی عزائم سے بدترین بے وفائی

یہ ہے امریکا کا ٹریک ریکارڈ۔ اس کے باوجود جنرل پرویز مشرف نے امریکا کا دامن تھاما اور اس کی چاکری کی خدمات انجام دیں‘ جن میں افغانستان کے اپنے دوست حکمران طالبان سے نائن الیون کے واقعے میں ان کے ملوث ہونے کے کسی واضح ثبوت کے باوجود بے وفائی‘ افغانستان پرفوجی یلغار اور اس کو تباہ و برباد کرنے کی امریکی اور بعد میں ناٹو کی جنگ میں شرکت‘ خود اپنے ملک میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر افغانستان میں امریکا اور ناٹو کی مشترک ۴۰ہزار کی فوج کے مقابلے میں ۸۰ ہزار سے ایک لاکھ فوج کو قبائلی علاقوں میں جھونک دینا‘ ۸۰۰ پاکستانی افسران اور جوانوں اور ایک ہزار سے زیادہ قبائلی مسلمانوں کی جانوں کا اتلاف اور سیکڑوں افراد کو کسی ثبوت اور کسی عدالتی کارروائی کے بغیر گرفتار کر کے امریکا کی تعذیب کا نشانہ بنانے کے لیے ان کی تحویل میں دے دینا شامل ہیں۔ پھر اس کے نتیجے میں پاکستان کے اندرونی معاملات حتیٰ کہ سیکولر تعلیمی نظام کو فروغ دینے اور ملک میں امریکا کی مرضی کی سیاسی قیادت کو برسرِاقتدار لانے کے معاملات میں امریکی ایجنڈے کی تعمیل کی راہیںاستوار کیں۔ یاد رکھیے جو پالیسی مالی منفعت یا    بہ الفاظ صحیح تر سیاسی رشوت یا بیرونی دبائو‘ بلیک میل‘ ہاتھ مروڑنے اور تازیانہ بازی کا نشانہ بننے کے نتیجے میں بنے گی‘ یا ان دونوں کے امتزاج کا نتیجہ ہوگی وہ کبھی قومی مفاد میں نہیں ہوسکتی۔ نائن الیون کے بعد جنرل پرویز مشرف نے امریکا کے حکم اور مطالبے کے تحت قومی مفاد کو جس طرح قربان کیا ہے اور ملک کی خارجی اور داخلی پالیسیوں میں جو بنیادی تبدیلیاں کی ہیں وہ قوم‘ اور اس کے عزائم سے بدترین بے وفائی اور قیامِ پاکستان کے مقاصد اور دستورِ پاکستان کے تقاضوں سے متصادم ہیں۔ اور یہ سب کچھ چند بلین ڈالر حاصل کرنے اورامریکا کے دبائو اور ڈنڈوں کے سائے تلے   کیا گیا ہے۔ اس کی چند مثالیں ریکارڈ کی خاطر پیش کی جاتی ہیں۔

امریکا کی ناردرن کمانڈ کا سربراہ (۲۰۰۳ء-۲۰۰۰ء) جنرل ٹامی فرینک اپنی خودنوشت میں جو ۲۰۰۴ء میں American Soldier کے نام سے شائع ہوئی ہے‘ لکھتا ہے:

میں نے ارادہ کیا کہ سفر جاری رکھتے ہوئے پاکستان میں صدر مشرف سے مل لوں۔  اس لیے کہ اگر بازو مروڑنے کا کوئی موقع تھا تو یہی تھا۔ انھیں فیصلہ کرنا ہوگا‘ اور بہت جلدی فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ کس طرف ہیں۔

اسی کتاب میں جنرل ٹامی فرینک انکشاف کرتا ہے کہ افغانستان پر امریکا کی یورش میں بھارت کی سیاسی‘ سفارتی اور فوجی شرکت بھی تھی جس پر جنرل پرویز مشرف کو اصولی اختلاف نہیں تھا البتہ صرف اس لیے پریشان تھے کہ اس سے ان کی سیاسی پوزیشن خراب ہوتی ہے۔ افسوس کا مقام ہے کہ معاملہ اس پر طے ہواکہ بھارت کی شرکت کو نمایاں نہیں کیا جائے گا۔ یہ دل خراش داستان  انھی کی زبان میں سن لیجیے:

مشرف نے درخواست کی کہ مہم کے منصوبے میں بھارتی حکومت یا بھارتی فوج کی شرکت نہ ہو۔ خاص طور پر کسی بھی صورت میں اس طرح کہ بھارتی فوجیں پاکستان کے بحری اور فضائی حدود میں داخل ہوں۔ انھوں نے یہ بھی چاہا کہ اتحادی بھارت کی  سیاسی شرکت کوبھی بہت نمایاں نہ کریں جس سے پاکستان میں جذبات بھڑک سکتے ہیں۔ میں نے امریکی سفیر وینڈی سے کہا کہ وہ صدر مشرف کو میرا ذاتی شکریہ پہنچا دیں اور انھیں بتائیں کہ میں بھارتی شرکت کا مظاہرہ کم سے کم کرنے کی کوشش کروں گا۔ (ص ۲۷۳)

جنرل ٹامی فرینک اپنی افغان جنگ کے پورے تجربے کا تجزیہ کرتے ہوئے فخریہ انداز میں بیان کرتا ہے کہ:

علاقے میں اپنے ساتھی تلاش کرنے کے لیے اپنے ۳۰ سے زیادہ دوروں میں‘ مَیں نے بہت زیادہ چارہ اور چند ہی چابک استعمال کیے۔

اور پھر جنرل پرویز مشرف کی تابع داری کا بیان یوں رقم کرتا ہے:

اور گو کہ دنیا کو اس جنگ میں پاکستان کے فوجی کردار کا کم پتا ہے لیکن پرویز مشرف نے اپنا کہا پورا کیا‘ اور آج بھی وہ اسی طرح ہے۔ پاکستان کے گیارھویں کور کے تجربہ کار فوجیوں نے بھاگنے والے سیکڑوں القاعدہ کے دہشت گردوں کو قتل کیا اور پکڑااور وہ آج بھی وزیرستان کے پہاڑوں میں ان دہشت گردوں کو تلاش کرتے ہیں‘ جب کہ پاکستان کی سیکورٹی فورسز شہروں میں ان کا پتا چلاتی ہیں۔ حال ہی میں القاعدہ دہشت گردوں کی گرفتاریاں جاری مہم کی تازہ کامیابیاں ہیں۔ جب صدر بش نے کہا تھا کہ دنیا کی قومیں یا ہمارے ساتھ ہیں یاہمارے مخالف تو پاکستان نے ٹھیک ٹھیک سمجھ لیا (کہ اب اسے کیا کرنا ہے)۔

ٹامی فرینک کی گواہی کافی نہیں۔ تصویر مکمل کرنے کے لیے سی آئی اے کے ڈائرکٹر  جارج ٹی نٹ (Tenet)کی شہادت بھی ملاحظہ فرمالیجیے۔ یہ نومبر ۲۰۰۱ء کا واقعہ ہے اور پس منظر میں پاکستان کی نیوکلیر ٹکنالوجی کے افغانستان جانے کا خطرہ ہے۔صدربش نے خصوصی طیارے سے سی آئی اے کے سربراہ کو پاکستان بھیجا۔باب ووڈ ورڈ نے اپنی دوسری کتاب Plan to Attack میں اس کی اس طرح منظرکشی کی ہے۔ پہلے صدربش کی ہدایت دیکھیے:

بش نے ٹی نٹ سے کہا: میں چاہتا ہوں کہ تم ابھی وہاں جائو اور جو چاہیے وہ حاصل کرلو۔ اپنا جہاز پکڑو اور ابھی پاکستان چلے جائو۔

جارج ٹی نٹ پہلے آئی ایس آئی کے سربراہ سے ملتے ہیں۔ ذرا زبان اور عزائم ملاحظہ فرمائیں:

وہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی کے سربراہ سے خوب خبر لینے (raising holy hell) کے ارادے سے ملنے گیا۔ اگر امریکا میں کوئی ایٹمی ہتھیار ہوا اور یہ چل گیا تو ذمہ داری تمھاری ہوگی‘ مشرف کے بارے میں اس نے کہا۔ ہم نے اس پر خوب دبائو ڈالا۔ ایک اہل کار نے کہا: ہم گوشمالی کرتے رہے (we were turning the screws) یہاں تک کہ اس کے ساتھ ہم اس مقام پر پہنچ گئے کہ پاکستانی ہمارے ساتھ کام کرنے لگے۔ (ص ۴۷)

جنرل پرویز مشرف اور ان کے وزیرخارجہ بار بار اعلان کرتے ہیں کہ ہم نے کسی کے اشارے پر یا دبائو کے تحت کچھ نہیں کیا۔ اس سے بڑا جھوٹ آسمان تلے نہیں ہوسکتا۔ قوم نے جس فوج کو ملک کی آزادی اور قوم کی عزت کی حفاظت کے لیے اپنا پیٹ کاٹ کر تیار کیا تھا‘ اس کی قیادت نے چند ڈالروں کے لیے اور دوسروں کی دھمکیوں کے تحت خود مسلمانوں کا خون بہایا اور امریکا کی بالادستی کے قیام کے لیے خود اپنی جانیں اور عزت قربان کی۔ اقبال نے تو کشمیر کا نوحہ کیا تھا‘ کیا خبر تھی کہ پاکستان کے بارے میں بھی کہنا پڑے گا کہ اس کے جرنیلوں نے  ع

قومے فروختند و چہ ارزاں فروختند!

امریکا کی کہلی مداخلت

امریکا کس طرح ہمارے معاملات میںمداخلت کر رہا ہے‘ وہ صرف افغانستان کے لیے کندھا فراہم کرنے اور وزیرستان میں فوج کشی کرنے تک محدود نہیں۔ چند اور مثالیں مشتے نمونہ ازخروارے پیش خدمت ہیں۔

امریکا اور برطانیہ کے اشاروں پر کشمیر کی جدوجہد آزادی سے دست برداری اختیار کی گئی اور نہ صرف عملاً تحریک آزادیِ کشمیر کی ہر مدد بند کردی‘ بلکہ اسے آزادی کی جنگ بھی کہنے سے توبہ کرڈالی۔ افسوس کہ بالآخر جنوری ۲۰۰۴ء میں یہاں تک اعلان کردیا کہ کشمیر کی کنٹرول لائن جسے پاکستان نے کبھی بین الاقوامی سرحد تسلیم نہیں کیا تھا‘ اسے کشمیری مجاہدین کے لیے بند کردیا جائے گا اور ان کے سرحدپار کرنے کو دہشت گردی کی ایک صورت تسلیم کرلیا۔

اس سلسلے میں ٹونی بلیئر نے صدربش کے کارندے کی خدمات انجام دیں اور جنرل پرویز مشرف کوقائل کرلیا کہ کشمیر کی تحریکِ آزادی کو تحریکِ آزادی بھی نہ کہیں۔ ابھی چند ہفتے قبل     ہی سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر کے ایڈوائزر اور پالیسی کے شعبے کے مدیر الیسٹیرکیمپبل کی کتاب  The Blair Years شائع ہوئی ہے۔اس میں ٹونی بلیئر کے کارنامے اور پاکستانی جرنیل کا   ’تیرا مجبور کردینا، مرا مجبور ہوجانا‘ کا جو نقشہ کھینچا گیا ہے‘ عبرت کے لیے اس کا جاننا ضروری ہے۔ جنرل صاحب سے یہ ملاقات ۷جنوری ۲۰۰۲ء میں‘ اسلام آباد میں ہوتی ہے اور اس کے بعد ۱۲فروری ۲۰۰۲ء کو وہ کشمیر کی جنگ آزادی سے دست برداری کا اعلان فرما دیتے ہیں۔الیسٹیر کیمپبل لکھتا ہے کہ:

بلیئر کا پہلا قدم یہ ہونا تھا کہ مشرف دہشت گرد گروہوں کے ساتھ سخت ہوجائے۔ بلیئر نے مشرف سے کہا کہ مذاکرات شروع ہونے کے لیے دہشت گردی کی حمایت ختم  ہونی چاہیے۔ مشرف نے حیران ہوکر دیکھا۔ بلیئر نے کہا: یہ اس لیے ٹھیک نہیں ہے کہ  اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ پاکستان کی حکومت دہشت گردی کی حمایت کر رہی ہے۔ ہم نے اسے سمجھایا کہ اس کے لیے بہترین راستہ یہ ہے کہ وہ بڑھ چڑھ کر یہ کہے کہ وہ دہشت گردی کی ہرشکل کا مخالف ہے۔ ہم نے اسے اس پر قائل کرلیا کہ کشمیر کے بارے میں وہاں ہونے والی جدوجہد کو جنگِ آزادی نہ کہاجائے۔ اس لیے کہ یہ ہم اور امریکی راے عامہ نہیں سمجھیں گے۔ زیادہ بہتر یہ ہے کہ اسے ایک مقامی جدوجہد کہا جائے۔ ہمیں اس پر بہت وقت خرچ کرنا پڑا لیکن بالآخر وہ مان گیا۔ (The Blair Years‘ ص ۵۹۹)

امریکا کی نام نہاد ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ ہو یا پاکستان کی کشمیرپالیسی‘ نیز بھارت کے ساتھ پاکستان کے تعلقات اور دوستی کی پینگیں___ سب کچھ امریکا کے اشارۂ چشم و ابرو پرہوا لیکن الفاظ و معانی اپنا مفہوم کھو چکے ہیں۔ بقول جنرل صاحب یہ سب ’قومی مفاد میں ہوا‘، اور     یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔

لال مسجداور جامعہ حفصہ کے خلاف جو فوجی آپریشن ہوا وہ بھی امریکا اوراس کے حواریوں کے مطالبات اور مغربی میڈیا اور خود پاکستان میں لبرل قیادت کے شوروغوغا اور اس کی سرخیل  محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہہ پر ہوا۔ صدربش‘ گورڈن برائون (برطانوی وزیراعظم) آسٹریلیا کے وزیراعظم اور خود بے نظیر صاحبہ نے باقاعدہ اس اقدام کی تحسین فرمائی اور معصوم بچوں اور بچیوں کے کشت و خون اور مدرسے کی مسماری پر مبارک باد کے پیغامات بھیجے۔ اب اس میں کوئی شبہہ نہیں کہ امریکا نے ایکشن سے ایک دن پہلے باقاعدہ ہدایات جاری کیں‘ اس فرق کے ساتھ ان کا مطالبہ تھا کہ لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے مکینوں کو گرفتار کیا جائے‘ جب کہ جنرل پرویز مشرف کی حکمت عملی یہ تھی ان کو نیست و نابود کیا جائے‘ بلکہ جامعہ حفصہ کو بھی اس طرح مسمار کیا جائے کہ بقول چیف جسٹس آف پاکستان اس آپریشن کے بارے میں ساری معلومات اور شہادتیں بھی ختم ہوجائیں۔ امریکی ہدایات ریکارڈ کے لیے پیش کی جاتی ہیں۔ ۹جولائی ۲۰۰۷ء کے The Nation کے مطابق فوجی ایکشن سے ایک دن قبل(واضح رہے کہ یہی وہ دن ہے جب مصالحت کی کوششیں اپنے عروج پر تھیں‘ معاملات طے ہورہے تھے کہ ان کو سبوتاژ کردیا گیا) یہ ہدایات نازل ہوئیں:

امریکا نہیں چاہتاکہ ان درجنوں خطرناک جنگجوؤں کو جو لال مسجد اور جامعہ حفصہ میں ہیں‘ محفوظ راستہ دیا جائے بلکہ سخت اقدام چاہتا ہے تاکہ وہ گرفتار ہوں۔ بش انتظامیہ کا پیغام یہ تھا کہ مولانا عبدالرشید غازی کے مطالبے کے مطابق مسجد خالی کرنے اور  لڑکیوں کے متصل مدرسے کو خالی کرنے کی شرط پر جنگجوؤں کو محفوظ راستہ نہ دیا جائے… واشنگٹن کو ان جنگجوؤں کو ہلاک کرنے کے مقابلے میں گرفتار کرنے میں زیادہ دل چسپی تھی‘ اس لیے کہ اسے یقین تھا کہ ان سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اہم سراغ ملیں گے… انھوں نے کہا کہ امریکا کے اعلیٰ سیکورٹی اہل کار پاکستانی دارالحکومت کے واقعات کو مانٹیر کر رہے تھے اور اپنی حکومت کو باقاعدگی سے تازہ اطلاعات پہنچا رہے تھے۔

اسی طرح جنوبی اور شمالی وزیرستان میں جو امن معاہدہ ہوا اس سے امریکاسخت ناخوش تھا۔  اس نے اپنا سارا اثرورسوخ اور بازو مروڑنے (arm-twisting) کے حربے استعمال کرکے  شمالی وزیرستان اور اس سے بڑھ کر صوبہ سرحد کے چند اہم مقامات خصوصیت سے سوات‘ بنوں اور دوسرے علاقوں میں فوج بھیجنے کے لیے پاکستان پر دبائو ڈالا اور بالآخر اس علاقے میں ایک بار پھر خون ریزی اور تصادم کا سماں پیدا کردیا۔ واشنگٹن سے ڈان کے نمایندے کی ۱۶جولائی کی رپورٹ قابلِ غورہے:

امریکا کے قومی سلامتی کے مشیر نے بتایا کہ امریکا پاکستان کو وہ تمام آلات فراہم کرے گا جن کی انھیں صوبہ سرحد اور قبائلی علاقوں میں جنگجوؤں کے لیے ایک مجوزہ کریک ڈائون کے لیے ضرورت ہوگی۔ اسٹیفن رِڈلے نے اے بی سی نیوز کو بتایا کہ جنرل مشرف نے قبائلی علاقوں میں مزید افواج بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے اور امریکا اس اقدام کی مکمل حمایت کرتا ہے۔ ہمیں اس ملک کو اس حالت میںلاناہے جہاںاس کے پاس دہشت گردی کے اس خطرے سے نمٹنے کے لیے تمام ضروری آلات ہوں‘ جو بدقسمتی سے ہمارے ساتھ طویل مدت تک رہے گا۔

بھارت کے جریدے فرنٹ لائن نے اپنی ۱۰ اگست ۲۰۰۷ء کی اشاعت میں پاکستان پر تفصیلی کور اسٹوری شائع کی ہے جس میں جان شیریں (John Cherian) نے اپنے دو مضامین میں حالات کی یوں عکاسی کی ہے:

جب انھیں یاد دلایا گیا کہ قبائلی سرداروں نے گذشتہ سال ستمبر کا معاہدہ ختم کردیا ہے تو انھوں نے کہا کہ معاہدے نے اس طرح کام نہیں کیا جس طرح صدرمشرف چاہتے تھے‘ بلکہ اس طرح بھی نہیں کیا جس طرح ہم چاہتے تھے۔ اس ہفتے کے آغاز میں امریکی اسسٹنٹ سیکرٹری رچرڈ بائوچر نے کانگریس کو بتایا کہ امریکا قبائلی پٹی اور سرحد کی نگرانی کے لیے پاکستانی فوج کو ہرمہینے ۱۰۰ ملین ڈالر ادا کرتا ہے۔

اگر امریکی احکام پر عمل کیا جائے تو پاکستانی فوج افغانستان سے متصل اپنے سرحدی علاقے میں پشتون قبائل کے ساتھ عملاً حالت ِ جنگ میں ہوگی…

امریکی میڈیا کی حالیہ رپورٹوں کے مطابق ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد بش انتظامیہ نے پاکستان پر دبائو ڈال کر اسے اپنے ساتھ ملا لیا۔ مشرف کو بتایا گیا کہ اگر اس نے طالبان کی حمایت ترک نہ کی تو واشنگٹن بم باری کرکے پاکستان کو پتھر کے دور میں پہنچا سکتا ہے‘ اور نئی دہلی کو اشارہ کرے گا کہ پاکستانی کشمیر کے متنازع علاقے پر قبضہ کرلے۔

پاکستانی صدر پرویز مشرف کی حالیہ پریشانیوں کی بڑی وجہ پڑوسی ملک افغانستان میں طالبان کا احیا ہے۔ امریکا اور ناٹو کی افواج کی طالبان کو شکست دینے میں ناکامی نے پاکستان میں اس کے حامیوں کا حوصلہ بڑھا دیا ہے۔ بش انتظامیہ کو سیاسی طور پر یہ مناسب لگتا ہے کہ طالبان اور اس کے عسکری حلیفوں کو افغان سرحدی علاقوں میں قابو کرنے کے لیے کافی کچھ نہ کرنے کے الزام پاکستان پر رکھ دے‘ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ طالبان کے احیا کی حقیقی ذمہ داری واشنگٹن اور اس کے حلیفوں پر ہے۔

بش انتظامیہ حکومتِ پاکستان پر دبائو ڈال رہی ہے کہ قبائلی علاقوں میں پھر بھرپور حملہ کرے۔ اپنے علانیہ بیانات میں سینئر امریکی اہل کار کہہ چکے ہیں کہ اگر پاکستانی فوج آگے بڑھ کر اقدام نہیں کرتی تو امریکا خود اقدام کرسکتا ہے۔ ماضی میں کئی موقعوں پر امریکی فضائیہ نے القاعدہ کے اہداف کو پاکستانی حدود میں نشانہ بنایا ہے۔ امریکی اسپیشل فورسز بھی محدود پیمانے پر آپریشن کر رہی ہیں۔

امریکی مداخلت کی تازہ ترین مثال مشرف بے نظیر مفاہمت کی کوششیں اور اس کے لیے  کی جانے والی طرح طرح کی سازشیں ہیں۔ ایمرجنسی کی بات اور پھر امریکی وزیرخارجہ کی مداخلت اس کی تازہ ترین نظیر ہیں۔ نیویارک ٹائمز ۱۱اگست ۲۰۰۷ء کے اداریے میں امریکا کے کردار کویوں بیان کرتا ہے:

وزیرخارجہ کونڈولیزارائس نے جمعرات کی رات کو ۲ بجے صدرمشرف کو فون کر کے ایک سیاسی طوفان کو دُور کرنے میں مدد دی‘ اور پارلیمنٹ کو معطل کرنے‘ عدالتوں کو بے اختیار کرنے‘ مظاہروں پر پابندی لگانے اور اس کے لیے ایک نئی صدارتی مدت کے سلسلے میں بات کی۔

لیکن یہ بحران شاید صرف ملتوی ہوا ہے۔ آٹھ سال کی مطلق العنان حکومت اور عہدشکنیوں کے بعد مشرف نے وہ حمایت کھو دی ہے جو اسے عام پاکستانیوں میں‘ تعلیم یافتہ پروفیشنل طبقے میں‘ حتیٰ کہ ساتھی فوجی افسروں میں کبھی حاصل تھی۔ مشرف کو صرف یہ بتانا کہ وہ مزید اختیارات حاصل نہ کرے کافی نہیں۔ واشنگٹن کو اسے یہ بتانا چاہیے کہ تاخیر ہونے سے قبل مذاکرات کے ذریعے جمہوریت کی طرف جلدواپس ہونا چاہیے۔

واضح رہے کہ یہاں جمہوریت کے معنی امریکا کی پسندیدہ قیادت کو برسرِاقتدار لانا ہے‘ ورنہ سب کو معلوم ہے کہ امریکا کوجمہوریت کا کتنا پاس ہے۔

اثرات و نتائج

اس دل خراش داستان کی کوئی انتہا نہیں۔ ہم نے صرف چنددستاویزاتی شہادتیں پیش کی ہیں تاکہ ’قومی مفاد‘ کی بات کرنے والوں کااصل چہرہ سامنے آسکے۔ امریکا کے ایجنڈے کے مطابق جنرل پرویز مشرف نے قوم‘ پارلیمنٹ‘ حتیٰ کہ کابینہ اور دفترخارجہ تک کو نظرانداز کرکے وحدت اقتدار (unity of command) کے نام پر خارجہ پالیسی کا جو تیاپانچہ کیا ہے‘ اس سے ملک اور اُمت مسلمہ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ اس کے چند اہم پہلوئوں کی نشان دہی کی جاتی ہے:

۱- صدر بش کی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ نہ بین الاقوامی قانون کے اعتبار سے جنگ ہے اور نہ اس کا ہدف حقیقی دہشت گردی ہے۔ اس لیے کہ دہشت گردی کا تو سب سے زیادہ ارتکاب خود امریکا نے کیا ہے یا اس کے حلیفِ خاص اسرائیل اور پھر بھارت نے۔ اس وقت خود امریکی اور یورپی اہلِ علم ’وار آن ٹیررزم‘ کے پورے paradigmکو چیلنج کررہے ہیں‘ اور   صاف کہہ رہے ہیں کہ جنگ کا لفظ صرف اس لیے استعمال کیا جا رہا ہے کہ سویلین افراد کو    محارب (combatant) قرار دے کر قانون سے بالابالا ختم کیا جاسکے۔ ان کے بقول جن پر دہشت گردی کا شبہہ ہو جب تک الزام عدالت کے نظام کے تحت ثابت نہ ہو‘ انھیں دہشت گرد قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اور جو فی الحقیقت دہشت گرد ہیں وہ بھی محارب نہیں صرف ’مجرم‘ (criminal) ہیں اور ایک مجرم کو جرم کی حد تک قانون کے عام پروسس کے ذریعے ہی سزا دی جاسکتی ہے۔   ’وار آن ٹیررزم‘ ایک قانونی فراڈ ہے اور جنرل پرویز مشرف صدر بش کے ساتھ اس فراڈ میں‘ جو  اب انسانیت کے خلاف ایک سنگین جرم (crime against humanity) بن چکا ہے‘ شریک ہیں اور پاکستانی فوج کو اس نے اس میں ملوث کر کے پاکستانی فوج اور پاکستانی قوم دونوں کوسخت عذاب میں مبتلا کردیا ہے۔ یہاں تو یہ ہو رہا ہے‘ جب کہ دنیا کی سوچ اب اس طرح بدل رہی ہے کہ برطانیہ کے نئے وزیراعظم گارڈن برائون نے دو ہفتے قبل یہ ہدایت جاری کی ہے کہ آیندہ کوئی برطانوی وزیر اسے ’وار آن ٹیرر‘ نہ کہے۔

۲- پاکستان کی کشمیر پالیسی کو یک سر بدل کر اور تحریک حریت کشمیر سے غداری کرکے پاکستان کے اسٹرے ٹیجک مفادات پر ضرب کاری لگائی ہے اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار کشمیر کے عوام کو پاکستان سے مایوس اور بددل کرکے نہ صرف ۵لاکھ شہیدوں کے خون سے بے وفائی کی ہے بلکہ جموںو کشمیر کے ڈیڑھ کروڑ انسانوں کو بھارت کے استبداد کا نشانہ بننے اور ان کی زندگی کو جہنم بنانے کا سامان کیا ہے۔ اس کے جو دُور رس اثرات خود پاکستان کی سلامتی‘ معاشی خودانحصاری اور نظریاتی تشخص پر پڑیں گے دل ہلا دینے والے ہیں۔

۳-  بھارت سے دوستی کے سراب کے تعاقب میں بھارت کی طرف سے تمام خطرات کو نظرانداز کردیا ہے جو وہ پاکستان اور اس پورے علاقے کے لیے پیدا کر رہا ہے۔ یہاں بھارت اور امریکا کی اسٹرے ٹیجک پارٹنر اور ایٹمی سمجھوتے کی وجہ سے جو مسائل اور خطرات پاکستان‘ چین‘ ایران کو پیش آنے والے ہیں‘ ان سے آنکھیں بند کرلینا اپنے اندر بڑے مہلک امکانات رکھتا ہے۔ ان سارے پہلوؤں کا جنرل پرویز مشرف کی خارجہ پالیسی میں کوئی شعور نظر نہیں آتا۔

۴- افغانستان میں جو آگ لگی ہوئی ہے‘ بلاشبہہ اس کی اوّلین ذمہ داری امریکا اور ناٹو کی فوجوں پر ہے لیکن پاکستان بھی اس ذمہ داری میں شریک ہے‘ اور یہی وجہ ہے افغان عوام پاکستان سے دُور سے دُور تر ہوتے جارہے ہیں۔ شمالی اتحاد تو اوّل روزسے پاکستان کے خلاف اور بھارت کا حلیف اور آلۂ کار تھا لیکن وہ تمام قوتیں جو پاکستان کے لیے محبت‘ ہمدردی اور احسان مندی کے جذبات رکھتی تھیں‘ وہ بھی نائن الیون کے بعد ہم سے نالاںاور دُور ہوگئی ہیں۔ یہ دُوری اب بداعتمادی اور نفرت کی سرحدوں کو چھو رہی ہے۔ ہم نے اپنے دوستوں کو دشمن بنالیا اور دشمن اور زیادہ شیر ہوگیا۔ نیز افغانستان میں بھارت نے بڑی مضبوطی اور عیاری سے اپنے قدم جما لیے ہیں جن کا ہدف بالآخر پاکستان ہے۔ بلوچستان میں اس کے اثرات نظر آنا بھی شروع ہوگئے ہیں۔

۵- ہم اسے تسلیم کریں یا نہ کریں لیکن حقیقت یہ ہے کہ چین اور ایران میں بھی اب پاکستان کے لیے وہ گرم جوشی نہیں جو ایک تاریخی حقیقت اور ہمارا بڑا قیمتی اثاثہ تھی۔ آج ہمارے تمام ہمسایہ ملک پہلے کے مقابلے میں ہم سے دُور اور شاکی ہیں۔یہ سب نتیجہ ہے ایک تباہ کن  خارجہ پالیسی کا جو امریکا کے مفاد میں ہے یا اس کا فائدہ ذاتی طور پر گنے چنے افراد کو پہنچ رہا ہے۔

۶- دینی اورتہذیبی اعتبار سے بھی یہ سودا بڑے خسارے کا سوداہے۔ مسلم معاشرے کو محض امریکا کو خوش کرنے کے لیے لبرل اور انتہاپسند طبقوں میں تقسیم کیاگیا ہے اور ان کو باہم تصادم کے راستے پر ڈالا جا رہا ہے۔ سیاسی مسائل کو ننگی قوت کے ذریعے حل کرنے کی احمقانہ پالیسی پر بگ ٹٹ دوڑ لگی ہوئی ہے۔ دینی مدارس اور دینی تعلیم کو ہدف بنایا جا رہا ہے جس سے معاشرے میں تصادم اور تشدد پرستی کا رجحان فروغ پا رہا ہے۔ قوم اور اس کے حکمرانوں کے درمیان جنگ کی کیفیت ہے جو سیاسی اور تہذیبی عدمِ استحکام کی طرف لے جا رہی ہے۔

۷- اس پالیسی کا ایک اور بڑا ہی نقصان دہ پہلو یہ ہے کہ قوم اور فوج میں نہ صرف مغائرت پیدا ہوئی ہے بلکہ یہ بے اعتمادی اب نفرت کو جنم دے رہی ہے۔ وہ فوج جسے قوم اپنی آنکھ کا تارا قرار دیتی ہے اور جس پر عقیدت اور محبت کے پھول نچھاور کرتی تھی آج وہ عوام کے غصے کا نشانہ بنتی جارہی ہے۔ اس سے بڑا سانحہ کیا ہوگا کہ ۲۹ جولائی کے اخبارات میں وزارتِ داخلہ کی یہ ہدایت شائع ہوئی ہے اور ہماری اطلاع ہے کہ فوجی ذرائع نے بھی اپنے اپنے گیریژن کو ایسی ہی ہدایات دی ہیں‘ حتیٰ کہ جنرل پرویز مشرف سے بھی یہ بات منسوب کی جارہی ہے کہ انھوں نے ہدایت کی ہے کہ فوجی افسر اور جوان بسوں میں‘ بستیوں میں اپنی وردی میں نہ گھومیں کہ ان پر حملوں کا خطرہ ہے۔

ڈیلی ٹائمز میں ۲۹ جولائی کو اس سرخی کے ساتھ یہ خبر شائع ہوئی ہے کہ: ’’فوجی اور قانون نافذ کرنے والے اہل کاروں کو عوام میں وردی پہن کر جانے سے متنبہ کیا گیا ہے‘‘۔ خبر کا صرف یہ جملہ سرپیٹ لینے کے لیے کافی ہے کہ: ’’وزارتِ داخلہ نے پاکستانی فوج‘ فرنٹیئرکانسٹیبلری‘ الائیٹ فورس‘ اینٹی رائٹ فورس‘ پنجاب کانسٹیبلری اور پنجاب رینجرز کے افسران اور سپاہیوں کو متنبہ کیا ہے کہ پبلک مقامات پر وردی میں نہ آئیں اور نہ نجی گاڑی وردی میں چلائیں‘‘۔ انا للّٰہ وانا الیہ رٰجعون

سپریم کورٹ کے محترم جج جناب جسٹس خلیل الرحمن رمدے جو ۲۰ جولائی کے فیصلے سے عالمی شہرت حاصل کرچکے ہیں اورجن کی راے کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں‘ انھوں نے ناروے میں وہاں کے وزیرخارجہ کی موجودگی میں پاکستانی قوم کے جذبات اور احساسات کی کتنی سچی ترجمانی کی ہے:

پاکستان مغرب کے مفادات کے لیے لڑ رہا ہے مگر اس سب کے باوجود شرمندگی کا سامنا ہے۔ وہ دوست جن کے لیے ہم یہ سب کر رہے ہیں‘ ہمیں دہشت گرد قرار دیتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ وہ ایک سفارت کار نہیں بلکہ ایک جج ہیں لیکن پھر بھی وہ یہ کہیں گے کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بہت کچھ قربانی دی ہے اور اب بھی دے رہا ہے مگر اس کی قدر نہیں کی جارہی۔

جنرل صاحب کے وردی سے چمٹے رہنے کا حاصل یہ ہے کہ اب یہ وردی محبت کے بجاے نفرت کا اور حفاظت اور آشتی کی جگہ عدم تحفظ کا نشان اور تصادم اور انتقام کی دعوت کی علامت بن گئی ہے۔

جنرل پرویز مشرف کو حقیقی قانونی جواز تو کبھی بھی میسر نہ تھا اور اس کے حصول کا ایک موقع جو ان کو ۱۷ویں ترمیم نے دیا تھا‘ اسے انھوں نے وردی نہ اتار کر ختم کردیا۔ ان کی آٹھ سالہ کارکردگی نے ان کی ساکھ (credibility)کو تار تار کردیا ہے اور رہی ان کی اور فوجی حکمرانی کے نظام کی کارکردگی (competence) تواس کا بھانڈا بھی اب پھوٹ چکا ہے۔ جولائی کے آخری ہفتے اور اگست کے پہلے ہفتے میں ڈان‘ ڈان نیوز اور سی این این نے جو سروے کیاہے‘ اس کی رو سے پاکستان کے عوام کی عظیم اکثریت (۲ء۶۵ فی صد) ان سے نجات پانے کا اعلان کر رہی ہے اور چاہتی ہے کہ وہ صدارت سے فوراً دست کش ہوجائیںاور ۵ء۵۴فی صد کہتی ہے کہ فوج کا سیاست میں عمل دخل ختم کیا جائے۔ بی بی سی کے سروے میں چھے ناموں میں میاںنواز شریف سب سے اوّل مقام پر آئے ہیں اور مشرف صاحب سب سے آخر میں۔ یہ پاکستان کے عوام کی دل کی آواز ہے اور ہم بڑے دکھ اور کرب کے ساتھ ٹائم میگزین کے تازہ شمارے سے یہ جملہ نقل کررہے ہیں جو افغانستان کے حالیہ جرگے کے بعد وہاں کے حالات پر مبنی رپورٹ میں درج کیا گیا ہے کہ افغانستان میں ’مشرف‘ کا نام اب کتوں کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے(ٹائم‘ ۲۷ اگست ۲۰۰۷ء)۔ جنرل ایوب تو صرف بچوں کی زبان سے یہ لفظ سن کر اقتدار چھوڑنے پر آمادہ ہوگیا تھا لیکن روے سخن کسی کی طرف ہو تو روسیاہ؟

آخر میں ہم صرف ایک بات اور کہنا چاہتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ خارجہ پالیسی کے اس تمام  ناکامی کی بڑی وجہ ملک میں جمہوریت کا فقدان‘ فوج کی سیاست میں مداخلت‘ فردِواحد کی حکمرانی‘ پارلیمنٹ کے کردارکا فقدان‘ قومی احتساب کی کمزوری اور عوام کی حکمرانی سے دُوری ہے۔ اداروں کے ذریعے فیصلہ سازی میں بڑاخیرہے اور جہاں یہ نہ ہو وہاں پالیسی سازی کا وہی حشر ہوتا ہے جو جنرل صاحب کے دورِاقتدار میں پاکستان میں ہواہے۔ حالات کی اصلاح کی راہ بھی ایک ہی ہے: یعنی جمہوریت کی بحالی‘ پارلیمنٹ کی بالادستی‘ اداروں کے ذریعے پالیسی سازی‘ حکمرانوں اور ان کی پالیسیوں کا قومی احتساب‘ اور کسی کے لیے بھی من مانی کرنے کے راستوں کو مسدود کر دینا۔

آیندہ چند مہینے پاکستان کے لیے بڑے اہم ہیں۔ ہماری دعا ہے کہ قوم اپنا حق حکمرانی غاصبوں سے چھین لے‘ اور دستور اور قانون کی حقیقی بالادستی کا نظام قائم کرے جس میں ایک طرف لوگوں کو عزت اور انصاف مل سکے تو دوسری طرف ملک کی خارجی اور داخلی پالیسیاں عوام کی مرضی کے مطابق اور ان مقاصد کی روشنی میں تشکیل پاسکیں جن کے لیے پاکستان قائم ہواتھا۔

 

طوفانِ بادوباراں‘ سیلاب‘ زلزلے اور اسی نوعیت کی آفاتِ سماوی و ارضی نظامِ قدرت کا ایک حصہ اور تاریخ کامنقطع نہ ہونے والا عمل ہے۔ یہ ایک ہمہ گیر طبیعی عمل اور نظام کی پیداوار ہیں‘ ان کا تعلق انسان کی ان سرگرمیوں سے بھی ہے جو قدرت کے نظام میں دراندازیاں کر رہی ہیں جنھیں عالمی حدت (global warming)اور ماحولیاتی مداخلت (ecological intervention)کا نام دیا جا رہا ہے‘ اور ان کے پیچھے اخلاقی اور تہذیبی عوامل کی بھی کارفرمائی ہے لیکن جو پہلو سب سے زیادہ غوروفکر کا مستحق ہے اس کا تعلق پیش بندی اور اصلاحِ احوال سے ہے جو ایمان‘ عقل اور تاریخی تجربات کا تقاضا ہیں۔

پاکستان کے حکمران اور پاکستانی قوم اس سلسلے میں مجرمانہ غفلت کی مرتکب ہوئی ہے اور ہورہی ہے۔ اکتوبر ۲۰۰۵ء کے زلزلے نے ملک کو ہلا کر رکھ دیالیکن قدرتی آفات کے نتائج اور تقاضوں سے عہدہ برا ہونے کے لیے جو نظام National Crisis Management Authority کی شکل میں قائم کیا گیا ہے‘ اس کی کارکردگی غیرتسلی بخش ہی نہیں‘ مجرمانہ حد تک ناکارہ  رہی ہے۔ دو سال ہونے کوآرہے ہیں لیکن زلزلے کے متاثرین کا ایک بڑا حصہ کسی نہ کسی طرح اب تک اس تباہی کے چنگل سے نکل نہیں سکا۔

اس سال جون کے آخر سے سیلاب اور بارشوں کا جو سلسلہ شروع ہواہے اس کے نتیجے میں ان دو ماہ میں ملک کے بڑے حصے‘ خصوصیت سے بلوچستان‘ سندھ اور صوبہ سرحد کے بالائی علاقوں میں بڑے پیمانے پر تباہی مچی ہوئی ہے۔سرکاری سطح پر خوش کن اعلانات کے باوجود آزاد ذرائع سے جو معلومات حاصل ہورہی ہیں اور ملکی اور غیرملکی میڈیا نے جو رپورٹیں دی ہیں‘ ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ نقصان بہت ہی وسیع پیمانے پر ہوا ہے اور ریلیف کا کام ہر اعتبار سے غیرتسلی بخش ہے۔ فوج اور نجی خدمتی اداروںنے غیرمعمولی محنت کر کے متاثرہ علاقوں کے لوگوں کی مدد کی ہے مگر عام انتظامی مشینری بالکل ناکام ہوگئی ہے___ اور یہی وہ پہلو ہے جوفوری توجہ کا مستحق ہے۔

سیلاب اور بارشوں کی تباہی کا اب تک کوئی مکمل اور معتبر جائزہ سامنے نہیں آیا ہے۔ سرکاری اور غیر سرکاری رپورٹوں اور سینیٹ اور قومی اسمبلی میں بحث سے جو صورت حال سامنے آتی ہے وہ بڑی دل خراش اور اندوہناک ہے۔ ان دو مہینوں میں ان آفاتِ سماوی کی وجہ سے ۳۲۵ افراد کے ہلاک ہونے اور مزید ۲۲۴ کے لاپتا ہونے کا اندازہ ہے‘ یعنی ۵۵۰ جانیں تلف ہوگئی ہیں۔ ۸۰ہزار سے ایک لاکھ گھروں کے مکمل طور پر تباہ ہونے یا ناقابلِ رہایش ہوجانے اور ۲۵ لاکھ سے زیادہ افراد کے بے گھر ہونے کی اطلاع ہے۔ دو مہینے گزر جانے کے باوجود بھی ہزاروں افراد ابھی تک مختلف علاقوں میں خصوصیت سے بلوچستان میں چھت یا خیمے کی سہولت سے محروم ہیں۔۵ہزار کلومیٹر سے زیادہ سڑکیں بشمول بلوچستان کی کوسٹل ہائی وے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی ہیں۔ ۲ لاکھ ہیکٹر سے زیادہ زرعی زمین اور ان پر موجود فصلیں تباہ ہوئی ہیں اور بلوچستان کے تعلیمی اداروں کا ۲۰فی صد اورسندھ کے تعلیمی اداروں کا ۱۰فی صد ناقابل استعمال ہوگیا ہے۔ مجموعی مالی خسارے کا اندازہ ۹۰ سے ۱۵۰ ارب روپے کا ہے۔ ان حالات میں جنرل پرویز مشرف نے بلوچستان میں متاثرہ ہر خاندان کو ۱۵ ہزار روپے کی سرکاری مدد کی پیش کش کرکے ان کے زخموں پر نمک تو چھڑکا ہے مگر ان کے دکھوں کی تلافی کا کوئی سامان نہیں کیا۔

یہ صورت حال بڑی سنگین ہے۔ یہ ایک قومی مسئلہ ہے اور اس کے حل کے لیے جنگی بنیادوں پر ریلیف اور آبادکاری (rehabilitation)کا نقشۂ کار بلاتاخیر بنانے کی ضرورت ہے۔ یہ حکومت اور اپوزیشن کی آویزش‘ مرکز اور صوبوں میں کش مکش یا ایک دوسرے پر الزام عائد کرنے کا موقع نہیں بلکہ پورے ملک کے وسائل کو متاثرہ علاقوں کے لوگوں کی فوری مدد اور مستقل آبادکاری میں جھونک دینے کا وقت ہے۔ البتہ چند بنیادی سوالات ہیںجن پر حکومت اور پارلیمنٹ کو پوری سنجیدگی سے غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ملک کے لیے ان آفات کا مقابلہ کرنے کے لیے مستقل حکمت عملی اور مؤثر نظامِ کار وضع کیاجاسکے۔

  •  مجوزہ اقدامات: ۱- آج انسانی علم اور ٹکنالوجی نے اس بارے میں غیرمعمولی صلاحیت پیدا کرلی ہے جس کے ذریعے قدرتی عوامل کو مانیٹر کیا جائے اورمتوقع حادثات سے آبادیوں کو بروقت مطلع اور متنبہ کیا جاسکے۔ ہمارا یہ نظام نہایت ناقص ہے اور جو نظام ہے بھی‘ اس کی کارکردگی بے حد غیرتسلی بخش ہے۔ اس پورے نظام کو مؤثر بنانے اور اطلاعات کی بروقت ترسیل کو ممکن بنانے کو اوّلیت دینے کی ضرورت ہے۔

۲- دوسری چیز مرکز سے لے کرصوبے‘ ضلع‘ تحصیل اور یونین کونسل کی سطح پر آفاتِ سماوی کا مقابلہ کرنے کے لیے مناسب نظامِ کاروضع کرنا‘ اس کے لیے مستقل اور والنٹیرکور تیار کرنا ہے۔ تعلیمی اداروں میں ہر طالب علم کو اس کی تربیت دینے کی ضرورت ہے اور ایک مستقل ریلیف کور ہرعلاقے میں موجود رہنی چاہیے۔ اسی طرح ایسی آفات کے نتیجے میں پیداہونے والی صورت حال سے نمٹنے کے لیے جن آلات اور وسائل کار کی ضرورت ہے وہ ہرعلاقے میں موجود ہونے چاہییں۔ یہ وہ کام ہے جسے اکتوبر ۲۰۰۵ء کے زلزلے کے بعد پوری تندہی سے پورے ملک میں کرلینا چاہیے تھا لیکن افسوس کہ اس سلسلے میں عملی پیش رفت نہ ہونے کے برابر ہے۔ اُس وقت ایک خطیر رقم کے اعلان کے ساتھ ایک قومی والنٹیر کور کا بھی بڑے طمطراق سے اعلان ہوا تھا مگر جولائی اگست کے ان لمحات میں ان کا کہیں کوئی وجود نظر نہیں آیا۔

۳- تیسری چیز بارشوں اور سیلاب کے پانی کو محفوظ کرنے کے مستقل انتظامات سے متعلق ہے جس پر ۵۰سال سے بحث ہورہی ہے لیکن کوئی قابلِ عمل اسکیم نہیں بن پارہی۔ بڑے ڈیموں کی بات ہوتی ہے مگر وہ توتکار کی نذر ہوجاتی ہے۔ چھوٹے اور متوسط ڈیموں کی ضرورت بیان کی جاتی ہے مگر کوئی ملک گیر منصوبہ نہیں بن پاتا۔ آخر کب تک ہم ان بحثوں میں وقت ضائع کریں گے؟

۴- شہروں اور قصبات میں نکاسیِ آب کے مستقل انتظام کا مسئلہ ہے۔ملک کے تمام ہی علاقوں میں صاف پانی کی فراہمی کا مسئلہ ہے۔ دریائوں پر ایسے پشتے بنانے کا سوال ہے جن سے نشیبی علاقوں میں آباد بستیوں کو سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچایا جاسکتا ہو۔ دنیا بھر میں انسانوں نے اپنی حفاظت بہتر زندگی کی ضمانت اور معیشت کی ترقی کے لیے ہزارہا کامیاب تجربات کیے ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ہم اور ہماری قیادت ان کی طرف توجہ نہیں دیتی اور صرف نمایشی کاموںکے ذریعے امیج درست کرنے کی خوش فہمی میں مبتلا ہے۔

۵- اس بات پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ بہت سے منصوبے غلط حکمت عملی یا بددیانتی کی وجہ سے رحمت کے بجاے مصیبت کا ذریعہ بن گئے ہیں۔ بلوچستان کے میرانی ڈیم کی ناقص منصوبہ بندی اور اربوں روپے کی کرپشن کی وجہ سے انفراسٹرکچر سے متعلق منصوبوں کی خام کاری نے بھی آفاتِ سماوی کی تباہ کاریوں کو دوچند کردیاہے۔ یہ تمام معاملات فوری توجہ کا تقاضا کرتے ہیں۔

۶- ان بنیادوں اور دُوررس اقدامات کے ساتھ فوری ریلیف اور متاثرہ افراد کی جلداز جلد آبادکاری کامسئلہ ہے جس کے لیے مرکز کو اپنے وسائل سے اور عالمی اداروں کے تعاون سے ضروری اقدامات کرنے چاہییں۔

۷- متاثرہ علاقوں کو آفت زدہ علاقے قرار دے کر ٹیکس‘ آبیانہ‘ قرضوں کی واپسی‘ بجلی اورگیس کی ادایگیوں سے چھوٹ اور ضروریاتِ زندگی کی فوری فرہمی کا اہتمام ضروری ہے۔ اس کام میں مرکز اور صوبوں کو تو اپنے وسائل استعمال کرنے ہی چاہییں لیکن ملک کے ہرحصے میں بسنے والے اور بیرون ملک پاکستانی متمول افراد کا فرض ہے کہ اپنے مصیبت زدہ بھائیوں اور بہنوں کی دل کھول کر مدد کریں۔ نجی شعبے میں کام کرنے والی رفاہی تنظیموںنے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں لیکن ضرورت موجودہ فراہم کردہ سہولتوں سے کہیں زیادہ ہے۔ اس لیے یہ سارا کام خدمتِ خلق کے جذبے سے حکومت اور عوام کو مل کر انجام دینا چاہیے۔

رمضان کے مبارک مہینے کی آمد آمد ہے۔ یہ نیکیوں کا مہینہ ہے اور انسانوں کے دکھ درد میں شریک ہونے اور ان کی مشکلات کو دُور کرنے کا زریں موقع ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اور پوری اُمت مسلمہ کو مصائب اور پریشانیوں سے محفوظ رکھے اور ایک دوسرے کی مدد کے ذریعے انسانیت کے دکھوں کا مداوا کرنے کی توفیق سے نوازے۔آمین!