پروفیسر خورشید احمد


وادیِ کشمیر میں بھارتی سامراجی تسلط کے خلاف احتجاج اور آزادی کی عوامی تحریک ایک بار پھر اپنے عروج پر ہے۔

ریاست جموں و کشمیر کے مسلمانوں نے بھارت کے غاصبانہ قبضے کو اکتوبر ۱۹۴۷ء کی بھارتی فوج کشی سے لے کر آج تک کبھی قبول نہیں کیا۔ بلاشبہہ تحریکِ مزاحمت و آزادی ان ۶۱ برسوں میں مختلف نشیب و فراز سے گزرتی رہی مگر کبھی دبی نہیں۔ کشمیری عوام نے بھارتی ظلم و تشدد کے سامنے ایک لمحے کے لیے بھی سپر نہیں ڈالی۔ مسلمانانِ جموں و کشمیر کی بھارت کے تسلط سے آزادی کی تحریک ۱۹۸۸ء کے انتخابی ڈھونگ کے بعد ایک نئے دور میں داخل ہوئی۔ سیاسی جدوجہد کے ساتھ عوامی و عسکری ردعمل بھی رونما ہوا اور جس طرح عالمی سامراج کے خلاف آزادی کی جدوجہد نے ایشیا اور افریقہ کے مختلف ممالک میں اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی مجاہدانہ کوششیں کیں اور ان کو معتبر تسلیم کیا گیا حتیٰ کہ اس جدوجہد کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی اور عالمی مفکرین نے      عام دہشت گردی (terrorism) سے ممیزوممتاز قرار دیا اور اس طرح ایسی جدوجہد کو مجبور انسانوں کا حق تسلیم کیا۔ اسی بنیاد پر ۱۹۹۰ء سے جہادی تحریک نے بھارتی استعمار کو چیلنج کیا اور آج تک اس کا ناطقہ بند کررکھا ہے۔ پاکستان کی قیادت، خصوصیت سے پرویز مشرف کی بے وفائی اور اس تحریک اور اس کے مقاصد سے غداری کے باوجود ظلم کے خلاف مزاحمت اور بغاوت کی یہ تحریک جاری رہی ہے۔ البتہ اندرونی اور بیرونی دونوں اسباب سے گذشتہ چند برسوں میں تحریک میں ایک گونہ ٹھیرائو کی کیفیت پیدا ہوگئی۔ یہ تحریکِ آزادی کے لیے بڑا ہی نازک مرحلہ تھا۔ پرویزمشرف نے امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شرکت کے بعد آہستہ آہستہ کشمیر پالیسی کے باب میں بھی اُلٹی زقند (U-turn) لگائی اور اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کو نظرانداز کرتے ہوئے out of box حل کی رَٹ لگانا شروع کی جو دراصل پاکستان کی قومی کشمیرپالیسی سے انحراف اور کشمیری عوام کی تاریخی جدوجہد سے بے وفائی اور غداری کے مترادف تھا۔

خطرناک کہیل کا آغاز

ستمبر ۲۰۰۴ء میں مشرف اور من موہن سنگھ کی نیویارک میں ہونے والی ملاقات میں اس خطرناک کھیل کا آغاز کیا اور پاکستان کی اس وقت کی فوجی قیادت نے تحریکِ آزادیِ کشمیر سے عملاً ہاتھ کھینچ لیا بلکہ حریت کانفرنس کو بانٹنے اور اپنا ہم خیال دھڑا بنانے کی مذموم کوشش بھی کی۔ مشرف کی من موہن سنگھ سے تین ملاقاتیں اسی زمانے میں ہوئیں، نیز بھارت کے قومی سلامتی کے    مشیر ایم کے نرائن اور مشرف کے معتمدعلیہ طارق عزیز کے درمیان بھی برابر ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ پس پردہ امریکا بڑی چالاکی سے اپنا کردار ادا کر رہا تھا۔ بظاہر سیاسی، تجارتی اور ثقافتی تعلقات کو معمول پر لانے مگر درحقیقت کشمیر میں حالتِ موجودہ (status quo) کو تھوڑے بہت تغیر کے ساتھ برقرار رکھ کر اس مسئلے کی تحلیل (liquidation) کا کھیل کھیلا جا رہا تھا۔ حریت کانفرنس کے ایک دھڑے نے بھارت کی قیادت سے مذاکرات بھی شروع کردیے۔ ادھر پاکستان میں بھارت نواز لابی نے صحافت، تجارت اور ثقافت کے نام پر تقسیم کی لکیر کو غیرمؤثر بنانے کا ’جہاد‘ شروع کردیا، اور جو حقیقی جہادی جدوجہد ہورہی تھی، اس کی پیٹھ میں مشرف اور اس کے حواریوں نے خنجر گھونپ دیا بلکہ سیاسی جدوجہد تک کا رخ بدلنے کی مذموم کوشش بھی کی۔ اب حق خودارادیت اور بھارت کے تسلط سے آزادی اصل ایشو نہ رہا بلکہ سیاسی ہدف محض راستے کھولنے، بسوں اور ریل گاڑیوں کے چلانے، فوجوں کی کمی، اقتدار میں کسی درجے کی شرکت اور مشترکہ مفادات کی نگرانی کے لیے کسی نظام کی شکل قرار پایا۔

جموں و کشمیر کے مسلمان جنھوں نے اعلیٰ مقاصد کے لیے ۱۹۳۱ء اور پھر ۱۹۴۷ء کے بعد سے قربانیاں دیں اور ۶ لاکھ سے زائد جانوں کا نذرانہ پیش کیا، وہ ایسی لولی لنگڑی خودمختاری اور بھارت کے تسلط کو مزید مضبوط و مستحکم اور مستقل کرنے کے لیے نہیں تھے۔ لیکن مشرف کی حکومت نے پاکستان کے اصولی اور تاریخی موقف سے پسپائی اختیار کرکے تحریکِ مزاحمت کو شدید نقصان پہنچایا، جموں و کشمیر کے مسلمانوں کو بری طرح مایوس کیااور آزادی کی تحریک کو عین منجدھار میں   بے سہارا چھوڑ دیا۔ سارا کریڈٹ جموں و کشمیر کے مسلمانوں، وہاں کے نوجوانوں اور خصوصیت سے سیدعلی شاہ گیلانی اور شیخ عبدالعزیز شہید جیسے لوگوں کی فراست اور قیادت کو جاتا ہے جو نہ بھارت کے جھانسے میں آئے اور نہ پاکستانی قیادت کی بے وفائی کی بنا پر پاکستانی قوم سے مایوس ہوئے۔ سخت ترین حالات میں انھوں نے تحریکِ مزاحمت کو جاری رکھا اور صحیح موقع کا انتظار کرتے رہے___ یہی پیغام ان کو پاکستان کی تحریکِ اسلامی اور تحریکِ پاکستان کے مخلص کارکنوں نے دیا جو پرویز مشرف کی پالیسیوں کے سخت ترین ناقد تھے اور کشمیر میں عوام کو برابر تلقین کرتے رہے کہ وہ اپنی تاریخی جدوجہد کو جاری رکھیں اور نوبل انعام کا خواب دیکھنے والوں کی چال بازیوںاور فریب کاریوں کا شکار نہ ہوں۔ پرویز مشرف نے جو خیالی پُل بنائے تھے وہ بھارت کی ہٹ دھرمی اور ہندوقیادت کی تاریخی دھوکے بازی کے ہاتھوں زمین بوس ہوئے۔ وہ جو بھارتی قیادت سے پینگیں بڑھانے میں پیش پیش تھے، ہاتھ ملتے رہ گئے اور واپس آنے کے راستے تلاش کرنے لگے۔ البتہ جو اصولی نقصان تحریک کو ہوا، وہ ناقابلِ انکار ہے اور اس کا فائدہ کشمیر کی اس قیادت نے اٹھانے کی کوشش کی جو بھارت نواز تھی اور گذشتہ ۶۱برسوں میں بھارت کے تمام ظلم و ستم اور شاطرانہ کھیل میں شریک تھی۔ پالیسی کی یہ تبدیلی ایک ایسا داغ ہے جسے دھونا پاکستان کے لیے مشکل ہوگا لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ۲۰۰۸ء میں جولائی اور اگست میں رونما ہونے والے واقعات نے حالات کو ایک نیا رخ دے دیا ہے اور کشمیر کی جنگِ آزادی ایک نئے، تاریخی اور فیصلہ کن دور میں داخل ہوگئی ہے۔ اس کا ادراک اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے صحیح حکمت عملی وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے۔

نئے حالات کا ادراک

اس حکمت عملی کی تشکیل کے لیے مندرجہ ذیل چار اہم حقائق کو سامنے رکھنا ضروری ہے:

پہلی چیزپرویز مشرف کی لچک (flexibility) کے نام پر کشمیر کی تقسیم اور بھارت اور پاکستان کے کسی مشترک نگرانی کے نظام کی تجویز کی ناکامی ہے۔ یہ تجویز دھوکے اور دبائو پر مبنی تھی اور تاریخی حقائق اور پاکستان اور بھارت کے نظریاتی اور سیاسی اہداف سے مطابقت نہیں رکھتی تھی۔ اس خام خیالی کا پردہ جلد ہی چاک ہوگیا۔ بھارت نے اس سلسلے میں ذرا لچک نہ دکھائی اور پاکستان کو اپنے اصولی موقف سے ہٹاکر تحریکِ مزاحمت کی کمر توڑنے کا کھیل کھیلا۔ پاکستان کی پرویزی قیادت نے اپنا منہ کالا کیا، جن کشمیری قائدین کو اس کھیل میں استعمال کیا، ان کے چہروں پر بھی یہ کالک لگی، تاہم سرخرو ہوئے وہ لوگ جو بھارت کے تاریخی ذہن اور سیاسی مقاصد کا صحیح ادراک رکھتے تھے جنھوں نے پہلے ہی دن یہ کہہ دیا تھا کہ یہ دھوکا اور سراب ہے۔ سیدعلی شاہ گیلانی نے پرویز مشرف کو پہلے دن سے چیلنج کیا اور ۲۰۰۴ء سے آج تک اپنے اصولی موقف پر قائم رہے اور ’لچک‘ کے نام پر پسپائی کی اس حکمت عملی اور بھارت کے عزائم کی تکمیل میں معاونت کے خطرناک کھیل کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور بالآخر ان کی پوزیشن صحیح ثابت ہوئی۔ یہی موقف شیخ عبدالعزیز شہید کا تھا جنھوں نے پرویز مشرف کے اقوام متحدہ کی قراردادوں سے ہٹنے اور روایت سے ہٹ کر      (out of box ) حل کی تلاش کے سلسلے میں صاف کہہ دیا تھا کہ ’’پرویز مشرف کو بتا دو آپ کشمیر پر جتنی چاہے لچک دکھائو لیکن بھارت کی برہمن اسٹیبلشمنٹ کشمیر پر لچک نہیں دکھائے گی بلکہ ہمیں آپس میں لڑا کر اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھائے گی‘‘۔ بھارت کی ہٹ دھرمی اور پرویز مشرف کی بے تدبیری اور سمجھوتوں (compromises) کی پالیسی بالآخر ناکام رہی۔

دوسری اہم چیز خود پرویز مشرف کا ۲۰۰۷ء میں کمزور ہونا، ۱۸ فروری ۲۰۰۸ء کے  انتخابات میں پاکستانی عوام سے شکست کھا جانا، اور ۱۸ اگست کو استعفا دے کر ٹکسال باہر ہونا ہے۔ پرویز مشرف کے ساتھ اس کی پالیسیاں بھی رخصت ہوگئیں اور وہ لوگ جو اب بھی ان پالیسیوں کو زندہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، خصوصیت سے پاکستان کی سیکولر اور بھارت نواز لابی، وہ بھی  ان شاء اللہ منہ کی کھائیں گے۔ خود بھارت نے اس پالیسی کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے اور کشمیری عوام کی ریاست گیر تحریکِ مزاحمت کے عوامی استصواب نے اسے رد ہی نہیں کیا، ہمیشہ کے لیے دفن کردیا ہے۔

تیسری اہم چیز عالمی حالات اور عالمی مفکرین کی سوچ میں رونما ہونے والی اہم تبدیلیاں ہیں جن کا ادراک ازبس ضروری ہے۔ ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے واقعات اور ان کے ردعمل میں امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ نے پوری دنیا کے امن کو تہ وبالا کردیا۔ شروع میں امریکا کو عالمی ہمدردی حاصل تھی لیکن جیسے جیسے امریکا کے عالمی سامراجی عزائم نمایاں ہوئے، وہ ہمدردی نفرت اور غصے میں بدل گئی اور عوامی سطح پر امریکا، اس کی قیادت اور اس کی نام نہاد جنگ پر بے اعتمادی کا کھلااظہار ہونے لگا۔ افغانستان میں اور پھر عراق میں جو کچھ امریکا نے کیا، اس نے ریاستی دہشت گردی کی تاریخ میں نیا باب رقم کیا۔ مفکرین کی ایک تعداد اس کھیل کا پردہ چاک کرنے پر مجبور ہوگئی ہے۔ جو زبانیں بند تھیں وہ اب کھل کر بات کر رہی ہیں۔ آزادی کی تحریکوں اور ظالموں کے خلاف مظلوموں کی جدوجہد کو دہشت گردی کے نام پر مطعون کرنے اور ختم کرنے کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا اسے اب چیلنج کیا جا رہا ہے۔ امریکی مصنف اور فلسفی نوم چومسکی اور سابق اٹارنی جنرل ریمزے کلارک تو پہلے دن سے امریکا کی ان پالیسیوں اور حقیقی دہشت گردی اورجنگ آزادی کو خلط ملط کرنے کی پالیسی کے مخالف تھے لیکن اب علمی اور عوامی دونوں سطح پر اس سامراجی کھیل کا پردہ چاک کیا جا رہا ہے۔ حال ہی میں شائع ہونے والی Terrorism: The Philosophical Issues (مرتبہ:Iqor Primoratz )جس میں ۱۲مفکرین کے مضامین کو پیش کیا گیا ہے، بڑی اہم کتاب ہے اور دل چسپ مباحث کو سامنے لاتی ہے۔ اس میں عوامی تحریکوں کی طرف سے ریاستی قوت کے مقابلے میں قوت کے استعمال کے جواز کے لیے منصفانہ جنگ (just war)کے نظریات کو معیار بنایا گیا ہے۔ دوسرے الفاظ میں ناجائز حکمرانی اور ظلم کے خلاف برپا تحریکاتِ مزاحمت کو دہشت گردی کے زمرے میں شامل نہیں کیا جاسکتا۔ اس بحث نے ایک بار پھر تحریکِ آزادی اور ظالمانہ اقتدار کے خلاف جدوجہد کو دہشت گردی سے ممیز کردیا ہے اور بحیثیت مجموعی یہ نتیجہ نکالا جا رہا ہے کہ ظلم اور سامراجی تسلط کے خلاف جدوجہد مظلوم انسانوں کا حق ہے۔ اس سلسلے میں اگر پُرامن ذرائع غیرمؤثر بنادیے جائیں تو قوت کا استعمال نہ صرف جائز بلکہ کچھ حالات میں ضروری ہوجاتا ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ اس میں بطور تائید خود گاندھی جی کا یہ قول بھی دیا گیا ہے جو بھارت کی قیادت کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے:

کہا جاتا ہے کہ گاندھی نے کہا تھا کہ ظلم اور جبر کی مزاحمت کا سب سے بہتر راستہ    عدمِ تشدد ہے مگر یہ بھی کہا: ظلم اور جبر کے آگے سرِتسلیم خم کرنے سے بہتر پُرتشدد ذرائع سے مقابلہ کرنا ہے۔ (ص۷۴)

اس طرح مشرقی تیمور میں اقوام متحدہ کی نگرانی میں استصواب کے نتیجے میں انڈونیشیا کے ایک صوبے کا آزاد ریاست بننا، کوسووا کا ناٹو اور یورپی یونین کے تعاون سے سربیا سے الگ ہونا اور ابخازیہ اور جنوبی اوسیشیا کا جارجیا سے آزاد ہونے کی جدوجہد وہ تازہ ترین مثالیں ہیں جہاں عوامی راے، جذبات و احساسات اور استصواب کے ذریعے ان علاقوں کی آزادی کے حق کو ایک بار پھر تسلیم کیا جا رہا ہے جو قومی حاکمیت (National Sovereignty ) کے تصور کے تحت اپنے جداگانہ تشخص کے حق سے محروم کردیے گئے تھے۔

نائن الیون کے بعد جوفضا دنیا پر مسلط کردی گئی تھی اور امریکا اور بھارت جس کا ناجائز فائدہ اٹھا رہے تھے، وہ اب تبدیل ہورہی ہے، اور جموں و کشمیر کے مسلمانوں کی جنگ آزادی کو اس پوری عالمی فضا کے اثرات سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔

آزادی کی نئی لھر

سب سے اہم حقیقت جو اللہ تعالیٰ کی مشیت اور حکمت بالغہ سے ایک بار پھر کھل کر سامنے آگئی ہے، اور وہ یوں کہ امرناتھ یاترا میں بورڈ کو ۸۰۰ کنال (ایک سو ایکڑ) پر مشتمل ایک قطعۂ اراضی دینے اور واپس لیے جانے سے رونما ہوا ہے۔ یہ عمل اس تاریخ کو دہرانے کا ذریعہ بن گیا ہے جس سے مسلمانانِ پاک و ہند کو ۲۰ویں صدی کے پہلے نصف میں گزرنا پڑا اور جو بالآخر قیامِ پاکستان پر منتج ہوا۔

امرناتھ یاترا کوئی نئی چیز نہیں۔ ۱۸۸۰ء سے اس کا آغاز ہوا اور دل چسپ بات یہ ہے کہ یہ مندر مسلمان علاقے میں واقع ہے جہاں کی آبادی کا ۹۹ فی صد مسلمان ہے۔ ۱۲۸ سال سے یہ یاترا ہورہی ہے اور کبھی ہندومسلم تنازع کا ذریعہ نہیں بنی، اور مسلمان خوش دلی سے اس یاترا کے سلسلے کے تمام نظم و نسق میں کلیدی کردار ادا کرتے رہے ہیں بلکہ اس کے معاشی فوائد سے فیض یاب بھی ہوتے رہے اوراس طرح تعاون کا ایک رشتہ قائم ہوگیا۔ مجاہدین نے بھی اسے کبھی اپنا ہدف نہ بنایا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ ان کی جدوجہد سیاسی اور نظریاتی ہے، اسے تجارتی رنگ دینے کی کوشش ہندو انتہا پسندوں نے کی ہے۔ برہمن قیادت نے جس طرح مسلمانوں کو تحریکِ آزادی کے دوران ان کے تمام حقوق سے محروم کر کے ان کے لیے تقسیمِ ملک کے سوا کوئی راستہ باقی نہ چھوڑا، بالکل اس طرح تاریخ ایک بار پھر کشمیر میں اپنے آپ کو دہرا رہی ہے اور ایک بار پھر ایک نظریاتی اور سیاسی تحریک کو مذہبی فرقہ واریت کی آگ میںجھونکا جا رہا ہے۔

برعظیم پاک و ہند کے مسلمانوں کے سامنے اصل مسئلہ اپنے دینی، نظریاتی اور تہذیبی تشخص کی حفاظت اور نشووارتقا کا تھا۔ انھوں نے اپنے ہزارسالہ دورِاقتدار میں اپنے دین اور تہذیب کی حفاظت اور نشووارتقا کے ساتھ ہندو مذہب اور تہذیب اور دوسرے تمام مذاہب کو پورے مواقع فراہم کیے لیکن برعظیم کی ہندو قیادت نے اپنی عددی اکثریت کے زعم میں تحریکِ آزادی کے موقع پر یہ بالکل واضح کردیا کہ مسلمان آزادی کے بعد اپنی تہذیب اور اپنے دین و تمدن کے آزادانہ ارتقا سے محروم رہیں گے۔ ۱۹۲۸ء کی نہرو رپورٹ اور ۱۹۳۵ء کے ایکٹ کے تحت انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی کانگرس کی حکومتوں کے رویے اور ہندو مسلم فسادات کے اس طوفان نے جو برعظیم کی تاریخ میں ۱۹۴۴ء کے بعد رونما ہوا، ہندوئوں اور مسلمانوں کے راستوں کو جدا کردیا۔ بلاشبہہ مسلمانوں نے بڑی قیمت ادا کی اور بھارت میں رہ جانے والے مسلمانوں نے سب سے بڑی قربانی دی مگر ایک سیاسی اور تہذیبی تحریک کو مذہبی فرقہ واریت میں تبدیل کرنے کا کام ہندو اسٹیبلشمنٹ کا کارنامہ تھا۔ مسلمانوں نے اسے کبھی فرقہ وارانہ (communal) ایشو نہیں سمجھا بلکہ قائداعظم نے ہندوقیادت اور اربابِ صحافت کے اس اعتراض کے جواب میں کہ ’’جناح کمیونل کارڈ کھیل رہے ہیں‘‘ صاف کہا کہ یہ نظریاتی تحریک ہے اور مسلمان اپنے دین و ثقافت کی بنیاد پر ایک قوم ہیں اور بحیثیت قوم خودمختاری کے طالب ہیں، کم از کم ان علاقوں میں جہاں انھیں اکثریت حاصل ہے۔ لیکن ہندوقیادت اور پریس پوری تحریک کو کمیونل رنگ دینے پر بضد تھے۔ آج پھر تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے اور کشمیر کے مستقبل کے بارے میں اشارہ کر رہی ہے کہ بالآخر اس کش مکش کو کہاں منتج ہونا ہے۔ ہمیں یہ کہنے میں ذرا بھی تامل نہیں کہ آج کشمیر میں امرناتھ بورڈ کو زمین دینے اور زمین واپس لینے کے واقعے کو جس طرح ہندوقیادت اور خصوصیت سے بی جے پی نے استعمال کیا ہے اور جس طرح مسلمانوں اور ہندوئوں اور کشمیر اورجموں کو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کیا جا رہا ہے وہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے، کا منظراپنے اندر لیے ہوئے ہے۔

سابق گورنر ایس کے سنہا متعصب ہندو ذہنیت کی شہرت رکھتے ہیں اور کشمیر سے پہلے آسام میں بھی فرقہ واریت کو فروغ دینے اور بنگلہ دیش کے مسلمانوں کو ہدف بنانے کا کھیل کھیل چکے ہیں۔ وہ مسلم اکثریت کے علاقوں کے آبادیاتی نقشے (demography) کو تبدیل کرنے کے فن کے ماہر ہیں اور امرناتھ یاترا کے سلسلے کے تازہ قضیے کے اصل مصنف ہیں۔ گورنر سنہا نے کشمیر کے گورنر کی ذمہ داری سنبھالنے کے ساتھ ہی امرناتھ یاترا کے علاقے پر خصوصی توجہ دی اور بٹ گنڈ گائوں کے مسلمان چرواہوں کو جو ڈیڑھ سو سال سے اس مقام کی نگرانی کر رہے تھے اپنے پشتینی روزگار سے محروم کیا۔ اسی طرح خچروالوں اور چھوٹی دکان لگانے والے مسلمانوں کو بے دخل کیا اور ان کی جگہ باہر سے ’لنگروالوں‘ کو بلاکر آباد کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ یہ اس سلسلے کی ایک کڑی تھی جو بھارت کی حکومت وادیِ کشمیر میں برسوں سے جاری رکھے ہوئے تھی کہ سرحدی علاقوں میں بھارت سے لاکر ہندوئوں کو آباد کرے۔ کشمیر کے نوجوان نوکریوں سے محروم رہیں لیکن بھارت سے ہندوئوں کو جوق در جوق لاکر ملازمتیں دی جائیں۔ اس پس منظر میں ایک کلیدی اقدام امرناتھ بورڈ کو وادی میں یاتریوں کے لیے رہایش گاہ تعمیر کرنے کے لیے ابتداً ۸۰۰کنال (۱۰۰ ایکڑ) زمین دینے کا حکم گورنر سنہا نے اپنی گورنری کے ختم ہوتے وقت دیا جس پر کشمیر کے عوام اور تحریکِ آزادی کے رہنمائوں نے شدید احتجاج کیا اور پوری وادی اس ظلم کے خلاف اُٹھ کھڑی ہوئی۔ اس    عوامی مظاہرے سے مجبور ہوکر نئے گورنر نے زمین کی اس الاٹمنٹ کو منسوخ کر دیا۔ واضح رہے کہ مسلمانانِ کشمیر کے اعتراض میں کوئی مذہبی یا فرقہ وارانہ پہلو نہیں تھا بلکہ مسلمان اس یاترا میں سواسو سال سے معاون تھے۔ اعتراض زمین کی منتقلی اور اس طرح ہندوئوں کے آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے پر تھا۔ کشمیری جنگلات کو بھارتی سرمایہ داروں کی دسترس سے بچانے کی فکر تھی۔ ایک مذہبی تہوار کو سیاست اور تجارت کی بھینٹ چڑھانے کے خلاف پیش قدمی تھی۔ ۲۳ جون کے احتجاجی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اس تحریک کے قائد سید علی شاہ گیلانی نے کہا:

وہ ہماری ریاست کی آبادیاتی شناخت ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگر ہم اب بھی نہیں بیدار ہوئے تو ہندستان اور اس کے حاشیہ بردار اپنے منصوبے میں کامیاب ہوجائیں گے اور ہم اپنی زمین ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کھو دیں گے۔ بھارتی فوج نے یہاں آٹھ لاکھ کنال سے زائد زمین پر قبضہ کر رکھا ہے اور ہمارا مطالبہ ہے کہ وہ یہ زمین خالی کرے۔

سری نگر سے شائع ہونے والے اخبار Rising Kashmir میں خالد وسیم حسن نے بھی اس خطرناک کھیل کو ہدفِ تنقید بنایا:

ہندستان اب علانیہ طور پر کشمیر کی آبادیاتی ہیئت تبدیل کرنے کی پالیسی پر کام کر رہا ہے۔ ہندستان غیر ریاستی باشندوں کو یہاں آباد کرکے حق خودارادیت کی تحریک کو متاثر کرنا چاہتا ہے۔ (ملاحظہ ہو، عبدالباری مسعود کا مضمون امرناتھ بورڈ کا تنازعہ، افکارملّی، دہلی، اگست ۲۰۰۸ئ)

اس اصولی موقف کے برعکس، جموں کے ہندوئوں اور خصوصیت سے بی جے پی نے صرف جموں و کشمیر ہی میں نہیں، پورے بھارت میں اس مسئلے کو ہندو مسلم تنازع اور ایک خالص مذہبی  فرقہ واریت کا مسئلہ بنا کر پیش کیا۔ جموں میں احتجاج کی آگ کو بھڑکایا گیا۔ مسلمانوں کو ہدف بناکر مسلم کُش فسادات کا آغاز کیا۔ گوجروں کی آبادیوں کو خصوصی نشانہ بنایا اور کشمیر کے میوہ فروشوں اور تاجروں کو سزا دینے کے لیے نہ صرف سڑک بلاک کر دی بلکہ ٹرک ڈرائیوروں پر تیزاب تک چھڑکا گیا۔ مسلمان تاجروں کی کمر توڑنے کے لیے پھلوں کے سیکڑوں ٹرکوں میں گلنے والے (perishable) پھلوں میں مضرت رساں کیمیکل ڈالا گیا اور یوں ایک اندازے کے مطابق چند ہفتوں میں کشمیری تاجروں کو ۶۰۰کروڑ روپے کا نقصان ہوا جس نے ان کی کمر توڑ دی۔حکومت نے اس احتجاجی مہم کی سرپرستی کی۔ وادیِ کشمیر میں احتجاجی تحریک کو قوت اور تشدد کا نشانہ بنایا اور ۴۰سے زائد افراد کو شہید کردیا گیا۔ ان شہدا میں سب سے نمایاں تحریکِ آزادیِ کشمیر کے اہم رہنما شیخ عبدالعزیز شہید ہیں جو مظفرآباد کی جانب سڑک کی طرف پیش قدمی کرتے ہوئے بھارتی فوج کی گولیوں کا نشانہ بنے اور پاکستانی پرچم ہاتھ میں لیے ربِ حقیقی سے جاملے۔ ان کے جنازے میں ۲ لاکھ افراد نے شرکت کی، نماز جنازہ سیدعلی شاہ گیلانی نے پڑھائی اور سری نگر میں ان کی یاد میں کشمیر کی تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ ہوا جس میں کشمیر کی تحریکِ آزادی کی پوری قیادت نے شرکت کی، یعنی سیدعلی شاہ گیلانی، سیدشبیرشاہ، میرواعظ عمرفاروق، یٰسین ملک وغیرہم۔

زمین کا یہ واقعہ ایک تاریخی تحریک کا عنوان بن گیا ہے۔ شیخ عبدالعزیز کی شہادت نے تحریکِ آزادی کو نئی زندگی دے دی ہے۔ جو تحریک کچھ ماند پڑ گئی تھی، وہ ایک بار پھر پورے جوبن پر آگئی ہے۔ سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ اس وقت تحریکِ آزادی کی پوری قیادت ایک بار پھر ایک پلیٹ فارم پر جمع ہے اور ایشو بھی بالکل واضح ہے کہ اصل مسئلہ فرقہ واریت کا نہیں اور نہ صرف امرناتھ یاترا کے بورڈ کو زمین کچھ بدلی ہوئی شرائط پر دینے کا ہے، بلکہ اصل مسئلہ جموں و کشمیر کے لوگوں کے حق خودارادیت اور بھارت کے جارحانہ قبضے سے آزادی کا ہے۔

ھندو ذھنیت کا کردار

جو کردار ۱۹۲۰ء سے ۱۹۴۷ء تک کانگرس، ہندو مہاسبھا اور جن سنگھ نے انجام دیا تھا، آج وہی کردار بی جے پی ادا کر رہی ہے لیکن یہ بھی اللہ تعالیٰ کی بالاتر مشیت کا کرشمہ ہے کہ اس کے اس منفی کردار کا پورا پورا فائدہ تحریکِ آزادیِ کشمیر کو ہی پہنچ رہا ہے اور پہنچے گا بشرطیکہ کشمیر میں مسلمانوں کے پاے استقامت میں لرزش نہ آئے اور پاکستان اپنا کردار ٹھیک ٹھیک ادا کرے۔ آیئے دیکھتے ہیں بھارت کے اہلِ نظر بی جے پی کے اس کردار کو کس طرح دیکھ رہے ہیں۔ The Hindu اخبار کا کالم نگار پرافل بڈوال (Praful Bidwal ) اپنے ۱۷ اگست ۲۰۰۸ء کے کالم میں لکھتا ہے:   بی جے پی نے دو مہینے میں جموں اور کشمیر کو سیاسی اور جذباتی اعتبار سے ایک دوسرے کے     خلاف صف آرا کردیا ہے۔ وہ نوحہ کرتا ہے کہ: پاکستان کی ایجنسیوں کے ساتھ کام کرنے والے جہادی علیحدگی پسند ۲۰برسوں میں جو چیز حاصل نہیں کرسکے وہ آزادی کی تحریک کی آبیاری کے لیے (بی جے پی کی تحریک) نے انجام دیا ہے۔

اس کو اعتراف ہے کہ بی جے پی کی اس احتجاجی تحریک کے نتیجے میں کشمیر کی سیکولر اور کثیرالقومی شناخت بری طرح مجروح ہوئی ہے اور اب ’مسلمان کشمیر‘ اور ’ہندو جموں‘ ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہیں اور اس طرح ایک بار پھر جو مسئلہ مرکزیت اختیار کرگیا ہے وہ تقسیمِ ہند کے نامکمل ایجنڈے (the unfinished agenda of partition)کی تکمیل کا ہے۔ جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے!

بی جے پی کے قائد لال کرشن ایڈوانی کی جو تصویر اُبھر کر سامنے آئی ہے وہ بڈوال کے الفاظ میں کچھ ایسی ہے:

یہ وہ ایڈوانی نہیں ہے جو اعتدال پسند واجپائی کا وارث بننا چاہتا تھا۔ یہ ماضی کا رتھ سوار راشٹریہ ایڈوانی ہے، جارحیت پسند، جنگ جو، فرقہ واریت کا زہر اُگلنے والا، اور اپنے جلو میں خونی لکیر چھوڑنے والا۔ اب ایڈوانی ۱۰۰ ایکڑ زمین پر ہندو شیوانسٹ کا خواب دیکھ رہا ہے۔ دعویٰ اس بنیاد پر ہے کہ بھارت میں کسی بھی جگہ ہندوئوں کا پہلے دعوے کا حق ہے کیوں کہ وہ عددی اکثریت میں ہیں، اس لیے پہلا حق رکھتے ہیں۔ یہ ایک سیکولر دشمن موقف ہے، کلاسیکی طور پر نہیں۔

امرناتھ بورڈ کو زمین کی الاٹمنٹ کا مسئلہ اب محض ۱۰۰ ایکڑ زمین کا مسئلہ نہیں رہا بلکہ اس نے اس اصل ایشو پر توجہ کو مرکوز کردیا ہے اور یہ بھی ایک بار پھر دکھا دیا ہے کہ بھارت کے سیکولرزم کا اصل چہرہ کیا ہے اور کشمیر کے عوام کی اصل جدوجہد کس مقصد کے لیے ہے، یعنی حق خودارادیت۔ اب امرناتھ بورڈ کی زمین غیرمتعلق (irrelevant) ہوچکی ہے۔ اب اصل توجہ کا مرکز تحریکِ آزادی اور حق خودارادیت کی جدوجہد ہے۔ جو مایوسی پاکستان کی حکومت کی بے وفائی اور تحریکِ آزادیِ کشمیر سے دست کشی نے پیدا کی تھی ختم ہوگئی ہے، تھکاوٹ اور مایوسی کے بادل چھٹ گئے ہیں اور کشمیر میں عوام ایک بار پھر تازہ دم ہوکر میدان میں آگئے ہیں۔ دو مہینے میں سیاسی جدوجہد کا نقشہ تبدیل ہوگیا ہے اور جدوجہد ایک نئے تاریخی موڑ پر آگئی ہے۔

نیا منظرنامہ

اس سارے منظرنامے سے جو اہم باتیں سامنے آتی ہیں وہ حسب ذیل ہیں:

۱- ریاست جموں و کشمیر کا مسئلہ ایک متنازع مسئلہ ہے اور ریاست کے مستقبل کا فیصلہ وہاں کے عوام کی مرضی کے مطابق ہی اصل مسئلہ ہے جس سے کسی صورت صرفِ نظر نہیں کیا جاسکتا۔ کشمیری عوام کسی قیمت پر اور کسی نوعیت کی بھی قربانی دے کر اپنی آزادی اور اپنے حق خودارادیت کو فراموش کرنے کو تیار نہیں۔ وہ بھارت کی ۶۱سالہ مکارانہ چالوں سے اب پوری طرح واقف ہوچکے ہیں۔ جو کچھ شیخ عبداللہ کے ساتھ کیا گیا، جس طرح دستور میں دفعہ ۳۷۰ کا ڈھونگ رچا کر کشمیریوں کو رام کرنے اور دراصل غلامی کی زنجیروں میں کسنے کا کھیل کھیلا گیا، ۷ لاکھ فوج کے جارحانہ قوت کے استعمال اور ہرطرح کے ظلم و ستم کے باوجود کشمیریوں کے جذبۂ آزادی کو ختم نہیں کیا جاسکا۔  لاٹھی اور گاجر (carrot and stick) دونوں ناکام رہے۔ اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ اصل مسئلے کا سامنا کیا جائے اور کوئی دیرپا حل نکالا جائے۔

۲- موجودہ تحریک نے ایک بار پھر اس حقیقت کو ثابت کردیا ہے اور اس کا اعتراف بھارت اور عالمی فورم پر کھل کر کیا جانے لگا ہے کہ نہ صرف اصل مسئلہ آزادی کا ہے بلکہ آزادی کی  یہ تحریک مقامی اور عوامی تحریک ہے۔ نہ یہ باہر کے کسی اشارے پر برپا کی گئی ہے اور نہ کی جاسکتی ہے۔ کشمیر کے عوام کا ایک سیلاب ہے جو امڈا چلا آرہا ہے اور وہ قیادتیں بھی جو بھارت کے ہاتھوں میں کھلونا بن رہی ہیں اب عوام کی ہاں میں ہاں ملانے پر مجبور ہورہی ہیں۔ پی ڈی پی بھی وہی  زبان استعمال کرنے پر مجبور ہے جو تحریکِ حریت کے رہنما اختیار کیے ہوئے ہیں۔ سابق گورنر نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں پی ڈی پی کو ایک علیحدگی پسند (secessionist ) جماعت قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو لیفٹیننٹ جنرل (ر) ایس کے سنہا کا انٹرویو دیپک کمار راتھ کے ساتھ، مطبوعہ (www.organing.org)۔ اس طرح افتخار گیلانی کو دیے گئے انٹرویو میں بھی موصوف فرماتے ہیں کہ ان کی نگاہ میں پی ڈی پی اور حریت کانفرنس میں کوئی فرق نہیں (ہفت روزہ دی فرینڈلی ٹائمز، ۵ تا ۱۱ستمبر ۲۰۰۸ئ)

یہ اس عوامی تحریک کی قوت ہے کہ تقریباً ہر سیاسی جماعت اب بھارت سے آزادی کی بات کر رہی ہے اور عوام قائدین اور جماعتوں کو اپنے پیچھے چلا رہے ہیں، لیڈر عوام کو ہانکنے کا کام نہیں کر پارہے، اور سب کا ایک موقف پر اجماع ہوتا جا رہا ہے۔ یہ بڑی نیک فال اور اہم پیش رفت ہے۔

۳- یہ پوری تحریک معجزاتی طور پر سیاسی، جمہوری اور تشدد کے ہر شائبے سے پاک رہی ہے۔ قوت کا استعمال ہوا ہے تو حکومت کی طرف سے ہوا ہے اور کہیں کہیں تو وہ بے بس ہوگئی ہے جیسے سری نگر میں اقوامِ متحدہ کی فورس کے دفتر کی طرف پیش قدمی کی دعوت جس میں ۱۰لاکھ نہتے افراد نے تمام رکاوٹیں پار کر کے حصہ لیا اور پولیس اور فوج کو پسپائی اختیار کرنا پڑی۔ اس تحریک کے  مقامی جمہوری، عوامی اور ریاست گیر ہونے کا اعتراف اپنے اور پرائے حتیٰ کہ ہندستان کے صحافی، دانش ور اور تجزیہ نگار بھی کرنے پر مجبور ہوئے ہیں اور ۱۹۹۰ء کے بعد ایک بار پھر ہرسطح پر اس حقیقت کا اعتراف کیا جا رہا ہے۔ کشمیر کے عوام بھارت سے آزادی چاہتے ہیں اور کسی صورت غلامی کی اس زندگی کو قبول کرنے کو تیار نہیں۔

فرق یہ ہے کہ ۱۹۹۰ میں عسکریت کا پلڑا بھاری اور غالب تھا لیکن ۲۰۰۸ء کی تحریک میں عسکریت کا کردار غیرمرئی اور بالواسطہ ہے، ظاہری اور بلاواسطہ نہیں۔ عسکری تحریک نے بھی اس موقع پر بڑی دانش مندی سے حالات کو متاثر کیا ہے۔ حزب المجاہدین کے کمانڈر اور جہاد کونسل کے سربراہ سید صلاح الدین نے مسئلے کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی بھارتی سازش کا بڑی ہوشیاری سے مقابلہ کیا۔ اپنے مجاہدین کو یاتریوں کو محفوظ راستہ (safe passage ) دینے کی ہدایت کی اور جولائی اور اگست کی تحریک کے دوران کوئی عسکری کارروائی نہیں کی بلکہ مجاہدین کو سیاسی کارکن کی حیثیت سے تحریک میں شرکت کی ہدایت دی۔ اس زمانے میں اگر کوئی کارروائی ہوئی ہو تو وہ دُوردراز سے سرحدی علاقوں میں ہوئی۔ بڑی عوامی تحریک (mainstream movement)  مکمل طور پر سیاسی اور تشدد سے پاک رہی۔

یہ عسکری قوتوں کی طرف سے ایک شاہ ضرب (master stroke)  تھی اور بڑا واضح پیغام تھا کہ عسکریت پسند بھی تحریکِ آزادی کو سیاسی اور جمہوری تحریک کے طور پر چلانا چاہتے ہیں۔ جب حکومت ریاستی دہشت گردی کے ذریعے سیاسی عمل کا راستہ روکتی ہے تو یہ تحریک عسکریت پر مجبور ہوتی ہے۔ جمہوری تحریک اور عسکریت کے رشتے کا اس سے بہتر اظہار سیاسی جدوجہد کی تاریخ میں مشکل ہے اور اس کا کریڈٹ عسکری تنظیموں اور ان کے ڈسپلن کو جاتا ہے اور مسئلے کے سیاسی حل میں ان کے کردار کے حدود کی بھی اس سے نشان دہی ہوجاتی ہے۔ اس پورے عمل سے بھارت کے اس ڈھونگ کا بھی پردہ چاک ہوگیا جو وہ ہر احتجاج کو پاکستان کے پلڑے میں ڈال کر اور آئی ایس آئی کا راگ الاپ کر، کر رہا تھا۔ ساری دنیا نے دیکھ لیا کہ یہ تحریک سیاسی ہے، کشمیریوں کی اپنی تحریک ہے، جمہوری اور عوامی ہے، اور اگر سیاسی اظہار کا موقع حاصل ہو تو عسکریت کے بغیر زیادہ مؤثر انداز میں اپنا کردار ادا کرسکتی ہے۔

۴- اس تحریک کے نتیجے میں ایک اور بڑی اہم چیز رونما ہوئی ہے جو ان ۶۱برسوں میں  پہلی بار اس شدت سے سامنے آئی ہے وہ یہ کہ خود بھارت میں کشمیر کے سلسلے میں نئی سوچ رونما ہوئی ہے، حکومتی سطح پر نہیں، عوامی اور سیاسی سطح پر۔ اب تک بھارتی دانش وروں، سیاسی کارکنوں اور صحافیوں نے یک زبان ہوکر بھارتی حکومت کی کشمیر پالیسی کی تائید کی تھی اور ہرظلم پر پردہ ڈال رکھا تھا، نیز سیکولرزم، دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت، بھارت کے کثیرالقومی ماڈل اور ایک ریاست کی علیحدگی کے پورے ملک پر سیاسی اثرات اور دوسری علاقائی تحریکوں کے لیے عمل انگیز (catalyst) بن جانے کے مضمرات کی وجہ سے ریاست جموں و کشمیر کے عوام کے عزائم، اُمنگوں اور قربانیوں کو نظرانداز کیا ہوا تھا اور اگر بات کرتے تھے تو تھوڑی بہت خودمختاری (autonomy) اور معاشی مدد اور ترقیاتی پروگراموں کی کرتے تھے، اصل مسئلے سے تعرض نہیں کرتے تھے۔ اب پہلی بار ملک گیر سطح پر یہ سوال زیربحث ہے کہ اگر ہم ایک جمہوری ملک ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں تو پھر ایک پوری ریاست کے باشندوں کو ان کی مرضی کے خلاف کب تک حکومتی جبر کے ذریعے یا معاشی رشوت کے سہارے اپنی گرفت میں رکھ سکتے ہیں؟ ایک گروہ یہ بھی کہہ رہا ہے کہ کشمیر پر قبضے کی فوجی، سیاسی اور معاشی قیمت بہت زیادہ ہے اور اب بھارت کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ ہندستان ٹائمز (۱۶ اگست ۲۰۰۸ئ) کے مقالہ نگار کے الفاظ میں: think the unthinkable، یعنی جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا، اب اسی کی بات کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔

بہارت میں نیا رجحان

ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ بھارت میں رونما ہونے والے اس رجحان کی کچھ جھلکیاں اپنے قارئین کو دکھائیں تاکہ تحریکِ مزاحمت کی قوت اور بھارت میں رونما ہونے والے نئے رجحان کو، جو مسئلے کے حل کے امکانات کو روشن کرنے کا ذریعہ بن سکتے ہیں، کو سمجھا جاسکے۔

ہندستان ٹائمز کے جس مضمون کا ہم نے حوالہ دیا ہے اس میں بھارتی مصنف اور  دانش ور ہندستان ٹائمز کے سابق ایڈیٹر  ویر سنگھوی (Vir Sanghvi) نے لکھا ہے:

کیا آپ کشمیر سے آنے والی خبروں کو نااُمیدی کے بڑھتے ہوئے احساس کے ساتھ پڑھ رہے ہیں؟ مجھے معلوم ہے کہ میں پڑھ رہا ہوں۔ اب یہ بات واضح ہے کہ گذشتہ چند مہینوں کی پُرامیدی ، یعنی وہ مضامین جو ہمیں بتاتے تھے کہ کشمیر میں حالات معمول پر آچکے ہیں، سب غلط تھے۔ کشمیر میں درحقیقت ۱۹۹۰ء کے بعد سے کچھ بھی نہیں بدلا ہے۔ ایک چنگاری، جیساکہ امرناتھ زمین پر تنازع، پوری وادی کو آگ لگا سکتی ہے،  لہٰذا ناراضی، غصے اور علیحدگی کا احساس بہت گہرا ہے۔ بھارتی افواج کو قابض فوج تصور  کیا جاتا ہے۔ نئی دہلی کو ظالم و جابر کے طور پر دیکھاجاتا ہے۔ بھارتی دھارے کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ حتیٰ کہ بڑی سیاسی پارٹیاں پاکستان کارڈ کھیلنے سے نہیں ہچکچاتیں۔ محبوبہ مفتی لائن آف کنٹرول کی طرف مارچ کرنے کے لیے بہ خوشی راضی ہیں۔

موصوف فرماتے ہیں کہ ہم نے سب کچھ کرکے دیکھ لیا۔ انتخابات میں دھاندلی کی، دستور کی دفعہ ۳۷۰ کے تحت کشمیریوں کو خصوصی مقام دینے کی کوشش کی۔ مالی اعتبار سے ان کا پیٹ بھرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ ان کے الفاظ میں: ’’بہار کی ریاست کو ملنے والی مرکزی امداد (جو قرض کی شکل میں ہے) فی کس آبادی کے لیے صرف ۸۷۶ روپے ہیں، جب کہ کشمیر میں ہر سال ہر فرد کے حساب سے دی جانے والی امداد (جس کا ۹۰ فی صد عطیہ اور صرف ۱۰ فی صد قرض ہے) ۹ہزار۷سو ۵۴ روپے ہے۔ لیکن ساری ترقیاتی کوششیں اور مالی عنایتیں کچھ کارگر نہیں ہورہیں۔ رہا فوجی طاقت کا استعمال___ تو خزانہ پر بھاری بوجھ ہونے کے سوا اس کا کچھ حاصل نہیں ہے۔ اس باب میں ان کا ارشاد ہے:

کشمیر کی دوسری قیمت فوجی ہے۔ ون سی ۸۱۴ طیارے کے اغوا سے لے کر پارلیمنٹ پر حملے تک بہت سے دہشت گرد حملوں کی کڑیاں کشمیر سے ملتی ہیں۔ پارلیمنٹ کے حملے پر ہمارا ردعمل آپریشن پاراکرم تھاجس پر ۱۰ مہینے میں ۶ہزار ۵ سو کروڑ روپے خرچ ہوئے اور ۸۰۰ فوجی جوانوں کی جانیں تلف ہوئیں (کارگل ۴۷۴ جانوں میں پڑا تھا)۔ ہرروز ہمارے فوجیوں اور نیم فوجیوں کو دہشت گرد حملوں، دبائو اور تضحیک کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔

ساری بحث کے بعد جو کانٹے کا سوال موصوف اٹھاتے ہیں وہ یہ ہے:

تو میرا سوال یہ ہے: ’’ہم اب تک کشمیر کے ساتھ کیوں لٹک رہے ہیں، جب کہ کشمیری ہمارے ساتھ کوئی معاملہ نہیں کرنا چاہتے؟‘‘ جواب ہے: مظاہرئہ مردانگی (machismo)۔ ہمیں اس بات پر یقین دلا دیا گیا ہے کہ اگر کشمیر علیحدہ ہوا تو بھارت کمزور ہوجائے گا۔ اس لیے ہم جانیں اور بلین ڈالر کھو رہے ہیں اور کشمیری ہمیں برابھلا کہنے کا مزا لے رہے ہیں، یہ جانتے ہوئے کہ ہم انھیں چھوڑنے کا حوصلہ نہیں رکھتے۔

اس سلسلے میں اٹھائے جانے والے ان اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے جن کا تعلق بھارتی سیکولرزم، بھارت میں مسلمانوں کے مستقبل اور دوسروں پر علیحدگی پسند تحریک کی کامیابی کے اثرات وغیرہ سے ہے، موصوف صاف لفظوں میں ’اَن کہی‘ کہہ ہی ڈالتے ہیں، یعنی:

میرا کہنا ہے کہ ہمیں وادی میں استصواب راے کروانا چاہیے۔ کشمیری اپنی تقدیر کا خود فیصلہ کریں۔ اگر وہ بھارت کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو انھیں خوش آمدید ہے لیکن اگر وہ نہیں چاہتے تو ہمارے پاس انھیں ساتھ رکھنے کا اخلاقی جواز نہیں ہے۔ اگر وہ پاکستان  کے ساتھ الحاق کا ووٹ دیتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ آزاد کشمیر کے ساتھ تھوڑا سا اور علاقہ شامل ہوجائے گا۔ اگر وہ آزادی کے حق میں فیصلہ دیتے ہیں تو صرف ۱۵منٹ لگیں گے بغیر ان اربوں روپوں کے جو بھارت نے ان پر برسائے لیکن یہ ان کا فیصلہ ہوگا۔

کچھ بھی ہو بھارت کا کیا نقصان ہے؟ اگر آپ جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں تو کشمیریوں کو حقِ خود ارادیت دینا سب سے درست کام ہے۔ اور اگر آپ نہیں رکھتے، تب بھی یقینا ہم اپنے وسائل پر اپنی زندگیوں اور قوم کی حیثیت سے اپنی عزت پر اس مستقل تکلیف دہ دبائو سے نجات پاکر بہتر حال میں ہوں گے۔

یہ بھارت کی صدی ہے۔ ہمارے پاس فتح کرنے کے لیے دنیا ہے اور اس کے لیے وسائل بھی ہیں۔ کشمیر ۲۰ویں صدی کا ایک مسئلہ ہے۔ ہم یہ نہیں کرسکتے کہ ہم دنیا میں اپنا جائز مقام حاصل کر رہے ہوں اور یہ مسئلہ ہمیں پیچھے کھینچے اور ہمارا خون نکالتا رہے۔(ہندستان ٹائمز، ۱۶ اگست ۲۰۰۸ئ)

انگلستان کے اخبار دی گارڈین کا دہلی کا نمایندہ رنڈیپ رمیش (Randeep Ramesh) کشمیر کے حالات کی منظرکشی اس طرح کرتا ہے:

بھارتی کشمیر کے مسلم اکثریتی علاقے میں کل ایک غیرمعینہ مدت کے لیے کرفیو نافذ کردیا گیا… مقامی مسجدوں سے لائوڈ اسپیکروں سے ’ہم آزادی چاہتے ہیں‘ کے نعرے بلند ہورہے ہیں۔ یہ مظاہرے کشمیر پر بھارتی حکمرانی کے خلاف مسلسل احتجاج کا ایک حصہ تھے۔ میرواعظ فاروق کہتے ہیں: یہ وقت ہے کہ ہم ریفرنڈم کے ذریعے اپنے حقِ خود ارادیت کا فیصلہ کرلیں۔ بھارت کہتا ہے کہ کشمیر کے مستقبل پر عشروں پرانا ریفرنڈم اب متروک ہوگیا ہے۔

کشمیر کے مسئلے پر دہلی میں مایوسی کا بڑھتا ہوا ایک احساس ہے جہاں ۱۹۸۹ء سے بغاوت مسلسل سلگ رہی ہے۔ جمعہ کے دن لاکھوں کشمیری سری نگر میں جمع ہوگئے اور آزادی کا مطالبہ کیا اور بھارتی قبضے کے خلاف احتجاج کیا۔ بڑے بڑے دانش ور یہ کہہ چکے ہیں کہ اب وقت آگیا ہے ہمالیائی علاقے کے بارے میں ناقابلِ تصور بات سوچی جائے اور بھارت سے آزادی پر غور کیا جائے۔ (دی گارڈین ، ۲۵ اگست ۲۰۰۸ئ)

دی گارڈین کے ہفتہ وار اخبار آبزرور میں اس واقعے کے رونما ہونے سے پہلے ۸جون کی اشاعت میں ایک بھارتی مضمون نگار نوپال ڈھلے وال (Nupal Dhalivel) نے اپنے دورئہ کشمیر کے تاثرات اور اہم بیرونی سیاحوں سے انٹرویو کرکے حالات کا جو نقشہ کھینچا تھا اس کا خلاصہ ایک اسرائیلی سیاح کے الفاظ میںیہ تھا کہ:

کشمیر کو ایک خودمختار ریاست ہونا چاہیے۔ کشمیریوں کو خودمختاری اور حق خودارادیت کا حق حاصل ہے۔

سوامی ناتھن آگر کا مضمون شائع ہوا ہے جو پڑھنے اور غور کرنے کے لائق ہے:

۱۵ اگست کو بھارت نے برطانوی راج سے آزادی کی تقریب منائی لیکن کشمیریوں نے بھارت سے آزادی حاصل کرنے کے لیے ایک بندھ (bandh) منظم کیا۔ ایک دن جو بھارت میں نوآبادیت کے اختتام کی علامت ہے، وادی میں بھارتی نوآبادیت کی علامت بن گیا۔ ایک لبرل کی حیثیت سے میں لوگوں پر ان کی مرضی کے خلاف حکومت کرنے کو ناپسند کرتا ہوں۔ دو قوموں کی تعمیر ایک مشکل اور پیچیدہ مشق ہے۔ ابتدائی مزاحمت علاقائی اُمنگوں کو، ایک وسیع تر قومی شناخت کی راہ دکھا سکتی ہے۔ تامل علیحدگی پسندی کا اختتام اس کی ایک کلاسیکل مثال ہے۔

میں کبھی کشمیر کے ادغام کی امید رکھتا تھا لیکن ۶ عشروں کی کوشش کے بعد کشمیری علیحدگی ہمیشہ سے زیادہ نمایاں نظر آرہی ہے۔بھارت کشمیر کے ساتھ شامل ہونا چاہتا ہے، نوآبادی بناکر حکومت کرنا نہیں چاہتا۔ تاہم، بھارت میں برطانوی راج اور کشمیر میں بھارتی حکومت کی مشابہت نے میرا اطمینان ختم کردیا ہے۔

بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ ریاست کے مہاراجا نے جب دستخط کردیے تو کشمیر بھارت کا ایک حصہ بن گیا۔ افسوس جب زمینی حقائق تبدیل ہوجاتے ہیں تو ایسی قانونی باتیں غیرمتعلق ہوجاتی ہیں۔ بھارت کے بادشاہوں اور شہزادوں بشمول مغلوں نے برطانوی راج سے الحاق کرلیا۔ یہ دستاویزات اس وقت بے معنی ہوکر رہ گئیں جب اہلِ بھارت نے تحریکِ آزادی برپا کردی۔

برطانیہ نے بڑے عرصے تک یہ اصرار کیا کہ بھارت ان کی سلطنت کا ایک لازمی حصہ ہے۔ ان کے تاج کا ہیرا ہے جو کبھی جدا نہیں ہوسکتا۔ مجھے اندیشہ ہے کہ کشمیر کے سلسلے میں ہم بھی اسی طرح کا انکار کر رہے ہیں جیسے امپریلسٹ برطانوی عشروں سے انکار کرتے رہے۔

موصوف بڑی مدلل بحث کے بعد جس نتیجے کا اظہار کرتے ہیں وہ بہت واضح ہے:

بھارت نے کشمیر کے ساتھ الحاق چاہا ہے نہ کہ نوآبادیاتی حکمرانی۔ لیکن کشمیری کچھ بھی ہو، آزادی مانگتے ہیں اور ان لوگوں کے لیے اتنی شدت سے مزاحمت کرتے ہیں، اتنے طویل عرصے کی حکمرانی نوآبادیت سے مشابہ ہے خواہ ہمارے ارادے کچھ بھی ہوں۔

۶ عشرے قبل ہم نے کشمیریوں سے استصواب راے کا وعدہ کیا تھا۔ اب ہمیں اسے منعقد کردینا چاہیے اور انھیں تین اختیارات دینے چاہییں: آزادی، پاکستان کے ساتھ اتحاد، اور بھارت کے ساتھ اتحاد۔ یقینا وادی کی اکثریت خودمختاری کو اختیار کرے گی۔ جموں اور شاید لداخ بھی بھارت کے ساتھ رہنا چاہیں گے۔ کشمیریوں کو فیصلہ کرنے دیں، نہ کہ سیاست دان اور بھارت اور پاکستان کی فوجوں کو۔ (ٹائمز آف انڈیا، ۱۷ اگست ۲۰۰۸ئ)

ٹائمز آف انڈیا میں ۲۰ اگست کو شائع ہونے والا مضمون نہایت اہم ہے، اس کا عنوان ہے: India minus K-word

کیا یہ وقت ہے کہ ’ک‘ کا لفظ بھارت سے باہر ہو اور بھارت ’ک‘ سے باہر ہوجائے؟ جس وقت پاکستانی اپنے عرصے سے مسلط آمر پرویز کی رخصتی کا جشن منا رہے تھے، کشمیر کے ’پاکستانی‘ اس سے زیادہ نہیں تو برابر کے جابرو ظالم بھارت کے خلاف مظاہرے کر رہے تھے جسے بہت پہلے رخصت ہوجانا چاہیے تھا۔

امرناتھ تنازع اور مبینہ ’معاشی بدحالی‘ نے وادی میں ایک بے نظیر پاکستان حامی جذبات کو بھڑکا دیا ہے جس کا اظہار چاند تارے والے جھنڈے کو کھلم کھلا دکھلانا اور  سری نگر اور پام پور میں بڑی بڑی بھارت مخالف ریلیوں سے ہوتا ہے۔ علیحدگی کی تحریک جنگجوئوں کے خوف سے نہیں چل رہی، آج علیحدگی پسندی راے عامہ ہے جو آگے چل کر ایک سنگین خطرہ بن سکتی ہے۔

احتجاج کی اس طوفانی لہر (ground swell) کو جو کئی نسلوں سے جاری ہے، محض    یہ کہہ کر نظرانداز کرنا آسان ہے کہ اس کے پیچھے آئی ایس آئی کا ہاتھ ہے، حالانکہ کشمیر یا وادیِ کشمیر اب زیادہ دیر تک اس کٹھ پتلی کی طرح نہ ہوگی جو اپنے پاکستانی آقائوں کی زبان بول رہی ہو۔ کشمیر خود اپنے لیے آواز بلند کر رہا ہے اور جو کچھ کہہ رہا ہے وہ بہت واضح ہے: بھارت ہمارا پیچھا چھوڑ دے۔

مقالہ نگار کا یہ تجزیہ بھی غور طلب ہے:

کشمیر آج جو کچھ دیکھ رہا ہے، وہ بنیادی طور پر مختلف ہے۔ آزادی کا مطالبہ جس کے پیچھے بندوقیں نہیں بلکہ مخالف ہونے کی طاقت ہے___ جو بھارت کے تصور کا ایک بنیادی پتھر ہے۔ برسوں کی مسلسل کوشش، فوجوں کی تعیناتی، متعدد بار ہونے والے انتخابات، مال و دولت کے زرتلافی دینے کے باوجود بھارت آزادی کے مطالبے کا مؤثر مقابلہ نہیں کرسکا۔ کیا وقت آگیا ہے کہ مسئلہ کشمیر کو دوبارہ دیکھا جائے؟ کیا کشمیر کو پُرامن طور پر جانے دینے سے بھارت کا تصور مسخ ہوجائے گا یا اس میں وسعت ہوجائے گی اور زیادہ مضبوط ہوجائے گا۔

ہفت روزہ ٹائم کی ۱۵ ستمبر کی اشاعت میں Juoti Thottam کا مضمون Valley of Tears (اشکوں بھری وادی) شائع ہوا ہے جس میں کشمیر کو اب بھی بھارت کا حصہ رکھنے کا خواب دکھایا گیا ہے مگر زمینی حقائق کے اعتراف کے سوا کوئی چارئہ کار نظر نہیں آتا:

تقسیم کے بعد بھارت اور پاکستان کشمیر پر لڑے اور ۱۹۸۹ء سے کشمیریوں کی علیحدگی کی تحریک میں بھارتی افواج کو آزادی پسندوں کی جانب سے ہمیشہ یہ دھمکی رہی ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ شامل ہوجائیں گے جو ان کی بندوقوں سے جنگ کر رہا ہے۔ بھارت نے علیحدگی پسندوں کو طاقت کے زور پر خاموش کر دیا تھا لیکن امرناتھ نے ان کی تحریک کو دوبارہ زندہ کردیا اور ۱۸ اگست کے ۵لاکھ سے زائد کے ایک خصوصی مظاہرے میں آزادی کے نعرے اور پاکستان کے لہراتے جھنڈوں نے ثابت کردیا ہے کہ کشمیری بھارت کو چھوڑنے کے لیے تیار ہیں۔

بھارت کشمیر کو چھوڑنا نہیں چاہتا مگر ساتھ رکھنے کے بھی کوئی آثار نظر نہیں آتے:

بھارت میں لوگ کشمیر میں دل چسپی کھو رہے ہیں۔ یہ ایک مایوسی کی علامت ہے۔ اولین طور پر یہ بھارت کی سیاسی ناکامی ہے کہ اختلاف میں اتحاد کے وعدے کو پورا نہیں کرسکا۔ بھارت نے طویل عرصے میں کشمیر میں لاکھوں ڈالر امداد دی ہے اور اس سے زیادہ رقم خرچ کی ہے مگر وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ امن کا مطلب محض عدم جنگ نہیں ہے بلکہ معاملہ سیاسی تصفیے کا ہے۔ ۵لاکھ بھارتی افواج کی واپسی جو اس وقت کشمیر پر قابض ہے، اور سب سے زیادہ اہم انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا کہ فوج کے ہاتھوں وسیع پیمانے پر کشمیری شہریوں کے حقوق کی خلاف ورزی ہے۔

بھارتی حکومت نے ان مشکل مسائل کو حل نہیں کیا ہے جو کشمیریوں کو اشتعال دلاتے ہیں۔ وہ بے چین ہیں۔ اسی لیے کشمیر کے ناپایدار امن کو توڑنے کے لیے انھیں صرف ایک غلطی کی ضرورت تھی۔ اس نے ایک نہیں بلکہ دو نہایت خطرناک احتجاجی تحریکیں برپا کردیں۔ ایک ہندو قوم پرستوں کی اور دوسری کشمیری انتہاپسندوں کی جنھوں نے ایندھن فراہم کیا۔

معلوم ہوتا ہے کہ اب بھارت نے اس بات کو تسلیم کرلیا ہے کہ علیحدگی پسند کشمیری ہیں نہ کہ پاکستان سے بھیجے ہوئے کچھ لوگ۔ (ٹائم، ۱۵ ستمبر ۲۰۰۸ئ)

اس سلسلے کا سب سے اہم اور تہلکہ خیز مضمون مشہور ناول نگار اور سیاسی کارکن ارون دھتی راے کا ہے جو پہلے مجلہ آؤٹ لُکمیں شائع ہوا۔ پھر اس کا کچھ مختصر متن انگلستان کے روزنامہ دی گارڈین نے شائع کیا اور اس کے بعد دنیا کے تمام ہی اہم اخبارات نے اس کے اقتباسات شائع کیے۔ پورا مضمون پڑھنے کے لائق ہے لیکن ہم صرف اس کے چند حصے ناظرین کی نذر کر رہے ہیں:

گذشتہ ۶۰دنوں سے، یعنی جون کے بعد سے کشمیر کے عوام آزاد ہیں، حقیقی مفہوم میں آزاد۔ انھوں نے اپنی زندگیوں سے ۵ لاکھ مسلح فوجیوں کی بندوقوں کے سایے کی وحشت دنیا کے سب سے زیادہ گھنے فوجی علاقے میں اُتار پھینکی۔

۱۸ سال تک فوجی قبضہ رکھنے کے بعد بھارتی حکومت کا ڈرائونا خواب بدترین خدشات سچ ثابت ہوا۔ یہ اعلان کرنے کے بعد کہ اس نے جنگجو تحریک کو کچل دیا ہے، اب اس کا سامنا ایک غیرمتشدد وسیع عوامی احتجاج سے ہے لیکن وہ نہیں جانتا کہ اس سے کس طرح نمٹا جائے۔ اس احتجاج کو قوت عوام کی کئی برسوں کی ظلم و جبر کی یادوں نے دی ہے، جس میں لاکھوں آدمی مارے گئے ہیں، ہزاروں لاپتا ہوگئے ہیں، لاکھوں کو ٹارچر کیا گیا ہے، زخمی کیا گیا ہے اور تذلیل کی گئی ہے۔ اس طرح کا غصہ جب ایک دفعہ باہر نکل آئے تو اس کو آسانی سے دوبارہ بوتل میں بند کرکے وہاں نہیں بھیجا جاسکتا جہاں سے وہ نکلا تھا۔

تقدیر کے ایک اچانک موڑ اور ۱۰۰ ایکڑ سرکاری زمین امرناتھ منتقل کرنے کا غلط اقدام ایسا ثابت ہوا جیسے پٹرول کی ٹینکی پر دیا سلائی پھینک دی گئی ہو۔ ماضی میں بھی احتجاجی مظاہرے ہوتے رہے ہیں لیکن حال میں طویل مدت تک اتنے بڑے پیمانے پر احتجاج کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ کشمیر کی بڑی سیاسی پارٹیاں نیشنل کانفرنس اور عوامی جمہوری پارٹی نئی دہلی کے ٹی وی اسٹوڈیوز میں تابع داری کے ساتھ حاضر رہتی ہیں لیکن کشمیر کی سڑکوں پر سامنے آنے کا حوصلہ نہیں رکھتیں۔ مسلح جنگجو ظلم و جبر کے بدترین سایوں میں آزادی کی مشعل اٹھائے نظر آتے تھے۔ اگر وہ کہیں ہیں تو پچھلی نشست پر آرام سے بیٹھے ہیں اور عوام کو تبدیلی کے لیے لڑنے دے رہے ہیں۔

علیحدگی پسند قائدین جو مظاہروں میں آتے ہیں، تقریریں کرتے ہیں، وہ اب قائدین نہیں بلکہ پیروکار ہیں۔ ان کی راہ نمائی ایک پنجرے میں بند غصے سے بھرے ہوئے لوگوں کے سامنے آنے والی غیرمعمولی توانائی سے ہورہی ہے جوکشمیر کی سڑکوں سے بھڑک اُٹھی ہے۔ دن پر دن گزرتے گئے اورہزاروں لاکھوں افراد ان جگہوں کے  گرد اکٹھے ہوتے گئے جن کے ساتھ ان کی تلخ یادیں وابستہ ہیں۔ وہ مورچوں کو    گرا دیتے ہیں، تاروں کی چاردیواری کوتوڑ دیتے ہیں اورفوجیوں کی مشین گنوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہتے ہیں: ہم کیا چاہتے ہیں؟ آزادی! اور ساتھ ہی   اتنی ہی تعداد میں اتنے ہی لوگ نعرہ لگاتے ہیں: جیوے جیوے پاکستان! یہ آوازیں  پوری وادی میں گونج رہی ہیں جیسے کہ ایک ٹین کی چھت پر مسلسل بارش کی آواز ہو یا جیسے کہ ایک طوفان کے دوران بجلی کی کڑک۔

۱۵ اگست کو بھارت کے یومِ آزادی کے موقع پر سری نگر کے اعصابی مرکز لال چوک پر ان ہزاروں لوگوں کا قبضہ تھا جو اپنے ہاتھوں میں پاکستانی جھنڈے لہرا کر ایک دوسرے کو یومِ آزادی (باسی) کی مبارک باد دے رہے تھے۔

ہر طرف پاکستانی جھنڈے تھے۔ ہر طرف نعرے تھے: پاکستان کا مطلب کیا لا الٰہ الااللہ! میری طرح کے کسی فرد کے لیے جو مسلمان نہیں ہے اس آزادی کی تعبیر سمجھنا ناممکن نہیں ہے تو مشکل ضرور ہے۔ میں نے ایک نوجوان خاتون سے کہا کہ کشمیر کی اس طرح آزادی سے ایک عورت کے لیے آزادی میں کمی نہیں ہوجائے گی۔ اس نے کندھے اُچکائے اور جواب دیا: ہمیں اس وقت کس قسم کی آزادی حاصل ہے؟ بھارتی فوجیوں سے اپنی عصمت دری کرانے کی۔ اس کے جواب نے مجھے خاموش کردیا۔ سبزجھنڈوں کے سمندر میں میرے لیے کسی طرح بھی ممکن نہ تھا کہ اپنے آس پاس ہونے والی بغاوت کے گہرے جذبات دیکھ کر ان پر دہشت گرد جہاد کا ٹھپہ لگا دیا جائے۔ یہ کشمیریوں کے لیے ایک کتھارسس تھا، جذبات کے اظہار کا ایک موقع۔ ایک طویل پیچیدہ جدوجہد کا ایک تاریخی لمحہ، تمام خامیوں، مظالم اور الجھائو کے ساتھ جو آزادی کی تحریکوں میں ہوتے ہیں۔

آج کے جیسے نازک لمحوں میں چند چیزیں خوابوں سے زیادہ اہم ہیں۔یوٹوپیا کی طرف سست پیش قدمی اور انصاف کا ایک خام تصور وہ نتائج لائے گا جن کے بارے میں سوچا نہیں جاسکتا۔  تقسیم کے ہیولے نے سر باہر نکال لیا ہے۔ ہندوتا نیٹ ورک پر یہ خبر گرم ہے کہ وادی میں ہندوئوں پر حملے کیے جارہے ہیں اور انھیں بھگایا جا رہا ہے۔ جموں سے آنے والی فون کالیں بتاتی ہیں کہ دو ہندو اکثریتی اضلاع سے مسلمان بھاگنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ تقسیم پاک و ہند کے وقت ہونے والے خونی غسل کی یادیں، جس میں ۱۰لاکھ جانیں کام آئیں، واپس آرہی ہیں۔ بہرحال مستقبل میں جو کچھ ڈراوے ہیں، ان میں سے کوئی بھی اس کا جواز نہیں بن سکتا کہ قوم اور عوام پر فوجی آپریشن کو جاری رکھا جاسکے۔ پرانا نوآبادیاتی موقف کہ مقامی لوگ آزادی کے لائق نہیں، کسی نوآبادیاتی منصوبے کے لیے اب قابلِ استدلال نہیں ہے۔

یہ ہے ہوا کا رخ___ ایک طرف تحریکِ آزادی اپنے نئے شباب پر، اور دوسری طرف بھارت میں پہلی بار کشمیر کے مسئلے پر روایتی ہٹ دھرمی کے مقابلے میں جمہوری اصولوں اور انصاف اور حقائق شناسی کی بنیاد پر نئے غوروفکر کی ہلکی سی کرن کا ظہور۔ یہ ایک تاریخی لمحہ ہے جس کو کشمیر کے مسلمانوں نے تو مضبوطی سے تھام لیا ہے مگر پاکستان کی حکومت اور پاکستانی قوم کا کیا فیصلہ ہے___ مستقبل کا اس پر بڑا انحصار ہے۔

اھلِ پاکستان کا فرض

پاکستان مسئلہ کشمیر کے سلسلے میں محض ایک تماشائی نہیں، صرف مظلوم کشمیریوں کا وکیل ہی نہیں، گو وکالت کی ذمہ داریاں اس نے ماضی میں بڑی خوش اسلوبی سے انجام دی ہیں۔ پاکستان اس قضیے میں ایک فریق کی حیثیت رکھتا ہے___ ایک مرکزی کردار۔ یہی وجہ ہے کہ قائداعظم نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ کہا تھا اور کشمیر کے مسلمان ساری مشکلات اور پاکستان کی حکومتوں سے مایوسیوں کے باوجود پاکستان ہی میں اپنا مستقبل دیکھتے ہیں۔

کشمیر اور بھارت کے اس بدلتے ہوئے منظرنامے میں یہ بات بھی سامنے رہنی چاہیے کہ اس وقت پاکستان میں جنرل پرویز مشرف کی حکومت کا خاتمہ ہوچکا ہے اور وہ دور رخصت ہوچکا ہے جس میں پرویز مشرف نے یک طرفہ طور پر پاکستان کی قومی اور متفق علیہ کشمیر پالیسی کو یکسر تبدیل کردیا تھا اور امریکا اور بھارت سے دوستی کے خمار میں اپنا سب کچھ لٹادینے کی ہمالیہ سے بڑی خطا کا ارتکاب کیا تھا۔ ۱۸ فروری کے انتخابات میں عوام نے مشرف کی کشمیر پالیسی کو بھی رد کردیاتھا اور ان نئے حالات میں اس بات کی ضرورت ہے کہ پاکستانی حکومت اور قوم یک زبان ہوکر  تحریکِ آزادی سے مکمل ہم آہنگی کا اظہار کریں۔ اس تحریک کی اخلاقی ہی نہیں بھرپور سیاسی، سفارتی، مالی اور دوسرے ذریعے سے مدد کریں اور جس طرح کشمیری عوام نے اپنے خون اور پسینے سے اس تحریک کو بامِ عروج تک پہنچایا ہے اسی طرح پاکستان اس میں بھرپور شرکت کرکے، عالمی راے عامہ کو مؤثر انداز میں متحرک کرکے بھارت پر سفارتی، سیاسی اور معاشی دبائو ڈالے تاکہ    یہ مسئلہ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق جموں و کشمیر کے عوام کی مرضی کے مطابق حل ہوسکے۔

ہمیں خوشی ہے کہ قومی اسمبلی نے ایک متفقہ قرارداد کے ذریعے جموں و کشمیر کے مسلمانوں کے حقِ خودارادیت اور اقوامِ متحدہ کی قراردادوں اور عوام کی مرضی کے مطابق مستقبل کے فیصلے کے حق کی تائید کی ہے اور ان کی جدوجہد سے یک جہتی کا مظاہرہ کیاہے۔ آزاد کشمیر کے عوام نے چکوٹھی جاکر مظفرآباد آنے والے مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کے استقبال کا اہتمام کرکے اس جدوجہد میں اپنی شرکت کا اظہار کیا ہے۔یہ وقت پاکستان کی حکومت، پارلیمنٹ، تمام سیاسی جماعتوں اور پوری قوم کے لیے فیصلے کا وقت ہے۔ یہ ایک تاریخی لمحہ ہے جسے ہرگز ضائع نہیں ہونا چاہیے۔ پرویزمشرف کی پالیسیوں کو قوم اور تاریخ دونوں نے رد کردیا ہے اور سب سے زیادہ خود بھارت کی قیادت نے اپنے دوغلے پن اور حقیقی عزائم کو ایک بار پھر واضح کردیا ہے۔ آج جموں و کشمیر کے مسلمان ایک بار پھر ایک فیصلہ کن جدوجہد میں سر پر کفن باندھ کر کود پڑے ہیں۔ اب پاکستان کا فرض ہے کہ اس تحریک سے مکمل یک جہتی کا اظہار کرے اور اس کی ہرممکن طریقے سے مدد کرے___ سفارتی، سیاسی اور مادی___  ۱۹۹۰ء میں جو تاریخی موقع حاصل ہوا تھا اور جو ہماری گرفت سے نکل گیا تھا، تاریخ نے ایک بار وہ موقع مسلمانانِ جموںو کشمیر اور پاکستانی قوم کو دیا ہے۔ پاکستان کے پاس صرف ایک آپشن ہے اور وہ اس تحریک کی مکمل تائید اور اسے فیصلہ کن مقام تک پہنچانے میں بھرپور کردار کی ادایگی___ کشمیر ایک بار پھر پاکستانی قوم، اُمت مسلمہ اور انسانی ضمیر کو پکار رہا ہے۔ کیا ہم اپنا فرض ادا کرنے کے لیے تیار ہیں؟

تاریخ کی بھی عجب شان ہے۔ بارہا ایسا ہوا ہے کہ بہ ظاہر ایک معمولی سا واقعہ بالآخر بڑے تاریخی نتائج کا عنوان ثابت ہوتا ہے۔ حالیہ تاریخ کا ایک ایسا ہی واقعہ نائن الیون ہے جس نے دنیا کے سیاسی نقشے کو بہت زیادہ متاثر کیا ہے۔ اس سے پہلے ۱۹۴۹ء میں کوریا کی جنگ ایک دُور دراز ملک میں امریکا کا ایک معمولی سا حملہ تھا مگر وہ عالمی سردجنگ کا عنوان بن گیا۔ ۱۹۷۹ء میں افغانستان میں بریزنیف کی فوج کشی ایک ایسی مزاحمت کا سبب بن گئی جس کے نتیجے میں بالآخر سوویت یونین اور عالمی اشتراکیت دونوں کا شیرازہ بکھر کر رہ گیا۔ آج جارجیا جس کی اپنی ایک تاریخ ہے اور جو دورِجدید میں اسٹالن کے مولد کی حیثیت سے جانا جاتا تھا، اگست ۲۰۰۸ء میں ایک خون ریز تصادم کا منظر پیش کر رہا ہے۔ قوی امکان ہے کہ روس اور جارجیا کی فوجوں کا یہ تصادم عالمی سیاست پر گہرے اثرات مرتب کرے اور علاقے کے مستقبل کے نقشے کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرے۔ ۷اگست کو شروع ہونے والے اس خونی معرکے اور ۱۶اگست کو فرانس کے صدر کی مداخلت سے ہونے والے جنگ بندی کے معاہدے کے بڑے دُوررس اثرات متوقع ہیں۔ تاریخ کی اس نئی کروٹ کا مطالعہ ضروری ہے۔

جارجیا کی موجودہ آزاد ریاست ۱۹۹۰ء میں سابق سوویت یونین کے منتشر ہونے کے نتیجے میں وجود میں آئی۔ امریکا نے اس پورے علاقے میں اپنے اثرات بڑھانے کے لیے اس تاریخی موقعے سے پورا پورا فائدہ اٹھایا۔ مشرقی یورپ میں یورپی یونین کی توسیع کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ بالٹک ریاستوں کو یورپ کے نئے انتظام سے وابستہ کیا گیا۔ روس کے چنگل سے نکلنے والی ریاستوں کو امریکا اور یورپی ممالک نے اپنی چھتری تلے لینے کی کوشش کی۔

جارجیا گذشتہ ۱۶،۱۷ سال سے اسی عمل کی گرفت میں ہے۔ ان ریاستوں میں آہستہ آہستہ امریکی معاشی اور فوجی امداد کا جال بچھا دیا گیا اور مغرب نواز جمہوریتوں کوفروغ دیا جانے لگا۔  جارجیا کی موجودہ قیادت امریکا کی پسندیدہ قیادت ہے۔ جارجیا کی فوجوں کی تربیت اور اسلحہ بندی امریکی فوجی نمایندے کر رہے ہیں۔ ۲۰۰۴ء میں موجودہ صدر میخائیل ساکاش ویلی (Mikheil Saakashvili) منتخب ہوئے اور امریکا نوازی میں سب سے سبقت لے گئے۔ امریکا نے بھی انھیں اپنی محبوبِ نظر شخصیت کے طور پر آگے بڑھایا، فوجی اور معاشی امداد سے تقویت بخشی، تیل اور گیس کی سپلائی لائن کے طور پر جارجیا کو استعمال کرنے کے پروگرام بنائے، اور جارجیا کو شہ دی کہ جن علاقوں پر اس کی گرفت کمزور ہے خصوصیت سے ان دو صوبوں پر جن میں دوسری قومیتوں کے لوگ آباد ہیں، جیسے ابخازیہ (Abkhazia) اور جنوبی  اوسیشیا (South Ossetia) اپنی گرفت بڑھائے۔ اسی نوعیت کے ایک نسبتاً چھوٹے علاقے اجاریہ (Ajaria) پر قبضے اور اس کے    انضمام نے جارجیا کو مزید حوصلہ دیا اور امریکا کی آشیرباد سے اس نے ابخازیہ اور جنوبی اوسیشیا پر اپنی گرفت بڑھانے کی کوشش کی جسے علاقے کے لوگوں نے ناپسند کیا۔ ان دونوں ریاستوں میں روسی بڑی تعداد میں آباد ہیں۔ ابخازیہ میں مسلمان بھی ۲۰ فی صد کے قریب ہیں۔ یہ دونوں روس کے زیراثر رہے ہیں اور روس نے علاقائی آزادی کی تحریکوں کی مدد کی ہے جس نے حالات کو خاصا نازک بنا دیا ہے۔ اس وقت جو صورت حال رونما ہوئی ہے اس کا تعلق اسی تاریخی پس منظر سے ہے۔

امریکا نے جارجیا کو علاقے میں اپنا ایک اہم حلیف بنایا ہے۔ توانائی کے راستوں کے سلسلے میں اسے اہمیت حاصل ہے۔ اسے یورپی یونین میں شامل کرنے کی کوشش بھی ہورہی ہے۔ اس وقت ایک متوقع ممبر ریاست کی حیثیت سے یورپی یونین سے اس کی بات چیت کا آغاز ہوچکا ہے جسے ابتدائی قانونی شکل دسمبر ۲۰۰۸ء میں دی جانی ہے جس کے لیے امریکا کوشاں ہے اور روس جس پر سخت برہم ہے۔ یہی معاملہ یوکرین کے ساتھ ہے، نیز پولینڈ میں امریکی میزائل کی تنصیب کا مسئلہ بھی باعثِ نزاع بنا ہوا ہے۔

اس سلسلے میں ایک بات یہ بھی ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ ۹۱-۱۹۹۰ء میںمنتشر ہوجانے کے بعد روس شدید بحران کا شکار تھا۔ معاشی اعتبار سے اس کی چولیں ہل گئی تھیں اور سیاسی اعتبار سے وہ بے توقیر ہوکر رہ گیا تھا۔ امریکا صرف واحد سوپرپاور ہی نہیںبنا بلکہ اسے خود روس پر ایک طرح کی بالادستی حاصل ہوگئی تھی اور خصوصیت سے یالسٹن کے دور میں روس امریکا کا متبنیٰ  بن گیا تھا۔ پیوٹن کے ۷سالہ دور میں حالات بدلے ہیں۔ بہ ظاہر روس اور امریکا دوست تھے اور بش اور پیوٹن تو ایک دوسرے کو امریکی محاورے میں اپنا یار (buddy) کہتے تھے، مگر فی الحقیقت روس نے اس زمانے میں اپنے آپ کو ازسرنو منظم کیا ہے۔ سیاسی اعتبار سے نہ صرف اپنے ملک میں بلکہ اس پورے علاقے میں اپنے اثرات کو بڑھایا ہے۔ معاشی اعتبار سے اندھی نج کاری کی تباہ کاریوں کا ازالہ کیا گیا ہے اور ریاست کے کردار کو ازسرِنو مؤثر بنایا گیا ہے۔ فوج کو دوبارہ منظم کیا گیا ہے اور تیل کی قیمتوں کے بڑھنے کا پورا پورا فائدہ اٹھایا گیا ہے۔ روس یورپ کے لیے توانائی (تیل اور گیس) کا اہم ذریعہ بن گیا۔ ان حالات میں روس نے یورپ میں اپنا نیا مقام بنایا اور پورے خطے میں ایک کردار ادا کرنے کے لیے اپنے کو تیار کیا۔ امریکا روس کی یہ حیثیت ماننے کو تیار نہیں۔ یہی وہ چیز ہے جس نے جارجیا کے حالیہ تصادم کو غیرمعمولی اہمیت دے دی ہے۔

جارجیا نے پہلے اجاریہ پر اپنی گرفت مضبوط کی (۲۰۰۴ئ) اور پھر ابخازیہ کی طرف پنجے بڑھائے۔ روس نے درپردہ ابخازیہ کی مدد شروع کی اور جنوبی اوسیشیا کی جہاں روسی زیادہ آباد ہیں بھرپور مدد کی بلکہ اپنے امن دستے بھی تعینات کیے۔ امریکا جارجیا کی پوری مدد کرتا رہا، اور اس کی فوجوں کو اسلحے سے آراستہ کرنے کے ساتھ بڑے پیمانے پر تربیت کا اہتمام بھی کرتا رہا۔ مگر ساتھ ساتھ روس سے تصادم کے بارے میں احتیاط کا مشورہ دیتا رہا۔

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ امریکا کے کچھ عناصر کے ایما پر، جن میں ڈک چینی اور نیوکونز کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے، چھیڑچھاڑ کا سلسلہ شروع کیا گیا جو اپریل ۲۰۰۸ء سے شروع ہوا اور بالآخر ۷اگست کو جنوبی اوسیشیا پر فوج کشی کرڈالی گئی جس کے نتیجے میں ایک دن میں ۲۰۰۰ شہری ہلاک ہوئے اور روس کی امن فوج کے ۶۰سپاہی بھی مارے گئے۔ روس جارجیا کی فوج کشی کے خطرے کو بھانپ رہا تھا اور اپنی تیاری بھی کر رہا تھا۔ ۷اگست کے واقعے نے اسے وہ موقع دے دیا جس کا  اسے انتظار تھا۔ اس نے ۸ اگست کو بھرپور جوابی حملہ کیا جس نے جارجیا پر کاری ضرب لگائی اور صرف جنوبی اوسیشیا ہی نہیں جارجیا کے ایک تہائی پر بھی ایک ہی ہلے میں قبضہ کرلیا۔ جارجیا کی فوج کو منہ کی کھانا پڑی اور اس کا مغرورصدر حواس باختہ ہوگیا۔ امریکا سخت برہم ہوا بلکہ ڈک چینی نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ: ’’روسی جارحیت جواب سے نہیںبچ سکتی‘‘۔

مگر عملاً امریکا کے لیے کوئی بڑا اقدام ممکن نہیں۔ جرمنی اور فرانس روس کے خلاف کسی اقدام کے خلاف ہیں۔ فرانس نے جنگ بندی کے لیے فوری کوشش کی جس کے نتیجے میں ۱۷اگست سے جنگ بندی ہوگئی ہے مگر روسی فوجیں ابھی موجود ہیں۔ آہستہ آہستہ علاقہ خالی کریں گی اورکسی نہ کسی شکل میں اپنی مستقل موجودگی کا اہتمام کریں گی، خواہ وہ امن فوج کی شکل ہی میں کیوں نہ ہو۔

جارجیا میں اس تصادم کے چند پہلو ایسے ہیں جن کا ادراک ضروری ہے۔

پہلا اور سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ روس نے اب یہ پیغام دے دیا ہے کہ وہ امریکا کی دبیل (ماتحتی) میں رہنے کو تیار نہیں اور وہ اپنے شہریوں اور اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے قوت کے استعمال کی پوزیشن میں ہے۔ امریکا اور یورپ کے لیے یہ بڑا اہم پیغام ہے۔ جارجیا کے سلسلے میں امریکا کا اپنے ایک محبوب اتحادی ملک کے اس طرح پِٹ جانے پر خاموش رہنے سے امریکا کے سوپرپاور ہونے کے باوجود طاقت کی تحدید (limitation of power )کا کھل کر اظہار ہوگیا ہے۔ یہ اس لیے اور بھی اہم ہے کہ عراق اور افغانستان میں امریکا اپنے مفیدمطلب نتائج برآمد نہیں کرسکا۔ عراق سے انخلا کے منصوبے بنائے جارہے ہیں اور افغانستان بھی اس کے لیے قبرستان بنتا جا رہا ہے۔ ان حالات میں جارجیا کی مدد نہ کرنے سے امریکا کی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی ہے اور جارجیا کے صدر نے اس کی شکایت بھی کی ہے۔ روس ایک بار پھر اگر عالمی سطح پر نہیں تو کم از کم اپنے علاقے میں ایک قوت کی حیثیت سے ایک کردار ادا کرنے کا آغاز کر رہا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس کا اظہار خود ترکی کے صدر نے اپنے اس حالیہ انٹرویو میں کیا ہے جو انھوں نے دی گارڈین کو دیا ہے۔ گارڈین کا نمایندہ اسٹیفن کنزر (Stephen Kinzer) لکھتا ہے:

انھوں نے جنگ کے ملبے سے ایک نئی کثیر قطبی دنیا کا ظہور ہوتے دیکھا۔ جارجیا کے تنازعے نے یہ ظاہر کردیا ہے کہ اب امریکا عالمی پالیسیاں اپنے طور پر تشکیل نہیں دے سکتا بلکہ اسے دوسرے ملکوں کو اقتدار میں شریک کرنا چاہیے۔ میں نہیں سمجھتا کہ آپ    پوری دنیا کو ایک مرکز سے کنٹرول کرسکتے ہیں۔ (۱۶ اگست ۲۰۰۸ئ)

یہ ایک بڑا اہم سبق ہے جسے جتنی جلد امریکا اور دوسرے طاقت ور ملک سمجھ لیں اتنا ہی  بہتر ہے۔ اس میں ان کے لیے بھی بڑا سبق ہے جو اپنے تمام انڈے امریکا کی جھولی میں ڈال  رہے ہیں۔ اس سے زیادہ کمزور راستہ کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا۔

اس واقعے سے ایک اور پہلو جو سامنے آتا ہے وہ یورپ اور امریکا کے درمیان بڑھنے والا فاصلہ اور دونوں کے سیاسی اور معاشی مفادات میں عدمِ مطابقت ہے۔ یورپی یونین کے مستقبل کی توسیع کے مسائل بھی روز بروز پیچیدہ تر ہوتے جارہے ہیں۔ روس پر یورپ کی توانائی کی ضروریات کا انحصار اور روس کے زیراثر ممالک سے انرجی کی شاہراہ کا گزرنا یورپ کی سیاست پر گہرا اثر ڈال رہی ہے۔

ایک تیسرا پہلو وہ ہے جس کا تعلق قومی حکومت کی حاکمیت اور علاقائی تحریکوں اور قومیتوں کے کردار سے ہے۔ سیاسی حقوق کے حصول کے لیے جدوجہد کے طریق کار اور انسانی بنیادوں پر یا علاقائی اور اپنے شہریوں یا ہم نسل افراد کے حقوق کے تحفظ کے سلسلے میں قوت کے استعمال کے جواز، عدمِ جوازاور حدودکار کا مسئلہ بھی اہمیت اختیار کرگیا ہے۔ اسے مزید نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔

جارجیا اور خصوصیت سے ابخازیہ کے سلسلے میں مسلمانوں کے نقطۂ نظر سے بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جارجیا میں اسلام ساتویں صدی کے وسط میں حضرت عمرفاروقؓ کے زمانے میں پہنچ گیا تھا اور جارجیا کا دارالخلافہ تبلیسی (Tbilisi) مسلم دور کی یادگار ہے۔ جارجیا کی موجودہ حدود ایک عرب امارت کا حصہ تھیں جہاں مسلمانوں کی حکومت ۱۱۲۲ء تک رہی جب کنگ ایڈورڈ چہارم نے اسے فتح کرلیا اور عیسائی حکومت قائم کی۔ اٹھارھویں اور انیسویں صدی میں یہ علاقہ پھر دولت عثمانیہ کا حصہ بنا جسے زار روس نے انیسویں صدی میں اپنی  قلم رو میں شامل کرلیا۔ یہ علاقہ امام شامل کی تحریک کا مرکز بھی رہا ہے۔

آج بھی مختلف علاقوں میں مسلم آبادی ۱۰ سے ۲۰ فی صد ہے اور کچھ علاقوں میں مسلمان اکثریت میں ہیں۔ ترک، کاکیشی اور چیچن، سب اس علاقے میں ہیں اور علاقائی تحریکوں میں بھی ان کا کردار ہے۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ اس علاقے کے مسلمان امریکا اور روس کی باہمی آویزش کا نشانہ نہ بنیں بلکہ اپنا مثبت کردار ادا کرنے کا لائحہ عمل اختیار کریں۔ او آئی سی کو اس سلسلے میں حالات کا گہری نظر سے جائزہ لینے اور علاقے میں مسلم کردار کی صحیح خطوط پر راہ نمائی کی فکر کرنی چاہیے۔

اس پورے معاملے پر اخلاقی اور انسانی نقطۂ نظر سے غور کیا جائے تو ایک اور بے حد اندوہناک پہلو یہ سامنے آتا ہے کہ جارجین روس اور روس کے زیراثر ملیشائوں نے اخلاق کی ہرقدر کو پامال کیا ہے اور دونوں نے اپنے مخالفین کو صفحۂ ہستی سے مٹانے اور ظلم وتشدد کا نشانہ بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ نسلی صفائی جو نسل کُشی کا نیا نام ہے، اس کا بے محابا استعمال کیا گیا ہے۔ سویلین آبادی کو کھلے بندوں نشانہ بنایا گیا ہے اور عورتوں، بچوں، بوڑھوں اور عبادت گاہوں غرض کسی کا احترام نہیں کیا گیا ہے بلکہ جنسی تشدد کو ایک جنگی حربے کے طور پر بڑی بے شرمی سے روا رکھا گیا ہے۔ یہ اس تصادم کا سب سے تکلیف دہ پہلو ہے۔ وہ اقوام جو اپنے کو مہذب کہتی ہیں اور دوسروں کو تہذیب کا درس دینے کی دعوے دار ہیں ان کا اپنا کردار بے حد گھنائونا اور بہت ہی    شرم ناک ہے۔

آخر میں ہم یہ کہنا ضروری سمجھتے ہیں کہ آج یہ علاقہ بڑی انقلابی اور دُور رس تبدیلیوں کی آماج گاہ بنا ہوا ہے۔ علاقے کے مسلمان اور اُمت مسلمہ بھی یہاں ایک کردار ادا کرسکتی ہے۔ روس اور عالمِ اسلام کے تعلقات کے لیے بھی اس کے اہم مضمرات ہوسکتے ہیں۔ تہذیبوں کے درمیان مکالمے اور عالمی امن کے قیام کے لیے نئے عالمی نظام کی بحث اور کوشش سے بھی ان تمام امور کا گہرا تعلق ہے۔ ان تمام پہلوئوں پر اُمت کے ارباب بست و کشاد کو غور کرنا چاہیے اور اپنا کردار اداکرنا چاہیے۔ شہداء علی الحق کی حیثیت سے یہ ہماری ذمہ داری ہے، خواہ آج ہم اس سے کتنے ہی غافل کیوں نہ ہوں۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سید یوسف رضا گیلانی کی قیادت میں قائم ہونے والی مخلوط حکومت نے اپنے پہلے ۱۰۰ دن کے پروگرام کا اعلان کر کے پاکستانی سیاست میں ایک نئی مثال قائم کی تھی۔ حکومت کے پہلے ۱۰۰ دنوں کو انقلابی تبدیلیوں کا فیصلہ کن زمانہ قرار دینے کی روایت امریکا میں صدر روز ویلٹ نے ۱۹۳۳ء میں قائم کی جب ۴سال کی تباہ کن کساد بازاری کے بعد امریکی عوام نے ان کو سرمایہ دارانہ نظام کو   اس کے بدترین ابتلا سے نکالنے کا مینڈیٹ دیا اور انھوں نے جنوری ۱۹۳۳ء میں صدارت کی   ذمہ داریاں سنبھالتے ہی ۱۰۰ دن میں امریکا کی معیشت اور سیاست کا رخ بدل دینے کے عزم کا اظہار کیا۔ اس طرح وہ تاریخی عمل شروع ہوا جسے نیوڈیل  (New Deal) کے نام سے جانا جاتا ہے اور جس میں روزویلٹ کی قیادت میں معاشی اعتماد جو پارہ پارہ ہوگیا تھا، بحال ہوا۔ بنکوں نے دوبارہ کام شروع کیا۔ حکومت نے مثبت معاشی کردار ادا کیا اور قانون سازی کے ذریعے معاشی زندگی کی ازسرنو نظم بندی کرکے ملک کو تاریکیوں سے نکال کر روشن راہوں پر سرگرمِ عمل کردیا۔ ان  ۱۰۰دنوں میں روزویلٹ نے ۱۵ نئے اہم اور انقلابی قوانین منظور کرائے، کانگریس کو ۱۵ پیغام بھیجے، ۱۰ پُرعزم تقاریر کیں، ہفتہ میں دو بار کابینہ کا اجلاس کیا، ایک بین الاقوامی کانفرنس کا اہتمام کیا اور  ملکی اور عالمی سیاست کے میدانوں میں تاریخ ساز پالیسیوں کا اعلان کر کے ایک نئی روایت قائم کی۔ روزویلٹ کے اس اقدام نے جمہوری سیاست میں ’حکومت کے پہلے ۱۰۰دن‘ کے باب کا اضافہ کیا۔

پاکستان میں اس نسخے کو پہلی بار زرداری گیلانی حکومت نے استعمال کیا اور مارچ ۲۰۰۸ء میں اقتدار سنبھالتے ہی ایک خوش کن پروگرام کا اعلان کیا جس میں آمریت کے خاتمے، عدلیہ کی بحالی، پارلیمنٹ کی بالادستی، امن و امان کے قیام، معیشت کی اصلاح، کفایت کے فروغ، مزدوروں اور طلبہ کے حقوق کی بحالی، روزگار کی فراہمی، قیمتوں کے استحکام، عوامی احتساب اور مذاکرات کے ذریعے سیاسی مسائل کے حل کی نوید سنائی گئی۔ حکومت نے خود اپنی کارکردگی کی پرکھ اور سیاست اور معیشت کے نئے رخ کی جانچ کے لیے قوم اور میڈیا کو ایک معیار اور میزان فراہم کی___ ۱۰۰ دن کا اعلان کردہ پروگرام ایک آئینہ ہے جس میں حکومت کی کارکردگی کا اصل چہرہ دیکھا جاسکتا ہے اور غالباً اس بارے میں دو آرا مشکل ہیں کہ یہ تصویر تاریک، داغ دار اور مایوس کن ہے۔

اس کا اندازہ انٹرنیشنل ری پبلکن انسٹی ٹیوٹ کے زیراہتمام کیے جانے والے اس عوامی جائزے سے کیا جاسکتا ہے جو چاروں صوبوں کی ۵۰ تحصیلوں کے ۲۲۳ دیہی اور ۱۲۷شہری علاقوں سے متعلق ۳ہزار ۴سو ۸۴ خواتین و حضرات کے انٹرویوز پر مبنی ہے۔ اس کی رو سے آبادی کے     ۸۶ فی صد افراد کا فیصلہ یہ ہے کہ پاکستان میں جاری پالیسیوں کا رخ غلط ہے۔ حکومت کی کارکردگی کو ۵۱ فی صد نے مایوس کن قرار دیا ہے۔ عوامی راے کا یہ جائزہ اس حیثیت سے بہت ہی اہمیت کا حامل ہے کہ آبادی کا ۸۳ فی صد جنرل (ر) پرویز مشرف کو صدارت سے ہٹانے کے حق میں ہے اور عوامی تائید اور پسندیدگی کے اعتبار سے سب سے مقبول لیڈر نواز شریف ہیں جن کو ۸۲ فی صد لوگ پسند کرتے ہیں۔ ان کے بعد ڈاکٹر عبدالقدیر خان آتے ہیں جن کو ۷۶فی صد کرسی صدارت پر دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان کے بعد مقبول ترین شخصیت چیف جسٹس افتخار چودھری کی ہے جنھیں ۶۵ فی صد کی تائید حاصل ہے۔ زرداری صاحب کو جو اس وقت سیاہ و سفید کے مالک بنے ہوئے ہیں ۴۵فی صد کی، جب کہ یوسف رضا گیلانی کو ۶۴ فی صد اور امین فہیم کو ۴۹ فی صد (زرداری صاحب سے ۴درجے زیادہ) کی تائید حاصل ہے۔

اس جائزے کی رو سے سب سے زیادہ ناپسندیدہ شخصیت پرویز مشرف کی ہے۔ عوامی سوچ کا اندازہ اس سے بھی کیا جاسکتا ہے کہ ۱۰۰ میں سے ۸۹ افراد نے ملک کے سب سے اہم مسئلے کے طور پر معاشی مسائل کو پیش کیا ہے (۷۱ فی صد افراطِ زر اور مہنگائی، ۱۳ فی صد بے روزگاری اور ۵ فی صد غربت) اور ان کے ۷۲ فی صد کا کہنا ہے کہ ان کی معاشی حالت گذشتہ ۴ مہینوں میں خراب ہوئی ہے۔ ۷۱ فی صد کی راے میں دہشت گردی اور انتہاپسندی کا حل صرف سیاسی ہے اور ۶۵ فی صد نے دہشت گردوں سے امن معاہدے کی تائید کی ہے۔ دہشت گردی کو اہم ترین مسئلہ قرار دینے والوں کی تعداد صرف ۱۲ فی صد ہے، جب کہ خودکش حملوں سے خطرہ محسوس کرنے والے افراد صرف    ۲فی صد ہیں۔ رہا القاعدہ سے خطرہ محسوس کرنے کا سوال، تو ان کی تعداد ایک فی صد سے بھی کم ہے۔ (ملاحظہ ہو، روزنامہ ڈان، ۱۸ جولائی ۲۰۰۸ء اور بی بی سی اُردو ڈاٹ کام، ۱۷ جولائی ۲۰۰۸ئ)

یہ جائزہ ہی نہیں، خود وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کا ۱۹ جولائی کا بے جان خطاب، جو قوم سے ان کا پہلا بلاواسطہ خطاب بھی تھا، ۱۰۰ دن کی مایوس کن کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

زرداری گیلانی حکومت کا بے لاگ اور معروضی جائزہ اس حقیقت کے اعادہ کے بغیر منصفانہ قرار نہیں دیا جاسکتا کہ اس حکومت کو مارچ ۲۰۰۸ء میں مشرف دور کی آٹھ سالہ غلط اور تباہ کن معاشی، سیاسی، انتظامی اور خارجہ پالیسی کے نتائج سے سابقہ تھا اور اس کے ساتھ عالمی معاشی اور سیاسی حالات بھی بڑے ناموافق تھے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ سارے حالات ۲۰۰۷ء میں کھل کر سامنے آگئے تھے اور پیپلزپارٹی نے اپنے منشور میں 5-E۱؎ کا جو پروگرام پیش کیا تھا وہ ان حالات کے پیش نظر ہی پیش کیا گیا تھا۔ پھر کسی مطالبے کے بغیر پہل کاری کرتے ہوئے ۱۰۰ دن کا جو پروگرام اس نے پیش کیا، وہ نہ کسی مجبوری کی وجہ سے تھا اور نہ آنکھیں بندکرکے مرتب کیا گیا تھا۔ توقع یہی کی جاتی ہے کہ ۱۰۰ دن کا پروگرام سوچ سمجھ کر پیش کیا گیا تھا لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس کا ۵ فی صد بھی ان چار مہینوں میں حاصل نہیں کیا جاسکا۔ یہ حکومت کی موجودہ ٹیم کی نااہلی اور اس پورے دروبست کی ناکامی کا ثبوت ہے جو آصف علی زرداری نے محترمہ بے نظیرکی شہادت کے بعد پیپلزپارٹی کو اپنی گرفت میں لے کر اپنی پسند کی ایک ٹیم کے ذریعے قوم کو دیا تھا۔ یہ ناکامی دراصل زرداری صاحب اور ان کی ٹیم کی ناکامی ہے اور ان پالیسیوں کی ناکامی ہے جو عملاً انھوں نے اختیار کیں اور ۱۰۰ دنوں کے اعلان کردہ پروگرام کو پسِ پشت ڈال کر ملک اور خود اپنی پارٹی پر مسلط کیں۔ یہی وجہ ہے کہ خود پیپلزپارٹی کے ایک رکن جناب امین فہیم اور محترمہ بے نظیر کی ٹیم کے اہم افراد اس ناکامی کا کھلے بندوں اعتراف کر رہے ہیں اور زرداری صاحب اور ان کی پالیسیوں اور ان کے مقرر کردہ افراد کو ان حالات کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں۔ امین فہیم صاحب کے ارشادات نوٹ کرنے کے لائق ہیں جن کی مزید تفصیل دی نیوزانٹرنیشنل کی ۱۶جولائی ۲۰۰۸ء کی اشاعت میں دیکھی جاسکتی ہے:

پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمنٹرین کے صدر نے دی نیوز کو بتایا: میں تمام ممکنہ نتائج بشمول زرداری کے زیراثر قیادت کی جانب سے شوکاز نوٹس کا سامنا کرنے کے لیے مکمل طور پر تیار ہوں۔ انھوں نے کہا: پارٹی کے موجودہ رہنمائوں نے پارٹی کو حبس بے جا میں رکھا ہوا ہے اور ملک کی صورت حال خراب ہوتی جارہی ہے۔ امین فہیم یہ کہتے ہوئے کہ پارٹی کو چند نئے آنے والوں اور مفادات پرستوں نے یرغمال بنایا ہوا ہے، آبدیدہ ہوگئے۔

امن و امان کی صورت حال بگڑ رہی ہے، لوگ اپنے بچوں کے ساتھ خودکشیاں کررہے ہیں، سرحدیں غیرمحفوظ ہیں، قیمتیں بے تحاشا بڑھ رہی ہیں اور ملک میں دہشت گردی کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔ امین فہیم نے تفصیل سے بتایا کہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی زیرقیادت حکومت اس قابلِ افسوس صورت حال کی پوری طرح ذمہ دار ہے۔ حکومت نے ۱۰۰ دن گزرنے کے باوجود ان دائروں میں بہتری کے لیے کچھ    نہ کیا۔ پی پی پی پی کے صدر نے ایک سوال کے جواب میں اس سے اتفاق کیا کہ پارٹی کی مقبولیت کا گراف مسلسل گر رہا ہے اور یہ حالت اگر جاری رہی تو ہر کوئی اندازہ لگاسکتا ہے کہ کیا ہونے والا ہے؟

خودکشیاں، قیمتوں میں اضافہ اور امن و امان کی صورت حال حکومت کے قابو سے بالکل باہر ہے۔ سینیر ممبر ہونے کی حیثیت سے میرایہ اولین فرض ہے کہ پارٹی کے معاملات اوراس کے ساتھ ساتھ حکومت کے معاملات میں خامیوں، کوتاہیوں اور غلطیوں کی نشان دہی کروں۔ اگر پارٹی کی قیادت اس کو پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی سمجھتی ہے، تب بھی میں اپنے موقف پر قائم رہوں گا۔

محترم امین فہیم صاحب کا دوسرا بیان تصویر کے کچھ اور رُخ نمایاں کرتا ہے۔ یہ بھی امین فہیم صاحب ہی کے الفاظ میں نوٹ کرنے کے لائق ہے:

پی پی پی کے سینیر نائب صدر مخدوم امین فہیم نے کہا ہے کہ پیپلزپارٹی اب بھی بیک ڈور چینل کے ذریعے صدر پرویزمشرف سے رابطے میں ہے اور قوم پیپلزپارٹی کی زیرقیادت حکومت کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہے۔ ۱۰۰ دنوں میں کچھ بھی نہیں کیا گیا۔ صرف افراطِ زر کو بڑھایا گیا ہے۔ امن و امان کی صورت حال خراب ہے اور اغوا براے تاوان اپنے عروج پر ہیں۔ (دی نیوز انٹرنیشنل، ۲۰ جولائی ۲۰۰۸ئ)

صاف نظر آرہا ہے کہ ۱۸ فروری ۲۰۰۸ء کے عوامی مینڈیٹ کو زرداری حکومت نے سوچ سمجھ کر نظرانداز کیا ہے اور عوام نے جس تبدیلی (change) کے لیے قربانیاں دی تھیں اور سیاسی جماعتوں اور نمایندوں کو مینڈیٹ دیا تھا، اس کو پسِ پشت ڈال کر مشرف کے دور کی پالیسیوں کے تسلسل کا راستہ اختیار کیا گیا۔ یہ ہے وہ اصل وجہ جس کے نتیجے میں آج تک نہ ملک کا رخ درست ہوسکا ہے، نہ جمہوریت کی طرف پیش قدمی ہوئی ہے، نہ عدلیہ بحال ہوئی ہے، نہ امن و امان میں بہتری کی کیفیت رونما ہوئی ہے، نہ معیشت میں کوئی مثبت پیش رفت ہوئی ہے، نہ عوام کی زندگی میں بہتری کی کوئی صورت پیدا ہوئی ہے، نہ امریکا کی نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ کی آگ سے پاکستانی عوام اور پاکستانی فوج اپنا دامن بچا سکے ہیں، نہ اپنی آزادی اور عزت کو درپیش خطرات سے بچائو کی سرِمو بھی کوئی راہ اختیار کرسکے ہیں۔ اس لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ پوری دیانت داری، لیکن جرأت اور بے باکی سے، اس امر کا تعین کیا جائے کہ کہاں غلطی ہوئی ہے،   عوام کے اعتماد کو کس نے اور کس طرح ضرب لگائی ہے اور چند مہینے میں نئی قیادت نے کس تیزی سے قوم کو مایوس کیا ہے اور مسائل کو مزید الجھا دیا ہے۔ اس نشان دہی کی بھی ضرورت ہے کہ اب بھی اس دلدل سے کیسے نکلا جاسکتا ہے اور قوم کو کسی نئے طالع آزما یا پرانے شاطروں کے گھنائونے کھیل سے کس طرح بچایا جاسکتاہے۔


۲۵ مارچ ۲۰۰۸ء کو قومی اسمبلی نے قائد ایوان کا متفقہ انتخاب کر کے جمہوریت، دستور اور قانون کی حکمرانی کے احیا کی طرف صحیح قدم اٹھایا تھا۔ فروری کے انتخابات کا یہ پیغام بھی سب کے سامنے تھا کہ اب قوم کو فوری طور پر آمریت اور اس کے دست و بازو سے نجات حاصل کرنا ہے اور جمہوریت کا سفر باہمی مشاورت، تعاون اور قومی یک جہتی پیدا کرکے جاری رکھنا ہے۔ قوم نے کسی ایک پارٹی کو مکمل اکثریت نہیں دی تھی جس کا تقاضا تھا کہ کم از کم دونوں بڑی پارٹیاں یعنی پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) مل جل کر سارے معاملات کو طے کریں اور باقی ان تمام جماعتوں کو بھی اعتماد میں لیں جو مشرف کے آمرانہ دور میں اس کی شریک کار نہ تھیں۔ ۱۸فروری کے انتخابی نتائج سے رونما ہونے والی سیاسی صورت حال کی تشکیل میں جہاں ان جماعتوں اور سیاسی کارکنوں کا کردار تھا جن کو عوام نے اپنے اعتماد کا ووٹ دیا، وہیں ان قوتوں کا بھی بڑا اہم کردار تھا جنھوں نے انتخاب کا بائیکاٹ کیا اور سیاسی فضا کو بنیادی تبدیلی کے لیے تیار کیا۔ ان میں اے پی ڈی ایم کی تمام جماعتوں کے ساتھ وکلا برادری کی جان دار تحریک، برطرف ججوں کی جرأت اور استقامت، طلبہ اور سول سوسائٹی کی انقلابی جدوجہد ہر ایک کا حصہ تھا۔ ضرورت تھی کہ پارلیمنٹ میں اور پارلیمنٹ سے باہر تمام اہم سیاسی قوتوں کو ساتھ لے کر آگے کے مراحل کو طے کیا جاتا۔ لیکن زرداری صاحب نے بظاہر تو دوسروں کو ساتھ لے کر چلنے کی حکمت عملی اختیارکی مگر فی الحقیقت یہ حکمت عملی اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے قومی مفاہمتی آرڈی ننس (NRO)  کی چھتری تلے پناہ لینے والوں کے نیوکلیس کو مضبوط و مستحکم کرنے اور باقی سب کو اس نیوکلیس کے لیے سہارا اور مددگار بنانے پر مبنی تھی۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی مخلوط حکومت بنانے کا ڈھونگ رچایا گیا مگر ساتھ ہی اے این پی اور جمعیت علماے اسلام (ف) ہی کو نہیں بلکہ ایم کیو ایم کو بھی ساتھ ملانے اور ان کوتوازن اقتدار (balancing power) کی پوزیشن میں لانے کا کھیل کھیلا گیا۔ پہلے دن ہی ججوں کی حراست کو ختم کیا گیا مگر اس کے دوسرے اور اہم تر منطقی اقدام یعنی ججوں کی بحالی کو جان بوجھ کر بلکہ بار بار دھوکا دے کر مؤخر اور معلق کیا گیا اور جو کام پہلے ہفتے میں ہوجانا چاہیے تھا اور جس کے نتیجے میں نظامِ عدل بحال ہوجاتا آج تک نہیں کیا گیا اور اس پر طرّہ یہ کہ ایک دستوری پیکج کے نام پر نہ صرف ججوں کی بحالی کو لاینحل الجھائو کا شکار کردیا گیا بلکہ عدالت کی آزادی اور اختیارات پر بھی شب خون مارا گیا تاکہ ہمیشہ کے لیے دستوری نظام کایہ ستون ریت کی دیوار بن جائے۔

حقیقت یہ ہے کہ آمریت کے وار سے برطرف ججوں کی بحالی اور جنرل پرویز مشرف کی صدارت سے نجات پرچہ امتحان (test case)  کی حیثیت رکھتے تھے لیکن اب یہ بات الم نشرح ہوچکی ہے کہ زرداری صاحب کا پہلے دن سے ان دونوں امور کے بارے میں مقصد اس سے بالکل مختلف تھا جس کا وہ بظاہر اعلان کر رہے تھے اور دوسری سیاسی جماعتوں کو یقین دلا رہے تھے۔ جیساکہ اب ملک اور ملک سے باہر کے بالغ نظر اور آزاد تجزیہ نگار کھل کر لکھ رہے ہیں، زرداری صاحب کی  پرویز مشرف سے این آر او کی بنیاد پر مضبوط باہمی اتفاق ہے۔ این آر او کے تحت احتساب اور قانون کی گرفت سے نکلنے والے ایک ایک شخص کو انھوں نے اپنی ٹیم کا حصہ بنایا ہے اور ججوں کی بحالی اور عدلیہ کی آزادی کو وہ این آر او اور اس کی چھتری میں پناہ لینے والے تمام افراد  کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔ ۳۰دن کا بھوربن کے اعلان کو بعد میں ایک سیاسی بیان کہہ کر غیراہم  قرار دیا لیکن اس طرح انھوں نے خود اپنی زبان سے اپنی زبان کے غیرمعتبر ہونے کا اعلان کردیا۔ پھر ۱۲مئی کا وعدہ کیا گیالیکن وہ بھی وفا نہ ہوا اور مسلم لیگ (ن) وزارتوں سے مستعفی ہونے پر مجبور ہوئی۔ ۲۵مارچ سے وزیراعظم گیلانی اور جناب زرداری جس ’خوش خبری‘ کا اعلان کر رہے ہیں   وہ خوش فہمی ہی نہیں، دھوکا دہی کی حدوں سے بھی آگے جاچکی ہے، اور جیساکہ جسٹس (ر) خلیل الرحمن رمدے نے مجبور ہوکر کہہ ہی دیا ہے وہ حقیقت اب سب کے سامنے ہے۔ جسٹس رمدے کا جیو ٹی وی پر انٹرویو شائع ہوا ہے جس کا یہ حصہ اصل حقیقت کو بے نقاب کرتا ہے:

معزول جج خلیل الرحمن رمدے کو پرویز مشرف کے مقابلے میں جمہوری منتخب حکومت عدلیہ کی زیادہ مخالف نظر آتی ہے۔ رمدے نے کہا کہ آرمی چیف اور صدر پرویز مشرف مارشل لا لگانے اور کوئی ۶۰ججوں کو برطرف کرنے کے لیے صرف اس لیے مجبور ہوا کہ اپنی صدارت کو جاری رکھ سکے لیکن آج کی جمہوری طور پر منتخب حکومت اس سے آگے جاچکی ہے۔ یہ عدلیہ کے دستوری اختیارات کو کم کردینا چاہتی ہے۔ (دی نیوز انٹرنیشنل، ۲۱ جولائی ۲۰۰۸ئ)

مشہور ماہر قانون ڈاکٹر فاروق حسن اپنے مضامین میں این آر او کے اس طلسماتی کردار  کا مضبوط دلائل کے ساتھ ذکر کر رہے ہیں۔ ۲۹جون ۲۰۰۸ء کے دی نیشن میں وہ   NRO: Musharruf's Proxy Warکے عنوان سے لکھتے ہوئے بجاطور پر کہتے ہیں کہ مشرف کرسیِ صدارت پر براجمان ہے تو اس کی وجہ این آر او ہے جو مشرف نے اس لیے جاری کیا کہ پیپلزپارٹی کی سیاسی طاقت کو قابو کرسکے۔

ڈاکٹر فاروق حسن کا تجزیہ بالکل واضح ہے:

یہ صرف این آر او کی وجہ سے ہے کہ تمام سیاسی محاذوں پر بھاری ناکامی کا سامنا کرنے کے باوجود مشرف اس طرح برسرِاقتدار رہنے میں کامیاب ہو سکا ہے۔ حقائق پوری طرح ثابت کرتے ہیں کہ یہ اس لیے ممکن ہوا ہے کہ این آر او سے فائدہ اٹھانے والے وفاقی حکومت کے بہت سے طاقت ور افراد مشرف کی سیاسی جنگ لڑ رہے ہیں۔ اس لیے پاکستانی عوام یہ سوال پوچھنے کا حق رکھتے ہیں:

۱- اس آرڈی ننس سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والے کون ہیں؟

۲- ان میں سے کتنے موجودہ حکومت میں ہیں؟

۳- ان رقومات کی مقدار کتنی ہے جو وہ اجتماعی اور انفرادی طور پر حکومت کی گرفت سے بچانے میں کامیاب ہوگئے ہیں؟

ڈاکٹر فاروق حسن کی سوچی سمجھی راے یہ ہے کہ ججوں کی بحالی میں اصل رکاوٹ این آر او ہے جس کی حفاظت کے لیے زرداری صاحب ایڑی چوٹی کا زور لگائے ہوئے ہیں۔ وہ اپنے مضمون میں جس کا عنوان ہی NRO Prevents Judges Restoration (این آر او نے ججوں کی بحالی روک دی) ہے۔ لکھتے ہیں:

میں حیرت زدہ ہوں اور بے حد افسردہ بھی، کہ پاکستان کے سیاسی اور سماجی ماحول میں شر کی قوتیں بظاہر مضبوطی سے قائم ہیں۔ اس واضح نوشتۂ دیوار کے باوجود کہ ججوں کی بحالی کے مسئلے کو حل کیے بغیر پیپلزپارٹی اور زرداری کے لیے شرمناک ناکامی مقدر ہے۔ یہ معمولی بات نہیں ہے۔ حقیقتِ واقعہ یہ ہے کہ مشرف نے زرداری اور بی بی کے بارے میں اتنا کچھ کہنے کے بعد اچانک ان کو آنے کی اجازت دے دی، اس کے باوجود کہ امریکی اور برطانوی خارجہ عہدے داران نے اس ڈیل میں مداخلت کی، مشرف کے لیے ’اِس ہاتھ دے، اُس ہاتھ لے‘ والا معاملہ تھا جو اس وقت ہو رہا ہے۔ بدعنوانی کے کروڑوں ڈالر انھی کے پاس رہنے دیے گئے اور طویل المیعاد قیدوبند کے فیصلوں کے اندیشے ختم کردیے گئے۔ اسی طرح اس نے ان کو لفظ کے لغوی معنوں کے مطابق معلق کردیا ہے۔ ایسے رہنمائوں کی بقا کا بنیادی پاسپورٹ بدنامِ زمانہ این آر او ہے۔ صدر نے یہ کیا کہ اس این آر او کو دستور کے شیڈول میں انھی غیرقانونی ’قوانین‘ کے ساتھ رکھ دیا جو ۳نومبر کے غصب کے ساتھ نافذ کیے گئے تھے۔ اگر جج اسمبلی ریزولیوشن کے ذریعے  اس بنیاد پر واپس آتے ہیں کہ مشرف نے ایک غیرقانونی کام کیا تھا تو این آر او کا تحفظ بھی ختم ہوجاتا ہے۔ اس لیے پیپلزپارٹی کی قیادت کا پریشان ہونا چاہیے۔ مسئلہ یہ ہے کہ وہ محض ججوں کی خاطر ملک کے اعلیٰ ترین مناصب سے اپنے اخراج کی منظوری کیسے دیں، جو اگر بحال ہوگئے تو این آر او کو ختم کردیں گے۔ روز کا مشاہدہ ہے کہ ہر روز سنگین کرپشن مقدمات سے بری ہونے کی درخواستیں انھی قائدین کی جانب سے آرہی ہیں جو اکتوبر تک امریکا یا برطانیہ میں عیش و آرام سے رہ رہے تھے۔ اگر این آر او ناکام ہوتا ہے تو ممکنہ طور پر انھیں سختی کا سامنا کرنا پڑے گا اور پیسہ واپس کرنا ہوگا۔ (دی نیشن، ۲۸ مئی ۲۰۰۸ئ)

ایک اور ماہر قانون دان بیرسٹر سیداقبال احمد ڈان میں NRO and Politics of Plunder کے عنوان سے ۱۹جولائی ۲۰۰۸ء کی اشاعت میں لکھتے ہیں کہ این آر او انصاف اور راست معاملہ کاری کی ضد ہے۔ (The NRO, as it stands, is a traversty of justice and fair play.)

بیرسٹر اقبال احمد جس نتیجے پر پہنچے ہیں، وہ بہت واضح اور محکم ہے:

بغیر کہے سب کو معلوم ہے کہ ریاست کے اعلیٰ عہدے دار اور سٹیک ہولڈرز پاکستان میں ایک آزاد عدلیہ نہیں چاہتے۔ جنرل (ر) پرویز مشرف بلاشبہہ نہیں چاہیں گے کہ چیف جسٹس افتخارمحمد چودھری اور معطل کیے ہوئے ان کے ساتھی جج ایک دفعہ پھر واپس آئیں اور ایک بار پھر ان کی قسمت کا فیصلہ کریں۔

کہا جاسکتا ہے کہ موجودہ قیادت کے ہاتھ پائوں جنھوں نے این آر او کے ثمرات سمیٹے ہیں جنرل (ر) مشرف نے مضبوط دھاگوں سے باندھ دیے ہیں اور وہ انگلیاں تک نہیں اُٹھا سکتے، گو کہ ان کے منہ عوام کے سامنے لفّاظی کے لیے کھلے ہوتے ہیں۔ حزبِ اختلاف کے ایک لیڈر نے بہت صحیح کہا کہ مشرف اور زرداری ایک ہی سکّے کے دو رُخ ہیں اور درحقیقت ایک ہی سانچے میں ڈھلے ہیں۔

صدرمشرف کے خطرات اور اندیشے جن کی صدارت خطرے میں ہے، پیپلزپارٹی کے حکمران جن کے اربوں ڈالر جاسکتے ہیں، اور پی سی او عدلیہ کے سربراہ جسٹس اے ایچ ڈوگر جن کے اختیارات اور مقام غیریقینی ہیں، سب ایک دوسرے سے وابستہ ہیں اور ان میں سے کوئی بھی اپنے ذاتی مفادات کے تحت یہ برداشت نہیں کرسکتا کہ      افتخار چودھری اور ان کے ساتھی سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ میں ۳نومبر کی پوزیشن پر بحال ہوجائیں۔ وہ سب کسی نہ کسی طرح خطرے کی بالکل زد میں ہیں۔ اس صورت حال میں پرویز مشرف اپنی صدارت اور پی پی پی کے لیڈر اپنے اربوں روپے چھوڑنے کو پسند نہیں کریں گے اور ایم کیو ایم کے کارکن انصاف کی خاطر عدالتوں کا سامنا کرنا پسند نہیں کریں گے۔

جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے۔ یہ ۱۰۰ دن سب پردے اٹھانے اور طلسم ہوا کرنے کا باعث ہوئے ہیں۔ صاف نظر آرہا ہے کہ مشرف اور زرداری ایک ہی کھیل کھیل رہے ہیں۔

فصیح ذکا جو رہوڈز اسکالر ہیں، دی نیوز میں اپنے مضمون میں لکھتے ہیں:

۱۰۰ دن پورے ہوچکے ہیں، وعدے وفا نہیں ہوئے بلکہ یہ احساس پرورش پارہا ہے کہ ملک کو جو بحران درپیش ہے وہ ایک ایسا نظام تشکیل دے رہا ہے جہاں ہیئت مقتدرہ کا اسٹیٹس کو جیت رہا ہے۔ یہ مشرف کو جری کردیتا ہے اور زرداری کے پہیوں کو گریس لگاکر مزید تیز کردیتا ہے اور دونوں میں ایک غیرمقدس اور ناپاک اتحاد قائم ہوتا ہے جو نظر آتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ تکمیل پذیر ہوگا۔ (دی نیوز انٹرنیشنل، ۱۶ جولائی ۲۰۰۸ئ)

دی نیوز کے کالم نگار ایم بی نقوی ۱۰۰ دنوں کا حاصل یوں بیان کرتے ہیں:

اپنے پہلے ۱۰۰ دنوں میں گیلانی حکومت نے شکاری کتوں کے ساتھ شکار کھیلنے اور خرگوش کے ساتھ بھاگنے کی سی کوشش کی ہے۔ اقتصادی اور سیاسی بحران جنھوں نے ملک کو گھیر رکھا ہے اس پر اس کی کوئی واضح پالیسی نہیں ہے۔ کسی بھی بحران کا سامنا ہو، ایک حکومت کو متنازع ایشوز کا سامنا ہے۔ کیا چیز حکومت کو ایک سخت موقف اختیار کرنے سے روک رہی ہے؟ پیپلزپارٹی کو تسلیم کر لینا چاہیے کہ مشرف بیش تر مسائل کی جڑ ہے۔ جب تک وہ باقی رہتا ہے ملک کی سیاسی زندگی بحران کا شکار رہے گی۔

اس دوران پیپلزپارٹی کو اسلامی انتہاپسندوں کی دھمکیوں کے بارے میں امریکی امداد اور مشورے کے بغیر ایک آزاد موقف خود اپنے طور پر اختیار کرنے کے لیے امریکیوں کو ’نہیں‘ کہنے کا حوصلہ ہونا چاہیے۔ ایک آزاد خارجہ پالیسی ایسے مضبوط عزم کا تقاضا کرتی ہے کہ پاکستان اپنے موجودہ بحرانوں بالخصوص معاشی بحران سے نکل آئے اور عوام میں تحرک ہو۔

امریکا اب بھی اصرار کرر ہا ہے کہ مشرف کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی رہنمائی کرنے کے لیے سپریم (بالادست) کے طور پر رکھا جائے۔ اسے ملک میں کچھ سیاسی حمایت حاصل ہے۔ وہ کچھ ایسے لوگوں کو جمع کرسکتا ہے جو پیپلزپارٹی کے ساتھ ایک نئی حکومت کو سہارا دے سکتے ہیں۔

پی پی پی نے اپنی بیمہ پالیسی کے طور پر امریکیوں سے اپنے تعلقات برقرار رکھنے کی خاطر مشرف کو اس کی جگہ پر رکھنے کا وعدہ کر رکھا ہے۔(دی نیوز انٹرنیشنل، ۹جولائی ۲۰۰۸ئ)

ہم نے صرف چند اہم تجزیہ نگاروں کی آرا یہاں پیش کی ہیں ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اب آزاد اہلِ قلم کی بڑی تعداد یہ کہنے پر مجبور ہے کہ زرداری گیلانی حکومت کی پہلے ۱۰۰دن نہایت  مایوس کن ہیں۔ اصل وجوہات کا تجزیہ کیا جائے تو تصویر کے خدوخال کچھ اس طرح کے دکھائی دیتے ہیں:

۱-            بظاہر مرکز اور صوبوں میں مخلوط حکومتیں ہیں لیکن فی الحقیقت مرکز میں اصل حکومت صرف پیپلزپارٹی کی ہے اور اس میں بھی آصف علی زرداری اور ان کے من پسند افراد ہیں جن میں ایک خاص تعداد ان لوگوں کی ہے جو این آر او کے سہارے اقتدار کے دروازوں پر ایک بار پھر پہنچ گئے ہیں۔ ان میں سیاسی شخصیات کے علاوہ وہ سرکاری ملازم بھی ہیں جو قانون کو مطلوب تھے،    راہِ فرار اختیار کیے ہوئے تھے اور اب اس چھتری تلے دوبارہ اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) ججوں کی بحالی کے مسئلے پر عہدشکنی کے سبب وزارتوں سے الگ ہوچکی ہے۔ اے این پی اور جمعیت علماے اسلام (ف) بار بار گلہ کر رہے ہیں کہ ان سے کوئی مشورہ نہیں ہوتا اور جناب آصف زرداری اور ان کے معتمد افراد ہر فیصلہ خود کر رہے ہیں بلکہ مشیرداخلہ رحمن ملک صاحب تو وزیراعظم کا پروٹوکول ہی نہیں رکھتے، وزیراعظم کے علم کے بغیر ہی پالیسیاں تبدیل کرڈالتے ہیں جس کی نمایاں ترین مثال ضمنی انتخابات کا التوا ہے۔ ایسے اقدام استثنائی حیثیت نہیں رکھتے بلکہ ان کا طریق واردات قراردیے جاتے ہیں۔ مخلوط حکومت ایک تہمت ہے، اصل حکومت پی پی پی اور زرداری صاحب کی ہے اور باقی سب اپنے اپنے مصالح کی خاطر بطور ضمیمہ شامل ہیں۔ اصل یگانگت اور ہم آہنگی پی پی پی کے زرداری دھڑے، مشرف اور ایم کیو ایم میں ہے اوررحمن ملک صاحب  اس تثلیث کے محافظ اور سہولت کار(facilitator) کا کردار ادا کر رہے ہیں۔

۲-            ان ۱۰۰ دنوں میں حکومت کا اپنا کوئی آزاداور منفرد رُخ سامنے نہیں آیا۔ جیساکہ   ہم نے عرض کیا سارے زبانی جمع خرچ کے باوجود اصل حقیقت ماضی کی پالیسیوں کا تسلسل ہے۔ خارجہ پالیسی، امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہمارا کردار، معاشی پالیسیاں، دستور اور قانون کے تقاضوں سے بے اعتنائی، سیاسی مسائل کے حل کے لیے قوت کا بے دریغ استعمال اور اس کے لیے باقاعدہ فوج کو اختیارات کی تفویض، جب کہ مذاکرات کے حق میں زبانی جمع خرچ (lip service) اس حکومت کا وطیرہ رہا ہے۔ ملک پر امریکا کی گرفت پہلے سے بھی زیادہ مضبوط ہوگئی ہے اور جو یلغار امریکی سول اور فوجی حکام کی اس زمانے میں ہوئی ہے اور اس کے ساتھ جس رعونت اور بے دردی سے پاکستان کی سرحدوں کی خلاف ورزیاں اور پاکستان کی زمین پر پاکستانیوں کی ہلاکت کا سامان امریکا نے کیا ہے، اس نے ماضی کے سارے ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ اس پر مستزاد امریکا کے سلسلے میں سخت معذرت خواہانہ رویہ ہے جس کی بدترین مثال وزیرخارجہ کی کونڈولیزارائس سے ملاقات ہے جس میں امریکی وزیرخارجہ نے ہمارے وزیرخارجہ کو اچھی خاصی جھاڑ پلائی، سرحدی خلاف ورزیوں اور اپنی مرضی سے فوج کاری کی دھمکیاں دیں اور ہمارے وزیرخارجہ نے پریس کو بیان دیتے ہوئے امریکا کی ایسی فوجی دخل اندازیوں کو غیردوستانہ اقدامات (un friendly acts) تک کہنے سے گریز فرمایا۔۲؎ گویا   ع

حمیت نام ہے جس کا، گئی تیمور کے گھر سے!

امریکی صدر، صدارتی امیدوار، سینیٹ اور ایوانِ نمایندگان کے ارکان کے ارشادات اور امریکی انتظامیہ اور فوجی قیادتوں کے بیانات اور انتباہات پر اگر ایک نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں جو بھی دہشت گردی برپا ہے سب کا منبع اور مرجع پاکستان ہے۔ اس فضاسازی کا مقصد مشرف کو پاکستان پر مسلط رکھنا، اور سول عناصر پر مبنی حکومت کی ایسی گوشمالی کرنا ہے کہ وہ امریکی دبائو کے آگے چوں بھی نہ کرے۔ امریکی نوازشیں دو طرح کی ہیں: ان ۴ مہینوں میں ۲۰ سے زیادہ بار ہماری سرحدوں کی خلاف ورزیاں کی گئیں، پاکستانی فوجی چوکی تک کو نشانہ بنایا گیا، اور سیکڑوں عام شہریوں اور ۱۳ فوجی افسروں اور جوانوں کو بے دردی سے ہلاک کیا گیا ہے۔ اس خون آشامی کے ساتھ سیاسی دبائو اور بازو مروڑنا (arm twisting)  بھی روزافزوں ہے، تاکہ سول حکومت کوئی آزاد راستہ اختیارنہ کرسکے۔ اس کے ساتھ فوجی اور معاشی امداد کی رشوت کا ذکر بھی ہوتا ہے اور  اس طرح لاٹھی (stick)اور گاجر  (carrot) دونوں کا بے دردی سے استعمال جاری ہے___اور ہماری حکومت ہے کہ ہر ضرب اور ہر ہلاکت کے بعد ایک ہی رٹا ہوا جملہ دہراتی رہتی ہے کہ ’’ملک کی حاکمیت اور آزادی کے خلاف کسی دست درازی کی اجازت نہیں دی جائے گی‘‘۔ گویا امریکا    یہ سب کچھ آپ سے اجازت لے کر رہا ہے یا کرنا چاہتا ہے۔ امریکہ صرف ایک زبان سمجھتا ہے اور وہ وہی زبان ہے جس کا استعمال طالبان اور افغان غیرت مندوں نے وہاں کے صوبے پکتیا میں وانات (Wanat) کے مقام پر کیا۔ امریکا اس چوکی کو چند دن بھی اپنے قبضے میں نہ رکھ سکا     اور جب ۹ امریکی فوجی ہلاک اور ۱۵ زخمی ہوئے تو تین دن کے اندر امریکی افواج اس چوکی کو   خالی کرگئیں اور اس پر طالبان نے دوبارہ قبضہ کرلیا جسے انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون نے    The withdrawal handed a propaganda victory to the Taliban (واپسی نے طالبان کو ایسی فتح دی جس کا خوب پروپیگنڈہ ہو) قرار دیا۔ (۱۶ جولائی ۲۰۰۸ئ)

گذشتہ ۳ مہینے میں امریکا نے پاکستان کا کس طرح سفارتی گھیرائو کیا ہے اس کا اندازہ  اس سے کیجیے۔

۱۸ فروری کے انتخابات کے بعد اعلیٰ امریکی سفارت کاروں اورفوجی کمانڈروں نے اسلام آباد کے دوروں اور نیچے کی سیاسی سطح تک ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کردیا جس کا مقصداین آر او  کے  پس منظرمیں نئی سیاسی قیادت کا جو نقشہ بنایا گیا تھا اسے عملی شکل دینا تھا۔ ان ۴ مہینوں میں اعلیٰ اختیاراتی ۱۴ مشن پاکستان آئے ہیں اور امریکی سفیرہ صاحبہ کی سفارتی یلغار اس پر مستزاد ہے۔ اس سفارتی یلغار کے تین مقاصد تھے: پہلا یہ کہ امریکا کے مفیدمطلب حکومت تشکیل پائے اور صدرمشرف اور ایم کیو ایم اس کا مرکزی حصہ ہوں۔ دوسرے، امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان جو خدمات پرویز مشرف کے بلاشرکت غیرے دور میں انجام دے رہا تھا، ان کو جاری رکھا جائے اور مسئلے کا سیاسی حل نکالنے کی حکمت عملی کی راہ میں روڑے اٹکائے جائیں۔

۳- تیسرا مقصد انتہاپسندی کے خلاف جنگ کے نام پر ملک کی اسلامی قوتوں کو غیر مؤثر بنانا، مدرسوں کے نظام کو قابو میں کرنا، ملک میں سیکولر تعلیم کا فروغ اور سیکولر قوتوں کو تقویت دینا ہے۔ بھارت سے پاکستان کو قریب کرکے، کشمیر کے مسئلے کو دائمی تعویق میں ڈالنے اور تجارت اور ثقافت کے رشتوں کو استوار کرکے پاکستان کی منڈیوں کو بھارتی مصنوعات کے لیے کھولنے اور پاکستانی معاشرے کو بھارتی ثقافت کی آماج گاہ بنانے کی خدمت ہوشیاری سے انجام دی جائے۔ عدلیہ کی بحالی، گمشدہ افراد کی بازیابی اور حقیقی معاشی خودانحصاری کے ایجنڈے کو پس پشت رکھا جائے اور امریکی ایجنڈے کے حصول کے لیے ’ڈنڈے اور گاجر‘ (stick and carrot)کا ہر حربہ استعمال کیا جائے۔ امریکا نے سفارت کاروں کے ساتھ ساتھ ہرقسم کے دبائو اور دھمکیوں کا راستہ بھی اختیار کیا ہے اور زرداری گیلانی حکومت امریکی دبائو کے جواب میں صرف پسپائی کا راستہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ یہ قیادت امریکا کی فوجی کارروائیوں کا خاطرخواہ جواب دینے کی جرأت سے یکسر  محروم ہے اور اطلاع ہے کہ زرداری صاحب نے نوازشریف سے کہا ہے کہ دونوں مل کر صدربش کی خدمت میں حاضری دیں اور ملک کے مسائل کے حل کے لیے ان کی آشیرباد حاصل کریں۔    ذہنی غلامی اور سیاسی محکومی کی اس سے زیادہ پست سطح اور کیا ہوسکتی ہے؟


آگے بڑھنے سے پہلے ایک نگاہ ذرا ان میں سے چند بیانات پر بھی ڈال لیں جن کی مارچ میں گیلانی صاحب کے وزیراعظم بننے کے بعد مسلسل بم باری پاکستان پر کی جارہی ہے۔

ان پر زور دیتے ہوئے کہ دہشت گردی کے خلاف اپنی کوششوں کو عراق سے ایران اور پاکستان منتقل کردیں۔

ان کا مزید ارشاد ہوتا ہے کہ:

وائٹ ہائوس نے امریکی وسائل کا بہت زیادہ حصہ عراق پر صرف کیا ہے جب کہ افغانستان اور پاکستان کے دہشت گردی کے مراکز (terror homes) کو نظرانداز کیا ہے۔

۱۲ اپریل کو صدربش اے بی سی ٹیلی وژن کو انٹرویو دیتے ہوئے اس خط کی بازگشت اور پاکستان پر دبائو ڈالنے کے لیے نئی امریکی حکمت عملی کو یوں بیان فرماتے ہیں:

پاکستان، نہ کہ افغانستان یا عراق، اب وہ جگہ ہے جہاں ایسا منصوبہ بنایا جاسکتا ہے کہ امریکا میں نائن الیون جیسے حملے کیے جائیں۔

۲۲ مئی کو امریکی جرنیل ڈیوڈ پیٹرا نی یوس امریکی جاسوسی اداروں کی رپورٹوں کی بنیاد پر اسی خطرے کی اس طرح جگالی فرماتے ہیں:

میں امریکی خفیہ ایجنسیوں کے اس اندازے کی تائید کرتا ہوں کہ امریکی سرزمین پر  نائن الیون قسم کا دوسرا حملہ پاکستان میں القاعدہ کے ٹھکانوں سے کیا جائے گا۔

جون کے مہینے میں افغانستان میں امریکی اور ناٹو فوجوں کی ہلاکت ریکارڈ حد تک ہوئی اور پہلی بار امریکی فوجی عراق سے زیادہ افغانستان میں ہلاک اور زخمی ہوئے۔ اس کے بعد امریکی بحری بیڑے USS Abraham Lincoln کو بحیرۂ عرب میں منتقل کردیا گیا۔ امریکی فوجی کمانڈر خصوصیت سے جناب چیف ایڈمرل مائیکل میولین نے پاکستان کو متنبہ کیا کہ:

پاکستان سرحد پار کرکے افغانستان آنے والے جنگجوؤں کو روکنے کے لیے مؤثر اقدامات نہیں کر رہا (not doing enough)۔

اس کے ساتھ فاٹا کے علاقے میں بیرونی دہشت گردوں کے جمع ہونے، تربیت پانے اور وہاں سے کارروائیاں کیے جانے کے خطرات سے امریکی اور عالمی میڈیا اور سیاسی محاذوں پر ایک پروپیگنڈا جنگ کا آغاز ہوگیا ہے۔ ان سب کا اصل ہدف یہ ہے کہ پاکستان کی حکومت کو خائف کرکے اور دیوارسے لگاکر اُوپر بیان کردہ امریکی مقاصد کے حصول کے لیے فضا سازگار کی جائے۔

این آر او کے تحت پناہ لینے والے حکمران اپنی کھال بچانے اور اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے پاکستان کی آزادی، حاکمیت، عزت اور اختیار کو دائو پر لگائے ہوئے ہیں۔ یہ اسی دبائو کا نتیجہ ہے کہ فاٹا، سوات اور اب پھر بلوچستان میں فوجی آپریشن شروع کردیے گئے ہیں اور مذاکرات کے ذریعے مسائل کے سیاسی حل کے جو امکانات پیدا ہوئے تھے، وہ خاک میں ملتے نظر آرہے ہیں۔

دہشت گردی کے خلاف اپنی سات سالہ جنگ بقول نوبل لاریٹ پروفیسر جوزف سٹگلیٹ تین ٹریلین ڈالر سے بھی کہیں زیادہ کا نقصان امریکا خود اٹھانے اور دنیا کو اٹھانے پر مجبور کرنے کے باوجود شکست کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس شکست میں پاکستان کو فوج کشی کی دھمکیوں اور معاشی امداد کی زنجیروں دونوں کی مار کے ذریعے گھسیٹا جارہا ہے اور زرداری گیلانی حکومت ہے کہ صوبائی حکومتوں کے احتجاجات کے باوجود امریکا کے آگے سپر ڈالے جارہی ہے اور اپنے ہی لوگوں کے خلاف اپنی فوج کو استعمال کر کے فوج اور قوم کے تعلقات کو ہمیشہ کے لیے خراب کر رہی ہے۔

۴- چوتھا پہلو جس کو مرکزی حیثیت حاصل ہوگئی ہے وہ معاشی حالات کا بگاڑ ہے جس کی گرفت روز بروز مضبوط تر ہوتی جارہی ہے۔ یہ بگاڑ اجتماعی فساد کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔ اس پہلو سے سب سے زیادہ تکلیف دہ مسئلہ کھانے پینے کی عام اشیا کی قلت اور گرانی کا ہے جس نے ہرگھر کو متاثر کیا ہے۔ تیل، گیس، بجلی، آٹا، سبزیاں، دالیں اور خوردنی تیل کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ ہوا ہے۔ ان چار مہینوں میں حکومت کوئی ایسی پالیسی نافذ نہیں کرسکی جو لوگوں کی مشکلات اور مصائب میں کمی لاسکے۔ اس وقت پاکستان میں آبادی کا ایک تہائی شدید غربت کا شکار ہے اور عمومی غربت (آمدنی ۲ڈالر یومیہ) تین چوتھائی (۷۵ فی صد) آبادی کا مقدر بن گئی ہے۔ آبادی کے تازہ ترین سروے کے مطابق ۲۵ فی صد آبادی غذائی قلت کا شکار ہے یعنی جسم و جان کے رشتے کو باقی رکھنے کے لیے جتنی خوراک درکار ہے وہ اس کو میسر نہیں۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ چاروں صوبوں میں بچے اپنی عمر کی مناسبت سے جو ان کا وزن ہونا چاہیے اس سے کم وزن رکھتے ہیں۔ اس وقت ایسے بچوں کی تعداد ۲۸ فی صد تک پہنچ گئی ہے۔ قیمتوں کا حال یہ ہے کہ ان چار مہینوں میں پٹرول کی قیمت میں ۴۰ فی صد اضافہ ہوا ہے یعنی ۳۰ئ۵۳ روپے فی لٹر سے بڑھ کر ۶۹ئ۷۵ روپے فی لٹرہوگئی ہے اور ۱۰ سے ۱۸ فی صد کے تازہ ترین اضافہ (۲۱ جولائی ۲۰۰۸ئ) نے تو سب کی کمر بالکل ہی توڑ دی ہے۔ اب مٹی کا تیل ۹۳ئ۵۷ روپے فی لٹر ہوگیا ہے اور ابھی بھی تیل کمپنیوں کے مطالبات میں کمی نہیں آئی ہے۔ تیل اور گیس کی اتھارٹی ’اوگرا‘ ھل من مزید پکار رہی ہے۔ ملک میں افراطِ زر کی شرح میں محیرالعقول اضافہ ہو رہا ہے اور شماریات کے فیڈرل بیورو نے جو اعداد و شمار وسط جولائی میں جاری کیے ہیں ان کی رو سے ملک میں اس وقت افراطِ زر کی شرح گذشتہ ۳۰سال میں سب سے زیادہ ہے یعنی گذشتہ سال کے مقابلے میں ۲۱ فی صد۔ اشیاے خوردنی کا اضافہ ۳۰ فی صد تک چلا گیا ہے۔

معاشی میدان میں افراطِ زر کے علاوہ دوسرے پہلوئوں سے زرداری گیلانی حکومت کی کارکردگی کا اندازہ مندرجہ ذیل حقائق سے کیا جاسکتا ہے:

lکپڑے کی صنعت جس کا حصہ ملک کی برآمدات میں ۶۲ فی صد ہے اور جو ملک کے پورے صنعتی پیداواری نظام کا نصف حصہ ہے، سخت بحران کا شکار ہے۔ کارخانے تیزی سے بند ہورہے ہیں جس کے نتیجے میں بے روزگاری خوف ناک رفتار سے بڑھ رہی ہے۔

  • پاکستان کی درآمدات ۴۰ ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہیں جب کہ برآمدات صرف ۵ئ۱۹ بلین ڈالر ہیں جس کے نتیجے میں تجارت کا خسارہ اب ۲۰ ارب ڈالر سے متجاوز ہے۔ ادایگیوں کا خسارہ بھی اب ۱۰ ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ بیرونی ذخیرہ جات جو مارچ میں ۱۳ بلین ڈالر تھے اب ۱۰بلین ڈالر کے لگ بھگ ہیں۔ اس طرح ۱۰۰ دن میں ۳ بلین ڈالر یعنی ۳۰ ملین ڈالر یومیہ کی کمی واقع ہوئی۔
  • اسٹاک ایکسچینج کا حال بھی برا ہے جو انڈکس ۱۵ ہزار روپے پر تھا وہ اب ۱۰۴۰۰ تک گرچکا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ان ۱۰۰ دنوں میں ملک میں کُل سرمایہ کاری کی مالیت ۶ئ۴ ٹریلین روپے سے کم ہوکر ۶ئ۳ ٹریلین پر آگئی ہے۔ یعنی ان ۱۰۰ دنوں میں ملک کی کُل سرمایہ کاری کی مالیت میں یومیہ ۱۰۰ ارب روپے کمی ہوئی ہے۔
  • ۱۰۰ دن پہلے ایک امریکی ڈالر پاکستان کے ۶۲روپے کے برابر تھا۔ اب اس میں ۱۸ فی صد کمی ہوئی ہے اور اب یہ قیمت ۷۳ روپے تک پہنچ گئی ہے۔

معیشت کے جس پہلو پر بھی نگاہ ڈالیں، حالات ابتر نظر آرہے ہیں اوراس کی بڑی وجہ حکومت کی پالیسیوںمیں شدید انتشار اور کسی سمت کا نہ ہونا ہے۔

۵- پانچواں بنیادی مسئلہ امن و امان کا فقدان اور پورے ملک میں جان، مال، آبرو کے تحفظ کی زبوں حالی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ انتظامیہ کا کوئی وجود نہیں۔ بیوروکریسی میں بڑے پیمانے پر ردوبدل کیا گیا ہے جس کا مقصد میرٹ کے مقابلے میں اپنی پسند کے لوگوں کو اہم مقامات پر تعینات کرنا ہے۔ اخبارات نے خود وزیراعظم کے دفتر میں سابق نیب زدہ افراد کے ذمہ داریاں سنبھالنے اور چٹ پٹ ترقیوں کی داستانیں شائع کی ہیں۔ یہ رجحان کسی بھی ملک کے لیے نہایت خطرناک ہے اور پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے ان میں تو یہ تباہی کا راستہ ہے۔ لاپتا افراد کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اور عوام حقوق کی حفاظت اور انصاف کے حصول دونوں کے بارے میں مایوس ہورہے ہیں۔ دولت کی عدم مساوات میں محیرالعقول اضافے نے حالات کو اور بھی ابتر کردیا ہے۔ لوگ اصلاح کے مقابلے میں انقلاب کی باتیں کرنے لگے ہیں۔

۶- چھٹا اہم مسئلہ یہ ہے کہ ہرسطح پر اصحابِ ثروت اور ارباب اقتدار اپنے وسائل سے زیادہ خرچ کر رہے ہیں۔ بجٹ کا خسارہ آسمان سے باتیں کر رہا ہے اور قرض کے پہاڑ ہمالہ سے بھی زیادہ بلند ہوگئے ہیں۔ کفایت شعاری اور سادگی کی صرف باتیں ہوتی ہیں، ان پر عمل کی طرف کوئی پیش رفت نہیں۔ وزیراعظم صاحب نے اپنے پہلے خطاب میں اپنے اخراجات کو ۴۰ فی صد کم کرنے کا اعلان کیا تھا جو بجٹ کے آتے آتے ۳۰ فی صد تک سکڑ گیا لیکن عملاً ٹھاٹ باٹ کا مظاہرہ جاری ہے اور دیکھا جائے تو اس میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ وزارتِ عظمیٰ کے حلف کے بعد اسی رات وزیراعظم صاحب کے صاحبزادے کی شادی کی جو تفصیلات اخبارات میں شائع ہوئی ہیں وہ کفایت شعاری کے دعووں کا مذاق اڑانے کے مترادف ہیں۔ وزیراعظم صاحب عمرہ کے لیے گئے تو اس میں ۸۶افراد سرکاری خرچ پر ان کے شریکِ سفر نظر آئے اور سفر کے اخراجات ۱۰ کروڑ سے زائد بیان کیے جارہے ہیں۔ ملایشیا ڈی-۸ کی کانفرنس میں تشریف لے گئے تو اطلاع ہے کہ ان کے وفد میں ۴۰ سے زیادہ افراد تھے، جب کہ وفد سے پہلے سیکیورٹی کے نام پر ۵۰ افراد ملایشیا بھیجے گئے۔ پھر زرداری صاحب سے مشورے کے لیے وزیراعظم صاحب کوالالمپور سے سیدھے دبئی تشریف لے گئے اور ۴۰ کا ٹولہ ان کے ساتھ رہا ہے۔ جہاز اور قیام کے اخراجات پھر ۱۰ کروڑ سے متجاوز بتائے جارہے ہیں۔ وزیراعظم تو ایک ہے مگر اطلاع یہ ہے کہ چار افراد کو وزیراعظم کا پروٹوکول فراہم کیا جارہا ہے۔ ایک طرف عوام فاقوں کا شکار ہیں، خودکشیوں کی نوبت آرہی ہے، مائیں اپنے بچوں کو بیچنے اور ایدھی سینٹروں پر چھوڑ جانے پر مجبور ہورہی ہیں اور دوسری طرف یہ اللّے تللّے ہیں۔ کوئی سوچنے کی زحمت نہیں کرتاکہ اس کا انجام کیا ہوگا؟

وزیراعظم صاحب نے بڑے طمطراق سے جو اعلانات کیے تھے ان کی طرف پیش رفت کا کوئی ثبوت ان ۱۰۰ دنوں میں نظر نہیں آرہا۔ ارشاد ہوا تھا کہ ایف سی آر ختم کیا جارہا ہے، آج تک اس سلسلے میں کوئی متبادل قانون پارلیمنٹ کے سامنے نہیں آیا۔ اعلان کیا گیا تھا کہ ۲۰۰۲ء کا    بدنامِ زمانہ انڈسٹریل ریلیشنز آرڈی ننس ختم کیا جا رہا ہے مگر وہ آج بھی کتاب قانون کا حصہ ہے اور نئے قانون کا کوئی مسودہ قوم کے اور پارلیمنٹ کے سامنے نہیں آیا۔ دعویٰ کیا گیا تھا کہ دو تاریخی کمیشن بنائے جارہے ہیں یعنی ایک روزگار کمیشن اور دوسرا جنوبی افریقہ کی طرز پر truth and reconciliation commission(سچائی اور مفاہمتی کمیشن)،لیکن ۱۰۰ دن گزرنے کے بعد بھی ان کی طرف کوئی پیش رفت نہیں کی گئی۔

مزدوروں کی یونینوں اور طلبہ کی یونینوں سے پابندی اٹھانے کا اعلان ہوا تھا اور اس سلسلے میں کچھ آزادیاں اور مواقع مزدوروں اور طلبہ نے غالباً اپنے دست و بازو سے حاصل بھی کرلیے ہیں مگر اس سلسلے میں جو قانون سازی ہونی چاہیے تھی اور جو مثبت متبادل نظام قوم کے سامنے آنا چاہیے تھا، وہ ابھی تک پردۂ غیب ہی میں ہے۔ ۱۰۰ دن کے پروگرام کے بیش تر اعلانات حقیقت کا روپ دھارنے میں ناکام رہے اور اس کی بڑی وجہ پارلیمنٹ کی حسبِ سابق بے بسی، قانون سازی کا فقدان، عدلیہ کی عدم بحالی، خارجہ اور داخلہ پالیسیوں کی تشکیلِ نو کے باب میں مجرمانہ کوتاہی، حکومت کا بے سمت ہونا اور امریکی دبائو میں بیرونی ایجنڈے کی مشرف دور کی طرح تعمیل اور تکمیل ہے۔ یہ صورت حال حکومت پر عوام کے اعتماد کو بری طرح مجروح کرنے اور امید کی جو کرن رونما ہوئی تھی اس کے تاریکیوں میں دم توڑنے کا باعث رہی ہے۔

اس پورے ناکام تجربے کی بڑی وجہ سیاسی قیادت، خصوصیت سے پیپلزپارٹی کی موجودہ قیادت کا کردار ہے۔ اب لوگ کھلے بندوں یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ جس پارٹی میں خود اپنے دستور، ضابطوں اور جمہوری روایات کا احترام نہ ہو وہ ملک کو دستور کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کیسے دے سکتی ہے۔ جناب زرداری صاحب نے جس ڈرامائی انداز میں محترمہ کی شہادت کے بعد اقتدار سنبھالا، اس کے بارے میں چبھتے ہوئے سوالات اُٹھائے جارہے ہیں۔ جنرل اسلم بیگ نے محترمہ کی آخری کتاب اور دوسری تقاریر کے حوالوں سے وصیت کے قابلِ اعتماد ہونے کو چیلنج کیا ہے۔ زرداری صاحب نے خود سندھ ہائی کورٹ میں محترمہ کی وراثت کے سلسلے میں جو پٹیشن دائر کی ہے وہ ان کے حسابات اور دوسرے اثاثوں کے بارے میں وصیت کی عدم موجودگی کی بنیاد پر کی گئی ہے۔

سوال یہ ہے کہ اگر اپنے اتنے اہم معاملات کے بارے میں وہ کوئی وصیت نہیں کرسکیں تو پارٹی کے معاملات کے بارے میں وصیت کیسے کر دی۔ وصیت کو اگر تسلیم کرلیا جائے تب بھی اس کے صحیح مفہوم کا مسئلہ بھی کم اہم نہیں۔ اس سلسلے میں جناب ارشاد احمد حقانی نے بڑے بنیادی سوالات اٹھائے ہیں اور ایک وقتی انتظام کو جس کا مقصد صرف عبوری (transition) تھا، مستقل انتظام کی شکل دینے پر بھرپور گرفت کی ہے۔ ۱۰۰ دن کی حکمرانی کے پس منظر میں پی پی پی (زرداری) کے بارے میں دی نیشن کی ایک کالم نگار نے بڑے چبھتے ہوئے سوالات اٹھائے ہیں جن کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ان کا ارشاد ہے:

پیپلزپارٹی (زرداری) کے پاس، جسے قسمت کی ایک بے رحم گردش اقتدار میں لے آئی ہے، حکمرانی کے دائرے میں پیش کرنے کے لیے کچھ نہیں۔ پارٹی اور اسی طرح یہ ملک ایک غیر منتخب شخص چلا رہا ہے جو بے نظیربھٹو کا سابقہ شوہر ہے، جس کا واحد مقصد یہ ہے کہ پُرفریب این آر او استعمال کرکے، جو امریکا اور صدرمشرف نے قوم پر مسلط کردیا ہے، عدالتوں سے بریت حاصل کرلے۔ آصف زرداری اپنے وکیل کے ذریعے گذشتہ ہفتے اپنی مرحومہ بیوی کے اثاثوں کے لیے وراثت کی درخواست جمع کرا رہے تھے۔ ان کادعویٰ تھا کہ بے نظیر بھٹو بلاوصیت انتقال کرگئیں اور ان کا کوئی وصیت نامہ ہرطرح کی تلاش کے باوجود نہ مل سکا۔ یہ بڑی دل چسپ بات ہے، اس لیے کہ اپنی بیوی کے مرنے کے تیسرے روز زرداری نے ہمارے سامنے کاغذ کا ایک ٹکڑا لہرایا تھا اور بتایا تھا کہ یہ ان کا وصیت نامہ ہے، اور یہ بھی بتایا تھا کہ یہ کئی صفحات پر مشتمل ہے جو عوام کے سامنے نہیں لائے جاسکتے کیوں کہ اس میں ان کے ذاتی معاملات کا ذکر ہے۔ (۱۳ جولائی ۲۰۰۸ئ)

ہمارے اور دوسرے اہلِ قلم کے تجزیوں کا حاصل یہ ہے کہ زرداری گیلانی حکومت نے یہ ۱۰۰دن ضائع کیے ہیں اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ۱۸ فروری کے مینڈیٹ کی روشنی میں حقیقی اور بااختیار قومی حکومت وجود میں نہ آسکی۔ زرداری صاحب نے محترمہ کی وصیت کا سہارا لے کر پیپلزپارٹی پر قبضہ کرلیا اور رحمن ملک اور ایسے ہی دوسرے غیرنمایندہ افراد کے ذریعے زرداری صاحب اور مشرف میں جو درپردہ معاہدہ ہوا تھا اور جس کے ایک پہلو کا تعلق این آر او کے تحت خود زرداری صاحب، پی پی پی، ایم کیو ایم کے قائدین اور کارکنوں اور دوسرے سیاسی عناصر اور سول اور فوجی بیورو کریسی کے متعلقہ افراد کو احتساب اور قانونی چارہ جوئی کا سامنا تھا ان کے کرپشن کے الزامات کو کسی غیرجانب دار تحقیق و تفتیش اور عدالتی عمل کے بغیر واپس لے کر امریکا اور برطانیہ کے بنائے ہوئے منصوبے کے تحت ملک پر نئی سول قیادت مسلط کی گئی۔ اس قیادت نے، خاص طور پر ان افراد نے جن کے ہاتھوں میں اصل باگ ڈور ہے، حقیقی مسائل کو پس پشت ڈال کر صرف اپنے اقتدار اور گرفت کو مضبوط کرنے، مشرف صاحب کو نئی زندگی دینے، اور امریکی ایجنڈے کو آگے بڑھانے پر ساری توجہات صرف کیں۔ پرویزمشرف اصل مسئلہ ہیں، ان سے نجات کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔عدلیہ کی بحالی کو مذاق بناکر اُلجھا دیا گیا۔ معاشی مسائل کے حل اور امن و امان کے قیام پر قرارواقعی توجہ نہ دی گئی، امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کو اپنی جنگ قرار دے کر حالات کو اور بھی الجھا دیا گیا۔

جو تاریخی موقع حاصل ہوا تھا اسے بڑی بے دردی سے ضائع کردیا گیا ہے۔ یہ جمہوری عمل کی ناکامی نہیں، ایک سیاسی گروہ کی ناکامی ہے جس نے موقع سے فائدہ اُٹھا کر جمہوری عمل کو ایک طرح یرغمال بنالیا اور ۱۸ فروری کے مینڈیٹ کو پس پشت ڈال کر ایک دوسرے ہی ایجنڈے پر کام شروع کردیا۔ یہ امریکا مشرف زرداری حکمت عملی ہے جس نے ۲۰۰۷ء کی قربانیوں اور ۱۸فروری کے انتخابی نتائج کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کا کھیل اب بالکل کھل کر سب کے سامنے آگیا ہے۔ ملک اور ملک سے باہر حالات پر گہری نظر رکھنے والے افراد اس کھیل کا پردہ چاک کررہے ہیں اور خود پیپلزپارٹی کے وہ قائد جنھوں نے گذشتہ دس بارہ سال پارٹی کو زندہ رکھنے اور آمریت کے ہر وار کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی اب کھل کر میدان میں آرہے ہیں۔ اس پس منظر میں یہ ۱۰۰ دن ایک water-shed کی صورت اختیار کرچکے ہیں اور قوم آج اپنے آپ کو ایک بہت بڑے امتحان میں پاتی ہے___ اس امر کا خطرہ ہے کہ ذاتی اور گروہی مفادات کے علَم بردار جو اصل جمہوری عمل کو ہائی جیک کرنے کا کھیل کھیل رہے ہیں، آمریت اور بیرونی قوتوں کی بالادستی کی تاریک رات مسلط کرنے کے لیے کسی حد کو بھی پارکرجائیں۔ نیز آمریت کے کارندے اور ایجنسیوں کے دست و بازو اسے جمہوریت کی ناکامی کا رنگ دے کر پرانے کھلاڑیوں یا نئے طالع آزمائوں کے لیے فضا سازگار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کراچی کی ایک خاص رنگ کی تجارتی کمیونٹی میں گورنر سندھ اور ناظم کراچی کی بیساکھیوں پر کل کے آمر پھر کسی نئے کردار کی تلاش میں ہیں۔ یہ سارے خطرات اُفق پر منڈلا رہے ہیں لیکن یہ وقت ٹھنڈے غوروخوض اور حقائق کے صحیح ادراک پر مبنی حکمت عملی کی تشکیل کا ہے۔

۲۰۰۷ء میں عدلیہ کی بحالی اور جمہوری حقوق کے حصول کے لیے جو جدوجہد وکلا برادری، سول سوسائٹی اور سیاسی کارکنوںنے شروع کی تھی آج اس تحریک کو ان نئے خطرات سے بچاکر دوبارہ حقیقی جمہوری عمل کے حصول، دستور کی بالادستی، عدلیہ کی بحالی، قانون کی حکمرانی، آمریت سے ہمیشہ کے لیے نجات، فوج کو سیاست کی آلودگیوں سے مکمل طور پر پاک رکھنے، اور ملک کی قسمت کا فیصلہ ملک کے اندر اور اس کے حقیقی خادموں کے ذریعے انجام دینے کے نظام کے استحکام کے لیے فیصلہ کن جدوجہد ہے۔ گذشتہ ۱۰۰ دن اس تحریک کا تسلسل نہیں، اس سے انحراف اور ماقبل کی پالیسیوں کے نئے روپ میں اور نئے کرداروں کے ذریعے تسلسل کا زمانہ رہا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ ایک بار پھر تمام جمہوری قوتیں اور حق، انصاف اور قانون کی پاسداری کے تمام علَم بردار   بے لوث انداز میں منظم جدوجہد کریں اور جمہوری عمل کے ہائی جیکنگ کے اس اقدام کو       ناکام بنادیں۔ وکلا برادری اور اے پی ڈی ایم نے انتخابات سے پہلے جس بالغ نظری کا مظاہرہ  کیا تھا، اب ضرورت ہے کہ تمام جمہوری قوتوں کو ساتھ ملا کر اسی طرح ایک مؤثر تحریک کا اہتمام  کیا جائے۔ یہ کام کسی جذباتی رو میں انجام نہیں دیا جاسکتا لیکن حالات جس مقام پر پہنچ گئے ہیں اور جو خطرات اب سامنے منڈلا رہے ہیں ان کی موجودگی میں غفلت یا کوتاہی بڑی خطرناک ہوسکتی ہے۔ ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ    ؎

یہ گھڑی محشر کی ہے، تو عرصۂ محشر میں ہے

پیش کر غافل عمل، کوئی اگر دفتر میں ہے

بسم اللہ الرحمن الرحیم

دستور کسی ملک کی سب سے اہم اور مقدس قانونی دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے اور یہ تمام اختیارات کا سرچشمہ اور ریاستی اداروں کے حدود کار، حکمرانی کے اصول و آداب اور خود قانون سازی اور پالیسی کے خطوط کار اور ان کی صورت گری کے دروبست کو متعین کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسے قانون اساسی (fundamental law) کہا جاتا ہے اور اس میں ترمیم کو مشکل بنایا جاتا ہے بلکہ اب تویہ اصول بھی قبولِ عام حاصل کرچکا ہے کہ دستور کے بنیادی ڈھانچے اور ریاست کے کردار میں محض ترمیم دستور سے تبدیلی نہیں کی جاسکتی۔اگر اس کی نوبت آئے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ عوام سے استصواب کیا جائے تاکہ دستور کی تشکیل نو کے لیے وہ نئی دستورساز اسمبلی کی تشکیل کریں۔ وہ پارلیمنٹ جو ایک دستور کے تحت وجود میں آئی ہو اور خواہ اس دستور کے تحت وہ دستور میں ترمیم کا حق رکھتی ہو تب بھی وہ دستور کے مقاصد اور بنیادی ڈھانچے کے اندر رہ کر تو ترمیم کرسکتی ہے مگر خود ان بنیادوں کو تبدیل نہیں کرسکتی۔ گویا ترمیم کا اختیار دو تہائی اکثریت کو بھی غیرمشروط اور لامتناہی (absolute and unlimited) نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دستور کے تحت اعلیٰ ترین عدالت اس قانون کو جو دستور سے متصادم ہو، خواہ اسے پارلیمنٹ نے منظور کیا ہو، غیردستوری (ultra vires of the constitution) قرار دے سکتی ہے اور دستور سے تصادم کی بنیاد پر ایسا قانون غیرمؤثر قرار دیا جاسکتا ہے۔

دستور کی اس اہمیت کو سامنے رکھتے ہوئے ان مجوزہ دستوری ترامیم کے جائزے کی ضرورت ہے جسے دستوری پیکج (constitutional package) کا نام دیا گیا ہے اور جو بظاہر عدلیہ کی آزادی اور بحالی اور دستور کے ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء کی شکل میں بحال کیے جانے کے لیے کی جارہی ہیں مگر فی الحقیقت دستور پر ایک نئے حملے کی شکل رکھتی ہیں۔ اگر خدانخواستہ ان کو ان کی موجودہ شکل میں منظور کرلیا جاتا ہے تو اداروں اور اشخاص کے درمیان قائم کیا جانے والا تقسیم اختیارات اور توازنِ قوت کا پورا نظام درہم برہم ہوجائے گا اور اس سے بھی زیادہ خطرناک پہلو یہ ہے کہ دستور اور اعلیٰ عدالتی نظام میں مخصوص افراد کو نوازنے اور کچھ کو پابند کرنے کے لیے فرد کی ضرورت کے تحت (person-specific) ترمیمات تجویز کی جارہی ہیں جن کے نتیجے میں یہ پورا عمل بُری طرح سیاست زدہ اور شخصی (personalize) ہوجاتا ہے۔ خطرہ ہے کہ اس سے وہ پنڈورا کا صندوق (pandora's box) کھلے گا جس سے نکلنے والے عفریت کو پھر قابو میں لانا کسی کے بس میں نہیں ہوگا۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ نام نہاد دستوری پیکج دستور اور قانون پر گہری نظر رکھنے والوں نے نہیں بنایا بلکہ ڈرائنگ روم کی سیاست کرنے والوں نے اپنی پسند اور ناپسند کو دستور پر مسلط کرنے کے لیے دستور کی ۸۰ دفعات میں تراش خراش کی جسارت کی ہے۔ اس کا جہاں علمی جائزہ لینے کی ضرورت ہے، وہیں اس سیاسی کھیل کے پردے کو بھی چاک کرنا ضروری ہے جو مخلوط حکومت کی سب سے بڑی پارٹی پیپلزپارٹی کی قیادت نے ملک و قوم کے ساتھ کھیلنے کی کوشش کی ہے۔

مینڈیٹ کا اصل تقاضا

ان دستوری سفارشات کا جائزہ لینے سے پہلے ضروری ہے کہ اس بات کا تعین کرلیا جائے کہ ۲۰۰۷ء کے عدالتی بحران اور ۱۸ فروری ۲۰۰۸ء کے عوامی مینڈیٹ کا اصل تقاضا کیا ہے اور اس سلسلے میں نئی حکومت کی اولین ذمہ داری کیا تھی۔ کیا یہ دستوری سفارشات اس ضرورت کو پورا کرنے کا ذریعہ ہیں یا ان کے ذریعے کوئی نیا ہی کھیل کھیلا جا رہا ہے۔

سب سے پہلا مسئلہ ۳ نومبر ۲۰۰۷ء کو غیرقانونی طور پر معزول کیے جانے والے ججوں کی بحالی تھا جسے نئی حکومت کو برسرِاقتدار آتے ہی انجام دے دینا چاہیے تھا، مگر اس نے ایک متناقض موقف اختیار کرکے اصل تاریخی لمحے کو ضائع کردیا اور قوم کو ایک نئے سیاسی بحران میں مبتلا کردیا جس کے اثرات ملکی سیاست، انتظامِ حکومت، قانون کی حکمرانی اور معاشی مسائل کے مزید اُلجھ جانے کی شکل میں سامنے آرہے ہیں۔ ایک طرف تو وزیراعظم صاحب نے قائد ایوان منتخب ہوتے ہی وزارتِ عظمیٰ کے حلف تک کے لینے سے پہلے ہی معزول ججوں کی رہائی کا حکم دے دیا اور ان کو رہا کر بھی دیا گیا لیکن دوسری طرف بار بار کے اس اعلان کے باوجود کہ جنرل پرویز مشرف کا ۳نومبر ۲۰۰۷ء کا اقدام غیرقانونی اور خلافِ دستور تھا، سپریم کورٹ اور ہائی کورٹوں کے ان ججوں کو آج تک بحال نہیں کیا جو جائز جج ہیں اور ایک ناجائز (illegitimate) پی سی او کے تحت حلف لینے والے جج صاحبان آج بھی بلااختیار عدالت کا کاروبار چلا رہے ہیں اور اب کوشش کی جارہی ہے کہ حق دار اور بلاحق کام کرنے والوں کو ان ناروا دستوری ترامیم کے ذریعے برابری کے مقام پر لے آیا جائے۔ یہ ملک کے نظامِ عدل کو تہ و بالا کرنے کا مجرب نسخہ ہے اور جس کے دماغ کی بھی اختراع ہے اسے ملک و قوم کا مخلص قرار دینا مشکل ہے۔

اصل ضرورت صرف اتنی تھی کہ:

ا- ایک انتظامی حکم کے ذریعے ان ججوں کو جن کو ایک غیرقانونی حکم نامے کے ذریعے جبری طور پر معزول کیا گیا تھا ان کو اپنے اصل مقام پر بحال کیا جاتا اور جو غیرقانونی طور پر عہدوں پر فائز کرلیے گئے تھے انھیں کسی معقول طریقے سے فارغ ، یا ان کے ماقبل کے مقام پر بھیج دیا جاتا   یا زیادہ سے زیادہ کچھ کو ایڈہاک ججوں کے طور پر کچھ عرصے کے لیے رکھ لیا جاتا اور بالآخر انھیں فارغ کر دیا جاتا تاکہ ایک بھونڈے کام کو بھی سلیقے ہی سے انجام دیا جائے۔

ب- پارلیمنٹ ایک قرارداد کے ذریعے ۳نومبر ۲۰۰۷ء کے اقدام کو غیرقانونی، خلافِ دستور، ناقابلِ قبول قرار دیتی اور وزیرعظم کو ہدایت دیتی کہ وہ خوش اسلوبی سے اس کے غلط اقدامات اور اثرات سے ملک کو پاک اور محفوظ کرنے کے لیے جملہ اقدام کریں۔

ج- ۳ نومبر کے اقدام کے ذمہ داروں کو قرار واقعی سزا دی جاتی، البتہ جو قوانین، فیصلے اور اقدام ہوچکے ہیں ان کے صرف ناگزیر پہلوئوں کو بہ اکراہ تحفظ دیتے ہوئے آیندہ کے لیے غیرمؤثر کیا جاتا اور متبادل جائز قانونی یا انتظامی احکام کے ذریعے جن چیزوں کو باقی رکھنا ضروری ہے انھیں باقی رکھا جائے۔

اس پورے کام کے لیے کسی دستوری ترمیم کی ضرورت نہ تھی۔ ملک کے چوٹی کے قانون دانوں اور دستور کے ماہروں کی یہی راے تھی اور ہم بھی اس راے کو صائب سمجھتے ہیں لیکن معلوم ہوتا ہے امریکا اور برطانیہ کی سفارت کاری کے ذریعے جو معاملات پیپلزپارٹی کی قیادت بالخصوص جناب آصف علی زرداری اور جنرل پرویز مشرف کے درمیان طے ہوئے تھے اور جن کے نتیجے میں ایک آرڈی ننس کے ذریعے قومی مفاہمت کے نام پر لوٹ کھسوٹ اور سیاسی اور مالی بدعنوانیوں حتیٰ کہ فوجداری جرائم تک سے درگزر کر کے ان کے مرتکبین کو معافی اور فارغ خطی کا پروانہ دے دیا گیا تھا اور اس کا فائدہ اٹھانے والوں میں ہزاروں افراد تھے جن میں سب سے اہم پیپلزپارٹی کی قیادت کے نمایاں افراد اور ایم کیو ایم کی قیادت اور کارکن تھے۔ ان کا پلڑا بھاری رہا ہے اور ان ہی کی مرضی آگے بڑھائی جارہی ہے۔ اگر ایسا ہو تو پھر یہ احساس بھی صحیح ہی معلوم ہوتا ہے کہ پیپلزپارٹی کی موجودہ قیادت نے اصل مسئلے یعنی عدلیہ کی بحالی اور پرویز مشرف سے نجات کو تو پس پشت ڈال دیا ہے اور دستوری پیکج کے نام پر این آر او (قومی مصالحتی آرڈی ننس) کے تحفظ اور عدلیہ کو ایک ایسے شکنجے میں کسنے کا کھیل شروع کردیا ہے جس کے نتیجے میں عدلیہ کبھی بھی سیاسی قیادت کی گرفت سے باہر نہ نکل سکے اور جنرل پرویز مشرف کی صدارت اور این آر او کی ضمانت کو چیلنج نہ کیا جاسکے۔

جو کام سیدھے سیدھے انتظامی حکم اور زیادہ سے زیادہ پارلیمنٹ کی قرارداد کے ذریعے ہوسکتا تھا اسے تعویق میں ڈال کر غیرمتعلقہ معاملات میں الجھا دیا گیا ہے جس کے نتیجے میں پوری قوم فکری انتشار، سیاسی عدم استحکام اور معاشی بحران سے دوچار ہے۔ ۱۸فروری ۲۰۰۸ء کو امید کی جو کرن رونما ہوئی تھی اور عوام نے نئی زندگی اور سیاست دانوں کے نئے کردار کا جو خواب دیکھا تھا وہ زرداری صاحب کی مصلحتوں کی بنا پر چکنا چور ہوتا نظر آرہا ہے۔ مشرف صاحب کی مقبولیت تو خاک میں مل چکی ہے لیکن اب زرداری صاحب کی مقبولیت کا گراف بھی تیزی سے نیچے جا رہا ہے جس کا اندازہ ہر سیاسی کارکن کو ہورہا ہے اور جس کی کچھ جھلک راے عامہ کے اس تازہ ترین جائزے میں دیکھی جاسکتی ہے جو ایک امریکی ادارے Terror Free Tomorrow نے ۲۵مئی سے یکم جون تک لیا ہے اور جس کے مطابق پاکستان کی آبادی کا ۷۳ فی صد مشرف کی اقتدار سے علیحدگی چاہتا ہے۔ اس وقت مقبول ترین قیادت وہ ہے جو ججوں کی بحالی کا مطالبہ کر رہی ہے اور اس مطالبے کو ۹۵فی صد آبادی کی تائید حاصل ہے۔ یہی وہ پہلوہے جس کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) کے سرپرست نواز شریف سب سے زیادہ مقبول ہیں جب کہ پیپلزپارٹی کی حکومتی کارکردگی پر لوگ مطمئن نہیں اور اس کی مقبولیت کم ہوکر ۲۶ فی صد رہ گئی ہے، جب کہ اس کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کی مقبولیت صرف ۱۳ فی صد پر آگئی ہے۔ (نواے وقت، ۲۲ جون ۲۰۰۸ئ)

دستوری تجاویز یا زھـر کی گولیاں

ججوں کی بحالی، عدلیہ کی حقیقی آزادی، صحافت کی آزادی اور مشرف سے نجات کے سلسلے میں جو رویہ زرداری صاحب کے زیراثر پیپلزپارٹی نے اختیار کیا ہے اس نے عوام میں مایوسی پیدا کی ہے اور وہ اسے ۱۸ فروری ۲۰۰۸ء کے عوامی مینڈیٹ سے کھلا کھلا انحراف تصور کرتے ہیں اور دستوری ترامیم کے پشتارے کا جو ڈراما رچایا جا رہا ہے اسے مسئلے کو الجھانے اور قوم کے اہداف کو غتربود کرنے کا کھیل سمجھ رہے ہیں۔ ہم ان باتوں کا اظہار بڑے دکھ سے کر رہے ہیں کہ ہماری پوری خواہش تھی کہ آمریت سے نجات اور جمہوریت کی طرف پیش قدمی کا سفر مخلوط حکومت کے ہاتھوں انجام پاتا لیکن نظرآرہا ہے کہ پیپلزپارٹی کے کچھ قائدین اور اس کے ووٹروں کی شدید  خواہش کے باوجود آصف علی زرداری اور ان کے زیراثر جماعتی قیادت روایتی ہیئت حاکمہ (establishment) ہی کے مقاصد پورے کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ پرویزمشرف پر نمایشی دبائو تو کبھی کبھی ڈال دیا جاتا ہے مگر نہ ان سے نجات پانے کے لیے ضروری اقدام کیے جا رہے ہیں اور نہ عدلیہ کی بحالی کی کوئی مؤثر کوشش کی گئی ہے جس سے ملک کا نظامِ عدل بحال ہوسکے اور عوام کے لیے حصولِ انصاف کے دروازے کھل سکیں۔ بلکہ دستوری ترامیم کا جو پیکج پیش کیا گیا ہے اس نے تو رہی سہی امید بھی خاک میں ملادی ہے اور اگر خدانخواستہ دستور میں یہ ترامیم ہوجاتی ہیں تو پھر جمہوریت اور عدلیہ کی آزادی کا قصر چکنا چور ہوجائے گا۔ ہمیں یقین ہے کہ ان شاء اللہ پیپلزپارٹی کی قیادت اس میں کامیاب نہیں ہوگی اس لیے کہ عوام ان کی بھرپور اور مؤثر مخالفت کریں گے اور وکلا اور اہم سیاسی کارکنوں نے اس عزم کا اظہار بھی کردیا ہے۔ البتہ اس امر کی ضرورت ہے کہ ان ترامیم اور ان کے مضمرات کو اچھی طرح سمجھا جائے اور چند مفید چیزیں جو ان میں شامل ہیں ان سے دھوکا نہ کھاتے ہوئے جو اصل کھیل کھیلا جا رہا ہے اس کا پردہ چاک کیا جائے اور ملک کو اس آفت سے محفوظ رکھا جائے۔

آیئے دیکھیں ان تجاویز میں کتنی کڑوی گولیاں بلکہ زہر کی گولیاں ہیں جو شکر میں لپیٹ کر اس قوم کو دی جارہی ہیں:

۳ نومبر کے اقدام کا تحفظ

ان کا پہلا اور سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ ان میں کھلے اور صاف الفاظ میں ۳نومبر ۲۰۰۷ء کے غیرقانونی اقدام کو رد نہیں کیا گیا اور اس کے مرتکبین کو موجب سزا قرار نہیں دیا گیا، بلکہ کمال ہوشیاری سے اس اقدام کو اور اس کے تحت عدلیہ کو تباہ کرنے والوں اور ان کے شرکاے کار کو تحفظ دیا گیا ہے، عدلیہ میں ۳ نومبر کے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والوں کے لیے مستقل گنجایش پیدا کی گئی ہے، ان کے ان تمام اقدامات کو جو ۳نومبر کے بعد کیے گئے ہیںتحفظ دیا گیا ہے اور صاف لفظوں میں کہے بغیر اس سب کو سندجواز دی گئی ہے جو ایک قومی جرم ہے۔ ۱۸فروری کے انتخاب کے نتیجے میں وجود میں آنے والی پارلیمنٹ کا تو مینڈیٹ ہی یہ ہے کہ وہ ۳نومبر کے غیرقانونی اقدامات کا قلع قمع کرے اور ہمیشہ کے لیے ملک و قوم کو ایسی طالع آزمائی اور اس کی معاونت کرنے والوں سے محفوظ کرے لیکن ان ترامیم کے ذریعے وہی ظلم کیا جا رہا ہے جو ۱۹۵۸ئ، ۱۹۶۹ئ، ۱۹۷۷ئ، ۱۹۹۹ء اور ۲۰۰۷ء کے غیرقانونی اقدامات کو تحفظ دے کر ماضی میں کیا گیا ہے۔ جو کچھ جسٹس منیر، جسٹس انوارالحق، جسٹس ارشاد اور جسٹس ڈوگر نے کیا، جناب زرداری صاحب اور فاروق نائیک صاحب وہی کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ جسٹس حمودالرحمن نے اقتدار پر ناجائز قبضہ کرنے والے غاصبوں سے ڈیل کرنے کا جو مبنی برحق و انصاف راستہ دکھایا تھا اسے یکسر نظرانداز کردیا گیا ہے اور ہوشیاری کے ساتھ آرٹیکل AAA۲۷۰ اور CC ۲۷۰ کے ذریعے اس پورے سیاہ دور کو تحفظ عطا فرمایا گیا ہے البتہ کمالِ عنایت سے دفعہ ۶ میں ترمیم کر کے کل کلاں ایسا کرنے والوں کو سزا کی وعید سنائی جا رہی ہے۔ حالانکہ اگر آج کے مجرموں کو سزا نہیں ملتی تو پھر گویا کبھی بھی مجرموں کو سزا نہیںمل سکے گی۔ یہ ترامیم دستور کی ۱۹۹۹ء کی شکل میں بحالی کی نوید سے یکسر خالی ہیں اور دستور کو مزید مسخ کرنے اور جو سلوک اس کے ساتھ ماضی کی ترامیم جن میں خصوصیت سے پہلی، تیسری، چوتھی، پانچویں، چھٹی، ساتویں، آٹھویں اور ۱۷ویں ترامیم قابلِ ذکر ہیں جن کے ذریعے عدلیہ کو پابند یا متاثر کرنے اور دستور کے پارلیمانی کردار کو مسخ کرنے کی خدمت انجام دی گئی اور فوجی آمریتوں کی کارگزاریوں کو تحفظ دیا گیا۔ بدقسمتی سے پیپلزپارٹی کی قیادت کی مجوزہ ترامیم اسی قبیل کی ہیں بلکہ ان کی بدترین صورت ہیں۔

این آر او کا تحفظ

ان ترامیم کا دوسرا پہلو این آر او کا تحفظ ہے جس کے لیے ایک بار نہیں دو بار آرڈی ننس کی چار ماہ کی عمر کو غیرمؤثر قرار دیتے ہوئے اس این آر او کو، جس نے بدعنوانی اور کرپشن پر سفیدی پھیردی ہے اور اس کے مرتکبین کو ہمیشہ کے لیے مکمل طور پر بری کردیا ہے، مکمل تحفظ دیا گیا ہے۔ ہم نے بار بار اس امر کا اعادہ کیا ہے کہ جہاں یہ غلط اور بدترین ظلم ہے کہ کسی معصوم انسان کو محض سیاسی انتقام کا نشانہ بنا کر بدعنوانی اور کرپشن کا ملزم بنایا جائے، وہیں یہ بھی اتنا ہی غلط اور ایسا ہی ظلم ہے کہ سیاسی مصالح اور اپنی صف بندیوں کو محفوظ کرنے کی خاطر ان لوگوں کو جو بدعنوانیوں کے مرتکب ہوئے ہوں اور جنھوں نے اختیارات کا غلط استعمال کیا ہو اور ملک کی دولت کو لوٹا ہو، ان کو مکمل معافی اور چھٹی دی جائے۔

این آر او ایک شرمناک قانون ہے اور اس کے تحت پاک دامنی کا دعویٰ کرنے والے کبھی پاک دامن تسلیم نہیں کیے جاسکتے۔ اس مسئلے کا واحد حل وہ ہے جسے خود پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے میثاقِ جمہوریت میں تسلیم کیا ہے مگر ان ترامیم میں اس کا کوئی ذکر نہیں۔ اس میثاق میں دونوں نے قوم سے عہد کیا ہے کہ جہاں سیاسی بنیادوں پر انتقامی کارروائی سے اجتناب کیا جائے گا وہیں احتساب کے لیے ایک اعلیٰ عدالتی نظام قائم کیا جائے جو بے لاگ انداز میں سیاسی قیادت اور دوسرے ان تمام افراد کا جو ذمہ داریوں کے مناصب پر فائز رہے ہوں، احتساب کرے۔

این آر او کے ’پاک بازوں‘ کے دامن کو تو اس وقت تک صاف اور بے داغ قرار نہیں دیا جاسکتا جب تک وہ کسی معتبر عدالتی ادارے میں اپنی پاک دامنی ثابت نہ کرلیں، لیکن جس محنت اور غیرمعمولی اہتمام سے ان ترامیم میں این آر او کو تحفظ دیا گیا ہے وہ شکوک و شبہات کو بڑھانے والا ہے، ختم کرنے والا نہیں۔

اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ این آر او کو تحفظ ہرگز نہیں دینا چاہیے، اعلیٰ عدالت کو تمام حالات کا جائزہ لینا چاہیے اور آیندہ کے لیے اس کا مستقل انتظام ہونا چاہیے کہ کوئی بھی اختیارات کا ناجائز استعمال اور قومی وسائل کو ذاتی منفعت کے لیے استعمال کرنے کی جرأت نہ کرسکے اور جو کرے وہ قانون اور احتساب کی گرفت سے نہ بچ سکے۔ یہ عمل سیاسی دراندازیوں اور انتقامات اور شک و شبہے سے پاک اور بالکل شفاف ہو۔ یہ سب کے لیے ہو اور جو بھی اجتماعی زندگی میں سرگرم ہے اسے اس کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ دستوری ترامیم کے ذریعے این آر او کو دوام بخشنا ایک قومی جرم ہے اور اس کو برداشت نہیں کیا جاسکتا۔

عدلیہ پر پانچ وار

ان ترامیم کا تیسرا بڑا ہی تباہ کن پہلو عدلیہ کے پورے نظام کو سیاسی مصلحتوں کے تابع کرنا ہے۔ اس کے پانچ بڑے بڑے پہلو ایسے ہیں جن کا پردہ چاک کرنا ضروری ہے تاکہ ان کا کھل کر مقابلہ کیا جاسکے۔

ا- عدلیہ کی آزادی کا انحصار جن چیزوں پر ہے ان میں عدلیہ میں نئے ججوں کی تقرری بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ اس عمل کو خالص میرٹ کی بنیاد پر ہونا چاہیے جس میں قانونی مہارت کے ساتھ دیانت و امانت اور اصول اور حق پرستی کو مرکزی اہمیت حاصل ہے۔ یہ عمل سیاسی اثراندازیوں سے پاک ہونا چاہیے۔ بلاشبہہ یہ کام مشکل ہے اور دنیا کے تجربات اس ضمن میں  بڑی ملی جلی تصویر پیش کرتے ہیں۔ خود ہمارے یہاں جو کچھ ہوتا رہا ہے وہ ہرگز قابلِ فخر نہیں۔ ایک نہیں متعدد ججوں کی خود نوشتیں طبع ہوچکی ہیں اور وہ ایسی داستانوں سے بھری ہوئی ہیں جن پر سر شرم سے جھک جاتا ہے، لیکن جو تجویز اب جناب فاروق نائیک نے جناب زرداری صاحب کی ہدایت پر پیش کی ہے، اس کے بعد تو سیاست کا عمل دخل آسمان پر پہنچ جائے گا اور خواہی نہ خواہی یہ ادارہ بالکل تباہ ہوجائے گا۔ مرکزی اور صوبائی وزراے قانون کو مرکزی حیثیت حاصل ہوگی۔ ایک مشترک پارلیمنٹری کمیٹی آخری فیصلہ کرے گی۔ پاکستان کے حالات میں پارلیمانی کمیٹی کے سپرد اس کام کو کرنا اپنے اندر بڑے خطرات رکھتا ہے اور پارلیمنٹ کی بالادستی کے نام پر عدلیہ پر یہ ضرب ملک کو بڑی مہنگی پڑے گی۔یہ مسئلہ بڑی سنجیدہ سوچ بچار کا تقاضا کرتا ہے۔ خود امریکا میں بھی اس نظام پر شدید تنقید کی جارہی ہے اور بش کے تو ۲۰۰۰ء کے انتخاب ہی کو سیاسی عدلیہ کا فیصلہ قرار دیا جارہا ہے۔

ب- دوسرا مسئلہ ججوں کی میعاد (tenure) کی حفاظت کا ہے۔ اگر جج کو میعاد کی ضمانت نہ ہو تو یہ پورے نظامِ عدل کو متزلزل کردیتا ہے۔ دستور کی دفعہ ۲۰۹ کی جو نئی شکل تجویز کی جارہی ہے وہ خطرناک، بھونڈی اور ناقابلِ عمل ہے۔ چیف جسٹس اور اعلیٰ ججوں کی قسمت، سابق ججوں اور سیاسی عناصر کے ہاتھوں میں دی جارہی ہے اور اس جلادی تجویز کے ساتھ کہ کسی بھی جج بشمول چیف جسٹس اگر کوئی بھی شخص اس کے خلاف استغاثہ دائر کردے تو صدر فی الفور اسے جبری رخصت پر بھیج سکتا ہے۔ جبری رخصت کے سلسلے میں ۲۰جولائی کے سپریم کورٹ کے فل بنچ نے بڑا واضح فیصلہ دیا ہے مگر اسے بالکل نظرانداز کر کے ترمیم میں وہ موقف اختیار کیا گیا ہے جو جنرل پرویز مشرف کا تھا۔

مجوزہ کمیشن کے سابق ججوں کے لیے صلاحیت، دیانت، تجربہ، شہرت کی کوئی شرط نہیں۔ اگر کوئی شرط ہے تو یہ کہ وہ ’غیرسیاسی‘ ہوں مگر غیرسیاسی کی کوئی تعریف متعین نہیں کی گئی۔ کون سا جج سیاسی ہے اور کون سا غیرسیاسی___ اور حاضر سروس چیف جسٹس اور تمام اعلیٰ ججوں کی قسمت کا فیصلہ پانچ سابق ججوں اور تین دوسرے سیاسی عمل سے نامزد افراد کو سونپا گیا ہے۔ یہ بھی بڑا خطرناک کھیل ہے اور ہمیں اپنی عدلیہ کو ایسے خام تجربات کے لیے تختۂ مشق ہرگز نہیں بنانا چاہیے۔

ج- ایک بنیادی خرابی اس پوری تجویز میں پی سی او کے تحت حلف لینے والے ججوں سے عزت سے نجات حاصل کرنے کے بجاے انھیں عدالت کا حصہ بنانا ہے جس کے نتیجے میں نہ صرف عدالت کا وقار اور اس پر عوام کا اعتماد مجروح ہوگا بلکہ عدلیہ بھی مستقل کش مکش اور باہم تنائو کا شکار رہے گی اور اس طرح سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس اپنا دستوری کردار ادا کرنے کے لائق نہیں رہیں گے۔ ۱۹۹۰ء میں بھی عدلیہ کے بٹ جانے اور ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہونے کا تلخ معاملہ پیش آچکاہے اور اب تو باضابطہ انداز میں عدالت پر اس کو مسلط کرنے کی کوشش ہورہی ہے جو انصاف کے نظام کو قتل کرنے کے مترادف ہوگا۔

د- ایک اور ظلم جو ان تجاویز میں کیا گیا ہے اور بڑے معصوم انداز میں کیا گیا ہے وہ   سپریم کورٹ کو اس اختیار ہی سے محروم کردینا ہے جس کے تحت وہ عوام کے ساتھ کیے جانے والے مظالم اور حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں پر عوام کی داد رسی کے جواب میں یا ازخود نوٹس لے کر ان کو انصاف مہیا کرنے کے لیے کرسکتے تھے۔ دفعہ (۳) ۱۸۴ میں ایک معصوم سی ترمیم کے ذریعے ظلم اس ملک کے عوام کے ساتھ کیاجا رہا ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کو قابلِ نفاذ حکم (mandatory) سے نکال کر محض اعلان (declaratory) بنانے کی جسارت کی جارہی ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ عدالت بس وعظ و نصیحت اور مشورہ اور تجویز کرسکے گی اور اس کا حکم ان معاملات میں آپ سے آپ لاگو نہیں ہوسکے گا۔ اناللہ وانا الیہ راجعون!

چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے اعلیٰ انتظامیہ کو جو سبق سکھایا تھا، غالباً یہ اس کا جواب ہے! اور وہ بھی کسی پولیس یا آرمی افسر یا بیوروکریٹ کی طرف سے نہیں عوام کے نمایندے جناب زرداری صاحب اور جناب فاروق نائیک کی طرف سے!

ر- پانچواں مسئلہ ججوں کی میعاد (tenure) کی مدت یعنی ریٹائرمنٹ کی عمر کا ہے اور چیف جسٹس صاحبان کے بحیثیت چیف جسٹس مدت کے تعین کا۔ اس وقت سپریم کورٹ کے ججوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر ۶۵ سال اور ہائی کورٹس کے ججوں کی ۶۲سال ہے۔ اب اسے بڑھا کر ۶۸ اور ۶۵کرنے کی تجویز ہے۔ اس تجویز پر خالص میرٹ کی بنیاد پر غور ہوسکتا ہے۔ دنیا کے متعدد ممالک میں اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کے لیے لازمی ریٹائرمنٹ کی کوئی مدت مقرر نہیں بلکہ موت، استعفا یا معذوری ہی کی شکل میں وہ اپنے منصب سے فارغ ہوتے ہیں اور اس طرح انھیں میعاد کی مکمل  ضمانت حاصل ہوتی ہے اور ریٹائرمنٹ کے بعد کسی دیگر نفع بخش کام کی فکر سے بھی آزاد رہتے ہیں۔ لیکن ہمارے یہاں یہ مسئلہ خاص افراد کے لیے جگہ بنانے یا چیف کے درجے تک ترقی ممکن بنانے کے لیے کیا جا رہا ہے جو ناقابلِ قبول ہے۔ یہی کھیل ایل ایف او میں بھی کھیلنے کی کوشش کی گئی تھی جسے ناکام بنا دیا گیا تھا۔ یہ اس کا replay ہے اور پہلے سے بھی زیادہ بھونڈے انداز میں! اسی طرح عدلیہ کی بحالی کی صورت میں ایک خاص جج کی بحالی کو ناممکن بنانا بھی فرد کے لیے مخصوص (person-specific) ترمیم کے زمرے میں آتا ہے۔ جسٹس جاوید اقبال کو باہر رکھنے کے لیے یہ تجویز لائی جارہی ہے۔ چیف جسٹس کی میعاد کی تحدید تین سال ہو یا پانچ سال، یا اس سے کم زیادہ بھی اسی قبیل کی شے ہے۔ ایک خاص شخص سے نجات اورکسی خاص شخص کو اس عہدے پر لانے کے لیے یہ کھیل کھیلا جا رہا ہے جو دستور کے ساتھ بددیانتی بلکہ بدفعلی کے مترادف ہے۔ جوقیادت عدلیہ کے ساتھ یہ کھیل کھیل رہی ہے اور ساتھ ہی عدلیہ کی آزادی کے بلندبانگ دعوے کرتی ہے اس کی عقل کا ماتم کیا جائے یا دیانت کا نوحہ!

صدر اور وزیراعظم کے اختیارات

صدر کے اختیارات کم کرنے اور وزیراعظم کو اختیارات کا محور اور مرکز بنانے کے لیے بھی اس میں متعدد ترامیم تجویز کی گئی ہیں۔ ہم خود صدر کے صواب دیدی اختیارات کے خلاف ہیں اور پارلیمانی نظام میں وزیراعظم اور وزرا، جو عوام کے بلاواسطہ منتخب کردہ ہیں، وہی اصل انتظامی اختیار کے مستحق ہیں لیکن اس سلسلے میں بھی چند باتوں کا لحاظ ضروری ہے اور علم سیاست کے جدید مباحث میں ان پر کھلے انداز میں گفتگو ہورہی ہے۔ پارلیمانی نظام میں وزیراعظم کے ڈکٹیٹر بننے کا خطرہ موجود ہے اور اس کے لیے علم سیاست میں آج کل ایک دل چسپ اصطلاح استعمال کی جارہی ہے یعنی Prime Ministerial System۔ پارلیمانی نظام کو پارلیمانی نظام ہی رہنا چاہیے، اسے وزیراعظمی نظام نہیں بن جانا چاہیے۔ تقسیم اختیارات کے معنی یہ ہیں کہ وزیراعظم اپنے سے مساوی افراد میں پہلا ہو، خود ہی سب کچھ نہ بن جائے۔

اس کے لیے کئی اقدامات کیے گئے ہیں۔ ایک کابینہ کی اجتماعی ذمہ داری، دوسرے ہر وزیر کے اپنے اختیارات جو وہ وزیراعظم کی مداخلت کے بغیر انجام دے سکے، تیسرے وزیراعظم کی پارلیمنٹ کے سامنے جواب دہی جس کے لیے خصوصی وقفہ سوالات کا نظام قائم کیا گیا ہے۔ کچھ ممالک میں وزیراعظم کو وزرا کے انتخاب کا اختیار دیا گیا ہے مگر ہروزیر اور اس کے شعبے کی پارلیمنٹ میں توثیق ضروری ہے اور جسے پارلیمنٹ اعتماد نہ دے وہ وزیر نہیں بن سکتا۔ نیز وزیراعظم پر بے اعتمادی کا ووٹ بھی اسی نوع کی ایک تدبیر ہے۔ اب جو دستوری ترامیم پیپلزپارٹی کی قیادت لائی ہے اس میں وزیراعظم کو نہ صرف یہ کہ کلّی اختیارات دے دیے گئے ہیں بلکہ ایک ایسی ترمیم بھی تجویز کی ہے جو ۱۹۷۳ء میں دستور سازی کے وقت رکھی گئی تھی اور جسے اس اسمبلی نے، جس نے دستور کو منظور کیا، رد کردیا تھا اور بڑی سخت تنقید کے بعد رد کیا تھا۔ تجویز یہ ہے کہ وزیراعظم کے خلاف عدمِ اعتماد کی تحریک اس وقت تک نہیں لائی جاسکتی جب تک اس تحریک میں متبادل قائد ایوان کا نام نہ شامل ہو۔ گویا ایک وزیراعظم پر بے اعتمادی اور دوسرے شخص پر اعتماد کا اظہار ایک ہی قرارداد کے ساتھ ہو۔ یہ سرتاسر غیرمعقول تجویز ہے اور اس کے معنی یہ ہیں کہ ایسی تحریک آہی نہ سکے۔ جب ۱۹۷۳ء کے دستور میں یہ تجویز رکھی گئی تھی تو محمود علی قصوری صاحب نے اس پر بڑی سخت تنقید کی تھی اور صرف اپوزیشن ارکان نے ہی نہیں سرکاری اتحاد کے لوگوں نے بھی اسے رد کردیا تھا۔ معلوم نہیں فاروق نائیک صاحب اس مسترد تجویز کو قبر میں سے نکال کر پھر سے کیوں لے آئے ہیں۔ یوسف رضا گیلانی صاحب کے تحفظ کے لیے تو یہ ہو نہیں سکتی۔ کیا زرداری صاحب اپنے آیندہ تحفظ کا ابھی سے یہ سامان کرنا چاہتے ہیں؟

صدر کے اختیارات میں کمی ___ تین شبھات

ویسے تو صدر کے اختیارات کو کم کرنے کا کام انجام دیا گیا ہے اور اس کا سب سے اہم حصہ وہ صواب دیدی اختیارات ہیں جن کی وجہ سے صدر پارلیمنٹ اور انتظامیہ پر حاوی ہوگیا تھا یعنی ۵۸ (۲-بی) اور اہم تقرریوں کے بارے میں اس کے کُلی اختیارات۔ ان امور پر صدر کو وزیراعظم اور کابینہ کی ایڈوائس کا پابند کرنا ضروری ہے اور ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں۔ البتہ اس سلسلے میں تین چیزیں ایسی ہیں جو ہم سمجھنے سے قاصر ہیں:

ا- آرٹیکل ۴۵ کا تعلق معافی (amnesty ) کے معروف مسئلے سے ہے جس کے تحت صدر عدالتوں سے دی جانے والی سزائوں میں تخفیف یا معافی کا حق رکھتا ہے۔ بلاشبہہ اسلامی قانون کے تحت حدود کے معاملے میں اسے یہ اختیار نہیں لیکن باقی امور میں مروجہ قانونی روایات کی روشنی میں اس کی گنجایش ہے۔ اس دفعہ میں ایک نئی ترمیم کے ذریعے صدر کو سندجواز عطا کرنے (validation) کا ایسا لامحدود (open ended) اختیار دیا جا رہا ہے جس کا کوئی جواز نہیں ہوسکتا اور جسے اگر غلط استعمال کیا جائے تو انتظامیہ اس کے سہارے پر قانون اور ضابطے کے پورے عمل کو سبوتاژ کرسکتی ہے۔ ایک تو معاملات کے دائرے کو عدالتی فیصلوںکے دائرے سے نکال کر عالم گیر وسعت دینا اور پھر ہر معاملے کو سندجواز عطا کرنے کا اختیار اس کو دیا جا رہا ہے جو انصاف، اصولِ حکمرانی اور جمہوری احتساب ہر عتبار سے غلط ہے۔ اس وقت جو دفعہ ہے وہ یہ ہے:

دفعہ ۴۵: صدر کو کسی عدالت ٹریبونل یا دیگر ہیئت مجاز کی دی ہوئی سزا کو معاف کرنے، ملتوی کرنے اور کچھ عرصے کے لیے روکنے اور اس میں تخفیف کرنے، اسے معطل یا تبدیل کرنے کا اختیار ہوگا۔

تجویز ہے کہ amnesty کے بعد اضافہ کردیا جائے۔

"or indemnify any act whatsoever".

دیکھیے اس ایک جملے سے معاملے کی نوعیت ہی بدل گئی۔ اب عدالتی عمل کے تحت دی جانے والی سزا میں جو تخفیف یا معافی کی گنجایش تھی وہ بدل کر ہر قسم کی بدعنوانی، لاقانونیت، ضابطے کی خلاف ورزی، اختیار کے غلط استعمال، استحصال گویا کسی بھی اقدام کو indemnify (قانونی ذمہ داری سے بَری) کرنے کا اختیار دیا جا رہا ہے۔ دراصل یہ حق انتظامیہ اپنے لیے لے رہی ہے۔ یہ دستور کی دفعہ ۲۷۰ کا ایک بدل ہے کہ جب اور جس عمل کو سندجواز دینا (validate) ہو، صدر کو اس کے لیے استعمال کیا جاسکتاہے۔ یہ انصاف، قانون، ضابطہ اور اخلاق ہر ایک کا خون ہے اور قانون کی خلاف ورزی کے لیے دروازے کھول دینے کے مترادف ہے۔

ب- افواج کے سربراہان (service chiefs) کے تقرر کا اختیار بھی صدر کو حاصل ہے۔ یہ بھی صواب دیدی اختیار تھا مگر اسے ۱۷ویں ترمیم میں وزیراعظم سے مشورے سے مشروط کیا گیا تھا۔ نہ معلوم کیوں اب وزیراعظم کے مشورے کے حصے کو حذف کیا جا رہا ہے۔ غالباً اس بنیاد پر کہ صدر وزیراعظم کے مشورے (advice) پر یہ کام کرے گا لیکن بات صراحت کے ساتھ واضح نہیں ہورہی۔ موجودہ سربراہوں کو تین نام اپنی ترجیح کے مطابق دینے کی شرط عائد کی جارہی ہے، جب کہ عملاً یہ پہلے سے ہو رہا ہے البتہ اس وقت صدر کو یہ اختیار ہے کہ وہ تجویز کردہ ناموں کے باہر سے بھی تقرر کرسکتا ہے اور کئی تقرریاں چھے اور سات افراد کو پھلانگ کرکے بھی کی گئی ہیں۔ نئی تجویز میں ریٹائر ہونے والے سربراہ کو فیصلہ کن پوزیشن دے دی گئی ہے جو محل نظر ہے۔ ایک تو یہ واضح ہونا چاہیے کہ تقرری صدر کرے گا یا صدر وزیراعظم کے مشورے پر کرے گا جیساکہ ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء کو تھا۔ البتہ اس نازک معاملے کے صحیح صحیح انجام پانے کے لیے کچھ دوسری احتیاطیں بھی ضروری ہیں جن پر اس وقت غور کرنا چاہیے۔ پہلی چیز یہ ہے کہ بالعموم یہ تقرری سینیارٹی کی بنیاد پر ہونی چاہیے جس کے نتیجے میں سروس میں بھی اطمینان ہوگا کہ ہرشخص کو اس کے حق اور صلاحیت کے مطابق موقع ملے گا اور تقرری کی دوڑ میں جو سیاسی یا رقابتی اثرات کارفرما ہوجاتے ہیں ان سے  بچا جاسکے گا۔ البتہ اس کی گنجایش رکھی جاسکتی ہے کہ کسی غیرمعمولی صورت میں کسی اعلیٰ کمیشن کے مشورے سے اس قاعدے میں نرمی ہوسکتی ہے لیکن وجوہ ریکارڈ پر لاکر، ذاتی پسند و ناپسند کی بنیاد پر نہیں۔ لیکن ایک دوسری بات کا اہتمام بھی ضروری ہے جسے ہماری نگاہ میں دستوری ترمیم کا حصہ ہونا چاہیے کہ یہ عہدے اپنی میعاد کے ساتھ متعین ہوں گے۔ ان میں توسیع کا امکان بالکل ختم ہونا چاہیے۔ ہمارے یہاں بڑا بگاڑ اسی راستے سے آیا ہے کہ جو بھی چیف آف اسٹاف بنا ہے اس نے مدت عہدہ میں توسیع کی کوشش کی ہے۔ جنرل ایوب سے اس کا آغاز ہوا اور جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف نے اسے استعمالِ بد کی حد تک پہنچا دیا۔

بھارت میں گذشتہ ۶۱سالوں میں کوئی ایک بھی مثال ایسی نہیں ہے کہ کسی بھی سروس کے چیف کو اس کی مدت پوری ہونے کے بعد توسیع دی گئی ہو۔ امریکا، برطانیہ اور مغربی ممالک میں بھی یہی روش ہے۔ اگر توسیع کے دروازے کو بند کردیا جائے اور خالص میرٹ پر سینیارٹی کی بنیاد پر افواج کے سربراہان کی تقرریاں ہوں تو فوج کی پیشہ ورانہ مہارت میں اضافہ ہوگا اور سیاست پر شب خون مارنے کی راہیں بھی مسدود ہوں گی۔

اسلام پر کاری ضرب

ان ترامیم میں اسلام پر بھی ایک کاری ضرب لگائی گئی ہے اور بڑے معصوم انداز میں۔ وفاقی شرعی عدالت کے دائرۂ کار کو پہلے ہی روزاول سے محدود کیا ہوا ہے اور آرٹیکل بی-۲۰۳ کے پیراگراف (سی) کے تحت بہت سے قوانین کو اس کے دائرۂ اختیار سے باہر رکھا گیا ہے، خاص طور دستور، عائلی قانون، عدالتی ضابطے وغیرہ لیکن ملک کے مالیاتی اور محصولاتی نظام کو صرف دس سال کے لیے اس کے دائرے سے باہر رکھا گیا تھا جو ۱۹۹۵ء میں ختم ہوگیا ہے۔ اسی کی روشنی میں وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ کے شریعہ بنچ نے سود کے مسئلے پر اس مدت کے ختم ہوجانے کے بعد اپنے فیصلے دیے ہیں۔ اب اس ترمیم کے ذریعے دس سال کی مدت والے جملے کو حذف کیا جا رہا ہے لیکن اس چابک دستی کے ساتھ کہ ملک کا پورا مالیاتی اور محصولاتی نظام ایک بار وفاقی شرعی عدالت کے دائرۂ اختیار سے باہر ہوجائے۔ اگر دلیل یہ ہے کہ دس سال کی مدت ہوچکی اور یہ حصہ اب غیر ضروری ہے تو پھر دس سال سے شروع ہونے والے جملے کو اختتام تک حذف کرنا چاہیے تھا تاکہ موجودہ قانونی پوزیشن مستقل ہوجائے۔ لیکن دراصل جس طرح یہ ترمیم تجویز کی جارہی ہے وہ سودی نظام کے تحفظ کی شرمناک اور اللہ سے بغاوت کی ایک بے باک کوشش ہے۔ اس کے نتیجے میں ایک بار پھر شریعت کورٹ کے دائرۂ اختیار سے یہ تمام امور نکل جائیں گے جو دس سال کے استثنا کے بعد اب اس کے اختیار میں ہیں۔

یہ قرآن وسنت کے کھلے احکام کے خلاف قانون سازی کی ایک افسوس ناک کوشش ہے جسے کسی صورت میں برداشت نہیں کیا جانا چاہیے۔ ایک طرف سینیٹ متفقہ طور پر تجویز کر رہا ہے کہ پورے ملک میں اسلامی فنانس اور بنکاری کو فروغ دیا جائے اور دوسری طرف ملک کے پورے مالیاتی اور محصولاتی نظام کو دوبارہ اور ہمیشہ کے لیے وفاقی شریعت کورٹ کے دائرۂ اختیار سے باہر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ تفو برتو چرخ گرداں تفو!

ایک عجوبہ ترمیم

ان ترامیم میں ایک عجوبہ وہ ترمیم ہے جو بظاہر دستور توڑنے والوں کے لیے سزا اور اپنے حلف کی خلاف ورزی کرنے والے فوجیوں اور دستور میں دیے ہوئے حلف کے برعکس حلف لینے والے ججوں کو بغاوت کا مرتکب قرار دینے اور مستوجب سزا بنانے کے لیے کی جارہی ہے مگر فی الحقیقت  جو زبان اور انداز اختیار کیا گیا ہے اس کے نتیجے میں سزا ایسے جج کو نہیں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کو دی جائے گی اور اسی ترمیم (آرٹیکل ۲۷۶) میں "a person" کے لفظ کو اتنے ڈھیلے (loose) انداز میں استعمال کیا گیا ہے کہ اس کی زد میں پارلیمنٹ کے ارکان تک آسکتے ہیں۔ لطف یہ ہے کہ اس سزا کا اطلاق ان لوگوں پر نہیں ہوتا جنھوں نے ۱۲اکتوبر ۱۹۹۹ء یا ۳نومبر ۲۰۰۷ء کو دستور کی تخریب (subvert )کی، اور وہ جج بھی اس سے مستثنیٰ ہیں جو دستور کی اس تخریب کو سندجواز دینے والے ہیں بلکہ اس کا اطلاق صرف مستقبل پر ہوگا۔ یہ عجیب جرم ہے کہ اس کے آج کے ارتکاب کرنے والے محفوظ ہیں مگر یہ صرف آنے والوں کے لیے انتباہ ہے، چاہے آج کے مجرم دندناتے ہی کیوں نہ پھر رہے ہوں۔

عدالت کے سلسلے میں ہم سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ججوں کی جگہ any court including a high court and the supreme court (کوئی بھی عدالت بشمول کوئی عدالت عالیہ اور عدالت عظمیٰ) کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ کیا اس کے یہ معنی ہیں کہ عدالت کے بنچ کے  ان ججوں کو بھی سزا ہوگی جنھوں نے اکثریت کے فیصلے سے اختلاف کیا ہو اور مارشل لا یا دستور کی تخریب کی تائید نہ کی ہو؟ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کی سزا کی کیا شکل ہوگی؟ کیا یہ عدالتیں قانون کی نظر میں ایک فرد ہیں یا ان عدالتوں کو تباہ کردیا جائے گا___ کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی!

اسی طرح فوج کے ذمہ داروں کی طرف سے حلف کی خلاف ورزی کی بات بڑی مبہم ہے۔ حلف میں تو صرف سیاست میں حصہ نہ لینا ہے___ کیا ایک فوجی کا کسی سیاسی شخصیت سے ملنا، کسی سیاسی جلسے میں شرکت خواہ وہ انتخابی جلسہ ہی کیوں نہ ہو، حلف کی خلاف ورزی ہوگا؟ دستور توڑنا، اقتدار پر قبضہ اور چیز ہے اور ایک فوجی کا کسی سیاسی سرگرمی میں حصہ لینا دوسری چیز۔ جرم اور سزا میں مطابقت بھی انصاف کا اساسی اصول ہے۔ غداری (high treason) کا تعین واضح طور پر ہونا چاہیے۔ اتنی مبہم بات کہ حلف کی پاسداری نہ کرے، یا دستور میں دیے گئے حلف کے الفاظ سے ہٹ کر حلف لے، وہ غداری کا مرتکب ہوگا، محل نظر ہے۔ ان معاملات کو زیادہ سوچ سمجھ کر اور قانون کی باریکیوں اور اس کے تقاضوں کو سامنے رکھ کر طے ہونا چاہیے۔ جس طرح یہ ترامیم تیار کی گئی ہیں، اس سے بے حد جلدبازی کا اظہار ہو رہا ہے۔


ان ترامیم میں ایسی چیزیں بھی ہیں جن پر ہمدردی سے غور ہوسکتا ہے مثلاً صدر کی طرف سے نظرثانی کے لیے قانون یا ایڈوائس بھیجنے کی مدت میں کمی، سینیٹ میں بجٹ پر غور کی مدت میں اضافہ، پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے ادارے کو بحال اور متحرک کرنا، دستور کے بہت سے فالتو (redundant) حصوں کو حذف کردینا، مصالحتی (reconciliation) کمیٹی کے طریق کار کو ختم کردینا، صدر کی جگہ وفاقی حکومت کو اختیار دینا وغیرہ۔

بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن کی حکمت اور مصلحت کے باب میں ایک سے زیادہ آرا ہیں مثلاً اقلیتوں کا مطالبہ تھا کہ جداگانہ انتخاب کا طریقہ ختم کیا جائے اور اس کے لیے ملک اور ملک سے باہر سیکولر اور لبرل لابی نے مہم چلائی جس کی بنیاد حکمت و مصلحت اور نمایندگی کے حقوق سے کہیں زیادہ نظریاتی تھی۔ لیکن جب انھیں مخلوط انتخاب مل گیا تو پھر اب جداگانہ نمایندگی کا مطالبہ چہ معنی دارد؟___ اگر مخلوط انتخاب چاہتے ہیں تو اس کے آداب اور اصولوں کا بھی احترام کیجیے اور عام سیاسی پارٹیوں کے ذریعے سب کے ووٹ سے پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں تشریف لایئے۔ ہم نے تو جداگانہ انتخاب کے طریق کار کے ذریعے اقلیتوںکی نمایندگی اور موجودگی کو یقینی بنایا تھا، اسے آپ نے نظریاتی بنیادوں پر رد کردیا۔ اب مخلوط انتخاب کے ساتھ مخصوص نمایندگی کا مطالبہ انمل بے جوڑ ہے۔ اب مخلوط قومیت کا وہ نظریہ کیا ہوا؟ انگریزی محاورے میں You want to eat your cake and have it too.۔ یہ سراسر تضاد اور زیادتی بھی! نیز یہ دیانت کے اصولوں سے بھی ہم آہنگ نہیں۔

الیکشن کمیشن، قومی مالیتی کمیشن، قومی معاشی کونسل، مشترک مفادات کی کونسل وغیرہ کے سلسلے میں ترامیم میں کئی چیزیں اچھی اور مناسب ہیں اور کچھ میں مزید اصلاح کی گنجایش ہے۔ خصوصیت سے قومی اقتصادی کونسل اور قومی مالیاتی کمیشن میں سینیٹ سے نمایندگی کے مسئلے پر غور ہونا چاہیے جو وفاق کے بنیادی تقاضوں سے ہم آہنگ ہے۔ مشترک فہرست میں سے صرف چند کو خارج کرنا اور باقی پر مرکز کی قانون سازی کے حق کو باقی رکھنا بھی صحیح نہیں۔ مشترک فہرست کو مکمل طور پر ختم ہوجانا چاہیے اور یہ صوبائی خودمختاری کا کم سے کم تقاضا ہے۔ اس کا وعدہ ۱۹۷۳ء میں کیا گیا تھا کہ دس سال میں یہ کام ہوجائے گا۔ آج ۳۵ سال کے بعد بھی پیپلزپارٹی کی قیادت اس کے لیے تیار نہیں حالانکہ بلوچستان کمیٹی میں دستوری ترامیم کی بحث کے موقعے پر پیپلزپارٹی نے مشترک فہرست کو ختم کرنے کے حق میں اظہار کیا تھا، اور غالباً میثاقِ جمہوریت میں بھی اس کا اعادہ کیا گیا تھا، آخر یہ رجعت قہقہری کیوں؟

یہ اور دوسرے متعدد امور ایسے ہیں جن پر کھلی بحث ہونی چاہیے اور افہام و تفہیم اور عوامی خواہشات کی روشنی میں دستوری اصطلاحات کا کام ہونا چاہیے۔ کچھ اور دستوری امور ایسے ہیں  جن کو ان ترامیم میں شامل کرنے کی ضرورت ہے مثلاً آرڈی ننس کے ذریعے قانون سازی،    ذیلی (subordinate) قانون سازی کے نام پر پارلیمنٹ کو قانون سازی کے ایک بڑے دائرے سے باہر کردینا اور اسے مکمل طور پر انتظامیہ کے ہاتھوں میں دے دینا حتیٰ کہ یہ قانون سازی اور ضوابط کاری پارلیمنٹ کے علم تک میں نہیں آتی ہے۔ اسی طرح بیرونی معاہدات اور مالیاتی معاہدوں کوپارلیمنٹ میں آنا چاہیے۔ ریاستی پالیسی کے رہنما اصولوں کے باب میں پارلیمنٹ کے عمل دخل کو بڑھانے اور ان میں سے کچھ کو قابلِ داد رسی (justiciable) بنانے کا مسئلہ بھی اہم ہے اور اس پر ازسرنو غور کی ضرورت ہے۔ اسلامی قانون سازی اور ملکی قوانین کو قرآن و سنت سے ہم آہنگ کرنے کے لیے دستور نے سات سال کی مہلت رکھی تھی، آج اس مدت کو ختم ہوئے ۲۸سال ہورہے ہیں۔ اسی طرح قومی زبان اُردو کے نفاذ کے لیے ۱۵ سال کی مدت رکھی گئی تھی، اس مدت کو ختم ہوئے ۲۰ سال ہو گئے ہیں۔ کیا ان سب امور پر غور اور دستور کے مطالبات کو پورا کرنے کے لیے نئی تدابیر اختیار کرنے کا وقت نہیں آیا۔ کیا دستور میں دی ہوئی مدت میں متعین کام نہ کرنا اور مسلسل ٹال مٹول کرنا دستور کی خلاف ورزی اور تخریب (subversion) نہیں ہے اور ایسی صورت میں دفعہ ۶ کا اطلاق کس پر ہوگا؟ قومی اسمبلی کی مدت (پانچ سال یا چار سال) اور اس مدت کے خاتمے کے بعد نئے انتخابات کا انعقاد یا اس مدت کے پوری ہونے سے قبل انتخابات کا معاملہ جیساکہ ۱۷ویں ترمیم کے ذریعے تبدیلی سے پہلے تھا۔ ہمارے خیال میں اسے اصل شکل میں بحال کرنا بہتر ہوگا۔ یہ اور بہت سے دوسرے امور ہیں جن پر بھی اس موقع پر غور ہوسکتا ہے تاکہ دستوری ترامیم زیادہ سے زیادہ جامع ہوں اور باربار یہ کام انجام نہ دینا پڑے۔

دستوری ترامیم کا ہمارا یہ جائزہ اس معنی میں ہرلحاظ سے مکمل نہیں کہ اس میں تمام امور کا احاطہ کیا گیا ہو۔ ہم نے صرف چند بنیادی اور مرکزی اہمیت کے امور کو موضوع بحث بنایا ہے،  جب کہ اس سلسلے میں اصل دستاویز کے شق وار مطالعہ اور اتفاق راے پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ کام اہم ہے مگر وقت طلب بھی ہے اور اس کا حق ادا کیا جانا چاہیے۔ دستور میں روز روز ترمیم نہیں ہوتی اور آج جن ترامیم کی ضرورت ہے مناسب معلوم ہوتا ہے قومی بحث و مباحثہ اور پارلیمنٹ میں کھلے تبادلۂ خیال کے ذریعے انھیں کرلینا چاہیے۔ اس میں نہ غیرضروری تاخیر کی جائے،         نہ غیرمناسب عجلت سے یہ کام انجام دیا جائے۔ اس لیے ہم ایک بار پھر اس امر کا اعادہ کرتے ہیں کہ عدلیہ کی بحالی کے مسئلے کو کسی تاخیر کے بغیر حل کیا جائے تاکہ عدالتی نظام اور اس پر اعتماد بحال ہو۔ اس وقت جواعلیٰ عدالتیں ہیں، ہمیں دکھ سے کہنا پڑتا ہے، کہ ان پر نہ قوم کو ان پر اعتماد ہے اور نہ  وکلا برادری کو۔ یہ سلسلہ جلداز جلد ختم ہونا چاہیے۔ بجٹ منظور ہوگیا ہے۔ اب اولیت اس مسئلے کو  دی جائے اور بجٹ کے بعد پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس بلا کر اس مسئلے کو حل کردیا جائے۔ رہا معاملہ دستوری ترامیم کا، تو اس پر گفتگو ساتھ ساتھ چلنی چاہیے۔ عملی تجربات کی روشنی میں ان تمام اہم امور کا احاطہ کیا جائے جن کی اصلاح وقت کا تقاضا ہے۔ یہی زندہ قوموں کا شعار ہے۔ ہمیں اپنی ترجیحات صحیح کرنی چاہییں۔ اسی کے نتیجے میں قوم کے اندر تعاون کی بہتر فضا قائم ہوسکتی ہے۔

 

(کتابچہ دستیاب ہے، منشورات، منصورہ،لاہور۔ قیمت: ۷ روپے)

بجٹ ایک ملک کے مالیاتی میزانیے سے کہیں زیادہ پہلوؤں کا حامل ہوتا ہے۔ بلاشبہہ اولین حیثیت سے یہ حکومت کی سالانہ آمدنی اور اخراجات کا آئینہ ہی ہوتا ہے لیکن اس سے زیادہ یہ حکومت کی معاشی اور مالیاتی پالیسی، اہداف اور ترجیحات کا عکاس ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی ملک کے بجٹ کا جائزہ لیتے وقت مالی حساب کاری کے ساتھ معاشی پالیسی، اس کی سمت اور اس صلاحیت کا تعین بھی ضروری ہے کہ کہاں تک اس میں حالات کے صحیح ادراک اور ان کی اصلاح کے لیے مناسب اقدام کا اہتمام کیا گیا ہے۔

ہمیں احساس ہے کہ مخلوط حکومت نے معاشی اعتبار سے بڑے نامساعد حالات میں   زمامِ کار سنبھالی ہے اور اسے بجٹ سازی کے لیے مہلت بھی خاصی کم ملی ہے۔ جنرل (ر) پرویز مشرف اور ان کی معاشی ٹیم نے آٹھ سال سے زیادہ جو کچھ ملک کی معیشت کے ساتھ کیا اس کے نتائج تو ۲۰۰۶ء ہی سے رونما ہونا شروع ہوگئے تھے لیکن ۰۸-۲۰۰۷ء میں ان کے دعووں کی قلعی بالکل کھل گئی اور جن مفروضوں پر معاشی ترقی کا ڈھول پیٹا جا رہا تھا وہ ریت کی دیوار کی طرح زمین بوس ہوگئے۔ ہم نے اور دوسرے ماہرین معیشت نے بار بار اس طرف توجہ دلائی کہ قوم کے سامنے صحیح اعداد وشمار پیش نہیں کیے جارہے، غربت میں کمی کے دعوے حقیقت سے مطابقت نہیں رکھتے۔ سالانہ ترقی کے ۷ اور ۸ فی صد کے دعوے اور اس رفتار کو جاری رکھنے کی باتیں درست نہیں اس لیے کہ ملک میں زراعت اور صنعت کے شعبے روبہ ترقی نہیں اور محض خدمات کے شعبے اور نودولتیوں کے صَرف (consumption) کے سہارے ترقی کبھی دیرپا نہیں ہوتی۔ بنیادی طور پر معاشی حالات بگاڑ کی طرف جارہے تھے اور حکومت کے ذمہ دار اور اس کے نشریاتی ادارے قوم کو گمراہ کرنے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے میں مصروف تھے۔ یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ سالِ رواں میں ۷ فی صد سے زیادہ شرح ترقی کے ہدف کے مقابلے میں ترقی کی شرح صرف ۸ئ۵ فی صد رہی ہے۔ اس کا ۷۵ فی صد خدمات کے شعبے کا مرہونِ منت ہے۔ زراعت میں ۵ئ۴ فی صد کے ہدف کے مقابلے میں اضافہ صرف ۵ئ۱ فی صد تھا اور وہ بھی لائیوسٹاک کی وجہ سے جس کا حصہ زراعت میں ۵۲ فی صد ہے۔ اہم فصلوں کی پیداوار میں ۳ فی صد کمی واقع ہوئی اور ملک میں خوردونوش کی اشیا کی قلت اور مہنگائی دونوں نہ صرف رونما ہوئے بلکہ ایسے حالات پیدا ہوگئے کہ عام آدمی کے لیے زندگی گزارنا دوبھر ہوگیا اور کم آمدنی والے خاندان فقروفاقہ کا شکار ہونے لگے اور نوبت خودکشیوں اور اولاد فروشی تک جاپہنچی۔

اس کے باوجود حکومت کی شاہ خرچیوں میں اضافہ ہوتا رہا، بجٹ کا خسارہ ۵۰۰ ارب ڈالر سے متجاوز ہوگیا، درآمدات بڑھتی گئیں اور برآمدات میں متناسب اضافہ نہ ہوسکا جس کے نتیجے میں تجارت کا خسارہ ۱۸ ارب ڈالر اور ادایگیوں کا خسارہ ۱۱ ارب ڈالر تک پہنچ گیا اور ملکی اور بیرونی قرضوں کا بار اور بھی بڑھ گیا۔ دعوے تھے کشکول توڑنے کے مگر ۱۹۹۹ء کے مقابلے میں ۰۸-۲۰۰۷ء میں بیرونی قرضے ۳۴ ارب ڈالر سے بڑھ کر ۴۵ ارب ڈالر تک پہنچ گئے اور اندرون ملک حاصل کیے جانے والے قرضوں میں ان آٹھ سالوں میں دو ہزار ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ افراطِ زر کا حال یہ ہے کہ جولائی ۲۰۰۷ء میں اس کی شرح ۴ئ۶ فی صد تھی جو اپریل ۲۰۰۸ء میں بڑھ کر ۲ئ۱۷ فی صد ہوگئی ہے اور اگر خوراک کی اشیا کا انڈکس لیا جائے تو اضافہ ۵ئ۸ سے بڑھ کر ۵ئ۲۵ فی صد ہوگیا ہے۔ حکومت اسٹیٹ بنک سے آنکھیں بند کر کے بگ ٹٹ قرضے لیتی رہی ہے اور اس کے نتیجے میں ملک میں کرنسی کی گردش کی رفتار میں ۱۹ فی صد سالانہ سے زیادہ کا اضافہ ہوا ہے___ اشیا کی قلت، عالمی منڈیوں میں قیمتوں میں اضافہ، قرضوں کی بھرمار، زیر گردش کرنسی میں محیرالعقول بڑھوتری ___ اگر افراطِ زر کا طوفان اُمنڈ نہ آئے تو کیا ہو؟

ہمیں احساس ہے کہ موجودہ حکومت کو یہ مسائل اور عالمی منڈی میں تیل کی قیمت میں اضافہ ورثے میں ملے ہیں مگر ایسا نہیں کہ یہ عالمی رجحانات اور خود ملک میں ۲۰۰۷ء میں رونما ہونے والے حالات اور ۲۰۰۸ء پر ان کے اثرات پردئہ غیب میں تھے۔ سیاسی جماعتوں کو ان کا ادراک ہونا چاہیے تھا لیکن معلوم ہوتا ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں بنیادی تیاری (home work) کی قائل نہیں۔ برسرِاقتدار جماعتوں میں سے کسی کے پاس بھی سیاسی نعروں کے سوا کوئی ٹھوس منصوبۂ عمل نہیں۔ ۰۹-۲۰۰۸ء کا بجٹ چند نمایشی چیزوں کے سوا اسی طرز پر بنایا گیا ہے جس پر اس سے پہلے کے بجٹ بنتے رہے ہیں۔ صاف معلوم ہوتا ہے کہ بجٹ بنانے والا ذہن وہی ذہن ہے اور     محض بے نظیرکارڈ کے ذریعے بجٹ کو عوامی بنانے کی کوشش مسائل کا حل نہیں۔

حالیہ بجٹ اور مطلوبہ ترجیحات

سب سے پہلی ضرورت ملک میں معاشی پالیسی سازی کو بیرونی اداروں اور عالمی نظام کی زنجیروں میں گرفتار ذہن سے نجات دلانا ہے۔ موجودہ بجٹ کی بنیادی خامی یہ ہے کہ اس کے پیچھے مستقبل کا کوئی وژن نہیں۔ سارا اعدادوشمار کا گورکھ دھندا ہے کہ جمع تفریق کا تھوڑا سا کھیل کھیل کر اپنے کو دھوکا دینے اور دوسروں کو خوش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ کبھی اسے ترقی کا حامی (pro-growth ) کہا جارہا ہے اور کبھی غریبوں کا حامی (pro-poor)  ___  حالانکہ نہ اس کے پیچھے ترقی کی کوئی قابلِ فہم حکمت عملی ہے اور نہ غربت کے خاتمے کا کوئی سوچا سمجھا دیرپا منصوبۂ عمل۔

دوسری بنیادی بات یہ ہے کہ معیشت میں حکومت کے کردار کے بارے میں ایک واضح پالیسی کے بغیر کوئی بڑی معاشی پیش رفت ممکن نہیں۔ جنرل ایوب کے زمانے میں سرمایہ دارانہ نظام کو ترقی کی بنیاد بنایا گیا اور غربت میں اضافے، معاشی ناہمواریوں میں ناقابلِ برداشت بڑھوتری اور علاقائی عدم توازن کے عفریت نے ملک و قوم کو اپنی گرفت میں لے لیا اور مشرقی اور مغربی پاکستان میں ایک ایسی آویزش نے جنم لیا جو دوسرے عوامل کے ساتھ مل کر ملک کو دولخت کرنے پر منتج ہوئی۔ پیپلزپارٹی نے جناب ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں ۱۹۷۲ء سے ۱۹۷۷ء تک قومی ملکیت اور حکومت کی مداخلت کی حکمت عملی اختیار کی مگر عملاً معیشت کو سیاست دانوں کی سیاست کاری،  وقتی مصالح اور بیوروکریسی کی چیرہ دستیوں کی گرفت میں دے دیا۔ بدقسمتی سے آج پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن)، دونوں ہی اپنے اپنے انداز میں پالیسیوں کے تسلسل کی باتیں کررہے ہیں حالانکہ وقت کا تقاضا بنیادی تبدیلی کا ہے، اور یہی اس بجٹ کی سب سے بڑی ناکامی ہے۔ اس کے نتیجے میں حالات میں کوئی بڑی تبدیلی واقع نہیں ہوسکے گی اور عوام کی مشکلات اور مایوسیوں میں اضافے کے خطرات ہی اُفق پر منڈلا رہے ہیں۔

جب تک آزاد پاکستانی اور مسلمان ذہن سے حالات کا جائزہ لینے کا اہتمام نہیں ہوتا اور پالیسی کا نیا فریم ورک قومی مقاصد و اہداف، ملک کی خودانحصاری ، دیرپا ترقی (sustainable develpment)  اور عوام کی فلاح اور خوش حالی کو مرکزی اہمیت حاصل نہیں ہوتی، نیز محض مالیاتی نہیں بلکہ پیداواری عمل جس میں زراعت اور صنعت کا مرکزی کردار ہو، ترقی کا محور نہیں بنایا جاتا، معیشت کا قبلہ درست نہیں ہوسکتا۔ اس کے ساتھ ساتھ ضروری ہے کہ بجٹ اور سالانہ منصوبہ بندی کا پورا نقشۂ کار صحیح قومی ترجیحات کا آئینہ دار ہو اور صرف بجٹ ہی نہیں سرکاری شعبے کے ترقیاتی پروگرام اور نجی شعبے کے لیے دائرۂ کار، محرکات اور مواقع کا ہمہ گیر نظام وضع کیا جائے، ورنہ ہم ماضی کی طرح ٹھوکریں کھاتے رہیں گے۔ اس بجٹ میں ان معاملات کا کوئی ادراک نظر نہیں آتا۔

تیسری بڑی بنیادی بات یہ ہے کہ بالکل واضح طور پر معیشت میں ریاست کے کردار کو صحیح طور پر متعین کیا جائے۔ نہ سوشلسٹ نعروں کے تحت قومی ملکیت اور معیشت کو سرکاری اداروں اور سیاسی عناصر اور بیوروکریسی کے تابع کرنا صحیح طریقہ ہے اور نہ ہرچیز کو مارکیٹ پر چھوڑ دینا، نج کاری کے نام پر ملک کے کمزور طبقوں کو امیروں کے رحم و کرم پر چھوڑنا اور عالم گیریت اور آزاد روی (liberalization) کی ستم کاریوں کا نشانہ بن جانے اور ملکی منڈیوں کو عالمی ساہوکاروں اور لٹیروں کے لیے کھول دینے کا۔ یہ قومی مقاصد کے حصول، عوام کی خوش حالی اور دیرپا ترقی کے حصول کا راستہ نہیں۔ ستم ہے کہ جو افراد ابھی کل تک بائیں بازو کے گل ہاے سرسبد مانے جاتے تھے وہ اب مارکیٹ اکانومی، نج کاری اور لبرلائی زیشن کے راگ الاپ رہے ہیں۔بلاشبہہ ایسا سرکاری شعبہ جو سیاسی مصالح کے تابع ہو اور جسے بیوروکریٹس چلائیں،نامطلوب ہے لیکن صحیح خطوط پر ریاست اور حکومت کا ایک مثبت اور مؤثر کردار معاشی ترقی اور انصاف اور عوامی خوش حالی پر مبنی معاشرے کے قیام کے لیے ضروری ہے۔ بجٹ اور حکومت کی پالیسیوں میں اس مسئلے کے ادراک کا فقدان ہے۔ آج بھی ساری پالیسی سازی انھی بنیادوں پر ہورہی ہے جن کی تباہ کاریوں کا نظارہ ۱۹۹۰ء کے عشرے سے قوم کر رہی ہے۔

گذشتہ آٹھ سالہ معاشی حکمت عملی کی ایک اور بنیادی خامی یہ تھی کہ اس میں معیشت کا جو سب سے اہم حصہ ہے، یعنی اشیا کا پیداواری شعبہ (commodity producing sector) جس میں زراعت، چھوٹی صنعت اور بڑی صنعت مرکزی حیثیت رکھتے ہیں، ان کا کردار معیشت میں برابر کم ہوا۔ ان کے لیے دیرپا اور مستحکم ترقی کی نہ کوئی پالیسی تھی اور نہ ان اداروں کو اہمیت دی گئی جو معیشت کے ان دائروں کی ترقی کے لیے ضروری تھے۔ اس مرکزی اہمیت کے شعبے کو تو نظرانداز کیا گیا اور ساری توجہ خدمات کے شعبے کی ترقی پر رہی، خصوصیت سے بنکاری، ٹیلی کمیونی کیشنز، انشورنس وغیرہ۔ بیرونی سرمایہ کاری بھی نج کاری اور تیل و گیس کی صنعت میں رہی یا پھر ان روزمرہ اشیاے صرف کی پیداوار کی طرف، جیسے دودھ اور برگر جو ملک کی پیداواری استعداد میں اضافے کا باعث نہیں ہوتے۔ اس نوعیت کی ترقی پوری معیشت کو متاثر نہیں کرتی بلکہ ترقی کے چند جزیرے وجود میں آجاتے ہیں جن کا رشتہ (linkage) پوری معیشت سے کمزور ہوتا ہے۔ اس نوعیت کی ترقی کا ماحصل یہ ہے کہ ہر ہاتھ میں سیل فون تو آجاتا ہے مگر ٹیلی فون بنانے کی ٹکنالوجی سے ملک محروم رہتا ہے اور اس کا انحصار باہر والوں پر بڑھتا رہتا ہے۔ نیز جلد ہی سرمایہ کا بہائو بھی باہر کی طرف ہوجاتا ہے کہ ایک طرف درآمدات بڑھتی ہیں اور دوسری طرف نفع ملک سے باہر جانے لگتا ہے۔

بنکاری کی صنعت نے بڑی ترقی کی ہے مگر آہستہ آہستہ ملک کا پورا بنکاری نظام ایک   قومی بنک کو چھوڑ کر باہر کے بنکوں کی گرفت میں آرہا ہے۔ یہی حال مواصلات کا ہے۔ بنکوں کے کھاتے داروں کو جو سود ملتا ہے وہ شرح افراطِ زر سے کہیں کم ہے اور اس طرح وہ منفی return یعنی نقصان کا شکار ہیں لیکن Banking spread (سود کی وصولی اور ’منافع‘ کی ادایگی کی شرح میں فرق) بہت زیادہ ہونے کے باعث بنکوں کا منافع آسمان سے باتیں کر رہا ہے۔ بنکوں کا منافع ۲۰۰۳ء میں ۷ئ۴۳ ارب روپے تھا جو ۲۰۰۶ء میں بڑھ کر ۶ئ۱۲۳ ارب روپے ہوگیا ۔ بنکوں کے  نفع پر ٹیکس اس زمانے میں ۶۰ فی صد سے کم ہوکر ۳۵ فی صد رہ گیا۔ سالِ رواں میں خدمات کے شعبے سے نفع کی مد میں ملک سے ایک ارب ڈالر سے زیادہ منتقل کیے گئے۔ اگر اس اُلٹی گنگا کے بہائو میں سرمایہ کے فرار (flight of capital) کو شامل کرلیا جائے جو سیاسی وجوہ کے علاوہ اسٹاک ایکسچینج میں سٹہ بازوں کے کھیل کا نتیجہ ہے، تو یہ رقم ۳ارب ڈالر سے متجاوز ہوجاتی ہے۔ جب تک معاشی پالیسی کا مرکز اور محور تبدیل نہیں ہوتا اس وقت تک نمایشی تبدیلیاں تو ہوتی رہیں گی لیکن حقیقی معاشی ترقی اور خوش حالی خواب و خیال ہی رہیں گے۔

وقت کی اصل ضرورت ترجیحات کی تبدیلی ہے۔ نئے بجٹ میں زراعت کے لیے کچھ سہولتیں ضرور دی گئی ہیں مگر وہ نہ صرف ناکافی ہیں بلکہ ایک واضح وژن اور مربوط (integrated) منصوبۂ عمل سے عاری ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی اثرانگیزی محدود رہے گی۔ زراعت کی زبوں حالی کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ قومی دولت میں اس کا حصہ ۲۲ فی صد ہے، آبادی کے ۶۰ فی صد کو رزق اور روزگار اس سے فراہم کیا جا رہا ہے لیکن حالیہ بجٹ اور پی ایس ڈی پی میں اس کا حصہ   جی ڈی پی کا صرف ۲ فی صد اور پی ایس ڈی پی کا صرف ۴فی صد ہے۔ سبسڈی ختم کرنے کی بات ہو رہی ہے مگر اس کے نتیجے میں پیداواری لاگت بڑھے گی اور ملک میں افراطِ زر میں مزیداضافہ ہوگا۔ ایک فی صد کے حساب سے سیلزٹیکس اور ایکسائز ڈیوٹی میں اضافہ بھی ملک میں قیمتوں میں مزید اضافے کا باعث ہوگا۔ ان سب کے ساتھ اگر پانی، بیج، کھاد، ادویہ، قرض اور بجلی کی فراہمی کا حال دیکھا جائے جو ہراعتبار سے غیرتسلی بخش ہے تو زراعت میں نمایاں اضافہ مشکل نظر آتا ہے۔ واضح رہے کہ زراعت کے شعبے میں بڑی ناکامی ترسیل کے نظام (delivery system)  میں ہے اور سب سے محروم طبقہ چھوٹا کاشتکار ہے جس کا حصہ پیداوار میں ۵۰ فی صد ہے لیکن وسائل کا ۵ فی صد بھی اسے مشکل سے میسر آتا ہے۔

دوسرے شعبے جو بری طرح بے توجہی کا شکاررہے ہیں، ان میں سرفہرست بجلی، گیس اور توانائی کا شعبہ ہے۔ اس کے ساتھ سڑکوں کی تعمیر، ریل کی ترقی اور ٹرانسپورٹ کا مؤثر ملک گیر اور بڑے شہروں کا اندرونی نظام وہ چیزیں ہیں جو مسلسل نظرانداز کی جاتی رہی ہیں۔ اب نوبت شہروں میں آٹھ آٹھ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ تک آگئی ہے۔ بڑے ڈیم سیاست کی نذر ہیں اور توانائی کے متبادل ذرائع بشمول چھوٹے ڈیم، کوئلے سے تیار کی جانے والی بجلی، آبی، شمسی اور بائیوگیس سے فراہم کی جانے والی توانائی سب غفلت کا شکار ہیں۔ منصوبہ بندی کا شعبہ سب سے ناکام شعبوں میں سے ہے۔ ورلڈبنک کی ایک حالیہ رپورٹ کھلے الفاظ میں کہتی ہے کہ منصوبہ بندی کا پورا نظام  نااہلیت (incompetence) کا شکار ہے۔ مالیاتی اعتبار سے کوئی منصوبہ ایسا نہیں جو اپنے بجٹ میں پورا ہوا ہو۔ اور جہاں تک پروجیکٹ کی تکمیل کے لیے طے شدہ وقت کا سوال ہے تو ورلڈ بنک کے جائزے کی روشنی میں مختلف منصوبوں کی تکمیل میں تین سال سے ۲۰ سال تک کی تعویق واقع ہوئی ہے۔

تجارتی خسارہ، ادایگیوں کا خسارہ، بجٹ کا خسارہ تینوں اس حد تک پہنچ چکے ہیں جو معیشت کی صحت کے لیے خطرناک اور ملک کو دیوالیہ کرنے کی راہ پر دھکیلنے والے ہیں۔ قومی بچت کی سطح ترقی پذیر ممالک کے معیار پر بھی خطرناک حد تک کم ہے، یعنی ۱۳ فی صد، جب کہ دیرپا ترقی کے لیے    ۲۵فی صد کی سطح بھی کمی کی خبر لاتی ہے۔ بھارت، چین اور بہت سے دوسرے ممالک ۳۰ سے    ۴۰فی صد بچت کا ہدف حاصل کر رہے ہیں۔

پھر وہ شعبے جو معاشی ترقی اور انسانی خوش حالی کے لیے مرکزی اہمیت رکھتے ہیں، یعنی تعلیم، صحت اور گھر کی سہولت بری طرح وسائل کے قحط کا شکار ہیں۔ مرکزی بجٹ میں تعلیم کے لیے ۲۶ارب روپے اور صحت کے لیے ۵ئ۶ ارب روپے رکھے گئے ہیں جو تمام صوبوں کے اندر مختص رقوم کو جمع کر کے بھی جی ڈی پی کا بمشکل ۵ئ۲ (تعلیم و صحت) بنتے ہیں، جب کہ ترقی پذیر ممالک میں بھی یہ شرح ۴ سے ۸ فی صد تک ہے۔ یہ تو صرف مالیات مختص کرنے کا حال ہے۔ اگر دیکھا جائے کہ میدان میں اصل حاصل کیا ہے، تو حالت اور بھی ناگفتہ بہ ہے۔ ایک حالیہ سروے کی رو سے ملک میں ۱۲ہزار ۵ سو اسکول ایسے ہیں جن کا عملاً کوئی وجود نہیں، یعنی نہ تو بلڈنگ ہے اور نہ اساتذہ!

اس بجٹ کا ایک نیا پہلو بے نظیر کارڈ کا اجرا ہے۔ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ اس کے ذریعے  ان ۷۰لاکھ گھرانوں کو جو انتہائی غربت کی حالت میں ہیں، ایک ہزار روپے ماہانہ کی نقد مدد کی جائے گی۔ اس کے لیے ۳۵ ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ اصولاً غریبوں کو روٹی اور صحت کی سہولت فراہم کرنے کے لیے نقد مدد ایک اچھی اسکیم ہے لیکن زکوٰۃ اور بیت المال کے تجربات کی روشنی میں اس سے زیادہ امیدیں وابستہ نہیں کی جاسکتیں۔ اول تو رقم بہت کم ہے، یعنی کل ۳۵ ارب اور     فی خاندان ایک ہزار روپے۔ ان سے ۷۰ کیا ۷ لاکھ خاندانوں کی مدد بھی محال ہے۔ پھر ہزار روپے میں ایک بے روزگار گھرانہ اپنی کون کون سی ضرورت پوری کرے گا؟ سب سے اہم سوال ضرورت مندوں کا صحیح تعین، ان تک مدد کی ترسیل کا شفاف نظام، اور اس پورے عمل کی نگرانی کا ہے اور یہی وہ چیزیں ہیں جن کا فقدان ہے۔ نادرا (NADRA)کے پاس جو معلومات ہیں وہ ان ضرورتوں کو سامنے رکھ کر حاصل نہیں کی گئی ہیں اور آبادی کا غریب ترین طبقہ نادرا کی خدمات سے محروم رہا ہے۔ یہ مسئلہ زیادہ گہرے غوروخوض اور مناسب منصوبہ بندی کا متقاضی ہے۔

پوری اسکیم کو ایک مربوط انداز میں ایک قومی سطح کی سوشل سیکورٹی اسکیم کا حصہ ہونا چاہیے۔ صرف وہ افراد جو روزگار اور محنت کے لائق نہ ہوں ان کو نقد مدد دی جانا چاہیے ،یعنی بچے (۱۰ سال تک)، بیوائیں جن کا کوئی سہارا نہ ہو، بوڑھے اور معذور افراد۔ باقی تمام افراد کے لیے روزگار کی فراہمی یا ایسے کاروبار کا انتظام جس کے ذریعے وہ خودکفیل ہوسکیں، اصل حل ہے۔ نیز تعلیم اور صحت کے لیے ایسی اجتماعی انشورنس کے نظام کا نفاذ جس میں ہرشخص خود بھی ایک حصہ دے اور اس کے علاوہ جس کاروبار یا ادارے میں وہ کام کرتا ہو وہ اور حکومت اپنا اپنا حصہ ادا کریں۔ اس میں بھی شبہہ ہے کہ ٹیکس کی آمدنی میں اضافہ اور بجٹ میں خسارے کا جو اندازہ اس بجٹ میں دیا گیا ہے   وہ ان حدود میں پورا ہوسکے گا جو متعین کی گئی ہیں یا نہیں۔

ایک اور اہم مسئلہ مرکز اور صوبوں میں وسائل کی تقسیم، اور ترقیاتی پروگرام کے بنانے اور ان کی تعمیل کرنے کی صلاحیت اور انتظامِ کار کا ہے۔ بجٹ اس سلسلے میں بھی خاموش ہے۔ جس ناانصافی اور غفلت کے نتیجے میں مرکز اور صوبوں میں بُعد اور بے اعتمادی رونما ہورہے ہیں ان سے کوئی تعرض نہیں کیا گیا۔ این ایف سی اوارڈ ۱۹۹۷ء کی بنیاد پر جاری ہے۔ ہائیڈل منافع اور گیس اور دوسری معدنیات کی رائلٹی کا مسئلہ معلق ہے۔ صوبے وسائل سے محروم ہیں اور مرکز ایک گلے سڑے نظام کو سینے سے لگائے ہوئے ہے۔ یہ صورت حال فوری تبدیلی کا تقاضا کرتی ہے۔

اس بجٹ اور ان معاشی پالیسیوں پر کاربند رہ کر ملک نہ دیرپا ترقی کرسکتا ہے، نہ ترقی کے ثمرات سے عوام فیض یاب ہوسکتے ہیں، نہ خودانحصاری کی طرف پیش رفت ہوسکتی ہے اور نہ مرکز اور صوبوں میں حقیقی تعاون اور ہم آہنگی کی فضا قائم ہوسکتی ہے۔ وہی معاشی ترقی دیرپا اور خوش حالی کا ذریعہ بن سکتی ہے جو ملک و قوم کی اپنی اقدار اور اپنے عزائم کی روشنی میں بنے اور جس کا رخ بیرونی ساہوکاروں کو اپنے جسم سے گوشت کے ٹکڑے (pound of flesh) دینے کے بجاے اپنے وسائل سے اپنی قوم کو حق و انصاف کے مطابق عزت کی زندگی فراہم کرنا اور دنیا میں اپنا مقام حاصل کرنا ہو۔ جب تک نقطۂ نظر تبدیل نہ ہو اور ترقی کا رخ درست نہ ہو، بہتر زندگی کی اُمید عبث ہے۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

مشہور مقولہ ہے کہ آپ کچھ لوگوں کو بہت دیر تک اور سب لوگوں کو کچھ دیر کے لیے      بے وقوف تو ضرور بنا سکتے ہیں مگر تمام لوگوں کو ہمیشہ کے لیے بے وقوف نہیں بنا سکتے___ جھوٹ اور فریب کا پردہ چاک ہوکر رہتا ہے۔ یہ ایک دن بلبلے کی طرح پھٹ جاتا ہے اور اندر کی حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے۔

نائن الیون کے معاً بعد سے دہشت گردی کے نام پر پوری دنیا میں دہشت گردی کا بازار گرم ہے۔ اس کے نتیجے میں دنیا جدید تاریخ کی طویل ترین عالمی جنگ کی آماج گاہ بن گئی ہے۔ عراق جہنم زار ہے، پوری دنیا میں عدم تحفظ اور خوف و ہراس کے بادل چھائے ہوئے ہیں، اور   اس سے بڑھ کر، اس کا اختتام دُور دُور نظر نہیں آرہا ہے۔

افغانستان امریکا اور ناٹو کی جدید عسکری ٹکنالوجی سے لیس ۶۰ ہزار افواج کی جولانیوں کا میدان بنا ہوا ہے۔ اس نام نہاد مقصد کا حصول، یعنی بن لادن اور القاعدہ کو انصاف کے کٹہرے میں لاکھڑا کرنا، جس کے لیے اکتوبر ۲۰۰۱ء میں فوج کشی کی گئی تھی وہ ایک قصۂ پارینہ اور زیبِ داستان کے لیے گھڑے ہوئے افسانے کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ طالبان، جن کا کوئی کردار نائن الیون کے واقعے میں آج تک ثابت نہیں کیا جاسکا ہے، بظاہر جنگ کا عنوان بن گئے ہیں، جب کہ اصل مقصد افغانستان پر مسلسل قبضہ ہے جسے تبدیلیِ قیادت کے نام پر افغانستان پر ایک کٹھ پتلی حکومت مسلط کرکے اور جمہوریت کے قیام اور معاشی ترقی کے ایک نئے دور کی نوید سناکر حاصل کرنے کی کوشش ہے۔ رہا معاملہ زمینی حقائق کا، تو جس معاشی اور تعلیمی ترقی اور جدیدیت کے انقلاب کا چرچا تھا اس کا کہیں وجود نہیں۔

امریکا اور ناٹو کے کرتا دھرتا اب اصل بات اس پر کر رہے ہیں کہ عراق سے تو واپسی کا سوچا جاسکتا ہے لیکن افغانستان سے نہیں۔ ستم یہ ہے کہ امریکا ہی نہیں، ناٹو اقوام جن کا اتحاد نارتھ اٹلانٹک کے دفاع کے لیے مخصوص تھا، وہ اب نارتھ اٹلانٹک سے ہزاروں میل دُور اپنے لیے نیا میدانِ جنگ متعین کرنے میں مصروف ہیں اور دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ اب ناٹو کے مستقبل کا انحصار افغانستان میں اس کے مشن کی کامیابی پر ہے، حالانکہ امریکا کے سوا تمام ہی اتحادی ممالک کی افواج کا عمل گواہ ہے کہ وہ اُوپر سے جتنی چاہے بم باری کر رہے ہوں، زمین پر جنگ اور مقابلے کے لیے تیار نہیں۔ ان میں سے کچھ اپنی فوجیں واپس بلاچکے ہیں اور کچھ کے وزراے خارجہ علانیہ طور پر کہہ چکے ہیں کہ اگر ہمارے چند درجن مزید سپاہی افغانستان میں مارے جاتے ہیں تو ہمارے عوام افواج کی واپسی کا مطالبہ کردیں گے۔

اس سب کے باوجود امریکا اپنی فوجوں کی تعداد میں اضافہ کر رہا ہے اور دوسروں پر اضافے کے لیے دبائو ڈال رہا ہے۔ اس وقت ۷ ہزار مزید کمک کا منصوبہ ہے۔ امریکا کے تمام ہی صدارتی امیدوار عراق سے تو فوجوں کی واپسی کی بات کرتے ہیں مگر افغانستان میں اضافے ہی کا راگ الاپ رہے ہیں، اور ایران اور پاکستان دونوں پر مختلف انداز میں دبائو بڑھانے اور ایک (ایران) پر حملہ کرکے اس کی قوت پر ضرب لگانے اور دوسرے (پاکستان) کا ہاتھ مروڑ کر اس کی فوجوں کو اپنے ہی عوام کے خلاف خون آشام کارروائیوں میں مصروف رکھنے اور علاقے میں مذاکرات، امن اور سلامتی، استحکام اور ترقی کے ہر منصوبے کو درہم برہم کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ بلکہ گذشتہ تین مہینوں سے بار بار ایک نئے خطرے کا ڈھونگ پیٹا جا رہا ہے کہ اگلا نائن الیون جیساحملہ پاکستان کے قبائلی علاقوں سے متوقع ہے۔ نیگرو پونٹے سے لے کر خود بش بہادر تک یہ  شور مچا رہے ہیں اور پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کو بلیک میل کرکے اور گاجر اور چھڑی (carrot and stick) کی روایتی پالیسی کا استعمال کرتے ہوئے اسے جنگ کی دلدل میں مزید دھکیلنے اور امن و استحکام کے حصول کی ہرکوشش کو ناکام بنانے میں مصروف ہیں۔ یہ خاص طور پر   اس لیے ہورہا ہے کہ پاکستانی عوام جن کی نگاہ میں پہلے دن سے امریکا کی افغانستان کے خلاف جنگ میں پاکستان کی شرکت، حصہ داری اور کردار پاکستان اور اُمت ِمسلمہ کے مفادات کے خلاف اور صرف امریکا کے ایجنڈے کی تکمیل کا ذریعہ تھے اور پرویز مشرف کی اس پالیسی کے خلاف تھے، اور فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابات کے موقع پر انھوں نے پرویز مشرف کی اس امریکی جنگ میں شرکت کو یکسر رد کردیا اور اپنے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ تسلسل نہیں، تبدیلی کے خواہاں ہیں۔ امریکا کا موجودہ دبائو دراصل عوام کے اس مینڈیٹ کی نفی کرنے اور پرویز مشرف کی خون آشام اور عوام دشمن پالیسیوں کو جاری رکھنے کے لیے دبائو بڑھانے اور نئی حکومت کو اسی طرح خوف زدہ کرنے کی مہم کا حصہ ہے جس طرح نائن الیون کے بعد پرویز مشرف اور ان کے اس وقت کے آئی ایس آئی کے سربراہ کو ڈرا دھمکا کر امریکا کا آلۂ کار بنانے کا کارنامہ انجام دیا تھا۔

آج پھر ملک اور اس کی قیادت ایک ویسے ہی امتحان اور انتخاب سے دوچار ہے۔     اس لیے ضروری ہے صدر بش اور امریکا کی اس جنگ کے اصل مقاصد کا صحیح ادراک پیدا کیا جائے، سات سال میں پرویز مشرف کی امریکا کی محکومی میںاختیار کی جانے والی پالیسی کے نتائج کا پوری علمی دیانت کے اور سیاسی حقیقت پسندی سے جائزہ لیا جائے۔ عوام کے جذبات، احساسات اور مطالبات کا بھی احترام کیا جائے اور اچھی طرح سمجھا جائے کہ فردِواحد کی بنائی جانے والی پالیسی کے مقابلے میں عوام کی منتخب سیاسی قیادت کو اپنی پالیسی کس طرح اور کن مقاصد کے لیے مرتب اور نافذ کرنی چاہیے۔

نئی حکومت کا مینڈیٹ اور اس کے بعد

آگے بڑھنے سے پہلے ایک بنیادی بات کی وضاحت ضروری ہے۔ عوام نے ۱۸ فروری کو بڑا واضح مینڈیٹ دیا ہے اور اس میں پانچ چیزیں بہت واضح ہیں:

                ۱-            پرویز مشرف کا دور حکومت تاریک اور ناکام دور تھا اور قوم ان سے اور ان کی مسلط کردہ پالیسیوں سے نجات چاہتی ہے، ان کا تسلسل نہیں۔

                ۲-            عدلیہ پر پرویز مشرف کا حملہ اور اعلیٰ ججوں کی برطرفی ایک قومی جرم اور دستور اور اس کے تحت قائم ہونے والے ادارتی نظام کو درہم برہم کرنے اور ایک تابع مہمل عدلیہ ملک پر مسلط کرنے کی باغیانہ کوشش تھی۔ نئی حکومت کی پہلی ذمہ داری تھی اور یہ ذمہ داری ابھی ختم نہیں ہوئی کہ ججوں کو بحال کرے اور عدلیہ کی آزادی اور انصاف کی فراہمی کو یقینی بنائے۔

                ۳-            ملکی سیاست میں فوج کا کردار ختم ہونا چاہیے۔ فوج کا کام ملک کا دفاع اور دستور کے تحت سول حکومت کے احکام کی پاس داری کرنا ہے۔ ملک کی قسمت کے فیصلے اور پالیسی سازی دستور، قانون اور ضابطوں کے مطابق عوام کے منتخب نمایندے کریں۔ پارلیمنٹ کو بالادستی حاصل ہو اور قیادت عوام کی مرضی کے مطابق جمہوری عمل کے ذریعے حکومت کی ذمہ داری ادا کرے، کھلے انداز میں کرے، اور ان کے سامنے جواب دہ ہو۔

                ۴-            پاکستان کے معاملات میں امریکا کا کردار جو شکل اختیار کرگیا ہے وہ قومی حاکمیت، عزت و وقار اور مفادات کے خلاف ہے۔ اس سلسلے میں سب سے تباہ کن چیز امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی شرکت اور کردار اور اس کے نتیجے میں ملک اور پورے علاقے میں جو خون ریزی ہورہی ہے اور دہشت گردی کو جو فروغ حاصل ہوا ہے وہ ناقابلِ برداشت ہے۔ شمالی اور جنوبی وزیرستان، سوات، پاکستانی قانون کے زیرعمل داری (settled) علاقوں، حتیٰ کہ اسلام آباد اور لاہور میں جو حالات رونما ہوئے اور لال مسجد اور جامعہ حفصہ میں ظلم اور سرکاری دہشت گردی کا جو خونیں ڈراما رچایا گیا ہے، وہ عوام کے غیظ و غضب کا سبب بنا ہے۔ نئی حکومت کی اولین ذمہ داری بنتی ہے کہ اس جنگ میں پاکستان کی شرکت پر بنیادی نظرثانی کرے اور علاقے میں امن و سلامتی کے لیے نئی حکمت عملی پر عمل پیرا ہو۔

                ۵-            آخری چیز پرویزی دور کی دوسری تمام پالیسیوں خصوصیت سے معاشی، تعلیمی، ثقافتی پالیسیوں سے عوام کی بے زاری، بھارت کے سلسلے میں یک رخے انداز میں پسپائی اور یک طرفہ رعایات (one way concessions) اور مسئلہ کشمیر پر اُلٹی زقند (u-turn) کا رویہ ہے جس کے بارے میں انتخابی مہم کے دوران اور اس کے بعد عوام نے اپنے جذبات کا بھرپور اظہار کیا ہے۔ ملک جس طرح خوراک، مہنگائی، بدامنی، بجلی، گیس اور پانی کے بحران میں مبتلا ہے، وہ مشرف کی آٹھ سالہ غلطیوں، کوتاہیوں اور غلط ترجیحات کا مجموعی نتیجہ (cumulative result) ہے، اور ان سب کے بارے میں نئی حکومت کو پالیسیوں میں بنیادی تبدیلیوں اور عوام کی مشکلات کو حل کرنے اور ان کی توقعات کو پورا کرنے کے لیے جنگی بنیادوں پر کارروائی کی ضرورت ہے۔

یہ تو تھا عوام کا مینڈیٹ اور ان کی توقعات کا خاکہ ___ مخلوط حکومت کے قیام کو ملک کی تمام کی تمام قوتوں نے خوش آمدید کہا اور ان دینی اور سیاسی جماعتوں نے بھی جنھوں نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا، کھلے دل سے حکومت کو موقع دیا اور اسے صحیح مشوروں سے نوازا۔ لیکن معلوم ہوتا ہے کچھ درپردہ اور کچھ کھلی سودے بازیوں کے پس منظر میں جو سیاسی عناصر میدان میں آئے تھے، ان کی نگاہیں عوام کے مینڈیٹ اور توقعات سے کہیں زیادہ اپنے مفادات پر تھی اور جو کام پہلے ہفتے میں ہوجانے چاہییں تھے، ان پر چھے ہفتے گزر جانے کے باوجود بھی لیت و لعل کے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ حکومت کے کرتا دھرتا گومگو کا شکار ہیں، پارلیمنٹ جس کی بالادستی کے دعوے ہو رہے تھے ’ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم‘ کا منظر پیش کر رہی ہے اور زرداری ہائوس اور ایوانِ صدر اپنے اپنے کردار ادا کرنے میں مصروف اور ایک دوسرے کے لیے گنجایش نکالنے کا پریشان کن نقشہ بنانے میں مصروف نظر آرہے ہیں۔ وزرا گاڑیوں پر جھنڈے تو لہرا رہے ہیں اور انتقالِ اقتدار کے ڈرامے کے باوجود انتقالِ اختیارات کی صورت نظر نہیں آرہی۔ کسی بھی اہم میدان میں نئی پالیسی سازی کی کوئی جھلک دیکھنے میں نہیں آرہی بلکہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ وزیردفاع، وزیرخزانہ اور وزیرخارجہ تک پالیسیوں کے تسلسل کی بات کر رہے ہیں اور وزیرخارجہ نے تو یہاں تک فلسفہ بگھارا ہے کہ ملک کی خارجہ پالیسی کا انحصار اس کے اسٹرے ٹیجک مفادات (strategic interests) پر ہوتا ہے اور قیادت کی تبدیلی سے خارجہ پالیسی تبدیل نہیں کی جاتی۔ وہ بھول گئے کہ الیکشن سے پہلے اور الیکشن کے معرکے میں بنیادی ایشو ہی یہ تھا کہ ملک کے اسٹرے ٹیجک مفادات کو قربان کیا جا رہا ہے اور اس ناکام پالیسی کی تبدیلی کے لیے عوام نئی قیادت کو سامنے لائے ہیں۔

وزیرخارجہ یہ بھی بھول گئے کہ پاکستان ہی کی تاریخ میں سیاسی قیادت نے ایک بار نہیں  بار بار خارجہ پالیسی میں بنیادی تبدیلیاں کی ہیں اور وہ تبدیلیاں اسٹرے ٹیجک مفادات کے ادراک ہی کی بنیاد پر کی گئی ہیں۔ حالات کی تبدیلی سے اسٹرے ٹیجک مفادات میں تبدیلی ہوتی ہے، جیسے برلن کے انقلاب کے بعد، امریکا کی ہر کوشش کے علی الرغم پاکستان کا چین کوتسلیم کرنا اور اس کے ساتھ اسٹرے ٹیجک شراکت داری کا قیام۔ واضح رہے کہ خارجہ پالیسی کی اس تبدیلی میں خود جناب ذوالفقار علی بھٹو کا ایک اہم کردار تھا لیکن آج کی پیپلزپارٹی کی قیادت کو اس کا کوئی ادراک ہی نہیں۔ اسی طرح افغانستان پر اس کی کھلی فوج کشی اور برزنیف ڈاکٹرائن کی افغانستان کے لیے توسیع   نے پاکستان کے اسٹرے ٹیجک مفادات میں ایک جوہری تبدیلی کردی تھی اور اس کے نتیجے میں خارجہ پالیسی میں بنیادی تبدیلیاں کرنا پڑیں۔ خود پرویز مشرف نے نائن الیون کے بعد جو یوٹرن لیا اس کے نتیجے میں خارجہ پالیسی کا رخ بالکل بدل گیا۔ آج نائن الیون کے سات سال بعد دنیا کا جو حال ہے، عراق میں جو کچھ ہو رہا ہے، یورپ، چین اور روس جس طرح کروٹیں لے رہے ہیں، تیسری دنیا کے ممالک عالم گیریت کے بوجھ تلے دبے جس طرح کراہ رہے ہیں اور اپنے لیے زندہ رہنے کی نئی راہیں تلاش کرنے کی جو جستجو کر رہے ہیں، اور امریکا کی سات سالہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے جو نتائج افغانستان اور اس پورے خطے (region) بلکہ پوری دنیا پر مرتب ہوئے وہ اسٹرے ٹیجک مفادات میں تبدیلیوں کی نشان دہی کر رہے ہیں اور ان مفادات اور مقاصد کے حصول کے لیے خارجہ پالیسی کے ازسرنو بنیادی جائزے کی ضرورت ہے نہ کہ ضمنی تبدیلیوں کی۔ ان حالات میں تبدیلی کی جگہ تسلسل کی بات نہایت مایوس کن بلکہ تشویش ناک ہے۔ اصلاح کی توقع اسی وقت ہوسکتی ہے جب مرض کا احساس، خرابی کا ادراک اور تبدیلی کا عزم ہو___ اور پیپلزپارٹی کی حکومت کا اقتدار کے پہلے ۵۰ دن میںریکارڈ کسی اعتبار سے بھی قابلِ فخر تو کیا تسلی بخش بھی نہیں کہا جاسکتا۔

یہ ہے وہ پس منظر جس میں ہم قبائلی علاقہ جات میں جاری پالیسی، اس میں تبدیلی کی ضرورت اور کوشش اور بحیثیت مجموعی امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے کردار پر گفتگو کرنا چاہتے ہیں۔ یہ مسئلہ ہمارے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ اس پر پاکستان کے نظریاتی تشخص کے ساتھ قومی یک جہتی، ملک میں امن و امان کے قیام اور فوج اور قوم کے تعلقات کا انحصار ہے۔ اس کا تعلق قومی سلامتی، ملک کی آزادی اور حاکمیت اور ہماری پوری دفاعی صلاحیت کی حکمت عملی سے ہے۔ بلاشبہہ اس کا گہرا تعلق پاک امریکا تعلقات سے بھی ہے اور ایک متوازن اور حقیقت پسندانہ پالیسی کی تشکیل ان سارے پہلوئوں کو سامنے رکھ کر ہی ممکن ہے۔ سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ افغانستان میں امریکا اور ناٹو کی افواج کے مقاصد اور اہداف کیا ہیں اور وہ اہداف کہاں تک خود پاکستان کے مفادات اور اس خطے میں اس کے مقاصد سے مطابقت رکھتے ہیں۔ جو پالیسی وقتی حالات، بیرونی دبائو، یا خوف اور مجبوری کے تحت بنے گی وہ کبھی بھی قومی مقاصد اور مفادات کی ضامن نہیں ہوسکتی۔

ہم اس وقت اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتے کہ نائن الیون کے بعد آزاد فیصلہ سازی کے لیے کتنی گنجایش موجود تھی اور اس وقت کن حالات میں کیا فیصلہ کیا گیا۔ ہم اس پر اپنے خیالات کا اظہار بار بار کرچکے ہیں اور اس کے اعادے کی اس وقت ضرورت نہیں۔ لیکن آج کے حالات مختلف ہیں۔ خود امریکا میں بش کی پالیسیوں کو اب وہ پذیرائی حاصل نہیں اور دنیا کے عوام، حکومتیں اور دانش ور اپنے اپنے انداز میں اس سے فاصلہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ برطانیہ، اسپین، اٹلی اور آسٹریلیا کے عوام اور حکومتوں نے اپنے تعاون کی مقدار (quantum) اور شکلوں پر نظرثانی کی ہے۔ جاپان، جرمنی، فرانس، پولینڈ اور دسیوں ملک نظرثانی میں مشغول ہیں۔ خود امریکا کے تھنک ٹینک عراق اور افغانستان میں امریکی پالیسیوں کی ناکامیوں پر کھل کر بحث کر رہے ہیں اور امریکی مقتدرہ سے متعلق افراد، خصوصیت سے کلیدی مقامات پر خدمات انجام دینے والے فوجی اور سول شخصیات جو ریٹائر ہوچکی ہیں پالیسی کی ناکامیوں اور تبدیلی کی ضرورت پر کھل کر کلام کر رہے ہیں۔

ان حالات میں اور بھی ضروری ہوگیا ہے کہ امریکا کے احکام اور بلیک میل کرنے والے مطالبات پر سرِتسلیم خم کرنے کی روش ترک کی جائے،دوستی اور محکومی کے فرق کو سامنے رکھاجائے، دوسروں کے مفادات اور اپنے مفادات کا صحیح صحیح ادراک کیا جائے اور عوام کی خواہشات اور ان کو اعتماد میں لے کر پوری دانش مندی سے پالیسیوں پر نظرثانی کی جائے اور پالیسی سازی کے طریق کار کو بھی درست کیا جائے تاکہ ذاتی پسندوناپسند، شخصی مفادات اور ترجیحات کا کوئی سایہ قومی پالیسیوں پر نہ پڑے اور یہ پالیسیاں مکمل طور پر قومی مقاصد، اہداف اورمفادات کے مطابق مشاورت کے اداراتی عمل کے ذریعے بنیں اور ان پر پارلیمنٹ میں کھلی بحث ہو اور ہرسطح پر عوام کی شرکت کا اہتمام کیا جائے۔ زمینی حقائق کو نظرانداز کر کے جو پالیسی بنے گی وہ خام ہوگی اور نتائج کے حصول میں ناکام رہے گی۔ صوبہ سرحد کی نئی حکومت کو سیکولر قوتوں کی فتح کہا جا رہا تھا اور اے این پی کی صوبے میں کامیابی کو دینی قوتوں کی شکست سے تعبیر کیا جا رہا تھا اور امریکی حکومت نے اے این پی کی قیادت سے بلاواسطہ تعلقات قائم کرنے اور اس کے ساتھ اشتراکِ عمل کی راہیں استوار کرنے کے لیے تمام حربے بھی استعمال کرنا شروع کردیے ہیں، لیکن صوبے کی حکومت کو طالبان اور سوات کی مقتدرہ قوتوں سے بات چیت ہی کا راستہ استعمال کرنا پڑا اور شریعت محمدیؐ کے نفاذ کو معاہدے میں سرفہرست رکھنا پڑا۔ یہ زمینی حقائق اور حقائق پر مبنی سیاست کا لازمی حصہ ہے۔ سیاسی قوتوں کو سیاسی حقائق کی روشنی میں مسائل کے سیاسی حل ہی کا راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے۔ یہ صرف خودپسند جرنیلوں یا مفادات کی دلدل میں پھنسے ہوئے سیاست دانوں کا رویہ ہوتا ہے کہ وہ انا ولاغیری کے زعم میں من مانے فیصلے کرڈالتے ہیں اور اس کا کوئی خیال نہیں کرتے کہ قوم اس کی کیا قیمت ادا کرتی ہے؟

امریکی منصوبے

اب یہ بات دو اور دو چار کی طرح ثابت ہوچکی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کا مقصد دہشت گردی سے انسانیت کو نجات دلانا نہیں، بلکہ دہشت گردی کے نام پر اپنے عالمی منصوبوں کی تکمیل اور اہداف کا حصول ہے۔ اس کو سمجھنے کے لیے مندرجہ ذیل نکات پر غور مناسب رہنمائی فراہم کرتا ہے۔

۱- دہشت گردی کی کوئی متفق علیہ تعریف نہ موجود ہے اور نہ امریکا نے اس سلسلے میں کوئی قرارواقعی کوشش کی ہے۔ اس کے برعکس ایک مبہم بات کوایک دوسرے غیرواضح مبہم وجود، یعنی القاعدہ کے شانوں پر سجا کر ایک عالمی جنگ کا عنوان بنا دیا ہے اور عملاً دنیا کو اس جنگ کی آگ میں جھونک دیا ہے جس کا کوئی اختتام نظر نہیں آرہا۔

۲- نائن الیون سے پہلے بلکہ صدیوں سے دہشت گردی کا وجود رہا ہے اور سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق مختلف گروہوں نے قوت کا ایسا استعمال بار بار کیا ہے جس سے خواہ ان کے سیاسی مقاصد اور اہداف توجہ کا مرکز بن گئے ہوں مگر معصوم انسانوں کی جانوں کی قربانی بھی اس کا حصہ رہی ہے۔ اسی وجہ سے ان کے مقاصد سے ہمدردی کے باوجود ان کے اس طریق کار پر گرفت کی گئی ہے اور ریاست اور قانون کی نگاہ میں ان کے یہ اقدامِ جرم    شمار کیے گئے لیکن امریکا نے اپنے سوچے سمجھے استعماری منصوبوں کی تکمیل کے لیے نائن الیون   کے واقعے کے ۲۴ گھنٹے کے اندر ایک مجرمانہ کارروائی (criminal activity) کو جنگ کا نام  دے دیا اور اس کے جواب میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے عنوان سے ایک عالمی جنگ کا آغاز کردیا۔ یہ ایک جوہری تبدیلی تھی جس کے نتیجے میں دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے     سیاسی تدابیر اور ان کے ساتھ مجرموں سے نمٹنے کے عدالتی طور طریقوں کو ترک کر کے جنگ کے مثالیے (paradigm) کو مسئلے کے نمٹنے کے لیے استعمال کرنا شروع کیا اور مسئلے کے عسکری حل (military solution) کی حکمت عملی کو ساری دنیا پر مسلط کرنے کی کوشش کی۔

امریکا کے اسٹرے ٹیجک مفکرین روس کے انتشار اور دیوارِ برلن کے انہدام کے بعد سے ایک ایسی عالمی حکمت عملی کا تانا بانا بُننے میں مشغول تھے جس کے ذریعے امریکا ۲۱ویں صدی کی واحد سوپر پاور رہ سکے، اس کا مقابلہ کرنے والی کوئی قوت (challenger) نہ اُبھر سکے، دنیا کے تمام اسٹرے ٹیجک پوائنٹس پر امریکا کے فوجی اڈے موجود ہوں، تیل،گیس اور خام مال کی رسد پر اس کا کنٹرول رہے، اس کی مصنوعات کے لیے عالمی منڈیاں، خصوصیت سے عرب دنیا اور تیسری دنیا کے ممالک کی منڈیاں کھلی رہیں، نیز مشرق وسطیٰ اور وسطی ایشیا کا سیاسی نقشہ اس طرح دوبارہ بنایا جائے کہ امریکا کے مفادات کو مکمل تحفظ حاصل ہو، اور اسرائیل کو نہ صرف یہ کہ کوئی حقیقی خطرہ پیش نہ آئے بلکہ اسرائیل امریکا کے نائب (surrogate) کی حیثیت سے اس پورے علاقے میں امریکی اور اسرائیلی مفادات کے حصول کے لیے ایک کلیدی کردار ادا کرتا رہے۔ اس کے لیے عراق کی کمر توڑنا، افغانستان میں اپنے قدم جمانا، ایران کو نہ صرف یہ کہ ایٹمی طاقت نہ بننے دینا بلکہ معاشی اور سیاسی اعتبار سے بھی اس کو ایک خاص حد سے آگے نہ بڑھنے دینا، پاکستان پر دبائو، چین پر نگرانی اور جمہوریت اور انسانی حقوق کے نام پر اسے ہراساں کرنے کا ہمہ گیر پروگرام اور بھارت کے ساتھ تعاون کے ذریعے اس علاقے میں اپنے اثرات کو بڑھانا، جب کہ مسلم ممالک خاص طور پر عراق، پاکستان، افغانستان کو علاقائی، فرقہ وارانہ اور اسی قسم کی دوسری عصبیتوں کی بنیاد پر ٹکڑے ٹکڑے کرکے کمزور کرنا___ وہ کلیدی اہداف تھے، جن پر ۹۰ کے عشرے سے عمل ہو رہا تھا۔ نائن الیون کے حادثے کو ایک سنہری موقع بناکر پورے بین الاقوامی قانون کو بالاے طاق رکھ کر اپنے دفاع کے نام پر دوسرے ممالک پر فوج کشی، ان کی سرحدوں کی بے دریغ خلاف ورزی کے سامراجی  فلسفے کو پالیسی کا مرکز و محور بنانا، جمہوریت کے فروغ اور تبدیلیِاقتدار (regime change ) کے نام پر دوسرے ممالک میں مداخلت اور سیاسی تبدیلیوں کا کھیل، جنگ اور قومی سلامتی کا سہارا لے کر ان تمام حقوق کی پامالی جو مہذب دنیا کا سب سے قیمتی سرمایہ ہیں، وہ مقاصد ہیں جن کے لیے امریکا خصوصیت سے نائن الیون کے بعد سرگرم ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ اس کا صرف عنوان ہے اوراصل سامراجی کھیل کے لیے قائم مقام (proxy) کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس سلسلے میں امریکا کی سرکاری دستاویزات، دنیا بھر کے اہم تھنک ٹینکس کی مطبوعات اور صدربش سے  لے کر ان کے سول اور فوجی ترجمانوں اورسابقہ کمانڈروں اور خفیہ اداروں کے ترجمانوں کے بیانات چشم کشا ہیں۔ کسی کو باہر سے الزام لگانے کی ضرورت نہیں۔ امریکا کا عمل اور اس کے    ذمہ داروں کے بیانات سیاسی شطرنج کا پورا نقشہ پیش کردیتے ہیں۔

ایک مشہور فرانسیسی مفکر ایمانیول ٹوڈ اپنی کتاب After the Empire: The Breakdown of the American Order میں لکھتا ہے:

امریکا نے اپنے آپ کو ساری دنیا میں ’کروسیڈ‘ کے قائد کی حیثیت سے پیش کرنے اور کسی بھی جگہ، کسی بھی وقت، کسی بھی مدت کے لیے مداخلت کو جائز ثابت کرنے کے لیے کچھ عرصے سے عالمی دہشت گردی کے تصور کو استعمال کیا ہے۔ (ص ۴۴)

القاعدہ اور حکومت طالبان کے خلاف جنگ کی وجہ سے امریکا نے افغانستان میں ۱۲ ہزار، ازبکستان میں ۱۵۰۰ اور جارجیا میں کم و بیش ۱۰۰ فوجی تعینات کر دیے۔ (ص۱۳۱)

تمام ظاہری محرکات سے زیادہ، امریکا نے اپنی فوجی شان و شوکت کے مظاہرے کے لیے مسلم دنیا کو بطور ہدف اور ’عذر خصوصی‘ (priveleged pretext) اس لیے منتخب کیا ہے کہ کم خرچ پر اپنی طاقت کی ہرجگہ اسٹرے ٹیجک موجودگی کو سامنے لایا جائے۔     یہ بالکل سادہ سی بات ہے کہ ایسا عالمِ عرب کی عمومی کمزوری کی وجہ سے ہوا ہے۔ امریکا عربوں کے ساتھ بدسلوکی کرے گا اس لیے کہ وہ فوجی لحاظ سے کمزور ہیں، اس لیے کہ ان کے پاس تیل ہے اور تیل اتنا اہم ہے کہ امریکا کے ہرقسم کی اشیاے تجارت پر عالمی انحصار سے توجہ منتقل کردے گا۔ (ص ۱۴۲-۱۴۳)

ایک بنگلہ دیشی نژاد برطانوی محقق نفیض مصدق احمد نے، جو برطانیہ کے ایک تھنک ٹینک Institute of Policy & Research کے ڈائرکٹر ہیں، دو تحقیقی کتب شائع کی ہیں۔ پہلی The War on Truthاور دوسری Behind the War on Terror۔ ان کتابوں میں قابلِ اعتماد حوالوں کے ساتھ امریکا کی عالمی غلبے کی حکمت عملی کے تمام ہی پہلوئوں کا پردہ چاک کیا گیا ہے۔ موصوف جس نتیجے پر پہنچے ہیں،وہ مختصراً یہ ہے:

حقیقت یہ ہے کہ ۱۱ستمبر کے دہشت گردی کے حملے کے بعد امریکا نے دہشت گردی کے خلاف جو نئی جنگ شروع کی، یہ انھی بنیادی اصولوں اور منصوبوں کی توسیع ہے جنھوں نے دوسری جنگ کے بعد امریکی خارجہ پالیسی کی تشکیل کی اور آگے بڑھایا۔ عالمی دہشت گردی کے خلاف لڑنے کے بہانے درحقیقت امریکی حکومت اپنی عالمی برتری کو توسیع دینے اور مستحکم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہ ان طویل المیعاد حکمت عملیوں کے مطابق ہے جنھیں گذشتہ کئی عشروں میں غوروفکر کرکے محنت سے تکمیل تک پہنچایا گیا۔ Behind the War on Terror: Western Secret Strategies and the Struggle for Iraq این ایس احمد، Calavian Sussex  ، ۲۰۰۳ئ، ص ۳)

ایک امریکی تھنک ٹینک Project for the New American Century (PNAC) نے بڑی چشم کشا رپورٹ تیار کی ہے۔ اس کے تیار کرنے والوں میں صدر جارج بش کے چوٹی کے مشیر شامل رہے ہیں جن میں ڈک چینی (موجودہ نائب صدر) ڈونالڈ رمزفیلڈ  (سابق وزیردفاع)، لیوس لبی نائب صدر کے سابق چیف آف اسٹاف وغیرہ شامل تھے۔ اس میں صاف لفظوں میں لکھا ہے کہ ہمارا مقصد ایک ایسا بلیو پرنٹ تیار کرنا ہے جس کا مقصد:

عالمی سطح پر امریکا کی برتری کو برقرار رکھنا، کسی دوسری عظیم طاقت کے بطور حریف عروج کو روکنا، اور بین الاقوامی سلامتی کے نظام کو امریکی اصولوں اور مفادات کے مطابق تشکیل دینا ہے۔

اسی قسم کے ایک اور جامع منصوبے میں جس کی تیاری میں کولن پاول اور پال ولفورٹس شامل تھے، کہا گیا ہے کہ:

یہ امریکا کی نئی قومی سلامتی کی حکمت عملی کے ذریعے اپنی آخری شکل اختیار کرے گا۔ یہ منصوبہ دنیا پر امریکا کی حکومت قائم کرنے کے لیے ہے۔ اس کا کھلا کھلا مرکزی خیال ایک ہی طاقت کا میدان میں رہنا (unilateralism) ہے لیکن یہ بالآخر غلبہ حاصل کرنے کی کہانی ہے۔ اس کا تقاضا ہے: دوستوں اور دشمنوں پر ایک جیسا غلبہ۔

امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کا تعلق دہشت گردی سے کم اور امریکا کے اپنے عالمی عزائم جس کا اصل ہدف دنیا پر امریکی غلبہ (Pax Americana) ہے، تیل اور انرجی کے دوسرے ذخائر پرقبضہ اور ان کی رسد کے راستوں پر حکمرانی، دنیا کے اسٹرے ٹیجک پوائنٹس پر اپنے فوجی اڈوں کا قیام اور دنیا کے اہم علاقوں خصوصیت سے مشرق وسطیٰ اور وسط افریقہ کے سیاسی نقشے کی امریکی مفادات اور اسرائیلی خواہشات کی روشنی میں تشکیلِ نو۔

سوڈان میں جو کچھ ہو رہا ہے اور عراق، افغانستان اور لبنان میں جو کچھ کیا جا رہا ہے، نیز پاکستان کے بارے میں جو نئے نئے نقشے تیار کیے جا رہے ہیں، ان سب کا تعلق اس بڑی (grand) حکمت عملی سے ہے۔ افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں امریکا کی دل چسپی اس عظیم تر منصوبے کا حصہ ہے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ اس حکمت عملی پر عمل درآمد کا ایک پہلو ہے۔

ڈاکٹر نفیض احمد نے بڑے پتے کی بات لکھی ہے جو امریکی حکمت عملی کے سینے کے اصل راز کو فاش کرتی ہے:

اس طرح بین الاقوامی دہشت گردی امریکی بالادستی کے ماتحت ورلڈ آرڈر میں ایک  عملی کردار ادا کرتی ہے۔ دہشت گرد اسامہ صدر بش کی ضرورت ہے۔ بن لادن نہ رہے، تو بش کے پاس پوری دنیا میں کوئی مستقل ہدف نہیں رہے گا اور اس طرح نئے امریکی غلبے (New Pax Americana) کے لیے جواز ختم ہوجاتا ہے۔ (ص ۱۷)

دہشت گردی کو فروغ دینے اور اسے اپنے سیاسی پروگرام میں ایک حربے کے طور پر استعمال کرنے میں امریکا کا اپنا کردار بہت زیادہ داغ دار ہے اور اس تاریخی روایت کی روشنی میں دہشت گردی کے باب میں امریکا کے حالیہ جوش و خروش کو سنجیدگی سے لینا محال ہے۔ ڈاکٹر احمد کا یہ تبصرہ لائق توجہ ہے کہ:

مشرق وسطیٰ کے کلیدی گرم محاذ عراق کے ہمارے تفصیلی تجزیے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مغربی پالیسی نے اسٹرے ٹیجک حکومتوں کے کنٹرول اور توانائی کے کلیدی وسائل پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے ان بنیادی انسانی اصولوں کی مسلسل خلاف ورزی کی ہے جن کی وہ علَم بردار ہے۔ یہ امر بہت اہم ہے کہ اس عمل میں مغربی پالیسی ریاستی دہشت گردی میں باقاعدہ ملوث رہنے کی رہی ہے، دونوں طرح سے، بالواسطہ طور پر ان حکومتوں کو جو دہشت گردی کی مرتکب تھیں اسپانسر کرکے اور بلاواسطہ طور پر ایسے فوجی آپریشن کرکے جو دہشت گردی پر مبنی تھے۔ اس سے بنیادی طور پر نائن الیون کے نتیجے کے طور پر جاری دہشت گردی کے خلاف نئی جنگ کے درست ہونے کا تصور بلاشبہہ ختم ہوجاتا ہے۔ علاوہ ازیں مشرق وسطیٰ میں مغربی پالیسی کی بنیاد میں یہ بات شامل ہے کہ تنازعات کو پیدا کیا جائے اور/یا بڑھایا جائے تاکہ مغربی مفادات سے ہم آہنگی ہو۔ یہ استعماری دور کی روایتی لڑائو اور حکومت کرو پالیسی کی یاد دلاتا ہے۔ (ص ۲۴۳)

امریکی پالیسی کے مقاصد بہت واضح ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ محض ایک عنوان اور نعرہ ہے۔ اصل مقصد امریکا کی بالادستی، مسلمان اور دوسرے ممالک میں اپنی مفید مطلب حکومتوں کا قیام، تیل اور دوسرے وسائل پر قبضہ اور ان کا اپنے مفادات کے لیے استعمال، اسرائیل کا تحفظ اور اسے مشرق اوسط میں کھل کھیلنے کے مواقع کی فراہمی اور اس کی جارحانہ سرگرمیوں کی سرپرستی اور حفاظت، احیاے اسلام کی تحریکوں کا راستہ روکنا اور اسلامی بنیاد پرستی، اسلامی انتہا پسندی اور اسلامی دہشت گردی کے نام پر مسلمانوں کو اپنے ملکوں میں اسلام کو حکمران قوت بنانے سے روکنا اور اپنی سیاسی، معاشی، نظریاتی، عسکری، ثقافتی اور ذہنی غلامی میں جکڑنا ہے۔

امریکا کے بارے میں راے عامہ

افغانستان میں امریکا اور اس کی حلیف قوتوں کا اصل مقصد مغربی استعمار کے ان ہی اہداف کا حصول ہے، اور پرویز مشرف کا امریکا کو اس کی جنگ میں پاکستان کا تعاون فراہم کرنا اور پاکستان کی سرحدات کو امریکی جولانیوں کے لیے کھول دینا پاکستان کے اسٹرے ٹیجک مفادات سے متصادم اور امریکا کے مفادات کی خدمت رہا ہے۔ پاکستانی عوام امریکا اور مشرف کے اس کھیل پر مضطرب، سرگرداں اور متفکر رہے ہیں۔ اپنی مخالفت کا اظہار ہر میدان میں کرتے رہے ہیں اور پورے خطے میں تصادم اور خون خرابے کے اضافے کاسبب بھی مشرف حکومت کی یہی پالیسی رہی ہے۔ گیلپ، World Public Opinion Survey، The Pew Global Attitudes Projectاور خود امریکی اداروں کے زیراہتمام کیے جانے والے IRI Index ،تمام سروے  راے عامہ کی مخالفت کی گواہی دیتے ہیں۔ گیلپ کے ان تمام جائزوں کے تجزیے پر مبنی کتاب Who Speaks for Islam? What A Billion Muslims Realy Think حال ہی میں گیلپ پریس نے شائع کی ہے۔ جو سروے ۲۰۰۳ء سے ۲۰۰۷ء تک کیے گئے ہیں، ان کا تجزیہ مشہور امریکی محقق جان ایسپوزیٹو نے کیا ہے۔ ان جائزوں کی روشنی میں مسلمان اپنے دین پر ایمان اور اعتماد رکھتے ہیں۔ وہ اپنی اجتماعی زندگی کو قرآن و سنت کی روشنی میں مرتب اورمنظم کرنا چاہتے ہیں۔ وہ امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کو بڑی حد تک اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جنگ سمجھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ دہشت گردی کا کوئی تعلق مذہب سے نہیں، بلکہ جو بھی احتجاج امریکا کے خلاف ہو رہا ہے، اس کی بنیادی وجہ امریکا کی خارجہ پالیسیاں ہیں۔

Pew (پیو) کے گلوبل سروے کے مطابق جو جون ۲۰۰۶ء میں شائع ہوا تھا اور جس میں ۲۰۰۰ء سے ۲۰۰۶ء تک کے سروے کا تقابلی جائزہ پیش کیا گیا تھا، اس کے مطابق پوری دنیا میں اور خصوصیت سے پاکستان میں امریکا کی مقبولیت کا گراف برابر گر رہا ہے۔ ۷۰ فی صد سے زیادہ پاکستانی عوام امریکا کی پالیسیوں کے مخالف تھے اور ان کا خیال تھا کہ امریکا کی اس جنگ نے دنیا کو زیادہ خطرناک جگہ بنا دیا ہے۔

اسی طرح World Public Opinion Surveyکے سروے کی روشنی میں پاکستانی عوام کے ۹۰ فی صد کی خواہش ہے کہ ان کی اجتماعی زندگی کی صورت گری اسلام کے اصولوں کے مطابق ہو، جب کہ آبادی کے ۴۶ فی صد کی راے یہ تھی کہ اس وقت زندگی کے اجتماعی معاملات اسلام کے مطابق نہیں چلائے جا رہے۔ سیکورٹی اور معیشت کے معاملات میں پاکستان اور امریکا کے تعلقات کے بارے میں ۴۴ فی صد کا خیال تھا کہ اس کا فائدہ صرف امریکا کو پہنچ رہا ہے، جب کہ ۹فی صد کا خیال تھا کہ یہ پاکستان کے لیے مفید رہی ہیں۔ ۲۹ فی صد نے کہا کہ یہ پاکستان کے مفادات پر ضرب لگارہی ہیں۔ ۷۲ فی صد عوام کی راے یہ تھی کہ ایشیا میں امریکا کی عسکری موجودگی پاکستان کے لیے خطرہ ہے، ایک فیصلہ کن خطرہ (critical threat ) ہے، جب کہ مزید ۱۲ فی صد نے اسے خطرہ قرار دیا اور صرف ۶ فی صد کی راے میں اس سے پاکستان کو کوئی خطرہ نہیں۔ افغانستان میں امریکی فوجیوں کی موجودگی کے بارے میں پاکستانیوں کی تشویش اور بھی سوا ہے۔ ۶۸ فی صد کا خیال ہے کہ یہ فیصلہ کن خطرہ ہے۔ اسامہ بن لادن کے لیے ہمدردی پائی جاتی ہے اور اس سوال کے جواب میں کہ اسامہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ہو اور حکومت کو اس کا صحیح پتا بھی چل جائے تو کیا پاکستان کو اسامہ بن لادن کو گرفتار کر لینا چاہیے۔ ۳۹ فی صد نے کہا کہ نہیں کرنا چاہیے، جب کہ۲۴ فی صد نے اسے گرفتار کرنے کے حق میں راے دی۔

سب سے اہم سوال یہ تھا کہ امریکا کے عالمی کردار کو سامنے رکھتے ہوئے پاکستانی عوام کی کیا راے ہے کہ امریکا کے اصل مقاصد کیا ہیں۔ ۵۳ فی صد نے کہا: عیسائیت کا فروغ ان کے مقاصد میں سے ایک ہے۔ تیل کے ذخائر پر قبضے کے باب میں ۷۸ فی صد کا خیال تھاکہ یہ ایک واضح ہدف ہے۔ لیکن سب سے چشم کشا جواب اس سوال کا تھا کہ کیا امریکا اسلامی دنیا کو تقسیم اور کمزور کرنا چاہتا ہے تو ۸۶ فی صد کا خیال تھا کہ ہاں، یہ امریکا کا ایک واضح ہدف ہے۔

اب ایک نظر اس سروے پر بھی ڈال لی جائے جو امریکا نے پاکستان میں انتخاب سے چند ہفتے قبل (۱۹-۲۹ جنوری ۲۰۰۸ئ) کروایا ہے اور جو IRI index کے نام سے شائع کیا گیا ہے۔ اس سروے کی رو سے ۸۴ فی صد آبادی کی راے میں مشرف کی قیادت میں پاکستان جس رخ پر جارہا ہے وہ غلط ہے۔ پاکستانیوں کی نگاہ میں دہشت گردی سب سے اہم مسئلہ نہیں۔ سب سے اہم مسئلہ افراطِ زر کا ہے جسے ۵۵ فی صد نے نمبر ایک پر رکھا ہے۔ بے روزگاری کو ۱۵ فی صد سب سے اہم مسئلہ قرار دیتے ہیں۔ دہشت گردی کو صرف ۱۲ فی صد نے اہم مسئلہ قرار دیا ہے لیکن عوام کی راے کاصحیح اندازہ دو دوسرے سوالوں کے جواب سے کیا جاسکتا ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ صوبہ سرحد اور فاٹا میں انتہاپسندی کے خلاف فوجی کارروائی کے حق میں ہیں تو ۶۴ فی صد نے اس کی مخالفت کی اورجب ان سے پوچھا گیا کہ کیا پاکستان کو امریکا سے دہشت گردی کے خلاف اس کی جنگ میں تعاون کرنا چاہیے تو ۸۹ فی صد نے عدمِ تعاون اور مخالفت کو اپنی ترجیح قراردیا۔

آزادی اور خودمختاری کا راستہ

یہ ہے عوام کی اصل سوچ___ اور اسی کا اظہار ۱۸ فروری کے انتخابات میں ہوا۔ اس کا تقاضاہے کہ نومنتخب حکومت اور پارلیمنٹ مشرف کی بنائی ہوئی پالیسی کوجلد از جلد تبدیل کرے اور عوام کی خواہش اور ملک کے اسٹرے ٹیجک مفادات کی روشنی میں فوجی آپریشن کو ختم کرکے مذاکرات اور سیاسی عمل کے ذریعے معاملات کو سلجھائے، امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ سے ایک مناسب منصوبے کے تحت دست کش ہو، افغانستان میں مکمل عدمِ مداخلت کی روش اختیار کرے اور امریکا اور مغربی اقوام کو اس زمینی حقیقت کو پڑھ لینے کی ترغیب دے کہ افغانستان میں امریکی اور ناٹو کی فوجوں کی موجودگی فساد کا اصل سبب ہیں۔ ان افواج کو افغان عوام قابض افواج شمار کرتے ہیں اور ان کا کردار بھی قابض طاقتوں ہی جیسا ہے۔یہ انتظام اور یہ حکمت عملی مکمل طور پر ناکام رہی ہے۔ یہ افغانستان میں بھی ناکام ہے اور عراق میں بھی۔ اسے جاری رکھنے کا نتیجہ مزید خون خرابے کے سوا کچھ نہیں۔ عقل و دانش کا تقاضا ہے کہ اس پالیسی کو بتدیل کرانے کے لیے سرتوڑ کوشش کی جائے اور اس کا آغاز پاکستان کی شرکت اور صوبہ سرحد اور قبائلی علاقوں میں امریکا کی جنگ کے سپاہی کاکردار ختم کر کے امن و امان کے قیام کا امکان پیدا کیا جائے اور اور فوج اور عوام کی یک جہتی کے ماڈل کی طرف پیش قدمی کی جائے۔

پرویز مشرف کی پالیسی کا گہری نظر سے جائزہ لیا جائے تواس کے نتیجے میں دہشت گردی میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان اور افغانستان قریب آنے کے بجاے عملاً ایک دوسرے سے دُور ہوئے ہیں۔ پاکستان کی سرحدات کی امریکی خلاف ورزیاں بڑھی ہیں اور ہمارے معاملات میں  ان کی مداخلت اس حد تک پہنچ گئی ہے جو پاکستان کی آزادی، حاکمیت کے لیے خطرہ اور قومی  عزت و وقار کے منافی ہے۔ فوج اور قوم میں صرف دُوری ہی نہیں ہوئی، بلکہ وہ ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہیں۔ ۱۲۰۰ سے زیادہ فوجی اپنی جان گنوا چکے ہیں اور ۳ ہزار کے قریب سویلین موت کے گھاٹ اُتارے جاچکے ہیں، کوئی علاقہ محفوظ نہیں۔ محسود قبائل کے علاقے کے بارے میں امن و امان کے قیام کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ وہاں پہلی مرتبہ پاکستانی صحافیوں کو لے جایا گیا ہے اور  ان کی رپورٹ یہ ہے کہ فوج کی چوکیاں تو وہاں ہیں مگرمحسودعلاقے میں وہ کسی محسود باشندے کو  نہیں دیکھ سکے۔ پورا علاقہ انسانوں سے خالی ہے اور ایک بھوتوں کے مسکن کی تصویر پیش کر رہا ہے۔ ایسا امن قبرستان کا امن تو کہا جاسکتا ہے، انسانی بستیوں کا امن اسے نہیں کہا جاسکتا۔

پھر جس معاشی امداد کا چرچاہے بلکہ امریکی اس کے نام پر چرکے لگا رہے ہیں، اس کا حال یہ ہے کہ خود امریکی حکام کے بقول: اس کا ۳۰ فی صد امریکا کے مشیروں (consultants)  پر صَرف ہوا ہے اور ۷۰ فی صد پاکستان پہنچا ہے۔ پھر یہاں اس کا فائدہ کس نے اٹھایا ہے اور عوام کے حصے میں کیا آیا ہے؟ اس کا تذکرہ نہ ہی کیا جائے تو بہتر ہے۔ البتہ جس ۱۱ ارب ڈالر کی امداد کا دعویٰ ہے، اس میں سے ۶ ارب ڈالر توفوجی خدمات کا معاوضہ ہے، کوئی مدد نہیں ہے۔ صرف ۵ارب ڈالر سات سال میں مدد کی مد میں آئے ہیں لیکن پہلے چار سال میں جو معاشی نقصان پاکستان کو ہوا ہے اور جس کا اعتراف خود امریکی فوج کے مرکز (centcom) نے کیا ہے، وہ ۱۰ ارب ڈالر ہے۔ اگر باقی تین سال کے بارے میں بھی اندازہ کیا جائے تو قرین عقل یہ ہے کہ یہ نقصان ۱۵ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ اگر نفع نقصان کا میزانیہ بنایا جائے تو بات خواہ ملک کی آزادی     اور حاکمیت کی ہو، عزت اور وقار کی ہو، جانی اور مالی نقصان کی ہو، حکومت اور عوام اور فوج اور   قوم کے درمیان تعلقات کی ہو___ یہ ایک خسارے اور صرف خسارے کا سودا رہا ہے جس کا اعتراف اب عالمی سطح پر بھی ہو رہا ہے۔ پاکستانی عوام تو پہلے دن سے اس پر چیخ رہے ہیں۔ Counter Punch کے تازہ شمارے میں ایک امریکی دانش ور رچرڈ ڈبلیو بی ہان لکھتا ہے:

دہشت گردی کے خلاف جنگ ایک فراڈ ہے، محض ایک لیبل جو ایک ایسی انتظامیہ کی   جعل سازی اور ڈھنڈورا پیٹنے کے مترادف ہے جو اپنی ’مستند‘ بددیانتی کے لیے معروف ہے۔ یہ لیبل بش انتظامیہ کے بلااشتعال فوجی حملوں کے جرائم کی پردہ پوشی کرتا ہے۔ افغانستان اور عراق کی دو خودمختار مملکتوں پر جو حملے ہوئے وہ بش انتظامیہ اقتدار میں آنے کے پہلے ہی دن سے کرنا چاہتی تھی۔

یہ دہشت گردی کے خلاف جنگ نہیں ہے۔ آج افغانستان اور عراق مقبوضہ ممالک ہیں جن کا انتظام کٹھ پتلی حکومتیں کر رہی ہیں اور جو فوجی چھائونیوں کی بنیاد پر اپنا کام، یعنی توانائی کے اثاثوں کی حفاظت کر رہی ہیں۔ یہ بش انتظامیہ کی جنگی کارروائی کا ضمنی نتیجہ نہیں ہے، بلکہ یہ اس کا مقصد تھا… دہشت گردی کے خلاف جنگ ایک تصدیق شدہ  دھوکا (certified fraud) ہے۔ (دی نیشن، ۱۱ مئی ۲۰۰۸ئ)

اس جنگ میں پاکستان کے کردار کا حاصل کیا ہے؟ یہ بھی کرسچین سائنس مانیٹر کے نمایندے  گورڈن لوبالڈ کے تازہ ترین مراسلے میں دیکھ لیجیے:

پاکستان میں انتہاپسندوں کے خلاف فوجی حملوں کو بش انتظامیہ مرکزی اہمیت دے رہی ہے۔ اس پر تجزیہ نگار تشویش ظاہر کر رہے ہیں کہ امریکا ایک ناکام پالیسی پر اپنے ایک اہم حلیف سے ایک ایسے وقت میں اصرار کر رہا ہے، جب کہ خطے میں بدلتے ہوئے حالات، یعنی پاکستان میں ایک نئی منتخب حکومت اور افغانستان میں محاذ آرائی میں اضافہ، حکمت عملی میں تبدیلی چاہتے ہیں۔ (دی نیشن، ۱۳ مئی ۲۰۰۸ئ)

اس رپورٹ میں اعتراف کیا گیا ہے کہ امریکا پاکستان کو سابقہ پالیسی جاری رکھنے پر مجبور کر رہا ہے جب کہ سب دیکھ رہے ہیں کہ یہ پالیسی ناکام رہی ہے اور اس دلدل سے نکلنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ فوجی حل کی حکمت عملی کو ترک کر کے زمینی حقائق، عوامی خواہشات، اور پاکستان کے اپنے مفادات اور مقاصد و ترجیحات کی روشنی میں سیاسی حل نکالا جائے اور خطے کو مزید عدمِ استحکام سے بچایا جائے۔

اس وقت جو جنگ قبائلی علاقوں میں ہورہی ہے اور جس سے صوبہ سرحد اور ملک کے دوسرے علاقے بھی متاثر ہو رہے ہیں، وہ نہ پاکستان کی جنگ ہے اور نہ اُمت ِمسلمہ کے مفادات کی جنگ۔ یہ صرف امریکا کے استعماری عزائم کے حصول کی جنگ۔ یہ جو خود امریکا کے عوام کے مفاد میں بھی نہیں اور اس کی وجہ سے آج امریکا کے خلاف نفرت کا لاوا ساری دنیا میں پھٹ رہا ہے اور بے چینی، بے اطمینانی اور مخالفت کی لہریں بلند تر ہورہی ہیں۔ امریکا میں عوام کی بڑی تعداد  اس جنگ سے بے زار ہے اور امریکی معیشت اس کے بوجھ کو مزید برداشت کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ دنیا بھر میں امریکا جمہوریت اور انسانی حقوق اور آزادیوں کے علَم بردار کی حیثیت سے نہیں، ایک غاصب اور استعماری قوت کی حیثیت سے پہچانا جا رہا ہے اور یہ کوئی اچھی پہچان نہیں۔ امریکا کو دنیا کا امن تہہ و بالا کرنے کا ذمہ دار گردانا جا رہا ہے اور دنیا آج نائن الیون کے مقابلے میں کہیں زیادہ غیرمحفوظ اور غیرمستحکم ہے۔ کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ سیاسی قیادتیں اپنی آنکھیں کھولیں اور ہوش کے ناخن لیں۔ اور اگر امریکا تباہی کے راستے پر چلنے کے لیے مصر ہے تو ہمارے حکمرانوں کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ دن کی طرح روشن حقائق کو بھی دیکھنے کو تیار نہیں، عوام کی آواز کو سننے کے لیے ان کے  کان بند ہیں اور وہ تبدیلی کی جگہ تسلسل کی پُرفریب وادیوں میں گم نظر آتے ہیں۔ قوم صاف الفاظ میں تبدیلی کا مطالبہ کررہی ہے۔ قوم کی راے میں دہشت گردی کے خلاف یہ جنگ پاکستان، پاکستانی قوم اوراُمت مسلمہ کی جنگ نہیں___ یہ امریکا کی استعماری جنگ ہے اور اس میں آلۂ کار بنے رہنا ایک اخلاقی، سیاسی اور نظریاتی جرم ہے۔ جتنی جلد اس جنگ سے ہم نکل آئیں اتنا بہتر ہے۔

ہم یہ بھی کہہ دینا چاہتے ہیں کہ یہ تو نوشتۂ دیوار ہے کہ یہ جنگ ناکام ہے اور فساد اور بگاڑ کو بڑھانے کے سوا اس کا کوئی نتیجہ نہیں۔ اسے ختم ہونا ہی ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ ہم کتنی تباہی کے بعد اس آگ سے نکلتے ہیں؟ اب بھی بہت نقصان ہوچکا ہے۔ ہماری دعوت ہے کہ اس ملک کی سیاسی قیادت اب بھی عقل و دانش کا راستہ اختیار کرے اور امریکا کی اس جنگ سے نکلنے اور پاکستان اور اُمت مسلمہ کے مفادات کے حصول کے لیے اپنی خارجہ پالیسی اور سفارت کاری کا بہترین استعمال کرے۔ ارباب اقتدار کو جاننا چاہیے کہ ایک بے عقل کو بھی بالآخر وہی کرنا پڑتا ہے جس کا مشورہ اصحاب دانش و بینش پہلے قدم ہی پر دے رہے ہوتے ہیں لیکن بے عقل اس فیصلے پر بڑی خرابی اور تباہی کے بعد پہنچتے ہیں    ؎

آں کہ دانا کند ، کند ناداں

لیک بعد از خرابیِ بسیار

صدر جارج بش کی حکومت خود اپنے ملک میں اور بین الاقوامی میدان میں سخت مشکلات کا شکار ہے اور کسی ایسے اقدام کے لیے بے چین ہے جس سے پے در پے شکستوں اور ہزیمتوں کے بعد کسی نوعیت کی سرخ روئی کا دعویٰ کیا جاسکے۔ عراق کی جنگ کے پانچ سال کے جتنے بھی جائزے آئے ہیں، وہ بش کی پالیسیوں کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ جنگ غلط دعوئوں اور جھوٹ پر مبنی رپورٹوں کے سہارے سے شروع کی گئی۔ یہ جانتے ہوئے کہ عراق کے پاس عمومی تباہی کے مہلک ہتھیار نہیں ہیں، ان معدوم ہتھیاروں اور ان کے مغربی دنیا کو خیالی خطرات کے نام پر فوج کشی کی گئی۔ صدام کے دور میں نہ صرف عراق میں  القاعدہ کا کوئی وجود نہیں تھا ،بلکہ عراق اور القاعدہ کا کسی سطح پر بھی کوئی رابطہ نہیں تھا، مگر القاعدہ کو بھی نشانہ بنانے کے لیے عراق پر حملہ کیا گیا اور عراق ہی نہیں پوری عرب دنیا میں القاعدہ کے  ظہور اور سرگرمیوں کے لیے جواز فراہم کیا گیا۔ عراق کی جنگ میں ۳ہزار سے زیادہ امریکی فوجی ہلاک ہوچکے ہیں، اس سے ۱۰ گنا زیادہ زخمی ہوئے ہیں اور ڈیڑھ لاکھ کے قریب فوجی عراق کی جنگ میں کچھ کردار ادا کرنے کے باعث ذہنی بیماریوں میں  مبتلا ہیں جس سے پوری امریکی فوج کا ذہنی اور اخلاقی توازن درہم برہم ہے۔ مالی اعتبار سے  ۶۵۰ ارب ڈالر کے بلاواسطہ مصارف کے علاوہ جو بوجھ امریکی معیشت پر پڑا ہے، اس کا اندازہ چوٹی کے امریکی معاشی ماہرین کے خیال میں ۲ٹریلین (۲ ہزار ارب) ڈالر سے زیادہ ہے اور باقی دنیا کی معیشت پر اس کے علاوہ کم از کم ایک ٹریلین (ایک ہزار ارب) ڈالر کا بوجھ پڑا ہے۔

اس وقت جب دنیا کی آبادی کا ایک چوتھائی حصہ (۵ئ۱ ارب افراد) غربت کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے، امریکا نے صرف اپنے شوقِ جہاںبانی اور اسرائیل کو محفوظ کرنے کے لیے ہزاروں بلین ڈالر جنگ کی آگ میں جھونک دیے ہیں، اور اب عراق کی ناکامی پر پردہ ڈالنے اور توجہ کو دوسری طرف مبذول کرانے کے لیے افغانستان، ایران اور خصوصیت سے پاکستان اور اس کے شمالی علاقوں کو اپنی ترک تازیوں کے لیے منتخب کیا ہے۔ اس سلسلے میں نئی جارحانہ محاذ آرائی روزافزوں ہے۔ اس کا آغاز گذشتہ سال ہی ہوگیاتھا اور پرویز مشرف کی کمزوریوں کا فائدہ اُٹھا کر امریکا نے شمالی علاقہ جات میں بے دردی سے بلاواسطہ کارروائیوں کا سلسلہ تیز کیا۔ ایک اندازے کے مطابق گذشتہ دو سال میں ۳۶ بار امریکی فوجی کارروائیوں کے ذریعے ہماری سرزمین کو ہماری آزادی اور حاکمیت کا مذاق اڑاتے ہوئے نشانہ بنایا گیا ہے جن میں سیکڑوں افراد بشمول معصوم بچے، بوڑھے اور خواتین شہید ہوئے ہیں۔ ان میں سے ۱۰ حملے ۳ نومبر ۲۰۰۷ء اور ۱۸فروری ۲۰۰۸ء کے درمیان ہوئے ہیں جس سے پرویز مشرف اور امریکی قیادت کے گٹھ جوڑ اور آیندہ کے لیے پرویزمشرف کے کسی نہ کسی شکل میں اقتدار پر باقی رکھنے کی خواہش کے محرکات کو بخوبی سمجھا جاسکتا ہے۔

پاکستانی عوام کی عظیم اکثریت پرویز مشرف اور ان کی پالیسیوں سے برأت کا مسلسل اظہار کر رہی ہے۔ راے عامہ کے تمام ہی جائزے بتا رہے تھے کہ ۸۰ فی صد عوام ان سے نجات کے خواہاں ہیں اور یہی چیز ۱۸ فروری کے انتخابات میں ثابت ہوگئی۔ پرویز مشرف کی طرح امریکی قیادت بھی اپنی شکست تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ ۲۰۰۷ء کی بدلتی ہوئی فضا کے پیش نظر اس نے ملک کی دوسری سیاسی قوتوں سے جوڑ توڑ کا آغاز کردیا تھا، مگر یہ نقشہ آسمانی فیصلوں کے ذریعے درہم برہم ہوگیا۔ ۱۸ فروری کے بعد سے امریکا پر ایک گونہ گھبراہٹ کی کیفیت طاری ہے، اور اس کی پوری مشینری، صدربش سے لے کر اس کے مقامی سفارت کاروں تک بشمول دانش وروں اور صحافیوں کی فوج ظفرموج، نئی حکمت عملی کے لیے فضا ہموار کر کے اور نومنتخب قیادت کو اپنے جال میں پھنسانے کے لیے سرگرم ہیں۔ پرویز مشرف اور ان کے سیاسی حلیف ابھی تک امریکی حکمت عملی میں کلیدی مقام رکھتے ہیں لیکن اس وقت ساری کوشش پیپلزپارٹی کی قیادت کو اپنا ہم نوا بنانے میں صرف ہورہی ہے۔ اس کے شریک چیرپرسن جناب آصف علی زرداری نئے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی اور نئے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی خصوصی نشانہ ہیں۔ فوج کے سربراہ اور اعلیٰ قیادت بھی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔

نئی حکمت عملی کے دو پہلو ہیں:

اوّلاً، پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف اپنی نام نہاد جنگ میں حسب سابق آلۂ کار بنائے رکھنے کے لیے سفارتی دبائو اور معاشی لالچ کے تمام حربے استعمال کیے جارہے ہیں۔   مخلوط حکومت نے چونکہ محض عسکری قوت سے سیاسی مسائل کے حل کے بارے میں اپنے کچھ تحفظات کا اظہار کیا اس لیے واشنگٹن میں خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگیں۔ انتخابات کے فوراً بعد سفارت کاروں کی ایک فوج حملہ آور ہے اور پاکستان میں امریکی سفارت کاربھی سیاسی کارکنوں کی طرح متحرک ہیں۔ ایک طرف پرویز مشرف کو کسی نہ کسی حیثیت سے برسرِاقتدار رکھنے اور ایم کیو ایم کو اقتدار میں شریک بنانے کی ہمہ جہتی کوشش ہے تو دوسری طرف نئی حکومت کو امریکی تائید کی لالی پوپ دینے کے لیے کونڈولیزارائس نے کمال شفقت سے فوج کو سیاسی قیادت کے تحت کارفرما دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے (The need for Pakistan's military to be placed under civilian control)اور امریکی سینیٹرز اور سفارت کاروں نے معاشی اور فنی امداد میں تین گنا اضافے کی بات کی ہے۔ کانگرس نے اگلے پانچ سال کے لیے ۷ ارب ڈالر کی امداد کے پیکج کا دلاسہ دیا ہے۔ لیکن گاجرمولی والی اس سیاست کے ساتھ ڈنڈے اور لاٹھی والی بات کا بھی بھرپور اظہار کیا جا رہا ہے جو اس حکمت عملی کا دوسرا اور زیادہ خوف ناک ستون ہے۔

تمام شواہد اس امر کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ پرویز مشرف نے تمام قومی مفادات اور عزت و آبرو کو پس پشت ڈال کر محض اپنی کرسی کو بچانے کے لیے امریکا کو یہ عندیہ دے دیا تھا کہ امریکا اور ناٹو کی افواج جب چاہیں پاکستان کی سرزمین پر اقدام کرسکتے ہیں۔ الیکشن کے بعد اس کھلی چھٹی کا راز فاش ہوگیا اور قوم کا مزاج بالکل سب کے سامنے ہے کہ یہ ناقابلِ برداشت ہے۔ نیز امریکا اور مشرف کی عسکری قوت سے سیاسی مسئلے کو حل کرنے کی حکمت عملی کو بھی عوام نے صاف طور پر رد کر دیا ہے اور نومنتخب حکومت کے سب ہی عناصر سیاسی عمل اور مذاکرات کے ذریعے معاملات کو نمٹانے کی بات کر رہے ہیں۔ یہ سب امریکا کے لیے ایک بڑی شکست اور بش کی  خارجہ پالیسی کے لیے بڑا دھچکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سفارتی دبائو اور معاشی لالچ کے ساتھ امریکا کی پوری قیادت پاکستان کو آنکھیں دکھانے اور  اپنی مرضی سے پاکستان کی سرزمین پر فوج کشی کرنے کی دھمکیاں دینے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ نئی حکومت کو اس سفارتی دہشت گردی (diplomatic terrorism) کے ذریعے اسی طرح گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرسکیں جس طرح نائن الیون کے بعد اس وقت کے مطلق العنان حکمران جنرل پرویز مشرف کو کیا تھا۔

اس یلغار کا ایک اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ ایڈمرل مائک مولین (Mike Mullen) نے جو امریکا کے جوائنٹ چیف آف اسٹاف کے عہدے پر فائز ہیں، فرمایا ہے کہ عراق میں مصروف ہونے کے باوجود ہمیں دوسرے خطرات سے صرفِ نظر نہیں کرنا چاہیے اور اس سلسلے میں خصوصی نظر پاکستان کے شمالی علاقہ جات پر رکھنا ضروری ہے جہاں سے خطرات کے پیغام پھوٹ رہے ہیں:

اگر مجھے کسی ایسی جگہ کا انتخاب کرنا پڑے جہاں سے اگلا حملہ ہونے والاہے تو یہ وہ جگہ ہے جسے میں یقینا منتخب کروں گا۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں القاعدہ ہے، جہاں ان کی قیادت ہے اور ہمیں اس چیلنج کو ختم کرنے کے لیے کوئی راستہ تلاش کرنا ہوگا۔

اسی طرح سی آئی اے کے ڈائرکٹر مائیکل ہے ڈن (Michael Hayden) کا ارشاد ہے:

القاعدہ قبائلی علاقے میں دوبارہ مجتمع ہوگئی ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ امریکا پر کسی دوسرے حملے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔

ایک اور جاسوسی ایجنسی ایف بی آئی کے ڈائرکٹر روبرٹ موئیلر (Robert Meuller) کا ارشاد گرامی ہے کہ القاعدہ کے کارندے قبائلی علاقوں میں روپوش ہیں اور ’’وہ راتوں رات خاموشی سے غائب نہیں ہوجائیں گے‘‘۔

اس کورس میں جس بات کا سب سے زیادہ تذکرہ ہے، وہ یہ ہے کہ نائن الیون کے حملے کی منصوبہ بندی عراق میں نہیں ہوئی تھی، بلکہ افغانستان میں ہوئی تھی۔ پانچ سال تک عراق کو تاراج کرنے کے بعد اب یہ راگ الاپا جا رہا ہے کہ اصل خطرہ تو افغانستان اور پاکستان سے ہے اور   ہم ناحق عراق میں پھنسے ہوئے ہیں۔ واشنگٹن سے ایک اہم رپورٹ کے مطابق :

گذشتہ ۱۰ دنوں میں خطرے کے نئے احساس، یعنی فاٹا میں القاعدہ قائدین کا دوسرے نائن الیون کا منصوبہ بنانے پر واشنگٹن میں درجنوں اجتماعات میں گفتگو ہوچکی ہے۔ (ڈان،  ۲۱ اپریل ۲۰۰۸)

اس بحث و مباحثے کی انتہا خود صدر جارج بش کا وہ بیان ہے جو انھوں نے اے بی سی نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے دیا ہے:

افغانستان اور عراق نہیں، بلکہ پاکستان وہ جگہ ہے جہاں سے امریکا پر نائن الیون جیسا دوسرا حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا جاسکتا ہے۔

موصوف کا ارشاد ہے کہ:

پاک افغان سرحد کے ساتھ قبائلی علاقے آج کل دنیا کے خطرناک ترین علاقوں میں سے ایک ہے جہاں القاعدہ نے اپنے لیے محفوظ پناہ گاہیں قائم کرلی ہیں، اور امریکا پر حملہ کرنے کے منصوبے بنا رہے ہیں۔

جب اے بی سی کے نمایندے نے یہ سوال کیا کہ: If there was another 9/11 plot being hatched, it was probably hatched in Afghanistan and Pakistan and not in Iraq۔ بش کا جواب تھا:I would say not in Afghanistan,  I would say in........جس پر سوال کرنے والے نے لقمہ دیا: Pakistan? اور صدر بش نے مہرتصدیق لگاتے ہوئے فرمایا: Yes, probably true ___اور ساتھ ہی فرمایا کہ اسی وجہ سے ضروری ہے امریکا میں FISA Law جیسے قوانین موجود رہیں جس کے ذریعے ٹیلی فون ٹیپ کرنے اور ان کو ریکارڈ کرنے کا حق حکومت کی ایجنسیوں کو دیا گیا ہے۔(ڈان، ۱۳ اپریل ۲۰۰۸ئ)

یہ ساری دھمکیاں اس لیے دی جارہی ہیں کہ پاکستان کی نئی حکومت کو دھمکا کر اسی طرح مطیع فرمان بنا لیا جائے، جیسے نائن الیون کے بعد پرویز مشرف کو کیا گیا تھا اور جو عملاً امریکا کے  یرغمال کی حیثیت اختیار کرگئے تھے۔

آج پاکستان کی موجودہ قیادت کو ستمبر ۲۰۰۱ء ہی جیسے چیلنج سے سابقہ ہے، گو الفاظ اور اندازِ کار میں تھوڑا سا فرق ہے لیکن اصل فرق یہ ہے کہ پاکستانی عوام پرویز مشرف کی سات سالہ ناکام پالیسی کا پورا شعور رکھتے ہیں اور ۱۸ فروری کے انتخابات میں اپنے اس عزم کا بھرپور اظہار کرچکے ہیں اور اب امریکا کے تابع مہمل بن کر امریکا کی اس لڑائی میں کرایے کے سپاہی کا کردار ہرگز برداشت نہیں کریںگے۔ اس ناکام پالیسی کو جاری رکھنے کا کوئی جواز نہیں اور عوام نئی قیادت کو جس طرح عدلیہ کی بحالی کے معاملے میں پیچھے نہیں ہٹنے دیں گے، اسی طرح امریکا کی اس جنگ میں پاکستان اور اس کی افواج کے کردار کے بارے میں بھی ماضی کی پالیسی کو کسی نئی شکل میں جاری رکھنے، اور نئی زندگی دینے کی اجازت بھی ہرگز نہیں دیں گے۔

امریکا افغانستان، عراق اور پوری دنیا میں یہ جنگ ہارچکا ہے اور محض قوت اور دولت کے سہارے اسے جاری رکھنا ممکن نہیں۔ خود امریکا کے عوام کے ۸۰ فی صد اب صدربش کی پالیسیوں سے اختلاف کا اظہار کر رہے ہیں، اور نصف سے زیادہ صاف کہہ رہے ہیں کہ عراق اور افغانستان میں امریکا کی پالیسیاں ناکام رہی ہیں۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے، اس کے عوام اور دانش ور اچھی طرح جانتے ہیں کہ امریکا کی اس جنگ میں شرکت کے نتیجے میں جو کچھ حاصل ہوا ہے،     وہ یہ ہے:

                ۱-            پاکستان اپنی آزادی، حاکمیت اور اپنی سرحدوں کو پار نہ کیے جانے کے باب میں سخت زخم خوردہ ہے۔ قومی عزت اور حمیت پر ضرب کاری لگی ہے اور عوام اپنی آزادی اور حاکمیت کی مکمل بحالی چاہتے ہیں۔

                ۲-            ملک کی مغربی سرحد جو ہمیشہ سے محفوظ ترین سرحد تھی، اپنی وہ حیثیت کھو چکی ہے اور اب فوج کا ایک معتدبہ حصہ اس سرحد پر تعینات ہے جس کے نتیجے میں کشمیر اور بھارت دونوںکے محاذ پر کمزوری آئی ہے۔

                ۳-            ملک میں عدم تحفظ میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے۔ ملک کی فوج پاکستان کے شہریوں کے خلاف استعمال ہورہی ہے اور فوج اور عوام دونوں اس کی بھاری قیمت اداکر رہے ہیں۔ ۹۰ہزار فوجی قبائلی علاقوں میں برسرِپیکار ہیں اور گذشتہ تین سال میں ۱۲۰۰ سے زائد فوجی ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوچکے ہیں۔ اسی طرح جنھیں دہشت گرد کہا جا رہا ہے ان کا جانی نقصان بھی اس سے کسی طرح کم نہیں۔ نیز ۳ہزار سے زیادہ عام شہری جن میں بچے، بوڑھے اور خواتین بھی خاصی تعداد میں شامل ہیں، لقمۂ اجل بن گئے ہیں۔ پورے علاقے میں انتشار، افراتفری اور خون خرابہ ہے۔ آبادی کے نقل مکانی کا سلسلہ جاری ہے اور بے یقینی اور عدم تحفظ کا دور دورہ ہے۔ فوج اور عوام کے درمیان جو اعتماد، محبت اور تعاون کا رشتہ تھا، وہ ٹوٹ گیا ہے اور فوج اورحکومت کے اداروں پر حملے روز افزوں ہیں۔ پورے ملک میں بدامنی اور تشدد کے استعمال میں اضافہ ہوا ہے جو سول سوسائٹی اور مستحکم جمہوری نظام کے لیے بڑا خطرہ ہے، اور اگر یہ سلسلہ جاری رہتا ہے تو ملک مزید عدم استحکام کی دلدل میں دھنستا چلا جائے گا۔

                ۴-            پاکستان کو نائن الیون کے بعد امریکا کے حواری بننے کی بڑی بھاری معاشی قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے۔ امریکا تو یہی طعنہ دیتا ہے کہ ہم نے ۱۱ ارب ڈالر کی امداد دی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اس میں سے ۶ ارب ڈالر فوجی خدمات کے معاوضے میں دی گئی ہیں اور اصل معاشی امداد جس کا ایک حصہ قرض کی شکل میں ہے صرف ۵ ارب ہے، جب کہ پاکستان کو ملک اور بیرونی محاذ پر جو معاشی نقصان اس جنگ میں شرکت کی وجہ سے ہوا ہے، اس کا صحیح تخمینہ لگانا مشکل ہے۔ ۲۰۰۶ء میں صرف پانچ سال کی بنیاد پر خود امریکا کی نارتھ کمانڈ کی ویب سائٹ پر یہ نقصان ۱۰ سے ۱۲ ارب ڈالر قرار دیا گیا تھا۔ آزاد ذرائع کے مطابق گذشتہ سات سال میں یہ نقصان ۱۲ سے ۱۵ ارب ڈالر کا ہے جس کی کوئی تلافی نہیں کی گئی اور نہ اس کا کوئی مطالبہ مشرف حکومت نے کیا، بلکہ اس پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی گئی۔

                ۵-            نیم غلامی کے اس دور کا ایک اہم نتیجہ جمہوریت کی پامالی، آمرانہ نظام کا استحکام، عدلیہ کی بربادی، بنیادی حقوق کی پامالی اور ملک کو نظریاتی انتشار اور قدیم و جدید اور انتہاپسند اور روشن خیالی کی کش مکش میں جھونک دینا ہے۔

ان سارے نتائج کو بھگتنے کے بعد قوم بیدار ہوچکی ہے اور عوام، وکلا، طلبہ اور سول سوسائٹی نے ماضی کی پالیسیوں کو ترک کر کے ایک حقیقی جمہوری انداز میں دستور اور قانون کی مکمل پاس داری کرتے ہوئے اور ملک کی آزادی، عزت اور تہذیبی شناخت کے مطابق نئی پالیسیوں کی تشکیل اور ان کی روشنی میں اجتماعی زندگی کی تعمیرنو کا عزم کیا ہے۔ ان حالات میں امریکا کی سفارتی یلغار اور فوجی اقدام کی دھمکیوں کے اصل مقصد اور اہداف کو سمجھنا، اور ان کا مقابلہ کرنا ضروری ہے۔ امریکا دہشت گردی کے خلاف اپنی جنگ ہار چکا ہے اور اس وقت دنیا کے کسی بھی حصے میںاس کی پالیسی کی تائید موجود نہیں۔ امریکا نے معاشی اعتبار سے بھی ایک بھاری قیمت ادا کی ہے، اور گذشتہ ایک سال میں بقول اکانومسٹ چار بحرانوں نے اسے اپنی گرفت میں لے لیا ہے، یعنی:

تعمیر مکانات میں مندی، قرضوں کا کمرتوڑ بوجھ، غذائی اشیا اور توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتیں اور ایک کمزور ہوتی ہوئی لیبرمارکیٹ۔ مارچ میں بے روزگاری کی شرح ۱ئ۵ فی صد تک بڑھ گئی، جب کہ نجی شعبے میں مسلسل چار مہینوں تک ملازمتوں میں کمی واقعی ہوئی۔ (دی اکانومسٹ، لندن،۱۲ اپریل ۲۰۰۸ئ)

ان حالات میں امریکا کی دھونس میں آکر کسی ایسی پالیسی سے بچنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے جس کے نتیجے میں مندرجہ بالا پانچوں نقصانات ہمارا تعاقب کرتے رہیں گے۔  خارجہ پالیسی پر بنیادی نظرثانی اور نام نہاد دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ سے باعزت    بے تعلقی ہمارے ملک میں استحکام، قومی مفاہمت، جمہوری استحکام اور دستور اور قانون کی بالادستی کے لیے ضروری ہے۔ اس کے لیے پرویز مشرف اور ان کے حواریوں کی ریشہ دوانیوں سے بھی  نمٹنا ضروری ہے۔ اس لیے کہ امریکا ایک طرف نئی حکومت کو اپنے جال میں پھنسانے کی کوشش کررہا ہے تو دوسری طرف حکومت پر دبائو ڈالنے کے لیے پرویز مشرف اور ان کے حواریوں کے کردار کو جاری رکھنے کے لیے بھی ہرممکن کوشش کر رہا ہے۔ پیپلزپارٹی کی قیادت کو سمجھ لینا چاہیے کہ دو کشتیوں میںسواری ایک فعلِ عبث ہے۔ اسے یکسو ہوکر جمہوریت اور عوام کے مینڈیٹ کے مطابق پالیسی سازی کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ اسی میں ملک و ملّت کی فلاح ہے اور یہی خود پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے بہترین مفاد میں ہے۔ امریکا کی حالیہ دھمکیوں، سفارتی ترک تازیوں اور معاشی امداد کی گنڈیریوں کے بارے میں ہم صرف اتنا ہی کہنا چاہتے ہیں کہ:

مشتری ہوشیار باش!

پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں پاکستانی قوم اور ملّتِ اسلامیہ پر جو ظلم توڑے گئے ہیں اور جو زخم لگائے گئے ہیں، ان میں فلسطین اور القدس سے غداری، اسرائیل سے دوستی، اُمت مسلمہ کے دشمنوں سے پینگیں بڑھانا اور بھارت کے ساتھ دوستی کے نام پر جموںو کشمیر کے مسلمانوں سے بے وفائی اور پاکستان کی اصولی اور تاریخی کشمیر پالیسی کو یک طرفہ طور پر تبدیل کردینا سرفہرست ہیں۔ آج جب قوم نے تبدیلی کے راستے کو منتخب کیاہے، اس بات کی ضرورت ہے کہ کشمیر کے مسئلے پر بھی مشرف کی پسپائی اور منافقت کی پالیسی کو یک سر ترک کر کے اس پالیسی کا اعادہ کیا جائے جس کی بنیاد قائداعظم نے رکھی تھی، اور جس پر یہ قوم ہر خطرے کو انگیز کرتے ہوئے پہلے دن سے یکسو تھی۔ واضح رہے کہ کشمیر کا مسئلہ نیا نہیں، تقسیمِ ہند کے نامکمل ایجنڈے کا ایک اہم حصہ ہے اور جب تک یہ مسئلہ حق و انصاف اور بین الاقوامی عہدوپیمان کے مطابق حل نہیں ہوتا، پاکستان اور ہندستان میں تعلقات کے معمول پر آنے کا (normalization ) کا کوئی امکان نہیں۔ پھر یہ مسئلہ کسی   خطۂ زمین پر تنازع نہیں، یہ ڈیڑھ کروڑ انسانوں کے حقِخود ارادیت کا مسئلہ ہے۔ انسانی حقوق بھی اس مسئلے کا حصہ ہیں لیکن اصل ایشو جموں و کشمیر کے مسلمانوں کا یہ حق ہے کہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ اپنی آزاد مرضی سے کریں۔ پرویز مشرف نے اس مرکزی مسئلے (core issue) کا سارا فوکس تبدیل کردیا اور اسے محض پاک بھارت تعلقات کا ایک پہلو بنا کر تحریکِ پاکستان کے مقاصد سے غداری اور جموں و کشمیر کے مسلمانوں سے بے وفائی کا ارتکاب کیا ہے جسے پاکستانی قوم کبھی معاف نہیں کرے گی۔

بھارت نے اپنی روایتی مکاری کے مطابق پرویز مشرف کی تمام پسپائیوں اور یک طرفہ  رعایتوں (concessions) کے باوجود کسی ایک پہلو سے بھی مسئلے کے حل کی طرف کوئی قدم نہیں بڑھایا، بلکہ سیاچن اور سرکریک جیسے مسائل کے بارے میں بھی جو باتیں ۲۰ سال پہلے طے کر لی تھیں ان پر بھی عمل نہیں کیا اور ساری توجہ کشمیر کی تحریک آزادی کو کچلنے، عوام پر ظلم و ستم کی حکمرانی کو بڑھانے اور پاکستان کے لیے کشمیر سے آنے والی پانی کی راہیں روکنے کے لیے ڈیم سازی پر  مرکوز کی۔ ظلم ہے کہ سندھ طاس معاہدے کے خلاف بھارت ۳۰ سے زیادہ ڈیموں پر کام شروع کرچکا ہے اور کچھ پر مکمل کرچکا ہے اور پرویز مشرف اور ان کے حواری پاکستان کو بنجر بنانے کے لیے اس بھارتی منصوبے تک کا توڑ کرنے سے مجرمانہ غفلت برتے رہے ہیں۔

پرویز مشرف کی پالیسیوں کا سب سے بڑا نقصان پاکستان کو یہ ہوا ہے کہ ملک اور عالمی سطح پر ہماری اصولی پوزیشن بری طرح مجروح ہوئی ہے اور ہماری آواز میں کوئی وزن نہیں رہا ہے۔ نیز کشمیر میں جو عظیم تحریکِ مزاحمت جاری ہے اور جس میں اب تک ۶ لاکھ افراد اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں، جن میں سے ایک لاکھ تحریک کے حالیہ مرحلے میں شہید ہوئے ہیں، اس تحریک کو پرویز مشرف کی قلابازیوں نے شدید نقصان پہنچایا ہے۔ پاکستان پر جو اعتماد جموں و کشمیر کے مسلمانوں کو تھا، اس کو شدید دھچکا پہنچا ہے۔ ’کشمیر بنے گا پاکستان‘ کی تحریک پر ضرب لگی ہے اور جموں و کشمیر کے عوام بھارت کے ساتھ رہنے کو تو نہ پہلے تیار تھے اور نہ اب تیار ہیں، لیکن پاکستان سے جو ان کی اُمیدیں تھیں اور جس طرح وہ پاکستان کو اپنی منزل مراد سمجھتے تھے، اس کیفیت اور اس اعتماد پر ضرب کاری لگی ہے۔ اب بھی وہ پاکستان کی قوم سے اچھی توقعات رکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں جو کچھ ہوا وہ پرویز مشرف کی غلط پالیسی کا نتیجہ ہے جس کی اب پاکستانی قوم اصلاح کرے گی۔   گو زخم لگ چکا ہے اور شیشے پر بال آگیا ہے لیکن ابھی اصلاح کا امکان ہے۔ نئی حکومت کو پاکستان کی تمام بڑی پارٹیوں کے منشور کے مطابق قوم کی متفقہ کشمیر پالیسی کا پوری قوت سے اعادہ کرنا چاہیے کہ اصل مسئلہ حق خود ارادیت کا ہے۔ کشمیر ایک متنازع ایشو ہے اور بھارت اور پاکستان کے درمیان یہی اصل مرکزی مسئلہ ہے۔ جموں و کشمیر کے مسلمانوں کی تحریک ہراعتبار سے تحریکِ آزادی ہے جو ان کا حق ہے اور جس کی تائید ہمارا فرض ہے۔ اس سلسلے میں کسی لاگ لپیٹ کے بغیر  پاکستان کی پارلیمنٹ اور حکومت کو واضح اعلان کرنا چاہیے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق جموں و کشمیر کے مسلمانوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا اختیار جلد از جلد دیا جائے اور ان سے بھارت کے غاصبانہ قبضے کی تاریک رات کو جلد از جلد ختم کیا جائے، نیز تحریک حریت کی بھرپور تائید کی جائے اور عالمی سطح پر ان کے مسئلے کو اٹھایا جائے۔ اگر مشرقی تیمور اور کوسووا کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے اور اگر آئرلینڈ کے مستقبل کی صورت گری کو وہاں کے لوگوں کی مرضی کے مطابق کرنے کا اصول تسلیم کیا جاتا ہے تو جموں و کشمیر کے مسلمان اس حق سے کیوں محروم ہیں؟

بھارت کے ظالمانہ دورِاقتدار کو ختم ہونا ہے۔ تاریخ کا فیصلہ ہے کہ کوئی قوم کسی دوسری قوم کو اس کی مرضی کے بغیر ہمیشہ کے لیے زیردست نہیں رکھ سکتی۔ کشمیر کے مسلمانوں نے اپنی تاریخی اور جرأت مندانہ جدوجہد سے ثابت کردیا ہے کہ وہ بھارت کی غلامی میں رہنے کو تیار نہیں اور بھارت کے ظلم و ستم کی کوئی انتہا نہیں۔ حال ہی میں جو اجتماعی قبریں دریافت ہوئی ہیں، ان میں ہزاروں ان جوانوں کو قتل کر کے دفن کیا گیا جو بلاجواز اٹھا لیے گئے تھے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ان قبروں پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے اور اسے ایک بین الاقوامی ایشو کے طور پر اٹھایا ہے، مگر پاکستان کی حکومت اس سلسلے میں اپنا فرض ادا کرنے میں بری طرح ناکام رہی ہے۔ بلاشبہہ اس وقت حکومت بڑے مشکل حالات میں گھری ہوئی ہے لیکن اس کے باوجود کشمیر کے مسئلے پر ہر محاذ پر ضروری اقدام وقت کی ضرورت ہے۔ اعتماد سازی کے اقدامات (CBMS) کے دھوکوں کا وقت گزر چکا ہے۔ اب ایک ہی مسئلہ ہے اور وہ یہ کہ جموں و کشمیر کے عوام کو ان کا حق خود ارادیت دیا جائے اور وہ اپنے مستقبل کے بارے میں جو فیصلہ کریں، اسے خوش دلی سے قبول کرلیا جائے۔ پرویز مشرف کی کشمیر پالیسی میں جو حماقتیں اور بے وفائیاں کی گئی ہیں اور اس سے جو دکھ اور نقصان تحریک آزادیِ کشمیر کو ہوا ہے، اس کا اعتراف کر کے تلافی کا سامان کیا جائے۔ ہمیں یقین ہے کہ اگر آج بھی پاکستان کی حکومت اور پارلیمنٹ عوام کے دلی جذبات کے مطابق اپنے اصولی اور تاریخی پالیسی کا بھرپور اعادہ کرے اور اس پر عمل درآمد کے لیے ہمہ جہتی پروگرام بناکر مؤثر کام کرے تو کشمیری عوام سابقہ قیادت کی غلطیوں سے درگزر کریں گے، اور اس جوش اور جذبے سے پاکستان سے یگانگت اور یک جہتی کا اظہار کریں گے جو ان کی ۶۰ سالہ تحریکِ آزادی کا طرۂ امتیاز ہے۔

قائدِحریت سید علی شاہ گیلانی اور کے ایل ایف کے قائد یٰسین ملک کا ایک پلیٹ فارم سے کشمیر کی آزادی کی جدوجہد کو جاری رکھنے کا عزم اور بھارت کے تحت انتخابات کا بائیکاٹ یہ امید دلاتا ہے کہ تحریک حریت سے وابستہ تمام قوتیں مل کر اپنے مشترک مقصد کے لیے ایک بار پھر میدان میں اُتر رہی ہیں۔ سیاسی اور جہادی سب قوتوں کو مل کر کشمیر کی بھارت سے آزادی کی جدوجہد کو اپنے آخری نتیجے تک پہنچانا ہے اور پاکستان کی قوم اور قیادت اس جدوجہد میں اپنا قرار واقعی کردار ادا کرے گی۔ پارلیمنٹ کو اس سلسلے میں پوری یکسوئی اور جرأت کے ساتھ ملت اسلامیہ پاکستان کی کشمیر پالیسی کا اعلان کرنا چاہیے اور اس پر عمل کے لیے مؤثر پروگرام وضع کرنا چاہیے۔ یہ وقت جموں و کشمیر کے عوام اور ان کی تحریک آزادی کے ساتھ مکمل یک جہتی کے اظہار اور ان کی تقویت کے لیے ہرممکن ذرائع کے استعمال کا ہے۔


برسوں کے مطالعے اور سیکڑوں کتابوں کا حاصل

اُردو میں اپنے موضوعات پر بے مثال تحقیقی اور معلوماتی کتب

جتنا کام لوگ پوری زندگی میں نہیں کرپاتے، ایک استاد نے ریٹائرمنٹ کے بعد کردیا

میاں محمد اشرف

  • غلامی کے موضوع پر ایک لائبریری، ضخیم کتب کُل صفحات: 1400، قیمت:2625 روپے

ہندو معاشرہ / امریکا/ اشتراکیت/ افریقہ/ یورپ اور اسلام میں غلامی پر علیحدہ علیحدہ

  • آج کے موضوعات: عالم گیریت / ماحولیات / غربت / بدکاری / بدامنی، 5 کتب، صفحات:690 ، قیمت: 1350 روپے

اس کے علاوہ ۱۲ دوسرے موضوعات مثلاً :آبادی، نسل پرستی، مہاجرین وغیرہ پر اسی پایے کی کتابیں

رعایت۲۰ فی صد ، ڈاک خرچ بذمہ ادارہ

آج ہی آرڈر دیجیے

فروغِ علم اکیڈمی: -1179  ماڈل ٹائون ہمک، اسلام آباد۔ فون:  051-4490380 موبائل:0334-5503848

website: www.farogheilm.com,    email: ashraf@farogheilm.com

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ویسے تو زندگی کا ہر لمحہ لمحۂ امتحان ہے اور زندگی اور موت کا پورا سلسلہ انسان کی آزمایش کے لیے ہے (الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا ط جس نے موت اور زندگی کو ایجاد کیا تاکہ تم لوگوںکو آزما کر دیکھے کہ تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔ الملک۶۷:۲)، لیکن افراد اور قوموں کی زندگی میں کچھ مواقع ایسے آتے ہیں جنھیں بجا طور پر تاریخی اور سنہری موقع قرار دیا جاسکتا ہے اور جن پر صحیح اقدام تاریخ کے رخ کو موڑنے کا ذریعہ بن سکتاہے۔ آج پاکستانی قوم کو ایک ایسا ہی سنہری موقع حاصل ہے۔ ۱۸ فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابات کے نتیجے میں جو قومی اسمبلی وجود میں آئی، اس نے ۱۷ مارچ سے اپنی زندگی کا آغاز اور ۲۴ مارچ کو قائد ایوان کا انتخاب کر کے مخلوط حکومت کے قیام کی راہ کھول دی ہے۔ توقع ہے مارچ کے آخر تک نئی حکومت اپنی ذمہ داری سنبھال لے گی۔

ہم پیپلزپارٹی کے نامزد وزیراعظم مخدوم یوسف رضا گیلانی کی مخلوط حکومت کا کھلے دل سے خیرمقدم کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ملک و قوم کو اس دلدل سے نکالیں جس میں پرویز مشرف اور ان کے ساتھیوں (خصوصاً مسلم لیگ (ق) اور ایم کیو ایم) نے پھنسا دیا ہے۔ ہم پورے اخلاص اور دردمندی کے ساتھ ان کی توجہ ملک کو درپیش اصل چیلنج کی طرف مبذول کرانا چاہتے ہیں اور ان مسائل اور ترجیحات کی نشان دہی کر رہے ہیں جو ان کا فوری ہدف ہونا چاہییں۔ آج پاکستان کی آزادی، حاکمیت، دستور اور نظامِ زندگی کے تحفظ کے لیے حقیقی جدوجہد کی ضرورت ہے۔ ہم صحیح معنوں میں عرصۂ محشر میں ہیں اور یہ وقت ذاتی یا سیاسی مفادات کے حصول کا نہیں بلکہ ملک و قوم کو بچانے اور زندگی اور ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے فیصلہ کن جدوجہد کا ہے۔

اوّلین ترجیح

پہلا اور سب سے اہم مسئلہ گاڑی کو پٹڑی پر ڈالنے کا ہے۔ گاڑی اپنا مطلوب سفر اسی وقت شروع کر سکے گی جب وہ پٹڑی پر ہو۔اس لیے پٹڑی پر ڈالے بغیر تیزرفتاری کی باتیں کرنا اپنے کو دھوکا دینے کے مترادف ہے۔ اس غرض کے لیے مندرجہ ذیل اقدام ضروری ہیں:

۱- نظامِ عدل کی بحالی کہ عدل کی فراہمی کے مؤثر انتظام کے بغیر کوئی قوم اور ملک زندہ نہیں رہ سکتا۔ کفر کی نائو چل سکتی ہے مگر ظلم کی حکمرانی اور عدل سے محرومی تباہی کا راستہ ہے۔

۲- دستور اور قانون کی حکمرانی کہ مہذب معاشرے کا وجود دستوری نظام کی بالادستی اور قانون کی اطاعت پر منحصر ہے۔ جب اور جہاں دستور، قانون اور نظامِ زندگی فردِواحد کا تابع مہمل بن جائے، وہاں تباہی کے سوا کوئی اور نتیجہ رونما نہیں ہوسکتا۔ استحکام فرد سے نہیں اداروں، قانون اور ضابطے کی عمل داری سے حاصل ہوتا ہے۔ صحیح پالیسیاں مشورے اور افہام و تفہیم سے وجود میں آتی ہیں اور انصاف، استحکام و ترقی اور توازنِ قوت(balance of power) کا مرہونِ منت ہے، ارتکازِ قوت (concentration of power) کا نہیں۔ اس لیے اختیارات کی تقسیم اور تعین اور ہر ایک کا اپنے اپنے دائرۂ اختیار کا احترام ہی امن کے قیام اور ترقی کے مواقع کی فراہمی کا ذریعہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ طرزِ حکمرانی، پالیسی سازی کے اسلوب اور طور طریقوں کی اصلاح اور نظامِ احتساب کو مضبوط کیے بغیر کوئی ملک ترقی اور استحکام کی منزلیں طے نہیں کرسکتا۔

یہ دو وہ بنیادی چیزیں ہیں جن کی اصلاح کے بغیر ہماری گاڑی اپنی پٹڑی پر نہیں آسکتی لیکن اس کے ساتھ ایک تیسری چیز بھی ازبس ضروری ہے اور وہ یہ کہ ٹرین کا ڈرائیور ہمارا اپنا ہو اور اس کی باگ ڈور کسی بیرونی قوت کے ہاتھوں میں نہ ہو۔ جب تک یہ تینوں چیزیں ٹھیک نہ ہوجائیں ملک اور قوم اپنی منزل کی طرف سفر نہیں کرسکتے۔ اس لیے نومنتخب اسمبلی اور مخلوط حکومت کو اولین  ترجیح ان تینوں امور کو دینا چاہیے۔ بلاشبہہ معاشی معاملات بھی بے حد اہم ہیں اور اس وقت ہمارے معاشی مسائل بڑے گمبھیر اور پریشان کن ہیں ۔ امن و امان کا مسئلہ بھی اہم ہے لیکن ہم پوری دردمندی سے عرض کریں گے کہ الاول فالاول کے اصول پر فوری طور پر اولین ضرورتوں کو پورا کیا جائے اور اس کے ساتھ باقی تمام مسائل کے حل کے لیے مؤثر اقدامات کا اہتمام ہو۔

عدلیہ کی بحالی و استحکام

سب سے پہلی ضرورت اس بگاڑ اور فساد کی اصلاح ہے جس کا آغاز ۹مارچ ۲۰۰۷ء کو ہوا اور جو ۳ نومبر ۲۰۰۷ء کے خلافِ دستور اقدام کے نتیجے میں اپنی انتہا کو پہنچ گیا۔ اس کے کم از کم   تین پہلو ایسے ہیں جن کو سمجھنا اور ان کی اصلاح اور آیندہ کے لیے ملک و ملت کو ایسے حالات سے بچانے کے لیے مؤثر تدابیر کرنا وقت کی اولین ضرورت ہے۔

اولاً، فردِ واحد کی طرف سے دستور، قانون، اسلامی اقدار اور مہذب معاشرے کی روایات کے خلاف پہلے صرف چیف جسٹس کو اور پھر عملاً عدالت عالیہ کے ۶۳ ججوں کو برطرف کر دینا، ان کے ساتھ ناروا سلوک اختیار کرنا، اپنی مرضی کے ججوں کا تعین اور اپنے مفیدمطلب فیصلے حاصل کرنے کے لیے آزادعدلیہ کا قتل۔

ثانیاً، فردِ واحد کا یہ دعویٰ کہ بندوق کی قوت سے وہ جب چاہے دستور کو معطل کرسکتا ہے، اس میں من مانی ترامیم کرسکتا ہے، ایمرجنسی نافذ کرسکتا اور اٹھا سکتا ہے، اور ملک کے پورے    نظامِ حکمرانی کو موم کی ناک کی طرح جدھر چاہے موڑ سکتا ہے۔

ثالثاً، نام نہاد عدلیہ کا فردِ واحد کو درج بالا دونوں ’حقوق‘ دے دینا، اس کے حکم پر نیا حلف لے لینا، اس کے غیرقانونی اقدام کو جائز قرار دینا اور اسے دستوری ترمیم کا وہ حق بھی دے دینا جو صرف پارلیمنٹ کی دو تہائی اکثریت کو حاصل ہے، خود سپریم کورٹ کو بھی حاصل نہیں۔

یہ تینوں جرم پوری ڈھٹائی سے کھلے بندوں ۹ مارچ اور ۳ نومبر کو ہوئے، اور پرویز مشرف کی خودساختہ عدالت عالیہ نے ان پر مہرتصدیق ثبت کرکے پرویز مشرف کے جرم میں برابر کی شریک ہونے کی سعادت حاصل کرلی۔ بلاشبہہ ماضی میں بھی یہ کھیل کھیلا گیا ہے اور غلام محمد اور  اس کے شریک کار جسٹس منیر سے لے کر پرویز مشرف اور موجودہ عدالت عالیہ نے ایک ہی جرم کا بار بار ارتکاب کیا ہے، اور پارلیمنٹ نے بھی مصالح کا شکار ہوکر دفعہ ۲۷۰، ۲۷۰ اے اور ۲۷۰ اے اے کی شکل میں اس سیاسی جرم کو دستور کا حصہ بنانے کی غلطی کی ہے۔ یہ پہلی بار ہے کہ چیف جسٹس افتخار محمدچودھری اور ۶۳ دوسرے ججوں نے اس کی مزاحمت کی، پوری وکلا برادری،  سول سوسائٹی اور سیاسی جماعتوں نے ایک سال تک اس اقدام کے خلاف علَم بغاوت بلندکیا  بالآخر فروری ۲۰۰۸ء میں عوام نے اس پورے کھیل کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کا حتمی فیصلہ دے دیا۔ اب اسمبلی اور نئی حکومت کی اولیں ذمہ داری ہے کہ اس بنیادی خرابی کا ہمیشہ کے لیے ازالہ کردے۔اس کی مناسب ترین شکل یہ ہے:

۱- ایک واضح قرارداد کے ذریعے ۳ نومبر ۲۰۰۷ء کے اقدام کو غیردستوری، غیر قانونی، غیراخلاقی اور بدنیتی پر مبنی (malafide) قراردیا جائے اور اسے اس کے نفاذ کے وقت سے کالعدم قرار دیا جائے جس کا واضح نتیجہ یہ ہوگا کہ

ا - چیف جسٹس اور تمام جج اسی حالت میں بحال ہوجائیں گے جس میں وہ ۳نومبر کی صبح تک تھے اور سات ججوں کا وہ فیصلہ جس نے ۳ نومبر ۲۰۰۷ء کے اقدام کو غیر دستوری قرار دیا تھا، بحال ہوجائے گا اور اس کی خلاف ورزی کرنے والے قانون کی گرفت میں آجائیں گے۔

ب- ۳ نومبر کے بعد کے تمام اقدامات بشمول دستوری ترامیم اور انتظامی احکامات اصلاً غیرقانونی قرار پائیں گے، اِلا .ّیہ کہ پارلیمنٹ حقیقی ضرورت کے تحت ان میں سے کسی یا کچھ کو   دفعِ فساد کی بنیاد پر محدود زندگی دے دے۔

۲- اس قرارداد کے چار حصے ہونے چاہییں:

اوّل: ۳ نومبر ۲۰۰۷ء کے اقدام کی نفی اوراس کے تحت کیے ہوئے تمام اقدامات کو قانونی جواز سے محروم کرنا۔

دوم:  سابقہ صورتِ حال (status quo) کی بحالی۔

سوم: اس اصول کا برملا اعلان و تصدیق کہ دستور میں ترمیم کا اختیار نہ چیف آف اسٹاف کو ہے، نہ صدر کو اور نہ سپریم کورٹ کو، بلکہ دستور میں ترمیم کا صرف ایک راستہ ہے اور وہ دفعہ ۲۳۸- ۲۳۹ میں لکھا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں۔ اس لیے پی سی او کے تحت حلف لینے والی سپریم کورٹ کے ۳ نومبر والے اقدام کو جواز دینے کی نفی، اور آیندہ کے لیے تنبیہہ کہ کوئی عدالت اس نوعیت کا اقدام کرنے کی مجاز نہیں۔

چہارم: صرف دفعِ فساد اور نظام کے تسلسل کی خاطر مندرجہ ذیل امور کے لیے ایک نیا قانونی انتظام کیا جائے جس کے خدوخال کچھ یوں ہوسکتے ہیں:

۱- جو جج پہلے سے عدلیہ میں موجود تھے، وہ بھی معزول کردہ ججوں کی طرح اپنے ماضی کے مقام پر بحال رہیں گے۔ اصولی طور پر جو نئے جج مقرر کیے گئے ہیں، وہ دستور کی دفعہ ۲۰۹ کی میزان پر احتساب کے سزاوار ہوسکتے ہیں۔ ان کو عہدوں سے فارغ کر دیے جانے کے بعد سپریم کورٹ دستور اور الجہاد ٹرسٹ کے ججوں کے فیصلے کے مطابق فوری کارروائی کر کے اور خالص میرٹ کی بنیاد پر دستور اور ضابطے کی روشنی میں عدلیہ کی بحالی کے ایک ماہ کے اندر اندر فیصلے کرکے نافذ کردے۔

۲- ۳ نومبر والی ایمرجنسی کے تحت حاصل کردہ اختیارات کے تحت جو بھی اقدام ہوئے ہیں وہ سب قرارداد کے منظور ہونے کے تین ماہ کے اندر کالعدم ہوجائیں، بجز ان کے جن کے جاری رکھنے کا فیصلہ ایک پارلیمانی کمیٹی ان تین ماہ کے اندر کرے۔ اگر یہ کمیٹی فیصلہ نہیں کرتی تو وہ اقدام آیندہ کے لیے ختم ہوجائیں گے، خواہ اس کے اثرات کچھ بھی ہوں، البتہ جن چیزوں پر عمل ہوچکا ہے، ان کو کم تر برائی کے اصول پر گوارا (condone)کیا جاسکتا ہے۔

۳- اس قرارداد کے آخر میں یہ بھی واضح کردیا جائے کہ نظریۂ ضرورت کے تحت عدالتوں کا جواز دینا (validation )اور پھر پارلیمنٹ کا توثیق کرنا (ratification) ایک غلط سلسلہ ہے جسے ہمیشہ کے لیے ختم کیا جاتا ہے۔ یہ بھی مفید ہوگا کہ پارلیمنٹ کی ایک کمیٹی دستور میں دفعہ ۲۷۰، ۲۷۰ اے، ۲۷۰ اے اے کے تحت ماضی میں جو جواز مہیا (validate) کیے گئے ہیں ان کے بارے میں بھی طے کرے۔ یہ پارلیمانی کمیٹی تمام قوانین اور اقدامات کا جائزہ لے اور دوسال کے اندر ان قوانین، حکم ناموں اور اقدامات کا تعین کردے جن کو جواز حاصل رہے اور باقی سب کو منسوخ کردیا جائے گا تاکہ ماضی کے اس پشتارے کی بھی تطہیر ہوجائے۔

۴- اس قرارداد کے منظور ہوتے ہی اس پر عمل شروع کردیا جائے اور انتظامی حکم کے ذریعے تمام سابقہ ججوں کو بحال کرکے عدل وا نصاف کے دستوری عمل کو متحرک کردیا جائے۔ اس قرارداد کو ۲۷۰ اے اے اے کے طور پر دستور کا حصہ بنا دیا جائے تاکہ ماضی میں ۲۷۰ کے تحت  جواز (validation) دینے کا جو دروازہ چوپٹ کھول دیا گیا تھا، وہ بھی آیندہ اس دفعہ کے ذریعے ہی بند کردیا جائے۔ اس طرح ہمیشہ کے لیے دستور میں قانونِ ضرورت کے دروازے کو بند کرنے کا کام بھی انجام دیا جاسکتا ہے۔

۵- اس کے ساتھ دستور کی دفعہ ۶ میں ترمیم کر کے یہ اضافہ کرنا بھی مفید ہوگا کہ دستور کو معطل کرنا یا غیرمؤثر (in abeyance) کرنا بھی دستور کی تخریب (subvert) کرنے کی طرح جرم ہے، اور ایسے اقدامات کو جوازفراہم کرنا بھی ایک مساوی جرم کی حیثیت رکھتا ہے۔

۶- اگر ضروری محسوس کیا جائے تو ایک ترمیم دفعہ ۲۳۸/۲۳۹ میں بھی ہوسکتی ہے جو   بطور وضاحت (explanation )آسکتی ہے کہ دستور میں ترمیم کا ان دفعات میں بیان شدہ طریقے کے علاوہ کوئی دوسرا طریقہ معتبر نہیںاور اس کی کوئی گنجایش نہیں کہ کسی ماوراے دستور (extra constitutional)  طریقے سے کوئی بھی دستوری ترمیم کرے ،اور نہ کسی کو ایسی کوئی ترمیم کرنے کا اختیار کسی کو دینے کا حق ہے۔ اگر کوئی دستور میں اس طرح ترمیم کرنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ دستور کی دفعہ ۶ کی زد میں آئے گا۔

’اعلانِ مری‘ کے تقاضے مندرجہ بالا اقدام کے ذریعے پورے ہوسکتے ہیں۔ ججوں کی رہائی ایک اچھا اقدام ہے لیکن اصل مسئلہ ججوں کی بحالی اور ۳نومبر کے اقدام کی مکمل نفی کرکے ملک کے دستور اور نظامِ عدل کو تحفظ دینا ہے۔یہ اصول تسلیم کیا جانا چاہیے کہ دستور کی دفعہ ۲۰۹ کے سوا کسی اور طریقے سے ججوں کی برطرفی غیرقانونی ہے، البتہ اس بات کا اظہار بھی ضروری ہے کہ جہاں ۶۳ججوں نے ایک روشن مثال قائم کی ہے اور کچھ دوسرے ججوں نے پی سی او کے تحت حلف لے کر اور اہلِ اقتدار سے تعاون کرکے بڑی بُری مثال قائم کی ہے، وہیں اس بات کی ضرورت ہے کہ نظامِ عدل کو دوبارہ معزز و محترم بنانے کے لیے سب اپنا اپنا کردار ادا کریں۔ جہاں اصلاح کی ضرورت ہے، وہ ضرور کی جائے مگر صفوں کو پاٹ کر عدلیہ کی عزت اور کارفرمائی کی بحالی وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ عدلیہ کے احتساب کے طریقے پر بھی ازسرنو غور کیا جائے اور عدلیہ اور انتظامیہ کے تعلقات خصوصیت سے ایک دوسرے سے ربط اور اثرانگیزی اور اثرپذیری کے نازک معاملات پر صدق دل سے غور کرکے نئے ضابطے اور قواعد بنانے کی ضرورت ہے تاکہ عدلیہ حقیقت میں آزاد عدلیہ بن سکے اور اس سے انصاف کے چشمے پھوٹیں اور ہر کسی کو اس پر اعتماد ہو۔ قانونی اور انتظامی اصلاحات کے ساتھ اس پہلو کی فکر بھی ازبس ضروری ہے۔

ہم اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتے کہ پارلیمنٹ ۳نومبر کے اقدام کی نفی کس قانونی ذریعے سے کرسکتی ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ایک انتظامی حکم جو خودغیرقانونی تھااور قانون کی نگاہ میں اس کا  آئینی (de Jure) وجود ہے ہی نہیں، صرف امرِواقع (de facto)  ہے، ایک دوسرے انتظامی حکم نامے سے کالعدم کیوں نہیں جاسکتا۔ دنیا بھر کے ماہرین قانون نے اس اقدام کو دستور، قانون اور معروف جمہوری قواعد کے خلاف قرار دیا ہے۔ امریکی حکومت اپنے مفادات میں اندھی ہوکر خواہ کچھ بھی کہتی رہی ہو مگر امریکا کے ماہرین قانون نے اس اقدام کو غلط قرار دیا اور خود امریکی کانگرس نے تلافیِمافات کرتے ہوئے ۱۷ مارچ کی قرارداد کے ذریعے عدلیہ کی برخاستگی کو غلط اور بحالی کو اصل ضرورت قرار دیا ہے۔ نیویارک بار ایسوسی ایشن نے، جس کے ۲۲ ہزار ممبر ہیں، اسے غلط قرار دیا ہے اور خود ہمارے ملک کے چوٹی کے ماہرین قانون نے صاف الفاظ میں کہا ہے کہ اصل اقدام غلط اور غیرقانونی تھا۔ ۳ نومبر کو سپریم کورٹ کے سات رکنی بنچ نے ۳ نومبر کے ایمرجنسی کے اقدام کو غلط اور بدنیتی پر مبنی (malafide ) قرار دے دیا تھا اور عدالت عالیہ کا وہی حکم آج بھی لاگو ہے۔ ۳نومبر کے غیرقانونی اعلان کے تحت حلف لینے والی عدلیہ کاکوئی فیصلہ قانون کا مقام نہیں رکھتا۔ سابق چیف جسٹس صاحبان میں سے جسٹس اجمل میاں، جسٹس سجاد علی شاہ اور جسٹس سعید الزماں صدیقی نے کہا ہے کہ: ۳ نومبر ۲۰۰۷ء کو نافذ کی جانے والی ایمرجنسی کے تحت ججوں کی معطلی غیر دستوری تھی اور ان کی بحالی کے لیے قومی اسمبلی سے منظور کردہ قرارداد ہی کافی ہوگی۔ یہی موقف سپریم کورٹ اور ہائی کورٹوں کے ۳ درجن سے زائد ججوں کا ہے۔ اس کے بعد کسی اور قانونی موشگافی کے لیے کوئی گنجایش باقی نہیں رہتی۔

دستور کی بحالی اور پارلیمنٹ کی بالادستی

عدلیہ کی بحالی کے ساتھ دوسرا بنیادی مسئلہ دستور کی بحالی، پارلیمنٹ کی بالادستی، دستوری اداروں کے درمیان تقسیم اختیارات اور پارلیمنٹ کی کارکردگی کو بہتر اور مؤثر بنانے کا ہے۔

دستور کی بحالی کے سلسلے میں ایک اصولی بات تو یہ کہی جاسکتی ہے کہ جلد از جلد ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء کی صورت حال کو بحال کیا جائے۔ ’میثاقِ جمہوریت‘ اور ’اعلانِ لندن‘ میں اس مسئلے پر ایک موقف اختیار کیاگیا ہے، جزوی اختلاف کے ساتھ ہم نے بھی اس کی تائید کی ہے لیکن چند دوسری بڑی اہم ترمیمات دستور میں ہونی چاہییں تاکہ صرف ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء والی صورت حال ہی بحال نہ ہو بلکہ دستور کے اسلامی، پارلیمانی، وفاقی اور فلاحی کردار کے تمام تقاضے پورے ہوسکیں۔ اس کے لیے  کم سے کم مندرجہ ذیل امور کے بارے میں مناسب دستوری ترامیم افہام و تفہیم اور مؤثر مشاورت کے ذریعے کرنے کی ضرورت ہے:

۱- پارلیمنٹ کی بالادستی کے لیے ضروری ہے کہ نہ صرف صدر کے ان اختیارات کو ختم کیا جائے جن کے نتیجے میں صدر اور پارلیمنٹ کے درمیان توازن ختم ہوگیا اور پارلیمانی نظام ایک قسم کا صدارتی نظام بن گیا ہے، بلکہ اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ پارلیمنٹ پر انتظامیہ کی بالادستی کو بھی لگام دی جائے اور پارلیمنٹ ہی اصل فیصلہ کن فورم ہو۔ اس کے لیے مندرجہ ذیل ترامیم ضروری ہیں:

ا- ریاست کے رہنما اصول جو پالیسی سازی کی بنیاد ہونے چاہییں، ان کی روشنی میں تمام خارجی اور داخلی امور پر پارلیمنٹ میں بحث ہو اور بحث کے بعد پالیسی ہدایات (directives) کی شکل میں پارلیمنٹ کی ہدایات مرتب کی جائیں، اور ان کے نفاذ کی رپورٹ پارلیمنٹ میں آئے جس پر بحث ہو۔ ضروری ہے کہ اسے ایک دستوری ذمہ داری قرار دیا جائے۔

ب- بجٹ سازی کا طریقۂ کار یکسر تبدیل کیا جائے۔ بجٹ سے چار مہینے پہلے دونوں ایوانوں میں بجٹ گائیڈلائن پر بحث ہو جس کی روشنی میں بجٹ کی تجاویز مرتب کی جائیں جو ایک ماہ کے اندر دونوں ایوانوں کی متعلقہ کمیٹیوں میں زیربحث آئیں اور یہ کمیٹیاں اپنی تجاویز وزارتِ خزانہ کو دیں۔ اصل بجٹ سال کے اختتام سے تین ماہ پہلے پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے۔ سینیٹ میں  کم از کم تین ہفتے بحث کے لیے دیے جائیں اور اسمبلی میں آٹھ ہفتے۔ اس طرح دو ماہ میں پارلیمنٹ بجٹ منظور کرے۔ دفاع کا بجٹ بھی بجٹ کے حصے کے طور پر پارلیمنٹ میں زیربحث آئے اور منظوری لی جائے۔

ج- پارلیمنٹ کو غیرمؤثر بنا دینے والی چیزوں میں سے ایک آرڈی ننس کے ذریعے قانون سازی ہے۔ دنیا کے بیش تر جمہوری ممالک میں ایسی کوئی گنجایش موجود نہیں ہے اور جہاں  عارضی قانون سازی (temporary legislation)کی گنجایش ہے وہاں بھی بڑی سخت تحدیدات ہیں جن میں ایک ہی قانون کے بار بار آرڈی ننس کے ذریعے نافذ کیے جانے کا دروازہ بند کیا جانا بھی ہے۔ اس طرح حقیقی ضرورت کو بھی واضح (define) کرنے بلکہ قانونی احتساب کے دائرۂ اختیار میں لانے کی ضرورت ہے۔ ہماری حکومت اور پارلیمنٹ کا ریکارڈ اس سلسلے میں بڑا پریشان کن ہے۔ موجودہ اسمبلی نے پانچ سال میں صرف ۵۰قوانین براے نام بحث کے بعد قبول کیے، جب کہ ان پانچ سالوں میں ۷۳ قوانین بذریعہ آرڈی ننس نافذ ہوئے، یعنی انتظامیہ نے پارلیمنٹ کے مشورے اور بحث کے بغیر ان کو نافذ کیا۔ دوسرے الفاظ میں عام قانون سازی کے مقابلے میں آرڈی ننس سے قانون سازی ۱۵۰ فی صد زیادہ تھی۔ بھارت میں بھی آرڈی ننس کے ذریعے قانون سازی کا دروازہ کھلا ہے مگر وہاں پانچ سال میں ’لوک سبھا‘ نے ۲۴۸ قوانین حقیقی بحث و گفتگو کے بعد منظور کیے، جب کہ صدارتی آرڈی ننسوں کی تعداد پانچ سال میں صرف ۳۴ تھی، یعنی پارلیمنٹ میں پاس ہونے والے قوانین کا صرف ۱۴فی صد۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بڑے اہم بل پاکستان کی اسمبلی اور سینیٹ میں زیرغور رہے مگر ان پر بحث اور منظوری کی نوبت نہیں آسکی۔

حقیقت یہ ہے کہ آرڈی ننس سے قانون سازی کا دروازہ بند ہونا چاہیے۔ لیکن اگر اسے ضروری تصور ہی کیا جائے تو یہ شرط ہونی چاہیے کہ اسمبلی کے انعقاد سے ۱۵ دن پہلے اور اس کے  التوا کے ۱۵ روز بعد تک کوئی آرڈی ننس جاری نہیں ہوسکتا۔ دو اجلاسوں کے دوران اگر غیرمعمولی حالات میں آرڈی ننس جاری کرنا پڑے تو اس کی وجوہ بھی آنی چاہییں۔ محض یہ کہنا کافی نہیں ہے کہ ایسی وجوہ پائی جاتی ہیں۔ ان کو متعین کرنا ضروری ہے تاکہ پارلیمنٹ اور اگر ضرورت ہو تو خود عدالت اس کا جائزہ لے سکے۔ پھر یہ واضح ہونا چاہیے کہ ایک آرڈی ننس لفظی ترمیم کے بعد بار بار نافذ نہیں کیا جاسکتا۔ یہ سلسلہ بند ہونا چاہیے۔ اس لیے کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ انتظامیہ جان بوجھ کر پارلیمنٹ کو نظرانداز (by pass) کرنا چاہتی ہے۔ نیز یہ بھی طے ہونا چاہیے کہ سال میں      ایک خاص تعداد سے زیادہ آرڈی ننس جاری نہیں کیے جاسکتے، مثلاً ایک سال میں پانچ سے زیادہ آرڈی ننس جاری نہ ہوں۔ اس طرح پارلیمنٹ میں قانون سازی اور پالیسی سازی بڑھ سکے گی۔

د- پارلیمنٹ کو نظرانداز کرنے اور اس کے کردار کو غیر مؤثر بنانے میں مزید دو عوامل بھی اہم ہیں۔ ایک بین الاقوامی معاہدات کا پارلیمنٹ سے بالا ہی بالا منظور ہوجانا۔ برطانوی دور سے یہ کام کابینہ کر رہی ہے جو جمہوریت کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے۔ سامراجی دور میں اس کا ’جواز‘ ہوگا، جمہوریت میں اس کی کوئی گنجایش نہیں۔ اس لیے تمام معاہدات کا پارلیمنٹ میں پیش ہونا اور ان میں سے اہم کا دونوں ایوانوں میں یا کم از کم سینیٹ میں توثیق (ratification ) ضروری ہونا چاہیے۔

دوسرا مسئلہ اہم تقرریوں (appointments )کا ہے۔ جو تقرریاں پبلک سروس کمیشن سے ہوتی ہیں، وہ ایک معقول طریقہ ہے لیکن جو سفارتی اور انتظامی تقرریاں انتظامیہ اپنی صواب دید پر کرتی ہے ان کی جواب دہی بھی ہونی چاہیے۔ اس سلسلے میں سینیٹ کی پارلیمانی کمیٹیوں یا    دونوں ایوانوں کی مشترک کمیٹیوں کا کردار ہونا چاہیے۔ امریکا میں انتظامیہ کو حدود میں رکھنے اور  اہم تقرریاں ذاتی رجحانات کے مقابلے میں اصول اور میرٹ پر کرانے کے لیے تقرری سے پہلے کمیٹی میں پیش ہونے کا طریقہ بڑا مؤثر ہے۔ اگر ہمارے ملک میں بھی اس سلسلے کو شروع کیا جائے تو یہ پارلیمنٹ کی بالادستی کے قیام کے لیے بڑا اہم اقدام ہوگا۔

ہ- اس سلسلے میں پارلیمنٹ کے ایامِ کار (working days) کا مسئلہ بھی اہم ہے۔  اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ ۱۹۷۳ء کے دستور میں اسمبلی کے لیے ۱۶۰ دن ایامِ کار قرار دیے گئے تھے جنھیں کم کر کے ۱۳۰ دن کر دیاگیا۔ پھر ایک تعبیر کے ذریعے اگر دو دن کی چھٹی درمیان میں آجائے تو وہ بھی ایامِ کار میں شمار ہونے لگی۔ بالعموم ہفتے میں تین دن اسمبلی یا سینیٹ کے سیشن ہوتے ہیں اور اسے سات دن شمار کیا جاتا ہے۔ پھر اوسطاً اڑھائی گھنٹے فی یوم کی کارکردگی رہی، جب کہ دنیا کے دوسرے ممالک میں پارلیمنٹ پورے سال سیشن میں رہتی ہے بجز دو یاتین چھٹی کے وقفوں کے۔ ہرروز بحث چھے سات گھنٹے ہوتی ہے۔ پارلیمنٹ کی کارکردگی کو مؤثر بنانے کے لیے اس کی بھی ضرورت ہے کہ ارکان اسمبلی و سینیٹ کو ضروری معلومات فراہم کی جائیں، ان کو مطالعے، تحقیق اور قانون سازی کے لیے معاونت ملے۔ عوام کو پارلیمنٹ کی کمیٹی میں پیش ہونے کا موقع دیا جائے۔ پارلیمانی کمیٹیوں کی کارروائی کھلی ہو،پارلیمنٹ کی کارکردگی بھی براہِ راست عوام تک پہنچے۔ وزرا کی شرکت لازمی ہو۔ وزیراعظم کم از کم ہفتے میں ایک بار نہ صرف پارلیمنٹ میں آئیں بلکہ ان کے لیے کم از کم نصف گھنٹہ سوالات کے جوابات دینے کے لیے مختص کیا جائے۔ یہ  وہ اقدام ہیں جن سے پارلیمنٹ کی بالادستی قائم ہوگی اور کارکردگی میں اضافہ ہوسکے گا۔

۲-  پارلیمنٹ کی بالادستی کے ساتھ دستور میں اور بھی ایسی ضروری ترامیم درکار ہیں جو گذشتہ ۳۵ سال کے تجربات کی روشنی میں دستور کے اسلامی، اور وفاقی کردار کے تحفظ کے لیے ضروری ہیں۔ جب ہم دستوری ترامیم کے مسئلے پر غور کر رہے ہیں تو ان امور پر بحث اور تجاویز مرتب کرناضروری ہے جس کے لیے ایک کُل جماعتی پارلیمانی کمیٹی دونوں ایوانوں کے ان ارکان پر مشتمل قائم کی جائے جو قانون پر نگاہ رکھتے ہوں اور وقت کے تقاضے بھی جن کے سامنے ہوں۔

  • پہلا مسئلہ صوبائی خودمختاری کا ہے۔ اس میں مشترک فہرست ختم کر کے ان تمام امور کو صوبوں کو منتقل کرنے پر بڑی جماعتوں میں اتفاق ہے اور ہم بھی اسے ضروری سمجھتے ہیں، تاہم یہ کافی نہیں۔ وفاقی فہرست کے پارٹ بی پر نظرثانی کی ضرورت ہے اور ان میں کئی چیزیں ایسی ہیں جن میں صوبوں کا عمل دخل ضروری ہے جس کا دروازہ کھلنا چاہیے۔ اسی طرح نیشنل ایکونومک کونسل، کونسل آف کامن انٹرسٹ اور قومی مالیاتی اوارڈ کے پورے نظام کو صوبوں کے مشورے سے   مؤثر بنانے بلکہ تشکیلِ نو کی ضرورت ہے۔ ان میں سے ہرادارے میں وفاقی حکومت کو بالادستی حاصل ہے جسے بری طرح استعمال کیا گیا ہے۔  یہ سلسلہ ختم ہونا چاہیے اور انصاف اور برابری کی بنیاد پر فیصلوں میں شرکت اور فیصلوں کی بروقت منصفانہ تنفیذ کو یقینی بنانا ہوگا۔
  • دوسرا مسئلہ عدلیہ اور انتظامیہ کی عملاً علاحدگی کا ہے، نیز عدلیہ کو مکمل آزادی کے ساتھ، ضروری وسائل کی فراہمی اور پھر اس کا ایک مؤثر نظامِ احتساب___ اس لیے کہ زیریں سطح پر عدلیہ میں بڑی خرابیاں ہیں۔ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے لیے بھی احتساب کا نظام مؤثر اور شفاف ہوناچاہیے، نیز جو بگاڑ ماضی میں انتظامیہ کی مختلف شکلوں میں مداخلت سے پیدا ہوا ہے اس کی اصلاح کی بھی ضرورت ہے۔ ایک طرف عدلیہ کو مکمل طور پر آزاد ہونا چاہیے لیکن دوسری طرف اس کے ذریعے ہر شہری کو بلاتاخیر حقیقی انصاف ملنے کا اہتمام ہونا چاہیے اور عدلیہ پر عوام کو مکمل بھروسا ہونا چاہیے۔ وکلا کا کردار بھی اس سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ انصاف کے حصول کا عام شہری کی دسترس سے باہر ہوجانا اور اس سلسلے میں نہ ختم ہونے والی تاخیر، یہ سب مسائل ازسرنو غوروفکر اور نظام میں مناسب تبدیلیوں کا تقاضا کرتے ہیں۔
  • تیسرا مسئلہ وفاقی شرعی عدالت کا ہے جسے ایک قسم کا دوسرے درجے کا ادارہ بنا دیا گیا ہے جہاں ججوں کو سزا کے طور پر بھیج دیا جاتا ہے، اور جس کے ججوں کو وہ تحفظ حاصل نہیں جو باقی عدلیہ کے ججوں کو حاصل ہے نیز اس عدالت کے فیصلوں کو اپیلوں کے ذریعے جان بوجھ کر غیرمؤثر بنا دیا گیا ہے۔
  • چوتھا مسئلہ ایک اور اہم دستوری ادارے اسلامی نظریاتی کونسل اور اس کی رپورٹوں کا ہے۔ ۱۹۷۳ء کے دستور کا تقاضا تھا کہ سات سال کے اندر اندر تمام قوانین کو قرآن وسنت سے   ہم آہنگ کردیا جائے۔ نظریاتی کونسل نے درجنوں رپورٹیں تیار کی ہیں اور سیکڑوں قوانین پر اپنی راے کا اظہار اور ضروری ترامیم کی نشان دہی کی ہے مگر پارلیمنٹ نے ان پر غور کرنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی، جب کہ سینیٹ میں دو ایک رپورٹوں پر مختصر اور بے نتیجہ بحث ہوئی۔ ستم ہے کہ ان ۳۵برسوں میں پارلیمنٹ نے ان رپورٹوں پر غور ہی نہیں کیا ہے چہ جائیکہ ان کی روشنی میں قانون سازی اور پالیسی سازی انجام پاتی۔ یہ دستور کی کھلی خلاف ورزی اور قوم کے ساتھ مذاق ہے۔
  • پانچواں مسئلہ سول سروس کے کردار کا ہے جسے ایک طرف دستوری تحفظ کی ضرورت ہے تو دوسری طرف اس کو حقیقی غیر جانب دار انتظامیہ بنانے کا مسئلہ ہے۔ اس سوال کو بھی اب نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہ سلسلہ ختم ہونا چاہیے کہ ہر آنے والے اسے اپنے لیے سواری کا گھوڑا بنالے۔

فوج کا کردار اور پرویز مشرف کا مستقبل

عدلیہ کی بحالی، دستوری نظام کی اصلاح اور پارلیمنٹ کی بالادستی کے قیام کے ساتھ ایک اور بنیادی مسئلہ سیاست میں فوج کے کردار اور خود پرویز مشرف کے مستقبل کا ہے، جو اس ناٹک کے اصل ایکٹر رہے ہیں۔ اصولی طور پر فوج کے چیف آف اسٹاف کا یہ اعلان لائق تحسین اور صحیح سمت میں قدم ہے کہ فوج صرف ایک دستوری اور دفاعی کردار ادا کرے اور سول انتظامیہ اور معاشی میدان میں جو کردار اس نے اختیار کر لیا ہے، وہ ختم کیا جائے۔

مخلوط حکومت کی یہ اولین ذمہ داری ہے کہ اپنے معاملات کو درست کرنے کے ساتھ ساتھ پرویز مشرف کے مستقبل کے معاملے کو بھی دو ٹوک انداز میں طے کرے۔ پرویز مشرف نے دستور کا تیاپانچا کیا، پارلیمنٹ کو غیرمؤثر بنایا، فوج کو سیاست اور انتظامیہ میں ملوث کیا۔ پرویز مشرف اور دستوری اور جمہوری نظام ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ انھوں نے باعزت رخصت ہونے کا راستہ اختیار نہیں کیا۔ اب اس کے سواکوئی راستہ نہیں کہ دستوری ترامیم کے بعد ان کے مواخذے کی تیاری کی جائے۔ ان کے تاریک دور کا دروازہ اس وقت تک بند نہیں ہوگا جب تک خود ان کا مؤثر احتساب نہ ہو، تاکہ قوم اور دنیا کے سامنے یہ حقیقت آسکے کہ جو فرد بھی دستور کا خون کرے گا اور اختیارات کا     غلط استعمال کرے گا، اس کا احتساب ہوگا اور ’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘ کا نظام نہیں چل سکتا۔

انتخابات سے پہلے امریکا کی من پسند قیادت کو بروے کار لانے کے لیے کیا کیا پاپڑ نہیں بیلے گئے۔ کیسے کیسے مفاہمت کے ڈرامے اسٹیج کیے گئے۔ اس کھیل میں پرویز مشرف اور ایم کیو ایم کا بڑا کلیدی کردار ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ قوم کو اس سلسلے میں ایک بالکل واضح راستہ اختیار کرنا ہے۔

جس طرح پرویز مشرف کا صدارت پر قابض رہنا ملک کی سلامتی اور استحکام کے لیے خطرہ ہے، اسی طرح ایم کیو ایم کا کردار بہت مخدوش ہے جس کی حیثیت پرویز مشرف کے ایک مسلّح بازو (armed wing) کی ہے اور جس کے ۱۲ مئی ۲۰۰۷ء کے خونی کھیل کو انھوں نے اسلام آباد میں مسلم لیگ (ق) کے ایک مظاہرے میں اپنا کارنامہ اور اپنی طاقت کا مظہر قرار دیا تھا۔ پانچ سال پرویز مشرف اور ایم کیو ایم کا گٹھ جوڑ رہا ہے اور اس کے باوجود رہا ہے کہ اقتدار میں آکر انھوں نے اسلام آباد میں چند چوٹی کے صحافیوں کی موجودگی میں الطاف حسین کے بارے میں کہا تھا کہ:   He is a traitor, period ، وہ ایک غدار ہے___ اور بس!

الطاف حسین نے خود بھارت کی سرزمین پر بار بار کہا ہے کہ پاکستان کا قیام ایک غلطی تھا اور برطانیہ کی شہریت لے کر تاجِ برطانیہ کی وفاداری کا حلف اٹھایا ہے جو ریکارڈ پر موجود ہے۔   ایم کیو ایم نے قوت کے استعمال سے جس طرح کراچی اور حیدرآباد پر قبضہ کر رکھا ہے اور جس طرح اس کے سزایافتہ کارکنوں کو شریکِ اقتدار کیا گیا ہے اور اس کی خاطر قومی مفاہمتی آرڈی ننس (NRO ) میں ۱۹۸۶ء سے جرائم کرنے والوں کو بری کیا گیا، وہ کھلی کتاب ہے۔ ایم کیو ایم کو امریکا اور برطانیہ کی تائید حاصل ہے اور وہ پرویز مشرف کے ٹروجن ہارس کی حیثیت رکھتی ہے۔  مسلم لیگ (ن) کا موقف بالکل درست ہے کہ اس ریکارڈ کی موجودگی کے باوجود ان کے ساتھ اقتدار میں شرکت پرویز مشرف کو تقویت دینے اور مشرف اور امریکا کے کھیل کی سرپرستی کے مترادف ہوگی۔

اس لیے اسمبلی اور نئی حکومت کو،جن بنیادی امور کو طے کرنا ہے ان میں سے ایک     پرویز مشرف کے قانونی جوازسے محروم صدارتی تسلط سے نجات بھی ہے تاکہ اس کی دہشت گردی کی جنگ سے بھی ہم نکل سکیں اور اپنے معاملات کو اپنے مفادات کی روشنی میں اور اپنے طریقے سے  حل کرسکیں۔

امریکی مداخلت اور خارجہ پالیسی

ملک اور قوم کو پٹڑی پر لانے کے لیے چوتھا بڑا مسئلہ پاکستان کی پالیسیوں اور معاملات میںامریکا کی مداخلت کو لگام دینا ہے، جسے امریکا دہشت گردی کے خلاف جنگ قرار دے کر پوری دنیا میں خوف کی فضا قائم کر کے مسلمان ملکوں خصوصیت سے افغانستان، عراق، لبنان، ایران اور خود پاکستان کو دہشت گردی کا نشانہ بنا رہا ہے، وہ مسلمان اُمت اور پاکستانی قوم کے لیے ناقابلِ قبول ہے۔ پاکستانی قوم اسے اسلام، مسلمانوں اور خود پاکستان اور دوسرے اسلامی ممالک کے خلاف جنگ تصور کرتی ہے اور پرویز مشرف نے امریکا کے اس خطرناک کھیل میں پاکستان اور اس کی افواج کو جھونک کر جو ظلم کیا ہے اور جس کے نتیجے میں پاکستان دہشت گردی اور خودکش حملوں کی زد میں آگیا ہے، اس صورت حال کو ہرگز برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ امریکا نے پاکستان کی فضائی اور جغرافیائی حدود کی کھلے عام خلاف ورزی کی ہے، اور کر رہا ہے۔ اس کے جہاز ہماری بستیوں میں  بم باری کر رہے ہیں اور بغیر پائلٹ کے جہاز لوگوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ امریکا کے حکمرانوں کا دعویٰ ہے کہ وہ یہ سب کچھ پرویز مشرف سے کسی معاہدے کے تحت کر رہے ہیں۔ امریکی ترجمان   بار بار یہ کہہ رہے ہیں کہ ان کو یہ حق حاصل ہے اور پاکستان کی افواج اور حکومت، امریکا کے    ان تمام جارحانہ اقدامات پر نہ صرف خاموش ہے، بلکہ غیرت کا جنازہ نکال کر اس کے ترجمان یہاں تک کہنے کی جسارت کرچکے ہیں کہ کچھ حملے امریکا نے نہیں خود ہم نے کیے ہیں۔ اب ان حملوں کی تعداد اتنی بڑھ گئی ہے کہ گذشتہ چھے ماہ میں امریکا نے سیکڑوں افراد کو ہلاک کردیا ہے اور  پاکستانی ترجمان اپنا نام چھپا کر یہ کہنے لگے ہیں کہ حملے امریکا اور ناٹو کی طرف سے ہو رہے ہیں۔ امریکا ہم پر اپنی پالیسیاں اس حد تک مسلّط کر رہا ہے کہ علاقے میں مصالحت کی ہرکوشش کو وہ  مسترد (ویٹو ) کردیتا ہے۔ صرف فوجی حل مسلط کر رہا ہے اور ہمیں مسلط کرنے پر مجبور کر رہا ہے اور ہماری فوج کی ٹریننگ اور نیوکلیر اثاثوں کی حفاظت کے نام پر ہمارے دفاعی نظام میں گھسنے اور اسے اندر سے سبوتاژ کرنے پر تلا ہوا ہے۔ بات اب اس سے بھی آگے بڑھ گئی ہے اور کھل کر مطالبے کیے جارہے ہیں کہ جس طرح ۲۰۰۱ء میں ہمارے سات مطالبات مانے تھے، اب گیارہ نکات تسلیم کرو۔ ان مطالبات کی فہرست دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ کیا کسی آزاد اور خودمختار مملکت سے اس نوعیت کے شرم ناک مطالبات بھی کیے جاسکتے ہیں (۷ مارچ ۲۰۰۸ئ)۔ اس کے ساتھ کوشش ہے کہ ملک کی حکومت سازی میں بھی کردار ادا کرے اور اپنی پسند کے لوگوں کو برسرِاقتدار لانے کا کھیل کھیلے اور یہ سب کچھ ’اعتدال پسند‘ اور لبرل قوتوں کی فتح کے نام پر ہو۔

دیگر درپیش چیلنج

ہمیں احساس ہے کہ ان چار امور کے علاوہ بھی بڑے مسائل ہیں جن میں معاشی مسائل، کرپشن، امن و امان کا مسئلہ، بے روزگاری، بجلی اور پانی کا بحران، ہوش ربا مہنگائی اور بلوچستان اور وزیرستان میں فوج کشی سرفہرست ہیں۔ ان میںسے ہر مسئلہ حل کا تقاضا کررہا ہے اور حکومت کو  اس کی طرف توجہ دینا ہوگی، البتہ گاڑی کو پٹڑی پر لانا ترجیح اول ہونا چاہیے۔

___ جہاں تک وزیرستان اور بلوچستان کا تعلق ہے، حکومت کو فوج کشی ترک کر کے مذاکرات کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ ہمیں یقین ہے کہ تمام معاملات سیاسی طریقۂ کار سے بحسن و خوبی حل ہوجائیں گے۔ امریکا سے صاف کہنے کی ضرورت ہے کہ بہت ہوچکی (enough is enough)۔ موجودہ قیادت کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ امریکا کو ہماری ضرورت ہے، ہمیں امریکا کی اتنی ضرورت نہیں۔ اس لیے نئی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔

___  معاشی معاملات زیادہ سنجیدہ ہیں، حکومت کو تین چیزیں ضرور کرنی چاہییں:

  • پہلی اور سب سے اہم یہ ہے کہ سارے حقائق قوم کے سامنے لائیں اور جھوٹ کی بنیاد پر جو پالیسیاں اور طفل تسلیاں دی جاتی رہی ہیں، ان کا پردہ چاک کیا جائے اور آیندہ کے لیے پالیسی کی بنیاد حقائق اور قوم کی حقیقی ضروریات اور ترجیحات ہوں۔ بیرونی قوتوں کی ریشہ دوانیاں اور متمول اور بااثر طبقات کے مفادات کا تحفظ نہ ہو۔ یہ ایک انقلابی اقدام ہوگا جو معیشت کی صحیح رخ پر تشکیل نو کے لیے نقطۂ آغاز ثابت ہوگا۔
  • دوسری بنیادی بات حکومت اور اُوپر کی ہرسطح پر حقیقی اور قابلِ لحاظ کفایت شعاری کا اختیار کیا جانا ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ اس سے جو وسائل حاصل ہوں گے، وہ محدود ہوں گے لیکن یہ ایک انقلابی قدم ہوگاکہ قربانیاں صرف غریب نہیں دے رہے ہیں قیادت اس سے زیادہ قربانی دینے کے لیے تیار ہے۔
  • تیسری چیز معاشی پالیسیوں پر کھلی بحث اور ملک کے بہترین دماغوں کو سرجوڑ کر حالات پر قابو پانے اورنئی پالیسیاں تشکیل دینے کے کام پر لگا دینا ہے۔ سب سے بڑھ کر ایک نئی اپروچ کی ضرورت ہے۔ کیا وجہ ہے کہ پاکستان میں دولت کی ریل پیل کے باوجود غربت، افلاس، فاقہ کشی اور خودکشی ہے ، جب کہ غزہ میں اسرائیل کے سارے مظالم، پابندیوں اور کاروبار کے قتل کے باوجود، گو غربت کی سطح آبادی کے ۶۰ فی صد تک پہنچ چکی ہے مگر فاقہ کشی سے موت اور معاشی اسباب سے خودکشی کی کوئی مثال نہیں۔

اس کی بنیادی وجہ غزہ کی آبادی اور وہاں کی قیادت اور متمول افراد کا یہ کردار ہے کہ جو کچھ ان کے پاس ہے اس میں تمام شہریوں کو شامل کر رہے ہیں، مسجدوں میں اجتماعی کھانے کا اہتمام ہوتا ہے اور جو جس کے پاس ہے، لے آتا ہے اور سب اس میں شریک ہوجاتے ہیں۔ غربت ہے مگر عزائم بلند ہیں اور اجتماعی کفالت کی بنیاد پر اسرائیل جیسے طاقت ور دشمن کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ اگر غزہ کے مسلمان یہ مثال قائم کرسکتے ہیں تو ہم پاکستانی اس سمت میں کیوں پیش قدمی       نہیں کرسکتے؟ معاشی مسائل اور مشکلات حقیقی ہیں لیکن ان کا حل ممکن ہے بشرطیکہ ہم خود غرض، نفس پرست اور ہوس کے پجاری نہ بنیں، بلکہ اسلام کی دی ہوئی ہدایات کی روشنی میں اپنے مسائل حل کرنے کی کوشش کریں۔

نومنتخب اسمبلی اور مخلوط حکومت تاریخی دوراہے پر ہے۔ صحیح فیصلہ اور صحیح اقدام کرکے وہ ملک کو ایک تابناک مستقبل کی طرف لے جاسکتی ہے۔ کیا مخلوط حکومت اس چیلنج کا مقابلہ ایمان، غیرت اور حکمت سے کرنے کا عزم اور صلاحیت رکھتی ہے؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم

۱۸ فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابی نتائج پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اگر ملک کی قیادت، خصوصیت سے نومنتخب قیادت، عوام کی واضح راے اور ان کے جذبات، احساسات اور توقعات کے مطابق اپنا کردار ادا کرتی ہے اور ملک کو اس دلدل سے نکالنے کی مؤثر کوشش کرتی ہے، جس میں شخصِ واحد کی حکمرانی کے آٹھ برسوں نے اسے پھنسا دیا ہے تو یہ  دن ایک تاریخی موڑ ثابت ہوسکتا ہے۔

اس لیے سب سے پہلے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ عوام کی راے اور سوچ دراصل ہے کیا۔  یہ اسی وقت ممکن ہے جب ان کی سوچ اور رجحان کا صحیح صحیح تعین کیا جائے اور ان انتخائی نتائج کا گہری نظر سے تجزیہ کرکے اس پیغام کا ٹھیک ٹھیک ادراک کیا جائے جو عوام نے دیا ہے۔ ایک اور پہلو آنکھوں سے اوجھل نہیں ہونا چاہیے، اور وہ یہ کہ انسانی معاملات میں مشیت الٰہی کے بنیادی قوانین کی کارفرمائی ہے۔ انسان اپنی سی کوشش کرتا ہے مگر: ’’اللہ تعالیٰ کی اپنی تدبیر ہوتی ہے اور بالآخر اللہ کی تدبیر ہی غالب رہتی ہے‘‘ (اٰل عمرٰن ۳:۵۴)۔ حکمرانوں اور ان کے بیرونی آقائوں نے کیا نقشہ بنایا تھا اور اللہ تعالیٰ نے کس طرح اس نقشے کو درہم برہم کردیا اور ایک دوسرا ہی    نقشہ سب کے سامنے آگیا___ اگر اب بھی یہ قوم اور اس کی قیادت غیبی اشاروں کی روشنی میں نئے مواقع سے فائدہ نہیں اٹھاتی، ماضی کی غلطیوں کی اصلاح نہیں کرتی اور واضح امکانات کے حصول میں کوتاہی کرتی ہے تو یہ ناقابلِ معافی جرم ہوگا۔

انتخابی نتائج کا تجزیہ

اس میں کوئی شبہہ نہیں کہ پورا انتخابی عمل (process) پہلے دن سے خاص نتائج حاصل کرنے کے لیے ترتیب دیا گیا تھا اور اس کا اعتراف اور ادراک بھی بڑے پیمانے پر ہوچلا تھا۔ عالمی مبصرین ہوں یا حقوقِ انسانی کی ملکی اور غیرملکی تنظیمیں، سب نے اعتراف کیا ہے کہ عدلیہ کی برخاستگی، میڈیا پر پابندیاں، الیکشن کمیشن کا جانب دارانہ کردار، من پسند عبوری حکومت کی تشکیل، ووٹوں کی فہرستوں میں گڑبڑ، انتظامی عملے کا تعین اور تبادلے، مقامی حکومتوں کی کارگزاریاں،  غرض ہرپہلو سے کچھ خاص نتائج حاصل کرنے کے لیے سارے انتظامات کیے گئے تھے۔ الیکشن کے دن بڑے پیمانے پر کُھل کھیلنے کا پورا پورا اہتمام تھا، مگر مختلف وجوہ سے اس کھیل کے آخری مرحلے میں بازی پلٹ گئی اور چند مقامات (خصوصیت سے کراچی اور بلوچستان وغیرہ میں مخصوص نشستیں) کے سوا نقشہ بدل گیا اور عوام نے اس انداز میں اپنی راے کا اظہار کیا کہ ’سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارا‘ والی کیفیت پیدا ہوگئی۔ لیکن ناسپاسی ہوگی اگر ریکارڈ کی خاطر ان اسباب اور عوامل کا تذکرہ نہ کیا جائے جو کھیل کو اُلٹ پلٹ کرنے کا ذریعہ بنے۔

ا- کُل جماعتی جمہوری اتحاد نے جس اصولی موقف کو اختیار کیا اور انتخابی عمل کے ناقابلِ قبول ہونے کی وجہ سے انتخابات کا بائیکاٹ کیا، اس کی وجہ سے انتخابات میں دھاندلی کا ایشو مرکزی حیثیت اختیار کرگیا۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی نے بھی اس مسئلے کو اس حد تک اٹھایا کہ دھاندلی کی صورت میں ۱۹فروری سے احتجاجی تحریک کا آغاز کیا جائے گا۔ اس دبائو کو آسانی سے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا تھا۔

ب- بیرونی مبصرین اور صحافیوں کی موجودگی اور میڈیا کا فوکس جس میں یہ دبائو روز بہ روز بڑھتا رہا کہ انتخابات کے دن بڑے پیمانے پر دھاندلی ناقابلِ برداشت ہوگی۔ حکومتی، صحافتی اور عوامی سطح پر اس عالمی دبائو نے بھی اپنا اثر ڈالا۔

ج- فوج کے چیف آف اسٹاف کا یہ اعلان کہ انتخابات میں فوج کا کوئی کردار نہیں اور فوج صرف امن و امان میں مدد کے لیے موجود رہے گی۔

د- قواعد میں یہ تبدیلی کہ انتخابی نتائج ریٹرنگ افسر سیاسی نمایندوں کی موجودگی میں مرتب کریں گے اور ان کی تصدیق شدہ کاپی پولنگ اسٹیشن پر ہی امیدوار کے نمایندوں کو دے دی جائے گی، تاکہ انتخابی نتائج کو تبدیل نہ کیا جاسکے۔

ان چاروں عوامل کا مجموعی اثر یہ ہوا کہ ’انتخابی انجینیری‘ (engineering)اور ’قبل از انتخاب دھاندلی‘ کے باب میں جو کچھ ہونا تھا وہ تو ہوگیا، لیکن انتخابات کے روز دھاندلی میں بیش تر مقامات پر نمایاں فرق پڑا۔

  • چنیدہ دھاندلی تو ضرور ہوئی لیکن پورے انتخابی عمل کو اُلٹ پلٹ کرنے اور پہلے سے طے شدہ نتائج کو مسلط کرنے کا کھیل ناکام ہوگیا۔

عوام کا فیصلہ

دوسرا بنیادی اور اہم سوال یہ ہے کہ عوام نے جس راے کا اظہار کیا ہے اور جس شدت سے کیا ہے، وہ کیا ہے اور اس کے تقاضے کیا ہیں، اس پر ہم ذرا تفصیل سے بات کرنا چاہتے ہیں۔

ملک اور ملک سے باہر اس امر کا اعتراف توسب کر رہے ہیں کہ یہ انتخاب عملاً پرویز مشرف، ان کی حکومت (اعوان و انصار) اور ان کی پالیسیوں کے خلاف ایک ریفرنڈم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ملک کے تمام ہی اخبارات اور نیوز چینلوں نے بالاتفاق اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ قوم کی جس راے کا اظہار گذشتہ ایک سال سے راے عامہ کے جائزوں کی صورت میں ہورہا تھا، انتخابات کے ذریعے عوام نے اس پر مہرتصدیق ثبت کردی اور ثابت ہوگیا کہ ملک کے ۸۲ فی صد عوام نے پرویز مشرف کی صدارت اور ان کا ساتھ دینے والی پارٹیوں کو رد کردیا ہے اور تمام     بے قاعدگیوں، سرکاری سرپرستی اور جزوی دھاندلیوں کے باوجود صرف ۱۸ فی صد آبادی نے    ان لوگوں کی تائید کی ہے جو مشرف صاحب کے ساتھ تھے۔ نیز صدرمشرف کی کابینہ کے ۲۳ وزرا  اورمسلم لیگ (ق) کے صدر سمیت سب کے تاج زمیں بوس کردیے۔ یہ وہ کیفیت ہے جسے حتمی طور پر  مسترد کرنا کہتے ہیں۔

یہی وہ کیفیت ہے جس کا اعتراف نیویارک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ نے الیکشن کے بعد اپنے نمایندوں کی رپورٹوں کے علاوہ اپنے ادارتی کالموں میں بھی کیا ہے کہ یہ عوام کا فیصلہ (verdict )ہے اور مشرف کو نوشتۂ دیوار کو پڑھنے کامشورہ دیا ہے کہ پاکستانی عوام نے ان کے صدارتی مینڈیٹ کو غیرآئینی (illegitmate) قرار دیا ہے: ’’انھوں نے سابق جرنیل کو بھاری اکثریت سے مسترد کرنے کا پیغام دیا ہے‘‘۔

یہی بات انگلستان کے اخبارات خصوصیت سے دی ٹائمز، دی گارجین اور دی انڈی پنڈنٹ نے لکھی۔ ان سب کا پیغام ایک ہی ہے، جسے دی انڈی پنڈنٹ نے ۲۱فروری کے اداریے کے الفاظ میں بیان کیا ہے:

پاکستان کو جس چیز کی ضرورت ہے وہ کثیرجماعتی جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کی طرف واپسی ہے۔ پاکستان کے گذشتہ عشرے نے اگر کوئی سبق سکھایا ہے تو وہ یہ ہے کہ آمریت انتہاپسندی کو ختم نہیں کرتی بلکہ اس کونشوونما دیتی ہے۔ فوجی حکومت استحکام کا صرف ایک فریب فراہم کرتی ہے۔ ہمارے مفاد میں ہے کہ یہ پاکستان میں واپس نہ آئے۔ (دی انڈی پنڈنٹ، ۲۱ فروری ۲۰۰۸ئ)

لیکن سب سے دل چسپ تبصرہ روزنامہ نیوزڈے کا ہے جو ریکارڈ پر لانا مفید ہوگا:

پاکستان میں ووٹرز نے اس ہفتے صدر پرویز مشرف کو ایک سراسیمہ کردینے والی شکست سے دوچار کردیا، اور اس طرح اس خطرناک ملک میں جمہوری حکومت کو بحال کرنا ممکن بنا دیا ہے۔ درحقیقت پیر کے پاکستان کے انتخابات میں سب سے زیادہ نقصان اٹھانے والے صدر جارج بش تھے۔ (نیوزڈے، ۲۲فروری ۲۰۰۸ئ)

امریکا اور یورپ کے اخبارات اور سیاسی مبصرین نے اپنے اپنے نقطۂ نظر سے بات کی ہے اور اپنے مقاصد کے حصول کے لیے نئی چالیں تجویز کی ہیں جو اس تحریر میں زیربحث نہیں، البتہ جو بات ہم دعوے سے کہہ سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ الیکشن کے نتائج کو ملک اور ملک سے باہر پرویزمشرف، ان کے سیاسی طرف داروں اور ان کے بین الاقوامی پشتی بانوں اور ان کی سیاسی اور معاشی پالیسیوں سے پاکستانی عوام کی عظیم اکثریت کی طرف سے مکمل برأت کا اظہار سمجھا گیا ہے۔ اس نوشتۂ دیوار کے سوا کوئی اور نتیجہ نکالنا عقل و انصاف کے تقاضوں کے خلاف ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ چودھری شجاعت حسین، مشاہد حسین سید، چودھری امیرحسین، شیخ رشیداحمد، اعجازالحق بھی کھلے بندوں کہہ رہے ہیں کہ ہمیں پرویزمشرف کی پالیسیاں خصوصیت سے لال مسجد کا خونی المیہ، امریکا کی اندھی اطاعت، بلوچستان اور وزیرستان کی فوج کشی، آٹے، چینی اور بجلی کا بحران لے ڈوبے۔

ان انتخابات سے صرف ایک ہی نتیجہ نکالا جاسکتا ہے اور وہ وہی ہے جس کا اظہار پاکستانی عوام بار بار عوامی جائزوں کی شکل میں کر رہے تھے کہ:

  • مارچ ۲۰۰۷ء کے بعد سے پرویز مشرف کا نام پاکستان کے آج تک کے حکمرانوں میں سب سے زیادہ نامقبول ترین شخصیت اور عوامی نفرت کی علامت بن گیا ہے، یعنی ایک ایسا حکمران جس سے عوام جلد از جلد نجات چاہتے ہیں اور اس کے اقتدار کو کسی قیمت پر قبول کرنے کو تیار نہیں۔ یہ پرویز مشرف کے دل کا چور ہی تھا جس نے دستور کی کھلی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے فوجی وردی میں ایسی اسمبلیوں سے جو اپنی مدت عمر پوری کرچکی تھی اپنا انتخاب کرایا اور جب عدلیہ      سے اس ڈرامے کو خلافِ دستور قرار دیے جانے کا خطرہ نظر آیا تو سپریم کورٹ ہی پر ضرب لگا دی اور عدالت عالیہ کے ۵۳ ججوں کو فارغ کردیا۔ اب عوام نے اس اسمبلی کے ارکان کو رد کر کے صدارتی الیکشن کے سارے کھیل کو ایک فراڈ قرار دے دیا اور اس انتخاب کے ناقابلِ قبول ہونے پر مہرتصدیق ثبت کردی۔
  • پرویزمشرف کی نامقبولیت اور ان سے بیزاری اور نفرت کی وجہ ان کی وہ پالیسیاں   بھی ہیں، جو انھوں نے اپنے زعم میں پاکستان کے ’مفاد‘ میں اور پاکستانی قوم کی نگاہ میں محض اپنے ذاتی مفاد اور امریکا کی غلامی میں اختیار کی ہیں جن میں سرفہرست نام نہاد دہشت گردی کے خلاف امریکا کی جنگ میں شرکت ہے۔ اس جنگ میں پاکستان کی فوج کو جھونک دیا گیا ہے، جس کے نتیجے میں قبائلی علاقوں میں خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے، اور دونوں طرف سے تباہی مچائی جارہی ہے۔ فوج اپنے ہی لوگوں کے خلاف استعمال ہورہی ہے اور وہ جو قوم کے بازوے شمشیرزن تھے اب  اپنی ہی فوج، سرکاری اداروں اور عام شہریوں کے خلاف خون خرابے میں ملوث نظر آرہے ہیں۔

پرویز مشرف کا ردعمل

پرویز مشرف حقائق کو تسلیم نہ کرنے کی روش پر قائم ہیں اور جس نفسیاتی کیفیت کا مظاہرہ کررہے ہیں،وہ انتہائی خطرناک ہے۔ شاید یہ ان کی شخصیت کا خاصّہ ہے اس لیے کہ اپنی خودنوشت میں اپنے بچپن کا جو نقشہ خود انھوں نے کھینچا ہے، اس میں وہ ایک ’داداگیر‘ کے روپ میں نظر آتے ہیں۔ انھیں قوت کے جا وبے جا استعمال کا شوق ہے اور اس کھیل کو وہ اپنی حکمت عملی سمجھتے ہیں۔   ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے دوسروں کی تحقیر و تضحیک میں ان کو لطف آتا ہے۔ ان کے اس ذہن کی عکاسی اس انٹرویو تک میں دیکھی جاسکتی ہے جو الیکشن سے صرف تین دن پہلے انھوں نے جمائما خان کو دیا ہے اور جنرل (ر) پرویز مشرف کی اصل شخصیت کو سمجھنے میں مددگار ہے۔ اس انٹرویو میں    وہ اعتراف کرتے ہیں کہ جن سیاسی لیڈروں کو وہ کرپٹ اور قوم کو لوٹنے والا کہتے تھے اور جن پر گرفت اور ان کو کیفرکردار تک پہنچانے کا دعویٰ کرکے وہ اقتدار پر قابض ہوئے تھے، ان کو    معافی دینے، ان سے سمجھوتہ کرنے اور ان کے ساتھ اشتراکِ اقتدار کے لیے وہ آمادہ ہوئے تھے اور یہ صرف انھوں نے امریکا اور برطانیہ کے دبائو میں اور صرف اپنی کرسی کو بچانے کے لیے کیا ہے۔

اس انٹرویو میں انھوں نے مسلم لیگ (ق) اور  ایم کیو ایم کے بارے میں اس اعتماد کا اظہار کیا تھا کہ اگلی حکومت وہ بنائیں گے اور ساتھ ہی انھوں نے راے عامہ کے سارے جائزوں کا مذاق اڑایا تھا اور پورے میڈیا کی راے پر عدمِ اعتماد کا اظہار کیا تھا۔ یہ بھی فرمایا کہ یہ سب میرے مخالف ہیں۔ اگر کوئی ان کا دوست ہے اور ان کے خلاف نہیں وہ مغربی اقوام کے لیڈر ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے، جمائما لکھتی ہیں:

درحقیقت ان کے مطابق جو لوگ ان کے مخالف نہیں ہیں، وہ صرف مغربی لیڈر ہیں جو مکمل طور پر ان کی حمایت کرتے ہیں اور ان کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کرتے ہیں۔

یہ بات بھی بڑی اہمیت کی حامل ہے کہ انتخابی نتائج کے سامنے آنے کے بعد بھی پرویزمشرف کے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں اور نہ انھیں اپنی ناکامی کا کوئی احساس ہے۔ اب بھی وہ امریکا کی بیساکھیوں کی تلاش میں ہیں، جس کا بین ثبوت وہ مضمون ہے جو موصوف نے امریکی روزنامے واشنگٹن پوسٹ میں لکھا ہے۔ اس مختصر مضمون کو پڑھ کر سرپیٹ لینے کو جی چاہتا ہے کہ اس مظلوم ملک کے حکمرانوں کی سوچ کی سطح کس قدر پست ہے۔

مضمون کا عنوان ہے: A Milestone on The Road to Democracy لیکن اس مضمون میں انتخابات کا جو پیغام خود حضرت کے لیے ہے اس کا کوئی شعور اور احساس ہی نہیں بلکہ اس ہٹ دھرمی کا اظہار ہے کہ وہ صدر رہیں گے اور اپنے تین مقاصد، یعنی دہشت گردی کے خلاف جنگ، جمہوریت کے استحکام اورمعاشی ترقی کے تحفظ کا پھر اعادہ کیا ہے۔ فرماتے ہیں:

میں ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے نئی منتخب حکومت کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہوں۔

 اس مضمون کا اصل مقصد امریکا کی تائید حاصل کرنا اور اپنے اور امریکا کے مقاصد کی    ہم آہنگی کا اظہار ہے:’’لیکن ہماری کامیابی کے لیے ضروری ہوگا کہ امریکا کی مسلسل حمایت  حاصل رہے‘‘۔

نہ کوئی خود احتسابی ہے، نہ عوام کے فیصلے کا کوئی احساس یا شعور ہے، نہ اپنی ناکامیوں کا کوئی ادراک ہے اور جس بیرونی مداخلت، قومی حاکمیت اور غیرت کی قربانی کے خلاف قوم اُٹھ کھڑی ہوئی اسی غلامی کو مستحکم کرنے اور اس میں امریکا کی مدد حاصل کرنے کی بھیک اس مضمون میں مانگی گئی ہے۔ خود فوج کے بارے میں ایک جملہ ایسا ہے جو ان کے ذہن کا غماض ہے:

ہماری مسلح افواج پُرعزم ہیں، پیشہ ور ہیں اور ملک میں امن و امان قائم رکھنے اور سیاسی نظام کو برقرار رکھنے کا تہیہ کیے ہوئے ہیں۔

افواجِ پاکستان کی ذمہ داری، وطن کا دفاع اور امن عامہ کے قیام میں اس وقت   معاونت ہے کہ جب دستور کے تحت سیاسی قیادت اس کو طلب کرے۔ سیاسی نظام کا تحفظ نہ فوج کی ذمہ داری ہے اور نہ فوج اس کی اہل ہے، بلکہ وہ تو سیاست میں کسی صورت میں مداخلت نہ کرنے کا عہد کرتی ہے، اس کی محافظ کیسے ہوسکتی ہے لیکن پرویز مشرف آج بھی اسے سیاسی نظام کا ضامن قرار دے رہے ہیں۔

اس مضمون کا مرکزی موضوع بھی وہی ہے جو امریکی صدر بش کا پسندیدہ مضمون ہے، یعنی دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف جنگ۔ حالانکہ پاکستان کا اصل مسئلہ فوج کی بے جا مداخلت، شخصی حکمرانی کا عفریت، انصاف کا فقدان، عدالت پر جرنیلی یلغار، معاشی ناانصافی، غربت،   بے روزگاری اور مہنگائی ہے۔ علاقائی ناہمواریاں اور مرکز اور صوبوں میں تصادم کی کیفیت اور  فوجی قوت کا اپنی ہی آبادی کے خلاف استعمال ہے۔ الیکشن کا اصل ایشو اور حاصل مشرف بش کے ایجنڈے کو مسترد کرنا ہے اور یہی وجہ ہے کہ نیوزڈے نے ادارتی کالم میں اعتراف کیا ہے کہ ۱۸فروری کے انتخابات میں صدر پرویز مشرف ہی نہیں جارج بش بھی شکست کھا گئے ہیں۔

انتخابی نتائج کا تقاضا

اس پوری بحث کا حاصل یہ ہے اور انتخابات کے نتائج کا تقاضا ہے کہ پرویز مشرف اپنی شکست تسلیم کریں اور سیدھے سیدھے استعفا دیں۔ نیز ان کی جن پالیسیوں کے خلاف عوام نے اپنے فیصلے کا اظہار کر دیا ہے ان پر بھی بنیادی طور پر نظرثانی ہو، جس میں اہم ترین یہ ہیں:

۱- پاکستانی عوام شخصی آمریت اور سیاست میں فوج کی مداخلت کے خلاف ہیں اور وہ حقیقی جمہوری نظام کے قیام کے داعی اور طرف دار ہیں۔ پرویز مشرف نے جو طرزِ حکمرانی اختیار کیا وہ ناقابلِ قبول ہے۔ مشرف کے ساتھ ان کا دیا ہوا نظام، پالیسیاں اور ان کا اندازِ کار عوام نے رد کردیا ہے۔آئی آر آئی اور گیلپ دونوں کے سروے بھی عوام کے اس رجحان کے عکاس ہیں، یعنی ۶۹ فی صد نے کہا کہ سیاست میں فوج کا کوئی عمل دخل نہیں ہونا چاہیے اور ۷۵ فی صد نے کہا کہ مشرف استعفا دے دیں۔

۲- الیکشن میں بنیادی ایشو چیف جسٹس اور عدالت عالیہ کی بحالی اور نظامِ عدل کو اس کی اصل دستوری بنیادوں پر مرتب اور مستحکم کرنا ہے۔ یہ تحریک ۹مارچ ۲۰۰۷ء کو شروع ہوئی ہے اور ۱۸فروری ۲۰۰۸ء کو قوم نے اس تحریک کی تائید کرکے اپنا فیصلہ دے دیا ہے۔ ہمیں یہ بات کہنے میں ذرا بھی باک نہیں کہ جن جماعتوں کو عوام نے جتنا بھی مینڈیٹ دیا ہے، وہ بنیادی طور پر عدلیہ کی آزادی اور بحالی کے حق میں اور پرویز مشرف کے خلاف ہے۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے حق میں تائیدی لہر کی اصل کارساز قوت یہی ہے ___ ایک مغربی صحافی نے درست لکھا ہے کہ: ’’اصل ووٹنگ تو دو ناموں پر ہوئی ہے، حالانکہ وہ بیلٹ پیپر پر لکھے ہوئے نہیں تھے۔ لیکن اصل انتخاب انھی کے درمیان تھا، یعنی ’چیف جسٹس افتخارمحمد چودھری‘ اور ’صدر پرویز مشرف‘۔ عوام کی بھاری اکثریت نے جسٹس افتخارمحمد چودھری کی تائید کی اور پرویزمشرف کا پتا. ّ کاٹ دیا‘‘۔ یوں عدالت کی بحالی اور آزادی ہی اس بحث کا اصل عنوان ہے اور دستور کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی اس کا اصل مقصد اور محور ہے۔

۳- تیسرا بنیادی ایشو جو ان انتخابات میں زیربحث آیا ہے اس کا تعلق اس شرمناک صورتِ حال سے ہے جو امریکا کی بالادستی اور ملک پر کھلی اور خفی مداخلت سے پیدا ہوئی ہے اور جس کی وجہ سے اب ہماری آزادی اور حاکمیت ہی خطرے میں ہے۔ چند بلین ڈالروں کے عوض پاکستانی افواج کو عملاً امریکا کے لیے کرائے کا لشکر (mercenary) بنانے کی کوشش کرنا ہے۔ اس کی   نام نہاد جنگ میں ہم نے اپنے کو آلودہ کرلیا ہے اور اس کے نتیجے میں ہمارے اپنے ملک میں دہشت گردی کو فروغ مل رہا ہے حالانکہ اس جنگ میں شرکت سے پہلے یہ کوئی مسئلہ نہ تھا۔    راے عامہ کے ایک عالمی ادارے کے جائزے کی رو سے عوام کی نگاہ میں اہم ترین مسئلہ مہنگائی   اور بے روزگاری ہے۔ ۵۵ فی صد افراد مہنگائی کو اور ۱۵ فی صد بے روزگاری کو اصل مسئلہ قرار دیتے ہیں، جب کہ تمام زوردار پروپیگنڈے کے باوجود دہشت گردی کو صرف ۱۲ فی صد نے اہم ترین مسئلہ قرار دیا ہے۔

تفصیل میں جائے بغیر ہم صرف یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ اب امریکا کا عمل دخل ہماری پالیسی سازی، ہماری سرحدوں کی بے حرمتی، ہماری سرزمین کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کرنے اور پاکستان کی قیادت کی تلاش اور سیاسی جوڑ توڑ کی سرگرمیوں تک میں ہے۔ ان انتخابی نتائج نے پرویز مشرف کے اس غلامانہ رویے، خوف اور دبائو کے تحت رونما ہونے والے دروبست کو تبدیل کرنے اور پوری خارجہ پالیسی کو درست سمت دینے کا پیغام دیا ہے۔ اس انتخاب کے ذریعے عوام نے پوری قوت کے ساتھ پاکستانی قوم کے امریکی جنگ کا حصہ بننے سے اپنی براء ت کا اعلان کردیا ہے۔ پاکستانی عوام یہ چاہتے ہیں کہ اپنے مسائل کو اپنی اقدار اور روایات کے مطابق حل کریں اور دوسروں کی جنگ میں حرام موت مرنے کا راستہ اختیار نہ کریں۔

۴- قوم پرویز مشرف اور ان کی معاشی ٹیم کی مسلط کردہ معاشی پالیسیوں سے بھی نالاں ہے۔ نمایشی ترقی اور اس کے ڈھول پیٹنے سے کچھ عرصے تک تو عوام کو دھوکا دیا جاسکتا ہے، لیکن جب مغرب کے سامراجی سرمایہ دارانہ نظام کے تصورات اور مفادات پر مبنی پالیسیوں کے تلخ نتائج  لوگوں کے سامنے آتے ہیں تو پھر پروپیگنڈے کا طلسم ٹوٹ جاتا ہے۔ توانائی کا میدان ہو یا زرعی پیداوار کا، صنعت و حرفت کا مسئلہ ہو یا تجارتی اور ادایگی کے توازن کا، ضروریاتِ زندگی کی فراہمی  کا مسئلہ ہو یا اشیاے ضرورت کی قیمتوں کا، قرضوں کا بوجھ ہو یا افراطِ زر کے مسائل، دولت کی   عدمِ مساوات کی بات ہو یا صوبوں اور علاقوں کے درمیان تفاوت کی کش مکش___ غرض ہر پہلو سے عام آدمی کی معاشی مشکلات بڑھ گئی ہیں، کم نہیں ہوئیں اور جن ’کارناموں‘ کا شور تھا وہ سب ایک ایک کر کے پادر ہوا ہو رہے ہیں۔ حتیٰ کہ اب ملک پر بیرونی اور اندرونی قرضوں کا بار ۱۹۹۹ء کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ مہنگائی کئی گنا بڑھ گئی ہے، بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے اور غربت کم ہونے کو نہیں آرہی۔ تجارتی خسارہ اب ۱۸ ارب ڈالر سالانہ کی حدوں کو چھو رہا ہے اور  جن بیرونی ذخائر کی دھوم تھی اب ان کے لالے پڑگئے ہیں۔

۵- بھارت کے تعلقات کا ڈھول تو بہت پیٹا گیا مگر حاصل کچھ نہیں ہوا، البتہ قیمت بہت بڑی ادا کی گئی ہے۔ کشمیر کے مسئلے پر اصولی موقف کی تبدیلی کے نتیجے میں کشمیری عوام مایوس ہوئے ہیں اور تحریکِ مزاحمت کمزور پڑگئی ہے۔ مشرف کی افغانستان کی پالیسی بھی بری طرح ناکام رہی ہے۔ اسرائیل سے دوستی کے اشارے اور اُمت مسلمہ کے مسائل سے بے توجہی اس دور کا شعار رہی ہے۔ جس طرح امریکا سے تعلقات کے مسئلے اور خارجہ پالیسی پر قوم نے نظرثانی اور بنیادی تبدیلیوں کی خواہش کا اظہار کیا ہے اسی طرح خارجہ سیاست کے دوسرے پہلو بھی نظرثانی کا تقاضا کرتے ہیں۔ اُمت مسلمہ کی وحدت ہی پاکستان اور تمام مسلم ممالک کی قوت ہے۔

۶- نام نہاد روشن خیالی اور اعتدال پسندی کے نام پر ایک طرف قوم میں نظریاتی کش مکش اور تفریق پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے تو دوسری طرف دینی احکام، اقدار اور آداب سے روگردانی، سیکولرزم کے فروغ کی کوشش اور مغربی تہذیب و ثقافت اور ہندوکلچر کو عام کرنے کی پالیسی اختیار کی گئی ہے، جس سے معاشرے میں تہذیبی انتشار رونما ہوا ہے۔

۷-  صوبائی حقوق کی پامالی، صوبوں کو ان وسائل سے محروم رکھنا جو ان کا حق اور ان میں پائے جانے والے معاشی ذخائر کا حاصل ہیں، نیز علاقائی، لسانی اور فرقہ وارانہ جماعتوں اور گروہوں کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا ہے جن کا سب سے بڑا نقصان ملک میں  مرکز اور صوبوں کے درمیان فاصلوں کا بڑھنا ہے۔

یہ وہ سات بڑے بڑے پالیسی ایشوز ہیں، جن پر انتخابات میں قوم نے اپنے جذبات اور احساسات کا اظہار کیا ہے اور اب سیاسی قیادت کے سامنے اصل سوال یہ ہے کہ پرویز مشرف کی دی ہوئی پالیسیوں کو کس طرح تبدیل کریں، تاکہ ملک و قوم ان مقاصد کی طرف پیش رفت کرسکیں جن کے قیام کے لیے یہ ملک حاصل کیا گیا تھا۔

انتخابی نتائج کا بنیادی پیغام تو یہی ہے البتہ ان بنیادی پہلوئوں کے ساتھ ایک اور پہلو بھی قابلِ غور ہے اور وہ یہ کہ جہاں عوام نے پرویزمشرف، ان کے ساتھیوں، ان کے بیرونی سرپرستوں اور ان کی ملکی پالیسیوں کو رد کیا ہے ، وہاں انھوں نے کسی ایک سیاسی جماعت کو حکمرانی کا مکمل اختیار (مینڈیٹ) نہیں دیا، بلکہ دو بڑی جماعتوں کو اس طرح کامیاب کیا ہے کہ وہ ایک دوسرے کی مدد کے بغیر مستحکم سیاسی دروبست قائم نہیں کرسکتیں۔ ہماری نگاہ میں اس کی حکمت یہ ہے کہ عوام نے ان جماعتوں کے منشور کی اس طرح تائید نہیں کی جس طرح عام سیاسی ماحول میں کسی ایک رخ کو متعین کیا جاتا ہے۔ اس منقسم اختیار (split mandate) کا تقاضا یہ ہے کہ تمام جماعتیں مل کر پہلے اس بگاڑ کی اصلاح کریں، جو پچھلے آٹھ برسوں میں واقع ہوا ہے۔اس کے ساتھ منشوروں کے مشترک نکات پر کام ہو، تاکہ بنیادی آئینی اصلاحات کے بعد پھر قوم کی طرف رجوع ممکن ہو تاکہ وہ سیاسی پارٹیوں کو ان کی پالیسیوں کی روشنی میں حکمرانی کا نیا مینڈیٹ دے سکیں۔

یہ ایک عبوری دور ہے، اور اس دور میں زیادہ سے زیادہ قومی مفاہمت پیدا کرنے اور مشترکات کے حصول کو اصل ہدف بنانے کی کوشش کی جائے۔ اس منقسم حق حکمرانی سے عوام کی راے کا یہی رخ ظاہر ہوتا ہے۔ مشرف دور کی بدانتظامی، بے اعتدالی اور لاقانونیت کی اصلاح اور مستقبل میں منصفانہ اور غیرجانب دارانہ انتخابات کے نظام کا قیام اولین ترجیح ہونا چاہیے۔ اسی طرح دستور کی روشنی میں فوج کے صرف دفاعی کردار کو مستحکم بنانا اور خارجہ پالیسی کی ملّی اُمنگوں کے مطابق تشکیل نو ہے۔اس ایجنڈے پر عمل کرنے میں نئی اسمبلیوں اور سیاسی قیادت کا اصل امتحان ہے۔ ہماری توقع اور دعا ہے کہ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے دونوں بڑی پارٹیاں اصل توجہ ان ترجیحات پر دیں گی جو عوام کے اس مینڈیٹ کا حاصل ہیں۔ خود ان کو بھی اس کا کچھ ادراک ہے جس کا اظہار میثاقِ جمہوریت کی متعدد دفعات سے ہوتا ہے۔ نئی قیادت کی اصل ذمہ داری ملک میں عدلیہ کی بحالی، دستوری نظام کے قیام، آزادیوں کے تحفظ اور فیصلہ سازی میں پارلیمنٹ اور عوام کی شرکت کو یقینی بنانا ہے۔ اسی میں ان کا امتحان ہے اور جو وقت ان کو حاصل ہے وہ بھی کم ہے۔

اے پی ڈی ایم کی حکمت عملی اور اثرات

ان انتخابی نتائج کے حصول میں عوام، تمام سیاسی جماعتوں اور میڈیا نے جو کردار ادا کیا ہے اس کا اعتراف اور ادراک ضروری ہے۔ اس سلسلے میں کُل جماعتی جمہوری اتحاد (APDM) نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان جماعتوں نے اصولی بنیادوں پر انتخابات کا بائیکاٹ کرکے اور اسمبلیوں میں اپنی نشستوں کی قربانی دے کر جو قومی خدمت انجام دی ہے اس کا اظہار اور اعتراف ضروری ہے۔

  • پہلی چیز یہ ہے کہ بائیکاٹ کی اس مہم کی وجہ سے ملک اور ملک کے باہر ۱۸فروری کے انتخابات میں دھاندلی کے منصوبے اور پروگرام کا پردہ چاک ہوا۔ جن جماعتوںنے حصہ لیا انھوں نے بھی اسے ایشو بنایا اور اعلان کیا کہ اگر حکمرانوں نے اپنی پسند کے نتائج قوم پر مسلط کرنے کی کوشش کی تو اس کے بڑے خطرناک نتائج ہیں۔ اس مہم نے دھاندلیوں کے لیے سدِجارحیت (deterrent ) کا کام کیا اور اس طرح جس کھیل کی پوری تیاری کی گئی تھی اور کہیں کہیں وہ ہاتھ  کی صفائی دکھائی بھی گئی مگر جس پیمانے پر خطرہ اور پروگرام تھا وہ نہیں ہوسکا۔ یوں انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کے روکنے میں ایک اہم رول اس بائیکاٹ کی تحریک کا ہے جو خود ایک بڑی قومی خدمت ہے۔
  • بائیکاٹ کی تحریک کا دوسرا اور سب سے اہم نتیجہ یہ ہوا کہ ملکی سیاست اور انتخابات کا ایجنڈا تبدیل ہوگیا۔ پارٹیوں کے منشوروں کے بجاے اصل مسئلہ پرویزی آمریت اور حقیقی جمہوریت میں انتخاب کا بن گیا۔ عدلیہ کی آزادی اور ۲نومبر کی پوزیشن میں اس کی بحالی سب سے ضروری موضوع قرار پایا۔ جو جدوجہد چیف جسٹس نے ۹مارچ ۲۰۰۷ء کے پُرعزم فیصلے، وکلابرادری اور سول سوسائٹی کی ملک گیر جدوجہد سے شروع ہوئی تھی، وہ الیکشن کا اصل موضوع اور فیصلہ کن سوال بن گئی۔ بائیکاٹ کی اصل وجہ بھی یہی تھی کہ عدلیہ کی اپنی اصل شکل میں بحالی، دستور کی بالادستی اور الیکشن کمیشن کی خودمختاری کا اہتمام ہو۔ انتخابات میں عوام نے یک آواز ہوکر جس چیز کے حق میں ووٹ دیا وہ عدلیہ کی بحالی، فوج کی سیاست سے دُوری، شخصی آمریت کا خاتمہ اور انتخابی عمل کی شفافیت ہے۔ بائیکاٹ کی مہم نے سیاسی بحث کو زبان اور موضوع دیا اور قوم نے یکسوئی کے ساتھ اس پر اپنا واضح فیصلہ دے دیا، گویا    ؎

ہم نے جو طرز فغاں کی تھی قفس میں ایجاد

فیض، گلشن میں وہی طرزِ بیاں ٹھیری ہے

  • بائیکاٹ کی مہم کا تیسرا فائدہ یہ ہوا کہ قومی اور علاقائی جماعتیں باہم شیروشکر ہوکر   اصولی بنیادوں پر ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوئی ہیں، اور ان کے درمیان فکری ہم آہنگی اور یگانگت کی کیفیت پیدا ہوئی ہے۔ وہ قیادت جس کی حب الوطنی پر شبہہ کیا جاتا تھا، وہ پشتینی حب وطن کا دعویٰ کرنے والوں سے بھی آگے نکل گئی اور ۱۹۷۳ء کے دستور اور مرکز اور صوبوں میں انصاف اور ادایگی حقوق کی بنیاد پر اشتراکِ عمل کی بنیادیں مستحکم ہوئیں۔ محمودخان اچکزئی، قاضی حسین احمد، عمران خان، ڈاکٹر عبدالحی بلوچ، ڈاکٹر قادرمگسی، عابد حسن منٹو ایڈووکیٹ اور دوسرے رہنمائوں نے ملک کے طول و عرض میں ایک ہی زبان میں گفتگو کی اور ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر ایک اسلامی، فلاحی اور جمہوری اور وفاقی پاکستان کو مستحکم کرنے کی دعوت عام دی۔ سیاست میں ایک تیسری فورس جو اصول اور انصاف کی علَم بردار ہو، پوری قوت سے روپذیر ہوئی اور جو انھی مقاصد کے حصول کی جدوجہد جاری رکھنے اور نئی قیادت کو بائیکاٹ اور انتخاب میں شرکت کرنے والی جماعتوں کے مشترک ایجنڈے پر عمل درآمد کرنے پر مجبور کرنے کی خدمت انجام دے رہی ہے۔ انتخاب کے بعد اے پی ڈی ایم کی قیادت نے ایک جملے میں سیاست کے رنگ کی اس تبدیلی کا اعلان کردیا ہے کہ جن مقاصد کے لیے ہم نے بائیکاٹ کیا اور آپ نے الیکشن میں شرکت کا دعویٰ کیا اب وقت آگیا ہے کہ دونوں ان مشترک مقاصد کے لیے جدوجہد کریں اور ان کے حصول کو یقینی بنائیں، اور اگر الیکشن میں حصہ لینے والے اس معیار پر پورے نہیں اُترتے تو وہ بھی قوم کے احتساب کے لیے تیار رہیں۔

ملک کی سیاست میں اصولوں کی بنیاد پر سیاسی جدوجہد اور اشتراکِ عمل کی یہ ایک زریں مثال قائم ہوئی ہے، جس سے ہماری سیاست پر مستقل اور دُور رس اثرات مرتب ہوںگے۔

لادینی قوتوں کی کامیابی کا بے بنیاد دعویٰ

یہاں ہم ایک مسئلے پر مزید کلام کرنا چاہتے ہیں، جس کا تعلق اس سطحی بحث سے ہے جو ملک کے نام نہاد، لبرل اہلِ قلم اور خصوصیت سے بیرون ملک صحافی اور تھنک ٹینک کر رہے ہیں،  اور وہ یہ کہ: ’’ان انتخابات میں دینی قوتوں کو شکست ہوئی ہے اور لبرل اور سیکولر جماعتیں نئی طاقت کے ساتھ اُبھری ہیں‘‘۔ یہ ساری بحث ایک خاص سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کی جارہی ہے اور   زمینی حقائق کو یکسرنظرانداز کرکے مفیدمطلب نتائج نکالے جارہے ہیں۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ کسی جماعت نے سیکولرزم کواپنے منشور میں بطور ہدف کے پیش نہیں کیا۔ سب نے پاکستان کے دستور پر حلف لیا ہے اور اس دستور کی بالادستی قائم کرنے کو اپنا اولین ہدف قرار دیا ہے اور یہ دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان کا دستور ہے۔ قرارداد مقاصد اس کا دیباچہ ہی نہیں، ایک قابلِ نفاذ (operational ) حصہ ہے۔ دستور میں اس ریاست کا ہدف قرآن وسنت کی بالادستی اور اسلام کے دیے ہوئے احکام و اقدار کے مطابق نظامِ حکومت کو چلانا قرار دیا گیا ہے اور یہی ریاست کے بنیادی اصولِ حکمرانی قرار پائے ہیں۔ بلاشبہہ ہرجماعت کا حق ہے کہ اس اسلامی فریم ورک میں اپنی سوچ کے مطابق اپنی ترجیحات اوران کے حصول کے لیے پروگرام کا اعلان کرے۔ لیکن اسے سیکولرزم اور لبرلزم اور اسلام کے درمیان انتخاب کی شکل دینا صرف خلط مبحث ہے۔ پیپلزپارٹی کے منشور کا بھی پہلا نکتہ یہی ہے کہ اسلام ہمارا دین ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے بھی اسلامی نظریۂ حیات ہی کو اپنا مقصد قرار دیا ہے۔ پھر یہ کہنا کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کو ووٹ ملنے سے محض لبرلزم اور سیکولرزم کی فتح اور دینی قوتوں کی شکست ہے، کیسے درست ہوسکتا ہے۔

دوسری بنیادی بات یہ ہے کہ اگر کوئی چیز مسترد ہوئی ہے تو وہ پرویز مشرف اور ان کی جماعت مسلم لیگ (ق) ہے، جو روشن خیالی اور نام نہاد ’جدیدیت‘ کی خودساختہ علَم بردار تھی۔     یہ عجیب دعویٰ ہے کہ پرویزمشرف کو تو قوم نے ردکردیا مگر ان کے لبرلزم اور روشن خیالی کو رد نہیں کیا،   یہ تضاد نہیں تو کیا ہے؟

تیسری بات یہ ہے کہ دین اور دنیا اور مذہب اور سیاست کے رشتے کے اسلامی تصور اور مغربی تصور کو گڈمڈ کیا جا رہا ہے۔ مغرب کے لبرلزم میں الہامی ہدایت اور مذہبی اقدار واحکام کا تعلق فرد کی ذاتی زندگی سے ہے اور اجتماعی زندگی میں اس کا کوئی رول نہیں، جب کہ اسلام انسان کی پوری زندگی کو الہامی ہدایت کی روشنی سے منور کرتا ہے۔ شریعت کے معنی محض مغربی اصطلاح میں قانون کے نہیں، جس کے نفاذ کا انحصار ریاست کی قوت قاہرہ پر ہوتا ہے، بلکہ وہ پوری زندگی کے لیے ہدایت پر مشتمل ہے۔ وہ شریعت جو عقیدہ اور عبادات کے ساتھ انفرادی، خاندانی، اجتماعی، سیاسی، معاشی اور بین الاقوامی زندگی کے لیے بھی رہنمائی دیتی ہے۔ اس رہنمائی کے بڑے حصے پر عمل فرد اور معاشرہ کسی ریاستی قوت کے استعمال کے بغیر کرتا ہے، تاہم اس شریعت کا ایک حصہ    وہ بھی ہے جس کے لیے ریاستی قوت اور عدالت کا نظام کام کرتا ہے۔ مسلمان پوری دنیا میں    اپنے مذہب اور دین کو زندگی میں مرکزی اہمیت دیتے ہیں اور اپنی اجتماعی زندگی کو بھی شریعت کے نور سے منور کرنا چاہتے ہیں۔

راے عامہ کے وہی جائزے جو سیاسی پسند و ناپسند کے بارے میں ہوا کے رخ کو ظاہر کرتے ہیں، وہی زندگی کے اس پہلو پر بھی روشنی ڈالتے ہیں جن کا خلاصہ حال ہی میں شائع ہونے والی ایک کتاب Voice of the People 2006 میں دیا گیا ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ عالمی سطح پر مسلمانوں میں ۸۴ فی صد اپنے کو مذہبی قرار دیتے ہیں۔ گیلپ ہی نے اپنے ایک دوسرے سروے میں Gallup World Poll: Special Report on Muslim World  کی سیریز میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں ان کے سروے کے مطابق آبادی کے ۴۱ فی صد نے یہ کہا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ شریعت ملکی قانون کا واحد سرچشمہ(only source) ہو، جب کہ مزید ۲۷فی صد نے کہا ہے کہ شریعت کو ایک سرچشمہ (one of the sources) ہونا چاہیے، اور شریعت کو قانونی ماخذ کے طور پر ضروری نہ سمجھنے والوں کی تعداد صرف ۶فی صد ہے۔ سروے کے مصنف لکھتے ہیں:

ہمارے مطالعے سے ظاہر ہونے والا ایک سب سے زیادہ واضح امر وہ غیرمعمولی اہمیت ہے جو مسلمان اپنے دین کو دیتے ہیں۔ اپنی ذاتی رہنمائی کے لیے بھی اور بحیثیت مجموعی معاشرے کی ترقی کے لیے بھی۔ اس سے بھی زیادہ (ہمارے لیے تعجب انگیز بات یہ تھی کہ) مسلمان خواتین اس بات سے متفق نظرآتی ہیں کہ پبلک پالیسی اسلامی اصولوں کی رہنمائی میں طے ہونا چاہیے۔

یہ ہیں اصل زمینی حقائق___ اور اس بات کو اچھی طرح سمجھنا چاہیے کہ مذہبی ووٹ اور مذہبی جماعتوں کا ووٹ ایک چیز نہیں۔ مسلمانوں کی عظیم اکثریت زندگی کے اجتماعی معاملات بشمول قانون، دین کی رہنمائی کو ضروری سمجھتے ہیں۔ اس حقیقت پر انتخابی نتائج کی سیاسی تقسیم سے پردہ نہیں ڈالا جاسکتا۔

چوتھی بنیادی بات یہ ہے کہ مذہبی جماعتوں کے ووٹ کے بارے میں بھی جو دعوے کیے جاتے ہیں، وہ مناسب تحقیق کے بغیر اور تمام ضروری معلومات کو حاصل کیے بغیر کیے جاتے ہیں۔ مثلاً کہا جاتا ہے کہ ماضی میں دینی جماعتوں کو ۲ سے ۵ فی صد تک ووٹ ملتا تھا حالانکہ یہ صریحاً    غلط بیانی ہے۔ مثلاً ۱۹۷۰ء کے انتخابات میں تین دینی جماعتوں کو ملنے والے ووٹ کُل ووٹوں کا تقریباً ۱۵ فی صد تھے۔ کراچی میں ۱۹۷۰ء میں مذہبی جماعتوں کا کُل ووٹ ۴۵ فی صد تھا۔ صوبہ سرحد میں دینی جماعتوں کو ملنے والے ووٹوں کا تناسب ۱۹۷۰ء میں ۳۳ فی صد تھا۔ ۱۹۸۸ء ۱۹۹۰ء میں صرف جمعیت علماے اسلام نے شرکت کی تھی، جب کہ جماعت اسلامی آئی جے آئی کا حصہ تھے۔ تب صرف جمعیت علماے اسلام کے ووٹ ۱۹۸۸ء میں ۱۱ فی صد اور ۱۹۹۰ء میں ۲۰ فی صد تھے۔ ۱۹۹۳ء میں کُل ووٹ جو دینی جماعتوں نے حاصل کیے ۲۴ فی صد تھے، جو ۲۰۰۲ء میں متحدہ مجلس عمل کی صورت میں کُل صوبے کے ووٹوں کا ۴۵ فی صد تھا۔ (ملاحظہ ہو، گیلپ پاکستان کی رپورٹ، The Story of 8 Elections and the Calculus of Electoral Politics in Pakistan During 1970-2008)

کُل پاکستانی سطح پر یہ تناسب نکالنے میں مختلف دقتیں ہیں، جن میں سے ایک کا تعلق اس حقیقت سے بھی ہے، کہ دوسری بڑی جماعتیں پاکستان کی بیش تر نشستوں پر امیدوار کھڑے کرتی ہیں، جب کہ دینی جماعتوںنے بالعموم ایک محدود تعداد میں امیدوار کھڑے کیے ہیں اور اس طرح پورے ملک میں ان کا ووٹ اس انتخابی گنتی میں شامل نہیں ہوپاتا۔

پانچویں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ۲۰۰۸ء کے انتخابات میں متحدہ مجلس عمل نے شرکت نہیں کی۔ اس لیے یہ کہنا بے بنیاد ہے کہ عوام نے اس کو ووٹ نہیں دیے۔ عملاً متحدہ مجلس عمل  کی صرف ایک جماعت، یعنی جمعیت علماے اسلام (ف)نے حصہ لیا، اور بلاشبہہ اسے ۲۰۰۲ء بلکہ اس سے پہلے کے ادوار کے مقابلے میں بھی کم ووٹ ملے۔ مگر اس کی بڑی وجہ من جملہ دوسری وجوہ کے یہ ہے کہ راے دہندگان نے جے یو آئی (ف) کو مشرف انتظامیہ سے منسلک سمجھا اور اسے مشرف کے بلوچستان آپریشن اور اکبربگٹی کے قتل پر اس کی طرف سے کسی بڑے عملی اقدام سے احتراز، نیز اسمبلیوں سے استعفے، سرحداسمبلی کے تحلیل کرنے میں تاخیر،  بلوچستان میں ق لیگ کے ساتھ شرکت اقتدار وغیرہ کی وجہ سے پرویز مشرف سے قرب کی قیمت اداکرنا پڑی۔ بلاشبہہ اس نے بائیکاٹ میں شرکت نہ کرکے یہ نقصان اٹھایا، اور اس کی الیکشن میں شرکت کا رشتہ برسرِاقتدار قوتوں (establishment) سے اس کے تعلق سے جوڑا گیا۔ حقیقت جو بھی ہو لیکن عملاً دوسری وجوہ کے ساتھ اسے زیادہ نقصان اس مسخ شدہ تصور کے باعث ہوا۔ تمام اہم سیاسی تجزیہ نگار اس پہلو کا کھلے بندوں اظہار کر رہے ہیں۔ مثلاً معروف تجزیہ نگار رحیم اللہ یوسف زئی، ایم ایم اے کی حکومت کی ناکامی کے مختلف پہلوئوں کا احاطہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:

ایم ایم اے کی صفوں میں غیرمعمولی انتشار کی وجہ سے بھی بہت سے لوگوں میں مایوسی کی کیفیت تھی۔ راے دہندگان صدر جنرل مشرف کے تمام اتحادیوں کو سزا دینا چاہتے تھے اور ایم ایم اے کو بھی کچھ سبق سکھایا، کیونکہ انھوں نے ان دستوری ترامیم کو آسان بنانے میں کردار ادا کیا جن سے فوجی آمر کو نجات ملی اور اس کے تمام افعال کو تحفظ ملا۔     اس کے ایک حصے جماعت اسلامی نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔ (دی نیوز ، ’نیوفرنٹیئر‘ رحیم اللہ یوسف زئی، ۲۴ فروری ۲۰۰۸ئ، اسپیشل رپورٹ، ص ۳۳)

رحیم اللہ یوسف زئی دی نیوز میں اپنے ایک دوسرے مضمون میں اس بات کا دوٹوک انداز میں یوں اظہار کرتے ہیں:

ایم ایم اے جو درحقیقت جماعت اسلامی کے انتخابات سے بائیکاٹ کے بعد صرف مولانا فضل الرحمن کی جے یو آئی (ف) ہوکر رہ گئی تھی، اسے مشرف کا ساتھ دینے اور اپنے پانچ سالہ دور حکومت میں وعدوں کو پورا نہ کرنے پر سزا دی گئی ہے۔ (دی نیوز، ۲۳ فروری ۲۰۰۸ئ)

پروفیسر محمد وسیم ڈان میں اپنے مضمون میں لکھتے ہیں:

جے یو آئی (ف) کو مشرف کی بالواسطہ تائید کی وجہ سے عوامی راے دہندگان کی ناراضی کا سامنا کرنا پڑا۔ مولانا فضل الرحمن کے متنازع کردار اور صدارتی انتخاب سے پہلے ۶اکتوبر ۲۰۰۷ء کو سرحداسمبلی کی تحلیل کے مسئلے کی وجہ سے اسے ووٹوں اور عوام میں اپنے مقام کے حوالے سے مہنگی قیمت ادا کرنا پڑی۔ (ڈان، ۲۴ فروری ۲۰۰۸ئ)

یہ صرف چند تبصرہ نگاروں کی راے نہیں، عام تاثر اور ووٹروں کی بڑی تعداد کا یہی احساس تھا اور لفظی تاویلوں اورقانونی موشگافیوں سے اسے فرو نہیں کیا جاسکتا۔

ان حالات میں جے یو آئی (ف) کے ووٹوں اور سیٹوں کی کمی کو دینی جماعتوں سے نااُمیدی، اور ان کے صفایا کے دعوے کرنا، حقائق سے مطابقت نہیں رکھتا۔ ویسے بھی انتخابی سیاست میں مختلف انتخابات میں ووٹوں میں زیادتی اور کمی سے ہرجماعت کو گزرنا پڑتا ہے اور کسی ایک انتخاب کی بنیاد پر ایسا فتویٰ دینے کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ کیا یہ ایک حقیقت نہیں ہے کہ خود پی پی پی اور اس کے اتحادیوں کا ووٹ بنک ۱۹۷۰ء میں ۳۹ فی صد تھا جو ۱۹۹۷ء میں ۲۲ فی صد رہ گیا تھا۔ اسی طرح تمام مسلم لیگوں کا مجموعی ووٹ بنک ۱۹۷۰ء میں صرف ۲۳ فی صد تھا جو  ۱۹۹۷ء میں ۴۶ فی صد تک پہنچ گیا تھا۔ اے این پی ہر انتخاب میں ایسے ہی نشیب و فراز کا تجربہ کرتی رہی ہے۔دنیا کے دوسرے ممالک کے تجربات بھی اس سے مختلف نہیں۔ اس لیے کسی ایک انتخاب کی بنیاد پر اس طرح کے فتوے دینا علمی اعتبار سے بہت کمزور بات ہے۔

بات صرف جے یو آئی (ف) کے اس امیج اور اس کے نقصانات ہی کی نہیں۔ جہاں بھی ووٹرز نے عدلیہ کے معاملے میں اور پرویز مشرف کے لیے نرم گوشے کا احساس پایا ہے ضرور سزا  دی ہے۔ مشہور قانون دان بابر ستار دی نیوز میں اپنے ایک مضمون میں اس طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ وکلا کے بائیکاٹ کا احترام نہ کرنے والے وکلا کا کیا انجام ہوا،لکھتے ہیں کہ جب خود پی پی پی  کے ایم این اے زمردخاں نے جو چیف جسٹس کی تحریک میں پیش پیش تھے اور اعتزاز احسن کے ساتھ چیف جسٹس کی گاڑی کے ڈرائیور تک کی خدمت انجام دے رہے تھے وکلا کے فیصلے کے خلاف انتخاب میں شرکت کی تو وہ قومی اسمبلی پر اپنی سیٹ باقی نہ رکھ سکے (دی نیوز، ۲۳ فروری ۲۰۰۸ئ)۔ اس عوامی رو کو جو نہ سمجھ سکا اسے اس کی قیمت ادا کرنا پڑی۔

قیادت کا امتحان اورجھد مسلسل

آخر میں ہم یہ صاف لفظوں میں کہنا چاہتے ہیں کہ اس وقت ملک کی پوری سیاسی قیادت کا امتحان ہے اور اے پی ڈی ایم کی ذمہ داری ہے کہ جس طرح اس نے قربانی دے کر ملک کی سیاست کو صحیح ایشوز سے روشناس کرایا ہے، اسی طرح نئے حالات میں ان اہداف و مقاصد کو  حاصل کرنے کے لیے مناسب حکمت عملی اختیار کرے۔ اگر نومنتخب جماعتیں ان مقاصد کے لیے کام کرنے کی نیت اور جذبہ دکھاتی ہیں تو تمام دینی اور سیاسی قوتوں کو ان سے تعاون اور ان مقاصد کے حصول کو آسان بنانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرنا چاہیے۔ لیکن اگر مناسب موقع دینے کے بعد بھی یہ اس سلسلے میں پس و پیش دکھاتی ہیں تو پھر ان کی ذمہ داری ہے کہ پُرامن جمہوری   اور عوامی دبائو کے ذریعے انھیں عوام کے مینڈیٹ کا احترام کرنے پر مجبور کریں۔ ججوں، وکلا،   سول سوسائٹی اور سیاسی کارکن سب کا ہدف اور منزل ایک ہے اور وہ حقیقی جمہوریت کا قیام ہے جس کے مقاصد یہ ہونے چاہییں:

  • ۲ نومبر ۲۰۰۷ء کی عدلیہ کی بحالی
  • پی سی اور اور ایمرجنسی کے نام پر دستور کا جو تیاپانچا کیا گیا،اس کی بحالی
  • پارلیمنٹ کی بالادستی کا قیام
  • فوج کی مداخلت کے راستوں کی بندش
  •  بنیادی حقوق اور خصوصیت سے اظہار راے کی آزادی کا تحفظ
  •  معاشی پالیسیوں میں تبدیلی
  •   فوجی کارروائیوں کا خاتمہ اور مذاکرات کے ذریعے تشدد کا حل
  •  پارلیمنٹ میں مکمل بحث کی روشنی میں خارجہ پالیسی کی تشکیل جدید۔

۱۸ فروری کے انتخابات میں قوم نے ایک لڑائی میں فتح پائی ہے، مگر یہ جدوجہد ابھی جاری ہے اور اس وقت تک جاری رہے گی، جب تک جمہوریت کی مکمل بحالی اور دستور کے تمام تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے مؤثر پیش رفت نہیں ہوتی۔ ۱۸فروری کے نتائج نے ایک نئی صبح کے طلوع کے امکانات کو روشن کردیا ہے لیکن یہ صبح اسی وقت ہماری قومی زندگی کو روشن کرسکے گی جب اس کے استقبال کے لیے قوم اس طرح کوشش نہ کرے جس طرح ۹مارچ ۲۰۰۷ء سے رات کی تاریکی کو  ختم کرنے کے لیے کرر ہی ہے۔ ابھی منزل کی طرف صرف ایک قدم اٹھایا گیا ہے۔ منزل ابھی  دُور ہے اور مسلسل جدوجہد اور قربانیوں کی دعوت دے رہی ہے۔ فرد ہو یا قوم جدوجہد اور سعی مسلسل کے بغیر وہ اپنی منزلِ مقصود تک نہیں پہنچ سکتے۔

وَاَنْ لَّـیْسَ لِلْاِِنْسَانِ اِِلَّا مَـا سَعٰیo وَاَنَّ سَـعْیَہُ سَوْفَ یُـرٰیo          (النجم ۵۳: ۳۹-۴۰) اور یہ کہ انسان کے لیے کچھ نہیں ہے مگر وہ جس کی اُس نے سعی کی ہے، اور یہ کہ اُس کی سعی عنقریب دیکھی جائے گی۔

(دوسری اور آخری قسط)

مغربی جمھوریت اور اسلامی شوریٰ : ایک موازنہ

مندرجہ بالا بحث کی روشنی میں بہتر ہوگا کہ دونوںنظاموں کے درمیان بعض بنیادی اختلافات کا تعین کر لیا جائے اور ایسے مشترکہ امور کی بھی نشان دہی کر لی جائے جن میں ایک دوسرے کے تجربات سے سیکھنا فائدہ مند ہو سکتا ہے۔

اسلام کی حکمت عملی بے مثال ہے۔ اسلام انسان کو، اس کے روحانی اور اخلاقی وجود اورشخصیت کو مرکز بناتا ہے۔ ہر فرد کی، روحانی بالیدگی، اخلاقی ترقی اور سعادت کی زندگی ہی   اسلامی نظام کا اصل مقصد ہے۔ تبدیلی کا عمل کسی فرد کے اپنے آپ کو تبدیل کرنے کی داخلی سطح پر شروع ہوتا ہے۔ اس کا آغاز ایک فرد میں اخلاقی حس بیدار ہونے سے ہوتا ہے جو ایک باکردار اور منصفانہ معاشرے کے قیام میں اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ مسلم اُمّہ ایک عالم گیر برادری ہے۔ اسی وسیع تر اُمّہ میں چھوٹے گروپ، بستیاں اور ریاستیں بھی ہو سکتی ہیں۔ اس کے باوجود وہ سب ایک ہی تسبیح کے دانے ہیں۔ اسلام ایک ایسے مہذب معاشرے کی تعمیر کرتا ہے، جو صحت مند اور فعّال اداروں سے عبارت ہوتا ہے۔ ریاست انھی اداروں میں سے ایک ہے۔ یہ نہایت اہم اور کئی اعتبار سے دوسرے سب اداروں سے بلند تر ہے لیکن یہ واضح رہے کہ اسلام میں سب سے بالا ادارہ اُمت مسلمہ کا ہے، اورباقی سب ادارے ہر ہر مسلمان (فرد) کی تقویت کے ساتھ اُمت مسلمہ کے استحکام کے ستون ہیں۔

اسلامی معاشرے کے سماجی، سیاسی اور اقتصادی اصولوں میں مکمل ہم آہنگی ہوتی ہے اور یہ سب مل کر ایک ایسے معاشرے کی تخلیق کرتے ہیں جو نظریاتی سطح پر توحید و ایمان، اتباعِ سنت، فکری یگانگت اور عدل و احسان کے حسین امتزاج کا مظہر ہوتا ہے۔ یہ معاشرہ انسانی مساوات، اخوت، باہمی تعاون، سماجی ذمہ داری، انصاف اور سب کے لیے مساوی مواقع کی روایات کے خمیر سے تعمیر کیا جاتا ہے۔ یہ قانون کا پابند معاشرہ ہوتا ہے جس میں ہررکن کے حقوق اور فرائض کا احترام کیا جاتا ہے جن میں اقلیتوں کے حقوق بھی شامل ہوتے ہیں۔ ریاست کا مقصد معاشرے کے ہر رکن کی خدمت اور انسانوں کے درمیان عدل کا قیام ہے۔ اسلامی معاشرے میں آمریت اور استبدادی مطلق العنان حکومت کے لیے کوئی جگہ نہیں۔

اسلامی ریاست سیکولر جمہوریت سے بالکل مختلف ہوتی ہے، کیونکہ اسلامی ریاست عوام کے اقتدارِ اعلیٰ کا نظریہ تسلیم نہیں کرتی۔ مسلم ریاست میں اللہ تعالیٰ ہی قانون ساز ہے اور شریعت ہی ریاست کا قانون ہے۔ جو بھی نئے نئے مسائل درپیش ہوں، ان سے نمٹنے کے لیے شریعت کے دائرۂ کار کے اندر رہتے ہوئے حل دریافت کیے جاتے ہیں۔ یہ بات سیکولر جمہوریت اور مسلم ریاست کے درمیان سب سے بڑا اختلاف ہے۔

جہاں تک قانون کی حکمرانی کے اصول، بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ، عدلیہ کی آزادی، اقلیتوں کے حقوق، ریاست کی پالیسیوں اور حکمرانوں کے عوام کی خواہش کے مطابق انتخاب کا تعلق ہے، اسلام اپنے دائرۂ کار کے اندر رہتے ہوئے ان سب امور کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ ان میں سے بعض امور کے متعلق اسلام اور مغربی جمہوریت کے درمیان بعض مشترک بنیادیں موجود ہیں اور ان تمام میدانوں میں مسلمان اپنے معاصر مغربی ممالک کے تجربات سے استفادہ کر سکتے ہیں اور دوسرے لوگ بھی مسلمانوں کے تجربات سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ لیکن دونوںنظاموں کے قوانین کے منابع اور فطرت میں چونکہ بنیادی اختلاف ہے، لہٰذا ان اساسی امور میں دونوں نظام ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں اور اپنا جداگانہ تشخص اور مزاج رکھتے ہیں۔

اسلامی ریاست میں شریعت کو بالادستی حاصل ہے۔ اس کے باوجود یہ کوئی مذہبی حکومت نہیں ہوتی، جیسی کہ تاریخ میں مذکور فرعونوں، بابلیوں، یہودیوں، مسیحیوں، ہندوئوں یا بودھوں کی حکومتیں گزرچکی ہیں۔

ان مذہبی حکومتوں اور اسلامی حکومت میں بنیادی فرق ہے۔ یہ مذہبی حکومتیں اگرچہ  ’خدائی حکومت‘ کی دعوے دار تھیں، لیکن وہ ’خدائی حکومت‘ ایک مخصوص مذہبی طبقے کی حکومت ہوتی تھی،جس کے حکمران کا ہر لفظ قانون تھا، جسے نہ تو کوئی چیلنج کر سکتا تھا اور نہ اس کے خلاف آواز بلند کر سکتا تھا۔ مگر اسلام میں ایسا کوئی حاکم مذہبی طبقہ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی اقتدار اعلیٰ کا مالک ہے۔ اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے اور جواس کی مرضی ہے، وہ قرآن و سنت کی صورت میں موجود ہے۔ شریعت کا سبھی کو علم ہے۔ یہ کوئی ایسا خدائی راز نہیں ہے جس کاعلم صرف پادریوں کی طرح صرف مفتی یا  مذہبی رہنما کو ہو۔ اسلام میں ایساہرگز کوئی امکان نہیں کہ لوگوں کا کوئی گروہ دوسروں پر اپنی ذاتی مرضی ٹھونس سکے یا اللہ کے نام پر دوسروں پر اپنی ترجیحات کو نافذ کر سکے۔ اسلامی نظام میں قوانین کھلے بحث و مباحثے کے بعد ہی تشکیل دیے جاتے اور نافذ کیے جاتے ہیں۔ سب لوگ اس عمل میں شریک ہوتے ہیں۔

  • بنیادی فرق: ان دونوں نظاموں کے درمیان اختلافات مختصراً یہ ہیں:

ا - شریعت جو اللہ تعالیٰ کی مرضی اوررضا کی حامل اور اس کا مظہر ہے، بالکل اصل صورت میں محفوظ اور موجود ہے۔ اس میں کسی نوع کی کوئی آمیزش نہیں ہوئی اور نہ بدلے ہوئے حالات میں کسی تبدیلی یا کسی کی مداخلت سے اس میں کوئی تبدیلی ممکن ہے۔

ب- اسلام میں مذہبی متوسلین کا کوئی طبقہ نہیں اور محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہ اللہ تعالیٰ کا کوئی ترجمان ہے۔ اللہ کی رہنمائی مکمل ہو چکی، اب یہ اُمّہ کا کام ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رہنمائی کو سمجھے، اس کا ادراک کرے اور انسانی معاشرے کے بدلتے ہوئے حالات کے مطابق اس پر عمل پیرا ہو۔

ج- فرد معاشرے کا بنیادی عنصر ہے۔ اسلام، فرد کی آزادی، قانون کی حکمرانی ،  مخالفانہ آرا اور مخالفوں کی توقیر کی ضمانت خود دیتا ہے۔ اہل دانش اور عوام آزادی کے ساتھ اپنے مسائل پر بحث مباحثہ کر سکتے ہیں اور باہم مشاورت کے ذریعے ان کا حل نکال سکتے ہیں۔ پوری اسلامی فقہ ایک ایسے عمل کے ذریعے فروغ پذیر ہوئی ہے، جس کے دوران اُمّہ اور اس کے نمایندوں نے عام بحث مباحثے میں حصہ لیا۔ اسلامی ریاست اور معاشرے کا انسانوں کی طبیعی اور دنیاوی مشکلات و مسائل سے گہرا تعلق ہوتا ہے اور وہ انصاف اور سماجی بہبود کے اصولوں کے مطابق ان مشکلات و مسائل کا حل تلاش کرتے ہیں۔

بلاشبہہ جسے زندگی کا سیکولر (دنیاوی) حصہ کہا جاتا ہے اس سے اسلام اور مسلمانوں کا تعلق ہے لیکن اسلامی اور سیکولر رویوں میں ایک بنیادی فرق ہے۔ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ دنیا کی ساری زمین میرے لیے مسجد کی مانند ہے، چنانچہ دنیا کے تمام حصوں اور علاقوں سے اسلام کا گہرا تعلق ہے۔ اسلام نہ شرقی ہے اور نہ غربی، بلکہ صحیح معنوں میں ایک عالم گیر اور آفاقی نظام ہے۔ اسلامی نظام، انسانی زندگی کے تمام روحانی اور دنیاوی معاملات پر محیط ہے۔ اس حد تک اسلام کاسیکولرزم سے کوئی تنازع نہیں ہے۔ مغرب میں سیکولرزم کے غلبے کی وجہ مذہب کا سیکولر معاملات سے لاتعلق ہوجانا اور دنیاوی زندگی کو شیطانی قوتوں کے حوالے کر دینا تھا۔ یہ پوری تحریک دراصل ان مذہبی روایات کا رَدّعمل تھی جن کی رو سے سیکولر دنیا کو نظرانداز کیا گیا اور اپنے دائرۂ عمل کو صرف روحانی دنیا تک ہی محدود رکھا گیا تھا۔

اسی طرح سیکولرزم کی تحریک کو تقویت دینے والا ایک دوسرا سبب مذہبی عدم رواداری تھی جس میں جبر کے ذریعے ایک مذہب بلکہ ایک فرقے کے نظریات کو دوسرے تمام فرقوں پر مسلط کیا جاتا تھا اور ایک سے زیادہ نقطہ ہاے نظر کو کفر اور بغاوت قرار دیا جاتا تھا۔ اس کے برعکس اسلام تکثیر (pluralism) اور رواداری کے اصول کو تسلیم کرتا ہے۔ تمام انسانوں کو پیشے اور مذہب کے معاملے میں انتخاب کا حق دیتا ہے اور ثقافتی کثرت اورکسی بھی سماج کے اندازِ حیات کو تسلیم کرتا ہے۔ یہ سب کچھ اسلام کی منشا کے مطابق ہے۔ قرآن حکیم کا ارشاد ہے: ’’دین میں کوئی جبر نہیں‘‘۔

سیکولرزم سے اسلام کا بنیادی اور جوہری اختلاف اس کے اس دعوے کے باعث ہے کہ سیکولرزم، مذہب سے کسی نوع کے تعلق، اللہ تعالیٰ کی طرف سے رہنمائی اور مطلق اخلاقی اقدار کے بغیر تمام انسانی مسائل کا حل پیش کرتا ہے۔ یہ بات زندگی کے بارے میں اسلامی رویے کے بالکل برعکس ہے۔ انھی وجوہ کی بنا پر اسلام اور سیکولرزم، دو بالکل مختلف دنیائوں کی نمایندگی کرتے ہیں۔

اگرچہ اب کمیونزم اور فاشزم کوئی غالب سیاسی نظریات نہیں رہے، لیکن ایسے لوگ آج بھی موجود ہیں جو ان دونوں نظریات کے مختلف پہلوئوں سے اتفاق رکھتے ہیں۔ یہ دونوں نظریات مغربی تہذیب و تمدن کے تناظر میں بعض تاریخی اور سماجی و سیاسی حالات کی پیداوار ہیں۔ ان کی تہ میں ریاست کی مطلق العنانیت کا تصور کارفرما رہا ہے۔ مگر یہ دونوں نظریات بھی مختلف النوع آمریت ہی کے نمایندے تھے اور ان کے تحت بھی مطلق العنان حکومت ہی قائم ہوتی رہی۔ اگرچہ ان دونوں نظاموں میں انتخابات اور پارلیمنٹ کے قیام کاڈھونگ بھی رچایا جاتا رہا۔

اسلام میں یک طرفہ یا مطلق العنان اقتدار کا کوئی تصور نہیں۔ اسلام میں ریاست تو اُمت ہی کا ایک ادارہ اور شعبہ ہوتا ہے۔ وہ فرد کی مرکزیت، اس کے حقوق اور سیاسی فیصلوں میں فرد کے کردار کی توثیق کرتا ہے۔ اسلامی ریاست، قانون کی تخلیق ہوتی ہے۔حکمران، ریاست کے دوسرے شہریوں کی طرح ہی قانون کے سامنے جواب دہ ہوتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی ریاست اپنے عمّال اور کارپردازوں کو وہ خصوصی مراعات اور تحفظات بھی فراہم نہیں کرتی جو کئی مغربی ملکوں کے عمّال کو عام طور پر حاصل ہوتی ہیں۔

اسلام میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہو سکتی کیونکہ وہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تفویض کردہ مقدس امانت ہیں۔ فرد کو معاشرے کی بنیادی اکائی اور ایک پاک باز مخلوق تصور کیا جاتا ہے، جو اپنے اعمال کے لیے آخرکار اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہے۔ ہر انسان ایک قابل احترام وجود ہے اور اخلاقی طور پر اپنے تمام اعمال اور پسند و ناپسند کے لیے دنیا اور آخرت میں بھی   جواب دہ ہے۔ فرد کو معاشرے میں عقل و دانش اور سماجی ذمہ داری کے احساس کے ساتھ اپنا رویہ متعین کرنا ہوتا ہے، لیکن وہ ریاست کی مشین کا کوئی بے جان پرزہ نہیں ہوتا۔ اس اعتبار سے اسلام کے سیاسی نظم اور ہمارے دور کے مطلق العنان اور آمرانہ نظاموں کے درمیان بے حد فرق ہے۔

اسی تقابلی تجزیے سے ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ اسلام کا سیاسی نظام ، دوسرے سیاسی نظریات کی بعض باتوں میں مماثلت اور مشابہت کے باوجود، بے مثال ہے۔ اسلام، اساسی اعتبار سے ایک مکمل نظام ہے۔ اس کا مقصد ایک ایسے معاشرے کا قیام ہے جس میں رہتے ہوئے ایک اچھے اور نیک انسان کو یہ محسوس نہ ہو کہ وہ تو کسی اجڈ معاشرے میں پھنس گیا ہے یا جانوروں کے کسی باڑے میں دھکیل کر بند کر دیا گیا ہے۔ اسلام تمام انسانوں کی ذہنی اور مادی نشوونما، ساتھ ساتھ، چاہتا ہے تاکہ انسان امن اور انصاف کے ساتھ زندگی گزارسکیں۔ زندگی کی اعلیٰ اقدار و نظریات کی پرورش کر سکیں، جن کے نتیجے میں وہ اس دنیا اور پھر آخرت میں اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی اور الوہی سعادت کے حق دار ٹھیرسکیں۔ اسلامی ریاست ایک نظریاتی، تعلیمی اور مشاورتی بنیادوں پر مبنی ریاست ہوتی ہے جو ایک ایسا سماجی و سیاسی ڈھانچا فراہم کرتی ہے جس میں حقیقی جمہوریت پھل پھول سکتی ہے۔ اس میں ایک طرف مستقل اقدار کا دائمی فریم ورک ہے جس میں پوری سیاسی اور اجتماعی زندگی مرتب ہوئی ہے تو دوسری طرف اجتہاد کے ذریعے وقت کی بدلتی ہوئی ضروریات کو پورا کرنے کابھرپور سامان ہے۔

مجھے یہ دعویٰ ہرگز نہیں کہ مسلمان اپنی تاریخ میں اس نظریے پر مکمل طور پر عمل کرسکے ہیں۔ بلاشبہہ خلافت راشدہ اس کا عملی نمونہ اور ایک مکمل مثالیے (paradigm )کا مظہر تھا مگر بعد کے ادوار میں اصل ماڈل سے انحراف اور انحراف کے بعد اصل کی طرف مراجعت کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری رہا ہے۔ البتہ اصل ماڈل ہی تمنائوں کا محورو مرکز رہا ہے اور آج بھی اسی آورش کی روشنی میں تعمیرنو کی جدوجہد مطلوب ہے۔

احیاے اسلام اور جمھوریت

تاریخ میں پہلی بار معاصر مسلم دنیا کو ایک منفرد چیلنج کا سامنا ہے۔ مسلمانوں کو اقتدار اور بالادستی حاصل نہیں رہی اور پوری مسلم دنیا نوآبادیاتی حکمرانوں کے پائوں تلے دبی ہوئی ہے۔ نوآبادیاتی اور سامراجی غلبے کی اس طویل، اندھیری رات کے دوران، جو تقریباًدو صدیوں پر محیط ہے، مسلمانوں کو ذہنی، اخلاقی، معاشی اور ثقافتی طور پر بھی سخت نقصان سے دوچار ہونا پڑا۔ اس طویل ابتلا کا بدترین نقصان یہ ہوا کہ وہ اسلامی ادارے بتدریج ٹوٹ پھوٹ اور انحطاط کا شکار ہوگئے، جن کے باعث مسلم دنیا تقریباً ۱۲ صدیوں تک اپنے پائوں پر کھڑی رہی اور اندرونی و بیرونی چیلنجوں کاکامیابی سے مقابلہ کرتی رہی۔ سامراجی حکومتوں کے ادوار ہی میں مغرب سے درآمدشدہ کئی ادارے اسلامی مملکتوں میں رائج کیے گئے۔ اسے دوسروں کو نام نہاد تہذیب سکھانے کے مشن کاحصہ  (white man's burden) قرار دیا گیا لیکن درحقیقت یہ سامراج کا بدترین استحصالی عمل تھا۔ چنانچہ اس استحصال کی وجہ سے قانون، عدلیہ، معیشت، تعلیم، انتظامیہ، زبان و ادب، فنون لطیفہ، فن تعمیر، غرض معاشرے کے تمام عناصر کو زبردستی مغربیت کے رنگ میں رنگنے کی کوشش کی گئی۔

نوآبادیاتی ، سامراجی نظام کے دوران مسلم معاشرے کے اندر سے ایک نئی قیادت پیدا کی گئی، جسے مورخ آرنلڈ ٹائن بی نے ’بابو کلاس‘کا نام دیا ہے۔ یہ لوگوں کا ایک ایسا طبقہ تھا جس کی جڑیں اپنے مذہب، ثقافت اور تاریخ میں نہیں تھیں اور جس نے نوآبادیاتی حکمرانوں کے سایے میں اپنا نیا تشخص بنانے کی کوشش کی۔ اس طبقے نے نہ صرف حکمرانوں کی اقدار اور اخلاقی طرزِ عمل اپنانے کی سعی کی، بلکہ مقامی اور بیرونی مفاد پرستوں سے مل کر حکمرانوں کے مفادات کا تحفظ بھی کیا۔ غیر ملکی غلامی سے نجات کے لیے عوامی تحریک بنیادی طور پر، آزادی کے تصور اور ایمان کی قوت سے عبارت تھی۔ مسلم دنیا میں نیشنلزم کی قوتوں نے بھی اسلامی تشخص قائم کر لیا تھا لیکن    اس ’بابو طبقے‘ اور اس کے زیراثر حلقوں نے مغربی اقدار ہی کو حرزِ جاں بنائے رکھا اور شعوری یا   غیرشعوری طور پر سامراجی قوتوں کے ایجنٹوں کا کردار ادا کیا۔(۲۱) آزادی کے بعد، ان ملکوں میں اقتدار بڑی حد تک اسی مغرب زدہ قیادت کے ہاتھ میں آیا یا لایا گیا جن کی سیاسی تربیت بھی سامراجی دور میں ہوئی تھی۔ اس قیادت کا تعلق مغرب کی ثقافت اور ان کے سیاسی عزائم ہی سے برقرار رہا۔ یہ ایک المناک حقیقت ہے کہ عالم اسلام میں صرف سرحدوں کا تعین ہی غیر ملکی سامراجی آقائوں نے نہیں کیا تھا،بلکہ نئے ادارے اور نئی قیادت بھی سامراجی دور ہی کی پیداوار تھی۔ عالم اسلام میں اس وقت جو بحران اور بے اطمینانی محسوس کی جا رہی ہے، اس کی بنیادی وجہ یہی صورت احوال ہے۔

احیاے اسلام اور سیاسی عمل میں عوامی شرکت اور ان کے ذریعے تبدیلی کا عمل جو جمہوریت کی روح ہے ایک ہی صورت حال کے دو پہلو ہیں۔ اقتدار میں موثر عوامی شرکت اور اسلامی تصورات کے مطابق معاشرہ، نیز مسلم سیاست کی تشکیلِ نو بھی اسی عمل کا حصہ ہیں۔ یہ کام صرف اس صورت میں ممکن ہے کہ عوام اور حکمرانوں کے درمیان باہمی اعتماد، ہم آہنگی اور تعاون موجود ہو۔ لیکن   جن حکمرانوں نے سامراجی آقائوں ہی سے اقتدار کی وراثت پائی ہے ان کی نظریاتی،اخلاقی اور سیاسی سوچ عوام سے مختلف ہے۔ حکمران معاشرے اور اس کے اداروں کو مغربی اقدار و نظریات اور مغرب کے نظریاتی نمونوں، سیکولرزم ، قوم پرستی، سرمایہ داری اور نوآبادیاتی نظم کے مطابق ڈھالنا چاہتے ہیں۔ وہ اپنے ’زیرتسلط‘ ملکوں میں ایسے قوانین، ادارے اور پالیسیاں روبہ عمل لانا چاہتے ہیں جو مغربی نمونوں سے اخذ کی گئی ہیں مگر عوام یہ سب کچھ اپنے ایمان (عقائد)، اقدار اور امنگوں کے منافی سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بظاہر حصولِ آزادی کے باوجود حکومتی نظام بعض استثنائوں کے ساتھ جابرانہ اور مطلق العنانیت پر مبنی رہا۔

تاریخ کا سبق تو بڑا ہی واضح ہے اور وہ یہ کہ: مسلمان ممالک کو سیکولر مملکت بنانا اور مغربی رنگ میں رنگنا، یک طرفہ اور جابرانہ قوت کے بغیر ممکن نہیں۔ اقتدار میں عوام کی شرکت حقیقی جمہوری نظام اور اسلام میں کوئی عدم مطابقت نہیں بلکہ عوام کی آزادی، بنیادی حقوق، اقتدار میں عوام کی شرکت پر مبنی جمہوریت اور اسلامی نظام فطری حلیف ہیں۔ اصل تصادم تو عوام کی اسلامی امنگوں اور حکمران طبقے کے سیکولر مغربی نظریات اور پالیسیوں کے درمیان ہے۔ چنانچہ مسلمانوں پر جابرانہ اور استبدادی قوت کے بغیر غیر اسلامی نظریات و تصورات اور قوانین مسلط نہیں کیے جا سکتے۔ اصل تضاد ان دونوں (اسلامی اور مغربی) تصورات میں ہے اور حقیقی جمہوریت مغربی سیکولر بلڈوزر کا پہلا شکار ہے۔ امریکا کے ایک ماہر عمرانیات فلمر ایس سی نارتھ روپ (F.C. Northrop) نے گہرے شعور کے ساتھ کہا ہے: ’’مجھے یقین ہے کہ یہی وجہ ہے جو اس قسم کے (مثلاً سیکولر) قوانین عام طور پر پہلے آمر حکمران ہی نافذ کرتا ہے۔ ایسے قوانین کسی عوامی تحریک کا نتیجہ تو ہو نہیں سکتے کیونکہ عوام تو پرانی روایات کے حامل ہوتے ہیں‘‘۔(۲۲)

پروفیسر ویلفرڈ کینٹ ول اسمتھ نے پاکستان کی صورت حال کے حوالے سے نہایت دل چسپ بات کہی ہے: ’’کوئی مملکت جب صحیح معنوں میں جمہوری مملکت بن جاتی ہے تو وہ اپنی فطرت کا اظہار کرتی ہے، چنانچہ ایک مشرقی ملک کی حیثیت میں وہ جتنی جمہوری ہو گی، اتنی ہی مغربی رنگ سے دُور ہوتی چلی جائے گی… یہاں تک کہ اگر پاکستان ایک حقیقی جمہوری ملک بن جائے توجس حد تک وہ جمہوری ہو گا اسی حد تک اسلامی بھی ہوگا‘‘۔(۲۳)

کینٹ ول اسمتھ نے تو بڑے صاف الفاظ میں کہا ہے کہ اسلام کے بغیر جمہوریت محض ایک بے معنی نعرہ ہے جو کسی طور بھی قابلِ قبول نہیں ہوسکتا۔ یوں جمہوریت اپنے اسلامی ہونے کے حوالے سے ان (مسلم اُمّہ) کی اسلامی ریاست کی تعریف کا حصہ بن جاتی ہے۔(۲۴)

ایسپوزیٹو اوروال بھی اسی نتیجے پر پہنچے ہیں کہ موجودہ دور کی مسلم ریاستوں میں دونوں رجحانات، یعنی احیاے اسلام اور جمہوریت ساتھ ساتھ چل رہے ہیں اور یہ ان ریاستوں کے کردار کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔ وہ معاصر مسلمانوں کے ذہن کا مطالعہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

بہت سے مسلم (اسکالر) اسلامی جمہوریت کی وضاحت میں سرگرمی سے مصروف ہیں۔ ان کو یقین ہے کہ عالمی سطح پر مسلم ریاستوں میں مذہبی احیا اور جمہوری عمل ایک دوسرے کی تکمیل کر رہے ہیں۔(۲۵)

حال ہی میں دواسکالروں ڈیل ایکل مین اور جیمز پسکا ٹوری نے ’مسلم سیاست‘ کے حوالے سے ایک مطالعاتی رپورٹ میں تجویز کیا ہے کہ مسلمانوں میں اس وقت جمہوریت کے بارے میں جو خیالات پائے جاتے ہیںاور جو ان کی اپنی اقدار اور امنگوں کے مطابق ہیں، ان پر نئے زاویوں سے غور کیا جانا چاہیے۔ اس کے ساتھ ہی مسلمانوں میں، اسلامی ریاستوں پر مغربی طرز کی جمہوریت کا پیوند لگانے کے خلاف جو نفرت پائی جاتی ہے ، اسے بھی پیش نظر رکھا جانا ضروری ہے۔ ان دونوں اسکالروں نے اپنی بات اس طرح ختم کی ہے:

مسلم سیاست کا ازسرنو جائزہ لینے کے لیے ان چیلنجوں کو پیشِ نظر رکھنے کی ضرورت ہے، جو مستقبل قریب میں پالیسی سازوں کو درپیش ہو سکتی ہیں۔ اس ضمن میں ضروری ہے کہ صرف مغرب زدہ اشرافیہ کی بات نہ سنی جائے بلکہ بہت سی دیگر مسلم آوازوں پر بھی توجہ دی جائے۔ اس جانب پہلا قدم، یہ معلوم کرنا ہے کہ مسلمانوں میں سندجواز اور عدل کے تہذیبی تصورات کیا ہیں؟ یہ بھی تسلیم کرنا چاہیے کہ مذہبی یا غیر مذہبی منصفانہ حکومت کا تصوربھی متعین نہیں  ہے۔ مسلمانوں کے ان تصورات کی تفہیم بعض لوگوں کے اس ناروا تاَثر کو دُور کرنے میں ممد ثابت ہو گی کہ دوسری اقوام کے ساتھ مسلمانوں کے تعلقات اکثر معاندانہ ہوتے ہیں اور مسلمانوں کا طرزِ حکومت لازماً جابرانہ اور آمرانہ ہوتا ہے۔(۲۶)

اسلام اور مسلم اُمہ نے آمرانہ اور جابرانہ حکومت کو کبھی بھی پسند نہیں کیا۔ مسلمانوں میں جہاں کہیں بھی آمرانہ حکومتیں ہیں، وہ نوآبادیاتی سامراج اور مغرب زدگی کا نتیجہ ہیں۔ ان کا مسلمانوں کے تصورات، تاریخ یا اُن کی امنگوں اور آرزوئوں سے کوئی تعلق نہیں۔ مسلمان، مغرب کی سیکولر جمہوریت کو اپنے اصولوں، اقدار اور روایات سے بیگانہ تصور کرتے ہیں۔ لیکن جمہوریت کی ان شان دار روایات سے ہم آہنگی محسوس کرتے ہیں جس کا تعلق اقتدار میں عوام کی شرکت جس کے نتیجے میں انصاف کی حکمرانی، ہر سطح پر مشاورت کا عمل، فرد کے حقوق اور حق اختلاف کی ضمانت سے ہے ۔ وہ اس کو اشد ضروری سمجھتے ہیں کہ عدلیہ کی آزادی اور سیاسی ثقافت میں تکثیر کا تسلسل یقینی ہو، ان کے بارے میں ان کے اپنے تصورات اور تاریخی روایت ہے۔ چنانچہ اسلام اور جمہوریت کی اس حقیقی روح میں کوئی تصادم یا تضاد نہیں۔ بعض مسلم ممالک میں جو آمرانہ اور جابرانہ حکومتیں نظر آ رہی ہیں،وہ ان غیر ملکی اور اوپر سے بذریعہ طاقت ٹھونسی گئی روایات کا حصہ ہیں، جن کے خلاف جدوجہد میں احیاے اسلام کی قوتیں مصروف ہیں۔ اسلام اور حقیقی جمہوریت ایک ہی سکّے کے دو رخ ہیں۔ چنانچہ استبدادانہ اور جابرانہ حکومتیں خواہ شہری ہوں یا فوجی آمریت، نام نہاد جمہوری ہو یا موروثی، یہی جمہوریت کی نفی اور بنیادی انسانی حقوق غصب کرنے کی ذمہ دار ہیں۔ ایسی حکومتیں مغربیت اور لادینیت کا ثمرہ ہیں، اسلام کا نہیں۔ اسی طرح عوامی جمہوریت سے انکار اور اسے دبا کر رکھنے کا عمل اسلام کا نہیں، لادینیت اور مغرب زدگی کا ایجنڈا ہے۔ اسلامی احکام اور مسلم عوام کی مرضی، خواہشات اور امنگیں تو ایک ہی ہیں۔ جمہوری عمل یقینا نفاذ اسلام میںناگزیر پیش رفت ہے۔ اسلامی امنگوں کی تکمیل جمہوری عمل کے آگے بڑھنے ہی سے ممکن ہے۔ نوآبادیاتی دور کے بعد کے عالم اسلام کی حالیہ تاریخ میں آمرانہ نظام، سیکولرزم یاسوشلزم ایک ساتھ آگے بڑھے ہیں، جب کہ احیاے اسلام، آزادیِ جمہور اور اقتدار میں عوام کی شرکت ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔

نوآبادیاتی طاقتوں کے تسلط سے آزادی کے لیے مسلم اُمہ آج بھی اپنے جمہوری حقوق، اپنے اندازِ سیاست، ، اپنے تصورات، امنگوں اور نظریات کی روشنی میں اپنے عوام کی اقتصادی حالت بہتر بنانے اور اسلامی معاشرے کے قیام کے لیے کوشاں ہے۔ مسلم اُمہ ایسے احکام، نظریاتی جبر اور ایسے جمہوری نمونوں کے تحت زندگی گزارنے سے انکاری ہے جو اس کے دین سے متصادم ہوں، اس کی اقدار کے منافی ہوں۔ اس کی تاریخ سے لگّا نہ کھاتے ہوں، اور اس کی روایات کے علی الرغم ہوں۔ اگر جمہوریت کا مطلب کسی قوم کا حق خود ارادیت اور اپنے بَل پر تکمیلِ خودی ہے، تو یہی وہ مقصد ہے جس کے لیے اسلام اور مسلمان روزِ اوّل سے جدوجہد کرتے رہے ہیں۔ وہ نہ تو اس سے زیادہ کچھ چاہتے ہیں اور نہ اس سے کم پر راضی ہوںگے۔


حواشی

۲۱- ایچ اے آر گب، Modern Trends in Islam میں لکھتے ہیں کہ ’’نیشنلزم … اپنی مغربی توضیح میں صرف ان دانش وروں تک محدود ہے جن کا مغربی افکار سے براہِ راست یا گہرا ربط ہے۔ مگر قوم پرستی کے اس نظریے کی جب عام ذہن تک رسائی ہوئی تو اس کی ہیئت میں تبدیلی واقع ہوئی اور اس تبدیلی سے قدیم جبلی محرکات اور مسلم عوام کی قوت محرکہ کے دبائو کی وجہ سے بچنا ممکن بھی نہ تھا‘‘ ( Modern Trends in Islam شکاگو، شکاگو یونی ورسٹی پریس، ۱۹۴۷ئ، ص ۱۱۹)۔ ولفرڈ سی اسمتھ Islam in Modern History میں لکھتے ہیں: ’’مسلمانوں میں کبھی قومیت کی سوچ نے ارتقا نہیں پایا جس کا مفہوم وفاداری یا کسی ایسی قوم کے لیے تشویش کا پایا جانا ہو، جو اسلام کی حدود کو پامال کر رہی ہو… ماضی میں صرف اسلام ہی نے لوگوں کے اندر اس قسم کا نظم و ضبط، تحریک اور قوت پیدا کی ہے‘‘۔ (Princeton N.J ۱۹۵۷ئ، ص ۷۷)۔

۲۲-  فلمر ایس- سی نورتھروپ، Colloquium on Islamic Culture (پرنسٹن، ۱۹۵۳ئ) ، یونی ورسٹی پریس، ص ۱۰۹۔

۲۳- ولفرڈ- سی اسمتھ، Pakistan as an Islamic State (لاہور، ۱۹۵۴ئ) ، ص ۵۰۔

۲۴- ایضاً، ص ۴۵۔

۲۵- جان ایسپوزیٹو ، جان وول، op.cit ص ۲۱۔

بش اور مشرف کا بس چلے تو اقبال کو بھی دہشت گرد قرار دے کر اس کے سارے سرمایۂ فکرونظر کو اپنی جنگی کارگزاریوں کا ہدف بنا ڈالیں کہ شاعر مشرق نے یہ کیوں کہا کہ   ؎

جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی

اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو

مشرف کی آٹھ سالہ معاشی ترقی کی ترک تازیوں کا حاصل یہ ہے کہ آج پاکستانی عوام خصوصیت سے غریب اور متوسط طبقے کی ۷۰، ۸۰ فی صد آبادی آٹے کے بحران میں گرفتار اور دو وقت کی روٹی کو ترس رہی ہے۔ پورے ملک کی شہری آبادی اور صوبہ سرحد کے تمام ہی باسی آٹے کی کمیابی اور قیمت کی گرانی دو طرفہ شکنجے کی گرفت میں ہیں۔ آٹا جو پچھلے سال تک ۱۵روپے کلو تھا، آج ۳۰ روپے کلو ہے اور پھر بھی نایاب۔ یوٹیلٹی اسٹوروں کی بڑی دھوم ہے لیکن وہ آبادی کے ۵ فی صد سے زیادہ کی ضرورت پوری نہیں کرسکتے اور اس میں امیرغریب کی کوئی تفریق نہیں بلکہ زیادہ تر یوٹیلٹی اسٹور غریبوں کی بستیوں اور شہروں کی کچی آبادیوں میں نہیں، متمول طبقات کے رہایشی علاقوں میں قائم ہیں۔ عوام اب احتجاج کرنے پر مجبور ہیں اور حکومت اپنی مسلسل ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کی ناکام کوششوں کے بعد، اب اپنے نیم حکیموں کے پیش کردہ ایک نادر نسخے کا سہارا لے رہی ہے، یعنی ____ راشن کارڈ کا اجرا اور ان کے ذریعے یوٹیلٹی اسٹوروں سے غریب اور متوسط طبقات کو اشیاے ضرورت خصوصیت سے آٹے اور دالوں کی مناسب قیمت پر فراہمی۔ بظاہر یہ ایک     دامِ تزویر (gimmick) سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ اس کے باوجود چند ضروری پہلوؤں پر غوروفکر کی ضرورت ہے۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ آٹے کی یہ قلت کیوں رونما ہوئی اور اس کی اصل ذمہ داری کس پر ہے؟ بظاہر گندم کی پیداوار بہت اچھی تھی۔ حکومت کا دعویٰ تھا کہ اس سال ۳ئ۲۳ ملین ٹن پیداوار ہوئی ہے، جب کہ ملک میں کُل ضرورت ۲۱ ملین ٹن کی ہے جس کے معنی ہیں کہ دو سوا دو ملین ٹن پیداوار فاضل ہوگی۔ اس توقع پر فصل کے منڈی میں آنے سے پہلے ہی ۵لاکھ ٹن گندم سرکاری گوداموں سے بیرون ملک برآمد کرنے کا اقدام کر ڈالا گیا اور وہ بھی اس عجلت سے کہ گندم کی عالمی منڈیوں میں بڑھتی ہوئی قیمتوں کو نظرانداز کر کے ۲۰۰ اور ۲۵۰ ڈالر ٹن کے حساب سے بیچ دیا گیا، جب کہ اب عالمی منڈیوں میں گندم کی قیمت ۴۰۰ اور ۴۵۰ ڈالر فی ٹن ہے اور اسی نرخ سے اس وقت ملک میں درآمد کیا جا رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس اسیکنڈل کی ذمہ داری کس پر ہے؟ اور کس کس نے پہلے سستی برآمد اور پھر مہنگی درآمد سے فائدہ اٹھایا ہے؟ پالیسی بنانے والوں اور عملاً فائدہ اٹھانے والوں دونوں پر گرفت ضروری ہے۔ ورنہ یہ کھیل جس طرح ماضی میں کھیلا جاتا رہا ہے اسی طرح آیندہ بھی جاری رہے گا۔

اُوپر کے حلقوں میں کرپشن کو ختم کرنے کے دعوے داروں کا اپنا کردار کیا ہے، اب یہ مخفی نہیں اور نہ صرف یہ کہ اسے مخفی نہیں رہنا چاہیے بلکہ تمام ذمہ داروں کو قرار واقعی سزا ملنی چاہیے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ اس حکومت کے دو ستون ایک سابق مرکزی وزیر اور پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ ایک دوسرے پر کھلے عام الزام لگا رہے ہیں، جب کہ حقیقت غالباً یہ ہے کہ دونوں ہی ذمہ دار ہیں اورکچھ دوسرے ارباب اقتدار بھی۔

دوسرا بنیادی سوال ملک میں زرعی پالیسی سازی، اس کے صحیح وقت، اس کے مناسب انتظامات کے پورے نظام کے جائزے کا ہے کہ ملک بار بار مختلف اشیاے ضرورت کے باب میں بحران در بحران سے دوچار ہو رہا ہے اور پورے تسلسل سے انھی غلطیوں کا بار بار ارتکاب کیا جا رہا ہے۔ شکر کے سلسلے میں پچھلے سال یہی ڈراما ہوا، اس سال گندم نے ناطقہ بند کردیا۔ روئی کے بارے میں بھی اطلاعات بہت مختلف نہیں۔ خوردنی تیل کی کہانی بھی اس سے بہت قریب قریب ہے۔ قوم ہے کہ ایک ہی سوراخ سے بار بار ڈسی جارہی ہے اور اقتدار میں مست حکمران ہیں کہ بانسری بجائے جارہے ہیں!

گندم کی پالیسی سازی میں جن عوامل پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے ان میں ایک اہم چیز اعداد و شمار کی صحت اور معلومات کا صحیح طریقے سے جمع کرنا اور بروقت پالیسی ساز اداروں تک پہنچنا ہے۔ یہ پہلو بے حد کمزور ہے۔

دوسری چیز ضرورت کا صحیح صحیح تعین ہے۔ ضرورت کے تعین کے لیے ایک تخمینہ (rule  of thumb )یہ ہے کہ ہر آبادی کے ہر فرد کی سالانہ ضرورت ۱۲۵ کلوگرام کی بنیاد پر مقرر کر لی جائے۔ مگر اس میں آبادی کے صحیح اعداد وشمار کے ساتھ ہربات ملحوظ نہیں رکھی جاتی کہ آمدنی کے اضافے سے بھی استعمال میں اضافہ ہوتا ہے۔ نیز بات صرف آبادی کی نہیں بلکہ ملک میں گلہ بانی (livestock) اور پولٹری کی ترقی کے نتیجے میں بھی چارے کی ضروریات کے لیے مانگ بڑھتی ہے۔ اس کے ساتھ علاقائی حالات اور اسمگلنگ کے حقائق کو بھی نظرانداز نہیں کیاجاسکتا، خصوصیت سے جب کہ افغانستان اور وسطی ایشیا میں گندم کی مانگ کہیں زیادہ اور وہاں کی قیمت پاکستان کی قیمتوں سے دگنی یا اس سے بھی زیادہ ہے۔ پھر خود ملک میں ذخیرہ اندوزی کے مسائل ہیں اور ملوں کی اپنی ذخیرہ اندوزی، ملوں کے لیے صوبائی اور مرکزی اسٹاک سے ترسیل اور خود ملوں کی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے کارکردگی، یہ اور دسیوں دوسرے معاملات ایک دوسرے سے مربوط ہیں اور جب تک پالیسی سازی اور پالیسی مینجمنٹ میں ان تمام پہلوئوں کا احاطہ نہ کیا جائے اور ان کے باہمی ارتباط (linkage) کو ملحوظ نہ رکھا جائے، صحیح نتائج رونما نہیں ہوسکتے۔

یہ تو طلب کے پہلو ہیں، اسی طرح رسد کے بھی بے شمار پہلو ہیں جن کا احاطہ ضروری ہے۔ پانی، بجلی، بیج کی فراہمی، کھاد، قرض ہر ایک اپنی جگہ اہم ہے اور ان سب کی بروقت فراہمی اور صحیح قیمت پر فراہمی اہمیت رکھتے ہیں۔ اس کے ساتھ بین الاقوامی منڈیوں، خصوصیت سے پڑوسی ملکوں میں قیمت کا رخ اور ملک میں سرکاری قیمت خرید کا درست ہونا اور اس کا بروقت اعلان اور اس سے بڑھ کر منصفانہ تنفیذ۔ بدقسمتی سے ان سارے ہی پہلوئوں کو ایک جامع پالیسی کی شکل میں ملحوظ نہیں رکھا جا رہا اور یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ ملک بار بار مختلف اشیاے ضرورت کے باب میں بحران کا شکار ہورہا ہے۔ جب تک ہرسطح پر ایک مربوط اور جامع انداز میں معاملات طے نہیں کیے جاتے،     ملک بحران سے نہیں نکل سکتا۔

بحران سے نکلنے کا آسان نسخہ جو راشن کارڈ کی شکل میں تجویز کیا گیا ہے وہ بوکھلاہٹ اور بدحواسی کا مظہر تو ضرور ہے مگر مسئلے کے حل کی کوئی صورت نہیں بلکہ اس سے صورتِ حال اور ابتر ہونے کا خدشہ ہے۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ ایک عبوری حکومت جس کی عمر چند ہفتے ہے، اسے کس نے یہ اختیار دیاکہ ایک ایسی پالیسی کا آغاز کردے جو بڑی دیرپا ہو اور جس کے اثرات دُور رس ہوں گے۔ دوسری بات یہ ہے اور ہمارے موجودہ کارپردازانِ حکومت یہ معمولی بات بھی نہیں سمجھتے کہ راشن کا نظام صرف اس معیشت میں کارفرما ہوسکتا ہے جہاں ریاست ایک اہم معاشی عامل کی حیثیت سے مؤثر ہو، اور پوری معیشت نہ سہی اس کو ایک بڑے حصے خصوصیت سے تقسیم کے نظام کو اپنی گرفت میں رکھتا ہے۔ جہاں آزاد منڈی کا رواج ہو وہاں راشن کا نظام کس طرح آبادی کے بڑے حصے کی ضرورت کو پورا کرسکتا ہے___ ایک معما ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا!

راشن کے نظام کو بالعموم جنگ کے زمانوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ جب رسد لمبے عرصے کے لیے محدود ہوتی ہے اور طلب کو قابو میں کرنے کے سوا کوئی چارئہ کار نہیں ہوتا۔

غیرجنگی ادوار میں تابع حکومت معیشتوں (command economies) کے سوا کہیں اور یہ نظام کارفرما نہیں ہوسکا۔ پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے نیم اشتراکی دور میں اس کا تجربہ کیا گیا جو بری طرح ناکام رہا، بالآخر اس نظام کو ختم کرنا پڑا۔ اس دور پر جو بھی تحقیقی کام ہوا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ سرکاری خزانے پر ناقابلِ برداشت بوجھ پڑا اور جو سبسڈی حکومت دے رہی تھی اس کا ۸۰ فی صد وزارتِ خوراک اور آڑھتیوں کی جیب گرم کرنے کا ذریعہ بنی اور عوام تک اس رقم کے بمشکل ۲۰ فی صد فوائد پہنچ سکے۔ ایسے ناکام تجربے کی روشنی میں عبوری حکومت کی طرف سے دو ہفتے کے اندر اندر راشن کارڈ کے نظام کے اجرا کا اعلان کسی بڑے اسکینڈل کا عنوان تو ہوسکتا ہے، کسی عوامی سہولت کی اسکیم کا ذریعہ نہیں بن سکتا۔ ہوسکتا ہے کہ مجوزہ راشن کارڈ کی طباعت تک ہی یہ عبوری حکومت اپنی مدت عمر پوری کرلے اور عوام تک کوئی خیرات پہنچ ہی نہ سکے۔

اعلان کیا گیا ہے کہ یوٹیلٹی اسٹور اس کا ذریعہ ہوں گے لیکن وہ تو پہلے سے یہ خدمت انجام دے رہے ہیں اور اس کا حشر سب کے سامنے ہے۔ بمشکل ۵ فی صد آبادی کی ضرورت وہ پوری کرسکتے ہیں اور اس کے لیے بھی جو لمبی لمبی قطاریں ہیں اور محرومیوں کی جو داستانیں ہیں وہ کیا  امید دلا سکتی ہیں، جب کہ راشن کے اصل مستحق غریب عوام اور کچی آبادیوں کے لوگ ہیں جن کی ان تک رسائی نہیں۔

راشن کارڈ اور راشن ڈپو مسئلے کا حل نہیں۔ ویسے بھی یہ آغاز پر ہی ناکام ہوجانے والے (non-starters ) ہیں۔ اصل ضرورت صحیح زرعی پالیسی، اور ذخیرہ اندوزی اور نظامِ ترسیل کی اصلاح ہے۔ نیز حکومت کا جو اصل رول ہے یعنی پالیسی سازی، پالیسی مینجمنٹ اور مارکیٹ کا استحکام اور قواعد و ضوابط کا بے لاگ اطلاق، نیز جہاں منڈی کی ناکامی کے خطرات ہیں وہاں ایسا انتظام کہ منڈی کا عمل ٹھیک ٹھیک کام کرتارہے، بروقت حکومتی ایجنسیاں اشیا حاصل کرسکیں اور   صحیح قیمت ادا کرسکیں اور ضرورت کے مطابق سرکاری ذخائر سے گندم ملوں اور مارکیٹ میں لانے کا اہتمام کیا جاسکے۔ اس کے ساتھ زرعی ضروری اشیا کی بروقت اور صحیح قیمت پر فراہمی کا اہتمام ضروری ہے۔ اگر حکومت اس باب میں اپنی ذمہ داری ادا کرے اور نفع خوری، ذخیرہ اندوزی، اسمگلنگ کرنے والوں کی سرپرستی نہیں سرکوبی کا راستہ اختیار کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ منڈی کے عمل کے ذریعے تمام انسانوں کی ضروریات انصاف کے ساتھ پوری نہ ہوسکیں۔ حکومت کی ذمہ داری راشن کی تقسیم نہیں، ایسا نظام قائم کرنا اور ایسے انتظامی اقدامات کرنا ہیں کہ غذائی قلت کا مسئلہ صرف وقتی بنیادوں پر نہیں مستقل طور پر حل ہوسکے۔