پروفیسر خورشید احمد


جماعت اسلامی ہند کی مرکزی قیادت کے ایک گلِ سرسبد اور عالمی اسلامی معاشی تحریک کے سرگرم رہنما برادر محترم ڈاکٹر فضل الرحمن فریدی طویل علالت کے بعد ۲۵ جولائی ۲۰۱۱ء کو علی گڑھ میں انتقال کر گئے___ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ۔

ڈاکٹر فریدی ان لوگوں میں سے تھے جنھوں نے اسلام کو اپنی زندگی کا مشن بنایا اور پورے خلوص، دیانت اور مکمل سپردگی کے ساتھ اپنی تمام صلاحیتیں اسی مشن کی تکمیل کے لیے وقف کر دیں   اور پھر آخری لمحے تک وفاداری کے اس رشتے کو نبھایا۔ اس میں ان کے پیشِ نظر صرف اپنے رب کی خوشنودی تھی۔ ان شاء اللہ ان کا شمار ان سعید روحوں میں ہوگا جن کے بارے میں خود زمین و آسمان کے مالک نے فرمایا ہے:

مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاھَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِ فَمِنْھُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَہٗ وَ مِنْھُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوْا تَبْدِیْـلًا o (الاحزاب ۳۳:۲۳) ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنھوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچ کر دکھایا ہے۔ ان میں سے کوئی اپنی نذر پوری کرچکا اور کوئی وقت آنے کا منتظر ہے۔ انھوں نے اپنے رویّے میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔

اللہ تعالیٰ ان کی خدمات کو قبول فرمائے اور انھیں جنت کے بہترین مقامات و انعامات سے نوازے___ انھوں نے ہم سب کے لیے ایک اچھی مثال چھوڑی ہے اور جو چراغ ان کے قلم اور تحریکی مساعی نے روشن کیے ہیں، وہ ان کے رخصت ہوجانے کے بعد بھی ضوفشاں رہیں گے___  ان شاء اللہ تعالیٰ!

برادرم فضل الرحمن فریدی ۴؍اپریل ۱۹۳۲ء کو مچھلی شہر جون پور، یوپی میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم جون پور میں اور اعلیٰ تعلیم الٰہ آباد یونی ورسٹی اور علی گڑھ یونی ورسٹی سے حاصل کی۔ لیکن ان کی علمی زندگی اور تحریکی جدوجہد کا رُخ متعین کرنے میں مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی کے افکار اور جماعت اسلامی ہند کے نظم سے وابستگی نے بنیادی کردار ادا کیا۔ ثانوی درس گاہ رام پور میں شرکت نے اس وابستگی کو اور پختہ کردیا۔ اس زمانے میں اصحابِ کہف کی طرح جن چند نوجوانوں نے باہر کی دنیا سے منہ موڑ کر ثانوی درس گاہ کو اپنی آماج گاہ بنایا، ان میں فضل الرحمن فریدی بھی شامل تھے۔ ان سب نے اپنے اپنے انداز میں اسلام اور تحریکِ اسلامی کی گراں قدر خدمات انجام دی ہیں اور ان کے اثرات صدقۂ جاریہ کی شکل میں تادیر جاری و ساری رہیں گے۔

فریدی صاحب سے میری پہلی ملاقات ۱۹۵۶ء میں دہلی میں ہوئی۔ میں خرم [خرم مراد] بھائی کی شادی میں شرکت کے لیے بھوپال گیا تھا۔ وہاں ہم دونوں نے دہلی اور آگرے کا سفر کیا اور فریدی صاحب، برادرم نجات اللہ صدیقی اور برادرم عرفان احمد خاں دہلی تشریف لائے اور وہاں ان سے ملاقات ہوئی۔ اس کے نتیجے میں ان سے زندگی بھر کے لیے تعلقات استوار ہوگئے۔ فریدی صاحب اور نجات اللہ صاحب نے میری طرح معاشیات کے میدان کو اختیار کیا اور اس طرح ان دونوں بھائیوں کے ساتھ مجھے بھی گذشتہ نصف صدی میں علمی اور دعوتی میدانوں میں تھوڑی بہت خدمت کی سعادت حاصل ہوئی۔ فریدی صاحب سے دوسری ملاقات ۱۹۷۶ء میں پہلی عالمی کانفرنس براے اسلامی معاشیات کے موقعے پر مکہ مکرمہ میں ہوئی۔ بعدازاں اُن کے سعودی عرب کے قیام کے دوران میں، ان سے مسلسل ملنے اور گھنٹوں تحریکی امور اور اسلامی معاشیات کے مختلف پہلوئوں پر تبادلۂ خیال کا موقع ملتا رہا۔ آخری ملاقات بحرین میں اسلامی معاشیات پر منعقد ہونے والی پانچویں کانفرنس میں ہوئی۔ اس کے بعد فقط ٹیلی فون پر رابطہ رہا۔ ۲۰۰۵ء میں دہلی میں اسلامک فنانس پر ایک کانفرنس منعقد ہونے والی تھی۔ فریدی صاحب کا بے حد اصرار تھا کہ میں اس میں کلیدی خطاب کروں لیکن ویزا نہ ملنے کے باعث مَیں دہلی نہ جاسکا اور ملاقات سے محروم رہا۔ زندگیِ نو کے وہ مدیر تھے اور اس رشتے سے ترجمان القرآن اور زندگیِ نو میں بڑا قریبی علمی تعاون رہا اور ہم ایک دوسرے کے علمی کام سے برابر استفادہ کرتے رہے۔

برادرم فضل الرحمن فریدی اُردو اور انگریزی میں ۳۰ سے زائد کتابوں کے مصنف ہیں اور ان کے سارے کام کا محور دو ہی موضوعات رہے___ اوّل: اسلامی معاشیات، دوم: تحریکِ اسلامی کی دعوت کے فکری اور عملی پہلو۔ ان کی نگاہ قدیم اور جدید دونوں علوم پر تھی اور اللہ تعالیٰ نے ان کو تجزیے اور تعبیر کی بہترین صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ معاشی تجزیے اور خصوصیت سے زری معاشیات (fiscal economics) میں ان کی خدمات بڑی گراں قدر ہیں۔ وہ اسلامی معاشیات کے اصل تصور کو نکھارنے والے لوگوں میں سے ہیں۔

میری اور نجات اللہ صدیقی بھائی کی طرح وہ ہرلمحے اس پہلو سے متفکر رہتے تھے کہ اسلامی معاشیات اپنے اصل وِژن کے ساتھ، جو اقامت ِدین کا ایک حصہ ہے، ترقی اور تنفیذ کے مراحل سے گزرے اور محض روایتی معاشیات کا ایک حصہ بن کر نہ رہ جائے۔ اسی طرح تحریکِ اسلامی اور فکرِ اسلامی کی تعبیر کا ہر وہ پہلو ان کی دل چسپی کا موضوع رہا جس کا تعلق اُمت ِمسلمہ کے اس کردار سے ہے جو اسے خصوصیت سے مسلم اقلیت والے ممالک میں ادا کرنا ہے، اور اصل مقصد سے وفاداری کے ساتھ اپنے مخصوص حالات میں اسلام کے کردار کو واضح اور متعین کرنا ہے۔

ان کی زندگی بڑی سادہ اور صاف ستھری تھی۔ فکری اعتبار سے میں نے ان کو فہم دین اور عصری مسائل کی تعبیر کے سلسلے میں بڑا بالغ نظر اور محتاط پایا۔ وہ اپنے فکری تجزیوں میں، اصل مقاصدِ شریعت سے مکمل وفاداری کے ساتھ جدید علوم سے استفادہ کرتے تھے اور اس نازک ذمہ داری کو میرے علم کی حد تک انھوں نے بڑی خوش اسلوبی سے ادا کیا۔

اللہ تعالیٰ ان کی خدمات کو شرفِ قبولیت سے نوازے اور نئی نسل کے اہلِ علم و تحقیق کو    اس راستے پر چلنے کی توفیق دے جس کے نقوش علمی دنیا کے فضل الرحمن فریدی ایسے سچے خادموں نے روشن کیے ہیں، آمین ثم آمین!

 

اگست کا مہینہ، ۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء کے اس تاریخی دن کی یاد دلاتا ہے جب اس برعظیم پاک و ہند کے مسلمانوں نے ایک تاریخ ساز جدوجہد کے بعد مملکتِ خداداد پاکستان حاصل کی۔ اس کے لیے لازوال قربانیاں دیں، انگریز اور ہندو کی ریشہ دوانیوں کا مقابلہ کیا۔ نصب العین کے لیے یکسو ہوکر ملک کے ہرحصے کے مسلمان خواہ وہ پنجابی تھے یا بنگالی، سندھی تھے یا بلوچی یا پٹھان، ہرتعصب سے بالا ہوکر میدانِ عمل میں کود پڑے۔ ہمارے قائدین نے بار بار واضح کیا کہ یہ علیحدہ خطۂ ارض ہم   اس لیے حاصل کررہے ہیں کہ ہم اسلام کی تعلیمات کے مطابق معاشرہ تعمیر کریں گے جو گم کردہ  راہِ انسانیت کے لیے مینارئہ نور ہوگا۔

ہمارے بعد آزاد ہونے والے ممالک کہاں سے کہاں پہنچ گئے ہیں، لیکن ۶۴سال بعد  آج ہم جائزہ لیں تو بحیثیت مجموعی تشویش ناک صورت حال سامنے آتی ہے۔ زندگی کا کوئی بھی دائرہ ایسا نہیں کہ ہم اطمینان کا اظہار کرسکیں۔ اسلا می معاشرہ تو بہت دُور کی بات ہے، ایک عام انسانی معاشرے کی حیثیت سے بھی ہم بہت پیچھے چلے گئے ہیں۔ اخلاق، سیاست، معیشت، عدلیہ، امن و امان کی صورت حال، ہرجگہ ایک بحران کی کیفیت ہے۔ یقینا ہم نے ایٹم بم بنایا ہے، بہت سے دائروں میں ترقی بھی کی ہے لیکن ان امور سے صَرفِ نظر کرتے ہوئے آج صرف یہ جائزہ لیں گے کہ امریکا سے تعلقات کے حوالے سے ہماری آزادی وخودمختاری کی کیا کیفیت ہے۔

  •  امریکا کی دوستی اور دشمنی:ڈاکٹر ہنری کسنجر امریکا کی خارجہ پالیسی ہی نہیں عالمی سیاست کے باب میں بلاشبہہ ’مصلحت انگیز‘، ’فقیہ شہر‘ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ لیکن یہ بھی ان کا کمال ہے کہ کبھی کبھی وہ اُس ’رند بادہ خوار‘ کا کردار بھی ادا کر جاتے ہیں جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ  ع

نکل جاتی ہے جس کے منہ سے سچی بات مستی میں

ان کا ایسا ہی ایک ارشاد ہے کہ دنیا کو جان لینا چاہیے کہ امریکا کی دشمنی مہنگی پڑتی ہے لیکن یہ بھی نہ بھولیں کہ اس کی دوستی بھی کچھ کم مہنگی نہیں! پاکستان نے اس کا بار بار تجربہ کیا ہے لیکن اس کی   عاقبت نااندیش قیادتوں نے شاید قسم کھا رکھی ہے کہ خود اپنے اور دوسروں کے تجربات سے کبھی کوئی سبق نہیں لیں گے۔

تازہ ترین صورت حال ریمنڈ ڈیوس کے بھرے چوک میں دو نوجوانوں کے قتل سے شروع ہوکر، اس کے فرار اور پھر ۲مئی کے ایبٹ آباد پر حملے اور ڈرون حملوں کو روکنے سے انکار بلکہ ان میں مسلسل اور معتدبہ اضافے، فوج اور آئی ایس آئی کے خلاف بیان بازی (war of words)، سیاسی قیادت کی طرف سے شمسی ایئربیس کے بارے میں ٹکا سا جواب، امریکی فوجیوں کی واپسی اور ویزے کے بارے میں معمولی سی چھان بین پر برہمی، امریکا کے تنخواہ دار مخبروں، خصوصیت سے اسامہ بن لادن کی تلاش کے سلسلے میں جعلی ویکسین کا ڈراما رچانے والے ڈاکٹر کی گرفتاری اور پھر سالانہ فوجی امداد کے ایک تہائی، یعنی ۸۰۰ملین ڈالر کی بندش___ وہ واقعات ہیں جو ایک فیصلے کی گھڑی (moment of truth) کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ وہ فیصلہ کن لمحہ ہے جس پر پاکستان کی آزادی اور اس کے مستقبل کا انحصار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب اس فیصلے کو اس قیادت پر نہیں چھوڑا جاسکتا جس کا اصل چہرہ وکی لیکس کے آئینے میں سب نے دیکھ لیا ہے اور جو اپنے اقتدار میں آنے اور کرسی بچانے کے لیے امریکا کے مرہونِ منت ہیں۔ فوجی قیادت کا کردار بھی کچھ بہت قابلِ فخر نہیں اور شاید اب ایک آخری موقع ہے کہ وہ اس اعتماد کو بحال کرنے میں اپنا کردار ادا کریں جس کی خاطر قوم نے اپنا پیٹ کاٹ کر ان کی تقویت کا سامان کیا ہے۔

امریکا سے اسٹرے ٹیجک دوستی پر ہمیں تو کبھی ایک لمحے کے لیے بھی یقین کیا گمان بھی نہ تھا لیکن وہ جو یہ راگ الاپ رہے تھے، اب خود ان کے چہرے پر بار بار طمانچے پڑنے کے بعد یہ تحریر پڑھی جاسکتی ہے کہ  ع

خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا

اب وقت آگیا ہے کہ عوام کی آواز کو سنا جائے، بلکہ خود پارلیمنٹ نے جو واضح راہِ عمل اپنی دوقراردادوں (۲۲؍اکتوبر ۲۰۰۸ء اور ۱۴ مئی ۲۰۱۱ء) کی شکل میں دی ہے اس پر لفظ اور معنٰی ہردواعتبار سے عمل کیا جائے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے زمینی حقائق کا صحیح صحیح ادراک ہو اور پھر ان کی روشنی میں اور اپنے قومی مفادات اور عوام کے جذبات اور عزائم کی روشنی میں تعلقات کی واضح انداز میں تشکیلِ نو ہو۔

  •  زمینی حقائق:پہلی بات یہ واضح ہوجانی چاہیے کہ امریکا کے مقاصد، اہداف اور ترجیحات اور پاکستان کے مفادات، مقاصد اور ضرورتوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ امریکا کا اصل مقصد اس یک قطبی عالمی نظام کا تحفظ ہے جس میں مرکزی حیثیت اسے حاصل ہے۔ وہ دنیا کے ۸۰ممالک میں اپنی فوجیں رکھ کر اور عالمی مالیاتی اداروں پر اپنی گرفت مضبوط کر کے دنیا کی  بیش تر اقوام کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ اس کی اسٹرے ٹیجک دوستی صرف اسرائیل اور برطانیہ سے ہے اور پھر دوسرے دائرے میں یورپی ممالک اور بھارت آتے ہیں۔ رہی اسلامی دنیا، پاکستان اور تیسری دنیا کے ممالک وہ اس کی نگاہ میں صرف آلۂ کار اور کارندوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس لیے بہت ضروری ہے کہ پاکستان کی قیادت کو   اس امر کا پورا ادراک ہو کہ ہماری حیثیت ان کی نگاہ میں کیا ہے۔

دوسری بنیادی بات یہ سامنے رکھنے کی ہے کہ امریکا سے ہمارے تعلقات میں پچھلے ۶۴برسوں میں نشیب و فراز تو بہت آئے ہیں اور ان میں بھی نشیب زیادہ اور فراز کم، لیکن جو  صورت حال نائن الیون کے بعد رونما ہوئی ہے اس کی پہلے کوئی مثال نہیں۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں اور اس سے بھی بڑھ کر زرداری گیلانی اقتدار کے دور میں امریکا نے اپنی گرفت ہم پر مضبوط کی ہے، ہمیں اپنی محتاجی کے جال میں پھنسایا ہے، ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت کی ہے اور عمومی پالیسی ہی نہیں، معمولی معمولی امور تک کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا ہے۔ امریکی سفیر داخلی امور پر ہدایات دے رہے ہیں۔ امریکی فوجیوں، سیکورٹی معاونین، مخبروں اور کاسہ لیسوں کا جال ملک کے طول و عرض میں بچھا دیا گیا ہے اور اگر پاکستان اپنے قومی مفاد میں کوئی معمولی سے معمولی اقدام کرتا ہے، جیسے فوجیوں کی واپسی، سفارت کاروں سے ان کے شناختی کارڈ دکھانے کا مطالبہ، ویزوں کے بارے میں ضروری تحقیق و تفتیش کی جسارت، تو نہ صرف فوجی اور سول امداد کی گاجروں کو ہاتھ سے چھین لیا جاتا ہے بلکہ ڈنڈوں کی بارش شروع ہوجاتی ہے۔ اس کے ساتھ تضحیک اور تحقیر کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور عالم یہ ہے کہ  ع

زباں بگڑی تو بگڑی تھی، خبر لیجیے دہن بگڑا

ڈرون حملوں کو جاری رکھنے، اپنے مخبروں کورہا کرانے، شمسی ایئربیس کو خالی کرنے کے مطالبے کا ٹکا سا انکاری جواب دینے اورفوجی امداد روکنے کے اقدام کے بعد، اب پاکستان کے سامنے صرف ایک راستہ ہے___ امریکا کے تعلقات کے موجودہ دروبست کو یکسر تبدیل کرنے اور بالکل نئی شرائط اور نئے نکات پر تعلقات کی ازسرنو تشکیل کا راستہ۔

آگے بڑھنے سے پہلے تین باتوں کی وضاحت ضروری ہے:

۱-  بلاشبہہ ہم نے امریکا پر اپنی محتاجی (dependence) کو خطرناک حد تک بڑھا لیا ہے لیکن ایسا نہیں ہے کہ پاکستان کوئی ناکام یا بے سہارا ملک ہے۔ ہمارے وسائل ہماری ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کافی ہیں اور قوم میں وہ ہمت اور صلاحیت ہے کہ اگر قیادت صحیح رویہ اختیار کرے تو یہ ملک اپنے مفادات کے تحفظ کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ اس نے باربار  اس کا ثبوت بھی دیا ہے۔ ۱۹۴۷ء میں جن حالات میں ہم نے اپنی آزادی کا سفر شروع کیا تھا، دنیا کو یقین تھا کہ ہم چند مہینوں میں بھارت کے آگے ہاتھ پھیلائیں گے اور دوبارہ اس کے زیرِعاطفت آجائیں گے لیکن اس غیور قوم نے اپنے معاملات کو سنبھالا، کشمیر کے محاذ پر پنجہ آزمائی میں بھی  پیچھے نہیں رہی اور ۱۹۴۹ء جب تخفیفِ زر کا طوفان آیا تو روپے کی قدر نہ گرا کر بھارت، برطانیہ اور دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔ بے سروسامانی سے آغاز کر کے جس طرح ۱۹۵۰ء اور ۱۹۶۰ء میں اپنے حالات کو سنبھالا، وہ بہت سی کمزوریوں اور خامیوں کے باوجود ایک بڑا کارنامہ تھا۔ پھر امریکا سے دوستی اور اس کے مطالبات کے باوجود چین کوتسلیم کرنا اور اس سے اسٹرے ٹیجک شراکت کی  راہ ہموار کرنا ایک اہم کارنامہ تھا۔ ۱۹۹۸ء میں ایٹمی تجربہ بھی اسی نوعیت کی کامیابی ہے۔ اگر قیادت صحیح فیصلہ کرے اور قوم کو اپنے ساتھ لے کر چلے تو آج ہم امریکا کے چنگل سے نکلنے کے لیے ماضی کے ان تمام ادوار کے مقابلے میں زیادہ صلاحیت اور وسائل رکھتے ہیں۔

۲-   دوسری بنیادی بات یہ ہے کہ آج ہم ہی امریکا کے محتاج نہیں، خود امریکا بھی چند نہایت اہم امور کے سلسلے میں ہماری مدد اور تعاون کا محتاج ہے، بشرطیکہ ہم اپنے پتّے صحیح صحیح کھیلیں اور اپنے قومی مفاد، آزادی اور عزت کے تحفظ کے لیے سینہ سپر ہوجائیں۔ مسئلہ غیروں کی کارروائیوں سے زیادہ اپنی کمزوریوں کا ہے۔

۳-  تیسری بنیادی بات یہ ہے کہ امریکا افغانستان میں جنگ ہارچکا ہے اور اپنے  طویل المیعاد مفادات کے تحفظ کے کسی انتظام کے ساتھ وہاں سے باعزت انداز میں واپسی چاہتا ہے اور اس کے سوا اس کے پاس کوئی چارہ نہیں۔ امریکا افغانستان اور پاکستان سے ۱۱ہزار کلومیٹر دُور ہے لیکن ہماری اور افغانستان کی مشترک سرحدات ۱۵۰۰ کلومیٹر سے زیادہ ہیں اور ہمارے تاریخی، تہذیبی، دینی، معاشی اور سیاسی رشتے بالکل دوسری نوعیت کے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کی حماقتوں سے ہم نے اپنے دوستوں کو دشمن بنا لیا، اور جو دشمن تھے ان کی دشمنی میں اور بھی اضافہ ہوگیا۔ امریکا کی سرزمین تو شاید کسی حد تک دہشت گردی سے محفوظ ہوگی___ گو دہشت گردی کے خوف کی فضا نے اس کو بُری طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور نہ معلوم کب تک اسے اس عذاب میں مبتلا رہنا پڑے گا___ لیکن ہماری سرزمین جو اس نوعیت کی دہشت گردی سے بالکل پاک تھی، اب اس کی گرفت میں ہے، اور دہشت گردی کی کمر توڑنے کے باربار کے دعووں کے باوجود اس میں کوئی کمی نہیں آرہی۔ یہ کمی صرف اسی وقت ممکن ہے جب ہم اپنے سلامتی کی صورت حال کا اپنے نقطۂ نظر سے جائزہ لیں، اسے ازسرنو مرتب کریں اور سیاسی مسائل کے لیے سیاسی حل پر عمل کرنے کاراستہ اختیار کریں۔ اس سلسلے میں ہمارے اور امریکا کے راستے اور مفادات مختلف ہیں۔ اس حقیقت کے ادراک کے بغیر اصلاح کی کوئی صورت نہیں۔ پارلیمنٹ نے یہی راستہ دکھایا ہے لیکن سیاسی اور فوجی قیادت اپنے اپنے زعم اور اپنے اپنے مفادات کے چکر میں اس راستے کی طرف کوئی پیش رفت نہیں کر رہی، اور امریکا سے بار بار ڈنڈے کھانے کے باوجود بھی آزادی، خودانحصاری اور عزت کا راستہ اختیار کرنے سے پس و پیش کر رہی ہے۔

  •  امریکا سے دوستی کی قیمت: پاکستان اور امریکا کے تعلقات اب اس مقام پر آگئے ہیں جہاں ایک بنیادی فیصلہ ناگزیر ہوگیا ہے۔ عوام نے کسی دور میں بھی امریکا کو قابلِ اعتماد دوست نہیں سمجھا۔ راے عامہ کے جتنے بھی جائزے گذشتہ برسوں میں ہوئے ہیں، خصوصیت سے وہ جو ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد ملکی یا غیرملکی اداروں نے کیے ہیں، ان میں یہ حقیقت تسلسل کے ساتھ کھل کر سامنے آئی ہے کہ ۷۰ سے ۹۰ فی صد عوام اس پالیسی سے بے زار ہیں جس کا عنوان ’پاک امریکا دوستی‘ ہے۔ اس دوستی کا حاصل امریکا کی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں جنرل پرویز مشرف کے دور میں پاکستان کی غیرمشروط شرکت ہے۔ اس نے ملک میں دہشت گردی میں غیرمعمولی اضافہ کردیاہے جس کے نتیجے میں علاقے کا امن تہ وبالا ہوگیا۔ ان ۱۰برسوں میں پاکستان میں ۳ہزار سے زیادہ فوجی اور ۳۵ہزار سے زیادہ عام شہری موت کے گھاٹ اُتارے جاچکے ہیں۔ زخمیوں کی تعداد لاکھوں میں ہے اور خود اپنے ہی ملک میں بے گھر ہوجانے والوں (IDP) کی تعداد ۴۰لاکھ سے متجاوز ہے۔ معاشی اعتبار سے اب اس میں ذرا بھی شبہہ نہیں کہ ملک کی معیشت کو تباہ کرنے میں سب سے زیادہ دخل اس جنگ اور اس کے اثرات کا ہے۔ انسانی جان و مال کے نقصان کے علاوہ بحیثیت مجموعی معیشت کو جو نقصان اُٹھانا پڑا، اس کا محتاط ترین سرکاری تخمینہ ۶۹؍ارب ڈالر ہے جو پاکستانی روپے میں تقریباً ۶ہزار ارب روپے بن جاتا ہے___ یعنی پاکستان کے دو سال کے مکمل مرکزی بجٹ سے بھی زیادہ۔

یہ سب درست، لیکن اصل مسئلہ محض معاشی نہیں۔ امریکا نے خاص طور پر گذشتہ ۱۰،۱۱برسوں میں پاکستان کو عملاً اپنی ایک طفیلی ریاست بنا لیا ہے جس کے نتیجے میں ملک کی آزادی، حاکمیت، خودمختاری اور عزت پارہ پارہ ہیں۔ شروع میں امریکا نے اس پالیسی کو carrot and stick، یعنی ترغیب اور ترہیب، گاجراور ڈنڈے کی پالیسی کہا مگر اب گاجر کا حصہ معدوم ہوتا جا رہا ہے اور صرف ڈنڈے کی حکمرانی ہے۔ رواں سال میں ریمنڈ ڈیوس کے واقعے سے لے کر جولائی ۲۰۱۱ء میں امریکا کی فوجی امداد میں ۸۰۰ ملین ڈالر کی کمی اس کے مختلف مظاہر ہیں۔ ڈرون حملوں کا آغاز ۲۰۰۴ء میں ہوا اور ان سات برسوں میں ۲۶۰ حملے ہوچکے ہیں اور ان میں ہلاک ہونے والے نام نہاد مطلوبہ دہشت گردوں کی تعداد ۵۰ اور ۶۰ کے درمیان ہے، جب کہ ان حملوں میں لقمۂ اجل بننے والے عام بے گناہ پاکستانیوں کی تعداد ۲۵۰۰ سے متجاوز ہے۔ امریکا پوری رعونت کے ساتھ ہماری سرحدوں کی خلاف ورزی کر رہا ہے، ہماری حاکمیت کو پامال کر رہا ہے اور ہمارے شہریوں کو بے دردی سے موت کے گھاٹ اُتار رہا ہے۔ ان دستاویزات کی روشنی میں جو وکی لیکس کی بناپر طشت ازبام ہوچکی ہیں، ان میں سے بیش تر حملے ماضی میں خود ہماری سرزمین سے امریکی اڈوں سے ہوتے رہے ہیں اور یہ اڈے وہ ہیں جن کی حفاظت ہماری اپنی افواج اور قانون نافذ کرنے والی ایجنسیاں کرتی رہی ہیں، اور جنرل پرویز مشرف سے لے کر زرداری گیلانی تک سب کی طے شدہ منظوری سے ہماری سرزمین پر ہماری آبادیوں کو موت کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔

اس میں ذرہ برابر بھی مبالغہ نہیں کہ امریکی افواج اور اس کے اتحادیوں نے افغانستان پر فوج کشی کے ۱۰ برسوں میں جتنا جانی نقصان اُٹھایا ہے، پاکستان کی افواج اور شہریوں نے اس سے کہیں زیادہ نقصان برداشت کیا ہے۔ اس سب کے باوجود امریکا اور عالمی میڈیا پاکستان کو دوغلی پالیسی، دھوکا دہی، بدعنوانی اور بدعہدی کا مجرم قرار دے رہا ہے۔ اسے دنیابھر میں دہشت گردی کا مرکز قرار دے رہا ہے اور افغانستان میں اپنی پالیسی کی ناکامی کا ملبہ بھی پاکستان پر گرانے کی مذموم کوششیں کر رہا ہے۔ ۲مئی ۲۰۱۱ء کے ایبٹ آباد پر حملے اور اسامہ بن لادن کی مبینہ ہلاکت کے ڈرامے کی بنیاد پر پاکستان، اس کی افواج، خفیہ ایجنسیوں اور خود حکومت کو نشانہ بنایا جارہا ہے اور فوجی، سیاسی اور معاشی دبائو کے ساتھ اس کے خلاف اپنی لفظوں کی جنگ (war of words) کو بھی ایک نئی انتہا تک لے جایا گیا ہے۔ امریکی حکومت اور اس کے ترجمان، کانگریس کی کمیٹیاں اور ان کے ترجمان، تھنک ٹینکس اور میڈیا، سب نے اپنی توپوں کے تمام دہانے پاکستان پر یلغار کے لیے کھول دیے ہیں۔ وزیرخارجہ ہیلری کلنٹن کا ارشاد ہے کہ ’’پاکستان پر یہ سارا دبائو جاری رہے گا تاآنکہ وہ امریکا کی شرائط کو منظور کرے اور اس کے مطالبات کو پورا کرے‘‘۔ امریکی چیف آف اسٹاف مائیکل مولن نے ایک صحافی سلیم شہزاد کے قتل کی بلاواسطہ ذمہ داری پاکستان کی حکومت پر ڈالی ہے اور اس کے ساتھ فوجی امداد میں کٹوتی کا اعلان بھی کردیا ہے۔

  •  فیصلے کی گہڑی: یہ تمام حالات اس امر کا تقاضا کرتے ہیں کہ امریکا سے تعلقات کے ہرپہلو کا ازسرِنو جائزہ لیا جائے اور جس دلدل میں ملک کو پھنسا دیا گیا ہے، اس سے نکلنے کے لیے ایک واضح نقشۂ کار بناکر اس پر قومی یک جہتی کے ساتھ فی الفور عمل کا آغاز کیا جائے۔ یہ عوام کی دلی آرزو تھی، اور پارلیمنٹ نے دو بار، یعنی ۲۲؍اکتوبر ۲۰۰۸ء کی متفق علیہ قرارداد اور پھر ۱۴مئی کی قرارداد کی شکل میں قوم کے دل کی آواز کو پارلیمنٹ کے حکم کا درجہ دے دیا تھا، مگر حکومت نے اس قرارداد کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا اور اس کے کسی ایک حصے پر بھی عمل نہیں کیا۔ لیکن اس سال امریکا نے پے در پے جو حملے کیے ہیں، جو چرکے لگائے ہیں اور جو بے عزتی کی ہے، اس نے حالات کو اس مقام پر پہنچا دیا ہے کہ اب امریکا سے تعلقات کے پورے سلسلے کو ازسرِنو مرتب کرنا ناگزیر ہوگیا ہے۔

امریکا بلاشبہہ ایک عالمی طاقت ہے۔ اس سے تعلقات پر نظرثانی کے معنی یہ نہیں ہیں کہ قوم امریکا سے تصادم کا مطالبہ کر رہی ہے لیکن تصادم اور دشمنی، یا غلامی اور محکومی ہی دو آپشن نہیں ہیں۔ ایک دوسرے کے مفادات کے احترام کی بنیاد پر ایک باعزت پالیسی بھی تشکیل دی جاسکتی ہے جو قوت اور وسائل کے اختلاف کے باوجود دونوں کی آزادی، خودمختاری، مشترک مقاصد اور مفادات کے سلسلے میں تعاون پر مبنی ہو، اور ان تمام امور کے باب میں جہاں مفادات میں اشتراک موجود نہیں، اپنے اپنے مقاصد، مفادات اور اہداف کے لیے آزادانہ کردار کا اہتمام کیا جائے۔  بین الاقوامی قانون اور عالمی نظام دونوں کا یہی تقاضا ہے۔ قوی اور ضعیف، بڑا اور چھوٹا، سب   عملی میدان میں برابری (functional equality)کی بنیاد پر ایک دوسرے سے معاملہ کریں۔ امریکا اور پاکستان کے تعلقات یک طرفہ اور ایک فریق کی بالادستی اور دوسرے کی عملاً محکومی کا رنگ اختیار کرچکے ہیں اور ان کا اسی طرح جاری رہنا نہ قوم کے لیے قابلِ قبول ہے اور نہ ملک اور علاقے کے مفاد میں ہے۔ اس لیے نئی آزاد خارجہ پالیسی کی تشکیل اور اس پر پوری یکسوئی کے ساتھ عمل کا پروگرام وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔

ہم امریکا سے معاشی، تجارتی، سیاسی اور ثقافتی تعلقات رکھنا چاہتے ہیں لیکن اس میں ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کی وجہ سے جو حاکم اور محکوم اور آقا اور ماتحت کا تعلق بن گیا ہے، اسے ختم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں اور اس کے لیے جو قیمت بھی ادا کرنا پڑے قوم کو یک جان ہوکر اس کے لیے تیار ہونا پڑے گا۔ ایک مخصوص لابی اس سلسلے میں جن خطرات کا ہوّا کھڑا کرکے   ہمیں ڈرا رہی ہے، اس میں کوئی صداقت نہیں۔ گذشتہ ۶۴برسوں میں امریکا نے چھے بار پاکستان سے تعلقات کو پست ترین سطح تک دھکیلا ہے اور ہم پر طرح طرح کی پابندیاں تک لگائی ہیں لیکن پاکستان کی معیشت ان سب نشیب و فراز سے بخوبی عہدہ برآ ہونے میں کامیاب ہوئی ہے۔ ۸۰۰ملین ڈالر کی فوجی امداد امریکا نے روکی ہے۔ یہ کسی شمار قطار میں نہیں، البتہ ۱۰برس میں امریکا نے جوفوجی اور معاشی امداد دی ہے اگر اس سب کو بھی لیا جائے تو اس کا حقیقی اثر ہماری معیشت پر براے نام رہا ہے، جب کہ اس جنگ میں شرکت کی وجہ سے جو نقصان ہم کو ہوا ہے، وہ اعدادوشمار کی زبان میں بھی اس کے کم از کم ۵گنا زیادہ ہوا ہے۔ آخری تجزیے اور حساب میں اس جنگ سے نکلنے اور امریکی امداد سے نجات پانے سے ہماری معیشت پر مثبت اثرات ہوں گے اور ملک خودانحصاری کی طرف تیزی سے آگے بڑھ سکے گا بشرطیکہ حکومت صحیح سیاسی اور معاشی پالیسیاں تشکیل دے، اور قوم پوری یکسوئی کے ساتھ اپنی آزادی، خودمختاری اور عوام کی خوش حالی کے لیے وسائل کے صحیح استعمال کا راستہ اختیار کرے۔

  •  پاک امریکا تعلقات کے خطوط: اس سلسلے میں چند بنیادی اصولوں کو سامنے رکھنا ضروری ہوگا:

۱-   پاکستان وسائل سے مالا مال ملک ہے۔ ہماری غربت اور معاشی پس ماندگی کی وجہ وسائل کی قلت نہیں، صحیح قیادت کا فقدان اور صحیح پالیسیوں سے محرومی ہے۔ قومی مقاصد، مفادات اور اہداف کا صحیح صحیح تعین اور ایک ایسی حکومت کی تشکیل اولین اہمیت رکھتی ہے جو عوام میں سے ہو،  عوام کے سامنے جواب دہ ہو، اور پاکستانی قوم کے مفاد کی علَم بردار ہو۔ وژن اور اہداف کی درستی اور دیانت داری اور باصلاحیت قیادت کو بروے کار لانا اصلاحِ احوال کے لیے ناگزیر ہے۔

۲-  پالیسی سازی میں پارلیمنٹ کا کردار مرکزی ہونا چاہیے اور عوام کو اعتماد میں لے کر ان کے جذبات اور ترجیحات کی روشنی میں یہ کام انجام پانا چاہیے۔

۳- امریکا سے تعلقات خودمختارانہ مساوات (equality  sovereign) کی بنیاد پر ہونے چاہییں۔معاشی امداد کو مرکزی حیثیت دے دی گئی ہے۔ یہ خرابی کی جڑ ہے۔ تعلقات کے  محور کو بدلنے اور تجارت اور دوطرفہ معاشی تعاون کو مرکزی حیثیت دینے کی ضرورت ہے۔

۴- اس وقت جو مراعات امریکا کو حاصل ہیں ان پر فوری طور پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ چند اہم پہلو یہ ہیں:

  • شمسی ایئربیس پر فوری طور پر پاکستان کا مکمل کنٹرول ہونا چاہیے۔ متحدہ عرب امارات سے جو بھی معاہدہ ہواتھا، اسے اب ختم کرنے اور اس اڈے کو مکمل طور پر اپنے کنٹرول میں لانا ضروری ہے۔ متحدہ عرب امارات اور دوسرے مسلمان ملکوں کے حکمرانوں سے بھی بات چیت اور انتظامات کو نئی شکل دینے کی ضرورت ہے۔ جس طرح امریکا نے اس اڈے کو استعمال کیا ہے،   اس سے وہ تمام مقاصد پارہ پارہ ہوگئے ہیں جن کی خاطر ماضی میں انتظامی معاملات طے ہوئے تھے۔ اب بالکل نئی صورت حال ہے اور اس کے لیے نئی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔
  •  امریکا اور پاکستان کے درمیان ویزے کے نظام کی مکمل تشکیلِ نو کی ضرورت ہے۔   یہ کام وزارتِ خارجہ کے زیرانتظام ہونا چاہیے۔ وزارتِ داخلہ، انٹیلی جنس ایجنسیاں اور دوسری متعلقہ وزارتوں کا اپنے اپنے دائرۂ کار کے سلسلے میں کردار ہے، لیکن ماضی کے تجربات کی روشنی میں نئے قواعد و ضوابط وضع کرنا ضروری ہے۔
  •  سفارتی عملے کی تعداد، ان کا عملی کردار، ان کے قواعدو ضوابط سفارت کاری کے معروف اصولوں اور روایات کے مطابق ہونا چاہییں۔ جو استثنائی کردار ماضی میں رہا ہے، اسے درست کرنے اور ضابطوں کی حدود میں لانے کی ضرورت ہے۔
  •  تمام معاہدات کا لازماً تحریری شکل میں ہونا اور ان کی پارلیمنٹ سے توثیق ضروری ہے۔ اس سے پارلیمنٹ کی حقیقی بالادستی قائم ہوگی اور یہ امر حقیقی جمہوریت کی طرف پیش قدمی ہوگا۔
  •  امریکی اور ناٹو افواج کو راہداری کی جو سہولت دی گئی ہے اس پر نظرثانی کی جائے۔ اس کی نگرانی ہو اور اس سے جو نقصانات سڑکوں، پُلوں اور انفراسٹرکچر کو ہورہے ہیں، ان کی تلافی کا مکمل انتظام ہونا چاہیے۔
  •  ڈرون حملوں کا معاملہ سب سے اہم ہے۔ ان کو فی الفور رُکنا چاہیے، ورنہ جیساکہ پارلیمنٹ نے کہا ہے راہداری کی سہولت کو پورے عزم کے ساتھ روک دینا چاہیے، تاآنکہ تمام معاملات باہمی رضامندی سے، نئے انتظامات کے ساتھ طے نہ ہوپائیں۔ واضح رہے کہ اگر امریکا اس معاملے میں خودسری کا راستہ اختیار کرتا ہے تو اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ پوری قوم اس کے خلاف اُٹھ کھڑی ہو اور افواجِ پاکستان اس سلسلے میں اپنی پوری صلاحیت کے ساتھ کردار ادا کریں۔ یاد رکھنا چاہیے کہ ۱۹۸۰ء کے عشرے میں روس کے سلسلے میں اسی طرح کی ایک صورت حال سرحدوں کی خلاف ورزی کی رونما ہوئی تھی اور وزیراعظم محمد خاں جونیجو کی حکومت نے ایک جرأت مندانہ فیصلہ کیا تھا جس کے نتیجے میں روسی طیاروں کو سبق سکھایا گیا اور ہماری سرحدات کی خلاف ورزی کا دروازہ بند ہوگیا۔
  •  امریکا پر یہ واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ مسئلے کاحل صرف سیاسی ہے۔ اگر امریکا خود طالبان سے مذاکرات کا سہارا لے رہا ہے تو پاکستان کو کیوں مجبور کرتا ہے کہ وہ سیاسی حل کی جگہ فوجی قوت کا استعمال کرے اور حالات کو اپنے اور دوسروں کے لیے خراب اور خراب تر کرے۔
  •  افغانستان کا استحکام اور امن علاقے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے افغانستان کی تمام سیاسی قوتوں کا باہمی قومی اتفاق راے ضروری ہے۔ افغانستان کے تمام ہمسایہ ممالک کو افغانستان کی حاکمیت کے پورے احترام کے ساتھ علاقائی امن کی خاطر مفاہمت کی بنیاد پر آیندہ کے تعلقات کو استوار کرناہوگا۔ اس سلسلے میں جہاں ہمسایہ ممالک کو افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے مکمل گریز کرنا چاہیے، وہیں اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ ہمسایہ ممالک کو جو  اسٹرے ٹیجک فکرمندیاں (concerns) ہیں، خصوصیت سے علاقے میںبھارت کے کردار کے بارے میں، ان کا معقول حل باہمی مشورے سے نکالا جائے۔

امریکا سے تعلقات اور افغانستان مسئلے کا حل اس طرح ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں کہ ان کو الگ کرکے معاملات کو سلجھایا جانا مشکل ہے۔ جہاں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ افغانستان میں جس مفاہمتی عمل کا آغاز ہواہے، وہ ایک مفید اور ضروری اقدام ہے اور افغان مسئلے کا حل افغانستان ہی کی تمام قوتوں کو مل جل کر کرنا ہے، وہیں پاکستان، ایران، وسط ایشیا کی ملحقہ ریاستوں اور خود چین کو بھی اس عمل میں ایک کردار ادا کرنا ہے۔ لیکن یہ کردار ایک دوسرے کے معاملات میں مداخلت کی شکل میں نہیں، بلکہ افہام و تفہیم کے ذریعے سب کے مشترک مفاد کی بنیاد پر ہو تو امن، سلامتی اور ترقی کی راہیں کھل سکتی ہیں۔ یہی تاریخ کا سبق ہے جس کا جتنا احترام ہوسکے اتنی ہی ہماری کوششیں کامیابی سے ہم کنار ہوسکیں گی۔

 

یہ ایک المیہ ہے کہ ایک مدت سے پاکستان میں سالانہ بجٹ عوام کے لیے خوشی کا کوئی پیغام لانے سے قاصر رہا ہے۔ بجٹ آنے سے پہلے خوف اور اس کے اعلان کے بعد مایوسی قوم کا مقدر بن گئے ہیں۔ بجٹ سازی کے عمل میں عوام، سول سوسائٹی کے اہم ادارے، حتیٰ کہ معیشت کے ان عناصر کا، جن پر اسے اثرانداز ہونا ہے (stake holders) کوئی کردار نظر نہیں آتا۔ اور اگر چند نمایشی مشاورتی نشستوں کا تکلف کیا بھی گیا، تب بھی بجٹ پر ان کے نقوش کہیں بھی     نظر نہیں آتے۔ اس سال کا بجٹ بھی غیرمعمولی معاشی حالات کے باوجود، معمول کے مطابق  روایتی کارروائی کی تصویر پیش کر رہا ہے۔

یہ بات اچھی طرح سمجھنے کی ہے کہ بجٹ محض حکومت کی آمد و خرچ کا ایک میزانیہ نہیں   ہوتا بلکہ وہ دستور کے دیے ہوئے معاشی، سیاسی اور معاشرتی پالیسیوں کے فریم ورک میں اور اربابِ حکومت کے عوام سے کیے ہوئے وعدوں اور ان کی ضروریات اور عزائم کی تکمیل کے لیے جامع پالیسیوں یا ان کے فقدان کا مظہر ہوتا ہے۔ بجٹ اعداد و شمار کا کھیل نہیں ہوتا اور اس کا کام  جمع و تفریق کے ذریعے مالی بیلنس شیٹ کی خانہ پُری بھی نہیں ہوتی۔ حکومت کے اخراجات کی ہرمد اور آمدنی کا ہرذریعہ ایک معاشی پالیسی کا آئینہ دار ہوتا ہے اور اس کے دُوررس اثرات ملک کی معیشت اور عوام کی زندگی پر مرتب ہوتے ہیں۔ بجٹ یہ موقع فراہم کرتا ہے کہ حکومت کی ایک پورے سال کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے ، اور اس کارکردگی کی روشنی میں اگلے سال بلکہ سالوں کے لیے صحیح منصوبہ بندی کی جائے، مستقبل کے لیے مناسب پالیسیوں اور حکمت عملیوں کی تشکیل ہو اور ان پر عمل درآمد کے لیے جن مالیاتی وسائل کی ضرورت ہے، ان کی فراہمی اور خرچ کی مدات اور  مقدار کا حقیقت پسندانہ پروگرام قوم اور اس کے نمایندوں کے سامنے پیش کیا جائے اور ان کی تائید اور توثیق سے اگلے سال کا تفصیلی پروگرام مرتب کیا جائے۔

  • یہی وجہ ہے کہ دنیا کے بیش تر ممالک میں بجٹ سازی کا عمل چار سے چھے مہینوں پر محیط ہوتا ہے۔ ایک ایک مد پر کھل کر بحث کی جاتی ہے اور جمہوری نقدواحتساب کے ذریعے آخری فیصلے کیے جاتے ہیں اور اس اصول پر سختی سے عمل ہوتا ہے کہ کوئی ٹیکس منتخب نمایندوں اور پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر عائد نہ کیا جائے اور تمام اخراجات ان حدود کے اندر ہوں جو پارلیمنٹ نے طے کی ہیں۔ ایک وزارت یا پروجیکٹ کے لیے طے شدہ رقوم کے اندر جزوی تبدّل تو انتظامیہ کرسکتی ہے لیکن کوئی نئی تخصیص (appropriation) پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر نہیں کی جاسکتی۔ اس کو no taxation without legislation (قانون سازی کے بغیر کوئی ٹیکس نہیں) کے مشہورِ زمانہ اصول کے نام سے جانا جاتا ہے۔

پاکستان میں بجٹ سازی کا باوا آدم ہی نرالا ہے۔ یہاں پارلیمنٹ میں بمشکل تین ہفتے اور صوبائی اسمبلیوں میں تو ایک ہی ہفتے میں بجٹ پیش ہوکر منظور ہوجاتا ہے اور ارکانِ پارلیمنٹ اِلاماشاء اللہ بجٹ کے موقعے پر فراہم کی جانے والی دستاویزات کی ورق گردانی کی زحمت بھی نہیں کرتے اور پارٹی کے حکم کے تحت بجٹ منظور کردیتے ہیں۔ عوام اور میڈیا کی آہ و بکا کا کوئی اثر نہ حکومت پر ہوتا ہے اور نہ عوام کے نمایندے ہی عوام کا مقدمہ لڑنے کی ذمہ داری ادا کرتے ہیں۔ یہ بڑی ہی مایوس کن صورت حال ہے جس سے عوام کا اعتماد سیاسی قیادت پر بُری طرح مجروح ہورہا ہے اور ملک و قوم کو معاشی بحران کے گرداب سے نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آرہا ہے۔

ملک کے دستور (دفعہ ۸۴) میں ایک اہم سقم یہ ہے کہ حکومت کو بجٹ کے باہر اخراجات کی آزادی بھی حاصل ہے جسے ضمنی گرانٹ کے نام پر ہرسال بجٹ کے موقعے پر سندِجواز دے دی جاتی ہے اور اس طرح حکومت کو پارلیمنٹ اور بجٹ دونوں کا مذاق اُڑانے کی کھلی چھٹی حاصل ہے۔ اس سال (۲۰۱۱ء-۲۰۱۰ء) بھی بجٹ میں کل حکومتی اخراجات کے لیے ۱۸۹۱؍ارب روپے کی حد مقرر کی گئی تھی مگر حکومت نے اس سے ۳۸۷؍ارب روپے زیادہ خرچ کیے جو بجٹ کا ۴ء۲۰ فی صد بن جاتا ہے۔ یہ اس وقت جب کہ آمدنی کی مد میں جو متوقع رقم رکھی گئی تھی اصل ٹیکس کی آمدنی اس سے ۱۰۰؍ ارب روپے کم ہوئی۔ یہ مالیاتی بے قاعدگی (fiscal indiscipline) کی بدترین مثال ہے اور پارلیمنٹ نے سینیٹ کے انتباہ کے باوجود چند منٹ میں اس اضافی گرانٹ کی منظوری دے دی اور حکومت کا کوئی احتساب نہیں کیا۔

پیپلزپارٹی اور اس کی اتحادی جماعتوں کی حکومت کو، اقتدار میں آئے ساڑھے تین سال ہوچکے ہیں۔ حکومت نے اپنا چوتھا بجٹ پیش کیا ہے اور توقع تھی کہ اس وقت ملک جس معاشی بحران میں مبتلا ہے، اس بجٹ میں اس سے نکلنے کے لیے کوئی مؤثر اور حقیقت پسند پالیسی اور اس پر عمل کا مکمل نقشۂ کار پیش کیا جائے گا مگر اے بسا آرزو کہ خاک شدہ!

پیپلزپارٹی کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ اسے اپنے اقتدار کے چاروں ادوار میں کوئی ایسا وزیرخزانہ پسند نہ آیا جو معاشیات پر گہری نظر رکھتا ہو اور ملک کی معیشت کو ٹھوس بنیادوں پر استوار کرنے کی صلاحیت کا حامل ہو۔ جناب ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں سیاسی نعرے بازی اور نظریاتی شوروغوغا تو بہت تھا مگر افسوس ہے کہ ان ساڑھے پانچ سالوں میں کوئی ٹھوس اور مربوط معاشی منصوبہ بندی اور پالیسی سازی نہ ہوسکی۔ ڈاکٹر مبشرحسن نے نظریاتی اعتبار سے چند اقدام کیے لیکن معیشت پر ان کی گرفت نہیں تھی۔ سارا نظام بیوروکریسی کے ہاتھوں میں تھا اور غلام اسحاق خاں، وی اے جعفری اور ایم ایم احمد اصلی کرتا دھرتا تھے۔ محترمہ بے نظیر کے اقتدار کے دونوں ادوار میں وی اے جعفری حالات کے کرتا دھرتا رہے اور احسان الحق پراچہ اور نوید قمر کو مختصر مدت کے لیے  وزارتِ خزانہ کی ذمہ داری ملی مگر دونوں کوئی ابتدا بھی نہ کرسکے۔ زرداری گیلانی کے تازہ ادوارِ اقتدار میں بھی پارٹی درآمد شدہ وزارے خزانہ کی مرہونِ منت ہے اور پاکستان ورلڈبنک، آئی ایم ایف اور عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے دیے ہوئے خطوط پر چلنے پر اپنے کو مجبور پاتا ہے۔ رہی سہی کسر امریکا کی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ اور مفاد پرست اربابِ اقتدار کی نااہلی، کرپشن اور بے تدبیری نے نکال دی ہے۔ یہ تین ساڑھے تین سال معاشی اعتبار سے بدترین سال رہے ہیں۔ اس عرصے میں چار بار وزیرخزانہ تبدیل ہوئے، چار بار وزارتِ خزانہ کے سیکرٹری اور تین بار اسٹیٹ بنک کے گورنر بدلے۔ معاشی منصوبہ بندی کمیشن میں بھی اُکھاڑ پچھاڑ ہوتی رہی اور معاشی امور سے  متعلقہ نصف درجن وزارتوں میں کوئی ہم آہنگی موجود نہ تھی۔ ہر ایک اپنی چلانے کی کوشش کرتا رہا اور معیشت کا حال بد سے بدتر ہوتا گیا۔ حتیٰ کہ جناب شوکت ترین نے ایک بار پھر آئی ایم ایف کے دروازے پر دستک دی اور ملک استحکام کے نام پر معاشی جمود اور اس کے ساتھ افراطِ زر اور بے روزگاری اور غربت میں اضافے کے بھنور میں گرفتار ہوگیا۔

پیپلزپارٹی کے اقتدار کے اس دور میں معاشی ترقی کی رفتار پاکستان کی تاریخ میں پست ترین رہی ہے۔ ۱۹۶۰ء کے عشرے میں ترقی کی رفتار چھے اور سات فی صد تک رہی۔ ۱۹۵۰ء سے ۲۰۰۶ء تک کے معاشی حالات کا جائزہ لیا جائے تو نظر آتا ہے کہ سارے نشیب و فراز اور باربار کی امریکی پابندیوں کے باوجود اوسط رفتار ترقی سالانہ پانچ فی صد رہی۔ یہ صورتِ حال پاکستان کی ۶۴سالہ تاریخ میں پہلی بار رونماہوئی ہے کہ گذشتہ چار برسوں میں اوسط رفتار ترقی ۵ء۲ فی صد رہی ہے جو آبادی میں ۱ء۲ فیصد اضافے کے بعد ترقی کے مفقود ہونے اور حقیقی جمود (stagnation) کی غماز ہے۔ اس پر مستزاد مہنگائی اور افراطِ زر ہے جس کی اوسط شرح ان چار برسوں میں ۱۵ فی صد رہی ہے اور اشیاے خوردونوش کی مہنگائی کا اوسط سالانہ ۱۸فی صد رہا ہے۔ اس کا نتیجہ ہے کہ ان  چار برسوں میں غربت میں ہوش ربا اضافہ ہوا ہے۔ وہ افراد جن کی روزانہ آمدنی ۲۵ء۱ ڈالر (۱۰۰روپے) یا اس سے کم ہے، ۲۰۰۰ء میں ۴کروڑ ۷۰ لاکھ تھی جو ۲۰۱۱ء میں بڑھ کر ۷کروڑ ۲۰لاکھ ہوگئی ہے یعنی مطلق غربت میں ۲کروڑ ۵۰لاکھ کا اضافہ ہوا ہے۔ اگر غربت کی حد (poverty line) کو دو ڈالر یا ۱۷۰روپے یومیہ رکھا جائے تو ۱۸کروڑ کے اس ملک میں ۱۱کروڑ افراد اس کس مپرسی کے عالم میں مبتلا ہیں۔ ملک میں عدم مساوات میں دن دونا اوررات چوگنا اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک طرف امیرطبقہ ہے جو امیرتر ہورہا ہے۔ آبادی کا ایک فی صد ہرمہینہ اوسطاً پانچ لاکھ یا اس سے زیادہ کما رہا ہے۔ اُوپر کا ۱۰ فی صد ۵۰ ہزار ماہانہ یا اس سے زیادہ کما رہا ہے۔ دوسری طرف آبادی کا وہ ۱۰ فی صد ہے جو معیشت کے پست ترین درجے میں ہے، اس کی ماہانہ آمدنی ۲۰۰۷ روپے یا اس سے بھی کم ہے۔ ان چار برسوں میں کھانے پینے کی اشیامیں اوسط اضافہ ۷۴ فی صد ہوا ہے اور بے روزگاری میں بھی ۲۰فی صد سے زیادہ اضافہ ہوچکا ہے۔ بجلی اور گیس کی قلت اور مہنگائی نے حالات کو اور بھی خراب کردیا ہے۔ زراعت اور بڑی صنعت میں ترقی کی رفتار یا منفی رہی ہے یا براے نام اضافہ ہوا ہے۔

Pew ریسرچ سنٹر نے راے عامہ کا جو جائزہ ۲۱جون ۲۰۱۱ء کو شائع کیا ہے، اس کی رُو سے آبادی کے ۹۲ فی صد کا کہنا ہے کہ ملک غلط سمت میں جارہا ہے اور ۸۵فی صد نے کہا ہے ملک کی معاشی حالت خراب اور ناقابلِ برداشت ہے۔ اس سے زیادہ پریشان کن یہ امرہے کہ آبادی کا ۶۰فی صد مستقبل میں بھی معاشی حالات میں کسی بہتری کی توقع نہیں رکھتا۔آبادی کے ۹۷ فی صد کی نگاہ میں سب سے اہم مسئلہ مہنگائی اور۸۹ فی صد روزگار کے مواقع کے فقدان کو قراردیتا ہے۔ جرائم کے فروغ اور دہشت گردی کے اضافے میں دوسرے اسباب کے ساتھ ان معاشی حالات کا بھی اہم حصہ ہے۔ اس ملک کی تاریخ میں غربت اور افلاس تو ماضی میں بھی رہے ہیں، لیکن یہ کیفیت کبھی نہ ہوئی تھی کہ غربت کی وجہ سے اس بڑی تعداد میں لوگ خودکشی کے مرتکب ہوں، اپنی اولاد کو اپنے ہاتھوں ہلاک کر دیں یا سرعام ان کو بیچنے پر مجبور ہوجائیں۔ ایک طرف حالات کی یہ سنگینی ہے اور دوسری طرف اربابِ اقتدار کا یہ حال ان کے عیش و عشرت میں کوئی کمی نہیں۔ ان کی شہ خرچیاں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ بدعنوانی، کرپشن اور قومی دولت کے غلط استعمال کا بازار گرم ہے۔ تعجب ہے کہ جب آبادی کے ۷۵ فی صد کی یومیہ آمدنی ۱۷۰ روپے یا اس سے کم ہے صرف     ایوانِ صدر اور ایوانِ وزیراعظم کا روزانہ خرچ ۲۵ لاکھ روپے ہے۔ اور صرف صدر اور وزیراعظم کے بیرونی دوروں پر خرچ ہونے والی رقم ۲؍ارب روپے ہے___ یعنی روزانہ ۵۵لاکھ روپے۔

ایک طرف عوام کی یہ حالت زار ہے اور دوسری طرف قومی خزانے کو کس طرح لوٹا جارہا ہے اس کا اندازہ اس سے کیجیے کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو اور ورلڈبنک کے اندازوں کے مطابق ٹیکسوں کی چوری سالانہ ۱۰۰۰؍ ارب روپے سے ۱۲۰۰؍ ارب روپے ہے۔ ایف بی آر کے حساب سے جو ٹیکس ادا ہورہا ہے اس کا ۷۹ فی صد چوری ہو رہا ہے۔ ورلڈبنک کے مطابق یہ تناسب ۶۹ فی صد ہے۔ اگر صرف اس ٹیکس چوری کا ۵۰ فی صد وصول کرلیا جائے تو بجٹ کا خسارہ ختم ہوسکتا ہے۔

زندگی کے ہرشعبے میں کرپشن کا راج ہے۔ ورلڈبنک اور ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے اندازے کے مطابق ۳۰۰؍ارب روپے سے ۶۰۰؍ارب روپے کرپشن کی نذر ہورہے ہیں۔ ناقص کارکردگی اور ضیاع (leakages) ان پر مستزاد ہیں۔ حالات ابتری کی کس انتہا پر ہیں، اس کااندازہ    اس سے کیجیے کہ اے جی پی آر کی سرکاری رپورٹ کے مطابق اس حکومت کے پہلے سال میں صرف کھلی کھلی بے قاعدگیوں کے نتیجے میں ۳۳۰؍ارب روپے کے وہ اخراجات ہوئے ہیں جن کا کوئی جواز نہ تھا۔ سرکاری انتظام میں چلنے والے تقریباً سارے ادارے خسارے میں چل رہے ہیں۔ ان کی نااہلی اور بدعنوانی کے نتیجے میں سرکاری خزانے سے ۴۰۰ سے ۶۰۰؍ارب روپے عام آدمی کا پیٹ کاٹ کر ان کو دیے جارہے ہیں۔ وزارتِ قانون نے کسی قانونی استحقاق کے بغیر کروڑوں روپے اپنی من پسند بار ایسوسی ایشنوں کو بانٹ دیے، صرف ایک وزارت نے ۳؍ارب روپے خفیہ فنڈ کے نام پر اُڑا دیے۔ ترقیاتی منصوبوں میں ۳۰ فی صد ایسے ہیں جن کو مشکوک قراردیا گیا ہے۔ ورلڈبنک نالاں ہے کہ جس پروجیکٹ کو ۳۴ ماہ میں پورا ہونا چاہیے وہ ۶۸مہینے لے رہا ہے۔ پروجیکٹ کی لاگت میں ۱۰۰فی صد اضافہ ہوجاتا ہے۔ پلاننگ کمیشن اور  قومی معاشی کونسل کی معاشی کمیٹی (ECNEC) کی بے تدبیری کا یہ حال ہے کہ اس اعلیٰ ترین معاشی ادارے نے جو منصوبے منظور کیے ہیں ان میں سے ۸ء۲۷ فی صد ایسے ہیں جن کو منظور کردیا گیا ہے مگر ان کی کوئی تفصیلی رپورٹ موجود نہیں ہے۔ بس خانہ پُری کے لیے اعلان کردیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیکڑوں منصوبے ایسے ہیں جن میں اربوں روپے صرف ہوگئے ہیں لیکن عملاً ان منصوبوں کے کبھی بھی   پایۂ تکمیل تک پہنچنے کا کوئی امکان نہیں۔

بجٹ اور زمینی معاشی حقائق میں کوئی ربط و تعلق نہیں۔ حکومت کی گرفت نہ معاشی زمینی حقائق پر ہے اور نہ اس کے پاس معاشی تشکیلِ نو کا کوئی واضح اور مربوط وژن ہے۔ المیہ یہ ہے کہ

رو ہیں رخشِ عمر کہاں دیکھیے تھمے
نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں

سالِ گذشتہ کے بجٹ میں جو متعین اہداف بیان کیے گئے تھے، ان میں سے تقریباً ہر ایک کے بارے میں موجودہ بجٹ اور بجٹ کے ساتھ پیش کی جانے والی دستاویزات کے مطابق وہ پورے نہیں ہوئے۔ معاشی ترقی کی رفتار، زرعی اور صنعتی پیداوار، روزگار کے مواقع، افراطِ زر کی شرح، ٹیکس کی آمدنی، بجٹ خسارے کی مقدار ___کوئی ایک بھی ہدف پورا نہیں ہوا ہے۔ معاشی ترقی کی رفتار کا ہدف ۵ء۴ فی صد تھا جو صرف ۴ء۲ فی صد پر رک گئی ہے۔ آزاد معاشی ماہرین کی راے میں عملاً یہ ایک فی صد سے زیادہ نہیں۔ افراطِ زر کو ۹ فی صد پر لانے کا دعویٰ تھا مگر عملاً وہ ۱۴ فی صد سے زیادہ ہے، یعنی صارفین کا قیمتوں کا اشاریہ لیکن اگر تھوک قیمتوں کے اشاریے کو لیا جائے تو    وہ ۲۹ء۲۳ فی صد تھا۔ GDP تقلیلِ زر ۱۹ فی صد ہے جو افراطِ زر کو ناپنے کا ایک بہتر ذریعہ ہے۔ نتیجتاً ملک اس معاشی بیماری میں شدت سے مبتلا ہے جسے stagflationکہا جاتا ہے، یعنی ایک طرف معیشت میں جمود ہے تو دوسری طرف اس کے ساتھ افراطِ زر بھی عروج پر ہے اور اس طرح    ایک کریلا وہ بھی نیم چڑھا کی صورتِ حال پیدا ہوگئی ہے۔

حکومت کے اخراجات بے قابوگئے ہیں۔ ۹۹-۱۹۹۸ء میں حکومت کے کل غیرترقیاتی اخراجات ۵۴۷؍ارب روپے تھے جو ۱۱-۲۰۱۰ء میں بڑھ کر ۱۸۹۱؍ارب روپے ہوگئے اور آیندہ سال یعنی ۱۲-۲۰۱۱ء میں مزید بڑھ کر ۲۳۱۵؍ارب روپے ہوجائیںگے۔ جن میں صرف قرضوں پر سود اور ناگزیر قسطوں کی ادایگی کے لیے سالِ رواں میں ۷۹۱؍ارب روپے صرف ہوجائیں گے۔ دفاع اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے اتنی ہی رقم مزید درکار ہوگی یعنی تقریباً ۸۰۰؍ارب۔ حکومت کے انتظامی اخراجات کے لیے بجٹ کا بمشکل ۱۰ فی صد میسر ہوگا جس کا ایک بڑا حصہ تنخواہوں کی ادایگی کے بعد شاہ خرچیوں کی نذر ہوگا، کاروبار مملکت چلانے کے لیے اندرونی اور بیرونی قرضوں پر انحصار ہوگا۔ یہی وجہ ہے سارا نظام ’قرض کی مئے‘ کے سہارے چل رہا ہے اور اس غریب قوم پرقرضوں کا بوجھ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ گذشتہ ۶۰برسوں میں اندرونی اور بیرونی قرضوں کا کُل حجم ۴۷۰۰؍ا رب روپے تھا جو ان چار برسوں میں بڑھ کر ۱۰ہزار ارب روپے کی حدوں کو پھلانگ گیاہے۔ یعنی صرف ان چار برسوں میں گذشتہ ۶۰سال میں لیے جانے والے ۴۷۰۰؍ارب روپے کے قرض میں ۵۰۰۰؍ارب روپے سے زیادہ کا اضافہ ہوگیاہے۔ اگر یہی طورطریقے جاری رہے تو خطرہ ہے کہ اگلے سال اس میں مزید ایک سے ڈیڑھ ہزار ارب روپے کا اضافہ ہوجائے گا۔ اس لیے کہ اندازے کے مطابق اگلے مالی سال میں صرف بجٹ کا خسارہ    ایک ہزار ارب روپے سے کم نہیں ہوگا۔ آئی ایم ایف کو خوش کرنے کے لیے خسارے کی جو رقم   کم دکھائی گئی ہے خسارے کا اس کی حدود میں رہنا ناممکن ہے۔ دعویٰ کیا گیا ہے خسارے کو کم رکھنے کی وجہ یہ توقع ہے کہ صوبوں میں ۱۲۵؍ارب روپے زائد (surplus) ہوں گے لیکن اگلے سال کے لیے چاروں صوبوں کا بجٹ آگیا ہے اور ان میں مجموعی بچت بمشکل ایک ارب روپے بنتی ہے۔ باقی ۱۲۴؍ارب روپے کہاں سے آئیںگے؟

مرکزی حکومت کو مرکزی بنک اور کمرشل بنکوں سے قرض لینا ہوگا۔ بہت سے مصارف کم اور بہت سی آمدنی رقوم کو قابلِ وصول حد سے زیادہ دکھایا گیا ہے۔ مثلاً اسٹیٹ بنک سے نفع کو ۱۲۰۰؍ارب دکھایا گیا ہے جو ۱۶۰؍ارب روپے سے زیادہ نہیں ہوسکتا۔ ٹیکس کے ہدف کے بارے میں بھی معاشی ماہرین کو خدشہ ہے کہ اس میں ۱۰۰؍ارب زیادہ لگائے گئے ہیں۔ یہی صورت    تین جی لائسنسوں کے سلسلے میں ہے جس سے ۷۵؍ارب کی متوقع آمدنی رکھی گئی ہے لیکن اس کی وصولیابی مشتبہ ہے۔ اس کے برعکس معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ بہت سے اخراجات ہیں جن کو  کم لگایا گیا ہے اور خطرہ ہے کہ جس طرح ۱۱-۲۰۱۰ء میں اضافی اخراجات ۳۸۷؍ارب روپے کے ہوئے آیندہ سال بھی بجٹ میں دکھائے ہوئے اخراجات سے ۲۵۰ سے ۳۵۰؍ارب روپے کے اخراجات زیادہ ہوںگے۔ جس راستے پر موجودہ حکومت گام زن ہے، وہ تباہی کا راستہ ہے۔ فارن پالیسی میگزین نے ناکام ریاستوں کاجو گوشوارہ اسی مہینے شائع کیا ہے، اس میں اس نے دنیا کے ۱۷۲ممالک میں پاکستان کو نیچے سے ۱۲ویں نمبر پر رکھا ہے۔ ملکوں کی درجہ بندی کے تمام ہی ادارے بدقسمتی سے پاکستان کی معیشت کی درجہ بندی برابر کم کررہے ہیں۔ بیرونی سرمایے کی آمد رُک گئی ہے بلکہ ملکی سرمایہ باہر جا رہا ہے حتیٰ کہ پاکستانی صنعت کار بنگلہ دیش اور دبئی کا رُخ کر رہے ہیں اور اربابِ حکومت کو ان حالات کا کوئی ادراک نہیں۔

معاشی میدان کے بڑے چیلنج

اس وقت معاشی میدان میں جو سب سے بڑے چیلنج درپیش ہیں وہ یہ ہیں:

۱- غربت اور اس میں مسلسل اضافے کا رجحان

۲- معاشی ترقی کی رفتار کا ٹھٹھر جانا، جس کا مظہر سرمایہ کاری میں کمی، صنعت اور زراعت میں جمود، روزگار کے مواقع کا مسدود ہوجانا، اور بے روزگاری میں اضافہ ہے۔

۳-مہنگائی اور وہ بھی ہوش ربا مہنگائی۔

۴- مالیاتی بے قاعدگی جس کے نتیجے میں اخراجات اور وہ بھی غیرترقیاتی اخراجات میں بے پناہ اضافہ اور حکومت کے ترقیاتی مصارف میں کمی۔ یہ مصارف ۱۰، ۱۵ سال پہلے قومی پیداوار کا ۷فی صد ہوا کرتے تھے اور اب ۳فی صد سے بھی کم ہوگئے ہیں۔ غیرترقیاتی اخراجات میں اضافے کے ساتھ، قرض کے بار میں اضافہ اور ٹیکس اور دوسری آمدنیوں میں خاطرخواہ اضافے کی کمی ہوئی جس کے نتیجے میں مالیاتی خسارہ بڑھ رہا ہے اور خطرناک حد تک بڑھ رہا ہے۔ ۲۰۰۵ء میں پارلیمنٹ نے ایک قانون منظور کیا تھا جسے Fiscal Responsibility Act کہتے ہیں، اس کی رُو سے نہ صرف حکومتی خسارے کو ایک حد میں رہناتھا بلکہ ہرسال اس میں اڑھائی فی صد کمی کرنی تھی اور ۲۰۱۳ء تک بجٹ کے خسارے کو ختم کرنا تھا۔ حکومت نے ان چار برسوں میں اس قانون کے الفاظ اور روح، دونوں کی خلاف ورزی کی ہے اور آج مالیاتی خسارہ معیشت کے استحکام کے لیے ایک بڑا خطرہ بن گیا ہے۔

۵- بیرونی قرضوں میں اضافہ اور عالمی سطح پر ملک کو مریضانہ حد تک محتاجی سے دوچار کردینا۔ اگلے سال سے آئی ایم ایف کے قرضوں کی ادایگی بھی شروع ہونا ہے۔ اس وقت ۷سے ۸؍ارب ڈالر سالانہ قرض ادایگی کی نذر کرنا پڑرہے ہیں اور قرض کی یہ ادایگی بھی نئے قرض سے کرناپڑرہی ہے۔اگربیرون ملک پاکستانیوں کی ترسیلاتِ زر جو اَب ۱۰ سے ۱۲؍ارب ڈالر سالانہ تک پہنچ گئی ہیں، نہ ہوتیں تو ہمارے زرمبادلہ کے محفوظ ذخائر ختم ہوچکے ہوتے اور ملک خدانخواستہ دیوالیہ ہوجاتا۔ اس خطرناک صورت حال کا حکومت کو کوئی اِدراک نہیں اور اس کے مقابلے کے لیے کوئی حکمت عملی اس بجٹ میں موجودنہیں۔

۶- ملکی معیشت میں ایک اور عدم توازن حقیقی پیداوار یعنی زراعت، صنعت (بڑی، وسطی اور چھوٹی) اور توانائی سیکٹر کا سکڑجانا اور صارفین سیکٹر اور خدمات سیکٹر کا پھیلائو ہے۔یہ عدم توازن شوکت عزیز صاحب کے زمانے میں شروع ہوا اور اب خطرناک حدود میں داخل ہوچکا ہے۔ لیکن بجٹ میں اس عدم توازن کو دُور کرنے اور پیداواری سیکٹر کو فروغ دینے کی کوئی حکمت عملی نظر نہیں آتی۔

۷- ایک اور بنیادی مسئلہ دولت کی عدم مساوات اور اس میں مسلسل اضافہ، اور ٹیکسوں کا ایسا نظام ہے جس کا بوجھ امیرطبقات کے مقابلے میں غریبوں پرزیادہ پڑرہا ہے۔ ٹیکس کا ۶۲ فی صد بالواسطہ ٹیکس ہے جس کا بڑا بوجھ غریب عوام پر پڑتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ۷۵ فی صد غریب آبادی کو اپنی آمدنی کا ۱۰ فی صد ٹیکس میں دینا پڑ رہا ہے، جب کہ امیرطبقے کی آمدنی پر بلاواسطہ ٹیکس کا جو بوجھ ہے، وہ ان کی آمدنی کا بمشکل پانچ فی صد بنتا ہے۔ نیز امیر طبقوں کے کئی اہم حصے ایسے ہیں جو عملاً ٹیکس کے جال سے باہر ہیں۔ خاص طور پر بڑے زمین دار جن کی آمدنی میں صرف گندم کی قیمت بڑھانے سے ۳۰۰ سے ۴۰۰؍ارب روپے کا سالانہ اضافہ ہوا ہے، جب کہ ان کی آمدنی ٹیکس کی گرفت سے باہر ہے۔ غضب ہے کہ صوبوں نے جو براے نام ٹیکس بڑے زمین داروں پر لگایا ہے، اس سے نہ صرف یہ کہ پورے ملک سے بمشکل ایک ڈیڑھ ارب روپے حاصل ہوتے ہیں بلکہ سندھ میں تازہ بجٹ کے اعداد وشمار سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلے اس مد سے آمدنی ۵۰۰ ملین روپے ہورہی تھی جو اس سال کم ہوکر ۱۵۰ ملین روپے رہ گئی ہے۔ یہی حال ملک کی خریدوفروخت، اسٹاک ایکسچینج کے تاجروں اور بڑے بڑے پیشوں سے متعلق افراد کا ہے جن میں وکیل، ڈاکٹر، مشیر، اکائونٹنٹ وغیرہ شامل ہیں۔ یہ نظام ملک کی دولت کی عدم مساوات کو بڑھا رہا ہے۔ امیرامیر تر ہو رہا ہے اور غریب پر محصولات اور افراطِ زر دونوں کی وجہ سے بوجھ بڑھ رہا ہے۔

۸- کرپشن ایک ناسور کی طرح معیشت کے ہرشعبے کو کھارہا ہے اور صدرسے معمولی اہل کار تک ہرکوئی اس بگاڑ میں شامل ہے۔ آج پاکستان دنیا کے ۱۰ کرپٹ ترین ممالک میں سے ایک ہے۔ بلاشبہہ یہ نظام کی خرابی ہے مگر اس بگاڑ کو اپنی انتہا تک پہنچانے میں تین چیزوں کا خاص دخل ہے: ایک قیادت کا اپنا کردار اور مثال، دوسرا انتظامی امور میں صواب دیدی راے کا عمل دخل اور تیسرے ملک میں احتساب کے مؤثر اور شفاف نظام کا فقدان۔

غضب ہے کہ نیب کا ادارہ عضو معطل بنا دیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ کے واضح احکامات کے باوجود احتساب کے نظام کو  فعال کرنے کی کوئی کوشش نظر نہیں آتی۔ ستم بالاے ستم کہ قومی اسمبلی میں احتساب کے قانون کا مسودہ دواڑھائی سال سے زیرغور ہے لیکن مفاد پرست عناصر اس کوقانون نہیں بننے دیتے۔ کرپشن کو سختی سے ختم کیے بغیر ملک کے لیے معاشی دلدل اور ظلم اور ناانصافی کے چنگل سے نکلنا محال ہے۔ کرپشن ہی کی ایک شکل میرٹ کا خون ہے۔ موجودہ حکومت کا ریکارڈ   اس سلسلے میں سب سے خراب ہے۔ اس نے جس طرح سیاسی اور شخصی مقاصد کے لیے نااہل لوگوں کو ذمہ داری کے مناصب پر لگایاہے اور عدالت، میڈیا اور سول سوسائٹی کے احتجاج کے علی الرغم ہرجگہ اپنی من مانی کی ہے، اس نے انتظامی مشینری، فیصلہ سازی کے نظام اور شعبہ انتظامیات کے پورے دروبست کو تباہ وبرباد کر دیا ہے۔ کوئی ادارہ ایسا نہیں جہاں قانون اور ضوابط کے مطابق خالص میرٹ کی بنیاد پر تقرریاں ہورہی ہوں۔ اس سے انتظامی مشینری کی چولیں ہل گئی ہیں اور حکومت کے نظام میں ہر جگہ نااہلی اور بدعنوانی اور بددیانتی کا بازار گرم ہے۔ حالات پہلے بھی بہت اچھے نہ تھے مگر زرداری گیلانی دور کے بارے میں تو یہ خرابیاں اپنے عروج پر پہنچ گئی ہیں۔

۹- پبلک سیکٹر کے تقریباً تمام ہی اہم کاروباری ادارے آج خسارے میں جارہے ہیں اور ان کو زندہ رکھنے کے لیے سرکاری خزانے سے ۳۰۰ سے ۴۰۰؍ارب روپے سالانہ خرچ کرنا پڑر ہے ہیں جو صریح ظلم ہے۔ اس کی وجہ سے وہ شعبہ ہاے زندگی سب سے زیادہ وسائل سے محروم ہورہے ہیں جن پر کسی ملک کے مستقبل اور خوش حال فلاحی معاشرے کا قیام اور فروغ ممکن ہے۔ یعنی تعلیم، صحت اور فنی ضرورتوں کی روشنی میںانفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ۔ ۱۵سال پہلے تعلیم پر کُل قومی دولت کا اڑھائی فی صد صرف ہو رہاتھا اور اسے چارفی صدتک لے جانے کی کوشش ہورہی تھی۔ مگر اب یہ کم ہوکر۸ء۱ فی صد رہ گیاہے۔ صحت پر اخراجات کا یہ تناسب ۸ء فیصد تھا جو اب کم ہوکر ۶ء فی صدرہ گیا ہے، جب کہ تعلیم پر قومی دولت کا کم از کم چارسے چھے فی صد اور صحت پر دو سے تین فی صد صرف ہونا چاہیے۔ سندھ کے بارے میں ایک تازہ ترین سروے کے نتیجے میں یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ وہاں ۴۲ہزار اسکولوں میں صرف ۷ہزار ایسے ہیں جو حقیقت میں برسرِکار (functional ) ہیں ورنہ ایک نمایاں تعداد بھوت اسکولوں کی ہے جن کا کوئی وجود نہیں۔ ان اسکولوں کا ۷۰ فیصد ایسا ہے کہ وہاں صرف ایک کمرہ اور ایک استاد ہے اور ایک کلاس میں طلبہ کی اوسط تعداد صرف سات ہے۔ سرکاری ہسپتالوں اور ڈسپنسریوں کا حال اس سے بھی ابتر ہے۔

خارجہ پالیسی اور معیشت

ملک کی معاشی حالت کو جن نکات میں ہم نے اُوپر بیان کیا ہے، وہ ایسے ہیں کہ انسان کا دن کا چین اور رات کا آرام مشکل ہوجاتا ہے مگر افسوس کا مقام ہے کہ موجودہ قیادت کو ان کا کوئی احساس نہیں۔ وژن، دیانت اور صلاحیت ہر ایک کا فقدان ہے۔ عوام نے جو توقعات ان سے وابستہ کی تھیں اور جس حکمرانی اور جمہوری انداز میں ملک کے مسائل کو حل کرنے کی ذمہ داری ان کو سونپی تھی، اس کو انھوں نے بُری طرح پامال کیا ہے۔ ان کی اپنی نااہلی کے ساتھ ان کی خارجہ پالیسی بھی معاشی حالات کو دگرگوں کرنے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ امریکا دہشت گردی کے نام پر جو کھیل کھیل رہا ہے وہ سب کے لیے تباہی کا راستہ ہے۔

امریکا کے اپنے عالمی عزائم ہیں اور وہ ان کے حصول کے لیے اس جنگ کو نت نئے رنگ میں آگے بڑھا رہا ہے حالانکہ خود اسے ان ۱۰برسوں میں ۵ سے ۶ ٹریلین ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے۔ صرف افغانستان میں ۱۰۰؍ارب ڈالر جنگ کی آگ میںجھونک رہا ہے اور کسی ایک میدان میں بھی کامیابی حاصل نہیں ہورہی اور بالآخر اب جولائی ۲۰۱۱ء سے انخلا کی حکمت عملی پر عمل شروع کر رہا ہے۔ اس کے بعد اب پاکستان کو میدانِ جنگ  میں تبدیل کرنے کا کھیل کھیلا جارہا ہے۔ اس سال کے معاشی سروے میں حکومت نے خود اس معاشی قیمت کا ایک اندازہ پیش کیا ہے جو پاکستان کو امریکا کی جنگ میں شرکت کی وجہ سے برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ پاکستانی قوم نے پہلے دن سے اسے اپنی جنگ نہیں سمجھا اور Pew کا جو تازہ سروے آیاہے اس کی رُو سے پاکستان کی آبادی کا ۷۳ فی صد امریکا کی اس جنگ کے خلاف ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ پاکستان نے اس جنگ میں سب سے زیادہ قیمت ادا کی ہے، جب کہ اسے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوا۔ ۳۵ہزارپاکستانی عوام شہید ہوئے ہیں اور۶ہزار پاکستانی فوجی اور دوسرے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افراد لقمۂ اجل بنے ہیں۔ زخمی ہونے والوں کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ اور بے گھر ہونے والے ۵۰لاکھ سے زیادہ ہیں۔ یہ تو وہ نقصانات ہیں جن کا روپوں اور ڈالروں میں کوئی اندازہ ممکن ہی نہیں۔ لیکن جونقصانات بلاواسطہ اور بالواسطہ خالص معاشی میدان میں اُٹھانے پڑر ہے ہیں، ان کا اندازہ بھی ۶۸بلین ڈالر ہے جو پاکستانی روپوں میں ۸ء۵۰۳۶؍ ارب روپے ہوجاتا ہے جو اس نام نہاد امریکی امداد سے جو ان ۱۰برسوں میں کسی بھی شکل میں بشمول پاکستان کی فوجی خدمات کے عوض دی گئی ہیں پانچ گنا زیادہ ہے۔ یعنی اس جنگ میں جو امریکا کے ہر ایک ڈالر کے مقابلہ میں پاکستان کے غریب عوام نے پانچ ڈالر کا بوجھ اُٹھایا ہے۔ یہ صرف معاشی پہلو ہے____ پاکستان کی آزادی، خودمختاری اور سالمیت کو جو نقصان پہنچا ہے اور جو انسانی تباہی و بربادی ہوئی ہے وہ اس کے سوا ہے۔

نکلنے کا راستہ

سوال یہ ہے کہ ان حالات سے نکلنے کاراستہ کیا ہے؟ بات بہت واضح ہے کہ پاکستانی قوم اور قیادت کو ایک بنیادی فیصلہ کرنا ہوگا اور اس کے دو پہلو ہیں۔ پہلا یہ کہ امریکا کی اس ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ سے جلد از جلد نکلنا اور جو تباہی اس کی وجہ سے پاکستان میں ہوئی ہے کم از کم    اس سے بچنے کا آغاز۔

لیکن دوسرا اور سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ ہمیں کہاں جانا ہے، ہمارے اپنے قومی مفادات کیا ہیں، ہمیں کس قسم کی معیشت قائم کرنی ہے اور پاکستان کی شناخت اور اس کی سیاسی، معاشی اور تہذیبی منزل کا صحیح صحیح تعین___ اور پھر اس کی روشنی میں پوری معاشی پالیسی، معاشی منصوبہ بندی اور بجٹ سازی کی نئی راہ کا تعین، گویا امریکا کی مسلط کردہ جنگ اور پاک امریکی تعلقات کے موجودہ انتظام سے اپنے کو علیحدہ کرنا اور بالکل نئے اہداف اور مقاصد کے مطابق امریکا سے شرائط معاملہ (terms of engagment)کو ازسرِنو مرتب کرنا اور اسی طرح پاکستان کے تاریخی اور قومی مفادات کی روشنی میں معاشی حکمت عملی کی تشکیلِ نو۔

پاکستان وہ بدنصیب ملک ہے جو مادی اور انسانی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود آج غربت، بے روزگاری، مہنگائی، توانائی کے بحران اور قرضوں کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے اور اس کی اصل وجہ اس وژن کوبھول جانا ہے جس نے تحریکِ پاکستان کو جنم دیا تھا اور مقصد سے بے وفائی جس کے لیے ملتِ اسلامیہ پاک و ہند نے قائداعظم کی رہنمائی میں عظیم قربانیاں دے کر یہ خطۂ زمین حاصل کیا تھا۔ اس کی دوسری وجہ اچھی قیادت کا فقدان، یا بہ الفاظ صحیح تر، ملک پر ایک ایسی قیادت کا غلبہ جو وژن، دیانت اور صلاحیت سے محروم ہے اور جس کے سامنے اپنے ذاتی مفادات کے سوا کوئی اور مقصد نہیں۔ وژن اور منزلِ مقصود کے باب میں مثالی نمونے کی تبدیلی (paradigm shift) اور اس کے ساتھ انقلابِ قیادت جس کے نتیجے میں ایسے لوگ برسرِاقتدار لائے جاسکیں جو پاکستان کے مقصدِ وجود سے وفادار ہوں، جودیانت اور اعلیٰ صلاحیت کا نمونہ ہوں، جو عوام میںسے ہوں اور عوام کے سامنے جواب دہ ہوں اور سب سے بڑھ کر جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے وفا اور اطاعت کا رشتہ رکھتے ہوں اور ان کے سامنے اپنے کو جواب دہ سمجھتے ہوں۔ صحیح وژن اور اہل قیادت___ یہی وہ دو چیزیں ہیں جن کے ذریعے مطلوبہ تبدیلی ممکن ہے۔

استخلاف وہ بنیادی تصور ہے جس کے گرد زمین پر اسلام کے کردار اور اُمت مسلمہ کی اصل ذمہ داری کو سمجھا جاسکتا ہے۔ استخلاف کے تومعنی ہی یہ ہیں کہ مسلمان اللہ کے بندے کی حیثیت سے زندگی کے پورے نقشے کو اللہ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق ڈھالنے کی ہمہ گیر کوشش کرے اور انصاف کی بنیاد پر اجتماعی نظام قائم کرے۔ حضرت یوسف ؑکے اسوے سے یہ سبق ملتا ہے کہ خوش حالی کے سات سال اور خشک سالی کے سات سال زندگی کی حقیقت ہیں اورفراستِ نبوی کا تقاضا ہے کہ معاملات کو اس طرح انجام دیا جائے کہ خوش حالی کے ثمرات کو خشک سالی کے اَدوار تک پہنچایا جاسکے۔ اس کے لیے حکمت اور امانت دونوں درکار ہیں۔ استخلاف کی ذمہ داری اختیار، اقتدار اور وسائل کے صحیح استعمال کے بغیر ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں نے قرآن و سنت کی روشنی میں جو معاشی نظام قائم کیا اس میں محنت اور جدوجہد اور وسائل کی ترقی اور ان کا صحیح استعمال، ان کی منصفانہ تقسیم اور ان کے درست انتظام کے نتیجے میں خوش حالی، منصفانہ اور طاقت ور معاشرے کاقیام ہے، جس کی بنیادی خصوصیت حلال و حرام کے احترام کے ساتھ انسانوں کے درمیان انصاف کا قیام اور آزادی اور اخوت کا ایسا ماحول قائم کرنا ہے جس میںہرفرد بحیثیت خلیفہ اپنا کردار ادا کرسکے اور کوئی کسی کا محتاج نہ ہو۔ اقبال نے اسی انقلابی تصور کو دو مصرعوں میں اس طرح ادا کردیا ہے   ؎

کس نہ باشد در جہاں محتاج کس
نکتہ شرع مبیں، این است و بس

اقبال نے قائداعظم کو ملّتِ اسلامیہ ہند کی جس جدوجہد کی قیادت کی دعوت دی تھی اس کا اظہار انھوں نے اپنے ۲۸؍مئی ۱۹۳۷ء کے خط میں بڑے واضح الفاظ میں یوں کیا تھا:

ہمارے سیاسی اداروں نے مسلمانوں کی عمومی حالت کو بہتر بنانے کے لیے کبھی غوروفکر نہیں کیا۔ روزگار کا مسئلہ زیادہ سنگین ہوتا جا رہا ہے۔ مسلمانوں نے یہ محسوس کرنا شروع کر دیا ہے کہ وہ گذشتہ ۲۰۰برسوں سے نیچے ہی نیچے جا رہے ہیں۔عام طور پر وہ یقین رکھتے ہیں کہ ان کی غربت کا سبب ہندو مہاجنی یا سرمایہ داری ہے۔ انھیں یہ شعور نہیں ہے کہ یہ بیرونی حکمرانی کا نتیجہ ہے لیکن انھیں جلد یہ ادراک ہوکر رہے گا۔ جواہر لال نہرو کے بے خدا سوشلزم کو مسلمانوں کی طرف سے زیادہ پذیرائی نہیں ملے گی۔ سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کی غربت کا مسئلہ کس طرح حل ہو؟ اور لیگ کے مستقبل کا انحصار بھی اسی پر ہے کہ وہ اس مسئلے کو کس طرح حل کرتی ہے۔

خوش قسمتی سے اس مسئلے کا حل اسلامی قانون کے نفاذ میں ہے۔ میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اگر اس قانون کو مناسب انداز میں سمجھا اور نافذ کیا جائے تو اس کے نتیجے میں ہرایک کا روزگار کا حق محفوظ ہوجائے گا۔ لیکن اس ملک میں اسلامی شریعت کا نفاذ اور ارتقا ایک آزاد اسلامی ریاست یا ریاستوں کے بغیر ممکن نہیں۔

قائداعظم نے آل انڈیا مسلم لیگ کے تیرھویں اجلاس میں جو دہلی میں ۲۴جولائی ۱۹۴۳ء میں منعقد ہوا تھا پاکستان کے قیام کے اس مقصد کو ان الفاظ میں اور بڑے جذبات سے اداکیا:

یہاں میں ان جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو متنبہ کروں گا جو ہمارے وسائل کے بل پر پھلے پھولے ہیں۔  عوام کا استحصال ان کے خون میں سرایت کرچکا ہے۔ اس کے نتیجے میں وہ اسلام کا سبق بھول چکے ہیں۔ آپ دیہی علاقے میں کہیں بھی چلے جائیں میں خود دیہاتوں میں گیا ہوں۔ ہمارے لکھوکھا لوگ ہیں جنھیں ایک وقت کی روٹی بھی بمشکل ملتی ہے۔ کیا یہ تہذیب ہے؟ کیا یہ پاکستان کا مقصد ہے؟ کیا آپ تصور کرسکتے ہیں کہ لاکھوں لوگوں کا استحصال کیا جاچکا ہے اور انھیں ایک وقت کی روٹی بھی میسر نہیں۔ اگر یہ پاکستان کا تصور ہے، تو یہ میرے پیش نظر نہیں ہے۔

قیامِ پاکستان کے بعد ۲۷ستمبر ۱۹۴۷ء ولیکا ٹیکسٹائل ملز کا سنگِ بنیاد رکھتے ہوئے قائداعظم نے فرمایا:

اپنے ملک میں صنعت کاری کے ذریعے ہم اشیاے صرف کی فراہمی کے لیے بیرونی دنیا پر انحصار کم کرسکیں گے، لوگوں کو روزگار کے زیادہ مواقع فراہم کرسکیںگے اور مملکت کے وسائل میں بھی اضافہ کرسکیں گے۔قدرت نے ہمیں صنعت و حرفت میں کام آنے والے بہت سے خام مال سے نوازا ہے۔ اب یہ ہمارا کام ہے کہ ہم اسے ملک اور عوام کے بہترین مفاد کے لیے استعمال کریں۔ (قائداعظم: تقاریر و بیانات، جلد چہارم، ص ۳۷۳)

اور یکم جولائی ۱۹۴۸ء بنک دولت پاکستان کا افتتاح کرتے ہوئے آپ نے فرمایا:

حکومتِ پاکستان کی حکمت عملی یہ ہے کہ قیمتوں کو ایسی سطح پر مستحکم کردے جو تیار کنندہ اور صارف دونوں کے لیے منصفانہ ہو۔ مجھے امید ہے کہ اس اہم مسئلہ کو کامیابی کے ساتھ حل کرنے کے لیے آپ کی مساعی بھی اس جہت کا لحاظ رکھیں گی۔

آپ کا تحقیقی شعبہ، بنکاری کے طور طریقوں کو معاشرتی اور اقتصادی زندگی کے اسلامی تصورات سے ہم آہنگ کرنے کے سلسلے میں جو کام کرے گا، میں ان کا دل چسپی کے ساتھ انتظار کروں گا۔ اس وقت مغربی اقتصادی نظام نے تقریباً ناقابلِ حل مسائل پیداکردیے ہیں اور ہم میں سے اکثر کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ شاید کوئی معجزہ ہی دنیا کو اس بربادی سے بچا سکے جس کا اسے اس وقت سامنا ہے..... مغربی اقدار، نظریے اور طریقے خوش و خرم اور مطمئن قوم کی تشکیل کی منزل کے حصول میں ہماری مدد نہیں کرسکیں گے۔ ہمیں اپنے مقدر کو سنوارنے کے لیے اپنے ہی انداز میں کام کرنا ہوگا اور دنیا کے سامنے ایک ایسا اقتصادی نظام پیش کرنا ہوگاجس کی اساس انسانی مساوات اور معاشرتی عدل کے سچے اسلامی تصور پر استوار ہو۔ (ایضاً، ص ۵۰۰-۵۰۱)

یہ ہے پاکستان کا اصل وژن۔

دستور کی روشنی میں

۱۹۷۳ء کے دستور میں اس وژن کو اس طرح پاکستان کے اساسی قانون کا حصہ اور حکومت کے لیے پالیسی سازی کے لیے واضح ہدایت مقرر کیا گیا ہے:

دفعہ ۳ (۲) پاکستان کے مسلمانوں کے بارے میں مملکت مندرجہ ذیل کے لیے کوشش کرے گی:

(ا) قرآن پاک اور اسلامیات کی تعلیم کو لازمی قرار دینا ، عربی زبان سیکھنے کی حوصلہ افزائی کرنا اور اس کے لیے سہولت بہم پہنچانا اور قرآن پاک کی صحیح اور من و عن طباعت اور اشاعت کااہتمام کرنا۔

(ب) اتحاد اور اسلامی اخلاقی معیاروں کی پابندی کو فروغ دینا، اور

(ج) زکوٰۃ (عشر) اوقاف اور مساجد کی باقاعدہ تنظیم کا اہتمام کرنا۔

دفعہ (۳۷)

(ا) پس ماندہ طبقات یا علاقوں کے تعلیمی اور معاشی مفادات کو خصوصی توجہ کے ساتھ فروغ دے گی۔

(ب) کم سے کم ممکنہ مدت کے اندر ناخواندگی کا خاتمہ کرے گی اور مفت اور لازمی ثانوی تعلیم مہیا کرے گی۔

(ج) فنی اور پیشہ ورانہ تعلیم کو عام طور پر ممکن الحصول اور اعلیٰ تعلیم کو لیاقت کی بنیاد پر سب کے لیے مساوی طور پر قابلِ دسترس بنائے گی۔

(د) سستے اور سہل الحصول انصاف کو یقینی بنائے گی۔

(ہ) منصفانہ اور نرم شرائط کار، اس امر کی ضمانت دیتے ہوئے کہ بچوں اور عورتوں سے ایسے پیشوں میں کام نہ لیا جائے گا جو ان کی عمر یا جنس کے لیے نامناسب ہوں، مقرر کرنے کے لیے احکام وضع کرے گی۔

(و) مختلف علاقوں کے افراد کو، تعلیم، تربیت، زرعی اور صنعتی ترقی اور دیگر طریقوں سے اس قابل بنائے گی کہ وہ ہرقسم کی قومی سرگرمیوں میں، جن میں ملازمت پاکستان میں خدمت بھی شامل ہے، پورا پورا حصہ لے سکیں۔

(ز) عصمت فروشی، قمار بازی اور ضرر رساں ادویات کے استعمال، فحش ادب اور اشتہارات کی طباعت، نشرواشاعت اور نمایش کی روک تھام کرے گی۔

(ح) نشہ آور مشروبات کے استعمال کی، سواے اس کے کہ وہ طبی اغراض کے لیے یا غیرمسلموں کی صورت میں مذہبی اغراض کے لیے ہو، روک تھام کرے گی، اور

(ط) نظم ونسق حکومت کی مرکزیت دُور کرے گی تاکہ عوام کو سہولت بہم پہنچانے اور ان کی ضروریات پوری کرنے کے لیے اس کے کام کے مستعد تصفیہ میں آسانی پیدا ہو۔

دفعہ ۳۸- مملکت

(ا) عام آدمی کے معیارِ زندگی کو بلند کر کے، دولت اور وسائل پیداوار و تقسیم کو چند اشخاص کے ہاتھوں میں اس طرح جمع ہونے سے روک کر کہ اس سے مفادِ عامہ کو نقصان پہنچے اور آجر وماجور اور زمین دار و مزارع کے درمیان حقوق کی منصفانہ تقسیم کی ضمانت دے کر بلالحاظ جنس، ذات، مذہب یا نسل، عوام کی فلاح و بہبود کے حصول کی کوشش کرے گی۔

(ب) تمام شہریوں کے لیے، ملک میں دستیاب وسائل کے اندر، معقول آرام و فرصت کے ساتھکام اور مناسب روزی کی سہولتیں مہیا کرے گی۔

(ج) پاکستان کی ملازمت میں، یا بصورتِ دیگر تمام ملازم اشخاص کو لازمی معاشرتی بیمے کے ذریعے یا کسی اور طرح معاشرتی تحفظ مہیا کرے گی۔

(د) ان تمام شہریوں کے لیے جو کمزوری، بیماری یا بے روزگاری کے باعث مستقل یا عارضی طور پر اپنی روزی نہ کما سکتے ہوں بلالحاظ جنس، ذات، مذہب یا نسل، بنیادی ضروریاتِ زندگی مثلاً خوراک، لباس، رہایش، تعلیم اور طبی امداد مہیا کرے گی۔

(ہ) پاکستان کی ملازمت کے مختلف درجات میں اشخاص سمیت، افراد کی آمدنی اورکمائی میں عدم مساوات کو کم کرے گی اور

(و) ربا کو جتنی جلد ممکن ہو، ختم کرے گی۔

معیشت کی اسلامی تشکیل

اقبال اور قائداعظم کے بیانات اور دستورِ پاکستان میں وہ وژن بہت صاف الفاظ میں موجود ہے جو پاکستان کے معاشی، مالیاتی اور تہذیبی نظام کے خدوخال متعین کرتا ہے۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہماری قیادت ان تمام ہدایات اور اہداف کو نظرانداز کر رہی ہے اور قوم کو ایک بحران کے اور دوسرے بحران سے دوچارکر رہی ہے۔ اسلام نے پہلے دن سے تمام معاشی وسائل کو امانت قراردیا ہے اور قیادت اور عامۃ المسلمین پر لازم کیا ہے کہ وہ اس امر کو یقینی بنائیں کہ اللہ کے دیے ہوئے وسائل انسانی محنت کے ساتھ تمام انسانوں کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال ہوں۔ بیت المال کا ادارہ دورِخلافتِ راشدہ ہی میں قائم ہوگیا تھا اور اس کا مقصد نظامِ حکومت چلانے کے لیے جو وسائل درکار ہیں ان کے حصول اور استعمال کے ساتھ معاشرے میں خوش حالی اور فلاحِ عامہ کے لیے وسائل کا صحیح صحیح استعمال یقینی بنایا جائے۔

یہی وجہ ہے کہ پہلے دن سے بیت المال کے دو شعبے قائم کیے گئے___ ایک کا تعلق ’اموال المسلمین‘ سے تھا، تودوسرے کو ’اموال الصدقہ‘ قرار دیا گیا تاکہ تمام اجتماعی اور فلاحی ضرورتیں پوری ہوسکیں گی۔ ملوکیت میں خزانہ بادشاہ کی مرضی کے تابع ہوتا تھا اور حکمران کے ذاتی اموال اور عوام کے اموال میں کوئی تمیز نہ تھی۔ لیکن اسلام نے اس کو بیت المال کا مالک نہیں امین بنایا اور دورِ ملوکیت میں بھی بیت المال الخاصّہ جو خلیفہ کے ذاتی تصرف میں ہوتا تھا، اور بیت المال المسلمین جو تمام مسلمانوں کے لیے تھا، میں واضح فرق کیا جاتا تھا۔ دولت عثمانیہ تک یہ فرق نظام کاحصہ تھا۔

ان تاریخی حقائق کی روشنی میں ہم یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ اگر پاکستان کی معیشت کی تنظیم نو اسلامی بنیادوں پر کی جائے اور دیانت اور اہلیت کے ساتھ جو وسائل اللہ تعالیٰ نے ہمیں دیے ہیں ان کوترقی دی جائے اور استعمال کیا جائے تو پاکستان چند برسوں میں دنیاکے لیے نمونہ بن سکتاہے۔ ہمیں کسی بیرونی امداد کی ضرورت نہیں۔ ہمارے پاس وہ وسائل موجود ہیں جن کو دیانت اور    سمجھ داری سے ترقی دے کر پاکستان کو ایک خوش حال فلاحی معاشرہ بنایا جاسکتا ہے اور ایک ایسے نظام کا نقشہ دنیا کے سامنے پیش کیا جاسکتاہے جو ترقی اور خوش حالی کا ایسا نمونہ جس میں کوئی کسی کا محتاج نہ ہواور سب ایک دوسرے کے لیے تقویت کا ذریعہ بنیں۔ ترقی کا یہ راستہ خودانحصاری اورانصاف کے قیام سے عبارت ہے اور یہی ہمارے لیے نجات کی راہ ہے۔

 

قوم ابھی ۲مئی ۲۰۱۱ء کے ایبٹ آباد پر امریکی حملے کے زخموں سے بے حال تھی کہ ۲۲مئی کو پاکستان نیوی کے مہران بیس پر دشمن نے ایک کاری ضرب لگائی، اور پاک بحریہ اپنے دفاع کے ناقابلِ تسخیر ہونے کے تمام دعووں اور نیول بیس پر ۱۱۰۰ محافظوں کی موجودگی کے باوجود چار یا چھے یا ۱۲سرپھرے نوجوانوں کی ۱۶گھنٹے پر محیط کارروائی کے نتیجے میں اپنے قیمتی ترین دفاعی اثاثوں سے محروم ہوگئی۔ ۱۲ عسکری جوانوں نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا، ۲۰سے زیادہ زخمی ہوئے، اور پاکستان کی دفاعی صلاحیت پر قوم کو جو ناز تھا اور دشمن جس سے خوف زدہ تھے، اس کے بارے میں ایسے سوالات اُٹھ کھڑے ہوئے جو دن کا چین اور رات کی نیند حرام کردینے والے ہیں۔

دہشت گردی کے خلاف امریکا کی جنگ میں شرکت کے فیصلے سے اب تک ہماری دفاعی تنصیبات اور اداروں پر ۱۲۱حملے ہوچکے ہیں جن میں فضائیہ، بری فوج، بحریہ اور آئی ایس آئی کے حساس ترین مقامات پر دشمن نے کارروائیاں کی ہیں اور ’دہشت گردی کی کمرتوڑ دینے‘ کے باربار کے دعووں کے باوجود دہشت گردی کی کارروائیوں میں کوئی کمی واقع نہیں ہورہی ہے بلکہ کمیت اور کیفیت دونوں کے اعتبار سے اضافہ ہی ہوتا نظر آرہا ہے۔ کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیا کہ ہماری سیاسی اور عسکری قیادت کی آنکھیں کھلیں اور پورے مسئلے کا ازسرِنو جائزہ لے کر ان ۱۰برسوں میں جو کچھ ہوا ہے، اس کا بے لاگ تجزیہ کرکے نفع اور نقصان کا مکمل میزانیہ تیار کیا جائے اور آگ اور خون کے اس جہنم سے نکلنے کے لیے نئی سوچ اور نئی حکمت عملی وضع کی جائے۔

اہلِ نظر اور دانش ور ہر بڑے واقعے کو wake-up call (جاگو! جاگو!!) کہتے ہیں لیکن قیادت ہے کہ امریکا کے طلسم میں مسحور خوابِ غفلت سے بیدار ہونے کو تیار نہیں۔ امریکی ڈرون حملے روز افزوں ہیں۔ بارک اوباما، ہیلری کلنٹن اور امریکا کی عسکری قیادت حتیٰ کہ پاکستان میں امریکا کے سفیر بھی مسلسل اعلان کر رہے ہیں کہ انھیں پاکستان پر اپنے یک طرفہ فوجی ایکشن، ہماری حاکمیت کی پامالی، اور ہمارے شہریوں کی ہلاکت پر نہ صرف کوئی افسوس نہیں اور وہ کسی قسم کی معذرت کے اظہار تک کے لیے تیار نہیں ہیں بلکہ دھڑلّے سے کہہ رہے ہیں کہ جو کچھ ماضی میں کیا ہے، پاکستانی عوام کے سارے احتجاج اور امریکا کی مخالفت کے جذبات کے پُرزور اظہار کے باوجود، وہ پھر ویسے ہی حملے کریںگے اور پاکستان کی پارلیمنٹ نے امریکا کی ان جارحانہ کارروائیوں کے خلاف جو متفق علیہ اعلان ایک بار پھر ۱۴مئی ۲۰۱۱ء کو کیا ہے، اس کی وہ پرِکاہ کے برابر بھی پروا نہیں کرتے۔ دوسری طرف پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کا حال یہ ہے کہ ’’ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم‘‘،   اور اس سے بھی زیادہ پریشان کن رویہ ان صحافیوں، دانش وروں، اینکر پرسنز اور سیاست دانوں کا ہے جو معروضی حقائق، عوام کے جذبات اور پارلیمنٹ کی قراردادوں کو یکسرنظرانداز کرتے ہوئے قوم کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ امریکا کی گرفت سے نکلنے کی کوشش تباہ کن ہوگی___ گویا اس قوم کی آزادی، سالمیت، خودمختاری، عزت اور وقار سب غیرمتعلق ہیں اور صرف چند ارب ڈالروں کے لیے ملت اسلامیہ پاکستان نے لاکھوں انسانوں کی قربانی دے کر جو آزادی اور عزت حاصل کی ہے اور ایک ایٹمی طاقت پاور بن کر جو مقام حاصل کیا ہے، اسے چند ٹکوں کی خاطر قربان کردیا جائے۔ یہ وہ غلامانہ ذہنیت اور تباہ کن مفاد پرستی ہے جس کے بارے میں اقبال نے کہا تھا    ؎

تھا جو ناخوب ، بتدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر

فیصلہ کن سوال

آج قوم کے سامنے ایک بار پھر وہی سوال ہے جو برطانوی دورِ غلامی میں اس کے سامنے تھا ___ یعنی وقتی مفادات کی پوجا یا آزادی اور عزت کی زندگی کے لیے ازسرِنو جدوجہد، خواہ وہ کیسی ہی کٹھن کیوں نہ ہو۔ ملت اسلامیہ پاکستان نے جس طرح اُس وقت کے مفاد پرست سیاست دانوں اور عافیت کوشوں کے خوش نما الفاظ ان کے منہ پر دے مارے تھے اور ہرقسم کی قربانیاں دے کر آزادی اور عزت کا راستہ اختیار کیا تھا، آج بھی قوم کو اپنی آزادی اور عزت کی حفاظت کے لیے موجودہ سیاسی بازی گروں اور مفاد پرستوں کے چنگل سے نکل کر پاکستان اور اس کے آزادی اور اسلامی تشخص کی حفاظت کے لیے سردھڑ کی بازی لگانا ہوگی، اس لیے کہ بقول اقبال    ؎

یا مُردہ ہے یا نزع کے عالم میں گرفتار
جو فلسفہ لکھا نہ گیا خونِ جگر سے

اگر قوم کو اپنی آزادی اور عزت کی حفاظت کے لیے امریکا کی سامراجی گرفت سے نکلنا ہے___ اور حقیقت یہ ہے کہ ہمارے سامنے اس کے سوا کوئی دوسرا  راستہ موجود ہی نہیں ہے___ تو اس کے لیے ضروری ہے کہ پوری دیانت داری کے ساتھ ان عوامل کو سمجھا جائے جن کی وجہ سے ہماری آزادی گروی ہوگئی ہے اور ہماری پالیسیاں واشنگٹن کے اشارے پر اور بہت بڑی حد تک صرف امریکا کے مفاد میں وضع کی جارہی ہیں۔

اس نئی غلامی کے کَسے شکنجوں کو مضبوط تر کرنے کے لیے معاشی زنجیریں روز افزوں ہیں۔ حکمرانوں کو ان کی کرپشن اور مفاد پرستی کی وجہ سے امریکا نے اپنا  آلۂ کار بنالیا ہے۔ اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے امریکی سفارت کاروں، امریکی این جی اوز، امریکی ماہرین اور محاسبوں کی فوج ظفر موج، اور ان کے ساتھ ہماری سرزمین پر ا مریکی افواج، سی آئی اے کے اہل کار اور مخبر سرگرم ہیں۔ ریمنڈ ڈیوس کے خون آشام ڈرامے نے اس امریکی نیٹ ورک کو بے نقاب کردیا جو ملک کی باگ ڈور کو اپنی مرضی کے مطابق چلا  رہا ہے۔ ڈرون حملوں کی روز افزوں بوچھاڑ اور ہماری سرزمین پر امریکی فوجی قدموں کی چاپ، نیز ہر روز واشنگٹن اور کابل سے امریکی سول اور فوجی آقائوں کی آمدورفت، اس نئے استعماری انتظام کے وہ چند پہلو ہیں جو اب کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ ہمارے حکمران خواہ کیسے ہی خوابِ غفلت میں مبتلا ہوں یا اس خطرناک کھیل میں شریک کار ہوں لیکن پاکستانی قوم اب بیدار ہوچکی ہے اور اس کے سامنے اپنی آزادی اور عزت کی حفاظت کے لیے ہرممکن ذریعے سے اجتماعی جدوجہد کے سوا کوئی راستہ باقی نہیں رہا ہے۔ یہ معرکہ کس طرح سر کیا جائے، اس پر گفتگو کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ چند حقائق کو ذہنوں میں تازہ کرلیا جائے۔

نیا عالمی خطرناک کہیل

یہ بات اچھی طرح سمجھنے کی ہے کہ امریکا اور یورپی اقوام ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے نام پر ایک دوسرے ہی ایجنڈے پر کام کر رہی ہیں۔ اصل ایشو دنیا کے، اور خصوصیت سے مسلم اور عرب دنیا کے معدنی، معاشی اور اسٹرے ٹیجک وسائل پر قبضہ اور ان کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کرنا ہے۔ نیز اس استحصالی بندوبست کو محفوظ کرنے کے لیے مسلم اور عرب ممالک پر ایسی قیادتوں کو مسلط کرنا اور مسلط رکھنا ہے جو امریکا کے آلۂ کار کی حیثیت سے خدمات انجام دے سکیں۔ اس سلسلے میں سیاسی اور عسکری قیادتوں کے ساتھ لبرل دانش ور صحافیوں اور سول سوسائٹی کے اداروں کا استعمال ان کی حکمت عملی کا مرکزی حصہ ہے۔ معاشی طور پر ان ممالک کو اپنی گرفت میں رکھنے کے لیے قرضوں کا جال بچھایا گیا ہے اور ان ممالک کو عالم گیریت (globalization) کے نام پر مغربی اقوام اور اداروں کی محتاجی (dependence) کی زنجیروں میں جکڑ دیا گیا ہے۔ آخری حربے کے طور پر امریکی افواج کو، جو تباہ کن ٹکنالوجی سے آراستہ ہیں، استعمال کیا جا رہا ہے۔    آج  دنیا میں ۸۰ سے زائد مقامات پر امریکی فوجی اڈے موجود ہیں۔ افغانستان اور عراق کی جنگ اور عالمِ عرب کے قلب میں اسرائیل کی کیل کانٹے سے لیس افواج اور خفیہ تنظیموں کا کردار اس  گیم پلان کا حصہ ہے۔

امریکی سرمایہ دارانہ نظام کے بقا اور ترقی کے لیے جنگ، جنگی امداد اور تجارت ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں اور اس کی پالیسی پر عمل کا مؤثر ترین ذریعہ ہیں۔ اس گریٹ گیم کو سب سے بڑا خطرہ مسلمان عوام، ان کے دینی شعور اور اُمت مسلمہ کے جذبۂ جہاد سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ جنگ عسکری قوتوں سے لڑی جارہی ہے اور جس ملک سے مزاحمت کا خطرہ ہے، اس کی عسکری اور مزاحمتی قوت کو توڑنا اور وسائل بشمول عسکری اثاثہ جات کو اپنی گرفت اور کنٹرول میں لانا اس حکمت عملی کا مرکزی حصہ ہیں۔

ساتھ ہی ساتھ، نظریاتی اور تہذیبی جنگ کے ذریعے اسلام، اسلامی تحریکات اور اسلامی احیا کے تمام مظاہر کو ہدف بنایا جارہا ہے اور اسلام کے ایک ایسے نمونے (version) کو مسلمانوں میں پھیلانے کی کوشش ہورہی ہے جو سیاسی، معاشی اور تہذیبی میدان میں مغرب کے فکر اور نمونے کو قبول کرلے اور دین کو محض نمایشی رسوم تک محدود کردے۔ اس کے لیے روشن خیالی، موڈریشن، صوفی اسلام اور نہ معلوم کس کس عنوان کو استعمال کیا جارہا ہے اور اسلامی احیا اور سامراج مخالف رجحانات کو دہشت گردی، تشدد، جبر اور خونیں تصادم کے عنوان سے بدنام کرنے کی عالم گیر پیمانے پر منظم کوششیں ہورہی ہیں۔

اس خطرناک کھیل میں دانا دشمنوں کے ساتھ نادان دوست بھی اپنا اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ پاکستان چونکہ اسلام کے نام پر قائم ہونے والا ملک ہے اس لیے وہ خصوصی ہدف بنا ہوا ہے۔ پاکستان عسکری طور پر مضبوط اور جوہری طاقت کا حامل ملک ہے اس لیے اس کی فوجی قوت اور جوہری صلاحیت کو خصوصی نشانہ بنایا جارہا ہے۔ دنیاے اسلام میں مغربی استعمار کو چیلنج کرنے والی جو بھی قوت ہے اسے کمزور اور غیر مؤثر کرنے کا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ امریکا کی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘، مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کے جارحانہ کھیل کی مکمل سرپرستی اور مسلم دنیا میں بیرونی افواج کے تسلط کے خلاف ہر مزاحمتی تحریک کو ہدف بنایا جا رہا ہے۔ مصر، جو عرب دنیا کی ایک مؤثر ترین قوت تھا، اُسے اپنے مہروں کے ذریعے غیرمؤثر کر دیا گیا۔ عراق، جو اسرائیل کے لیے ایک خطرہ تھا، اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی۔ افغانستان، جس نے اپنی بے سروسامانی کے باوجود روسی استعمار کا منہ پھیر دیا، اسے مسلسل خانہ جنگی میں جھونک دیا گیا، پھر القاعدہ پر یلغار کے نام پر اس پر اپنا فوجی تسلط قائم کر دیا گیا اور افغانستان کے ساتھ پاکستان کو بھی نائن الیون کے واقعے کی لپیٹ میں لیتے ہوئے اپنی گرفت میں لے لیا گیا۔ جنرل پرویز مشرف کو جس طرح اپنے قابو میں کیا گیا اور پاکستانی فوج کو عملاً اپنے ہی ملک میں اپنی ہی قوم سے برسرِپیکار کردیا گیا___ یہ سب اس خطرناک کھیل کا حصہ ہے۔

آج جو کچھ پاکستان میں ہو رہا ہے اس کی اصل حقیقت کا اِدراک، اس پس منظر کے سمجھے بغیر، ممکن نہیں۔ آج پاکستان میں معصوم انسانوں کا خون بہایا جا رہا ہے۔ مسجدوں، امام بارگاہوں، مزاروں، فوجی تنصیبات، حساس اور فوجی اداروں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ یہ ہراعتبار سے قابلِ مذمت اور ایک نقصان کا سودا ہے لیکن اس تباہی سے نجات کے لیے ضروری ہے کہ دہشت گردی سے دنیا کو پاک کرنے کے نام پر امریکا کی مسلط کردہ جنگ اور اس کی معاونت کے لیے کام کرنے والے اداروں، حکومتوں اور کارندوں کے کردار کو سمجھا جائے اور افراد،گروہوں اور حکومتوں، سب کی ان سرگرمیوں کو روکا جائے جو دراصل دہشت گردی کے فروغ کا ذریعہ بن چکی ہیں۔ امریکا اور مغربی اقوام کی ظالمانہ پالیسیوں کی تبدیلی اور عسکری، سیاسی، معاشی اور تہذیبی جنگ کے شعلوں کو بجھانے کی حکمت عملی ہی مسئلے کے سیاسی اور پایدار حل کا راستہ ہموار کرسکتی ہے۔ استعماری قوتوں اور ان کے حامیوں اور آلہ کاروں کی خون آشامیوں کو قابو میں لاکر ہی مزاحمتی قوتوں کو مذاکرات کی میز پر لانا اور معاملات کا سیاسی حل نکالنا ممکن ہوسکتا ہے۔ حقیقی مزاحمت کاروں اور جرائم پیشہ عناصر اور دوسروں کے مفاد کے لیے تباہی مچانے والے عناصر کو ایک دوسرے سے الگ کیا جاسکتا ہے اور پھر قانون اور انصاف کے اصولوں کے مطابق ہر نوعیت کے مجرموں کو سزا بھی دی جاسکتی ہے۔ اس طرح اس علاقے کو ایک بار پھر امن اور سلامتی کا گہوارا بنایا جاسکتا ہے۔

ہماری نگاہ میں حالات کو قابو میں لانے کے لیے مندرجہ ذیل امور ضروری ہیں:

عسکری نھیں سیاسی حل

اس امر کا اقرار اور اعلان کہ مسئلے کا حل سیاسی ہے، عسکری نہیں، اور عسکری کی ہرشکل کو بند کرنا ضروری ہے تاکہ اصل اسباب کی طرف توجہ دی جاسکے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جنگ سیاسی مسائل کا حل نہیں۔ امریکا کی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ نے دہشت گردی کو فروغ دیا ہے اور اسے کچھ حلقوں اور علاقوں میں معتبر بنا دیا ہے۔ ۳ہزار افراد کی ہلاکت کا بدلہ لینے کے لیے لاکھوں افراد کو لقمۂ اجل بنایا جاچکا ہے، لاکھوں کو ہمیشہ کے لیے اپاہج کردیا گیا ہے، لاکھوں کو بے گھر کیا جارہا ہے، ایک کے بعد دوسرے ملک کو تباہ و برباد کردیا گیا ہے۔ معاشی حیثیت سے پوری دنیا کو تباہی کے دہانے پر لے آیا گیا ہے۔ اس ۱۰سالہ جنگ میں صرف امریکا کو چھے سے ۱۰ ٹریلین ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔عراق اور افغانستان کو تباہ کردیا گیا ہے۔ صرف پاکستان میں ۳۶ہزار معصوم انسانوں، بچوں، بوڑھوں اور خواتین کو ہلاک کیا گیا ہے۔ ۵ہزار سے زائد فوجیوں اور قانون نافذ کرنے والے افراد کو زندگی کی نعمتوں سے محروم کر دیا گیا ہے۔ ایک لاکھ کے قریب افراد مجروح ہوئے ہیں، ۴۰لاکھ افراد اپنے ہی ملک میں بے گھر ہوگئے ہیں اور نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں۔ معیشت کو ۹۰سے ۱۰۰؍ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ شہروں اور دیہات کا امن تہ و بالا ہوگیا ہے، بھائی بھائی کا گلا کاٹ رہا ہے اور فوج اور قوم کے درمیان محبت، اعتماد اور احترام کا جو رشتہ تھا وہ پارہ پارہ ہوگیا ہے۔ جرائم پیشہ افراد اور ملک کے بیرونی دشمنوں نے اس فضا سے پورا فائدہ اٹھایا ہے اور      اپنے مذموم کھیل کے لیے اس دھوئیں کی چادر (smoke screen)کو استعمال کیا ہے۔ حکومت، فوج اور قوم اس دلدل میں پھنستی چلی جارہی ہے۔

ملک میں انتہاپسندی، تشدد، دہشت گردی اور کشت و خون کے اس کھیل کو امریکا کی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں پاکستان کے کردار سے الگ کر کے نہ سمجھا جاسکتا ہے اور نہ کوئی حل   نکالا جاسکتا ہے۔ اگرحکومت اور عسکری قیادت پارلیمنٹ کے متفقہ طور پر منظور شدہ قراردادوں اور پارلیمانی کمیٹی براے قومی سلامتی کے مرتب کردہ نقشۂ کار پر خلوص، دیانت اور حکمت کے ساتھ عمل کرنے کا راستہ اختیار کرے اور تمام سیاسی اور دینی قوتوں اور اس تصادم سے متاثر ہونے والے تمام عناصر کو شریک کر کے قومی سلامتی کے پروگرام پر عمل پیرا ہو، تو ایک مختصر وقت میں ہم اس جنگ سے نکل کر قومی تعمیروترقی کے لیے سرگرم ہوسکتے ہیں۔ اس سلسلے میں سیاسی قیادت اور عسکری ذمہ داران کو باہم مشاورت سے اور دستور اور سیاسی نظام کی بالادستی کے اصول کے تحت نقشۂ کار بنانا ہوگا۔ اس سلسلے میں یہ بھی بہت ضروری ہے کہ افغانستان سے امریکی اور ناٹو افواج کا انخلا ہو، افغانستان میں قومی سطح کی تمام اہم قوتوں کو باہمی مفاہمت کی بنیاد پر ایک میثاقِ ملّی پر مجتمع کیا جائے اور ایک دوسرے کی حاکمیت کے مکمل احترام کے ساتھ افغانستان اور اس کے تمام ہمسایہ ممالک علاقے کی سلامتی اور استحکام کا نقشہ تیار کرنے میں ایک دوسرے کے ممدومعاون ہوں۔

پاکستان کو امریکا کی گرفت سے نکالنے کے لیے ایک ایسی آزاد خارجہ پالیسی کی تشکیل ناگزیر ہے، جس کا مرکز و محور پاکستان کی آزادی، سلامتی، حاکمیت اور ترقی کے حصول کے لیے اس کے حقیقی مفادات کا تحفظ ہو، اور علاقے کے دوسرے تمام ممالک سے مشترک مفادات، باہمی تعاون اور انصاف اور بین الاقوامی قانون اور کنونشنز کی روشنی میں دوستی اور معاونت کا اہتمام ہو۔ یہ دیوانے کا خواب نہیں، وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے اور یہ پاکستان کی قیادت اور عوام کی ترجیح اوّل ہونی چاہیے۔ اس سلسلے میں یہ بھی ضروری ہے کہ امریکا کے ساتھ تعلقات کی نئی بنیادوں پر تشکیل کی جائے۔ دہشت گردی کی جنگ سے نکلنے کا مقصد اور ہدف دوٹوک انداز میں واضح کردیا جائے۔ امریکا کی معاشی امداد سے، جس کا ہماری معیشت میں کوئی بنیادی کردار نہیں اور جس کے بغیر  معیشت کو ٹھوس بنیادوں پر منظم کیا جاسکتا ہے، خوش اسلوبی سے نجات حاصل کی جائے۔ جن شرائط (terms of engagement) پر گذشتہ ۱۰سال سے معاملہ ہو رہا ہے، وہ سراسر پاکستان کے مفادات سے متصادم ہیں اور اس بارے میں دو آرا نہیں کہ پاکستان کی معیشت کو اس جنگ سے، اس امداد کے مقابلے میں جو ملی ہے، کم از کم ۸گنا زیادہ نقصان ہوا ہے۔ اس امداد کا بہت کم حصہ پاکستان اور اس کے غریب عوام کے حصے میں آیا ہے، اور اس کے عوض ہماری آزادی اور عزت دونوں کا سودا ہوگیا ہے۔ ملک کی معیشت ٹھٹھر کر رہ گئی ہے۔ قرضوں کا بوجھ ناقابلِ برداشت حد تک بڑھ گیا ہے۔ ملک پر اس کی تاریخ کے پہلے ۶۱برسوں میں قرض کا جو بوجھ پڑا ہے، وہ ساڑھے چار ہزار ارب روپے تھا، لیکن ان ساڑھے تین برسوں میں یہ بڑھ کر ۱۰ہزار ارب روپے سے تجاوز کرگیا ہے۔ گویا ۶۱برسوں کے قرض ایک طرف، اور صرف ان تین برسوں کے قرض دوسری طرف۔ آج ہر وہ بچہ جو پاکستان میں آنکھیں کھول رہا ہے، ۶۰ہزار روپے سے زیادہ کا مقروض پیدا ہو رہا ہے۔

وسائل کا صحیح استعمال

اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو جن وسائل سے نوازا ہے ، وہ خودانحصاری کی بنیاد پر ایک ترقی یافتہ ملک بننے اور ترقی کی دوڑ میں دوسرے ممالک سے آگے نکلنے کے لیے کافی ہیں۔یہ ہماری ناکام پالیسیاں اور نااہل اور بددیانت قیادتیں ہیں جن کی وجہ سے یہ قدرتی دولت سے مالا مال ملک دوسروں کا دست نگر بن گیا ہے۔ اس وقت بیرونی اور اندرونی قرضوں پر سود اور قسط کی ادایگی پر ۹۰۰؍ارب روپے سالانہ خرچ کرنے پڑرہے ہیں،جب کہ حکومتی سطح پر تمام ترقیاتی منصوبوںپر سال میں بمشکل ۲۸۰؍ارب روپے خرچ ہو رہے ہیں اور ان کا بھی بڑا حصہ بدعنوانی کی نذر ہو رہا ہے۔ اس وقت ۳۲۰۰ ترقیاتی منصوبے نامکمل پڑے ہیں اور ان پر جو اربوں روپے خرچ ہوچکے ہیں وہ خسارے کا سودا ہیں۔

ملک میں کرپشن کا دور دورہ ہے اور اس کا اندازہ بھی کرنا مشکل ہے کہ اس کالے کنویں (black hole) میں کتنی قومی دولت ضائع ہو رہی ہے۔ محتاط اندازہ ۶۰۰ سے ۱۰۰۰؍ ارب روپے سالانہ کا ہے۔ اس پر مستزاد وہ شاہ خرچیاں ہیں جو حکومت اور بیوروکریسی کی پہچان بن گئی ہیں۔ ایسی ایسی ہوش ربا مستند داستانیں ٹی وی چینل پر آئی ہیں کہ یقین نہیں آتا۔ لیکن کوئی گرفت اور سزا نہیں۔ سپریم کورٹ کو بھی ’’احترام، احترام‘‘ کرتے، عملاً بے اثر کر دیا گیا ہے۔ دوسری طرف وزیروں، مشیروں اور خصوصی معاونین کی ریل پیل ہے۔ مرکز میں وزرا کم کرنے کا اعلان کیا گیا مگر جس دن امریکا ایبٹ آباد پر حملہ کر رہا تھا، اس وقت ایوانِ صدر میں ڈیڑھ درجن نئے وزرا حلف لے رہے تھے۔ سب سے غریب صوبے کا یہ حال ہے کہ اس کی اسمبلی میں ۶۰ ارکان ہیں مگر وزیروں اور مشیروں کی تعداد ۵۵ تک پہنچ چکی ہے۔ وزیراعظم نے اعلان کیا تھا کہ غیرترقیاتی اخراجات میں ۳۰ فی صد کمی کی جائے گی مگر عملاً ان میں اضافہ ہوا ہے، براے نام بھی کمی نہیں کی گئی۔

ادھر آمدنی کا یہ حال ہے کہ فیڈرل بیورو آف ریونیو کے مطابق ۱۵۸۰؍ ارب روپے سالانہ وصول ہو رہے ہیں، جب کہ ۱۱۰۰؍ارب روپے سالانہ ٹیکس چوری کی نذر ہو رہے ہیں۔    اگر اس کا تین چوتھائی وصول کرلیا جائے تو بجٹ کا خسارہ ختم ہوسکتا ہے۔ پھر اہلِ ثروت کے بڑے بڑے گروہ ہیں جو ٹیکس کے نیٹ ورک میں آ ہی نہیں رہے۔ ان میں بڑے زمین دار، غیرمنقولہ جایدادوں کے مالک اور تاجر، اہم پیشہ ور افراد، جن میں وکلا، ڈاکٹر، انجینیر، اکائونٹنٹس وغیرہ شامل ہیں۔ اور پھر اسٹاک ایکسچینج کے تاجر اور وہاں حصص کا کاروبار کرنے والے اور اس میں بڑی رقوم کا منافع کمانے والے ہیں۔ اس وقت ٹیکس کی حد ۳لاکھ روپے سالانہ آمدنی ہے، اس حد کو بڑھا کر ۴ یا ۵ لاکھ بھی کیا جاسکتا ہے، مگر جس کی آمدنی بھی ۵لاکھ سالانہ یا اس سے زیادہ ہو، وہ واقعی ٹیکس دے تو حکومت کی آمدنی دگنی ہوسکتی ہے۔ اس وقت ۱۸کروڑ افراد کے ملک میں صرف ۱۸لاکھ افراد ٹیکس ادا کر رہے ہیں، جب کہ یہ تعداد کسی اعتبار سے بھی ۴۰سے ۵۰لاکھ سے کم نہیں ہونا چاہیے۔ اگر ٹیکس کے نیٹ ورک کو ایمان داری اور فرض شناسی کے ساتھ وسیع کیا جائے تو نہ حکومت کو قرضوں کی ضرورت ہو اور نہ بجٹ کا خسارہ ہمارا منہ چڑائے___ لیکن یہ سب اسی وقت ممکن ہے جب ملک کو دیانت دار اور لائق قیادت میسرہو، کرپشن کا خاتمہ کیا جائے، ملک میں قانون اور انصاف کا بول بالا ہو، احتساب کا مؤثر نظام موجود ہو، تمام ادارے اپنا اپنا کام دستور کے دائرے میں انجام دیں۔ معاشی پالیسیاں عوام دوست ہوں اور ترقی اور فلاحِ عامہ کے لیے بنائی جائیں اور ان پر دیانت سے عمل ہو۔

نظریاتی اساس کا استحکام

آج حالات بلاشبہ بہت ہی خراب ہیں، مگر اللہ تعالیٰ نے اس ملک کو ان تمام مادی اور انسانی وسائل سے مالامال کیا ہے جو ترقی اور خوش حالی کے لیے ضروری ہیں___ اصلاحِ احوال کے لیے ضروری ہے کہ اس وقت جو بنیادی خرابیاں ہیں، ان پر قابو پانے کی سرتوڑ کوشش کی جائے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے ہم اللہ کے حضور اپنی غلطیوں کا اعتراف کریں اور اصلاحِ احوال کے لیے خلوص اور دیانت سے زندگی کا ایک نیا ورق کھولیں۔ سب سے اہم چیز پاکستان کے قیام کے اصل مقصد اور عوام اور تاریخ سے کیے جانے والے وعدے کا پُرخلوص اعادہ ہے۔ علامہ اقبالؒ اور قائداعظم محمدعلی جناحؒ نے جو وعدہ اللہ اور عوام سے کیا تھا وہ یہ تھا کہ:

پاکستان کے نام سے ہم جو خطۂ زمین حاصل کرنا چاہتے ہیں، وہ اسلام کا گہوارا اور دورِحاضر میں اسلامی نظام کی تجربہ گاہ ہوگا اور ہم اپنے لیے اور پوری دنیا کے لیے دورِ جدید میں اسلام کا نمونہ پیش کرنے کی کوشش کریںگے۔

۱۹۴۰ء کی قراردادِ پاکستان اور علامہ اقبال کے ۱۹۳۰ء کے الٰہ آباد خطبۂ صدارت کی یہی روح ہے۔ قائداعظم نے ۱۹۴۰ء کے کنونشن سے جو خطاب کیا، حصولِ پاکستان کے مقاصد کے سلسلے میں قیامِ پاکستان سے قبل ایک سو سے ایک اور قیامِ پاکستان کے بعد ۱۴ مرتبہ اعلانات کیے، مزیدبرآں ۱۹۴۶ء کے مسلم لیگ لیجسلٹر کنونشن کی قرارداد، ۱۹۴۹ء کی قرارداد مقاصد اور پھر ۱۹۵۶ء، ۱۹۶۲ء اور ۱۹۷۳ء کے دساتیر میں قرارداد مقاصد اور ریاست کے لیے پالیسی کے رہنما اصولوں کی شکل میں ان وعدوں اور اعلانات کی قانون کی زبان میں تکرار___ ان سب کا خلاصہ یہ ہے کہ پاکستان میں اسلامی تہذیب و تمدن کا احیا ہوگا اور اسلام عملاً یہاںنافذ ہوگا۔

آج امریکا اور نام نہاد لبرل حلقوں کی طرف سے پاکستان کے اسلامی تشخص کو مجروح کرنے اور ایک نظریاتی کے بجاے محض ’قومی ریاست‘ بنانے کی سرگرمیوں کا سختی سے نوٹس لینے کی ضرورت ہے۔ یہ ملک میں نظریاتی کش مکش اور انتشار پھیلانے کی سازش ہے اور اس کا بھرپور اور مؤثر مقابلہ ضروری ہے۔

دوسری چیز پاکستان کو امریکا کی سیاسی اور معاشی غلامی سے نکالنا اور آزاد خارجہ پالیسی کی تشکیل ہے۔ نیز ملک کی معیشت، تعلیم اور تہذیبی اور سماجی زندگی کو عوام کے ایمان اور عزائم کے مطابق ڈھالنا اور خاص طور پر معاشی خودانحصاری اور عوام کی فلاح اور خوش حالی پر مرکوز کرنا ہے۔

تیسری چیز دستور کے دیے ہوئے نقشے کے مطابق: 

  • ریاست کے تمام اداروں کو مستحکم اور متحرک کرنا
  • پارلیمنٹ کی بالادستی
  • عدلیہ کی آزادی
  • غیرجانب دار میڈیا کی آزادی
  • تمام انسانوں کے حقوق کی مکمل پاس داری
  • قانون کی حکمرانی
  • مرکز اور صوبوں میں انصاف کی بنیاد پر دستور کے مطابق اختیارات اور وسائل کی تقسیم
  • بیورو کریسی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مکمل غیر جانب داری اور سیاسی وفاداریوں اور مفادات کے دبائو سے دستوری تحفظ
  • زندگی کے ہر شعبے کے لیے احتساب کا مؤثر اور غیر جانب دار نظام
  • ملک کی افواج کو صرف ملک کے دفاع کے لیے مختص کرنا
  • ان کو پیشہ ورانہ مہارت کی اعلیٰ ترین صلاحیتوں سے آراستہ کرنا
  • ان کے سیاسی کردار کو بالکل ختم کرنا ضروری ہے۔

عوامی اعتماد اور اچہی حکمرانی

چوتھی چیز سیاسی نظام اور سیاسی قیادت پر عوام کا اعتماد اور ان کے درمیان مکمل ہم آہنگی ہے۔ اس وقت ہمارا المیہ ہی یہ ہے کہ عوام نے حکمرانوں کو جو مینڈیٹ فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابات میں دیا تھا، اسے بُری طرح پامال کردیا گیا ہے۔ عوام نے جن تین باتوں کا اپنے مینڈیٹ کے مرکزی پیغام کے طور پر بہت ہی واضح انداز میں اظہار کیا، وہ یہ تھیں:

۱- جنرل پرویز مشرف کے دور، اس کے طرزِ حکمرانی اور اس کی پالیسیوں پر مکمل     عدم اعتماد کا اظہار___ اور صرف چہروں کی نہیںپالیسیوں اور طرزِ حکمرانی کی تبدیلی۔ یہی وجہ ہے کہ کسی ایک جماعت کو اکثریت حاصل نہ ہوئی بلکہ تبدیلی اور ایک نئے دور کے آغاز کی تمنا جس میں ملک کا مفاد، عوام کے حقوق اور حقیقی جمہوری طرزِ حکومت کا فروغ ان کا اصل ہدف تھا۔

۲- امریکا کی گرفت سے آزادی، امریکا کی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ سے علیحدگی، آزاد خارجہ پالیسی اور ملکی مفادات، علاقے میں امن اور اُمت مسلمہ کی مضبوطی کو  خارجہ امور اور ملکی سیاست کا مرکز و محور بنانا۔

۳- عدلیہ کی آزادی، فوج کے سیاسی کردار کی نفی، مرکز میں صوبوں کے درمیان اختیارات کی منصفانہ تقسیم، دستور کی اس کی اصل اسلامی، جمہوری، وفاقی اور فلاحی شناخت کے مطابق آمرانہ دور کی دراندازیوں سے پاک کرکے بحالی، ملک کو صحیح جمہوری خطوط پر منظم اور مضبوط کرنا، نیز بلوچستان کے ساتھ جو زیادتیاں اس زمانے میں ہوئی ہیں، ان کا فوری تدارک۔

یہ تین چیزیں وہ بنیاد تھیں جن پر عوام نے اپنا فیصلہ دیا۔ یہی وجہ تھی کہ انتخاب کے بعد جب حکومت کی تشکیل کا مرحلہ آیا تو ایک نوعیت کا قومی اتفاق راے پیداکرنے کی کوشش کی گئی۔ وزیراعظم کا انتخاب پارٹی بنیادوں پر کرنے کے بجاے پورے ایوان نے ان کو اعتماد کا ووٹ دیا اور جن جماعتوں نے اصول کی بنیاد پر انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا، انھوں نے بھی نئے قومی ایجنڈے پر حکومت کے کارفرما ہونے پر اسے تعاون کا یقین دلایا۔ لیکن چند ہی مہینوں میں یہ ساری توقعات خاک میں مل گئیں اور صدر زرداری نے مفاہمت کے نام پر مفادات اور منافقت کی سیاست کو فروغ دیا، سیاسی عہدوپیمان کو مذاق بنا دیا، کرپشن اور یاردوستوں کو نوازنے (cronyism) کی بدترین مثال قائم کی۔ اپنی پارٹی کے منشور اور اس میثاقِ جمہوریت کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا جسے دورِ نو کا چارٹر بنا کر پیش کیا تھا۔ امریکا کی دراندازی کو اور بھی کھُل کھیلنے کا موقع دیا اور اپنی کرپشن کو تحفظ دینے کے لیے این آر او جیسے کالے قانون کو دستور عمل بنایا، عدالت کی بحالی کے لیے ہر ممکنہ رکاوٹ کھڑی کی اور جب مجبوراً اسے بحال کرنا پڑا تو اس کے بعد سے اس سے تصادم اور عدالت کے ہراہم فیصلے کو ناکام کرنے کے لیے سوچے سمجھے اقدامات کیے۔ امریکا کی مداخلت اتنی بڑھی کہ ڈرون حملے روز کا معمول بن گئے اور کھلے بندوں امریکا نے ایک متوازی نظام ملک میں قائم کرلیا اور اپنی مرضی سے جب چاہا ہماری حاکمیت کو پامال اور ہماری عزت کو داغ دار کیا۔ پھر معیشت کے میدان میں اس حکومت نے پہلے دن سے غلط اقدامات کی بھرمار کر دی، نااہلوں کو آگے بڑھایا اور تمام اداروں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی دوڑ شروع کردی جس نے پوری دستوری اسکیم کو درہم برہم کر دیا۔

معیشت ایک کے بعد دوسرے بحران سے دوچار ہوئی، ترقی کی رفتار دو اور تین فی صد کے درمیان پھنس گئی۔ افراطِ زر اور بے روزگاری نے عوام کی زندگی اجیرن کر دی۔ بجلی کا بحران، گیس کی قلت، پٹرول اور اس کی مصنوعات کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ، اشیاے خوردونوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں، لاقانونیت کا دوردورہ ہے اور کسی کی جان، مال اور عزت کوئی چیز محفوظ نہیں ہے۔ خراب حکمرانی (bad governance) اور عوام کے مسائل اور مشکلات کے باب میں مجرمانہ بے حسی اس کا شعاربن گئے۔ حد یہ کہ خود اپنی قائد، جس کے نام پر اقتدار حاصل کیا،  اس کے قاتلوں کا سراغ لگانے میں ناقابلِ یقین بے توجہی، بلکہ وہ رویہ اختیار کیا جس کے نتیجے میں قاتلوں کو تحفظ دیے جانے کے شبہات نے جنم لیا۔ جنرل پرویز مشرف سے مفاہمت اور پھر اس کی ملک سے باعزت رخصتی اور جن کو ’قاتل لیگ‘ کہا تھا ان کو شریکِ اقتدار کرنا اور جن کے بارے میں جولائی ۲۰۰۷ء کی لندن کانفرنس میں متفقہ طور پر طے کیاتھا کہ ان کے ساتھ کوئی سیاسی مفاہمت یا شراکت نہیں ہوگی، ان کو نہ صرف گلے سے لگایا بلکہ ان کی خوشنودی کے لیے ہراصول اور ضابطے کا کھلے بندوں خون کیا، جس کے نتیجے میں کراچی لاقانونیت کی بدترین تصویر پیش کرنے لگا۔ ان تین برسوں میں صرف کراچی میں ٹارگٹ کلنگ (ہدفی قتل) کے نتیجے میں ہزاروں افراد ہلاک ہوئے اور وہاں کی معیشت بُری طرح متاثر ہوئی۔

نئے انتخابات کی ضرورت

ان سوا تین برسوں میں حکومت نے جو کارنامے انجام دیے ہیں ان کے نتیجے میں جو صورت حال پیدا ہوئی ہے اسے ان چار نکات میں بیان کیا جاسکتا ہے:

۱- سیاسی اور اخلاقی جواز نہیں رہا ہے۔

۲- اعتبار اُٹھ گیا ہے۔

۳- نااہلیت ثابت ہوگئی ہے۔

۴- کرپشن کا دور دورہ ہے۔

یہ وہ چیزیں ہیں جن کی وجہ سے وہ مینڈیٹ جو عوام نے دیا تھا، اپنا جواز کھو چکا ہے۔ مینڈیٹ اچھی حکمرانی (good governance) کے لیے تھا، محض پانچ سال پورے کرنے اور بدترین اور کرپٹ ترین اندازِ حکمرانی کے لیے نہیں تھا۔ ایسے حالات میں دستوری مدت سے قبل انتخابات اور عوام سے نیا مینڈیٹ حاصل کرنے کی ضرورت جمہوریت کا ایک بنیادی اصول ہے۔ بھارت میں گذشتہ ۶۳برس میں نو مرتبہ انتخابات دستوری مدت پوری کرنے سے پہلے ہوئے ہیں۔ اسی طرح انگلستان میں دوسری جنگ کے بعد سے اب تک کئی بار پارلیمنٹ کے وسط مدتی انتخابات منعقد کیے گئے ہیں۔ نئے انتخاب کا انحصار حکومت کی کارکردگی اور عوام کے اعتماد یا بے اعتمادی کی روشنی میں کیا جاتا ہے۔ صاف نظر آرہا ہے کہ یہ حکومت اپنا جواز کھوچکی ہے ، اس لیے ضروری ہے کہ نئے انتخابات کا انعقاد ہو، جو غیر جانب دار اور آزاد الیکشن کمیشن کے تحت نئے انتخابی قواعد کے مطابق ہوں۔ اس لیے کہ ۲۰۰۸ء کے انتخابات کے موقع پر جو ووٹروں کی فہرست تھی اس میں ۴۵ فی صد بوگس ووٹ تھے جس کا اعتراف نادرا اور عدالتِ عالیہ نے کیا ہے۔

ملک کو سیاسی انتشار، معاشی بدحالی اور امریکا کی غلامی سے نجات دلانے کے لیے یہ سب سے معقول اور جمہوری اعتبار سے معتبر راستہ ہے۔ ٹیکنوکریٹس کی حکومت کی کوشش اور فوج کی کسی بھی شکل میں مداخلت حالات کو بگاڑنے کا ذریعہ تو ہوسکتے ہیں، اصلاحِ احوال کی طرف پیش رفت کا موجب نہیں ہوسکتے۔

متفقہ قرارداد کے تقاضے

اس کے ساتھ اس امر کی ضرورت ہے کہ پارلیمنٹ کے مشترک اجلاس کی متفقہ قرارداد پر اس کے الفاظ اور روح کے مطابق فوری طور پر عمل ہو، جس کے کم از کم تقاضے یہ ہیں:

اوّل: ۲ مئی کے واقعے کے تمام پہلوئوں کا بے لاگ اور غیر جانب دارانہ جائزہ لینے کے لیے ایک اعلیٰ سطحی آزاد کمیشن کا قیام جو انٹیلی جنس کی ناکامی اور قومی سلامتی کے تحفظ میں ناکامی (security failure) کے تمام پہلوئوں کا جائزہ لے اور پوری پیشہ ورانہ مہارت اور دیانت کے ساتھ تمام حقائق پارلیمنٹ اور قوم کے سامنے لائے۔ عوام کا اعتماد حکومت اور دفاع اور قومی سلامتی کے اداروںپر متزلزل ہوگیا ہے۔ ۲۲مئی کے واقعے نے حالات کی نزاکت اور مخدوش صورت حال کو اور بھی گمبھیر کردیا ہے۔ اس لیے اس کمیشن کا فی الفور قیام ملک کی سلامتی کے لیے ضروری ہے۔

دوم: امریکا سے تعلقات پر مکمل نظرثانی کا آغاز بھی فوری طور پر ہوجانا چاہیے۔ قوم کے سامنے وہ سارے حقائق آنے چاہییں جن پر آج تک پردہ پڑا رہا ہے۔ کچھ حقائق امریکا کے عملی رویے اور جارحانہ کارروائیوں سے اور کچھ وکی لیکس کے انکشافات سے سامنے آرہے ہیں اور کچھ ریمنڈ ڈیوس کے واقعے سے سامنے آئے ہیں۔ ان پس پردہ حقائق نے کچھ بنیادی سوالات کو بھی جنم دیا ہے جن کا جواب قوم اور پارلیمنٹ کے لیے جاننا ضروری ہے۔ ماضی میں جو بھی کھلے عام یا خفیہ مفاہمت تھی، اس کو ختم ہونا چاہیے اور تمام معاملات کو دو اور دو چار کی طرح تحریری طور پر طے ہونا چاہیے اور وہ کابینہ اور پارلیمنٹ کے علم میں لائے جانے چاہییں۔ اس قرارداد اور پارلیمنٹ کی اس سے پہلے کی قراردادوں کی روشنی میں یہ بالکل واضح ہے کہ پارلیمنٹ کی نگاہ میں:

۱- خارجہ پالیسی کو آزاد ہونا چاہیے اور امریکا سے خودمختارانہ برابری (sovereign equality) کے اصول کی بنیاد پر معاملات طے ہونے چاہییں جن کا محور پاکستان کی آزادی، حاکمیت، نظریاتی تشخص، اور اس کے سیاسی، معاشی اور علاقائی مفادات کا مکمل تحفظ ہے۔

۲- دہشت گردی کے خلاف جنگ سے باعزت دُوری اور اس اصول کی بنیاد پر نئی  حکمت عملی کا تعین کہ اس مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں۔ اصل حل سیاسی ہے اور اس کے لیے مذاکرات کے سوا کوئی طریقہ نہیں۔ ان مذاکرات میں تمام متعلقہ عناصر (stake holders) کی شرکت لازمی ہے۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مکالمہ (Dialogue) ترقی (Development) اور باز رکھنا (Deterrence) (یعنی تین Ds) ہی صحیح طریقہ ہے۔

سوم: پاکستان کی حاکمیت اور خودمختار سرحدوں (sovereign borders) کا تحفظ اولین اہمیت کا مسئلہ ہے۔ ڈرون حملے ہماری حاکمیت کی کھلی خلاف ورزی ہیں اور امریکا یا کسی کی طرف سے بھی کوئی یک طرفہ مداخلت ہماری حاکمیت اور اقوامِ متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے جسے کسی صورت میں برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ امریکا کو اس سلسلے میں   صاف وارننگ دے دی جائے اور اگر اس کے بعد بھی کوئی ڈرون حملہ ہو یا کسی بھی شکل میں فوجی مداخلت ہوتی ہے تو ناٹو افواج کی راہداری کی سہولتیں فوراً ختم کی جائیں اور تمام دفاعی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال ہو۔ ہم امریکا سے تصادم نہیںچاہتے، لیکن امریکا کو اپنی سرزمین پر اس نوعیت کے جارحانہ فوجی اقدامات کی اجازت بھی نہیں دے سکتے۔ اگر کیوبا ۱۹۶۰ء سے امریکا کی دراندازیوں کا مقابلہ کرسکتا ہے اور جنوبی امریکا کے نصف درجن سے زیادہ ممالک امریکا کو اس کی اپنی حدود میں رکھنے اور اپنی عزت اور آزادی کے تحفظ کے لیے سینہ سپر ہوسکتے ہیں، اگر شمالی کوریا امریکا اور  جنوبی کوریا دونوں کو اپنی حدود کو پامال کرنے سے روک سکتا ہے تو پاکستان جو ایک ایٹمی طاقت ہے، جس کے عوام نے اپنی افواج کو دفاع کے لیے ناقابلِ تسخیر قوت کی فراہمی کے لیے اپنا پیٹ کاٹ کر وسائل فراہم کیے ہیں،وہ ملک کی سرحدوں اور قیمتی اثاثوں کا دفاع کیوں نہیں کرسکتیں، جب کہ ہمارے عسکری قائدین پبلک اور پرائیویٹ ہر موقع پر یقین دلاتے ہیں کہ ان شاء اللہ دفاع کا حق ادا کریںگے، ان کو صرف سول حکومت کی اجازت اور اشارے کی ضرورت ہے۔

چہارم: ملک کے سلامتی کی صورت حال (security paradigm) پر بھی ازسرِنو غور کی ضرورت ہے۔ اس میںمشرق اور مغرب ہرسمت سے جو خطرات ممکن ہیں، ان کا ادراک ضروری ہے۔ امریکا کے رویے کی وجہ سے خطرے کے ادراک (threat perception) پرنظرثانی کی جو ضرورت ہے، اس پر عسکری اور سیاسی قیادت دونوں کو فوری طور پر توجہ دینے اور سلامتی کی حکمت عملی کو ازسرِنو مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح امریکا کی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ سے نکلنے کے ساتھ ساتھ اس پر بھی غور کرنا ہوگا کہ پاکستان کی سرزمین ملک کے اندر یا ملک کے باہر، دوسروں کے لیے کسی نوعیت کی بھی دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہونے دیا جائے، اور اس کے لیے دہشت گردی کے خلاف جس حکمت عملی، اختیار اور قانون سازی کی ضرورت ہے اس پر فوری توجہ دی جائے۔ دہشت گردی اور جنگ آزادی دو لگ الگ چیزیں ہیں لیکن حقیقی دہشت گردی کسی بھی ملک کے لیے قابلِ برداشت نہیں۔ البتہ ان اسباب کی اصلاح بھی ضروری ہے جو جمہوری اور قانونی راستوں کو غیرمؤثر بناتے ہیں اور لوگوں کو غلط راستوں کی طرف دھکیلتے ہیں۔ اس کے لیے سیاسی، نظریاتی، اخلاقی اور قانونی تمام پہلوئوں کو سامنے رکھ کر ایک جامع حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے۔

پنجم: پارلیمنٹ کی قراردادوں کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ پاکستان اور اس کے سفارت کار پاکستان کے موقف کو دنیا کے سامنے دلیل کے ساتھ اور مؤثر ترین انداز میں پیش کریں اور سفارتی فعالیت (activism) کا راستہ اختیارکیا جائے۔ آج پاکستان کے امیج کو خراب کرنے اور اسے ایک ناکام یا ناکامی کی طرف بڑھتی ہوئی ریاست کی شکل میں بڑے منظم انداز میں پیش کیا جا رہا ہے۔ بلاشبہہ ہمیں اپنے گھر کی اصلاح کرنی ہے لیکن اس کے ساتھ اپنے موقف کے ابلاغ اور دنیا میں دوستوں کو متحرک کرنے کی بھی ضرورت ہے۔

ہمارے بعض دانش ور، میڈیا کے بعض حلقے اور وہ عناصر جو پاکستان کو امریکا کے زیراثر رکھ کر عوام کی آرزوئوں کے برخلاف سیکولر اباحیت پسند معاشرہ چاہتے ہیں ملک کے خیرخواہ بن کر    یہ نقشہ کھینچ رہے ہیں اور ڈرا رہے ہیں___ اگر امریکی امداد بند ہوگئی تو ہماری معیشت بالکل بیٹھ جائے گی اور پاکستان ختم ہوجائے گا۔ انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ اس سے پہلے چار دفعہ: ۱۹۶۵ء، ۱۹۷۱ء، ۱۹۸۹ء اور ۱۹۹۸ء میں امریکا نے اپنی ہر طرح کی معاشی اور عسکری معاونت ختم کر دی تھی لیکن الحمدللہ! پاکستانی معیشت پر کوئی منفی اثر نہیں پڑا اور ترقی کا سفر جاری رہا۔ موجودہ حالات میں یہ حکومت یا کوئی دوسری حکومت عزت و وقار کے ساتھ امریکی امداد کو ٹھکرا دے تو پاکستان کے عوام کے لیے خیروبرکت کا باعث ہوگا اور ہماری معیشت اپنے پائوںپر کھڑی ہوجائے گی۔ عوام بھی ایک جذبے سے بڑھ کر اپنا حصہ ادا کریں گے، ٹیکس بھی زیادہ ملیں گے اور کرپشن میں بھی کمی آئے گی۔

سب سے زیادہ اہمیت اس بات کی ہے کہ ہم دنیا کے مظلوم انسانوں اور مسلم اُمت کے عام نفوس تک پہنچیں اور ان کی قوت کو اپنے لیے مسخرومنظم کریں۔ ایسے حکمرانوں سے تائید ہماری قوت کا ذریعہ نہیں جو خود ظلم و استبداد کے مرتکب ہوں۔ ہماری اصل ہم آہنگی اپنے ملک کے عوام اور تمام دنیا کے عوام سے ہونی چاہیے جو اس ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ سے برأت کا اعلان کرتے ہیں۔ مسلم دنیا کے ۹۰ فی صد عوام اس جنگ کو ایک ناحق جنگ سمجھتے اور امریکا کو اس کی مسلم کش پالیسیوں کی وجہ سے اپنا دوست نہیں سمجھتے۔ اب خود امریکی راے عامہ کے تازہ ترین جائزوں کی روشنی میں آبادی کے ۶۲ فی صد نے اس جنگ سے امریکا کے نکلنے کے حق میں راے کا اظہار کیا ہے۔

آخری چیز ملک کی معیشت کو سنبھالنا، نئی معاشی پالیسی کی تشکیل اور اس پر عمل درآمد کا انتظام ہے۔ معیشت کی اصلاح کا بڑا قریبی تعلق سیاسی تبدیلی اور آزاد خارجہ پالیسی اور علاقائی امن و سلامتی کے لیے علاقے کے ممالک کے ساتھ مل کر نئے دروبست کے قیام پر ہے، اور حالات اسی طرح اشارہ کر رہے ہیں۔ اس تبدیلی کے لیے موجودہ قیادت سے توقع عبث ہے۔ اس کا راستہ عوام کو متحرک کرنے اور عوام کی قوت سے دستور کے مطابق جمہوری عمل کے لیے نئی قیادت کو زمامِ کار سنبھالنے کا موقع فراہم کرنا ہے۔ آج پاکستان ہم سے اس جدوجہد کا مطالبہ کر رہا  ہے۔

 

۲مئی ۲۰۱۱ء پاکستان کی ۶۴سالہ تاریخ کے سیاہ ایام میں سیاہ ترین دن کی حیثیت رکھتا ہے۔ امریکا کی دوستی کی چھتری کے تلے چلائے جانے والے نیزوںکے زخم اس ملک کے جسم کے ایک ایک حصے میں پیوست ہیں لیکن ڈرون حملوں کی نہ ختم ہونے والی بوچھاڑ کے ساتھ جو     فوجی کارروائی یکم اور ۲مئی کی درمیانی شب ایبٹ آباد کے حسّاس علاقے میں امریکا کے چار ہیلی کاپٹروں اور ۲۴خصوصی کمانڈوز (SEALS) کے ذریعے ہوئی___ جس کے نتیجے میں مبینہ طور پر نہتے    شیخ اسامہ بن لادن، اس کے غیرمسلح صاحب زادے حمزہ بن لادن، اس کے دو رفقاے کار اور   ان میں سے ایک کی اہلیہ کو شہید کیا گیا اور ان کے مکان سے اپنے مطلب کا قیمتی سامان اور شیخ اسامہ اور حمزہ کی لاشوں کو بے دردی سے گھسیٹتے ہوئے ساتھ لے جایا گیا___ وہ پاکستان کی آزادی، حاکمیت، خودمختاری اور عزت پر حملہ ہے۔ بین الاقوامی قانون کی زبان میں اسے ایک نوعیت کا اعلانِ جنگ بھی تصور کیا جاسکتا ہے۔ اس جرم کے مختلف پہلوئوں پر گفتگو کرنے سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مختصراً ان اُمور کو ذہن میں تازہ کرلیا جائے جو اس فوجی اقدام کی اصل حقیقت کو سمجھنے میں مدد دے سکتے ہیں۔

نائن الیون کے الم ناک اور قابلِ مذمت واقعے کے بعد، امریکا نے اپنے ایجنڈے کے مطابق القاعدہ کی سرکوبی کے عنوان سے افغانستان اور پھر عراق کو یک طرفہ جنگ کی آگ میں جھونک دیا اور پاکستان کو تباہ کرنے اور پتھر کے زمانے میں پہنچا دینے کی دھمکی دے کر سات شرم ناک مطالبات کے ذریعے اس وقت کے فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا۔خود کو ’کمانڈو صدر‘ کہنے والے سربراہِ مملکت نے امریکی غلامی کا نیا طوق بخوشی پہن لیا اور امریکا کو فوجی اڈے، راہداری اور وہ تمام سہولتیں اور مراعات دے دیں جن کا امریکا نے مطالبہ کیا اور اس طرح ایک ہمسایہ مسلمان ملک پر امریکی فوج کشی کے لیے اپنے کندھے پیش کر دیے۔ جس جنگ کا ہم سے کوئی دُور و نزدیک کا واسطہ بھی نہ تھا، یوں اس میں ہم امریکا کے طفیلی کی حیثیت سے شریک ہوگئے۔ جس پالیسی کا آغاز پرویز مشرف نے کیا تھا، ۲۰۰۷ء کے این آر او اور ۲۰۰۸ء کے انتخابات کے نتیجے میں برسرِاقتدار آنے والی سول حکومت نے بھی اسی غلامانہ پالیسی کو جاری رکھا۔

اس کے نتیجے میں ملک کے طول و عرض میں دہشت گردی اور لاقانونیت کا دور دورہ ہوگیا۔ امریکا نے پورے ملک میں اپنے جاسوسوں اور فوجی اور کرایے کے سورمائوں (private security personnel) کا جال بچھا یا۔ ملک کی معیشت اس پالیسی کے نتیجے میں تباہ و برباد ہوئی۔ سرکاری اداروں کے اندازے کے مطابق ۴۰ہزار سے زیادہ عام شہری اور فوجی اس جنگ میں لقمۂ اجل بن چکے ہیں، اس سے دگنی تعداد میں زخمی ہوئے ہیں اور صرف پہلے آٹھ برسوں میں عملاً معیشت کو ۶۸ ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا ہے جس میں ۸۲ ارب روپے کا وہ نقصان شامل نہیں ہے جو راہداری کی سہولت دینے کی وجہ سے ملک کی سڑکوں، پُلوں اور انفراسٹرکچر کو ہوا ہے۔ اس سب کے باوجود امریکا کی ’ڈو مور‘ کی رَٹ میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے اور سول اورفوجی دونوں قیادتوں اور سرکاری سراغ رساں ایجنسیوں پر عدمِ اعتماد، منافقت اور دوغلے پن کے الزامات کی صبح و شام بوچھاڑ ہوتی رہتی ہے۔ امریکا کی پالیسی کو اگر تین الفاظ میں سمیٹنے کی کوشش کی جائے تو اسے 3-Bs کہا جاسکتا ہے، یعنی:

  • ... Bully (دھونس ، دھمکی ) 
  • ... Blackmail (بلیک میل ) 
  • ... Bribery ( رشوت) 

اس کے ساتھ جسے معاشی امداد اور فوجی تعاون اور ٹریننگ کہا جاتا ہے، اس کے ذریعے ایک طرف ملک کی معیشت پر امریکا نے اپنی گرفت مضبوط کر لی ہے تو دوسری طرف زندگی کے ہرشعبے میں اپنے اثرونفوذ کو بڑھانے اور اپنے ہرکاروں کو آگے بڑھانے کا کام انجام دیا ہے۔ یہ سیاسی اور معاشی غلامی کا ایک نیا بندوبست ہے جسے ماضی کے سامراجی نظام کی ایک صاف ستھری شکل (refined version) کہا جاسکتا ہے۔

اس سلسلے میں پاکستان کی سالمیت پر سب سے بڑا وار ڈرون حملوں کے ذریعے کیا گیا جس کا آغاز ۲۰۰۴ء میں ہوا۔ ۲۰۰۴ء سے ۲۰۰۷ء تک ۹ حملے ہوئے جن میں ۱۱۲؍افراد شہید کیے گئے۔ ۲۰۰۸ء میں یہ تعداد ۳۳، ۲۰۰۹ء میں ۵۳، اور ۲۰۱۰ء میں ۱۱۸ ہوگئی۔ ۲۰۱۱ء کے پہلے تین مہینوں میں ۲۴ حملے ہوئے۔ ان حملوں میں ۲۵۰۰؍ افراد ہلاک اور ۱۰ہزار سے زیادہ زخمی ہوئے۔ امریکا کے تھنک ٹینک بروکنگز انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں ایک مبینہ دہشت گرد کے مقابلے میں ۱۰ عام معصوم شہری، مرد، خواتین اور بچے نشانہ بنے ہیں، جب کہ کچھ دوسرے آزاد اداروں کے مطابق یہ تناسب ایک اور ۵۰ کا ہے۔ ان ڈرون حملوں کی ملک کے تمام حلقوں، اور پارلیمنٹ کی متفقہ قراردادوں میں بھرپور مذمت کی گئی اور انھیں ملک کی حاکمیت پر حملہ، معصوم انسانوں کا قتلِ ناحق اور سیاسی اعتبار سے امریکی مخالفت کے رجحان کو تقویت دینے کا باعث قرار دیا گیا ہے۔ دنیا بھرمیں بشمول امریکا بنیادی حقوق کے تحفظ کے اداروں نے ان کی مذمت کی ہے اور اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے بھی ان کو عالمی قانون کے خلاف اور امنِ عالم کے لیے نقصان دہ قرار دیا ہے لیکن امریکا کے رویے میں نہ صرف کوئی تبدیلی نہیں آئی بلکہ اس نے اس سے آگے بڑھ کر تین بار اپنے فوجیوں کے ذریعے مختصر کارروائیاں کی ہیں۔

اب حکومت کی بے حسی سے شہ پاکر ۲مئی کو وہ کارروائی کی ہے جسے ہراعتبار سے ایک آزاد اور خودمختار ملک پر (جسے امریکا اپنا حلیف اور اسٹرے ٹیجک پارٹنر بھی کہتا ہے) حملہ اور بین الاقوامی قانون کی زبان میں کھلی جارحیت اور جنگی کارروائی (act of war) قرار دیا جائے گا۔ یہ اقدام پوری منصوبہ بندی کے ساتھ ہوا اور امریکی صدر کے باقاعدہ احکام کے تحت انجام دیا گیا۔ اس میں چار فوجی ہیلی کاپٹر جدید ترین ٹکنالوجی سے مسلح تھے جسے سٹیلتھ (stealth) ٹکنالوجی کہا جاتا ہے۔  یہ صرف امریکا کے پاس ہے اور اسے عام ریڈار سے دیکھا نہیں جاسکتا۔ یہ ہیلی کاپٹر بگرام کے  ہوائی اڈے سے روانہ ہوئے۔ پاکستان میں غالباً تربیلا کے آس پاس ان میں ایندھن بھرا گیا۔ دوہیلی کاپٹروں نے عملاً حملے میں شرکت کی اور دو حفاظتی کردار ادا کرتے رہے۔ ۲۴ خصوصی کمانڈوز نے جو بشمول میزائلز ہرطرح کے اسلحے سے لیس تھے، زمینی کارروائی میں حصہ لیا، پانچ افراد کو ہلاک کیا، ایک خاتون کو زخمی کیا، اپنے ہی ایک ہیلی کاپٹر کو جو فنی خرابی یا زمین سے گولی لگنے سے گر کر نذرِآتش ہوگیا تھا، مزید تباہ کرکے ضروری سامان کو لوٹ کر اپنے ساتھ لے گئے۔ اس آپریشن میں تقریباً دوگھنٹے لگے۔ ۴۰ منٹ ایبٹ آباد کے آپریشن میں اور ۸۰ منٹ آنے اور جانے میں۔ اس پورے عرصے میں افغانستان کی فضائی حدود میں ایف-۱۶ طیارے اس لیے موجود رہے کہ اگر پاکستان کی طرف سے کوئی مزاحمت ہو تو پاکستانی ایئرفورس کے جہازوں پر حملہ کیا جاسکے۔ اس کے لیے امریکا نے حفاظت خوداختیاری کا بہانہ تراشا اور دعویٰ کیا کہ اس نے اپنی اس اعلان شدہ پالیسی پر عمل کیا ہے کہ وہ اپنے مطلوبہ افراد کو دنیا کے جس گوشے میں بھی پائیں گے، فوجی کارروائی کر کے اپنے قبضے میں لے لیں گے، حالانکہ نہ اقوام متحدہ نے ان کو یہ حق دیا ہے اور نہ بین الاقوامی قانون اور روایات نے، جن کی رُو سے صرف اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل ۷ کے تحت یا قانونی طور پر دو ملکوں کے درمیان معاہدے (treaty) کے تحت ایسی کارروائی جائز ہوسکتی ہے۔ پاکستان اور امریکا کے درمیان کوئی معاہدہ موجود نہیں، اس لیے کہ پاکستان کے دستور کے تحت کوئی معاہدہ اس وقت تک قانون کا درجہ حاصل نہیں کرتا جب تک کابینہ نے اس کی توثیق نہ کی ہو۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے افغانستان میں فوجی کارروائی کے لیے جو قرارداد منظور کی ہے، اس کا اطلاق صرف افغانستان کی حدود پر ہوتا ہے، اس کی حدود سے باہر نہیں اور دہشت گردی کے مقابلے کے لیے جو قرارداد منظور کی گئی ہے اس میں تمام ممالک کو ایک دوسرے سے تعاون کے لیے کہا گیا ہے ۔ اس قرارداد میں کسی ایک ملک کی طرف سے یک طرفہ کارروائی کی گنجایش نہیں ہے،  مگر امریکا نے اس قرارداد کی کھلی کھلی خلاف ورزی کی ہے کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی اور حکومت تمام معلومات امریکا کو دیتے رہے لیکن امریکا نے اس اقدام سے پہلے کسی طرح کی اطلاعات و معلومات میں پاکستان کو شریک نہیں کیا، بلکہ اس ذلت آمیز دعوے کے ساتھ کہ اگر پاکستان کو معلومات میں شریک کیا گیا تو وہ مطلوبہ عناصر کو اس کی اطلاع دے دے گا، پاکستان پر عدم اعتماد کا اظہار کیا۔ یوں امریکا نے پاکستان کے سارے تعاون پر پانی پھیر دیا اور اقوام متحدہ کی قرارداد کے برعکس یک طرفہ کارروائی کرکے ایک آزاد ملک کی حاکمیت اور خودمختاری کی کھلی کھلی خلاف ورزی کی۔

امریکا نے ایک نہیں، پانچ جرائم کا ارتکاب کیا:

۱- پاکستان کی حاکمیت پر حملہ اور اس کی فضائی حدود (air space) اور آباد زمینی علاقے کی خلاف ورزی، فوجی کارروائی کی شکل میں۔

۲- نہتے انسانوں (مرد، عورتوں اور بچوں) پر حملہ، پانچ افراد کا قتل، ایک کو زخمی کرنا۔

۳- دو مقتول انسانوں کی لاشیں غیرقانونی طور پر اپنے قبضے میں لینا اور انھیں ملک سے باہر لے جانا اور غیرمصدقہ اطلاعات کے مطابق ایک شخص کو اغوا بھی کرنا۔

۴-شہری جایداد اور گھریلو سامان کی تباہی۔

۵- لوٹ اور غصب___  دوسروں کی املاک کو نہ صرف تباہ کرنا بلکہ محض جبر اور قوت کے بل پر ان کی املاک کو اپنے ساتھ لے جانا۔


یہ پانچوں جرم ایک ایسے ملک نے کیے ہیں جو اپنے آپ کو تہذیب کا گہوارہ، جمہوریت کا    علَم بردار، انسانی حقوق کا محافظ اور عالمی امن کا پرچارک قرار دیتا ہے۔ جو اقوام متحدہ کا رکن ہے اور اس جارحیت کا نشانہ اقوام متحدہ کے ایک دوسرے رکن ملک کو بناتا ہے جسے وہ اپنا اتحادی بھی کہتا ہے۔ اس کی حدود اور سرزمین کی کھلے بندوں پوری فوجی تیاری اور قوت کے بے محابا استعمال کے ذریعے خلاف ورزی کرتا ہے اور قتل و غارت گری کا بازار گرم کرتا ہے۔ امریکا نے اپنے اس اقدام کی وجہ سے پاکستان، پوری عالمی برادری اور خود اقوام متحدہ کے مجرم ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ امریکا نے اپنے اس کارنامے کو اپنی فتح قرار دیا ہے۔ اس پر خوشیوں کے شادیانے بجا رہا ہے اور      ستم بالاے ستم یہ کہ اپنے اس گھنائونے جرم پر ’’ہم نے انصاف کردیا‘‘ کا لیبل لگا رہا ہے۔ امریکا اور اس کے میڈیا نے جھوٹ کا ایک طوفان برپا کر دیا ہے اور اس کے خوشامدی اور کاسہ لیس اس کی ہاں میں ہاں ملا رہے ہیں لیکن جن کا ضمیر بیدار ہے، وہ امریکا کے اس جرم کا اعتراف کررہے ہیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ نائن الیون کے سانحے میں جو ہلاک ہوئے ہیں، ان کے ورثا میں بھی   ایسے لوگ موجود ہیں جو اسے انصاف نہیں انصاف کا خون قرار دے رہے ہیں۔

دی گارڈین لندن کی ۳مئی ۲۰۱۱ء کی اشاعت میں نائن الیون کے سانحے کے نتیجے میں بیوہ ہونے والی ایک خاتون کا یہ چشم کشا تاثر شائع ہوا ہے جو اس نے پھولوں کے گلدستے کے ساتھ نیویارک میں گرائونڈ زیرو پر بن لادن کے حادثے کے بعد رکھا ہے:

مَیں اور نائن الیون کے ہلاک شدگان کے رشتہ دار اُمید کرتے ہیں کہ ہم اس موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے امریکا کو جنگ کے بجاے انصاف کی راہ پر لائیں گے۔

اپنے اس مختصر نوٹ میں وہ لکھتی ہے:

بن لادن کی موت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ تشدد سے تشدد جنم لیتا ہے۔ مَیں اور میرے ساتھی پُرامن مستقبل کے لیے چاہتے ہیں کہ نائن الیون کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔ لیکن ہمیں یقین ہے کہ انصاف عدالت کے کمرے میں ملتا ہے، میدانِ جنگ میں نہیں۔ مجھے انتقام نہیں، انصاف چاہیے اور یہ دو بالکل مختلف چیزیں ہیں۔ ساڑھے نو برس سے میں نائن الیون کی انسانی قیمت کے بارے میں سوچ رہی ہوں۔ یہ صرف وہی زندگیاں نہیں ہیں جو اس روز لی گئیں بلکہ وہ سب فوجی اور شہری جن کی جانیں ان دو جنگوں کی نذر ہوئیں اور جن کی زندگیاں اب بھی خطرے میں ہیں اور ۱۱ستمبر کے نام پر برباد کی جارہی ہیں، سب اس میں شامل ہیں۔

کیوبا کے سربراہ فیڈل کاسٹرو نے ۴ مئی کو اپنے تاثرات کا ان الفاظ میں اظہار کیا ہے:

بن لادن کئی برس تک امریکا کا دوست رہا۔ اسی نے اسے فوجی تربیت دی۔ وہ روس اور سوشلزم کا دشمن تھا۔ اس پر خواہ کوئی بھی الزام لگائے جائیں لیکن عزیزوں کے سامنے ایک غیرمسلح شخص کا قتل، ایک قابلِ نفرت بات ہے۔ بظاہر یہ تاریخ کی سب سے زیادہ طاقت ور قوم کی حکومت نے کیا ہے۔ اوباما نے اپنے ۳ہزار شہریوں کی ہلاکت پر غم کا اظہار کیا ہے لیکن دیانت دار انسان یہ نہیں بھول سکتے کہ امریکا نے عراق اور افغانستان میں جو غیرمنصفانہ جنگیں مسلط کیں، ان کے نتیجے میں لاکھوں بچے اپنے ماں باپ کے بغیر بڑے ہوئے،اور لاکھوں والدین اپنے بچوں کے لمس سے محروم کردیے گئے۔ لاکھوں شہری عراق، افغانستان، ویت نام، لائوس، کمبوڈیا اور کیوبا اور دنیا کے بہت سے دوسرے ملکوں کے دیہاتوں سے لے جائے گئے۔ لاکھوں انسانوں کے ذہنوں میں ابھی تک وہ ہولناک مظالم محفوظ ہیں جو کیوبا کے مقبوضہ علاقے گوانتاناموبے میں برسوں قید رکھے جانے والے قیدیوں پر ناقابلِ برداشت تعذیب کی صورت میں ڈھائے گئے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو اغوا کیا گیا اور نام نہاد مہذب معاشروں کی ملی بھگت سے خفیہ قیدخانوں میں منتقل کیا گیا۔

امریکا کا مشہور دانش ور چوم نومسکی ۶مئی کو اپنے تاثرات کا اظہار ان الفاظ میں کرتا ہے:

اسامہ کی حیثیت ایک مشتبہ کی تھی۔ طالبان کی حکومت امریکا سے ثبوت مانگتی رہی لیکن امریکا کے پاس ثبوت نہیں تھے، چنانچہ اب اوباما کا اپنے بیان میں یہ کہنا کہ ’’جلد ہی معلوم ہوگیا کہ نائن الیون کے حملے القاعدہ نے کیے تھے‘‘، سراسر جھوٹ ہے۔ بعد میں بھی ابھی تک کوئی سنجیدہ ثبوت پیش نہیں کیے جاسکے۔ بن لادن کے اقبالی بیان کا بہت ذکر کیا جاتا ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کہ میں یہ اعتراف کرلوں کہ میں نے بوسٹن میراتھن جیتی ہے۔ ہمیں اپنے آپ سے یہ پوچھنا چاہیے کہ اگر عراقی کمانڈو جارج بش کے کمپائونڈ میں اُتریں، اس کو قتل کردیں اور اس کی لاش کو بحراوقیانوس میں پھینک دیں تو ہمارا کیا ردعمل ہوگا؟ اس کے جرائم بلاکسی خوف تردید بن لادن سے بہت زیادہ ہیں اور اس کی حیثیت ایک مشتبہ کی نہیں بلکہ فیصلہ کرنے والے کی ہے جس نے بین الاقوامی جرم کرنے کا حکم دیا۔ یہ وہ جرائم ہیں جن پر نازی مجرموں کو پھانسیاں دی گئیں۔

برطانیہ کا چوٹی کا وکیل جیفرے رابرٹسن  لندن کے اخبار دی انڈی پنڈنٹ کی ۳مئی ۲۰۱۱ء کی اشاعت میں اپنے ایک طویل مضمون میں جس کا عنوان Why it is Absurd to claim that Justice has been done ہے، یہ لکھتا ہے:

امریکا میں مشرق کے چالاک جادوگر کی موت پر خوشیاں منائی جارہی ہیں۔ یہ ایک ایسے قتل کی تائید کرنا ہے جس کا ایک صدر نے حکم دیا جو قانون کے ایک سابق پروفیسر کی حیثیت سے جانتا ہے کہ اس کا یہ بیان کہ ’انصاف ہوگیا‘ واہیات بات ہے۔ بن لادن کے قتل کی تائید کی جارہی ہے کیونکہ گرفتاری، مقدمہ اور پھر فیصلہ دینے میں بڑی مشکلات تھیں لیکن ایک بہتر دنیا کے مفاد میں کیا اس کی کوشش نہیں کی جانا چاہیے تھی؟ مقابلے کی تفصیلات بھی واضح نہیں۔ قانون اپنے دفاع میں مجرم کو مارنے کی اجازت دیتا ہے۔ ممکن ہو تو ہتھیار ڈالنے کا موقع دینا چاہیے اور اگر وہ ہاتھ نہ بھی اُٹھائیں تو کسی اندیشے کے بغیر ممکن ہو تو انھیں زندہ گرفتار کرنا چاہیے۔ بن لادن کو گولی کیسے ماری گئی؟ خصوصاً اگر سر کے پچھلی جانب ماری گئی ہے تو اس کی وضاحت کی ضرورت ہے۔  پوسٹ مارٹم کے بغیر جو کہ قانون کا تقاضا تھا سمندربرد کرنے کی آخر کیا جلدی تھی؟ جو لوگ مقدمے کو غیرضروری، مشکل اور خطرناک سمجھتے ہیں وہ یہ بات نظرانداز کردیتے ہیں کہ بن لادن کے قتل نے اسے شہید بنا دیا ہے۔ وہ بعد موت کے اس کردار میں زیادہ خطرناک ہے، اور اس پر مقدمہ نہ چلنے کے نتیجے میں اس کے افسانوی کردار اور نائن الیون کے بارے میں سازشیں تصفیہ طلب ہی رہیں گی۔

دی انڈی پنڈنٹ کی ایک اور مضمون نگار جوڈی می انٹائر ۳مئی ۲۰۱۱ء کے شمارے میں لکھتی ہے:

میں سمجھتی تھی کہ انصاف یہ ہے کہ جرم کرنے والوں کو عدالت میں لایا جائے نہ کہ انھیں ہدف بنا کر ختم کردیا جائے۔ اب معلوم ہوا ہے کہ میں غلطی پر تھی۔ اگر ہم اس منطق کو مان لیں کہ بن لادن نامی ایک آدمی کو قتل کرنے سے نائن الیون کے ہزاروں مقتولین سے انصاف ہوگیا تو امریکا اور برطانیہ کے عراق پر حملے کے بعد اندازاً ۱۰لاکھ عراقیوں کے خون کا انصاف کس طرح ہوگا؟ حقیقت یہ ہے کہ وہ حالات اب بھی موجود ہیں جن سے بن لادن کا نظریہ پھیلتا ہے۔ فلسطین پر اسرائیل کا قبضہ اب بھی قائم ہے۔ عراق اور افغانستان پر قبضہ اب بھی برقرار ہے۔ لیبیا پر بم باری جاری ہے۔ اگر آج اسامہ بن لادن مارا جاچکا ہے تو کیا دنیا ایک بہتر جگہ بن گئی ہے؟ کیا ہم زیادہ محفوظ ہوگئے ہیں؟ اس صورت میں کہ ایک ایسے ملک میں جو اپنے آپ کو دنیا کا تھانے دار بھی سمجھتا ہے اور دنیا بھر میں ایک ہزار سے زائد فوجی اڈے رکھتا ہے، میں اپنے آپ کو محفوظ نہیں سمجھتی۔

انگلستان کے اہم ترین مذہبی رہنما آرچ بشپ آف کینٹربری ڈاکٹر روان ولیمز نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ:

Killing Bin Laden when he was not carrying a weapon meant that justice could not  be seen to be done.

ہم نے امریکا اور یورپ کی چند اہم شخصیات کے ان واضح خیالات کو اس لیے پاکستان کے سوچنے سمجھنے والے حضرات کے غوروفکر کے لیے پیش کیا ہے کہ اسلام اور پاکستان کے بارے میں ساری غلط فہمیوں کے باوجود، امریکا کے ان جارحانہ، غیرقانونی، غیراخلاقی اور غیرانسانی اقدامات اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر ہرقانون کو پامال کرنے، دوسروں کی حاکمیت اور سلامتی کو محض قوت کے زعم پر پامال کرنے پر گرفت کرنے والے بھی موجود ہیں۔ شرم کا مقام ہے کہ وہ ملک جس کی آزادی، حاکمیت اور خودمختاری کو اس دیدہ دلیری کے ساتھ پامال کیا گیا، اس کی قیادت، حتیٰ کہ اس کا صدر، وزیراعظم اور وزارتِ خارجہ بھی ۴۸گھنٹے تک مذمت کا ایک لفظ کہنے کی جرأت نہ کرسکے، بلکہ صدر اور وزیراعظم نے امریکا کے اس جارحانہ اقدام پر مبارک باد دی اور وزارتِ خارجہ کے سرکاری ردعمل میں پہلا جملہ ہی یہ تھا کہ:

یہ آپریشن امریکا کی اعلان شدہ پالیسی کے مطابق تھا کہ اسامہ بن لادن دنیا میں جہاں بھی پایا جائے گا، براہِ راست فوجی کارروائی کر کے اسے ختم کردیا جائے گا۔

اس سے زیادہ معذرت خواہانہ بلکہ غلامانہ ردعمل اور کیا ہوسکتا ہے۔ شرم کا مقام ہے کہ ہماری وزارتِ خارجہ یہ بیان دے رہی ہے اور بھارت کا ایک نام ور کالم نگار پرافل بڈوال اس واقعے پر Did the US serve Justice? کے عنوان سے لکھتا ہے:

کیا امریکا نے، جیساکہ صدر بارک اوباما نے کہا ہے، اسامہ بن لادن کو قتل کرکے  نائن الیون کے ہلاک شدگان کا انصاف حاصل کرلیا ہے___ دیانت داری سے اس کا جواب ’نہیں‘ ہے۔ امریکا نے انتقام لیا ہے، انصاف نہیں کیا۔ مکمل انصاف کا مطلب  یہ ہوگا کہ نائن الیون کے تمام مجرموں پر کھلا مقدمہ چلایا جائے۔ اس کا یہ بھی تقاضا ہوگا کہ جہادی دہشت گرد جن جائز شکایات کو استعمال کرتے ہیں ان کو انسانی بنیادوں پر دُور کیا جائے، جن کا تعلق مغرب کی بالادستی کے منصوبوں اور اسلام کو مجسم شر کی حیثیت سے پیش کرنے، اور فلسطین پر اسرائیل کے قبضے سے ہے۔

ہم نے اپنے تجزیے کے اس حصے میں امریکا کے جارحانہ اقدام، پاکستان کی حاکمیت، آزادی اور خودمختاری کی بدترین پامالی اور بین الاقوامی قانون، اور انسانی حقوق، قانون کی حکمرانی اور انصاف کے بنیادی اصولوں کی پوری دیدہ دلیری، اور رعونت سے بربادی اور پامالی کے کچھ پہلوئوں پر روشنی ڈالی ہے۔ یہ معاملے کا صرف ایک پہلو ہے۔


دوسرا الم ناک پہلو پاکستان کی سول اور عسکری قیادت کے کردار کا ہے۔ امریکا نے تو وہ کیا جو وہ کرنا چاہتا تھا اور اس کے عزائم اور ہتھکنڈے کوئی ڈھکی چھپی چیز نہ تھے۔ سوال یہ ہے کہ ہماری انٹیلی جنس اور دفاع کے ذمہ داروں کا کیا کردار رہا؟ امریکا کو اتنی ہولناک کارروائی کرنے کا موقع کیوں حاصل ہوا؟ ہماری خفیہ ایجنسیاں کیا کر رہی تھیں کہ نہ ان کو یہ معلوم ہوسکا کہ اسامہ بن لادن کب سے کہاں مقیم ہے؟ آئی ایس آئی، ایم آئی، ایف آئی اے، صوبائی پولیس اور اسپیشل برانچ یہ سب کہاں غائب تھے؟ پھر اس سے بھی اہم سوال یہ ہے کہ امریکی ہیلی کاپٹر کم از کم دو گھنٹے ہمارے ملک میں دندناتے پھرتے رہے، ایندھن بھی بھرا گیا، حملہ آور بھی ہوگئے، ایک ہیلی کاپٹر گر گیا یا گرا لیا گیا اور اس کے شعلے بلند ہوگئے۔ محلے کے سارے لوگ اُٹھ کھڑے ہوئے، چھتوں پر شوروغوغا ہوا مگر ہماری سرحدوں کے محافظ اور ہمارے شہروں کے پاسبان دشمن کے اپنا مشن پورا کرنے کے بعد حرکت میں آئے اور صرف ہاتھ مَلتے رہ گئے۔ ہماری نگاہ میں اس کے کم ازکم آٹھ پہلو ہیں جن پر گفتگو کی ضرورت ہے، یعنی:

۱- انٹیلی جنس ایجنسیوں کی ناکامی___ غفلت، یا اہلیت کی کمی۔

۲- دفاعی نظام کی کمزوری اور ناکامی کہ بروقت اقدام سے عاجز رہا، خصوصیت سے  مسلسل دو گھنٹے تک کارروائی جاری رہنا اور جوابی ردعمل میں کوتاہی۔

۳- خطرات کا ادراک (perception) اور اس کے مطابق دفاعی حکمت عملی کی خامیاں۔

۴- ملک کی سلامتی کی پوری صورت حال کا جائزہ کہ اس میں کہاں خلا ہے اور کون کون سے وہ پہلو ہیں جن کا لحاظ نہیں رکھا گیا اور اتنی بڑی چوٹ کھانی پڑی۔

۵- ان سب کی روشنی میں سب سے بنیادی مسئلہ امریکا سے تعلقات کی نوعیت، اس کے اور ہمارے مقاصد، مفادات اور تحفظات کا ادراک، پاکستان میں امریکا کا کردار۔ پرویز مشرف کے دور سے اب تک کیا مراعات اور مواقع ان کو دیے گئے ہیں جن کا کوئی ریکارڈ نہیں۔ باہمی تعامل کے قواعد کیا ہیں اور کن حدود میں رہ کر ایک غیرملک اور اس کے اداروں کو کام کی اجازت اور مواقع ہیں؟ ان کی نگرانی کا کیا نظام ہے اور خلاف ورزی کو چیک کرنے اور اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے کیا نظامِ کار بنایا گیا ہے؟ اگر نہیں بنایا گیا تو کیوں اور اگر ہے تو اس میں کیا خامیاں اور خلا ہیں؟

۶- جو کچھ ہو رہا ہے اس کا بڑا گہرا تعلق امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ اور اس میں پاکستان کے پھنس جانے کا بڑا اہم کردار ہے۔ دوسروں کی جنگ نے کس طرح ہماری سرزمین کو جنگ کے میدان میں تبدیل کر دیا۔ جہاں سے کبھی کوئی خطرہ نہ تھا وہ اب خطرات کا جنگل بن گیا ہے۔ دوست دشمن بن گئے اور جن کو دوست سمجھا وہ دشمنوں سے بھی کچھ سوا نکلے۔ پورے علاقے کے امن کو کس چیز نے تہ و بالا کر دیا ہے اور کس طرح اس جنگ کی آگ کو ٹھنڈا کیا جائے اور جو اسباب، بگاڑ اور تصادم کے ذمہ دار ہیں، ان کو کس طرح دُور کیا جائے۔ ایبٹ آباد کا واقعہ اس پورے سلسلے کی ایک کڑی ہے اور ضرورت اس پورے مسئلے پر ازسرنو غور کرنے اور نئی پالیسی اور نئی حکمت عملی بنانے کی ہے۔


ایک اور بڑا اہم پہلو سول اور فوجی نظام کے تعلق کا ہے جس کا اس پورے معاملے سے بڑا گہرا اور قریبی تعلق ہے۔ عوام اور حکومت کی سوچ اور عزائم میں فرق، سول اور فوجی اداروں کے درمیان پالیسی اور دوسرے تمام متعلقہ امور کے بارے میں ہم آہنگی اور عوام کی توقعات اور سول اور فوجی قیادت کی کارکردگی میں فرق۔ عوام کی نظریاتی، سیاسی اور تہذیبی اُمنگیں اور عوام کے سیاسی، معاشی، معاشرتی، تہذیبی مسائل، نیز قومی وسائل کے منصفانہ اور حکیمانہ استعمال کا مسئلہ جس کے نتیجے میں عوام کو خوش حالی، امن اور انصاف میسر آسکے۔ معیشت کا قرضوں کے بوجھ تلے دب کر امریکا پر ایسا انحصار جو ملک کی آزادی اور سالمیت کو متاثر کر رہا ہے، ایک بڑا بنیادی ایشو بن گیا ہے۔ دفاع اور عوام کی ضروریات کی تسکین کے تقاضے کہاں ہم آہنگ ہیں اور کہاں متصادم ہیں۔ ان میں صحیح تناسب کس طرح قائم ہو؟ حقیقت یہ ہے کہ سیاسی، عسکری اور معاشی امور باہم مربوط ہیں اور حالات کے صحیح تجزیے اور مناسب پالیسیوں کی تشکیل کے لیے ان تمام امور پر غور ضروری ہے۔

ان تمام امور کے ساتھ ایک بڑا اہم مسئلہ ہمارے قومی موقف، ہمارے اہداف، حکمت عملی اور جائز مفادات کے صحیح صحیح ابلاغ (communication) سے متعلق ہے۔ ایک طرف پاکستان کو ساری دنیا میں ہدف تنقید بنایا جا رہا ہے، ہماری صورت کو بگاڑ کر پیش کیا جا رہا ہے، ہمیں مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا کر دیا گیا ہے، اور دوسری طرف ہماری حکومت ہمارے سفارتی نمایندے اور ہمارا میڈیا اپنے اپنے چکروں میں پھنسے ہوئے ہیں اور پاکستان کے موقف کو دلیل اور قوت کے ساتھ پیش نہیں کیا جا رہا۔ بلاشبہہ صحیح پالیسی کی تشکیل اولین ضرورت ہے لیکن اپنی پالیسی اور اپنے نقطۂ نظر کو مؤثرانداز میں پیش کرنا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ ہمیں افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ بہت سی وہ باتیں جو ہمیں اعتماد کے ساتھ پیش کرنی چاہییں، دوسرے اپنے الفاظ میں اور اپنے مفادات کو سامنے رکھ کر پیش کر رہے ہیں اور ہمارا مقدمہ مناسب پیروی نہ ہونے کے باعث کمزوری کا شکار ہے اور ہم کوتاہی کی وجہ سے نقصان اُٹھا رہے ہیں۔ اس لیے ابلاغ بھی ایک اہم ضرورت ہے جس کے تقاضوں کو پورا کرنا وقت کی ضرورت ہے۔

ان امور کی روشنی میں اصل چیلنج یہ ہے کہ آیندہ کے لیے قومی پالیسیاںا ور دفاع اور ترقی کی ایسی حکمت عملی کا تعین کیا جائے جو ملک کو موجودہ دلدل سے نکالنے میں ممدومعاون ہو۔ ہم کوشش کریں گے کہ ان تمام امور پر آیندہ اشارات میں اپنی معروضات پیش کریں۔ وما توفیقی الا باللّٰہ۔


عزمِ نو

ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن  آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ الابلاغ ٹرسٹ کے زیراہتمام ماہنامہ ترجمان القرآن مارچ ۲۰۱۱ء تک جاری رہا۔ اب بوجوہ اسی ادارت اور انتظام کے تحت ایک نئے نام سے آغاز کیا جا رہا ہے۔ یہ رسالہ کسی تجارتی مقصد یا ذاتی غرض سے نہیں نکالا جارہا ہے بلکہ ایک فکری تحریک کا نقیب اور ایک دعوت اور تحریک کا داعی اور ایک نظریاتی، اخلاقی، انفرادی اور اجتماعی انقلاب کے لیے جرسِ کارواں کا کردار ادا کرنے والا رسالہ ہے۔ سیدمودودیؒ کے الفاظ میں: ہمارے پیش نظر صرف ایک مقصد ہے، اور وہ مسلمانوں کو قرآن کی طرف دعوت دینا ہے۔ رسالے کی اشاعت فی نفسہٖ مقصود نہیں بلکہ محض اس دعوت کی اشاعت کے لیے ہے۔ ہر داعی و مبلغ کی طرح ہماری بھی یہ دلی خواہش ہے کہ زیادہ سے زیادہ آدمیوں تک ہمارا پیغام پہنچے۔ ہمیں خریداروں کی ضرورت نہیں، پڑھنے والوں کی ضرورت ہے۔ اگر ایک رسالے کو ہزار ہزار آدمی بھی پڑھیں، تو ہمیں رنج نہ ہوگا بلکہ مسرت ہوگی۔ اگر ہمارے مضامین اخباروں اور رسالوں میں نقل کیے جائیں تو ہم اُن کا شکریہ ادا کریں گے کہ انھوں نے اس دعوت میں ہمارا ہاتھ بٹایا۔

عالمی ترجمان القرآن قرآنی افکارو تہذیب کا نقیب ہے۔ ہمارا تعلق اسی فکری اور نظریاتی تحریک سے ہے جس کا آفتاب حرا اور فاران کی چوٹیوں سے طلوع ہوا تھا اور جس کا مقصدِوحید قرآن و سنت کی روشنی میں اور اپنے دور کے تقاضوں کو سامنے رکھ کر زندگی کے ہر شعبے کی تشکیلِ نو اور اسلامی نشاتِ ثانیہ ہے۔ اسلام کسی ایسے مذہب کا نام نہیں جو صرف انسان کی نجی اور انفرادی اصلاح کرتا ہو اور جس کا کُل سرمایۂ حیات کچھ عبادات، چند اذکار اور رسوم و رواج کے ایک مجموعے پر مشتمل ہو۔ اسلام تو ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جو خالقِ کائنات اللہ رب العالمین کی ہدایت اور اس کے نبی صادق علیہ السلام کے نمونے کی روشنی میں زندگی کے تمام شعبوں کی صورت گری کرتا ہے اور حیاتِ انسانی کے ہر پہلو کو اللہ کے نور سے منور کرتا ہے، خواہ وہ پہلو انفرادی ہو یا اجتماعی، معاشرتی ہو یا تمدنی، مادی ہو یا روحانی، معاشی ہو یا سیاسی، ملکی زندگی سے متعلق ہو یا بین الاقوامی اور عالمی امور سے۔ اسلام کی اصل دعوت ہی یہ ہے کہ خدا کی زمین پر خدا کا قانون جاری و ساری ہو اور دل کی دنیا سے لے کر تہذیب و تمدن کے ہر گوشے تک خالق کائنات کی مرضی پوری ہو___ یہی وجہ ہے کہ مسلمان نام ہے اس نظریاتی انسان کا جو ایک طرف خود اپنی پوری زندگی کو خدا کی اطاعت کے لیے خالص کرلے اور دوسری طرف خدا کے دین کو اپنے گھر، اپنے معاشرے، اپنی معیشت، اپنی سیاست اور ریاست اور بالآخر تمام روے زمین پر غالب کرنے کی جدوجہد کو اپنی زندگی کا مشن بنا لے ، اس لیے کہ: اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلَامُ (اٰل عمرٰن۳:۱۹) ’’اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے‘‘۔ اس دین کا اپنے تمام پیروکاروں سے مطالبہ ہی یہ ہے کہ زندگی کو خانوں میں تقسیم نہ کریں اور پوری زندگی کو اپنے رب کی مرضی کے تابع کر دیں، تاکہ زندگی کی تمام وسعتوں کے لیے روشنی اور ہدایت صرف اس دین سے حاصل کی جائے، اور طاغوت کو زندگی کے کسی بھی گوشے میں اپنے پنجے گاڑنے کا موقع نہ ملے:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَـآفَّۃً ص وَلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ ط اِنَّہٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ o (البقرہ ۲:۲۰۸) اے ایمان لانے والو! تم پورے کے پورے اسلام میں آجائو اور شیطان کی پیروی نہ کرو کہ وہ تمھارا کھلا دشمن ہے۔

عالمی ترجمان القرآن اس دعوت کا داعی ہے اور آنے والے دنوں میں حالات کے تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے اسے نہ صرف پاکستان، بلکہ دنیا بھر میں اس پیغام کو ہرایک تک پہنچائے گا۔

آیئے! اس موقع پر عزمِ نو کے ساتھ ساتھ دل کی گہرائیوں سے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں: اے اللہ! تو ہمارا حامی و ناصر ہوجا، ہم صرف تیری رضا کے لیے، تیرے دین کی سربلندی کے لیے، تیرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کو عام کرنے کے لیے، تیرے بندوں کو تیری بندگی کے راستے پر گامزن کرنے کے لیے اور انسانیت کو طاغوت کی مسلط کردہ تاریکیوں سے نکال کر تیری ہدایت کی روشنی کی طرف لانے کے لیے، تیری مدد، توفیق اور استعانت کے طالب ہیں۔

ہمارا سہارا تو اور صرف تو ہے اور تیرے سوا کوئی نہیں جو ہم جیسے کمزور انسانوں کو سہارا دے سکے، بلاشبہہ تو ہی  نعم المولٰی ونعم النصیر ہے___  وما توفیقی الا باللّٰہ!


الابلاغ ٹرسٹ کے پاس جن خریداروں کا زرتعاون جمع ہے ، ان کی خریداری میں ایک ماہ کا اضافہ کردیا جائے گا___ انتظامیہ الابلاغ ٹرسٹ

موت کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ سب کے ساتھ یکساں معاملہ کرتی ہے اور بڑے اور چھوٹے، امیروغریب، عالم اور عامی، حکمران اور محکوم، سب کو برابر کردیتی ہے۔ اس حقیقت کو انگریزی محاورے death, the great leveler کے مختصر جملے میں بیان کیا گیا ہے،لیکن اس کلیے میں ایک دوسری حقیقت کو نظرانداز کردیا گیا ہے کہ موت وہ حقیقت بھی ہے جو جہاں سب کو زمین کی آغوش میں ہمیشہ کی نیند سلادیتی ہے، وہیں کچھ نفوس ایسے بھی ہوتے ہیں جن کو موت ہی زندۂ جاوید بنادیتی ہے___ جن کی یاد حرزِ جاں بن جاتی ہے اور جن کے جلائے ہوئے چراغ روشنی کے مینار بن کر تاریکیوں کو مسلسل چھانٹنے اور فضا کو منور کرنے کا کام انجام دیتے ہیں، جو ہمارے درمیان سے اُٹھ کر بھی ہم سے دُور نہیں ہوتے    ؎

موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس
یوں تو دنیا میں سبھی آتے ہیں مرنے کے لیے

۲۷ فروری ۲۰۱۱ء کو عالمِ اسلام کی ایک ایسی ہی تاریخ ساز شخصیت اور ترکی میں اسلامی احیا کی جدید انقلابی تحریک کا میر کارواں پروفیسر نجم الدین اربکان بظاہر ہم سے رخصت ہوگیا، لیکن ترکی ہی نہیں، عالمِ اسلام میں روشنی کے ایسے چراغ جلا گیا جو تاریخ کی تاریک راہوں کو مدتوں منور رکھیں گے! ___ ان شاء اللہ تعالیٰ!

  •  نظریاتی کش مکش: ۲۰ویں صدی میں ترکی کی تاریخ پر اپنے اَنمٹ نقوش چھوڑنے والوں میں چار شخصیات نمایاں ہیں: سلطان عبدالحمید ثانی جو دولتِ عثمانیہ کا آخری چراغ تھا اور اپنی ۳۳سالہ جدوجہد (۱۸۷۶ء-۱۹۰۹ء) کے باوجود چھے صدیوں پر پھیلی ہوئی اس عالمی اسلامی قوت کو اندرونی انتشار اور بیرونی یلغار سے نہ بچا سکا۔ پھر ترکی کے اُفق پر مصطفی کمال پاشا نمودار ہوا جس نے اپنی جدوجہد کا آغاز تو اسلام کے اس آخری حصار کو بچانے اور یورپ کی استعماری قوتوں کی فوج کشی کا مقابلہ کرنے سے کیا اور عالمِ اسلام نے اسے ایک نجات دہندہ سمجھ کر غازی اور اتاترک کا خطاب دیا، لیکن فوجی محاذ پر یورپی اقوام کے دانت کھٹے کرنے اور ترک قوم  اور اناطولیہ کی سرزمین کو استعمار کی گرفت سے بچالینے کے بعد مغربی تہذیب و تمدن اور مغرب کے اندازِ سیاست کا ایسا اسیر بنا کہ دین اور سیاست کے رشتے کو پارہ پارہ کردیا۔ ترک قومیت کو اسلامی شناخت پر غالب کرنے کی کوشش کی۔ ۱۹۲۳ء میں ترک ری پبلک کے قیام کا اعلان کیا اور ۱۹۲۴ء میں خلافت کی قبا کو بھی تارتار کردیا، اور پھر ۱۹۲۷ء میں ترکی کو ایک لادینی ریاست بنانے اور مذہب کو اجتماعی زندگی کے ہر شعبے سے خارج کرنے، حتیٰ کہ قرآن پاک اور اذان کو بھی ترکی زبان کے سانچے میں ڈھالنے کی جسارت کی۔ عربی رسم الخط کو خلافِ قانون قرار دیا اور مغربی قوانین، علوم و افکار اور معیشت، سیاست، تعلیم، ادب اور معاشرت کے ہرمیدان میں مغرب کی نقالی کا راستہ اختیار کیا۔ جمہوریت کا لبادہ ضرور اوڑھا مگر فی الحقیقت ایک پارٹی اور ایک شخص کی آمریت قائم کی اور یہ سلسلہ ۱۹۳۸ء تک جاری رہا۔

مصطفی کمال کے انتقال کے بعد بھی نظامِ زندگی انھی خطوط پر چلتا رہا، البتہ دوسری    جنگ ِعظیم کے بعد عوام کو کچھ جمہوری آزادیاں ملیں۔ سیاست میں اتاترک کی ری پبلکن پارٹی ہی کے بطن سے ڈیموکریٹک پارٹی نے جنم لیا اور عدنان میندریس کی قیادت میں دو پارٹی نظام اور دستوری حکومت کا ایک گونہ آغاز ہوا جس کے نتیجے میں عوام کو اپنے دینی اور تہذیبی جذبات کے اظہار کا کچھ موقع ملا۔ دینی شعائر پر جو پابندیاں تھیں وہ کم ہوئیں، اذان عربی زبان میں بحال ہوئی، قرآن اور دینی کتب سے رجوع بڑھا، دینی مدارس کا احیا امام خطیب اسکول کی شکل میں ہوا، اور اس طرح ترکی نے اپنی اصل شناخت کی طرف مراجعت کے سفرِ نوکا آغاز کیا۔ سیکولرنظام میں دراڑیں پڑنے لگیں اور اسے ’خطرے کی گھنٹی‘ سمجھتے ہوئے ملک کی سیکولر قوتوں نے، جن کے چار ستون فوج، بیوروکریسی، عدالت اور میڈیا تھے، مغربی اقوام کی مدد سے ترکی کی خود اپنی دینی اور تہذیبی شناخت کے خلاف ایک نئی کش مکش اور تصادم کو فروغ دیا جس نے قوم کی صلاحیتوں کو بڑا نقصان پہنچایا۔ عدنان میندریس کو پھانسی دی گئی اور ۱۹۶۰ء سے فوجی انقلابات کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا جس کا آخری مظہر فروری ۱۹۹۷ء کی فوجی مداخلت تھی۔

۲۴-۱۹۲۳ء سے ۱۹۹۷ء تک کے نظریاتی کش مکش کے اس دور میں عدنان میندریس کے چندسالہ شعلے کے علاوہ جن دو شخصیات نے تاریخ کے رُخ کو موڑنے کا کام کیا ان میں سب سے نمایاں بدیع الزماں سعید نورسی (۱۸۷۶ء-۱۹۶۰ء) اور نجم الدین اربکان (۱۹۲۶ء- ۲۰۱۱ء) ہیں۔ سعید نورسی نے شروع میں اتاترک کا ساتھ دیا لیکن جب اس نے سیکولرزم اور مغرب کی تقلید کا راستہ اختیار کیا، قومیت کے سیکولر تصور کو قوت کے ذریعے مسلط کرنے کی کوشش کی، اور اسلام کو اجتماعی زندگی سے بے دخل کرنے کا ایجنڈا شروع کیا، تو سعید نورسی نے اسے چیلنج کیا اور قیدوبند کی صعوبتیں جھیلیں لیکن اسلام کی بنیادی دعوت اور پیغام کو زندہ رکھا اور تصوف کے سلسلۂ نقشبندی کے فروغ، دینی مدارس کے قیام اور اپنے خطوط اور تحریروں کے ذریعے اسلام کی شمع کو روشن اور     عام آبادی کو دین سے وابستہ رکھنے کی خدمت انجام دی۔

  •  اربکان کا مشن:نجم الدین اربکان نے ان دعوتی اور روحانی کوششوں کو اپنے انداز میں مضبوط اور مستحکم کرنے کے ساتھ دین کے اجتماعی زندگی میں کردار کے احیا کو اپنا مشن بنایا، اور نہایت مشکل حالات میں بڑی حکمت و دانش مندی اور صبرواستقامت کے ساتھ ترکی کو اس کی دینی اور تہذیبی شناخت کے احیا اور اُمت مسلمہ سے ایک بار پھر جڑ کر طاقت کی نئی قوت کے حصول کے راستے پر ڈالا۔ اس کے ساتھ انھوں نے ترکی کو مغرب کی سیاسی، معاشی اور تہذیبی غلامی سے نکال کر خودانحصاری اور ملّت اسلامیہ سے دوبارہ جڑنے اور مربوط ہونے کے نئے تاریخی سفر کا آغاز کیا۔

علامہ اقبال نے مصطفی کمال پاشا کے لادینی نظام کے تجربے کے بارے میں جو گِلہ کیا تھا، نجم الدین اربکان نے اپنی ۴۰سالہ جدوجہد سے تاریخ کے رُخ کو موڑنے کا انقلابی کارنامہ انجام دیا۔ اقبال نے ترکی کے انقلابِ معکوس کے بارے میں کہا تھا    ؎

نہ مصطفی نہ رضا شاہ میں نمود اس کی
کہ روحِ شرق بدن کی تلاش میں ہے ابھی

اور یہ کہ    ؎

لادینی و لاطینی ، کس پیچ میں اُلجھا تو
دارو ہے ضعیفوں کا ، لا غَالِبَ اِلاَّ ھُوَ

اللہ تعالیٰ نے جس شخص کو روحِ شرق کو ایک بار پھر جسدِ ترکی میں بیدار کرنے کی سعادت بخشی، وہ پروفیسر نجم الدین اربکان ہیں۔

نجم الدین اربکان ۲۹ ؍اکتوبر ۱۹۲۶ء کو بحراسود کے ساحل پر واقع ایک پُرفضا شہر سینوپ (Sinop) میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد محمد صابری دولت عثمانیہ میں جج کے عہدے پر فائز تھے۔ ابتدائی تعلیم طرابزون(Trabzon) میں اور ہائی اسکول کی تعلیم استنبول کے جدید طرز کے مدرسے Istanbul Lisrei میں ہوئی۔ پھر استنبول ٹیکنیکل یونی ورسٹی میں میکنیکل انجینیرنگ میں امتیاز کے ساتھ اعلیٰ تعلیم حاصل کی جس کی تکمیل جرمنی کی RWTH Aachen University میں ہوئی جہاں سے انھوں نے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ نیز عملی تجربہ حاصل کرنے کے لیے جرمنی کی  ایک بڑی موٹر کمپنی Humbolt Dentzمیں کئی سال کام کیا اور اپنی مہارت کا لوہا منوایا۔ ڈیزل انجن ڈیزائن کے میدان میں نئی دریافت سامنے لائے، اور اُس ٹیم کے چیف انجینیر کی حیثیت سے خدمات بھی انجام دیں جس نے جرمنی کے مشہور Leopard IA Tankکو ڈیزائن کیا۔ اس  اعلیٰ تعلیمی اور تجرباتی ریکارڈ کے ساتھ ترکی واپس آکر استنبول ٹیکنیکل یونی ورسٹی میں ۱۹۵۳ء سے ۱۹۶۵ء تک تدریس کے فرائض انجام دیے اور پروفیسر کے درجے پر مامور رہے۔ اس زمانے میں ترکی میں موٹر انڈسٹری کے فروغ کے لیے بھی سرگرم رہے، اہم صنعتی اداروں میں بحیثیت مشیر کام کیا اور بالآخر ترکی کی صنعت و تجارت کے اعلیٰ ترین ادارے یونین آف چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے جنرل سیکرٹری اور ڈائرکٹر جنرل کی ذمہ داریوں پر فائز رہے۔ اس زمانے میں انھیں ملک کے بااثر معاشی اداروں سے قریبی تعلقات استوار کرنے کا موقع ملا اور ان کے بڑھتے ہوئے اثرونفوذ سے خائف ہوکر ان کے ایک سابق کلاس فیلو اور برسرِاقتدار حکمران سلیمان ڈیمرل نے چیمبر سے ان کو فارغ کر دیا۔ یہی وہ موڑ تھا جب نجم الدین اربکان نے عملی سیاست میں شرکت کا فیصلہ کیا۔

  •  ملّی گورش کا قیام: ۱۹۶۹ء میں انھوں نے دو بڑے اہم فیصلے کیے۔  اسلام کو سمجھنے اور اس کی روشنی میں فرد اور معاشرے کی تشکیلِ نو کے لیے نوجوانوں کی ایک منظم تحریک کا قیام جسے ’ملّی گورش‘ کا نام دیا گیا۔ اس موقع پر اسی نام سے اربکان نے اپنی پہلی تحریر قوم کے سامنے پیش کی جو ان کا منشور بن گئی۔ ترکی کی اسلامی تحریک کا منبع اور محور نوجوانوں کی یہی تنظیم ہے۔ چونکہ ترکی قانون کی رُو سے اسلام کا نام استعمال نہیں ہوسکتا، اس لیے اربکان نے ملّت کی اصلاح کو اپنے سارے اجتماعی اور دعوتی کام اور نظامِ حق کو اپنے فکری کام کا ذریعہ بنایا ہے۔ ملّی گورش اس وقت ترکی کے جوانوں کی اہم ترین تنظیم ہے جس کا سارا زور فکری بنیادوں کو مستحکم کرنے اور اخلاقی، روحانی اور اجتماعی تربیت کے اہتمام اور نوجوانوں میں دعوت اور روحِ جہاد کو منظم انداز میں ترقی دینے پر ہے۔ اس سلسلے میں ملّی گورش نہ صرف ترکی کے طول و عرض میں بلکہ جرمنی اور دیگر ایسے  تمام ممالک میں بھی (جہاں جہاں ترک موجود ہیں) نوجوانوں کی سرگرمیوں کو منظم کرتی ہے۔ مزیدبرآں استنبول کے اسلامی قلمرو میں آنے کی مناسبت سے ہر سال ۲۹مئی کو ’یومِ فاتح‘ کے عنوان سے ایک سالانہ تقریب کا اہتمام کرتی ہے جس میں ترکی سے لاکھوں افراد شریک ہوتے ہیں اور عالمِ اسلام سے بھی اہم اسلامی شخصیات اس میں شرکت کرتی ہیں۔ محترم قاضی حسین احمد اور مجھے اس میں کئی بار شرکت کی سعادت حاصل ہوئی ہے۔ ان تاریخی اجتماعات میں پورا اسٹیڈیم لوگوں سے بھرا ہوا ہوتا تھا، اربکان اپنے خاص مہمانوں کے ساتھ پورے اسٹیڈیم کا چکر لگاتے اور ان کا استقبال ’مجاہد اربکان‘ کے فلک شگاف نعروں سے ہوتا تھا۔ اربکان نے اس کے ساتھ خدمتِ خلق کے دو اہم ادارے قائم کیے: جان سویو اور آئی ایچ ایچ، جن کے ذریعے ترکی اور پوری دنیا میں خدمت خلق کا ایک عالمی نیٹ ورک قائم کیا۔
  •  نظریاتی سیاست اور جدوجھد: اربکان نے ترکی پارلیمنٹ کے ۱۲؍اکتوبر ۱۹۶۹ء کے انتخابات میں بطور آزاد رکن حصہ لیا اور کامیابی حاصل کی۔ یہاں سے اسلام کی بنیاد پر نظریاتی سیاست اور اجتماعی تبدیلی کی جدوجہد کا آغاز ہوا۔ ایک سال پارلیمنٹ میں اپنا لوہا منوانے کے بعد ’ملّی نظام پارٹی‘ کے نام سے پہلی نظریاتی پارٹی قائم کی، جس کے وہ سربراہ تھے۔ اس کے قیام کے ساتھ ہی سیکولر نظام اقتدار اور مغربی اقوام میں خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگیں۔ فوج حرکت میں آگئی۔ ملّی نظام پارٹی کو خلافِ قانون قرار دے دیا گیا لیکن نجم الدین اربکان نے سیکولرزم کے ہروار کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔ چار بار ان کی جماعت کو خلافِ قانون قرار دیا گیا اور ہر بار وہ     نئے روپ میں اور زیادہ طاقت ور حیثیت سے نمودار ہوئے۔ ایک موقع پر جمہوریت کے مسلّمہ اصولِ جماعت سازی کے حق کی بنیاد پر ترکی کے عدالتی نظام کا پول کھولنے کے بعد جمہوریت کی  علَم بردار یورپین عدالت میں بھی انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے مقدمہ لڑا ۔ اس طرح ساری دنیا کے سامنے اس کا دوغلاپن الم نشرح کر دیا کہ جمہوری یورپ کو اسلام کے نام کے بغیر بھی اسلامی شناخت کو اُجاگر کرنے والی سیاسی جماعت پر پابندی میں کوئی چیز جمہوریت اور انسانی اور سیاسی حقوق کے خلاف نظر نہیں آتی، اور اس نے بھی پوری ڈھٹائی سے ترکی کی عدالت کے فیصلے کی توثیق کردی۔ اربکان نے ملّی نظام پارٹی کے بعد نام بدل بدل کر یکے بعد دیگرے ملّی سلامت پارٹی، رفاہ پارٹی، سعادت پارٹی اور فضیلت پارٹی کے نام سے سیکولر قوتوں اور فوجی قیادت کے ہر وار کے بعد نئی جماعت قائم کی، اور اس طرح مسلسل جدوجہد کرتے ہوئے ترکی کی سیاسی فضا کو بدل کر رکھ دیا۔ ان کا حال یہ رہا کہ    ؎

جہاں میں اہلِ ایماں صورت خورشید جیتے ہیں
اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے، اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے

اللہ اپنے جس بندے سے جو کام لینا چاہتا ہے ، لے لیتا ہے۔ نجم الدین اربکان ترکی کی تاریخ کا رُخ ایک بار پھر اسلام اور اُمت مسلمہ کی طرف موڑ کر دنیا سے رخصت ہوئے ہیں۔     وہ ۱۹۷۰ء سے ۱۹۹۷ء تک (ماسوا اُن ادوار کے، جب وہ قید میں تھے یا ان پر سیاست میں   شرکت کرنے پر پابندی تھی) پارلیمنٹ کے رکن اور ایک اہم سیاسی پارٹی کے قائد رہے۔ دو بار نائب وزیراعظم اور ایک بار وزیراعظم رہے۔ آخری ۱۰، ۱۲ سال ان پر بہت سخت گزرے لیکن وہ ہمت ہارنے والوں میں سے نہ تھے۔ مخالفین کے وار تو وہ ہمیشہ سہتے ہی رہے لیکن اس دور میں ان کو اپنوں سے بھی دُکھ پہنچے۔ اس کے باوجود ان کے پاے استقامت میں لغزش نہیں آئی۔ اکیسویں صدی میں ترکی کے کردار پر جس شخص کا سب سے نمایاں اثر ہے، اور رہے گا وہ نجم الدین اربکان ہیں۔ ان کی بعض آرا یا اقدام کے بارے میں دو رائیں ہوسکتی ہیں لیکن ان کے تاریخ ساز کارناموں کا اعتراف دوست اور دشمن سبھی کر رہے ہیں اور مستقبل کا مؤرخ یہ لکھنے پر مجبور ہوگا کہ اربکان کی ۴۰سالہ نظریاتی، اخلاقی اور سیاسی جدوجہد نے ترکی کے سیاسی اور تہذیبی سفر کے رُخ کو تبدیل کر دیا ہے۔

نجم الدین اربکان سے میرے تعلقات کی داستان بھی نصف صدی پر پھیلی ہوئی ہے۔ ہماری پہلی ملاقات کراچی میں اس وقت ہوئی جب ۱۹۶۷ء میں وہ ترکی کے چیمبر آف کامرس   اینڈ انڈسٹری کے سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے پاکستان کے سرکاری دورے پر آئے ہوئے تھے۔  وہ بڑے اشتیاق سے اسلامک ریسرچ اکیڈمی کے دفتر، واقع ناظم آباد میں تشریف لائے۔ پھر ہماری ملاقاتیں اسلامک کونسل آف یورپ کے اجتماعات میں بڑی باقاعدگی اور تسلسل سے ہوتی رہیں۔ میں نے ۱۹۶۶ء سے ۲۰۰۷ء تک ۱۰، ۱۵ مرتبہ ترکی کا دورہ کیا اور ہربار ان سے ملنے کا موقع ملا، حتیٰ کہ جب وہ نظربند تھے اس وقت بھی مجھے ان سے ملنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ ۱۹۹۰ء کی جنگِ خلیج کے موقع پر ،عالمی تحریکات کے وفد میں وہ ہمارے ساتھ تھے۔ اس وفد میں شامل محترم قاضی حسین احمد، ڈاکٹر حسن ترابی، راشد الغنوشی اور دنیا کی اسلامی تحریکات کے ۱۵قائدین نے اُردن، عراق، سعودی عرب اور ایران کا دورہ کیا تھا، تاکہ عرب دنیا کو اس تباہ کن جنگ سے بچایا جاسکے جس کے بادل منڈلا رہے تھے اور جو استعماری ایجنڈے کا اہم حصہ تھی۔ اربکان صاحب نے جماعت اسلامی کی دعوت پر پاکستان کا دورہ بھی کیا۔ میری آخری ملاقات ان سے ۲۰۰۷ء میں ہوئی جب انھی کی دعوت پر ان کی رہنمائی میں کام کرنے والے تحقیقی ادارے Essam کی سالانہ کانفرنس میں مَیں نے کلیدی خطاب کی خدمت انجام دی تھی۔

پروفیسر نجم الدین اربکان کے بارے میں اپنے ذاتی تجربے، اور حالات کے بہ چشم سر مطالعہ کرنے کے بعد جو چند باتیں میں اس موقع پر کہنا چاہتا ہوں، وہ یہ ہیں:

  •  مغرب کی تھذیبی غلامی سے نجات: سب سے اہم چیز پروفیسر نجم الدین اربکان کا وژن ہے جسے سمجھنا ضروری ہے۔ وہ ایک نابغۂ روزگار شخصیت تھے۔ انھیں اچھے خاندان، اچھی تعلیم و تربیت اور اچھے ابتدائی تجربات کی نعمت حاصل تھی لیکن سب سے اہم چیز ان کا یہ احساس تھا کہ وقت کی سب سے اہم ضرورت ترکی اور عالمِ اسلام کو مغرب کی تہذیبی غلامی سے نکال کر ایک بار پھر اسلام کی شاہراہ پر گامزن کرنا ہے، اور یہ کام اجتہادی بصیرت کے ساتھ ان حالات کے پورے ادراک کے ساتھ انجام دینا ہے جن میں اس وقت ترکی اور پورا عالمِ اسلام گھِرا ہوا ہے۔

ان کی زندگی کا پہلا دور اپنی اور اپنے ساتھیوں کی تیاری کا تھا۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ وہ دین کا علم بھی رکھتے تھے۔ روحانی اور اخلاقی اعتبار سے انھوں نے اپنے کو اس طرح تیار کرلیا تھا کہ مستقبل کے چیلنج کا مقابلہ کرسکتے تھے، جیساکہ اقبال نے کہا تھا    ؎

ہو صداقت کے لیے جس دل میں مرنے کی تڑپ
پہلے اپنے پیکرِ خاکی میں جاں پیدا کرے

نقشبندی سلسلے سے ان کا گہرا تعلق تھا۔ عبادات میں شغف اور تواضع اور خدمت ان کی شخصیت کے دل رُبا پہلو تھے۔ بلاشبہہ انھیں اپنی راے پر بہت بھروسا ہوتا تھا لیکن خوش اخلاقی اور دوسروں کے ساتھ شفقت ان کے کردار کے نمایاں پہلو تھے۔ ان کے فکری کام کا ترکی سے باہر کے علمی حلقوں کو اندازہ نہیں لیکن اس میدان میں بھی ان کی اپنی خدمات کسی سے کم نہیں۔ خود ایک درجن کتابوں کے مصنف تھے اور درجنوں افراد کو تحقیق اور علمی کاموں پر لگانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ میکنیکل انجینیرنگ کے فطری اور عملی دونوں پہلوئوں پر ان کو مکمل عبور تھا، اور بات گہری سوچ اور  عملی تجربات کی روشنی میں کرتے تھے۔

  •  سیکولر نظام میں تبدیلی کی حکمت عملی: ان کا ایک اور بڑا کارنامہ ایک استبدادی سیکولر نظام کے دائرے میں رہتے ہوئے تبدیلی کی راہیں استوار کرنا ہے۔ انھوں نے تبدیلی کے لیے فکری، دعوتی، اخلاقی اور جمہوری راستہ اختیار کیا۔ چونکہ اسلام کے نام پر کام مشکل تھا، اس لیے انھوں نے ایک طرف تو ممکنہ حد تک اسلامی علوم اور افکار کی اشاعت کا اہتمام کیا، اور دوسری طرف دعوتِ اسلامی کو دو نئی اصطلاحات اور عنوانات ’ملّت‘ اور ’حق‘ کے تحت اسلام ہی کی خالص دعوت کو پیش کیا۔ اس طرح ان زنجیروں کو کاٹ دیا جو سیکولر قوانین نے ترک قوم کو پہنا دی تھی۔

انھوں نے سیاسی اور نظریاتی تنظیم کا بھی ایک نیا اسلوب اختیار کیا۔ ملّی گورش کو ایک فکری، نظریاتی اور تہذیبی تحریک کے طور پر منظم اور متحرک کیا۔ خدمت کے میدان میں الگ ادارے بنائے، اور خود سیاسی جماعت کے تصور کو بدل کر رکھ دیا جس میں نظریاتی سیاست اور عوامی خدمت اور فلاح کو مرکزی حیثیت دی گئی۔ طاقت ور اور مفاد پرست طبقوں کے طلسم کو عوامی رابطے،   خدمتِ خلق اور معاشرے اور معیشت کی نئی اُبھرتی ہوئی قوتوں کو منظم کرنے اور اپنی جدوجہد میں  اپنا دست و بازو بناکر توڑا۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں تنظیم کی بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا تھا، اور انھوں نے ان کا بھرپور استعمال کیا۔ روایت پرستی کی جگہ جدت اور سیاست کو ایک نیا آہنگ دیا جس میں عوامی مسائل کو مرکزیت دی گئی۔ مقامی حکومتوں (لوکل باڈیز) کو انھوں نے اپنی سیاسی قوت کی بنیاد بنایا۔ انقرہ اور اِزمیر کے روایتی مراکزِ قوت (power-centres) کے مقابلے میں استنبول جیسے بڑے شہر اور پھر ملک بھر کے شہروں اور قصبات میں اپنی تنظیم کے تنظیمی ڈھانچے قائم کیے۔ بورسا کا تاریخی علاقہ ان کی قوت کا بڑا مرکز بن گیا۔ ۱۹۶۹ء میں صرف ایک نشست پارلیمنٹ میں لینے والے مجاہد نے ۱۹۷۳ء میں ملک کے کُل ووٹوں کا ۱۲ فی صد حاصل کر کے اسمبلی میں ۴۸ نشستیں حاصل کیں۔ ۱۹۸۵ء میں ووٹوں کی تائید گر کر ۷ فی صد رہ گئی لیکن پھر ۱۹۹۵ء میں ۲۱ فی صد ووٹوں کی بنیاد پر اتنی نمایندگی پارلیمنٹ میں حاصل کرلی کہ ایک دوسری جماعت سے اشتراک کی بنیاد پر وزیراعظم کے منصب پر فائز ہوسکے۔ آج کی جسٹس اینڈ ڈائیلاگ پارٹی خواہ ان سے جدا ہوچکی ہے مگر جو کچھ اس نے حاصل کیا ہے، وہ اُسی درخت کا پھل ہے جو پروفیسر نجم الدین اربکان نے لگایا تھا۔

بلاتمثیل یورپ کی تاریخ کا ایک دور ذہن کے اُفق پر اُبھر رہا ہے جس میں کارل مارکس نے اشتراکیت کا فلسفہ بڑی قوت کے ساتھ پیش کیا اور سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادوں کو ہلاکر رکھ دیا۔  عالمی کمیونسٹ تحریک کا بانی بنا اور عالمی انقلاب کی پیش گوئیاں کیں لیکن ۳۰سال کی جدوجہد کے بعد اس کی تحریک ایک فکری لنگر کی طرح تو موجود رہی مگر یورپ کی سیاست میں ارتعاش پیدا نہ کرسکا۔ البتہ اس کی خواہش کے علی الرغم خود اس کی ہی فکر کے بطن سے جرمنی میں سوشل ڈیموکریٹک پارٹی وجود میں آئی، اور مغربی یورپ میں سوشل ڈیموکریسی کی سیاسی لہر اُبھرتی چلی گئی جس نے مارکس کے افکار سے اپنا رشتہ تو باقی رکھا مگر تبدیلی کے لیے دوسرا راستہ اختیار کیا۔ مارکس نے اس سے براء.ت کا اظہار کیا اور اپنی آخری تحریر Critique of the Gotha Programme (1883)  میں اس پر کڑی تنقید کی، البتہ سوشل ڈیموکریٹس کا ردعمل کچھ یوں تھا    ؎

اس نے اپنا بنا کے چھوڑ دیا
کیا اسیری تھی، کیا رہائی ہے

ترکی کی دونوں بڑی سیاسی پارٹیوں میں بھی وہی تمام خصوصیات تھیں جو خصوصیت سے ترقی پذیر ممالک کی سیاست کی پہچان بن گئی ہیں، یعنی بااثر طبقات کا تسلط، میڈیا، فوج اور بیورکریسی کا کلیدی کردار، مغربی اقوام کی کاسہ لیسی اور ان ملکی اشرافیہ اور مغربی حکمرانوں کا گٹھ جوڑ، نیز عوام کا استعمال اور استحصال۔ نجم الدین اربکان نے متوسط طبقات کو زبان اور سیاسی کردار دیا۔  یہ انھی کی سوچ اور مساعی کا حاصل ہے کہ متوسط اور چھوٹے تاجر اور زراعت سے متعلق افراد متحرک ہوئے اور سیاسی مرکزی دھارے میں آگئے۔ ان کی تاریخی خدمات میں دینی شناخت کو ترکی قوم کی شناخت کی حیثیت سے اُبھارنا اور مغرب سے اچھے تعلقات کو نظرانداز نہ کرتے ہوئے بھی شعوری طور پر علاقائی ممالک اور عرب اور اسلامی دنیا سے تعلقات کو استوار کرنا اور اجتماعی مفادات کے نئے رشتوں کو استوار کرنا، سرمایہ دارانہ نظام پر تنقید اور مغرب کی معاشی اور سیاسی بالادستی کے چنگل سے نکلنے کی راہیں تلاش کرنا نمایاں ہیں۔ قومی مفاد پر کسی سمجھوتے کو راہ نہ پانے دینا، عوام سے رابطہ اور ان کی حکومت کو سیاسی جدوجہد کا حصہ بنانا، اور اس کے ساتھ اسلام کو زندگی کی صورت گری کرنے والی ایک قوت کی حیثیت سے پیش کرنا، اور یہ بتانا کہ جس طرح نماز اور روزہ اسلامی زندگی کا لازمی حصہ ہیں اسی طرح اجتماعی عدل، سماجی تعلقات اور کرپشن سے پاک سیاست بھی اسلام کا تقاضا ہے۔ سود ایک لعنت ہے، اس سے نجات اخلاقی ہی نہیں ایک معاشی ضرورت بھی ہے۔ مغربی سامراج اور صہیونی ایجنڈے کا مقابلہ کرنا بھی سیاسی جدوجہد کا اہم حصہ ہے___ یہ سب باتیں وہ ہیں جو ترکی کی سیاسی قیادت بھول چکی تھی اور قوم کا ایجنڈا مغربی تصورات اور مفادات کی روشنی میں بنایا جا رہا تھا۔ یہ اربکان ہی کی کوششوں کا ثمرہ ہے کہ سیاست کا انداز اور قوم کا ایجنڈا تبدیل ہوگیا ہے۔ گو، اب بھی مخالف قوتیں بڑی مضبوط اور شکست ماننے کو تیار نہیں، لیکن رنگِ محفل بدل گیا ہے۔

نجم الدین اربکان کا یہ بھی ایک کارنامہ ہے جس کا باہر کی دنیا میں لوگوں کو پوری طرح شعور نہیں ہے کہ تین میدانوں میں انھوں نے اپنی قوم کی ایسی خدمت انجام دی ہے جسے کبھی بھلایا نہیں جاسکتا:

  •  سیاست کا نیا آھنگ: سیاست کو مفادات کی سیاست سے کاٹ کر قوم کے عزائم کے مطابق ڈھالنے اور اسے اصولی اور معاشی و معاشرتی موضوعات کے گرد سرگرم کرنا، ان کا نمایاں کارنامہ ہے۔ فوج سے ٹکر لیے بغیر، اور فوج کی تمام دراندازیوں اور زیادتیوں کے باوجود، اور اس کی حقیقی دفاعی قوت کو کم کیے بغیر، سیاست میں اس کی مداخلت کے دروازے بند کرنے کی بڑی حکمت سے کوشش کی۔ جب حالات زیادہ خراب ہوتے دیکھے تو تصادم اور غیر جمہوری حربوں کے استعمال کو سختی سے روکا اور جمہوی اور سیاسی ذرائع ہی کے ذریعے نئی نئی راہیں تلاش کیں، اور وہ کردکھایا جس کی طرف مولانا مودودیؒ نے ۱۹۶۳ء کے جماعت اسلامی کے اجتماع عام کے موقع پر توجہ دلائی تھی: ’’جسے اللہ تعالیٰ نے حکمت اور صبر دونوں سے نوازا ہو، وہ جوے رواں کی طرح ہوتا ہے جس کی منزل کوئی چیز بھی کھوٹی نہیں کرسکتی۔ چٹانیں منہ دیکھتی رہ جاتی ہیں اور دریا کسی اور طرف سے اپنی منزل کی طرف بہہ نکلتا ہے‘‘۔ (رودادِ جماعت اسلامی، ہشتم، ص ۵۵)

سیاست کے آہنگ کو بدلنا کوئی معمولی کارنامہ نہ تھا۔ ان کے مخالف بھی اعتراف کر رہے ہیں کہ ترکی اب وہ نہیں رہا جو اربکان کے سیاست میں آنے سے پہلے تھا۔ امریکا کے بااثر علمی مجلے  فارن پالیسی نے اربکان کے انتقال پر جو نوٹ لکھا ہے اس میں اپنی تمام اگرمگر کے باوجود وہ   یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہوا ہے کہ:

ترکی اربکان کے سیاسی ورثے کی وجہ سے اور اس کے باوجود ڈرامائی طور پر     تبدیل ہوچکا ہے۔ بلاشبہہ ترکی کی موجودہ سیاسی کیفیت، اربکان نے ترکی کے سیاسی نظام میں جو کچھ کیا، اس کا بلاواسطہ یا بہت سی صورتوں میں غیرارادی نتیجہ ہے۔  (فارن پالیسی آن لائن، یکم مارچ ۲۰۱۱ء)

اسی مضمون میں آگے چل کر اعتراف کیا گیا ہے:

آج ترکی جو کچھ ہے اس (اربکان) کے بغیر ہونا ممکن نہ تھا۔ ترکی اس کے چھوڑے ہوئے ورثوں کی وجہ سے زیادہ جمہوری اور زیادہ منقسم ہے۔ انھوں نے عوامی ضروریات کو اپیل کرنے اور سماجی تعاون کے حصول کے لیے جو کچھ سکھایا، ترکی کے قائدین اس کے لیے ان کے احسان مند ہیں۔ سیاسی شراکت اور مخالفوں کے ساتھ اشتراکِ عمل کے ان کے طے شدہ طرز نے بھی ان اُمیدوں کو قائم کیا کہ ترکی کے سیاسی نظام میں اسلام کو تعمیری کردار ادا کرنا ہے۔ (ایضاً)

اور اکانومسٹ، لندن یہ لکھنے پر مجبور ہوا ہے کہ:

ان کے سیکولر دشمن ان کو ایک خطرناک مذہبی انقلابی قرار دیتے ہیں، جب کہ انھیں  ترکی کے اسلام پسندوں کے لیے ایک معتدل قوت کی حیثیت سے تسلیم کیا جاتا ہے۔   عرب دنیا ترکی کو ایک ممکنہ ماڈل کے طور پر دیکھتی ہے۔ اربکان کے ورثے کو اب اہمیت حاصل ہے۔ (دی اکانومسٹ، ۳ مارچ ۲۰۱۱ء)

ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ وہی فوج جس نے ہر بار اربکان کا راستہ روکا اور انھیں قید اور نااہلی کی صعوبتوں سے دوچار کیا، اس کا سربراہ جنرل ایسک کوسانور (Isik Kosaner) ان کی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہے۔ وال اسٹریٹ جرنل کے الفاظ میں: ’’انھوں نے ہمارے ملک کے لیے سائنس اور سیاست کے میدان میں ایک قیمتی انسان کی طرح عظیم خدمات انجام دیں‘‘۔ (یکم مارچ ۲۰۱۱ء)

کسی نے سچ کہا___ جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے!

  •  قبرص میں فوجی مداخلت پر مزاحمت: اربکان کے ایک اور کارنامے کا اعتراف کھلے طور پر نہیں کیا جا رہا۔ ۱۹۷۴ء میں وہ نائب وزیراعظم اور بلند ایجوت وزیراعظم تھے۔ یونان کی فوجی مداخلت کے ذریعے قبرص میں فوجی انقلاب برپا کرنے کی کوشش کی گئی۔ اربکان  ترکی کی طرف سے فوجی کارروائی کے حق میں تھے مگر ایجوت فوج بھیجنے کی ہمت نہیں کر رہا تھا۔ جب اربکان نے کابینہ میں اور کابینہ سے باہر بھی، قبرص پر فوج کشی نہ کرنے کی صورت میں حکومت چھوڑنے کی دھمکی دی، تب ترک فوج کو قبرص کے ترک مسلمانوں کی حفاظت کے لیے بھیجنے کا اقدام ہوا۔ اس طرح اربکان کے تدبر و جرأت اور بروقت اقدام کے نتیجے میں قبرص یونانی کالونی بننے سے بچ گیا، اور ترک قبرص وجود میں آیا۔
  •  معاشی خودانحصاری: اربکان کا تیسرا بڑا کارنامہ ترکی کو یورپ کی معیشت کی گرفت سے نکال کر خودانحصاری کے راستے پر ڈالنا ہے۔ ۱۹۷۰ء کے عشرے میں جب پانچ چھے سال وہ نائب وزیراعظم رہے، اس زمانے کا ایک عظیم کارنامہ ترکی میں ہیوی انڈسٹری کا قیام اور استحکام ہے۔ نیز ترکی میں انقرہ اور اِزمیر کے سرمایہ داروں کا جو تسلط تھا، اس کو توڑنے اور ترکی کے دوسرے علاقوں کے اُبھرتے ہوئے تجارتی اور نئے گروپوں کو معیشت کے مرکزی دھارے میں لانا ہے۔ یہ اسی معاشی پالیسی کا نتیجہ ہے کہ آج ترکی معاشی اعتبار سے اپنے پائوں پر کھڑا ہورہا ہے۔

ترکی میں اسلامی نظامِ بنکاری کو رائج کرنے میں بھی اربکان کا بڑا کردار ہے۔ یہ انھی کا دیا ہوا ماڈل تھا جس کے نتیجے میں سیکولر ملک ہوتے ہوئے بھی بلاسود بنکاری کو قانونی تحفظ اور مواقع حاصل ہوئے۔ ترکی کا افراطِ زر جو ایک زمانے میں ۷۰۰ اور ۸۰۰ فی صد سالانہ تھا، اب ۵ اور ۶ فی صد کے دائرے میں آگیا ہے۔ قرضوں کا بار اب بھی کافی ہے مگر اب معاشی پالیسی بیرونی احکام اور مطالبات کی روشنی میں نہیں، بڑی حد تک ملک کے اپنے حالات اور ترجیحات کے مطابق ترتیب پاتی ہے۔ معاشی زندگی اور جدوجہد کا رُخ بدل گیا ہے اور ان تمام تبدیلیوں میں ترکی قوم کی مساعی کے ساتھ ان کو صحیح رُخ کی طرف رہنمائی کرنے والے اربکان کے افکار اور سیاسی اور معاشی پالیسی کے میدان میں کردار کا بڑا دخل ہے۔ ترکی ان ۵۰سال میں تبدیلی کے راستے پر گامزن ہوگیا ہے۔ اربکان نے D-8 ، یعنی ترقی پذیر آٹھ ملکوں کے اتحاد کا جو خواب دیکھا تھا اور جس کے لیے     عملی اقدام کا آغاز کر دیا تھا۔ خدا کرے ترکی اس سلسلے میں خود آگے بڑھے اور عالمِ اسلام اور خود ترکی کو درپیش خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے کمربستہ ہوجائے، جن کی اربکان نے نشان دہی کی تھی۔ ۲۰۰۷ء میں، آخری ملاقات کے موقع پر D-8 کے منصوبے پر مشتمل کتاب مجھے اپنے دستخطوں سے دیتے وقت جو بات انھوں نے کہی تھی، میں اسے نہیں بھول سکتا۔ کتاب کی ایک مرکزی تصویر پر انگلی رکھ کر انھوں نے کہا: D-8 کے پہلے اجلاس میں جن آٹھ مسلمان حکمرانوں نے شرکت کی تھی، ذرا غور سے دیکھو ان میں سے کوئی بھی آج منصب ِ اقتدار پر نہیں۔ کیا اب بھی ہم اپنے دوستوں اور دشمنوں میں تمیز نہیں کریں گے؟

_____________

انجینیر، استاد، مربی، قائد اور مجاہد نجم الدین اربکان کا سفرِ آخرت بھی ایک انفرادی شان رکھتا ہے۔ مبصرین کا اندازہ ہے کہ دولت عثمانیہ اور خلافت کے خاتمے کے بعد کسی سیاسی قائد کے جنازے میں عوام کی ایسی شرکت نہیں دیکھی گئی جیسی پروفیسر اربکان کے جنازے میں تھی۔ استنبول کی ۳ہزار مساجد نے جنازہ میں شرکت کا اعلان کیا اور سلطان فاتح مسجد میں اس مجاہد کی نمازِ جنازہ میں ۳۰لاکھ افراد نے شرکت کی۔ صدر مملکت، وزیراعظم، گرانڈ اسمبلی کا اسپیکر، تمام سیاسی اور دینی جماعتوں کے قائد، دنیا بھر کی اسلامی تحریکات کے نمایندے، شمالی قبرص کی حکومت کے صدر اور وزیراعظم، حتیٰ کہ ترک افواج کی قیادت، سب نے شرکت کی اور اربکان کی اس خواہش کے  احترام میں یہ اہتمام کیا گیا تھا کہ ان کا جنازہ معروف اسلامی روایات کے ساتھ اُٹھایا جائے اور سابق وزیراعظم اور سربراہِ حکومت کے جنازوں کے لیے جو سرکاری تام جھام ہوتا ہے اس سے اجتناب کیا جائے۔ پروفیسر اربکان کا جنازہ عوام کے اعتماد اور محبت کا مظہر تھا اور استنبول کی جدید تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ ترکوں نے اس جنازے میں شرکت سے اربکان کو اپنا آخری سلام ہی پیش نہیں کیا بلکہ یہ جنازہ ایک ریفرنڈم بن گیا۔ ملک میں جو تبدیلی اربکان اور اس کے ساتھیوں کی مساعی کے نتیجے میں رونما ہوئی ہے، ترک عوام کی بڑی تعداد نے اس سے اپنی ہم آہنگی اور اس لہر کو آگے بڑھانے کے عزم کا اظہار بھی کیا۔ الحمدللہ اربکان کی موت بھی اس کی زندگی کی طرح اسلامی احیا کی تحریک کی علامت بن گئی    ؎

جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے، اس جان کی کوئی بات نہیں

اللہ تعالیٰ پروفیسر نجم الدین اربکان کی تمام مساعیِ جمیلہ کو شرف قبولیت سے نوازے، ان کی خدمات کے عوض انھیں جنت کے اعلیٰ ترین مقام پر جگہ دے، ان کی قبر کو نور سے بھر دے، ان کی بشری کمزوریوں اور کوتاہیوں کو معاف فرمائے ___اور ترکی کو جس راستے پر گامزن کرنے میں انھوں نے کلیدی کردار ادا کیا ہے وہ اس پر تیزرفتاری کے ساتھ گامزن رہے، اور ترکی اور عالمِ اسلام ایک بار پھر مل کر اسلام کی نشاتِ ثانیہ کا سامان پیدا کریں، اور اقبال نے جو خواب دیکھا تھا وہ حقیقت کا روپ دھار لے    ؎

عطا مومن کو پھر درگاہِ حق سے ہونے والا ہے
شکوہِ ترکمانی، ذہنِ ہندی، نُطقِ اعرابی

۲۷ جنوری ۲۰۱۱ء پاکستان اور امریکا کے تعلقات کی تاریخ میں ایک اہم موڑ کی حیثیت اختیار کرگیا ہے۔ ریمنڈ ڈیوس کوئی نام نہاد سفارت کار نہیں ہے، بلکہ درحقیقت سی آئی اے کا خون خوار کمانڈو ہے جس کے ہاتھوں پر چار معصوم پاکستانیوں کا خون ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ وہ ایک ایسا آئینہ بن گیا ہے جس میں امریکا کے سامراجی کردار اور ایک دوست ملک کو بلیک میل کرنے، عدم استحکام کا شکار کرنے اور اپنے مذموم مقاصد کے لیے آلۂ کار بنائے جانے کے ناپاک کھیل کی پوری تصویر دیکھی جاسکتی ہے۔ جس نے پاکستانی قوم اور اس کی مقتدر قوتوں کو نہ صرف جھنجھوڑ دیا ہے، بلکہ ملک اور قوم کے لیے امریکا سے تعلقات کے پورے مسئلے پر بنیادی نظرثانی کو ناگزیر بنادیا ہے۔

۲۷ جنوری کا واقعہ ایک خونیں سانحہ تو ہے ہی، لیکن اس سے زیادہ پوری قوم کے لیے ایک انتباہ کی حیثیت بھی اختیار کرچکا ہے۔ تیونس میں ایک نوجوان کی خودکشی نے تیونس ہی نہیں پورے عالمِ عرب میں بیداری کی اس انقلابِ آفریں لہر کو جنم دیا، جو تاریخ کا رُخ موڑنے کا کارنامہ انجام دے رہی ہے۔ بالکل اسی طرح پاکستان میں امریکی درندگی کا نشانہ بننے والے ان تین نوجوانوں کا خون پاکستان اور عالمِ اسلام کے لیے امریکا کی غلامی سے نجات کی تحریک کی آبیاری اور ملّی غیرت و حمیت میں تقویت کا ایک فیصلہ کن ذریعہ بنتا نظر آرہا ہے۔

پوری ملت اسلامیہ، پاکستان اور اہلِ پاکستان ۲۷ جنوری کے اس اندوہناک اور دل خراش واقعے میں ظلم کا نشانہ بننے والے خاندانوں کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ  ہم سب ان کی حُب الوطنی پر نازاں اور پاکستانی مفادات کے باب میں ان کے لیے استقامت   کے لیے دعاگو ہیں۔ اس واقعے کی روشنی میں انصاف اور قومی اور ملّی مفادات کے تحفظ کے حوالے سے ان پہلوئوں پر چند معروضات پوری قوم اور خصوصیت سے پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کے سامنے پیش کرتے ہیں۔

اصل واقعے کی بیش تر تفصیلات قوم کے سامنے آگئی ہیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نے، اس سلسلے میں سارے دبائو اور ملکی اور بیرونی عناصر کی ریشہ دوانیوں کے علی الرغم، اصل حقائق کو تلاش کرنے اور جرأت سے انھیں بیان کرنے کے لیے جو کردار ادا کیا ہے، اس پر انھیں ہدیۂ تبریک پیش کرتے ہیں۔ یہ اعتراف بھی ضروری ہے کہ عدالت نے بروقت احکام جاری کیے۔ اسی طرح ملک کی دینی و سیاسی قوتوں اور عوام نے امریکا کے حاشیہ برداروں کے سارے کھیل کو ناکام بنانے کے لیے جو مساعی کی ہیں، وہ سنہری حروف میں لکھے جانے کے قابل ہیں۔ مگر ہم دکھ کے ساتھ اس حقیقت کو بھی ریکارڈ پر لانا چاہتے ہیں کہ مرکزی حکومت کا بحیثیت مجموعی اور اس کے کچھ بڑے نمایاں قائدین کا کردار سخت مشکوک اور تشویش ناک رہا ہے۔ نئی وزیر اطلاعات اور پیپلزپارٹی کی سابقہ سیکرٹری اطلاعات نے تو کھل کر امریکی مفادات کی ترجمانی کی ہے۔ پھر ایوانِ صدر کے کردار پر بھی بڑے بڑے سوالیہ نشان ثبت ہیں۔ پاکستانی وزارتِ خارجہ نے بھی خاطرخواہ طریقے     سے اپنا کردارادا نہ کیا۔ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی سے تو وزارت کا قلم دان چھین لیا گیا، لیکن       ایک بدیہی حقیقت سے لاہور ہائی کورٹ کو مطلع کرنے کے لیے واقعے کے دو ہفتے کے بعد بھی وزارتِ خارجہ نے مزید تین ہفتے کی مہلت مانگی ہے۔ اس چیز نے وزارتِ خارجہ کے کردار کو خاصا مشکوک بنا دیا ہے۔ لیکن چونکہ عوام، دینی اور کچھ سیاسی قوتیں اور میڈیا بیدار ہیں، اس لیے ہمیں توقع ہے کہ وزارتِ خارجہ اور اعیانِ حکومت حقائق پر پردہ ڈالنے، عوام اور عدالت کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی حماقت سے پرہیز کریں گے، اور اصل حقائق بے کم و کاست عدالت اور قوم کے سامنے پیش کر دیں گے۔

  •  ریمنڈ کا اصل جرم: سب سے پہلا مسئلہ یہ ہے کہ ریمنڈ ڈیوس کا اصل جرم کیا ہے؟ پنجاب پولیس نے دو ایشوز پر فردِ جرم عائد کی ہے، اوّل: دو پاکستانی نوجوانوں کا جان بوجھ کر اور بلاجواز قتل (naked and deliberate murder)، دوم: ناجائز اسلحے کے قانون کی خلاف ورزی، یعنی ناجائز اسلحہ رکھنا اور اس کا مجرمانہ استعمال ۔ اسی طرح (خواہ بڑی تاخیر کے بعد اور عدالت کے حکم پر) امریکی قونصل خانے کی اس گاڑی کے چلانے والوں پر غیرحاضری میں فردِ جرم، جو غلط سمت سے گاڑی لاکر ایک معصوم نوجوان عبیدالرحمن کی ہلاکت کا باعث بنے۔ پھر اس گھنائونے جرم کا ارتکاب کرکے لاہور میں امریکی قونصل خانے میں پناہ گزین ہوئے اور امریکی حکام کے مجرمانہ تعاون سے غالباً ملک سے باہر روانہ بھی کردیے گئے ہیں۔ اس تیسرے قتل کے مجرموں کے باب میں پنجاب پولیس اور حکومت کا رویہ واضح طور پر نہایت غیرتسلی بخش ہے۔ اور اب بھی اس امر کی ضرورت ہے کہ امریکی قونصل خانے کے ذمہ داروں کو اس جرم کے سلسلے میں اور اس گاڑی، اس کے چلانے والوں اوراس میں بیٹھے ہوئے اعانت مجرمانہ کے شریک کاروں کو قانون کے مطابق آہنی گرفت میں لایا جائے، اور انھیں انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے تمام ذرائع استعمال کیے جائیں۔

ریمنڈ ڈیوس کم از کم چھے جرائم کا مرتکب ہوا ہے اور اس پر ان تمام امور کے بارے میں مقدمے قائم ہونے چاہییں اور قانون کے مطابق بھرپور کارروائی ہونی چاہیے۔ اس کے جرائم یہ ہیں:

۱- دو نوجوانوں فیضان اور فہیم کا دن دہاڑے بلاجوازقتلِ عمد۔

۲- تیسرے نوجوان عبیدالرحمن کی ہلاکت کی ذمہ داری میں شراکت (اسی کے بلانے پر اندھادھند وہ گاڑی آئی، اور اسی کی سازباز سے وہ بھاگنے میں کامیاب ہوسکے)۔

۳- ناجائز اسلحے کا وجود اور استعمال، اور وہ بھی ممنوعہ ۹؍ایم ایم بور کا نیم خودکار پستول مع ۷۵گولیاں، جس کا کوئی لائسنس بھی اس کے پاس نہیں تھا اور جسے اس نے بے دریغ استعمال کیا۔ (اسلحے کا پبلک مقام پر لے کر جانا بذاتِ خود ایک سنگین جرم ہے چہ جائیکہ اس کا خونیں استعمال کیا جائے۔)

۴- اپنی اصل شناخت کو چھپانا(impersonification) ،فرضی نام سے پاسپورٹ بنوانا، اور اس پاسپورٹ اور اس نام پر دوسرے ملک میں نقل و حرکت کرنا اور مراعات حاصل کرنے کی کوشش کرنا۔ امریکا کے سرکاری ترجمان نے ایک بار نہیں دو بار اس امر کا اعتراف کیا ہے کہ جو شخص اس جرم میں ملوث ہے، اس کا اصل نام ریمنڈ ڈیوس نہیں ہے۔ اس طرح غلط نام پر پاسپورٹ، سفر اور پاکستان میں کارروائیاں کرنا، خود ایک مستقل بالذات جرم ہے اور اس حوالے سے بھی موصوف پر مقدمہ قائم ہونا چاہیے۔

۵- جو آلات اس کی کار سے نکلے ہیں، جو معلومات اس کے دو موبائل ٹیلی فونوں سے حاصل ہوئی ہیں، جو تصاویر اس کے کیمرے میں محفوظ ہیں، یہ سب اس بات کا ثبوت فراہم کرتے ہیں کہ وہ کسی سفارت کاری میں نہیں بلکہ جاسوسی کے قبیح فعل میں مصروف تھا اور مسلسل دوسال سے یہی کام کرر ہا تھا۔ اس لیے اس پر آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور جاسوسی کے قوانین کے تحت بھی مقدمہ قائم ہونا چاہیے۔

۶- ایک اوراہم جرم جو اس کے ان تمام آلات اور ریکارڈ سے سامنے آیا ہے، خاص طور پر موبائل ٹیلی فون اور برقی پیغامات ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ملک میں تخریب کاری میں ملوث کم از کم ۳۲ افراد، ٹھکانوں اور تنظیموں سے اس کا رابطہ تھا، اور اس واقعے سے صرف سات دن پہلے اس نے وزیرستان کی ’تحریک طالبان پاکستان‘ اور کالعدم تنظیم لشکر جھنگوی کے لوگوں سے رابطہ   قائم کیا تھا۔ گویا وہ دہشت گردی میں خود ملوث تھا اور یا ان لوگوں کے ساتھ منسلک تھا، جن پر امریکا اور پاکستانی حکام دہشت گردی کا الزام عائد کرتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں دہشت گردی، یا دہشت گردی کی سرپرستی یا کم از کم اس میں اعانت مجرمانہ کے تحت بھی اس پر الزام آتا ہے اور  ایک مقدمہ اس کے خلاف اس قانون کے تحت بھی درج ہونا چاہیے۔

یہ چھے وہ کھلے کھلے جرائم ہیں، جن میں اس کے ملوث ہونے کا ثبوت اب تک کی حاصل کردہ معلومات سے سامنے آتا ہے۔ بلاشبہہ اسے اپنے دفاع کا پورا پورا موقع ملنا چاہیے، اور سزا بھی عدالتی عمل کے ذریعے ملنی چاہیے، لیکن صرف قتل اور ناجائز اسلحہ اپنے قبضے میں رکھنے کے الزام ہی نہیں، باقی چاروں جرم بھی تقاضا کرتے ہیں کہ اس پر باضابطہ فردِ جرم قائم کی جائے۔ اس کے علاوہ عبیدالرحمن کے قتل کے جرم میں بھی شراکت کا الزام اس پر آتا ہے۔ یہ تمام امور ایک دوسرے سے منسلک ہیں، اس لیے انھیں ایک ساتھ لینا ضروری ہے۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ ملک میں تخریب کاری کے گھنائونے اور خون آشام کاروبار میں شریک تمام قوتوں تک پہنچنا اور ان کا     بے نقاب ہونا ضروری ہے۔ نیز خون بہا اور دیت کی جو باتیں ایوانِ صدر، وزیراعظم اور امریکی اور امریکا نواز عناصر کررہے ہیں اور اسلام کا سہارا لیتے ہوئے کر رہے ہیں، ان کے پس منظر میں بھی یہ بات سامنے آنی چاہیے کہ ریمنڈ ڈیوس کے جرائم ان دو نوجوانوں کے قتل سے زیادہ ہیں۔ اس لیے جب تک تمام جرائم کے بارے میں عدالتی کارروائی مکمل نہیں ہوجاتی، کسی ایک چیز کے بہانے اس سے گلوخلاصی کرانے کی سازش کو ہرگز کامیاب نہیں ہونے دیا جاسکتا۔

  •  سفارتی استثنا: چند حقائق: ریمنڈ ڈیوس کے لیے سفارتی استثنا کی بات پر بھی بہت شوروغوغا ہے۔ امریکی قونصل اور سفیر سے لے کر ارکانِ کانگریس، سرکاری ترجمان، امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ، فوجی کمانڈوز اور خود صدر بارک اوباما پورے غیض و غضب کے ساتھ شعلہ افشانی کر رہے ہیں۔ پاکستان پر بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی اور اسے بین الاقوامی عدالت انصاف میں کھینچنے کی دھمکیاں بھی دے رہے ہیں۔ اس بارے میں اصل فیصلہ تو پاکستان کی عدالتیں ہی کریں گی، لیکن چند حقائق پر نظرڈالنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔

اوّلاً: ۲۷ جنوری کے واقعے کے فوراً بعد لاہور کے امریکی قونصل خانے کا سرکاری بیان، اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کا اعلان، امریکی سرکار کے ترجمان کا بیان اور خود ریمنڈ ڈیوس کا اس کی اپنی زبان سے پولیس کے سامنے آکر اعتراف، یہ سب ایک ہی بات پر گواہ ہیں کہ ریمنڈ ڈیوس لاہور کے قونصل خانے میں ’انتظامی اور فنی معاونت‘ پر مامور تھا۔ ۲۵ جنوری ۲۰۱۱ء کو امریکی سفارت خانے نے سفارتی استثنا کے حامل جن افراد کی فہرست پاکستانی وزارتِ خارجہ کو دی، اس میں ریمنڈ ڈیوس کا نام نہیں تھا۔ اس واقعے کے دو دن بعد ہی پہلی بار اسلام آباد کے سفارت خانے کے کارکن کی حیثیت سے اس کا ذکر کیا گیا۔ جس کی واضح وجہ یہ ہے کہ ویانا کنونشن کی رُو سے قونصل خانے کے اسٹاف کو مکمل استثنا حاصل نہیں ہوتا، اور اگر ان کا عملہ کسی بڑے جرم میں ملوث ہو تو اسے استثنا حاصل نہیں۔ ۲۹جنوری سے جو قلابازی امریکی حکام نے کھائی ہے، وہ ایک مجرم کو دھوکے کے ذریعے سے سفارتی استثنا دلوانے کی ناپاک کوشش ہے۔ یہ ایک المیہ ہے کہ امریکا کے صدر، امریکی وزیرخارجہ کے منصب پر فائز خاتون اور سینیٹر جان کیری جیسے لوگ بھی صریح دھوکے اور غلط بیانی کا پوری ڈھٹائی سے ارتکاب کر رہے ہیں۔ جس طرح عراق پر ایک جانے بوجھے جھوٹ اور دھوکے، یعنی ’بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے اسلحے‘کی موجودگی کو جواز بنایا گیا تھا، بالکل اسی طرح ریمنڈڈیوس کی حیثیت کو جانتے بوجھتے تبدیل کرنے اور دنیا اور قانون و انصاف کی آنکھوں میں دھول جھونکنے  کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہ خود ایک جرم ہے جو امریکا کی قیادت کے اخلاقی دیوالیہ پن کا   ناقابلِ تردید ثبوت ہے۔ اب تو امریکی سفارت خانے کے اس خط کی نقل میڈیا میں آگئی ہے جو ۲۰جنوری ۲۰۱۰ء کو امریکی سفارت خانے نے وزارتِ خارجہ کو لکھا تھا کہ:’’ منظورشدہ پرفارما چھے کی تعداد میں منسلک ہیں۔ ان کے ساتھ اس کے پاسپورٹ کی ایک کاپی ہے اور اس کے غیرسفارتی شناختی کارڈ میں استعمال کے لیے چھے تصاویر ہیں‘‘۔ اس کے بعد بھی یہ دعویٰ کہ ریمنڈ ڈیوس ’پاکستان میں ہمارا سفارت کار‘ ہے۔ یہ سب سخن سازی ایک جھوٹ اور افترا کے سوا کچھ نہیں۔

ثانیاً: اب یہ حقیقت کہ ریمنڈ ڈیوس سفارت کار نہیں بلکہ دراصل سی آئی اے کا فعال کارندہ ہے۔ اس کا تعلق پہلے امریکی فوج سے تھا اور گذشتہ ۱۰ سال سے وہ اس پرائیویٹ سیکورٹی کے نظام سے وابستہ ہے، جو امریکا کی افواج اور اس کے اثاثوں اور مفادات کی حفاظت کے لیے سی آئی اے نے تشکیل دیے ہیں، تاکہ وہ انتظامی فریم ورک اور جواب دہی کے نظام سے بچ کر جاسوسی اور تخریب کاری کے کام کو انجام دلوا سکیں۔ یہ بات پہلے دن سے امریکی انتظامیہ اور حکمرانوں کو معلوم تھی اور جیساکہ اب کھلا اعتراف کیا جا رہا ہے کہ امریکی پریس کے پاس یہ تمام معلومات تھیں، مگر امریکی میڈیا نے آزادیِ صحافت کے تمام دعووں کے علی الرغم حکومت کے حکم پر اسے شائع نہیں کیا۔ جب یورپ کے اخبارات میں سارے حقائق آگئے ہیں تو مجبوراً امریکا میں بھی ان کو شائع کیا گیا، اور کھل کر اس امر کا اعتراف کیا گیا کہ ان حقائق کو امریکا کی حکومت کے ایما پر دبایا گیا تھا۔ نیویارک ٹائمز کو مجبوراً یہ اعتراف کرنا پڑا کہ: ’’ڈیوس سی آئی اے کی رہنمائی میں پاکستان کے جنگ جُو گروپوں کی نگرانی کرنے والے خفیہ اہل کاروں کا حصہ تھا‘‘۔ اور یہ بھی کہ موصوف نے ایک ٹھیکے دار کی حیثیت سے کئی برس سی آئی اے میں بھی کام کیا، اور کچھ وقت بلیک واٹر میں بھی گزارا۔

امریکی قیادت اور میڈیا ان حقائق سے واقف تھے، مگر ہفتوں جان بوجھ کر دنیا کو غلط معلومات دیتے رہے اور پاکستان کو دھمکیوں سے نوازتے رہے۔ نیویارک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ نے اعتراف کیا ہے کہ ان اخبارات نے حقائق کو امریکی حکومت کے ایما پر چھپایا اور غلط بیانی کی: ’’اوباما انتظامیہ کی درخواست پر لوگوں نے یہ منظور کیا کہ ایجنسی سے ڈیوس کے تعلقات کے بارے میں معلومات کو عارضی طور پر شائع نہ کریں‘‘۔

امریکا کا ایک نام ور وکیل گلین گرینالڈ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتا ہے:

ایک اخبار کے لیے یہ ایک اہم بات ہے کہ وہ کوئی معلومات اس لیے شائع نہ کرے کہ اس سے انسانی جانوں کو خطرہ ہوگا مگر یہاں امریکی حکومت نے کئی ہفتے ایسے بیانات دینے میں گزارے جوانتہائی حد تک گمراہ کن تھے۔

امریکی صدر نے جانتے بوجھتے اس سی آئی اے کے جاسوس اور تخریب کار کو ’پاکستان میں ہمارا ڈپلومیٹ‘ قرار دیا۔ گرینالڈ کے الفاظ میں: ’’یہ معلومات چھپانے سے بھی زیادہ بدتر ہے۔ یہ تو صدر کو جھوٹ بولنے پر آمادہ کرنا ہے۔ نیویارک ٹائمز نے جان بوجھ کر حقائق چھپائے… اسی کو سرکاری پروپیگنڈے کا پرچار کرنا کہا جاتا ہے‘‘۔

امریکی قیادت کی دیانت اور امریکی پریس کی آزادی کی اس سے قبیح مثال اور کیا ہوسکتی ہے کہ ایک قاتل اور مجرم کو بچانے کے لیے انھوں نے ایسے ایسے ہتھکنڈے برتنے میں کوئی    باک محسوس نہیں کی۔ بعد کی معلومات جس سمت میں اشارہ کر رہی ہیں وہ صرف یہی نہیں ہے کہ ریمنڈ ڈیوس اور اس کے نیٹ ورک سے متعلق تمام افراد جن کی تعداد سیکڑوں میں ہے، پاکستان میں تخریب کاری کرنے والے عناصر سے ربط میں ہیں۔ کچھ پتا نہیں کہ فوج، آئی ایس آئی، سرکاری عمارتوں، مساجد، امام بارگاہوں اور بے گناہ انسانوں کو تخریب کاری کا نشانہ بنانے میں اس کا بلاواسطہ یا بالواسطہ کتنا کردار ہے؟ نیز سی آئی اے کے ساتھ ’موساد‘ اور ’را‘ کے کارندوں کا کتنا اشتراک ہے؟

بھارت کے ایک آزاد صحافی ایم کے بھنڈرا کمار نے اخبار ایشین ٹائمز میں وہ سوالات صاف لفظوں میں اٹھائے ہیں جو پاکستان کے سوچنے سمجھنے والے عناصر کو پریشان کیے ہوئے تھے:

اصل حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کافی مدت سے حیران تھا کہ نام نہاد پاکستانی طالبان کو پاکستانی فوج پر اتنے گہرے زخم لگانے پر کوئی اُبھار رہا تھا اور پاکستان کو کمزور کرکے غیرمستحکم کر رہا تھا۔ (دی نیشن، ۱۸ فروری ۲۰۱۱ء)

بلّی تھیلے سے باہر آگئی ہے اور ریمنڈ ڈیوس اور اس کے گروہ کی سرگرمیوں سے پردہ اُٹھتا نظر آرہا ہے بشرطیکہ اس سے مکمل تفتیش ہو اور ہر بات شفاف انداز میں عدالت اور قوم کے سامنے آئے۔یہ مسئلہ ایک فرد کا نہیں، امریکا اور اس کے گماشتوں کے پورے کردار کا ہے کہ جسے غیرناٹو سانجھی (non Nato Ally) کہا جا رہا تھا، جس کو اسٹرے ٹیجک پارٹنرشپ کی افیون کی گولیاں کھلائی جارہی تھیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ ایسے یارِ وفاردار کے ساتھ اصل معاملہ کیا کیا جا رہا تھا؟ بقول حفیظ جالندھری   ؎

دیکھا جو تیر کھا کے کمین گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگئی

lباھمی تعلقات: کشیدگی میں شدت: ۲۷جنوری کے واقعے نے جن حقائق سے پردہ اُٹھایا ہے، ان کے بارے میں اندازے اور شکوک و شبہات تو اوّل روز سے تھے، لیکن اب تو حقائق اس طرح سامنے آگئے ہیں کہ زبانِ خنجر کے ساتھ آستین کا لہو پکار اُٹھا ہے۔یوں آئی ایس آئی اور سی آئی اے کے درمیان ایک ایسی کشیدگی پیدا ہوگئی ہے، جس کا اعتراف دونوں طرف کی قیادت کر رہی ہے۔ اگرچہ امریکا کے بارے میں پاکستان کے عوام کو تو کبھی غلط فہمی نہیں تھی، مگر مقتدر طبقے کی آنکھیں جوں کی توں بند تھیں۔

یہ طبقے ۱۹۶۵ء میں بھارتی جارحیت کے موقع پر امریکا کی طوطاچشمی، ۱۹۷۱ء میں اسی کردار کی تکرار اور پھر ۱۹۹۰ء اور ۱۹۹۸ء کی پابندیوں کے تجربے کی روشنی میں امریکا کی دوستی پر بھروسا کرنے کو تیار نہ تھے۔ ۲۰۰۱ء میں جنرل مشرف امریکی دھمکی کے نتیجے میں امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شریک ہوگئے۔ راے عامہ کے تمام سروے امریکا سے بے زاری کی شہادت دیتے ہیں لیکن افسوس ہے کہ ’زرداری گیلانی حکومت‘ نے تمام تنبیہات کے باوجود نہ صرف جنرل مشرف کی پالیسی کو جاری رکھا، بلکہ امریکا کی غلامی میں اس سے بھی دوچار ہاتھ آگے نکل گئے۔ آج   عالم یہ ہے کہ امریکی گماشتے ملک کے چپے چپے پر اپنا گھنائونا کھیل کھیل رہے ہیں۔ پاکستان کی  مسلح افواج ان کی لگائی ہوئی آگ میں جھلس رہی ہیں۔ گذشتہ ۱۰ برس میں ۳ہزار سے زائد فوجی ہلاک ہوچکے ہیں، ۲۵۰ سے زیادہ آئی ایس آئی کے اہلکار دہشت گردی کی نذر ہوچکے ہیں۔ فوج سے متعلق افراد میں زخمیوں کی تعداد ۱۰ہزار سے متجاوز ہے۔ عام شہریوں کا جانی نقصان، فوج کے نقصان سے کم از کم ۱۰ گنا زیادہ ہے۔ معیشت کا حال دگرگوں ہے۔ وزارتِ خزانہ کے اندازے کے مطابق صرف ۲۰۰۱ء سے ۲۰۰۸ء تک ۴۳/ارب ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے، جو اَب ۵۵اور ۶۰؍ارب ڈالر سے زیادہ ہوگیا ہے۔ اگر جانی نقصان اور ان نقصانات کو اس میں شامل کرلیا جائے، جسے معاشیات کی اصطلاح میں جو مواقع حاصل ہوسکتے ہیں ان سے محرومی کی بنا پر مزید کیا نقصان ہوا ہے، تو یہ نقصانات ۱۰۰؍ارب ڈالر سے کہیں زیادہ ہوں گے۔ اس کے مقابلے میں وہ امریکی امداد اور قرضے جن کا احسان جتایا جاتاہے ۷ تا ۹؍ارب ڈالر سے زیادہ نہیں ہے۔ گویا اس غریب ملک نے امریکا کی ایک جارحانہ اور سامراجی جنگ کو اپنے خون اور پسینے ہی سے نہیں، اپنے غریب عوام کے منہ سے نوالا چھین کر امریکی جنگ کے جہنم میں جھونک دیا ہے۔ اس کے بدلے امریکا نے ہمارے اپنے ملک میں تخریب کاری کا ایک وسیع جال بچھا دیا ہے، جس سے ملک کا استحکام، سلامتی، آزادی، عزت اور معیشت، ہرچیز معرضِ خطر میں ہے۔

ریمنڈ ڈیوس کے معاملے میں جس طرح امریکا کی سیاسی اورفوجی قیادت نے پاکستان کو بلیک میل کیا ہے، اور ایک قاتل اور تخریب کار کو سفارتی استثنا کے نام پر قانون کی گرفت سے نکالنے کی کوشش کی ہے، اس نے امریکا کے اصل چہرے کو بالکل بے نقاب کر دیا ہے، اور امریکا سے   بے زاری کے رجحان کو مزید تقویت پہنچائی ہے۔ ۱۹۵۸ء میں ایک امریکی ناول نگار ولیم لیڈرر نے اپنے ناول Ugly American میں امریکی افواج اور سیاسی قیادت کی، خصوصیت سے مشرقی ایشیا میں کارفرمائیوں کا جو نقشہ کھینچا ہے، اس میں غرور اور تحکم کے علاوہ دوسروں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا اور ان کی آزادی، عزتِ نفس، مفادات، احساسات اور تمدن و روایات سے بے اعتنائی بلکہ تحقیر نمایاں ہے۔ آج نصف صدی سے زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد حقیقت یہ ہے کہ امریکا کی قیادت کے رویے میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی، بلکہ مزید خرابی ہی آئی ہے۔ ریمنڈ ڈیوس کے واقعے نے ایک بار پھر امریکا کے اس چہرے کو پاکستان کے سامنے بالخصوص اور پوری دنیا کے سامنے بالعموم بے نقاب کر دیا ہے اور اس وقت پاکستانی قوم کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ امریکا سے اپنے تعلقات کی نوعیت پر نظرثانی کرے، اس علاقے میں امریکا کے مقاصد اور مفادات کو اچھی طرح سمجھے، اور پاکستان کے مقاصد اور مفادات کی روشنی میں ان تعلقات کی نوعیت اور اس کے جملہ پہلوئوں کی ازسرنو صورت گری کرے۔

  •  حکومت کا شرم ناک کردار: یہاں یہ بات بھی اچھی طرح سمجھنے کی ہے، کہ ان حالات کی ساری ذمہ داری صرف امریکا اور اس کی قیادت پر نہیں، بلکہ اس میں خود پاکستان کی سیاسی قیادت اور سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ بھی برابر کی شریک ہے۔ امریکا پر کلّی انحصار ہماری حماقت کا مظہر ہی نہیں بلکہ ہماری کمزوری اور بگاڑ کا اصل سبب ہے۔ اس واقعے نے ایک بار پھر یہ حقیقت کھول کر رکھ دی ہے کہ امریکا کا ہم سے تعلق کسی اسٹرے ٹیجک پارٹنرشپ کی بنیاد پر نہیں ہے، یہ ہمیشہ کی طرح صرف اور صرف وقتی بنیادوں پر ہی استوار رہا ہے۔ امریکا کو ہماری آزادی، خودمختاری، سلامتی، عزت اور مفادات کا رتی بھر بھی احساس نہیں۔ وہ ہمیں صرف اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہا ہے اور سمجھتا ہے کہ چند ارب ڈالر کے ذریعے اس ملک سے جس طرح چاہے کام لے اور جس طرح چاہے ہمارے معاملات میں دخل اندازی کرے۔

ایک چھوٹی سی مگر چشم کشا مثال یہ ہے کہ سابق وزیرخارجہ شاہ محمود آج دہائی دے رہے ہیں کہ جان کیری تک نے ان کو اُمید دلائی کہ اگر ریمنڈ ڈیوس کے معاملے میں ان کی ہم نوائی کرے تو وہ دوبارہ وزیرخارجہ بن سکتے ہیں۔ وزیرخارجہ ہیلری کلنٹن اور صدر اوباما نے صدر زرداری سے کیا کہا؟ اس کی تفصیل میں جانے کی ضروت نہیں۔ نتیجہ سامنے ہے کہ زرداری صاحب نے شاہ محمود قریشی صاحب کو وزارتِ خارجہ سے نکال باہر کیا ہے۔ وزیرداخلہ رحمان ملک نے وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو رات کو جگاکر ریمنڈ ڈیوس کے لیے سفارتی استثنا کا حکم دیا، اور ایوانِ صدر کے    ہم نوائوں نے اس قاتل کے سفارتی استثنا کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا لیا۔ امریکی نواز لابی نے میڈیا اور سیاسی ایوانوں میں ’غیرت‘ اور ’حکمت‘ کے سبق پڑھانے شروع کردیے اور بڑے بقراطی انداز میں فرمایا کہ اس مسئلے پر ’جذباتی ردعمل‘ اختیار نہ کیا جائے ورنہ معیشت تباہ ہوجائے گی، فوج کی  رسد ختم ہوجائے گی اور ملک غربت اور انتشار کا شکار ہوجائے گا۔

اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ پہلے جنرل مشرف نے ملک کے درودیوار کو امریکا کی دخل اندازی کے لیے کھولا، اور اس کے بعد ’زرداری گیلانی حکومت‘ نے امریکا کو دخل اندازی کے اور زیادہ مواقع فراہم کیے، اور تمام سفارتی آداب اور ملک کی سلامتی اور تحفظ کے لیے کیے جانے والی پیش بندیوں کو بالاے طاق رکھ کر امریکا کو یہاں کھل کھیلنے کی پوری چھٹی دیے رکھی۔ ایوانِ صدر اور وزیراعظم کے احکامات کے تحت امریکیوں کے لیے ویزا کی لوٹ سیل کا اہتمام کیا گیا اور کسی تحقیق اور تحفظ کے بغیر تھوک کے بھائو سے ویزے واشنگٹن اور دوبئی سے جاری کیے گئے ہیں۔ غلط نام اور جعلی پتوں پر امریکیوں کو ویزے دیے گئے ہیں، اور سی آئی اے اور غالباً موساد تک کے کارکنوں کے لیے سرزمینِ پاکستان کے دروازے کھول دیے گئے ہیں___ کچھ پتا نہیں کہ کتنے ریمنڈ ڈیوس ہیں جو آج ہماری سرزمین پر دندناتے پھر رہے ہیں۔ باب وڈورڈ کی کتاب Obama's Wars امریکا کے عزائم اور پاکستان کی قیادت میں موجود میرجعفروں اور میرصادقوں کے کردار کا ایک    شرم ناک ریکارڈ ہے۔

ڈرون حملے ہوں یا پاکستان کی سرزمین پر امریکی کارندوں کی کارفرمائیاں، جن کے لیے  ’مشترکہ آپریشن‘ کے نام پر زمین ہموار کی گئی ہے اور جس میں آئی ایس آئی اور سی آئی اے کو مشترکہ زمینی کارروائیاں کرنی تھیں، مگر باب وڈورڈ کے مطابق: پاکستانی مشترکہ آپریشن میں شامل نہ ہوئے۔ اس لیے پاکستان میں داخلے کے لیے سی آئی اے کے لوگوں کو زیادہ ویزے جاری کیے گئے۔ (Obama's Wars ،ص ۲۰۶-۲۰۷)

ریمنڈ ڈیوس اور اس کے نیٹ ورک کے تمام کمانڈوز اس انتظام کا حصہ ہیں۔ موجودہ عوامی اور سابقہ فوجی، دونوں حکومتیں اس صورت حال کی ذمہ دار ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ خود آئی ایس آئی کا عمل دخل کم کر دیاگیا ہے اور ایوانِ صدر، وزارتِ داخلہ اور واشنگٹن میں ہمارا سفارت خانہ باقی اداروں کو نظرانداز کرکے سارا کھیل کھیل رہا ہے۔ ریمنڈ ڈیوس کے معاملے نے آئی ایس آئی کی غفلت، نااہلی یا اسے تصویر سے باہر یا بے خبر رکھنے کے منظرنامے پر سے بھی پردہ اُٹھا دیا ہے۔    یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دنیا بھر کے معروف سفارتی اصول و آداب کو امریکا کے معاملے میں غیرمؤثر کر دیا گیا ہے۔ امریکا کے سفارت خانے میں ڈیڑھ ہزار سے زیادہ مستقل سفارتی استثنا رکھنے والے افراد ہیں اور اس کے علاوہ ہزاروں افراد ویزے پر ہر سال آرہے ہیں۔ امریکی سفارت خانہ، پاکستانی وزارتِ داخلہ سے براہِ راست معاملات طے کرتا ہے اور یہ اصول کہ تمام سفارت خانے صرف وزارتِ خارجہ کے توسط ہی سے ملک کے تمام اداروں سے ربط قائم کریں، یکسر نظرانداز کردیا گیا ہے۔ امریکا کے سول اور فوجی نمایندوں کو فوج کے اعلیٰ ترین مقامات تک براہِ راست رسائی حاصل ہے۔ سفارت کاری کے تمام آداب کو نظرانداز کرکے امریکا سے جو بھی آتا ہے، اسے صدر، وزیراعظم اور دوسرے اہم مقامات تک براہِ راست رسائی دے دی جاتی ہے۔ امریکی کانگریس کے وفود آتے ہیں مگر پاکستان کی پارلیمنٹ یا اس کے ارکان سے ان کی کوئی     دل چسپی دیکھنے میں نہیں آتی، وہ سیدھے وزیراعظم، صدر مملکت اور چیف آف آرمی اسٹاف سے ملتے ہیں۔ ان سرگرمیوں سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان امریکا کی کالونی بن گیا ہے۔ ریمنڈ ڈیوس کے سلسلے میں جو رویہ امریکی سفیر سے لے کر امریکی صدر اور دوسرے اعلیٰ عہدے داران نے اختیار کیا، یہ وہی رویہ تھا، جو ایک سامراجی قوت اپنے محکوم ممالک کے ساتھ اختیار کرتی ہے۔

بلاشبہہ یہ لولی لنگڑی جمہوریت ہی کا نتیجہ ہے کہ حکمرانوں کے ایک طبقے کی دلی خواہش اور عیارانہ کوششوں کے باوجود، دینی اور جمہوری قوتوں کے میدان میں موجود ہونے اور میڈیا کی آزادی نے امریکا کے رنگ میں بھنگ ڈال دی اور ساری اُچھل کود کے باوجود، وہ اپنا مقصد پوری طرح حاصل نہیں کرسکے۔ تاہم ان کے عزائم اور حکمرانوں کی کمزوری بالکل الم نشرح ہوگئی ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں ہمیں آیندہ کے لیے خارجہ پالیسی اور خصوصیت سے امریکا سے تعلقات کی نوعیت اوراس کی تفصیلات طے کرتے وقت پاکستان کے قومی مقاصد، مفادات اور ضروریات کو سامنے رکھ کر سوچ بچار اور قومی اتفاق راے سے معاملات کو طے کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ قوم کے تمام متعلقہ حلقے سرجوڑ کر بیٹھیں اور پالیسی کی تشکیلِ نو کریں۔ پارلیمنٹ نے ۲۳؍اکتوبر ۲۰۰۸ء کو جو متفقہ قرارداد منظور کی تھی اور پارلیمنٹ کی قومی سلامتی کی کمیٹی نے اس پر عمل درآمد کے لیے اپریل ۲۰۰۹ء میں جو تفصیلی نقشۂ کار (road map) مرتب کیا تھا، اس پر حکومت نے ۵ فی صد بھی عمل نہیں کیا، حالانکہ وہ آج بھی بے حد متعلق ہے اور ہماری پالیسی پر نظرثانی کا نقطۂ آغاز بن سکتا ہے۔

  •  پاک امریکا تعلقات: تشکیلِ نو کے خطوط: اس امر کی فوری ضرورت ہے کہ امریکا کو صاف الفاظ میں بتا دیا جائے کہ جو کچھ وہ اب تک کرتا رہا ہے، وہ پاکستانی قوم کے لیے ناقابلِ قبول ہے۔ امریکا کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ پاکستانی قوم کے عزائم، احساسات اور ملک کی سلامتی، آزادی اور عزت کے سلسلے میں اس کے تصورات کا احترام بھی تعاون کی بنیاد بن سکتا ہے جو برابری کی سطح پر پاکستان کے اقتدارِ اعلیٰ کی پاس داری کے احترام کے بغیر ممکن نہیں۔ پاکستانی قوم امریکا سے تعلقات ختم کرنے کی بات نہیں کررہی، لیکن وہ اس کے لیے ہرگز تیار نہیں ہے کہ امریکا کی غلامی اور امریکا پر انحصار (dependence) کے موجودہ نظام کو کسی بھی صورت میں جاری رکھ سکے۔

ریمنڈ ڈیوس کا کیس ایک ٹیسٹ کیس ہے۔ اس پر ان تمام جرائم کے سلسلے میں عدالت میں مقدمہ چلے گا، جس کا اس نے ارتکاب کیا ہے اور اس کے بارے میں کسی سفارتی استثنا کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ خون بہا کے سلسلے میں بھی یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ اس خاص معاملے میں اصل معیار قصاص ہے۔ ریمنڈ ڈیوس کا جرم محض دو افراد کے خلاف نہیں بلکہ پاکستان کی سوسائٹی اور ریاست کے خلاف تھا۔ خون بہا کا تعلق صرف مسئلے کے ایک حصے سے تو ہوسکتا ہے، اس لیے اس کے تمام جرائم کا خون بہا لینا دینا ممکن نہیں۔ نیز پشاور ہائی کورٹ کا ایک تاریخی فیصلہ اس سلسلے میں بہت اہم ہے، جس میں ایسا قتل جو فساد فی الارض کے زمرے میں آتا ہو، اس میں خون بہا نہیں تعزیراصل چیز ہے۔ اس لیے سب سے پہلی چیز یہ ہے کہ امریکا اس مقدمے میں مداخلت سے یکسر باز رہے اور عدالت کو قانون کے مطابق فیصلہ کرنے کا پورا موقع ملے۔ پاکستان کی عدالت پر مکمل اعتماد ضروری ہے اور یہ مقدمہ صرف پاکستان میں چلے گا۔

دوسری بات یہ ضروری ہے کہ امریکا اور خصوصیت سے سی آئی اے اور امریکی سفارت خانہ ان تمام افراد کے پورے کوائف حکومت کے علم میں لائے جو ’سلامتی کے کاموں‘ کے عنوان کے تحت پاکستان میں ہیں۔ نیز امریکا سے معلومات کے حصول کا انتظار کیے بغیر پاکستان کی ایجنسیوں کو فوری طور پر ایسے تمام افراد کا کھوج لگانا چاہیے، اور پاکستان میں جتنے بھی غیرملکی ہیں خصوصیت سے امریکی اور ان کے مقامی یا دوسرے کارندے ان پر نگرانی کا مقرر نظام قائم کیا جائے۔

تیسرا، ویزے کے سلسلے میں ’فراخ دلانہ‘ پالیسی کو فوری طور پر ختم کیا جائے اور ہر ویزا پوری چھان بین کے بعد اور تمام ایجنسیوں سے کلیئرنس کے بعد ہی جاری کیا جائے۔

چوتھی چیز فوری طور پر وزارتِ خارجہ، وزارتِ داخلہ اور متعلقہ ایجنسیوں کے تعاون سے امریکی اور یورپی ممالک کے سفارتی عملے کی تعداد پر نظرثانی کی جائے، ان کے نقل و حمل اور سرگرمیوں پر نگاہ رکھی جائے۔ نیز حکومت کے تمام اداروں اور تمام سفارت کاروں کو پابند کیا جائے کہ سارے معاملات دفترخارجہ کے ذریعے انجام دیے جائیں۔ ایوانِ صدر اور ایوانِ وزیراعظم بھی اس سلسلے میں واضح ضابطوں اور آداب کا لحاظ رکھیں۔

پانچویں چیز دہشت گردی کے خلاف امریکا کی اس جنگ کے بارے میں پاکستان کے کردار کو نئے سرے سے واضح اور متعین کیا جائے۔ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کو دونوں ملکوں کے مفادات اور تاریخی رشتوں اور تعلقات کی روشنی میں مرتب کیا جائے۔ امریکا افغانستان میں جنگ ہارچکا ہے اور اس کے لیے واپسی کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔ اسے واپسی کا قابلِ قبول راستہ ضرور دیا جائے، لیکن اس طرح نہیں کہ وہ افغانستان کے معاملات کی ڈوریاں اپنے ہاتھ میں رکھے اور افغانستان میں بھارت اس کے قائم مقام کے طور پر یا خود اپنے مفادات کے فروغ کے لیے کوئی مستقل کردار ادا کرنے کی مسند سنبھال لے۔

چھٹی چیز یہ ہے کہ اس امر کی بھی فوری ضرورت ہے کہ امریکا کے ان دعووں کی شفاف انداز میں تحقیق ہو کہ مشرف اور زرداری دور میں کچھ تحریری طور پر اور کچھ زبانی مراعات حکومتِ پاکستان نے امریکا کی حکومت ، اس کی فوج، سی آئی اے اور دوسرے اداروں کو دی ہیں۔ یہ مراعات کیا ہیں؟ یہ تمام معلومات فوری طور پر پارلیمنٹ کے سامنے آنی چاہییں ۔ امریکی اخبارات نے بے نام سرکاری ذرائع کی بنیاد پر یہ دعویٰ کیا ہے کہ ۲۰۰۸ء کے آخر میںایک ۱۱ نکاتی معاہدہ ہوا تھا جس میں سفارتی استثنا، اور بلالائسنس اسلحہ رکھنے کے بارے میں امریکیوں کو ناقابلِ یقین مراعات دی گئی ہیں ۔ اسی طرح ڈرون حملوں اور مشترک کارروائیوںکے نام پر بھی طرح طرح کی اور بے محابا سہولتوں کا بھی دعویٰ کیا جا رہا ہے۔ اس بارے میں تمام حقائق پارلیمنٹ کے سامنے فوری طور پر آنے چاہییں تاکہ معلوم ہو کہ کون سی سہولت کس نے دی۔ نیز پچھلے ۱۰ برسوں میں جو کچھ بھی کیا گیا ہے اس پر پارلیمنٹ کی قومی سلامتی کی کمیٹی میں بھرپور غور کیا جائے اور ان تمام سہولتوں اور مراعات کو فی الفور ختم کیا جائے جو ملکی حاکمیت اور خود مختاری کو مجروح کرتی ہیں۔

ساتویں چیز پاکستانی معیشت کی تعمیرنو کی بنیاد خودانحصاری ہو۔ جس طرح آج ملک امریکا اور عالمی اداروں کی گرفت میں آگیاہے، اس سے جلداز جلد نکلنے کا راستہ اختیار کیا جائے۔ ہماری نگاہ میں امریکی امداد ملک کے لیے قوت کا نہیں کمزوری کا باعث ہے۔ ہمیں ایسی معاشی حکمت عملی کی ضرورت ہے جو معاشی ترقی، سماجی انصاف اور عوام کی خوش حالی پرمرکوز ہو۔ امریکا کی جنگ میں شرکت سے ہمیں شدید معاشی نقصان ہوا ہے اور قرضوں کا پہاڑ اس پر مستزاد ہے۔ معاشی استحکام کے لیے بھی ضروری ہے کہ ہم دوسروں پر انحصار کے دھوکے سے نکلیں۔ یہ وقت ایک بڑے فیصلے کا ہے اور اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو وہ وسائل دیے ہیں، جن کے صحیح استعمال سے ہم معاشی ترقی اور سیاسی آزادی دونوں اہداف حاصل کرسکتے ہیں۔ آزاد خارجہ پالیسی اور معاشی ترقی ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ اگر پاکستانی قیادت ایمان دار، باصلاحیت اور جرأت مند افراد کے ہاتھوں میں ہو، تو آج پاکستان کو وہ مقام حاصل ہے کہ ہم اپنی شرائط پر دوسروں سے معاملات طے کرسکتے ہیں۔

دنیا کے حالات کروٹ لے رہے ہیں۔ آمریت کے بت گررہے ہیں اور عوام ہراس نظام سے بے زار ہیں، جس میں ان کی آزادی، عزت اور وسائل پر ان کا کنٹرول، ہرچیز تباہ ہوئی ہے۔ اُمت مسلمہ کے وسائل دوسروں کی چاکری کی نذر ہورہے ہیں۔ صرف مشرق وسطیٰ کی برآمدات کے ذریعے سالانہ آمدنی ۵۰۰؍ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ اگر یہ وسائل اُمت مسلمہ کی ترقی اور استحکام کے لیے صرف ہوں تو پانچ سال میں دنیا کا نقشہ بدل سکتا ہے۔ ضرورت صرف چہروں کے بدلنے کی نہیں، نظام کی تبدیلی کی ہے۔ اس کے لیے نئے وژن کی، صحیح منزل کے تعین کی، دیانت دار اور باصلاحیت قیادت کی، اور زمینی حقائق پر مبنی دوررس نتائج حاصل کرنے والی پالیسیوں کی تشکیل اور ان پر خلوص اور محنت سے عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے۔ پاکستان اور تمام ہی مسلم ممالک کے عوام جس تبدیلی کے خواہاں ہیں، اسے اپنے اپنے ملک کو سامراجی تسلط اور اس کے مقامی کارپردازوں سے نجات کے ذریعے ہی حاصل کیا جاسکتا ہے۔ امریکا کی غلامی کے چنگل سے نکلے بغیر پاکستان اس منزل کی طرف پیش رفت نہیں کرسکتا۔ اس کے لیے امریکا سے تصادم نہیں بلکہ امریکا سے تعلقات اس نہج پر استوار کرنے کی ضرورت ہے، جس میں اوّلیت پاکستان کے مفادات اور مقاصد و اہداف کو حاصل ہو۔ ریمنڈ ڈیوس کے واقعے نے اصل ایشو کو توجہ کا مرکز بنا دیا ہے۔ اصل چیلنج اس وسیع تر مسئلے کا مناسب حل ہے، محض جزوی امور کے گورکھ دھندے میں اُلجھنا نہیں ہے۔

 

انیسویں دستوری ترمیم کے حوالے سے میں چاہوں گا کہ سب سے پہلے اس بات کو   واضح کردوں کہ ملک عزیز میں اداروں کے درمیان تصادم کی ایک فضا بن رہی تھی۔ اس فضا میں   سپریم کورٹ آف پاکستان کا ۲۱؍اکتوبر ۲۰۱۰ء کا فیصلہ ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے کہ اس میں اس تصادم کو راہ پانے کا کوئی موقع نہیں دیا گیا، بلکہ ملک میں دستور، دستوری اداروں اور طاقت کے تکون (trichotomy of power) کو جو سیاسی استحکام کے لیے ضروری ہے، بڑے مؤثرانداز میں تقویت دی گئی۔ اس کے لیے میں سپریم کورٹ کو اس کی دانش مندی، دُوراندیشی اور حقیقت پسندی پر خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں۔ یہاں پر یہ بات بھی ضرور کہنا چاہتا ہوں کہ اس فیصلے کی رو سے     یہ بات طے ہوگئی ہے کہ پاکستان کا دستور سپریم ہے اور دستور میں قانون سازی، پالیسی سازی اور دستوری ترامیم کا حق صرف پارلیمنٹ کو حاصل ہے۔

بھارت کی سپریم کورٹ کے فیصلوں کی وجہ سے وہاں دستوری فلسفۂ قانون (jurisprudence) میں دو اصول تسلیم کیے گئے ہیں: ایک یہ کہ دستور کا ایک بنیادی ڈھانچا (basic structure of the constitution) ہوتا ہے جسے عام دستوری ترمیم کے طریقے سے تبدیل نہیں کیا جاسکتا،    اور دوسرا یہ کہ سپریم کورٹ کو یہ اختیار ہے کہ وہ دستور کی کسی ترمیم کو بھی ڈھانچے کی بنیاد پر کالعدم (null and void) قرار دے سکتی ہے۔ پاکستان کے دستوری فلسفۂ قانون میں اس کا تصور نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ اپنے فیصلے میں سپریم کورٹ نے جہاں دستور کے بنیادی ڈھانچے  کی بات کی ہے، وہیں یہ اصول بھی واضح کر دیا ہے کہ اس اسٹرکچر (ڈھانچے) کا اہتمام اور تحفظ بھی پارلیمنٹ کی ذمہ داری ہے۔ عدالت نے اس بنیاد پر کوئی مداخلت نہیں کی۔ اس سلسلے میں یہ امر بھی پیش نظر رکھنا   مفید ہوگا کہ اپنے فیصلے میں عدالت عظمیٰ کے جس فیصلے کا حوالہ دیا ہے، یعنی ۱۹۹۲ میں حاکم خان کیس، اس کا ایک پیراگراف سامنے رکھنا بہت ضروری ہے تاکہ یہ بحث مباحثہ اور تنازع (controversy) ختم ہوجائے۔ اس میں کہا گیا ہے:

اس کے مطابق، اس کیس میں، اگر عدالت عالیہ یہ سمجھے کہ دفعہ ۴۵ کی شقیں بعض لحاظ سے اسلامی احکامات کے خلاف ہیں، تو اسے یہ عدم مطابقت پارلیمنٹ کے علم میں   لانا چاہیے، اس لیے کہ صرف یہی دستور میں ترمیم کرنے کا اختیار رکھتی ہے، اور ایسی قانون سازی کا آغاز کرسکتی ہے جو زیربحث شق کو اسلامی احکام کے مطابق کردے۔

دستور میں ترمیم کے اختیار کے سلسلے میں اس اصول کو تسلیم کیا جانا ایک بڑی قابلِ ذکر کامیابی ہے۔ دوسری بات جس کو اچھی طرح سمجھنا ضروری ہے جو اسلام اور جمہوریت دونوں کا تقاضا ہے اور جسے ۱۹ویں ترمیم میں ایک مرکزی تصور کے طور پرتسلیم کیا گیا ہے، وہ عدلیہ کی آزادی کا تصور ہے۔ دورِ خلافت راشدہ میں نظامِ قضا کو جس اصول پر قائم کیا گیا، اس میں بلاشبہہ قاضی کا تقرر خلیفہ کرتا تھا، لیکن تقرر کے بعد قاضی مکمل طور پر آزاد اور خودمختار ہوتا تھا اور  قضا کا پورا نظم اس کی نگرانی میں کام کرتا تھا۔ ہماری پوری تاریخ میں عدلیہ کی آزادی اسلامی قضا کی روایات کا ایک مرکزی تصور رہی ہے۔ آزادی کا سب سے زیادہ انحصار جج کی صلاحیت اور اس کے کردار پر ہے۔ بلاشبہہ ججوں کے تقرر کے طریقۂ کار کا بھی اس میں ایک حصہ ہے، لیکن اصل عامل جج کا کردار اور دستور اور اللہ کے سامنے جواب دہی کا تصور ہے۔ یہاں میں بھارتی سپریم کورٹ کا ایک حوالہ آپ کی خدمت میں پیش کروں گا جس میں وہاں کے ایک چیف جسٹس نے صاف الفاظ میں تحریر کیا ہے:

یہ جج کا کردار ہے جو عدلیہ کی آزادی کو یقینی بناتا ہے نہ کہ تقرر کا طریقہ۔ بھارتی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے مزید کہا کہ عدلیہ کی آزادی براہِ راست اس شخص کے کردار سے مربوط ہے جس کو جج کی حیثیت سے مقرر کیا گیا ہے۔ حلف اُٹھانے کے بعد امید کی جاتی ہے کہ جج آزادی سے کام کرے گا۔

یہ بات ہمیں اپنے سامنے رکھنی چاہیے کہ عدلیہ کی آزادی کا آغاز ججوں کے صحیح تقرر سے ہوتا ہے، لیکن بالآخر اس کا انحصار جج کے کردار اور شخصیت پر ہے۔ اب ججوں کے تقرر کے طریق کار کے بارے چند اصولی باتیں سمجھنا ضروری ہیں: اگر پاکستان کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو نظر آتا ہے کہ جو قانون اور روایات ہمارے ملک میں کارفرما رہی ہیں، وہ کوئی اچھی مثال پیش نہیں کرتیں۔

برطانیہ کے نوآبادیاتی دور سے چیف ایگزیکٹو، چیف جسٹس کے مشورے سے ججوں کا تقرر کیا کرتاتھا۔ یہ سلسلہ ۵۰ کے عشرے تک جاری رہا اور مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ بالعموم ججوں کا تقرر اہلیت کی بنیاد پر ہوا، اور یہی وجہ ہے کہ اس دور میں عدلیہ آزاد تھی۔ اس میں دیانت تھی اور کردار تھا۔ انھوں نے بالعموم اپنی ذمہ داریوں کا حق ادا کیا، لیکن بدقسمتی سے جسٹس محمد منیر کے دور سے حالات بدلنے لگے۔ فیلڈمارشل ایوب خان کی صدارت کے زمانے میں ججوں کے تقرر کے لیے جو طریقہ اختیار کیا گیا تھا، اس میں ذاتی پسند، قرابت داری اور سیاسی وفاداریوں کا عمل دخل شروع ہوگیا۔ اس معاملے میں ہماری تاریخ میں پچھلے ۴۰سال خاصے تاریک رہے ہیں۔ آپ جناب حامدخان کی کتاب Constitutional and Political History of Pakistan (پاکستان کی دستوری اور سیاسی تاریخ) کو دیکھیں، جس میں نام لے لے کر ایک ایک واقعہ دیا گیا ہے کہ کس طریقے سے ججوں نے جو تجاویز دیں، ان میں ایک بڑی تعداد کی سفارش جس بنیادپر ہوئی، وہ ذاتی پسند وناپسند، قرابت داری اور دوستیوں اور مفادات کے اشتراک کی بنیاد پر تھیں، جن میں اہلیت و صلاحیت اور کردار کو نظرانداز کردیا گیا۔ پھر سیاست دانوں نے بھی اپنے اپنے دور میں بدقسمتی سے یہی کام کیا۔ میں نام نہیں لینا چاہتا لیکن جن حضرات کی نگاہ سے سابق سینیٹر جسٹس (ر) عبدالرزاق تھہیم کی کتابjudiciary and Judges(عدلیہ اور جج) گزری ہے، وہ گواہی دیں گے کہ یہ داستان بڑی تلخ اور شرم سار کرنے والی ہے کہ ماضی میں ججوں کے تقرر کے سلسلے میں کیا کچھ کیا جاتا رہا ہے۔ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس سجاد علی شاہ صاحب کی خودنوشت پڑھیے۔ آپ سر پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں کہ کس طریقے سے اس وقت کی وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے اپنے شوہر جناب آصف علی زرداری کو ان سے یہ بات کرنے کے لیے بھیجا کہ حکومت انھیں دو ججوں کو نظرانداز (supersede)  کرکے چیف جسٹس بنانا چاہتی ہے، لیکن مطالبہ یہ تھا کہ پہلے وہ وزیراعظم صاحبہ کو اپنا استعفا لکھ کر دے دیں، جس پر کوئی تاریخ درج نہ ہو، تاکہ جب چاہیں وہ ان کو نکال سکیں۔ خواہ معاملہ سیاست دانوں کا ہو یا ججوں کی سفارش کا، دونوں کی مثالیں اچھی نہیں ہیں۔ یہ وہ     پس منظر ہے جس میں ۱۸ویں اور ۱۹ویں ترمیم کے ذریعے کچھ تبدیلیاں کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

پہلی بات یہ ہے کہ ججوں کے تقرر کے سلسلے میں کسی کو صواب دیدی اختیار (discretion)  حاصل نہیں ہے، نہ چیف جسٹس کو، نہ چیف ایگزیکٹو کو۔ دوسری یہ کہ تقرر کے طریقۂ کار کو اداروں سے مشاورت کی شکل دی گئی ہے، تاکہ کسی ایک فرد یا ادارے کو بالادستی حاصل نہ ہو۔ ہرمعاملے کے تمام پہلوئوں کا جائزہ لے کر جو بھی سفارش مرتب کی جائے، وہ دو چھلنیوں سے گزرے گی:     ایک جوڈیشل کمیشن اور دوسری پارلیمانی کمیٹی۔ اس طرح ہرپہلو سے بحث کی بنیاد پر فیصلے ہوں گے جو میرٹ پر ہوں گے اور توقع ہے کہ شفاف ہوں گے۔

تیسری چیز یہ کہ اس میں عدلیہ اور پارلیمنٹ دونوں کا حصہ ہوگا، محض کسی ایک کا نہیں۔ اس پر بہت سے اعتراضات کیے گئے ہیںاور مجھے دکھ سے یہ بات کہنی پڑتی ہے کہ بہت سے وکلا نے جو لائق بھی ہیں اور محترم و معتبر بھی، ان میں سے بعض نے اپنے بیانات اور خصوصیت سے میڈیا ٹاک شوز میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ: ’’دنیا میں کہیں بھی پارلیمنٹ کا کردار نہیں پایا جاتا اور یہ کہ ان نامزدگیوں کو خالص عدلیہ کی تجویز پر منحصر ہونا چاہیے‘‘۔ یہ بات امرواقعہ کے خلاف ہے۔ Parliaments of The Worldکی جلددوم کا آخری باب اسی موضوع سے متعلق ہے۔ اس کی رو سے دنیا کے ان ۷۰ممالک میں جن کے جمہوری نظام کی تفصیلات اس میں دی گئی ہیں، ۳۲ ایسے ہیں جہاں پر پارلیمنٹ کا کوئی نہ کوئی واضح کردار ہے، مثلاً جرمنی، اٹلی، فرانس اور ہالینڈ میں پارلیمنٹ باقاعدہ عدلیہ کو منتخب کرتی ہے۔ دنیا کی دو بڑی جمہوریتوں امریکا اور برطانیہ کی پوزیشن یہ ہے کہ امریکا میں سینیٹر حضرات صدر کو نجی طور پر نام تجویز کرتے ہیںاور پھر باضابطہ طور پر صدر نام تجویز کرتا ہے جسے سینیٹ منظور کرتا ہے۔ اسی طرح ججوں کی معزولی کا بھی سینیٹ ہی کو اختیار ہے۔

برطانیہ کی مثال لیجیے: برطانیہ میں صدیوں سے لارڈ چانسلر جو ایک سیاسی منصب ہے، جو دارالامرا  کا اسپیکر ہوتا ہے وہ ساری سفارشات دیا کرتا تھا۔ برطانیہ میں ۲۰۰۵ء میں نیا دستوری ایکٹ  منظور کیا گیا ہے، جس کے تحت اب یہ اختیار ایک جوڈیشل کمیشن کو سونپا گیا ہے۔ اس جوڈیشل کمیشن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ۹ لیگل ممبر، ۳سینیر جج، ایک سرکٹ جج، ایک        عام مجسٹریٹ، ایک ڈسٹرکٹ جج، ایک عام مجسٹریٹ (non-judicial)، ایک رکن ٹریبونل کے حلقے سے، ایک بیرسٹر، ایک مشیر (وہ وکیل جو عدالت میں پیش نہیں ہو مگر قانونی رہنمائی و معاونت کا کام انجام دیتا ہے) اور چھے عام شہریوں پر مشتمل ہوگا جس کی سربراہی ایک جج نہیں کرے گا، بلکہ ایک عمومی ممبر کرے گا۔ عملاً اس کمیشن کی پہلی سربراہ جو خاتون بنی ہے اس کا نام بیروینس اوشا پراشا ہے۔ یہ دارالامرا کی ایک ممبر ہے، کوئی جج نہیں ہے۔ گویا کہ اس میں پارلیمنٹ کی بھرپور نمایندگی موجود ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ یہ کمیشن ججوں کے ناموں کی تجویز لارڈ چانسلر کو  کرے گا اور لارڈ چانسلر کمیشن کی کسی تجویز کو مستردکرسکتا ہے، یا دوبارہ غور کرنے کے لیے بھیج سکتا ہے۔ دوبارہ غور کرنے کے بعد اولین طور پر تجویز کردہ نام دوبارہ آسکتا ہے، لیکن اگر لارڈ چانسلر  کسی نام کو مسترد کرتا ہے تو کمیشن دوبارہ وہی نام نہیں بھیج سکتا۔ اس کو دوسرا نام بھیجنا پڑے گا۔   البتہ یہ ضرور ہے کہ لارڈ چانسلر دو سے زیادہ نام مسترد نہیں کرسکتا۔ ایک بار پھر واضح کر دیا جائے کہ لارڈ چانسلر کوئی جج نہیں ہوتا، بلکہ یہ ایک سیاسی عہدہ ہے اور ہائوس آف لارڈز کا سربراہ بھی لارڈ چانسلر ہی ہوتا ہے۔ تیسرا نام اسے قبول کرنا پڑے گا۔

ان تمام معلومات کی روشنی میں، مَیں یہ بات کہنا چاہتا ہوں کہ اصل اصول یہ ہے کہ عدلیہ کے تمام تقرر اہلیت اور صلاحیت کی بنیاد پر ہونے چاہییں۔ یہ صواب دیدی نہ ہوں اور تمام تقرریوں میں عدلیہ اور پارلیمنٹ دونوں کا کردار ہو۔ ۱۹ویں ترمیم میں ان اصولوں کا اہتمام کیا گیا ہے کہ ۱۸ویں ترمیم کے مجوزہ نظام میں جو خامیاں رہ گئی تھیں عدالت عظمیٰ کی تجاویز کی روشنی میں  ان کی اصلاح بھی کردی گئی ہے۔میری نگاہ میں یہ ایک تاریخی پیش رفت ہے۔

 

اللہ سے غافل اہلِ دولت و ثروت اور حکومت اپنی قوت، حکمت اور عیارانہ سیاست کے زعم میں، اور اپنے سرپرستوں کی دنیوی طاقت اور تائید کے بھروسے پر، اپنے اقتدار کو ناقابلِ شکست سمجھ لیتے ہیں، اور ساری منصوبہ بندیاں اس طرح کرتے ہیں کہ جیسے ان کی حکمرانی اور بالادستی کو دوام میسر رہے گا۔ وہ تاریخ کے نشیب و فراز سے بے پروا ہوکر اصل بالاتر قوت کی تدبیر کے امکانات کو ایک لمحے کے لیے بھی لائقِ توجہ نہیں گردانتے، اور قوت کے نشے میں مست ہوکر اپنی  من مانی کرنے میں مصروف رہتے ہیں اور ایسے ایسے کھیل کھیلتے ہیں کہ انسان تو کیا فرشتے بھی ششدر رہ جاتے ہیں۔ لیکن پھر قدرت کا ایک جھٹکا ان کے سارے شیش محل کو چکنا چور کردیتا ہے، اور ان کی ساری تدبیریں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں۔ زمین و آسمان کے خالق و مالک نے سچ کہا ہے کہ وَ مَکَرُوْا وَمَکَرَ اللّٰہُ وَاللّٰہُ خَیْرُ الْمٰکِرِیْنَo(اٰل عمرٰن ۳:۵۴) ’’وہ اپنی چالیں چلتے ہیں اور اللہ اپنی تدبیر کرتا ہے اور اللہ ہی کی تدبیر غالب رہتی ہے‘‘۔ تاریخ گواہ ہے کہ بڑے بڑے اربابِ قوت و اقتدار کا حال ہمیشہ یہ رہا ہے کہ 

سامان سو برس کا ہے پَل کی خبر نہیں

اس کی تازہ ترین مثال تیونس میں رونما ہونے والے ان واقعات کے آئینے میں دیکھی جاسکتی ہے، جو ۱۷دسمبر ۲۰۱۰ء کو ایک چھوٹے سے قصبے سیدی بوزید میں ایک ۲۶سالہ گریجویٹ نوجوان محمد البوعزیزی کی خودسوزی کی کوشش سے شروع ہوئے اور احتجاج کی لہروں نے دیکھتے ہی دیکھتے چار ہفتوں میں پورے تیونس میں ایسی ہلچل مچا دی کہ تاحیات صدارت کا مدعی اور بعدِحیات جانشین کے تقرر کا خواب دیکھنے والا کُلی اختیارات کا مالک، صدر زین العابدین بن علی اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ ملک چھوڑنے پر مجبور ہوگیا۔ اقتدار، دولت، پولیس، فوج اور ذاتی ملیشیا، کچھ بھی اس کے کام نہ آسکا۔ تیونس کے طول و عرض میں تبدیلی کے نقارے بجنے لگے، بن علی کی شخصی اور حزبی آمریت کا قلعہ زمین بوس ہوگیا اور ملک میں ایک نئے دور کے آغاز کی راہیں کھل گئیں جسے ’انقلابِ یاسمین‘ کا نام دیا جا رہا ہے۔ توقع کی جارہی ہے کہ یہ تبدیلی عرب اور اسلامی دنیا میں دُور رس تبدیلیوں کا پیش خیمہ ثابت ہوگی۔ بلاشبہہ انقلاب کا یہ عمل ابھی جاری ہے اور اپنی تکمیل کی منزل کی طرف رواں دواں ہے، اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انقلاب دشمن قوتیں اپنی چالوں میں مصروف ہیں اور اسے پٹڑی سے اُتارنے کا کھیل کھیل رہی ہیں، لیکن تمام قرائن اشارہ کر رہے ہیں کہ ان شاء اللہ تیونس اور اس کے بعد عرب اور مسلم دنیا کے متعدد ممالک کی زندگیوں میں ایک نیا دور شروع ہونے والا ہے۔ تبدیلی کی جو مضبوط لہر اُٹھی ہے اس کی کامیابی اور صحیح سمت میں پیش رفت کی دعائوں کے ساتھ اس بات کی ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ اس انقلابی رُو کے بارے میں غوروفکر کے چند گوشوں پر روشنی ڈالی جائے۔

تیونس ایک مسلمان ملک ہے جس کی تاریخ تیرہ سو سال پر محیط ہے۔ اسلام کی روشنی افریقہ کے اس علاقے میں پہلی ہجری صدی (۶۹۸ء) میں پہنچی اور ۱۸۸۳ء میں فرانس کے غلبے تک یہ حسین و جمیل ملک اسلامی قلمرو میں ایک نگینے کے مانند دمکتا رہا۔ درمیان میں یورپ کی عیسائی یلغار (Crusade) کے زمانے میں اسے نصف صدی (۱۵۲۴ء-۱۵۷۴ء) کے لیے ہسپانیہ کے تسلط کا تلخ تجربہ بھی ہوا۔ اوّلین بارہ سو سال میں تیونس نے مسلمان حکمران خاندانوں (عرب، بربر، فاطمی، موحدون اور عثمانیہ سب ہی) کے اقتدار کا مزا بھی چکھا۔ عوامی سطح پر تصوف کے تمام ہی بڑے سلسلوں کے اثرات اس سرزمین پر رہے۔ خاص طور پر قادریہ، الرحمانیہ، عیساویہ، تیجانیہ اور عروسیہ۔ اسلام کی آمد کے ساتھ ہی جامع الزیتونیہ دینی، اصلاحی اور علمی سرگرمیوں کا مرکز رہی اور ابن خلدون جیسا نابغۂ روزگار مفکر اور سیاسی مدبر بھی اسی سرزمین کا گلِ سرسبد تھا۔ ابتدا ہی سے اہلِ تیونس    مالکی مذہب کے پیرو تھے۔ گو عثمانی دور میں آبادی کے ایک حصے نے حنفی مسلک اختیار کیا اور اس طرح مالکی اور حنفی فقہ دریا کے دو دھاروں کی طرح اس علاقے کو سیراب کرتے رہے اور بڑی    ہم آہنگی کے ساتھ یہ کام انجام دیتے رہے۔ واضح رہے کہ جامع الزیتونیہ نے ۱۲۰۷ء میں باقاعدہ جامعہ الزیتونیہ (زیتونیہ یونی ورسٹی) کا درجہ حاصل کرلیا تھا جہاں تمام دینی علوم کے ساتھ لغت، سائنس اور طب کے ہرشعبے کی تعلیم بھی دی جاتی تھی۔ نیز زیتونیہ کے مدارس کا سلسلہ ملک کے  طول وعرض میں قائم تھا اور مرکزی جامعہ میں ہزاروں طلبہ علم کے چشمے سے فیض یاب ہوتے تھے۔

تیونس کی تاریخ کا تاریک دور فرانس کا نوآبادیاتی زمانہ تھا، جو ۱۸۸۳ء میں معاہدہ لومارسک (Treaty of Lu marsc)کی چھتری تلے شروع ہوا اور ۱۹۵۵ء تک جاری رہا۔ مارچ ۱۹۶۵ء میں تیونس آزاد ہوا، مگر آزادی کے ساتھ ہی اہلِ تیونس کی آزمایش کا دوسرا دور شروع ہوگیا۔ جس میں اقتدار بیرونی حکمرانوں سے منتقل ہوکر اپنی ہی سرزمین کے دو آمروں کے ہاتھوں میں مرکوز ہوگیا، یعنی حبیب بورقیبہ (۱۹۵۶ء-۱۹۸۷ء) اور زین العابدین بن علی (۱۹۸۷ء-۲۰۱۱ء)۔ فرانس نے اپنے زمانۂ تسلط میں تیونس کے شریعت کے قانون کو ذاتی زندگی کے امور تک محدود کردیا۔ اس کے ساتھ تیونس پبلک لا کو بھی فرانس کے نظام قانون کے مطابق ڈھال دیا گیا۔ یوں زبان، تعلیم، تہذیب و تمدن اور معیشت اور سیاست، ہر شعبۂ زندگی کو فرانس کی تہذیب کے رنگ میں رنگنے کے سامراجی ایجنڈے کو بڑی بے دردی اور قوت سے آگے بڑھایا گیا۔ اس دور میں دین کی روشنی اگر کہیں سے میسر تھی تو وہ خانقاہیں اور مساجد اور مدرسے تھے۔

فرانسیسی سامراج کے خلاف جو عوامی تحریک رونما ہوئی وہ دینی اور خود دنیوی تعلیمی اداروں ہی کی مرہونِ منت تھی۔ حبیب بورقیبہ اگر جدید تعلیمی اداروں کی پیداوار تھا، تو عبدالحمید ابن بادیس، توفیق مدنی اور خود حوری بومدیان زیتونیہ ہی کے تعلیم یافتہ رہنما تھے۔ یہ امر پیش نظر رہنا چاہیے کہ استعمار سے آزادی کی تحریک کے دوران میں، آزادی کی تحریک کا ہدف صرف فرانسیسی سامراج  سے نجات ہی نہ تھا بلکہ تیونس کے اسلامی تشخص کی حفاظت اور دینی اقدار کی سربلندی بھی تھا۔ حبیب بورقیبہ کی ۱۹۲۹ء اور اس کے بعد کی تقاریر اس پر شاہد ہیں کہ خود اس نے اسلام کو تیونس کی شناخت کے طور پر پیش کیا اور بار بار مسلمان عورت کے حجاب کو اس شناخت کا مظہر قرار دیا۔ لیکن یہ ایک عظیم بدقسمتی تھی کہ آزادی کے حصول کے فوراً بعد اس (حبیب بورقیبہ) کی دستور پارٹی اور   اس کی قیادت نے رنگ بدلا اور اپنے اقتدار کے پہلے ہی سال میں ملکی سیاست، قانون اور  تہذیب و ثقافت کا رشتہ اسلام سے کاٹنے کا ’کارنامہ‘ انجام دیا۔ کبھی ’اسلامی اصلاحات‘ کا تقاضا قرار دیا اور کبھی بڑی ڈھٹائی سے ترقی اور جدیدیت کا سہارا لے کر ملک کے قانون، تعلیم اور اجتماعی زندگی کے تمام ہی شعبوں پر سیکولر تہذیب اور قانون کو مسلط کیا۔ اس طرح جدیدیت کے نام پر لادینیت اور مغربیت کا کھیل شروع ہوگیا۔ تعددِ ازدواج پر پابندی اور عائلی قانون بشمول قانونِ وراثت کی تبدیلی سے اس ’سیکولر یلغار‘ کا آغاز ہوا۔ مسجدو محراب اور مدرسہ اور خانقاہ کو سرکاری نظام کے تسلط میں لایا گیا۔ شخصی اور سیاسی آزادیاں مفقود اور بنیادی حقوق پامال کیے جانے لگے۔ قوت کا ارتکاز ایک مطلق العنان حکمران کے ہاتھ میں ہوگیا جس نے روزے جیسی فرض عبادت تک پر شب خون مارتے ہوئے اسے معاشی ترقی سے متصادم قرار دے کر منسوخ کرنے کا اعلان کر دیا۔ گو، بالآخر اس آخری اقدام کی حد تک بورقیبہ کو منہ کی کھانی پڑی لیکن بحیثیت مجموعی اجتماعی زندگی کے پورے نظام، بشمول حجاب پر پابندی اور شراب اور جوے کی ترویج اور سیاحت کے فروغ کے نام پر مغربی اقوام کے تمام گندے اور مذموم کاروبار کی کالک اپنے منہ پر مل گیا۔

قوم کے اجتماعی ضمیر اور حکمرانوں کے مقاصد اور اہداف میں تناقض اور تصادم نے اس ملک کو، جو قدرتی وسائل سے مالا مال تھا، حکومت اور عوام کی مسلسل کش مکش کی آگ میں جھونک دیا۔ یک جماعتی آمریت نے ملک کو پولیس اسٹیٹ میں تبدیل کردیا اور اسلامی قوتوں اور اشتراکی تصورات کے تحت کام کرنے والی جماعتوں اور گروہوں کو ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ روحانی اور صوفی سلسلوں کو بھی نہ بخشا گیا۔ ان سلسلوں سے وابستہ ہزاروں نوجوانوں، اور اسی طرح اسلامی تحریک کے کارکنوں کو پابندسلاسل کیا گیا۔ اس صورت حال کے نتیجے میں اسلام کے نام لیوا ہزارہا لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔ اس ریاستی استبداد سے تبلیغی جماعت جیسی غیرسیاسی مذہبی تحریک بھی محفوظ نہ رہی۔

ان نامساعد حالات میں دینی غیرت رکھنے والے نوجوانوں نے جامعہ تیونس کے   پروفیسر شیخ راشد الغنوشی اور ان کے معاون عبدالفتاح مورو کی قیادت میں پہلے الانتجاہ الاسلامی اور پھر حزب النہضہ کے پرچم تلے جمہوریت کے قیام، بنیادی حقوق کے تحفظ، معاشی انصاف کے حصول، قانون کی بالادستی، کثیرجماعتی سیاست کے فروغ اور اسلامی اقدار اور شعائر کی ترویج    کے لیے منظم جدوجہد کا آغاز کیا۔ اسلامی تحریک نے فکری، دعوتی اور سیاسی تبدیلی کے محاذوںپر بیک وقت کام کیا۔ ان کے جاری کردہ رسالوں المعارفہ، مستقبل اورالفجر کے مضامین نے فکری انقلاب برپا کیا۔ اس دعوت اور پیغام کو اقتدار نے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا۔بورقیبہ اور اس کی خفیہ ایجنسی (مخابرات) کے سربراہ زین العابدین بن علی نے جو ۱۹۸۷ء میں بورقیبہ کو ہٹاکر خود صدرِ مملکت بن گیا، ساری قوت اسلامی تحریک کو کچلنے اور اس کی آواز کو خاموش کرنے کے لیے استعمال کی۔ مغربی اقوام خصوصیت سے فرانس اور امریکا نے تیونس کے اس استبدادی ٹولے کی پوری پوری پشت پناہی کی۔ شیخ راشدالغنوشی نے بھی برسوں جیل کی صعوبتیں برداشت کیں، انھیں عمرقید تک کی سزا دی گئی جس کی گرفت سے نکل کر انھیں جلاوطنی کی زندگی اختیار کرنا پڑی۔ وہ ابھی تک برطانیہ میں مقیم اور وطن واپسی کے منتظر ہیں!

تیونس کا اصل مسئلہ ، متعدد دوسرے عرب اور مسلمان ممالک کی طرح یہی ہے کہ مغربی سامراج سے آزادی کے بعد بھی وہ مغرب کی گرفت سے آزاد نہیں ہوسکے اور سامراجی استبداد کا ایک نیا دور شروع ہوگیا، جس میں اصل کارفرما قوت مغربی اقوام ہی ہیں۔ البتہ اب وہ بلاواسطہ حکمرانی کے بجاے بالواسطہ حکمرانی کا کام انجام دے رہے ہیں، اور ان ممالک کی مفاد پرست اشرافیہ ان کے آلۂ کار کا کردار ادا کرر ہی ہے۔ ان کا مقدر ان چار مصیبتوں سے عبارت ہے:   ذہنی غلامی، سیاسی محکومی، معاشی گرفت اور تہذیبی جال۔ یہ چوہری غلامی کی وہ لعنت ہے جس کے خلاف عرب اور بیش تر اسلامی دنیا کے عوام آج نبردآزما ہیں۔ تیونس ہویا مصر، لیبیا ہویا مراکش، اُردن ہویا شام، بنگلہ دیش ہو یا پاکستان، ہمارا اصل مسئلہ ہی عالمی سامراجی قوتوں اور مقامی اشرافیہ کے آمرانہ نظام کا گٹھ جوڑ ہے، اور تیونس میں رونما ہونے والی انقلابی تحریک نے ایک بار پھر اس بنیادی حقیقت کو مرکز توجہ بنادیا ہے۔ لندن کے اخبار دی گارڈین کی ایک تازہ اشاعت میں تیونس کے ایک دانش ور ہشام مطار نے پورے عالمِ عرب کے دل کی کیفیت کو اس طرح بیان کیا ہے:

میری پیدایش سے بھی پہلے ہم عرب، دو طاقتوں کی گرفت میں ہیں جو بظاہر ناقابلِ شکست ہیں۔ ایک ہمارے بے رحم آمر جو ہم پر جبر کرتے ہیں اور ہماری تحقیر کرتے ہیں، اور دوسرے مغربی طاقتیں، جو یہ پسند کرتی ہیں کہ ہم پر ان کے وفادار مجرم حکومت کریں، بجاے اس کے وہ منتخب راہنما جو ہمارے سامنے جواب دہ ہوں۔ ہم اس تاریک انجام کی طرف بڑھتے رہے کہ ہم ہمیشہ ان درندوں کی گرفت میں رہیں گے۔ تیونس کے عوام نے ہمیں تباہی کے گڑھے کے کنارے سے پیچھے کھینچ لیا ہے۔

تیونس، عالمِ عرب اور مسلم دنیا کے کرب ناک حالات میں تیونس کے ’انقلابِ یاسمین‘ کا یہی وہ پیغام ہے جس کا ادراک ضروری ہے اور جس کی وجہ سے امریکا اور یورپ کے ساتھ خود عرب اور اسلامی دنیا کے حکمرانوں کے ایوانوں میں ایک زلزلہ سا آگیا ہے اور ہر طرف کہرام مچا ہوا ہے۔ ہم نہایت اختصار سے تبدیلی کے اس منظرنامے کے چند پہلوئوں کی وضاحت ضروری سمجھتے ہیں:

۱- سب سے پہلی بات مسئلے کی اصل نوعیت کو سمجھنا ضروری ہے۔ آج ہم جس مصیبت میں مبتلا ہیں اس کی جڑ وہ بگاڑ ہے جس نے آزادی کے بعد تیونس ہی نہیں، بیش تر مسلم ممالک پر    تسلط حاصل کرلیا ہے اور وہ ہے دہری غلامی جس کی ایک مثال تیونس ہے، یعنی:

(ا) مغربی استعماری اقوام کی ہمارے سیاسی، معاشی، قانونی اور تہذیبی نظام پر گرفت  اور جدیدیت، سیکولرزم، معاشی ترقی، روشن خیالی ، آزاد روی (لبرلزم)، مارکیٹ اکانومی اور نام نہاد عالم گیریت کے حسین عنوانوں کے ذریعے ہمارے فکرونظر، ہمارے میڈیا، ہماری تعلیم، ہمارا    نظامِ حکومت اور ہماری معیشت کو اپنی گرفت میں لانا اوراپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا۔

(ب) اس نوسامراجی انتظام میں خود ہمارے اپنے ملک کے بااثر عناصر اور اشرافیہ کو  آلۂ کار بنانا خواہ ان کا تعلق سول قیادت سے ہو یا فوج اور بیوروکریسی کے افراد ہوں یا ادارے، خصوصیت سے این جی اوز۔ جمہوریت، معاشی امداد اور عالم گیریت وہ خوش نما عنوان ہیں، جن کے تحت مغرب کے ایجنڈے پر مقامی کارندے یہ کھیل کھیلتے ہیں، اپنی قوم اور اس کے وسائل کو بری طرح لوٹتے ہیں تاکہ جب بھی ان کا پردہ چاک ہو تو اپنی محفوظ پناہ گاہوں کا رُخ کرلیں۔ فسطائی نظام اور بدعنوانی پر مبنی اس انتظام کا لازمی حصہ ہیں۔ جمہوریت اور قانون کی حکمرانی ان کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔ اس لیے بھی کہ مسلمان اُمت کی روح میں اس کا دین و ایمان رچے بسے ہیں، صرف جبرواستبداد ہی وہ طریقہ ہے جس سے ان پر ان کے دین، ان کی اخلاقی اقدار اور ان کی تہذیبی روایات سے متصادم کوئی نظام مسلط کیا جاسکتا ہے۔ حقیقی جمہوریت کا نفاذ و ترویج (democratization) اور اسلامائزیشن ایک ہی سکّے کے دو رُخ ہیں اور مغرب کے ایجنڈے کا فروغ ممکن ہی ہے صرف ایک آمرانہ نظام اور فسطائی قیادت کے ذریعے۔ جگرمرادآبادی نے   اس طرف اشارہ کیا تھا جب انھوں نے کہا    ؎

جمہوریت کا نام ہے، جمہوریت کہاں
فسطائیت حقیقت عریاں ہے آج کل

مسلم ممالک میں آمرانہ حکمرانی (autocratic rule) اور من مانی اور استبدادی قوت (arbitrary power)کا نظام اور قیادتوں کا اپنے شخصی مفادات کے حصول کے لیے مغربی اقوام، ان کے مقاصد، تہذیب اور مفادات کا خادم ہونا ایک دوسرے سے مربوط اور لازم و ملزوم ہیں اور جس تبدیلی اور انقلاب کے لیے مسلمان عوام بے چین اور مضطرب ہیں، وہ ان دونوں مصیبتوں سے نجات ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس انقلاب کا ہدف چہرے بدلنا نہیں ہے، اس پورے انتظام اور دروبست کو تبدیل کرنا ہے، اور انقلاب اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتا جب تک اس اصل مسئلے کا حل نہ تلاش کرلیا جائے۔

تیونس میں انقلاب کی ابھی ابتدا ہوئی ہے اور مغربی اقوام اور مقامی مفاد پرست عناصر کی پوری کوشش یہ ہوگی کہ چند نمایشی تبدیلیاں کرکے پرانے نظام کے لیے نئی زندگی حاصل کرنے کی کوشش کریں، اور جب تک اس خطرے کا سدباب نہ کرلیا جائے انقلاب نامکمل ہوگا اور تبدیلی کا عمل پٹڑی سے اُتر سکتا ہے جس کی پیش بندی ضروری ہے۔

۲- دوسری بنیادی بات یہ سمجھنے کی ہے کہ مغربی اقوام کا مقصد اپنے مفادات اور اہداف کا حصول ہے، جن کی خاطر وہ بڑی سے بڑی قلابازی کھا سکتے ہیں۔ تیونس میں حبیب بورقیبہ جب تک ان کے مقاصد کی خدمت کرتا رہا، وہ ان کا پسندیدہ شخص تھا، لیکن انھوں نے دیکھا کہ اس کی گرفت کمزور ہونے لگی ہے تو اپنا دوسرا مہرہ زین العابدین بن علی کی شکل میں آگے بڑھا دیا۔ وہ بورقیبہ کا قریبی ساتھی اور خفیہ سروس کا سربراہ تھا۔ اس طرح ایک غیرخونیں انقلاب کے ذریعے اس نئے مہرے کو ملک کی کمانڈ کے مقام پر لے آئے اور بورقیبہ کو ٹشو پیپر کی طرح پھینک دیا۔ پھر بن علی نے ۲۳سال تک ان کے مقاصد کے حصول میں اپنا کردار ادا کیا اوراس دور میں اس کی تمام بدعنوانیاں، عوام دشمنیاں اور حقوق کی پامالیاں ان کو نظر نہ آئیں، حتیٰ کہ جب دسمبر۲۰۱۰ء میں احتجاجی لہریں بڑھیں تو فرانس کے وزیرداخلہ نے فرانس سے فسادات کو روکنے اور ہنگاموں کو فرو کرنے کے لیے خصوصی تربیت یافتہ پولیس (Riot Police) تک بھیجنے کی بات کی، لیکن جب  بن علی کے پائوں تلے سے زمین نکل گئی تو فرانس کے صدر سرکوزی نے پناہ تک دینے سے   معذرت کرلی، بالکل اسی طرح جس طرح اس سے پہلے شاہِ ایران کو امریکا نے پناہ دینے سے  انکار کیا تھا۔ جس دوستی کی بنیاد مفاد پر ہوتی ہے اس کا انجام اس سے مختلف ہو نہیں سکتا، لیکن   اقتدار کے نشے میں مست کتنے ہی حکمران ہیں جو اپنے سامنے کی ایسی بات کا بھی ادراک نہیں رکھتے، فاعتبروا یااولی الابصار۔

۳- مغربی اقوام اور مقامی حکمران دونوں ہی ایک اور بھی کھیل کھیل رہے ہیں جس کا مظہر یہ حکمت عملی ہے کہ ایک قوم کے ایمان، اس کے نظریاتی عزائم اور تہذیبی تمنائوں کو محض مادی ترقی، مال و متاع کی خیرات اور ترغیب و ترہیب کے ہتھکنڈوں سے ہمیشہ کے لیے اپنے قابو میں رکھا جاسکتا ہے۔ یہ توقع انسانی فطرت کے خلاف ہے اور تاریخ اس پر گواہ ہے کہ ایسی حکمت عملی بالآخر ناکام ہوتی ہے۔ لیکن ہردور کے ظالم اور جابر حکمران اس تاریخی حقیقت کو نظرانداز کرتے ہیں۔ تیونس کے حالیہ واقعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ حکمت عملی تارِ عنکبوت کے مانند ہے، لیکن کم لوگ ہیں جو ایسے واقعات سے سبق لیتے ہیں۔ زین العابدین بن علی کو اپنی فوج اور سوا کروڑ کے اس ملک میں ایک لاکھ ۳۰ہزار امریکا کی تربیت یافتہ مسلح پولیس فورس اور میڈیا اور معلومات کے تمام ذرائع پر سرکاری کنٹرول کے زعم میں کسی عوامی ردعمل کا کوئی خطرہ نہیں تھا۔ لیکن بظاہر بے بس انسانوں کی اس بستی میں اندر ہی اندر جو لاوا پک رہا تھا اس کا کسی کو ادراک نہ تھا۔ مگر راکھ کے ڈھیر سے پھر ایک ایسی چنگاری نکل آئی جس نے پورے ملک میں مزاحمت اور بغاوت کی آگ بھڑکا د ی۔

ایک مشہور عرب صحافی اور دانش ور رامی جی خوری (Rami G. Khouri) نے اس طرف متوجہ کیا ہے جب وہ کہتا ہے: ’’کس طرح بن علی کی پولیس اسٹیٹ کو جب دیرپا عوامی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تو تیزی سے بکھر کر رہ گئی‘‘۔ (ہیرالڈ ٹریبون، ۲۲ جنوری ۲۰۱۱ء)

صرف پولیس اسٹیٹ ہی کے پاے چوبیں نہیں، مغربی اقوام کی پوری حکمت عملی ہی   کسی حقیقی اور مضبوط بنیاد سے عاری ہے، چنانچہ حقیقی عوامی ردعمل کے آگے اس کی ناکامی ایک تاریخی حقیقت ہے۔

۴- تیونس کے حالیہ واقعات نے مسلمان ممالک میں سیکولرزم، سرمایہ داری اور مغربیت کی ہر طرح سے ترویج اور اسلامی لہر کو ’دہشت گردی‘ کے نام پر قوت کے ذریعے روکنے کی حکمت عملی کی ناکامی کے بارے میں غوروفکر کے لیے نئے زاویے فراہم کیے ہیں۔ تیونس میں یہ تجربہ فرانسیسی سامراجی اقتدار کے ۸۰سال اور بورقیبہ، بن علی ٹولے کے تسلط کے ۵۵سال سے جاری ہے لیکن تیونس کے عوام کے حصے میں اپنے دین اور تہذیب سے دُوری کے ساتھ غربت، بے روزگاری، مہنگائی، قرضوں کی لعنت اور آزادی اور عزتِ نفس سے محرومی ہی کی سوغات آئی ہے۔ ۱۵ سے ۲۵ سال کے نوجوان جو آبادی کا ۲۵فی صد ہیں، ان میں بے روزگاری کا تناسب ۳۰ فی صد سے متجاوز ہے۔ مارکیٹ اکانومی جسے معاشی ترقی اور خوش حالی کا مجرب نسخہ قرار دیا جاتا ہے، وہ مریض کو اور بھی محرومیوں کا شکار کرنے کا باعث ہوا ہے۔ سیکولر قیادت نے استبدادی نظام کے ساتھ معاشی استحصال، دولت کی ظالمانہ حد تک غیرمنصفانہ تقسیم اور اس کے نتیجے میں اقتصادی ناہمواریوں اور ملک و ملّت کی بیرونی دنیا پر محتاجی کے تحائف عطا کیے ہیں۔ یہی وہ حالات ہیں جو انقلاب کو جنم دیتے ہیں۔ جب قوم کروٹ لیتی ہے تو پھر بڑے سے بڑے آمر کے پائوں اُکھڑ جاتے ہیں۔ تیونس کی انقلابی رَو کا یہ پیغام دنیا کے تمام مظلوم انسانوں کے لیے ہے۔ یہ دوسرے ممالک کے مصیبت زدہ عوام کے لیے نئی زندگی کا پیغام اورغاصب حکمرانوں اور ان کے مغربی آقائوں کے لیے بھی ایک ’صداے ہوش‘ (wake up call) کی حیثیت رکھتا ہے۔ جس طرح قدرت کا قانون ہے کہ رات کے بعد صبح کی روشنی نمودار ہوتی ہے، اسی طرح ظلم کی رات بھی جو چھوٹی یا لمبی تو ہوسکتی ہے مگر ہمیشہ کے لیے سورج کی روشنی کا راستہ نہیں روک سکتی:

یوں اہلِ توکّل کی بسر ہوتی ہے
ہر لمحہ بلندی پہ نظر ہوتی ہے

گھبرائیں نہ ظلمت سے گزرنے والے
آغوش میں ہر شب کے سحر ہوتی ہے

ایک قابلِ غور پہلو یہ ہے کہ جس طرح پہاڑوں کی سنگلاخ زمین پر پانی اپنا راستہ بنا لیتا ہے اسی طرح انسانی تخیل، اُپج اور سوچ بچار کی صلاحیت ہزاروں دروازوں کو کھولنے کی صلاحیت پیدا کرلیتی ہے۔ تیونس میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر حکومت کا عملی تسلط تھا۔ مسجد ومنبر پر حکومتی فکر کی حکمرانی تھی، لیکن موبائل فون، انٹرنیٹ اور فیس بک کی اعانات، جنھیں آبادی کا ۱۸ فی صد استعمال کررہا ہے، مزاحمت کی تحریک کو منظم اور مربوط اور مؤثر ہونے میں کلیدی کردار ادا کیا۔

بلاشبہہ آج کے پاکستان کے حالات تیونس کے حالات سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہیں۔ یہاں بھی امریکا کی گرفت ہماری قیادت، ہماری پالیسیوں اور ہمارے سیاسی اور معاشی نظام پر اتنی بڑھ چکی ہے کہ اب ملک کی آزادی ایک نمایشی شے بنتی جارہی ہے۔

جنرل پرویز مشرف کے دور میں جس طرح امریکا کے مطالبات کے آگے سپر ڈالی گئی اور زرداری گیلانی حکومت نے اس غلامانہ پالیسی کو اور بھی وفاداری کے ساتھ آگے بڑھایا ہے، اس کے نتیجے میں قومی عزت اور غیرت کا تو خون ہوا ہی ہے، اور ملک کی آزادی بُری طرح مجروح ہوئی ہے، لیکن اس کے ساتھ ملک کا امن و امان تہ و بالا ہوگیا ہے۔ لاقانونیت کا دور دورہ ہے، فوج اور عوام میں تصادم اور ٹکرائو بڑھ رہا ہے، ’دہشت گردی‘ کا دائرہ وسیع تر ہورہا ہے، امریکی ڈرون حملے اور ان کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر معصوم انسان شہید اور وسیع وعریض علاقے تباہ و برباد ہورہے ہیں۔ معیشت کا یہ حال ہے کہ صرف اس جنگ میں شرکت کی وجہ سے ۵۰ سے ۱۰۰ ارب ڈالر تک کا نقصان پہنچ چکا ہے۔ غربت اور بے روزگاری میں اضافہ ہورہا ہے اور اشیاے ضرورت کی قلّت نے زندگی اجیرن کر دی ہے۔ اس کے ساتھ حکمرانوں کی عیاشیاں، بدعنوانیاں روز افزوں ہیں اور ہر طرف بدعنوانی کا دور دورہ ہے۔ قیادت کے ایک اہم حصے کے مفادات اور اثاثے ملک سے باہر ہیں اور ان کو اپنے اقتدار کے لیے ہی نہیں اب تو ذاتی حفاظت کے لیے بھی بیرونی قوتوں کا سہارا درکار ہے۔ ملک میں حکمرانی کا عمل مفقود ہورہا ہے اور مفادات کی پرستش کا بازار گرم ہے۔ حکمرانی اور معیشت کی حالت یہ ہے کہ    ؎

رو میں ہے رخش عمر کہاں دیکھیے تھمے
نے ہاتھ باگ پر ہے، نہ پا ہے رکاب میں

کیا ہماری قیادت تیونس کے ’انقلابِ یاسمین‘ سے کوئی سبق لینے کے لیے تیار ہے یا اس لمحے کا انتظار کر رہی ہے، جب:

سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارا

اچھی حکومت کسی بھی معاشرے کے لیے نعمت کا درجہ رکھتی ہے۔ اس کی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ امن و امان اور عدل و انصاف کے قیام کے ساتھ عوام کے مسائل کو حل کرنے اور ان کو مشکلات سے نکلنے میں مدد اور رہنمائی فراہم کرتی ہے اور اسے ہر دوسری سرگرمی پر اوّلیت دیتی ہے۔ لیکن آج جمہوریت کے نام پر جو زرداری- گیلانی حکومت ملک کے سیاہ و سپید کی ذمہ دار بنی ہوئی ہے، اس کا امتیازی وصف حکمرانی کا فقدان، عوامی مسائل سے غفلت، بیرونی عناصر کی کاسہ لیسی، کرپشن کا فروغ، حکومت کے ہر شعبے میں نااہلی اور نااہلوں کی سرپرستی، اور ملکی مفادات کو نظرانداز کرکے اپنے ذاتی اور گروہی اہداف کے حصول میں سرگرمی ہے۔ حکومت چلانے کے یہ انداز اور اطوار جمہوریت کے ماتھے پر بدنما داغ کی حیثیت رکھتے ہیں، اور اس کے مستقبل کے لیے خطرہ ہیں۔ حالات تبدیلی کی طرف تیزی سے بڑھ رہے ہیں اور وقت اس امر کا تقاضا کر رہا ہے کہ تمام محب ِ وطن عناصر جو ملک میں بیرونی مداخلت کا باب بند کرنا، فوج کو اس کے دفاعی کردار تک محدود رکھنا اور عوام کو جمہوریت کے ثمرات سے فیض یاب کرنا چاہتے ہیں، شخصی اور جماعتی سطح سے بلند ہوکر ملک اور جمہوریت کی بقا کے لیے مثبت کردار ادا کریں۔

اس عمل کا نقطۂ آغاز ان تین نئے ٹیکسوں کے باب میں مشترک لائحہ عمل کی شکل میں ہوسکتا ہے، جن کے ذریعے اس ماہ حکومت نے اپنے ہی عوام کو معاشی حملوں کا نشانہ بنایا ہے۔ سینیٹ کے ارکان کی اکثریت نے جس طرح ان ٹیکسوں کو رد کیا ہے، وہ معاشی اور سیاسی دونوں محاذوں پر  ایک نئی تحریک اور قومی حکمت عملی کی تشکیل اور اس کے حصول کے لیے صف بندی کے لیے فتح باب کا کردار ادا کرسکتا ہے۔

نئے ٹیکس: حکومتی موقف

حکومت نے ۱۲ نومبر کو قومی اسمبلی اور سینیٹ میں جنرل سیلزٹیکس (GST)کا ایک نیا قانون جو دراصل VAT کے اصول پر مبنی ہے اور ایک مالیاتی بل پیش کیا ہے جس کے ذریعے سیلاب زدگان کے لیے سرچارج کے عنوان سے تمام انکم اور کورپوریٹ ٹیکس ادا کرنے والوں پر چھے ماہ کے لیے ۱۰ فی صد ٹیکس کا اضافہ کیا ہے اور ایکسائز ڈیوٹی میں ۱۰۰فی صد اضافہ کیا ہے، یعنی ایک فی صد سے بڑھا کر اسے۲ فی صد کر دیا گیا ہے۔

حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ نئے ٹیکس چار وجوہ سے ضروری ہیں:

۱- حکومت کا جو معاہدہ آئی ایم ایف سے ہے، اس کے تحت مزید قرضے صرف اس صورت میں مل سکتے ہیں جب یہ ٹیکس عائد کیے جائیں۔ اس لیے معیشت کی گاڑی کو آگے چلانے، سرکاری اخراجات اور تنخواہوں تک کی ادایگی کو جاری رکھنے اور مزید قرض لینے کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں۔

۲- ملک میں مجموعی قومی پیداوار (GDP) اور ٹیکس کا تناسب خطرناک حد تک کم ہے، یعنی ۳ئ۹ فی صد، جب کہ دنیا کے ترقی پذیر ملکوں میں یہ شرح ۱۷ سے ۲۰ فی صد اور ترقی یافتہ ممالک میں ۳۰، حتیٰ کہ ۴۰ فی صد تک ہے۔ حکومت کو چلانے اور ترقیاتی عمل کو آگے بڑھانے کے لیے ٹیکسوں کی آمدنی میں اضافہ ناگزیر ہے اور یہ ٹیکس اس سمت ایک مثبت قدم ہے۔ پھر حالیہ سیلاب نے جو تباہی مچائی ہے صرف اس کے متاثرین کی کم سے کم ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے___ اصل ضرورت تو ۸۰۰ ارب روپے کی ہے___ فوری طور پر اس سال ۲۰۰ سے ۲۵۰ ارب روپے درکار ہیں۔   وہ کہاں سے لائیں؟ باہر کے مدد کرنے والے بھی مطالبہ کر رہے ہیں کہ اپنے وسائل کو بروے کار لائو۔ اس لیے ٹیکس کی آمدنی میں فوری اضافے کے سوا کوئی راستہ نہیں۔

۳- ملک میں ٹیکس دینے والوں کی تعداد محدود ہے۔ ۱۸ کروڑ کے اس ملک میں ٹیکس دینے والوں کے دائرے میں صرف ۳۰ لاکھ افراد آتے ہیں مگر عملاً انکم اور کورپوریٹ ٹیکس دینے والوں کی تعداد ۱۸لاکھ سے بھی کم ہے جن میں ۱۲ لاکھ سے زائد تنخواہ دار طبقہ ہے۔ اس سے ان کی تنخواہ کے ساتھ ہی ٹیکس کاٹ لیا جاتا ہے۔ اس لیے ٹیکس کے دائرے کو بڑھانا ضروری ہے۔

۴- ملکی معیشت کی دستاویز بندی (documentation) وقت کی ضرورت ہے۔ ماضی کی ساری کوششیں اس سلسلے میں ثمرآور نہیں ہوسکیں۔ اس کی وجہ سے ٹیکس کی چوری بھی بڑے پیمانے پر ہوتی ہے اور کالا کاروبار بھی عام ہے۔ معیشت کو دستاویزی نظام میں لانے کے دوررس اثرات ہوں گے اور نیا جنرل سیلزٹیکس اس کی طرف ایک اہم پیش رفت ہے۔

یہ وہ چار دلائل ہیں جو حکومت اور اس کے حامیوں کی طرف سے آئے ہیں۔ اس ناقابلِ فہم دعوے کے ساتھ کہ نئے ٹیکسوں سے عوام پر بوجھ اور ملک میں مہنگائی اور افراطِ زر پر کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا، بلکہ ٹیکس کی شرح موجودہ ۱۷ سے ۲۳ فی صد کی شرح سے کم کرکے ۱۵ فی صد کی  جارہی ہے۔ جس کے نتیجے میں قیمتوں میں کمی ہوسکتی ہے یا اگر اضافہ ہوا بھی تو بہت ہی معمولی اور ناقابلِ التفات ہوگا۔

ہماری نگاہ میں مہنگائی کے بارے میں حکومت کا دعویٰ اور ان ٹیکسوں کے جواز میں دیے جانے والے دلائل یا غلط فہمیوں پر مبنی ہیں یا عوام کو صریح دھوکا دینے کی جسارت ہے۔ ہم ان    تمام پہلوئوں کا نہایت ٹھنڈے انداز میں اور صرف حقائق اور معاشی دلائل کی بنیاد پر جائزہ لینا  چاہتے ہیں۔

ہمیں جن باتوں سے اتفاق ہے وہ یہ ہیں کہ مجموعی قومی آمدنی کے تناسب کے اعتبار سے ٹیکس کا حجم فی الحقیقت شرم ناک حد تک کم ہے۔ حکومت کو وسائل کی ضرورت ہے اور قوم کو وہ وسائل کھلے دل سے فراہم کرنے چاہییں بشرطیکہ حکومت انھیں صحیح طور پر قومی مقاصد کے لیے استعمال کرے۔ نیز معیشت کی دستاویزبندی بھی ایک مفید کام ہے اور معاشی ترقی اور معاشی انصاف کے قیام کے لیے ضروری اقدام ہے۔ ان بنیادی باتوں کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں۔ اختلاف جس پر ہے وہ یہ ہے کہ جن چیزوں کو بطور دلیل یا جواز پیش کیا جا رہا ہے کیا فی الحقیقت ان کا حصول ان نئے ٹیکسوں کے ذریعے ممکن ہے یا یہ باتیں محض اشک شوئی  کے طور پر کی جارہی ہیں تاکہ اصل حقائق پر پردہ پڑا رہے، اور معیشت کے اساسی مسائل سے اغماض اور عوام کی مشکلات کے حل اور ان کی مصیبتوں سے خلاصی کے باب میں حکومت کی مجرمانہ غفلت اور ناکامی سے توجہ ہٹائی جاسکے۔

آئی ایم ایف کی گرفت

سب سے پہلے آئی ایم ایف کو لیجیے۔ آئی ایم ایف عالمی سرمایہ دارانہ نظام کا ایک حصہ ہے اور تجارتی خسارہ اور ادایگیوں کے خسارے کی صورت میں وقتی قرض فراہم کرنا اس کا وظیفہ ہے۔ ہرملک کے لیے اس کی عالمی تجارت کی روشنی میں کوٹا مقرر ہے جو SDR کی شکل میں ہوتا ہے اور اس کوٹے کی حد تک کسی نئی شرط کے بغیر اس سے قرضہ لیا جاسکتا ہے جسے ۲۳مہینے میں ادا کرنا ہوتا ہے۔ اگر اس کوٹے سے زیادہ قرض کی درخواست کی جائے تو پھر ان کی شرائط کا معاملہ آتا ہے جو قرض کی مقدار کی مناسبت سے بڑھتی چلی جاتی ہیں۔ نیز ان کی شرائط کا ایک معروف و معلوم نظام ہے جسے Macro Stabilization Conditionalities کہا جاتا ہے۔ پھر ان کا اصل ہدف ایک معیشت کو گلوبل معیشت میں ضم کرنا، نج کاری اور آزاد تجارت اور سرمایے کی آزادانہ درآمد کو فروغ دینا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آئی ایم ایف ہمیشہ دوغلی پالیسیوں پر کاربند رہا ہے کہ اس کا اصل ہدف مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام کا فروغ ہے۔ نوبل انعام یافتہ ماہر معاشیات جوزف اسٹگلٹز نے اپنی کتاب Globalization and Its Discontentsمیں ۴۰ سے سے زیادہ ان ممالک کے معاشی تجربات کو پیش کیا ہے جو ترقی پذیر دنیا میں آئی ایم ایف کے زیراثر پالیسی بنانے پر مجبور ہوئے ہیں، اور دو ایک کو چھوڑ کر یہ پالیسیاں کہیں بھی کامیاب نہیں ہوئی ہیں بلکہ معاشی تباہی کا سبب بنیں۔ خود آئی ایم ایف کے تحت شائع ہونے والے تحقیقی مقالات میں اس کا اعتراف کیا جا رہا ہے۔ لندن کے اخبار گارڈین میں مارک ویزبورڈ نے اپنے مضمون The IMF's New Visionمیں لکھا ہے:

گذشتہ چند برسوں میں آئی ایم ایف نے دہرے معیارات اپنانے کی پالیسی جاری رکھی ہے۔ یہ زیادہ آمدنی والے ممالک کے لیے کساد بازاری کے موقع پر وسعت پذیر مالی اور زری پالیسیوں کی حمایت کرتا ہے، جب کہ متوسط اور کم آمدنی والے ممالک کے لیے ایسا نہیں ہوتا۔ ۲۰۰۹ء میں آئی ایم ایف کے جن ۴۱ ممالک سے جاری معاہدے تھے ان میں سے ۳۱ معاہدے مالی یا زری پالیسیوں یا دونوں کو سخت کرنے والے تھے۔ یہ اس سے بالکل مختلف ہے جو آئی ایم ایف امریکا جیسے امیر ممالک کے لیے تجویز کرتا ہے، جہاں بہت زیادہ بجٹ خسارہ ہے، سود کی شرح صفر کے قریب رکھنے کی پالیسی ہے، اور کسادبازاری کا مقابلہ کرنے کے لیے ہزاروں ارب ڈالر فراہم کیے گئے ہیں۔(دی گارڈین، یکم اپریل ۲۰۱۰ئ)

آئی ایم ایف کے بارے میں سب جانتے ہیں اور خود ہمارا ۴۰ سالہ تجربہ ہے کہ وہ صرف عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے مفادات کا محافظ ہے۔ اس میں فیصلہ سازی کا کُل اختیار سرمایہ دارانہ ممالک کو حاصل ہے اور سب اس کا اعتراف کرتے ہیں: ’’وال اسٹریٹ اور یورپی بنکوں کو اب تک فنڈ کی سمت پر مکمل اختیار حاصل ہے‘‘۔ (دی گارڈین، یکم اپریل ۲۰۱۰ئ)

اس لیے آئی ایم ایف سے قرضوں کے لیے ایس ڈی آر کوٹے جس کے ذریعے کسی  وقت بھی چند سو ملین ڈالر حاصل کیے جاسکتے ہیں، کے راستے کو نظرانداز کرکے ۵ئ۷ ارب اور پھر ۱۱ارب ڈالر کے قرضوں کے لیے جانا ایک ہمالیہ کے برابر غلطی تھی۔ پھر یہ اقدام کسی قومی مشاورت کے بغیر ہوا۔ پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیے بغیر ملک کے بجٹ اور اس کی معاشی پالیسیوں کو آئی ایم ایف کی گرفت میں دے دیا گیا۔ نومبر ۲۰۰۸ء میں یہ سارے معاملات طے کرلیے گئے اور یکم جولائی ۲۰۱۰ء سے عملاً نافذ کردینے کا عہدوپیمان بھی کرلیا گیا، مگر نہ پارلیمنٹ سے اجازت لی گئی اور نہ  ملک کو، حتیٰ کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) اور معاشی زندگی کی صورت گری کرنے والے تمام اہم اداروں تک کو اعتماد میں لیا گیا اور نہ اس تبدیلی کے لیے تیار کیا گیا۔ اور اب جب پانی   سر سے اُونچا ہوگیا ہے تو پارلیمنٹ کی کنپٹی پر آئی ایم ایف کا پستول تان کر قانون سازی کی جارہی ہے۔ یہ ہے ہمارا اصل اعتراض۔ اس تباہ کن پالیسی کی ساری ذمہ داری اس حکومت پر ہے  جس کے پاس نہ کوئی معاشی اور مالی پالیسیوں میں کوئی ارتباط اور ہم آہنگی نہیں ہے۔ جس نے پونے تین سال کے عرصے میں چار وزراے خزانہ تبدیل کیے ہیں، چار وفاقی فنانس سیکرٹری تبدیل کیے ہیں، تین بار اسٹیٹ بنک کے گورنروں کو تبدیل کیا ہے اور رہا معاملہ پالیسیوں کا تو ان کا حال تو یہ ہے کہ  ع

نے ہاتھ باگ پر ہے، نہ پا ہے رکاب میں!

ٹیکس میں اضافے کی غلط حکمت عملی

اب دوسرے مسئلے کو لیجیے۔

  • بلاشبہہ ٹیکس اور مجموعی ملکی پیداوار (جی ڈی پی) کا تناسب بہت کم ہے، یعنی ۳ئ۹ فی صد۔ لیکن ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ۸۱-۱۹۸۰ء میں یہ تناسب ۱۴ فی صد تھا۔ ۹۵-۱۹۹۴ء میں کم ہوکر ۷ئ۱۳فی صد رہ گیا۔ ۰۸-۲۰۰۴ء میں ۱۰ فی صد تھا اور اب ۳ئ۹ فی صد ہے۔ معلوم ہوا کہ موجودہ ٹیکس کے نظام میں اگر اسے ٹھیک ٹھیک بروے کار لایا جائے تو ۱۳ اور ۱۴ فی صد تک پہنچنے کی صلاحیت ہے مگر دو بڑی وجوہ سے یہ تناسب کم ہوتا گیا ہے جس میں سب سے اہم ٹیکس کی چوری، ایف بی آر کی کرپشن، اور سیاسی اور معاشی اشرافیہ کی ملی بھگت ہے جس کے نتیجے میں ملک کے خزانے کو ٹیکس کے جائز حصے سے محروم کیا جارہا ہے۔ خود کئی سابقہ وزراے خزانہ اور ایف بی آر کے ذمہ دار حضرات اعتراف کرچکے ہیں کہ ٹیکس چوری کے نتیجے میں خزانے کو ۶۰۰ ارب سالانہ سے ۷۵۰ ارب سالانہ تک کا نقصان ہورہا ہے۔ اگر آج بھی صرف ان ٹیکسوں کی پوری وصولی کا اہتمام ہوجائے جو ملک میں نافذ ہیں تو ٹیکس کی آمدنی میں ۶۰۰ ارب روپے سے زیادہ کا اضافہ ہوسکتا ہے۔ اگر اس کا نصف بھی وصول کرلیا جائے تو ۳۰۰/۳۵۰ ارب روپے وصول ہوسکتے ہیں۔ مسئلہ نئے ٹیکس لگانے کا نہیں، موجود الوقت ٹیکسوں کو دیانت داری سے وصول کرنے کا ہے۔
  • دوسری بڑی وجہ وہ استثنا ہیں جو وقتاً فوقتاً مفاد پرست عناصر کی اثراندازی کی وجہ سے پارلیمنٹ کو یکسر نظرانداز کر کے محکمہ کے ایس آر او (Statutury Regulatory Orders) کے ذریعے دیے جارہے ہیں۔ ان کا دروازہ اگر سختی سے بند کردیا جائے تو ٹیکس کا موجودہ نظام ملک کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے کافی ہے۔ لیکن یہ راستہ اختیار نہیں کیا جا رہا۔
  • تیسرا مسئلہ ٹیکس دینے والوں کی تعداد میں وسعت کا ہے۔ یہ ضرور ہونا چاہیے لیکن یہ مقصد سیلزٹیکس کے مجوزہ قانون سے حاصل ہونا محال ہے۔ یہ ٹیکس ایک بالواسطہ ٹیکس ہے جو امیر اور غریب سب پر اشیا کی قیمتوں میں اضافے کے ذریعے لاگو ہوتا ہے اور ۷۵ فی صد غریب عوام پر پڑتا ہے۔ ٹیکس دینے والوں کی تعداد میں وسعت براہِ راست ٹیکس (direct taxes) کی وصولی سے ہوتی ہے جس کی کوئی فکر نہیں۔ یہ صحیح ہے کہ اس وقت ۱۸کروڑ انسانوں میں سے صرف ۱۸لاکھ، یعنی ایک فی صد انکم اور کورپوریٹ ٹیکس دے رہے ہیں۔ بلاشبہہ براہِ راست ٹیکس ادا کرنے والے لوگوں کی تعداد موجودہ معاشی حالات میں ۷۰ اور ۸۰ لاکھ سے کم نہیں ہونا چاہیے۔ ان کو ٹیکس دینے والوں کے دائرے میں لایئے۔

اس سلسلے میں سب سے اہم طبقات بڑے زمین دار اور جاگیردار ہیں جو انکم ٹیکس سے عملاً مستثنیٰ ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ ملک کی آبادی کا نصف سے زیادہ زراعت پر منحصر ہے۔ قومی آمدنی میں زراعت کے سیکٹر کا حصہ ۲۲فی صد کے قریب ہے مگر ٹیکس میں ان کا حصہ صرف ۲ئ۱ فی صد ہے۔ اور ستم یہ ہے کہ اصل فائدہ اٹھانے والے دیہی آبادی کے ۹۵ فی صد عوام نہیں بلکہ وہ ۵ فی صد زمین دار ہیں جن کے ہاتھوں میں زیرکاشت رقبے کا ۵۰ فی صد ہے اور جن کے رہن سہن کا انداز بادشاہوں جیسا ہے جو دیہات میں نہیں شہروں میں بھی محلات کے مالک ہیں۔ گیلانی صاحب کی حکومت نے یک قلم گندم کی قیمت خرید میں ۴۵۰ روپے فی من سے بڑھا کر ۹۵۰ روپے فی من کا جو اضافہ کیا تھا اس سے زرعی سیکٹر کی آمدنی میں ۳۸۰ ارب روپے کا اضافہ ہوا جس کا کم از کم ۷۵ فی صد ان ۶ ہزار زمین دار خاندانوں کے حصے میں آیا، جو بڑے بڑے رقبوں (farms) کے مالک ہیں مگر اس سے ایک روپیہ بھی قومی خزانے میں نہیں آیا، اس لیے کہ زرعی آمدنی، خواہ کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو انکم ٹیکس سے مستثنیٰ ہے۔ اسی طرح  زمین اور عمارات کی خریدفروخت اور capital gains وہ میدان ہیں جہاں دولت کی ریل پیل ہے اور ٹیکسوں کا فقدان۔ بڑے بڑے پیشہ ور ماہرین  بھی اپنے حصے کا ٹیکس  ادا نہیں کر رہے۔ متوسط طبقے میں تاجروں، آڑھتیوں کا اور ٹرانسپورٹروں کا بڑا طبقہ ہے جو ٹیکس کے دائرے سے باہر ہے۔ مجوزہ ٹیکسوں میں ان کو ٹیکس کے دائرے میں لانے کی کوئی تدبیر نہیں بلکہ ان ۱۸ لاکھ افراد ہی پر ۱۰ فی صد کی مزید چٹی لگا دی گئی ہے جو طوعاً وکرہاً ٹیکس ادا کررہے ہیں۔

یہ بات بھی قابلِ غور ہے سیلزٹیکس کے نئے قانون کے ذریعے یہ ٹیکس جن اداروں اور تجارتی کمپنیوں پر لاگو ہوگا ان کی استثنا کی حد کو ۵۰لاکھ سے بڑھا کر ۷۵ لاکھ روپے کی سالانہ کاروباری حجم پر کر دیا گیا ہے۔ گویا ماضی میں بہت سے ایسے ادارے جو ٹیکس کے نیٹ میں تھے ان کے نکلنے کا راستہ کھل گیا ہے۔ اس سے ٹیکس نیٹ میں اضافہ ہوگا یا کمی، یہ بھی دیکھنے کی بات ہے۔

ٹیکس کے دائرے میں نادہندہ افراد اور اداروں کو لانے کا ایک معروف طریقہ یہ ہے کہ قانونی اور انتظامی تدابیر کے ساتھ اس کے لیے محرکات (incentives) فراہم کیے جاتے ہیں۔ نیز ٹیکس دائرے میں لانے کے لیے ایسے آسان طریقے اختیار کیے جاتے ہیں جن سے کاروباری اداروں کو وحشت نہ ہو۔ خود تشخیصی کا طریقہ اس سلسلے کا اہم اقدام ہے۔ سب سے بڑھ کر اس کے لیے جو راستہ اختیار کیا جاتا ہے وہ ٹیکس کی شرح کو بہت معمولی رکھنا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس میں آجائیں اور زیادہ تکلیف بھی نہ محسوس کریں۔ ٹیکس کی شرح کو اُونچا رکھنے کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ اس سے ٹیکس سے فرار کو ترغیب ملتی ہے۔ انگلستان میں جب ۳۰سال پہلے VAT لگایا گیا   تو اوّل اوّل اس کی شرح صرف ۳ فی صد تھی جسے کاروباری دنیا نے بخوشی قبول کرلیا۔ ۳۰سال   کے عرصے میں آہستہ آہستہ اس کو بڑھا کر ساڑھے ۱۷ فی صد تک لے جایا گیا مگر ساتھ ہی   اشیاے خوراک، بچوں کی تمام ضروریات، تعلیم اور ادویات کو ٹیکس سے باہر رکھا گیا۔ ہمارے یہاں آغاز ہی ۱۵ فی صد سے ہوتا ہے اور توقع کی جاتی ہے کہ ٹیکس نیٹ میں لوگ بہ آسانی آجائیں گے۔ اسے کیا کہا جائے؟

  • چوتھی چیز کا تعلق دستاویز بندی سے ہے۔ یہاں بھی ہماری مشکل یہ ہے کہ ہم اس کے حق میں ہیں لیکن جو راستہ موجودہ حکومت نے اختیار کیا ہے وہ اس طرف لے جاتا ہوا نظر نہیں آتا۔ یہ کام افہام و تفہیم اور ٹیکس کے ایک سہولت اور تعاون پر مبنی نظام سے ہوسکتا ہے۔ جنرل پرویز مشرف اور شوکت عزیز صاحب نے بھی دو ماہ دستاویز بندی کے نام پر ملک کی پوری معاشی زندگی کو درہم برہم کر دیا تھا اور ہمیں شبہہ ہے کہ موجودہ حکومت کا تجربہ بھی زیادہ مختلف نتائج دکھاتا نظر نہیں آرہا۔

قومی وسائل کا بے دردی سے استعمال

انکم ٹیکس اور ایکسائز ڈیوٹی میں اضافے کی مخالفت ہم اس لیے کر رہے ہیں کہ یہ بوجھ  عوام کی برداشت سے باہر ہے اور اس کا سارا بوجھ ان لوگوں پر پڑے گا جو ٹیکس ادا کر رہے ہیں۔ وزیرخزانہ نے سینیٹ میں اپنی تقریر میں بڑے استہزائی انداز میں فرمایا کہ جن کی آمدنی ۳لاکھ روپے سالانہ ہے ان پر چھے مہینے میں محض ۱۵۰ روپے کا بوجھ پڑے گا۔ اس پر اتنی آہ و بکا چہ معنی؟

ہم عرض کریں گے کہ صرف ۱۵۰ نہیں، لوگ اس سے ۱۰ گنا دینے کو تیار ہیں اور عملاً سرکاری مشینری سے باہر اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کی مدد کے لیے دے رہے ہیں لیکن وہ اس حکومت کو مزید ٹیکس ادا کرنے کے لیے اس لیے تیار نہیں ہیں کہ اس کا صدر، اس کا وزیراعظم، اس کا وزیرخزانہ، اس کی خزانہ کی وزیرمملکت اور کابینہ کے دو درجن سے زیادہ وزرا لاکھوں نہیں کروڑوں اور کچھ تو اربوں کے اثاثے رکھنے کے باوجود انکم ٹیکس کی مد میں کچھ بھی نہیں دے رہے ہیں یا مضحکہ خیز حد تک نمایشی ٹیکس دے رہے ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ اس بات کا اطلاق پارلیمنٹ کے دوسرے بہت سے ارکان اور ملک کے اربابِ ثروت پر بھی ہوتا ہے۔ اس لیے یہ بات سمجھنے کی ہے کہ سیلاب کے نام پر اضافے پر اعتراض کی اصل وجہ اعتماد کا فقدان ہے جو حکمرانوں اور عوام کے درمیان ہے۔ نیز اربابِ اقتدار اور اربابِ دولت کا وہ رویہ ہے جس کی رُو سے وہ فوائد سارے اُٹھا رہے ہیں اور ملک اور خزانے کا حق ادا نہیں کر رہے۔ ۱۰۰ وزیروں کی کابینہ کا کیا جواز ہے؟ سندھ اور بلوچستان کے دسیوں وزیر ہیں جن کا کوئی عہدہ نہیں لیکن وہ مراعات لے رہے ہیں۔ بلوچستان میں اسمبلی کے ۶۲ارکان میں سے ۶۰ وزیر یا مشیر ہیں۔ ایوانِ صدر اور ایوانِ وزیراعظم کاسرکاری خزانے سے یومیہ خرچہ ۱۳ لاکھ روپے ہے، جب کہ آبادی کے ۴۰ فی صد کی یومیہ آمدنی ۸۵ روپے اور ۷۵ فی صد کی ۱۵۰ روپے سے کم ہے۔

سیلاب زدگان اور دوسرے مصیبت زدہ افراد کی مدد کے لیے ہیلی کوپٹر مفقود ہیں یا امریکا سے قرض پر حاصل کیے جاتے ہیں، جب کہ وی وی آئی پیز کے لیے دو درجن سے زیادہ جہاز اور ہیلی کوپٹر موجود ہیں جن کو ذاتی اغراض کے لیے بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ اعزہ اور دوستوں کو دعوتوں میں لانے کے لیے یہ جہاز گردش کرتے ہیں۔ پھر جو رقم یہ قوم اپنا پیٹ کاٹ کر حکومت کے خزانے میں دیتی ہے اس کا ناجائز اور ناروا استعمال ہے۔ زندگی کے ہرشعبے میں کرپشن ہے جس کا محتاط ترین اندازہ ۱۰۰۰ ارب روپے سالانہ سے زیادہ کا ہے۔ سرکاری کارپوریشنوں کا ۴۰۰ ارب روپے سالانہ کا خسارہ اس ظلم کا منہ بولتا ثبوت ہے جو اس ملک کے عوام پر کیا جا رہا ہے۔ اس پر مستزاد مہنگائی ہے جس کے عمومی انڈکس میں پچھلے پونے تین سال میں ۵۰ فی صد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے اور اشیاے ضرورت میں تو یہ اضافہ ۱۰۰ فی صد سے زیادہ ہے۔ بجلی کے نرخ میں    ۱۲۰ فی صدکا اضافہ ہے، اور لوڈشیڈنگ اس پر مستزاد۔

حکومت قرض آنکھیں بند کرکے لے رہی ہے۔ ان پونے تین سالوں میں ملک کے اندرونی قرضوں میں ۴ ہزار ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے، جب کہ گذشتہ ۶۰ سال میں ملا کر یہ  مجموعی رقم ۴۸۰۰ارب روپے ہے۔ اس طرح بیرونی قرضوں میں صرف اس حکومت کے دور میں ۵ئ۱۵ ارب ڈالر کا اضافہ ہوا اور آج صرف سود کی مد میں اس قوم کو ۷۱۷ ارب روپے سالانہ     ادا کرنے پڑرہے ہیں۔ اسی طرح ان پونے تین سالوں میں ۱۵۴۵ صنعتیں بند ہوئی ہیں اور    بے روزگاری میں اضافے کی رفتار ساڑھے سات فی صد سے بڑھ کر ۱۳ اور ۱۴ فی صد تک ہوگئی ہے۔ غربت میں اضافہ ہوا ہے اور لوگ خودکشی اور اولاد فروشی پر مجبور ہورہے ہیں___ یہ ہیں ملک کے اصل مسائل اور وزیرخزانہ فرماتے ہیں کہ ۱۵۰ روپے کیا ہوتے ہیں۔ انقلابِ فرانس سے پہلے بھی ایسے ہی حالات تھے جب ملکۂ فرانس نے کہا تھا کہ ’’یہ عوام روٹی کے لیے کیوں چیخ و پکار کر رہے ہیں، روٹی نہیں ملتی تو کیک کھا لیں!‘‘

سیلزٹیکس کے قانون پر اعتراضات

سیلزٹیکس کا جو قانون لایا گیا ہے اس پر ہمارا اصل اعتراض یہ ہے کہ یہ ایک بالواسطہ ٹیکس ہے جو پیچھے کی طرف لے جانے والا (regressive) ہے۔ اس کا زیادہ بوجھ غریب عوام پر پڑے گا جس کے نتیجے میں مہنگائی بڑھے گی، پیداوار کی لاگت میں اضافہ ہوگا اور بین الاقوامی منڈیوں میں ہماری صلاحیت کار بری طرح متاثر ہوگی۔ اس وقت بھی ٹیکس کی کُل آمدنی میں بالواسطہ ٹیکس کا تناسب ۶۲ فی صد ہے جو نئے ٹیکس کے بعد خدشہ ہے کہ بڑھ کر ۶۵سے ۷۰ فی صد ہوجائے گا جو عوام کی کمر توڑ دے گا، اور دولت کی غیرمساویانہ تقسیم کو اور بھی غیر مساوی اور غیرمنصفانہ کردے گا۔ معاشیات کا یہ ایک مسلّمہ اصول ہے کہ بالواسطہ ٹیکس غریبوں کے لیے بوجھ اور دولت مندوں کے لیے مراعات فراہم کرنے کا ذریعہ ہیں۔

ہمارا دوسرا اعتراض یہ ہے کہ سیلزٹیکس کے اس نظام میں معاشرے کے مختلف طبقات اور مختلف آمدنیوں والوں کے استعمال کی اشیا میں جو فرق کرنا ضروری تھا وہ مفقود ہے۔

دنیا کے جن ممالک میں سیلزٹیکس یا VAT رائج ہے ان میں سے ایک بڑی تعداد، یعنی تقریباً ۷۰ میں اشیاے ضرورت اور عام اشیا، بچوں کے استعمال کی چیزیں، تعلیم اور صحت سے متعلقہ اشیا میں فرق کیا جاتا ہے۔ نہایت ضروری اشیا کو غریب ہی نہیں ترقی پسند ممالک میں بھی ٹیکس سے مکمل استثنا دیا جاتا ہے۔ دوسری ضروری اشیا پر ٹیکس کی شرح کم ہوتی ہے، جب کہ باقی تمام اشیا اور خدمات پر ٹیکس زیادہ اُونچی شرح سے لگایا جاتا ہے۔ مگر ہماری حکومت نے چند اشیا کے استثنا کے بعد تمام اشیا اور خدمات پر ۱۵ فی صد کی نہایت اُونچی شرح سے ٹیکس عائد کیا ہے۔ اس وقت جو ۷۰۰ اشیا ٹیکس سے مستثنیٰ تھیں ان میں ۵۵۰ کو ٹیکس کے نظام میں لے آیا گیا ہے، نیز معیشت کے پانچ بڑے سیکٹر بشمول ٹیکسٹائل انڈسٹری، لیدر انڈسٹری، کارپٹ انڈسٹری، سپورٹس اور سرجیکل انسٹرومنٹ کی صنعتوں کو اس کے دائرے میں بیک جنبش قلم لے آیا گیا ہے۔ اور یہ کام بھی کسی تدریج سے نہیں کیا گیا بلکہ بیک وقت  ۱۵ فی صد ٹیکس لگا دیا گیا ہے۔ ا س سے معاشی بھونچال اگر نہ آئے توکیا ہو، اور مہنگائی کے طوفان میں مزید سیلابی کیفیت پیدا نہ ہو تو کیا ہو۔

ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں بھی سیلزٹیکس کا ایسا ہی نظام رائج ہے لیکن اسے نافذ کرنے کے لیے کئی سال افہام و تفہیم کا سلسلہ جاری رہا اور قومی اور صوبائی اتفاق راے پیدا کرکے نافذ کیا گیا، نیز اس کی تین شرح ہیں۔ قیمتی جواہرو زیورات کے لیے ایک فی صد، اشیاے ضرورت کے لیے ۴فی صد اور عام اشیا پر ساڑھے ۱۲ فی صد۔ ترقی پذیر ممالک میں بالعموم اس کی شرح کم ہے، مثلاً مصر میں ۱۰ فی صد، ایران میں ۳ فی صد، انڈونیشیا میں اشیاے ضرورت پر ۵ فی صد اور باقی اشیا پر ۱۰ فی صد، ملائشیا میں ۱۰ فی صد، جنوبی کوریا میں ۱۰ فی صد، سنگاپور میں ۷ فی صد، سری لنکا میں اشیاے ضرورت پر ۴ئ۲ فی صد، ہوٹل سیکٹر پر ۶ئ۳ فی صد اور عام اشیا پر ۱۲ فی صد۔ تھائی لینڈ میں ۷فی صد، تائیوان میں ۵ فی صد، ویت نام میں اشیاے ضرورت پر ۵ فی صد اور عام اشیا پر ۱۰فی صد۔

ترقی یافتہ ممالک میں کچھ ممالک میں یہ ۲۰ بلکہ ۳۰ فی صد تک ہے لیکن وہاں بھی اشیاے ضرورت اور عام اشیا میں بالعموم فرق کیا گیا ہے اور ایسی مثالیں بھی ہیں کہ شرح ٹیکس کو بہت کم اور معقول رکھا گیا ہے، مثلاً جاپان میں ۵ فی صد، سوئٹزرلینڈ میں ۸ئ۳ اور ۸ فی صد۔ فرانس میں ۱ئ۲ فی صد، ۵ئ۵ فی اور ۶ئ۱۳ فی صد، آئرلینڈ میں ۸ئ۴ اور ۵ئ۱۳ فی صد۔ لکسمبرگ میں ۳، ۶، ۹، ۱۲ فی صد اور ۱۵ فی صد، یعنی پانچ کیٹگریاں بنائی گئی ہیں۔ آسٹریلیا میں ۱۰ فی صد اور کینیڈا میں ۵ فی صد ہے۔

افسوس ہے کہ ہماری معاشی ٹیم کی نگاہ دنیا کے ان کامیاب تجربات پر نہیں اور وہ آئی ایم ایف کے احکام کے دبائو میں ملکی معیشت کے حالات کو نظرانداز کرتے ہوئے واحد شرح اور وہ بھی اتنی زیادہ، یعنی ۱۵ فی صد کا راستہ اختیار کر رہی ہے حالانکہ ماہرین معاشیات کی عظیم اکثریت یہ کہتی ہے: ’’جن ممالک میں آمدنیوں میں بہت زیادہ فرق ہیں، وہاں یکساں شرح مناسب نہیں‘‘۔

ٹیکس نظام بدلنے کی ضرورت

ہماری نگاہ میں ٹیکس کے سلسلے میں دو فیصلہ کن اور اہم ترین ایشو یہ ہیں کہ ٹیکس کے نظام کو بدلنے کی ضرورت ہے تاکہ ڈائرکٹ ٹیکس بڑھیں جن میں انکم ٹیکس کے دائرے کو مؤثر کرنا،    ویلتھ ٹیکس کے ایسے نظام کی تشکیل جو دولت مند اشرافیہ کو ٹیکس کی گرفت میں لاسکے۔ عام کاشتکار نہیں، زرعی آمدنی سے فیض یاب ہونے والے بڑے زمین داروں، وڈیروں اور جاگیرداروں کو ٹیکس کے دائرے میں لانے کے اقدامات، بازار حصص میں سرمایہ کاری کے منافع پر ٹیکس، ایک حد سے زیادہ پر جایداد ٹیکس، نیز جایداد کے کاروبار پر ٹیکس، ٹرانسپورٹ سیکٹر اور ٹیلی کمیونی کیشن کے دائرے کو ٹیکس کے منصفانہ نظام میں لانا وقت کی ضرورت ہے۔

دوسری چیز یہ ہے کہ بالواسطہ ٹیکسوں میں بھی اشیاے ضرورت اور عام اشیا، زرعی آلات اور انرجی پر اخراجات کو معقول حدود میں رکھنے کے لیے اشیا اور خدمات پر ٹیکس کا وہ نظام رائج کرنا جو متعدد شرحوں کے اصول پر مبنی ہو نہ کہ واحد شرح کا نظام جو ہمارے حالات سے مطابقت    نہیں رکھتا۔

آخر میں ہم ایک بات یہ بھی کہنا چاہتے ہیں کہ اس ٹیکس کو نافذ کرنے کے لیے حکومت اور ایف بی آر کے لیے جس تیاری اور capacity buildingکی ضرورت تھی، اسے مجرمانہ حد تک نظرانداز کیا گیا ہے۔ اسی طرح تجارتی اور صنعتی کمیونٹی اور معیشت کے دوسرے اسٹیک ہولڈرز کو افہام و تفہیم کے کسی نظام میں لائے بغیر اور پارلیمنٹ، عوام اور معیشت کے کرتا دھرتا افراد میں اتفاق راے پیدا کیے بغیر اسے ملک پر مسلط کیا جا رہا ہے، حتیٰ کہ پارلیمانی آداب اور قواعد تک کو نظرانداز کرکے سینیٹ میں اسے بل ڈوز کیا گیا، اور اب قومی اسمبلی کے لیے سودے بازی، لین دین یعنی wheeling dealingکا ایک مکروہ کاروبار ہے جو جاری ہے۔ یہ طریقہ پالیسی سازی اور حکمرانی کا نہیں۔ نیز اٹھارھویں ترمیم کے ذریعے صوبوں کی خودمختاری کے سلسلے میں جو دستوری ترامیم کی گئی ہیں اور دستور کی دفعہ ۱۴۴ کے جو تقاضے تھے وہ بھی پورے نہیں کیے گئے ہیں۔ دھونس اور  بلیک میلنگ کے ذریعے جو قانون سازی کی جائے گی اس کا انجام بڑا تباہ کن ہوگا۔ ہم پوری دردمندی سے حکمرانوں سے اپیل کرتے ہیں کہ ہوش کے ناخن لیں، مشاورت کے ذریعے اتفاق راے      پیدا کرنے کی کوشش کریں، مرکز اور صوبوں میں مکمل ہم آہنگی پیدا کریں، بیرونی دبائو کے تحت پالیسی سازی نہ کریں، بلکہ ملک کے معروضی حالات کو سامنے رکھ کر وہ راستہ اختیار کریں جس سے ملک موجودہ معاشی بحران سے نکل سکے۔

حقیقت یہ ہے کہ اس قانون کے نفاذ کے لیے آج کے حالات قطعاً ناموزوں ہیں۔ جب معیشت بحران کا شکار اور کساد بازاری کے دہانے پر ہو، اس وقت ایسے قوانین کو نافذ نہیں کیا جاتا۔ ہاں، جب معیشت ترقی کے راستے پر گامزن ہو تو نئے ٹیکسوں کے لگائے جانے کے لیے فضا سازگار ہوسکتی ہے۔ وسائل کے حصول کے لیے متبادل راستے موجود ہیں۔ اخراجات کی کمی، نئے وسائل کی تلاش، کرپشن اور ٹیکس سے فرار کے دروازے کو بند کرکے وہ وسائل حاصل کیے جاسکتے ہیں جو سیلاب کی تباہ کاریوں کا مقابلہ کرنے کے لیے درکار ہیں اور جو ملک کو قرضوں کے نظام سے نجات اور خودانحصاری کی طرف گامزن کرسکتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے سب سے پہلے صحیح وژن کی ضرورت ہے۔ باصلاحیت اور ایمان دار ٹیم ہی یہ کام کرسکتی ہے۔ قیادت کو اپنے رنگ ڈھنگ کو بدلنا ہوگا۔ جو لوگ ملکی وسائل کو لوٹ رہے ہیں یا جن کی دولت ملک سے باہر ہے اور ان کی دل چسپیاں محض اپنی جیب بھرنے اور اپنوں کو نوازنے میں ہیں، ان سے نجات ضروری ہے۔ ہمارا اصل مسئلہ وسائل کی کمی نہیں، بددیانت اور نااہل قیادت ہے جس نے ایک وسائل سے مالا مال ملک کو کنگال کر دیا ہے اور آج بھی صحیح منزل اور صحیح ترجیحات کو اختیار کرنے کے لیے تیار نہیں۔ قوم کے سامنے آج اصل سوال یہی ہے کہ کیا یہ قیادت اپنے کو بدلنے کو تیار ہے؟ اور اگر نہیں تو پھر اس کو بدلے بغیر بحران سے نکلنے کا کوئی اور راستہ نہیں     ؎

یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے

صنم کدہ ہے جہاں، لا الٰہ الا اللہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

۲۰ تا ۲۲؍اکتوبر ۲۰۱۰ء واشنگٹن میں پاکستان اور امریکا کے درمیان ’اسٹرے ٹیجک مذاکرات‘ کے نام سے جاری بات چیت کا تیسرا دور منعقد ہوا، جس میں پاکستانی وفد کی قیادت وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے انجام دی ہے۔ ۱۳ وزارتوں کے نمایندوں (بشمول پانچ وزرا) نے ان مذاکرات میں شرکت کی ہے لیکن پاکستان کی جانب سے کلیدی کردار بری افواج کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی ہی نے ادا کیا ہے۔

جنرل صاحب حسب معمول خاموش ہیں، لیکن پاکستانی وزیرخارجہ اور وزیر اطلاعات پھولے نہیں سما رہے اوریہ دعویٰ تک کر رہے ہیں کہ: ’’ہمیشہ امریکا ہمیں سناتا اور مطالبات کرتا تھا، لیکن اب وہ ہماری بھی سن رہا ہے اور ہم نے ’برابری کی بنیاد‘ پر بات چیت کی ہے‘‘۔ ایک وزیرصاحب نے ارشاد فرمایا:  ’’امریکا ہمیں کمزور نہیں دیکھنا چاہتا‘‘۔ ایک اور شریکِ سفر وزیر کا فرمانا ہے: ’’امریکا ملک کے شمال مغربی علاقے میں دو چھوٹے ڈیم بنانے کے مصارف برداشت کرے گا‘‘، اور سب ہی آواز میں آواز ملا کر کہہ رہے ہیں: ’’ان مذاکرات کے نتیجے میں پاکستان اور امریکا کے تعلقات کو نئی زندگی اور تقویت میسر آئی ہے‘‘۔

ملک کے کم و بیش تمام اخبارات نے اپنے ادارتی تبصروں میں، حزبِ اختلاف کے   تمام قائدین نے بیانات کے ذریعے، اور ٹی وی کے معروف ٹیلی میزبانوں میں سے بیش تر نے اپنے تجزیاتی پروگراموں میں ان دعووں کو بڑی حد تک ہوائی باتیں اور حقیقت سے عاری اور خوش فہمی پر مبنی خام خیالیاں قرار دیا ہے۔ امریکا سے پاکستان کے خارجہ تعلقات کی تقریباً ۶۰برسوں پر پھیلی ہوئی تاریخ کی روشنی میں اس دعوے کو تسلیم کرنے کے لیے کوئی بنیاد موجود نہیں ہے کہ پاک امریکی تعلقات محض وقتی اور مالیاتی لین دین کے مرحلے (transanctional framework) سے نکل کر اب زیادہ اصولی، دیرپا اور بنیادی نوعیت کے تعاون میں داخل ہوگئے ہیں، جسے بین الاقوامی تعلقات کی اصطلاح میں برابری کے اسٹرے ٹیجک تعلقات کہا جاتا ہے۔ زبانی کلامی ایسے دعووں کا آغاز بش کے آخری دور میں ہوگیا تھا، مگر اس کو ایک متعین شکل اب صدر اوباما کے دور میں دی جارہی ہے اور عملاً اس کا آغاز فروری ۲۰۱۰ء سے ہوا ہے۔ حالیہ مذاکرات اس سلسلے کی تیسری کڑی ہیں اور چوتھا رائونڈ ۲۰۱۱ء کے آغاز میں متوقع ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ زیادہ گہرائی میں جاکر پاکستان اور امریکا کے تعلقات کی اصل حقیقت کو متعین کریں، تاکہ قوم، پارلیمنٹ، میڈیا اور اگر  اللہ توفیق دے تو موجودہ قیادت حالات کا صحیح صحیح ادراک کرسکے اور اس کی روشنی میں سیاسی، عسکری، معاشی اور تہذیبی حکمت عملی کی صورت گری کرے۔

خارجہ پالیسی کا مسلّمہ اصول

ویسے تو خارجہ تعلقات کا ایک مسلّمہ اصول یہ ہے کہ بین الاقوامی تعلقات میں نہ دوست مستقل ہوتے ہیں اور نہ دشمن، مستقل اور دائمی اگر کوئی چیز ہے تو وہ صرف مفادات ہیں۔ اس لیے ایک ملک کی خارجہ پالیسی انھی مفادات کے گرد گردش کرتی ہے۔ البتہ ان مفادات کے تعین میں متعلقہ ملک کے عالمی اور علاقائی مقاصد اور اہداف، اس کے سیاسی اور معاشی عزائم اور اس کی معاشی، عسکری اور سیاسی قوت پر مشتمل عناصر کارفرما ہوتے ہیں۔ ہمہ وقت بنتے اور بدلتے تعلقات پر جہاں وقتی عناصر اور تقاضے اثرانداز ہوتے ہیں، وہیں کچھ دیرپا تعلقات اور روابط بھی ہیں جو لنگر کی حیثیت اختیار کرلیتے ہیں، اور ان کا انحصار بھی مقاصد کی ہم آہنگی، اقدار میں اشتراک اور مفادات کی یکسانی پر ہوا ہے اور انھی کی بنیاد پر ایک تعمیری یا افادی انداز میں تزویراتی (strategic) شراکت وجود میں آتی ہے۔

نظری طور پر ایسی حکمت عملی کے تصور کا شجرہ نسب یونان کے مفکرین سے جا ملتا ہے۔ یونانی زبان میں اس کا اصل مفہوم generalship ہے، جس کے معنی جنگ میں اعلیٰ ترین سطح پر مقاصد اور حکمت عملی مرتب کرنے کا نظام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسٹرے ٹیجی [حکمت کاری]کا تصور فلسفۂ جنگ کا ایک کلیدی تصور رہا ہے اور وہیں سے یہ علمِ سیاست اور بین الاقوامی تعلقات میں داخل ہوا اور پھر تزویراتی ہیکل یا strategic structure خود ایک مستقل مضمون بن گیا۔ دورِ حاضر میں جنگ اور اس کی صورت گری کرنے والے داخلی اور خارجی عوامل، اور خود جنگ کی حکمت عملی اور اس حکمت عملی کو عمل کا روپ دینے اور معاملات کا گہرائی کے ساتھ جس شخص نے مطالعے کا آغاز کیا ہے، وہ  ایک جرمن فوجی کمانڈر اور استاد کارل وون کلازے ویٹز (۱۸۳۳ئ-۱۷۸۰ئ) ہے، جس کی کتاب On Warایک کلاسیک کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس میں اس نے اسٹرے ٹیجی اور چال (tactic) کے فرق کو نمایاں کیا ہے۔ تزویری حکمت عملی کا تعلق مقصد اور اصل جنگی اہداف سے ہے، جب کہ ٹیکٹک ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے استعمال کیے جانے والے ذرائع، اعمال اور تنفیذی اقدام سے متعلق ہیں۔ گذشتہ دو صدیوں میں ملٹری سائنس، علمِ سیاسیات اور بین الاقوامی تعلقات میں اپنے اپنے انداز میں ان تصورات کو مزید نکھارا گیا اور اسٹرے ٹیجی میں بھی ’عظیم تر اسٹرے ٹیجی‘ اور ’عملی اسٹرے ٹیجی‘ کی درجہ بندی کی گئی۔ پھر جنگ، سرد جنگ، توازن، قوت وغیرہ کے پس منظر میں ان تصورات کو مزید ترقی دی گئی۔۱؎

خارجہ سیاست کے ان مباحث کی روشنی میں اگر دیکھا جائے، تو ایک عالمی طاقت کی حیثیت سے امریکا کے اسٹرے ٹیجک تعلقات صرف تین ممالک سے ہیں، یعنی برطانیہ، جو اب ایک صدی پر محیط ہیں، اور اسرائیل اور ناٹو ممالک جو تقریباً ۶۰ سال کے نشیب و فراز دیکھ چکے ہیں۔ دنیا کے باقی ممالک سے اس کے تعلقات محض کاروباری معاملہ فہمی  کی حد تک رہے ہیں اور مفادات کی دھوپ چھائوں کے مطابق اس میں تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں، جس کی زیادہ تر حیثیت آنکھ مچولی کی رہی ہے۔ کلنٹن کی صدارت کے دور میں بھارت سے امریکا کے تعلقات کو کاروباری سطح سے بلند کرکے اسے اسٹرے ٹیجک تعلقات کی طرف لے جانے کا آغاز ہوا۔ گذشتہ ۱۰، ۱۵ برسوں میں آہستہ آہستہ معاشی، عسکری اور سیاسی میدانوں میں اس سمت میں پیش رفت ہوئی، جسے بالآخر صدبش کے دور میں ۲۰۰۶ء میں نیوکلیر تعاون کے معاہدے کے ذریعے اسٹرے ٹیجک پارٹنرشپ کی شکل دے دی گئی۔ امریکا میں بھارتی کمیونٹی نے بھی اس سلسلے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔   اب صورت حال یہ ہے کہ صدراوباما کی حکومت کے ایک درجن سے زیادہ کلیدی مناصب پر بھارتی نژاد امریکی رونق افروز ہیں۔ بھارت اور امریکا کی تجارت کا حجم اس وقت ۶۱ ارب ڈالر سالانہ ہے۔ پھر بھارت اور امریکا کی براہِ راست سرمایہ کاری ۱۶ ارب ڈالر سالانہ سے متجاوز ہے۔ امریکا سے کمپیوٹر ٹکنالوجی کی ہر پانچ کمپنیوں میں سے دو بھارت میں اپنا کام پھیلا چکی ہیں اور دفاعی میدان میں اسلحے کی خریداری، بھارتی مسلح افواج کی جنگی تربیت اور مشترکہ شعبوں میں تعاون کے لیے حیرت انگیز حد تک اضافہ ہو رہا ہے۔ بھارت نے اگلے  پانچ سال کے لیے جس ۱۰۰ ملین ڈالر کی جنگی خریداریوں کا منصوبہ بنایا ہے، اس کا بڑا حصہ امریکا اور اسرائیل سے حاصل کیا جانا ہے۔ بھارت اور امریکا کا نیوکلیر تعاون کوئی حادثاتی یا وقتی تعاون کا معاہدہ نہیں ہے، بلکہ ہموار تعلقات کا ایک حصہ ہے، جس میں بھارت کو چین کے مقابلے ایک علاقائی سوپر پاور سے بڑھ کر ایک عالمی  جنگی کھلاڑی کے کردار پر مامور کرنے کی مشترک حکمت عملی کا حصہ ہے۔ افغانستان میں بھی بھارت کے کردار کا معاملہ اسی ’عظیم تر حکمت عملی‘ کا ایک پہلو ہے۔

اس پس منظر میں پاکستانی قوم اور قیادت دونوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ حقیقت پسندی کے ساتھ پاکستان اور امریکا کے تعلقات کے حال اور مستقبل کے امکانات کا صحیح صحیح ادراک کرے، اور محض خوش فہمیوں، سر ٹکرانے کی مشقوں اور خوش نما مگر بے معنی الفاظ کے طلسم کا شکار ہوکر،  اسٹرے ٹیجک مغالطوں اور دھوکوں کی دلدل سے ملک و قوم کو محفوظ رکھے۔ حال اور مستقبل کا کوئی مبنی برحقیقت نقشہ ماضی کے تجربات کی روشنی میں عالمی اور علاقائی حالات کو سمجھے بغیر بنانا ممکن  نہیں ہے۔

پاک امریکا تعلقات: تاریخی پس منظر

پاکستان نے اپنے قیام کے فوراً بعد امریکا کے جمہوری دعووں اور سامراج کی گرفت سے آزاد ہونے والے ممالک کی تحریکاتِ آزادی کے بارے میں امریکی قیادت اور دانش وروں کے اعلانات کی روشنی میں معاشی تعاون اور سیاسی دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔ خود قائداعظم نے میرلائق علی کے ذریعے امریکی صدر کو خصوصی پیغام بھیجا، لیکن اس کا کوئی بامعنی ردعمل رونما نہ ہوا۔ پھر جب  خان لیاقت علی خاں کو اشتراکی روس کے دورے کی دعوت ملی تو امریکا نے نہ صرف ان کو دورے کی دعوت دے دی، بلکہ اس کے لیے سیاسی چال بازی سے بھی کام لیاجس کے نتیجے میں روس کا دورہ منسوخ اور امریکا کا دورہ کرنا منظور ہوا۔ اس دورے کے نتیجے میں عملاً کچھ حاصل کیے بغیر ہم اپنے اڑوس پڑوس میں روس سے دُور اور ہزاروں کلومیٹر دُور امریکا کے کیمپ کی طرف سرکنے بلکہ لڑھکنے لگے۔ اس موقع پر امریکا نے ایک نئی چال چلی، جس کے بڑے دور رس اثرات پاکستان کی پوری تاریخ، اس کے بین الاقوامی تعلقات کے رُخ اور سب سے بڑھ کر ملک کی اندرونی سیاست اور قومی سلامتی کی نئی صورت گری اور پاکستانی مسلح افواج کے سیاسی کردار کی شکل میں مرتب ہوئے۔ بلاشبہہ اس میں پاکستانی افواج کی اس وقت کی قیادت کے اپنے عزائم کا بھی ایک اہم کردار ہے، لیکن یہ معاملہ یک طرفہ نہیں تھا۔ تالی کے دونوں ہی ہاتھ سرگرم تھے۔ گویا ’’دونوں طرف تھی آگ برابر لگی ہوئی‘‘۔

پاکستان کے پہلے فیلڈمارشل محمد ایوب خان کا سرکاری سوانح نگار، ایک حاضرسروس لیفٹیننٹ کرنل، ان کی داستانِ حیات My Chiefمیں، جو ان کے دورِاقتدار ہی میں شائع ہوئی، لکھتا ہے:

پاکستان کے لیے امریکی فوجی امداد جنرل ایوب کی اقدامی کوشش سے ممکن ہوئی۔ یہ خیال ان کے دماغ میں آیا اور امریکا کے سیاسی اور فوجی قائدین سے ان کے مذاکرات کے نتیجے میں امریکی حکومت نے پاکستان کو باہمی دفاعی معاہدہ کرنے کی دعوت دی۔ (دیکھیے: My Chief، لیفٹیننٹ کرنل محمداحمد، ۱۹۶۰ئ، ص ۷۳-۷۴)

جنرل ایوب خان کی کوششوں سے پاکستان سیٹو (SEATO)  اور سنٹو (CENTO) کے جال میں پھنسا۔ دوسرے فوجی ڈکٹیٹر جنرل یحییٰ کے دورِ حکومت میں امریکا چین تعلق کا باب کھلا۔ تیسرے فوجی ڈکٹیٹر جنرل محمد ضیاء الحق کے زمانے میں فوجی اور معاشی تعاون نئی بلندیوں پر پہنچا۔ چوتھے فوجی ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف نے امریکا کی’ دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں پاکستان کو جھونک دیا، جس آگ میں افغانستان اور عراق کے ساتھ پاکستان بھی جل رہا ہے اور خصوصیت سے اس کے شمالی علاقے اور ان علاقوں میں بھی خصوصیت سے سوات، باجوڑ،شمالی اور جنوبی وزیرستان برستی آگ اور بہتے خون کی لپیٹ میں ہیں۔ اب ’اسٹرے ٹیجک تعلقات‘ کے عنوان سے اس آگ کو شمالی وزیرستان میں بھی بھڑکانے کے لیے ترغیب و ترہیب کا ہر حربہ استعمال کیا جارہا ہے اور ۲ارب ڈالر کے وعدۂ فردا پر مبنی فوجی امداد کا چکمہ بھی دیا گیا ہے۔

یہ تصویر کا ایک رُخ ہے، دوسرا اور اصل چہرہ یہ ہے کہ ہر دور میں پاکستان کو تو اپنے مقاصد کے لیے بے دریغ استعمال کیا گیا، لیکن جب بھی پاکستان پر کوئی کڑا وقت پڑا تو بے رُخی سے منہ دوسری طرف موڑ لیا گیا۔ جب ۱۹۶۵ء میں بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو اسی لمحے امریکا نے پاکستان کی فوجی اور اقتصادی امداد کو بند کر دیا حتیٰ کہ ان فاضل پرزوں سے بھی فوج کو محروم کر دیا گیا، جو ملک کی سیکورٹی کے لیے ضروری تھے۔ یہی ڈراما دسمبر ۱۹۷۱ء میں ہوا۔ پھر اپنی بدترین شکل میں افغانستان سے روسی فوجیوں کے انخلا کے معاً بعد نہ صرف افغانستان کو غیریقینی پن اور بدترین انتشار میں دھکیل دیا گیا اور پاکستان کو اس کے نتائج بھگتنے اور ۳۰لاکھ سے زائد مہاجرین کے بوجھ کو تن تنہا سنبھالنے کی آزمایش میں ڈال دیاگیا۔ یہی نہیں بلکہ چشم زدن میں امریکی صدر کو نیوکلیر پھیلائو میں پاکستان کا کردار بھی نظر آنے لگا اور اسے پوری بے دردی سے معاشی پابندیوں کا نشانہ بنا دیا گیا۔

یہی وجہ ہے کہ پاکستانی عوام امریکا کی دوستی کو محض مطلب براری کا ایک ڈھکوسلا سمجھتے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم (۴۵-۱۹۳۹ئ) کے بعد سے دنیا کے تقریباً ہر اس ملک سے، جسے امریکا نے اپنی دوستی کے جال میں پھنسایا ہے، اپنا کام نکالنے کے بعد ٹشوپیپر کی طرح پھینک دیا ہے۔ اس کا مقصد محض اپنے ایجنڈے کی تکمیل رہا ہے، کسی نوعیت کی حقیقی دوستی اور شراکت نہیں۔ امریکا کا کردار مفاد پرستی کے ساتھ ساتھ دوغلے پن، رعونت اور دوسروں کی تحقیر و تذلیل کا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے پاکستان کے عوام نے ۱۹۶۵ء کے بعد کبھی بھی امریکا کو اپنا دوست تصور نہیں کیا، حتیٰ کہ اس زمانے میں بھی جب افغان جہاد کے سلسلے میں امریکا، پاکستان اور عالمِ اسلام میں خاصی قربت تھی۔ عراق ایران جنگ کے دوران میں تو امریکا مخالف لاوا بری طرح پھٹ پڑا۔ تمام اسلامی ایشوز کے سلسلے میں امریکا کی پالیسیوں اور اس کی اسرائیل نوازیوں نے جلتی پر تیل کا کام کیا ۔

امریکا کے خلاف نفرت

۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے قابلِ مذمت واقعے کو جس طرح امریکا نے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا اور افغانستان، عراق، اور خود پاکستان کے علاقوں کو جنگ کا میدان بنا دیا، اس نے امریکا مخالف کے جذبات کو تقویت دی، اور ان مسلمان حکمرانوں کو بھی نفرت کا ہدف بنادیا، جو امریکا کا ساتھ اپنے عوام کے جذبات اور احساسات کے برعکس دے رہے تھے۔ ۲۰۰۲ء سے آج تک جتنے بھی سروے پاکستان، عالمِ اسلام اور تیسری دنیا میں ہوئے ہیں، ان میں آبادی کی عظیم اکثریت نے مسلمان ممالک بشمول پاکستان ۷۰ سے ۸۰ فی صد آبادی نے امریکا کی پالیسیوں، اس کے جارحانہ اقدامات، اور اس کے دوغلے پن پر شدید نفرت اور غصے کا اظہار کیا ہے۔ گیلپ کے سروے ہوں، یا پیوگلوبل کے، یا خود امریکی اداروں کے۱؎، ان سب کا حاصل امریکا کے خلاف شدید     بے زاری، اس کے سامراجی ایجنڈے کی مخالفت رہا ہے۔ مسلمان ممالک میں اس کی فوجی کارروائیوں کی شدید مذمت، امریکا اور اس کی ان پالیسیوں اور اقدام کو اپنی آزادی، سلامتی اور نظریاتی اور تہذیبی شناخت کے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھنا ہے۔ امریکا نے جو بھی کوشش مسلمانوں کے دل و دماغ میں کوئی خوش گوار تصور قائم کرنے کے لیے کی، وہ بُری طرح ناکام رہی ہے۔ مسلمان عوام کا عزم اور ارادہ بالکل واضح ہے، یعنی امریکا کی گرفت سے آزادی۔ جہاں بھی وہ فوج کشی کر رہا ہے، اس کے خاتمے اور اپنے معاملات کو خود اپنے نظریات، تصورات اور خود اپنے مفادات کی روشنی میں منظم اور مرتب کرنے کے عزم اور امریکا کی گرفت سے نجات کی کوشش ایک عملی جذبے کی صورت میں دیکھی جاسکتی ہے۔

عوام کی سوچ ، اور حکمرانوں کی سوچ اور پالیسیوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اس کا اندازہ اس سروے سے کیا جاسکتا ہے، جو خالص امریکی ادارے ’نیوامریکن فاونڈیشن‘ نے سوات، باجوڑ اور فاٹا کے دوسرے علاقوں میں ابھی ۲۰۱۰ء کے وسط میں کیا ہے اور جس سے خود ان کے دانش ور انگشت بدنداں ہیں۔ یہ سروے صرف اس علاقے کے لوگوں کی آرا پر مبنی ہے، جہاں اس وقت دہشت گردی اور ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کا محاذ گرم ہے۔ جہاں پاکستانی فوج اور امریکی ڈرون حملے بظاہر دہشت گردی کے خاتمے کے لیے سرگرم ہیں، اور اس طرح مقامی آبادی کو دہشت گردوں سے بچانے کی خدمت انجام دے رہے ہیں، لیکن آگ اور خون کی اس ہولی کے ستم زدہ عوام کا ۷۵ فی صد امریکا کے ڈرون حملوں کا مخالف ہے۔ سروے میں جواب دینے والوں میں سے ۴۸ فی صد کی راے میں ان حملوں سے صرف معصوم انسان لقمۂ اجل بن رہے ہیں۔  ۳۳فی صد کا دعویٰ ہے کہ سویلین اور دہشت گرد دونوں ان کا نشانہ بن رہے ہیں۔ اس سروے کا سب سے زیادہ چشم کشا حصہ وہ ہے، جس میں اعتراف کیا گیا ہے کہ وہ لوگ جو دہشت گردوں کے خلاف ہیں، ان میں سے بھی ۱۰ میں سے ۶، یعنی ۶۰ فی صد یہ کہتے ہیں کہ: ’’امریکی افواج کے خلاف خودکش حملے اپنا جواز رکھتے ہیں‘‘۔ اور ستم بالاے ستم یہ کہ ۱۰ فی صد کی نگاہ میں پاکستانی فوج  جو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شریک ہے، اسے بھی نشانہ بنایا جانا درست ہے۔     (ڈیلی ٹائمز، اسلام آباد، ۸؍اکتوبر ۲۰۱۰ئ، دی نیشن، لاہور، ۱۰؍اکتوبر ۲۰۱۰ئ)

سوال پیدا ہوتا ہے کہ جس ملک کی آبادی کا ۸۰ فی صد دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ اور اس میں پاکستان کی حکومت اور فوج کی شرکت کے خلاف ہو اور فاٹا کا وہ علاقہ جسے دہشت گردی سے پاک کرنے کے لیے امریکی فوج ڈرون حملے کر رہی ہو، وہاں کی آبادی بھی ۷۵فی صد، ڈرون حملوں کے خلاف ہو، وہاں کے ۶۰ فی صد لوگ امریکی فوج کے خلاف خودکش حملوں تک کو صحیح سمجھتے ہوں اور جس ملک کی پارلیمنٹ نے اپنے مشترک اجلاس میں مکمل یکسوئی کے ساتھ متفقہ طور پر خارجہ پالیسی کو آزاد بنانے، ملک کی حاکمیت پر حملوں کا جواب دینے، اور ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کی پالیسی پر نظرثانی کرنے کا مطالبہ کیا ہو، اس کی حکومت اسٹرے ٹیجک پارٹنرشپ کے نام پر امریکی پالیسیوں کو جاری رکھنے اور امریکا کے لیے اپنے لوگوں کو مارنے اور اپنے ہی علاقوں میں بم باری کرنے کی خدمات کا صلہ وصول کرنے کا راستہ اختیار کرتی ہے، تو کیا اسے قوم کے عزائم اور خواہشات کے مطابق کہا جائے گا یا ان کی مکمل نفی سمجھا جائے گا؟

حکومت کی پالیسیوں اور عوام کی خواہشات میں جتنی وسیع خلیج حائل ہے، اور خود ملک میں پائے جانے والے ایک نہیں کئی کئی حوالوں سے اعتماد کا بحران ہے۔ ایک پالیسی کے واضح تفاوت (policy deficit) کی غمازی کرتا ہے۔ یہ عمل اپنی اصل کے اعتبار سے بالآخر خود جمہوریت کے فقدان (democracy deficit) کی شکل اختیار کرتا ہے۔ جمہوریت نام ہے عوام کی مرضی کے مطابق حکمرانی کا۔ جمہوریت، حکمرانوں اور ان کے بیرونی آقائوں کی خواہشات مسلط کرنے کا نام نہیں اور یہی وجہ ہے کہ امریکی پالیسیوں کو خواہ کچھ بھی نام دیا جائے اور ان کو قابلِ قبول بنانے کے لیے کتنی ہی شکرآمیز(sugar coated) امداد کا اضافہ کردیا جائے، قوم انھیں قبول تو کیا، برداشت بھی نہیں کرے گی۔ نتیجہ یہ کہ حکومت، فوج اور عوام میں دُوری اور مغائرت بڑھتی جائے گی جس  کے نتیجے میں امریکا کے خلاف نفرت اور غصے میں اور بھی اضافہ ہوگا۔ کش مکش اور تصادم کی کیفیت روز افزوں ہوگی اور معاشرہ امن و چین سے محروم رہے گا۔

اس تصویر کا ایک اور رُخ بھی ہے جو پریشان کن ہے اور وہ خود امریکا کے حکمرانوں، پالیسی سازوں، میڈیا اور بالآخر عوام میں پاکستان کے امیج اور تصور سے متعلق ہے۔ اسٹرے ٹیجک تعلقات تو تاریخی بات ہیں، عام تعلقات کا انحصار بھی اعتمادِ باہمی، اور ایک دوسرے کے بارے میں منافقت پر مبنی نہیں۔ خلوص اور شفاف انداز میں اچھے جذبات اور قابلِ بھروسا توقعات پر ہونا چاہیے۔ اگر دل کی گہرائیوں سے ایک دوسرے پر بھروسا نہ ہو، صداقت کے بجاے کذب، دھوکا اور گندم نما جو فروشی کا خدشہ بلکہ یقین ہو اور ہر قدم پر دوغلی پالیسی پر عمل دکھائی دے رہا ہو تو اس فضا میں دوستی اور تعاون مغالطے اور دھوکے کے سوا کچھ نہیں۔ پاکستان کے عوام اور اغلباً اس کی فوج اور وہ حکمران جو عملاً امریکا سے معاملات کرتے رہے ہیں اور باربار کے ڈسے ہوئے ہیں، امریکا کے ناقابلِ اعتماد ہونے کی شہادت دیتے ہیں۔ عوام سے کیے گئے تمام ہی اہم راے عامہ کے جائزوں میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ پاکستانی عوام امریکا کی دوستی کو اثاثہ نہیں ایک بوجھ، مصیبت اور خطرہ سمجھتے ہیں۔ ایک غیرملکی ادارے ورلڈ پبلک اوپنین آرگنائزیشن (WPOO) کے جنوری ۲۰۰۸ء کے ایک سروے کے مطابق: ’’صرف ۶ فی صد عوام یہ سمجھتے ہیں کہ پاک امریکا دوستی سے پاکستان کو فائدہ پہنچا ہے۔ اس کے مقابلے میں ۴۴ فی صد کا کہنا ہے کہ یہ تمام پالیسیاں صرف امریکا کے مفاد میں تھیں اور ۲۹ فی صد نے کھل کر کہا ہے: ’’امریکا نے پاکستانی مفادات کو نقصان پہنچایا ہے‘‘۔

بحیثیت مجموعی ۷۲ فی صد پاکستانی عوام اس راے کے حامل ہیں کہ ایشیا میں امریکی افواج کی موجودگی پاکستان کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے، جب کہ مزید: ’’۱۲ فی صد کا خیال ہے بڑا تو نہیں، لیکن خطرہ ضرور ہے۔ گویا ۸۴ فی صد اس علاقے میں امریکا اور روس کی افواج کی موجودگی کو کسی نہ کسی شکل میں خطرہ سمجھتی ہے۔ کیا اس احساس کے باوجود پاکستان اور امریکا میں کسی حقیقی اسٹرے ٹیجک تعاون کا امکان ہے؟

یہ تو پاکستانی عوام کے جذبات اور خدشات ہیں، لیکن خود امریکا کے کارفرمائوں کا پاکستان، اس کی قیادت، اس کی افواج کے ذمہ داران اور ان کی پالیسیوں کے بارے میں کیا خیال ہے؟ اس کا اندازہ ہر وہ شخص کرسکتا ہے، جو امریکی سول اور فوجی قیادت کے بیانات اور میڈیا کی گل افشانیوں پر کچھ بھی نظر رکھتا ہے۔ اس چیز کے عملی تجربے سے ہر وہ شخص گزرتا ہے، جو پاکستانی پاسپورٹ پر امریکا کے سفر کی اذیت سے گزرتا ہے۔ واشنگٹن کے حالیہ مذاکرات کی روداد نگاری کے لیے جو صحافی پاکستانی وفد کے ساتھ گئے تھے، وہ اس کے چشم دید گواہ ہیں۔ جسے کچھ شک ہو وہ جاوید چودھری کا کالم ۲۱؍اکتوبر کے ایکسپریس ٹربیون میں پڑھ لے۔ راقم الحروف نے تو اپریل ۲۰۰۴ء میں ایرپورٹ کے عملے کے ہتک آمیز رویے کے وقت ہی کہہ دیا تھا کہ اس کے بعد امریکا سفر نہیں کرے گا۔ یہ ذاتی تجربات بھی قوموں کے تعلقات کی صورت گری کو متاثر کرتے ہیں، لیکن ہم یہاں پاکستانی قوم اور اس کی قیادت کی توجہ باب ووڈ ورڈ (Bob Woodward) کی حالیہ کتاب Obma's Wars: The Inside Storyکی طرف مبذول کرائیں گے، جو اوباما اور ان کی پالیسی ساز ٹیم کے ذہن کی عکاس ہے، اور جسے بھی امریکا سے معاملہ کرنا ہو، اس کے لیے  اس کتاب کا مطالعہ ازبس ضروری ہے۔

امریکی حکمت عملی ___ ایک فکرانگیز تجزیہ

باب ووڈورڈ، امریکا کا ایک چوٹی کا صحافی اور نہایت وسیع تعلقات رکھنے والا سیاسی  تجزیہ نگاراور مصنف ہے۔ اس کی کتاب Bush's Warsصدر بش کے دورِ حکومت میں شائع ہوئی، اور بش کی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ اس کے حقیقی مقاصد، پالیسی ساز افراد کی سوچ، اور اس کی روشنی میں بننے والی آخری حکمت عملی پر ایک مستند دستاویز سمجھی جاتی ہے۔ اب امریکی صدر اوباما کی حکمرانی کے دو سال پورے ہونے سے قبل Obama's Wars کی شکل میں اوباما کے دور میں خارجہ پالیسی اور خصوصیت سے جنگی حکمت عملی میں جوتبدیلیاں آئی ہیں، ان کا احوال اس کتاب میں مذکور ہے۔ ان دونوں کتابوں کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ دونوں امریکی صدور اور  ان کے چوٹی کے مشیروں اور پالیسی ساز افراد کی سوچ اور پالیسی سازی کے پیچھے جو مشورہ، فکر، بحث و مباحثہ ہوا ہے، اس کا ایک معتبر مرقع ہے۔ یہ امریکی جمہوریت کا ایک مثبت پہلو ہے کہ اس میں پالیسی سازی کے بارے میں ایسی معلومات قوم کے سامنے لائی جا سکتی ہیں، اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہمارے علم کی حد تک ان دونوں کتابوں میں جو باتیں کہی گئی ہیں اور امریکی صدر، پالیسی ساز افراد اور دنیا کے دوسرے لیڈروں سے جو باتیں منسوب کی گئی ہیں، ان کی تردید نہیں آئی۔ اس لیے اس کتاب کے مندرجات کو معتبر ماننے میں کوئی چیز مانع نہیں۔

یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ امریکا کا صدر اور پالیسی ساز اپنے ملک کے مفادات کے مطابق پالیسی سازی کے لیے کتنے بحث ونظر کے بعد پالیسیاں بناتے ہیں، جب کہ ہمارا حال یہ ہے کہ جس کا جی چاہتا ہے چلتے پھرتے نہایت بنیادی پالیسی بیان داغ دیتا ہے، اور تمام بنیادی مشاورتی اداروں کو نظرانداز کرکے پالیسیوں کا اعلان کر دیتا ہے۔ جنرل مشرف تو ڈکٹیٹر تھا، جو خواہ معاملہ نائن الیون کے بعد کی پالیسی کا ہو اور خواہ کشمیر کے حل کی تلاش میں اقوامِ متحدہ کی قراردادوں تک کو نظرانداز کرنے کا، وہ اپنی من مرضی کی بنیاد پر قوم کی قسمت سے کھیلتا تھا۔ اب یہی حال زرداری صاحب، گیلانی صاحب اور حتیٰ کہ وزیرخارجہ صاحب کا بھی ہے کہ جو منہ میں آتا ہے، بے دریغ بیان فرما دیتے ہیں اور کوئی احتساب نہیں ہوتا۔ اس کی تازہ ترین مثال وزیرخارجہ کا وہ ناقابلِ فہم بیان ہے، جو انھوں نے ہاورڈ یونی ورسٹی میں ایران کے ایٹمی پروگرام اور اس کے سکیورٹی معاملات کے بارے میں ارشاد فرمایا۔ امریکا میں جو وقت اور صلاحیت، پالیسی سازی کے لیے صرف کی جاتی ہے، پھر تحقیق، بحث و مباحثہ اور افہام و تفہیم سے قومی امور کو طے کرنے کے لیے دماغ سوزی کی جاتی ہے، ہمارے یہاں وہ بدقسمتی سے سازشوں اور ذاتی مفادات کے حصول کی نذر ہوجاتی ہے۔ نتیجہ صاف ظاہر ہے جو پالیسیاں بنتی ہیںعارضی نوعیت کی ہوتی ہیں اور قومی مفادات اور تاریخی تقاضوں سے کوئی مطابقت نہیں رکھتیں۔

اوباما صاحب کے ایک مشیر بروس ریڈل (Bruce Ridel) جس کا افغانستان اور پاکستان کے بارے میں پالیسی بنانے میں کلیدی کردار ہے اور جو AFPAK (افغانستان، پاکستان) جیسی مکروہ اصطلاح کا خالق ہے، اس کا کہنا ہے کہ ’’امریکا کی سلامتی کے لیے پاکستان ایک خطرہ ہے‘‘۔ ملاحظہ ہو:

آج کی دنیا کا خطرناک ترین ملک [پاکستان ہے] جہاں اکیسویں صدی کے تمام  خوف ناک امور___ دہشت گردی، حکومت کا عدمِ استحکام، کرپشن اور ایٹمی ہتھیار جمع ہیں۔ (باب ووڈ ورڈ، Obma's Wars: The Inside Story، ص ۸۹)

موصوف ہی نہیں صدر اوباما کی ابلیس کی مجلسِ شوریٰ کے تمام ہی ارکان کا فتویٰ ہے کہ: ’’پاکستان دہشت گردی کا مرکز ہے‘‘۔ اور اصل خطرہ گویا نہ عراق میں ہے اور نہ افغانستان میں___ بلکہ خود پاکستان ہے:

لیکن امریکا کوفوری خطرہ ان وار زونز سے نہیں ہے بلکہ پاکستان سے ہے جو ۱۷کروڑ آبادی کا ایک غیرمستحکم ملک ہے اور جس کی جنوبی افغانستان کے ساتھ ۱۵۰۰ میل کی سرحد ہے اور جس کے پاس تقریباً ۱۰۰ ایٹمی ہتھیار ہیں۔ (ایضاً، ص ۳)

ایک اور مشیر وائس ایڈمرل مائیکل میک کونیل کا ارشاد گرامی ہے: ’’پاکستان افغان جنگ میں امریکا کا بددیانت پارٹنر ہے۔ وہ [پاکستانی] جھوٹ بولتے ہیں‘‘(ایضاً، ص ۳)۔ ایک اور مشیر ڈینس بلیر نے لکھا ہے: ’’مختلف اسلامی گروپوں کو جڑ سے اُکھاڑنے میں حکومتِ پاکستان زیادہ مددگار نہیں رہی ہے‘‘۔(ایضاً، ص ۱۶۲)

ان بیانات کی روشنی میں ہمیں کسی خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے۔ یہ خیالات صرف مشیروں کے نہیں، خود صدرباراک اوباما ساری بحث سن کر جو واضح بات کہتے ہیں، وہ امریکی قیادت کے اصل ذہن اور ہدف کے بارے میں کوئی شبہہ باقی نہیں رہنے دیتی: ’’ہمیں لوگوں کو واضح طور پر یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ سرطان پاکستان میں ہے‘‘۔(ایضاً، ص ۳۰۲)

یہی وجہ ہے کہ نئی حکمت عملی کا عنوان AFPAK )(ایفپاک) رکھا گیا، بلکہ ایک موقع پر تو اسے PAKAF رکھا جانے کا مشورہ دیا گیا، مگر بطور مصلحت یا دھوکا دینے کے لیے افغانستان کو پہلے اور پاکستان کو بعد میں رکھا، البتہ مقصد بالکل واضح تھا___ افغانستان اور پاکستان دونوں اب ایک مشترکہ ہدف کے طور پر نشانے پر ہیں۔ بروس ریڈل کے الفاظ میں: ’’بڑی تبدیلی یہ ہے کہ امریکا، افغانستان اور پاکستان کے دو ممالک کا نہیں بلکہ ایک چیلنج: AFPAK کا سامنا کرے گا‘‘۔ (ایضاً، ص ۹۹)

امریکی حکمت عملی کا اصل ھدف

امریکا کی ’عظیم تر حکمت عملی‘ کے اس منظرنامے میں، وہ کیا اقدام کر رہا ہے یا کرنا چاہتا ہے؟ اس کو سمجھنے کے لیے ذہن میں یہ بات تازہ کرنے کی ضرورت ہے کہ امریکا، پاکستان، اس کی سیاسی قیادت، عسکری قیادت، اور اس کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے بارے میں کئی مفروضوں پر اپنی سوچ اور اپنے اثرات مرتب کررہا ہے۔

امریکا کا اندازہ ہے کہ پاکستان میں فیصلہ سازی کے عمل میں سول حکومت کے مقابلے میں فوجی قیادت کا کردار زیادہ اہم ہے، اس لیے اس کی توجہ کا اصل مرکز فوجی قیادت ہے: ’’بہت سے حوالوں سے پاکستانی فوج کو ملک کی قسمت اور سمت پر تاریخی طور پر کمزور سول قیادت کی      بہ نسبت بہت زیادہ اختیار حاصل ہے‘‘۔ (جنرل کیانی، جو پاکستان کی فوج کے سربراہ ہیں، ان کا اثرورسوخ بڑھ رہا ہے، ص ۱۸۸)

جنرل جونز اور رابرٹ گیٹس نے بروس رڈل سے صاف صاف پوچھا: ’’کیا یہ ممکن ہے کہ پاکستانیوں پر اعتماد کیا جائے؟‘‘ جواب ملاحظہ فرمایئے:

۱۹۸۰ء کے وسط کے بعد سے میں آئی ایس آئی کے ہر سربراہ کو جانتا ہوں۔ کیانی کو یا تو اپنی تنظیم پر کنٹرول نہیں ہے یا وہ سچ نہیں بول رہا۔ امریکا کو یہ واضح بات دیکھنا چاہیے۔ اس نے کہا کہ پاکستانی جھوٹ بول رہے ہیں۔ اس نے مولن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: تم کیانی سے درجنوں بار ملے ہو، تم یہاں موجود لوگوں میں سب سے زیادہ اسے جانتے ہو۔ میرا تاثر ہے کہ وہ دوسرے زمرے میں آتا ہے، یعنی جھوٹا۔ مولن نے اختلاف نہیں کیا۔(ایضاً، ص ۱۰۱)

افغانستان کے کٹھ پتلی صدر حامد کرزئی نے بھی پاکستان اور اس کی افواج پر گنداُچھالنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی:

کرزئی نے اس یقین کا اظہار کیا کہ پاکستان کی آئی ایس آئی نے طالبان کو بنانے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ کلنٹن نے پوچھا کہ کیا تم واقعی سمجھتے ہو کہ اگر آئی ایس آئی چاہے تو ملاعمر کو پکڑ سکتی ہے؟ کرزئی نے اپنے سامنے پلیٹ سے ایک چاکلیٹ بسکٹ اُٹھاتے ہوئے کہا کہ وہ ملاعمر کو اس طرح پکڑ سکتے ہیں جس طرح میں نے یہ بسکٹ اُٹھایا ہے۔(ایضاً، ص ۳۵۵)

ایک طرف پاکستان کی بے وفائیوں اور کذب بیانیوں کی یہ افسانہ سازی ہے، تو دوسری طرف یہ بھی دیکھیں کہ عملاً جنرل پرویز مشرف اور صدر آصف زرداری کا ہاتھ مروڑ کر امریکا نے پاکستان میں اپنی عسکری اور سیاسی سیادت کس حد تک قائم کی ہوئی ہے اور پھر بھی ’ہل من مزید‘ یا ’کچھ اور کرو‘  کا مطالبہ ہے اور ساتھ ہی ساتھ دوغلے پن کا طعنہ اور بلیک میل بھی کیا جا رہا ہے۔

صدر اوباما سی آئی اے کے ڈائرکٹر جنرل مائیکل ہیڈن سے پوچھتے ہیں:

اوباما نے پوچھا: آپ پاکستان میں کتنا کر رہے ہیں؟ بائیڈن نے کہا: پوری دنیا میں ہونے والے امریکی حملوں کا ۸۰ فی صد یہاں ہوتے ہیں۔ آسمان کے ہم مالک ہیں، ڈرون پاکستان میں خفیہ بیس سے اُڑتے ہیں اور واپس آتے ہیں۔ القاعدہ قبائلی علاقے میں ایسے لوگوں کو تربیت دے رہی ہے جن کو اگر آپ ڈلس کی ویزا لینے والوں کی قطار میں دیکھیں گے تو ان کو خطرے کے طور پر نہیں پہچان پائیں گے۔(ایضاً، ص ۵۲)

صدر آصف زرداری کس طرح امریکی نائب صدر جوبائیڈن کے سامنے اپنی اسنادِ خدمت پیش کرتے ہیں، اس کی ایک جھلک بھی دیکھ لیں کہ پاکستان اور امریکا کے نام نہاد اسٹرے ٹیجک تعلقات کا ایک منظر یہ بھی ہے:

آپ کو میری مدد کرنے کی ضرورت ہے تاکہ میں اپنے ملک میں کافی اثرورسوخ حاصل کروں۔ آپ کو معلوم ہے کہ ملک امریکا دشمنی سے بھرا ہوا ہے اور وہ ایک امریکی   آلہ کار کی حیثیت سے مجھ سے نفرت کریں گے۔ آپ کو مجھے اقتصادی وسائل دینا ہوں گے تاکہ میں لوگوں کی حمایت حاصل کرسکوں کہ ان کے لیے بھی اس میں کچھ ہے۔ زرداری نے کہا: میں آئی ایس آئی کو ٹھیک کرنے میں مدد دینا چاہتا ہوں۔ ہمیں اس کھیل سے باہر نکلنا چاہیے۔(ایضاً، ص ۶۳-۶۴)

ڈرون حملے، جن کے بارے میں ڈھائی سال کے انکار کے بعد اب پاکستان کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ جنرل پرویز مشرف نے فضائی نگرانی کے لیے اجازت دی تھی، لیکن اب بھی یہ اعتراف نہیں کیا کہ میزائل گرانے کی اجازت کس نے دی ہوئی ہے۔ دوسری طرف امریکی قیادت اس سلسلے میں کوئی پردہ نہیں رکھتی اور برملا کہتی ہے ہم سب کچھ پاکستان کی سرزمین سے کر رہے ہیں اور پاکستانی حکومت اور فوج کے تعاون سے کررہے ہیں۔ جنرل مائیکل ہیڈن کا بیان اُوپر آگیا ہے۔ اب خود صدر پاکستان کی شہادت بھی دیکھ لیں۔ باب ووڈورڈ صدر زرداری سے جنرل مائیکل ہیڈن کی ۱۲نومبر ۲۰۰۹ء نیویارک میں ملاقات کی کچھ جھلکیاں یوں دکھاتا ہے:

ڈرون حملوں میں عام شہریوں کی ہلاکت پر پاکستانی میڈیا امریکا کو بُرا بھلا کہتا رہا ہے لیکن پاکستانی شہریوں کی اتفاقیہ ہلاکتیں کہانی کا صرف نصف حصہ ہیں۔

بہت سے مغرب کے افراد جن میں امریکی پاسپورٹ رکھنے والے بھی کچھ شامل ہیں، پانچ دن قبل شمالی وزیرستان کے قبائلی علاقے میں ’کیم شام ٹریننگ کیمپ‘میں ہلاک ہوئے تھے۔ پاکستانیوں کو سی آئی اے کا ایک نہایت خفیہ نقشہ دیا گیا تھا جس میں حملے کی تفصیل بتائی گئی تھی لیکن اس میں ہلاکتوں کے چونکا دینے والے اس واقعے کا ذکر نہ تھا۔ سی آئی اے تفصیلات بتانے کو تیار نہیں تھا۔

پاکستانی سفیر نے ہیڈن سے پوچھا کہ آپ ہدف کا انتخاب کیسے کرتے ہیں؟ ہیڈن نے جواب دیا: سی آئی اے بہت زیادہ احتیاط کرتی ہے۔ القاعدہ کے سات چوٹی کے لیڈر اس سال بھی ہلاک ہوئے ہیں۔ ایک گھنٹے کی گفت و شنید کے بعد صدر پاکستان کی ہیڈن سے ون آن ون ملاقات ہوئی۔ زرداری ڈرون حملوں سے شہری ہلاکتوں کے بارے میں تنازعے کی بوجھل فضا کو صاف کرنا چاہ رہے تھے۔ زرداری نے کہا: سینیرز کو ہلاک کرو۔ ضمنی نقصانات امریکیوں کو پریشان کرتے ہیں، مجھے نہیں۔

اس کے بعد باب ووڈورڈ لکھتا ہے: ’’زرداری نے سی آئی اے کو اہم گرین سگنل دے دیا۔ ہیڈن نے حمایت کی تحسین کی، مگر اسے یہ بھی معلوم تھا کہ اس سے القاعدہ کو تباہ کرنے کا مقصد حاصل نہیں ہوگا‘‘۔(ایضاً، ص ۲۶)

صدر جارج بش کے دورِصدارت کے بارے میں باب ووڈورڈ لکھتا ہے: ’’بش نے ہدایت کی تھی کہ پاکستان کو ڈرون حملے کی اطلاع ساتھ ہی ملنا چاہیے، یعنی جب حملہ ہو رہا ہو تو انھیں اس کا علم ہو، یا یقینی بات کرنے کے لیے چند منٹ کے بعد‘‘۔(ایضاً، ص ۵)

باب ووڈورڈ، صدر بش کے دور میں امریکی ڈرون حملوں کے علاوہ باقاعدہ امریکی فوجی آپریشن کا بھی ذکر کرتا ہے، اور بش کا یہ فیصلہ بھی ریکارڈ کرتا ہے کہ: ’’امریکی ڈرون اب پاکستانی آسمانوں کے مالک ہیں۔ اب پاکستان کی حدود کے اندر مزید کوئی زمینی حملہ نہیں کیا جائے گا‘‘۔(ایضاً، ص ۸)

البتہ ایسے آپریشن کی تیاری اور اگر ضرورت محسوس ہو تو اسے کر گزرنے کی تیاریاں پوری طرح ہیں:

ایک اہم خفیہ راز جو میڈیا یا کہیں بھی رپورٹ نہیں ہوا ہے، افغانستان میں سی آئی اے کی ۳ہزار افراد پر مشتمل خفیہ فوج کی موجودگی ہے۔ دہشت گردی کا پیچھا کرنے والی یہ ٹیمیں (سی ٹی پی ٹی) بیش تر افغانوں پر مشتمل ہیں جو سی آئی اے کی راے میں فوج کا بہترین عنصر ہیں۔ ان ٹیموں کو سی آئی اے تنخواہ دیتی ہے، تربیت دیتی ہے، اور یہ    سی آئی اے کے آلۂ کار ہیں اس کی اجازت بش نے دی تھی۔ یہ ٹیمیں طالبان باغیوں کو قتل کرنے یا پکڑنے کے لیے آپریشن کرتی تھیں اور قبائلی علاقوں میں بھی امن قائم کرنے یا حمایت حاصل کرنے کے لیے ان علاقوں کے اندر چلی جاتی تھیں۔(ایضاً، ص ۸)

اس کے ساتھ امریکا ایک طرف ڈرون حملوں کے دائرے کو وسیع کرنے کے مطالبات کررہا ہے اور دوسری طرف مختلف طریقوں سے پاکستان کی سرزمین پر فوجی آپریشن کے لیے مطالبات میں اپنی راہ کشادہ کر رہا ہے۔ یہ دھمکی اور تیاری بھی ساتھ ساتھ ہے کہ: ’’اگر امریکا میں کوئی بھی دہشت گردی کا واقعہ ہوتا ہے تو پاکستان کی خیر نہیں اور اجازت تو کیا اطلاع کے بغیر امریکا اقدام کرگزرے گا، اور اس کے لیے ۱۵۰ مقامات کی نشان دہی کی جاچکی ہے‘‘۔

سیاسی اور عسکری قیادت کا مایوس کن کردار

اس کتاب میں دو جگہ صاف صاف اس عندیے کا اظہار کیا گیا ہے اور فیصل شہزاد کے واقعے کے بعد خصوصی ایلچی کے ذریعے صدر زرداری صاحب کو صاف پیغام دے دیا گیا ہے اور اس کی تازہ ترین قسط وہ ہے، جو حالیہ واشنگٹن مذاکرات کے موقعے پر صدر اوباما سے ’اتفاقیہ‘ ملاقات میں پوری شانِ تحکم کے ساتھ ادا کی گئی___ یعنی: اگر کوئی واقعہ ہوتا ہے تو امریکی فوجوں کی براہِ راست مداخلت کا مزا چکھنے کے لیے تیار رہو:

اصل مسئلہ یہ تھا کہ کیا امریکی فوجی پاکستان کی سرزمین پر آپریشن کرسکتے ہیں؟ روایتی طور پر یہ ایک سرخ لکیر ہوتی تھی لیکن یہی مسئلے کی جڑ تھی جسے حل ہونا تھا۔ سلامتی کا مسئلہ حل کرنے کے لیے انھیں مرکزثقل کی طرف جانا ہوگا اور یہ انھیں کرنا ہوگا۔(ایضاً، ص ۲۰۸)

اور کتاب کے آخر میں ایک بار پھر واضح پیغام اور عزائم کا یہ اظہار :

پاکستان نے ڈورن پروازوں کی اجازت مخصوص علاقوں کے لیے دی تھی جن کو ’باکس‘ کہا جاتا ہے کیونکہ جنوب میں پاکستان کی زمینی فوج بہت بڑی تعداد میں موجود ہے، لہٰذا وہ اس علاقے میں ’باکس‘ کی اجازت نہیں دیں گے۔ پینیٹر نے کہا: اس ’باکس‘ کو حاصل کرنا ہماری ضرورت ہے۔ ہمیں اپنا آپریشن کرنے کے لیے اس کی ضرورت ہے۔

باب ووڈورڈ کے بقول یہ بحث جنرل اشفاق کیانی کی موجودگی میں ہورہی تھی، اور اس کا دعویٰ ہے کہ: ’’جنرل کیانی وضاحت پیش نہ کرسکے‘‘۔ بالآخر امریکا نے اپنے اصل مقصد کو یوں بیان کردیا:

پینیٹرنے کہا: امریکا کو کچھ نہ کچھ زمینی افواج کی ضرورت ہے۔ ہم یہ کام زمین پر اپنے فوجیوں کے بغیر نہیں کرسکتے۔ یہ پاکستانی ہوسکتے ہیں یا ہمارے۔ بہرحال ہمیں زمین پر کچھ فوجی ضرور چاہییں۔ امریکا کی تیزی سے حملہ آور جے سی او سی یونٹس بہت زیادہ نظروں میں آتی ہیں۔ اس کا اصل متبادل خفیہ جنگ کی بہت بڑی توسیع ہے۔ اب اس کی ۳ہزار افواج پر مشتمل سی ٹی پی ٹی کے دستے سرحد پار کرکے پاکستان کے اندر آپریشن کر رہے ہیں۔(ایضاً، ص ۳۶۰-۳۶۱)

کیا اس سے بھی زیادہ کھلے لفظوں میں امریکا کے اصل اسٹرے ٹیجک اہداف کی کسی نشان دہی کی ضرورت ہے؟ کتاب کے آخری ابواب میں باب ووڈورڈ امریکا کے مخمصے کو اس طرح بیان کرتا ہے کہ پاکستان کی سیاسی اورعسکری قیادتیں اپنے اپنے انداز میں مایوس کن ہیں:

ان لوگوں کے ذریعے امریکا کچھ حاصل نہیں کر رہا۔ زرداری سے بات کرکے جس کے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے، یا کیانی سے جس کے پاس کچھ کرنے کے اختیارات ہیں لیکن اس نے کچھ زیادہ کرنے سے انکار کر دیا۔ کوئی اس کو کچھ نہیں کہہ سکتا۔ آخری حد مایوس کن تھی۔(ایضاً، ص ۳۶۷)

یہ ہے وہ پس منظر جس میں پاکستان کے بارے میں امریکا کے اصل اسٹرے ٹیجک مقاصد اور اہداف کو سمجھا جاسکتا ہے۔ مسئلہ صرف امریکا کے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے پاکستان کو دھونس، دبائو، دھمکی کی لاٹھی اور معاشی اور عسکری امداد کے لالچ کے ذریعے آمادہ کرنا ہے۔ اس کتاب میں اس اسٹرے ٹیجک مقصد اور پاکستان کی سیاسی قیادت کی آمادگی دونوں کو کتاب کے اوراق اور لفظوں کی روح میں دیکھا جاسکتا ہے۔ اِلا یہ کہ کوئی آنکھیں رکھتے ہوئے بھی دیکھنے کی کوشش نہ کرے، ملاحظہ ہو: پالیسی کے جائزے کی ساری بحث کے بعد صدر اوباما نے صاف الفاظ میں کہا ہے کہ:

ہمیں وہاں سے شروع کرنا چاہیے جہاں ہمارے مفادات ہیں۔ اور یہ پاکستان ہے، افغانستان نہیں۔

امریکا کے اہداف یہ ہیں:

ا- امریکی سرزمین ، اس کے حلیفوں اور بیرونِ ملک امریکی مفادات کا تحفظ۔

ب- پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں اور استحکام کے بارے میں تشویش

ج- بھارت پاکستان تعلقات (ایضاً، ص ۱۸۷)

واضح رہے کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں مسئلہ کشمیر، پانی کا مسئلہ یا پاکستان کے دوسرے مسائل و معاملات کا کوئی مقام نہیں، ضمنی طور پر بھی نہیں۔ اصل مسئلہ پاکستان کو یہ باور کرانا ہے کہ بھارت اس کے لیے کوئی خطرہ نہیں اور اسے اپنی خارجہ پالیسی میں سے ’بھارتی خطرے‘ کے لفظ کو کھرچنا ہوگا۔ پاکستان کی سوچ کو بدلنا ہوگا۔ اوباما کے الفاظ میں: ’’ہمارے بنیادی مقاصد کے حصول کی کلید پاکستان کی سوچ کو بدلنا ہے‘‘۔ (ایضاً، ص ۱۸۷)

بروس رِڈل نے اس مقصد کو اور اس کے لیے امریکی پالیسی کو جو ہدف سامنے رکھنا چاہیے، اسے اور بھی زیادہ صاف اور واضح ترین الفاظ میں ادا کیا ہے: ’’خلاصے کے طور پر رڈل نے کہا کہ انھیں پاکستان کی اسٹرے ٹیجک سمت کو بدلنا ہوگا‘‘۔(ایضاً، ص ۱۰۸)

جس مقصد کے لیے امریکا نے اسٹرے ٹیجک مذاکرات کا جال پھیلایا ہے، وہ فی الحقیقت پاکستان اور امریکا کے تعلقات کو کاروباری سطح سے بلند کرکے اسٹرے ٹیجک سطح پر لانا نہیں ہے، بلکہ امریکا کے مقاصد کے لیے پاکستان کے موقف میں اسٹرے ٹیجک تبدیلی لانا ہے، جس کا اظہار صدراوباما نے کچھ اس طرح کیا:

بعد میں صدر نے تصدیق کی کہ کسی بھی نئی اسٹرے ٹیجی کا مرکزی نکتہ پاکستان ہوگا۔ ہمیں پاکستان کی سول، فوجی اور اہلِ دانش قیادت سے سنجیدگی سے قریبی تعلقات رکھنے ہوں گے۔ (ایضاً، ص ۱۰۹)

صدر زرداری کا کردار

فوجی قیادت کے تحفظات کا ذکر تو اُوپر آچکا ہے، لیکن صدر زرداری نے جس گرم جوشی سے امریکی ایجنڈے کو قبول کیا ہے، اس کا کچھ ذکر تو اُوپر آیا ہے، لیکن قوم کے لیے ضروری ہے کہ اسے معلوم ہو کہ پیپلزپارٹی کے شریک چیئرپرسن صدرمملکت اور اس ذوالفقار علی بھٹو کے داماد جس نے پاکستان کے حقوق کے لیے ہزار سال تک بھارت سے جنگ کا عندیہ دیا تھا، امریکا کی قیادت کے سامنے اپنے کس عزم کا اظہار کیا:

آپ کے لیے ضروری ہے کہ آپ میرے ملک میں اچھا خاصا آگے بڑھنے کے لیے میری مدد کریں۔ آپ کو مجھے اقتصادی وسائل دینے ہوں گے تاکہ میں عوام کو جیت سکوں۔ میں آئی ایس آئی کو ٹھیک کرنے میں مدد کروں گا۔(ایضاً، ص ۶۳-۶۴)

زرداری صاحب جب وہ اپنے صاحب زادے بلاول کے ساتھ صدر اوباما سے اوول آفس میں ملے تو اوباما نے کہا:

ہم بھارت کے بارے میں آپ کی تشویش پر آپ کو الزام نہیں دیتے۔ مجھے معلوم ہے کہ بہت سے پاکستانیوں کو تشویش ہے لیکن ہم بھارت کے خلاف آپ کو مسلح کرنے میں کوئی کردار ادا نہیں کرنا چاہتے۔ اس بارے میں میرا موقف بالکل واضح ہے۔

زرداری نے کہا: ہم اپنا ورلڈ ویو بدلنے کی کوشش کر رہے ہیں مگر یہ راتوں رات نہیں ہوسکتا۔(ایضاً، ص ۱۱۵)

پاکستان میں امریکا کی سفیر اینی پیٹرسن نے آصف زرداری کے بارے میں گواہی دی ہے کہ:

زرداری، حکومت کرنے کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔ وہ مسٹر بے نظیر بھٹو ہونے سے کبھی باہر نہیں نکلے گا لیکن وہ بنیادی طور پر ہمارا طرف دار ہے۔(ایضاً، ص ۱۳۶)

اس نے اپنے لبرل اقدام پر فخر کا اظہار کرتے ہوئے کہا: بھارتی فلموں کی پہلی دفعہ اجازت میں نے دی ہے۔(ایضاً، ص ۱۳۷)

یہ مکالمات امریکی سفیرصاحبہ اور جنرل جونز کے درمیان ہیں، جو موصوف سے اسلام آباد کے دورے کے دوران میں ہوئے۔ واشنگٹن میں پینٹاگون کے ہال اے میں پاکستانی سفیر حسین حقانی صاحب، رابرٹ گیٹس کو مطلع کرتے ہیں کہ:

اگلے چند ہفتوں میں پاکستانی فوج وزیرستان میں داخل ہوجائے گی۔ اس اقدام کے لیے زرداری نے کوشش کی۔ کیونکہ امریکا کا حامی ہونے کی وجہ سے اس کی حمایت ختم ہورہی تھی۔ زرداری نے خیال کیا کہ وہ طالبان کے ساتھ سخت رویہ اختیار کرکے حمایت حاصل کرسکتا ہے۔

یہ ہے اصل حقیقت، اس فوجی آپریشن کی جس کے بارے میں قوم سے کہا جاتا ہے کہ: ’’فیصلہ ہم کرتے ہیں‘‘۔

جن مذاکرات اور تعلقات کو اسٹرے ٹیجک کا نام دیا جا رہا ہے، وہ بالکل اسی نوعیت کے تعلقات ہیں جن کا تجربہ گذشتہ ۶۰برس سے پاکستان کر رہا ہے۔ یہ بات کہ مذاکرات اسٹرے ٹیجک ہیں اور عملاً تیسرا گروپ بنا کر ہر نوعیت کے امور پر بات چیت ہورہی ہے جس کا حاصل صرف یہ ہے کہ ڈیڑھ سو صحافیوں اور وزارتِ اطلاعات کے ۸۰ افراد کو ذہنی غسل (brain washing) کے لیے ان کو ایک ایک ماہ کے لیے امریکا کے مطالعاتی دورے پر بھیجا جائے گا اور شمالی علاقہ جات میں دو چھوٹے ڈیم میں امریکا سرمایہ کاری کرے گا۔ کیا اسٹرے ٹیجک مذاکرات کے یہ موضوع ہوتے ہیں؟

امریکی اھداف اور قومی ترجیحات

امریکا کے اسٹرے ٹیجک مقاصد اور اہداف بالکل واضح ہیں۔ اس کا اصل مقصد اپنے مفادات کا تحفظ ہے۔ امریکا، پاکستان اور بھارت کے تعلقات کا جو ٹرائی اینگل اسلوب ۱۹۵۰ء کی دہائی سے قائم تھا، اسے بش کے دور میں درہم برہم کردیا گیا اور اسے پاکستان اور بھارت کے امریکا تعلقات کے ربط ختم کرنے (de-hyphenization) کا عنوان دیا گیا حالانکہ اصل مقصد بھارت سے اسٹرے ٹیجک شراکت کا قیام تھا جسے ۲۰۰۶ء میں ایک واضح شکل دے دی گئی ہے اور پاکستان کے تمام خدشات و تحفظات کو یکسر نظرانداز کردیا گیا ہے۔ اوباماصاحب کو نومبر ۲۰۱۰ء میں ہونے والا چار ممالک کا دورہ جس میں بھارت سرفہرست ہے امریکی حکمت عملی کا علامتی اظہار ہے، اس راستے میں پاکستان کہیں بھی نہیں ہے البتہ اشک شوئی کے لیے کہا جارہا ہے کہ ۲۰۱۱ء میں پاکستان کا دورہ کیا جائے گا مگر امریکا نے اپنی ترجیحات واضح کر دی ہیں:

  • اشتراکِ مقاصد و اقدار
  • مشترک مفادات
  • درج بالا مقاصد اور مفادات کے حصول کے لیے ذرائع اور طریق کار پر رضامندی
  • طویل المدت، مستقل اور دیرپا پالیسیاں اور پروگرام
  • باہمی اعتماد

اگر پاکستان اور امریکا کے تعلقات کا گہری نظر سے مطالعہ کیا جائے تو ان دونوں ممالک کے باب میں یہ پانچوں چیزیں مفقود ہیں۔

امریکا کا مقصد اپنے عالمی غلبے کو باقی رکھنا اور کم از کم اکیسویں صدی کے اوّلین نصف میں اپنی عالمی بالادستی کا تحفظ اور ہر متبادل قوت کو اپنے گھیرے میں لینا ہے۔ اس وجہ سے وہ دنیا کے ۱۴۸ممالک میں اپنی فوجیں رکھے ہوئے ہے اور سیاسی اور معاشی معاہدات کے ذریعے اپنی گرفت کو مستحکم رکھنا چاہتا ہے۔ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے نام پر یہ سارا منظرنامہ اس کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ سرد جنگ کے خاتمے سے جو خلا پیدا ہوگیا تھا، اسے اس نئی جنگ اور اس کی بنیاد پر کون کس کے ساتھ ہے؟ کے فلسفے کی روشنی میں عالمی سیاست کا دروبست قائم کیا گیا ہے۔ اس میں ناٹو کے لیے ایک نیا کردار تراشا جارہا ہے۔ اسرائیل، شرق اوسط کا اہم ترین کھلاڑی ہے۔ ایشیا کو اپنی گرفت میں رکھنے اور چین کے گرد گھیرا مضبوط کرنے کے لیے امریکا اور بھارت کی اسٹرے ٹیجک پارٹنرشپ وجود میں آئی ہے۔

ان امریکی مقاصد میں سے کوئی بھی ہدف پاکستان کے مقاصد سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ ایسی عالمی بساط پر ہم کوئی کھلاڑی نہیں۔ چین سے ہمارا تعلق حقیقی اسٹرے ٹیجک نوعیت کا ہے،  جب کہ ہمارے سارے تنازعات کا تعلق بھارت سے ہے۔ افغانستان اور ایران سے متعلق ہماری سرحدات تاریخی اعتبار سے محفوظ ترین تھیں اورسارے خطرات صرف بھارت کی طرف سے تھے۔ امریکا کی حکمت عملی ہمیں شمال اور شمال مغرب میں اُلجھانا ہے اور بھارت کے لیے برعظیم ہی میں نہیں جنوبی، شرقی اور وسطی ایشیا میں بھی کردار کو فروغ دینا ہے۔ اس فریم ورک میں امریکا اور پاکستان کے عالمی مقاصد میں کوئی مطابقت نہیں۔

جہاں تک مفادات کا تعلق ہے امریکا کا مسئلہ تیل اور دوسرے معاشی وسائل پر تسلط اور اپنی مصنوعات اور سرمایے کے لیے منڈیوں کا حصول ہے۔ اس کی نگاہ میں کسی بھی ملک اور خاص طور پر پاکستان، ایران، کوریا، عراق یا کسی بھی عرب ملک یا اسلامی ملک کی نیوکلیر صلاحیت ایک خطرہ ہے۔ہر ایسی معاشی صف بندی جو دنیا کے ان ممالک میں خودانحصاری کی کیفیت پیدا کرسکے، امریکا اور عالمی سرمایہ دارانہ سامراج کے مفادات کے خلاف ہے، جب کہ عالمی تجارت کی راہوں کے کھلے ہونے کے ساتھ پاکستان، عالمِ اسلام اور تیسری دنیا کے ممالک کا مفاد اس میں ہے کہ وہ اپنے پائوں پر کھڑے ہوسکیں۔ بنیادی ضروریات اور ٹکنالوجی کے میدان میں امریکا اور مغرب پر ان کا انحصار کم ہو۔ وہ خود اپنے وسائل کو اپنی ترجیحات اور اپنے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کرسکیں۔

یہاںبھی امریکا، مغرب کے سامراجی ممالک اور پاکستان، دوسرے مسلمان اور تیسری دنیا کے ممالک کے مفادات سے متصادم ہیں۔ پھر پاکستان کے فوری مسائل اور مفادات ہیں، جن کا تعلق مسئلہ کشمیر، مسئلہ فلسطین، پانی کا مسئلہ، خوراک میں خودانحصاری، معاشی ترقی اور استحکام اور نظریاتی اور تہذیبی شناخت کی حفاظت اور پرورش ہیں۔ یہاں بھی پاکستان اور امریکا کے مفادات میں فاصلے زیادہ اور قربت کم اور واجبی ہے۔

یہی معاملہ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کا ہے، جس کی سب سے بھاری قیمت پاکستان، افغانستان اور عراق نے ادا کی ہے۔ امریکا کے جتنے فوجی اور شہری افغانستان اور عراق میں ہلاک ہوئے ہیں، ان سے کہیں زیادہ پاکستانی فوجی اور عام شہری محض امریکا کی جنگ میں شرکت کی سزا میں ہلاک ہوچکے ہیں۔ معاشی اور فوجی امداد کا بڑا چرچا ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اگر جانی نقصان کو نظرانداز کردیا جائے (گو ایسا کرنا ایک سنگین جرم ہوگا) اور صرف معاشی پہلو کو لیا جائے تو امریکا نے جو ۱۹بلین ڈالر گذشتہ نوسال میں دیے ہیں ان میں ۱۱بلین ڈالر ان اخراجات اور خدمات کی مد میں ہیں، جو پاکستان نے امریکی افواج اور ضروریات کے لیے انجام دی ہیں، اور جسے ’کولیشن سپورٹ فنڈ‘ کہتے ہیں، جب کہ اس جنگ میں شرکت کا جو معاشی نقصان پاکستان کو ہوا ہے، وہ وزارتِ خزانہ کے ہر اعتبار سے کم سے کم ترین پر تخمینوںکے مطابق بھی ۴۳ارب ڈالر سے زیادہ ہیں، اور خود ’کولیشن سپورٹ فنڈ‘ کے اس وقت ڈھائی ارب ڈالر واجب الادا ہیں۔ یہ وہ خرچہ ہے جو حکومتِ پاکستان، اسٹیٹ بنک سے قرض لے کر کرچکی ہے، اور جس کی وجہ سے وہ اس وقت اسٹیٹ بنک کی ۱۸۵ ارب کی مقروض ہے، اور جس پر ۲ ارب روپے ماہانہ سود بھی حکومتِ پاکستان کو ادا کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ نفع کا سودا ہے یا صریح نقصان کا۔ یہ صورت حال مفادات کے اشتراک کی تصویر پیش کرتی ہے یا ان میں تصادم اور تناقض کی۔

تیسرے نکتے کا حال بھی ذرا مختلف نہیں۔ معاشی تعاون اور سرمایہ کاری میں اشتراک کے چند منصوبوں کو چھوڑ کر، زیادہ معاملات میں پاکستان اور امریکا کے درمیان اشتراکِ عمل کے جو پروگرام ہیں، وہ نمایشی زیادہ اور حقیقی کم ہیں۔ پھر ان تعلقات میں سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ یہ وقتی اور ہوا کے جھونکوں کے ساتھ بدل جانے والے ہیں۔ برابری کی بنیاد پر توازنِ قوت کے تفاوت کی وجہ سے معاملات مرتب کرنے کا کوئی امکان ہی نہیں ہے۔ لیکن کم از کم مقدار میں بھی ایک دوسرے کی آزادی، عزتِ نفس، قومی مفادات، نظریاتی اور تہذیبی اختلافات بلکہ احترام کا بھی فقدان ہے، اور تعلقات اور منصوبوں میں کوئی تسلسل اور دوام نہیں۔ آج دوستی میں گاڑھی چھن رہی ہے اور کل پابندیاں مسلط کردی جاتی ہیں، تمام منصوبوں کو بیچ میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ دفاعی سسٹم کے باب میں بھی ایسا ہی ہوتا رہا ہے۔ دفاعی تنصیبات سے متعلق فاضل پُرزوں اور مرمت تک کی سہولت کو منقطع کردیا جاتا ہے، جس سے ملک کی سلامتی کو شدید خطرات درپیش ہوتے ہیں۔ مختلف عذرات کی بنیاد پر پاکستانی مصنوعات کو عالمی مارکیٹ تک رسائی حاصل نہیں ہوپاتی۔ جہاں تجارتی تعلقات ہیں وہاں بھی ایسی ہی امتیازی پالیسیاں اختیار کی جاتی ہیں جو ترقی پذیر ممالک کے مفادات کے خلاف ہیں۔ اپنے پسندیدہ ممالک کو اور جہاں ضرورت محسوس ہو تحفظ دیا جاتا ہے، لیکن دوسروں کو یہ اختیار نہیں کہ وہ اپنے قومی مفاد کی روشنی میں انھی حربوں کو استعمال کریں۔ اس طرح تیسرے اور چوتھے دونوں نکات کے سلسلے میں بھی اتفاق کے نکات کم اور محدود اور اختلاف کے وسیع ہیں۔

رہا معاملہ باہمی اعتماد کا تو اس کا دُور دُور تک وجود نہیں اور یہی وجہ ہے کہ لالچ اور خوف ہی کارفرما قوتیں ہیں۔ اعتماد، ایثار اور شراکت کی کوئی صورت نظر نہیں آتی ہے۔ ان حالات میں ہمارے ارباب حل و عقد کی جانب سے اسٹرے ٹیجک پارٹنرشپ کے دعووں کو خودفریبی کے سوا کس نام سے پکارا جاسکتا ہے۔ ہم پاکستان اور امریکا کے درمیان دوستانہ تعلقات کا فروغ چاہتے ہیں، لیکن یہ تاریخی تجربات اور زمینی حقائق کی بنیاد ہی پر ہوسکتے ہیں۔ امریکا ایک سوپر پاور ہے اور اس سے تصادم بلاشبہہ مفاد میں نہیں۔ بہت سے معاملات میں تعاون کے ہزاروں راستے نکالے جاسکتے ہیں، جس میں دونوں کے لیے بھلائی اور نفع ہو۔عالمی تجارت کے اسی اصول پر فروغ پاتی ہے۔ چھوٹے ممالک کی بھی اسٹرے ٹیجک اہمیت ہوسکتی ہے اور پاکستان کو یہ حیثیت حاصل ہے۔ مختلف ممالک باہمی رضامندی اور باہمی لین دین کے معروف اصولوں کی روشنی میں سب استفادہ کرسکتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ حقائق کو کھلے دل سے قبول کیا جائے۔ ایک دوسرے کے جائز مفادات کو سامنے رکھ کر آزاد مرضی سے معاملات طے کیے جائیں۔ پستول تان کر یا رشوت اور دھونس جماکر ایک پارٹی دوسرے پر اپنی راے مسلط نہ کرے اور کمزور ممالک میں اپنے طفیلی عناصر کو حکمران بنا کر ان کے ذریعے قوم کی تمنائوں، عزائم اور مفادات کے برعکس پالیسیاں مسلط نہ کی جائیں۔

ہرملک اور قوم کی اپنی ترجیحات اور ضرورتیں ہیں اور آزادی، عزتِ نفس، نظریاتی اور تہذیبی تشخص اور سیاسی اور معاشی مفادات ہر ایک کے لیے اہم ہیں۔ اس لیے انصاف اور تعاون باہمی کی بنیاد پر تو سب سے تعلقات خوش گوار رہ سکتے ہیں اور یہی مطلوب ہے۔ امریکا سے تعلقات بھی اسی زمرے میں آتے ہیں اس سے ہٹ کر جو راستہ بھی اختیار کیا جائے گا وہ جبر اور مجبوری کی حد تک تو کچھ عرصے کے لیے چل سکتا ہے لیکن نہ وہ دیرپا ہوسکتا ہے اور نہ اس کے نتائج سے خیروفلاح کی توقع کی جاسکتی ہے۔ امریکا کی قیادت کو اس بات پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے کہ ایک سوپرپاور ہوتے ہوئے اور دنیا کے مختلف علاقوں اور ممالک میں بعض اچھے اور مفید کام کرنے کے باوجود بھی دنیا کے ممالک کی ایک عظیم اکثریت کے عوام میں اس کے خلاف بے زاری، نفرت اور مخالفت کے جذبات کیوں موجزن ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ   ع

ہم الزام ان کو دیتے تھے قصور اپنا نکل آیا

بلاشبہہ امریکی نظامِ حکومت، معاشرے اور تمدن میں بہت سی چیزیں مثبت بھی ہیں، جن میں تمام کمزوریوں اور مفاد پرست عناصر کے سارے کھیل کے باوجود بڑی حد تک دستور اور قانون کی حکمرانی کا ایک نسبتاً قابلِ بھروسا نظام موجود ہے۔ اس کے پہلو بہ پہلو ڈاکٹر عافیہ صدیقی اور دوسرے مسلمان، عرب، میکسی کن اور خود ایفرو امریکی حضرات کے باب میں کی جانے والی کھلی کھلی ناانصافیوں اور تعصب کے مظاہر بھی موجود ہیں۔ اسی طرح شخصی، سیاسی اور معاشی آزادی کی روایات، تعلیم، تحقیق، ایجاد و اختراع، معاشی اور سیاسی میدانوں میں بڑی حد تک ترقی کے مواقع کی موجودگی اور فراہمی، خوش حال معاشرے کا قیام اور احتساب کا نظام مثبت پہلو ہیں، جن کا اعتراف نہ کرنا حق و انصاف کے منافی ہوگی۔ پھر اپنی قوم سے قیادت کی وفاداری اور بحیثیت مجموعی قومی مفاد کو ذاتی مفاد پر فوقیت دینا قابلِ قدر پہلو ہے۔ اسی طرح جیساکہ ہم نے عرض کیا باہمی مفاد کی بنیاد پر سیاسی، سماجی، معاشی، تعلیمی اور حتیٰ کہ عسکری تعاون کی گنجایش بھی موجود ہے۔

امریکا پر ہماری تنقید کی بنیادی وجہ امریکا کی وہ پالیسیاں ہیں جو ہمارے مسلم اُمہ کے اور دنیا کے مظلوم عوام کے مفاد کے خلاف، اور اس کے اپنے جہانگیری اور سامراجی مقاصد اور عزائم کے حصول کے لیے اس نے اختیار کی ہیں۔ بین الاقوامی میدان میں اپنی مرضی کو دوسروں پر مسلط کرنے اور ان کے مفادات کو بے دردی سے کچلنے کا ذریعہ ہیں۔ یا پھر وہ منافقت اور دو رنگی ہے، جو قول و عمل کے تضاد یا انسانوں، گروہوں اور اقوام کے درمیان امتیازی سلوک اور سفاکانہ رویوں کا مظہر ہیں۔ اگر امریکا کو یہ حق ہے کہ وہ اپنے مقاصد اور اپنے مفادات کے لیے کام کرے تو یہی حق ہم کو اور دنیا کی دوسری اقوام اور اہلِ مذہب کو بھی حاصل ہے۔ بین الاقوامی امن اور انصاف کسی ایک کو دوسرے پر اپنی راے قوت، جبر اور دھوکے سے مسلط کرنے کا حق نہیں دیتے۔ دوطرفہ تعلقات صرف افہام و تفہیم اور ایک دوسرے کے حقوق اور مفادات کے احترام سے حاصل ہوسکتے ہیں اور یہی وہ چیز ہے جو پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں مفقود ہے۔


 

(کتابچہ دستیاب ہے، قیمت:۱۲ روپے۔ منشورات، منصورہ، لاہور۔ فون: ۳۵۴۳۴۹۰۹)

ریاست جموں و کشمیر کے مسلمان ایک طویل عرصے سے برطانوی، ڈوگرہ اور بھارتی سامراجیوں کے مختلف النوع ظلم اور استبداد کی چکی میں پس رہے ہیں۔ ان کے جسم کی پور پور زخموں سے چُور ہے اور ان کا بدن خون سے لہولہان ہے۔ لیکن اپنے ایمان اور اپنی آزادی کی حفاظت کے عزم اور جدوجہد میں الحمدللہ انھوں نے کوئی کمی نہیں آنے دی۔ ہر دور میں اور ہرحال میں استعماری قوتوں کی مزاحمت اور آزادی کی جدوجہد میں قربانیوں اور استقامت کی ایک ایسی تاریخ رقم کی ہے جو ظلمت کے شکار ساری دنیا کے انسانوں کے لیے روشنی کا مینار ثابت ہوگی۔ اس وقت کشمیر میں جو تحریک اپنے شباب پر ہے، اس میں جہاں ایک طرف بھارتی سامراج کے ظلم و استبداد کے تمام ہتھکنڈوں کی ناکامی الم نشرح ہے، وہیں کشمیر کے بوڑھوں اور جوانوں ہی نے نہیں، بچوں اور خواتین کے ایک سیلاب نے سب کو ششدر کر دیا ہے۔ احتجاج اور قربانیوں کا یہ حال ہے کہ شہدا کے سروں کی فصل کاٹی جارہی ہے مگر سرفروشوں کی فراوانی میں کوئی کمی نہیں۔ ہر گھر ماتم کدہ بن گیا ہے مگر خون اور آنسو اس تحریک کے لیے مہمیز کا کام کر رہے ہیںاور جموں و کشمیر کا بچہ بچہ آزادی کا علَم لے کر اُٹھ کھڑا ہوا ہے، اور بوڑھے مگر جوان ہمت قائد سید علی شاہ گیلانی کی آواز پر ان سطور کے لکھے جانے کے وقت تک ۸۱ویں روز بھی ہڑتال جاری ہے اور قائد کے الفاظ میں:

کشمیری عوام نے واپسی کی کشتیاں جلا دی ہیں۔ بھارت ان کی کنپٹی پر بندوق رکھ کر انھیں خاموش نہیں کرسکتا۔ کشمیر کا پتّا پتّا بوٹا بوٹا بھارتی قبضے کے خلاف سراپا احتجاج ہے۔

ویسے تو کشمیر کی بدقسمت تاریخ کے دور کا آغاز دو صدیوں پہلے برطانوی سامراج کے اس ظالمانہ اور غاصبانہ اقدام سے ہوا جس میں ایک پوری ریاست اور ایک پوری قوم کو چند ٹکوں     کے عوض ڈوگروں کے ہاتھوں فروخت کر کے ایک استبدادی نظام اور بیرونی سیاسی غلامی کے تحت ایک اور بھی قبیح تر غلامی کا دروبست قائم کیا گیا۔ برطانوی سامراج کے خلاف آزادی کی تحریک جب نئی کروٹیں لے رہی تھی تو کشمیر کے مسلمانوں نے بھی ڈوگرہ سامراج اور برطانوی اقتدار کے خلاف اس جدوجہد میں بھرپور حصہ لیا، اور اپنے مخصوص حالات کی روشنی میں ۱۹۳۰ء ہی کے عشرے میں تحریکِ پاکستان سے بھی ۱۰سال قبل اپنی آزادی کی تحریک کا آغاز کیا اور اس طرح برعظیم کی آزادی کی تاریخِ جدید میں جدوجہد، مزاحمت اور قربانیوں کا ایک نیا روشن باب رقم کیا۔

تقسیم ملک کے فیصلے کے ساتھ ہی جموں و کشمیر کی اسمبلی کے مسلمان ارکان نے الحاقِ پاکستان کا اعلان کیا، اور ریاست گیر تحریک برپا کی جسے قوت کے ذریعے کچلنے میں ڈوگرہ راج نے کوئی کسر نہ چھوڑی۔ اہلِ اقتدار نے بھارتی قیادت کا ساتھ دیا اور مائونٹ بیٹن اور ریڈکلف نے ہراصول اور وعدے کو پامال کرتے ہوئے ریاست جموں و کشمیر پر بھارت کے قبضے کا راستہ صاف کیا۔ پاکستان کی افواج کے برطانوی کمانڈر نے قائداعظم کا حکم ماننے سے انکار کرکے پاکستان کے متبادل اقدام کو ناکام کیا جس کے ردعمل میں عوامی تحریک نے ایک نیا رُخ اختیار کیا۔ قبائل کے مجاہدین نے   اس میں شرکت کی اور اس جدوجہد سے ریاست کا ایک حصہ بھارتی تسلط سے بچایا جاسکا لیکن   اس مزاحمت میں محتاط اندازے کے مطابق ۵ لاکھ شہید ہوئے اور لاکھوں کے گھربار لٹ گئے اور انھیں ہجرت کا راستہ اختیار کرنا پڑا۔ یہ وہ وقت تھا جب عوامی تحریک اور پاکستان نے جو پہل کی اسے غیرمؤثر کرنے کے لیے عالمی سیاست کا کھیل شروع ہوا۔ بھارتی وزیراعظم شکست سے بچنے کے لیے اقوامِ متحدہ کی طرف دوڑے اور امریکا اور برطانیہ کے کلیدی کردار اور پاکستانی حکومت کی خودفریبی، ناتجربہ کاری اور سادہ لوحی کے نتیجے میں جیتی جانے والی بازی سیزفائر اور استصواب کے وعدوں کی نذر ہوگئی۔ بھارت کی فوجوں نے جموں و کشمیر کی ریاست کے بڑے حصے پر قبضہ ضرور کرلیا اور اپنی من پسند حکومتوں کو بھی وہاں مسلّط کردیا لیکن جموں و کشمیر کے مسلمانوں کے دلوں کو وہ مسخر نہ کرسکے اور ان کی تحریک مزاحمت زیرِزمین اور برسرِزمین جاری رہی۔

بھارت کے وعدوں اور اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے غیرمؤثر ہونے، پاکستان اور بھارت کی سیاسی، عسکری اور معاشی قوت کے تفاوت اور پاکستان کی حکومتوں کی غلطیوں، کمزوریوں، پسپائیوں اور قول و عمل میں بعد، نیز ۱۹۷۱ء کے سقوطِ مشرقی پاکستان کے سانحے کے اثرات کی روشنی میں کشمیر کی تحریکِ مزاحمت کا دوسرا دور اندر سے تبدیلی کی ایک کوشش تھا۔ ۱۹۷۲ء میں پہلی دفعہ اسلامی تحریک کے قائدین نے کشمیر کی آزادی کے لیے اپنے اہداف پر کوئی سمجھوتا کیے بغیر نئی حکمت عملی مرتب کی اور برطانوی سامراج کے خلاف تحریکِ آزادی کی دستوری جدوجہد کی کتابِ تاریخ سے استفادہ کرتے ہوئے انتخابات میں شرکت کا فیصلہ کیا۔ سید علی شاہ گیلانی ۱۹۷۲ئ، ۱۹۷۷ء اور ۱۹۸۷ء میں ریاست جموں و کشمیر کے رکن اسمبلی منتخب ہوئے اور اسمبلی کے اندر اور باہر استصواب اور الحاقِ پاکستان کی مہم کی قیادت کی۔ مگر بھارتی حکومت نے جب جمہوری عمل کے ذریعے بھی تبدیلی کا راستہ بند کیا تو تحریکِ مزاحمت کے سامنے اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہ رہا کہ عوامی تحریک کو جاری رکھنے کے لیے قوت کی عدم مساوات کے باوجود عسکریت کا راستہ اختیار کرے، جس طرح دنیا بھر میں آزادی کی تحریکوں نے ریاستی قوت اور دہشت گردی کے مقابلے میں ممکنہ وسائل اور ذرائع سے ریاست کی قوت پر ضرب لگانے اور مزاحمت کی عسکری حکمت عملی اختیار کی۔

تحریکِ مزاحمت کا موجودہ مرحلہ

تحریکِ مزاحمت کا یہ تیسرا دور ۱۹۸۹ء سے شروع ہوا ہے اور مختلف نشیب و فراز کے باوجود جاری ہے۔ یہ بات اچھی طرح سمجھنے کی ہے کہ کشمیری عوام نے یہ راستہ بھارتی حکومت کی جمہوریت کُش پالیسی اور تشدد کے ذریعے عوام کے سیاسی حقوق اور سیاسی عزائم کو قوت کے ذریعے دبانے اور عالمی معاہدات اور وعدوں سے فرار کے نتیجے میں اختیار کیا اور اس کا اعتراف آزاد محققین نے تو بار بار  کیا ہی ہے۔ لیکن اب تو اس کا اعتراف بھارتی پالیسی کے معذرت خواہ (apologists) اہلِ قلم بھی کرر ہے ہیں جس کی تازہ ترین مثال اصغر علی انجینیر کا وہ مضمون ہے جس میں اب بھی وہ بھارت کے دستور میں رہتے ہوئے کسی حل کی بات کرتے ہیں مگر ساتھ ساتھ اعتراف کرتے ہیں کہ:

حقیقت یہ ہے کہ کشمیر میں مسلح مزاحمت ۱۹۸۹ء میں اس وقت شروع ہوئی جب انتخابات میں دھاندلی کی گئی اور ایک اسکول کے استاد صلاح الدین کو، جو اَب حزب المجاہدین کے سربراہ ہیں، ناکام قرار دیا گیا، جب کہ بیش تر کشمیری سمجھتے تھے کہ وہ انتخاب جیتے ہیں۔ (ڈان، ۲۵ جولائی ۲۰۱۰ئ)

بات صرف ایک صلاح الدین کی نہیں، تحریکِ مزاحمت اور متحدہ محاذ کی پوری قیادت کی ہے اور حکمت عملی کی اس تبدیلی کی پوری ذمہ داری بھارت اور اس کی پالیسیوں پر ہے۔ نیز یہ بات بھی سامنے رکھنا ضروری ہے کہ یہ صورت حال صرف جموں و کشمیر میں رونما نہیں ہوئی، سامراج کی پوری تاریخ اس پر شاہد ہے کہ بیرونی قبضے کے خلاف کسی نہ کسی مرحلے پر تحریکِ مزاحمت کو قوت کے نشے میں مست حکمرانوں کے بالمقابل آکر مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج اقوام متحدہ کے ۱۹۲ رکنممالک میں سے تقریباً ۱۶۰ ایسے ہیں جوسیاسی اور عسکری مزاحمت کے نتیجے میں آزادی حاصل کرسکے۔ یہی وجہ ہے کہ اقوامِ متحدہ نے امریکا، روس، بھارت اور اسرائیل کی ساری کوششوں کے باوجود تحریکِ آزادی اور حق خود ارادیت کے حصول کے لیے کی جانے والی عسکری مزاحمت کو  دہشت گردی قرار نہیں دیا اور یہ مقولہ ایک عالمی صداقت کی حیثیت اختیار کرچکا ہے کہ ’’کچھ کی نگاہ میں جو دہشت گرد ہے وہ دوسروں کی نگاہ میں آزادی کا سپاہی ہے‘‘۔ اس کی تاریخی مثال خود  امریکی ریاست کا بانی جیرفرسن ہے جسے امریکا ’آزادی کا سپاہی‘ اور اس وقت کا برطانیہ ’دہشت گرد‘ قرار دیتے تھے۔ نیز مشہور امریکی دانش ور پروفیسر ہن ٹنگٹن بھی یہ کہنے پر مجبور ہوا کہ دہشت گردی طاقت ور اور منہ زور قوتوں کے خلاف کمزوروں کا ہتھیار ہے۔ (terrorism is the weapon of the weak against the strong)

جموں و کشمیر میں ۱۹۸۹ء میں برپا ہونے والی اس تحریک نے اپنے اثرات قدم قدم پر مرتسم کیے ہیں اور سارے نشیب و فراز کے باوجود اور قوت کے محیرالعقول تفاوت کے علی الرغم بھارت کے اقتدار کی چولیں ہلا دی ہیں۔ بلاشبہہ ۹۰ہزار سے زیادہ شہدا کے لہو نے اس تحریک کو سیراب کیا ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایک نہیں بھارت کے کم از کم تین چیف آف اسٹاف اس امر کا اعتراف کرچکے ہیں کہ عسکری قوت سے تحریکِ مزاحمت کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ تازہ ترین اعتراف بھارت کے موجودہ آرمی چیف جنرل وی کے سنگھ کا ہے جو انھوں نے ۱۱جولائی ۲۰۱۰ء کو اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں کیا ہے کہ بھارتی فوج جو کچھ کرسکتی تھی، اس نے کر دیا ہے۔ اس سے زیادہ اس کے بس کی بات نہیں۔ مسئلے کا حل عسکری نہیں سیاسی ہے:

بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم نے جو کچھ حاصل کیا اس پر تعمیر نہیں کرسکے۔ جہاں تک فوج کا تعلق ہے میں سمجھتا ہوں کہ سیکورٹی فورسز کی حیثیت سے بہت کام کیا جاچکا ہے۔ حالات کو ایک ایسی سطح تک لایا گیا جہاں حالات بہتر کرنے کے لیے دوسرے اقدامات کیے جانے چاہیے تھے۔ (دی نیوز انٹرنیشنل، ۱۲ جولائی ۲۰۱۰ئ)

بھارتی فلبرائٹ اسکالر لوو پوری نے جو نیویارک یونی ورسٹی میں پڑھا رہا ہے، بھارتی رسالے اکانومک اینڈ پولیٹیکل ویکلی کی ۷؍اگست ۲۰۱۰ء کی اشاعت میں اپنے مضمون میں بھارت کے آرمی چیف کے اس بیان کا خصوصیت سے ذکر کیا ہے کہ: ’’فوج کے سربراہ وی کے سنگھ نے سیاسی اقدام کے لیے درست طور پر نشان دہی کی ہے‘‘۔ اسی مضمون میں مقبوضہ کشمیر کے وزیراعلیٰ عمر عبداللہ کا یہ اعتراف بھی دیا ہے کہ مسئلہ قانون اور امن و امان کا نہیں بلکہ نظریات کے تصادم کا ہے، اور مقبوضہ کشمیر کے وزیر پارلیمانی امور علی محمداصغر کا یہ اعتراف بھی دیا ہے کہ: We cannot fight our people.  (ہم اپنے ہی لوگوں سے نہیں لڑ سکتے)۔

اس کے ساتھ اگر بھارتی صحافی اور سفارت کار کلدیپ نائر کا یہ اعتراف بھی نظر میں رہے تو بھارت کی عسکری پالیسی اور قوت سے کشمیر کو قابو میں رکھنے کی پالیسی کی ناکامی اور کشمیری عوام کی تحریکِ مزاحمت اور اس کے ہر دور کی کارفرمائی کو سمجھنے میں کوئی مشکل باقی نہیں رہتی ہے: ’’یقین کیجیے کہ میں عوام کی قربانیوں کی اہمیت کم نہیں کر رہا۔ دنیا میں بہت کم تحریکیں اتنی پُرعزم اور اتنی دیرپا رہی ہیں‘‘۔ (ڈان، ۱۱ جون ۲۰۱۰ئ)

تحریکِ مزاحمت کے اس تیسرے دور کے اثرات اپنی جگہ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ۱۱؍ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد حالات نے ایسی کروٹ لی اور انھیں اس رُخ پر ڈالنے میں امریکا، برطانیہ، اسرائیل اور بھارت نے اہم کردار ادا کیا کہ تحریکاتِ آزادی اور بیرونی قبضے کے خلاف مزاحمت کی مندرجہ بالا حکمت عملی کی راہ میں مشکلات بڑھ گئیں اور بیرونی دبائو اور سیاسی اور سفارتی تعاون کرنے والے ممالک اور قوتوں کی قلابازیوں کے باعث عسکری مزاحمت کو ثانوی پوزیشن اختیار کرنا پڑی۔ یہ بھی تاریخ کی ایک ستم ظریفی ہے کہ ان تمام تبدیلیوں کے باوجود چند سو یا چند ہزار مزاحمت کار  بڑی بڑی افواج اور مہلک ترین ہتھیاروں سے مسلح عالمی اور علاقائی قوتوں کے ریاستی دہشت گردوں کو ناکوں چنے چبوا رہے ہیں اور عملاً غیرمؤثر کیے ہوئے ہیں۔ عراق، افغانستان، غزہ، لبنان اور کشمیر ہرجگہ یہ منظر دیکھا جاسکتا ہے۔ کشمیر کے پس منظر میں اس مضحکہ خیز صورت حال کو کشمیر ٹائمز کا انتظامی مدیر انورادھا بحثن جیموال بھارتی رسالے اکانومک اینڈ پولیٹیکل ویکلی میں اپنے ایک مضمون میں اس طرح بیان کرتا ہے کہ:

تمام سرکاری اندازوں کے مطابق اس وقت پوری ریاست میں ۶۰۰ سے زیادہ جنگ جُو کارروائیاں نہیں کر رہے ۔ ان کے مقابلے کے لیے وہاں اب بھی ۶/۷ لاکھ فوجی موجود ہیں، جنھیں آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ جیسے خصوصی قوانین کے تحت تحفظ حاصل ہے۔ (اکانومک اینڈ پولیٹیکل ویکلی، ۱۰ جولائی ۲۰۱۰ئ، جلد XLV، ص ۲۸)

مزاحمت کی عسکری تحریک نے اس دبائو کے آگے ہتھیار نہیں ڈالے۔ البتہ اپنی حکمت عملی میں حالات اور وسائل کی روشنی میں ضروری تبدیلیاں کیں اور ایک بار پھر اوّلیت کا مقام سیاسی مزاحمت اور غیرعسکری جدوجہد نے لے لیا، اور اس طرح یہ تحریک اپنے چوتھے دور میں داخل ہوئی جس میں بندوق کے مقابلے بندوق اور گولی کے جواب میں گولی کی جگہ نعرہ، جھنڈے، ہڑتال اور پتھر نے لے لی۔ یہ کہنا درست نہیں کہ اس دور کا آغاز ۱۱جون ۲۰۱۰ء کو ۱۷سالہ طفیل احمد منٹو کی شہادت سے ہوا۔ بلاشبہہ ۱۱ جون کے واقعے نے اس تحریک پر گہرا اثر ڈالا اور اسے ایک نئے فراز کی بلندیوں کی طرف متحرک کیا مگر حقائق کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ صورت حال کا صحیح جائزہ لیا جائے۔

تحریک کے اس دور کا آغاز ۲۰۰۸ء کے موسمِ گرما میں ہوا۔ جب حکومت نے کشمیر کی ۱۰۰ایکڑ اراضی امرناتھ ٹرسٹ کو منتقل کی اور اس کے خلاف سول تحریک کا آغاز سید علی شاہ گیلانی کی پکار پر ہوا۔ پُرامن احتجاج، ہڑتال اور گولی کے جواب میں پتھر کے ہتھیار کا استعمال اس موقع پر ہوا اور اس طرح تحریکِ کشمیر نے فلسطین کی تحریکِ مزاحمت سے سبق سیکھتے ہوئے غیرمسلح سیاسی جدوجہد کے عنوان کے طور پر پتھر کے استعمال کا آغاز کیا اور حکومت کو اپنے اس اقدام سے پسپائی اختیار کرنا پڑی۔ اس تبدیلی کو مؤقر بھارتی جریدے اکانومک اینڈ پولیٹیکل ویکلی نے اپنے ایک اداریے میں اپنے مخصوص انداز میں بیان کیا ہے اور اس اداریے کا عنوان Kashmiris Civil Disobedience رکھا ہے اور ذیلی عنوان میں اصل حقیقت کو یوں بیان کیا ہے کہ:’’یہ صرف بھارتی حکومت ہے جس پر موجودہ بحران کا الزام عائد ہوتا ہے‘‘۔

اس بھارتی جریدے کے تجزیے سے مکمل اتفاق نہ کرتے ہوئے بھی ہم سمجھتے ہیں کہ موجودہ دور کو سمجھنے کے لیے اس نکتے کو سامنے رکھنا مفید ہے:

حقیقت یہ ہے کہ احتجاج اور بغاوت کے موجودہ مرحلے کا براہِ راست تعلق اس سال  ماچل میں تین شہریوں کے سفاکانہ قتل سے ہے جو فوجی افسروں نے کیا اور ان پر دہشت گردی کا جھوٹا الزام رکھا۔ اس پر وہ انعامات اور ترقیاں چاہتے تھے۔ یہ ایک واقعہ نہیں ہے بلکہ ایسے واقعات کی طویل فہرست ہے جس میں بے گناہ عوام کو اُٹھایا جاتا ہے اور سیکورٹی فورسز جنھیں کسی بھی سزا سے تحفظ حاصل ہے، انھیں قتل کر دیتی ہیں۔ کشمیر کے عوام کے لیے عرصے سے انڈیا کا مطلب بندوق کی نالی ہے، گو کہ انھوں نے جمہوری حل کے لیے فیصلہ کن ووٹ دیا ہے۔ یہ ستم ظریفی ہے کہ کشمیر کے عوام گاندھی کی اس ہدایت کی پیروی کر رہے ہیں کہ جب ریاست کرپٹ ہو اور اس میں قانون پر عمل داری نہ ہو تو سول نافرمانی ایک مقدس فریضہ بن جاتی ہے۔ لیکن کانگریس پارٹی کی حکومت جو مہاتما گاندھی کا نام جپتی رہتی ہے صرف فوجی عملہ بڑھانے اور بدعنوان اور غیرمتعلق لوگوں سے معاملات چلانے کا سوچ سکتی ہے۔ اگر بھارت کی حکومت اپنا جمہوری دستور ایک طرف ڈال دے اور سامراجی ریاست کے راستے پر چلے تو اس کا انجام معلوم ہے۔ اس کا حل سری نگر کی سڑکوں پر نہیں بلکہ نئی دہلی کی پالیسی اور رویوں میں تبدیلی سے ظاہر ہونا ہے۔ (۷؍اگست ۲۰۱۰ئ)

اور اسی جریدے کے ۳۱ جولائی کے شمارے میں ایک مکتوب نگار فیاض احمد بھٹ نے کشمیر کے تمام نوجوانوں کے جذبات کا اس طرح اظہار کیا ہے:

یہ لشکرِ طیبہ یا علیحدگی پسند نہیں ہیں جو کشمیر میں نوجوانوں کو پتھر مارنے پر اُبھارتے ہیں۔ ریاست کی حکومت اور دہلی کی حکومت دونوں اس کی ذمہ دار ہیں۔ مرکز اور ریاست وادیِ کشمیر کے عوام میں بے معنی بیانات، اور کمیشنوں اور تحقیقات کے ڈراموں سے علیحدگی کا احساس پیدا کرتے ہیں۔ میں ایک نام نہاد تعلیم یافتہ فرد ہوں لیکن حکومت کے طریقۂ کار سے مجھے غصہ آتا ہے اور میں خود پتھر پھینکنا چاہتا ہوں۔

کشمیر کی تحریکِ مزاحمت کے اس موجودہ مرحلے کو جو جون ۲۰۰۸ء سے شروع ہوکر    جون ۲۰۱۰ء اور اس کے بعد کے واقعات کی بنا پر ایک نئے اور فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوگئی ہے اچھی طرح سمجھنا ضروری ہے، اس کے مزاج اور انداز کار پر بھی نگاہ ضروری ہے اور اہداف کے بارے میں جو محسوس اور غیرمحسوس تبدیلی واقع ہو رہی ہے اس کے ادراک کی بھی ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کی موجودہ قیادت کو بدلتے ہوئے حالات کا کوئی ادراک نہیں، یا اس سے بھی زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ اس کی ترجیحات پاکستانی قوم کی ترجیحات، پاکستان اور اُمت مسلمہ کے مفادات اور کشمیری عوام کے عزائم، جذبات اور احساسات سے کوئی نسبت اور تعلق نہیں رکھتیں جو پاکستان، پاکستانی قوم اور جموں و کشمیر کے مسلمانوں سے بے وفائی اور غداری کے مترادف ہوگی۔ اس لیے ضروری ہے کہ قوم کے سامنے سارے حقائق رکھے جائیں اور دینی اور سیاسی قوتوں کو دعوت دی جائے کہ وہ دوسرے سارے مسائل اور مشکلات کے علی الرغم پاکستان کی زیست اور بقا کے اس پہلو پر بھی بھرپور توجہ دیں۔

زمینی حقائق

ہماری نگاہ میں تحریک کا یہ چوتھا مرحلہ بہت اہم اور غالباً فیصلہ کن ہے لیکن یہ اپنے پیش رو مراحل کا تسلسل ہے، ان سے انحراف نہیں، حالانکہ بھارتی اور کچھ مغربی تجزیہ کار اسے یہ رنگ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس لیے حالات کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ چند بنیادی امور کو سامنے رکھا جائے تاکہ صحیح پالیسی سازی اور عملی اقدام ممکن ہوسکیں:

m            ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے جو منفی اثرات مقبوضہ ممالک میں تحریکِ مزاحمت اور آزادی کی جدوجہد پر پڑے ہیں اور جس میں امریکا،اسرائیل، روس اور بھارت نے ایک خاص کردار ادا کیا ہے، نیز پاکستان کی مشرف حکومت اور موجودہ زرداری گیلانی حکومت دونوں اس کی گرفت میں آگئی ہیں۔ اس گرفت سے ذہنی اور عملی دونوں سطحوں پر نکلنا اوّلین ضرورت ہے۔ امریکا نے نائن الیون کے سہارے عالمی دہشت گردی کا جو بازار گرم کیا ہے، وہ اب دم توڑ رہا ہے۔ عراق سے فوجوں کا انخلا شروع ہوچکا ہے اور افغانستان سے نکلنے کے راستے تلاش کیے جا رہے ہیں۔ یہ سارا عمل بھی نہ شفاف ہے اور نہ حقیقی، لیکن حالات میں جو جوہری فرق واقع ہو رہا ہے اسے کوئی روک نہیں   سکتا۔ آزادی کی تحریکات کو دہشت گردی کا عنوان دے کر کچلنا ناممکن ہے۔ امریکا نے عالمی  عسکری دہشت گردی کے ساتھ جس ذہنی اور نظریاتی دہشت گردی کا ہدف پوری دنیا کو بنایا ہے اور بین الاقوامی قانون اور سیاست اور سفارت کاری کے اصول و آداب کو جس طرح مسخ کیا ہے، اس کے خلاف ردّعمل شروع ہوچکا ہے اور یہ بھی اپنے نتائج دکھائے گا۔ دہشت گردی کے نام پر مسلط کی جانے والی امریکا کی جنگ کے جو نقصانات پاکستان کو ہوئے ہیں، ان کا بھی اب ادراک ہورہا ہے۔ خود حکومت کے تازہ ترین جائزوں میں یہ بات آرہی ہے کہ پاکستان کی خارجہ اور داخلہ پالیسیاں ہی اس کی وجہ سے تہہ و بالا نہیں ہوئیں بلکہ پاکستان کی فوج اور حکومت عوام سے نبردآزما ہوگئے ہیں اور ملک خانہ جنگی کے خطرناک راستے پر پڑ گیا ہے، نیز معاشی طور پر اس نے ملک کو بالکل تباہ کر دیا ہے۔ وزارتِ خزانہ کے تازہ ترین مطالعات کی روشنی میں پاکستان کے غریب عوام اس جنگ کی جو قیمت ادا کر رہے ہیں وہ ۰۵-۲۰۰۴ء میں اگر ۱ئ۲۸۹ ارب روپے تھی تو وہ بڑھ کر ۰۹-۲۰۰۸ء میں ۷۹ئ۶۷۷ ارب روپے ہوگئی ہے، اور اس طرح صرف پانچ برسوں میں کُل معاشی چوٹ (economic cost) اس غریب، قرض میں جکڑی ہوئی قوم پر پڑی ہے وہ ۱۲ئ۲۰۸۳ ارب روپے ہے جو ۱۵۰ ارب ڈالر سے متجاوز ہے اور غالباً ۱۰-۲۰۰۹ء اور ۱۱-۲۰۱۰ء میں یہ سالانہ ضرب ایک ہزار ارب روپے سے تجاوز کرجائے گی۔

اس جنگ کی دلدل سے نکلے بغیر ہمارے لیے زندگی اور ترقی کا کوئی راستہ نہیں۔ اس سے عملاً بھی نکلنا ضروری ہے اور علمی اور سیاسی سطح پر دہشت گردی اور جنگ ِ آزادی کے فرق کو جس طرح ختم کیا گیا ہے اس کے خلاف بھی بغاوت ضروری ہے۔ کشمیر کی تحریکِ مزاحمت اور اس کا موجودہ فراز اس امر کا تقاضا کرتا ہے کہ اس سیاسی مخمصے  سے نجات حاصل کی جائے بلکہ اسے چیلنج کیا جائے جو اس صورت حال کا ذمہ دار ہے۔

  • دوسری بنیادی بات یہ سمجھنے کی ہے کہ کشمیر کی تحریکِ مزاحمت کا راستہ ان شاء اللہ کوئی نہیں روک سکتا۔ بھارت کی افواج ہی نہیں، اب وہاں کے دانش ور اور تجزیہ کار بھی بادل ناخواستہ اس امر کا اعتراف کر رہے ہیں کہ کشمیر میں بھارت کی پالیسیاں ناکام رہی ہیں۔ قوت سے اہلِ کشمیر کو ہمیشہ کے لیے محکوم نہیں رکھا جاسکتا۔ نوجوانوں اور خواتین کے میدان میں آنے اور پوری قوم کے ان کے ساتھ کھڑے ہونے نے اب یہ ثابت کر دیا ہے ۱۹۳۰ء میں جو تحریک شروع ہوئی تھی      وہ چاہے جن مراحل سے بھی گزری ہو اور اس کے اسلوب کار میں جو بھی تبدیلیاں واقع ہوئی ہوں اس کا اوّلین ہدف صرف دو ہیں:

اوّلاً: بھارت کے قبضے سے نجات اور آزادی کا حصول، دوم: اپنے اسلامی اور کشمیری تشخص کی حفاظت اور دینی، تہذیبی اور تاریخی رشتوں کی روشنی میں مستقبل کی تعمیر کا عزم۔

ہم بڑے دُکھ سے اس امر کا اعتراف کرتے ہیں کہ پاکستان کی حکومتوں کی ہولناک غلطیوں، کمزوریوں اور قلابازیوں کی وجہ سے پاکستان سے محبت، عقیدت اور یگانگت کے احساسات کے ساتھ اس کی قیادت سے مایوسی اور اس پر بے اعتمادی میں اضافہ ہوا ہے جو پچھلے دور کی   مشرف حکومت اور موجودہ زرداری گیلانی حکومت کی بے عملی اور بدعملی کی وجہ سے خطرناک حدود کو چھو رہا ہے۔ بھارت کے خلاف ان کے جذبات میں نہ صرف کوئی کمی نہیں بلکہ اضافہ ہوا ہے۔   اب خود بھارت کے اخبار ہندستان ٹائمز کے سروے کے مطابق جموں و کشمیر کے عوام کے ۸۷فی صد نے بھارت سے آزادی کی تائید کی ہے۔ جموں و کشمیر میں غیرمسلم آبادی کے باوجود ۸۷ فی صد کے بھارت کے چنگل سے نکلنے کے عزم کا اظہار غیرمعمولی اہمیت کا حامل ہے۔ بھارت کے ساتھ کشمیر کے منسلک رہنے کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا، البتہ پاکستانی قوم اور قیادت کے لیے یہ لمحۂ فکریہ ہے کہ کشمیری عوام نے اب تک پاکستان کی قیادت اور پالیسیوں سے تو مایوسی بلکہ برائ.ت کا اعلان کیا ہے لیکن پاکستانی قوم سے ابھی تک انھیں اُمید ہے۔ گو ان کی مایوسی روز بروز بڑھ رہی ہے، اگر اب بھی ہم صحیح پالیسی اختیار کریں اور اس کی روشنی میں صحیح اقدام بھی کریں تو پاکستان سے رشتہ جوڑنا جو ان کے دل کی آواز اور تاریخی آرزو ہے ایک بار پھر ان کی اوّلین ترجیح بن سکتا ہے۔ البتہ بھارت سے آزادی ان کا وہ ہدف اور تاریخ کا وہ اشارہ ہے جو نوشتۂ دیوار کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔ اس کا احساس اب بھارت کے سوچنے سمجھنے والے طبقوں میں بڑھ رہا ہے اور بین الاقوامی تجزیہ نگار بھی اس کا احساس و اعتراف کر رہے ہیں، مثلاً روزنامہ دی گارڈین لندن کے مقالہ نگار سائمن ٹس ڈال کے مطابق:

۱۹۴۷ء میں تقسیم کے بعد سے، دہلی کی کشمیر پالیسی، یعنی استصواب راے عامہ کے  اقوامِ متحدہ کے مطالبے کو نظرانداز کرنا، انتخابات میں دھاندلی کرنا، منتخب حکومتوں کو استعمال کرنا یا ان کا تختہ اُلٹ دینا اور معاشی ترقی کو نظرانداز کرنا___ مسئلے کی اصل جڑ ہے۔ (باربرا کراسٹ کے مطابق بحوالہ دی نیشن)

تشدد اس بات کی یاد دہانی ہے کہ بہت سے کشمیری ابھی تک اپنے آپ کو بھارت کا حصہ نہیں سمجھتے اور اعلان کرتے ہیں کہ آیندہ بھی ہرگز نہیں سمجھیں گے۔ بھارت نے کئی لاکھ فوجیوں اور نیم فوجیوں پر مشتمل فوج کشمیر میں رکھی ہے جس نے گرمائی صدرمقام سری نگر کو ایک مسلح کیمپ میں تبدیل کردیا ہے جہاں اکثر کرفیو ہوتا ہے اور ہمیشہ سر پر بندوق ہوتی ہے۔ میڈیا سخت پابندیوں کے تحت کام کر رہا ہے۔ بنیادی حقوق کی  خلاف ورزی اور ٹارچر کے دستاویزی ثبوت موجود ہیں جس کا فلسطینیوں سے اسرائیل کے سلوک سے تقابل نامناسب نہیں۔ (دی گارڈین، لندن، ۱۱؍اگست ۲۰۱۰ئ)

دی گارڈین ہی کی ایک اور مضمون نگار کیتھرین لیوک پاکستان کے سیلاب پر مغربی اقوام کے ردعمل کے موضوع پر حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے بھارت اور اس کی کشمیر پالیسی کا بھی تنقیدی جائزہ لیتی ہے اور اسی نتیجے پر پہنچتی ہے جس کی طرف اُوپر اشارہ کیا گیا ہے:

بھارت کے اپنے گھر میں بھی خود ملکی حالات کی پیدا کردہ بغاوت موجود ہے۔ شمال مشرق میں نیکسلائٹ اور مائو دہشت گرد بھارت کے استحکام کے لیے خطرناک چیلنج ہیں۔ یہ انتہاپسندی جس کی وجہ غربت ہے عالمی مذمت کا نشانہ نہیں بنتی۔ جولائی کے اقوامِ متحدہ کے اشاریے سے معلوم ہوتا ہے کہ بھارت کی آٹھ ریاستوں میں افریقہ کے صحرائی خطے کے ۲۶ممالک سے زیادہ افراد غربت کا شکار ہیں۔ بالآخر پریس میں یہ کہا جانے لگا ہے کہ گذشتہ ۶۰ برس سے کشمیر کا تنازع حل نہ ہونے کی ذمہ داری زیادہ قطعیت سے بھارت پر عائد ہوتی ہے۔ (دی گارڈین، لندن، ۱۳/اگست ۲۰۱۰ئ)

خود بھارتی روزنامہ دی ہندو اپنے ایک حالیہ اداریے میں کشمیر کی موجودہ صورت حال کی پوری ذمہ داری بھارت اور مقبوضہ کشمیر کی حکومت اور اس کے استبدادی ہتھکنڈوں اور قوت سے سیاسی مسائل کو ختم کرنے کی پالیسی پر ڈالتا ہے۔ (دی ہندو، ۱۷؍اگست ۲۰۱۰ئ)

فیصلہ کن مرحلہ

کشمیر کے حالات ایک تاریخی موڑ پر آگئے ہیں۔ تبدیلی دستک دے رہی ہے اور وہ کسی کا انتظار نہیں کرے گی کہ کشمیری قوم نے اپنا فیصلہ دے دیا ہے اور وہ اپنا حق حاصل کرنے کے لیے جان کی بازی لگاچکی ہے۔ اب فیصلہ پاکستان کی حکومت اور پاکستانی قوم کو کرنا ہے کہ تاریخ کے اس فیصلہ کن موڑ پر ان کا کردار کیا ہوگا؟ صاف نظر آرہا ہے کہ بھارتی جنتا پارٹی کے دبائو۱؎ اور مقامی زبانوں کے میڈیا کے شوروغوغا اور تشدد کو تیزتر کرنے کے واویلے کے باوجود بھارت کے سوچنے سمجھنے والے عناصر اور خود پالیسی ساز ان حالات کو بہ امر مجبوری تسلیم کر رہے ہیں۔ لیکن ابھی ہرسطح پر نہ صرف مزاحمت ہے بلکہ بھارتی دانش ور چانکیہ کی ہدایات کی روشنی میں اپنے تسلط کو کسی نہ کسی شکل میں باقی رکھنے، تحریکِ مزاحمت کو تقسیم کرنے، اس کی مخلص اور پرکھی ہوئی قیادت کے خلاف نت نئی چالیں چلنے، پاکستان کی حکومت کو نئے کھیلوں اور پھندوں میں اُلجھانے اور امریکا اور اسرائیل کے تعاون سے اپنی سازشوں کو آگے بڑھانے میں مصروف ہیں۔

جہاں تاریکی چھٹنے اور نئی صبح طلوع ہونے کے امکانات ہیں، وہیں ابھی سازشوں اور سامراجی ہتھکنڈوں کے جاری رہنے کا بھی پورا امکان ہے۔ اہلِ کشمیر اور پاکستان کو ہوا کے رُخ کو تو ضرور سمجھنا چاہیے مگر یہ جان کر کہ ابھی ظلم و ستم کی حکمرانی، قوت کے استعمال کے نئے تجربات، سیاسی سمجھوتوں اور دھوکوں کے نئے کھیل ’تقسیم کرو اور مسلط رہو‘ کی سامراجی پالیسی کے نئے ماڈلز کے تجربوں کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ اس لیے کہ  ع  ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں!

۱-            بھارتی روزنامہ انڈین ایکسپریس کے ۸جولائی ۲۰۱۰ء کے شمارے میں ایک مضمون Calming Kashmir میں بھارتی جنتا پارٹی اور اس کے جنگ جُو حلیفوں کی طرف سے کشمیر کے مسئلے کے حل کا جو نسخہ پیش کیا گیا ہے وہ بھی سامنے رکھنے کی ضرورت ہے: ’’پاکستان افضل خاں کی شیطانی پالیسی پر چل رہا ہے۔ اس کا جواب وہی ہے جو شیواجی نے دیا تھا‘‘۔ یہ اس تاریخی واقعے کی طرف اشارہ ہے جب مرہٹہ سردار شیواجی نے مسلمان سپہ سالار  افضل خاں کو ’امن مذاکرات‘ کے لیے بلا کر قتل کر دیا تھا۔

بھارت، امریکا اور اسرائیل کی اسٹرے ٹیجک پارٹنرشپ بھی اس مسئلے کے معتدل، مبنی برحق اور فوری حل کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ اسرائیل کی حکومت اور فوج دونوں بھارتی حکومت اور فوج کی کارروائیوں میں شریک ہیں۔ نیز امریکا اور بھارت کے اسٹرے ٹیجک تعاون کے نتیجے میں امریکا کی عالمی حکمت عملی اور پاکستان پالیسی ہی متاثر نہیں ہوئی بلکہ کشمیر کی تحریکِ مزاحمت اور اس مسئلے کے منصفانہ حل کے سلسلے میں بھی امریکا کا رویہ یکسر بدل گیا ہے۔

کیا یہی وجہ ہے کہ امریکا اپنے مفادات کی خاطر نہ صرف بھارت پر دبائو دالنے سے گریز کر رہا ہے بلکہ بھارت کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے اور پاکستان کی سرزمین سے دہشت گردی کے بھارتی الزامات کا سہارا لے کر پاکستان پر دبائو بڑھا رہا ہے اور صاف ظاہر کر رہا ہے کہ وہ کس کا دوست ہے اور کس کے مفادات کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ بھارت کی خارجہ پالیسی کی کامیابی اور پاکستان کی پالیسی کی ناکامی کا ثبوت اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے دو بیانات ہیں جو ایک ہفتہ کے وقفہ سے جاری ہوئے۔ پہلے بیان میں کشمیر کے حالات پر تشویش اور بھارت اور پاکستان کو مسئلے کے حل کی ترغیب اور دوسرے میں پہلے بیان سے برائ.ت کا اعلان۔

عالمی ادارے، امریکا اور یورپی اقوام اور مغربی میڈیا سب کچھ جانتے ہوئے بھی مفادات کی دوڑ میں بھارت کا ساتھ دے رہے ہیں اور اس کے مظالم اور سامراجی ہتھکنڈوں تک کا ذکر   الا ماشا اللہ کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔ یہ قابلِ ذکر ہے کہ اب اس صحافتی بددیانتی، طاقت اور مفادات کی جنگ میں کھلی کھلی جانب داری کے خلاف بھی آوازیں اُٹھنے لگی ہیں لیکن یہ آوازیں ابھی بہت ہلکی ہیں اور اس بات کی ضرورت ہے کہ جارحانہ سفارت کاری کے ذریعے دنیا کو اصل حقائق سے آگاہ کیا جائے۔ دنیا بھر میں پاکستانیوں، کشمیریوں اور انسانی حقوق کی حفاظت کے لیے اور سامراجی قوتوں کے خلاف کام کرنے والی تنظیموں، اداروں اور میڈیا کو متحرک کیا جائے لیکن یہ کون کرے، جب کہ پاکستان کی قیادت، اس کے سفارت خانے اور اس کے وسائل پاکستان اور کشمیر کے مفاد میں استعمال نہیں ہو رہے۔

کشمیر کے اس اہم سیاسی اور انسانی مسئلے کے بارے میں تغافل اور جانب داری کے سلسلے میں سیاسی قوتوں اور میڈیا کی ناکامی کے بارے میں جو آوازیں اب اُٹھنے لگی ہیں ان کو پروجیکٹ کرنے اور مزید تائیدی قوتوں کو متحرک کرنے کے جتنے امکانات آج ہیں پہلے کبھی نہیں تھے لیکن کون ہے جو ان سے فائدہ اٹھائے؟

دل خون کے آنسو روتا ہے کہ پاکستانی میڈیا اور پاکستانی قیادت اور سفارت کار خاموش ہیں، جب کہ مغرب کے ایوانوں میں خواہ کتنے ہی مدہم سُروں میں ہو، یہ آوازیں اُٹھنے لگی ہیں کہ بھارت ظلم اور دھوکے کا راستہ اختیار کیے ہوئے ہے، حقائق بھارت کی تصویرکشی سے بہت مختلف ہیں اور کشمیر کے مجبور انسانوں کی آواز کو اب نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ بھارت میں اردتارائے اور دوسرے دانش ور بھارت کی کشمیرپالیسی کے خلاف آواز اُٹھا رہے ہیں۔ امریکا اور برطانیہ میں بھی یہ احساس تقویت پارہا ہے۔ نیویارک ٹائمز کی نمایندہ Lyndia Polgreenسری نگر سے اپنی رپورٹ میں تازہ صورت حال کی پوری تصویرکشی کرتی ہے:

اسکول طالب علم ۱۹سالہ فدا نبی جس کے دماغ میں گولی پیوست تھی، چھے دن زندگی اور موت کی کش مکش میں مبتلا رہ کر جان کی بازی ہار گیا۔ کشمیر کے موجودہ خونیں موسمِ گرما میں یہ ہلاک ہونے والا ۵۰واں فرد تھا۔

کئی عشروں سے بھارت نے کشمیر میں لاکھوں کی تعداد میں فوج پاکستان کی برپا کردہ بغاوت کو فرو کرنے کے لیے لگا رکھی ہے۔ پاکستان اس سرحدی علاقے پر اپنا دعویٰ رکھتا ہے۔ بغاوت بڑی حد تک ختم ہوچکی ہے لیکن بھارتی افواج اب تک یہاں ہیں اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کو درپیش خطرے کا سامنا کر رہی ہیں: ایک انتفاضہ کی طرح کی عوامی بغاوت جس میں نہ صرف پتھر پھینکنے والے نوجوان شامل ہیں بلکہ ان کی بہنیں، مائیں، چچا اور دادا بھی شامل ہیں۔ یہ احتجاج مسلسل تیسرے موسمِ گرما میں پھوٹ پڑے ہیں۔ انھوں نے بھارت کو اپنی حالیہ تاریخ کے سنگین ترین داخلی بحران سے دوچار کر دیا ہے، احتجاج کی شدت اور استقلال کی وجہ سے نہیں بلکہ کشمیریوں کی تائید حاصل کرنے کے لیے پیسہ، انتخابات اور بہت بڑے پیمانے پر طاقت کے عشروں تک کے استعمال کی ناکامی کا اعلان ہونے کی وجہ سے۔

جواہر لال نہرو یونی ورسٹی دہلی کے پروفیسر ایک کشمیری ہندو امیتاب متو کا کہنا ہے کہ ہمیں کشمیر میں اپنی پالیسیوں پر مکمل طور پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ یہ پیسے کا مسئلہ نہیں ہے، آپ نے بڑے پیمانے پر پیسہ خرچ کیا ہے۔ یہ منصفانہ انتخابات کی بات بھی نہیں ہے۔ یہ کشمیریوں کی ایک ایسی نسل تک پہنچنے کا مسئلہ ہے جو سمجھتے ہیں کہ بھارت ایک بہت بڑا بھوت ہے جس کی نمایندہ اس کی افواج اور ان کے مورچے ہیں۔

بلاشبہہ حق خود ارادی کے لیے کشمیریوں کا مطالبہ علاقے کی تاریخ میں اتنا شدید پہلے کبھی نہ ہوا تھا۔ یہ ایسے وقت میں ہورہا ہے اور یہ اس وجہ سے بھی ہے کہ تنازعے کے حل کی سفارتی کوششیں جمود کا شکار ہیں۔

لینڈاا پنی حیرت کا اظہار کرتی ہے کہ:

اس موسمِ گرما میں احتجاج کرنے والوں اور فوجیوں کے درمیان ۹۰۰ کے قریب جھڑپیں ہوئی ہیں جس میں ۵۰ شہری ہلاک ہوئے ہیں، جو زیادہ تر بندوق کی گولی کے زخم سے ہلاک ہوئے ہیں۔پتھر پھینکنے والے مجمعوں نے ۱۲۰۰ فوجیوں کو زخمی کیا ہے اور کوئی بھی اس احتجاج میں ہلاک نہیں ہوا۔ جس سے یہ سوال پیدا ہورہا ہے کہ بھارت کی سیکورٹی فورسز غیرمسلح شہریوں کے خلاف اتنی زیادہ طاقت کیوں استعمال کررہی ہیں اور کیوں اس پر بین الاقوامی احتجاج اتنا کم ہے؟ ۳۱سالہ اسکول کے استاد الطاف احمد کا کہنا ہے کہ جب کشمیری سڑکوں پر مرتے ہیں تو دنیا خاموش رہتی ہے۔

بھارت کی غلط بیانیوں کا ذکر لینڈا اپنے اس اہم صحافتی مراسلے میں اس طرح کرتی ہے:

بھارتی حکام پتھر پھینکنے والے نوجوانوں کو سرحدپار کی پاکستان کی جہادی طاقتوں کے ناخواندہ ساتھی کی شکل میں پیش کرتے ہیں، اور تجویز دیتے ہیں کہ معاشی ترقی اور ملازمتیں نوجوانوں کو سڑکوں سے ہٹانے کی کلید ہے۔ مگر پتھر پھینکنے والے بہت سوں کو ناخواندہ نہیں کہا جاسکتا۔ وہ فیس بک میں ’میں کشمیری پتھر پھینکنے والا ہوں‘کے نام سے گروپ بناتے ہیں۔ ایک نوجوان جو احتجاج میں باقاعدگی سے شریک ہوتا ہے اور خالدخان کے نام سے جانا جاتا ہے، ایم بی اے ہے اور اچھی آمدنی والی ملازمت پر ہے۔ (’بھارتی افواج کو کشمیر میں وسیع بغاوت کا سامنا‘ نیویارک ٹائمز، ۱۲؍اگست ۲۰۱۰ئ)

ہفت روزہ نیوزویک ۱۷جولائی کی اشاعت میں مصنف اور تجزیہ کار Jereny Kahn کا مضمون شائع کرتا ہے جو وزیراعظم من موہن سنگھ کو مشورہ دیتا ہے کہ مسئلے کی اصل جڑ کی طرف  توجہ دو:

بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ کے لیے تشدد کی لہر ایک مشکل چیلنج ہے۔ انھیں اپنی حکومت کے عقابوں کو بھی روکنا ہے، جیسے ان کے وزیرداخلہ چدم برم جو طاقت کے بہت زیادہ استعمال کا جواز پیش کرتے ہیں اور موجودہ احتجاج کو پرانی طویل بغاوت سے جوڑ کر اور کسی ثبوت کے بغیر الزام لگاتے ہیں کہ پاکستان اور لشکرِطیبہ ان ہنگاموں کی ڈور ہلا رہے ہیں۔ من موہن سنگھ کو اس احتجاجی تحریک کو وہی سمجھنا چاہیے جو یہ ہے۔ یہ ان نوجوان کشمیریوں کے غصے اور محرومی کا احساس ہے جو اپنے آپ کو بقیہ بھارت سے الگ محسوس کرتے ہیں۔ وہ ریاست میں مواقع کے فقدان سے مایوسی کا شکار ہیں اور مقبوضہ لوگوں کی طرح رہنے سے تنگ آچکے ہیں۔ بھارت کے لاکھوں فوجی اور پولیس کے سپاہی کشمیر میں موجود ہیں اور وادی میں ہر جگہ ان کی موجودگی نظر آتی ہے۔ ان سیکورٹی فورسز کو قانونی تحفظ حاصل ہے جس کی وجہ سے یہ صورت حال طاقت کے غلط استعمال کو دعوت دیتی ہے۔

طارق علی لندن کے جریدہ لندن ریویو آف بکس کی ۲۲جولائی ۲۰۱۰ء کی اشاعت میں ایک مضمون Not Crushed, Merely Ignored میں بڑے دُکھ کے ساتھ پوری مغربی صحافت بشمول بائیں بازو کے دانش ور اور قلم کار سے شکایت کرتاہے کہ کشمیر میں مظالم کے کیسے پہاڑ ڈھائے جارہے ہیں اور انسانیت خاموش تماشائی ہے، حتیٰ کہ پاکستان کی قیادت اور میڈیا بھی اس بے حسی کا شکار ہیں:

کشمیر میں اموات کی خبریں تو غائب ہوجاتی ہیں، لیکن تہران کو جانے دیجیے، تبت کے معمولی سے واقعے کو بھی خوب بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف دشمنی پر فخر بھارت کے تشدد کے ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ نائن الیون کے بعد مسلمانوں کو مارنے کی کھلی چھٹی مل گئی جب کشمیر کی آزادی کی جدوجہد کو آسانی سے دہشت گردی کے خلاف جنگ سے جوڑ دیا گیا اور اسرائیل کے فوجی افسروں کو اکنور کی فوجی چھائونی میں بلایا گیا تاکہ وہ دہشت گردی کے خلاف اقدامات کے بارے میں مشورہ دیں۔ ویب سائٹ انڈیا ڈیفنس میں ستمبر ۲۰۰۸ء میں بتایا گیا کہ گذشتہ ہفتے میجر جنرل    اے وی مزراہی نے کشمیر کے متنازعے علاقے کا دورہ کیا تاکہ بھارتی فوج کو مسلمان باغیوں سے لڑائی میں جو چیلنج درپیش ہیں ان کو قریب سے دیکھ سکیں۔ تین دن وہ بھارت میں رہے اور فوج کی اعلیٰ قیادت سے اس منصوبے پر گفتگو کی کہ اسرائیلی کمانڈو بھارت کی افواج کو دہشت گردی کے خلاف لڑائی کی تربیت دیں۔ ان کا واضح مشورہ یہ تھا کہ وہی کرو جو ہم فلسطین میں کرتے ہیں اور ہمارا اسلحہ خریدو۔ ۲۰۰۲ء کے بعد چھے سالوں میں بھارت نے اسرائیل سے ۵ارب ڈالر کااسلحہ خریدا۔

طارق علی بھارت کے مظالم کی کچھ جھلکیاں اس طرح دکھاتا ہے:

بھارتی وزیراعظم کو ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ۲۰۰۸ء میں خط لکھا تھا جس میں کشمیر میں  انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تفصیل بیان کی تھی اور آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ بہت سے ایسے مقامات ہیں جہاں ۱۹۸۹ء سے جاری مسلح جدوجہد میں جو لوگ غیرقانونی طور پر قتل کیے گئے، ٹارچر کا نشانہ بنایا گیا، لاپتا افراد اور دوسری زیادتیوں کا شکار ہوئے ان کی باقیات دفن ہیں۔

صرف اُری ضلع کے ۱۸ دیہاتوں میں ۹۴۰ افراد کی قبریں پائی گئیں۔ ایک مقامی    این جی او، آئی پی ٹی کے کا کہنا ہے کہ ماوراے عدالت قتل اور ٹارچر دادی میں عام طور پر ہوتے ہیں اور مغربی ادارے نئی دہلی سے تعلقات خراب ہونے کے خدشے سے    اس بارے میں کچھ کرنے کی کوشش تک نہیں کرتے۔

آئی پی ٹی کے،کے فراہم کردہ اعداد و شمار حیرت ناک ہیں۔ اس کا دعویٰ ہے کہ ۱۹۸۹ء سے ۲۰۰۹ء تک کشمیر میں فوجی قبضے کے دوران ۷۰ہزار سے زیادہ اموات ہوئی ہیں۔ یہ رپورٹ ان دعووں کو تسلیم نہیں کرتی کہ یہ قتل انفرادی فعل ہیں۔ اس کے برخلاف یہ قبضہ کرنے کے باقاعدہ عمل کا حصہ ہیں۔ ان کو دورانِ ملازمت کارکردگی سمجھا جاتا ہے اور اس پر ترقی اور مالی انعامات دیے جاتے ہیں اور دعووں کی تصدیق کر کے ادایگیاں کی جاتی ہیں۔ اس گھنائونے اور مسلسل جاری تنازعے میں ۵ لاکھ سے زیادہ فوجی اور  نیم فوجی عملہ (عراق اور افغانستان میں موجود امریکی افواج سے زیادہ) کسی سزا کے خدشے کے بغیر کشمیر بھر میں امن عامہ برقرار رکھتا ہے اور لوگوں کی آمدورفت کو کنٹرول کرتا ہے۔ (لندن ریویو بُک، جلد۳۲، عدد ۱۴، ۲۲ جولائی ۲۰۱۰ئـ)

میں مغربی اخبارات اور رسائل کا مطالعہ گذشتہ ۴۰ سال سے کر رہا ہوں۔ کشمیر میں بھارت کے مظالم اور اس کی کشمیر پالیسی کے سلسلے میں جو معلومات اب آنا شروع ہوئی ہیں اس کی پہلے  نظیر نہیں ملتی۔ لیکن افسوس ہے کہ پاکستان کی حکومت، اس کے سفارت کار اور خود اس کا میڈیا (نواے وقت، نیشن اور جسارت جیسے چند اخبارات کو چھوڑ کر) اس سلسلے میں جس بے حسی اور بے بصیرتی کا مظاہرہ کر رہا ہے وہ مجرمانہ غفلت سے بھی کچھ بڑھ کر ہے!

اھلِ کشمیر سے یک جھتی کا تقاضا

بھارت اس وقت پریشان ضرور ہے مگر اپنی شاطرانہ چال بازیوں سے باز نہیں آیا۔ وہ اس وقت بھی جب کشمیر کا چپہ چپہ اس کے خلاف بغاوت کی علامت بن گیا ہے، نت نئی چالوں میں  مصروف ہے۔ پاکستان سے مذاکرات اور مذاکرات میں اصل مسائل سے فرار، نیز پاکستان کو بلیک میل کرکے دبائو میں رکھنے کی کوشش اس کا حصہ ہے۔ اب تک ۱۵۰ سے زیادہ مذاکراتی نشستیں ہوچکی ہیں لیکن نہ ماضی میں کچھ حاصل ہوا اور نہ مستقبل قریب میں کوئی امکان نظر آرہا ہے مگر پاکستان کو اُلجھا کر رکھنا اور بلیک میل کرنا دونوں کام جاری رہیں گے۔ کشمیر کی تحریکِ مزاحمت کے سلسلے میں اس کی ترجیح اس کو تقسیم کرنے، مذاکرات کا دھوکا دے کر تحریک کو تحلیل کرنے اور سب سے بڑھ کر اصل ایشو، یعنی حق خود ارادیت سے توجہ کو ہٹاکر معاشی پیکج اور علاقائی خودمختاری کا جھانسا دینا ہے جس کا تجربہ اہلِ کشمیر باربار کرچکے ہیں، اور شیخ عبداللہ ۱۱سال کی قید کے بعد اور خود اپنے تھوکے کو چاٹ لینے کے بعد دوبارہ برسرِاقتدار آئے لیکن ان کی موعودہ خودمختاری کا کیا حشر ہوا؟ خود  کلدیپ نائر کے الفاظ میں سن لیں اور کشمیر کی قیادت اس سے سبق لے:

شیخ عبداللہ اقتدار میں واپس آئے اور اس وقت کی وزیراعظم اندراگاندھی سے یہ معاہدہ کیا جس سے وہ خودمختاری بحال ہوگئی جو نئی دہلی میں ان کی غیرحاضری میں ختم کردی گئی تھی۔ لیکن شیخ عبداللہ کو آزادی سے کام کرنے کا موقع نہیں ملا کیونکہ بیورو کریسی اور خفیہ ایجنسیاں جو مضبوط ہوچکی تھیں اس کو کام کرنے کا موقع نہیں دینا چاہتی تھیں۔ شیخ نے مجھ سے کہا کہ وہ اکثر مجھ سے چپڑاسی کا سلوک کرتے تھے۔ (ڈان، ۶؍اگست ۲۰۱۰ئ)

آج بھی خودمختاری کی باتیں ہو رہی ہیں اور تو اور خود کلدیپ نائر بھی یہی راگ الاپ رہے ہیں کہ الحاق اور آزادی دونوں ممکن نہیں۔ الحاق کا حشر دیکھ لیا اور آزادی ان کے بقول بھارت اور پاکستان دونوں کو قبول نہیں، اس لیے معاملہ خودمختاری پر طے ہوجانا چاہیے۔ حالانکہ اصل مسئلہ ہی یہ ہے کہ اہلِ جموں و کشمیر کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق ملنا چاہیے اور وہ تقسیمِ ملک کے فارمولے، بھارت کے عہدوپیمان، اقوامِ متحدہ کی قراردادوں اور عالمی قوتوں کے پختہ وعدوں کی روشنی میں اپنا مستقبل طے کریں۔ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ نہ تھا، نہ ہے اور نہ ہوسکتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کے درمیان لائن آف کنٹرول نہ بین الاقوامی سرحد تھی اور نہ آج ہے۔ کشمیر کے لوگوں کی اس سرحد کے پارآمدورفت ایک ملک سے دوسرے ملک میں داخلہ یا اخراج کی حیثیت نہ رکھتے تھے اور نہ آج رکھتے ہیں۔ یہ ساری بحث کہ کس سرحد سے کون کہاں جا رہا ہے کشمیر کی حد تک غیرمتعلق ہے۔ کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ اور کشمیریوں کا حقِ خودارادیت محض وقت گزر جانے سے معدوم نہیں ہوجاتا اور اس حق کی حفاظت کشمیری عوام نے اپنے خون سے کی ہے۔ مسئلہ کشمیر ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے جس کے کم از کم تین فریق ہیں: یعنی بھارت، پاکستان اور کشمیری عوام۔ بین الاقوامی قانون اقوامِ متحدہ کے چارٹر کی رُو سے چوتھا فریق عالمی برادری بھی ہے۔ مسئلے کا محض دوطرفہ حل ناممکن ہے۔ حال ہی میں بی بی سی کی اُردو سروس کو انٹرویو دیتے ہوئے خود عمرعبداللہ    یہ کہنے پر مجبور ہوا:

کشمیر ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے اور اسے بھارت اور پاکستان کو مل کر حل کرنا ہوگا۔ ایسا حل نکالنا ہوگا جو جموں و کشمیر کے عوام کے لیے قابلِ قبول ہو۔ سب سے بڑا مسئلہ سیاسی ہے۔ بات چیت کا سلسلہ بحال کرنا ہوگا۔ (بی بی سی اُردو سروس، سیربین، ۸جولائی ۲۰۱۰ئ)

جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے۔ بنیادی مسئلہ ہے ہی حق خودارادیت کا اور اس میں پاکستان، بھارت اور کشمیری عوام تینوں کی شرکت اور اتفاق ضروری ہے، اور ہمیں یہ کہنے میں کوئی تردد نہیں کہ آخری حق اور اختیار جموں و کشمیر کے عوام کا ہے۔ جو بھی وہ طے کریں اسے قبول کیا جانا چاہیے اور مستقبل کا نظام ان کی مرضی سے قائم ہونا اور چلنا چاہیے۔ اس کے سواکوئی راستہ علاقے میں سلامتی اور استحکام کے حصول کا نہیں۔ اس کے لیے پاکستانی قوم اور حکومت اور عالمی برادری کو مثبت کردار اداکرنا ہوگا۔ سمجھوتوں کی سیاست ناکام رہی ہے۔ اصول اور حق و انصاف پر مبنی حل ہی مسئلے کا حل ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان کی حکومت جس مجرمانہ روش پر گامزن ہے وہ کشمیر، پاکستان، اُمت مسلمہ اور تاریخ سے غدّاری کی روش ہے اور پاکستانی قوم کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ اس غلط کار حکومت کو یا اس راستے سے مضبوط ارادے کے ساتھ روک دے یا اقتدار ان لوگوں کے سپرد کردے جو ملک، علاقے اور مسلمانانِ پاکستان و کشمیر کے مفادات کی حفاظت کرسکیں۔ کشمیر کا مسئلہ فقط زمین کا تنازع نہیں___ جموںو کشمیر کے ڈیڑھ کروڑ عوام کی آزادی اور حق خود ارادیت کا مسئلہ ہے، نیز ان کے ایمان، تصورِ حیات اور تہذیب و تمدن کی حفاظت کا مسئلہ ہے۔ اصولی بنیاد سے  ہٹ کر اس کا کوئی حل نہیںنکالا جاسکتا۔ یہ اہلِ کشمیر کا حق ہے، یہی پاکستان کا مفاد ہے اور یہی اسلام کا تقاضا ہے۔ کشمیر کے مظلوم مسلمانوں نے ہر طرح سے قربانی دے کر اپنی منزل اور اپنے اہداف کا اظہار و اعلان کردیا ہے اور وہ کسی بھی سامراجی قوت کے آگے سپر ڈالنے کے لیے تیار نہیں۔

بھارت کے مظالم ہر انتہا کو پار کرگئے ہیں اور دنیا کی بے حسی افسوس ناک اور شرم ناک ہے لیکن پاکستان کے غیور مسلمانوں اور پوری اُمت مسلمہ کے لیے خاموش تماشائی کا کردار دنیا اور آخرت دونوں میں خسارے کا سودا ہے۔ قرآن نے مسلمانوں کے لیے صحیح موقف کو کسی رُو رعایت کے بغیر واضح کر دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَمَا لَکُمْ لَا تُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَ الْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَآئِ وَ الْوِلْدَانِ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَـآ اَخْرِجْنَا مِنْ ھٰذِہِ الْقَرْیَۃِ الظَّالِمِ اَھْلُھَاوَ اجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْکَ وَلِیًّا وَّ اجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْکَ نَصِیْرًا o (النساء ۴:۷۵) آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں ان بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو کمزور پا کر دبا لیے گئے ہیں اور فریاد کر رہے ہیں کہ خدایا ہم کو  اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی حامی و مددگار پیدا کردے۔

بلاشبہہ آج پاکستان ایک عظیم آزمایش سے دوچار ہے۔ سیلاب کے طوفان نے ایک چوتھائی ملک کو تاراج کر دیا ہے اور ہر علاقہ اور ہر خاندان متاثر ہے لیکن موجودہ حالات میں بھی اُمت مسلمہ کو جس کردار کی تلقین کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ جہاں اپنے ملک کے بھائیوں اور بچوں کے دُکھوں میں شریک اور ان کو اس آزمایش سے نکالنے کے لیے ہرممکن اقدام کریں اور کسی قربانی سے دریغ نہ کریں، وہیں ان حالات اور مشکلات کے علی الرغم اپنے کشمیری بھائیوں اور بہنوں کی مدد کی بھی بھرپور انداز میں فکر کریں اور ان کی جدوجہد کی تقویت اور ان کی تحریک کی کامیابی کے لیے بھی کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کریں،اور سب سے اہم اپنے اور ان کے اصولی موقف پر سختی سے جم جائیں۔ اللہ کا وعدہ ہے کہ اس کی راہ میں خرچ کرنے سے کمی نہیں آتی۔ صحیح نیت سے بندہ جتنا خرچ کرتا ہے اللہ اسے اور دیتا ہے:

قُلْ اِنَّ رَبِّیْ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآئُ مِنْ عِبَادِہٖ وَ یَقْدِرُلَہٗ وَ مَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ شَیْئٍ فَھُوَ یُخْلِفُہٗ وَ ھُوَ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَo (سبا ۳۴:۳۹) اے نبیؐ! ان سے کہو، ’’میرا رب اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے کھلا رزق دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے نپا تُلا دیتا ہے۔ جو کچھ تم خرچ کردیتے ہو اس کی جگہ وہی تم کو اور دیتا ہے،وہ سب رازقوں میں سے بہتر رازق ہے‘‘۔

اہلِ ایمان کو یہ سبق بھی دیا گیا ہے کہ فراخی اور غنٰی کے عالم میں دینا تو معمول کی کارروائی ہے، اصل امتحان اس میں ہے کہ تنگی اور سختی کے عالم میں اپنے دوسرے بھائیوں اور بہنوں کی مدد کرو۔ قرآن نے جہاں فَے کی تقسیم کا اصول بیان کیا ہے وہاں اہلِ ایمان کو یہ ابدی ہدایت بھی دی ہے کہ:

وَالَّذِیْنَ تَبَوَّؤُا الدَّارَ وَالْاِِیْمَانَ مِنْ قَبْلِھِمْ یُحِبُّوْنَ مَنْ ھَاجَرَ اِِلَیْھِمْ وَلاَ یَجِدُوْنَ فِیْ صُدُوْرِھِمْ حَاجَۃً مِّمَّآ اُوْتُوْا وَیُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ وَلَوْ کَانَ بِھِمْ خَصَاصَۃٌ وَمَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ o (الحشر ۵۹:۹) اور وہ (یعنی اموال فَے) ان لوگوں کے لیے بھی ہیں جو ان مہاجرین کی آمد سے پہلے ہی ایمان لاکر دارالہجرت میں مقیم تھے۔ یہ ان لوگوں سے محبت کرتے ہیں جو ہجرت کرکے ان کے پاس آئے ہیںاور جو بھی ان کو دے دیا جائے  اس کی کوئی حاجت تک یہ اپنے دلوں میں محسوس نہیں کرتے اور اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں خواہ اپنی جگہ خود محتاج ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ اپنے دل کی تنگی سے بچا لیے گئے وہی فلاح پانے والے ہیں۔

یہ اسلام کے ابدی اصول ہیں اور فرد، معاشرہ اور ریاست ہر ایک کو ان کی روشنی میں اپنی پالیسی بنانے کی ہدایت ہے۔ ان احکام کا تعلق محض انفرادی سطح پر اِنفاق تک محدود نہیں بلکہ یہ زندگی کے ہر شعبے کے لیے رہنما اصول کی حیثیت رکھتے ہیں۔ آج جن حالات میں پاکستانی قوم ہے اس میں ان سے روشنی لیتے ہوئے ہمیں اپنی کشمیر پالیسی قومی یک جہتی کے ساتھ وضع کرنی چاہیے۔ امریکا کی مسلط کردہ ’دہشت گردی کی جنگ‘ سے نجات، بھارت کے سلسلے میں اصول اور حق و انصاف پر مبنی رویے اور جموں و کشمیر کی تحریکِ آزادی سے اپنے تعلق اور اس میں اپنے بھرپور کردار کی ادایگی کی فکر اسی احساسِ ذمہ داری کے ساتھ کرنی چاہیے جس سے ملک کے اندرونی مسائل حل، ضرورت مندوں کی مدد، غلط کاروں کا احتساب اور بحیثیت مجموعی اصلاحِ احوال کی جدوجہد کرنا ہم پر فرض ہے۔ مسلمان کا شیوہ زمانے کے رُخ پرچلنا، اور مصائب اور مشکلات کے آگے سپر ڈالنا نہیں بلکہ مخالف لہروں سے لڑنا اور حالات کے رُخ کو موڑنا ہے ع

زمانہ با تو نسازد ، تو با زمانہ ستیز

اور:

تندی بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب

یہ تو چلتی ہے تجھے اُونچا اُڑانے کے لیے