۱۱مئی ۲۰۱۳ء کے انتخابات میں عوام کے فیصلے کا سب سے نمایاں پہلو یہ تھا کہ وہ ملک کے نظام اور پالیسیوں میں بنیادی تبدیلیوں کے خواہش مند ہیں۔ پرویز مشرف اور زرداری،گیلانی، پرویز اشرف اور ان کے اتحادیوں نے اپنے ۱۴سالہ دورِ حکومت میں ملک کے پورے نظام کو جس طرح درہم برہم کیا تھا اور ملک کی آزادی، حاکمیت، سالمیت اور نظریاتی شناخت سے لے کر امن و امان، جان و مال اور آبرو کے تحفظ، اور معاشی اور معاشرتی، تعلیمی اور اخلاقی زندگی میں جو بگاڑ اور فساد اس زمانے میں رُونما ہوا، اس نے زندگی کی ہرسطح پر تباہی مچادی۔ کرپشن اور بدعنوانی کا طوفان اُٹھ کھڑا ہوا اور ایک عام آدمی کے لیے زندگی اجیرن ہوگئی۔ قوم کے سامنے ایک طرف وہ سیاسی پارٹیاں تھیں جو اس ۱۴سالہ دور کی نمایندہ بنیں، یعنی پیپلزپارٹی، اے این پی، ایم کیو ایم، مسلم لیگ(ق) اور ایک حد تک جے یو آئی۔ اور دوسری طرف وہ جماعتیںتھیں جو اس اسٹیٹس کو (status quo) کو چیلنج کررہی تھیں اور قوم کو تبدیلی کا پیغام دے رہی تھیں۔
قوم نے تبدیلی کے حق میں ووٹ دیا اور پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کو سندھ میں اپنے اپنے حلقوں میں اگر بظاہر کامیابی ہوئی بھی تو وہ عوامی مینڈیٹ کا نتیجہ نہیں بلکہ اس مینڈیٹ کو جبر اور دھوکے سے اغوا کرنے کے نتیجے میں حاصل ہوئی۔ مسلم لیگ (ن) کو مرکز اور پنجاب میں واضح مینڈیٹ ملا اور صوبہ خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف اور ایک حد تک جماعت اسلامی کو۔ جناب میاں نواز شریف نے ۱۱مئی کی رات ہی کو اپنی فتح کا اعلان کردیا اور گو وزارتِ عظمیٰ کا چارج انھیں ۶جون کو ملا لیکن ان کے فی الواقع (virtual) اقتدار اور آزمایش کا آغاز ۱۱مئی ہی سے ہوگیا۔ چونکہ وہ اس سے پہلے دو بار وزیراعظم کی ذمہ داریاں اُٹھاچکے تھے، ۲۰۰۸ء سے ۲۰۱۳ء تک سب سے بڑے صوبے پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کو اقتدار حاصل تھا اور مرکز میں بھی اس زمانے میں مسلم لیگ (ن) قومی اسمبلی اور سینیٹ میں معقول تعداد میں موجود ہونے کے باعث حزبِ اختلاف کا کردار ادا کر رہی تھی، اس لیے توقع تھی کہ اقتدار سنبھالتے ہی وہ تبدیلی کے سفر کا آغاز کرے گی اور قوم کے سامنے سوچے سمجھے منصوبے کے مطابق ایک نئی راہ کھل جائے گی۔
پارلیمانی جمہوریت کا ایک بنیادی اصول یہ ہے کہ حزبِ اختلاف دراصل منتظر حکومت (Government in waiting) کی حیثیت رکھتی ہے، اس کے پاس شیڈوکیبنیٹ کی شکل میں متبادل قیادت ہرلمحہ موجود ہوتی ہے اور وہ متبادل پالیسیوں کے باب میں بھی ہرلمحہ تیار ہوتی ہے۔ پھر مسلم لیگ (ن) کا دعویٰ تھا کہ اس کے پاس بہتر اور تجربہ کار ٹیم موجود ہے۔ اس نے دو سال کی تیاری اور بحث و مباحثے کے بعد ۲۰۱۳ء کے انتخابات کے لیے قوم کے سامنے ایک مفصل منشور پیش کیا تھا اور اس امر کی توقع تھی کہ ذمہ داری سنبھالنے کے فوراً بعد معروف جمہوری روایات کی روشنی میں وہ پہلے ۱۰۰ دن کا پروگرام قوم کے سامنے پیش کرے گی۔ پھر چونکہ ذمہ داری سنبھالتے ہی ۱۰دن کے اندر اسے نیا بجٹ پیش کرنا تھا جس کے لیے عملاً اس نے ۱۱مئی کے بعد ہی کام شروع کردیا تھا۔ وہ ایک نادر موقع تھا کہ کم از کم نئی پالیسیوں کا ایک مربوط نقشہ قوم کے سامنے پیش کردیا جائے لیکن بجٹ بحیثیت مجموعی مایوس کن رہا اور ان سطور کے لکھتے وقت تک ۱۰۰ میں سے ۵۰دن گزر چکے ہیں لیکن نئے پروگرام کی کوئی جھلک قوم کے سامنے نہیں آسکی۔
ایک بظاہر تجربہ کار ٹیم کی طرف سے یہ کارکردگی بڑی مایوس کن اور ملک کے مستقبل کے لیے تشویش ناک ہے۔ میاں نواز شریف اور مسلم لیگ کی پوری قیادت کو حالات کی نزاکت کا احساس کرنا چاہیے۔ ہم اپنے تمام اختلافات کے باوجود ملک کے وسیع تر مفاد میں دعاگو ہیں کہ وہ سیاسی قوتیں جنھیں قوم نے حالات کو سنبھالنے اور بگاڑ کی اصلاح کے لیے مینڈیٹ دیا ہے، وہ سنجیدگی، دیانت اور اعلیٰ صلاحیت کے ساتھ ملک و قوم کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کریں اور عوام کو اس دلدل سے نکالیں جس میں ان کو دھنسایا گیا ہے، ورنہ قوم خاص افراد ہی نہیں، سیاسی جماعتوں اور جمہوری عمل سے مایوس ہوسکتی ہے جو سب کے لیے خسارے کا سودا ہے۔
نئی حکومت سے یہ توقع تھی کہ اسے واضح مینڈیٹ ملا ہے۔ وہ معلّق پارلیمنٹ کی آزمایش سے بچ گئی ہے۔ چھوٹی جماعتوں کے بلیک میل کا بھی کوئی خطرہ نہیں ہے۔ وہ آگے بڑھ کر خارجہ اور داخلہ دونوں میدانوں میں ایک واضح لائحہ عمل قوم کے سامنے لائے گی اور کوشش کرے گی کہ زیادہ سے زیادہ اُمور پر قومی اتفاق راے پیدا کرے اور عوام کو ایک نئی اُمید اور اُمنگ دے کر سب کو ساتھ لے کر آگے بڑھے۔ بلوچستان کے گمبھیر حالات کی بناپر جو ابتدائی روش مسلم لیگ(ن) کی قیادت نے اختیار کی، اس سے اچھی اُمیدیں پیدا ہوئی تھیں لیکن ۵۰دن گزرنے کے باوجود اب تک صوبے میں کابینہ کا نہ بننا ایک پریشان کن صورت حال کی خبر دے رہا ہے۔ نیز دہشت گردی اور لاقانونیت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے۔ فاٹا اور کراچی کے حالات بھی دگرگوں ہیں اور سارے بلندبانگ دعوئوں کے باوجود دہشت گردی کے خلاف جامع قومی سلامتی پالیسی بنائے جانے کا خواب ایک خوابِ پریشان بنتا جارہا ہے۔ قومی سلامتی کے مسئلے پر کُل جماعتی کانفرنس کے انعقاد کی ایک تاریخ (۱۲جولائی) دینے کے باوجود اس طرف کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی اور معلوم ہوتا ہے کہ بنیادی اُمور کے بارے میں کوئی واضح سوچ بھی موجود نہیں۔ سب سے پریشان کن چیز سیاسی اور عسکری قیادت کے درمیان ہم آہنگی اور یک سوئی کے باب میں متضاداشاروں کا ظہور ہے۔ ایبٹ آبادکمیشن کی رپورٹ کے نام سے جو دستاویز سامنے آئی ہے اور جس طرح سامنے آئی ہے اس نے سیاسی سطح پر بڑے سوالیہ نشان مرتسم کردیے ہیں۔
ڈرون حملے بند کرانے اور امریکا سے دہشت گردی کی جنگ کے باب میں تعلقات پر مکمل نظرثانی قوم کے لیے اوّلین ترجیح کا عالمی مسئلہ تھا اور ہے۔ توقع تھی کہ اس سلسلے میں مسلم لیگ(ن) نے مناسب ہوم ورک کررکھا ہوگا جس کا وہ عندیہ بھی دیتے تھے مگر معلوم ہوتا ہے کہ ان کے سامنے کوئی واضح خطوطِ کار موجود نہیں ہیں اور خود اپنے منشور میں جو باتیں انھوں نے کہی ہیں، ان کو بھی کسی واضح اور متعین پالیسی میں ڈھالنے اور قوم کو ساتھ لے کر ایک حقیقی طور پر آزادخارجہ پالیسی مرتب کرنے کے باب میں ان ۵۰دنوں میں وہ پہلا قدم بھی نہیں اُٹھا سکے۔ نہ معلوم کس مصلحت کے تحت وزیراعظم صاحب نے خارجہ اُمور اور دفاع دونوں شعبے اپنے پاس رکھے ہیں اور عملاً کوئی مستقل وزیر ان اہم ترین شعبوں میں نہیں مل سکا۔ وزیراعظم کے مشیر براے خارجہ اُمور اور سلامتی اور معاون خصوصی کے درمیان بھی ہم آہنگی کا فقدان نظر آتا ہے۔ عالمِ سیاست کے دو اہم ترین مراکز، یعنی واشنگٹن اور لندن دونوں کے لیے مسلم لیگ(ن) کی حکومت مناسب سفیروں کا انتخاب نہیں کرسکی ہے۔ واشنگٹن میں ڈیڑھ مہینے سے کوئی سفیر نہیں ہے اور لندن میں زرداری صاحب کے معتمدخاص سفارتی تجربہ نہ رکھنے کے باوجود بطور ہائی کمشنر کام کر رہے ہیں۔ ان کے بارے میں جو کچھ ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ میں آیا ہے، اس کا ذکر نہ ہی کیا جائے تو بہتر ہے۔ افغانستان سے تعلقات پر کھچائو اور بے اعتمادی کے سایے صاف نظرآرہے ہیں۔ طالبان امریکا مذاکرات کی جو دگرگوں کیفیت ہے، وہ پاکستان کے لیے بھی بڑے مسائل پیدا کر رہی ہے اور آگ بجھانے کی کچھ کوششیں تو ہورہی ہیں لیکن اصل مسئلہ یعنی ’دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ‘ سے نکلنے اور اس آگ سے خود افغانستان کو بچانے کے لیے جس داعیے (initiative) کی ضرورت ہے، اس کے اِدراک کا دُور دُور پتا نہیں۔
خارجہ پالیسی کا سب سے تشویش ناک پہلو بھارت کے بارے میں نہایت سطحی اور جذباتی انداز میں نہایت غیرحقیقت پسندانہ پالیسی اشارے ہیں جو ناقابلِ فہم ہیں۔ انتخابی نتائج کے آتے ہی بھارت سے پینگیں بڑھانے کا عندیہ دیا گیا۔ بھارت سے آئے ہوئے ایک سکھ وفد کے سامنے جن جذبات کا اظہار کیا گیا اور جن میں تحریکِ پاکستان کے مقصد ِ وجود تک کی نفی کردی گئی، اس نے پوری قوم کو چونکا دیا۔ اگر تحریکِ پاکستان کی بنیاد، یعنی دو قوموں اور دو تہذیبوں کا اپنا اپنا مستقل وجود ہی محض ایک واہمہ تھا تو پھر پاکستان کا جواز ہی کہاں باقی رہتا ہے۔ یہ بات اگر بھارت میں گونجنے والی آواز کی بازگشت نہیں تو کیا ہے؟ پھر بھارت کے وزیراعظم کو حلف برداری کی تقریب میں بلانے کی بات کسی ہوم ورک کے بغیر اور ان کے ٹکے سے جواب کے بعد بھی شیروشکر ہونے کی باتیں کن عزائم کی غماز ہیں؟ بھارت میں ان د و مہینوں میں پاکستان کے خلاف اور خصوصیت سے کشمیر میں جس طرح بے دردی سے نوجوانوں کا قتل اور قرآنِ پاک کی بے حُرمتی ہورہی ہے، اس پر قرارواقعی ردعمل کا فقدان، بلکہ اس سب کے باوجود تجارت ہی نہیں ٹریک ٹو ڈپلومیسی کا آغاز قومی سلامتی کے باب میں کسی اعلیٰ اور جامع وژن اور ملک کے حقیقی مفادات کے باب میں صحیح ترجیحات کے فقدان کی بدترین مثال ہے۔
بھارت امریکا کے تعاون سے پاکستان میں، افغانستان میں اور اس پورے خطے میں جو کھیل کھیل رہا ہے، اس کو نظرانداز کرکے خوش فہمیوں پر مبنی جو اقدام کیے جارہے ہیں خواہ ان کا تعلق معیشت اور تجارت سے ہو یا سیاسی تعلقات اور بنیادی تنازعات کے بارے میں صحیح رویے سے، وہ کم سے کم الفاظ میں نہایت غیرحقیقت پسندانہ اور ملکی سلامتی پر منفی اثرات رکھنے والے ہیں۔ بھارت سے دوستانہ تعلقات ہم بھی چاہتے ہیں لیکن پاکستان کے اسٹرے ٹیجک مفادات کی قربانی یا ان کو پسِ پشت ڈالنے کی قیمت پر نہیں۔ اس سلسلے میں ایک اسٹرے ٹیجک ناکامی کشمیر کے مسئلے کے بارے میں مؤثر اور مضبوط ردعمل پاکستان کی طرف سے مؤثر ردعمل ظاہر نہ کیا جانا ہے۔ نیز عالمی سطح پر ان اُمور کو جس طرح ہمیں اُجاگر کرنا چاہیے تھا، اس کی کوئی فکر دُور دُور نظر نہیں آتی ہے۔ کشمیر میں نوجوان روزانہ اپنے خون سے اپنا احتجاج رقم کر رہے ہیں اور قرآن کی بے حُرمتی کے واقعے پر سروں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں اور پاکستانی حکومت بے جان تحفظات کے اظہار کے تکلف سے آگے بڑھنے کو تیار نہیں۔
بھارتی پارلیمنٹ پر دسمبر ۲۰۰۱ء کے حملے کا الزام بھارت نے پاکستان کو دیا تھا اور ایک سال تک بھارتی فوجیں پاکستان کی سرحدوں میں کیل کانٹے سے لیس کارروائی کے لیے پَر تولتی رہیں،اب اس واقعے کے بارے میں بھارت کے ایک سابق انڈر سیکرٹری نے بھارتی سپریم کورٹ میں ایک حلفیہ بیان دیا ہے جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ یہ حملہ کسی پاکستانی گروہ کے ایما پر نہیں خود بھارت کی اپنی ایجنسیوں کے ایما پر ہوا تھا اور سارا منصوبہ خود انھی کا تیار کردہ تھا۔ لیکن ہماری وزارتِ خارجہ کا یہ عالم ہے کہ اس نے صرف وضاحت حاصل کرنے کا تکلف کیا ہے اور عالمی سطح پر اس سے جو فائدہ اُٹھانا چاہیے تھا اس کا کوئی احساس دُور و نزدیک نظر نہیں آتا ہے۔ حالانکہ صرف یہ بیان ہی بھارت کی ایجنسیوں کے اس معاملے میں کردار کا غماز نہیں، اس سے پہلے خود بھارت کے آزاد مبصرین اور محقق اس راے کا اظہار کرچکے ہیں جس کی تفصیل خود بھارت کی پینگوئن پبلشرز کی شائع کردہ کتاب The Strange Case of The Parliament Attack میں موجود ہے جو ۲۰۰۶ء میں واقعے کے پانچ سال بعد شائع ہوئی ہے، اور جس میں بھاررت کی مشہور دانش ور ارون دھتی رائے نے اس پورے واقعے کے بارے میں ۱۳سوال اُٹھائے ہیں اور صاف الفاظ میں وہی بات کہی ہے جو اب بھارتی وزارتِ داخلہ کا انڈرسیکرٹری روی شنکرمانی ، بھارت کے خفیہ ایجنسی کے افسر ستیش چندرا ورما کی روایت کی روشنی میں کہہ رہا ہے۔ گویا اس کے اور ممبئی کے ۲۰۰۸ء کے خونیں واقعے کے پیچھے خود بھارت کا ہاتھ تھا اور یہ دونوں خونی ڈرامے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے کیے گئے۔ ارون دھتی رائے جس نتیجے پر ۲۰۰۶ء میں پہنچی، وہ اسی کے الفاظ میں پڑھنے کے لائق ہے کہ سات سال پہلے اس نے وہی بات کہی جو آج سپریم کورٹ میں حلف نامے پر کہی جارہی ہے اور پاکستان کی قیادت منہ میں گھونگنیاں ڈالے بیٹھی ہے۔ اپنے ۱۳سوالات کی روشنی میں ارون دھتی رائے کہتی ہے:
ان سوالات کا مجموعی طور پر جائزہ لیا جائے تو یہ نااہلیت سے بہت زیادہ سنگین صورت کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ جو الفاظ ذہن میں آتے نظر آتے ہیں وہ یہ ہیں: شرکت، سازش، خفیہ سازباز۔ کوئی وجہ نہیں کہ ہم صدمے کا جھوٹا اظہار کریں اور نہ ان خیالات کے سوچنے یا ان کو بلندآواز میں کہنے سے پیچھے ہٹیں۔ حکومتیں اور ان کی خفیہ ایجنسیاں ایک پرانی روایت رکھتی ہیں کہ اس طرح کے اسٹرے ٹیجک واقعات کو، جیساکہ یہ ہے، اپنے مقاصد کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال کریں (دیکھیے: جرمنی میں Reichstag کا جلنا اور ۱۹۳۳ء میں نازی طاقت کا عروج یا آپریشن گلے ڈیو جس میں یورپی خفیہ ایجنسیوں نے دہشت گردی کی کارروائیاں خود کیں، خصوصاً اٹلی میں، جن کا مقصد جنگ جوُ گروہوں جیسے Red Brigades کو منتشر کرنا خیال کیا جاتا ہے۔ (دی گارڈین، لندن، India's Shame از ارون دھتی رائے، ۱۵ دسمبر ۲۰۰۶ء)
واضح رہے کہ ممبئی حملے کے بارے میں صرف مانی اور ورما کے بیانات سوالیہ نشان نہیں اُٹھا رہے، ممبئی حملے میں جس طرح سمجھوتا ایکسپریس کے بارے میں بھارتی فوج کے حاضر سروس افسر کے کردار کا راز فاش کرنے والے پولیس افسر کو نشانہ بنا کر قتل کیا گیا، اور پھر جس طرح حال ہی میں حصولِ معلومات کے حق (Right to Information) کے ذریعے حاصل کی جانے والی معلومات کے ذریعے یہ حقائق سامنے آئے کہ ممبئی کے میونسپل آفس سے اس تاج محل ہوٹل کے بارے میں جو اس واقعے کا مرکزی مقام تھا، تمام میونسپل ریکارڈ غائب کردیے گئے ہیں جسے بھارتی اخبارات نے ایک بڑا سیکورٹی رسک قراردیا ہے۔ (ملاحظہ ہو، ایوننگ نیوز ڈائجسٹ، ۱۶جولائی ۱۳،۲۰ء رپورٹ کا عنوان: Taj Hotel Files went Missing before 26/11 attacks)
بات ذرا طویل ہوگئی لیکن مقصد اس طرف متوجہ کرنا ہے کہ بھارت سے دوستی کے شوق میں ہماری قومی سلامتی اور خارجہ سیاست کے ذمہ دار کس طرح زمینی حقائق کو نظرانداز کررہے ہیں، اور وہ پاکستان کے خلاف بھارت کے پروپیگنڈے کا مؤثر توڑ کرنے اور اصل حقائق دنیا کے سامنے لانے کے مواقع کو ضائع کر رہے ہیں۔
ہم بڑی دل سوزی کے ساتھ وزیراعظم صاحب کو متوجہ کرنا چاہتے ہیں کہ خارجہ پالیسی کے اُمور پر لب کشائی سے پہلے ٹھنڈے غوروفکر سے کام لیں اور خارجہ سیاست کے نشیب و فراز سے واقف ماہرین سے مشورہ کرلیا کریں۔ وہ بار بار کہہ چکے ہیں کہ ہم بھارت سے معاملات کو اس مقام سے شروع کرنا چاہتے ہیں جہاں ۱۹۹۹ء میں واجپائی صاحب کے ساتھ طے ہوئے تھے۔ ان کی خواہشات اپنی جگہ، اوّل تو جو کچھ اس موقع پر ہوا وہ نمایش زیادہ اور حقیقت (substantion) کم تھا۔ پھر لاہور کی بس ڈپلومیسی کے بعد کارگل واقع ہوا۔ جس نے حالات کو بدل دیا۔ اس زمانے میں بھارت میں بی جے پی کی پوزیشن اور سیاسی کردار میں زمین آسمان کا فرق واقع ہوچکا ہے۔ دسمبر ۲۰۰۱ء اور جولائی ۲۰۰۸ء کے دہلی اور ممبئی کے ڈراموں نے حالات کو بدل دیا ہے۔ بھارت امریکا تعلقات میں اس زمانے میں جو تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں انھوں نے پوری علاقائی سیاسی بساط کو متاثر کیا ہے۔ افغانستان اور بلوچستان میں بھارت کے کردار نے بھی مستقبل کے سیاسی منظرکو متاثر کیا ہے۔ چین اور بھارت کے تعلقات کے نشیب و فراز بھی ہوا کے نئے رُخ کا پتا دے رہے ہیں۔ کشمیر میں اس زمانے میں جو کچھ ہوا اور ہو رہا ہے اور مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر میں ڈیم تعمیر کرنے کی جو کوششیں کی جارہی ہیں وہ اپنے خاص تقاضے رکھتے ہیں۔ وزیراعظم صاحب کو معلوم ہونا چاہیے کہ ان ۱۴برسوں میں برعظیم کے سیاسی پُلوں کے نیچے بہت سا پانی بہہ گیا ہے اور اب ۱۹۹۹ء کے پروسس کا اُس مقام سے بحالی کا کوئی امکان نہیں۔ اس خواہش کی بحالی کا زمینی حقائق سے کوئی تعلق نہیں۔ مشرف نے اس زمانے میں کشمیر کے مسئلے کو جو نقصان پہنچایا ہے اس کے منفی اثرات بھی ناقابلِ انکار ہیں۔ نئی پالیسی کو اصولی پوزیشن ، زمینی حقائق اور ملک کے اسٹرے ٹیجک مفادات کی روشنی میں مرتب کیا جانا چاہیے۔ شاعرانہ خوش خیالیوں کا اس میں کوئی دخل نہیں۔ انھیں بھارت کے بارے میں اپنی سوچ پر بنیادی نظرثانی کرنا ہوگی ورنہ وہ خدانخواستہ پاکستان کے مفادات کو مشرف سے بھی زیادہ نقصان پہنچانے کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ ریاست کے اُمورپر اگر ’عمرا جاتی‘ کے جذباتی احساسات کا سایہ پڑنے دیا جائے تو اس کے بڑے خطرناک نتائج ہوسکتے ہیں جن کے بارے میں ہم پوری دردمندی سے ان کو متنبہ کرنا اپنا دینی اور ملّی فرض سمجھتے ہیں۔
اس سلسلے کی سب سے تکلیف دہ اور شرمناک مثال دفترخارجہ کا وہ بیان ہے جو بنگلہ دیش کے بارے میں دیا گیا ہے۔ وہاں کی عوامی لیگی حکومت ۱۹۷۱ء کے واقعات کے سلسلے میں جنگی جرائم کے نام پر ایک ڈراما کر رہی ہے جو دو سال سے جاری ہے۔ اس نتیجے میں پروفیسر غلام اعظم صاحب اور جماعت اسلامی کے پانچ قائدین کو شرمناک سزائیں دی گئی ہیں۔ ان کا ہدف صرف جماعت اسلامی کی قیادت نہیں بلکہ پاکستان، اس کی حکومت اور فوج ہے جس پر دنیا بھر میں احتجاج ہورہا ہے۔ جس مقدمے کا سارا بھانڈا خود لندن کے اکانومسٹ نے ٹربیونل کی غیرقانونی کارروائیوں کے پورے ریکارڈ کی بنیاد پر پھوڑا ہے، جس پر کئی مسلم اور مغربی ممالک کی حکومتوں نے احتجاج کیا ہے اور اس کے خلاف بنگلہ دیش کے عوام گذشتہ پانچ مہینے سے احتجاج کر رہے ہیں اور سیکڑوں افراد شہید ہوچکے ہیں اور ۵۰ہزار افراد اس وقت جیلوں میں ہیں، لیکن شرم کا مقام ہے کہ ہمارے دفترخارجہ کے ترجمان اسے بنگلہ دیش کا ’داخلی معاملہ‘ فرما رہے ہیں۔
بدقسمتی سے داخلی میدان میں بھی ان دنوں میں کوئی مثبت پیش رفت نظر نہیں آرہی اور ع
وہی رفتار بے ڈھنگی جو پہلے تھی، سو اب بھی ہے
سب سے اہم مسئلہ دہشت گردی، لاقانونیت، قتل و غارت گری، بھتہ خوری اور جرائم پر قابو پانے کا تھا لیکن چند خوب صورت بیانات کے سوا مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے دامن میں کوئی چیز نظر نہیں آتی۔ سپریم کورٹ ہر روز اسی طرح شکوہ سنج ہے کہ حالات میں کوئی تبدیلی نہیں۔ اس کے احکامات سے اسی طرح رُوگردانی کی جارہی ہے جس طرح ماضی میں ہورہی تھی۔ لاپتا افراد بھی اسی طرح لاپتا ہیں بلکہ ان کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے( جولائی ۲۰۱۳ء میں سپریم کورٹ نے ۵۰۴ لاپتا افراد کی بازیابی کا حکم دیا ہے اور پشاور ہائی کورٹ نے مزید ۲۵۴ کا)، اور بوریوں میں لاشیں اسی طرح مل رہی ہیں۔ پولیس اور ایف سی کی روز سرزنش ہوتی ہے مگر ’زمیں جُنبد نہ جُنبد گُل محمد ‘کی کیفیت ہے اور نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ عدالت عالیہ کو پولیس کے آئی جی، ڈی آئی جی اور فوج کی خفیہ ایجنسیوں کے کرنل صاحبان تک کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنا پڑ رہے ہیں۔ کراچی اُسی طرح میدانِ جنگ بنا ہوا ہے۔ نئے وزیرداخلہ صاحب نے جوش میں ایک مہینے میں حالات درست کرنے کی وارننگ دے دی تھی مگر پھر خود ہی اپنے الفاظ واپس لینے پڑے۔ لیاری ہی نہیں پورے شہرقائد میں جس طرح انسانوں کا خون ارزاں ہے اور بھتہ خور جس طرح دندناتے پھررہے ہیں، وہ بڑے بنیادی بگاڑ کی خبر دے رہے ہیں۔ کسی بڑے اقدام کے بغیر ان حالات کی اصلاح ممکن نظر نہیں آرہی۔ اصل وجہ مجرموں سے ناواقفیت نہیں، مجرموں پر ہاتھ ڈالنے کی ہمت اور سیاسی عزم اور اقدام کا فقدان ہے۔ سپریم کورٹ اپنے ۲۰۱۱ء کے فیصلے میں نام لے کر پولیس اور دوسری ایجنسیوں کی جوائنٹ رپورٹ کے حوالے سے ان عناصر کی نشان دہی کرچکی ہے اور ان کے خلاف باربار اقدام کا مطالبہ کر رہی ہے مگر صوبے کی حکومت حسب سابق غافل ہے اور مرکز ’ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم‘ کی تصویر بنا ہوا ہے۔
بجلی اور توانائی کا بحران ایک عفریت کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ ۴۸۰؍ارب روپے گردشی قرضے کے سلسلے میں ادا کیے جاچکے ہیں لیکن ابھی تک بجلی کی فراہمی اور لوڈشیڈنگ کی کمی کی شکل میں اس کا کوئی اثر نظر نہیں آرہا۔کن اداروں کی کتنی مدد کی گئی ہے اور کن شرائط پر؟ اس کی کوئی تفصیل قوم یا پارلیمنٹ کے سامنے نہیں آئی ہے۔ جس طرح قومی سلامتی کی پالیسی ایک خواب اور خواہش سے آگے نہیں بڑھ پارہی، اسی طرح قومی توانائی پالیسی بھی ابھی تک پردۂ اخفاء میں ہے، حالانکہ یہ دونوں چیزیں ایسی تھیں جنھیں حکومت کے بننے کے بعد فوری طور پر واضح شکل میں قوم کے سامنے آنا چاہیے تھا اور اس کے ساتھ ایک متعین ٹائم ٹیبل طے ہونا چاہیے تھا جس میں ہر ماہ کا ٹارگٹ ہوتا تاکہ کم از کم ان دونوں میدانوں میں فوری نتائج قوم کے سامنے آنا شروع ہوجاتے۔ کوئی بھی یہ توقع نہیں رکھتا کہ فقط ایک دو ماہ میں یہ مسائل حل ہوجائیں گے لیکن یہ توقع تو ضرور کی جارہی تھی کہ فوری طور پر نئی پالیسی اور اس پر عمل درآمد کا نقشۂ کار قوم کے سامنے ہوگا اور قوم یہ محسوس کرسکے گی کہ ہرماہ ہم اپنی منزل کی طرف چند قدم آگے بڑھا رہے ہیں۔ سب سے زیادہ تشویش واضح پالیسی کا فقدان اور عملی نتائج کی طرف پیش رفت کے نقشے کا نہ ہونا ہے۔اندازِ حکمرانی اور نتائج و ثمرات عوام تک پہنچانے کے نظام میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آرہی اور یہ سب سے تشویش ناک پہلو ہے۔
ہم سیاسی انتقام کو ایک اخلاقی اورقانونی جرم سمجھتے ہیں لیکن اہم قومی اداروں اور دستوری ذمہ داری کے مقامات پر صحیح لوگوں کا شفاف انداز میں تقرر اچھی حکمرانی اور نظامِ کار میں تبدیلی کے لیے ازبس ضروری ہے۔ سب سے بڑا صوبہ دو مہینے سے گورنر سے محروم ہے۔ سندھ میں ۱۱سال سے ایک ہی شخص سیاسی گٹھ جوڑ کی علامت بنا ہوا ہے۔ اہم قومی ادارے بشمول نیب سربراہ سے محروم ہے اور درجنوں مرکزی اداروں اور پبلک سیکٹر (enterprises) پر وہ لوگ براجمان ہیں جو اہلیت اور صلاحیت کو نظرانداز کرکے ذاتی یا گروہی مفادات کی خاطر مقرر کیے گئے تھے جو ان اداروں کی تباہی اور قومی وسائل کے ضیاع کا سبب رہے ہیں، لیکن آج تک نہ نئے افراد کے تقرر کا شفاف نظام بنایا گیا ہے اور نہ صحیح افراد کے تقرر کا عمل شروع ہوا ہے۔ بدقسمتی سے جہاں نئی تقرریاں ہوئی ہیں وہاں وہی پرانی روش جاری ہے۔ اس سلسلے میں پی آئی اے کی مثال میڈیا میں آرہی ہے اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے باوجود، نئی حکومت بھی مناسب اقدام کرنے سے گریزاں ہے۔ شخصی پسندوناپسند اور ذاتی وفاداریوں، دوستیوں اور احسانات کا بدلہ اُتارنے کے عمل کے تاریک سایے آج بھی منڈلاتے نظرآرہے ہیں۔ پنجاب میں لگژری مکانات پر ٹیکس ایک اچھا اقدام ہے مگر اس کے ساتھ وزرا اور بااثرافراد کے اپنے لگژری مکانات کو کیٹگری ۲ میں لانے کے بارے میں جو اطلاعات اخبارات میں آرہی ہیں، وہ اسی بیماری کا پتا دیتی ہے جس کے علاج کے لیے قوم نے قیادت کی تبدیلی کا اقدام کیا تھا۔ سرکاری وسائل کا شخصی استعمال اب بھی ہورہا ہے۔ اگر زرداری صاحب اپنے سرکاری دوروں پر بلاول اور آصفہ کو لے جاتے تھے تو اب چین کے دورے پر وزیراعظم اور وزیراعلیٰ اپنے اپنے صاحب زادوں کو لے کر گئے ہیں حالانکہ ان کو ایسے اہم اور حساس سیاسی دوروں میں شامل کیے جانے کا کوئی جواز نہیں۔ قوم سابقہ دور کی کرپشن سے بے زار تھی اور روزانہ سپریم کورٹ میں اُس دور کی کرپشن کے کسی نہ کسی واقعے کی شرمناک داستان بے نقاب ہورہی ہے۔ سابقہ حکمرانوں نے ترقیاتی فنڈز کو جس طرح ذاتی اور جماعتی مفادات کے لیے استعمال کیا ہے وہ شرمناک ہی نہیں مجرمانہ فعل ہے جس پر قانون کے مطابق گرفت ہونی چاہیے۔
ہم توقع رکھتے ہیں کہ موجودہ حکومت بدعنوانی اور کرپشن کے تمام دروازوں کو بند کرے گی اور سپریم کورٹ جس طرح بدعنوانی کے ایک ایک معاملے کو بے نقاب کر رہی ہے، حکومت نہ صرف ان اتھاہ کنوئوں(bottomless sinks) کو بند کرے گی بلکہ قوم کی لُوٹی ہوئی رقم قومی خزانے میں واپس لائے گی اور کرپشن کے ان شہزادوں کو قانون کے مطابق قرارواقعی سزا دلوائے گی۔ لیکن وزیراعظم کے حالیہ چینی دورے کے ضمن میں جو اطلاعات اخبارات میں آرہی ہیں، وہ بڑی پریشان کن ہیں اور ان کا فوری نوٹس لینے کی ضرورت ہے۔ نندی پور پروجیکٹ کے باب میں سابق حکومت نے مجرمانہ غفلت برتی اور مشینری ایک سال سے بندرگاہ پر پڑی سڑ رہی تھی، اس پروجیکٹ کو بحال کرنا ایک مفید اقدام ہے لیکن یہ بات عقل سے بالاتر ہے کہ ۳۳؍ ارب روپے کے اس پروجیکٹ کو چشم زدن میں ۵۷؍ارب روپے کا کیسے بنا دیا گیا اور چشم زدن میں متعلقہ وزارت کی سمری اور پلاننگ کمیشن سے منظوری اور غالباً وزارتِ مالیات کی طرف سے رقم کی فراہمی، یہ سب کیسے ہوا؟ اخباری اطلاعات ہیں وزارتِ خزانہ نے انکوائری شروع کردی ہے لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ سب ہوا کیوں؟ اس سلسلے میں ایک سابق ایم ڈی پیپکو کا ایک خط بھی اخبارات میں آیا ہے جس سے بڑی ہولناک صورت حال سامنے آرہی ہے (ملاحظہ ہو روزنامہ دنیا کا کالم ’میرے دوستوں کو اتنی جلدی کیوں؟‘)۔ اس کا فوری سدباب ضروری ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ نئی حکومت کو مناسب موقع ملنا چاہیے لیکن نئی حکومت کا بھی فرض ہے کہ وہ واضح پالیسیوں کا اعلان کرے، پالیسیوں پر عمل درآمد کا نقشۂ کار قوم کے سامنے لائے۔ اس نقشے کے مطابق احتساب کا نظام مرتب کیا جائے جس پر پوری شفافیت کے ساتھ عمل ہو اور قوم اور پارلیمنٹ کو ہرقدم پر پوری طرح باخبر رکھا جائے۔ میڈیا کو بھی پوری دیانت اور ذمہ داری سے مگر کسی مداہنت کے بغیر نگران (watch-dog) کا کردار ادا کرنا چاہیے۔ پارلیمنٹ اور خصوصیت سے حزبِ اختلاف کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی آنکھیں کھلی رکھیں اور تمام اہم اُمور پر احتساب کا فریضہ پوری ذمہ داری اور مستعدی سے انجام دیں۔
اس سلسلے میں تحریکِ انصاف اور جماعت اسلامی کے ارکان پر خصوصی ذمہ داری آتی ہے کہ وہ قوم کے ضمیرکا کردار ادا کریں اور پارلیمنٹ اور اس کی کمیٹیوں کو عوام کے حقوق کے تحفظ اور قوم کے وسائل کے صحیح استعمال کے لیے مؤثر انداز میں استعمال کریں۔ ایبٹ آباد کمیشن کی اصل رپورٹ کو فوری طور پر پارلیمنٹ کے سامنے آنا چاہیے تاکہ وہ کنفیوژن ختم ہو جو ایک ابتدائی مسودے کے ایک پُراسرار انداز میں شائع کیے جانے سے رُونما ہوا ہے۔ اسی طرح سپریم کورٹ اور ہائی کورٹوں کے فیصلوں کے سلسلے میں بھی حکومت اور پوری انتظامیہ کے رویے میں بنیادی تبدیلی کی ضرورت ہے تاکہ ان فیصلوں پر ٹھیک ٹھیک عمل ہو۔ سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ اگر حکومتیں اور ریاست کے تمام ادارے اپنے اپنے کام ٹھیک ٹھیک انجام دیں تو عدالتوں کو انتظامی اُمور میں مداخلت کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔ عدالتوں کو اس میدان میں احکام جاری کرنے کی ضرورت بھی صرف اس وجہ سے پڑرہی ہے کہ حکومت اور دوسرے ریاستی ادارے اپنی ذمہ داری ادا نہیں کر رہے اور لوگ مجبور ہوتے ہیں کہ انصاف کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں یا عدالت کو خود نوٹس لینا پڑتا ہے تاکہ ذمہ دار اداروں کی بے حسی پر ضرب لگا سکے۔ اندازِ حکمرانی کی فوری اصلاح ہی سے حالات صحیح رُخ پر آسکتے ہیں۔
ہم ہرگز معجزات کی توقع نہیں رکھتے لیکن قوم کا یہ حق ہے کہ کم از کم اس کے سامنے یہ چیز تو آئے کہ تبدیلی کی سمت کیا ہے اور منزلِ مقصود کی طرف کوئی قدم اُٹھ بھی رہا ہے یا نہیں۔ سفر بلاشبہہ طویل ہے اور قوم صبروہمت کے ساتھ راستہ کاٹنے کے لیے تیار ہوگی اگراسے یہ نظر آئے کہ منزل کا ٹھیک ٹھیک تعین ہوگیا ہے، پالیسیاں واضح ہیں، نقشۂ کار سب کے سامنے ہے، اور عملاً قدم اس سمت میں اُٹھائے جانے لگے ہیں۔ لیکن اگر ان میں سے کوئی چیز بھی نظر نہ آئے اور تبدیلی ایک سراب سے زیادہ نہ ہو تو پھر ع
میں کیسے اعتبار انقلاب آسماں کرلوں!
انتخابی نظام کی تمام خامیوں اور کوتاہیوں اور انتخابی عمل میں رُونما ہونے والی تمام بدعنوانیوں کے باوجود، قوم نے بحیثیت مجموعی ۱۱مئی ۲۰۱۳ء کے قومی اور صوبائی انتخابات کے ذریعے کم از کم تین پیغام بڑے صاف انداز میں ملکی قیادت اور متعلقہ عالمی قوتوں کو دیے ہیں:
اوّل: گذشتہ پانچ برسوں میں جو افراد اور جماعتیں برسرِاقتدار رہیں انھوں نے ملک کی آزادی، سالمیت اور نظریاتی تشخص ہی کو مجروح نہیں کیا ملک کی معیشت کو بھی تباہ و برباد کردیا اور ذاتی مفاد کی قربان گاہ پر قومی مفاد کو بے دردی سے بھینٹ چڑھایا، بدعنوانی اور کرپشن کا طوفان برپا کیا، عوام کے جان و مال اور آبرو کو بڑے پیمانے پر پامال کیا اور اس طرح اس اعتماد کو پارہ پارہ کردیا جو عوام نے ان پر کیا تھا۔ حکمرانی کی اس ناکامی کی وجہ سے قوم نے اس قیادت کو رد کردیا اور متبادل سیاسی قوتوں کو حالات کو سنبھالنے کا موقع دیا۔ برسرِاقتدار آنے والے لوگوں کا اصل امتحان اس میں ہے کہ وہ ملک کو ان دگرگوں حالات سے کیسے نکالتے ہیں، محض ماضی کا نوحہ کرنے سے کوئی خیر رُونما نہیں ہوسکتا۔
دوم: عوام تبدیلی چاہتے ہیں اور یہ تبدیلی محض جزوی اور نمایشی نہیں بلکہ حقیقی اور ہمہ جہتی ہونی چاہیے۔ انھوں نے لبرل سیکولر قوتوں کو رد کردیا ہے اور ان قوتوں کو ذمہ داری سونپی ہے جو آزاد خارجہ پالیسی ، دہشت گردی سے نجات ، معاشی ترقی، تعلیم اور صحت کے باب میں بہتر سہولتوں کی فراہمی، توانائی کے بحران کی دلدل سے ملک کو نکالنے اور معاشی اور سماجی خوش حالی اور سیاسی استحکام اور قانون کی حکمرانی کی منزل کی طرف قوم کو رواں دواں کرسکیں۔
سوم: عوام نے ملک کو معلّق پارلیمنٹ کی آزمایش میں نہیں ڈالا۔ نہ تو کسی پارٹی کو ایسی اکثریت فراہم کی جس کے بل بوتے پر اسے من مانی کرنے کا موقع مل جائے اور نہ ایسی بے بسی کی حالت والا اقتدار ہی دیا کہ دوسری چھوٹی چھوٹی جماعتوں کی تائید کی ایسی محتاج ہو کہ ان کے ہاتھوں بلیک میل ہو، اور ان کے مفادات کے تحفظ پر مجبور ہو۔
عوام کے اس پیغام کا تقاضا تھا کہ وفاقی حکومت اپنا بجٹ ایسا بنائے جو عوام کی توقعات اور ضروریات پر پورا اُترتا ہو اور ملک کی ترقی اور استحکام کے باب میں ایک واضح وژن، مناسب پالیسیاں اور ایسا نقشۂ کار (روڈمیپ) فراہم کرے جس سے تبدیلی کا سفر مؤثر ہو اور اس حالت میں شروع ہوکہ سب کو نظر آئے ۔ عوام کسی معجزے کے طالب نہیں لیکن وہ یہ توقع ضرور رکھتے ہیں کہ تبدیلی کا صاف شفاف راستہ اختیار کیا جائے اور خوش نما الفاظ اور سیاسی شعبدہ گری سے مکمل طور پر گریز کرتے ہوئے حقیقت پسندانہ انداز میں نئے سفر کا آغاز کیا جائے اور اس طرح کیا جائے کہ عوام اس کے عملی اثرات دیکھ سکیں۔ بلاشبہہ یہ قیادت کے لیے بڑی آزمایش ہے لیکن وقت کا یہی تقاضا ہے اور اسی میزان پر حکومت کے بجٹ، اس کی پالیسیوں اور اس کے عملی اقدامات کو تولا اور پرکھا جائے گا۔
۱۲جون ۲۰۱۳ء کو پیش کیے جانے والے بجٹ کا اگر معروضی جائزہ لیا جائے تو اس اعتراف کے باوجود کہ نئی حکومت کو ورثے میں جو معیشت اور سوسائٹی ملی، وہ بڑے بُرے حال میں تھی اور عالمی سطح پر بھی ملک کی ساکھ بُری طرح متاثر تھی، وفاقی حکومت پاکستان کی تاریخ میں عوام کی خواہشات کے مطابق نیا باب کھولنے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ بجٹ بحیثیت مجموعی مایوس کن اور اس تبدیلی کے آغاز کا سامان کرنے میں ناکام رہا ہے جس کے عوام خواہش مند ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ انتخابی نتائج کی روشنی میں انتقالِ اقتدار اور نئے سال کے لیے بجٹ پیش کرنے کے لیے جو وقت وزیرخزانہ کو ملا وہ بہت کم تھا اور انھیں عبوری دور کی ٹیم کے کیے ہوئے ہوم ورک ہی کی بنیاد پر رواں سال کا بجٹ پیش کرنا پڑا۔ مسلم لیگ (ن) کی معاشی ٹیم نے تو انتخاب سے قبل محنت اور تیاری کرلی تھی۔ اس کا مظہر وہ مفصل منشور ہے جو انھوں نے انتخاب سے کئی مہینے قبل قوم کے سامنے پیش کر دیا تھا۔ اب جو مینڈیٹ حکمران جماعت کو حاصل ہوا ہے وہ اسی منشور کی بنیاد پر حاصل ہوا ہے۔ نیز یہ بھی عام تاثر ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے پاس زیادہ لائق اور تجربہ کار ٹیم موجود ہے اور اس سے بجاطور پر یہ توقع کی جاتی تھی کہ وہ وقت کی ضرورتوں کے مطابق اور اس کے اپنے منشور میں رکھے گئے پروگرام کی روشنی میں ایک ایسا بجٹ پیش کرے گی جو قوم کو نئی اُمید دلا سکے، جو عوام کو ان کی مشکلات کی دلدل سے نکالنے کا ذریعہ بن سکے اور جسے وہ نہ صرف خوش دلی کے ساتھ قبول کریں بلکہ اس پر عمل کے لیے بھی کمربستہ ہوجائیں۔ ہم کسی جماعتی تعصب کی بناپر یہ بات نہیں کہہ رہے ہیں، ملک اور ملک کے باہر بیش تر نقاد اس احساس کا برملا اظہار کررہے ہیں کہ وفاقی حکومت عوام کی توقعات کے مطابق حالات کے چیلنج کا مؤثر جواب دینے والا بجٹ پیش نہیں کرسکی۔ اس کے برعکس صوبہ خیبر پختونخوا کی نئی حکومت اپنی تمام تر ناتجربہ کاری اور صوبے میں ہونے والی جنگ و دہشت گردی اور سابقہ حکومت کی نااہلی، بدعنوانی اور بُری حکمرانی کے نتیجے میں رُونما ہونے والی زیادہ گمبھیر صورت حال کے باوجود ایک نسبتاً بہتر اور عوام دوست بجٹ پیش کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ مرکزی وزیرخزانہ ایک اچھے انسان، ایک لائق ماہر حسابیات اور ایک تجربہ کار مالی منتظم ہیں اور اپنی جماعت میں بھی ان کا ایک اہم مقام ہے۔ وقت کی کمی کے باوجود ان سے ایک بہتر بجٹ کی توقع تھی جو بدقسمتی سے پوری نہیں ہوئی۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ پیپلزپارٹی اور اس کے اتحادیوں کی پانچ سالہ وفاقی حکومت پاکستان کی تاریخ کی ناکام ترین حکومت تھی۔ ۱۹۴۷ء سے ۲۰۰۷ء تک پاکستان کی معیشت کی سالانہ اوسط رفتار ترقی (growth rate) ۵ فی صد سے کچھ زیادہ رہی ہے لیکن پیپلزپارٹی کے اس دور میں اوسط رفتار ترقی ۳ فی صد رہی ہے جو سب سے کم ہے۔ غربت کی شرح ان پانچ برسوں میں آبادی کے ۲۹ فی صد سے بڑھ کر ۴۹ فی صد تک پہنچ گئی اور جو افراد خوراک کے بارے میں عدم تحفظ کا شکار ہیں، ان کی تعداد ۵۸ فی صد تک پہنچ گئی۔ ملک کی درآمدات اور برآمدات اور ادایگیوں کا عدم توازن دونوں کا خسارہ آسمان سے باتیں کرنے لگا اور اس طرح بجٹ کا خسارہ ۱۳-۲۰۱۲ء میں ۲۰۰۰؍ ارب روپے تک پہنچ گیا جس کا پیٹ بھرنے کے لیے اندھادھند قرضے لیے گئے۔ ۱۹۴۷ء سے ۲۰۰۷ء تک ۶۰برسوں میں ملک پر اندرونی اور بیرونی قرضوں کا کُل بوجھ ۶۰۰۰؍ارب روپے تھا جو ان پانچ برسوں میں بڑھ کر ۱۴۰۰۰؍ارب روپے سے تجاوز کرگیا ہے۔ ’دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ‘ میں پاکستان کی شرکت کے نتیجے میں ۵۰ہزار افراد کی ہلاکت ہوئی، اتنی ہی تعداد میں لوگ زخمی ہوئے اور ۳۰لاکھ سے زیادہ افراد بے گھر ہوئے اور ساتھ ہی ملک کی معیشت کو بھی ۱۰۰؍ارب ڈالر ، یعنی ۱۰ہزار ارب روپے سے بھی زیادہ کا نقصان ہوا۔
ان حالات میں نیا بجٹ بنانا آسان نہیں تھا۔ ایسے ہی حالات میں قیادت کا اصل امتحان ہوتا ہے کہ وہ کس طرح گرداب سے نکلنے کا راستہ قوم کو دکھاتی ہے اور ایک قابلِ عمل پروگرام کی شکل میں نئے سفر کا آغاز کرتی ہے۔ وفاقی حکومت اور اس کی معاشی ٹیم اس بازی کو سر کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ بجٹ کا فریم ورک وہی پرانا فریم ورک ہے اور جس نئے فریم ورک اور مثالیے (paradigm) کی ضرورت تھی اس کی کوئی جھلک اس میں نظر نہیں آتی۔ بلاشبہہ چند اچھے اقدام بھی اس میں تجویز کیے گئے ہیں اور ان کا کریڈٹ وزیرخزانہ اور ان کی ٹیم کو دیا جانا چاہیے۔ ان کی مشکلات اوروقت کی قلّت کا اعتراف بھی ضروری ہے لیکن ان مثبت پہلوئوں کے اعتراف کے ساتھ اس امر کا اظہار اور اِدراک بھی ضروری ہے کہ بجٹ معیشت کو ایک نیا رُخ دینے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ معیشت کو دلدل سے نکالنے کے لیے جن اقدامات کی ضرورت تھی، ان سے پہلوتہی کی گئی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے منشور میں جو خطوطِ کار پیش کیے گئے تھے، بجٹ ان کا احاطہ نہیں کرسکا ہے اور سب سے بڑھ کر معیشت کو چھلانگ لگاکر آغاز (jump start) کرنے کے لیے جن چیزوں کی ضرورت تھی، کرپشن اور وسائل کے ضیاع کو روکنے کے لیے اور ٹیکس چوری کی وبا سے نجات کے لیے جس نوعیت کی حکمت عملی اور کارفرمائی درکار تھی، اس کا کوئی سراغ بجٹ میں نہیں ہے۔ مہنگائی کو قابو میں کرنے، پیداوار اور روزگار کو بڑھانے، غربت کو ختم نہیں تو بڑی حد تک کم کرنے کے لیے جو اقدام ضروری تھے اور جن میں سے کچھ کا ذکر مسلم لیگ کے منشور میں موجود تھا، ان کی طرف پیش قدمی کی کوئی سبیل اس میں نظر نہیں آئی بلکہ ہر وہ اقدام کیا گیا ہے جس سے مہنگائی میں اضافہ ہو۔ خسارہ اور قرضوں کے کم ہونے کا کوئی امکان دُور دُورتک نظر نہیں آرہا۔
ہم اس سلسلے میں بجٹ کے چند اہم پہلوئوں کا جائزہ لینا چاہتے ہیں۔ بجٹ کا ایک اُمیدافزا پہلو یہ ہے کہ معیشت کے بارے میں حکومت کے وژن کو چھے نکات کی شکل میں پیش کیا گیا ہے جو ایک خوش آیند کوشش ہے۔ اس طرح سے یہ ایک کسوٹی بھی بن جاتی ہے جس پر پورے بجٹ کو پرکھا جاسکتا ہے۔ اس میں پہلا نکتہ پاکستان کی خودمختاری کا حصول اور تحفظ اور محکومی اور مانگے کی معیشت سے نجات ہے۔ لیکن پورے بجٹ میں حقیقی خودانحصاری کے حصول کے لیے کوئی مؤثر پالیسی اور نقشۂ کار موجود نہیں۔ یہ بجٹ ۱۵۰۰؍ارب روپے سے زیادہ خسارے کا بجٹ ہے ، اور یہ بھی اس وقت جب ایف بی آر ۲ہزار۵سو ۹۸ ارب روپے کے ٹیکس محصولات وصول کرے اور امریکا کولیشن سپورٹ فنڈ، نج کاری، جی-۳ کی فروخت اور کے ای ایس سی کی فروخت کے سلسلے کی پھنسی ہوئی رقوم مل جائیں۔ یہ سب محکومی کی زنجیریں ہیں، خودانحصاری کا راستہ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرین معاشیات کی ایک تعداد نے اس بجٹ کو دیکھتے ہی کہہ دیا تھا کہ اس میں آئی ایم ایف سے قرض لینے کے لیے زمین ہموار کی گئی ہے اور ان میں سے بیش تر چیزیں اپنے کارنامے کے طور پر شامل کرلی گئی ہیںجو دراصل آئی ایم ایف کے مطالبات تھے۔ خصوصیت سے بجٹ کے خسارے میں قومی پیداوار کے ۵ء۲ فی صد کی کمی کا دعویٰ اور جنرل سیلزٹیکس اور دوسرے ٹیکسوں میں اضافہ جن کے نتیجے میں مہنگائی میں اور بھی اضافہ ہوگا اور بجٹ کے اعلان کے فوراً بعد یہ عمل شروع ہوگیا۔ اس نوعیت کی معاشی پالیسیوں کی موجودگی میں خودانحصاری ایک خواب بلکہ سراب سے زیادہ نہیں۔
دوسرا، تیسرا اور پانچواں نکتہ نجی سرمایہ کاری اور معیشت میں حکومت کے کردارکے بارے میں ہے اور اس کا پورا جھکائو سرمایہ دارانہ نظام اور لبرل معیشت کی طرف ہے۔ یہ تجربہ ہمارے اپنے ملک میں اور ترقی پذیر دنیا کے بیش تر ممالک میں ناکام رہا ہے۔ نجی ملکیت اور کاروباری معیشت کے جان دار مثبت پہلو ہیں لیکن متوازن معاشی ترقی اور عوام الناس کی خوش حالی کے دوگونہ مقاصد کو بیک وقت حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ جہاں نجی سرمایہ کاری کو ضروری مواقع فراہم کیے جائیں، وہیں ریاست کا بھی ایک مثبت اور مؤثر کردار ہو جو قومی مفادات اور عوام کے حقوق کے تحفظ اور انصاف اور معاشرتی عدل کے حصول کے لیے ضروری ہے۔ حکومت کی شرکت کو سیاسی دراندازی سے محفوظ رکھنا ضروری ہے مگر ریاست کے مثبت کردار کے بغیر غربت کا خاتمہ، روزگار کی فراہمی، اجتماعی عدل کا حصول اور معاشی ناہمواریوں سے نجات اور علاقائی عدم مساوات کا تدارک ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نجی سرمایہ کاری تو مطلوب ہے مگر سرمایہ دارانہ فریم ورک میں نہیں بلکہ اسلامی فلاحی ریاست کے فریم ورک میں۔ بدقسمتی سے اس کی کوئی جھلک بجٹ میں دیے گئے وژن میں نظر نہیں آتی بلکہ چوتھے نکتے میں تو کھل کر بات کہہ دی گئی ہے کہ ریاست عوام کی جو خدمات انجام دیتی ہے، اسے حق ہے کہ ان کی لاگت وصول کرے۔ یہ خالص سرمایہ دارانہ ذہنیت ہے، ورنہ ریاست کا تو تصور ہی یہ ہے کہ وہ عوام سے ٹیکس وصول کرتی ہے لیکن امن و امان کے قیام، دفاعِ وطن، عوام کو سہولت فراہم کرنے کی ذمہ داری ادا کرنے کے لیے۔ ’’ٹیکس کے ساتھ خدمات کا معاوضہ بھی وہ وصول کرے‘‘ یہ ریاست کے بنیادی تصور اور خاص طور پر اسلام کے تصورِ حکمرانی سے کوئی مطابقت نہیں رکھتا۔
بلاشبہہ وژن کے آخری نکتے میں آبادی کے کمزور اور غریب طبقات کی دادرسی کی بات کی گئی ہے لیکن یہ اس وژن کا مرکزی تصور نہیں،ایک ضمیمہ ہے اور وہ بھی بڑا کمزور اور خام۔
ہم بڑے دکھ سے یہ بات کہنے پر مجبور ہورہے ہیں کہ بجٹ کی اس تقریر میں اگر کسی چیز کا ذکر نہیں تو وہ اسلام اور اس کے دیے ہوئے معاشی عدل اور خدمت ِ خلق کے نظام کا ہے۔ مسلم لیگ کے منشور میں اسلام کے ذکر کے علاوہ، قرآن پاک کی دو آیات اور دو احادیث نبویؐ سے استشہاد کیا گیا ہے۔ جناب اسحاق ڈار نے سینیٹ میں حزبِ اختلاف کی طرف سے بجٹ پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے ۴جون ۲۰۱۲ء کو اپنی تقریر میں کہا تھا: ملک کی اوّلین ترجیح غربت کا خاتمہ ہونا چاہیے اور غربت کی لکیر کو بھی ایک نہیں، دو سے ڈھائی ڈالر ہونا چاہیے، اس لیے کہ دنیا کے بدلتے ہوئے حالات اور مہنگائی کی صورت حال کی روشنی میں خطِ غربت کے بارے میں نئی سوچ رُونما ہورہی ہے۔ اس کے ساتھ انھوں نے اپنی اسلامی روایت کا مؤثرانداز میں یوں اظہار کیا:
اس پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ اب وہاں دو سے اڑھائی ڈالر کی بات ہو رہی ہے۔ آج سے چار سال پہلے بات کی تو یہاں کالم بھی لکھے گئے۔ اس کو عالمی سطح پر acknowledge [تسلیم]کیا گیا ہے۔ آپ کو یہ سن کر تکلیف ہوگی کہ اگر two dollar a day والی آبادی [یومیہ دو ڈالر]پاکستان کو focus [مرتکز]کیا جائے تو آج تقریباً ۷۳یا ۷۴ فی صد آبادی کی یہ آمدن ہے۔ وہ poverty line [خط ِ غربت] سے نیچے رہ رہے ہیں، یعنی وہ تقریباً ماہانہ چھے ہزار روپے سے کم پر گزارا کر رہے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ بحیثیت مسلمان بھی ہماری یہ ذمہ داری ہے ۔ ہمارے اُوپر ایک بہت بڑی مذہبی ذمہ داری ہے through Quran and Hadiths [قرآن و حدیث کی رُو سے]کہ اس issue [مسئلے] کو ہم tackle کریں [نبٹیں]۔ زکوٰۃ اور عشر کا concept [تصور] یہی ہے۔ ایک وقت آیا کہ کوئی لینے والا نہیں تھا۔ مدینہ منورہ کی poverty [غربت] غائب ہوچکی تھی اور انھوں نے اسلامی مملکت کو consistently [مستقل طور پر] ایمان داری اور شفاف پالیسی کے ساتھ چلایا۔
اسی طرح سینیٹ نے ۲۰۰۹ء سے ۲۰۱۲ء تک جو سفارشات دی ہیں اور ان میں راقم الحروف اور جناب اسحاق ڈار اور مسلم لیگ، جماعت اسلامی اور دوسری جماعتوں کے نمایندے یک زبان تھے کہ ملک میں اسلامی نظامِ بنکاری اور مالیات کو فروغ دینا چاہیے اور ربٰو کو اس کی ہرشکل میں ختم کرنا چاہیے۔ ہرسال ہم نے متفقہ طور پر یہ سفارش دی کہ:
سینیٹ قومی اسمبلی سے سفارش کرتی ہے کہ اسٹیٹ بنک اسلامی بنکاری اور مالیات کی ترویج کے لیے اپنی کوششوں کو تیز کرے تاکہ دستور کی دفعہ ۳۸-الف میں درج معاشی استحصال اور ربٰو کا خاتمہ کیا جاسکے۔
ہماری مشترکہ تحریک کے ذریعے سینیٹ نے درج ذیل مطالبات بھی ہرسال کیے۔ کم از کم جنرل سیلزٹیکس کے بارے میں تو ایک سال حکومت کو مجوزہ اضافے کو واپس لینے پر مجبور کردیا۔ واضح رہے کہ ۲۰۰۹ء سے پہلے جنرل سیلز ٹیکس ۱۵ فی صد تھا جسے ۱۶ فی صد کیا گیا اور سینیٹ نے ہمیشہ اس کی مخالفت کی(ڈارصاحب اس میں ہمارے ساتھ تھے)۔ پھر ۲۰۱۰ء میں آئی ایم ایف کے اصرار پر اسے بڑھا کر ۱۷ فی صد کیا گیا لیکن ہماری، قومی اسمبلی اور عوام کی مخالفت کے باعث اس اضافے کو واپس لیا گیا۔ ستم ظریفی ہے کہ آج خود جناب اسحاق ڈار کے ہاتھوں وہی ردشدہ اضافہ قوم پر مسلط کیا جا رہا ہے۔ سینیٹ کی متفقہ قرارداد ملاحظہ ہو:
قومی اسمبلی میں زیرغور RGST بل کی منظوری کے بعد سیلزٹیکس کم کرکے ۱۵ فی صد کردیا جائے گا۔
سینیٹ نے ہماری مشترکہ کوششوں سے یہ بھی سفارش کی کہ بنکوں اور انشورنس کمپنیوں کے منافع پر کارپوریٹ ٹیکس بڑھایا جائے اور اسے ۳۵ فی صد سے بڑھا کر ۴۰ فی صد کیا جائے، مگر اب وزیرخزانہ صاحب نے تمام کارپوریٹ سیکٹر کے ٹیکس کو ۳۵ فی صد سے کم کرکے ۳۴ فی صد کردیا ہے اور وعدہ کیا گیا ہے کہ پانچ سالوں میں اسے برابر کم کرکے ۳۰ فی صد کردیا جائے گا۔ گویا سیلزٹیکس کے ذریعے تمام باشندوں خاص طور پر غریبوں کے لیے، جن پر ٹیکس کا بوجھ امیروں سے زیادہ پڑتا ہے، زیادہ ٹیکس ادا کرنے اور نتیجے میں افلاس کے بڑھنے اور مہنگائی میں اضافے کا سامان کیا جائے اور امیروں کو ٹیکس پر چھوٹ دی جائے۔ سینیٹ کی متفقہ قرارداد ملاحظہ ہو:
سفارش : کمیٹی نے سینیٹ کو سفارش کی بنکاری سیکٹر پر انکم/کارپوریٹ ٹیکس بڑھا کر ۴۰فی صد کردیا جائے۔
سینیٹ نے ہماری مشترکہ مساعی کے نتیجے میں صرف بنکنگ سیکٹر پر ہی ٹیکس بڑھانے کی بات نہیں کی، ہم نے یہ بھی تجویز دی کہ مالیاتی سیکٹر کو آمادہ کیا جائے کہ اپنے منافع کا کم از کم ۵فی صد تعلیم، صحت اور سپورٹس کے فروغ کے لیے وقف کرے۔
موجودہ بجٹ میں بلاشبہہ کچھ خوش گوار پہلو بھی ہیں۔ VVIP کلچر کو ختم کرنے کے جو اقدام کیے گئے ہیں، وزیراعظم سیکرٹریٹ اور وزیراعظم ہائوس کے اخراجات میں جو کمی کی گئی ہے، وزارتوں کی تعداد میں جس کمی کی بات کی جارہی ہے، صواب دیدی اختیارات کو جس حد تک ختم یا کم کیا گیا ہے، تعلیم کے لیے جو بھی وسائل دیے گئے ہیں، نوجوانوں کی تربیت اور روزگار کی فراہمی کے باب میں جو بھی پروگرام ہیں، ہم ان کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ لیکن ہم اس سے کیسے صرفِ نظر کرسکتے ہیں کہ کئی درجن نئے ٹیکس لگائے گئے ہیں اور ان میں سے بیش تر ایسے ہیں جن کی زد عوام پر پڑتی ہے، جن کے نتیجے میں مہنگائی بڑھے گی، پیداوار کی لاگت میں اضافہ ہوگا اور عوام کے لیے مشکلات دوچند ہوجائیں گی، حالانکہ مسلم لیگ نے اپنے منشور میں جو وعدے کیے تھے وہ اس سے بہت مختلف تھے۔ منشور میں عوام کو یقین دلایا گیا تھا کہ:
۱- تمام آمدنیوں پر منصفانہ ٹیکس لگاکر زیادہ آمدنی حاصل کی جائے گی اور بالواسطہ ٹیکس (indirect tax) پر انحصارکم سے کم کیا جائے گا (ص ۲۰)
۲- ٹیکس کی شرحوں میں اضافہ نہیں کیا جائے گا۔ جب ٹیکس کا اصلاحاتی پروگرام پوری طرح سے نافذ ہوجائے گا تو کچھ عرصے کے بعد ٹیکس کی شرحیں کم کردی جائیں گی (ص ۲۱)
۳- پُرتعیش اور غیرضروری اشیا کی درآمد کی حوصلہ شکنی کے لیے ان پر بھاری ڈیوٹی عائد کی جائے گی۔ (ص ۲۱)
۴- برآمدات پر ٹیکس معاف کردیا جائے گا۔
ایک طرف عوام کو جنرل سیلز ٹیکس میں اضافے اور withholding tax کی شکل میں مختلف تجارتی اور صنعتی دائروں پر ٹیکس کا سامنا ہے جس سے مہنگائی کا طوفان اُٹھ کھڑا ہوا ہے۔ ان کا نفاذ مسلم لیگ کے منشور اور سینیٹ میں ہمارے مشترکہ موقف کی کھلی خلاف ورزی ہے، تو دوسری طرف ٹیکس کی بنیاد کو وسیع کرنے، ٹیکس چوری کے تباہ کن کاروبار کو بند کرنے اور ان متمول طبقات کے بارے میں جن کے لیے منشور میں کہا گیا ہے کہ سب سے ٹیکس وصول کیا جائے گا، کوئی اقدام نہیں کیا گیا۔ ایف بی آر کی سرکاری رپورٹ کے مطابق Tax Gap، یعنی جو ٹیکس واجب ہے اور جو ملتا ہے ۵۰ فی صد ہے، یعنی جو ٹیکس جمع ہوا ہے وہ اگر ۲۰۰۰؍ارب روپے ہے تو وہ جو واجب ہے مگر نہیں ملا، یعنی ٹیکس چوری ۱۰۰۰؍ارب روپے کی ہے۔ اس کے برعکس ورلڈبنک کا تخمینہ یہ ہے کہ یہ گیپ ۵۰ فی صد نہیں، ۷۰ فی صد سے زیادہ ہے۔ دوسرے الفاظ میں ۱۳-۲۰۱۲ء کے اعدادوشمار کی روشنی میں جو رقم کسی نئے ٹیکس کے لگائے بغیر صرف اس گیپ کو پُر کرنے سے حاصل ہوسکتی ہے وہ تقریباً ۱۵۰۰؍ارب روپے ہوگی۔ اسے وصول کرنے کی تو کوئی فکر نہیں لیکن ۶۲؍ارب کے لیے ایک فی صد سیلزٹیکس لگاکر ۱۸کروڑ انسانوں کی کمر توڑنے میں کوئی باک نہیں، اور صرف ۳؍ارب روپے کے لیے تعلیم پر ایک نہیں تین ٹیکس ایک ہی سانس میں لگادیے گئے ہیں۔
بلاشبہہ جو لوگ ٹیکس چوری کر رہے ہیں، ان کی گرفت ضروری ہے۔ لیکن اس کے لیے ایک ایسا طریقۂ کار اختیار کرنا جو انسانوں کو نجی زندگی کے تحفظ کے حق سے محروم کرے اور بدعنوانیوں کے لیے دروازہ چوپٹ کھول دے بہت ہی خطرناک ہے۔ یہ نجی زندگی کے تحفظ کے اسلامی آداب کے بھی خلاف ہے۔ اس بجٹ میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو (FBR) کو اختیار دیا جارہا ہے کہ ہروہ شخص جس کے بنک میں ۱۰لاکھ روپے سے زیادہ ہوں، یا جس نے اپنے کریڈٹ کارڈ پر ایک لاکھ روپے تک کی خریداری کی ہو، ان تک ایف بی آر کو بلاواسطہ رسائی حاصل ہوگی۔ یہ نہایت خطرناک تجویز ہے اور اس کے نتیجے میں ایف بی آر کو وہ اختیارات حاصل ہوں گے جو حقوق کی پامالی ہی نہیں ملکی معیشت کی بربادی کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں documentation (تحریری شواہد) میں کمی ہوگی اور cash economy (نقد معیشت) بڑھ جائے گی اور ملک سے سرمایے کی منتقلی کا خطرہ پیدا ہوگا۔ مزید یہ کہ اس سے کرپشن اور بلیک میل کے دروازے کھلیں گے اور ملک میں کرپشن میں اضافہ ہوگا۔ اس کے مقابلے میں ترقی یافتہ ممالک میں ان حالات میں جو راستہ اختیار کیا جاتا ہے وہ کہیں زیادہ معقول ہے۔ وہ یہ ہے کہ جن افراد کے بارے میں قرائنی شہادت موجود ہو، ان کے معاملات کی ایک خصوصی عدالت کے ذریعے تحقیقات کی جاتی ہیں اور معاملات کو دیکھا جاتا ہے۔ اس طریقۂ کار میں مرکزی بنک کے ذریعے کام انجام دیا جاتا ہے۔ براہِ راست بنک کے عملے اور ایف بی آر کے عملے کے درمیان ربط نہیں ہوتا۔ حقیقی مسائل کے حل کے لیے ایسے طریقے اختیار کرنے چاہییں جو معقول ہوں۔ انصاف کے اندر خود ایسے راستے موجود ہیں، انھیں چھوڑ کر ایسا راستہ اختیار کرنا جس سے ایف بی آر کا اختیار اس خطرناک حد تک بڑھ جائے، ہم سمجھنے سے قاصر ہیں کہ کس کے مشورے پر وزیرخزانہ نے یہ خطرناک تجویز پیش کی ہے۔
نادرا کی رپورٹ کے مطابق اس وقت ملک میں کم از کم ۷۰ لاکھ افراد کو بلاواسطہ ٹیکس دینا چاہیے اس لیے کہ ان کی آمدنی کم سے کم آمدنی کی حد سے زیادہ ہے، اور ان میں سے ۳۵ لاکھ کے بارے میں نادرا کا دعویٰ ہے کہ اس کے پاس ان کے اثاثوں، عالمی دوروں، پُرتعیش ہوٹلوں میں رہایش، پاکستان میں ان کی شان دار جایدادوں، کاروں، ٹیلی فون، بجلی اور گیس کے بل، نہ معلوم کیا کیا معلومات موجود ہیں جن کی روشنی میں ان کو ٹیکس کی خطیر رقوم ادا کرنی چاہییں۔ لیکن وہ ٹیکس کے جال سے بالکل باہر ہیں، دندناتے پھرتے ہیں اور کوئی گرفت کرنے والا نہیں۔ اس وقت انکم ٹیکس دینے والوں کی تعداد ۹لاکھ کے قریب ہے اور باقی سب کا حال یہ ہے کہ ع
بنا ہے عیش تجمل حسین خاں کے لیے
بجٹ میں ان کو ٹیکس کے جال میں لانے کے لیے کوئی قابلِ ذکر اقدام نہیں کیا گیا۔ ہاں، عام آدمی پر ٹیکس لگادیا گیا ہے، اس وعدے کے باوجود کہ بالواسطہ نہیں لگایا جائے گا اور بلاواسطہ کے نظام کو فروغ دیا جائے گا۔
انتظامی اخراجات کو کم کرنے کے بارے میں بھی بڑے دعوے کیے گئے تھے اور مسلم لیگ کی قیادت کا عزم تھا کہ انتظامی اخراجات میں ۳۰ فی صد کمی کی جائے گی۔ لیکن اگر بجٹ کا بغورمطالعہ کیا جائے تو آخری صورت حال یہ سامنے آتی ہے کہ VVIP کلچر اور مراعات اور پروٹوکول کے خاتمے کے تمام اقدامات کے باوجود خالص انتظامی اخراجات میں ۹فی صد کا اضافہ ہوا ہے اور اس میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں وہ ۱۰ فی صد اضافہ شامل نہیں ہے جو مجبور ہوکر بجٹ کے بعد کیا گیا ہے حالانکہ سینیٹ میں متفقہ تجاویز میں بنیادی تنخواہ میں اضافے کا بار بار مطالبہ کیا گیا۔ جون ۲۰۱۲ء کی سینیٹ کی رپورٹ میں یہ موجود ہے کہ جب خود مسلم لیگ کی بنیادی تنخواہ کے طور پر ۹۰۰۰ کی حد مقرر کیے جانے کی تجویز کو کمیٹی کے اصرار پر واپس لیا گیا، تو اس سے اختلاف کرنے والے واحد معزز رکن جناب اسحاق ڈار تھے۔ ۱۲جون ۲۰۱۲ء کی سینیٹ کی رپورٹ کا یہ حصہ ملاحظہ ہو:
سینیٹ قومی اسمبلی سے سفارش کرتی ہے کم سے کم تنخواہ ۹ہزار روپے تک بڑھا دی جائے، واپس لے لی گئی۔ سینیٹرمحمداسحاق ڈار نے اصل سفارش کے واپس لینے پر اپنا اختلافی نوٹ درج کیا تھا۔
۱۴-۲۰۱۳ء کے بجٹ کے لیے کم سے کم تنخواہ کا باب خاص تھا۔ یہ اور بات ہے کہ صوبہ خیبرپختونخوا نے نہ صرف ۱۰ہزار روپے کم سے کم تنخواہ مقرر کی بلکہ اس کی خلاف ورزی کو جرم قرار دیا۔ خود مسلم لیگ کے منشور میں کم سے کم تنخواہ کی مد ۱۵ہزار روپے تجویز کی گئی ہے، گو اس پر عمل کا یقین نہیں۔
۱۴-۲۰۱۳ء کے بجٹ میں قرضوں سے نجات کی کوئی حکمت عملی نہیں ہے۔ اسی طرح بہت سے پالیسی اعلان ہیں مگر ان پر عمل درآمدکے لیے کوئی نقشۂ کار اور ٹائم ٹیبل نہیں دیا گیا۔ محترم وزیرخزانہ کو یاد ہوگا کہ خود انھوں نے سینیٹ میں اپنی ایک تقریر میں بڑی پتے کی بات کہی تھی کہ جب کسی غیرملکی معزز مہمان سے پوچھا گیا کہ پاکستان کے تین بڑے مسائل کیا ہیں تو اس نے کہا: نفاذ، نفاذ اور نفاذ!
بات تو سچ ہے، مگر بات ہے رُسوائی کی!
بجٹ میں ایک بڑا اہم خلا برآمدات میں اضافے اور تجارتی خسارے پر قابو پانے کے لیے پالیسی پہل کاری اقدامات (initiatives) کی عدم موجودگی ہے۔
بجٹ میں توانائی کے بحران کو بجاطور پر اہمیت دی گئی ہے مگر اس کے حل کے لیے جو اقدام تجویز کیے گئے ہیں، وہ بہت ناکافی ہیں۔ قرض لے کر گردشی قرض اُتارنے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ گردشی قرضے کوئی نیا مسئلہ نہیں ہیں گو، اب ان کا حجم غفلت اور مناسب اقدام نہ کرنے کے سبب بہت بڑھ گیا ہے اور ۵۰۲؍ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔ ۶۰ دن میں اُسے اُتارنے کی کوشش سرآنکھوں پر، لیکن مسئلے کی جڑ بلوں کی عدم ادایگی ہے جس کے ۴۰ سے ۵۰ فی صد کا تعلق مرکزی اور صوبائی حکومتوں اور ان کے تحت کام کرنے والے اداروں سے ہے۔ جب تک ادایگی کے نظام کو ٹھیک نہیں کیا جائے گا یہ مسئلہ بار بار سر اُٹھاتا رہے گا۔ پھر مسئلہ توانائی کی رسد بڑھانے ہی تک محدود نہیں۔ توانائی کی مسلسل فراہمی اور اس کی لاگت کو کم کرنے کا ہے جس کا انحصار توانائی کے ذرائع کے درمیان نئی مساوات (equation) پر ہے۔ پن بجلی کُل رسد کا ۷۰ فی صد فراہم کرتی تھی اور یہ بجلی سب سے سستی ہے۔ اب یہ حصہ صرف ۳۰ فی صد رہ گیا ہے اور تھرمل بجلی کی لاگت کئی گنا زیادہ ہے۔ اس لیے مسئلے کے تمام پہلوئوں کا احاطہ کرکے ہمہ جہتی حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے۔ مسلم لیگ کے منشور میں ایک اہم تجویز یہ تھی کہ توانائی سے متعلق تمام وزارتوں کو مدغم کرکے ایک وزارت بنائی جائے گی۔ توانائی کے باب میں سب سے پہلی تجویز ہی یہ تھی کہ: ’پانی و بجلی‘، اور ’پٹرولیم و قدرتی وسائل‘ کی وزارتوں کو مدغم کر کے ’وزارت براے توانائی و قدرتی وسائل‘ کے نام سے ایک وزارت بنائی جائے گی (ص ۲۸)۔ لیکن جب وزارتیں بنیں تو وہی ڈھاک کے تین پات! دونوں وزارتیں آج بھی الگ الگ ہیں اور بات ایک انرجی پالیسی کی ہورہی ہے۔
منشور میں اور بھی کئی بڑے اہم پہل کاری اقدامات کا وعدہ ہے مگر بجٹ تو ایک تاریخی موقع تھا کم از کم ان اقدامات کی طرف پہلا قدم اُٹھانے کا، لیکن بجٹ اس باب میں خاموش ہے۔ چند تجاویز ریکارڈ کی خاطر پیش خدمت ہیں:
واضح رہے کہ صوبہ خیبرپختونخوا نے تعلیم اور صحت کے سلسلے میں قومی ایمرجنسی کا اعلان اپنے پہلے بجٹ میں کیا ہے اور اس کے لیے خطیر رقم بھی مختص کی ہے۔
منشور میں ان کے علاوہ بھی کئی پہل کاری اقدامات کا ذکر ہے لیکن وفاقی حکومت کا پہلا بجٹ اس باب میں خاموش ہے حالانکہ یہ ایک اہم موقع تھا، تبدیلی کا پیغام دینے کا۔
بجٹ اور بجٹ تقریر کے معروضی تجزیے سے معلوم ہوتا ہے کہ بجٹ میں جو وژن پیش کیا گیا ہے، اس کے چند حصے درست ہیں لیکن بحیثیت مجموعی اس میں نمایاں خامیاں اور خلا ہیں اور اس پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ پھر جو بھی وژن پیش کیا گیا ہے اس میں اور بجٹ میں خاصا تفاوت ہے۔ بجٹ میں پیش کردہ تجاویز اور قانونی ترامیم وژن سے ہم آہنگ نہیں بلکہ کچھ پہلو تو ایسے ہیں جو کھلے کھلے متصادم ہیں۔ بجٹ بڑی حد تک macro-stabilization model ہی کے فریم ورک میں بنایا گیا ہے جو آئی ایم ایف کا مقبول ماڈل ہے۔ کہیں کہیں growth model سے کچھ مستعار لیا گیا ہے مگر وہ ناکافی بھی ہے اور پوری طرح مربوط بھی نہیں۔ پھر سب سے اہم پہلو فلاح و بہبود اور اخلاقی زاویے کا ہے جو بجٹ کا کمزور ترین پہلو ہے۔ ملک کا اصل مسئلہ stagflation ہے، یعنی وہ کیفیت ہے جس میں افراطِ زر اور جمود (stagnation) بیک وقت موجود ہوتے ہیں۔ اس بڑی رکاوٹ کو توڑنے کے لیے جس قسم کے اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے وہ بجٹ میں موجود نہیں۔ بجٹ میں وسائل کو متحرک کرنے کے تمام طریقے استعمال کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔سروسز سیکٹر یعنی خدمات کا شعبہ جس کا اس وقت مجموعی قومی پیداوار (GDP) میں ۵۶ فی صد حصہ ہے اس کا حصہ کُل ٹیکس آمدنی میں ۳۰ فی صد کے لگ بھگ ہے۔ ہمارے ملک میں بمشکل ۱۵،۱۶ سروسز ہیں جو ٹیکس نیٹ ورک میں آتی ہیں۔ بھارت میں یہ تعداد ۱۷۰ ہے۔ یہ صرف ایک مثال ہے۔ بجٹ میں ان تمام پہلوئوں کے اِدراک کی کوئی جھلک نظر نہیں آتی۔
زراعت اور خاص طور پر لائیوسٹاک کو جو اہمیت دینی چاہیے تھی وہ نہیں دی گئی ہے۔ غیرضروری اشیا کی درآمد کو روکنے کے بارے میں بھی کوئی مؤثر پالیسی نہیں، حالانکہ تجارتی خسارہ اب ۱۵؍ارب ڈالر سے متجاوز ہے جو برقرار نہیں رکھا جاسکتا۔ ایک تحقیقی رپورٹ کی روشنی میں اس وقت درآمدات کا صرف ۶۰ فی صد ضروری اشیا پر مشتمل ہے، ۴۰ فی صد غیرضروری اشیا کی نذر ہورہا ہے۔ اس بارے میں مؤثر پالیسی وقت کی اہم ضرورت ہے۔
معاشی ماہرین اور عوام الناس سب کو یہ سوال پریشان کر رہے ہیں کہ:
یہ ہے وہ کسوٹی جس پر بجٹ اور معاشی پالیسیوں کو جانچا اور پرکھا جانا چاہیے۔
امریکی صدر اوباما نے ۲۲مئی ۲۰۱۳ء کو واشنگٹن میں نیشنل ڈیفنس یونی ورسٹی میں اپنی صدارت کے دوسرے دور کا اہم ترین خطاب کیا ہے جس میں دہشت گردی کے خلاف امریکا کی جنگی پالیسی، خصوصیت سے ڈرون حملوں کے بارے میں اپنے آیندہ لائحہ عمل کے خطوطِ کار بیان کیے ہیں۔ اس تقریر کا ایک خاص پس منظر ہے جسے سامنے رکھنا ضروری ہے۔
نائن الیون کے بعد امریکی صدر جارج بش نے کانگریس سے ایک مبہم قانون کے تحت افغانستان میں ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘کے لیے ہرذریعے کو استعمال کرنے کی اجازت حاصل کرلی تھی۔ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی صرف افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف اقدام کے لیے چھتری فراہم کی تھی مگر امریکا کی سیاسی اور عسکری قیادت نے اس مبہم اختیار (authorization) کو دنیا بھر میں خصوصیت سے عراق، پاکستان، یمن اور صومالیہ میں ہرطرح کے بے دریغ فوجی اقدامات کے لیے استعمال کیا۔ اپنی صدارت سے پہلے اوباما نے ایک سینیٹر کی حیثیت سے بش کے ان اقدامات کو چیلنج کیا تھا اور ۲۰۰۷ء میں اپنی انتخابی مہم کے ابتدائی مرحلے میں صاف الفاظ میں اعلان کیا تھا:
دستور کے تحت صدر کو یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ وہ ایسی صورتِ حال میں جس میں قوم کو درپیش کوئی فوری یا حقیقی خطرہ روکنا پیش نظر نہ ہو، یک طرفہ طور پر فوجی حملے کا اختیار دے۔ تاریخ نے ہم کو بارہا دکھایا ہے کہ فوجی حملہ اسی وقت سب سے زیادہ کامیاب ہوتا ہے جب اس کا اختیار مقننہ نے دیا ہو اور وہ اس کی حمایت کرتی ہو۔
صدربش نے اپنے صدارتی اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے پوری دنیا میں فوجی کارروائیوں کی چھوٹ دی اور اپنے ماضی کے سارے دعوئوں کے باوجود صدر اوباما نے بھی اس جارحانہ پالیسی کو جاری رکھا بلکہ جہاں تک ڈرون حملوں کا تعلق ہے، ان میں چند در چند اضافہ کردیا۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے، بش کے دور میں کُل ۴۵ بار ڈرون حملے ہوئے، جب کہ اوباما کی صدارت کے پہلے ہی سال یہ تعداد ۵۳ ہوگئی اور اب تک ۳۲۰حملے ہوچکے ہیں جن میں ۳ہزار سے زائد افراد جاں بحق کیے جاچکے ہیں۔ پاکستان سینیٹ کی دفاعی اُمور کی کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق ان میں ’عسکریت پسندوں‘ کی تعداد ۵۶۵ تھی، جب کہ عام معصوم شہریوں کی تعداد ۲ہزار۳سو۲۴ تھی جن میں سے متعین طور پر خواتین اور بچوں کی تعداد ۶۴۶ تھی۔ اوباما کے دور میں ڈرون حملوں کا دائرہ دوسرے ممالک تک بھی وسیع کردیا گیا اور یمن اور صومالیہ میں بھی بے دریغ ڈرون حملے کیے جارہے ہیں۔
ویسے تو دہشت گردی کے خلاف امریکا کی ۱۲سالہ جنگ میں لاکھوں افراد ہلاک کیے جاچکے ہیں لیکن ڈرون حملوں کے باب میں کئی سال سے امریکا اور خود مغربی دنیا میں تنقید اور احتساب کی مؤثر آوازیں اُٹھائی جارہی ہیں جن کا اب کچھ نتیجہ بھی نکلنے لگا ہے۔ اس میں اہم نکات یہ ہیں:
۱- امریکی صدر اور انتظامیہ کو امریکی دستور کے تحت اس نوعیت کے حملوں کی اجازت نہیں تھی اور انتظامیہ نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ہے۔
۲- امریکی دستور اور فوجی قانون کے تحت ایک قانونی جنگ میں بھی فوجی قوت کے استعمال کا اختیار صدر اور پینٹاگان کو ہے۔ سی آئی اے ایک جاسوسی اور تجزیہ کرنے والا ادارہ ہے۔ فوجی اقدام کا اسے اختیار نہیں۔ حالیہ ڈرون حملے امریکی فوج نہیں، سی آئی اے کررہی ہے جو امریکا کے دستور اور جنگی قانون کی خلاف ورزی ہے۔ نیز اس طرح انتظامیہ کے ان اقدامات کے باب میں کانگریس کی نگرانی اور اس کے سامنے جواب دہی سے بچ نکلنے کے چور دروازے بنے ہوئے ہیں۔
۳- ڈرون حملوں کے پورے عمل کو کانگریس اور عوام سے مخفی رکھا گیا ہے۔ حکومت نے بھی مجبوراً اب اس کی ذمہ داری قبول کی ہے، اور یہ عوام سے دھوکا ہی نہیں،امریکی دستور اور جمہوری اصولوں کی صریح خلاف ورزی بھی ہے۔
۴- ایک ایسے ملک پر ڈرون حملے، جس سے امریکا برسرِ جنگ نہیں بلکہ جسے دوست ملک قرار دیتا ہے، اقوامِ متحدہ کے چارٹر، بین الاقوامی قانون، جنیوا کنونشن اور معروف سفارتی آداب کی صریح خلاف ورزی ہے۔
۵- ڈرون حملوں میں محض مبہم اطلاعات یا اندازوں کی روشنی میں ٹارگٹ کلنگ کی جارہی ہے جو ہر قانون کی خلاف ورزی اور نہ صرف جنگی جرم ہے بلکہ کچھ صورتوں میں نسل کشی (genocide) کے زمرے میں آتی ہے۔ امریکی انتظامیہ کا یہ خودساختہ اصول کہ مخدوش علاقے میں جو بھی مرد اسلحہ اُٹھانے کی عمر میں ہو، وہ متحارب (combatant) شمار کیا جاسکتا ہے اور اسے ڈرون حملوں کا نشانہ بنایا جاسکتا ہے، ہرقانون اور ضابطے کے منافی ہے اور انسانیت کے قتل کی کھلی چھٹی دینے کے مترادف ہے جو بالکل ناقابلِ قبول ہے۔ اس پر عمل انسانیت کے خلاف جرم ہے۔
۶-ڈرون حملوں کے نتیجے میں نہ صرف حملوں کا نشانہ بننے والے علاقوں میں بلکہ متعلقہ ممالک اور پوری دنیا میں امریکا کے خلاف جذبات فروغ پارہے ہیں جو نفرت کے طوفان کی شکل اختیار کر رہے ہیں۔ اس طرح معروف ’دہشت گرد‘ تو کم مارے جارہے ہیں، نئے دہشت گردوں کی فوج ظفرموج تیار ہورہی ہے اور اس طرح امریکا اپنے جنگی مقاصد میں ناکام ہو رہا ہے اور ایک نہ ختم ہونے والی اور روز بروز وسعت اختیار کرنے والی جنگ کی آگ میں پھنستا چلا جا رہا ہے۔ PEW کے ایک سروے کے مطابق پاکستان میں ڈرون حملوں کی آبادی کے ۹۸ فی صد نے مخالفت کی ہے اور اس کی وجہ سے امریکا دشمنی کے جذبات کو فروغ حاصل ہوا ہے۔
صرف پاکستان ہی میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں ردعمل کی یہی کیفیت ہے۔ PEW ہی کے ایک سروے کے مطابق ان ممالک میں جو امریکا کے دوست ہیں اور اس جنگ میں امریکا کے ساتھ ہیں، وہاں ڈرون حملوں کے خلاف عوامی ردعمل سخت منفی ہے۔ یونان کی آبادی میں ۹۰ فی صد، مصر میں ۸۹ فی صد، اُردن میں ۸۵ فی صد، ترکی میں ۸۱ فی صد، اسپین اور برازیل میں ۷۶ فی صد، جاپان میں ۷۵ فی صد اور میکسیکو میں ۷۳ فی صد ڈرون حملوں کی مخالفت اور مذمت کرتے ہیں۔ امریکا میں ۲۶ فی صد مرد اور ۴۹ فی صد خواتین اس کے خلاف راے کا اظہار کررہی ہیں۔
یہ ہے وہ پس منظر جس میں امریکا کی کانگریس میں بھی اس پالیسی کو چیلنج کیا گیا ہے۔ کانگریس کی کمیٹیاں اس کا جائزہ لے رہی ہیں اور علمی، اور عوامی سطح پر بھی اسے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس پس منظر میں اوباما نے پالیسی پر جزوی نظرثانی کی بات کی ہے، یعنی تعداد میں کمی، اہداف کا زیادہ احتیاط سے تعین، اعلیٰ ترین سطح پر فیصلے کا عندیہ، کسی عمومی نگرانی کے نظام کے امکانات کا جائزہ اور چھے ماہ کے بعد سی آئی اے سے لے کر پینٹاگان کی طرف ان اختیارات کے تبادلے کی کوشش۔ لیکن اس اعتراف کے باوجود صدراوباما نے کہا:
جیسے جیسے ہماری لڑائی ایک نئے مرحلے میں داخل ہورہی ہے، امریکا کا خود اپنے دفاع کا جائز دعویٰ بحث کا آخری نکتہ نہیں ہوسکتا۔ کسی فوجی تدبیرکے قانونی یا مؤثر ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ دانش مندانہ بھی ہے اور ہرحال میں اخلاقی بھی۔ وہ انسانی ترقی جس نے ہم کو یہ ٹکنالوجی دی ہے کہ ہم نصف دنیا دُور جاکر حملہ کریں، اس نظم و ضبط کا تقاضا بھی کرتی ہے کہ ہم طاقت کے استعمال کو قابو میں رکھیں یا پھر اس کے غلط استعمال کا اندیشہ مول لیں۔
اوباما صاحب نے صاف لفظوں میں اصرار کیا ہے کہ پاکستان پر حملے جاری رہیں گے۔ یہ اعلان ایک ایسے وقت آیا ہے جب ۱۱مئی ۲۰۱۳ء کے انتخابات میں عوام نے ان جماعتوں کو عبرت ناک شکست دی ہے جو امریکا کی اس جنگ میں اس کے معاون تھے اور پاکستان کی حاکمیت، آزادی اور سالمیت پر ان حملوں میں تعاون کر رہے تھے، یعنی ملوث تھے، یا کم از کم قوم کے مزاحمت کے مطالبے کے باوجود خاموش تماشائی بنے ہوئے تھے۔ جن جماعتوں کو کامیابی حاصل ہوئی ہے انھوں نے اپنی انتخابی مہم میں ڈرون حملوں کو رُکوانے اور امریکا کی دہشت گردی کے نام پر اس جنگ میں سے پاکستان کو نکالنے کا وعدہ کیا ہے۔
امریکا کے ڈرون حملوں کے جارحانہ اقدام کو پشاور ہائی کورٹ کے اس تاریخی فیصلے کی روشنی میں دیکھنا ضروری ہے جو ۹مئی ۲۰۱۳ء کو دیا گیا ہے۔ اس میں عدالت نے صاف الفاظ میں کہا ہے کہ:
۱-ڈرون حملے جو قبائلی علاقوں (فاٹا) خصوصاً شمالی اور جنوبی وزیرستان میں سی آئی اے اور امریکی انتظامیہ کر رہی ہے، بنیادی انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی ہیں اور اقوامِ متحدہ کے چارٹر اور یو این جنرل اسمبلی کی متفقہ طور پر منظور کردہ قرارداد اور جنیوا کنونشن سب کے خلاف ہیں، لہٰذا اس کو جنگی جرم قرار دیا جاتا ہے جو عالمی عدالت انصاف یا جنگی جرائم کے خصوصی ٹربیونل ، جو اقوامِ متحدہ نے اس مقصد کے لیے قائم کیا ہو یا قائم کرے، کی حدود میں آتا ہے۔
۲- ڈرون حملے جو ان مٹھی بھر مبینہ عسکریت پسندوں کے خلاف کیے جائیں جو امریکی حکومت، حکام یا افواج سے حالت ِ جنگ میں نہیں ہیں، اس موضوع پر بین الاقوامی کنونشن اور ضوابط کی خلاف ورزی کے مترادف ہیں۔ اس لیے یہ قرار دیا جاتا ہے کہ یہ کُلی طور پر غیرقانونی ہیں اور ریاست پاکستان کی خودمختاری کی صریح خلاف ورزی ہیں، کیونکہ اس کی حدود اور فضائی حدود میں اس کی اجازت کے بغیر بلکہ اس کی مرضی کے خلاف باربار مداخلت کی جاتی ہے۔ اس پر امریکا سے حکومت پاکستان کے احتجاج کے باوجود، اس کی اجازت کے بغیر اور مرضی کے خلاف یہ حملے برابر جاری ہیں۔
۳- شہری ہلاکتیں جیساکہ اُوپر بتایا گیا بشمول املاک، مویشی، جنگلی حیات اور ننھے بچے، دودھ پیتے بچے، خواتین اور چھوٹے بچوں کا قتل امریکی حکام بشمول سی آئی اے کا ناقابلِ معافی جرم ہے، اور عدالت یہی قرار دیتی ہے۔
۴-شہری ہلاکتوں، جایداد اور مویشیوں کو پہنچنے والے نقصان کی، ثابت شدہ حقائق اور اعدادوشمار کے پیش نظر، امریکا متاثرین کی امریکی ڈالروں میں مقررہ شرح کے مطابق تلافی کرنے کا پابند ہے۔
۵- حکومت پاکستان اور اس کی سیکورٹی فورسز یہ یقینی بنائیں گی کہ مستقبل میں ایسے ڈرون حملے پاکستان کی خودمختار حدود میں نہ کیے جائیں۔ اس حوالے سے مناسب تنبیہ کردی جائے اور اگر یہ نتیجہ خیز نہ ہو تو حکومت پاکستان اور ریاستی ادارے خصوصاً سیکورٹی فورسز کو یہ حق حاصل ہوگا کہ دستوری اور قانونی تقاضوں کے تحت پاکستان کی فضائی حدود میں داخل ہونے والے ڈرون کو گرا دیں۔
۶- حکومت پاکستان کو ہدایت کی جاتی ہے کہ اس معاملے کو سنجیدگی سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں لے جائے اور اگر وہاں کامیابی نہ ہو اور امریکی حکام بغیرجواز ویٹو پاور استعمال کریں تو جنرل اسمبلی کا ہنگامی اجلاس طلب کیا جائے تاکہ اس خطرناک مسئلے کا مؤثرانداز سے حل ہوسکے۔
۷- حکومت پاکستان ایک مناسب شکایت درج کرائے گی جس میں ڈرون حملوں سے پاکستان کے شہریوں کے جان و مال کا جو نقصان ہوا ہے، اس کی مکمل تفصیل ہوگی۔ اس میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو کہا جائے گا کہ ایک آزاد وار کرائم ٹربیونل قائم کرے جس کا یہ مینڈیٹ ہو کہ تمام معاملات کی تحقیق و تفتیش کرے اور یہ حتمی فیصلہ دے کہ آیا یہ جنگی جرم کے مترادف ہے یا نہیں۔ پہلی صورت میں امریکی حکومت یا حکام کو ہدایت کرے کہ پاکستان کی فضائی حدود اور علاقے میں ڈرون حملے فوری طور پر روک دے، اور فوری طور پر متاثرہ خاندانوں کی عالمی معیارات کے مطابق مقررہ شرح اور تناسب کے مطابق جان و مال کی تلافی کی جائے۔
۸- وزارتِ خارجہ کو ہدایت کی جاتی ہے کہ مناسب قرارداد، اپیل اور ریکوزیشن کے لیے عدالت کی دی ہوئی ہدایات کے خطوط کی روشنی میں کم سے کم ممکنہ وقت میں تیاری کرے اور ساتھ ہی سلامتی کونسل سے یا جنرل اسمبلی سے (جو بھی صورت ہو) یہ مطالبہ کیا جائے کہ ایک قرارداد کے ذریعے سی آئی اے اور امریکی حکام کی یو این چارٹر اور یواین کے دیگر مختلف ضابطوں اور روایات کی خلاف ورزی کرنے پر ڈرون حملوں کی مذمت کرے، جیساکہ پہلے بیان کیا گیا ہے۔
۹- اس صورت میں کہ امریکی حکام اقوام متحدہ کی قرارداد کی تعمیل نہ کریں، خواہ یہ سلامتی کونسل نے منظور کی ہو یا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے، حکومت پاکستان ایک احتجاج کے طور پر امریکا سے ہرطرح کے تعلقات ختم کردے گی اور بطور احتجاج امریکا کو کسی بھی طرح کی لاجسٹک سہولیات فراہم نہیں کرے گی۔
ہمیں افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ تو بالکل واضح اور دستور، عالمی قانون اور پاکستان کے مفادات کے عین مطابق ہے لیکن اسے ملک کے میڈیا اور سیاسی قوتوں نے قرارِ واقعی اہمیت نہیں دی۔ عبرت کا مقام ہے کہ جس ملک پر یہ حملے ہورہے ہیں اور جس کی حاکمیت اور عزت کو یوں پامال کیا جا رہا ہے وہاں تو بات صرف تحفظات کی ہے لیکن خود امریکا کا ایک معروف کالم نگار کلائیو اسٹین فورڈ اسمتھ دی گارڈین لندن کی ۱۲مئی ۲۰۱۳ء کی اشاعت میں عدالت کے اس فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے چیف جسٹس کے احکام کی مکمل تائید کرتا ہے اور امریکا کو شرم دلاتا ہے___ یہ اور بات ہے کہ پاکستانی حکمرانوں کا حال یہ ہے کہ ’’شرم تم کو مگر نہیں آتی‘‘۔
وہ لکھتا ہے:
پھر وہ ایک بالکل سامنے کی بات کہتے ہیں۔ پاکستانی افواج کا اوّلین فریضہ اپنے شہریوں کاتحفظ ہونا چاہیے۔ سیکورٹی فورسز کو یہ یقینی بنانا چاہیے کہ مستقبل میں اس نوعیت کے ڈرون حملے پاکستان کی خودمختار حدود میں نہیں کیے جائیں گے۔ پھر پہلے قدم پر ہی شوٹ کرنے کے بجاے، حکومت کو ’مناسب انتباہ‘ دینے کی ہدایت دی جاتی ہے لیکن اگر اس کا کوئی نتیجہ برآمد نہ ہو تو پاکستان کی فضائیہ کو ڈرون طیارے فوراً گرا دینے چاہییں۔
گو، کہ مَیں خود ایک امریکی ہوں، اس ناخوش گوار صورت حال کے بارے میں استدلال کرنا بے حد مشکل ہوتا ہے۔ اگر ایسا ہو کہ پاکستان سے کوئی بے پائلٹ ڈرونز کے ذریعے ٹیکساس میں دہشت گردی کرے تو میں یہ اُمید کروں گا کہ اوباما فوراً ہی فوجی طیارے بھیجے۔
یہ عدالتی فیصلہ کُل کا کُل جمہوریت اور قانون کی حکمرانی سے بحث کرتا ہے۔ امریکا ۲۰۰برس سے زائد سے اپنے آپ کو ان نظریات کے علَم بردار کے طور پر پیش کرتا رہا ہے۔ یہ بڑی شرم کی بات ہے کہ سی آئی اے کی ڈرون حملوں کی خفیہ مہم دونوں نظریات سے بُعد کی مظہر ہے اور گوانتاناموبے اور ابوغریب جیسے سابقہ المیوں کو آگے بڑھاتی ہے۔
بات بہت واضح ہے۔ پاکستان کی آزادی اور حاکمیت پر مسلسل حملے ہورہے ہیں، اور امریکا ہمارے خلاف اقدامِ جنگ کا مرتکب ہوا ہے۔ پاکستانی عوام ہرسطح پر اس اقدام کو فوری طور پر رکوانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ پارلیمنٹ تین قراردادوں کی شکل میں انھیں حاکمیت پر حملہ قرار دے چکی ہے اور حکومت سے مطالبہ کر رہی ہے کہ ان حملوں کو رکوانے کے لیے ہرممکن اقدام کرے۔
انتخابات میں عوام نے ایک بار پھر اپنا فیصلہ دے دیا ہے۔ اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ عدالت عالیہ کے فیصلے نے دو اور دو چار کی طرح متعین کردیا ہے کہ حکومت اور قوم کو ان حالات میں کیا کرنا ہے۔ اب محترم میاں نواز شریف کا امتحان ہے اور ان کے لیے اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ حلف برداری کے بعد تقریر میں صاف الفاظ میں اعلان کردیں کہ یہ حملے کسی شکل میں بھی قابلِ قبول نہیں۔ اگر امریکا پاکستان کے ساتھ دوستی کا رشتہ رکھنا چاہتا ہے تو اسے ان کو فی الفور بند کرنا ہوگا۔
ایک گروہ میاں صاحب کو ابھی سے یہ سبق پڑھا رہا ہے کہ اصل مسئلہ معاشی اور انرجی کے بحران کا ہے۔ بلاشبہہ معاشی مسئلہ اور انرجی کا یہ بحران اہم ہیں لیکن آزادی، حاکمیت اور سالمیت پر حملوں سے زیادہ نہیں۔ اور اگر دقتِ نظر سے دیکھا جائے تو معاشی بحران کے پیدا کرنے میں امریکا کی اس ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں ہماری شرکت نے ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس کی وجہ سے صرف معاشی میدان میں سرکاری تخمینے کے مطابق ۱۱سال میں ۹۷بلین ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے اور تباہی کا یہ سفر جاری ہے۔ معیشت کی اصلاح اور بحالی اور آزادی اور حاکمیت کے تحفظ کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ یہ الگ الگ شعبے نہیں ہیں۔ آج میاں نواز شریف جس صورت حال سے دوچار ہیں وہ مئی ۱۹۹۸ء سے مختلف نہیں ہے۔ اس وقت امریکا ایٹمی دھماکے روکنے پر مصر تھا اور رشوت اور دھمکی دونوں حربے استعمال کر رہا تھا لیکن ملک و قوم نے وہی فیصلہ کیا جو آزادی اور حاکمیت کا تقاضا تھا، خواہ اس کے معاشی اثرات منفی ہی کیوں نہ ہوں اور ہوئے، لیکن تھوڑے ہی عرصے میں معاشی حالات تبدیل ہوگئے لیکن جو تحفظ اور دفاعی قوت حاصل ہوئی وہ ملک کی زندگی اور سلامتی کی ضامن بن گئی۔ آج پھر ایک تاریخی موقع ہے، حلف اُٹھانے کے فوراً بعد ذلت اور محکومی کی ان بیڑیوں کو کاٹ پھینکا جائے اور آزادی، حاکمیت اور عزت و وقار کی حفاظت کے راستے کو اختیار کیا جائے۔ یہ ایک تاریخی موقع ہے اور پہلا اور آخری موقع ہے۔ معاملہ محض تحفظات کا نہیں ہے، دوٹوک فیصلہ آج وقت کی ضرورت ہے۔ جماعت اسلامی اور دوسری دینی جماعتیں پہلے دن سے مضبوطی کے ساتھ اس موقف پر مصر ہیں اور اب تحریکِ انصاف بھی، جو پارلیمنٹ میں سب سے بڑی حزبِ اختلاف ہے، مسلم لیگ کے ووٹر اور ان سب پر مستزاد پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ جسے عدالتی حکم کی حیثیت حاصل ہے، ان سب کا تقاضا ہے کہ پاکستان کے موقف کو دوٹوک انداز میں امریکا اور پوری دنیا کے سامنے واضح کردیا جائے کہ ڈرون حملے ہماری حاکمیت کی خلاف ورزی ہیں اور ناقابلِ قبول ہے۔ اس پر کسی قسم کا سمجھوتا ممکن نہیں ہے۔
اگر اس موقع پر نئی حکمت عملی کا جرأت کے ساتھ اعلان نہ ہوا تو پھر یہ موقع دوبارہ نہیں آئے گا۔ ہمارا مخلصانہ مشورہ ہے کہ میاں نوازشریف صاحب اس موقعے پر اپنی دینی اور ملّی ذمہ ادارکریں اور پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں ذلت اور محکومی کے اس باب کو بند کریں، اور عزت اور برابری کی بنیاد پر نئے باب کے آغاز کا راستہ اختیار کریں اور تاریخ کا یہ سبق سامنے رکھیں کہ ع
یک لحظہ غافل بودم و صدسالہ راہ ہم دور شد
ایک مہذب معاشرے اور ریاست اور ایک انارکی زدہ معاشرے میں اصل فرق اور وجہِ امتیاز قانون کی حکمرانی یا اس کا عدم وجود ہے۔ قرآن نے ربِ کعبہ کے احسان کو جس شکل میں پیش کیا ہے وہ انسانی معاشرے اور تہذیب کے اصل جوہر کو دو اور دو چار کی طرح واضح کردیتا ہے، یعنی اَطْعَمَھُمْ مِّنْ جُوْعٍ وَّاٰمَنَھُمْ مِّنْ خَوْفٍ(قریش ۱۰۶:۴) ’’جس نے انھیں بھوک سے بچاکر کھانے کو دیا اور خوف سے بچاکر امن عطا کیا‘‘۔ بھوک اور جان و مال کی پامالی کا خوف ہی معاشرے کو انارکی کی طرف لے جاتے ہیں اور امن و امان، قانون کی حکمرانی اور معاشی و معاشرتی انصاف کا قیام ایک معاشرے کو مہذب معاشرہ اور ترقی پر گامزن انسانی اجتماع بناتے ہیں۔ اسی لیے قرآن نے کہا کہ: وَ اِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلط(النساء ۴:۵۸) ’’اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو‘‘۔ نیز یہ کہ ایک بھی معصوم انسان کا بلالحاظ مذہب و نسل قتل پوری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے۔ حضرت علیؓ نے کتنی سچی بات کہی کہ ’’معاشرہ کفر کے ساتھ زندہ رہ سکتا ہے، ظلم کے ساتھ نہیں‘‘۔
آج ہمارا المیہ ہی یہ ہے کہ عدل و انصاف معدوم ہیں، قانون پابہ زنجیر ہے، اور ظلم و تشدد کا دور دورہ ہے۔ جن کی ذمہ داری ہے کہ قانون کی حکمرانی قائم کریں وہی قانون کے توڑنے والوں میں سرفہرست ہیں۔
ایک مہذب معاشرے میں طاقت کے استعمال کا بلاشبہہ ایک واضح کردار ہے لیکن یہ ریاست کا اختیار ہے۔ جو ریاست طاقت کے استعمال پر اپنی اجارہ داری (monopoly) کو قائم نہیں رکھ سکتی اور جو مختلف سرکاری اور غیرسرکاری اداروں اور شخصیات کو لوگوں کی جان، مال اور عزت سے کھیلنے کو روا رکھتی ہے وہ حکمرانی کا استحقاق کھودیتی ہے۔
لاقانونیت،سیاست میں تشدد کا بے دریغ استعمال اور دہشت گردی کا عفریت پاکستانی قوم کو ایک مدت سے اپنی گرفت میں لیے ہوئے ہیں۔ مسئلہ پورے ملک کا ہے مگر کراچی کی صورت حال غیرمعمولی اہمیت کی حامل ہے۔ کراچی کم از کم ۳۰سال سے کچھ عناصر کا یرغمال بنا ہوا ہے۔ ایک سیاسی گروہ نے اس راستے کو اختیار کر کے پورے شہر کو اپنی جاگیر بنا لیا۔ پھر متبادل قوتیں رُونما ہوئیں اور حکمرانی میں شریک ہوتے ہوئے بھی ہرپارٹی نے اپنی اپنی عسکری طاقت کا مظاہرہ کیا اور بھتہ خوری اور زمینوں پر قبضے سے بڑھ کر گوشت پوست کے انسانوں کو گاجرمولی کی طرح ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے چلن کو عام کردیا۔ غضب ہے کہ گذشتہ پانچ برسوں میں صرف کراچی میں ۷ہزار سے زیادہ افراد کو موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا۔ کسی کے ایک اشارے پر یہ گروہ پورے شہر کو جب تک چاہے موت کی نیند سلاسکتا ہے اور کوئی نہیں جو ظالموں کو گرفت میں لاسکے۔
اس میں جہاں سیاسی عناصر کا خونیں کردار ہے وہیں حکومت اور اس کی ایجنسیوں کے ہاتھ بھی خون میں رنگے ہوئے ہیں۔ سپریم کورٹ نے سندھ اور کراچی کے حالات پر اپنے فیصلے میں جوائنٹ انوسٹی گیشن رپورٹ کی روشنی میں نام لے کر اس دور کی حکمران جماعتوں، ایم کیو ایم، پیپلزپارٹی، اس کی نام نہاد امن کمیٹی، اے این پی اور ان کے ساتھ طالبان، سُنّی تحریک اور چند دوسرے عناصر (صرف تین جماعتیں اس خونیں کھیل میں ملوث نہیں تھیں: جماعت اسلامی، مسلم لیگ (ن) اور تحریکِ انصاف)کی نشان دہی کی مگر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ لاپتا افراد اور اغوا کے واقعات پر گرفت کرتے ہوئے عدالت نے معاشرے کے دوسرے عناصر کے ساتھ خود سرکاری ایجنسیوں کے احتساب کا بڑی اُونچی آواز میں مطالبہ کیا مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات!
اس سے پہلے کینیڈا کی ایک عدالت نے باقاعدہ طور پر ایم کیو ایم کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیا۔ یہ برطانیہ اور عالمی میڈیا میں شائع ہوا، لیکن پاکستانی میڈیا کو اسے شائع کرنے اور اس پر سوال اُٹھانے کی جرأت نہ ہوئی اور برسرِاقتدار پارٹی نے اسے شریکِ اقتدار کیے رکھا۔
صحافیوں کا قتل بھی اس خونیں کھیل کا ایک اہم حصہ ہے جس نے بھی حق بات کہنے کی جرأت کی، خواہ کتنی ہی دبی آواز میں اور اگر مگر کے ساتھ، اسے یا ٹھیک کردیا گیا یا جان سے مار دیا گیا۔ یہ واقعات صرف کراچی تک محدود نہیں۔ بدقسمتی سے ملک کے دوسرے مقامات پر بھی رُونما ہورہے ہیں لیکن کراچی کا حال سب سے زیادہ خراب ہے۔
اس صورت حال کا ایک خاص پہلو، یعنی صحافیوں پر کیا بیتی کے بارے میں ایک بڑی ہی چشم کشا رپورٹ نیویارک کے ایک وقیع عالمی ادارے Committee to Protect Journalists - (CPJ) کی طرف سے شائع ہوئی جس کا نوٹس لینا اور اس میں پیش کردہ حقائق کی روشنی میں ضروری اقدام کرنا وقت کا تقاضا ہے۔ یہ رپورٹ ۵۱صفحات پر مشتمل ہے۔ اسے نیویارک ٹائمز کی ایک سابقہ صحافی الزبتھ رابن نے مرتب کیا ہے اور مئی ۲۰۱۳ء کے وسط میں یہ امریکا سے جاری کی گئی ہے۔ اس رپورٹ کا عنوان ہے:Roots of Impunity: Pakistan's Endangered Press and the Perilous Web of Militancy, Security and Politics. (پکڑ سے بے خوفی کی بنیادیں: پاکستان کا خطرات میں گھِرا پریس اور عسکریت پسندی، سیکورٹی اور سیاست کا خطرناک جال)
اس رپورٹ میں صاف الفاظ میں کہا گیا ہے کہ تشدد، اغوا اور دہشت گردی کے ان واقعات میں پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی اور ایک سیاسی جماعت ایم کیو ایم کا ہاتھ ہے۔ رپورٹ میں صوبہ خیبرپختونخوا کے ایک صحافی مکرم خان عاطف کے قتل کا بھی جائزہ لیا گیا ہے جس کے ہلاک کیے جانے کی ذمہ داری بظاہر طالبان نے قبول کی تھی مگر تحقیق کے بعد یہ بات سامنے آگئی کہ اس سے طالبان کا کوئی تعلق نہیں تھا، بلکہ اسے سلالہ پر امریکی حملے کی خبر کے اصل حقائق دنیا کے سامنے لانے کی سزا سرکاری ایجنسیوں نے دی۔ رپورٹ کے الفاظ میں:
مکرم نے پاکستانی فوج کی سلالہ پوسٹ پر تباہ کن امریکی حملے کی خبر دی تھی۔اس کی رپورٹ نشر ہونے کے بعد اس کو فوجی اور خفیہ افسران کی جانب سے بار بار دھمکیاں دی گئیں۔ سی پی جے کے ذرائع کو یقین ہے کہ اس قتل کے پیچھے سرکاری افسران ہیں اور فوج اور عسکریت پسندوں کے درمیان رابطوں کا انکشاف وہ سرخ لکیر ہے جسے پار نہیں کیا جاسکتا۔
اس رپورٹ میں ان ۲۳ صحافیوں کے قتل کے بارے میں معلومات جمع کی گئی ہیں جو ۲۰۰۳ء سے ۲۰۱۲ء کے درمیان پاکستان میں موت کے گھاٹ اُتار دیے گئے ہیں۔ یہ جو دیگ کے ان چند چاولوں کی حیثیت رکھتے ہیں جن کے حشر کے آئینے میں ان ۵۰ہزار سے زیادہ مظلوموں کی تصویر الم بھی دیکھی جاسکتی ہے جو ۲۰۰۱ء کے بعد لقمۂ اجل بنے ہیں۔
پوری رپورٹ رونگٹے کھڑے کردینے والی داستان سناتی ہے لیکن چند اقتباسات حالات کی سنگینی اور ظالموں کے چہروں کو پہچاننے کے لیے پیش کیے جاتے ہیں:
سی پی جے نے معلوم کیا ہے کہ قتل کے کم سے کم سات واقعات میں سرکاری فوجی یا خفیہ پولیس کے افسران کے مرتکب ہونے کا زیادہ امکان ہے۔ یہ ہدف زدہ افراد بالکل بے دھڑک قتل کردیے گئے۔ گذشتہ ۱۰برسوں میں کسی ایک صحافی کے قتل کا بھی کامیاب مقدمہ نہیں چلایا جاسکا۔ جنوری ۲۰۱۱ء میں ولی خان بابر کے قتل کے بارے میں رپورٹ کہتی ہے کہ پولیس نے ایم کیو ایم سے وابستہ کئی مشتبہ افراد پکڑے لیکن دھمکیوں اور کلیدی افراد کے قتل نے مقدمات کو پٹڑی سے اُتار دیا۔ اس مقدمے کے پانچ گواہ یا قانون نافذ کرنے والے افسران قتل اور دو سرکاری وکیل کوئی وجہ بتائے بغیر برطرف کیے جاچکے ہیں۔
صحافیوں کو ایم کیو ایم کی جانب سے دھمکیاں ملتی ہیں۔ سی پی جے کی رپورٹ میں ایک صحافی نے انٹرویو میں کہا کہ ایم کیو ایم کے بارے میں کوئی خبر شائع کرنے سے پہلے غیرمعمولی طور پر محتاط ہونا پڑتا ہے۔ وہ بات کو بھولتے نہیں ہیں۔ مَیں ۱۵۰رپورٹروں کا نگران ہوں۔ کسی کی بائی لائن لگے تو مجھے محتاط ہونا پڑتا ہے (ایک اخبار کے مدیرنے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا)۔
ایک ٹی وی آپریٹر نے کہا کہ ایم کیو ایم کیبل آپریٹر پر بھی دبائو ڈالتی ہے کہ جو پروگرام پارٹی کو پسند نہیں،اسے بند کیا جائے۔ ایک اور آپریٹر نے بتایا کہ ہمیں طالبان سے زیادہ ایم کیو ایم سے دھمکیاں ملتی ہیں۔اگر طالبان کی طرف سے دھمکی ملے تو آپ انتظامیہ سے مدد مانگ سکتے ہیں لیکن اگر ایم کیو ایم دھمکیاں دے تو یہ راستہ بھی نہیں۔ سی پی جے نے کراچی پریس کلب میں صحافیوں سے پوچھا کہ ولی خان بابر کے قاتل پکڑے کیوں نہیں جاتے؟ ایک صحافی نے کہا کہ ہر کوئی ایم کیو ایم کی طرف انگلی سے اشارہ کرتا ہے۔(دی نیوز، ۲۴ مئی ۲۰۱۳ء)
سرکاری کارندوں کا اس گھنائونے اور خونیں کھیل میں ملوث ہونے کا معاملہ صحافیوں تک محدود نہیں ہے۔ کئی ہزارلاپتا افراد کا مسئلہ اعلیٰ عدالتوں میں کئی سال سے گردش کر رہا ہے اور ڈور کا سِرا ہے کہ مل ہی نہیں پارہا۔ ۲۴ اور ۲۵مئی کے صرف دو روز کے اخبارات سے صرف تین رپورٹیں یہاں دی جاتی ہیں جن سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ لاقانونیت اپنی تمام حدوں کو پھلانگ چکی ہے اور ہرجرم کے لیے طالبان کا نام لے لینا ایک سنگین مذاق بن چکا ہے۔ طالبان یا طالبان کے نام پر جو بھی قتل و غارت گری، اغوا اور دہشت گردی کا مرتکب ہے وہ قابلِ مذمت ہی نہیں، قابلِ گرفت اور قابلِ سزا ہے۔ لیکن آج لاقانونیت اور دہشت گردی کا مسئلہ نہایت پیچیدہ اور مختلف جہتی ہے اور اس کے لیے ہمہ جہتی حکمت عملی اور مؤثر اقدام کی ضرورت ہے۔ بات کہاں کہاں تک پہنچی ہے اس کا اندازہ ان رپورٹوں سے کیا جاسکتا ہے:
بلوچستان کی سیکورٹی ایجنسیوں میں دہشت گردوں کے ہمدردوں، انتہاپسندوں اور عسکریت پسندوں کا نفوذ خطرناک حد تک بڑھ گیا ہے۔ اس سال جنوری میں سی آئی ڈی کے اعلیٰ افسران ایس پی طارق منظور ، ڈی ایس پی قطب خاں اور ڈی ایس پی بلال کو فرنٹیر کور نے اغوا براے تاوان کے الزام میں گرفتار کیا۔ (دی نیوز، ۲۴ مئی ۲۰۱۳ء)
پاکستان کے فرقہ وارانہ جنگی تھیٹر میں کوئٹہ پولیس کے عملے کے خطرناک ترین دہشت گردوں سے رابطوں کی پریشان کن اطلاعات ملی ہیں۔ پیر کو ڈی آئی جی کوئٹہ پولیس ریاض احمد سنبل نے دو سپاہیوں کی گرفتاری کا انکشاف کیا۔ (دی نیوز، ۲۵ مئی ۲۰۱۳ء)
پاکستان میں دہشت گردی کے عفریت کی ایک نئی شکل سامنے آئی ہے۔ اُمت رپورٹ کے مطابق ایسی ہی ایک واردات فیصل آباد میں ہوئی جس میں ایک مسیحی نوجوان بارودی مواد پھٹنے سے مارا گیا اور اس کے دو ساتھی گرفتار کے لیے گئے۔ دورانِ تفتیش معلوم ہوا کہ فیصل آباد میں گرفتار عیسائی گروہ طالبان اور لشکر جھنگوی کا نام استعمال کرتے تھے۔ تین ملزمان نے پادری قیصرشان کو طالبان کے نام سے خط لکھا پھر فون پر قتل کی دھمکی دے کر ۱۰لاکھ روپے طلب کیے۔ خوف زدہ کرنے کے لیے گھر پر دھماکا کرنے جارہے تھے کہ بارودی مواد موٹرسائیکل پر پھٹ گیا۔ دوبرس میں شہر کے تاجروں سے ۲۰کروڑ روپے بھتہ وصول کیا جاچکا ہے۔(نوائے وقت، ۲۵ مئی۲۰۱۳ء)
یہ صرف نمونے کے چند چاول ہیں۔ نئی حکومت نے دہشت گردی اور لاقانونیت سے ملک کو نجات دلانے کا وعدہ کیا ہے۔ کیا حکومت پوری جرأت کے ساتھ ان تمام عناصر کو قانون کی گرفت میں لانے کے لیے تیار ہے جو اس سارے خون خرابے کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں۔ امریکا کی جنگ میں شرکت کی جو قیمت اس مظلوم قوم نے ادا کی ہے وہ تاریخ کا ایک المیہ ہے لیکن اب مسئلے کو اس کے تمام پہلوئوں کو سامنے رکھ کر حل کرنا ہوگا۔ نیز جو جو عناصر خود ملک میں اس صورتِ حال کا فائدہ اُٹھا کر اپنے دوسرے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے ایک خونیں کردار ادا کر رہے ہیں اور باربار سرکاری تحفظ میں آکر اپنی سرگرمیاں جاری رکھتے ہیں، ان سب پر قانون کی گرفت لاگو ہو۔ سرکاری ایجنسیوں کو بھی لگام دینے کی ضرورت ہے اور ان دوسری تمام قوتوں کو بھی گرفت میں لانا ہوگا جو اب تک اپنے اپنے انداز میں کھل کھیلتی رہی ہیں، اور آج اس کی ڈوریاں ہلانے والے ۴ہزار میل دُور سے آنسو بہابہا کر یہ رونا رو رہے ہیں کہ دوسرے اس کے نام پر بھتہ خوری، زمینوں پر قبضہ، انسانی جانوں کا اتلاف کرتے رہے ہیں حالانکہ اس کے اشاروں کے بغیر اس گروہ کے بام و دَر میں ایک پتّا بھی نہیں ہلتا۔ وقت آگیا ہے کہ ایک ایک معصوم جان کا اس کے قاتلوں سے حساب لیا جائے۔ یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر آج اور کل تمام انسانوں کی جان، مال اور آبرو کو محفوظ کیا جاسکتا ہے۔ اس سلسلے میں سرکاری عمال، ایجنسیاں، سیاسی گروہ، مذہب کے نام پر تشدد کرنے والے، فرقہ پرستی کی آگ بھڑکانے والے___ سب کو قانون کی گرفت میں آنا چاہیے اور اپنے کیے کی سزا بھگتنی چاہیے۔ یہی قرآن کے اس ارشاد کا مطلب ہے: لَکُمْ فِی الْقِصَاصِ حَیٰوۃٌ یّٰآُولِی الْاَلْبَابِ (البقرہ ۲:۱۷۹)، ’’عقل و خرد رکھنے والو، تمھارے لیے قصاص میں زندگی ہے‘‘۔
آج پاکستانی قوم ایک ایسی صورت حال سے دوچار ہے، جو اگرچہ الم ناک ہے، لیکن اپنے جلو میں ایک تاریخی موقعے کی حامل بھی ہے۔ پاکستان محض ایک ملک اور ایک خطۂ زمین کا نام نہیں___ یہ ایک تصور، ایک نظریہ، ایک آدرش ، ایک منزل اور ایک واضح وژن سے عبارت ہے جس کی شناخت اس کا اسلامی، جمہوری اور فلاحی کردار ہے۔ پاکستان اسلام کے نام پر قائم ہوا ہے اور اسلام ہی میں اس کی بقا اور ترقی کا راز مضمر ہے۔ اسلام اور پاکستان ایک تصویر کے دو پہلو اور ایک سکّے کے دو رُخ ہیں۔ تحریکِ پاکستان کی بنیاد نظریاتی قومیت کے تصورپر تھی اور علاقے کا حصول اس لیے تھا کہ اس نظریے کے تقاضوں کو پورا کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ قائداعظم نے برملا کہا تھا کہ قیامِ پاکستان کی جدوجہد کا آغاز اس وقت ہوگیا تھا جب ہند میں پہلا شخص مسلمان ہوا تھا اور علامہ اقبال نے برعظیم پاک و ہند میں مسلمانوں کی ایک آزاد ریاست کی ضرورت کا جو اعلان ۱۹۳۰ء کے الٰہ آباد کے خطبۂ صدارت میں کیا تھا، اس میں اس مطالبے کے برحق ہونے کے لیے جو دلیل دی تھی وہ بڑی واضح تھی کہ اسلام کو بحیثیت ایک تمدنی قوت کے زندہ رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایک مخصوص علاقے میں اپنی مرکزیت قائم کرے۔
تحریکِ پاکستان کے اس مقصد کو قائداعظم نے قیامِ پاکستان سے قبل جدوجہد کے دوران کم از کم ۱۰۰ بار اور قیامِ پاکستان کے بعد ۱۴بار صاف الفاظ میں بیان کیا اور اس طرح پاکستان کی اساس اور نظریے کی حیثیت ایک معاہدئہ عمرانی (social contract) کی ہے جس کے نتیجے میں پاکستان اور اسلام لازم و ملزوم ہوجاتے ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔ یہی وہ حقیقت ہے جو بالآخر دستور کی زبان میں قرارداد مقاصد کی شکل میں پہلے ۱۲ مارچ ۱۹۴۹ء کو دستور ساز اسمبلی کی قرارداد میں سامنے آئی، اور پھر پاکستان کے ہردستور کا حصہ بنی۔ اس وقت یہ دستور کے دیباچے کے علاوہ اس کے operational (تنفیذی) حصے میں بھی شامل ہے (دفعہ ۲-الف)۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی سپریم کورٹ نے اپنے ۱۹۷۳ء کے ایک فیصلے میں اس تاریخی اور دستوری حقیقت کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے:
پاکستان ایک اسلامی جمہوریہ ہے اور اس کا نظریہ ۱۹۴۹ء کی قرارداد مقاصد میں درج ہے، جسے پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے منظور کیا ہے… مملکت پاکستان اسلامی نظریے کی بنیاد پر وجود میں لائی گئی تھی اور اسی نظریے کی بنیاد پر چلائی جائے گی۔ (پی ایل پی ۱۹۷۳ء، ص ۴۹ اور ص ۷۲-۷۳)
پاکستان کے اسلامی جمہوریہ ہونے کے معنی یہ ہیں کہ حاکمیت اعلیٰ اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دیے ہوئے قانون اور رہنمائی کو زندگی کے بالاتر قانون کی حیثیت حاصل ہوگی۔ قانون سازی اور پالیسی سازی دونوں میں رہنمائی کا اولیں سرچشمہ قرآن و سنت ہوں گے۔ مسلمانوں کو قرآن و سنت کے مطابق انفرادی اور اجتماعی زندگی کی تشکیل و تعمیر میں ریاست ہرممکن کردارادا کرے گی۔
اس کے ساتھ ہی یہ اصول بھی اسلام ہی کا طے کردہ ہے کہ نظامِ حکومت کو چلانے اور قیادت کو منصب ِ قیادت پر لانے اور ہٹانے کا اختیار ملک کے عوام کو حاصل ہوگا اور ریاست کا سارا نظام اَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ (ان کے معاملات باہم مشورے سے طے پاتے ہیں) کے قرآنی اصول کے مطابق انجام دیا جائے گا۔ تمام انسانوں کے بنیادی حقوق محترم اور مقدس ہوں گے اور اربابِ اختیار اللہ اور عوام دونوں کے سامنے جواب دہ ہوں گے، نیز ریاست کا کام انسانوں کے حقوق کی حفاظت کے ساتھ ان کو ان تمام سہولتوں کی فراہمی بھی ہوگا جن کے نتیجے میں وہ عزت اور سہولت کے ساتھ زندگی گزار سکیں، زندگی کے ہرشعبے میں انصاف قائم کیا جائے اور معاشرے میں ایثار، قربانی اور احسان کا دوردورہ ہو۔ یہ وہ لائحہ عمل ہے جس کے نتیجے میں ایک حقیقی جمہوری اور فلاحی معاشرہ اور ریاست وجود میں آئے گی۔ اس ریاست میں انسانی حقوق کے باب میں تمام انسان بلالحاظ مذہب، مسلک، زبان، نسل، خون، قبیلہ برابر ہوں گے اور ہرشخص اپنی انفرادی اور خاندانی زندگی استوار کرنے میں آزاد ہوگا اور اسے اجتماعی زندگی میں بھی قانون کے دائرے میں اپنا کردار ادا کرنے کے پورے مواقع ہوں گے۔ اسلام میں نہ شخصی آمریت کی گنجایش ہے اور نہ کسی بھی نوعیت کی پاپائیت کی۔ پاکستان کے لیے اصل ماڈل اور نمونہ صرف مدینہ منورہ کی وہ اسلامی ریاست اور معاشرہ ہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں قائم ہوا اور ۱۴۰۰سال سے مسلمانوں کے لیے روشنی کا مینار اور اجتماعی زندگی کے لیے نمونہ ہے اور ہمیشہ رہے گا۔
پاکستان کے اس تصور کی روشنی میں جب ماضی کے ۶۶ برسوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ الم ناک حقیقت سامنے آتی ہے کہ قیامِ پاکستان کے چند سال کے بعد ہی ایک مفادپرست ٹولے نے اقتدار کو اپنی گرفت میں لے لیا اور اس میں سیاست دانوں کے ساتھ بیوروکریسی، فوجی جرنیل اعلیٰ سطح کی عدلیہ کے بعض عناصر، سرمایہ دار، وڈیرے اور جاگیردار سب ہی شریک تھے۔ ان سب نے مل کر ملک کی آزادی، نظریاتی تشخص اور تہذیبی شناخت سب کو پامال کیا، ملک کے وسائل کو ذاتی اور گروہی مقاصد کے لیے بے دردی سے استعمال کیا، کرپشن اور بدعنوانی کا بازار گرم کیا اور عوام کے لیے زندگی کو تلخ سے تلخ تر بنادیا۔ اعلیٰ ترین سیاسی دروبست میں پہلے بیوروکریسی اور پھر فوجی قیادت کی دراندازیوں نے جمہوریت، دستور اور قانون پر مبنی حکمرانی کے انتظام کو درہم برہم کردیا۔ دستورشکنی کو عدالتوں نے تحفظ فراہم کیا اور انتخابات کے نظام کو اس طرح اپنے مقاصد کے لیے استعمال ( manipulate) کیا گیا کہ عوام کی حکمرانی کا خواب چکناچور ہوگیا۔ ناانصافیوں کا دوردورہ ہوا اور حقوق کی پامالی اس مقام پر پہنچ گئی کہ دشمنوں کی مداخلت سے ملک کا ایک حصہ بدن سے جدا ہوگیا، جو بچا ہے وہ بھی لہولہان ہے۔
گذشتہ ۱۴برس ہماری تاریخ کے سیاہ ترین سال ہیں۔ پہلے نو سال ایک فوجی طالع آزما حکمراں رہا اور اسے ارباب سیاست، کارپردازانِ معیشت، سول اور فوجی انتظامیہ سب ہی میں سے مددگار میسر آگئے۔ بیرونی ممالک نے بھی اسے ہر طرح کی سرپرستی سے نوازا۔ ۲۰۰۸ء میں حالات نے کروٹ لی لیکن بدقسمتی سے پھر این آر او کے سایے میں وجود میں آنے والی حکومت نے نہ صرف وہی تباہ کن پالیسیاں جاری رکھیں بلکہ ان میں کچھ اور بھی رنگ بھرا جو فوجی حکمران کے دور میں امریکا کے اشارے پر ملک پر مسلط کی گئی تھیں۔ اس پر مستزاد، ان کے دور کی بُری حکمرانی (bad governance) ہے جس کے نتیجے میں کرپشن اور بدعنوانی میں ہوش ربا اضافہ، عوامی مسائل کو نظرانداز کرنا، توانائی کے بحران سے غفلت، تعلیم اور صحت کے باب میں مجرمانہ عدم توجہی کی لعنتوں کا اضافہ کردیا۔ ان پانچ سال میں ملک کو جو نقصان پہنچا ہے اور عوام جن مصائب سے دوچار ہوئے ہیں وہ پچھلے ۶۰برسوں سے بھی زیادہ ہیں۔ یہ دور ایسی حکومت کے اقتدار کا تھا جس میں حکمرانی ہی کا فقدان تھا۔ اس دور کی ناکامیوں اور غلط کاریوں کی فہرست بڑی طویل ہے لیکن اگر اہم ترین چیزوں کی نشان دہی کی جائے تو ان میں سرفہرست مندرجہ ذیل ہیں:
پاکستان اور اہلِ پاکستان کی اولیں قیمتی متاع ان کی آزادی اور خودمختاری ہے جو بڑی جدوجہد اور قربانی کے بعد حاصل کی گئی ہے۔ ایوب خان کے دور ہی میں اس آزادی پر امریکا، مغربی اقوام اور عالمی اداروں کا منحوس سایہ پڑنا شروع ہو گیا تھا اور آہستہ آہستہ آزادی اور خودمختاری میں کمی آرہی تھی۔ ہمارے قومی معاملات میں بیرونی مداخلت بڑھ رہی تھی اور ملک کی خارجہ اور داخلہ پالیسیاں، خاص طور پر معاشی پالیسیاں، ملک اور قوم کے مفاد سے کہیں زیادہ بیرونی قوتوں کے مفاد میں بننے لگی تھیں مگر کمانڈو صدر جنرل پرویز مشرف کے زمانے میں محکومی اور امریکا کی غلامی کا جو دور شروع ہوا ہے، وہ سب سے زیادہ تباہ کن تھا اور بعد کے دور میں بھی وہ کم ہونے میں نہیں آرہا۔ ملک کی آزادی، عزت و وقار اور سالمیت پر تابڑ توڑ حملوں کے باوجود حکمرانوں کی روش میں عملاً کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے بلکہ انھوں نے بہ رضاورغبت یا بہ جبر و اِکراہ اپنے کاندھے بیرونی قوتوں کے استعمال کے لیے فراہم کر دیے ہیں۔ اب قوم کے سامنے سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ اپنی آزادی اور خودمختاری کو کس طرح دوبارہ حاصل کریں۔
۲۰۰۱ء میں نائن الیون کے بعد کولن پاول نے صدر جارج بش کی طرف سے جو دھمکی ’’ہمارے ساتھ ہو یا دہشت گردوں کے حامی ہو؟‘‘ کی شکل میں دی تھی اور جس پر مشرف صاحب چاروں شانے چت ہوگئے تھے، وہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ غلامی اور محکومی کی یہ کیفیت ہرغیور پاکستانی محسوس کرتا ہے اور بچشم سر دیکھ رہا ہے لیکن صرف ریکارڈ کی خاطر مشرف اور زرداری اور اس کے ساتھیوں کے اس مجرمانہ کردارکو ذہن میں تازہ کرنے کے لیے چند شواہد امریکا کے کارفرما عناصر کی زبان میں پیش کرنا مفید ہوگا تاکہ ۱۱مئی کے موقعے پر سابقہ قیادت کا اصل چہرہ سامنے رہے:
نیویارک ٹائمز کا نام وَر نمایندہ ڈیوڈ سانگر اپنی کتاب Confront and Conceal میں امریکی حکم اور پاکستانی قیادت کی نیازمندی کی یوں منظرکشی کرتا ہے:
جب امریکا نے افغانستان پر حملے کی تیاری کی تو اس نے پاکستان کو مجبور کیا کہ وہ طالبان اور القاعدہ کا ساتھ دینے یا واشنگٹن کا ساتھ دینے کے درمیان انتخاب کرے۔ پاکستان کے فوجی سربراہ پرویز مشرف کی کنپٹی پر بندوق تھی اور اس نے صرف وہی انتخاب کیا جو وہ کرسکتا تھا اور ملک افغانستان پر حملے کرنے کے لیے پلیٹ فارم بن گیا۔ (ص۱۲۹)
امریکا کی خارجہ سیکرٹری کونڈولیزا رائس نے اپنی سوانح عمری No Higher Honour میں بھی صاف لفظوں میں امریکا اور پاکستان کے حاکم اور محکوم والے تعلقات کو ستمبر۲۰۰۶ء میں مشرف اور بش کی ملاقات کے ذیل میں بیان کیا ہے۔ مشرف صاحب فاٹا میں امن کے معاہدوں کے باب میں امریکا کی اجازت چاہتے تھے مگر صدرِ امریکا نے ٹکاسا جواب دے دیا:
لیکن صدر نے اوول آفس کی میٹنگ میں ان پر یہ واضح کردیا کہ اگر ہمیں یہ معلوم ہوا کہ ہماری سرحدات کو کوئی خطرہ ہے، نیز اس صورت میں بھی کہ ہمیں یہ معلوم ہوا کہ القاعدہ کے کلیدی رہنما ئوں کو وہاں پناہ دی گئی ہے،امریکا خود اقدام کرے گا۔ مشرف کو دوٹوک انداز میں (point blank) بتا دیا گیا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ اقدام کسی کی اجازت کے بغیر اور ممکنہ طور پر اسلام آباد کے علم میں بھی لائے بغیر، ہمارا خصوصی استحقاق ہے۔
یہ ہے امریکا سے ہمارے تعلقاتِ غلامی کی اصل حقیقت۔ ۱۱مئی کو عوام کو یہ طے کرنا ہے کہ آیا وہ اپنی آزادی کی بازیافت کے بارے میں سنجیدہ ہیں اور کیا وہ وقت نہیں آگیا کہ یک سُو ہوکر ایسے لوگوں سے نجات پائیں جو اس ذلت کے ذمہ دار ہیں اور جو ایک بار پھر دھوکا دینے کے لیے میدان میں آگئے ہیں۔
امریکا کی غلامی اور اس کی بالادستی کے یوں تو دسیوں پہلو ہیں لیکن اس وقت ان میں سب سے اہم: ڈرون حملوں کا تسلسل ہے۔ یہ حملے پاکستان کی کی آزادی، حاکمیت اور خودمختاری پر حملہ اور ہمارے خلاف ایک طرح کا اعلانِ جنگ ہیں۔ امریکا نے پہلے کچھ پردہ رکھا مگر اب ایک سال سے اس نے کھل کر اعتراف کرلیا ہے کہ وہ حملے کر رہا ہے اور کرتا رہے گا___ تم جو چاہے کرلو۔ آج خود امریکا میں اور عالمی سطح پر ڈرون حملوں کے خلاف مؤثر آوازیں اُٹھ رہی ہیں۔ امریکا کے قانون دان امریکی قیادت کو چیلنج کر رہے ہیں کہ کانگریس کی واضح اجازت کے بغیر صدر یہ حملے نہیں کرسکتا۔ انھیں ٹارگٹ کِلنگ بھی قرار دیا جارہا ہے جو بین الاقوامی قانون اور امریکی قانون دونوں میں ممنوع ہیں۔ پھر یہ اعتراض بھی ہو رہا ہے___ اور صدرامریکا کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں___ کہ سی آئی اے جو ایک سول اور سراغ رسانی کا ادارہ ہے، اسے اس جنگی اقدام کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ اس کے نتیجے کے اعتبار سے نقصان دہ ہونے (counter productive) کا بھی اعتراف کیا جارہا ہے۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے رُوداد پیش کار (rapporteur) نے بھی انھیں اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
لیکن امریکا نے اپنی جارحیت جاری رکھی ہوئی ہے اور پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کوئی مؤثر کارروائی کرنے کے لیے تیار نہیں، بلکہ پرویز مشرف نے تو اب سی این این کو دیے جانے والے ایک انٹرویو میں اعتراف کیا ہے کہ اس نے ڈرون حملوں کی اجازت دی تھی۔ اس سے پہلے ایک انٹرویو میں اس وقت کے پرویز مشرف کے وزیرخارجہ اور آج کے تحریکِ انصاف کے ایک قائد جناب خورشید قصوری نے بھی اعتراف کیا ہے کہ حکومت وقت نے ان حملوں کی اجازت دی تھی۔ نیز شمسی ایئربیس کوئی خفیہ چیز نہیں تھی جس کو امریکا دھڑلے سے ان حملوں کے لیے استعمال کررہا تھا اور فوجی قیادت اور وزارتِ دفاع صرف غضِ بصر ہی نہیں کیے ہوئے تھی بلکہ پارلیمنٹ کی کمیٹیوں کے سامنے خود پاکستان کی سرزمین کے پاکستان کے خلاف استعمال ہونے پر لاعلمی کا اظہار کررہی تھی! جو کردار مشرف اور اس کی ٹیم کا تھا وہی زرداری، گیلانی اور کیانی کا ہے جن کے بارے میں امریکا کے سرکاری ذرائع کے بیانات کی روشنی میں لکھی جانے والی کتابوں اور مضامین میں کھلے الفاظ میں کہا جارہا ہے کہ سب کچھ ان کی مرضی سے ہورہا ہے۔
اب یہ بھی ثابت ہوچکا ہے کہ امریکی تحقیقی اداروں کے مطابق ڈرون حملوں سے مارے جانے والوں میں سے صرف ۳ فی صد کے بارے میں یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ ان کا تعلق القاعدہ یا دہشت پسندوں سے تھا اور تقریباً ۹۷ فی صد یقینی طور پر سویلین مرد، بچے اور عورتیں ہیں۔ خود پاکستان کے سینیٹ کی ڈیفنس کی کمیٹی کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ مرنے اور زخمی ہونے والوں کی عظیم اکثریت سویلین ہے۔ اس سب کے باوجود ڈرون حملوں کا مقابلہ کرنے اور امریکا کو انھیں روکنے اور کم از کم راہداری کی تمام سہولتوں کو ختم کرنے اور ہرممکن ذریعے سے ان کو ناکام بنانے کے واضح اعلان کا دُور دُور پتا نہیں۔ ۱۱مئی کو یہ طے ہوجانا چاھیے کہ مستقبل کی قیادت وہ ہوگی جو ان شاء اللّٰہ ڈرون حملوں کو رکوانے کے لیے کوئی کمزوری نہیں دکھائے گی اور سفارت کاری اور عسکری دفاع کا ہر طریقہ اس کو روکنے کے لیے استعمال کرے گی۔
جس طرح آزادی، حاکمیت اور خودمختاری کا تحفظ جسمانی وجود کی حفاظت ہے، اسی طرح پاکستان کی شناخت، اسلام اور اسلامی تہذیب و ثقافت کی حفاظت اور ترقی روحانی وجود کی حفاظت کے لیے ضروری ہے۔ پرویز مشرف اور زرداری، گیلانی، پرویز اشرف اور ان کے حلیفوں کے دور میں پاکستان کی اسلامی اساس کو کمزور اور اس کی شناخت کو تحلیل اور مجروح کیا گیا ہے۔ اسلام اب ہماری قانون سازی اور پالیسی سازی کے لیے مرکزی حوالے (point of reference) کی حیثیت سے باقی نہیں رہا ہے۔ تعلیم میں جو تھوڑا بہت اسلام اور اسلامی تاریخی روایات اور ادب کا حصہ تھا، اسے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کم یا ختم کیا جارہا ہے۔ میڈیا پر اسلام اور اسلامی اقدار کے خلاف ایک جنگ برپا ہے اور جو اسلام اور اسلامی اقدار کے تحفظ کی بات کریں، ان پر ’غیرت بریگیڈ‘ کی پھبتی کَسی جارہی ہے۔ دستور کی دفعہ ۶۲ اور ۶۳ کو استہزا کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور صادق اور امین جیسے مقدس الفاظ تک کا مذاق اُڑایا جا رہا ہے۔ مغرب سے اسلام کے خلاف جو یلغار ہے، اور جہاد اور شریعت کو جس طرح ہدفِ تنقید بنایا جا رہا ہے، یہاں بھی اعتدال پسندی اور لبرلزم کے نام پر اسی کی بازگشت سنائی دے رہی ہے اور ’چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی‘ کی بزدلانہ اور منافقانہ روش کو عام کیا جا رہا ہے۔ معترضین کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسلام، اس کے اصولوں اور تعلیمات کے دفاع کی کوئی کوشش نظر نہیں آتی۔ اگر ایک طرف قوم کو سیاسی غلامی کی زنجیروں میں جکڑا جا رہا ہے تو دوسری طرف نظریاتی، تہذیبی اور اخلاقی غلامی کے طوق اس کی گردن میں ڈالنے کی کوشش ہورہی ہے اور حکمران طبقہ اور اشرافیہ اس میں عالمی استعماری قوتوں کے کارندوں کا کردار ادا کر رہا ہے۔ حالانکہ پاکستانی عوام امریکا سے بے زار، اس کی اسلام دشمن اور مسلم کش پالیسیوں پر آتش زیرپا اور اپنے دین اور اپنی اقدار کے تحفظ کے لیے جان کی بازی لگادینے کے لیے تیار ہیں۔ الحمدللہ، عوام اور اہلِ اقتدار میں سے بھی باضمیر افراد پاکستان کے اسلامی تشخص پر دل و جان سے یقین رکھتے ہیں اور حسب موقع اس کا اظہار بھی ہوتا ہے لیکن برسرِاقتدار طبقے کا عمومی رویہ وہی ہے جس کا ذکر ہم نے اُوپر کیا ہے۔ ۱۱مئی کو عوام کو اس بات کا بھی فیصلہ کرنا ہے کہ وہ ایک ایسی قیادت کو برسرِکار لائیں جو دین کے بارے میں مخلص اور یک سو ہو اور جو معذرت خواہانہ رویے کی جگہ پورے اعتماد سے اپنے دین اور اپنی اقدار کا تحفظ کرنے کا عزم اور صلاحیت رکھتی ہو۔
تیسرا اہم ترین مسئلہ ملک میں امن و امان کی ناگفتہ بہ حالت اور دہشت گردی کے دوردورے کا ہے۔ یہ بات اچھی طرح سمجھ لینے کی ہے کہ امریکا کی ’دہشت گردی کے خلاف یہ جنگ‘ نہ ہماری جنگ تھی، نہ ہے اور نہ ہوسکتی ہے۔ ہم اس دلدل میں اپنوں کی ہمالیہ سے بلند غلطیوں کی وجہ سے پھنس گئے ہیں اور جان، مال، آبرو اور آزادی ہر ایک کی پامالی کی شکل میں بیش بہا قیمت اداکررہے ہیں۔ ۵۰ہزار سے زیادہ افراد جان کی بازی ہارچکے ہیں۔ اس سے دوگنے زخمی ہوگئے ہیں،۲لاکھ سے زیادہ بے گھر ہوچکے ہیں۔ معاشی اعتبار سے ۱۰۰؍ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان اُٹھا چکے ہیں اور پورے ملک میں جرائم اور قتل و غارت گری کا بازار گرم ہے۔ صرف کراچی میں گذشتہ چار سال میں ۷ ہزار سے زیادہ افراد قتل کیے جاچکے ہیں اور قاتل حکمران جماعتوں کی پناہ میں ہیں اور دندناتے پھر رہے ہیں۔
ملک کی فوج ملک کے دفاع کی جگہ خود اپنوں کے خلاف صف آرا ہے اور قوم اور فوج میں اعتماد اور محبت کا جو رشتہ ہے، وہ مجروح ہورہا ہے۔ اس سب کے باوجود امریکا کے عتاب کا بھی ہم ہی نشانہ ہیں اور ہمیں بے وفائی کے طعنے بھی سنائے جارہے ہیں۔ پارلیمنٹ نے تین بار متفقہ قراردادوں کے ذریعے فیصلہ دیا ہے کہ مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں ہے اور ایک آزاد خارجہ پالیسی کے تحت مذاکرات، ترقی اور سدِّجارحیت (deterrence) کے سہ نکاتی فارمولے ہی کے ذریعے معاملات کو حل کیا جاسکتا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ ۱۱مئی کو قوم دوٹوک الفاظ میں ان کو رد کردے جو امریکا کی دہشت گردی کی اس جنگ میں قوم کو جھونکنے کے ذمہ دار ہیں، اور قیادت ان کو سونپیں جو جنگ سے نکلنے اور علاقے کو امریکا کی گرفت سے نکال کر علاقے کے تمام ممالک کے تعاون سے مسئلے کا حل نکالنا چاہتے ہوں۔
چوتھا بنیادی مسئلہ معاش کا ہے۔ یہ پانچ سال معاشی اعتبار سے تباہ کن رہے ہیں ۔وہ ملک جو ماضی میں چھے اور سات فی صد سالانہ کی رفتار سے معاشی ترقی کی منزلیں طے کر رہا تھا، آج معاشی جمود، کسادبازاری، افراطِ زر، بے روزگاری اور غربت کے گرداب میں گرفتار ہوگیا ہے۔ گذشتہ برسوں میں مجموعی قومی پیداوار (GDP ) کی سالانہ نمو کی رفتار ۶۰سالہ تاریخ میں سب سے کم اوسطاً ۳ فی صد کے لگ بھگ ہے، حالانکہ ۱۹۴۷ء سے ۲۰۰۷ء تک اوسط ترقی کی رفتار پانچ اور ۶فی صد سالانہ کے درمیان رہی ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مسلسل پانچ برس تک ۳ فی صد یا اس سے بھی کم رفتارِ ترقی کا چکر ہماری تاریخ میں کبھی نہیں رہا۔ان پانچ برسوں میں افراطِ زر ۱۰ اور ۱۲فی صد کے درمیان رہا جو خود ایک ریکارڈ ہے۔ اشیاے خوردنی کی قیمتوں میں ان پانچ برسوں میں تقریباً ۱۰۰ فی صد اضافہ ہوا ہے، یعنی تقریباً ۲۰ فی صد سالانہ۔ غربت اور بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے۔ حکومت کی شاہ خرچیوں پر کوئی لگام دینے والا نہیں۔ کرپشن کا یہ عالم رہا ہے کہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ان پانچ برسوں میں مجموعی کرپشن کا اندازہ ۸۰۰۰؍ارب روپے سے زیادہ کا ہے۔ تجارت میں خسارہ، بجٹ میں خسارہ اور سرکاری تحویل میں چلنے والے اداروں کا خسارہ ملکی معیشت پر تازیانہ بن کر گرتے رہے ہیں۔ عوام تڑپ رہے ہیں اور کوئی سننے والا نہیں۔ پاکستان میں ۱۹۴۷ء سے ۲۰۰۷ء تک جتنے قرضے حکومت نے لیے تھے وہ ۶ٹریلین روپے کے قریب تھے جو ان پانچ برسوں میں دگنے سے بڑھ کر ۱۲ اور ۱۳ٹریلین روپے کے درمیان ہیں اور ہر روز بڑھ رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی ہیومن ڈویلپمنٹ رپورٹ ۲۰۱۳ء جو اسی مہینے شائع ہوئی ہے اس کی رُو سے پاکستان میں ترقی نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہمارا شمار کم ترقی کرنے والے ملکوں کے زمرے میں ہوتا ہے اور دنیا کے ۱۸۶ممالک میں ہمارا نمبر ۱۴۶ ہے۔ شدید اور انتہائی غربت میں ہمارا مقام نیپال، بنگلہ دیش اور بھوٹان سے بھی خراب اور نیچے ہے، یعنی آبادی کا ۴ء۲۷ فی صد شدید غربت کا شکار ہے۔ عمومی غربت کو اگر دو ڈالر فی کس یومیہ کی آمدنی کی بنیاد پر شمار کیا جائے تو آبادی کا ۷۰ فی صد اس عذاب میں مبتلا ہے۔ ایک طرف معیشت کا یہ حال ہے اور دوسری طرف حکمرانوں کی شاہ خرچیوں اور بدعنوانیوں کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ شرم و حیا کا کوئی وجود ہمارے معاشرے میں باقی نہیں رہا ہے۔
صدر اور وزیراعظم کے سرکاری محلوں کا خرچہ ایک سے دو لاکھ روپے یومیہ ہے۔ معاشی پالیسی سازی کے باب میں مجرمانہ رویے کی ایک مثال یہ ہے کہ پانچ سال میں پانچ بار وزیرخزانہ تبدیل ہوئے ہیں، چھے بار وزارتِ خزانہ کے سیکرٹری بدلے گئے ہیں اور چار باراسٹیٹ بنک کے گورنر کو تبدیل کیا گیا ہے۔ ستم یہ ہے کہ گذشتہ چار برسوں میں صرف ایس آر او کے ذریعے اپنے چہیتوں کو ٹیکس سے رعایت کی مد میں ۷۱۹؍ ارب روپے کی چھوٹ دے کر خزانے کو اس رقم سے محروم کیا گیا ہے، اور دوسری طرف سرکاری انتظام میں چلنے والے اداروں کو جن میں اپنی پسند کے ہزاروں افراد کو سیاسی بنیاد وں پر کھپایا گیا ہے اور جن کی قیادت اپنے من پسند کرپٹ اور نااہل افراد کو سونپی گئی ہے خسارے کے جہنم میں جھونک دیا گیا ہے۔ صرف ان پانچ سال میں سرکاری خزانے نے ان اداروں کو جو رقم مدد کے نام پر دی ہے وہ ۸ء۱ ٹریلین روپے ہے، انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔
ملک کو درپیش مسائل اور مصائب تو اور بھی ہیں لیکن ہم نے صرف اہم ترین چار مسائل کا ذکر اس لیے کیا ہے کہ ان کا تعلق ملک کی آزادی، شناخت اور عوام کی زندگی کے سب سے اہم پہلو، یعنی امن و امان اور بنیادی معاشی ضروریات اور خوش حالی سے ہے۔ ان اور تمام دوسرے مسائل کی بڑی وجہ اربابِ اختیار اور زندگی کی ہرسطح پر خصوصیت سے مرکز اور صوبوں میں قیادت کی غفلت، نااہلی، وژن کی کمی، مفادپرستی اور بدعنوانی اور مؤثر احتساب کے نظام کے فقدان پر ہے۔ ملک کی آزادی اور خودمختاری کے باب میں غفلت اور بے وفائی، اسلام اور اس کے تقاضوں سے بے اعتنائی، عوام کے مفاد اور ضروریات سے لاپروائی اور اپنی ذات یا گروہ اور جماعت کے مفادات کی اندھی پرستش ہی بگاڑ کی اصل وجہ ہے۔ قیادت کی تبدیلی، اہل اور دیانت دار افراد کا ذمہ داری کے مناصب کے لیے انتخاب اور تقرر، اداروں کے درمیان تعاون اور باہمی احترام کا رشتہ، دستور اور قانون کی بالادستی، ہر حالات میں مکمل انصاف کا اہتمام اور ہرسطح پر جواب دہی کا مؤثر اور شفاف نظام ہی پاکستان کے استحکام اور ترقی کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ ان ۱۴برسوں کا اصل المیہ ہی یہ ہے کہ ان میں مسلسل تنزل کے باعث پاکستان میں آج پاکستان کا اصل تصور اور مقصد ہی نایاب ہوگیا ہے اور شاید یہ کہنا بھی غلط نہ ہو کہ آج سیاسی نقشے پر تو پاکستان موجود ہے مگر وہ تصور اور وہ وژن، جس سے پاکستان عبارت ہے، گم ہوگیا ہے۔ اب ملک کی بقا اور تعمیرنو کا انحصار تصورِپاکستان کی بازیافت پر منحصر ہے اور یہ عوام کی بیداری اور انتخاب کے موقع پر ان کے فیصلہ کن کردار ہی سے ممکن ہے۔ ۱۱مئی قوم کو ایک تاریخی موقع فراہم کررہی ہے کہ وہ اس اصل تصور اور وژن کو ایک بار پھر غالب وژن بنانے کے لیے ایک ایسی قیادت کے ہاتھوں میں ملک کی باگ ڈور دے جو اس ملک کی گاڑی کو اس کی اصل پٹڑی پر لے آئے اور اصل مقصد کی روشنی اور اس حقیقی وژن کے مطابق جو قیامِ پاکستان کا محرک تھا اس کی تعمیرنو کی خدمت انجام دے سکے۔
حال ہی میں برٹش کونسل نے نوجوانوں کے جذبات، احساسات اور خیالات کا ایک سروے کیا ہے جس میں ملک کے عوام اور خصوصیت سے نوجوان نسل کی مایوسیوں اور اُمیدوں کا عکس دیکھا جاسکتا ہے۔ ایک نوجوان نے ملک و قوم کی موجودہ کیفیت کی عکاسی بڑے دردبھرے الفاظ میں کچھ اس طرح کی ہے کہ ’’آزادی سے پہلے ہم ایک قوم تھے اور ایک ملک کی تلاش میں تھے لیکن آج ایک ملک ہے مگر قوم مفقود ہے‘‘۔ اسلام ہی نے کل ہمیں ایک قوم بنایا تھا اور اسلام سے غفلت اور بے وفائی نے قوم کو خود اپنے شعور اور وحدت سے محروم کردیا ہے۔ اسلام ہی کو مضبوطی سے تھامنے سے ہم ایک توانا قوم بن کر ایک توانا پاکستان کی تعمیر کی منزل طے کرسکتے ہیں۔
برٹش کونسل کے اس سروے سے یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ ملک کی بالغ آبادی کے ۸۷فی صد کی نگاہ میں ملک جس سمت میں جا رہا ہے، وہ غلط ہے لیکن نوجوانوں میں یہ احساس اور بھی زیادہ ہے، یعنی ۹۴ فی صد۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے ان نوجوانوں کا اعتماد اپنے ملک اور اس کے مستقبل پر غیرمتزلزل ہے اور وہ اس کی تعمیروترقی کا عزم رکھتے ہیں۔ ان کی عظیم اکثریت، یعنی ۶۷فی صد مرد اور ۷۵ فی صد خواتین اپنے کو روایت پسند (conservatives) کہنے میں فخر محسوس کرتے ہیں اور سروے کے مرتبین یہ کہنے پر مجبور ہوئے ہیں کہ : Conservatives seem dwarfing the number of moderates and liberals. (روایت پسند اعتدال پسندوں اور آزاد رووں (لبرل) پر تعداد میں چھائے ہوئے نظر آتے ہیں)۔
نوجوانوں میں سے ایک بڑی تعداد، یعنی ۳۸ فی صد یہ کہتی ہے کہ ملک کے لیے بہترین راستہ نظامِ شریعت کا نفاذ ہے اور ۲۹ فی صد جمہوریت کی بات کرتے ہیں۔ رپورٹ کے الفاظ میں:
اسلامی شریعت کو اس وجہ سے پسند کیا جا رہا ہے کہ یہ اخلاقی اور مذہبی اقدار کو آگے بڑھانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ شریعت کو عوام کے ان کے حقوق، آزادی، رواداری اور برداشت کے فروغ اور ملک کو ایک بہتر سرزمین بنانے کے لیے بہترین نظام بھی سمجھا جاتا ہے۔ (ص ۴۴۴)
نوجوان اس ملک میں کیسی قیادت دیکھنا چاہتے ہیں؟ اس کے جواب میں ان کا نقطۂ نظر بہت واضح ہے:
جب پوچھا گیا کہ وہ سب سے زیادہ اہم صفات کیا ہیں جو آپ اپنے لیڈر میں دیکھنا چاہتے ہیں تو (جواب دیا گیا کہ) وہ دیانت داری اور کرپشن سے پاک ہونا ہے۔ اس کے بعد پاکستان کو تبدیل کرنے کے لیے مضبوط خیالات۔ دوسرے الفاظ میں عملیت پسندی کافی نہیں ہے۔ نوجوان ووٹر اخلاقیات، شفافیت اور رواداری کے بارے میں سننا چاہتے ہیں۔ ممکن ہے کہ وہ کسی ایسے کی تلاش میں ہوں جو انھیں اُمید دے سکے۔
اس رپورٹ میں جن کو روایت پسند کہا گیا ہے ان کی سوچ اور عزائم کا اظہار رپورٹ میں کچھ اس طرح ہوتا ہے:
ان کی ایک امتیازی شناخت ہے جو انھی کی نسل کا خاصّا ہے۔ وہ اُمید کرتے ہیں کہ پاکستان کو بہتر بنائیں گے۔ ایسا ملک جہاں کے ۹۸ فی صد لوگ اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ وہ پاکستان کے خواب کے مطابق زندگی گزاریں۔
حالات کتنے بھی خراب اور تشویش ناک ہوں، امید اور تبدیلی کا عزم رکھنے والے عوام اور نوجوان ہی ہمارا اصل سرمایہ ہیں۔ تاریخ کا سبق یہی ہے کہ ؎
طولِ شبِ فراق سے گھبرا نہ اے جگر
ایسی بھی کوئی شب ہے کہ جس کی سحر نہ ہو
۱۱مئی ہمیں اس سحر سے قریب لاسکتی ہے اگر ہم سب اس دن اپنی ذمہ داری خدا اور خلق دونوں کے سامنے جواب دہی کے احساس کے ساتھ ادا کریں۔
جماعت اسلامی پاکستان ملک کے تمام صوبوں سے مرکزی اور صوبائی، دونوں اسمبلیوں کے لیے انتخاب میں شرکت کر رہی ہے۔ جماعت اسلامی محض ایک سیاسی جماعت ہی نہیں، ایک نظریاتی تحریک ہے جو دین حق کی بنیاد پر زندگی کے تمام شعبوں کی دورِ جدید کے حالات، مسائل اور وسائل کی روشنی میں تشکیل نو کرنے کی جدوجہد ۱۹۴۱ء سے کر رہی ہے۔ اس نے فکری تشکیل نو، کردار سازی اور تعمیراخلاق، تعلیم و تربیت، سماجی خدمت، نوجوانوں اور طلبہ میں اسلامی احیا کی تنظیم، جدوجہد، مزدوروں، کسانوں، وکیلوں، سائنس دانوں، تجار، غرض زندگی کے ہر میدان میں بے لوث خدمت کی اعلیٰ مثالیں قائم کی ہیں۔ اس نے انتخابات کے ذریعے سیاسی تبدیلی کے لیے بھی گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ ۱۹۶۲ء کی اسمبلی میں اس کے صرف چار ارکان تھے مگر الحمدللہ ان کی مساعی سے جنرل ایوب خان نے دستور سے قرارداد مقاصد کو خارج کرنے اور اسلامی جمہوریہ پاکستان سے ’اسلامی‘ کا لفظ نکالنے کی جو جسارت کی تھی، وہ دوسال کے اندر اسے واپس لینی پڑیں اور دستور کی اسلامی دفعات بحال ہوئیں۔
۱۹۷۱ء کی اسمبلی میں ڈاکٹر نذیر احمد کی شہادت کے بعد جماعت اسلامی کے صرف تین ارکان تھے لیکن دوسری دینی جماعتوں کے تعاون سے پروفیسر عبدالغفوراحمد، مولانا مفتی محمود اور مولانا شاہ احمد نورانی کی مساعی کا نتیجہ تھا کہ ۱۹۷۳ء کے متفقہ دستور میں اسلام کو مرکزی حیثیت رہی۔ ۲۰۱۰ء کی اٹھارھویں دستوری ترمیم کے موقعے پر جماعت اسلامی کے سینیٹ میں صرف تین ارکان تھے لیکن جماعت اور جمعیت علماے اسلام کی مساعی سے اٹھارھویں ترمیم میں دستور کی تمام اسلامی دفعات کو نہ صرف مکمل تحفظ ملا بلکہ بہت سی کمزوریوں کو دُور کیا گیا، خصوصیت سے وفاقی شرعی عدالت کے نظام میں جو سقم تھے اور جس کی وجہ سے اس کی آزادی اور کارکردگی بُری طرح متاثر ہورہی تھی، ان کو دُور کرکے اس کے لیے اعلیٰ عدالت کو وہ تمام تحفظات فراہم کیے گئے جو عدالت کی آزادی کے لیے ضروری ہیں۔
پلڈاٹ (PILDAT) جو ایک آزاد ادارہ ہے، اس کی رپورٹیں گواہ ہیں کہ خواہ ۲۰۰۲ء کی قومی اسمبلی ہو یا ۲۰۰۳ء سے ۲۰۱۲ء تک کی سینیٹ، ہرجگہ جماعت کے ارکان نے پارلیمنٹ کی کارروائی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور ان کی کارکردگی سب سے نمایاں رہی۔ سینیٹ کی ۲۰۱۲ء کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہرہرلحاظ سے ___ یعنی تقاریر میں سب سے زیادہ وقت، سب سے زیادہ سوالات، سب سے زیادہ قراردادیں، سب سے زیادہ نکتہ ہاے اعتراض___ گویا ہر معیار سے جماعت اسلامی کے ارکان کی کارکردگی سب سے اعلیٰ تھی۔
اسی طرح جب اور جس حد تک جماعت اسلامی کے نمایندوں کو لوکل باڈیز یا صوبہ خیبرپختونخوا میں ساڑھے چار سال خدمت کا موقع ملا، جماعت کی کارکردگی نمایاں رہی اور کرپشن کے ہرداغ سے پاک رہی۔ جماعت کے کارکن بھی انسان ہیں اور وہ ہرگز خطا سے پاک نہیں، لیکن یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اور صرف تحدیث نعمت کے طور پر یہ بات کہی جارہی ہے کہ جماعت کے تمام کارکنوں نے اپنی ذمہ داریاں پوری دیانت، پوری محنت اور اپنے دامن کو ہر بدعنوانی اور ذاتی منفعت سے بچاکر انجام دیں۔ اس کا اعتراف دوست اور دشمن سب نے کیا ہے۔ جماعت اسلامی کوئی مسلکی جماعت نہیں، اس نے ہرتعصب سے بلند ہوکر اسلام اور پاکستان کی خدمت انجام دی ہے اور سب کو ساتھ لے کر چلی ہے۔ ۱۹۷۰ء سے اب تک مختلف اَدوار میں جماعت اسلامی کے مرد اور خواتین ممبران سینیٹ اور قومی و صوبائی اسمبلی کی تعداد ۱۸۶ رہی ہے ،لیکن الحمدللہ ان میں سے ہرایک نے مقدور بھر خدمت کا ایک ایسا معیار قائم کیا جو اپنی مثال آپ ہے۔
کراچی میں جناب عبدالستار افغانی (۱۹۷۹ء-۱۹۸۳ء) اور جناب نعمت اللہ خان (۲۰۰۱ء-۲۰۰۴ء) نے علی الترتیب کراچی کے میئر اور سٹی ناظم کے فرائض انجام دیے اور دیانت اور خدمت کا بہترین ریکارڈ قائم کیا۔ افغانی صاحب نے جب میئر کی ذمہ داری سنبھالی تو بلدیہ کراچی ۱۰کروڑ کی مقروض تھی اور جب ۱۹۸۳ء میں بلدیہ تحلیل کی گئی ہے اور ان کو فارغ کیا گیا، اس وقت ۱۵کروڑ کے اضافی فنڈ موجود تھے۔ ان کے دور میں بلدیہ کا بجٹ ۵۰ کروڑ سالانہ سے بڑھ کر ایک ارب ۷۰کروڑ تک پہنچ گیا تھا، نیز اس دور میں بیسیوں تعمیراتی منصوبے ہرشعبۂ زندگی میں شروع کیے گئے۔اسی طرح جب جناب نعمت اللہ خان صاحب نے ناظم کراچی کی ذمہ داری سنبھالی تو سٹی نظم کا بجٹ ۶؍ارب روپے تھا اور چار سال کے بعد جب وہ فارغ ہوئے تو یہ بجٹ ۴۲؍ارب روپے سے زائد تھا۔ دونوں اَدوار میں جو پراجیکٹس شروع ہوئے، وہ اپنی مثال آپ ہیں۔شہر کے انفراسٹرکچر میں غیرمعمولی ترقی ان اَدوار میں واقع ہوئی جسے ہرشخص نے بچشم سر دیکھا۔ اور سب سے بڑھ کر دونوں نے جس سادگی اور پروٹوکول کے بغیر اپنی ذمہ داریاں ادا کیں، وہ نفسانفسی کے اس دور میں تابناک مثالوں کی حیثیت رکھتی ہیں۔ افغانی صاحب ہوں یا نعمت اللہ صاحب، دونوں نے سرکاری مکان اور مراعات سے اپنا دامن بچایا۔ افغانی صاحب اپنے ۶۰گز کے فلیٹ ہی میں رہتے رہے اور نعمت اللہ خان نے سرکاری بنگلہ لینے سے انکار کر دیا۔ تنخواہ میں ملنے والی رقم ۴۰لاکھ روپے بھی الخدمت کے اکائونٹ میں جمع کرا دیے۔
ہم نے یہ چند باتیں صرف تحدیث نعمت کے طور پر عرض کی ہیں تاکہ قوم کے سامنے یہ بات آجائے کہ آج بھی اس قوم میں ایسے لوگ موجود ہیں جو اعلیٰ صلاحیت کے ساتھ دیانت اور خدمت کے جذبے سے معمور ہیں۔ انھیں قوم نے جب بھی جو ذمہ داری دی، اسے انھوں نے وقت اور صلاحیت کے بہترین استعمال سے انجام دیا اور دیانت اور امانت کی روشن مثال قائم کی۔
ہم قوم سے صرف یہ اپیل کرتے ہیں کہ ۱۱مئی کے تاریخی موقعے پر اپنی ذمہ داری اللّٰہ کے سامنے جواب دہی کے احساس کے ساتھ انجام دیں۔ووٹ کے لیے لازماً گھر سے نکلیں اور دوسروں کو بھی ووٹ ڈالنے کی ترغیب دیں۔ ووٹ ایک امانت ہے اور اس امانت کو امانت دار افراد کے سپرد کریں۔ جمہوریت کی کامیابی کا انحصار صرف اس امر پر ہے کہ اپنے ووٹ کا ٹھیک ٹھیک استعمال کریں اور ایسی قیادت کو بروے کار لائیں جو دیانت اور صلاحیت، دونوں معیارات پر پوری اُترتی ہو۔ اگر اسمبلیوں میں اچھی قیادت کی اکثریت ہو تو ملک کی قسمت چند برسوں میں بدل سکتی ہے۔ اگر ایسے لوگوں کی اکثریت نہ بھی ہو مگر وہ ایک معقول تعداد میں موجود ہوں تو وہ حالات کو متاثر کرنے میں ایک بڑا اور مؤثر کردار ضرور ادا کرسکتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ ان کے تعاون کے بغیر کوئی پایدار حکومت بن ہی نہ سکے، اور اگر ایسا نہ ہو جب بھی ایک جان دار، مؤثر اور اصول پرست اپوزیشن کی حیثیت سے وہ ملک کی پالیسیوں کو متاثر کرسکتے ہیں، احتساب کی خدمت انجام دے سکتے ہیں، عوام کی آواز کو اقتدار کے ایوانوں میں اُٹھا سکتے ہیں اور کم از کم بگاڑ کی قوتوں پر گرفت اور بگاڑ کی رفتار کو بریک لگاسکتے ہیں۔
۱۱مئی فیصلے کا دن ہے۔ اگر آپ نے صحیح فیصلہ کیا تو آپ ملک کی قسمت کو تبدیل کرسکتے ہیں اور اگر آپ نے اپنی ذمہ داری ہی ادا نہ کی تو پھر آپ نتائج کی ذمہ داری سے کیسے مبرا ہوسکتے ہیں۔ آیئے! اپنے آپ سے اور اپنے اللّٰہ سے عہد کریں کہ ۱۱مئی کو ہم پاکستان کے لیے ایسے لوگوں کو منتخب کریں گے جو اس کی آزادی، خودمختاری، حاکمیت، اسلامی شناخت اور فلاحی کردار کے حقیقی محافظ ہوسکیں، اور جو اپنی ذات کی خدمت کے لیے نہیں بلکہ ملک کی خدمت کے لیے اپنے جان اور مال کی بازی لگانے والے ہوں۔ اگر ہم اپنے اس عہد کو ٹھیک ٹھیک پورا کرتے ہیں تو پھر اُس پاکستان کی بازیافت اِن شاء اللّٰہ ہوکر رہے گی جس کے لیے قیامِ پاکستان کی تحریک برپا کی گئی تھی اور جس پر اس ملک کے مستقبل کا انحصار ہے۔
کتابچہ دستیاب ہے، قیمت: ۱۰ روپے۔ سیکڑے پر رعایت۔ منشورات، منصورہ، لاہور۔ فون:۳۵۴۳۴۹۰۹-۰۴۲
۱۹۷۱ء میں سقوطِ مشرقی پاکستان کے الم ناک سانحے کے نتیجے میں بنگلہ دیش تشکیل پایا۔ آج ۴۲برس بعد، یہی بنگلہ دیش ایک بار پھر ایک خطرناک خونیں ڈرامے کا اسٹیج بن گیا ہے۔بنگلہ دیش میں انسانی حقوق کے علَم بردار ادارے اودھی کار (Odhikar) نے اپنے ۵مارچ ۲۰۱۳ء کے اعلامیے میں اس تلخ حقیقت کا اظہار اس طرح کیا ہے:
اودھی کار بنگلہ دیش کی تاریخ میں قتل و غارت کی انتہائی گھنائونی لہر اور تشددکے واقعات پر اپنی گہری تشویش کا اظہار کرتا ہے۔ ہلاک ہونے والوں میں پولیس اور دوسری قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں نے تشدد پر قابو پانے کے عذر کی بنا پر ۵فروری اور ۴مارچ ۲۰۱۳ء کے درمیان بلاامتیاز گولی چلائی اور کم سے کم ۹۸ افراد کو جن میں سیاسی کارکن، عورتیں اور بچے اور عام شہری شامل ہیں، مار دیا۔انسانی حقوق کو بڑے پیمانے پر پامال کیا جا رہا ہے۔ جس وقت یہ بیان جاری کیا جارہا ہے، مزید اموات کی خبریں آرہی ہیں۔
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق ہلاک ہونے والوں کی تعداد ۱۶۶، زخمی ہونے والوں کی ۳ہزار۸سو ۲۸ اور جیلوں میں محبوس کیے جانے والوں کی تعداد ۲۰ہزار سے متجاوز ہوچکی ہے اور جیساکہ بنگلہ دیش کے ایک ماہرقانون بیرسٹر نذیراحمد نے امریکا اور انگلستان میں شائع ہونے والے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ پولیس کی جانب سے اندھادھند قتل و غارت، تشدد اور انسانی حقوق کی پامالی کی یہ بدترین مثال ہے جس کا کوئی جواز دستور اور قانون میں موجود نہیں۔ دوسری جانب حزبِ اختلاف کی قائد خالدہ ضیا نے اپنی ۲مارچ ۲۰۱۳ء کی پریس کانفرنس میں اس اجتماعی قتل (mass killing) کو نسل کُشی (genocide) اور انسانیت کے خلاف جرم (crime against humanity) قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ: حکومت جھوٹے مقدمات کا ڈراما رچا کر، سیاسی مخالفین کے قتلِ عام جیسے گھنائونے جرم کا ارتکاب کررہی ہے۔
بنگلہ دیش حکومت کے اس اقدام نے ملک کو اس کی تاریخ کے خطرناک اور خونیں تصادم سے دوچار کردیا ہے اور ملک ہی میں نہیں، پوری دنیا میں بے چینی اور اضطراب کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔ حالات کو جس رُخ پر دھکیلا جا رہا ہے، اس کے بڑے سنگین نتائج ہوسکتے ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ اس مسئلے پر پوری دیانت کے ساتھ، اصل حقائق اور عالمی حالات کی روشنی میں گفتگو کی جائے، اور حق و انصاف اور عالمی قانون اور روایات کے مسلّمہ اصولوں کی روشنی میں حل کی راہیں تلاش کی جائیں۔ جب مسئلہ انسانی حقوق کا، انسانوں کے جان و مال اور عزت کی حفاظت کا، اور علاقے میں امن اور سلامتی کا ہو تو پھر وہ مسئلہ ایک عالمی مسئلہ بن جاتا ہے اور اسے کسی ملک کے اندرونی معاملات تک محدود نہیں سمجھا جاسکتا۔ بات اور بھی سنگین ہوجاتی ہے جب ۴۲سال کے بعد ایک طے شدہ مسئلے (settled issue) کے مُردہ جسم میں جان ڈال کر سیاسی انتقام اور نظریاتی کش مکش کو ہوا دی جائے اور ملک کے سکون کو درہم برہم کردیا جائے۔۱؎
۱- بھارت کے بائیں بازو کے مشہور لبرل مجلہ اکانومک اینڈ پولیٹیکل ویکلی میں ایک ہندو دانش ور نے اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ بنگلہ دیش میں ہونے والے ان مقدمات اور سزائوں پر ملک گیر اور خون آشام ردعمل کے جو سیاسی اور نظریاتی پہلو ہیں، وہ بنگلہ دیش کی معاشی ترقی اور سماجی ارتقا پر بُری طرح اثرانداز ہوسکتے ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ بیگم خالدہ ضیا نے ان مقدمات کو غیرمنصفانہ اور حسینہ واجد کے سیاسی انتقام کے ایجنڈے کا حصہ قرار دیا ہے۔ مقالہ نگار کے مطابق عوامی لیگ اگلے انتخابات کے سلسلے میں بی این پی اور جماعت اسلامی کے اتحاد سے خائف ہے اور جماعت کو انتخابات سے پہلے نقصان پہنچانا چاہتی ہے۔ لیکن اس تناظر میں جو ایک اہم نظریاتی پہلو رُونما ہو رہا ہے اس کی طرف بھی اس نے اپنے اضطراب کا اظہار اس طرح کیا ہے: یہ صورتِ حال ، بنگلہ دیش میں حریف نظریاتی قوتوں ___ سیکولر قوم پرستی اور اسلامی انقلابیت کے درمیان ایک نئے پُرتشدد تصادم کے مرحلے کی طرف نشان دہی کرتی ہے۔ (ملاحظہ ہو: The Unfinished Revolution in Bangladesh، از Subir Bhaumik، ۲۳ فروری ۲۰۱۳ء، ص ۲۷-۲۸)
بنیادی سوال ہی یہ ہے کہ بنگلہ دیش کے قیام کے ۴۲سال بعد یہ خونیں ڈراما کیوں رچایا جارہا ہے؟ جماعت اسلامی بنگلہ دیش مارچ ۱۹۷۹ء سے منظم انداز میں اور اپنے دستور کے مطابق، اپنے جھنڈے اور اپنے انتخابی نشان تلے اور اپنی قیادت کی رہنمائی میں ایک سیاسی جماعت کی حیثیت سے سرگرمِ عمل ہے۔ اس اثنا میں پانچ بار (۱۹۸۶ء، ۱۹۹۱ء، ۱۹۹۶ء، ۲۰۰۱ء، ۲۰۰۸ء) ملکی انتخابات میں حصہ لے چکی ہے اور پارلیمنٹ میں مؤثر خدمات انجام دیتے ہوئے اپنا کردار ادا کرچکی ہے، نیز ایک بار حکومت کا حصہ بھی رہی ہے۔ ۱۹۹۰ء میں جنرل حسین محمد ارشاد کی حکومت کے خلاف عوامی جمہوری مزاحمتی جدوجہد میں بنگلہ دیش جماعت اسلامی خود عوامی لیگ کی ایک حلیف جماعت کی حیثیت سے پانچ جماعتوں کے اتحاد کا حصہ رہی ہے۔
آخر اب ایسا کیا واقعہ ہوگیا کہ ۲۰۱۰ء میں عوامی لیگ کی موجودہ حکومت نے نام نہاد International Crimes Tribunal قائم کیا۔ جماعت کے نو قائدین بشمول سابق امیرجماعت، ۹۱سالہ پروفیسر غلام اعظم، امیرجماعت مولانا مطیع الرحمن نظامی اور نائب امیرجماعت علامہ دلاور حسین سعیدی اور بی این پی کے دوقائدین پر مقدمہ قائم کیا۔ ۲۰۱۳ء کے آغاز میں علامہ دلاور حسین سعیدی کو سزاے موت، اور عبدالقادر مُلّا (اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل بنگلہ دیش جماعت اسلامی) کو عمرقید کی سزا سنائی گئی۔معروف اسلامی اسکالر (مولانا) ابوالکلام آزاد (جو ایک زمانے میں جماعت اسلامی سے وابستہ رہے)اور آج کل ٹیلی ویژن پر قرآن پاک کا درس دینے کی وجہ سے بہت مقبول ہیں، انھیں بھی، ان کی غیرحاضری میں، سزاے موت سنائی گئی۔پھر حکومت کی سرپرستی میں شاہ باغ سکوائر (چوک) میں احتجاج کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ سوشل میڈیا پر شاہ باغ اجتماع کو منظم کرنے والے گروہ نے اسلام اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف نازیبا، ہتک آمیز اور بے سروپا الزامات لگائے۔ ایک منصوبے کے تحت کچھ مقامات پر ہندوئوں پر حملے کیے گئے اور ان کے مندر جلائے گئے۔ ساری شہادتیں اس طرف اشارہ کر رہی ہیں کہ یہ سب عوامی لیگ کے جیالوں نے کیا۔ فطری طور پر ان ظالمانہ اور انتقامی کارروائیوں کے خلاف اسلامی اور جمہوری قوتوں نے بھرپور احتجاج کیا اور حالات نے وہ کروٹ لی جو موجودہ سنگین کیفیت تک پہنچ گئی ہے۔
الحمدللہ جماعت اسلامی کا، اس کی قیادت کا اور اس کے کارکنوں کا دامن ہر ظلم، قتل و غارت گری، فساد فی الارض، لُوٹ مار اور اخلاقی جرائم سے پاک ہے۔ جماعت نے ہمیشہ مبنی برانصاف ٹرائل کا خیرمقدم کیا ہے اور ۱۹۷۱ء اور اس کے بعد الم ناک واقعات کے بارے میں اس نے یہی کہا ہے۔ دسمبر ۱۹۷۱ء تک متحدہ پاکستان کا دفاع اور اس کی حفاظت اور حمایت اور اس پر بھارتی جارحیت کا مقابلہ ایک الگ چیز ہے اور عام شہریوں پر خواہ ان کا تعلق کسی نسل یا کسی مذہب سے ہو، ظلم اور زیادتی ایک الگ معاملہ ہے۔ دونوں کو گڈمڈ کرنا اصولِ انصاف، بین الاقوامی قانون اور خود ملک کے دستور کے خلاف ہے۔
جماعت اسلامی ہمیشہ مبنی بر انصاف ٹرائل کی حامی رہی ہے اور آج بھی ہے لیکن انصاف کا تقاضا ہے کہ ٹرائل ہراعتبار سے شفاف ہو، مسلّمہ ضابطہ قانون اور انصاف کے تسلیم شدہ عالمی معیارات اور طریق کار کے مطابق ہو۔ ہرشخص کو دفاع کا حق ہو اور بین الاقوامی معیار پر پورے اُترنے والے ججوں کے ذریعے اور عالمی مبصرین کی موجودگی میں ہو، جیساکہ اقوام متحدہ کے طے کردہ ضابطے کے تحت ہیگ کی International Criminal Court کر رہی ہے۔ لیکن کنگرو کورٹ (بے ضابطہ عدالت، جہاں قانون کی دانستہ غلط تعبیر کی جاتی ہے)کے ذریعے دستور، قانون اور انصاف کے ہر مسلّمہ اصول کو پامال کر کے جو ڈراما رچایا جا رہا ہے، وہ ایک صریح ظلم ہے جسے کسی طور برداشت نہیں کیا جاسکتا۔
جو کچھ ہو رہا ہے وہ ایک گھنائونا سیاسی کھیل ہے جس کا مقصد حقیقی جمہوری اور اسلامی قوتوں کو انتقام کا نشانہ بنانا ہے، جس کا ہدف عوامی لیگ کی مقابل قوتوں کو کمزور کرنا اور انھیں سیاسی میدان سے باہر کرنا ہے، اور جس کے ڈانڈے بنگلہ دیش میں بھارت کے سیاسی عزائم اور عالمی سطح پر اسلامی احیا کی تحریکات کے پَر کاٹنے کے ایجنڈے سے ملتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بنگلہ دیش میں جو کچھ ہورہا ہے، اسے عالمی پس منظر اور اس کے نتیجے میں رُونما ہونے والے ان حالات کے تناظر میں دیکھنا چاہیے جن سے بنگلہ دیش میں عوامی لیگ کے اس اندازِحکمرانی کی بنا پر بنگلہ دیش کی آزادی، معاشرت، معیشت اور سیاست سب کو وجودی خطرہ (existential threat) لاحق ہوگیا ہے۔
اقوامِ عالم کی موجودہ صورت حال پر ایک اجمالی نگاہ دوڑانے سے یہ نکتہ واضح ہوجاتا ہے کہ ہم ایک ایسے عہد میں سانس لے رہے ہیں اور معمولاتِ زندگی کے فیصلے کر رہے ہیں جو سردجنگ کے خاتمے کے بعد کی دنیا سے بہت مختلف ہے۔ بظاہر جنگوں سے تھکا ہارا انسان اب امن کی تلاش میں سرگرداں ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ نظریات کی جنگ کے مقابلے میں میزائل اور ڈرون ٹکنالوجی کی حیثیت ثانوی ہوکر رہ گئی ہے۔ اسلامی احیا ایک عالمی لہر کی صورت اختیار کر رہا ہے اور اسلام کے پھر سے قوت بن جانے کا زمانہ قریب محسوس ہو رہا ہے۔ اس انتہائی بنیادی اور اہم تبدیلی کو محسوس بھی کیا جا رہا ہے اور اُس کے متنوع ممکنہ اثرات و مضمرات کو سامنے رکھ کر مختلف عالمی قوتیں اپنا اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔ مسلمان عوام کے جذبات اور عزائم ایک سمت میں ہیں اور عالمی استعمار اور لبرل سیکولر قوتیں اپنا کھیل کھیل رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں اس اہم تبدیلی کے دروازے پر کھڑے اہلِ اسلام کو جگانے والوں کی مساعی کے برگ و بار لانے کا وقت قریب آرہا ہے، وہیں اس کے ساتھ متوازی واقعات بھی رُونما ہورہے ہیں۔ ایک طرف آزادی اور حُریت کا عنوان اسلامی تحاریک کے جمہوری اظہار سے جھلک رہا ہے، تو دوسری طرف ایک بڑا سامراج اس تبدیلی کو روکنے اور فکری و نظری اُلجھائو پیدا کرنے میں بھی پوری توانائیاں صرف کر رہا ہے۔ عالمِ اسلام کی بیدار قیادت کو نئی مشکلات کے بھنور میں ڈالنے، ان کی شخصیت اور کردار کو اخلاقی اعتبار سے چیلنج کرنے اور ان کو اپنے نصب العین کی جانب تیزی سے پیش قدمی سے روکنے کے اقدامات خود مسلم دنیا کے اندر سے اُٹھائے جارہے ہیں۔ ایسا ہی منظرنامہ آج بنگلہ دیش میں ترتیب دیا جارہا ہے۔
ہم اس حقیقت سے بہت اچھی طرح آگاہ ہیں اور ہمیں بجا طور پر اس پر فخر بھی ہے کہ بنگلہ دیش نہ صرف ہمارا برادر اسلامی ملک ہے بلکہ دنیا میں تیسرا بڑا اسلامی ملک بھی ہے۔ پاکستان اور بنگلہ دیش کبھی ایک تھے۔ ایک جسم کے دو بازو! اس طرح وہ ربع صدی رہے۔ مسلم بنگال کو ہی دیکھ لیجیے۔ آل انڈیا مسلم لیگ کا آغاز ڈھاکہ میں ۱۹۰۶ء میں ہوا۔ پاکستان بننے میں، تحریکِ پاکستان کے اُبھرنے اور قوت پکڑنے میں، حتیٰ کہ قراردادِ پاکستان (لاہور ۱۹۴۰ء) اور قرارداد دہلی (۱۹۴۶ء) پیش کرنے والوں میں مسلم بنگال کے مسلم رہنما اے کے ایم فضل الحق اور حسین شہید سہروردی کا کردار ناقابلِ فراموش تاریخی حقائق ہیں۔ برعظیم پاک و ہند کے مسلمانوں کو ایک نمایندہ سیاسی پلیٹ فارم پر جمع کرنے اور مسلم لیگ کو منظم کرنے میں بھی باقی ہندستان کی طرح بنگال کے مسلم رہنمائوں اور عوام کی گراں قدر مساعی کا نمایاں اور فیصلہ کن کردار رہا ہے۔ اس کردار نے روزِاوّل ہی سے برعظیم پاک و ہند میں اسلام اور مسلمانوں کا مضبوط حوالہ بن کر آزادی کے حصول اور ہندو کی غلامی سے نجات کے لیے یہاں کے مسلمانوں کے راستے کشادہ کیے ہیں۔
یہ حقیقت تلخ سہی، تاریخ کی ایک حقیقت ہے کہ دونوں بازو دو الگ الگ ملکوں میں تبدیل کردیے گئے ہیں۔ اس مقام تک جاتے جاتے دونوں طرف کے باشندوں کو انتہائی تکلیف دہ اور ناپسندیدہ کش مکش سے گزرنا پڑا۔ یہ ایسی جغرافیائی علیحدگی تھی جس میں دونوں بھائیوں کی غلطیاں اور خطاکاریاں اپنی جگہ، لیکن بالآخر ان کو ایک دوسرے سے کاٹ دینے میں بیرونی قوتوں کا کردار فیصلہ کن تھا۔ مغربی پاکستان کی فوجی قیادتوں کے کچھ عناصر کا کردار بلاشبہہ شرم ناک، ظالمانہ اور عاقبت نااندیشانہ تھا، لیکن بھارت کی سیاسی ریشہ دوانیوں اور جارحانہ فوج کشی سے کیسے صرفِ نظر کیا جاسکتا ہے؟ بالآخر جو ہونا تھا وہ ہوا، لیکن اس سانحے کے باوجود زندگی نے نئی کروٹ لی۔ جغرافیائی علیحدگی ضرور واقع ہوئی لیکن دو ملکوں کے اس طرح وجود میں آنے کے باوجود، ان کے مابین اسلام کا گہرا رشتہ موجود رہا ہے۔ یہ علیحدگی مشترکہ اقدار اور ایک دوسرے کے لیے تعلق خاطر کو ختم نہ کرسکی اور دونوں نے نئے سفر کے آغاز اور تعلقات کی بحالی کا عزم کیا۔ حالات و واقعات نے اگرچہ بہت گرد اُڑائی اور اپنے پرائے بھی ایسے انداز میں سامنے آئے جو تکلیف دہ اور نامطلوب تھا، لیکن اس زخم کے باوجود پاکستان اور بنگلہ دیش کے باشندوں میں ایک دوسرے کے لیے محبت موجود رہی اور اب بھی ہے۔
یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور بنگلہ دیش کے قیام میں پیش پیش رہنے والی سیاسی جماعت، یعنی عوامی لیگ کو مسلسل ایسی پذیرائی نہ مل سکی جو عموماً آزادی کی تحریکوں کے ہراول دستوں کو ملا کرتی ہے۔ یہ جماعت ابتدا میں بھی صاف شفاف انداز میں پولنگ بوتھ کے ذریعے اکثریت نہ پاسکی اور اب بھی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی اور جماعت اسلامی کے اکٹھے ہوجانے سے اقتدار سے باہر ہوجاتی ہے۔ اس میں اس جماعت کی اپنی کوتاہیوں اور غلطیوں کا حصہ بہت بڑا ہے، نیز اس پر بھارت کا اثرورسوخ جس طرح سایہ فگن رہا اور ہے، وہ بھی بنگلہ دیش کے مسلمانوں کے لیے اضطراب کا باعث رہا ہے۔اس کے باوجود ہم بنگلہ دیش کی آزادی ، خودمختاری اور حاکمیت اعلیٰ کا احترام کرتے ہیں۔ وہاں کے سیاست دانوں، عوام اور دانش وروں کو پورا حق حاصل ہے کہ وہ اپنے دستور اور قانون کے مطابق اپنے معاملات طے کریں اور اپنے تنازعات کا حل انھی کے فریم ورک میں تلاش کریں۔ یہ حقیقت بھی کسی طرح سے نظرانداز نہیں کی جاسکتی کہ وہاں کی حکومت کو بھی مسلمہ بین الاقوامی اقدار، کنونشنز اور معاہدوں کے مطابق اپنے آئین و قانون کی تشریح کا حق اسی طرح سے حاصل ہے جس طرح کسی بھی ملک کی آزاد عدلیہ اس کی تعبیر و تشریح کا حق رکھتی ہے۔
بنگلہ دیش جماعت اسلامی اپنے آزاد وجود اور خصوصی تشخص کے ساتھ، جنوبی ایشیا میں سرگرمِ عمل جماعت اسلامی کی ہمہ گیر نظریاتی تحریک کا ہی تسلسل ہے۔ پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، سری لنکا اور نیپال، ہر ملک میں جماعت اسلامی کے نام کی مستقل بالذات تحریکیں کام کر رہی ہیں۔ ان تمام ممالک میں جماعت اسلامی کے نظریے اور کام میں اصولی مشترکات کے باوجود، ہر ایک کی مخصوص جغرافیائی، قومی اور دستوری انفرادیت ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے۔ بنگلہ دیش جماعت اسلامی کا نصب العین اور اس کا نظریاتی کردار بلاشبہہ پاکستان یا جنوبی ایشیا میں کہیں بھی جماعت اسلامی کے کام اور نظریاتی پہچان سے مختلف نہیں ہے۔
یہ تمام تحریکیں مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ کے پیغام کی قاصد ہیں۔ ان کے لٹریچر میں بھی ایک گونہ اشتراک ہے اور ان کے درمیان بھائی چارہ بہت ہی قیمتی سرمایہ ہے، لیکن اس کے ساتھ ہرایک کا نظم، دستور اور قیادت مختلف اور مکمل طور پر آزاد ہے اور اپنے ملکی حالات، ضروریات اور اہداف کی روشنی میں ہر ایک اپنے پروگرام اور ترجیحات کے مطابق سرگرمِ عمل ہے۔ نظریاتی ہم آہنگی کے باوجود سیاسی آرا اور پالیسیوں میں ہر ایک آزاد اور اپنے معاملات میں مکمل طور پر خودمختار ہے۔ اس کی اہم ترین مثال مشرق وسطیٰ کی مشہورِ زمانہ خلیجی جنگ (گلف وار) ہے جس کے ہرمرحلے میں بنگلہ دیش کی جماعت اسلامی کا موقف پاکستان کی جماعت اسلامی سے مختلف رہا۔ صدام حسین کے ایران پر حملے اور بش اوّل کے عراق پر حملے پر دونوں کا ردعمل مختلف تھا مگر اس سب کے باوجود صرف برعظیم کی اسلامی جماعتوں ہی میں نہیں، دنیا کی تمام ہی اسلامی تحریکات میں نظریاتی اور روحانی طور پر ایک گونہ ہم آہنگی پائی جاتی ہے جو اسلام کے دامن رحمت سے وابستہ ہونے کا ثمرہ ہے۔
جب ہم پاکستان میں بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے بارے میں بات کرتے ہیں تو تین گہرے اور مضبوط حوالے ایسے ہیں جن کی بنیاد پر ہم یہ استحقاق رکھتے ہیں کہ وہاں رُونما ہونے والے ایسے واقعات پر محاکمہ کریں جو حق و انصاف کے خلاف ہوں، جو مہذب معاشرے کے مسلّمہ اصولوں کو پامال کرنے کا سبب ہوں، جس سے انسان اپنے جائز حقوق سے محروم ہورہے ہوں اور جو عالمی راے عامہ کو اضطراب اور بے چینی میں مبتلا کرنے کا باعث ہوں۔ بین الاقوامی اور عالمی سیاسی آداب کی رُو سے یہ صرف ایک استحقاق ہی نہیں، ایک فرض بھی ہے اور خود اپنے برادر ملک بنگلہ دیش سے خیرخواہی کا تقاضا بھی ہے۔ جہاں تک اہلِ پاکستان کا تعلق ہے، ہم تین وجوہ سے ضروری سمجھتے ہیں کہ اس پورے معاملے کے بارے میں اپنی بے لاگ راے کا دلیل اور حقائق کی روشنی میں اظہار کریں اور بنگلہ دیش اور تمام دنیا خصوصیت سے اسلامی دنیا کے ارباب حل و عقد کو اور عامۃ الناس کو حق اور انصاف کے مطابق اپنے اثرات کو استعمال کرنے کی دعوت دیں۔
ہماری تشویش اور پریشانی کا سبب بہت واضح اور کھلا ہے۔ بنگلہ دیش جماعت اسلامی سے وابستہ قیادت کو مخصوص سیاسی، علاقائی اور بین الاقوامی ایجنڈے پر قربان کرنے کی تیاریاں ہورہی ہیں۔ دنیا دیکھ رہی ہے کہ مخصوص قانون سازی اور مرضی کی عدالتیں بنا کر قائدینِ جماعت کو سزائیں سنائی جارہی ہیں۔ یہ آزاد ملک کے اندر قانون کو غلام بنا کر دستور کی سنگین پامالی کا بھی معاملہ ہے جس پر دنیا کے ہرباشعور اور غیرجانب دار فرد کو تشویش ہونی چاہیے اور اسے اپنی آواز حق و انصاف کے لیے بلند بھی کرنی چاہیے۔ ہم بھی اس حوالے سے نہ صرف اس سارے عمل کی شدید مذمت کررہے ہیں بلکہ اقوامِ عالم اور ان کے نمایندوں سے درخواست کر رہے ہیں کہ اس ظلم کا راستہ روکنے کے لیے ناانصافی پر آمادہ عوامی لیگ کی حکومت کو مجبور کیا جائے کہ وہ بین الاقوامی قانون کی پاس داری کرے اور جن معصوم انسانوں کو تعذیب و انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ان کے حقوق انھیں واپس کرے تاکہ وہ غیر جانب دار عدلیہ کے سامنے پیش ہوکر اپنی بے گناہی ثابت کرسکیں۔
ہم اس بات کو بھی ریکارڈ پر لانا چاہتے ہیں کہ بنگلہ دیش کی آزادی، ترقی اور خوش حالی ہمارے لیے بہت اہم ہے۔ بنگلہ دیش نے گذشتہ برسوں میں نمایاں ترقی کی ہے۔ اس کی صنعتی پیش رفت سے ہمیں دو گونہ خوشی ہوتی ہے کیونکہ ہمارے نظریے اور ایمان کا رشتہ اب بھی تروتازہ ہے۔ بنگلہ دیش کے نوجوانوں کا کردار ہمارے لیے بھی حوصلے کا سبب ہے کیونکہ ان نوجوانوں نے ایک طرف اسلامی دنیا میں گراں قدر خدمات سرانجام دیں، دوسری طرف ملایشیا اور انڈونیشیا میں ان کا تعمیری کردار سب تسلیم کر رہے ہیں، بلکہ یورپ میں اور بالخصوص برطانیہ کی ترقی میں بھی پیش پیش رہے ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ بنگلہ دیش کو اپنے قیام کے بعد سے مخصوص علاقائی اور جغرافیائی دبائو کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے پڑوس سے اسے کبھی سکون نہیں مل سکا۔ یہ جغرافیائی یا محض علاقائی حالات کا ہی نتیجہ نہیں ہے بلکہ اس کے ڈانڈے امریکا کی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ سے بھی جاملتے ہیں۔ اس لیے بھی ہم خصوصی طور پر مضطرب ہیں کہ وہاں جماعت اسلامی کی قیادت کے خلاف جو کچھ ہورہا ہے، اس پر آواز اُٹھانا چاہیے۔ بنگلہ دیش کی یہ صورتِ حال گذشتہ کچھ عرصے سے نہایت پریشان کن مرحلے میں داخل ہوگئی ہے۔ گذشتہ چند برسوں سے مسلسل ایسی کارروائیاں ہورہی ہیں جن کا نشانہ بنگلہ دیش جماعت اسلامی اور بی این پی کے رہنمائوں کو بنایا جا رہا ہے۔ ایک نام نہاد اور
۲- حال ہی میں جناب شیخ مجیب الرحمن کی نامکمل خودنوشت شائع ہوئی ہے جس میں انھوں نے اپنے دو قومی نظریے کے پُرجوش مبلغ ہونے کا فخر سے اعتراف کیا ہے۔ تحریکِ پاکستان میں شرکت کی داستان بیان کی ہے اور پاکستان کی وحدت اور یک جہتی کا دم بھرا ہے۔ ملاحظہ ہو: The Unfinished Memoirs of Sheikh Mujibur Rehman
اگست ۱۹۷۱ء میں شیخ مجیب الرحمن کے وکیل صفائی جناب اے کے بروہی نے بھی اس بات کی گواہی دی تھی کہ اس مقدمے کے وقت تک شیخ مجیب نے پاکستان کے فریم ورک میں صوبائی خودمختاری کی بات کی تھی اور علیحدگی کا کوئی اعلان یا عندیہ نہیں دیا تھا۔
خود ساختہ انٹرنیشنل ٹریبونل بنا کر جماعت اسلامی اور بی این پی کے رہنمائوں کو گرفتار کر کے ان کے خلاف جنگی جرائم کے مقدمات چلائے جارہے ہیں اور انصاف کے جملہ تقاضوں کو یکسر نظرانداز کرتے ہوئے ان رہنمائوں کے حق دفاع کو بھی پامال کیا جا رہا ہے۔ اس وقت تک جماعت کے رہنمائوں کو جو سزائیں سنائی گئی ہیں، انھوں نے پورے بنگلہ دیش میں ایک آگ سی لگا دی ہے کیوں کہ سب جانتے ہیں کہ پروفیسر غلام اعظم، مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا دلاور حسین سعیدی اور مولانا عبدالقادر مُلّا۳؎ اصحابِ علم و تقویٰ کا دامن ان الزامات سے پاک ہے، جو ان پر لگائے جارہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انھیں صرف اور صرف ظلم اور سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
سب سے پہلی ضرورت یہ ہے کہ مسئلے کی اصل نوعیت کو متعین کرلیا جائے۔ جنگی جرائم کا تعلق ان جرائم سے ہے جو حالت ِ جنگ میں بھی جنگ کے مسلّمہ آداب اور حدود کو پامال کر کے انجام دیے جائیں، اس لیے انھیں انسانیت کے خلاف جرائم (crimes against humanity) قرار دیا جاتا ہے اور ان کو لڑائی کے دوران معروف حدود میںہونے والے قتل اور تباہی سے ممتاز کیا جاتا ہے۔ اسی طرح نسل کُشی (genocide) بھی ایک متعین جرم ہے جس میں ایک خاص نسل، مذہب، قومیت، قبیلے یا برادری کو محض اس خاص نسل، مذہب، قومیت، قبیلے یا برادری سے تعلق کی بناپر ظلم و ستم کا ہدف بنایا جائے، بلاجواز قتل کیا جائے یا تشدد کا نشانہ بنایا جائے۔
ہم پوری ذمہ داری سے یہ بات کہتے ہیں اور کسی بھی آزاد اور غیر جانب دار عدالت میں اس الزام کا سامنا کرنے کو تیار ہیں۔ بنگلہ دیش جماعت اسلامی نے اس امر کا واضح اعلان کیا ہے
۳- ستم ظریفی ہے کہ مولانا عبدالقادر مُلّا نے بنگلہ دیش کی آزادی کے فوراً بعد ڈھاکہ یونی ورسٹی سے تعلیم مکمل کرکے بنگلہ دیش رائفلز میں، جو ایک غیر سرکاری نیم فوجی تنظیم ہے، شرکت کی۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان کے جرائم میں مبتلا ہونے کی کوئی خبر ۱۹۷۱ء کے معاً بعد کے زمانے میں کسی کو نہ تھی اور اب ۴۲سال کے بعد یہ الہام ہوا ہے۔ علامہ دلاور حسین سعیدی بنگلہ دیش کے ایک معتبر عالم دین اور شہرئہ آفاق مقرر اور مبلّغ ہیں۔ ۱۹۷۱ء میں ان کا جماعت اسلامی سے کوئی تعلق نہ تھا اور نہ وہ کبھی بھی کسی غیرقانونی یا غیراخلاقی کارروائی میں بلاواسطہ یا بالواسطہ ملوث رہے۔ جماعت اسلامی کی دعوت سے وہ نظریاتی طور پر ۱۹۷۵ء میں روشناس ہوئے اور جماعت کی بحالی کے بعد ۱۹۷۹ء سے اس کے سرگر م رکن رہے اور سیاسی سرگرمیوں میں شریک ہوئے، بعدازاں جماعت کے ٹکٹ پر پارلیمنٹ کے ممبر منتخب ہوئے۔
کہ وہ بحیثیت جماعت یا اس کا کوئی ذمہ دار اس نوعیت کے کسی بھی جرم کا مرتکب نہیں ہوا۔ البتہ جس بات کا جماعت نے اعتراف کیا ہے، وہ یہ ہے کہ اس نے پاکستان پر بھارتی افواج کے حملے اور مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی کی عسکری اور تخریبی کارروائیوں کے دوران پاکستان کا دفاع کیا اور اس زمانے میں بھی بار بار اس امر کا اعلان کیا کہ مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں۔ شیخ مجیب الرحمن نے بھی بنگلہ دیش کے قیام کے بعد جنگی جرائم کے مرتکبین کے حوالے سے جو قوانین بنائے، ان میں جنگی جرائم اور پاکستان حکومت کا ساتھ دینے والوں میں فرق کیا اور دونوں کے لیے ۱۹۷۲ء میں دو الگ الگ قانون نافذ کیے۔ ۱۶دسمبر ۱۹۷۱ء تک جو متحدہ پاکستان کے حامی تھے، ان کی سیاسی پوزیشن کے بارے میں پاکستان کی سیاسی جماعتیں اور عوامی لیگ الگ الگ راے رکھتے ہیں اور دنیا کی تاریخ میں ایسے واقعات اور حادثات کے موقع پر یہ بالکل فطری بات ہے، لیکن سیاسی موقف کے اس اختلاف کو جنگی جرائم سے خلط ملط کرنا قانونی ، سیاسی اور اخلاقی ہراعتبار سے ناقابلِ قبول ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ایک نئی سیاسی حقیقت کے رُونما ہونے سے پہلے اور اس کے بعد کے معاملات کو سیاسی تناظر میں لیا جاتا ہے۔ اس کے سوا کوئی دوسرا رویہ صریح ناانصافی ہوگا۔
اس اصولی وضاحت کے بعد چند حقائق کا ریکارڈ پر لانا بھی ضروری ہے:
مجلس عاملہ یہ تسلیم کرتی ہے کہ [انتخابی] بدعنوانیاں خواہ کتنے ہی بڑے پیمانے پر ہوئی ہوں، ملک کے مختلف حصوں میں جو لوگ کامیاب ہوئے ہیں، ان کو بہرحال معروف جمہوری اصولوں کے مطابق عوام کی اکثریت حاصل ہوئی ہے۔ جماعت چونکہ خود جمہوریت کی حامی ہے، اس لیے وہ قطعی طور پر یہ راے رکھتی ہے کہ جو پارٹیاں کامیاب ہوئی ہیں، انھیں لازماً کام کرنے اور عوام کو یہ دیکھنے کا موقع ملنا چاہیے کہ وہ کس حد تک ان کی توقعات پوری کرتی ہیں۔ جمہوریت میں کسی انتخاب کا فیصلہ بھی آخری اور ابدی فیصلہ نہیں ہوتا۔ اگر اس ملک میں جمہوری طریق کار اپنی صحیح صورت میں جاری رہے، شہری آزادیاں محفوظ رہیں اور وقتاً فوقتاً انتخابات ہوتے رہیں تو ہر جماعت کے لیے یہ موقع باقی رہے گا کہ عوام کی راے کو اپنے حق میں ہموار کرسکے، اور عوام کو بھی یہ موقع حاصل رہے گا کہ ایک گروہ کی کارکردگی کا تجربہ کرکے اگر وہ مطمئن نہ ہوں تو دوسرے انتخاب کے وقت دوسرے کسی گروہ کا تجربہ کریں۔ (ہفت روزہ آئین، لاہور، ۸جنوری ۱۹۷۱ء)
اسی طرح جماعت اسلامی کی مجلس عاملہ نے ایک اور قرارداد کے ذریعے مطالبہ کیا کہ قومی اسمبلی کا اجلاس جلد از جلد بلایا جائے اور دستور سازی کا کام جلد از جلد مکمل کیا جائے:
جماعت اسلامی پاکستان کی مرکزی مجلس عاملہ کا یہ اجلاس ملک کی بگڑتی ہوئی سیاسی، اقتصادی اور امن و امان کی صورت حال کا جائزہ لینے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ موجودہ مسائل کے حل کا صحیح طریق کار یہی ہے کہ قومی اسمبلی کا اجلاس جلد از جلد بلایاجائے اور منتخب نمایندوں کو دستور سازی کے سلسلے میں اپنے فرائض ادا کرنے کا موقع دیا جائے تاکہ موجودہ غیریقینی صورت حال ختم ہو اور انتقالِ اقتدار کے بعد کوئی نمایندہ حکومت ان مسائل کے حل کی ذمہ داری سنبھال سکے۔ انتخابات کو مکمل ہوئے اب دو مہینے سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے۔ اگر اب دستور سازی کا کام شروع نہ کیا گیا تو اس کام میں روزبروز پیچیدگیاں بڑھنے کا امکان ہے..... بلکہ ذہنی انتشار بڑھ رہا ہے اور بحالیِ جمہوریت سے جو توقعات وابستہ کی گئی تھیں، وہ مایوسی میں تبدیل ہورہی ہیں۔ یہ سیاسی خلا کسی طوفان کا پیش خیمہ بھی ثابت ہوسکتا ہے، اس لیے مجلسِ عاملہ صدرِمملکت سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ قومی اسمبلی کا اجلاس جلداز جلد بلائیں اور دستور سازی کا کام مکمل کرانے کی جو ذمہ داری اُنھوں نے اپنے اُوپر لی تھی، اُسے پورا کریں۔ (ہفت روزہ آئین، لاہور، ۱۷ فروری ۱۹۷۱ء)
واضح رہے کہ مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی نے ۲۴؍اکتوبر ۱۹۷۰ء کو، انتخابات سے دومہینے قبل، صاف الفاظ میں قوم کو متنبہ کردیا تھا کہ فوج ملک کو ایک نہیں رکھ سکتی۔ اس کے لیے اسلامی جذبے اور عوام کی تائید اور رضامندی ضروری ہے۔
جماعت اسلامی کی پوزیشن اور کردار کو سمجھنے کے لیے ان حقائق کو سامنے رکھنا ضروری ہے۔ جہاں جماعت نے پاکستان کو ایک رکھنے کے لیے آخری لمحے تک کوشش کی، وہیں اس کی کوشش یہ بھی تھی کہ نظریاتی، اخلاقی اور سیاسی میدان میں وہ اقدام کیے جائیں جس سے یہ وحدت قائم رہ سکے اور مستحکم ہوسکے۔ مولانا مودودی نے اس موقعے پر فرمایا:
میں آپ سے صاف کہتا ہوں کہ اس وقت فوج بھی ایسی پوزیشن میں نہیں کہ اس ملک کو ایک ملک رکھ سکے۔ اگر کسی کے اندر عقل ہے تو وہ خود غور کرے کہ اگر خدانخواستہ مشرقی پاکستان میں علیحدگی کی تحریک زور پکڑ جائے تو کیا آج فوجی طاقت کے بل پر اسے مغربی پاکستان کے ساتھ جوڑ کر رکھا جاسکتا ہے؟ پاکستان کے ان دونوں بازوئوں کو کسی فوج نے ملاکر ایک ملک نہیں بنایا تھا بلکہ اسلامی اخوت اور برادری کے جذبے نے انھیں ملایا تھا، اور آج بھی یہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ جڑے رہ سکتے ہیں تو صرف اسی طرح کہ وہی اسلامی برادری کا جذبہ دونوں طرف موجود ہو اور مشرقی پاکستان کے لوگ خود یہ چاہیں یا کم از کم ان کی بہت بڑی مؤثر اکثریت یہ چاہے کہ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کا اتحاد برقرار رہے، ورنہ علیحدگی پسند اگر خدانخواستہ اس رشتۂ اخوت کو کاٹنے میں کامیاب ہوجائیں تو محض فوج کی طاقت کے بل بوتے پر آپ مشرقی پاکستان کو مجبور نہیں کرسکتے کہ وہ مغربی پاکستان کے ساتھ ملا رہے۔(افغان پارک، لاہور میں جلسۂ عام سے ۲۴؍اکتوبر ۱۹۷۰ء کا خطاب، ہفت روزہ آئین، لاہور، ۱۲ مارچ ۱۹۷۱ء)
ا - مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی، بھارت کے ایجنٹوں اور دوسرے عناصر کی طرف سے پاکستان کے حامیوں (جن میں بنگالی اور غیربنگالی دونوں شامل تھے اور خصوصیت سے بہاریوں اور غیربنگالیوں اور پاکستانی افواج اور دوسرے اہل کاروں) کا قتل، ان کے اموال کی لُوٹ مار اور خواتین کی عزت و آبرو کی خلاف ورزی۔
ب- پاکستانی افواج اور ان کی معاون قوتوں کی طرف قتلِ ناحق، لُوٹ مار اور جنسی زیادتی کے واقعات۔
ج- بنگلہ دیش کے قیام کے بعد ان تمام عناصر پر ظلم و زیادتی اور ان کا قتل اور غارت گری جو کسی جنگی جرم کے مرتکب نہیں ہوئے لیکن محض عوامی لیگ کا ساتھ نہ دینے کے جرم میں ان کو زیادتیوں کا نشانہ بنایا گیا۔
ان تینوں حوالوں سے جو بھی زیادتی کی گئی اور جس نے بھی کی وہ قابلِ گرفت تھی اور قانون اور عدل و انصاف کے معروف اصولوں اور ضوابط کے دائرے میں ان کا احتساب ہونا چاہیے تھا جو نہیں ہوا۔
جہاں تک جماعت اسلامی اور اس کے کارکنوں کا تعلق ہے، انھوں نے اس ریاست کا ساتھ ضرور دیا جس سے وفاداری کا انھوں نے حلف اُٹھایا تھا مگر وہ کسی غیرقانونی اور غیراخلاقی کارروائی میں شریک نہیں تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ۲۰۰۷ء سے پہلے ان کے خلاف جنگی جرائم یا کسی دوسری زیادتی کا کوئی واضح الزام نہیں لگایا گیا اور بنگلہ دیش میں جناب مجیب الرحمن کے اقتدار کے زمانے میں احتساب اور جرم و سزا کا جو نظام بھی قائم ہوا، اس میں کوئی ایک کیس بھی جماعت کی قیادت یا اس کے کارکنوں کے خلاف ثابت نہیں ہوا۔ ہم اس سلسلے کے کچھ شواہد ریکارڈ کے لیے پیش کرتے ہیں۔
واضح رہے کہ ان دو قوانین کے تحت کارروائی کے ساتھ ایک تیسرا اقدام بھی کیا گیا اور وہ بنگلہ دیش کی دستور ساز اسمبلی کے ۱۲؍ارکان پر مشتمل ایک کمیٹی تھی جسے جنگی جرائم کے مرتکب افراد کے بارے میں معلومات جمع کرنے کا کام سونپا گیا اور اسے MCA Committee کہا گیا اور عوامی لیگ کے آفس میں اس کا دفتر قائم کیا گیا۔ اس کے ساتھ پاکستانی فوج کے ستم زدہ لوگوں کو زرتلافی (compensation) ادا کرنے کے لیے بھی انتظام کیا گیا اور وزارتِ خزانہ کے سپرد یہ کام ہوا کہ جس خاندان میں کوئی شخص مارا گیا ہے، ان کو زرِتلافی دیا جائے۔ سرکاری اعداد و شمار جو بعد میں اسمبلی میں پیش کیے گئے، ان کی رُو سے اس پوری کوشش کے نتیجے میں ۷۲ہزار افراد نے کلیم دائر کیے اور تحقیق کے بعد ۵۰ہزار کو زرِتلافی ادا کیا گیا۔ جماعت اسلامی سے ان تمام کا کوئی دُور دُور کا بھی تعلق نہ تھا۔
گو، سرکاری طور پر دعویٰ کیا جا رہا تھا کہ ۳۰لاکھ افراد کو پاکستانی افواج نے قتل کیا ہے اور ۲لاکھ خواتین کی عصمت دری کی ہے لیکن دو سال پر پھیلی ہوئی ان تمام کارروائیوں میں جو حقائق متحقق (establish) ہوئے ،اُن کی اِن دعووں سے کوئی نسبت نہیں۔۴؎
۴- بلاشبہہ ایک فردکا بھی خونِ ناحق اور ایک پاک دامن کی عصمت دری پوری انسانیت کے قتل اور بے حُرمتی کے مترادف ہے لیکن حقائق کے بیان میں مبالغے کی حدود کو پامال کرنا بھی ایک جرم ہے۔ اسی طرح صرف ایک گروہ کی زیادتیوں کو نشانہ بنانا اور دوسرے گروہوں نے جو مظالم ڈھائے ہیں، ان کو نظرانداز کرنا بھی انصاف اوراخلاق دونوں کے منافی ہے۔ جو زیادتیاں بھی ہوئیں وہ شرم ناک اور قابلِ گرفت ہیں لیکن کسی صورت حق و انصاف اور توازن و اعتدال کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔ اس سلسلے میں اب جو حقائق سامنے آرہے ہیں ان سب کو اس الم ناک، تاریک اور خون آشام دور کے جملہ پہلوئوں کو سمجھنے کے لیے دیکھنا ضروری ہے۔ حمودالرحمن کمیشن نے بھی ان تمام ہی پہلوئوں کا احاطہ کیا ہے۔ بھارت کی ایک بنگالی ہندو محقق خاتون شرمیلا بوس (جو تحریکِ آزادی کے ہیروسبھاش چندربوس کی نواسی ہے) اپنی کتاب میں تصویر کے دونوں رُخ پیش کرتی ہے، ملاحظہ ہو:
اس پورے احتسابی عمل کا اختتام نسبتاً ایک خوش گوار شکل میں ہوا۔ پاکستان، بنگلہ دیش اور ہندستان کی مشترکہ کوششوں سے ایک معاہدہ ہوا جس پر تینوں ممالک کے وزراے خارجہ، یعنی ڈاکٹر کمال حسین، عزیز احمد اور سورن سنگھ نے اپریل ۱۹۷۴ء میں دستخط کیے۔ اس کے نتیجے میں بنگلہ دیش نے ۱۹۵ پاکستانی فوجیوں کی واپسی کا مطالبہ واپس لے لیا اور یہ مطلوب جنگی قیدی باقی جنگی قیدیوں کے ساتھ پاکستان واپس کردیے گئے۔ دوسری قسم کے مطلوبہ افراد جنھیں collaborater کہا گیا تھا، کے بارے میں نومبر ۱۹۷۳ء میں شیخ مجیب الرحمن نے عام معافی کا اعلان کیا تھا۔ اُن چند سزا یافتہ افراد کے سوا جن کو بہت ہی سنگین جرائم میں سزا دی گئی تھی۔ بعد میں ان کو بھی معافی دے دی گئی اور اس طرح یہ افراد بھی دو سال کے بعد رہا کردیے گئے۔
پاکستان کی طرف سے بھی تعلقات کو معمول پر لانے کی کوششیں ہوئیں۔ اپریل ۱۹۷۴ء میں پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت کے درمیان سہ فریقی معاہدے سے زمین ہموار ہوئی۔ اسلامی کانفرنس تنظیم کے دوسرے سربراہی اجلاس (منعقدہ لاہور) میں شیخ مجیب الرحمن نے شرکت کی۔ پاکستان نے بنگلہ دیش کو تسلیم کرلیا اور بالآخر جنوری ۱۹۷۶ء میں پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان مکمل سفارتی تعلقات قائم ہوگئے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے بنگلہ دیش کا دورہ کیا۔ ماضی کے واقعات پر
پاکستانی فوج کے ایک مشرقی پاکستانی افسر لیفٹیننٹ کرنل شریف الحق جو ۱۹۷۱ء میں فرار ہوکر مکتی باہنی میں شریک ہوگئے تھے، اور جنھیں بنگلہ دیش کے اعلیٰ ترین اعزاز ’بیر اُتّم‘ (Bir Uttam)سے نوازا گیا تھا اور جنھوں نے سفارت کاری کی ذمہ داریاں بھی ادا کیں، اس کی خودنوشتBangladesh: Untold Facts ایک چشم کشا دستاویز ہے جس میں مکتی باہنی اور مشرقی پاکستان کی جدائی میں بھارت کے کردار کی first person (براہِ راست)تفصیلات دی گئی ہیں، اس کے علاوہ شیخ مجیب الرحمن ساڑھے تین سالہ دورِحکومت کے مظالم کا نقشہ بھی ذاتی علم کی بنیاد پر کھینچا گیا ہے۔
بھارت کے لیفٹیننٹ جنرل جیکب کی کتاب Surrender at Dacca: Birth of a Nation بھی قابلِ مطالعہ ہے جس میں بھارت کے کردار کا مکمل اعتراف موجود ہے۔ واضح رہے کہ اس دور میں پاکستان سے وفادار رہنے والوں کے ساتھ کیا ہوا، اس کا احوال بڑا دردناک ہے ۔ ڈھاکہ یونی ورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر سید سجاد حسین کی کتاب The Waste of Time بھی قابلِ مطالعہ ہے جس کا ترجمہ شکستِ آرزو کراچی سے اسلامک ریسرچ اکیڈمی نے شائع کیا ہے۔
افسوس کا اظہار کیا۔ جنرل ضیاء الحق نے بنگلہ دیش کے سیلاب کے موقعے پر وہاں کا دورہ کیا اور جنرل ارشاد کے دور میں تعاون کے سلسلے کو آگے بڑھایا۔ محترمہ خالدہ ضیا صاحبہ نے ۹۰ کے عشرے میں پاکستان کا دورہ کیا اور جنرل مشرف نے ۲۰۰۳ء میں بنگلہ دیش کا دورہ کیا اور ایک بار پھر اس تاریک دور پر اپنے افسوس کا اظہار کیا۔
یہ تمام اقدام ۱۹۷۱ء کے واقعات کو دفن کرنے، عام معافی دینے، تعلقات کے ایک نئے باب کو شروع کرنے کے مختلف مراحل تھے۔ انسان سمجھنے سے قاصر ہے کہ یکایک اس پورے عمل کو اُلٹانے (reverse کرنے) کا کھیل بنگلہ دیش کی موجودہ حکومت نے کیوں شروع کیا اور ہرحد کو پھلانگ کر سیاسی انتقام اور ملک میں شدید خلفشار کی کیفیت کیوں پیدا کی؟ اس سوال پر غور کرنا بہت ضروری ہے۔ عام معافی کے بعد ۲۰۱۰ء میںنام نہاد انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل کا قیام اور چُن چُن کر جماعت اسلامی اور بی این پی کی قیادت کو نشانہ بنانا اور ان لوگوں کو نشانہ بنانا جن کا ۱۹۷۱ء کے خونیں اور شرم ناک واقعات میں کوئی ذاتی کردار نہیں تھا، صرف ظلم ہی نہیں، ایک بڑے سیاسی کھیل کا حصہ ہے جسے سمجھنا ضروری ہے۔
جسے انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل کہا جا رہا ہے، اس کا انٹرنیشنل معیار سے دُور کا بھی کوئی تعلق نہیں اور اس میں کسی بین الاقوامی شرکت سے دُور رکھنے کے لیے ہر دروازہ بند کردیا گیا ہے۔ اس ٹریبونل کا چیئرمین وہ جج تھا جو عوامی لیگ کا جیالا تھا اور جس نے اپنے خودساختہ وار کرائمز ٹرائل کا ڈھونگ اپنی جوانی میں رچایا تھا۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا ایک تازیانہ ہے کہ خود اس جج کو جو اس وقت کے ٹربیونل کا صدر تھا، مقدمے کے دوران ہی بے وقعت ہوکر استعفا دینا پڑا کیونکہ اکانومسٹ نے اس کے برسلز کے ایک وکیل اور عوامی لیگ کے ایک سرگرم کارکن کے ساتھ ۲۳۰ ای میل اور ۱۷گھنٹے کی ریکارڈ شدہ ٹیلی فون کی گفتگو کا راز فاش کیا جس میں ایک طرف ٹربیونل پر حکومت کے دبائو کا اور ٹربیونل اور پراسکیوشن کے درمیان خفیہ سازباز کے ناقابلِ انکار ثبوت تھے تو دوسری طرف برسلز کے اس جیالے کی طرف سے نہ صرف مقدمے کو چلانے کے بارے میں واضح ہدایات دی گئیں بلکہ مقدمے کی کارروائی مکمل ہونے سے پہلے ہی مقدمے کے فیصلے کا ڈرافٹ بھی بھیج دیا گیا تھا۔ لندن اکانومسٹ نے اپنی ۸دسمبر ۲۰۱۲ء اور ۱۵دسمبر ۲۰۱۲ء کی اشاعتوں میں یہ سارا کچاچٹھا کھول کر بیان کردیا جس سے ایک تہلکہ مچ گیا اور پہلے انکار اور پھر اقرار کے بعد ٹربیونل کے چیئرمین محمدنظام الحق کو مستعفی ہونا پڑا۔ لیکن یہ بھی بنگلہ دیش کی عوامی لیگی حکومت اور اس کے طریق انصاف کا شاہکار ہے کہ ٹربیونل اسی طرح قائم رہا اور اسی ٹربیونل نے نئے ممبران کے ساتھ جن میں سے کسی ایک نے پورے مقدمے کی مکمل کارروائی سنی تک نہ تھی اور عالمی قانونی اداروں کے اس مطالبے کے باوجود، کہ ان حقائق کے سامنے آنے کے بعد حکومت کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ نیا ٹربیونل قائم کرے جو ازسرِنو مقدمے کی کارروائی کرے، جنوری، فروری اور مارچ ۲۰۱۳ء میں جماعت کے قائدین کو سزائیں سنائی گئیں۔ پھر عوامی لیگ کے جیالوں کے مطالبے پر قانون میں مؤثر بہ ماضی (retrospective) کارروائی کی ترمیم کرکے اس ٹربیونل کو یہ اختیار دے دیا جو پہلے سے دی ہوئی سزا میں اضافہ بھی کرسکتا ہے۔
اس ٹربیونل کو یہ ’اعزاز‘ بھی حاصل ہے کہ دنیا میں شاید یہ واحد ٹربیونل ہے جس کے تمام ججوں نے مقدمہ سنے بغیر فیصلے دیے ہیں۔ ٹربیونل کی تشکیل اور موجودہ ہیئت کو ساری دنیا کے قانون دانوں نے انصاف کے مسلّمہ اصولوں کے خلاف قرار دیا ہے۔ اس سلسلے میں چند حقائق کا ریکارڈ پر لانا حالات کی سنگینی کے اِدراک کے لیے مددگار ہوگا۔ اکانومسٹ (۱۵دسمبر۲۰۱۲ء) Trying War Crimes in Bangladesh کے عنوان سے لکھتا ہے:
اسے انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل کہا جاتا ہے۔ اگرچہ یہ ان معنوں میں انٹرنیشنل نہیں ہے کہ یہ کسی انٹرنیشنل قانون کے تحت قائم کیا گیا ہو..... جرائم کرنے والے نمایاں افراد سب کٹہرے میں نہیں کھڑے ہیں۔ ان میں سے کچھ مرچکے ہیں یا پاکستان میں رہ رہے ہیں..... آخری مرحلے پر محمد نظام الحق نے جو اس کے سربراہ جج تھے، ٹربیونل کے جج کی حیثیت سے اس وقت استعفا دے دیا جب اکانومسٹ نے ان سے سوالات کیے اور ان کی بنگلہ دیش میں پرائیویٹ ای میل کی اشاعت کی، جس سے ان کے کردار اور عدالتی کارروائی کے بارے میں شبہات پیدا ہوگئے.....یہ تشویش اتنی سنگین ہے کہ صرف اسی بات کا اندیشہ نہیں ہے کہ انصاف کا سقوط ہو جس سے انفرادی طور پر مدعا علیہ ہی متاثر نہ ہوں بلکہ ٹربیونل کے غلط طریق کار کی وجہ سے بنگلہ دیش جو نقصان اُٹھا چکا ہے، اس میں بھی اضافہ ہو۔ یہ ملک کے زخموں پر مرہم نہیں رکھیں گے بلکہ ان کو گہرا کردیں گے۔ جو شہادتیں ہم نے دیکھی ہیں، وہ یہ ظاہر کرتی ہیں کہ عدالتی کارروائی کے ازسرِنو مکمل جائزے کی اب ضرورت ہے۔ہمیں یقین ہے کہ اگر ایک ساتھ دیکھا جائے تو جو لوازمہ ہمیں دکھایا گیا ہے وہ جاری کارروائی (due process) کے بارے میں جائز سوالات اُٹھاتا ہے جن کی بنگلہ دیش کی حکومت کو اب مکمل تفتیش کرنی چاہیے۔ یہ تفتیش نظام الحق کے استعفے کے بعد اب ناگزیر ہوگئی ہے۔
مقدمے کی کارروائی کے دوران کوئی بے قاعدگی ایسی نہیں جس کا ارتکاب پوری ڈھٹائی سے نہ کیا گیا ہو۔ استغاثے کو ہرممکن سہولت دی گئی حتیٰ کہ عملاً شہادتیں تک پیش کرنے سے مستثنیٰ کردیا گیا اور صرف تحریری بیان کو کافی سمجھ لیا گیا تاکہ گواہوں پر جرح نہ کی جاسکے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ جو بھی گواہ پیش کیا گیا، جرح میں وہ اپنے موقف پر قائم نہ رہ سکا اور سارا پول کھل گیا۔دفاع کے وکلا کو اپنے گواہ پیش کرنے سے روک دیا گیا اور ان مقدمات میں بھی جن میں درجن بھر الزام تھے، قید لگادی گئی کہ چھے سے زیادہ گواہ پیش نہیں کیے جاسکتے ہیں۔ مولانا سعیدی کے مقدمے میں جس شخص کے قتل کا ان پر الزام تھا، خود اس کے بھائی نے (دونوں بھائی ہندو تھے) گواہی دی کہ مولانا سعیدی کا اس قتل سے کوئی تعلق نہیں لیکن اس کو کمرئہ عدالت کے باہر سے اغوا کرلیا گیا اور ملک کے اور عالمی میڈیا نے لکھا کہ سرکاری ایجنسی کے لوگ اسے اغوا کر کے لے گئے۔ اس کا بیان ٹی وی تک سے نشرہوچکا تھا۔
جیساکہ ہم نے اُوپر عرض کیا ہے، سب سے عجیب بات یہ ہے کہ ٹربیونل کے ججوں میں سے کسی ایک نے بھی پورے مقدمے کو سنا ہی نہیں لیکن فیصلہ دینے میں ان کے ضمیر نے کوئی خلش محسوس نہیں کی۔ عالمی ادارے ہیومن رائٹس واچ نے اسے اپنی ۱۳دسمبر کی رپورٹ میں ان الفاظ میں بیان کیا ہے اور اس مطالبے کے ساتھ کیا ہے کہ سعیدی کے مقدمے کو ازسرِنو منعقد کیا جانا ضروری ہے۔ رپورٹ کا عنوان ہی یہ ہے:Bangladesh: Retrial Needed in Sayeed's Case
دلاور حسین سعیدی کے وار کرائمز ٹرائل میں تین رکنی پینل میں بار بار کی تبدیلیوںکا مطلب ہے کہ منصفانہ مقدمہ اب ممکن نہیں رہا ہے، اور ایک نیا مقدمہ ہونا چاہیے۔ ہیومن رائٹس واچ عرصے سے مطالبہ کر رہا ہے کہ ۱۹۷۱ء کی جدوجہد آزادی میں، جس کے نتیجے میں بنگلہ دیش کی ریاست قائم ہوئی جو لوگ مظالم کے مرتکب ہوئے ہیں، ان پر عالمی اصولوں کے مطابق بے لاگ مقدمہ چلایا جانا چاہیے۔
۱۱دسمبر کو کرائمز ٹربیونل( ICT) کے چیئرمین جسٹس نظام الحق نے جو ۱۹۷۱ء میں کیے گئے فوجی جرائم، انسانیت کے خلاف جرائم اور دوسرے سنگین جرائم بھی جو پاکستان سے آزادی کی جنگ کے دوران ڈھائے گئے تھے، مقدمہ سن رہے تھے، اس وقت استعفا دے دیا جب اکانومسٹ نے ان کی ای میل، خط کتابت اور آڈیو ٹیپ شائع کردیے جن سے ایک جج کی حیثیت سے سعیدی کیس اور دوسرے معاملات میں ان کا جانب دارانہ رویہ سامنے آگیا۔اکانومسٹ نے مزید ای میل اور باہمی روابط دسمبر ۲۰۱۲ء کو شائع کیے جن میں اس کا کہنا تھا کہ جج، سرکاری وکلا اور انتظامیہ کے درمیان ملی بھگت ظاہر ہوتی تھی۔
سعیدی کیس میں تین رکنی پینل میں محمد نظام الحق واحد جج تھے، جب کہ مقدمے کے دوران دوسرے ممبر تبدیل ہوگئے جس کا مطلب یہ ہوا کہ پینل کے کسی جج نے بھی مکمل گواہیاں نہیں سنی تھیں۔ سعیدی کے مقدمے میں ۶دسمبر کو بحث مکمل ہوئی جس کا مطلب یہ ہوا کہ جسٹس محمد الحق کا جو متبادل آیا، جسٹس فضل کبیر، وہ ۱۲دسمبر کو مقرر کیا گیا، جو ایک ایسے مقدمے کے فیصلے میں شرکت کر رہے تھے جس میں انھوں نے سرکاری شہادتوں کا صرف ایک حصہ سنا ہے۔ یہ چیز انتہائی غیر ذمہ دارانہ، غیرپیشہ ورانہ ہوگی، جب کہ کسی مقدمے کا اس طرح فیصلہ لیا جائے جب کہ کسی بھی جج نے اہم گواہوں کو نہ سنا ہو، خاص طور پر ایک ایسے مقدمے میں جس میں ۴۲سال پہلے کی گواہی پیش ہورہی تھی اور پیچیدہ قانونی مسائل موجود تھے۔ یہ بات ہیومن رائٹس واچ کے ایشیا کے ڈائرکٹر بریڈ ایڈم نے کہی۔ جب کورٹ کے صدر نے نامناسب باتوں کی وجہ سے استعفا دیا تو صرف ایک جج نے شہادت سنی تھی اور اب وہ جج بھی نہیں رہا۔ عدالت کے لیے اپنی ساکھ ثابت کرنے کے لیے ایک نیا مقدمہ ہی واحد راستہ ہے۔
سعیدی کیس میں مارچ ۲۰۱۰ء میں بننے والے پہلے پینل میں جسٹس محمد نظام الحق، جسٹس فضل کبیر اور جسٹس ذاکراحمد شامل تھے۔ جسٹس کبیر کو ۱۸دسمبر کو جسٹس حق کے استعفے کے بعد سعیدی پینل پر دوبارہ مقرر کردیا گیا۔ انھوں نے مارچ ۲۰۱۲ء میں سعیدی کیس چھوڑ دیا تھا، جب انھیں آئی سی ٹی کے دوسرے مقدمے کی صدارت کے لیے تبدیل کیا گیا تھا۔ ان کے متبادل جسٹس انوارالحق نے دفاع کی طرف سے اپنا مقدمہ شروع کرنے سے پہلے صرف ایک سرکاری تفتیشی افسر کو سنا۔ اگست کے آخر میں جسٹس احمد نے خرابی صحت کی وجوہات بیان کرتے ہوئے غیرمتوقع طور پر استعفا دے دیا اور ان کے بجاے جسٹس جہانگیر آئے جنھوں نے صرف دفاع کے گواہوں کو سنا۔ ہیومن رائٹ واچ نے تشویش ظاہر کی ہے کہ وزیرقانون شفیق احمد اور سرکاری وکیل دونوں نے کہا کہ جسٹس نظام الحق کے استعفے سے سعیدی کے مقدمے کی کارروائی پر کوئی اثر نہ پڑے گا۔ ٹیپ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ذاکر احمد نے آئی سی ٹی کے عدلیہ میں مداخلت کی۔
ایڈیمز نے کہا کہ پوری دنیا میں عدالتیں زبانی گواہیاں کیوں سنتی ہیں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ خود یہ فیصلہ کرنے کے قابل ہوسکیں کہ ان کے سامنے جو گواہی پیش کی گئی ہے براہِ راست سوالات اور گواہوں کو چیلنج کرنے سے اسے کتنا وزن دیں۔ سعیدی کیس میں تین ججوں میں سے ایک بھی مکمل گواہی پیش کرنے کے دوران حاضر نہ رہا تھا۔ (لیکن اس کے علی الرغم وہ) ایک فیصلہ دے گا جو ملزم کو پھانسی کے تختے تک لے جاسکتا ہے۔ سعیدی ملزم ثابت ہویا نہ ہو، اس کا تعین صرف اس بات سے ہوسکتا ہے کہ ایک فیئر ٹرائل ان ججوں کے ذریعے ہو جو تمام شہادتوں کو سنیں۔
بنگلہ دیش کے موجودہ ٹربیونل اور اس کی جانب داری اور مایوس کن کارکردگی کا اعتراف دنیا کے گوشے گوشے میں ہورہا ہے اور ملک میں اور ملک سے باہر مقتدر ادارے اور ماہرین قانون اسے انصاف کا خون قرار دے رہے ہیں۔ انٹرنیشنل بار ایسوسی ایشن نے اس کے قیام کے وقت ہی سے flawed یعنی قانونی اعتبار سے ناقص قرار دے دیا تھا۔ پھر ’امریکن سوسائٹی آف انٹرنیشنل لا‘ نے ۲۱جون ۲۰۱۱ء کی رپورٹ میں ٹربیونل کے بارے میں شدید اعتراضات کا اظہارکیا۔ خود ڈھاکہ میں سونارگائوں کے ہوٹل میں ۱۳؍اکتوبر ۲۰۱۰ء کو منعقد ہونے والی بین الاقوامی وکلا کانفرنس نے اس مقدمے اور ٹربیونل کو انصاف کے اصولوں کے منافی قرار دیا اور اس کے قانون میں ۱۷ بڑی بڑی خامیوں کی نشان دہی کی۔ بنگلہ دیش کے ایک سابق چیف پبلک پراسکیوشن خندکر محبوب حسین نے جو اس وقت وہاں کی سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر ہیں، ان مقدمات کی نیک نیتی (bonafides) کو چیلنج کیا ہے اور کہا ہے کہ حکومت اگر حق پر ہے تو اسے ان مقدمات میں اقوام متحدہ کو شریک کرنا چاہیے اور جس طرح اقوام متحدہ نے بوسنیا اور روانڈا کے جنگی جرائم کے مقدمات کو عالمی کریمنل کورٹ کے ذریعے منعقد کیا ہے، اسی طرح ان کو بھی کیا جانا چاہیے۔ ایک سابق سعودی سفارت کار نے، جو بنگلہ دیش میں خدمات انجام دے چکے ہیں، وہاں کے حالات سے واقف ہیں اور آج کل امریکا میں کیلی فورنیا اسٹیٹ یونی ورسٹی میں پروفیسر ہیں، انھوں نے تمام حالات کا تجزیہ کرکے لکھا ہے کہ:
سعیدی کے پھانسی کے فیصلے نے حتمی طور پر ثابت کردیا ہے کہ کسی شبہے کے بغیر آئی سی ٹی کینگرو کورٹ سے زیادہ کچھ نہیں۔ یہ انصاف کی مکمل نفی کرتی ہے۔ بنگلہ دیش کے آئی سی ٹی کے بارے میں انصاف کے نقطۂ نظر سے ہمارا جائزہ سچائی اور معقول وجوہات کی بنا پر ہے نہ کہ جذبات اور سیاست کی بنا پر۔ (’خوف ناک انصاف‘ از پروفیسر محمد ایول، سعودی گزٹ، ۷مارچ ۲۰۱۳ء)
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی متعدد رپورٹوں میں بنگلہ دیش میں انصاف کے اس قتل پر اپنے احتجاج کا اظہار کیا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کی ایک درجن سے زیادہ رپورٹیں اس بارے میں آچکی ہیں۔ International Centre for Transitional Justice نے بھی اپنی رپورٹ (۱۵مارچ۲۰۱۱ء) میں اپنے شکوک و شبہات کا اظہار کیا تھا۔ اقوامِ متحدہ کے ایک ورکنگ گزٹ نے ۶فروری ۲۰۱۱ء کو اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ امریکی سفیر براے Transitional Justice جس کا اصل موضوع ہی جنگی جرائم ہیں، نے اپنی رپورٹ (۶فروری ۲۰۱۲ء)میں ٹربیونل کے بارے میں عدم اطمینان کا اظہار کیا۔برطانیہ کے مشہور ماہرقانون لارڈ ایوبری، یونی ورسٹی آف کیلی فورنیا کے قانون کے پروفیسر لارل فلچر اور انگلستان بین الاقوامی کریمنل لا کے ماہر اسٹیون کِے، اور دسیوں یورپی ماہرین قانون نے اس پورے عدالتی عمل کو غیرتسلی بخش اور انصاف کے تقاضوں کے منافی قرار دیا ہے۔ تازہ ترین بیان میں خود اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے رپورٹر جبریل اور اقوام متحدہ ہی کے ایک اسپیشل رپورٹر چسٹاف ہینز نے اپنے شدید خدشات کا اظہار کیا ہے۔ گیبربل کا کہنا ہے:
مجھے ان سوالوں پر تشویش ہے جو ’’ججوں کی غیر جانب داری اور ٹربیونل کی سروسز اور انتظامیہ کی آزادی کے بارے میں اُٹھائے گئے ہیں۔نیز ڈیفنس کے وکلا اور گواہوں کے ماحول کے سلسلے میں سامنے آئے ہیں‘‘۔ انھوں نے مطالبہ کیا کہ ’’ٹربیونل منصفانہ مقدمہ اور ڈیوپراسس کے بنیادی تقاضوں کا احترام کرے‘‘۔
اس سلسلے میں عالمی اضطراب کا تازہ ترین اظہار برطانوی پارلیمنٹ میں نجی پارلیمنٹ کی قرارداد میں اور اس سے بھی زیادہ یورپین پارلیمنٹ میں ۲۶ممبران پارلیمنٹ کی ایک قرارداد میں صاف الفاظ میں کیا گیا ہے:
آئی سی ٹی کے عمل میں بیان کی گئی بے قاعدگیاں، مثلاً مبینہ حراساں کرنا، اور گواہوں کو زبردستی اُٹھانا، اس کے ساتھ ہی ججوں، سرکاری وکیلوں اور حکومت کے درمیان غیرقانونی تعاون کے ثبوت، بزور کہتی ہے کہ خاص طور پر قانون نافذ کرنے والی ایجنسیاں گواہوں کے مؤثر تحفظ کے لیے اقدامات بڑھائیں۔ پارلیمنٹ حکومت ِ بنگلہ دیش سے مطالبہ کرتی ہے کہ آئی سی ٹی سختی کے ساتھ قومی اور بین الاقوامی عدالتی معیارات کی پابندی کرے ۔ اس حوالے سے وہ آزاد، منصفانہ اور شفاف مقدمے پر زور ڈالتی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ انصاف کا اہتمام ہو۔ یہ پارلیمنٹ مطالبہ کرتی ہے کہ قانون کے دفاع کے لیے اپنی کوششوں کو دگنا کردے۔ یاد دلاتی ہے کہ ’’انسانی حقوق کے بارے میں بین الاقوامی وعدوں کو پورا کرے گی‘‘۔
ہم نے عالمی ردعمل کی صرف چند جھلکیاں قارئین کی نذر کی ہیں۔ جو حقائق ہم نے پیش کیے ہیں، ان سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ بنگلہ دیش میں اس وقت جو ظلم ڈھایا جا رہا ہے، وہ انسانیت کے خلاف جرائم کے زمرے میں آتا ہے اور اس کے خلاف مؤثر احتجاج نہ کرنا اس جرم میں ایک طرح کی شرکت کے مترادف ہے۔
ہم صاف الفاظ میں کہنا چاہتے ہیںکہ بنگلہ دیش جماعت اسلامی ہر الزام کا مردانہ وار مقابلہ کرنا چاہتی ہے۔ اس نے اس ٹربیونل کی ساری خامیوں، ناانصافیوں اور زیادتیوں کے باوجود قانونی لڑائی کا راستہ اختیار کیا اور وہ ہرسطح پر صاف شفاف مقدمے کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہے، اس لیے کہ اس کا دامن بے داغ ہے، لیکن اس وقت جو ظلم کیا جا رہا ہے اس کی وجہ سیاسی انتقام ہے۔ عوامی لیگ کی قیادت اسلامی اور جمہوری قوتوں کے اتحاد سے خائف ہے ، اور ان کو ان ناپاک ہتھکنڈوں سے میدان سے ہٹانا چاہتی ہے۔ وہ سیکولر لبرل قوتوں اور بھارت کے ایجنڈے پر عمل کررہی ہے۔ اس ٹرائل کے دوران میں بھارت کے وزیرخارجہ نے خاص طور پر بنگلہ دیش کا دورہ کیا اور ان مقدمات میں دل چسپی کا اظہار کیا۔سزاے موت کے فیصلے کے اعلان کے بعد بھارت کے صدر صاحب بنفسِ نفیس بنگلہ دیش تشریف لائے اور حکومت کو اشیرباد دی۔ وہ مغربی حکومتیں جو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے اِکا دکا واقعات پر آسمان سر پر اُٹھا لیتی ہیں، اس صریح ظلم پر خاموش ہیں یا صرف دبے لفظوں میں اور ’اگرمگر‘ کے ساتھ چند جملے کہہ رہی ہیں، اور سب سے زیادہ افسوس ناک رویہ پاکستان کی حکومت اور اس کے بااختیار حلقوں کا ہے جو سفارتی میدان میں بھی کوئی سرگرمی نہیں دکھا رہے۔ ہم کسی سے رحم کی اپیل نہیں کرتے۔ ہم صرف بنگلہ دیش کے مسلمانوں، خصوصیت سے جماعت اسلامی اور بی این پی کی قیادت کے اس حق کی بات کرتے ہیں کہ وہ انصاف اور صرف انصاف چاہتے ہیں اور انتخابی عمل کے ذریعے موجودہ حکمرانوں کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ بنگلہ دیش کی جماعت اور وہاں کے عوام نے احتجاج کا راستہ اس لیے اختیار کیا ہے کہ حکومت اور عدالت نے انصاف کا دروازہ بند کردیا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ فتح ان شاء اللہ حق ہی کی ہوگی اور یہ آزمایش اسلامی قوتوں کو بالآخر مزید قوت سے اُبھرنے کا موقع دے گی جس طرح دوسرے ممالک میں نظر آرہا ہے۔ مصر میں اخوان المسلمون پر کون سے مظالم ہیں جو ۶۰برس تک نہیں ڈھائے گئے مگر ظلم کی قوتیں حق کی آواز کو دبانے میں ناکام رہیں اور آوازئہ حق بلند ہوکر رہا۔ ان شاء اللہ بنگلہ دیش جماعت اسلامی تو اس امتحان میں ضرور کامیاب ہوگی لیکن سوال یہ ہے کہ ہم اہلِ پاکستان اور دوسرے وہ تمام عناصر جو انسانی حقوق اور انصاف کی بالادستی چاہتے ہیں وہ اس امتحان میں کہاں تک کامیاب ہوتے ہیں؟ یا پھر ان کا شمار تاریخ میں مجرموں کے ساتھ ہوگا؟
کتابچہ دستیاب ہے، ۱۳ روپے، سیکڑے پر خاص رعایت، منشورات، منصورہ، لاہور۔ فون: ۳۵۴۳۴۹۰۹-۰۴۲
بات بہت واضح ہے۔ تاریخ کا لمحہ لمحہ گواہ ہے کہ مسئلہ آزادی، ایمان اور عزت کی حفاظت کا ہو یا ظلم و استبداد کے نظام سے نجات اور اعلیٰ مقاصد حیات کے حصول کا___ یہ بازی صرف ایک ہی طریقے سے سر کی جاسکتی ہے اور وہ عبارت ہے مسلسل اور پیہم جدوجہد، ایثار اور قربانی سے۔ اس حیات آفریں عمل ہی کو شریعت نے جہاد کا نام دیا ہے اور اس کے مقاصد و اہداف، اصول و آداب اور قواعد و ضوابط کار کا بھی پوری وضاحت سے تعین کردیا ہے۔ یہ جدوجہد نیت اور سمت کی درستی کے ساتھ وقت، جان اور مال، غرض ہر چیز کی قربانی کا تقاضا کرتی ہے اور اگر اس جدوجہد میں نوبت جان کو جانِ آفریں کے سپرد کرنے کی آجائے تو اسے کامیابی کی معراج قرار دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس طرح جان دینے والے کی موت کو عرفِ عام کی موت سے یہ کہہ کر ممیز کردیا گیا ہے کہ یہی اصل حیات ہے:
ایک اور پہلو اس مقام کو حاصل کرنے والوں کی زندگی کا یہ بھی ہے کہ وہ دوسروں کے لیے روشن مثال قائم کرتے ہیں، انسان کو موت کے خوف سے بے نیاز کرتے ہیں، زندگی کو ان مقاصد کے لیے قربان کرنے کا داعیہ پیدا کرتے ہیں جو محض ایک فرد نہیں بلکہ پوری اُمت اور تمام انسانوں کو زندگی کے اس مفہوم سے آشنا کرتے ہیں جس سے زندگی زندہ رہنے کے لائق بنتی ہے (what makes life worth living)۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کا اظہار اس طرح کیا گیا ہے کہ ع
شہید کی جو موت ہے ، وہ قوم کی حیات ہے
آج ایک خاص طبقہ کچھ مخصوص بلکہ مذموم مقاصد کے لیے ’جہاد‘ اور ’شہادت‘ کو ناپسندیدہ الفاظ بنانے کی کوشش کر رہا ہے لیکن چاند پر تھوکنے سے چاند کی روشنی اور پُرکیف ٹھنڈک میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی۔ ہر دور میں شہادت کا ہر واقعہ ایمان کی تازگی اور حق اور صداقت کی جدوجہد کرنے والوں کے لیے مہمیز دینے کا ذریعہ رہا ہے۔ یہی وہ عمل ہے جس کے نتیجے میں بالآخر ظلم و استبداد کا ہرنظام سرنگوں ہوتا ہے اور آزادی، عزت، غلبۂ حق اور عدل و انصاف کی صبح طلوع ہوتی ہے۔ تاریخ کے در ودیوار سے یہ گونج مسلسل سنائی دیتی ہے کہ ؎
یہ خون جو ہے مظلوموں کا، ضائع تو نہ جائے گا لیکن
کتنے وہ مبارک قطرے ہیں، جو صرف بہاراں ہوتے ہیں
بھارتی غلبے اور استبداد کے خلاف جموں و کشمیر کے مسلمانوں کی جدوجہد ہمارے دور کی تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔ اس جدوجہد میں جو سعید روحیں جان کا نذرانہ پیش کرتی ہیں، وہ دراصل اُمید کا ایک چراغ روشن کرتی ہیں۔ بھارتی ظلم و استبداد کا نشانہ بننے والی ہر روح تاریکیوں کو چیلنج کرنے والے ایک چراغ کی مانند ہے۔ اس سلسلے کی تازہ ترین مثال ۹فروری ۲۰۱۳ء کو دہلی کی تہاڑ جیل میں ایک بے گناہ مجاہد محمد افضل گورو کو تختۂ دار پر چڑھانے کے ظالمانہ اقدام کی شکل میں دیکھی جاسکتی ہے جس نے بھارت کی نام نہاد جمہوریت اور اس کے عدالتی نظام کا اصل چہرہ ہی بے نقاب نہیں کیا، بلکہ عالمی قیادت کے اس مدعی ملک کی ریاستی دہشت گردی کی بدترین مثال بھی پوری دنیا کے سامنے پیش کردی ہے۔ یہ اس کے سیاسی اور اخلاقی دیوالیہ پن کا ثبوت اور اس کی کشمیر پالیسی کی ناکامی کی علامت ہے۔
اس امر میں ذرا بھی شبہہ نہیں کہ یہ اقدام ایک مکروہ سیاسی چال ہے اور تحریکِ آزادیِ کشمیر کو نہ صرف یہ کہ اس سے ان شاء اللہ کوئی نقصان نہیں ہوگا بلکہ اس کے نتیجے میں اس جدوجہد کو نئی جِلا ملے گی اور نئی قوت میسر آئے گی۔ ذرا تصور کیجیے کہ ایک مظلوم انسان جسے ایک سازش کے تحت دہشت گردی کے ایک واقعے میں ملوث کیا گیا، اسے تین بار عمرقید اور دو بار پھانسی کی سزا دی گئی، جس کی (افسوس ہے کہ ) ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے کھلے بندوں، قانون اور عدل کی بنیاد پر نہیں، علانیہ طور پر سیاسی وجوہ سے توثیق بھی فرما دی۔ وہ ۱۳سال سے قید تنہائی میں تھا اور سات سال سے پھانسی کے تختے کا انتظارکررہا تھا۔ اسے اور اس کی اہلیہ کو قانون کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے اطلاع دیے بغیر اور آخری وقت میں بیوی اور بچے سے بھی ملنے سے محروم رکھ کر تختۂ دار پر چڑھا دیا جاتا ہے۔ جموں و کشمیر میں کرفیو لگا دیا جاتا ہے اور اخبارات، میڈیا، اور سیل فون تک کو خاموش کردیا جاتا ہے، اس کے باوجود مظلوم مجاہد کی جبیں پر کوئی شکن نہیں آتی۔ وہ فجر کی نماز پڑھ کر پورے اعتماد کے ساتھ تختۂ دار کی طرف شانِ استغنا کے ساتھ بڑھ جاتا ہے۔ اپنے خاندان اور تمام مسلمانوں کو پیغام دیتا ہے کہ ’’اللہ پاک کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے مجھے اس مقام کے لیے چنا۔ باقی میری طرف سے آپ اہلِ ایمان کو مبارک ہو کہ ہم سب سچائی اور حق کے ساتھ رہے اور حق و سچائی کی خاطر آخرت میں ہمارا اختتام ہو۔ اہلِ خانہ کو میری طرف سے گزارش ہے کہ میرے مرنے پر افسوس کے بجاے اس مقام کا احترام کریں۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کا حامی و ناصر ہو، اللہ حافظ!‘‘۔
یہ الفاظ کسی مجرم یا باطل سے دب جانے والے انسان کے نہیں ہوسکتے۔ یہ خطاب صرف اہلِ خانہ سے نہیں، تمام اہلِ ایمان سے ہے جو دلوں میں نیا ولولہ پیدا کریں گے اور اس جدوجہد کو نئی زندگی دیں گے۔ اس کا ایک ہلکا سا نظارہ ان واقعات میں بھی دیکھا جاسکتا ہے جو اس شہادت کے بعد رُونما ہوئے۔ ایک طرف خائف سوپر پاور ہے اور دوسری طرف بے سروسامان عوام___ لیکن وہ ہررکاوٹ کے باوجود احتجاج کر رہے ہیں۔ کرفیو ان کا راستہ نہیں روک سکتا اور گولی اور لاٹھی کی بوچھاڑ انھیں گھروں میں قید نہیں رکھ سکتی۔ بوڑھا سید علی شاہ گیلانی زیرحراست ہے لیکن اس کی آواز پر کشمیر کے مظلوم شہری ظالموں کے خلاف کمربستہ ہیں۔ دہلی تک میں مظاہرے ہوتے ہیں جن کی قیادت دہلی کالج کا وہی پروفیسر ڈاکٹر عبدالرحمن گیلانی کر رہا ہے جس پر اس مقدمے میں شریکِ جرم ہونے کا الزام تھا، اسے بھی افضل گورو کے ساتھ سزاے موت ملی تھی جو بعد میں سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دے دی اور اسے بے گناہ قرار دیا۔ وہ نہ صر ف ا س احتجاج کی قیادت کر رہا ہے بلکہ برملا شہادت دے رہا ہے کہ محمد افضل گورو بے گناہ تھا اور اسے صرف اس لیے پھانسی کے تختے پر چڑھایا گیا ہے کہ وہ تحریکِ آزادیِ کشمیر کا ایک مجاہد تھا اور اسے اس کے سیاسی خیالات کی وجہ سے موت کے گھاٹ اُتارا گیا ہے۔ مظاہرے میں شریک ہر نوجوان یہ عہد کر رہا ہے کہ تحریکِ آزادیِ کشمیر کو جاری رکھے گا۔ بلاشبہہ افضل گورو کی شہادت سے اس تحریک کو ان شاء اللہ نیا ولولہ ملے گا۔
جہاں تک کشمیر کا تعلق ہے، ۹فروری کی شہادت کی خبر سارے کرفیو اور تمام پابندیوں کے باوجود جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی ۔ کرفیو کے علی الرغم عوامی احتجاج ہرسُو رُونما ہوا اور قربانیوں اور شہادتوں کی نئی تاریخ رقم ہونے لگی۔ ہڑتالوں کا سلسلہ ان سطور کے لکھنے تک جاری ہے اور کشمیر ہی نہیں، دنیا بھر میں کشمیری نوجوان، وہ بھی جو پہلے اس جدوجہد میں شریک نہیں تھے، اب نئے جذبے کے ساتھ مزاحمت کی تحریک میں شرکت کے لیے بے تاب ہیں۔ نیویارک ٹائمز کی نامہ نگار برمنگھم یونی ورسٹی کی ایم فل کی ایک طالبہ عارفہ غنی کے اس عزم کا اظہار کچھ ان الفاظ میں کرتی ہے:
جب مقبول بٹ کو پھانسی دی گئی تو میں پیدا نہیں ہوئی تھی۔ جب میں نے اس کے بارے میں کچھ پڑھا تو پھر وہ ہمارا ہیرو ہوگیا۔ گورو کی پھانسی کے بعد میں جس طرح محسوس کررہی ہوں اس طرح کبھی بھی محسوس نہیں کیا۔ مگر ہم اپنے بڑوں کی طرح ہتھیار نہیں اُٹھائیں گے۔ ہم زیادہ ذہانت سے ردعمل دیں گے۔
(نیویارک ٹائمز کے نمایندے کی رپورٹ جو دی نیشن کی ۱۸فروری ۲۰۱۳ء کی اشاعت میں شائع کی گئی ہے)۔
یہ کیسی جمہوریت ہے اور یہ کیسی اُبھرتی ہوئی عالمی طاقت ہے جو مجاہدین کی لاشوں سے بھی خائف ہے اور جس نے نہ مقبول بٹ شہید کی لاش اس کے لواحقین کو دی اور نہ اب افضل گورو کی لاش دینے کے لیے تیار ہے؟ لندن کے اخبار دی گارڈین کے کالم نگار نے کس طنز سے لکھا ہے کہ:
یہ بات ضرور پوچھی جانی چاہیے کہ بھارتی ریاست کیا کہنے کی کوشش کر رہی تھی؟ یقینا اس کی وضاحت سادگی سے اس طرح نہیں کی جاسکتی تھی جیساکہ بعض تجزیہ نگاروں نے کی ہے کہ یہ محض انتخابی سیاست کی مجبوریوں کا ایک مکروہ اظہار ہے۔ بلاشبہہ یہ وہ عمل ہے جس میں بھارت کی سیاسی پارٹیاں اپنے حریفوں سے آگے بڑھنے کے لیے نئی اخلاقی پستیوں میں ڈوبنے کے لیے بے چین ہیں لیکن یہ اقدام دراصل کشمیری عوام کے لیے ایک پیغام ہے کہ ایک قابض طاقت بے اختیار عوام کو پوری گھن گرج کے ساتھ کہہ رہی ہے کہ تمھیں لازماً تعظیماً جھکنا پڑے گا۔ اس مقدمے کے اثرات پھانسی کے تختے سے بہت آگے بھی جاسکتے ہیں۔ اس کا تاریک سایہ ان کے بچوں کے لیے دودھ اور بزرگوں کے لیے دوائوں تک بھی پہنچ سکتا ہے۔دو لمحات تاریخ کا حصہ بنتے نظر آرہے ہیں۔ کشمیری، بھارت کی مزاحمت کی یاد میں گہری قبر کھود کر مقبرہ تعمیر کر رہے ہیں، اور بھارت بزدلانہ اعتراف کر رہا ہے کہ ایک کشمیری لاش بھی باغی ہوسکتی ہے، لہٰذا اسے جیل ہی میں ہمیشہ کے لیے مقید رہنا چاہیے۔
بھارتی قیادت کے عزائم اور اہلِ کشمیر کے لیے اس کا پیغام تو بہت واضح ہے۔ شہیدوں کی لاشوں تک سے ان کا خوف بھی الم نشرح ہے لیکن دی گارڈین کے مضمون نگار کا یہ خیال کہ جو قبریں سری نگر کے شہدا کے تاریخی قبرستان میں ان دو شہدا کے لیے بنائی گئی ہیں، وہ اپنے مکینوں کا انتظار کر رہی ہیں اور بس یادوں اور مزاحمتوں کا مقبرہ ہوں گی، شدید غلط فہمی پر مبنی ہیں۔ یہ قبریں تحریکِ مزاحمت کی علامت اور آزادی کی ناتمام جدوجہد کا عنوان ہیں۔ یہ آزادی کے کارواں اور اس راہ میں مزید قربانیوں کے لیے ایک تکبیرمسلسل کی حیثیت رکھتی ہیں اور اس آرزو اور عزم کا اظہار بھی ہیں کہ ایک دن ان شاء اللہ جموں و کشمیر کے مسلمان بھارت کے قبضے اور استبدادی نظام سے نجات پائیں گے، اپنی آزاد مرضی سے اپنا مستقبل طے کریں گے اور پھر شہدا کی وہ لاشیں، جن سے آج وہ محروم کر دیے گئے ہیں، وہ انھیں حاصل کرسکیں گے اور وہ وقت دُور نہیں جب یہ خالی قبریں اپنے اصل مکینوں کو خوش آمدید کہہ سکیں گی۔
بلاشبہہ محمد افضل گورو کی شہادت کا واقعہ اس جدوجہد میں ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے لیکن اس پہلو کے ساتھ یہ واقعہ کئی اور حیثیتوں سے بھی بڑے غوروفکر کا مواد فراہم کر رہا ہے۔ ہم ان میں سے چند پہلوئوں پر گفتگو کرنا چاہتے ہیں تاکہ حالات کو ان کے صحیح تناظر میں دیکھا جاسکے اور ان کا مقابلہ کرنے کے لیے صحیح پالیسیاں اور مناسب حکمت عملیاں تیار کی جاسکیں۔
بھارت نے پہلے دن سے کشمیر کو صرف قوت کے ذریعے اور بدترین سامراجی حربوں کے بے محابا استعمال کے بل بوتے پر اپنی گرفت میں رکھا ہوا ہے اور وہ ظلم و استبداد کے مکروہ سے مکروہ تر اقدام کا ارتکاب کررہا ہے۔ ۱۹۴۷ء سے ۱۹۵۱ء کی جنگ بندی تک اپنے قدم جمانے اور جنگِ آزادی کو کچلنے کے لیے بھارتی اور ڈوگرہ افواج نے چار لاکھ افراد کا خون بہایا اور ۱۹۸۹ء سے رُونما ہونے والے تحریکِ آزادی کے دوسرے دور میں اب تک ایک لاکھ سے زیادہ افراد کو شہید کیا جاچکا ہے۔ لاکھوں زخمی ہوئے ہیں، ہزاروں لاپتا ہیں، ہزاروں جیلوں میں سڑرہے ہیں اور خاص و عام آبادی کے انسانی حقوق کو پوری بے دردی کے ساتھ پامال کیا جا رہا ہے۔ پاک باز خواتین کی آبروریزی بڑے پیمانے پر کی جارہی ہے اور جنسی زیادتی کو ایک جنگی حربے (military strategy) کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ جموں و کشمیر میں ۷لاکھ سے زیادہ بھارتی فوجی ظلم کی یہ داستان رقم کررہے ہیں اور ان کو ایک مہذب معاشرے کے ہر قانون سے، حتیٰ کہ جنگی قانون تک سے مستثنیٰ کردیا گیا ہے۔ Armed Forces Special Powers Act ایک ایسا جنگل کا قانون ہے جس نے بھارتی فوج اور سیکورٹی ایجنسیوں کو دستور، قانون، جنگی قواعد و ضوابط اور سماجی روایات، ہرضابطے اور قاعدے سے آزاد کردیا ہے۔
جموں و کشمیر میں جو خونی کھیل کھیلا جارہا ہے اسے تمام دنیا کے میڈیا اور عالمی مبصرین کے لیے ’نوگو ایریا‘ بنادیا گیا ہے تاکہ دنیا اس سے بے خبر رہے جو کچھ مجبوروں کی اس بستی میں کیا جا رہا ہے۔ اس پس منظر میں محمدافضل گورو کی گرفتاری کا مقدمہ، اس کی قیدتنہائی، اس پر تعذیب کی دل خراش داستان، اس کی سزا، اس کی رحم کی درخواستوں پر کیا جانے والا معاملہ، اس کی پھانسی، پھانسی کی اطلاع سے خود اس کو اور اس کے اہلِ خانہ تک کو بے خبر رکھنا، اس کی میت سے بھی اس کے خاندان کو محروم رکھنا، اس کی پھانسی کی خبر تک کا گلا گھونٹنے کی کوشش___ یہ سب کشمیر کی حقیقی صورت حال کا ایک آئینہ ہے جس میں بھارت کے سیاسی اور عدالتی نظام کا اصل چہرہ بھی دیکھا جاسکتا ہے اور جسے اب دنیا سے چھپانے کی کوئی تدبیر کامیاب نہیں ہوسکتی۔ بھارت کے جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کے تمام دعووں کی قلعی صرف اس ایک واقعے کے ذریعے کھل جاتی ہے۔ کس طرح ہرسطح پر اور ہرہرقدم پر دستور، قانون، سیاسی آداب اور مسلّمہ اخلاقی اصول و ضوابط کو پامال کیا جاتا ہے اور کس ڈھٹائی سے انصاف کا خون کرکے ریاستی دہشت گردی کی بدترین مثال قائم کی گئی ہے۔ اس کیس کے حقائق کو ان کی اصل ترتیب میں دیکھنے سے بھارت کی سیاست اور عدل و انصاف کی زبوں حالی کی مکمل تصویر سامنے آجاتی ہے۔
یہ ستم ظریفی بھی قابلِ غور ہے کہ جس اصل نام نہاد ماسٹر مائنڈ، یعنی پروفیسر عبدالرحمن گیلانی کو محمد افضل تک رسائی کا ذریعہ ظاہر کیا گیا تھا، وہ تو اعلیٰ عدالت کے حکم سے بے گناہ ثابت ہوئے اور جو ان کے لیے بھی ایک بالواسطہ ذریعہ قرار دیا گیا تھا وہ اصل مجرم بن گیا اور سولی پر چڑھا دیا گیا۔
۱- اس کیس میں محمد افضل گورو کے ملوث ہونے کا کوئی واقعاتی یا شہادت پر مبنی ثبوت موجود نہیں۔
۲- کسی دہشت گرد تنظیم سے کسی سطح پر بھی محمد افضل گورو کا کوئی باقاعدہ تعلق ثابت نہیں۔
۳- جو بالواسطہ موادپولیس/تفتیشی عملے نے دیا ہے اس میں شفافیت نہیں بلکہ وہ تہ در تہ تضادات سے بھرا پڑا ہے، مثلاً پروفیسر عبدالرحمن گیلانی کے بارے میں کہا گیا کہ ان کے ذریعے محمدافضل گورو کا نام ملا، مگر محمد افضل گورو کو عبدالرحمن گیلانی کی گرفتاری سے پہلے ہی سری نگر میں گرفتار کرلیا گیا تھا۔ جس لیپ ٹاپ کا ذکر ہے وہ محفوظ (protected) نہیں تھا اور ایسی شہادت جو محفوظ نہ ہو قابلِ قبول نہیں ہوتی۔ نیز جو معلومات اس پر تھیں وہ خود یہ ظاہر کرتی تھیں کہ کمپیوٹر سے بہت سی معلومات نکال دی گئی ہیں اور جو معلومات باقی ہیں، ان میں ہیرپھیر کردیا گیا ہے۔ سیل فون کے بارے میں سم کے حاصل کرنے کی جو تاریخ دی گئی ہے، وہ بے معنی ہے اس لیے کہ وہ سم اس تاریخ سے کم از کم تین ہفتے پہلے سے کسی کے زیراستعمال تھی اور بدیہی طور پر محمد افضل گورو نہیں تھا۔ یہ صرف چند مثالیں ہیں، ورنہ کیس میں کسی سطح پر بھی کوئی جان نہیں تھی۔
ان تمام حقائق کو تسلیم کرنے کے بعد عدالت عالیہ نے جس بنیاد پر موت کی سزا کی توثیق کی ہے وہ عدل کی تاریخ میں ایک عجوبہ اور بھارت کے عدالتی نظام کے چہرے پر کلنک کا ٹیکا ہے۔ سپریم کورٹ ہی کے الفاظ میں عدل کے قتل اور قانونی دہشت گردی پر مبنی اس فیصلے کو ملاحظہ فرمائیں:
افضل گورو ان دہشت گردوں میں سے نہیں تھا جنھوں نے ۱۳دسمبر۲۰۰۱ء کو پارلیمنٹ ہائوس پر حملہ کیا۔ وہ ان لوگوں میں سے بھی نہ تھا جنھوں نے سیکورٹی اہل کاروں پر گولی چلائی اور چھے میں سے تین کو گولی مار کر ہلاک کردیا۔جیساکہ بیش تر سازشوں کے ساتھ ہوتا ہے، یہاں بھی کوئی ایسی براہِ راست شہادت نہ ملی ہے اور نہ مل سکتی ہے جسے مجرمانہ سازش قرار دیا جاسکے۔اس واقعے نے جس میں ایک تعداد میں لوگ ہلاک ہوئے پوری قوم کو ہلا دیا ہے اور معاشرے کا اجتماعی ضمیر اسی صورت میں مطمئن ہوسکتا ہے کہ مجرم کو سزاے موت دی جائے۔
یعنی ایک شخص کو صرف اس لیے سولی پر چڑھا دو تاکہ اس سے جس شے کو سوسائٹی کا ’اجتماعی ضمیر ‘کہا جا رہا ہے اس کی تسکین ہوسکے۔ عدل و انصاف کے قتل کی اس سے زیادہ قبیح اور اندوہناک صورت کیا ہوسکتی ہے؟
پھر یہی نہیں، قانونی اور دستوری نقطۂ نظر سے دستور اور قانون کے مسلّمہ اصولوں اور خود بھارت کی عدالت ِ عالیہ کے ایک درجن سے زیادہ فیصلوں کی بھی اس مقدمے اور سزا میں کھلی خلاف ورزی کی گئی ہے۔
۹فروری کو افضل گورو کی پھانسی بھارتی حکومت کا ایک غیرانسانی فعل تھا۔ افضل گورو کو ۴؍اگست ۲۰۰۵ء کو سپریم کورٹ کی طرف سے سزاے موت کے فیصلے کے سات سال بعد اور صدرِ بھارت کو ۸نومبر ۲۰۰۶ء کو دی گئی رحم کی اپیل کے چھے سے زیادہ سال بعد پھانسی دی گئی۔ اس عرصے میں اُس نے اور اس کے اہلِ خانہ نے اس کی قسمت کے بارے میں ہردن تکلیف و پریشانی میں گزارا۔ یہ ایک ایسی صورت حال ہے جس کی تمام مہذب ممالک اور ہماری سپریم کورٹ بھی مذمت کرتی ہے۔ صدرِ بھارت کی طرف سے اس کی رحم کی درخواست کو چھے سال کے بعد ۳فروری ۲۰۱۳ء کو مسترد کیا گیا ہے جسے ارادتاً خفیہ رکھا گیا اور اس کے اہلِ خانہ کو بھی اطلاع نہیں دی گئی کہ کہیں یہ عدالتی درخواست کی بنیاد نہ بن جائے۔ ۹فروری ۲۰۱۳ء کو اس کے اہلِ خانہ کو بتائے بغیر خفیہ طور پر اسے پھانسی دی گئی اور اتنی ہی خفیہ طور پر تہاڑجیل نئی دہلی میں ایک قبر میں اسے دفن کردیا گیا۔
۱۹۸۳ء میں شیرسنگھ بمقابلہ ریاست پنجاب کے مقدمے میں عدالت نے انھی باتوں کو دہرایا جو ایک اور مقدمہ تری وینی بن بمقابلہ ریاست گجرات میں وسیع تر دستوری بنچ نے طے کرنا چاہا، اور سپریم کورٹ نے دوبارہ انھیں دہرایا کہ پھانسی دینے میں تاخیر غیرمنصفانہ اور غیرمعقول ہوگی۔ عدالت نے یہ فیصلہ دیا کہ رحم کی اپیلوں کے فیصلوں میں پوری دنیا میں یہ بات تسلیم کی جاتی ہے کہ متعلقہ شخص ایک ذہنی ٹارچر میں مبتلا رہتا ہے بلالحاظ اس کے کہ اس کے ساتھ کوئی جسمانی بدسلوکی نہیں کی جاتی۔ اس لیے رحم کی اپیل کے استرداد کی اطلاع دینا لازمی تھا۔ جگدیش بمقابلہ ریاست مدھیہ پردیش مقدمہ ۲۰۱۲ء سپریم کورٹ نے نہ صرف ملزم کی اس اذیت کو نمایاں کیا جو اسے سزا ملنے میں تاخیر سے ہوتی ہے بلکہ اس تکلیف اور اذیت کو بھی جو اس کے قریبی رشتے داروں کو ہوتی ہے۔ ۱۹۹۴ء میں پرائیوی کونسل نے بھارتی سپریم کورٹ کی راے کو درست قراردیا اور اپنے فیصلے کے ایک پُرتاثیر حصے میں لکھا کہ پھانسی پانے کے احکامات کے خلاف ایک جبلی کراہت ہوتی ہے۔ یہ جبلی کراہت کس وجہ سے ہوتی ہے؟ جواب یہ ہے کہ ہم اس کو غیرانسانی فعل قرار دیتے ہیں کہ ایک آدمی کو پھانسی کی اذیت میں طویل عرصے تک رکھا جائے۔ کئی برس تک اپنی تحویل میں رکھنے کے بعد ان لوگوں کو پھانسی دینا ایک غیرانسانی سزا ہوگی۔ یورپی یونین کی انسانی حقوق کی عدالت نے ۱۹۸۹ء میں اور کینیڈا کی سپریم کورٹ نے بھی یہی موقف اختیار کیا۔ افضل گورو کو پھانسی دینے میں حکومت نے جان بوجھ کر سپریم کورٹ کے موقف کو نظرانداز کیا اور دوسری عدالتوں کے موقف کو بھی۔
ایک زیرالتوا مقدمہ خود افضل گورو کا تھا۔ عدالت نے مجھے اپنا مشیر مقرر کیا تاکہ غیرمعمولی تاخیر کے بعد سزا دینے کے مسئلے کو صحیح پس منظر میں دیکھا جائے۔ عدالت کے سامنے مَیں نے اپنے دلائل دیتے ہوئے خاص طور پر افضل گورو مقدمے کے حقائق کا حوالہ دیا۔ سماعت ۱۹؍اپریل ۲۰۱۲ء کو ختم ہوگئی۔ عدالت نے فیصلہ محفوظ رکھا (جس کا ابھی تک اعلان نہیں ہوا ہے)۔ حکومت اس بات سے پوری طرح آگاہ تھی کہ مجرموں کی پھانسی کی سزا میں طویل تاخیر کا مسئلہ قانونی طور پر سپریم کورٹ میں زیرسماعت ہے۔ حکومت کے لیے لازم تھا کہ زیرالتوا فیصلوں پر سپریم کورٹ کے مستند فیصلے کا انتظار کرتی۔ لیکن حکومت نے ۹؍فروری کو افضل گورو کو پھانسی کی سزا دے دی۔ افضل گورو کی پھانسی بھارتی حکومت کے سزاے موت کے کیے ہوئے فیصلوں میں سب سے زیادہ بے رحمانہ فیصلہ سمجھا جائے گا۔
اس مضمون میں اُٹھائے گئے سوالات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ایک طرف عدالت عالیہ کا موت کا فیصلہ ہی کسی قانونی جواز کے بغیر تھا۔ یہ فیصلہ محض سیاسی وجوہ سے سوسائٹی کے اجتماعی ضمیر کا سہارا لے کر دیا گیا تھا لیکن اس کے علاوہ بھی کم از کم مندرجہ ذیل شکلوں میں دستور اور قانون کی دھجیاں بکھیردی گئیں:
۱- چھے سال تک رحم کی اپیل کو لٹکانا انسانی حقوق اور انصاف کے تقاضوں سے متصادم تھا اور ایسی صورت میں موت کی سزا کا ساقط کیا جانا قانون اور انصاف سے اقرب ہے جس پر بھارتی سپریم کورٹ تک کی متعدد آبزرویشن موجود ہیں۔
۲- رحم کی اپیل کے فیصلے میں تاخیر کے خلافِ انصاف ہونے کا مسئلہ بھارتی سپریم کورٹ میں زیرسماعت تھا۔ مقدمے کی سماعت مکمل ہوگئی تھی اور اس مقدمے میں افضل گورو کا کیس بھی شامل تھا۔ مقدمے کا فیصلہ ابھی آنا تھا جس میں اس کا امکان بھی تھا کہ کیس کے تمام متعلقہ افراد کی موت کی سزا کو ختم کیا جاسکتا تھا۔ فیصلہ آنے سے پہلے افضل گورو کو پھانسی دینا غیرقانونی فعل تھا اور اس طرح کا ایک اقدام قتل بن جاتا ہے۔
۳-اگر رحم کی اپیل رد کردی گئی تھی جب بھی یہ سزا پانے والے کا حق تھا کہ اسے اپیل کے رد کیے جانے کی اطلاع بروقت دی جاتی۔ اس لیے کہ سپریم کورٹ کے باربار کے فیصلے موجود ہیں کہ دستور کی دفعہ ۷۲ کے تحت موت کی سزا کے بارے میں رحم کی اپیل رد کرنے کے صدارتی فیصلے پر عدالتی محاکمہ (Judicial Review) ممکن ہے اور اس طرح رحم کی اپیل رد ہونے کے بعد بھی افضل گورو کی اہلیہ کو یہ حق تھا کہ عدالت سے ایک بار پھر رجوع کرے اور اپیل کے روکے جانے کے مبنی برحق و قانون ہونے کے بارے میں عدالت کی راے حاصل کرے، لیکن اپیل رد کیے جانے کے بعد افضل گورو اور اس کے اہلِ خانہ کو بروقت اطلاع تک نہ دی گئی اور انھیں اپنے اس حق سے محروم کر دیا گیا کہ وہ عدالتی اپیل کرسکیں۔ یہ ملک کے دستور اور قانون کی صریح خلاف ورزی تھی۔
اس طرح افضل گورو کو پھانسی کی شکل ہی میں ایک بار نہیں، چار بار عدل و انصاف کا خون ہوا اور بھارت کے جمہوری نظام ہی نہیں، پورے عدالتی نظام کے کھوکھلے ہونے اور سیاسی مصلحتوں کا اسیر ہونے کا تماشا تمام دنیا نے دیکھ لیا۔ نیز یہ بھی ثابت ہوگیا کہ اس ملک میں انصاف خاص لوگوں کے لیے (selective) اور امتیازی (discriminatory) ہے اور انصاف اور قانون کو سیاست اور مصلحت کے تابع کردیا گیا ہے۔ کیا ایسے نظام کو دستوری اور جمہوری نظام کہا جاسکتا ہے؟ دیکھیے بھارت اور عالمی سطح پر انصاف کے اس اسقاط (miscarriage of justice) کا کیسے اعتراف کیا جارہا ہے۔
بھارت کی مشہور ادیبہ اور سماجی کارکن ارون دھتی راے اپنے دو مضامین میں جو لندن کے اخبار دی گارڈین میں شائع ہوئے ہیں، افضل گورو کی پھانسی کے آئینے میں بھارت کا اصل چہرہ کس طرح پیش کرتی ہے۔ پہلا مضمون ۱۰فروری کو شائع ہوا ہے اور دوسرا ۱۸فروری کو۔ اپنے پہلے مضمون میں وہ لکھتی ہیں:
۲۰۰۱ء کے پارلیمنٹ کے حملے کے ملزم افضل گورو کو صبح خفیہ طور پر پھانسی دی گئی اور اس کے جسم کو تہاڑجیل میں دفن کر دیاگیا۔ کیا اسے مقبول بٹ کے ساتھ ہی دفن کیا گیا؟ (وہ دوسرا کشمیری جس کو تہاڑجیل میں ۱۹۸۴ء میں پھانسی دی گئی)۔ افضل گورو کی اہلیہ اور بیٹے کو اطلاع نہ دی گئی(کیا ستم ظریفی ہے کہ اس الم ناک واقعے نے پوری سیاسی قیادت کو متحد کردیا ہے)۔ اتحاد کے ایک شاذ لمحے میں قوم اور کم از کم اس کی بڑی سیاسی جماعتیں کانگریس، بی جے پی اور سی پی ایم، سواے ان چند کمزور آوازوں کے جو اس پھانسی میں تاخیر کے خلاف اُٹھیں، قانون کی بالادستی کا جشن منانے کے لیے متحد ہوگئیں۔ رہا معاملہ قوم کے ضمیر کا___ وہ تو وہی ہے جو ٹی وی سے براہِ راست ہرپروگرام میں نشر ہوتا ہے اور جس کی اجتماعی ذہانت نے سیاسیات کے جذبوں پر اپنی گرفت قائم کی ہوئی ہے اور حقائق تک کی صورت گری کرتی ہے۔ ان دنوں سیاسیات کے جذبے اور حقائق پر گرفت اور اپنی اجتماعی ذہانت کو چھوڑ دیا۔ حیف کہ ایک آدمی جو مرچکا تھا اور جابھی چکا تھا لیکن پھر بھی اس پر طاری تھا۔ یہی وجہ ہے کہ بزدلوں کی طرح انھیں اپنے حوصلے کو قائم رکھنے کے لیے ایک دوسرے کی مدد کی ضرورت تھی۔ کیا یہ سب اس کا غماز نہیں کہ وہ بخوبی اپنے دل میں اس بات کو جانتے تھے کہ وہ لوگ ایک انتہائی غلط کام میں تعاون کر رہے تھے۔
وہ سینیرصحافی جو بہتر طور پر جانتے ہوں گے کہ ان کے بتائے ہوئے جھوٹے بیانات کے برعکس افضل گورو ان دہشت گردوں میں شامل نہیں تھا جنھوں نے ۱۳دسمبر ۲۰۰۱ء کو پارلیمنٹ پر حملہ کیا تھا اور جنھوں نے سیکورٹی اہل کاروں پر گولی چلائی تھی جس میں چھے ہلاک ہونے والوں میں سے تین کو اس نے گولی ماری (یہ بات بی جے پی کے راجیہ سبھا کے ایم پی چندن مترا نے ۷؍اکتوبر ۲۰۰۶ء کے دی پانیر میں کہی)۔حتیٰ کہ پولیس کی چارج شیٹ بھی اس پر یہ الزام نہیں لگاتی۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ شہادتیں صرف قرائن پر ہیں۔ اس طرح کی سازشوں میں عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ مجرمانہ سازش کے لیے کوئی براہِ راست ثبوت فراہم نہیں ہوتا۔ آگے چل کر کہا گیا ہے کہ اس واقعے نے جس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں اموات ہوئیں، پوری قوم کو ہلاکر رکھ دیا اور معاشرے کا اجتماعی ضمیر اسی صورت میں مطمئن ہوگا، جب کہ مجرم کو سزاے موت دی جائے۔ پارلیمنٹ پر حملے کے مقدمے میں کس نے اجتماعی ضمیر کو بنایا؟ کیا یہ صرف اخبارات کی خبریں ہیں؟کیا یہ ہوسکتا ہے کہ ہم نے یہ حقائق اخبارات سے اخذ کیے یا ان فلموں سے جو ہم ٹی وی پر دیکھتے تھے؟
پھر اس کا ایک پس منظر ہے۔ دوسرے بہت سے ہتھیار ڈالنے والے جنگ جوئوں کی طرح افضل گورو کے ساتھ کشمیر میں تعذیب، بلیک میل یا استحصال کرنا آسان تھا۔ وسیع تر اسکیم میں وہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا تھا۔ اگر کوئی پارلیمنٹ کے حملے کے راز کو واقعی حل کرانے میں دل چسپی رکھتا تھا تو اس کے لیے شہادتوں کی بڑی تعداد ایک سراغ کی طرح تھی جس کی پیروی کی ضرورت تھی، یہ کسی نے نہ کیا۔ اس طرح یہ یقینی ہوگیا کہ سازش کے اصل کردار شناخت نہ کیے جاسکیں گے اور ان کے خلاف تفتیش بھی نہیں ہوگی۔ اب، جب کہ افضل گورو کو پھانسی دی جاچکی ہے، مجھے اُمید ہے کہ ہمارا ’اجتماعی ضمیر‘ مطمئن ہوچکا ہے یا ہمارے اجتماعی ضمیر کا پیالہ ابھی تک خون سے صرف آدھا ہی بھرا ہے؟
بھارت کے روزنامہ دی ہندو نے افضل گورو کی پھانسی کو ’انصاف نہیں انتقام‘ قرار دیا ہے۔ ادارتی کالم میں ۱۰فروری ۲۰۱۳ء کے شمارے میں کہا گیا ہے کہ:
آٹھ سال گزرنے کے بعد سپریم کورٹ نے محمد افضل گورو کو ۲۰۰۱ء کے پارلیمنٹ کے حملے کے کردار کی بنیاد پر پارلیمنٹ ہائوس حیرت ناک طور پر یہ کہتے ہوئے کہ: معاشرے کے اجتماعی ضمیر کو صرف اسی صورت میں مطمئن کیا جاسکتا ہے کہ ملزموں کو سزاے موت دی جائے، پھانسی کی سزا دی۔ گورو کو اس ہولناک رسم کی ادایگی کے لیے ہفتے کی صبح پھانسی کے تختے تک لے جایا گیا جو حکومتیں وقتاً فوقتاً روایتی دیوتائوں کے غیض و غضب کی تسکین کے لیے ادا کرتی ہیں اور آج یہ دیوتا انتقام کے طالب عوام بن گئے ہیں۔ اس وحشت ناک اور خفیہ حرکت کے نتیجے میں بھارت کا قد دُنیا میں بہت زیادہ چھوٹا کردیا گیا ہے۔ اس سزا کی وجوہات صرف وہ نہیں جو بظاہر نظر آتی ہیں بشمول اس کے کہ گورو پارلیمنٹ پر حملے میں ایک بالکل معمولی سا کردار تھا جس کا مقدمہ ضابطے کی خلاف ورزیوں اور جوہری اہمیت کی حامل غلطیوں کی وجہ سے خراب ہوگیا ہو۔ سزاے موت کے لیے دیے جانے والے دلائل کا ملک کی اعلیٰ ترین عدلیہ نے جائزہ لیا اور ان کو معیار سے کم تر پایا۔ لیکن ایک دلیل جس کا کھل کر جائزہ نہیں لیا گیا(اور جو فیصلہ کن دلیل بنی) وہ وہی تھی جس کی بنا پر گورو اور دیگر بھارتی شہریوں کو تختۂ دار پر لے جایا جاتا ہے اور وہ ہے مصلحت۔ گویا پھانسی کی سزا کو ترجیح دیے جانے کے سوال کے جواب کا تعلق بڑی حد تک مصلحت سے ہے، اور انصاف سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔
بھارت کا سب سے سنجیدہ رسالہ اکانومک اینڈ پولیٹیکل ویکلیہے، جو اپنے ۲۳فروری ۲۰۱۳ء کے شمارے میں ادارتی کالم میں افضل گورو کی پھانسی کو انصاف کا خون اور بھارتی حکومت کے دامن پر بدنما دھبا قرار دیتا ہے۔ پھانسی کے فیصلے، پھانسی دیے جانے کے ڈرامے اور پھانسی کے بعد جس طرح حالات کو سیاسی مصلحتوں کا کھیل بنایا گیا، اس پر مؤثر احتساب کرتا ہے:
۹فروری کی صبح افضل گورو کی پھانسی موجودہ حکومت کے خراب ٹریک ریکارڈ پر شاید تاریک ترین دھبا ہے۔ افضل گورو کا قتل غیرقانونی اور ملکی قوانین کی رُو سے رُسوا کن تھا۔ افضل گورو کی ہلاکت غیرقانونی ہے اور اس جمہوری حکومت کے قوانین کے لیے بھی رُسوا کن ہے۔ صدر سے رحم کی اپیل کے مسترد ہونے کو خفیہ رکھا گیا، اس کے خاندان اور وکلا کو آگاہ نہ کیا گیا اور ایک مجرم کی حیثیت سے اسے جو حقوق حاصل تھے انھیں استعمال کرنے کی اجازت نہ دی گئی، رحم کی اپیل مسترد ہونے پر اپیل کا حق نہ دیا گیا، اپنے اہلِ خانہ سے ملنے نہ دیا گیا اور آخری خواہش کے اظہار کا موقع بھی نہ دیا گیا۔ حکومت نے حیران کن مکارانہ اقدام کے تحت اس کی پھانسی کی اطلاع سپیڈ پوسٹ کے ذریعے اس طرح سے دی کہ وہ اس کے خاندان کو پھانسی کے بعد اس وقت ملے جب وہ ٹیلی ویژن پر اس کی خبر سن چکے ہوں۔ یہ محض ہیومن رائٹس کے علَم بردار ہی نہیں بلکہ گوپال سبرامینم، سرکاری وکیل جس نے گورو کے خلاف مقدمہ لڑا، کا کہنا ہے کہ انسانی حقوق اور قانون کی بالادستی کے حوالے سے یہ حکومت کی ’بہت بڑی فروگزاشت‘ ہے۔
گورو کی پھانسی کے مسئلے کو اگرایک طرف رکھ بھی دیا جائے تب بھی کیسے نظرانداز کیا جاسکتا ہے کہ حکومت نے وادیِ کشمیر کی پوری آبادی کو اجتماعی سزا کا نشانہ بنایا اور اس کی پھانسی کے نتیجے میں لگنے والے کرفیو کی وجہ سے عوام ضروری اشیا، دوائوں اور خبروں سے بھی محروم ہوگئے جو شہریوں کے ان حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے جن کی ضمانت دستور نے شہریوں کو دی ہے۔ حد یہ ہے کہ خود دارالحکومت (یعنی دہلی) میں بھی پولیس نے غیرقانونی طور پر اس (یعنی افضل گورو) کے بہت سے حمایتیوں اور ان کے بچوں تک کو کسی متعین الزام کے بغیر گرفتار کیا۔ گویا حکومت نے نمایشی طور پر قانون کے پردے (fig leaf) کو نظرانداز کردیا اور عوام سے بالکل اس طرح معاملہ کیا جس طرح کوئی غنڈا کرتا ہے۔
ایسے اقدام کا لازمی نتیجہ ہے کہ لوگ دُور سے دُور ہوتے جائیں اور ان کے اور حکومت کے درمیان مغائرت ہی میں اضافہ ہو، اور یہ دُوری صرف کشمیر کے لوگوں تک ہی محدود نہیں بلکہ وہ لوگ بھی اس کا شکار ہوں گے جن کو اس حکومت سے یہ توقع تھی کہ وہ روشن خیالی پر کاربند ہے خواہ یہ روشن خیالی کتنی ہی جزوی اور کچی پکّی ہی کیوں نہ ہو۔
امریکی روزنامہ انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون میں بھارت کے ایک صحافی مانو جوزیف نے پورے مسئلے پر بڑا بھرپور تبصرہ کیا ہے اور افضل گورو کے مقدمے اور حکومت کی کارکردگی اور اس کے تضادات پر جچی تلی تنقید کی ہے لیکن سب سے اہم سوال جو اس نے اُٹھایا ہے وہ بھارت کے نظامِ عدالت کے قابلِ بھروسا ہونے سے متعلق ہے'
افضل گورو کی پھانسی جس نے اس کے خاندان کو صدمے سے دوچار کیا ہے اس نے پوری قوم کو بھی حیرت میں مبتلا کردیا ہے۔ ہاں، اس پر مختلف پارٹیوں کے سیاست دانوں نے خوشی کا اظہار کیا ہے اور عام شہریوں نے بھی۔ یہ کیسی دنیا ہے جو ایک طرف افضل کے بارے میں فتویٰ دیتی ہے کہ وہ اس زمین پر زندہ رہنے کے لیے موزوں نہیں، وہیں یہ ایک انسان کی موت پر جشن تک منانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ البتہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایسے لوگ بھی بہت بڑی تعداد میں تھے جو اس پر نالاں اور متنفر تھے اور انھوں نے احتجاج بھی کیا۔ اور ان لوگوں کا تعلق محض وادیِ کشمیر سے نہ تھا جو افضل کی جاے پیدایش ہے اور جہاں کرفیو لگا ہوا تھا۔ اس پھانسی نے بڑے بنیادی سوالات اُٹھا دیے ہیں جو ایک بڑی تعداد کے لیے وجہِ تشویش بن گئے ہیں۔ اگر ان تمام سوالات کو ایک جملے میں سمو دیا جائے تو ان کا حاصل یہ تشویش ناک صورت ہے کہ:
کیا بھارت کا نظامِ انصاف معیاری ہے، اور یہ کہ کیا اس کی اخلاقی سند (moral authority) اس امر کے لیے تسلیم کی جاسکتی ہے کہ اس کے حکم پر ایک انسانی جان کو ختم کیا جاسکے؟
محمد افضل گورو کی شہادت نے بھارت کے جمہوریت اور انصاف اور قانون کی بالادستی کے دعووں کی قلعی کھول دی ہے اور اس پالیسی کو بے نقاب کردیا ہے جسے ریاستی دہشت گردی کے علاوہ کوئی اور نام نہیں دیا جاسکتا۔بظاہر اس پھانسی پر بھارت کے سیاسی حلقوں میں خوشی کے شادیانے بجائے جارہے ہیں لیکن فی الحقیقت یہ اس کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکا ہے اور ان لوگوں کی آنکھیں کھولنے کا ذریعہ بن سکتا ہے جو بھارت سے خیر کی توقع رکھتے ہیں۔
جس طرح افضل گورو کو پھانسی دی گئی ہے اس پر دنیا میں بھارت کے عالمی شہرت کے ایک ماہرقانون فالی ایس نریمان نے برملا کہا ہے: ہمارا بدترین دشمن بھی اس سے بہتر نہیں کرسکتا تھا جس طرح یہ کیا گیا۔ یہ بعض کے لیے ایک بدقسمتی تھا اور اس کے نتیجے میں بھارتی ریاست نے اپنے کو چھوٹا کرلیا ہے اور اُمیدوں کے کم ترین معیار کو اختیار کرنے میں بھی ناکام رہی ہے۔
جہاں تک کشمیر کی تحریکِ آزادی کا تعلق ہے ہمیں یقین ہے کہ اس قسم کے ہتھکنڈوں سے نہ ماضی میں اسے دبا یا جاسکا ہے اور نہ مستقبل میں اسے کوئی نقصان پہنچانا ممکن ہوگا۔ اس لیے کہ ظلم اور استبداد کی چیرہ دستیاں حق پرستوں کا راستہ کبھی نہیں روک سکی ہیں اور آزادی کی تحریکیں خون کے ایسے ہی سمندروں کو عبور کر کے اپنی منزل کا سراغ پاتی رہی ہیں۔ ان شاء اللہ یہ خونیں واقعہ کشمیر کے مسئلے کو عالمی سطح پر ایک بار پھر توجہ کا مرکز بنانے کا ذریعہ بن سکتا ہے بشرط کہ پاکستان کی حکومت اور اُمت مسلمہ کی قیادتیں اپنے کشمیر ی بھائیوں کی اس مبنی برحق جدوجہد میں اپنا کردار ادا کریں۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ بھارت نے اس خاص موقعے پر یہ اقدام کیوں کیا؟ ہماری نگاہ میں اس کی وجہ بھارت کی وہ بوکھلاہٹ ہے اور آنے والے حالات کے باب میں اس کا وہ اِدراک ہے جو پاکستان اور علاقے کی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں کی بنا پر وہ محسوس کر رہا ہے۔ پاکستان میں جنرل پرویز مشرف کے دور میں کشمیر کے سلسلے میں جو قلابازیاں کھائی گئیں اور بھارت کے سلسلے میں جس پسپائی کا رویہ اختیار کیا گیا اور جسے زرداری دور میں زیادہ بھونڈے انداز میں جاری رکھا گیا ہے، صاف نظرآرہا ہے کہ اب اس سلسلے کا جاری رہنا محال ہے۔
چند مہینوں میں نئے انتخابات کے نتیجے میں نئی سیاسی قیادت برسرِکار آئے گی اور وہ امریکا اور بھارت دونوں کے بارے میں موجودہ پالیسیوں پر بنیادی نظرثانی کرے گی۔ افغانستان سے امریکا اور ناٹو کی افواج کی واپسی کی وجہ سے بھی علاقے کے حالات میں بڑی تبدیلیاں آنے والی ہیں۔ عالمِ اسلام کے حالات بھی بدل رہے ہیں۔ ترکی، مصر، تیونس اور دوسرے ممالک میں ہونے والی تبدیلیوں نے پورے علاقے کے زمینی حکمت عملی (geo-strategic) کے نقشے کو بدل ڈالا ہے۔ مصر میں فروری ۲۰۱۳ء میں منعقد ہونے والی اوآئی سی کانفرنس میں عالمِ اسلام کے مسائل کے ساتھ کشمیر کو نمایاں حیثیت دی گئی ہے۔ خود پاکستان میں اس سال ۵فروری کو جس جوش اور ولولے سے ’کشمیر سے یک جہتی کے دن‘ کے طور پر منایا گیا ہے وہ آنے والے دور کی ایک جھلک پیش کرتا ہے۔ افغانستان میں امریکا نے بھارت کو جو رول دیا تھا، وہ بھی اب معرضِ خطر میں ہے اور پاکستان کی موجودہ ناکام کشمیر پالیسی میں بھی تبدیلی ناگزیر ہے۔ نیز بھارت کے اپنے اندرونی سیاسی حالات جن میں اگلے سال ہونے والے انتخابات اور بی جے پی کی نئی سیاست اہم ہیں، کانگریس حکومت کی بوکھلاہٹ کا سبب بنے ہوئے ہیں۔
ان حالات میں بھارت نے ایک بار پھر قوت سے آزادیِ کشمیر کی تحریک کو دبانے کا اشارہ دیا ہے، لیکن اس کی حیثیت ایک ناکام پالیسی کو ایک بار پھر آزمانے کی حماقت سے زیادہ نہیں ہے ۔ تاریخ کا ایک تلخ سبق یہ ہے جن کو طاقت کا گھمنڈ ہوجاتا ہے وہ تاریخ سے کم ہی سبق سیکھتے ہیں اور وہی غلطیاں بار بار کرتے ہیں جو ماضی میں اقوام کی تباہی کا سبب بنی ہیں۔ ہم پاکستان اور مسلم اُمت کی قیادت کو دعوت دیتے ہیں کہ بھارت کے اس اقدام کے پس منظر میں غور کریں اور مقابلے کی حکمت عملی بنانے پر توجہ دیں۔
یہ بہت ہی افسوس ناک ہے کہ افضل گورو کی شہادت پر جو ردعمل پاکستان کی قیادت کی طرف سے آنا چاہیے تھا وہ نہیں آیا۔ بلاشبہہ عوام اور اسلامی قوتوں نے اس کی بھرپور مذمت کی ہے لیکن افسوس کا مقام ہے کہ صدر، وزیراعظم اور وزیرخارجہ کو یہ توفیق بھی نصیب نہ ہوئی کہ واضح الفاظ میں اور پوری شدت کے ساتھ اس کی مذمت کرتے اور کشمیر ی عوام سے یک جہتی کا اظہار کرتے۔ وزارتِ خارجہ کا بھی ایک کمزور ردعمل واقعہ سے ۴۸گھنٹے کے بعد آیا ہے جو لمحۂ فکریہ ہے۔
پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس کشمیر پالیسی پر فوری نظرثانی کرے جس پر حکومت گذشتہ ۱۲سال سے عمل پیرا ہے۔ ۲۰۰۳ء میں سیزفائر کے نام پر جو قلابازی کھائی گئی تھی اس نے تحریکِ آزادیِ کشمیر کو بے پناہ نقصان پہنچایا ہے۔ بھارت نے اسرائیل کی مدد سے بارڈر کو سیل کردیا ہے اور ایسی الیکٹرانک دیوار بنا دی ہے جس نے کشمیری عوام کی مشکلات میں اضافہ اور پاکستان کی حکمت کاری کے وزن (strategic leverage) کو بُری طرح متاثر کیا ہے۔ پھر جنگ ِ آزادی اور دہشت گردی کے جوہری فرق کو نظرانداز کرکے پاکستان نے اس کشمیر پالیسی کا شیرازہ منتشر کردیا ہے جس پر قائداعظم کے وقت سے لے کر آج تک قومی اتفاق راے تھا۔ جنوری ۲۰۰۴ء کا مشرف واجپائی معاہدہ ہماری قومی کشمیر پالیسی کو صحیح رُخ سے ہٹانے (derail) کا ذریعہ بنا اور پھر اقوام متحدہ کی قراردادوں کو نظرانداز (by-pass) کرنے اور روایت سے ہٹ کر حل ( out of box solution) کی تلاش میں ہماری سیاسی قیادت نے وہ بھیانک غلطیاں کی ہیں جس نے پاکستان کی سلامتی خطرے میں ڈال دی ہے اور ہمارے اسٹرے ٹیجک مفادات بُری طرح متاثر ہورہے ہیں ۔
ان حالات میں وقت کی اہم ترین ضرورت ہے کہ مشرف اور زرداری دور کی خارجہ پالیسی کو ترک کر کے پاکستان کے مقاصد اور مفادات کی روشنی میں حقیقی طور پر آزاد خارجہ پالیسی تشکیل دی جائے جس میں ملک کے نظریاتی، سیاسی، معاشی، تہذیبی اور سیکورٹی کے حساس پہلوئوں کا ٹھیک ٹھیک احاطہ کیا جاسکے۔ یہ پالیسی پاکستان کی خارجہ پالیسی ہو، پاکستان کے لیے ایسی خارجہ پالیسی نہ ہو جس کی تشکیل پر واشنگٹن، لندن اور دبئی کا سایہ ہو۔ ہماری پالیسی پاکستان میں اور وہ بھی اسلام آباد میں عوام کی مرضی اور خواہشات کے مطابق پارلیمنٹ کے ذریعے بنائی جائے۔ ملک عزیز کو دوسروں پر محتاجی کی دلدل سے نکلا جائے اور خودانحصاری کا راستہ اختیار کیا جائے۔ اس کا مقصد پاکستان کو حقیقی معنوں میں ایک اسلامی، جمہوری، فلاحی اور وفاقی ریاست بنانا ہو۔ فطری طور پر اس میں کشمیر کی بھارت کے قبضے سے آزادی اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیر کے مستقبل کے حل کو ایک مرکزی مقام حاصل ہوگا۔ نائن الیون کے بعد اختیار کی جانے والی کشمیر پالیسی جنرل پرویز مشرف کی اُلٹی زقند اور ژولیدہ فکری کانتیجہ ہے جس کی وجہ سے ہم اپنی منزل سے کوسوں دُور جاپڑے ہیں۔
کشمیر کے عوام پاکستان سے دلی لگائو رکھنے کے باوجود پاکستان کی حکومت اور اس کی پالیسیوں سے مایوس ہورہے ہیں اور خصوصیت سے نئی نسل پریشان اور سرگرداں ہے۔ یہ وقت ہے کہ پاکستان کی نئی قیادت کشمیر پالیسی کی تشکیلِ نو کرے اور اس پالیسی کو بروے کار لائے جو پاکستان اور کشمیری عوام کی اُمنگوں سے مطابقت رکھتی ہے۔ مسئلۂ کشمیر کے تین فریق ہیں، پاکستان، بھارت اور کشمیر کے عوام___ اور اصل فیصلہ کشمیر کے عوام کو کرنا ہے، اور یہ سامنے رکھ کر کرنا ہے کہ ان کے مفادات کا بہتر حصول کس انتظام میں ممکن ہے اور ان کا مستقبل کس صورت میں روشن ہوسکتا ہے۔ اس کے لیے پاکستان کی کشمیر پالیسی کو جموں اور کشمیر کے عوام کے جذبات، احساسات اور عزائم کی روشنی میں مرتب ہونا چاہیے جو مشترک سوچ پر مبنی اور مشترک جدوجہد سے عبارت ہو۔
کشمیر کو اب کسی طور پس پشت نہیں ڈالا جاسکتا۔ حالات میں جیسے کہ اُبال آرہا ہے اور پھٹ پڑنے کو تیار ہیں۔ موجودہ چیلنج کا مقابلہ بالغ نظری کے ساتھ باہم مشاورت ہی سے کرنا ہوگا تاکہ ایک بہتر مستقل انتظام کی راہ ہموار ہوسکے۔ محمدافضل گورو کی شہادت نے ایک تاریخی موقع فراہم کیا ہے۔
کیا پاکستان اور کشمیر کے عوام اس موقعے سے فائدہ اُٹھائیں گے، اور کشمیر کی آزادی کی جدوجہد کو ایک ایسا آہنگ دینے کی کوشش کریں گے جو مجاہدین کی قربانیوں کے شایانِ شان ہو؟
(’افضل گورو کی شہادت‘، منشورات سے دستیاب ہے۔ فون: ۳۵۴۳۴۹۰۹-۰۴۲)
ہمارے محسن اور قائد مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے ’اشارات‘ کا ایک مخصوص اسلوب اختیار کیا تھا۔ حتی الوسع ہم نے اس کے اتباع کا اہتمام کیا ہے۔ اس ماہ محترم قاضی حسین احمدکے تذکرے کی خاطر اس منہج میں تبدیلی کر رہے ہیں۔ لیکن اس کے لیے بھی مولانا مرحوم کے دور میں دو مثالیں موجود ہیں: ایک ۱۹۴۸ء میں قائداعظم محمد علی جناحؒ کے انتقال پر اور دوسرے، مولانا مسعودعالم ندوی کے وصال پر___ مولانا نے ’اشارات‘ ہی میں اللہ کے ان فیصلوں پر اپنے احساسات کا اظہار کیا تھا۔ مَیں بھی اس ماہ عام روایت سے ہٹ کر ایک شاذ نظیر پر عمل پیرا ہورہا ہوں۔ مدیر
اتوار ۶جنوری ۲۰۱۳ء نمازِ فجر سے فارغ ہوکر حسب ِ عادت سیل فون کو بیدار (on) کیا تو ایک دم ایس ایم ایس کی یلغار رُونما ہوئی۔ ۲۰ سے زیادہ ایس ایم ایس تھے لیکن پیغام ایک ہی دل خراش اطلاع تھی کہ محترم قاضی حسین احمد کا انتقال ہوگیا ہے___ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ۔ دل کو یقین نہیں آرہا تھا۔ ابھی ۱۰ دن پہلے پروفیسر عبدالغفور احمد کا جنازہ ساتھ پڑھ کر اسی جہاز سے ہم کراچی سے اسلام آباد آئے تھے۔ صرف ایک دن پہلے جمعہ کی نماز ساتھ پڑھ کر گرم جوشی سے ایک دوسرے سے رخصت ہوئے تھے۔ اب یہ کلیجہ پھاڑ دینے والی خبر کہ جو اللہ کا پیارا تھا، وہ اللہ کو پیارا ہوگیا!
اللہ کا حکم ہرچیز پر غالب ہے، اس کے فیصلے کے آگے سرِتسلیم خم ہے، مگر دل پارہ پارہ ہے اور آنکھیں اَشک بار ہیں۔ ۱۲ دن کے اندر اندر اپنے دو محبوب ساتھیوں، بزرگوں اور قائدین سے یوں محروم ہوجانا ؎
مصائب اور تھے پر دل کا جانا
عجب ایک سانحہ سا ہوگیا ہے
بات تو معلوم ہوچکی تھی مگر پھر بھی رفقا سے تصدیق چاہی۔ میت اسلام آباد سے پشاور لے جائی جاچکی تھی۔ نمازِ جنازہ ۳بجے پشاور میں تھی۔تلاوت اور دعاے مغفرت کے بعد پشاور کے لیے رخت ِ سفر باندھا۔ برادرم خالد رحمان اور ڈاکٹر متین رفیق سفر ہوئے۔ پہلے راحت آباد ان کے گھر پہنچے اور پھر موٹروے کے پاس اجتماع گاہ میں محترم قاضی صاحب کے جسدخاکی کے پاس کرسی نشین ہوگیا کہ کھڑے رہنے کی سکت نہ تھی۔ جس چہرے کو ۴۰ برس مسکراتے اور ہم کلام ہوتے دیکھا تھا آج اسے ہمیشہ کی نیند سوتے ہوئے مگر پُرنور حالت میں آخری بار دیکھا اور معاً لوحِ قلب پر ربِ کائنات کے یہ الفاظ اس طرح رُونما ہوئے جیسے آج ہی نازل ہورہے ہوں:
یٰٓاَیَّتُھَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ o ارْجِعِیْٓ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً o فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰدِیْ o وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ (الفجر ۸۹:۲۷-۳۰)، اے نفسِ مطمئنہ! چل اپنے رب کی طرف، اس حال میں کہ تو (اپنے انجام نیک سے) خوش ہو اور (اپنے رب کے نزدیک) پسندیدہ ہے۔ شامل ہوجا میرے نیک بندوں میں اور داخل ہوجا میری جنت میں۔
قاضی حسین احمد صاحب ایک سچے انسان، اللہ کے ایک تابع دار بندے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق، اُمت مسلمہ کے بہی خواہ، تحریکِ اسلامی کے مخلص خادم، کلمۂ حق کو بلند کرنے والے ایک اَن تھک مجاہد اور پاکستان کے حقیقی پاسبان تھے۔ اللہ کے دین کے جس پیغام اور مشن کو طالب علمی کی زندگی میں دل کی گہرائیوں میں بسا لیا تھا اسے پورے شعور کے ساتھ قبول کیا، اپنی جوانی اور بڑھاپے کی تمام توانائیاں اس کی خدمت میں صرف کردیں۔ اس دعوت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا، اس کی خاطر ہرمشکل کو بخوشی انگیز کیا، ہر وادی کی آبلہ پائی کی، ہر خطرے کو خوش آمدید کہا، ہرقربانی کو بہ رضا و رغبت پیش کیا اور پورے خلوص، مکمل دیانت، اور ناقابلِ تزلزل استقامت کے ساتھ زندگی کے آخری لمحے تک اس کی خدمت میں لگے رہے۔ بلاشبہہ وہ ان نفوس میں سے ہیں جن کے بارے میں ہم سب ہی نہیں در و دیوار بھی گواہی دے رہے ہیں کہ:
مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاھَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِ فَمِنْھُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَہٗ وَ مِنْھُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوْا تَبْدِیْلًا o (الاحزاب ۳۳:۲۳)، ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنھوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچا کر دکھایا ہے۔ ان میں سے کوئی اپنی نذر پوری کرچکا اور کوئی وقت کا منتظر ہے۔ انھوں نے اپنے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔
قاضی حسین احمد ۱۲جنوری ۱۹۳۸ء کو صوابی کی تحصیل نوشہرہ کے ایک مردم خیز گائوں زیارت کاکاخیل میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد محترم قاضی عبدالرب نے، جو ایک معروف عالمِ دین اور جمعیت علماے ہند کے اعلیٰ عہدے دار تھے اور دیوبند مکتبۂ فکر کے گل سرسبد تھے، ایک روایت کے مطابق مولانا حسین احمد مدنی سے اپنی عقیدت کے اظہار کے طور پر اپنے سب سے چھوٹے بیٹے کا نام انھی کے نام پر رکھا اور یہ ہونہار بچہ قدیم اور جدید تعلیم سے آراستہ ہوکر ۴۹سال کی عمر میں امام عصر ، مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ کی قائم کردہ جماعت اسلامی کا امیر منتخب ہوا اور پاکستان ہی نہیں، پورے عالمِ اسلام میں دینِ حق کی دعوت کو بلند کرنے اور تاریخ کے دھارے کو موڑنے کی عالم گیر جدوجہد میں گراں قدر خدمات انجام دینے کی سعادت سے شادکام ہوا۔ جماعت اسلامی کے تیسرے امیر کی حیثیت سے ۲۲برس تحریک کی قیادت کی اور ملک کے طول و عرض ہی میں نہیں دنیا کے گوشے گوشے میں اسلام کی دعوت کو پہنچانے کے لیے سرگرم رہا۔ ۲۰۰۹ء میں جماعت کی امارت سے فارغ ہونے کے باجود جوانوں کی طرح سرگرمِ عمل رہا۔ نومبر ۲۰۱۲ء میں ایک عالمی کانفرنس وحدتِ اُمت کے موضوع پر منعقد کی اور جدوجہد کے منجدھار میں جان جانِ آفریں کے سپرد کردی۔
ان کی زندگی کوششِ پیہم، جہدِ مسلسل ، عزم و استقامت اور جہاد فی سبیل اللہ کی زندگی تھی___ ایک ایسا دریا جس کی پہچان اس کی روانی، تلاطم اور بنجر زمینوں کی فراخ دلی کے ساتھ سیرابی سے تھی، جس نے اپنی ذات کو اپنے مقصدحیات کی خدمت کی جدوجہد میں گم کردیا تھا، جس کی لُغت میں آرام اور مایوسی کے الفاظ نہ تھے اور جس نے زمانے کو تبدیل کرنے کے لیے اپنا سب کچھ دائو پر لگا دیا تھا۔ اقبال نے جس زندگی کا خواب دیکھا تھا، قاضی صاحب اس کا نمونہ تھے ؎
زندگانی کی حقیقت کوہکن کے دل سے پوچھ
ُجوے شیر و تیشہ و سنگِ گراں ہے زندگی
قاضی حسین احمد کی دینی تعلیم اور تربیت مشفق باپ کے ہاتھوں ہوئی۔ قرآن سے شغف اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق ان کی گھٹی میں پڑا تھا۔ طالب علمی کے دور ہی میں اسلامی جمعیت طلبہ سے نسبت قائم ہوگی اور مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ کے لٹریچر کا پورے شوق سے مطالعہ کیا اور ان کے پیغام کو حرزِجاں بنالیا۔ جمعیت سے تعلق رفاقت کا رہا جو جماعت اسلامی تک رسائی کے لیے زینہ بنا۔ ان کے اصل جوہر جماعت ہی میں کھلے۔ پشاور یونی ورسٹی سے جغرافیے میں ایم ایس سی کرنے کے بعد ریاست سوات میں جہان زیب کالج سیدوشریف میں بطور لیکچرار تدریسی کیریئر کا آغاز کیا لیکن تین ہی سال میں اس وقت کی ریاست کے ماحول میں وہ ’ناپسندیدہ شخص‘ قرار دے دیے گئے اور ریاست بدری پر نوبت آئی۔ اس کے بعد اپنی خاندانی روایات کا احترام کرتے ہوئے کاروبار (فارمیسی) کو آزاد ذریعۂ معاش بنایا اور ۱۹۷۰ء میں جماعت اسلامی کی رکنیت اختیار کرلی۔ جلد ہی پشاور اور پھر اس وقت کے صوبہ سرحد کے امیر منتخب ہوئے۔ سرحد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری میں بھی بھرپور شرکت کی اور اس کے صدر کے عہدے پر بھی خدمات انجام دیں۔ ۱۹۷۸ء میں جماعت اسلامی پاکستان کے قیم مقرر ہوئے اور اس حیثیت سے ۱۹۸۷ء تک خدمات انجام دیں۔
یہ بات کم لوگوں کے علم میں ہے کہ جب اگست ۱۹۷۸ء میں پی این اے نے مارشل لا کے نظام کو جمہوریت کی طرف لانے اور انتخابات کا راستہ ہموار کرنے کے لیے حکومت میں شرکت کا فیصلہ کیا، تو جماعت کی طرف سے دیے گئے اولین ناموں میں پروفیسر عبدالغفور احمد، چودھری رحمت الٰہی اور قاضی حسین احمد کا نام تھا،لیکن قاضی صاحب کے غالباً افغانستان میں اس وقت کی تحریکِ مزاحمت سے قریبی تعلقات کی وجہ سے جنرل ضیاء الحق اور ان کے رفقا نے ان کے نام پر اتفاق نہ کیا اور پھر یہ نگہِ انتخاب محمود اعظم فاروقی پر پڑی۔میری شرکت پی این اے کے کوٹے پر نہیں تھی، حتیٰ کہ سیاسی ٹیم کے حصے کے طور پر بھی نہیں تھی۔ مجھے کابینہ کے بن جانے کے ۱۰ دن بعد بحیثیت ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمیشن شریکِ کار کیا گیا اور یہی وہ حیثیت تھی جس کی بنا پر مجھے پلاننگ اور معیشت کا وزیر مقرر کیا گیا۔ یہی وہ لمحہ تھا جب امیرجماعت محترم میاں طفیل محمد صاحب نے چودھری رحمت الٰہی صاحب کی جگہ جو اس وقت قیم جماعت تھے محترم قاضی صاحب کو قیم کے لیے تجویز کیا اور مرکزی شوریٰ نے انھیں قیم مقرر کیا اور اس طرح ملکی سطح پر ان کے تاریخی کردار کا آغاز ہوا۔
مولانا مودودیؒ نے ۱۹۴۱ء سے ۱۹۷۲ء تک قید کے زمانوں کو چھوڑ کر جماعت کی امارت کی ذمہ داریاں ادا کیں۔ میاں طفیل محمدصاحب نے ۱۹۷۳ء سے ۱۹۸۷ء تک ۱۵سال تحریک کی قیادت کا عظیم اور نازک کام انجام دیا، اور ۱۹۸۷ء سے ۲۰۰۹ء تک اس خدمت کا سہرا محترم قاضی حسین احمد کے سر رہا، اور ۲۰۰۹ء سے عزیزمحترم سیّد منور حسن صاحب اس عظیم منصب پر مامور ہیں۔ جماعت اسلامی میں امیرکا انتخاب ارکان نے ہمیشہ اپنی آزاد راے کے ذریعے کیا ہے۔ کسی بھی سطح پر اُمیدواری کا کوئی شائبہ کبھی بھی نہیں پایا گیا۔ ۱۹۷۲ء سے مرکزی شوریٰ ارکان کی رہنمائی کے لیے تین نام ضرور تجویز کرتی ہے مگر ارکان ان ناموں کے پابند نہیں اور جسے بہتر سمجھیں اسے اپنے ووٹ کے ذریعے امیر بنانے کے مجاز ہیں۔ الحمدللہ یہاں نہ وراثت ہے اور نہ وصیت، نہ اُمیدواری ہے اور نہ کنوسنگ۔ اسلام کے حقیقی جمہوری اصولوں کے مطابق قیادت کا انتخاب ہوتا ہے اور بڑے خوش گوار ماحول میں تبدیلیِ قیادت انجام پاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ اس روشن راستے پر قائم رکھے۔
میں آج اس امر کا اظہار کر رہا ہوں کہ ۱۹۸۷ء کے امیر جماعت کے انتخاب کے موقع پر شوریٰ نے جو تین نام تجویز کیے تھے ان میں محترم قاضی صاحب کے علاوہ محترم مولانا جان محمد عباسی اور میرا نام تھا۔ میں ایک طے شدہ پروگرام کے تحت جنوبی افریقہ میں قادیانیت کے سلسلے میں ایک مقدمے کی پیروی کے لیے کیپ ٹائون میں تھا، اور قاضی صاحب کے امیرجماعت منتخب ہونے کے لیے برابر دعائیں کر رہا تھا۔ مجھے ان کے انتخاب کی خبر کیپ ٹائون ہی میں ملی اور مَیں سجدۂ شکر بجالایا۔ الحمدللہ قاضی صاحب نے اپنی صلاحیت کے مطابق اللہ کی توفیق سے جماعت کی بڑی خدمت کی اور جس تحریک کا آغاز سید مودودی نے کیا تھا اور جس پودے کو میاں طفیل محمد صاحب نے اپنے خون سے سینچا تھا، اسے ایک تناور درخت بنانے میں گراں قدر خدمات انجام دیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی تمام مساعی کو شرفِ قبولیت سے نوازے اور ان کے لیے بلندیِ درجات کا ذریعہ بنائے، آمین!
قاضی حسین احمدصاحب سے میری پہلی ملاقات ۱۹۷۳ء میں مرکزی شوریٰ کے موقعے پر ہوئی۔ میں اس زمانے میں انگلستان (لسٹر) میں مقیم تھا اور اسلامک فائونڈیشن کے قیام میں لگا ہوا تھا۔ شوریٰ کے اجتماع کے بعد رات کو دیر تک باہم مشورے ہماری روایت ہیں۔ جس کمرے میں قاضی صاحب ٹھیرے ہوئے تھے، اس میں ڈاکٹر مراد علی شاہ کی دعوت پر ہم تینوں مل کر بیٹھے اور آدھی رات تک افغانستان کے حالات پر بات چیت کرتے رہے۔ قاضی صاحب افغانستان کا دورہ کرکے آئے تھے۔ جو نوجوان وہاں دعوتِ اسلامی کا کام کر رہے تھے، وہ ظاہرشاہ کے زمانے ہی میں ظلم و ستم کا نشانہ بننے لگے تھے اور اشتراکی تحریک اور قوم پرست دونوں اپنا اپنا کھیل کھیل رہے تھے لیکن دائود کے برسرِاقتدار آنے کے بعد حالات اور بھی خراب ہوگئے۔ مجھے اس علاقے کے بارے میں پہلی مفصل بریفنگ قاضی حسین احمد صاحب نے دی جو کئی گھنٹوں پر پھیلی ہوئی تھی۔ ڈاکٹر مراد علی شاہ بھی اپنے مخصوص انداز میں لقمے دیتے رہے لیکن صورتِ حال کی اصل وضاحت (presentation ) قاضی صاحب کی تھی، اور اس طرح افغانستان اور پورے خطے کے حالات سے ان کی واقفیت اور خصوصیت سے افغانستان کے مسئلے میں گہری وابستگی (involvement) کا مجھے شدید احساس ہوا۔ انھوں نے خالص فارسی لہجے میں اقبال کا یہ قطعہ بھی پڑھا جس کی صداقت پر ان کو یقین تھا:
آسیا یک پیکرِ آب و گل است
ملّتِ افغاں در آں پیکر دل است
از فسادِ او فسادِ آسیا
در کشاد او کشادِ آسیا
(ایشیا آب و گل کا ایک پیکر ہے اور اس پیکر کے اندر ملت ِ افغان دل کی مانند ہے۔ اُس کے فساد سے سارے ایشیا کی خرابی ہے اور اس کی اصلاح میں سارے ایشیا کی اصلاح ہے۔)
افغانستان کے حالات پر جس گہری نظر اور وہاں کے لوگوں سے تعلق کی جو کیفیت میں نے قاضی صاحب میں دیکھی، اس کی مثال نہیں ملتی۔ مجھے جہادِ افغانستان کے پورے دور میں ان کے ساتھ ان معاملات میں شرکت کی سعادت حاصل رہی ہے۔ ۱۹۹۳ء میں، افغان مجاہدین کی تنظیموں میں اختلافات دُور کرنے کے لیے مصالحتی کمیشن میں ان کے ساتھ ایک ماہ مَیں نے بھی افغانستان میں گزارا اور اس وقت جس مجوزہ دستوری نقشے پر اتفاق ہوا تھا اور جسے میثاقِ مکہ کی بنیاد بنایاگیا تھا ،اس کی ترتیب میں کچھ خدمت انجام دینے کی سعادت مجھے بھی حاصل رہی ہے، لیکن تحریکِ اسلامی نے افغانستان کے سلسلے میں جو کردار بھی ان ۴۰برسوں میں ادا کیا ہے اور اس کے جو بھی علاقائی اور عالمی اثرات رُونما ہوئے ہیں، ان کی صورت گری میں کلیدی کردار محترم قاضی حسین احمد ہی کا تھا۔ اپنے انتقال سے پہلے بھی وہ اس سلسلے میں بہت متفکر تھے اور اس مسئلے کے حل کے لیے بڑے سرگرم تھے، اور فاٹا میں ان پر خودکش حملے کے علی الرغم وہ افغانستان کے لیے خود افغانوں کے مجوزہ، (یعنی افغان based) حل کے لیے کوشاں تھے، اور پاکستان اور افغانستان کو یک جان اور دو قالب دیکھنا چاہتے تھے۔ ۲۰۱۲ء میں جماعت اسلامی کے جس وفد نے صدرحامدکرزئی اور ان کی ٹیم سے مذاکرات کیے تھے، وہ بظاہر میری سربراہی میں گیا تھا لیکن اصل میرکارواں قاضی صاحب ہی تھے اور ہم سب ان کے وژن کی روشنی میں اصلاحِ احوال کی کوشش کر رہے تھے۔
قاضی صاحب کی اصل وفاداری اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے تھی اور اس وفاداری کے تقاضے کے طور پر اُمت مسلمہ اور اس کے احیا کو اپنی زندگی کا مشن سمجھتے تھے۔ اس کے لیے انھوں نے سوچ سمجھ کر وہ راستہ اختیار کیا تھا جس کی طرف ہمارے دور میں مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی نے رہنمائی دی تھی اور وہ ان خطوطِ کار پر یقین رکھتے تھے جن پر جماعت اسلامی قائم ہوئی ہے۔ اس کے مقصد، طریق کار اور دستور کی وفاداری کا جو حلف انھوں نے اُٹھایا تھا، اسے عمربھر نبھانے کی انھوں نے مخلصانہ اور سرگرم کوششیں کیں۔ وہ لکیرکے فقیر نہ تھے مگر اس فریم ورک کے وفادار تھے جسے انھوں نے سوچ سمجھ کر قبول اور اختیار کیا تھا۔
مجھے الحمدللہ ان تینوں امراے جماعت کے ساتھ کام کرنے کی سعادت حاصل رہی ہے جن پر ماضی میں امارت کی ذمہ داری تھی اور موجودہ امیر کے ساتھ بھی میرا دیرینہ تعلق ہے۔ مولانا مودودیؒ کی فکر اور دعوت سے تو رشتہ ۱۹۵۰ء میں قائم ہوگیا تھا، گو خاندانی تعلقات کی وجہ سے ان کی ذات سے نسبت اس سے بھی بہت پرانی ہے۔ رکنیت کا حلف میں نے ستمبر ۱۹۵۶ء میں لیا اور ۱۹۵۷ء سے مرکزی شوریٰ میں شریک ہوں۔ مولانا محترم کے لٹریچر کے ترجمے، ادارہ معارف اسلامی کراچی اور چراغِ راہ سے وابستگی کی وجہ سے مولانا محترم کے ساتھ ۲۲برس کام کرنے کی سعادت حاصل ہے۔ میاں طفیل محمدصاحب کے ساتھ بھی ان ۲۲برس کے ساتھ ان کی اپنی امارت کے ۱۵سال اور امارت کے بعد ۲۰ سال قریبی تعلق رہا۔ اسی طرح قاضی صاحب کے ساتھ ۱۹۷۳ء کی پہلی ملاقات، ۱۹۷۸ء میں ان کے قیم مقرر ہونے اور پھر ۱۹۸۷ء میں امیرمنتخب ہونے سے لے کر ان کے انتقال تک رفاقت کی سعادت رہی۔ بلاشبہہ ان تینوں امرا کا اپنا اپنا انداز ااور مزاج تھا اور ہر ایک کا اپنا اپنا منفرد کردار بھی تھا لیکن اصل چیز وہ وژن (vision) ہے جس پر جماعت اسلامی قائم ہوئی، وہ مقاصد ہیں جو اس کی جدوجہد کے لیے متعین ہوئے، وہ طریق کار اور حکمت عملی ہے جو اتفاق راے سے طے ہوئی اور جس کا ایک حصہ دستور میں اور باقی جماعت کی قراردادوں میں موجود ہے اور جس کی تشریح ہزاروں صفحات پر پھیلے ہوئے لٹریچر میں ہے۔ اس فریم ورک کے اندر ہر امیر نے تحریک کی قیادت اور رہنمائی کی ہے اور شوریٰ کے مشورے سے نظامِ کار کو چلایا اور ترقی کے مراحل طے کیے ہیں۔ اس طرح جہاں ایک طرف تاریخی تسلسل ہے وہیں اس کے ساتھ فطری تنوع بھی ہے کہ ع
ہر گلے را رنگ و بوے دیگر است
مولانا مودودیؒ اس تحریک کے موسّس اور وژن ہی نہیں، اس کے پورے نظامِ فکروعمل کے صورت گر تھے ۔ انھوں نے تحریک کا ایک تصور دیا جس کا جوہر اُمت کو قرآنِ پاک کے اصل مشن اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے منہج انقلاب سے ازسرِنو رشتہ جوڑنے کی دعوت ہے۔ روایت کا احترام اس کا حصہ ہے مگر روایت کی اسیری سے آزادی اور اصل منبع سے تعلق استوار کرکے اس کی روشنی میں آج کے حالات کے مطابق نبوت کے مقصد اور مشن کے حصول کے لیے نقشۂ کار وضع کرنے اور عملی جدوجہد کرنے کی دعوت اس کا مرکزی تصور ہے۔ اس انقلابی عمل کے لازماً چار پہلو ہیں:
اوّلًا: اصل مقاصد سے جڑنا، قرآن و سنت کے دیے ہوئے تصورِ دین کو سمجھنا اور پھر اس ہمہ گیر تصور کی روشنی میں اقامت ِ دین اور شہادتِ حق کی ذمہ داری کو سمجھنا، اس کو ادا کرنے کے لیے خود کو تیار کرنا اور اس کے مطابق انفرادی اور اجتماعی زندگی کے نقشے کو تبدیل کرنے کی سعی و جہد کو منظم اور مربوط انداز میں انجام دینے کی کوشش کرنا، اس کے لیے ضروری نظامِ کار بنانا اور افرادِ کار کو اس انقلابی جدوجہد میں لگا دینا۔ ایک جملے میں ساری توجہ کو مقصد نبوت کی صحیح تفہیم اور اسے زندگی کا مقصد بنانا ہے۔
ثانیاً: اس کے لیے یہ بھی ضروری تھا کہ خود اپنی تاریخ کا تنقیدی جائزہ لیا جائے، زوال کے اسباب کو متعین کیا جائے، موجود الوقت کمزوریوں کی نشان دہی کی جائے، طاقت کے سرچشموں کو فعال اور متحرک کیا جائے اور نیا راستہ اختیار کیا جائے۔
ثالثاً: اس کے لیے یہ بھی ضروری تھا کہ وقت کے نظام، غالب تہذیب اور اس کی بنیادوں، مقاصد، اہداف اور مظاہر کا تنقیدی جائزہ لیا جائے۔ اپنے دور کی کارفرما قوتوں کے مثبت اور منفی دونوں پہلوئوں کا مطالعہ اور تجزیہ کیا جائے اور متعین کیا جائے کہ کون سی چیزیں ایسی ہیں جو مثبت ہیں اور ان سے استفادہ ممکن ہے، اور کون کون سی چیزیں منفی بلکہ سمِّ قاتل ہیں اور ان سے کس طرح بچاجائے۔ نیز کس طرح تاریخ کے دھارے کو موڑا جائے تاکہ شر کی قوتوں کے غلبے سے نجات پائی جاسکے اور دین حق اور منہج نبویؐ کا غلبہ اور خیر کی قوتوں کے لیے کامیابی حاصل کی جاسکے۔
رابعاً: ان تینوں کی روشنی میں آج کے دور میں تحریک اسلامی کے لیے صحیح راہِ عمل کو مرتب کیا جائے، تاکہ زندگی کے ہرمیدان میں اسلامی تصورِ حیات کے مطابق اور زندگی کے اسلامی اہداف کے حصول کے لیے ہمہ گیر جدوجہد ہوسکے اور اس کے لیے مناسب نظامِ عمل تشکیل دیا جاسکے۔
مولانا مودودیؒ نے جو تاریخ ساز کام کیا، وہ یہی ہے کہ انھوں نے ان چاروں اُمور کے بارے میں دیانت اور علمی مہارت کے ساتھ دو اور دو چار کی طرح واضح ہدایات مرتب کیں، دلیل سے اپنی بات کو پیش کیا۔ جن نفوس نے اس دعوت کو قبول کیا ان کو جماعت کی شکل میں منظم کیا اور انفرادی اور اجتماعی قوت کو اُس تبدیلی کے لیے مسخر کیا جو مطلوب تھی۔ جماعت کے نصب العین کا تعین کیا ، اس کے طریق کار کو واضح کیا اور اس کے حصول کے لیے چار نکاتی لائحہ عمل مرتب کیا جسے پوری جماعت نے دل و دماغ کی یکسوئی کے ساتھ قبول کیا، یعنی:
۱- عقیدے کا احیا ، فکری اصلاح، دورِحاضر کی فکر کا محاسبہ اور اسلامی افکار کی تشکیل نو۔
۲- تمام انسانوں کے سامنے اس دعوت کو پیش کرنا اور ان میں سے جو اسے قبول کریں ان کو منظم کرنا، ان کی تربیت کرنا اور اخلاقی اور مادی ہر اعتبار سے انھیں اس تاریخی اور انقلابی جدوجہد کے لیے تیار کرنا۔
۳- معاشرے کی اصلاح اور زندگی کے ہر شعبے کی اسلامی اقدار اور احکام کی روشنی میں تعمیروتشکیلِ نو، خاندان کا استحکام، مسجد اور مدرسے کی تنظیم نو، اور تعلیم، خدمت ، امربالمعروف اور نہی عن المنکرکا اہتمام اور افراد اور اداروں کی نئی صف بندی۔
۴-ان تینوں کی بنیاد پر نظام کی تبدیلی اور انقلابِ قیادت کی جدوجہد، تاکہ فرد اور معاشرہ ہی نہ بدلے بلکہ پورا نظام تبدیل ہو اور معاشرت، معیشت، سیاست، قانون، عدالت، سب کی اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں تعمیرنو ہوسکے، اور اس طرح دین کی اقامت واقع ہوسکے۔
مولانا مودودیؒ کی امارت میں یہ سارے کام ہوئے، اور اس طرح ان کے دور کو فکروعمل ، فرد اور جماعت، سب کے لیے تشکیل و تعمیرنو کا دور کہا جاسکتا ہے۔ اس دور میں اُمت مسلمہ کی تاریخی روایت کی حفاظت اور احیا کے ساتھ روایت کے ان پہلوئوں سے نجات کی بھی کوشش کی گئی جو اس تصور سے مطابقت نہیں رکھتے تھے، اور اس طرح ایک نئی روایت کے قیام کی سعی کی گئی، جو اس پیغام اور نظامِ تہذیب کی شناخت بن سکے۔ یہ دور تعمیر کے ساتھ ایجاد، اختراع اور اجتہاد کا دور بھی تھا اور اس میں تسلسل کے ساتھ تبدیلی کا بھی ایک بڑا اہم کردار تھا۔ اہداف کا تعین، نظامِ کار کا دروبست، حکمت عملی، پالیسیاں، غرض ہرجگہ روایت اور جدت کا حسین امتزاج نظر آتا ہے۔ ارتقا کا ایک عمل ہے جو اصل ماخذ سے مکمل وفاداری کے ساتھ نئی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے ایک رواں دواں دریا کی مانند موج زن نظر آتا ہے جو ایک فکری دعوت، اخلاقی احیا کی ایک منظم جدوجہد اور ایک انقلابی تحریک کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ بدلتے ہوئے حالات کی روشنی میں نئے اہداف، نئی راہیں اور نئے تجربات بھی کیے جاتے ہیں لیکن اس طرح کہ اصل بنیاد سے رشتہ مضبوط تر ہوتا جائے۔ اصل شناخت پر کوئی بیرونی سایہ نہیں پڑنے دیا جاتا لیکن پیغام اور اہداف میں صبحِ نو کی سی تازگی موجود رہتی ہے، گویا ؎
فصل بہار آئی ہے لے کر رُت بھی نئی، شاخیں بھی نئی
سبزہ و گل کے رُخ پر لیکن رنگِ قدامت آج بھی ہے
لوگ بہت سی چیزوں کو آج نیا کہتے ہیں لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ پاکستان کی آزادی کے فوراً بعد اسلامی جمعیت طلبہ کی شکل میں طلبہ کی جو آزادتنظیم دسمبر ۱۹۴۷ء میں قائم ہوئی، اور جس کی برکتوں سے آج تک ہم سب فیض یاب ہورہے ہیں۔ وہ مولانا ہی کے ایما پر قائم ہوئی تھی۔ اسی طرح حفاظتی نظربندی (Preventive Detention) اور سیفٹی ایکٹ کے خلاف اور انسانی حقوق کی بحالی کے لیے شہری آزادیوں کی انجمن (Civil Liberties Union) لبرل اور لیفٹ کے عناصر کی ہم رکابی میں مولانا مودودیؒ کی قیادت میں قائم ہوئی تھی اور محمود علی قصوری صاحب بھی اس میں برابر کے شریک تھے۔ ادب اور لیبر کے محاذ پر تنظیم سازی ۱۹۵۰ء کی دہائی میں ہوئی تھی۔ اسلامی دستور کی تحریک کا آغاز جماعت اسلامی نے کیا مگر دستور کے لیے مشترک محاذ ۱۹۵۰ء میں لیاقت علی خاں صاحب کی دستوری سفارشات کے اعلان کے بعد ہی قائم ہوگیا تھا اور ۱۹۵۱ء اور ۱۹۵۳ء کی علما کی سفارشات ان کی مساعی کا حاصل تھیں۔ اتحاد کی سیاست کاآغازمولانا محترم کے دور میں ہوا ہے اور COP (Combined Opposition Parties ، متحدہ حزبِ اختلاف) کا قیام عمل میں آیا جس میں اسلام پسند قوتوں کے ساتھ سیکولر قوتیں بھی شریک تھیں اور سہروردی صاحب ، مجیب الرحمن صاحب بھی اس کا حصہ تھے۔ جنرل ایوب خان کی آمریت کے خلاف مشترک جدوجہد اسی زمانے میں ہوئی۔ انتخابات میں شرکت کا سلسلہ بھی اس زمانے میں ہوا۔ ۱۹۵۱ء کے پنجاب میں صوبائی انتخابات میں شرکت اور ۱۹۵۸ء کے کراچی کارپوریشن کے انتخابات میں کامیابی کا تعلق اسی دور سے ہے۔ آج بڑے اجتماعات کا چرچا ہے۔ ختم نبوت کی تحریک کے دوران اجتماعات کو کون بھول سکتا ہے اور اگر ان کو ایک خاص معنی میں سیاسی تبدیلی کے لیے کیے جانے والا مظاہرہ نہ بھی کہا جائے، لیکن ۱۹۷۰ء کا ’شوکت ِ اسلام مارچ‘ پاکستان کی تاریخ کا پہلا عظیم عوامی مظاہرہ تھا جو اپنی مثال آپ تھا۔ پھر ۱۹۷۷ء کے قومی اتحاد کے جلسوں اور جلوسوں کو کیسے نظرانداز کیا جاسکتا ہے، جن میں انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر تبدیلی کا طبل بجا رہا تھا۔
مقصد صرف یہ واضح کرنا ہے کہ مولانا مودودی کی امارت کے دور میں تعمیروتشکیل کے ساتھ جدت و اختراع اور ضرورت کے مطابق نئے تجربات اور نئی راہوں کی تلاش ہماری روایت کا حصہ ہے۔ مولانا مودودی صاحب کی بصیرت کا یہ بھی شاہکار ہے کہ انھوں نے اپنی زندگی میں جماعت کا نظام اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کی ریت ڈالی اور اپنے اصرار پر ۱۹۷۲ء میں امارت سے فارغ ہو کر قیادت کے تسلسل اور نظام کو خودکار بنانے کا راستہ تحریک کو دکھایا ،اور اس طرح جماعت بانیِ جماعت کی زندگی ہی میں امارت اور مشاورت کے ایک ایسے نظام پر قائم ہوگئی جس کا انحصار فرد پر نہیں اجتماعی نظام پر ہے۔ یہ ایک انقلابی اقدام تھا لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ تبدیلی (transition ) ایک بڑا مشکل اور نازک عمل تھا اور اس کا سہرا (credit) محترم میاں طفیل محمد صاحب کے سر جاتا ہے کہ انھوں نے جماعت کی زندگی میں خلا نہیں پیدا ہونے دیا۔ بلاشبہہ ان کے دور میں تسلسل (continuity)، استحکام (consolidation) کو مرکزی اہمیت حاصل رہی، اور ندرت اور جدت کی جگہ روایت اور جو کچھ حاصل کیا گیا ہے اس کی حفاظت کا پہلو غالب رہا لیکن اس وقت کی یہی ضرورت تھی۔ان کے دور میں بھی بڑے سخت مقامات آئے۔ فوجی حکومت سے معاملات کرنا اور ملک کو فوجی حکمرانی کے دور سے تصادم کے بغیر نکالنا، سیکولر قوتوں کا نیا کردار اور اس کا مناسب انداز میں مقابلہ، افغانستان میں روس کی مداخلت اور جہاد افغانستان میں پاکستان اور عالمِ اسلام کا کردار، ان سب چیلنجوں کے مقابلے کے لیے مؤثر اقدامات کیے گئے لیکن اس دور کا اصل کارنامہ جماعت کو بانیِ جماعت کی عدم موجودگی میں اپنے اصل مقصد، مشن اور مزاج پر قائم رکھنا تھا۔ الحمدللہ بحیثیت مجموعی اللہ تعالیٰ کی رہنمائی اور جماعت اور اس کی شوریٰ کے تعاون سے محترم میاں طفیل محمدصاحب کی قیادت میں تحریک نے اس مرحلے کو کامیابی سے سر کیا۔
۱۹۸۷ء میں امارت کی ذمہ داری قاضی صاحب پر پڑی۔ قاضی صاحب نے اس نظام کے تسلسل کو جاری رکھا جس کی حفاظت میاں صاحب محترم نے کی تھی۔ لیکن اس کے ساتھ تبدیلی، اجتہاد اور جدت کی اس نہج کو پھر مؤثر اور متحرک کیا جو مولانا مودودیؒ کے دور کا حصہ تھی۔ ۳۱۳ساتھیوں کی معیت میں کاروانِ دعوت و محبت کے ذریعے ملک کے طول و عرض میں ایک ہلچل پیدا کردی۔ فوجی حکمرانی اور سرمایہ داری، جاگیرداری اور ظلم کے نظام کے خلاف آواز بلند کی اور تحریک کو ایک نیا ولولہ دیا۔ اس زمانے میں سیاسی بساط بدل گئی۔ ملک کے حالات اور عالمی صورت حال کی بھی تیزی سے قلب ِ ماہیت ہوئی۔ اس میں نئے اقدامات کی ضرورت تھی۔ جماعت کی اندرونی تنظیم اور ملک اور دنیا میں اس کا کردار، یہ سب نئے اطراف میں پیش رفت (initiative) کا تقاضاکر رہے تھے۔ قاضی صاحب نے ان تقاضوں کو پورا کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ ۱۹۹۰ء میں مینارِ پاکستان پر کُل پاکستان اجتماع کیا اور اس کے بعد تسلسل کے ساتھ کُل پاکستان اجتماعات کی روایت کو تازہ کردیا۔ جماعت کی دعوت اور تنظیم کی وسعت ان کی اولین ترجیح رہی۔ اس کے ساتھ ساتھ زندگی کے مختلف شعبوں میں کام کی نئی صف بندی ان کی توجہ کا مرکز رہے۔ متفق کے لیے عملاً ’ممبر‘ کی اصطلاح بھی ان کی اولیات میں سے ہے۔ جمعیت طلبہ عربیہ کی سرگرمیوں کی بھی وہ حوصلہ افزائی کرتے رہے۔
نوجوانوں کو منظم اور متحرک کرنے اور ظلم کی قوتوں کے خلاف صف آرا کرنے کے لیے ’پاسبان‘ کا تجربہ انھوں نے کیا۔ اس تجربے میں قاضی صاحب کا کردار مرکزی تھا اور خرم مراد مرحوم اور میری پوری تائید ان کو حاصل تھی اورمحمد علی درانی نے بھی اس کی تنظیم میں اہم کردار ادا کیا۔ اگر یہ بات ریکارڈ پر آجائے تو کوئی مضائقہ نہیں کہ ’پاسبان‘ کا نام مَیں نے تجویز کیا تھا۔ افسوس کہ یہ تجربہ اس نہج پر نہ ہوسکا جس طرح ہم چاہتے تھے اور جو ہمارا وژن تھا، مگر یہ بھی جماعت کی برکت ہے کہ جب شوریٰ میں اس کے بارے میں بے اطمینانی اور اضطراب کی کیفیت پیدا ہوئی تو خوش اسلوبی سے ’پاسبان‘ کو ختم کردیا گیا اور ’شبابِ ملّی‘ کا ادارہ قائم کیا گیا جو اب بھی متحرک ہے۔ ’شباب ملّی‘ کا نام ہمارے مرحوم بھائی خلیل حامدی نے تجویز کیا تھا۔ اسی طرح پاکستان اسلامی فرنٹ کا تجربہ بھی ہماری تاریخ کا ایک اہم باب ہے اور خرم مراد مرحوم اور مَیں بھی اس میں قاضی صاحب کے دست و بازو تھے۔ مجھے اس امر کے اعتراف میں کوئی باک نہیں کہ یہ تجربہ بھی ہمارے تصور کے مطابق کامیاب نہ ہوسکا، اور ہمیں اعتراف ہے کہ اس کے لیے جتنا ہوم ورک ہونا چاہیے تھا اور جتنا جماعت کو اس کے لیے تیار کرنا ضروری تھا وہ ہم بوجوہ نہ کرسکے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جدت و اجتہاد کے جو اقدامات (initiatives) ہم نے ۹۰ کے عشرے میں لیے تھے، گذشتہ ۳۰سال میں دنیا کے مختلف ممالک میں انھی خطوط پر کیے گئے تجربات کامیاب ہوئے ہیں اور آج وہی تبدیلی کے لیے ماڈل بن رہے ہیں۔ قاضی صاحب محترم کی وفات پر یہ سارے خیالات دل و دماغ میں ہجوم کیے ہوئے ہیں اور میں تحریکی زندگی میں ان کے ۲۲سالہ دور کو ترقی کے اس سفر کے اہم مراحل کے طور پر دیکھتا ہوں، اور سمجھتا ہوں کہ تسلسل کے ساتھ تبدیلی اور جدت و اجتہاد جو وقت کی ضرورت تھے، اس سمت میں تحریک نے باب کشا کوششیں کیں۔
انسانوں اور جماعتوں کی تاریخ میں ضروری نہیں کہ ہرتجربہ ہراعتبار سے کامیاب ہو۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہرتجربے کے بعد اس کا جائزہ لیا جائے، کامیابی اور ناکامی دونوں کے وجود کو متعین کیا جائے، اور ہرتعصب سے بالا ہوکر اپنے تجربات کی روشنی میں نئے تجربات کیے جائیں۔ یہی وجہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اجتہاد کے دواجر ہیں، اگر صحیح ہو، لیکن اگر معاملہ خطا کا ہو، تب بھی سبحان اللہ ایک اجر تو ہے ہی ۔ محترم قاضی صاحب نے جماعت کے سیاسی کردار کو ایک نئی جہت دی۔ متحدہ مجلس عمل( ایم ایم اے) کے تجربے میں ان کا بڑا کردار تھا۔ دینی قوتوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے اور فرقہ وارانہ اور گروہی عصبیتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے انھوں نے بڑی مستعدی کے ساتھ کوششیں کیں جو بڑی حد تک کامیاب رہیں۔ملّی یک جہتی کونسل ان کے دور کا ایک نہایت کامیاب تجربہ اور قومی خدمت ہے، جسے جاری رکھنے اور آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔
کشمیر کے مسئلے کو بھی انھوں نے بڑی جرأت اور بالغ نظری سے اُجاگر کیا، ملک میں بھی اور عالمی سطح پر بھی۔ مجھے ان کے ساتھ آٹھ مسلم ممالک میں کشمیر کے قومی وفد جس کی قیادت محترم قاضی صاحب کر رہے تھے، میں شرکت کا موقع ملا۔ اس کی تشکیل اور پروگرام کی تمام تنظیم جماعت اسلامی نے کی تھی، مگر اس میں دوسری جماعتوں کے نمایندوں کو بھی شریک کیا گیا تھا۔اس میں پیپلزپارٹی کی طرف سے بیرسٹر مسعود کوثر (جو آج گورنر خیبرپختونخوا ہیں) اور آغا ریاض، مسلم لیگ (ن) کے ایک ایم این اے اور جمعیت علماے اسلام کے محترم قاضی عبداللطیف شریک تھے۔ اس میں میڈیا کے نمایندے بھی شامل تھے۔ ۵فروری کو تحریکِ آزادیِ کشمیر کے ساتھ ’یومِ یک جہتی‘ کے طور پر شروع کرنے، ہر سال منانے اور اسے سیاسی زندگی کا ایک حصہ بنادینے میں بھی قاضی صاحب اور جماعت ہی کا بنیادی کردار ہے۔
عالم اسلام کے تمام ہی مسائل میں قاضی صاحب کی گہری دل چسپی تھی اور وہ حضور اکرمؐ کے اس ارشاد کی عملی مثال تھے کہ یہ اُمت ایک جسمِ واحدکی مانند ہے اور جس کے ایک عضو کو اگر کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو پورا جسم اس کا درد محسوس کرتا ہے۔ مجھے ان کے ساتھ دسیوں ممالک کا دورہ کرنے کا موقع ملا اور میں نے دیکھا کہ جس طرح ہم پاکستان کے مسائل کے حل کے لیے بے چین ہوتے ہیں، اسی طرح وہ عالمِ اسلام کے ہر مسئلے کے لیے بے چین ہوتے تھے اور جو بن پڑتا، کرنے کے لیے مستعد رہتے تھے۔ خلیج کی جنگ کے موقعے پر میں بھی محترم قاضی صاحب کے ساتھ عالمی اسلامی تحریک کے ایک وفد کا حصہ تھا۔ ہرملک میں جس درد کے ساتھ اور جس جرأت کے ساتھ انھوں نے کویت پر عراق کے حملے کے مسئلے کو پیش کیا اور اس جنگ سے اُمت کو بچانے کے لیے کوشش کی، وہ ان کا بڑا قیمتی کارنامہ تھا۔ صدام حسین سے ملاقات میں جس جرأت سے انھوں نے اسے اس جنگ کو ختم کرنے کی دعوت دی، اس نے سب کو متاثر کیا، اور خود صدام کے اعلیٰ حکام میں سے کچھ نے بعد میں ہم سے کہا کہ یہی بات ہمارے دل میں بھی ہے مگر ہمیں رئیس کے سامنے کہنے کی جرأت نہیں، آپ نے حق ادا کردیا۔
قاضی صاحب بھی ایک انسان تھے اور ہر انسان میں کچھ نہ کچھ کمزوریاں بھی ہوتی ہیں۔ کبھی کبھی وہ بہت جلد راے قائم کرلیتے تھے اور اپنے ردعمل کا اظہار بھی کردیتے تھے۔ اظہار اور کمیونی کیشن کے باب میں بھی بہت سے مواقع پر انھیں اپنے ساتھیوں کے شکوہ و شکایات سے پالا پڑا، لیکن بحیثیت مجموعی انھوں نے تحریکِ اسلامی کی قیادت کی ذمہ داری بڑی بصیرت اور خوش اسلوبی سے انجام دی۔ ان ۴۰برسوں میں میرے اور ان کے درمیان بڑا ہی قریبی تعلق رہا جس کی بنیاد اخلاص، باہمی اعتماد، مشاورت اور ایک دوسرے کے احترام پر تھی۔ میں شروع ہی سے ایک نظری اور ایک گونہ کتابی انسان ہوں اور قاضی صاحب اپنی فطرت کے اعتبار سے ایک حرکی وجود رکھتے تھے۔ جرأت اور استقامت کے ساتھ جہدِمسلسل کا شوق، جلدی نتائج حاصل کرنے کی تمنا اور سپاہیانہ جلال ان کی شخصیت کا حصہ تھا۔ علمی اور ادبی ذوق ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ قرآن ان کا اُوڑھنا بچھونا تھا تو اقبال کا کلام ان کی روح کا نغمہ۔ صداقت اور شجاعت کے ساتھ جہاد، شہادت اور کچھ کرڈالنے کا عزم ان کی شخصیت کے نمایاں پہلو تھے۔
اگر میں یہ کہوں کہ وہ جلال اور جمال کا مرقع تھے تو شاید غلط نہ ہو۔ ان کی طبیعت میں جلال کے پہلو بھی تھے، مگر صرف جلال نہیں جمال کا پہلو بھی وافر مقدار میں تھا اور بالعموم غالب رہتا تھا جس کی وجہ سے جلال کے لمحات بھی ایک لُطف دے جاتے تھے۔میرا اور ان کا رشتہ بڑا دل چسپ تھا۔ عمر میں مَیں ان سے بڑا تھا اور اس بڑائی کا وہ کچھ ضرورت سے زیادہ ہی احترام کرتے تھے لیکن میں ان سے ہمیشہ یہی کہتا تھا کہ عمر میں خواہ مَیں بڑا ہوں لیکن تحریک میں آپ ہی بڑے ہیں اور ہم دونوں نے دلی طور پر ایک دوسرے کو اپنے سے بڑا سمجھ کر رفاقت کے یہ ۴۰سال بڑے خوش گوار ماحول میں گزارے۔ بلاشبہہ اس عرصے میں دوچار مشکل لمحات بھی آئے لیکن اللہ کا شکر ہے کہ ہمارے تعلقات میں کبھی کھچائو یا تلخی پیدا نہیں ہوئی۔ کبھی انھوں نے میری راے کو قبول کرلیا اور کبھی میں نے اپنی راے کو ترک (surrender) کردیا۔ اس طرح محبت اور رفاقت کا یہ سفر بڑی خوش اسلوبی سے طے ہوتا رہا ؎
محبت کیا ہے؟ تاثیرِ محبت کس کو کہتے ہیں؟
ترا مجبور کر دینا، مرا مجبور ہو جانا
مولانا محترم نے جو شفقت اور پیار دیا، وہ ایک لمحے کے لیے بھی بھولا نہیں جاسکتا۔ دوسروں کے سامنے وہ مجھے پروفیسر خورشید کہتے تھے لیکن جب مجھ سے بات کرتے تھے تو ’خورشیدمیاں‘ کہہ کر مخاطب ہوتے تھے جس کی لذت اور حلاوت آج تک محسوس کرتا ہوں۔ میرے والدین اور اساتذہ کے بعد مولانا ہی نے مجھے ’خورشید میاں‘ کہہ کر خطاب کیا (منور بھائی کو بھی یہ سعادت حاصل ہے کہ مولانا نے ان کو ’منورمیاں‘ اور میرے چھوٹے بھائی ڈاکٹر انیس کو ’انیس میاں‘ کہا ہے)۔ محترم میاں صاحب ہمیشہ پروفیسر خورشید ہی کہتے رہے لیکن قاضی صاحب نے ہمیشہ ’خورشید بھائی‘ کہا جس کا دل پر گہرا نقش ہے۔یہ ان کی محبت اور شفقت تھی۔ اللہ تعالیٰ ان کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔
آج قاضی صاحب ہم میں نہیں، کل ہم بھی نہیں ہوں گے، ان کی باتیں یاد رہیں گی۔ ان کی خدمات صدقۂ جاریہ ہیں جن سے ہمارے ساتھی اور ہمارے بعد آنے والے سب ہی مستفید ہوتے رہیں گے اور ان شاء اللہ وہ بھی اس کے اجر سے شادکام ہوتے رہیں گے۔ ان کی پاک صاف زندگی، ان کے علمی اور ادبی ذوق، ان کی تحریکی خدمات، اُمت کے لیے ان کی دوڑ دھوپ اور قربانیاں، پاکستان کی تعمیر اور تشکیلِ نو کے لیے ان کی مساعی، اپنوں اور غیروں سب سے محبت، دعوت اور خدمت کی بنیادوں پر رشتہ اور تعلق کی استواری، امارت کی ذمہ داریوں کو خلوص، دیانت، محنت، قربانی و ایثار، مشاورت اور انصاف کے ساتھ ادا کرنے کی کوششیں___ یہ سب روشنی کے ایسے مینار ہیں جو ایک زمانے تک ضوفشاں رہیں گے۔ اس طرح وہ ہم سے رخصت ہونے کے باوجود ہمارے درمیان ہیں اور رہیں گے۔
ان کے انتقال پر ان کے چاہنے والوں اور ان سے اختلاف رکھنے والوں، بلکہ ذہنی بُعد تک رکھنے والوں نے جو کچھ لکھا ہے، اس سے ان کی زندگی کا ایک ایسا پہلو سامنے آتا ہے جو زندگی میں شاید اتنا نمایاں نہ تھا، یعنی ہر ایک سے خلوص اور شفقت سے معاملہ کرنا، اختلاف میں بھی حدود کا لحاظ، سختی کے ساتھ نرمی، خفگی کے ساتھ پیار، مخالفین کے ساتھ بھی ہمدردی اور پاس داری۔ ہم تو شب و روز ان کی شخصیت کے اس پہلو کو دیکھتے اور اس کا تجربہ کرتے تھے مگر جس پیمانے پر اور جس یک زبانی کے ساتھ سب ہی شرکاے غم نے ان پہلوئوں پر اظہارِ خیال کیا ہے، اس سے مولانا محمد علی جوہر کی اس پیش گوئی کی دل نے تائید کی ؎
جیتے جی تو کچھ بھی نہ دکھلایا مگر
مر کے جوہرؔ آپ کے جوہر کھلے
میں اپنے رخصت ہونے والے بھائی کے بارے میں اپنی تاثراتی گزارشات کو اقبال کے اس شعر پر ختم کرتا ہوں جو محترم قاضی حسین احمد کی شخصیت کا آئینہ اور ان کے بعد ذمہ داری کے مقام پر فائز تمام افراد کے لیے ایک پیغام ہے ؎
نگہ بلند، سخن دل نواز، جاں پُرسوز
یہی ہے رختِ سفر میرِکارواں کے لیے
۲۶ دسمبر ۲۰۱۲ء کو عزیزی سید طلحہ حسن کے ولیمے میں شرکت کے لیے کراچی گیا اور اس مبارک تقریب سے فارغ ہوکر قصرناز میں قدم ہی اُٹھا تھا کہ یہ دل خراش ایس ایم ایس موصول ہوا کہ برادرم محترم و مکرم پروفیسر عبدالغفور احمد اللہ کو پیارے ہوگئے ہیں __ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ۔
کراچی کے سفر کے مقاصد میں پروفیسر عبدالغفور صاحب کی عیادت سرفہرست تھی۔ تقریب میں ان کے صاحب زادے عزیزی طارق سے ۲۷دسمبر کو ان کے گھر آنے کا پروگرام طے کیا تھا لیکن کیا خبر تھی کہ ۲۷ کو عیادت نہیں، تعزیت کے لیے ان کے گھر جانا ہوگا اور اسی شام ان کے جنازے میں شرکت کرکے ، ان کو ہمیشہ کے لیے الوداع کہنا ہوگا___ لیکن یہ تو صرف محاورہ ہے، ہمیشہ یہاں کون رہا ہے، جلد یا بدیر، ہر ایک کو اس سفر پر روانہ ہونا ہے، بس دعا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آنے والی زندگی میں اپنے فضل و کرم سے اپنے ان بندوں کی رفاقت نصیب فرمائے جو اس کے جوارِرحمت میں ہوں۔
پروفیسر عبدالغفور احمد تحریکِ اسلامی کا قیمتی سرمایہ اور ملک و ملّت کا زریں اثاثہ تھے۔ تعلیم و تدریس، دعوت و تبلیغ اور خدمت اور سیاست، ہر میدان میں انھوں نے گراں قدر خدمات انجام دیں۔ ۱۱جون ۱۹۲۷ء کو یوپی کے مشہور علمی اور دینی گہوارے بریلی میں پیدا ہوئے۔ لکھنؤ یونی ورسٹی سے ۱۹۴۸ء میں ایم کام کی سند حاصل کی اور اسی سال اسلامیہ کالج لکھنؤ میں بطور لیکچرار اپنے تدریسی کردار کا آغاز کیا۔ اگلے ہی سال ہجرت کر کے کراچی آئے اور ایک پرائیویٹ تجارتی ادارے میں اکاؤنٹ کے شعبے میں ذمہ داری سنبھالی۔ پھر اُردو کالج میں تجارت اور حسابیات (Accounting) کے لیکچرار کی اضافی ذمہ داری سنبھال لی اور یہ سلسلہ ۱۹۶۱ء تک جاری رہا۔ اس کے بعد انسٹی ٹیوٹ آف انڈسٹریل اکائونٹس، انسٹی ٹیوٹ آف چارٹرڈ اکائونٹس اور جناح انسٹی ٹیوٹ آف انڈسٹریل اکائونٹس میں تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے۔ یہ سلسلہ ۱۹۷۲ء تک جاری رہا جس کے بعد قومی اسمبلی کے رکن کی حیثیت سے ہمہ وقتی بنیاد پر پارلیمنٹ اور جماعت اسلامی کی ذمہ داریوں کو ادا کرتے رہے۔
مولانا مودودی کے افکار اور جماعت اسلامی کی دعوت سے طالب علمی کے دور ہی میں روشناس ہوئے۔ غالباً ۱۹۴۴ء میں ان کے کالج کے ایک قریب ترین دوست جناب انوریار خاں نے مولانا محترم کی کتاب خطبات ان کو دی جس نے ان کی زندگی کی کایا پلٹ دی۔ مولانا کا بیش تر لٹریچر پڑھ ڈالا لیکن جماعت سے ان کا باقاعدہ تعلق کراچی میں ۱۹۵۰ء میں قائم ہوا۔ جلد ہی کراچی کی شوریٰ کے رکن منتخب ہوئے۔ ۱۹۵۸ء میں جماعت اسلامی نے کراچی کارپوریشن کے انتخابات میں شرکت کی۔ ۱۰۰ میں سے ۲۳نشستوں پر جماعت نے انتخاب لڑا اور الحمدللہ ۲۳ کی ۲۳نشستیں جیت لیں۔ غفورصاحب کارپوریشن میں جماعت کے گروپ لیڈر مقرر ہوئے اور اس طرح ملک کے سب سے اہم شہر کے سیاسی اُفق پر ایک روشن ستارے کے طور پر نمودار ہوئے اور اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ مرکزی شوریٰ میں منتخب ہوئے، پھر کراچی کے امیر بنے (۱۹۷۲ء تا۱۹۷۷ء) اور ۱۹۷۹ء سے جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر اور اس کی سیاسی کمیٹی کے صدر کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے۔ جنرل ایوب کے دور میں ۱۹۶۴ء میں امیرجماعت اور مرکزی شوریٰ کے تمام ارکان کے ساتھ ساڑھے نومہینے جیل میں رہے۔۱۹۷۰ء میں کراچی سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ ۱۹۷۷ء کے انتخاب میں بھی ساری دھاندلی کے علی الرغم جماعت کے ۹ منتخب ارکان میں شامل تھے، اور ۱۹۷۲ء سے قومی اسمبلی میں دستور سازی، جمہوریت کے تحفظ، ختم نبوت اور نظامِ مصطفی کی تحریکوں میں نمایاں کردار ادا کیا۔ متحدہ جمہوری محاذ (یو ڈی ایف) اور پاکستان قومی اتحاد (پی این اے) (۱۹۷۷ء تا ۱۹۷۹ء) کے سیکرٹری جنرل رہے۔ ۱۹۷۸ء تا۱۹۷۹ء میں وفاقی وزیرپیداوار کی حیثیت سے خدمات انجام دیں اور ۲۰۰۲ء سے ۲۰۰۵ء تک سینیٹ آف پاکستان کے رکن رہے۔ پروفیسر صاحب نے پاکستان کے سیاسی حالات پر آٹھ کتابیں مرتب کیں جو پاکستان کی تاریخ کا ایک مستند ماخذ ہیں۔
پروفیسر عبدالغفور صاحب سے میرا پہلا تعلق تو شاگرد اور استاد کے رشتے سے ہے۔ گو مَیں نے بلاواسطہ ان سے پڑھا نہیں لیکن جب میں گورنمنٹ کالج آف کامرس اینڈ اکانومکس میں بی کام کی تعلیم حاصل کر رہا تھا تو وہ اُردو کالج اور کچھ دوسرے پروفیشنل اداروں میں پڑھا رہے تھے اور میرے استاد متین انصاری صاحب کے قریبی دوست تھے جس واسطے سے مجھے ان سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ پھر مجھے معلوم ہوا کہ بی کام میں وہ میرے ممتحن بھی رہے اور اس طرح بلاواسطہ استاد بھی ہوگئے۔ نیز جماعت میں میرے سینیر تھے، اور مَیں نے تحریکی زندگی اور ملکی سیاست دونوں کے سلسلے میں ان سے بہت کچھ سیکھا۔ ۱۹۶۴ء میں ساڑھے نو مہینے ہمیں جیل میں ایک ہی کمرے میں باقی ساتھیوں کے ساتھ رہنے کی سعادت حاصل ہوئی جس کا مفصل ذکر تذکرۂ زنداں میں آیا ہے۔ میرے لیے وہ بڑا قیمتی تجربہ اور پروفیسر عبدالغفور صاحب کی شخصیت کو قریب سے دیکھنے اور ان سے بہت کچھ سیکھنے کا ایک نادر موقع تھا۔ میں نے ان کو ایک نفیس، باذوق، خداترس، محبت کرنے والا، بے غرض اور راست باز انسان پایا جو اپنے چھوٹوں سے بھی کچھ ایسا معاملہ کرتا ہے کہ یہ فرق کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ کون بڑا ہے اور کون چھوٹا۔ مَیں نے ان ۶۰برسوں میں ان سے شفقت، محبت اور عزت کا جو حصہ پایا وہ زندگی کا قیمتی ترین سرمایہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے مقام کو بلند تر کرے کہ ان سے ہم نے یہ سیکھا کہ انسانوں سے کس طرح معاملہ کرنا چاہیے۔ دوست تو دوست ان کا تو عالم یہ تھا کہ ان کے مخالف بھی ان کو اپنا سمجھتے تھے اور انھوں نے بھی اختلاف کو کبھی ذاتی تعلقات اور باہم محبت و احترام کے رشتوں میں در آنے کا موقع نہیں دیا۔ نفرت اور دشمنی کا تو دُور دُور تک کوئی وجود ہی نہ تھا ؎
ساز دل توڑ کے بھی، چھیڑ کے بھی دیکھ لیا
اس میں نغمہ ہی نہیں کوئی محبت کے سوا
غفور صاحب کی زندگی کا سب سے نمایاں پہلو ان کی سادگی، نفاست، انکسار، محبت اور شفقت تھا۔ تصنع کا کوئی شائبہ بھی ان کی زندگی کے کسی پہلو میں مَیں نے کبھی نہیں دیکھا۔ مشکل سے مشکل وقت میں بھی وہ سلیقے اور نرمی سے بات کرنے کا سلیقہ رکھتے تھے۔ اختلاف میں شائستگی اور دوسرے کے موقف کا احترام ان کا طریقہ تھا۔ انھوں نے ہمیشہ ذاتی مفاد سے بالا ہوکر اپنے اجتماعی تعلقات کو استوار کیا، اور ہرشخص کے ساتھ عزت اور مروت کا رویہ اختیار کیا جس نے ہردل میں خود ان کے لیے عزت و احترام کا چشمہ رواں کردیا۔
ملک کی سیاسی زندگی میں ان کا کردار بڑا نمایاں ہے۔ جمہوریت کے فروغ اور اسلام کی ترجمانی کا فریضہ انھوں نے بڑی حکمت، بے باکی اور بے غرضی سے انجام دیا۔ پاکستان کے دولخت ہونے کے بعد جو کچھ بھی تھا اس کو سنبھالنے اور ایک نئی زندگی دینے کے لیے جو جدوجہد ۱۹۷۲ء کے بعد قومی اسمبلی میں اور اس کے باہر ہوئی، اس میں پروفیسر عبدالغفور صاحب کا کردار سنہری حروف میں لکھے جانے کے لائق ہے۔ ۱۹۷۰ء کے انتخابات کے نتائج کا جو اثر تحریکِ اسلامی اور اس کے بہی خواہوں پر پڑا تھا، اس کا جس سمجھ داری اور جرأت سے انھوں نے مقابلہ کیا وہ ہماری تحریکی اور ملکی زندگی کا ایک تابناک باب ہے۔ ۱۹۷۳ء کے دستور کے بنانے میں ان کا اور اس وقت کی حزبِ اختلاف کے ارکان کا بڑا تاریخی کردار ہے۔ ۱۹۷۲ء ہی میں ایک پہلے سے بنائے ہوئے مسودۂ دستور کو ملک پر مسلط کرنے کی کوشش کی گئی اور اسمبلی میں اکثریت کی بنیاد پر ایک قسم کی سول آمریت کا خطرہ ایک حقیقت بنتا نظر آرہا تھا،لیکن ایک چھوٹی سی اپوزیشن نے جس میں پروفیسر عبدالغفور احمد، مولانا ظفر احمد انصاری ، مولانا مفتی محمود ، خان عبدالولی خان ، جناب شیرباز مزاری، مولانا شاہ احمد نورانی وغیرہم نے بڑی حکمت کے ساتھ اس مجوزہ دستور کو صرف ایک عبوری دستور کے طور پر تسلیم کرکے وقت کے حکمرانوں کو مجبور کیا کہ وہ ایک دستوری کمیٹی بنا ئیں بلکہ نئے دستور کی تدوین کا کام کریں۔ اس میں جناب ذوالفقار علی بھٹو، جناب محمود علی قصوری اور جناب عبدالحفیظ پیرزادہ کا بھی اہم کردار رہا اور یہ معجزہ رُونما ہوا کہ ۱۹۷۳ء میں ایک متفقہ دستور بن سکا جس نے اب تک پاکستان کے سیاسی نظام کو ساری دراندازیوں اور سیاسی اور عسکری طالع آزمائیوں کی زوردستیوں کے باوجود جمہوریت کی پٹڑی پر قائم رکھا ہے۔ پروفیسر عبدالغفور احمد کا اس پورے عمل میں ایک مرکزی کردار تھا۔
اسی طرح سیاسی اختلافات کے باوجود، سیاسی قوتوں کو منظم کرنے اور متعین مقاصد کے لیے اتحاد قائم کرنے اور ان کی بنیاد پر تحریک چلانے کے باب میں پروفیسر عبدالغفور صاحب کاکردار منفرد تھا۔ دستور سازی اور پھر سیاسی تحریکات میں ان کے کردار کو دیکھ کر جناب الطاف گوہر اور جناب خالد اسحق جیسے افراد نے میرے اور دوسرے دسیوں افراد کے سامنے یہ راے ظاہر کی تھی کہ اگر ملک کی سیاسی قیادت پروفیسر عبدالغفور صاحب جیسے لوگوں کے ہاتھ میں ہو تو یہ ملک دن دونی اور رات چوگنی ترقی کرسکتا ہے، بلکہ الطاف گوہر نے تو ڈان کے اپنے ایک مضمون میں ان کو پاکستان کے لیے مطلوب وزیراعظم تک کی حیثیت سے پیش کیا۔
پروفیسر عبدالغفور صاحب کی سیاسی سوجھ بوجھ، معاملہ فہمی اور شدید اختلافات کے درمیان مشترکہ باتوں پر اتفاق راے پیدا کرنے کی صلاحیت کے دوست اور دشمن سب قائل تھے اور یہی وجہ ہے کہ ہرحلقے میں ان کی عزت تھی۔ جماعت کے اندرونی معاملات میں بھی پروفیسر عبدالغفور صاحب کا کردار سیاسی اُمور میں زیادہ نمایاں تھا۔ مَیں ۱۹۵۷ء میں مرکزی شوریٰ میں منتخب ہوا۔ اس وقت تک مرکزی شوریٰ کی قراردادیں خود مولانا مودودی ہی مرتب فرماتے تھے۔ اس کے بعد محترم نعیم صدیقی، محترم صدیق الحسن گیلانی، محترم اسعد گیلانی اور مجھے اس عمل میں شریک کیا گیا۔ پھر آہستہ آہستہ پروفیسر عبدالغفور صاحب کا کردار بڑھتا گیا اور گذشتہ ۳۰برسوں میں سیاسی قراردادوں پر ان کی چھاپ واضح طور پر دیکھی جاسکتی ہے۔ سیاسی قرارداد شوریٰ کی سب سے اہم قرارداد ہوتی ہے اور اس کو شوریٰ کی پوری بحث کو سامنے رکھ کر مرتب کیا جاتا ہے۔ ارکانِ شوریٰ کا بھی اس میں حصہ ہوتا ہے لیکن جس کمیٹی نے اس سلسلے میں سب سے زیادہ کام کیا ہے اس نے پروفیسر عبدالغفور احمد کی سربراہی میں کام کیا ہے۔ محترم چودھری رحمت الٰہی اور مجھے اس کمیٹی میں کام کرنے کی سعادت حاصل رہی ہے۔ایک مدت تک اولین مسودہ پروفیسر عبدالغفور صاحب ہی تیار کیا کرتے تھے۔ پھر باقی کمیٹی کے ارکان اپنا حصہ شامل کرتے تھے۔ اس کے بعد امیرجماعت قرارداد کو دیکھتے تھے اور آخیر میں شوریٰ میں ارکان کے مشوروں سے کمی یا اضافہ کیا جاتا تھا۔ گو، یہ ایک اجتماعی عمل تھا لیکن اس میں پروفیسر عبدالغفور احمد صاحب کا کردار بہت ہی اہم تھا اور ہم نے ان سے بہت کچھ سیکھا۔
پروفیسر عبدالغفور صاحب جماعت اسلامی کے ان چند لوگوں میں سے تھے جن کو مولانا مودودیؒ سے براہِ راست استفادے کا موقع ملا، اور پھر جن کو محترم میاں طفیل محمد اور محترم قاضی حسین احمد کے ساتھ کام کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ ان کی خدمات ۶۲سال کی طویل مدت پر پھیلی ہوئی ہیں جن کا احاطہ ناممکن ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ان کی خدمات کو قبول فرمائے۔ ان کی قبر کو جنت کا گوشہ بنادے، انھیں اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے اور ان کے مقام کو بلند تر فرمائے اور جو خلا ان کے رخصت ہوجانے سے ہوا ہے اسے پُر کرنے کا سامان فرمائے، انسان سب فانی ہیں لیکن یہ دین، اسلامی تحریک، اور خیراور فلاح کی جدوجہد وہ سلسلہ ہے جسے قیامت تک جاری رہنا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس دعوت اور اس پیغام کو مضبوط اور مؤثر بنائے تاکہ ظلمتیں چھٹیں اور نورِ حق غالب ہوکر رہے۔ آمین!
سلطنت ِ روما کی داستانِ زوال میں ہرقوم کے لیے عبرت کا وافر سامان موجود ہے۔ ایک طرف عوام ناقابلِ برداشت مصائب و آلام میں گرفتار تھے اور دوسری طرف حکمران غفلت، بے وفائی، مفاد پرستی، ذاتی عیش و عشرت اور نام و نمود میں ایسے منہمک تھے، جیسے ملک و قوم کے اصل مسائل، مصائب اور مشکلات سے ان کو کوئی دل چسپی ہی نہ ہو۔ اس المیے کو ایک ضرب المثل میں اس طرح سمو دیا گیا ہے کہ ’’روم جل رہا تھا اور نیرو بانسری بجا رہا تھا‘‘۔
قائداعظمؒ کی ولولہ انگیز اور بے داغ قیادت میں اور ملت اسلامیہ پاک و ہند کی بیش بہا قربانیوں کے نتیجے میں قائم ہونے والے پاکستان کو صرف ۶۵سال کے عرصے میں خودغرض اور ناکام قیادتوں کے طفیل آج ایسی ہی کرب ناک صورت حال سے سابقہ ہے۔ ۲۰۰۸ء میں جمہوریت کے نام پر وجود میں آنے والی حکومت تو پاکستان پیپلزپارٹی کی ہے۔ لیکن اس کو سہارا دینے اور بیساکھیاں فراہم کرنے والوں میں عوامی نیشنل پارٹی، متحدہ قومی محاذ اور مسلم لیگ (ق) کا کردار بھی کچھ کم مجرمانہ نہیں۔ ستم ظریفی ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) بڑی حزبِ اختلاف ہونے کے باوجود محض ’جمہوریت کے تسلسل‘ کے نام پر حقیقی اور جان دار حزبِ اختلاف کا کردار ادا نہ کرسکی اور عوام کے حقوق کے دفاع، دستور اور قانون کی حکمرانی کے سلسلے میں اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے سے قاصر رہی۔ پھر ایسی دینی قوتیں بھی ذمہ داری سے بری قرار نہیں دی جاسکتیں جو کبھی اندر اور کبھی باہر، اور جب مرکز سے باہر ہوں تب بھی صوبے میں شریکِ کار اور جہاں ممکن ہوسکے وہاں اقتدار کی کرسیوں پر براجمان۔
یہ منظر نامہ بڑا دل خراش اور عوام کو سیاسی قیادت سے مایوس کرنے والا ہے لیکن قوموں کی زندگی میں یہی وہ فیصلہ کن لمحہ ہوتا ہے جب مایوسی اور بے عملی، جو دراصل تباہی اور موت کا راستہ ہے، کے بادلوں کو چھانٹ کر تبدیلی، نئی زندگی اور مقصد کے حصول کے لیے نئی پُرعزم جدوجہد وقت کی ضرورت بن جاتے ہیں۔ مایوسی اور بے عملی تباہی کے گڑھے میں لے جاتے ہیں اور بیداری اور جدوجہد نئی صبح کا سامان فراہم کرتے ہیں۔ پاکستانی قوم اس وقت ایک ایسے ہی فیصلہ کن دوراہے پر کھڑی ہے۔
موجودہ حکومت کو بڑا تاریخی موقع ملا تھا۔ فوج کی قیادت نے ماضی کے تلخ تجربات اور فوجی مداخلت کے بار بار کے تجربات کی ناکامی کی روشنی میں بڑی حد تک اپنی دل چسپیوں کو اپنے ہی دستور میں طے کردہ اور منصبی دائروں تک محدود رکھا۔ اعلیٰ عدلیہ جو جسٹس محمد منیر کے چیف جسٹس بن جانے کے دور سے ہرآمر اور ظالم حکمران کی پشت پناہی کرتی رہی تھی، پہلی بار بڑی حد تک آزاد ہوئی اور اس نے دستور اور قانون کی بالادستی کے قیام کے بارے میں اپنی ذمہ داری کو ایک حد تک ادا کرنے کی کوشش مستعدی اور تسلسل کے ساتھ انجام دی جس پر اسے عدالتی فعالیت (Judicial activism)، حتیٰ کہ دوسرے اداروں کے معاملات میں مداخلت تک کا نام دیا گیا اور ان حلقوں کی طرف سے دیا گیا جنھیں اپنے لبرل اور جمہوری ہونے کا اِدعا ہے۔ ان میں سے کچھ بائیں بازوسے وابستہ اورترقی پسند ہونے کے بھی مدعی ہیں، حالانکہ اہلِ علم جانتے ہیں کہ بنیادی حقوق اور دستور پر عمل درآمد، دونوں کی آخری ذمہ داری عدلیہ پر ہے۔ دستور میں دفعہ ۱۸۴ شامل ہی اس لیے کی گئی ہے کہ جب دستوری حقوق کو پامال کیا جائے تو عدالت مداخلت کرے، خواہ یہ مداخلت اسے کسی ستم زدہ کی فریاد پر کرنی پڑے یا ازخود توجہ کی بنیاد پر اسے انجام دیا جائے۔یہ وہ نازک مقام ہے جہاں ایک سیاسی مسئلہ دستور کے طے کردہ اصول کے نتیجے میں بنیادی حقوق کا مسئلہ بن جاتا ہے اور عدالت کے دائرۂ کار میں آجاتا ہے۔ اسی طرح پریس کی جزوی آزادی بھی ایک نعمت تھی جس کے نتیجے میں عوام کے مسائل اور مشکلات کے اخفا میں رہنے کے امکانات کم ہوگئے اور وہ سیاسی منظرنامے میں ایک مرکزی حیثیت اختیار کرگئے۔
ان سارے مثبت پہلوئوں کو اس حکومت نے خیر اور اصلاح احوال کے لیے مددگار عناصر سمجھنے کے بجاے اپنا مخالف اور ان دونوں ہی اداروں کو عملاً گردن زدنی سمجھا، اور ایک منفی رویہ اختیار کیا جسے مزید تباہ کاری کا ذریعہ بنانے میں بڑا دخل خود ان کی اپنی ٹیم کی نااہلی (جس کی بڑی وجہ دوست نوازی، اقربا پروری اور جیالا پرستی تھی)، وسیع تر پیمانے پر بدعنوانی (corruption) اور مفاد پرستی کی بلاروک ٹوک پرستش کا رہا جس کے نتیجے میں ملک تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ کے ۵۰ سے زیادہ احکام کی کھلی کھلی خلاف ورزی کی گئی ہے اور توہین عدالت کی باربار کی وارننگ اور چند مواقع پر سزائوں کے باوجود اسی روش کو جاری رکھا گیا ہے۔ انتظامی مشینری کو سیاسی اور ذاتی مقاصد کے لیے بے دریغ استعمال کیا جا رہا ہے۔ معیشت کو اگر ایک طرف لوٹ کھسوٹ کے ذریعے تباہ کردیا گیا ہے تو دوسری طرف غلط پالیسیاں، توانائی کا فقدان، پیداوار میں کمی، تجارتی اور ادایگیوں کے خسارے میں بیش بہا اضافہ، مہنگائی کا طوفان، بے روزگاری کا سیلاب اور اس پر مستزاد حکمرانوں کی شاہ خرچیاں اور دل پسند عناصر کو لُوٹ مار کی کھلی چھوٹ نے کہیں کا نہیں چھوڑا۔ خود نیب کے سربراہ کے بقول روزانہ کرپشن ۱۰ سے ۱۲؍ارب روپے کی ہورہی ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ ملک کے سالانہ بجٹ سے بھی کچھ زیادہ قومی دولت کرپشن کی نذر ہورہی ہے۔ ملک کے عوام اپنی ہی دولت سے محروم کیے جارہے ہیں اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ملک دیوالیہ ہونے کے کنارے پر کھڑا ہے۔ سارا کاروبارِ حکومت قرضوں پر چل رہا ہے جن کا حال یہ ہے کہ قیامِ پاکستان سے ۲۰۰۸ء تک ملکی اور بیرونی قرضوں کا جو مجموعی بوجھ ملک و قوم پر تھا وہ ۶ ٹریلین روپے کے لگ بھگ تھا جو ان پونے پانچ سالوں میں بڑھ کر اب ۱۴ٹریلین کی حدیں چھو رہا ہے۔
ملک میں امن و امان کی زبوں حالی ہے اور جان، مال اور آبرو کا تحفظ کسی بھی علاقے میں حاصل نہیں لیکن سب سے زیادہ بُرا حال صوبہ خیبرپختونخوا، فاٹا، بلوچستان اور عروس البلاد کراچی کا ہے، جو پاکستانی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ کراچی کا عالم یہ ہے کہ کوئی دن نہیں جاتا کہ دسیوں افراد لقمۂ اجل نہ بن جاتے ہوں۔ کروڑوں روپے کا روزانہ بھتہ وصول کیا جاتا ہے اور اربوں کا روزانہ نقصان معیشت کو پہنچ رہا ہے۔ Conflict Monitoring Centre کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق صرف ۲۰۱۲ء میں ملک میں تشدد اور دہشت گردی کے ۱۳۴۶ واقعات میں ۲۴۹۳؍افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ نیز صرف اس سال میں امریکی ڈرون حملوں سے جاں بحق ہونے والوں کی تعداد ۳۸۸ ہے (دی نیوز، ۲۸دسمبر ۲۰۱۲ء)۔ ایک اور آزاد ادارہ (FAFEEN) حالات کو باقاعدگی سے مانٹیر کر رہا ہے۔ اس کی تازہ ترین رپورٹ بتاتی ہے کہ صرف دسمبر ۲۰۱۲ء کے تیسرے ہفتے میں ملک میں لاقانونیت کے رپورٹ ہونے والے واقعات ۲۴۱ ہیں جن میں ۷۵؍افراد ہلاک ہوئے اور ۱۶۶ زخمی (ایکسپریس ٹربیون، ۲۶دسمبر ۲۰۱۲ء)۔ اناللّٰہ وانا الیہ راجعون۔
ان تمام ناگفتہ بہ حالات کے ساتھ ملک کی سیاسی آزادی کی مخدوش صورت حال، ملک کے اندرونی معاملات میں امریکا کی بڑھتی ہوئی مداخلت اور پالیسی سازی پر فیصلہ کن اثراندازی نے محکومی اور غلامی کی ایک نئی مصیبت میں ملک کو جھونک دیا ہے۔ جمہوری حکومت کے کرنے کا پہلا کام مشرف دور میں اختیار کی جانے والی امریکی دہشت گردی کی جنگ سے نکلنا تھا، اور پارلیمنٹ نے اکتوبر ۲۰۰۸ء میں حکومت کے قیام کے چھے مہینے کے اندر واضح قرار داد کے ذریعے جنگ سے نکلنے، آزاد خارجہ پالیسی اختیار کرنے اور سیاسی مسائل کے سیاسی حل کے راستے کو اختیار کرنا کا حکم دیا تھا، لیکن حکومت نے پارلیمنٹ کے فیصلے اور عوام کے مطالبے کو درخور اعتنا نہ سمجھا اور امریکی غلامی کے جال میں اور بھی پھنستی چلی گئی۔ آج یہ کیفیت ہے کہ ۴۵ہزار سے زیادہ جانوں کی قربانی دینے ، ایک لاکھ سے زیادہ کے زخمی ہونے اور ۳۰ لاکھ کے اپنے ملک میں بے گھر ہوجانے اور ۱۰۰؍ارب ڈالر سے زیادہ کے نقصانات اُٹھانے کے باوجود پاکستان امریکا کا ناقابلِ اعتماد دوست اورعلاقے کے دگرگوں حالات کے باب میں اس کا شمار بطور ’مسئلہ‘ (problem) کیا جارہا ہے، ’حل‘ (solution) میں معاون کے طور پر نہیں ۔ جس طرح خارجہ پالیسی ناکام ہے اسی طرح دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے عسکری حکمت عملی بھی بُری طرح ناکام رہی ہے اور عالم یہ ہے کہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی!
یہ وہ حالات ہیں جن کا تقاضا ہے کہ کسی تاخیر کے بغیر عوام کو نئی قیادت منتخب کرنے کا موقع دیا جائے تاکہ دلدل سے نکلنے کی کوئی راہ ہو اور جمہوری عمل آگے بڑھ سکے۔ ان حالات میں پانچ سال کی مدت پوری کرنے کی رَٹ ناقابلِ فہم ہے۔ دستور میں پانچ سال کی مدت محض مدت پوری کرنے کے لیے نہیں ہوتی، اچھی حکمرانی کے لیے ہوتی ہے۔ دنیا کے جمہوری ممالک کی تاریخ گواہ ہے کہ اصل مسئلہ اچھی حکمرانی ہے، مدت پوری کرنا نہیں۔ یہ کوئی ’عدت‘ کا مسئلہ نہیں ہے کہ شرعی اور قانونی اعتبار سے دن پورے کیے جائیں۔ دستور ہی میں لکھا ہے کہ وزیراعظم یا وزیراعلیٰ جب چاہیں نیا انتخاب کراسکتے ہیں۔ اسی طرح اگر ایوان اس پوزیشن میں نہ ہو کہ اکثریت سے قائد منتخب کرسکے تو اسمبلی تحلیل ہوجاتی ہے۔ برطانیہ میں گذشتہ ۶۵برس میں نو مواقع ایسے ہیں جب پارلیمنٹ کا انتخاب دستوری مدت پوری کرنے سے پہلے کیا گیا ہے۔ اٹلی اور یونان میں اس وقت بھی یہ مسئلہ درپیش ہے۔ خود بھارت میں آزادی کے بعد سے اب تک ۱۱ بار میعاد سے پہلے انتخابات ہوئے ہیں اور ہمارے ملک میں تو اب پونے پانچ سال ہوچکے ہیں۔ ۱۶مارچ ۲۰۱۳ء کو یہ مدت بھی ختم ہونے والی ہے جس کے بعد ۶۰دن میں انتخاب لازمی ہیں۔ مئی کا مہینہ موسم کے اعتبار سے انتخاب کے لیے ناموزوں ہے۔ سیاسی اور معاشی اعتبار سے بھی یہ وقت اس لیے نامناسب ہے کہ ملک کا بجٹ ۳۰ جون سے پہلے منظور ہوجانا چاہیے اور اگر مئی میں انتخابات ہوتے ہیں تو جون کے وسط تک حکومت بنے گی۔ اتنے کم وقت میں بجٹ سازی ممکن نہیں۔ اس لیے وقت کی ضرورت ہے کہ جنوری میں اسمبلیاں تحلیل کرکے ۶۰دن کے اندر انتخابات کا انعقاد کیا جائے۔ اس کے سوا کوئی راستہ نہیں۔
ہم اس بات کا بھی واضح اعلان کرنا چاہتے ہیں کہ بنگلہ دیش یا اٹلی کے ماڈل کے طرز کی کوئی عبوری حکومت یا احتساب یا اصلاحات کے نام پر کوئی نام نہاد ٹیکنوکریٹ سیٹ اَپ مسئلے کا کوئی حل نہیں۔ یہ عوام کے لیے ہرگز قابلِ قبول نہیں۔ یہ صرف مزید تباہی کا راستہ ہے۔ ماضی میں بھی انتخاب سے پہلے احتساب کا نعرہ آمروں نے لگایا ہے اور آج بھی یہی کھیل کھیلنے کی کوشش ہورہی ہے جو بہت خطرناک ہے۔ اس لیے صحیح سیاسی لائحہ عمل وہی ہوسکتا ہے جو مندرجہ ذیل خطوط پر مرتب کیا جائے:
۱- اسمبلی کی مدت میں توسیع یا سال دو سال کے لیے عبوری انتظام کے فتنے کو سر اُٹھانے سے پہلے ہی کچل دینا چاہیے۔اس پر غور بھی اپنے اندر بڑے خطرات رکھتا ہے۔ اس لیے یہ باب بالکل بند ہونا چاہیے۔
۲- جنوری میں پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیاں تحلیل کر کے، دستور کے مطابق، صرف انتخابات کے انعقاد کے لیے غیر جانب دار اور سب کے مشورے سے عبوری حکومتیں قائم کی جائیں جو ملک کو نئی سمت دینے کے لیے نہیں ،صرف جلد از جلد آزادانہ طور پر شفاف انتخابات منعقد کرانے کے لیے ہوں۔ جو انتخابی اصلاحات ازبس ضروری ہیں، وہ باہم مشورے سے کسی تاخیر کے بغیر کردی جائیں۔ سپریم کورٹ کے فیصلوں کی روشنی میں الیکشن کمیشن جو الحمدللہ قابلِ بھروسا ہے، اپنی دستوری ذمہ داری ادا کرے اور عدلیہ اور فوج کی ضروری مدد سے انتخابی عمل کو مکمل کرے۔ اس سلسلے میں سیاسی جماعتیں بھی ذمہ داری کا ثبوت دیں اور دستور کی دفعہ ۶۲ اور ۶۳ کا خود بھی احترام کریں اور وہ راستہ اختیار کریں کہ ان کی کھلی کھلی خلاف ورزی کرنے والے افراد کی اُمیدواری کے مرحلے ہی پر تطہیر ہوسکے۔ انتخابی قواعد پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے، انتظامیہ مکمل طور پر غیر جانب دار ہو اور عدلیہ اس بارے میں پوری طرح چوکس رہے۔ الیکشن کمیشن کا کردار اس سلسلے میں سب سے اہم ہے۔
۳- فوج کی یا خفیہ ایجنسیوں کی مداخلت کسی صورت میں بھی قابلِ قبول نہیں۔ یہ نہ تو ملک کے مفاد میں ہے اور نہ خود فوج کے۔ البتہ دستور کے تحت انتخابی عمل کو شفاف بنانے کے لیے الیکشن کمیشن جس حد تک فوج یا دوسری سیکورٹی ایجنسیوں سے مدد لینا چاہے، اس کا دیانت داری سے اہتمام کیا جائے، اور پولنگ کے دن امن و امان کے قیام اور پولنگ اسٹیشنوں کو بدعنوانی سے محفوظ رکھنے کے لیے واضح اور کھلاکردار ادا کرے۔
۴- سیاسی جماعتیں قوم کے سامنے اپنا منشور، پروگرام واضح کریں، وہ ٹیم لائیں جو اس پروگرام پر عمل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو، تاکہ محض برادری اور جنبہ داری کی بنیاد پر سیاسی نقشہ نہ بنے بلکہ اصول، پروگرام، کردار اور صلاحیت اصل معیار بنیں۔ میڈیا کو بھی اس سلسلے میں دیانت اور غیرجانب داری کے ساتھ اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ میڈیا کے لیے جو ضابطہ اخلاق اختیار کیا جائے اس میں اس پہلو کو بھی مرکزی اہمیت دی جائے۔ الیکشن مہم کے سلسلے میں الیکشن کمیشن نے جو ضابطہ کار مرتب کیا ہے، اس پر اگر ٹھیک ٹھیک عمل ہو تو میڈیا کی اور اُمیدواروں کی گھرگھر جاکر ووٹروں سے رابطے کی مہم کو فیصلہ کن حیثیت حاصل ہوگی جس میں بڑا خیر ہے۔ اس طرح دولت کی اس نمایش کو ختم کیا جاسکتا ہے جو سیاسی بدعنوانی کا عنوان بن چکی ہے۔
۵- ترقی پذیر ممالک میں اور خاص طور پر پاکستان میں بیرونی ممالک اور ان کی پروردہ این جی اوز کا کردار روزافزوں ہے۔ ان کے عمل دخل کے بارے میں صحیح پالیسی بنانے اور پھر مناسب اقدام کرنا ضروری ہیں۔ بیرونی سرمایہ اور بیرونی کارپرداز اپنے مقامی کارندوں کے ذریعے اپنا اپنا کھیل کھیل رہے ہیں۔ پاکستان کے مستقبل کو محفوظ کرنے کے لیے ان پر کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ اس میدان میں بھی ہرقسم کی مداخلت اور اثراندازی کو آہنی ہاتھوں کے ساتھ روکنے کا انتظام ضروری ہے۔
۶- ہم قوم اور تمام دینی اور سیاسی قوتوں سے آخری بات یہ کہنا چاہتے ہیں کہ وہ اپنے ملک اور اپنے بچوں کے مستقبل کی خاطر، ذاتیات اور مفادات سے بالا ہوکر اپنا فرض اداکریں۔ ووٹ ایک امانت ہے اور ایک ذمہ داری۔ اگر ہم ووٹ دینے کے لیے گھروں سے باہر نہیں نکلتے اور اپنی ذمہ داری کو خود ادا نہیں کرتے تو پھر غلط لوگوں کے مسلط ہوجانے کا گلہ کس کام کا۔ یہ سب خود ہمارا کیا دھرا ہے کہ اچھے لوگ گھروں میں بیٹھے رہتے ہیں اور طالع آزما اقتدار کے ایوانوں میں پہنچ جاتے ہیں۔ اس لیے عوام کو سمجھنا چاہیے کہ ان کو اپنے مستقبل کو محفوظ بنانے اور اپنے دین و ایمان، نظریاتی شناخت، آزادی اور خودمختاری کے تحفظ اور سماجی اور معاشی انصاف کے حصول کے لیے جدوجہد کرنا ہوگی اور انتخابات میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ اس کے بغیر تبدیلی ممکن نہیں۔ تبدیلی کے لیے پہلا قدم خود اپنے کو تبدیل کرنا اور اپنی ذمہ داریوں کو دیانت داری سے ادا کرنا ہے۔
اس وقت ملک جن نازک حالات سے دوچار ہے، ان میں ضرورت ہے کہ اہلِ خیر زیادہ سے زیادہ متحد ہوں۔ اچھے، دیانت دار لوگوں، گروہوں اور جماعتوں کے درمیان تعاون ہو اور اچھے لوگ اپنی قوتوں کو بٹ جانے سے روکیں۔ اس کے لیے اتحاد ہی واحد راستہ نہیں۔ تعاون اور اشتراک کے ہزار طریقے ہیں۔ تعاونِ باہمی کا کوئی بھی راستہ اختیار کریں تاکہ قوم کے بہترین عناصر ایک دوسرے کا سہارا بن کر مفاد پرستوں کے منصوبوں کو خاک میں ملا سکیں۔ آنے والے چند مہینے بڑے فیصلہ کن ہیں اور فیصلے کا انحصار ہماری اپنی سعی و کاوش اور جدوجہد پر ہوگا۔ منزل اور اہداف کا ٹھیک ٹھیک تعین کیجیے اور پھر ان کے حصول کے لیے ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر سرگرم ہوجایئے۔ تبدیلی اور اصلاح کا بس یہی راستہ ہے کہ ’’جو بڑھ کر خود اُٹھا لے ہاتھ میں، مینااسی کا ہے‘‘۔ آپ یہ راستہ اختیار کریں، پھر اللہ کی مدد بھی آپ کے ساتھ ہوگی کہ اس کا وعدہ ہے:
وَ الَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا ط (العنکبوت ۲۹:۶۹)،جو لوگ ہمارے راستے میں جدوجہد کرتے ہیں ہم انھیں اپنے راستوں کی طرف ضرور ہدایت دیں گے۔
قرآن پاک نے انسانی جان کی حُرمت کو ایک ابدی اور عالمی اصول کی حیثیت سے پیش کیا ہے اور اس سلسلے میں انسانوں کے درمیان مکمل مساوات کا بھی حکم دیاہے۔ مذہب، رنگ، نسل، قومیت، قبیلہ، برادری، رشتہ داری غرض کسی بنیاد پر بھی امتیازی سلوک کے لیے کوئی گنجایش نہیں چھوڑی گئی ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
مَنْ قَتَلَ نَفْسًام بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا ط وَ مَنْ اَحْیَاھَا فَکَاَنَّمَآ اَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعًا ط (المائدہ۵:۳۲) جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین پر فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کردیا، اور جس نے کسی کو زندگی بخشی اس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی۔
قانون کی حکمرانی کا نفاذ، قانون کے باب میں مکمل مساوات اور انسانوں کے درمیان عدل و انصاف کا قیام ہی وہ اصل بنیاد ہے جس پر ایک پُرامن، صحت مند اور ترقی پذیر معاشرہ تعمیر ہوسکتا ہے۔ دولت کی فراوانی، سامانِ عیش و عشرت کی ارزانی اور سیاسی، معاشی اور عسکری قوت کی چمک دمک سب اپنی جگہ، لیکن جمہوریت اور ترقی کا اصل پیمانہ انسانیت کا احترام ہے، مال و متاع کی فراوانی نہیں___ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا انسان کو قدم قدم پر اِدراک ہوتا ہے، لیکن جس طرح صحت سے محرومی کے بعد ہی صحت کی قدرو منزلت کا احساس ہوتا ہے، اسی طرح معصوم جانوں کے اتلاف اور دلوں کو ہلا دینے والے اندوہ ناک واقعات کے بعد ہی زندگی اور امن کی اہمیت اور قیمت کا احساس ہوتا ہے اور انسان کو سوچنے پر بھی مجبور کرتا ہے کہ ظلم، دہشت گردی اور سفاکیت کے ہاتھوں بہنے والے خون کے ہرقطرے سے جو آواز بلند ہو رہی ہے: بِاَیِّ ذَنْبٍ م قُتِلَتْo(التکویر ۸۱:۹)، یعنی ’’کس قصور میں مجھے ذبح کیا گیا ہے‘‘۔ اس کا جواب بھی سوچ لے۔
۱۴ دسمبر ۲۰۱۲ء کو امریکا کی ریاست کینیکٹی کٹ کے ایک چھوٹے مگر خوش حال شہر نیوٹائون کے سینڈی ہک ایلیمنٹری اسکول میں ایک ۲۰ سالہ نوجوان ایڈم لانز کے ہاتھوں ۲۰ کم سن بچوں اور بچیوں (۱۲لڑکیاں اور ۸لڑکے جن کی عمریں ۵ اور ۷سال کے درمیان تھیں) اور ان کے چھے اساتذہ کا بہیمانہ قتل ایک ایسا واقعہ ہے جس نے امریکا ہی نہیں، پوری دنیا کے انسانوں کو اشک بار کردیا ہے اور سوچنے سمجھنے والے تمام ہی افراد کے دل و دماغ میں ایک طوفان برپا کردیا ہے کہ دنیا کے امیرترین اور خوش حال ترین ملک میں، جو مغربی دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھی شمار کیا جاتا ہے، ایسا اندوہ ناک واقعہ کیسے رُونما ہوگیا ؟ایسا کیوں ہے کہ یہ اور ایسے ہی دوسرے واقعات طاقت اور ترقی کے نشے میں مست انسانوں کی آنکھیں کھولنے کا ذریعہ نہیں بن پارہے؟ ان واقعات کے آئینے میں آج کا انسان معاشرے اور تہذیب کے اصل بگاڑ، بیماری اور فساد کی حقیقی تصویر کیوں نہیں دیکھ رہا ہے؟ اور کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیا کہ انسان خود احتسابی کا راستہ اختیار کرے اور ان بنیادی اسباب کو سمجھنے کی کوشش کرے جو بگاڑ کی اصل جڑ ہیں؟
اقبال نے بہت پہلے اس ضرورت کی طرف مغرب اور مشرق کے سوچنے والوں کو متوجہ اور متنبہ کیا تھا کہ:
ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا
اپنے افکار کی دنیا میں سفر کرنہ سکا
جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا
زندگی کی شبِ تاریک سحر کرنہ سکا
سینڈی ہک اسکول کے معصوم بچوں کو وحشیانہ دہشت گردی کا نشانہ بنانے والا نوجوان ایک متمول گھرانے کا فرد تھا جس نے پہلے اپنی ماں کے خودکار ہتھیاروں سے خود اس کو قتل کیا، اور پھر ننھے بچوں کے اس اسکول میں اس طرح گولیوںکی بارش کی کہ ایک ایک بچے کے جسم میں آٹھ سے دس گولیاں پیوست کردیں۔ ۲۶؍افراد کا خون بہاکر اس نے خود اپنے کو بھی مارلیا اور پولیس کے آنے سے پہلے ہی ایک قیامت صغریٰ برپا کر کے اس خونیں کہانی کے باب کو مکمل کردیا۔ اخباری اطلاعات کے مطابق جس بنگلے میں وہ اپنی ماں کے ساتھ رہتا تھا، وہ ڈھائی لاکھ ڈالر کی مالیت کا تھا اور زندگی کی ہرسہولت اس کو حاصل تھی۔ اس کی ماں کو اسلحہ جمع کرنے کا شوق تھا اور اس کے اسلحہ خانے سے اس کا یہ چشم و چراغ ایک خود کار رائفل، دو پستول اور سو سے زیادہ گولیاں لے کر اس خونیں کھیل پر نکلا تھا۔ یہ دہشت گردی بظاہر کسی ذاتی رنجش کا نتیجہ نہ تھی۔ امریکی صدر، پالیسی سازوں، دانش وروں اور میڈیا سے لے کر عام افراد ششدر ہیں اور سوال کر رہے ہیں کہ اس نوجوان نے یہ اقدام کیوں کیا؟ بحث کا محور دو نکات بنے ہوئے ہیں: ۱- امریکی معاشرے میں اسلحے کی ریل پیل، اور ۲- مردو زن کا ذہنی انتشار جو کج روی کی طرف لے جائے۔
امریکی معاشرے میں اسلحے کی فراوانی اس دہشت گردی کا سب سے اہم سبب قرار دیا جارہاہے۔ اسلحہ ساز کمپنیوں اور اسلحہ کے شوقین افراد کی بااثر تنظیم نیشنل رائفل ایسوسی ایشن کا کردار بھی بڑا مرکزی ہے جو ہرشہری کے اسلحہ رکھنے اور اسے آزادانہ لے کر گھومنے کے حق کو آزادیِ راے (دستوری ترمیم نمبر۱) کی طرح ایک بنیادی حق قرار دیتی ہے۔ یہ یہودی لابی کی طرح کی ایک مضبوط لابی کا کردار ادا کرتی ہے جس کے اثر کو دو ڈھائی سو سال میں بھی کم نہیں کیا جاسکا، حتیٰ کہ سپریم کورٹ نے بھی دو بار ہرشہری کے اسلحہ رکھنے کے اس حق کو تسلیم کیاہے اور اس پر ہرپابندی کا راستہ روکا ہے جس کا نتیجہ ہے کہ ۳۲کروڑ آبادی والے امریکا میں ۳۰ کروڑ کی تعداد میں مہلک ترین اسلحہ عام لوگوں کے پاس موجود ہے، اور تحقیقی اداروں کی رپورٹوں کے مطابق آبادی کے ہر۱۰۰؍افراد میں سے ۸۹ کے پاس اسلحہ موجود ہے۔ یوں امریکا دنیا کا سب سے زیادہ مہلک ہتھیاروں سے بھرا پڑا (weaponized) ملک ہے۔ چونکہ ایسے گھرانے بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں جن میں کئی کئی ہتھیار ہیں، اس لیے یہ بات کہی جارہی ہے کہ عملاً آبادی کے ۴۰ فی صد گھرانے پوری طرح مسلح ہیں اور امریکا کی ۵۰ میں سے ۴۷ ریاستوں میں اسلحہ لے کر کھلے عام پھرنے کی آزادی بھی ہے۔ رائفل، بندوق اور پستول کے استعمال سے سال میں اوسطاً ایک لاکھ افراد زخمی ہوتے ہیں اور نجی دائرے میں استعمال ہونے والے اسلحے کے ذریعے مرنے والوں کی تعداد اوسطاً سالانہ ۱۲ہزار سے زیادہ ہے۔ گویا نائن الیون میں جتنے افراد ہلاک ہوئے ان سے چار گنا زیادہ ہرسال امریکا میں عام انسانوں کے درمیان اسلحے کے استعمال سے ہلاک ہوتے ہیں۔ اور اگر اس تعداد کا موازنہ افغانستان میں امریکی اور ناٹو افواج کی ہلاکتوں سے کیا جائے تو ۱۲سال میں مارے جانے والے فوجیوں سے بھی یہ سالانہ اوسط چار گنا زیادہ ہے۔ نیز ترقی یافتہ ممالک میں اسلحے سے ہلاک ہونے والوں کا جو اوسط ہے، امریکا میں یہ شرح اس سے ۱۵گنا زیادہ ہے۔ امریکا کے ایک تحقیقی ادارے Brady Campaign To Prevent Gun Violence کے مطابق اسلحے کے آزادانہ استعمال سے صرف اِکّا دکّا افراد ہی کو لقمۂ اجل نہیں بنایا جاتا بلکہ بیک وقت متعدد افراد کو بھی نشانہ بنایا جاتا ہے جسے multiple victim shooting اورmass-killing کہا جاتا ہے اور اس کی بہتات کا بھی یہ عالم ہے کہ ایسے اجتماعی قتل ہر۹ء۵ دن میں ایک بار وقوع پذیر ہورہے ہیں۔
روزنامہ دی گارڈین نے نیوٹائون کے اس سکول میں کھیلی جانے والی خونیں ہولی پر اپنے اداریے میں تبصرہ کرتے ہوئے امریکا کے اسلحے کے بارے میں رویے اور اس کے آزادانہ استعمال کے ذکر کو اس ملک کی پہلی خصوصیت قرار دیا ہے اور اجتماعی قتل و غارت گری کی اس روایت کا اس طرح ذکر کیا ہے:
درحقیقت جن تین باتوں میں امریکا واقعی مختلف ہے ان میں سے ایک گولی مارنے کی بڑھتی ہوئی لہر ہے۔ جمعہ کے دن ریاست کینیکٹی کٹ کے شہر نیوٹائون میں بڑے پیمانے پر گولی چلانے کے واقعے میں ۲۷؍افراد ہلاک ہوگئے جن میں ۲۰ کم عمر بچے تھے۔ اس سے کچھ ہی پہلے کولوریڈو کے سینما میں جو گولی چلائی گئی تھی، ۱۲ زندگیاں اس کی نذر ہوگئی تھیں۔ لیکن یہ سال اس طرح کے واقعات سے بھرا ہوا ہے۔ امریکا کی بہت سی ریاستوں میں اس طرح کے واقعات ہوئے ہیں۔ ۲۰۱۲ء میں جارجیا، اوہائیو، پٹس برگ، اوک لینڈ، اوکلوہاما، سی ایٹل، وسکنسن، مینا پولس اور ٹیکساس میں بڑے پیمانے پر ایسے واقعات ہوئے ہیں۔ نیوٹائون کے واقعے سے صرف تین دن پہلے ایک نوجوان نے امریکا کے ایک شاپنگ سنٹر میں اندھادھند گولی چلائی جس میں خود کو مارنے سے پہلے دو افراد کو قتل کردیا۔ امریکی تاریخ کے گولی مارنے کے سب سے زیادہ مہلک ۱۲ واقعات میں سے چھے جن میں بڑے پیمانے پر لوگ مارے گئے، گذشتہ پانچ برسوں میں رُونما ہوئے۔(Americans and Gun: The Shots Heard Round the World دی گارڈین، ۱۶ دسمبر ۲۰۱۲ء)
اس پس منظر میں نیوٹائون کے اسکول میں کی جانے والی ہلاکتوں نے ملک کو ہلا دیا ہے اور اسلحے کی فراہمی (جو اس وقت اسلحے کی دکانوں کے علاوہ اسپورٹس کی دکانوں، حتیٰ کہ سپرمارکیٹوں تک میں بہ آسانی مل جاتا ہے) کو کسی ضابطے میں لانے کے لیے قانون سازی کی ضرورت پر بحث کا آغاز ہوگیا ہے۔ اسلحے کی لابی کی مزاحمت کے باوجود راے عامہ اور پارلیمنٹ کے مؤثر افراد اب اس سارے کاروبار کو قانون کی گرفت میں لانے کے بارے میں کم از کم سوچ بچار اور بحث و مباحثہ پر آمادگی کا اظہار کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں ایک بڑی اہم اور دُوررس نتائج کی بحث کا آغاز ہوگیا ہے، یعنی اس امر کو متعین کیا جائے کہ اسلحہ رکھنا ایک بنیادی حق ہے یا محض ایک سہولت، استحقاق اور ضرورت۔ نیز اس سلسلے میں اب یہ بنیادی بحث بھی ہورہی ہے کہ دستور کے دیے ہوئے ایک حق پر قانون اور مفادعامہ کی روشنی میں پابندی لگائی جاسکتی ہے یا نہیں؟ آزادی راے کا حق جو دستور کی پہلی ترمیم کے ذریعے حاصل ہوا تھا، اس کے بارے میں بھی یہی بحث ہوتی رہی ہے اور اس بگ ٹٹ آزادی کا سہارا لے کر توہین رسالتؐ اور دین و مذہب کا تمسخر اُڑانے کی جسارت بھی کھلے عام کی جاتی رہی ہے۔ اس کا مسلسل اندھا دفاع کیا گیا ہے حالانکہ کچھ مقدس گائیں (Holy Cows) ہیں جن پر بات کرنا ممنوع بلکہ ’جرم‘ ہے، جیسے یہودیت، اسرائیل، ہالوکاسٹ اور سامیت مخالف (Anti Semitism)۔لیکن یہی وہ عناصر جو اسلام، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور دینی شخصیات کے بارے میں دریدہ دہنی اور تضحیک و تحقیر کو آزادیِ راے کا حصہ قرار دیتے ہیں، اب یہ کہنے پر مجبور ہورہے ہیں کہ ایک دستوری حق کے استعمال کے لیے ذمہ داری کا مظاہرہ بھی ضروری ہے۔نیز ایک انفرادی حق کو اجتماعی مصالح سے مشروط اور محدود کیا جاسکتا ہے، اور کیا جانا چاہیے۔ نیویارک ٹائمز کا اداریہ اس سلسلے میں بڑا دل چسپ ہے:
گولی چلانے کے سابقہ واقعات کی طرح نیوٹائون میں گذشتہ جمعہ کو ۲۰بچوں اور سات بالغوں کے قتل نے امریکا میں آتشیں اسلحے کے بارے میں قومی دُھن (fixation) کو ایک بار پھر بیدار کردیا ہے۔ اسلحے کی فی کس موجودگی کے لحاظ سے کوئی بھی ملک امریکا سے آگے نہیں ہے۔ ۳۰۰ ملین آتشیں ہتھیار عوام الناس کے پاس موجود ہیں۔ گویا کہ ہربالغ فرد کے لیے ایک ہتھیار دستیاب ہے۔ہارورڈ اسکول آف پبلک ہیلتھ کے ماہرین نے ۲۶ترقی یافتہ ممالک کے اعداد و شمار کی بنیاد پر یہ بتایا ہے کہ جہاں زیادہ اسلحہ ہوتا ہے وہیں زیادہ قتل ہوتے ہیں۔ امریکا کی صورت اور بھی زیادہ تشویش ناک ہے۔ امریکا میں قتل کی شرح دوسرے خوش حال ممالک کی شرح کے مقابلے میں، جن کے ہاں اسلحے کی نجی ملکیت کو کنٹرول کرنے کے سخت قوانین موجود ہیں، ۱۵گنا زیادہ ہے۔
اداریے میں اس امر پر افسوس کا اظہار کیا گیا ہے کہ اس سے پہلے کے خونیں واقعات کے موقع پر بھی صدراوباما نے اسلحے کی ملکیت اور انھیں کھلے بندوں لیے پھرنے پر قانونی گرفت بڑھانے کے اعلانات کیے ہیں لیکن عملاً کوئی پیش قدمی نہیں ہوئی۔ اس اداریے میں ایک سابق رکن کانگریس جوے اسکاربرو کی کے قلب ماہیت پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے یہ کڑوی گولی نگلنے کا اعلان کیا ہے:
وہ لوگ جو ہماری طرح یقین رکھتے ہیں کہ دوسری ترمیم امریکی شہریوں کو اسلحہ رکھنے کا مطلق اختیار نہیں دیتی، ان کو یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ ان کا یہ موقف ہمدردی سے ان کی بات سننے والوں کو ان سے دُور کردے گا اور اس نقطۂ نظر کے کسی وقت رائج ہونے کا جلدی امکان نہیں ۔ ہمیں قانون کے پابند اور تحفظ کی ضرورت محسوس کرنے والے اسلحے کے مالکوں کی جائز تشویش کا احترام کرنا چاہیے، تاکہ لچک نہ رکھنے والے نظریاتی لوگوں کے ساتھ کوئی مشترک دائرہ تلاش کیا جاسکے۔ اسکاربرو نے اسلحے پر پابندی کے مخالفوں کے لیے چیلنج بہت اچھی طرح پیش کیا۔ انھوں نے کہا کہ انھوں نے اسلحے کی بحث میں اپنا نقطۂ نظر تبدیل کرلیا ہے۔ اب وہ اسے حکومتی کنٹرول کے مقابلے میں فرد کے حقوق کے بجاے اسے عوام کے تحفظ کے مسئلے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک کے بعد ایک راے شماری نے یہ ظاہر کیا ہے کہ رائفل ایسوسی ایشن کے ممبران خود بھی ایسے اقدامات کے مخالف نہیں ہیں جن سے اسلحہ خریدنے اور بیچنے والے ان افراد کی جو مجرمانہ ذہنیت رکھنے والے ہوں، نگرانی کی جاسکے۔ دستور نے کوئی ایسے مطلق حقوق نہیں دیے ہیں کہ ان کی خاطر عوام کے تحفظ اور بہبود کے متعلق تشویش کو نظرانداز کردیا جائے۔(انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون، ۱۹دسمبر ۲۰۱۲ء)
توقع ہے کہ جس طرح اسلحے کے حصول اور اس کی کسی نمایش (display) کی آزادی کے بارے میں اجتماعی مصالح اور انسانی معاشرے کی فلاح اور امن و آشتی کی ضمانت کے لیے ایک بظاہر مطلق حق (absolute right) کو قانون اور اخلاق کے ضابطہ کار کا پابند کرنے کی بات کی جارہی ہے، اسی طرح آزادیِ راے کے تحفظ کے ساتھ اس آزادی کے غیرذمہ دارانہ استعمال کو بھی کسی ضابطے کا پابند کرنے کا صحت مند راستہ اختیار کرنے پر غورو مباحثے کا آغاز کیا جائے گا۔
دوسرا پہلو جس پر کھل کر بات کی جارہی ہے وہ اسلحے کا استعمال کرنے والوں، خاص طور پر وہ افراد جو قتل عام کے مرتکب ہورہے ہیں، ان کی ذہنی کیفیت اور اس کیفیت کو پیدا کرنے والے عوامل کا ادراک ہے جو ایسے مخبوط الحواس (deranged ) رویے کا باعث بن رہے ہیں۔ اس سلسلے میں عمومی صحت ِ ذہنی (mental health) کے مسائل اور معاشرے میں صحت کی دیکھ بھال (health care) اور خصوصیت سے نفسیاتی مریضوں کی دیکھ بھال کی کمی پر توجہ مرکوز کرائی جارہی ہے۔ مائیک راجر نے (جو ایف بی آئی کا ایک سابق افسر اور اب ایوانِ نمایندگان کا رکن ہے) کہا ہے کہ اس وقت ہماری اصل ترجیح یہ ہونی چاہیے کہ ان لوگوں تک اسلحے کی رسائی کو روکیں جو ذہنی امراض کا شکار ہیں۔ ایک اور مشہور کالم نگار ٹموتھی اسٹینلے نے امریکا میں ( جسے آزادی اور دولت کی جنت کہا جاتا ہے) ذہنی امراض کی کثرت اور اس کے مناسب علاج کے باب میں کوتاہی کو حالات کی خرابی کا سبب قرار دیا ہے۔ اس کے خیال میں:
ذہنی صحت کے اداروں کے لیے کم وسائل کی فراہمی ہی ذہنی امراض کی خطرناک کثرت کا سبب ہے، خواہ وسائل کی فراہمی میں یہ غفلت غیرارادی ہی کیوں نہ ہو۔ اس کی طرف ضرور توجہ کرنا چاہیے ۔(دی گارڈین، ۱۸ دسمبر ۲۰۱۲ء، After the Newtown Shooting It is Time to Talk about Mental Health and Crime)
اس سلسلے میں کانگرس سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ:
براہِ مہربانی صحت کے بہتر قوانین ترتیب دیجیے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ٹک ٹک کرتے کسی بھی وقت پھٹ جانے والے بم کو غیرمؤثر کیا جاسکے اس سے قبل کہ بہت تاخیر ہوجائے۔ ایک خاندان کے لیے اس بات کو زیادہ آسان بنادیا جائے کہ ممکنہ خطرے کے حامل افراد کا لازمی علاج کروایا جاسکے۔
واضح رہے کہ امریکا کی آبادی کا تقریباً ۵۰ فی صد صحت کی سہولت سے محروم ہے اور صدراوباما کے سارے وعدوں اور دعوئوں کے باوجود اس سمت میں پیش رفت بے حد سُست ہے، بلکہ امریکا کے ایک بڑے علاقے میں اس کی مزاحمت ہورہی ہے۔
جہاں تک امریکی آبادی اور خصوصیت سے نوجوانوں میں پائے جانے والے نفسیاتی امراض، جذباتی ہیجان اور تشدد کے رجحان کا تعلق ہے وہ ایک حقیقت ہے اور ٹائم بم کی حیثیت رکھتا ہے۔ نیوٹائون اسکول کے واقعے کے بعد اس مسئلے کی طرف توجہ وقت کی ایک ضرورت ہے لیکن مسئلہ صرف افراد کی ایک بڑی تعداد کی نفسیاتی الجھنوں کا نہیں، اس سے کہیں زیادہ بنیادی ہے اور اس کا تعلق مادیت پرستی اور یک رُخی انفرادیت پر مبنی معاشرے سے ہے جو ذہنی امراض اور معاشرتی انتشار کا اصل سبب ہے۔ جس معاشرے اور تہذیب میں اخلاق اور انفرادی اور اجتماعی زندگی کے تعلق کو سوچے سمجھے منصوبے کے تحت منقطع کردیا گیا ہو، جہاں خاندان کا نظام درہم برہم ہو، جہاں تعلیم کو تربیت اور سیرت سازی سے بے تعلق کردیا گیا ہو، جہاں نفس کی پرستش زندگی کا محور ہو، جہاں خیروشر کے ابدی پیمانے توڑ دیے گئے ہوں اور لذت اور ذاتی مفاد ساری تگ و دو کا محور ہوں وہاں انفرادی اور اجتماعی زندگیوں میں بگاڑ اور معاشرے میں فساد کا رُونما ہونا ایک فطری امر ہے۔ معاملہ محض طبی سہولتوں کی فراہمی اور نفسیاتی علاج کی فکر کرنے کا نہیں (یہ تو ہونا ہی چاہیے)، اصل مسئلہ فرد کے تصورِ حیات اور معاشرے کی اجتماعی اخلاقیات کا ہے جہاں تعلیم، کھیل، میڈیا، فلم، تفریح، ہر میدان میں لذت پرستی اور نفسانفسی عام ہو، اور ہرچیز کو روندتے ہوئے اپنے مفادات کے حصول کے لیے جدوجہد انسان کی معراج قرار پائے، وہاں انسانیت کی پامالی اور معاشرے میں تصادم اور تشدد کی فراوانی سے کیسے بچاجاسکتا ہے۔
اقبال کو اس تہذیبی فساد کا پورا احساس تھا اور اس نے بہت پہلے تمام انسانوں کومتنبہ کردیا تھا کہ مادی تہذیب کا فطری ثمرہ کیا ہوگا:
یورپ میں بہت روشنیِ علم و ہُنر ہے
حق یہ ہے کہ بے چشمۂ حیواں ہے یہ ظُلمات
ظاہر میں تجارت ہے، حقیقت میں جُوا ہے
سُود ایک کا لاکھوں کے لیے مرگِ مفاجات
یہ علم، یہ حکمت، یہ تدبر، یہ حکومت
پیتے ہیں لہو، دیتے ہیں تعلیمِ مساوات
بے کاری و عریانی ومے خواری و اِفلاس
کیا کم ہیں فرنگی مدنیت کے فتوحات
ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساسِ مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
نیوٹائون سکول کا واقعہ محض ایک منفرد واقعہ نہیں، امریکی اور مغربی معاشرے اور تہذیب کی اصل کیفیت کی عکاسی کرنے والا ایک آئینہ ہے۔ اہلِ نظر کا ایک گروہ پورے دُکھ اور کرب کے ساتھ نہ صرف اس واقعے پر آنسو بہارہا ہے بلکہ اصل خرابی اور بگاڑ کی جڑ کی طرف بھی متوجہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ابھی یہ آواز بظاہر صدا بہ صحرا ہی معلوم ہوتی ہے لیکن کم از کم یہ آوازیں اُٹھنا تو شروع ہوگئی ہیں۔
یونی ورسٹی کالج کا استاد مائیک کنگ بڑے دردبھرے انداز میں لکھتا ہے کہ:
امریکی کلچر ایک پُرتشدد کلچر ہے۔ یہ ہمیشہ سے ایک پُرتشدد کلچر چلا آرہا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ اس ’کیوں‘ کے جواب میں جزوی وضاحتوں کا ایک مجموعہ پیش کیا جاسکتا ہے۔ مَیں اسلحے پر کنٹرول اور ذہنی صحت پر آیندہ سطور میں بات کروں گا، لیکن یہ لوگ تشدد کے کلچر میں جس طرح ہمہ تن ڈوبے ہوئے ہیں، اس پر سنجیدہ بحث سے ہمیشہ پہلوتہی کی جاتی ہے۔ ایک بیمار معاشرہ بیمار افراد پیداکرتا ہے۔ جس معاشرے میں تشدد کی بہت سی قسموں کو بہادری کا نمونہ بناکر پیش کیا جاتا ہو، اس میں تشدد کے ایسے بہت سے مظاہرے سامنے آئیں گے، جو تشدد کی تعریف میں نہیں آتے۔ اس سے قاتل کے افعال کی توجیہہ نہیں ہوتی، نہ اس کے ارادے کے لیے عقلی بنیاد تلاش کی جاتی ہے، لیکن ان عناصر کا ایک دیانت دارانہ جائزہ یہ واضح کر دیتا ہے کہ ان کے نتیجے میں ایسے رویے پیدا ہوکر رہتے ہیں اور انھیں قانون سازی یا محض مسلسل ’علاج‘ کے ذریعے دبایا نہیں جاسکتا… اگر ہم یہ کر رہے ہوں، اور اس کے باوجود اس طرح کے سانحات برابر ہوتے رہیں، تو کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے وہ سب کچھ کیا جو کرسکتے تھے؟ ہمیں یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ ایک ایسے مسئلے کو حل کرنا مشکل ہے جس کے اسباب تک بیش تر لوگ نہیں پہنچ پاتے۔ لیکن مزید قانون سازی، نگرانی، علاج معالجہ اور مجرم قرار دینے سے نامناسب ضمنی اثرات پیدا ہوتے ہیں اور مسئلے کی صحیح تشخیص بھی نہیں ہوتی، اور نہ صورتِ حال کو درست کرنے کے لیے ہی جو کچھ ضروری ہے اس کے لیے سنجیدگی سے اندازہ لگایا جاتا ہے۔
جس طرح کسی مرض کے لیے کھائی جانے والی دوائوں کے ضمنی اثرات کو دُور کرنے کے لیے دوسری دوائیں دی جاتی ہیں، اسی طرح اسلحے پر کنٹرول اور علاج کے مطالبے علامات میں چھپی بیماری کی تشخیص میں ناکام ہیں۔ ہمارا ایک صحت مند حقیقی معنوں میں مستحکم اور منصفانہ معاشرے کا تصور کرنا اور اس کے لیے لڑنے کی اہلیت نہ رکھنا، اور ہمارا (knee jerk) جیسے ردعمل کی طرح حکومت سے مسئلہ حل کرنے کی توقع رکھنا، جیسے کہ کوئی سادہ حل موجود ہو، جیسے حکومت بجاے استحصال کرنے کے اس کو حل کرنا چاہے، جیسے کہ وہ اتنی صلاحیت رکھتی ہو کہ اسے حل کرے اور وہ اس کا حل رکھتی بھی ہو، (ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ) اس وقت تک قتل و غارت جاری رہے گی، جب تک کہ ہم اپنے نیک ارادوں کے ذریعے ریاست کی حمایت کردہ قتل و غارت برپا کرتے رہیں گے۔ (Misdiagnosing the Culture of Violence،کاؤنٹرپنچ، ۱۸دسمبر ۲۰۱۲ء)
ہمیں اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ مسئلہ محض اسلحے کے حصول اور اس کی نمایش کی آزادی کی تحدید اور ذہنی امراض کے علاج معالجے تک محدود نہیں۔ بگاڑ کے اسباب گہرے ہیں جن کا تعلق اصلاً عقیدہ، تصورِحیات، محرکاتِ عمل اور کامیاب اور ناکام زندگی کے تصورات سے متعلق ہے اور اصلاحِ احوال کے لیے جو بھی حکمت عملی وضع کی جائے، وہ اسی وقت کامیاب ہوسکتی ہے جب اس میں ان تمام پہلوئوں کا خاطرخواہ لحاظ کیا گیا ہو۔ اصلاحِ احوال اسی وقت ممکن ہے جب اصل اسباب کا ادراک ہو اور ان اسباب کو دُور کرنے کے لیے حقیقت پسندانہ انداز میں ایک ہمہ گیر تبدیلی کا راستہ اختیار کیا جائے۔
پھر مسئلہ محض امریکا میں داخلی طور پر جان، مال اور آبرو کی بے توقیری تک محدود نہیں، عالمی سطح پر احترامِ انسانیت اور عدل و انصاف کے باب میں امریکا اور مغربی اقوام، جو آج کی کارفرما قوتیں ہیں، ان کا کردار بھی ہے۔جو مثال وہ خود دنیا کے سامنے قائم کر رہی ہیں اور دنیا کے گوشے گوشے میں خود اُن کی سرزمین پر ان کے حکمران قوتوں کے اپنے ہی سپوت اگر قتل و غارت گری اور دہشت گردی کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں، تو اس عالمی کردار کی موجودگی میں امریکا میں محض جھنڈے پست کرنے اور سوگ منانے سے حالات تبدیل نہیں ہوسکتے۔ اور پھر معاملہ محض امریکا اور مغربی اقوام کا نہیں، دنیا کے بیش تر ممالک میں ان کی اپنی حکومتوں اور برسرِاقتدار قوتوں کے رویے کا بھی ہے۔ اگرچہ خود پاکستان کی سرزمین پر روز و شب خون خرابا ہو رہا ہے اور جس طرح سرکاری اور غیرسرکاری سطح پر تشدد اور دہشت گردی میں اضافہ ہو رہا ہے، وہ بھی اس سے غیرمتعلق نہیں، بلکہ اس عالمی منظرنامے کا ایک حصہ ہے۔ ہرمعصوم انسان کا خون پوری انسانیت کا خون ہے اور ہربچے اور بوڑھے اور مردوزن پر جو گزر رہی ہے وہ ہم سب کا مشترک المیہ ہے۔ ہم پاکستان میں نیوٹائون کے معصوم بچوں اور اساتذہ کی ہلاکت پر خون کے آنسو رو رہے ہیں لیکن خود ہمارے ملک کے گوشے گوشے میں خصوصیت سے پشاور، شمالی علاقہ جات، کوئٹہ، بلوچستان اور کراچی میں جو کچھ ہو رہا ہے اس سے صرفِ نظر کیسے کرسکتے ہیں اور اس کا جو تعلق امریکا کی عالمی دہشت کے نام پر جنگ سے ہے ، اس کو کیسے نظرانداز کیا جاسکتا ہے۔
بدقسمتی سے یہ سب کچھ عالمی دہشت گردی کے ایک منصوبے کا حصہ ہے۔ اس وقت جب ہم نیوٹائون سکول کے ۲۰بچوں کا نوحہ کر رہے ہیں، کیا ہم ان ۳۵بچوں کو بھول سکتے ہیں جو اسی سال نومبر میں صرف چند دن پہلے اسرائیل کی بم باری سے موت کے گھاٹ اُتار دیے گئے؟ کیا ہم ان ۱۶۸ بچوں کو بھول سکتے ہیں جن کی امریکا کے ڈرون حملوں سے پاکستان میں ہلاکت کا اعتراف امریکی جامعات کررہی ہیں؟ گو ہماری اطلاعات کے مطابق شہید ہونے والے معصوم بچوں، عورتوں اور عام شہریوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ اور کیا ان ۲۳۱ بچوں کو بھلایا جاسکتا ہے جو خود افغانستان میں اسی سال صرف چھے ماہ میں شہید کیے گئے ہیں؟ اور کیا ان ۹۲۱ بچوں کی ہلاکت کو بھی بھلایا جاسکتا ہے جو سرکاری اعدادوشمار کے مطابق امریکا کے حیوانی حملوں سے عراق میں شہید کیے گئے۔ یہ سب تو صرف اس سال کی خونیں داستان ہے۔ کینوس کو ذرا وسیع کیا جائے تو کیا ان ۶لاکھ بچوں کو بھلایا جاسکتا ہے جو عراق میں امریکی پابندیوں کے نتیجے میں ۱۹۹۰ء کے بعد سے اب تک جان کی بازی ہارگئے ہیں اور جن کی موت کو امریکا کی ایک سابق سیکرٹری خارجہ میڈلین آل برائٹ نے جنگ کی ناگزیر قیمت (inevitable cost of war) قرار دے کر چٹکیوں میں اڑا دیا تھا۔۱؎
عالمی میڈیا اور دانش وروں کے ایک گروہ نے جس طرح امریکی اسکول کے بچوں کا سوگ منانے کے ساتھ دہشت گردی کے واقعات کو روکنے کی حکمت عملی کو محض عسکری حکمت عملی تک محدود
نہ رکھنے اور ایک ہمہ جہتی حکمت عملی بنانے کی ضرورت کا اظہار کیا ہے، اگر وہ صرف امریکا کے لیے درست ہے، تو کیا باقی تمام دنیا کے بارے میں اس کو نظرانداز کیا جاسکتا ہے؟ کیا تمام دنیا سے دہشت گردی کے خاتمے اور خاص طور سے ان ممالک کو دہشت گردی کی آگ سے نکالنے کے لیے بھی ایک ہمہ جہتی اور حقیقت پر مبنی حکمت عملی کی ضرورت نہیں جن کو خود امریکا کی مسلط کردہ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘کی وجہ سے ان انسان کش اور تباہ کن حالات میں دھکیل دیا گیا ہے۔ کیا شرفِ انسانیت صرف امریکی بچوں کے لیے خاص ہے اور پاکستانی، کشمیری، فلسطینی، یمنی،
۱- ہلاک ہونے والے بچوں کی تعداد تو اس سے کہیں زیادہ ہے لیکن ہم نے یہاں مثال کے لیے صرف وہ اعداد و شمار دیے ہیں جو مغرب کے معتبر اداروں نے دیے ہیں۔ ملاحظہ ہو: بل کیونگلے(پروفیسر آف لا، لائے لوٹا یونی ورسٹی، نیو آرینز، یو ایس اے)، Remeber All the Childrens, Mr. President ، کاؤنٹر پنچ، ۱۷دسمبر ۲۰۱۲ء)
افغانی بچے اس شرف سے محروم ہیں اور وہ صرف استعماری قوتوں کے لیے خس و خاشاک کی مانند ہیں اور ان کے استعماری کھیل کے لیے صرف توپ کے چارے (canon-fodder) کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جب ہم نیوٹائون کے معصوم بچوں کا نوحہ کررہے ہیں تو دوسرے بچوں کو کیسے بھول سکتے ہیں؟ اور اگر ہمارے ممالک کی قیادتیں خود اپنے بچوں کی ہلاکت پر بے چین نہیں ہوتیں اور ان پھول سی ہستیوں کو بچانے کے لیے ہاتھ پائوں نہیں مارتیں تو کیا ان کو اس قوم کا وفادار سمجھا جاسکتا ہے؟ یہ بڑا اہم سوال ہے جس پر سب سے پہلے پاکستان کے عوام اور اُمت مسلمہ اور خاص طور سے اس کی قیادتوں کو غور کرنا چاہیے اور اس باب میں عوام کو اپنی اپنی قیادت کا محاسبہ کرنا چاہیے۔ دیکھیے، خود عالمی برادری کی کچھ حساس روحیں اس تضاد کو کس طرح محسوس کررہی ہیں اور انسانیت کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کی کوشش کررہی ہیں۔ کاش یہ آواز مغرب سے پہلے خود مشرق سے اُٹھتی اور عالمِ اسلام، عرب دنیا اور پاکستان کی قوم، پارلیمنٹ اور قیادتیں اس آواز کو اُٹھاتیں اور اپنے عوام کے حقوق کے لیے عملی اقدام کرتیں۔ ہم صرف چند اہلِ دل کے کرب کی کچھ جھلکیاں اپنی قوم اور اس کی قیادت کو شرم دلانے کے لیے پیش کرتے ہیں:
برطانیہ کے مشہور دانش ور اور دی گارڈین کے مضمون نگار جارج مون بیوٹ بڑے دردبھرے انداز میں اپنے مضمون میں امریکا اور مغربی اقوام کے دوغلے پن اور تضادات کا پردہ چاک کرتے ہیں۔ مضمون کا عنوان ہی مغرب کی تہذیبی اور سیاسی قیادت پر ایک چارج شیٹ کی حیثیت رکھتا ہے: In the US, Mass Child Killings are Tragedies, In Pakistan, Mere Bug Splats. (امریکا میں بچوں کے قتل عام ایسے ہیں، پاکستان میں محض مچھر مکھی مارنا)۔
وہ صدر اوباما کے ان الفاظ کو اپنے مضمون کا مرکزی خیال بناتا ہے جو موصوف نے نیوٹائون سکول کے بچوں کے سفاکانہ قتل پر چشم پُرنم کے ساتھ ادا کیے تھے، یعنی:
محض الفاظ تمھارے غم کا کوئی مداوا نہیں، نہ وہ تمھارے دلوں کے زخم بھر سکتے ہیں… ایسے المیے ختم ہونے چاہییں، اور انھیں ختم کرنے کے لیے ہمیں لازماً تبدیل ہونا چاہیے۔
پھر وہ یہ چبھتا ہوا سوال اُٹھاتا ہے کہ:
اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکا میں ایک پاگل نوجوان کے بچوں کو قتل کرنے پر جس چیز کا اطلاق ہوتا ہے، اسی طرح اس کا اطلاق پاکستان میں ان بچوں کے قتل پر بھی ہوتا ہے، جو ایک اداس امریکن صدر کر رہا ہے۔ یہ بچے اتنے ہی اہم، اتنے ہی حقیقی، اور دنیا کی توجہ کا اتنا ہی استحقاق رکھتے ہیں۔ لیکن ان کے لیے نہ صدارتی تقاریر ہیں، نہ صدارتی آنسو، نہ عالمی اخباروں کے صفحۂ اوّل پر ان کی تصاویر، نہ ان کے غم زدہ رشتے داروں کے انٹرویو ، نہ اس کا باریک بینی سے تجزیہ ہے کہ کیا ہوا اور کیوں ہوا؟
اگر اوباما کے ڈرون حملوں سے مرنے والوں کا ریاست کی طرف سے ذکر کیا جاتا ہے تو اس طرح کیا جاتا ہے کہ وہ جیسے انسانوں سے کم درجے کی چیز ہوں۔ وہ لوگ جو ڈرون کے پورے عمل کو چلاتے ہیں، رولنگ سٹون میگزین کی رپورٹ کے مطابق اِن ہلاک شدگان کا تذکرہ یوں کرتے ہیں گویا محض مچھر مکھی مارنا ہو۔ اس لیے کہ ایک سبزدھندلے ویڈیو پر ان کے جسم کا عکس یہ تاثر دیتا ہے کہ کیڑا کچلا گیا ہے، یا ان کی اتنی وقعت ہے کہ جیسے بس ایک خس و خاشاک ہوں۔ ڈرون جنگ کا دفاع کرتے ہوئے اوباما کے دہشت گردی کے مشیر بروس رڈل نے کہا: آپ کو لان کو ہروقت کاٹنا پڑتا ہے۔ جیسے ہی آپ کاٹنا بند کرتے ہیں تو گھاس کا دوبارہ اُگ آنا یقینی ہے۔
عراق میں جارج بش کی حکومت کی طرح اوباما انتظامیہ بھی شمال مغربی پاکستان میں سی آئی اے کے ڈرون حملوں کے نتیجے میں شہریوں کی ہلاکتوں کو نہ تسلیم کرتی ہے، نہ اس کا ریکارڈ رکھتی ہے، لیکن اسٹین فورڈ اور نیویارک یونی ورسٹیوں کے قانون کے اسکولوں کی رپورٹ کے مطابق : اوباما کے پہلے تین برسوں میں ۲۵۹ حملے ہوئے جس کے لیے وہ ذمہ دار ہیں۔ اس میں ۲۹۷ اور ۵۶۹ کے درمیان شہری ہلاک ہوئے جن میں کم سے کم ۶۴بچے تھے۔ یہ وہ اعداد و شمار ہیں جو قابلِ اعتماد رپورٹوں سے اخذ کیے گئے ہیں۔ یہ اس سے زیادہ بھی ہوسکتے ہیں جن کا مکمل ثبوت نہیں رکھا گیا ہے۔
علاقے کے بچوں پر اس کے دور رس اثرات تباہ کن ہیں۔ بہت سے بچے اسکولوں سے اُٹھا لیے گئے ہیں،اس خوف سے کہ کسی بھی قسم کے بڑے مجمعوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ جب سے بش نے ڈرون حملوں کا آغاز کیا تھا اسکولوں پر متعدد حملے ہوئے ہیں۔ لیکن اوباما نے اس عمل کو بہت جوش و خروش سے پھیلا دیا ہے۔ بش کی ایک فاش غلطی سے ۶۹بچے مارے گئے۔ مطالعے میں بتایا گیا ہے کہ جب بچے ڈرون کی آواز سنتے ہیں تو وہ دہشت سے چھپنے لگتے ہیں۔ ایک مقامی ماہر نفسیات کا کہنا ہے کہ ان کا خوف اور جو ہولناک مناظر وہ دیکھتے ہیں اس سے ان کے دماغ کو مسلسل نقصان پہنچ رہا ہے۔ ڈرون حملوں میں زخمی ہونے والے بچوں نے تحقیق کاروں کو بتایا کہ وہ اتنے زیادہ خوف زدہ ہیں کہ سکول نہیں جاسکتے، اور انھوں نے اپنے مستقبل کی ساری اُمیدوں کو ختم کردیا ہے۔ ان کے جسم ہی نہیں ان کے خواب بھی بکھر گئے ہیں۔
کہنے کو اوباما بچوں کو جان بوجھ کر قتل نہیں کرتا لیکن اُس کے حکم پر جس طرح سے ڈرون حملے کیے جاتے ہیں، ان کی ہلاکت اس کا لازمی نتیجہ ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ ان اموات کے اس پر کیا جذباتی اثرات ہوتے ہیں، اس لیے کہ نہ وہ، نہ اس کے افسر اس کو زیربحث لاتے ہیں۔ پاکستان میں سی آئی اے کے ذریعے ماوراے عدالت قتل سے متعلق تقریباً ہرچیز خفیہ رکھی جاتی ہے، لیکن آپ کو تاثر یہ ملتا ہے کہ جیسے انتظامیہ کے کسی فرد کی نیند تک خراب نہیں ہوئی۔
افسوس اور شرم کا مقام ہے کہ ان پاکستانی بچوں کے غم میں اور اس خونِ ناحق کی فراوانی پر امریکی قیادت اور ڈرون برسانے والوں کی نیندیں تو اُچاٹ نہ ہوئیں، لیکن کیا پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت بھی کسی کرب میں مبتلا ہوئی اور کیا ان معصوم بچوں کی اس دردناک پکار بِاَیِّ ذَنْبٍ م قُتِلَتْ کی کوئی کسک اپنے مجرم ضمیر میں محسوس کی؟
جارج مون بیوٹ اپنے مضمون کا اختتام ان الفاظ پر کرتا ہے جو ہم سب کے لیے لمحۂ فکریہ فراہم کرتے ہیں:
عالمی میڈیا کا بیش تر حصہ جس نے نیوٹائون کے بچوں کو بجاطور پر یاد رکھا ہے لیکن اوباما نے جو قتل کیے ہیں ان کو نظرانداز کرتا ہے یا سرکاری بیان کو درست تسلیم کرتا ہے کہ جو مارے گئے وہ سب ’جنگ جُو‘ تھے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شمال مغربی پاکستان کے بچے ہمارے بچوں کی طرح نہیں ہیں۔ ان کا کوئی نام نہیں ہے، نہ ان کی یاد میں شمعیں روشن کی جاتی ہیں، نہ پھول ہیں اور نہ ٹیڈی بیئر کی یادگاریں۔ جیسے کہ وہ کسی غیرانسانی دنیا کے کیڑے مکوڑے اور گھاس پھوس کی طرح ہوں۔ اوباما نے اتوار کو کہا: کیا ہم یہ کہنے کے لیے تیار ہیں کہ ہمارے بچوں کو سال بہ سال جس تشدد کا سامنا ہے وہ کسی نہ کسی طرح ہماری آزادی کی قیمت ہے؟ یہ ایک جائز سوال ہے۔ اسے اس کا اطلاق اس تشدد پر بھی کرنا چاہیے جو پاکستان کے بچوں پر وہ کررہا ہے۔
دی گارڈین کے ایک اور کالم نگار گلین گرین ورلڈ نے اپنے مضمون New Town Kids vs Yemenis and Pakistanis: What Explains the Disparate Reaction? میں اس مسئلے کی طرف متوجہ کیا ہے:
اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ وہی لوگ جو نیوٹائون میں ہلاک ہونے والے بچوں پر صدمے اور افسوس کا اظہار کر رہے ہیں، وہ اسی تشدد سے یمنی اور پاکستانی بچوں کو ہلاک کیے جانے کی کھلی حمایت تو نہیں کرتے لیکن مسلسل نظرانداز کرتے ہیں۔ یہ ستم ظریفی دیکھیے: پیر کے دن تین سال قبل صدر اوباما کے جنوبی یمن کے المجالہ قصبے پر کروز میزائل اور کلسٹر بم حملے سے ۱۴ خواتین اور ۲۱ بچے ہلاک ہوئے، یعنی اس روز نیوٹائون میں دیوانے نے جتنے بچے مارے اس سے ایک زیادہ۔ امریکا میں اس قتلِ عام کو اس توجہ کا ذرا سا حصہ بھی نہیں ملا جو نیوٹائون کے واقعے کو ملا، اور نہ اس پر کوئی اعتراض، احتجاج یا واویلا ہوا (بس چند بڑے مسلم ممالک میں کچھ غصہ اور توجہ اس کے حصے میں آئی)۔
اس سوال کا جواب ملنا چاہیے کہ بچوں اور دوسرے معصوموں کے قتل پرردِعمل میں اس اختلاف کی وجہ کیا ہے؟ امریکا کا میڈیا نیوٹائون میں قتل ہونے والے بچوں کی تفصیلات گہرائی میں جاکر آخری جزئیات سمیت مسلسل فراہم کرتا ہے لیکن جو بچے امریکا کی اپنی حکومت دوسرے علاقوں میں قتل کر رہی ہے اس سے وہ یکسر بے نیاز ہے۔
گلین گرین ورلڈ جرمن رسالے Der Spiegel میں امریکی ڈرون پائلٹ بران ڈون برائینٹ کا ایک مکالمہ نقل کرتا ہے جسے پڑھ کر انسان انگشت بدنداں رہ جاتا ہے لیکن اس سے سامراجی فوج کے خون آشام سورمائوں کا ذہن سامنے آتا ہے۔ بران نے ڈرون سے میزائل داغا اور آگ کا ایک شعلہ بلند ہوا، بلڈنگ زمین بوس ہوئی اور ایک ننھا بچہ جس کی ایک جھلک دکھائی دی تھی، موت کی آغوش میں جاپہنچا۔ اس نے پاس بیٹھے ہوئے اپنے ساتھی سے پوچھا: ’’کیا ہم نے ایک بچے کو ہلاک کردیا ہے؟‘‘ ساتھی نے جواب دیا: ’’ہاں میرا خیال ہے کہ مرنے والا ایک بچہ تھا‘‘۔ ڈرون سے میزائل چلانے والے ابھی اس فکر میں غلطاں و پیچاں تھے کہ امریکا کی ملٹری کمانڈ سنٹر کے ایک افسر نے مداخلت کی اور کہا:No, That was a dog (نہیں، وہ ایک کتا تھا)۔ جس پر ویڈیو پر اس منظر کو دیکھنے والے ایک اور سورما نے گرہ لگائی کہ A dog on two legs (دو ٹانگوں والا کتا)۔
گلین گرین والڈ اس ذہنیت اور اس کے نتیجے میں رُونما ہونے والی تباہی اور امریکا بے زاری کے طوفان کو دو اور دو چار کی طرح مغربی اقوام کی قیادت کے سامنے رکھنے کی جسارت کرتا ہے:
مسلمانوں کے بچوں کو محض کتا سمجھنا امریکا کی جارحیت اور گذشتہ عشرے میں فوجی اقدامات میں مسلسل اضافے کے نتیجے میں انسانیت کی تذلیل کا اظہار ہے۔ ایک فوجی سلطنت کے شہری اپنے فوجیوں کی ذہنیت کو اختیار کرلیتے ہیں۔ اوباما کا دفاع کرنے والے ترقی پسندوں کو سنیے جب وہ تمغے سجائے،سگار پیتے فوجیوں کی طرح کہتے ہیں کہ جنگ دوزخ ہے اور ضمنی نقصان (collateral damage)کا جواز پیش کرتے ہیں۔ یہ مسلمانوں کو دشمن اور ان کو انسان نہ سمجھنے کی مہم ہے جو اپنا زہریلا سر نکال رہی ہے۔ ایک دوسرا مسئلہ بھی ردعمل کے مختلف ہونے سے سامنے آیا ہے: کس کے ذریعے ہورہا ہے، اور کون قصوروار ہے؟ نیوٹائون میں گولی مارنے کے واقعے پر غم و غصے کا اظہار آسان ہے اس لیے کہ ہم میں سے بہت کم پر اس کی ذمہ داری آتی ہے۔ گو کہ ہم ایسے اقدامات کرسکتے ہیں کہ اس کے اثرات کم ہوں اور آیندہ ایسے واقعات کا امکان کم ہوجائے۔ لیکن ہم بہت کم ایسا کرسکے کہ نفسیاتی مریضوں کو روک سکیں۔ غم و غصہ آسان ہے، اس لیے کہ ہمیں اپنے آپ کو یہ بتانا آسان ہے کہ گولی مارنے والے کا ہم سے اور ہمارے افعال سے کوئی تعلق نہیں۔ (بقیہ ص ۱۰۵)
(بقیہ مقالہ خصوصی ، ص ۲۹)
اس کے برعکس مسلم دنیا میں بچوں اور بے گناہ لوگوں کو مسلسل قتل کرنے والا تشدد درست ہے۔ ہم میں سے بہت سے اس شخص کے لیے جو اس کا ذمہ دار ہے، طاقت فراہم کرتے ہیں اور نعرے لگاتے ہیں۔ امریکی شہری اس کے اخراجات برداشت کرتے ہیں، اس کو ممکن بناتے ہیں، اور اب اوباما کے تحت اگر ہم اس کی حمایت تو نہیں کرتے لیکن اس پر خاموش رہتے ہیں۔ ہمیشہ یہ زیادہ ہی مشکل ہوتا ہے کہ جن ہلاکتوں کے وقوع پذیر ہونے میں ہمارا حصہ ہے، ہم ان کو تسلیم کریں، بہ نسبت اس پر احتجاج کرنے کے، جب کہ ہمیں یقین ہے کہ ہمارا اس میں کوئی ہاتھ نہیں۔یہ بھی ردعمل میں اختلاف کی وضاحت میں ایک اہم عنصر ہے ۔
یہ اس ذہنیت کا تقاضا ہے کہ مدمقابل کو شرفِ انسانیت سے محروم (dehumanization) کردیا جائے اور پھر اسے نرم نوالہ بناکر نیست و نابود کرنے کی کوشش کی جائے اور اسے انسانیت کی خدمت قرار دیا جائے۔ امریکا میں جو بھی دہشت گردی ہو، اس میں ساری ذمہ داری دہشت گردوں پر ہے، اور امریکا دنیا بھر میں جو بھی دہشت گردی کرے، اس میں ساری ذمہ داری ان پر ہے جو اس دہشت گردی کا نشانہ بنتے ہیں۔ یہ ہے وہ مہذب کھیل جو نیوٹائون کے معصوم بچوں کی ہلاکت کے دل خراش واقعے کے بعد پوری انسانیت کے لیے لمحۂ فکریہ فراہم کر رہا ہے۔
گلین ورلڈ اس جنگی حکمت عملی کو یوں بیان کرتا ہے:
ہرجنگ، خاص طور پر دہشت گردی کے خلاف طویل جنگ تقاضا کرتی ہے کہ تشدد کے اہداف کے انسان نہ ہونے کی مہم مسلسل چلائی جائے۔ بہت کم آبادیاں ایسی مسلسل ہلاکتوں کی روادار ہوں گی، اگر انھیں، جو لوگ ہلاک ہورہے ہیں، ان کے انسان ہونے کے احساس کا سامنا ہو۔ مقتولوں کے انسان ہونے کو چھپانا چاہیے اور اس کی تردید کرنا چاہیے۔ یہی ایک راستہ ہے جس کے ذریعے ان کی حکومت کو زندگی کے چراغ مسلسل بجھانے کا جواز دیا جاسکے یا نظرانداز کیا جاسکے۔ یہ وہ کلیدی نکتہ ہے جس کا اظہار MSNBC کی رپورٹر ایشلے بن فیلڈ نے ۲۰۰۳ء میں عراق سے واپسی پر اپنی تنزلی اور برخاستگی سے پہلے غیرمعمولی جرأت مندانہ تقریر میں کیا کہ امریکا کا میڈیا امریکا کے تشدد کی رپورٹنگ اس طرح کرتا ہے کہ اس کا نشانہ بننے والوں کی شناخت اور ان کے انجام کو چھپاتا ہے۔
تشدد اور حقوق کے کم کرنے کا اطلاق بش اور اوباما دونوں کی انتظامیہ نے خاص طور پر صرف مسلمانوں پر کیا ہے۔ لہٰذا یہ مسلمان ہیں جن کی ایک منصوبے کے تحت انسانیت کے لحاظ سے تذلیل کی گئی۔ امریکا کے عوام عملاً ہرگز نہیں سنتے کہ ان کی حکومت کے تشدد سے مسلمان ہلاک ہوئے ہیں۔ ان کو کبھی اس طرح بیان نہیں کیا جاتا۔ نیویارک ٹائمز اپنے صفحہ اوّل پر کبھی بھی ان کی عمریں اور نام مؤثر طور پر نمایاں کر کے نہیں دکھاتا۔ ان کے جنازے کبھی نہیں دکھائے جاتے۔ اوباما کبھی آنسوئوں بھری تقاریر نہیں کرتا کہ کس طرح مسلمانوں کے بچوں کی آیندہ پوری زندگی باقی تھی: ان کی تعلیم، روزگار، شادیاں اور ان کے بچے۔ شرفِ انسانیت سے محروم کرنے سے (dehumanistion) ان کا انسان ہونا نظروں سے اوجھل ہوجاتا ہے،اسی لیے ہمیں اس کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔(دی گارڈین، ۱۹ دسمبر ۲۰۱۲ء)
نیوٹائون اسکول کے بچوں کی ہلاکت کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے لیکن یہ اندوہناک واقعہ دہشت گردوں کے تمام واقعات کی حقیقت کو سمجھنے اور دہشت گردی سے نجات پانے کے لیے مطلوبہ حکمت عملی اختیار کرنے کے باب میں سب کے لیے چشم کشا ثابت ہونا چاہیے، اور جس طرح امریکا میں دہشت گردی کو قابو میں کرکے اور تشدد کے طرزِ زندگی سے نجات پانے کے لیے نئی حکمت عملی کے خطوطِ کار سوچے جارہے ہیں، اسی طرح ساری دنیا کو اس لعنت سے پاک کرنے کے لیے صحیح حکمت عملی کا تعین ضروری ہے۔ جہاں تک مسلم دنیا کا تعلق ہے ہمارا مسئلہ دوگونہ ہے___ ایک طرف امریکا اور مغربی اقوام کی یورش اور ان کے اپنے سیاسی اور معاشی ایجنڈے کے مطابق ہمارے وسائل پر قبضے ہیں ۔ امن، انصاف اور خودمختاری سے محروم رکھنے کی سیاسی، معاشی اور عسکری لشکرکشی ہے تو دوسری طرف اپنوں کی غفلت یا دشمن سے معاونت۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اس وقت جب ہماری مظلومی پر کچھ غیر بھی آنسو بہارہے ہیں، ہمارے اپنے ملکوں کی قیادتیں خوابِ خرگوش میں مگن ہیں یا دوسروں کی آلۂ کار بن رہی ہیں۔
ٹوم میک نامرا نے جو فرانس کے ESC Renus School of Business میں پروفیسر ہے اور فرانس کی نیشنل ملٹری اکیڈمی میں بھی پڑھا رہا ہے، کاؤنٹرپنچ میں اپنے ایک مضمون میں اس استعجاب کا اظہار کیا ہے کہ جب دنیا میں یہ کچھ ہورہا ہے اور امریکا اپنے بچوں کی ہلاکت پر چلّا رہا ہے، عالمِ عرب کیوں سو رہا ہے؟ اس کے مضمون کا عنوان ہی بول رہا ہے: کیا عرب بھی اپنے بچوں کے لیے روتے ہیں؟
عراق، فلسطین اور یمن کے حالات پر نگاہ ڈال کر وہ ان الفاظ میں ہمارے ضمیر کو جھنجھوڑنے اور ہماری غیرت کو بیدار کرنے کی جسارت کرتا ہے:
نیوٹائون پر جو تکلیف اور اذیت گزری اسے عرب دنیا کے لیے ہزارگنا بڑھایا جاسکتا ہے۔ امریکی پالیسی اور اقدامات کی وجہ سے لاکھوں نہیں تو ہزاروں معصوم بچے ہلاک ہوئے (یعنی قتل کیے گئے)۔ ان بچوں کی اموات کو جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف (شدید ترین نوعیت کے) جرائم قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس کا ہمیں صدمہ ہونا چاہیے۔ ہمیں اس پر غصہ آنا چاہیے جو ہمیں مجبور کرے کہ امریکی خارجہ پالیسی میں فوری تبدیلی کا مطالبہ کریں، لیکن ایسا ہونے کے لیے ضروری ہے کہ ہمیں پہلے یہ یقین ہو، کہ عرب بھی اپنے بچوں کے لیے روتے ہیں۔(Do Arabs Cry for Their Children Too? by Tom Mcnamara, Renus, France، کاؤنٹرپنچ، ۱۸دسمبر۲۰۱۲ء)
سوال صرف عربوں کا نہیں ہمارا اپنا بھی ہے۔ کیا پاکستانی قیادت، پارلیمنٹ اور قوم اپنی ذمہ داری ادا کر رہے ہیں؟ اور کیا وہ وقت نہیں آگیا کہ دنیا میں جہاں بھی دہشت گردی، ظلم اور ناانصافی ہو، اس پر آواز اُٹھائی جائے۔ لیکن سب سے پہلے ہمارے گھر میں جو آگ لگی ہوئی ہے اور جو اس کے ذمہ دار ہیں ان کے خلاف علَمِ بغاوت بلند کیا جائے۔ اگر ہماری قیادتیں اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام ہیں تو ایسی قیادتوں سے جلد از جلد نجات حاصل کی جائے، اور اپنی آزادی، عزت، اپنے بچوں، بوڑھوں اور خواتین کی زندگی اور آبرو کی حفاظت کے لیے کمربستہ ہوجایا جائے۔ کیا تاریخ کی اس صدا پر ہم لبیک کہنے کو تیار ہیں کہ ___ اَلَیْسَ مِنْکُمْ رَجُلٌ رَّشِیْدٌ ؟
میں اکتوبر کے مہینے میں لسٹر، انگلستان میں زیرعلاج تھا کہ ۳۱؍اکتوبر۲۰۱۲ء کو یہ غم ناک اطلاع ملی کہ ہماری محترم بہن اور دورِحاضر میں اسلام کی بے باک ترجمان محترمہ مریم جمیلہ صاحبہ کا انتقال ہوگیا ہے___ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ۔ اللہ تعالیٰ ان کی نصف صدی سے زیادہ پر پھیلی ہوئی دینی، علمی اور دعوتی خدمات کو قبول فرمائے اور ان کواپنے جوارِرحمت میں اعلیٰ مقامات سے نوازے۔
محترمہ مریم جمیلہ سے میرا تعارف وائس آف اسلام کے ایڈیٹر کی حیثیت سے ان کے امریکا کے قیام کے دوران ہی ہوچکا تھا اور ہم ان کے مضامین شائع کر رہے تھے۔ پھر جون ۱۹۶۲ء میں پاکستان آمد کے موقع پر جن تین افراد نے کیماڑی کی بندرگاہ پر ان کا استقبال کیا، ان میں مَیں بھی شامل تھا۔ میرے ساتھ محترم چودھری غلام محمد صاحب اور برادر غلام حسین عباسی ایڈووکیٹ بھی تھے۔ ہم محترم مولانا مودودی کی ہدایت کے مطابق ان کو خوش آمدید کہنے کے لیے مامور تھے اور کراچی میں ان کے قیام اور پروگرام کے ذمہ دار تھے۔ انھوں نے نیویارک سے پاکستان کی ہجرت کا یہ سفر ایک مال بردار جہاز (cargo ship) میں طے کیا تھا اور غالباً کسٹم اور امیگریشن کی وجہ سے پہلے دن انھیں اترنے نہیں دیا گیا جس کے نتیجے میں انھیں ایک رات مزید جہاز پر ہی گزارنا پڑی۔ اگلے دن ہم انھیں گھر لے آئے۔ ان کے قیام کا انتظام برادرم غلام حسین عباسی کے بنگلے پر کیا گیا تھا اور اسی رات کا کھانا میرے گھر پر تھا۔ پھر مرحوم ابراہیم باوانی صاحب اور عباسی صاحب کے گھر پر کئی محفلیں ہوئیں۔ اس طرح ان سے وہ ربط جو علمی تعاون کے ذریعے قائم ہوا تھا، اب ذاتی واقفیت اور بالمشافہ تبادلۂ خیال اور ربط اور ملاقات کے دائرے میں داخل ہوگیا۔
کراچی میں ان کا قیام مختصر رہا اور وہ چند ہی دن میں لاہور منتقل ہوگئیں۔ جب تک وہ مولانا محترم کے گھر میں مقیم رہیں، لاہور کے ہرسفر کے دوران ان سے بات چیت ہوتی رہی۔ پھر عملاً ملاقات کا سلسلہ ٹوٹ گیا مگر علمی تعلق قائم رہا، اور ان کے انتقال سے چند ماہ قبل تک خط و کتابت کا سلسلہ رہا جس کا بڑا تعلق اسلامک فائونڈیشن لسٹر اور اس کے مجلے مسلم ورلڈ بک ریویو (MWBR) کے سلسلے میں ان کے قلمی تعاون سے رہا۔۵۰برس پر محیط ان تعلقات میں ذاتی سطح پر کبھی کوئی کشیدگی رُونما نہیں ہوئی۔ البتہ علمی امور پر ہمارے درمیان وسیع تر اتفاق راے کے ساتھ بڑا مفید اختلاف بھی رہا حتیٰ کہ اسلامک فائونڈیشن کے مجلے Encounter میں میرے ایک مضمون Man and Civilization in Islam پر انھوں نے ایک تنقیدی مقالہ لکھا جس کا مَیں نے اسی شمارے میں جواب بھی تحریر کیا۔ یہ سب بڑے دوستانہ ماحول میں ہوا اور الحمدللہ ہمارے باہمی اعتماد او ر تعاون کا رشتہ مضبوط اور خوش گوار رہا جو ہمارے پُرخلوص اور خالصتاً لِلّٰہ تعلق کی ایک روشن مثال ہے اور اُمت کے درمیان اختلاف کے رحمت ہونے کی نبوی بشارت کا ایک ادنیٰ مظہر ہے۔ ان کی آخری تحریر جو امریکا سے شائع ہونے والی ایک کتاب Children of Dust: A Portrait of a Muslim Youngman، از علی اعتراز (Ali Eteraz) پر ان کا تبصرہ ہے جو MWBR کے جنوری ۲۰۱۳ء کے شمارے میں شائع ہونے والا ہے اور جس کا آخری جملہ یہ ہے: "The semi - fiction of this story will certainly give the reader a negative picture of Pakistani youth today. (یہ نیم افسانوی کہانی یقینا قاری کو آج کی پاکستانی نوجوان نسل کی منفی تصویر دکھائے گی)۔
اسی طرح ان کے شوہر برادرم محترم محمد یوسف خان صاحب سے بھی میرا تعلق ۱۹۵۱ء سے ہے جب میں جمعیت میں تھا اور وہ جماعت کے سرگرم رکن تھے۔ الحمدللہ یہ رشتہ بھی بڑا مستحکم رہا اور اس طرح شوہر اور بیوی دونوں ہی سے میرا تعلق خاطر رہا۔ محترمہ مریم جمیلہ صاحبہ میرے نام اپنے خطوط میں اپنے شوہر کا ذکر "My Khan Sahab" [میرے خان صاحب] سے کیا کرتی تھیں جو محبت اور مودّت کے جذبات کے ترجمان ہیں۔ ان خطوط میں ترجمان القرآن کے ’اشارات‘ کے بارے میں یوسف خان صاحب کے احساسات سے مجھے مطلع کرتی تھیں۔ یوسف خان صاحب کو ٹیلی فون پر تعزیتی جذبات پہنچانے کی کوشش کی لیکن وہ غم میں ایسے نڈھال تھے کہ بات نہ ہوسکی، البتہ ان کے صاحب زادے تک اپنے غم و اندوہ کے جذبات پہنچا دیے اور آج ان صفحات میں اس عظیم خاتون کے بارے میں اپنے جذبات اور احساسات کا اظہار کررہا ہوں۔
مریم جمیلہ جن کا ماں باپ کا دیا ہوا نام مارگریٹ مارکس تھا، نیویارک کے ایک سیکولر یہودی گھرانے میں ۲۳ مئی ۱۹۳۴ء میں پیدا ہوئیں۔ ابتدائی تعلیم کے بعد انھوں نے روچسٹر یونی ورسٹی میں ۱۹۵۱ء میں داخلہ لیا۔ علم و ادب اور میوزک اور تصویرکشی (painting)سے طبعی شغف تھا۔ فلسفہ اور مذہب بڑی کم عمری ہی سے ان کے دل چسپی کے موضوعات تھے، بلکہ یہ کہنا بجا ہوگا کہ حق کی تلاش اور زندگی کی معنویت کی تفہیم ان کی فکری جستجو کا محور رہے۔ دل چسپ امر یہ ہے کہ اسلام سے ان کا اولین تعارف یونی ورسٹی کے کورس کے ایک ابتدائی مضمون Judaism in Islam کے ذریعے ہوا، جو ایک یہودی استاد ابراہم اسحق کاٹش پڑھاتا تھا۔ اس کی کوشش تھی کہ اسلام کو یہودیت کا چربہ ثابت کرے لیکن تعلیم و تدریس کے اس عمل میں موت اور زندگی بعد موت کے مسئلے پر مریم جمیلہ اس کے خیالات سے خصوصی طور پر متاثر ہوئیں۔ اپنے ایک انٹرویو میں اس کا ذکر اس طرح کیا:
نومبر ۱۹۵۴ء کی ایک صبح، پروفیسر کاٹش نے اپنے لیکچر کے دوران ناقابلِ تردید دلائل دیتے ہوئے کہا کہ حضرت موسٰی ؑنے توحید کی جو تعلیمات دی ہیں اور جو الوہی قانون ان پر نازل ہوا ہے ناگزیر ہے۔ اگر اخلاقی قوانین خالصتاً انسان کے بنائے ہوئے ہوں، جیساکہ اخلاقی کلچر اور دیگر الحادی اور دہریت پر مبنی فلسفوں میں بیان کیا جاتا ہے، تو وہ محض ذاتی راے اور ذوق، متلون مزاجی ، سہولت اور ماحول کی بنا پر تبدیل ہوسکتے ہیں۔ اس کا نتیجہ مکمل انتشار ہوگا جس کے نتیجے میں انفرادی اور اجتماعی زوال برپا ہوسکتا ہے۔ آخرت پر ایمان، جیساکہ ربی تلمود میں بیان کرتے ہیں، پروفیسر کاٹش نے دلائل دیتے ہوئے کہا، کہ محض ایک خوش گمانی نہیں ہے بلکہ ایک اخلاقی تقاضا ہے۔ اس نے کہا کہ صرف وہ لوگ جو پختگی سے اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ہم میں سے ہر ایک کو روزِ قیامت خدا کے حضور پیش ہونا ہے، اور زمین پر اپنی زندگی کے تمام اعمال کی جواب دہی کرنا ہوگی اور اس کے مطابق جزا و سزا کا سامنا کرنا ہوگا، صرف وہی اپنی ذات پر اتنا قابو رکھیں گے کہ اُخروی خوشنودی کے حصول کے لیے عارضی خوشیوں کو قربان اور مصائب کو برداشت کرسکیں۔
یہ بھی ایک دل چسپ حقیقت ہے کہ جس طرح یہودی پروفیسر کے یہ الفاظ نوعمر مارگریٹ مارکس کے دل و دماغ پر مرتسم ہوگئے اور زندگی کا رُخ متعین کرنے میں ایک فیصلہ کن کردار ادا کیا، اسی طرح مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ کے جس پہلے مضمون نے ان کے قلب و نظر کو روشن کیا وہ ’زندگی بعد موت‘ کا میرا کیا ہوا ترجمہ تھا، جو جنوبی افریقہ کے مجلے Muslim Digest میں شائع ہوا تھا۔ مریم جمیلہ کی شخصیت کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ان چیزوں کو اچھی طرح سمجھا جائے جو ان کی زندگی کا رُخ متعین کرنے میں فیصلہ کن کردار ادا کرتی نظر آتی ہیں۔ ان کی اپنی بے تاب روح اور تلاشِ حق کی جستجو، اور حقیقت کی وہ تفہیم جو توحید اور آخرت کے تصور پر مبنی ہے، جس میں زندگی کو خانوں میں بانٹنے کی کوئی گنجایش نہیں اور جس کے نتیجے میں انسان ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَـآفَّۃً (تم پورے کے پورے اسلام میں آجائو۔البقرہ ۲:۲۰۸)کا نمونہ اور زمین پر اللہ کے خلیفہ کا کردار ادا کرنے میں زندگی کا لطف اور آخرت کی کامیابی تلاش کرتا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جو زندگی میں یکسوئی پیدا کرتی ہے۔ تبدیلی کے لیے انسان کو آمادہ ہی نہیں کرتی بلکہ مطلوب کو موجود بنانے ہی کو زندگی کا مشغلہ بنا دیتی ہے اور بڑی سے بڑی آزمایش میں اس کا سہارا بن جاتی ہے۔ مریم جمیلہ نے امریکا کی پُرآسایش زندگی کو چھوڑ کر پاکستان کی طرف ہجرت، اور بڑی سادہ اور مشکلات سے بھرپور لیکن دل کو اطمینان اور روح کو شادمانی دینے والے راستے کو اختیار کیا اور پوری مستعدی، استقامت اور خوش دلی کے ساتھ سفر حیات کو طے کیا۔ یہ سب اسی ایمان، آخرت کی کامیابی کے شوق، اور انسانی زندگی کو اللہ کے حوالے تصور کرنے کے جذبے کا کرشمہ ہے۔
محترمہ مریم جمیلہ ۱۹۶۰ء کی دہائی میں بڑی کم عمری کے عالم میں مسلم دنیا کے علمی اُفق پر رُونما ہوئیں اور بہت جلد انھوں نے ایک معتبر مقام حاصل کرلیا۔ انھوں نے اسلام کے اس تصور کو جو قرآن و سنت کی اصل تعلیمات پر مبنی ہے اور جو زندگی کے ہرپہلو کی الہامی ہدایت کی روشنی میں تعمیروتشکیل کا داعی ہے، بڑے مدلل انداز میں پیش کیا اور وقت کے موضوعات اور اس دور کے فکری چیلنجوں کی روشنی میں کسی مداہنت کے بغیر اسلام کی دعوت کو پیش کیا ۔ اس باب میں ان کو یہ منفرد حیثیت حاصل تھی کہ وہ نہ صرف ایک مسلمان صاحب ِ علم خاتون اور داعیہ تھیں، بلکہ امریکی ہونے کے ناتے مغربی تہذیب سے پوری طرح آشنا تھیں اور ان کی حیثیت Insider یعنی شاہدُ مِنھم کی تھی۔
ان کو موضوع اور زبان دونوں پر قدرت حاصل تھی اور وہ اپنی بات بڑے جچے تلے انداز میں مسکت دلائل کے ساتھ بڑی جرأت سے پیش کرتی تھیں۔ ۳۰ سے زیادہ کتابوں کی مصنفہ تھیں اور ان کے علاوہ بیسیوں مضامین اور تبصرے ان کے قلم سے نکلے۔ سیدولی نصر نے دی اوکسفرڈ انسائی کلوپیڈیا آف اسلامک ورلڈ میں ان پر اپنے مقالے میں بجا طور پر یہ لکھا ہے کہ اپنے پاکستان کے قیام کے دوران انھوں نے دورِجدید میں اسلام کے تحریکی تصور کی بڑی عمدگی کے ساتھ ترجمانی کی۔ خصوصیت سے اسلام اور مغربی تہذیب کے بنیادی فرق اور جداگانہ نقطہ ہاے نظر کو انھوں نے بڑی وضاحت کے ساتھ موضوع بنایا اور جدید تعلیم یافتہ نوجوانوں کے افکارونظریات کو متاثر کیا۔ ان کے الفاظ میں :
مریم جمیلہ نے ۱۹۶۲ء میں پاکستان کا سفر کیا اور لاہور میں مولانا مودودی کے گھرانے میں شامل ہوگئیں۔ جلد ہی انھوں نے جماعت اسلامی کے ایک رکن محمد یوسف خان سے بطور ان کی دوسری بیوی کے شادی کرلی۔ پاکستان میں سکونت اختیار کرنے کے بعد انھوں نے اپنی پوری زندگی میں بہت سی مؤثر کتابیں لکھیں جن میں جماعت اسلامی کے نظریے کو ایک منظم انداز سے بیان کیا۔ مریم جمیلہ کو اسلام اور مغرب کے درمیان بحث سے خصوصی دل چسپی تھی جو مولانا مودودی کی فکر کا مرکزی تصور نہ ہوتے ہوئے بھی اس کا ایک اہم پہلو ہے۔ انھوں نے مغرب کے خلاف اسلامی استدلال کو مزید اُجاگر کیا اور عیسائیت، یہودیت، اور سیکولر مغربی فکر پر احیائی تنقید کو منظم انداز سے بیان کیا۔ مریم جمیلہ کی اہمیت ان کے مشاہدات کے زور میں نہیں ہے بلکہ اس اسلوبِ بیان میں ہے جس میں وہ اندرونی طور پر ایک مربوط مثالیے کو مغرب کے احیائی استرداد کے لیے پیش کرتی ہیں۔ اس حوالے سے ان کے اثرات جماعت اسلامی کے دائرے سے بہت آگے تک جاتے ہیں۔پوری مسلم دنیا میں احیائی فکر کے ارتقا میں ان کا کردار بہت اہم رہا ہے۔
محترمہ مریم جمیلہ کی چند تعبیرات سے اختلاف کیا جاسکتا ہے اور خود انھوں نے بھی اُن اہلِ علم سے کہیں کہیں اختلاف کیا ہے جن کے افکار و نظریات نے خود ان کے ذہن اور فکر کی تعمیر میں اہم حصہ لیا ہے، لیکن مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ بحیثیت مجموعی ان کی ۵۰سالہ علمی کاوش ہماری فکری تاریخ کا ایک روشن باب ہے، اور خصویت سے مغربی تہذیب پر ان کی تنقید ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ ان کے قلم میں بڑی جان تھی اور انھوں نے ایمان اور یقین کے ساتھ دین کے پیغام کو پیش کیا اور تمام انسانوں کو کفر، الحاد، بے یقینی، اخلاقی بے راہ روی اور سماجی انتشار اور ظلم و طغیان کی تباہ کاریوں سے بچانے کے گہرے جذبۂ خیرخواہی کے ساتھ اس کام کو انجام دیا جو کارِرسالت کا طرئہ امتیاز ہے۔ قرآن نے رجال کے بارے میں جو شہادت دی ہے وہ نساء کے باب میں بھی اتنی ہی سچی ہے کہ :
مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاھَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِ ج فَمِنْھُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَہٗ وَ مِنْھُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُ وَ مَا بَدَّلُوْا تَبْدِیْلًا o (الاحزاب ۳۳:۲۳)، ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنھوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچا کر دکھایا۔ ان میں سے کوئی اپنی نذر پوری کرچکا اور کوئی وقت آنے کا منتظر ہے۔ انھوں نے اپنے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔
محترمہ مریم جمیلہ کی زندگی کے دو پہلو ہیں جن کو سمجھنا مفید ہوگا۔ ایک ان کی علمی شخصیت ہے جس میں بلاشبہہ انھوں نے اپنی مسلسل محنت اور سلاست فکر کے باعث ایک نمایاں مقام حاصل کیا۔ انھوں نے مغربی فکروتہذیب پر بڑے علمی انداز میں محاکمہ کیا اور اس کے طلسم کو توڑنے میں اہم کردار ادا کیا۔ فلسفہ، مذہبیات اور عمرانیات کے اہم ترین موضوعات کے ساتھ انفرادی زندگی اور اجتماعی معاملات میں اسلام کی رہنمائی کو بڑے صاف الفاظ میں بیان کیا اور فکرِاسلامی کی ترویج و تبلیغ کے باب میں اہم خدمات انجام دیں۔ اس کے ساتھ ان کی کوشش تھی کہ اسلام کے پیغام کو ہرانسان تک پہنچائیں، اور اسے دنیا اور آخرت کی کامیابی کے راستے پر لانے کی کوشش کریں۔ اس طرح علمی اور فکری خدمات کے ساتھ ان کا دامن دعوتی اور تبلیغی مساعی سے بھی بھرا ہوا ہے۔ اس سلسلے میں ان کا شاہکار وہ خط ہے جو انھوں نے اپنے والدین کو لکھا اور جس کا ایک ایک لفظ صداقت پر مبنی، دعوتِ حق کی تڑپ کا اعلیٰ نمونہ ہے۔ ان کی شخصیت اور مقصدحیات کو سمجھنے کے لیے یہ خط بہترین کلید ہے۔ اس کا بڑا خوب صورت ترجمہ کرنل (ریٹائرڈ) اشفاق حسین نے مریم جمیلہ کے خطوط پر مبنی ایک طرح کی خودونوشت کے ترجمے امریکا سے ہجرت میں کیا ہے اور اس سے چند اقتباس ایک آئینہ ہے جن میں مریم جمیلہ کے فکروفن اور جذبے اور اخلاص کی حقیقی تصویر دیکھی جاسکتی ہے۔
مریم جمیلہ لکھتی ہیں:’’آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ وہ معاشرہ جس میں آپ کی پرورش ہوئی ہے اور جس میں آپ نے اپنی پوری زندگی گزار دی ہے، بڑی تیزی سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور مکمل تباہی کے قریب ہے۔ درحقیقت ہماری تہذیب کا زوال بھی جنگ ِ عظیم کے وقت ہی ظاہر ہوناشروع ہوگیا تھا لیکن دانش وروں اور ماہرین عمرانیات کے سوا کسی کو احساس نہیں ہوا کہ کیا ہو رہا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے اختتام کے بعد اور خاص طور پر پچھلے دوعشروں میں یہ اتنی تیزی سے زوال کے اس مرحلے پر پہنچ چکی ہے کہ کوئی شخص اسے مزید نظرانداز نہیں کرسکتا۔
’’زندگی کے معاملات اور رویوں میں کسی قابلِ احترام اور قابلِ قبول معیار کے نہ ہونے کی وجہ سے اخلاقی بے راہ روی،تفریحی ذرائع ابلاغ پر مبنی کج روی، بوڑھوں سے ناروا سلوک، طلاق کی روزافزوں شرح جو اتنی بڑھ چکی ہے کہ نئی نسل کے لیے پایدار اور خوش گوار ازدواجی زندگی ایک خواب بن کر رہ گئی ہے۔ معصوم بچوں کے ساتھ غلط کاریاں، فطری ماحول کی تباہی، نایاب اور قیمتی وسائل کا بے محابا ضیاع، امراضِ خبیثہ اور ذہنی بیماریوں کی وبائیں، منشیات کی لت، شراب نوشی، خودکشی کا بڑھتا ہوا رجحان، جرائم، لُوٹ مار، حکومتی اداروں میں بے ایمانی اور قانون کا عدم احترام___ ان تمام خرابیوں کی ایک ہی وجہ ہے۔
’’اور وہ وجہ ہے لامذہبیت اور مادیت پر مبنی نظام کی ناکامی___، نیک ماورائی، اعلیٰ و ارفع مذہبی نظام سے دُوری اور اخلاقی قدروں کا ناپیدا ہونا___ اعمال کا دارومدار عقیدوں پر ہوتا ہے کیونکہ نیت ہی درست نہ ہو توعمل ہمیشہ ناکام ہوتا ہے.....
’’اگر زندگی ایک سفر ہے تو کیا یہ حماقت نہیں ہوگی کہ بندہ راستے میں آنے والی منزلوں پر آرام دہ ایام اور خوش گوار ٹھکانوں کی فکر تو کرے، لیکن سفر کے اختتام کے بارے میں کچھ نہ سوچے؟ آخر ہم کیوں پیدا ہوئے تھے؟ اس زندگی کا کیا مطلب ہے؟ کیا مقصد ہے؟ آخر ہمیں مرنا ہے اور ہم میں سے ہر ایک کے ساتھ موت کے بعد کیا معاملہ ہونا ہے؟
’’ابو! آپ نے ایک سے زائد بار مجھے بتایا ہے کہ آپ کسی روایتی مذہب کو اس لیے قبول نہیں کرسکتے کیونکہ آپ کو یقین ہے کہ الہامی مذہب جدید سائنس سے متضاد چیز ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سائنس اور ٹکنالوجی نے ہمیں ساری دنیا کے بارے میں بہت معلومات فراہم کی ہیں، ہمیں آرام و آسایشات اور سہولتیں فراہم کی ہیں، اس نے ہماری کارکردگی میں اضافہ کیا ہے اور ان بیماریوں کے علاج دریافت کیے ہیں جو جان لیوا ثابت ہوتی تھیں، لیکن سائنس ہمیں یہ نہیں بتاتی اور نہیں بتا سکتی کہ زندگی اور موت کا کیا مطلب ہے۔ سائنس ہمیں ’کیا اور کیسے‘ کا جواب تو دیتی ہے لیکن ’کیوں‘ کے سوال کاکبھی کوئی جواب نہیں دیتی۔ کیا سائنس کبھی یہ بتا سکتی ہے کہ کیا درست ہے اور کیا غلط؟ کیا نیکی ہے، کیا برائی؟ کیا خوب صورت ہے اور کیا بدصورت؟ ہم جو کچھ کرتے ہیں اس کے لیے کس کو جواب دہ ہیں؟ مذہب ان سارے سوالوں کے جواب دیتا ہے۔
’’آج امریکا کئی لحاظ سے قدیم روم کے زوال و شکست کے آخری مرحلوں سے گزر رہا ہے۔ سوچ اور فکر رکھنے والے لوگ جانتے ہیں کہ لامذہبیت ہمارے معاشرتی نظام کی مستحکم بنیاد ثابت نہیں ہوسکی۔ وہ مضطرب ہوکر مختلف سمتوں میں اس بحران کا حل تلاش کر رہے ہیں لیکن انھیں ابھی تک نہیں پتا کہ یہ حل انھیں کہاں سے ملے گا۔ یہ تشویش چند ماہرین عمرانیات تک محدود نہیں ہے۔ قومی یک جہتی کی ٹوٹ پھوٹ کی بیماری براہِ راست آپ کو، مجھے اور ہم میں سے ہر ایک کو متاثر کررہی ہے.....
’’آج امریکی باشندے، جوان ہوں یا بوڑھے بڑی تندہی سے رہنمائی کی تلاش میں ہیں۔ تلخ تجربوں کے بعد انھیں پتا چلا ہے کہ زندگی کے کسی مقصد اور صراطِ مستقیم کی طرف قابلِ اعتماد رہنمائی کے بغیر شخصی آزادیاں اور وہ ساری سہولتیں جو امریکیوں کو حاصل ہیں، لایعنی اور اپنی ذات کی تباہی کے مترادف ہیں۔سیکولرازم اور مادیت امریکیوں کو ان کی انفرادی یا اجتماعی زندگی میں کسی طرح کی مثبت اور تعمیری، اخلاقی قدریں فراہم نہیں کرسکتی۔ یہی وجہ ہے کہ عیسائیت اور صہیونیت کے ہاتھوں ناکامی کے بعد امریکا میں زیادہ سے زیادہ لوگ اسلام کی طرف مائل ہورہے ہیں۔ نومسلم اسلام میں ایک پاکیزہ، صحت مند، صاف ستھری اور دیانت دار زندگی کا سراغ پاتے ہیں۔ مسلمانوں کے نزدیک موت سے ہرچیز ختم نہیں ہوجاتی بلکہ وہ اس کے بعد آخرت میں ہمیشہ رہنے والی نعمتوں، پایدار ذہنی سکون اور دائمی خوشیوں کی توقع رکھتے ہیں۔
’’قرآن مقدس اور رسولِ خدا محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی مستند احادیث میں پائی جانے والی یہ ہدایت و رہنمائی صدیوں سے مشرق کے دُورافتادہ علاقوں کی نسلوں تک محدود نہیں تھی، بلکہ آج مغرب کو جو معاشی، معاشرتی، اخلاقی اور سیاسی مسائل درپیش ہیں، ان کا حل بھی ہدایت کے انھی سرچشموں میں موجود ہے۔ علاوہ ازیں اسلام میں سردمہری، خالق سے دُوری یا خالق کی بے نیازی کے احساسات نہیں پائے جاتے۔ مسلمان ایک ایسے خدا پر یقین رکھتے ہیں جس میں اپنائیت ہے۔ جس نے نہ صرف اس کائنات کو پیدا کیا بلکہ وہ اس کے نظم و نسق کا بھی ذمہ دار ہے اور وہی اس کا حکمران ہے۔ وہ اپنے بندوں سے محبت کرتا ہے اور ہم میں سے ہر ایک کا بہت خیال رکھتا ہے۔ قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ اللہ ہم سب سے ہر ایک کی شہ رگ سے بھی قریب ہے.....
’’آپ دونوںکافی طویل عمر پاچکے ہیں اور بہت کم مہلت باقی رہ گئی ہے۔ اگر آپ فوراً عمل کریں تو زیادہ تاخیر نہیں ہوگی۔ اگر آپ کا فیصلہ مثبت ہو تو پاکستان میں اپنے پیارے لوگوں سے آپ کا نہ صرف خونی رشتہ ہوگا بلکہ ایمان کا رشتہ بھی قائم ہوجائے گا۔ آپ نہ صرف اس دنیا میں ان سے محبت کرسکیں گے بلکہ ہمیشہ رہنے والی زندگی میں بھی آپ ہمارے ساتھ ہوں گے.....
’’میں ایک بیٹی کی حیثیت سے، جسے آپ سے محبت ہے، آخروقت تک چاہوں گی کہ آپ اس بُرے نصیب سے بچ جائیں لیکن فیصلہ صرف آپ کے ہاتھ میں ہے۔ آپ کو مکمل اختیار ہے کہ آپ اس دعوت کو قبول کریں یا مسترد کردیں۔ آپ کے مستقبل کا انحصار اس انتخاب پر ہے جو آپ نے اب کرنا ہے۔
اپنی ساری محبتوں اور نیک خواہشات کے ساتھ۔
آپ کی وفادار بیٹی، مریم جمیلہ‘‘۔ (امریکا سے ہجرت، ص ۲۰-۲۵)
محترمہ مریم جمیلہ کی زندگی کا دوسرا پہلو ان کی شخصی زندگی ہے جو خود ایک روشن مثال کی حیثیت رکھتی ہے۔ جب انھوں نے اسلام کی حقانیت کو پالیا اور اپنے آپ کو اس کے سانچے میں ڈھالنے کا عزم کرلیا تو پھر انھوں نے اپنے کو خود اپنوں کے درمیان اجنبی محسوس کیا۔ امریکا میں وہ اپنے کو انمل بے جوڑ محسوس کرنے لگیں اور مسلمان سوسائٹی اور اسلامی زندگی کی تلاش میں انھوں نے پاکستان ہجرت اسی جذبے سے کی جس جذبے سے مکہ کے مسلمانوں نے مدینہ کے لیے ہجرت کی تھی اور پھر مدینہ ہی کے ہوکر رہ گئے تھے۔ گو ان کی تمام توقعات پوری نہیں ہوئیں لیکن انھوں نے پاکستان کو اپنا گھر بنالیااور مڑ کر امریکا جانے کے بارے میں کبھی ایک بار بھی نہ سوچا، بلکہ برادرم یوسف خان صاحب نے ان کو بار بار مشورہ دیا مگر انھوں نے اس طرف ذرا بھی رغبت ظاہر نہ کی۔ امریکا میں ان کے رہن سہن کا معیار امریکی معیار سے بھی اوسط سے کچھ بہتر ہی تھا لیکن پاکستان میں جس عسرت اور سادگی سے انھوں نے زندگی گزاری اور صبروثبات کا جو مظاہرہ کیا وہ قرونِ اولیٰ کے لوگوں کی یاد تازہ کرتا ہے۔ ایک شادی شدہ شخص سے بخوشی رشتۂ ازدواج استوار کیا، اپنی ’سوکن‘ کے ساتھ اس طرح مل جل کر رہیں کہ یک جان اور دو قالب کا نمونہ پیش کیا۔ دونوں کے غالباً چودہ پندرہ بچے بھی ایک دوسرے سے شیروشکر رہے اور سب ہی بچے بڑی ماں (محترمہ شفیقہ صاحبہ) کو اماں اور چھوٹی ماں (محترمہ مریم جمیلہ) کو آپا کہتے تھے اور مریم جمیلہ نے وصیت کی کہ ان کی قبر بھی محترمہ شفیقہ صاحبہ، جن کا انتقال چند برس ہی قبل ہوا تھا، کی قبر کے پاس ہو۔ مادہ پرستی اور نام و نمود کی فراوانی کے اس دور میں درویشی اور اسلامی صلۂ رحمی کی ایسی مثال اسلام ہی کا ایک معجزہ ہے، جس کی نظیر آج کے دور میں بھی دیکھنے کی توفیق اللہ تعالیٰ کی اس نیک بی بی کے طفیل ہم سب کو حاصل ہوئی ع
آسماں اس کی لحد پر شبنم افشانی کرے