حال ہی میں ایک مقتدر انگریزی روزنامے میں حکومت ِپاکستان کے سابق سیکرٹری خارجہ جناب ریاض محمد خان نے اپنے ایک مضمون میں یہ دلیل دینے کی کوشش کی ہے کہ ’’تنازعہ جموں و کشمیر دراصل مسلم اکثریتی وادیِ کشمیر کا مسئلہ ہے‘‘ اور ان کے بقول: ’’دیگر دو خطے جموں و لداخ غیرمسلم اکثریتی علاقے ہیں، اس لیے لاتعلق ہیں‘‘۔تنازعۂ کشمیر کو جغرافیائی و سیاسی تناظر میں دیکھنے کے بجاے انسانی زاویے سے دیکھنے کے لیے ان کا موقف یقینا ستایش کے قابل ہے، مگر متنازعہ ریاست کی آبادیاتی ساخت اور اس کے مختلف خطوں کی مذہبی شناخت پر ان کی کم علمی اور ناقص معلومات پر افسوس کے سوا کیا کہا جاسکتا ہے۔
جموں و کشمیر کی آبادیاتی (Demographic) ساخت کے بارے میں عموماً یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ اس کے تین خطوں: ’’کشمیر وادی، لداخ اور جموں میں سے صرف ایک خطے میں مسلمانوں کی اکثریت ہے‘‘۔ تاہم، بھارتی وزارتِ داخلہ کے رجسٹرار آف سنسس کی طرف سے ۲۰۱۱ء میں کرائی گئی مردم شماری کے اعداد و شمار اس غلط فہمی کو دُور کرتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ریاست کے تمام خطّے لسانی اور ثقافتی اعتبار سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں، مگر جموں کا خطہ جو انتظامی لحاظ سے ایک ڈویژن ہے، دراصل تین خطوں، یعنی جموں (توی ریجن)، پیر پنچال اور وادیِ چناب میں منقسم ہے۔
اوّل الذکر خطّہ، یعنی جموں توی ریجن میں مختلف ہندو ذاتوں کی اکثریت ہے، جب کہ دیگر دونوں خطّوں میں مسلمان اکثریت میں ہیں۔
جموں توی کے پانچ اضلاع ادھم پور، سانبھا، ریاسی، جموں اور کٹھوعہ کی آبادی ۳۳ لاکھ سے زیادہ ہے۔ اس خطّے کےبھی ریاسی ضلع میں ہندو اور مسلمانوں کا تناسب تقریباً برابر ہے:
جموں اور کشمیر کی مردم شماری 2011ء
کُل آبادی: ایک کروڑ 25 لاکھ 41 ہزار 302
مسلمان
85,67,485
68.31%
ہندو
35,66,674
28.43%
سکھ
2,34,848
1.87%
بودھ
1,12,584
0.89%
وادی کشمیر (اضلاع)
اضلاع
کُل آبادی
ہندو
فی صد
مسلمان
فی صد
کپواڑہ
8,70354
37218
4.26
8,23286
94.59
بڈگام
7,53745
10110
1.34
7,36054
97.65
بارہ مولا
10,08039
30621
3.03
9,59185
95.15
بانڈی پورہ
3,92232
8439
2.15
3,82006
97.39
سری نگر
12,36829
42540
3.43
11,77342
95.19
گاندربل
2,97446
5592
1.88
2,90581
97.69
پلواما
5,60440
13840
2.46
5,35159
95.48
شوپّیاں
2,66215
3116
1.17
2,62263
98.51
اننت ناگ
1,07869
1318
1.2
10,57005
97.98
کلگام
4,24483
4247
1.05
4,18076
98.49
میزان
68,88475
1,68813
2.45
66,40957
96.40
جموں (اضلاع)
اضلاع
کُل آبادی
ہندو
فی صد
مسلمان
فی صد
کٹھوعہ
6,16435
5,40063
87.61
64234
10.42
اودھم پور
5,54985
4,89044
88.11
59771
10.76
ریاسی
3,14667
1,53896
48.90
1,56275
49.66
جموں
15,29958
12,89240
84.26
1,07489
7.02
سامبا
3,18898
275311
86.33
22950
7.19
میزان
33,34943
27,47554
82.38
4,10719
12.31
پیر پنجال (اضلاع)
اضلاع
کُل آبادی
ہندو
فی صد
مسلمان
فی صد
پونچھ
4,76836
32604
6.83
4,31279
90.44
راجوری
6,42415
2,21880
34.53
4,02879
62.71
میزان
11,19251
2,54484
22.73
8,34158
74.52
وادی چناب (اضلاع)
اضلاع
کُل آبادی
ہندو
فی صد
مسلمان
فی صد
ڈوڈا
4,09936
1,87621
45.76
2,20614
53.81
رمبن
2,83713
81026
28.55
2,00516
70.67
کشتواڑ
2,30696
93931
40.71
1,33225
57.74
میزان
9,24345
3,62578
39.22
5,54355
59.97
لداخ (لیہہ اور کرگل اضلاع)
اضلاع
کُل آبادی
ہندو
فی صد
مسلمان
فی صد
بودھ مت
فی صد
لیہہ
1,33487
22882
17.14
19057
14.27
88635
66.39
کرگل
1,40802
10341
7.34
1,08239
76.87
20126
14.29
میزان
2,74289
33223
12.11
1,27296
46.40
1,08761
39.65
(Census of India 2011, Registerar of Census, Govt of India, Ministry of Home Affairs, New Delhi, 2015)
پیرپنچال اور وادیِ چناب کے خطے اپنی علیحدہ شناخت رکھتے ہیں۔ پیرپنچال کا خطہ، راجوری اورپونچھ کے دو اضلاع پر مشتمل ہے۔ یہاں مسلمانوں کا تناسب ۷۵ فی صد ہے۔
اسی طرح ایک اور خطّہ ہے وادیِ چناب، جو دریاے چناب کے دامن میں بسا ہوا ہے۔ اس خطّے کو بھی انتظامی اعتبار سے جموں ڈویژن کا حصہ بنایا گیا ہے۔ اس کے تین اضلاع ہیں: کشتواڑ، رام بن اور ڈوڈہ۔ تینوں اضلاع مسلم اکثریتی ہیں۔ اس خطے میں مسلم آبادی کا تناسب ۶۰ فی صد ہے۔
لداخ خطّے کے بارے میں سب سے زیادہ غلط فہمی پھیلائی گئی ہے کہ یہ بودھ اکثریتی علاقہ ہے، جو حقیقت کے بالکل برعکس ہے۔ اس خطے میں دو اضلاع لیہ اور کرگل ہیں۔ تناسب کے اعتبار سے بودھ ۳۹ء۶۵ فی صد اور مسلمان ۴۶ فی صد ہیں۔ اس طرح مردم شماری کے یہ اعداد و شمار لداخ کے بودھ اکثریتی علاقہ ہونے کی تردید کرتے ہیں۔
لداخ کے صرف ضلع لیہہ میں بودھ آبادی کا تناسب ۶۶ فی صد ہے، جب کہ مسلمان ۱۴فی صد ہیں۔ اس ضلع کی آبادی لیہ کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ یعنی خطے کی مجموعی آبادی میں ۲لاکھ ۷۴ہزار ۲سو ۸۹ میں سے مسلمانوں کی تعداد تقریباً ایک لاکھ ۲۸ہزار ہے، جب کہ بودھوں کی ایک لاکھ ۸ہزار ہے۔
وادیِ کشمیر کے بارے میں کوئی ابہام نہیں ہے۔ یہاں مسلم آبادی کا تناسب ۹۶ فی صد ہے۔
ریاست کی جملہ آبادی ایک کروڑ ۲۵لاکھ ۴۱ ہزار سے کچھ زیادہ ہے، جس میں مسلمانوں کی تعداد تقریباً ۸۶لاکھ ہے، جب کہ ہندوئوں کی ۳۵لاکھ سے زیادہ اور سکھوں کی تقریباً ڈھائی لاکھ اور بودھ مت کے پیروکاروں کی تعداد ایک لاکھ سے کچھ زیادہ۔
ہندستان ٹائمز کی لیڈر شپ سمٹ میں شرکت کرنے کے لیے جب پاکستان کی سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹوصاحبہ [م: ۲۰۰۷ء] نئی دہلی آئی تھیں اور موریہ شیریٹن ہوٹل میں مَیں ان کا انٹرویو لے رہا تھا توانھوں نے [آسٹریلیا کے سابق چیف جسٹس اور اقوام متحدہ کے نمایندے] سراون ڈکسن [م: ۷جولائی ۱۹۷۲ء] کے ’کشمیر پلان‘ کے حوالے سے تفصیلات پر مجھ سے تبادلۂ خیال کیا۔
میں نے کہا: ’’اگر پورے جموں و کشمیر میں کسی ایک ایشو پر اتفاق راے ہے تو یہی ہے کہ ریاست کی وحدت برقرار رہنی چاہیے۔ تقسیم کی صورت میں جموں اور کرگل کی ایک بہت بڑی مسلم آبادی کو نقل مکانی کرنی پڑے گی‘‘۔
بے نظیر صاحبہ کا کہنا تھا :’’مجھے تو بریفنگ کچھ اور ہی دی گئی ہے‘‘۔ یہ کہہ کر انھوں نے اگلا سوال یہ کیا کہ: ’’پھر ان علاقوں میں کبھی کوئی تحریک برپا کیوں نہیں ہوتی؟‘‘
میں نے جواب دیا کہ ’’ایک تو یہ بہت ہی دُور دراز علاقے ہیں اور وادیِ چناب کے علاوہ دیگر علاقے لائن آف کنٹرول سے قریب ہونے کی بنا پر ہمہ پہلو فوجی حصار بھی ان علاقوں میں سب سے زیادہ ہے‘‘۔
سابق خارجہ سیکرٹری محترم ریاض محمد خان صاحب کا ایک اور استدلال یہ بھی ہے کہ: ’’پاکستان کے آبی وسائل، یعنی دریاے چناب اور دریاے سندھ ریاست کے غیرمسلم اکثریتی علاقوں سے ہوکر گزرتے ہیں‘‘۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں دریا اپنا بیش تر سفر بالترتیب وادیِ چناب اور ضلع کرگل میں طے کرتے ہیں اور یہ دونوں مسلم اکثریتی علاقے ہیں۔
افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ اس طرح کا استدلال ان چند ہندو جماعتوں کو تقویت فراہم کرتا ہے، جو جموں کو الگ ریاست اور لداخ کو براہِ راست دہلی کے تحت انتظامی علاقہ بنانے کا مطالبہ کرتی ہیں۔ دراصل یہ مطالبہ سیاسی مایوسی کی پیداوار ہے۔ اگر جموں کو مذہبی اعتبار سے الگ کیا جاتا ہے ، تو اس کے تینوں خطوں کو بھی الگ الگ کرنا پڑے گا، کیوں کہ مذہبی پیمانے پر خطے کی تقسیم کے معنی پیرپنچال اور وادیِ چناب کو مسلم اکثریت ہونے کی بنا پر الگ کرنا پڑے گا۔ اس صورت میں جموں توی ایک چھوٹے سے علاقے میں سمٹ جائے گا۔
ایک منصوبے کے تحت ان علاقوں کو جان بوجھ کر وادیِ کشمیر سے الگ تھلگ رکھا گیا تھا، تاکہ مسلم اکثریتی آبادی کو احساسِ کمتری میں مبتلا کر کے مسلمانوںکو اس خطے سے بے دخل ہونے پر مجبور کیا جائے۔ وادیِ چناب اور پیرپنچال میں ایک عشرے سے زائد سیکورٹی ایجنسیوں کی شہ پر ویلج ڈیفنس کمیٹیوں (وی ڈی سی) نے مسلم اکثریتی طبقے کا جینا دوبھر کر رکھا ہے۔ عسکریت سے نبٹنے کے نام پر ان علاقوں میں سویلین افراد پر مشتمل فورس بنائی گئی تھی،جو نہ سرکار کے تابع ہے اور نہ کسی کے سامنے جواب دہ اور ان میں صرف ہندو اقلیتی افراد کو بھرتی کیا گیا تھا۔ ان خطوں میں اس فورس کے ذریعے اغوا، تاوان، زیادتیوں کی وارداتیں عام ہیں۔ ظاہر ہے کہ خمیازہ مسلم آبادی کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔
۲۰۰۳ء اور ۲۰۰۵ء کے درمیان وزیراعلیٰ مفتی محمد سعید [م: ۲۰۱۶ء] نے پیرپنچال کو دوبارہ وادیِ کشمیر سے جوڑنے کے لیے مغل روڈ کے احیا کا بیڑا اُٹھایا تھا۔ یہ شاہراہ اب مکمل ہوچکی ہے، جو پونچھ کی بفلیاز تحصیل کو جنوبی کشمیر کے شوپیاں قصبے سے ملاتی ہے۔ اکثر مغل حکمران لاہور سے اسی سڑک کے ذریعے وادیِ کشمیر میں وارد ہوتے تھے۔ مغل شہنشاہ جہانگیر [م: ۱۶۲۷ء] کا انتقال ہی بفلیاز کے پاس کشمیر واپسی پر راستے میں ہوا تھا۔ بغاوت کے ڈر سے انتقال کی خبر کو راز میں رکھنے کی غرض سے ملکہ نورجہاں [م: ۱۶۴۵ء] نے آلایش و اعضا نکال کر اسی علاقے میں دفن کر دیے تھے اور بقیہ نعش اسی تزک و احتشام کے ساتھ لاہور کی طرف عازم تھی، گویا کہ بادشاہ خود قافلے کی قیادت کر رہے ہوں۔ ۱۹۷۵ء میں شیخ محمدعبداللہ [م: ۱۹۸۲ء] نے اقتدار میں آتے ہی اس سڑک کو کھولنے کی بھرپور سعی کی، مگر کچھ رقوم کی عدم دستیابی اور کچھ بھارت کے وزارتِ دفاع کے اعتراضات نے اس کو التوا میں ڈال دیا۔ یہی حال کچھ کرگل اور وادیِ کشمیر کے گاندربل اضلاع کا ہے۔ زوجیلا پاس کے نیچے سے یہاں بھی ایک سرنگ کئی عشروں سے تعمیر اور تکمیل کا انتظار کر رہی ہے۔
ان علاقوں میں مسلم آبادی کو احساسِ محرومی کا مزید شکار کرنے کے لیے اب تاریخ بھی مسخ کی جارہی ہے، تاکہ یہ باور کرایا جائے کہ ’’جموں کے نجات دہندہ، ڈوگرہ حکمران ہی تھے‘‘۔ اکھنور میں جیاپوتا کے مقام پر تو کئی برسوں سے راجا گلاب سنگھ [م: ۱۸۵۷ء]کا جنم دن منایا جاتا ہے۔ ان کا ایک مجسمہ بھی نصب کیا گیا ہے۔ شعوری طور پر کوشش کی جارہی ہے کہ راجا گلاب سنگھ اور ان کے جانشینوں کو ’تاریخ کے ہیرو‘ بنا کر پیش کیا جائے۔ یہ بھی کوشش رہی ہے کہ راجا گلاب سنگھ اور راجا ہری سنگھ [م: ۱۹۶۱ء]کے یومِ پیدایش پر سرکاری چھٹی منظور کرائی جائے۔ اس سلسلے میں جموں شہر میں حال ہی میں ہتھیاروں سے لیس ہندو انتہا پسندوں نے سڑکوں پر مارچ کیا۔ جاگیردارانہ لوٹ کھسوٹ کرنے والے مہاراجوں، جبروتشدد کرنے والے مطلق العنان راجواڑوں اور عوامی مفادات بیچ کر اقتدار حاصل کرنے والے حاکموں کو تاریخ ساز ہیرو قرار دینا تاریخ کے ساتھ سب سے بڑا اور گھنائونا ظلم ہے۔
ان ظالموں نے اس ریاست میں راج کن وسائل اور ذرائع سے حاصل کیا، وہ تاریخ میں درج ہے۔ راجا گلاب سنگھ نے پہلے جموں کے عوام، پھر لاہور کے سکھ دربار سے بے وفائی کر کے جبروتشدد کے ذریعے جموں و کشمیر کی ریاست میں اقتدار حاصل کیا تھا۔ پھر ان کے لواحقین اور جانشین بدترین انداز سے جاگیردارانہ لوٹ کھسوٹ کرتے رہے۔ ایسے ڈاکو راج کو بھلا جموں کا ہیرو کیسے قرار دیا جاسکتا ہے؟
جب مہاراجا رنجیت سنگھ [م: ۱۸۳۹ء] نے پیش قدمی کرکے جموں کو فتح کرنے کی کوشش کی تو جموں میں اس کی زبردست مزاحمت ہوئی۔ جموں میں لاہور دربار کے خلاف زبردست گوریلا لڑائی لڑی گئی، جس کی قیادت میاں ڈیڈو اور دیگر ڈوگرہ جنگ جُو کر رہے تھے۔ راجا گلاب سنگھ کے والد اور خود گلاب سنگھ نے ڈوگرہ سرفروشوں کو پیٹھ دکھا کر، مہاراجا رنجیت سنگھ کی فوج میں ملازمت اختیار کرکے ڈوگرہ مدافعتی جنگ سے دامن بچایا اور مہاراجا رنجیت سنگھ کا ایجنٹ بن کر میاں ڈیڈو اور دوسرے کئی ڈوگرہ جنگجوئوں کو قتل کیا۔ ڈوگرہ مدافعت کو کچلنے، مہاراجا رنجیت سنگھ کی سلطنت کو جموں میں وسعت دینے اور ڈوگرہ سرفروشوں کو قتل کرنے کے عوض راجا گلاب سنگھ کو جموں کی باج گزار ریاست عطا ہوئی۔ لاہور دربار کو خوش کرنے کے لیے میاں ڈیڈو کے علاوہ جسروٹہ، بلادر، بسوہلی، بھمبر، ٹکری، کرمچی، کشتواڑ، بھدرواہ، سراج، کوٹلی ، راجوری، پونچھ، میرپور اور دوسرے علاقوں کے راجگان کے سر قلم کرکے ان کے پسماندگان کو ملک بدر کیا گیا۔ کھالوں میں بھوسہ بھر کر درختوں کے ساتھ لٹکایا گیا اور وحشت اور سفاکیت کا دور جاری کیا گیا۔
لیکن راجا رنجیت سنگھ کی وفات کے بعد جب سکھ سلطنت کا زوال شروع ہوا اور انگریزوں نے پنجاب پر چڑھائی کی تو جموں کا یہ راجا، لاہور کے دربار سے غداری کر کے انگریزوں سے مل گیا۔ اس خدمت ِ خاص کے عوض ۷۵ لاکھ روپے نانک شاہی کی رقم جو انگریزوں نے ان پر تاوانِ جنگ ڈالا تھا، اس کی ادایگی کر کے ’بیع نامہ امرتسر‘ کے ذریعے کشمیر کا یہ صوبہ راجا گلاب سنگھ نے حاصل کیا۔ ۱۸۴۶ء سے ۱۹۴۷ء تک جموں کے ان نام نہاد ’ہیروز‘ کے اس خانوادے نے جموں و کشمیر کے عوام کے ساتھ جو سلوک کیا وہ تاریخ میں رقم ہے۔ظلم کی اس سیاہ رات میں اصل خونیں بارش یہاں کے مسلمانوں پر برسی۔
سرزمین بنگال کی قسمت میں قربانی، سازش اور ظلم ساتھ ساتھ چلتے نظر آتے ہیں۔ قیامِ پاکستان سے قبل انگریزوں اور ہندوئوں کے ظلم سہتے ہوئے بنگالی مسلمانوں نے گراں قدرقربانیاںپیش کیں اور غیرت و حمیت پر آنچ نہ آنے دی۔ لیکن قیامِ پاکستان کے بعد انھی ہندوئوں کے ہاتھوں میں کھیلنے کے لیے مشرقی پاکستان کی بڑی سیاسی قوت نے خودسپردگی کا ایک ایسا رویہ اختیار کیا، جس نے انھیں تاحال سکون اور قومی خوداختیاری کی دولت سے محروم رکھا ہے۔ حالیہ دنوں میں بنگلہ دیش کی کٹھ پتلی عوامی لیگی حکومت نے کچھ ایسے اقدامات کیے ہیں، جن پر یہ معروضات پیش ہیں:
o
اگرچہ جماعت اسلامی اور اسلامی چھاترو شبر کو عوامی لیگی حکومت مسلسل نشانۂ ستم بنائے ہوئے ہے ، لیکن ستمبر کے آخری ہفتے میں جماعت اسلامی پر عتاب کا نیا وار کرتے ہوئے جماعت کے کارکنوں کی اچانک پکڑ دھکڑ کا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔ ۲۷ستمبر کو ضلع پبنہ کی سانتھیا تحصیل کے امیرمستفیض الرحمٰن فیروز اور جماعت اسلامی کی حلقہ خواتین کی فعال کارکنان کو بلاجواز گرفتار کرلیا۔ اسی طرح ضلع سرسنگدی کی تحصیل پولاش کے امیر مولانا امجد حسین کو بھی زیرحراست لے لیا گیا۔
۹؍اکتوبر کو نمازِ عشاء سے تھوڑی دیر پہلے، حکومت نے جماعت اسلامی کے امیر مقبول احمد، نائب امیر و سابق رکن پارلیمنٹ میاں غلام پروار اور سیکرٹری جنرل ڈاکٹر شفیق الرحمٰن، محمد شاہ جہاں (امیرچٹاگانگ)، نذرالاسلام، سیف الاسلام، جعفرصادق اور نذرالاسلام ثانی کو گرفتار کرلیا۔ جماعت اسلامی نے تمام حکومتی مظالم، دھاندلیوں اور خوف ناک زیادتیوں کے باوجود جمہوری، پُرامن اور ایک اصولی پارٹی کے طور پر اپنی سرگرمیوں کو جاری رکھا ہے۔ ان قائدین کو گرفتار کرتے وقت الزام یہ لگایا گیا کہ ’’ڈھاکا کے ایک گھر میں دہشت گردی کا منصوبہ بنایا جارہا تھا‘‘، جب کہ جماعت کے ترجمان نے اس شرم ناک الزام کی تردید اور مذمت کرتے ہوئے کہا کہ: ’’وہ ایک گھر کے احاطے میں سماجی تقریب میں شریک تھے، خفیہ یا تخریب کاری جیسے گھنائونے الزام کی کوئی حقیقت نہیں۔ ہم ایک جمہوری پارٹی ہیں اور جمہوری طریقوں سے اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ باوجود اس کے کہ جماعت اسلامی کی مرکزی قیادت کو جھوٹے الزامات اور غیرمنصفانہ اور یک طرفہ مقدمات میں مطیع الرحمٰن نظامی سمیت جماعت اسلامی کے پانچ مرکزی رہنمائوں (سیکرٹری جنرل علی احسن محمد مجاہد، ڈپٹی سیکرٹری جنرل قمرالزمان خان، اسسٹنٹ سیکرٹری عبدالقادر مُلّا، مرکزی مجلس شوریٰ کے رکن میرقاسم علی) کو پھانسی پر لٹکادیا گیا، مگر جماعت نے کوئی غیرقانونی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ اور جو پُرامن احتجاج کیے، ان میں بھی جماعت کے بہت سے کارکنوں کو حکومت کے ایما پر گولیاں مار کر شہید کر دیا گیا۔ پھر شہید مطیع الرحمٰن نظامی کی پھانسی کے بعد منتخب امیرجماعت اسلامی بنگلہ دیش مقبول احمد صاحب نے بوجوہ بڑے جلسوں میں شرکت سے گذشتہ پورے سال کے دوران میں اجتناب برتا ہے، مگر اس کے باوجود انھی پر شرم ناک الزام لگانا، حکومتی حلقوں کا ذہنی دیوالیہ پن ہے‘‘۔ یاد رہے ۲۰۱۳ء سے جماعت اسلامی پر انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے کہ: ’’جب تک وہ اپنے دستور اور منشور کو سیکولر نہیں بناتی وہ انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتی‘‘۔
جناب مقبول احمد کی گرفتاری کے بعد جماعت اسلامی نے سابق ممبر پارلیمنٹ پروفیسر مجیب الرحمٰن کو قائم مقام امیر اور جناب اے ٹی ایم معصوم کو قائم مقام سیکرٹری جنرل مقرر کیا ہے۔
۹؍اکتوبر ہی کو بنگلہ دیش سپریم کورٹ میں جماعت اسلامی کے تین لیڈروں کی نظرثانی کی اپیلوں پر کارروائی ۲۱نومبر تک ملتوی کی گئی۔ یاد رہے کہ ان میں اے ٹی ایم اظہرالاسلام، سیّدمحمد قیصر اور عبدالسبحان کو بنگلہ دیش کی خصوصی [جعلی] عدالتیں سزاے موت کی سزا سنا چکی ہیں۔ (روزنامہ ڈیلی اسٹار، ۱۰؍اکتوبر ۲۰۱۷ء)
قائم مقام امیرجماعت اسلامی کی اپیل پر ۱۲؍اکتوبر کو پورے ملک میں پُرامن ہڑتال کی گئی۔ابتدا میں تو نہیں، البتہ ہڑتال کے دوران بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے جماعت اسلامی کی ہڑتال کی حمایت کا اعلان کر دیا (NTV ڈھاکا، ۱۲؍اکتوبر)۔ اسی دوران میں جماعت کے بہت سے احتجاجی کارکنوں کو گرفتار کرکے تھانوں میں بند کردیا گیا۔ نیڑو تحصیل کے امیر ماسٹر نذرالاسلام ، سراج گنج کے امیر پروفیسر شاہدالاسلام اور رنگ پور سے تین مقامی لیڈروں کو پولیس نے اُٹھا لیا۔ ۱۵؍اکتوبر کو ست خیرا میں جماعت کے امیر پروفیسر عبدالغفار کو گرفتار کرلیا۔ اسی طرح کومیلا کے امیر قاضی دین محمد سمیت گیارہ ارکان، چاندپورسے امیرجماعت محمد حسین اور یہیں سے حلقہ خواتین کی ناظمہ فردوسی سلطانہ اور سیکرٹری فرزانہ اختر کو قید کر دیا گیا۔یاد رہے ریمانڈ کا پروانہ لے کر کارکنوں کو پولیس ٹارچر سیلز میں لے جاتی اور انسانیت سوز مظالم ڈھاتی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس ظلم پر میڈیا خاموش، عدالت تماشائی اور قوم بے بس نظر آتی ہے۔
جماعت اسلامی کے ۸۰ سالہ امیر جماعت مقبول احمد کی جیل میں صحت بُری طرح خراب ہے۔ وہ ذیابیطس ، بلڈپریشر اور امراضِ دل میں مبتلا ہیں۔ ریڑھ کی ہڈی میں شدید درد کے باعث ان کے لیے سیدھے کھڑے ہونے اور بیٹھنے میں سخت مشکل پیش آتی ہے، اس لیے روزانہ فزیوتھراپی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ادویات میں بے قاعدگی، پرہیزی خوراک کے خاتمے اور جسمانی مشق کی کمی کے باعث ان کی صحت بگڑ گئی ہے، مگر حکومت آج ۲۵؍اکتوبر تک انھیں ہسپتال بھیجنے کے لیے تیار نہیں۔
حسینہ واجد کی کٹھ پتلی حکومت نے اخلاق اور جمہوری روایات کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے ۱۸؍اکتوبر کو ڈھاکا سے اسلامی جمعیت طالبات بنگلہ دیش (اسلامی چھاترو شنگھستا) کی ۲۱ کارکنان اور عہدے داران کو درسِ قرآن کی ہفتہ وار کلاس سے گرفتار کرلیا۔ یہ طالبات اعلیٰ درجوں میں میڈیکل، سماجیات اور انجینیرنگ کے شعبہ جات سے وابستہ ہیں۔ اس ’روشن خیال اور لبرل‘ حکومت کے مطالبے پر ڈھاکا ہائی کورٹ نے طالبات کی درخواست ضمانت مسترد کرتے ہوئے انھیں پولیس کے ریمانڈ میں دے دیا، اور دو روز کے ریمانڈ کے بعد جیل بھیج دیا۔
راج شاہی یونی ورسٹی سے اسلامی چھاترو شبر کے آٹھ کارکنان کو گرفتار کرکے تشدد کا نشانہ بنایا اور دہشت گردی کا الزام لگایا۔ اسلامی چھاتروشبر کے مرکزی صدر یاسین عرفات نے اس پر کہا ہے کہ: ’’ایک غیرقانونی حکومت، اندھی قوت کے نشے میں بدمست ہوکر گھٹیا الزام لگاتے ہوئے اخلاق، قانون اور قومی اداروں کو تباہ کررہی ہے۔ یہ گرفتاریاں، تشدد اور پھانسیاں تحریک ِ اسلامی کا راستہ نہیں روک سکتیں‘‘۔
o
حسینہ واجد حکومت نے پہلے بنگلہ دیش کی اعلیٰ عدلیہ کو اپنی باج گزار بناکر اس سے خاص طور پر ’انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل‘ کی کارروائی کی تائید اور انصاف کے قتل کے لیے زرخرید غلاموں کی طرح کام لیا۔ یوں بنگلہ دیش سپریم کورٹ نے آنکھیں بند کرکے، نام نہاد خصوصی ٹریبونلی فیصلوں پر ایک ایک کر کے عمل کرایا اور جماعت اسلامی کے پانچ رہنمائوں اور صلاح الدین قادر چودھری کو پھانسی پر لٹکا دیا، جب کہ قائدتحریک اسلامی پروفیسر غلام اعظم اور ان کے دو رفقا کو جیل کے اندر ہی موت کی وادی میں اُتار دیا۔ حالیہ عرصے میں اسی بنگلہ دیشی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سریندر کمار سنہا نے سات ججوں سمیت بنگلہ دیشی پارلیمنٹ کی ۱۶ویں ترمیم کو اس کی اصل شکل میں نامنظور کرتے ہوئے، ۳جولائی ۲۰۱۷ء کو ۷۹۹صفحات پر مشتمل فیصلہ لکھا اور ۳؍اگست ۲۰۱۷ء کو ۳۹نکاتی فارمولا تجویز کرتے ہوئے متفقہ فیصلے کا اعلان کیا۔
عوامی لیگی حکومت کی طرف سے دراصل یہ ترمیم اس مقصد کے لیے کی گئی تھی کہ :’’آیندہ پارلیمنٹ کے ارکان، اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کا مواخذہ (impeachment) کرسکیں گے‘‘۔ فیصلے کے متن میں چیف جسٹس نے ایک جگہ ۱۹۷۱ء کے ہنگامی حالات میں شیخ مجیب کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے ساتھ یہ جملہ بھی لکھا کہ ’’وہ جدوجہد فردِ واحد کا ثمر نہیں تھی بلکہ اس میں پوری قوم نے حصہ لیا تھا‘‘۔ اس جملے کو عوامی لیگ نے مجیب کی توہین قرار دے کر چیف جسٹس کے خلاف مخالفانہ بلکہ توہین آمیز مہم چلانے اور دبائو بڑھانے کا آغاز کیا ،تاکہ وہ استعفا دیں۔
یہ مسئلہ اُس وقت اپنی انتہا کو پہنچ گیا، جب جسٹس سنہا نے چند روز قبل ایک عدالتی کارروائی کے دوران یہ کہہ دیا کہ: ’’ہمیں جذبات پر قابو رکھنا چاہیے اور یہ دیکھنا چاہیے کہ پاکستان کی سپریم کورٹ نے تو وزیراعظم نواز شریف کو برطرف کر دیا ہے، لیکن کیا وہاں پر سپریم کورٹ کو اس طرح تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے؟‘‘ اس جملے کا میڈیا پہ آنا تھا کہ حسینہ واجد نے اسی روز شدید غصے اور برہمی میں چیف جسٹس سنہا کا نام لیے بغیر کہا:’’اسے اب سپریم کورٹ چھوڑنا ہی پڑے گا، اس لیے کہ اس نے پاکستان کے ساتھ بنگلہ دیش کا موازنہ کیا ہے۔ کسی معاملے میں پاکستان کی مثال پیش کرنا ہمارے لیے توہین آمیز اور ناقابلِ برداشت فعل ہے‘‘۔ مزید کہا: ’’عوام کی عدالت زیادہ بڑی عدالت ہے۔ کوئی فرد عوام کی عدالت کو نظرانداز نہیں کرسکتا، میں عوام ہی کی عدالت سے انصاف کی طالب ہوں‘‘۔ حسینہ واجد کے مذکورہ بیان کے چند گھنٹوں بعد ۱۹۶۹ء کی عوامی لیگی اسٹوڈنٹ لیڈر موتیا چودھری، جو آج کل وزیرزراعت ہیں، نے بیان داغا: ’’چیف جسٹس کو ملک چھوڑ دینا چاہیے یا پھر دماغی امراض کے ہسپتال سےعلاج کرانا چاہیے‘‘۔ اُدھر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے چیف جسٹس سے یک جہتی کا اظہار کرتے ہوئے اس بات کی مذمت کی کہ: ’’عوامی لیگی حکومت نے عملاً چیف جسٹس کو قیدی بنا رکھا ہے‘‘۔ (India TV News Desk، ۱۲؍اکتوبر ۲۰۱۷ء)
ڈھائی ماہ پر پھیلی اس دھماچوکڑی کے بعد ۱۳؍اکتوبر کو چیف جسٹس سنہا نے ایک ماہ کی رخصت پر آسٹریلیا جاتے ہوئے اخبار نویسوں کو چند سطروں پر مشتمل یہ تحریر دی: ’’میں بیمار نہیں ہوں بلکہ صحت مند ہوں۔ میں بھاگ نہیں رہا بلکہ واپس آئوں گا۔ اگرچہ مجھے حکومتی رویے سے دُکھ پہنچا ہے لیکن عدلیہ کا سرپرست ہونے کی حیثیت سے میں اپنا کردارادا کروں گا‘‘ (ڈیلی نیوایج، ۱۴؍اکتوبر)۔ چیف جسٹس کی پرواز کے صرف تین گھنٹے بعد ان کے خلاف گیارہ الزامات کی فہرست جاری کردی گئی۔ ساتھ ہی سپریم کورٹ میں ان کے متعدد ساتھی ججوں نے ان الزامات کی موجودگی میں چیف جسٹس کے ساتھ کام کرنے سے انکار کر دیا۔ (بی ڈی نیوز، ۱۵؍اکتوبر ۲۰۱۷ء)
مزید یہ کہ قائم مقام چیف جسٹس محمد عبدالوہاب میاں نے چیف جسٹس سریندرکمار سنہا کے آسٹریلیا روانہ ہونے کے ۴۸گھنٹے کے اندر اندر سپریم کورٹ اور اعلیٰ عدلیہ کے ۲۵اعلیٰ افسروں کو ان کے عہدوں سے ہٹا کر تبادلے کر دیے ہیں۔ ان عدالتی افسروںمیں جسٹس سنہا کے قریبی رفقا شامل ہیں۔ اس اقدام سے ایک ہی روز قبل وزیرقانون انیس الحق اور اٹارنی جنرل محبوب عالم نے بیان دیا تھا کہ ’’قائم مقام چیف جسٹس تمام اقدامات اور فیصلے کرسکتا ہے‘‘۔(بی ڈی نیوز۲۴، ۱۶؍اکتوبر)
جماعت اسلامی کے قائم مقام سیکرٹری جنرل اے ٹی ایم معصوم نے اس صورتِ حال کو: ’’عدالتی معاملات میں حکومت کی سیاسی، حکومتی اور غیراخلاقی مداخلت قرار دیا، اور کہا کہ دراصل حسینہ حکومت عدالتی افسروں، ججوں اور عدالتی عمل پر مکمل گرفت قائم کرنا چاہتی ہے‘‘،جب کہ قائم مقام چیف جسٹس نے یہ بیان داغ دیا ہے کہ: ’’جسٹس سنہا کو جاتے جاتے منصب کے احترام میں ایسا بیان نہیں دینا چاہیے تھا‘‘ (ڈیلی اسٹار ، ۱۷؍اکتوبر)۔ پیش نظر رہے کہ جسٹس سنہا نے ڈھائی ماہ تک عوامی لیگی طوفانی پروپیگنڈے، گندے کارٹونوں اور گھنائونے الزامات کے جواب میں صرف یہی تین جملے لکھے۔
اس صورتِ حال سے یہ اندازہ ہوتا ہے، بھارت اپنی نوآبادی بنگلہ دیش کا نظام ٹھیک طور سے نہیں چلنے دینا چاہتا۔ اس کی یہی کوشش ہے کہ ۱۶کروڑ آبادی کا یہ ملک ہرآن کسی نہ کسی افراتفری کا شکار رہے ، تاکہ معاشی، سماجی اور سیاسی استحکام کی عدم موجودگی میں وہ ایک مجبور اور غیرمستحکم ریاست کے طور پر تاجِ دہلی کا دست ِ نگر رہے۔ اس آئینے میں، اس خطّے ہی کے نہیں بلکہ خود عرب دنیا کے نام نہاد علاقائی قوم پرستوں کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ جب بڑی طاقت ، نفرت کے بل پر نام نہاد آزادی دلاتی ہے تو بنیادی کنٹرول اپنے ہاتھ ہی میں رکھتی ہے۔ اپنی ملّت سے غداری کرنے والوں کو محض علامتی اختیار دیتی ہے اور لیلاے اقتدار سے نہیں نوازتی۔
o
بنگلہ دیش کے ہمسایہ ملک برما (میانمار) میں ایک عرصے سے مسلمانوں کی نسل کشی کا گھنائونا کھیل جاری ہے۔ اس دوران عوامی لیگی حکومت نے بھی عزت، آبرو اور جان بچاکر آنے والے روہنگیا مسلمانوں کو سمندر میں دھکیل کر موت کی لہروں کے سپرد کیا۔ تاہم، گذشتہ چندماہ میں بنگلہ دیشی حکومت کے رویے میں مثبت تبدیلی آئی، جس کا بڑا سبب عالمی اور ملکی راے عامہ کا دبائو بھی تھا۔
روہنگیا مسلمانوں کی وحشیانہ نسل کشی کے خلاف راے عامہ کی توجہ مبذول کرانے کے لیے جماعت اسلامی بنگلہ دیش نے حتی المقدور کوششیں شروع کیں۔ جماعت اسلامی کے امیرمقبول احمد نے روہنگیا مسلمانوں کی ناقابلِ بیان صورتِ حال، میانمار حکومت، میانماری فوج اور بدھ بھکشوئوں کی جانب سے بدترین قتل و غارت گری و بے چارگی پر دنیا کا ضمیر جھنجھوڑنے کے لیے ہم وطن اہلِ درد سے اپیل کی کہ وہ مظلوموں کی مدد کریں اور اپنی اپنی بساط کے مطابق، دنیابھر کے مؤثر اداروں کے دروازے کھٹکھٹائیں۔ مقبول احمد صاحب نے اقوام متحدہ اور عالمی ضمیر سے دردمندانہ اپیل کرتے ہوئے کہا: ’’روہنگیامسلمانوں کے سفاکانہ قتل عام کو رُکوانے میں وہ اپنا اثرو رسوخ استعمال کریں۔ میں عالمی تنظیموں، مسلمان ملکوں اور رفاہی تنظیموں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ مدد کے لیے تڑپتے روہنگیا مسلمانوں کی مدد کے لیے بنگلہ دیش کا ہاتھ بٹائیں۔ اس بحران میں پوری بنگلہ دیشی قوم یک آواز اور ہم قدم ہے‘‘۔(بی ڈی نیوز ۲۴، ۱۲ستمبر ۲۰۱۷ء)
عالمی تنظیم ’ہیومن رائٹس واچ‘ (HRW) کے مطابق:’’ ۲۰ستمبر تک میانمار میں مسلمانوں کے ۲۴۴ گائوں مکمل طور پر تباہ کردیے گئے تھے‘‘(ڈیلی نیونیشن، ۲۰ستمبر)۔ بنگلہ دیشی حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق اب تک ۵لاکھ ۳۶ہزار روہنگیا مہاجر بنگلہ دیش آچکے ہیں۔ اسی دوران حسینہ واجد کے سیاسی مشیر حسان توفیق امام نے مغالطہ انگیزی پیدا کرتے ہوئے کہا: ’اراکان روہنگیا مجاہدین آزادی‘، بنگلہ دیش اور برما دونوں کے دشمن ہیں، ہم انھیں قدم نہیں جمانے دیں گے‘‘(مِزما نیوز،میانمار، ۲۱ستمبر)۔ اس کاغذی تنظیم کا تذکرہ کرکے بنگلہ دیشی حکومت نے روہنگیا مظلوموں کے زخموں پر نمک پاشی کی اور ان کے دُکھ درد میں اضافہ کیا۔ یہ طرزِ بیان بھارت کی بی جے پی، آر ایس ایس اور برمی فوج کا ہے، جسے ڈھاکا حکومت نے اپنی طرف سے نشر کیا۔ حسینہ واجد حکومت کے اسی دوغلے پن کو نظام احمد نے اپنے مضمون: ’ڈھاکا دہلی رومانس اینڈ روہنگیا‘ میں کڑی تنقید کا نشانہ بنایا(ڈیلی آبزرور ، ۲۰ستمبر)۔ پھر ۲۰ روز بعد روہنگیا مسلمانوں کی مدد کے لیے کام کرنے والی تین رفاہی تنظیموں: مسلم ایڈ بنگلہ دیش ، اسلامک ریلیف اور علامہ فضل اللہ فائونڈیشن پر پابندی عائد کر دی گئی اور صحافیوں نے اس انتہائی اقدام کا سبب جاننا چاہا، تو ڈائرکٹر رجسٹریشن نے جواب دینے سے انکار کر دیا۔(بی ڈی نیوز ۲۴، ۱۲؍اکتوبر ۲۰۱۷ء)
درحقیقت بنگلہ دیشی حکومت ، جہاں ایک طرف روہنگیا مسلمانوں کی حالت ِ زار کے نام پر دنیا سے مدد حاصل کر رہی ہے، وہیں نہ صرف عالمی سطح کی بلکہ مقامی رفاہی تنظیموں کو بھی ان کی مدد کے لیے ہاتھ بٹانے سے روک رہی ہے۔ روزانہ کوئی نئے سے نیا حکم نامہ آکر، بے لوث خادموں کی راہ میں رکاوٹ پیدا کردیتا ہے۔ بنگلہ دیش کے صحافتی حلقے یہ بات برملا کہتے ہیں کہ: ’’ستمبر سے بنگلہ دیش جماعت اسلامی پر قیدوبند کی حالیہ یلغار کے پیچھے ایک یہ سبب بھی ہے کہ کہیں جماعت اسلامی کے کارکنوں کی اَن تھک کوششوں سے اس کی نیک نامی میں مزید اضافہ نہ ہوجائے اور حکومتی اداروں کی بدانتظامی کا پول کھل نہ جائے‘‘۔
بنگلہ دیش میں برما سے ہجرت کرکے آنے والے روہنگیا مسلمانوں کی حالتِ زار جاننے، اور امدادی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے لیے ۹سے ۱۱ستمبرکے دوران بنگلہ دیش جانا ہوا۔ ۷۲گھنٹے میں نے ان علاقوں میں گزارے جہاں روہنگین مسلمانوں آکر رُکے ہوئے ہیں۔ جب ہم وہاں پہنچے تو دیکھا کہ ابھی تک کافی بڑی تعداد میں ان خانماں برباد مظلوموں کے قافلے سمندری اور دریائی پانیوں اور دلدلوں کو پار کرکے بے سروسامانی اور بڑی ہی قابلِ رحم حالت میں چلے آرہے تھے۔ ان کے چہرے کیچڑ سے اَٹے ہوئے تھے۔ کسی نے اپنے والد کو اٹھایا ہوا تھا تو کسی نے والدہ کو۔ اس کے علاوہ چھوٹے چھوٹے نومولود بچے بھی ان کے ساتھ ہیں۔ یاد رہے کہ اس علاقے میں بارشیں بہت ہوتی ہیں اور وہ سبھی کھلے آسمان تلے سڑکوں پر رہنے پر مجبور ہیں۔
اس کیفیت کے باوجود دو چیزیں بنگلہ دیش میں ہوئیں۔ بنگلہ دیش حکومت کا پہلا رد عمل یہ تھا کہ ہم ان کو قبول ہی نہیں کرتے، ان کو واپس دھکیلا جائے۔ ظاہر ہے اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو دھکیلنا ممکن نہیں ہوتا۔ لیکن اس نازک موڑ پر جو کردار جمہوریہ ترکی کی طیب اردگان حکومت نے اداکیا ہے، وہ حددرجہ لائقِ تحسین ہے ۔ انھوں نے روہنگیا مہاجرین کی آبادکاری کے لیے بنگلہ دیش حکومت کو ہر طرح کے مالی تعاون کی مکمل یقین دہانی کرائی ہے۔اسی لیے بنگلہ دیشی وزیراعظم حسینہ واجد نے وہاں کا دورہ بھی کیا اور اس حوالے سے کافی حوصلہ افزا بیانات دیے۔ جس سے اب وہاں کچھ بہتری آنے کا امکان پیدا ہوگیا ہے۔ ملکی و بین الاقوامی این جی او ز یا رفاہی تنظیمیں وہاں پہنچ رہی ہیں۔ الخدمت پاکستان نے یہ طے کیا کہ ہم مقامی رفاہی تنظیموں کے ساتھ تعاون کریں گے، جو ان کے حالات سے واقف ہیں اور مقامی طور پر ا ن کی بہتر انداز سے مدد کرسکتے ہیں۔
چار میدانِ کار ہماری توجہ کا ہدف ہیں۔ پہلا ہدف یہ ہے کہ ان کو کھانے اور ادویات کی فراہمی۔ دوسرا سینی ٹیشن (حوائج ضروریہ) کے لیے انتظام ہے۔ جہاں لاکھوں لوگ ایک چھوٹے سے علاقے میں آکر ڈیرہ لگا لیں تو وہاں خواتین، بچوں اور مردوں کی ان ضرورتوں کو پورا کرنا سخت مشکل ہوتا ہے۔ اس کے لیے ہم نے مقامی مددگاروں کے ساتھ مل کر منصوبہ بندی کی ہے۔ تیسرا پہلو ان کے لیے چھت اور سایے کابندوبست کرنا ہے، تاکہ بارش کے دوران ان لوگوں کے پاس سر چھپانے کے لیے کوئی جگہ موجود ہو۔اور چوتھا میدان ہے پینے کے صاف پانی کی فراہمی۔ اگر یہ کام نہ ہوئے تو اگلے چند ہفتوں میں وہ وبائیں پھیلیں گی کہ لوگوں کو سنبھالنا بڑا مشکل ہوجائے گا۔ ہم انھی چاروں میدانوں میں مقامی رفاہی تنظیموں کے ساتھ مل کر کام کررہے ہیں۔ ان تنظیموں میں بنگلہ دیش کے مقامی باشندے شامل ہیں۔
جہاں تک میانمار کا معاملہ ہے ، تو وہاں نہ کسی این جی او کا جانا ممکن ہے اور نہ کسی این جی او کا وہاں سے آنا ممکن ہے۔ وہ ایک مکمل فوجی انتظام میں گھرا علاقہ ہے۔یورپ کی جن دوچار این جی اوز نے میانمار میں کام کرنے کی اجازت لی ہوئی تھی، ان کو بھی نکا ل دیا گیا ہے۔
بنگلہ دیش میں ترکی ، ملایشیا، انڈونیشیا اور سری لنکا کی رفاہی تنظیمیں ہاتھ بٹا رہی ہیں۔ تاہم، پاکستان کے بارے میں بنگلہ دیش میں احتیاط پائی جاتی ہے کہ ان کی آمد سے ملک میں پتا نہیں کیا ہوجائے گا۔ اس لیے اسلام آباد سے ویزہ ملنا مشکل ہے۔ برطانیہ ،امریکا اور یورپ میں رہنے والوں کے لیے آسانی ہے کہ ان کو ایئرپورٹ پر بھی ویزہ مل جاتا ہے۔
ہم انڈونیشیا کی ایک تنظیم کے ساتھ مل کر ضروریاتِ زندگی کی فراہمی کا کام کررہے ہیں۔ پہلے ان کے ساتھ مل کر میانمار کے اندر بھی کام کررہے تھے، لیکن اب یہ ممکن نہیں رہا۔ اسی طرح ملایشیا کی تنظیم بھی ہماری معاون ہے۔ برطانیہ اور ناروے کی تنظیمات رابطے میں ہیں۔ ترکی کی سب سے بڑی رفاہی آرگنائزیشن آئی ایچ ایچ [انسانی یاردم]ہے، جو فلسطین میں فلوٹیلا لے کر گئی تھی اورپیشہ ورانہ بنیادوں پر بہت اچھا کام کر رہی ہے۔اس کے علاوہ ’حیرات‘ اور ’جانسیو‘ کے پاس تو باقاعدہ لائسنس تھا، حتیٰ کہ میانمارکے اندر بھی ان کے دفاتر تھے، لیکن اب ان پر پابندی عائد کرکے انھیں وہاں سے نکال دیا گیا ہے۔ اب وہ کاکسز بازار (بنگلہ دیش) میں کیمپ لگاکر کام کر رہی ہیں۔ اسی طرح ترکی کی ’ٹیکا‘ بھی ایک بڑی تنظیم ہے، جسے سرکاری سرپرستی حاصل ہے۔ یہ صدر طیب اردگان کی اہلیہ کے ساتھ گئے تھے۔ ان تمام تنظیموں کے ساتھ ہمارے قریبی رابطے ہیں۔
مقامی لوگوں سے بھی ہماری بات ہوئی، جنھوں نے بتایا کہ ہم نے بنگلہ دیش کے اندر مہم چلائی ہے اور اس وقت تک اس مد میں کثیر رقم جمع کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ان مسلمان بھائیوں کی مدد کے لیے بنگلہ دیش کے اندر ہمدردی کی ایک لہر ہے۔ ایک طرف عالمی سطح پر اُٹھنے والے ردعمل نے حکومت پر دباؤڈالا ہے تو دوسری طرف مقامی آبادیوں میں بھی اس پر اچھا ردعمل موجود ہے۔ واپسی پر جہاز میں کچھ کاروباری حضرات سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ یہ جان کر خوشی ہوئی کہ وہ اپنے اپنے کام چھوڑ کر اس علاقے میں شیلٹرز بنوانے اور باقی امدادی سرگرمیوں میں حصہ لینے گئے ہوئے تھے۔ بنگلہ دیش کی مقامی مسلم آبادی اس مسئلے کو نظر انداز نہیں کرسکتی کہ ان کی سرزمین پر ان کے بھائی آئے ہوں اور وہ ان کی مدد کو نہ نکلیں۔
آج کی دنیا میں سوشل میڈیا ایک ایسا ذریعہ ہے جس پر کسی کا کنٹرول نہیں۔ چند تصویریں جو پرانی تھیں یا غلط طور پر روہنگیا مسلمانوں سے منسوب کی گئی تھیں، ان کے حوالے سے مخالفانہ پروپیگنڈا کیا گیا۔ لیکن ان چند غلطیوں سے بنیادی حقائق کو جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ یہ جو تین چار لاکھ لوگ ہجرت کرکے آئے ہیں، کون کہہ سکتا ہے کہ یہ من گھڑت کہانی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ کسی تکلیف کی وجہ سے گھربار چھوڑ کر آئے ہیں، اور جو آپ بیتیاں سناتے ہیں وہ رونگٹے کھڑے کرنے والی ہیں۔
میں نے رات کے وقت ایک ایسا کیمپ بھی دیکھا، جس کو کاغذ کے ہلکے سے ٹکڑے کو استعمال میں لاکر صرف سر چھپانے کے لیے بنایا گیا تھا۔ اس میں کم از کم ستر اسّی ایسے بچے تھے، جن کی عمریں لگ بھگ ایک سے تین سال کے درمیان تھیں۔ وہ بے یارومددگار پڑے بلبلا رہے تھے۔ہوسکتا ہے ان کے والدین ان کے لیے کھانے پینے کا بندوبست کرنے گئے ہوں۔ لیکن اس وقت کوئی بڑا ان بچوں کے پاس موجود نہیں تھا۔ جب کوئی انسان ایسی صورتِ حال کو آنکھوں سے دیکھے گا تو کوئی اسے من گھڑت کیسے کہہ سکتا ہے۔ یوں سمجھ لیجیے کہ جو لوگ وہاں پہنچ پائے ہیں، یہ اس مظلوم آبادی کا صرف ایک حصہ ہے ۔ ایک بڑی تعداد وہ ہے جواَب تک پہنچ نہیں پائی اور جنگلوں میں اس انتظار میں ہے کہ کوئی انھیں یہاں سے نکالے، ورنہ وہ ذبح کردیے جائیں گے۔ یہ ایسے حقائق ہیں جن کی نفی کسی صورت میں ممکن نہیں ہے۔
جن علاقوں میں یہ لوگ پھنسے ہوئے ہیں، ان میں کچھ علاقے تو وہ ہیں کہ جہاں پانی اتنا گہرا نہیں ہے اور چھوٹی لانچوں سے نکالا جاسکتا ہے ۔ لیکن بعض علاقے ایسے ہیں جہاں گہرے پانیوں سے ان کو گزر کر خشکی پر آنا ہوتا ہے، جو کہ صرف بڑی لانچوں کا کام ہے۔ انسانی اسمگلنگ کا کام کرنے والوں کے لیے بھی یہ ایک کاروبار بن چکا ہے کہ وہ رقم لے کر ان لوگوں کو سمندروں اور دلدلوں سے نکال کر خشکی پر لائیں ورنہ وہ سمندر ہی میں موت کے منہ میں چلے جائیں گے۔ جن کا تذکرہ میں کر رہا ہوں وہ بہت قابل رحم ہیں۔ جن لوگوں کے پاس وسائل ہیں وہ انسانی جانوں کو محفوظ مقام پر پہنچانے کا اہتمام کرسکتے ہیں۔یہ بھی ایک اہم میدانِ کار ہے۔ اس کے لیے چاہیے کہ لوگ آگے بڑھیں اور اپنا کردار ادا کریں۔
روہنگیا بھائیوں کی مدد کرنے والے بہنوں اور بھائیوں سے ہماری درخواست ہے کہ وہ چیزیں بھیجنے کے بجاے زیادہ سے زیادہ نقد عطیات دیں۔ لوگ ہمیں بار بار یہ کہتے ہیں کہ: ’’ہم چاول اور اس طرح کی دوسری اشیا بھیجنا چاہتے ہیں‘‘۔ چوںکہ چاول وہاں کی مقامی پیداوار ہے، لہٰذا اگر ہم یہاں سے لے کر وہاں بھیجیں گے تو دگنی قیمت میں پڑیں گے۔ انھی دنوں ملایشیا نے ایک بڑی کھیپ غذائی اشیا کی بھیجی ہے۔ ملایشیا بالکل قریب بھی ہے اور ان کے پاس سرکاری وسائل بھی ہیں۔ لیکن ان کے برعکس پاکستان سے افراد نقدی ہی کو ترجیح دیں۔ اگر سامان آ بھی جائے تو اسے ہم براہِ راست نہیں بھیج سکیں گے۔ اسے انڈونیشیا یا ملایشیا کی تنظیموں کو دینا ہوگا اور یوں یہ ایک لمبے روٹ سے ہوکر ادھر پہنچے گا۔
بنگلہ دیش کی جن تنظیموں کے ساتھ ہم نے کام کیا ہے، وہ وہاں کی رجسٹرڈ تنظیمیں ہیں۔ یادرہے پاکستان سے مالی امداد کا پہنچانا، وہاں کی حکومت شک کی نظر سے دیکھتی ہے۔ اس لیے ہم مظلوموں کی مدد کے لیے رقم کی فراہمی کو کسی شک و شبہے کا شکار بنانے کے بجاے، انھی کے حوالے کر رہے ہیں، جن کے بارے میں بنگلہ دیشی حکومت اطمینان رکھتی ہے۔
پاکستان کی قومی اور بین الاقوامی ۲۵تنظیموں نے روہنگیا ٹاسک فورس بنائی ہے اور یہ طے کیا کہ پاکستان سے یہ امداد وہاں پہنچائی جاسکے۔ ہمیں اور ہماری لیڈر شپ کو بنگلہ دیشی ہائی کمشنر سے ملنا چاہیے اور انھیں کہنا چاہیے کہ باقی اختلافات اپنی جگہ، لیکن انسانی ہمدردی میں آپ نے جو اقدامات کیے ہیں ہم اس کو خوش آمدید کہتے ہیں۔آپ اپنے حفاظتی اقدامات کو پیش نظر رکھتے ہوئے، مسلم ملکوں سے امداد کے راستے کھولیں جو خود آپ کے لیے بھی فائدہ مند ہیں۔ اسی طرح کراچی میں ۳سے ۴ لاکھ روہنگین مسلمان پچھلے ۵۰ سال سے آباد ہیں، جنھیں ابھی تک شہری حقوق نہیں ملے ہیں۔ وہ پاسپورٹ اور شناختی کارڈ نہیں بنوا سکتے اور ملازمتیں حاصل نہیں کرسکتے۔ حکومت پاکستان ان کو شہریت دے تاکہ ان کی مشکلات دُور ہوں اور وہ زیادہ ذمہ دار شہری کے طور پر خدمات انجام دےسکیں۔
جموں و کشمیر میں جبری بھارتی قبضے سے آزادی حاصل کرنے کے لیے رواں عوامی تحریک نے بھارت اور اس کے مقامی گماشتوں کو لرزہ براندام کر کے رکھ دیا ہے۔ اس تحریک کو کچلنے کے لیے بھارتی فورسز اور پولیس فورس ریکارڈ توڑ مظالم ڈھا رہی ہیں۔ بھارتی سفاک فورسز نہتے لوگوں کو گلی کوچوں ، سڑکوں ، بازاروں اور گھروں میں گھس کر بے دردی سے موت کے گھاٹ اتارنے میں مصروف ہیں۔ بلالحاظ عمر لوگوں کو بے رحم اور انسان کُش قوانین کے تحت گرفتار کر کے پابندِ سلاسل بنانے کا لامتناہی سلسلہ جاری ہے۔
جموں وکشمیر میں جاری قتل وغارت اور درپردہ خفیہ منصوبہ سازی،بھارتی بوکھلاہٹ کی عکاس ہے۔بھارت اس حقیقت سے بہ خوبی واقف ہے کہ وہ یہاں تعینات کی گئی سات لاکھ سے زیادہ فوج کے بل بوتے پر قابض ہے اور یہی ٹڈی دَل فوج ہماری آزادی کی راہ میں سد راہ ہے۔ ایک طویل جدوجہد کے بعد ہم اس مقام پر پہنچنے میں کامیاب ہو چکے ہیں کہ ہمیں اپنی منزل صاف دکھائی دے رہی ہے ۔ یہ اس اَن تھک اور دلیرانہ جدوجہد کا نتیجہ ہے، جس میں جموں وکشمیر کے لوگوں نے بے باک مزاحمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھارت کے فوجی قبضے میں وحشت ناک مظالم کا مقابلہ کر کے، اس بات کا ثبوت پیش کیا ہے کہ لوگوں کے عزم واستقامت کے سامنے نہ کوئی قابض فوج مزاحم ہوسکتی ہے اور نہ طاقت کے بل پر دبایا جاسکتا ہے۔
رواں عوامی تحریک کوئی حادثاتی واقعہ نہیں ہے کہ جس کا تعلق محض ایک صدمہ انگیز واقعے سے ہو، بلکہ یہ جموں وکشمیر کے لوگوں کی، بھارت کے جبری قبضے سے آزادی حاصل کرنے کی طویل جدوجہد کا تسلسل ہے۔ کمانڈر برہان مظفر وانی شہید اور ان کے دو ساتھیوں کی شہادت پر لوگوں نے گھروں سے نکل کر والہانہ عقیدت کا اظہار کیا۔ پابندیوں اور قدغنوں کے باوجود لاکھوں کی تعداد میں اپنے ان شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ترال کی جانب مارچ کیا اور ان کے مشن کے ساتھ وفاداری کا ثبوت پیش کیا۔
اس وقت سے لے کر آج تک تحریک آزادی کے ساتھ وادی کے ہر بستی ، ہر قصبے ، ہرشہر ، ہر سڑک اور ہر بازار میں جس جذبے اور وابستگی کا اظہار کیا جا رہا ہے، وہ ا س حقیقت کا کھلا ثبوت ہے کہ ہمارے اور بھارت کے درمیا ن اگر کوئی تعلق ہے، تو وہ صرف مظلوم وظالم ، مقہور و قابض اور مجبور وجابر کا ہے۔ بھارت نے متعدد شکلوں میں اپنے جو گماشتے تیار کر رکھے تھے، وہ اس عوامی تحریک کے سامنے بے نقاب ہوچکے ہیں۔ ہم نے بار بار یہ کہا کہ یہ مفادات و مراعات یافتہ اور ہندنواز طبقہ کلہاڑی کے دستے کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ قابض بھارت کی کٹھ پتلیاں ہیں، جو جموں وکشمیر میں بھارتی قبضے کو مضبوط بنانے کے علاوہ بھارتی فورسز کی وحشت ناک قتل وغارت گری اور شرم ناک ظلم وجبر اور لوگوں کو اپاہج اور اندھا بنانے جیسے مظالم کا جواز پیش کرنے اور ان کا دفاع کرنے کا کام انجام دے رہی ہیں۔
رواں عوامی تحریک نے ہماری جدوجہد آزادی میں ایک سنگِ میل کی حیثیت اختیار کر لی ہے، جس سے بھارت حواس باختہ ہو چکا ہے۔ اس کے حکومتی ایوانوں ، پارلیمنٹ اور متعصب میڈیا چینلوں میں ہلچل بپا ہے۔ اس عوامی تحریک نے بھارتی مکروفریب پر مبنی فوجی منصوبوں کو ہلاکے رکھ دیا ہے۔ حصولِ آزادی کے لیے ہمارے عزم راست کے سامنے ان کے شیطانی منصوبے اور فریب کاری مات کھا رہے ہیں۔
موجودہ حالات اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ ہم ۱۹۴۷ء سے لے کر آج تک اور بالخصوص ۱۹۸۹ء کے بعد سے اپنے ان جانباز شہیدوں ،مجاہدوں اور محسنوں کی بیش بہا قربانیاں یاد رکھیں، جو انھوں نے تحریک آزادی کشمیر کو پروان چڑھانے کے لیے پیش کی ہیں۔ ۱۹۹۰ء میں پوری دنیا ورطۂ حیرت میں پڑگئی کہ اب جموں و کشمیر کے لوگ بھارت کے فوجی قبضے کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔
یہ پُرزور تحریک آزادی کشمیر عالمی برادری کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانے میں کامیاب ہوئی ہے۔ اس کامیابی کے جواب میں بھارت نے طویل ظلم وتشدد اور جبرو سفاکیت کا مسلسل بازار گرم کیے رکھا ہے۔ قتل وغارت گری ، لوٹ مار، گھیرائو جلائو، عصمت دری اور کُشت وخون سے پوری ریاست کو لالہ زار بنا دیا گیا ہے۔ بھارتی سفاکوں کا خیال تھا کہ اس کے نتیجے میں اہل کشمیر، تحریک آزادی سے دست بردار ہو جائیں گے اور بھارت کی غلامی پر رضامند ہو جائیں گے ۔ لیکن ہمارے مجاہدین اور بہادر عوام نے عظیم قربانیاں دے کر بھارتی منصوبوں کو ناکام بنا کر، تحریک آزادی کی شمع فروزاں رکھی ہے۔ عام شہریوں اور ہتھیار بند مجاہدین میں کوئی تمیز کیے بغیر بھارتی فورسز گھپ اندھیروں میں اور دن دہاڑے بے تحاشا قتل عام انجام دیتی رہیں۔ بھارت کے اس ظلم وجبر کے باوصف ہر موقعے پر جذبۂ مزاحمت کے پیکر ہمارے بزرگوں اور نئی نسل نے بھارتی فوجی قبضے کے خلاف ہر ممکن طریقے سے مزاحمت جاری وساری رکھی ہے۔
گذشتہ دو عشروں کے دوران بھارت نے بچوں اور خواتین سمیت ہمارے لاکھوں لوگوں کو شہید کر ڈالا ہے۔ ۱۰ ہزار سے زائد لوگوں کو گرفتار کر کے لاپتا کر دیا ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں ہمارے بچوں کو یتیم کر دیا گیا ہے۔ ہماری ہزاروں بہنوں اور بیٹیوں کو بیوائوں اور نیم بیوائوں میں تبدیل کر دیا ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں ہمارے جوانوں اور بزرگوں کو ٹارچر سیلوں میں اپاہج اور معذور بنا دیا گیا ہے۔ ہزاروں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے قید یا لاپتا کر دیا ہے۔ بھارت کی اس سفاکیت نے بڑی تعداد میں لوگوں کو نقل مکانی پر مجبور کر دیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود وہ ہمارا جذبۂ آزادی کو ختم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔
ہم ان الم ناک واقعات و حوادث کے باوجود آج بھی اپنی آزادی کے مطالبے کو لے کر پوری جاںفشانی کے ساتھ میدانِ عمل میں موجود ہیں۔ ہمارے دل جذبۂ آزادی سے سرشار ہیں۔ ۲۰۰۸ء، ۲۰۰۹ء، ۲۰۱۰ء اور اب۲۰۱۶ء سے اُبھار پانے والی عوامی تحریک نے ہماری جدوجہد آزادی کو نئی زندگی اور نئی قوت بخشی ہے۔ قابض بھارت کے پاس دنیا کی تیسری بڑی فوج ہے، جس میں سے سات لاکھ سے زیادہ فوجی صرف جموں وکشمیر میں تعینات ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ بھارت دنیا کی پانچویں بڑی معیشت ہے۔ اس کے مقابلے میں نہ ہمارے پاس کوئی فوجی طاقت ہی ہے، نہ وسائل وذرائع ہیں اور نہ ذرائع ابلاغ اور میڈیا کی طاقت ہے۔ اگر ہمارے پاس کوئی طاقت ہے تو وہ اللہ کی رحمت اور ہماراجذبۂ مزاحمت ہے۔ ہماری سب سے بڑی قوت اللہ پر توکل اور تحریک کی صداقت ہے۔ ہماری طاقت ہمارا باہم اتحاد اور اعتماد او ر غلامی کی ذلّت سے آزادی حاصل کرنے کا عزمِ صمیم ہے۔ ہماری فتح ونصرت کا ثبوت اس سے زیادہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ بھارتی قابض فوج کو کشمیر میں آزادی کی آواز کو دبانے کے لیے عمر رسیدہ خواتین اور بزرگوں، چار چار سالہ معصوم بچوں پر فائرنگ اور جواں سال کالج اساتذہ کو لاٹھیوں اور بندوق کے بٹوں سے تشدد کرکے اَبدی نیند سلانا پڑتا ہے۔ اگر ۷۰سال کے فوجی قبضے کے بعد بھی بھارتی فوجی اہلکاروں کو ایک نہتی عورت اور ہاتھ میں چھوٹا سا پتھر اٹھانے والے کمسن بچے کو کشمیر کو بھارت کے جبری قبضے میں رکھنے کے لیے گولیوں سے بھون ڈالنا پڑتا ہے، تو آپ خود ہی بتائیے کہ اس سے بڑھ کر ان کی بدترین شکست کی اور کیا مثال پیش کی جا سکتی ہے۔
کوئی بھی تحریک قربانیوں کے بغیر منزل کی طرف رواں نہیں رہ سکتی۔ہماری تحریک قربانیوں سے مزین ہے۔ ہم نے اپنی جانوں کی بے مثال قربانیاں پیش کی ہیں۔ ہمارے بچے قابض بھارتی ٹارچر سنٹروں میں تختہ مشق بنائے جا رہے ہیں۔ بزدل بھارت ہمارے بچوں کو منصوبہ بند انداز میں اندھا بنا رہا ہے۔ ہم نے اپنی کاروباری اور تجارتی سرگرمیوں کو معطل کرکے، ظلم کے خلاف اپنی نفرت کا اظہار کیا ہے۔ ہمارا مزدور ، کاشتکار ، ٹرانسپورٹر ، بڑھئی، غرض معاشرے کا ہر طبقہ ہر لحاظ سے قربانیاں پیش کر کے ہماری تحریک کا ہر اول دستہ ہے ۔ یہ تحریک، یہاں کے ایک ایک فرد کے دل کی آواز ، آرزو اور تمنا کا مظہر ہے۔ چاہے کوئی فرد درس وتدریس ، تجارت ، ڈاکٹری ، نوکری یا کسی پیشے سے تعلق رکھتا ہو، اس کے دل کی اُمنگ آزادی ہے۔ ہماری یہ قربانیاں آزادی کی اس عمارت کے پیوست اور راست ستون ہیں۔
رواں عوامی تحریک کے دوران لوگوں نے جس باہمی اخوت وہمدردی اور اتحاد واتفاق کا مظاہرہ کیا ہے، اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ہم نے ایک آزاد قوم کی حیثیت سے جینے کا آغاز کیا ہے ۔ ہمارے گلی کوچوں سے لے کر ہمارے قائدین تک، ہم تحریک آزادی کے لیے یک جا اور یک سو ہیں۔ حالاں کہ ہمیں باربار سخت کرفیو میں جکڑا جارہا ہے۔ ہمیں جیلوں میں قید اور گھروں میں نظر بند کیا جارہا ہے۔ ہمیں تعذیب وتشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ لیکن وہ کبھی بھی ہم سے ہمارا جذبۂ آزادی چھین نہیں سکتے اور ہمیں غلامی پر رضا مند نہیں کرسکتے۔ ہم ایک ہیں ، ہم متحد ہیں، اور ہمیں متحد ہو کر رہنا ہے۔ ہمارا اتحاد واتفاق ہی ہمارے دشمن کی شیطنت کی موت ہے۔
ہماری تحریک میں ہمیشہ کی طرح اس بار بھی پاکستان نے ہمارے محسن ، وکیل اور دوست ہونے کا ثبوت پیش کیا ہے۔ پاکستانی حکومت اور عوام نے ہمارا درد محسوس کیا ، ہمارے حق میں آواز بلند کی اور ہر سطح پر ہماری سفارتی اور اخلاقی مدد کا یقین دلایا۔ یہ بات بڑی خوش آیند ہے کہ جموں وکشمیر کے لوگوں نے آزادی کے لیے آج جو زور دار آواز اٹھائی ہے، وہیں پاکستانی حکومت اور عوام بھی اخلاقی ، سیاسی اور سفارتی سطح پر حمایت کرنے کے لیے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ ہم عوامی جمہوریہ چین ، ناروے، سعودی عرب ، نیوزی لینڈ، ایران اور اسلامی تعاون تنظیم کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ انھوں نے ہمارے حق میں آواز اٹھائی اور جموں وکشمیر میں جاری بھارتی جارحیت کی مذمت کی۔ ترکی کی جانب سے بھارت کے خلاف اور ہماری تحریکِ آزادی کی غیر مبہم اور برملا سپورٹ کرنے پر ہم دل کی گہرایوں سے ان کے شکر گزار ہیں۔
ایک وقت ایسا بھی تھا کہ ہمیں خطوط لکھنے اور انھیں دنیا کے ایوانوں تک پہنچانے کے لیے بھی دوسروں کا سہارا لینا پڑتا تھا۔ ہماری آزادی کی اُمنگ اور درد وکرب اور مظالم کی داستانیں، برہمنی قوم پرست صحافیوں اور قلم کاروں کے استحصال کا شکار ہوتی تھیں۔ ہم پر ٹوٹنے والی افتاد کی اصلی صورت حال، بگاڑ کر دنیا کے سامنے پیش کی جاتی تھی۔ سواے چند حقیقت پسند اور انسانیت دوست افراد کے، بھارت کی تمام میڈیا مشینری جھوٹ کا سہارا لے کر ہماری مبنی برحق وصداقت تحریکِ آزادی کو دہشت گردی سے موسوم کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتی تھی۔ ہندستانی میڈیا دراصل بھارتی حکومت کی پالیسیوں کا ترجمان ہے اور بھارت کا جموں وکشمیر پر قبضہ قائم رکھنے کے لیے یہ ادارے حکومتی ڈکٹیشن پر من وعن عمل پیرا ہیں۔
ہمارے لیے حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ ہمارے قلم کار اور مصنّفین، بڑی دلیری اور غیرمبہم طریقے سے بھارتی مظالم اور تحریک آزادی کے ساتھ یہاں کے لوگوں کی وابستگی کی حقیقی صورت حال دنیا کے سامنے لا رہے ہیں۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ بین الاقوامی میڈیا ہماری سڑکوں ، گلی کوچوں اور ہسپتالوں سے حقیقی صورت حال کی رپورٹنگ کر رہا ہے۔ ہم بین الاقوامی پریس کی طرف سے دیانت دارانہ انداز میں حقیقی صورتِ حال کو دُنیا کے سامنے پیش کرنے پر ان کے شکرگزار ہیں۔
آج، جب کہ ہم بہ حیثیت قوم، اجتماعی طور پر حصول آزادی کی تحریک میں یکسو ہو کر برسرِپیکار ہیں، وہیں ہم غاصب بھارت کے طرف دار گنتی کے ان مقامی مفاد پرست عناصر سے تحریکِ آزادی میں شامل ہونے کی ایک بار پھر اپیل کرتے ہیں ۔ کیوںکہ اپنی قوم کے ساتھ دغابازی کا مرتکب یہ طبقہ اس بات سے بہ خوبی واقف ہے کہ وہ تاریخ اور تحریک کی سچائی اور حقیقت کے مدمقابل کھڑا ہوکر محض ذاتی مفادات ومراعات کے لیے قابض بھارت کا آلۂ کار ہے۔ اس حیثیت سے وہ اپنے ہی لوگوں کے خلاف بر سرِ جنگ ہو کر اپنی عاقبت کو برباد کرنے پر تُلا ہوا ہے۔ یہ فریب خوردہ مقامی لوگ، فاشسٹ برہمن قوتوں سے اقتدار حاصل کرنے کے بہکاوے میں آئے ہیں،جنھوں نے ریاست جموں وکشمیر کا مسلم اکثریتی کردار ختم کرنے کی ٹھان رکھی ہے ۔ یہ ہمارے ملّی اور دینی تشخص کو مٹانے کے در پے ہیں، اور ہم سے ہماری تہذیب اور ثقافت چھیننے کے منصوبے پر عمل پیرا ہیں۔ ان مقامی فریب خوردہ عناصر کے لیے اب بھی موقع ہے کہ وہ اس طرزِعمل سے باز آ جائیں اور اپنی قوم کے ساتھ شانہ بشانہ چل کر غداری اور دغا بازی سے کنارہ کش ہوجائیں، اور اس طرح اپنے بلکہ اپنی آنے والی نسلوں کے محفوظ مستقبل کے لیے تحریکِ آزادی کشمیر میں شمولیت اختیار کریں۔
ہم خصوصاً ان لوگوں سے بھی اپیل کرتے ہیں،جو محض رزق کے چند ٹکڑوں کے لیے قابض بھارتی مشینری کے آلۂ کار بنے ہوئے ہیں، اور اپنے ہی لوگوں پر مظام ڈھانے اور تحریکِ آزادی کو کچلنے کے عمل کو فرض شناسی تصور کرتے ہیں ۔ میں ان بھائیوں کو یقین دلاتا ہوں کہ ظالم اور ظلم سے اجتناب کریں اور حق وصداقت کا ساتھ دیں تو اللہ آپ کے دلوں کو طمانیت اور سکون سے نوازے گا۔ اللہ آپ کے لیے رزق کی فراہمی کے ذرائع واسباب کشادہ کرے گا۔ ظالم وجابر کا مددگار بننے پر اللہ تعالیٰ نے خوف ناک انجام کی وعید سنائی ہے۔ اس لیے آپ قابض بھارتی قوتوں کا مدد گار بننے سے تائب ہوں، اور مظلوم قوم کی اجتماعیت میں شامل ہو کر جاری جدوجہد میں شریک ہوجائیں۔
وقت کا یہ اہم تقاضا ہے کہ ہم مزاحمتی تحریک کے اس دور کو راسخ اور پیوست کریںاور سودے بازی کے بجاے مزاحمت کو اپنی زندگی کا شعار بنائیں ۔ ترجیحات اور ذمہ داریوں کا ادراک کر کے تحریک آزادی کو مستحکم اور منظم کریں۔ ہماری اس مزاحمت اور قربانیوں نے تحریکِ آزادی کو کسی بھی ابہام اور شک وشبہے سے محفوظ کر دیا ہے ۔ تحریک تسلسل کا نام ہے ۔ ہم واضح اور شفاف تحریک، اور اس کی منزلِ مقصود کو ابہام اور دھندلاہٹ کا شکار نہ ہونے دیں۔ اس مقدس مشن کو گم کرنے کی کوئی دانستہ یا نادانستہ کوشش نہیں ہونی چاہیے، بلکہ ہمیں اس مرحلے کو اپنی منزل حاصل کرنے کے لیے ایک مشعل کی حیثیت دینا ہو گی۔ ہمیں فوراً اپنے گردونواح میں رواں تحریک میں متاثرہ افراد، اہل خانہ اور دیگر متاثرین تک پہنچنے کی اشد ضرورت ہے۔ ہر بستی میں بیت المال قائم کر کے حاجت مندوں کی حاجت روائی کی جانی چاہیے۔ شہدا ، زخمیوں ، جیلوں میں بند ہم وطنوں اور ان کے لواحقین اور دیگر متاثرین کی جانب خصوصی توجہ کے ساتھ دل جوئی اور معاونت کا خیال رکھا جائے، تا کہ ہند نواز اور تحریک مخالف عناصر کے استحصال سے انھیں محفوظ رکھا جا سکے ۔
ہمارے ایمان، ہماری قوت، اتحاد اور عزمِ صمیم سے حواس باختہ ہو کر بھارت نام نہاد اور لایعنی بات چیت، ٹریک ٹو گفت وشنید اور ڈپلو میسی کا جھانسہ دے کر ہمارے ارادوں کو کمزور اور راے کو منقسم کرنے کی چال بازی کر رہاہے۔ یہ محض دکھاوے کی باتیں اور وقت گزاری کے حربے ہیں، جو اس کا آزمودہ نسخہ رہا ہے۔ یہ انفرادی واجتماعی طور پر ڈراما رچانے کی کوشش کررہے ہیں کہ ہم کیا چاہتے ہیں ؟ حالاںکہ وہ اس حقیقت سے بہ خوبی واقف ہیں کہ ہم صرف اور صرف بھارت کے ناجائز قبضے سے آزادی چاہتے ہیں اور ہم دیر سویر اسے حاصل کر کے ہی دم لیں گے۔ ان شا اللہ!
کشمیر کی مخصوص شناخت نے یہاں کی سیاست اور اجتماعی جدوجہد کو متاثر کیا ہے۔ کشمیر کے سیاسی عمل کے مستقبل کا تعین کرنے کے لیے اس کی شناخت ایک اہم حوالہ ہے۔ آزادی، خودمختاری اور خود اختیاری جیسے نعرے عام طور پر ایک چیز، یعنی کشمیری شناخت سے جڑے ہوئے ہیں۔ جب بھی کوئی حکومت اس شناخت کو بگاڑنے کی کوشش کرتی ہے تو لوگوں کو شدید نوعیت کی بیگانگی محسوس ہوتی ہے۔ اپنی نام نہاد حکومتوں کے خلاف کشمیریوں کی بے زاری کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ یہ مدتوں سے ہے۔ مہاراجا ہری سنگھ کی حکمرانی کے دوران تلخی دو وجوہ سے بڑھی تھی:
۱- مسلمانوں کے لیے سرکاری ملازمتوں میں کوئی حصہ نہیں تھا۔ جس کا ایک بڑا سبب ان کی تعلیمی پس ماندگی تھی، اور المیہ یہ کہ خود ڈوگرہ حکومت انھیں تعلیم میں پس ماندہ رکھنا چاہتی تھی۔
۲- ڈوگروں اور پنڈتوں کا اس پر اتفاق تھا کہ حکومتی خدمات کے لیے باہر سے تو لوگ لیے جاسکتے ہیں، مگر مسلمان ہرگز نہیں۔
سیاست میں دو پہلوئوں سے پیش رفت یہ ہوئی کہ اسی عرصے میں مسلم کانفرنس کا قیام عمل میں آیا، جو جموں و کشمیر میں آزادی کی تحریک کے لیے بنیاد فراہم کرنے کا ذریعہ بنی۔ دوسرے یہ کہ پنڈتوں اور ڈوگروں نے الگ سے تحریک چلائی کہ ’’کشمیر، کشمیریوں کے لیے ہے‘‘۔ دراصل یہ تحریک پنڈتوں کے مفادات کو محفوظ بنانے کے لیے تھی۔ اس تحریک نے فوجی خدمات میں مسلمانوں کی شمولیت کا بھی راستہ کھول دیا۔ لیکن اس تحریک نے مہاراجا ہری سنگھ کو یہ قانون بنانے پر مجبور کیا کہ غیر ریاستی لوگوں اور غیرریاستی ملازموں کو زمین خریدنے کی بھی اجازت نہیں ہوگی۔
اس طرح ریاست نے غیر ریاستی باشندوں کے مقابلے میں ، ریاستی عوام کے حقوق کو تحفظ فراہم کیا، اور اس استدلال کو تسلیم کرتے ہوئے ۱۹۲۷ء میں ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے '’ریاستی موضوع‘ کی اصطلاح وضع کی گئی۔ زمین کی ملکیت کے لیے قانون سازی کی گئی اور کہا گیا کہ زمین خریدنے والے ہرفرد کی حیثیت پر سوال اُٹھایا جاسکتا ہے۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ۱۹۵۲ء میں شیخ عبداللہ اور بھارت کی حکومت نے دہلی میں اتفاق کیا کہ ریاست کو قانون سازی کے ذریعے ریاست کے مستقل رہایشیوں کے حقوق کے تحفظ اور ملکیت کے استحکام کی قوت حاصل ہوگی، خاص طور پر غیرمنقولہ ملکیت کے حصول سے متعلق معاملات کے بارے میں۔
’ریاستی موضوع‘ کے لحاظ سے یہ خاص حیثیت ہی درحقیقت بھارت کے ساتھ ریاست جموں و کشمیر کے مکمل انضمام کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنی چلی آرہی ہے۔ بھارتی دستور کا آرٹیکل ۳۷۰ کشمیر کی خودمختاری کو ختم کرنے کے لیے بھارتی قوم پرست قوتوں کے لیے بے چینی کا سبب ہے، اور وہ ابتدا ہی سے اسے ختم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ تاہم، آرٹیکل کو مکمل طور پر ختم کرنے کی کوئی حکومت ہمت نہیں کرسکی۔ البتہ اس کی خصوصی اہمیت کو بے اثر اور بے وقعت بنانے کے لیے نئی دہلی حکومت طرح طرح کی پالیسیاں بناتی اور نافذ کرتی رہی ہے۔ حالیہ زمانے میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی طرف سے ایسی قاتلانہ قانون سازی کی کھلی کھلی کوششیں ہورہی ہیں، مثال کے طور پر:
۲۴؍ اگست ۲۰۰۹ء کو ریاستی قانون ساز اسمبلی میں دیے گئے اعداد و شمار سے یہ پتا چلتا ہے کہ فوج نے ۱۰ لاکھ ۵۴ہزار ۷سو ۲۱ کنال زمین پر بزور قبضہ جمایا ہے، جن میں ۸ لاکھ اور ۵۵ہزار کنال پر تو ۱۰۰ فی صد غیرقانونی طور پر قبضہ کیا گیا ہے اور اس کی بنیاد پر مزید ایک لاکھ ۹۹ہزار ۳سو۱۴ کنال زمین سیکورٹی ایجنسیوں نے قبضے میں لے رکھی ہے۔ ’لینڈ ریکوزیشن ایکٹ‘ کے تحت وادیِ کشمیر کی مزید ۵ لاکھ ۹۹ہزار ۴سو۵۵ کنال اور جموں کی ۳لاکھ ۲۱ہزار ۹سو۵۱ کنال زمین بھارتی فوجیوں نے ہتھیا لی ہے۔
ممبراسمبلی مظفر حسین بیگ نے کہا کہ ان پناہ گزینوں کا مسئلہ باوقار طریقے سے حل کرنا چاہیے، اور انھیں نئی اُمید دینی چاہیے۔کشمیر اور جموں کی زمینوں پر بھارتی کالونیوں کی تعمیر کے مسئلے پر، بھارت سے وابستہ رہنے اور بھارت سے الگ ہونے والے لوگ مشترکہ موقف رکھتے اور کہتے ہیں کہ ایسے اقدامات نہ صرف ریاست کی متنازعہ نوعیت کو تبدیل کر ڈالیں گے، بلکہ ریاست میں آبادی کے تناسب کو بھی تبدیل کر ڈالیں گے۔ حُریت (ع) کے چیئرمین عمر فاروق نے کہا کہ: ’’مظفربیگ کا بیان کوئی سیاسی، قانونی یا اخلاقی موقف نہیں ہے۔ وہ اگر پناہ گزینوں کی بحالی کے بارے میں فکرمند ہیں، تو انھیں بھارت لے جائیں‘‘۔
یہ بات مدنظر رہنی چاہیے کہ کشمیری مسلمان، اپنے ہم وطن پنڈتوں کی واپسی کے خلاف نہیں ہیں، کیوںکہ وہ کشمیر کا ایک حصہ ہیں، لیکن جس طریقے سے ان کی آبادکاری کا منصوبہ مسلط کیا جارہا ہے، اس طریقے کی مخالفت کی جارہی ہے۔
اس تنازعے میں وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے کہا ہے کہ: ’’کشمیری، تارکین وطن کی اپنی وادی میں آبادکاری کے لیے اس طرح سوال کرتے ہیں جیسے بلیوں کے آگے کبوتر ڈالنے کا معاملہ ہو‘‘۔ محبوبہ مفتی کے اس بیان نے جلتی پر تیل کا کام کیا کہ یہ باتیں مسلمانوں کے لیے واضح طور پر توہین آمیز اور نفرت انگیز الزام تراشی کے سوا کچھ نہیں ہیں۔ مسلمانوں نے کبھی کشمیری پنڈتوں کو ’کبوتروں‘ کی طرح نشانہ نہیں بنایا، اور جنھوں نے انفرادی طور پر کبھی کسی کو نشانہ بنایا تو کشمیری قیادت نے نہایت سختی سے اس کی مذمت کی ہے۔
اس حوالے سے آسیہ اندرابی صاحبہ نے کہا ہے کہ: ’’بھارتی صنعتی پالیسی کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں کہ بھارت کے بڑے بڑے سرمایہ داراورصنعت کار، دولت کے بل بوتے پر کشمیر میں پنجے گاڑ کر، یہاں کی آبادی کا تناسب بدل ڈالیں۔ مزید یہ کہ بھارتی سرمایہ دار اور سرمایہ پرست، افرادی قوت بھی بھارتی ریاستوں سے لائیں گے، جس کے نتیجے میں یہاں کی تہذیب و تمدن، روزگار اور آزادی، سبھی کچھ بھارتی کنٹرول میں چلا جائے گا اور یہاں غربت و ذلّت کے سوا کچھ نہیں بچے گا۔
جی ایس ٹی نے ریاست سے ہر طرح کی معاشی خودمختاری چھین لی ہے۔ آرٹیکل۳۷۰ ریاست کو محصول اور ٹیکس کی وصولی کا اختیار دیتا ہے، لیکن اب یہ اختیار ریاست کو حاصل نہیں ہے۔ عبدالرحیم راتھر، سابق وزیرخزانہ نے ریاست اور مرکزی حکومت کے اعلان کو رَدکرتے ہوئے کہا کہ: ’’نئے ٹیکس نظام کے تحت، نئی دہلی کو جی ایس ٹی کے ذریعے سیلزٹیکس جمع کرنے کا اختیار حاصل ہوگا، جو کہ دوسری صورت میں جموں و کشمیر حکومت کے دائرئہ اختیار میں ہوتا ہے‘‘۔
جی ایس ٹی میں توسیع کا سادہ مطلب جموں و کشمیر کے خصوصی اختیارات نئی دہلی کے حوالے کرنا ہے۔ مرکزی حکومت نے اپنے فیصلے کی میکاولین وضاحتیں کی ہیں۔ ڈاکٹر حسیب درابو ریاستی وزیرخزانہ نے بل کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ: ’’ہم آرٹیکل ۳۷۰ کو ایک ڈھال کے طور پر استعمال کر رہے ہیں‘‘، اور یہ انھی خطوط پر گفتگو تھی جیساکہ بی جے پی کے نظریے کے حامی بات کرتے ہیں۔
جموں و کشمیر کا آئین اپنے تیسرے حصے میں مستقل رہایشی اور اس کے اختیارات اور مستقل رہایشی کے حقوقِ ملکیت وغیرہ کی تعریف کرتا ہے۔ مستقل رہایشی کی تعریف کرنے کے ساتھ ساتھ آئین آرٹیکل۹ کے تحت ریاستی اسمبلی کو تمام اختیارات دیتا ہے، جس کے تحت اسمبلی ریاستی شہری کی تعریف میں کوئی بھی تبدیلی لاسکتی ہے۔ آرٹیکل ۹: درج ذیل اُمور کی وضاحت کرتا ہے، جیسے:
۱- ریاست کے مستقل شہری کی وضاحت کرنا یا تعریف میں تبدیلی کرنا، افراد کی نوعیت (کلاسز) جو بھی ہیں یا ہوں گی،
۲- مستقل شہریوں کو خصوصی حقوق یا اختیار عطاکرنا،
۳- مستقل شہریوں کے خصوصی حقوق یا اختیارات کو مقررہ ضابطے کے تحت چلانا یا ان میں تبدیلی کرنا۔ یہ اسمبلی سے تب منظور کیے جائیں گے، جب اسے اسمبلی کی دوتہائی اکثریت کی تائید حاصل ہوگی۔
جموں و کشمیر کے شہریوں کے حقوق نہ صرف بھارتی حکومت نے تسلیم کیے ہیں،بلکہ ان کے تحفظ کے لیے آرٹیکل ۳۵-اے آئین کا حصہ بھی ہے۔ یہ آرٹیکل ایک آئینی شق ہے، جو جموں و کشمیر کے مستقل شہریوں کے خصوصی حقوق بہ سلسلہ ملازمت، ناقابلِ انتقال جایداد کا حصول، آبادکاری اور اسکالرشپ کی وضاحت کرتی ہے۔ یہ آرٹیکل جموں و کشمیر میں صدر راجندرا پرشاد کے حکم سے ۱۴مئی ۱۹۵۴ء میں نافذ کیا گیا۔ قانونی ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ اگر آرٹیکل کو حذف کیا گیا تو جموں و کشمیر تمام خصوصی مراعات بشمول اسٹیٹ سبجیکٹ لا، جایداد کا حق، ملازمت کا حق اور آبادکاری کا حق کھو دے گا۔ بھارتی انتہاپسند قوم پرستوں کے مطابق بظاہر یہی دکھائی دیتا ہے کہ کشمیریوں کے خصوصی استحقاق کو مسخ کرنے کے لیے ایک بڑی حکمت عملی تیار کرلی گئی ہے۔ بی جے پی کے مشن۴۴ کا ہدف کشمیریوں کے خصوصی استحقاق کے اس دستاویزی ثبوت سے نجات حاصل کرنا ہے۔
جموں و کشمیر کی تمام اپوزیشن جماعتوں نے متفقہ طورپر اس تحریک کے خلاف اپنے سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے متنبہ کیا ہے کہ اگر آرٹیکل ۳۵-اے کو منسوخ کیا گیا تو جموںو کشمیر میں بغاوت ہوسکتی ہے (روزنامہ گریٹر کشمیر، یکم اگست ۲۰۱۷ء)۔ اسی طرح وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے بھارتی حکومت کو سختی سے متنبہ کیا ہے کہ اگر آرٹیکل ۳۵-اے کو حذف کیا گیا تو وادی میں ترنگے کو بلند کرنے والا کوئی نہ رہے گا۔ اپوزیشن، حکمران جماعت پی ڈی پی ، علیحدگی پسند اور عوام آرٹیکل ۳۵-اے کی تنسیخ پر ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوگئے ہیں۔
آرٹیکل ۳۵-اے کی منسوخی نے مرکز اور ریاست میں شدید بحث کھڑی کر دی ہے۔ زیریں سطح پر بہت سے حقائق نے کشمیر کے تشخص پر سخت یورش کو ثابت کر دیا ہے۔ مثلاً ’پرماننٹ ریذیڈنٹ سرٹیفکیٹ‘ (PRC) سے متعلق افواہوں نے ریاست کے عوام میں یہ خدشہ پیدا کردیا ہے کہ حکومتی سطح پر کچھ گڑبڑ ہے۔ ’اسٹیٹ سبجیکٹ انکوائری کمیشن رپورٹ‘ کے مطابق تقریباً ۱۳۰۰ پی آر سی سرٹیفکیٹ زیرغور ہیں جو کہ حیران کن ہے۔ اے کیو پرے نے کہا ہے کہ ان مقدمات میں انھوں نے پی آر سی سرٹیفکیٹ منسوخ کرنے اور جایداد ضبط کرلینے کی منظوری دی ہے۔ اے کیو پرے نے کہا کہ یہ حیران کن ہے کہ غیر ریاستی IAS کے غیرمتعلقہ افسر پی آر سی سرٹیفکیٹ جاری کر رہے ہیں جو کہ قوانین و ضوابط کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
جس روز سے رسمی معاہدے کے تحت بھارت نے ریاست کا انتظام سنبھالا ہے، مرکزی بھارتی قیادت کی خواہش ہے کہ جیسے دوسری ریاستیں بھارت میں ضم ہوگئی ہیں اسی طرح کشمیر بھی بھارت میں مکمل طور پر ضم ہوجائے۔ خودمختاری میں فرسودگی کا عمل اس طریق کار کی زندہ مثال ہے۔ عوام محض اس شبہے کے اظہار کے سوا کیا کرسکتے ہیں کہ یہ ان کے علیحدگی کے تشخص کو منسوخ کرنے کا ایک ٹھوس منصوبہ ہے۔ دستورِ ہند سے آرٹیکل ۳۷۰ کی منسوخی کے لیے بھارت میں واویلا زوروں پر ہے اور اس کو حذف کرنا بی جے پی حکومت کے کارڈوں میں سے ہے۔
اگرچہ اپوزیشن کی مختلف جماعتوں کی طرف سے انتقامی پالیسیوں کی نشان دہی کی گئی ہے لیکن اہم ترین پہلو یہ ہے کہ کیا اپوزیشن جماعتیں کشمیر کے تشخص کے خلاف اس بھرپور یورش کو روکنے کے لیے متحد ہوتی ہیں یا کشمیرامرناتھ پارٹ ٹو کی طرف بڑھ رہا ہے؟
دسمبر۲۰۱۴ء کے انتخابات کے بعد جب جموں و کشمیر میں ایک معلّق اسمبلی وجود میں آئی اور پیپلزڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی بیساکھی کے سہارے اقتدار میں آئی، تب دونوں کے درمیان طے ہوا تھاکہ: ’’ہندو قوم پرست بی جے پی بھارتی آئین کی دفعہ ۳۷۰ کے تحت کشمیر کو دیے گئے خصوصی اختیارات کو موضوع بحث نہیں بنا ئے گی‘‘۔ بظاہر یہ وعدہ ایفاتو ہوا، مگر چور دروازے سے بی جے پی کی سرپرست تنظیم ’راشٹریہ سوامی سیوک سنگھ‘ (آر ایس ایس) سے وابستہ ایک تھنک ٹینک نے سپریم کورٹ میں رٹ دائر کی۔ جس میں دفعہ ۳۷۰ کے بدلے دفعہ ۳۵-اے کو نشانہ بنایا گیا، اور عدالت نے یہ پٹیشن [استدعا] سماعت کے لیے منظور بھی کرلی۔ اب حال ہی میں ایک اسپیشل بنچ قائم کر کے اس کی سماعت اگلے چند ہفتوں میں شروع کرنے کا عندیہ دیا گیا ہے۔
دفعہ ۳۵-اے کے تحت جموں و کشمیر میں غیر ریاستی باشندوں کے نوکری حاصل کرنے، ووٹ دینے اور غیرمنقولہ جایداد خریدنے پر پابندی عائد ہے۔ اگر یہ دفعہ ختم کر دی گئی تو اس کے نتائج دفعہ۳۷۰ کے خاتمے سے بھی زیادہ خطرناک ہوں گے۔ اگرچہ اسی طرح کی شقیں دیگر علاقوں یعنی: ناگالینڈ، میزورام، سکم، اروناچل پردیش، آسام، منی پور، آندھرا پردیش اور گوا کو خاص اور منفردحیثیت عطا کرتی ہیں۔ وہاں بھی دیگربھارتی شہریوں کو غیرمنقولہ جایدادیں خریدنے پر پابندی عائد ہے یا اس کے لیے خصوصی اجازت حاصل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، مگر مسلم دشمنی اور متعصب ذہنیت کے حامل افراد کو بھارتی آئین کی یہ شقیں نظر نہیں آتیں۔ اس پر ظلم یہ کہ بھارت کی مرکزی حکومت جو آئین کی محافظ اور نگران ہے، اس نے سپریم کورٹ میں آئین کی اس شق کا دفاع کرنے کے بجاے ’غیر جانب دار‘ رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اگر عدلیہ اس شق کو منسوخ کرتی ہے، تو بھارتی حکومت دنیا کو یہ باور کروائے گی کہ: ’’یہ تو آزاد عدلیہ کا معاملہ ہے اور حکومت کا اس کے ساتھ کچھ لینا دینا نہیں ہے‘‘۔ تاہم، سبھی رمزشناس یہ جانتے ہیں کہ دوسال تک اس پٹیشن کو التوا میں رکھ کر بھارتی حکومت، جسٹس دیپک مشرا کے چیف جسٹس بننے کا انتظار کر رہی تھی۔ خدشہ تھا کہ اگر اس پٹیشن کی سماعت اس سے قبل ہوتی تو حال ہی میں ریٹائر ہونے والے چیف جسٹس، جسٹس ایم کے کیہر اور ان کے پیش رو جسٹس ٹی ایس ٹھاکر اس کومسترد کرسکتے تھے۔چند برس قبل دہلی کے کانسٹی ٹیوشن کلب میں ایک مذاکرے کے دوران موجودہ وزیرخزانہ ارون جیٹلی نے کہا تھا کہ: ’’کشمیر کا واحد مسئلہ اس کا مسلم اکثریتی کردار ہے اور بھارتی آئین میں اس کی خصوصی پوزیشن نے اس کو اور بھی پیچیدہ بنا دیا ہے‘‘۔ان کے مطابق: ’’کشمیر کی ترقی میں بھی یہ شق سب سے بڑی رکاوٹ ہے، کیوں کہ بھارت کے دیگر علاقوں کے لوگ وہاں بس نہیں سکتے جس کی وجہ سے سرمایہ کاری نہیں ہوسکتی‘‘۔
یاد رہے کہ عشروں تک کشمیر میں خدمات انجام دینے والے انڈین ایڈمنسٹریٹو سروس (IAS) اور انڈین پولیس سروس (IPS) سے وابستہ غیر ریاستی افراد بھی ریٹائرمنٹ کے بعد، کشمیر سے باہر زندگی گزارنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ بیوروکریٹک سروس اور فوج ہی دو ایسے ادارے ہیں، جن کے بارے تصور کیا جاتا ہے کہ یہ بھارت کو متحدہ رکھنے میں ریڑھ کی ہڈی کا کام کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر جنوبی صوبہ کیرالا کے کسی نوجوان کو سول سروس کا امتحان پاس کرنے کے بعد جب پنجاب کا کیڈر دیا جاتا ہے، تو باقی زندگی وہ عملاً پنجابی ہی کہلائے گا۔ اکثر اعلیٰ بیوروکریسی میں تعینات یہ نوجوان اپنے پیدایشی صوبے کو پس پشت ڈال کر، شادیاں اور رشتہ داریاں کیڈر والے صوبے میں ہی کرتے ہیں اور پھر ۳۰سال سے زائد عرصہ سروس میں رہنے کے بعد اسی صوبے میں ریٹائرڈ زندگی گزارتے ہیں۔
اگرچہ جیٹلی ، بی جے پی اور آر ایس ایس کے ’لبرل چہرے‘ کی سی شہرت رکھتے ہیں، مگر انھوں نے سوال اُٹھایا کہ: ’’آخر مسلمان جہاں بھی تھوڑی اکثریت میں ہوتے ہیں ، وہ اپنی شناخت کیوں الگ رکھنا چاہتے ہیں؟ حالاں کہ ان کی اوّلین شناخت بھارتیہ ہونا اور اس کے کلچر کو ترجیح دینا ہونا چاہیے‘‘۔ ایک رپورٹر کی حیثیت سے مَیں اس مذاکرے میں سامع تھا، مگر میں نے جیٹلی صاحب کو یاد دلایا: ’’جناب، بھارتی آئین کی جن شقوں سے پریشانی کا اظہار کیا جارہا ہے، وہ ایک ہندو ڈوگرہ مہاراجا ہری سنگھ کی دین ہیں، جن کو بحال رکھنے کی گارنٹی دے کر ۱۹۴۷ء میں شیخ محمدعبداللہ کو شیشے میں اُتارا گیا۔ وادیِ کشمیر میں پنڈت لیڈر شنکر لال کول اور جموں میں ڈوگرہ سبھا کی ایما پر ۱۹۲۷ء میں مہاراجا نے یہ قانون نافذ کیا تھا، جس کی رُو سے اس کی اجازت کے بغیر کوئی بھی غیرریاستی شخص، ریاستی حکومت میں نہ ملازمت کا حق دار ہوگا اور نہ غیرمنقولہ جایداد رکھنے کا مجاز ہوگا‘‘۔
تاریخ کے اَوراق پلٹتے ہی مَیں نے انھیں یہ بھی یاد دلانے کی کوشش کی کہ: ’’جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ یا دیگر آزادی پسند تنظیموں کے منظرعام پر آنے سے بہت پہلے مئی ۱۹۴۷ء میں آر ایس ایس کی ایما پر ہندو مہاسبھا کی ورکنگ کمیٹی نے، جموں میں بلائے گئے ورکنگ کمیٹی کے ایک اجلاس میں پاس کی گئی قرارداد کے مطابق ایک ’ہندو اسٹیٹ‘ کو سیکولر بھارت کے ساتھ اپنی شناخت ضم نہیں کرنی چاہیے۔ وہ مہاراجا کو ہندو مفادات کا نگران تصور کرتے تھے۔ اُس وقت یہ پینترے بازیاں شاید اس وجہ سے ہورہی تھیں کہ ریاست کے پاکستان کے ساتھ الحاق کی صورت میں ہندو آبادی کے حقوق محفوظ کیے جائیں۔ تاریخ کے موڑ نے جب کشمیر کو بھارت کی جھولی میں گرا دیا تو شناخت اور حقوق کے تحفظ کا مسئلہ مسلمانوں کی طرف پلٹ گیا‘‘۔
جموں و کشمیر کی مسلم اکثریتی شناخت نہ صرف فرقہ پرستوں بلکہ خود کو سیکولر کہلوانے والی سیاسی جماعتوں کی آنکھوں میں کھٹکتی رہی ہے۔ فروری ۲۰۱۵ء کو جموں میں اپنی رہایش گاہ پر پی ڈی پی کے سرپرست اور سابق وزیراعلیٰ مرحوم مفتی محمد سعید سے ایک انٹرویو کے دوران میں نے بنیادی سوال پوچھا کہ: ’’کہیں بی جے پی کو اقتدار میں شریک کرواکے آپ کشمیریوں کے مصائب کی رات کو مزید تاریک کروانے کے مرتکب تو نہیں ہوں گے؟‘‘ جواب میں انھوں نے کہا کہ: ’’کشمیر کی خصوصی پوزیشن اور شناخت کے حوالے سے بھارت کی دونوں قومی جماعتوں کا موقف تقریباً ایک جیسا ہے‘‘۔ اس سلسلے میں انھوں نے ایک واقعہ سنایا: ’’مارچ ۱۹۸۶ء میں جب مَیں ریاستی کانگریس کا سربراہ تھا اور مَیں نے اس وقت کے وزیراعلیٰ غلام محمد شاہ کی حکومت سے حمایت واپس لی تھی، تو وزیراعظم آنجہانی راجیوگاندھی کی خواہش تھی کہ اگلے دو سال تک سری نگر میں کانگریس کو حکومت کا موقع ملنا چاہیے۔ حکومت سازی پر بات چیت کے لیے مجھے دہلی بلایا گیا۔ وزیراعظم ہائوس میں کیے گئے اجلاس میں کانگریس کے قومی کارگزار صدر ارجن سنگھ بھی شامل تھے۔ راجیوگاندھی نے ارجن سنگھ کو مخاطب کرکے پوچھا کہ کانگریسی حکومت کے برسرِاقتدار آنے کے بعد کیا ترجیحات ہونی چاہییں؟ ارجن سنگھ نے جواب دیا کہ پورا بھارت، جموں و کشمیر کے انڈین یونین میں مکمل انضمام کا خواہش مند ہے اور یہ عمل ۱۹۷۵ء کے بعد شیخ عبداللہ کے برسرِاقتدار آنے کے بعد رُک گیا تھا۔ اس عمل کو دوبارہ شروع کروانے اور منطقی انجام تک پہنچانے کی ضرورت ہے اور یہ ہماری حکومت کا سب سے بڑا کارنامہ ہوگا‘‘۔
اسی دوران راجیو گاندھی نے اپنے پرائیویٹ سیکرٹری سے کہا کہ ’’گورنر ہائوس اور مفتی سعید سے رابطہ رکھ کر ان کی بطور کانگریسی وزیراعلیٰ، حلف برداری کی تقریب کا اس طرح تعین کریں کہ مَیں بھی جموں جاکر تقریب میں شامل ہوسکوں‘‘۔ مفتی سعید صاحب نے مزید کہا: ’’میں اس بات چیت سے انتہائی دل برداشتہ ہوگیا، اور واپس جموں پہنچ کر ایسی صورتِ حال پیدا کر دی کہ کانگریس کی حکومت سازی کا پلان چوپٹ ہوگیا۔ پھر ایک سال بعد ’راجیو- فاروق ایکارڈ‘ کے نتیجے میں فاروق عبداللہ کی قیادت میں نیشنل کانفرنس اور کانگریس کی مشترکہ حکومت قائم ہوئی‘‘۔
مفتی سعید نے میرے سامنے اعتراف کیا کہ: ’’۱۹۵۳ء سے ۱۹۷۵ء تک کشمیر کی انفرادیت اور شناخت کو بُری طرح مسخ کیا گیا ہے اور ایک طرح سے کشمیریوں کی عزت و آبرو کو تارتار کر کے برہنہ کیا گیا ہے۔ بھارت کے آئین کی دفعہ ۳۷۰ کی موجودہ شکل تو اب صرف زیرجامہ بچا ہوا ہے۔ مین اسٹریم، یعنی بھارت نواز کشمیری پارٹیاں چاہے نیشنل کانفرنس ہو یا پی ڈی پی، ان کا فرض ہے کہ اس زیرجامہ کو بچاکر رکھیں، جب تک کہ مسئلہ کشمیر کے دائمی حل کی کوئی سبیل پیدا ہو‘‘۔
تاہم، یہ بات اب سری نگر میں زبان زد عام و خاص ہے کہ یہ وہ پی ڈی پی نہیں، جس نے ۲۰۰۳ء اور ۲۰۰۵ء کے درمیان دہلی کی روایتی کٹھ پُتلی حکومت کے بجاے ایک پُراعتماد اور کشمیری عوام کے مفادات اور ترجیحات کے ترجمان کے طور پر ایک نئی تاریخ رقم کی تھی۔ اس سے قبل اقتدار کی شدید ہوس نے کشمیر کی سب سے بڑی قوم پرست پارٹی نیشنل کانفرنس کو بزدل بناکر رکھ دیا تھا۔ یہی حال اب کچھ پی ڈی پی کا بھی ہے۔ بدقسمتی سے اس جماعت کا یہ محور بنا ہوا ہے کہ اقتدار کی نیلم پری پر دسترس کو کس طرح برقرار رکھا جائے؟
دفعہ ۳۵-اے دراصل بھارتی آئین کی دفعہ ۳۷۰ کی ہی ایک توسیع اور توضیح ہے۔ معروف قانون دان اے جی نُورانی کے بقول: ’’آرٹیکل ۳۷۰ ، اگرچہ ایک عبوری انتظام تھا اور بھارتی حکومت کی ۶۰ کے عشرے تک یہ پالیسی تھی کہ جموں و کشمیرکے مستقبل کا فیصلہ استصواب راے سے کیا جائے گا۔ ۱۹۴۸ءمیں جموں و کشمیر پر بھارتی حکومت کے ایک وائٹ پیپر میں سردار پٹیل کا یہ بیان موجود ہے: ’’الحاق کو تسلیم کرتے ہوئے بھارتی حکومت نے یہ واضح کر دیا ہے کہ وہ اسے بالکل عارضی مانتی ہے، جب تک کہ اس بارے میں ریاست کے لوگوں سے ان کی راے نہیں معلوم کی جائے گی‘‘۔ نُورانی کے بقول: ’’جن سنگھ کے بانی شیاما پرساد مکھرجی، جن کا نام آرٹیکل ۳۷۰ کی مخالفت کرتے وقت بی جے پی اُچھالتی ہے، انھوں نے اس کی مکمل حمایت کی تھی۔ بی جے پی اس وقت کے وزیرداخلہ سردار پٹیل کا نام بھی اس پروپیگنڈے کے لیے استعمال کرتی ہے کہ انھوں نے اس مسئلے پر پنڈت جواہر لعل نہرو کی مخالفت کی تھی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ پٹیل نے بھی آئین کی اس دفعہ کی مکمل تائید کی تھی‘‘۔
اے جی نُورانی کا کہنا ہے کہ: ’’کشمیر واحد ریاست تھی جس نے الحاق کے لیے اپنی شرائط پر حکومت سے مذاکرات کیے تھے۔ وہ بھارت میں ضم نہیں ہوئی تھی بلکہ اس نے الحاق کیا تھا، اس لیے آرٹیکل ۳۷۰ دونوں کے درمیان ایک مقدس معاہدہ ہے، جس کی کسی شق میں کوئی بھی فریق یک طرفہ ترمیم نہیں کرسکتا‘‘۔ نورانی اس بات کا تذکرہ کرتے ہیں کہ: ’’این گوپال سوامی نے ۱۶؍اکتوبر ۱۹۴۹ء کو اس سلسلے میں پہلی خلاف ورزی اس وقت کی، جب انھوں نے یک طرفہ طور پر مسودے میں تبدیلی کے لیے پارلیمنٹ کی لابی میں حتمی شکل دی تھی۔ جیسے ہی شیخ عبداللہ اور مرزا افضل بیگ کو اس تبدیلی کا علم ہوا وہ دونوں ایوان کی طرف دوڑے، لیکن تب تک یہ ترمیمی بل پاس ہوچکا تھا۔ اس طرح یہ ایک افسوس ناک اعتماد شکنی کا معاملہ تھا۔ اگر اصل مسودہ پاس کیا جاتا تو ۱۹۵۳ء میں شیخ عبداللہ کو اقتدار سے بے دخل کیا جانا ممکن نہ تھا۔ ۱۹۵۱ء میں کشمیر اسمبلی کے لیے جو انتخابات منعقد کیے گئے، ان سے بھارت کے جمہوری دعوئوں کی کشمیر میں قلعی تو اسی وقت کھل گئی تھی۔ انتخابی دھاندلیوں کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے گئے۔ تمام اُمیدوار ’بلامقابلہ‘ منتخب قرار پائے۔ یہ وہی اسمبلی تھی، جس نے ریاست کا دستور وضع کیا اور الحاق کے دستاویز کی توثیق کی تھی‘‘۔
خود اس اسمبلی کے جواز پر سوال کھڑا کیا جاسکتا ہے کیوں کہ ۵ فی صد سے بھی کم لوگوں نے اس کی تشکیل میں اپنے حق راے دہی کا استعمال کیا تھا۔ یہ اسمبلی ریاست کا مستقبل اور اس کی حیثیت طے کرنے کے سلسلے میں دستورساز اسمبلی کا درجہ رکھتی تھی۔ کشمیر کی اس آئین ساز اسمبلی کی حقیقت اور حیثیت کی قلعی خود اس وقت کے انٹیلی جنس سربراہ بی این ملک نے یہ کہہ کر کھول دی: ’’ان اُمیدواروں کے کاغذاتِ نامزدگی کو مسترد کر دیا گیا، جو حزبِ مخالف کا کردار ادا کرنے کی اہلیت رکھتے تھے‘‘۔اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ الحاق کی دستاویز کی توثیق اور کشمیر کے آئین کی منظوری کو کوئی عوامی تائید حاصل نہیں تھی۔ بہرحال پچھلے ۶۹برسوں میں بھارتی حکومتوں نے آرٹیکل ۳۷۰ کو اس بُری طرح سے مسخ کر دیا ہے کہ اس کااصلی چہرہ اب نظر ہی نہیں آتا۔ کئی مواقع پر خود کشمیری لیڈروں نے اپنی عزتِ نفس کا خیال نہ کرتے ہوئے ان آئینی خلاف ورزیوں کے لیے راہ ہموار کی۔ اگر ایک طرح سے یہ کہا جائے کہ آئین کی اس شق نے کشمیریوں کو سیاسی گرداب سے بچنے کے لیے جو کپڑے فراہم کیے تھے، وہ سب اُتر چکے ہیں اور اب صرف دفعہ۳۵-اے کی صورت میں ایک نیکر بچی رہ گئی ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ فرقہ پرست عناصر اب اسی نیکر کو اُتارنے، کشمیریوں کی عزت نیلام کرنے اور ان کو اپنے ہی وطن میں اقلیت میں تبدیل کروانے کے لیے ایک گھنائونا کھیل کھیل رہے ہیں، جس کے لیے عدالتی نظام کا سہارا لیا جارہا ہے۔
عدالت میں یہ معاملہ لے جاکر آر ایس ایس نے جموں و کشمیر کی آبادیاتی ساخت کی تبدیلی کے حوالے سے اپنے مکروہ عزائم واضح کردیے ہیں۔ کانگریس کے سابق ریاستی صدر اور سابق مرکزی وزیر سیف الدین سوز کا کہنا ہے: ’’سپریم کورٹ کی طرف سے اس پٹیشن کو شنوائی کے لیے منظور کرنا ہی باعث ِ حیرت ہے‘‘۔ اٹانومی اور سیلف رول کے ایجنڈوں کے خواب دیکھنا دُور کی بات ہے، فی الحال جس تیزرفتاری سے مودی سرکار اور اس کی ہم نوا ریاستی حکومت، کشمیریوں کے تشخص اور انفرادیت کو پامال کرنے کے حوالے سے جنگ آزمائی کے راستے پر چل نکلی ہے، اس کا توڑ کرنے میں نیشنل کانفرنس، پی ڈی پی کے باضمیر افراد اور حُریت پسند جماعتوں کو باہمی تعاون کرنے کی کوئی سبیل نکالنی چاہیے۔
جولائی ۱۹۵۷ء میں تیونس کی آزادی کے بعد سے لے کر نومبر ۱۹۸۷ تک حبیب بورقیبہ ملک کے سیاہ و سفید کا مالک رہا۔ اس دوران اپنے مخالفین پر ناقابل بیان مظالم کے پہاڑ توڑنے کے علاوہ، عالم اسلام کے کئی آمروں کی طرح موصوف نے خود اسلام کو بھی مشق ستم بنانے کی کوشش کی۔ فروری ۱۹۶۰ میں محنت کشوں کے ایک اجتماع سے خطاب کے دوران ’فرمایا‘ کہ: ’’ہم ملک میں تعمیر و ترقی کے جہاد اکبر میں مصروف ہیں، اس لیے ہمیں روزہ ترک کردینا چاہیے۔ ہاں، ریٹائرمنٹ کے بعد یا کسی اور مناسب موقعے پر ان روزوں کی قضا ادا کی جاسکتی ہے‘‘۔ بعدازاں تیونس کے مفتی اعظم محمد العزیز جعیط سے اس حکم کے حق میں فتویٰ بھی جاری کروادیا۔ لیکن بات جب تیونس کے جلیل القدر عالم دین الطاہربن عاشور تک پہنچی تو انھوں نے قوم سے ایک مختصر ترین خطاب کیا۔ حمد و صلاۃ کے بعد فرضیت صیام کی قرآنی آیت تلاوت کی اور پھر تین بار فرمایا: صَدَقَ اللہُ وَ کَذَبَ بوُ رقیبہ، اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا اور بورقیبہ نے کہاجھوٹ۔ اس ایک مختصر جملے نے بورقیبہ کا حکم شاہی خاک میں ملادیا۔
روزہ ساقط کرنے کی جسارت ہی نہیں، موصوف نے کئی واضح اسلامی تعلیمات کو بھی بدلنے کی ناکام کوشش کی۔ قرآن کریم میں صراحت کے ساتھ بیان کیے گئے احکام وراثت کو قانوناً تبدیل کرتے ہوئے مرد و عورت کے حصے برابر قرار دے دیے۔ بزعم خود مساوات کا ثبوت دیتے ہوئے بہ امر مجبوری بھی مردوں کی ایک سے زیادہ شادی پر پابندی لگادی۔ حج پر جانے سے منع کرتے ہوئے فتویٰ دیا کہ ’’اس فضول خرچی کی کیا ضرورت ہے۔ تیونس میں ابوزمعہ البلویؓ کی قبر پہ حاضری ہی کافی ہے‘‘۔ ایک روز ترنگ میں آکر کہنے لگا کہ ’’مجھے ذرا سرخ قلم دینا میں قرآن میں موجود اغلاط درست کرنا چاہتا ہوں‘‘۔ پھر اس ظالم شخص کا انجام یہ ہوا کہ ہر نافرمانی میں شریک اپنے ہی وزیراعظم نے اس کا تختہ الٹ کر نظربند کردیا۔ پھر ذرائع ابلاغ پر ایک ڈاکٹری سرٹیفکیٹ کی خبر چلنے لگی کہ ’’طوالت عمر کے باعث دماغ نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے‘‘۔ بورقیبہ کا جانشین زین العابدین بن علی بھی اپنے سلف کے نقش قدم پر چلا اور بالآخر جنوری ۲۰۱۱ء میں عوام نے خوف کا بت توڑتے ہوئے اسے بھی ظالم حکمرانوں سے بھرے تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیا۔
تیونس اور پھر مصر، لیبیا، یمن اور شام میں شروع ہونے والی تحریک ’عرب بہار‘ کو کس طرح خزاں میں بدلا گیا او رمسلسل بدلا جارہا ہے وہ ایک الگ المناک باب ہے، لیکن اُمت مسلمہ میں ایک بار پھر ’اسلام اکبری‘ کے نفاذ کا بھوت کئی حکمرانوں پر سوار ہے۔ ۱۳ اگست کو تیونس کے حالیہ صدر ۹۱ سالہ الباجی قائد السبسی نے اپنے خطاب میں اعلان کیا کہ وراثت کوئی دینی مسئلہ نہیں، ایک معاشرتی ضرورت ہے۔ آج کی خاتون کو وراثت میں برابر حصہ دینے کا قانون بنایا جائے۔ یہ قانون بھی بنایا جائے کہ مسلم خاتون کو غیر مسلم مرد سے شادی کی اجازت ہے۔ بدقسمتی سے تیونسی دارالافتاء نے بھی اس فرمان کی تائید کردی ہے، اور مصری صدر عبد الفتاح السیسی کے تابع مفتیان اور جامعہ ازہر کے بعض ذمہ داران نے بھی حمایت کردی ہے۔ اب تیونسی صدر نے ایک قانونی کمیٹی تشکیل دے دی ہے جو ۲۰۱۴ء میں منظور ہونے والے دستور کی روشنی میں مزید قانون سازی کرے گی۔ لیکن عوام کی اکثریت نے نہ صرف اس بیان کو مسترد کردیا ہے، بلکہ وہ اس انتظار میں ہیں کہ بورقیبہ کا یہ سابق دست راست کب اپنے پیش رو کے انجام کو پہنچتا ہے۔
روشن خیال ،معتدل، دور جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ، اور نہ جانے کن کن خوش نما پردوں میں چھپے یہ اقدامات صرف تیونس تک محدود نہیں، پورے عالم اسلام اور ساری دنیا کے مسلمانوں کے لیے یہی ایجنڈا زیر تکمیل ہے۔ آئیے اس پورے کھیل کے پالیسی ساز اور اصل عالمی حکمرانوں کے احکامات کی چند جھلکیاں دیکھیں۔
امریکا میں بحث و تحقیق اور پالیسی سازی کے لیے کے بہت سارے ادارے کام کرتے ہیں۔ برطانوی رسالے اکانومسٹ نے ایک بار لکھا تھا کہ یہ ادارے (Think Tanks) ہی امریکا کی اصل حکومت ہیں۔ اصل سیاسی فیصلے یہی ادارے کرتے ہیں، حکومتوں کا کام صرف ان پر دستخط کرنا ہوتا ہے۔ ’رینڈ کارپوریشن‘ کا نام ان اداروں میں بہت نمایاں ہے۔ اس کا سالانہ بجٹ ۱۵۰ ملین ڈالر (۱۵ کروڑ ڈالر) ہے، جب کہ اس کے بنائے گئے منصوبوں پر عمل درآمد کا بجٹ بعض اوقات اربوں ڈالر تک جاپہنچتا ہے۔ آج سے دس سال پہلے ۲۰۰۷ء میں اس ادارے نے ۲۱۷ صفحات پر مشتمل ایک منصوبہ پیش کیا جس کا عنوان تھا : Building Moderate Muslim Networks ’معتدل مسلمانوں کے نیٹ ورک کی تشکیل‘۔ اس دستاویز کے مطالعے سے یہ امر واضح ہوجاتا ہے کہ یہ نہ صرف مسلمانوں کو قابو میں لانے کی سفارشات ہیں بلکہ خود اسلام کی جڑیں کاٹنے کی ایک اور جسارت بھی ہے۔ اس دستاویز میں بتایا گیا کہ جس طرح ہم نے سوشل ازم کا مقابلہ کرنے کے لیے خود ان کے اندر سے مختلف گروہ تشکیل دیے تھے، اسی طرح ان تجربات سے استفادہ کرتے ہوئے اب اسلام اور مسلمانوں کو اپنی ڈھب پہ لایا جائے گا۔ واضح رہے کہ ان سفارشات کا ہدف صرف ’اسلام پسند‘ طبقہ ہی نہیں تمام مسلمان ہیں ۔ کیونکہ اب ہرمسلمان کو ایک امکانی خطرے کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ ان سفارشات میں جس طرح کے ’مسلمان‘ بنانے کی تجویز دی گئی ہے ان کی چند نمایاں خصوصیات ملاحظہ کیجیے:
ان سفارشات میں کئی ایسے سوالات بھی درج کیے گئے ہیں جن کے ذریعے یہ امر یقینی ہوسکتا ہے کہ فلاں شخص واقعی مطلوبہ معیار کا ’روشن خیال‘ ہوگیا یا نہیں۔ مثلاً اس سے پوچھا جائے کہ کیا تم ایک مسلمان کو یہ حق دیتے ہو کہ وہ چاہے تو اپنا مذہب تبدیل کرلے؟ پھر اسی سوال کی آڑ میں اسلام میں مرتد کی سزا کو ’ظالمانہ‘ قرار دینے کا پورا ایجنڈا سامنے آجاتا ہے۔ مختلف مسلم ممالک سے مختلف شخصیات کا تعارف کرواتے ہوئے مطلوبہ ’روشن خیال‘ عناصر کی مثالیں بھی دی گئی ہیں۔ یہ امر یقینا اتفاقیہ نہیں کہ ان میں سے اکثر افراد پر یا تو قرآن کریم کے بارے میں تشکیک کا الزام تھا، جیسے مصری نام نہاد دانش ور نصر ابوزید۔ اس کا قرآن کے بارے میں کہنا تھا کہ: Work of Litrature and a Text that should be subjected to Rational and Scholarly Analysis. ’’یہ ایک ادب پارہ اور ایک ایسا متن ہے جس کا عقلی جواز اور دانش ورانہ تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے‘‘۔ یا پھر اس رپورٹ کے ’مثالی روشن خیال‘ ایسے لوگ ہیں کہ جنھوں نے کسی نہ کسی حوالے سے توہینِ رسالت کا ارتکاب کیا تھا۔ اس ضمن میں پاکستان کے ڈاکٹر یونس شیخ کی مثال دی گئی ہے جو ۲۰۰۰ء میں توہین رسالت کے الزام میں گرفتار ہوا اور پھر رہائی پاکر یورپ جاپہنچا۔ یا ایسے افراد ہیں جو اسلام کو صرف ایک معاشرتی یا انفرادی معاملہ قرار دیتے ہوئے دین اور ریاست و حکومت کو جدا جدا رکھنے کا پرچار کرتے ہیں۔ اس ضمن میں ترک رہنما فتح اللہ گولان اور شامی ’روشن خیال اسکالر‘ محمدشحرور کا مفصل ذکر کیا گیا ہے۔ جو یہ کہتے ہیں کہ: چوںکہ ہر انسان اپنے اعمال کا خود جواب دہ ہے، اور دین کسی پر جبر نہیں کرتا، اس لیے ریاست و حکومت کا دین اور اس کی تعلیمات کے نفاذ میں کوئی عمل دخل نہیں ہونا چاہیے۔ ان سفارشات میں ایسے تمام عناصر کو باہم مربوط کرنے کے لیے مختلف عملی اقدامات تجویز کیے گئے ہیں۔ انھیں مختلف کانفرنسوں اور اجتماعات میں اکٹھے کرنے کا ذکر ہے۔ ذرائع ابلاغ کے ذریعے ان کی تشہیر و تعریف کرنے کا ذکر کیا گیا ہے۔ نیز ان کی اخلاقی، سیاسی اور مالی مدد کرنے کا مطالبہ و منصوبہ پیش کیا گیا ہے۔
دیگر معاملات کے علاوہ مساوات مردوزن کا مسئلہ بھی خاص طور پر زیر بحث لایا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ: The Issue of Women's right is a major battle ground in the war of ideas within Islam ’حقوق نسواں کا مسئلہ خود اسلام کے اندر چھیڑی جانے والی فکری جنگ کا ایک مرکزی میدان ہے‘۔ اسی ضمن میں خاتون کے حق وراثت اور ’اپنی مرضی کی ذاتی زندگی‘ گزارنے کا ذکر کیا گیا ہے۔ وراثت کے بارے میں بات کرتے ہوئے بعینہ وہ دلائل دیے گئے ہیں کہ جو سابقہ و حالیہ تیونسی صدر یا ان کے ہم نواؤں کی زبان سے ادا ہوتے ہیں۔ یعنی یہ کہ نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کے زمانے میں حالات کے تقاضے اور ضروریات مختلف تھیں، جب کہ آج کے حالات و ضروریات مختلف ہیں، کہ جب ہر خاتون معاشی زندگی کا فعال حصہ بن چکی ہے۔ نہ جانے ان عالمی پالیسی سازوں کو یہ کیوں معلوم نہیں ہوسکا کہ اس وقت بھی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا جیسی کامیاب تجارت کرنے والی عظیم خاتون موجود تھیں اور آج بھی کسی مسلم خاتون کی تجارت و محنت پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ خالق کائنات کی خواتین پر رحمت تو یہ ہے کہ تب بھی کسی خاتون پر کسی طرح کا مالی و معاشی بوجھ نہیں ڈالا گیا تھا اور آج بھی ایک خاتون کی زندگی کے ہر مرحلے میں اس کے معاشی حقوق اس کے خاندان ہی کے ذمے ہیں۔ یہ تو مغربی تہذیب ہے کہ شوہر اپنی بیگم اور بیٹے اور اپنی ماں تک کی معاشی ذمہ داری اُٹھانے سے انکار کردیتے ہیں۔ مقصد چوں کہ اسلام پر حملہ آور ہونا ہے، اس لیے خواتین پر ظلم جیسے یہ بے بنیاد الزامات مسلسل دہرائے جاتے رہیں گے۔
گذشتہ عرصے میں اس عالمی ایجنڈے اور پروپیگنڈے کی باز گشت اس لیے بھی زیادہ رہی کہ ایک ہی طرح کی بات بیک وقت کئی ممالک سے سنائی دی جانے لگی۔ اس کا ایک اندازہ آپ کو معروف سعودی تجزیہ نگار جمال خاشقجی کے کالم ’سیکولرزم کی دکان‘ سے لیے گئے ان چند جملوں سے ہوسکتا ہے۔ واضح رہے کہ جمال خاشقجی کا تعلق اعلیٰ ترین سرکاری حلقوں سے رہتا ہے۔ ارب پتی سعودی شہزادے ولید بن طلال نے جب اپنا بڑا ٹی وی چینل کھولنے کا ارادہ کیا تھا تو انھیں ہی اس کا سربراہ بنایا تھا۔ سعودی انٹیلی جنس کے سابق سربراہ اور شاہ فیصل مرحوم کے صاحبزادے ترکی الفیصل نے جب افغانستان اور خطے کے بارے میں کئی قسطوں پر مشتمل اپنے تہلکہ خیز انٹرویو نشر کروائے تو وہ انٹرویو بھی جمال ہی نے کیے۔ اپنے تازہ کالم میں وہ لکھتے ہیں: ’’سیکولرزم کوئی دکان نہیں کہ ہم میں سے کوئی وہاں جائے، سامان کا جائزہ لے اور اپنی مرضی کی ایک دو چیزیں خرید کر باقی سب کچھ وہیں چھوڑ کر آجائے، لیکن ہمارے بعض ساتھی سیکولرزم کو ایسا ہی سمجھتے ہیں۔ ہمارے اخبارات میں اچانک سیکولرزم کے فضائل و محاسن بیان کرنے کا مقابلہ شروع ہوگیا ہے۔ ایسا کرنے والے لوگ سیکولرزم کو ہمارے اس نظام میں شامل کرنا چاہتے ہیں جو اپنے مزاج و ترکیب کے اعتبار سے بالکل مختلف ہے۔ مملکت سعودی عرب اپنے اساسی نظام حکومت کے اعتبار سے ایک اسلامی ریاست ہے۔ اس میں آپ یہ تو کرسکتے ہیں کہ اسلام کی حقیقی تعلیمات کو سمجھنے کی مزید کوشش کریں۔ لیکن اگر آپ اس کے وجود اور بقا و تسلسل کی بنیاد ہی تبدیل کرنا چاہیں تو یہ ایک بہت بڑا خطرہ ہوگا‘‘۔
اس سے پہلے امریکا میں متحدہ عرب امارات کے سفیر یوسف العتیبہ کا ایک امریکی ٹی وی PBS سے انٹرویو بہت مشہور ہوا جس میں اس نے قطر کے ساتھ اختلافات کے سبب بتاتے ہوئے واضح طور پر کہا تھا کہ ’’اگر آپ امارات، سعودیہ، اُردن، مصر اور بحرین سے پوچھیں کہ وہ آج سے دس سال بعد کس طرح کا مشرق وسطیٰ چاہتے ہیں، تو ان کا جواب قطر کے جواب سے بالکل مختلف ہوگا۔ ہم علاقے میں ’سیکولر‘ اور ترقی یافتہ حکومتیں چاہتے ہیں۔ لیکن اگر گذشتہ ۱۵ سال میں قطر کی پالیسیاں دیکھیں تو وہ الاخوان المسلمون، حماس، طالبان، شام کی مسلح تنظیموں اور لیبیا کی مسلح تنظیموں کی مدد کررہا ہے۔ یہ ہماری ان تمام پالیسیوں کے بالکل برعکس ہے جن کے بارے میں ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے خطے کو ان کی طرف بڑھنا چاہیے‘‘۔ اب ایک طرف ان صدارتی فرمانوں، انٹرویووں، ابلاغیاتی جنگوں اور سوشل میڈیا پر ہونے والی لڑائیوں کو دیکھیں اور دوسری جانب امریکی پالیسی ساز اداروں میں ہونے والی بحثوں کو دیکھیں، جن میں مسلم ممالک کے نصاب تعلیم کے بارے میں اظہار تشویش کیا جارہا ہے۔ مثلاً کچھ عرصہ قبل امریکی کانگریس میں ہونے والی بحث کے یہ الفاظ ملاحظہ فرمائیں کہ: ’’سعودی عرب کا اپنے نصاب تعلیم میں سے وہ تمام حصے حذف کرنا کہ جو انتہاپسندی کی تعلیم دیتے ہیں، صرف ایک درست اقدام ہی نہیں، ہماری قومی سلامتی کا جزو ہے۔ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ اس کے بغیر نہیں جیتی جاسکتی۔ گذشتہ مئی میں ہم نے انھیں ایک طویل فہرست ان عبارتوں کی پیش کی ہے، جو انتہا پسندی کی تعلیم دیتی ہیں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ سال ۱۷ -۲۰۱۶ءکی نصابی کتب میں بھی ان تمام اقدامات پر موت کی سزا کی تعلیم دی جارہی ہے جنھیں امریکی قانون شخصی آزادی قرار دیتا ہے۔ مثلاً زنا، اور اسلام کا مذہب ترک کرنا (مرتد ہونا) وغیرہ… اسی طرح یہ کتب مسیحیت اور یہودیت بالخصوص صہیونیت کے خلاف بات کرتی ہیں۔ ان میں لکھا گیا ہے کہ مسیحیت ایک تحریف شدہ دین ہے… ان کتابوں میں ایسی قرآنی آیات پڑھائی جاتی ہیں کہ (اے اہل ایمان یہود و نصاریٰ کو اپنے جگری دوست نہ بناؤ۔ وہ ایک دوسرے کے مددگار ہیں)۔ ان تمام چیزوں کو نصاب سے خارج کرنا ہوگا‘‘۔
امریکی کانگریس کے ایک اور سیشن میں سعودی خواتین میں تبدیلی کی ضرورت پر براہِ راست بحث کی گئی۔ سوال کیا گیا کہ کیا سعودی عرب میں دینی آزادی اور خواتین کے حقوق کے حوالے سے پائی جانے والی صورت حال، حقوق انسانی کی صریح خلاف ورزی نہیں ہے؟ کانگریس کمیٹی کے سامنے اس کا جواب دیتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ ٹیلرسن نے کہا: ’’سعودی عرب اور امریکا کی اقدار یقینا مختلف ہیں، لیکن خطے میں امریکی مفادات سعودیہ کو مسلسل اس بات پر اُبھار رہے ہیں کہ وہ ان انسانی حقوق کا احترام کریں۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ گذشتہ عرصے میں اس سلسلے میں بہت سارا سفر طے ہوچکا ہے‘‘۔
یہی امریکی وزیر نصابی اور دینی کتب کے بارے میں کہتے ہیں کہ: ’’ریاض کانفرنس کہ جس میں دہشت گردی کے خلاف مرکز قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے کے بعد، نئی نصابی کتب تیار کی جارہی ہیں جو تمام مدارس اور دنیا بھر کی مساجد میں بھی عام کی جائیں گی۔ یہ کتب ان پرانی کتابوں کی جگہ لیں گی، جن میں ’متعصب وہابی‘ تعلیمات دی جاتی تھیں اور جن میں تشدد کا جواز فراہم کیا جاتا تھا۔ ہم نے صرف نئی کتب متعارف کروانے کا ہی نہیں، پرانی کتابیں اُٹھالینے کا بھی مطالبہ کیا ہے‘‘۔ وزیر موصوف کا مزید کہنا تھا کہ: ’’یہ تو صرف ایک مثال ہے وگرنہ اس میں یہ بھی شامل ہے کہ میڈیا او رسوشل میڈیا کے ذریعے بات کیسے پھیلانا ہے؟ نوجوان ائمہ مساجد کو کیسے اور کیا تربیت دینا ہے؟ یہ وہ تمام اُمور ہیں جو امریکی وزارت خارجہ سعودی عرب اور دیگر مسلم ممالک کے ذریعے انجام دے رہی ہے اور جس پر ہم خود کو جواب دہ سمجھتے ہیں‘‘۔
ایک طرف ان تمام عالمی منصوبوں، سازشوں اور ان پر عمل درآمد کو دیکھیں اور دوسری طرف اپنی غفلت کی جانب نگاہ دوڑائیں کہ ہم اپنی تباہی سامنے دیکھ کر بھی اس سے بچنے کی کوئی فکر نہیں کررہے۔ اسلام اور مسلمانوں کے دشمن جو دام بچھانا چاہتے ہیں ہم خود آگے بڑھ کر اس کا کام آسان کرنے لگ جاتے ہیں۔ تاہم، ایک ابدی حقیقت جو اپنوں پرایوں سب کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے آخری نبی ہیں۔ قرآن کریم آخری کتاب ہے اور قرآن و سنت پر مبنی دین حنیف نہ صرف قیامت تک ہر تحریف و ہزیمت سے پاک رہنا ہے بلکہ اسے بہرصورت غالب ہوکر رہنا ہے۔ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ میں: ’’عزت مندوں کی عزت میں اضافہ کرتے ہوئے اور ذلیلوں کو مزید ذلیل کرتے ہوئے‘‘۔
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی جنوبی ایشیا کے پہلے سربراہ مملکت ہیں، جنھوں نے اسرائیل کی سرزمین پر قدم رکھا۔ اگرچہ دونوں ملکوں کے درمیان فوجی تعلقات کی داغ بیل ۱۹۷۱ءکی بھارت-پاکستان جنگ کے دوران ہی پڑی تھی، البتہ حساس اداروں کے درمیان اشتراک ۱۹۵۳ء سے ہی جاری تھا، جب ممبئی میں اسرائیل کو قونصل خانہ کھولنے کی اجازت مل گئی تھی، مگر ان تعلقات میں سیاسی عنصر کی عدم موجودگی اسرائیل کو بُری طرح محسوس ہو رہی تھی۔ بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کی سیکورٹی کے انچارج رامیشور ناتھ کائو (جو بعد میں خفیہ ایجنسی ’ریسرچ اینڈ انالیسز وِنگ یعنی ’را‘ کے پہلے سربراہ بنے) نے ۵۰کے عشرے میں ہی افریقی ملک گھانا میں قیام کے دوران اسرائیلی خفیہ ایجنسی ’موساد‘ کے ساتھ تعلقات استوار کر لیے تھے۔باضابطہ سفارتی تعلقات کی پراو کیے بغیر ، ۱۹۷۱ءکی جنگ میں اسرائیل نے فوجی ماہرین کے ساتھ اسلحے کی ایک بڑی کھیپ بھارت روانہ کی۔ چوںکہ مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) میں بھارتی فوجی آپریشن کی قیادت ایک یہودی افسر میجر جنرل جے ایف آر جیکب کے سپرد تھی، تب اسرائیلی وزیر اعظم گولڈ امیئر نے ایران جانے والے اسرائیلی اسلحے کے ایک بڑے ذخیرہ کوبھارت کی طرف موڑ دیا۔
حال ہی میں عام کی گئی دستاویزات کے مطابق، اگست ۱۹۷۱ء میں ’را‘ کے سربراہ کاؤ نے وزیر اعظم اندرا گاندھی کے مشیر پی این ہکسر کو لکھے ایک تفصیلی خط میں بتایا کہ: ’’اسرائیلی اسلحے کو فوج اور مکتی باہنی کے گوریلا دستوں میں تقسیم کیا گیا ہے‘‘۔یاد رہے جنرل جیکب کا پچھلے سال ہی انتقال ہوا ۔ اکثر نجی ملاقاتوں میں جنرل جیکب بتایا کرتے تھے کہ: ’’اسرائیلی اسلحے کے بغیر مشرقی پاکستان میں آپریشن کی کامیابی ممکن نہ تھی‘‘۔ وہ اندرا گاندھی سے سخت ناراض تھے، کہ: ’’ایک تو اس نے مجھے فوجی سربراہ بننے نہیں دیا، اور دوسرا یہ کہ پاکستانی جنرل نیازی سے ہتھیار ڈلوانے کی تقریب کے لیے ایک سکھ افسر جنرل جگجیت سنگھ ارورا کو ڈھاکہ بھیجا، جب کہ ملٹری آپریشنز کی کمان میرے سپرد تھی‘‘۔ جنرل جیکب کے مطابق اندراگاندھی کو اسرائیل سے معاونت لینے میں کوئی لیت و لعل نہیں تھا، مگر اس ضمن میں وہ ایک یہودی افسر کی تشہیر نہیں چاہتی تھیں۔ انھیں اندیشہ تھا کہ پاکستان اس چیز کو عرب ممالک میں بھارت کے خلاف استعمال کرسکتا تھا۔
۷۰ءکے عشرے کے اواخر تک دونوں ممالک کی خفیہ ایجنسیوں کا اشتراک اور محور پاکستان کے جوہری پروگرام کو سبوتاژ کرنا تھا۔ بھارت کے لیے تو پاکستانی ایٹمی پروگرام خطرہ تھا ہی، مگر اسرائیل اس کو ’اسلامی بم‘ سے تشبیہ دیتا تھا۔ فرانس کے اشتراک سے پاکستان میں ایٹمی ری پراسیسنگ پلانٹ کی خبر تو سبھی کو تھی،مگر چھن چھن کر یہ خبریں گشت کر رہی تھیں کہ: ’’پاکستانی سائنس دان یورونیم کی افزودگی پر بھی کام کر رہے ہیں، مگر کہاں او ر اس کا پلانٹ کدھر ہے؟ یہ پتا نہیں چل رہا تھا‘‘۔ منصوبہ یہ تھاکہ پلانٹ کا پتا چلتے ہی ’موساد‘ بھارتی سرزمین سے فضائی کارروائی کرکے اس کو تباہ کردے گا، جیساکہ بعد میں ۱۹۸۱ء میں اس نے اسی طرح کا آپریشن کرکے عراقی ایٹمی ریکٹر کو تباہ کردیا تھا۔
’را‘ کے ذمے اس پاکستانی پلانٹ کا پتا لگانا تھا۔ جب کئی آپریشنز ناکام ہوگئے، تو بتایا جاتا ہے کہ بھارتی خفیہ اہل کاروں نے پاکستان کے مختلف علاقوں سے حجاموں کی دکانوں سے بکھرے بالوں کے نمونے اکٹھے کرنے شروع کر دیے۔ ان کو ٹیسٹ ٹیوبوں میں محفوظ اور لیبل لگا کر بھارت بھیجا جاتا تھا، جہاں انتہائی باریک بینی سے ان میں جوہری مادہ یا تابکاری کی موجودگی کی جانچ ہوتی تھی۔ سالہا سال پر پھیلے اس آپریشن میں ایک دن ایک سیمپل میں یورینیم-۲۳۵ کی تابکاری کے ذرات پائے گئے۔ حالاں کہ یہ سیمپل اسلام آباد کے نواح میں کہوٹہ کے پاس ایک حجام کی دکان سے حاصل کیا گیا تھا۔ یہ تقریباً ثابت ہوگیا کہ پاکستان ۹۰ فی صد افزودگی حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کر چکا ہے، جو بم بنانے کے لیے ضروری ہوتی ہے۔ نیوکلیر پاور پلانٹ کے لیے ۴/۵فی صد افزودگی ہی کافی ہوتی ہے، مگر یہ خبر ہونے تک بھارت میں اندرا گاندھی حکومت سے بے دخل ہوگئی تھی۔
۱۹۷۷ء میں نئے بھارتی وزیر اعظم مرارجی ڈیسائی کے پاس جب ’را‘ کے افسران یہ منصوبہ لے کر پہنچے، تو انھوں نے نہ صرف اس کی منظوری دینے سے انکار کیا، بلکہ پاکستانی صدرجنرل محمدضیاء الحق کو فون کرکے بتایا کہ ’’بھارت کہوٹہ پلانٹ کی سرگرمیوں سے واقف ہے‘‘۔’را‘ نے ڈیسائی کو اس کے لیے کبھی معاف نہیں کیا کہ اس کے مطابق مرارجی ڈیسائی نے پاکستانی صدر کو یہ بتاکر ’را‘ کے ایجنٹوں کے لیے مشکلات کھڑی کر دیں۔ اس کے بعد برسوں تک ’را‘ اس طرح کا نیٹ ورک پاکستان میں دوبارہ قائم نہیں کرسکا۔ پھر پاکستان نے کہوٹہ کو فضائی حملوں سے بھی محفوظ بنالیا۔
پاکستانی صدرجنرل پرویز مشرف کے دور میں جب بھارت اور امریکا کے درمیان ’سویلین جوہری معاہدے‘ کے خدو خال طے ہورہے تھے، تو واشنگٹن میں طاقت ور یہودی لابی کو اس کی حمایت سے باز رکھنے کے لیے پاکستانی وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے اسرائیلی وزیر خارجہ سے استنبول میں ملاقات کی تھی۔ ۲۰۱۵ء میں قصوری صاحب نے مجھے ایک انٹرویو میں بتایا کہ: ’’یہ میٹنگ کسی جیمز بانڈ فلم کے اسکرپٹ سے کم نہیں تھی۔ ترکی میں اس وقت کے وزیر اعظم (اور موجودہ صدر) رجب طیب اردوان نے یہ میٹنگ طے کی تھی‘‘۔ قصوری صاحب کے مطابق: ’’میرا جہاز پاکستان سے لیبیا کے لیے روانہ ہوا، بعد میں مالٹاسے ہوتا ہوا استنبول میں اُترا۔ جہاز کو ایئرپورٹ کی بلڈنگ سے دُور لینڈنگ کی اجازت مل گئی، جہاں پر طیب اردوان کے ایک معتمد نے میرا استقبال کیا۔ اسی دوران پورے استنبول شہر کی بتیاں گل کر دی گئیں۔ سرکاری طور پر بتایا گیا کہ پاور سپلائی میں خرابی آگئی ہے۔ گھپ اندھیرے میں پاکستانی اور اسرائیلی وزراے خارجہ کی میٹنگ ہوئی۔ خدشہ تھا کہ اگر یہ خبر میڈیا تک پہنچ گئی، تو پاکستان میں سیاسی اور عوامی سطح پر قیامت آجائے گی۔ قصوری صاحب کے بقول: ’’یہ میٹنگ کچھ زیادہ کامیاب نہیں رہی۔ اسرائیل نے فوجی اور دیگر ٹکنالوجی دینے کی پیش کش کی،مگر مَیں نے کہا کہ اسرائیل کے ساتھ باضابطہ تعلقات اس وقت تک قائم نہیں ہوسکتے، جب تک وہ مسئلۂ فلسطین کے حوالے سے اُردن کے شاہ عبداللہ کے فارمولے کو تسلیم نہیں کرتا‘‘۔
اسرائیلوں کا کہنا ہے: ’’جب عرب ممالک اس کے ساتھ رشتے بنا سکتے ہیں، تو باقی ممالک کو آخر کیوں اعتراض ہے؟ تل ابیب سے ۱۵کلومیٹر دور سوریک کا سمند ر سے صاف پانی کشید کرنے کا پلانٹ ہی اردن کو پانی مہیا کرتا ہے۔ مصر صحراے سینا میں سیکورٹی کو کنٹرول کرنے کے لیے اسرائیل سے اشتراک کر رہا ہے۔گوکہ اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی تعلقات نہیں ہیں، مگر کچھ عرصے سے خبریں گشت کر رہی ہیں کہ پس پردہ دونوں ممالک کے درمیان سلسلہ جنبانی جاری ہے۔ اور یہ خبر عام ہے کہ سعودی حکومت بطور خادمِ حرمین، قبلہ اوّل کی خدمت کا ذمہ لینا چاہتی ہے (یاد رہے اس وقت مسجد اقصیٰ کی خدمت اُردن کے محکمہ اوقاف کے تحت ہے)۔
اب سوال یہ ہے، کہ آخر مودی کے اسرائیل دورے سے اس خطے پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ وہ بھارت کے ایسے پہلے سیاسی لیڈرہیں، جو اس دورے کے دوران فلسطینی لیڈروں سے نہیں ملے۔ ماضی میں چاہے بھارتی وزیرداخلہ لال کشن ایڈوانی ہو یا بھارتی صدر پرناب مکرجی، سبھی اسرائیلی دورے کے دوران فلسطینی علاقوں میں بھی جاتے تھے۔ بھارت اور چین نے تقریباً ایک ہی سال، یعنی۱۹۹۲ء میں اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات استوار کیے تھے۔ دونوں ممالک کو اسرائیل سے دفاعی ٹکنالوجی درکار تھی، جو انھیں امریکا براہِ راست فراہم نہیں کرسکتا تھا۔ اگر موجودہ عالمی صورت حال کا جائزہ لیا جائے، تو معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیل کو بھی اس وقت بھارت کی ضرورت ہے۔ یورپی ممالک میں اسرائیل کا قد خاصا چھوٹا ہے۔ فلسطینیوں پر اس کے مظالم کی آوازیں یو رپی شہروں میں اب واضح طور پر سنائی دے رہی ہیں۔ ایسے وقت، عالمی اداروں میں اسرائیل کو سیاسی اور سفارتی دوستوں کی اشد ضرورت ہے۔ پھر اسلحے کی خریداری میں بھارت، اسرائیل کا سب سے بڑا خریدار ہے اور یوں اس کی اقتصادیات کا ایک بڑا سہارا ہے۔
اسرائیل میں طرزِ زندگی خاصا مہنگا ہے۔ یورپی ممالک اسرائیل سے اس لیے بھی خار کھائے ہوئے ہیں، کہ وہ ’القاعدہ‘ اور ’داعش‘ (ISIS) کو لگام دینے میں اتنی مستعدی نہیں دکھا رہا ، جتنا کہ ’حماس‘ یا ’حزب اللہ‘ کے خلاف اس کی ایجنسیاں برسر پیکار ہیں۔ جب یہی سوال میں نے دہلی میں اسرائیلی سفیر ڈینیل کارمون سے کیا تو موصوف کا برجستہ جواب تھا: ’’ان کی مستعدی ان تنظیموں کے خلاف ہے، جو اسرائیل کے وجود کے لیے خطرہ ہیں‘‘۔ دو سال قبل یہ خبریں بھی شائع ہوئی تھیں کہ داعش کے سربراہ ابوبکر البغدادی کا علاج ایک اسرائیلی ہسپتال میں چل رہا تھا۔میں نے اس حوالے سے جب اسرائیلی سفیر سے استفسار کیا ، تو ان کا گو ل مول جواب تھا کہ: ’’ہمارا ملک ڈاکٹری اصولوں کے مطابق کسی بھی زخمی یا بیمار شخص کے علاج کا پابند ہے، جو سرحد عبور کرکے اسرائیل کی پناہ میں آیا ہو‘‘۔ تاہم، اس سوال کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہوسکتا کہ: ’’کیا یہ ڈاکٹری اصول حزب اللہ یا حماس کے زخمیوں پر بھی لاگو ہوگا؟‘‘
بھارت اور اسرائیل تعلقات کے حوالے سے ایک اور بحث کشمیر پر اس کے اثرات کی مناسبت سے زبانِ زد خاص و عام ہے۔ بھارت میں سخت گیر عناصر کشمیر میں اسرائیلی طرز اپنانے پر زور دے رہے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ ۲۰۱۰ء میں کشمیر میں حالات انتہائی خراب تھے۔ اسی دوران بھارت کے سینر صحافیوں کے ہمراہ مجھے اسرائیل اور فلسطین کے دورے کا موقع ملا۔ تل ابیب میں اسرائیلی وزیر اعظم کے مشیر ڈیوڈ رائزنر بریفنگ دے رہے تھے۔ وہ اسرائیلی فوج میں اہم عہدے دار رہ چکے تھے، لبنان کی جنگ میں ایک بریگیڈ کی کمان بھی کی تھی۔ اس کے علاوہ ’انتفاضہ‘ [’حماس‘ کی عوامی تحریکِ آزادی] کے دوران بھی فوج اور پولیس میں اہم عہدوں پر براجمان رہ چکے تھے، اس لیے بھارتی صحافی ان سے یہ جاننے کے لیے بے تاب تھے کہ آخر وہ غیرمسلح فلسطینی مظاہرین سے کیسے نمٹتے ہیں؟ ڈیوڈ رائزنر نے کہا:’’ ۱۹۸۷ء کے ’انتفاضہ‘ کے دوران ہماری فوج اور پولیس نے پوائنٹ ۴ کے پیلٹ گن استعمال کیے تھے، مگر اس کے نتائج کا تجزیہ کرنے کے بعد ان پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ ان ہتھیاروں کی کھیپ اسلحہ خانے میں زنگ کھا رہی تھی ۔ جس کمپنی نے یہ ہتھیار بنائے، اس نے حکومت کو پیش کش کی تھی کہ وہ پوائنٹ ۹ کے پیلٹ سپلائی کرے گی، جو نسبتاً کم خطرناک ہوں گے، مگر اس وقت تک اسرائیلی حکومت نے کوئی فیصلہ نہیں کیا تھا‘‘۔ رائزنر نے تسلیم کیا کہ مسلح جنگجوؤں کے برعکس مظاہرین سے نمٹنا آسان نہیں ہوتا، خصوصاً جب عالمی میڈیا اس کی رپورٹنگ بھی کر رہا ہو‘‘۔
حیرت کی بات ہے کہ ہمارے دورے کے چند ماہ بعد ہی یہ ہتھیا ر،جو اسرائیل کے اسلحہ خانوں میں زنگ آلود ہو رہے تھے،کشمیر میں استعمال کرنے کے لیے بھارت کی وزارت داخلہ نے درآمد کر لیے۔ اور لائسنس ایگریمنٹ کے تحت خود بھارت کے دفاعی ادارے اب یہ تیار کرتے ہیں۔ ڈیوڈ رائزنرنے بتایا تھا کہ : ’’ہم نے ربر سے لپٹی ہوئی اسٹیل کی گولیوں اور بے ہوش کرنے والی گیس کا بھی تجربہ کیا تھا، مگر نشانہ بننے والے بچوں پر ان کے مہلک اثرات کے سبب ان پر بھی پابندی لگا دی گئی۔ بھارت میں پیلٹ گنوں کے بعد اب یہ دونوں ہتھیارکشمیر میں استعمال ہورہے ہیں‘‘۔ اس اسرائیلی افسر نے بھارتی صحافیوں کو ششدر اور رنجیدہ کردیا، جب اس نے کشمیر میں تعینات ’بھارتی فوج کے افسروں کے کارنامے‘ سنانے شروع کیے۔ اس نے کہا: ’’بھارتی افسر اس بات پر سخت بے زاری کا اظہار کرتے ہیں کہ:’’ شورش زدہ علاقوں میں مسلح اور غیر مسلح کی تفریق کیوں کی جائے؟ حال ہی میں اسرائیل کے دورے پر آئے ہوئے ایک بھارتی جنرل نے مجھ کو بتایا کہ کشمیر میں ہم پوری آبادی کوگھیرکرگھروں میں گھس کر تلاشی لیتے ہیں، کیوںکہ ان کے لیے کشمیر کا ہردروازہ دہشت گردکی پناہ گاہ ہے‘‘۔ ڈیوڈ رائزنر نے سلسلۂ کلام جوڑتےہوئے کہا: ’’ہم نے بھارتی جنرل کو جواب دیا کہ اسرائیل پوری دنیا میں بدنام سہی، مگر اس طرح کے آپریشن اور وہ بھی بغیر کسی انٹیلی جنس کے، ہماری جوابی کارروائیوں میں شامل نہیں ہیں‘‘۔ یاد رہے رائزنر، اسرائیلی وزیراعظم یہود برک کے اس وفد کے بھی رکن تھے، جس نے کیمپ ڈیوڈ میں فلسطینی رہنماؤں کے ساتھ جولائی ۲۰۰۰ء میں گفت و شنید کی تھی۔
مارچ۲۰۱۶ءمیں ایک اسرائیلی سپاہی ایلور ارزانیہ نے زمین پر گرے ایک فلسطینی زخمی شخص کے سرکو نشانہ بناکر ہلاک کردیا تھا۔ اگرچہ اسرائیلی فوج کے مطابق یہ شخص ان پر حملہ کرنے کی نیت سے آیا تھا اور اس کی شناخت ایک دہشت گرد کے طور پر کی گئی تھی، مگر ارزانیہ پر ملٹری کورٹ میں مقدمہ چلا اور اس کو ۱۸ماہ قید کی سزا سنائی گئی۔ اس پر پورے اسرائیل میں دائیں بازو کی جماعتوں نے ہاہا کار مچادی، کہ ایک دہشت گرد کو ہلاک کرنے کے الزام میں فوجی کو کس طرح سزا ہوسکتی ہے۔ اس ہا ہا کار میں اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو بھی شریک تھے، مگر اسرائیلی فوج نے عوامی دباؤ کو خاطر میں لائے بغیر سزا کو عمر قید میں تبدیل کرنے کے لیے اعلیٰ عدالت میں اپیل دائر کی۔
ان واقعات کو بیان کرنے کا مقصد کسی بھی طور پر اسرائیلی جرائم کا دفاع کرنا نہیں بلکہ صرف یہ باورکرانا ہے کہ کشمیرکس حد تک عالمی ذرائع ابلاغ میں اور سفارتی سطح پر ناقص ابلاغِ عامہ (under reporting) کا شکار رہا ہے اور فوجی مظالم کی تشہیرکس قدر کم ہوئی ہے۔ ڈیوڈ رائزنرنے جنرل کا نام تو نہیں بتایا مگر کہا کہ: ’’ہم نے بھارتی فوجی وفد کو مشورہ دیا تھا کہ : عسکری اور غیرعسکری میں تفریق نہ کرکے آپ کشمیر میں صورت حال کو پیچیدہ بنا رہے ہیں‘‘۔
نوعِ انسانی کی خاطر برپا ہونے والی امت کے احوال دیکھ کر ایک سوال ذہن کے دریچوں پر دستک دیتا ہے کہ آخر ہم کیوں پیچھے رہ گئے؟ اُمتِ مسلمہ آج اس زبوں حالی کا شکار کیوں کر ہوئی ہے اور اس زبوں حالی سے نکلنے کا کیاکوئی راستہ بھی ہے؟ اس نوعیت کے سوالات ہمیں جوابات تلاش کرنے کے لیے مجبور کرتے ہیں۔ اُمتِ مسلمہ جسے ’خیر اُمت‘ کا لقب حاصل ہے اور جو حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کی امین بھی ہے اور جانشین بھی ۔ یہ ایک ایسی امت جسے بجا طور پر سیادت کے اعلیٰ منصب پر فائز ہونا چاہیے تھا، اپنے آپ کو مظلوم و محکوم پاتی ہے۔ کیا وجہ ہے کہ مشرقِ وسطیٰ سے لے کر کشمیر، برما ، فلسطین، بھارت میں اس امت کی بد حالی، مظلومیت اور مفلوجیت اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے۔ ایک ایسی امت جو عددی اعتبار سے دنیا کی ایک چوتھائی آبادی پر مشتمل ہو، جو جغرافیائی اعتبار سے اسٹرے ٹیجک علاقوں میں سکونت پذیر ہو اور جس کی سرزمین قدرتی و معدنی وسائل سے مالا مال ہو، آخر ایسا کیوں ہے کہ آج اُمتِ مسلمہ کی حیثیت ایک ایسے بے حس جان دار کی سی ہو گئی ہے، جس پر جو چاہے اپنی اجارہ داری قائم کر سکتا ہے۔انسانیت کو اندھیروں سے نور کی طرف لے آنے والی امت آج خود پستی کی دلدل میں دھنسی نظر آتی ہے۔
عالمی سطح پر ۵۶ سے زیادہ اسلامی ممالک کا وزن پانی پر جھاگ کے ماند بھی نہیں دکھائی دے رہا ہے۔ اقوامِ متحدہ میں مسلم ممالک خود کو بے وزن محسوس کرتے ہیں۔ ان کی راے کی کوئی حیثیت نہیں۔ سارے عالمی معاملات جی سیون، جی ففٹین وغیرہ سے منسوب ممالک طے کرتے ہیں۔ امریکا اور اس کے حواری اقوامِ متحدہ اور سلامتی کونسل کی آڑ میںبین الاقوامی مسائل کو اپنی اغراض کے مطابق طے کرتے ہیں۔ الغرض اُمتِ مسلمہ پر ذلت اور مسکنت کا دور جاری و ساری ہے اور عذابِ الٰہی کے کوڑے بڑی شدت کے ساتھ اس اُمت پر برس رہے ہیں۔ ایسی حالتِ زار میں اگر یہ وعدہ پیش نظر رکھا جائے: اَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ [اٰلِ عمرٰن ۳:۱۳۹]، ’’تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو‘‘، اگر قرآن میں اہلِ ایمان کے لیے غلبے کی بشارتیں ہیں تو اُمت کیوں کر پستی اور جمود کا شکار ہو کے رہ جائے؟آخر اس پستی کے اسباب کیا ہوئے اور اس سے نکلنے کی کیا راہ ہے؟
اگر غور سے اس مسئلے پر سوچا جائے تو ہمیں اس بات کے اعتراف میں کوئی باک نہیں رہتا کہ یہ امت خیر اُمت کی تاویل میں غلطی کر گئی ہے ۔ اہل یہود کی طرح شاید ہم مسلمان بھی مدت سے کچھ اسی خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ اپنی تمام کج فکریوں کے باوجود بھی ہم ہی تا قیامت دنیا کی سیادت پر مامور کر دیے گئے ہیں۔ چوں کہ خیر اُمت ہم ہیں، لہٰذا اقوامِ عالم کی سیادت پر فائز بھی ہمیں ہی کیا گیا ہے۔ اب چاہے کوئی ہماری اقتدا کرے یا نہ کرے ۔ کوئی کہتا ہے کہ غلبے سے مراد سیاسی، تہذیبی یا معاشی غلبہ نہیں بلکہ روحانی غلبہ ہے۔دراصل ’خیر‘ کا لفظ ان تمام کاموں پر محیط ہے، جس سے نوعِ انسانی کی فلاح و بہبود وابستہ ہے۔ہمیں کیا ہو گیا ہے کہ ہماری ساری توانائی ان باتوں میں خرچ ہوتی ہے کہ لائوڈاسپیکر پر اذان دی جائے یا نہیں، قرآن کی تلاوت جائز قرار دی جائے یا نہیں، موبائل پر بنا وضو قرآن پڑھا جائے یا نہیں، گھڑی دائیں ہاتھ میں پہننی جائز ہے یا بائیں ہاتھ میں، ہوائی جہاز میں کس سمت ہو کر نماز پڑھی جائے؟ ہم نئی ٹکنا لوجی کے خریدار ضرور ہیں، مگر اس کی پیداوار میں ہمارا کوئی حصہ نہیں۔ جہاں دوسری قوموں نے دیانت یا محنت کے نتیجے میں اپنا قائدانہ تفوق برقرار رکھا اور اس سمت میں اپنی پیش رفت جاری رکھی، وہیں ہم خیر کے ان کاموں سے یکسر کٹ کر رہ گئے۔ اس سے بڑی کرب ناک اور اذیت دینے والی بات کیا ہو سکتی ہے کہ جب ہمارے سرکردہ علما کسی سائنسی تحقیق [جسے غیر اقوام نے انجام دیا ہو] کے بارے میں کہتے ہیں کہ: ’’یہ ہمارے قرآن میں ساڑھے چودہ سو سال پہلے اشارات میں واضح کیا جا چکا ہے‘‘۔ اس بات سے انکار نہ کرنے کے باوجود لمحۂ فکریہ یہ ہے کہ کسی بھی مسلمان کو وہ اشارے اور ارشادات تب تک نظر کیوں نہیں آتے جب تک کہ غیر اقوام کسی سائنسی تحقیق کو سامنے نہیں لے آتیں۔
آج اُمتِ مسلمہ کے ذہن مفلوج ہو گئے ہیں، اس لیے نہیں کہ وہ صلاحیت سے عاری ہیں، بلکہ شاید اس لیے کہ امت نے ان سے کام لینا بند کر دیا ہے۔ اُمت ’ توکل‘ میں اس حد تک غلو کی مرتکب ہوئی کہ عقل کو طاقِ نسیاں میں رکھ دیا۔ ’محرک اور نتیجے‘ کے اصول کا سرے سے انکار کیا جاتا ہے۔ اس اصول سے آیاتِ آفاق وانفس کو سمجھنے کی کوئی کوشش نہیں کی جاتی ہے۔ اس کا عملی نتیجہ یہ نکلا کہ امت مسلمہ ’فکرودانش کی خودکشی‘ کے دہانے پر آکھڑی ہوئی۔ امت اب اونٹوں کو کھلا چھوڑ کر ’توکل‘ کا فریضہ انجام دیتی ہے۔
نیال فرگوسن نے اپنی کتاب Civilization: The West and the Rest (۲۰۱۲ء) میں مغربی طاقت کے چھے بنیادی محرکات کو واضح کیا ہے، جو اسے تمام دنیا کی اقوام پر غلبہ اور سیادت بخشتے ہیں۔ان چھے محرکات میں فرگوسن پہلے نمبر پر مقابلے اور مسابقت کو جگہ دیتا اور کہتا ہے کہ یورپ میں مقابلے و مسابقت کی سوچ کے پیدا ہوتے ہی مادی اور فوجی طاقتوں میں حد درجہ اضافہ ہو گیا جو یورپی طاقتوں کے غلبے کا سبب بنا۔اس مسابقت سے نہ صرف معیار میں اضافہ ہوا بلکہ مقدار میں بھی حد درجہ اضافہ ہوا۔ پھر پیداوار اور اس کی کھپت میں انقلابی سطح کی تبدیلی دیکھنے کو ملی۔فرگوسن کی اس بات کو ہمارا طرزِفکر یہ کہہ کر خارج کر دیتا ہے کہ: ’’اسلام مقابلے کا نہیں بلکہ تعاون کا خواہاں ہے‘‘۔ لیکن فرگوسن کے باقی کے پانچ وجوہ(طب، ملکیت، سائنس، محنت اور کھپت) تو ایسی ہیں، جن سے صرفِ نظر کرنا ممکن نہیں۔ ان میں وہ سائنسی میدان میں یورپ کی ترقی کو دوسری بنیادی وجہ سمجھتا ہے۔
اس سے بڑا المیہ کیا ہو سکتا ہے کہ جب یورپ پر تہذیبی زبوں حالی کے گھٹاٹوپ اندھیرے چھائے ہوئے تھے، اُمتِ مسلمہ علوم و فنون کے میدان میں اپنے عروج پر تھی۔ لیکن جب یورپی قومیں اپنی شکست خوردگی سے بیدار ہونی شروع ہوئیں، انھی ایام میں اُمتِ مسلمہ پر ایسی گہری نیند چھائی کہ اب تک بیدار ہونے کانا م نہیں لیتی۔ دورِ رسالت اوردور خلافت وہ شان دار اَدوار تھے، جب اُمتِ مسلمہ ایک تعمیری اُمت ہوا کرتی تھی۔علوم و فنون کی افزایش و ترقی میں اس امت کا ایک کلیدی کردار تھا۔ لیکن جوں جوں مسلم ذہنوں پر سُستی اور کاہلی چھاتی گئی، اس بنیادی کام میں ہمارا حصہ گھٹتا گیا اور آج حالت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ نہ صرف علمی ترقی میں ہمارا کوئی خاص حصہ نہیں ہے، بلکہ علم کے جذب و اجتہاد میں بھی یہ امت بخل سے کام لیتی نظر آتی ہے۔ لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ پرمُسلم ہے کہ اس سائنسی ترقی کا ایک اور رخ بھی ہے جسے ہم نظرانداز نہیں کر سکتے۔ جہاں علم کی ترقی نے انسان کو ایٹمی طاقت پر دسترس عطا کی، وہیں وحی سے کٹ کر انسان نے ایٹم بم بنا کر انسانیت کو ایک دہکتے ہوئے آتش فشاں پر دھکیل دیا ہے۔ انسانیت کی فوز وفلاح کے لیے صرف نت نئی ٹکنالوجی کافی نہیں بلکہ مشفق اور محسن اور آخرت کی جواب دہی سے سرشار انسانوں کی ضرورت ہے، جو اس ٹکنا لوجی کو انسانیت کی بقا کے خاطر استعمال کرسکیں ۔ انسانیت کو اس فساد سے نکال کر امن کی شاہراہ پر صرف اُمتِ مسلمہ ہی ڈال سکتی ہے۔
اُمتِ مسلمہ ایک بانجھ امت نہیں ہے اور نہ کبھی بانجھ رہی ہے۔ اس امت نے علوم و فنون کے ہر شعبے میں اعلیٰ صلاحیت اور امتیازی حیثیت رکھنے والے افراد کو جنم دیا ہے۔ حسن بصریؒ، امام بخاریؒ، امام مسلم ؒ ،امام ابو حنیفہؒ، امام غزالیؒ ، امام ابن تیمیہؒ، شاہ ولی اللہ دہلوی ؒ، علّامہ محمداقبالؒ، سیّدقطب شہیدؒ اور مولانا سیّد ابو الاعلیٰ مودودیؒ، اس اُمت کے وہ موتی ہیں، جنھوں نے نہ صرف اس امت کے احیا کے لیے کام کیا، بلکہ تمام انسانیت کی فلاح کے لیے ان کے دل ہمیشہ تڑپتے رہے۔ آج ضرورت ایسے ہی ذہنوں کی ہے، جو اسلامی علوم کی تشکیل جدیدکا بیڑا اٹھائیں اور اس سمت میں اپنی خدمات انجام دیں۔ عشروں کی محنت سے ہم صرف جامعۃ الازہر ،دارالعلوم دیوبند جیسے گنتی کے چند اعلیٰ اداروں کا قیام عمل میں لاسکے ہیں، جب کہ غیر مسلم قومیں علم اور تحقیق کے ایسے ادارے قائم کرنے میں کامیاب ہوئیں، جن کا دنیا میں کوئی ثانی نہیں۔ ایسے ہی تحقیقی اداروں سے ایسے کافرانہ نظریات بھی جنم لیتے ہیں جو نہ صرف اسلام دشمن ہوتے ہیں بلکہ انسانیت کے دشمن بھی۔ غرض مغربی ممالک علم وتحقیق کو غلبے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اس غلبے سے نجات حاصل کرنے کے لیے اس تحقیقی کلچر کو فروغ دینے کی اشد ضرورت ہے جو سابقون الاولون میں دیکھنے کو ملا تھا۔ اس ناکامی کی اصل جڑ یہ ہے کہ ہم نے تعلیم کو دو بڑے خانوں میں تبدیل کر دیا: دُنیوی تعلیم اور دینی تعلیم۔ دنیاوی تعلیم کو ہم نے سرے سے ہی وحی سے کاٹ دیا اور دینی تعلیم کو دنیا سے کاٹ دیا ہے۔ ہمارے تعلیمی ادارے [دینی یا دنیوی] صرف اور صرف ’یک رُخا انسان‘ تیار اور فراہم کرتے ہیں، جن میں بنیادی طور پر منقسم شخصیت ہی پیدا ہوسکتی ہے، اسلام کے انسانِ مطلوب کا تصور محال ہے۔
وقت کی خاص بات تو دیکھیے کہ اس میں تسلسل کے ساتھ تغیر ہے اور یہی تغیر حالات کے بدلنے کا سبب بن جاتا ہے۔ برطانیہ کی وسیع سلطنت پر بھی سورج آخر کار غروب ہو ہی گیا۔ اشتراکی روس جیسی سوپر پاور کا ٹکڑوں میں بکھر جانا، اور ہٹلر اور مسولینی جیسے انسانیت کے قاتلوں کا وقت کی سولی پہ چڑھ جانا ظاہر ہے۔ اسی طرح تحریکوں پر بھی وقت کے بدلنے کے آثار دیکھنے کو ملتے ہیں۔
جموں و کشمیر میں رواں تحریک کو، جو بُرہان مظفر وانی کی شہادت [۸جولائی ۲۰۱۶ء] سے شروع ہوئی، دیکھنے کے دو زاویے ہیں: ایک نقطۂ نظر تو یہ ظاہر کرتا ہے کہ اس ایک سال کے دوران بہت سی انسانی جانیں شہادت سے ہم کنار ہوئیں، ہزاروں کی تعداد میں لوگ زخمی ہوئے، جیلیں بھر دی گئیں، سیکڑوں نوجوان اور بچے بینائی سے محروم ہو گئے، اور اربوں کی جایداد کو نقصان پہنچا۔ تجارت اور تعلیم متاثر ہوئی، ٹرانسپورٹ کے ٹھپ ہونے سے گاڑی مالکان کو خسارہ برداشت کرنا پڑا۔ گویا زندگی کی گاڑی رُک سی گئی۔ ترقی کی رفتار پر ایک ایسا زبردست بریک لگ گیا جس نے زندگی کی گاڑی پٹڑی سے اُتاردی اور زندگی کا ہر شعبہ متاثر ہو کر رہ گیا۔ ابتدائی پانچ مہینوں تک کشمیری قوم لگاتار احتجاج پر رہی اور ایک بھی دن ناغہ نہ کیا۔ کوئی قوم پانچ مہینے تک گھروں میں محصور ہو کر رہ جائے تو زندگی کی رونقیں پھیکی پڑجاتی ہیں، جذبات سرد پڑ جاتے ہیں، مایوسی انسانوں پر اپنا شکنجہ کَس لیتی ہے۔ ایسے حالات میں انسان ٹوٹ جاتا ہے ۔
مادیت کے اس دور میں ہرلمحے کو تولا اور نفع و نقصان کی گنتی کی جاتی ہے۔ اُس قوم کی حالتِ زار سے ہر کوئی بخوبی واقف ہو سکتا ہے کہ جس کی نئی نسل کے تعلیمی سال ضائع ہورہے ہوں۔ کشمیر کی آبادی کا کثیر حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے اور یہی نوجوان کسی قوم کا حقیقی سرمایہ ہوتے ہیں۔ اگر یہ نسل اسی طرح تعلیم سے دُور ہوتی رہی تو قوم کے مستقبل کا اندازہ لگانا کسی بھی صاحبِ عقل کے لیے کچھ بھی دشوار نہیں۔ یہ سب اعداد و شماراپنی جگہ، لیکن کسی بھی تحریک کو اس طرح دیکھناکوتاہ بینی کو ظاہر کرتا ہے، کیوںکہ بڑے مقاصد کے حصول کے لیے عظیم قربانیاں پیش کرنا ایک ناگزیر حقیقت ہے۔
ہر تحریک کے دو دور ہوتے ہیں: ایک اس تحریک کے نشیب کو ظاہر کرتا ہے تو دوسرا اس کے فراز کو۔ لیکن یہ دونوں دور مل کر ایک کامل تحریک کا روپ دھار لیتے ہیں۔ کوئی بھی تحریک کبھی یکساں طریقے سے نہیں چلتی بلکہ اس میں اتار چڑھاو آتے رہتے ہیں۔ اگر برطانوی تسلط میں ہندستان کی تحریکِ آزادی کی بات کی جائے تو ہمیں اس میں ایک دور وہ بھی ملتا ہے جس میں بھگت سنگھ، جیسے نوجوان مسلح جدوجہد کا راستہ اختیار کرتے ہوئے غاصب حکومت کے خلاف صف آرا ہوگئے تھے، لیکن حکومت نے نہ صرف ان کی تحریک کو کچل دیا، بلکہ ان نوجوانوں کو تختۂ دار پر لٹکا کر یہ دعویٰ کرنے کی کوشش کی کہ ہندستان آزادی کا خواب دیکھنا چھوڑ دے۔ حالت تو یہاں تک پہنچ گئی کہ۸؍اگست ۱۹۴۲ءکو Quit India Movement کے نام سے ایک تحریک شروع ہوئی۔ اس تحریک کو بھی انگریزوں نے پوری طاقت کے ساتھ تتربتر کر دیا اور یہ تحریک ۱۹۴۴ء کے اوائل میں ختم ہوکر رہ گئی۔ ایسا محسوس ہونے لگا کہ ہندستان کی آزادی ایک خیالِ خام کے سوا کچھ نہیں، لیکن جلد ہی وہ وقت بھی آگیا کہ قربانیوں نے اپنا رنگ دکھایا اور اگست ۱۹۴۷ء میں آزادی کا سورج طلوع ہوگیا۔
۲۰۰۸ء سے کشمیر کی تحریکِ آزادی نے ایک نیا موڑ لیا ۔ عوامی احتجاجوں نے ظالموں کے پیروں تلے زمین کھسکا دی۔ ۲۰۰۹ء اور ۲۰۱۰ء کی عوامی تحریکوں کے بعد یہ دعوے کیے جانے لگے کہ شاید اس نوعیت کی عوامی تحریک پھر کبھی برپا نہیں ہوسکتی، لیکن ۲۰۱۶ء نے ان تمام بودے دعوئوں کو غلط ثابت کر دیا۔
دراصل، دنیا والوں کو ایک بات ذہن میں بٹھالینی چاہیے کہ آج تحریکِ آزادی کا ایک دور چل رہا ہے، جس میں گیرائی بھی ہے اور گہرائی بھی۔ جس میں قوم کے جذبات اپنے نقطۂ عروج پر ہیں، جذبۂ اطاعت اور جذبۂ ایثار و قربانی حد درجہ دیکھنے کو مل رہا ہے، لیکن کسی بھی وقت یہ تحریک اپنے دوسرے پڑائو کی طرف گامزن ہوسکتی ہے۔
ظلم اور ظلم کے خلاف جدوجہد ،یہ دو الگ الگ طاقتیں ضرور ہیں، لیکن ایک زاویے سے دیکھا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ یہ دونوں طاقتیں ایک ساتھ پیدا ہوتی ہیں۔ ظلم جدوجہد سے ہی ختم ہو سکتا ہے، لیکن ظالم ہمیشہ اس جدوجہد کو ختم کرنے کے درپئے ہوتا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے وہ کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔
تاریخ کے مطالعے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ظالم کی طاقت ہر دور میں ظلم کے خلاف جدوجہد کرنے والوں سے زیادہ ہوتی ہے۔ یہ نہ ہوتا تو نہ ظالم کا ظلم ہی وجود میں آسکتا اور نہ جدوجہد کی کوئی ضرورت ہی باقی رہتی ۔ظلم اور جبر مٹنے کی چیزیں ہیں ۔ ظلم کم ہویا زیادہ، اگر برداشت کی حد کم ہو جائے تو ظلم کے خلاف جدوجہدچھڑ جاتی ہے اور ظلم و جبر کی اُلٹی گنتی شروع ہوجاتی ہے۔ رواں جدوجہد میں ظالم نے ظلم کی تمام حدود توڑ ڈالیں۔ اس ظلم کا ایک نتیجہ تو یہ نکلا کہ کشمیر میں قبروں کی تعداد بڑھ گئی، زخمیوں کی تعداد میں آئے روز اضافہ ہوا جاتا ہے، جیل خانوں میں جگہ کی کمی واقع ہونے لگی ہے۔ دوسرے زاویے سے دیکھا جائے تو خود ظلم بھی اپنے آخری مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔ اب اس کے مٹنے کے دن قریب ہیں۔
ایک چیز تو طے شدہ ہے کہ کشمیری عوام نے خوف سے آزادی پا لی ہے۔اور جو قوم خوف سے آزاد ہوجائے، اس کو غلامی سے نجات مل ہی جاتی ہے، کیوںکہ انسان کی غلامی اور آزادی کے درمیان خوف ہی کا پردہ حائل رہتا ہے۔ خو ف سے آزادی ہی دراصل باقی تمام آزادیوں کے لیے دروازہ کھول دیتی ہے۔ خوف سے بے خوفی کے اس عالم کوشاید لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے، اور جموں و کشمیر سے باہر بسنے والے لوگوں کے لیے اس زمینی حقیقت کو تصور میں لانا تو اور بھی مشکل ہے۔ ذرا تصور میں لایئے وہ منظر، کہ جب نہتے نوجوان قابض فوجی گاڑیوں اور کیمپوں پر بے سروسامانی کی حالت میں دھاوا بول دیتے ہیں، یہ جانتے ہوئے بھی کہ آگ اور موت برسانے والی بڑی تعداد میں خونیں بندوقیں انھیں نشانہ بنانے کے لیے تیار ہیں۔ یہ مناظر ہر دیکھنے والے کو حیرت میں ڈال دیتے ہیں ۔ رواں تحریک میں اس بے خوفی کے رنگ کو ظاہر کرنے کے لیے نئے نئے نعرے لبوں کی زینت بن گئے، مثلاً نعرہ لگتا ہے: ـ’گولی بھی چلے گی ــ‘ تو جواب آتا ہے: ’چلنے دو‘۔ایک کم سن بچہ پکارتا ہے: ’سینے پہ لگے گی‘۔ جواب میں بلندآواز دل دہلا دہتی ہے:’ لگنے دو‘۔تیسرا جوان نعرہ بلند کرتا ہے: ’ پیلٹ بھی چلیں گے‘۔ جواب آتا ہے:’چلنے دو‘۔ بزرگ پوری قوت سے نعرہ بلند کرتا ہے: ’آنکھوں میں لگیں گے‘۔ ہزاروں کا مجمع جواب دیتا ہے:’لگنے دو ‘!
یہ نعرے تمام احتجاجی قافلوں میں فلک شگاف لہجوں میں لگائے جاتے ہیں۔ یہی ہے وہ بے خوفی،جو ظلم کی جڑ کاٹ کر رکھ دیتی ہے۔جو قوم اُن چیزوں سے بے نیاز ہو جائے، جن سے خوف وجود میں آتا ہے، تو اُس قوم کو آزاد ہونے سے کون سی طاقت روک سکتی ہے؟ اس بے خوفی کا عالم تو یہ ہے کہ مظلوم عوام خصوصاً نوجوانانِ کشمیر اپنے محسن مجاہدین کی جان بچانے کے لیے ’جعلی مقابلوں‘ کی جگہوں (انکائونٹر سایٹس) پر جا جا کر قابض فوج کے خلاف سنگ بازی کرتے ہیں، تاکہ مجاہدین کو فرار ہونے کا موقع مل سکے۔ بھارتی فوجی سربراہ جنرل بپن راوت نے حال ہی میں کشمیری نوجوانوں کو یہ دھمکی دے کر خوف زدہ کرنے کی کوشش کی کہ انکائونٹر سایٹس پر جمع ہونے والوں سے ویسے ہی نبٹا جائے گا جیسا کہ مجاہدین سے۔ اس بیان سے خوف کھاکر کشمیری عوام خصوصاً نوجوان اپنے گھروںمیں محصور ہو کر نہیں رہ گئے، بلکہ اور شدت سے اپنی آزادی کی خاطر جدوجہد میں برسرِ میدان ہیں۔ اس شدت کا اظہار سوشل میڈیا پر ان وڈیوز سے ہوتا ہے، جن میں کشمیری نوجوان بھارتی فوجیوں کو ’گو انڈیا گو بیک‘ کے نعرے لگانے پر مجبور کرتے ہیں۔
کشمیریوں کی بے خوفی اب سر چڑھ کر بول رہی ہے۔ ۷لاکھ سے زیادہ فوجیوں کی کشمیر میں تعیناتی دراصل کشمیر کو کھو دینے کے خوف کو ظاہر کرتی ہے۔ بھارتی سفاک حاکم اپنی ناکامی کو جانتے ہیں، جس کا ثبوت فوج کے سربراہا ن کے ان بیانات سے بخوبی ہوتا ہے، جن میں وہ اس بات کا برملا اعتراف کرتے ہیں کہ ’’بھارت کشمیر میں ایک ہاری ہوئی جنگ لڑ رہا ہے‘‘۔ اب بیانات یہاں تک آنا شروع ہوگئے ہیں کہ ’’فوجی تسلط کشمیر کے مسئلے کا حل نہیں بلکہ مسئلۂ کشمیر سیاسی حل چاہتا ہے‘‘۔
اہلِ کشمیر عرصۂ دراز سے قربانیاں دیتے چلے آرہے ہیں۔ یہی قربانیاں تحریکوں کو قوت فراہم کرتی ہیں اور ظالموں پرایسا بوجھ بن جاتی ہیں، جن کے نیچے وہ دبتے چلے جاتے ہیں اور آخرکار انھی قربانیوں کا بوجھ انھیں زیر کر دیتا ہے۔
ایک طرف اقوام متحدہ نے مواصلاتی بریک ڈاؤن کو کشمیریوں کے لیے اجتماعی سزا قرار دے کر ایسی پابندیوں کو عالمی قوانین اور بنیادی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی قرار دیاہے، دوسری جانب بھارت کی مختلف ریاستوں میں مزید ڈھٹائی کے ساتھ کشمیریوں کا ذہنی ٹارچر اور جسمانی تعذیب کے نت نئے حربے بروے کار لائے جارہے ہیں۔ اور ایسا کر تے ہوئے تمام اخلاقی اور انسانی اقدار کے ساتھ ساتھ ملکی آئین اور بین الاقوامی قانون کو پیروں تلے روندا جارہا ہے۔ یہاں کے اخبارات کے مطابق ایک اندوہ ناک خبر یہ ہے کہ کشمیر سے تعلق رکھنے والی ایک مریضہ کاپی جی آئی، چندی گڑھ میں ڈاکٹر نے صرف اس بناپر علاج کرنے سے انکار کردیا کہ وہ کشمیر سے تعلق رکھتی ہیں۔
نسرین ملک نامی اس مریضہ کے بیٹے نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ میں اپنی والدہ کو علاج کی غرض سے پی جی آئی، چندی گڑھ لے گیا، جہاں منوج تیواڑی نامی ڈاکٹر نے ابتدا میں ہم سے اچھا سلوک کیا۔ لیکن جب انھوں نے صورہ میڈیکل انسٹی ٹیوٹ کے نسخہ جات اور کاغذات دیکھے، جن سے انھیں پتا چل گیا کہ ہم کشمیری ہیں تو وہ آگ بگولا ہوگئے‘‘۔ ڈاکٹرصاحب نے ہم سے کہا: ’’ تم لوگ وہاں کشمیر میں ہمارے( فوجی ) جوانوں کو پتھر مارتے ہو اور پھر یہاں علاج کرانے آتے ہو‘‘۔ یہ کہہ کر ڈاکٹر نے ہمارے تمام کاغذات پھینک دیے اور مریضہ کا علاج کرنے سے صاف انکار کردیا۔ اگر چہ ڈاکٹر نے ہمیں براہ ِراست ہسپتال سے چلے جانے کے لیے تو نہیں کہا، البتہ اُنھوں نے ہم سے کہا: ’’ علاج پر ۱۵ لاکھ روپے خرچ آئے گا‘‘۔ حالاں کہ جس بیماری میں میری والدہ مبتلا ہیں، اُس کا وہاں پر زیادہ سے زیادہ ۸۰؍ہزار روپے خرچ آتا ہے۔ اس طرح ہمیںوہاں نسلی تعصب اور بیمار سوچ کا سامنا کرنا پڑا۔ کسی ایک فرد نے بھی از راہ ِ انسانیت ہماری رہنمائی نہیں کی، بالآخر ہسپتال انتظامیہ کے بہت ہی بُرے برتاؤ کی وجہ سے ہمیں بغیر علاج کے واپس لوٹنا پڑا۔‘‘ ازاں بعد جب اس افسوس ناک واقعے کو تشہیر ملی تو پی جی آئی، چنڈی گڑھ کی انتظامیہ نے تحقیقات کرکے قصور وار ڈاکٹر کے خلاف ضابطے کی ’کارروائی‘ کی یقین دہانی کرائی ہے، مگر آثار وقرائین سے لگتا ہے کہ یہ محض زبانی جمع خرچ ہے اور ان’تحقیقات‘ کا حشر بھی کشمیر میں کسی نوجوان کے قتل پر انکوائری بٹھانے کے عمل جیسا ہو نا طے ہے۔
اس واقعے سے واضح ہوجاتا ہے کہ ریاست سے باہر کشمیریوں کے تئیں کیسی مردہ ضمیری اور مریضانہ ذہنیت پائی جاتی ہے۔ اس حوالے سے چشم فلک نے اور چیزوں کے علاوہ وہ دن بھی دیکھا، جب ۴ا۲۰ ء کے تباہ حال سیلاب متاثرہ کشمیریوں کی ا مداد کے لیے بھارت کے ایک تعلیمی ادارے کے پنڈت سربراہ نے امدادی اشیا جمع کرنے کے لیے کیمپ لگایا ۔ دیش بھگتوں نے نہ صرف اسے اُکھاڑپھینکا، بلکہ پرنسپل موصوف پر یہ کہہ کر تشدد کیا کہ وہ کشمیر کے’ ملک دشمنوں‘کے لیے چندا کیوں جمع کر رہے تھے؟ آج کل اس نوع کی مریضانہ ذہنیت چونکہ سیاسی سرپرستی اور سماجی پذیرائی حاصل کر چکی ہے ،اس لیے کشمیر یوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک روا رکھے جانے کے ان واقعات پر ناک بھوں چڑھانا اور حیرت یا رسمی تشویش ظاہر کر نا حماقت کے مترادف ہے ۔
اہلِ کشمیر کے ساتھ بھارت بھر میں منا فرت ، شکوک وشبہات ،تعصب اور تنگ نظری کی ذہنیت روز بروز اپنی تمام زہر ناکیوں کے ساتھ جا بجا ظاہر ہورہی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ بھارتی وزیرداخلہ راجناتھ سنگھ کی جانب سے کشمیر یوں کے ساتھ ناروا سلوک ترک کیے جانے کی ہدایت ریاستوں کے نا م جا ری کی گئی ہے۔ اُن کایہ سرکاری حکم نامہ او ر بھارتی عوام کے نام یہ تازہ پیغام کہ ان کے یہاں کشمیر ی طلبہ اور مزدوروں وغیرہ کا ’خیرمقدم‘کیا جائے، ا س حقیقت کی تصدیق ہے کہ بھارت کی ریاستوں میں کشمیریوں کے تئیں راے عامہ کس قدر خراب ہے ۔ یہ صرف آج کی بات نہیں بلکہ نوے کے عشرے سے برابر کشمیریوں کو بھارت میں جرم بے گناہی کی پاداش میں ہزارہا تکالیف ، جیلیں ، ہلاکتیں، لوٹ مار، نفرتوں اور تعصبات کا سامنا رہا ہے ۔ یہاں تک کہ اپنے دور ِ اقتدار میں ریاست جموں و کشمیر کے اُس وقت کے کانگریسی وزیراعلیٰ غلام نبی آزاد کو بھی مجبوراً بھارتی ریاستوں کے آٹھ وزراے اعلیٰ کو ان کی حدود میں زیر تعلیم کشمیری طلبہ ، تاجروں، مزردوں اورملازمین کوتحفظ دینے کی فہمایش کر نا پڑی تھی ۔ بہرصورت پی جی آئی، چندی گڑھ کا شرم ناک اور قابل صد تشویش واقعہ اہل عالم کے لیے چشم کشامعاملہ ہے کہ اہل کشمیر اپنے گھر اور گھر سے باہر یکساں طور عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ ہمارے اجتماعی حافظے کی تختی پر کشمیریوں کی ہراسانی اور پریشانی کے ایسے ایسے دل دہلادینے والے واقعات رقم ہیں کہ کتنے ہی کم نصیب کشمیری ہیں جن کو ریاست سے باہر نسلی تعصب اور مذہبی نفرت کا شکار ہونا پڑا ہے ۔ ایسے درجنوں واقعات اخبارات اور ٹی وی چینلوں کی زینت بن چکے ہیں۔
کشمیریوں سے بیرون ریاست عام بھارتی شہریوں کی جانب سے تعصب کی ایک اور کہانی گذشتہ سال عوامی احتجاج کے دوران سامنے آئی ۔ اس وقت پیلٹ گن سے متاثر ہونے والے جن چار زخمیوں کو سرکاری سطح پر آل انڈیا میڈیکل انسٹی ٹیوٹ منتقل کیا گیا تھا ، دو ماہ گزر جانے کے بعد جب وہ وادی میں واپس آئے تو اُنھوں نے یہاں دل دہلادینے والی سرگذشت بیان کی۔ اُن کے مطابق ہسپتال انتظامیہ نے اِن زخمی مریضوں کے ساتھ ناروا رویہ اختیار کیا۔ اُن کے علاج کی جانب کوئی توجہ نہیں دی گئی بلکہ چھرّوں سے متاثر ہ ان کی آنکھوں پر صرف میڈیکل تجربات کیے گئے۔ان مریضوں کی وادی واپسی پر یہاں کے ڈاکٹروں نے جب اُن کا معائنہ کیا تو وہ بھی دنگ رہ گئے۔ اُنھوں نے بھی اس بات کا کھلا اعتراف کیا کہ ان مریضوں کی آنکھوں کو ماہرانہ طریقے سے نہیں دیکھا گیا بلکہ اِن پر صرف پیلٹ اثرات کی جانچ کے لیے تجربات کر کے اُن کی حالت کومزید ابتر کیا گیا۔حالاںکہ سری نگر حکومت نے اُن کے علاج معالجے کے حوالے سے اپنی مسیحائی اور غم گساری کا خوب پروپیگنڈا کیا اور اُنھیں تمام سہولیات دستیاب رکھنے کے وعدے بھی کیے تھے۔ دونوں آنکھوں کی بصارت سے محروم ایک متاثرہ فرد نے ذاتی طور پر راقم سے کہا کہ وہاں مختلف سیاسی جماعتوں کے لیڈر آکر صرف ہمارے ساتھ اپنا فوٹو کھینچواتے تھے ،وہاں ہمارا کسی قسم کا کوئی علاج معالجہ نہیں ہوا، اور ہمیں معمولی دوائی تک بازار سے خرید کر لانے کو کہا جاتا تھا۔
یہ عام مشاہدے کی بات ہے کہ بیرون ریاست کشمیری طلبہ ، تاجروں اور ضروری کام کاج کے لیے عام کشمیریوں کی جگہ جگہ تذلیل ایک معمول بنا ہوا ہے۔گاڑیوں میں ، مارکیٹ میں، ریل گاڑیوں کے ڈبوں میں کشمیری لوگ تعصب اور تنگ نظری کا شکار بنائے جاتے ہیں۔ اُنھیں طعنے دیے جاتے ہیں اور خوف اور ڈر کے ماحول میں اُن کا جینا دو بھر کردیا جاتا ہے۔ پنجاب پولیس ریل کے سفر کے دوران ہر ڈبے میں جاکر کشمیری مسافروں کو تلاش کرتی رہتی ہے اور ڈرا دھمکاکر اُن سے پیسے وصول کیے جاتے ہیں۔ اس لیے عام کشمیری کے لیے ریاست سے باہر کے سفر میں ہروقت خطرہ لگا رہتا ہے۔ بیرون ریاست کے تعلیمی اداروں میں جنونی فرقہ پرست اور تو اور بھارتی ٹیم کے ہارنے پر سارا غصہ کشمیری طلبہ پر نکالتے ہیں ۔ عدم برداشت کا جذبہ جب مسیحا کہلانے والے ڈاکٹروں تک میں سرایت کرجائے تو سمجھ لیا جانا چاہیے کہ بھارتی معاشرہ شدت پسندی کی کس سطح تک پہنچ چکا ہے۔ڈاکٹر کو آج بھی انسانیت کامسیحا سمجھا جاتا ہے جو اس محترم پیشے میں جاتے وقت عہد کرتا ہے کہ خالص انسانی بنیادوں پر اپنی خدمات انجام دیتا رہوں گا۔ وہ اگر میڈیائی پروپیگنڈے کے ذریعے شدت پسند نظریات اور نفرت کے حامل بن گئے ہوں، تو یہ بات سمجھنے میں دیر نہیں لگنی چاہیے کہ اس معاشرے سے انسانیت ، ہمدردی اور خدمت کا جذبہ مرچکا ہے۔ بھارت کے عام لوگ نفرت اور تعصب کی عینک ہی سے کشمیرکو دیکھنے کے اس لیے عادی ہوچکے ہیں، کیوںکہ ان کے ’محب ِ وطن‘ سیاست دانوں نے انھیں ایسے موڑ پر لاکھڑا کردیا ہے، جہاں اپنی قوم ، مذہب اور نسل کے بغیر اُنھیں کوئی بھی کشمیری انسان دکھائی ہی نہیں دیتا ہے۔
کشمیریوں پر کیا گزر رہی ہے؟ اس کا اندازہ بھارت میں رہنے والے لوگوں کو نہیں ہوگاکیوںکہ وہ ’حب الوطنی‘ اور ’قومی مفاد‘ کی خود ساختہ عینک اپنی آنکھوں پر چڑھائے ہوئے ہیں۔ اُنھیں فرقہ پرستی کی افیون نے اس قدر مست کردیا ہے کہ کشمیر میں جاری زیادتیوں کے نتیجے میں یہاں کی سسکتی انسانیت کی چیخیں انھیں سنائی ہی نہیں دیتیں ۔ بھارتی فوج اور اقتدار کی کرسی پر فریفتہ سیاست دانوں نے یہاں مشترکہ طور پر عوام کے خلاف اعلانِ جنگ کررکھا ہے۔ وہ یہاں لاشیں گرا کراپنی کرسیوں کو دوام بخشتے ہیں۔ وہ یہاں معصوم بچوں کی زندگیاں اُجاڑ رہے ہیں اور اس کے ردعمل میں جب قفس کا پنچھی بنا عام کشمیری اپنے دفاع میں معمولی احتجاج کرنے کی جسارت کرتا ہے تو وہ ٹی وی چینل سے لے کر پنڈال تک ہر جگہ دنیا کا ’بدترین ‘انسان اور ’خونخوار دہشت گرد‘ کہلاتا ہے۔
تصویر کا یہ رُخ بھی دیکھیے کہ ہم سیلاب میں خو د دردر کی ٹھوکریں کھاتے رہے، لیکن غیرریاستی مزدروں ، کاریگروں ، یاتریوںاور سیاحوں بلکہ وردی پوشوںکو بھی بچاتے اور کھلاتے پلاتے رہے۔ اُنھیں اپنے گھروں میں جگہ فراہم کرتے رہے۔ وہ وردی پوش جو ہمارے نونہالوں کو گولیوں سے بھون ڈالتے ہیں۔ کیا ہمارے ہی نوجوانوں نے سیلاب کے دوران اُنھیں سیلابی پانی سے نکال کر محفوظ مقام تک نہیں پہنچایا؟ جن کشمیریوں پر بھارت کی فیکٹریوں میں بننے والا بارود فوجی بے دریغ برساتے ہیں، ۲۰۱۶ء میں وہی کشمیری بجبہاڑہ میں یاتری بس کو پیش آنے والے حادثے میں نہ صرف زخمی یاتریوں کو نکال کر ہسپتال پہنچا دیتے ہیں بلکہ وہاں ان کی زندگی بچانے کے لیے اپنا خون بھی دیتے ہیں۔ کشمیریوں نے ہمیشہ بھارت کو انسانیت، اخوت ، ہمدردی اور دل جوئی کا سبق دیا ہے، مگر بدلے میں اُنھیں تعصب، تنگ نظری اور نفرت ہی ملی ہے۔ ہم نے اُنھیں انسان دوستی کا پیغام دیا ہے، اُنھوں نے ہمیں نفرت اور حقارت کی نظر سے دیکھا ہے۔
بھارت میں جو نسل پرستانہ سیاست اپنے جوبن پر ہے، دنیا اسے بُری نگاہ سے دیکھتی ہے۔ نسل پرستی کے جنون میں کسی مظلوم قوم کو اس کے سیاسی نظریات کی بنیاد پر دُھتکارناانسانی اصولوں کے سراسر منافی ہے۔ ایسی مظلوم قوم کے مریضوںکا علاج اپنے ہسپتالوں میں نہ ہونے دینا انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی ہے۔ یہ کام تو اسرائیل محصور شدہ غزہ کی پٹی میں بھی نہیں کرتا۔ بایں ہمہ اگر پنجرے میں مقید اس قوم کو طبی سہولیات تک سے محروم رکھنا بھارت کی حب ِ وطن کا لازمہ ہے تو کھول دیجیے سری نگر راولپنڈی روڈ اور پھر دیکھیں کشمیر کے بیماروں کے علاج معالجے کی جدید ترین سہولیات کن کن ممالک سے یہاں پہنچتی ہیں۔ویسے بھی دلی، چندی گڑھ یا کسی اور جگہ علاج کی سہولیات فراہم کرکے کشمیریوں پر کوئی احسان نہیں کیا جاتا۔ نہ وہ مفت علاج کرانے اتنا دُور دراز سفر اختیارکرتے ہیں، بلکہ اس کے عوض بھارتی ڈاکٹر اور ہسپتال، کشمیریوں سے بھاری معاوضے وصول کرتے ہیں۔ بھارت کے میڈیکل شعبے نے کاروباری حیثیت اختیار کرلی ہے۔ اس لیے بھارت کے تمام نامی گرامی ہسپتالوں نے وادیِ کشمیر میں ہر جگہ اپنے ایجنٹ پھیلا رکھے ہیں، جو مریضوں کی کونسلنگ کرکے اُن کا علاج اپنے ہسپتالوں میںکروانے کے لیے اُنھیں ذہنی طور پر تیار کرتے ہیں ۔ بنابریں کشمیری اپنی جیب سے پیسہ خرچ کرکے علاج کروانے پنجاب، دلی یا کسی اور جگہ جاتے رہتے ہیں،لیکن چنڈی گڑھ کے زیر بحث واقعے نے کشمیریوں کو بہت زیادہ مایوس کیا ہے۔
اہلِ کشمیر کے خلاف اناپ شناپ پھیلا کر بھارتی میڈیا نفر ت اور شکوک کے زہریلے بیج بوتا ہے۔ پرائم ٹائم میں چلنے والے ٹاک شوز میں فرقہ پرست ذہنیت کے حامل لوگوں کو بٹھایا جاتا ہے، جو کشمیر اور کشمیریوں کے خلاف زہر اُگلتے رہتے ہیں۔میڈیا پر چلنے والے ان پروگراموں نے بھارتی عوامی ذہنوں کو اس قدر مسخ کررکھا ہے کہ اکثریتی آبادی میں خود بخود کشمیریوں کے تئیں نفرت پیدا ہوجاتی ہے۔ اگر اس میں کچھ کسر باقی رہ گئی تھی تو وہ آر ایس ایس کے سیاست دان پوری کرتے جارہے ہیں۔ بھارتی میڈیا اور فرقہ پرست اس حقیقت کو بھول جاتے ہیں کہ کشمیر میں آج بھی انسانیت کا بول بالا ہے۔ اسی لیے غیرریاستی مزدوروں اور کاریگروں سمیت طلبہ اور تاجر لاکھوں کی تعداد میں یہاں بلاخوف وخطر اپنا کام کاج کر تے ہیں۔ جو رویہ بھارت کی دیگر ریاستوں میں کشمیریوں کے ساتھ روا رکھا جارہا ہے، اگر خدانخواستہ وہی رویہ کشمیری بھی غیر ریاستیوں کے ساتھ اختیار کر یں تو کیا انسانیت کا گلستان بھسم نہیں ہو گا؟
کشمیر ایک متنازعہ خطہ ہے۔ یہاں کے لوگ سیاسی جدوجہد کرکے کسی جرم کا ارتکاب نہیں کررہے ہیں اور حصولِ تعلیم ، علاج یا تجارت کی غرض سے جو کشمیری دیگر ریاستوں کو جاتے ہیں، یہ اُن کا حق ہے۔ دلّی یہاں کے وسائل کو دلِ بے رحم سے ہڑپ کر رہا ہے ۔ اس کے بدلے میں کشمیریوں کو سواے اس کے کیا ملتا رہا ہے کہ یہاں کے طالب علم، تاجراور مریض بیرون ریاست مجبوریوں کے تحت جب دیگر ریاستوں میںجاتے ہیں تو وہاں سے اگر صحیح سلامت لوٹیں بھی تو بھارت کے مریضانہ تعصب اور تنگ نظر جنونیوں کے تعصب کا سامنا کرکے ہی لوٹتے ہیں۔ اس بیمار ذہنیت کے لوگ اپنی گھٹیا ذاتی اغراض کے لیے یہ گھنائونا کھیل کھیل رہے ہیں۔
ہندستان کے مسلم دور حکومت میں بھی راجوں، مہاراجوں اور سلاطین کے درمیان ملک کی توسیع اور ترقی کے لیے بڑی بڑی جنگیں ہوئیں ، مگر دونوں فریقوں کے درمیان دین ومذہب اور ذات پات کے نام پر کبھی کوئی قابل ذکر ٹکراؤ نہیں ہوا۔ نہ تو غیر مسلموں کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت پائی جاتی تھی اور نہ مسلمانوں نے مذہبی اختلاف کی وجہ سے انھیں مقہور بنانے کی کوشش کی، نیز نہ کسی کو بہ جبر مسلمان بنایا گیا۔ اسی سے مسلم ہندستان، کثرت میں وحدت کا منظر پیش کرتا رہا۔
جب برطانوی سامراج کا زمانہ آیا تو اس نے ’تفرقہ ڈالو اور حکومت کرو‘ کی پالیسی اختیار کی۔ اس مقصد کے لیے انگریزوں نے یہاں کی جو تاریخ رقم کی یا ’تاریخ سازی‘ کی، اس میں مسلم حکمرانوں کے تعلق سے من گھڑت باتوں کو وضع کیا اور پھر بڑھا چڑھا کر پیش کیا، تاکہ یہاں کی غیرمسلم آبادی کو یہ باور کرا یا جاسکے کہ مسلمان تمھارے خیر خواہ نہیں ہیں۔ اور پھر جب مشترکہ کوششوں سے وطن عزیز انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہوگیا اور معروضی حالات کے مطابق افہام و تفہیم سے ملک دوحصوں میں تقسیم ہوگیا، جن مسلمانوں نے بھارت میں رہنے کو ترجیح دی تھی ، وہ عددی اعتبار سے اور کم ہوکر اقلیتی طبقات میں شمار کیے جانے لگے۔
۱۹۲۵ء میں فرقہ پرست جماعت راشٹریہ سیوک سنگھ (آرایس ایس) وجود میں آئی۔ یہ اپنے ایک خاص مشن کے تحت شروع ہی سے اقلیتوں کے خلاف نفرت پھیلانے میں مصروف ہوگئی۔ جمہوری بنیاد پر بھارت کے آئین کی تدوین و تنقید ہوئی، تواس میں اقلیتی طبقات کو بھی مساویانہ حقوق، جان ومال اور عزت وآبروکے تحفظ کی ضمانت اور اپنے اپنے مذہب پر عمل پیرا ہونے کی آزادی دی گئی، مگر روزِ اوّل سے آج تک زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔ ایک دانش ور نے خوب کہا: ’’بھارت میں گذشتہ ۶۰ برسوں کا تجربہ بتاتا ہے کہ دستور کی دفعات کے حروف تو بہت سنہرے ہیں، مگر اقلیتوں کو مختلف شعبوں میں حکومت اور اکثریت کی طرف سے جو زخم لگے ہیں وہ بہت گہرے ہیں‘‘۔
چاہے بر سرِ اقتدار پارٹی کا نگریس کا دور رہا ہو یا بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کا، دونوں نے اقلیتوں کے ساتھ انصاف روا نہیں رکھا ۔ اسی طرح جب جب بی جے پی نے اپنے آپ کو پھیلانے اور اقتدار میں جگہ بنانے کی کوشش کی ہے، تب تب ملک کے حالات بگڑے ہیں اور افرا تفری مچی ہے۔ بالخصوص مسلم اقلیت نشانے پر رہی ہے۔ اس وقت عمومی صورتِ حال یہ ہے کہ مسلمان ملک کے کسی بھی حصے میں محفوظ اور مامون نہیں ہیں۔ان کی آزادی پر بندش لگائی جاتی ہے، مذہب پر عمل کرنے سے روکا جاتا ہے، گھروں کو لوٹا اور کاروبار کو نذرِ آتش کیا جاتا ہے ، چلتے پھرتے ان پر فقرے کسے جاتے ہیں،’وندے ماترم‘ کا ورد نہ الاپنے والوں کو وطن دشمن قراردیاجاتا ہے،یا ’جہاد سے محبت کرنے والا‘ کہہ کر زدو کوب کیا جاتا ہے۔ ’گھر واپسی کے نام‘ پر مرتد بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
مسلمانوں پر حصولِ روزگار کے دروازے بند کیے جاتے ہیں، سرکاری مراعات سے محروم کیا جاتا ہے۔ تعلیم سے دُور رکھنے کے لیے منفی پالیسی اختیارکی جاتی ہے۔ مدارس کی جدید کاری کے نام پر مسموم فضا ہموار کی جاتی ہے۔بے بنیاد الزامات لگاکر عرصۂ حیات تنگ کیا جاتا ہے۔ سنگین جرم کوئی دوسرا انجام دے اوربڑی خوش اسلوبی سے اسے مسلمانوں کے سر منڈھ دیا جاتا ہے۔ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو دہشت گردی کے نام پر پھنسایا اور کال کوٹھڑی میں بند کر دیا جاتا ہے۔ جرم ثابت نہ ہونے کی صورت میں جعلی مقابلے میں گولیوں سے اُڑا دیا جا تا ہے۔ عبادت گاہوں کو مسمار کیا جاتا ہے۔ اذان پر پابندی لگائی جاتی ہے۔ زبردستی مسلمانوں کی پیشانی پر قشقہ لگادیا جاتا ہے ہے۔ ٹوپی پہننے اور داڑھی رکھنے سے روکا جاتا ہے۔ دورانِ سفر ریلوں اور بسوں میں بے ہودگی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ عزت وآبر و پر حملے کیے جاتے ہیں۔ برقعہ پوش خواتین کا نقاب اُترواکر سرِراہ شرمندہ کیا جاتا ہے۔مسلم پرسنل لا پر حملہ کیا جاتا ہے، تعدد ازواج کے مسئلے کو غلط رنگ میں پیش کیا جاتا ہے، تین طلاق کے نام پرلوگوں کو ورغلایا جاتا ہے۔ معصوم اور سیدھی سادی عورتوں کو روپے کا لالچ دے کر مذہب تبدیل کروایا جاتا ہے۔ یکساں سول کوڈ کا پابند بنانے کے لیے فضا ہموار کی جاتی ہے۔ گائے کی تجارت کرنے والوں کو موت کی نیند سلادیا جاتا ہے۔ مختصراً یہ کہ اس وقت بالخصوص مسلمانوں کو عدم تحفظ اور خطرات کاجو سامنا ہے، اس کی وضاحت کہاں تک کی جائے ؎
ایک دو زخم نہیں جسم ہے سارا چھلنی
درد بے چارا پریشاں ہے کہاں سے اٹھے
’ سب کا ساتھ سب کا وکاس‘ [ترقی]کے نعرے کے ساتھ بھارتیہ جنتا پاٹی اقتدار میں آئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے ملک کا منظر نامہ بدل گیا۔ادھر اترپردیش کی سیاست میں تبدیلی کیا آئی پورے ملک میں افراتفری مچی ہوئی ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں: مودی جی سے آگے یوگی جی چل رہے ہیں۔ ٹی وی چینلوں اور سوشل میڈیا پر جو مناظر سامنے آتے ہیں ، ان سے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ فسطائی طاقتوں کے حوصلے اتنے بلند ہوگئے ہیں کہ ہر طرف کشت وخوں کا بازا ر گرم کیے ہوئے ہیں۔ ان کی نگاہ میں ملک کے آئین اور قانون کی کوئی وقعت نہیں ، بلا خوف و خطر یکے بعد دیگرے شہر اور گاؤں کو فرقہ واریت کی آماج گاہ بناتے جارہے ہیں۔ کوئی باز پُرس کرنے والا نہیں اور قانون کے رکھوالے بھی تماشائی بن گئے یا انھیں بے بس بنا دیا گیا ہے۔ جو حکومت سے جتنا زیادہ قریب ہے، وہ اتنا ہی زیادہ ملک میں مجرمانہ عمل انجام دینے کو فخر سمجھتا ہے ۔
آزادی کے بعد سے لے کر ۲۰۱۳ء تک بھارت میں بڑے بڑے درجنوں فرقہ وارانہ فسادات ہوئے۔جن میں زیادہ تر مسلمانوں یا دوسری اقلیتوں کا ہی ناقابل تلافی جانی ومالی نقصان ہو اہے اور وہ انصاف سے محروم رہے ہیں۔ فسادات کے برسوں بعد بھی خونیں بلوائیوں اور قاتل قوم پرست ہندوئوں کے خلاف مقدمہ شروع نہیں ہواہے،کیوں کہ تفتیش اب بھی ابتدائی مراحل میں ہے۔ ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے کہ اقلیتوں کو دوسرے درجے کا شہری بنا کر رکھا جائے۔
بھارتی وزیر اطلاعات کے مطابق ۲۰۱۵ء کے ابتدائی آٹھ مہینوں میں فرقہ وارانہ تشدد کے ۶۰۰ واقعات رُونما ہوئے۔۲۰۱۶ء کے ابتدائی چھے مہینوں میں ۲۵۲فسادات ہوئے ، جس میں اُترپردیش سر فہرست ہے۔یہاں جنوری تا اگست ۲۰۱۵ ء میں سب سے زیادہ ۶۸ فی صد فسادات رُونما ہوئے جن میں متعدد افراد کی ہلاکت اور ۵۰۰ زخمی ہوئے۔ اسی طرح ۲۰۱۶ ء میں ۳۳فرقہ وارانہ وارداتیں ہوئیں۔ مہاراشٹرا میں ۲۰۱۵ء کے درمیان فرقہ وارانہ تشددکے ۵۹، جب کہ ۲۰۱۶ء میں ۹ واقعات ہوئے۔بہار میں جنوری تا جون ۲۰۱۵ ء فرقہ وارانہ تشد دکے ۶۱ اور ۲۰۱۶ء میں ۲۱واقعات رُونما ہوئے۔گجرات میں جنوری سے جون ۲۰۱۵ ء تک فرقہ وارانہ تشدد کے ۲۵واقعات ہوئے اور ۲۰۱۶ء میں۷۶ واقعات ہوئے۔علاوہ ازیں دوسری ریاستوں کی صور تِ حال بھی اس سے مختلف نہیں ہے ۔ اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ شہر کی گود میں فسادات پل رہے ہیں یا فسادات کی گود میں شہر۔ کسی نے بہت خوب صورت تبصرہ کیا ہے:’’ہم ہندستان کے جغرافیے سے فسادات کے ذریعے واقف ہوتے ہیں اور معلوم ہوتا ہے کہ کون سا مقام اور کون سا شہر کہاں ہے‘‘۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ تشدد کے یہ واقعات حادثاتی نہیں بلکہ دانستہ اور پوری منصوبہ بندی کے ساتھ کرائے جاتے ہیں اور اس میں پولیس کا کردار بھی جارحانہ اور یک طرفہ ہوتا ہے۔
انتخابات کے موقعے پر ٹیکنیکل مشین کے ذریعے قبل ازوقت طے کردیا جاتا ہے کہ ملک کا سیاسی رہنما کون ہوگا۔ المیہ یہ بھی ہے کہ عوام اپنا سیاسی رہنماایسے ہی لوگوں کو منتخب کرنے کی ڈگر پر چل نکلے ہیں، جوکچھ زیادہ ہی مجرمانہ ذہنیت کے حامل ہوتے ہیں ۔ اب تو عوامی حق راے دہی بھی بے معنی ہوکر رہ گیا ہے۔ بیش تر ریاستوں میں حکمران پارٹی کے لوگ براہ راست یا بالواسطہ قیادت سنبھالے اسی طرف گام زن ہیں۔ ہندوتواکے علَم برداروں نے انھیں اپنی گرفت میں اس طرح جکڑ رکھا ہے کہ وہ اس سے الگ ہوکر کو ئی مثبت عمل انجام دینے کی آزادی کم کم ہی پاتے ہیں۔ اس لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ آئین ہند کے دیباچے کے مطابق جہاں برابری ، بھائی چارہ اور انصاف کو بروے کار لانے پر زور دیا گیا ہے، اس کو رُوبۂ عمل لائیں گے۔
بابری مسجد کے انہدام اور رام مندر کی تعمیر کو لے کر جو گندی سیاست ہورہی ہے ، اس سے ہر کوئی واقف ہے۔ خود اعلیٰ عدلیہ بھی آنکھ مچولی کھیل رہی ہے۔ اب پھر سے اس مسئلے کو ہوا دی جارہی ہے، جس کی وجہ سے خطرات و خدشات کے بادل منڈلارہے ہیں ۔ بھارتیہ جنتا پارٹی اسی مسئلے کو ہوا دے کر یہاں تک پہنچی ہے۔یہ بات بھی ذہن نشین کرنے کی ہے کہ اقتدار میں آنے کے لیے بی جے پی نے ہمیشہ رام مندر کے مسئلے کو اپنے ایجنڈے میں غیر معمولی اہمیت دی ، جس کا اسے براہِ راست فائدہ ہوا اور اس سے ملک کا ماحول کچھ زیادہ ہی مکدرہوا ہے:
فرقہ وارانہ منافرت کو ہوا دینے کے لیے مذہبی جذبات کے استحصال کی روایت پرانی ہے، مگر پچھلے چند برسوں سے جو رجحان دیکھنے میں آیا ہے، وہ یہ ہے کہ مذہبی فرقوں کے درمیان تناؤ کو عسکریت پسند عناصر، جرائم پیشہ افراد اور سیاست دان بھی استعمال کرنے لگے ہیں۔اس نئے رجحان نے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان خلیج کو بڑھایا ہے۔
معاشی اعتبار سے مسلمانوں کو کم زور کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے۔تعلیمی میدان میں بھی مسلمان کم زور ہیں اور جو بچے کچھ کرنے کا عزم وحوصلہ رکھتے ہیں ، ان کو بھی بعض اوقات کامیابی حاصل کرنے میں دشوارکن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے اور کبھی مایوسی ان کا مقدر بن جاتی ہے۔ پرائمری اور سیکنڈری سطح پر انھیں تعلیم کی سہولیات میسر نہیں ہیں۔ غربت اتنی بڑھی ہوئی ہے کہ بعض گھروں میں فاقہ کشی تک کی نوبت آجاتی ہے۔ ’جسٹس سچر کمیٹی‘ اور دوسری رپورٹ میں بالخصوص مسلم اقلیت کی مفلوک الحالی اور تعلیم کی تشویش ناک صورتِ حال کی جو وجوہ بیان کی گئی ہیں ، اس میں سدھار لانے کی حکومت کو ذرہ برابر فکر نہیں ہے ،مگر اندرون خانہ مسلمانوں میں کیا ہوتا ہے اسے ڈھونڈ ڈھونڈ کر باہر لایا جاتا اور اسے منفی انداز میں پیش کرکے مسلمانوں کا تشخص بگاڑا جاتا ہے۔
مذہبی آزادی ہرکسی کا فطری اور آئینی حق ہے ۔ اس کے باوجود مذہبی معاملات میں مداخلت کی جاتی ہے۔پوری طاقت کے ساتھ تعلیمی اداروں کو برہمنی غسل دیا جارہا ہے ۔ نصابی کتابوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کے بیج بوئے جارہے ہیں ۔مزید برآں ’وندے ماترم‘ کو ہرکسی کے لیے لازم کیا جارہا ہے ۔دلیل یہ دی جاتی ہے کہ یہ ہندو راشٹر ہے ، اس سے وطن کا تقدس ظاہر ہوتا ہے۔کیا اسی طرح سے ملک کی ترقی ہوسکتی ہے؟
مسلم اقلیت کو خوف وہراس میں مبتلا کرنے کے لیے آئے دن ایک نہ ایک نیا مسئلہ چھیڑدیا جاتا ہے ، جس کو مفاد پرست میڈیا بھی لے اڑتا اوراسے بڑے پیمانے پر توڑ مروڑ کر نشر کرتاہے ۔ جس سے بعض اوقات دومذاہب کے ماننے والے آپس میں ٹکڑا جاتے ہیں۔اس کی واضح مثال مسلمانوں کے مسلم پرسنل لا پررہ رہ کر حملہ کرنا ہے۔ اکثریتی طبقات میں جو سماجی ومعاشرتی بگاڑ پایا جاتا ہے ، اس کی اصلاح کی کوئی بات نہیں کرتا، مگر مسلمانوں کے پرسنل لا کو سدھارنے کی فکر ہر کسی کو ستاتی رہتی ہے ۔ ہما شما بھی اس مسئلے میں ’مجتہداعظم‘ بننا چاہتا ہے ۔ بر سرِ اقتدار پارٹی کو مسلم عورتوں کی بہتر تعلیم اور اس کے روز گار کی کوئی فکر نہیں ، مگر تین طلاق کے نام پر مسلمانوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔پرانی رپورٹوں کو تو چھوڑ ہی دیجیے، چند روز قبل RTI کے ذریعے حاصل کی گئی معلومات میں بھی یہ انکشا ف ہوا ہے کہ ۲۰۱۲ء سے ۲۰۱۵ ء کے درمیان مسلمانوں میں ۱۳۰۷ ؍طلاق کی درخواستیں درج کی گئی ہیں ، جب کہ ہندوؤں میں ۱۶ہزار۵سو۵ ریکارڈ کی گئی ہیں۔ عیسائیوں میں ۴ہزار ۸سو۲۷ اور سکھوں میں ۸ طلا ق واقع ہوئی ہیں۔ یہ اعدادوشمار پورے ملک کے نہیں، بلکہ جنوبی ہند کی مختلف ریاستوں کے صرف آٹھ کثیرآبادی والے اضلاع کے ہیں۔
حکومت کے ایجنڈے میں ہزاروں مطلقہ ہندو خواتین کوسہارا دینے کی بات شامل نہیں ہے ، مگر صرف ۱۳۰۷ مسلم خواتین کی ’درماندگی‘ سے حکومت کے ڈھانچے میں زلزلہ آیا ہوا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ اگر اس کا حل نہیں نکالا گیا تو پورے بھارت میں زلزلہ آجائے گا۔ لیکن جب بات مسلم معاشرے میں طلاق وتفریق کی تشویش ناک صورت حال کی ہوگی ،جو اگر چہ ایک مفروضہ ہی ہے، تو ہندوسماج میں اس حوالے سے جو بے اعتدالی پائی جاتی ہے ، جس سے بہت کم لوگ واقف ہیں، اس پر بھی کھل کر بحث ہونی چاہیے۔ ہندوؤں میں مذہبی امتناع کے باوجود طلاق وتفریق کی بہ کثرت درخواستیں جمع ہوتی ہیں۔ تعددازواج کے معاملے میں بھی ہند و معاشرہ مسلمانوں سے بہت زیادہ بڑھا ہوا ہے۔ یہاں تک کہ اس ترقی یافتہ دور میں بھی بعض ہندو سوسائٹی میں کثیر شوہری کا رواج پایا جاتا ہے۔
حکومت کے اعلیٰ ذمہ داران جلسہ وجلوس میں کھلے عام اقلیتوں کودھمکاتے اور بعض اوقات تیکھا مشورہ دیتے ہیں کہ ’’یا تو اکثریتی طبقے کا دھرم قبول کرلیں ، یا ترک وطن کرلیا جائے‘‘،نیز ’’اگر مسلمان یکساں سول کوڈ کونہیں مانیں گے، تو وہ حق راے دہی سے دست بردار ہوجائیں‘‘۔ اس طرح کی لغویات کا مطلب ہی خوف وناامیدی پیدا کرنا ہے۔ در اصل حکمران جماعت کی پالیسی یہی رہی ہے کہ مسلمانوں کو ہمیشہ کسی نہ کسی مسئلے میں الجھائے رکھو، تاکہ وہ اپنی فلاح وبہبود کے تئیں کچھ نہ کرسکیں۔
تاہم، مسلمان عارضی حوادث سے ڈر کر اپنے دین وایمان کا سوداکرنے والا نہیں ہے۔ فرقہ پرست طاقتوں اور شر پسند عناصر کوچاہیے کہ وہ مسلمانوں کی نفسیات کو سمجھیں۔ انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ مسلمانوں پر جب بھی کوئی مصیبت آتی ہے ، تو ایسے نازک وقت میں ان کا ایمان اور بھی مضبوط ہو جاتا اور اس میں پختگی آجاتی ہے، جس سے انھیں اپنے عزائم پر قائم رہنے میں بڑھاوا ملتا ہے۔ آزادی کے بعد سے لے کر آج تک نہ جانے کتنے ہی مسلمانوں کو قتل وغارت کیا گیا ، ان کے گھر بار کو لوٹا گیا ، ہنگا مے کیے گئے ،لیکن ان میں کوئی بھی ایسا بد بخت مسلمان نہیں نکلا ہوگا، جو یہ کہے کہ تم ہمارے اُوپر سے مظالم کو روک لو، ہم اپنے دین ومذہب سے دست بردار ہوجاتے ہیں۔ مسلمان نیک عمل کے اس معیار پر، جس کواسلام پیش کرتا ہے، اگرچہ نہ اترتا ہو، مگر جہاں تک اس کے دل کے اندر ایمان کا تعلق ہے، تو ایک مومن کے اندر اس کی مضبوطی اور استقامت موجود ہے۔
مسلمانوں کو اس بات کی بھی جدو جہدکرنی چاہیے کہ بین الاقوامی قانون اور خود ملک کے آئین نے اقلیتوں کو جن حقو ق سے نوازا ہے ، ان کے حصول کی کوشش، آئین کی روشنی اور قانون کے دائرے میں رہ کر ہی ہو۔کیوں کہ دستور کی حفاظت اور قانون کا احترام بھی لازمی ہے۔مزید برآں بلاتفریق مذہب وملت ہر کسی کو آئین میں دیے گئے حقوق سے واقفیت اور اس سے دوسروں کو بھی متعارف کرانے کی شدید ضرورت ہے ۔
یہ وقت باہمی انتشار کا نہیں، اتحاد کا متقاضی ہے۔لیکن یہ بھی سچ ہے کہ مسلمان بکھرے ہوئے ہیں اور ان کا کوئی متحدہ پلیٹ فارم بھی نہیں ہے ۔ غیر ذمہ دارانہ اور لاشعوری زندگی سے کنارہ کش ہونے ، مضبوط اور دوررس لائحہ عمل تیار کرنے کے لیے مسلمانوں کو متحد ہونا ہی پڑے گا ۔ اگر اتنے شدید بحران سے دوچار مسلمان صرف انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہونے کے بعد ہی جاگنے کی کوشش فرمائیں گے، تو اُن کا جاگنا سونا ایک برابر ہے۔ آرایس ایس ، بجرنگ دل، ویشواہندو پریشد، بی جے پی جیسی فرقہ پرست جماعتوں نے اپنے منفی نظریات کو تھوپنے میں طویل عرصہ لگا دیا اور ساری توانائی صرف کردی ۔ کیامثبت عمل کو انجام دینے اورفسطائی طاقتوں کو پسپا کر نے کے لیے مسلمانوں میں اتحاد نہیں ہوسکتا؟ کیا وہ اپنے اخلاق وکردار سے برادران وطن کا دل جیت نہیں سکتے؟ مسلک و مشرب سے بالاتر ہوکر صرف کلمۂ واحدہ کے نام پر مسلمان متحد ہوگئے اور من جانب اللہ انسانیت کی فلاح کی ان پر جو ذمہ داری عائد کی گئی ہے، اس پر عمل کرکے اپنے فرائض کو انجام دینے لگے ، تو گو آج وہ سماجی اور سیاسی سطح پر بے وقعت ہوگئے ہیں، لیکن بہت جلد ان کی حیثیت تسلیم کر لی جائے گی اور ان کی عظمت رفتہ بحال ہوجائے گی۔