اخبار اُمت


بھارت میں دسمبر۲۰۱۸ء کے دوران پانچ صوبائی اسمبلی انتخابات میں جس طرح حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو سخت انتخابی نتائج کا سامنا کرنا پڑا ہے، بالخصوص تین بڑی ریاستوں میں کانگریس کی پیش قدمی دیکھنے میں آئی ہے۔ اس سے لگتا ہے کہ بگڑتی معیشت، کسانوں کی بدحالی اور دو سال قبل نوٹ بندی اور نئے ٹیکس نظام کی وجہ سے بنیا اور تاجر طبقے میں موجود اس کا روایتی ووٹ بنک ٹوٹ رہا ہے۔ اوربی جے پی، جسے ’بنیا پارٹی‘ بھی کہتے ہیں، اس کی ریڑھ کی ہڈی ’بنیاکمیونٹی‘ سخت تذبذب کا شکار ہے۔ ممکن ہے کہ آنے والے انتخابات میں پوزیشن بہتر بنانے کے لیے اگلے چند مہینوں میںکسانوں اور تاجروں کے لیے وزیر اعظم نریندرا مودی مراعات کی بارش کردیں اور اس کے لیے پارلیمنٹ کا بجٹ اجلاس بھی جنوری کے آخری ہفتہ میں ہی بلانے کی تجویز پیش کر دی گئی ہے۔ تاہم، تجزیہ یہی ہے کہ مئی ۲۰۱۹ء میں ہونے والے عام انتخابات تک اب شاید ہی عام ووٹر تک ان مراعات کا فیض پہنچ پائے گا۔ اس لیے پارٹی لیڈروں کا خیال ہے کہ معیشت کے بجاے جذباتی اور قوم پرستانہ ایشوز کی کشتی پر سوار ہوکر عام انتخابات کا پُرشور دریا عبور کیا جائے۔
اس سلسلے میں ذرائع کے مطابق فتح حاصل کرنے کے لیے بھارتی وزیر اعظم نریندرا مودی اور ان کے دست راست بی جے پی کے صدر امیت شاہ نے تین ایشوز پر مشتمل ایک نقشۂ کار ترتیب دیا ہے۔ اس میں اوّلین ترجیح اترپردیش کے شہر ایودھیامیں مسمار شدہ بابری مسجد کی جگہ پر ایک عالی شان رام مندر کی تعمیر کا ہوّا کھڑا کرنا ہے۔ باوثوق ذرائع کے مطابق دیکھا جارہا ہے کہ ہندو انتہاپسندوں کی سرپرست تنظیم راشٹریہ سیویم سنگھ ( آر ایس ایس) اور اس کی ذیلی تنظیم ویشوا ہندو پریشد    (وی ایچ پی) رام مندر کو اگلے ایک دو ماہ میں ایک عوامی مہم میں تبدیل کرنے میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ جموں و کشمیر میںمزید کشت و خون و غیرمستحکم حالات قائم رکھے جائیں اور اس خون سے تلک لگاکر ملک بھر میں ووٹ حاصل کیے جائیں۔ اگر یہ دو ایشوزعوامی جذبات ابھارنے میں ناکام ہوتے ہیں ، تو انتخابات سے قبل آخری حربے کے طور پر پاکستان کے خلاف کسی طرح کی جارحانہ کارروائی کے نتیجے میں ہندو ووٹروں کو بی جے پی کے حق میں موڑنا، تاکہ دفاعی سودوں اور بنکوں میں بد عنوانیوں اور دیگر ایشوز کو لے کر، حزب اختلاف پارٹیاں اورمیڈیا، مودی حکومت کو احتساب کے کٹہرے میں کھڑا نہ کرسکیں۔یاد رہے ۱۶دسمبر کو نریندرا مودی نے راے بریلی میں سونیا گاندھی کے حلقے میں تقریر کے دوران یہ کہا کہ: ’’کانگریس کے جیتنے پر پاکستان میں تالیاں کیوں بجتی ہیں؟‘‘ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بی جے پی حکومت اپنے ووٹوں کو اکٹھا کرنے کے لیے ’مسلمان کارڈ‘ کے ساتھ ساتھ ’پاکستان کارڈ‘ بھی کھیلے گی۔ 
۱۵دسمبر کو ضلع پلوامہ میں جس طرح کشمیری نوجوانوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی، وہ ظاہر کرتا ہے کہ مودی حکومت نے آخرالذکر روڑ میپ پر کام کرنا شروع کر دیا ہے۔ جس کے تحت کشمیریوں اور پاکستان کو مشتعل کرکے کشیدگی کو ہوا دی جائے اور ملٹری آپریشنز کی راہ ہموار کرائی جائے۔ 
پلوامہ میں جس طرح نہتے شہریوں کو نشانہ بنایا گیا او ر ان کے سینوں اور سر وں میں گولیاں داغی گئیں، کسی بھی مہذ ب اور جمہوری معاشرے کا خاصہ نہیں ہوسکتا۔ جان سے گزرنے والوں میں آٹھویں جماعت کا طالب علم، شیر خوار بچے کے لیے دودھ خریدنے کی تگ و دو میں راستے میں کھڑا باپ، ایک دکان دار، پریکٹس سے واپس آرہا ایک کھلاڑی اور کئی راہگیر شامل تھے۔مقامی لوگوں کے مطابق پلوامہ کے ایک گائوں سرنو میں صبح ساڑھے آٹھ بجے کے قریب فوج اور عسکریت پسندوں کے درمیان تصادم ختم ہوگیا تھا۔ لوگ سڑکوں پر تھے، مگر مظاہرے ہو رہے تھے، تاہم پتھر باری نہیں ہورہی تھی۔بتایا جاتا ہے کہ جب فورسز کی ٹکڑی آپریشن ختم کرکے واپس جارہی تھی کہ کھار پورہ محلہ میں تنگ راستے کی وجہ سے ان کی بھاری بھرکم فوجی گاڑی کو موڑنے میں مشکل پیش آرہی تھی۔  عوام کو سڑکوں سے ہٹانے اور راستہ بنانے کے لیے فورسز اہلکاروں نے بندوقوں کے دہانے کھول دیے۔ دیکھتے ہی دیکھتے پیدل چلنے والے افراد زمین پر گرتے گئے۔اسی طرح کی صورتِ حال پلوامہ اسٹیڈیم کے پیچھے برپورہ میں بھی پیش آئی اور وہاں بھی ایک بھارتی فوجی گاڑ ی پھنس گئی تھی۔ یہاں بھی فورسز نے بندوقوں کے دہانے کھول کر اندھا دھند فائرنگ کی۔ ہلاک شدگان میں انڈونیشیا سے ایم بی اے ڈگری یافتہ عابد حسین لون بھی شامل ہے ، جو حال ہی میں اپنی انڈونیشین اہلیہ اور شیر خوار بچے کے ساتھ کشمیر منتقل ہوا تھا ۔ اسی طرح آٹھویں جماعت کے طالب علم عاقب بشیر کو گولیوں سے بھوننے کا الم ناک واقعہ ہے۔
شمالی آئر لینڈ، عراق، افغانستان ، کوریا اور فلسطین کا دورہ کرنے اور ان تنازعات کا مشاہد ہ کرنے کے بعد میرا خیال ہے کہ دنیا کے دیگر جنگ زدہ خطوں کے برعکس عالمی میڈیا نے بڑی حد تک اور شاید مکمل طور پر کشمیرکو نظر اندازکر رکھا ہے۔ حال ہی میں استنبول میں فلسطین پر منعقدہ بین الاقوامی میڈیا کانفرنس کے متعدد اجلاسوں میں جب شورش زدہ خطوں میں رپورٹنگ کے حوالے سے میں اپنے تجربات بیان کر رہا تھا، تو میری بات پر کسی کو یقین ہی نہیں آرہا تھا۔
کئی عشروں سے فلسطین و مغربی ایشیا میں جنگی رپورٹنگ کرنے والے معروف صحافی جونانتھن اسٹیل حیران تھے، کہ وہ کیسے ان واقعات سے بے خبر اور ناواقف ہیں۔ وہ پوچھ رہے تھے کہ: ’’نئی دہلی میں مقیم بین الاقوامی میڈیا ان واقعات کا نوٹس کیوں نہیں لیتا ہے؟‘‘ جب میں نے ان سے کہا کہ: ’’بین الاقوامی میڈیا کو کشمیر جانے کے لیے سرکاری اجازت کی ضرورت ہوتی ہے‘‘۔ اس پر متعدد صحافیوں نے بھی کہا، کہ: ’’اس طرح کی کسی پابندی کا سامنا ان کو فلسطین کے مقبوضہ علاقوں میں کبھی نہیں کرنا پڑا ہے‘‘۔ 
کشمیر پر اگر رپورٹنگ ہوئی ہے تو بھی دور دراز علاقوں تک رسائی نہ ہوسکی ہے۔ حتیٰ کہ سرینگر کا  مقامی میڈیا بھی بیش تر علاقوں میں جانے سے قاصر ہے۔ چند برس قبل بھارت کے ایک معروف کالم نویس اور قانون دان اے جی نورانی کے ہمراہ میں نے شمالی کشمیر میں لنگیٹ تحصیل کے ایک خوب صورت مقام ریشی واری کا دورہ کیا تھا۔ سرسبز جنگلوں اور پہاڑی نالوں سے پُر اس وادی میں داخل ہوتے ہی تقریباً  ۳۰کلومیٹر تک سڑک سے ملحق سبھی گھروں کی دوسری منزل پر ہمیں بھارتی فوجی جوان نظر آئے۔ معلوم ہوا کہ: ’’گھروں کے مکین تو پہلی منزل پر رہتے ہیں اور دوسر ی منزل فوج کے لیے مخصوص ہے۔ یہاں دیہاتی کشمیریوں نے پہلی بار میڈیا سے وابستہ افراد کو  دیکھا تھا۔ اسی طرح اگر سرینگر کے شیرِکشمیر انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسزکے آرکائیوزکو کھنگالا جائے، تو وہاں ایسے ہوش ربا زخمیوں کی تفصیلات ملیں گی، جو بقول کئی ڈاکٹروں کے: ’’میڈیکل ہسٹری میں آخری بار صرف جنگ عظیم دوم کے دوران جرمن انٹیلی جنس کے ادارے گسٹاپو کے انٹروگیشن سنٹروں میں رپورٹ ہوئے ہیں‘‘۔کشمیر میں پیلٹ [چھرے] لگنے سے زخمی ہونے والے افراد کی آنکھیں بچانے میں مصروف، باہر سے آئے ڈاکٹر تک ذہنی تنائو کا شکار نظر آتے ہیں، کیوںکہ ان کے بقول: ’’ہم نے اپنی پوری میڈیکل زندگی میں ایسی جنگ زدہ صورتِ حال کبھی نہیں دیکھی تھی‘‘۔  
قوم پرست بھارتی وزیر اعظم اور ان کی حکومت کے دیگر لیڈروں کے رویے سے ظاہر ہے کہ وہ کشمیری عوام اور پاکستان کو پیغام پہنچانا چاہ رہے ہیں کہ ان کی منزل ناقابلِ حصول ہے اور کسی عالمی اور بیرونی دبائو کی عدم موجودگی میں ریاست کا وسیع دائرہ بالآخر تحریک کشمیر کو تحلیل کردے گا۔ ان کو یقین ہے کہ ۲۰۱۹ء کے انتخابات میں یہ طریقۂ کار ان کو فائدہ پہنچائے گا۔ بھارتی فوجی سربراہ جنرل بیپن راوت نے حالیہ بیان میں کہا کہ: ’’فوج، کشمیر میں ڈرون حملے کرسکتی ہے، لوگ اجتماعی نقصان کے لیے تیار رہیں اور ہم پتھر کا جواب گولی سے دیں گے ‘‘۔وہ اس حقیقت کو نظرانداز کر رہے ہیں کہ کشمیر میں بھارتی فوج کا مقابلہ کسی منظم عسکری گروہ سے نہیں بلکہ ناراض نوجوانوں اور عوام سے ہے۔
 مجھے یاد ہے کہ ۲۰۱۰ء میں کشمیر میں ایسی ہی صورت حال تھی کہ اس دوران بھارت کے سینیر صحافیوں کے ہمراہ مجھے اسرائیل اور فلسطین کے دورے کا موقع ملا۔ تل ابیب میں اسرائیلی وزیر اعظم کے مشیر ڈیوڈ رائزنر بریفنگ دے رہے تھے۔ وہ اسرائیلی فوج میں اہم عہدے دار رہ چکے تھے، لبنان کی جنگ میں ایک بریگیڈ کی کمان بھی کی تھی، اس کے علاوہ انتفاضہ کے دوران بھی فوج اور پولیس میں اہم عہدوں پر براجمان رہے تھے۔ اس اسرائیلی افسر نے بھارتی صحافیوں کو ششدر اور رنجیدہ کردیا، جب اس نے کشمیر میں تعینات بھارتی فوج کے افسروںکے ’کارنامے‘ سنانے شروع کیے۔ اس نے کہا: ’’بھارتی افسر اس بات پر حیران ہو جاتے ہیںکہ شورش زدہ علاقوں میں مسلح اور غیرمسلح کی تفریق کیوںکی جائے؟‘‘ انھوں نے کہا کہ: ’’حال ہی میں اسرائیل کے دورے پر آئے ہوئے ایک بھارتی جنرل نے مجھے بتایا کہ کشمیر میں ہم پوری آبادی کوگھیرکرگھروں میںگھس کر تلاشیاں لیتے ہیں کیوںکہ ہمارے نزدیک کشمیرکا ہر دروازہ دہشت گردکی پناہ گاہ ہے‘‘۔ اس واقعے کو بیان کرنے کا مقصد کسی بھی طور پر اسرائیلی جرائم کا دفاع کرنا نہیں بلکہ صرف یہ باورکرانا ہے کہ کشمیرکس حد تک عالمی ذرائع ابلاغ میں اور سفارتی سطح پر انڈر رپورٹنگ [صحافتی نظراندازی]کا شکار چلا آرہا ہے اور وہاں ہونے والے مظالم کی تشہیرکس قدر کم ہوئی ہے۔ ڈیوڈ رائزنرنے جنرل کا نام تو نہیں بتایا، مگر یہ ضرور کہا کہ: ’’ہم نے بھارتی فوجی وفد کو مشورہ دیا کہ عسکری اور غیر عسکری میں تفریق نہ کرکے وہ کشمیر میں صورت حال کو پیچیدہ بنا رہے ہیں‘‘۔
کشمیر میں پلوامہ جیسے بہت سے خونیں المیے منظر عام پر لانے کے لیے تفتیشی صحافیوں، تحقیق کاروں اور مصنّفین کے منتظر ہیں۔ ان رُودادوں کی محض ایک جھلک بھارتی فلم ’حیدر‘ میں اور ایڈرین لیوی اورکیتھی اسکاٹ کی کتاب دی میڈوز  میں ملے گی۔ کشمیر پر چار صدیوں سے زائد طاقت اور خوف کے ذریعے حکمرانی کی جا رہی ہے۔خوف کی نفسیات بڑی حد تک ختم ہوچکی ہے، یہاں کہیں امن و سکون نہیں، مگراس کے باوجود اہل کشمیر آلام و مشکلات کی شدت برداشت کر کے بھی حالات کے سامنے سپر انداز ہونے کو تیار نہیں۔ اسی حقیقت کا اظہار بارھویں صدی کے مشہور مؤرخ کلہن پنڈت نے کیا تھاکہ: ’’اہل کشمیرکو محض زورِ بازو سے زیر نہیں کیا جاسکتا‘‘۔
 اگلے مالی سال کے دوران تعمیر و ترقی و سرکاری تنخواہوں کے نام پر بھارتی حکومت، جموں و کشمیر میں ۸۸ہزار ۹سو۱۱ کروڑ روپے صرف کررہی ہے۔بھارتی حکومت کے سالانہ۵ء۳ لاکھ کروڑ روپے کے دفاعی بجٹ کا نصف، یعنی تقریباً ۷ء۱  لاکھ کروڑ روپے بھی کشمیر ہی میں خرچ ہوتا ہے۔  اس حساب کے مطابق بھارتی حکومت کشمیر پر اپنا قبضہ برقرار رکھنے کے لیے روزانہ ۷۳۷ کروڑ، یعنی سات ارب روپے خرچ کرتی ہے۔کیا ہی اچھا ہو کہ بھارتی ٹیکس دہندگان کے خون پسینے کی   یہ کمائی کسی مثبت اور تعمیری کام میں خرچ ہو ،جس سے جنوبی ایشیا میں غربت کا خاتمہ ممکن ہو۔ درحقیقت کشمیر میں ترقی کے نام پر فنڈ فراہم کرنا ایسا ہی ہے جیسے کسی جیل کا بجٹ بنانا۔ جیلر بھی قیدیوںکے کھانے پینے کا خیال تو رکھتا ہی ہے ۔ اگرچہ وہ کتنا ہی نرم دل کیوں نہ ہو ، اس کا اور قیدیوں کے درمیان تنائو کا رشتہ ہی رہتا ہے۔ اگر اب بھی حکومتیں اس نکتے کو سمجھنے سے قاصر رہیں گی تو یہ خطہ بدترین عدم استحکام کا شکار رہے گا۔ مسئلہ کشمیرکو حل کرنے کے لیے سنجیدہ راستہ اختیار کرنا پڑے گا۔

۱۰  دسمبر انسانی حقوق کے دن کے طور پر منایا گیا۔ مختلف انجمنوں نے انسانی حقوق کی اہمیت و افادیت کی وضاحت کے لیے مختلف پروگرامات کیے۔ کچھ نے خوشیاں منائیں اور کچھ    ملول دل سے شکوے ہی کرتے رہ گئے۔ اقوام متحدہ کے عالمی اعلامیہ براے انسانی حقوق اوراس میں چند انسانی حقوق کا تذکرہ ایک بڑے سنگ میل کی حیثیت سے کیا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اقوام متحدہ نے دنیاے انسانیت کو انسانی حقوق دیے؟ کیا اُس سے پہلے بھی کسی نے انسانی حقوق کی بات کی تھی یا نہیں؟
اس بحث کو نظرانداز کرتے ہوئے جب جموں و کشمیر میں حکومتی سطح پر قائم شہری حقوق کے کمیشن کو، انسانی حقوق کا دن منانے کی ضرورت پڑگئی تو انھوں نے اس دن منشیات سے تحفظ کی بات چھیڑی، جب کہ اسی کمیشن کی آنکھوں کے سامنے انسانی حقوق کی کتنی پامالیاں ہو رہی ہیں، مگر انھیں پوری ڈھٹائی کے ساتھ بالکل ہی نظر انداز کر دیا گیا۔ 
جموں و کشمیر کا مسئلہ بھارت اور پاکستان کے مابین دونوں ملکوں کے یومِ آزادی ہی سے پیدا ہوا، جب جموں و کشمیر کے تاریخی پس منظر، مذہبی رجحان اور جغرافیہ کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے اسے جبری طور پر بھارت کے قبضے میں معلق رکھا گیا۔ بہت سے اپنی تقدیر کا فیصلہ کرنے کے لیے جد و جہد کر تے رہے۔ لیکن ۴۷ ء سے آج تک بھارت، کشمیر میں ایجنٹوں کی خرید کا کھیل کھیلتا رہا ، کبھی جمہوریت کے نام پر اقوام عالم کی آنکھوں میں دھول جھونکتا رہا، کبھی ترقی کے نام پر  سادہ لوح لوگوں کو فریب دیتا رہا اور پھر مظلوموں کے بنیادی حقوق دینے سے پہلو تہی کرتا رہا۔  ۹۰ء کے عشرے میں جب یہاں کے لوگوں کو اس بات کا یقین ہوگیا کہ بھارت دھوکے سے کام چلارہا ہے تو کشمیر کے باسیوں نے عسکریت کی راہ اپناتے ہوئے اقوام عالم کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے کی کوشش کی۔ 
اکیسویں صدی میں قدم رکھتے ہی کشمیریوں نے حکمت عملی تبدیل کی اور بھارتی رویے سے بغاوت کے طور پر عوامی احتجاج کی راہ اختیار کی۔ لوگ بلالحاظ جنس و عمر گلیو ں کوچوں کا رُخ کرتے ہوئے پُر امن طریقے سے استبداد کے خلاف صداے احتجاج بلند کرتے رہے اور اپنے اخلاقی حق کے مطالبے کو دُہراتے رہے ۔ پُر امن عوامی مظاہرے بھارت کے لیے وبالِ جان ثابت ہوئے، کیوں کہ لوگوں کے پاس نہ کوئی ہتھیار ہے اور نہ کوئی عسکری مواد۔ لیکن ان پُرامن مظاہرین کے ساتھ بھی ایساسلوک کیاجا رہا ہے، جیسے کوئی بندوق بردار فرد، انتظامیہ پر حملہ کرنے آ رہا ہو۔   
اب بھارت ، خاص طور پر نئی دہلی میں برسرِاقتدار حکمران پارٹی کشمیر کی موجودہ صورتِ حال سے متعلق مختلف شوشے چھوڑ کر عوامی رد ِعمل کو کچلنے کے بہانے تراش رہی ہے۔ اکتوبر ۲۰۱۸ء کے دوران اس سلسلے میں ایک باقاعدہ حکم نامہ جاری کیا گیا ہے۔ جس کے مطابق احتجاجی مظاہرے میں اگر کسی قسم کی گڑبڑ ہوئی تو ذمہ داری احتجاجی اپیل کرنے والوں کے کندھے پر ہوگی۔ اس حکم نامے کا مقصد ہند مخالف احتجاج پر قدغن لگانا ہے۔موجودہ حالات کو، ۲۰۱۶ء کی ہمہ گیر عوامی لہر کے پس منظر میں سمجھنا مناسب رہے گا۔ 
برہان مظفر وانی کے جاںبحق ہونے کے بعد، جموں و کشمیر کے طول و عرض میں عوامی احتجاجی لہر کے اثرات، اِس واقعے کو مزاحمتی تحریک میں ایک بڑے سنگ میل کی حیثیت دیتے ہیں۔ اکیسویں صدی کے تناظرمیں عوامی احتجاجی لہر کی اس نئی تحریک کو اگر دورِ ما قبل برہان (Pre-Burhan Period) اورما بعدِ برہان (Post-Burhan Period) کے دو اَدوار میں تقسیم کیا جائے تو مناسب ہوگا۔ ان اَدوار کی تقسیم کی کئی وجوہ ہیں۔ جن میں ایک اہم پہلو یہ ہے کہ اب اگر کہیں حکومتی فورسز کی مڈبھیڑ عسکریت پسندوں سے ہوتی ہے تو وہاں پرعسکریت پسندوںکے حق میں عوامی مظاہرین کا سیلاب اُمڈ آتا ہے۔ دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ کشمیری نوجوان، بھارت کے جنگی جنون کو دیکھتے اور اس کے مقابلے میں یہ جانتے ہوئے کہ عسکریت پسندوں کی تعداد محض چند درجن نوجوانوں پر مشتمل ہے، دیگر نوجوان عسکریت کی طرف پے در پے مائل ہورہے ہیں۔ سری نگر کے ایک ہفت روزہ انگریزی اخبارنے حال ہی میں ریاستی پولیس کے اعلیٰ ذرائع کے حوالے سے لکھا ہے کہ: ’’اس سال ۲۵۰ کے قریب عسکریت پسندوں کو مارا گیا لیکن ابھی اتنی ہی تعداد میں سرگرمِ عمل ہیں‘‘۔ جموںو کشمیر کی تحریک میں یہ پیش رفت برہان وانی کے جاں بحق ہونے کے بعد ہی دیکھنے کو ملی ۔ 
۲۰۱۶ ء کی عوامی لہر، کشمیر کی تاریخِ مزاحمت کی طویل مدتی احتجاجی لہر تھی،جو قریباً چھے مہینوں سے زیادہ وقت تک چلی۔ اس دوران اتحادِ ملت کانفرنسوں، ہڑتالوں ، احتجاجی دھرنوں ، شبینہ مظاہروں اور مختلف کثیرالتعداد پُرامن طریقوں سے بھارت کے جابرانہ قبضے کے خلاف ایک منظم آواز اٹھائی گئی۔ اِس پُرامن، جمہوری جدوجہد کو بندو ق کی نوک پردبانے کے لیے بھارتی جمہوریت کی فورسز نے ۱۰۰؍ سے زیادہ نوجوانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ ہزاروں کی تعداد میں مضروب کیے گئے، سیکڑوں پیلٹ (چھروں) سے آنکھوں کی بینائی سے محروم کیے گئے اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ اس دوران بھارت کے متعصب میڈیا نے اس عوامی لہر کے خلاف پروپیگنڈے کا نہ تھمنے والا طوفان کھڑا کر رکھا ہے۔ اس عوامی احتجاجی لہر کو دہشت گردی کا نام دینے کی ناکام کوشش کی گئی ہے۔ پھر اس کو پاکستان کی پشت پناہی سے جوڑاگیا۔ اس کے بعد اوڑی کے فوجی بیس کیمپ پر حملے کی خود کارسازی کی گئی کہ کسی طرح سے عوامی اُبھار کو شوشے کی نذر کیا جائے۔پھر  سرجیکل اسٹرائک کا ہنگامہ گھڑکے عوام کو دھوکا دینے کی ناکامیاب کوشش کی گئی ۔ اُس پر بھی عوامی لہر نہ تھم سکی تو پاکستانی بلتستان کو میڈیا پر ایک فتنے کی صورت پیش کیا گیا۔ اُس سے بھی عوامی احتجاج کا سلسلہ نہ رُک سکا تو پھر آل پارٹی ڈیلی گیشن کے ذریعے مزاحمتی قائدین کے گھروں پر لایعنی دستک دی۔ وہ مستردہوئی تو مزاحمتی قائدین کے خلاف میڈیا کی عدالتیں بٹھاکر اُن کی کردار کشی کرنے میں کوئی کسر باقی نہ رہنے دی۔ 
رات کے اندھیروں میں چھاپوں کا سلسلہ شروع کرکے عوامی و مبنی برحق احتجاجی لہر کو دبانے کی ناکام کوشش ہوئی۔ اس کے بعد متنا ز عہ و اشتعال انگیز بیانات کا سلسلہ چلایاگیا۔ کسی نے کہا کہ: ’’یہ۹۵ فی صد کے خلاف محض ۵  فی صد افراد کی مزاحمتی ہنگامہ آرائی ہے‘‘۔ پھر کٹھ پتلی حکومت کی وزیر اعلیٰ نے ڈھٹائی سے کہا کہ: ’’لوگوں کا حکومتی فورسز کی کارروائیوں میں مرنا درست ہے کیوں کہ وہ وہاں مٹھائیاں لینے کے لیے نہیں جاتے‘‘۔ اسی طرح پاکستان کے ساتھ جنگ کا مفروضہ پیش کرکے لوگوں کو اتنا بہکایا کہ کنٹرول لائن اور اس کے ملحقہ دیہات میں جان کی حفاظت کے لیے مورچے تک کھود ڈالے گئے۔ اسی ضمن میں قومی تحقیقاتی ایجنسی کو میدان میں اُتارا اور مزاحمتی لیڈرشپ وتاجران کو ڈرانے، دھمکانے یا پابند سلاسل کرنے کا گُر آزمایا گیا، مگر پھر بھی عوامی بغاوت میںکوئی کمی واقع نہ ہوئی۔ رفتہ رفتہ کشمیر کی عزت مآب خواتین کے بال تراشنے کے سنسنی خیز عمل کو بھی آزما یا گیا، لیکن کشمیر کے لوگوں نے اس آزمایش سے بھی لڑ کر استبداد کے مذموم مقاصد کو پیوند خاک کیا، اور اپنے مشن کی آبیاری کے لیے ا ٓگے کی طرف بڑھتے چلے گئے۔ 
گذشتہ دوبرسوں کے دوران ان مثالوں سے یہ بات تو واضح ہوگئی ہے کہ بھارت اپنی بے بسی پر سٹپٹا رہا ہے اور اقوام عالم کے ایوانوں میں دھوکا دہی کا معاملہ کر رہا ہے۔۲۰۱۸ ء کا سال اس حوالے سے سخت خون خرابے کی نذر ہو گیا ۔ وردی پوش اہلکاروں نے کشمیریوں کی ایک کثیر تعداد کو جرمِ بے گناہی کی پاداش میں موت کے گھاٹ اُتار دیا۔ بھارتی جمہوریت نے جہاں ڈیڑھ سالہ ہبہ نامی بچی کی معصوم آنکھوں پر پیلٹ گن سے وار کرکے بینائی چھین لی، وہیں خواتین سمیت نوجوانوں اور بزرگوں کی ایک کثیر تعداد کو بھارت کی مختلف جیلوں میں ٹھونس دیا اور مختلف کالے قوانین میں جکڑکر ان سے جینے کا حق چھین لیا گیا ۔ 
ایک غیر سرکاری انجمن کی طرف سے ۱۰ دسمبر۲۰۱۸ء کو ایک تقریب میں جاری کردہ رپورٹ بعنوان خون میں لت پت وادی  میں اعداد و شمار کی زبانی کہا گیا کہ: گذشتہ برس میں وادی میں آٹھ خواتین سمیت ۱۰۳ عام شہریوں کو فورسز اور نامعلوم بندوق برداروں نے نشانہ بنایا، اور   کچھ شہری مظاہروں کی جگہ بارودی مواد پھٹنے کے نتیجے میں زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔ پھر واشگاف الفاظ میں کہا گیا کہ ’’۲۰۱۰ ء کے بعد انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں سنگین اضافہ ہوا ہے‘‘۔ رپورٹ کے مطابق ’’عسکریت پسندوں اور فورسز کے درمیان مختلف خونیں معرکہ آرائیوں کے دوران جاے وقوع کے نزدیک ۴۰ ؍نہتے شہری لقمۂ اجل بن گئے، جب کہ ایک طالبہ اور آٹھ خواتین جن میں ایک حاملہ خاتون بھی تھی، جاں بحق ہوئے۔ علاوہ ازیں نامعلوم بندوق برداروں نے بھی ۱۶شہریوں کو ہلاک کیا اور دو بچوں سمیت آٹھ شہری آتشیں مواد کے پھٹنے سے جاں بحق ہوئے۔ مرنے والوں میں مزاحمتی کیمپ کے سات سیاسی کارکنان بھی شامل ہیں، حتیٰ کہ دماغی طور پر معذور  دو افراد کو بھی نہیں بخشا گیا۔اس دوران احتجاجی مظاہروں میں شریک دونوجوانوں کو فورسز نے گاڑیوں کے نیچے کچل کر ہلاک کردیا۔ کشمیر کے ایک معروف صحافی اور مقامی انگریزی روزنامہ Rising Kashmir کے مدیر اعلیٰ شجاعت بخاری کو نامعلوم بندوق برداروں نے گولیوں کا نشانہ بنایا‘‘۔ 
حکومتی ذرائع اور اخباری اطلاعات کے اعدادوشمار کے مطابق: ’’سال رفتہ میں (۱۷ دسمبر تک) کشمیر میں ۲۵۰ سے زائد عسکریت پسندوں کو جاں بحق کیا گیا، اسی طرح حکومتی فورسز کے ۹۰؍اہلکار بھی ہلاک ہوئے‘‘۔ عسکریت پسندوںمیں صدام پڈر، سمیر ٹائیگر، الطاف کاچرو،   توصیف شیخ، عمر گنائی، نوید جٹ کے علاوہ کئی اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان بھی جاں بحق ہوئے،جن میں پروفیسر رافی، ڈاکٹر منان وانی اور ڈاکٹر سبزار احمد صوفی قابلِ ذکر ہیں ۔
۹؍ دسمبر کو جب انسانی حقوق کا دن منانے کی تیاریاں کی جارہی تھیں، وہیں کشمیر میں سرینگر کے مضافات میں ۲ نوعمر عسکریت پسندوں سمیت ۳ نوجوان جاں بحق ہوئے۔ ان میں ایک کانام مدثر احمد تھا جو محض ۱۴ سال اور نویں جماعت کا طالب علم تھا۔ دوسرا نوجوان ثاقب بلال ۱۷سال کی عمر اور بارھویں جماعت کا طالب علم تھا۔حیران کن طور پر ثاقب بلال نے کشمیر کے مسئلے پر بنائی گئی بالی وڈ فلم ’حیدر ‘ میں کردار بھی ادا کیا تھا۔ ۱۳ دسمبر کو سوپور کے علاقے میں مزید دو عسکریت پسند   جاں بحق ہوئے، جن میں ایک نے سائنس میں گریجویشن کی تھی اور انفارمیشن ٹکنالوجی کے پیشہ ورانہ کورس سے بھی فارغ التحصیل تھے۔ 
اس دوران ۱۵ دسمبر کو کشمیر میں اُس وقت قیامت صغریٰ برپا کر دی گئی، جب ۳ عسکریت پسندوں کے حکومتی فورسز کی کارروائیوں میں جاں بحق ہونے کے بعد علاقے میں عام شہریوں پر براہِ راست فائرنگ کی گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے سات نوجوانوںکو بھارتی افواج نے موت کا نوالہ بنا دیا اور ۶۰سے زیادہ افراد کو زخمی کردیا۔ ان میں ۳۲  سالہ عابد حسین ایم بی اے گریجویٹ تھے اور انڈونیشیا میں روزی کما رہے تھے اور وہیں ایک مقامی لڑکی سے شادی کی تھی۔ عابد اپنے پیچھے بیوی سمیت تین ماہ کی بچی زَیناکو چھوڑ گئے۔ دوسرے نوجوان لیاقت احمد نے گھر سے اسکول کے لیے داخلہ فیس لے کر ضلع پلوامہ کا رخ کیا تھا، لیکن حالات کی خرابی کی وجہ سے گھر کی طرف واپسی کی راہ لی، جہاں وہ گولی کا نشانہ بنے۔تیسرے نوجوان سہیل احمد نے نویںجماعت پاس کرکے حال ہی میں دسویں جماعت میں داخلہ لیا تھا۔ چوتھا نوجوان عامر احمد اپنے والد کا اکلوتا بیٹا تھا ۔ پانچویں نوجوان اویس یوسف بارھویں جماعت میں زیر تعلیم تھے۔ چھٹے نوجوان کی شناخت توصیف احمد کے طور پر ہوئی، جو پانچ بہنوں کے اکلوتے بھائی تھے۔ پھر ساتویں نوجوان عاقب بشیر جو کہ محض ۱۴سال کی عمر اور ساتویں جماعت کے طالب علم تھے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق عاقب بشیر کے والد مقامی ہسپتال سے گزر رہے تھے کہ اُن کو خیال آیا کہ زخمیوں کی عیادت کروں اور خون کا عطیہ دوں۔ وہاں زخمیوں کی حالت زار دیکھتے ہوئے اُن پر اُس وقت قیامت ٹوٹ پڑی، جب وہ وہاں پر اپنے بیٹے کی نعش دیکھ کر چلّا اٹھے کہ ’’یہ ہو چھ میون نیچو ! ‘‘(یہ تو میر ا بیٹا ہے!)۔ عسکریت پسندوں کی شناخت ظہور احمد، عدنا ن حمید اور بلال احمد کے طور پر ہوئی ۔ ظہور احمد نے مقامی آرمی کے ایک یونٹ سے ۲۰۱۷ ء میں فرار ہوکر عسکریت کی راہ اختیار کی تھی۔ ان میں۲۴سالہ عدنان، ۱۹ سالہ بلال بھی تھے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بھارت کب تک یہ خون کی ہولی کھیلتا رہے گا؟ کیاایسی دھونس، دبائو اور جبر و تشدد کی پالیسی سے کشمیریوں کو زیر کیا جا سکتا ہے؟ تاریخ گواہ ہے کہ متنازعہ خطے میں مظالم ڈھانے یا مار دھاڑ کی کارروائیاں عمل میں لانے سے کسی بھی انسان کو آزادی اور انصاف کے حصول سے روکا نہیں جا سکتا۔ پھر، جب کشمیر کے لوگ اپنے حق کی خاطر قربانیاں دینے سے بھی دریغ نہیںکرتے، تو دنیا کی کوئی طاقت ان سے اِس حق کو بھلا دینے کا کیسے تصور کرسکتی ہے؟ اس بات کا قدم قدم پر ثبوت ملتا ہے کہ مقامی لوگ، عسکریت پسندوں اور حکومتی فورسز کے مابین تصادم کی جگہوں پر، عسکریت پسندوں کو بچانے کی خاطر باہر نکل آتے ہیں۔ بہت سے لوگ یہ سوال اُٹھاتے ہیں کہ کشمیر کے لوگ انکاؤنٹر یا تصادم کی جگہوںپر، گولیوں کی گھن گھرج میں کیوں عسکریت پسندوں کو بچانے کی خاطر نکلتے ہیں ؟ اس ’کیوں‘ پر اگر تھوڑا سا غورکیا جائے تو بات یہ سمجھ میں آجاتی ہے کہ عسکریت پسندوںکے ساتھ لوگ اپنی وابستگی کافطری اظہار کرتے ہیں اور اُن سے جذبۂ عقیدت کی خاطر اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر اُن کی جانوں کو بچانا چاہتے ہیں۔ اگرچہ یہ چندنوجوان ہیں جنھوںنے عسکریت کی راہ اپنالی ہے لیکن عام لوگ انھیں اپنے سے دور نہیںسمجھتے، بلکہ تصادم کی جگہوں پر نکل کر وہ اقوامِ عالم کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ: ’’اگرچہ بظاہر یہ چند نوجوان ہی ہیں، لیکن پوری قوم ان کے ساتھ کھڑی ہے۔ اس لیے عسکریت پسندوںکو مارنے کے ساتھ ساتھ پہلے ہمارے سینوں پر گولیاں برسائو‘‘۔
 لوگوںکے اس غیر مبہم رجحان سے اس بات کو بھی تقویت ملتی ہے کہ کشمیر کی پوری قوم بھارت نواز سیاست دانوں سے بے زار ہے۔ بھارت اپنی فوجی طاقت کے بل پر بدمست ہو چکا ہے اور کشمیری قوم کے ساتھ بحیثیت مجموعی بر سرِ جنگ ہے۔ کشمیر کے متعلق دہلی کی پالیسی کاحاصل  اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے کہ ریاست میں حالات اور زیادہ مخدوش ہو جائیں۔ زمینی صورتِ حال اس بات کی گواہ ہے کہ کشمیر کی پوری قوم جابرانہ قبضے کے خلاف اپنا تن، من ،دھن سب کچھ قربان کرنے کے لیے تیار ہے۔ 
کیا یہ بات کسی کی سمجھ میں نہیں آتی کہ عسکریت پسند جب کسی تصادم آرائی میں پھنس جاتے ہیں اور اپنے والدین سے آخری ملاقات کی خاطر فون پر بات کرتے ہیں تو کشمیر کی عظیم مائیں انھیں دلاسہ دیتی ہیں کہ ’’میرے لاڈلے، تم نے نہیں جھکنا، میں نے تمھاری اسی لیے پرورش اور تربیت کی ہے، اسی لیے تو پڑھایالکھایا ہے کہ تیرے سینے پر گولی لگتے دیکھ لوں اور تو اپنے گھر شہادت کا   عظیم مرتبہ پاکر آئے، میں تمھیں دولھے کی طرح سجا کر رب ذُوالجلال کے حوالے کرنے کے لیے تیاربیٹھی انتظار کروں ‘‘۔بیٹا جب ماں سے دنیا میں اس کی کسی حق تلفی کی معافی طلب کرتے ہوئے کہتاہے کہ ’’ماں! اب تو میں بھاگتے بھاگتے تھک گیا ہوں، مجھے تو اللہ پاک کا بلاوا آیا ہے اور ہم وہیں ملیں گے‘‘ تو عزیمت کے اعلیٰ مرتبے پر فائز ماں کہتی ہے کہ ’’ بیٹے! تو مجھے معاف کرنا، مجھے نہیںمعلوم کہ اپنے رب کے راستے میں شہادت دینے کے لیے میں تمھاری تربیت صحیح طور پر کرسکی یا نہیں، میری جان تم پر فدا ہو، جائو! مَیں تم سے وہیں اللہ کی عدالت میںملاقات کروں گی ‘‘۔ 
اپنے مقصد کے لیے نظریاتی و جذباتی وابستگی کی اس انتہا کو دیکھ کر شاید ہی کوئی ذی حِس انسان اس خودفریبی کا شکار ہوسکتا ہے کہ کشمیر کے لوگوں کو دبائے رکھنا ممکن ہے، یا اُن کی آواز کو کچل ڈالنا ، انھیں بدنام کرنا، یا انھیں اُن کے مقصد سے دور کرنے کا کوئی منصوبہ کامیاب ہوسکتا ہے۔ 

ایک امریکی تھنک ٹینک بروکنگز انسٹی ٹیوٹ کے ایک حالیہ تجزیے کے مطابق: ’بھارت میں مئی ۲۰۱۹ء کے عام انتخابات کے دوران موجودہ وزیر اعظم نریندرا مودی کی ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)، ۵۴۳ رکنی لوک سبھا میں ۱۷۹نشستوں تک سمٹ جائے گی‘۔ گویا اگر موجودہ عوامی رجحان برقرار رہتا ہے ، تو۲۰۱۴ء کے مقابلے اس کی ۱۰۷نشستیں کم ہوجائیں گی۔ اسی لیے بھارتی حکمران پارٹی ۲۰۱۹ء میں اقتدار میں اعتماد کے واضح ووٹ (مینڈیٹ) کے ساتھ واپسی کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے۔ پانچ ریاستی انتخابات کے تلخ نتائج کے بعد اس انتہاپسند قیادت کے بیانات میں یہ پیغام واضح انداز میں سامنے آرہا ہے کہ: ’’اب تعمیر و ترقی کے بجاے پاکستان کے نام پر ہندو ووٹروں کو خوف کی نفسیات میں مبتلا کرکے ووٹ بٹورنے ہیں‘‘۔
 فی الحال بی جے پی ، اس کی ذیلی اور مربی تنظیمیں اتر پردیش کے ایودھیا شہر میں مسمار شدہ بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کے حوالے سے ایک عوامی تحریک برپا کرنے کی سوچ بچار میں اُلجھی ہوئی ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اس طرح بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور معیشت کی بے حالی سے توجہ ہٹاکر ہندو ووٹروں کو ایک بار پھر جذباتی نعروں میں الجھا کر کامیابی کے جھنڈے گاڑے جاسکتے ہیں۔ پارلیمان کے موجودہ اجلاس سے قبل بی جے پی کے اراکین خم ٹھونک کر اعلان کر رہے تھے کہ: ’’اس سیشن میں قانون پاس کرواکر رام مندر کی تعمیر کا کام شروع کروایا جائے گا، کیوںکہ سپریم کورٹ نے اس معاملے کی فوری سماعت کرنے سے انکار کر دیا ہے‘‘۔ شواہد واضح طور پر بتاتے ہیں کہ بی جے پی بھی اس قضیے کو سلجھانے کے بجاے عوامی جذبات کی بھٹی تپائے رکھنا چاہتی ہے۔ 
ہندی کے ایک معروف صحافی شتیلا سنگھ نے اپنی کتاب ایودھیا- رام جنم بھومی اور بابری مسجد  تنازعے  کا سچ میں انکشاف کیا ہے کہ: تین عشرے قبل ان کی موجودگی میں پرم ہنس رام چندر داس کی قیادت میں فریقین نے ایک فارمولے پر اتفاق کیا تھا۔ انتہا پسند تحریک ’ویشوا ہندو پریشد‘(VHP) کے سربراہ اشوک سنگھل جب اس فارمولے پر مہر لگانے کے لیے ہندو انتہا پسندو ں کی مربی اور سرپرست تنظیم آرایس ایس کے سربراہ بالا صاحب دیورس کے پاس پہنچے ، تو دیورس کا کہنا تھا:’’ رام مندر تو ملک میں بہت ہیں، اس لیے اس کی تعمیر کی فکر چھوڑ کر اس کے ذریعے ہندوؤں میں اُبھار پکڑتی بیداری کا فائدہ اٹھانا ہی مفید ہوگا‘‘۔ یعنی اگر معاملہ سلجھ جاتا ہے تو پھر فرقہ وارانہ سیاست کی آگ سلگا کر اقتدار تک پہنچنے کا راستہ بند ہوجائے گا۔
جہاں دیدہ تجزیہ کاروں کے مطابق بابری مسجدکا سانحہ اس خطے کی جدید تاریخ کے     چھے بڑے واقعات میں سے ایک ہے۔ پہلا ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی، دوسرا ۱۹۲۰ء میں گاندھی جی کی قیادت میں کانگریس کا نیا آئین اور ’سوراج‘ [آزادی] کا مطالبہ، تیسرا ۱۹۴۷ء میں تقسیم ہند اور آزادی، چوتھا ۱۹۷۱ء میں بنگلہ دیش کا وجود میں آنا‘ اور پانچواں ۱۹۸۴ء میں سکھوں کی مقدس عبادت گاہ گولڈن ٹمپل پرحملہ، اور چھٹا ۱۹۹۲ء میں بابری مسجد کا انہدام، جو دراصل اعتماد کا انہدام تھا۔
سچی بات ہے کہ بابری مسجدکی شہادت میں بھارتی عدلیہ اور انتظامیہ نے بھرپور کردار ادا کرکے اپنی فرقہ وارانہ ذہنیت کا پول کھول دیا، مگر اس کے باوجود آج تک بھارت کو ایک سیکولر اور لبرل ملک کے طور پر مغرب میں پذیرائی حاصل ہے۔ اعتبار کی رہی سہی کسر ۳۰ دسمبر ۲۰۱۰ء کو الٰہ آباد ہائی کورٹ کے تین ججوں کے بنچ نے اس وقت پوری کر دی، جب برسوں فریقین کے دلائل سننے کے بعد اس نے قانون اور شواہد کو بالاے طاق رکھ کر، ایک فریق کے عقیدے اور یقین کو بنیاد بنا کر بابری مسجد پر حق ملکیت کا فیصلہ ہندوئوں کے حق میں سنا دیا۔ بنچ کے ایک جج نے زمین کے بٹوارے کی تجویز دی۔ پھر بنچ نے آگے بڑھ کر ان نکات پر بھی فیصلہ دیا جو بحث میں شامل ہی نہ تھے۔ 
یہ ایک سیدھا سادا سا ملکیتی معاملہ تھا۔ ۱۹۴۹ء میں جب چند فتنہ پرور افراد نے مسجد کے منبر پر مورتی رکھ دی اور مقامی انتظامیہ نے تالہ لگا کر مسجد میں مسلمانوںکے عبادت کرنے پر پابندی لگادی، تو مقامی ’وقف بورڈ‘ اور ایک ذمہ دار فرد ہاشم انصاری نے اس کے خلاف عدالت میں فریاد کی کہ: ’’اس جگہ کی ملکیت طے کی جائے‘‘۔ جج صاحبان نے برسوں کی عرق ریزی کے بعد قانون اور آئین کی پروا کیے بغیرکہا کہ:’’ Law of Limitations  [قانونِ تحدید]کا اطلاق ہندو دیوی دیوتائوں پر نہیں ہوتا ہے اور نہ ان جگہوں پر ہوتا ہے جہاں ان کی نشانیاں موجود ہوں‘‘۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہنا کہ کسی بھی جگہ پر اگر کوئی شخص کوئی مورتی، چاہے وہ پتھرکا ٹکڑا یا کسی درخت کی شاخ یا پتا ہی کیوں نہ ہو، رکھ کر اس پر مالکانہ حقوق جتلا سکتا ہے، چاہے اس جگہ کا مالک وہاں کیوں نہ صدیوں سے مقیم ہو۔ 
اس فیصلے کا اعتبار اس وقت اور بھی زیادہ مضحکہ خیز ہو جاتا ہے، جب جج صاحبان نے یہ تسلیم کرلیا کہ: ’’بھگوان رام کا جنم اسی مقام پر ہوا تھا، جہاں بابری مسجدکا منبر واقع تھا‘‘ اور یہ بھی کہا کہ: ’’ان کے مطابق رام آٹھ لاکھ سال قبل مسیح، اسی جگہ پر موجود تھے‘‘۔ دنیا بھر کے تاریخ دان اور آثارِ قدیمہ کے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ جنوبی ایشیا میں اتنی پرانی آبادی کے کوئی آثار  ابھی تک نہیں ملے ہیں۔ پھر ہائی کورٹ کے جج صاحبان نے اپنے طویل فیصلے میں سیاق و سباق کے برعکس مسلم حکمرانوں کے خلاف ایک لمبا چوڑا تبصرہ بھی تحریر کر ڈالا ہے اور ان کے دور میں ہندو عبادت گاہوں کو نقصان پہنچانے کے عمل کو بھی اپنے فیصلے کی بنیاد بنایا ہے۔
 اگر یہ بات درست مان لی جاتی ہے تو پھر ہندو حکمرانوں کے ہاتھوں لاتعداد بدھ خانقاہوں کی بے حرمتی اور ان کی مسماری کس کے کھاتے میں ڈالی جائے گی؟ کشمیر کے ایک ہندو بادشاہ  ہرش دیو نے اپنے خالی خزانوں کو بھرنے کے لیے جنوبی کشمیر کے مندروں کو لوٹا اور جب پجاریوں نے مزاحمت کی تو ان کو بے دریغ تہہ تیغ کر دیا (جب کہ اس سے قبل ہندوئوں نے بڑے پیمانے پر جین مت اور بدھ مت کے مندروں کو توڑا، برباد کیا تھا)۔ اگر ان تاریخی واقعات کا انتقام موجودہ دور میں لینے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے، تو اس کا اختتام کہیں نہیں ہو گا، کیوںکہ ہر قوم نے، ماضی میں جب وہ غالب رہی، کوئی نہ کوئی ایسی حرکت ضرور کی ہوگی، جو کسی نہ کسی کو تکلیف پہنچانے کا سبب بنی (ہم یہاں ان کہاوتوں، قصوں اور کہانیوں کی تصدیق کی بات نہیں کر رہے، محض انھیں دُہراتے رہنے کی بات کر رہے ہیں)، مگر اب آباواجداد کے گناہوںکی سزا سیکڑوں برس بعد ان کی اولادوں کو تو نہیں دی جا سکتی۔

  • مسجد شہید گنج: بابری مسجد کے قضیے کا لاہورکی مسجد شہید گنج [قائم شدہ: ۱۶۵۳ء] المیے کے ساتھ موازنہ کرنا بے جا نہ ہو گا۔ یہ کیس اور اس پر پاکستانی معاشرے کا رویہ، بھارتی سیکولرازم او ر اس کی لبرل اقدار پر ایک زوردار طمانچہ ہے۔ ۱۷۶۲ء میں لاہور پر سکھوں نے قبضے کے بعد اس مسجد کو فوجیوں کے ڈیرے میں تبدیل کر ڈالا اور بعد میں اس کوگوردوارہ کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا۔ ۱۸۴۹ء میں جب پنجاب برطانوی سامراج کی عملداری میں شامل ہوا، تو مسلمانوں نے اس مسجد کی بحالی اور واگزار کرنے کا مطالبہ کیا۔ پریوی کونسل نے ’قانونِ محدودیت‘ کو بنیاد بنا کر اس کا فیصلہ سکھوں کے حق میں دے ڈالا۔ ۱۷؍اپریل۱۸۵۰ء کو مسجد کے متولی نوراحمد نے بالاتر عدالت میں دادرسی کے لیے فریاد کی اور پھر ۱۸۸۳ء تک کے مختلف دروازوں پر دستک دیتے رہے، مگر ہر بار ’قانونِ محدودیت‘ کا حوالہ دے کر عدالتیں ان کی اپیلوں کو خارج کرتی رہیں۔ 

۱۹۳۵ء میں انگریز گورنر نے اس عمارت کو محکمہ آثار قدیمہ کے سپرد کرنے کی تجویز دی، جس پر ابھی راے عامہ ہموار ہو ہی رہی تھی کہ ۷جولائی کو سکھوں نے رات کے اندھیرے میں مسجد کی عمارت ڈھا دی۔ جب اس جارحانہ اور حددرجہ اشتعال انگیز اقدام پر تاریخی بادشاہی مسجد لاہور سے مسلمانوں نے ۲۰جولائی احتجاجی جلوس نکالا تو ایک درجن سے زیادہ مسلمان مظاہرین کو پولیس نے گولیوں کی بوچھاڑ سے شہید کردیا۔ پورے لاہور میں کرفیو نافذکرنا پڑا۔ عدالتی فیصلے کو رد کرنے کے لیے مسلم لیگ کے ارکان نے پنجاب اسمبلی میں قانون سازی کے ذریعے یہ جگہ مسلمانوں کے سپرد کرنے کی تجویز پیش کی۔ معروف قانون دان اے جی نورانی کے بقول: ’قائد اعظم محمد علی جناح نے اس تجویز کو رد کر دیا ‘۔ قائد اعظم کے شدید ناقد ہونے کے باوجود نورانی صاحب کا کہناہے کہ: ’’انھوں نے اس قضیے کو کبھی سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہیںکیا، بلکہ قانون کی عمل داری کا پاس کیا‘‘۔ 
پاکستان بننے کے ۷۲سال بعد آج بھی یہ گوردوارہ لنڈا بازار میں موجود ہے،جب کہ شاید ہی اب کوئی سکھ اسے عبادت کے لیے استعمال کرتا ہو۔ لاہور میں جس طرح اس مسئلے نے جذباتی رخ اختیار کیا تھا، آزادی کے بعداندیشہ تھاکہ اس کو دوبارہ مسجد میں تبدیل کیا جاسکتا ہے، مگر کسی پاکستانی سیاست دان یا پاکستان کی کسی مذہبی شخصیت نے عدالت کا فیصلہ رد کرنے کی کوشش نہیں کی [طرفہ تماشا دیکھیے کہ سیکولر، لبرل مخلوق پاکستان ہی کو عدم برداشت کا طعنہ دیتی ہے]۔ اس کے برعکس بھارتی عدلیہ کی جانب داری کا عالم یہ ہے کہ ایک سابق چیف جسٹس جے ایس ورما نے ’ہندوتوا‘ کو مذہبی علامت کے بجاے بھارتی کلچرکی علامت اور ایک نظریہ زندگی قرار دے ڈالا ہے۔ انھوں نے ہندو انتہا پسندوںکے گورو ویر ساورکر اور گولوالکر کی تصانیف کے بجاے ’روشن خیال‘ مولانا وحیدالدین خان کی تحریروںپر تکیہ کر کے ہندو انتہا پسندی کو جواز فراہم کردیا۔ ۱۹۹۲ء میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس وینکٹ چلیا کے طریق کار نے بھی بابری مسجد مسمارکرنے کی راہ ہموارکی۔ وہ مسجد کو بچانے اور آئین و قانون کی عمل داری کو یقینی بنانے کے بجاے کار سیوکوں (مسجد کو مسمار کرنے والے) کی صحت کے بارے میں زیادہ فکرمند نظر آئے۔ غالباً یہی وجہ تھی کہ ۱۹۹۸ء میں بی جے پی حکومت نے ان کی فکری خدمات کے اعتراف میں انھیں ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیشن کا سربراہ مقرر کر دیا۔
اے جی نورانی صاحب نے اس موضوع پر اپنی کتابDestruction of Babri Masjid:A National Dishonour (بابری مسجد کا انہدام: قومی روسیاہی)میں کئی حقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ: ’’کانگریس کے اندرا گاندھی دورِ اقتدارمیں ہی  بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر کی تعمیر کی راہ ہموار کرنے کے لیے ویشوا ہندو پریشد کے ساتھ سازباز ہوگئی تھی۔اگرچہ پریشد نے اندرا گاندھی کی ہلاکت کے بعد اپنی تحریک روک دی، مگر راجیو گاندھی نے اس کو پھر زندہ کیا۔تاہم ، اس سے پہلے وہ مسلمانوں پر کوئی احسان کرنا چاہتے تھے۔اس کے لیے ان کے حواریوں نے ایک مسلم مطلقہ خاتون شاہ بانو کا قضیہ کھڑا کیا اور پارلیمنٹ سے ایک قانون پاس کروایا کہ مسلم پرسنل لا میں عدالت کوئی ترمیم نہیں کر سکتی‘‘۔
مصنف کے بقول: ’’انھوں نے راجیو گاندھی کو مشورہ دیا تھا کہ اس قضیے کو کھینچنے کا کو ئی فائدہ نہیں ہے، اور اس کو اینگلو محمڈن قانون کے بجاے شرعی قانون کے مطابق حل کیا جاسکتا ہے ،مگر وہ مسلمانوںکو سیاسی بے وقوف بنانے پر تلے ہوئے تھے، تاکہ پریشد کے ساتھ معاملہ فہمی کو آگے بڑھایا جاسکے، اور پھر یہی ہوا۔کانگریس کے علاوہ دیگر سیکولر جماعتوں سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی، جن کی سانسیں ہی مسلمانوں کے دم سے ٹکی ہیں، ان سبھی کا رویہ افسوس ناک رہا ہے۔  ان دونوں پارٹیوں نے ،جو پچھلے ۲۰برسوں سے اتر پردیش میں حکومت کر رہی ہیں ،بابری مسجد کی مسماری کے ملزمان کے خلاف کارروائی کرنے میں کوئی دل چسپی نہیں دکھائی۔حتیٰ کہ ایک معمولی نوٹیفکیشن تک کا اجرا نہیں کرسکیں، جس سے خصوصی عدالت میں ان افراد کے خلاف مقدمہ چلایا جا سکتا‘‘۔

ایک عرصہ قبل ایک ہندو دوست اپنی فیملی کے ساتھ چھٹیاں منانے کشمیر جا رہا تھا۔ جانے سے قبل ہچکچاتے ہوئے اس نے کہا کہ : ’’میرا ۱۴سالہ بیٹا، جو دہلی کے ایک اعلیٰ اسکول میں زیر تعلیم ہے، مسلمانوں کے بارے میں عجب و غریب خیالات رکھتا ہے، اور ان کو ایک طرح سے عفریت سمجھتا ہے۔ میرا جی چاہتا ہے کہ میرا بیٹا کچھ وقت کسی مسلم فیملی کے ساتھ گزار کر مسلمانوں کے بارے میں خود مشاہدہ کرسکے‘‘۔ اس خواہش کے احترام کے لیے سرینگر میں ہمارے ایک دوست نے میزبانی کا بیڑا اٹھایا ۔ فیملی اور بچوں کے ساتھ چند روز گزارنے کے جب و ہ واپس دہلی وارد ہوا، تو اس لڑکے میں ایک انقلابی تبدیلی آچکی تھی۔ اس کے ساتھ میرا اکثر مکالمہ اور تعامل ہوتا تھا۔ بعد میں اس کے والد نے مجھے بتایا کہ: ’’نہ صرف میرے صاحبزادے بلکہ خود میری اپنی کئی غلط فہمیاں دُور ہوگئی ہیں جنھوں نے ہمارے ذہنوں کو مکڑی کے جالے کی طرح جکڑ رکھا تھا‘‘۔

حال ہی میں دفتر میں میری ایک شریکِ کار نے بتایا کہ ان کے والد ، جو ممبئی کے ایک نامور بزنس مین ہیں، مسلمانوں کو پاس نہیں آنے دیتے۔ اگرچہ کام کے سلسلے میں اکثر ان کا واسطہ مسلمان کاریگروں ہی سے ہوتا ہے، مگر وہ زیادہ سے زیادہ گھر کے برآمدہ تک ، یا ان کے دفتر میں ان کے کیبن کے باہر اپنے معاملات کو نبٹانے آسکتے ہیں۔ اس کا کہنا تھا کہ: ’’تم واحد مسلمان ہو  جس سے میرے والد خوش اخلاقی اور گرم جوشی کے ساتھ ملتے ہیں‘‘۔ اب مجھے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اس کو اپنی تعریف سمجھوں یا اپنے مسلمان بھائیوں کی توہین کے طور پر لوں۔

مشہور بھارتی دانش ور اور صحافی سعید نقوی نے اپنی کتاب Being the Other  میں کچھ اسی طرح کے مشاہدات کا ذکر کیا ہے۔ ان کی اصل کتاب انگریزی میں پچھلے سال منظر عام پر   آئی تھی، تاہم اس کا اُردو ترجمہ وطن میں غیر ہندستانی مسلمان  کا اجرا چند روز قبل دہلی میں سابق نائب صدر حامد انصاری نے کیا۔نقوی صاحب رقم طراز ہیں کہ: ’’ایک بار الٰہ آباد یونی ورسٹی میں لیکچر دیتے ہوئے مَیں نے سامعین سے سوال کیا کہ کتنے ہندو طالب علم یا اساتذہ ، کبھی کسی مسلم ساتھی کے گھر گئے ہیں یا قریب سے مسلمانوں کو جاننے کی کوشش کی ہے؟ تو میرے اس سوال کا کسی کے پاس جواب نہیں تھا۔ چند ایک نے کہا کہ ان کے والد یا دادا اُردو اور فارسی جانتے تھے جو ان کے مذہبی تعصب سے آزاد ہونے کی شہادت تھی، مگر مجھ پر قدم قدم پہ یہ حقیقت منکشف ہوئی کہ ہم عشروں سے نسلی تفریق اور غیریت کی حالت میں جی رہے ہیں اور اس کو تسلیم بھی نہیں کرتے ہیں‘‘۔

 سعید نقوی بھار ت کے ان گنے چنے مسلمانوں میں سے ہیں، جنھوں نے ذاتی طور سے بہت کامیاب زندگی گزاری۔ پانچ عشروں پر محیط اپنے صحافتی کیریر کے دوران وہ مقتدر انگریزی اخبارات اسٹیٹسمین اور انڈین ایکسپریس کے مدیر رہے۔ ان کی بیٹی صبا نقوی اور بھائی جاوید نقوی نے بھی صحافت کی دنیا میں خاصا نام کمایا ہے، مگر ان پانچ دہائیوں میں شاید ہی کبھی ان کو اپنی شناخت کا مسئلہ درپیش آیا ہوگا۔ ایک لبر ل مسلمان، جو بھارت کے سیکولر کلچر میں رچ بس گیا ہو، جن کے گھر پر عید اور محرم کے ساتھ ساتھ دیوالی اور ہولی بھی اتنے ہی تزک و احتشام کے ساتھ منائی جاتی ہو، جن کی بیٹی، بھائی ، بھانجی اور دیگر قریبی رشتہ داروں نے ہندو خاندانوں میں شادیاں کی ہوں، اگر وہ اب اپنے آپ کو ’غیر‘ محسوس کرتے ہوں، تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عام مسلمان کا کیا حال ہوگا۔

بھارت میں مسلمان کس حد تک سیاسی طور پر بے وزن ہوچکے ہیں؟ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کانگریس کے مقتدر لیڈر اور ایوان بالا میں قائد حزب اختلاف غلام نبی آزاد نے حال ہی میں شکوہ کیا کہ: ’’میری پارٹی کے ہندو اراکین اب مجھے اپنے حلقوں میں جلسے اور جلوسوں میں مدعوکرنے سے کتراتے ہیں‘‘۔ لکھنؤ میں علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے فارغ التحصیل طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے مذکورہ لیڈر نے دل کے پھپھولے پھوڑتے ہوئے کہا: ’’۱۹۷۳ء میں کانگریس میں شمولیت کے بعد سے لے کر آج تک میں نے ہر انتخابی مہم میں شرکت کی ہے اور ہندو لیڈر، مجھ کو اپنے انتخابی حلقوں میں لے جانے کے لیے بے تاب ہوا کرتے تھے۔ پہلے جہاں جلسے جلوسوں میں مجھ کو مدعوکرنے کے لیے ۹۵فی صد درخواستیںہندو لیڈروں کی آتی تھیں، اب پچھلے چار سالوں میں سکڑ کر محض ۲۰فی صد رہ گئی ہیں‘‘۔ غلام نبی آزاد، جموں کشمیر ، ضلع ڈوڈہ میں ایک مقامی کانگریسی لیڈر کے گھر پیدا ہوئے ، مگر اپنی انتخابی زندگی کا آغاز۱۹۸۰ء میں مہاراشٹر کے ہندو اکثریتی   لوک سبھا حلقہ واسن سے کیا۔ وہ ۱۹۸۴ء میں دوبارہ اسی سیٹ سے منتخب ہوئے۔ اکثر فخر سے یہ کہتے تھے کہ: میرا سیاسی کیریئر اقلیتی سیاست کے بجاے بھارت کے سیکولر ہندو اکثریت کا مرہونِ منت ہے۔ ۲۰۰۵ء اور ۲۰۰۸ء تک جموں و کشمیر کے وزارت اعلیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے علاوہ آزاد نئی دہلی میں سینیر مرکزی وزیر اور کانگریس کی اعلیٰ فیصلہ ساز مجلس، کانگریس ورکنگ کمیٹی کے برسوں ممبر اور پارٹی کے جنرل سیکرٹری رہے ہیں۔ من موہن سنگھ کی قیادت میں کانگریس حکومت میں مرکزی وزیر صحت کے عہدے پر بھی فائز رہے ہیں۔

 ایک روز صبح سویرے ان کا فون آیا کہ کسی وقت ان سے دفتر میں آکر مل لوں۔ کشمیر ٹائمز کے دہلی بیورو میں کام کرنے کی وجہ سے ان کو کور کرنا میری پیشہ ورانہ ذمہ داری (beat)کا ایک حصہ تھا۔ آفس جاتے ہوئے میں نرمان بھون میں وزارت صحت کے ہیڈ کوارٹر پہنچا اور ان کے پرسنل سیکریٹری راما چندرن کا دروازہ کھٹکھٹایا، جس نے مجھے انتظار گاہ میں بیٹھنے کے لیے کہا۔ جنوبی بھارت کا یہ نوجوان خاصا نک چڑھا ملازم تھا۔ میں نے دیکھا کہ وزیر موصوف کے کمرے کے باہرسبز بتی جل رہی تھی، جس کا مطلب تھا کہ وہ کسی میٹنگ میں مصروف نہیں ہیں ۔ میں نے دیکھا کہ راما چندرن جی انتظار گاہ میں آنے والے افراد کو ایک ایک کرکے یا وفد کی صورت میں وزیر کے کمرے میں لے جارہے تھے۔ میں نے ان کو یاد دلایا کہ وزیر موصوف نے خود مجھے بلایا ہے۔ قریباً ایک گھنٹے تک نظر انداز کرنے کے بعد موصوف نے مجھے اپنے کمرے میں بلا کر پرسوں ملاقات کے لیے آنے کو کہا۔ میرے بار بار کے اصرار پر وجہ یہ بتائی کہ: ’’آج ملاقاتیوں کی لسٹ میں مسلمان نام کچھ زیادہ ہیں۔ ہمیں وزیر سے ملنے والوں میں توازن رکھنا پڑتا ہے۔ آپ کو معلوم ہے کہ ہم ایک سیکولر ملک میں رہتے ہیں اوراس کا تقاضا ہے کہ وزیر سے ملنے والوں کی لسٹ بھی سیکولر ہو۔ آج کی لسٹ میں ہندو ملاقاتیوں کی تعداد کچھ کم ہے‘‘۔ راما چندرن کی یہ وضاحت سن کر  مَیں چکرا گیا۔ لیکن جاتے جاتے ان کو بتایا کہ: ’’آزاد صاحب خاص طور پر اس وقت وزارتی کونسل میں صرف مسلمان اور کشمیر ی ہونے کی حیثیت سے وزیر ہیں‘‘۔

 پچھلے سال وزیر اعظم نریندر مودی کے آبائی صوبہ گجرات میں کانگریس نے بی جے پی کو ہروانے کے لیے جہاں پوری قوت جھونک دی تھی، وہیں کارکنوں کو باضابط ہدایت دی گئی تھی کہ اسٹیج پر کوئی مسلم لیڈر براجمان نہ ہو۔ حتیٰ کہ گجرات سے کانگریس کے مقتدر لیڈر اور سونیا گاندھی کے سیاسی مشیر احمد پٹیل کو پس پردہ رہنا پڑا۔ امیدوارں کو بتایا گیا تھا کہ وہ مسلم محلوں میں ووٹ مانگنے نہ جائیں اور جلسے ، جلوسوں میں لمبی داڑھی اور ٹوپی والوں کو اگلی صفوں میں نہ بٹھائیں۔ کچھ اسی طرح کی حکمت عملی کانگریس اب ۲۰۱۹ء میں ہونے والے عام انتخابات میں اپنا رہی ہے۔ کانگریس کے صدر راہول گاندھی کا خیال ہے کہ انتخابی مہم کے دوران مندروں اور مٹھوں میں جاکر آشیر واد لینے سے وہ خود کو مودی سے زیادہ ہندو ثابت کرکے بی جے پی کے ہندو ووٹ بنک میں نقب لگا سکیں گے۔ پارٹی کے اندر سے یہ خبریں بھی اب چھن چھن کر آرہی ہیں کہ مسلم لیڈروں کو بتایا گیا ہے کہ: ’’انتخابات میں آپ ٹکٹ یا مینڈیٹ کے حصول کے لیے تگ و دو نہ کریں اور حلقے کے لیے کسی مضبوط سیکولر ہندو امیدوار کر ترجیح دے کر اس کو کامیاب بنائیں‘‘۔ جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اس طرح اگلی پارلیمان میں مسلمانوں کی سیاسی نمایندگی مزید کم ہوجائے گی۔

نریندر مودی اور ان کے دست راست بی جے پی کے صدر امیت شاہ نے تقریباً طے کیا ہے کہ: ’’بگڑتی ہوئی معیشت، بے روزگاری اور کرپشن سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے پولارائزیشن [مسلمانوں سے نفرت کو پھیلانا ہی] بہترین ہتھیار ہے۔ ہندو کو مسلمانوں کا خوف دلاکر ان کو یک جا کرکے مسلم ووٹ بنک کی ہوا نکالی جائے۔ ہندو انتہا پسندوں کی مربی تنظیم راشٹریہ سیویم سیوک سنگھ، یعنی آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت کے اتر پردیش کے شہر ایودھیا میں مسمار شدہ بابری مسجد کی جگہ ایک عالی شان رام مندر کی تعمیر کے لیے قانون سازی کی تجویز پیش کرکے اس کو ایک انتخابی موضوع بنانے کا عندیہ دے دیا ہے۔ انتہاپسند ہندو حلقے اس لیے بھی تلملائے ہوئے ہیں کہ نئے چیف جسٹس رنجن گوگوئی نے اس معاملے کی تیزی سے سماعت کرنے سے انکار کیا ہے۔ان انتہاپسندوں کا منصوبہ تھا کہ جب سپریم کورٹ میں اس مقدمے کی سماعت شروع ہوگی تو کارروائی کے دوران دلائل اور شواہد کی میڈیا کے ذریعے تشہیر کرکے ایشو کو انتخابات تک خوب گرم رکھا جائے گا، لیکن چیف جسٹس نے کم از کم اس منصوبے پر تو پانی پھیر دیا ہے۔ اسی طرح کشمیر میں    بے یقینی کی آگ جلائے رکھنا، ملک میں ہندوؤںکو خوف کی نفسیات میں مبتلا کرکے پولارائزڈ [متحارب اور نفرت بھرا] ماحول برقرار رکھنا بھی بی جے پی کے انتخابی منصوبے کا حصہ معلوم ہوتا ہے۔ جس کی وجہ سے مسلمانوں میں تعلیم و ترقی کے بجاے عدم تحفظ کا احساس زیادہ گھر کر گیا ہے، جوایک خطرناک علامت ہے۔

آج کے بھارت میں مسلمانوںکی سیاسی حالت اس قدر ناگفتہ بہ ہے کہ اس کی تفصیل بیان کرنا ہرگز مشکل کام نہیں ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو پتا ہے کہ مسلمان ان کے امیدوار کو ووٹ نہیں دیتا اس لیے اسے ان کی کوئی پروا نہیں۔ اس کے لیڈروں کی کوشش ہوتی ہے کہ مسلم ووٹ تقسیم در تقسیم اور ہندو ووٹ یک جا ہو۔ ادھر سیکولر پارٹیوںکو معلوم ہے کہ آر ایس ایس یا  بی جے پی کے مقابلے میں مسلمان کہاں جائے گا، ووٹ تو بہرحال انھی کو ملنا ہے، اس لیے وہ بھی ان کے سماجی اور اقتصادی مسائل کو حل نہیں کرتے۔

سعید نقوی، غلام نبی آزاد اور احمد پٹیل جیسے مقتدر مسلمان لیڈران کرام، جنھیں بھارت کے سیکولر چہرہ کو وقار بخشنے کے لیے اکثر رول ماڈل کے بطور پیش کیا جاتا تھا ، جن کو عام مسلمان پہلے سے ہی ’سرکار ی مسلمان‘ کے نام سے نوازتا تھا ، اب وہ مسلمان بھی اپنے آپ کو سسٹم سے کٹا ہوا محسوس کرتے ہیں۔ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے سابق وائس چانسلر لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) ضمیرالدین شاہ نے حال ہی میں اپنی شائع کردہ سوانح حیات کا عنوان ’ سرکاری مسلمان ‘رکھا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ: بدقسمتی سے ان کا سامنا کئی ایسے کامیاب مسلمانوں سے ہو ا ہے جو اپنے سیکولرہونے کا بھرم رکھنے کے لیے مسلم فرقہ اور معاشرت سے دُور رہنا پسند کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک مسلم افسر کو اپنی کمیونٹی کے مفاد اور اپنی نوکری کے درمیان خاصی باریک اور تنی ہوئی رسی پر چلنا پڑتا ہے۔ اس طرح اکثر اپنی نوکری کو ترجیح دے کر اپنے ہم مذہبوں کے ساتھ امتیازی سلوک کرتے ہیں۔ 

جنرل ضمیرالدین شاہ کا کہنا ہے کہ جب میرے والد کو بحیثیت ایڈمنسٹریٹر اجمیر بھیجا گیا تو وہاں مسلمانوں کا رد عمل تھا کہ ایک اور ’سرکاری مسلمان‘ آگیا ۔ مطلب پوچھنے پر والد نے بتایا کہ جب کوئی مسلمان کسی بڑے سرکاری عہدے پر پہنچ جاتا ہے تو لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ اب ان کا خیر خواہ نہیں رہا ، اب یہ حکومت کی زبان بولے گا اور عام مسلمانوں سے کٹ کے رہے گا‘‘۔ جنرل ضمیر کا مزید کہنا ہے کہ ۱۹۷۰ء میں بحیثیت فوجی افسر جب مَیں علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کی ایک اسپورٹس ٹیم کی مسوری میں میزبانی کر رہا تھا، تو مَیں نے مسلمان ٹیم ممبران کو فوج میں شامل ہونے کی ترغیب دی۔ کئی روز کے بعد جب یہ ٹیم واپس جارہی تھی تو مَیں نے ان سے معلوم کرنے کی کوشش کی کہ تعلیم کے بعد اب کیا آپ فوج میں بھرتی ہوں گے؟ تو جواب میں کسی نے بھی ہامی نہیں بھری۔ جب ان سے سوال کیا کہ کیا مَیں آپ کو قائل نہیں کرسکا؟ تو سبھی کا مشترکہ جواب تھا: ــ’’آپ تو سرکاری مسلمان ہیں۔ آپ کی بات پر کیسے بھروسا کرسکتے ہیں‘‘۔

نقوی اور ضمیر الدین شاہ کی کتابوں میں ایک نہایت گہری، سچی، تلخ اور بڑی تکلیف دہ ٹیس بیان کی گئی ہے، جو تقریباً ایک صدی قبل قائد اعظم محمد علی جناح نے محسوس کرکے اور پھر کانگریس کو الوداع کہہ کے متعین کی تھی۔ نقوی صاحب کاماننا  ہے کہ ایسا نہیں ہے کہ تعصب کوئی نئی بیماری ہے۔ ۱۹۶۰ء میں جب وہ دہلی میں روزنامہ انڈین ایکسپریس میں کام کرنے آئے تو انھیں گھر نہیں مل رہا تھا تو کلدیپ نیر نے مدد کرکے گھر دلادیا۔ مگر نقوی صاحب کا کہنا ہے کہ    اب گھر نہ دینے والوں اور گھر دلانے پر بضد لوگوں کے درمیان تناسب مسلسل کم ہوتا چلا گیا ہے۔ یہ منظرنامہ بتا رہا ہے کہ مسلمانوں کو دھیرے دھیرے اپنے ہی وطن میں ’غیر ‘ بنا دیا گیا ہے۔  کتاب کے مطابق بھارتی مسلمان ’سہ گانہ‘ (Triangle) میں پھنسے ہوئے ہیں۔ جس کے تین حصے کچھ اس طرح ہیں: ٭ہندی مسلم، ٭بھارت ٭پاکستان اور کشمیر ___ ان تینوں کو حل کیے بغیر مثلث کا مسئلہ حل نہیں ہوگا،مگر پاکستان سے اگر صلح ہوجائے تو ہندو انتہا پسندوں کے پاس سیاست کرنے کے لیے ایشو ختم ہوجائے گا۔ 

نقوی صاحب کے بقول بڑے شہری مراکز میں ہندو قوم پرست بی جے پی اور سیکولر کانگریس کے مابین فرق مٹ چکا ہے۔ ان کے درمیان جو دھوکے کا پردہ ۱۹۴۷ء سے حائل تھا وہ بے نقاب ہوچکا ہے۔ آبادی کے اجتماعی رویے میں، ان کے سیاسی نظریات سے قطع نظر یکساں نوعیت کی فرقہ واریت سرایت کرچکی ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ مسلمان اپنے خول میں سمٹتا جارہا ہے۔ غیرنسل پرست ہندو بھی بھونچکا رہ گئے ہیں۔ بقول نقوی صاحب: جہاں کہیں ممکن ہوتا ہے مَیں ’سیکولر ‘ کی اصطلاح سے اجتناب کرتا ہوں ، کیوںکہ اس لفظ کی حُرمت کو بہت زیادہ پامال کیا گیا ہے۔ المیہ تو یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ ایک ایسا پلیٹ فارم بن گئی ہے جس پر ہندو قوم پرستی تعمیر کی جارہی ہے۔ اور اب یہ کوئی معمولی اتفاق نہیں کہ ہزاروں مسلم نوجوانوں کو جھوٹے الزامات میں گرفتار کیا جاتا ہے اور اکثریتی ہندو فرقے کو ان بے گناہوں سے ذرا بھی ہمدردی نہیں ہے۔ گویا فرض کرلیا گیا ہے کہ خواہ ان کے خلاف کوئی شہادت نہ ہو تب بھی محض مسلمان ہونے کی وجہ سے وہ مجرم ہیں۔ پس ماندہ مسلم بستیوں میں رہنے والوں کے اندر سلگتی ہوئی شکایتوں سے ذہنوں کے اندر خلیج تقویت پاتی ہے۔ بھارت اور پاکستان میں کرکٹ کا کھیل ہو یا امریکی انتخابات، ہر مسئلے پر خیالات ایک دوسرے کے برعکس ہوتے ہیں۔

نقوی صاحب کا مزید کہنا ہے کہ ان پر ایک اور حقیقت منکشف ہوئی ہے کہ جہاں کوئی مسلمان اعلیٰ عہدے تک پہنچتا ہے وہ اپنی مسلم برادری کے افراد کی مدد کرنے سے منہ موڑتا ہے، مبادا اس پر ’فرقہ پرست‘ ہونے کا لیبل نہ لگا دیا جائے۔ شاید اس سے قبل صورت حال اتنی خراب نہیں تھی۔اب کوئی دن نہیں گزرتا جب کوئی بھارتی، مسلمانوں کی شہریت پر سوال نہ اُٹھائے، حتیٰ کہ فلمی دنیا تک میں بھی مذہب کو بخشا نہیں گیا ہے۔ جب ۲۰۱۵ء کے اواخر میں اس دنیا کے دو افراد نے فرقہ وارانہ زیادتیوں کے بڑھتے ہوئے رجحان کے خلاف آواز اٹھائی تو دونوں کو ہندو اکثریت کے غضب ناک ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔ چند تنظیموں نے تو مطالبہ کیا کہ ان اداکاروں کے خلاف غداری کا مقدمہ چلایا جانا چاہیے۔نقوی صاحب کے خاندان کا ایک بڑا حصہ پاکستان میں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اب پاکستان میں رشتہ داروں سے ملنا بھی خطرے سے خالی نہیں ہے۔ بھارتی وزارت خارجہ میں ان کے ایک دوست نے ان کو مشورہ دیا کہ اب اپنے اقارب کو بھول جائیں۔ ان کا کہنا ہے کہ عملی طور پر میں ا ن سب کو بھول چکا ہوں، مگر ایک حسرت ہے، سو وہ بھی چند نسلوں میں ختم ہوجائے گی۔

یہ تو ایک حقیقت ہے کہ ۱۸۵۷ءکے بعد ہی سے مسلمانوں کو انگریز حکمرانوں نے دشمن سمجھ کر’ غیر‘ تصور کرنا شروع کیا تھا، مگر۱۹۴۷ء میں تقسیم کے بعد جہاں مسلمانوں کو پاکستان کی شکل میں ایک ملک ملا، وہیں بھارت میں رہنے والی ایک کثیر آبادی کو پاکستان کی تخلیق کا ’ذمہ دار‘ ٹھیرا کر ایک مستقل ’احساس جرم‘ میں مبتلا رکھتے ہوئے ’غیر ‘بنا دیا گیا۔ اب تو حال یہ ہے کہ پچھلے چار برسوں میں دہلی میں اورنگ زیب روڑ کا نام تبدیل ہوگیا ہے۔ گورکھپور کا اردو بازار، ہندو بازار ہوگیاہے، ہمایوں نگراب پچھلے سال ہنومان نگر ہوگیا، اتر پردیش اور بہار کی سرحد پر تاریخی مغل سرائے شہر دین، دیال اپدھائے نگر ہوگیا اور مغل شہنشاہ اکبر کا بسایا ہوا الٰہ آباد اب پریاگ راج ہوگیا ہے۔ احمد آباد کو اب کرناوتی نگر بنانے کی تیاریاں چل رہی ہیں۔

لوگ کہتے ہیں کہ تاریخ مٹائی نہیں جاسکتی، مگر یہاں تو تاریخ مسخ ہورہی ہے۔ یہ مٹتے ہوئے نام ، مسخ ہوتی تاریخ مسلمانوں کی آنے والی نسلوں سے خود اعتمادی چھین کر احساس کمتری میں دھکیل دے گی۔کیوںکہ یہ صرف نام نہیں تھے بلکہ مسلمانوں کے شان دار ماضی کی جھلک تھی ، جو ثابت کرتی تھی کہ مسلمان اس ملک میں کرایے دار نہیں بلکہ حصہ دار اور اس کی تاریخ کا حصہ ہیں۔ لیکن شاید غیر محسوس طریقے سے ۱۵ ویں صدی کے اواخر کے اسپین کے واقعات دہرائے جا رہے ہیں۔ غالباً بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کی تاریخ کو قصۂ پارینہ بنایا جائے گا۔ اسلام سے وابستگی اور مسلم شناخت کو زندہ جاوید رکھنے کی جدوجہد کرنی پڑے گی۔ مسلمان لیڈروں کو بھی اپنے اندر جھانک کر فیصلہ کرنا ہوگا کہ کیا سیکولر پارٹیوں کا دم چھلہ بن کر وہ قوم کا بھلا کرسکتے ہیں؟کیا ابھی وقت نہیں آیاکہ ایک متبادل حکمت عملی تیار کرنے پر سنجیدہ غور و خوض کیا جائے؟

جموں و کشمیر کی موجودہ صورتِ حال نہایت سنگین ہے۔ نہ صرف سیاسی بلکہ انتظامی اعتبار سے بھی صورتِ حال نہایت مخدوش نظر آرہی ہے۔ یکے بعد دیگرے کئی خونیں جھکڑوں سے عوام کو دوچار ہونا پڑ رہا ہے ۔ اکتوبرکے مہینے سے لے کر اب تک (۲۰ نومبر ) ۴۱ عسکریت پسند وں کے ساتھ ساتھ ۲۰شہریوں کو مارا گیا ، جن میں ایک چھے مہینے کی حاملہ خاتون بھی شامل ہے ، جو ایک نہیں بلکہ دو جانیں تھیں۔ خونیں مہینوں کے اس نہ تھمنے والے سلسلے نے عوام کو آہوں اور سسکیوں میں  ماتم کناں چھوڑ دیا۔اِدھر حکومتی ذرائع کے مطابق وادی کشمیر میں ’گذشتہ ۱۰ مہینوں میں ۱۶۴ نوجوانوں نے مختلف عسکریت پسندوں کی صفوں میں شرکت کی‘۔ اور انداز ہ لگایا گیا ہے کہ سالِ رواں میں وادی میں سرگرم جنگجوئوں کی تعداد ۳۵۰/۴۰۰  تک پہنچ سکتی ہے۔

۲۱؍ اکتوبر کو کولگام ضلعے کے لارو گائوں میں تین عسکریت پسندوں کے قتل کے بعد مظاہرین اور حکومتی فورسز کے درمیان پُر تشدد کارروائیوں میں ۲۵عام شہری گولیوں اور پیلٹ چھروں سے بُری طرح زخمی ہوئے۔ جس مکان میں عسکریت پسند چھپے ہوئے تھے، اس کو بھی بارودی مواد سے زمین بوس کر دیا گیا۔ جیسے ہی مقامی لوگ مکان کی طرف آگ بجھانے کے لیے بھاگے تو مکان کے ملبے میں موجود ایک طاقت ور بم زوردار دھماکے سے پھٹ گیا، جس کی زد میں آگ بجھانے والے ہی آگئے ، اس طرح سات انسا نی جانیں تلف ہو گئیں۔ مواصلاتی نظام کو بھی ضلعے بھر میں بند کر دیا گیا، اور پھر مزید اضلاع میں انٹرنیٹ سہولت پر پابندی لگا دی گئی۔

جس طرح سے کشمیری اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان انتہائی اقدامات کی طرف مائل ہورہے ہیں ممکن ہے کہ یہ بات بھارت اور اِس کے ہم نوائوں کے لیے باعث تشویش نہ ہو، لیکن یہاں کے  درد دل اور صاحب ِبصیرت افراد کو ایک بڑے سوال کی طرف متوجہ ضرور کر رہی ہے۔ بھارت اپنی ہٹ دھرمی پر جما ہوا ہے اور عملی طور پر اسے کوئی فکر نہیں کہ کون مرے یا کون جیے۔ اُس کے حربوں اور منصوبوں سے تو یہ واضح ہو چکا ہے کہ کشمیر کی پوری آبادی اُس کے لیے ’دہشت گرد‘ ہے اور یہاں کے باسیوں کو مختلف نام دے کر ختم کرنا ہی اصلی ہدف ہے۔ نہ صرف محاصروں کے پُر تنائو آپریشنز اور جھڑپوں کے جنگی جنون کے ذریعے سے، بلکہ مختلف حربے استعمال کرکے ڈرایا دھمکایا جانا بھی شامل ہے تاکہ کشمیریوں کی جانی و مالی حیثیت کو بکھیر دیا جائے۔

کشمیر یونی ورسٹی کے شعبہ سماجیات سے ہر دل عزیر استاد ڈاکٹر رفیع بٹ کا مئی کے مہینے میں جاں بحق ہونا، پھر علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سے ہونہار اسکالر کا ۱۱؍اکتوبر کو ظلم وستم کی نذر ہو جانا، بھی ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ ۱۸ ؍ اکتوبر کو ہی کشمیر یونی ورسٹی کے شعبۂ ادویہ سازی سے فارغ التحصیل طالب علم شوکت احمد بٹ، پلوامہ میں شوٹ آئوٹ کے دوران جاں بحق ہو گئے۔ شوکت احمد محض آٹھ دن پہلے عسکریت سے منسلک ہوئے تھے۔ اسی طرح اکتوبر کے آخری ہفتے میں ایک اور نوجوان اسکالرڈاکٹر سبزار احمد کے اپنے ایک اور ساتھی سمیت نوگام سرینگر میں گولی کا نشانہ بننے پر پوری وادی غم و اندوہ کی لہر میں ڈوب گئی ۔ ۲۴ ؍اکتوبر کو بیج بہاڑا کے آرونی علاقے میں ۴ مزید عسکریت پسند جاں بحق ہوئے۔ ۲۵؍ اکتوبر کو دو مختلف کارروائیوں کے دوران آرونی بیج بہاڑا اور کریری بارہمولہ میں چھے عسکریت پسند جاں بحق ہوئے۔ اگلے روز جمعے کے دن پازل پورہ رفیع آباد میں مزید دوعسکریت پسند حکومتی فورسز کی کارروائیوں میں جاں بحق ہوئے۔

نومبر کا مہینہ بھی اس حوالے سے خونیں واقعات دہراتا ہوا آیا۔ نومبر کے مہینے میں ۱۸عسکریت پسندوں کے جاںبحق ہونے کے ساتھ ساتھ حریت رہنما (ضلع اسلام آباد) میر حفیظ اللہ کو مسلح افراد نے ۲ ؍ نومبر کو گھر میں گھس کر گولیوں سے بھون ڈالا۔ اس حملے میں اُن کی اہلیہ بھی  شدید زخمی ہوئیں۔ میر حفیظ اللہ، جنوبی کشمیر سے مزاحمتی جدوجہد کے سرکردہ لیڈر تھے۔ وہ پہلے ہی سے نصف درجن سے زیادہ مقدمات کے سبب ۱۴  سال قید کاٹ کر آئے تھے۔اُن کے گھر کے اردگرد پچھلے کئی دنوں سے مشکوک حالت میں کچھ افراد گھوم رہے تھے۔ بزرگ رہنما سید علی شاہ گیلانی کے مطابق ’جس طرح سے حکومت نواز بندوق بردار اخوانیوں نے ماضی میں نے چُن چُن کر جماعت اسلامی کے ارکان کو ختم کرنے کا گھنائونا سلسلہ قائم کیا تھا، اُسی طرز پر آج حریت رہنمائوں کو قتل کیا جارہاہے‘۔ حریت رہنما محمد اشرف صحرائی کے مطابق:’ حکومتی ایجنسیوں کے سامنے تحریکِ حریت اور جماعت اسلامی کے کارکنان اصلی اہداف ہیں‘۔

اس طرح آئے روزیہاں کے نوجوانوں کا کسی نہ کسی محاصرے میں جاں بحق ہونا معمول بن چکا ہے۔ ہر کوئی اس بات پر مضطرب ہے۔ ایسی صورت حال میں اس بات پر غورو فکر کرنے کی ضرورت ہے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان طبقے کے لیے کیا کوئی اور راستہ مہیا نہیں ہو سکتا جس میں  وہ اپنی صلاحیتوں سے قوم کی خدمت ذرا مختلف پہلوئوں سے کر سکیں۔

دنیا میں کس انسان کو امن، ترقی، سُکھ ، شانتی جیسی حسین اصطلاحات پسند نہیں؟ بے روزگاری اور سیاسی انتقام سے کس کو نجات نہیں چاہیے؟ دنیا میں ایسا کون سا تعلیم یافتہ نوجوان جو اپنے کیریئر کے بارے بے فکر ہوگا؟ لیکن جس ماحول میں کشمیر کے لوگ اور یہاں کے نوجوانوں کو دھکیلا جا رہا ہے ، اُس میں انھیں آنکھیں بند کرنے کے لیے مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ جب سیاسی اور انتظامی معاملات میں بھی اُن پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جارہے ہوں تو وہ اپنے جذبات کے اظہا ر کا حق دنیا کے باقی انسانوںکی طرح رکھتے ہیں، جس پر قابو پانا کسی کے بس کی بات نہیں ہوتا۔

اس کے بالمقابل بھارت کا حکمران طبقہ محض اپنی ضد اور ہٹ دھرمی پر قائم ہے۔ بھارت اور اس کے ہم نوائوں کے لیے یہ ایک بڑا لمحۂ فکریہ ہے کہ آٹھ لاکھ پر مشتمل فوجیوں سے وہ کب تک یہاں کے لوگوں کو خموش کرا سکتے ہیں؟ اُنھیں معلوم ہونا چاہیے کہ کشمیر کی موجودہ نوجوان نسل ایسے ماحول میں پلی بڑھی ہے کہ جب یہاں عسکریت کا دور دورہ تھا۔ پھر انھوں نے اپنی آنکھوں سے اپنوں کو قتل ہوتے دیکھا ہے، انھوں نے اپنوں کے جنازوں کو کندھے دیے، اپنے ہی بزرگوں کی توہین انھوں نے برداشت کی ہے، اپنی مائوں بہنوں کی عصمت دری اور بے عزتی کے واقعات بھی انھوں نے بچشم سر دیکھے ہیں۔ اسی نوجوان نسل نے اعلیٰ تعلیمی اسناد اپنے ہاتھوں میں ہونے کے باوجود مختلف محکمہ ہاے شعبہ جات میں دَر دَر کی ٹھوکریں کھائی ہیں۔ یہاں کی انتظامی بدحالی، کرپشن، لوٹ کھسوٹ اور سیاسی غنڈا گردی کی اصل ستم زدہ یہی نسل ہے۔ ایسے نو جوانوں کو طاقت کے بل پر روک لینا محال ہے۔

مسئلہ کشمیر کو موجودہ کشمیری نسل کے تشخیصی رموزات (identity aspects) میں اگر دیکھا جائے تو انھوں نے اپنی زندگی کی ایک صبح بھی عزت و وقار کے ساتھ جی کر نہیں دیکھی ہے۔ پھر جب ایسی نسل اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی ہو، دنیا کے حالات و واقعات کا بھی گہرائی سے مطالعہ کرتی ہو، سائنس و ٹکنالوجی میں بھی نمایاں ہو، انٹرنیٹ کے ذریعے باقی اقوام کے لوگوں کی زندگیوں کا علم رکھتی ہو، تو اسے سوچنے سمجھنے سے کس طرح روکا جا سکتا ہے؟ یہ ہے وہ خطرناک صورت حال جس کی طرف نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔ بھارت سمیت اقوامِ عالم کے ایوانوں کو خموشی توڑ کر مسئلہ کشمیر کی طرف اوّلین فرصت میں توجہ کرنی ہوگی ، نہیں تو یہاں سے ایسا انسانی بحران اُٹھنے کے خدشات ہیں، جو نہ صرف بھارت کے لیے بلکہ اقوامِ عالم کے امن کو تباہ کر سکتا ہے۔

انھی حالات میں یہاں پر ایک اور اُبھرتے ہوئے انسانی حقوق کے مسئلے کا تذکرہ بہت ضروری ہے۔ وادی میں ۹۰ ء کے عشرے کے دوران میں گھروں کی تلاشی جیسی کارروائیاں عمل میں لاتی جاتی تھیں، جن کا مقصد یہ تھا کہ کسی عسکریت پسند کو پناہ تو نہیں دی گئی ہے۔ مسجدوں کے لائوڈ اسپیکروں کو استعمال میں لا کر لوگوں کو بلا لحاظِ جنس، عمر اپنے گھروں سے باہر نکلنے کا حکم دیا اور گائوں کے کسی بڑے میدان میں، جو کہ عمومی طور پر بستی سے الگ ہوتا، جمع کیا جاتا تھا۔ پھر گھر گھر کی تلاشی کا وسیع و عریض جال بچھایا جاتا تھا ۔یہ ایک ایسی ا ذیت ناک صورت حال ہوا کرتی تھی، جس کو الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔ اس تلاشی کے دوران گھر کا ساز و سامان بکھیر دینا، گھر کی نایاب چیزوں کا غائب کر دینا، ایک اذیت ناک صورت ہو ا کرتی تھی۔ یہ عمل آج بھی جاری و ساری ہے۔ اگرچہ آج اس عمل کو ’CASO‘ (کارڈن اینڈ سرچ آپریشنز)کی اصطلاح سے بدلا گیا ہے، لیکن اس کی اذیت ۹۰ ء کے عشرے سے کئی درجے زیادہ ہے۔ تب کشمیریوں کو گھروں سے نکال باہر کرکے توڑ پھوڑ ، اور ماردھاڑ کی کارروائیاں کی جاتی تھیں، اور اَب انھیں گھر میں رکھ کر، ان کے سامنے توڑ پھوڑ اور لُوٹ مار کی کارروائیاں انجام دی جاتی ہیں۔

اسی طرح کی ایک اور کارروائی کا نام ’جامہ تلاشی‘ ہے۔جس میں کپڑوں کو کھنگالا جاتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ کپڑوں کے اندر کسی ’متنازعہ‘ چیز کو چھپا رکھا ہو۔گھر گھر تلاشی اور جامہ تلاشی کے بعد اب ایک اور تلاشی کی کارروائی نے جنم لیا ہے، جس سے ’موبائل تلاشی ‘ کی اصطلاح سے موسوم کرسکتے ہیں۔

اس معاملے میں بات کرنے سے پہلے ’موبائل فون ‘ کوسمجھنا ضروری ہے۔ یہ ایک ایسا آلہ ہے جس سے آپ دنیا بھر کے لوگوں کے ساتھ نہایت آسانی سے رابطے میں رہ سکتے ہیں۔ پہلے پہل  یہ صرف ذاتی دوستوں کے ساتھ ہم کلام ہونے کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ پھر رفتہ رفتہ ٹکنالوجی کی ترقی سے اس میں لکھ کر پیغام بھیجنے کی سہولیت بھی آگئی۔ اور اب موبائل کے اندر انٹرنیٹ اور باقی سہولیات کی مدد سے، اس چھوٹے سے آلے کے ساتھ آپ کی پوری زندگی منسلک ہے۔ آپ کا کاروبار، آپ کی تعلیم، آپ کا باقی دنیا کے ساتھ رابطے میں رہنا ، آپ کی نجی ضروریات، آپ کی شاپنگ، آپ کا بنک، آپ کے راز، بالفاظِ دیگر آپ کی پوری زندگی اس میں مقید ہے۔ اگر اِس کو آپ کی زندگی سے کاٹ دیا جائے، تو آپ اپنے آپ کو اپاہج محسوس کر سکتے ہیں۔ اس صورتِ حال سے دنیا کا امیر سے امیر ترین اور غریب سے غریب ترین انسان بھی مستثنیٰ نہیں ہے۔ گھر میں تو آپ کی چیزیں عیاں ہوتی ہیں، لیکن اگر کوئی شخص آپ کے موبائل میں جھانک کر آپ کی نجی تصاویر دیکھ لے تو یہ آپ کے لیے ناگوار صورت حال ثابت ہوسکتی ہے ۔اسی طرح سے کوئی شخص اگر آپ کے موبائل کے اندر آپ کے بنک کھاتے کی معلومات حاصل کرلے، آپ کی نجی فون کالز، آپ کے بھیجے گئے پیغامات، یا اسی طرح کی باقی واقفیت کو کرید کرید کر ٹٹول لے تو اس سے بڑھ کر اذیت ناک صورتِ حال اور کیا ہوسکتی ہے۔

اسلامی شریعت نے دوسروں کے رازوں کی ٹوہ لگانے یا کسی کے نجی معاملات میں بے جا مداخلت کو سخت ممنوع قرار دیا ہے (ملاحظہ ہو، سورۃ الحجرات۴۹:۱۲، اور تفہیم القرآن  ، سورۃ الحجرات، حاشیہ ۲۵ )۔’موبائل تلاشی‘ اصل میں انسان کے رازداری کے حقوق(Right to Privacy) پر براہِ راست شب خون مارنے کے مترادف ہے۔ رازداری کے حق کو اسلام نے آج سے چودہ سو سال پہلے بالفعل نافذکیا ہے۔ البتہ عام طور پر رازداری کے حقوق کو مغرب کی ’روشن خیالی‘ سے اخذ کردہ سمجھا جاتا ہے، جو کہ حقیقت سے انحراف کے مصداق ہے ۔ مغرب کو اس حق کا خیال ۱۹۴۸ء میں اُس وقت آیا، جب اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر عالمی اعلامیہ براے انسانی حقوق کی دفعہ۸ میں  یہ تذکرہ کیا گیا کہ کسی بھی انسان کی رازداری کے اندر بے جا مداخلت نہیں کی جاسکتی۔ اس کے   پس منظر میں انسانی حقوق کی انجمنوں کی اپیل پر بھارتی عدالت عالیہ نے اگست میں رازداری کے حقوق کو آئین ہند میں بنیادی حقوق کے طور پر تسلیم کرتے ہوئے، اس کے تحفظ کا حکم جاری کیا۔ مگر بھارتی انتظامیہ اور سیکورٹی فورسز کے لیے ایسے پروٹوکولز اور احکامات کی جو حیثیت ہے، اس کا مظاہرہ جموں و کشمیر میں دیکھا جاسکتا ہے۔

بدنصیب وادیِ کشمیر میں ’موبائل تلاشی‘ کا مقصد یہ ہے کہ آپ نے اپنے موبائل کے اندر کوئی ایسی تصویر، ویڈیو یا کوئی ایسی فائل تو نہیں رکھی ہے، جو یہاں کے ’امن و قانون‘ کی صورت حال کے لیے خطرہ ہو۔ نوجوانوں کے موبائل کے اندر ایسے مواد کو ایک بڑے ثبوت کے طور پر دیکھا اور موبائل کے مالک کو دھر لیا جاتا ہے۔ موجودہ زمانے میں موبائل فون پر کسی ویڈیو ، آڈیو، یا کسی بھی خبر کا موصول ہونا یا اس کی آمد کو روکنا آپ کے اختیار میں نہیں ہے۔ کسی نے آپ کو آپ کی اجازت کے بغیر، کسی واٹس ایپ گروپ میں شامل کرکے اُس گروپ میں کوئی مواد ڈال دیا ہے تو یہ آپ کے موبائل کے جمع خانے (storage ) میں داخل ہوگیا۔ جس میں آپ کا کوئی اختیار نہیں ۔پھر     اسی طرح سے آج ٹکنالوجی اتنی ترقی کر چکی ہے کہ یہ خودبخود’اَپ ڈیٹ‘ یا تازہ ہوتی رہتی ہے۔جس پر انسان کا کوئی کنٹرول نہیں ہے، خاص کر ایک عام صارف کوا یسی باتوں کا علم تک نہیں ہوتا ۔

رازداری کے حقوق، انسانی زندگی کے عزتِ نفس کے ساتھ منسلک ہیں۔ ایسے حق کا  سلب ہونا انسان کو ذہنی اذیت سے دوچار کرتا ہے، جس سے بہت ساری نفسیانی اُلجھنیں جنم لیتی ہیں۔ موبائل تلاشی جیسی کارروائیاں انسانی حقوق کی بدترین پامالیوں میں سے ایک ہے ۔ انسانی حقوق کےعلَم برداروں کو انسانی حقوق کے اس اُبھرتے ہوئے مسئلے کی طرف خاص توجہ دینی چاہیے۔

اب رہی بات اربابِ اقتدار کے جملہ رویوں کی، تو اس کی شدت کا اندازہ ۲۱ ؍ اکتوبر کے  اُس سرکاری حکم نامے سے لگایا جاسکتا ہے، جس میں گیتا اور رامائن کو کشمیر کے اسکولوں کے نظام میں متعارف کرانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی حکم دیا گیا تھا کہ سرکاری کتب خانوں میں بھی اس کے لیے خاطر خواہ انتظامات کیے جائیں۔ اگرچہ بعدازاں اس حکم نامے کو عوامی دبائو کے پیش نظر واپس لے لیا گیا، لیکن یہاں کی انتظامی مشینری کے ذہنی سانچے کو سمجھنے کے لیے یہ کافی ہے کہ اِن متعصب حکم ناموں کے پس پردہ کون کون سے مقاصد کار فرما ہیں۔ یہاں پر یہ نکتہ بحث طلب نہیں ہے کہ کسی مخصوص مذہب کی کتابوں کو اسکولوں میں متعارف کرنا صحیح ہے یا غلط، حالاںکہ امرواقعہ بالکل واضح ہے کہ وادی کی ۹۶ فی صد سے زیادہ آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے اور یہاں کے اسکولی نظام کو چلانے کی خاطر جموں خطے کے مقابلے میں الگ سے ایک ڈائریکٹوریٹ کام کررہا ہے۔ مگر اس کے باوجود اربابِ اقتدار اپنے مقاصد کی آبیاری کے لیے تمام تر پیشہ ورانہ اخلاقیات کی دھجیاں اڑا رہے ہیں اور یہاں کی سیاسی کشیدگی کوانتظامی احکامات میں ڈھالا جا رہا ہے۔ آئے روز کی خوں ریزی سے لوگ ابھی سوگوار ہی ہوتے ہیں کہ اگلی صبح انھیں ایک اور سوگ کے اندر دھکیل دیا جاتا ہے۔

عوامی مفاد اور وقت کی ضرورت کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے دنیابھر میں ایسے خاطر خواہ انتظامات کیے جاتے ہیں کہ جس سے لوگوں کا فائدہ ہو۔ لیکن یہاں جو بھی پالیسی بنائی جاتی ہے،  اُس کا کسی پیشہ ورانہ اخلاقیات سے دُور تک کا کوئی واسطہ دکھائی نہیں دیتا۔ شاید اسی لیے یہاں جن  فلاحی اسکیموں کا بہ ظاہر سرکاری تقریبات میں بڑے مبالغانہ آمیز انداز میں بیان کیا جاتا ہے، وہ بھی    اپنا حقیقی مقصد حاصل کرنے سے پرے ہوتی ہیں۔ اسی طرح کا ایک حکم نامہ ضلع بارہمولہ کے پٹواری حضرات کے نام نکالا اور اُن سے کہا گیا تھا کہ استادوں کی جگہ اب انھیں بورڈ امتحانات میں ڈیوٹیاں انجام دینی ہوں گی۔ متعلقہ حکم نامے کو بھی اگرچہ واپس لے لیا گیا ہے، لیکن یہاں کی انتظامی مشینری کی ذہنیت کو سمجھنے کے لیے یہ بھی ایک مثال ہے ۔

مشرق وسطیٰ دنیا کا ایسا خطہ ہے، جس کو سیال ڈالر کا خطّہ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ایسی پہچان ہے جس نے اسے مسلسل ہیجان خیز اور ہنگامہ پرور حالات سے دوچار کر رکھاہے۔ تاہم، یہ پہچان ثانوی حیثیت رکھتی ہے۔ اصل اہمیت یہ ہے کہ یہ اسلام اور عالم اسلام کا قلب ہے اور دولت و ثروت یہاں کی باندی ہے۔ اسلام کا مرکز حرمینِ مقدس ہونے کی و جہ سے اسلامیان عالم کے لیے یہ ایمان و عقیدت کا محور ہے۔ مسلمان خواہ کسی بھی خطۂ ارضی میں ہو، کوئی زبان بولتا ہو، اس کے لیے اہم یہ ہے کہ یہاں قبلۂ اول، یعنی مسجد اقصیٰ و بیت المقدس بھی ہیں اور خانہ کعبہ اور مسجد نبویؐ بھی یہیں ہیں۔

سو سال قبل ۱۹۱۸ء میں یہاں تنازعے کی مستقل بنیاد برطانیہ اور فرانس نے ’سائیکس پیکوٹ‘ کے رسواے زمانہ خفیہ معاہدے [۱۶مئی ۱۹۱۶ء] کے تحت رکھ دی۔ بہت کم مسلمان آج یہ حقیقت جانتے ہیں کہ یہ معاہدہ اپنے مقاصد کے حصول میں جغرافیائی اعتبار سے ۸۰ فی صد ناکام رہا تھا۔ اسے برطانیہ سے ’اعلان بالفور‘ [۲نومبر۱۹۱۷ء] اور امریکا سے صدر آئزن ہاور کا ساتھ نہ ملتا تو فلسطین کا تنازع بھی پیدا نہ ہوتا۔ آج پھر شام ویمن اور لیبیا و عراق کے حالات دیکھ کر مسلمان خوف میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ خطے مسلمانوں کی شکستِ حاضرہ کو تو پیش کر رہے ہیں، لیکن یہ ممالک، امریکا و روس اور یورپ کی ناکامی سے پیدا شدہ بے چینی کے مظہر زیادہ ہیں، جو دام اور بے دام مقاصد کی سراسر ناکامی ہے۔

اسی صورت حال میں جس ۲۰ فی صد ناکامی کا ہمیں سامنا ہے، وہ ’اعلان بالفور‘ کی پیدا کردہ ہے۔ اس اعلان نے اسرائیل کے قیام کو یقینی بنایا تھا۔ فلسطین چھین لیا گیا اور وہاں اسرائیل کے نام سے ایک ناجائز یہودی ریاست بنا دی گئی۔ اب یہی ریاست مستقل فساد کا مرکز ہے۔ فلسطینی مسلمانوں کو الگ تھلگ کر کے ختم کرنے کی جس حکمت عملی کا آغاز ۱۹۴۸ء سے کیا گیا تھا، وہ آج پورے عروج پر ہے۔ کوئی فلسطینی اس یقین کے ساتھ رات کو سو نہیں پاتا کہ صبح ہوگی۔  اسی سے تکلیف کی اُس شدت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، جس میں آج کا فلسطینی مبتلا رکھا گیا ہے۔

اسی درجے کی تکلیف اور غم میں ہر مسلمان گرفتار ہے۔ یہ مسلمان عرب و عجم کی تمیز سے بالاتر ہوکر مبتلا ہے۔ اس کرب سے نکلنے کا آسان ترین راستہ یہ ہے کہ وہ فلسطین کو بھول جائے،    یہ سوچ کر کہ اس کے جسم کا ایک حصہ اس کے لیے تکلیف کا سبب بنا ہوا ہے، اسے کاٹ کر پھینک دیا سو پھینک دیا۔ اب کوئی درد، کوئی تکلیف، کوئی دکھ باقی نہیں رہا۔ لیکن عملی طور پر یہ ممکن نہیں ہے۔ جسم کا کوئی حصہ کاٹ کر پھینکا جاسکتا ہے اور نہ کسی کا اس پر قبضہ ہی برداشت کیا جاسکتا ہے۔ اسرائیل نے فلسطین کو عالم اسلام سے جدا کرنے کے لیے اس گھنائونے کھیل کا آغاز ۱۹۴۸ء سے شروع کیا ہوا ہے۔ فلسطینی اسے نکبہ کا نام دیتے ہیں، یعنی بڑی قیامت ۔۱۹۴۸ء، ۱۹۶۷ء اور ۱۹۷۳ء میں اسرائیل نے، تن تنہا نہیں، امریکا و برطانیہ اور یورپ، کی مدد سے عربوں سے جنگ جاری رکھی ہوئی ہے۔ یہ تین نشان ہیں ورنہ یہ جنگ تو ہمہ وقت جاری ہے۔ ۱۹۶۷ء میں اسرائیل نے حملہ کر کے دریاے اُردن کے مغربی کنارے اور غزہ پر قبضہ کر لیا تھا۔ یاد رہے کہ یہ دریاے اُردن کا مغربی کنارہ ہے اور غزہ جو کوسوں دُور مصری سرحدی علاقے پر مشتمل ہے، جسے ایک طرف سے سمندر نے گھیررکھا ہے اور دیگر اطراف سے مصر کی مدد سے اسرائیل نے گھیرا ہوا ہے۔ فلسطینیوں کی غزہ میں ناکہ بندی کی وجہ یہ ہے کہ یہاں آزاد انتخابی عمل سے حماس کو کامیابی ملی تھی۔

مصر اور اسرائیل کے درمیان معاہدہ کیمپ ڈیوڈ [۱۷ستمبر ۱۹۷۸ء]، جب کہ ’تنظیم آزادیِ فلسطین‘ اور اسرائیل کے درمیان اوسلو معاہدہ [۱۹۹۳ء]کے نتیجے میں وجود میں آنے والی نام نہاد فلسطینی ریاست اسی غزہ اور مغربی کنارے پر مشتمل ایک بلدیہ نما انتظام ہے۔ مقبوضہ بیت المقدس دو حصوں پر مشتمل ہے۔ فلسطینیوں کا حصہ مقبوضہ مشرقی بیت المقدس کہلاتا ہے اور اسے اسرائیلی یروشلم کہتے ہیں۔ لیکن یہ یروشلم نہیں، مقبوضہ مشرقی بیت المقد س ہے۔ اس فلسطینی ریاست پر ۱۲ سال سے یاسر عرفات کے جانشین محمود عباس کی حکومت ہے۔ اسے برقرار رکھنے میں امریکا، برطانیہ، اسرائیل، یعنی سبھی شرانگیزوں کا مفاد ہے۔

اس تنازعے میں جوہری طور پر فلسطین (اصلی فلسطین جو سارے اسرائیل پر محیط ہے) اور عالمِ اسلام کو شکست ہوئی ہے۔ اس کی صورت یہ ہے:

  • پہلے عالم اسلام کا متفقہ مطالبہ یہ تھا کہ اسرائیل ناجائز ریاست ہے۔ اب یہ تبدیل ہو گیا ہے۔ اب کہا جاتا ہے کہ فلسطینی ریاست تسلیم کی جائے۔ یہ مطالبہ اسرائیل سے ہے۔ جس کا صاف مطلب خود اسرائیل کو تسلیم کرنا ہے۔یہ پہلی شکست ہے۔
  •  پہلے عالم اسلام کا متفقہ موقف تھا کہ اسرائیل قبول نہیں۔ اس سے ہر طرح کے تعلقات ناقابلِ قبول ہیں، ناقابل عمل ہیں۔ اب اس میں کمی، کمزوری اور پسپائی کے آثار نمایاں ہیں۔
  • پہلے عالمِ اسلام کا متفقہ موقف تھا کہ مقبوضات کی حیثیت مقبوضات کی ہی ہے، خواہ وہ  غزہ ہو، مغربی کنارہ ہو یا مقبوضہ بیت المقدس کا مشرقی حصہ ہو۔ اب یہ اس طرح سے کمزور پڑرہا ہے کہ یہاں اسرائیل یہودی بستیاں تعمیر کرتا رہا ہے اور کر رہا ہے۔ پہلے ان تعمیرات پر شدید احتجاج کیا جاتا رہا ہے، اب یہ احتجاج دم توڑ رہا ہے۔ مسلم دنیا پر کارفرما حاکم اشرافیہ کی طرف سے غالباً اسرائیل کے لیے گنجایش پیدا کی جا رہی ہے۔
  • اسرائیل سے تعلقات کی ہر نوعیت ناجائز اور ناقابل قبول تھی۔ اب اس میں کمی آرہی ہے، نرمی پیدا کی جا رہی ہے۔

اس کے پس پردہ کیا ہو رہا ہے؟ اسے ایک مثال سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں:

شرق اوسط کے تنازعے میں یہاں کی حکومتیں، امریکا ، برطانیہ ، فرانس ، اسرائیل ، امریکی اور برطانوی تھنک ٹینک [مرکز دانش] اور ذرائع ابلاغ فریق ہیں۔ ذرائع ابلاغ اس لیے فریق یا فریق نما ہیں، کیوں کہ یہ اسرائیل زدہ ہیں، امریکی و برطانوی ہیں یا ان کے زیر اثر ہیں، حتیٰ کہ  ان میں سکنڈے نیوین ممالک بھی شامل ہیں۔

ان فریقوں کے ذریعے امن کے نام پر کوششیں ہوتی رہتی ہیں۔ نائن الیون کے بعد   ان میں تیزی اور نوعیت میں تبدیلی آگئی ہے۔ نائن الیون کے بعد عراق، لیبیا، شام اور یمن میں جو کچھ ہوا اور ہو رہا ہے، وہ ایک کوشش ہے جس سے عرب اسرائیل تنازعے کے نام سے، شرق اوسط کے تنازعے سے بقیہ عالم اسلام کو الگ کرنے میں کامیابی حاصل کی جا رہی ہے۔ عالم اسلام کی یہ نفسیاتی شکست ہے کہ وہ ذہنی طور پر اس تنازعے کو نسلی و قومی مسئلہ تسلیم کر چکا ہے اور اب اسے  عرب اسرائیل تنازع کہتا ہے، حالاںکہ یہ اسلام کا تنازع ہے، خود انسانیت کا تنازع ہے۔ عملی طور پر  اس کو ’عرب اسرائیل‘ کہنے والوں کا (امریکا و برطانیہ اور اسرائیل) کہنا ہے کہ پہلے بائیس (۲۲) مسلم ممالک سے یہ معاملہ حل کرا لیا جائے، یعنی خطے کی عرب حکومتیں راضی ہو جائیں تو ۵۷ مسلم ممالک میں سے ۳۵ممالک خود بخود مان لیں گے۔ رفتہ رفتہ یہ حکمت عملی کامیابی کی سمت بڑھ رہی ہے۔ اگر عرب مان لیں گے اور اسرائیل کی ناجائز ریاست کو جائز ریاست مان لیں گے تو ایک بلدیاتی ریاست فلسطینیوں کے لیے بن بھی جائے، جو کسی نہ کسی صورت میں اب بھی ہے تو اس طرح تنازع حل ہو جائے گا۔

اب ہم دیکھتے ہیں کہ اس میں امریکی مراکز دانش کیا کردار ادا کر رہے ہیں؟ صرف جیمز اے بیکر انسٹی ٹیوٹ کو دیکھیے: اس لیے کہ اس ادارے کا محور شرق اوسط ہی ہے۔ دوسرے، جیمز اے بیکر  امریکا کے وہ سابق وزیر خارجہ ہیں، جو نائن الیون سے پہلے اور بعد میں امریکی حکمت عملی کے معمار رہے ہیں۔ انھی کے ادارے کی سفارشات میں عرب اسرائیل تنازعے کا حل تجویز کیا گیا ہے۔ جس کا لب لباب یہ ہے کہ عرب ممالک کے اسرائیل سے سفارتی تعلقات کس طرح استوار ہوں، جو اسرائیل کو تسلیم کرنے کا ذ ریعہ بن سکیں۔ ادارےنے سات نکات بطور حکمت عملی پیش کیے ہیں:

  • تعاون کے امکانات کو عملی طور پر طے کیا جائے۔ یہ امکانات خصوصی طور پر تکنیکی ہوں۔ کسی بڑے تعاون سے احتراز کیا جائے تاکہ عالمِ اسلام کے ہوشیار (alert) ہونے کا خطرہ باقی نہ رہے۔ یہ امکانات پہلے پہل خلیجی ریاستوں اور اسرائیل کے درمیان دیکھے جائیں۔ اس طرح اعتماد کی فضا پیدا ہوگی۔ سیاسی رابطے قائم ہوں گے۔ ورکنگ گروپس بن سکیں گے۔ جن میں بین الاقوامی ادارے اور فورم شامل ہو سکیں گے۔
  • اعلیٰ سطحی رابطوں کو بتدریج فروغ دیا جائے۔ پہلے پہل وزارتی روابط بنائے جائیں، جن میں فیصلہ ساز حکام کو شامل کیا جائے۔
  • سرمایہ دارانہ رابطوں کو آگے بڑھایا جائے۔ ہر خلیجی ریاست طے کرے کہ اس کے کون سے وسائل استعمال میں لا کر ان رابطوں کو گہرا کیا جاسکتا ہے۔
  • خلیجی ریاستوں کو عرب اسرائیل تنازع میں ’ثالثی‘ کا کردار دیا جائے، تاکہ وہ خطّے میں پالیسیوں میں ہم آہنگی پیدا کریں۔ ان علاقائی تنازعات پر کام کریں جن کا اسرائیل سے تعلق ہو۔ اس طرح سے ’نیا شرق اوسط‘ سامنے لایا جاسکتا ہے۔
  • براہِ راست مذاکرات سے الگ کام کرنے والے ورکنگ گروپس اورنیٹ ورکس بنائے جائیں، جو خلیجی سفارت کاری کو ترجیح دیں ، روایتی ثالثی طریقوں کو آزمایا جائے۔ تیسرے فریق (غالباً امریکا، برطانیہ اور دیگر) کو اسی سطح پر شریک کیا جائے، تاکہ براہِ راست مذاکرات سے باہر گروہوں کو شامل کیا جاتا رہے۔
  • ایک تبدیل شدہ ’عرب امن اقدام‘ کو متعین اور مضبوط کیا جائے۔ علاقائی سطح کے حل سے آگے بڑھا جائے۔ عالمی حل سے اجتناب کیا جائے کیوں کہ اس سے بہت احتجاج پیدا ہونے کا احتمال رد نہیں کیا جاسکتا۔
  • سعودی عرب، امارات اور قطر، فلسطینی گروہوں پر اپنے اثرورسوخ کو بروے کار لاتے رہیں۔ اس طرح ان کی حمایت حاصل کی جائے، ان کی مزاحمت توڑی جائے، انھیں  امن اقدام میں شریک کیا جائے۔

ان نکات کی وضاحت میں کہا گیا کہ تصادم زدہ علاقوں بالخصوص غزہ اور مغربی کنارہ، وغیرہ میں امداد اور ترقی کے پروگرام متعارف کرائے جائیں۔ جہاں جنگ سے تباہی ہو، ان خطّوں کی دوبارہ تعمیر کی جائے۔ اس کے لیے سعودی عرب، امارات، کویت اور قطر اپنے مالی وسائل سے بھرپور کردار ادا کریں۔

اس پیپر میں بہت سے دیگر نکات بھی ہیں، تاہم اوپر بیان کردہ نکات سے بات سمجھی جاسکتی ہے۔ اگر ہم صرف ’عرب امن اقدام‘ (Arab Peace Initiative) کی طرف ہی توجہ دیں تو نائن الیون کے بعد ایک سرگرمی ہمیں ۲۰۰۲ء سے اب تک نظر آتی ہے۔

  • ’عرب امن اقدام‘ کا سب سے بنیادی نکتہ ایران کو محدود کرنا ہے۔ یوں عرب اسرائیل تنازع تو ثانوی رہ جاتا ہے لیکن ایران سے کش مکش بڑھ جاتی ہے۔
  • ۲۰۰۲ء میں ایک امن اقدام کا آغاز کیا گیا۔ عجیب بات یہ ہوئی کہ امریکی صدر جارج بش کی ہدایت پر اس میں سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کو خصوصی ایلچی مقرر کیا گیا۔ وہ اقوام متحدہ کے ایلچی کے طور پر برسوں اسرائیل مقیم رہے۔ ان کے پیش نظر یہ تھا:
  • فلسطینی ریاست جوں کی توں رہے۔ یہودی بستیوں پر قدغن نظر انداز کر دی جائے۔
  • امریکی مفاد یہ ہے کہ عربوں کے تعلقات اسرائیل سے معمول پر آئیں۔ اسرائیل کا مفاد یہ ہے کہ اس طرح اسے عربوں سے اور عرب ممالک کے راستوں سے، تجارت کے ذریعے سالانہ ۶۰؍ارب ڈالر کا فائدہ ہو سکتا ہے۔
  • عرب ممالک کا ایک نیا اتحاد وجود میں لایا جائے، جو سابقہ اتحادوں کی نفی کرتا ہو۔
  • عربوں کے اسرائیل سے معمول کے تعلقات اس کا اوّلین مقصد ہو، یہ تعلقات خصوصی فوجی اور معاشی ہوں۔ اس میں ۲۲عرب ممالک کو شامل کیا جائے۔ ایران کو محدود کرنے کے لیے، خلیج فارس میں ایران کے خطرے کو استعمال کرکے، اس اتحاد سے یہ مقاصد حاصل کیے جاسکیں گے۔

۲۰۰۶ء میں بھی ایسی ہی کوشش کی گئی مگر وہ ناکام ہوگئی۔ ٹونی بلیئر بھی مکمل کامیاب رہے اور نہ ناکام ہی رہے۔ پھر ۲۰۰۹ء میں ایک اور کوشش کی گئی۔ ۲۸ستمبر ۲۰۰۹ء کو جنرل اسمبلی سے خطاب اور سائیڈ لائن پر رابطوں میں امریکی وزیرخارجہ ہلیری کلنٹن نے اومان، سعودی عرب، کویت، بحرین ، قطر اور متحدہ عرب امارات کے سربراہوں کو پیغام دیا کہ یہ ممالک اپنی فضائی حدود اسرائیلی تجارتی طیاروں کے لیے کھول دیں، تاکہ رات کے وقت یہ طیارے اسرائیلی سامان لے کر جا سکیں۔ ۲۰۱۱ءمیں بھی ایسی ہی کوشش کی گئی۔ ۱۶جنوری ۲۰۰۹ء کو دوحہ قطر میں خصوصی عرب کانفرنس ہوئی، جس میں ۲۲ عرب ممالک نے شرکت کی۔ ایران کے صدر احمدی نژاد بھی اس میں شریک ہوئے۔ تاہم، اس کانفرنس میں مصر اور سعودی عرب شریک نہ ہوئے۔ غالباً وجہ احمدی نژاد کی موجودگی تھی۔ شریک ممالک میں ترکی، شام، فلسطین اور قطر بھی تھے۔ قطری وزیراعظم نے اعلامیہ پڑھا جس میں کہا گیا کہ ’عرب امن اقدام‘ کو منجمد کر دیا جائے تاکہ غزہ پر اسرائیلی تازہ جارحیت پر احتجاج کو مؤثر بنایا جاسکے۔ شام نے اسرائیل سے امن مذاکرات معطل کر دیے۔ قطر اور موریطانیہ نے سفارت کاری منجمد کرنے کا اعلان کر دیا۔

 اب ہم آتے ہیںکہ اہم ممالک کے کردار اور عمل کی جانب۔ اس سلسلے سے پہلے     متحدہ عرب امارات کا تذکرہ۔ امارات کی جملہ سلامتی کی ذمہ داری، تیل و گیس کے کنوئوں اور تنصیبات کی نگرانی اور حفاظت ، شہروں میں جرائم کی روک تھام، ہنگامی صورت حال میں فوری اقدام جیسے نازک اور اہم ترین امور کی انجام دہی، اسرائیل کی ایجنسی ’ایشیا گلوبل ٹیکنالوجیز‘ (AGS) کرتی ہے۔ اس کا سربراہ متی کوشوی ہے جس نےایرک کے ساتھ بلیک واٹر کی بنیاد رکھی تھی۔ امارات کی دو کمپنیاں اس اے جی ایس سے مل کر یہ کام کرتی ہیں۔ ان میں ایک کمپنی’ایڈوانس انٹگریٹڈ سسٹم، (AIS) کہلاتی ہے۔ اس کا سربراہ خلفان الشمسی ہے۔ دوسری کمپنی’ایڈوانس ٹیکنیکل سولوشنز‘ (ATS) ہے۔ اس کا سربراہ محمد زیدالنابلسی ہے۔ یہ تینوں کمپنیاں مل کر ایک منصوبہ چلاتی ہیں جسے Falcon Eye (شاہین کی آنکھ)کا نام دیا گیا ہے۔ ان تینوں کمپنیوں نے مل کر ان کاموں کے لیے پرائیویٹ آرمی تشکیل دی ہے، جسے اسرائیلی فوج کی تکنیکی مدد حاصل ہے۔ متحدہ عرب امارات میں یہ کمپنیاں ۶۰کروڑ ڈالر کے معاہدے کے تحت کام کر رہی ہیں۔ اس پراجیکٹ کی مجموعی مالیت ۸۱کروڑ ۶۰لاکھ ڈالر ہے۔ جیمز اے بیکر انسٹی ٹیوٹ کی سفارشات پر عمل درآمد کی یہ ایک مؤثر مثال ہے۔ امارات کے وزیر خارجہ شیخ عبداللہ بن زید کے بارے میں وکی لیکس نے بتایا تھا کہ وہ اسرائیل کی وزیر خارجہ زیپی لیونی کے ذاتی دوستوں میں سے ہیں۔ ایک اور کردار   ڈیوڈویکس بھی ہے، جو ’فالکن آئی پراجیکٹ‘ کا ۲۰۰۶ء سے ۲۰۱۳ء تک نائب صدر آپریشنز رہا ہے اوریہ بھی اسرائیلی ہے۔

آئیے اب قطر کی بات کرلیں۔ قطر نے اسرائیل کو وہ چھوٹ نہیں دی، جو امارات نے دے رکھی ہے۔ قطر کے بارے میں اہم عرب ممالک کا رویہ سخت خراب ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ وہ عرب اسرائیل تنازعے میں مطلوبہ کردار ادا نہیں کر رہا۔ تاہم، الجزیرہ ٹی وی میں بہت سے لوگ اسرائیل سے ہیں۔

اومان حالیہ واقعات کے ساتھ اُبھر کر سامنے آیا ہے۔ اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یا ہو نے اکتوبر کے اواخر میں اومان کا دورہ کیا اور سلطان قابوس سعید سے ملاقات کی۔ یہ سرکاری دورہ تھا۔ اس کے بعد فالو اپ میں اسرائیل کی سپورٹس اور کلچر کی وزیر میری ریگیف بھی آئیں ۔ ان کے ساتھ کھلاڑی بھی آئے۔ جوڈو مقابلے ہوئے، اسرائیلی ترانہ پڑھا گیا۔ میری ریگیف نے عبرانی زبان میں جذباتی خطاب کیا اور موصوفہ کی آنکھیں آنسوئوں سے نم تھیں۔  یہ ۲۸اور ۲۹؍اکتوبر کے واقعات تھے۔ نیتن یاہو ۲۰سال میں پہلے حکمران تھے جس نے اسرائیل کی طرف سے اومان کا دورہ کیا۔

اسی سرگرمی کا ایک اہم حصہ مسقط میں بھی ہوا۔ وہاں اسرائیل کے وزیر ٹرانسپورٹ کاٹز نے کانفرنس میں شرکت کی۔ اس کانفرنس کوTracks for Regional Peaceکا نام دیا گیا۔ اس کانفرنس میں سعودی عرب بھی شریک ہوا۔ منصوبے کے مطابق اسرائیل سے حیفہ شہر (فلسطین کا شہر) سے ترکی تک ریلوے لائن بچھائی جائے گی، جو متعدد عرب ممالک سے گزرے گی۔ یہ کانفرنس اومان اور اسرائیل نے مل کر کی۔

مصر اور اردن سے اسرائیل کے تعلقات بہت واضح ہیں، کسی تفصیل کی ضرورت نہیں ہے۔ تاہم، یہاں پر ایک اور بات ضروری ہے۔ پاکستان میں بہت شوربلند ہوا کہ اسرائیلی طیارہ پاکستان آیا ہے۔ پورے زور و شور سے تردید کی گئی۔ بین الاقوامی سطح پر سوالات بھی اُٹھے۔    اس سے قطع نظر قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کی رکن نے بالکل بے جوڑ، مگر اسرائیل کے موجودہ سیاق و سباق کے مطابق اور حقیقت میں اسلام کی توہین پر مبنی خطاب کیا۔ موصوفہ کو نہ تاریخ کا علم ہے اور نہ تفسیر و سیرت جانتی ہیں۔ حیرت ہے کہ کسی نے پوائنٹ آف آرڈر پر نہیں ٹوکا کہ محترمہ  آپ غلط بات کر رہی ہیں۔

بہرحال رفتہ رفتہ مسلم دنیا میں بھی اسرائیل کو تسلیم کرانے کی کوشش اپنے عروج پر دکھائی دیتی ہے۔

’فی الواقع گورنمنٹ برطانیہ ایک ڈھال ہے، جس کے نیچے احمدی جماعت آگےہی آگے بڑھتی چلی جاتی ہے۔ اس ڈھال کو ذرا ایک طرف کردو اور دیکھو کہ کیسےزہریلے تیروں کی کیسی خطرناک بارش تمھارے سروں پر ہوتی ہے۔پس کیوں ہم اس گورنمنٹ کے شکرگزارنہ ہوں۔ اس گورنمنٹ کی تباہی ہماری تباہی ہے اور اس گورنمنٹ کی ترقی ہماری ترقی۔جہاں جہاں اس گورنمنٹ کی حکومت پھیلتی جاتی ہے،ہمارے لیے تبلیغ کا ایک میدان نکل آتاہے‘۔(الفضل ،قادیانیوں کا ترجمان اخبار،۱۹؍اکتوبر ۱۹۱۵ء)

’میرے حلقۂ انتخاب میں واقع احمدی کمیونٹی کی عبادت گاہ یورپ کی بڑی مساجد میں سے ایک ہے جس میں ۱۰ہزار لوگ بیک وقت عبادت کر سکتے ہیں۔ اس علاقے میں احمدی (قادیانی) کمیونٹی خوب ترقی کر رہی ہے… اس کمیونٹی کے سربراہ برطانیہ میں رہایش پذیرہیں‘۔ (ممبر برطانوی پارلیمنٹ اور قادیانی کمیو نٹی سے متعلق کل جماعتی پارلیمانی گروپAPPG کی سربراہ سائیوبھین میکڈونگ کاپارلیمنٹ میں بیان)

قادیانیوں اور برطانیہ کا آپس میں گہرا تعلق اور تعاون ایک تاریخی حقیقت ہے۔ اپنی ابتدا ہی سے اس جماعت کے بانی بر صغیر کے باقی طبقوں کے برعکس ،ہندستان میں استعماری برطانوی حکومت کے ہمیشہ حامی رہے ہیں ۔ انگریزی سلطنت کو ’رحمت ، باعث برکت اور ایک سپر‘قرار   دیتے ہوئے انھوں نے اپنے پیروکاروں کو ہدایت کی ہے کہ ’’تم دل و جان سے اس سپر کی قدر کرو‘‘۔ اپنی مختلف کتابوں،تقاریر اور بیانات میں انھوں نے اور ان کے بعد آنے والے قادیانی رہنماؤں نے ہر معاملے میں برطانیہ کا ساتھ دیاہے اور برطانیہ نے بھی کھل کر ان کی سر پرستی کی ہے۔ بقول مولانا مودودی: ’’کفار کی غلامی جو مسلمانوں کے لیے سب سے بڑی مصیبت ہے ،[جھوٹے] مدعیان نبوت کے لیے وہی عین رحمت اور فضل ایزدی ہے ،کیونکہ اسی کے زیر سایہ ان لوگوں کو اسلام میں نئی نئی نبوتوں کے فتنے اٹھانے اور مسلم معاشرے کی قطع وبُرید کی آزادی حاصل ہو سکتی ہے۔اس کے بر عکس مسلمانوں کی اپنی آزاد حکومت ،جو مسلمانوں کے لیے ایک رحمت ہے ان لوگوں کے لیے وہی ایک آفت ہے کیوں کہ با اختیارمسلمان بہر حال اپنے ہی دین اور اپنے ہی معاشرے کی قطع و بُرید کو بخوشی برداشت نہیں کر سکتے‘‘۔(قادیانی مسئلہ،۱۹۵۳ء، لاہور)

 اسی دیرینہ اور تاریخی تعلق کا فائدہ اٹھاتے ہوئے قادیانی جماعت کی بین الاقوامی بشمول برطانیہ سیاسی اور سفارتی سرگرمیوں میں بے پناہ اضافہ ہوگیا ہے۔ قادیانیوں کے موجودہ سربراہ مرزا منصور آج کل امریکا کے دورے پر ہیں۔ برطانیہ میں قیام کے باعث ان کے لیے دوسرے ممالک میں دورے کرنے میں بہت آسانی ہے۔ ان کے ایما پر پارلیمنٹ کے اندر ایک کُل جماعتی پارلیمانی گروپ کا قیام عمل میں آیا ہے جس میں پارلیمنٹ میں موجود تمام پارٹیوں کے ممبر پارلیمنٹ شامل ہیں۔ برطانیہ میں موجودہ برسرِ اقتدارحکومت میں ان کے اثر و رسوخ کا یہ عالم ہے کہ وزیر اعظم تھریسامے نے اپنی پارٹی کے ایک قادیانی وزیر لارڈ طارق محمود احمد جو فارن آفس کے وزیر اور ہاؤس آف لارڈز (ایوانِ بالا) کے ممبر بھی ہیں کو دنیا بھر میں ’مذہب اور عقیدے کی آزادی کو فروغ دینے کے لیے اپنا خصوصی ایلچی‘ (Prime  Minister’s Special Envoy on Freedom of Religion and Belief ) مقرر کیا ہے۔

لارڈ طارق نے عہدہ سنبھالتے ہی اپنا پہلا دورہ اسرائیل سے شروع کیا۔ دورے سے قبل برطانوی ہاؤس آف لارڈز میں تقریر کرتے ہوئے انھوں نے فلسطینیوں پر واضح کیا کہ: ’’جو لوگ اسرائیل کی ریاست کو تسلیم نہیں کرتے انھیں امن مذاکرات کا حصہ نہیں بنایا جاسکتا‘‘۔ لارڈ طارق نے اسرائیل میں حیفہ شہر کا خصوصی دورہ کیا اور وہاں اپنی جماعت کے ہیڈکوارٹر بھی گئے۔ انھوں نے وہاں رہایش پذیر پاکستانی قادیانیوں سے ملاقات کی اور تسلیم کیا کہ اسرائیل میں مقیم قادیانی دوسری کمیونٹیز کے ساتھ وہاں خوشی سے رہ رہے ہیں‘‘۔انھوں نے قادیانیوں کی اسرائیل میں موجودگی کا سبب بیان کرتے ہوئے کہا کہ: ’’انھیں پاکستان ،الجزائر اور انڈونیشیا میں تنگ کیا جاتاہے‘‘۔ درحقیقت بیرونِ ملک قادیانیوں کی موجودگی کا بہت بڑا سبب معاشی ہے، جسے مذہبی رنگ دے کر زیادہ سے زیادہ قادیانی خاندانوں کو مختلف ممالک میں آباد کر رہے ہیں۔ ’مذہبی جبر‘ کی آڑ میں مَیں پناہ گزینوں کا درجہ حاصل کر کے، میزبان ملکوں سے زیادہ سے زیادہ معاشی فوائد حاصل کیے جارہے ہیں، اور اس پردے میں مفاد حاصل کرنے والوں کو بھی اپنے مذہب میں ترقی کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔

قادیانیوں نے مغربی ممالک کے بااثر اور مقتدر حلقوں میں اپنے نیٹ ورک کے ذریعے خاصا رُسوخ حاصل کر لیاہے ۔حال ہی میں ایک پاکستانی نژاد برطانوی قادیانی بیرسٹر کریم اسد احمد خان کو اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے داعش کے خلاف تحقیقات کے لیے سربراہ مقرر کیا ہے۔ اس تقرر کی خبر دیتے ہوئے قادیانیوں کے اخبار ربوہ ٹائمز (Rabwah Times)نے بیرسٹر  کریم اسد احمد خان کا تعلق قادیانی کمیونٹی سے ظاہر کیا ہے۔ قادیانی  بین الاقوامی ہمدردیاں سمیٹنے اور پاکستان کو بدنام کرنے کے لیے ایک منظم اور سوچے سمجھے طریقے سےاپنے آپ کو ایک مظلوم گروپ (Persecuted Community) کے طور پر پیش کر رہے ہیں حالاںکہ بیرسٹر کریم ایک برطانوی شہری ہیں۔ بیرون ملک اپنے حامیوں کے ذریعے قادیانی پاکستان پربین الاقوامی دباؤ میں اضافہ کر رہے ہیں۔ پاکستان کو بدنام کرنے کے لیے وہ اس بات کا مسلسل پروپیگنڈاکررہے ہیں کہ وہاں انھیں ایذا رسانی اور عقوبت (Persecution) کا سامنا ہے۔ ان کے بقول قادیانی پاکستان میں خوف و ہراس کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔

دراصل جب سے پاکستان کی پارلیمنٹ نے ۱۹۷۴ءمیں قادیانیوں کوآئینی ترمیم کے ذریعے غیر مسلم قرار دیا ہے، یہ پچھلے ۴۰سال سے اس کوشش میں ہیں کہ پاکستان کے آئین میں یہ ترمیم ختم کر دی جائے اور انھیں مسلمانوں کا ہی ایک فرقہ تصورکیا جائے۔ برطانوی پارلیمنٹ میں  ان کی حمایت میں قائم ہونے والے گروپ کی سربراہ نے تسلیم کیا ہے کہ: ’’احمدی اپنے آپ کو ’مسلم‘ گردانتے ہیں لیکن ان کا عقیدہ ہے کہ محمدؐانسانیت کو ہدایت کرنے والے آخری نبی نہیں تھے اور  اس وجہ سے ان کو غیر مسلم قرار دے کر انھیں ایذا دی جاتی ہے‘‘۔ قادیانیوں کی علمی اور سیاسی بدیانتی کا عالم یہ ہے کہ اپنے حمایتیوں کو کبھی بھی باور نہیں کراتے کہ ہم اپنے بانی پر ایمان نہ لانے والوں کو خود مسلمان تصور نہیں کرتے اور انھیں کافر قرار دیتے ہیں۔ ان کی حامی کُل جماعتی پارلیمانی گروپ کی لیڈر سائیوبھین میکڈونگ عیسائی کیتھولک فرقے سے تعلق رکھتی ہیں لیکن ان کی جانب سے قادیانیوں کے لیے پُرجوش حمایت سے ایسا محسوس ہوتاہے کہ وہ قادیانیوں کے عیسائیوں اور حضرت عیسٰی علیہ السلام کے بارے میں گمراہی پر مبنی عقائد سے بالکل بے خبر ہیں۔

 حقیقت یہ ہے کہ قادیانیوں کا یہ شروع سے ہی عقیدہ ہے کہ ’مسلمان‘ ہم ہیں اور ہمارے بانی (مرزا غلام احمد)کو نبی نہ ماننے والے دائرۂ اسلام سے خارج ہیں۔مولانا مودودی نے قادیانی مسئلہ میں ان کے عقیدے کا جائزہ لیتے ہوئےخود ان کی تحریروں سے ثابت کیا ہے کہ وہ ان تمام مسلمانوں کو اپنی تحریر و تقریر میں علانیہ کافر قرار دیتے ہیں جو مرزا غلام احمد کو نبی نہیں مانتے۔ وہ صرف یہ نہیں کہتے کہ مسلمانوں سے ان کا اختلاف محض مرزا صاحب کی نبوت کے معاملے میں ہے بلکہ وہ کہتے ہیں کہ ہمارا خدا ،ہمارا اسلام، ہمارا قرآن، ہماری نماز، ہمارا روزہ، غرض ہماری ہر چیز مسلمانوں سے الگ ہے۔

اُمت ِ مسلمہ سے قادیانیوں کی علیحدگی کے بارے میں مولانا مودودی کا استدلال یہ ہے کہ: ’’قادیانیوں کا مسلمانوں سے الگ ایک امت ہونا اس پوزیشن کا ایک لازمی منطقی نتیجہ ہے جو انھوں نے خود اختیار کی ہے ۔وہ اسباب ان کے اپنے ہی پیدا کردہ ہیں جو انھیںا مسلمانوں سے کاٹ کر ایک جداگانہ ملت بنادیتے ہیں۔  [چودہ سوچالیس سال] سے تمام مسلمان بالاتفاق یہ مانتے رہے ہیں اور آج بھی یہی مانتے ہیں کہ سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے آخری نبی ہیں اور آپؐ کے بعد کوئی نبی مبعوث ہونے والا نہیں ہے۔ ختم نبوت کے متعلق قرآن مجید کی تصریح کا یہی مطلب صحابہ کرامؓ نے سمجھا تھا اور اسی لیے انھوں نے ہر اس شخص کے خلاف جنگ کی جس نے حضوؐر کے بعد دعویٰ نبوت کیا۔ پھر یہی مطلب بعد کے ہر دور میں تمام مسلمان سمجھتے رہے ہیں جس کی بنا پر مسلمانوں نے اپنے درمیا ن کبھی کسی ایسے شخص کو برداشت نہیں کیا جس نے نبوت کا دعویٰ کیاہو۔ لیکن قادیانی حضرات نے تاریخ میں پہلی مرتبہ خاتم النبیینؐ کی یہ نرالی تفسیرکی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نبیو ں کی مہر ہیں اور اس کا مطلب یہ بیان کیا کہ حضوؐر کے بعد اب جو بھی نبی آئے گا اس کی نبوت آپؐ کی مہر تصدیق لگ کر مصدقہ ہوگی۔ان کی نبوت کے دعوے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ جو شخص بھی اس [جھوٹی] نبوت پر ایمان نہ لائے وہ کافر قرار دیا جائے۔ چنانچہ قادیانیوں نے یہی کیا۔ (قادیانی مسئلہ،۱۹۷۳ء، لاہور)

مولانا مودودی مرحوم و مغفور نے یاد دلایا ہےکہ ’’پاکستان کے کروڑوں آدمی اس بات کے شاہد ہیں کہ قادیانی عملاً بھی مسلمانوں سے کٹ کر ایک الگ اُمت بن چکے ہیں۔ نہ وہ ان کے ساتھ نماز کے شریک، نہ جنازےکے،نہ شادی بیاہ کے۔ اب اس کے بعد آخر کون سی معقول وجہ رہ جاتی ہے کہ ان کو اور مسلمانوں کو زبردستی ایک امت میں باندھ کر رکھا جائے‘‘۔

قادیانیوں کا معاملہ محض ایک سیدھا سادا مذہبی مسئلہ نہیں ہے، اس مسئلےکی نوعیت سیاسی بھی ہے۔ ان کے بعض ایسے خطرناک سیا سی رجحانات ہیں جن کے باعث ان کی پُرجوش بین الاقوامی سرگرمیاں ہرمحبِ وطن کے دل میں لازمی طور پرتشویش پیدا کرتی ہیں۔ وہ پاکستانی ریاست کے اندر اپنی ایک قادیانی ریاست کے لیے ہمیشہ کوشاں رہے ہیں۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ پاکستان کے قیام کے فوراً بعد قادیانیوں کا خیال تھا کہ وہ بلوچستان کو جس کی آبادی بہت کم تھی ، ایک قادیانی صوبہ بنا سکتے ہیں تاکہ یہ خطہ پاکستان کے اندر ایک قادیانی ریاست کی بنیاد (base)بن سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان میں کلیدی عہدوں پر قادیانی عقیدہ رکھنے والے یا ان کے ہمدردوں کی تعیناتی ان کی سوچی سمجھی پالیسی رہی ہے اور وہ ماضی میں اس معاملے میں خاصے کامیاب رہے ہیں۔

وہ پاکستان میں اپنے لیے ہمیشہ سے ایسا ماحول چاہتے ہیں جہاں وہ آزادی کے ساتھ اپنے گمراہ کن عقائد کی تبلیغ کرسکیں اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو قادیانی بناسکیں۔ ریاست کے تمام اداروں میں ان کا اتنا رسوخ ہوکہ وہ ریاست کی پالیسیوں پر اثرانداز ہوکر اپنے حق میں استعمال کریں۔ انھیں ادراک ہے کہ آئینی اور قانونی طور پر غیرمسلم ہونے کے باعث عوام الناس کی عظیم اکثریت اب ان کی شکارگاہ نہیں رہی، لیکن وہ بین الاقوامی مہم کے ذریعے پاکستانی حکومتوں کو دبائو میں لا کر اپنے لیے گنجایش پیدا کرنے کے لیے پوری دنیا، خصوصاً مغربی ممالک بشمول برطانیہ میں ہر طرح سے سرگرمِ عمل ہیں۔  برطانیہ سے قادیانیوں کا ایک صدی سے زائد عرصے کا تعلق آئے دن گہرا ہورہا ہے اور ان کے ہم عقیدہ افراد اب وزیر اور مشیر کی حیثیت سے برطانوی حکومت کا حصہ ہیں۔

بھارت کا دعویٰ ہے کہ وہ ایک سیکولر ملک ہے، جہاں پر مذہب یا اس کا انتخاب کسی شخص کی ذاتی پسندو ناپسند پر منحصر ہے۔ بھارتی آئین کے بنیادی اصولوں کے مطابق حکومت کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ اسی طرح شہریوں کو مذہب کی تبدیلی کی بھی پوری آزادی کا دعویٰ کیا گیا ہے بشرطیکہ اس میں جبر و لالچ شامل نہ ہو۔ اس کے باوجود تبدیلیِ مذہب کو سخت بنانے اور اس کو کئی پیچیدہ شرائط کے ساتھ تابع کرنے کی غرض سے ملک کی آٹھ صوبائی حکومتوں اڑیسہ، مدھیہ پردیش، اروناچل پردیش، چھتیس گڑھ، گجرات، ہماچل پردیش، اتراکھنڈ اور جھارکھنڈ نے ابھی تک اسمبلیوں سے باضابطہ قوانین منظور کروائے ہیں۔ ان کا ہدف خاص طور پر دلت ہیں، جن کے متعلق اونچی ذات کے ہندوؤں کو ہمیشہ خدشہ لاحق رہتا ہے کہ وہ کہیں ان کے ظلم و ستم سے تنگ آکر مسلمان یا عیسائی نہ بن جائیں۔ اگرچہ تبدیلیِ مذہب کو بھی ذاتی فعل کے زمرے میں بیان کیا جاتا ہے، لیکن اگر اس کا جواز یہ بتایا جائے کہ موجودہ مذہب میں رہتے ہوئے حکومت سے انصاف ملنے کی اُمید نہیں ہے، تو یہ کسی بھی معاشرے کے لیے ایک نہایت ہی تشویش کن صورت حال قرار دی جاتی ہے۔

حال ہی میں بھارتی دارالحکومت دہلی سے متصل اترپردیش صوبہ کے باغپت ضلع کی تحصیل بڑوت کے بدرکھا گاؤں میں ایک ہی مسلم خاندان کے بیس افراد نے مرتدبن کر ہندو مذہب اختیار کرنے کا اعلان کیا۔ان افراد نے ایک باضابطہ تقریب میں مذہب تبدیل کرنے کے لیے ایس ڈی ایم کے سامنے مذہب تبدیل کرنے کی عرضی دی تھی۔ اپنے نوجوان بیٹے گلشن عرف گلزار کے قتل کے معاملے میں پولیس کے رویے سے تنگ آکر اخترعلی کے اہل خانہ جس میں سات مرد اور تیرہ خواتین شامل تھیں،انھوں نے ایس ڈی ایم بڑوت کو حلفیہ بیان دے کر اپنی مرضی سے اسلام مذہب چھوڑ کر ہندو دھرم اپنانے کی اجازت طلب کی تھی۔اس کے اگلے دن ہندو رواج کے مطابق ہوان، بھجن و منتروں کے بعد گائوں کے شیو مندر میں جاکر باقاعدہ اپنا نام اور مذہب تبدیل کرلیا۔ اس دوران ہندو یوا واہنی کے ریاستی صدر شوکیندر کھوکھر اور ضلعی صدر یوگیندر تومر سمیت کئی لوگ بھی موجود تھے۔ہون اور ہنومان چالیسا کا پاٹھ کیاگیا۔

بتایا جاتا ہے کہ جوگی خاندان کا اختر علی کا بیٹا گلشن علی کپڑے کی تجارت کرتا تھا۔ ماہ جولائی میں گلشن علی کی لاش ان کی ہی دکان میں کھونٹی سے لٹکی ہوئی ملی تھی۔ اہل خانہ کا الزام تھا کہ اس کا قتل کرکے اس کی لاش لٹکا دی گئی تھی، لیکن پولیس کسی تحقیق و تفتیش کے بغیر اس قتل کو خودکشی بتاتی رہی اور خودکشی کا کیس درج کرنے کے بعد جبراً اس کی لاش دفنا دی گئی۔ اس کی شکایت متاثرہ خاندان نے ضلعی اعلیٰ افسران سے کی لیکن کوئی کارروائی نہیں ہوئی ۔ معاملے کی تفتیش پر مامور اے ایس پی راجیش کمار شریواستو نے کہاکہ اہل خانہ نے اپنے ہی ہم مذہبوں سے ناراض ہوکر تبدیلی مذہب کیا ہے،مگر اختر علی اور ان کے اہل خانہ نے راقم کو فون پر بتایا کہ ’’مذہب اسلام میں رہ کر وہ اپنے بیٹے کو انصاف نہیں دلاسکتے کیو ںکہ پولیس شاید ہی کسی مسلمان کی بات سنتی ہے‘‘۔ان کو شکوہ تھا کہ ’’گائوں اور اس کے آس پاس کے مسلمان بھی ان کا ساتھ نہیں دے رہے ہیں اور نہ پولیس تعاون کررہی ہے۔ اس لیے ہم لوگوں نے مذہب تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ حکومت داد رسی کرسکے‘‘۔

۲۰۱۷ء میں اترپریش اسمبلی انتخابات کی رپورٹنگ کرتے ہوئے احساس ہوا کہ ووٹر بجلی، سٹرک، پانی سے زیادہ انصاف اور دادرسی کوترجیح دے رہا ہے۔ دیوبند کے قریب ایک گائوں میں مجھے بتایا گیا کہ: ’’اگر لکھنؤ میں سماج وادی پارٹی کی حکومت ہے، تو پولیس صرف یادو برادری کی سنتی ہے اور اگر بہوجن سماج پارٹی کی مایاوتی برسراقتدار ہے تو صرف دلت کی شنوائی ہوتی ہے۔ اب بتایا جاتا ہے کہ موجود دور میں جب بی جے پی حکومت ہے، اونچی ذات کے برہمن اور ٹھاکر پولیس تھانوں میں ڈیرے ڈالے ہوئے رہتے ہیں اور صرف انھی کی سفارش پر اب پولیس کوئی کارروائی کرتی ہے‘‘۔

اس طرح کے واقعات شاید بھارت کے طول و عرض میں پیش آتے ہوںگے،مگر جس علاقے میں ارتداد کا یہ سانحہ پیش آیا وہ عالمی شہرت یافتہ دارالعلوم دیوبند سے محض ۱۰۰کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور اس علاقے میں مدرسوں ، عالیشان مساجد اور سنہرے کلسوں سے مزین خانقاہوں اور درگاہوں کا ایک جال بچھا ہواہے۔ اس کے علاوہ جمعیت علماے ہند کا اچھا خاصا رسوخ ہے۔ جمعیت کے ذمّہ داروںکا کہنا ہے کہ: ’’ہم نے علاقے کے متعدد ذمہ داروں سے گفتگو کرکے    اس مسئلے پر توجہ دینے کی کوشش کی تھی مگر مرتد ہونے والے ان ۱۳؍ افراد نے برادری ، رشتہ داروں کی بھی نہیں مانی۔ ان کا ایک لڑکا پھانسی لگاکر مرگیا تھا۔ اس کا الزام یہ لوگ اسی کے پھوپھی زاد پر لگاکر مسلمانوں کو جھوٹے کیس میں پھانسنا چاہتے تھے ، مسلمانوں کے سمجھانے بجھانے کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوا ۔ لیکن ایک بہو نے مرتد ہونے سے انکار کردیا اور وہ اپنے بچوں کو لے کر اپنے میکے چلی گئی‘‘۔

جمعیت کے ذمہ داران کچھ بھی صفائی دیں، مگر ان کی ناک کے نیچے اس علاقے کے دیہات میں مسلم آبادیاں کسمپرسی اور جہالت کا شکار ہیں۔ عالیشان مساجد، مدرسوں اور خانقاہوں کو آراستہ بنانے کے ساتھ ساتھ اگر ان آبادیوں کی تعلیم و تربیت اور ان کو روزگار دلانے کی سمت میں بھی وہ کام کرتے تو شاید یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔حالات یہ ہیں کہ اندرون ومضافاتی دیہات میں تو مسلمان دین سے بالکل ناآشنا ہیں،کیوںکہ بڑے حضرات اور داعی اسلام وہاں جانا گوارا ہی نہیں کرتے۔ ان مضافاتی دیہات میں جاکر ان کمزور و بے سہارا اور کھیتی مزدور مسلمانوں کی خیرخبر لینے والے بہت کم ہیں۔ مذہب تبدیل کرنے والوں کا یہ الزام ہے کہ ان کی داد رسی نہیں کی گئی۔گو یہ تبدیلی مذہب کا معقول عذر نہ ہو، لیکن مسلم تنظیموں کو ملزم کے کٹھرے میں ضرور کھڑا کر دیتا ہے- زکوٰۃ کا نظام جو بے سر و سامان مسلمانوں کے لیے بنایا گیا تھا وہ زیادہ تر پیشہ ور فنڈ جمع کرنے والوں کے پیٹ کو بھرنے کا ذریعہ بنتا ہے۔ دھیرہ دون سے مفتی رئیس احمد قاسمی کے مطابق ان کے محلے کے ایک کھاتے پیتے مسلم گھرانے کی لڑکی ایک ہندو بھنگی کے ساتھ بھاگ گئی۔ مفتی صاحب نے انتظامیہ پر دباؤ ڈالا تو ڈیڑھ دن بعد پولیس نے لڑکی کو برآمد کرلیا مگر لڑکی جیسے ہی جج کے سامنے پہنچی، اس نے اس بھنگی کے ساتھ جانے اور اپنے ہندو ہونے کا اعلان کردیا۔ مفتی صاحب کے بقول ان کے   علم میں پانچ ایسی مسلم لڑکیاں ہیں جو صرف بھنگی برادری میں گئیں ہیں۔ عام ہندوؤں کے ساتھ جانے والی لڑکیوں کی اکیلے دھیرہ دون میں ہی ایک بڑی تعداد ہے۔

 مسلم پرسنل لا بورڈ کے سیکرٹری مولانامحمد عمر محفوظ رحمانی کے مطابق چند برسوں سے باضابطہ پلاننگ کے تحت مسلمان لڑکیوں کو جال میں پھنساکر ہندو بنایا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ گذشتہ سال جب وہ مسلم پرسنل لا بورڈ کے ایک پروگرام میں مہاراشٹر کے مشہورشہر پونا گئے تو معلوم ہوا کہ ان کے ایک جاننے والے کی بھانجی نے ہندو لڑکے کے ساتھ بھاگ کر کورٹ میریج کی ہے۔ معلوم ہوا کہ صرف پونا میں دو برسوں میں ۴۴مسلمان لڑکیوں نے غیر مسلم لڑکوں کے ساتھ شادی کی ہے۔ اسی سال اگست میں۱۱مسلمان لڑکیوں کی غیر مسلم لڑکوں کے ساتھ شادی کی درخواستیں کورٹ میں دائر ہوئی ہیں اور ستمبر میں۱۲لڑکیوں نے درخواست دی ہے۔ اسی طرح بمبئی میں۱۲،تھانے میں۷، ناسک میں۲، اور امراوتی میں۲ لڑکیوں نے کورٹ میں دیگر مذاہب کے لڑکوں کے ساتھ شادی کی درخواست دی ہے ۔

بھوپال کی گنجان مسلم آبادی والے ایک علاقے میں اس طرح کے دسیوںواقعات ہوچکے ہیں، اور صرف غیر شادی شدہ لڑکیاں ہی نہیں شادی شدہ عورتیں بھی اپنے شوہر اور بچوں کو چھوڑ کر غیر مسلموں کے ساتھ چلی گئی ہیں۔ کچی بستیوں میں رہنے والی مسلمان لڑکیاں فرقہ پرست عناصر کی اس منصوبہ بند سازش کا’لقمۂ تر‘بنی ہوئی ہیں۔ مولانا صاحب کے مطابق گجرات میں مسلمان لڑکیوں کو رجھانے ،قریب کرنے اور پھر ان کاجنسی استحصال کرنے کے لیے گراں قیمت تحفے دیے جاتے ہیں، مثلاً مہنگے موبائل ،آئی پیڈ، لیپ ٹاپ، ایکٹیوا بائک وغیرہ۔ان کی باضابطہ ’فنڈنگ‘کی جارہی ہے اور ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت انھیں اس کام پر لگایا گیا ہے۔ یہ محض اتفاقی واقعات نہیں ہیں بلکہ ان کے پیچھے ایک سوچا سمجھا منصوبہ کام کر رہاہے۔’لوّ جہاد‘نام کی کوئی چیز اس ملک میں نہیں ہے،البتہ یہ ’شوشہ‘ صرف اس لیے چھوڑا گیا تھا کہ ہندو نوجوانوں میں ’انتقامی جذبہ‘ اُبھارا جائے اور خود مسلمانوں کو ’لوّ جہاد‘میں الجھا کر اندرون خانہ مسلمان لڑکیوں کو تباہ و برباد کرنے کا کھیل کھیلا جائے۔ان کے مطابق باضابطہ ایسے ہندو جوانوں کی ایک ٹیم تیار کی گئی ہے، جن کاکام ہی محبت کے نام پر مسلمان لڑکیوںکو تباہ و برباد کرنا ہے۔یہ لو گ پہلے ہمدردی کے نام پرکسی مسلمان لڑکی سے قریب ہوتے ہیں،پھر محبت کا فریب دیتے ہیں، اور شادی کا وعدہ کرتے ہیں، اور پھر جنسی استحصال کا مرحلہ شروع ہو جاتاہے اور جب وہ لڑکی عفت و عصمت کا گوہر لٹاچکتی ہے او ر اس لڑکے سے شادی کا اصرار کرتی ہے تو پھرکورٹ میں کورٹ میرج کی درخواست دی جاتی ہے۔

پچھلے ماہ اسی طرح کے ایک واقعے میں ہریانہ کے روہتک ضلع کے ٹٹولی گاؤں میں ایک پنچایت نے فرمان جاری کرکے مقامی مسلمانوں پر ٹوپی پہننے اور لمبی داڑھی رکھنے پر پابندی عائد کی۔ اس کے علاوہ یہ بھی حکم دیا گیا کہ: ’’وہ بچو ں کے ہندو نام ہی رکھیں گے‘‘۔ گاؤں کے بیچ میں وقف بورڈ کی جو زمیں قبرستان کے لیے استعمال ہوتی تھی اس کو پنچایت نے اپنی تحویل میں لے کر زرعی اراضی میں تبدیل کردیا۔ بتایا جاتا ہے کہ عید الاضحی کے موقعے پر گائوں میں دھوبی خاندان کے یامین کھوکھر پر الزام لگایا گیا کہ اس نے بچھڑے کی قربانی کی تھی۔ بعد میں اس کو پولیس گرفتار کرکے بھی لے گئی، مگر جلد ہی ضمانت پر و ہ رہا ہوگیا۔ روہتک نمبردار نے ۲۰ستمبر کو اجلاس بلا کر الیاس کو گائوں بدر کرنے کا حکم سنایا۔ گاؤں کی ۳ہزار نفوس کی آبادی میں ۶۰۰مسلمان ہیں۔ اس فرمان میں مزید یہ حکم دیا گیا کہ: ’’گائوں میں کہیں بھی کھلی جگہ پر نماز ادا نہیں کی جائے گی‘‘۔  یاد رہے گائوں یا اس کے آس پاس میں کہیں بھی مسجد نہیں ہے۔ مسلم آبادی جمعہ کی نماز ادا کرنے کے لیے روہتک شہر جاتی ہے۔

اسی سال مارچ میں آگرہ کی کچی بستی مدھونگر میں تین سو مفلوک الحال مسلمانوں کے مرتد ہونے کی خبر آئی۔ انتہاپسند ہندو تنظیموں نے ان کی ’گھر واپسی‘ یعنی ہندومت اختیار کرنے کی تقریب منعقد کی، جس میں ۷۰ کے قریب افراد نے شرکت کی تھی۔ بھجنوں کے درمیان ہندو دھرم اختیار کیا۔اسی مہینے فیض آباد، یوپی سے بھی ۲۲مسلمانوں کے مرتد ہونے کی خبر آئی تھی۔ میڈیا سے بات چیت میں ان لوگوں نے کہا: ’’ہم سے وعدہ کیا گیا ہے کہ راشن کارڈ اور مفت ہائوسنگ پلاٹ دیے جائیں گے‘‘ جو کہ سراسر لالچ اور غربت کا ناجائز فائدہ اُٹھانا ہے۔ 

چوںکہ تقسیمِ ملک کے وقت یہ علاقہ شدید فسادات کی زد میں آگیا تھا، جولوگ کئی وجوہ کی بناپر ہجرت نہیں کرسکے تھے، انھوں نے اپنی حفاظت کی خاطر اپنے نام تبدیل کردیے ۔ وہ دیوالی، ہولی اور دیگر ہندو تہوار بھی مناتے ہیں ، مگر گھروں میں اسلامی رسوم و رواج کو انھوں نے زندہ رکھا ہوا تھا۔ ان کی نئی پود اب باقاعدہ مسلم شناخت کے ساتھ زندہ رہنا چاہتی ہے ، جس پر اعتراض کیا جا رہا ہے۔ بہار میں دربھنگہ کے ایک گائوں میں ایک مسلم خاندان پر پنچایت نے ۲۵ہزار روپے کا جرمانہ عائد کیا ، کیوںکہ اس نے بڑے جانور کا پایہ اپنے گھرمیں پکایا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ ۲۰۰۲ء میں گجرات میں ہونے والے مسلم کش فسادات کے بعد جن لوگوں نے دیہی علاقوں سے ہجرت کرکے کیمپوں میں پناہ لی تھی، جب ان کی واپسی کی کوششیں ہورہی تھیں ، تو کئی علاقوں کی پنچایتیںان کو  اسی شرط پر واپس بسانے پر تیار تھیں کہ مسلمان حلفیہ بیان میں یہ یقین دلائیں کہ نہ وہ گائوں میں مسجد بنائیں گے اور نہ بلند آواز میں اذان دیں گے۔یہ باضابطہ تحریری حلفیہ بیانات تھے۔اسی طرح کی چند اور شرائط بھی تھیں۔

اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں ہر تیسرا مسلمان غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہا ہے ۔ پچھلے ۵۰برسوں میں ان کی حالت دلتوں اور قہرزدہ قبائل سے بھی بد تر ہوچکی ہے۔ یہ وہی قوم ہے جو ایک صدی قبل تک اس خطے کی حکمران تھی۔ مذبح خانے (سلاٹر ہائوس) بند کیے جانے سے اتر پردیش میں ہزاروں مسلمان بے روز گار ہوچکے ہیں۔ گائے کے نام پر افواہ پھیلا کر جانوروں کا کاروبار کرنے والوں کو جس طرح مارا پیٹا جا رہا ہے، اس سے چھوٹے چھوٹے مسلمان تاجروں کو کاری ضرب پہنچی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ بڑے تاجر جو بکرے اور بڑے گوشت کو خلیجی اور دیگر ممالک کو بر آمد کرتے ہیں، ان کے کاروبار شد و مد کے ساتھ جاری ہیں، کیوں کہ ان میں اکثریت جین یا ہندو ہیں۔

شاید یہ واقعات اسلام کے نام پر وجود میں آئے پاکستان میں رہنے والے مذہبی ادارے چلانے والوں اور ارباب حل و عقد کی سمجھ میں نہ آئیں، کیوں کہ وہ فرقہ بندی اور فروعی معاملات میں اُلجھے ہوئے ہیں۔ انھیں کیا معلوم کہ آزادی کی فضا میں ان کے سانس لینے کی کیا قیمت بھارتی مسلمان ادا کر رہے ہیں۔ بجاے اس کے کہ وہ اپنے اخلاق سے دنیا کواسلام کی صحیح تعریف سے روشناس کرواتے، ایک دوسرے پر کیچڑ اُچھالنے کے رجحان نے تو اچھے خاصے مسلمان کو بھی   خوار اور مایوس کیا ہے۔ اُمید تھی کہ جو کام ۸۰۰سال تک برصغیر پاک و ہند پر حکومت کرنے والے مسلم حکمران نہیں کر پائے ، قائد اعظم محمد علی جناح کے جانشین اس ملک کو ایک لیبارٹری کی طرز پر استعمال کرکے اسلام کے حقیقی سماجی انصاف کے پیغام کو عام کرکے برصغیر کے دیگر خطوں، خاص طور پر بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کے لیے مشعل راہ اور مثال کا کام کریں گے۔ ان کی اس کاوش سے بھارت میں دیگر مذاہب ، خصوصاً دلتوں تک اسلام کے آفاقی نظام کو پہنچانے میں مدد ملتی۔

ڈاکٹر بھیم رائو امبیڈکر بھارت کے پسماندہ طبقات کے سب سے بڑے لیڈرتھے۔ ان کا رجحان اسلام قبول کرنے کا تھا۔ اسلام کی طرف مگران کے بڑھتے قدم رک گئے جس کی ایک بڑی وجہ ان کا یہ احساس تھا کہ مسلمانوں کے اندر چھوٹی بڑی ذاتوںکا سسٹم موجود ہے۔ اگر انھوں نے اسلام قبول کرلیا تو انھیں مسلم سماج میں بھی برہمنواد کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اسی طرح مسلمانوں کے اندر مسلکی جھگڑا بھی انھیں دکھائی دیا، جو ان کے لیے پاؤںکی زنجیر بن گیا۔ انھوں نے ایک موقعے پر اپنی تقریر میں کہا: ’’میں اسلام قبول کرنا چاہتا ہوں، لیکن اگر میں اسلام قبول کرتا ہوں تومجھے وہابی کہہ کر خارج از اسلام کردیا جائے گا‘‘۔قصۂ مختصر، اگر مسلمان اپنا وتیرا تبدیل نہیں کرتے، اسلام کے حقیقی سماجی انصاف کے پیغام کو عملاً نہیں اپناتے، تو دلتوں اور دیگر طبقات کو اپنے ساتھ ملانا تو دُور کی بات، خود مسلمانوں کی نئی پود بھی دور چلی جائے گی۔

زندگی مسلسل واقعات و احداث سے عبارت ہے۔ اقوام و افراد کے لیے ہر لمحہ کسی نہ کسی خیر یا شر کی بنیاد بن سکتا ہے۔ کئی واقعات و لمحات تو انتہائی دُور رس اثرات چھوڑجاتے ہیں۔ کبھی اتنے دُور رس کہ ان سے پہلے اور ان کے بعد کا زمانہ مختلف ہوجاتا ہے۔ مثال دیکھنا ہو تو گذشتہ دوعشروں میں نائن الیون اور عرب بہار کے دواہم واقعات ہی ملاحظہ فرمالیجیے۔۲؍ اکتوبر ۲۰۱۸ء کو استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے میں ایک نمایاں سعودی صحافی جمال خاشقجی کا قتل بھی ایسا ہی ایک تیسرا واقعہ ثابت ہورہا ہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ قتل تو روزانہ ہوتے ہیں۔ صحافی بھی بہت سے مارے جاچکے ہیں۔ کشمیر، شام، فلسطین اور روہنگیا سمیت کئی خطوں میں خون کی ہولی بھی مسلسل کھیلی جارہی ہے، آخر جمال کا قتل اتنا اہم کیوں ہوگیا؟ آئیے اس کی حقیقت و اثرات کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔

جمال خاشقجی مدینہ منورہ میں پیدا ہونے والا ایک بے باک صحافی تھا۔ راقم سمیت پاکستان کے کئی افراد سے ان کا تعارف برسوں پر محیط ہے۔ حُسن اتفاق سے ان کی شہادت سے ایک ہفتہ قبل استنبول ہی میں ان سے آخری مفصل ملاقات ہوئی۔ معروف عالمی تھنک ٹینک ’الشرق فورم‘ کے زیراہتمام ’سیاسی اسلام‘ (اسلامی تحریکات کے لیے اہل مغرب کی نئی اور طنزیہ اصطلاح) کے موضوع پر دو روزہ سیمی نار میں ہم دونوں مدعو تھے۔ تین روز اکٹھے ہی قیام و تبادلۂ خیال رہا۔ جمال اشتراکی روس کے خلاف جہاد کے زمانے میں افغانستان سے رپورٹنگ کرتا رہا۔ بعد میں یکے بعد دیگرے معروف عرب روزناموں الشرق الاوسط ، عرب نیوز اور الوطن کا ایڈیٹر رہا۔ اس دوران ایک اور معروف روزنامے الحیاۃ میں کالم شائع ہوتے رہے۔ ارب پتی سعودی شہزادے ولید بن طلال نے ’العرب‘ کے نام سے الجزیرہ چینل جیسا ایک نیا نیوز چینل بنانے کا ارادہ کیا تو جمال کو اس کا سربراہ بنایا۔ بحرین کے دارالحکومت المنامہ میں قائم اس شان دار چینل پر ایک خطیر رقم خرچ ہوئی۔ لیکن جونہی چینل کی نشریات شروع ہوئیں، مقامی ذمہ داران اس کی سچائی کی تاب نہ لاسکے۔ ایک دن بعد ہی چینل پر پابندی لگی اور پھر ہمیشہ کے لیے بند کردیا گیا۔

شاہ فیصل مرحوم کے صاحبزادے اور طویل عرصے تک سعودی خفیہ ادارے کے سربراہ رہنے والے شہزادہ ترکی الفیصل اس حساس ذمہ داری سے فارغ ہوئے تو اہم عرب چینل MBC پر ان کے انٹرویوز کا طویل سلسلہ چلا۔ یہ انٹرویو کرنے والا بھی جمال ہی تھا۔ ترکی الفیصل کو برطانیہ اور پھر واشنگٹن میں سعودی سفیر بنایا گیا تو جمال ان کے ابلاغیاتی مشیر کے طور پر ساتھ رہا۔ اس دوران میں وہ واشنگٹن پوسٹ جیسے عالمی اخبارات میں لکھنے لگا۔ جمال کے قتل کے بعد واشنگٹن پوسٹ  کے صحافی ڈیوڈ اگناٹیوس نے شہزادہ ترکی الفیصل سے ۹۰ منٹ کا انٹرویو کیا، جس میں انھوں نے اس قتل پر شدید رنج و غم کا اظہار کیا۔ جمال سے اپنے تعلق کے بارے میں بھی کئی اہم رازوں سے پردہ اٹھایا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’وہ افغان جہاد کی رپورٹنگ کے لیے ایک صحافی کے طور پر افغانستان گیا تھا۔ اس وقت ہمارا اس سے کوئی رابطہ نہیں تھا۔ پھر جب وہ عرب نیوز کا ایڈیٹر بنا تو میری    ان سے ملاقات ہوئی۔ گذشتہ چار برس سے ہمارے مابین اختلاف راے ہوگیا تب سے ہمارا رابطہ تقریباً منقطع تھا۔ ہمارا اختلاف الاخوان المسلمین کے بارے میں ہوا تھا۔ میرا کہنا تھا کہ اخوان جمہوریت کے دعووں کی آڑ میں دہشت گردی کرتی ہے، جمال کو میری اس راے سے اتفاق نہیں تھا‘‘۔

سعودی عرب میں قیادت اور حالات تبدیل ہونے کے بعد جمال نے مستقل طور پر بیرون ملک رہنے کا فیصلہ کرلیا۔ انھیں کئی اُمور بالخصوص اختلاف راے کی بنیاد پر کی جانے والی گرفتاریوں سے اختلاف تھا۔ وہ اس بارے میں کھلم کھلا اظہار کرتا تھا۔ اس سب کچھ کے باوجود زمینی حقائق کو بھی جانتا تھا۔ استنبول میں ہماری اس آخری ملاقات کے دوران بھی اس نے اس امر کی ضرورت پر زور دیا کہ بعض اختلافات کے باوجود، سعودی عرب کی اہمیت کے پیش نظر اس سے گفت و شنید اور روابط جاری رہنا چاہییں۔ طویل عرصے سے تنہا بیرون ملک رہتے ہوئے انھوں نے دوسری شادی کا ارادہ کرلیا۔ ۳۶ سالہ ترک صحافی خدیجہ چنگیز جو شان دار عربی بھی جانتی ہے، سے ان کی تحریروں بالخصوص سلطنت آف عمان کے بارے میں لکھے جانے والے مقالے کے حوالے سے تعارف ہوا، جو شادی کے لیے آمادگی پر منتج ہوا۔ منگنی تو خاموشی سے ہوگئی، لیکن اتاترک کے سیکولر دستور کے مطابق دوسرا نکاح کرنے کے لیے پہلی بیوی سے طلاق کی مصدقہ دستاویز   پیش کرنا لازمی تھا۔ ان دستاویزات کی تصدیق کے لیے ۲۸ ستمبر کو اپنے ملک کے قونصل خانے گئے تو چند روز بعد دوبارہ آنے کو کہا گیا۔ ۲؍اکتوبر کو کاغذات تیار ہونے کی اطلاع دی گئی۔   دوپہر ایک بج کر ۳۷منٹ پر اندر گیا تو خصوصی جہاز میں آنے والے ۱۵؍ افراد کے ہاتھوں انتہائی سفاکیت سے قتل کرکے، لاش کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے گئے۔خدیجہ چنگیز قونصل خانے کے باہر منتظر تھی۔ دونوں میں یہ طے پایا تھا کہ اگر واپسی میں غیر معمولی تاخیر ہوئی تو وہ فوراً اپنے ایک عزیز یاسین اقطائی کو مطلع کردے گی۔ یاسین اقطائی اس وقت حکمران جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے نائب صدر اور تنظیمی اُمور کے سربراہ ہیں۔ اس سے پہلے وہ پارٹی کے خارجہ اُمور کے سربراہ تھے۔ وہ لمحہ اور آج کا لمحہ اس واقعے کے اثرات شدید سے شدید تر ہوتے جارہے ہیں۔

۲؍اکتوبر کی شام ہی یہ خبر پوری دنیا میں پھیل چکی تھی کہ ایک صحافی اپنے ہی ملک کے قونصل خانے میں لاپتا اور شاید قتل کیا جاچکا ہے۔ جمال کے قتل کے اگلے روز ہی ترکی نے ان ۱۵؍افراد کی ویڈیو اور تصاویر نشر کردیں، جو اسی غرض کے لیے دو خصوصی جہازوں پر استنبول آئے اور واردات کے بعد اسی سہ پہر سعودی عرب واپس چلے گئے تھے۔ آیندہ آنے والے دنوں نے  ان سب کی ساری نقل و حرکت کی ویڈیو ریکارڈنگ عالمی ذرائع ابلاغ کے ذریعے پوری دنیا تک پہنچا دی۔ نہ صرف یہ بلکہ جمال کے قونصل خانے میں داخل ہونے کے بعد سے لے کر ۲۲ منٹ کی ریکارڈنگ ایسی ہے، جس میں قاتلوں اور مقتول کے مابین ہونے والی چند لمحوں کی گفتگو سے لے کر، اسے بے ہوش کرنے اور پھر برقی آرے سے لاش کے ٹکڑے ٹکڑے کر دینے کی ساری تفصیل موجود ہے (تادمِ تحریر اس کی ریکارڈنگ نشر نہیں کی گئی)۔ واردات کے بعد سعودی قونصل جنرل اور اعلیٰ ذمہ داران نے کہا کہ جمال یہاں آنے کے کچھ دیر بعد پچھلے دروازے سے واپس چلا گیا۔ لیکن بعد ازاں سرکاری سعودی ذرائع نے اعلان کیا کہ ’’تحقیقات کے بعد معلوم ہوگیا ہے کہ جمال خاشقجی قونصل خانے کی عمارت ہی میں سفاکانہ طریقے سے قتل کردیا گیا تھا۔ اس کا قتل دوران تفتیش اسے چپ کروانے کی کوشش کے دوران دم گھٹنے سے ہوا۔ اس الزام میں سعودی عرب میں ۱۸ مشتبہ افراد کو گرفتار کرلیاگیا ہے، مزید تحقیقات جاری ہیں‘‘۔ بعد ازاں سعودی فرماں روا شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور ولی عہد محمد بن سلمان نے ترک صدر سے فون پر بات کرتے ہوئے اور ولی عہد نے ریاض میں منعقدہ ایک کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے بھی اس بہیمانہ قتل کو انتہائی وحشیانہ کارروائی قرار دیا۔ انھوں نے اعلان کیا کہ کوئی بھی ذمہ دار انصاف کے شکنجے سے بچ نہ پائے گا۔ سعودی ولی عہد نے  یہ خوش آیند بات بھی زور دے کر کہی کہ: ’’جب تک شاہ سلمان، ولی عہد محمد بن سلمان اور ترک صدر اردوان موجود ہیں کوئی طاقت دونوں برادر ملکوں کے مابین کوئی دراڑ پیدا نہیں کرسکتی‘‘۔

اللہ رب العزت نے کسی بھی بے گناہ کا قتل پوری انسانیت کا قتل قرار دیا ہے۔لیکن بعض جرائم کی شناعت و سنگینی مزید بڑھ جاتی ہے۔ سفارت کاری کی دنیا عین جنگ کے عروج پر بھی محفوظ رکھی جاتی ہے۔ گھمسان کا رن پڑا ہو اور جانی دشمن بھی سفیر یا پیغام بر کی صورت میں سامنے آجائے تو اسے کوئی گزند نہیں پہنچائی جاسکتی۔ ویانا کمیشن آج کی دنیا میں سفارت خانوں اور سفارت کاروں کے لیے خصوصی مراعات یقینی بناتا ہے۔ سفارت خانے ہی کو اگر مقتل گاہ میں بدل دیا جائے تو سب کے لیے ناقابلِ یقین ہوتا ہے۔ اسی طرح صحافت اور صحافیوں کو بھی خصوصی مقام حاصل ہے۔ صحافی دوران جنگ برستی آگ میں بھی محفوظ سمجھے جاتے ہیں۔اس قتل کی تیسری سنگینی لاش کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے غائب کر دینا ہے۔ ابھی تک نہ لاش ملی، نہ کفن اور نمازِ جنازہ نصیب ہوسکا۔

سعودی فرماں روا شاہ سلمان کا یہ اعلان اور طیب اردوان کو ان کی یہ یقین دہانی یقینا اہم اور حوصلہ افزا ہے کہ قاتل جو بھی ہو، کسی طور سزا سے بچ نہ پائیں گے۔ ترک حکومت کی شائع کردہ فہرست میں آنے والے ۱۵ ،اور قونصل خانے کے تین افراد کی گرفتاری کے اعلان کے ساتھ ہی  ولی عہد محمد بن سلمان کے قریبی ترین خصوصی مشیر سعود القحطانی اور انٹیلی جینس کے نائب سربراہ جنرل احمد العسیری کو ذمہ داریوں سے سبکدوش کردینے کی خبریں بھی انتہائی اہم ہیں۔ لیکن ابھی تک کئی اہم سوالات کے جواب باقی ہیں۔ ۲۶ ؍اکتوبر کو صدراردوان نے اپنے ان مطالبات و سوالات کا دو ٹوک اعادہ کیا ہے کہ جب یہ معلوم ہوگیا کہ جمال قونصل خانے میں قتل ہوا تو لاش کہاں ہے؟ قاتل گرفتار ہوگئے ہیں تو بآسانی خود انھی سے معلوم ہوسکتا ہے کہ انھیں قتل کا حکم کس نے دیا؟ قاتلوں کے مقامی ترک سہولت کار اگر ہیں تو کون ہیں؟

ان سوالات کا تسلی بخش جواب اور قاتلوں کو قرار واقعی سزا دینا اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس قتل کی آڑ میں کئی عالمی قوتیں سرزمین حرمین شریفین کے خلاف اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کرنا چاہتی ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس واردات سے پہلے ہی لگاتار اپنے توہین آمیز اور بے سروپا بیانات میں سعودی عرب کو دھمکیاں دیتے اور بلیک میل کرتے ہوئے کہہ رہا تھا: ’’پیسے دو‘‘۔  تمھاری حفاظت ہم کررہے ہیں۔ ہم نہ ہوں تو تم دو ہفتے بھی باقی نہ رہ سکو۔ پیسے دو‘‘۔ جمال خاشقجی کے قتل کے بعد بھی وہ اپنی یہی دھمکیاں دُہرا رہا ہے۔

دیکھا جائے تو اس سفاکانہ قتل کے شر سے اللہ تعالیٰ ایک خیر برآمد کرنے کا موقع فراہم کررہا ہے۔ سعودی عرب اور ترکی دونوں ہی عالم اسلام کے اہم ترین ممالک میں شمار ہوتے ہیں۔ گذشتہ کچھ عرصے سے بوجوہ دونوں کے تعلقات سردمہری بلکہ تناؤ کا شکار ہوتے جارہے تھے۔ دونوں کے دشمن بھی اس آگ پر تیل چھڑک رہے تھے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے دونوں ملکوں کے عوام کے درمیان ابلاغیاتی جنگیں بھڑکائی جارہی تھیں۔ ترکی میں آنے والے اقتصادی بحران کو بڑھاوا دینے کی بڑہانکی جاری تھی۔ جمال کے قتل کے بعد دونوں برادر ملکوں کی اعلیٰ قیادت کے مابین کئی بار گفتگو ہوچکی ہے۔ گورنرمکّہ خالدالفیصل انقرہ میں صدر اردوان سے ملاقات کرچکے ہیں۔ سعودی قیادت نے ترکی اور ترک قیادت کے بارے میں بہت حوصلہ افزا بیان دیے ہیں۔ اتوار ۲۸ ؍اکتوبر کو سعودی اٹارنی جنرل، استنبول میں اپنے ترک ہم منصب سے  مذاکرات کررہے ہیں۔ اگر دونوں برادر ملک، قتل کی اس سنگین واردات کے تمام مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچاتے ہوئے، قرآنی حکم پر عمل درآمد کرلیتے ہیں تو نہ صرف انصاف کے تقاضے پورے ہوں گے بلکہ ٹرمپ کی دھمکیوں کا بھی سدباب ہوسکے گا۔خدانخواستہ ایسا نہ ہوا تو نہ صرف مشرق وسطیٰ میں جاری تہ در تہ سیاسی اور اقتصادی بحرانوں میں مزید اضافہ ہونا یقینی ہے، بلکہ اس کے اہم عالمی اثرات مرتب ہوںگے۔ یورپی پارلیمنٹ اس واقعے کی عالمی تحقیقات کا مطالبہ کرچکی ہے۔ واشنگٹن پوسٹ پورے پورے صفحے کے اشتہارات شائع کر رہا ہے کہ Demand the Truth۔

 مقدس شہر یروشلم کے مغربی حصے میں ہولوکاسٹ میوزیم کا دورہ کرنے کے بعد کوئی شقی القلب شخص ہی ہوگا کہ جو اپنے آنسو روک پائے۔ چند برس قبل جب میں نے اس میوزیم کا دورہ کیا، تو استقبالیہ کاؤنٹر سے کانوں میں لگانے والی کمنٹری [یعنی آنکھوں دیکھا حال بتانے والی]مشین فراہم ہوگئی تو بھارتی نژاد اسرائیلی گائیڈنے مزید رہنمائی کرنے سے معذوری ظاہر کی اور مشورہ دیا کہ اس میوزیم کو انفرادی طور پر ، آزاد ذہن کے ساتھ بغیر نگرانی یا رہنمائی کے دیکھنا مناسب ہے۔ مدہم روشنیوں کے درمیان ایک پُراسرار اور سوگوار فضا دوسری عالمی جنگ اور یورپ کی شہری زندگی کی نہ صرف عکاسی کرتی ہے، بلکہ لگتا ہے کہ زمان و مکان اسی دور میں پہنچ گئے ہیں۔ آپ ہال میں جس تصویر یا کسی شے کے سامنے کھڑے ہیں اس کا اور ہال کا نمبر کمنٹری مشین میںدبائیں، تومطلوبہ زبان میں آنکھوں دیکھا حال رواں ہوجاتا ہے اور محسوس ہوتا ہے، جیسے یہ تصویر زندہ ہوگئی ہو۔کریک ڈائون، سرچ آپریشنز، ہاتھ سروں پر رکھے قطار دَر قطار مارچ کرتے ہوئے خواتین و مرد، ریل کی پٹڑیوں کی گڑگڑاہٹ، آہ و بکا کا ایک شور، پلیٹ فار م پر گوشت سے عاری ناکافی پھٹے لباس میں انسانوں پر جرمن اہلکاروں کے برستے کوڑے ، عورتوں اور بچوں کی کس مپرسی اور پھر ان کو ہانک کر گیس چیمبر کی طرف لے جانا وغیرہ وغیرہ، غرض انسان کے وحشی پن اور انسانیت کی تذلیل کے ان واقعات کا مشاہدہ کرتے ہوئے دم بخود ہونا لازمی امر ہے۔ ایک سحر سا طاری ہو جاتا ہے۔

اس طرح کے حالات کا سامنا کرنے والے مغربی ممالک خصوصاً یہودیوں کو انسانی حقوق اور انسانیت کے تئیں زیادہ حساس ہونا چاہیے تھا، مگر افسوس عذابِ الٰہی کے بعد اپنی روایتی بد عہدی اورریشہ دوانیوں کا اعادہ کرتے ہوئے یہودی یا بنی اسرائیل نے جنگ عظیم ختم ہونے کے بعد    نہ صرف فلسطینیوں کے حقوق پر شب خون مار کر ان پر ظلم و ستم کا بازار گرم کر رکھا ہے، بلکہ دیگر ممالک میں اپنے ذرائع و و سائل کا استعمال کرتے ہوئے مسلمانوں کو اشتعال دلا کر گھیرنے اور مارنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے ہیں۔

وہ ظلم تو یورپ کے عیسائیوں نے کیا ، مگر بدلہ آج تک مسلمانوں سے لیا جا رہا ہے۔ اسی کی ایک کڑی کے طور پر حال ہی میں ہالینڈکے رکن پارلیمنٹ گیرٹ وائلڈر نے گستاخانہ خاکوں کے مقابلوں کا اعلان کیا تھا۔وائلڈر نے اپنے تحریری پیغام میں کہا کہ اس نے قتل کی دھمکیوں اور مسلمانوں کے ممکنہ ردعمل کے پیش نظر مقابلہ منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ دنیا بھر میں اس معاملے پر افرا تفری پھیلے۔ اس سے قبل ہالینڈکی حکومت نے گستاخانہ خاکوں کی نمایش روکنے کے لیے تحریری حکم نامہ جاری کردیا تھا۔ واضح رہے دنیا بھر کے مسلمانوں میں اس حوالے سے تشویش پائی جاتی تھی اور سخت احتجاج کیا جا رہا تھا۔ یہ کوئی واحد واقعہ نہیں ہے، کہ جس کو روکنے کی جیت کا سہرا مختلف تنظیمیں اپنے سر باندھنے کی کوششیں کر رہی ہیں۔ اور یہ نہیں لگتا کہ مسلمانوں کے سڑکوں پر اترنے یا دھمکیوں کی وجہ سے یہ مقابلے منسوخ ہوئے ہیں۔

اس سے قبل بھی ۲۰۰۵ء میں ڈنمارک کے ایک اخبار کی طرف سے شائع کردہ گستاخانہ خاکوں اور پھر ۲۰۱۵ء میں فرانسیسی رسالے چارلی ہیبڈو نے ان خاکوں کو دوبارہ شائع کیا اور مسلمانوںکی تنظیمیں سڑکوں پر آئیں، تو اس کا اُلٹا اثر سامنے آیا۔ مغرب میں اس کو اظہار راے پر حملے کی صورت دے کر مسلمانوں کے خلاف راے عامہ کو بھڑکایا گیا۔ پاکستانی حکومت کے موجودہ موقف ہی میں اس کا جواب پوشیدہ ہے ۔ تمام مسلم حکومتوں کو اپنے اختلافات پس پشت ڈال کر مغربی اور دیگر ممالک کے لیے ایک سرخ لکیر کھینچنا ہوگی۔ جس طرح کی لکیر مغرب نے ہولوکاسٹ کی نفی کرنے والوں کے خلاف کھینچی ہے۔

۱۹۸۸ء میں جب سلمان رشدی کی کتاب دی ستانک ورسز  (شیطانی آیات) منظر عام پر آئی تھی ، تو ایران نے اس پر سخت موقف اختیار کیا، مگر دیگر مسلم ممالک نے اس کی تائید نہ کرکے عالمی برادری میں اس کو الگ تھلگ کردیا۔ یاد رہے آیت اللہ خمینی نے مصنف کی موت کا فتویٰ بھی جاری کیا تھا۔ کئی برسوں تک اس پر زور دار بحث چھڑی رہی۔ ابلاغیات کی پڑھائی کے دوران ، ہمارے ڈیپارٹمنٹ اور جواہر لال یونی ورسٹی میں ایران کے اس موقف اور آیت اللہ خمینی کے فتوے پر نکتہ چینی میں چند عرب طالب علم پیش پیش ہوتے تھے، جو اپنے آپ کو ’روشن خیال‘ ثابت کرنے کے زعم میں ایران اور شیعوں کو رجعت پسند تسلیم کرانے پر تلے ہوئے تھے۔ دو عشرے بعد جب افغانستان میں طالبان، عرب میں القاعدہ و داعش مغرب کے نشانے پر آئے، تو شیعوں اور ایران نے اپنے آپ کو ’روشن خیال‘ جتلا کر دہشت گردی کا سارا ملبہ سنیوںپر ڈالنے کا کام کیا، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ دہشت گردی کا نہ کوئی مذہب اور نہ کوئی فرقہ یا مسلک ہوتا ہے۔

ابھی حا ل ہی میں سعودی عرب نے کینیڈا کے ساتھ اپنے سفارتی و تجارتی تعلقات اس وجہ سے ختم کرلیے کہ کینیڈانے سعودی عرب میں انسانی حقوق کی صورت حال پر احتجاج درج کروایا تھا۔ کاش! خادم الحرمین ایسا ہی موقف ان ممالک کے خلاف بھی اپناتے جو اظہارِ آزادی کی آڑ میں ان خاکوں کی پشت پناہی کرتے ہیں۔ اگر مسلم ممالک کے حکمران آئے دن بے حسی اور بزدلی کا ثبوت فراہم نہ کرتے اور جسد ملت اپنی روح کے ساتھ موجود ہوتا، تو مغربی دنیا میں کسی کی ہمت نہ ہوتی کہ پیغمبرؐ اسلام و انسانیت کو نشانہ بناتا۔ پھر اسی طرح حالیہ عرصے میں بھارت میں بھی کئی افراد ’آزادی اظہار راے‘ کی آڑ میں پیغمبر حضرت محمدـــﷺ اور ان کے اہل خانہ کے خلاف گستاخانہ الفاظ کا استعمال کرکے مسلمانوں کو زبردستی اشتعال دلانے کا کام کرتے ہیں۔

اسی عرصے میں بھارتی حکمران بی جے پی کی انفارمیشن ٹکنالوجی سیل سے مستعفی چند رضاکاروں نے آن ریکارڈبتایا کہ : ’’ہم کو مسلمانوں کے جذبات مشتعل کرنے کی تربیت دی جاتی تھی‘‘۔ بدقسمتی سے ہندو انتہاپسندوں کی ایما پر قائم ایک اور سیل کے انچارج، پاکستان کے ایک مؤقر چینل کے بھارت میں نمایندے اور پریس کلب آف انڈیا کے سابق سیکرٹری جنرل اور ’سیفما‘ (ساؤتھ ایشین فری میڈیا ایسوسی ایشن: SAFMA)کے فعال رکن پشپندر کلوستے ہیں ، جو محمد رضوان کے نام سے آئے دن ویڈیو بنا کر پیغمبر آخر الزماں ﷺ کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے رہتے ہیں۔ چوںکہ موصوف علی گڑھ یونی ورسٹی سے فارغ التحصیل ہیں، نیزپاکستانی چینل کے نمایندے ا ور سافما کے رکن کی حیثیت سے پاکستان آنا جانا رہتا ہے، اس لیے اسلام کے بارے میں واجبی سی، مگر مسلمانوں کے بارے میں سیر حاصل معلومات رکھتے ہیں۔

 جب ان کی اس شرپسندانہ روش کے خلاف کوئی آواز اٹھاتا ہے تو ہمدردی حاصل کے لیے اظہارِ آزادیِ راے کو آڑ بناکر مسلمانوں کے رویے کو نشانہ بناتے ہیں۔ وہ ناموس رسالت ؐکے حق میں مسلمانوں کے ردعمل کو ’جمہوریت کے لیے خطرناک‘ بتاتے ہیں، مگر یہی نام نہا د دانش وَر، ادیب، مصنفین اور ٹی وی اینکر اپنے ملک کے اندر آزادیِ اظہارِ راے کا گلاگھونٹے جانے کے متعدد واقعات پر چپ سادھ لیتے ہیں۔ گویا انھیں سانپ سونگھ گیا ہے۔مثال کے طور پر گذشتہ چند ماہ کے دوران پورے بھارت میں انسانی حقوق کے کارکنوں کے گھروں پر چھاپے مار کر ان کو حراست میں لیا گیا تو اس ظلم کو یہ حق بجانب ٹھیراتے ہوئے کہتے ہیں: ’’یہ ملکی سلامتی کا معاملہ ہے،کیوںکہ یہ افراد دلتوں، قبائلیوں اور مسلمانوں کے حق میں آواز بلند کر رہے تھے‘‘۔

چار سال نتیشا جین، پرینکا بورپوجاری اور ستین باردولائی کو جب چھتیس گڑھ (دانتے واڑہ) میں گرفتار کیا گیا تو حریت فکر کے ان گرووں میں سے کسی کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔ یاد رہے کہ یہ صحافی قبائلیوں پر ہونے والے مظالم اور نکسلایٹ{ FR 644 } اور نکسل مخالف کارروائیوں کا جائزہ لینے گئے تھے۔ اظہارِ راے کی آزادی کے یہ علَم بردار اس وقت بھی خاموش رہے، جب ۲۰۱۰ء میں امریکی دانش ور پروفیسر رچرڈ شاپیرو کو بھارتی حکومت نے کوئی وجہ بتائے بغیر ویزا دینے سے انکار کردیا۔۲۰۱۰ء میں ہی جب مشہور براڈکاسٹر ڈیوڈ براسمیان اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کے سلسلے میں بھارت پہنچے تو حکومت نے انھیں نئی دہلی کے ہوائی اڈے سے ہی واپس لوٹا دیا۔بھارتی زیرانتظام جموں و کشمیر جانے کے لیے تو اب بھارتی وزارت خارجہ نے غیر ملکی نامہ نگاروں کے داخلے پر ہی پابندی عائد کر دی ہے۔

حقوقِ انسانی کے مشہور بھارتی کارکن گوتم نولکھا، جن کے گھر پر یلغار کرکے ان کو حراست میں لیا گیا ، اس سے قبل وہ ۲۰۱۱ء میں بھی عتاب کا نشانہ بنے تھے۔ جب وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ چھٹیاں منانے گلمرگ جانا چاہ رہے تھے تو سری نگر ہوائی اڈے پر انھیں رات بھر حراست میں رکھنے کے بعد دہلی لوٹنے کے لیے مجبور کردیا گیا۔ ۲۰۱۵ء میں بھارت میں تامل زبان کے ناول نگار رپرومل موروگن کے ناول پر پابندی لگادی گئی۔ ان کے ناول کے انگریزی ترجمے پر اس وجہ سے پابندی لگادی گئی ہے کہ اس میں موروگن نے ہندو مذہب کی قدیم رسم ’نیوگ‘ پر نکتہ چینی کی ہے۔’نیوگ رسم‘ کے مطابق کوئی بے اولاد عورت، بچے کی طلب کو پورا کرنے کے لیے کسی غیر مرد یا پنڈت سے جنسی تعلقات قائم کرتی تھی اوراس قبیح رسم کو قدیم بھارتی معاشرے میں قبولیت حاصل تھی۔موروگن نے اس ناول میں ذات پات پر مبنی طبقاتی کش مکش اور ظلم اور معاشرے کی برائیوں پر نکتہ چینی کی ہے، جس سے ایک خاندان بکھر جاتا ہے اور ان کی اَزدواجی زندگی تباہ ہوجاتی ہے۔ ناول نگار موروگن پر اتنی نکتہ چینی ہوئی کہ ان سے نہ صرف آیندہ قلم نہ اْٹھانے کی قسم لی، بلکہ ناول کے ناشرین کو اس کی تما م کتابیں جلانے کے لیے کہا گیا۔

یہ تو صرف چند واقعات ہیںجن کا ذکر برسبیل تذکرہ آگیا ہے ورنہ بھارت میں ایسے واقعات کی گنتی مشکل ہے۔

اظہار راے کی آزادی کا سب سے بڑا علَم بردار یورپ بھی اس معاملے میں پیچھے نہیں ہے، اور اس کی سب سے واضح مثال ہولوکاسٹ ہے۔ یہودیوں کے خلاف کوئی بات لکھنا یا ان کی مخالفت کرنا یا ہولوکاسٹ کو مفروضہ قرار دیناانتہائی سنگین جرم سمجھا جاتا ہے۔ یورپی یونین نے تو اپنے رکن ملکوں کے لیے باضابطہ ایک ہدایت نامہ جاری کیا ہے کہ: ’ہولوکاسٹ کو غلط قرار دینے والے ادیبوں یا مصنّفین کو سخت سے سخت سزا دی جائے ۔ جس میں ایک سے تین سال قید بامشقت کی سزا بھی شامل ہے‘۔ ۲۰۰۳ء میں اس حکم نامے میں ایک اضافی پروٹوکول شامل کیا گیا، جس میں ہولوکاسٹ کے خلاف انٹرنیٹ پربھی کچھ لکھنا قابل گردن زدنی جرم قرار پایا ہے۔ جن ملکوں میں ہولوکاسٹ کے خلاف کچھ بھی لکھنا انتہائی سنگین جرم سمجھا جاتا ہے ان میں آسٹریا، ہنگری، رومانیہ اور جرمنی شامل ہیں۔

حالاںکہ المیہ یہ ہے کہ یہی ممالک یہودیوں کے خلاف کارروائیوں میں آگے آگے رہے تھے۔۱۹۹۸ء سے لے کر ۲۰۱۵ء یعنی ۱۷ برسوں میں تقریباً ۱۸؍ادیبوں اور مصنّفین کو اظہارِ راے کی آزادی کے علَم برداروں ہی کے عتاب کا شکار ہونا پڑا ہے۔ اس کی ایک فہرست یہاں دی جارہی ہے: lجین میری لی پین، فرانس/ جرمنی، جرمانہ، فروری۱۹۹۸ء lراجر گراوڈی، فرانس، ۲لاکھ ۴۰ہزار فرانک جرمانہ، جولائی ۱۹۹۸ء lیورگن گراف، سوئٹزرلینڈ ،۱۵ ماہ قید، جولائی۱۹۹۸ء lگیرہارڈ فوسٹر، سوئٹزرلینڈ، بارہ ماہ قید ،مئی ۱۹۹۹ء lجین پلانٹین، فرانس، چھے ماہ قید، جرمانہ، اپریل ۲۰۰۰ء lگیسٹن ارمانڈ، سوئٹزر لینڈ، ایک سال قید، فروری ۲۰۰۶ء lڈیوڈ ارونگ، آسٹریا، ایک سال قید، مارچ ۲۰۰۶ء lجرمار روڈولف، جرمنی، ڈھائی سال قید، اکتوبر ۲۰۰۶ء lرابرٹ فائریسن، فرانس، ۷۵۰۰ یورو جرمانہ، تین ماہ نظربند، فروری ۲۰۰۷ء lارنسٹ زیونڈل، جرمنی، پانچ سال قید، جنوری ۲۰۰۸ء lوولف گینگ فرولچ، آسٹریا ،چھے سال قید، جنوری ۲۰۰۸ء lسلویا اسٹالس، جرمنی، ساڑھے تین سال قید، مارچ ۲۰۰۹ء lہوسٹ مہلر، جرمنی، پانچ سال قید، اکتوبر ۲۰۰۹ء lڈیرک زمرمین، جرمنی، نو ماہ قید، اکتوبر ۲۰۰۹ء lرچرڈ ولیمسن، جرمنی، ۱۲ ہزار یورو جرمانہ، جنوری ۲۰۱۳ء lجیورگے ناگے، ہنگری، ۱۸ماہ قید، فروری۲۰۱۵ء lوینسنٹ رینورڈ، فرانس، دو سال قید، نومبر ۲۰۱۵ء lارسولا ہینر بیک جرمنی، دس ماہ قید۔

خیال رہے آزادیِ اظہار کے حق کے تعلق سے زیادہ دیر تک تعصب اور منافرت اور دہرے معیار کی عینک نہیں لگائی جاسکتی۔

سب سے اوّل میڈیا کی آزادی کے حدود کا تعین کرنالازمی ا مر ہے۔صحافت کومحض اسلام کی تضحیک سے یامسلم مخالف جنون کو مزید ہوا دینے کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی سطح پر بقاے باہم ، کشادہ ذہنی اور مذہبی رواداری اور ایک دوسرے کے تئیں احترام کے جذبے کو فروغ دیا جائے۔ تاہم، اس کے ساتھ بڑی ذمہ داری خود مسلمانوں پر عائد ہوتی ہے، جنھوں نے اسلام کے سماجی، معاشی، نیز افکار و نظریات کے انقلاب کو عام کرنے کے بجاے اس کو مسلکوں کے کوزے میں بند کرکے رکھ دیا ہے۔ مزید یہ کہ ابلاغ واشاعت کے ذرائع کا بہترین استعمال کرنے کے بجاے اپنے آپ کو ایک خول میں بندکیا ہوا ہے۔

ماؤپسند نکسل کمیونسٹ دانش ور کوبڈ گاندھی،دہلی کی تہاڑ جیل میں پھانسی کی سزا پا چکے۔ کشمیری نوجوان افضل گورو کے ساتھ کئی ماہ سیل میں قید رہے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ: ’افضل کے ساتھ گفتگو کے دورا ن پتا چلا کہ کمیونزم کے سماجی انصاف و برابری کا سبق تو اسلام ۱۴۰۰سال قبل سنا چکا ہے‘‘۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلام کو تفرقوں اور علاقائی تنگ گلیوں سے باہر نکال کر اپنے کردار و اعمال سے ثابت کریں کہ اسلام کے افکار و نظریات ہی واقعی انسانیت کی معراج ہیں۔

بھارتی کانگریس پارٹی کے صدر راہل گاندھی نے اپنے دورۂ یورپ میں انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسٹرے ٹیجک اسٹڈیز، لندن میں بھارتی ہندو انتہاپسند تنظیم ’راشٹریہ سویم سیوک سنگھ‘ (آرایس ایس) کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا: ’’آر ایس ایس ہندستان کا نیچر بدلنا چاہتی ہے۔ _ وہ ملک پر ایک مخصوص نظریہ تھوپنے کی خواہاں ہے۔ _ وہ نظریہ ایسا ہی ہے جیسا عرب دنیا میں اخوان المسلمون کا نظریہ ہے _‘‘۔

کانگریسی صدر کے اس بیان سے اخوان المسلمون کے بارے میں پیدا ہونے والی غلط فہمی کے ازالے کے لیے درج ذیل نکات قابلِ غور ہیں:

۱-  عصرِحاضر کے ہندستان میں جن لوگوں نے ہندو مذہب اور ہندو تہذیب کے احیا کی کوششیں کی ہیں، ان میں راجا رام موہن رائے ، سوامی دیانند سرسوتی ، ساورکر ، لالہ لاجپت رائے،  سوامی شردھانند اور مدن موہن مالویہ جیسے انتہاپسندانہ اور نسل پرستانہ سوچ کے حاملین خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ _ ان افراد نے مختلف تنظیمیں قائم کیں اور ان کے تحت اپنی سرگرمیاں انجام دیں ۔ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) نامی تنظیم بھی ہندو احیا پرستی کی عَلَم بردار ہے۔ _ اس کی تاسیس ۱۹۲۵ء میں ہیڈگِوار نے کی تھی۔ _ اس کے دوسرے سرچالک گول والکر تھے۔ _ انھوں نے۱۹۴۰ء سے ۱۹۷۳ـء تک اس کی سربراہی کی اور اپنی تحریروں کے ذریعے اس کی فکری بنیادیں استوار کیں۔ ان کی کتب: We or our Nationhood Defined اور Bunch of Thoughts میں وہ افکار تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں، جن پر بعد میں آر ایس ایس کی نظریاتی بنیادیں استوار کی گئیں _۔

۲- آر ایس ایس کا نظریۂ قومیت یہ ہے کہ: ’’کوئی شخص محض ہندستان میں پیدا ہونے سے ہندستانی قومیت کا حصہ نہیں بن سکتا ، بلکہ قومیت کے عناصر ترکیبی میں نسل ، پیدایش ، کلچر ، زبان اور جغرافیے کے ساتھ ساتھ مذہب بھی شامل ہے‘‘۔ اس کے نزدیک: ’’ملک میں ہندوؤں کے مفاد کے لیے کام کرنا فرقہ پرستی نہیں ، بلکہ قومی کام ہے _‘‘۔

۳-آر ایس ایس کے نزدیک: ’’ہندستان کی اکثریت ہندوؤں کی ہے ، اس لیے اسے ہندو راشٹر ہونا چاہیے۔ _ جو لوگ ہندو قومی ریاست کے تصور سے خود کو الگ رکھتے ہیں، وہ ملک دشمن ہیں‘‘۔

۴- آر ایس ایس کا کہنا ہے کہ: ’’بھارت میں رہنے والی اقلیتوں کو اپنی تہذیبی شناخت مکمل طور پر ختم کرلینی چاہیے اور خود کو اکثریتی فرقے کے کلچر میں ضم کردینا چاہیے ‘‘۔

۵-آر ایس ایس، ہندو راشٹر [ہندو قوم]کی تعمیر ’منو سمرتی‘ [منو قوانین]کی بنیاد پر کرنا چاہتی ہے، _ جس کے تحت انسانی معاشرے کو چار طبقات میں تقسیم کیا گیا ہے۔ یہ تصوّر آج خود ہندوئوں کے بڑے طبقے کے نزدیک قابلِ قبول نہیں ہے۔ اس لیے اس سے توجہ ہٹانے کے لیے اس انتہا پسند تنظیم نے اپنی آئیڈیالوجی کی بنیاد مسلم دشمنی پر رکھی ہے ۔ اس کے نزدیک: ’’مسلمان بیرونی حملہ آور ہیں ، جنھوں نے ملک کو لوٹا ہے اور لالچ اور جبر کے ذریعے یہاں کی آبادی کے ایک حصے کو مسلمان بنایا ہے۔ اس لیے ان کی 'شدھی اور 'گھر واپسی کرانی چاہیے‘‘۔ _ وہ کہتی ہے کہ: ’’مسلمانوں کے لیے یہاں دو ہی راستے ہیں کہ یا تو خود کو ہندو تہذیب میں ضم کرلیں ، یا پھر اکثریتی ہندو طبقے کے رحم و کرم پر زندہ رہیں‘‘۔

۶-آر ایس ایس، جرمنی میں ہٹلر کے ہاتھوں یہودیوں کے قتلِ عام کو تحسین کی نظر سے دیکھتی اور کہتی ہے کہ اس جرمن نسل پرستی میں بھارتی ہندوئوں کے لیے بڑی رہ نمائی ہے _۔

۷- اگر کوئی شخص آر ایس ایس کا موازنہ اخوان المسلمون سے کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اخوان کے بارے میں کچھ نہیں جانتا اور اخوان کے افکار و نظریات ، اس کی سرگرمیوں اور تاریخ سے اسے ادنیٰ سی بھی واقفیت نہیں ہے _۔

۸- اخوان المسلمون کی تاسیس ۱۹۲۸ء میں مصر میں ہوئی۔ _ اس زمانے میں عرب قومیت کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا ۔ فرعونی تہذیب کے احیا کی باتیں ہو رہی تھیں ، آزادی نسواں کے نام پر اباحیت و عریانیت کو ہوا دی جا رہی تھی۔ اس فضا میں امام حسن البنا نے اصلاحِ معاشرہ کی جدوجہد کی اور مغربی تہذیب کے بجاے اسلامی تہذیب کی بالادستی کی دعوت دی _۔

۹- اخوان کی تحریک ۱۹۳۹ء تک خاموش اصلاحی جدوجہد تک محدود رہی اور اس کی دعوت کو خوب فروغ ہوا۔ لیکن دوسرے مرحلے میں جب انھوں نے سیاسی میدان میں قدم رکھا اور انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا، تب اس کی بے پناہ مقبولیت کی وجہ سے وہ برطانوی سامراج کی کٹھ پتلی مصری حکومت کی نظر میں کھٹکنے لگی۔ _۱۹۴۸ء میں اخوان نے جنگِ فلسطین میں حصہ لیا اور  خوب دادِ شجاعت دی تو عالمی سطح پر باطل کے ایوانوں میں زلزلہ آگیا۔ _ انگریزوں نے ان کی سرکوبی کے لیے مصری حکومت پر دباؤ ڈالا _۔ تنظیم پر پابندی عائد کردی گئی اور اس کے ارکان کو داخلِ زنداں کردیا گیا ۔ ۱۲فروری ۱۹۴۹ء کو امام حسن البنا کو قاہرہ میں شہید کردیا گیا۔۱۹۵۲ء میں مصر کے فوجی آمر جمال عبدالناصر نے اپنے اُوپر قاتلانہ حملے کا الزام اخوان پر ڈال کر ان کے خلاف داروگیر کی زبردست مہم چھیڑ دی۔ ۱۹۵۴ء میں ان کے چھے رہ نماؤں کو پھانسی دے دی گئی ، جن میں سے ایک جسٹس عبدالقادر عودہ تھے۔ _ پھر ۱۹۶۶ء میں اس کے چار رہ نماؤں کو تختۂ دار پر چڑھایا گیا ، جن میں سے ایک مفسرِقرآن اور عربی کے منفرد ادیب سیّد قطب شہید بھی تھے۔ پھر مختلف مواقع پر اخوان کو خوب مشقِ ستم بنایا گیا۔اب بھی چند سال سے وہ سخت آزمایش میں مبتلا ہیں۔

۱۰- اخوان کو آر ایس ایس جیسی تنگ نظر، خونی فرقہ پرست اور دہشت گرد تنظیم سے تشبیہ دینا بڑی نادانی کی بات ہے۔ _ اخوان نے قومیت کے مروّجہ نظریے کے برعکس عالمی اخوت کا تصور پیش کیا _۔ انھوں نے حکومتوں سے اصلاح کا مطالبہ کیا اور اسلامی نظام قائم کرنے کی بات کی، لیکن ملک کے دیگر مذہبی یا اقلیتی گروہوں کے بارے میں ہرگز منافرت نہیں پھیلائی _۔

۱۱- افسوس کہ اخوان کے بارے میں عالمی سطح پر من گھڑت غلط فہمیاں پھیلائی گئیں، جھوٹے اور بے بنیاد الزامات لگائے گئے اور بے جا طور پر اسے ایک دہشت گرد تنظیم کہا گیا۔ یہ سلسلہ اب بھی برابر جاری ہے۔ _ دشمنوں سے کیا گِلہ ، افسوس کہ بعض مسلم حکومتیں، مسلم جماعتیں اور مسلم شخصیات بھی اس معاملے میں پیچھے نہیں رہیں۔

۱۲- اخوان نے کبھی طاقت ، جبر اور تشدد کا راستہ نہیں اختیار کیا اور زیرِ زمین سرگرمیاں نہیں انجام دیں ، بلکہ ہمیشہ پُر امن جدوجہد کی اور کھلے عام اپنی سرگرمیاں انجام دیں۔ اس کے باوجود ان پر الزام لگایا جاتا ہے کہ یہ خارجی اور باغی ہیں ۔

کتنی عجیب بات ہے کہ جو تنظیم خود ریاستی اور گروہی دہشت گردی کا شکار ہوئی ہو ، جس کے لاکھوں ارکان و وابستگان کو جیلوں میں ٹھونس کر بدترین مظالم کا نشانہ بنایا گیا ہو، اور وقفوں وقفوں سے جس کی لیڈرشپ کو تختۂ دار پر لٹکادیا گیا ہو ، خود اس پر دہشت گرد ہونے کا لیبل چسپاں کردیا جائے _۔

۱۳- اخوان المسلمون مصر کی تنظیم ہے۔ _ لیکن معلوم نہیں کیوں ، کچھ عرصے سے بعض بھارتی حضرات اخوان کے خلاف مہم چھیڑے ہوئے ہیں۔ _اس کے سربراہوں کو دہشت گرد قرار دیتے اور سوشل میڈیا پر ان کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا کرتے ہیں۔

اگر الزام تراشوں کی یہ تمام باتیں درست مان بھی لی جائیں تو یہ سوال پھر بھی باقی ہے کہ :

  •   بھارت میں اخوان المسلمون کو رد کرنے کی کیا ضرورت پیش آگئی؟
  • ایسا تو نہیں ہے کہ عالمی منظر نامے میں 'اخوان المسلمون ' کا رد کمائی کا ذریعہ بن گیا ہے؟
  •  کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ خود عالمِ عرب میں اخوان کے خلاف چند حکومتوں کا معاندانہ رویہ، بھارتی انتہاپسندوں کا راستہ کشادہ کرے گا۔
  •  کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ اخوان کے خلاف جتنی مبالغہ آمیز داستان سرائی اور دھواں دھار تقریریں کی جائیں گی، اس کی بنیاد پر بھارت میں بسنے والے مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے لیے فضا کو زہرآلود کرنا آسان ہوگا۔

کیا ستم ظریفی ہے کہ ایک طرف بھارت کے شمال مشرقی صوبہ آسام میں مقامی ہندو آبادی کی نسلی اور لسانی برتری قائم رکھنے کے لیے۴۰ لاکھ افراد کو بنگلہ دیشی بتا کر شہریت سے محروم کر دیا جاتا ہے اور دوسری طرف جموں و کشمیر کی نسلی ، لسانی و مذہبی شناخت کو ختم کرنے کے لیے آئین کی دفعہ ۳۵ (اے) کو ختم کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔علانیہ دہرے پیمانے صرف اس لیے اختیار کیے جا رہے ہیں کہ آسام کی ۳۵ فی صد اور جموں و کشمیر کی ۶۸فی صد مسلم آبادی ہندو فرقہ پرستوں اور موجودہ بھارتی حکومت کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹک رہی ہے۔

 منصوبہ یہ ہے کہ آئین کی اس شق کو ختم کرکے بھارت کی دیگر ریاستوں سے ہندو آبادی کو کشمیر میں بساکر مقامی کشمیری مسلمانوں کو اپنے ہی وطن میں اقلیت میں تبدیل کردیاجائے۔ اسی طرح  آسام میں برسوں سے مقیم بنگالی مسلمانوں کو غیر ملکی قرار دے کر ان کو برما کے روہنگیائی مسلمانوں کی طرح دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور کرکے ہندو آبادی کو سیاسی اور آبادیاتی تحفظ فراہم کرایا جائے۔

نیشنل رجسٹر آف اسٹیزنز، یعنی شہریوں کی فہرست جو ۳۱جولائی کو جاری ہوئی ہے، ان میں جن افراد کے نام شامل نہیں ہیں، ان میں بھارت کے مرحوم صدر فخرالدین علی احمد کا خاندان، آسام کی سابق وزیر اعلیٰ سیدہ انورہ تیمور اور ان کا خاندان، ریاستی اسمبلی کے پہلے ڈپٹی اسپیکر امیرالدین کا خاندان، نیز بھارتی فوج، نیم فوجی تنظیموں اور پولیس کے کئی اعلیٰ عہدے دار اور ان کے اعزاو اقارب شامل ہیں۔

اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اگر ایسے مقتدر افراد کا نام یا ان کے خاندان کو شہریت کی فہرست سے خارج کردیا گیا ہے توعام آدمی کا کیا حال ہوگا۔ حکومت کا کہنا ہے کہ یہ ابھی صرف ڈرافٹ لسٹ ہے اور کسی کو بھی فوری طور پربے دخل نہیں کیا جائے گا اور اس لسٹ کو چیلنج کرنے کے بھی بھرپور مواقع دیے جائیں گے،مگر ان تمام یقین دہانیوں کے باوجود پورے صوبے میں خوف و ہراس کا ماحول ہے۔ مرکزی و ریاستی وزرا، نیز بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے اراکین اپنے بیانات کے ذریعے اس ایشو کو بھنا کر الیکشن میں ہندو ووٹروں کو اپنے حق میں ہموار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

چوںکہ خدشہ تھا کہ شہریت کی فہرست سے بنگالی ہندو بھی خارج ہوسکتے ہیں، وزیر اعظم مودی کی حکومت ۱۹۵۵ءکے شہریت کے قانون میں ترمیمی بل پارلیمنٹ میں پیش کرچکی ہے ، جو اس وقت پارلیمانی کمیٹی کے سامنے ہے، جس کی رُو سے پاکستان، بنگلہ دیش، افغانستان سے آئے غیر ملکی ہندو پناہ گزینوں کو شہریت مل جائے گی۔ انصاف کے دہرے معیار کی اس سے بڑھ کر اور  کیا مثال ہو سکتی ہے۔

بھارت کی مشرقی ریاستیں

تقسیم ہند اور ۱۹۷۱ء میں سقوط مشرقی پاکستان کے وقفے کے دوران مبینہ طور پربہت سے افراد ہجرت کرکے بھارت کی شمال مشرقی ریاستوں میں بس گئے تھے۔ یاد رہے تب پاکستان کو سفارتی سطح پر زچ کرنے کے لیے سرحدیں کھول دی گئیں تھیں اور اس طرح کی ہجرت کی حوصلہ افزائی بھی کی جارہی تھی۔ جب بنگلہ دیش وجود میں آیا تو اکثر لوگ واپس چلے گئے۔۱۹۷۸ء سے  ۱۹۸۵ء کے درمیان آل آسام اسٹوڈنٹس (آسو) سمیت کچھ تنظیموں نے پروپیگنڈا شروع کیا کہ بہت سے پناہ گزین بنگلہ دیش جانے کے بجاے آسام میں بس گئے ہیں۔

 ۱۹۷۸ء میں انتخابات ہوئے تو آسام اسمبلی کے انتخابات میں ۱۷مسلمان منتخب ہو گئے تھے۔ بس پھرکیا تھا، آسمان سر پر اٹھا لیا گیا کہ:’’ آسام کو’اسلامی ریاست‘ میں تبدیل کرنے کے لیے بنگلہ دیشی مسلمانوں کا ایک ریلا چلا آرہا ہے‘‘۔ اسی طرح ۱۹۷۹ء میں فرقہ پرست تنظیموں اور حکومتوں کی درپردہ حمایت یافتہ آسونے صدیوں سے آباد بنگالی آبادی کے خلاف پْرتشدد اور خونیں مہم چلائی۔اس سے قبل اس صوبے میں غیر آسامیوں، یعنی ہندی بولنے والوں کے خلاف تحریک شروع کی گئی تھی۔ پھر اس کا رُخ غیر ملکیوں اور خاص کر بنگلہ دیشیوں کے خلاف موڑ دیا گیا۔

بعدازاں اسے آر ایس ایس اور دیگر فرقہ پرستوں کی شہ پر مسلم مخالف خوں ریز تحریک میں تبدیل کردیا گیا۔ آسام کی تاریخ گواہ ہے کہ غیر ملکی اور خاص کر بنگلہ دیشی ہونے کا الزام لگا کر مسلمانوں کی نسل کشی کی گئی جس میں۱۹۸۳ء کے نیلی اور چولکاوا کے قتل عام کے روح فرسا واقعات کبھی فراموش نہیں کیے جاسکتے جن میں تقریباً تین ہزار ( غیر سرکاری ۱۰ہزار) افراد کو محض چھے گھنٹوں میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیاتھا مگر متاثرین کو آج تک انصاف نہیں مل سکا۔

۱۹۸۵ء میں اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی کی نگرانی میں مرکزی حکومت، آسام حکومت اور احتجاجی طلبہ لیڈروں کے درمیان باہمی رضامندی سے آسام آکارڈ (معاہدہ) وجود میں آیا۔پولیس نے نیلی قتل عام میں ملوث کئی سو افراد کے خلاف فرد جرم عائد کی مگر ’آسام اکارڈ‘ کی ایک شرط کے تحت مقدمے واپس لیے گئے‘ اور آج تک اس نسل کشی کے لیے کسی کو سزا ملی، نہ کسی کو   ذمہ دار ہی ٹھیرایا گیا۔ اس واقعے کو ایسے دبا دیا گیا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔

 بنگالی مسلمانوں کے خلاف یہ مہم چلانے والی آل آسام سٹوڈنٹس یونین کے بطن سے نکلی آسام گن پریشد کو بطور انعام اقتدار سونپ دیا گیا۔ اس معاہدے کے مطابق ۲۵مارچ ۱۹۷۱ءکو بنیاد مان کر اس سے پہلے آسام آکر بس جانے والوں کو شہری تسلیم کیا گیا ۔چنانچہ اس معاہدے کے بعد پارلیمنٹ نے ایک ترمیمی بل کی منظوری دی جس پر اس وقت کسی نے کوئی اعتراض نہیں کیا بلکہ تمام سیاسی جماعتوں بشمول کانگریس، بی جے پی ،کمیونسٹ جماعتوں، نیز تمام غیر سیاسی وسماجی تنظیموں نے بھی اسے تسلیم کیا تھا۔

چوںکہ یہ مسئلہ ریاست میں مسلمانوں کو ایک سیاسی قوت بننے سے روکنے کی غرض سے کھڑا کیا گیا ہے، اس لیے ۲۰۰۹ءمیں اور پھر ۲۰۱۲ءمیں آسام سمیلیٹا مہا سنگھ سمیت مختلف فرقہ پرست اور مفاد پرست افراد اور تنظیموں نے سپریم کورٹ میں اس معاہدے کے خلاف مفاد عامہ کی ایک عرضداشت داخل کرکے ۵مارچ ۱۹۷۱ء کے بجاے ۱۹۵۱ءکی ووٹر لسٹ کو بنیاد بناکر آسام میں شہریت کا فیصلہ کرنے کی استدعا، کی نیز اس معاہدے کی قانونی حیثیت کو بھی چیلنج کیا، جس کی وجہ سے آسام کے لاکھوں افراد بلکہ ہر تیسر ے فرد پر شہریت کی تلوار لٹک گئی۔

 بعد ازاں سپریم کورٹ نے ۱۹۷۱ءکو بنیاد تسلیم کرتے ہوئے شہریوں کی ایک نئی لسٹ تیار کرنے کا فرمان جاری کیا۔جغرافیائی اعتبار سے صوبہ آسام تین حصوں میں بٹا ہوا ہے۔ لور (نشیبی) آسام جو مغربی علاقہ ہے، اَپر (بالائی) آسام جو مشرقی علاقہ ہے اور بارک ویلی جو جنوب میں واقع ہے۔ ۲۰۱۴ء کے پارلیمانی انتخابات میں ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے ریاست کے ۱۴ میں سے سات پارلیمانی حلقوں میں کامیابی حاصل کی۔ اس کے دو سال بعد بی جے پی نے ریاستی اسمبلی میں بھی اکثریت حاصل کرکے حکومت بنا لی۔

آسام کی آبادی کے تناسب پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ بنیادی طور پر ایک قبائلی ریاست ہے جہاں کی تقریباً۴۰فی صد آبادی مختلف قبائل پر مشتمل ہے، مگر ان کو زبردستی ایک تو ہندو بنا کر رکھا گیا ہے اور دوسرے مسلمانوں اور بنگلہ دیشی پناہ گزینوں کے نام پر ان کو خوف کی نفسیات میں مبتلا کرکے بی جے پی زمین اپنے حق میں ہموارکر نے میں کامیاب ہوگئی۔ انتخابات سے قبل تقریباً ۵لاکھ بنگالیوں کو مشتبہ ووٹر قرار دے دیا گیا تھا۔

جولائی ۲۰۱۲ء میں بوڈو قبائلی کونسل کے زیر انتظام کوکرا جھار اور گوپال پاڑا اضلاع میں بوڈو انتہا پسندوں نے پْرتشدد حملے کیے جن کے نتیجے میں تقریباً چار لاکھ افراد کو عارضی کیمپوں میں جان بچا کر پناہ لینی پڑی تھی۔ بی جے پی کی زیر قیادت سابقہ حکومت نے ۲۰۰۳ء میں بوڈو لبریشن ٹائیگرز سے معاہدہ کرکے بوڈو علاقائی کونسل قائم کی۔ یہ معاہدہ جنوبی افریقہ کی سفید فام اقلیت کے نسلی حکمرانی (اپارتھیڈ رول) کی یاد دلاتا ہے کیونکہ جن اضلاع میں یہ کونسل قائم کی گئی‘ ان میں بوڈو قبائل کی تعداد محض ۲۸فی صد ہے۔

اسی پس منظر میں بنگالی بولنے والی آبادی نے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ۸۰ء کی دہائی میں یونائیٹڈ مائنارٹیز فرنٹ کے نام سے ایک سیاسی تنظیم بنائی تھی لیکن یہ تجربہ باہمی اختلافات کی وجہ سے زیادہ کامیاب نہ ہو سکا‘حالاںکہ اسے اسمبلی اور پارلیمنٹ میں قابل ذکر کامیابی ملی تھی۔ فرنٹ سے منتخب ہونے والے رکن پارلیمنٹ بیرسٹر ایف ایم غلام عثمانی (مرحوم) اور دیگر لیڈر کانگریس میں چلے گئے۔ ریاست کے حالات اور کانگریسی حکومت کے رویے سے مایوس ہو کر اکتوبر۲۰۰۵ء میں اس تجربے کا احیا کیا گیا۔

چنانچہ صوبے کی ۱۳ملّی تنظیموں نے ایک نیا سیاسی محاذ آل انڈیا ڈیموکریٹک فرنٹ کے نام سے تشکیل دیا۔ اس کی تشکیل میں ایڈووکیٹ عبدالرشید چودھری کا اہم کردار رہا، لیکن انھوں نے اس کی قیادت قبول نہیں کی کیونکہ کوئی سیاسی جماعت چلانے کے لیے پیسے کی ضرورت ہوتی ہے۔قرعہ فال عْود اور عطر کے بڑے تاجر مولانا بدرالدین اجمل قاسمی کے نام نکلا۔ ان کی قیادت میں فرنٹ ریاست میں حزب مخالف کی سب سے بڑی جماعت بن گیا‘ اور پارلیمنٹ میں بھی اس کی نمایندگی ایک سے بڑھ کر تین ہو گئی۔ ویسے آسام میں ابتدا سے جمعیۃ العلماے ہند کا خاصا اثر رہا ہے اور ہرچپے پر مدارس نظر آتے ہیں۔

آل انڈیا یونائٹیڈ فرنٹ کے صدر اور رکن پارلیمان مولانا بدرالدین اجمل نے جو جمعیۃ علماے ہند صوبہ آسام کے صدر بھی ہیں ، ان حالات کے لیے آسام کی سابق کانگریس حکومتوں اور اس کی قیادت کو سب سے زیادہ ذمہ دارقرار دیتے ہیں۔ مولانا اجمل نے جو لوک سبھا میں ریاست کی ڈھبری حلقے سے پارلیمنٹ میں نمایندگی کرتے ہیں، سابق کانگریسی وزیر اعلیٰ ترون گگوئی کو خاص طور سے نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اس نے اپنے ۱۵سالہ دور حکومت (۲۰۰۱ء-۲۰۱۶ء) میں  ریاست کی لسانی اور مذہبی اقلیتوں کو تین کاری ضربیں لگائیں۔

 پہلے انھوں نے ۲۰۰۵ء میں آئی ایم ڈی ٹی ایکٹ کا سپریم کورٹ میں کمزور دفاع کرکے اس کو منسوخ کرایا جس کے تحت کسی شخص کو غیر ملکی ثابت کرنے کی ذمہ داری انتظامیہ پر تھی۔ بنگلہ دیشی دراندازوں کا پتا لگانے اور شناخت کرنے کی غرض سے آئی ایم ڈی ٹی ایکٹ ۱۹۸۳ء میں پاس کیا گیا تھا۔ اس ایکٹ کے تحت کسی فرد کو غیر ملکی ثابت کرنے کی ذمہ داری استغاثہ پر تھی، اب یہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ختم کردیا گیا ہے۔ اس کے بعد ان کی حکومت نے آسام میں ’بارڈر پولیس ڈیپارٹمنٹ‘ تشکیل دے کر اسے اس بات کا مکمل اختیا دے دیا کہ وہ جسے چاہے غیر ملکی قرار دے کر گرفتار کر سکتا ہے۔

 ہزاروں معصوم لوگ اس ڈیپارٹمنٹ کے ظلم و ستم کا شکار ہو چکے ہیں۔ واضح رہے کہ ملک کی دیگر ریاستوں میں اس طرح کا کوئی محکمہ نہیں ہے۔ مزید ستم یہ کیا گیا کہ جن لوگوں کو گرفتار کرکے حراستی مراکز میں ڈالا گیا، ان سے راشن کار ڈ چھین لیے گئے۔آسام کے مسلمانوں کو روہنگیا مسلمانوں کی طرح بے حیثیت کر نے کی سازش چل رہی ہے تا کہ ان کے شہری حقوق چھین لیے جائیں اور ان سے ووٹنگ کا حق بھی سلب کر لیا جائے۔ یہاں اس کا بات تذکرہ برمحل ہوگا کہ اسلام آسام کا دوسرا بڑا مذہب ہے جہاں ۱۳ویں صدی میں سلطان بختیار خلجی کے دور میں مسلمانوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔

اس وقت تک آہوم سلطنت وجود میں بھی نہیں آئی تھی۔جب برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی نے ۱۷۵۷ء کی جنگ پلاسی کے بعد بنگال پر قبضہ کیا تو اس کے زیر تسلط آسام کا علاقہ بھی آیا۔ کمپنی نے یہاں بڑے پیمانے پر بنگالیوں کو لاکر بسانا شروع کیا اوران لوگوں نے معاشی وجوہ سے اپنے رشتہ داروں کو یہاں بلانا شروع کیا، کیوںکہ آسام میں زمینیں زرخیز تھیں۔مشرقی بنگال سے بڑی تعداد میں بے زمین کسان یہاں آکر آباد ہوگئے جن میں ۸۵ فی صد مسلمان تھے۔ آج انھی صدیوں سے آباد مسلمانوں کو غیر ملکی یا بنگلہ دیشی قرار دے کر ان کے لیے زمین تنگ کی جارہی ہے۔