۲۳مارچ ہر سال تحریک ِ پاکستان اور مقاصد ِ پاکستان کے شعور کو تازہ کرنے اور اپنی اصل منزل کی طرف پیش قدمی کے عزم کی تجدید کا دن ہے۔ اس سال یہ تاریخی دن ایسے حالات میں آرہا ہے، جب ملک ِ عزیز اپنی زندگی، بقا اور ترقی کی جدوجہد میں ایک بڑے ہی نازک اور فیصلہ کن مرحلے سے دوچار ہے۔
جمہوریت کا سفر باربار منقطع ہونے کے بعد، ۲۰۰۸ء سے پھر شروع ہوا۔ لیکن یہ آٹھ سال آزمایش اور ابتلا کی ایک دل خراش داستان سناتے ہیں۔ فوجی آمریت کی جو رات اکتوبر ۱۹۹۹ء میں شروع ہوئی تھی، وہ ۲۰۰۷ء کی اعلیٰ عدلیہ بحالی تحریک کے نتیجے میں ختم ہوئی۔ صدافسوس کہ پیپلزپارٹی اور اس کے اتحادیوں نے پانچ سال اور پھر موجودہ برسرِاقتدار مسلم لیگ (ن) اور اس کے حلیفوں کی حکمرانی کے ڈھائی پونے تین سال، حالات کو صحیح سمت میں بدلنے اور ملک کو ایک حقیقی اسلامی، جمہوری اور فلاحی ریاست بنانے میں ناکامی سے دوچار دکھائی دیتے ہیں۔
پیپلزپارٹی کے پانچ سال (۲۰۰۸ئ-۲۰۱۳ئ): نظریاتی اور فکری انتشار، بیرونی دبائو اور محتاجی، معاشی بگاڑ اور سیاسی خلفشار، اداراتی کش مکش اور عوامی مسائل سے پہلوتہی، توانائی، تعلیم اور صحت کے اُمور سے مجرمانہ غفلت، مفاد پرستی اور سب سے بڑھ کر بدعنوانی اور کرپشن کا عنوان بنے رہے۔ اس عبرت آموز دورِ حکمرانی کے بعد توقع تھی کہ ۲۰۱۳ء میں برسرِاقتدار آنے والی مسلم لیگ (ن) کی تیسری حکومت بہتر حکمرانی اور پاکستان کے اصل مقاصد کے حصول کے لیے نئی اور مؤثر پالیسیاں نافذ کرے گی جن کا اس پارٹی نے اپنے منشور میں وعدہ کیا تھا، مگر ان ڈھائی پونے تین برسوں میں، اس حکومت نے جس ہوش ربا خراب حکمرانی (Mega-Misgovernance) کا مظاہرہ کیا ہے، اس نے حالات کو خطرناک حد تک بگاڑ دیا ہے۔ عوام مایوس، مضطرب اور خوف زدہ ہیں۔
۲۰۰۱ء سے’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے نام پر امریکا اور اس کے اتحادیوں نے، افغانستان اور پاکستان پر جو جنگ مسلط کی تھی، اس کی آگ میں دونوں ملک آج تک جل رہے ہیں۔ غضب یہ ہے کہ جو جنگ، ہماری جنگ نہ تھی، وہ اب ہماری جنگ بن گئی ہے۔ قوم اور افواجِ پاکستان کی بیش بہا قربانیوں، عوام کے جان، مال، عزت اور امن و امان کی نہ کم ہونے والی تباہ کاریوں اور بڑے پیمانے پر آبادیوں کی نقل مکانی کے باوجود یہ جنگ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی بلکہ اس جنگ میں کئی نئے کردار اور حکومتیں حصہ ادا کرتی دکھائی دے رہی ہیں۔
دوسری طرف پاکستانی معیشت جمود کا شکار ہے۔ ۱۱۵؍ارب ڈالر کے خطیر نقصانات اُٹھانے کے ساتھ قرض، غربت اور محرومی ہمارا مقدر بنے ہوئے ہیں۔ بجلی اور توانائی کا بحران جاری ہے۔ ایک طرف بے روزگاری، مہنگائی اور فقروفاقہ کا سیلاب ہے، تو دوسری جانب اشرافیہ کے خزانوں میں دولت کی ریل پیل ہے۔ ملک میں بااختیار افراد، اعلیٰ طبقات اور بیش تر علاقوں میں دولت اور وسائل کی ہولناک عدم مساوات، عفریت کا رُوپ دھار چکے ہیں۔ خودانحصاری کا فقدان اور بیرونی دنیا پر انحصار میں اضافہ ہماری قومی پہچان بن گئی ہے۔ اس سب پر امریکا اور مغربی ممالک: اپنے حلیف پاکستان کو دنیا کے ’خطرناک ترین‘ اور ’ناقابلِ اعتبار‘ ممالک میں شامل کرتے ہیں اور do more کے مطالبات کی بوچھاڑ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
علاقائی اور عالمی پس منظر بھی کوئی اچھی خبر نہیں لارہا۔ عالمی معیشت میں ۲۰۰۸ء سے کساد بازاری کے جو منفی رجحانات شروع ہوئے تھے، ساری کوششوں کے باوجود جاری ہیں۔ بیش تر عالمی ادارے نئے خطرات کا بگل بجا رہے ہیں۔ سرمایہ دارانہ ممالک کی جو اعلیٰ سطحی کانفرنس، سویزرلینڈکے شہر ڈیوو میں ۴۵برس سے ہو رہی ہے، اس کے حالیہ اجلاس (جنوری ۲۰۱۶ئ) میں مشہور ارب پتی بدنامِ زمانہ یہودی ساہوکار جارج سوروس نے کہا ہے کہ: ’’۲۰۱۶ء ایک نئے نشیب کے سفر کا سال ہوسکتا ہے‘‘۔
ادھر پورا شرق اوسط جنگ کی لپیٹ میں ہے۔ جو ایک طرف عالمی طاقتوں کی باہمی زورآزمائی کی آماج گاہ بن گیا ہے اور دوسری طرف فرقہ وارانہ بنیادوں پر خانہ جنگی کا منظر بھی پیش کر رہا ہے۔ اور اس جنگ کی تپش پاکستان تک پہنچ چکی ہے۔
ان حالات میں ملک کی قیادت کو جس بالغ نظری، جس دیانت و امانت ، جس فہم و فراست اور جس قومی یک جہتی کے ساتھ ملک و ملّت کی خدمت کی مثال قائم کرنی چاہیے تھی، افسوس کہ اس کا دُور دُور نشان نہیں ملتا۔ مفادپرستی، شخصی حکمرانی، سیاسی جانب داری اور پنجہ آزمائی مالیاتی لُوٹ مار اور اداراتی کمزوری اور کش مکش کا دور دورہ ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکمرانوں اور عوام الناس کے درمیان ایک خلیج ہے، گویا کہ وہ دو مختلف دنیائوں میں بس رہے ہیں اور ان میں یہ دُوری روز بروز بڑھتی ہی جا رہی ہے۔
۲۳مارچ ۱۹۴۰ء ایک تاریخی لمحہ تھا، جب اُمت مسلمہ پاک و ہند نے ایک روشن اسلامی مستقبل کا خواب دیکھا تھا۔ پھر ۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء کو پاکستانی قوم نے بڑی قربانیاں دے کر قائداعظمؒ کی قیادت میں جدوجہد کا ایک طویل اور کرب ناک سفر طے کیا تھا۔ اس طرح اپنے خواب کی تعبیر کی پہلی کرن بچشم سر دیکھی تھی اور نئی زندگی کا نیا سفر شروع کیا تھا۔ لیکن سات عشروں پر محیط یہ سفر بہت سے روشن سنگ ہاے میل کے باوجود ایک کرب ناک سفر رہا ہے ۔ قوم زبانِ حال سے اور دُکھ بھرے انداز میں سوچنے پر مجبور ہے کہ ع
مایوسی کفر ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ زمانہ بدلتا رہتا ہے۔ ہر قوم پر اور خود ہم پر باربار بُرا وقت آیا ہے، لیکن ہر نشیب کے بعد فراز اور ہر رات کے بعد صبحِ نو طلوع ہوتی ہے۔ یہی اللہ کی سنت ہے اور وہ لوگوں کے درمیان زمانے کو اپنی حکمت کے مطابق گردش دیتا رہتا ہے۔پھر اس میں یہ بھی حکمت ہے کہ کبھی رات چھوٹی ہوتی ہے اور کبھی لمبی۔ لیکن بالآخر سپیدۂ صبح رُونما ہوتا ہے اور :
یوں اہلِ توکل کی بسر ہوتی ہے
ہر لمحہ بلندی پہ نظر ہوتی ہے
گھبرائیں نہ ظلمت سے گزرنے والے
آغوش میں ہر شب کے سحر ہوتی ہے
البتہ یہ بھی اللہ کی سنت ہے کہ تبدیلی خود بخود نہیں آتی، اس کے لیے کوشش اور جدوجہد کرنا ہوتی ہے۔ صحیح منزل کا تعین، حالات کا دیانت دارانہ اور حقیقت پسندانہ جائزہ لینا ہوتا ہے۔ ترقی اور بگاڑ کے اسباب کا تعین کرنا ہوتا ہے۔ حکمت عملی اور اہداف کا ادراک اور اس کے مطابق عمل کا نقشۂ کار مرتب کیا جاتا ہے۔ پھر ایمان اور احتساب کے ساتھ جدوجہد بھی کرنی ہوتی ہے۔ مثبت تبدیلی اور منزل کی طرف پیش قدمی کا یہی راستہ ہے۔ اس جدوجہد کا نام جہاد فی سبیل اللہ ہے۔
اس ابتدائی گزارش کے بعد ہم پوری قوم کو دعوت دینا چاہتے ہیں کہ وہ ایمان داری سے حالات کا تجزیہ کرکے متعین کرے کہ ہمارے موجودہ فکری انتشار، سیاسی خلفشار، معاشی بگاڑ، تہذیبی تنزل، طبقاتی تصادم، صوبہ جاتی کش مکش، اداراتی ٹکرائو ، اشرافیہ سے نفرت اور عوام کی زبوں حالی کی بنیادی وجہ کیا ہے؟
جہاں تک ہم نے اس پر غور کیا ہے، اس کے تین پہلوہیں، جو ایک دوسرے سے مربوط اور جڑے ہوئے ہیں، یعنی:
اس پوری کیفیت کو ایک لفظ میں سمیٹنے کی کوشش کی جائے تو اسے ’کرپشن‘ سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ کرپشن دراصل فساد فی الارض کی ایک شکل ہے۔ جو نام ہے حق، عدل اور انصاف کے برعکس صلاحیت، حیثیت، منصب اور وسیلے کے ناجائز استعمال کا، نیز ذاتی، گروہی یا باطل مقاصد کے لیے قوت کے جاہلانہ استعمال کا۔
عرفِ عام میں تو کرپشن کوبالعموم رشوت، مالی بے ضابطگی اور خردبرد کے مفہوم میں استعمال کیا جاتا ہے، لیکن اپنی اصل کے اعتبار سے یہ لفظ حق، انصاف ، وفاداری، دیانت و امانت اور حُسنِ اخلاق کی ضد ہے۔ اپنے وسیع تر مفہوم میں اس رویے اور اس شخصیت کے لیے استعمال ہوتا ہے، جو زندگی کے بارے میں غیراخلاقی رویہ اختیار کرے۔ جو حق وانصاف کا باغی ہو اور اپنی ذات اور خواہشات کو خدا بنانے والا ہو۔ جو اپنے خالق اور اخلاقی اقدار سے کٹا ہوا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ یہ لفظ ایک منتشر شخصیت کے بارے میں استعمال ہوتا ہے، جس کا کوئی واضح اُجلارنگ رُوپ نہ ہو۔ جو اخلاق،اقدار اور پیمانۂ حق و باطل سے کچھ بھی تعلق نہ رکھتا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے وسیع مفہوم میں کرپشن کی ایک شکل فکری اور اعتقادی بھی ہے۔ انفرادی سطح پر فرد کے اخلاق اور شخصیت و کردار کے انتشار سے اس کا تعلق بنتا ہے۔ اجتماعی معاملات میں حق و انصاف کی پامالی اور ظلم ، دوسروں کی حق تلفی اور اکل بالباطل سے یہ عبارت ہے۔ رشوت، چوری، خردبرد، مالی لُوٹ مار تو اس کی صرف مختلف شکلوں میں سے چند ایک ہیں، اور بس انھی تک اسے محدود نہیں سمجھنا چاہیے، بلکہ اس کی وسعت کو ذہن میں لانا چاہیے۔ تخلیقِ آدم ؑکے وقت فرشتوں نے انسان کے وجود سے جس خوف کا اظہار فساد فی الارض کے الفاظ میں کیا تھا، غالباً کرپشن ہی وہ رویہ ہے کہ جس سے یہ بگاڑ، یعنی حق تلفی، باطل پرستی، ظلم و عدوان کا ارتکاب اور حدود کی پامالی واقع ہوتے ہیں۔
کرپشن کے باب میں لٹریچر کے جائزے سے اس کی کم از کم تین صورتیں سامنے آتی ہیں:
۱- عمومی بدعنوانیاں(Petty Corruptions): انفرادی سطح پر دوسروں سے بلااستحقاق مالی، مادی یا دوسری سہولتیں (favours ) حاصل کرنا اور اپنی بالاتر پوزیشن کا ناجائز استعمال۔
۲- وسیع بدعنوانیاں (Grand Corruptions): اہلِ اختیار کا اپنی حیثیت، مرتبے کا ایسا غلط استعمال، جو انفرادی اور اجتماعی ہرسطح پر معاملات کو متاثر کرے۔ اس کا محل: حکومت، سرکاری ادارے، کارپوریشن اور ملک کا مالیاتی، قانونی اور سیاسی نظام ہے، جسے صاحب ِ اختیار لوگ، قوم کے وسائل کو مفاد عام اور حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے ذاتی مفادات کے لیے استعمال کریں۔ آج دنیا میں اس کرپشن کے تدارک کے لیے اختیار کیے جانے والے قوانین، ضابطوں اور سزائوںوغیرہ کا زیادہ تعلق اسی نوعیت سے ہے۔
۳- اداراتی اور اجتماعی بدعنوانی (Systematic & Collective Corruption): متعلقہ تجزیاتی لٹریچر میں اسے endemic(مخصوص)کرپشن کی اصطلاح میں بھی بیان کیا جاتا ہے۔ اس کا تعلق فرد کی ذاتی خواہشات و اختیارات کے غلط استعمال، خردبرد اور لُوٹ مار کے مقابلے میں نظام کی خرابی سے ہے، جس کی وجہ سے ایک گلاسڑا نظام، کرپشن کے لیے سازگار بن جائے۔ جس میں اس فساد کے لیے رخنے اور چوردروازے کھلے چھوڑ دیے گئے ہوں۔ جس سے خود نظام، کرپشن کو پروان چڑھانے کا ذریعہ اور وسیلہ بن جائے۔
صحیح تر الفاظ میں کرپشن کا ایک بازار تو افراد اور تنظیموں کے ہاتھوں سجتا ہے۔ دوسرا نتیجہ ہوتا ہے، اداروں، نظامِ کار کی کمزوریوں، قواعد و ضوابط کے داخلی جھول، اختیارات کے بے جا ارتکاز، ذاتی اور اداراتی مفادات میں عدم تفریق اور شفافیت کے فقدان کا۔
کرپشن اپنی ان تینوں صورتوں میں بدعنوانی، بداخلاقی اور ایک مجرمانہ فعل ہے۔ اسلامی نقطۂ نظر سے یہ فرد اور معاشرے دونوں کے خلاف جرم ہے، جو دنیا اور آخرت دونوں میں سزاوارِ گرفت ہے۔ یہ حقوق العباد پر ڈاکازنی اور فرد کے خلاف جرم ہے کہ جس کا حق آپ نے لوٹا ہے، اسے واپس لینے کا حق ہے۔ قانون اور معاشرے کو یہ حق، حق دار کی طرف منتقلی کا انتظام کرنا چاہیے۔ لیکن دوسری طرف یہ فعل انسانی روح اور تہذیب و شرافت کے خلاف بھی جرم ہے۔ اس لیے پوری سوسائٹی اور ریاست کا کام ہے کہ کرپشن کے دروازوں کو بند کرے اور کرپشن کرنے والوں کو قانون کی گرفت میں لائے۔ ان سے مالِ ناحق وصول کرے۔معاشرے اور ریاست کے حقوق پر دست اندازی کرنے کے ذمہ داروں کو ان کے جرم کی سزا بھی دے۔
سب سے بڑھ کر یہ اللہ کی میزان میں گناہ ہے۔ اللہ دنیا اور آخرت میں اس پر اپنی مشیت کے مطابق گرفت کرے گا۔ عوام کے حقوق پر ڈاکا زنی محض توبہ سے معاف نہیں ہوسکتی۔ جب تک حق تلفی کا شکار ہونے والوں کو ان کا حق نہ مل جائے یا وہ خود معاف نہ کردیں، اس وقت تک بدعنوانی کا مرتکب شخص گناہ گار اور مجرم رہے گا۔ پھر اس نوعیت کی حق تلفی اور ظلم کے عمل میں جو جتنا بھی شریک اور معاون ہوگا، اسی درجے میں وہ ذمے دار ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ رشوت کے باب میں اسلام کا حکم یہ ہے کہ: رشوت دینے اور رشوت لینے والا دونوں مجرم ہیں اور ان کا ٹھکانا جہنم کی آگ ہے۔
ناپ تول میں بددیانتی، امانت میں خیانت، سود، سٹہ، جوا، چوری، ڈاکا، مال و دولت میں خردبرد، غرض کسی بھی باطل ذریعے سے دولت، منافع یا کسی اور نوعیت کی طرف داری (favour) حاصل کرنے کے نتیجے میں معاشرے میں ظلم اور فساد فروغ پاتا ہے۔ نفرتیں اور محرومیاں جنم لیتی ہیں۔ دولت کی عدم مساوات کو فروغ حاصل ہوتا ہے۔ ملک کی معاشی سرگرمیوں اور ترقی میں بھی خلل واقع ہوتا ہے۔ پیداواری لاگت بڑھ جاتی ہے اور وسائل کے مناسب اور مفید ترین استعمال کا عمل مجروح ہوتا ہے، جو درحقیقت معاشی ترقی اور عوام کی خوش حالی کی ضمانت ہے۔
حضرت شعیب علیہ السلام کی زبان میں ناپ تول میں کمی اور تجارت میں بدمعاشی کو زمین میں فساد جیسا جرم قرار دیا اور اللہ کے عذاب کا لازمی سزاوار:
اسی طرح قدرتِ حق نے جہاں معاشی تگ و دو اور رزقِ حلال کی تلاش کو فرض کیا، وہیں فضول خرچی سے منع فرمایا اور قناعت اور اعتدال کا حکم بھی دیا، تاکہ زندگی میں توازن رہے اور انسان ہوس اور نفس کا بندہ بن کر نہ رہ جائے۔ پھر اس سب کو ایک کُلی نظام کا حصہ بنا دیا، جو انسانوں کے تمام معاملات میں عدل و انصاف کا قیام،امانتوں اور ذمہ داریوں کو ان کے اہل افراد کے سپرد کرنا، اور زندگی کے تمام معاملات کو خیر، حق اور دیانت کے تابع کرنا اور شر، باطل اور خیانت کاری سے حتی المقدور بچنے کی کوشش کرنا ہے:
حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عمرفاروقؓ نے خلافت کا حلف لیتے ہی اپنے اپنے انداز میں اس امر کا اعلان کیا اور پورے دورِ خلافت میں اس پر عمل کیا کہ طاقت ور اور کمزور کے فرق کو معاشرے میں ختم کر دیں گے۔ جس کا بھی جو حق ہے، خواہ وہ کمزور ہی کیوں نہ ہو، اس کو پہنچا کر دم لیں گے۔ان کی نگاہ میں کوئی ایسا طاقت ور نہیں ہوگا، جو دوسروں کے حق پر ناجائز قابض ہوجائے اور خلیفۃ المسلمین اس غاصب سے حق لے کر کمزور کو نہ لوٹا دیں۔ یہ ہے دادرسی اور خوداختیاری (Empowerment ) کا وہ ہدف اور ذمہ داری، جو اسلام نے مسلمانوں کے حکمرانوں کو سونپی ہے۔ یہی وہ اعلیٰ نظام ہے، جس کے ذریعے زندگی میں ہرسطح پر کرپشن کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے، اور تمام انسانوں کے درمیان انصاف، ایک دوسرے کے حقوق کی مکمل پاس داری، امانت اور دیانت کے معاشی اور سرکاری اُمورکی ادایگی اور معاشرے کے تمام افراد کے لیے جان، مال، عزت، حقوق کا تحفظ اور بنیادی ضروریاتِ زندگی کی فراہمی کا اہتمام ہوسکتا ہے۔
بلاشبہہ قیامِ پاکستان کا مقصد ایک ایسے ہی معاشرے اور سیاسی و اجتماعی نظام کا قیام تھا اور علامہ محمد اقبال اور قائداعظم نے صاف لفظوں میں اس کا باربار اظہار کیا تھا۔ قائداعظم اور لیاقت علی خان نے قومی خزانے کو ایک امانت سمجھا اور عملاً ایسی مثال قائم کی جو روشنی کا مینار تھی۔ آخری برطانوی وائس راے مائونٹ بیٹن جو قائداعظم سے سخت ناخوش تھا اور پنڈت جواہر لال نہرو کا دوست اور ہم مشرب تھا، اس نے بھی ہندستانی مسلم قیادت کو ذہن میں رکھتے ہوئے برملا کہا کہ: 'Muslims will perhaps never get such an honest leader` (مسلمان غالباً کبھی ایسا دیانت دار لیڈر نہ پاسکیں گے)، جب کہ ان کے مدِمقابل گاندھی جی نے لوئی فشر کو انٹرویو دیتے ہوئے اعتراف کیا:Jinnah is incorruptible and brave` '(جناح ایک دیانت دار اور بہادر انسان ہیں)۔ اور علامہ محمد اقبال نے کہا:'He is incorruptible and unpurchasable` (وہ ایک کھرے اور ناقابلِ خرید ہیں)۔
قائداعظم نے ریاست کے وسائل کو اپنی ذات کے لیے کبھی استعمال نہیں کیا اور جب ان کے رفقا نے اصرار کیا کہ علاج کے لیے وہ انگلستان یا امریکا تشریف لے جائیں، یا کم از کم وہاں سے ڈاکٹر بلانے کی اجازت دے دیں، تو انھوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ میرا ملک اس کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
نواب زادہ لیاقت علی خان، مشرقی پنجاب کے بڑے زمین دار اور ایک نہایت متمول فرد تھے۔ دہلی میں ان کی شان دار کوٹھی دیکھنے کے لائق تھی۔ یہی کوٹھی، کُل ہند مسلم لیگ کی سیاسی سرگرمیوں کا مرکز تھی۔ قیامِ پاکستان کے بعد انھوں نے اپنی یہ کوٹھی پاکستان کے سفارت خانے کے طور پر وقف کردی تھی اور اس کا کوئی متبادل پاکستان میں نہیں لیا تھا۔
پاکستان کے معروف سفارت کار جناب جمشید مارکر، لیاقت علی خان سے دوستانہ مراسم رکھتے تھے۔وہ اپنی خودنوشت میں لکھتے ہیں کہ: میں نے زندگی میں صرف ایک بار ان کو بہت زیادہ غصے میں دیکھا اور یہ وہ دن تھا، جب ایک سیکرٹری نے ان کے سامنے ایک فائل پیش کی کہ: ’’مشرقی پنجاب میں ان کی جو جاگیر رہ گئی ہے، اس کے عوض کراچی اور سندھ میں زمینیں الاٹ کرالیں‘‘۔ لیاقت علی خان نے فائل ان صاحب کے منہ پر پھینک کر کہا:’’آئو میرے ساتھ کراچی کی ان آبادیوں کو دیکھو، جہاں پاکستان کے لیے اپنا سب کچھ چھوڑ کر ہجرت کرنے والے کھلے آسمان تلے زندگی گزار رہے ہیں‘‘___ جب پاکستان کے اِنھی پہلے وزیراعظم کو تقریباً چارسال بعد قتل کر دیا گیا، تو ان کے بنک اکائونٹ میں کُل ۴۷ہزار روپے تھے اور کوئی جایداد پاکستان میں نہیں تھی۔
یہ تھا بانیانِ پاکستان کا طرزِعمل___ اور آج ہمارے حکمران طبقوں کا کیا حال ہے؟ ملک اور ملک سے باہر دولت کی فراوانی کے باوجود دولت کی مزید ہوس کا کیا عالم ہے؟ اس آئینے میں ملک کے عوام کی حالت زار کی اصل وجہ دیکھی جاسکتی ہے۔
قائداعظم مسلمانوں کے پڑھے لکھے طبقے کی نفس پرستی اور دیانت و امانت کے دیوالیہ پن کے بارے میں سخت فکرمند تھے۔۱۱؍اگست ۱۹۴۷ء کی تقریر کو ہمارے حکمران اور لبرل عناصر اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے نہیں تھکتے، مگر اُن کو تقریر کا وہ حصہ بالکل نظر نہیں آتا، جس میں شہریت کے مسئلے پر کلام کرنے سے پہلے قائداعظم نے جس خطرے پر متنبہ کیا تھا، وہ کرپشن اور اقرباپروری ہی تھا۔ بعد کے حکمرانوں نے، خصوصیت سے جنرل ایوب خان اور ان کے بعد آنے والے سبھی حکمرانوں نے اپنے اپنے انداز میں کرپشن کے باب میں کھلی چھوٹ اور معافیت (immunity) حاصل کی اور پھر رنگے ہاتھوں اس کے فروغ کا راستہ اختیار کیا۔ اسی کا نتیجہ یہ ہے کہ آج ملک میں کالے دھن (black money) پر مبنی معیشت، اصل قومی معیشت سے کئی گنا زیادہ ہے۔ ملک سے لُوٹے ہوئے وسائل جو ملک سے باہر ہیں، وہ ملک کی دولت سے کہیں زیادہ ہیں۔ قومی معیشت ایک گلی سڑی لاش بن کر رہ گئی ہے، جس کا تعفن دُور دُور تک پھیلا ہوا ہے۔ ۱۰ فی صد اشرافیہ ۹۰فی صد سے زیادہ دولت پر قابض ہے اور یہ دولت انھی کے درمیان گردش کر رہی ہے، جب کہ ۹۰فی صد عوام محرومی اور بے چارگی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ عام شہری تعلیم، صحت، روزگار، مکان، سواری ، ہر سہولت سے محروم ہے۔
کرپشن اپنی مختلف شکلوں میں موجود اور فراواں ہے۔ فکری اور نظریاتی کرپشن، اخلاقی اور معاشی کرپشن، مالی اور معاشی کرپشن، سیاسی اور قانونی کرپشن، اداراتی کرپشن، حتیٰ کہ ان ظالموں نے حج، اوقاف، تعلیم، صحت، عمررسیدہ انسانوں کے فنڈ اور غریبوں اور محتاجوں کے لیے بے نظیر انکم سپورٹ فنڈ تک میں بھی کرپشن کرنے میں شرم محسوس نہیں کی۔ پھر، کرپشن روکنے کے لیے جو ادارے بنائے گئے ہیں، الا ماشاء اللہ، وہ کرپشن ختم کرنے کے لیے نہیں بلکہ کرپشن کو تحفظ دینے اور فروغ دینے کا ذریعہ بن گئے ہیں یا سمجھے جارہے ہیں۔
اس کی بدترین مثال نیب آرڈی ننس ۱۹۹۹ء کی دفعہ ۲۵ ہے، جس کے تحت نیب (NAB: نیشنل اکائونٹی بلیٹی بیورو) کے چیئرمین کو استحقاقی قوت (Discretionary power ) حاصل ہے کہ وہ ’بہانہ ساز سودے سازی‘ یا ’پلی بارگین‘ (Plea Bargain) کے نام پر کرپشن کے سارے ثبوتوں کے باوجود، اپنی مرضی سے کالے دَھن کا ایک حصہ وصول کرکے، باقی تمام لُوٹی ہوئی دولت، کرپشن کا ارتکاب کرنے والے فرد___ سیاست دان، تاجر ، صنعت کار، سول اور فوجی افسروں، بیوروکریٹس کو مزے لینے کے لیے ہبہ کردے اور اس طرح وہ گنگا نہاکر پاک صاف ہوجائیں۔ عملاً ۱۰ سے ۲۰ فی صد رقم لے کر یہ قابلِ نفرت کام نیب ۱۸برسوں سے کر رہا ہے، جسے سپریم کورٹ کے ایک چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے 'Consitutional Corruption` (دستوری کرپشن) قرار دیا ہے اور جرم سے بڑے جرم، یعنی جرم کی سرپرستی اور اس کی توقیر قرار دیا ہے۔
اس ادارے نے ۱۸برس میں غالباً ۱۸؍افراد کو بھی قرار واقعی سزا نہیں دی ہے، مگر اس کے باوجود اس ادارے پر ان ۱۸برسوں میں اربوں روپے قومی خزانے کے صرف ہوگئے ہیں۔ اقبال نے سیاسی غلامی کے باب میںکہا تھا کہ ؎
تھا جو ’ناخوب‘ بتدریج وہی ’خوب‘ ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
ہمارا المیہ ہے کہ آزادی کے بعد یہ سانحہ ہم پر کچھ اور بھی سوا ہوکر گزر رہا ہے، جس کی وجہ ہوس کی غلامی، دنیا کی پرستش اور احتساب اور جواب دہی کے فقدان کا نظام ہے۔ جس ملک کو اللہ تعالیٰ نے بہترین انسانی اور مادی وسائل سے فیض یاب کیا تھا، وہ فقروفاقہ، بے روزگاری اور جہالت، بیماری اور بے سروسامانی کا شکار ہے۔
ہم بڑے دُکھ سے یہ بات کہنے پر مجبور ہیں کہ وہ طبقہ جسے ’اشرافیہ‘ کہا جاتا ہے، جو جمہوریت، لبرل ازم اور ترقی پسندی کا دعوے دار ہے، جس کے ہاتھوں میں آج تک زمامِ اقتدار رہی ہے، اس نے قوم کو دونوں ہاتھوں سے، جھولی بھربھر کے لوٹا ہے۔ اگرچہ اچھے لوگ ان میں بھی ہیں، لیکن بحیثیت مجموعی اس حکمران طبقے نے اپنے مفادات ہی کی پوجا کی ہے اور اللہ اور اللہ کے بندوں کے حقوق سے مجرمانہ رُوگردانی کی ہے۔ قائداعظم محمدعلی جناح اس طبقے کے بارے میں اپنی بصیرت کی بنیاد پر شاکی تھے۔ اپنے دوست ایم ایچ اصفہانی کو ذاتی خط (۶مئی ۱۹۴۵ئ) میں لکھتے ہیں:
کرپشن ایک لعنت ہے ہندستان میں، مگر خاص طور پر نام نہاد پڑھے لکھے مسلمانوں اور دانش وروں میں۔ بلاشک و شبہہ یہ وہ طبقہ ہے جو مفادپرستی، اخلاقی اور فکری سطح پر بدعنوانی کا مرتکب ہے۔ اس میں بھی کچھ شک نہیں ہے کہ یہ بیماری عام ہے،مگر بالخصوص مسلمانوں میں فراواں ہے۔
قائداعظم کے یہی احساسات تھے، جنھیں ۱۱؍اگست ۱۹۴۷ء کو خطابِ آزادی کے دوران، اسمبلی کی بالادستی کے بارے میں اپنے خیالات کے اظہار کے بعد سب سے پہلے بیان کیا:
چور بازاری دوسری لعنت ہے۔ مجھے علم ہے کہ چور بازاری کرنے والے اکثر پکڑے جاتے ہیں اور سزا بھی پاتے ہیں۔ عدالتیں ان کے لیے قید کی سزائیں تجویز کرتی ہیں یا بعض اوقات ان پر صرف جرمانے ہی کیے جاتے ہیں۔ اب آپ کو اس لعنت کا بھی خاتمہ کرنا ہوگا۔ موجودہ تکلیف دہ حالات میں، جب ہمیں مسلسل خوراک کی قلت یا دیگر ضروری اشیاے صرف کی کمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
چور بازاری معاشرے کے خلاف ایک بہت بڑا جرم ہے۔ جب کوئی شہری چور بازاری کرتا ہے تو میرے خیال میں وہ بڑے سے بڑے جرم سے بھی زیادہ گھنائونے جرم کا ارتکاب کرتا ہے۔ یہ چوربازاری کرنے والے لوگ باخبر، ذہین اور عام طور سے ذمہ دار لوگ ہوتے ہیں، اور جب یہ چور بازاری کرتے ہیں تو میرے خیال میں انھیں بہت کڑی سزا ملنی چاہیے، کیونکہ یہ لوگ خوراک اور دیگر ضروری اشیاے صرف کی باقاعدہ تقسیم کے نظام کو تہہ و بالا کردیتے ہیں اور اس طرح فاقہ کشی، احتیاج اور موت تک کا باعث بن جاتے ہیں۔
ایک اور بات جو فوری طور پر میرے سامنے آتی ہے، وہ ہے اقرباپروری اور احباب نوازی۔ یہ بھی ہمیں ورثے میں ملی، اور بہت سی اچھی بُری چیزوں کے ساتھ یہ لعنت بھی ہمارے حصے میں آئی ہے۔ اس بُرائی کو بھی سختی سے کچل دینا ہوگا۔ میں یہ واضح کردوں کہ میں نہ احباب پروری اور اقربانوازی کو برداشت کروں گا اور نہ ایسے کسی اثرورسوخ کو قبول کروں گا، جو مجھ پر بالواسطہ، یابلاواسطہ ڈالنے کی کوشش کی جائے گی۔ جہاں کہیں مجھے معلوم ہوا کہ یہ طریقۂ کار رائج ہے، خواہ یہ اعلیٰ سطح پر ہو یا ادنیٰ پر، یقینی طور پر میں اس کو گوارا نہیں کروں گا۔
قائداعظم نے جس طبقے اور اس کے جس مرض کی نشان دہی کی ہے، وہ مسئلے کی نوعیت کو سمجھنے اور اس کے علاج کو تلاش کرنے کے لیے کلیدی اہمیت رکھتا ہے۔ ہم صاف لفظوں میں عرض کرنا چاہتے ہیں کہ ہمارا مقصد کسی خاص طبقے یا کسی خاص فرد کو ہدفِ ملامت بنانا نہیں ہے۔ حالانکہ خود قائداعظم کا تعلق بھی برعظیم کے پڑھے لکھے مسلمان طبقے سے تھا۔ اس لیے قائد کی بات کو اور ہماری تنقید کو کسی عصبیت کا شاخسانہ قرار نہیں دیا جانا چاہیے۔
حقیقت یہ ہے کہ تحریکِ پاکستان کے مخلص قائدین کو چھوڑ کر، جس طبقے نے اقتدارکو اپنی گرفت میں لے لیا، ان میں: سیاست دان، بیوروکریٹ، صحافی، دانش ور، مقتدر فوجی جرنیل، سبھی شامل تھے اور ہیں۔ اس طبقے میں بھی جو جتنا لبرل اور سیکولر تھا، وہ اتنا ہی اس ملک کو مغربیت، مادہ پرستی، مفادات کی خدائی اور نفسانفسی کی سیاست ،معیشت اور تہذیب کو تباہ کرنے پر تلاہوا تھا اور تلا بیٹھا ہے۔
اسی پڑھے لکھے طبقے میں اسلام کے شیدائی، مشرقیت کے دل دادہ اور شرافت کے پُتلے بھی ایک تعداد میں موجود تھے اور وہ اپنا کردار بھی ادا کرتے رہے ہیں۔ انھی کی خدمات اور مبارک کوششوں کے نتیجے میں ایک بڑا خیر ہمارے معاشرے میں موجود ہے، جو حق و باطل کی کش مکش میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔ لیکن اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ ۱۹۵۴ء کے بعد سے بحیثیت مجموعی اختیار و اقتدار جس طبقے کے ہاتھوں میں رہا، وہ تحریک ِ پاکستان اور اس کے مقاصد کے باب میں وفادار نہیں پایا گیا، الاماشاء اللہ۔ یہ بات صرف ہم نہیں کہہ رہے ہیں۔جن حضرات نے پاکستان کے بارے میں معروف مستشرقین پروفیسر ولفریڈ کنٹول اسمتھ اور ڈاکٹر کیتھ کلارڈ کی کتب کا مطالعہ کیا ہے، وہ گواہی دیں گے کہ دونوں نے اپنے اپنے انداز میں اس امر کا اعتراف کیا ہے کہ پاکستان کو پٹڑی سے اُتارنے اور پھر مفادپرست معاشرے، معیشت اور تہذیب کی راہ پر ڈالنے میں اصل کردار مغرب زدہ سیکولر قیادت ہی نے انجام دیا ہے۔
کرپشن کے دائرے میں اس طبقے نے جو کارنامہ انجام دیا ہے، ہم اس کے اثراتِ بد کو بھگت رہے ہیں:
انسانوں کے معاملات میں جو بدعنوانی اور لُوٹ مار رُونما ہوتی ہے، اس کی جڑیں انسان کے ایمان، خیالات، تصورِ حیات میں پیوست ہیں۔ اصلاح کی جو بھی حکمت عملی بنائی جائے گی، اس میں تصورات کی اصلاح،اقدار پر ایمان اور ان کے ساتھ وفاداری اور فکر و عمل میں مطابقت ضروری پہلو ہیں۔
منظم اور بڑے پیمانے کی کرپشن کا تعلق کرپشن کی وسعت اور اس کی گہرائی سے ہے۔
کرپشن کی ان تمام وسعتوں کو سامنے رکھتے ہوئے دیکھا جائے، تو صاف نظر آتا ہے کہ آزادی کے جلو میں ہجرت اور انتقالِ آبادی کی وجہ سے املاک اور کاروبار پر قبضے کے باب میں جو طرزِعمل اختیار کیا گیا اور بدعنوانی کے جس کلچر کو فروغ دیا گیا، اس نے کرپشن کے لیے پہلا میدان کھولا۔ متروکہ جایدادیں اس کاپہلا امتحان بنیں، جنھوں نے اس قوم کو آزمایش میں ڈالا ۔ بلاشبہہ ہزاروں لاکھوں افراد نے ایمان داری کے ساتھ اپنے نقصانات کے ازالے کی کوشش کی، لیکن ایک بڑی اور بااثر تعداد جو پہلے سے یہیں آباد تھی،اس نے ناجائز قبضہ اور غلط کلیم کا راستہ اختیار کیا۔ یوں اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے، اپنے لیے مال اور املاک لوٹنے کا کالا کاروبار کیا۔ بیوروکریسی نے بھی ہاتھ رنگے اور اس طرح کرپشن کا ایک بڑا میدان کھل گیا، جو آج تک کھلا ہوا ہے۔
ٹرانسپورٹ اور روٹ پرمٹ اور بیرونی تجارتی کوٹے دوسرا بڑا میدان بنے۔ سرکاری اراضی پر قبضے اور سیاسی بندربانٹ کے کرتب بھلا کب چھپے رہ سکتے تھے۔ سرکاری خریداریاں پہلے بھی کرپشن کا ایک بڑا میدان تھیں اور ان میں روزبروز اضافہ ہی ہوتا گیا۔ پھر بیرونی امداد کے جلو میں کرپشن کا ایک طوفان اُمڈنا شروع ہوا۔ اکتوبر ۱۹۵۸ء سے فوجی آمریت کے قدم رنجا فرمانے کے ساتھ حکومت کے فیصلہ سازی کے انداز میں تبدیلی آنے لگی اور اختیاراتی (arbitrery) اور استحقاقی (discretionary) اختیارات برابر بڑھنے لگے۔ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان، خود مغربی پاکستان کے صوبوں کے درمیان اور فوج اور سول محکموں میں وسائل کی تقسیم کے میدان بھی کرپشن، ناانصافی اور الطاف و عنایات کی آماج گاہ بن گئے۔
ذوالفقار علی بھٹوصاحب کے دورِ حکومت (۱۹۷۲ئ-۱۹۷۷ئ) میں قومی ملکیت میں لینے کی پالیسی نے معیشت پر سیاست کے غلبے اور فیصلوں میں سیاسی مداخلت اور سرپرستی کے بڑے بڑے گیٹ چوپٹ کھول دیے۔ پھر فوجی اور سول حکومتوں کی میوزیکل چیئر کے کھیل (۱۹۷۷ئ-۲۰۱۶ئ) نت نئی شکلوں میں رائج ہیں۔ جب ۸۰کے عشرے میں یہ فلسفہ گھڑا گیا کہ ’ریاست کا کام بزنس نہیں ہے‘، اس وقت سے پہلے جو کچھ قومی ملکیت کے نام پر کیا گیا، وہی کچھ نج کاری کے جھنڈے تلے ہونے لگا۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر ریاست کا کام بزنس نہیں تو تاجروں، ساہوکاروں، بنکاروں اور اندھی طاقت کے رکھوالوں کو بھی یہ مقام حاصل نہیں کہ وہ ریاست کو کاروبار کا اڈا بنا کر چلائیں۔
ریاست کا معیشت میں ایک مثبت کردار ہے، اور یہ بھی درست ہے کہ معیشت کا مجموعی نظام منڈی ہی کے ذریعے چلنا چاہیے۔ لیکن اس کے ساتھ حکومت کا عوام اور ملک کے اسٹرے ٹیجک مفادات کے تحفظ کے لیے پیداواری اور ریگولیٹری (ضابطہ کاری) کردار بھی ضروری ہیں۔ یہ سب کام ضابطے اور قاعدے کے مطابق، اور شفاف انداز میں ہونے چاہییں۔ نجی شعبے کے لیے بھی ایسا قانونی اور ریگولیٹری نظام ہونا چاہیے، جو ایک طرف نجی سرمایے اور کاروبار کو تحفظ دے اور کام کے مواقع فراہم کرے۔ دوسری طرف صارفین، مزدوروں اور بحیثیت مجموعی معیشت کے مفادات اور ضروریات کے مناسب شفاف، مؤثر اور عادلانہ طریق کار کا انتظام و انصرام بھی کرے۔ اسی طرح ملک میں تقسیمِ دولت کے نظام کو منصفانہ بنیاد پر منظم کرے، تاکہ ترقی کے ثمرات تمام شہروں اور تمام علاقوں میں پہنچ سکیں۔
کرپشن کی جن چار موٹی موٹی اقسام کی ہم نے نشان دہی کی ہے، بدقسمتی سے وہ تمام ہمارے ملک میں بڑے پیمانے پر نہ صرف بھرپور وجود رکھتی ہیں، بلکہ افسوس اور تشویش کا مقام ہے کہ ان میں برابر اضافہ ہو رہا ہے۔ کرپشن کو روکنے کی بظاہر جو بھی کوششیں ہوئی ہیں، قانون سازی ہوئی ہے، ادارے بنائے گئے ہیں، وہ بحیثیت مجموعی ناکام رہے ہیں۔
اس وقت عالم یہ ہے کہ زندگی کے جس شعبے پر نظر ڈالیں، کرپشن کی گرم بازاری کا سماں نظر آتا ہے۔ سیاست دان تنقید کا اولین ہدف ہیںاور اس باب میں ان کا دامن اتنا داغ دار پیش کیا جارہا ہے کہ سیاست گالی بنتی جارہی ہے۔ تاہم، ہر جماعت میں ایک تعداد اچھے اور صاف دامن افراد کی بھی ہے، لیکن یہ کہنا صریح زیادتی اور خلافِ واقعہ ہے کہ دوسرے طبقات اور گروہ اس بلا سے محفوظ ہیں۔ بیوروکریسی کا کردار کچھ کم گھنائونا اور تباہ کن نہیں ہے۔ پولیس، عدلیہ خصوصیت سے نچلی سطح پر عدلیہ (جج اور وکیل)، پھر تعلیم، صحت، صحافت اور فوج کے کارپرداز___ بدقسمتی سے اس حمام میں بڑی تعداد لباس سے فارغ ہے۔
مسئلہ کتنا گمبھیر اور تباہ کن ہے، اس کا اندازہ لگانے کے لیے بین الاقوامی میڈیا میں شائع ہونے والے چند ہوش ربا حقائق پیش نظر رہنے چاہییں، تاکہ حل کے لیے مناسب حکمت عملی کے لیے کچھ گزارشات پیش کی جاسکیں۔
۲۰۱۲ء میں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے اندازہ لگایا کہ کرپشن، ٹیکس چوری اور بُری حکومت کے ضمن میں پیپلزپارٹی کی اتحادی حکومت ۲۰۰۸ء سے ۲۰۱۳ء تک ۵ئ۹ٹریلین روپے (۹۴؍ارب امریکی ڈالر)ضائع کرچکی تھی۔ ساڑھے نو ٹریلین (۹۵ کھرب روپے) پاکستانی معیشت کے پس منظر میں کتنی بڑی رقم ہے اس کا اندازہ صرف اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ اگر انھی پانچ برسوں (یعنی ۲۰۰۸ء سے ۲۰۱۳ئ) کے پانچوں بجٹ جمع کرلیے جائیں اور ان میں انتظامی اور ترقیاتی دونوں حصوں کو شامل کرلیا جائے تو وہ ۵ئ۹ ٹرلین کے برابر ہوں گے۔ یہ رقم ان بیرونی قرضوں سے کئی گنا زیادہ ہے، جن کا بوجھ ہماری معیشت پر اس زمانے میں چڑھا ہے۔ دوسرے لفظوں میں اگر صرف کرپشن پر ۴۰ فی صد قابو پالیا جائے تو بیرونی قرضوں کی ضرورت نہیں ہوگی اور اگر اس پر ۸۰فی صد قابوپالیا جائے تو ملک کے ترقیاتی بجٹ کو بہ آسانی دگنا کیا جاسکتا ہے ،جس کے نتیجے میں ۷ سے ۸فی صد سالانہ ترقی کا ہدف حاصل کیا جاسکے گا___ یہ ہے ہمارا المیہ!
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے پچھلے ۱۸سال کے ’بدعنوانی کے اشاریے‘ مرتب کیے ہیں۔ تاہم ، پوزیشن میں جزوی تبدیلی کے ساتھ پاکستان کرپشن کی بدترین کیفیت میں مبتلا ۵۰ملکوں ہی میں رہا ہے۔ جن تقریباً۱۸۰ ممالک کے بارے میں سروے مرتب کیا گیا ہے، ان میں ۱۳۰ ممالک ہم سے بہتر ہیں۔ واضح رہے کہ ۱۰۰ میں سے ۵۰ سے کم نمبر لانے والے ممالک کا شمار زیادہ کرپٹ ملک میں ہوتا ہے اور ہم ۵۰ کے اس ہندسے سے بھی ۲۰نمبر نیچے ہیں۔ علاقے کے ممالک میں ہمارے ۳۰ اسکور کے مقابلے میں بھوٹان کا اسکور ۶۵، بھارت کا ۳۸ ، سری لنکا کا ۳۷ ہے۔ مصر(۳۶) اور انڈونیشیا (۳۶) بھی ہم سے آگے ہیں۔اسی طرح ملایشیا، کویت، ترکی اور جبوتی ہم سے بہتر پوزیشن میں ہیں۔
۱۹۹۰ء کے عشرے میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) دونوں کی حکومتیں بدعنوانی اور کرپشن کے الزامات پر برطرف کی گئی تھیں۔ آصف علی زرداری صاحب نے معمولی حیثیت سے معاشی سفر کا آغاز کیا اور آج وہ ارب پتی ہیں۔ ان کی آمدنی کے معلوم ذرائع سے ہرگز پتا نہیں چلتا کہ اتنی دولت کے مالک کیسے بنے۔ ’سرے محل‘ کے باب میں آنکھ مچولی کا کھیل سب کے سامنے ہے۔ اربوں روپے کی مالیت کا یہ محل ان کی ملکیت تھا۔ اس کے سامانِ زیبایش کے ۳۰ کنٹینر پاکستانی سفارت خانے کے ذریعے انگلستان بھیجے گئے۔ اسمبلی کے فلور پر بے نظیر بھٹوصاحبہ نے انکار کیا کہ ’سرے محل‘ سے میرا اور میرے شوہر کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ مگر جنرل پرویز مشرف صاحب کے دورِحکومت میں زرداری صاحب نے برطانوی انتظامیہ کو باقاعدہ تحریری حلف نامہ پیش کیا کہ یہ محل ان کا ہے۔ ایسا ہی کھیل سوئٹزرلینڈ کے بنکوں میں رقم اور ہیرے کے مشہور ہار کا رہا۔
مشہور صحافی اور محقق ریمنڈ ڈبلیو بیکر کی کتاب Capitalism's Achiless Heel کئی برس سے شائع ہورہی ہے۔ اس کے ص۷۶ سے ۸۵ تک زرداری صاحب، بے نظیر صاحبہ اور شریف برادران کے بیرونِ ملک اثاثوں کی تفصیل شائع کی گئی ہے۔ دونوں خاندانوں کے بیرونی اثاثے ایک ایک بلین ڈالر سے زیادہ بتائے گئے ہیں اور مصنف کے بقول یہ کمائی ۹۰کے عشرے کی فتوحات کا ثمرہ ہے۔ مصنف نے دونوں خاندانوں کو چیلنج کیا ہے کہ اگر معلومات غلط ہیں تو مجھ پر برطانیہ کی عدالت میں ہرجانے کا دعویٰ کریں، جو اَب تک کسی نے دائر نہیں کیا۔ بظاہر ان اعداد و شمار کے صحیح ہونے کا اشارہ ملتا ہے، جو اس میں دیے گئے ہیں اور جو پاکستان کی سیاسی قیادت اور ملک کے لیے شرم ناک چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔یہ اثاثے اب دوگنا اور تین گنا سے زیادہ ہوچکے ہیں۔
عوامی نیشنل پارٹی (ANP)کی قیادت کے بارے میں اس کے اپنے گھر کے بھیدی اور بیگم نسیم ولی صاحبہ کے بھائی کے الزامات ریکارڈ پر ہیں۔ متحدہ قومی موومنٹ (MQM)کی قیادت کے بارے میں روز نئے انکشافات ہورہے ہیں۔ ہزاروں افراد کراچی، حیدرآباد اور سندھ کے دوسرے شہروں میں ان کے کارکنوں اور قائدین کے بھتے وصول کرنے اور قتل اور دہشت گردی میں ملوث ہونے کی گواہی دے رہے ہیں۔ بلدیہ ٹائون کراچی میں فیکٹری کو تقریباً ۳۰۰؍ انسانوں سمیت جلادینے کا معاملہ اب ’مشترکہ تفتیشی ٹیم‘ (JIT) کی رپورٹ کی شکل میں قوم کے سامنے آچکا ہے۔ یہاں بھی بھتہ ہی اس قتل کا محرک نظر آتا ہے۔ ڈاکٹر عاصم حسین پر ۴۶۲؍ارب روپے کی کرپشن کا مقدمہ دائر کر دیا گیا ہے۔
پنجاب کے میگاپراجیکٹس کے سلسلے میں خاک اُ ڑ رہی ہے۔ ذرائع ابلاغ میں کھل کر سوالات اُٹھائے جارہے ہیں۔ اورنج ٹرین کے بارے میں اخراجات کے اعدادوشمار چکرا دینے والے ہیں۔ یہی معاملہ گیس کی خرید کے معاہدوں اور بجلی پیدا کرنے والے منصوبوں کا ہے۔
ہم یہ چند نمونے اس لیے پیش کر رہے ہیں کہ ان اُمور کی تحقیق ہونی چاہیے۔ بات صرف سیاست دانوں تک محدود نہیں رہنی چاہیے۔ بیوروکریٹس کا ریکارڈ تو اور بھی بدتر صورت پیش کرتا ہے۔ سیاست دانوں اور بیوروکریٹوں کا’ غیرمقدس اتحاد‘ بھی ایک حقیقت ہے۔ کچھ ججوں، جرنیلوں اور ان کے اعزہ و اقارب کی داستانیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ ڈیفنس ہائوسنگ سوسائٹیوں کا معاملہ بہت ہی پُراسرار اور تہہ در تہہ ہے۔ اس کے لیے زمینوں کی خریدوفروخت بلکہ زمینوں پر زبردستی قبضے جمانے کے لیے دھن، دولت اور دھونس کے اتنے تذکرے ہیں کہ انھیں پیش کرتے ہوئے وقت کم پڑ جائے۔
مرکزی اور صوبائی آڈیٹر جنرل کی رپورٹیں بھی چشم کشا ہیں۔ سیکڑوں ارب روپے کی بے قاعدگیاں ہرسال کی رپورٹ میں سامنے آرہی ہیں، مگر پارلیمنٹ کی پبلک اکائونٹس کمیٹیاں خاموشی سے انھیں دبائے بیٹھی ہیں۔ موجودہ وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثار احمد جس زمانے میں وہ پبلک اکائونٹس کمیٹی کے سربراہ تھے، انھوں نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا۔ لیکن اس اہم پارلیمانی ادارے نے نہ ان سے پہلے اور نہ ان کے بعد اپنی ذمہ داری ادا کی۔
یہی حال احتساب بیورو (NAB)کا ہے۔ ۱۹۹۹ء میں اقتدار سنبھالنے کے بعد جنرل پرویز مشرف نے آرڈی ننس کے ذریعے یہ ادارہ قائم کیا تھا۔ لیکن اس کے پہلے دو سربراہوں: جنرل شعیب امجد اور جنرل شاہد یہ کہہ کر مستعفی ہوگئے کہ: ہمارے کام میں مداخلت کی جارہی ہے اور ہم کو اصل مجرموں پر ہاتھ نہیں ڈالنے دیا جارہا۔ جنرل شاہد نے تو اپنی یادداشتیں بھی سپردِقلم کردی ہیں، جن میں نام لے کر بتادیا ہے کہ کس طرح سیاسی مقاصد کے لیے ان کو کام سے روکا گیا اور سیاسی مفاہمت کے نام پر کس طرح قومی خزانے کو لوٹنے والوں کو پارسائی کا سرٹیفکیٹ دے کر شریکِ اقتدار کرلیا گیا۔
اسی طرح وہ حکمران جرنیل، جس نے ’سب سے پہلے پاکستان‘ کا نعرہ لگایا تھا،ا س نے کس طرح ایم کیو ایم کے سربراہ کو ایک نہیں متعدد صحافیوں کے سامنے غدار کہا تھا اور پھر کس طرح انھیں اور ان کی پارٹی کو گلے سے لگالیا۔ اسی طرح ۱۲مئی ۲۰۰۷ء کو کراچی ایئرپورٹ اور شہر کی بڑی شاہراہوں پر ایم کیو ایم کے ہاتھوں خونیں واقعے کے بعد، اسی حکمران نے ایم کیو ایم کو اپنی قوت کا نشان قرار دیا۔ بے نظیر اور زرداری کو کرپٹ کہا اور پھر نام نہاد ’ضابطۂ مفاہمت‘ (NRO) کے ذریعے انھیں اور ایم کیو ایم کو، جس پر ۵ہزار سے زیادہ مقدمات تھے اور الطاف حسین صاحب کو،جو دسیوں قتل کے مقدمات میں مطلوب تھے، سب کی خشک شوئی (dry cleaning) کا سیاہ کارنامہ انجام دیا۔
اس امر کا سختی سے اہتمام ہونا چاہیے کہ کسی پر بھی الزام بلاثبوت نہیں لگنا چاہیے۔ جرم ثابت ہوئے بغیر کسی کو مجرم بھی قرار نہیں دیا جانا چاہیے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جو بھی پبلک لائف میں ہے، اس کی زندگی کھلی کتاب کے مانند ہوتی ہے۔ اگر تسلسل سے اس کے بارے میں الزامات آرہے ہوں، اور وہ اپنا دفاع نہیں کرتا یا نہیں کرسکتا، تو اسے پاک بازی کی سند دینا بھی حق و انصاف سے مطابقت نہیں رکھتا۔
ہم صبح شام حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ نمونہ پیش کرتے ہیں۔ آپؐ ایک موقعے پر اُم المومنینؓ سے ہم کلام تھے کہ ایک صحابی آئے اور پیچھے ہٹ گئے۔ آپؐ نے صحابی کو بلایا اور وضاحت فرمائی کہ یہ فلاں اُم المومنینؓ ہیں۔ اور اس طرح قیامت تک کے لیے یہ سنت قائم فرمادی کہ جہاں شبہہ پیدا ہونا ممکن ہو، بروقت اس کا ازالہ کردیا جائے۔ اسی طرح حضرت عمر فاروقؓ سے لباس کے سلسلے میں سوال ہونا، اور پھر اس کا جواب اپنے بجاے، اپنے صاحبزادے کی زبان سے دلانا، وہ روشن مثالیں ہیں، جن کی تقلید مسلمان حکمرانوں اور بااثر شخصیات کو کرنی چاہیے۔
کرپشن کی ایک صورت وہ ہے، جو حکومت پالیسی کے طور پر اختیار کیے ہوئے ہے۔ اس میں پارلیمنٹ کے ارکان، بیوروکریسی، ججوں، جرنیلوں، صحافیوں اور نہ معلوم کس کس کو لائسنس، ترقیاتی کوٹے، زمین کے پلاٹ، ملک اور ملک سے باہر سفر، علاج کی مفت سہولتیں اور کیا کیا عنایات خسروانہ ہیں جن سے سرفراز کیا جا رہا ہے۔ یہ سلسلہ فی الفور ختم ہونا چاہیے۔
ہم نے ایسی تمام بے جا نوازشات کی ہمیشہ مخالفت کی ہے۔ الحمدللہ ، ہم نے اور جماعت اسلامی پاکستان کے ذمہ دار حضرات نے وزارت اور پارلیمنٹ کی رکنیت کے دور میں اس نوعیت کی سہولیات سے اجتناب کیا۔ بھٹوصاحب نے ارکانِ پارلیمنٹ کو ڈیوٹی فری کار اور اسلام آباد میں پلاٹ کی سوغات کا آغاز کیا تھا۔ الحمدللہ، جماعت اسلامی کے ارکانِ پارلیمنٹ نے اس سہولت سے فائدہ نہیں اُٹھایا۔ یہ بھی ہماری تاریخ کا حصہ ہے کہ سابق چیف جسٹس اے آر کارنیلیس کو جب بھٹوصاحب نے ایک پلاٹ کے الاٹ کرنے کا خط لکھا تو ان کا مختصر جواب یہ تھا کہ ’’شکریہ، میں نے تو کسی پلاٹ کے لیے درخواست نہیں دی اور نہ مجھے اس کی کوئی ضرورت ہے‘‘۔
بطور ممبر سینیٹ میں نے اور محترم قاضی حسین احمد مرحوم و مغفور نے اپنی تنخواہ نہیں لی اور اس رقم کے ذریعے سینیٹ میں لوئراسٹاف کے لیے فنڈ قائم کیا، جو دوسرے اراکین کے تعاون سے سینیٹ کے ملازمین کے لیے ایک بڑا سہارا بن چکا ہے۔ ایک کروڑ سے زیادہ کا یہ ’انڈومنٹ فنڈ‘ قائم ہوچکا ہے۔ پارلیمانی کمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے مجھے جو استحقاقی سہولیات میسر تھیں، الحمدللہ ان سے بھی استفادہ نہیں کیا اور نہ ۲۱سال کی ممبری کے دوران ایک بار بھی اپنے یا اپنے اہلِ خانہ کے علاج کے لیے ایک روپے کی دوا یا علاج کی سہولت حاصل کی۔ میں اس بات کا ذکر نہیں کرنا چاہتا تھا، لیکن اردگرد کا چلن دیکھ کر صرف تحدیث نعمت کے طور پر اس امر کا اظہار کررہا ہوں۔ حالانکہ اس کا تعلق بظاہر ایک قانونی استحقاق سے ہے۔
ہماری نگاہ میں ارکانِ پارلیمنٹ کی حقیقی ضرورتیں ضرور پوری ہونی چاہییں، لیکن جس فیاضی کے ساتھ سرکاری خزانے سے ان کو مراعات عطا کی جاتی ہیں ،خاص طور پر پلاٹس اور ڈویلپمنٹ فنڈ وغیرہ ( جن کا آغاز وزیراعظم جناب محمد خان جونیجو کے زمانے میں ہوا)ان پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔
ہماری معروضات کا حاصل یہ ہے کہ کرپشن صرف رشوت کا نام نہیں، بلکہ ہر اس معاملے میں، جس میں اجتماعی ذمہ داری کے کسی بھی نظام میں کسی بھی شخص کو کوئی اختیار دیا گیا ہے، خواہ وہ مالی ہے یا کسی انتظامی صورت میں: اس اختیار کا کسی پہلو سے بھی غلط استعمال کرپشن کی تعریف میں آتا ہے۔ مالی کرپشن سب سے بڑی لعنت ہے، لیکن یہ کرپشن کی واحد شکل نہیں۔ امانت، انصاف، حقوق کی پاس داری، ذاتی پسند و ناپسند کی روشنی میں سرکاری اختیارات کا استعمال___ یہ سب کرپشن کی بدترین شکلیں ہیں اور ایسی حکمت عملی اور نقشۂ کار وضع کرنے کی ضرورت ہے کہ کرپشن کی تمام صورتوں کو بڑی حد تک ختم کیا جائے اور ان چور دروازوں کو بند کیا جائے، جن سے یہ عفریت داخل ہوتا اور تباہی مچاتا ہے۔
اس سلسلے میں سب سے پہلی ضرورت حلال اور حرام کا ادراک ہے۔ انفرادی اور اجتماعی زندگی میں حق و انصاف، امانت و دیانت، قانون اور ضابطے کی پابندی ہے۔ تمام معاملات میں مکمل شفافیت، معلومات اور فیصلوں کو اخفا کے پردے سے نکالنا ہے۔ پورے نظام میں احتساب اور نگرانی کے نظام کو قانون اور ضابطے کا حصہ بنانا ہے۔
ایک طرف ہرہرفرد کی اخلاقی تربیت اور گناہ اور ثواب کے احساس اور آخرت کی جواب دہی کی زندگی کو مؤثر بنانا اور دوسری طرف قانون، ضابطے، فیصلے کے طریقوں اور کارکردگی کے جائزے کا ایسا واضح اور شفاف نظام بروے کار لانا کہ جس سے کرپشن اور اختیارات کے غلط استعمال کے امکانات کو کم سے کم کردیا جائے۔
۱۹۹۵ء میں تو دنیا کے صرف ۱۹ممالک میں ’اطلاعات کے حصول کا قانونی حق‘ (Right to Freedom of Information) موجود تھا۔ اب ان ممالک کی تعداد ۱۰۷ ہوگئی ہے۔ پاکستان میں بھی یہ قانون ہے، مگر مرکزی قانون میں دو سال سے ترامیم زیرغور ہیں اور کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ اس ضمن میں خیبرپختونخوا کا قانون بہت بہتر ہے، لیکن انتظامیہ کی طرف سے اس پر مکمل عمل میں کوتاہیاں سامنے آرہی ہیں۔ معلومات تک رسائی، کرپشن کو روکنے کا ایک مؤثر ذریعہ ہے۔ اس کی فکر کرنی چاہیے۔
حال ہی میں جس طرح وزیراعظم محمد نواز شریف صاحب، بہاول پور میں غصے سے پھٹ پڑے۔ ان کا یہ انداز نظامِ احتساب کے لیے سمِ قاتل کا درجہ رکھتا ہے، اور شاید دل کے چور کی خبر بھی دے رہا ہے۔ یقینا، احتساب کے نظام اور قانون کو صاف شفاف، مختصر اور قابلِ عمل ہونا چاہیے۔ اس میں جھول، تضاد اور خامیوں کو دُور ہونا چاہیے، مگر یہ چیز جلسوں میں کہنے کی نہیں، بلکہ سنجیدگی سے، تمام پارلیمانی پارٹیوں کو اعتماد میں لے کر اور کھلے عوامی مباحثے کی صورت میں متعین کرنے کی ہے۔
ہرشخص کے دل میں احتساب کی ایک عدالت اگر قائم ہوجائے تو اس سے بہتر نقطۂ آغاز ممکن نہیں۔ اسلام کا تو اصول ہی یہ ہے کہ: ’’اپنا احتساب کرلو، قبل اس کے کہ تمھارا احتساب کیا جائے‘‘۔ اسی طرح اجتماعی نظام میں بھی احتساب ضروری ہے۔ البتہ اس کی کئی سطحیں ہیں اور ہرسطح پر اس کا انتظام ہونا چاہیے۔
قانون صرف ایک سطح کا عمل ہے۔ اس کا ہونا ضروری ہے، لیکن قانون کو انصاف کے اسلامی اور معروف اصولوں پر مبنی ہونا چاہیے اور اس کا اطلاق بلاامتیاز سب پر ہونا چاہیے۔ احتساب کے ادارے کا حکومت اور اس کے عام اداروں سے آزاد ہونا ضروری ہے۔ اس پر نظرثانی کا اہتمام ہونا چاہیے۔ اس ادارے کو تھکے ماندے، اور خوار و زبوں ادارے کا رُوپ نہیں دھارنا چاہیے، اس لیے کہ وقت پر انصاف کی فراہمی انصاف کا لازمی حصہ ہے۔ (انصاف میں تاخیر، انصاف کا قتل ہے)۔
ہمارے ملک میں مقدمات اور تحقیقات اتنا وقت لے لیتے ہیں کہ انصاف کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے۔ نیب کے پاس ۱۸، ۱۸ برس سے مقدمات موجود ہیں۔ یہ صریح ظلم ہے۔ اسی طرح احتساب بیورو میں تحقیق و تفتیش اور مقدمہ پیش کرنے کے الگ الگ شعبے ہونے چاہییں، جن میں اعلیٰ صلاحیت، تربیت اور دیانت کی شہرت رکھنے والے افسر متعین کیے جانے چاہییں، جن کی مناسب تربیت ہو اور جدید معلومات اور ٹکنالوجی سے ان کو باخبر رکھا جائے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ احتسابی ادارے پر شفاف نگرانی کا نظام تو ضرور قائم ہو ،لیکن اسے سیاست کے سایے سے پاک ہونا چاہیے، جس طرح فرانس میں دستوری عدالت ہے۔ ان خطوط پر نظرثانی کے کمیشن بنائے جاسکتے ہیں۔ ملک میں الحمدللہ، باضمیر اور باصلاحیت لوگ موجود ہیں، ان سے پورا پورا فائدہ اُٹھانا چاہیے، تاہم پارلیمانی کمیٹی اس کام کے لیے موزوں نہیں ہے۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ احتساب کمیشن کی سالانہ رپورٹ صدر کو پیش کیے جانے کے بعد، پارلیمنٹ کی ایک خاص کمیٹی کے سامنے ضرور آنی چاہیے، تاکہ وہ اس کی روشنی میں مستقبل کی قانون سازی اور پالیسی سازی کے حصول کے لیے مشورے دے سکے ۔اگر پارلیمانی کمیٹی، احتساب بیورو کو کچھ چیزوں کی طرف متوجہ کرنا چاہتی ہو تو وہ اس ذمہ داری کو بھی ادا کرسکے۔
احتساب کے سلسلے میں یہ بات بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ صرف قانون کا کام نہیں، پارلیمنٹ کا اپنا بھی کردار ہے۔ اس کی کمیٹیاں اس عمل کا مؤثر ترین نظام ہیں۔ پبلک اکائونٹس کمیٹی ایک مستقل حساس اور نگران ادارہ ہے، لیکن ہمارے یہاں وہ ایک مُردہ یا نیم جان ادارہ بن کر رہ گئی ہے۔ ایسی مثالیں بھی ہیں کہ آڈیٹر جنرل کی رپورٹ پر برسوں تک بحث ہی نہیں ہوئی، جب کہ رپورٹیں الماریوں کی زینت بنی ہوئی ہیں۔
اسی طرح پارلیمنٹ میں وقفۂ سوالات حکومت اور ہرادارے کے احتساب کا ایک مؤثر فورم ہے۔ بدقسمتی سے پارلیمنٹ اور حکومت دونوں اس کا حق ادا نہیں کر رہے۔ کئی سال تو ایسے بھی گزرے ہیں کہ جتنے سوالات ارکان نے پوچھے ہیں، پورے سال میں ان میں ۲۰فی صد سے زیادہ کے جواب تک نہیں آئے اور جو جواب آئے وہ نامکمل تھے۔ پھر جس دن جواب پارلیمنٹ میں آتے ہیں، اس دن متعلقہ وزیر موجود نہیں ہوتے۔ یہ طرزِعمل پارلیمنٹ کی توہین اور اس کی کارکردگی پر کلنک کا ٹیکا ہے، جس کی اصلاح ضروری ہے۔ اگر پارلیمنٹ کے لوگ اپنے گھر کو درست کرلیں، تو انھیں دوسروں کی طرف دیکھنے کی زحمت نہیں کرنی پڑے گی۔
[…باقی دیکھیے: ص ۱۰۵]
[اشارات : ص ۲۸ سے آگے]
کی ٹانگ کھینچنے کے مترادف نہیں ہونا چاہیے۔ احتساب اصلاحِ احوال کا ایک مؤثر نظام ہے اور مشاورت اور فیصلہ سازی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہ بدقسمتی ہے کہ ہمارے ملک میں احتساب ایک مثبت اور تعمیری عمل بننے کے بجاے، ایک منفی اور نیچا دکھانے کا عمل بن کر رہ گیا ہے۔ یا پھر اتنا غیرمؤثر ہوگیا ہے کہ اس کا ہونا اور نہ ہونا برابر ہے۔ اگر دیکھا جائے کہ پچھلے ۱۸برس میں نیب کے سامنے کتنے معاملات آئے ہیں؟ اور کتنے افراد کو قانون پر عمل کے ذریعے قرار واقعی سزا ملی ہے؟ تو کوئی بہت اچھی تصویر سامنے نہیں آتی۔
احتساب کے نظام میں ایک تباہ کن جھرنا ’بہانہ ساز سودے بازی‘ یا ’پلی بارگیننگ‘ (Plea Barganing ) کا نظام ہے، اسے فی الفور ختم ہونا چاہیے۔ جہاں جرم ثابت ہو، وہاں پوری لوٹی ہوئی رقم قومی خزانے میں جمع کرنی چاہیے اور مجرم کو قید، جرمانہ اور مستقبل کے لیے نااہلی کی شکل میں سزا ملنی چاہیے اور اس کی تشہیر ہونی چاہیے۔کرپشن کو جتنا مشکل بنایا جائے گا، اتنا ہی اس پر قابو پایا جاسکے گا، ورنہ کرپشن بھی ایک کھیل بنی رہے گی اور یہ کھیل دن رات ہمارے سامنے ہورہا ہے۔
ہمارے دوست پروفیسر عنایت علی خاں نے کیا خوب کہا ہے ؎
حادثہ سے بڑا سانحہ یہ ہوا
لوگ ٹھیرے نہیں حادثہ دیکھ کر
ہمیں معاشرے میں امانت اور دیانت، شرافت اور قناعت کی اقدار کو پروان چڑھانا ہے تاکہ کرپشن ایک ناقابلِ قبول شے بن جائے اور عدل و انصاف، حقوق کی پاس داری اور اکل حلال ہمارا شعار ہو۔
کرپشن کسی بھی معاشرے اور ریاست کے لیے ایک ناسور کی حیثیت رکھتی ہے، لیکن اگرجسم بھی بیمار ہو تو یہ جان لیوا سرطان کی شکل اختیار کرلیتی ہے ۔ ہر دوسری خرابی اور بگاڑ سے اس کا ایسا رشتہ قائم ہوجاتا ہے، جو بگاڑ کو ہمہ جہت وسعت دے دیتاہے۔ ہم بڑے دُکھ سے یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ اس وقت پاکستان میں کرپشن نے اُم الخبائث کی حیثیت اختیار کرلی ہے، اور زندگی کے ہرپہلو میں بگاڑ اور فساد کا ذریعہ بن گئی ہے۔ آہنی گرفت سے اسے قابو کیے بغیر زندگی کے کسی بھی شعبے میں اصلاح کے امکانات معدوم ہوتے جارہے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ وقت کی اہم ترین ضرورت، کرپشن کے خلاف ہمہ گیر جہاد ہے۔ اس جہاد کو برپا کرنے کی ذمہ داری ان تمام افراد اور عناصر پر ہے، جو مظلوم ہیں، جو اس کا نشانہ ہیں، جو انصاف سے محروم ہیں، جن کے حقوق کو شب و روز بے دردی سے پامال کیا جا رہا ہے اور قانون اور نظامِ عدل خاموش تماشائی بنے، ان کے زخموں پر نمک پاشی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔
جماعت اسلامی پاکستان نے موجودہ حالات کے پیش نظر کرپشن کے خلاف ایک ملک گیر تحریک کا آغاز کیا ہے اور ملک کے تمام مظلوم بھائیوں اور بہنوں کو دعوت دی ہے کہ ظلم کے اس طوفان کا مقابلہ کرنے کے لیے اللہ کے بھروسے پر اُٹھ کھڑے ہوں اور اپنے حقوق کے حصول اور تمام مجبور انسانوں کو لُوٹ مار کے اس عذاب سے نجات دلانے کے لیے سرگرم ہوجائیں۔ ہماری یہ جدوجہد منظم اور ہمہ گیر ہوگی، لیکن ان شاء اللہ قانون اور اخلاق کے ضابطوں کے اندر ہوگی کہ فساد، بگاڑ اور بُرائی کا مقابلہ بھی خیر، فلاح اور حسن سے مطلوب ہے اور یہی اللہ تعالیٰ کا حکم ہے:
وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَلَا السَّیِّئَۃُ ط اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ (حم السجدہ ۴۱:۳۴) اور نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں۔ تم بدی کو اس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو۔
(کتابچہ دستیاب ہے، قیمت:۱۳روپے، منشورات، لاہور)
سورئہ ذاریات منکرینِ آخرت کو خطاب کر کے ارشاد ہوئی ہے اور آخرت کے حق میں اس میں مسلسل دلائل دیے گئے ہیں۔ پہلی دلیل ہوائوں کے نظم اور بارش کی تقسیم کی دی گئی ہے کہ کائنات کا یہ نظام حکیمانہ ہے، الل ٹپ نہیں۔ دوسری دلیل یہ دی گئی ہے کہ آخرت کے بارے میں محض گمان پر فیصلہ کرنا صحیح نہیں بلکہ یہ فیصلہ علم اور حقیقت پر مبنی ہونا چاہیے جو انبیا ؑلے کر آئے ہیں۔ تیسری دلیل یہ دی گئی کہ فاسق و فاجر اور متقی کا انجام ایک جیسا نہیں ہونا چاہیے، یہ عقل کا تقاضا ہے ۔ پھر نفسِ انسانی کو بطورِ دلیل پیش کیا گیا کہ خود اس میں آخرت کی نشانیاں ہیں۔
اب اس کے بعد آخرت پر ایک اور استدلال اس قصے سے شروع کیا جارہا ہے اور وہ ہے انسانی تاریخ۔
اللہ تعالیٰ یہ بتاتا ہے کہ انسانی تاریخ میں تم مسلسل دیکھتے ہو کہ جزا اور سزا کا قانون اس زندگی کے اندر بھی نافذ ہے، اگرچہ اس زندگی میں پوری سزا نہیں ملتی۔ اس دنیا میں جو آدمی سزا کا مستحق ہو، بسااوقات اسے سزا مل جاتی ہے۔ اس وجہ سے کہ اس کے اُوپر انسانوں کو بھی اختیارات دیے گئے ہیں۔بحیثیت مجموعی اگر اس بات کو دیکھیں تو انسانی تاریخ اس بات کی شہادت دیتی ہے کہ قانونِ مکافات اس زندگی میں بھی کارفرما ہے۔ جہاں تک انسانی غلطیوں کا تعلق ہے اور جہاں انسان کا اختیار چلتا ہے اس جگہ بُرائی کا نتیجہ بظاہر تھوڑی دیر کے لیے عارضی طور پر اچھا ہوتا نظر آتا ہے، او ر بھلائی کا نتیجہ عارضی طور پر بُرا ہوتا نظرآتا ہے۔لیکن جہاں تک بحیثیت مجموعی قدرتی عوامل کا تعلق ہے جو عالمِ بالا سے انسانی زندگی پر اثرانداز ہوتے ہیں، ان کے اندر تم دیکھو گے کہ جزا اور سزا کا قانون انسانی زندگی میں نافذ چلا آرہا ہے۔ یہ اس بات کا پتا دیتا ہے کہ کائنات کی سلطنت کا مزاج یہ نہیں ہے کہ بُرے اعمال کی کوئی سزا نہ ہو اور بھلے اعمال کی کوئی جزا نہ ہو۔ نظامِ کائنات کو جو طاقت چلا رہی ہے اس کا مزاج یہی ہے کہ پورے عدل کے ساتھ جزا اور سزا نافذ کی جائے۔ اس ضمن میں یہاں انسانی تاریخ سے کچھ مثالیں پیش کی جارہی ہیں:
ہَلْ اَتٰکَ حَدِیْثُ ضَیْفِ اِِبْرٰہِیْمَ الْمُکْرَمِیْنَ o اِِذْ دَخَلُوْا عَلَیْہِ فَقَالُوْا سَلٰمًا ط قَالَ سَلٰمٌ ج قَوْمٌ مُّنْکَرُوْنَ o فَرَاغَ اِِلٰٓی اَھْلِہٖ فَجَآئَ بِعِجْلٍ سَمِیْنٍo(الذٰریٰت۵۱ :۲۴-۲۶) اے نبیؐ، ابراہیم ؑ کے معزز مہمانوں کی حکایت بھی تمھیں پہنچی ہے؟ جب وہ اس کے ہاں آئے تو کہا: ’’آپ کو سلام ہے۔ اس نے کہا: آپ لوگوں کو بھی سلام ہے___ کچھ ناآشنا سے لوگ ہیں‘‘۔ پھر وہ چپکے سے اپنے گھر والوں کے پاس گیا، اور ایک (بھنا ہوا) موٹا تازہ بچھڑا لاکر مہمانوں کے آگے پیش کیا۔
یعنی ان کو دیکھ کر حضرت ابراہیم ؑ نے یہ محسوس کیا کہ ان سے کبھی پہلے ملاقات نہیں ہوئی۔ بالکل اجنبی سے لوگ ہیں۔ پھر حضرت ابراہیم ؑ چپکے سے اپنے گھر والوں کے پاس گئے اور ایک موٹا تازہ بھنا ہوا بچھڑاان کے لیے لے آئے۔
حضرت ابراہیم ؑ چونکہ بڑے مہمان نواز تھے اور ہر طرف سے ان کے پاس لوگ آتے رہتے تھے، ہوسکتا ہے کہ ان کے پاس کچھ ایسا انتظام ہو کہ ہروقت کچھ نہ کچھ کھانے کا سامان تیار رہتا ہو۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہاں بیان اس طرح کیا گیاہے کہ وہ گئے اور لے آئے۔ درحقیقت وہاں صورت یہ ہوئی ہوگی کہ حضرت ابراہیم ؑ گھر والوں کے پاس گئے ہوں گے اور کہا ہوگا کہ کچھ مہمان آگئے ہیں، ان کے لیے کچھ جلدی سے تیار کیا جائے اور جس وقت تیار ہوگیا تو آپ ؑ لے کر آگئے۔ دونوں صورتیں ہوسکتی ہیں۔
قرآنِ مجید کا اندازِ بیان یہ ہے کہ تفصیلات کو چھوڑتا چلا جاتا ہے۔ تفصیلات کو ہر آدمی اپنے ذہن میں سوچ لیتا ہے۔ واقعات کے صرف اہم اور بنیادی اجزا کو بیان کرنے پر اکتفا کرتا ہے۔
فَقَرَّبَہٗٓ اِِلَیْھِمْ قَالَ اَلاَ تَاْکُلُوْنَ o (۵۱:۲۷) حضرت ابراہیم ؑ نے ان کے آگے وہ بچھڑا بڑھایا اور ان سے کہا کہ آپ کھاتے کیوں نہیں ہیں؟
اس سے خود بخود یہ بات نکلی کہ جب انھوں نے بچھڑے کو آگے بڑھایا تو وہ کھانے کے لیے ہاتھ نہیں بڑھارہے تھے۔ اس پر حضرت ابراہیم ؑ نے ان سے کہا کہ آپ لوگ کھاتے کیوں نہیں؟
فَاَوْجَسَ مِنْھُمْ خِیْفَۃً ط(۵۱:۲۸) پھر وہ اپنے دل میں ان سے ڈرا۔
بدوی اور صحرائی علاقوں میں ہمیشہ یہ قاعدہ ہوتا ہے کہ اگر کوئی مہمان کسی کے گھر آئے اور وہ اس کے آگے کھانا بڑھائے اور وہ کھانا کھالے، تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ دوستانہ طریقے سے اور اچھی نیت سے آیا ہے اور اس کے دل میں بُرائی نہیں ہے۔ لیکن اگر آپ ان کے آگے کھانا بڑھائیں اور وہ نہ کھائیں تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ یہ کسی بُرے ارادے اور دشمنی کے ارادے سے آئے ہیں۔ بدوی اور صحرائی قوموں کے اندر اتنے بنیادی اخلاق موجود ہوتے ہیں کہ وہ کسی کا کھانا کھانے کے بعد پھر اس پر ہاتھ نہیں ڈالتے۔ جہاں ابتدائی انسانی شرافت بھی باقی نہیں رہی ہے وہاں اس بات کا امکان ہے کہ مہمان کھانا بھی کھائے اور لُوٹ کر بھی لے جائے، بلکہ آپ کے ہاں مہینوں مہمان بھی رہے اور پھر آپ کے گھر پر ہاتھ صاف کرجائے۔
چنانچہ حضرت ابراہیم ؑ یہ دیکھ کر کہ یہ کھانے کے لیے ہاتھ نہیں بڑھا رہے، ان سے ڈر گئے۔ ان کے دل میں اندیشہ پیدا ہوا۔ اس سے پہلے انھوں نے یہ فرمایا تھا کہ آپ اجنبی معلوم ہوتے ہیں۔ اس سے پہلے کبھی آپ سے ملاقات نہیں ہوئی اور میں آپ کو جانتا نہیں ہوں۔ اب، جب کہ وہ کھانا نہیں کھا رہے تھے تو ان کے دل میں خوف پیدا ہوگیا۔
قَالُوْا لاَ تَخَفْ ط وَبَشَّرُوْہُ بِغُلٰمٍ عَلِیْمٍo(۵۱:۲۸) انھوں نے کہا: ڈریے نہیں، اور اسے ایک ذی علم لڑکے کی پیدایش کا مژدہ سنایا۔
اب یہاں اس بات کی وضاحت نہیں کی گئی کہ وہ فرشتے تھے اور انھوں نے اپنا تعارف کرایا کہ ہم اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے گئے ہیں۔ یہ بات کہ انھوں نے ان کو ایک ذی علم لڑکے کی پیدایش کی بشارت دی، یہ خود بخود اس بات کا پتا دے دیتی ہے کہ درمیان میں کیا بات ہوئی۔ انھوں نے کہا کہ آپ ڈریں نہیں، ہم اس وجہ سے آئے ہیں ۔ ہم فرشتے ہیں اور ہمارا کام کھانا کھانا نہیں ہے، اور خدا کی طرف سے بھیجے گئے ہیں۔ اس کے بعد انھوں نے حضرت ابراہیم ؑ کو ایک ذی علم لڑکے کی بشارت دی۔ اس سے مراد حضرت اسحاق ؑ ہیں اور ان کی بشارت دی گئی تھی۔ اس سے پہلے حضرت اسماعیل ؑ پیدا ہوچکے تھے۔ حضرت اسماعیل ؑ کی تعریف میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: غلام حلیم، یعنی بُردبار لڑکا اور حضرت اسحاق ؑ کی تعریف میں فرمایا: غلام علیم، یعنی علم والا۔ اس کے بعد فرشتوں نے جس دوسری بات کی بشارت دی اس کا ذکر آگے آ رہا ہے۔
فَاَقْبَلَتِ امْرَاَتُہٗ فِیْ صَرَّۃٍ فَصَکَّتْ وَجْہَھَا وَقَالَتْ عَجُوْزٌ عَقِیْمٌo (۵۱:۲۹) یہ سن کر اس کی بیوی چیختی ہوئی آگے بڑھی اور اس نے اپنا منہ پیٹ لیا اور کہنے لگی: بوڑھی، بانجھ!
یہ بوڑھی اور بانجھ اہلیہ، حضرت سارہؑ تھیں، حضرت ہاجرہ ؑ نہیں تھیں۔ حضرت ہاجرہ ؑ کے بانجھ ہونے کا کوئی ذکر کہیں نہیں آیا۔ ان کے ہاں اس سے پہلے اولاد پیدا ہوچکی تھی اور حضرت اسماعیل ؑ ان سے بڑے تھے، لہٰذا بانجھ ہونے کا خیال اگر ہوسکتا تھا تو حضرت سارہ ؑ کو ہوسکتا تھا۔ اس لیے کہ اس وقت حضرت ابراہیم ؑ کی عمر تقریباً ۱۰۰ سال تھی او ر حضرت سارہؑ کی عمر تقریباً ۹۶سال تھی۔ توریت میں اس کی تصریح ہے کہ اس وقت ان کی کتنی عمر تھی۔انھوں نے کہا کہ اتنی بڑی عمر میں جس کی آج تک اولاد نہیں ہوئی، جوانی گزر گئی، بڑھاپا آگیا اور بڑھاپے کا بھی آخری زمانہ آگیا۔ اب اسے خبر دی جارہی ہے کہ اس کے ہاں اولاد ہوگی۔
قَالُوْا کَذٰلِکِ لا قَالَ رَبُّکِ ط اِِنَّہٗ ھُوَ الْحَکِیْمُ الْعَلِیْمُo (۵۱:۳۰) انھوں نے کہا: یہی کچھ فرمایا ہے تیرے رب نے، وہ حکیم ہے اور سب کچھ جانتا ہے۔
فرشتوں نے ان کی یہ بات سن کر جواب دیا:تیرے رب نے اسی طرح فرمایا ہے: وہ حکیم اور علیم ہے۔ وہ سب کچھ جانتا اور دانا ہے۔ اس کی حکمت اس چیز میں مانع نہیں ہے کہ وہ کسی کو اولاد دیناچاہے اور نہ دے سکے، اور علیم ہے، اس لیے اسے معلوم ہے کہ تیرے ہاں اولاد ہوگی۔
ان کا کہنا کہ تیرے رب نے یہی فرمایا ہے اور وہ علیم اور حکیم ہے، لہٰذا تمھارے بوڑھے ہونے اور بیوی کے بانجھ ہونے کے باوجود تمھارے ہاں اولاد ہوگی۔ اللہ نے یہی فرمایا ہے اور وہ حکمت رکھنے والا اور علم والا ہے۔یہاں یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ جن لوگوں پر مہربان ہوتا ہے اور جو لوگ اللہ کی راہ میں خدمت کرتے ہیں، جان لڑاتے ہیں، ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ اپنے خاص قانون پر عمل کرتا ہے۔ دنیا میں جو عام قانون اور فطری قانون (natural law) چل رہا ہے اس کے اندر اتنی تبدیلی کردیتا ہے کہ بعض اوقات ان کو ایسی حالت میں اولاد کا انعام دیا جاتا ہے کہ جب ان کی بیوی بوڑھی اور بانجھ ہوچکی تھی اور وہ خود بوڑھے ہوچکے تھے۔ اس حالت میں بھی اللہ تعالیٰ نے انھیں اولاد کی بشارت دی اور اولاد سے نوازا۔
اس کے بعد وہی فرشتے جو حضرت ابراہیم ؑ کے پاس یہ خوش خبری لے کر آئے تھے اور جن کے ذریعے انھیں یہ انعام دیا گیا تھا، انھی فرشتوں کو آگے ایک اور مہم پر بھیجا جا رہا ہے۔
قَالَ فَمَا خَطْبُکُمْ اَیُّھَا الْمُرْسَلُوْنَo(۵۱:۳۱) ابراہیم ؑ نے کہا: ’’اے فرستادگانِ الٰہی، کیا مہم آپ کو درپیش ہے؟‘‘
حضرت ابراہیم ؑ نے اس مہم کا فرشتوں سے سوال اس لیے کیا کہ فرشتے انسانی شکل میں آئے تھے اور یہ اسی وقت انسانی شکل میں آتے ہیںجب کوئی غیرمعمولی واقعہ پیش آنے والا ہو۔ ورنہ فرشتے غیرمحسوس طور پر کام کرتے ہیں لیکن جب وہ علانیہ آئیں اور انسانی شکل میں آئیں اور دوسرے مقامات پر اشاروں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ آئے بھی ایک غیرمعمولی شان کے ساتھ تھے، یعنی بہت ہی خوب صورت لڑکوں کی شکل میں آئے تھے۔ اس ساری صورت حال کو دیکھ کر حضرت ابراہیم ؑ نے بھانپ لیا کہ کوئی بہت بڑا معاملہ ہے جس کے لیے یہ آئے ہیں۔ اس لیے انھوں نے پوچھا کہ وہ مہم کیا ہے جس کے لیے آپ تشریف لائے ہیں؟ یعنی لڑکے کی بشارت دینا کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کے لیے لڑکوں کی صورت میں آنا ضروری ہو۔ وہ تو وحی کے ذریعے بھی حضرت ابراہیم ؑ کو بتایا جاسکتا تھا لیکن جب وہ مسافر بن کر اور خوب صورت لڑکوں کی صورت میں صحرا میں چلتے ہوئے آپ ؑ کے مکان تک پہنچے، تب حضرت ابراہیم ؑ کو محسوس ہوا کہ یہ کوئی بڑا معاملہ ہے۔
قَالُوْٓا اِِنَّآ اُرْسِلْنَـآ اِِلٰی قَوْمٍ مُّجْرِمِیْنَ o لِنُرْسِلَ عَلَیْھِمْ حِجَارَۃً مِّنْ طِیْنٍ o مُّسَوَّمَۃً عِنْدَ رَبِّکَ لِلْمُسْرِفِیْنَo (۵۱:۳۲-۳۴) انھوں نے کہا: ’’ہم ایک مجرم قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں تاکہ اس پر پکی ہوئی مٹی کے پتھر برسادیں جو آپ ؑ کے رب کے ہاں حد سے گزر جانے والوں کے لیے نشان زدہ ہیں‘‘۔
مجرمین سے یہاں حضرت لوط علیہ السلام کی قوم مراد ہے۔ یہاں ان کے نام کی تصریح نہیں ہے لیکن قصہ وہی ہے جو قرآن میں کئی مقامات پر آیا ہے۔ یہاں اس قوم کا نام نہیں لیا گیا صرف قَوْمٍ مُّجْرِمِیْنَ کہہ کر چھوڑ دیا گیا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اس وقت گردونواح میں اس سے بُری قوم اور کوئی نہیں تھی۔ اس کے لیے لفظ قَوْمٍ مُّجْرِمِیْنَ کہہ دینا بالکل کافی تھا کہ اس سے مراد قومِ لوط ؑ ہے۔ ان فرشتوں نے کہا کہ ہمیں قَوْمٍ مُّجْرِمِیْنَ،یعنی حضرت لوطؑ کی قوم کی طرف بھیجا گیا ہے۔ ان کے جرائم کا حال آپ سب جانتے ہیں اور قرآنِ مجید میں اس کا حال مختلف مقامات پر بیان کیا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں اس لیے بھیجا گیا ہے کہ ہم ان پر ایسے پتھروں کی بارش برسا دیں جو پکی ہوئی مٹی کے ہیں۔ اس پکی ہوئی مٹی کے پتھر ان کے مقدر کیے ہیں کہ ان پر برسائے جائیں۔ اس علاقے میں آتش فشانی کے پتھر بہت کثرت سے ہیں۔
مسومۃ، یعنی ان لوگوں کے لیے نشان زدہ پتھر تھے جیسے اُردو زبان میں کہتے ہیں کہ دانے دانے پر مہر ہے۔ اسی طرح ایک ایک پتھر پر یہ نشان لگا دیا گیا تھا کہ یہ فلاں بدمعاش پر گرے، اور یہ فلاں ظالم پر ۔ گویا ایک ایک پتھر نشان زدہ تھا، یعنی جس جس کے حصے میں جو پتھر تھا وہ اسے لگے۔
فَاَخْرَجْنَا مَنْ کَانَ فِیْھَا مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ o فَمَا وَجَدْنَا فِیْھَا غَیْرَ بَیْتٍ مِّنَ الْمُسْلِمِیْنَ o(۵۱:۳۵-۳۶) پھر ہم نے ان سب لوگوں کو نکال لیا جو اس بستی میں مومن تھے، اور وہاں ہم نے ایک گھر کے سوا مسلمانوں کا کوئی گھر نہ پایا۔
وہ بستی چونکہ خیر سے خالی ہوچکی تھی۔ اس پورے علاقے میں جس میں قومِ لوط ؑ آباد تھی، اس میں ایک گھر کے سوا کوئی گھر مسلم نہیں تھا۔ اس گھر کا بھی جو حال تھا، قرآنِ مجید میں دوسرے مقامات پر آیا ہے کہ خود حضرت لوطؑ کی بیوی اپنی قوم سے ملی ہوئی تھی۔ گویا کہ وہ گھر بھی پورے کا پورا مومن نہیں تھا۔ اس عورت کو بھی الگ کر دیا گیا،اس لیے کہ وہ بھی عذاب پانے والوں میں شامل تھی۔ صرف اہلِ ایمان کو بچایا گیا جو حضرت لوطؑ کے گھر میں تھے اور باقی پوری قوم کو تباہ کر دیا گیا۔
وَتَرَکْنَا فِیْھَآ اٰیَۃً لِّلَّذِیْنَ یَخَافُوْنَ الْعَذَابَ الْاَلِیْمَ o(۵۱:۳۷) اس کے بعد ہم نے وہاں بس ایک نشانی ان لوگوں کے لیے چھوڑ دی جو دردناک عذاب سے ڈرتے ہوں۔
اس نشانی سے مراد بحیرہ مُردار(Dead Sea)ہے جو آج بھی اُردن کے قریب موجود ہے۔ دنیا میں اگر کوئی سمندر سب سے زیادہ گہرائی میں ہے، تقریباً سطح سمندر سے ۱۴۰۰ فٹ نیچے تو وہ بحیرہ مُردار ہے اور دنیا میں سب سے زیادہ بھاری پانی اگر کسی سمندر کا ہے تو وہ بھی یہی ہے۔ اس کا پانی اتنا زیادہ نمکین ہے کہ اس کے اندر کوئی چیز زندہ نہیں رہ سکتی۔ اتنا بھاری پانی ہے کہ آدمی گرجائے تو ڈوب نہیں سکتا۔ قومِ لوطؑ کے بڑے بڑے شہر آج بھی اسی کے اندر ڈوبے ہوئے ہیں۔ اس سمندر میں اب بھی کچھ مہمات بھیجی جارہی ہیں تاکہ یہ جان سکیں کہ کیا ان شہروں کے کچھ آثار باقی ہیں؟ ان کے علاوہ ان کے جو شہر اُردن کی ریاست میں واقع ہوں گے، ان کا بھی پتا چلایا جاسکے۔
اب وہاں آتش فشانی پہاڑوں کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ میں خود بھی اس علاقے میں گیا ہوں اور جن دوسرے لوگوں نے اس علاقے کو دیکھا ہے ان کا بھی کہنا ہے کہ اس سے زیادہ ویران علاقہ شاید ہی دنیا میں کہیں ہو۔ ہرطرف تباہی ہی تباہی کے آثار نظر آتے ہیں۔ آج تک وہ علاقہ بسا نہیں۔
اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ انسانی تاریخ میں یہ دو چیزیں نمایاں ہیں ۔ ایک طرف وہ لوگ ہیں جنھوں نے اللہ کے راستے میں خدمات انجام دی ہیں، ان کے اُوپر اللہ کی طرف سے کس طرح کے انعام ہوئے ہیں۔ دوسرے وہ لوگ ہیں جو فسق و فجور اور نافرمانیوں میں حد سے گزر گئے تو ان کے اُوپر تباہی نازل کی گئی اور آج تک ان کے آثارِ قدیمہ تاریخ میں محفوظ ہیں۔ گویا زمین کے اُوپر مستقل نشانیاں موجود ہیں۔ ایسا نہیں ہوتا اور جزا و سزا کا قانون جو اس دنیا میں نافذ ہے وہ یہ نہیں ہے کہ آج آپ گناہ کریں اور کل آپ کو سزا مل جائے، یا جس وقت آپ گناہ کریں اور اسی وقت آپ کو سزا مل جائے، یا ایک قوم جس وقت گناہ کرے اسی وقت وہ پوری کی پوری تباہ کردی جائے۔ ہر ایک انسان کو اللہ تعالیٰ مہلت دیتا ہے، ہر قوم کو مہلت دیتا ہے۔ افراد کی مہلت کچھ اور ہے اور قوموں کی مہلت کچھ اور۔ لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کوئی قوم اللہ کی مقرر کردہ حدود سے مسلسل تجاوز کرتی چلی جائے اور کسی بھی مرحلے پر جاکر وہ تباہ نہ کردی جائے۔ پوری انسانی تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی ہے کہ اللہ کی حدود سے تجاوز کرنے والی قومیں کسی نہ کسی مرحلے پر تباہ نہ کردی گئی ہوں۔
قومِ لوط ؑ کے ذکر میں یہاں یہ بات بتائی گئی ہے کہ جو فیصلے کا وقت ہوتا ہے، جب اللہ تعالیٰ کسی ظالم کے اُوپر فیصلہ کن حملہ کرتا ہے تو پھر وہاں اخلاق کے اعتبار سے فیصلہ کیا جاتا ہے۔ قومِ لوطؑ کے اندر جو ایمان رکھنے والے تھے ان کو اللہ تعالیٰ نے غیرمعمولی طور پر بچالیا۔ اس فیصلے کے وقت تباہ صرف ان لوگوں کو کیا گیا جو حق کو جھٹلانے والے تھے۔
وَفِیْ مُوْسٰٓی اِِذْ اَرْسَلْنٰہُ اِِلٰی فِرْعَوْنَ بِسُلْطٰنٍ مُّبِیْنٍ o فَتَوَلّٰی بِرُکْنِہٖ وَقَالَ سٰحِرٌ اَوْ مَجْنُوْنٌ o فَاَخَذْنٰہُ وَجُنُوْدَہٗ فَنَبَذْنٰھُمْ فِیْ الْیَمِّ وَھُوَ مُلِیْمٌo(۵۱:۳۸-۴۰) اور (تمھارے لیے نشانی ہے) موسٰی ؑ کے قصے میں۔ جب ہم نے اُسے صریح سند کے ساتھ فرعون کے پاس بھیجا تو وہ اپنے بل بوتے پر اکڑ گیا اور بولا: یہ جادوگر ہے یا مجنون ہے۔ آخرکار ہم نے اُسے اور اس کے لشکر کو پکڑا اور سب کو سمندر میں پھینک دیا اور وہ ملامت زدہ ہوکر رہ گیا۔
تاریخ سے یہ دوسری دلیل حضرت موسٰی علیہ السلام کی دی گئی ہے۔ یہاں چونکہ تاریخی واقعات کی طرف مسلسل اشارہ کرنا مقصود ہے، لہٰذا تفصیل بیان نہیں کی جارہی، صرف اشارے کر کے چھوڑ دیا گیا ہے۔ یہ قصہ قرآنِ مجید میں پوری تفصیل سے آچکا ہے۔ یہاں یہ بتایا جا رہا ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ اور قومِ لوط ؑ کے واقعے میں تمھارے لیے نشانی تھی، اسی طرح حضرت موسٰی ؑ کے واقعے میں بھی تمھارے لیے نشانی ہے۔
اِِذْ اَرْسَلْنٰہُ اِِلٰی فِرْعَوْنَ بِسُلْطٰنٍ مُّبِیْنٍ o (۵۱:۳۸)ہم نے اس کو سلطانِ مبین کے ساتھ فرعون کے پاس بھیجا۔
سلطان کا لفظ قرآنِ مجید میں مختلف معنوں میں استعمال کیا گیا ہے۔ یہاں سند، کھلی دلیل (open authority) کے معنوں میں آیا ہے۔ یہ ایسی صریح دلیل تھی کہ جسے دیکھ کر ہر دیکھنے والا یہ محسوس کرلیتا کہ یہ مامور من اللہ ہیں اور اللہ کے سوا کسی کی طرف سے نہیں ہے۔
حضرت موسٰی علیہ السلام جب فرعون کے دربار میں پہنچے ہیں تو قرآنِ مجید خود بتاتا ہے کہ اس سے پہلے وہ فرعون کے گھر میں پرورش پاچکے تھے اور ایک آدمی کو قتل کر کے فرار ہوگئے تھے۔ اگرچہ انھوں نے جان بوجھ کر قتل نہیں کیا تھا ان کے ہاتھوں سے قتل ہوگیا تھا۔ لیکن فرعون کو معلوم ہوچکا تھا کہ یہ بنی اسرائیل میں سے ہیں اور انھوں نے فرعون کی اپنی قوم کے آدمی کو قتل کیا تھا اور اس کے بعد وہ فرار ہوگئے تھے۔ ۱۰ سال تک مدین کے علاقے میں رہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے انھیں حکم دیا کہ فرعون کے پاس جائو۔ ایک ایسا آدمی جس کے اُوپر قتل کا الزام ہو، پولیس جس کی تلاش میں ہو، اللہ تعالیٰ اسے حکم دیتا ہے کہ فرعون کے پاس چلے جائو، اور اسے اللہ تعالیٰ صرف ایک لاٹھی دیتا ہے اور کہتا ہے کہ سیدھے فرعون کے پاس چلے جائو۔
اس حالت میں وہ لاٹھی لیے ہوئے فرعون کے دربار میں پہنچ جاتے ہیں اور اپنا تعارف کراتے ہیں کہ میں موسٰی ؑ ہوں اور بھرے دربار میں فرعون کو ہمت نہیں پڑتی اور نہ کسی سپاہی یا درباری کو ہمت پڑتی ہے کہ ان پر ہاتھ ڈال سکے۔ یہ سلطان مبین یا کھلی ہوئی علامت نہیں تھی تو اور کیا تھی۔ یہی چیز تھی جس نے فرعون کے دل میں یہ خیال ڈال دیا اور اس کو ایسا مرعوب کیا کہ وہ ان کو گرفتار کرنے کا حکم نہ دے سکا کہ تم تو قتل کر کے فرار ہوئے تھے۔ پھر انھوں نے اس لاٹھی سے اژدھا بنا کر دکھایا، اور یدِبیضا دکھایا، جس کو دیکھ کر معلوم ہوتا تھا کہ جیسے سورج زمین پر اُتر آیا ہو۔
اس کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ہاتھوں مسلسل معجزات ظاہر ہونا شروع ہوئے۔ وہ پہلے مطلع کر دیتے ہیں کہ تمھارے ملک میں قحط آئے گا اور پھر ان کے ایک اشارے پر قحط آگیا۔ وہ کہتے ہیں کہ تمھارے ملک کے اندر ٹڈی دَل آئیں گے اور ایک اشارے پر ٹڈ ی دَل پورے ملک میں نکل آتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ تمھارے ملک میں مینڈکوں کا طوفان آئے گا اور ایک اشارے پر سارے ملک میں مینڈک نکلنا شروع ہو جاتے ہیں۔ اس طرح سے وہ مسلسل معجزات دکھاتے چلے گئے اور اس کے بعد کوئی گنجایش یہ ماننے میں نہیں رہی کہ یہ مامور من اللہ کے سوا کوئی اور ہیں۔ خود قرآنِ مجید میں یہ فرمایا گیا کہ جب پوری قوم پر مینڈکوں، خون اور ٹڈی دَل کا عذاب آتا تھا تو خود فرعون اور اس کے دربار کے لوگ حضرت موسٰی ؑسے درخواست کرتے تھے کہ اس عذاب کو ہمارے اُوپر سے ٹلوائو، یہ ٹل جائے گا تو ہم ایمان لے آئیں گے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ وہ یہ یقین رکھتے تھے کہ یہ مامور من اللہ ہیں جن کی بدولت اور جن کے کہنے سے یہ عذاب آرہا ہے۔ قرآن میں یہ الفاظ آتے ہیں کہ انھوں نے حضرت موسٰی ؑ کا انکارکیا درآں حالیکہ دل ان کے قائل ہوچکے تھے۔ وہ لوگ یہ جان چکے تھے کہ یہ شخص یقینا مامور من اللہ ہے اور یہ کام اللہ کی قدرت کے بغیر نہیں ہوسکتا، مگر باوجود اس کے چونکہ انھیں اس بات کا اندیشہ تھا کہ اگر ہم ان کی بات مان لیں گے تو پھر ہماری بادشاہی نہیں رہ سکتی۔ خدا کی بادشاہی ماننا پڑے گی اور رسول ؑ کو خدا کا نمایندہ ماننا پڑے گا۔ چونکہ بادشاہی کا انھیں چسکا لگا ہوا تھا، اس لیے وہ اس کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں تھے ۔ اس طرح حضرت موسٰی ؑ سلطان مبین لے کر پہنچے۔
فَتَوَلّٰی بِرُکْنِہٖ وَقَالَ سٰحِرٌ اَوْ مَجْنُوْنٌ o (۵۱:۳۹) تو وہ اپنے بل بوتے پر اکڑ گیا اور بولا یہ جادوگر ہے یا مجنون ہے۔
رکن کہتے ہیں سہارے کو، یعنی جس چیز کو وہ اپنا سہارا سمجھتا تھا۔ اس کا لشکر، سلطنت، درباری، اعلی موالی، یہ سب سروسامان جو اسے حاصل تھا، یہی اس کے بھروسے کی طاقت تھی جس پر اس کا ایمان تھا۔ چنانچہ وہ اپنے اس رکن ، اپنے اس سہارے اور اپنے بل بوتے پر اَڑ بیٹھا، اور منہ موڑ لیا۔ اس نے اطاعت کی روش اختیار کرنے کے بجاے انحراف کی روش اختیار کی اور کہا کہ یا تم تائب ہوجائو یا پھر مرنے کے لیے تیار ہوجائو۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ تم جو کرشمے دکھا رہے ہو، یہ تو سحر کی بنا پر ہے، اس سے تائب ہو۔ اور تمھاری یہ ہمت کہ مجھ جیسے فرماں روا کے مقابلے میں کھڑے ہو۔ یہ ہمت ایک مجنون کے سوا اور کون کرسکتا ہے۔ اگر کسی شخص کا دماغ ٹھیک ہو اور وہ ’اعلیٰ حضرت‘ کے سامنے کھڑا ہوجائے اور ان کو دعوت دے کہ تم میری اطاعت کرو، یہ کسی مجنون اور پاگل کے سوا کسی دوسرے کی بات نہیں ہوسکتی۔
فَاَخَذْنٰہُ وَجُنُوْدَہٗ فَنَبَذْنٰھُمْ فِیْ الْیَمِّ وَھُوَ مُلِیْمٌo(۵۱:۴۰)آخرکار ہم نے اسے اور اس کے لشکروں کو پکڑا اور سب کو سمندر میں پھینک دیا اور وہ ملامت زدہ ہوکر رہ گیا۔
قرآنِ مجید میں اس سے پہلے بھی یہ بات اس قصے میں گزر چکی ہے۔ سب اس بات کو جانتے ہیں اور یہ تاریخ کا مشہور واقعہ ہے۔ اس فیصلہ کن گھڑی میں بھی جو لوگ حضرت موسٰی ؑ پر ایمان لائے ہوئے تھے، اللہ تعالیٰ نے ان سب کو سمندر کے اسی راستے سے گزار دیا۔ پھر وہی سمندر پھٹا، اس میں سے راستہ بنا اور اس راستے میں سے بنی اسرائیل کی اور ان کے ساتھ جو مصری مسلمان فوج تھی وہ ساری کی ساری اس سے گزری اور پانی دونوں طرف ٹھیرا رہا جب تک کہ یہ اس میں سے گزر نہ گئے۔ جب وہ گزر گئے اور فرعون اپنے پورے لشکروں کے ساتھ اسی راستے پر اُتر آیا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ کا حکم ہوا اور یک لخت وہ پانی جڑ گیا اور وہ پورے کا پورا لشکر اس میں غرق ہوگیا۔ یہ تاریخ کا مشہور واقعہ ہے اور بنی اسرائیل کی بدولت اس زمانے میں بھی عرب کا بچہ بچہ اسے جانتا تھا اور ساری دنیا اس واقعے سے واقف تھی۔
اللہ تعالیٰ یہ بتا رہا ہے کہ جب فرعون اور اس کی سلطنت کے اکابر نے مسلسل یہ روش اختیار کی۔قرآنِ مجید کے اشارات سے بھی معلوم ہوتا ہے اور بائبل اور بنی اسرائیل کی تاریخ سے بھی کہ حضرت موسٰی ؑنے مسلسل ۳۰ سال مصر میں تبلیغ کی ہے۔ فرعون مسلسل ۳۰سال تک مزاحمت کرتا رہا۔ گویا اللہ تعالیٰ نے حجت پوری کر دی۔ تمام نشانیاں اسے دکھا دیں جن کے دیکھنے کے بعد اس امر میں کسی شک کی گنجایش نہیں رہی کہ یہ اللہ کی طرف سے بھیجے ہوئے ہیں۔ اس امر میں کسی شک کی گنجایش نہیں رہی کہ فرعون جان بوجھ کر خدا کے مقابلے میں شرارت کر رہا ہے۔ اس کے بعد جب فیصلہ کیا گیا تو اس طرح کیا گیا کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ کر دیا گیا۔ جو ایمان لانے والے تھے ان سب کو بچاکر الگ نکال دیا، اور جو ایمان سے خالی تھے انھیں اسی جگہ غرق کر دیا جہاں سے اہلِ ایمان کو نکالا گیا تھا۔ یہ انسانی تاریخ کا دوسرا اہم واقعہ ہے جسے یہاں پیش کیا گیا ہے۔
وَفِی عَادٍ اِِذْ اَرْسَلْنَا عَلَیْہِمُ الرِّیْحَ الْعَقِیْمَo مَا تَذَرُ مِنْ شَیْئٍ اَتَتْ عَلَیْہِ اِِلَّا جَعَلَتْہُ کَالرَّمِیْمِ o(۵۱:۴۱-۴۲) اور (تمھارے لیے نشانی ہے) عاد میں، جب کہ ہم نے ان پر ایک ایسی بے خیر ہوا بھیج دی کہ جس چیز پر بھی وہ گزر گئی اسے بوسیدہ کرکے رکھ دیا۔
اب تیسری قوم، قومِ عاد کا ذکر کیا جا رہا ہے۔یہاں مختصراً اشارے کیے گئے ہیں، تفصیل نہیں بیان کی گئی ۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ یہ بات یاد دلانا ہے کہ یہ واقعات ہوئے ہیں یا نہیں۔ عاد کی قوم سے متعلق تفصیلات قرآنِ مجید میں دوسرے مقامات پر بیان ہوئی ہیں اور ان کی تاریخ بیان ہوئی ہے ۔ یہاں یہ بتایا گیا ہے کہ ان پر عذاب کس طرح آیا؟
اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے ان کے اُوپر ایک ہوا بھیجی جو عَقِیْم تھی۔ اس کے لفظی معنی ہیں جو بانجھ تھی۔ یہ ایسی ہوا تھی جس میں کوئی خیر نہیں تھی۔ یہ بارش لانے والی ہوا نہیں تھی۔ کسی آدمی کی تندرستی کے لیے ہوا نہیں تھی۔ زراعت کے لیے کوئی مفید ہوا نہیں تھی۔ گویا یہ کسی بھی طرح سے مفید ہوا نہیں تھی۔یہ بے فیض ہوا تھی جو کوئی مفید نتیجہ پیدا کرنے والی نہ تھی۔
مزیدبرآں اس ہوا کی حالت یہ تھی کہ جس چیز پر سے وہ گزر گئی، اس کو بوسیدہ کرگئی۔ جن لوگوں کو صحرائی علاقوں میں جانے کا اتفاق ہوا ہو، ان کو معلوم ہوگا کہ بعض اوقات صحرا میں ایسی لُو چلتی ہے کہ صرف اتنا ہی نہیں کہ آدمی لُو سے مر جاتا ہے بلکہ مرنے کے بعد اس کا جسم دیکھتے ہی دیکھتے گل سڑ جاتا ہے۔ اس طرح کی لُو راجستھان کے صحرائوں میں بھی پائی جاتی ہے۔ وہ ایسی خوف ناک ہوا تھی کہ جس چیز کے اُوپر سے بھی گزری نباتات و حیوانات اور انسانوں کو اس نے نہ صرف ہلاک کر دیا بلکہ ان کے جسم بوسیدہ ہوگئے۔ قرآنِ مجید میں دوسرے مقامات پر بیان ہوا ہے کہ سات راتیں اور آٹھ دن تک مسلسل یہ ہوا چلتی رہی اور اس میں لوگ اس طرح سے گر کر مرے کہ جیسے کھجور کے تنے گرے پڑے ہوں۔
وَفِیْ ثَمُوْدَ اِِذْ قِیْلَ لَھُمْ تَمَتَّعُوْا حَتّٰی حِیْنٍ o فَعَتَوْا عَنْ اَمْرِ رَبِّھِمْ فَاَخَذَتْھُمُ الصّٰعِقَۃُ وَھُمْ یَنْظُرُوْنَ o فَمَا اسْتَطَاعُوْا مِنْ قِیَامٍ وَّمَا کَانُوْا مُنْتَصِرِیْنَo (۵۱:۴۳-۴۵) اور (تمھارے لیے نشانی ہے) ثمود میں جب ان سے کہا گیا تھا کہ ایک خاص وقت تک مزے کرلو۔ مگر اس تنبیہ پر بھی انھوں نے اپنے رب کے حکم سے سرتابی کی۔ آخرکار ان کے دیکھتے دیکھتے ایک اچانک ٹوٹ پڑنے والے عذاب نے ان کو آلیا، پھر نہ اُن میں اُٹھنے کی سکت تھی اور نہ وہ اپنا بچائو کرسکتے تھے۔
ان کا قصہ بھی قرآنِ مجید میں دوسری جگہ تفصیل سے آیا ہے۔ یہاں صرف اشارہ کیا گیا ہے کہ یہ بھی تمھاری تاریخ کا حصہ ہے۔ ثمود کا علاقہ حجاز کے شمالی حصے میں واقع ہے۔ مدینہ منورہ سے تقریباً دو اڑھائی سو میل کے فاصلے پر ہے۔ اس میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ انھیں نبی ؑ کے ذریعے سے متنبہ کیا گیا تھا کہ تمھارے لیے ایک وقت مقرر کیا جاتا ہے۔ اگر اس وقت تک تم سنبھل گئے تو بچ جائو گے اور اگر اس وقت تک نہ سنبھلے تو تمھارے اُوپر عذاب نازل ہوجائے گا۔ ان کے لیے دن مقرر کر دیے گئے تھے کہ ان کے اندر درست ہوجائو اور اگر مزے کرنے ہیں تو مزے کرلو۔ اس کے بعد تمھارا خاتمہ ہوجائے گا۔ چنانچہ وہ وقت ختم ہوتے ہی، ان کے اُوپر عظیم الشان خطرناک زلزلہ آگیا۔ میں خود اس علاقے میں گیا ہوں اور وہاں واضح واضح نشانیاں اور علامات ملتی ہیں کہ اس پورے علاقے کو زلزلے نے تباہ کیا ہے۔ پورے پورے پہاڑ کھِیلکھِیل ہوکر رہ گئے۔ ان پر یک لخت وہ زلزلہ آیا۔ یہاں صاعقہ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس سے مراد بجلی کا کڑکا نہیں ہے بلکہ ایسے عذاب کو کہتے ہیں جو اچانک کسی پر آجائے۔ ان پر عذاب اچانک اس حالت میں آپڑا کہ وہ اسے دیکھ رہے تھے۔ ان کے دیکھتے ہی دیکھتے عذاب نے انھیں آلیا۔
فَمَا اسْتَطَاعُوْا مِنْ قِیَامٍ وَّمَا کَانُوْا مُنْتَصِرِیْنَo(۵۱:۴۵)پھر نہ اُن میں اُٹھنے کی سکت تھی اور نہ وہ اپنا بچائو کرسکتے تھے۔
یعنی جو جہاں گرا تھا وہ گر کر رہ گیا اور پھر اُٹھنے کی مہلت نہ ملی اور ان میں یہ طاقت نہ تھی کہ اپنا بچائو کرلیتے۔ جب خدا کا عذاب آتا ہے تو انسانی ذرائع ناکام ہوجاتے ہیں۔ خدا کی طرف سے جب کسی کو مارپڑے تو اس کی ساری تدبیریں ناکام رہ جاتی ہیں اور اس کا کوئی زور باقی نہیں رہتاکہ وہ اپنے بچائو کے لیے کچھ کرسکے۔مطلب یہ ہے کہ آدمی اپنی مدافعت کے لیے کچھ کرسکے۔ قومِ عاد کی تباہی میں یہ بیان کیا گیا کہ وہ کھڑے نہ رہ سکے اور یہاں یہ بیان کیا گیا کہ ان میں کوئی یارا یا بل بوتا نہیں تھا کہ وہ اپنے آپ کو اس عذاب سے بچاسکیں۔
وَقَوْمَ نُوْحٍ مِّنْ قَبْلُ ط اِِنَّھُمْ کَانُوْا قَوْمًا فٰسِقِیْنَ o(۵۱:۴۶) اور ان سب سے پہلے ہم نے نوح ؑ کی قوم کو ہلاک کیا کیوںکہ وہ فاسق لوگ تھے۔
یہ بیان کرنے کی حاجت نہیں کہ ان پر کیا گزری اس لیے کہ ہر ایک جانتا ہے۔ ساری دنیا اس سے واقف ہے۔ دنیا میں بچہ بچہ اس قصے کو جانتا ہے۔ فرمایا گیا کہ نوح کی قوم کی صورت میں تمھارے لیے مثال موجود ہے۔ وہ ایک فاسق قوم تھی اور اللہ تعالیٰ نے انھیں عذاب سے دوچار کر دیا تھا۔ اس کی تباہی کی وجہ اس کا فسق تھا۔ فسق عربی زبان میں نافرمانی کو کہتے ہیں۔ اطاعت سے نکل جانا فسق ہے۔ یہ وہ لوگ تھے جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے دائرے سے نکل چکے تھے۔ انھوں نے نافرمانی اختیار کی اور آخرکار تباہ و برباد ہوگئے۔(ریکارڈنگ: حفیظ الرحمٰن احسن، مرتب: امجد عباسی)
اَخلاق اِسلام کے شعبوں میں سے ایک شعبہ نہیں، بلکہ اسلام مکمل طور پر ایک اخلاقی پیغام ہے۔ محققین عموماً پیغامِ اسلام کو چار حصوں میں تقسیم کرتے ہیں: ۱-عقائد ، ۲-عبادات، ۳-معاملات اور ۴-اَخلاق۔ اس تقسیم میں اَخلاق کو آخری نمبر پر رکھنے سے یہ شبہہ پیدا ہوتا ہے کہ اسلام نے بھی اسے آخری چیز کے طور پر ہی بیان کیا ہے اور اس کی حیثیت دیگر شعبوں جیسی نہیں ہے۔
قرآن و سنت کی روشنی میں جو بھی اسلام پر غور و فکر کرے، اس کی روح اور نصوص پر نظر رکھتا ہو، اور اس کے الفاظ اور مقاصد کو سمجھتا ہو، اُس پر یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اسلام اپنے جوہر اور اصلیت میں ایک اخلاقی پیغام ہے۔ اسلام لفظِ اخلاقیت کے تمام معانی اور مفاہیم کا حامل ہے۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ اخلاقیت اسلام کی عمومی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت ہے۔
اِسلام صرف اس لیے اخلاقی پیغام نہیں ہے کہ اس نے فضائل کی ترغیب پر بہت زور دیا ہے اور رذائل سے بچنے کا حکم بھی اسی شدت کے ساتھ دیا ہے۔ اور ان دونوں معاملات میں اسلام نہایت بلند سطح پر دکھائی دیتا ہے۔ اس سلسلے میں اسلام نے دنیا و آخرت میں جزا و سزا کا اہتمام بھی اعلیٰ سطح پر کیا ہے۔
اسلام کو سراسر اخلاقی پیغام ہونے کا یہ امتیاز اس لیے بھی حاصل نہیں ہے کہ اس میں اَخلاق پر بہت زیادہ توجہ دی گئی ہے۔ یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ثناو توصیف کے لیے ان الفاظ سے ارفع اور بلیغ جملہ کوئی نہیں پایا جاتا:وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍo (القلم۶۸:۴) ’’اور بے شک آپؐ اخلاق کے بڑے مرتبے پر ہیں‘‘۔ خود زبانِ رسالتؐ نے اپنی رسالت کے مقصد کا خلاصہ اسی چیز کو قرار دیا ہے: ’’بلاشبہہ، مجھے اَخلاقِ کریمہ کی تکمیل کے لیے نبی بنایا گیا ہے‘‘۔
صرف دوچار معاملات میں اَخلاقیت اسلام کی خصوصیت نہیں ہے بلکہ اسلام کے پورے ڈھانچے میں اخلاقیت خون کی طرح گردش کرتی ہے۔ یہ تمام اسلامی تعلیمات، حتیٰ کہ عقائد، عبادات، معاملات، سیاست و معیشت اور امن و جنگ کے شعبوں میں بھی موجود ہے۔
اسلامی عقائد کی اساس توحید ہے اور اس کی ضد شرک ہے۔ اسلام توحید کو ایک اَخلاقی رنگ قرار دیتا ہے۔ وہ اُسے عدل و انصاف میں شمار کرتا ہے اور عدل و انصاف ایک اَخلاقی فضیلت اور خوبی ہے۔ اسی طرح اسلام نے شرک کو ظلم شمار کیا ہے اور ظلم ایک بداَخلاقی ہے۔ اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌo(لقمان۳۱:۱۳)’’حق یہ ہے کہ شرک بہت بڑاظلم ہے‘‘۔
شرک کو اس لیے ظلم کہا گیا ہے کہ اس کا مرتکب عبادت کو اُس کی جگہ سے ہٹا کر ایک غیرموزوں جگہ رکھ دیتا ہے اور اُس چیز کو عبادت کا مستحق قرار دیتا ہے جو عبادت کی مستحق نہیں ہوتی۔ قرآنِ مجید نے تو کفر کو اس کی تمام انواع و اقسام سمیت ظلم قرار دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اور ظالم اصل میں وہی ہیں جو کفر کی روش اختیار کرتے ہیں‘‘۔(البقرہ۲:۲۵۴)
اسلام کا عقیدہ، یعنی ایمان جب کامل ہو جاتا ہے اور پھل دینے لگتا ہے تو وہ اَخلاقی فضائل کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ قرآنی آیات اور احادیثِ رسولؐ اس امر کی بہترین وضاحت کرتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے صاحبِ ایمان لوگوں کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا:
یقینا فلاح پائی ہے ایمان لانے والوں نے جو: اپنی نماز میں خشوع اختیار کرتے ہیں، لغویات سے دور رہتے ہیں، زکوٰۃ کے طریقے پر عامِل ہوتے ہیں، اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں، سواے اپنی بیویوں کے اور اُن عورتوں کے جو اُن کی مِلکِ یمین میں ہوں کہ اُن پر محفوظ نہ رکھنے میں وہ قابل ملامت نہیں ہیں، البتہ جو اُس کے علاوہ کچھ اور چاہیں وہی زیادتی کرنے والے ہیں، اپنی امانتوں اپنے عہدوپیمان کا پاس رکھتے ہیں۔(المومنون۲۳:۱-۸)
سچے اہل ایمان تو وہ لوگ ہیںجن کے دل اللہ کا ذکر سن کر لرز جاتے ہیں اور جب اللہ کی آیات ان کے سامنے پڑھی جاتی ہیں تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے، اور وہ اپنے رب پر اعتماد رکھتے ہیں۔ جو نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے (ہماری راہ میں) خرچ کرتے ہیں۔ ایسے ہی لوگ حقیقی مومن ہیں۔(الانفال ۸:۲-۴)
حقیقت میں تو مومن وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسولؐ پر ایمان لائے پھر انھوں نے کوئی شک نہ کیا اور اپنی جانوں اور مالوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا۔ وہی سچے لوگ ہیں۔(الحجرات ۴۹:۱۵)
اسی طرح احادیث رسولؐ بھی اَخلاقی فضائل کو ایمان کے ساتھ مربوط کرتی ہیں۔ ان فضائل کو ایمان کے لوازم اور ثمرات قرار دیتی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جو شخص اللہ اور یومِ آخر پر ایمان رکھتا ہو اُسے رشتے داریوں کو قائم رکھنا چاہیے، اور جو شخص اللہ اور یومِ آخر پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے ہمسایے کو اذیت نہ دے، اور جو شخص اللہ اور یومِ آخر پر ایمان رکھتا ہو وہ اچھی بات کرے یا پھر خاموش رہے‘‘۔ دوسری حدیث ہے:’’ایمان کے ۶۹شعبے ہیں، سب سے اعلیٰ لا الٰہ الا اللہ ہے، اور سب سے کم تر کسی تکلیف دہ چیز کو راستے سے ہٹا دینا ہے‘‘۔ ایک اور حدیث ہے: ’’زانی زِنا نہیں کر سکتا کہ وہ زِنا کرتے وقت بھی مومن ہو اور چور چوری نہیں کر سکتا کہ وہ چوری کے وقت بھی مومن ہو، شرابی شراب نہیں پی سکتا کہ وہ شراب پیتے وقت بھی مومن ہو‘‘۔
بڑی بڑی اسلامی عبادات واضح اَخلاقی اہداف اور مقاصد رکھتی ہیں۔ نماز مسلمان کی زندگی میں پہلی یومیہ عبادت ہے۔ یہ فرد کی ذاتی زندگی کی تشکیل اور دینی غیرت و حمیت کی تربیت کا شان دار فریضہ انجام دیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’ یقینا نمازفحش اور برے کاموں سے روکتی ہے‘‘۔(العنکبوت۲۹:۴۵)
نماز مسلمان کے لیے اَخلاقی سہارا بھی ہے جس کے ذریعے وہ مشکلات و مصائبِ زندگی کے مقابلے میں مدد حاصل کرتا ہے۔ فرمایا:’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، صبر اور نماز سے مدد لو‘‘۔(البقرہ۲:۱۵۳)
زکوٰۃ وہ عبادت ہے جسے قرآنِ کریم نے نماز کے ساتھ متصل (التوبہ۹:۱۰۳)بیان کیا ہے۔ یہ کوئی مالیاتی ٹیکس نہیں ہے جس کو امیروں سے وصول کرکے فقیروں پر تقسیم کر دیا جاتا ہے، بلکہ یہ جہانِ اَخلاق میں فرد کی تطہیر اور تزکیے کا وسیلہ بھی ہے۔ بالکل اُسی طرح جس طرح یہ مال و دولت کی ترقی اور افزایش کا ذریعہ ہے۔ فرمایا:’’اے نبیؐ!تم ان کے اموال میں سے صدقہ لے کر انھیں پاک کرو‘‘۔(التوبہ۹:۱۰۳)
اسلام میں روزے کا مقصد نفس کو شہواتِ نفسانی اور مرغوباتِ حیوانی کی تکمیل سے رُکنے کا ضابطہ سکھانا اور اس ضابطے کی عملی مشق کرانا ہے۔ بالفاظِ دیگر یہ نفس کو تقویٰ کی خاصیت کے لیے تیار کرتا ہے۔ وہ تقویٰ جو اسلامی اَخلاق کا سنگم ہے۔ اسلامی عبادات کا نقطۂ اتصال اور احکامِ اسلامی کا مرکزی خیال ہے۔ فرمایا گیا:
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم پر روزے فرض کر دیے گئے، جس طرح تم سے پہلے انبیا ؑ کے پیرووں پر فرض کیے گئے تھے۔ اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی۔(البقرہ۲:۱۸۳)
حج کا مقصود اور مطلوب مسلمان کی روحانی و جسمانی تطہیر بھی ہے۔ اللہ کی عبادت کے لیے دنیا سے الگ تھلگ ہونا بھی۔ زندگی کی خوشنمائیوں اور رعنائیوں، کشمکشوں اور تصادمات سے اوپر اٹھ کر اللہ کی طرف متوجہ ہونا بھی۔ یہی وجہ ہے کہ حج کے اعمال شروع کرنے سے پہلے احرام پہننا فرض کیا گیا تاکہ بندہ ایک ایسی کیفیت میں داخل ہو جائے جس کی بنیاد اور اساس سادگی و انکساری، امن و سلامتی اور سنجیدگی و پاکیزگی ہے۔ یہ خوبیاں معمول کی دنیاوی زندگی کی رعنائیوں میں عموماً ابھر کر اس طرح سامنے نہیں آتیں جیسے دورانِ حج ممکن ہو جاتی ہیں۔ فرمایا:
حج کے مہینے سب کو معلوم ہیں۔ جو شخص ان مقرر مہینوں میں حج کی نیت کرے، اُسے خبردار رہنا چاہیے کہ حج کے دوران میں اُس سے کوئی شہوانی فعل، کوئی بدعملی، کوئی لڑائی جھگڑے کی بات سرزد نہ ہو۔(البقرہ۲:۱۹۷)
اسلامی عبادات اگریہ مفاہیم و معانی کھو جائیں اور اپنے مطالب و مقاصد کو پورا نہ کریں تو وہ اپنا جوہر اور اصل کھو بیٹھتی ہیں۔ وہ ایک بے روح جسم کی حیثیت اختیار کر جاتی ہیں۔ احادیث نبویؐ میں اسی چیز کو بلیغ انداز میں تاکید کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ نماز سے متعلق فرمایا گیا:’’جس شخص کی نماز اُسے بے حیائی سے نہ روکے، اُس کی نماز بے مقصد ہے‘‘۔
تہجد گزار کے بارے میں آیا ہے:’’کتنے تہجد گزار ایسے ہیں جن کو جاگنے کے سوا قیام سے کچھ ہاتھ نہیں آتا‘‘۔
روزے کے بارے میں فرمایا:’’جو شخص جھوٹ اور جھوٹ پر مبنی فعل نہ چھوڑے، اللہ کو اُس کے کھانا پینا چھوڑنے کی کوئی ضرورت نہیں‘‘۔
بعض لوگ عبادات کو محض خاص قسم کی تعبدی حرکات کی ادایگی سمجھتے ہیں۔ جیسا کہ نماز، روزہ، اور حج وغیرہ کے اعمال کی خاص شکلیں ہیں۔ افسوس ہے کہ عبادات سے متعلق عمومی تصور یہی پایا جاتا ہے، اور یہ تصور غلط ہے۔ اسلام میں عبادت پوری زندگی پر محیط ہے۔ پورا دین عبادت ہے۔ عبادات کے خاص طریقوں اور معروف ارکان کی ادایگی کے ساتھ اَخلاقی قواعد اور نصیحتوں کا اہتمام اس سلسلے میں سرفہرست ہے۔ اور یہ سب کچھ تقربِ الٰہی کے حصول کی غرض سے کیا گیا ہے۔
جب ایک مسلمان سچ بولتا ہے، بھلائی کے کام کرتا ہے، وعدہ پورا کرتا ہے، عہد کو نباہتا ہے، امانت ادا کرتا ہے، عدل کے ساتھ فیصلے کرتا ہے، مقدمات کا تصفیہ انصاف سے کرتا ہے، ناپ تول میں پورا پورا دیتا ہے، نگاہیں نیچی رکھتا ہے، شرم گاہ کی حفاظت کرتا ہے، دوسروں کے جان، مال اور عزت و آبرو پر دست درازی سے باز رہتا ہے، والدین سے اچھا برتائو کرتا ہے، رشتے داریاں ٹوٹنے نہیں دیتا، ہمسایے سے حسن سلوک رکھتا ہے، اپنے مہمان کی عزت و توقیر اور خاطر تواضع کرتا ہے، کمزوروں پر ترس کھاتا ہے، مسکینوں کو کھانا کھلاتا ہے، یتیموں کو دھتکارتا نہیں، خیر کی دعوت عام کرتا ہے، معروف کی تلقین اور منکر کی ممانعت کا فریضہ انجام دیتا ہے، جابر حکمران کے سامنے حق کہتا ہے، زندگی کی تلخیوں پر صبر اور آسانیوں پر شکر کرتا ہے___تو وہ یہ سب کچھ انجام دیتے ہوئے دراصل اپنے رب اللہ سبحانہ کی عبادت ہی کرتا ہے۔ وہ کتاب و سنت کے احکام کی تنفیذ اور تعمیل ہی تو کرتا ہے، اور اس تمام تر جدوجہد کے ذریعے وہ رب کی رضا اور خوش نودی چاہتا ہے۔
جو شخص بھی قرآنِ مجید کو غور سے پڑھے گا وہ اَخلاقی حدود کو ایمانی عقائد اور تعبدی شعائر کے پہلو بہ پہلو پائے گا، ان میں کہیں بھی کوئی دُوری اور جدائی نہیں دیکھے گا۔
نیکی یہ نہیں ہے کہ تم نے اپنے چہرے مشرق کی طرف کر لیے یا مغرب کی طرف، بلکہ نیکی یہ ہے کہ آدمی اللہ کو اور یومِ آخر اور ملائکہ کو اور اللہ کی نازل کی ہوئی کتاب اور اس کے پیغمبروں کو دِل سے مانے اور اللہ کی محبت میں اپنا دل پسند مال رشتے داروں اور یتیموں پر، مسکینوں اور مسافروں پر، مدد کے لیے ہاتھ پھیلانے والوں پر اور غلاموں کی رہائی پر خرچ کرے، نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے۔ اور نیک وہ لوگ ہیں کہ جب عہد کریں تو اُسے وفا کریں، اور تنگی و مصیبت کے وقت میں اور حق و باطل کی جنگ میں صبر کریں۔ یہ ہیں راست باز لوگ اور یہی لوگ متقی ہیں۔(البقرہ۲:۱۷۷)
اس جامع آیت میں اُن یہودیوں کے رویے اور تصور کی تردید کی گئی ہے جو عبادات کی محض شکلوں (طرزِ ادایگی)اور مراسم ہی کو سب کچھ سمجھتے تھے۔ قرآنِ مجید نے ان کے تصورِ عقیدہ و شعائر دونوں کی اصلاح کرتے ہوئے فرمایا کہ نیکی بس یہی نہیں ہے کہ تم مشرق و مغرب کی طرف رخ کر لو، بلکہ (عقیدہ میں) نیکی یہ ہے کہ اللہ پر ایمان لایا جائے، آخرت پر ایمان رکھا جائے، (شعائر میں) نیکی یہ ہے کہ نماز قائم کی جائے اور زکوٰۃ ادا کی جائے، (اعمال میں) نیکی یہ ہے کہ اللہ کی محبت میں قریبی اور دور کے رشتے داروں اور ہمسائیوں وغیرہ پر مال خرچ کیا جائے، وعدے پورے کیے جائیں، تنگی تکلیف اور جنگ کے وقت صبر سے کام لیا جائے۔
نصیحت تو دانش مند لوگ ہی قبول کیا کرتے ہیں۔ اور اُن کا طرزِ عمل یہ ہوتا ہے کہ اللہ کے ساتھ اپنے عہد کو پوراکرتے ہیں، اُسے مضبوط باندھنے کے بعدتوڑ نہیں ڈالتے۔ اُن کی رَوِش یہ ہوتی ہے کہ اللہ نے جن جن روابط کو برقرار رکھنے کا حکم دیا ہے انھیں برقرار رکھتے ہیں، اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور اس بات کا خوف رکھتے ہیں کہ کہیں اُن سے بری طرح حساب نہ لیا جائے۔ اُن کا حال یہ ہوتا ہے کہ اپنے رب کی رضا کے لیے صبر سے کام لیتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، ہمارے دیے ہوئے رزق میں سے عَلانیہ اور پوشیدہ خرچ کرتے ہیں، اور برائی کو بھلائی سے دفع کرتے ہیں۔ آخرت کا گھر انھی لوگوں کے لیے ہے۔(الرعد۱۳:۱۹-۲۲)
ان آیات میں ایفاے عہد، صلہ رحمی، صبر، انفاق اور حلم کے اَخلاق کو خشیت الٰہی اور انجامِ بد کے خوف اور قیامِ نماز کے ساتھ بغیر کسی تفریق کے مربوط کیا گیا ہے۔ یہاں انسانی اَخلاق کے روحانی پہلو کو بھی پیش نظر رکھا گیا ہے۔ ’ایفا‘ دراصل اللہ کے عہد کا ہے، ’صلہ‘ اس ربط و تعلق کا ہے جس کے وصل کا حکم اللہ نے دیا ہے، اور صبر کا مقصود رضاے الٰہی ہے۔ یہ محض تہذیبی و ثقافتی اور معاشرتی و عمرانی اخلاق نہیں ہیں جو روحانیت سے بالکل خالی ہوں۔
اس سے آگے بڑھیے اور سورۂ فرقان کی آیات ۶۳ تا ۷۶ کا مطالعہ کیجیے۔یہاں دیکھیے کہ روحانی مفاہیم کس طرح انسانی مفاہیم سے بغل گیر ہوتے ہیں۔ یہ ایک شان دار اخلاقی چارٹ ہے جس میں تواضع (انکسار)، حِلم (برداشت و بردباری)کو قیام اللیل اور خوفِ خدا کے ساتھ جوڑا گیا ہے۔ شرک باللہ کو قتل و زِنا کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ یہ تمام خوبیاں اور صفات دراصل بندگانِ خدا کی خوبیاں ہیں۔ جب وہ ان اچھے اخلاق سے آراستہ ہو جاتے اور بداخلاقیوں سے اجتناب کرتے ہیں تو وہ رب رحمن کی عبودیت کے مفہوم و مقصد کو پا لیتے ہیں۔
اسلامی اَخلاق کے اثرات مالی اور معاشی امور پر بھی ہیں خواہ وہ پیداوار کا میدان ہو یا پیداوار کی تقسیم کا، یا دولت اور اس کے استعمال کا۔ اسلامی معاشیات بے مہار نہیں ہے کہ حدود و قیود کے بغیر اور قواعد و ضوابط سے بالا جیسے چاہے چلتی رہے۔ اعلیٰ مثالوں اور نمونوں کا کوئی لحاظ نہ رکھے۔ جیسا کہ بعض ماہرین معاشیات دعوے دار ہیں کہ اخلاق اور معاشیات کے درمیان کوئی ربط و تعلق قائم نہ کیا جائے۔
کسی مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ جو چاہے تیار کرتا رہے، خواہ وہ مادی اور معنوی اعتبار سے انسانیت کے لیے ضرررساں ہی ہو۔ وہ ایسا نہیں کر سکتا، خواہ اس پیداوار سے بہت بڑی کاروباری کامیابی اور بہت بڑے مالی منافع کیوں نہ حاصل کر سکتا ہو۔ تمباکو (سگریٹ اور افیون کا تمباکو) اور ضرررساں نشہ آور چیزوں کی زراعت میں بہت بڑا مادی فائدہ ہی کیوں نہ ہو، اس کے عوض ملین اور بلین ہی کیوں نہ کمائے جا سکتے ہوں، اِسلام اس بات سے روکتا ہے کہ انسان کی کمائی اور نفع دوسروں کے نقصان اور خسارے کی قیمت پر حاصل ہو۔
شراب کی تیاری کے لیے فراہمی کی غرض سے انگور کی پیداوار بہت بڑا مالی فائدہ دے سکتی ہے مگر اسلام اس منافع کوکالعدم قرار دیتا ہے۔ اس لیے کہ ان کے مقابل نقصانات بہت بڑے ہیں۔ شراب کے استعمال سے عقل و دماغ اور بدن و اخلاق سب تباہ ہو جاتے ہیں۔ ان نقصانات کا عملی مشاہدہ جماعتوں، خاندانوں اور افراد کی تخریب، ٹوٹ پھوٹ اور فساد کی صورت میں کیا جا سکتا ہے۔ قرآن کہتا ہے:
پوچھتے ہیں:شراب اور جوئے کاکیا حکم ہے؟ کہو: اِن دونوں چیزوں میں بڑی خرابی ہے۔ اگرچہ اِن میں لوگوں کے لیے کچھ منافع بھی ہیں، مگر ان کا گناہ اُن کے فائدے سے بہت زیادہ ہے۔(البقرہ۲:۲۱۹)
کوئی شخص فحش سیاحت (ٹورازم) سے بڑے بڑے منافع کما سکتا ہے۔لُچر، فحش اور نشہ آور چیزوںکی تجارت کرکے بڑے بڑے بنک بیلنس قائم کر سکتا ہے، مگر اسلام مسلمان کو ایسا کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ اسلام نے تو مشرکین کو حج کی نیت سے عازمِ مکہ ہونے سے روک دیا تھا حالانکہ اس میں اہل مکہ کے لیے بڑے فوائد تھے۔ فرمایا:
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، مشرکین ناپاک ہیں، لہٰذا اس سال کے بعد مسجد حرام کے قریب نہ پھٹکنے پائیں۔ اور اگر تمھیں تنگ دستی کا خوف ہے تو بعید نہیں کہ اللہ چاہے تو تمھیں اپنے فضل سے غنی کر دے، اللہ علیم و حکیم ہے۔(التوبہ۹:۲۸)
مسلمان تجارتی تبادلے کے میدان میں شراب، خنزیر، مُردار اور بُتوں کی تیاری، فراہمی جیسی تجارت نہیں کر سکتا۔ وہ کوئی ایسی شے ایسے کسی شخص کے ہاتھ فروخت نہیں کر سکتا جس کے بارے میں اُسے علم ہو کہ وہ اس چیز کو کسی شر، فساد، اور دوسروں کو نقصان پہنچانے میں استعمال کرے گا، مثلاً کوئی شخص انگور کا جوس، یا انگور ایسے شخص کے ہاتھ فروخت کرے جس کو وہ جانتا ہوکہ یہ اس سے شراب تیار کرے گا۔ اسی طرح کوئی شخص کسی ایسے شخص کو اسلحہ فروخت کرے جس کے بارے میں اُسے علم ہو کہ وہ کسی بے گناہ اور معصوم کو قتل کرے گا یا اسے ظلم و زیادتی کے موقع پر کام میں لائے گا۔
حدیث رسولؐ میں ہے:جب اللہ نے کسی شے کو حرام کر دیا ہے تو اس کی قیمت بھی حرام کردی ہے۔ حدیث ہی میں ہے: انگوروں کی چنائی کے وقت جو شخص اس لیے انگور روک رکھے کہ (وہ بعد میں)کسی یہودی یا نصرانی یا کسی ایسے شخص کے ہاتھ فروخت کرے گا جو اس کو شراب کے لیے استعمال کرتا ہے تو اُس (مالک)کی آنکھوں پر آگ پھینکی جائے گی۔
اناج (کھانے پینے کی اشیا ) اور انسانی ضروریات کی دیگر اشیا محض اس لیے ذخیرہ کیے رکھنا مسلمان کے لیے جائز نہیں ہے کہ مارکیٹ میں ان کی قلت رونما ہو گی تو کئی گنا زیادہ قیمت پر فروخت کرے گا۔ صحیح حدیث میں ہے کہ کوئی ذخیرہ نہیںکرتا، مگر صرف گناہ کار۔ قرآنِ مجید میں انھی معنوں میں فرعون، ہامان اور اُن کے لشکروں کو بھی گناہ گار کہا گیا ہے۔
مسلمان تاجر کے لیے یہ بھی جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے سامان کے عیوب و نقائص چھپائے اور خوبیاں اُجاگر کرکے بیان کرے۔ جیسا کہ عصری ذرائع ابلاغ میں اشتہارات کا طریقہ ہے۔ مقصد یہ ہوتا ہے کہ فریب خوردہ خریدار اصل سے زیادہ قیمت ادا کرنے کے لیے تیار ہو جائیں۔ یہ دھوکا اور فریب ہے جس سے اسلام اور رسولِؐ اِسلام نے اظہارِبراء ت کیا ہے۔ فرمایا: جس نے ہمیں فریب دیا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
غیرمتوازن تقسیمِ وراثت اور عارضی ملکیت کے میدان میں مسلمان کے لیے روا نہیں ہے کہ وہ غلط اور ناجائز طریقے سے سامان کا مالک بن جائے۔ اپنی ذاتی ملکیت کو بھی کسی غلط طریقے سے نشوونما دینا حلال نہیں۔ اسی لیے تو اللہ تعالیٰ نے سُود، جوا، باطل طریقے سے لوگوں کا مال کھانا، اور ظلم اور ضرر کی ہر قسم اور ہر رنگ کو حرام کیا ہے۔
کسی چیز کے صَرف، خرچ اور استعمال میں بھی اسلام نے انسان کو بے مہار نہیں چھوڑ رکھا کہ وہ جیسے چاہے خرچ کرے خواہ اِس سے اُس کی اپنی ذات، اپنے خاندان، یا اپنی قوم ہی کو نقصان پہنچتا ہو، بلکہ اسلام نے اس معاملے میں انسان کو اعتدال و توسّط کا پابند کیا ہے۔ فرمایا:
نہ تو اپنا ہاتھ گردن سے باندھ رکھو اور نہ اسے بالکل ہی کھلا چھوڑ دو کہ ملامت زدہ اور عاجز بن کر رہ جائو۔(بنی اسرائیل۱۷:۲۹)
اور کھائو پیو اور حد سے تجاوز نہ کرو، اللہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ (اعراف۷:۳۱)
بے قید خرچ و صَرف کو اسلام نے شاہانہ انداز میں شمار کیا ہے اور ایسے لوگوں کو شاہ خرچ کہا گیا ہے۔ اسلام نے شاہانہ طرز کے ہر مظہر کو حرام ٹھیرایا ہے، مثلاً سونے اور چاندی کے برتن مردوں اور عورتوں سب کے لیے حرام ہیں۔ اسی طرح ریشم اور سونے کا استعمال مردوں پر حرام قرار دیا گیا ہے۔
جس طرح اسلامی عقائد، عبادات اور معاملات کے مقاصد کو بطور اَخلاق بیان کیا گیا ہے، اسی طرح اسلامی اَخلاق کے بھی کچھ مقاصد اور اہداف بیان کیے گئے ہیں۔ یہاں اختصار کے ساتھ ان کا ذکر کیا جا رہا ہے:
۱- اسلامی اَخلاق کا ایک مقصد اور ہدف انسان کی ذات کے لیے رفعت اور فضیلت کا حصول ممکن بنانا ہے، یعنی انسان ایک اچھی اور نفیس شخصیت بن جائے۔
۲- دیگر اخلاقیات کے مقابل اسلامی اَخلاق کو جو چیز ممتاز اور منفرد بناتی ہے وہ اللہ وحدہ کی عبودیت کا حصول ہے۔ اس کا مقصد اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا اور اُس کے حقِ ربوبیت سے وفاداری نباہنا ہے۔ اللہ ہی نے انسان کو پیدا کیا اور اسے ہدایت سے نوازا، انسان کو بہترین ساخت پر نہ صرف پیدا کیا بلکہ اس کو انتہا درجے کی تکریم سے سرفراز کیا۔ اسے سوچنے کی صلاحیت اور بولنے کا ملکہ عطا کیا۔ اسے بہترین صورت عطا کرکے اس میں اپنی روح پھونکی۔ اسے آنکھ، کان اور دل عنایت کیے۔ زمین و آسمان کی ہر چیز اس کے لیے مطیع کر دی، اس کے اوپر اپنی ظاہری اور مخفی نعمتوں کا نزول فرمایا۔ ان سب چیزوں کو بعثت ِرسولؐ اور نزولِ قرآن پر مکمل فرمایا۔
اسی رب کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ حکم بھی دے اور منع بھی کرے۔ وہی حرام و حلال کا اختیار بھی رکھے۔ انسان کا فرض ہے کہ وہ اس کی بات سنے اور اُس کا حکم مانے۔ کیوںکہ اللہ تبارک و تعالیٰ خیر کے سوا کوئی حکم نہیں دیتا، شر کے علاوہ کسی چیز سے نہیں روکتا، طیب کے علاوہ کچھ حلال نہیں ٹھیراتا اور ناپاک کے علاوہ کوئی چیز حرام نہیں کرتا۔(qaradawi.net)
قائداعظم پاکستان کے رہنے والوں کے عظیم ترین محسن ہیں کہ انھوں نے اپنی صحت، نجی زندگی، گھربار سب کچھ تیاگ کر ہمیں ایک آزاد خطۂ زمین لے کر دیا اور انتقال سے قبل اپنی محنت سے کمائی گئی دولت بھی قوم میں تقسیم کرگئے۔ لیکن یہ عجیب اتفاق ہے کہ قائداعظم ہماری تاریخ کے ایک مظلوم کردار بنتے نظر آتے ہیں۔
قیامِ پاکستان سے لے کر آج تک ان کے نظریات،افکار، سیاسی و ذاتی زندگی پر بحث جاری ہے اور یہ کشتی کنارے لگتی نظر نہیں آتی۔ اصول تو یہ ہے کہ کسی بھی عظیم سیاسی رہنما کو اس کی تقریروں، فرمودات، تحریروں اور سیاسی زندگی کے حوالے سے جانچا پرکھا جاتا ہے اور اپنے ذاتی ایجنڈے ، ذاتی فلسفے اور ذاتی مفاد سے بلند ہوکر اس کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ مگر افسوس کہ یہاں صورت مختلف ہے۔
قائداعظم کا نقطۂ نظر، تصور، جدوجہد اور وژن ان کی تقریروں سے روزِ روشن کے مانند واضح ہے، لیکن ہمارے ہاں خاص کر گذشتہ چار عشروں سے رسم چل نکلی ہے کہ ایجنڈا بردار حضرات ان کو پورے تناظر میں سمجھنے اور ان کی سیکڑوں تقاریر و بیانات پڑھنے کے بجاے، سیاق و سباق سے کاٹ کر اپنے اپنے مطلب کے فقرے ڈھونڈ نکالتے ہیں۔ پھر انھی جملوں پر اپنے فلسفے اور اپنی خواہشات کا خول چڑھا کر مخصوص فکری ڈھول پیٹنا شروع کر دیتے ہیں۔ ایسی تحریف نگاری کا یہ موضوع ایک کتاب کا تقاضا کرتا ہے۔ مجھے قائداعظم کے سیکڑوں حوالے اور تقاریر یاد ہیں۔ یہاں پر صرف مثال کی خاطر عرض کر رہا ہوں کہ روزنامہ جنگ (۹فروری ۲۰۱۶ئ) نے ایک صاحب کا کالم شائع کیا، جس میں انھوں نے قائداعظم کی چند تقاریر سے من پسند اور وضع کردہ جملوں کو اپنے سیاق و سباق سے کاٹ کر من پسند نتائج اخذ کیے۔ اس سے مجھے حیرت بھی ہوئی اور افسوس بھی۔
مثال کے طور پر موصوف نے لکھا کہ یکم فروری ۱۹۴۸ء کو قائداعظم نے امریکی عوام سے ریڈیو خطاب میں فرمایا: ’’پاکستان ایک ایسی مذہبی ریاست نہیں بنے گا، جس میں مُلّائوں کو مذہبی نصب العین کی روشنی میں حکومت کرنے کا اختیار ہو‘‘ ۔ چونکہ موصوف نے اس جملے کو خاص طور پر اپنے مقصد کے لیے منتخب کیا ہے، اس لیے قائد کے اصل الفاظ اور پورا سیاق و سباق ملاحظہ فرمایئے اور پھر ان کا اُردو ترجمہ:
The constitution of Pakistan has yet to be framed by the Pakistan Constituent Assembly. I do not know what the ultimate shape of this constitution is going to be. But, I am sure that it will be of a democratic type, embodying the essential principles of Islam. Today, they [means `Principles of Islam`] are as applicable in actual life, as they were 1,300 years ago. Islam and its idealism have taught us democracy. It has taught equality of men, justice and fairplay to everybody. We are the inheritors of these glorious traditions and are fully alive to our responsibilities and obligations as framers of the future constitution of Pakistan. In any case Pakistan is not going to be a theocratic state __ to be ruled by priests with a divine mission. (Speeches, Statements & Messages of the Quaid-e-Azam, Vol: 4, ed: Khurshid A. Yusufi,(بزمِ اقبال، لاہور، ص ۲۶۹۴
مجلس دستورِ پاکستان کو ابھی پاکستان کا دستور مرتب کرنا ہے۔ مجھے اس بات کا تو علم نہیں کہ دستور کی حتمی شکل کیا ہوگی، لیکن مجھے اس امر کا یقین ہے کہ یہ جمہوری نوعیت کا ہوگا، جس میں اسلام کے لازمی اصول شامل ہوں گے۔ آج بھی ان اصولوں کا اطلاق عملی زندگی میں ویسے ہی ہوسکتا ہے، جیسے کہ ۱۳۰۰ برس قبل ہوسکتا تھا۔ اسلام نے ہرشخص کے ساتھ عدل اور انصاف کی تعلیم دی ہے۔ ہم ان شان دار روایات کے وارث ہیں اور پاکستان کے آیندہ دستورکے مرتبین کی حیثیت سے ہم انھی ذمہ داریوں اور فرائض سے باخبر ہیں۔ بہرنوع، پاکستان ایک ایسی مذہبی مملکت نہیں ہوگی، جس پر آسمانی مقصد کے ساتھ پاپائوں کی حکومت ہو‘‘۔
کالم نگار موصوف نے حضرت قائداعظم کی تقریر کے اس مکمل پیراگراف سے اپنی مرضی کا ایک چھوٹا ٹکڑا نکال کر، قارئین کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کی ہے۔ اب آپ پورا اقتباس دیکھ لیجیے، یعنی قیامِ پاکستان کے پانچ ماہ بعد بھی قائداعظم بیان فرماتے ہیں:پہلے یہ کہ ’’دستور، دستور ساز اسمبلی نے بنانا ہے‘‘، مراد یہ ہے کہ ’’دستور میری ذات نے شاہانہ اختیار کے ساتھ تشکیل نہیں دینا‘‘۔ دوسرا یہ کہ’’ وہ جمہوری ہوگا اور اسلام کے لازمی اصولوں پر مبنی ہوگا‘‘۔ سوال یہ ہے کہ اسلام کے لازمی اصول رُوبہ عمل ہوں گے تو پھر پاکستان سیکولر کیسے ہوگا۔ تیسرا یہ کہ ’’اسلام کے اصول ۱۳۰۰سال بعد بھی ویسے ہی قابلِ اطلاق ہیں اور ہم اہلِ پاکستان قطعاً معذرت خواہ نہیں ہیں کہ ۲۰ویں صدی میں آٹھویں صدی ہجری کے عطا کردہ ضابطوں کو رُوبہ عمل لانے سے کسی طور پر شرمائیں‘‘۔ چوتھا یہ کہ’’ اسلام ہرشخص کے ساتھ (یعنی غیرمسلموں کے ساتھ بھی) عدل اور انصاف کی تعلیم دیتا ہے اور دستورسازی انھی اصولوں پر ہوگی‘‘۔ پانچواں یہ کہ ’’یہاں پر حکمرانی پاپائوں کی نہیں ہوگی، جو کسی کے سامنے جواب دہ نہ ہوں اور اپنے ہر بُرے بھلے فعل کو تقدس کی مُہر سے نافذ کرنے کی دھونس جمائیں‘‘۔ (ایسا اختیار یا استثنا اسلام میں سرے سے ہے ہی نہیں، جب کہ ایسا مذہبی اقتدار صرف عیسائیوں میں تھا،جس سے مسلمانوں کی تاریخ کا کوئی تعلق نہیں)۔ اب آپ جناب دانش ور کی دیانت اور قائد کی بصیرت کا موازنہ کرکے دیکھیے، کیا واقعی قائدکے بیان کردہ اصولی موقف سے کاٹ کر، استعمال کردہ ٹکڑے کا وہی مطلب ہے، یا اس کا مقصد ایک بڑی جچی تلی اور مبنی برصداقت راے کا اظہار ہے؟
قائداعظم کے یکم فروری ۱۹۴۸ء کو امریکی عوام کے نام ریڈیو خطاب کا ذکر پڑھ کر مجھے اس لیے حیرت ہوئی کہ اسی خطاب میں قائداعظم کے ان الفاظ کو کیوں درخور اعتنا نہ سمجھا گیا، جو بنیادی اصول اور قائداعظم کے تصورِ پاکستان کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ذرا ان الفاظ کو پڑھ لیجیے جو امریکی عوام نے اپنے کانوں سے سنے: Pakistan is the premier Islamic state [پاکستان سب سے بڑی اسلامی مملکت ہے]۔ مجھے اس پر ہرگز حیرت نہیں ہوتی کہ ایک مخصوص مکتب فکر سے وابستہ یہ لوگ قائداعظم کی تقاریر کو پڑھتے ہوئے ایسے تمام الفاظ کو نظرانداز کر دیتے ہیں اور اُن کا جی چاہتا ہے کہ ان الفاظ کو قائداعظم کی تقاریر سے حذف کر دیا جائے۔
اسی مضمون میںیہ کالم نگار مزید لکھتے ہیں: ’’۱۹فروری ۱۹۴۸ء کو آسٹریلیا کے عوام کے نام تقریر میں قائداعظم نے اعلان کیا کہ ’’پاکستانی ریاست میں مُلّائوں کی حکومت (Theocracy) کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوگی‘‘۔ یہاں پر مَیں مجبور ہوں کہ ایک مرتبہ پھر مظلوم قائداعظم سے رجوع کروں۔ وہ ۱۹فروری ۱۹۴۸ء کو آسٹریلوی عوام کے نام ریڈیائی خطاب میں فرماتے ہیں:
West Pakistan is separated from East Pakistan by about a thousand miles of the territory of India....How can there be unity of government between areas so widely separated? I can answer this question in one word. It is 'Faith': Faith in Almighty God, in ourselves and in our destiny. But, I can see that people, who do not know us well might have difficulty in grasping the implications of so short an answer. Let me, for a moment, build up the background for you.
The great majority of us [means Pakistanis] are Muslims. We follow the teachings of the Prophet Muhammad (peace be on him). We are members of the brotherhood of Islam in which all are equal in right, dignity and self-respect. Consequently, we have a special and a very deep sense of unity. But, make no mistake: Pakistan is not a theocracy or anything like it. Islam demands from us the tolerance of other creeds and we wellcome in closest association with us all those who, of whatever creed, are themselves willing and ready to play their part as true and loyal citizens of Pakistan. Not only are most of us Muslims, but we have our own history, customs and traditions, and those ways of thought, outlook and instinct, which go to make up a sense of nationality. (حوالہ مذکور، جلد۴، ص ۸۸-۲۶۸۷
مغربی اور مشرقی پاکستان کے درمیان ہزار میل کے قریب بھارتی علاقہ ہے۔ اس قدر طویل فاصلہ ہو تو اتحاد عمل کیسے ہوسکتا ہے؟ میں اس سوال کا ایک لفظ میں جواب دے سکتا ہوں، اور وہ ہے ’ایمان‘۔ ایمان اللہ تعالیٰ کی ذات پر، اپنے اُوپر اعتماد اور اپنے مقدر پر بھروسا۔ لیکن میں سمجھ سکتا ہوں کہ جو لوگ ہم سے واقف نہیں ہیں، انھیں اس مختصر سے جواب کے مضمرات کو سمجھنے میں شاید کچھ مشکل محسوس ہو۔ لیجیے، میں آپ کے سامنے تھوڑ ا سا پس منظر بیان کیے دیتا ہوں:
ہماری عظیم اکثریت مسلمان ہے۔ ہم رسولِ خدا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر عمل پیرا ہیں۔ ہم اسلامی ملّت و برادری کے رکن ہیں، جس میں حق، وقار اور خودداری کے تعلق سے سب برابر ہیں۔ نتیجہ یہ کہ ہم میں اتحاد کا ایک خصوصی اور گہرا شعور موجود ہے۔ لیکن غلط نہ سمجھیں، پاکستان میں کوئی پاپائی نظام رائج نہیں ہے۔ اس طرح کی کوئی چیز نہیں ہے۔ اسلام ہم سے دیگر عقائد کو گوارا کرنے کا تقاضا کرتا ہے اور ہم اپنے ساتھ ان لوگوں کے گہرے اشتراک کا پُرتپاک خیرمقدم کرتے ہیں، جو خود پاکستان کے سچّے اور وفادار شہریوں کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کرنے کے لیے آمادہ اور رضامند ہوں۔ نہ صرف یہ کہ ہم میں سے بیش تر لوگ مسلمان ہیں، بلکہ ہماری اپنی تاریخ ہے، رسوم و روایات ہیں اور وہ تصوراتِ فکر ہیں ، وہ نظریہ اور جبلّت ہے جس سے قومیت کا شعور اُبھرتا ہے۔
آسٹریلیا کے عوام کے نام قائداعظم کے اس خطاب کا یہ حصہ ملاحظہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ سب سے پہلی بات وہ یہ فرما رہے ہیں کہ: ’’پاکستان کے قومی اتحاد کی بنیاد ’ایمان‘ ہے‘‘۔ پھر لفظ ’ایمان‘ کی وہ تشریح فرماتے ہیں کہ ’’اللہ تعالیٰ پر ایمان‘‘۔ قائد اسی بات پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ ابہام کو دُور کرنے کے لیے یہ بھی بتاتے ہیں کہ ’’یہ ملک عظیم مسلم اکثریت رکھتا ہے‘‘۔ یہاں وہ یہ نہیں کہتے کہ: ’’مسلم، ہندو ، سکھ، عیسائی، پارسی کیا ہوتا ہے؟ ہم بس پاکستانی ہیں‘‘۔ نہیں، بلکہ وہ قیامِ پاکستان کی بنیاد ’مسلم اکثریت‘ کی نشان دہی کرتے ہیں۔ دوسرا وہ یہ بھی نہیں کہتے کہ ’’پاکستان بن گیا ہے، اب ہمارا کیا تعلق اسلام اور غیراسلام کے سوال سے۔ اس لیے اب رہنمائی کے لیے ارسطو، روسو، والٹیر اور ابراہام لنکن کی طرف دیکھو‘‘۔ اس کے بجاے وہ بڑے واضح لفظوں میں فرماتے ہیں: ’’ہم رسولِ خدا محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر عمل پیرا ہیں‘‘۔ اور رسولؐ اللہ کی تعلیمات کا مطلب محض ’محمدعلی‘ نام رکھنا نہیں ہوتا بلکہ قرآن، سنت اور حدیث محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات ہوتی ہیں۔ پھر وہ یہ نہیں کہتے کہ: ’’سرحد اور قومیت کی بنیاد کیا ہوتی ہے‘‘ بلکہ اس کے بجاے کہتے ہیں: ’’ہم اسلامی ملّت و برادری کے رکن ہیں‘‘۔ اسی کے ساتھ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ’’مسلمان اپنی ذمہ داری کو سمجھتے ہیں‘‘ اور پھر واضح کرتے ہیں کہ: ’’یہاں کوئی پاپائی نظام رائج نہیں ہے؟‘‘ اور آگے چل کر غیرمسلم شہریوں کا پورا احترام ملحوظ رکھنے کی بات کو وہ محض پاکستانی ہونے کے ناتے سے نہیں بلکہ پاکستان سے وفاداری سے مشروط کرتے ہیں۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ کالم نگار صاحب نے جو الفاظ قائداعظم سے منسوب کیے ہیں، وہ اپنے سیاق و سباق میں بالکل دوسرا منظرنامہ پیش کرتے ہیں، جو عین اسلامی فکریات سے مطابقت رکھتا ہے۔
قائداعظم نے یہ بات ۱۲،۱۳ مرتبہ کہی کہ پاکستان مذہبی ریاست نہیں ہوگی اور کئی بار وضاحت کی، جو ان کے فہم اسلام کا ثبوت ہے کہ اسلام میں مذہبی ریاست کا تصور موجود نہیں۔ ظاہر ہے کہ مذہبی ریاست عوام پرمذہب مسلّط کرتی ہے اور اقلیتوں کو برابر کے حقوق نہیں دیتی، جب کہ اسلامی ریاست میں اقلیتوں کو برابر کے شہری تصور کیا جاتا ہے اور ان پر ریاستی مذہب مسلّط نہیں کیا جاتا۔ ایک واضح اور روشن مثال ریاست مدینہ ہے۔ ڈاکٹر محمد حمیداللہ مرحوم نے میثاقِ مدینہ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس کے تحت غیرمسلموں کو برابر کے حقوق دیے گئے تھے۔ غیرمسلموں کے حوالے سے حُسنِ سلوک، احترام، برابری اور برداشت کی مثالیں سیرتِ نبویؐ میں موجود ہیں، جس پر بہت لکھا جاچکا ہے۔ گویا اسلام یا اسلامی ریاست میں اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے جھگڑا نہیں بلکہ اس ساری بحث اور جدوجہد کا مقصد کچھ اور ہے۔ پاکستان ہرگز مذہبی ریاست نہیں، بلکہ یہ اصول ہمیشہ کے لیے طے ہوکر آئین کا حصہ بن چکا کہ پاکستان ایک اسلامی جمہوری ریاست ہے جس کے قوانین، آئین، ڈھانچے وغیرہ کی بنیاد اسلامی اصولوں پر استوار ہوگی۔
یہی بات قائداعظم نے قیامِ پاکستان سے قبل ۱۰۱ بار اور قیامِ پاکستان کے بعد ۱۴بار برملا اور واشگاف الفاظ میں بیان فرمائی کہ پاکستان کا آئین، نظام، قانون، انتظامی ڈھانچے وغیرہ کی بنیاد اسلامی اصولوں پر رکھی جائے گی۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ جو حضرات پاکستان کو مذہبی ریاست بنانے کا ایجنڈا رکھتے ہیں وہ بھی ناکام ہوں گے اور جو اسے اسلامی کے بجاے محض جمہوری ریاست بنانے کا خواب دیکھتے ہیں اور اس پر سیکولرزم کا غلاف چڑھانا چاہتے ہیں، وہ بھی ناکامی کے مقدر سے ہم کنار ہوں گے۔ قائداعظم نے بارہا ’مسلمان ریاست‘ کا لفظ استعمال کیا، لیکن ہربار ’مسلمان ریاست‘ کے بعد ان الفاظ کا اضافہ کیا کہ ’’جس کی بنیاد اسلامی اصولوں پر استوار ہوگی‘‘۔
اب ظاہر ہے کہ جس ریاست کی بنیاد اسلام ہو، اسے اسلامی ریاست یا اسلامی ملک ہی کہتے اور سمجھتے ہیں، اسے مذہبی ریاست نہیں کہتے۔ لیکن سیکولرزم کے پردے میں خود دو قومی نظریے کی نفی کرنے کے درپے ان حضرات کے لیے اصل وبالِ جان یہ تصور ہے کہ ’’اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات‘‘ ہے، جو ذاتی زندگی، سیاسی زندگی، ریاستی زندگی، حتیٰ کہ ہر شعبے پر محیط ہے۔ اس لیے اسلامی ریاست کی سیاست، طرزِحکمرانی، قانون کی تشکیل، تنفیذ اور تعبیر وغیرہ کو اسلام سے آزاد نہیں کیا جاسکتا۔ اسی طرح مسلمان ریاست میں غیراسلامی رسومات و عادات، مثلاً: شراب، زنا، سود، جوا، ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی، استحصال، چوری وغیرہ وغیرہ کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ گھر کی چار دیواری کے اندر آپ کیا کرتے ہیں، یہ بندے اور اللہ کا معاملہ ہے۔ مگر ریاست کا تعلق اجتماعی معاشرت سے ہے، اور اس کے بارے میں ریاست کو ایک واضح تصور اختیار کرنا ہوتا ہے۔ ریاست ِ پاکستان کے اس تصور کی تشکیل ۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء کو نہیں بلکہ طویل، جاں گسل اور صبرآزما جدوجہد کے دوران میں ہوئی تھی۔ اسی کمٹ منٹ نے پاکستان کی صورت گری کی ہے۔
تاریخی پس منظر اور قائداعظمؒ کی ۱۹۴۰ء سے ۱۹۴۸ء تک ساری تقاریر کے تناظر میں دیکھیں تو ۱۱؍اگست ۱۹۴۷ء کی تقریر کا مدعا فقط یہ تھا کہ اقلیتوں کو برابر کے حقوق حاصل ہوں گے اور مذہب ان کی ترقی، تمدن اور اندازِ زندگی میں حائل ہوگا، نہ رکاوٹ بنے گا اور غیرمسلم اپنے مذہب کے مطابق آزادانہ زندگی گزار سکیں گے۔ مختصر یہ کہ ریاست ان پر مذہب مسلّط نہیں کرے گی۔
کراچی بار ایسوسی ایشن سے عیدمیلاد النبیؐ کے موقعے پر ۲۵ جنوری ۱۹۴۸ء کو قائداعظم نے بڑے بلندآہنگ الفاظ میں اعلان فرمایا کہ: ’’وہ شرارتی عناصر ہیں جو کہہ رہے ہیں کہ آئین پاکستان کی بنیاد شریعت پر نہیں ہوگی۔ اسلامی اصول آج بھی ہماری زندگی پر اسی طرح لاگو (applicable) ہیں جس طرح تیرہ سو سال قبل تھے‘‘ (قائداعظم کے بیانات، تقاریر، جلد چہارم، ص ۲۶۶۹)۔ ظاہر ہے کہ اسلامی شریعت کا نفاذ غیرمسلموں پر تو نہیں ہونا تھا۔ جو مذہبی عناصر شریعت کے نام پر تشدد پھیلاتے، خدائی فوج دار بنتے اور اقلیتوں کے حقوق پر ضرب لگاتے ہیں، وہ زیادتی بلکہ کھلم کھلا قرآن و سنت اور اسلامی شریعت کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ اسی طرح جو حضرات اسلام کے نام پر’ لبرل ازم‘ یا ’سیکولرزم‘ کی آڑ میں مادرپدر آزادی و اخلاق باختگی پھیلاتے ہیں، وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے قانون و ضابطے کو توڑتے اور اسلامی حدود کو پامال کرتے ہیں۔
ذہنی ارتقا انسانی زندگی کا حصہ ہے۔قائداعظم کی جانب سے تحریک خلافت کی مخالفت کی کئی وجوہ تھیں۔ برطانیہ سے ۱۹۳۴ء میں واپسی کے بعد اور خاص طور پر آٹھ صوبوں میں کانگریسی حکومت (Congress Rule) کی مسلم دشمنی پر مبنی کارروائیوں کو دیکھنے کے بعد قائداعظم کے خیالات میں بے پناہ تبدیلی نظر آتی ہے، جس کی بہترین جھلک مسلم لیگ کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والے اراکین اسمبلی کے ۱۹۴۶ء میں دہلی کنونشن [۷-۹؍اپریل]کے خطاب اور قرارداد میں ملتی ہے۔ دہلی کنونشن میں منظور کردہ قرارداد کو پڑھیے تو تصورِ پاکستان سمجھ میں آئے گا۔ اس قرارداد کے متن کے مطابق مستقبل میں تشکیل پانے والی مملکت پاکستان کے اسلامی، تہذیبی، سماجی اور آئینی دائرئہ کار کی بھرپور وضاحت ہوتی ہے۔ ازاں بعد جو حلف نامہ شرکاے اجلاس نے متفقہ طور پر پڑھا، جس کا ایک ایک جملہ نواب زادہ لیاقت علی خان بلندآواز میں پڑھتے تھے اور قائداعظم سمیت تمام منتخب ارکان اُن جملوں کو باآواز بلند دہراتے تھے۔ اس حلف نامے کے الفاظ بھی واضح کرتے ہیں کہ کُل ہند مسلم لیگ کے ارکان کس پاکستان کو بنارہے تھے۔ اس حلف نامے کا آغاز اس طرح ہوتا ہے:
بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ کہہ دو کہ میری نماز، میری قربانی، میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔
رَبَّنَآ اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّ ثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَ انْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ
اے پروردگار، ہمیں صبرواستقامت دے۔ ہمیں ثابت قدم رکھ اور قومِ کفار پر ہمیں فتح و نصرت عطا فرما۔(سیّد شریف الدین پیرزادہFoundation of Pakistan،جلددوم، ناشر: سینٹر آف ایکسی لینس، قائداعظم یونی ورسٹی، اسلام آباد، ۲۰۰۷ئ، ص ۴۷۷- ۴۷۹ اور ۴۸۷-۴۸۸)
ہندستانی سفیر سری پرکاش کی کتاب بہت سے جھوٹوں کا مجموعہ ہے۔ قائداعظم کی شخصیت کے وقار کے پیش نظر ہندستانی سفیر گورنر جنرل کو سوالات کے کٹہرے میں کھڑا کر لے، ناقابلِ فہم ہے۔ پھر قائداعظم جیسا کھرا انسان کیسے کہہ سکتا تھا کہ: ’’میں نے کبھی ’اسلامی‘ کا لفظ استعمال نہیں کیا‘‘۔ قائداعظم کو معذرت خواہانہ رویے اختیار کرنے کی کیا ضرورت تھی اور نہ اُن کا یہ مزاج تھا، جب کہ وہ اسلامی نسبت کا لفظ کئی بار ادا کرچکے تھے۔ سری پرکاش نے یہ واقعہ ستمبر ۱۹۴۷ء کا لکھا ہے، صرف ایک ماہ بعد قائداعظم نے پنجاب یونی ورسٹی اسٹیڈیم لاہور میں ایک جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہوئے ۳۰؍اکتوبر ۱۹۴۷ء کو اعلان کیا تھا: Be prepared to sacrifice his all, if necessary, in building up Pakistan as a Bulwark of Islam [اس امر کے لیے تیار رہیے کہ پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنانے کے لیے اگر ضروری ہو تو اپنا سب کچھ قربان کر دیں گے]۔ (ایضاً، جلد چہارم، ص ۲۶۴۳)
یہ اعلان اہلِ پنجاب نے براہِ راست اور اہلِ پاکستان نے بذریعہ ریڈیو سنا کہ: ’’پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنانے کے لیے ہر قربانی کے لیے تیار ہوجائو‘‘۔کیا یہ قلعہ ہوا میں تعمیر ہونا تھا؟ پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنانے کا عزم رکھنے والے قائداعظم یہ کیسے کہہ سکتے تھے کہ پاکستان اسلامی ریاست نہیں ہوگی۔ میں سیکڑوں حوالے دے سکتا ہوں لیکن جنھوں نے نہیں ماننا، انھوں نے بہرحال نہیں ماننا۔
اسی طرح یہ اصولی بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ تحقیق اور تحریر کا ایک طے شدہ اصول ہے۔ کسی بھی شخصیت کے بارے میں لکھتے ہوئے اس کی پوری شخصیت، انداز و اَطوار، کردار وغیرہ کو ذہن میں رکھا جاتا ہے اور ایسے من گھڑت واقعات کو نظرانداز کیا جاتا ہے، جو اس شخص کی شخصیت سے مطابقت نہ رکھتے ہوں، لگانہ کھاتے ہوں۔ اللہ پاک نے عقلِ عام (common sense) اسی لیے دی ہے کہ اسے استعمال کیا جائے اور اس کی کسوٹی پر سچ جھوٹ کو پرکھا جائے۔ قائداعظم کی زندگی ایک کھلی کتاب ہے، خاص طور پر ۱۹۳۵ء سے لے کر ستمبر ۱۹۴۸ء تک ان کی شخصیت کا ہرشعبہ بے نقاب ہے۔ ان برسوں میں قائداعظم نے باربار سارے ہندستان کے دورے کیے، بہت سی جگہوں پہ قیام کیا۔ ان کی ہمشیرہ فاطمہ جناح اکثر ساتھ ہوتی تھیں۔ قائداعظم درجن بار سے زیادہ لاہور آئے ، ممدوٹ ولا، فلیٹیز ہوٹل اور پھر گورنر ہائوس میں قیام کرتے رہے، لاکھوں لوگوں سے ملتے رہے، لیکن آج تک کسی شخص نے وہ بات نہیں کہی، جو روزنامہ جنگ کے ایک کالم نگار نے لکھی۔ مَیں تحریکِ پاکستان اور قائداعظم سے بار بار ملنے والے سیکڑوں کارکنوں سے ملا ہوں۔ بانیِ پاکستان کے بارے میں کسی بھی واقعے کو ہوا دینے سے پہلے یہ جانچنا ضروری ہے کہ کیا اس میں سچائی ہوسکتی ہے؟ اور کیا یہ کامن سنس کو اپیل کرتا ہے؟
یاد رہے کہ قائداعظم سیکڑوں بار اعلان کرچکے تھے کہ پاکستان کی بنیاد اسلامی اصولوں پر استوار ہوگی۔ قائداعظم اصول پرست، سچے اور کھرے انسان تھے۔ مصلحت یا منافقت کے الفاظ اُن کی ڈکشنری میں موجود ہی نہیں تھے۔ اُن کی سیاسی زندگی میں بہت سے ایسے مقامات آئے، جب اُن کو مصلحت کی بنیاد پر ایسا مشورہ دیا گیا، جو اُن کے کھرے اصولوں کے خلاف تھا۔ اُنھوں نے نقصان برداشت کرلیا، لیکن اصولوں پر سمجھوتا نہ کیا۔ وہ جن اصولوں، تصورات اور وژن کا پرچار کرتے تھے، اُن پر خود بھی سختی سے عمل کرتے تھے۔ اس حوالے سے اُن کی سوانح عمری سیکڑوں واقعات سے بھری پڑی ہے۔ یہ بات واضح رہے کہ قائداعظم پاکستان کو ایک اسلامی ریاست کہتے تھے، اور اسلامی جمہوری فلاحی ریاست بنانے کے عزم کا اظہار کرتے تھے۔ ۱۵؍اگست ۱۹۴۷ء کے دن پہلے یومِ آزادی کے موقعے پر پاکستان کے پرچم کشائی کی تقریب میں قائداعظم، مولانا شبیراحمد عثمانی کو خاص طور پر اپنے ساتھ لے کر گئے اور اُن سے پرچم کشائی کروائی۔ ڈھاکہ میں قائداعظم کے حکم پر ہی مولانا اشرف علی تھانوی کے خواہرزادے مولانا ظفراحمد عثمانی سے پرچم کشائی کروائی گئی۔ دیکھنے اور سمجھنے والوں کے لیے اس میں اُس وقت بھی ایک واضح پیغام تھا اور آج بھی موجود ہے۔ قیامِ پاکستان کے فوراً بعد صوبوں میں اسلامک ری کنسٹرکشن بورڈ یا اسلامی تعلیمات بورڈ تشکیل دیے گئے، جن کا فرضِ منصبی یہی تھا کہ وہ پاکستان میں شہریوں کی زندگی کو اسلامی اصولوں کے مطابق ڈھالنے کے لیے سفارشات دیں۔ ان بورڈوں کی سفارش پر ۳۰ستمبر ۱۹۴۸ء میں پنجاب اور سرحد میں شراب پر پابندی لگادی گئی۔ اس پابندی کے سرکاری حکم نامے، یعنی نوٹیفیکیشن کی خبر پاکستان کرونیکل از عقیل عباس جعفری کے صفحہ ۲۶ پر موجود ہے اور پڑھی جاسکتی ہے۔
قائداعظم پاکستان کو ایک اسلامی جمہوری جدید ریاست بنانا چاہتے تھے۔ اسی لیے انھوں نے ایک طرف عید میلادالنبیؐ کی تقریب منعقدہ کراچی بار ایسوسی ایشن سے خطاب میں شریعت کے نفاذ کی بات کی، تو دوسری طرف یکم جولائی ۱۹۴۸ء کو اسٹیٹ بنک آف پاکستان کی افتتاحی تقریب میں ماہرین معیشت و مالیات سے پاکستانی نظام کو اسلامی اصولوں پر استوار کرنے کی نصیحت کی۔
اسٹیٹ بنک کی افتتاحی تقریب سے یہ خطاب، قائداعظم کی آخری عوامی تقریر تھی، جس کے بعد بیماری نے اُنھیں آرام پہ مجبور کر دیا۔ ذرا قائداعظم کے الفاظ کے باطن میں جھانکیے اور اُن کا مدعا اور وژن سمجھنے کی کوشش کیجیے۔ انھوں نے کہا:
I shall watch with keeness the work of your Research Orgnanization in evolving practices compatible with Islamic ideals of social and economic life.... The adoption of Western economics theory and practice will not help us in achieving our goal of creating a happy and contented people. We must work our destiny in our own way and present to the world an economic system based on true Islamic concept of equality of manhood and social justice.
میں دل چسپی سے اس امر کا انتظار کروں گا کہ آپ کا شعبۂ تحقیق ، بنکاری کے طور طریقوں کو معاشرتی اور اقتصادی زندگی کے اسلامی تصورات سے ہم آہنگ کرے… مغربی معاشیات اور عمل، خوش و خرم اور مطمئن قوم کی تشکیل کی منزل کے حصول میں ہماری مدد نہیں کرسکیں گے۔ ہمیں اپنے مقدر کو سنوارنے کے لیے اپنے ہی انداز میں کام کرنا ہوگا، اور دنیا کے سامنے ایک ایسا اقتصادی نظام پیش کرنا ہوگا، جس کی اساس انسانی مساوات اورمعاشرتی عدل کے سچّے اسلامی تصور پر استوار ہو۔(ایضاً،جلد چہارم، ص ۲۷۸۷)
اس سے ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ جب قائداعظم نے پاکستان کو اسلام کی تجربہ گاہ بنانے کا اعلان کیا تھا تو اُن کا کیا مدعا تھا۔ وہ مغرب کے نظامِ معیشت کے مقابلے میں اسلامی نظامِ معیشت پر مبنی معاشی و معاشرتی ڈھانچا وضع کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔قائداعظم عہد اور عزم کے پکّے تھے۔ وہ زندہ رہتے تو اپنے وژن کو عملی شکل دے کر دم لیتے، لیکن موت کا ایک دن مقرر ہے اور وہ مشن کی تکمیل کا انتظار نہیں کرتی۔ اس طرح وہ مشن اگلی نسل کو منتقل ہوجاتا ہے۔
قائد ملت لیاقت علی خان، قائداعظم کے معتمد ترین ساتھی اور پاکستان کے پہلے وزیراعظم تھے۔ وہ قائداعظم کی سوچ اور وژن کا مکمل ادراک رکھتے تھے۔ قائداعظم کی وفات کے سات ماہ بعد دستورساز اسمبلی میں ’قراردادِ مقاصد‘ پیش کرتے ہوئے، وزیراعظم لیاقت علی خان نے یقینا قائداعظم کے وژن کو ذہن میں رکھا۔ جو دانش ور یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ:’ ’قراردادِ مقاصد کا مسودہ قائداعظم کو دکھایا گیا تھا، لیکن اُنھوں نے اس کی منظوری نہ دی‘‘، وہ جھوٹ بولتے ہیں، کیونکہ تاریخ میں ایسے کسی انکار کا کوئی نام و نشان نہیں ملتا۔ ہمارے سیکولر دوستوں کو قائداعظم کے حوالے سے ’ہوائیاں‘ اُڑانے، بے بنیاد دعوے کرنے ، اُن کی تقاریر کو سیاق و سباق سے الگ کرکے اور بعض اوقات الفاظ میں تحریف کرکے من پسند نتائج اخذ کرنے کا دائمی عارضہ لاحق ہے۔
جسٹس محمد منیر نے اپنی کتاب From Jinnah to Zia میں قائداعظم کی ایک تقریر کے الفاظ میں اپنی طرف سے تبدیلیاں کرکے سیکولرزم کے لیے بنیاد فراہم کی ہے۔ پاکستانی نژاد محترمہ سلینہ کریم نے اپنی کتاب Secular Jinnah - Munir's Big Hoax Exposed میں تقریر کے اصل الفاظ دے کر جسٹس منیرکی دیانت کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے۔ جسٹس منیر کی کتاب سے یہی الفاظ لے کر سیکولرزم کے علَم بردار، قائداعظم کو سیکولر ثابت کرنے کے لیے اپنی ذہنی توانائیاں صرف کرتے رہے لیکن محترمہ سلینہ کریم نے ان الفاظ کوغلط اور من گھڑت ثابت کرکے ان کی دانش وَری کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے۔ مصنفہ کا بجاطور پر کہنا ہے کہ: جب میں نے جسٹس منیر کی کتاب اور اس میں قائداعظم کی تقریر کا حوالہ پڑھا تو میں پریشان ہوگئی کہ ان الفاظ کی انگریزی غلط تھی، جب کہ قائداعظم غلط انگریزی نہیں بول سکتے تھے۔ میں نے تحقیق کی تو رازکھلا کہ جسٹس منیر نے یہ الفاظ اپنے پاس سے لکھے تھے‘‘___ دیانت دارانہ تحقیق کی بنیاد پر قائداعظم کو کسی صورت بھی سیکولر ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ اسی لیے میں سیکولر دانش وروں سے گزارش کرتا ہوں کہ خدارا! قائداعظم کو معاف کردو۔ اپنے ایجنڈے کا جواز قائداعظم کی تقریروں یا شخصیت میں مت تلاش کرو۔ پاکستان ایک اسلامی جمہوری ریاست ہے اور ان شاء اللہ اسی سمت میں سفر جاری رکھے گا۔
اسلام کی تعلیمات زندگی کے تمام شعبوں پر محیط ہیں۔ ان کا تعلق عقائد کے باب سے ہو یا عبادات سے،یا معاملات، اخلاقیات اورمعاشرت سے، اسلام کا اپنے ماننے والوں سے یہ تقاضا ہے کہ دوسروں کے جو حقوق تم پر عائد ہو تے ہیں، انھیں حتی الامکان پورا کرنے کی کوشش کرو۔ چاہے وہ حقوق چھوٹے چھوٹے مسائل سے متعلق ہوں یا بڑے بڑے مسائل سے ان کا تعلق ہو۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم بڑے مسائل کے حل کے لیے کوششیں تو ضرور کرتے ہیں مگر چھوٹے چھوٹے معاملات ہماری نظروں سے اوجھل رہتے ہیں۔
انھی میں ایک اہم مسئلہ ’راستے کے حقوق‘ کا ہے ۔کوئی شخص راستے میں مستقل ٹھکانا نہیں بناتا مگرراستے سے گزرتے ہوئے اس سے اگر کسی کو تکلیف پہنچے تو اس کا اثر کافی دیر تک محسوس کیا جاسکتا ہے ۔راستے کے حقوق کیاہیں؟ شریعت نے کن امور کی نشان دہی کی ہے؟ کن امور کا خیال رکھنا اور کن کاموں سے بازرہنے کی اس نے تلقین کی ہے تاکہ ہر کسی کی زندگی اچھے طریقے سے گزرے؟ ان سوالوں کا جواب اس تحریر میں پیش ہے۔
راستے سے مراد صرف گلی یا سڑک کاراستہ نہیں، بلکہ اس کے مختلف مفاہیم ہیں، مثلاً: lکسی محلے/سوسائٹی میں جانے والا راستہ lکسی تعلیمی/کاروباری ادارے میں مختلف کلاسوں یا دفاتر میں جانے والا راستہ l شاہراہیں (موٹر ویز اور عمومی پگڈنڈیاں بھی)۔
ان راستوںکے کچھ حقوق ایک جیسے ہیں اور کچھ متفرق ہیں۔ ان تمام میں مشترک بات یہ ہے کہ یہ تمام لوگوں کی مشترکہ گزرگاہ ہو، اس پر کسی کی خاص ملکیت نہ ہو۔
راستے کے حقوق کے حوالے سے متعدد احادیث مروی ہیں جن میں مختلف احکامات ملتے ہیں۔ ایک حدیث میں حضرت ابو سعید خدری ؓ روایت کرتے ہیں، رسولؐ اللہ نے ارشاد فرمایا: ’’راستوں پر بیٹھنے سے پر ہیز کرو‘‘۔ صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا: ’’ہماری مجبوری ہے کہ ہم محفل جماتے ہیں اور آپس میں گپ شپ کر تے ہیں‘‘۔رسولؐ اللہ نے فرمایا:’’اگر اتنی ہی مجبوری ہے تو راستے کا حق ادا کرو‘‘۔صحابہؓ نے پوچھا: ’’راستے کا حق کیا ہے ؟‘‘فرمایا:’’نظروں کو جھکا کر رکھو،تکلیف دہ چیز کو دُور کرو،سلام کا جواب دو اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرو‘‘۔(بخاری، ۲۴۶۵)
اس حدیث سے معلوم ہوتاہے کہ نبی کریمؐ نے راستوں میں بیٹھنے کی ممانعت فرمائی ہے، لیکن اگر اتنی ہی مجبوری ہے تو پھر چند امور کا خیال رکھنا بے حد ضروری ہے۔واضح رہے کہ راستوں پر بیٹھنے سے مراد دکانوں ،ہوٹلوں ،مساجد کے باہر،گلی کے کونے میں کھڑے ہو نا اور اسی طرح بیچ راستے میں گاڑی روک کر بات چیت کرنا یا کسی کا انتظار کرنا بھی، اس میں شامل ہے ۔
آج کل ہم پریشان ہوتے ہیں کہ ہمارے گھروں میں تو اخلاق کا خیال رکھ کر گفتگو کی جاتی ہے مگر یہ چھوٹے بچے کہاں سے گالیاں اور اخلاق سے گری ہوئی باتیں سیکھ کر آتے ہیں ؟اگر اس کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوگا کہ بچے باہر سے یہ سب کچھ سیکھ کر آتے ہیں ۔ اس سلسلے میں سب سے اہم بات بازار میں موجود دکان داروں کا رویہ ہے۔ اکثر ان کی گفتگو اخلاقیات سے عاری ہوتی ہے۔ وہ اس چیز کا خیال نہیں رکھتے، حتیٰ کہ بازاری گفتگوکا محاورہ عام ہوگیا ہے۔لہٰذا جو شخص بھی راستے میں بیٹھا ہے یا دکانوں کے آگے کرسیاں لگا کر بیٹھا ہے تو اسے چاہیے کہ اپنی گفتگو میں اخلاقیات کا خیال رکھے، تاکہ غیر اخلاقی گفتگو نہ ہو، اور بچوں کی اخلاقیات پر بھی اس کا اثر نہ پڑے۔
اس میں صرف وہ لوگ شامل نہیں ہیں جو باہر راستے پر جارہے ہوں بلکہ اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں، جو کسی کاروباری ادارے میں کام کرتے ہیں یا کسی کام کے سلسلے میں ان کا وہاں جانا ہوتا ہے۔ اور اسی طرح وہ لوگ بھی اس حکم میں شامل ہیں جو کسی مخلوط تعلیمی ادارے میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں، ان کا واسطہ نامحرم سے پڑتا ہے۔
یعنی ’ایمان‘ دراصل اعمال اور معاملات تک کا نام ہے۔ کسی ایک جز کو ’ایمان‘ نہیں کہتے، بلکہ تمام اجزا مل کر ایمان کی تکمیل کرتے ہیں ۔اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ راستے سے کسی تکلیف دہ چیز کو ہٹانا اجر کا کام ہے اور اس میں ضروری نہیں کہ کوئی بہت بڑی چیز آپ دُور کریں، حتیٰ کہ تکلیف دینے والا ایک کانٹا ،کوئی اینٹ کا ٹکڑا بھی اگر کسی نے ہٹایا تو اس پر بھی اس کو اجر ملے گا۔
رسولؐ اللہ نے ارشاد فرمایا:’’ ایک شخص راستے سے گزر رہا تھا کہ اس نے ایک کانٹا دیکھا اور اسے راستے سے ہٹا دیا، پس اس فعل پر اللہ نے اس کی قدر دانی کی اور اسے بخش دیا‘‘۔(بخاری، ۲۴۷۲)
اس شخص کواللہ تعالیٰ نے اس لیے معاف کر دیا کہ اس کے فعل کا فائدہ دوسروں کو پہنچ رہا تھا اور اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اسے جنت میں داخل کردیا ۔ اسی طرح حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں: رسولؐ اللہ نے ارشاد فرمایا: ’’انسان کے ہر جوڑ پر صدقہ ہے‘‘۔پھر فرمایا:اور راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانابھی صدقہ ہے ۔ (بخاری، ۲۹۸۹)
’تکلیف دینے والی‘ وہ تمام چیزیں ہیں، جو وہاں سے گزر نے والوں کے لیے تکلیف دینے کا سبب بنیں۔ان میں بے سبب بیریئر لگانا بھی شامل ہے۔ جو شخص اس طرح کے بیرئیر ہٹانے کی کوشش کرتا ہے تو اس کو اجر ملے گا اور وہ جنت کا مستحق بھی ہوگا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :’’ایک شخص نے راستے سے کانٹا ہٹایا جس نے کبھی نیک کام نہیں کیا تھا ،یا راستے میں [رکاوٹ بننے والا] درخت تھا جسے اس نے کاٹ کراکھاڑ دیا،یا وہ درخت راستے میں گرا ہوا تھا، اس نے ایک طرف کر دیا، پس اس کے اس عمل کی اللہ نے قدر دانی کی اور اسے جنت میں داخل کر دیا‘‘۔(سنن ابوداؤد، ۵۲۴۵)
حدیث کے الفاظ کَفُّ الْاَذَیٰ ایک جامع کلمہ ہے۔ اس میں ہر طرح کی تکلیف دیناشامل ہے، چاہے وہ اپنے عمل کی وجہ سے ہو یا اپنے قول یا اشارے سے، حتیٰ کہ صرف نظروں سے بھی کسی کو تکلیف دینا شامل ہے ۔جو چیزیں راستے میں تکلیف کا باعث بنتی ہیں وہ درج ذیل ہیں :
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ایک شخص راستے سے گزر رہا تھا کہ اس دوران اسے پیاس لگی تو وہاں اس نے ایک کنواں پایا۔ پس وہ اس میں اُترا اور سیراب ہو کر باہر نکلا تو اس نے وہاں ایک کتا دیکھا جو پیاس کی شدت سے مٹی چاٹ رہا تھا۔ اس نے سوچا کہ اسے بھی اتنی ہی پیاس لگی ہے جتنی تھوڑی دیر قبل مجھے لگی تھی۔ پس وہ کنویں میں اترا اور اپنا موزہ پانی سے بھرا اور کتے کو پلا دیا۔ اللہ نے اس کی قدر دانی کی اور اس کی بخشش فرما دی‘‘۔ صحابہ ؓ نے پوچھا: یارسولؐ اللہ! کیا جانوروں میں بھی ہمارے لیے اجر ہے ؟آپؐ نے فرمایا: ہرذی روح جگر والے میں اجر ہے ۔(بخاری، ۲۴۶۶)
امام بخاری ؒ نے اس حدیث کا عنوان بَابٌ فِی الْآبَارِ عَلَی الطُّرُقِ اِذَا لَمْ یَتَأَذَّ بِہَا باندھا ہے،یعنی راستے میں کنواں بنانے کاحکم، جب اس سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے ۔اس کامطلب یہ ہے کہ پانی پلانابڑے اجر وثواب کا کام ہے اور ایک ایسا کام ہے کہ اگر کسی جانور کی بھی پیاس بجھائی جائے تو اللہ تعالیٰ اس کی بھی قدر کرتے ہیں۔ تاہم، اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ اس سے کسی کو تکلیف نہ ہو ۔نہ اس کی وجہ سے راستہ تنگ ہو اور نہ راستے میں کیچڑ اور گندگی وغیرہ پیدا ہو ۔
یہ امر بھی ملحوظِ خاطر رہے کہ اس میں صرف لہو و لعب کی موسیقی منع نہیں ہے بلکہ تیز آواز میں تلاوت یا نعت وغیرہ بھی سننا منع ہے۔ کیوںکہ اس سے بھی لوگ ذہنی طور پر متاثر ہوتے ہیں کہ کوئی کسی کام میں مصروف ہو ،کوئی بیمار ہو یا کوئی نماز پڑھ رہا ہو توان کے ان کاموں میں خلل پیدا ہوتا ہے۔
یہ تمام چیزیں صرف اس وجہ سے ممنوع ہیں کہ اس سے راستہ تنگ ہوجاتا ہے اور لوگوں کو آمدورفت میں تکلیف ہوتی ہے۔غرض یہ کہ راستے میں کسی کوآپ کے کسی بھی عمل سے تکلیف نہ پہنچے یہ شریعت کا مطالبہ ہے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’لوگوں میں بہترین وہ ہے جو انھیں فائدہ پہنچا نے والا ہو‘‘(مسندالشہاب، ۱۲۳۴)۔لوگوں کو آپ کی ذات سے فائدہ پہنچے۔ کسی کو آپ کی وجہ سے نقصان یا پریشانی نہ اٹھانی پڑے۔ اسی بات کو لے کر حضرت ابوذر ؓ نے نبی کریمؐ سے سوال کیا تھا: یارسولؐ اللہ! آپؐ کا کیا خیال ہے اگر میں کوئی بھلائی کا کام کرنے سے عاجز آجا ؤں؟آپؐ نے فرمایا: اپنے شر سے لوگوں کو بچائے رکھو، پس یہ تمھاری طرف سے تمھارے نفس پر صدقہ ہے۔(مسلم، ۱۱۹)
وہ شخص جو لوگوں کے لیے مصیبت کا باعث بنتا ہے اور اس کے شر کی وجہ سے لوگ اس سے ملنا جلنا چھوڑ دیں تو قیامت کے دن اللہ کے نزدیک اس کا سب سے بد ترین درجہ ہو گا ۔ اس میں یہ چیز بھی شامل ہے کہ آپ کے رویے کی وجہ سے لوگ آپ کی گلی سے گزرنا چھوڑ دیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’بے شک اللہ کے نزدیک قیامت کے دن سب سے بد ترین شخص وہ ہوگا جس کے شر سے بچنے کے لیے لوگ اس سے ملنا چھوڑ دیں‘‘۔(سنن ابوداؤد، ۴۷۹۱)
اسلام کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ آپ کے قول وفعل یا کسی بھی عمل سے کسی کو کوئی تکلیف نہ پہنچے، چاہے وہ جسمانی تکلیف ہو یا روحانی،وقتی ہو یا دائمی،بالواسطہ ہو یا بلا واسطہ۔ ہمیشہ آپ کی ذات سے دوسروں کو نفع پہنچے۔
ایک موقعے پرکچھ لوگ مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس کھڑے ہوگئے اور ان سے فرمایا :کیا میں تم میں سے بد ترین اور بہترین شخص کا نام بتاؤں؟ راوی کہتے ہیں کہ یہ سن کر وہ لوگ خاموش رہے۔آپؐ نے تین مرتبہ یہ بات پوچھی تو ایک شخص نے کہا: کیوں نہیں یارسولؐ اللہ! ہم میں سے بد ترین لوگوں میں سے بہترین اشخاص کی نشان دہی فرمائیں۔ آپؐ نے فرمایا:تم میں سے بہترین وہ ہے، جس سے بھلائی کی امید ہو اور جس کے شر سے لوگ محفوظ ہوں ،اور تم میں سے بد ترین وہ ہے جس سے خیر کی ذرا بھی امید نہ ہو اور اس کے شر سے بھی حفاظت نہ ہو۔ (بخاری، ۲۲۶۳)
سلام کرنے کی وجہ سے سامنے والے کوایک طرح کا اطمینان ہو جاتا ہے کہ اس شخص سے مجھے کوئی خطرہ نہیں ہے۔سلام کا جواب دینا بھی راستے کے حقوق میں سے ایک حق ہے ۔نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا :اور جس سے ملاقات ہو اسے سلام کرنا صدقہ ہے (سنن ابوداؤد، ۵۲۴۵)۔ خود قرآنِ مجید میں حکم دیا گیا ہے کہ سلام کا اس سے اچھے طریقے سے یااسی طرح جواب دو:’’اور جب تمھیں سلام کیا جائے تو اس سے احسن انداز میں اس کا جواب دو یا اسی طرح لو ٹا دو۔ بے شک اللہ ہر چیز کا حساب لینے والا ہے‘‘(النساء ۴:۸۶)۔ حدیث میں آتا ہے کہ جو جتنے اچھے طریقے سے سلام کرتا ہے اسے اتنا ہی اجر ملتا ہے ۔
حضرت عمران بن حصین ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے السلام علیکم کہا۔ آپؐ نے اس کے سلام کا جواب دیا اور وہ شخص بیٹھ گیا۔ اس کے بعد آپؐ نے فرمایا: ۱۰۔پھر ایک اور شخص آیا اور اس نے السلام علیکم و رحمۃ اللہ کہا اور بیٹھ گیا۔ آپؐ نے اس کے بھی سلام کا جواب دیا اورفرمایا: ۲۰۔ پھر ایک تیسرا شخص آیا اور اس نے السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کہا اور بیٹھ گیا۔اس کے بھی سلام کا جواب دینے کے بعد آپؐ نے فرمایا:۳۰۔(سنن ابوداؤد، ۵۱۹۵)
راستے میں مختلف طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ کوئی پیدل ہوتا ہے تو کوئی گاڑی میں سوار، کوئی بیٹھا ہوتا ہے تو کوئی گزرنے والا۔ اب اس میں مختلف احکامات ہیں کہ کون کسے سلام کرے۔ اس کے احکامات بھی ہمیں اسلام کی تعلیمات میں ملتے ہیں۔ رسول اکرمؐ نے فرمایا: سوار، پیدل چلنے والے کو سلام کرے، پیدل گزرنے والا بیٹھے ہوئے کو،اورکم لوگ زیادہ لوگوں کو سلام کریں۔ (بخاری، ۶۲۳۳)
آج کل سلام نہ کرنے کا اتنا رواج ہو چلا ہے کہ اگر راہ چلتے کو ئی کسی کو سلام کر ے تو وہ شخص پریشان ہو جا تا ہے کہ مجھے کس نے سلام کر دیا؟ اس لیے سلام کوعام کرنے کی ضرورت ہے۔نبی کریمؐکی حدیث کی رو سے جنت میں لے جانے والے اعمال میں سے ایک اہم عمل آپس میں سلام کوپھیلانابھی ہے۔
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :تم جنت میں ہرگز داخل نہیں ہو سکتے، حتی ٰ کہ ایمان نہ لے آؤ۔اور تم اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک ایک دوسرے سے محبت نہ کرو۔کیا میں تمھیں ایک ایسی چیز کے بارے میں نہ بتاؤںکہ تم اسے اختیار کرو تو ایک دوسرے سے محبت کرنے لگو گے؟آپس میں سلام کو پھیلاؤ۔ (مسلم، ۱۹۴)
خیال رہے کہ کچھ لوگ ہاتھ ملانا درست نہیں سمجھتے۔ ہاتھ ملانا ضروری نہیں ہے، لیکن اگر کوئی شخص سلام کرنے کے ساتھ ہاتھ بھی ملاتا ہے تو کوئی مضائقہ نہیں اور ہاتھ ملانے یا نہ ملانے کے حوالے سے شدت اختیار نہیں کرنی چاہیے۔کیوںکہ یہ کوئی لازمی حکم نہیں ہے کہ اس کو اختیار نہ کرنے سے گناہ ہوگا۔ یہ کوئی ایسا کام بھی نہیں ہے کہ اس کو اختیار کرنے سے بدعت کا ارتکاب ہوگا کیوںکہ حدیث مبارکہ میں اس کے جواز کا پہلو ملتا ہے ۔حضرت براء ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی بھی دو مسلمان آپس میں ملتے ہیں اور مصافحہ کرتے ہیں تو ان کے جدا ہونے سے پہلے ان کی بخشش کر دی جاتی ہے۔(سنن ابوداؤد، ۵۲۱۲)
حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو تم میں سے منکر ہوتے ہوئے دیکھے پس اسے چاہیے کہ اس کو ہاتھ سے روکے۔اگر اس کی استطاعت نہ ہوتو اپنی زبان سے۔اگر اس کی استطاعت نہ ہوتو اپنے دل میں اسے براکہے اور یہ ایمان کا سب سے ادنیٰ درجہ ہے ۔ (مسلم، ۷۸)
اس حدیث کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ فریضہ ہر مسلمان پر لازم ہے۔ یہ صرف حکومتی ذمہ داران کی ذمہ داری نہیں ہے ۔ اسی طرح اس فریضے کی ادایگی کا طریقۂ کار بھی مختلف ہے۔ صرف ایک ہی طریقۂ کار وضع نہیں کیا گیا ۔البتہ فضیلت کی بنیاد پر مختلف درجات ہیں۔ سب سے اعلیٰ درجہ برائی کو ہاتھ سے روکنا ہے ،اس کے بعد زبان سے اس کے خلاف جہاد کرنے کا درجہ ہے، اور آخر میں دل میں اسے بُراکہنے کا درجہ ہے ۔اسی طرح منکر کے حوالے سے ذہن نشین رہے کہ اس سے مراد کسی انسان کی طبیعت جس کی طرف مائل نہیں ہوتی وہ،یا کوئی فقہی اختلافی مسئلہ مراد نہیں ہے بلکہ شریعت کی نگاہ میں جو کام ناجائز ہے وہ مراد ہے۔اگر کوئی راستے میں دیکھتا ہے کہ ایک شخص دوسرے پر زیادتی کر رہا ہے تو وہ کان لپیٹ کر وہاں سے گزر نہ جائے بلکہ زیادتی کرنے والے کو اس سے روکے، یہ راستے کے حقوق میں سے ہے۔
یاد رہے کہ راستوں کو آلودہ کرنے کے حوالے سے یہ چیز بھی شامل ہے کہ راستے میں کوڑا کرکٹ ،گندگی اور اسی طرح کی دیگر اشیاڈالی جائیں۔اسی طرح انتظار گاہ میں تھوکنایا ادارے کے اندرونی راستوں پر تھوکنا یہ چیز بھی گندگی پھیلانے کے زمرے میں آتی ہے ۔
راستوںکوصاف ستھرارکھنے میں انفرادی اور اداراتی سطح پر کام کرنے والے لوگ بھی شامل ہیں،مثلاً: بلدیہ کا کام ہے کہ سڑکوں اور گلیوں کی صفائی رکھے اورنکاسی آب (سیوریج) کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے نالوں کی صفائی کرے۔ الا ماشاء اللہ اگر کہیں یہ نظام ٹھیک ہو تو ہو بحیثیت مجموعی جہاں یہ صفائی کرتے ہیں تو ساری گندگی باہر سڑک پر ڈال دیتے ہیں اور اس کو وہاں سے اٹھانے کا کوئی مؤثر انتظام نہیں ہوتا۔ لہٰذا اداروں کو بھی اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
کچھ لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ اگر ان سے کوئی راستہ پوچھے تو اسے صحیح راستہ نہیں بتلاتے۔ یہ انتہائی نا مناسب عمل ہے ۔ایک حدیث میں تو اللہ کے رسولؐ نے راستہ بتلانے کو صدقات میں شمار کیا ہے۔حضرت ابو ہریرہ ؓ سے مروی ہے، رسولؐ اللہ نے ارشاد فرمایا: راستہ بتلانا بھی صدقہ ہے ۔ (بخاری، ۲۸۹۱)
ہمیں دیکھنا چاہیے اور اپنا جائزہ لینا چاہیے کہ ہم کہاں تک راستے کے حقوق ادا کرتے ہیں۔ اگر راستے میں جاتے ہوئے کوئی ان چھوٹی چھوٹی باتوں کا خیال رکھ کر اس پر عمل کرے، تو یقینا اس کی اپنی زندگی بھی خوش گوار ہوگی اور وہ لوگ بھی خوش و خرم ہوں گے جن کواس شخص کی نیکی کی وجہ سے پریشانی سے نجات مل جائے گی۔ اس طرح ایک دوسرے کا خیال رکھنے کا جذبہ پیدا ہوگااور معاشرے میں سکون و اطمینان اورمحبت و اخوت کی فضا قائم ہوگی ۔
ترکی مسلم دنیا کا وہ ملک ہے، جس کی حدود بیک وقت یورپ اور ایشیا دونوں براعظموں میں پھیلی ہوئی ہیں۔ ترکی کی آبادی تقریباً ساڑھے سات کروڑ ہے۔ ترکی میں جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی ۲۰۰۲ء سے اب تک برسرِ اقتدار ہے۔ طیب اردوگان پہلے وزیراعظم تھے، اب صدر ہیں۔ اس وقت احمد داؤد اوغلو ملک کے وزیراعظم ہیں۔ اس پارٹی کو مغربی قوتوں اور ان کے ہم نوا عناصر کی طرف سے ’اسلامسٹ‘ (اسلام پسند) کہا جاتا ہے۔ ان کے نزدیک ترکی میں ’اسلامسٹ‘ پارٹی کا برسرِ اقتدار آنا خطرناک ہے۔ اسی وجہ سے امریکا اور مغربی و سیکولر قوتیں اس حکومت سے ناخوش ہیں۔ جسٹس پارٹی کا اعلان ہے کہ وہ ترکی کے سیکولر دستور کو جمہوری طریقے سے تبدیل کرے گی۔ اس کے لیے دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہے۔ جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کی قیادت پُرامید ہے کہ وہ اس منزل کو سر کر لے گی۔ اس وقت پارلیمان میں ان کے ۳۱۷؍ارکان ہیں، جب کہ دستور میں ترمیم کے لیے ۳۷۶؍ ارکان کی ضرورت ہے۔
یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ ترکی میں سیکولر عناصر ہوں یا نام نہاد مذہبی طبقہ، دونوں جسٹس پارٹی کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑے ہوئے ہیں۔ جب جون۲۰۱۵ء کے انتخابات میں جسٹس پارٹی اکثریت حاصل نہ کرسکی تو انگریزی روزنامہ زمان اور حریت جو دونوں فتح اللہ گولن کی تنظیم کے تحت نکلتے ہیں، خوب پروپیگنڈا کرنے لگے۔ ایک نعرہ انھوں نے متعارف کروایا ’’۵۲فی صد ووٹ حاصل کرنے والے صدر کو سزاے موت‘‘۔ یہ نعرہ صدر محمدمرسی کی سزاے موت کے تناظر میں گھڑا گیا۔ واضح رہے کہ طیب اردوگان نے بھی پارلیمانی انتخابات سے قبل صدارتی انتخابات میں ۵۲ فی صد ووٹ حاصل کرکے الیکشن جیتا تھا۔ اسی طرح نیویارک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ نے بھی اردوگان کے خلاف کافی زہر اُگلا۔ نیویارک ٹائمز نے ۲۲مئی ۲۰۱۵ء کو اداریے کا عنوان رکھا: "Dark Clouds Over Turkey"(ترکی سیاہ بادلوں کی زد میں) جب کہ واشنگٹن پوسٹ نے ایک اداریے کا عنوان دیا "The Sultan Emperor Erdogan Rule" (اردوگان کا دورِ حکومت، سلطانی شہنشاہیت )۔
جون۲۰۱۵ء میں انتخابات ہوئے تو حکمران جسٹس پارٹی کو ۴۰ فی صد اور ۵۵۰ کے ایوان میں صرف۲۵۸ نشستیں ملیں۔ دوسری پارٹیوں کے ساتھ مل کر حکومت سازی کی کاوشیں ہوئیں مگر بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔ آخرکار دستوری تقاضے کے تحت صدرِ مملکت نے نئے انتخابات کا اعلان کردیا۔ لہٰذا نومبر۲۰۱۵ء کے انتخابات میں جسٹس پارٹی نے ۳۱۷ نشستوں پر کامیابی حاصل کرکے واضح اکثریت ثابت کر دی۔ ووٹوں کا تناسب ۵ئ۴۹فی صد ہوگیا۔ صدرِ مملکت کے اس فیصلے پر بہت تنقید کی گئی اور ان پر آمریت اور بادشاہت کی پھبتیاں بھی کسی گئیں۔ ترک دستور کے مطابق یہ کوئی انہونی بات نہیں تھی۔ صدر کے اختیارات میں شامل ہے کہ ایسے تعطل کی صورت میں، جب کہ بڑی پارٹی دوسری پارٹیوں کے اشتراک سے اکثریت حاصل نہ کر پائے تو وہ نئے انتخابات کا اعلان کرسکتے ہیں یا دوسرے نمبر پر آنے والی پارٹی کو حکومت سازی کا موقع دے سکتے ہیں۔ اس سے قبل بھی یہ روایت ترکی میں موجود رہی ہے۔ چنانچہ ایسے چھے مواقع (۱۹۵۷ئ، ۱۹۸۷ئ، ۱۹۹۱ئ، ۱۹۹۵ئ، ۱۹۹۹ء اور ۲۰۰۲ء ) ہیں جب صدر نے یہ حق استعمال کیا اور انتخاب قبل از وقت کروائے گئے۔
ماضی میں ترک فوج نے بار بار بغاوت کرکے منتخب حکومتوں کو برطرف کیا اور پاکستان کی طرح ملک میں مارشل لا لگا دیا۔ سیاسی قیادت کو بغیر کسی جرم کے پھانسی بھی لگایا گیا۔ ۱۹۶۱ء میں وزیراعظم عدنان مندریس کو شقی القلب جنرل گُرسل نے تختۂ دار پر لٹکا دیا ۔ طیب اردوگان نے برسرِاقتدار آکر بڑی حکمت کے ساتھ فوج کی اس باغیانہ روش کو کنٹرول کیا ہے۔ اس کے نتیجے میں جمہوریت کی جڑیں مضبوط اور فوجی مداخلت کے امکانات کم ہوگئے ہیں۔ موجودہ ترک حکومت کو امریکا اور اس کے حواری اچھی نظر سے نہیں دیکھتے، حالانکہ ترکی ناٹو کا رکن بھی ہے۔ اس کی وجوہات بالکل واضح ہیں کہ ترک حکومت پوری دنیا میں امت مسلمہ کے مسائل پر جرأت مندانہ مؤقف اختیار کرتی اور ظلم کے خلاف کھل کر کھڑی ہوجاتی ہے۔ غزہ کی حمایت میں جانے والا فلوٹیلا اور اس کے نتیجے میں اسرائیل کی غنڈا گردی اب تک لوگوں کو یاد ہے۔ اہلِ غزہ اپنے ترک بھائیوں کے اس جرأت مندانہ اقدام اور قربانیوں پر آج بھی ان کی تحسین کرتے ہیں۔
۲۰مارچ ۲۰۰۳ء کو امریکا نے عراق پر حملہ کیا تو ترکی سے اپنی فوج کی نقل و حرکت کے لیے زمینی راستہ مانگا، جس سے ترک حکومت نے انکار کر دیا۔ امریکا نے ۱۰؍ ارب ڈالر امداد کی بھی پیش کش کی، جو مصلحت پسندوں کے نزدیک اس زمانے میں ترکی کی بیمار معیشت کے لیے نسخۂ شفا تھا۔ جسٹس پارٹی کی غیرت مند قیادت نے اس پیش کش کو ٹھکرا دیا۔ امریکا نے ہوائی راستہ مانگا تو حکومت نے اس سے بھی معذرت کردی۔ کوئی مسلمان ملک آج کے دور میں ایسی جرأت مندانہ مثال مشکل ہی سے قائم کرسکا ہے۔
رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق امریکی دفتر خارجہ کے ترجمان جان کربی (John Kirby) نے ایک بیان داغا ہے، جس میں ترکی میں علیحدگی پسند کردش ورکرز پارٹی اور ترک حکومت کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا ہے۔ یہ پارٹی علیحدگی پسند اور دہشت گرد سمجھی جاتی ہے۔ ترکی میں داعش کی طرح یہ بھی آئے دن دھماکے کرتی رہتی ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ وہ ترکی کے جنوب مشرقی علاقے کو علیحدہ کرکے اپنی حکومت قائم کرے گی۔ ۱۸فروری کو ۲۴گھنٹوں میں ترکی کی سرزمین پر دہشت گردی کے چار خطرناک واقعات ہوئے۔ انقرہ میں ہونے والے دھماکے میں ۲۸؍افراد موقع پر جاں بحق ہوگئے۔ اس کی ذمہ داری کرد علیحدگی پسندوں نے قبول کرلی۔ امریکی ترجمان کی اس ناروا مداخلت کے جواب میں ترک وزارتِ خارجہ کے ترجمان تانجو بالجیس (Tanju Bilgic)نے سخت ردِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ امریکا کی یہ مداخلت ناروا ہے اور انقرہ امریکی حکومت کی طرف سے علیحدگی پسند اور دہشت گرد تنظیم کو منتخب دستوری حکومت کے برابر درجہ دینے پر سراپا احتجاج ہے۔ (ڈان ۱۶فروری۲۰۱۶ئ)۔یہ عجیب سوے اتفاق ہے کہ روس اور امریکا دونوں بیک وقت ترکی کے خلاف اپنے اپنے انداز میں سازشیں کررہے ہیں۔ بہرحال یہ تو حقیقت ہے کہ الکفر ملۃ واحدۃ ۔
شام میں بشار الاسد کی نصیری اور آمرانہ حکومت نے اہلِ شام کو جس بدترین ظلم کا شکار بنایا ہے، اس پر بھی ترکی نے اسلامی اخوت اور غیرتِ مومنانہ کا مظاہرہ کیا ہے۔ مہاجرین کو اپنے ہاں پناہ دینا اور ظالم کا ہاتھ روکنے کی عملی کاوشیں ترک حکومت کا بہت بڑا اور انسان دوستی پر مبنی مظاہرہ ہے۔ ترکی کی یہ جہودِ مسعودہ روس کو ایک آنکھ نہیں بھاتیں۔ روس شام پر مسلط ظالم حکمران کا پشت پناہ ہے اور اپنی عسکری قوت بشار مخالف تحریک کو کچلنے کے لیے بڑی بے دردی سے استعمال کررہا ہے۔ اسی سلسلے میں ایک روسی طیارہ ۲۴ نومبر۲۰۱۵ء کو ترکی کی حدود میں غیر قانونی طور پر داخل ہوا۔ ترک فوج نے اپنا حقِ دفاع استعمال کرتے ہوئے یہ طیارہ مار گرایا۔ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے ترکی کو سخت دھمکی دی اور ترک حکومت سے اس ’گستاخی‘ پر فی الفور معذرت اور معافی مانگنے کے لیے دباؤ ڈالا۔ ترک حکومت نے دیگر مسلمان ملکوں کی روش سے ہٹ کر پوری جرأت کے ساتھ جواب دیا کہ انھوں نے کوئی جارحیت نہیں کی، جس پر معافی مانگیں۔ اپنی فضائی حدود کی حفاظت ان کا بنیادی حق ہے اور روس نے ان حدود کو پامال کرکے خود ایسی حرکت کی ہے، جس پر اسے معذرت کرنی چاہیے۔
روس کا صدر پیوٹن بہت رعونت پسند حکمران ہے۔ اس نے چند دنوں کی خاموشی کے بعد ایک بار پھر دھمکی آمیز لہجہ اختیار کیا ہے۔ اس کے جواب میں ترک وزیراعظم احمد داؤد اوغلو نے ۱۵فروری کو یوکرائن کے دارالحکومت کیو(Kiev)میں پریس کانفرنس کے دوران بہت جرأت مندی کے ساتھ کہا ہے کہ: ’’روس ،شام میں بالکل کھلی دہشت گردی کر رہا ہے۔ وہ نہ تو داعش کے ٹھکانوں پر حملہ کرتا ہے اور نہ اسے اس کی فکر ہی ہے۔ اس کے حملے عام آبادیوں پر شام کے پُرامن شہریوں کی ہلاکت کا باعث ہیں۔ عام شہری بے چارے ایک جانب روسی اور نصیری بمباری کا شکار ہیں اور دوسری جانب دہشت گرد بھی انھی کا قتلِ عام کر رہے ہیں۔ ان حالات کے پیشِ نظر ہم نے شام سے ملحق اپنی سرحدوں کو مظلوموں کی مدد اور سہولت کے لیے کھول دیا ہے۔ ہر چند کہ مہاجرین کا بوجھ ہمارے لیے بڑا مسئلہ ہے، لیکن انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ہم نے یہ اقدام کیا ہے۔ روس کو اس علاقے میں فوجی چڑھائی اور قتل و غارت گری کا کوئی حق نہیں۔ ترکی مظلوم شامی عوام کی حمایت جاری رکھے گا، جو ظالم بشارالاسد سے نجات کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں‘‘۔ (ڈان ۱۶فروری ۲۰۱۶ئ)
ترکی کے معروضی حالات پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ اس مسلمان ملک میں سیکولر طبقے کی قوت ختم نہیں ہوئی، البتہ اس کا زور پہلے کے مقابلے میں کافی ٹوٹا ہے۔ اس صورت حال سے مغرب اور کفر کی تمام طاقتیں پریشان ہیں۔ ترکی کے خلاف ہر طرح کی سازشیں زوروں پر ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ ترکی کی معیشت تباہ و برباد ہوجائے گی۔ اسی طرح ترکی کے امن و امان کو تباہ کرنے کے لیے بھی کئی عناصر غیر مرئی قوتوں کی اشیرباد اور پشت پناہی سے ترکی میں ، بالخصوص بڑے شہروں کے اندر دھماکے کر رہے ہیں۔ کردوں کا مسئلہ بلاشبہہ کافی پرانا ہے، مگر کرد پارٹی انتخابات میں حصہ لے کر پارلیمان میں نمایندگی حاصل کرچکی ہے۔پھر بھی علیحدگی پسند عناصر ترکی کی حدود میں موجود ہیں۔ ان کو پڑوس سے بھی شہ ملتی ہے اور عالمی دہشت گرد امریکا بھی اس کوشش میں ہے کہ موجودہ حکومت کو غیر مستحکم کیا جائے۔ جسٹس پارٹی کے برسرِ اقتدار آنے سے پہلے اس صدی کے آغاز میں ترک کرنسی (لیرا) بالکل بے وقعت ہوگئی تھی۔ عام آدمی کے لیے روٹی کا حصول بھی جوے شیر لانے کے مترادف تھا۔ کوڑیوں سے ہلکی کرنسی کی وجہ سے ترکی کی معیشت دنیا کے کمزور ترین ممالک میں شمار ہونے لگی تھی۔ موجودہ حکومت کا یہ عظیم کارنامہ ہے کہ اس نے اپنی معیشت کو سنبھالا دیا۔ غیرضروری اخراجات ختم کیے، کرپشن اور بدعنوانی کے ناسور پر قابو پایا، منصوبہ بندی ٹھیک انداز میں کی اور امورِ خارجہ ، بیرونی تجارت اور ملکی صنعت کو نئے سرے سے منظم کیا۔ اس کے نتیجے میں ایک لیرا آدھے امریکی ڈالر کے برابر ہوگیا۔ بعد میں پھر ترکی کے خلاف جب گھیرا تنگ کیا گیا تو عالمی تجزیہ نگاروں نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ اب لیرا پھر پہلی پوزیشن پر چلا جائے گا۔
ترکی کے خلاف کی جانے والی سازشوں کے نتیجے میں یقینا ترکی کی کرنسی نیچے تو آئی ہے، مگر اب دوبارہ سنبھل گئی ہے اور اس میں مسلسل بہتری آرہی ہے۔ پاکستانی کرنسی کے مقابلے میں ایک لیرے کی قیمت ۶۸ئ۳۵روپے ہے۔ ترکی کی فی کس سالانہ آمدنی ۹۱ئ۸۸۷۱ امریکی ڈالر ہے۔ صرف موازنے کے لیے عرض ہے کہ پاکستان کی فی کس سالانہ آمدنی ۶ئ۱۳۱۶؍ امریکی ڈالر ہے۔ گویا اب بھی ترکی کی معیشت اپنے خلاف ہونے والی سازشوں کا کامیابی سے مقابلہ کر رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حکمران اپنی ذمہ داریاں بطریق احسن ادا کر رہے ہیں۔ شام ہو یا فلسطین، ترک حکمران بالکل یکسوئی کے ساتھ مظلوموں کے حق میں آواز اٹھا رہے ہیں۔ مصر میں جنرل سیسی کی ناجائز حکومت کو اگر کسی نے آئینہ دکھایا ہے تو وہ صرف ترکی ہے۔ اس وجہ سے سعودی عرب جو شاہ عبداللہ کے زمانے میں جنرل سیسی کا پرزور حامی تھا، ترکی سے ناراض ہوگیا۔ شاہ سلمان کے برسر اقتدار آنے کے بعد حالات کچھ تبدیل ہوئے ہیں اور اس وقت ترکی سعودی عرب کے ساتھ مل کر فوجی مشقیں کر رہا ہے۔ آج بھی ترکی نے مصر کے بارے میں اپنا مؤقف تبدیل نہیں کیا۔ وہ کھلم کھلا صدر مرسی کو مصر کا قانونی سربراہ تسلیم کرتا ہے۔ اسی طرح بنگلہ دیش میں مظالم کے خلاف سفارتی سطح پر چند مسلمان ممالک نے جو آواز اٹھائی ہے، اس میں سب سے توانا آواز ترکی ہی کی ہے۔ ظاہر ہے کہ ان حالات میں اسرائیل، امریکا اور ان کے حواری ترکی کو خطرے کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ ملک کے اندر ایک مضبوط مذہبی تحریک ہے جس کی جڑیں ترکی کی حدود کے علاوہ دیگر ممالک میں بھی اپنے تعلیمی نیٹ ورک کی وجہ سے خاصی مضبوط ہیں۔ یہ خود کو غیر سیاسی کہتے ہیں، مگر سیاست میں ان کا عمل دخل خاصا ہے۔ کتنا المیہ ہے کہ ان کا وزن اُس قوت کے پلڑے میں پڑنے کے بجاے جسے سارا عالم کفر ’اسلامسٹ‘ ہونے کے طعنے دیتا ہے، یہ مذہبی طبقہ لا دینوں کی حمایت کرتا ہے، تاکہ جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی اقتدار سے باہر ہوجائے۔
ان حالات میں ترک حکومت بڑی حکمت اور جرأت کے ساتھ اندرونی اور بیرونی ہر محاذ پر مثبت پیش رفت کر رہی ہے۔ عرب بہار کے بعد جس طرح عرب ملکوں میں ابھرنے والی اسلامی تحریکوں کی کامیابی شیطانی قوتوں کے ہاتھوں ناکامی میں بدلی گئی، ترکی کے بارے میں بھی اسلام دشمن یہی امیدیں لگائے بیٹھے ہیں۔ دیکھیے اللہ کو کیا منظور ہوتا ہے۔ آج کا ترکی اس ترکی سے بالکل مختلف ہے، جو خلافت کے آخری دنوں میں یورپ کا مردِ بیمار کہلاتا تھا۔ اس دور میں خلافت کی بساط لپیٹ دی گئی۔ خلافت کے خاتمے اور سیکولر دستور کے نفاذ سے ترک قوم کا امتیازی مقام زوال پذیر ہوا۔ اس کے باوجود ترکوں کا عالمِ اسلام میں ایک بھرم اور تاریخ میں ان کے یادگار کارناموں کی وجہ سے اُمت ِ مسلمہ میں عزت قائم رہی۔ اب عالمِ کفر پھر سازشوں میں مصروف ہے اور مختلف عناصر کو مختلف لبادوں میں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے۔ اس میں نام نہاد مذہبیت کا رنگ بھی ہے اور سیکولرازم، لبرل ازم اور قومیت پرستی کی چھاپ بھی۔ تاہم، پچھلے طویل عرصے کے دوران پُلوں کے نیچے سے کافی پانی بہہ چکا ہے، اب دوبارہ اسی ڈرامے کو دہرانے کی کوشش ہو رہی ہے، جو ان شاء اللہ ناکام ہوگی۔ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے: ’’وہ اپنی خفیہ تدبیریں کرنے لگے، جواب میں اللہ نے بھی اپنی خفیہ تدبیر کی اور ایسی تدبیروں میں اللہ سب سے بڑھ کر ہے‘‘ (اٰل عمرٰن۳:۵۴)۔ ان شاء اللہ ترکی میں پھر کسی مصطفی کمال کے آنے کا امکان بہت کم ہے۔
زیرنظر مضمون میں جہاں تحریکِ اسلامی کے محترم اہلِ قلم کی کاوشوں اور خدمات کا اعتراف ہے، وہیں اس معرکۂ علم و فضل میں خود احتسابی اور خود توجہی کا دل آویز حوالہ بھی موجود ہے۔ ادارہ
تحریک ِ اسلامی کے لٹریچر کا ایک بڑا حصہ ’علمِ کلام‘ یعنی اسلامی عقائد و اصولوں کے حق میں عقلی دلائل پر مبنی ہے۔ یہ مولانا مودودی کے بڑے کارناموں میں سے ہے کہ ایک بڑے نازک موڑ پر انھوں نے اُمت کے جدید تعلیم یافتہ اور ذہین طبقے کو فکری ارتداد سے بچایا اور ان کے ذہن و قلب میں اسلام پر یقین و اعتماد کو بحال کیا اور اس کے لیے بڑی گہری اور پاے دار بنیادیں فراہم کیں۔
اسلامی عقائد و ایمانیات پر پختہ یقین پیدا کرنے میں مولانا مودودی کی شہرئہ آفاق کتابیں: دینیات ، خطبات اور اسلامی عبادات پر تحقیقی نظر شامل ہیں۔ا ن کتابوں میں مولانا نے عام فہم اور سادہ طریقے سے اسلام کے بنیادی عقائد کو عقلی دلائل سے ثابت کیا ہے۔ اسی طرح اسلامی نظامِ زندگی اور اس کے بنیادی تصورات کے بعض مقالات اور تفہیم القرآن کے بہت سے مباحث میں انھی موضوعات کو اور زیادہ عالمانہ طریقے سے پیش کیا گیا ہے۔
آج، اسلامی دعوت کی بڑی علمی ضرورت یہ ہے کہ علم و فضل کے اس سلسلے کو مزید آگے بڑھایا جائے۔ اسلامی علمِ کلام کو ترقی دی جائے اور اسلامی عقائد کو فلسفے کی اعلیٰ ترین سطح پر ثابت کیا جائے۔
مولانا مودودی کی کتابیں ایک عام تعلیم یافتہ فرد کو اللہ کے وجود پر قائل کرنے کے لیے کافی ہیں۔ ان کتابوں میں اُن دلائل سے بھی استفادہ کیا گیا ہے، جو عہدوسطیٰ کے متکلمین، بالخصوص امام غزالی [۱۰۵۸ئ-۱۱۱۱ئ]نے یونانی فلسفے کے توڑ کے لیے استعمال کیے تھے۔ مولانا مودودی نے ان کلاسیکل دلائل کو اپنے مخصوص طرزِ بیان اور جدید مثالوں سے نیا آہنگ اور پُرتاثیر خوب صورتی بخشی ہے اور جدید ذہن کے لیے انھیں قابلِ قبول بنا دیا ہے۔ بلاشبہہ مولانا مودودی کی یہ کتابیں ہمارے عہد کی محسن کتابیں ہیں۔ ان مباحث نے نجانے کتنے قلوب سے تشکیک کا غبار صاف کیا ہے اور بلامبالغہ لاکھوں دلوں کو ہدایت ِ الٰہی کی شمع سے روشن کیا ہے۔
جیسا کہ عرض کیا ہے ، یہ دلائل عام پڑھے لکھے لوگوں کے لیے تو کافی ہیں، لیکن جنھوں نے مغربی فلسفوں کا گہرا مطالعہ کیا ہے اور ان کا کم و بیش اثر قبول کیا ہے، ان کے لیے کام باقی ہے۔ اٹھارھویں اور انیسویں صدی میں ملحد مغربی فلسفیوں نے انھی دلائل کی کاٹ کی ہے۔ اللہ کے وجود کے اثبات میں مولانا مودودی نے گھڑی اور مشینوں کی جو مثال دی ہے، پہلے پہل یہ مثال برطانوی عیسائی فلسفی ولیم پیلے [۱۷۴۳ئ-۱۸۰۵ئ] نے پیش کی تھی۔ گذشتہ ۲۰۰ برسوں میں یہ مثال مختلف اہلِ علم کے ہاں مختلف حوالوں سے بہ کثرت زیربحث آچکی ہے۔
ڈیوڈ ہیوم [۱۷۱۱ئ-۱۷۷۶ئ]سے لے کر رچرڈ ڈاکنز [پ:۱۹۶۱ئ] تک درجنوں فلسفیوں نے اس پر جرح کی ہے اور رچرڈ ڈاکنز نے ایک مستقل کتاب صرف اس ایک دلیل کے رد میں لکھی ہے۔ برٹرنڈرسل [۱۸۷۲ئ-۱۹۷۰ئ] کے دلائل اچھے اچھے اہلِ ایمان کو متشکک کر دیتے ہیں۔ ہمارے زمانے میں رچرڈ ڈاکنز، کرسٹوفر ہیحنز [۱۹۴۹ئ-۲۰۱۱ئ] اور وکٹر جے استینجر [۱۹۳۵ئ-۲۰۱۴ئ] جیسے دسیوں بلندپایہ فلسفی ہیں، جنھوں نے الحاد کے حق میں دلائل کی وسیع عمارتیں کھڑی کی ہیں۔ یہ سب فلسفے، علمی دنیا میں الحاد، خدا بے زاری اور انتہاپسندانہ سیکولرزم کے لیے مضبوط بنیادیں فراہم کرتے ہیں۔
واقعہ یہ ہے کہ ان فلسفوں کے مقابلے کے لیے اور جدید اسلوبِ نگارش میں ہمارا موجودہ اسلامی تحریری سرمایہ کسی صورت کافی نہیں ہے۔ میں ایسے کئی صالح، دین دار نوجوانوں سے واقف ہوں جو عمانویل کانٹ [۱۷۲۴ئ-۱۸۰۴ئ] اور برٹرنڈرسل کو پڑھ کر کئی کئی سال تشکیک اور سخت پریشانی کے عالم میں رہے۔ اس پس منظر میں یہ اسلامی دعوت کی اہم ترین علمی ضرورتوں میں سے ہے کہ عالمانہ اور فلسفیانہ سطح پر الحاد کی کاٹ کی جائے اور بجاطور پر اللہ تعالیٰ کے وجود کو ثابت کیا جائے۔ یہ کام عہد وسطیٰ میں امام غزالی نے کیا تھا، جنھوں نے یونانی فلسفے کی بنیادیں ہلا دی تھیں۔
مسیحی دنیا میں اس محاذ پر بڑا قابلِ قدر کام ہوا ہے۔ اگر اس سے استفادہ کرتے ہوئے بھی کچھ کتابیں لکھ دی جاتیں تو مفید کام ہوتا۔ اس طرح کی کچھ کوششیں ہوئی بھی ہیں۔ مثال کے طور پر ترکی کے دانش ور، ہارون یحییٰ [پ:۱۹۵۶ئ] نے سائنسی دلائل کا سہارا لیتے ہوئے بہت قیمتی لٹریچر پیش کیا ہے۔ لیکن یہ دلائل بھی عام لوگوں کے لیے ہیں۔ ملحد فلاسفہ کی گتھیوں کو فلسفیانہ سطح پر حل کرنا ان کا مقصد بھی نہیں ہے۔ وحیدالدین خان صاحب [پ:۱۹۲۵ئ] نے بھی ایک زمانے میں اس ذیل میں اچھی کوششیں شروع کی تھیں۔ اگر وہ اس کام کو جاری رکھتے تو شاید بڑا اہم کام ہوتا۔ لیکن بعدازاں خودملامتی رنگ اپنانے کے نتیجے میں اس موضوع پر ان کا موجودہ لٹریچر بہت سطحی نوعیت کا ہے۔ اس سے اہلِ ایمان کے ایمان میں کہیں اطمینان اور کہیں تزلزل تو پیدا ہوسکتا ہے، لیکن کسی ملحد فلسفی کو قائل کرنے کا کام نہیں ہوسکتا۔
مولانا عبدالباری ندوی [۱۸۸۶ئ-۱۹۷۶ئ]کی کتب: برکلے اور اس کا فلسفہ، مذہب اور عقلیات، مذہب اور سائنس میں ان موضوعات پر گراں قدر مباحث ہیں۔ خاص طور پر کوانٹم میکانکس اور ’نظریۂ نسبیت‘ (Relativity)کے بعد کی فلسفیانہ صورتِ حال کے پیش نظر بعض اچھے نکات زیربحث آئے ہیں۔ لیکن ایک تو یہ بحث کافی نہیں ہے اور دوسرے کافی قدیم ہے۔
امریکی مسیحی فلسفی ولیم لین گریگ [پ: ۲۳؍اگست ۱۹۴۹ئ] نے اسلامی علمِ کلام ہی کو مسیحی نقطۂ نظر اور سائنس و فلسفے کی جدید ترقیوں کی روشنی میں کافی ترقی دی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے وجود کے اثبات میں ان کے کام کو بڑ ی اہمیت حاصل ہے اور ان کی ۳۰ سے زائد کتب، خاص طور پر ۱۹۷۹ء میں ان کی کتاب The Kalam Cosmological Argument(KCA) اللہ کے وجود کے اثبات پر بڑی گہری فلسفیانہ کتاب ہے اور ملحد فلسفیوں کے بیش تر دلائل کا پُرزور رد ہے۔
اسی طرح برطانوی فلسفی اینٹونی فلیو [۱۹۲۳ئ-۲۰۱۰ئ]زندگی بھر ملحد رہے اور الحاد کے حق میں اور اللہ کے وجود کے رد میں تین درجن سے زیادہ کتابیں لکھیں۔ یاد رہے انھیں ’دنیا کا بدنام ترین ملحد‘ کہا جاتا تھا، لیکن مرنے سے دو تین سال قبل انھوں نے اپنا ذہن بدلا اور مرتے مرتے، اللہ تعالیٰ کے وجود کے اثبات میں کتاب لکھ گئے۔ ان کی کتاب There is a God اس موضوع پر بہت گہری فلسفیانہ دستاویز ہے۔ عمانویل کانٹ اور ڈیوڈ ہیوم سے لے کر عصرحاضر کے معروف ملحدین تک کی ہردلیل کا مسکت جواب اس کتاب میں موجود ہے۔ یہ کتاب چونکہ ایک ایسے فرد کی لکھی ہوئی ہے، جو عصرِحاضر میں الحاد کا بڑا قدآور امام مانا جاتا تھا، اس لیے اس کی اہمیت دوچند ہوگئی ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ ولیم گریگ اور اینٹونی فلیو کے ’تصورِ خدا‘ میں اور اسلام کے ’تصورِالٰہ‘ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اس لیے ان کتابوں سے استفادہ محدود پیمانے پر ہی ہوسکتا ہے۔ اس لیے ابتدا میں کم از کم یہ ہونا چاہیے کہ فلسفے کے کچھ ذہین طالب علم، ان عیسائی فلسفیوں کے افکار سے استفادہ کرتے ہوئے اسلام کے ’تصورِ الٰہ‘ کے حق میں کچھ گہری کتابیں لکھیں اور دھیرے دھیرے یہ کاوشیں جدید اسلامی فلسفے کی ایک مستقل شاخ بن جائیں۔
تھیوری ، تصورات کے منظم ڈھانچے کا نام ہے۔ ایک ذہین مفکر جب واقعات اور احوال پر غور کرتا ہے، تو ان کی توجیہات کا ایک ایسا منظم خاکہ اور ایک ایسی آفاقی اسکیم تیار کرتا ہے، جس کی بنیاد پر اس طرح کے بے شمار واقعات اور احوال کا تجزیہ کیا جاسکتا ہے۔ مستقبل سے متعلق پیش گوئی کی جاسکتی ہے اور آیندہ چند در چند واقعات کے متعلق کوئی راے قائم کی جاسکتی ہے۔
اکثر تھیوری میں تجریدی (abstract)تصورات پیش کیے جاتے ہیں اور انھیں مخصوص (اور اکثر منفرد اور نئی) اصطلاحات کے ذریعے بیان کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر مولانا مودودی نے خلافت راشدہ اور بنواُمیہ کی تاریخ اور اس زمانے میں پیش آئے واقعات کی بنیاد پر خلافت سے ملوکیت کی طرف سفر کی ایک پوری تھیوری تعمیر کی اور اس تھیوری کو خلافت، ملوکیت وغیرہ اصطلاحات کے استعمال سے واضح کیا۔ یا تحریکِ آزادیِ ہند کے زمانے کے احوال و واقعات کا تجزیہ کرتے ہوئے اسلامی ریاست و سیاست کی تھیوری تعمیر کی۔ ابن خلدون [۱۳۳۲ئ-۱۴۰۶ئ] نے ’عصبیہ‘ (Social Cohesion) کی تھیوری پیش کی، یا امام غزالی نے اخلاق کی تھیوری پیش کی تھی اور ’شہوت’، ’حکمت‘ اور’ غضب‘ کی اصطلاحات سے اس تھیوری کی وضاحت کی تھی۔
تھیوری کی تعمیر ایک بہت مشکل کام ہوتا ہے۔ تھیوری بن جائے تو تفصیلات کا تعین بھی آسان ہوجاتا ہے اور اثبات بھی۔ کارل مارکس کا ’ورلڈ ویو‘ [تصورِجہاں] ہم کو معلوم ہے۔ اسی ’تصورِجہاں‘ کی بنیاد پر اس نے تاریخ میں ’جدلیاتی مادیت‘ (Dialectical Materialism) کی تھیوری پیش کی۔ اب ایک مارکسی مفکر کے لیے یہ ممکن ہوگیا کہ وہ اس تھیوری کی بنیاد پر ہرتاریخی واقعے کی توجیہ کرے اور مستقبل کی پیش گوئی کرے۔ یوں سماجیات میں اس نے ’معاشی جبریت‘ (Economic Determinism) کی تھیوری پیش کی۔ نومارکسی مفکرین نے اس میں ترمیم کی اور فرانسیسی مفکر لوئی التھیوز [۱۹۱۸ئ-۱۹۹۰ئ] نے ’زائد جبریت‘ (Overdeterminism) اور ’نسبتی خودمختاری‘ (Relative Autonomy) جیسی نئی سماجی تھیوریاں تشکیل دیں۔
مولانا مودودی نے اسلامی نظامِ اجتماعیات میں سیاسی سطح پر تھیوری کی تعمیر کا مکمل کام کیا ہے۔ حاکمیت و شارعیت ِالٰہ، خلافت ِ جمہور، عالم گیر انسانی اخوت، حکومت ِالٰہیہ ، اقامت ِدین وغیرہ اس تھیوری کے کچھ مرکزی عنوانات ہیں۔ دیگر محاذوں پر بھی ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مولانا مودودی کے ذہن میں تھیوریوں کا مکمل خاکہ موجود تھا اور ان کی تصنیفات میں تعلیم، معیشت، تہذیب اور تاریخ کی تھیوریوں کے سلسلے میں واضح اشارات ملتے ہیں۔
تاہم، آج اسلامی فکر کے سامنے ایک بڑا اہم چیلنج یہ ہے کہ theory construction [تعمیر ژرف اندیشی] کے اس کام کو آگے بڑھایا جائے۔ اسلامی معاشیات کے باب میں مولانا مودودی، ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی، پروفیسر خورشیداحمد، ڈاکٹر محمدعمر چھاپرا، ڈاکٹر انس زرقا، محمداکرم خان، ابوالحسن بنی صدر، باقرالصدر وغیرہ کی خدمات قابلِ ذکر ہیں۔ لیکن اسلامی معاشیات کو ابھی بہت سے حل طلب مسائل اور چیلنج درپیش ہیں، جس کے لیے نئی نسل کو آگے بڑھنا ہے۔تعلیم میں فلسطینی نژاد اسکالر ڈاکٹر اسماعیل راجی الفاروقی شہید [۱۹۲۱ئ-۱۹۸۶ئ] اور دیگر بے شمار دانش وروں اور اداروں کی گراں قدر کوششوں اور سیّدمحمد نقیب العطاس [پ:۱۹۳۱ئ] کی چشم کشا تحریروں کے باوجود یہ امرواقعہ ہے کہ منظم تھیوری کی تشکیل کا کام ابھی باقی ہے۔ غالباً ابھی تک اس سطح کا کام نہیں ہے کہ ہم اسے Educational Essentialism [تدریسی ماہیت گری]، یا Criticial Pedagogy [تنقیدی فنِ تدریس] یا ۱۹۱۱ء سے رُوبہ عمل ’مونٹی سوری تدریسی طریقے‘ یا ۱۹۱۹ء سے متعارف ’والڈ روف تدریسی عمل‘ وغیرہ کے مقابلے میں پیش کرسکیں۔ تاریخ اور تہذیب میں بھی یہ کام نامکمل ہے۔ نفسیات میں سوڈان سے عالی مرتبت ڈاکٹر مالک بدری [پ:۱۹۳۲ئ] کی شان دار کوششوں کے باوجود، سگمنڈ فرائڈ [۱۸۵۶ئ-۱۹۳۹ئ] کے گمراہ کن نظریات کا متبادل پیش کیا جانا باقی ہے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ معاصر اسلامی لٹریچر میں ’سماج‘ یا ’معاشرہ‘ کی کوئی مبسوط تھیوری تشکیل نہیں پاسکی۔ حالیہ دنوں میں امریکی ایرانی مصنف سیّد حسین نصر [پ:۱۹۳۳ئ]، ترک مصنف فتح اللہ گولن [پ:۱۹۴۱ئ] اور عرب نژاد طارق رمضان [پ:۱۹۶۲ئ] نے اور ماضی قریب میں ایران سے استاذ مرتضیٰ مطہری [۱۹۱۹ئ-۱۹۷۹ئ] اور ڈاکٹر علی شریعتی [۱۹۳۳ئ-۱۹۷۹ئ] نے اس ذیل میں کچھ اچھی تھیوریاں ضرور پیش کی ہیں، لیکن اسلامی سماجی تشکیلِ نو کے لیے غالباً یہ نظریات تحریکِ اسلامی کے فکر کی اطمینان بخش نمایندگی نہیں کرتے۔
ظاہر ہے کہ تھیوری اور خاص طور پر مولانا مودودی، ابن خلدون، امام غزالی اور کارل مارکس وغیرہ کی متذکرہ طرز کی گرینڈ تھیوریوں (grand theories) کی تشکیل ایک عبقری کام ہے اور عبقری مفکرین روز روز نہیں پیدا ہوتے۔ لیکن اس طرح کے بڑے مفکرین کے دیے ہوئے اشارات کی بنیاد پر اجتماعی کوششوں اور اجتماعی دانش کے ذریعے اُس کام کی تکمیل بآسانی ہوسکتی ہے، جو انھوں نے چھوڑا ہے۔ ’نومارکسیت‘ میں ’فرینکفرٹ اسکول‘، ’نیولبرلزم‘ میں ’شکاگو اسکول‘ وغیرہ، درحقیقت افراد کے کارنامے نہیں ہیں بلکہ اجتماعی اداروں کے کارنامے ہیں، جن کی تھیوریوں نے دنیا پر بڑے گہرے اثرات ڈالے ہیں۔ خود ہمارے حلقوں میں اسلامی معاشیات میں جو کام ہوا ہے وہ زیادہ تر اجتماعی سطح پر ادارہ جاتی کوششوں کے ذریعے ہوا ہے۔ اس لیے کوشش کی جائے تو اسلامی فکر میں بھی یہ کام ہوسکتا ہے۔
اسی طرح ہم دنیا کو بہت شرح و بسط کے ساتھ یہ نہیں بتا سکے کہ ہمارے خوابوں کی دنیا کیسی ہوگی؟ مراد یہ ہے کہ ہمارے بہت سے خواب ابھی بھی بہت غیرواضح ہیں۔ اس عدم وضاحت کی وجہ سے مزاحم اور متحارب گروہوں میں سے کوئی یہ سمجھتا ہے کہ: ’’شاید ہم دنیا کو محض ٹائم مشین میں بٹھاکر ۱۴۰۰برس پہلے کے تمدن میں لے جانا چاہتے ہیں‘‘۔ اور کسی کا خیال یہ ہے کہ: ’’ہماری منزل غالباً ساری دنیا کو اسامہ بن لادن اور طالبان کا افغانستان بنادینا چاہیے‘‘۔ کوئی ہمارے حق میں بہت کشادہ دل واقع ہوا تو یہ سمجھتا ہے کہ: ’’ہم آیت اللہ خمینی والا ایران چاہتے ہیں‘‘۔ حالانکہ ہمارے بارے میں یہ تینوں مفروضے ہرگز درست نہیں ہیں، اور منفی سوچ کے مظہر ہیں۔
گویا کہ نظریاتی تحریکوں کی ایک بڑی ضرورت یہ ہوتی ہے کہ وہ واضح خواب دیکھیں اور دنیا کو وہ واضح خواب دکھائیں۔ خواب دکھانے کا یہ کام بہت وسیع الاطراف اور ہمہ تخصصی (multi- disciplinary) معرکہ ہے۔ ۲۰ویں صدی کے نصف اوّل میں کمیونسٹوں نے یہ کام بہت مؤثر طریقے سے انجام دیا تھا۔ اس خواب کی پیش کاری کے لیے فکروفلسفے سے لے کر لوک گیتوں اور تھیٹر اور ناچ کی محفلوں تک کوئی ذریعہ انھوں نے نہیں چھوڑا تھا۔ فلسفہ، تاریخ، سماجیات، سیاسیات، معاشیات، نفسیات، ادبیات، حتیٰ کہ صنفیات وغیرہ میں ان کی اپنی مستقل تھیوریاں تھیں۔ پالیسیوں اور مسائل پر ان کے واضح موقف تھے اور اس کی تائید میں بھرپور لٹریچر تھا، فلمیں تھیں، ناول، افسانے، شاعری تھی اور ادب عالیہ و فنون لطیفہ کے ذریعے عام ناخواندہ اور خواندہ خواتین و حضرات کو بھی انھوں نے اپنی مطلوب دنیا کی جھلک دکھا دی تھی۔ اُردو شاعری ہی میں دیکھ لیجیے، فیض احمد فیض، اسرار الحق مجاز، ساحر لدھیانوی وغیرہ نے کس خوب صورتی سے ’پرولتاری آمریت‘ [نام نہاد جمہوری] پر مبنی دنیا کے مناظر دکھائے تھے:
مجبور بڑھاپا، جب سونی راہوں کی دھول نہ پھانکے گا
معصوم لڑکپن، جب گندی گلیوں میں بھیک نہ مانگے گا
حق مانگنے والوں کو جس دن ، سولی نہ دکھائی جائے گی
وہ صبح کبھی تو آئے گی
سنسار کے سارے محنت کش کھیتوں سے نکلیں گے
بے گھر ، بے دَر ، بے بس انساں ، تاریک بلوں سے نکلیں گے
دنیا امن اور خوش حالی کے پھولوں سے سجائی جائے گی
وہ صبح ہمیں سے آئے گی
تاہم، ہمیں کمیونسٹوں کی طرح ایسی سستی نعرے بازی کے بجاے متوازن اور مؤثر انداز سے: عدل، سچائی اور آخرت میں جواب دہی کے احساس کے زیرسایہ، اس میدان میں بہت زور و شور سے پیش رفت کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے تھیوریوں کی تعمیر کا کام ہو۔ ان کی روشنی میں پالیسیوں پر اُٹھنے والے سوالوں کا جواب (response) ہو اور متبادل آئیڈیاز کی تخلیق اور پیش کش کا کام ہو۔ ادب عالیہ کو بڑے پیمانے پر ہمارے خوابوں کی دنیا دکھانے کے لیے ادبی لطافتوں کی بھرپور رعایت اور تفہیم کے ساتھ استعمال کیا جائے۔ اس غرض کے لیے فلمیں بنیں۔ فائن آرٹ کا استعمال ہو۔ یہاں تک کہ لوگ ہمارے خوابوں کو اور ہمارے خوابوں کی دنیا کو سمجھ جائیں اور ان خوابوں میں عملی زندگی کو ڈھالنے کے لیے اُمنگ محسوس کریں۔ یہ کام عمومی طور پر عالمی سطح پر بھی ہونا چاہیے اور ہرملک کے مخصوص احوال کے پس منظر میں بھی۔
جائزے کا ایک زاویہ یہ بھی ہونا چاہیے کہ مستقبل قریب میں ہمارے اور باقی دنیا کے درمیان اصل بحث طلب موضوعات کیا ہیں اور کیا ہوسکتے ہیں؟ ان موضوعات پر بھرپور تیاری کی ضرورت ہے۔ یہ جائزہ ملک کی سطح پر بھی ہونا چاہیے اور عالمی سطح پر بھی۔
اب دنیا کا منظرنامہ بڑی حد تک بدلا ہوا ہے۔ سیکولرزم کے حق میں پہلے جیسا جوش و خروش باقی نہیں ہے۔ فرانس جیسے ملک کا سابق صدر فرانس نکولاس سرکوزی [پ:۱۹۵۵ئ] جیسا متشدد سیکولرسٹ بھی برسرِعام یہ کہہ رہا ہے کہ: ’’مذہب کی بنیاد کے بغیر وجود میں آنے والی اخلاقیات ناپاے دار ہیں اور سوسائٹی کے لیے خطرناک بھی‘‘۔ دوسری طرف مذہب سے بغاوت پر مبنی ، مادر پدر آزاد اجتماعی زندگی کا ۳۰۰ سالہ طویل تجربہ، اپنی تمام حشر سامانیوں کے ساتھ دنیا کے سامنے موجود ہے۔ ان تین چار سو برسوں میں خود مذہب کے صحیح و غلط اور اجتماعی زندگی پر اس کے اثرات کا ریکارڈ بھی موجود ہے۔ ان تجربات کی بنیاد پر بہت سے سیکولر دانش ور بھی مذہب اور ریاست کے درمیان تعلق کی ازسرِنوتعین کی ضرورت محسوس کر رہے ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ اس بحث کو تحریکی دانش ور نئے زاویے دیں، اور یہ ثابت کریں کہ اکیسویں صدی کے باشعور انسان کو مذہب کے تئیں خوف و احتیاط کے اس رویے کی قطعاً ضرورت نہیں ہے، جو یورپ کی نشاتِ ثانیہ کے زمانے میں اختیار کیا گیا تھا، اور یہ کہ اجتماعی زندگی میں مذہب کا تعمیری اور مثبت کردار انسانیت کے بہت سے مسائل کو حل کرسکتا ہے اور اس کا عملی ماڈل صرف اسلام پیش کرسکتا ہے۔ اس سلسلے کی جو اُلجھنیں جدید سیکولر ذہن محسوس کرتا ہے، انھیں اور زیادہ تفصیل اور دلائل کے ساتھ رفع کرنے کی ضرورت ہے، اور اس بات کی ضرورت ہے کہ ان اُلجھنوں کا قابلِ عمل حل پیش کیا جائے۔
اسی سے ملتی جلتی ایک بحث، مختلف مذاہب کے ساتھ تعلق اور تکثیری معاشروں میں رویوں کی بحث بہت اہمیت کی حامل ہے۔ عام ذہن کسی ایک مذہب کی حقانیت پر اصرار اور باقی مذاہب کے ردّ و ابطال کو پسند نہیں کرتا۔ اپنے مذہبی عقیدے کو واحد سچائی سمجھنا مذہبی جنون (fanaticism) سمجھا جاتا ہے اور یہاں تکثیریت (Pluralism) کے اُس فلسفے کو قبولِ عام حاصل ہے، جس میں سماج یا معاشرے کو شربت کے ایک ایسے جار سے تشبیہہ دی جاتی ہے، جس میں مختلف مشروبات مل کر اور اپنا منفرد رنگ و مزا کھو دیتے ہیں اور پھر ایک نیا رنگ اور نیا مزا پیدا کرتے ہیں۔ اب نئے عالمی حالات میں اور خاص طور پر پوسٹ ماڈرن فلسفوں کے پس منظر میں یہ ذہن دنیا میں قبولِ عام اختیار کرتا جا رہا ہے۔دنیا کا یہ رویہ مذہب کے علاوہ کسی اور علمی محاذ پر نہیں ہے (پوسٹ ماڈرن فلسفوں کی استثنا کے ساتھ)۔
فلسفہ، مختلف سماجی علوم، حتیٰ کہ نظریاتی سائنس میں بھی مختلف متضاد تھیوریوں پر زوردار بحثیں جاری ہیں۔ لوگ اپنے موقف ہی کو صحیح سمجھتے ہیں اور متضاد موقف کو غلط سمجھتے ہیں، اور اسے تنقید و جرح کا موضوع بناتے ہیں۔ البتہ اس ’غلط‘ موقف کو اختیار کرنے کے اپنے مخالفین کے حق کو بھی تسلیم کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اگر یہ رویہ راست فکری سے اپنایا جائے تو اسی مجادلے سے سچائی نکھر کر سامنے آسکتی ہے، اور دیگر لوگوں کو اپنے موقف کے تعین میں مدد مل سکتی ہے۔
اسلام، دین و مذہب کے معاملے میں بھی اسی معقول علمی رویے کا قائل ہے۔اسے بجاطور پر اپنی سچائی پہ اصرار ہے اور وہ اپنے ماننے والوں سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اس کی حقانیت کو باقی دنیا پر واضح کریں۔ اسلام چاہتا ہے کہ جو لوگ اس سچائی کے قائل نہیں ہیں، ان کے ساتھ مکالمہ و مجادلہ ہوتا رہے۔ لیکن اگر کوئی ماننا ہی نہیں چاہتا تو اس دنیا میں، اسلام اسے نہ ماننے کا اختیار بھی دیتا ہے۔ دنیا کو دلائل کے ساتھ یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ مذہب سمیت تمام مختلف فیہ معاملات میں یہی معقول اور مطلوب رویہ ہے۔
تاہم، مخالف موقف کو بھی صحیح سمجھنے کا مطالبہ اور اس پر اصرار ایک غیرفطری اور نامعقول مطالبہ ہے جو بدترین نفاق کو جنم دیتا ہے۔ مذہب کے معاملے میں بحث و مجادلے سے گریز اور سبھی مذاہب کو بیک وقت صحیح سمجھنے پر اصرار کی روش کو ہمیں علمی سطح پر تنقید کا موضوع بنانا چاہیے۔ ڈاکٹر عبدالحق انصاری، مولانا فاروق خان اور مولانا سلطان احمد اصلاحی صاحبان نے اس تصور پر جرح کی ہے، لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ دیگر مذہبی فلسفیوں کے دلائل کا جائزہ لے کر اور زیادہ تفصیل اور گہرائی کے ساتھ اس مسئلے کا جائزہ لیا جائے۔
اس تھیوری کی وکالت میں سماجی سائنس دان ، ماہرین نفسیات، ماہرین حیاتیات، ماہرین طب و علم الابدان، ماہرین قانون اور علماے اخلاقیات و فلسفہ وغیرہ پر مشتمل اہلِ علم کا بڑا گروہ پوری دنیا میں کام کر رہا ہے۔ یہ بات اب تیزی سے مشرقی ممالک کے اشرافیہ میں بھی قبولِ عام اختیار کرتی جارہی ہے۔ مثال کے طور پر ہندستان میں ہم جنسی کے خلاف باقاعدہ قانون موجود ہونے کے باوجود، عدالتیں اس عمل کو نہ صرف یہ کہ جرم نہیں سمجھتیں، بلکہ اُلٹا اس عمل کی ہلکی سے ہلکی مخالفت یا قانون کے نفاذ کو ’سنگین اور خلافِ انسانیت جرم‘ سمجھتی ہیں۔ عیسائی مذہبی قیادت اس مسئلے پر تقریباً سر نگوں ہوچکی ہے اور مغربی دنیا میں مسلمان اہلِ علم کی ایک قابلِ لحاظ تعداد، انتہائی مدافعانہ اور معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرنے پر مجبور نظر آتی ہے۔ جان لینا چاہیے کہ آج یہ مغرب میں کھلے عام اور مشرق میں صرف بالائی سطح پر زیربحث اور زیرعمل رویہ دکھائی دے رہا ہے، تو ممکنہ پیش بندی نہ ہونے کی صورت میں، یہ آنے والے برسوں میں مسلم معاشروں کا ایک عمومی مسئلہ بن جائے گا۔
ان حالات میں یہ موضوع ایک وسیع اور ’ہمہ تخصصی منصوبے‘ (multi disciplinary project) کا تقاضا کرتا ہے۔ اس بات کو بطور ایک ’مفروضہ‘ (hypothesis) لینا چاہیے کہ ’’غیر محرمات کے درمیان نکاح کے ذریعے مرد و عورت کے درمیان جنسی تعلق کے سوا تمام جنسی رویے اور رجحانات غیرفطری اور انسانی جسم، معاشرے اور آخرکار تہذیب کے لیے نقصان دہ ہیں‘‘۔ میڈیکل سائنس، نفسیات اور میڈیکل نفسیات (Psychiatry)، سماجی سائنس وغیرہ کے مسلمہ اصولوں کی روشنی میں خالص علمی طریقے سے اس مفروضے اور موقف کو ثابت کیا جانا چاہیے۔
اس نظام کے متبادل کے طور پر کئی نظریات دنیا میں بہت شدومد کے ساتھ پیش ہورہے ہیں۔ ان میں سرفہرست ’مارکسیت‘ کی نئی تعبیر ’نومارکسیت‘ (Neo-Marxism) ہے۔ ’مارکسیت‘ کے جن عناصر پر ہم اب تک تنقید کرتے آئے ہیں، ان میں سے بہت سارے عناصر سے نومارکسی مفکرین نے اعلان برا ء ت کرلیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اب اس بدلے ہوئے رُوپ سے ہمارا کیا تعامل ہو؟ ان میں اور ہم میں مشترک اُمور کیا ہیں اور کیا اُمور مختلف فیہ ہیں؟ان پر کام کی ضرورت ہے۔
ایک اور متبادل جو پوری دنیا میں بہت پُرزور طریقے سے پیش ہو رہا ہے، وہ لبرٹیرین ازم (Libertarianism: شخصی آزاد خیالی) کی مختلف شاخیں اور مختلف نظریاتی دھارے ہیں۔ انارکزم، نیوانارکزم، میوچلزم وغیرہ جیسے خیالات نے اسلامی دنیا سمیت پوری دنیا میں پڑھے لکھے لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو متاثر کر رکھا ہے۔ عالمی سطح پر نوم چومسکی [پ:۱۹۲۸ئ]جیسا دانش ور ان افکار کا پُرجوش مبلغ ہے۔ اسی طرح ارون دھتی راے [پ:۱۹۶۱ئ] جیسے بااثر مصنّفین اس فکری دھارے سے وابستہ ہیں۔ ان سیاسی و سماجی نظریات کے علاوہ، سماجی سطح پر ’اکولوجی موومنٹ‘ (جس نے کئی سیاسی و سماجی تنظیموں، حتیٰ کہ یورپ کی ’ارتھ لبریشن فرنٹ‘ جیسی دہشت گرد تنظیم کو بھی جنم دیا ہے)، طرزِ زندگی کی سطح پر ویجین موومنٹ، تعلیم کی سطح پر ’ڈی اسکولنگ‘ اور ’ان اسکولنگ‘ کی تحریک، ’طرف داریِ نسواں‘ (Feminism)کے مختلف روپ بشمول ’اسلامی طرف داریِ نسواں‘ (Islamic Feminism) وغیرہ دسیوں فلسفے ہیں، جن کا کوئی نوٹس نہیں لیا گیا ہے۔ ہوسکتا ہے ان میں سے ہرایک کا نوٹس لینے کی ضرورت نہ ہو، لیکن جو خیالات انسانی آبادی کے قابلِ لحاظ حصے کو متاثر کر رہے ہوں اور خود مسلم نوجوان بھی جن کا اثر قبول کر رہے ہوں، ان پر خاموشی ممکن نہیں ہے۔
ان حالات میں مستحکم خاندان اور خاندانی سکون، آنے والے زمانوں میں اسلام کی بہت بڑی قوت اور اسلام کی کشش کا ایک اہم سبب ثابت ہوگا، کیونکہ اس بکھری ہوئی صورتِ حال کو سنبھالنے کے لیے ویسا طاقت ور بیانیہ اور نظام دوسروں کے ہاں ناپید ہے۔ چنانچہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم خاندان کے زبردست وکیل اور عالمی سطح پر تحفظ خاندان کے طاقت ور نگہبان کے طور پر سامنے آئیں۔ خاندان کی اہمیت پر مؤثر کتابیں لکھی جائیں اور اس بات کو مستحکم سائنسی دلائل سے ثابت کیا جائے کہ خاندان، انسانی معاشرے کی بنیادی ضرورت ہے اور یہ کہ خاندان کا بس ایک ہی مطلب ہے، اور وہ یہ ہے کہ مرد و عورت کے روایتی طور پر مخصوص صنفی اور سماجی کرداروں کو تسلیم کیا جائے اور اس بنیاد پر قانونی طور پر تسلیم شدہ مرد شوہر اور عورت بیوی مل کر اپنے بچوں کی پرورش کریں۔ نام نہاد غیرروایتی خاندان سے، خاندان کی تشکیل اور انسانی تہذیب کی تعمیر کا کوئی مقصد حاصل نہیں ہوسکتا، اور خاندان کی بقا کا کوئی راستہ اسلامی اخلاقیات کے سوا ممکن نہیں ہے۔
جائزے کا ایک زاویہ یہ بھی ہونا چاہیے کہ نئے حالات میں مسلم اُمت اور خصوصاً مسلم نوجوان کو کس قسم کی رہنمائی کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں چند گوشوں کی طرف اشارہ کرنا چاہتا ہوں:
ایک اہم موضوع خود مسلم خاندان کی تفصیلات کا موضوع ہے۔ نئے حالات میں مسلم خاندان کے خدوخال کے تعین کے لیے اسلامی فقہ اور اسلامی سماجیات ، دونوں سطحوں پر اجتہادی کام کی ضرورت ہے۔ عورت کا سماجی کردار کیا ہو؟ خواتین کی تعلیمی اور کیریر کی ترجیحات کیا ہوں؟ مسلم خاندان میں میاں بیوی اور بچوں کے علاوہ دیگر رشتہ داروں سے تعلق کی کیا نوعیت ہو؟ کیا خاندان نیوکلیائی ہو یا جائنٹ، یا دونوں کے امتزاج سے کوئی نئی صورت بنے؟ حتیٰ کہ مسلم خاندان میں ٹی وی اور انٹرنیٹ کو کیا مقام ملے؟ اس کے حدود و قیود کیا ہوں؟ (کہ میڈیا ہماری انفرادی اور خانگی زندگی میں بہت بڑا حصے دار بن کر انسانی زندگی کے بہترین اوقات کا مالک بن چکا ہے)۔ اس طرح کے دسیوں موضوعات ہیں، جن پر یا تو سرے سے کام نہیں ہوا ہے، یا صرف روایتی اور چلتی باتوں کی تکرار ہو رہی ہے اور نئے حالات کے لحاظ سے اجتہادی کوششیں نہیں ہوئی ہیں، یا تفصیلی وضاحت کا فقدان ہے، یا پھر محدود دائرے میں صرف فقہی بحث ہے۔ مسائل کے سماجیاتی (sociological) اور گہرے علمی تجزیے کا فقدان تو بہرحال پایا جاتا ہے۔
عورت کے رول اور کردار پر مولانا مودودی کی کتاب پردہ اور مولانا سیّد جلال الدین عمری کی کتابیں مسلمان عورت کے حقوق اور ان پر اعتراضات کا جائزہ، اور عورت اسلامی معاشرہ میں بڑی اہم تصنیفات ہیں۔ لیکن ان تصنیفات کے مخاطب زیادہ تر اسلام کے معترضین ہیں۔ دوسری بات یہ کہ ان کتابوں میں اکیسویں صدی کی مسلمان خاتون کے اُس فعال حرکیاتی، سماجی و تحریکی کردار کی نہ جھلک ملتی ہے اور نہ اس کی توجیہہ ہے، جو عملاً ہمیں ساری مسلم دنیا میں اور جماعت اسلامی کے بشمول دنیا بھر کی اسلامی تحریکات میں نظر آرہا ہے۔
اسی طرح جناب جلال الدین عمری کی کتاب اسلام کا عائلی نظام اسلامی خاندان کے متعدد پہلوئوں پر قیمتی رہنمائی فراہم کرتی ہے۔ جسٹس ملک غلام علی نے ماہ نامہ ترجمان القرآن لاہور میں اور مولانا رضی الاسلام ندوی نے زندگی نو دہلی میں، ان اُمور سے متعلق بعض سوالات کے فقہی نقطۂ نظر سے جو جواب دیے ہیں، وہ بھی بہت اہم ہیں۔ اسلامی فقہ اکیڈمی دہلی کے سیمی نار میں پیش کردہ مقالات اور تجاویز بھی نہایت گراں قدر ہیں، لیکن یہ سب باتیں بہت اختصار کے ساتھ کہی گئی ہیں۔ ان متفرق باتوں میں جدید دور میں اسلامی خاندان سے متعلق کچھ اشارات ضرور ملتے ہیں، مگر ایک مفصل اور مربوط خاکہ اور تھیوری نہیں ملتی ہے۔ ضرورت ہے کہ ان اشارات پر کام آگے بڑھے اور جدید حالات کے تناظر میں اسلامی خاندان کی تفصیلی ہیئت نکھر کر سامنے آئے۔
اسلامی خاندان سے متعلق ہی ایک اہم مسئلہ مسلم خواتین کے بعض مسائل اور ان مسائل کے حل کی راہ میں، مختلف مقامات پر رواجی، قبائلی اور روایتی پرسنل لا کی جانب سے درپیش رکاوٹوں کا مسئلہ ہے، جن پر ہمارے ملک کے نام نہاد ’روشن خیال‘ طبقے مبالغے کے ساتھ متوجہ کرتے رہے ہیں۔ ان میں ایک اہم مسئلہ شوہر کی جانب سے بیوی پر ناروا ظلم اور اس ظلم کی صورت میں نجات کی کسی راہ کا نہ ہونا ہے۔ مولانا مودودی نے اس سلسلے میں حقوق الزوجین میں بہت جرأت مندانہ موقف اختیار کیا تھا۔ لیکن اس موقف پر کام آگے نہیں بڑھ سکا اور بات وہیں رُک کر رہ گئی ہے۔
اگرچہ ہمارے کئی زعما باوجود بے شمار مطالعات اور اعداد و شمار کے، اس مسئلے کے وجود سے ہی انکار کرتے ہیں، لیکن ہم سب کے عمومی مشاہدات بھی اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ مسلم سوسائٹی میں یہ مسئلہ موجود ہے۔ اگر اس میں کوئی شک ہے، تو ہم خود سائنٹی فک مطالعہ اور سروے کرا سکتے ہیں۔ بہرحال، اس مسئلے کو نظرانداز نہیں کرسکتے، اور نہ اس مسئلے کا حل ثالثی عدالتوں سے ممکن ہے۔ نہ ان عدالتوں کی تعداد کافی ہے اور نہ پیشہ ورانہ تربیت کے بغیر قاضی ان مسائل کو حل کرسکتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس طرح کے مسائل کا قابلِ عمل حل ، شریعت کی حدود میں رہتے ہوئے، لیکن اجتہادی بصیرت اور جرأت کے ساتھ تلاش کیا جائے اور اسلامی تحریک اس عمل میں قائدانہ کردار ادا کرے۔ ایسا کرتے ہوئے دارالعلوموں کے مراکز فتویٰ کے جبر سے آزاد مگر قرآن و سنت کی روح کے زیرسایہ، روحِ عصر کو جرأت سے جواب اور حل بھی پیش کریں۔
اسلامی خاندان کے تعلق سے مولانا سلطان احمد اصلاحی (علی گڑھ) نے بعض اہم نظریات پیش کیے تھے۔ خاص طور پر ’مشترکہ خاندان‘ اور ’پردیس کی زندگی‘ سے متعلق ان کے خیالات اہمیت کے حامل تھے، لیکن ان خیالات پر بحث و مباحثہ کے بعد کسی حتمی نتیجے پر پہنچنے کی ضرورت ہے۔ ’خاندانی تشدد‘ کے مسئلے پر مولانا رضی الاسلام ندوی کی کاوش قابلِ ذکر ہے۔
۱- انتظامیات ، کاروباری مطالعات اور شخصیت کو بہتر بنانے کی کتابیں، ۲- بچوں کی معلوماتی کتابیں، ۳- خانہ داری، تربیت اطفال ، غذا اور صحت سے متعلق خواتین کی کتابیں۔
ہمارے یہاں پاپولر لٹریچر اور خاص طور پر ان تین اقسام (categories) پر کماحقہ کام نہیں ہوسکا۔ ان تینوں اقسام میں یہ زبردست صلاحیت موجود ہے کہ اقدار، اصول اور تصورات کو عوامی سطح پر ان کے ذریعے مقبول بنایا جاسکتا ہے۔ خواتین کے لٹریچر میں ایک زمانے میں ماہنامہ بتول لاہور نے اچھا کام کیا تھا۔ محترمہ حمیدہ بیگم، پروفیسر بنت الاسلام اور نیربانو نے اس ضمن میں شان دار کام کیا تھا۔ لیکن ایک عرصے سے یہ محاذخالی ہوتا جا رہا ہے اور سطحی افسانوی ادب کے علَم بردار رسالوں اور ان کے اشاعتی اداروں نے اس محاذ پر قبضہ جما رکھا ہے۔ ہمارے حلقہ ہاے خواتین کو بھی اس مسئلے پر توجہ دینی چاہیے اور تحریک کو بحیثیت مجموعی اس پر متوجہ ہونا چاہیے۔
اسی طرح بچوں کے لٹریچر کی تیاری بہت پتّا ماری کا کام ہے۔ اب بچوں کا ذوق بہت بلند ہوچکا ہے۔ وہ صرف کہانیوں کی کتابیں نہیں پڑھتے، بلکہ چھے سات سال کے بچے بھی اُونچی معلوماتی کتابیں پڑھنے لگے ہیں۔ ان کی کتابوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ کاغذ کی قسم اور طباعت کے معیار کے اعتبار سے بھی اعلیٰ درجے کی ہوں اور معنوی خصوصیات کے اعتبار سے بھی مثالی۔ یاد رہے کہ مارکیٹ میں بچوں کے لیے کتابوں کی بڑی وسیع دنیا موجود ہے۔ مغربی تہذیب کے ساتھ اب اس محاذ پر عیسائی اور ہندو ادارے بھی خاصے سرگرم ہیں۔ کتابوں کی دکانوں پر ان کی پُرکشش اور دیدہ زیب کتابیں بچوں کو للچاتی ہیں۔ ہندستان میں ثانی اثنین خان کے ادارہ گڈورڈ پبلی کیشنز نے اور عالمی سطح پر عبدالملک مجاہد [پ:۱۹۵۱ئ] کی سربراہی میں سائونڈ وژن، شکاگو نے اچھی ابتدا کی، لیکن یہ ازحد ضروری ہے کہ تحریکاتِ اسلامی بھی اس پر بھرپور توجہ دیں۔گذشتہ صدی کے پانچویں عشرے کے دوران مائل خیرآبادی، بنت الاسلام اور طالب الہاشمی وغیرہ نے اُردو میں، اور پھر ساتویں عشرے میں خرم مراد [۱۹۳۲ئ-۱۹۹۶ئ] نے انگریزی میں بچوں کے لیے لٹریچر تیار کرنے کی خاطر ’دی اسلامک فائونڈیشن‘، برطانیہ میں بامعنی قدم اُٹھایا تھا، مگر بعدازاں کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوسکی۔ یاد رہے، بچوں کے لٹریچر میں تازگی کا احساس اور عصری حوالوں کا وجود ازحد ضروری ہے۔
مسابقت کی دوڑ، شہری زندگی کے تنائو اور روحانی پیاس نے آج دنیا بھر میں اُس لٹریچر کو بہت مقبول بنایا ہے، جسے ذاتی بہتری (self improvement) کا لٹریچر کہا جاتا ہے۔ دل نشیں زبان اور پُرکشش پیراے میں زندگی کی تنظیم کے اصول اور نظریات بیان کیے جاتے ہیں اور قصوں، تمثیلوں، لطائف وغیرہ کے ذریعے مشکل فلسفوں کو نہایت آسان کر دیا جاتا ہے۔ یہ کتابیں تھکے ماندے ذہنوں کے لیے تفریح بھی فراہم کرتی ہیں اور ان کی مصروف اور تنائو سے پُر زندگیوں کی اُلجھنوں کو دُور کرنے کا کام کرتی ہیں۔
اسلامی علمی تاریخ میں سعدی شیرازی [۱۲۱۰ئ-۱۲۹۲ئ]اور مولانا جلال الدین رومی [۱۲۰۷ئ- ۱۲۷۳ئ] نے اس فن کو انتہائی بلندی تک پہنچایا تھا۔ ماضی قریب میں گرو اوشور جنیش [۱۹۳۱ئ- ۱۹۹۰ئ] نے اسی طرزِ بیان کے ذریعے اپنے خیالات کو ساری دنیا میں پھیلا دیا۔ آج ساری دنیا میں اس طرح کا لٹریچر مقبول ترین لٹریچر بن چکا ہے اور ہوائی جہازوں سے لے کر پارکوں اور دفتروں تک، ہر جگہ لوگ اس طرح کی کتابیں پڑھتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اسلامی حلقوں میں عربی زبان میں اس طرح کی کتابوں کا رجحان شروع ہوا ہے، لیکن اُردو اور انگریزی میں اس پر توجہ ہونا ابھی بھی باقی ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ ایمان اور دعوت، انصاف اور تہذیب، شرفِ انسانی کو پروان چڑھانے اور قرآن و سنت سے دنیا کو جوڑنے کے لیے یہ اُمور مرکزیت رکھنے کے باوجود، غالباً ثانوی درجے ہی میں کہیں دُور دکھائی دیتے ہیں، یا پھر سرے سے نگاہوں سے اوجھل۔
کیا اس صورت میں غالب اور حاکم تہذیب و تمدن کا جواب دینا ممکن ہے؟
برعظیم جنوبی ایشیا کی سیاسی تاریخ میں ۹فروری ۲۰۱۶ء ایک یادگار دن کی حیثیت سے یاد رکھا جائے گا۔ اس روز بھارت کی ممتاز ترین دانش گاہ جواہر لال نہرو یونی ورسٹی، دہلی میں نوجوان نسل نے پرانی اور خوار سیاست گری کو مسترد کرنے کا اعلان کیا۔ یاد رہے، اس یونی ورسٹی میں کمیونسٹ پارٹی کی حلیف آل انڈیا اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن (AISA)، اسٹوڈنٹس یونین کے انتخابات میں ۲۰۰۵ء سے اب تک مسلسل کامیابی حاصل کر رہی ہے۔ اس کے ووٹروں میں ہندو انتہاپسندی اور مریضانہ برہمنی قوم پرستی کو مسترد کرنے والوں میں مسلم، ہندو، سکھ اور عیسائی طلبہ و طالبات کی اکثریت شامل ہے۔
۹فروری کو جواہر لال نہرو یونی ورسٹی کی اسٹوڈنٹس یونین کے پلیٹ فارم سے مظلوم کشمیری مسلمان، افضل گرو کا یومِ شہادت منایا گیا۔ جس میں برملا کہا گیا کہ:’’ افضل گرو دہشت گرد نہیں تھا، اسے عدالتی اور ریاستی سطح پر قتل کیا گیا تھا‘‘۔ جب یہ بات ہو رہی تھی تو ہزاروں طلبہ و طالبات فلک شگاف نعروں میں ظلم کے خاتمے کے ترانے گا رہے تھے۔ اسی دوران میں حکمران بی جے پی کے حامیوں نے ان پر حملہ کر دیا اور اس تصادم میں متعدد طالب علم زخمی ہوگئے۔
اسٹوڈنٹس یونین کے صدر کنہیاکمار نے ظلم اور دہشت، معاشی استحصال اور زبان بندی کے کلچر کی غلامی سے آزادی کے حصول کا اعلان کیا، مگر حکومتی عناصر نے اس لفظِ ’آزادی‘ کو خودبخود بھارت سے آزادی کا جامہ پہنا کر صدر یونین کو غداری کے مقدمے میں گرفتار کرلیا۔
یہ ایک غیرمعمولی واقعہ ہے، جس پر آسام سے لے کر سری نگر تک اساتذہ، طلبہ، صحافیوں، دانش وروں اور وکلا کی بڑی تعداد نے حکومتی اقدامات اور فسطائیت کی کھلے لفظوں میں مذمت کی۔ بھارت کی ۴۰۰ یونی ورسٹیوں کے طالب علموں نے احتجاجی جلسے منعقد کیے۔ یہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے قابلِ احترام اور مسلّمہ۶۴دانش وروں نے مظلوم طلبہ سے یک جہتی کے لیے دستخطی مہم چلائی۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ روے سخن مختلف ہونے کے باوجود یہ واقعہ ہراعتبار سے مقبوضہ کشمیر کے مظلوم عوام کے ساتھ یک جہتی یا ان کے ساتھ روا ظلم پر ردعمل کا حوالہ رکھتا ہے۔ جس کے لیے بھارت کی نئی نسل: کانگریسی اور جن سنگھی سوچ کو مسترد کرکے حقیقت پسندانہ راستہ اختیار کرنے کا پیغام دیتی ہے۔ اس پس منظر میں اس واقعے کو Game Changer کی حیثیت سے دیکھا جانا چاہیے، جس کے دامن میں ایک نئی سوچ کی کونپل پھوٹتی دکھائی دیتی ہے۔
اس واقعے کو جموں اور کشمیر کے ہائی کورٹ کے ان فیصلوں سے ملا کر دیکھا جائے، جن میں اب سے دو سال قبل فاضل ججوں نے فیصلہ دیا تھا کہ:
بھارت کی جانب سے جموں کشمیر کو اٹوٹ انگ کہنا ایک غلط دعویٰ ہے کیونکہ جس اسمبلی نے بھارت کے ساتھ اسے جوڑنے کی بات کی تھی، وہ محض معاہداتی تھی، دائمی نہیں تھی۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے عوام کی مرضی اور کیے گئے معاہداتی عہدنامے کے تحت اس کے مستقبل کا تعین باقی ہے۔
یہ واقعات بھارتی حکمرانوں اور عالمی حکمرانوں کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہیں، بایں ہمہ اُمید کم ہے کہ ان کی بند آنکھیں کھلیں۔ وجہ یہ ہے کہ تنگ نظر ذہن ہمدردی، رواداری، فیاضی، آزادی، مروت جیسے لفظوں ہی سے ناآشنا ہوتا ہے، چہ جائیکہ وہ ان کے مفہوم کو سمجھے اور اُسے عملی زندگی میں اختیار کرنے کی طرف مائل ہو۔ مودی حکمرانی جس رُخ پر چل رہی ہے اس کے لیے جموں و کشمیر ہائی کورٹ کے فیصلے، یا نہرو یونی ورسٹی، یا کُل ہند یونی ورسٹیوں کے طلبہ کا احتجاج کوئی معنی نہیں رکھتا۔ وہ اس تازیانے کو کوئی اہمیت نہیں دیتی، جب تک وہ اتنا زوردار نہ ہو کہ مودی کے پائوں اُکھاڑ دے۔ چونکہ فوری طور پر یہ مشکل ہے، اس لیے بھارتی مقتدرہ ٹس سے مس نہیں ہورہی۔ دوسری طرف ۹فروری کے مذکورہ بالا واقعے کے حوالے سے پاکستان کے حکمرانوں، دانش وروں، صحافیوں اور بہ زعمِ خویش عالمی ضمیر کے رکھوالوں کو بھی اپنا فرض ادا کرنا چاہیے۔ دوستی کی رٹ لگانے والوں کو سوچنا چاہیے کہ وہ کن سے دوستی کے لیے بے تاب ہیں۔ وہ ان سے وفا کی توقع رکھتے ہیں ’’جو نہیں جانتے وفا کیا ہے‘‘۔ وہ تو اپنوں سے بھی وفا کے روادار نہیں!
پروفیسر محمد سلیم (وفات: یکم جنوری ۲۰۱۶ئ) عالمی شہرت یافتہ ماہر طبیعیات (Physics) تھے۔ پنجاب یونی ورسٹی کے پروفیسر ایمریطس تھے۔ فزکس پر بلندپایہ تصانیف کے علاوہ ان کی زیادہ تقریباً ۱۰ کتب اُردو شعر و ادب اور تاریخ کے موضوعات پر ہیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد سارے عرصے میں انھوں نے لکھنے پڑھنے کا کام باقاعدگی کے ساتھ جاری رکھا۔ اردو میں ان کی پہلی کتاب داراشکوہ، احوال وافکار تھی اور آخری زیرنظر مولانا شبلی نعمانی پر۔
شبلی صدی کے موقعے پر مولانا شبلی پرجتنی کتابیں چھپیں،یہ ان میں ایک اچھا اضافہ ہے۔ ’ابتدائیہ‘اور،’سوانح‘کے مختصر ابواب کے بعد پروفیسر صاحب نے شبلی کی جملہ تصانیف پر ایک ایک باب باندھا ہے، مثلاً پہلا باب ہے:المامون،جس کی اشاعت (۱۸۸۷ئ) سے بقول پروفیسر موصوف:’’شبلی اردو کے صفِ اوّل کے مصنفین میں شمار ہونے لگے‘‘ (ص۳۷)۔ سلیم صاحب نے پہلے کتاب کا، پھر مامون الرشید کی شخصیت کا تعارف کرایا ہے،بعدہٗ جیسا شبلی نے مامون کی شخصیت کو پیش کیا ہے، اس کی جھلکیاں ہیں، جن سے مامو ن کی ذہانت ،علم و فضل، دریا دلی،فہم شعر وادب کے ساتھ اس کے اسراف و تبذیر،عیش وطرب ،مذہبی جنون،اور علما ے کرام پر اس کے ظلم و ستم کا اندازہ ہوتاہے۔ جہاں شبلی نے مامون الرشید کے ساتھ کچھ رعایت کی ہے یا اس کی کسی بے اعتدالی سے صرفِ نظر کیا ہے یا اس کی تاویل کرنے کی کوشش کی ہے، وہاں پروفیسر محمد سلیم نے شبلی پر گرفت بھی کی ہے،مثلاً: مامون نے اپنے سپہ سالار طاہر سے کسی بات پر ناراض ہو کر اسے زہر دلوا دیا۔ شبلی لکھتے ہیں:’’اگر مامون کی جگہ کوئی اور بادشاہ ہوتا تو کیا کرتا؟‘‘(یعنی وہ بھی یہی کچھ کرتا، اسے مروا دیتا)۔اس پر پروفیسر سلیم لکھتے ہیں: ’’یہ سوچ سراسر غیر اسلامی ہے اور اس کا کوئی جواز نہیں۔ بادشاہوں کے دفاع کی قبا،شبلی کے قدوقامت پر موزوں نہیں آتی‘‘۔اسی طرح مامون کی عیش و طرب کی محفلوں کی سنگینی کو کم کرنے کے لیے (جن میں عیسائی کنیزوں کا رقص وسُرود،ان کی مخمور آنکھیںاور جام و شراب کا دور، بقول شبلی: ’’مامون کو بد مست کردیتا تھا‘‘) مولانا شبلی لکھتے ہیں: ’’مامون کے عیش و طرب کے جلسوںمیں تو عیاشانہ رنگینی پائی جاتی ہے مگر انصاف یہ ہے کہ یہ جلسے علمی مذاق سے بالکل خالی بھی نہ تھے۔اس قسم کے جلسے جو شاعرانہ جذبات کو پورے جوش کے ساتھ اُبھار دیتے ہیں، اگر متانت و تہذیب کے ساتھ ہوں تو لٹریچر پر نہایت وسیع اور عمدہ اثر پیدا کرتے ہیں‘‘۔اس پر پروفیسر سلیم صاحب کا نقد ہے:’’یہ لکھتے وقت مولانا [شبلی]کو غالباً مذہبی نقطۂ نظر سے ایسی محفلوں پر تبصرہ کرنے کا خیال نہ آیا‘‘۔
پروفیسر محمد سلیم مجموعی راے دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ شبلی نے’’المامون لکھ کر اُردو میں سوانح نگاری کی بنیاد رکھی‘‘۔پروفیسر صاحب نے شبلی کی دیگر تصانیف پر بھی ایک ایک باب رقم کیا ہے۔ مزیدبرآں انھوں نے حسبِ ذیل موضوعات پر بھی ایک ایک باب رقم کیا ہے: شبلی کی شاعری، ندوۃ العلمائ، شبلی اور ان کے نقاد،شبلی اور سر سید۔انھوں نے شبلی کی شخصیت، تصانیف اور افکار کا پورا احاطہ کیا ہے، شبلی فہمی کے لیے یہ ایک مفید کتاب ہے۔(رفیع الدین ہاشمی)
۲۰ویں صدی کا چھٹا عشرہ اُردو صحافت میں کئی تجربات کے حوالے سے یادگار ہے، اور انھی میں ایک حوالہ ماہ نامہ اُردو ڈائجسٹ کا لاہور سے اجرا تھا۔یہ پرچہ جہاں شائستہ اسلوبِ نگارش، تعمیری ادب، دیدہ زیب پیش کاری اور متنوع موضوعات کا گل دستہ تھا، وہیں الطاف حسن قریشی کے منفرد مصاحبوں (انٹرویوز) کی وجہ سے بھی ایک خاص مقام رکھتا تھا۔ یہ انٹرویو محض شخصی احوال و عادات کی کتھا نہیں ہوتے تھے، بلکہ مہمان سے ہونے والی عالمانہ گفتگو اور ٹھوس موضوعات کو عام فہم انداز میں قارئین تک پہنچانے کا ذریعہ بھی تھے۔
زیرتبصرہ کتاب ایسے ہی مصاحبوں کا ایک قابلِ قدر انتخاب ہے۔ ان مصاحبوں کو سوالات کی خوب صورتی، جوابات کی عالمانہ وسعت اور تخلیقی تحریر نے مکالماتی شہ پارے بنادیا ہے۔ یہ کتاب درحقیقت ۲۰ویں صدی میں مسلم تہذیبی فکر کا مرقع ہے۔دوسرا یہ کہ چند غیرملکی مہمانوں کو چھوڑ کر سبھی شخصیات صبحِ آزادی کی شخصیات میں شمار ہوتی ہیں۔ یہ رجالِ کار اپنی گفتگوئوں میں بتاتے ہیں کہ آزادی کا نور، کس طرح آزادیِ موہوم میں تبدیل ہوا۔
یوں تو ہر مصاحبہ ایک مثال ہے، تاہم یہاں چیف جسٹس اے آر کارنیلیس کی گفتگو سے چند سطور پیش کی جاتی ہیں:’’قانون کی اطاعت کا جذبہ اس وقت اُبھرتا ہے، جب دل میں قانون کے لیے احترام پایا جاتا ہو۔ اگر ہم پاکستان میں قانون کی حکمرانی چاہتے ہیں تو پھر ہمیں اسلامی قانون نافذ کرنا چاہیے۔ میرا یقین ہے کہ اسلامی قانون کے نفاذ سے اس ملک کی قانونی زندگی میں خوش گوار انقلاب جنم لے گا۔ اسلامی قانون کسی دور میں بھی زندگی سے کٹا نہیں رہا اور یہ تسلسل کی تمام کڑیاں اپنے اندر رکھتا ہے‘‘۔ (ص ۱۹۱، ۱۹۲)
واقعہ یہ ہے کہ ان مصاحبوں میں اجتہاد کی ضرورت اور اجتہاد کے آداب، تعلیم اور تہذیب، تاریخ اور کلچر، سیاست اور مسئلہ زبان، مستقبل بینی اور خود احتسابی کے ایسے ایسے جواہر پارے ملتے ہیں کہ ہمارے بہت سے مسائل کی نشان دہی اور ان کا شافی حل مل جاتا ہے۔ اس بزمِ دانش میں مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی ، ذوالفقار علی بھٹو، جنرل ضیاء الحق، شاہ فیصل، خان آف قلات، جسٹس اے آر کارنیلیس، اے کے بروہی، چودھری محمد علی، جسٹس حمودالرحمن، ایس ایم ظفر، ظفراحمد انصاری، غلام رسول مہر اور اصغرخان سمیت ۲۳ شخصیات کے مصاحبے شامل ہیں۔
کتاب کا مطالعہ کرتے ہوئے ہم ۲۱ویں صدی میں، ۲۰ویں صدی کی مسلم فکری رہنمائی سے اس طرح مستفید ہوتے ہیں کہ ماضی اور حال ہمارے مستقبل کو تابناک بنانے کا چراغِ راہ بن جاتا ہے۔(سلیم منصور خالد)
جماعت اسلامی سے وابستہ لاکھوں افراد نے اپنی پوری زندگیاں دعوتِ دین کی جدوجہد میں لگا دی ہیں۔ مشیت ِ حق کے تحت ہر فرد کی زندگی کا پیمانہ لبریز ہوتا ہے تو وہ انتقال کی منزل طے کرتا ہے۔ حافظ محمد ادریس صاحب اس قافلۂ حق کے ایسے متعدد رفقا کی زندگیوں پر معلومات افزا مضامین پر مشتمل چار کتب تالیف اور شائع کرچکے ہیں، اب اس سلسلے کی یہ پانچویں کتاب چھپی ہے۔
اس کتاب میں پروفیسر غلام اعظم کی مجاہدانہ زندگی پر پانچ مضامین ہیں، دیگر رفقا میں: مولانا ابوالکلام محمد یوسف، عبدالقادر مُلّا شہید، محمد قمرالزمان شہید، ملک غلام یاسین، سردار الطاف حسین، شمیم احمد، مسعود جاوید، خدا بخش خان، حاجی محمد لقمان، احمدقاسم پاریکھ، چودھری ثناء اللہ، عبدالرحمن بن اجمل، خواجہ علاء الدین ، ڈاکٹر سیّدمنصورعلی، مولانا عبدالمالک شہید، محمد یوسف خان، نصراللہ شجیع، ڈاکٹر خان محمد صابری، سیّد رفیق حسین جعفری، ڈاکٹر ظہوراحمد، میاں نذیراحمد، ملک مسعود الحسن، ڈاکٹر سیّد احسان اللہ شاہ، مہرچاکرفتیانہ، مولانا محمد نافع اور حافظ محبوب الٰہی حلیم شامل ہیں۔ یہ تذکرے قارئین کے دل میں عزم و ہمت کی جوت جگا تے اور دنیاے فانی سے گزر جانے سے قبل کچھ کر جانے کی اُمنگ پیدا کرتے ہیں۔ (س-م-خ)
کیپٹن سراج الحق، جماعت اسلامی کراچی کے رکن تھے۔ ان کے انتقال پر ان کے اعزہ نے یہ کتاب یادگار کے طور پر شائع کی ہے، جس میں ۴۶ تحریریں ہیں۔ لکھنے والوں میں ان کی اہلیہ، بیٹے، بہوئیں، داماد، پوتے، بھانجے، نواسے اور مرحوم سراج صاحب کے دوست شامل ہیں۔ ہرایک نے جیسا ان کو پایا، لکھ دیا۔ سب نے سراج صاحب کی شخصیت پر اپنے اپنے زاویے سے روشنی ڈالی۔عجب ایمان افروز تصویر بنی ہے۔ایک جگمگاتا ہوا تحریکی کردار۔ تحریکِ اسلامی نے ایسے ہیرے تراش کرکے پیش کر دیے۔ (مسلم سجاد)
o معارف مجلہ تحقیق، (شمارہ ۱۰،جولائی-دسمبر ۲۰۱۵ئ)، مدیر:پروفیسر ڈاکٹر محمداسحاق منصوری۔ ناشر:ادارہ معارف اسلامی، کراچی۔ ۳۶۸۰۹۲۰۱-۰۲۱۔ فون:۰۲۱۔صفحات:۲۹۸+۱۰۰۔ قیمت: ۴۵۰روپے۔ [زیرنظر شمارے میں عالمِ اسلام، فقہ الاقلیات، دین اور تہذیب، مناصب اور ذرائع کے استعمال کے ساتھ ساتھ پاکستان کی مالیاتی پالیسی، ذرائع ابلاغ میں رپورٹنگ کا معیار، سیرت نبویؐ اور مستشرقین کا اندازِ فکر، قتل رحم خصوصی طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ مقالہ خصوصی میں اوکسفرڈ یونی ورسٹی، آفاق اور سرکاری نصابی کتب کا تقابلی مطالعہ کیا گیا ہے۔]
’معذور افراد کے حقوق‘(فروری ۲۰۱۶ئ) میں مضمون نگار کی محنت قابلِ داد ہے، لیکن اس مضمون کے دوسرے پیرے میں انھوں نے حضرت موسٰی ؑ اور حضرت عیسٰی ؑ پر نازل ہونے والی کتابوں کا ذکر کرتے ہوئے زبور اور انجیل لکھ دی ہیں جو درست نہیں۔ حضرت موسٰی ؑ پر زبور نہیں، تورات نازل ہوئی تھی۔ زبور تو حضرت دائود ؑ پر نازل ہوئی تھی۔ اس طرح کی فاش غلطی مؤقر جریدے میں شائع نہیں ہونی چاہیے تھی۔
’۶۰ سال پہلے‘ (فروری ۲۰۱۶ئ) میں نام نہاد مسلمانوں کے بارے میں سیّدمودودیؒ کا یہ کہنا کہ اس سیرت و اخلاق کے لوگوں سے کوئی جعل سازی، کوئی فریب، کوئی دغابازی اور کوئی خیانت بھی خلاف توقع نہیں ہے، بالکل بجا ہے۔ ایسے ہی لوگ ہماری قیادت پر فائز رہے، اور ہیں، ان سے نجات کے لیے بھرپور جدوجہد کی ضرورت ہے۔
’امریکا کا سامراجی کردار اور اُمت مسلمہ‘ (جنوری ۲۰۱۶ئ) نظر سے گزرا۔ چند صفحات میں موضوع کا ہمہ پہلو احاطہ کیا گیا ہے۔ اشارے اور کنایے میں بھی بہت کچھ کہا ہے، تاہم واقعاتی اور تجزیاتی پیرایہ بھی ذہن پر دستک دیتا ہے۔ یہ صورت حال تو کسی سے مخفی نہیں ہے کہ جابجا مسلمانوں کو مسلمانوں کے خلاف صف آرا کیا جارہا ہے۔ یوں چھری خربوزے پہ گرے یا خربوزہ چھری پہ، ہر طرح سے یہ حکمت عملی نتائج دکھا رہی ہے۔
اسلامی تحریکیں ’امریکی فیکٹر‘ کو متن سے نکال کر حاشیے میں دھکیلتی نظر آتی ہیں، شاید حالات کی ’سنگینی‘ اس کا سبب قرار پائے۔ ایسے میں برادرم عبدالرشید صدیقی صاحب کا مضمون اسلامی تحریک کے کارکنوں کے لیے ایک یاد دہانی ہے اور بین الاقوامی منظر نامے کی نقاب کشائی بھی، اللھم زد فزد! اس موضوع پر ترجمان میں، دہشت گردی کے نام پر مسلط کی جانے والی ’عالمی اور لیگل‘ دہشت گردی کے ابطال اور تجزیے پر مبنی اگر ہرماہ ایک تحریر شامل ہوسکے تو ترجیحات کا تعین کرنے میں مدد ملے گی۔
’تخفیف ِ آبادی یا مغرب کا غلبہ؟‘ (فروری ۲۰۱۶ئ)کے ضمن میں چند اعداد و شمار پیش ہیں۔ ایک سروے کے مطابق یورپی ممالک میں یورپین کی آبادی ۶۵ئ۱ فی صد کے حساب سے بڑھ رہی ہے، جب کہ انھی ممالک میں مسلمانوں کی آبادی میں ۱ئ۸ فی صد کے حساب سے اضافہ ہورہا ہے۔ برطانیہ میں گذشتہ تین دہائیوں میں مسلمانوں کی تعداد ۸۲ہزار سے بڑھ کر ۲۵لاکھ ہوچکی ہے۔ سب سے دل چسپ رپورٹ جرمنی کے بارے میں ہے۔ ۲۰۵۰ء تک جرمنی ایک مسلم ریاست بن جائے گا۔ فرانس میں ٹین ایج (teen age) کے بچوں میں ۳۰ فی صد بچے مسلمان ہیں۔ ہالینڈ میں مسلمانوں کی آبادی ۵فی صدکے حساب سے بڑھ رہی ہے۔ ایک دہائی کے بعد یہاں کی نصف آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہوگی۔ گوگل تحقیقی رپورٹ کے مطابق یورپی ممالک میں بسنے والے ۵۲ ملین مسلمان آیندہ دو دہائیوں میں ۱۰۴ملین ہوجائیں گے۔
’رسائل و مسائل‘ (جنوری ۲۰۱۶ئ) میں غائبانہ نمازِ جنازہ کے بارے میں مدلل جواب پڑھ کر اطمینان ہوا۔ اگر سِرّی اور جہری نمازِ جنازہ کے بارے میں بھی وضاحت شائع کریں تو مناسب ہوگا۔
شمارۂ فروری ’احمد ابوسعید کی علمی خدمات‘ ( ص ۸۸)کے عنوان والا اشتہار شائع نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اس کی متعدد وجوہ ہیں۔ ان کی تحریروں میں حددرجہ اِدّعا پایا جاتا ہے۔ انھوں نے ازخود محقق، مفسر اور صاحب ِ اسلوب مصنف بن کر مولانا مودودی کی عبارات کی اصلاح فرمائی ہے اور ساتھ یہ بھی لکھا ہے کہ یہ کام ’مولانا مودودی کی ہدایات کے مطابق‘ کیا ہے۔ کوئی پوچھے: جو کچھ آپ مولانا کی تحریروں اور تصانیف کے ساتھ کر ر ہے ہیں،کیا یہ ہدایات آپ کو عالمِ برزخ سے موصول ہوئی ہیں؟ پھر ان کی تصانیف میں غیر متعلق لوازمہ بھی شامل ہوتا ہے ۔ وہ دوسروں کی تحقیق کو اپنی کتابوں میں اکثر بلاحوالہ شامل کرتے ہیں، اور اپنی ان قلمی مداخلتوں کو ’احمدابوسعید کی علمی خدمات‘ قرار دیتے ہیں (بصورتِ اشتہار یہ بھی اِدّعا ہے)۔یہی وجہ ہے کہ بھارت میں نظم جماعت ان چیزوں پر تحفظات کا اظہار کرتا ہے۔
دسمبر کے شمارے میں شیخ عبدالقادر جیلانی پر جو مضمون شائع ہوا ہے، اس میں ایک جگہ (ص۹۱پر) لکھا ہے:’’…انھوں نے مختلف مسالک و طریقہ ہاے ارادت کو جمع کیا۔ قطب، ابدال اور اولیا جیسی اصطلاحات اسی پورے کام کو منظم کرنے کا عنوان تھیں…‘‘۔ کیا ان اصطلاحات کا واقعی اسلام سے کوئی تعلق ہے؟ کیا قرآن و حدیث کی اصطلاحیں ناکافی تھیں ،جو یہ خودساختہ نظامِ تصوف رائج کیا گیا؟ کیا تصوف بابِ تفعل کا مصدر نہیں ہے، جس کی خاصیت میں تصنع شامل ہے۔ یہ لفظ خود اپنے پورے نظام کے مصنوعی ہونے کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ ’اولیا‘ کی اصطلاح تو قرآن میں موجود ہے، مگر باقی سب مفروضات و مجہولات ہیں ، جن سے بہت سے علما بھی صدیوں سے دھوکا کھا رہے ہیں۔
’لبرل ازم کیا ہے اور کیا نہیں؟‘ (جنوری ۲۰۱۶ئ)کے بارے میں عرض ہے کہ ’لبرل مسلمان‘ ایک گمراہ کن اصطلاح ہے۔ حقیقت میں دنیا میں کوئی بھی انسان لبرل نہیں ہے۔ ایک سچا مسلمان، اللہ کا بندہ اور غلام ہوتا ہے، جب کہ لبرل بہت سارے معبودوں بشمول نفس کا بندہ اور غلام ہوتا ہے۔ قرآن نے بہت احسن طریقے سے ایک مثال سے اس حقیقت کو واضح کیا ہے۔ ارشاد ربانی ہے:’’اللہ ایک مثال دیتا ہے۔ ایک شخص تو وہ ہے جس کے مالک ہونے میں بہت سے کج خلق آقا شریک ہیں، جو اسے اپنی اپنی طرف سے لکھتے ہیں اور دوسرا شخص پورے کا پورا ایک ہی آقا کا غلام ہے۔ کیا ان دونوں کا حال یکساں ہوسکتا ہے؟ الحمدللہ مگر اکثر لوگ نادانی میں پڑے ہوئے ہیں‘‘۔(الزمر ۳۹:۲۹)۔ اقبالؒ نے بھی اس کی وضاحت کی ہے کہ وہ ایک سجدہ (اللہ کی بندگی) جس کو تو مشکل سمجھتا ہے۔ انسان کو ہزار سجدے (مختلف آقائوں کی بندگیوں) سے نجات دیتا ہے۔ لہٰذا ایک مسلمان جب آپ کو لبرل کہتا ہے تو وہ منافقت کرتا ہے اس لیے کہ انسان ایک وقت میں اللہ کا بندہ ہوگا یا خواہشاتِ نفس اور دوسرے آقائوں کا بندہ۔
’اُمت مسلمہ، ابتلا اور اُمید ِ بہار‘ (فروری ۲۰۱۶ئ) میں اُمت مسلمہ کے دگرگوں حالات پڑھ کر دلی صدمہ ہوا۔لاکھوں کی تعداد میں شامی مسلمانوں کا قتل عام اور کروڑوں کی تعداد میں ان کا بے گھر ہو جانا قابلِ رنج و افسوس ہی نہیں بلکہ قابلِ عبرت بھی ہے۔ اُمت کے خلاف ہونے والی سازشوں کا بھی اندازہ ہوا۔ تخفیف ِ آبادی کے موضوع پر افشاں نوید صاحبہ کا تحقیقی مطالعہ قابلِ غور وفکر ہے۔ ’تحریکِ اسلامی اور فکری چیلنج: چند گزارشات‘ (فروری ۲۰۱۶ئ) میں عبدالرشید صدیقی صاحب نے بڑے اہم فکری چیلنج کی طرف توجہ مبذول کروائی ہے۔ دہریت کا بڑھتا ہوا فتنہ اُمت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔
ہمارے بے شمار معاشرتی مفاسد اور اخلاقی پستیوں کا ایک بڑا سبب موجودہ غیراسلامی اور غیرمنصفانہ معاشی نظام ہے۔ یہ روز افزوں طبقاتی تفاوت پیدا کر رہا ہے۔ یہ نظام امیر کو امیرتر اور غریب کو غریب تر بنانے والا ہے۔ اس کا یہ تباہ کن عمل آہستہ آہستہ ہمارے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لیتا جارہا ہے۔ہماری اکثریت کا حال یہ ہے کہ اسے روٹی اور کپڑے اور رہنے کے مکان اور دوا دارو کے ابتدائی مسائل اتنی فرصت ہی نہیں دیتے کہ دین و اخلاق اور قوم و ملّت کے اعلیٰ تقاضوں کی طرف کچھ توجہ ہوسکے۔
اس گندے اور ناپاک معاشی نظام کو جوں کا توں رکھ کر اصلاح و ترقی کا کوئی معمولی سا کام بھی نہیں کیا جاسکتا، کجا یہ کہ اسلام کے اُونچے آئیڈیل کی طرف قدم بڑھایا جاسکے.... اس لیے وسیع تعمیری و اصلاحی منصوبوں کو سوچنے اور ہاتھ میں لینے سے قبل ملکی نظم و نسق کو صحت مندانہ اور مضبوط بنانا بہت بڑی ضرورت ہے۔ ہماری دفتری زندگی میں فرض ناشناسی عام ہے۔ ایک افسر اور ایک ملازم اس ذمہ داری کو سرے سے محسوس نہیں کرتا جو ریاست اور اس کے کروڑوں باشندوں کی طرف سے اس پر عائد ہوتی ہے، بلکہ وہ ذاتی مفاد اور ذاتی خواہشات پر اپنے بڑے سے بڑے فرض کو قربان کرسکتا ہے۔ وہ وقت کی پابندی نہیں کرتا، وہ کام چوری کرتا ہے، وہ دفتر میں تضیع اوقات کرتا ہے، وہ نیچے سے رشوت لیتا اور اُوپر رشوت دیتا ہے۔ وہ قومی مال پر ہاتھ صاف کرتا ہے، وہ سرکاری خرچ پر نجی سفر کرتا ہے، وہ قانون اور ضابطے کے ساتھ مذاق کرتا رہتا ہے، وہ دوستوں کی خوشنودی حاصل کرنے اور مخالفوں سے انتقام لینے کے لیے اپنے اختیارات کا بے جا استعمال کرتا ہے۔ ان ساری چیزوں کو ہم ایک لفظ ’خیانت‘ کے تحت جمع کرسکتے ہیں۔
’خیانت‘ نظم و نسق کے لیے ایک طرح کا گھُن ہے۔ اگر گھُن اندر ہی اندر اس سارے ڈھانچے کو چاٹ جائے جس پر مملکت کا اقتدار کھڑا ہے تو چاہے باہر کتنا ہی خوش نما رنگ و روغن موجود ہو، ہر آن تباہی کا خطرہ درپیش رہے گا۔ ایسے بودے نظم و نسق کے بل پر معاشرے کی کسی خرابی کے خلاف جدوجہد کرنا یا کسی تعمیری و اصلاحی کام کو سرانجام دینا سرے سے ناممکن ہے۔(’اشارات ‘ ، نعیم صدیقی ، ترجمان القرآن،جلد۴۶، عدد۱،رجب ۱۳۷۵ھ، مارچ ۱۹۵۶ئ، ص ۶-۷)
_______________