پاکستان کے ایک سابق سفارت کار اشرف جہانگیر قاضی نے حال ہی میں اپنے ایک مضمون میں پاکستان کو کشمیر کی صورت حال کے حوالے سے ایک متبادل راستہ اختیار کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ: ’’کشمیریوں کو اپنے حال پر چھوڑ کر ، سفارتی محاذ پر کوششیں جاری رہنی چاہییں‘‘۔ اور ساتھ ہی انھوں نے ان کاوشوں کو بے مصرف قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ ’’پاکستان میں کئی حلقے اسی راستے کو اپنانے کی وکالت کرتے ہیں، تاکہ ملک کو کسی امکانی بحران سے بچایا جاسکے‘‘۔ ان کے مطابق: ’’حکومت کے اندر بھی کئی مقتدر حلقے اس پالیسی کی تائید کرتے ہیں‘‘۔
اگر یہ محض کسی کالم نویس یا کسی ’تھنک ٹینک‘ کے دانش ور کی اختراع ہوتی، تو اس بات کو نظرانداز کیا جاسکتا تھا، یا اس کو قلم کار کے ذاتی خیالات سمجھ کر بے حیثیت قرار دیا جاسکتا تھا۔ تاہم، ایک زیرک سفارت کار ، جو بھارت میں انتہائی مخدوش حالات میں پاکستان کی نمایندگی کر چکا ہو اور عالمی سفارت کاری میں بھی نام کما چکا ہو، کی طرف سے اس طرح کا مشورہ دینے سے یہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے، کہ پسِ پردہ ضرور کوئی کھچڑی پک رہی ہے۔ جس پہ رد عمل دیکھنے کے لیے قاضی صاحب کو میدان میں لایا گیا ہے۔ سفارت کاری یا حکومتی معاملات میں جب بھی کوئی ایسا غیرمتوقع یا سخت فیصلہ لینا ہوتا ہے، تو ’باوثوق ذرائع‘ کے حوالے سے یا کسی ایسے ہی سابق سفارت کار یا فوجی افسر کے ذریعے میڈیا میں اس کی تشہیر کی جاتی ہے۔ اگر رد عمل نا موافق ہوا، تو اس کو قلم کار کی ذاتی راے بتا کر حکومت کے ذمہ داران اپنا دامن چھڑا لیتے ہیں۔ دوسری صورت میں اس کو پالیسی کا جز بنا لیا جاتا ہے۔
پاکستانی ہائی کمشنر ریاض حسین کھوکھر [۱۹۹۲ء-۱۹۹۷ء] کی ایک جارحانہ سفارت کاری کے بعد ۱۹۹۷ء سے ۲۰۰۲ء تک قاضی صاحب نئی دہلی میں پاکستان کے ہائی کمشنر [سفیر] کے طور پر تعینات رہے۔ نئی دہلی میں ان کی آمد بالکل ایسی تھی کہ جیسے ایک سوکلومیٹر کی رفتار سے دوڑتی گاڑی ایک دم ۲۰ کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار پر آجائے۔ پاکستانی سفارت کاری میں ان کو سفارتی دستاویزات کی تدوین میں الفاظ کےبرتائو میں کمال حاصل ہے۔ ان کی دہلی آمد کے ایک سال بعد ہی اٹل بہاری واجپائی کی قیادت میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی پہلی حکومت معرض وجود میں آئی۔ جس وقت واجپائی کی پہلی حکومت ۱۳ماہ بعد پارلیمنٹ میں ایک ووٹ سے شکست سے دوچار ہوئی، تو اس وقت وہ بھارتی پارلیمنٹ میں سفارت کاروں کے لیے مخصوص گیلری میں موجود تھے۔ چونکہ سفارتی گیلری اور پریس گیلری متصل ہے، مجھے یاد ہے کہ وہ اس کے کنارے پر آکر صحافیوں سے پوچھ کر تصدیق کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ ’کیا واقعی واجپائی حکومت گر گئی ہے؟ ‘
جہانگیر قاضی کے دور میں بھارتی وزیراعظم واجپائی کا لاہور کا دورہ، کرگل جنگ اور پھر پاکستان میں وزیراعظم نواز شریف کی معزولی اور جنرل پرویز مشرف کی آمد، آگرہ مذاکرات اور بھارتی پارلیمنٹ پر ’حملے‘ جیسے اہم واقعات وقوع پذیر ہوئے۔ بھارتی پارلیمان پر حملے کے بعد ان کو بھارت چھوڑنے کا حکم دیا گیا۔ انھی کے دور میں حریت کانفرنس میں لیڈروں کے درمیان اختلافات شدید ہوگئے تھے، جو بعد میں اس کی تقسیم کا سبب بن گئے۔ مرحوم عبدالغنی لون ، اس کی ایک وجہ اشرف جہانگیر قاضی کو بھی قرار دیتے تھے۔
ریاض حسین کھوکھر کے برعکس حُریت کے لیڈروں سے ان کا برتاؤ ، روایتی افسرشاہی جیسا ہوتا، جو کئی مواقع پر لیڈروں کو ناگوار گزرتا تھا۔ ایک قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ معروف صحافی کرن تھاپر کے ذریعے انھوںنے ان دنوں طاقت ور بھارتی لیڈر نائب وزیر اعظم لال کشن ایڈوانی تک رسائی حاصل کی تھی اور کئی بار کرن تھاپر کی گاڑی میں ان کی رہایش گاہ پر خفیہ ملاقاتیںکی تھیں۔ وہ شاید ایڈوانی کے ذریعے ایک بیک چینل بنانے کی کوشش کر رہے تھے ، کہ پارلیمنٹ پر حملے نے اس کو ناکام بنادیا اور یہ بیک چینل ان کے کسی کام نہ آیا۔ سب سے پہلے ان کو ہی ملک چھوڑنے کا حکم دیا گیا۔
اشرف جہانگیر قاضی نے پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کو مشورہ دیا ہے کہ ’’میری آؤٹ آف بکس تجویز پر عمل کرکے، جس طرح واجپائی نے لاہور آکر دنیا کو حیران و پریشان کردیا تھا، اسی طرح وہ بھی نئی دہلی جاکر دنیا کو ششدر کردیں اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ ایک مشترکہ بیان جاری کریں، جس میں ماحولیات کو ناقابل تلافی نقصانات سے بچانے کی خاطر ایک مشترکہ لائحہ عمل کا تعین کرنا اور دہشت گردی کو ختم کرنے کے حوالے سے عہد و پیمان باندھنا ، کشمیر پہ کسی حل پر بات چیت ، جو فریقین کو منظور ہو، میڈیا میں ایک دوسرے کے خلاف پراپیگنڈا کم کرنا وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی تجاویز میں ’لائن آف کنٹرول پر اعتماد سازی کے اقدامات، تجارت کی بحالی ، سرمایہ کاری اور باہم کانفرنسوں وغیرہ کا احیا‘ کا بھی ذکر ہے۔
یہ معلوم نہیں کہ یہ تجاویز کسی ذریعے سے بھارت کو بھیجی گئی ہیں یا نہیں، مگر آثار و قرائن بتارہے ہیں کہ پاکستان کا پورا زور مذاکرات کے سلسلے کی بحالی پر لگا ہوا ہے۔ ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کو مودی حکومت نے جس طرح ریاست جموں و کشمیر کی ’خصوصی حیثیت‘ کو نہ صرف ختم کیا، بلکہ ریاست ہی تحلیل کردی، لگتا ہے کہ اسلام آباد میں حکمران طبقے اب اس کو تقریباً ’حقیقت حال‘ تسلیم کرنے لگے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا کے ممالک نے سرکاری طورپر بہت زیادہ رد عمل نہیں دکھایا، مگر غالباً ۱۹۹۰ء کے بعد پہلی بار کشمیر کو عالمی میڈیا اور سول سوسائٹی گروپوں نے خوب کوریج دی۔
حکومتوں کو چھوڑ کر ان ممالک میں موجود سول سوسائٹی گروپوں، خواتین اراکین پارلیمان اور بچوں سے متعلق حقوق کی تنظیموں پر کام کرکے ان کو فعال کیا جاسکتا تھا۔ مغربی ممالک میں یہ بطور ایک مؤثر پریشر گروپ کے کام کرتے ہیں۔ بھارت کے ساتھ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے تعلقات کا فائدہ اٹھاکر ان ممالک کو پس پردہ ثالثی کے کردار کے لیے آمادہ کیا جاسکتا تھا۔ کیونکہ جب بھی مذاکرات کا سلسلہ شروع ہو، تو بجاے اشرف جہانگیر قاضی کی متعلق اور غیرمتعلق تجاویز کے، یہ صرف اور صرف جموں و کشمیر کے تنازعے کے حتمی حل کے سلسلے میں ہی ہونے چاہییں۔
جہانگیر قاضی کا مزید کہنا ہے کہ ’’پاکستان کو اپنے اعصاب پر قابو رکھنے کی ضرورت ہے، اور اسے تمام محاذوں پر اپنے کام کو صاف کرنا ہوگا۔ استحکام اور خوش حالی کے حصول کے لیے اسے سیاسی، معاشی اور معاشرتی طور پر اپنے آپ کو تبدیل کرنا ہوگا ، تاکہ دنیا کے سامنے ایک مثبت تاثر پیش کرسکے، جس سے اس کے نقطۂ نظر کو دنیا میں وقعت ملے، مگر ان میں سے کچھ بھی نہیں ہورہا‘‘۔
دوسری طرف بھارت کے وزیر خارجہ جے شنکر کا کہنا ہے کہ ’’پاکستان کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ تب ہی ممکن ہے ، جب پاکستان میں موجود مطلوب دہشت گرد اس کے حوالے کیے جائیں‘‘۔ انڈین ایکسپریس اخبار کی طرف سے منعقد ایک تقریب میں خطاب کے دوران اور بعد میں فرانسیسی اخبار لی موندے کو انٹرویو دیتے ہوئے، جے شنکر نے صاف کہا کہ ’’بھارت اب بدل چکا ہے۔ اس کی ترجیحات میں کشمیر سے علیحدگی کا رجحان ختم کرنا اور دہشت گردی کا مؤثر جواب دینا ہے۔دنیا کو جان لینا چاہیے کہ نومبر ۲۰۰۸ء کے ممبئی حملوں اور اوڑی میں ہوئے حملوں کے سلسلے میں بھارت کا رد عمل مختلف تھا۔ پچھلی حکومتوں نے امن کی خاطر بھارت کے لیے پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کی اسٹرے ٹیجک افادیت کو نظرانداز کر دیا تھا‘‘۔ شاید دبے لفظوں میں ان کا کہنا تھا کہ ’’آزاد کشمیر پر بھارت کسی بھی وقت اب کوئی عملی قدم اٹھانے والا ہے‘‘۔ بھارتی وزیرخارجہ نے تاسف کا اظہار کیا کہ ’’ایک اُبھرتی ہوئی طاقت کے ہوتے ہوئے بھی بھارت ابھی تک اپنے سرحدی تنازعات کو سلجھا نہیں پا رہا ہے‘‘۔
بھارتی حکومت میں اس وقت اقتدار کے تین ستون، یعنی مودی ، امیت شا اور قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول کا خیا ل ہے کہ: ۷۰ برسوں بعد یہ پہلا اور آخری موقع آگیا ہے کہ کشمیری عوام اور پاکستان کو باور کرایا جائے کہ ان کا مطالبہ ناقابلِ حصول ہے ۔اس کے علاوہ ان کا تسلیم کرنا ہے کہ کشمیر یوں کو اس حقیقت سے رو شناس کرانا ضروری ہے کہ ان کی تحریک یا مطالبے کو عالمی سطح پر کوئی پذیرائی حاصل نہیں ہے اور پاکستان بھی ان کی مدد کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ اس لیے ایسے اداروں اور تنظیموں کے خلاف کارروائی کرنا اور حوصلہ شکنی کرنا ضروری ہے، جو ایسا تاثر دے رہے ہوں۔ پاکستان میں بلوچستان اور گلگت بلتستان پر ہاتھ ڈال کر، اس کو کشمیر سے باز رکھنا ہے۔ اور کسی بھی دبائو کو خاطر میں لائے بغیر کشمیر پر فورسز کے ذریعے علاقائی برتری حاصل کرکے ، پاکستان اور کشمیری عوام کی سوچ تبدیل کروانا ہے۔ اس کے علاوہ بھارت نواز کشمیر ی پارٹیاں نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کو یہ احساس دلانا ہے، کہ وہ نئی دہلی کو بلیک میل کرکے او ر سیاسی حل پیش کرکے اب مزید سیاست نہیں کرسکتیں۔
دوسری طرف کشمیر میں بھی عوام نے یہ تہیہ کر رکھا ہے کہ ’’جس چیز کو مودی اور اس کے حواری ناقابلِ حصول بتانا اور بنانا چاہتے ہیں، وہ اس کوحاصل کرکے ہی دم لیں گے‘‘۔ نئی دہلی کے کئی حلقوں میں اس بات کا اعتراف ہے کہ پاکستان یا اس کی فوج کشمیر کی صورت حال کا اس طرح فائدہ نہیں اُٹھا رہی ہے، جس کا اندیشہ تھا۔ ورنہ حریت کو بے دست و پا کرکے، نیز پی ڈی پی اور نیشنل کانفرنس کو بے وزن کرکے ایک انارکی کا ماحول تیار کرواکے حالات ۹۰-۱۹۸۹ء کی نہج تک پہنچ چکے ہیں۔
آخر کون امن نہیں چاہتا؟ اس کی سب سے زیادہ ضرورت تو کشمیریوں کو ہی ہے۔ اشرف جہانگیر قاضی سے بس اتنی سی گزارش ہے کہ امن، قدرو منزلت ، انصاف و وقار کا دوسرا نام ہے، ورنہ امن تو قبرستان میں بھی ہوتا ہے۔ جن تجاویز پر آپ امن کے خواہاں ہیں، وہ تجاویز صرف قبرستان والا امن ہی فراہم کر سکتی ہیں۔
۸جولائی ۲۰۱۶ء کو ایک حُریت پسند رہنما،برہان مظفر وانی کو بھارتی مسلح افواج اور پولیس نے ایک دُور افتادہ کشمیری گائوں میں گولی مار کرشہید کر دیا، جس کے باعث یکایک مظاہروں اور احتجاجوں کا ایک وسیع سلسلہ شروع ہو گیا،جو محض دنوں کے اندر ہی، بھارت کے تسلط کے خلاف ایک مقبول عام بغاوت میں تبدیل ہو گیا۔ بھارتی حکومت نے جواب میں شدید بے رحمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے چند ہفتوں میں ۹۰سے زائد افراد ہلاک کر دیے۔ اس سے بھی صدمہ انگیز اور ششدر کر دینے والی بات یہ ہے کہ ان غیرمسلح احتجاجی مظاہروں کو منتشرکرنے کی خاطر ’غیرمہلک‘ دھاتی گولیاں [چھر.ّے - pellets] استعمال کی گئیں، جن سے سیکڑوں کشمیری بچیاں اوربچے نابینا ہو گئے۔
چارماہ کے دوران ۱۷ہزار بڑے اور بچے زخمی ہوئے اور تقریباً ۵ہزار افراد کو گرفتار کر لیا گیا۔ ساتھ ہی موسم گرما کے دوران کشمیر میں طویل کرفیونافذ کردیا گیا(اور پھر اس کے بعد ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کو تاریخ کا طویل ترین کرفیو مسلط کیا گیا)۔
یہ سب کچھ دو ماہ بعد بھلایا جا رہا تھا کہ اسی دوران ۱۸ ستمبر کو جنگجوئوں کی چھوٹی سی ٹولی نے شمالی کشمیر میں اُڑی کے مقام کے قریب ایک بھارتی فوجی پڑائو پر چھاپامار حملہ کیا، جو گذشتہ دو عشروں کے دوران کشمیر میں بھارتی سیکورٹی فورسز پربڑا سخت حملہ تھا۔اس کے نتیجے میں ۱۹بھارتی فوجی ہلاک ہوگئے،ا ور حسب معمول بھارت نے ایک لمحہ ضائع کیے بغیر پاکستان پر الزام تراشی شروع کر دی۔
اس کے بعد سے دونوںممالک کے درمیان تعلقات کی خرابی میں اس حد تک اضافہ ہو گیا کہ دونوں ممالک،ایک دوسرے کے ’سفارتی مشنوں‘میں جاسوس تلاش کرنے میں مصروف ہوگئے۔ ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشی روز کا معمول بن گیا۔ وہ لفظی جنگ جو اُڑی میں شب خون کے بعد شروع ہوئی تھی، اس میں بھارتی افواج کے اس بے رحمانہ ظلم وستم کو بڑی حد تک نظرانداز کردیا گیا۔ بھارتی حکومت نے ایک نیم عسکری ٹی وی نیوزمیڈیاکی معاونت سے اُڑی حملے اور اس کے مابعداثرات کو استعمال کرکے عالمی جاری چپقلش کے باعث بڑے پیمانے پر لوگوں کی ہلاکتوں، زخمی ہونے کے بے شمار واقعات اور کشمیری عوام کو نابینا کرنے جیسے حقائق کو چھپایا۔
برہان وانی نے ۲۰۱۰ء میں عسکریت کا راستہ اختیار کیا، تب اس کی عمر محض ۱۵ برس تھی۔ اس راستے پر چلنے کا فوری سبب اس کے والد کے ساتھ بھارتی فوجیوں کا انتہائی تحقیرآمیز سلوک اور حد سے بڑھا ظلم تھا۔آیندہ چند برسوں میں وہ جنگلوں میں رُوپوش اور متحرک رہ کر معروف کشمیری کمانڈر بن گیا اور اس نے نوجوان طبقے کی حمایت حاصل کر لی۔ اس طرح بھارتی غلبے اور تسلط کے خلاف مزاحمت کی علامت سمجھا جانے لگا۔ وہ عسکریت پسندوں کی نئی نسل کا نمایندہ تھا۔۱۹۹۰ءکے عشرے میں کشمیری حُریت پسندوں کی پہلی نسل کے برعکس،وہ سرحد عبور کر کے پاکستان نہیں گیا تھا۔ اس نے کبھی فرضی نام بھی استعمال نہیں کیا تھا اور اس نے سوشل میڈیا کے ذریعے وسیع پیمانے پر اپنے حمایتی پیدا کرلیے تھے۔ یہ کوئی حیران کن امر نہیں کہ وانی کے آبائی علاقے ترال،میں اس کی تجہیزوتکفین میں ہزاروں افراد نے شرکت کی،اور جو لوگ جنازے میں نہیں پہنچ سکے، انھوں نے کشمیر بھر میں اس کی غائبانہ نمازِ جنازہ میں شرکت کی۔
جب کشمیری سڑکوں پر نکل آئے،تو پولیس اور نیم فوجی دستوں کی بڑی تعداد پوری وادی کی ہربستی میں اُمڈ آئی۔ ردعمل میں ہزاروں کشمیری نوجوان مظاہرین نے آزادی کے نعرے بلند کرتے ہوئے پتھروں کے ساتھ بھارتی مسلح افواج کی مزاحمت کی۔بھارتی مسلح افواج نے جواب میں مہلک ہتھیار استعمال کیے،گولیاں چلائیں اور سی ایس گیس پھینکی۔ صرف پہلے تین دنوں میں،تقریباً ۵۰؍افراد ہلاک، جب کہ ہزاروں زخمی ہوگئے۔ پھر ان ہلاکتوں کے خلاف احتجاج کے لیے مزید لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔بھارتی فوجیوں اور پولیس نے ان میں سے زیادہ تر کو ہلاک اور زخمی کردیا، حتیٰ کہ ہلاک شدگان کے جنازوں پر بھی بھارتی فوج نے گولیاں برسائیں۔ پھر بھارتی فوج کی جانب سے دھاتی گولیوں کے استعمال کے باعث لوگوں کی بڑی تعداد نابینا ہوگئی۔اس طرح بھارت کو کشمیر بھر میں ایک بھرپور مقبول عام بغاوت کا سامنا کرنا پڑا۔
ان ہلاکتوں میں ایک کشمیری کالج کا طالب علم بھی شامل تھا،جس کو بھارتی فوجیوں نے پتھر مارمار کرہلاک کر دیا تھا۔ پھر ایک گیارہ سالہ لڑکے کو بھی ستمبر کے وسط میں ا س طرح ہلاک کیا کہ اس کا پورا بدن دھاتی چھر.ّوں سے چھلنی تھا۔ اس دوران اکثر نوجوان وہ تھے، جنھیں دھاتی چھر.ّوں سے ہلاک کیا گیا تھا۔ یہ دھاتی چھر.ّے ان بندوقوںکے لیے بنائے جاتے ہیں، جو سیکڑوں کی تعداد میں چھوٹی چھوٹی دھاتی گولیاں خارج کرتی ہیں، یا پھر ایک ایسی چھوٹی سی شاٹ گن استعمال کی جاتی ہے، جس میں سے خارج ہونے والی یہ دھاتی گولیاں آنکھیں چیر دیتی ہیں۔
بھارتی مسلح افواج نے اعتراف کیا کہ ’’صرف ڈھائی ماہ میں ان کی طرف سے ان مظاہرین پر تقریباً ۴ہزار کارتوس چلائے گئے‘‘۔ حالانکہ نہتے مظاہرین، سیکورٹی فورسز کی طرف سے کیے گئے بے رحمانہ سلوک کے خلاف محض احتجاجی نعرے بلند کر رہے تھے۔ گویا ایک تخمینے کے مطابق مسلح افواج نے عوامی اجتماعات کومنتشر کرنے کی خاطر ۳۱ لاکھ دھاتی گولیاں (چھر.ّے) استعمال کیں۔
اس وقت سے لے کر آج تک چار اور پانچ برس کے بچوں کی آنکھوں پر بے شمار دھاتی گولیاں برسائی جا رہی ہیں۔ ستمبر کے آغاز پر کشمیر کے مرکزی ہسپتال کے ڈاکٹروں نے بتایا کہ ۹جولائی ۲۰۱۶ء کے بعد سے ہر روز ہر نصف گھنٹے بعد ان کے پاس ایسے مریض آئے، جن کی آنکھیں دھاتی گولیوں سے زخمی تھیں۔جس کا مطلب یہ ہے کہ ہرروز آنکھوں کے ۱۲ آپریشن کیے جاتے رہے۔ اس پر حکومت نے یہ شرم ناک بیان دیا: ’’جب تک ہمیں کوئی متبادل غیرمہلک ہتھیار نہیں مل جاتا، اس وقت تک ہم انھی [دھاتی چھر.ّوں کو] استعمال کریں گے‘‘۔ دراصل یہ بھارتی حکومت کی وضاحت تھی کہ ’’ہمارے پاس اس کے سوا کوئی دوسر اراستہ نہیں کہ کشمیری عوام کی آنکھوں پر گولیاں چلائیں اور انھیں اندھا کریں‘‘۔ ریاستی سطح پر دانستہ لوگوں کی آنکھوں پر دھاتی گولیاں برسا کر انھیں نابینا کرنا عصرحاضر کا ایک ایسا خونیں واقعہ ہے، جس کی مثال نہیں ملتی۔ صرف جولائی اور پھر اگست ۲۰۱۶ء کے اواخر میں،بھارتی قومی اخبارات سے حاصل کردہ اعدادوشمار کے مطابق، ۶ہزار سے زیادہ افراد زخمی ہوئے، جن میں سے ۹۷۲؍ افراد کی آنکھوںپرگو لیاںبرساکر انھیںزخمی کیا گیا تھا۔ زخمیوں کی زیادہ تعداد مظاہرین یا اپنے گھر کی کھڑکیوں سے مظاہرے دیکھنے والی عورتوں اور بچوں کی تھی۔ لیکن ان میںسے کوئی بھی ایسا نہیں تھا کہ اسے اس کی بینائی سے زندگی بھر کے لیے محروم کر دیا جاتا۔
کشمیر میں بھارتی راج کے خلاف عوامی بغاوت پر ظلم وستم اور بے رحمانہ طرزِعمل ایک وحشیانہ تسلسل ہے۔ ۱۹۹۰ء کے عشرے میں وادیِ کشمیر میں وسیع پیمانے پر پھیلی شورش کے خلاف بھارت نے سخت کارروائی کی، جس کے دوران ہزارو ںکشمیریوں کو ہلاک کیا گیا۔ انھیںاذیت کا نشانہ بنایا گیا ، اور پھر انھیںحراست میں بھی لے لیا گیا اور انھیں لاپتا کیا گیا۔ ایک تخمینے کے مطابق ۱۹۸۹ء سے آج تک ہلاک شدگان کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ ہے۔تقریباً۱۰ہزار نہتے شہریوں کے متعلق یہ سمجھا جاتا ہے کہ انھیں غائب کردیا گیا ہے۔ ۸ہزار کے متعلق یہ بات زبان زدعام ہے کہ انھیں اجتماعی قبروں میں دفنا دیا گیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق ہزاروں افراد کے حوالے سے یہ معلوم ہوا کہ انھیں اذیت رسانی، پانی میں غوطہ زنی،تیزدھارآلے سے جگہ جگہ سے جسم کاٹنے اور مقعدمیں پٹرول اُنڈیلنے جیسے اذیت ناک ہتھکنڈوں کا شکار بنایا گیا۔ اخبار گارڈین کی طرف سے۲۰۱۲ءکی ایک اطلاع کے مطابق،بھارتی حکومتی دستاویزات کے مطابق: بھارتی سیکورٹی ایجنٹوں کے ایک دستے نے مشکوک افراد کے ہاتھ پیرکاٹ دیے اور انھیں اپنے ساتھیوں کا گوشت کھانے پر مجبور کیا گیا۔
۱۵سالہ عائشہ اس وقت اپنے گھر کے باورچی خانے میں تھی، جب کھڑکی سے داخل ہونے والی دھاتی گولیوں کی ایک اچانک بوچھاڑ نے اس کا چہرہ چھلنی کر دیا اور یوں ہمیشہ کے لیے اس کی بینائی چلی گئی۔جنوبی کشمیر میں چارلڑکیاں،جن کی عمریں ۱۳-۱۸ کے درمیان تھیں،کے چہروں پر یہ دھاتی گولیاں برسائی گئیں۔ ایک ڈاکٹر کے کہنے کے مطابق ان میں سے سب سے کم عمر تیرہ سالہ عرفہ جان کی حالت تشویش ناک ہے۔ یہ بھلا کیسے ممکن تھا کہ اپنے گھر میں بیٹھی یہ کم عمربچیاں ۷لاکھ بھارتی فوج کے لیے خطرے کا باعث تھیں۔
دُنیا بھر کے ذرائع ابلاغ جانتے ہیں کہ جب مظاہرین پر دھاتی گولیوں کی بوچھاڑشروع ہوئی،راہگیر اور گھروں میں مقیم طلبہ اور نوعمرزخمی بچے، عظیم جنگوں کا منظر پیش کرنے لگے۔آنکھوں پر پٹیاں بندھے لڑکے اور لڑکیاں قطار اندر قطار بستروں پر موجود ہیں،جب کہ ان کے والدین بے چینی سے ان کے علاج کے منتظرہیں۔اس موقعے پر پولیس اور سرکاری جاسوس بھی ہسپتال کے کمروں میں گھس آتے ہیں تاکہ زخمیوں کے کوائف جمع کیے جائیں، اور رہائی کے بعد ان کی نگرانی کرنے میں آسانی ہو۔
کشمیر میں طویل عرصے سے موجود مبصروں کے لیے بھی یہ سب کچھ ناقابلِ فہم ہے۔ اس کرۂ ارض پر موجود ایک بہت بڑی فوجی قوت، نہتے ہجوم پر قابو پانے میں ناکام ہوچکی ہے، جب کہ اس کے شکار شہریوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے اور زخمی آنکھوں کی تصویریں موبائل فون اور کمپیوٹرز کی سکرینوں پر حرکت کر رہی ہیں۔ چونکہ طاقت ور جنونی حاکم ،جو دہلی سے کشمیر پر حکومت کرتے ہیں، انھوں نے بچوں کو نابینا کرنے کے متعلق کسی افسوس کا اظہار نہیں کیا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ بھارتی ریاست نے فیصلہ کر لیا ہے کہ چند ہزار بچوں کی بینائی چھیننے کا عمل،کشمیریوں کو ان کی حد میں رکھنے کی ایک ’معقول قیمت‘ ہے۔شاید بھارتی ریاست نے بدمستی پر مبنی غرور کے ذریعے خود کو اندھا کر لیاہے۔ ایسا پاگل پن قابض قوتوں کی بددماغی کی علامت ہوتا ہے۔
’رقصِ بسمل‘ کا محاورہ جسے فارسی شاعری میں ایک معشوق کے جذبات ظاہر کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے،کو ایک ’زخمی کا رقص‘سے تعبیر کیا جاتا ہے۔وادیِ کشمیر ایک مذبح خانہ (Slaughter House) ہے، جہاں نہتوں کی آنکھیں دھاتی چھر.ّوں سے اندھی کی گئی ہیں اور ان کے ہاتھ پیر توڑ دیے گئے ہیں۔ ہم نے کچھ ایسے مریضوں کو دیکھا جن کی انتڑیوں کی چیرپھاڑ کی گئی تھی۔ لیکن اس کے باوجود وہ یہی کہہ رہے تھے:’’ہم کب اس قابل ہوں گے کہ واپس جا کر احتجاجی مظاہروں میں شریک ہوسکیں‘‘۔ یہ بات ایک ڈاکٹر نے نم آنکھوں کے ساتھ بتائی۔
بھارت کے طاقت ور ٹیلی ویژن چینل حکومت کو اُکساتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ جارحانہ رویہ اپنایا جائے، جب کہ یہی ٹی وی چینل، کشمیر سے آمدہ خبروں کو مسخ کرتے یا انھیں توڑمروڑ کر پیش کرتے ہیں۔ایک ممتاز اخبار کی طرف سے آنکھوں کو اندھا کردینے والی بندوقوں کے استعمال کے متعلق ایک آن لائن جائزہ لیا گیا۔ اس جائزے میں حصہ لینےوالے بھارتیوں کی ایک واضح اکثریت نے اس ظلم کے حق میں اپنی راے کا اظہار کیا۔ممتازکالم نگار مظاہرین کے خلاف بے رحم طرزِعمل کی توجیہہ پیش کرتے ہیں۔اور پھر حکومتی اقدام کے متعلق ٹویٹر اکائونٹ، ڈیجیٹل انڈیا،نے ایک نظم چسپاں کی، جس میں فوج سے کہا گیا ہے: ’’کشمیریوں کا قتل عام اس وقت تک جاری رکھا جائے، جب تک وہ شکست تسلیم نہیں کر لیتے‘‘۔کشمیر کے تصویری مناظر انٹرنیٹ پر دیکھے جاسکتے ہیں۔ ذرائع ابلاغ کو بندکرنے کی کوششوں کے باوجود ان درجنوں زخمیوں کی تصاویر آئی ہیں، جن میں سے اکثر اس طرح کی ہیں، جیسے قصاب کی دکان پر پڑا گوشت۔
مظاہرین پر قابو پانے کے لیے استعمال ہونے والے ہتھیاروں کا مقصد یہ بیان کیا جاتا ہے کہ ٹانگوں کونشانہ بنایا جائے اور کم سے کم نقصان کرکے مظاہرین کو منتشر کیا جائے۔ لیکن یہاں پر بھارت کے نیم فوجی دستوں اور پولیس نے دانستہ طور پر بچوں اور بچیوں کے چہروں پر دھاتی چھر.ّوں کی بوچھاڑ کو وتیرا بنارکھا ہے۔مظاہرین پر یہ بے رحمانہ حملے ہمیں ایک سوال پوچھنے پر مجبور کرتے ہیں: کیا بھارتی ریاست کشمیریوں کو نابینا کرنے میں خوشی محسوس کرتی ہے؟‘‘
نئی دہلی کی حکومت یا کشمیر میں موجود ان کے مشیر ’چھر.ّے بکھیرتی بندوقوں ‘ کی تباہ کن قوت سے بے خبر نہیں ہیں۔ انٹرنیشنل نیٹ ورک آف سول لبرٹیز آرگنائزیشنزاور فزیشنز فار ہیومن رائٹس نے ۱۰۲ صفحوں کی ایک رپورٹ Lethal in Disguise میں یہ بیان کیا ہے:’’دھاتی گولیاں، بارود کی اندھادھند پھوار خارج کرتی ہیں، جو بہت دُور تک پھیل جاتی ہے اور ان سےکسی واحد چیز کو ہدف نہیں بنایا جاسکتا___ اس لیے یہ نہ صرف قریبی فاصلے پر مہلک ہو سکتی ہیں بلکہ طویل فاصلے پر بھی اندھادھند نقصان کی حامل ہو سکتی ہیں۔ متعددممالک نے تو پرندوں کے شکار کے لیے بھی ان کے استعمال کی ممانعت کر دی ہے کہ ان دھاتی چھر.ّوں کا پھیلائو بہت زیادہ ہوتا ہے۔ مگر دنیا کی ’بڑی جمہوریت‘ اس سے معصوم بچوں اور بچیوں کو شکار کر رہی ہے اور عالمی ضمیر لمبی تان کر سویا ہوا ہے!
اسرائیل میں سیکورٹی فورسز اکثر فلسطینی مظاہرین کے خلاف براہِ راست فائرنگ کے علاوہ ربڑ کی گولیوں کا استعمال کرتی ہیں۔ ۲۰۱۴ء میں امریکی ریاست کیلے فورنیا کے ہسپانوی علاقے میں ان ربڑ کی گولیوں کے استعمال پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
۲۰۱۱ء میں،تحریرچوک، قاہرہ میں مصری آمر حسنی مبارک کے خلاف مظاہروں نے حکومت کا تختہ اُلٹ دیا تھا۔ ان مظاہروں پر قابو پانے کے لیے ایک نوجوان لیفٹیننٹ محمد الشناوی نے اس لحاظ سے بدنامی مول لی کہ اس نے مظاہرین کی آنکھوں پر گولیاں چلائی تھیں جس سے اس کی عرفیت’آنکھ کا شکاری‘ مشہور ہو گئی تھی، اور وہ ظالمانہ ریاستی ظلم وستم کی علامت بن گیا تھا۔
سوال یہ ہے کہ کیا بھارت ’آنکھوں کے شکاریوں‘ کے ہاتھ روکے گا، یا ان کو سزا دے گا؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ دنیا اس ’آنکھوں کے شکاری‘ بھارت کو لگام دے گی یا اپنی تجارت پر نظر رکھتے اور ظلم کو نظرانداز کرتے ہوئے دنیا کو ’پُرامن‘ بنانے کے خواب دیکھتی رہے گی؟
بھارت اس وقت جس نوعیت کے کٹر نسل پرستی کے جنون میں مبتلا ہے، اس میں حقِ خودارادیت مانگنے والے کشمیری، ناپاک ملیچھ دلت،گائے کا گوشت کھانے والے مسلمان غدار، اور اس وحشت ناک قوم پرستی کے مخالف صحافی قربانی کے بکرے تصور کیے جاتے ہیں۔کوئی بھی آواز جو کشمیر میں ان ’پیلٹ بندوقوں‘پر پابندی کا مطالبہ کرتی ہے،اس کو یقینی طور پر نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔
کشمیری خود پر ڈھائے گئے مظالم اور تشدد کے عادی ہو چکے ہیں___اور پھر اسی طرح وہ دنیا کی بے رحمانہ لاتعلقی اور بے حسی کے بھی عادی ہو چکے ہیں۔ ۲۰۱۰ءکے موسم گرما میں کشمیری مسلمان مظاہرین پر پہلی دفعہ یہ چھر.ّوں والی گولیاں چلائی گئیں،تو بہت سے لوگوںنے اسے محض ایک وقتی بدقسمتی کے سوا کچھ نہ سمجھا۔ تاہم، حالات پر نظر رکھنے والوں نے اسے کشمیر میں جنگ کے ایک نئے عنصر کا داخلہ قرار دیا تھا۔اگر کوئی یہ چاہے کہ گذشتہ عشروں میں کشمیریوں کے جسموں پر ڈھائے گئے ظلم وستم کا خاکہ کھینچے،تو پھر اسے بمشکل ہی بدن کا کوئی حصہ ملے گا جو زخمی نہ ہوا ہو۔ ۱۹۹۰ء کے عشرے میں جب تشدد اپنی بدترین شکل میں عروج پر تھا،آنکھوں کو نقصان نہیں پہنچایا جاتا تھا، لیکن اب معلوم ہوتا ہے کہ بھارتیوں کے نزدیک آنکھیں ایک آسان اور پسندیدہ ہدف بن چکی ہیں۔
میں ۱۹۸۰ء اور۱۹۹۰ء کے عشروں کی تاریکی میں پلا بڑھا ہوں۔ ہم نوعمر لڑکے جبلی طور پر یہ سمجھتے تھے کہ ہمارے ساتھ غیرانسانی سلوک ہوتا ہے،راہ چلتے ہوئے ہم پر بلاوجہ تھپڑوںکی بارش کی جاتی ہے،اور بندوق کے بٹ سے پیٹا جاتا ہے۔ لیکن ایک بھارتی فوجی کے نزدیک یہ سب کچھ محض ایک مذاق ہوتا ہے۔ ہم لاشوں، جنازوں اور تابوتوں کو گزرتے وقت کی یادگارکے طور پر ذہن میں نقش کرتے، اور ان واقعات کو ’قتلِ عام‘ اور ’شہادت‘ کی اصطلاحوں میں یاد رکھتے۔
اس پوری مدت میں مَیں نے انتہائی بے رحم اور بے لطف زمانے کو دیکھا۔ کیونکہ شورش کو کچلنے کی خاطر بھارت کی طرف سے’پکڑو اور مار دو‘کی وحشیانہ حکمت عملی اپنائی گئی تھی۔ جس کے تحت مسلح اور ’ناپسندیدہ‘ نہتے افراد،دونوں کو فوری طور پر ہلاک کر دیا جاتا ہے، یا انھیں عبرت ناک اذیت دے کر ہلاک کیا جاتا ہے۔ دہلی کی جانب سے غیرمعمولی ہندو نسل پرستی پر مبنی حکمت عملی سے شہ پا کر بھارتی سیکورٹی فورسز یہ سوچتی ہیں کہ انھیں زیادہ سے زیادہ ظلم اور بے رحمی کا طرزعمل اختیار کرنے کی کھلی چھٹی دے دی گئی ہے۔
۲۰۱۳ءمیں نیویارک ٹائمز کے وقائع نگار زاہدرفیق نے اپنے ایک مؤثر مضمون میں ان چند افراد کی رُودادیں بیان کیں، جنھیں دھاتی گولیوں سے اندھا کر دیا گیا تھا___ حالانکہ اس وقت کشمیریوں کی بینائی چھیننے پر مبنی طرزعمل نے کچھ زیادہ لوگوں کی توجہ حاصل نہیں کی تھی۔ صدافسوس کہ آج اس وقت بھی بھارتی سول سوسائٹی یا انسانی حقوق کی کسی تنظیم نے بمشکل ہی اس امر کو اپنی توجہ کا موضوع بنایا ہے کہ نابینا کرنے کے عمل کو ایک گھنائونے جرم کے طور پربیان کیا جائے۔ اس کے برعکس کشمیری مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مہم چلا کر بھارت کی کچھ میڈیا تنظیمیں بہت خوشی محسوس کرتی ہیں۔ ہندو قوم پرستی کے جنون میں مبتلا ہزاروں بھارتی نوجوان، سوشل میڈیا کے ذریعے کشمیری نوجوانوں کی ہلاکتوں ، انھیں زخمی کرنے اور پھر نابینا کرنے کی کارروائیوں پر جشن مناتے ہیں۔
کشمیر کے ایک مرکزی ہسپتال کے ماہرامراض چشم نے جولائی میں انڈین ایکسپریس کو بتایا: ’’پہلی بار بے ترتیب تیزدھار کونوں پر مشتمل چیزوں کو استعمال کیا جا رہاہے، جو جس وقت آنکھوں سے ٹکراتی ہیں تو بہت زیادہ نقصان پہنچاتی ہیں‘‘۔بے ترتیب تیز دھار کونے؟میں نے یہ سمجھا تھا کہ ربڑیا پلاسٹک کی گولیوں کے مانند مظاہرین پر چلائی گئی دھاتی گولیاں،یا قرص نما چیزیں ہیں۔ لیکن معلوم ہوا کہ یہ کوئی مختلف قسم کی گولیاں ہیں اور۲۰۱۶ء سے بھارتی فورسز دندانے دار گولیاں استعمال کر رہی ہیں، جو گوشت اور آنکھوں کو، بہت زیادہ نقصان پہنچاتی ہیں اور جن کے متعلق ڈـاکٹر کہتے ہیں کہ ’’زخمی بدن سے انھیں نکالنے میں بہت مشکل پیش آتی ہے‘‘۔
سوال یہ ہے کہ بھارت یہاں تک کیسے پہنچا کہ اپنے زیرتسلط علاقے کے ہزاروں مکینوں کو نابینا کردے؟ یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے، کہ اقوام متحدہ کا ایک رکن،ایسی فسطائیت میں ملوث ہو؟ درحقیقت اقوام متحدہ طاقت ور ملکوں کی لونڈی کے رُوپ میں ایسا ادارہ ہے، جو کم زور ملکوں پر پابندیاں لگاتی اور طاقت ور یا بڑے ملکوں کا پٹہ کھلا رکھتی ہے۔
یہ قطعی بات ہے کہ بھارت کے حکمرانوں کی نظر میں کشمیری ان کی محکوم رعایا ہیں، برابر کے شہری نہیں ہیں، کیو نکہ کشمیریوں نے بھارتی راج تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے۔ اگر وہ اس کے شہری ہیں تو وہ ان پر اس قسم کی گولیوں کی بوچھاڑ نہیں کر سکتے جو اندھا بنادے۔ اس وقت بھارتی حکومت، کشمیری بچوں کی بینائی چھین کر فیصلہ کن انداز میں اعلان کر رہی ہے:’’تمھیں ہرقیمت پر سرجھکانا ہوگا،اور اگر تم انکار کر وگے،ہمارا غضب اور قہر تم پر نازل ہوتا رہے گا، کیونکہ ہم ایک بڑی منڈی ہیں‘‘۔
نوبیل انعام یافتہ بھارتی ماہرمعیشت،امرتاسین نے اس صورتِ حال پر کہا تھا:’’کشمیری احتجاجی مظاہرین پر پیلٹ گنوں کا استعمال اور شدید ظلم وستم،بھارتی جمہوریت پر کلنک کا ٹیکہ ہے‘‘۔
بھارت کے ظالمانہ طرزِ حکمرانی کی تائید کرنے والوں کی بڑی تعداد کے باوجود بھارت میں کچھ ایسے لوگ، صحافی، دردِ دل رکھنے والے طالب علم، حتیٰ کہ کچھ سیاست دان بھی موجود ہیں، جنھوں نے اس روش کی مخالفت کی ہے، بھارتی وحشیانہ کارروائی کے متعلق مضامین میں حکومت سے استدعا کی ہے کہ اس ظلم وستم کا سلسلہ بند کیا جائے،کشمیریوں کے ساتھ شفقت پر مبنی سلوک کیا جائے اور بات چیت کی جائے۔لیکن یوں معلوم ہوتا ہے کہ بھارتی حکومت اس جنگجویانہ پاگل پن اور ووٹوں کی بھوک میں مبتلا ہے۔ اگست میں سرینگر میں بھارتی افواج نے اے ٹی ایم پر تعینات ایک اکیس سالہ محافظ کو مختصر فاصلے سے ۳۰۰ دھاتی گولیاں مارکر شہید کر دیا۔
اس سے قبل کہ یہ سب کچھ فراموش کر دیا جائے،اور ظلم کی داستانیں تہہ در تہہ ظلم کے پہاڑ بنتے جائیں، ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ ان زخمیوں میں سے کچھ نہ کچھ مظلوموں کی آنکھوں کا آپریشن ہو، اور وہ کم از کم ایک آنکھ کی بینائی دوبارہ حاصل کر لیں۔دنیا بھر میں آنکھوں کے سرجنوں کے لیے یہ ایک بہت بڑا چیلنج منتظر ہے۔ لیکن اسی قوت کے ساتھ بھارتی حکمرانوں کو روکنے کے لیے بھی عالمی سطح پر ڈاکٹروں اور انسانی ہمدردی کی تنظیموں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
ممکن ہے کہ موت اور خون کی اس لہر کے نتیجے میں کشمیر میں بظاہر خاموشی چھا جائے ___ لوگ خریداری کریں، بچوں کی شادیاں کریں،کرفیو کی پابندی کے بغیر عید منائیں اور اپنی مرجھائی ہوئی سرزمین پر سیاحوں کو خوش آمدید بھی کہیں۔لیکن آزادی پسندوں کی یہ نئی نسل،پرورش پاتے ہوئے کب نابینا ہوئی، اور کس روز ہوگی،کب اسے زخمی کیا جائے گا؟ ہمارے گنہ گار ضمیر کے لیے ہروقت پھن پھیلائے یہ سوال موجود رہے گا۔ یہ نابینا بچے ساری زندگی یقینااس ملک کو یاد رکھیں گے، جس نے ان کے ساتھ یہ درندگی کی۔ (The Guardian،لندن،انگریزی سے ترجمہ: ادارہ)
۵؍ اگست ۲۰۱۹ء کے بعد جب سے بھارتی حکومت نے غیرقانونی اور غیراخلاقی طور پر، مقبوضہ کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے اور وہاں پورے ہند کو غیرمنقولہ جایداد خریدنے کا حق دیا ہے، تین ماہ ہونے کو آئے ہیں کہ وہاں بھارتی مسلح افواج کے زیرِ تسلّط خطّے میں کرفیو نافذ ہے۔
سری نگر کی رہایشی، عظمیٰ جاوید خوف و دہشت کے مارے گھر سے باہر نہیں نکلی۔ البتہ وہ ہرتھوڑی دیر بعد صورتِ حال کا جائزہ لینے کے لیے اپنے دو منزلہ مکان کی کھڑکی سے باہر ضرور جھانکتی ہے۔یہ ۲۰سالہ طالبہ تعلیم کے سلسلے میں زیادہ تر کیرالہ ہی میں رہتی ہے ، مگر اس بار اپنے والدین اور دوسرے رشتے داروں کے ساتھ عیدالاضحی سے کچھ عرصہ قبل سری نگر آئی تھی۔ تاہم، یہاں پہنچ کر عید کی خوشیاں منانے کے بجاے ایک ایسے پنجرے میں قید کر دی گئی، جس کے باہر سنسان گلیوں میں مسلّح بھارتی فوجی گشت کر رہے ہیں۔ عید کے روز چند کشمیریوں نے اپنے رشتے داروں سے ملنے کے لیے سڑک پار کرنے کی اجازت طلب کی، تو بھارتی فوجیوں نے سختی سے انکار کر دیا۔
عظمیٰ نے معروف خبر رساں عالمی ادارے، الجزیرہ کے نمایندے سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ: ’’ یوں تو اس وقت کشمیر میں ہر فرد ہی مغلوب و معتوب ہے، لیکن کشمیری خواتین اس غیر انسانی محاصرے کا سب سے بڑا نشانہ ہیں۔مواصلاتی نظام ٹھپ ہونے کی وجہ سےمَیں نے پچھلے کئی روز سے قریب ہی رہنے والی اپنی سہیلی کی آواز تک نہیں سُنی اور نہ یہ جانتی ہوں کہ اس وقت منزیٰ کس حال میں ہے۔ ہمارے مَرد تو پھر بھی کسی نہ کسی طرح کبھی کبھار نماز کے لیے گھروں سے نکلنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، لیکن ہم خواتین تو یہ بھی نہیں کر سکتیں‘‘۔
عظمیٰ کا مزید کہنا تھا: ’’ مسلّح بھارتی سپاہیوں کی وحشت ناک، ہوس ناک نظریں مجھ سمیت دوسری لڑکیوں اور خواتین کو خوف کے مارے بے جان و مفلوج کر دیتی ہیں۔ مَیں چاہتی ہوں کہ میرے والد اور بھائی بھی باہر نہ نکلیں کہ کہیں وہ بھارتی فوج کی سفّاکیت کی بھینٹ نہ چڑھ جائیں۔ لیکن اُن کے
پاس اس کے علاوہ کوئی اور چارہ بھی نہیں، کیوں کہ اشیاے خورد و نوش اور روزمرّہ کی دوسری ضروریات پوری کرنے کے لیے انھیں چار دیواری چھوڑنی ہی پڑتی ہے‘‘۔
’’غیر کشمیریوں کی آبادکاری پر عاید پابندی ختم کرنے کے محرکات کا اندازہ آر ایس ایس کے ان اوباش عناصر کے اسکرین شاٹس سے لگایا جا سکتا ہے، جن میں ایسے انتہا پسند ہندوئوں کی عامیانہ پوسٹوں نے بھی کشمیری خواتین کو کرب کا شکار کردیا ہے۔پچھلے دنوں ہمارے گھر کے باہر ایک بہت بڑا مظاہرہ ہوا، جو آناً فاناً مظاہرین اور بھارتی افواج کے درمیان تصادم کی وجہ سے پُرتشدد ہو گیا۔ تب مَیں اور میری والدہ گھر میں اکیلی تھیں، جب کہ میرے والد اور بھائی مظاہرین میں شامل تھے۔ جب اس مظاہرے نے تصادم کی شکل اختیار کی، تو مجھے اُن کی فکر ستانے لگی۔ دل میں طرح طرح کے وسوسے آنے لگے۔ خوف و پریشانی سے حالت غیر ہو گئی۔ رات گئے جب میرے والد اور بھائی گھر لوٹے، تو میرا بلڈ پریشر اس قدر شُوٹ کر چکا تھا کہ اُنھیں مجھے دکھانے کے لیے ڈاکٹر تک رسائی کے لیے تدابیر سوچنا پڑیں‘‘۔
غیر کشمیریوں کو مقبوضہ کشمیر میں بسانے کی غرض سے بھارتی آئین کے آرٹیکل ۳۵-اے میں ترمیم کی راہ ہموار کرنے کے لیے بی جے پی کی حکومت نے یہ جواز گھڑا کہ: ’’اس فیصلے سے مسلم اکثریتی خطے میں نہ صرف صنفی مساوات قائم ہو گی، بلکہ مسلمان خواتین کو ’آزادی‘ بھی مل جائے گی‘‘۔ حالانکہ اس اعلان کے چند روز بعد ہی بھارت کی ہندو قوم پرست حکمران جماعت، بھارتیہ جنتا پارٹی سے تعلق رکھنے والے متعدد سیاست دانوں نے کشمیری خواتین سے متعلق نازیبا بیانات دینا شروع کر دیے۔مثال کے طور پر کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے کے پانچ روز بعد ۱۰؍اگست کو بھارتی ریاست، ہریانہ کے وزیر اعلیٰ، منوہر لال نے یہ بیان دیا کہ: ’’جونہی کشمیر کُھلے گا، تو وہ وہاں سے دُلہنیں لے کر آئیں گے‘‘۔ قبل ازیں، بی جے پی ہی سے تعلق رکھنے والے ایک رُکن اسمبلی، وکرم سینی نے کہا تھا کہ: ’’اب کشمیر کی گوری خواتین سے بیاہ رچا سکتے ہیں‘‘۔
بی جے پی سے وابستہ سیاسی رہنمائوں کے اس چھچھورے پَن اور نازیبا بیانات پر نئی دہلی کی جواہر لال نہرو یونی ورسٹی سے وابستہ خاتون پروفیسر اور حقوقِ نسواں کی محافظ، نیو دتیہ مینن کا یہ بیان سامنے آیا کہ: ’’اس قسم کے بیانات دراصل فتح اور لُوٹ مار کا علانیہ اظہار ہیں، جن سے کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے کے محرّکات بھی عیاں ہوتے ہیں‘‘۔
انتہا پسند ہندو رہنماؤں کے ان خیالات نے بھارتی سوشل میڈیا پر ایک طوفان کھڑا کردیا اور مختلف سوشل میڈیا نیٹ ورکس پر کشمیری خواتین سے شادی سے متعلق پوسٹوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اس سلسلے میں بھارتی ذرائع ابلاغ میں شائع اور نشر ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق، ۵؍اگست کے بعد گوگل پر اس سوال کا جواب تلاش کرنے والے بھارتی صارفین کی تعداد میں حد درجہ اضافہ دیکھا گیا: ’’ کشمیری خواتین سے شادی کیسے کی جا سکتی ہے؟‘‘
انتہا پسند ہندوئوں کی جانب سے ایسے سفلی جذبات کے اظہار نے کشمیری خواتین کے احساسِ عدم تحفظ میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ سری نگر کی ۲۲سالہ ثمرین کہتی ہیں کہ: ’’ بھارت میں جس انداز سے کشمیری خواتین کو روزانہ کی بنیاد پر محض ایک جنس کے طور پر اپنانے، کم زور مخلوق سمجھ کر اُن کی نمایش کرنے اور اُن میں خوف و دہشت پھیلانے کا سلسلہ جاری ہے، اُس کے سبب کشمیری خواتین میں عدم تحفظ کا احساس بڑھ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہم خود کو مَردوں سے بھی زیادہ ستم رسیدہ محسوس کرتی ہیں۔ مواصلاتی نظام معطل ہونے کی وجہ سے ہمیں دُہری اذیّت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ اب ہم دوسرے شہروں اور علاقوں میں مقیم اپنے عزیز و اقارب، حتیٰ کہ بہن، بھائیوں تک کی خیریت دریافت نہیں کرسکتے۔ گذشتہ کئی روز سے فون اور انٹرنیٹ کی سروس معطّل ہونے کی وجہ سے مَیں نئی دہلی میں رہایش پذیر اپنی بہن سے رابطہ نہیں کر سکی۔ مَیں اُس سے ملنے کے لیے ٹکٹ بُک کروانا چاہتی تھی، لیکن یہ بھی ممکن نہ ہو سکا، کیوں کہ اس مقصد کے لیے ہمیں اپنی رہایش گاہ سے ۲۰کلو میٹر دُور واقع ایئر پورٹ جانا ہے، جو کرفیو نافذ ہونے کے سبب نا ممکن ہے۔مستقل پریشانی لاحق ہونے کی وجہ سے میری والدہ بیمار ہوگئی ہیں۔
دوسری جانب سری نگر کی رہایشی ۲۲سالہ مصباح رئیس کو بھارت میں کشمیری خواتین کے ساتھ بڑھتے صنفی تعصّب پر کوئی حیرانی نہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ بی جے پی حکومت کی خود کو مسلمان کشمیری خواتین کا محافظ و نگہبان قرار دینے کی کوشش کا حقیقت سے دُور دُور تک کوئی تعلق نہیں۔ تاہم، مَیں اس بات کی توقع رکھتی ہوں کہ بھارت کا ایک باشعور طبقہ مودی سرکار میں پائے جانے والے صنفی تعصب سے کماحقہٗ واقفیت رکھتا ہے۔ نیز، انھیں اس امر کا بھی ادراک ہے کہ کشمیری خواتین کو ’محفوظ بنانے کی کوششوں‘ کے پیچھے درحقیقت کون سے عزائم کار فرما ہیں‘‘۔
بدقسمتی سے دورانِ جنگ خواتین کے ساتھ جنسی تشدد کی دیگر صورتوں کو عموماً ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ اسی خدشے کے پیشِ نظر ہی کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی رُکن، کویتا کرشنن ۵؍اگست کے بعد چند سماجی کارکنوں کے ساتھ خواتین کی حالتِ زار جاننے کے لیے مقبوضہ کشمیر پہنچیں۔
مقبوضہ وادی میں مختلف مسلمان خواتین سے ملاقاتوں کے بعد کویتا کرشنن کا کہنا تھا کہ: ’’انڈین ملٹری اور پیرا ملٹری فورسز کی تعداد میں اضافے کی وجہ سے کشمیری خواتین اور لڑکیوں کی بے چینی و اضطراب میں اضافہ ہوا ہے‘‘۔ اپنے دورے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کویتا کا کہنا تھا کہ ’’کشمیری خواتین نے ہمارے وفد کو بتایا کہ کرفیو نافذ ہونے کی وجہ سے اُنھیں اپنے بچّوں کے لیے دودھ اور کھانے پینے کی دیگر اشیا لانے میں انتہائی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ علاوہ ازیں، وہ ۱۰برس سے کم عُمر بچّوں کی غیر قانونی قید پر بھی بہت زیادہ فکر مند ہیں۔ نیز، بعض خواتین اور لڑکیوں نے بھارتی مسلّح افواج کے گھروں پر چھاپوں کے دوران اپنی آبروریزی کے خدشات کا بھی ذکر کیا‘‘۔
عالمی ذرائع ابلاغ نے تسلیم کیا ہے کہ ’’بھارتی افواج ماضی میں بھی کشمیری خواتین کی عصمت دری کے واقعات میں ملوّث رہی ہیں۔ انٹرنیشنل میڈیا کے مطابق، ۲۳فروری ۱۹۹۱ء کو جب قابض بھارتی افواج نے وادی میں ایک بڑا ملٹری آپریشن کیا، تو اس دوران سیکورٹی فورسز نے ضلع کپواڑہ کے دو دیہات، کونان اور پوش پورہ میں درجنوں خواتین کو اپنی درندگی کا نشانہ بنایا۔ اس قسم کے واقعات وقتاً فوقتاً مقبوضہ کشمیر میں رُونما ہوتے رہتے ہیں ، مگر بھارتی فوج انھیں ہمیشہ رد کر دیتی ہے‘‘۔
تاہم، جولائی ۲۰۱۹ء میں سامنے آنے والی اقوامِ متّحدہ کی ایک خصوصی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ: ’’ فی الوقت ۱۹۹۱ء میں کونان اور پوش پورہ میں بڑے پیمانے پر رُونما ہونے والے خواتین کی آبرو ریزی کے واقعات کے مقدّمے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ بھارتی حکام، متاثرہ خواتین اور اُن کے اہلِ خانہ کی حصولِ انصاف کی کوششوں میں رُکاوٹیں کھڑی کر رہے ہیں‘‘۔
اسی رپورٹ میں بھارت پر یہ زور بھی دیا گیا ہے کہ: ’’مقبوضہ کشمیر میں جنسی تشدد پر مبنی جرائم کے مرتکب ریاستی و غیر ریاستی عناصر کے خلاف تحقیقات کی جائے اور متاثرین کو انصاف فراہم کیا جائے۔ تاہم، اس کے برعکس بھارتی فوج کی جنونیت میں روز بہ روز اضافہ ہی ہو رہا ہے اور عفت مآب کشمیری خواتین خود کو پہلے سے زیادہ آفت رسیدہ تصوّر کر رہی ہیں‘‘۔
اس سلسلے میں سری نگر کی رہایشی ۲۲سالہ طالبہ، جانیس لنکر نے بتایا ہے ’’ بی جے پی رہنمائوں اور انتہا پسند ہندوئوں کے مسلمان کشمیری خواتین سے متعلق تضحیک آمیز بیانات اور نازیبا رویہ ہی مقبوضہ کشمیر میں کشیدگی میں اضافے اور مظاہروں، احتجاج اور لاک ڈائون کے دوران بڑے پیمانے پر گرفتاریوں کی اصل جڑ ہے‘‘۔
کشمیری طالبہ نے اس صورتِ حال کا ذمّے دار بھارت کے بعض سیاسی طبقات کی جانب سے سِفلی جذبات کی حوصلہ افزائی کے علاوہ بھارتی سنیما گھروں میں کشمیری خواتین کے کرداروں کی نمایش کو بھی ٹھیرایا۔ اس بارے میں اُن کا کہنا تھا کہ: ’’بھارت میں کشمیری عورت کو انتہائی سادہ لوح، بے ضرر، نادان اور ایسی گڑیا کے طور پر پیش کیا جاتا ہے کہ جس سے صرف دل بہلایا جا سکتا ہے۔ مَیں باقاعدگی سے سوشل میڈیا استعمال کرتی ہوں۔ مَیں نے مختلف سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر ایسی متعدد توہین آمیز اور مضحکہ خیز پوسٹس دیکھی ہیں کہ جن میں باحجاب کشمیری خواتین سے متعلق انتہائی نازیبا تبصرے کیے گئے ہیں، جو ایک نفرت انگیز عمل ہے‘‘۔
کشمیری خواتین سے متعلق بی جے پی کے دریدہ دہن رہنماؤں کے ایسے انتہائی گھٹیا بیانات پر نئی دہلی سے معروف دانش ور عرفان حبیب کا کہنا ہے کہ ’’یوں اگرچہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے بعض رہنماؤں کے ایسے نازیبا کلمات قوم پرست ہندوؤں کی حمایت حاصل کرنے کا حربہ ہے، لیکن اگر وسیع تناظر میں دیکھا جائے، تو یہ درحقیقت مسلمانوں سے صدیوں پر محیط دَور کا شدید انتقام لینے کی کوششوں کا ایک حصّہ ہے۔ حالاں کہ انتہا پسندہندوئوں کی جانب سے بیان کردہ تاریخ کا نصف سے بھی زائد حصّہ کذب بیانی، افسانہ سازی اور مبالغہ آ رائی پر مشتمل ہے‘‘۔
کشمیر ی قوم پر اس وقت جو آفت آن پڑی ہے اور جس طرح بھارت کی ہندو انتہا پسند حکومت نے ان کے تشخص اور انفرادیت پر کاری وار کیا ہے، ہونا تو چاہیے تھا کہ مذہبی عناد سے اوپر اٹھ کر اس کا مقابلہ کیا جاتا۔ افسوس کا مقام ہے کہ کشمیری پنڈتوں (ہندوئوں) کے بااثر طبقے اور اکثریت نے ایک بار پھر اپنے ہم وطنوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپ کر تاریخ کے مختلف اَدوار کو دہرایا، اور ظلم و جبر کے آلات (Instruments of Tyranny) بننے کا کام کیا۔ سابق انڈین ایئر وائس مارشل کپل کاک، مقتدر اسپورٹس صحافی سندیپ، اشوک بھان، نتاشا کول، فلم میکر سنجے کاک اور ایم کے رینہ وغیرہ کے علاوہ پنڈت برادری، کشمیریو ں پر آئی اس آفت پر جھوم اٹھی ہے۔ قومی میڈیا میں موجود اسی کمیونٹی کے تین افراد، سیکورٹی کے ہمراہ کشمیر میں گھوم کر یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کررہے تھے کہ: ’’کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے سے کشمیری خوش ہیں اور کسی بھی طرح کے رد عمل کا اظہار نہیں کر رہے ہیں‘‘۔ یہ تو بھلا ہو بین الاقوامی میڈیا کا، جس نے ان کا پول کھول دیا۔
حیرت کا مقام ہے کہ جہاں بقیہ تمام میڈیا ، انٹرنیٹ، فون کی عدم دستیابی کی وجہ سے بے دست و پا ہوگیا تھا، یہ تین افراد لمحہ بہ لمحہ تصویریں اور رپورٹیں سوشل میڈیا پر اَپ لوڈ کر رہے تھے۔ وہ کشمیر کو بھول کر نسل پرستی کے پیمانے سے معاملات کو جانچ رہے تھے۔ سوشل میڈیا پر دعویٰ کیا گیا کہ: ’’۱۹۹۰ء میں کشمیری پنڈتوں کے ساتھ جو کچھ ہوا، آج مودی حکومت نے اس کا بدلہ چکادیا ہے‘‘۔ سوال یہ ہے کہ چند افراد کے مبینہ افعال کی سزا اجتماعی طور پر پوری کشمیری قوم کو کیسے دی جاسکتی ہے؟ ویسے ۱۹۹۰ء سے لے کر اب تک کشمیر میں تو بھارت ہی کی عمل داری ہے۔ جن لوگوں نے کشمیری پنڈتوں کو بے گھر ہونے پر مجبور کیا، ان کے خلاف تادیبی کاروائی کیوں نہیں کی گئی؟ بلکہ اس کو محض پروپیگنڈا کا ہتھیار بنایا گیا۔ یہ خود کشمیری پنڈتوں کے لیے بھی سوچنے کا مقام ہے۔
یہ سچ ہے کہ۱۹۸۹ء میں کشمیر میں عسکری تحریک کے آغاز کے ساتھ ہی خوف کی فضا طاری ہوگئی تھی۔ عسکریت پسندی پر کسی کا کنٹرول نہ ہونے کے باعث، آوارہ اور غنڈا عناصر نے بھی اس میں پناہ لی۔ کئی افراد توبغیر کسی مقصد کے یا کسی سے بدلہ چکانے کی نیت سے بھی عسکریت میںشامل ہوگئے۔ جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ (جے کے ایل ایف) اور حزب المجاہدین کو چھوڑ کر، ایک وقت تو وادی میں ایک سو سے زائد عسکری تنظیمیں تھیں۔اس طوائف الملوکی کو مزید ہوا دینے میں بھارتی ایجنسیوں نے بھی بھر پور کردار ادا کیا۔ ۱۹۸۹ء میں گورنر بننے کے فوراً بعد نئی دہلی حکومت کے گورنر جگ موہن نے پوری سیاسی قیادت کو ، جو حالات کنٹرول کر سکتی تھی، گرفتار کرکے بھارت کے دُور دراز علاقوں کی جیلوں میں بند کردیا۔بھارت نواز سیاسی قیادت تو پہلے ہی فرار ہوکر جموںاور دہلی منتقل ہوچکی تھی۔ وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ بھی اپنے خاندان کے ساتھ لندن منتقل ہوگئے تھے۔ اس انارکی کا خمیازہ کشمیری پنڈتوں کو ہی نہیں بلکہ مقامی اکثریتی آبادی مسلمانوں کو بھی بھگتنا پڑا۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق: ’’۳۰سالوں میں۲۵۰ پنڈت قتل ہوئے، جس کی وجہ سے [مبینہ طور پر] ڈھائی لاکھ کی آبادی نقل مکانی پر مجبور ہوگئی‘‘۔اگر یہ نسل کشی ہے تو اس دوران کشمیر میں اندازاً جو ایک لاکھ مسلمان بھی شہید کیے گئے، وہ کس کھاتے میں ہیں؟ جموں خطے کے دُور دراز علاقوں میں مجموعی طور پر ۱۵۰۰ کے قریب غیر پنڈت ہندو ، جو زیادہ تر دلت، اور راجپوت تھے، قتل عام کی وارداتوں میں ہلاک ہوئے، مگر اس کے باوجود ان خطوں سے آبادی کا کوئی انخلا نہیں ہوا۔
چونکہ میں خود ان واقعات کا چشم دید گواہ ہوں، اس لیے مکمل ذمہ داری کے ساتھ یہ تحریر کرسکتا ہوں کہ گورنر جگ موہن، پنڈتوں کے انخلا میں براہ راست ملوث ہوں یا نہ ہوں، مگر انھوں نے حالات ہی ایسے پیدا کیے کہ ہر حساس شخص محفوظ پناہ گاہ ڈھونڈنے پر مجبور تھا۔ اگر معاملہ صرف پنڈتوں کی سلامتی کا ہوتا، توسوپور اور بارہ مولا کے پنڈت خاندانوں کو پاس ہی بھارتی فوج کے ۱۹ویں ڈویژن کے ہیڈکوارٹر منتقل کیا جا سکتا تھا۔ایک تو اپنے گھروں کے ساتھ ان کا رابطہ بھی رہتا اور حالات ٹھیک ہوتے ہی واپس بھی آجاتے۔جگ موہن کے آتے ہی افواہوں کا بازار گرم تھا، کہ: ’’آبادیوں پر بمباری ہونے والی ہے‘‘۔ کوئی ان افواہوں کی تردید کرنے والا نہیں تھا۔
۱۹۹۰ء کے اوائل میں انارکی اور عسکریت کی وجہ سے، کئی بے گناہوں کی جانیں گئیں۔ مرنے والوں میں پنڈت بھی شامل تھے اور کشمیری مسلمان بھی۔ تاہم، کشمیر ی پنڈتوں کی گھر واپسی کے موضوع پر جہاں بھارتی حکومت سے لے کر بھارتی میڈیا کے بااثر حلقے تک، اکثریتی طبقے کے جذبات کو منفی انداز میں پیش کر رہے ہیں، وہیں یہ بھی حقیقت ہے کہ پنڈتوں کو مارنے والے وہ بندوق بردار جب تائب ہوئے تو انھیں بھارتی سکیورٹی ایجنسیوں نے سر آنکھوں پر بٹھایا۔
کشمیر کی آزاد حیثیت کو زیر کرکے جب مغل بادشاہ اکبر نے آخری تاج دار یوسف شاہ چک کو قید اور جلا وطن کیا، تو مغل اگرچہ مسلمان تھے، مگر اس خطے میں ان کی سیاسست کا انداز سامراجیوں جیسا تھا۔ چونکہ کشمیر میں مسلمان امرا نے ہی مغل فوج کشی کی مزاحمت کی تھی، اسی لیے انھوں نے کشمیری پنڈتوں کی سرپرستی کرکے اقلیت گری (minority complex) کو ابھارا اور مسلمان امرا کو نیچا دکھانے کے لیے کشمیری پنڈتوں کو اپنا حلیف بنایا۔ بقول شیخ محمد عبداللہ :’’پنڈتوں کے جذبۂ امتیاز کو تقویت دینے کے لیے آدتیہ ناتھ بٹ کو ان کی مراعات کا نگہبان مقر ر کیا۔ جنوبی و شمالی کشمیر میں کشمیری پنڈت ہی گورنر بنائے گئے‘‘۔
ریاست جموں و کشمیر کو تحلیل کرنے کے بعد اب کشمیری عوام کی غالب اکثریت کے تشخص، تہذیب و کلچر پر کاری ضرب لگانے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ جہاں ابھی حال ہی میں بھارتی وزیرداخلہ امیت شا نے: ’’ہندی کو قومی زبان قرار دینے کا عندیہ دیا‘‘، وہیں دوسری طرف حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے چند عہدےداروں نے ایک عرضداشت میں مطالبہ کیا ہے کہ: ’’علاقائی زبانوں کا اسکرپٹ، یعنی رسم الخط دیوناگری، یعنی ہندی میں تبدیل کرکے ملک کو جوڑا جائے‘‘۔ اس کی زد میں براہ راست کشمیری (کاشئر) اور اردو زبانیں آتی ہیں، جو فارسی، عربی، یعنی نستعلیق رسم الخط کے ذریعے لکھی اور پڑھی جاتی ہیں۔ یہ مہم تو کئی برسوں سے جاری ہے، مگر حال ہی میں بی جے پی کے لیڈروں ، بشمول دہلی میں مقیم چند کشمیر پنڈت گروپوں نے اس کو مہمیز لگائی ہے۔ بھارت کے موجودہ قومی سلامتی مشیر اجیت دوبال نے عرصے سے کشمیر کو سیاسی کے بجاے ’تہذیبی جنگ کا مرکز‘ قرار دیا ہے۔
چند برس قبل حیدر آباد (تلنگانہ، بھارت) کی تقریب سے خطاب میں اجیت دوبال نے کہا تھا: ’’اس مسئلے کا حل تہذیبی جارحیت اور اس خطے میں ہندو ازم کے احیا میں مضمر ہے‘‘۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ پچھلے سال کشمیر میں گورنر انتظامیہ نے کشمیری ثقافتی لباس پھیرن پر پابندی لگادی تھی۔ پہلے تو اسے سیکورٹی رسک قرار دیا گیا، جس کے بعدتعلیمی و سرکاری اداروں میں عام لوگوں اور صحافیوں کے پھیرن پہن کر داخل ہونے پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔ کسی قوم کو ختم کرنے کے لیے صدیوں سے قابض طاقتوں کا طریقہ رہا ہے کہ اس کو اس کی تاریخ و ثقافت سے دور کردو۔ کشمیریوں کی نسل کشی (ethnic cleansing)کے ساتھ کشمیر کی ثقافت کو بھی ختم کرنا اسی منصوبے کا حصہ ہے۔
ایک منصوبے کے تحت ’’کشمیر کی ۶۴۷سالہ مسلم تاریخ کو ایک تاریک دور‘‘ کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ ویسے ان چھے صدیوں میں کشمیری مسلم سلاطین کا دور تو صرف ۲۴۷برسوں تک ہی محیط تھا، باقی وقت تو بیرونی حکمرانوں نے ہی کشمیر پر گورنروں کے ذریعے حکومت کی ہے۔ کشمیری زبان کے رسم الخط کو قدیمی شاردا اور پھر دیوناگری میں تبدیل کرنے کی تجویز اس سے قبل دوبار۲۰۰۳ء اور پھر ۲۰۱۶ء میں بھارت کی وزارت انسانی وسائل نے دی تھی، مگر ریاستی حکومت نے اس پر سخت موقف اپنا کر اس کو رد کردیا تھا۔ بی جے پی کے لیڈر اور اس وقت کے مرکزی وزیر مرلی منوہر جوشی نے ۲۰۰۳ء میں تجویز دی تھی: ’’کشمیری زبان کے لیے دیوناگری کو ایک متبادل رسم الخط کے طور پر سرکاری طور پر تسلیم کیا جائے اور اس رسم الخط میں لکھنے والوں کے لیے ایوارڈ وغیرہ تفویض کیے جائیں۔ یوں کشمیری زبان کا قدیمی شاردا اسکرپٹ بھی بحال ہو جائے گا‘‘۔ سوال یہ ہے کہ اگر کشمیری زبان کا اسکرپٹ شاردا میں بحال کرنا ہے، تو سنسکرت اور دیگر زبانوں کا بھی قدیمی رسم الخط ہی بحال کرو، یہ کرم صرف کشمیری زبان پر ہی کیوں؟
وزیر موصوف نے یہ دلیل بھی دی تھی، چونکہ بیش تر کشمیری پنڈت پچھلے ۳۰ برسوں سے کشمیر سے باہر رہ رہے ہیں، ان کی نئی جنریشن اردو یا فارسی رسم الخط سے نا آشنا ہے۔ اس لیے ان کی سہولت کی خاطر ہندی رسم الخط کو کشمیر ی زبان کی ترویج کا ذریعہ بنایا جائے‘‘۔ اس میٹنگ میں مرحوم وزیرا علیٰ مفتی محمد سعید نے پروفیسر مرلی منوہر جوشی کو قائل کرلیا کہ ان کے فیصلے سے پچھلے ۶۰۰برسوں سے وجود میں آیا کشمیری زبان و ادب بیک جنبش قلم نابود ہو جائے گا۔ مجھے یاد ہے کہ ’’کشمیری زبان کے چند پنڈت اسکالروں نے بھی وزیر موصوف کو سمجھایا کہ کشمیری زبان میں ایسی چند آوازیں ہیں ، جن کو دیو ناگری رسم الخط میں ادا نہیں کیا جاسکتا ہے‘‘۔ ان کا کہنا ہے کہ ان آوازوں کو فارسی رسم الخط کے ساتھ ہم آہنگ کرنے میں بھی خاصی تحقیق و مشقت کرنی پڑی ہے۔ ان کو اب قدیمی شاردا اسکرپٹ میں بھی ادا نہیں کیا جاسکتا ہے‘‘۔ کشمیری زبان میں ۱۶حروف علت یا واولز اور۳۵حروف صحیح ہیں،نیز چھے ڈیگراف یا Aspirated Consonents ہیں۔ وزیرموصوف، جو خود بھی ایک اسکالر تھے، کسی حد تک قائل ہوگئے اور یہ تجویز داخل دفتر کی گئی۔
مودی حکومت نے برسرِاقتدار آنے کے بعد جب شمال مشرقی صوبہ اڑیسہ میں بولی جانے والی اوڑیہ زبان کو کلاسک زبان کا درجہ دیا، تو کشمیر کی ادبی تنظیموں کی ایما پر ریاستی حکومت نے بھی کشمیر ی زبان کو یہ درجہ دینے کے لیے ایک یادداشت مرکزی حکومت کو بھیجی۔ فی الحال تامل، سنسکرت، کنڑ، تیلگو، ملیالم اور اوڑیہ کو بھارت میں کلاسک زبانوں کا درجہ ملا ہے۔ کلاسک زبان قرار دیے جانے کا پیمانہ یہ ہے کہ زبان کی مستند تاریخ ہو اور اس کا ادب وتحریریں ۱۵۰۰سے ۲۰۰۰سال قدیم ہوں۔ اس کے علاوہ اس کا ادب قیمتی ورثے کے زمرے میں آتا ہو۔ نیز اس کا ادب کسی اور زبان سے مستعار نہ لیا گیا ہو۔ چونکہ ان سبھی پیمانوں پر کشمیر ی یا کاشئر زبان بالکل فٹ بیٹھتی تھی، اس لیے خیال تھا کہ یہ عرض داشت کسی لیت و لعل کے بغیر ہی منظور کی جائے گی۔ عرض داشت میں بتایا گیا تھا کہ ’’کشمیر ی زبان سنسکرت کی ہم عصر رہی ہے نہ کہ اس سے ماخوذ ہے‘‘۔
بھارت میں جہاں آج کل تاریخ کو مسخ کیا جا رہا ہے، وہیں مختلف زبانوں کے مآخذ بھی سنسکرت سے جوڑے جارہے ہیں۔ خیر اس عرض داشت پر مرکزی حکومت نے بتایا کہ ’’کشمیری واقعی کلاسک زبان قرار دیے جانے کی اہل ہے، مگر شرط یہ ہے کہ اس کے لیے اس کا رسم الخط سرکاری طور پر دیوناگری، یعنی ہندی تسلیم کرناہوگا‘‘۔ اس کے فائدے یہ بتائے کہ ہر سال دواہم ایوارڈ ان زبانوں کے فروغ کا کام کرنے والے اسکالروں کو دیے جاتے ہیں۔ نیز ان کی ترویج کے لیے ایک اعلیٰ ریسرچ سینٹر کا قیام اور یونی ورسٹی گرانٹس کمیشن کی طرف سے چند یونی ورسٹیوں میں چیئرز کی منظوری دینا شامل ہے۔
کشمیر کے آخری تاجدار یوسف شاہ چک کی ملکہ حبہ خاتون (زون) ہو یا محمود گامی یا عبدالاحد آزاد ، غلام احمد مہجور یا مشتاق کشمیری چونکہ عام طور پر سبھی کشمیری شاعروں نے اس خطے پر ہوئے ظلم و ستم کو موضوع بنایا ہے اور تحریک آزادی کو ایک فکری مہمیز عطا کی ہے، اسی لیے شاید ان کے کلام کو بیگانہ کرنے کے لیے زبان کے لیے تابوت بنایا جا رہا ہے۔ پچھلے سات سو سالوں میں علمدار کشمیر شیخ نورالدین ولی ہو یا لل دید، رسو ل میر، وہا ب کھار یا موجودہ دو ر میں دینا ناتھ نادم ، سوم ناتھ زتشی رگھناتھ کستور، واسدیو ریہہ وغیرہ ، غرض سبھی نے نستعلیق کو ہی اپنے اظہار کا ذریعہ بنایا ہے۔
۲۰۱۱ءکی مردم شماری کے مطابق وادیِ کشمیر اور وادیِ چناب میں۸۰ لاکھ ۶۰ہزار افراد کشمیری زبان بولنے والے رہتے ہیں۔ آزاد کشمیر کے نیلم اور لیپا کی وادیوں میں مزید ایک لاکھ ۳۰ہزار افراد کشمیری کو مادری زبان گردانتے ہیں۔ علاقوں کی مناسبت کے لحاظ سے کشمیری زبان کی پانچ بولیاں یا گفتار کے طریقے ہیں۔ کسی کشمیری کے گفتار سے ہی پتا چلتا ہے کہ وہ ریاست کے کس خطے سے تعلق رکھتا ہے۔ ان میں: مرازی(جنوبی کشمیر)کمرازی (شمالی کشمیر) یمرازی (وسطی کشمیر)، کشتواڑی (چناب ویلی) اور پوگلی(رام بن ) ہیں۔
جرمنی کی لیپزیگ یونی ورسٹی کے ایک محقق جان کومر کے مطابق کشمیر ی زبان آرین زبانوں کی ایک مخصوص فیملی سے تعلق رکھتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ قواعد اور تاریخی جائزوںکے مطابق اس کا ایرانی یا انڈین زبانوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ چونکہ سنسکرت اور کشمیری زبانیں ہم عصر رہی ہیں، اس لیے لفظوں کی ادلا بدلی موجود ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کشمیری کو انڈو۔داردک فیملی کے ساتھ جوڑا جا سکتا ہے۔ اس گروپ میں چترالی، شینا، سراجی، کوہستانی، گاوی اور توروالی زبانیں آتی ہیں۔ گو کہ کشمیر کی قدیم تاریخ راج ترنگنی سنسکرت میں لکھی گئی ہے، مگر اس میں کشمیری زبان بہ کثرت استعمال کی گئی ہے۔
کشمیری وازہ وان، یعنی انواع قسم کے پکوانوں کے ساتھ ساتھ کشمیر ی زبان اور اس کا ادب بھی کشمیر کے باسیوں کی ہنرمندی اور ان کے ذوق کی پہچان ہے۔مگر و ہ وقت دور نہیں، جب یہ بھارت کی ثقافتی یلغار اور دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ جائے گی۔ بھارت کے اندر اور باہر انسانی حقوق کے عالمی اداروں، خاص طور پر حکومت پاکستان کو اس کا نوٹس لے کر اس امر کا ادراک کروانا چاہیے کہ کس طرح دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ، سیکولرزم کے دعووں کے پسِ پردہ ایک قوم کے مستقبل کے ساتھ کھیل رہی ہے۔ اس صورتِ حال کو اُجاگر کرنے کے لیے مؤثر اقدامات اٹھانے ضروری ہیں۔
اب بھارت کی جانب سے، کشمیر کے صف اوّل کے رہنمائوں سمیت کشمیر میں سیاسی گرفتارشدگان کو اپنی رہائی کے لیے شرط کے طور پر ایک ضمانت نامے (bonds) پر دستخط کرنے کے لیے مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ ریاست میں ’حالیہ واقعات‘کے متعلق بات نہیں کریں گے۔
ڈیلی ٹیلی گراف ، انڈیا کے مطابق،دوگرفتارشدہ خواتین جنھیں حال ہی میں رہا کیا گیا ، انھیں ضابطہ فوجداری کی شق ۱۰۷ کے ایک ضمانت نامے پر چھپی دستاویز پر دستخط کرنے پڑے، جو عام طور پر ان مقدمات میں استعمال ہوتی ہے، جب ایک ضلعی مجسٹریٹ کسی کو حفاظتی حراست میں لینے کی خاطر اپنے انتظامی اختیارات استعمال کرتا ہے۔ اس ضمانت کی عمومی شرائط کے مطابق،قیدی کو یہ عہد کرنا ہوتا ہے کہ وہ’امن میں خلل نہیں ڈالے گا،یا کسی بھی ایسے فعل کا مرتکب نہیں ہوگا جس کے باعث امن میں خلل واقع ہونے کا امکان ہو‘۔ اس عہد کی کوئی بھی خلاف ورزی کرنے پر اس شخص کی ایک غیرمتعین کردہ رقم ریاست کے حق میں ضبط کر لی جاتی ہے۔
پہلا یہ کہ دستخط کنندگان عہد کرتے ہیںکہ وہ ’’ریاست جموں وکشمیر میں اس وقت پیش آئے واقعات کے متعلق ایک برس تک کوئی بات نہیں کہے گا، یا عوامی سطح پر کوئی تقریر نہیں کرے گا، یا کسی عوامی اجتماع میں شرکت نہیں کرے گا۔
دوسرے یہ کہ ’’انھیں ضمانت نامے کی خلاف ورزی کی صورت میں’ضمانت‘کے طور پر ۱۰ہزار روپے جمع کرانے ہوںگے اور مزید ۴۰ہزار روپے جمع کرانے کا اقرار کرنا ہو گا۔اس عہد کی خلاف ورزی کے باعث انھیںدوبارہ بھی حراست میںلیا جا سکتاہے‘‘۔
ذہن میں رہے کہ اس وقت ہزاروں بے گناہ بچے، جوان، بوڑھے، حتیٰ کہ خواتین بھارتی انتظامیہ کی قید میں ہیں۔ ان میں حقِ خود ارادیت کے علَم بردار لیڈر بھی شامل ہیں اور عشروں سے بھارت کے ساتھ وابستگی رکھنے اور سہولت کاری کرنے والے بھارت نواز سیاسی لیڈر بھی ہیں۔
قانونی ماہرین اور انسانی حقوق کے کارکنوں کے مطابق یہ نئی شرائط حددرجہ پریشان کن اور غیرآئینی ہیں۔ معروف ماہر قانون گوتم بھاٹیا کے مطابق آئین کی شق۱۹(۲)کے مطابق، آزادیِ تقریر پر محض اس وقت پابندی عائد کی جاسکتی ہے، جب کہ متوقع تشدد کے لیے کسی کو اُکسایا جائے۔ سپریم کورٹ نے بارہا یہ فیصلہ دیا ہے کہ آزادیِ تقریر، حتیٰ کہ انقلابی نظریات کے اظہار کی اس وقت تک اجازت ہے، جب تک اس کے ذریعے کسی کو تشدد پر نہ اکسایا جائے۔اس لیے مجموعہ ضابطہ فوجداری کو ایک ایسے طریقے کے طور پر استعمال نہیں کیا جا سکتا جس کے ذریعے آزادیِ تقریر کے حق کو غیرآئینی پابندی کا شکار بنایا جائے‘‘۔
ڈیلی ٹیلی گراف کے مطابق جموں و کشمیر کی سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی کی بیٹی اجتجٰی مفتی نے اپنی والدہ کے ٹویٹر اکائونٹ سے پیغام بھیجا ہے: ’’حکام، قیدیوں کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دے کر ضمانت ناموں پر دستخط کروا رہے ہیں، والدہ نے اس ضمانت نامے پر دستخط کرنے سے انکار کیا ہے‘‘۔
ان خبروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ تمام سیاسی قیدیوں کو اپنی رہائی کی شرط کے طور پر اس ضمانت نامے پرد ستخط کرنے ہوتے ہیں ۔ جب ڈیلی ٹیلی گرافنے ریاستی ایڈووکیٹ جنرل، ڈی سی رائناسے رابطہ کیا،تو انھوں نے ضمانت نامے کادفاع کیا اور کہا کہ’’: اس کی زبان ذرا مختلف ہے لیکن روح عام ضمانت نامے کے مطابق ہی ہے‘‘۔اسی طرح سینیر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل بشیراحمد ڈار نے تو سرے سے انکار کر دیا ہے کہ ’’ایسا کوئی ضمانت نامہ جاری ہوا ہے‘‘۔
جموں وکشمیرہائی کورٹ کے وکیل الطاف خان،جو ایک ایسی خاتون کے وکیل تھے، جس نے اس ہفتے اس نئے ضمانت نامے پردستخط کیے،کہتے ہیں:’’یہ آئین کی خلاف ورزی ہے‘‘۔ یاد رہے خرم پرویز نے ڈیلی ٹیلی گراف کو بتایا: گذشتہ دوماہ کے لاک ڈائون کے دوران گرفتارکیے جانے والوں کو نئے ضمانت نامے کی شرائط پر رہا کیا گیا، جو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے سوا کچھ نہیں‘‘۔
تیونس کے نومنتخب صدر پروفیسر ڈاکٹر قیس سعید کی عمر ۶۱ برس ہے، لیکن چہرے کی جھریوں اور سر کے بچے کھچے مکمل سفید بالوں کے باعث اپنی عمر سے زیادہ بوڑھے لگتے ہیں۔ ساری زندگی قانون پڑھاتے گزاری، اب ریٹائرمنٹ کے بعد آزاد اُمیدوار کی حیثیت سے صدارتی انتخاب لڑا۔ ان کے انتخابی معرکے اور ۷۷ فی صد ووٹ لے کر کامیابی نے ساری دنیا کو ششدر کردیا ہے۔ اس عالمی حیرت کی کئی وجوہات ہیں۔ مثلاً یہ کہ قیس سعید ایک آزاد اُمیدوار تھے، کسی سیاسی جماعت سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ انھوں نے اپنی پوری انتخابی مہم انتہائی سادگی سے چلائی۔ مخالف اُمیدواروں بالخصوص دوسرے نمبر پر آنے والے ارب پتی نبیل القروی نے ڈھیروں ڈھیر دولت انتخابی مہم میں جھونک دی، جب کہ قیس سعید کی ساری مہم پر صرف چند ہزار خرچ ہوئے۔ چوٹی کے اس ماہر قانون کا اس سے پہلے کہیں عوامی تعارف نہیں تھا، بس کبھی کبھار کسی ٹی وی پروگرام میں قانونی راے لینے کے لیے انھیں بلالیا جاتا تھا۔ قیس سعید ہمیشہ فصیح عربی میں، سپاٹ چہرے سے بات کرتے ہیں لیکن نوجوانوں نے ان کی ایسی مہم چلائی کہ صدارتی دوڑ میں شریک دیگر ۲۵ اُمیدواروں کو پیچھے چھوڑ دیا۔ ان کے اخلاقی اصولوں اور قانون کی پاس داری نے ان کے مخالفین کو بھی ان کا احترام کرنے پر مجبور کردیا۔ان کے تعارف کی ایک اہم جھلک ان کے اور مخالف اُمیدوار کے براہِ راست ٹی وی مکالمے سے ملاحظہ فرمالیجیے، جو دوسرے مرحلے کی ووٹنگ سے ۴۸گھنٹے قبل ہوا:
ہوسکتا ہے کچھ لوگوں کے لیے اس مکالمے میں کوئی غیر معمولی بات نہ ہو لیکن ایک ایسے وقت میں کہ جب اکثر مسلم ممالک بالخصوص، عرب لیگ کے رکن ممالک میں اسرائیل کو تسلیم کرلینے اور اس کے ساتھ زیادہ سے زیادہ مضبوط تعلقات قائم کرنے کے لیے دوڑ لگی ہو، یہ مؤقف اختیار کرنا آسان اور معمولی بات نہیں۔
صدر قیس سعید نے نہ صرف اپنی انتخابی مہم کے اہم ترین انٹرویو کا اختتام اس دو ٹوک پیغام سے کیا، بلکہ ۲۳؍ اکتوبر کو نومنتخب قومی اسمبلی کے سامنے صدارتی حلف اٹھانے کے موقعے پر ۲۵منٹ کے صدارتی خطاب کا اختتام بھی اس جملے پر کیا کہ: ’’ہم دنیا کے ہر مبنی بر انصاف مسئلے کی بھرپور حمایت کریں گے۔ ان میں سرفہرست مسئلہ، مسئلہء فلسطین ہے۔ غیروں کے قبضے کی مدت کتنی بھی طویل کیوں نہ ہوجائے، فلسطین پر فلسطینیوں کا حق ساقط نہیں ہوسکتا۔ مسئلۂ فلسطین جایدادوں کے کھاتہ خانوں میں درج کوئی مسئلہ نہیں۔ یہ اُمت کے سینوں میں نقش ایک حقیقت ہے۔ دنیا کی کوئی بھی طاقت یا کسی بھی طرح کی سودے بازی دلوں پر نقش اس حقیقت کو مٹا نہیں سکتی‘‘۔
نومنتخب صدر نے حلف برداری کے اس افتتاحی خطاب میںاپنی باقی تمام توجہ تیونس میں مطلوبہ اندرونی اصلاحات پر مرکوز رکھی اور کہا: ’’کسی بھی قوم یا ریاست کے لیے سب سے خطرناک امر اس کا اندرونی طور پر کھوکھلا ہوجانا ہے۔ کوئی بھی ریاست اپنے فعال نظام اور ادارہ جاتی استحکام کی وجہ سے ہی باقی رہتی ہے۔ نظام پر اشخاص و افراد کو ترجیح نہیں دی جاسکتی‘‘۔
واضح رہے کہ ۱۹۵۷ء میں تیونس کی آزادی سے لے کر ۲۰۱۱ءتک ۵۴سال تیونس میں صرف دو ہی افراد ملک و قوم کی قسمت کے مالک بنے رہے۔ پہلے حبیب بورقیبہ اور پھر اس کا وزیراعظم زین العابدین بن علی ہر سیاہ و سفید کے مالک تھے۔ عوامی جدوجہد کے نتیجے میں ۱۴جنوری ۲۰۱۱ء کو بن علی سے نجات کے بعد شروع ہونے والے پارلیمانی عہد میں اب قیس سعید تیسرے منتخب صدر ہیں۔ مختلف عرب ممالک میں آمریت کے خلاف جاری عوامی تحریکوں کا آغاز بھی تیونس سے ہوا تھا۔ آج تیونس ہی پُرامن انتقالِ اقتدار کی تاریخ رقم کررہا ہے۔ بن علی کے خاتمے کے بعد پہلی منتخب حکومت تحریک نہضت کی تھی۔ خدشہ تھا کہ اس کے خلاف شروع ہونے والی سازشیں وہاں بھی مصر کا خونی تجربہ نہ دہرادیں۔ لیکن الحمدللہ تمام تر خطرات کے باوجود تیونس کی لڑکھڑاتی جمہوریت اب نسبتاً زیادہ مضبوطی سے آگے بڑھ رہی ہے۔
صدارتی انتخاب کے پہلے مرحلے میں ۲۶؍ اُمیدوار میدان میں تھے۔ پہلے ۹؍اُمیدواروں نے ۴فی صد یا اس سے زیادہ ووٹ حاصل کیے۔ قیس سعید۱۸ء۴۰ فی صد ووٹ لے کر پہلے نمبر پر رہے۔ بڑے ابلاغیاتی اداروں کا مالک اور سیکولر خیالات رکھنے والا نبیل القروی ۱۵ء۵۸ فی صد ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر، جب کہ تحریک نہضت کا اُمیدوار عبدالفتاح مورو ۱۲ء۸۸ فی صد ووٹ لے کر تیسرے نمبر پر رہا۔ سب سے بڑی سیاسی قوت ہونے کے باوجود نہضت کے اُمیدوار کا پہلے دو اُمیدواروں میں شامل نہ ہوسکنا سب کے لیے باعث حیرت بنا۔ اس ناکامی کا تجزیہ بھی اہم ہے لیکن بعد کے حالات نے ثابت کیا کہ ملک اور خود تحریک نہضت کے لیے انھی نتائج میں خیروبھلائی تھی۔ مصر میں گذشتہ آٹھ برس سے جاری خوں ریز واقعات کے بعد تحریک نہضت انتہائی احتیاط سے قدم اٹھا رہی ہے۔ اتنی احتیاط کہ بسا اوقات کئی ہمدرد اور بہی خواہ بھی اس پر اعتراضات اُٹھانے اور شکوک و شبہات پیدا کرنے لگے۔ قیس سعید جیسا ایک آزاد اُمیدوار جو ملک کی دینی اساس، قانون کی مکمل بالادستی اور اُمت کے مسائل کے بارے میں دو ٹوک راے رکھتا ہو اور اس کی پشت پر کوئی اور ذمہ داری یا تاریخی ورثے کو بچانے کا بوجھ بھی نہ ہو، حالیہ معروضی حالات میں ایک بہترین صورت ہے۔
تحریک نہضت نے صدارتی مرحلے کے نتائج کا اعلان ہوتے ہی اپنی مجلس شوریٰ کا اجلاس بلاکر قیس سعیدی کی حمایت کا اعلان کردیا۔ صدارتی انتخاب کے دوسرے مرحلے سے پہلے پارلیمانی انتخاب ہوئے تو قیس غیر جانب دار رہے۔ ساری پارٹیوںنے اپنے اپنے منشور کے مطابق حصہ لیا اور ۲۱۷کے ایوان میں تحریک نہضت ۵۲ نشستیں لے کر ایک بار پھر پہلے نمبر پر رہی۔ نبیل القروی کی جماعت ’قلب تونس‘ ۳۸سیٹوں کے ساتھ دوسرے، جب کہ ۵ مزید جماعتیں ۱۰یا اس سے زیادہ نشستیں لے سکیں۔ بڑی تعداد میں جماعتوں کو ایک نشست ملی۔ حکومت سازی کے لیے ۱۰۹ ووٹ اکٹھے کرنا آسان کام نہیں، لیکن تحریک نہضت کے سربراہ راشد الغنوشی نے یہ ہدف جلد حاصل کرلینے کی اُمید ظاہر کی ہے۔
سب تجزیہ نگار اُمید کرتے ہیں کہ قیس سعید ایک انتہائی بااصول صدر ثابت ہوں گے۔ انھوںنے دوسرے مرحلے کے انتخاب میں اس لیے کوئی انتخابی مہم نہ چلانے کا اعلان کیا کہ مخالف اُمیدوار نبیل القروی کرپشن کے سنگین الزامات میں گرفتار تھا، اور خود کسی مہم میںنہیں شریک ہوسکتا تھا۔ انھوں نے کہا کہ انتخابی مہم میں یکساں مواقع فراہم نہ ہونے کے باعث میں بھی کوئی مہم نہیں چلاؤں گا۔ قیس سعید کی کامیابی کے بعد تمام اسلام مخالف اور مغربی طاقتوں کی ہمدردیاں اور پروپیگنڈا مہم نبیل کے حق میں ہوگئی، تو ووٹنگ سے چند روز قبل ضمانت پر اس کی رہائی ہوگئی، پھر دونوں اپنی اپنی مہم میں شریک ہوئے۔صدارتی حلف اٹھانے کے اگلے ہی روز اپنی اہلیہ، جو ایک جج ہیں کو اس لیے پانچ سال کی بلا تنخواہ چھٹی دے دی تاکہ عدلیہ کی خود مختاری پر حرف نہ آئے۔ پہلے مرحلے کے نتائج آنے پر تیونس میں فرانس کے سفیر نے قیس سعید کے بارے میں تحفظات کا اظہار کیا، تو انھوںنے دو ٹوک انداز میں ان تحفظات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ تیونس کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کریں اور سفرا کے لیے طے شدہ عالمی ضابطوں کی پابندی کریں۔ اب اگر ایوان صدر میں قانون کا پاسدار صدر ہو اور عظیم قربانیاں دے کر اس مقام تک پہنچنے والی تحریک نہضت کی حکومت ہو، تو بجا طور پر اُمید کی جاسکتی ہے کہ تیونس میں پھر ایک نئی تاریخ رقم ہونے جارہی ہے۔
اللہ کا نظام بھی عجب انداز سے اپنی بالادستی ثابت کرتا ہے۔ حبیب بورقیبہ نے موسمِ گرما میں روزے ساقط کردینے کا اعلان کیا تھا۔ بورقیبہ پیوند ِ خاک ہوگیا اور ماہِ رمضان تاقیامت اپنی بہاریں دکھاتا رہے گا۔ بن علی نے حجاب اور داڑھی کے خلاف جنگ لڑی۔گذشتہ ماہ ستمبر میں وہ سعودی عرب میں جلاوطنی کے عالم میں دنیا سے چلا گیا۔ اتفاق ہے کہ اس کے جنازے میں شریک درجن بھر افراد میں سے آدھے شرکا لمبی داڑھی سے سجے چہروں والے تھے۔ سابق صدر الباجی السب سی نے قرآن کریم میں مذکور احکامِ وراثت کو منسوخ کرتے ہوئے مرد و عورت کا حصہ برابر کرنے کا اعلان کیا، وہ چلا گیا، اور آج نومنتخب صدر دوٹوک اعلان کررہا ہے کہ وراثت ہو یا کوئی اور معاملہ قرآن و سنت کے احکام حتمی ہیں، ان میں کوئی تبدیلی نہیں کی جاسکتی:
يُرِيْدُوْنَ اَنْ يُّطْفِــــُٔـوْا نُوْرَ اللہِ بِاَفْوَاہِہِمْ وَيَاْبَى اللہُ اِلَّآ اَنْ يُّتِمَّ نُوْرَہٗ (التوبہ ۹:۳۲) یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اللہ کی روشنی کو اپنی پھونکوں سے بجھا دیں، مگر اللہ اپنی روشنی کو مکمل کیے بغیر ماننے والا نہیں ہے۔
ریاست جموں و کشمیر کو تحلیل و تقسیم کرنے جیسے غیر آئینی اقدامات، مواصلاتی ناکہ بندی اور ملٹری آپریشنوں کے ذریعے مقامی آبادی کو ہراساں کرنے پر، جہاں دنیا بھر میں وزیراعظم نریندر مودی اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) حکومت پر لعن طعن ہو رہی ہے، وہیں بھارتی مسلمانوں کی قدیمی تنظیم جمعیۃ العلماء ہند کے دونوں دھڑوں نے سادگی میں یا دانستہ طور پر ایسے بیانات داغے کہ بھارتی حکومت کی باچھیں کھل گئیں۔ یہ پہلا موقع ہے کہ یورپ و امریکا میں سول سوسائٹی و میڈیاکو بھارت میں اُبھرتے ہوئے فاشزم کا ادراک ہوا اور ہندو انتہا پسندوں کی مربی تنظیم آرایس ایس (راشٹریہ سیویم سیوک سنگھ) کی مقامی شاخوں کی سرگرمیوں پر قدغن لگانے کی مانگ زور پکڑتی جارہی ہے۔ چاہے بابری مسجد کی شہادت کا واقعہ ہو یا ’گھر واپسی‘ یا ہندو فرقہ پرستوں کی دیگر انتہاپسندانہ مہمات، اس کے لیے خاصی بڑی رقوم بیرون ملک بھارتیوں کی طرف سے ہی آتی رہی ہیں۔
پہلے جمعیۃ العلماء ہند کے ایک دھڑے کے رہنما مولانا ارشد مدنی صاحب نے آر ایس ایس کے سربراہ موہن سنگھ بھاگوت سے ملاقات کر کے اس کی خوب تشہیر کی۔ مسلم اور یورپی ممالک میں جہاں بھارتی سفیروں کوکشمیر میں یلغار اور فاشزم کے خلاف مہم کی وجہ سے کوئی جواب نہیں بن پا رہا تھا۔ اس پس منظر میں مولانا مدنی صاحب اور موہن بھاگوت کی ملاقات ان کے لیے نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوئی۔ اگرچہ مدنی صاحب کا کہنا ہے کہ ’’یہ ملاقات فرقہ وارانہ ہم آہنگی برقرار رکھنے اور مسلمانوں کے خلاف ’ہجومی تشدد‘ کو قابو کرنے کے لیے رکھی گئی تھی‘‘، مگر اس کا انعقاد اس موقعے پر ہوا کہ یورپ و امریکا میں آر ایس ایس کی ذیلی تنظیموں نے سکون کا سانس لیا، جس سے برہمنی فاشزم کے خلاف مہم پر کاری ضرب لگ گئی۔ بھارتی سفار ت کاروں نے اس میٹنگ کی رپورٹ میڈیا میں پیش کرکے یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی کہ ’’آر ایس ایس تو ایک غیر سرکاری فلاحی تنظیم ہے، جو مسلمانوں کی بہبود کے لیے بھی کوشاں ہے ۔ اس لیے اس کو فاشزم کے ساتھ نتھی کرنا ایک پروپیگنڈا ہے‘‘۔
جمعیۃ العلماء ہند کی طرف سے آسام میں شہریت کے معاملے پر مسلمانوں کی رہنمائی اور جیلوں میں بند مسلم نوجوانوں کو مفت قانونی امداد کی فراہمی پر ہم نے ہمیشہ تحسین کی ہے۔ ان کے قدردان اور دینی خدمات کے معترف کے طور پر گزارش ہے کہ دشمنوں کے ساتھ ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رکھتے وقت کی نزاکت کو بھی سنجیدگی کے ساتھ لینے کی ضرورت ہے۔ اگر ملاقات ناگزیر ہی تھی، تو اس کو میڈیا کی تشہیر سے دُور رکھنا چاہیے تھا، مگر کیا کریں: ’ناداں گر گئے سجدے میں جب وقت قیام آیا‘۔
جب چچا مولانا ارشد مدنی صاحب نے آرایس ایس کے سربراہ سے ملاقات کرکے بھارتی میڈیا اور حکومت کی واہ واہ لوٹی ، تو بھتیجا صاحب بھلا کیوں پیچھے رہتے۔مولانا محمود مدنی صاحب کی سربراہی میں جمعیۃ العلماء کے دوسرے دھڑے نے، کشمیر پر ایک قرارداد منظور کرکے اور بیانات داغ کر، مظلوم کشمیریوں کے زخموں پر نمک چھڑکا۔ پھر مغل بادشاہ اورنگ زیب عالم گیر (۱۶۱۸ء-۱۷۰۷ء) اور شیواجی مرہٹہ (۱۶۲۷ء-۱۶۸۰ء) کا موازنہ کرکے، اور شیواجی کو قابلِ تقلید بتا کر تاریخ کو ایسا مسخ کیا، کہ مسلم اُمت کی حُرمت اور تاریخ کا تقدس ایک طرف رہے، انھوں نے خود اپنے علم و فراست پر ہی سوالیہ نشان کھڑے کردیے۔ کاش! وہ امریکی محقق خاتون پروفیسر آڈری تروشکی (Audrey Truschke) کی کتابیں Aurangzeb:The Man and the Myth اور Aurangzeb: The Life and Legacy ،یا جواہر لال نہرو کی مشہور کتاب The Discovery of India میں شیوا جی پر تبصرہ، یا مغربی اسکالر جیمس لاویا کی نگارشات پڑھ لیتے۔
بدقسمتی سے کشمیریوں کی جمہوری آواز کو دبانے کے لیے بھارتی حکومت نے کئی بار جمعیۃ العلماء اور دیگر مسلم لیڈران کو استعمال کیا ہے۔ مولانا محمود مدنی نے فرمایا ہے: ’’کشمیر، بھارت کا اٹوٹ انگ ہے۔ ہندستان کی وحدت ہمارے نزدیک بہت اہمیت رکھتی ہے۔ اس لیے ہم کسی علیحدگی پسند تحریک کی ہرگز تائید نہیں کرسکتے اور میری نظر میں کشمیر کی فلاح ہندستان کے ساتھ جڑی ہوئی ہے‘‘۔ قرارداد میں پاکستان کا نام لیے بغیر اسے ’’تمام مسائل کی جڑ‘‘ بتایا گیا ہے۔ قرارداد کے مطابق: ’’ملک اور دشمن طاقتیں کشمیر کو برباد کرنے کے درپے ہیں۔ دشمن نے ہندستان کے خلاف کشمیر کو محاذ بنار کھا ہے جو مظلوموں کی فریاد رسی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ‘‘۔ ستمبر میں محمود مدنی صاحب سوئٹزرلینڈ تشریف لے گئے اور جنیوا میں پریس کانفرنس سے خطاب میں فرمایا: ’’دفعہ ۳۷۰ اور ۳۵،اے کا خاتمہ بھارتی حکومت کا داخلی مسئلہ ہے اور ہم مودی حکومت کے ساتھ ہیں‘‘۔
اس پریس کانفرنس کے لیے جانے سے قبل جمعیت العلماء کے صدر محمد عثمان منصور پوری، مولانا محمود مدنی اور مولانا اصغر علی سلفی جنرل سیکرٹری مرکزی جمعیت اہلِ حدیث ہند نے مشترکہ طور پر بھارتی وزیرداخلہ امیت شا سے ملاقات کے بعد یہ اعلانات کیے۔ مولانا اصغرعلی سلفی نے کہا: ’’ہم ۳۷۰دفعہ میں کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کی حمایت کرتے ہیں‘‘۔ مولانا عثمان منصورپوری نے فرمایا: ’’ہم مودی حکومت کے اقدامات کی مکمل حمایت کا اعلان کرتے ہیں‘‘ اور محمود مدنی صاحب نے کہا: ’’ہم حکومت ِ ہند کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں‘‘۔ پھر اجمیرشریف کے مہتمم سلمان چشتی صاحب نے کہا: ’’کشمیر کے حوالے سے کوئی سوال جواب نہیں، وہ بھارت کا اٹوٹ انگ ہے‘‘۔
معروف بھارتی دینی ماہ نامہ الفرقان لکھنؤ میں مذکورہ علما کے موقف کا نوٹس لیتے ہوئے مدیر مولانا عتیق الرحمٰن سنبھلی صاحب نے بجاطور پر لکھا ہے: ’’ [ہمارے علما کی] آج جو ’ملاقاتیں‘ ہورہی ہیں، اور جو قراردادیں اور بیانات صادر ہورہے ہیں یا کروائے جارہے ہیں، ان کا مقصد عالمی برادری میں [مودی حکومت کی] بُری طرح بگڑتی ہوئی شبیہوں کو درست کرنے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں، اور افسوس ہے کہ ہمارے لوگ استعمال ہورہے ہیں‘‘۔(اکتوبر ۲۰۱۹ء، ص۱۰)
اب اگر کوئی نیازمند، ان محترم حضرات سے یہ پوچھے:’’کون اپنے اٹوٹ انگ پر تیر و نشتر چلاتا ہے؟‘‘ کشمیری پنڈتوں کے ساتھ بھارت کی طرف دار کشمیری مسلم قیادت نے جموں وکشمیر میں جمہوریت پر شب خون مارا، اور اپنے ہاتھ نہتے کشمیریوں کے خون سے رنگے ہیں۔ ۱۹۴۷ء سے ۱۹۹۰ء تک اگر بھارتی قیادت نے بار بار دغا بازیاں نہ کی ہوتیں، مہاتما گاندھی ،جواہر لال نہراور دیگر لیڈروں کے وعدوں کو نبھا کر بھارتی آئین کے اندر بھی جمہوری حقوق ملے ہوتے، انتخابات میں بے پناہ دھاندلیاں نہ کی گئی ہوتیں، تعصب نہ برتا گیاہوتا، تو شاید کشمیر میں جذبات اتنے شدید نہ ہوتے۔یہ بھی شاید یا د دلانا پڑے گا کہ خاص طور پر ۱۹۷۱ءکے بعد اور پھر شیخ عبداللہ کے برسرِاقتدار آنے کے بعد تو تحریک آزادی کب کی ٹھنڈی پڑچکی تھی۔ کشمیریوں نے بھی لاچار، حالات سے سمجھوتہ کر لیا تھا۔ چاہے ۹؍اگست ۱۹۵۳ءمیں وزیر اعظم شیخ محمدعبداللہ کی گرفتاری اور برخاستگی ہو، یا جون۱۹۸۴ء میں وزیر اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی معزولی، یا ۱۹۸۷ء کے اسمبلی انتخابات میں بے پناہ دھاندلیاں ہوں، بھارتی مسلمان لیڈروں کو کشمیریوں کے سینوں میں خنجر گھونپنے کے لیے برابر استعمال کیا گیا۔
شیخ محمد عبداللہ کے انتقال (۸ستمبر ۱۹۸۲ء)کے اگلے برس ۱۹۸۳ء کے اسمبلی انتخابات میں کانگریس پارٹی، نیشنل کانفرنس کے خلاف میدان میں اتری تھی۔ وزیر اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی طرف سے این ٹی راما رائو، جیوتی باسو ، جارج فرنانڈس کے ساتھ اتحاد و قربت پر بھارتی وزیراعظم اندراگاندھی سخت ناراض تھیں۔ جموں خطے میں مسز اندرا گاندھی نے خود ہی نودن قیام کرکے انتخابی مہم کو خوب فرقہ وارانہ رنگ دیا۔ کشمیر میں ڈاکٹر فاروق عبداللہ اور میرواعظ مولوی محمد فاروق کے اتحاد کا حوالہ دے کر ہندو ووٹروں کو خوب بڑھکایا۔ دوسری طرف کشمیر میں جمعیۃ العلما کے لیڈروں نے فاروق عبداللہ کے مذہبی رجحان وغیرہ کو ایشو بناکر عوام کو ان سے متنفر کرنے کی بھر پور کوشش کی۔
اگست ۱۹۵۳ءکو شیخ عبداللہ کی گرفتاری اور غیر آئینی معزولی میں بھی مولانا ابولکلام آزاد اور رفیع احمد قدوائی نے کردار ادا کیا۔ شیخ صاحب بھارت سے علیحدگی نہیں چاہتے تھے۔ ۱۹۴۷ء میں بھارتی فوج کشمیر وارد ہوئی، اور پھر نہرو نے ۳جون ۱۹۵۲ء کو ’دہلی ایگریمینٹ‘ پر دستخط کرکے کشمیر کی ’خودمختاری‘ مان لی۔ تب شیخ صاحب، نہرو سے ’دہلی ایگریمنٹ‘ کی بھارتی پارلیمنٹ سے توثیق چاہتے تھے، تاکہ آیندہ کوئی حکومت اس کو تحلیل نہ کرسکے۔ جموں کے مسلم کش فسادات، میں ۶۰فی صد سے زائد مسلم آبادی کو راتوں رات اقلیت میں تبدیل کرکے ۳۰فی صد کردیا گیا ، اور کپور تھلہ ، بھرت پور، اور آلوار جیسے علاقوں میں سے مسلمانوں کا نام و نشان مٹادیا گیا۔ شیخ عبداللہ کو خدشہ تھا کہ ایسی سازش کسی وقت کشمیر میں بھی دہرائی جاسکتی ہے۔ اس لیے کشمیری مسلمانوں کی شناخت اور انفرادیت کو بچانے کے لیے کسی آئینی ضمانت کے وہ خواست گار تھے۔
بھارتی حکومت کی طرف سے اُٹھایا گیا ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کا قدم، فلسطین میں اسرائیلی کارروائیوں سے بھی کہیں زیادہ سنگین ترین ہے۔ پوری دنیا میں یہودی ایک کروڑ سے زیادہ نہیں ہیں۔ اس سے کچھ آدھے ہی اسرائیل میں رہتے ہیں۔ وہ اگر چاہیں تو بھی عرب ممالک یا پورے فلسطین کا آبادیاتی تناسب بگاڑنہیں سکتے۔ کشمیر میں تو مقابلہ ایک ارب ۲۵ کروڑ آبادی کے ساتھ ہے، جو چند ماہ میں ہی خطے کا آبادیاتی تناسب بگاڑ کر کشمیری عوام کو اپنے ہی گھروں میں اجنبی بنا دے گی۔
۲۰۱۴ء کے کشمیر اسمبلی انتخابات میں بی جے پی نے وادیِ کشمیر کے بجاے پوری توجہ جموں اور لداخ پر مرکوز کیے رکھی۔ امیت شا نے جموں کی ۱۳؍اور لداخ کی دو مسلم اکثریتی نشستوں پر مسلم ووٹ کو بے وقعت بنانے کے لیے زرکثیر خر چ کر کے مسلم امیدواروں کی فوج کھڑی کردی تھی۔ اس خطے کے مسلم علاقوں کا بھار ت کے مسلم اداروں خاص طور پر دارالعلوم دیوبند وغیرہ کے ساتھ نسبت اور رابطہ ہے، اس لیے کئی خیر خواہوں نے تجویز دی تھی: ’’اس علاقے میں بی جے پی کے رتھ کو روکنے کے لیے بھارتی مسلم زعما سے مدد لی جائے‘‘۔ دوسری جانب تشویش کی بات یہ بھی تھی کہ ’جماعت علما‘ کے نام کی ایک تنظیم ان علاقوں میں بی جے پی کے لیے ووٹ مانگ رہی تھی اور عوام اس کو ’جمعیۃ العلماء‘ سے خلط ملط کر رہے تھے۔ خیرخواہوں نے دہلی میں جمعیۃ العلماء کے دروازوں پر دستک دے کر ان سے صورت حال کو واضح کرنے کی گزارش کی، مگر کسی کے کانوں پر جوں نہ رینگی۔ جب بہت خرابی ہوچکی تو جمعیۃ العلماء نے لاتعلقی کا ایک بیان جاری کیا، مگر تب تک انتخابی عمل ختم ہو چکا تھا۔ معلوم نہیں کہ یہ حرکت دانستہ تھی یا نادانستہ۔ بھارتی مسلمانوں کی اس تنظیم کے لیڈر نے بتایا ، کہ مشورہ کرنے کے بعد وہ اطلاع دیں گے کہ آیا وہ جموں اور لداخ کے مسلم علاقوں میں رہنمائی کے لیے کوئی ٹیم بھیجیں گے یا نہیں؟ بعد میں ان کا پیغام آیا کہ ’’مسلم لیڈران اپنے آپ کو کشمیر کی سیاست کے ساتھ نتھی نہیں کرنا چاہتے ہیں، اس لیے وہ دعا کے سوا کچھ نہیں کرپائیں گے‘‘۔
چند برس قبل کشمیر اسمبلی کے ایک رکن انجینئر عبدالرشید اور کچھ صحافیوں کے ہمراہ مولانا وحید الدین خان صاحب سے دہلی میں شرفِ نیاز حاصل ہوا۔ انجینیر صاحب رکن اسمبلی ہونے کے سبب کشمیر میں بھارتی جمہوریت کا چہرہ تھے۔ وہ بضد تھے کہ مولانا صاحب سے جموں وکشمیر کی صورتِ حال پر راے معلوم کر کے ان کے وسیع تجربے سے رہنمائی حاصل کی جائے۔ نمازِ ظہر تک مولانا کی تقریر اور سوال وجواب کا دلچسپ سلسلہ جاری رہا۔ ممبر اسمبلی نے مولانا کی توجہ کشمیر کی صورتِ حال خاص طور سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی جانب مبذول کراکے مسئلہ کشمیر کے پاے دار حل کے لیے مولانا کا نقطۂ نظر جاننا چاہا۔
مولانا وحید الدین خان صاحب نے مسئلہ کشمیر کا صرف ایک ہی حل بتایا: ’’کشمیری ’امن‘ کا راستہ اپنائیں، لیکن اس سے پہلے انھیں تسلیم کرناہوگاکہ ان کی گذشتہ کئی عشروں کی جدوجہد غلط تھی‘‘۔ رشید صاحب نے مولانا سے عرض کیا کہ امن کی خواہش کشمیریوں سے زیادہ کسی اور کو نہیں ہوسکتی، لیکن انصاف کے بغیر امن کاقیام کیسے ممکن ہے؟‘‘ تو مولانا نے فرمایا: ’’انصاف کو امن کے ساتھ جوڑنے والے لوگوں کی یہ ذہنی اختراع ہے۔ میرے نزدیک کشمیر کا بھارت کے ساتھ الحاق حتمی ہے اور اس کو متنازع کہنے والے غیر حقیقت پسند ہیں‘‘۔جب ان سے پوچھا گیا: ’’جموںوکشمیر کے تنازعے کو تو خودہی بھارتی لیڈر اقوام متحدہ میں لے گئے تھے،اس میں کشمیریوں کا کیا قصور؟ وہ بے چارے تو صر ف وعدے کے ایفا ہونے کامطالبہ کرنے کے لیے جدوجہد کررہے ہیں‘‘۔ اس سوال پر مولانا غصّے سے لال پیلے ہوگئے اوروہاں سے اُٹھ کر دوسرے کمرے میں چلے گئے۔ کچھ منٹ انتظار کے بعدہم بھی وہاں سے واپس چلے آئے۔اس سے قبل میز پر ان کا لکھا ہوا ایک پمفلٹ دیکھا، جس میں انھوں نے کشمیری مسلمانوں کو ہدایت دی تھی، کہ اپنے کردار اور تبلیغ سے وہاں موجود ۷لاکھ بھارتی فوجیوں اور نیم فوجی دستو ں تک اسلام کا پیغام پہنچائیں، اور ان کے ساتھ دشمنی پر مبنی رویے کو بند کریں ۔سوال یہ ہے کہ کشمیریوں کو تبلیغ کا مشورہ دینے والے ہمارے یہ محترم مولانا صاحب پھر بھارت میں بسنے والے کروڑ ہندوؤں کو مسلمان کیوں نہیں بناتے۔
اگست ۲۰۱۹ء میں دہلی کے ’جنتر منتر چوراہے‘ پر بائیں بازو کی طلبہ تنظیموں نے کشمیر پر ہونے والی آر ایس ایس کی فسطائی یلغار کے خلاف مظاہرے کا اہتمام کیا تھا، مگر وہاں بھارتی مسلمانوں کی کوئی تنظیم نہیں آئی۔ پچھلے ۲۶برسوں کے دوران کشمیر میں سیکورٹی ایجنسیوں اور اس کے حاشیہ برداروں کے ہاتھوں معصوم بچیو ں، لڑکیوں اور عورتوں کی عصمتیں پامال کی گئی ہیں، اس کا ہلکا سا اشارہ ایڈرین لیوی اور کیتھی اسکاٹ کلارک نے اپنی معرکہ آرا تصنیف The Meadows [۱۹۹۵ء: ۵۷۶ صفحات] میں کیا ہے۔ ا ن برطانوی مصنّفین نے لکھا ہے: ’’کس طرح ایک سرکاری بندوق بردار نے ایک ماں کی گود سے اس کے شیرخوار بچے کو چھین کر اس کی آنکھوں کے سامنے ہی یخ بستہ پانی میں ڈبو دیا اور تڑپاتڑپا کر مارڈالا۔ اس کشمیری مسلمان خاتون کا قصور یہ تھا کہ اس نے اپنی عصمت اس بندوق بردار سرکاری اہلکار کے حوالے کرنے سے انکار کردیا تھا‘‘۔ کتاب کے مصنّفین نے ایک اور واقعے کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’راشٹریہ رائفلز کے زیرسایہ ایک اور سرکاری بندوق بردار نے ایک دیہاتی لڑکی نسیمہ کو اغوا کرکے اس وقت تک اسے جنسی تشدد کا نشانہ بنایا، جب تک کہ وہ لڑکی حاملہ نہ ہوگئی۔ا سی دوران اس سرکاری بندوق بردار کی نگاہ نسیمہ کی بہن پر بھی پڑ گئی تو اسے بھی اغوا کرلیا۔ جب بدقسمت والدین نے پولیس میں شکایت کی تو دوسرے ہی دن بندوق بردار نے بھرے بازار میں پہلے تو اپنی بندوق کی نوک پر ہجوم کو اکٹھا کیا اور پھر آٹھ ماہ کی حاملہ نسیمہ کا لباس تار تار کرکے سب کے سامنے گولیاں اس کے پیٹ میں اتار دیں۔ نسیمہ نے وہیں دم توڑ دیا اور اس کے پیٹ میں پلنے والا بچہ اس دنیا میں آنے سے پہلے ہی موت کے آغوش میں چلاگیا۔ کشمیر کی موجودہ تاریخ ایسے اَن گنت واقعات سے بھری پڑی ہے! ‘‘
چند روزقبل دہلی کی شاہی جامع مسجدکے امام سید احمد بخاری صاحب نے شکوہ کیا: ’’کشمیری مسلمانوں نے کبھی ان کا ساتھ نہیں دیا‘‘۔ محترم بخاری صاحب کو معلوم ہونا چاہیے: ’’گذشتہ ۶۰برس میں جب بھی بھارت کے کسی کونے میں مسلمانوں کے ساتھ زیادتی ہوئی، تو کشمیریوں نے اپنے جلتے ہوئے گھروں کے شعلوں کو فوراًفراموش کرکے ان کے ساتھ اظہار یک جہتی کے لیے کسی نہ کسی طرح سے اپنی آوازبلند کی۔ مراد آباد کے فسادات کے وقت کئی روز تک کشمیر بند رہا۔ سوپور میں تو مظاہروں کے دوران ایک شخص سرکاری فائرنگ کا نشانہ بن کر ہلاک بھی ہوگیا۔ یہ واقعی سخت شرم کی بات ہے کہ بھارت کے مسلم لیڈروں اور دانش وروں نے جموں وکشمیر میں روا رکھی جانے والی زیادتیوں کے متعلق اپنے منہ ایسے بند کیے ہیں، جیسے ان کی چابیاںہندو انتہا پسندوں کے پاس ہوں۔
ان بھارتی مسلمان لیڈروں کو کشمیرکے مسئلے کے حل کے حوالے سے کئی خدشات اور واہمے لاحق ہیں۔ سب سے پہلا وہم یہ ہے کہ اگر کشمیر الگ ہواتو ان کے بقول ملک کی اکثریتی آبادی پورے ملک کے مسلمانوں کو ملک دشمن اورعلیحدگی پسندوں کے طور پر دیکھے گی۔ غرض یہ کہ، مسلمان لیڈروں کی غالب اکثریت جموں و کشمیر کے سیاسی مسئلے کو عدل اور انصاف سے زیادہ اپنے اوپراس کے پڑنے والے اثرات کے نقطۂ نگاہ سے دیکھتی ہے اور اس مخصوص سوچ سے باہر نکلنے کے لیے وہ تیار نہیں۔ کوئی بھارتی مسلم دانش وَراورحساس طبقے سے یہ پوچھے کہ اگرآپ کشمیری مسلمانوں کو کسی بھی قیمت پر جدا نہیں کرنا چاہتے ہیں، تو پھرکم از کم جموں و کشمیر میں ہورہی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف کبھی اپنے لبوں کو معمولی سی جنبش دینے کی زحمت گوارا کیوں نہیں کرتے؟ آپ جموں وکشمیر میں روز ہونے والی زیادتیوں کے خلاف صرف اس لیے آواز اٹھانے سے گھبرارہے ہیں کہ کہیں آپ پر ملک دشمنی کا لیبل لگنے نہ پائے اور بھارتی انتہاپسندوں سے محفوظ رہیں۔
خوش آیند پہلو یہ ہے کہ بھارت میں مسلمان، عمومی طور پر کشمیر میں مسلمان بھائیوں کی حالت ِ زار پر خاصے اضطراب میں ہیں۔ پچھلے کئی برسوں کے دوران جب بھی مجھے بھارت کے اندرونی اور دُوردراز علاقوں کا دورہ کرنے کا موقع ملا ، تو عوام کو کشمیر کے سلسلے میں خاصا فکرمند پایا۔ چند برس قبل خواجہ معین الدین چشتی درگاہ کے دیوان زین العابدین اور خادم پیر نسیم میاں نے جب یہ اعلان کیا: ’’ہم اپنے حامیوں اور مریدوں کی فوج سرینگر لے جا کر ایک ہزار بھارتی پرچم لہرائیں گے‘‘ تو وہ خود اپنے ہی مریدوں کی ناراضی کا شکار ہوگئے۔ بریلی میں حضرت امام احمد رضا خاں بریلویؒ کے خانوادے کے ایک رہنما نے مجھے بتایا:’’ہماری گردن شرم سے جھک جاتی ہے کہ بے بس اور مظلوم کشمیری بھائیوں کی کوئی مدد کرنے سے قاصر ہیں، اس لیے خاموشی کو ترجیح دیتے ہیں‘‘۔
امیر جماعت اسلامی ہند، سیّد سعادت اللہ حسینی نے ۷؍اگست کو اپنے بیان میں کہا: ’جموں و کشمیر سے متعلق بھارتی حکومت کے اقدامات، پارلیمانی جمہوریت کے مسلّمہ اصولوں کی صریح خلاف ورزی ہیں۔ دفعہ۳۷۰ کے تحت ریاست کی خصوصی حیثیت کو وہاں کے عوام اور ان کے نمایندوں سے مشاورت کے بغیر یک طرفہ، محض صدارتی حکم نامے کے ذریعے یک لخت ختم کر دیا گیا ہے۔ اسی پر اکتفا نہیں کیا گیا، بلکہ جموں و کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔کشمیر کے عوام کے بنیادی حقوق مجروح کیے جارہے ہیں۔ ریاست میں فوجی چوکیاں غیرمعمولی طور پر بڑھانا اور جبر کے اس ماحول میں یک طرفہ فیصلوں کو مسلط کرنا باعث تشویش ہے۔ ان یک طرفہ فیصلوں اور اقدامات کو واپس لیا جائے۔ گرفتار قائدین کو رہا کیا جائے، تعلیمی ادارے کھولےجائیں، عوام کی نقل و حرکت اور مواصلات پر پابندیاں ہٹائی جائیں اور خوف و دہشت کا ماحول ختم کیا جائے۔ جموں و کشمیر کے معاملات وہاں کے عوام اور ان کے نمایندوں کے ساتھ بات چیت اور ان کی مشاورت ہی سے طے ہونے چاہییں‘___ پھر امیرجماعت اسلامی ہند، سیّد سعادت اللہ حسینی نے یکم اکتوبر کو پریس کانفرنس میں کہا: ’ہم چاہتے ہیں کہ حکومت کشمیری عوام پر سے سخت پابندیوں کو ہٹائے۔ وہاں کے لوگ تقریباً دو ماہ سے انٹرنیٹ اور مواصلاتی سہولیات سے محروم ہیں۔ ریاست کے سیاسی قائدین کو نظربند کرنا جمہوری اقدار کے خلاف ہے۔ تنظیم براے انسانی حقوق اور سول سوسائٹی کی سربراہی میں فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے وادیِ کشمیر کے سلسلے میں جورپورٹیں پیش کی ہیں، وہ شدید تشویش کا باعث ہیں۔ ان میں کہا گیا ہے کہ کشمیر میں بڑے پیمانے پر نوجوانوں کو قید کیا جارہا ہے، احتجاج پر قابو پانے کے لیے ضرورت سے زیادہ فوج تعینات کی گئی ہے اور طب و صحت کی سہولیات بھی بُری طرح متاثر ہیں‘۔
مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اور حیدرآباد سے رکن پارلیمنٹ اسدالدین اویسی نے، جموں و کشمیر پر غیرآئینی حملہ کرنے کی مذمت کی اور اس کی خصوصی حیثیت ختم کرنے پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا: ’’گوڈسے کی اولاد کے ہاتھوں ناگالینڈ، میزورام، نئی پور اور آسام پر بھی ایسا وار ہوسکتا ہے‘‘۔ مولانا توقیر رضا خاں بریلوی نے کہا: ’’دفعہ ۳۷۰ کے خاتمے کے ساتھ کشمیر پر جو ظلم ہورہا ہے، وہ محض کشمیریت کا نہیں بلکہ انسانیت کا بھی نقصان ہورہا ہے۔ ہم خود کشمیر جاکر برسرِزمین، حالت ِ زار دیکھنا چاہتے ہیں۔ مسلمانوں کے بارے میں ہندستان کے عوام کو گمراہ کیا جارہا ہے ۔ کشمیر پر روا اس ظلم کا واحد سبب، اس علاقے کا مسلم اکثریتی علاقہ ہونا ہے‘‘۔
کتنی حیرت کا مقام ہے کہ اسیرانِ مالٹا مولانا محمودحسنؒ اور مولانا سیّد حسین احمد مدنیؒ کے جانشین، اپنے بیانات اور اقدامات سے کشمیری عوام کے زخموں کو مزید کریدکر ناسور بنار ہے ہیں۔ تاریخ خاصی بے رحم ہوتی ہے۔آئین کی دفعات اور ملک تحلیل ہو سکتے ہیں، مگر قانونِ قدرت تحلیل نہیں ہوسکتا۔ تاریخ کا پہیہ ساکت نہیں رہتا، اور اُس قوم کے لیے خاصا بے رحم ثابت ہوتا ہے، جو اکثریت اور طاقت کے بل بوتے پر کمزور اور ناتواں کی زندگیاں اجیرن بنادے۔ بے بسی پر ہنسنے والو، تاریخ سے سبق لے کر مستقبل کے آئینے میں اپنی بربادی کا منظر دیکھو۔ چلیے اگر درد کا علاج نہیں کرسکتے تو درد کی لاج رکھنے کے لیے خاموش ہی رہو ع ’شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات‘۔
بھارت کے موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی ، جب بھارتیہ جنتا پارٹی کے جنرل سیکرٹری تھے، تو ایک دن پارٹی صدر دفتر میں پریس بریفنگ کے دوران ’’بھارت کی روایتی مہمان نوازی ، ہندو کلچر کے بے پناہ برداشت اور تحمل‘‘ پر گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’’صدیوں سے بھارت نے غیر ملکیوں کو پناہ دی اور ان کو سر آنکھوں پر بٹھا کر بلندیوں تک پہنچایا‘‘۔ روزنامہ دی ہندو میں سیاسی اُمور کی ایڈیٹر نینا ویاس نے سوال کیا:’’آپ کی پارٹی نے پھر اس تاریخی ہندو کلچر کے برعکس ، بنگلہ دیشی پناہ گزینوں کو ملک بدر کرنے کے مطالبے کو انتخابی موضوع کیوں بنایا ہے؟‘‘ اس پر مودی کا پارہ چڑھ گیا اور انھوں نے پریس بریفنگ ختم کرنے کا اعلان کیا۔ اسی طرح ایک بار بی جے پی کی مجلس عاملہ کے اجلاس میں سیاسی قرارداد پر بحث کے دوران ایک مسلمان ممبر نے، جو اٹل بہاری واجپائی حکومت میں وزیر بھی تھے ، شکوہ کیا: ’’پارٹی کو دیگر فرقوں کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔ قرار داد صرف مسلمانوں کی مخالفت کے ایشوز سے بھری پڑی ہے۔ قرارداد میں بنگلہ دیشیوں کی شناخت کرکے ان کو ملک بدر کرنا، جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنا، یونیفارم سول کوڈ نافذ کرنااور بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر وغیرہ، یہ سبھی ایشو تو مسلمانوں ہی کے متعلق ہیں‘‘۔
حال ہی میں شمال مشرقی صوبہ آسام میں غیر ملکیوں کو ملک بدر کرنے سے قبل ان کی شناخت کا مرحلہ اور اس کے نتائج حکمران بی جے پی کے لیے ایک طرح سے سانپ کے منہ میں چھچھوندر والا معاملہ بن گیا ہے اور ’نیشنل رجسٹریشن آف سٹیزنز‘ یعنی NRC کی لسٹ ، ان سے نگلتے نہ اُگلتے بنتی ہے۔ نگلے تو اندھا، اگلے تو کوڑھی والی مثال ہندو فرقہ پرستوں پر صادق آرہی ہے۔ سپریم کورٹ کی مانیٹرنگ اور سات سال کی عرق ریزی کے بعد صوبہ کی۹۰ لاکھ ۳۹ ہزار آبادی میں ۱۹لاکھ ۶ ہزار افراد ایسے پائے گئے، جو شہریت ثابت نہیں کرسکے۔ برسرِزمین کام کرنے والے رضا کاروں کے مطابق: ’’ان میں سے۱۱ لاکھ افراد ہندو ہیں اور صرف ۸لاکھ ہی مسلمان ہیں‘‘۔ اُن میں سے بھی بیش تر ایسے ہیں، جو فارم وغیرہ بھرنے میں غلطیاں کرگئے۔ خاندان کے متعدد افراد میں ناموں کے ہجے کا فرق ہے۔
۲۰۱۱ءکی مردم شماری کے مطابق آسام میں مسلمانوں کی آبادی ۳۴ء۲۲ فی صد ہے اور تناسب کے اعتبار سے بھارت میں جموں و کشمیر کے بعد مسلمانوں کی سب سے بڑی آبادی ہے۔ اس لیے۹؍اضلاع میں ان کی واضح اکثریت فرقہ پرستوں کی آنکھوں میں کھٹکتی آرہی ہے۔ گذشتہ سال این آرسی کی پہلی فہرست آئی تھی اُس میں تقریباً ۴۰ لاکھ افراد کے نام شامل نہیں تھے، فہرست میں بے شمار غلطیاں تھیں۔ بہت سے ایسے تھے جن کااپنا نام توشامل تھا، لیکن ان کے لڑکوں کا نہیں تھا۔ کسی لڑکے کا تھا تو اْس کے والدین میں دونوں یا کسی ایک کا نام شامل نہیں تھا۔ ایسا بھی تھا کہ ماں کی جگہ بیوی کا نام، بیوی کی جگہ بہن کا نام درج کیا گیا تھا۔
ابھجیت شرما ، جن کی درخواست پر سپریم کورٹ نے شہریوں کی شناخت کرنے کا آپریشن شروع کیا تھا، ان کا کہنا ہے کہ ’’نتائج ان کی توقع کے برعکس ہیں‘‘۔ گوہاٹی سے فون پر راقم سے ان کا کہنا تھا: ’’غیر ملکی افراد کی تعداد ۴۰سے ۵۰لاکھ کے قریب ہونی چاہیے تھی۔ فی الحال جن ۱۹لاکھ افراد کی شہریت پر سوالیہ نشان لگا ہے، ان میں بیش تر ایسے لوگ ہیں ، جو صدیوں سے آسام میں رہ رہے ہیں‘‘۔ شرما نے اب سپریم کورٹ میںشہریوں کی فہرست کی از سر نو تصدیق کی درخواست کی ہے، اور پوچھا ہے: ’’ اس پورے عمل پر ۱۳؍ارب روپے کیسے خرچ ہوئے ہیں؟‘‘ اسی طرح بھارتیہ گھورکھا پری سنگھ کی آسام شاخ کے سربراہ نیتیانند اوپادھیائے نے بتایا: ’’ہماری کمیونٹی کے تقریباً ایک لاکھ افراد شہریت کی فہرست میں نہیں ہیں، یعنی ان کو غیر ملکی قرار دیا گیا ہے‘‘۔ نیپال نژاد گھورکھا جوان، بھارتی فوج میں کام کرتے ہیں ۔ ان کی شہریت سے بے دخلی کے دورس نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔
آل آسام اسٹوڈنٹس یونین (AASU)، جس نے ۸۰ء کے عشرے میں آسامی بمقابلہ غیرآسامی کے ایشو کو لے کر احتجاجی تحریک کی قیادت کی تھی، کا کہنا ہے: ’’این آر سی کی فہرست ہم کو منظور نہیں ہے۔ یہ تعداد حکومت کے اپنے اعداد و شمار سے بھی کم ہے‘‘۔ ۲۰۱۶ءمیں وزیرمملکت براے داخلہ نے پارلیمان کو بتایا تھا:’’ملک بھر میں تقریباً۲کروڑ غیرقانونی بنگلہ دیشی مقیم ہیں۔ اس سے قبل۲۰۰۴ء میں ایک اور وزیر داخلہ سری پرکاش جیسوال نے یہ تعداد ایک کروڑ ۲۰لاکھ بتائی تھی اور ان کا کہنا تھا اس میں ۵۰ لاکھ آسام میں مقیم ہیں۔
جغرافیائی اعتبار سے صوبہ آسام تین حصوں میں بٹا ہوا ہے: نشیبی آسام مغربی علاقہ ہے، بالائی آسام مشرقی علاقہ ہے، اور بارک وادی جنوب میں واقع ہے۔آسام بنیادی طور پر ایک قبائلی ریاست ہے، جہاں کی تقریباً۴۰ فی صد آبادی مختلف قبائل پر مشتمل ہے، مگر ان کو زبردستی ہندو بنا کر رکھا گیا ہے۔ دوسری طرف مسلمانوں اور بنگلہ دیشی پناہ گزینوں کے نام پر ان کو خوف کی نفسیات میں مبتلا کرکے بی جے پی صوبہ کی راے عامہ اپنے حق میں ہموارکر نے میں کامیاب ہوگئی۔
معروف تجزیہ کار کلیان بروا کے مطابق: ’’مسلم اکثریتی علاقوں میں نہایت کم افراد غیرملکیوں کی فہرست میں شامل کیے گئے ہیں‘‘۔ جب یہ مشق شروع ہوئی تو معلوم تھا کہ اس کا ہدف مسلمان ہی ہوں گے۔ اس لیے مسلم تنظیموں خاص طور پرجمعیۃ علما ہند ، اس کے مقامی لیڈر مولانا بدرالدین اجمل، ان کے رفقا اور کئی غیر سرکاری تنظیموں نے مسلمانوں کو دستاویزات تیار کرانے اور قانونی مدد فراہم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ مولانا اجمل آل انڈیا یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ (AIUDF) کے سربراہ اور لوک سبھا کے ممبر بھی ہیں۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ، علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی اور کئی دیگر اداروں سے مسلم طلبہ نے بھی رضاکارانہ طور پر ان سے تعاون کیا۔ دُور دراز کے علاقوں میں پہنچ کر ان نوجوانوں نے شہریت ثابت کرنے کے لیے مطلوب دستاویزات تیار کرنے میں لوگو ں کی مدد کی۔
کلیان بروا کے نزدیک: ’’چونکہ ہندو اس عمل سے زیادہ خائف نہیں تھے، انھوں نے اس کو سنجیدگی سے نہیں لیا، جس کی وجہ سے ان کی خاصی تعداد شہریت کی فہرست سے باہر ہوگئی ہے۔ اب،جب کہ بی جے پی کے ہی ووٹروں کی اچھی خاصی تعداد غیر ملکیوں کے زمرے میں آگئی ہے ، بی جے پی نے اس این آر سی کے پورے عمل پر سوالیہ نشان کھڑے کر دیے ہیں۔ آسام کے وزیرخزانہ اور بی جے پی کے مقتدر لیڈر ہیمنت بیسواسرما نے این آر سی کے عمل میں متعین افسران پر اپنا غصہ نکالتے ہوئے کہا ہے کہ: ’’ان افسران نے۱۹۷۱ءمیں بنگلہ دیش سے ہجرت کرکے آئے ہندو ؤں کو دی گئی ریفیوجی اسناد کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔اور بھگوان کرشنا، بھگوتی درگا کے ماننے والوں کو غیر بھارتیہ قرار دیا گیا ہے۔ آسام میں مقیم بنگلہ دیشی اب بھارت کے دیگر علاقوں میں بس گئے ہیں۔ اس لیے آسام کی طرز کا آپریشن پورے ملک میں لاگو کیا جانا چاہیے، جس پر ۱۷کھرب روپے لگیں گے‘‘۔
’مہاجرین کے بحران‘ پر کام کرنے والے سہاس چکما کا کہنا ہے: ’’آسام میں آبادی کو یہ ثابت کرنا تھا کہ ۲۴مارچ۱۹۷۱ء سے قبل وہ اسی صوبے میں مقیم تھے، جو بہت مشکل کام ہے۔ ۱۹۷۱ءمیں آسام کی ۴۴فی صد آبادی خواندہ تھی۔ باقی آبادی آخر کہاں سے پیدایشی سند حاصل کرے؟ اس عمل میں اکثر بے زمین مزدور شہریت ثابت کرنے میں ناکام رہے ہیں‘‘۔ سہاس چکما کا کہنا ہے: ’’چائے کے باغات میں کام کرنے والے قبائلیوں کو چھوڑ کر کوئی بھی کمیونٹی آسام کی اصل رہایشی ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتی‘‘۔ آل انڈیا ڈیموکریٹک فرنٹ کے جنرل سیکرٹری امین الاسلام کا کہنا ہے: ’’پچھلے ۴۰برسوں سے مسلمانوں کے سروں پر شہریت کی جو تلوار لٹک رہی تھی، وہ ہٹ گئی ہے، کیوں کہ سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق شہریت کا پیمانہ مذہب نہیں ، بلکہ ’آسام ایکارڈ‘ تھا، جس کی رُو سے ’’مارچ ۱۹۷۱ءتک آسام میں رہنے والوں کو شہری تسلیم کرنا تھا‘‘۔
سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق پہلا، یعنی شناخت کا مرحلہ ختم ہو گیا ہے۔ دوسرا مرحلہ ووٹر اور شہریت کی فہرست سے ایسے افراد کا اخراج کرنا ہے۔ تیسرے مرحلے میں ملک بدر کرنا۔ حکومت پریشان ہے کہ ہندوؤں کی اتنی بڑی تعداد کو کہاں بھیجے؟ حکومت قانون میں ترمیم کرنا چاہتی ہے کہ: ’’بنگلہ دیش، پاکستان،ا ور افغانستان سے بھارت آنے والے ہندو، سکھ، جین اور پارسی بھارتی شہریت کے حق دار ہوں گے‘‘۔ اس کے لیے ان کو کوئی بھی دستاویز پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ لیکن دوسری طرف اگر ملک بدر یا نظر بند ہوں گے تو، صرف مسلمان ہی ہوںگے۔
تقسیم ہند ۱۹۴۷ء اور ۱۹۷۱ء میںسقوط مشرقی پاکستان کے عرصے کے دوران مجموعی طور پر دعوئوں کے مطابق تقریباً ایک کروڑ افراد ہجرت کرکے شمال مشرقی ریاستوں میں بس گئے تھے۔ ۱۹۷۱ء میں تو پاکستان کو سفارتی سطح پر زچ کرنے کے لیے سرحدیں کھول دی گئیں تھیں۔ لیکن جب بنگلہ دیش وجود میں آیا تو اکثر لوگ واپس اپنے گھروں میں چلے گئے۔۱۹۷۸ء سے ۱۹۸۵ء کے درمیان آل آسام اسٹوڈنٹس یونین سمیت کچھ تنظیموں نے پروپیگنڈا شروع کیا کہ ’’بہت سے پناہ گزین بنگلہ دیش جانے کے بجاے آسام میں بس گئے ہیں‘‘۔۱۹۷۸ء کے انتخابات میں ۱۷مسلمان اسمبلی کے لیے منتخب ہو گئے، جس پر آسمان سر پر اٹھا لیا گیا: ’’آسام کو ’اسلامی ریاست‘ میں تبدیل کرنے کے لیے بنگلہ دیشی مسلمانوں کا ریلا چلا آرہا ہے‘‘۔پہلے تو غیر آسامیوں، یعنی ہندی بولنے والوں کے خلاف تحریک شروع کی گئی، پھر اس کا رُخ خاص کر بنگلہ دیشیوں کے خلاف موڑدیا گیا۔ بعدازاں اسے آر ایس ایس اور دیگر فرقہ پرستوں کی شہ پر خوں ریز مسلم مخالف تحریک میں تبدیل کردیا گیا، جس میں ہزاروں بے گناہ مسلمان مردوں، عورتوں اور بچوں کی جانیں لیں، مسلمان عورتوں کی بے حُرمتی اورکروڑوں روپے مالیت کی جایدادیں تباہ و برباد کی گئیں۔
آسام میں ’بنگلہ دیشی‘ کہہ کر مسلمانوں کی نسل کشی کی گئی، جس میں ۱۶فروری ۱۹۸۳ءکو نیلی (Nillie: ضلع ناگائوں) اور چولکاوا میں قتل عام کے روح فرسا واقعات کبھی فراموش نہیں کیے جاسکتے، جن میں تقریباً ۳ ہزار (غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ۱۰ ہزار) افراد کو محض چھے گھنٹوں میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیاتھا۔ اس المیے کی تحقیقات کے لیے ’تیواری کمیشن‘ نے ۶۰۰صفحوں پر پھیلی مفصل رپورٹ میں ظلم کی رُوداد کو مرتب کیا، جو فروری ۱۹۸۴ء میں شائع ہوئی۔ پھر ۱۵؍اگست ۱۹۸۵ء کو بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی کی مرکزی حکومت، آسام حکومت اور احتجاجی طلبہ لیڈروں کے درمیان معاہدہ ’آسام آکارڈ‘ وجود میں آیا۔پولیس نے نیلی قتل عام میں ملوث ۶۸۸؍ افراد کے خلاف فردِ جرم عائد کی، مگر ’آسام اکارڈ‘کی ایک شرط کے تحت معلوم قاتلوں اور فسادیوں کے خلاف قتل کے تمام مقدمات واپس لے لیے گئے۔ اس طرح آج تک مسلمانوں کی اس نسل کشی کے لیے کسی ایک قاتل اور فسادی کو سزا تک نہیں ملی۔
بنگالی مسلمانوں کے خلاف یہ مہم چلانے والی ’آل آسام سٹوڈنس یونین‘ کے بطن سے نکلی ’آسام گن پریشد‘ کو بطور انعام اقتدار سونپ دیا گیا۔معاہدے کے مطابق مارچ ۱۹۷۱ء (کو ایک حتمی تاریخ) بنیاد مان کر اس سے پہلے آسام آکر رہایش اختیار کرنے والوں کو شہری تسلیم کیا گیا تھا۔ چنانچہ اس معاہدے کے بعد مر کزی حکومت نے پارلیمنٹ میں ایک ترمیمی بل کے ذریعے ’’شہریت کے قانون مجریہ ۱۹۵۵ء‘‘ میں سیکشن ۶ (الف) داخل کر کے اسے منظور کیا،جس پر اس وقت کسی نے کوئی اعتراض نہیں کیا بلکہ بشمول کانگریس، بی جے پی،کمیونسٹ جماعتوں، نیز تمام غیرسیاسی وسماجی تنظیموں نے بھی اسے تسلیم کیا تھا۔ چونکہ یہ مسئلہ ریاست میں مسلمانوں کو ایک سیاسی قوت بننے سے روکنے کی غرض سے کھڑا کیا گیا ہے۔ اس لیے پہلے ۲۰۰۹ء میں اور پھر ۲۰۱۲ء میں آسام سنمیلیٹا مہاسنگھـ سمیت مختلف فرقہ پرست اور مفاد پرست افراد اور تنظیموں نے سپریم کورٹ میں اس معاہدے کے خلاف مفاد عامہ کی ایک عرض داشت داخل کرکے ۵مارچ ۱۹۷۱ءکے بجاے، ۱۹۵۱ءکی ووٹرلسٹ بنیاد پر آسام میں شہریت کا فیصلہ کرنے کی استدعا کی۔ نیز اسی طرح مذکورہ معاہدے کی قانونی حیثیت اور پارلیمنٹ کے ذریعے’شہریت کے ترمیمی قانون ۱۹۵۵ء‘ کو بھی چیلنج کیا گیا۔
بعد ازاں سپریم کورٹ نے ۱۹۷۱ءکو بنیاد تسلیم کرتے ہوئے شہریوں کی ایک نئی فہرست تیار کرنے کا فرمان جاری کیا۔ ممبر پارلیمنٹ اجمل نے جو ریاست کی ڈھبری حلقے سے پارلیمنٹ میں نمایندگی کرتے ہیں، ان کی جماعت کے ریاستی اسمبلی میں ۱۳؍ ارکان ہیں۔ ان کے بقول: ’’سابق کانگریسی وزیر اعلیٰ ترون گو گوئی نے اپنے ۱۵سالہ دورِ حکومت (۲۰۰۱ء-۲۰۱۶ء) میں ریاست کی لسانی اور مذہبی اقلیتوں کو تین کاری ضربیں لگائیں: پہلے انھوں نے۲۰۰۵ء میں آئی ایم ڈی ٹی ایکٹ کا سپریم کورٹ میں کمزور دفاع کرکے اس کو منسوخ کرایا، جس کے تحت کسی شخص کو غیر ملکی ثابت کرنے کی ذمہ داری انتظامیہ پر تھی۔ بنگلہ دیش سے آنے والوں کا پتا لگانے اور شناخت کرنے کی غرض سے آئی ایم ڈی ٹی ایکٹ ۱۹۸۳ء میں پاس کیا گیا تھا۔ اس ایکٹ کے تحت کسی فرد کو غیر ملکی ثابت کرنے کی ذمہ داری استغاثہ پر تھی ۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اس کو ختم کردیا گیا ۔ اس کے بعد ان کی حکومت نے آسام میں ’بارڈر پولس ڈیپارٹمنٹ‘ تشکیل دے کر اسے اس بات کا مکمل اختیار دے دیا کہ وہ جسے چاہے غیر ملکی قرار دے کر گرفتار کرسکتا ہے۔ ہزاروں معصوم لوگ اس ڈیپارٹمنٹ کے ظلم و ستم کا شکار ہو چکے ہیں۔ واضح رہے کہ ملک کی دیگر ریاستوں میں اس طرح کا کوئی محکمہ نہیں ہے۔ مزید ستم یہ کیا گیا کہ گرفتار شدہ لوگوں سے راشن کار ڈ بھی چھین لیے گئے‘‘۔
مسلمانوں کو کس حد تک پاور اسٹرکچر سے باہر رکھنے کا کام کیا گیا، اس کی واضح مثال بھارتی حکومت اور ’بوڈو لبریشن ٹائیگرز‘ (BLT) کے درمیان۲۰۰۵ء کا معاہدہ ہے، جس کی رُو سے آسام کے کھوکھرا جار اور گوپال پاڑہ میں بوڈو علاقائی کونسل قائم کی گئی۔ یہ معاہدہ جنوبی افریقہ کی سفیدفام اقلیت کی نسلی حکمرانی (اپارتھیڈ رول) کی یاد دلاتا ہے۔ کیوں کہ جن اضلاع میں یہ کونسل قائم کی گئی، ان میں بوڈو قبائل کی تعداد محض ۲۸ فی صد ہے۔ بنگالی بولنے والی آبادی نے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ۸۰ء کے عشرے میں ’یونائیٹڈ مائنارٹیز فرنٹ‘ (UMF) کے نام سے ایک سیاسی تنظیم بنائی تھی، لیکن یہ تجربہ باہمی اختلافات کی وجہ سے زیادہ کامیاب نہ ہو سکا، حالانکہ اسے اسمبلی اور پارلیمنٹ میں قابل ذکر کامیابی ملی تھی۔ فرنٹ سے منتخب ہونے والے رکن پارلیمان بیرسٹر ایف ایم غلام عثمانی اور دیگر لیڈر کانگریس میں چلے گئے۔ ریاست کے حالات اور کانگریسی حکومت کے رویے سے مایوس ہو کر اکتوبر ۲۰۰۵ء میں اس تجربے کا احیا کیا گیا۔ چنانچہ صوبے کی ۱۳ملّی تنظیموں نے ایک نیا سیاسی محاذ ’آل انڈیا ڈیموکریٹک فرنٹ‘ (AIDF)کے نام سے تشکیل دیا۔ اس کی تشکیل میں ایڈووکیٹ عبدالرشید چودھری کا اہم کردار رہا، لیکن وہ بے زری کے سبب قیادت نہ نبھاسکے۔ چنانچہ قرعہ فال عْود اور عطر کے بڑے تاجر مولانا بدرالدین اجمل قاسمی صاحب کے نام نکلا۔ ان کی قیادت میں فرنٹ ریاست میں حزب مخالف کی سب سے بڑی جماعت بن گئی۔
آسام کا دوسرا بڑا مذہب اسلام ہے، جہاں ۱۳ویں صدی میں سلطان بختیار خلجی کے دور میں مسلمانوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس وقت تک آہوم سلطنت وجود میں بھی نہیں آئی تھی۔جب برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی نے ۱۷۵۷ءمیں جنگ پلاسی کے بعد بنگال پر قبضہ کیا، تو اس کے زیر تسلط آسام کا علاقہ بھی آیا۔ کمپنی نے یہاں بڑے پیمانے پر بنگالیوں کو لاکر بسانا شروع کیا۔ چونکہ آسام میں زمینیں زرخیز تھیں اورمشرقی بنگال سے بڑی تعداد میں بے زمین کسان یہاں آکر آباد ہوگئے،ان میں ۸۵فی صد مسلمان تھے۔ آج تین صدیوں سے آباد انھی مسلمانوں کو ’غیر ملکی یا بنگلہ دیشی‘ قرار دے کر ان کے لیے زمین تنگ کی جارہی ہے۔
ریاست میں اکثر یت قبائلی فرقوں کی ہے، جو کل آبادی کا لگ بھگ ۴۰ فی صد ہیں۔ قبائلیوں کی کل ہند تنظیم راشٹریہ آدیواسی ایکتا پریشد کے نیشنل کو آرڈی نیٹر پریم کمار گیڈو کہتے ہیں: ’’آئین ہندکی رو سے قبائلی ہندو نہیں ہیں۔ پھر مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کا فیصلہ بھی موجود ہے، جس نے قبائلیوں کو غیر ہندو قرار دیا ہے‘‘۔ چنانچہ ریاست میں ہندو حقیقی معنوں میں اکثریت میں نہیں ہیں۔یہ چیز بھی فرقہ پرستوں کو کھٹکتی ہے۔ انھوں نے مسلمانوں کی شہریت چھیننے اور ان کو بے حیثیت کر نے کی کوششیں شروع کی تھیں، اور یہ معاملہ برما کے اراکانی مسلمانوں سے بھی سنگین تر ہوتا جا رہا تھا۔ سرکار ی اعداد و شمار کے مطابق اگست ۲۰۱۷ءسے جاری اس کارروائی میں اب تک ۳۹ہزار ۵سو ۸۹؍ افراد کو غیر ملکی قرار دے کر حراستی کیمپوں میں نظر بند کیا جا چکا تھا۔
انصاف کے دہرے معیار کی اس سے بڑھ کر اور کیا مثال ہو سکتی ہے کہ ایک طرف آسام میں مذہب کی بنیاد پر شہریت میں تفریق کی جارہی ہے، تو دوسری طرف بھارت کی مرکزی حکومت لاکھوں غیرملکی ہندو پناہ گزینوں کو شہریت دلانے کے لیے قانون سازی کر رہی ہے۔اس سے بڑی اور کیا ستم ظریفی ہوسکتی ہے کہ آسام میں تو مقامی ہندو آبادی کی نسلی اور لسانی برتری قائم رکھنے کے لیے لاکھوں بنگالی نژاد مسلمانوں کو بنگلہ دیشی قرار دے کر شہریت سے محروم کر نے کی کوشش ہو رہی ہے، وہیں دوسری طرف جموں و کشمیر کی نسلی ، لسانی و مذہبی شناخت کو ختم کرنے کے لیے علانیہ دوہرے پیمانے صرف اس لیے اختیار کیے جا رہے ہیں کہ آسام کی ۳۵ فی صد اور جموں و کشمیر کی ۶۸ فی صد مسلم آبادی ہندو فرقہ پرستوں اور موجودہ بھارتی حکومت کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹک رہی ہے۔ بھارتی حکومت کے حالیہ اقدامات کا مقصد یہ ہے کہ ہندو فرقہ پرست دیگر ریاستوں سے ہندو آبادی کو کشمیر میں بساکر مقامی کشمیری مسلمانوں کو اپنے ہی وطن میں اقلیت میں تبدیل کردیں۔
’’ضلع شوپیان،جموں و کشمیر میں ہر تیسرے بچے میں دماغی بیماری تشخیص کی جا سکتی ہے‘‘۔ ۲۰۱۹ء کے اوائل میں اس امر کا اظہار اس جائزے میں کیا گیا، جو Community Mental Health Journal میں شائع ہوا۔ تنظیم ’سرحدوں سے ماورا ڈاکٹروں‘ کے مطابق وادیِ کشمیر میں تقریباً ۱۸ لاکھ افراد میں،جو کُل آبادی کا ۴۵ فی صد ہیں،۲۰۱۵ء میں ذہنی بیماری کی علامتیں پائی گئی تھیں۔ یوں ۵؍اگست کے واقعے سے قبل بھی، وادی میں غیرقانونی گرفتاریوں اور اذیت رسانی کے گہرے اثرات اور نشانات کشمیر کے بچوں پر نمایاں تھے۔
آج بھی نہ صرف دہشت کا یہ سلسلہ جاری ہے بلکہ اس میں مزید اضافہ ہو چکا ہے، جیسا کہ دُنیابھر کے ذرائع ابلاغ گواہی دے رہے ہیں۔ میڈیا نے بے شماربچوں کی غیرقانونی گرفتاریوں کے متعلق اطلاع دی ہے کہ امن وامان قائم رکھنے کے ذمہ دارحکام کی جانب سے، ان میں سے بہت سے بچّے آدھی رات کو اٹھا لیے گئے، مگر ان کی گرفتاریوں کی کوئی تفصیل بھی مرتب نہیں کی گئی۔ جس کے باعث ان کی مختلف جیلوں یا حراستی مراکز میں موجودگی یا تلاش کی راہ میںمشکل پیش آ رہی ہے۔ ماہرمعاشیات جین ڈریزنے اپنی ایک رپورٹ میں اگست ۲۰۱۹ء میں لڑکوں کی غیرقانونی گرفتاریوں اور اذیت رسانی کی تفصیل مہیا کی ہے۔’انڈین فیڈریشن آف انڈین ویمن‘ (IFIW) اور دیگر تنظیموں کی جانب سے ایک حالیہ رپورٹ میں ان مائوں کے تازہ ترین احوال بیان کیے گئے ہیں، جو اپنے بچوں کی تلاش میں امید بھرے انداز سے سارا سارا دن اپنے گھر کے دروازوں پر کھڑی رہتی ہیں کہ ’’میرا گم شدہ بچہ واپس آ جائے گا‘‘، جب کہ ان مائوں کو یہ قطعاً علم نہیں کہ ان کے بچے کہاںہیں؟ یہ گم شدگیاں،ڈی کے باسو مقدمے میں بھارتی سپریم کورٹ کی ہدایت کی کھلی خلاف ورزیاں ہیں، جس میں عدالت عظمیٰ نے کہا تھا: ’’تلاشی کے دوران گرفتار شدگان کی گرفتاریوںکی وجوہ سے ان کے قریبی رشتہ داروں کو مطلع کیا جائے‘‘۔
۲۰۱۹ء کے آغاز میں ’’اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن براے انسانی حقوق‘‘ کی ایک رپورٹ میں لکھا گیا:’’ کشمیر میں بچوں کو پبلک سیفٹی ایکٹ(PSA)،جس کے تحت بغیر کسی الزام کے، کئی دنوں تک،پولیس حوالات میں رکھا گیا ہے‘‘۔ یاد رہے اس قانون کے مطابق ’’بلامقدمہ کسی کو دو برس تک قید رکھا جاسکتا ہے‘‘۔ اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’’جواب دہی میں اہم رکاوٹ’آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ‘ (AFSPA) رہا ہے‘‘۔
۲۰۱۸ء میں’جموں کشمیر کوالیشن سول سوسائٹی‘ (JKCCS) نے معلومات تک رسائی کے حق کے تحت معلوم کیا کہ: ۱۹۹۰ء اور۲۰۱۳ء کے درمیان سیکڑوں بچوں کو’پبلک سیفٹی ایکٹ‘ (PSA) کے تحت حراست میں لیاگیا۔ان میں سے بہت سے بچوں کے مقدمات کے بارے میں پولیس اور مجسٹریٹ کے پاس کوئی ایسا طریقہ دستیاب نہیں ہے کہ گرفتارشدگان کی عمر کی تصدیق کی جائے۔ پھر ان بچوں کوبالغ جرائم پیشہ افرادکے ساتھ حراست میں رکھا گیا اور بعدازاں محض عدالتی مداخلت کی وجہ سے انھیں رہا کیا گیا۔ان میں سے تقریباً ۸۰ فی صد گرفتاریوں کو عدالتوں کی طرف سے غیرقانونی قرار دیا گیا‘‘۔
بچوں کے ساتھ اس قسم کا سلوک واضح طور پر ،متعددقوانین اور کنونشنز کی خلاف ورزی ہے۔ یہ International Convention on Civil & Political Rights کی شق۱۴(۴)کی خلاف ورزی ہے، جس کے مطابق:’’بچوں کے خلاف تمام کارروائیوں کے دوران ان کی عمر کے پیش نظر ان کی بحالی کو فروغ دینے کو مدنظر رکھا جائے گا‘‘۔ The UN Convention on the Rights of the Child،جس پر بھارت نے بھی دستخط کیے ہیں،کے مطابق: ’’کسی بچے کی گرفتاری، قانون کے مطابق ہونی چاہیے اور گرفتاری کو آخری چارۂ کار کے طور پر اور مختصر ترین مدت کے لیے مناسب طور پر استعمال کرنا چاہیے‘‘۔ National Commission for Protection of Child کے رہنما نکات بتاتے ہیں کہ ’’خانہ جنگی کے دوران سلامتی کے خطرات کی حیثیت سے نوعمر لڑکوں کی درجہ بندی سے احتراز کرنا چاہیے اور حکام کو چاہیے کہ وہ تفتیش کریں اور جبری گرفتاریوں،بدسلوکی یا بچوں کی اذیت رسانی میں ملوث عملے کے خلاف کارروائی کریں‘‘۔
تاہم،ان میںسے کسی بھی ہدایت کو [بھارتی حکومت] پرکاہ کی اہمیت نہیں دے رہی اور حکومت من مانے قانون بناکر انھیں مسلط کررہی ہے۔ اس وقت والدین اپنے بچوں کو سکول بھیجنے کے بارے بہت زیادہ خوف زدہ ہیں کہ کہیں انھیں سیکورٹی حکام اٹھا کر نہ لے جائیں اور گولیوں کے تبادلے میں کہیں وہ مارے نہ جائیں۔جب ایک شورش زدہ علاقے میںاس قسم کی گم شدگیاں ہوتی ہیں،تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ متاثرہ فریق کس سے شکایت کرے؟ایسا معلوم ہوتا ہے کہ عدالتیں ہی صرف وہ ادارے رہ جاتے ہیں، جن سے کچھ انصاف مل سکتا ہے۔ تاہم، ۵؍اگست،جب جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت منسوخ کی گئی، کے بعد سے [بھارتی]ریاستی اقدامات نے کشمیری شہریوںسے ان کے اس دستیاب محدود متبادل حق کو بھی چھین لیا ہے۔سیفٹی ایکٹ کے تحت جموںوکشمیر ہائی کورٹ اینڈ ڈسٹرکٹ بارایسوسی ایشن کے صدر اور سینیئر وکلاء کی گرفتاری کے بعدجن میں سے اکثر کاتعلق کشمیر سے ہے، کے خلاف ۱۰۵۰وکلا نے ہڑتال کر دی ہے۔اب تک حبس بے جا کی ۲۰۰سے زائد درخواستیں دائر کی جاچکی ہیں۔ چونکہ زیادہ تر ڈاک خانے بند ہیں، اس لیے وکلا، مدعاعلیہان کو نوٹس نہیں بھجوا سکے۔
۵؍اگست کو جموں وکشمیر ہائی کورٹ کی سرینگربنچ کی آرڈرلسٹ میں تمام۳۱ مقدمات کا اندراج تھا جبکہ ہائی کورٹ نے یہ مقدمات’نقل وحمل پر پابندیوں کے باعث‘ ملتوی کر دیے کیونکہ وکلاء پیش نہیں ہوسکتے تھے۔ہفتوں بعد ۲۴ ستمبر کو۷۸ مندرج مقدمات میں سے، دونوں فریقین کی طرف سے محض۱۱ وکلاء حاضر تھے،جب کہ ۹ مقدمات میں کوئی بھی نہیںپیش ہوا۔ صرف ۹مقدمات میں درخواست گزاروں کے وکلاء، اور ۴۷ مقدمات میں سرکاری وکلاء حاضر تھے۔
اس قسم کے ہنگامی حالات کے پیش نظر دستور، شہریوں کے بنیادی حقوق کی حفاظت کے لیے انھیں اختیار دیتا ہے کہ وہ ’’ان مقدمات میں براہِ راست سپریم کورٹ سے رجوع کریں، جن میں ان کے حقوق کی خلاف ورزی کی گئی ہو‘‘۔آئینی اور عدالتی رسائی بذات خود ایک بنیادی حق ہے۔کشمیریوں کی زندگیوں کی حفاظت کرنے کے اپنے فرض سے بخوبی آگاہ ہوتے ہوئے، اعلیٰ عدلیہ نے خود پر یہ ذمہ داری عائد کی ہے کہ ’’بچوں کے خلاف ریاستی تشدد کے الزامات کی تفتیش کرے‘‘۔
’انٹر امیریکن کورٹ آف ہیومن رائٹس‘ (IACHR) نے ۲۰۰۵ء کے ایک مقدمے میں جس کا تعلق ’کولمبیا میپریپن قتل عام‘ سے تھا،یہ قرار دیا:’’ایک شخص دہشت کا دہشت سے مقابلہ نہیں کر سکتا بلکہ اسے قانون کی حدود میں رہ کر ہی مقابلہ کرنا چاہیے۔وہ لوگ جو متشدد قوت کا استعمال کرتے ہیں،خود پر ہی ظلم کرتے ہیں اور وسیع پیمانے پر تشدد کے سلسلے کو فروغ دیتے ہیں جس کے باعث معصوم،بچے شکار ہو جاتے ہیں‘‘۔
یہ ا مرمحسوس کرتے ہوئے کہ زندہ شہریوں میں دہشت اور موت کا بیج بونے کے باعث ان کی جبری گم شدگیاں واقع ہوئیں۔ مذکورہ امریکی عدالت نے کہا: ’’ریاست اور عوام کی طرف سے عدم توجہ، رواداری اور تعاون کی وجہ سے’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘کے نام پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں مزید اضافہ ہوگیا ‘‘۔
کس قسم کا لفظ یہ بچے اپنی زندگی میں تلاش کریں گے کہ اگر انھیں مسلسل ایسے خوف میں رہنا پڑے کہ انھیں ایک نامعلوم جرم کی پاداش میں اٹھا لیا جائے گا اور انھیں ایک نامعلوم مقام تک لے جایا جائے گا؟ یقینی طور پر زمین پر یہ وہ جنت نہیں جس کا بہت سے کشمیری تصور کرتے ہیں؟
’ترقی کے نام‘ پرجمہوری حقوق پرپابندیاں،بچوں کے ساتھ غیرانسانی سلوک کا بہانہ نہیں بن سکتیں۔ہمیںضرورت ہے کہ ہم کشمیر کے بچوں کے متعلق آواز بلند کریں یا پھر ریاستی مشینری کی طرح اس گھنائونے جرم کے شریک بن جائیں۔حفاظتی حراستوں کی روک تھام ہونی چاہیے، خدا نہ کرے کہ کشمیر کے یہ معصوم بچے ہمیشہ کے لیے غائب ہو جائیں۔(روزنامہ ،The Hindu، ۲۷ستمبر۲۰۱۹ء)
ہمارے اُردو کے ادیب اور دانش ور حالات حاضرہ پر زبان کھولنے کےلیے تیار نہیں۔ یہ بات افسوس کی ہے اور شرم کی بھی۔ افسوس اور شرم اس لیے کہ ادیبوں اور دانش وروں کی حیثیت ایک ’تھنک ٹینک‘ کی ہوتی ہے۔ منہ کھولے مسائل سے نمٹنے کےلیے یہ قوم کی ذہن سازی کرتے ہیں۔ ان کا سب سے اہم کام یہ ہوتا ہے کہ یہ ’ضمیر‘ کو ’زندہ‘ رکھتے ہیں: اپنے ’ضمیر‘ کو بھی اور قوم کے ’ضمیر‘ کو بھی ___مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے ادیب اور ہمارے دانش ور یہ کام جو اپنی نوعیت میں بہت ہی اہم بلکہ اہم ترین ہے، کررہے ہیں؟
کچھ عرصہ پہلے شہر ممبئی میں اردو کے ایک بہت بڑے، شہرت یافتہ اور رجحان ساز ادیب آئے تھے، ان سے ملاقات کےلیے پہنچے اور عرض کیا: ’’’ادب‘ پر نہیں ’حالاتِ حاضرہ‘ پر آپ سے بات چیت کرنی ہے‘‘۔ انھوں نے سخت ناراضی کا اظہار کیا ’ہم تو ادب کے آدمی ہیں۔ ہم سیاست وغیرہ پر کیا بات کریں گے؟‘ ان کے غصّے پر حیرت بھی ہوئی اور تعجب بھی کہ اتنا بڑا ادیب ، دانش ور بھلا حالاتِ حاضرہ پر گفتگو کرنے سے کیو ںکترا رہا ہے؟ بہت منت سماجت پر انھو ںنے بات توکی، مگر سوالوں کے جواب بے دلی سے دیے اور جواب بھی ایسے، جو کسی مسئلے کو حل کرنے میں مفید ثابت نہ ہوسکیں۔
آرٹیکل ۳۷۰ کا خاتمہ ہوگیا، کشمیر میں کرفیو لگا ہوا ہے، انسانی حقوق کی پامالیاں جاری ہیں، اس خطے کا رابطہ ساری دنیا سے کاٹ کر رکھ دیاگیا ہے، مگر ہمارے ادیب اور دانش ور ہیں کہ اپنی ہی دنیا میں مگن ہیں۔ اتنا بڑا واقعہ ہوا، ساری دنیا میں اس کی گونج ہے مگر انھیں کوئی فکر نہیں۔ ان کے مقابلے میں انگریزی ، ہندی، تمل، تیلگو ، گجراتی اور بنگالی و مراٹھی زبانوں کے ادیب اور دانش ور حالت حاضرہ پر نہ صرف غور کرتے ہیں بلکہ پوری قوم کی رہنمائی بھی کرتے ہیں۔ یہ کشمیر پر بھی لکھ رہے اور بات کررہے ہیں۔
ٹھیک ہے ، افسانے ، شاعری، تنقید اور تحقیق اپنی جگہ درست ہے، مگر ادب تو آنکھیں کھولنا سکھاتا ہے او راپنے اطراف میں جو ہورہا ہے اسے ایک نئے تناظر میں دیکھنے کی، جانچنے او رپرکھنے کی صلاحیت عطا کرتا ہے۔ اگر ہم عالمی ادب کا جائزہ لیں ، یا عالمی سطح کے دانش وروں کو دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ظلم وجبر کے خلاف آواز اُٹھانے سے وہ نہیں گھبراتے، بلکہ وہ عوام کی آواز کو بھی اپنی آواز میں شامل کرلیتے ہیں اور سب کی آواز وں سے مل کر جو آواز پیدا ہوتی ہے وہ اس قدر پُراثر ہوتی ہے کہ حکمران حالات کو بہتر بنانے پر غور کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
اردو کے ادیبوں اور دانش وروں کو کیا کبھی یہ احساس نہیں ہوتا کہ ان میں چند ہی لوگوں نے ۲۰۰۲ء میں گجرات فسادات کو اپنا موضوع بنایا ہے؟ ۲۰۱۳ء میں مظفر نگر کے فسادات اور ’ہجومی تشدد‘ اور فاشزم پر لکھا؟ بھارت میں ’زعفرانی لہر‘ کے بعد اقلیتوں کی سماجی، معاشی، تہذیبی اور تعلیمی اقدار کی شکست وریخت کو موضوع بنایا؟ عوام کے اندر پائی جانے والی بے چینی اور کشمیر کہ جہاں پیلٹ گنوں سے نکلنے والے چھرّوں سے لوگ نابینا ہوگئے ہیں، ان پر لکھا اور بات کی ہے؟ کتنے ہی موضوعات ہیں جن پر لکھنا،بولنا اور قوم کو راہ دکھانی ہے۔ فاشزم یا فسطائیت کے خلاف وہ لڑائی جو بھارت کی دوسری زبانوں کے ادیبوں اور دانش وروں نے شروع کررکھی ہے، اس میں شامل ہوکر ایک متحدہ جدوجہد کرنی ہے۔
کیوں اُردو میں کوئی اروندھتی راے، شیکھر گپتا ، پنکج مشرا ، یا چندراگوہا پیدا نہیں ہوتے؟ جب بات حق کہنے کی آتی ہے، تب اُردو خواں اہلِ دانش کی زبانوں پر تالے کیوں پڑجاتے ہیں ؟ اب سے سوپچاس سال پہلے تو ایسا نہیں ہوتا تھا! پہلے، جب انگریز اس ملک پر قابض تھے تب ہم میں ایسے لوگ موجود تھے، جو سب کچھ سہہ کر بھی حق بولتے تھے۔ مولانا محمد علی جوہر، مولانا ابوالکلام آزاد ، ظفرعلی خاں، حسرت موہانی، کتنے ہی جگمگاتے نام ہیں، مگر آج ’کشمیر ‘ پر ہم میں سے کوئی نہ اروندھتی راے کی طرح زبان کھولنے پر آمادہ ہے اور نہ کوئی رویش کمار ہی کی طرح جھوٹ کو جھوٹ ثابت کرنے کو تیار!
آرٹیکل ۳۷۰ کے خاتمے کے بعد سے اب تک، جب کہ کشمیر میں مواصلاتی نظام کو ٹھپ ہوئے ۵۰ واں دن شروع ہوچکا ہے۔ کرفیو ہے کہ مسلسل جاری ہے۔ لوگ ہیں کہ جیلوں کے اندر اس طرح سے ڈال دیے گئے ہیں کہ ان کے گھر والوں کو بھی خبر نہیں ہے۔ پیلٹ گنیں ہیں کہ رہ رہ کی چلتی اور لوگوں کے چہروں اور بدن کو بدنما بنارہی اور بینائی چھین رہی ہیں، اور ہر جانب فوجی وردیوں کا ایک سیلاب نظر آرہا ہے ۔ کشمیر کے حالات پر رپورٹوں ، تجزیوں ، اور روزمرہ کی خبروں کا جائزہ لیں تو خوب اندازہ ہوجائے گا کہ سچ کو جس طرح سے اجاگر کرنا چاہیے تھا ’ہم‘ نے تو نہیں کیا ہے، مگر ’اُنھوں‘ نے کیا ہے ، اور بغیر کسی ڈر اور خوف کے کیا ہے ۔
اروندھتی راے بھی تو ایک ادیبہ ہیں۔ صرف ایک ناول نگار نہیں بلکہ وہ انسانی حقوق کی عالمی شہرت یافتہ رہنما بھی ہیں ۔کشمیر پر ان کا ناول The Ministry of Utmost Happiness ۲۰۱۷ء میں شائع ہوچکا ہے۔ ’مسئلہ کشمیر‘ پر وہ آرٹیکل ۳۷۰ کے خاتمے سے بہت پہلے سے بولتی چلی آرہی ہیں۔ ان کے ایک مضمون’آزادی‘ نے حکمراں جماعتوں کی نیندیں اڑادی تھیں۔ انگریزی ماہنامہ کارواں میں کشمیر کے تازہ ترین حالات پر ان کا ایک تجزیہ شائع ہوا، جس میں انھوں نے ۵؍ اگست کے روزمرکز کا مودی سرکار کے ہاتھوں آرٹیکل ۳۷۰ کو ختم کرنے کو ’یک طرفہ فیصلہ‘ قرار دیا اور واضح لفظوں میں کہا ہے: ’’مودی حکومت نے اپنے فیصلے سے ان بنیادی شرطوں کو تار تار کردیا جن کی بنیاد پر جموں وکشمیر کی سابق ریاست ہندستان کے ساتھ ملی تھی‘‘۔ محترمہ راے تحریر کرتی ہیں: ’’۴؍ اگست کو پورے کشمیر کو ایک بہت بڑی جیل میں تبدیل کردیا گیا ، ۷۰ لاکھ کشمیری اپنے گھروں میں بند کردیے گئے ، انٹرنیٹ اور ٹیلی فون خدمات بھی بند کردی گئیں‘‘۔
وہ لکھتی ہیں:’’ اطلاعات کے اس زمانے میں کوئی حکومت کتنی آسانی سے ایک پوری آبادی کو باقی دنیا سے کیسے کاٹ سکتی ہے ، اس سے پتا لگتا ہے کہ ہم کس طرف بڑھ رہے ہیں ۔ کشمیر کے بارے میں اکثر کہا جاتا ہے کہ یہ ’تقسیم‘ کے ادھورے کاموں میں سے ایک ہے ۔ ’ تقسیم‘ جس کے ذریعے انگریزوں نے برصغیر کے بیچ میں لاپروائی سے ایک لکیر کھینچ دی اور یہ مان لیا گیا کہ انھوں نے ’ مکمل‘ کو تقسیم کردیا ہے۔ برطانیہ کے تحت ہندستان کے سیکڑوں رجواڑے تھے، جن سے الگ الگ مول تول کیا گیا، اور جوریاستیں اس کے لیے تیار نہیں تھیں ان سے زبردستی منوا لیا گیا‘‘ ۔
معروف مؤرخ رام چندرگوہا کا کہنا ہے کہ: ’’صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند کا آرٹیکل ۳۷۰ کو ختم کرنا بالکل ۱۹۷۵ء میں [اندرگاندھی کے] ایمرجنسی کے نفاذ کی مانند ہے۔ یہ جمہوریت نہیں، یہ آمریت ہے۔ ایسے حواس باختہ خود کو غیر محفوظ سمجھنے والے حکمرانوں کی کاریگری، جو پارلیمنٹ کے اندر یا باہر مناسب مباحثے کی جرأت بھی نہیں رکھتے‘‘۔
اسی طرح پنکج مشرا بھی تو ادیب ہیں۔ وہ عالمی شہرت یافتہ ناول نگار اور دانش ور بھی ہیں۔ انھوں نے فاشزم کے خلاف ایک بلندپایہ کتاب Age of Anger لکھی ہے۔ کارواں ہی میں وہ ایک مضمون: ’’کشمیر میں ہندستان اپنے ہی پیروں پر گولی ماررہا ہے ‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’ہرگزرتے ہفتے کے ساتھ کشمیر پر ہندستان کا کریک ڈاؤن بڑھتا جارہا ہے ۔ انٹرنیٹ اور فون کی لائنوں کو کاٹ دینے پر اکتفا نہ کرتے ہوئے بڑے بڑے سیاسی لیڈروں کو حراست میں لے کر، کرفیو نافذ کردیا گیا ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی کی سرکار نے اطلاعات کے مطابق ہزاروں کشمیریوں، طالب علموں اور حقوق انسانی کے کارکنوں کو بھی قیدخانوں میں ڈال دیا ہے‘‘۔ پنکج مشرانے کشمیر میں کیے جانے والے اقدام کو سربیا کی نسل پرستی اور وہاں کے نسل پرست لیڈر راتکو ملادیچ کے اقدامات سے تعبیر کیا ہے___ وہ تحریر کرتے ہیں: ’’ہندستانی میڈیا کی جانب سےملنے والی تقریباً اجتماعی حمایت نے مودی سرکار کو بے خوف کردیا ہے ۔ تاہم، غیرملکی میڈیا کے صفحۂ اول پر، کشمیر کی خالی گلیوں میں پوری طرح سے مسلح فوجیوں کی ، چھپنے والی تصویریں یہ ظاہر کردیتی ہیں کہ یہ خطّہ پوری طرح سے فوجی تسلط میں ہے، اور اب عالمی میڈیا کھل کر مودی سرکار کو ’نسل پرست‘ اور ’ فاشسٹ‘ لکھ رہا ہے ‘‘۔
سدھارتھ بھاٹیہ کا کہنا ہے: ’’ کشمیر میں جو ہوا اس کا مقصد کشمیریوں پر کنٹرول کرنا ہی نہیں، ان کو ذلیل کرنا بھی ہے ‘‘___ دی وائر اردو میں وہ صاف صاف لکھتے ہیں: ’’ابلاغ کے سارے ذرائع کو کاٹ کر، ان کو قابو میں رکھنے کے لیے سیکورٹی اہل کاروں کا استعمال ، اور روز روز کی توڑپھوڑ کا مقصد کشمیریوں کو یہ یاد دلانا ہے کہ ان کا اپنا کوئی وجود نہیں ہے ۔ ان کا ہر قدم اور وجود اقتدار کے ہاتھ میں ہے ، وہ اقتدار کہ جس کی نمایندگی ایک بڑی اور ہرجگہ موجود فوج کررہی ہے ، جو ان کی روزمرہ کی زندگی میں دخل دیتی ہے‘‘۔
انگریزی پورٹل (ویب) The Wire نے سواگتا یادوار کی کشمیر سے ایک دل دہلانے والی رپورٹ شائع کی ہے جس میں انھوں نے کہا ہے: ’ کشمیر‘ کے محاصرے سے وہاں ’ ذہنی بیماریاں‘ پھوٹ پڑی ہیں ۔ رپورٹ کے دواقتباسات ملاحظہ کریں۔ ’’ وہ ایک کونے میں بیٹھی ہوئی ہے ، ڈاکٹر کے کمرے کے دروازے کے بغل میں ، کمپاؤنڈر کی میز پر پھیلے کاغذات اور بکسوں سے چھپی ہوئی۔ میں مستقبل کے بارے میں سوچ سوچ کر مایوس ہورہی ہوں ، مجھے لگتا ہے کہ ہمارا کوئی مستقبل ہے ہی نہیں‘‘۔ ۲۴ سالہ زہرا جس نے قانون کی ڈگری لی ہے اور اب ریاستی سول سروسز (جوڈیشل) کے امتحان کی تیاری کررہی ہے۔ وہ اب ڈپریشن (مایوسی) کی مریضہ ہے۔ تین برسوں سے اسے دواؤں کی ضرورت نہیں پڑی تھی، لیکن آرٹیکل ۳۷۰ کے خاتمے کے بعد اس کا اضطراب پھر لوٹ آیا ہے:’’ اب میں اپنی پڑھائی پر توجہ نہیں مرکوز کرپاتی ‘‘۔ زہرا ان ۱۵ مریضوں میں سے ایک ہے، جو اعصابی امراض کے ماہر آکاش یوسف خان کے پاس بارہمولہ اس کے کلینک میں بغرض علاج آئے ہیں ‘‘۔ آرٹیکل ۳۷۰ کے خاتمے کے بعد سے حالات دشوار ہوگئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق علاج ومعالجے کے لیے لوگوں کا آنا کم سے کم ہوگیا ہے اور ۵؍ اگست کے بعد ذہنی مریضوں میں سے بس چند ہی ڈاکٹروں سے مل سکے ہیں۔ نتیجے میں کشمیر میں ذہنی بیماریاں بڑے پیمانے پر پھیل رہی ہیں ۔ لوگوں کو مایوسی ، بے چینی اور اضطراب نے گھیر لیا ہے جسے ’ ڈپریشن‘ کا نام دیا جاتا ہے ‘‘۔
The Quint میں آدتیہ مینن نے کشمیر میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں کا ذکر کرتے ہوئے ’سورہ‘ علاقے کو کشمیر کا ’ غزہ‘ قرار دیا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں : ’’سورہ میں اسی روز سے احتجاجی مظاہرے شروع ہوگئے تھے، جس روز حکومت نے جموں اور کشمیر کے خصوصی درجے کو ختم کرنے کے فیصلے کا اعلان کیا تھا، مگر ۹؍ اگست کا بڑے پیمانے کا احتجاج سب سے زیادہ اہم تھا۔ اس احتجاج نے حکومت ہند کے بہت سارے دعوؤں کو ہوا میں اُڑا دیا:
رویش کمار بھی تو ایک ادیب اور دانش وَر ہیں۔ تہذیب، قوم اور جمہوریت کے موضوع پر ان کی کتاب بولنا ہی ہے نے دھوم مچا رکھی ہے۔
پھر اس مستعفی اعلیٰ پولیس افسر کے چند جملے پیش ہیں، جو کبھی پنجاب میں ’ انتہا پسندی‘ کے خاتمے کے لیے سرگرم تھا۔ ممبئی کے سابق پولیس کمشنر ، صدارتی ایوارڈ یافتہ پدم بھوشن جولیوایف ریبریو نے کاروان میں شائع شدہ انٹرویو میں کہا :’’فوج کو کبھی اپنے ہی لوگوں سے لڑنے کی تربیت نہیں دی گئی۔ اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ کشمیری مسلمان ہندستان کا اٹوٹ اَنگ ہے،تو آپ کو چاہیے کہ ان سے اسی طرح سےپیش آئیں‘‘۔ کیا نریندر مودی ، امیت شا وغیرہ جولیو ایف ریبریو کے مشورے پر عمل کرکے کشمیری مسلمانوں کے بارے میں ان کی بات سنیں گے، یا ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے اڑادیں گے ؟
یہ تو بس چندمضامین اور تجزیوں اور احوال سے لی گئی کچھ مثالیں ہیں، ایسے دانش وروں، سیاست دانوں اور صحافیوں کی، جو ’ ہم‘ اُردو لکھنے والوں میں سے نہیں ہیں۔ اُن کی ایک بڑی تعداد ’مسئلہ کشمیر‘ پر زبان کھول رہی ہے، اور کشمیریوں پر جو کچھ ان دنوں بیت رہی ہے اس کا احوال پیش کررہی ہے ۔ جھوٹ کو جھوٹ کہہ رہی ہے اور حق کو حق___ نہ جانے کیوں ’ ہم‘ اُردو لکھنے والوں میں ایسے لوگ نہیں ہیں ، اور اگر ’مسئلہ کشمیر‘ پر ہماری زبانیں کھلتی بھی ہیں، تو بڑی ہی احتیاط سے الفاظ نکلتے ہیں۔ حکومت کے موقف کی تائید تو کی ہی جاتی ہے ، مگر کشمیری عوام پر جو ان دنوں بیت رہی ہے اس کا ذکر سرسری کیا جاتا ہے ___ کیا کوئی ’ ہم ‘ میں سے کھل کر بات کرے گا؟
اُردو کے قلم کارو! آپ کا قلم کب بولے گا؟ آپ کی زبان کب کھلے گی؟ آپ کب افسانوں اور غزلوں اور نظموںکی دنیاسے باہر نکل کر حالاتِ حاضرہ پر بھی کچھ لکھیں او ربولیں گے؟
سترہ روزہ پاک بھارت جنگ ستمبر۱۹۶۵ء کے بعد اسی سال ۱۶؍اکتوبر کو انجمن شہریانِ لاہور کے جلسے منعقدہ وائی ایم سی اے ہال سے خطاب۔ مرتبہ: رفیع الدین ھاشمی
***
ایک دانش مند قوم کو ایسے موقعے پر، جو اس وقت ہمیں درپیش ہے، حقیقت پسندانہ جائزہ لے کر دیکھنا چاہیے،کہ حریف کے مقابلے میں ہمارے کمزور پہلو کیا ہیں اور قوت و طاقت کے ذرائع کیا ہیں؟ کیوں کہ عقل مندی کا سب سے پہلا تقاضا یہ ہے کہ اپنی قوت اور طاقت کے ذرائع کو مضبوط کیا جائے، اور کمزور پہلوئوں کی تلافی کی تدابیر سوچی جائیں۔
آپ جانتے ہیں کہ ہندستان تعداد کے لحاظ سے ہم سے کئی گنا زیادہ آبادی رکھتا ہے۔ رقبے کے لحاظ سے بھی کئی گنا بڑا ہے اور ذرائع، وسائل اور اسلحے کی مقدار کے لحاظ سے بھی۔ ان حیثیتوں سے ہم ان اُمور کی تلافی کرنا بھی چاہیں تو نہیں کرسکتے۔ رقبہ بڑھانا چاہیں تو نہیں بڑھا سکتے اور اگر ہم خاندانی منصوبہ بندی سے توبہ کرلیں تب بھی، تعداد کے لحاظ سے اس کے برابر نہیںہوسکتے۔ اسی طرح اس کے اسلحے کی فراہمی کے ذرائع اور وسائل بھی ہم سے زیادہ ہیں۔ ان پہلوئوں سے یہ ممکن نہیں کہ ہم اس سے بڑھ جائیں یا اس کے برابر ہی پہنچ جائیں۔
اب یہ دیکھیے کہ ہماری طاقت کے ذرائع کیا ہیں تاکہ ان کو دیکھ کر اندازہ ہوسکے کہ اگر ہم ان ذرائع کو بڑھائیں تو ہم دشمن سے بڑھ سکتے ہیں یا نہیں۔ یہ ذرائع اگر ہمیں مضبوط بناتے ہیں، تو پھر یقینا انھیں بڑھانا ہی عقل مندی کا تقاضا ہوگا۔
ہمارے لیے سب سے اوّلین شعبہ طاقت کا وہ اتھاہ ذخیرہ ہے، جس میں ہندستان بلکہ پوری کافر دنیا ہمارا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ اور یہ ایمان اور اسلام کی دولت ہے۔ اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ اس چند روزہ جنگ میں ہمیں کامیابی اس لیے ہوئی کہ ہماری فوج دشمن کی فوج کے مقابلے میں زیادہ تربیت یافتہ تھی تو میں اسے غلط نہیں کہتا، مگر واقعہ یہ ہے کہ محض فوجی تربیت اور اسلحے کے استعمال کی مہارت ہی وہ چیز نہ تھی، جس نے ہمیں فتح یاب بنایا۔ہماری فوجی تربیت بھی تو وہی تھی، جو انگریزی نظامِ عسکریت کے تحت ہم نے پائی۔ ادھر دشمن نے بھی یہی تربیت حاصل کی تھی۔اگر محض اسی پر ہمارا انحصار ہوتا تو ہم بازی نہیں جیت سکتے تھے۔ تب وہ چیز کیا تھی، جس نے ایک اور دس کے مقابلے میں ہمیں کامیاب کرایا؟ دراصل وہ چیز اللہ پر ایمان، آخرت کا یقین، محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی محبت، اور یہ یقین تھا کہ اگر ہم شہید ہوگئے تو ہماری بخشش ہوگی اور ہم جنّت میں جائیں گے۔ اس چیز نے ہمارے سپاہی کو طاقت ور بنایا۔خالص دینی جذبہ ، اللہ و رسولؐ اور آخرت پر یقین اور شہادت کا شوق ہمارے سپاہی کی اصل روح ہے اور اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے نصرت عطا فرمائی ہے۔
آپ دیکھیں کہ ان علاقوں سے جو دشمن کی زد میں تھے، ہماری آبادی اس طرح نہیں بھاگی جس طرح دوسری جنگ ِعظیم کے دوران فرانس کی آبادی ان علاقوں سے بھاگی، جن پر جرمن فوجوں نے حملہ کیا تھا۔ ہمارے تاجر نے اس اخلاق کا ثبوت دیا جو زندہ قوموں کے شایانِ شان ہے۔ اس کی نظیر نہیں ملتی کہ جنگ چھڑ جائے اور ضرورت کی عام چیزیں بازار سے غائب نہ ہوں اور چیزیں نہ صرف ملتی رہیں بلکہ پہلے سے بھی سستی ہوجائیں۔ یہ آخر کس چیز کا فیض ہے۔ بجز ایمان کے اور ان اخلاقیات کے، جو ہمیں اسلام کی بدولت حاصل رہے ہیں۔
غور کیجیے کہ اگر اس موقعے پر خدانخواستہ سارا انحصار فوجی مہارت کے استعمال پر ہوتا اور ایمان کی طاقت نہ ہوتی، یا اسلام کی دی ہوئی بچی کھچی اخلاقی حس بیدار نہ ہوتی اور تاجر لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کر دیتے، عوام بدحواس ہوکر بھاگنا شروع کر دیتے، بستیوں کو خالی دیکھ کر یا افراتفری کے عالم میں دیکھ کر مجرم اپنے جرائم کی رفتار تیز کردیتے، تو آج ہم کہاں ہوتے؟ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے عطا کیے ہوئے دین، اسلام کے سوا اور کوئی چیز ہمیں بچانے والی نہیں ہے۔
ایک عقل مند کا کام یہ ہوتا ہے کہ جب حریف کے مقابلے میں اسے اپنی طاقت و قوت کے ذرائع کا علم ہوجائے تو انھیں بڑھانے کی کوشش کرے، نہ کہ انھیں ختم کرنے میں لگ جائے۔ یہ تجربہ جو ہمیں اس جنگ میں ہوا ہے، ہم اسے بار بار نہیں دُہرا سکتے۔ ہم اپنے نوجوانوں کو وہ تعلیم نہیں دے سکتے جو انھیں ذہنی شکوک و شبہات میں مبتلا کرے۔ ہم قوم کو عیاشی کی شراب نہیں پلاسکتے۔ ہم قوم کی اخلاقیات کا ستیاناس نہیں کرسکتے۔ ایک مرتبہ ہم نے تجربہ کرلیا ہے کہ ہماری مسلسل غلطی کے باوجود صرف ایمان اور اخلاق ہی ہمارے کام آئے ہیں۔ اب اگر ہم بار بار اپنی اسی طاقت کو کمزور کرنے والے طریقے اور راستے اختیار کرتے چلے جائیں گے، تو نہ معلوم ہم میں سے کتنے آیندہ بھی مضبوط ثابت ہوں؟ ہرنئی آزمایش کے موقعے پر پہلے سے کمزور ہوتے چلے جانا ایک فطری چیز ہے۔
یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے ہمیںہماری کسی غلطی کی سزا نہیں دی۔ اس لیے اب ہمیں اپنی ایمانی قوت کو مضبوط کرنے اور اخلاقی طاقت کو ناقابلِ تسخیر بنانے والے ذرائع کی طرف متوجہ ہونا چاہیے۔ ہمیں خوب سوچ سمجھ کر اپنے نظامِ تعلیم کا جائزہ لینا چاہیے اور دیکھنا چاہیےکہ یہ نظام نوجوانوں میں کس حد تک ایمان کے بیج بوتا ہے۔ اس سلسلے میں جہاں کمزوری ہو، اسے رفع کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اسی طرح ہمیں اپنے اخلاق کو سنبھالنے کی فکر کرنی چاہیے۔ نشرواشاعت کے دیگر ذرائع سب کو اس کی فکر کرنی چاہیے اور وہ کام نہ کیے جائیں جو اخلاق کو کمزور کرنے والے ہوں، بلکہ ایک سچّے مسلمان کی سیرت کو نشوونما دینے کی نیت اور جذبے سے کام کیا جانا چاہیے۔
ہندو قوم چاہے کتنی ہی کثیر تعداد میں کیوں نہ ہو، وہ بھارت تک محدود ہے۔ اس کے برعکس یہ اللہ کا فضل ہے کہ ہم اس دین حق سے تعلق رکھتے ہیں جو دنیا کے ہرگوشے میں پھیلا ہوا ہے۔ مسلمان جہاں بھی ہیں وہ فطری طور پر ہمارے دوست اور فطری اتحادی ہیں اور یہ بھی اسلام کی بدولت ہے۔ پھر مسلمان ملکوں میں سے جو اقوامِ متحدہ کے رکن ہیں، ۱۳مسلمان ملکوں کی زبان عربی ہے۔ یہ سب ملک ہمارے فطری اور پیدایشی حامی ہیں۔ ان ممالک کی حکومتیں اگر کسی موقعے پر ہماری حمایت نہ بھی کرتی ہوں، تب بھی ان ملکوں کے عوام ہمیشہ ہماری حمایت کرتے ہیں۔
جہادِ پاکستان نے عالمِ اسلام پر جو اثر ڈالا ہے، اس مناسبت سے عرب دنیا کے ایک نامور لیڈر ایک عربی اخبار میں لکھتے ہیں کہ: ’’اسرائیل کی آبادی صرف ۲۲لاکھ ہے اور سات آٹھ کروڑ عرب اس سے ڈرتے ہیں، جب کہ پاکستان نے صرف دس کروڑ کی آبادی کے ساتھ ۴۸کروڑ آبادی کے بھارت کے دانت کھٹے کر دیے ہیں‘‘۔ پھر انھوں نے یہ سوال عربوں کے سامنے رکھا ہے کہ غور کیجیے کہ آخر وہ کون سی بنیادی وجہ ہے جو آپ کو اسرائیل کے مقابلے میں کمزور بنائے ہوئے ہے؟
ان نکات سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جہادِ پاکستان نے خود عالمِ اسلام پر کیسا عظیم الشان اثر ڈالا ہے۔ فی الحقیقت یہ جو کچھ ہوا ہے، بالکل فطری طور پر ہوا ہے۔ یہ ہماری کوششوں سے نہیں ہوا،لیکن اسے اب نشوونما دینا ہمارا فرض ضرور ہے۔
گذشتہ برسوں میں ہم نے مسلمان ملکوں کو اپنے ساتھ لے کر چلنے کی کوئی خاص کوشش نہیں کی۔ پاکستان سے پہلے ہم اس بھروسے پر تھے کہ ہندوئوں کے مقابلے میں دنیا کے مسلمان ہمارے ساتھ ہیں اورتقسیمِ ہند کے بعد بھی ہم اسی بھروسے پر رہے، لیکن بھارت نے مسلم ممالک کو ہم سے توڑنے کی زبردست مہم شروع کر دی۔ اس نے مسلمانوں کو ہم سے توڑنے کے لیے اپنے عربی دان مسلمانوں کو پروپیگنڈے کے لیے عرب ملکوں میں بھیجا، جنھوں نے وہاں کے دانش وروں اور لیڈروں کو یقین دلایا کہ پاکستان تو انگریزی استعمار کی پیداوار ہے۔ بھارت نے پاکستان کے خلاف اس قدر زہر پھیلایا کہ ۱۹۵۶ء میں، جب میں عرب ملکوں میں گیا تو مجھ سے وہاں مقیم پاکستانیوں نے کہا کہ ان ملکوں میں ہمیں خود کو پاکستانی کہتے ہوئے شرم آتی ہے۔ یہاں ہمیں مغربی استعمار کا آلہ کار سمجھا جاتا ہے۔ بھارت نے لاکھوں روپے خرچ کر کے جو زبردست پروپیگنڈا کیا، یہ سب کچھ اس کا نتیجہ تھا۔ لیکن یہ سراسر اللہ کا فضل ہے کہ اس جنگ کے دوران اس کی کوشش ناکام ہوگئی۔
میں کہتا ہوں کہ اسلام کی بدولت یہ سب کچھ اگر ہمیں اپنی کسی خاص کوشش کے بغیر حاصل ہوا ہے تو عقل مندی یہ ہے کہ اب ہم اپنی خاص کوشش سے اسے بڑھائیں۔
اس ضمن میں ہمارے سفارت خانوں نے جو کردار ادا کیاہے، اس کے متعلق نرم سے نرم الفاظ میں مَیں یہ کہہ سکتا ہوں کہ انھوں نے کوئی خاص خدمت انجام نہیں دی۔ حج کے لیے جانے والے لوگوں کو معلوم ہوگا کہ حج کے زمانے میں ہندستان صاف ستھری عربی زبان میں اپنے پروپیگنڈے پر مشتمل پمفلٹ تقسیم کرتا ہے کہ ’’بھارت کے مسلمان خیریت سے ہیں اور انھیں ہرطرح کا آرام اور سہولتیں حاصل ہیں‘‘۔ اس کے مقابلے میں حقائق کو سامنے لانے کے لیے ہمیں اوّل تو کوئی چیز شائع کرنے کی توفیق ہی نہیں ہوتی۔ اگر ہو بھی تو نہایت گھٹیا انداز میں کہ اسے کوئی پڑھتا بھی نہیں۔ یہ ایک نہایت ضروری چیز ہے کہ عرب ملکوں میں ہمارے سفارت خانوں میں عربی جاننے والے لوگ موجود ہوں اور دوسرے ملکوں کے سفارت خانوں میں بھی اس ملک کی زبان جاننے والے لوگ ہوں۔ فارن سروس میں لیے جانے والے لوگوں کے لیے یہ چیز لازمی کرنی چاہیے تاکہ وہ اس ملک میں اپنا موقف اور نقطۂ نظر کامیابی کے ساتھ پیش کرنے کا عمل جاری رکھیں۔
ایک اور ضروری چیز یہ ہے کہ خود ہمارے نظامِ تعلیم میں عربی زبان کو ایک لازمی زبان کی حیثیت سے شامل کیا جائے۔ عربی زبان جسے مُلّا کی زبان سمجھا جاتا رہاہے، آج دنیا کے ۱۳ایسے ممالک کی زبان ہے، جو خلیج فارس سے لے کر اٹلانٹک تک پھیلے ہوئے ہیں اور اقوامِ متحدہ کے رکن ہیں۔ ان ملکوں میں ڈاکٹروں، انجینیروں، پروفیسروں اور دیگر ٹیکنیکل عملے کی ضرورت ہے۔ ہم یقینا ایسا عملہ ان ملکوں کو دے سکتے ہیں، لیکن زبان کی اجنبیت مانع ہے۔ وہ لوگ اپنی ضرورت کے تحت ڈاکٹر اور انجینیر وغیرہ منگواتے ہیں، مگر جب وہاں ڈاکٹر اور مریض کے درمیان، انجینیراور اس کے ماتحت عملے کے درمیان زبان کی مشکل حائل ہوتی ہے تو پھر انگریزی مترجمین کی ضرورت پڑتی ہے۔ اگر ہمارے ہاں کالجوں میں وظیفے دے کر طلبہ کو عربی پڑھنے پر آمادہ کیا جاسکے، تو یہ ماہرین ہمارے قدرتی سفیر ثابت ہوں گے اور مفید خدمات انجام دیں گے۔ اس طرح کوئی وجہ نہیں کہ وہ ملک ہماری حمایت نہ کریں۔ اگر ہم ایسا کرسکیں تو ان شاء اللہ سارا عالمِ اسلام ہمارے ساتھ ہوگا۔
میں نے یہ چند عملی تجاویز مختصر الفاظ میں بیان کردی ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ وہ انھیں بروے کار لانے کی توفیق دے۔ (ہفت روزہ آئین، لاہور، ۲۳؍اکتوبر ۱۹۶۵ء، ص ۸-۹)
صاحب ِطرز انشاء پرداز اشفاق احمد کے ایک افسانے کی مرکزی کردار مظلوم کشمیری لڑکی شازیہ اُردو کے نامور ادیبوں اور شاعروں کے پاس یکے بعد دیگرے جاتی ہے اور ان میں سے ہرایک کی خدمت میں کشمیری مسلمانوں کے انسانی حقوق کی پامالی کا مقدمہ پیش کرتی ہے، لیکن یہ سارے ادیب کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف صداے احتجاج بلند کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ ’’میری لائن انسان دوستی ہے سیاست نہیں‘‘۔ کوئی کہتا ہے کہ ’’یہ میری فیلڈ نہیں ہے میں گرامر، عروض اور ساختیات کا سٹوڈنٹ ہوں‘‘۔ یہ لڑکی مشہور فلم سازوں کے پاس بھی کشمیریوں کی مظلومیت کی فریاد لے کر جاتی ہے، مگر وہ لوگ بھی اس کی بات سنی اَن سنی کر دیتے ہیں۔ بالآخر یہ لڑکی افسانے کے واحد متکلم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہتی ہے: ’’آپ کو اس بات کا خوف تو نہیں انکل کہ اگر آپ نے مظلوم کشمیریوں یا ستم رسیدہ افغانیوں کے حق میں کچھ لکھا، تو لوگ آپ کو مذہب پسند سمجھنے لگیں گے؟ آپ کو تنگ نظر، کوتاہ بین، قدامت پسند اور بنیاد پرست کہہ کر روشن خیال دائروں میں آپ کا داخلہ بند کر دیں گے؟‘‘
بھارت اور پاکستان کے اُردو ادیب واقعتاً اس خوف میں مبتلا ہیں۔ اُن کا یہ عارضہ اُتنا ہی پرانا ہے جتنا کشمیر کا تنازع۔ کشمیریوں کے مصائب سے ان کی غفلت اور ان کا فرار ایک پرانا عارضہ ہے۔ کشمیر میں بھارتی فوجوں کے جبرو استبداد کے آغاز ہی سے اُردو ادیب اس انسانی المیے سے لاتعلق ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ بنیادی انسانی حقوق سے محروم کشمیری چونکہ مسلمان واقع ہوئے ہیں، اس لیے ان سے یگانگت کا دم بھرنے سے اُس کی ترقی پسندی اور آزاد خیالی پر حرف آجائے گا۔
ڈاکٹر آفتاب احمد نے اپنی کتاب بیاد صحبت نازک خیالاں میں لکھا ہے: [’’۳جنوری ۱۹۴۸ء کو ] پاکستان کے ادیبوں کی طرف سے کشمیر کے بارے میں ایک مشترکہ اعلان شائع کیا گیا، جس پر سواے [فیض احمد]فیض صاحب کے، سب ترقی پسند ادیبوں نے دستخط کرنے سے انکار کردیا۔ ترقی پسند حلقوں میں عام طور پر یہ مشہور ہوا کہ:’’یہ بیان [ڈاکٹر ایم ڈی]تاثیر صاحب کی ’سازش‘ کا نتیجہ تھا۔ چونکہ تاثیر صاحب کو معلوم تھا کہ ترقی پسند اس قسم کے بیان کی تائید نہیں کریں گے، اس لیے انھوں نے یہ گہری چال چل کر عوام اور حکومت کی نظرمیں زیادہ سے زیادہ انھیں مشتبہ کرنے کی کوشش کی تھی‘‘۔ اب اصل حقیقت سن لیجیے … ہندستان کے کچھ ادیبوں نے، جن میں دو ایک مسلمانوں کے نام بھی شامل تھے، کشمیر کے بارے میں ہندستانی نقطۂ نظر کی حمایت میں ایک بیان شائع کیا۔ محمد حسن عسکری، غلام عباس اور مَیں ایک جگہ جمع تھے۔ وہاں یہ ذکر آیا تو ہم نے سوچا کہ ’پاکستان کے ادیبوں کو اس معاملے میں خاموش نہیں رہنا چاہیے‘۔ چنانچہ تجویز یہ ہوئی کہ ایک بیان یہاں سے بھی شائع کیا جائے، جس میں پاکستانی نقطۂ نظر کی حمایت ہو، تاکہ دنیا کو حقیقت حال معلوم ہو سکے۔ غلام عباس اور مَیں، تاثیر صاحب کے پاس پہنچے اور اس تجویز کا ذکر کرنے کے بعدان سے بیان کی عبارت لکھنے کی درخواست کی۔ تاثیر صاحب نے ارتجالاً ایک مختصر سا بیان لکھ کر ہمارے حوالے کیا اور ہم نے ادیبوں سے دستخط لینے کی مہم شروع کر دی۔اسی سلسلے میں [احمد شاہ پطرس] بخاری صاحب کے پاس گئے، جو ان دنوں گورنمنٹ کالج [لاہور] کے پرنسپل تھے۔ انھیں تاثیر صاحب کی لکھی ہوئی عبارت پسند نہ آئی اور ناکافی معلوم ہوئی۔ ان کی رائے تھی کہ: ’’اس بیان میں ذرا تفصیل سے کام لینا چاہیے‘‘۔ انھوں نے مشورہ دیا کہ: ’’بیان فیض صاحب سے لکھوایا جائے اور انگریزی میں ہو تو اچھا ہے، تاکہ باہر کے ملکوں میں کام آ سکے‘‘۔ چنانچہ فیض صاحب سے وقت مقرر کیا گیا۔ دوسرے دن ہم ان کے ہاں پہنچے، فیض صاحب بولتے گئے اور مَیں لکھتا گیا۔ ٹائپ کرا کے ہم نے وہ بیان بخاری صاحب کو دکھایا، تو انھوں نے اسے بھی پسند نہ کیا‘‘۔ (ص ۸۲،۸۳)
’’آخر ہماری درخواست پر وہ اس بیان کو کاٹ چھانٹ کر درست کرنے پر آمادہ ہوگئے۔ دوسرے دن جب ہم ان کے پاس پہنچے تو وہ لاج کے برآمدے میں بیٹھے بیان کی صاف کاپی ٹائپ کر رہے تھے۔ مستردشدہ مسودوں کا ڈھیر ان کے پاس پڑا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ وہ رات گئے تک اس کام میں لگے رہے تھے۔ اب سوال تھا اُردو ترجمے کا۔ چونکہ بیان اُردو کے ادیبوں کی طرف سے جاری ہونے والا تھا، اس لیے بخاری صاحب کا اصرار تھا کہ: ’’اس انگریزی متن کا ایک آزاد ترجمہ ہماری طرف سے ہی ہونا چاہیے ، اور عبارت ادیبوں کے شایان شان ہونی چاہیے۔ انگریزی بیان کا ترجمہ اگر اخباروں کے مترجموں پر چھوڑا گیا، تو وہ نہ جانے اس کا کیا حشر کریں گے‘‘۔ چنانچہ اُردو ترجمے کا کام صوفی [غلام مصطفیٰ]تبسم صاحب کے سپرد ہوا۔ شام کو جب صوفی صاحب،عباس صاحب اور مَیں اُردوبیان لے کر بخاری صاحب کے پاس پہنچے، تو انھوں نے اسے بھی پسند نہ کیا۔ مشکل یہ تھی کہ بخاری صاحب کا معیارِ حسنِ نگارش اتنا بلند تھا کہ اس معاملے میں ان کی خوش نودی حاصل کرنا آسان نہیں تھا۔ آخر انھوں نے اس متن کی نظرثانی شروع کی‘‘ (ص۶۷، ۶۸)۔ ’’رات گئے تک یہ کام مکمل ہوا، اور دوسرے دن انگریزی اوراُردو بیانات اخبارات میں دے دیے گئے۔ یہ ہے اس بیان کی اشاعت کی داستان۔ اگر یہ ’سازش‘ تھی تو اس میں بخاری صاحب بھی شریک تھے اور فیض صاحب بھی‘‘۔(ص ۸۳،۸۴)
تنازع کشمیر کے باب میں ہمارے ادیبوں نے آغاز کار ہی میں وابستگی کے بجاے لاتعلقی کا رویہ اپنایا، تو ڈاکٹر تاثیر نے انھیں غیر جانب داری کی گپھاوں سے باہرنکل کر حق کی تائید اور باطل کی تردید کی روش اپنانے کا مشورہ دیا، مگر اسے انھوں نے ’سازش‘ پر محمول کیا۔
ہمارے ادیب آج تک اسی روش پر قائم ہیں۔ ستمبر۱۹۶۵ء میں جب کشمیر سے توجہ ہٹانے کی خاطر بھارت نے لاہور پر حملہ کر دیا، تو ہمارے ادیبوں اور شاعروں نے قلمی جہاد کی ایک نئی اور درخشندہ روایت کی بنیاد ڈالی، مگر اعلان تاشقند کے پس پردہ کارفرما عقل نے اس روایت کو کچھ دھندلا دیا۔ چنانچہ آج ہمارے ادبی اور تہذیبی محاذ پر پھر سے ۱۹۴۸ء کا سا عالم طاری ہے۔ ہمارے ادیب اور دانش وَر پھرسے اُسی گومگو کے عالم میں بیٹھے سوچ رہے ہیں کہ کشمیر میں جبر و استبداد پر یوں ہی مہر بہ لب بیٹھے رہیں یا لب کشائی کی جرأت کریں؟ اس تذبذب کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ستم زدگا نِ کشمیر مسلمان ہیں۔ پھر انھیں کسی سارتر یا ایڈورڈ سعید کی حمایت بھی حاصل نہیں ہے۔ اوپر سے میڈیا میں کشمیر کی تحریکِ مزاحمت کی جو تصویریں ابھرتی ہیں، اسے حریت پسندوں کی داڑھیوں نے’’خراب‘‘ کر رکھا ہے۔ ذرا سوچیں کہ داڑھی تو ان کے ہیرو چی گویرا کی بھی تھی، مگر اسے وہ اسلامی نہیں ’’انقلابی‘‘ داڑھی سمجھتے ہیں۔ الغرض اس نوعیت کے گونا گوں ’نظریاتی‘ سوالات ہیں، جن میں اُلجھے ہوئے اُردو ادیب خود کو تحریک آزادی کشمیر سے لا تعلق رکھنے پر ’مجبور‘ہیں۔ بھلا وہ مسلمانوں کے انسانی حقوق کی جدو جہد میں شریک ہو کر خود کو’ رجعت پسند‘ بلکہ ’طالبان پسند‘ کیسے کہلائیں؟
چاروں طرف پہاڑوں سے گھرے ازبکستان [آبادی: ایک کروڑ ۸۴ لاکھ اور رقبہ ۲۷ لاکھ ۲۴ہزار ۹۰۰ مربع کلومیٹر] کے درو دیوار خاصی حد تک کشمیر سے مماثلت رکھتے ہیں۔ اس علاقے کے سفر سے معلوم ہوتا ہے کہ کشمیر جنوبی ایشیا سے زیادہ وسطی ایشیا کے قریب ہے۔ فن تعمیر، رہن سہن، خوراک، غرض ہر چیز میں کشمیر کی پرچھائیں نظر آتی ہیں۔ تاشقند اور سمر قند کے درمیان ۴۵۰کلومیٹر طویل شاہراہ پر سڑک کے دونوں اطراف درختوں کی ایستادہ قطاریں سرینگر، بارہمولہ، مظفر آباد روڈ کی یاد تازہ کرتی ہیں۔
ایرانی نژاد میر سیّد علی ہمدانیؒ [۱۳۱۴ء-۱۳۸۴ء]نے بھی اسی خطے کو وطن بنایا۔ وہ سات سو مبلغوں اور ہنرمندوں کے قافلے کے ساتھ وادیِ کشمیر میں تشریف لائے، جو جنوبی ایشیا کا خطہ ہے۔یہاں پر بڑی تعداد میں اونچی ذات کے ہندو یا برہمن سیّدعلی ہمدانیؒ کی تبلیغ سے اسلام کی پناہ میں آگئے۔ ان کی آخری آرام گاہ تاجکستان کے شہر کلوب میں ہے۔ پھر بخارا کے نواح میں سلسلۂ نقشبندیہ کے بانی محمد بہاؤالدین نقشبندیؒ [۱۳۲۷ء- ۱۳۹۰ء]کا مزار ہے۔ سمر قند اور بخارا میں خانقاہوں کی کثر ت ہے، جن کی حالت اس وقت بہت ناگفتہ بہ ہے۔ یہ کسی زمانے میں تلاشِ حق کے مسافروں، صوفیوں اور درویشوں کی پناہ گاہ ہوا کرتی تھیں۔ ایک معمر ازبک تیمور تیلیفوف کے مطابق: ’’انیسویں صدی تک یہ خانقاہیں ، ان درویشوں سے آباد رہتی تھیں، جو ترکی اور جنوبی ایشیا سے روحانی فیض حاصل کرنے کے لیے ازبکستان کا رخ کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا: ’’ہمارے بزرگ بتاتے تھے کہ درویشوں کی آمد ایک طرح سے جشن کا سا ماحول بنادیتی تھی اور ان کو کھانا وغیرہ پہنچانے کے لیے مقامی آبادی میں مقابلہ آرائی ہوتی تھی۔ اشتراکی روس کے استبدادی اور سامراجی دور میں خانقاہوں پر تالے لگائے گئے۔ سرحدیں بند ہوگئیں، لوگوں کا آنا جانا بند کردیاگیا ۔ اس طرح تمدن و تہذیب کے صدیوں پرانے رشتے ٹوٹ گئے۔
سکندر اعظم [م:۳۲۳ ق م]اور چنگیز خان [م: ۱۲۲۷ء]کے گھوڑوں کی ٹاپیں، امیرتیمور[۱۴۰۵ء] کی جلالی نگاہیں، محمد شیبانی خان [م: ۱۵۱۰ء]اور مغل شاہزادے ظہیرالدین بابر [م:۱۵۳۰ء]کی معرکہ آرائیاں اور پھر گذشتہ صدی عیسوی کے چوتھے عشرے میں اشتراکی روسی فوج کی بمباری، ازبکستان کی تاریخ کے سنگ ِ میل ہیں۔ یہ ملک ایک طرح سے قدیم اور وسطی دور کی شاہراہ ریشم کا مرکز تھا۔ اناطولیہ (ترکی)اور بحر روم سے چین اور دوسری طرف جنوبی ایشیا سے یورپ و افریقہ کو ملانے والی شاہراہیں سمر قند کے ریگستانی چوراہے پر بغل گیر ہو جاتی تھیں۔ موجودہ ازبک صدر شوکت مرزیوف کے مطابق: ’’ازبکستان، چین کے ’بلٹ روڑ پروجیکٹ ‘ کے مکمل ہونے کے بعد ایک بار پھر تہذیب و تمدن کا گہوارہ بنے گا‘‘۔ ازبکستان ترکی کی قیادت میں ترک کونسل کا ممبر بھی بننے والا ہے۔ ترک نسل کے ملکوں پر مشتمل اس تنظیم میں آذربائیجان، قازقستان، کرغیزستان اور ترکی شامل ہیں، جو مشترکہ تہذیب، وراثت، شناخت اورکلچرکی پاسداری کے لیے یک جا ہوئے ہیں۔
ازبکستان کی فرغانہ وادی سے ہی نوجوان سردار ظہیر الدین بابر نے پامیر اور ہندو کش کے بلند و بالا پہاڑوں کو عبور کرکے پہلے کابل اور پھر درۂ خیبر کو عبور کرکے ۱۵۲۶ء میں دہلی پر قبضہ کرکے مغل سلطنت کی بنیاد ڈالی۔ اس سے قبل بابر کا پایۂ تخت سمر قند ہی تھا، مگر ازبک سردار شیبانی خان نے اس کو شکست دے کر کابل کی طرف بھاگنے پر مجبور کردیا۔ بابر کے جد امجد امیر تیمور کو ازبکستان میں قومی ہیرو کا درجہ حاصل ہے۔ تاشقند کی ایک خوب صورت سبز گنبد والی عمارت میں امیر تیمور میوزیم ہے۔ یہاں امیر تیمور سے متعلق پانچ ہزار نوادرات محفوظ کیے گئے ہیں۔ یہاں جس دوسرے مقام پر بہت زیادہ ہجوم ہوتا ہے، وہ خوست امام چوک کے پاس لائبریری میوزم ہے۔ یہاں وہ قرآن شریف کا نسخہ محفوظ ہے، جس کی حضرت عثمان غنیؓ شہادت کے وقت تلاوت کر رہے تھے۔ ہرن کی کھال پر تحریر قرآن شریف کے اس نادر نسخے کے اوراق پر خون کے دھبے نمایاں ہیں۔
میں شیشے میں بند اس نسخے کو دیکھنے میں محو تھا ، کہ میوزم کے ایک ملازم عظمت اکمتوف نے پوچھاکہ: ’کیا تم مسلمان ہو؟‘ میں نے سر ہلا کر ’ہاں‘ کہا، تو اس نے دوسرا سوال داغا، کہ: ’کس فرقے سے تعلق رکھتے ہو؟‘ پھر خود ہی ازبک لہجے میں ٹوٹی پھوٹی انگریزی میںپوچھا کہ: ’کیا تم حنفی ہو؟‘ میں نے جواب دیا کہ: ’میں حضرت عثمان غنیؓ کے مسلک سے ہوں‘۔ وہ شاید ابھی جواب تول ہی رہا تھا، کہ میں نے پوچھا کہ: ’حضرت عثمانؓ کس فرقے سے تعلق رکھتے تھے؟ آخر زچ ہوکر پوچھا کہ: ’تم کس ملک سے تعلق رکھتے ہو، ہندستان یا پاکستان؟‘ میں نے کہا: ’کشمیر سے ہوں‘۔ وہ پھر بغلیں جھانک کر کشمیر کے محل وقوع کے بارے میں استفسار کرنے لگا۔ افسوس کہ پچھلی ایک صدی میں جس طرح سرحدوں نے روابط کو محدود کرکے رکھ دیا ہے، اس سے یہ ازبک شخص کشمیر کے نام سے ہی واقف نہیں تھا۔ مجھے بتایا گیا کہ: ’’قرآن شریف کا یہ نسخہ امیر تیمور، سمرقند لے کر آگیا تھا۔ لیکن ۱۸۶۸ء میں روسیوں نے اس کو ماسکو منتقل کیا۔ پھر ۱۹۲۴ء میں لینن نے ترکستان کے مسلمانوں کو خوش کرنے کے لیے یہ نسخہ تاشقند بھیج دیا‘‘۔ اس میوزیم میں اور بھی نادر و نایاب کتب کا ذخیرہ ہے۔
تاشقند میں لال بہادر شاستری کا مجسمہ ،۱۹۶۵ءکی جنگ ستمبر کی یاد دلاتا ہے۔ جنوری ۱۹۶۶ء میں تاشقند معاہدے پر دستخط ہونے کے چند گھنٹوں بعد ہی بھارت کے وزیر اعظم لال بہادر شاستری کا انتقال ہوگیا۔ اسی شہر میں صدر پاکستان ایوب خان اور وزیر خارجہ ذوالفقارعلی بھٹوکے درمیان اختلاف پیدا ہوگیا۔ پانچ ماہ بعد وہ وزارت سے الگ ہوگئے، اور دسمبر ۱۹۶۷ء میں پاکستان پیپلز پارٹی بنالی اور چند برسوں میں وزیراعظم بن گئے۔
جہاں تاشقند میں اشتراکی حکمرانی کے آثار ابھی تک نظر آتے ہیں، وہاں سمر قند میں ان آثار کو اُکھاڑ کر پھینک دیا گیا ہے۔ مسجدوں اور میناروں کا ایک لامتناہی سلسلہ شہر کی تاریخ اور انفرادیت بیان کرتا ہے۔ حکومت نے ان قدیم تاریخی عمارتوں اور مقامات کو محفوظ بنانے، ان کی روایتی خوب صورتی کو برقرار رکھنے کے لیے بہت رقم خرچ کی ہے۔ صفائی ستھرائی کا معیار یورپ سے کم نہیں۔ پارکوں اور سیر گاہوں کاکوئی شمار نہیں۔شہر کی سیر کے دوران ایک پہاڑی پر موجود قلعے کے کھنڈرات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ہماری گائیڈ انارہ نے کہا کہ: ’’یہ وہ سمر قند ہے جس کو چنگیز خان نے تباہ کردیا تھا۔ اس ۲۶۵۰سالہ قدیم شہر کا اصل نام افراسیاب تھا‘‘۔ مسلم دنیا کے موتی کہلانے والے اس شہر نے متعدد حملہ آورں کو دیکھا ہے۔ ابن بطوطہ نے اس شہر کے نواح میں باغات اور ان کے میووں کی شیرینی کا خصوصی تذکرہ کیا ہے۔
سمرقند کے وسط میں امیر تیمور کا مزار ایرانی و ترک فن تعمیر کا شاہکار ہے۔ تاج محل کی طرح اصل قبریں مقبرے کے تہہ خانے میں ہیں، مگر اس کے دروازے پر سخت پہرا ہے۔ گائیڈ نے بتایا: ’’۱۹۴۱ء میں کمیونسٹ حکومت نے اس مقبرے کی کھدائی کرکے امیر تیمور کی باقیات کو ماسکو منتقل کیا۔ مقامی افراد نے ان کو بہت روکا، مگر وہ باز نہ آئے، اور باقیات کی ماسکو روانگی کے دو دن بعد ہی نازی جرمنی نے کمیونسٹ روس کے خلاف اعلانِ جنگ کیا اور وہ روسی فوجوں کو روندتے ہوئے ماسکو کے نواح میں پہنچ گئے۔ تین سال کے بعد روسی آمر اسٹالن نے کسی کے کہنے پر باقیات کو ماسکو سے سمرقند واپس لا کر سرکاری اعزاز کے ساتھ مقبرے میں دفن کرکے تہہ خانے کو سیل کردیا۔ اس کے ایک ماہ بعدہی کمیونسٹ فوجوں نے وولگو گراڈ کی فیصلہ کن جنگ میں نسل پرست جرمنوں کی کمر توڑ دی، اور پھر جرمن فوج مسلسل پیچھے ہٹتی رہی تاآنکہ روسی فوج برلن میں داخل ہوگئی‘‘۔
سمر قند،الجبرا کے موجد محمد ابن موسیٰ خوارزمی [م: ۸۵۰ء]اور مشہور سائنس دان بوعلی سینا [م: ۱۰۳۷ء] کی علمی مشغولیت کی سرزمین بھی ہے جس کے علم نے حساب کی دنیا میں انقلاب برپا کردیا۔ مزارِ تیمور سے کچھ دُور، جو ریگستانی چوراہا ہے، وہ قدیم شاہراہ ریشم کا مرکز تھا۔ جہاں پر نہ صرف اشیا کا بلکہ افکار و خیالات کا بھی تبادلہ ہوتا تھا۔ اسی لیے اس چوراہے کے دونوں اطراف دو عظیم الشان مدرسے اور سامنے ایک وسیع وعریض مسجد ہے۔ سمر قند میں، امیر تیمور کے روحانی پیشوا شیخ برہان الدین اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی قاسم بن عباس یا شاہ زندہ کی آرام گاہیں بھی ہیں۔ شاہ زندہ کے مقبرے تک جانے کے لیے تقریباً ۴۰سیڑھیاں چڑھنی پڑتی ہیں۔ ہمیں اسی گائیڈ نے بتایا: ’’سیڑھیاں چڑھتے اور اترتے وقت اس کے پایہ گنتے ہوئے اگر کسی خواہش کا اظہار کیا جائے، تو وہ پوری ہو جاتی ہے۔ شرط ہے کہ اترتے اور چڑھتے وقت سیڑھیوں کے پایوں کے عدد یکساں آنے چاہییں‘‘۔ لگتا ہے کہ کسی نے یہ ایک طرح کی مائنڈ گیم ایجاد کی ہے۔ ایک طرف سیڑھیاں گننا اور ہرسیڑھی چڑھتے ہوئے خواہش کا اظہار کرنا بھی دماغی ورزش اور منفرد مصروفیت ہے۔
سمر قند کے نواح میں تقریباً ۲۵کلومیٹر کے فاصلے پر محدث امام بخاریؒ کاعالی شان روضہ فنِ تعمیر کا عمدہ نمونہ ہے۔ اس سے ملحق مسجد، عجائب گھر، لائبریری اور یونی ورسٹی ہے۔ امام بخاریؒ نے احادیث جمع کرکے اور ان کو کتابی شکل دینے کا ایک بڑا کارنامہ انجام دیا۔ اشتراکی دورِ حکومت میں یہ روضہ بند کر دیا گیا تھا۔ ۱۹۵۴ء میں جب انڈونیشیا کے صدر [۶۷-۱۹۴۵ء] احمدسوکارنو [م:۱۹۷۰ء] ماسکو کے دورے پر آئے، تو انھوں نے امام بخاریؒ کے روضے پر جانے کو خواہش ظاہر کی۔ فی الفور ایک ٹیم روانہ کی گئی، جس نے صفائی کی۔ اس سے متصل مسجد ایک کھنڈر بن چکی تھی۔ اس کے بعد جب صومالیہ کے صدر نے بھی اپنے دورے کے دوران ، روٖضے پر جانے کی خواہش ظاہر کی، تو اشتراکی حکام نے اس مقبرے کی دیکھ بھال کے لیے ایک کمیٹی مقر رکی۔ ۱۹۹۸ء میں اسلام کریموف نے مزار کی تعمیر شروع کی ۔سرینگر کی جامع مسجد کی طرز پر صحن خاصاسرسبز ہے اور ایک حصے میں ایک تالاب ہے، جس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ اس کا پانی شفا بخش ہے۔
ہوٹل سے تاشقند ایرپورٹ واپس جاتے ہوئے میں نے بڑی عمر کے ڈرائیور رفیق کریموف سے پوچھا کہ: ’’اشتراکی دور حکومت کی زندگی کیسی تھی؟‘‘ تو اس نے کہا: ـ’’کہ ایک آہنی خول تھا، ہم دنیا سے کٹے ہوئے تھے۔ جس کسی بھی چیز کے لیے کمیونسٹ پارٹی کی رضامندی نہیں ہوتی تھی وہ قابل تعزیر تھی، چاہے تحریر ، تقریر یا آپس میں ذاتی سطح پر گفتگو ہی کیوں نہ ہو۔ قطار میں کھڑے ہوکر زندگی گزارنا ہی زندگی کا مستقل حصہ تھا۔ راشن لینے سے لے کر ہر چیز حاصل کرنے کے لیے حکومت پر انحصار کرنا پڑتا تھا۔ بلاشبہہ اس زمانے میں بھونکنے، یعنی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنانے پر تو پابندی تھی، مگر کھانے کے لیے کچھ نہ کچھ مل ہی جاتا تھا۔ بھوکے پیٹ سونے کاسوال ہی نہیں تھا، نہ کوئی بھیک مانگتا تھا۔ صرف ۱۰۰روبل میں ماسکو کا ہوائی ٹکٹ مل جاتا تھا، مگر اس وقت سو روبل بچانا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ اب میرے پاس لاکھوں روبل ہیں، مگر میں ماسکو کا ہوائی ٹکٹ خریدنے کی طاقت نہیں رکھتا۔لیکن مجھے اس پر کوئی افسوس اور غم نہیں، کیوں کہ اب ہم آزاد تو ہیں۔ میں دل کھول کر آپ سے بات کرسکتا ہوں، رات کو بھوکے پیٹ سوؤں تو کیا ہوا۔ بس یہی فرق ہے‘‘۔ ڈرائیور کی باتیں سن کر مجھے پاکستان میں پہلے مارشل لا نافذ ہوتے و قت حکومتی پابندیوں کی مناسبت سے قدرت اللہ شہاب اور قرۃ العین حیدر کے درمیان مکالمہ یاد آرہا تھا۔ عینی نے بڑے کرب سے کہا تھا:’’تو گویا اب بھونکنے پر بھی پابندی عائد ہے؟‘‘ [شہاب نامہ، ص۵۱۳]۔ ازبک بزرگ ڈرائیور کے دہرائے ہوئے آخری الفاظ میرے کانوں کی گھنٹیاں بجا رہے تھے: ’آزادی ایک نعمت ہے، جو پیٹ بھر کر کھانے سے کئی گنا زیادہ آسودگی عطا کرتی ہے۔‘
مئی ۲۰۱۴ءکو جب پاکستانی وزیر اعظم محمد نواز شریف ،نئی دہلی کے صدارتی محل میں، بھارت کے نو منتخب وزیر اعظم نریندر مودی کی حلف برداری کی تقریب میں شریک ہونے کے بعد ہوٹل پہنچے، تو لابی میں مَیں نے ا ن سے گزارش کی تھی کہ: ’’چونکہ تاجکستان، اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکوکے تعاون سے معروف صوفی بزرگ میر سید علی ہمدانیؒ کی ۷۰۰سالہ تقریبات کا انعقاد کر رہا ہے ، کیا ہی اچھا ہوتا کہ دونوں ممالک بھارت اور پاکستان بھی اس کا حصہ بن جائیں‘‘۔ اگلے دن دونوں وزراے اعظم کی ملاقات طے تھی۔ میرے اندازے کے مطابق اس سے کشمیر کا وسط ایشیا کے ساتھ رشتہ استوار ہوجاتا۔ اس طرح اعتماد سازی کے طور پر عوامی سطح پر اچھے اثرات نمایاں ہوتے۔ تاہم، میں نے محسوس کیا کہ گفتگو میں میاں صاحب کے توجہ دینے کا دورانیہ نہایت ہی کم ہے اور انھیں ایسی کسی تجویز کی افادیت یا اس کے محرکات گوش گزار کرانا نہایت ہی پیچیدہ عمل ہے۔ پاکستانی سیاست دان موقع و محل کا استعمال کرکے سیاسی یا سفارتی مراعات حاصل کرنے میں پس و پیش کا شکار رہتے ہیں۔
ایران کے شہر ہمدان میں پیدا ہونے والے میر سید علی ہمدانی ؒنے وسط ایشیا کو اپنا وطن بنایا اور یہیں سے انھوں نے کشمیر کا دورہ کرکے اسلام کی ترویج و تبلیغ کی۔ اقبال نے کہا ہے:
تنم گْلے ز خیابانِ جنتِ کشمیر
دل از حریمِ حجاز و نوا ز شیراز است
[میرا بدن ، کشمیر کی جنّت میں کیاری کا ایک پھول ہے، دل حریم حجاز سے آباد ہے اور میری نوا، شیراز سے اثر لیتی ہے۔ پیامِ مشرق]
مرا بنگر کہ در ہندوستاں دیگر نمے بینی
برہمن زادۂ رمز آشنائے روم وتبریز است
[مجھے دیکھ کہ، ہندستان میں تجھے میرے سوا کوئی اور ایسا برہمن زادہ نہیں ملے گا، جو مولانا رومیؒ اور شمس تبریزیؒ کی رمز طریقت و تصوف سے باخبر ہو۔ زبورِعجم]
میر سید علی ہمدانیؒ تین بارکشمیر کے دورے پر آئے۔ دوسری بار انھوں نے ڈھائی سال کشمیر میں قیام کیا۔ ان کی قیام کی جگہوں پر آج بھی کشمیر میں خانقاہیں قائم ہیں، جو اس زمانے میں ایک طرح کے ’اسلامی مراکز تعلیم و تربیت‘ تھے۔ اقبال نے ہمدانی، جنھیںکشمیر میں عرف عام میں شاہ ہمدان کہتے ہیں، کے بارے میں کہا ہے:
سیّد السادات ، سالار عجم
دست او معمار تقدیر اُمم
[(سیّد علی ہمدانیؒ) عجم کے سردار اور سیّدوں کے قائد ہیں کہ جنھوں نے یہاں بسنے والی اُمتوں کی تقدیر بنا ڈالی۔ جاوید نامہ]
مجھے یقین تھا، چونکہ ۲۰۱۴ء میں نریندر مودی کو سفارتی سطح پر راستے نکالنے کی سخت ضرورت تھی، وہ نواز شریف کی اس تحویز کو ہاتھوں ہاتھ لے سکتے تھے۔ کیوںکہ چند ماہ قبل تک گجرات کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے ان کے خونیں پس منظر کے باعث کئی ممالک نے ان کے داخلے پر پابندی لگائی ہوئی تھی۔ چونکہ صوفی بزرگ سید ہمدانیؒ کی آرام گاہ تاجکستان کے صوبہ کلوب میں واقع ہے، اس لیے بھارت اور پاکستان کا تاجکستان اور یونیسکو کے ساتھ سال بھر کی تقریبات میں شرکت اور اس میں کشمیر کو شامل کرنا ، بین الاقوامی دانش وروں کی وادیِ کشمیر میں آمدورفت کا ذریعہ بن سکتا تھا۔ دونوں ممالک وسط ایشیا کے ساتھ صوفی بزرگ کی اس عظیم شخصیت کو علامت کے طور پر نمایاں کر سکتے تھے۔
اس صورت حال میں کشمیر کو وسط ایشیا کے ساتھ جوڑنے کا عمل ایک نئی جہت دے سکتا تھا۔معروف اسکالر اور سابق وائس چانسلر ڈاکٹر صدیق واحد کے بقول: ’’وسط ایشیا کے دورے کے دوران میں قائل ہو گیا تھاکہ کشمیر، جنوبی ایشیا کے بجاے وسط ایشیا کے زیادہ قریب ہے۔ کھانے پینے کی عادتیں، کلچر ، آرٹ، فن تعمیر، غرض قدم قدم پر وسط ایشیا میں کشمیر ہی کی جھلک نظر آتی تھی۔ ایک عشرہ قبل کشمیر کے دورے پر آئے یورپی یونین کے ایک رکن جان والز کوشانن نے اس خطے کو دنیا کی ’خوب صورت ترین جیل‘ قرار دیاتھا۔ شایدفوجی جمائو اور حالات کی وجہ سے ان کو یہ خطہ قید خانہ لگا ہوگا، مگر اس کی اور بھی کئی وجوہ ہیں۔ بیسویں صدی کے دوسرے نصف نے بیرون دنیا کے ساتھ کشمیر کے روابط مکمل طور پر سلب کر لیے۔ اشتراکی روسی اقتدار میں تاجکستان، کشمیریوں سے دُور ہوگیا۔ میر سید علی ہمدانی ؒکی آرام گاہ تک ان کی رسائی بند ہوگئی۔ بعد میں کاشغر تک آنا جانا بھی بند ہوگیا ، جہاں سے کشمیری قالین اور شالوں کے لیے خام مال فراہم ہوتا تھا۔ اکتوبر ۱۹۴۷ء کے بعد ایسا قہر ڈھایا گیا، کہ لائن آف کنٹرول نے زمین پر بلکہ کشمیریوں کے سینوں پر ایک خونیں لکیر کھینچ ڈالی۔ بلاشبہہ پچھلی چار صدیوں سے ہی اس خطے کے باسی مجبور و مقہور رہے ہیں، مگر وسطی اور جنوبی ایشیا کی رہ گزر پر ہونے کی وجہ سے باقی دنیا کے ساتھ روابط کی وجہ سے ان میں طمانیت کا کچھ احساس تھا۔ لیکن لائن آف کنٹرول نے وہ سبھی روابط منقطع کر دیے۔
اس سامراجی جبر واستبداد سے شمالی کشمیر اور پیرپنچال کے وسیع علاقے سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ یہاں تقسیم شدہ خاندان حسرت و یاس سے آج بھی دوسری طرف دیکھ کر آہیں بھرتے ہیں۔ اس گھیرا بندی اور بھارتی فوجی ارتکاز نے خوف کی نفسیات کے ساتھ ساتھ prison mindset یا اسیرانہ ذہنیت کو پروان چڑھایا ہے۔ اس ذہنیت کے شکار لوگوں کا حکمران کے ساتھ رشتہ وہی ہوتا ہے، جو ایک قیدی اور جیل سپرنٹنڈنٹ کا ہوتا ہے۔ بھارتی حکمرانوں اور دانش وررں سے میں یہ بات ہمیشہ کہتا ہوں کہ: ’’اگر آپ کشمیر کی سڑکوں پر سونا بھی بچھا دیں، مگر اس اسیرانہ ذہنیت کا علاج نہ کریں، تو شاید ہی کبھی حالات بہتر ہوں‘‘۔ کشمیر کے بھارت نواز سیاستدان بھی کہتے ہیں کہ: ’’اگر بھارت کو آزادی کے نعرے کا توڑ کرنا ہے تو اسے ایسے حالات پیدا کرنے پڑیں گے، جہاں عوام نفسیاتی طور پر کشادگی محسوس کریں‘‘۔بھارت اور پاکستان کے درمیان جب بھی حالات معمول پر آجائیں، تو دونوں ممالک کو وادیِ کشمیر کے وسط ایشیا کے ساتھ روابط کو بحال کرنے میں بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے۔ قازقستان سے بذریعہ کشمیر گیس پائپ لائن کا منصوبہ ابھی فائلوں میں پڑا ہوا ہے، جس کو میز پر لانے کی ضرورت ہے۔
آج خلیجی ممالک میں توانائی اور ایندھن کے ذرائع تیزی سے سکڑ رہے ہیں، جب کہ وسط ایشیائی ممالک توانائی کے حصول کے متبادل ذریعہ بن سکتے ہیں۔ ازبکستان میں دنیا کے بڑے گیس کے ذخائر ہیں اور یہ بجلی برآمد کرنے والے ممالک میں سے ہے۔ اس صدی کے اواخر تک پانی کی وافر مقدار ہونے کی وجہ سے تاجکستان ایک طاقت ور ملک کے طور پر ابھرے گا۔ جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک میں تب تک پانی کے ذرائع خشک ہو چکے ہوں گے، اور سبھی کو تاجکستان پر انحصار کرنا پڑے گا۔ اس لیے وسط ایشیا کے ساتھ تاریخی اور تہذیبی روابط کو استوار کرنا سبھی کے مفاد میں ہے اور اگر ان روابط کے لیے کشمیر کو ذریعہ بنایا جائے، تو یہ خطے کے لیے ایک صدر دروازہ ثابت ہوگا۔