اخبار اُمت


۶دسمبر۱۹۹۲ءکی رات ، بی بی سی نے نشریات روک کر اعلان کیا:’’ اترپردیش کے شہر فیض آباد سے سنڈے آبزرور کے نمایندے قربان علی لائن پر ہیں اور وہ ابھی ابھی ایودھیا سے وہاں پہنچے ہیں‘‘۔ اگلی پاٹ دار آواز قربان علی کی تھی۔ جس میں انھوں نے دنیا کو بتایا کہ ’’مغل فرماںروا ظہیرالدین بابر کی ایما پر تعمیر کی گئی بابری مسجد اب نہیں رہی‘‘۔ جس وقت و ہ ایودھیا سے روانہ ہوئے، وہ ملبہ کے ایک ڈھیر میں تبدیل ہوچکی تھی۔اس دن کسی بھی ابلاغی ادارے کا ایودھیا میںموجود اپنے رپورٹروں سے رابطہ نہیں ہو رہا تھا۔ بھارتی حکومت دعویٰ کر رہی تھی کہ ’’ایک ہجوم نے مسجد پر حملہ کرکے اس کو معمولی نقصان پہنچایا اور سکیورٹی دستوں نے ان کو پیچھے دھکیل دیا ہے‘‘۔
ہندو نسل پرست تنظیموں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور ویشوا ہندو پریشد (وی ایچ پی) نے جب رام مندر تحریک شروع کی، تو میں انھی دنوں دہلی میں صحافت کی تعلیم مکمل کر رہا تھا۔ بی جے پی کے مرکزی لیڈر ایل کے ایڈوانی کی ’رتھ یاترا‘ جب چاندنی چوک سے گزر رہی تھی، تو میںسڑک کے کنارے، ہوا میں تلواریں اوربھالے لہراتے ہجوم کو ’جے شری رام‘ ،’ مندر وہیں بنائیں گے‘ اور مغل فرماں روا ظہیرالدین بابر کی اولاد کے نام لے کر گالیوں ملے نعرے بلند کرتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ اگرچہ آنجہانی پرمود مہاجن اس یاترا کے چیف آرگنائزر تھے، مگر دہلی میں بی جے پی کے دفتر میں موجودہ وزیر اعظم نریندرا مودی اس کے متعلق پروگرام وغیرہ کی بریفنگ دیتے تھے۔
نومبر ۲۰۱۹ء میں بھارتی سپریم کورٹ کے عجیب و غریب فیصلے کے بعد بابری مسجد ایک قصۂ پارینہ بن ہی گئی تھی۔ پھر ۳۰ستمبر ۲۰۲۰ء کے روز مسجد مسمار کرنے والوں کو بھی اتر پردیش صوبہ کے شہر لکھنؤ کی خصوصی عدالت نے ’بے گناہ‘ قرار دے کر، انصاف کو دفن کر نے کا مزید سامان مہیا کردیا۔
پچھلے ۲۸ برسوں کے دوران عدالت کے رویے کو دیکھ کرکچھ زیادہ امید یں نہیں بندھی تھیں۔ سپریم کورٹ نے ایک طرف مسجد کی زمین ہندو بھگوان رام للا کے سپرد کی۔ دوسری طرف مسلم فریق کے تین اہم دلائل کو بھی تسلیم کرکے فیصلہ میں شامل کردیا۔ یہ بھی تسلیم کیا کہ ’’۱۹۴۹ء کو رات کے اندھیرے میں مسجد کے محراب میں بھگوان رام کی مورتی رکھنا اور پھر دسمبر ۱۹۹۲ء کو مسجد کی مسماری مجرمانہ فعل تھے‘‘۔ پھر عدالت نے آثار قدیمہ کی تحقیق کا بھی حوالہ دے کر بتایا: ’’۱۵۲۸ء میں جس وقت مسجد کی تعمیر شروع ہوئی، اس وقت کی کسی عبادت گاہ کے آثار نہیں ملے۔ ہاں، کھدائی کے دوران، جو کچھ آثار پائے گئے، ان سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے ، کہ اس جگہ پر ۱۱ویں صدی میں کوئی عمارت موجود تھی، جو تباہ ہوچکی تھی‘‘ (یعنی اگلے ۵۰۰برسوں تک اس جگہ پر کوئی عمارت موجود نہیں تھی)۔
فیصلے میں شامل ان دلائل سے ایک موہوم سی امید جاگ اٹھی تھی، کہ چاہے مسجد کی زمین پر ایک پرشکوہ مندر کی تعمیر شروع ہو چکی ہے، مگر اس عبادت گاہ کو مسمار کرنے والوں کو قرا ر واقعی سزا دے کر ایک مثال قائم کی جائے گی۔ مگر ۲ہزارصفحات سے بھی زائد اپنے ۳۰ستمبر ۲۰۲۰ء کے فیصلے میںخصوصی عدالت کے جج سریندر کمار یادو نے سپریم کورٹ کی ہدایت اور تمام ثبوتوں کو نظرانداز کرتے ہوئے تمام ۳۲ملزمان کو بری کر دیا۔ اس مقدمے کی کارروائی کا مَیں خود گواہ ہوں۔ استغاثہ نے جن ۳۵۱گواہوں کی فہرست کورٹ میں دی تھی، اس میں سے تین شخص میر ے قریبی رفیق تھے، جن سے مسلسل معلومات ملتی رہتی تھیں۔ نریندرا مودی کی دہلی میں آمد تو ۲۰۱۴ءمیں ہوئی، اس سے قبل سیکولر جماعتوں سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی، جن کی سیاست کا کاروبار مسلمان ووٹوں کو سبزباغ دکھانے پر چل رہا تھا، انھوں نے بھی بابری مسجد کی مسماری کے ملزمان کے خلاف کارروائی کرنے میں کوئی دل چسپی نہیں دکھائی۔حتیٰ کہ ایک معمولی نوٹیفکیشن تک کا اجرا نہیں کرسکیں جس سے خصوصی عدالت میں ان افراد کے خلاف مقدمہ چلایا جاسکتا۔ اور پھر خود نوٹیفکیشن میں تکنیکی خامیاں تھیں، جن کو ۲۰۱۰ء میں الٰہ آباد ہائی کورٹ کے کہنے پر دُور کیا گیا اور سبھی مقدمو ں کو یک جا کرکے لکھنؤ کی خصوصی عدالت میں سماعت شروع ہوئی۔
معروف فوٹو جرنلسٹ پروین جین نے نہ صرف ۶دسمبر کے دن بابری مسجد کی مسماری کی تصاویر لیں تھیں، بلکہ اس سے کئی روز قبل ایودھیا کے نواح میں کارسیوکوں کے گروپ میں شمولیت کرکے ریہر سہل میں حصہ لیا، اور ان سرگرمیوں کی تصویریں بھی کیمرے میں محفوظ کرلی تھیں۔ ان کے اخبار دی پائینیر نے مسجد کے مسمار ہونے پر ان کو شائع کیا تھا۔ استغاثہ نے پروین جین کو گواہ بنایا تھا۔ اس دوران ان کو کس طرح ہراساں و پریشان کیا جاتا تھا اور کورٹ میں حاضری کے دن ان کو وکیلوں و عدالتی اسٹاف کے اذیت ناک رویے کا کس طرح سامنا کرنا پڑتا تھا؟ یہ خود ایک دردبھری داستان ہے۔
سمن آنے پر مقررہ تاریخ سے ایک روز قبل وہ دہلی سے بذریعہ ٹرین لکھنوٗ کے لیے روانہ ہوتے تھے: ’’دن بھر عدالت کے باہر، عدالتی ہرکارے کی آوا ز کا انتظار کرنے کے بعد بتایا جاتا تھاکہ آج گواہی نہیں ہوگی، کیونکہ یا تو جج موجود نہیں ہے، یا استغاثہ یا وکیل دفاع موجود نہیں ہے‘‘۔ جین کے بقول: ’’کئی برسوں تک اس طرح کی گردشوں کے بعد جب ایک دن مجھے گواہوں کے کٹہرے میں کھڑا کر دیا گیا، اورابھی بیان ریکارڈ ہونے ہی والا تھا، کہ ایک معمر وکیل نے کٹہرے کے پاس آکر اپنا منہ میرے کے کان کے پاس لاکر ماں ، بہن کی گندی گالی دے کر دھمکی بھی دے ڈالی‘‘۔اس پر جین نے بلند آواز میں جج کو متوجہ کرتے ہوئے شکایت کی، کہ ’’مجھ کو بھری عدالت میں دھمکیاں دی جا رہی ہیں‘‘۔ جج نے حکم دیا کہ ’’پروین کو ایک سفید کاغذ دیا جائے، تاکہ یہ اپنی شکایت تحریری طور پر دیں‘‘۔ شکایت جج کے پاس پہنچتے ہی ، وکیل دفاع نے دلیل دی،کہ    ’’اب پہلے اس کیس کا فیصلہ ہونا چاہیے کہ گواہ کو کس نے گالی اور دھمکی دی؟ اس دوران کورٹ میں ہنگامہ مچ گیا اور گواہی اگلی تاریخ تک ٹل گئی اور بتایا گیا کہ ’’تم اپنا وکیل مقرر کرو ، کیونکہ اب پہلے تمھیں عدالت میں دھمکانے کا کیس طے ہوگا‘‘۔
 تنگ آکر جین نے یہ کیس واپس لیا اور اصل کیس، یعنی بابری مسجد کی مسماری سے متعلق اپنا بیان درج کروانے کی درخواست کی۔ اس طرح کئی تاریخوں کے بعد جب گواہی درج ہوگئی تو ان کو بتایا گیا ، کہ ’’بس تصویریں کافی نہیں ہیں، ۶دسمبر کے دن ایودھیا میں اپنی موجودگی ثابت کرو‘‘۔ خیر کسی طرح کئی ماہ کی تگ ودو کے بعد انھوں نے ایودھیا کے ضلعی صدر مقام فیض آباد کے ایک ہوٹل سے پرانا ریکارڈ نکالا اور اپنے ادارے پائینیر کا ایک سرٹیفکیٹ بھی حاصل کیا۔ مگر اب کورٹ میں ان کو بتایا گیا کہ ’’یہ کاغذات بھی ناکافی ہیں‘‘۔ آخرکئی عشرے قبل کا ٹرین ٹکٹ ان کو مل گیا اور اب کئی برسوں کے بعد یہ طے ہو گیا کہ وہ اس دن واقعی ایودھیا میں تھے، مگر اب ان کو بتایا گیا کہ ’’تمھاری تصویریں قابلِ اعتبار نہیں ہیں، اس لیے ا ن کے نگیٹو پرنٹ کورٹ میں پیش کرنے ہوںگے‘‘۔
اسی دوران دہلی میں پروین جین کی عدم موجودگی میں ان کے فلیٹ پر ’چوروں‘ نے دھاوا بول دیا اور پورے گھر کو تہس نہس کرکے رکھ دیا ۔ گھر کی جو حالت تھی، اس سے معلوم ہوتا تھا کہ درانداز کس چیز کو تلاش کر رہے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ نقدی، زیورات اور دیگر قیمتی سامان غائب تھا، مگر خوش قسمتی سے تصویروں کے نگیٹو بچ گئے تھے، کیونکہ وہ انھوں نے کسی دوسری جگہ حفاظت سے رکھے ہوئے تھے۔ کورٹ میں مسجد کی شہادت کی تیاری اور باضابط ریہر سہل کرنے کی تصویریں پیش کی گئیں۔ معلوم ہوا کہ دو سول انجینیر اور ایک آرکیٹیکٹ مسجد کی عمارت گرانے کے لیے کارسیوکوں کو باضابطہ ٹریننگ دے رہے تھے۔ ان سبھی کے چہرے تصویروں میں واضح تھے۔
اسی طرح میرے کشمیری پنڈت دوست سنجے کاوٗ بھی ایک گواہ تھے۔ انھوں نے مسجد کی شہادت سے قبل ایک اسٹنگ آپریشن کے ذریعے انکشاف کیا تھا کہ ۶دسمبر کو بابری مسجد کو مسمار کر دیا جائے گا۔ ان دنوں خفیہ کیمرہ سے اسٹنگ کا رواج نہیں تھا۔ اخبار اسٹیٹسمین کے دفتر سے رات گئے جب وہ آفس کی گاڑی میں گھر جا رہے تھے، تو ڈرائیور نے ان کو بتایا کہ ایودھیا میں اس بار کچھ بڑا ہونے جا رہا ہے۔ ایڈیٹر نے اگلے دن ان کو ایودھیا جانے کی اجازت دے دی۔
 مگر کاوٗ نے صحافی کے بجائے ایک کارسیوک کے طور پر جانے کی ٹھانی اور دہلی میں بی جے پی کے دفترمیں سنجے کول کے نام سے اندراج کرواکے کار سیوک کا کارڈ حاصل کیا۔ ہندو اور کشمیری پنڈت ہونے کے باوجود نہ صرف ٹرین میں بلکہ فیض آباد میں بھی کئی بار ان کی پوچھ گچھ کی گئی۔ ’’شاید میں نیا چہرہ تھا، و ہ بار بار شک کی نگاہ سے مجھے دیکھتے تھے۔ میں نے اپنے آپ کو ایک انجینیرنگ اسٹوڈنٹ بتایا ، جس کو کشمیر میں حالات کی خرابی کی وجہ سے تعلیم ادھوری چھوڑنی پڑی ہے‘‘۔ ایودھیا پہنچنے پر ایک بار پھر ۶،۷افراد نے باقاعدہ تفتیش کی۔ کشمیری پنڈت ہونے کی دہائی دے کر آخر کار مجھ کو کارسیوکوں کے ایک گروپ میں شامل کرکے خیمہ میں رہنے کے لیے کہا گیا۔ واکی ٹاکی ہاتھ میں لیے ایک سادھو اس گروپ کا سربراہ تھا، جس نے اگلے دن ایک قبرستان میں لے جاکر ہم کو قبریں منہدم کرنے کا حکم دے دیا۔ وہ بار بار ان کو تاکید کر رہا تھا کہ ہاتھ چلانا سیکھو۔ کارسیوک آپس میں گفتگو کر رہے تھے کہ اسی طرح مسجد کو بھی توڑنا ہے‘‘۔ سادھو نے سنجے کاوٗ کو خبردار کیا تھا کہ ’’صحافی یا خفیہ محکمہ کا کوئی فرد ان کے آس پاس نہ پھٹکنے پائے ۔ بار بار کے انٹروگیشن، ریہرسہل اور صحافیوں کے بارے کارسیوکوں کے رویے نے کاوٗ کو کافی ڈرا دیا۔ رات کے اندھیرے میں وہ خیمہ سے بھاگ کر پہلے فیض آباد اور پھر دہلی روانہ ہوگیا، جہاں اس نے اسٹیٹسمین میں کئی قسطوں میں چھپی رپورٹوں میں بتایا کہ مسجدکی مسماری کی تیاریاں پوری طرح مکمل ہیں۔
دنیا کو مسجد کی شہادت کی خبر دینے والے صحافی قربان علی کے مطابق شام چھے بجے تک تاریخی شاہی مسجد کو ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کردیا گیا تھا۔ وہ بی بی سی کے جنوبی ایشیا کے بیورو چیف مارک ٹیلی کے ساتھ کئی روز سے ایودھیا میں مقیم تھے۔ ان کا کہنا ہے،اگرچہ افواہوں کا بازار گرم تھا، مگر مسجد کی مسماری کا اندازہ نہیں تھا۔ بھارتی وقت کے مطابق۳۰:۱۱ بجے صبح کارسیوکوں نے مسجد پر دھاوا بول دیا، جب کہ ایک گروپ صحافیوں کو ڈھونڈکر ان کو پیٹ پیٹ کر کمروں میں بند کر رہا تھا۔مارک ٹیلی اور علی ان کو غچہ دے کر کسی طرح ایودھیا سے نکل کر فیض آباد پہنچے ، اور وہاں کے ٹیلیگراف آفس سے دہلی خبر بھیجی۔ اس وقت فیض آباد میں مقیم سینٹرل ریزور پولیس فورس کے دستوں نے ایودھیا کی طرف مارچ کرنا شروع کر دیا تھا۔ یہی آخری خبر تھی، جو دہلی تک پہنچ سکی تھی۔ واپسی پر ان دونوں صحافیوں نے دیکھا کہ سینٹرل فورس کو ایودھیا کے باہر ہی روک لیا گیا ہے۔
خیر وہ دوسرے راستے سے ایودھیا شہر میں داخل ہوئے اور ایک ہجوم نے مارک ٹیلی کو پہچان کر ان دونوں کو ایک بوسیدہ مندر کے کمرے میں بند کردیا۔ ’’وہ پہلے ہمارے قتل کے لیے آپس میں مشورہ کررہے تھے ۔ پھر ان کے سربراہ نے ان کو بتایا کہ پہلے مسجد کے قضیہ سے نپٹ لیں، یعنی پوری طرح مسمار ہو، پھر ان کی تقدیر کا فیصلہ کریں گے‘‘۔ شام کو کسی دوسرے گروپ نے تالا کھولا اور ان کو وی ایچ پی کے سربراہ اشوک سنگھل کے دربار میں پیش کیا، جو قربان علی اور مارک ٹیلی سے واقف تھے۔ انھوں نے ان کو رہا کرادیا۔ مگر شہر سے جانا ابھی تک جوئے شیر لانے سے کم نہ تھا۔ قربان علی کا کہنا ہے کہ ایودھیا سے فیض آباد کی محض ۱۰ کلومیٹر کی دُوری، اس دن کئی سو کلومیٹر کا فاصلہ لگ رہا تھا اور جب وہ فیض آباد کے ہوٹل میں داخل ہو رہے تھے تو اس وقت بی بی سی اردو کی رات کی نشریات جاری تھیں، جس نے ان سے فون پر بات کرکے دنیا تک خبر پہنچائی۔
معروف قانون دان اور مصنف اے جی نورانی نے اپنی کتاب Destruction of Babri Masjid:A National Dishonour کی تیسری جلد میں بابری مسجد کو شہید کرنے کی سازش پر خوب بحث کی ہے۔ ان کے بقول: ’’مسجد کی شہادت میں بھارتی عدلیہ اور انتظامیہ نے بھر پور کردار ادا کرکے اپنی فرقہ وارانہ ذہنیت کا پول کھول دیا ہے۔نہ صرف نچلی عدالتوں کے لیت و لعل سے بلکہ اس وقت کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس، جسٹس وینکٹ چلیا کے طریق کار نے بھی مسجد کی مسماری کی راہ ہموار کردی‘‘۔نورانی صاحب نے انکشاف کیا کہ ’’جسٹس چلیا مسجد کو بچانے اور آئین اور قانون کی عمل داری کو یقینی بنانے کے بجائے کار سیوکوںکی صحت سے متعلق فکر مند تھے۔غالباً یہی وجہ تھی کہ ۱۹۹۸ء میں بی جے پی کی قیادت والی مخلوط حکومت کے قیام کے بعد ان کو شاید انھی خدمات کے بدلے ایک اعلیٰ اختیاری کمیشن کا سربراہ مقرر کیا گیا‘‘۔
نورانی صاحب لکھتے ہیں: ’’سابق سیکرٹری داخلہ مادھو گوڈبولے کے مطابق ان کو بھی مسجدکی شہادت کی تیاری کی اطلاع تھی۔ اسی لیے ان کے محکمے نے ریاست اتر پردیش میں مرکزی راج نافذ کرنے کا مشورہ دیا تھا،مگر کانگریسی وزیراعظم نرسمہا راؤ نے اس کو نامنظور کر دیا‘‘۔ نورانی کا کہنا ہے کہ ’’راوٗ خود، مسجد کی شہادت میں بلا واسطہ ملوث تھے۔ کانگریس کے اندرا گاندھی کے دورِاقتدار میں ہی بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر کی تعمیر کی راہ ہموار کرنے کے لیے ویشوا ہندو پریشد کے ساتھ ایک معاملہ فہمی ہوئی تھی۔
بلاشبہہ پریشد نے اندرا گاندھی کی ہلاکت کے بعد اپنی تحریک روک دی مگر راجیو گاندھی نے اس معاملہ فہمی کو پھر زندہ کیا۔ تاہم، اس سے پہلے وہ مسلمانوں پر کوئی احسان کرنا چاہتے تھے۔ اس کے لیے ان کے حواریوں نے ایک مسلم مطلقہ خاتون شاہ بانو کا قضیہ کھڑا کیا اور پارلیمنٹ سے ایک قانون پاس کروایا کہ مسلم پرسنل لا میں عدالت کوئی ترمیم نہیں کر سکتی‘‘۔مصنف نے راجیوگاندھی کو مشورہ دیا تھا کہ اس قضیے کو اینگلومحمڈن قانون کے بجائے شرعی قانون کے مطابق حل کیا جاسکتا ہے، مگر وہ مسلمانوںکو سیاسی طور پر بے وقوف بناکر پریشد کے ساتھ ڈیل کو آگے بڑھا رہے تھے۔
بابری مسجد کی شہادت میں سیکولر جماعتوں کے دامن بھی خون سے آلودہ ہیں۔ بابری مسجد نے شہادت کے بعد ان سبھی چہروں سے نقاب اتار کر پھینک دیے ہیں اور اگر ابھی تک کسی کو یہ چہرے اصل رُوپ میں نظر نہ آتے ہوں، تو یقیناً ان کی دماغی حالت پر شبہے کے علاوہ اور کیا ہی کیا جاسکتا ہے!

 

ویسے تو خطہ جموں و کشمیر کی تاریخ میں سبھی مہینے بہت سی خونیں یادیں لے کر وارد ہوتے ہیں، مگر ۷۳ سال قبل اکتوبر کا مہینہ بدقسمتی کا ایک ایسا تازیانہ لے کرآیا، کہ اس سے چھٹکارے کی دور دور تک امید نظر نہیں آرہی ہے۔ برصغیر میں جب دو مملکتیں بھارت اور پاکستان وجود میں آکر آزاد فضاؤں میں سانسیں لینے کا آغاز کر رہی تھیں، امید تھی کی صدیوں سے غلامی اور مظالم کی چکی میں پسنے کے بعد اس خطے کے باسیوں کو بھی راحت ملے گی، مگر قسمت میں کچھ اور ہی لکھا تھا۔  کچھ اپنے لیڈروں کے خود غرض اور عاقبت نااندیش فیصلوں، اور کچھ قوم کی نادانی اور ان بے لگام اور احتساب سے بالاتر لیڈروں کے پیچھے پالتو جانوروں کی طرح چلنے کی روش نے کشمیری قوم پر آزمایش اور ابتلا کا ایک ایسا دور شروع کیا، جو آج ایک بدترین مرحلے میں داخل ہوگیا ہے۔

جب بھارت اور پاکستان صبح آزادی کا جشن منانے میں مصروف تھے، اس وقت جموں خطے میں دنیا کی بدترین نسل کشی ہو رہی تھی۔ کئی بر س قبل جب دہلی میں ایک پروگرام کے دوران میں نے دی ٹائمز لندن کی ۱۰؍اگست ۱۹۴۸ءکی ایک رپورٹ کا حوالہ دے کر بتایا کہ اس نسل کشی میں ۲ لاکھ۳۷ہزار افراد کو ہلاک کردیاگیا تھا، تو سبھی کا یہی سوال تھا، کہ اتنا بڑا قتل عام آخر تاریخ اور عام اخبارات سے کیسے یکسر غائب ہے ؟ کشمیر کے ایک سابق بیوروکریٹ خالد بشیر کی تحقیق کا حوالہ دے کر ٹائمز آف انڈیا کے کالم نویس سوامی انکلیشور ائیر اور معروف صحافی سعید نقوی نے بھی جب جموں قتل عام کو اپنے کالم کا موضوع بنایا، تو کئی تحقیقی اداروں میں تہلکہ مچ گیا۔ مگر جلد ہی اس پر مباحثے کو دبادیا گیا۔

جدید تاریخ کی اس بدترین نسل کشی پر تعصب اور بے حسی کی ایسی دبیز تہہ جم چکی ہے، کہ کوئی یقین ہی نہیں کر پارہا ہے۔اس نسل کشی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے، کہ ۱۹۴۱ میں جموں و کشمیر میں مسلمانوں کی آبادی۳۲ لاکھ اور ہندؤوں کی آبادی آٹھ لاکھ تھی۔وادی کشمیر میں ۹۳فی صد جب کہ جمو ں میں ۶۹فی صد مسلم آبادی تھی۔ اگر ان علاقوں کو، جو تقسیم کے بعد آزادکشمیر کا حصہ بنے، انھیں شمار نہ کیا جائے تو موجودہ جموں و کشمیر میں مسلم آبادی ۷۷ء۱  فی صد تھی۔ ۱۹۶۱ءکی مردم شماری میں مسلم آبادی گھٹ کر۶۸ء۲۹ فی صد رہ گئی تھی۔ جموں خطے میں مسلمانوں کی اکثر یتی شناخت کو چند مہینوں میں ہی اقلیت میں تبدیل کیا گیا۔ ۲۰۱۱ء کی مردم شماری کے مطابق جموں کے خطے میں مسلم آباد ی کا تناسب ۳۳ء۴۵  فی صدہے۔

جموں کشمیر کی جدید صحافت اور مؤقر انگریزی اخبار کشمیر ٹائمز کے بانی آنجہانی وید بھسین ۱۹۴۷ء کے واقعات، اور جموں میں مسلمانوں کے قتل عام کے وہ چشم دید گواہ تھے۔  ان کے بقول: ’’ہندو انتہا پسندوں کی مربی تنظیم راشٹریہ سیویم سیوک سنگھ نے اس علاقے میں باضابطہ ٹریننگ کیمپ کھولے تھے، جن میں نہ صرف ہتھیاروں کی مشق کرائی جاتی تھی، بلکہ مسلمانوں کے خلاف ذہن سازی بھی کی جاتی تھی‘‘۔ وہ کہتے تھے: ’’اور ہندو ساتھیوں کی دیکھا دیکھی میں بھی ٹریننگ کیمپ میں چلا گیا، مگر جلد ہی سڑکوں پر کشت و خون سے دلبرداشتہ ہو گیا۔ اس کو روکنے کے لیے، میں، بلراج پوری اور اوم صراف کے ہمراہ مہاراجا کے محل پہنچا۔ ہمیں جلد ہی وزیر اعظم مہرچند مہاجن کے روبرو لے جایا گیا۔ وہ الٹا ہمیں سمجھانے لگا کہ ہندو ہونے کے ناطے، ہمیں اسمبلی اور دیگر اداروں میں مسلمانوں کے برابر نشستوںکا مطالبہ کرنا چاہیے، کیونکہ اب جمہوری دور کا آغاز ہو چکا ہے۔ اور عددی قوت کے بل پر ہی اقتدار پر قبضہ برقرار رکھا جاسکتا ہے‘‘۔ اوم صراف نے جرأت کا مظاہر ہ کرتے ہوئے پوچھا کہ ’’یہ آخر کس طرح ممکن ہے، جموں و کشمیر تو ایک مسلم اکثریتی ریاست ہے‘‘۔ اس پر مہاجن نے محل کی دیوار سے متصل کھائی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، ’بالکل اس طرح‘۔ جب ہم نے بغور دیکھا تو چند مسلم گوجروں کی بے گور و کفن لاشیں نظر آئی، جو شاید صبح سویرے محل میں دودھ دینے آئے تھے‘‘۔بقول وید بھسین، مہرچند مہاجن ریاست کی آبادی کا فرقہ وارانہ پروفائل تبدیل کرنے پر اڑا ہوا تھا۔ جب میں نے ایک دن ان سے پوچھا کہ وزیراعظم جواہر لال نہرو کی ایما پر جموں و کشمیر انتظامیہ کی لگام شیخ محمد عبداللہ کے ہاتھوں میں دی گئی تھی، تو انھوں نے اس قتل عام کو روکنے کی کوشش آخر کیوں نہیں کی؟ تو وید جی نے کہا: 'ہم نے کئی بار ان کی توجہ اس طرف مبذول کرانے کی کوشش کی۔ میں خود بھی نیشنل کانفرنس میں شامل تھا، مگر وہ ان سنی کرتے رہے۔ یا تو وہ معذور تھے، یا جان بوجھ کر جموں کے معاملات سے الگ رہنا چاہتے تھے۔ بعد میں بھی کئی بار میں نے شیخ صاحب کو کریدنے کی کوشش کی، مگر یہ ذکر چھڑتے ہی وہ لب سی لیتے تھے یا کہتے تھے کہ ’’جموں کے مسلمانوں نے ان کوکبھی لیڈر تسلیم ہی نہیں کیا تھا‘‘۔ ان کو شکوہ تھا کہ کشمیری مسلمانوں کے برعکس ۱۹۳۸ء میں جب انھوں نے مسلم کانفرنس سے کنارہ کرکے نیشنل کانفرنس کی بنیاد ڈالی، تو جموں کے مسلمانوں نے ان کے مقابلے میں چودھری غلام عباس کا دامن تھامے رکھا۔ محقق خالد بشیر لکھتے ہیں: مسلم کش فسادات کا سلسلہ کشمیر میں قبائلی پٹھانوں کے داخل ہونے سے قبل ہی شروع کردیا گیا تھا۔ اس لیے متعصب مؤرخین اور تاریخ سے نابلد اور عاقبت نااندیش صحافیوں کا یہ کہنا کہ ’’وادی میں قبائلیوں کے حملے کے ردعمل میں جموں میں فسادات ہوئے، درست بات نہیں ہے، کیونکہ واقعات ان کی نفی کرتے ہیں‘‘۔

اس خطے پر اب ایسی نئی افتاد آن پڑی ہے، کہ فرقہ پرستوں کی آنکھوں میں یہ ۳۳فی صد رہ جانے والی مسلم آبادی بھی کانٹے کی طرح کھٹک رہی ہے۔ ان کا الزام ہے کہ جموں خطے کے مسلم اکثریتی پیر پنچا ل اور چناب ویلی کے علاقوں سے مسلمان آکر جموں شہر اور اس کے آس پاس زمینیں خرید کر بس جاتے ہیں، جو کہ ’لینڈ جہاد ‘ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’اس سے جموں شہر اور اس کے   آس پاس آباد ی کا تناسب بگڑ رہا ہے‘‘۔ کیا پونچھ، راجوری، ڈوڈہ، بھدرواہ کے اضلاع جموں خطے کا حصہ نہیں ہیں؟  اگر ان دُور دراز علاقوں سے تعلیم اور معاش کے لیے لوگ اس خطے کے واحد بڑے شہر جموں وارد ہوتے ہیں، تو اس سے آبادی کا تناسب کیسے بگڑ سکتا ہے؟ دوسال قبل ایک مہم کے تحت جموں میں مسلمان گوجروں اور بکر والوں کی بستیوں کو ٹھنڈی ، سنجواں ، چھنی ،گول گجرال ، سدھرا ، ریکا، گروڑا اور اس کے گرد و نواح سے جبری طور پر بے دخل کردیا گیا۔ حالانکہ یہ زمینیں مہاراجا ہری سنگھ کے حکم نامے کے تحت ۱۹۳۰ء میں ان لوگوں کو دی گئی تھیں۔ دراصل جموں کا پورا نیا شہر ہی جنگلاتی اراضی پر قائم ہے، لیکن صرف مسلم اکثریتی علاقوں کو نشانہ بنانے کا مطلب مسلمانوںکو اس خطے سے بے دخل کرنا تھا، جہاں وہ پچھلے ۷۰برسوں میں کم ہوتے ہوتے حاشیے پر چلے گئے ہیں۔اب حال میں یہ افسانہ بیچا جا رہا ہے کہ ’’پچھلے کئی برسوں سے ’جموں و کشمیر روشنی ایکٹ‘ کے تحت زمینوں کے وسیع و عریض قطعے مسلمانوں کے حوالے کیے جارہے ہیں‘‘۔ اس سلسلے میں بے لگام بھارتی ٹی وی چینلوں نے بھی بغیر کسی ثبوت اور دستاویز کے طوفان بدتمیزی کھڑا کر دیا ہے۔ برسوں کی عدالتی غلام گرد شوں سے تنگ آکر۲۰۰۱ء میں حکومت نے ’روشنی ایکٹ‘ کو اسمبلی میں پاس کروایا، جس کی رُو سے ۲۰لاکھ کنال کی حکومتی زمین پر لوگوں کے مالکانہ حقوق کو معاوضہ کے   عوض تسلیم کیا گیا تھا، بشرطیکہ وہ اس زمین پر ۱۹۹۰ءسے قبل رہ رہے ہوں۔ اس سے حکومت کو ۲۵۰بلین روپے کی رقم کمانے کی امید تھی۔۲۰۰۵ء میں وزیر اعلیٰ مفتی محمد سعید نے ۱۹۹۰ءسے بڑھا کر یہ مدت ۲۰۰۵ء، اور بعد میں غلام نبی آزاد نے ۲۰۰۷ء کردی۔ معلوم ہوا چونکہ اس کا فائدہ سیاست دانوں اور نوکر شاہی نے ا ٹھایا تھا، اس لیے حکومت ۷۰کروڑ روپے کی رقم ہی اکٹھا کرپائی۔

معروف صحافی مزمل جلیل نے ایک تحقیقی رپورٹ میں بتایا ہے کہ اس قانون کی رُو سے جموں میں۴۴۹۱۲ کنال زمین تقسیم ہوئی تھی، جس میں محض۱۱۸۰ کنال زمین یعنی۲ء۶۳ فی صد ہی مسلمانوں کے حصے میں آئی۔ مسلمانوں کو زمینوں کے مالکانہ حقوق دینا تو دُور کی بات، ان کی وقف زمینوں پر بے جا قبضے کر لیے گئے ہیں۔ چند برس قبل جلیل نے جب وقف زمینوں کو ہتھیانے پر تحقیق شروع کی، تو معلوم ہوا کہ نہ صرف فرقہ پرست، بلکہ حکومت کے مقتدر حلقے خود اس خرد برد میں ملوث تھے۔ اس خطے میں۳۱۴۴  کنال وقف زمین غیر قانونی  قبضہ میں ہے، جس میں کئی قبرستان ، رنبیر سنگھ پورہ کی جامع مسجد، چاند نگر کی زیارت وغیرہ شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق مڑتحصیل میں وقف کونسل کی ۴۶۰کنال زمین ہے، جس کو محکمہ تعلیم نے ہتھیا یا ہے اور مسجد کو گوردوارے میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ مقامی افراد نے بقیہ زمیں پر آبادی کھڑی کر دی ہے۔ چاند نگر میں پیر بابا کی زیارت کے احاطے پر سبھاش نامی ایک شخص نے قبضہ جما لیا ہے۔ تحصیل سانبہ کے تھلوری گجران میں ۴۹کنال قبرستان پر ایک مندر اور اسکول بنایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ۶۵کنال زمین پر پولیس نے اپنا ٹریننگ اسکول تعمیر کیا ہے۔ ریہاری کی ۴۹کنال قبرستان کی زمین پر فوج کا قبضہ ہے۔ ’مسلم وقف کونسل‘ کی طرف سے بار بار نوٹس دینے کے باوجود فوج اس کو خالی نہیں کررہی ہے۔ اس قبرستان کا ایک قطعہ حکومت نے ایک بیوہ ایودھیا کماری کو ’عطیہ‘ کردیاہے۔ ’وقف کونسل‘ کی اجازت کے بغیر ہی ۶۰کنال کی زمین پولیس کو دی گئی ہے۔ جموں میونسپل کارپوریشن نے قبرستان کے ایک حصے پر بیت الخلا تعمیر کروائے ہیں۔ تحصیل سانبہ کے لیکی منڈا علاقے میں وقف کی۹۸کنال زمین ضلع سینک بورڈ کے حوالے کی گئی ہے۔ چنور گاؤں میں ۲۰کنال زمین بھی پولیس کے تصرف میں ہے۔ تحصیل اکھنور کے مہر جاگیر ۶۵کنال قبرستان پر مقامی افراد نے مکانات تعمیر کیے ہیں۔ اسی طرح پیر گجر میں بھی پولیس نے وقف کی ۳۷کنال زمین ہتھیا لی ہے۔

اگر موجودہ حالات اور کوائف پر نظر ڈالی جائے تو  اس بات کا خدشہ محسوس ہوتا ہے کہ یہاں ۱۹۴۷ء کے واقعے کو پھر سے دہرایا جا سکتا ہے، جیسا کہ سابق وزیر چودھری لا ل سنگھ نے ایک مسلم وفد کو ۱۹۴۷ء یاد کرنے کا مشور ہ دیا تھا۔ اس سلسلے میں بھارت میں مسلم قائدین سے بھی گزارش ہے کہ کچھ ملّی حمیت کا ثبوت دے کر عمل سے نہ سہی ، کچھ زبانی ہی جموں کے مسلمانوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کا کام کریں۔ اگر لال سنگھ یا اس طرح کے افراد اپنی دھمکی کو عملی جامہ پہناتے ہیں، تو خون ان گونگے، بہرے، مسلم لیڈروں کی گردنوں پر بھی ہوگا۔ وزیر اعظم نریند ر مودی کی حکومت ،جو بیرونِ ہند گاندھی جی کی تعلیمات کو استعمال کرکے بھارت کو دنیا میں ایک اعتدال اور امن پسند ملک کے طور پر اجاگر کروانے کی کوشش کرتی ہے، کو اسی گاندھی کے ہی ایک قول کی یاد دہانی کرانا چاہتا ہوں: ــ’’ہندستان اگر رقبے میں چھوٹا ہو، لیکن اس کی روح پاکیزہ ہو تو یہ انصاف اور عدم تشدد کا گہوراہ بن سکتا ہے۔ یہاں کے بہادر لوگ ظلم و ستم سے بھری دنیا کی اخلاقی قیادت کرسکتے ہیں۔ لیکن صرف فوجی طاقت کے استعمال سے توسیع شدہ بھارت مغرب کی عسکری ریاستوں کا تیسرے درجے کا چربہ ہوگا، جو اخلاق اور آتما سے محروم رہے گا۔اگر بھارت جموں و کشمیر کے عوام کو راضی نہیں رکھ سکا، تو ساری دنیا میں اس کی شبیہہ مسخ ہو کر رہ جائے گی‘‘۔ بقول شیخ عبداللہ، گاندھی جی کہتے تھے، کہ ’’کشمیر کی مثال ایسی ہے، جیسی خشک گھاس کے انبار میں ایک دہکتے ہوئے انگارے کی۔ذرا بھی ناموافق ہوا چلی تو سارے کا سار ا برصغیر اس آگ کے شعلوں میں لپٹ جائے گا‘‘۔ مگر گاندھی کے نام لیوا تو اس کی تعلیمات کب کی بھول چکے ہیں، اور اس کا استعمال تو اب صرف سفارتی ڈگڈگی بجا کر دنیا کے سامنے بچے جمورے کا کھیل رچانے کے لیے کیا جاتا ہے۔

۲نومبر ۱۹۱۷ء کو ’اعلان بالفور‘ کے ذریعے برطانوی سامراجی سلطنت نے، سرزمین فلسطین پر ایک یہودی نسل پرست ریاست کے قیام کا زہریلا بیج ڈالا۔ اس طرح صہیونیت نے مغربی طاقتوں کی پشت پناہی سے یہاں زمینوں کی خریداری اور قبضے کا آغاز کیا۔ فلسطینی باشندوں اور زبردستی مسلط کیے جانے والے یہودیوں کے درمیان چپقلش شروع ہوئی۔ ۱۹۳۶ء میں یہ تناؤ خوں ریز فسادات میں تبدیل ہوگیا، جس کے نتیجے میں برطانوی سلطنت نے ۷؍اگست ۱۹۳۶ء کو ایرل پیل کی سربراہی میں ایک کمیشن مقرر کیا، جس نے ۷جولائی ۱۹۳۷ء کو ایک رپورٹ پیش کی، جس نے باقاعدہ فلسطین کو تقسیم کرنے کا منصوبہ دیا___ اسی فتنہ پرور رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے علّامہ محمد اقبال نے ۲۷جولائی ۱۹۳۷ء کو یہ بیان حکومت برطانیہ کو مخاطب کرتے ہوئے پنجاب مسلم لیگ کے جلسے منعقدہ لاہور میں پڑھنے کے لیے بھیجا۔ اُردو ترجمہ اقبال احمد صدیقی نے کیا ہے۔ جب کہ انگریزی متن، اُردو ترجمے کے بعد دیا جارہا ہے۔ (ادارہ)

میں عوام الناس کو یہ یقین دلانا چاہتا ہوں کہ عربوں کے ساتھ جو ناانصافی ہوئی ہے، میں بھی اسے اتنا ہی شدت سے محسوس کرتا ہوں جتنا کوئی اور شخص محسوس کرسکتا ہے کہ جو مشرق قریب کی صورتِ حال سے باخبر ہو.... برطانوی مدبرین جس مسئلہ سے نبردآزما ہیں، وہ صرف فلسطین ہی کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ مسئلہ سارے عالم اسلام کو سنجیدگی کے ساتھ متاثر کرتا ہے۔

اگر اس مسئلے کا تاریخی پس منظر میں مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ خالصتاً مسلم مسئلہ ہے۔ اسرائیل کی تاریخ کی روشنی میں فلسطین، یہودیوں کے مسئلے کی حیثیت سے خلیفہ ثانی حضرت عمرفاروقؓ کے بیت المقدس میں داخلے سے تیرہ سو برس پہلے ختم ہوچکا ہے۔ جیساکہ پروفیسر ہاکنگز نے کہا ہے کہ اِدھر اُدھر پھیل جانا بالکل رضاکارانہ تھا اور ان کی مقدس کتابوں کا بیش تر حصہ بھی فلسطین سے باہر لکھا گیا۔ نہ یہ مسیحی مسئلہ ہی تھا۔ جدید تاریخی تحقیق تو ’پیٹر حرمٹ‘ کے وجود کو بھی شک کی نظر سے دیکھتی ہے۔ اگر یہ فرض کرلیں کہ صلیبی جنگیں، فلسطین کو مسیحی مسئلہ بنانے کی کوشش تھی، تویہ کوشش بھی صلاح الدین [ایوبی] کی فتوحات کے باعث ناکام ہوگئی۔ لہٰذا، میں فلسطین کو خالصتاً مسلم مسئلہ قرار دیتا ہوں۔

جہاں تک مشرق قریب کے مسلمانوں کا تعلق ہے۔ برطانوی سامراجی عزائم اس قدر مکمل طورپر بے نقاب نہیں ہوئے تھے، جس قدرفلسطین شاہی کمیشن کی رپورٹ  سے ہوئے ہیں۔ فلسطین میں یہودیوں کے لیے قومی وطن کا تصور محض ایک حربہ ہے۔ درحقیقت برطانوی سامراج کو مستقل انتداب (mandate)کی شکل میں مسلمانوں کے مذہبی وطن میں ایک گھر کی جستجو تھی۔ دراصل یہ ایک خطرناک تجربہ ہے جو فی الحقیقت برطانوی سامراج کے لیے آیندہ مشکلات کا آغاز ثابت ہوگا.... ارضِ مقدس کی فروخت بشمول مسجدعمر جوعربوں پر مسلط کی گئی مارشل لا کے نفاذ کی دھمکی کے ساتھ اور جسے ان کی فیاضی کے نام پر اپیل کے ذریعے نرم کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس سے ان کے تدبر کے دیوالیہ پن کا انکشاف ہوتا ہے۔ یہودیوں کوایک زرخیز قطعۂ زمین کی پیش کش اور عربوں کو اس کے عوض پہاڑی صحرا اور اس کے ساتھ کچھ نقدی دینا سیاسی دانش نہیں ہے۔ یہ لین دین گھٹیا درجے کا ہے اور ایک عظیم قوم کے نہ صرف شایانِ شان نہیں بلکہ ان کے وقار کے لیے ضرر رساں ہے، جن کے نام پر عربوں سے آزادی اور کنفیڈریشن کے قیام کے قطعی وعدے کیے گئے تھے۔

میرے لیے اس مختصر بیان میں فلسطین رپورٹ پر تفصیل سے بحث کرنا ناممکن امر ہے۔ تاہم، کچھ اہم سبق ہیں جو مسلمانانِ ایشیا کو سیکھنے چاہییں۔ تجربے نے صریحاً واضح کر دیا ہے مشرق قریب کے لوگوں کی سیاسی سالمیت کا دارومدار اس بات پر ہے کہ ترکوں اورعربوں میں فوراً دوبارہ اتحاد قائم کیا جائے۔ وہ حکمت عملی کہ ترکوں کو عالمِ اسلام سے علیحدہ کر دیا جائے، اب بھی رُوبہ عمل ہے۔ کبھی کبھی یہ سننے میں آتا ہے کہ ’’ترک، اسلام کو مسترد کرر ہے ہیں‘‘۔ اس سے بڑا جھوٹ کبھی نہیں بولا گیا۔ جن لوگوں کو اسلامی قوانین کے تصورات کی تاریخ کا مطلق علم نہیں، وہ آسانی سے اس قسم کے شرانگیز پروپیگنڈے کا شکار ہوجاتے ہیں۔

عربوں کو مزید یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ وہ ان عرب بادشاہوں کے مشورے پر اعتماد کرنے کے متحمل نہیں ہوسکتے ،جو آزاد شعور کے ساتھ اُمورفلسطین کے بارے میں آزاد فیصلے کرنے کے اہل نہیں۔ وہ جو کچھ فیصلہ کریں، خود کریں اور اس مسئلے کو اچھی طرح سوچ سمجھ کر کریں جو انھیں اس وقت درپیش ہے۔

موجودہ لمحہ، ایک آزمایش کا لمحہ بھی ہے۔ ایشیا کے آزاد غیرعرب ممالک کے مسلم مدبرین کے لیے [ترکی کی عثمانی] خلافت کے خاتمے کے بعد سے یہ پہلا بین الاقوامی مسئلہ ہے، جس کی مذہبی اور سیاسی دونوں نوعیتیں ہیں جن کا تاریخی قوتیں سامنا کرنے پر مجبور کررہی ہیں۔ مسئلہ فلسطین کے امکانات آخرکارانھیں یہ سوچنے پر مجبور کرسکتے ہیں۔ اس برطانوی، فرانسیسی ادارے کے تعلق سے، جس کے وہ ارکان ہیں اور جسے غلط طور پر ’انجمن اقوام‘ کہا جاتا ہے اور ایسے عملی ذرائع پر غور کریں، جن سے ’مشرقی انجمن اقوام‘ تشکیل پاسکے۔

علامہ اقبال کے بیان کا انگریزی متن

I assure the pepole, that I feel the injustice done to the Arabs as keenly as anybody else, who understands the situation in the Near East.... British statesmen  are tackling is not one of Palestine only, but seriously affects the entire Muslim world.

The problem, studied in its historical perspective, is purely a Muslim problem. In the light of the history of Israel, Palestine ceased to be a Jewish problem long before the entry of Caliph 'Umar into Jerusalem more that 1300 years ago. Their dispersion, as Professor Hockings has pointed out, was perfectly voluntary and their scriptures were for the most part written outside Palestine. Nor was it ever a Christian problem. Modern historical research has doubted even the existence of Peter the Hermit. Even if we assume that the Crusades were an attempt to make Palestine a Christian problem, this attempt was defeated by the victories of Salah-ud-Din. I, therefore, regard Palestine as a purely Muslim problem.

Never were the motives of British imperialism as regards the Muslims people of the Near East so completely unmasked as in the Palestine Royal Commission Report. The idea of a national home for the Jews in Palestine was only a device. In fact, British imperialism sought a home for itself in the form of a permanent mandate in the religious home of the Muslims. This is indeed a dangerous experiment.... It is really the begginning of the future difficultes of British imperialism. The sale of the Holy Land, including the Mosque of 'Umar, inflicted on the Arabs with the threat of martial law and softened by an appeal to their generosity, reveals bankruptcy of statemanship rather than its achievement. The offer of a piece of rich land to the Jews and the rocky desert plus cash to the Arabs is no political wisdom. It is a low transaction unworthy and damaging to the honour of a great people in whose name definite promises of liberty and confederation were given to the Arabs.

It is impossible for me to discuss the details of the Palestine Report in this short statement. There are, however, important lessons which Muslims of Asia ought to take to heart. Experience has made it abundantly clear, that the political integrity of the peoples of the Near East lies in the immediate reunion of the Turks and the Arabs. The policy of isolating the Turks from the rest of the Muslim world is still in action. We hear now and then that the "Turks are repudiating Islam". A greater lie was never told. Only those who have no idea of the history of the concepts of Islamic Jurisprudence fall an easy prey to this sort of mischievous progaganda....

....The Arab people must further remember that they cannot afford to rely on the advice of those Arab Kings, who are not in a position to arrive at an indpendent judgment in the matter of Palestine with an independent judgment in the matter of Palestine with an independent conscience, Whatever, they decide, they should decide on their own initiative after a full understanding of the problem befor them.

The present moment is also a moment of trial for the Muslim statesmen of the free non-Arab Muslim countries of Asia. Since the abolition of the [Turkish Ottoman] Caliphate this is the first serious international problem of both a religious and political nature.... The possibilities of the Palestine problem may eventually compel them seriously to consider their position as members of that Anglo-French institution, miscalled the League of Nations, and to explore practical means for the formation of an Eastern League of Nations. (Speeches, Writings & Statements of Iqbal, edited by Latif Ahmed Sherwani, p 293-205). 

’مطالبۂ پاکستان‘ کو یہود کے ’قومی وطن‘ سے تشبیہ دینا غلط ہے [۱۹۴۴ء]

سوال: مسلمان، آدم علیہ السلام کی خلافتِ ارضی کا وارث ہے۔ مسلمان کی زندگی کا مقصد صرف اللہ پاک کی رضا اور اس کے مقدس قانون پر چلنا اور دوسروں کو چلنے کی ترغیب دینا ہے۔ لیکن مسٹرمحمدعلی جناح اور مسلم لیگی بھائی پاکستان کا قیام چاہتے ہیں، ہندستان کی زمین کا ایک گوشہ، تاکہ ان کے خیال کے مطابق مسلمان چَین کی زندگی گزار سکیں۔

کیا خالص دینی نقطۂ نظر سے یہ مطالبہ قابلِ اعتراض نہیں ہے؟ یہودی قوم مقہور و مغضوب قوم ہے۔ اللہ پاک نے اس پر زمین تنگ کر دی ہے اور ہرچند کہ اس قوم میں دُنیا کے بڑے سے بڑے سرمایہ دار اور مختلف علوم کے ماہرین موجود ہیں، لیکن اُن کے قبضے میں ایک انچ زمین بھی نہیں ہے۔ آج وہ اپنا قومی وطن بنانے کے لیے کبھی انگریزوں سے بھیک مانگتے ہیں اور کبھی امریکاوالوں سے۔ میرے خیا ل میں مسلمان، یا بالفاظِ دیگر آل انڈیا مسلم لیگ بھی یہی کر رہی ہے۔ تو پھر کیا یہ ایک مقہور اور مغضوب قوم کی پیروی نہیں ہے؟

جواب: میرے نزدیک پاکستان کے مطالبے پر، یہودیوں کے قومی وطن کی تشبیہ چسپاں نہیں ہوتی:

 فلسطین فی الواقع یہودیوں کا قومی وطن نہیں ہے، اُن کو وہاں سے نکلے ہوئے دوہزار برس گزرچکے ہیں۔ اُسے اگراُن کا قومی وطن کہا جاسکتا ہے، تو اُسی معنی میں جس معنی میں جرمنی کی آریہ نسل کے لوگ وسطِ ایشیا کواپنا قومی وطن کہہ سکتے ہیں۔ یہودیوں کی اصل پوزیشن یہ نہیں ہے کہ ایک ملک [فلسطین] واقعی اُن کا قومی وطن ہے اور وہ اسےتسلیم کرانا چاہتے ہیں، بلکہ ان کی اصلی پوزیشن یہ ہے کہ ایک ملک ان کا قومی وطن نہیں ہے، اور اُن کا مطالبہ یہ ہے کہ ’’ہم کو دنیا کے مختلف گوشوں سے سمیٹ کروہاں بسایا جائے اور اُسے بزور ہمارا قومی وطن بنا دیا جائے‘‘۔

بخلاف اس کے، مطالبۂ پاکستان کی بنیاد یہ ہے کہ ’’جس علاقے میں مسلمانوں کی اکثریت آباد ہے، وہ بالفعل مسلمانوں کا قومی وطن ہے‘‘، اور مسلمانوں کا مطالبہ صرف یہ ہے کہ ’’موجودہ جمہوری نظام میں ہندستان کےدوسرے حصوں کے ساتھ لگےرہنے سے، اُن کےقومی وطن کی سیاسی حیثیت کو جو نقصان پہنچتا ہے، اُس سے اس کو محفوظ رکھاجائے، اور متحدہ ہندستان کی ایک آزاد حکومت کے بجاے، ’ہندو ہندستان‘ اور’مسلم ہندستان‘ کی دو آزاد حکومتیں قائم ہوں۔ یعنی بالفاظِ دیگر وہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ ’’ان کا قومی وطن جو بالفعل موجود ہے، اُس کو اپنی آزاد حکومت الگ قائم کرنے کا حق حاصل ہوجائے‘‘۔

یہ چیز بعینہٖ وہی ہے، جو آج دُنیا کی ہرقوم چاہتی ہے۔ اور اگرمسلمانوں کے مسلمان ہونے کی حیثیت کو نظرانداز کرکے انھیں صرف ایک قوم کی حیثیت سے دیکھا جائے، تو اُ ن کے اِس مطالبے کے حق بجانب ہونے میں کوئی کلام نہیں کیا جاسکتا۔ ہم اصولاً اس بات کے مخالف ہیں کہ دُنیا کی کوئی قوم کسی دوسری قوم پر سیاسی و معاشی حیثیت سے مسلط ہو۔ ہمارے نزدیک اصولاً یہ ہرقوم کا حق ہے کہ اس کی سیاسی و معاشی باگیں اس کے اپنے ہاتھوں میں ہوں۔ اس لیے ایک قوم ہونے کی حیثیت سے اگر مسلمان یہ مطالبہ کرتے ہیں تو جس طرح دوسری قوموں کے معاملے میں یہ مطالبہ صحیح ہے، اسی طرح ان کے معاملے میں بھی صحیح ہے۔ (ترجمان القرآن، جولائی- اکتوبر، ۱۹۴۴ء، ص۱۰۳-۱۰۴)

مسئلہ فلسطین اور جماعت اسلامی [۱۹۴۶ء]

سوال: فلسطین کی سیاست میں امریکا اور برطانیہ کی خود غرضانہ دخل اندازی اور اسلام دشمنی کے نتائج واضح ہیں۔ جماعت اسلامی کی قضیۂ فلسطین کے سلسلے میں پالیسی کیا ہے؟

جواب: ہمارے نزدیک برطانیہ اور امریکا سخت ظلم کررہے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ فلسطین کے معاملے میں انھوں نے بے انصافی کی حد کردی ہے۔ اہلِ فلسطین سے ہمدردی کرنا ہرانسان کا انسانی فرض ہے، اور مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارے لیے یہ فرض کئی گنا زیادہ سخت ہوجاتا ہے کہ ہم اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ ہمدردی کریں۔ پھر فلسطین کا مسئلہ اس لیے بھی اہم ہے کہ اگر خدانخواستہ وہاں یہودی ریاست بن گئی، تو اس سے مرکز اسلام ، یعنی حجاز کو بھی متعدد قسم کے خطرات لاحق ہوجائیں گے۔ اس معاملے میں دُنیا کے مسلمان مدافعت کے لیے جو کچھ بھی کریں، ہم ان کے ساتھ ہیں۔

ہمارے نزدیک اصل مسئلہ کفر و اسلام کی کش مکش کا ہے اور ہم اپناسارا وقت،ساری قوت اور ساری توجہ اسی مسئلے پر صرف کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ (ترجمان القرآن، ستمبر ۱۹۴۶ء، ص۲۵۱-۲۵۲)

ظلم اور جارحیت کے رکھوالے [۱۹۶۷ء]

[۳۰؍اگست ۱۹۶۷ء کو ایک خط کے جواب میں لکھا:]

کشمیر کے معاملے میں پاکستان کو جو تجربہ پچھلے [چندبرسوں] سے ہو رہا ہے اور عرب ممالک کو اسرائیلی جارحیت کے بعد جو تجربہ ہوا ہے، اس نے یہ بات بالکل واضح کردی کہ دُنیا میں آج بھی ’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘ کا قاعدہ ہی جاری ہے۔ آج بھی قوت ہی حق ہے، اور کسی قوم کے لیے اس کی اپنی طاقت کے سوا اس کے حقوق کی حفاظت کا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں ہے۔ پہلی جنگ ِ عظیم کے بعد دنیا کو ایک فریب ’مجلس اقوام‘ کے نام سے ایک انجمن بنا کردیا گیا، مگر بہت جلدی یہ بات کھل گئی کہ ’بہرتقسیم قبور انجمنے ساختہ اند‘۔ پھر دوسری جنگ عظیم کے بعددوسرا فریب ’اقوام متحدہ‘ کی تنظیم قائم کرکے دیا گیا، مگر آج کسی سے بھی یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ یہ تنظیم چند بڑی طاقتوں کے ہاتھ میں ایک کھلونا ہے، جسے وہ حق اور انصاف کے لیے نہیں بلکہ اپنی مصلحتوں کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ ظالم کا ہاتھ پکڑنا اور مظلوم کا حق دِلوانا تو درکنار، یہ تنظیم تو ظالم کو ظالم کہنے تک کے لیے تیار نہیں ہے۔ بلکہ اب تو کھلم کھلا مظلوم کو ’حقیقت پسندی‘ کا درس دیا جارہا ہے، جس کے معنی صاف صاف یہ ہیں کہ مظلوم اپنی کمزوری اور ظالم کی زورآوری کو ایک امرواقعہ کی حیثیت سے تسلیم کرے، اور ظالم نے طاقت کے بل بوتے پر اس کا جو حق مار کھایا ہے،اس پر صبرکرے۔

ان حالات میں یہ اُمید کرنا بالکل لاحاصل ہے کہ کشمیر میں ہندستان نے اور شرقِ اوسط میں اسرائیل نے جو غاصبانہ دست درازیاں کی ہیں، ان کا تدارک محض حق و انصاف کی بنیاد پر کوئی بین الاقوامی طاقت کرائے گی۔ یہاں اخلاق کا نہیں بلکہ جنگل کا قانون جاری ہے۔ ہمیں خدا پر بھروسا کرکے اپنی طاقت ہی سے غاصبوں کی ان زیادتیوں کا تدارک کرنا ہوگا، اور ان کا تدارک جب بھی ہوگا بزورِ شمشیر ہی ہوگا۔(مکاتیب ِ سیّدابوالاعلیٰ مودودی، اوّل ص ۲۰۹-۲۱۱)

اسرائیلی جرائم میں مسیحی دنیا کی حصے داری[۱۹۶۷ء]

[رومن کیتھولک مسیحی سربراہ پوپ پال ششم کے نام دسمبر ۱۹۶۷ء کے خط میں لکھا:]

مسیحی دُنیا کے متعلق مسلمانوں کا عام احساس یہ ہے کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایک شدید جذبۂ عناد رکھتی ہے، اور آئے دن ہمیں ایسے تجربات ہوتے رہتے ہیں، جو اس احساس کو تقویت پہنچاتے ہیں۔ اس کا تازہ ترین تجربہ وہ ہے جو [جون ۱۹۶۷ء] میں عرب اسرائیل جنگ کے موقعے پر ہوا۔ اس لڑائی میں اسرائیل کی فتح پر یورپ اور امریکا کے بیش تر ملکوں میں جس طرح خوشیاں منائی گئیں، انھوں نے تمام دنیا کے مسلمانوں کے دل میں زخم ڈال دیے ہیں۔ آپ شاید ہی کوئی مسلمان ایسا پائیں گے، جس نے عربوں کی شکست اور اسرائیل کی فتح پر مسیحی دُنیا کے اس علی الاعلان اظہارِ مسرت و شادمانی اور اسرائیل کی کھلی کھلی حمایت کو دیکھ کر یہ محسوس نہ کیا ہو کہ یہ اسلام اورمسلمانوں کے خلاف مسیحیوں کے گہرے جذبۂ عناد کا مظاہرہ تھا۔

فلسطین میں اسرائیل کی ریاست جس طرح بنی ہے ،بلکہ بنائی گئی ہے۔ اس کی تاریخ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ دوہزار برس سے فلسطین عرب آبادی کا وطن تھا۔ موجودہ [۲۰ویں] صدی کے آغاز میں وہاں یہودی ۸ فی صدی سے زیادہ نہ تھے۔ اس حالت میں برطانوی حکومت نے اس کو یہودیوں کا قومی وطن بنانے کا فیصلہ کیا اور ’مجلسِ اقوام‘ نے نہ صرف اِس فیصلے کی توثیق کی بلکہ برطانوی حکومت کو فلسطین کا مینڈیٹ دیتے ہوئے یہ ہدایت کی وہ یہودی ایجنسی کو باقاعدہ شریک ِ حکومت بنا کر اس تجویز کو عملی جامہ پہنائے۔ اس کے بعد دُنیا بھر کے یہودیوں کو لالاکر، ہرممکن تدبیر سے فلسطین میں بسانے کاسلسلہ شروع کر دیا گیا، یہاں تک کہ ۳۰سال کے اندر ان کی آبادی ۳۳فی صدی تک پہنچ گئی۔ یہ ایک صریح ظلم تھا، جس کے ذریعے سے ایک قوم کے وطن میں زبردستی ایک دوسری اجنبی قوم کا وطن بنایا گیا۔ پھر ایک دوسرا اس سے بھی زیادہ ظالمانہ قدم اُٹھایا گیا اور امریکا نے کھلے بندوں دباؤ ڈال کر اقوامِ متحدہ سے یہ فیصلہ کرایا کہ یہودیوں کے اس مصنوعی قومی وطن کو یہودی ریاست میں تبدیل کردیا جائے۔ اس فیصلے کی رُو سے ۳۳فی صدی یہودی آبادی کو فلسطین کا ۵۵ فی صدی، اورعربوں کی ۶۷ فی صدی آبادی کو ۴۵ فی صدی رقبہ الاٹ کیا گیا تھا۔ لیکن یہودیوں نے لڑ کرطاقت کے بل پر اس ملک کا ۷۷ فی صدی رقبہ حاصل کرلیا اور ماردھاڑ اور قتل و غارت کے ذریعے سے لاکھوں عربوں کو گھر سے بے گھر کر دیا۔ یہ ہے اسرائیل کی اصل حقیقت۔ کیا دُنیا کا کوئی انصاف پسند اور ایمان دار آدمی یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ ایک جائز ریاست ہے جو فطری اور منصفانہ طریق سے بنی ہے؟

اس [اسرائیل]کا تو عین وجود ہی ایک بدترین جارحیت ہے۔ اور اس پر مزید ظلم یہ ہے کہ یہودی صرف اُن حدود کے اندر محدود رہنے پر بھی راضی نہیں ہیں، جو انھوں نے فلسطین میں زبردستی حاصل کی ہیں، بلکہ وہ سالہا سال سے علانیہ کہہ رہے ہیں کہ نیل سے فرات تک کا پورا علاقہ ان کا قومی وطن ہے۔ اس کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ یہ قوم ہروقت یہ جارحانہ ارادہ رکھتی ہے کہ اس پورے علاقے پر جبراً قبضہ کرے اور اس کے اصل باشندوں کو زبردستی نکال کر، دُنیا بھر میں پھیلے ہوئے یہودیوں کو وہاں لاکر بسائے۔

اسی جارحانہ اسکیم کا ایک جز گذشتہ ماہِ جون [۱۹۶۷ء]کا وہ اچانک حملہ تھا، جس کے ذریعے سے اسرائیل نے۲۶ہزار مربع میل علاقے پر قبضہ کیا۔ اس پورے ظلم کی ذمہ دار مسیحی دُنیا ہے۔ اُس نے ایک قوم کے وطن میں ایک دوسری قوم کا وطن زبردستی بنوایا۔ اُس نے اس مصنوعی قومی وطن کو ایک ریاست میں تبدیل کرایا۔ اُس نے اِس جارح ریاست کو روپے اور ہتھیاروں سے مدددے کراتنا طاقت ور بنایا کہ وہ زبردستی اپنے توسیعی منصوبوں کو عمل میں لاسکے۔ اور اب اس ریاست کی تازہ فتوحات پر یہی مسیحی دُنیا جشنِ شادمانی منارہی ہے۔

 کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اس کے بعد نہ صرف عربوں میں، بلکہ تمام دنیا کے مسلمانوں میں مسیحیوں کی انصاف پسندی، اُن کی خیراندیشی اور مذہبی عناد و تعصب سے اُن کی بریت پر کوئی اعتماد باقی رہ گیا ہے؟ اور کیا آپ کا خیال ہے کہ دُنیا میں امن قائم کرنے کے یہی طریقے ہیں؟ یہ دراصل ہمارا نہیں بلکہ آپ کا کام ہے کہ مسیحی بھائیوں کو اِس رَوش پر شرم دلائیں اور ان کی روح کو اِس گندگی سے پاک کرنے کی کوشش کریں۔ (مکاتیب ِ سیّدابوالاعلیٰ مودودی، اوّل ص ۲۲۱-۲۲۳)

اسرائیل کے حق میں ایک عجیب مذہبی استدلال [۱۹۷۶ء]

سوال: سورئہ بنی اسرائیل ، آیت ۱۰۴ کے متعلق اخبار صدق جدید (لکھنؤ) میں مولانا عبدالماجد دریابادی [۱۶مارچ ۱۸۹۲ء-۶جنوری ۱۹۷۷ء]نے یہ تشریح کی ہے کہ ’’اس میں وَعْدُ الْاٰخِرَۃِ  سے یَوْمُ الْاٰخِرَۃِ نہیںہے بلکہ قیامت کے قریب ایک وقت موعود ہے اور جِئْنَا بِكُمْ لَفِيْفًا سے مراد بنی اسرائیل کے مختلف گروہوں کو ایک جگہ اکٹھا کر دینا ہے‘‘۔ پھر جناب دریابادی فرماتے ہیں کہ ’’مطلب واضح ہے، یعنی اسرائیلیوں کو بعد ِ واقعۂ فرعون کی خبر دےدی گئی تھی کہ اب تو تم آزاد ہو، دُنیا میں جہاں چاہو رہو بسو، البتہ جب زمانہ قربِ قیامت کا آجائے گا تو ہم تم کو مختلف سمتوں سے، مختلف ملکوں سے، مختلف زبانیں بولتے ہوئے، مختلف وضع و لباس اختیارکیے ہوئے ، سب کو ایک جگہ جمع کردیں گے اور وہ جگہ اور کون سی ہوسکتی ہے بجز ان کے قدیم وطن ملک فلسطین کے۔ آج جو ارضِ فلسطین میں یہود کا اجتماع ہر ہرملک سے ہورہا ہے، کیا یہ اسی غیبی پیش خبری کاظہور نہیں؟‘‘ مولانا دریابادی صاحب کی اس تشریح سے ڈر ہے کہ یہ فلسطین کے متعلق عام جذبۂ جہاد کو ٹھنڈا کردے گا۔

جواب:آیت ِ مذکورہ کی اس تشریح کو دیکھ کر تعجب ہوا۔ آیت کے الفاظ تو صرف یہ ہیں کہ:

وَّقُلْنَا مِنْۢ بَعْدِہٖ لِبَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ اسْكُنُوا الْاَرْضَ فَاِذَا جَاۗءَ وَعْدُ الْاٰخِرَۃِ جِئْنَا بِكُمْ لَفِيْفًا۝۱۰۴ۭ (بنی اسرائیل ۱۷:۱۰۴) اور اس کے بعد (یعنی فرعون کی غرقابی کے بعد) ہم نے بنی اسرائیل سے کہا کہ زمین میں رہو بسو، پھر جب آخرت کے وعدے کا وقت آئے گا تو ہم تم کو اکٹھا کر لائیں گے۔

ان الفاظ میں ’قربِ قیامت کے وقت ِ موعود‘ اور بنی اسرائیل کے وطنِ قدیم میں یہودیوں کے مختلف گروہوں کو ملک ملک سے لاکر جمع کردینے کا، مفہوم آخر کہاں سے نکل آیا؟ وَعْدُ الْاٰخِرَۃِ  کاسیدھااور صاف مطلب آخرت کا وعدہ ہے، نہ کہ ’قیامت کے قریب زمانے کا کوئی وقت ِ موعود‘۔ اور سب کو اکٹھا کرکے لانے یاجمع کرلانے سے مراد قیامت کے روز جمع کرنا ہے۔ اس میں کوئی اشارہ تک اس بات کی طرف نہیں ہے کہ اسی دنیا میں بنی اسرائیل کو ایک جگہ جمع کیا جائے گا۔

اس پر مزید ستم یہ ہے کہ ’’ایک جگہ جمع کرنے‘‘ کے تصور کو آیت کے الفاظ میں داخل کرنے ہی پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ [مولانا دریابادی صاحب نے] یہ بھی طے کردیا [ہے]کہ وہ جگہ ’اسرائیلیوں کے وطنِ قدیم‘ کے سوااور کوئی نہیں ہوسکتی۔ یہ تو بعینہٖ یہودیوں کے اس دعوے کی تائید ہے کہ ’دو ہزار برس تک فلسطین سے بے دخل رہنے کے باوجود اُس پران کا حق فائق ہے، کیونکہ وہ ان کا وطن قدیم ہے، اور اب دو ہزار برس سے یہ ملک جن لوگوں کا حقیقت میں وطن ہے، ان کے مقابلے میں برطانیہ اورروس اور امریکا نے نہیں، بلکہ خود اللہ تعالیٰ نے اس سرزمین پریہودیوں کے حقِ سکونت کو فائق قرار دے کر انھیں ہرملک سے وہاں جمع کروایا ہے‘۔ اس طرح تو ’اسرائیلی ریاست کا قیام اللہ تعالیٰ کے ایک وعدے کا نتیجہ قرار پاتا ہے، نہ کہ دنیا کی ظالم قوموں کی ایک سازش کا‘۔ حالانکہ آیت کے الفاظ میں اس مفہوم کے لیے قطعاًکوئی گنجایش نہیں ہے۔ (ترجمان القرآن، جون ۱۹۷۶ء، ص ۳۸-۳۹)

امریکا کی جانب سے اسرائیل کی غیراخلاقی حمایت [۱۹۷۷ء]

سوال: اسرائیلی وزیراعظم مناخم بیگن [۱۹۱۳ء-۱۹۹۲ء]نے اپنے دورئہ امریکا کے فوراً بعد حال ہی میں تین غیرقانونی یہودی بستیوں کو دریائے اُردن کے مغربی کنارے پرقانونی حیثیت دی ہے۔ مزیدبرآں اسرائیلی حکومت تین اورنئی بستیاں مغربی کنارے پربسارہی ہے۔ اس سلسلے میں آپ کا ردِعمل کیا ہے؟

جواب: امریکی حکومت اگر انصاف اوراخلاق کے تمام اصولوں کو نظرانداز کرکے یہودیوں کی بے جا حمایت اور امداد و اعانت کرنے پر تلی ہوئی نہ ہوتی، تو اسرائیل کبھی اتنا جری و بے باک نہ ہوسکتا تھا کہ پےدرپے ایک سے ایک بڑھ کر ڈاکازنی اورغصب و ظلم کے جرائم کاارتکاب کرتا چلاجاتا۔ اس لیےمَیں ’اصل مجرم امریکا کی بےضمیری‘ کو قرار دیتا ہوں، جسے ساری دنیا کے سامنے اس جرائم پیشہ ریاست کی پیٹھ ٹھونکتےہوئے ادنیٰ سی شرم تک محسوس نہیں ہوتی۔

 امریکا، یہودیوں سے اس حد تک دبا ہوا ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم کی آمدکے موقعے پر    ان کے مذہبی پیشوا اور بااثر لیڈر، امریکی صدر پر ہجوم کرکے آتے ہیں۔ [اسرائیلی وزیراعظم]بیگن کی پذیرائی کے لیے اس پر دباؤ ڈالتے ہیں اور اس کو درپردہ ہی نہیں اشاروں کنایوں میں یہ احساس بھی دلا دیتے ہیں کہ ’جسے امریکا کا  صدر بننا ہو، وہ یہودی ووٹوں کا محتاج ہے‘۔ اس پس منظر میں انسانی حقوق اور اخلاق و انصاف کے دعوے دار [امریکی صدر]جمی کارٹر صاحب، بیگن کے اس انتہائی بے شرمانہ بیان کو شیرمادر کی طرح نوش فرما لیتے ہیں کہ ’’دریائے اُردن کے مغربی جانب کا فلسطین، جو ۱۹۶۷ء کی جنگ میں عربوں سے چھینا گیا تھا، وہ [اسرائیل کے زیرتسلط کوئی]مقبوضہ (occupied) علاقہ نہیں ہے، بلکہ آزاد کرایا ہوا (lliberated ) علاقہ ہے اور یہ ہماری میراث ہے، جس کا وعدہ چارہزار برس پہلے بائبل میں ہم سے کیا گیا تھا، اس لیے ہم اسے نہیںچھوڑیں گے‘‘۔

یہ کھلی کھلی بے حیائی کی بات، امریکی حکام اور عوام سب کے سب سنتے ہیں اورکوئی پلٹ کر نہیں پوچھتا کہ بائبل کی چالیس صدی قدیم بات آج کسی ملک پر ایک قوم کے دعوے کی بنیاد کیسے بن سکتی ہے؟ اور ایسی دلیلوں سے اگر ایک قوم کے وطن پردوسری قوم کا قبضہ جائز مان لیا جائے،تو  نہ معلوم اورکتنی قومیں اپنے وطن سے محروم کردی جائیں گی۔ (ترجمان القرآن، اکتوبر ۱۹۷۷ء، ص۴۱-۴۲)

مسجد ِ اقصیٰ کی دیواروں کے نیچے کھدائی [۱۹۷۷ء]

سوال: مسجد اقصیٰ کی دیواروں کے نیچے اسرائیل کھدائی جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس سے مسجد کو سخت خطرہ لاحق ہے۔ اس بارے میں آپ اظہارِ خیال فرمائیں۔

جواب:مسجد اقصیٰ میں جو اکھیڑپچھاڑ یہودی کررہے ہیں ، اور جو کچھ وہ الخلیل میں مسجد ابراہیمی کے ساتھ کرچکے ہیں، اس کی کوئی روک تھام، بیانات اور قراردادوں اور اقوام متحدہ کےفیصلوں سے نہیں ہوسکتی۔ یہودی یہ سب کچھ طاقت کے بل پر کررہے ہیں اور وہ طاقت اس کو امریکا بہم پہنچا رہا ہے۔ جب تک ہم امریکا پر یہودیوں کے دباؤ سے بڑھ کر دباؤ ڈالنے کے قابل نہ ہوجائیں، اس ڈاکا زنی کا سلسلہ نہیں رُک سکتا۔ (ترجمان القرآن، اکتوبر ۱۹۷۷ء، ص ۴۲)

جب ۲۹فروری ۲۰۲۰ء کو دوحہ میں امریکا اورافغان طالبان کےدرمیان معاہدۂ امن پر دستخط کیے گئے، اس تقریب کی خاص بات امریکا کا طالبان کو برابر کی قوت تسلیم کرنا تھا۔ اس معاہدۂ امن میں بعض ناقابلِ فہم تاریخیں دی گئی تھیں، مثلاً ’’۱۰مارچ کو بین الافغان مذاکرات کا آغاز ہوجائے گا اور اس سے پہلے ۵ہزار طالبان قیدی اور ایک ہزار سرکاری قیدی رہا کردیے جائیں گے‘‘۔اسی طرح دیگر تاریخوں میں ۲۹مئی اور ۲۷؍اگست بھی شامل تھیں، جو سب کی سب گزر چکی ہیں۔ طالبان پر سے بین الاقوامی پابندیاں ہٹانے کی تاریخ بھی گزر گئی، مگر یہ تمام مسائل حل نہ ہوئے لیکن ۱۲ستمبر کو بین الافغان مذاکرات کا آغاز ضرور ہوگیا۔ ان مذاکرات کا بنیادی ایجنڈا شورش زدہ افغانستان میں امن کا قیام ہے،جو گذشتہ چارعشروں سے بدامنی کا شکار ہے، اور وہاں کا ہر شہری ہرصبح اس تمنا اور دُعا کے ساتھ بیدار ہوتا ہے کہ اس کے وطن میں امن کا سورج آج طلوع ہوگا۔

بنیادی طور پر مذاکرات میں دو گروہوں کا آمنا سامنا ہے۔ لیکن اگر ان گروہوں کی مذاکراتی ٹیموں کا جائزہ لیا جائے توپوری افغان ملت کی نمایندگی موجود ہے۔ طالبان کے وفد میں کُل ارکان کی تعداد ۲۰ ہے، لیکن کوئی خاتون رکن شامل نہیں، جب کہ افغان حکومت کے وفد میں پانچ خواتین سمیت ارکان کی تعداد بھی ۲۰ ہے۔ حکمت یار کے داماد ڈاکٹر غیرت بہیر کو بھی سرکاری وفد میں شمولیت کی دعوت دی گئی تھی، لیکن انھوں نے معذرت کرلی تھی۔ افغان اعلیٰ امن کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے بھی ۱۲ستمبر کی افتتاحی تقریب میں شرکت کی تھی لیکن وہ خود مذاکراتی وفد میں شامل نہیں۔ افغانستان کی سیاست پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں، کہ برسرِ زمین طالبان کےمقابل اصل کرتا دھرتا وہی ہیں۔ صدارتی انتخابات میں شکست کے بعد ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ خودساختہ صدرجمہوریہ بن گئے، لیکن بعد میں امریکی دباؤ پر انھوں نے امن کمیٹی کی صدارت قبول کی، جو ایک اعزازی عہدہ ہے۔ البتہ یہ طے شدہ امر ہے کہ اگر بین الافغان مذاکرات ناکام ہوتے ہیں اور افغان دھڑوں میں جنگ چھڑتی ہے، تو طالبان کا مقابلہ سابقہ شمالی اتحاد کی قوتوں کے ساتھ ہی ہوگا۔

بین الافغان امن مذاکرات کا ایجنڈا تو طالبان امریکا معاہدہ ہی میں طےکردیا گیا تھا۔ دفعہ نمبر۴ میں تحریر ہے: ’’مستقل اور جامع فائربندی‘ بین الافغان مذاکرات اور صلاح کاروں کا ایک بنیادی نکتہ ہوگا۔ شرکا مستقل اور جامع فائربندی کی تاریخ اور طریقۂ کار پر بحث کریں گے، جس میں مشترکہ نظام کے نفاذ کا اعلان اورافغانستان میں مستقبل کا سیاسی نقشۂ کار شامل ہیں‘‘۔ آگے چل کر معاہدے کے تیسرے حصے کی شق نمبر۳ میں بات واضح کی گئی ہے کہ ’’ریاست ہاے متحدہ (امریکا) نئی افغان اسلامی حکومت جو بین الافغان مذاکرات اور تصفیہ کے بعد وجود میں آئے گی، اس کے ساتھ مالی تعاون جاری رکھے گا، اور اس کے اندرونی معاملات میں دخل انداز نہیں ہوگا‘‘۔

لیکن اس شق سے پہلےشق نمبر۲ بھی اہم ہے ، جس میں کہا گیا ہے: ’’ریاست ہاے متحدہ (امریکا) اور امارت اسلامی افغانستان آپس میں مثبت تعلقات قائم کریں گے اورچاہیں گے کہ ریاست ہاے متحدہ اورامارت اسلامی افغانستان باہم معاملات طے کرنے کے بعد بننے والی افغان اسلامی حکومت کے تعلقات اور بین الاقوامی مذاکرات کےنتائج مثبت ہوں گے‘‘۔ یعنی مذاکرات سے پہلے ہی اس کے مثبت نتائج اورنئی افغان حکومت کے قیام کا اعلان ۲۹فروری ہی کو کردیا گیا تھا، تو سوال پیدا ہوتا ہے پھر مذاکرات کس موضوع پر ہورہے ہیں اور مذاکرات کاروں کے ذمے کیا ایجنڈا ہے؟ فائربندی اور نئی حکومت کاڈھانچا کیا ہوگا؟ اگر اس ترتیب کو بدل دیا جائے، تو پہلے بات چیت آیندہ حکومتی ہیئت پر ہی ہوگی۔ اوراس کو طے کرنے کے بعد فائربندی کی نوبت آئے گی۔ ظاہر ہے حکومتی وفد کا مطالبہ تو یہ ہوگا اور ہے کہ پہلے جنگ بندی کردی جائے۔ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے اپنی افتتاحی تقریر میں اسی نکتے پر زوردیا۔ اگرچہ مذاکرات کے تیسرے ہی دن ننگرھار صوبے میں سرکاری فوجی اور طالبان جنگجوؤں کے درمیان لڑائی چھڑگئی، اور اس میں درجنوں انسانی جانوں کا نقصان ہوا۔ پہلے حملے کا الزام دونوں طرف سے لگایا گیا۔

طالبان کی جانب سے مذاکرات کا آغاز مستقبل کے حکومتی نظام کے بارے تجاویز سے کیا گیا۔افغان طالبان کی یہ سوچی سمجھی رائے تھی کہ چونکہ امریکا نےافغانستان پر جارحیت کرکے ان سے حکومت چھینی تھی اورگذشتہ دو عشروں سے امریکی قبضے کے خلاف مزاحمتی جنگ بھی انھوں نے لڑی ہے، اس لیے مذاکرات بھی ان سے کیےجائیں اور حکومت بھی ان کے حوالے کی جائے۔ صدرٹرمپ نے (بادل نخواستہ) بالآخر ان کے ان دونوں مطالبات کو تسلیم کیا۔ ان سے دوسال مذاکرات کرکے ان کے ساتھ تمام معاملات طے کیے، اور اس کو ایک باقاعدہ معاہدے کےتحت دستخط کرکے اپنے آپ کو پابند کیا۔ البتہ دوسرے مطالبے کے لیے بین الافغان مذاکرات کا مرحلہ طے کیا گیا جس سے گزرکرافغانستان میں امارتِ اسلامی قائم ہوجائے گی۔

اس پورے عرصے میں طالبان کے بارے میں یہ سمجھاجاتا تھا کہ وہ ایک سخت گیر، بے لچک اورمتشدد گروہ ہے، جو صرف جنگ کی زبان جانتا ہے، لیکن امریکی نمایندے زلمے خلیل زادے کے ساتھ مذاکرات  میں مُلّا عبدالغنی برادر کی سربراہی میں طالبان تحریک کی قیادت نے ثابت کیا، کہ وہ جس طرح جنگی رُموز سے بخوبی آگاہ ہیں اسی طرح سفارتی اُمور بھی جانتے ہیں۔ مخالف فریقوں کے درمیان مذاکرات میں اصل بات دونوں طرف کے مفادات کا تحفظ، اس کا ادراک اور متبادل تجاویز پیش کرنا ہوتا ہے۔ اس فن کا مظاہرہ انھوں نے امریکا کے ساتھ مذاکرات میں بھی کیا اور افغان دھڑوں کے ساتھ گفتگو کے آغاز میں بھی کیا۔ شنید یہ ہے کہ انھوں نے اپنی حکومت بنانے کا مطالبہ نہیں کیا بلکہ یہ کہا کہ امارت اسلامی کی صدارت/امارت ایک غیرجانب دار فرد کے سپرد کی جائے جو دونوں فریقوں کو قابلِ قبول ہو۔ البتہ ان کا دوسرا مطالبہ یہ ہے کہ وزارتِ دفاع سمیت پانچ اہم وزارتیں ان کے سپرد کی جائیں۔ بہرکیف طالبان آیند ہ حکومت میں اپنی مضبوط پوزیشن دیکھنا چاہتے ہیں اور یہ ان کا حق ہے۔

طالبان کے مدِمقابل ڈاکٹر اشرف غنی افغانستان میں قوم پرست پختونوں، سیکولر عناصر اور سابقہ کمیونسٹوں کی نمایندگی کرتے ہیں۔ ان کی صدارت کا دوسرادور گزر رہا ہے۔ ایک ماہر معیشت کی حیثیت سے انھوں نے افغان عوام سے جو وعدے کیے تھے، وہ پورے نہیں ہوئے۔ اگر وہ تاریخ میں اپنا نام اچھے الفاظ سے یاد رکھناچاہتے ہیں تو انھیں اس موقع کو ضائع نہیں کرنا چاہیے۔

افغان طالبان کے مُلّا عبدالغنی برادر کو بھی مذاکرات کو کامیاب بنانے کا چیلنج درپیش ہے۔ پوری افغان قوم اس کامیابی کے لیے دعاگو اور پُراُمید ہے۔ اس موقع پرجنوبی افریقہ کے رہنما نیلسن منڈیلا کی مثال پیش نظر رہے۔انھوں نےجب ۲۷سالہ قید سے رہائی کے بعد ملک میں افریقن نیشنل کانگریس کی حکومت قائم کی تو مقامی لوگوں میں سفیدفام اقلیت کے خلاف نفرت اپنے عروج پر تھی اور انتقام کا جذبہ عام تھا۔لیکن نیلسن منڈیلا نے اعلان کیا کہ ہمیں اپنے وطن کو آباد کرنا ہے، اور اس کے لیے ہمیں سفیدفام لوگوں کی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی مقامی لوگوں کی۔ یوں انھوں نے تمام مظالم کو بھلاکر ایک ترقی یافتہ ملک کی بنیاد رکھی۔ مُلّا عبدالغنی برادرنے خودمختاراور مضبوط اسلامی ملک بنانے کا ارادہ ظاہر کیا ہے، اور پوری دنیا کےمسلمان اس ارادے کی تکمیل میں ان کے لیے دعاگو ہیں۔ مذاکرات کا یہ عمل طویل ،صبرآزما اور پیچیدہ ہوسکتا ہے۔ طالبان کو اس میں قدرے بہتر حیثیت حاصل ہے اور وہ پُراعتماد بھی ہیں۔

میرے اہل خانہ اور غزہ کے عوام کے لیے، اگست ۲۰۲۰ء کے دن بہت خوفناک رہے۔  اسرائیل نے تقریباً روزانہ کی بنیاد پر غزہ کی پٹی پر بمباری کی۔ اس دوران ہمیں ایسا محسوس ہوتا رہا کہ ہم کبھی نہ ختم ہونے والے زلزلے کے مرکز پر پھنس گئے ہیں۔ دھماکے ، کبھی کبھی تو ہمارے گھر سے بمشکل ایک کلومیٹر کے فاصلے پر ہوتے اور اتنے زوردار ہوتےکہ ، میری دو سالہ بھانجی رات بھر سونہیں سکتی تھی۔ جب بھی وہ ز ور دار دھماکے کی آواز سنتی، جلدی سے کھلونے سمیٹ کراپنے اردگرد جمع کر لیتی ، کہ یہ کھلونے اسے اسرائیل کے بموں سے بچا لیں گے۔

اگست کا مہینہ واقعتاً بھیانک توتھا ہی، لیکن یہ کسی طرح سے غیر معمولی نہیں تھا۔ اسرائیل کے فوجی ، جنگی طیارے ، ڈرون اور بندوق بردار کئی عشروں سے غزہ کے عوام کو بڑے تسلسل سے ہراساں کررہے ہیں ، دھمکا رہے ہیں اور اس سے آگے بڑھ کر مار بھی رہے ہیں۔ اسرائیل کے    یہ بہیمانہ حملے، غزہ کی روزمرہ زندگی کے معمولات کا حصہ ہیں۔ زندہ رہنے کے قابل ہونے کے لیے اور کسی ایسی چیز کی رہنمائی کرنے کے لیے جو عام زندگی سے ملتی ہے ، ہم اہل غزہ کے پاس ، اپنے اوپر ہونے والے تشدد کو معمول کے مطابق قبول کرنے کے سوا کوئی چارہ بھی تو نہیں ہے۔

 غزہ میں پیدا ہونے اور پرورش پانے کے دوران میں نے ہمیشہ ایمرجنسی ، دہشت اور کسی بھی لمحے اسرائیل کی جانب سے مسلط ہوجانے والی درندگی کا احساس محسوس کیا ہے۔میرا خاندان ہمیشہ بدترین حالات و انجام کا سامنا کرنے کے لیے تیار چلا آرہا ہے، کیونکہ بدترین انجام کسی بھی وقت ہمارے دروازے پر دستک دے سکتا ہے ، جیسا کہ اس نے ماضی قریب میں غزہ پر۲۰۰۸ء، ۲۰۰۹ء ۲۰۱۲ء اور ۲۰۱۴ء میں حملوں کے دوران کیا تھا۔ بچپن سے میں جانتا تھا کہ ہر دن خوف میں رہنا ہی ہمارا مقدر ہے۔ میرے دل نے روزمرہ کی ہولناکیوں کے خاتمے کے خوش کن تصور کو مسترد کردیا ہے ، کیوں کہ اَب میں اپنی انسانی قسمت سے رابطہ نہیں کھونا چاہتا ۔یوں مجھے آخر کار اپنے گردونواح کی اس صورتِ حال سے اتفاق کرنا پڑا جس میں مَیں پیدا ہوا تھا۔

اب ، میری بھانجی اور ہزاروں دوسرے بچے ، جو غزہ میں اسرائیلی محاصرے میں رہ رہے ہیں ، اسی خوف اور مسلسل ہنگامی صورتِ حال کے ایک جیسے احساس کے ساتھ پل بڑھ رہے ہیں۔  جب وہ بموں کی آوازوں میں سونے کی کوشش کرتے ہیں ، اور اپنے کھلونوں کو خوفناک دہشت سے بچاتے ہیں جو ان کے دروازے پر دستک دے رہی ہے، اور فضا سے ان پر مسلط ہے، تو انھیں معمول کے مطابق ایک پُرتشدد حقیقت کو قبول کرنا ہی ہے۔ ایسا پُرتشدد ماحول دُنیا کا کوئی معاشرہ، کوئی ملک یا کوئی باپ اپنے بچے کو کبھی نہیں دکھانا چاہتا۔

کائنات میں تیرتی اس دُنیا میں حالیہ برسوں کے دوران شاید ہی کوئی ایسا دن دیکھنے میں آیا ہو، جس میں اسرائیل نے فلسطین کے انتہائی گنجان آباد علاقوں پر بمباری یا فائرنگ نہ کی ہو یا جسمانی طور پر حملہ نہ کیا ہو ، بلکہ ایک ایسی جگہ بھی تھی، جس کا بدترین محاصرہ ہوئے ۱۳ سے زیادہ دن گزرگئے، جن میں عام انسانی کی زندگی کے لیے بنیادی ضروریات تک میسر نہ تھیں۔

اسرائیل کا نوآبادیاتی انفراسٹرکچر ہمارے اوپر آسمان کو اور ہمارے ارد گرد زمین کو اور پھیلے ہوئے سمندر کو کنٹرول کرتا ہے ۔ غزہ میں ، جہاں بھی آپ نظر ڈالتے ہیں ، آپ کو جبر ، قبضے اور جنگی آلات نظر آتے ہیں ۔ سرحد پر تقسیم کرتی دیواریں ، بکتر بند گاڑیاں ، جنگی طیارے اور قلعہ نما چوکیوں کا منظر، جس میں ہم رہتے ہیں___ اس کو ’غزہ‘ کہتے ہیں۔ یہاں تک کہ جب آپ گھر میں ہوتے ہیں، تو فوجی ڈرون کی منحوس آواز آپ کو یاد دلاتی ہے کہ آپ قید ہیں ، اور آپ پر کسی بھی وقت حملہ ہوسکتا ہے۔

 مجھے یقین ہے کہ اسرائیل غزہ کے فلسطینیوں کو اپنی موجودگی کا احساس دلانے کے لیے یہ سب شعوری طور پر کرتا ہے۔ اپنے قبضے کو ظاہر کرنے کے لیے نہایت گھناؤنی طاقت کا مکروہ مظاہرہ کرتا ہے،اور ہمیں یہ پیغام دیتا ہے کہ ’’ہم تمھیں کبھی عام انسان نہیں بننے دیں گے ، اور کبھی تمھیں  عام زندگی بسر نہیں کرنے دیں گے‘‘۔

اسرائیل کے نزدیک ، ’’غزہ ایسی جگہ نہیں ہے جہاں ۲۰لاکھ مرد ، خواتین اور بچے اپنی پناہ گاہ کو گھر کہہ سکیں، البتہ اپنے آپ کو ’دشمن کا نشانہ بننے والی ایک مخلوق سمجھ سکتے ہیں‘‘۔ وہ یہ بھی سمجھ سکتے ہیں کہ ’’ہم ایک اجنبی جگہ کے باشندے ہیں، جو انسانی شائستگی کے سلوک کے مستحق نہیں ہیں‘‘۔ اسرائیل کی پروپیگنڈا مشین ، دنیا بھر میں اپنے حلیفوں کی مدد سے ، غزہ کے عوام کو غیر مہذب، متشدد ’انتہا پسندوں‘ کا نام دینے کے لیے اَن تھک کام کرتی ،اور یہ تاثر دیتی ہے کہ ’ارضِ فلسطین پر اسرائیل کا قبضہ ’انسانیت پسندانہ‘ اور ’مہذبانہ اقدام‘ ہے۔

بلاشبہہ، حقیقت اس سے بہت مختلف ہے۔ اسرائیل کی طرف سے ہمیں دہشت زدہ کرنے کی کوششوں کے باوجود ، ہم غزہ کے عوام کو ، ہمارے غاصب فسطائی حاکم، اپنی رُودادِغم سنانے کی اجازت دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اسی لیے ہم اپنے خوف ، خطرات اور مایوسیوں کو مزاحمت میں بدل کر دنیا کے ہر اس چوراہے پر پہنچ جاتے ہیں کہ جہاں اپنی المناک صورتِ حال کو بیان کرکے اپنے جابر قابضین کو شرمندہ کرنے کے لیے آواز بلند کر سکتے ہیں۔

غزہ کی پٹی اور پھر پوری دنیا میں بکھرے غزہ کے بہت سے مظلوموں کی طرح ، میں نے بھی زندگی بھر اسرائیل کی نوآبادیاتی پالیسیوں کا مقابلہ کیا ہے۔ میں غزہ میں پہلے اپنے مہاجر کیمپ میں ، اور بعد میں جرمنی میں ، انصاف اور آزادی کے لیے فلسطینی جدوجہد میں صفِ اوّل میں رہا ہوں۔ ان کوششوں پر مجھے دھمکیاں دی گئیں ، ستایا ، ڈرایا گیا اور یہاں تک کہ ایک بار گولی مار دی گئی۔ لیکن میں کبھی اس جدوجہد سے دست بردار نہیں ہوا ، کیونکہ میں یہ جانتا ہوں کہ مزاحمت ہی اس بات کا یقین کرنے کا واحد راستہ ہے کہ میرے لیے ، میرے اہل خانہ اور میرے پیارے اہلِ غزہ کے لیے زندگی کی راہ اسی خطرناک گھاٹی سے گزر کر نکلے گی۔

لیکن ، یہ افسوس ناک بات ہے کہ دنیا ہماری بات سننے میں دل چسپی نہیں رکھتی۔ اسرائیل کی طرف سے فلسطینیوں کے خلاف جاری جرائم کا انکشاف بار بار، صحافیوں ، اقوام متحدہ کے نمایندوں، کارکنوں اور خود فلسطینیوں کے ذریعے ہوا ہے۔ اس کے باوجود ، بیش تر عالمی حکومتوں نے اسرائیل پر دباؤ ڈالنے کے لیے کچھ نہیں کیا۔ کچھ لوگوں نے اسرائیل کی محض رسمی ’مذمت‘ کرنے ، اور فلسطینیوں کے خلاف اپنے جارحانہ حملوں کو روکنے کے لیے چند پامال لفظوں پر مبنی کھوکھلے بیانات جاری کیے ، لیکن دوسری طرف اسرائیل کو سفارتی ، سیاسی اور فوجی مدد فراہم کرتے رہے۔ بہت سے تو مکمل طور پر خاموش رہے اور ہمارے دُکھوں کی طرف سے آنکھیں بند کیں ، جو غلیظ خودغرضی اور اخلاقی غداری ہے۔

لیکن عالمی برادری ہماری حالت زار کو نظرانداز نہیں کرسکتی۔ اقوام متحدہ نے تین سال پہلے اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ ۲۰۲۰ء تک غزہ ناقابلِ رہایش علاقہ بن جائے گا۔ تب سے اسرائیل نے نہ صرف یہ کہ غزہ کو تیزی سے بگاڑنا شروع کیا ہے، بلکہ غزہ پٹی پر اپنے حملے تیز کردیے۔  مقامی لوگوں کی کوشش ہے کہ اس کھلی جیل کو مزید لمبے عرصے تک رہنے کے قابل بنایا جائے۔ کورونا وائرس اب پورے غزہ کے مہاجر کیمپوں اور بستیوں میں پھیل رہا ہے۔ ہم اپنے دکھوں کی صورتِ حال تسلیم کرانے اور کارروائی کرنے کے لیے مزید انتظار کرنے کے متحمل نہیں ہوسکتے ہیں۔

 ہر سال ۱۵ مئی کا دن، فلسطینیوں نے ہم وطنوں کی نسل کشی اور ۱۹۴۸ء میں فلسطینی معاشرے کی تباہی کا حوالہ بنا رکھا ہے۔ اس افسوس ناک دن کے بعد سے ، اسرائیل کا بنیادی اسٹرے ٹیجک مقصد فلسطینیوں کو اسی ٹکڑے میں قید رکھنا ہے۔ تباہی کی اس حالت کا مقصد اسرائیلی نوآبادیاتی ڈھانچے کی تعمیر کے ذریعے اہلِ فلسطین کے لیے ہر روشن دان بند کرنے کا انتظام ہے۔

اسرائیل نے فلسطین کو اتنے لمبے عرصے سے تباہ کن حالت میں دبوچے رکھا ہے، کہ اب ہماری یہ خستہ صورتِ حال پوری دنیا کو ’معمول کی صورتِ حال‘ لگتی ہے۔ حالانکہ اسرائیل ہماری سماجی، معاشی اور ذاتی زندگیوں کو تباہ کرنے کے لیے پوری قوت، تسلسل سے لگا رہا ہے۔

 فلسطینی عوام بلاشبہہ اسرائیل کی نوآبادیاتی پالیسیوں کے خلاف مزاحمت کو نچلی سطح تک منظم کرکے چلا رہے ہیں، لیکن یہ بات بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہم آزادی ، مساوات اور وقار کے لیے اپنی عدل و انصاف پر مبنی اخلاقی جنگ کو عالمی برادری کی حمایت کے بغیر نہیں جیت سکتے۔

اسی لیے ہم عالمی برادری سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ فلسطین میں اسرائیلی جرائم کا حصہ نہ بنیں۔ اگر دنیا ہمارے حالات کو ’معمول‘ کے حالات سمجھ کر عملی اقدامات کرنے میں ناکام رہی تو میرے ہم وطن اپنے گھربار کو بچانے سے ہمیشہ کے لیے محروم رہ جائیں گے۔(الجزیرہ، انگلش، ترجمہ: س م خ)

ویسے تو حقوق انسانی کی خلاف ورزیاں، زیادتیاں، گرفتاریاں اور ٹارچر کشمیر میں عام بات ہے اور وہاں کے مکین بھی ان مظالم کو سہنے کے عادی ہو چکے ہیں، مگر پچھلے سال اگست کے بعد سے بھارت نے جس طرح ریاست کو تحلیل اور ضم کردیا، اس نے بھارتی سیکورٹی اداروں کو اس حد تک بے لگام کر دیا ہے، کہ دیگر ادارے بشمول عدلیہ بھی ان کے سامنے بے بس نظر آتی ہے۔

۷؍اگست ۲۰۲۰ء کو ’پاکستان، انڈیا پیپلز فورم فار پیس اینڈ ڈیموکریسی‘ (PIPFPD) اور ’جموں و کشمیر سالیڈیریٹی گروپ‘ نے کشمیر کے زمینی حالات کا جائزہ لینے کے بعد ۱۹۶صفحات پر مشتمل ایک جامع رپورٹ The Siege میں کئی دل خراش واقعات قلم بند کیے ہیں ، جن کو پڑھیں تو کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ بدقسمتی سے میڈیا میں اس رپورٹ کو خاطر خواہ تشہیر نہیں مل سکی ہے۔رپورٹ کے مصنّفین تپن کے بوس، ریتامن چندا، انورادھا بھاسین، راجا سری داس گپتا، جاشودرا داس گپتا، اشوکا اگروال، ایم جے وجین اور دیگر افراد نے دیہات اور قصبوں کا دورہ کرکے بجاطور پر یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ خطے میں عدم تعاون کی ایک خاموش تحریک چل رہی ہے، جس سے بھارت نواز پارٹیاں اور حکومت خاصی خائف ہے اور سیکورٹی انتظامیہ کا رویہ خاصا ہتک آمیز اور بے لگام ہو گیا ہے۔

پلوامہ کے متمول تاجر اور ایک فیکٹری کے مالک کا ذکر کرتے ہوئے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح دیہی علاقوں میں عام افراد کو مخبر ی کے لیے مجبور کیا جاتا ہے۔ اس تاجر نے وفد کو بتایا کہ: چند ماہ قبل جب مَیں انڈسٹریل اسٹیٹ میں واقع اپنی فیکٹری کے سامنے کار پارک کر رہا تھا تو راشٹریہ رائفلز کے سپاہیوں نے مجھ کو سڑک پر سے اینٹیں اٹھا کر ایک ٹرالی میں ڈالنے کا حکم دے دیا۔ میں نے پہلے تو احتجاج کیا اور پھر یہ پیش کش کی کہ اپنی فیکٹری سے مزدور بلاکر یہ کام کروا دوں گا۔ مگر سپاہی یہ جواب سن کر اور بھی طیش میں آگئے اور کہا کہ ـ’’ کشمیریوں کو اب یہ جان لینا چاہیے کہ وہ ہمارے غلام ہیں اور ان کو غلامی کی زندگی گزارنا سیکھنا ہوگا اور غلام ہی کی طرح رہنا ہوگا‘‘۔ یہ کہتے ہوئے اس متمول اور درمیانی عمر کے تاجر کے سر پر وہ اینٹوں اور گارے کا ٹوکرا زبردستی لاد کر اگلے کئی گھنٹے تک بیگا ر لیتے رہے۔ سڑک کی دوسری طرف اس کی فیکٹری کے مزدور اپنے مالک کو سر پر اینٹیں اور گارا ڈھوتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔

 اسی طرح رپورٹ میں درج ہے کہ پچھلے سال ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی کارروائی کے دوران جب پاکستانی وزیر اعظم عمران خان تقریر کررہے تھے ، تو اس علاقے میں سپاہیوں نے لوگوں کے دروازے کھٹکھٹائے اور جو بھی یہ تقریر دیکھ رہا تھا ،اس پر بدترین تشدد کیا۔

رپورٹ میں ایک ایسے شخص کی آپ بیتی درج ہے، جس کے والد انڈین ملٹری کی انجینیرنگ سروس اور اس کے حقیقی چچا بھارتی فضائیہ کے لیے کام کرتے تھے۔ ۲۰۱۴ء میں آئے سیلاب کے متاثرین کے لیے جب اس نے بڑھ چڑھ کر ریلیف کا کام کیا تو پولیس نے اس کو گرفتار کرکے پوچھ گچھ کی کہ ریلیف کے لیے رقوم کہا ں سے آرہی ہیںاور کس نے ریلیف میں حصہ لینے کی ترغیب دی؟ ۲۰۱۸ء میں راشٹریہ رائفلز کی ۵۵ویں بٹالین نے اس کے گھر پر دھاوا بول کر کار اور دیگر قیمتی اشیا اپنے قبضے میں لے لیں۔ اگلے دن کیمپ میں بٹالین کے کیپٹن نے اس مظلوم کو بلاکر کہا کہ وہ عسکری کمانڈرذاکر موسیٰ کی اہلیہ تک رسائی حاصل کرکے اس کی مخبری کرے۔ ان کو معلوم ہوگیا تھا کہ ذاکر موسیٰ [ذاکرراشدبٹ شہید - ۲۴مئی ۲۰۱۹ء]کی اہلیہ اس کے ایک قریبی دوست کی ہمشیرہ ہے۔ اس گھٹیا حرکت سے انکار کی صورت میں اس تاجر کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر خوب زد و کوب کیا گیا، جس سے اس کے ہاتھ کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ کئی دن حراست میں رکھنے کے بعد اس کے والد نے انڈین فوج کے کیپٹن کو ۳ لاکھ [یعنی پاکستانی ۵ لاکھ] روپے ادا کرکے اس کو چھڑوایا۔

اس شخص کا کہنا تھا کہ ’’میں نے اپنے والد اور چچا کی فوج کے ساتھ قربت کی وجہ سے فوج کو کافی قریب سے دیکھا اور پرکھا ہے، اور اس فوج کے اندر جس قدر کرپشن سرایت کر گئی ہے اس کا مَیں چشم دید گواہ ہوں‘‘۔ پچھلے سال ۵؍ اگست کا ذکر کرتے ہوئے اس تاجر کا کہنا ہے ’’کرفیو کی وجہ سے اس دن اپنی فیکٹری میں ہی رُکا رہا۔ مگر میرے گھر پر انڈین آرمی نے دھاوا بولا اور افراد خانہ کو زد و کوب کیا، حتیٰ کہ دماغی طور پر کمزور میرے ۱۵سالہ کزن کو بری طرح پیٹا۔ اس واقعہ کی اطلا ع ملنے پر میں کیمپ کی طرف روانہ ہوا، جہاں مجھ پر الزام لگایا گیا کہ میں احتجاج میں شریک تھا اور پھر چند دن کیمپ میں حراست میں رکھ کر مجھ کو پولیس کے حوالے کیا گیا۔ پولیس لائنز میں اس وقت ایک درجن کے قریب ۱۳سے ۱۵سال کی عمر کے بچے بند تھے۔ چار روز بعد تو مجھ کو چھوڑدیا گیا ، مگر ان بچوں پر بد نامِ زمانہ پبلک سیفٹی ایکٹ کا اطلاق کرکے انھیں جیلوں میں بھیج دیا گیا‘‘۔

دل دہلا دینے والی اس رپورٹ کے مطابق پچھلے ایک سال کے دوران ۱۲سے ۱۵ہزار افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ان گرفتار شدہ اور دیگر بہت سے زیرحراست افراد کا کوئی حساب کتاب، لواحقین اور سول سوسائٹی کو نہیں ہے۔ مصنّفین کے مطابق ایک شخص کو گرفتار کرکے آگرہ جیل میں محض اس وجہ سے پہنچا دیا گیا کہ کسی فوٹو میں اس کو ایک نماز جنازہ ادا کرتے ہو ئے دیکھا گیا تھا۔ پچھلے ایک سال کے دوران جموں و کشمیر ہائی کورٹ میں حبس بے جا کی ۴۵۰ رٹ پٹیشن دائر کی گئیں، مگر صرف تین کی شنوائی کی گئی۔ کشمیر سے ہزاروں کلومیٹر دُور اسیروں کی حالت نہایت ناگفتہ بہ ہے۔ اسیروں سے ملاقات کے لیے اکثر افراد خانہ کو زمین و جایداد بیچنی پڑی ہے۔

کپواڑہ کا ایک طالب علم بلال احمد جو سرینگر میں امر سنگھ کالج میں زیر تعلیم تھا، اسے پولیس نے چند دیگر نوجوانوں کے ساتھ حراست میںلے لیا۔ ایس ایچ او نے طالب علم کے رشتہ داروں کو بتایا کہ چند روز میں اس کو رہا کر دیا جائے گا۔ دیگر نوجوانوں کو تو چند روز بعد بھاری رشوت کے عوض رہا کیا گیا، مگر بلال کے والد نے جب رقم دینے سے انکار کر دیا، تو اگلے ہی دن اس پر پبلک سیفٹی ایکٹ کا اطلاق کرکے ۱۶۰۰کلومیٹر دور اتر پردیش کے امیڈکر نگر ضلع کی جیل میں بھیج دیا گیا جہاں اس کو یرقان کی بیماری لاحق ہوگئی۔ یہ ضلع لکھنؤ سے ۲۰۰کلومیٹر دور فیض آباد ڈویژن میں آتا ہے۔ جب اس نوجوان کے والد صاحب کو پتا چلا تو وہ محض ۲۵ہزار روپے میں گائے بیچ کر امبیڈکر نگر پہنچ گئے، وہاں کسی ہندو تو دُور مسلم ہوٹل والے نے بھی ان کو رات بھر کرائے کے کمرے میں ٹھیرنے کی اجازت نہیں دی۔ جیل کے کمرئہ ملاقات میں بلال نے ان کو بتایا: ’’مجھ کو بُری طرح زدو کوب کیا جاتا رہا ہے۔ اس جیل میں دیگر ۲۵؍ایسے کشمیری لڑکے تھے، جن کے گھر والوں کو ابھی تک ان کا کوئی اتہ پتہ نہیں کہ وہ زندہ ہیں یا کہاں پر اور کس حالت میں ہیں؟‘‘ سرینگر واپسی پر بلال کے والد نے ہائی کورٹ میں فریا دکی ، میرے بیٹے کے امتحانات شروع ہونے والے ہیں۔ اس کو امتحان میں شرکت کی اجازت دی جائے‘‘۔ کورٹ نے دسمبرمیں حکم دیا کہ بلال کو سرینگر جیل میں منتقل کیا جائے، تاکہ وہ امتحانات دے سکے۔ مگر اس عدالتی حکم پر ذرہ برابر عمل نہیں ہوا۔ فروری میں دوبارہ بلال کے والد ہائی کورٹ کے دروازے پر پہنچے اور ایک یا دو پیشی کے بعد کورٹ نے دوبارہ حکم نامہ جاری کیا، مگر انتظامیہ کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔ اب اس کے والد کو مشورہ دیا گیا کہ وہ توہین عدالت کا کیس دائر کرے۔ مگر اتنی مشقت کے بعد اب اس کے پاس عدالتی غلام گردشوں میں خوار ہونے کے لیے پیسے ہی نہیں بچے تھے۔

                  اسی طرح بارہ مولہ کے ۲۱ سالہ دیہاڑی مزدور نوید پرے کو اس کے گھر سے اٹھایا گیا۔ جب اس کے عمر رسیدہ والدین پولیس اسٹیشن پہنچے، تو اس کی بیمار اور بوڑھی والدہ کو زد وکوب کیا گیا،  گالیاں دی گئیں، اور نوید کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت آگرہ جیل بھیج دیا گیا۔ آگرہ سفر اور ملاقات کے لیے والد نے ۳۵ہزار روپے میں اپنی ۱۰مرلہ زمین بیچی۔ یاد رہے نوید، خاندان کا اکیلا کفیل تھا۔ جب اس رپورٹ کے مصنّفین اس کے گھر پہنچے، تو معلوم ہوا کہ عمررسیدہ والدین پڑوس سے ادھار لے کر اس اُمید پر زندگی کاٹ رہے ہیں کہ بیٹا آکر قرض اُتارے گا۔ لیکن کیا بیٹا صحیح سلامت واپس آبھی سکے گا؟ اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے، جب کہ گرفتاری کو چیلنج کرنے کے لیے ا ن کے پاس کوئی ذریعہ نہیں تھا۔

 ۲۸سالہ فیاض میر نے قرضہ پر ٹریکٹر خریدا تھا تاکہ بوڑھے ماں باپ اور چار جوان بہنوں کی کفالت کر سکے۔ اس کو بھی گرفتار کرکے اترپردیش کے شہر بریلی کی جیل میں بھیج دیا گیا۔ اس کے باپ نے ۲۵ہزار روپے اکٹھا کیے اور ملاقات کے لیے بریلی پہنچا۔ مگر سلاخوں کے پیچھے وہ اپنے بیٹے کو صرف  دیکھ سکا اور کوئی بات نہیں کرسکا، کیونکہ جیل سپرنٹنڈنٹ کی سخت ہدایت تھی کہ گفتگو صرف ہندی زبان میں سپاہیوں کی موجودگی میں کی جائے گی، جب کہ اس کے والد کشمیر ی کے علاوہ اور کوئی زبان بولنے سے قاصر تھے۔ ۲۰منٹ تک باپ بیٹے بس ایک دوسرے کو دیکھتے رہے، تاآنکہ سپاہی فیاض کو دوبارہ گھسیٹتے ہوئے اندر لے کر گئے اور ملاقاتی کو زبردستی باہر نکال دیاگیا۔ بیٹے سے بات کیے بغیر عمررسیدہ باپ ۱۱۰۰کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد واپس سرینگر اپنے گھر لوٹا۔ صبر کرتی رہی بے چارگی، ظلم ہوتا رہا مظلوم پر! (ملاحظہ کیجیے ویب پیج: www.pipfpd.net)

امریکی صدر ٹرمپ کی ایما پر متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کو تسلیم کرکے باضابطہ سفارتی تعلقات قائم کرکے بین الاقوامی سیاست میں دھماکا تو کردیا، مگر یہ سوال اپنی جگہ برقرار ہے  کہ امارات کو اس طرح کا قدم اٹھانے کی آخر ضرورت کیوں پیش آئی؟ اسرائیلی اخبار  ھاریٹز کے مدیر زیوی بارمل کے مطابق مصر او ر اردن کے برعکس امارات کو امریکی امداد کی اور نہ کسی ایسی ٹکنالوجی کی ضرورت تھی، کہ جسے وہ آزادانہ طور پر پیسوں سے خرید نہ سکتا تھا۔ حال ہی میں یمن کی جنگ سے تنگ آکر امارات نے سعودی اتحاد سے کنارہ کشی کرکے ایران کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی کوشش کی تھی۔ مگر اسی دوران اسرائیل کو تسلیم کرکے اس نے ایک قدم آگے اور دو قدم پیچھے والی پالیسی اختیار کرکے دوبارہ ایران کے ساتھ ایک طرح سے کشیدگی مول لے لی ہے۔

۱۳؍اگست کو اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان طے پائے گئے معاہدے کے بعد جو مشترکہ بیان جاری ہوا ہے، اس کا تجزیہ کرکے محسوس ہوتا ہے کہ اس کے خالق بڑی عجلت میں تھے۔ بیان میں مشرق وسطیٰ کے اصل تنازع فلسطین کا کہیں ذکر تک نہیں ہے۔ بس زبانی بتایا گیا ہے کہ اسرائیل مغربی کنارہ اور وادی اردن کو ضم کرنے کی پالیسی پر نظر ثانی کرے گا۔ یہ خوش فہمی چند گھنٹوں کے بعد ہی اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو نے یہ کہہ کر دور کردی: ’’اس طرح کی کوئی یقین دہانی نہیں دی گئی ہے‘‘۔ اس میں سابق سعودی فرماںروا کنگ عبداللہ کے فارمولے کا بھی ذکر نہیں ہے، جس کو عرب لیگ نے ۲۰۰۲ءمیں منظور کرکے رکن ممالک کو تاکید کی تھی کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے اس فارمولا کے اطلاق اور تعلقات کو اس کے ساتھ مشروط کیا جائے ۔ اس بیان میں فلسطینی اور اسرائیلی راہنماؤں کے درمیان طے پائے گئے اوسلو معاہدے کے مندرجات کو لاگو کرنے کی بھی کوئی یقین دہانی نہیں ہے۔ تاہم، بین السطور اسرائیل نے یہ وعدہ ضرور کیا ہے کہ یروشلم یا القدس شہر کی عبادت گاہوں ،بشمول مسجداقصیٰ اور گنبد صخرا کو دنیا بھر کے ’پُرامن‘مسلم زائرین کے لیے کھولا جائے گا‘‘۔ مگر چونکہ زائرین کو ا سرائیلی امیگریشن سے گزرنا ہوگا، اس لیے اسرائیلی ویزا اور اجازت کی بھی ضرورت پڑے گی اور صرف انھی ممالک کے مسلمان زیارت کے لیے آسکیں گے، جو اسرائیل کو تسلیم کرتے ہوں گے۔ اور پھر اسرائیلی سفارت خانے کو حق حاصل ہوگا کہ ’پُرامن‘ کی اصطلاح کی اپنی تشریح سے اجازت دے یا درخواست مسترد کر دے۔

باوثوق ذرائع کے مطابق امارات اور اسرائیل کے درمیان خفیہ تعلقات کا آغاز اصل میں  ۲۰۰۸ء میں اس وقت ہوا تھا ، جب اقوام متحدہ نے بین الاقوامی تجدید توانائی ایجنسی کے صدر دفتر کو ابوظہبی کے پاس مصدر شہر میں قائم کرنے کی منظوری دے دی۔ اقوام متحدہ کی ذیلی ایجنسی کے بظاہر ایک بے ضرر سے دفتر نے ، جس کا سیاست کے ساتھ دو ر دور تک کا واسطہ بھی نہیں تھا، برسوں تک اسرائیل اور امارات کے افسران کو ملنے اور بیک چینل سفارت کاری کے لیے ایک نہایت عمدہ پردہ فراہم کیا۔ چونکہ اسرائیل بھی اس ایجنسی کا ممبر تھا، اس لیے تل ابیب کو انرجی کے حوالے سے اپنا ایک مستقل نمایندہ ابوظہبی میں تعینات کرناپڑا۔ ۲۰۱۵ء میں اسرائیلی وزارت خارجہ کے  ڈائرکٹر جنرل ڈور گولڈ کی قیادت میں ایک اسرائیلی وفد نے دوبئی کا دورہ علانیہ طور پر کیا۔ اسی لیے دونوں ملکوں نے بیانات دیے کہ اس دورے کا دونوں ملکوں کی سیاسی پوزیشن کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔

یہ طے شدہ بات ہے کہ امارات کو اسرائیل اور امریکا میں یہودی لابی کی ضرورت کا احساس۲۰۰۶ء میں اس وقت ہوا تھا، جب امارات کی دوبئی عالمی بندرگاہ نے چھے امریکی بندرگاہوں کا انتظام و انصرام سنبھالنے کے لیے ٹینڈر بھرا تھا۔ اس پر امریکی کانگریس میں خاصا ہنگامہ برپا ہوا۔ کئی کانگریس اراکین نے نیویار ک ، بالٹی مور اور میامی جیسی حساس بندرگاہیں کسی عرب کمپنی کو دینے کی بھر پور مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اس کے اتحادیوں کی سلامتی خطرے میں پڑ جانے کا اندیشہ ہے۔ گو کہ امارات نے ٹینڈر واپس لے لیا، مگر یہ اس کے حکمرانوں کے لیے لمحۂ فکریہ تھا کہ آخر امریکی اتحادی ہونے اور خلیج میں اس کو پوری سہولیات دینے کے باوجود امریکی کانگریس اور انتظامیہ میں اس قدر بدگمانی کیوں ہے؟ انھی دنوں امارات نے اقوام متحدہ کی نئی قائم شدہ قابلِ تجدید توانائی ایجنسی، یعنی IRENAکے صدر دفتر کو ابوظہبی میں قائم کرنے کی پیش کش کی تھی۔ مگر اب خدشہ لاحق ہو گیا تھا کہ امریکی کانگریس کے اراکین ایجنسی کے صدر دفتر کو امارات میں قائم کرنے کی بھی مخالفت کرسکتے ہیں۔ یوں طے پایا کہ واشنگٹن میں کسی لابی فرم کی خدمات حاصل کی جائیں، جس نے بعد میں امارتی حکمرانوں کا رابطہ امریکا میں طاقت وَر یہودی لابی، یعنی امریکین جیوش کمیٹی (AJC) سے کروایا۔

انھی دنوں بھارت نے بھی اسرائیل کی ایما پر اسی کمیٹی کی خدمات، امریکا کے ساتھ جوہری معاہدہ طے کرنے اور اس کو کانگریس کی رضامندی حاصل کرنے کے لیے حاصل کی تھیں۔۲۰۰۸ء میں امریکی کانگریس نے جوہری قانون میں ترمیم کرکے بھارت کے لیے جوہری ٹکنالوجی فراہم کرنے کے لیے راستہ ہموار کردیا۔ اے جے سی نے نہ صرف اقوام متحدہ کی ایجنسی کا صدر دفتر ابوظہبی میں کھولنے میں مدد کی، بلکہ ۲۰۰۹ء  میںامریکی کانگریس سے امارات کو بھی جوہری ٹکنالوجی فراہم کروانے کے لیے ’بھارتی امریکی نیوکلیر ڈیل‘ کی طرز پر منظوری دلوانے میں بھی کلیدی کردار ادا کیا۔ جس کے بعد جنوبی کوریا کی ایک فرم کے اشتراک سے امارات نے ۳۰؍ارب ڈالر کے نیوکلیر پروگرام کی داغ بیل ڈالی، جو اَب تکمیل کے قریب ہے۔

وکی لیکس میں تل ابیب میں امریکی سفارت خانے کے سیاسی مشیر مارک سیورز کی ۲۰۰۹ءکی ایک کیبل کا تذکرہ ہے، جس میں وہ خلیجی ممالک اور اسرائیل کے درمیان خفیہ روابط کا انکشاف کررہے ہیں۔ خاص طور پر اس کیبل میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی وزیر خارجہ زیپی لیونی اور امارت کے اس کے ہم منصب کی بند کمروں میں اکثر ملاقاتیں ہو رہی ہیں۔ لیکن۲۰۱۰ء میں دونوں ممالک کے تعلقات کشیدہ ہوگئے، جب اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد نے دوبئی کے ایک ہوٹل میں حماس کے لیڈر محمود ال مابحوح کو قتل کردیا۔ اسرائیلی صحافی لوسی ملمین کے مطابق اماراتی حکمران اس لیے ناراض ہوگئے۔ ان دنوں اسرائیلی سفارت کار برلوس کاشدان ابوظہبی میں مذاکرات میں مصروف تھے اور اندازہ لگایا جا رہا تھا کہ موساد کا قاتل دستہ تلاشی وغیرہ سے بچنے کے لیے سفار ت کار وفدکے ساتھ ہی دوبئی وارد ہوا تھا۔ مگر امریکی کانگریس اراکین کی پذیرائی حاصل کرنے اور ٹکنالوجی کی خاطر اماراتی حکمرانوں نے یہ تلخ گھونٹ جلد پی لیا۔ ۲۰۱۶ء میں جب ڈونالڈ ٹرمپ کو ری پبلکن پارٹی نے صدارتی امیدوار نامزد کیا، تو ولی عہد محمد بن زید النہیان نے ٹرمپ کے یہودی داماد جیرالڈ کوشنر کے ساتھ انتخابات سے قبل ہی تعلقات استوار کر لیے تھے،حتیٰ کہ نیویارک میں کوشنر سے ملاقات کی خاطر ولی عہد اور ان کے بھائی عبداللہ بن زید نے امریکی صدر بارک اوباما کے ساتھ طے شدہ ملاقات منسوخ کردی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ امارتی ولی عہد نے ہی امریکیوں کو قائل کیا تھا کہ سعودی عرب میں محمد بن سلمان کی پشت پناہی کرکے محمد بن نائف کو ولی عہد کے عہدے سے معزول کرنے کے فیصلے کی حمایت کریں۔

اس طرح ۲۰۱۸ء تک اسرائیل کے کئی وزیروں نے امارات کے دورے کیے۔اسی سال اسرائیلی وزیر خارجہ یسرائیل کارٹز بغیر پیشگی اطلاع کے ابوظہبی پہنچ گئے اور ایران کے خطرات سے اماراتی حکمرانوں کو آگاہ کرکے تعاون کی پیش کش کی۔ اسرائیل کے عبرانی زبان کے اخبار یسرائیل حایوم کے مطابق خود نیتن یاہو بھی اسرائیلی سیکورٹی کونسل کے سربراہ میئر بن شابات کے ہمراہ دوبا ر امارات کا خفیہ دورہ کرچکے ہیں۔ اس دوران امارات نے تیل تنصیبات کی سیکورٹی کے لیے اسرائیل کی ایک فرم اے جی ٹی انٹرنیشنل کو ۸۰۰ملین ڈالر کا ٹھیکہ دے دیا۔ متحدہ امارات اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات قائم ہونے سے اس خدشے کو تقویت پہنچتی ہے کہ عرب حکمران اپنے آپ کو کس قدر غیر محفوظ، غیرمستحکم اور کمزور محسوس کرتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ امریکا اور خطے میں اس کا قریب ترین اتحادی اسرائیل ہی ان کی بقا کا ضامن ہے۔ مگر بین الاقوامی سیاست اور تزویراتی حکمت عملی کے قواعد ہمیں یہی بتاتے ہیں کہ امریکا اور اسرائیل ان کی کمزوری کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا کر ان کو عوامی تحریکوں اور پڑوسیوں سے مزید خائف کرواکے اپنے مفادات کی تکمیل کریں گے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ عرب حکمران اپنے ضمیر اور عوام کی آواز پرلبیک کہہ کر پڑوسی اسلامی ممالک کے ساتھ اشتراک کی راہیں نکالتے۔ یوں اسرائیل اور امریکا کو مجبور کرکے فلسطینی مسئلے کا حل ڈھونڈ کر، خطے میں حقیقی اور دیرپا امن و امان قائم کروانے میں کردار ادا کرتے۔

’امریکا، اسرائیل اور متحدہ عرب امارات‘ کا ۱۳؍اگست کو متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان باہمی تعلقات معمول پر لانے کا مشترکہ بیان باعث حیرت نہیں۔ یہ اعلان خطے میں امریکا کی کئی برسوں سے جاری علانیہ اور غیر علانیہ کوششوں کا منطقی نتیجہ ہے۔ 

اس میں قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ اس میں متحدہ عرب امارات نے مسئلہ فلسطین کو ڈھال بناکر اپنے مخصوص مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی ہے اور دنیا کو باور کرایا:’’اسرائیل- امارات نارملائزیشن کی برکت سے اسرائیل، مقبوضہ عرب علاقوں کو صہیونی ریاست میں ضم کرنے سے باز رہنے کا ’عہد‘ کر رہا ہے۔ یوں صہیونی وعدے نے قضیۂ فلسطین کے حل کی خاطر پیش کردہ دو ریاستی حل کو نزع کی حالت سے نکال کر ایک مرتبہ پھر زندہ کر دیا ہے‘‘۔

حقیقت اس کے برعکس ہے، جس کا اعتراف خود ۱۳؍اگست کے مشترکہ بیان میں موجود ہے: ’’انضمام کی کارروائی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مطالبے پر روکی گئی ہے‘‘۔ ’ڈیل آف دی سنچری‘ کے ذریعے مقبوضہ عرب علاقے اسرائیل میں ضم کرنے کی پالیسی فلسطینیوں کے متحدہ موقف، ناکافی امریکی حمایت اور بین الاقوامی برادری کی شدید تنقید کی وجہ سے اسرائیل پہلے ہی ’منجمد‘ کر چکا تھا۔

فلسطینیوں کو ان کے جائز اور قانونی حقوق دلوانے میں ناکامی کے بعد سعودی قیادت نے عرب لیگ کے پلیٹ فارم سے ۲۰۰۲ء میں ’دو ریاستی حل‘ کی تجویز پیش کی، جس میں اسرائیل کو تجویز پیش کی گئی تھی کہ اگر وہ جون ۱۹۶۷ء کی جنگ کے بعد ہتھیائے جانے والے علاقوں سے باہر  نکل جائے تو وہاں ایک ایسی آزاد وخود مختار فلسطینی ریاست تشکیل دی جا سکتی ہے، جس کا دارالحکومت بیت المقدس ہو۔ نیز فلسطینی مہاجرین کو بھی ان علاقوں میں واپسی کی اجازت ہو، جنھیں اسرائیل  وقتاً فوقتاً اپنی ظالمانہ پالیسیوں کا نشانہ بنا کر آبائی علاقے چھوڑنے پر مجبور کرتا رہا ہے۔ اس کے بعد عرب اور عالم اسلام اسرائیل کو تسلیم کر لے گا۔

غرب اردن کے مقبوضہ عرب علاقے ضم کرنے کی اسرائیلی کارروائی تو پہلے ہی موقوف ہوچکی تھی، اس لیے متحدہ عرب امارات نے تعمیر شدہ عمارت پر اپنے نام کی تختی سجانے کی بودی کوشش کی ہے۔ یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ متحدہ عرب امارات کا موجود حکومتی ڈھانچہ نہ سیاسی اور نہ جیو اسٹرے ٹیجک لحاظ سے اس قابل ہے کہ وہ فلسطینیوں کی خاطر کوئی اچھوتا ’آؤٹ آف دی باکس‘ کارنامہ سرانجام دے سکے۔

’اسرائیلی انضمام روکنے‘ کا نعرہ متحدہ عرب امارات حکومت کو ’بیچا‘ گیا تاکہ صہیونی ریاست سے تعلقات نارملائزیشن اور مسلّمہ دشمن [اسرائیل] کو کھلی چھوٹ دینے جیسے جرائم پر پردہ ڈالا جاسکے۔

مشترکہ بیان کے متن کے مطابق: ’’اس سفارتی کارنامے، صدر ٹرمپ کے ’مطالبے‘ اور متحدہ عرب امارات کی ’حمایت‘ سے اسرائیل اُن علاقوں میں اپنا اقتدار قائم کرنے سے باز رہے گا جن کی جانب امریکی صدر کے ’نظریۂ امن‘ میں اشارہ کیا گیا ہے‘‘___ متحدہ عرب امارات نے صرف امریکی صدر کے موقف کی حمایت کی ہے، وہ فیصلے کا اصل محرک قطعاً نہیں ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے نام نہاد تاریخی معاہدے کے روز ہی اعلان کیا کہ اسرائیل، غرب اردن کے علاقے ضم کرنے کی کارروائی کو ’ختم‘ نہیں بلکہ ’معطل‘ کر رہا ہے۔ انضمام کا منصوبہ ان کی حکومت کے ایجنڈے میں شامل ہے۔ یہ اعلان دولت مند عرب خلیجی ریاست کے منہ پر طمانچے سے کم نہیں تھا۔

غرب اردن میں اسرائیلی انضمام کی کارروائی میں تاخیر، امریکی اعلان اسرائیل کی عرب خطے میں تعلقات نارملائزیشن کی کوششوں کے لیے سہارا ثابت ہوئی ہے۔ اس سے فلسطینیوں پر دباؤ میں اضافہ ہوا اور ان کی پوزیشن کمزور ہوئی ہے، جیساکہ یہ شرمناک کارروائی فلسطینیوں کی سیاسی تنہائی میں اضافے کا باعث بنی ہے۔ ’اسرائیل- اماراتی اعلان‘ سے عرب دنیا کے انتشار میں اضافہ ہوا ہے، جو پہلے ہی ’دو ریاستی حل‘ کا راگ الاپ کر قضیۂ فلسطین کے آسان ترین حل کو اپنی کامیابی کے طور پر پیش کرتے نہیں تھکتے۔ نارملائزیشن، دراصل ڈونلڈ ٹرمپ کی ’ڈیل آف دی سنچری‘ اور غرب اردن کے علاقوں پر بہترین انداز میں ہاتھ صاف کرنے کی راہ ہموار کرتی ہے۔

’اسرائیل اور امارات کے درمیان اعلان کردہ نارملائزیشن وسیع البنیاد ہے۔ آنے والے چند ہفتوں کے دوران ابوظبی اور تل ابیب کے درمیان ایک دوسرے کے ملکوں میں سفارت خانے کھولنے، سرمایہ کاری، سیاحت، براہ راست پروازوں، سکیورٹی، توانائی، صحت، ثقافت، ماحولیات سمیت دوسرے شعبوں میں تعاون سے متعلق معاہدوں پر دستخط ہوں گے۔

نارملائزیشن کے اسیر فریقین کو اس میں معاشی ترقی، امن اور خطے میں نئی ایجادات کی راہیں ہموار ہوتی دکھائی دیتی ہیں۔ سکیورٹی کے ضمن میں اسرائیل کو خطے کا ’تسلیم شدہ بدمعاش‘ بننے کا موقع ملے گا۔ صہیونی دشمن سے دوستی کا ہاتھ ملا کر فرقہ واریت، لسانی تنازعات اور ایران کے خلاف جنگ کا ماحول پیدا کیا جائے گا۔ نیز خطے کی بدعنوان اور طاغوتی حکومتوں کی حمایت کرتے ہوئے انھیں اپنی حکومتوں کو برقرار رکھنے میں مدد دی جائے گی۔ اسی ہلّے میں اسلامی رحجان، تہذیبی قوتوں اور نشاتِ ثانیہ کے حامیوں کے خلاف کھلی جنگ ہو گی۔

اگر صدر ٹرمپ ’امارات- اسرائیل امن معاہدہ‘ کو ربع صدی کے دوران خطے میں ہونے والی سب سے اہم پیش رفت قرار دے رہے ہیں تو اس میں حیرانی نہیں ہونی چاہیے۔ نیتن یاہو نے بھی اسے مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے لیے تاریخی اقدام قراردیا ہے۔

اماراتی امن لائحہ عمل کو فلسطینیوں نے اجتماعتی طور پر مسترد کر دیا ہے۔ تنظیم آزادیِ فلسطین، فلسطینی اتھارٹی، مختلف سیاسی جماعتوں اور مزاحمتی تنظیموں نے صہیونی دشمن سے اس ’تعلق خاطر‘ کو مسئلہ فلسطین کی پیٹھ میں خنجر گھونپنے سے تعبیر کیا ہے۔ وہ اسے القدس، مسجد اقصیٰ اور فلسطین کے ساتھ خیانت اور امارات کی حکومت کے ماتھے پر ایک کلنک کا داغ سمجھتے ہیں۔ نارملائزیشن کا کھیل کھیلنے والوں نے دشمن سے تعلقات معمول پر لا کر اُس کے جرائم پر اسے ’انعام‘ سے نوازا ہے۔

تنظیم آزادی فلسطین، فلسطینی اتھارٹی، الفتح اور حماس کی قیادت کا کہنا ہے کہ ’’نارملائزیشن کا ڈول ڈال کر جامع امن عرب منصوبہ سمیت قضیۂ فلسطین کے پرامن حل کی تمام راہیں مسدود کردی گئی ہیں‘‘۔

اس اسرائیلی ، امریکی اوراماراتی اقدام کی پوری قوت کے ساتھ مخالفت کی جانی چاہے۔  ہردلِ درد مند اورانصاف پسند یہ چاہتا ہے کہ ہم فلسطینی، عرب اور بین الاقوامی برادری اس نام نہاد نارملائزیشن کے خلاف سخت موقف اختیار کریں۔ سچ تو یہ ہے کہ ’اس گھر کو آگ لگ گئی گھرکے چراغ سے‘ کے مترادف تنظیم آزادی فلسطین اور فلسطینی اتھارٹی نے ’نارملائزیشن‘ کے اس عمل کی حوصلہ افزائی کی اور قضیۂ فلسطین کو موجود حال تک پہنچانے میں ان کا بھی کسی نہ کسی حد تک ہاتھ رہا ہے۔

ان تنظیموں کی قیادت نے دشمن سے تعلقات استوار کرنے کے قانونی جواز تراشے اور فلسطین کے بڑے حصے سے دست کشی کے لیے بھی قانونی موشگافیوں کا سہارا لیا۔ انھی تنظیموں نے اسرائیل کی خادم ’فلسطینی اتھارٹی‘ تشکیل دی، جس نے قابض اسرائیلی حکام کو تعاون پیش کیا اور مزاحمتی گروپوں کا پیچھا کرتے رہی۔ انھوں نے اسرائیل کو ایسی راہ سجھائی جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ فلسطینی اراضی اور وہاں موجود مقامات مقدسہ کو یہودی رنگ میں رنگتا چلا گیا۔ اسرائیلی کی خادم ایسی ہی تنظیموں نے فلسطینی نمایندگی پر مخصوص سوچ کے حامل افراد کی اجارہ داری قائم کرکے دوسری سرگرم قوتوں کو بھی تنہائی کا شکار کیا۔ فلسطین سے باہر موجود تارکین وطن کو فراموش کر دیا اور انتہائی کمزور فلسطینی موقف کی ترویج شروع کر دی، آج عرب حکومتیں  اس کمزور موقف کی قیمت ادا کر رہی ہیں۔

 اسرائیل ، امارات سفارتی تعلقات کا اعلان گذشتہ دوبرسوں کے دوران باہمی سفارتی دوروں کا نتیجہ ہے۔ اسرائیلی وزرا کے امارات کے دوروں نے اہم کردار ادا کیا۔ اسرائیلی فوج کی سابق ترجمان اور وزیر ثقافت میری ریجیو اور وزیر مواصلات ایوب قرا نے ۲۰۱۸ء میں امارات کا دورہ کیا۔ ۲۰۱۹ءمیں اسرائیلی وزیر خارجہ یسرائیل کاٹس نے امارات کا سفر کیا۔

اقتصادی محاذ پر یہ معاہدہ طے پایا کہ اسرائیل کو یورپ سے ملانے والی دو ہزار کلومیٹر طویل پائپ لائن منصوبہ مکمل کرنے کے لیے ابوظہبی سرمایہ فراہم کرے گا۔ سکیورٹی اور فوجی تعاون کے میدان میں اسرائیل، متحدہ عرب امارات کو بغیر پائلٹ جاسوسی طیارے فروخت کرے گا۔ اسرائیل سے ’جاسوس‘ نامی انٹلیجنس سافٹ ویر خریدے جائیں گے۔ مشترکہ فوجی مشقوں کا اہتمام کر کے نارملائزیشن کی روح اجاگر کی جائے گی۔

متحدہ عرب امارات نے اسرائیل سے سفارتی تال میل بڑھا کر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ان کی دوسری مدت صدارت کے لیے ڈیموکریٹس مخالفین پر ’واک آوور‘ دلانے کی کوشش کی ہے۔ اس ڈیل کو صدر ٹرمپ داخلی اور بین الاقوامی سطح پر اپنی کامیاب خارجہ پالیسی کے ثبوت کے طور پر پیش کررہے ہیں کہ انھوں نے عربوں کو کس طرح اسرائیل کے آگے ہتھیار ڈالنے پر مجبور کیا ہے!

خفیہ ذرائع سے منظر عام پر آنے والی اطلاعات میں بتایا گیا ہے کہ اس متنازعہ معاہدے میں اس امر پر امریکا اور اسرائیل کے درمیان اتفاق پایا جاتا ہے کہ ابوظہبی کے حکمرانوں کے مشیر سلامتی محمد دحلان کو فلسطینی اتھارٹی کے زیر نگیں علاقوں میں آگے بڑھایا جائے تاکہ وہ صدر ٹرمپ کی ’ڈیل آف دی سنچری‘ کو مسترد کرنے والی موجودہ فلسطینی قیادت کا متبادل بن کر زمامِ کار سنبھال سکیں۔

اس معاہدے میں طے شدہ جملہ امور کی روشنی میں امارات، اسرائیل کے ساتھ صرف عملی تعاون نہیں کر رہا بلکہ وہ یروشلم کو یہودیانے اور غرب اردن کے وسیع علاقوں کو اسرائیلی عمل داری میں لینے سے متعلق کوششوں کو بڑھاوا دے رہا ہے۔ کیونکہ اسرائیل اپنے اس اقدام کو عملی شکل دینے کے لیے وسائل مجتمع کر رہا ہے۔ اس لیے آج اس ایشو کے منصفانہ حل کی خاطر پہلے سے زیادہ حمایت اور تعاون درکار ہے۔

نارملائزیشن سے متعلق متحدہ عرب امارات کے سرکاری موقف کے مقابلے میں اماراتی عوام کو ان کی مسئلہ فلسطین کے ساتھ گہری وابستگی اور عملی تعاون یاد دلانے کی ضرورت ہے۔ مسلّمہ اصولی موقف کے تحفظ کی خاطر فلسطینیوں کا قومی محاذ مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ اس مقصد کے لیے عرب عوام اور مسلم دنیا کو اسرائیل سے نارملائزیشن کے خلاف بیدار کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ قضیۂ فلسطین اور اس کی مقبوضہ اراضی کی یہودی قبضے سے آزادی ممکن ہو سکے۔

ہمیشہ کی طرح اُس روز بھی صبح اپنے وقت پر طلوع ہوئی تھی۔ ابھی سویرا تھا، اس لیے زیادہ تر لوگ اپنے اپنے گھروں کی حصار میں تھے ، کاروبار زندگی کی شروعات بھی مدہم تھی۔ یکایک شمالی کشمیر کے ہنگامہ خیز قصبہ سوپور کے محلہ ماڈل ٹاؤن کی فضا میں ایک ایسا الم ناک ارتعاش ہوا،   جس سے پوراعلاقہ لرز اُٹھا۔ پلک جھپکتے ہی سکوتِ صبح کا سماں غارت ہوا۔ فائرنگ کے شور سے لوگ سہم گئے، تشویش کی لہریں اورفکر مندی کی موجیں ہر شخص کو نیم جان کرگئیں۔ نیم فوجی دستوں اور پولیس کے ساتھ بندوق بردار مقامیوں کی مڈبھیڑاپنی نوعیت کا کوئی پہلا واقعہ نہیں تھا، عام کشمیری ایسی خون ریزیوں سے مانوس ہیں۔ کسی بستی میں مسلح جھڑپ ہونا لوگوں کے لیے ہمیشہ ایک ہی پیغام لاتی ہے کہ ’’جائے وقوعہ میں اب کسی کی کوئی خیر نہیں‘‘۔ عمومی حالات میں وادی کشمیر کی کسی بستی، بازار ، شہر یا دیہات میں بندوقوں کی گڑ گڑاہٹ اور گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے پتا چلتا ہے کہ مسلح فورسز اور عسکریت پسندوں کے بیچ جھڑپ چھڑگئی ہے اور ہر جھڑپ اپنے پیچھے ہلاکتوں اور تباہ کاریوں کی ایک بھیانک کہانی ضرور چھوڑ کر جائے گی۔ دو طرفہ گولی باری چاہے سرحد پر ہو یا کسی میدانی علاقے میں ، ہر حال میں یہ عوام الناس کے لیے اپنے ساتھ شامتیں، قیامتیں اور میتیں ہی لاتی ہیں ۔

ماڈل ٹاؤن سوپور میں ۳۰ جون ۲۰۲۰ء کو یہی درد ناک کہانی دہرائی گئی۔ یہاں کے رہایشیوں کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ اُن کے گھر کے آنگن میں ایک ایسا المیہ وقوع پذیر ہونے جارہا ہے، جس سے انسانیت کا کلیجہ پھٹ جائے گا، آدمیت کی چیخیں نکل جائیں گی، آنسوؤں کا سیل رواں اُمڈ آئے گا ، غم واَلم کی گرم بازاری ہو گی اور سوگواریت کی سیاہی چھا جائے گی۔ چشم فلک نے ماڈل ٹاؤن میں صبح قریب سات بجے کشمیر کی خونیں تاریخ کا ایک اور لہولہاں باب رقم ہوتے دیکھا ۔ ایک درد انگیز کہانی،ایک الم ناک منظر ، ایک ناقابل یقین المیہ کہ جس سے پوری وادی سوگواری کی دُھند میں ڈوب گئی ۔

 میڈیا کی تفصیلات کے مطابق بستی میں عسکریت پسندوں نے ایک مقامی مسجد کے اندرسے فورسز کی گشتی پارٹی پر گھات لگاکر حملہ کیا ۔ حملے میں سنٹرل ریزو پولیس کا ایک اہل کار موقع پر ہلاک ہوا، جب کہ تین اہل کار زخمی ہوئے ۔ ابھی جھڑپ جاری تھی کہ جاے وقوعہ سے مصطفیٰ آباد ایچ ایم ٹی سری نگر کے بشیر احمد خان نامی ایک ۶۵ سالہ ٹھیکے دار کا گزر ہو ا۔ وہ اپنے نجی کام سے گاڑی ڈرائیو کر رہے تھے۔ اُن کے ہمراہ فرنٹ سیٹ پر اُن کا تین سالہ پوتا بھی بیٹھا ہوا تھا۔ بشیراحمد کے بارے میں سرکاری طور دعویٰ کیا گیا کہ موصوف کراس فائرنگ کی نذر ہو کر ہلاک ہو گئے۔ ابھی یہ خون ریزجھڑپ جاری تھی کہ اس کی خبریں اور تصویریں، سوشل میڈیا کے کاندھوں پر برق رفتاری کے ساتھ سفر کرتی ہوئی منٹوں میں پورے عالم میں پہنچ گئیں اور انھیں پتاچلاکہ سوپور میں کون سی نئی قیامت بپا ہوئی ہے ۔

بشیر احمد خان متعدد گولیاں لگنے سے برسر موقع شہادت کی خونیں قباپہن کر دنیا چھوڑ گئے۔ اس الم ناک واقعے کے بارے میں سرکاری طور کہا گیا کہ ماڈل ٹاؤن سوپور میں سی آر پی ایف کی گشتی پارٹی پر جنگجوؤں نے اچانک دھاوا بولا۔ گشتی پارٹی نے پوزیشن سنبھالی اور دوطرفہ فائرنگ کا تبادلہ شروع ہوا،جس کی زد میں آکر ایک سویلین بھی جان بحق ہوا ۔ ٹی وی چینلوں پر جھڑپ کی خبر میں یہ بات نمایاں طور پر فوٹیج کے ذریعے اُجاگر کی گئی کہ’’ زبردست فائرنگ کے باوجود نیم فوجی جوانوں نے جان کی پروا نہ کرکے تین برس کے معصوم بچے کو بچا لیا، جو انسانیت کی ایک اعلیٰ مثال ہے‘‘۔ مگر مارے گئے شہری کے اہل خانہ نے سانحے کے بارے میں اس موقف کومسترد کر تے ہوئے فورسز پر الزام عائد کیا کہ بشیر احمد خان صاحب کو گاڑی سے اُتارا گیا اور پھر اُن کے سینے میں گولیاں پیوست کی گئیں۔ پولیس کے ایک اعلیٰ عہدے دار نے اس الزام کی سختی سے تردید کی۔ اپنے ردعمل میں نیشنل کانفرنس اور سیاسی جماعتوں نے سوپور سانحہ کی بابت سرکاری موقف کو نہ صحیح مانا  اور نہ غلط کہا، بلکہ گھسی پٹی روایت کی گردان کرتے ہوئے حکومت سے اس کی تحقیقات کر نے کا مطالبہ کیا۔ آج تک کشمیر میں ایسے درجنوں سانحات کی سرکاری انکوائریاں بٹھائی گئیں، مگر نہ کبھی  اُن کی رپورٹیں منظر عام پر لائی گئیں اور نہ کسی مجرم کی نشان دہی کر کے اسے عدالت کے کٹہرے سے کوئی سزاسنائی گئی  ؎

اذیت ، مصیبت ، ملامت ، بلائیں
ترے عشق میں ہم نے کیا کیا نہ دیکھا

بظاہر سوپور المیے کا نفس مضمون اتنا ہی کچھ ہے، لیکن جو چیز حساس دل انسانوں کے زاویۂ نگاہ سے انسانیت کے منہ پر زبردست طمانچہ رسید کرتی ہے، وہ شہید بشیر احمد کے معصوم پوتےکی وہ دل خراش تصویریں ہیں، جنھیں کسی نامعلوم شخص نے کھینچا اور انھیں سوشل میڈیا پر وائرل کر دیا۔ ان تصاویر نے کشمیری عوام کو اُسی طرح خون کے آنسو رُلا دیا جیسے کئی سال قبل شام کے اُس معصوم مہاجر بچے کی ساحل سمندر پر اوندھے منہ پڑی لاش سے عالم عرب اشک بار ہوا تھا، اور وہ تصویر شامی مہاجرین کی اَن کہی بپتا کا استعارہ بن گئی تھی ۔ سوپور جھڑپ کے متاثرہ کشمیری بچے کی منہ بولتی تصویریں بزبان حال بتاتی ہیں کہ اِدھر گولیوں سے چھلنی اس کے دادا کی بے گور و کفن لاش سڑک پر پڑی ہے ، اُدھر اس کا پھول جیسا پوتا اپنے مرے ہوئے دادا کی چھاتی پر بیٹھاہے، شاید اس کو گہری نیند سے جگانے کے لیے ۔ رنج وغم اس بچے کے چہرے سے جھلک رہاہے ۔ وہ یہ بات تو جانتا ہی نہیں کہ اس کی معصوم دنیا لمحے بھر میں لٹ چکی ہے ۔ معصوم وکم سن بچہ اپنے دادا کی ابدی جدائی کی حقیقت سے بھی ناآشنا ہے۔ موت کیا ہے، زندگی کیاہے؟ یہ باریکیاں اس کے پلے نہیں پڑسکتیں ۔ بس یہ صرف سہما ہوا سا بچہ ہے، جو خوف کے عالم میں لہو لہو منظر دیکھ کر بھی اس کا مطلب سمجھنے سے قاصر ہے، تھر تھر کانپ رہا ہے ، بھیڑ میں تنہا ہے، بے دست وپا ہے، اور وہ جو اس کو سینے سے لگا کر سہلاتا، اس کا درد وکرب کم کر تا، وہ تو زمین پر بے حس وحرکت پڑا ہے۔ ناقابلِ فہم خونی منظر سے نڈھال بچے کی ہچکیاں اور سسکیاں بند کر نے کے لیے پولیس نے اُسے چاکلیٹ اور ٹافیوں سے بہلایا، مگر وہ تھا کہ آنسو بہاتا رہا۔

وادی کشمیر کے بارے میں بھولے سے کبھی ایک بار بھی یہ دل خوش کن خبر نہیں آتی کہ آج یہاں کوئی ناخوش گوار واقعہ رُونما نہیں ہوا ۔ ارباب سیاست اور اہل سلطنت جو چاہیں کہیں، مگر عملی دنیا کی ٹھوس حقیقت یہ ہے کہ کشمیر اور امن حسب سابق اجتماعِ ضدین ہیں۔ یہاں روز وردی پوشوں اور عسکریت پسندوں کے درمیان مسلح جھڑپیں اور آتش و آہن کی برساتیں نئی زخم زخم کہانیوں کو جنم دیتی ہیں۔ یہاں لاشیں گرتی ہیں ، یہاں جنازے اُٹھتے ہیں ، یہاں ماتم ہوتے ہیں، یہاں نالہ وفغاں، آہ وبکا اور چیخ پکار ایک عام چیز ہے ۔ ایسے میں انسانی حقوق نامساعد حالات کے بھینٹ نہ چڑھ جائیں یہ سوچنا بھی محال ہے ۔ یہ تلخ حقیقت کبھی سوپور جیسے المیوں کا رُوپ دھارتی ہے اور چندبرس پہلے وقوع پذیر کھٹوعہ کی آصفہ کی دلدوز کہانی کی صورت میں جلوہ گر ہوتی ہے۔

تصویر کا ایک رُخ یہ ہے کہ گذشتہ ۳۰سال سے وادی گلپوش میں ’آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ‘ (’افسپا‘) نافذالعمل ہے۔ اس کے نفاذ کی سفاکی اور خون آشامی کے چھینٹے اور دھبے آج کشمیر کے چپے چپے پر بتمام وکمال پائے جاتے ہیں۔ ایسے حالات سے روز روز سامنا کرتے ہوئے عام کشمیریوں کے لیے یہ تمام ناقابل تصور قیامتیں معمولاتِ زندگی کا حصہ بن چکی ہیں ۔ لوگوں میں یہ ناگفتہ بہ حالات دیکھنے ، سننے اور سہنے کی عادت سی پڑگئی ہے ۔ گذشتہ ۳۰ سال سے کشمیری معاشرہ انھی کے درمیان غیر یقینی زندگی جیتے ہوئے شادی غمی سمیت تعلیمی ، معاشی اور سماجی مشاغل سرانجام دیتا آرہا ہے۔

تصویر کا دوسرا رُخ یہ بتاتا ہے کہ یہاں کی بالا دست سیاسی اور اقتداری قوتیں ماہ وسال سے جنت بے نظیر میں لامتناہی خوں بار سلسلہ روکنے اور امن کی بہاریں لوٹانے کے بلند بانگ دعوے کرتی رہیں۔ ’افسپا‘ کو واپس لینے کے وعدے بھی ہوئے، تعمیر وترقی اور خوش حالی کے دعوے بھی کیے گئے۔ ان سب بہلاوں کے درمیان تاریخ نے وادی میں کئی کروٹیں بدلتی اور بہت ساری چیزیں بنتے بگڑتے دیکھیں مگر جو چیز دیکھنے کی حسرت رہی وہ یہ کہ یہاں مکمل اور پاےدار امن کبھی قائم نہ ہوا۔ عظیم تر خودمختاری کا وعدہ ، واجپائی کی لاہور بس یاترا، انسانیت، کشمیریت اورجمہوریت کا نعرہ ، نوازشریف کا امن اعلامیہ، مشرف کا چار نکاتی فارمولا، ظفراللہ خان جمالی کی جنگ بندی ،   سہ رُکنی مصالحتی کمیٹی کاقیام، من موہن سنگھ کی گول میز کانفرنسیں، آٹھ ورکنگ گروپوں کی تشکیل، ’گولی سے نہ گالی سے ،مسئلے کاحل کشمیری گلے لگانے میں‘ جیسا جاذب نظر نعرہ  اور پھر دفعہ ۳۷۰ اور ۳۵اے کی تنسیخ، غیر ریاستی باشندوں میں ڈومسائل اسناد کی تقسیم وغیرہ وغیرہ۔ تاریخ نے ہربار نمایاں اور طاقت ور لوگوں کی زبانی دل کے کانوں سے یہ دعوے سنے کہ اب کی بار کشمیر میں امن و اَمان کی ہریالیاں ہوں گی ‘ تعمیرو ترقی کی پھلواریاں مہکیں گی، مگر واے ناکامی نہ نامساعد حالات کا محور آج تک بدلا، نہ امن وآشتی کاسورج کبھی طلوع ہوا۔اس کے برعکس حسب سابق سلسلہ روز وشب کی گردش میں خون ریزیاں کشمیر یوں کا مقدر بنی رہیں۔ آج تک گردش لیل ونہار کی اسی آتشیں فضا میں کشمیر کی تین دہائیاں بھسم ہو گئیں۔ لاتعداد پیر و جوان، خواتین ، بچے ، ابدی نیند سوگئے ، تباہیاں نوشتۂ دیوار بن گئیں۔ آتش زنیاں اور آبرو ریزیاں اتنی بے حساب گویا یہ انسانیت کے خلاف جرائم ہی نہیں رہے۔ عقوبت خانے اور زندان آباد ہوئے ، تعلیمی سرگرمیاں معطل رہیں ، معاشی سرگرمیاں مفقود ہوئیں ، بے روزگاری کے نئے نئے ریکارڈ قائم ہوئے۔اورنامساعد حالات کا یہ بدترین سلسلہ آج بھی ارضِ کشمیر میں شدومد سے جاری ہے۔

 امرِواقعہ یہ ہے کہ بے انتہا بربادیوں کے باوجود آج کی تاریخ میں کشمیر میں امن جاگتے کا سپنا ہے۔ کوئی کشمیری یقین اور وثوق کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کہ اگلا لمحہ اُس کی زندگی میں کس عنوان سے نیا بھونچال ثابت ہوگا ، کون سی نئی بربادیاں اس کی تقدیر میں رقم ہوں گی اور انسانی حقوق کی کثیرالاطراف پامالیاں کس کس مہیب شکل میں سامنے آئیں گی؟ اسی سلسلے کی ایک کڑی ماڈل ٹاؤن سوپور کا وہ بدترین المیہ ہے جو شمالی کشمیر کے ہنگامہ خیز قصبہ سوپور میں وقوع پذیر ہوا ۔ قبل ازیں جنوبی کشمیر کے قصبہ بجبہاڑہ میں پیش آئے المیے میں بھی ایک آٹھ سالہ بچہ کام آیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا کشمیر میں امن اور انصاف کا سورج طلوع ہونا آخری کشمیری کے زندہ درگور ہونے تک مؤخر رہے گا یا کوئی ایسا ٹھوس لائحہ عمل بھی ترتیب پائے گا، جو امن اورانسانیت کا پرچم بن کر بہشت ارضی میں لہرائے؟

۵؍اگست ۲۰۲۰ءکو بھارتی وزیر داخلہ امیت شا نے ایک طرح سے ’غیرآئینی سرجیکل اسٹرائیک‘ کرکے بھارتی آئین کی دفعہ ۳۷۰، اور دفعہ ۳۵-اے کالعدم کرکے جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کو ختم کرنے کا تو اعلان کیا، مگر اس سے بھارت کو یا کشمیری عوام کو کیا حاصل ہوا؟ اس کا کوئی خاطرخواہ جواب آج ایک برس گزرنے کے باوجود بھارتی حکومت کو سوجھ نہیں رہا ہے۔ خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کے علاوہ ریاست کو تقسیم کرکے لداخ کو مرکز کے زیر انتظام علاقہ بنایا گیا اور بقیہ خطے، یعنی جموں اور کشمیرکو بھی براہِ راست نئی دہلی کے انتظام میں دیا گیا۔

اب پورے ایک سال کے بعد اس غیرآئینی حملے کی افادیت اور ’کامیابیوں‘ کی جو دستاویز بھارتی حکومت نے جاری کی ہے، اس کے مطابق ’’کشمیر کو بھارت میں ضم کرنے کے نتیجے میں حوائج ضروریہ کے لیے باہر نکلنے پر پابندی میں سو فی صد کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ اس طرح ایک سال کے دوران سو فی صد اوپن ڈیفی کیشن فری بنایا گیا ہے۔

۵؍اگست کو اٹھائے گئے اقدامات کا مقصد کشمیر میں دودھ اور شہد کی نہریں بہانا ، سڑکوں کو سونے سے مزین کرنا اور بھارت کے تئیں عوام میں نرم گوشہ پیدا کروانا بتایا گیا تھا، مگر مودی حکومت کے مذکورہ اوّلین اور شرمناک ’کارنامے‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے سینیر صحافی شاستری راما چندرن کا کہنا ہے: جب خطے میں ہر روز فوجی مقابلوں میں لوگ ہلاک ہو رہے ہوں، تو رفع حاجت کے لیے کون باہر نکلے گا؟ اس کے علاوہ جو باہر آنا بھی چاہتے ہیں، ان پر تشدد کرکے ایسی حالت کر دی گئی ہے ، کہ وہ رفع حاجت کے قابل ہی نہیں رہ گئے اور جب سال بھر لاک ڈاؤن میں رہنے کے بعد پیٹ خالی ہو ، تو رفع حاجت کیسے ہو؟

شاید مودی یا امیت شا کو دہلی سے کولکتہ تک ریل گاڑی میں سفر کرنا کبھی نصیب نہیں ہوا۔ رات دہلی سے جب ٹرین چل کرعلی الصبح پٹنہ یا بہار کے دوسرے شہر گیا پہنچتی ہے ، تو اسٹیشن سے متصل اور دیگر علاقوں میں نظارہ نہایت قابلِ نفرت ہوتا ہے ۔سخت گرمی کے باوجود مسافر فوراً کواڑ گرا لیتے ہیں۔ کیونکہ لمبی لائن میں ایک خلقت پٹڑی پر پانی کا لوٹا لیے مصروف دکھائی دیتی ہے، اور آپس میں ملکی و غیر ملکی حالات پر تبادلہ خیالات بھی کرتی نظر آتی ہے۔ ہونا تو چاہیے کہ امیت شا کشمیر میں تعینات پوری نو لاکھ فوج کو بہار بھیج کر اس کو اوپن ڈیفی کیشن فری بناکر، ریلوے پٹریوں کو غلاظت سے بچنے کا موقع فراہم کرواتے۔

گذشتہ ایک سال سے کشمیریوں نے بھی مودی حکومت کا ناطقہ بند کر کے رکھ دیا ہے۔  جب اس ’غیرآئینی اسٹرائیک‘ سے کشمیریوں کے جسم سے ان کے کپڑے چھین لیے گئے، تو کشمیر کے ایک لیڈر شاہ فیصل کے مطابق مودی حکومت کو یقین تھا کہ اس کے خلاف عوامی بغاوت برپا ہوگی اور اس کے نتیجے میں ۱۰ہزار افراد ہلاک کرکے تحریک کو کچل دیا جائے گا۔ مگر کشمیریوں کی پُراسرار خامشی اور لیڈر شپ کی عدم موجودگی کے باوجود عام آدمی کی سوچ اور ردعمل دیکھ کر نئی دہلی میں اربابِ اقتدار کا کلیجہ منہ کو آرہا ہے۔ ان کو یقین تھا کہ کچھ عرصہ تک سوگ و ماتم کی کیفیت کے بعد حالات معمول پر آجائیں گے۔ مگر بھارت نواز نیشنل کانفرنس اور پیپلز کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی بھی صدمے کی کیفیت سے باہر نہیں آرہے ہیں۔ ان کی کچھ سمجھ میں نہیں آرہا ہے کی کس منہ سے اپنے ووٹروں کا سامنا کریں۔

بھارت نے جب اگست میں کشمیر میں تاریخ کے طویل ترین لاک ڈاؤن نافذ کیا تو، لوگ لقمے لقمے کے محتاج ہونے لگے۔ دنیا نے زبانی ہمدردی کے سوا کچھ نہیں کیا، تو ہر کشمیری کے زبان پر تھا کہ یااللہ! اس لاک ڈاؤن کا مزا ساری دُنیا کو بھی چکھا دے۔ جنوری ۲۰۲۰ء میں جب بھارت میں مقیم یورپی یونین کے سفیروں کی ایک ٹیم کو کشمیر لے جایا گیا، تو ان کو کوّر کرنے کے لیے اکنامک ٹائمزکے معروف صحافی اروند مشرا بھی سرینگر پہنچ گئے تھے۔ وہ سیکورٹی حصار میں تھے۔ انھوں نے افسران سے اپنے ایک ساتھی بلال احمدڈارکے گھر جانے کی اجازت مانگی۔ بلال ماس کمیونی کیشن کی تعلیم کے دوران ان کا ہم جماعت تھا۔ مشرا کا کہنا ہے کہ جب وہ بلال کے گھر کی گلی سے گزر رہا تھا کہ کھڑکی سے ایک خاتون کی آواز آئی:’’اروند بھائی، آپ بلال کے دوست ہو دلی والے، میں نفیسہ عمر ہوں،بلال کی پھوپھی کی بیٹی‘‘۔ مشرا کا بیان ہے کہ نفیسہ کی باتیں سن کر وہ کئی رات سو نہ سکا۔ اس لڑکی نے پوچھا: کیا باہر کی دنیا میں کسی کو اندازہ ہے کہ سات مہینے سے جہاںکرفیو ہو، گھرسے نکلنا تو دُور جھانکنا بھی مشکل ہو، چپے چپے پر فوج تعینات ہو،انٹر نیٹ، موبائل، لینڈ لائن فون تک بند ہو، گھروں سے بچے،جوان اور بوڑھے ہزاروں بے قصوروں کی گرفتاریاں ہوئی ہوں، سکول، کالج، دفتر سب بندہوں، کسی نے سوچا کہ آخر لوگ کیسے سانس لیتے ہوںگے؟‘‘

مشرا کے مطابق بس پانچ منٹ میں اس خاتون نے حالا ت کا ایسا نقشہ کھنچا کہ یہ الفاظ دہلی میں کئی ماہ تک میرے ذہن پر دستک دیتے رہے۔ نفیسہ نے مزید کہا کہ: کیا آپ کو معلوم ہے کہ ـ ’’کیسے لوگوں کے کھانے پینے کا انتظام ہوتا ہے، بیماروں کا کیا ہو رہا ہے؟ آدھی سے زیادہ آبادی ڈپریشن اور ذہنی بیماریوں کی شکار ہوچکی ہے،بچے خوف زدہ ہیں،مستقبل اندھیرے میں ہے‘‘۔ـ نفیسہ نے روتے ہوئے کہا کہ ’’ظلم وستم کی انتہا ہے،روشنی کی کوئی کرن نہیں ہے، پوری دنیا خاموش تماشادیکھ رہی ہے، ہم نے سب سہہ لیا اور خوب سہہ رہے ہیں۔لیکن اس وقت دل تڑپتا ہے جب  بھارت میں کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اچھا ہوا ان کے ساتھ یہی ہوناچاہیے تھا۔ لیکن میں نے ان لوگوں یا کسی کے لیے بھی کبھی بدعا نہیں کی، بس ایک دعا ضرور کی ہے تاکہ پوری دنیاکوہمارا کچھ تو احساس ہو۔ اروند بھائی، آپ دیکھنا میری دعا بہت جلد قبول ہوگی‘‘ ۔

 اروند مشرا نے جب دعا کی شکل کے بارے میں پوچھا، تو اس کے بقول نفیسہ نے پھوٹ پھوٹ کرروتے ہوئے کہا: ’’اے اللہ جو ہم پر گزری ہے کسی پر نہ گزرے، بس مولا تو کچھ ایسا کردینا اور  اتنا کردیناکہ پوری دنیاکچھ دنوں کے لیے اپنے گھروں میں قید ہوکر رہنے پر مجبور ہوجائے، سب کچھ بندہوجائے ، رُک جائے!شاید دنیا کو یہ احساس ہوسکے کہ ہم کیسے جی رہے ہیں؟‘‘ کورونا وائرس کے بعد جب پوری دنیا لاک ڈاؤن کی زد میں آگئی ، جو ابھی تک کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے، مشرا کے مطابق نفیسہ کے یہ الفاظ میرے کانوں میں گونج رہے ہیں: ’’اروند بھائی آپ دیکھنا میری دعا بہت جلد قبول ہوگی‘‘۔ 

کشمیر کا معاملہ بہت ہی سادہ اور آسان ہے، جس کے مطابق ایک قوم کے ساتھ یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ اس کو حق خود ارادیت کا موقع دیا جائے گا اوراُس کی مرضی کے مطابق فیصلہ کیا جائے گا۔ یہ اعلان کسی بند کمرے میں نہیں بلکہ اقوام عالم اس کی گواہ ہیں۔ اقوا م متحدہ میں اس سے متعلق ۱۸قراردادیں موجود ہیں۔ پچھلے ۷۳ سال سے ایک قوم چیخ پکار کے ساتھ دنیا کے سامنے اپنی راے کا اظہار کر رہی ہے۔ حصولِ آزادی کے اظہارکے لیے جس جس طریقے کوبھی استعمال میں لایا جاسکتا ہے کشمیری قوم نے ہر اس طریقے کو آزما یا لیکن ایک خو نخوار ظالم جو بدمستی میں کسی بھی زبان کو سمجھنے سے عاری ہے،وہ صرف مار دھاڑ،ظلم و ستم کرنے کے ہنر سے آشنا ہے۔سیاسی پلیٹ فارم ہویا عوامی احتجاج ، ہڑتال ہو یا عسکری میدان اہالیانِ کشمیر نے ہر میدان میں بے مثال قربانیاں پیش کیں۔ بھارتی ایوانوں اور دنیا کے نام نہاد امن کے ٹھیکے داروں تک یہ بات پہنچانے کی کوشش کی کہ وہ حقیقت سے آشنا ہوں، لیکن بدقسمتی سے اقوام عالم اس سچائی سے ہمیشہ آنکھیں چُراتی نظر آئیں۔ جس سے بھارت کو بھی حوصلہ ملا کہ طاقت کے سہارے کشمیریوں کی امنگوں اور حصولِ آزادی کی خاطر کوششوں کو دبائے۔ بھارتی حدود میں اگر کہیں کوئی بھی اس ظلم وجبر کو عیاں کرنے کی کوشش کرے تو اس کو یا تو پابند سلاسل کیا جاتا ہے یا کسی دوسرے طریقے سے خوف ودہشت کا شکار بنایا جاتا ہے۔

کشمیر کے شب وروز کے احوال کو قلم بند کیا جائے تو ایک ایسا ڈراؤنا خاکہ تیار ہوتاہے، جسے دیکھ کر انسان تصور ہی نہیں کر سکتا کہ یہ جدید دور میں کسی بستی کے حال و احوال ہیں۔ مسائل اور چیلنجوں کا ایک ناختم ہونے والا سلسلہ، ایک قوم کو ایک تیزخونیں سیلابی ریلے کے ساتھ بہائے لیے جارہا ہے۔ وہ قوم ایک بے بس، کمزور اور لاچار انسانوں کی طرح زندگی گزارنے پر مجبور ہے، جس کے تمام اختیارات ایک ظالم کے حوالے ہیں۔اس قوم کے بازاروں ، قصبوں ، گلی کوچوں یہاں تک کہ خلوت گاہوں تک پر اُسی کا قبضہ ہے۔ وہ جب چاہے اس کے کھیت جلادے ، جب چاہے اس کے گھر بارود سے برباد کردے یا انسانی زندگی ہی کا خاتمہ کر ڈالے۔ یہ سب اس کی مرضی پر منحصر ہے کیونکہ وہ کسی قاعدے قانون کا پابند نہیں ہے۔ اور یہ سب کرنے کے بعد نہ وہ دہشت گرد کہلاتا ہے اور نہ مجرموں اور ڈاکوؤں ہی کی فہرست میں شمار کیا جاتاہے۔

اس سب ظلم وتشدد کے مارے انسان کی حالت کیا ہوتی ہے، وہ قابل بیان نہیں بلکہ اس کا انجام یہی نظر آتا ہے کہ وہ گُھٹ گُھٹ کے اپنے آنسو پی جانے کے ہنر سے آشنا ہو۔ بنیادی طور پر جن حالات سے اُسے ہر روز سابقہ پیش آتا ہے، وہ اُس میں یہ صلاحیت پیدا کرنے کا تقاضا کرتے ہیں کہ اُسے کسی کا مرنا، کسی کے ساتھ ظلم ،کسی بے کس کی آہ وفغان ، کسی معصوم کی سسکیاں اور خود  اپنے ساتھ ہونے والے ظلم و جبر، اُس کے اعصاب کو متاثر نہ کرسکیں، اُسے جذباتی نہ بناسکیں اور اُس میں کسی طرح کا ہیجان پیدا نہ کریں۔ اگر اُس میں یہ تمام’ صلاحیتیں‘ پیدا ہوجائیں تو عین ممکن ہے کہ ایسا انسان کشمیر میں اچھی طرح سے زندگی گزار سکتا ہے اور یہ بھی اسی وقت تک ہے، جب کہ  وہ خود اس تصادم کی نذر ہوکر جان نہ کھو دے۔ اگر بات کو مزید وضاحت سے بیان کیا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ ایک ’عام انسان‘ ایسے ماحول میں زندہ نہیں رہ سکتا جب تک کہ اس میں ’بے حسی‘ کی  ایسی ’صلاحیت‘ پیدا نہ ہو کہ والد ہونے کے ناطے وہ’ اپنے عزیز ترین بیٹے کے ساتھ بازار جائے  اور وہاں سے اپنے بیٹے کی لاش اپنے ہاتھوں میں اُٹھا کر چپ چاپ لے آئے‘۔ اور بچہ ہونے کی صورت میں ’اس معصوم میں یہ’صلاحیت‘ ہونی چاہیے کہ وہ اپنے بزرگ والد کی چھلنی لاش کو دیکھ کر  دل برداشتہ نہ ہو۔ وہ آہ تک نہ کرے اور اپنے آنسو پی جانے کے ہنر سے آشنا ہو۔ وہ گولیوں کی بوچھاڑ میں ذرا بھی نہ ڈرے اور اپنے دل کو دلاسہ دینے کے لیے کافی ہو۔

بھارتی حکومت اپنی ریاستی دہشت گردی کو ’مذہبی جنگ‘ کا رنگ دینا چاہتی ہے، تاکہ وہ عالمی سطح پر اس تمام صورت حال کا جواز پیش کر سکے۔تائید حاصل کرنے کے لیے وہ کسی بھی حدتک کے جرم کا ارتکاب کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر دیکھیے: آصفہ جان کا تعلق کٹھوہ کے بکروال خاندان سے تھا۔ آٹھ سالہ معصوم بچی کومندر کے تہہ خانے میں لے جاکر چارروز تک مسلسل جنسی زیادتی کا شکار بنایا گیا اور اس کے بعد پتھر مار مار کر جاں بحق کر دی گئی۔ اس درندگی کا ارتکاب کرنے والوں کے حق میں ’ہندو ایکتا منچ ‘ نامی تنظیم نے ترنگا بردار جلوس نکالے، جس کی پشت پناہی بی جے پی کر رہی تھی۔

اگر چہ اہل کشمیر ایک عرصے سے انھی حالات کے اندر زندگی گزار رہے ہیں اور بے مثال قربانیوں کے سہارے تحریکِ مزاحمت کو جاری و ساری رکھے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف ہرآنے والے دن کے ساتھ ظلم و تشدد میں ریکاڑ توڑ اضافہ ہو رہا ہے۔اس خوف و دہشت میں جہاں ایک فرد کی ہر چیز داؤ پر لگی ہوئی ہو، اس کے لیے ان حالات میں آزادی کی بات کرنا آسان کام نہیں ہے۔لیکن حصولِ آزادی کی تڑپ ہر کشمیری کے لیے اُس بچھڑے ہوئے بچے کی مانند ہے، جو اپنی ماں سے ملنے کے لیے ہر مشکل کو عبور کرنے کے لیے تیار ہو۔

اگر چہ بھارت میں الیکشن جیتنے کے لیے ’پاکستان سے دشمنی‘ ایک لازمی عنصر کے طور پر استعمال ہورہی ہے، وہیں بھارتی جنتا پارٹی کےمنشور کا یہ ایک حصہ تھا کہ کشمیر کو مکمل طور پر ’ہندو راشٹر‘ میں شامل کرنا۔ پچھلے سات سال سے اسی منشور پر شد ومد سے کام جاری ہے۔ جس کی وجہ سے اہالیانِ کشمیر میں سخت خوف وہراس پھیل چکا ہے اور اپنے مستقبل کے حوالے سے ان میں ہر گزرتے دن کے ساتھ غیریقینی بڑھتی جارہی ہے۔

۵؍اگست ۲۰۱۹ءکے بعد کشمیر کے حالات میں مزید ابتری دیکھنے میں آئی۔ ہر دین پسند کو مجرم تصور کیا گیا اور ہر دین پسند جماعت کا دائرہ تنگ کیا گیا جس میں جماعت اسلامی سرفہرست ہے کہ اُس کو ممنوعہ جماعت قرار دے کر اس کے وابستگان کو پابند سلاسل کیا گیا۔خوف و ہراس کے سایے پورے جموں و کشمیر کی ریاست پر دراز کیے گئے۔ جموں و کشمیر کے انضمام میں حائل کچھ رکاوٹوں کو ختم کرنے لیے لیے آئینی طور پر دفعہ۳۵  اے اوردفعہ۳۷۰  کو بھی منسوخ کیا گیا۔ اس کے بعد پورے خطے کا راج دہلی حکومت نے پورے طریقے سے اپنے ہاتھوں میں لیا۔ اور اب کشمیر کی آبادی کو تبدیل کرنے کا عمل شروع ہو چکا ہے۔اگر یہی صورت حال جاری رہی تو پھر وہ ہوسکتا ہے جس طرح کہ: ایک وقت میں فلسطین دنیا کا ایک ملک تھا اور آج دنیا کے نقشے میں فلسطین موجود نہیں ہے لیکن اسرائیل دنیا کے ممالک میں شمار کیا جاتاہے۔بھارتی عزائم اسی طرح سے بالکل واضح ہیں کہ وہ کشمیر کو دنیا کے نقشے سے غائب کرنا چاہتے ہیں۔ اس منصوبے پرعمل درآمد کے لیے سابق بھارتی فوجیوں اور مجرمانہ ذہنیت رکھنے والوں کو کشمیر میں بسانے کا عمل شروع ہوچکا ہے۔

حالات کی اس ابتر صورت حال نے پورے خطے کے رہنے والے افرادکو ایک الجھن میں ڈال دیا ہے۔اگر چہ ایک طرف پہلے ہی مشکلات میں گھرے انسانوں کا زندہ رہنا مشکل ہوچکا تھا، وہیں اب مستقبل کے اس ڈراؤنے منصوبے نے ان کی ذہنی الجھن میں مزید اضافہ کیا ہے۔ اہلِ کشمیر پہلے اپنی آزادی کی محرومی سے مارے جارہے تھے اور اب اپنے گھر بار اور زمین جایداد سے محروم ہونے جارہے ہیں۔ان المناک حالات نے اگر چہ خطے میں رہنے والے لوگوں کو بھی ’تنگ آمد بجنگ آمد ‘کے مصداق جنگ کے لیے تیار کیا تھا، لیکن ظاہر بات ہے کہ خالی ہاتھوں سے بکتر بند گاڑیوں سے نہیں لڑا جاسکتا۔ اس ذہنی تناؤ کی صورت حال نے اہلِ کشمیر کو بے بسی اور مجبوری کی تصویر بنادیا ہے۔ بلاشبہہ ایک انسان کی زندگی میں کئی طرح کے مسائل ہوتے ہیں، جن کو حل کرنا اور زندگی کو آگے بڑھانا ایک معمول کا طریقہ ہے، لیکن اہالیانِ کشمیر کی زندگیوں کا سب سے بڑا مسئلہ، مسئلہ کشمیر ہے، جس کو حل کرتے کرتے ان کی تین نسلیں ختم ہوگئی ہیں، لیکن مسئلہ اپنی جگہ موجود ہے۔

اس ساری صورت حال کے بعد زخموں پر نمک چھڑکنے کا کام وہ مشورہ کرتا ہے، جو کسی دانش وَر کی زبان سے یوں ادا ہوتا ہے کہ ’’کشمیریوں کو ایسا نہیں ایسا کرنا چاہیے۔بندوق نہیں آواز بلند کرنی چاہیے، عسکریت نہیں ، عوامی احتجاج کرنا چاہیے‘‘۔ یا کبھی یہ بھی سننے کو ملتاہے کہ ’’یہ جہاد نہیں وطنیت کی جنگ ہے‘‘۔نرم گرم بستر پرآرام فرما کر ایسی باتیں کہی جاسکتی ہیں، لیکن حقیقت میں ایسے حضرات بھارت کے سفاکانہ عزائم سے پوری طرح باخبر ہونے کے باوجودبڑی آسانی سے ایسے مشورے داغ دیتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ خالی ہاتھوں سے ایک طاقت ور مکار دشمن کا مشکل مقابلہ دیکھنا ہو تو اس کا مشاہدہ ہر روز کشمیر کی سرزمین پردیکھنے کوملتا ہے۔