اخبار اُمت


صحافتی ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے، جب بھی کسی دوسرے شہر یا ملک میں پہلی بار جانا ہو، تو اس علاقے کا پریس کلب ہی پہلی منزل ہوتا ہے۔ خبر وہاں سے ملے یا نہ ملے، مگر رابطہ، رہبری یا کم از کم خبر نگاری کے لیے رسی کا سرا ہاتھ میں آ ہی جاتا ہے۔اس جگہ کوئی نہ کوئی مقامی صحافی رضاکارانہ طور پر آپ کو بریف کرنے کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔ باقی یہ آپ کی اپنی پیشہ ورانہ تربیت پر منحصر ہوتا ہے کہ کس طرح اس خبر یا ایشو کو پرکھتے ہیں اور پیش کرتے ہیں۔

۲۰۱۸ء سے قبل جب کشمیر کے مرکزی شہر سرینگر میں پریس کلب موجود نہیں تھا۔ اس لیے دورے پر آئے صحافیوں کے لیے لال چوک سے متصل بی بی سی اور دی ٹیلی گراف جیسے معروف میڈیا اداروں سے وابستہ سینیر صحافی یوسف جمیل کا یہ دفتر پہلا پڑاؤ ہوتا تھا۔ ۹۰ کے عشرے میں چونکہ وادیِ کشمیر کے حالات مخدوش تھے، وہ اس دومنزلہ کوارٹر کی دوسری منزل میں قیام پذیر تھے، جب کہ پہلی منزل میں ان کا دفتر، ڈرائنگ روم اور کچن تھا۔ مغربی ممالک اور دہلی سے آئے صحافیوں کا ایک جم غفیر وہاں موجود ہوتا تھا۔ شہرت کی بلندیوں کو چھونے کے باوجود ، حلم، بُردباری اور آداب میزبانی نبھانا، جمیل صاحب کا ہی خاصہ تھا۔ میں نے چونکہ صحافت کی تعلیم اور ملازمت دہلی سے شروع کی تھی، اس لیے رپورٹنگ یا چھٹیاں منانے کے لیے سال میں ایک دو بار سرینگر وارد ہوتا تو جمیل صاحب سے ملاقات لازماً ہوتی۔ وہ خندہ پیشانی کے ساتھ پیش آتے تھے اور رہنمائی کرتے۔اسی طرح دوسرا ٹھکانہ جہاں باہر سے آئے صحافی دروازہ کھٹکھٹا تے تھے، وہ انگریزی روزنامہ کشمیر ٹائمز کا سرینگر کا بیورو ہوتا تھا۔ اس کا دفتر بھی اسی لین میں تھا۔

اخبار ان دنوں صرف جموں سے شائع ہوتا تھا، مگر سرینگر میں اس کا بیورو ظفر معراج کی سربراہی میں خبروں کا سرچشمہ تھا۔ کشمیر میں دہلی سے شائع ہونے والے انڈین ایکسپریس اور جموں سے شائع ہونے واے کشمیر ٹائمز کی دھوم تھی۔ ارون شوری کی ادارت میں انڈین ایکسپریس نے تفتیشی صحافت میں خاصا نام کمایا تھا اور آئے دن اس وقت کی کانگریسی حکومت اور وزیر اعظم راجیو گاندھی کے خلاف ان کے پاس کوئی نہ کوئی اسٹوری ہوتی تھی۔ ظفر معراج بھی ایک طرح سے جموں و کشمیر کے ارون شوری تھے۔ ان کی تفتیشی صحافت کاری نے تو ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی حکومت کا ناک میں دم کررکھا تھا۔

بات ہو رہی تھی سرینگر پریس کلب کی۔کشمیر میں حالیہ واقعات اور اس سے قبل بھی یہ بات تو ثابت ہوگئی ہے کہ وہاں کام کرنے والے صحافیوں کو تلوار کی دھار پر چلنا پڑتا ہے۔ مگر ۲۰۱۸ء کے بعد کشمیر پریس کلب کی صورت میں خطے کے صحافیوں کو ایک آواز ملی تھی۔ یہ واحد صدا تھی، جو صحافیوں کی زندگی کا ثبوت پیش کر رہی تھی۔اگرچہ پوری دنیا میں ہی اس وقت صحافت بحران کا شکار ہے، مگر کشمیر میں یہ کن حالا ت کا شکار ہے، اس کا ہلکا سا اندازہ سرینگر سے شائع ہونے والے مختلف اخباروں کے اداریوں اور ادارتی صفحات کو دیکھ کر لگایا جا سکتا ہے۔ ایک آزمودہ فارمولہ جس میں پہلے اداروں کی شبیہ داغ دار کی جاتی ہے اور پھر ان کو متنازعہ بتایا جاتا ہے، اس کا استعمال کرکے نہایت بے دردی کے ساتھ پریس کلب کو دھوکے اور فریب کے ذریعے بند کر ادیا گیا۔ یہ ادارہ نہ صرف صحافیوں کے لیے مرکزی حیثیت رکھتا تھا، بلکہ باہر سے دورہ پر آئے صحافیوں کے لیے بھی پہلا ٹھکانہ ہوتا تھا۔ فری لانس یا جو پیشہ ور صحافی، جن کے ادراوں کے سرینگر میں دفاتر نہیں ہیں، ان کے لیے کلب اور اس کے ذریعے پیش کی جانے والی سہولیات کسی نعمت سے کم نہیں تھیں۔

 سرینگر میں پریس کلب کا قیام ۲۰۱۸ء میں ایک طویل جدوجہد کے بعد عمل میں آیا تھا۔ حکومت نے پریس انکلیو اور لال چوک سے ذرا فاصلے پر ایک سرکاری ادارے کی خالی کی ہوئی بلڈنگ میں پریس کلب بنانے کی پیش کش کی تھی۔ جس کے بعد باضابطہ انتخابات کے بعد انتظامیہ تشکیل دی گئی، جو ایک عرصہ قبل اپنی انتظامی مدت مکمل کر چکی تھی۔ مگر چونکہ ۲۰۱۹ء میں جموں و کشمیر کے قوانین تبدیل کر دیئے گئے، اس لیے کلب کو نئے قوانین کے تحت دوبارہ رجسٹریشن کرنے کے لیے کہا گیا۔

 جولائی ۲۰۲۱ءکو کلب نے رجسٹریشن کی درخواست دی، اور چھے ماہ بعد دسمبر میں اس کی منظوری آگئی، جس کے بعد فروری میں نئی انتظامیہ کی تشکیل کے لیے انتخابات کی تاریخوں کا اعلان کیا گیا۔اس کے فوراً بعد بتایا گیا کہ ’’کلب کی انتظامیہ کے خلاف انٹیلی جنس کی منفی رپورٹوں کی وجہ سے رجسٹریشن منسوخ کی جارہی ہے۔ مگر صحافیوں کے ایک گروپ نے ریاستی پولیس کی قیادت میں، جب کورونا وائرس کی وجہ سے پابندیاں نافذ تھیں، بلڈنگ پر قبضہ کرکے ایک عبوری انتظامیہ کے قیام کا اعلان کردیا۔ حالانکہ اس قبضے سے قبل پریس کلب کے اگلے انتخابات کا اعلان ہوچکا تھا۔ اس گروپ کے ایک ممبر نے ۲۰۱۸ء میں اس کلب کےقیام کے وقت دہلی میں ’پریس کلب آف انڈیا‘ کے ذمہ داروں کو باور کرانے کی کوشش کی، کہ ’’کشمیر کے پریس کلب کو انتخابات کے بغیر ہی تسلیم کرلیا جائے کیونکہ انتخابات کی صورت میں ’علیحدگی پسند گروپ‘ کلب پر قبضہ کرسکتا ہے۔ کشمیر میں تو ویسے صحافیوں کی کئی تنظیمیں ہیں، مگر یہ واحد جگہ تھی، جو سبھی کی مشترکہ وراثت تھی اور سبھی اکٹھے بیٹھتے تھے۔ اس قضیہ کے اگلے ہی دن، جب پریس کلب آف انڈیا سے لے کر دیگر صحافتی انجمنوں نے انتخابات سے قبل اس طرح کے قبضے پراعتراض کیا، تو حکومت نے کلب کو ہی تحلیل کرکے بلڈنگ کو اپنی تحویل میںلے لیا۔ بہانہ یہ بنایا کہ ’’صحافیوں میں اختلاف رائے پیدا ہو گیا ہے اور اس سے قانون و نظم کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے‘‘۔

کشمیر میں صحافیوں کے لیے عملی صحافت کا راستہ کبھی آسان نہیں تھا۔اس خطے میں ۱۹۹۰ءسے لے کر اب تک ۱۹صحافی جانوں کا نذرانہ دے چکے ہیں۔ اس کی کڑی کے طور پر ۲۰۱۸ء میں رائزنگ کشمیر گروپ کے چیف ایڈیٹر اور مقتدر صحافی شجاعت بخاری کو موت کی نیند سُلایاگیا۔آصف سلطان تو ۲۰۱۸ءسے ہی جیل میں ہیں۔ اب حال ہی میں نوجوان صحافی سجاد گل کو بھی پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت جیل بھیج دیا گیا ہے۔ اس سے قبل فوٹو جرنلسٹ کامران یوسف کو بدنامِ زمانہ ’یوایل پی اے‘ (Unlawful Activities Prevention Act) کے تحت گرفتار کرکے چھے ماہ تک دہلی کی تہاڑ جیل میں پابند سلاسل رکھا گیاتھا۔ وہ اب ضمانت پر باہر ہیں۔

پچھلے تین برسوں میں کم از کم ۱۲صحافیوں کو پولیس نے پوچھ گچھ کے لیے طلب کیا ہے۔ جبراً لاپتا کردیے جانے کا سب سے پہلا واقعہ جو۱۹۸۹ء میں پیش آیا وہ ایک صحافی کا ہی تھا۔ محمدصادق شولوری اردو کے پندرہ روزہ تکبیر میں سینئر کاتب تھے۔ ایک دن وہ دفتر گئے اور پھرکبھی لوٹ کر گھر نہیں آئے۔ ۱۹۹۰ء میں اس وقت کے جموں و کشمیر کے گورنر جگ موہن نے ایک نوجوان صحافی سریندر سنگھ اوبرائے کو گرفتارکرنے اور تین اخبارات بند کرنے کا حکم دیا تھا۔ ان کے پرنٹنگ پریس سیل کردیے گئے اور ان کے خلاف بدنام زمانہ ’ٹاڈا‘(TADA) قانون کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔ ۲۰۱۰ء کی ایجی ٹیشن کے دوران بھارت کی وزارت داخلہ نے نوٹیفیکیشن جاری کرکے رائزنگ کشمیر اور دو دیگر کثیرالاشاعت روزناموں گریٹرکشمیر اورکشمیر ٹائمز کے سرکاری اشتہارات بند کرنے کا حکم صادرکیا۔

اگر دنیامیں کسی بھی صحافت کے طالب علم کو یہ مطالعہ کرنا ہو کہ کس طرح اور کس حد تک اسٹیٹ کسی میڈیا ادارے کو ہراساں اور اس کی مالی حیثیت پر ضرب لگاسکتی ہے تو اس کو سری نگر اور جموں سے شائع ہونے والے انگریزی روزنامہ کشمیر ٹائمز کے کیس کو مطالعے میں ضرور لانا چاہیے۔ کشمیر ٹائمز کے سلسلے میں تمام سرکاری اور پبلک سیکٹر اداروں کو بھی ایک سرکلر جاری کیا گیا کہ ’’چونکہ اخبار ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہے، اس لیے اسے اشتہارات دینا بند کر دیا جائے‘‘۔ حتیٰ کہ پرائیویٹ سیکٹر اور کاروباریوں کو بھی ہدایت دی گئی کہ وہ بھی کشمیر ٹائمز سے دُور رہیں۔سابق وزیرداخلہ اور کانگریسی رہنما پی چدمبرم ، جو آج کل اپنے کالموں کے ذریعے مودی حکومت کو آزادیِ اظہار پر قد غن لگانے پر خوب تنقید کرتے ہیں، نے اپنے دور اقتدار میں کشمیر میڈیا کو ہراساں کرنے میں کلیدی رول ادا کیا۔ کشمیر ٹائمز کے معاملے میں بھارتی اسٹیبلشمنٹ اس لیے بھی کچھ زیادہ ہی خار کھائے ہوئے تھی کہ اس کے مالک جموں سے تعلق رکھنے والے ایک وسیع القلب ہندو وید بھسین تھے ۔ ان کے بے باکانہ قلم کو ملک دشمنی ، بنیاد پرستی و انتہا پسندی کے کھاتہ میں ڈالنا ممکن نہیں تھا۔ کشمیر ٹائمز کی رپورٹنگ اور ایڈیٹوریل کسی بھی صورت نئی دہلی کو ہضم نہیں ہوتے تھے۔ حالت یہاں تک پہنچی کہ ۲۰۱۵ء میںاس ادارہ کو سری نگر کا انتہائی جدید پریس زمین سمیت بیچنا پڑے اور سرکولیشن خاصی کم کرنی پڑی‘ ۔

ایک اور کشمیری فوٹو جرنلسٹ محمد مقبول کھوکھر (جو مقبول ساحل کے نام سے مشہور تھے) ساڑھے تین سال تک مقدمہ چلائے بغیر جموں کی بدنام زمانہ کوٹ بلاول جیل میں قید رہے۔ مقبول کھوکھرکو ۲۰۰۴ء میں ان دنوںگرفتارکیا گیا، جب جنوبی ایشیائی صحافیوںکی تنظیم ’سیفما‘ کی قیادت میں پاکستانی صحافیوںکا وفد بھی ریاست کا دورہ کر رہا تھا۔ ہائی کورٹ نے حکومت سے دومرتبہ کہا کہ مقبول کھوکھر کے خلاف الزامات واپس لے لیے جائیں‘‘۔ لیکن اس کا کوئی اثر نہ ہوا۔ ۱۹۹۱ء میں الصفا کے ایڈیٹر محمد شعبان وکیل کے قتل کی طرح دوسرے صحافیوں کے قتل اور ان پر حملوں کے درجنوں واقعات پر اب تک دبیز پردے پڑے ہوئے ہیں۔ ۱۹۹۲ء میں ایک اخبار کے کاتب غلام محمد مہاجن کو پرانے سرینگر میں ان کی رہایش گاہ سے نکال کر ان کے چھوٹے بھائی کے ساتھ سرعام گولی مارکر ہلاک کردیا گیا۔

کشمیر میں صحافت پریس کلب کے بغیر ۲۰۱۸ء سے قبل بھی کام کرتی تھی۔ اس کے ہونے یا نہ ہونے سے شاید ہی کوئی فرق پڑے گا۔ مگر جس طرح اس کو نشانہ بنایا گیا، وہ دیگر جگہوں پر پریس پر قد غن لگانے کا ایک ماڈل ہو سکتا ہے۔ دہلی میں ’پریس کلب آف انڈیا ‘کی طرح بھارت کے دیگر شہروں میں بھی کلبوں کی بلڈنگیں ، حکومت نے ہی عاریتاً دی ہوئی ہیں۔سرینگر کی طرح اب وہ کسی بھی وقت ان کو واپس لے کر پریس کلب کے ادارے کو ہمیشہ کے لیے دفن کرنے کا سامان کرسکتی ہے۔

گذشتہ سال فلسطینیوں پر اسرائیل کے مظالم کے حوالے سے بدترین سال تھا۔ اس لیے کہ ۲۰۱۴ء میں جب اسرائیل نے غزہ کی پٹی پر حملہ کیا تھا اور۲ہزار ۳سو۱۰ فلسطینیوں کو ہلاک کیا تھا، اس سے بڑھ کر اس سال مظالم ڈھائے گئے ہیں اور اسرائیلی انسانی حقوق کی تنظیم ’بتسیلم‘ (B'Tselem) نے اس بات کا انکشاف کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل اپنے جھوٹے پروپیگنڈے کا پول کھولنے کی وجہ سے ’بتسیلم‘ جیسی انسانی حقوق کی تنظیموں کو خلاف قانون قرار دینا چاہتا ہے۔

۲۰۲۱ء میں، اسرائیل نے مقبوضہ علاقوں میں ۳۱۳ فلسطینیوں کو شہید کیا، جب کہ ۸۹۵ فلسطینیوں کے گھر اسرائیلی فوجیوں نے گرا دیئے اور مسلح اسرائیلی آبادکار، فلسطینیوں کے گھروں کو گرانے کے لیے امریکی ساختہ کیٹرپلر بلڈوزر استعمال کر رہے ہیں۔ اسرائیلی حکام کے لیے خود کو ’سراہنے‘ کے لیے یہ ناکافی ہے۔

اسی دوران ایما واٹسن ایک برطانوی اداکارہ کی جانب سے فلسطینیوں کے حق میں ایک پوسٹ پہ بہت سے اسرائیلی مشتعل ہیں، جس پر لکھا ہے: Solidarity is a Verb ۔ اقوام متحدہ میں اسرائیل کے ترجمان گیلاڈاردن نے اس پر کہا ہے کہ واٹسن کا پیغام اس کی فلموں کی طرح محض ایک ’افسانہ‘ ہے۔ اقوام متحدہ میں سابق اسرائیلی سفارت کار ڈینی ڈینن نے سفاکیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے واٹسن کو یہودیوں کی دشمن قرار دے دیا۔

جب بھی اسرائیلی کسی فلسطینی شہری کو قتل کرتے ہیں تو اس کا جرم ثابت کرنے کے لیے کسی عدالتی کارروائی کی ضرورت محسوس نہیں کرتے اور نہ بین الاقوامی قانون کا احترام کرتے ہیں، بلکہ وہ عوام کو اشتعال دلانے کے لیے انھیں ’دہشت گرد‘ قرار دیتے ہیں یا ان پر الزام دھر دیتے ہیں کہ وہ یہودیت کے مخالف ہیں۔ اسرائیلی سمجھتے ہیں کہ عوام کو اس بات میں زیادہ دلچسپی ہے کہ کون ’یہودی مخالف‘ ہے، بجائے اس کے کہ کون قاتل ہے اور کون بے گناہ شہریوں کی جان لیتا ہے۔

اسرائیل کی حقائق کے خلاف پروپیگنڈا جنگ کی سب سے زیادہ زد اموات کی تفصیل پر پڑتی ہے۔ وہ ۳۱۳ فلسطینی جو اسرائیلی سیکورٹی افواج کے ہاتھوں مارے گئے، ان میں ۷۱ بچّے تھے۔ اسرائیلیوں نے غزہ میں ۲۳۶، مقبوضہ مغربی کنارے میں ۷۷ فلسطینیوں کو ہلاک کیا۔ جہاں پر اسرائیلی، عیسائی اور مسلمان فلسطینیوں کی زمینوں پر یہودی بستیوں کی تعمیر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ تقریباً وہ تمام فلسطینی جو مغربی کنارے میں مارے گئے ہیں، ان میں سے بیش تر کو مسلح اسرائیلی آبادکاروں نے مارا ہے۔ انھوں نے پہلے تصادم کا آغاز کیا، اور پھر اسرائیلی مسلح افواج نے ان کی نہ صرف حوصلہ افزائی کی ہے بلکہ حکومتی سطح پر انھیں فنڈز دیئے جاتے ہیں، تاکہ وہ مزید گھر تعمیر کرسکیں۔ انھیں تفریحی سہولیات اور روز مرہ اشیاء کی خریداری کے لیے مراعات دی جاتی ہیں اور اس کا بڑا حصہ ۳ء۳ ؍ارب ڈالر امریکی امداد میں سے دیا جاتا ہے۔

’بتسیلم‘ کی تحقیقی رپورٹ‘ اسرائیلی سفاکیت کا شکار ہونےوالوں کے بارے میں تفصیلی معلومات فراہم کرتی ہے۔ حد یہ ہے کہ یہ وہ معلومات ہیں جو اسرائیلی اور امریکی ذرائع ابلاغ میں بہت کم جگہ پاتی ہیں۔ اسرائیلی یا امریکی میڈیا میں یہ خبر صرف اسی وقت جگہ پاتی ہے، جب کبھی کبھار کوئی یہودی اس کا نشانہ بنے۔ اس وقت میڈیا برہمی کا اظہار کرتا ہے، مگر ایسے واقعات کم ہی پیش آتے ہیں، حتیٰ کہ گھروں کو گرانے کی خبریں بھی کم جگہ پاتی ہیں، جس پر اسرائیل آہستگی اور تسلسل سے عمل پیرا ہے، اور فلسطینی علاقوں کو اپنے اندر ضم کرتا چلا جارہا ہے۔

’بتسیلم رپورٹ‘ کے مطابق ۲۰۲۱ء میں مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں ۸۹۵ فلسطینیوں کو بے گھر کر دیا گیا، جب کہ ۲۹۵ گھروں کو گرا دیا گیا۔ ۲۰۱۶ء کے بعد یہ تعداد سب سے زیادہ ہے۔ جب ایک گھر تباہ کیا جاتا ہے تو خاندان کو بے گھر کر دیا جاتا ہے، اور پھر اسرائیلی فوج انھیں ہراساں کرتی ہے، اور اکثر انھیں نہ صرف اپنے ٹائون سے بھاگ جانے بلکہ ملک تک چھوڑنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔

اقوام متحدہ میں اسرائیلی نمایندہ ڈینی ڈینن یہ پوری طرح جانتا ہے کہ جن فلسطینیوں کو  بے گھر کیا گیا، ان میں ۴۶۳ یعنی نصف سے زائد تعداد بچوں کی تھی۔اس سب کے باوجود ۲۹۵گھر تباہ اور ۸۹۵ ؍افراد کو بے گھر کرکے گلیوں میں بے یارومددگار چھوڑ دیا گیا۔ غیر رہایشی ۵۴۸ عمارتوں کو بھی تباہ کر دیا گیا، جن میں پانی کی ٹینکیاں، کنویں، گودام، زرعی فارم ہائوس، تجارتی عمارتیںاور فلسطینی پبلک مقامات شامل ہیں۔ ۲۰۱۲ء کے بعد یہ تعداد سب سے زیادہ ہے۔

اسرائیل کا اصرار ہے کہ احتجاج کرنے والوں پر جلتی آگ کی گولیاں برسانا انصاف کے خلاف نہیں، حتیٰ کہ ایک موقع پر جب ایک نوجوان فلسطینی جو غزہ پر تعمیر کی جانے والی باڑ کے ’بہت قریب‘ تھا اور پرندوں کا شکار کر رہا تھا، اس آگ کا نشانہ بننے کی وجہ سے ہلاک بھی ہوگیا۔

مجھے یقین ہے کہ ’بتسلیم‘ جیسی اسرائیلی انسانی حقوق کی تنظیم پر اسرائیل پابندی لگا کر دفن کرنا چاہتا ہے۔ دراصل امریکی میڈیا، اسرائیل کو کسی پیچیدگی سے دوچار نہیں کرنا چاہتا اور نہ اپنے آپ کو اخلاقیات، تہذیب اور انسانی ناشائستگی سے چشم پوشی کی وجہ سے کسی پیچیدگی میں مبتلا کرنا چاہتا ہے۔

کیا آپ تصور کرسکتے ہیں کہ امریکا کے ایک معروف اخبار نیویارک ٹائمز میں شہ سرخی شائع ہوتی ہے کہ ’’اسرائیل نے ۳۱۳ فلسطینی ہلاک کر دیئے‘‘ اور ذیلی سرخی میں ایما واٹسن کو صرف اس بات پر کہ فلسطینیوں کے انسانی حقوق کا بھی احترام کیا جائے ’یہودی مخالف‘ قرار دے دیا جاتا ہے۔ کیا ’سامی مخالف‘ اصطلاح اب کوئی مفہوم رکھتی ہے؟ یا اسرائیلی پروپیگنڈا اور اشتعال کی بناپر یہ اپنی اہمیت کھو چکی ہے؟

۱۹ دسمبر ۲۰۲۱ء کو اسلام آباد میں ’اسلامی تعاون تنظیم‘ (OIC) کا افغانستان میں موسم کی شدت، گھروں کی تباہ حالی، قحط کی کیفیت اور بیماریوں کے حملے جیسی صورتِ حال کے پیش نظر وزائے خارجہ کا غیرمعمولی اجلاس ہوا۔ اس طرح کے ہنگامی اجلاسوں میں تمام وزرائے خارجہ شرکت نہیں کر پاتے، لیکن اس اجلاس میں ۲۲وزرائے خارجہ نے شرکت کی جو ایک مناسب تعداد تھی۔ اس کے علاوہ بہت سے وزرائے مملکت بھی شامل تھے۔ مجموعی طور پر یہ ایک اچھا اور کامیاب اجلاس رہا۔

اجلاس میں بہت سے اہم نکات زیربحث آئے اور متوازی اجلاس بھی منعقد ہوئے۔ اجلاس کے بعد افغانستان پر ایک قرارداد منظور ہوئی اور اسلام آباد ڈیکلریشن بھی جاری ہوا۔

افغانستان میں ۲ کروڑ ۴۰ لاکھ افغان اس وقت قحط کا شکار ہیں۔ کھانے پینے کی اشیاء کی شدید قلت ہے۔ اس انسانی بحران کو حل کرنے کےلیے یہ اجلاس بلایا گیا تھا۔ اس طرح یہ کانفرنس بنیادی طور پر ایک نکاتی ایجنڈا پر مبنی تھی۔

اجلاس میں جو قرارداد منظور ہوئی اور اسلام آباد ڈیکلریشن جاری ہوا ہے، اس کے دو حصے ہیں۔ عام طور پر اس قسم کی قراردادوں کے دو حصے ہوتے ہیں: ایک ابتدائیہ (Preamble) اور دوسرا عملی حصہ (Operative Part)۔ ابتدائیے میں سابقہ قراردادوں اور مختلف حوالوں کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔ عملی حصہ میں لائحہ عمل طے کیا جاتا ہے اور یہ بتایا جاتا ہے کہ کن چیزوں پر عمل درآمد ہوگا۔ کسی بھی قرارداد کا یہی بنیادی اور جوہری (substantive) حصہ ہوتا ہے۔

اس کانفرنس میں افغان طالبان حکومت کا وفد بھی شریک تھا اور قائم مقام وزیرخارجہ امیرمتقی نے اس وفدکی قیادت کی۔ انھوں نے اس اجلاس میں ایک گھنٹے کی مفصل تقریر کی اور یہ بتایا کہ ہمارا کیا منصوبہ ہے اور ہم کس طرح آگے بڑھیں گے؟

قرارداد کا مطالعہ کیا جائے تو اس میں صرف افغانستان کا نام لیا گیا ہے۔ کہیں بھی ’امارت اسلامیہ‘ یا ’اسلامی جمہوری افغانستان‘ کا نام نہیں لیا گیا ہے۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ او آئی سی نے حددرجہ محتاط رویہ اپنایا ہے، اور او آئی سی میں ابھی تک طالبان حکومت یا امریکی پشت پناہی میں ختم ہونے والی حکومت کے بعد کی صورتِ حال کو تسلیم کرنے پر اتفاق رائے نہیں ہے ۔ کچھ ممالک ایسے ہیں جو طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کرنا چاہتے۔ خاص طور پر تاجکستان جہاں اب تک افغان طالبان کی اپوزیشن کے بہت سے لوگ جن کا سابق حکومت سے تعلق تھا، وہاں موجود ہیں۔ طالبان افغانستان کو ’امارت اسلامیہ افغانستان‘ کہتے ہیں، جب کہ سابق حکومت کے لوگ اپنی حکومت کو ’اسلامی جمہوری افغانستان‘ کہتے تھے۔ اس لیے مسلم وزرائے خارجہ نے بیچ کا راستہ نکالا اور صرف افغانستان کہہ کر مخاطب کیا ہے۔

قرارداد میں اقوام متحدہ سلامتی کونسل کی قراراد ۲۵۹۳  جو ۳۰؍اگست ۲۰۲۱ء میں منظور ہوئی تھی، کا تذکرہ نہیں ہے۔ اس قرارداد کی یہ ایک اہم بات ہے کہ اس میں سلامتی کونسل کی اس قرارداد کا کوئی حوالہ نظر نہیں آتا، جب کہ یہ سلامتی کونسل کی افغانستان پر آخری قرارداد تھی۔یادرہے اس وقت بھارت سلامتی کونسل کا صدر تھا اور اس نے کوشش کر کے وہ قرارداد منظور کروائی تھی۔ تاہم، اس میں طالبان کا نام لیے بغیر ان کو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ ’’وہاں وسیع حکومت (Inclusive) ہونی چاہیے۔ حکومت میں دیگر علاقائی قومیتوں کی نمایندگی بھی ہونی چاہیے‘‘۔

 اسی طرح اس قرارداد میں کہیں بھی ’افغان حکومت‘ کا لفظ استعمال نہیں کیا گیا۔ صرف ایک پیراگراف میں ’افغان اتھارٹیز‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ یہ بھی اس قرارداد کا ایک دلچسپ پہلو ہے۔

کانفرنس میں جو اُمور طے پائے ہیں، ان میں افغانستان کے لیے ایک ’ہیومن ٹیرین ٹرسٹ فنڈ‘ اسلامک ڈویلپمنٹ بنک (IDB) میں قائم کیا گیا ہے۔ سعودی عرب نے اس فنڈ کے لیے ایک ارب ریال کا اعلان کیا ہے۔ پاکستان ۳۰ملین ڈالر کی امداد پہلے ہی دے چکا ہے۔ اس کے علاوہ کسی اور مسلم ملک نے اس فنڈ میں مالی امداد کے لیے کوئی اعلان نہیں کیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ او آئی سی کے ممبر کس طرح سے اس فنڈ میں حصہ ڈالتے ہیں؟

اس قرارداد میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’’افغانستان کے منجمد اثاثوں کو بحال کیا جائے‘‘۔ اس قرارداد میں اس بات کا احساس بھی موجود ہے کہ صرف ’انسانی ہمدردی‘ کے تذکرے اور معاونت سے کام نہیں چلے گا بلکہ جو معاشی تباہ حالی (economic meltdown ) روز افزوں ہے، اس کا سدباب بھی کرنا ہوگا۔ توقع کی جارہی ہے کہ اگلے دوماہ میں انسانی بحران کی صورتِ حال کچھ بہتر ہوجائے گی۔ لیکن جب تک معاشی سرگرمیاں شروع نہیں ہوتی ہیں، یہ معاشی بحران جاری رہے گا۔ اس لیے ضروری ہے کہ افغانستان کا نظامِ بنکاری اور فنانس کا نظام جو بالکل بیٹھ چکا ہے اس کو بحال کیا جائے۔ اس کے لیے مغربی ممالک اور امریکا کی معاونت بہت ضروری ہے۔ اس اجلاس میں امریکا اور یورپی ممالک کے نمایندے بھی موجود تھے۔

او آئی سی نے یہ فیصلہ بھی کیا ہے کہ ’رابطہ گروپ‘ کے بجائے افغانستان کا ’خصوصی نمایندہ‘ مقرر کیا جائے۔ وہ نمایندہ او آئی سی کے ساتھ مل کر افغان اُمور کو دیکھے، اور اس مقصد کے لیے او آئی سی کے موجودہ سیکرٹری جنرل حسین براہیم طٰہٰ کو خصوصی نمایندہ مقرر کیا گیا ہے۔ انھیں او آئی سی کے اگلے اجلاس میں جو مارچ ۲۰۲۲ء میں اسلام آباد میں ہونا ہے، اس کی رپورٹ پیش کرنا ہے۔

یہ تمام باتیں اہم اور مفید ہیں، لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ ان پر پیش رفت کس طرح سے ہوتی ہے؟

اس کانفرنس میں افغانستان کاوفدتو شامل تھا لیکن گروپ فوٹو کے موقعے پر اس وفد کے نمایندے کو شامل نہیں کیا گیا۔ ایسی چھوٹی باتیں بعض ممالک کے لیے بہت حساس بن جاتی ہیں۔

دوسری طرف یہ بھی پیش نظر رہے کہ نئی دہلی میں تیسرا سالانہ سنٹرل ایشیا ری پبلکس کا اجلاس ہوا جس میں پانچ ممالک شامل ہیں۔ اس اجلاس کے بعد بھی ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا۔ اس میں سلامتی کونسل کی قرارداد ۲۵۹۳ کا باقاعدہ ذکر ہوا اور ’افغانستان میں وسیع حکومت‘ پر زور دیا گیا۔ ’دہشت گردی‘ کے حوالے سے بھی بات کی گئی۔

بلاشبہہ او آئی سی کی قرارداد میں بھی دہشت گردی کی بات ہوئی ہے اور داعش کا ذکر ہوا ہے، آئی ایس خراسان، ٹی ٹی پی، القاعدہ اور ای ٹی آئی ایم کا تذکرہ ہے، لیکن ازبکستان اسلامی موومنٹ کا نام قرارداد میں نظر نہیں آیا۔ جو قرارداد دہلی میں جاری ہوئی، اس میں افغانستان پر صرف دوپیراگراف ہیں اور یہ کہا گیا ہے کہ ’’افغانستان سے دہشت گردی نہیں ہونی چاہیے‘‘۔ ایک دلچسپ بات یہ بھی کہی گئی کہ ’’چاہ بہاربندرگاہ میں بہشتی ٹرمینل جو بھارت نے بنایا ہے اس کو بھی افغانستان میں انسانی بنیادوں پر مدد کے لیے استعمال کیا جائے گا اور وسطی ایشیائی ریاستوں سے تجارت کو بھی اس بندرگاہ کے ذریعے فروغ دیا جائے گا‘‘۔

اسلام آباد کانفرنس میں فلسطین پر الگ سے اعلامیہ جاری کیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ اس موقع پر اس اعلامیے کی کیوں ضرورت پیش آئی؟ بلاشبہہ فلسطین پر ہمارا ایک اصولی موقف ہے۔ تاہم، یہ اجلاس تو صرف افغانستان کی صورتِ حال کے لیے مختص تھا تو فلسطین پر اعلامیہ کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ پھر اگر فلسطین کو اعلامیہ میں شامل کیا جاسکتا تھا تو کشمیر کا بھی اعلامیہ میں تذکرہ کیا جانا چاہیے تھا۔ سوال یہ ہے کہ کشمیر کے مسئلے پر وزارائے خارجہ نے یہ گریز پائی کیوںا ختیار کی؟معاملہ یہ ہے کہ کچھ طاقت ور مسلم ممالک نہیں چاہتے کہ بھارت کے خلاف کوئی پوزیشن لی جائے۔ بلاشبہہ اس موقع پر اس اعلامیے کی ضرورت نہیں تھی۔ فلسطین پر ہمارا واضح اور پختہ اصولی موقف ہے۔ خیال رہے کہ کشمیر پر او آئی سی میں اختلافات کو اس اعلامیہ نے مزید نمایاں کرکے دشمن ملک کے لیے سہولت پیدا کی ہے۔

او آئی سی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ’’افغانستان میں پیدا ہونے والے انسانی بحران کے پیش نظر امریکا، طالبان کے معاملے کو سیاست سے الگ کرکے دیکھے‘‘۔

امرواقعہ ہے کہ بین الاقوامی تعلقات میں معاملات کو اس طرح سے الگ نہیں کیا جاسکتا، حتیٰ کہ انسانی بحران اور حکومت کو الگ نہیں کیا جاسکتا۔ کچھ لوگ انسانی بحران کو امکانات اور مفادات کے ایک موقعے کے طور پر لیتے ہیں اور اس میں اپنے لیے سیاسی، معاشی اور اسٹرے ٹیجک مواقع تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس وقت امریکا بھی یہی کر رہا ہے۔ وہ طالبان کے ساتھ ایک معاہدہ کرکے افغانستان سے نکل گیا۔ ماضی میں بھی کچھ اسی طرح ہوا۔  دسمبر۱۹۹۱ء میں جب سوویت یونین منہدم ہوا، تو امریکا اس خطے سے ہٹ گیا اور پاکستان کو مسائل کا سامنا کرنے کے لیے تنہا چھوڑ دیا کہ وہ ان معاملات کا خود سامنا کرے، خواہ مہاجرین کا معاملہ ہو، یا منشیات کا معاملہ، یا دہشت گردی کا معاملہ۔

آج امریکا نے افغانستان کے فنڈز روکے ہوئے ہیں اور افغانستان کو تسلیم نہیں کرتا تو اس طرح ایک طرف وہ طالبان پر دبائو بڑھانا چاہتا ہے، اور دوسری طرف وہ اس معاملے میں پاکستان کو بھی دبائو میں رکھنا چاہتا ہے۔ سچی بات ہے کہ صرف پاکستان کو ہی نہیں بلکہ چین اور روس کو بھی دبائو میں رکھنا چاہتا ہے۔ اس لیے کہ اگر افغانستان میں صورتِ حال بگڑتی ہے تو لامحالہ اس کے اثرات پاکستان پر بھی آئیں گے۔ یوں اس خطے کو مسلسل جنگی دبائو سے دوچار کرکے، معاشی ترقی اور امن کا راستہ روکنا امریکی مفادات کا ہدف دکھائی دیتا ہے۔

طالبان کی کوشش ہے کہ اس صورتِ حال میں ان کو تسلیم کرلیا جائے۔ مغربی دُنیا اس بات کو تو تسلیم کرتی ہے کہ افغانستان میں انسانی بحران ہے، لیکن ساتھ ہی ساتھ وہاں انسانی حقوق کا  مسئلہ بناکر وہ گریز کا راستہ بھی اختیار کرتی ہے۔

اب اگر او آئی سی سے وابستہ ممالک کو ہی دیکھا جائے تو وہاں کون سی جمہوریت ہے، وہاں کون سی تمام عناصر پر مشتمل مشترکہ حکومتیں ہیں یا وہاں پر مغربی ’’تصورات و معیارات‘‘ کے مطابق خواتین کے حقوق کی کون سی پاس داری کی جاتی ہے؟

اسی طرح طالبان کے آنے سے پہلے افغانستان میں کون سی جمہوریت تھی؟ انتخابات میں صرف ۲۰ فی صد ووٹ ڈالے جاتے تھے اور ان میں سے ۱۰ فی صد اشرف غنی کو اور ۱۰ فی صد عبداللہ عبداللہ کو مل جاتے تھے۔ ہر الیکشن میں دھاندلی ہوتی تھی۔ ایک وقت تو ایسا بھی تھا، جب ملک کے دو صدر تھے۔

دُنیا کو یہ سمجھنا چاہیے کہ طالبان کے لیے وسیع حکومت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ رشید دوستم، یونس قانونی اور امرصالح وغیرہ کو وہ اپنی حکومت میں شامل کرلیں گے۔ یہ بات تو کسی صورت ممکن نہیں ہے۔ تاہم، طالبان کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنی حکومت میں مختلف علاقائی قومیّتوں اور طبقوں کو نمایندگی دیں۔ مثال کے طور پر وہ تاجک اور ہزارہ قومیّتوں کے نمایندوں کو حکومت میں شامل کریں۔ خواہ ان کی معروف قیادت کو نہ لیں، لیکن ٹیکنوکریٹس کو اپنے ساتھ شامل کریں تاکہ ان کی صلاحیتوں سے کچھ فائدہ بھی اُٹھا سکیں۔

 سوال یہ ہے کہ اگر وہ عبداللہ عبداللہ کو کچھ پیش کش کرتے ہیں تو کیا وہ طالبان کے ساتھ کام کرنا چاہیں گے؟ اگر وہ ان جیسے لوگوں کو شامل کریں گے، تو معاملہ پھر وہیں آکر رُک جائے گا اور حکومت چل نہیں پائے گی۔ اسی طرح طالبان اس پوزیشن میں بھی نہیں ہیں کہ وہ الیکشن کروا سکیں۔ اس لیے کہ طالبان فی الحال ایک سیاسی جماعت نہیں ہیں، لیکن جب تک یہ عبوری نظام موجود ہے یا ’’لویہ جرگہ‘‘ نہیں ہوجاتا، اس وقت تک طالبان کو دوسری قومیّتوں کے لوگوں کو اپنے ساتھ شامل کرنا ہوگا۔ بلاشبہہ طالبان قیادت میں پشتون کی اکثریت ہے اور حکومت بھی زیادہ تر پشتون کی نمایندگی کررہی ہے، لہٰذا طالبان کو اس سلسلے میں لوگوں کو اپنے ساتھ شامل کرنا اور کچھ لچک دکھانا ہوگی۔

اسی طرح خواتین کا مسئلہ مغربی دُنیا نے اپنے تصورات کے مطابق بہت مبالغہ آمیز طریقے سے اُٹھا رکھا ہے، مگر بہرحال افغان معاشرت میں خواتین کی تعلیم اور صحت کے لیے مزید مواقع پیدا کرنے ہوں گے۔ دین اسلام میں یہ کہا گیا ہے کہ ہرشخص کو لکھنے، پڑھنے اور کام کرنے کا حق ہے، البتہ طریق کار مختلف ہوسکتا ہے۔ تاہم، افغانستان میں لڑکیاں اسکول اور کالج جارہی ہیں، اور اس چیز کو بے جا طور پر نظرانداز کیا جارہا ہے۔ بہرحال ان معاملات کو آگے بڑھنے میں ابھی کچھ وقت لگے گا۔

’انسانی حقوق اور وسیع تر حکومت کی باتیں‘ ایک مخصوص سیاسی ایجنڈے کے تحت کی جارہی ہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ امریکا، بحران کے پیش نظر انسانی بنیادوں پر امداد کو سیاست سے جدا رکھے گا۔ وہ پاکستان، چین اور طالبان کو بھی دبائو میں رکھے گا۔جو لوگ یہ باتیں کر رہے ہیں کہ ’’انسانی بحران کے پیش نظر انسانی بنیادوں پر بین الاقوامی امداد کو سیاست سے الگ رکھا جائے‘‘، وہ یہ بات ایک خیالی دُنیا میں کرتے ہیں، ایسا ہو نہیں سکتا۔

امریکا اس خطے سے عسکری طور پر گیا ہے، مگر اپنے معاشی، عسکری اور تزویراتی مفادات کے لیے وہ کوئی نہ کوئی مسئلہ ضرور اُٹھائے رکھے گا۔ جس میں ہمارے لیے دانش مندی سے راستہ بنانے کی ضرورت ہے۔ محض بیانات کے زور پر ٹکرانا مناسب نہیں ہوگا۔

بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں تقریباً تین عشروں تک بطور صحافی کام کرتا رہا۔ اس دوران میں  جب کبھی حساس اداروں سے وابستہ حاضر سروس یا ریٹائرڈ افسران سے آف دی ریکارڈ گفتگو کا موقع ملتا ، تو وہ بتاتے کہ ’’پاکستان کو الجھا ئے رکھنے کےلیے وہاں مذہب، مسلک اور لسانی قومیت کے مسائل کو اٹھا کر آگ جلائے رکھنا ضروری ہے اور آسان بھی‘‘ ۔ بھارت میں حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے انفارمیشن ٹکنالوجی سیل سے وابستہ ایک سابق اہلکار نے ایک بار مجھ سے کہا تھا: ’’بھرتی کے دوران ہمیں مسلمانوں میں اشتعال دلانے کی باضابطہ تربیت دی جاتی ہے ۔ ہمیں یہ بتایا جاتا ہے کہ مسلمان جذباتی ہوتے ہیں اور جلد ہی اشتعال میں آجاتے ہیں اور اس کا فائدہ اٹھا کر ان کو اُلجھائے رکھنا بہت ہی آسان ہے‘‘۔

 ۱۹۶۰ء کے عشرے میں پاکستانی خفیہ ایجنسیوں کے مقابلے کے لیے بھارتی خفیہ اور حساس اداروں کے افسران کی ایک میٹنگ طلب کی گئی۔ اس میٹنگ میں شریک ایک اعلیٰ افسر مولائی کرشنا دھر بھی شریک تھے۔ انھوں نے بعدازاں ایک کثیرالاشاعت کتاب Mission to Pakistan  (ناشر: مانس پبلی کیشنز، نئی دہلی،۲۰۰۲ء، صفحات:۷۰۲) لکھی، جس میں بتایا: ’’اس میٹنگ میں طے پایا تھا کہ پاکستان کے مرکزی شہر کراچی میں مسلکی منافرت کو شہ دے کر پاکستانی خفیہ ایجنسیوں کو جوابی طور پر سبق سکھایا جائے‘‘۔ اسی کتاب میں انھوں نے مزید لکھا: ’’انٹیلی جنس ایجنسی کے سربراہ کے حکم پر شدت پسند نظریات رکھنے والے ہندو نوجوانوں کی ایک ٹیم تیار کی گئی اور ان کو دین اسلام کے باریک سے باریک نکات سے واقف کرایا گیا، تاکہ وہ ایک جیّدعالم کی طرح بحث ومباحثہ کر سکیں ۔ ان کی ابتدائی تربیت دہلی سے متصل ایک فارم ہاؤس میں ایک افسر شیام پروہت المعروف ’مولوی رضوان‘ نے کی ۔ حساس ادارہ جوائن کرنے سے پہلے پروہت ایک شدت پسند ہندو تنظیم کاسرگرم رکن تھا اور دین اسلام کے متعلق اس کی معلومات قابلِ رشک تھیں ۔ ابتدائی تعلیم کے بعد پروہت نے اپنے ایک شاگردگوتم رے المعروف ’مہم خان‘ کو مزید تعلیم کے لیے دارالعلوم دیوبند بھیجا ۔ جہاں اس نے مناظرے کے فن میں خاصی مہارت حاصل کی۔ فراغت کے بعد ٹریننگ کے ایک اگلے حصے کے طور پر مہم خان صاحب نے بریلی جاکر علمائے بریلی کو مناظرے کی دعوت دی ۔ مگر مناظرے سے ایک رات قبل گوتم رے صاحب (یعنی ’مہم خان‘) دادِعیش دینے ایک طوائف کے کوٹھے پر جاپہنچے۔ طوائف اس بات پر حیران ہوئی کہ مولوی کی صورت والا یہ شخص غیر مختون کیوں ہے؟ اس نے جب مسٹر رے یا ’مہم خان صاحب‘ کو لانے والے دلال سے یہ ماجرا پوچھا تو وہ بھی حیران و پریشان ہوگیا اور سیدھا ’خان صاحب‘ کے تعاقب میں ان کی قیام گاہ تک پہنچ گیا۔ وہاں اسے معلوم ہوا کہ یہ ’جید مولوی صاحب‘ تو علمائے دیوبندکے اس وفد میں شامل ہیں، جو علمائے بریلی کے ساتھ مناظرہ کرنے آیا ہے تو مزید حیرت میں گم ہوگیا۔  یہ بات اس نے علمائے بریلی کو جاکر بتائی۔ اس طرح یہ بات پھیل گئی کہ دیوبندی، ختنہ نہیں کراتے۔ صورت حال کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے خان صاحب یا گوتم رے پہلی ہی بس میں سوار ہوکر دہلی فرار ہوگئے‘‘۔

ان کے بعد دیگر سیدھے سادے مولویوں کا کیا حشر ہوا؟ مسٹر دھر، نے اس سے پردہ نہیں اٹھایا  بلکہ ان کا کہنا ہے: ’’اس واقعے کے بعد چیف صاحب نے پہلا حکم یہ دیا:’’آیندہ ایسے آپریشنز کے لیے بھرتی کیے گئے اہلکاروں کو سب سے پہلے ’حسب حال‘ بنایا جائے‘‘۔ دھر بھارتی انٹیلی جنس بیورو کے نائب سربراہ کے عہدے سے ریٹائر ہوئے، انھوں نے یہ کتاب ایک ناول کی شکل میں لکھی ہے، مگر وہ دیباچے میں واضح طور پر لکھتے ہیں: ’’یہ حقیقی آپریشن کی روداد ہے، جس میں مَیں نے صرف افراداور جگہوں کے نام بدل دیے ہیں‘‘ ۔ ایم کے دھر کا چند برس قبل انتقال ہوگیا، مگر ان کی کتاب شائع ہورہی ہے۔

قصّہ مختصر یہ کہ صرف بھارتی خفیہ ادارے کا کوئی ایسا سربستہ راز نہیں ہے، جس پر سے دھر صاحب نے پردہ اٹھایا ہو ۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر مصروف مغربی ممالک کی متعدد ایجنسیاں نظریۂ اسلام کے خلاف علانیہ جنگ ا ور مسلمانوں کی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کی تگ ودو میں نہ صرف خود مصروف ہیں ، بلکہ مسلمانوں کے اندر سے بھی چند عناصر کو اُکسا کر اسلام کی شبیہ کو خراب کرکے اور غیر مسلموں اور مسلمانوں کے اندر لبرل عناصر کو اس سے متنفر کرکے، اسلامو فوبیا کے ایجنڈے میں گہرا رنگ بھر نے کا کا م کررہی ہیں ۔

اسی طرح دہلی کی ایک عدالت میں بھارت کے مرکزی تفتیشی بیورو یعنی سینٹر ل بیورو آف انوسٹی گیشن(CBI) کی ایک رپورٹ موجود ہے، جس کو بنیاد بناکر ;عدالت نے دو مسلم نوجوانوں ارشاد علی اور نواب معارف قمر کو گیارہ سال بعد رہا کردیاتھا ۔ یہ دونوں افرادبھارت کے خفیہ ادارے اینٹلی جنس بیورو (IB) اور دہلی کی اسپیشل پولیس کے مخبر تھے، جو بعد میں انھی کے عتاب کا شکار ہوکر جیل میں چلے گئے ۔ ان کے ہوش ربا انکشافات ’سی بی آئی‘ اور کورٹ کے ریکارڈ پر موجود ہیں ۔ بہار کا مکین ارشاد علی اپنے ساتھی معارف قمر کے ساتھ کشمیر میں مخبری کا کام کرتا تھا اور چند افسران اس کو لائن آف کنٹرول پار کرکے ’لشکر طیبہ‘ میں شامل ہونے کےلیے دبائو ڈال رہے تھے ۔ جب خوف کے مارے ارشاد نے انکار کیا، تو ملاقات کےلیے موصوف کودہلی بلاکردو ماہ تک قید میں رکھا گیا۔ بعد میں ایک کشمیری گروپ سے وابستہ دہشت گرد قرار دے کر جیل میں ڈال دیا گیا۔

ارشاد علی کے بیان کے مطابق: کسی مسلم علاقے میں زاہدانہ وضع قطع کا کوئی نہ کوئی مولوی ٹائپ شخص روانہ کیا جاتا ہے، جو اسلامی علوم میں دسترس رکھتا ہے اور یہ حضرت یا تو کسی مسجد کے آس پاس مکان کرایہ پر لیتے ہیں یا مسجد میں ہی ڈیرہ جماتے ہیں ۔ اس کے متقی پن اور پرہیزگاری سے متاثر ہوکر محلّے یا گاوں کے افراد اس کے گرویدہ ہوجاتے ہیں ۔ یہ حضرت، رقت آمیز بیانات میں مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم کی داستانیں سناکر جذباتی اور پڑھے لکھے نوجوانوں کو منتخب کرکے جہاد کی ترغیب دیتے ہیں ۔ لوہا جب خوب گرم ہوجاتا ہے، تو ایک دن یہ حضرت معتقدین کے اس گروپ پر ظاہر کرتے ہیں ، کہ وہ دراصل کسی تنظیم کے کمانڈر ہیں ۔ جذبات میں مغلوب نوجوان اب کسی بھی حد تک جانے کےلیے تیار ہوجاتے ہیں ۔ ان کو ہتھیار چلانے کی معمولی ٹریننگ دی جاتی ہے ۔ یہ مولوی صاحب اس دوران مسلسل افسران کے رابطے میں ہوتے ہیں ۔ ٹارگٹ متعین بھی کر دیا جاتا ہے ۔ آخر میں یہ نوجوان پکے پھلوں کی طرح ان سیکورٹی ایجنسیوں کے بنے جال میں گر جاتے ہیں اور اگر ان کا ’انکاونٹر‘ [جعلی مقابلے میں قتل] نہ ہوجائے ، تو زندگی کا بیش تر حصہ مختلف جیلوں میں گزار تے ہیں ۔ میڈیا میں خبر آتی ہے، کہ ’’دہشت گردوں کے ایک بڑے نیٹ ورک کا پردہ فاش کیا گیا ۔ مگر اس کا سرغنہ یا ایک دہشت گرد فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا ہے ۔ ان پکڑے گئے افراد کو بتایا جاتا ہے، کہ آپ پر رحم کھاکر جیل بھیجا جارہا ہے، ورنہ ’انکاونٹر‘ میں مارا جانا لازمی تھا ۔ وہ بھی پولیس اور اداروں کے احسان مند رہتے ہیں ، کہ مارنے کے بجائے ان کو جیل بھیج دیا گیا، جہا ں اگلے سات تا دس سال گزارنے کے بعد وہ رہا ہوجاتے ہیں ۔

وادیٔ کشمیر کے تجارتی اور سیاسی لحاظ سے اہم قصبے سوپور میں اسکول اور کالج کے دور میں ، میں میر سید علی ہمدانیؒ [۱۳۱۴ء-۱۳۸۴ء]کی خانقاہ میں نماز جمعہ ادا کرتا تھا ۔ سیّد علی ہمدانیؒ کا تحریر کردہ وظیفہ اورادِ فتحیہ   وحدانیت پر مشتمل کلام ہے۔ نماز سے قبل شمالی کشمیر کے مفتی اعظم مولوی غلام حسن، مسلم امت میں خلفشار اور تفرقوں کا ذکر کرتے ہوئے، اتحاد بین المسلمین کے لیے رقت آمیزدعا کرواتے تھے ، مگر اسی دوران فوراً ہی ان کا ٹریک تبدیل ہو جاتا تھا ۔ وحدت کا درس دینے کے چند منٹ بعد وہ جماعت اسلامی، مولانا مودودی، ایرانی انقلاب وغیرہ کو ہدفِ تنقید بنانا شروع کر دیتے تھے۔ ان کا اصل نشانہ تو جماعت اسلامی ہی ہوتی تھی، اور وہ کہتے تھے کہ ’’جماعت کے لوگ اورادِ فتحیہ  پڑھنے سے لوگوں کو روکتے ہیں‘‘۔ یہ بات سن کر حاضرین کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوجاتے، اور وہ نفرت کی چنگاری سلگانے میں کامیاب ہوجاتے۔ حالانکہ جماعت اسلامی سے وابستہ قاری سیف الدین صاحب ہی نے اورادِ فتحیہ   کا اُردو اور کشمیری میں ترجمہ کر رکھا تھا، جو وہاں خاص و عام میں مقبول تھا۔ اور جماعت نے کبھی کسی کو اس کے پڑھنے سے منع نہیں کیا تھا۔

 جب ۲۰۰۲ء میں مجھے تہاڑ جیل، دہلی میں ایام اسیر ی گزارنے سے قبل دہلی پولیس کی اسپشل سیل کے انٹروگیشن روم میں رکھا گیا ، تو ایک دن خفیہ ادارے کا ایک بزرگ اہلکار راقم سے ملنے آیا ۔ یہ اہلکار ریٹائرمنٹ کے قریب تھا، سوپور کا حال و احوال پوچھنے لگا ۔ میں اس کے سوالات کو انٹروگیشن ہی کا حصہ سمجھ رہا تھا ۔ مگر اس نے جلد ہی وضاحت کر دی کہ ’’میں کافی مدت تک سوپور میں ڈیوٹی دے چکا ہوں، اور وہاں کے گلی کوچوں اور مقتدر افراد سے واقفیت کی یاد تازہ کرنے کےلیے ملنے آیا ہوں‘‘۔ باتوں باتوں میں اس نے مفتی غلام حسن صاحب کا بھی ذکر چھیڑا، کہ کس طرح ۱۹۷۵ء میں شیخ محمد عبداللہ [م:۱۹۸۲ء]کو دام حکومت میں پھنسا کر،رہے سہے جذبۂ آزادی کو جڑسے اکھاڑ پھینکنے کےلیے جماعت اسلامی اور دیگر ایسی تنظیموں کا نظریاتی توڑ کرنے کےلیے مقامی پیروں اور مولویوں کو ایک منصوبے کے تحت آلۂ کار بنایاگیا تھا۔ سادگی میں اعتقادی اور بداعتقادی کا ہوّا کھڑا کرکے اپنی جگہ مخلص افراد نے بھی اَنجانے میں اس ہدف کو تقویت فراہم کردی تھی۔

پختہ کار مذہبی ہندو ہونے کے باوجود یہ اہلکار، اسلام کے عقائد اورمسالک کے درمیان اختلافات کی باریکیوں پر بھرپور عبور رکھتا تھا ۔ سبھی فرقوں کے عقائد اس کو اَزبر تھے ۔ شاہ ولی اللہ، شاہ عبدالعزیز کے فرمودات کے علاوہ مغل شہنشاہ اورنگ زیب کے ساتھ ان کے فکری اختلافات، جن سے راقم بھی ناواقف تھا،وہ سیرحاصل لیکچر دے سکتا تھا۔ اب مسئلہ دیکھنے کا یہ ہے کہ اتحاد بین المسلمین کا درد سینے میں سمیٹے مفتی صاحب، اسی اتحاد کو پار ہ پارہ کرنے کےلیے کیوں مجبور ہو جاتے تھے؟ خفیہ ادارے کے اس بزرگ اہلکار نے مجھے ماضی کی ا ن کڑیوں کو جوڑنے اور سوچنے پر مجبور کیا، کہ کس طرح اچانک مذکورہ مولوی صاحب وعظ و نصیحت کرتے کرتے ٹریک سے اتر جاتے تھے؟

یہ الگ بات ہے کہ جب کشمیر میں عسکری دور کا آغاز ہوا، تو بارہمولہ میں بھارتی فوج کی ۱۹ویں ڈویژن کے کمانڈر جوگندر جسونت سنگھ، (جو بعد میں بھارتی آرمی کے ۲۱ویں چیف [۲۰۰۵ء- ۲۰۰۷ء]بھی بنے)۔ انھوں نے کشمیر میں سب سے پہلے مساجد کے اماموں کوہی تختۂ مشق بنایا ۔ سوپور کی خانقاہ کے انھی مشہور ۷۰سالہ واعظ کو بھی طلب کیا، اور ان کے جھریوں زدہ ہاتھوں پر گرم استری پھیر دی گئی تھی ۔ کانگریس کے ریاستی یونٹ کے صدر غلام رسول کار کی کوششوں سے جب ان کو رہائی ملی، اور میں ان کی خیریت دریافت کرنے گیا، تو دیکھا کہ ان کے ہاتھوں کی جلد جھلس چکی تھی، چربی اور گوشت کی تہیں صاف دکھائی دے رہی تھیں ۔

ان واقعات کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ قوم کے لیڈر،ان نزاکتوں کا ادراک کرتے ہوئے، گلی محلے کی مساجد پر نظر رکھیں کہ وہاں مقامی امام یا مولوی صاحب کس طرح کی وعظ خوانی کررہے ہیں؟ ; کیا اس سے معصوم ذہنوں کو قربانی کا بکرا تو نہیں بنایا جارہا ہے؟ ; ناموس رسالت کی اہمیت اور عوام کو اس کی افادیت اور معنویت بتانا اور اس پر زور دینا بجاطور پر اپنی جگہ لازم ہے،  مگر اس کو بنیاد بناکر عوام کوقانون ہاتھ میں لینے کےلیے اُکسانے والوں کو بھی سمجھنا،پرکھنا اور انجام تک پہنچانا چاہیے ۔

 یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ مختلف جداگانہ قومیّتوں کے نہایت گہرے تضادات اور تصادم تک پہنچے تفرقات کے باوجود، بھارت نے انڈین نیشنل ازم کو قابلِ لحاظ حد تک تشکیل دینے میں کامیابی حاصل کی۔ اگرچہ ۲۰۱۴ء کے بعد ہندو قوم پرستوں کے اقتدار میں آنے کی وجہ سے اس میں دراڑیں پڑ رہی ہیں۔ مگر اس کے مقابلے میں پاکستان ایک ہی مذہب اور صرف چارپانچ لسانی قومیّتوں کے باوجود شناخت کے حوالے سے عدم تحفظ کا شکار کیوں بن رہا ہے؟ معصوم ذہنوں کو روز تنگ نظر قومیتی احساساتِ محروی اور نفرت بھرے مذہبی وعظوں کے انجکشن دینا بھی قومی سلامتی کو چیلنج کرنے کے زمرے میں آتا ہے ۔ اس لیے تنگ نظرقوم پرستوں کا معاملہ حکومت پر چھوڑ کر، کم از کم مذہبی حوالے سے نسبت رکھنے والے فسادی عناصر کو دینی قیادت ہی رضاکارانہ طور پر درست کرے، ان کی تطہیر کرے اور ان پر نظررکھے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان کے بین الاقوامی شہرت یافتہ شہر سیالکوٹ میں سری لنکا کے باشندے کے ہجومی قتل اور پھر لاش کو جلانے کا واقعہ چیخ چیخ کر یہ پیغام دے رہا ہے کہ اس میں فی الحقیقت کوئی دینی تنظیم ملوث نہیں تھی، مگر جن افراد نے یہ قدم اٹھایا، وہ ضرور کسی کے زیر اثر ہیں، اس لیے صرف اس یا اس نوعیت کے واقعے کی محض مذمت کر نا کافی نہیں ہے، اس طرح کے واقعات کے تدارک کےلیے عملی اقدامات اٹھانا بھی انتہائی ضروری ہے ۔

مسلم دنیا کے حوالے سے فرانس کا ایک نہایت گہرا سامراجی کردار رہا ہے، مگر عام طور پر لوگ اس سے واقف نہیں ہیں۔ لیکن جن مسلم علاقوں میں فرانسیسی استعماریت نے اپنی نوآبادیات قائم کر رکھی تھیں، وہ اس خون آشامی سے بخوبی آگاہ ہیں۔ گذشتہ دنوں فرانس کے صدر میکرون نے مشرق وسطیٰ کا دورہ کیا۔

میکرون نے ستمبر ۲۰۲۱ءمیں کہا تھا کہ ’’ہم نہیں جانتے کہ کوئی الجزائر نامی عرب ملک بھی ہے۔ یہ توہماراملک ہے، جہاں آج بھی فرانسیسی بولی جاتی ہے، جس کے تعلیمی اداروں میں ہمارا نصاب پڑھایا جاتا ہے اور یہ ممالک عرب کم، فرانسیسی زیادہ ہیں۔ ہمارے علاقے ہم کو چاہییں‘‘۔ اس پر الجزائر اور اس کے ہمسایہ دوسرے افریقی عرب ممالک میں سخت ردعمل ہوا۔ انھوں نے اپنے ہاں متعین فرانسیسی سفیروں کو طلب کرکے فرانسیسی صدر کے غیرذمہ دارانہ الفاظ اور رکیک حملوں پر شدید احتجاج کیا۔ اسی دوران اسرائیل کی دو آبدوزیں، الجزائر کے ساحل پر نمودار ہوئیں۔  فرانس کے ایک وزیر نے یہ اشتعال انگیز بیان دیا: ’’ہم الجزائر سے ابھی نہیں گئے ہیں، ہمارا وجود عرب اقوام کو بھولنا نہیں چاہیے‘‘۔

اس تنازعے کی بنیاد پر مراکش، الجزائر، تیونس میں ہنگامے اُٹھ کھڑے ہوئے۔ الجزائر اور دوسرے ممالک نے اعلان کیا کہ ’’فرانسیسی زبان میں،اپنے ہاں رائج فرانسیسی تعلیمی نصاب کو ہم مستردکرتے ہیں‘‘۔ ساتھ ہی انتظامیہ اور عدلیہ سے بھی فرانسیسی زبان کے خاتمے کے لیے کوششیں شروع ہوگئیں۔ اسی دوران صدر میکرون نے پیرس میں چند الجزائری نژاد فرانسیسی نوجوانوں کا اجلاس طلب کیا اور ان کے سامنے اپنی اس شرانگیز خواہش کا اظہار کیا کہ ’’اپنے ملک کو آزاد کرانے کے لیے آزادی کی نئی تحریک کا آغاز کریں۔ وہاں پر ایک نئے مغربی ملک کی ضرورت ہے، جو بین الاقوامی معیارات کے مطابق اقوامِ عالم کے شانہ بشانہ چل سکے،وغیرہ‘‘۔

اسی طرح فرانس، دومسلم ممالک تیونس اور لیبیا کی سیاست کو زیروزَبر کرنے اور شفاف جمہوریت کے قیام کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے۔

فرانس کا سامراجی کردار

فرانس، یورپ کی ایک بڑی سامراجی طاقت رہا ہے۔ کئی مسلم عرب اور افریقی عرب ممالک پر کم و بیش ڈیڑھ دو صدی تک قابض رہا۔ ان اقوام کے تہذیب و تمدن اور زبان پرفرانسیسی تہذیب کے بڑے پیمانے پر اثرات آج بھی نمایاں ہیں۔ فرانس اپنے پرانے نوآبادیاتی ممالک (مغرب) تیونس، الجزائر، مراکش، موریطانیہ، لیبیا اوران کے ساحلوں پر گرفت مضبوط کرنے کے لیے ان ممالک کی داخلی سیاست، معیشت، انتظامیہ،تعلیم،عدلیہ اور فوج میں براہِ راست مداخلت کرتا چلا آیا ہے، اور وہ اس مداخلت کو اپنا بین الاقوامی حق سمجھتا ہے۔

ان ممالک میں فرانس سے آزادی حاصل کرنے کے بعد،یہاں پر فرانس ہی کے زیراثر کاسہ لیس اور ذہنی غلام حکمرانوں کی بدترین ڈکٹیٹرشپ چلتی رہی۔الجزائر اسلامک سالویشن فرنٹ، نیشنل لبریشن فرنٹ اور اسلامک سالویشن آرمی نے ۱۹۹۱ء تا ۲۰۰۲ء تک محمد بوضیاف اور پھر علی کافی اور الیمین زروال کی فوجی ڈکٹیٹرشپ کے خاتمے کے لیے ہرسطح پر جدوجہدکی، جس میں ۱۰لاکھ لوگوں کی جانیں کام آئیں۔ الجزائری انتخابات میں اسلام پسند پارٹی (FIS) نے ۸۰ فی صد نشستوں پر کامیابی حاصل کرلی، تو فرانس نے الجزائری فوج کو بھڑکا کر ان انتخابات کو کالعدم قرار دلایا اور ایک ایسی ڈکٹیٹرشپ مسلط کردی، جس کے تسلسل میں عبدالعزیز بوتفلیقہ ۲۷؍اپریل ۱۹۹۹ء سے ۲؍اپریل ۲۰۱۹ء تک الجزائر کا ڈکٹیٹر رہا۔ لیبیا میں جب جنگجو حفتر کی ملیشیا کے خلاف ترکی نے معمولی سی طاقت استعمال کی توفرانس نے شدید اعتراض کیا اور اس پر ترکی و مراکش کے اختلافات عروج پر پہنچ گئے۔ کم و بیش ایسی ہی صورتِ حال مراکش، تیونس اورلیبیا کی ہے کہ ان کے پیچھے فرانس کا مضبوط ہاتھ ہے۔

مراکش، الجزائر،تیونس، لیبیا، موریطانیہ کی حکومتوں کے بارے میں یوں لگتا ہے کہ یہ بڑی کمزور اور اداراتی سطح پر فیصلہ سازی میں سُست روی کا شکار ہیں۔ فرانس سے آزاد ہوئے ۵۰سال گزرنے کے باوجود بھی یہ ممالک اپنا قومی تعلیمی نظام،عدلیہ اور انتظامیہ کا خودکارنظام قائم نہیں کرسکے۔ ہرسطح پر فرانسیسی طاقت وَر گماشتوں اور مخبروں کی مضبوط گرفت آج بھی نظر آتی ہے۔

فرانسیسی معاشرہ

اگرفرانس کو ایک اخلاق باختہ ملک کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا، جہاں ۶۰ فی صد بچے بے نکاح جوڑوں کے ہاں پیدا ہوتے ہیں۔ عورت کی شادی کی اوسط عمر ۳۴سال ہے۔ اوسطاً ایک فرانسیسی کے ہاں ۱ء۳ فی صد بچے پیدا ہوتے ہیں، جب کہ مسلمان عورتیں ۳سے ۴ بچوں کا تولیدی رجحان رکھتی ہیں۔ یہ رجحان دیکھتے ہوئے فرانسیسی ماہرین عمرانیات کا کہنا ہے کہ ’’اگر اسی رفتار سے مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ ہوتا رہے گا تو ۲۰۵۷ء تک مسلمانوں کی فرانس میں آبادی اکثریت میں آجائے گی، جو سارے یورپی خطے کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے‘‘۔

فرانسیسی معاشرے کے لیے سب سے بڑا چیلنج خاندانی نظام کو مسترد کرتے ہوئے ہم جنس زدہ کلچر کو فروغ دینا ہے، اور اس کے خوفناک سماجی اثرات کا سامنا کرنا ہے۔ شادی کے بندھن کو اب فرانسیسی سماج میں سخت معیوب سمجھا جانے لگا ہے۔جو شادی شدہ جوڑے ہیں وہ نہیں چاہتے کہ ان کے ہاں بچے پیدا ہوں،یا جو آزادانہ جنسی اختلاط کے تولد ہونے والےبچے کے ماں باپ بنیں۔

چند سال قبل پیرس میں مکمل طور پر برہنہ عورتوں نے ایک جلوس نکالا تھا اور پلے کارڈوں پر لکھا تھا: ’’مجھ سے شادی کرلو‘‘۔ دُنیا کی تہذیب یافتہ قوم کی جنسی حیوانیت، بے شرمی اور بے حیائی کے اس مظاہرے نے اخلاق باختگی کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے کہ پیشہ ور طوائفیں بھی اس طرح نہیں کرتیں۔ ہم جنس زدہ مردوں اور ہم جنس زدہ عورتوں کی شادیوں کا آخرکار انجام یہی ہونا تھا۔ فرانسیسی معاشرے میں انھیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ جس معاشرے میں انفرادی، اجتماعی اورعائلی زوجین کے سرے سے کوئی اصولِ زندگی اور کوئی ضابطۂ حیات نہ ہو تو اس معاشرے کو کوئی دوسرا انسانی معاشرہ اپنے لیے رول ماڈل نہیں بنا سکتا۔

فرانسیسی مسلمان : حکومت اور معاشرے کے جبر کا شکار

فرانس میں کئی برسوں سے اسلاموفوبیا کے بخار میں اسلام و مسلمانوں کے خلاف بار بار نفرت بھرے جرائم اور بے عزّتی میں اضافہ ہوتا آرہا ہے۔یاد رہے جنوری ۲۰۱۵ء کو اخبار چارلی ہیڈو میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گستاخانہ خاکے بنانے کے بعد مذکورہ اخبار کے دفتر پر ایک ’جعلی حملے‘ میں ۱۲؍ افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس کے بعد مسلمانوں کے خلاف شدید نفرت کا اضافہ ہوا۔ جرائم کی پرکھ رکھنے والے ماہرین اس حملے کو آج بھی ایک ’جعلی دہشت گرد حملہ‘ قرار دیتے ہیں۔ اسکولوں، گورنمنٹ کے اداروں، کاروباری مراکز، فیکٹریوں، تجارتی و شاپنگ مالوں اور دکانوں میں وقفے وقفے سے مسلمانوں کو تضحیک کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔

پیرس میں ایک الجزائری عرب کی بہت مشہور بیکری تھی، جہاں رات دن گاہکوں کی قطاریں لگا کرتی تھیں۔ انتہاپسند فرانسیسی عیسائیوں کو یہ بہت کھٹک رہا تھا۔ انھوں نے سوشل میڈیا پر اس کے بارے ایک من گھڑت خبر اُڑا دی کہ ’’یہ انتہا پسند عرب، اپنی بیکری کی آمدنی دہشت گردوں کو بطور عطیہ دیتا ہے‘‘۔ پھر یہ خبر لندن، نیویارک اور دُنیا کے بڑے مشہور میڈیا مراکز پر نشر کر دی گئی۔ اب اس بیکری کے مالکان کا کاروبار بالکل ٹھپ ہوچکا ہے، یہ ہے اسلاموفوبیا کا ایک نمونہ۔

فرانسیسی استعماری نوآبادیاتی نظام کا دورِ استبداد بڑا طویل رہا۔ فرانس نے مراکش پر ۴۴سال ، تیونس پر ۷۵سال اور الجیریاپر ۱۳۲سال تک اپنا غاصبانہ قبضہ جمائے رکھا تھا۔ ۶۰ کے عشرے میں جب فرانس کے خلاف زبردست آزادی کی تحریکیں چل رہی تھیں، تو اس وقت فوج و انتظامیہ میں موجود عرب ملازمین نے عرب عوام کے غصّے سے بچنے کے لیے فرانس میں پناہ لی تھی اور انھیں مسلمانوں سے غداری کے عوض بڑے پیمانے پر فرانسسی شہریت بھی دے دی گئی تھی۔

صدر میکرون کی حکومت نے فرانس میں اسلام کے خلاف جاری شدید نفرت و اہانت کو روکنے کی کبھی کوشش نہیں کی، بلکہ اس کے برعکس کبھی حجاب پر پابندی، کبھی مساجد پر گرفت، کبھی خطباتِ جمعہ پر تادیبی حکم نامے یا مسلم انتظامیہ کے اسکولوں اور قرآن کی تعلیم پر پابندی کے لیے سخت تر قوانین مرتب اور نافذ کیے۔ گورے فرانسیسی ہمیشہ ترکی، الجزائر، تیونس، مراکش، موریطانیہ اور لیبیا کے عرب مسلمانوں کو ایک ناکارہ گندہ بوجھ سمجھتے آئے ہیں۔ فرانس میں گذشتہ ۵۰برسوں کے دوران مسلم آبادی میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے، اور اب ان عربی نژاد شہریوں کی چوتھی نسل ہے۔

فرانس کی کُل آبادی ۶کروڑ ۷۰لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ اس میں ۵۶ لاکھ یعنی ۸ء۹ فی صد مسلمان فرانسیسی شہریت کے حامل ہیں۔ پھران میں ۸۲ فی صد افریقی عرب نژاد اور باقی ترکی النسل ہیں۔ تیونس کے ۱۱ء۴ فی صد، الجیریا کے ۴۳ فی صد، مراکش کے ۲۷ فی صد، ماریطانیہ کے ۴فی صد، ترکی ۸ء۶ فی صد، ساحل ۹ء۶ فی صد مسلمان شامل ہیں۔

فرانس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس کو بار بار گستاخی کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے، جس پر عالمِ اسلام میں شدید غم و غصے کی لہر اُٹھتی ہے۔ غیرعرب ممالک پاکستان، بنگلہ دیش، انڈونیشیا، ملائشیا، ترکی میں شدید احتجاج اس کے خلاف کئی مرتبہ ہوچکے ہیں۔

۲۷، ۲۸؍اگست ۲۰۲۱ء کو عرب حکمرانوں کی بغداد میں کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس میں بطورِ مہمانِ خصوصی میکرون نے شرکت کی۔ اس دوران میزبان اورمہمان عرب ممالک کی غیرت جاگنی چاہیے تھی کہ میکرون جیسے ملعون کو عرب ممالک کے حکمران، ایک قائد کے طور پر سرجھکائے سن رہے تھے، اور اس کی پذیرائی کر رہے تھے، حالانکہ اس کا مقاطعہ کیا جانا ضروری تھا۔

نیٹو افواج کی درندگی کے شکار عراق میں، جنگ سے تباہ حال علاقے کا جب میکرون نے دورہ کیا، تو بمباری سے تباہ شدہ عمارتوں اور کھنڈروں کو جوں کا توں دیکھا۔ مساجد، مدارس، ہسپتال بُری طرح تباہ و برباد نظر آرہے تھے۔ لیکن جب میکرون نے تکریت میں ایک تباہ شدہ چرچ کو دیکھا تو اس کے پادری نے کہا کہ ’’داعش نے یہ سب کچھ تباہ کر دیا‘‘۔ قریب کھڑے ایک دوسرے عرب پادری نے میکرون سے پوچھا: ’’داعش جس نے بنائی ہے، آپ لوگ اچھی طرح سے جانتے ہیں۔ آپ لوگ اگر چاہتے تو یہ تباہی چند مہینوں میں ختم ہوسکتی تھی۔ بتائیں اس کے کون ذمہ دار ہیں؟‘‘ پھر اسی عرب پادری نے سخت لہجے میں کہا: ’’آپ کی فضول باتوں سے ہم مطمئن ہونے والے نہیں ہیں‘‘۔

فرانس میں داخلی طور پر مسلم آبادی پر مظالم کی جو لہر روزافزوں ہے ، میکرون اور اس کی حکومت اس کی بنیادی طور پر ذمہ دار ہے۔ مگر اس کا ذکر نہ بغداد علاقائی کانفرنس میں کسی عرب حکمران نے کیا، اور نہ کسی میں اتنی جرأت اور ہمت تھی کہ وہ اپنی سخت احتجاجی قرار داد فرانسیسی صدر کے حوالے کرتا۔ غالباً میکرون کو مسلمانوں کے بارے بھارت کی دوغلی پالیسی بہت کامیاب نظر آتی ہے، جہاںعرب مہاراجوں سے گہری دوستی کا ڈھونگ رچایا جاتا ہے اور داخلی طور پر فرانس کی طرح اسلام اورمسلمانوں کے لیے سخت ظالمانہ اقدامات کیے جاتے ہیں۔

۳۰ ستمبر۲۰۲۱ء کے پہلے ہفتے میں، مشرق وسطیٰ میں فرانسیسی صدر کا حکمرانوں نے پُرتپاک استقبال کیا ،مگر عوامی سطح پر ان کے خلاف سارے عالمِ اسلام میں شدید جذبات اور احساسات پائے جاتے ہیں۔ افسوس کہ عرب حکمرانوں نے اتنی جرأت، حوصلے اور ہمت نہیں برتی کہ وہ کہہ سکتے: ’’اسلاموفوبیا اور نبی کریمؐ کے خلاف گستاخیاں، مسلمانوں پر جو ظلم و زیادتیاں فرانس میں سرکاری سرپرستی کے ساتھ گذشتہ چند برسوں سے ہورہی ہیں، ان پر وہ پہلے معذرت کرے اور مسلمانانِ فرانس کے ساتھ نرمی و مروّت کا معاملہ کرے‘‘۔ یہ ’گلف کوآپریٹیو کونسل‘ (GCC) کی اوّلین ذمہ داری تھی کہ وہ ایک قرارداد، سفارتی پروٹوکول کو ملحوظ رکھتے ہوئے متفقہ طور پر میکرون کو پیش کرتی۔ بہرحال، دوسری طرف پاکستان اور ترکی نے جہاں بھی موقع ملا، بین الاقوامی پلیٹ فارموں پر اسلاموفوبیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اہانت و گستاخی کا مسئلہ پوری قوت سے اُٹھایا۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عرب لیگ کے تمام حکمرانوں نے لبرل ازم اور سیکولرزم کے سامنے جھکنے کی انتہا کردی ہے۔ جس دین اسلام میں، جن رسولِ کریمؐ اور جن پر ایمان باللہ کی وجہ سے دُنیا میں ان کی وقعت، عزّت و احترام ہے، وہی اسلام کے دشمنوں کے دبائو میں آکر لاتعلقی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ عرب ممالک میں اسکولوں کے نصاب سے اسلامی مضامین خارج کیے یا غیرمؤثر بنائے جارہے ہیں۔ اسلامیات، اللہ و رسولؐ کی حُرمت و احترام کی جگہ عرب وطنیت اور قومیت کو بڑھا چڑھا کر شامل کیا جارہا ہے۔ عرب اور مسلم ممالک کی اغیار کے ہاتھوں ذلّت و خواری کا سبب یہی ہے۔

تاریخ ان فاش غلطیوں کی بناپر مسلم دُنیا کے حاکم طبقوں کو کبھی معاف نہیں کرے گی۔ عالمِ اسلام میں پیدا شدہ مایوسی اسی وقت ختم ہوگی، جب ۵۷ مسلم ممالک اپنے طور پر ایمان، عقل و خرد اور خوداعتمادی کے ساتھ ٹھوس فیصلے کریں گے اور دنیا پر واشگاف کردیں گے کہ ہم کسی بھی صورت اسلام، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، قرآن کریم کی اہانت ہرگز برداشت نہیں کریں گے۔ یہ کام ایک دو ممالک نہیں، تمام مسلم ممالک کو یک زبان اور ہم قدم ہوکر کرنا ہوگا۔

آخر وہی ہوا، جس کا خدشہ تھا۔ کشمیر کی مسلم آبادی کو ہمیشہ کے لیے سیاسی طور پر بے وزن بنانے کی غرض سے بھارت کی طرف سے قائم جسٹس رنجنا ڈیسائی کی قیادت میں ’حد بندی کمیشن‘ نے ریاستی اسمبلی کے لیے ہندو اکثریتی علاقے جموں سے نشستیں بڑھانے کی سفارشات پیش کی ہیں۔ ۵؍اگست ۲۰۱۹ءکو جب ریاست جموں و کشمیر کو تحلیل کرکے اس کو دو مرکزی تحویل والے علاقوں میں تقسیم کیا گیا تھا، تو اسی وقت بتایا گیا تھا کہ ’’جموں و کشمیر کی نئی اسمبلی میں ۱۱۴نشستیں ہوں گی، جس میں ۹۰نشستوں پر انتخابات ہوںگے، بقیہ ۲۴نشستیں آزاد کشمیر یا پاکستان کے زیر انتظام خطے کشمیر کے لیے مخصوص رکھی جائیں گی‘‘۔ کمیشن نے جموں کے لیے چھے سیٹیں اور کشمیر میں محض ایک نشست بڑھانے کی سفارش کی ہے۔

گویا ا ب نئی اسمبلی میں وادیِ کشمیر کی ۴۷ اور جموں کی ۴۳سیٹیں ہوں گی۔ان میں نچلی ذات کے ہندوؤں یعنی دلتوں یا شیڈیولڈ کاسٹ اور قبائلیوں کے لیے ۱۶نشستیں مخصوص ہوں گی۔ چونکہ وادی کشمیر میں شیڈ یولڈ کاسٹ آبادی صفر ہے، اس لیے مخصوص نشستوں سے انتخابات لڑوانے کے لیے امیداواروں کو باہر سے لانا پڑے گا۔ کشمیر ی اُمیدوار، ان نشستوں سے انتخاب لڑہی نہیں سکیں گے۔ اس سے قبل کشمیر کی ۴۶ اور جموں کی ۳۷سیٹیں تھیں۔ وادیِ کشمیر کی سیٹیں اس لیے زیادہ تھیں کیونکہ ۲۰۱۱ءکی سرکاری مردم شماری کے مطابق اس کی آبادی ۶۸ لاکھ تھی، جب کہ جموں خطے کی آبادی ۵۳لاکھ ریکارڈ کی گئی تھی، یعنی کشمیر کی آبادی جموں سے ۱۳لاکھ زیادہ تھی۔ جس کی وجہ سے اسمبلی میں اس کے پاس جموں کے مقابلے میں نو سیٹیں زیادہ تھیں،جب کہ اصولاً یہ فرق ۱۲سیٹوں کا ہونا چاہیے تھا۔ کیونکہ کشمیر میں اوسطاً ایک لاکھ ۵۰ ہزار نفوس پر ایک اسمبلی حلقہ ترتیب دیا گیا تھا، جبکہ جمو ں کے اسمبلی حلقوں کی اوسطاً آبادی ایک لاکھ ۴۵ ہزار رکھی گئی تھی۔

یہ طے شدہ بات ہے کہ کمیشن نے ہندو قوم پرست ’بھارتیہ جنتا پارٹی‘ کے لیڈروں کے ایما پر ہی یہ ساری حد بندی ترتیب دی ہے، تاکہ مسلم آبادی کو سیاسی طور پر بے وزن کیا جائے اور ۶۸ء۳۱ فی صد مسلم خطے پر ہندو وزیر اعلیٰ مسلط کرایا جائے۔ ویسے پچھلے دو سو برسوں کے دوران میں یعنی ۱۸۱۹ء میں سکھوں کی فوج کشی کے بعد،۱۹۴۸ء سے ۲۰۱۸ءتک ۷۰برسوں میں مسلمان لیڈر حکومتی مسندوں پر براجمان ہوتے رہے۔ اب شاید محبوبہ مفتی اس خطے کے آخری مسلم وزیر اعلیٰ کے طور پر تاریخ میں درج ہوں گی۔

اگر مقامی بیوروکریسی کاجائزہ لیا جائے، تو فی الوقت ۲۴سیکرٹریوں میں پانچ مسلمان ہیں۔ اس کے علاوہ ۵۸ اعلیٰ سول سروس افسران میں ۱۲ مسلمان ہیں۔ یعنی ۶۸فی صد آبادی کا تناسب اعلیٰ افسران میں محض۱۷ء۴  فی صد ہے۔ دوسرے درجے کے افسران میں کُل ۵۲۳ میں ۲۲۰ مسلمان ہیں۔ یعنی تناسب ۴۲ء۰۶ فی صد ہے۔ اسی طرح ۶۶ اعلیٰ پولیس افسران میں سات مسلمان ہیں۔ دوسرے درجہ کے ۲۴۸ پولیس افسران میں ۱۰۸ مسلمان ہیں۔ اس خطے کے ۲۰؍اضلاع میں صرف چھے میں، یعنی بانڈی پورہ، بڈگام، کلگام، پلوامہ، رام بن اور سرینگر میں مسلمان ڈپٹی کمشنر یا ضلعی مجسٹریٹ ہیں۔

کمیشن نے اسمبلی حلقوں کی نئی حد بندی میں آبادی کے بجائے رقبے کو معیار بنایا ہے۔ اگر یہ معیار واقعی افادیت اور اعتباریت رکھتا ہے، تو اس کو پورے بھارت میں بھی نافذ کردینا چاہیے۔ کمیشن کے اس استدلال کے مطابق تو آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبہ اتر پردیش کی ۵۴۳ رکنی پارلیمنٹ میں ۸۰نشستیں یا تو پھر کم ہونی چاہییں یا دیگر صوبوں پر بھی رقبہ کا فارمولہ لاگو کرکے رقبہ کے لحاظ سے بھارت کے سب سے بڑے صوبہ راجستھان کو پارلیمنٹ میں ۱۱۳نشستیں ملنی چاہییں، جب کہ فی الوقت اس کے پاس صرف ۲۵سیٹیں ہیں۔ اسی طرح دہلی شہر، جس کے پاس سات پارلیمانی سیٹیں ہیں، اس کو رقبہ کے لحاظ سے ایک بھی سیٹ نہیں ملنی چاہیے۔

کشمیر کی مین اسٹریم یا بھارت نواز مسلم پارٹیوں نے پہلے تو ’انتخابی حد بندی کمیشن‘ کا بائیکاٹ کیا تھا، مگر جون ۲۰۲۱ء میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ میٹنگ کے بعد نیشنل کانفرنس اس کھیل میں شامل ہوگئی۔ چونکہ صرف بی جے پی اور نیشنل کانفرنس کے لیڈر لوک سبھا کے اراکین ہیں، اس لیے وہ اس کمیشن کے ایسوسی ایٹ اراکین بھی تھے۔ ان کی غیر موجودگی کی وجہ سے کمیشن کی ساکھ  مشکوک تھی۔ سرینگر اور جموں میں کمیشن کی طرف سے بلائے گئے اجلاسو ں میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے بغیر دیگر جماعتوں نے بھی میمورنڈم پیش کیے۔

ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی نیشنل کانفرنس کی پہلے یہ دلیل تھی، کہ ’’یہ کمیشن غیر قانونی ہے، اور جس ایکٹ کے تحت اس کی تشکیل ہوئی ہے، اس کے وجود کو نیشنل کانفرنس نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہوا ہے۔ اس لیے وہ کمیشن کو تسلیم ہی نہیں کرتے‘‘۔ مگر جون میں دہلی میں اس کے لیڈروں پر کیا جادو ہوا، کہ انھوں نے نہ صرف اس کمیشن کو تسلیم کیا، بلکہ اس کے اجلاسوں میں بطور ایسوسی ایٹ ممبر بھی حصہ لیا۔ اپنی کمزور سیاسی ساکھ کے باوجود اس وقت بھی اس کے لیڈر مفادات کا سودا کرنے سے گریز نہیں کر رہے۔ اقتدار کی ہوس نے کشمیر کی سب سے بڑی قوم پرست پارٹی ’نیشنل کانفرنس‘ کو بزدل بناکر رکھ دیا ہے۔ بد قسمتی سے اس جماعت کا محور صرف یہ ہے کہ اقتدار سے کسی طرح تعلق استوار کیا جائے۔

ایک عشرہ قبل دہلی کے کانسٹی ٹیوشن کلب میں ایک مذاکرہ کے دوران بی جے پی کے لیڈر آنجہانی ارون جیٹلی نے کہا تھاکہ ’’کشمیر کا واحد مسئلہ اس کا مسلم اکثریتی کردار ہے اور کشمیر کی ترقی میں بھی یہی سب سے بڑی رکاوٹ ہے، کیونکہ بھارت کے دیگر علاقوں کے لوگ وہاں بس نہیں سکتے ہیں،جس کی وجہ سے سرمایہ کاری نہیں ہوسکتی ہے‘‘۔ پھر کئی مواقع پر خود کشمیری لیڈروں نے اپنی عزت نفس کا خیال نہ کرتے ہوئے، آئینی خلاف ورزیوں کے لیے راہ ہموار کی۔ دفعہ ۳۷۰ اور دفعہ ۳۵اے کی صورت میں سیاسی گرداب سے بچنے کے لیے جو معمولی سا پردہ رہ گیا تھا، اس کو بھی ہٹاکر کشمیریو ں کی عزت نیلام کرکے، ان کو اب اپنے ہی وطن میں اقلیت میں تبدیل کروانے اور بیگانہ کرنے کا یہ ایک گھناؤنا کھیل جاری ہے۔ جس میں حصہ ڈالنے کے لیے خود کشمیر کے متعدد لیڈر ایک دوسرے پر بازی لے جا رہے ہیں۔

کوئی سنگ دل انسا ن ہی حیدر پورہ، سرینگر میں ۱۵نومبر کو ہونے والے ’جعلی مقابلے‘ کے دوران جاں بحق محمد الطاف بٹ اور ڈاکٹر مدثر گل کے لواحقین اور ان کی کم سن بچیوں کی فریادیں سن کر خون کے آنسو نہ رویا ہوگا۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ وہ انصاف کے حصول یا ظالموں کو سزا دینے کا مطالبہ کرنے کے بجائے الطا ف اور مدثر کی لاشوں کی تدفین اور نماز جنازہ کے حق کا مطالبہ کر رہے تھے۔ شدید عوامی دبائو کے بعد ان کی لاشیں ورثا کے سپرد تو کی گئیں ، مگر پولیس کی نگرانی میں چند لوگوں کی معیت میں رات کے اندھیرے میں تدفین کی اجازت سے مشروط کرکے۔جموں کے رام بن ضلع کا مزدر عامر ماگرے ، بھی اس مقابلے میں ہلاک ہوا۔ اس کی لاش بھی روتے پکارتے وارثوں کے سپر د نہیں کی گئی۔ اس کے والد کو بھارتی فوج نے ۲۰۰۴ء میں ’حب الوطنی‘ کی سند عطا کی تھی، کیونکہ اس نے پتھر سے ایک عسکریت پسند کو ہلاک کردیا تھا۔

اگرچہ کشمیر میں اس طرح کی ہلاکتیں کوئی نئی بات نہیں ہے، مگر ۲۰۱۹ء کے بعدلاشوں کو ورثا ء کو سپرد کرنے کے بجائے کئی سو کلومیٹر دور نامعلوم قبروں میں دفنانے کا ایک سلسلہ شروع کردیا گیا ہے۔ پچھلے تین برسوں کے دوران کشمیر میں حکومتی اور میڈیا سے لیے گئے اعداد و شمار کے مطابق سیکورٹی فورسز کے ۱۷۲ ؍اہل کاروں کے مقابلے میں ۸۳۷؍افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ ان میں سے اکثر افراد کو لائن آف کنٹرل کے پاس آخری رسومات کے بغیر ہی پولیس نے نامعلوم قبروں میں دفن کر دیا ہے۔

 جموں وکشمیر کے طول وعرض میں گذشتہ ۳۰ برسوں کے دوران ایسے لاتعداد المناک واقعات رُونما ہوئے ہیں، جنھیں ضبط تحریر میں لانے سے خوف اور دہشت کے طوفانوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ دنیا کے دیگر تنازعات کی رپورٹنگ پیش کرتے ہوئے احساس ہوتا ہے کہ ان کے مقابلے میں کشمیر میں ہلاکتوں اور انسانی حقوق کی پامالی بہت کم عالمی پریس میں آتی ہے۔ کشمیر میں ایسے علاقے بھی ہیں، جہاں میڈیا کی رسائی ہی نہیں ہوسکتی۔

مجھے یاد ہے کہ ۹۰کے عشرے میں ہندواڑہ کے لنگیٹ علاقے میں جنگلوں سے ایندھن کی لکڑیا ں لادنے والے گھوڑا گاڑی والوں کے لیے لازم ہوتا تھا کہ وہ لکڑیوں کا ایک حصہ راستے میں  ملٹری کیمپوں میں جمع کرائیں۔یہ سلسلہ برسوں تک چلتارہا۔ پھر ایک دن ۱۹۹۷ء میں منزپورہ کا غلام احمد وانی، جو مقامی ممبر اسمبلی عبدالاحد کار کا رشتہ دار تھا، اس نے کچھ کم مقدار میں لکڑیاںجمع کروائیں جس پر ملٹری کے سیکورٹی گارڈ کے ساتھ اس کی تو تو مَیں مَیں ہوگئی۔ چونکہ ۱۹۹۶ء میں اسمبلی انتخابات کے بعد ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی قیادت میں نام نہاد حکومت قائم ہوئی تھی، اس لیے وانی، ممبر اسمبلی کے ساتھ اپنی رشتہ داری کو طاقت سمجھنے کی حماقت کر بیٹھا۔ چند میٹر دُور اسکول کے بچے یہ سارا منظر دیکھ رہے تھے ۔ ملٹری گارڈ نے مورچے سے باہر نکل کر اپنی بندوق گھوڑاگاڑی بان کے سینے کی طرف موڑکر گولی چلا دی اور وانی کے سینے سے گرم گرم خون کے فوارے سڑک کو لہورنگ کرگئے۔ گھوڑا فائرنگ کی آواز سن کر بھاگنے کے بجائے اپنے مالک کی لاش کے گرد محافظ کی طرح کھڑا ہوگیا۔ اس گھوڑے کی وفاداری کو آج بھی اس علاقے میں لوگ یاد کرتے ہیں۔

اسی علاقے میں شاہ نگری گائوں میں حزب المجاہدین سے وابستہ غلام حسن کمارکا گھر تھا۔ اس کی بوڑھی ماں اوربیوی کا سپاہیوںنے جینا دوبھر کر دیا تھا۔ وہ بدنصیب ساس اور بہو علاقے سے ہجرت کرجاتے، لیکن ان کے پاس نہ کوئی وسائل تھے اور نہ گھر میں کوئی مرد موجود تھا۔ غلام حسن کا دوسرا بھائی محمدیوسف کمار بھی فوج کے ہاتھوں کافی تشدد برداشت کرنے کے بعد جیل میں تھا، جب کہ غلام حسن کی دس سالہ اکلوتی بیٹی آنکھوں کی مہلک بیماری کے سبب دیکھنے سے معذور تھی۔ غلام حسن کی بیوی جانہ بیگم کاپائوں بھاری تھا ۔ پھر ایک رات لگ بھگ نو بجے اخوانیوں (سرکاری بندوق برداروں)کی ایک ٹولی نے ان کے گھر پر دستک دی۔ جیسے ہی جانہ بیگم دروازہ سے باہر نکلی تو بندوق برداروںنے اس پر گولیوں کی بوچھاڑ سے جسم میں اتنی زیادہ گولیاں پیوست کیں کہ اس کے بطن میں پلنے والے بچے کی ٹانگ، بازو اور جسم کے ٹکڑے ہوکر باہر بکھر گئے۔ اگلے دن جب جانہ بیگم اور اس کے بچے کا جنازہ اٹھا تو کسی کو رونے کی اجازت نہیں تھی۔ بدنصیب اندھی بیٹی نے اپنی ماں کی قبر پر ننھے معصوم ہاتھوں سے کچھ مٹی بھی ڈال دی ۔ بوڑھی ساس نے آخری بار قبر اور اس کے ساتھ اپنے اُجڑے ہوئے گھر کی طرف دیکھا اور پھر آنکھوں سے معذور ننھی پوتی کو لے کر وہ کسی نامعلوم منزل کی جانب چل دی۔ سارا گائوں بھیگی پلکوں اور گھٹی آہوں کے ساتھ بڑھیا اور اس کی پوتی کو الوداع کہہ رہا تھا، لیکن کسی میں بھی ان کو روکنے یا ان کے ساتھ ہمدردی کرنے کی ہمت نہ تھی، کیونکہ یہ موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔ اس کے آدھے گھنٹے کے بعد دیہاتیوں کو حکم ملا کہ ان کا مکان گرا دیا جائے اور اس کی ساری لکڑی اپنے کاندھوں پر لاد کر  چار کلومیٹر دُورقلم آباد کے ملٹری کیمپ میں جمع کرا دی جائے۔

اسی طرح سیرعلاقے کے ۷۰سالہ نمبردار شمس الدین کو ملٹری کیمپ میں بلا کر بتا یا گیا کہ اس کے گائوں میں عسکریت پسندوں کی نقل و حرکت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے اور اس کی ساری ذمہ داری اس پر عائد ہوتی ہے۔ ابھی وہ اپنی صفائی دینے کے لیے کچھ کہنے ہی والے تھے کہ بھارتی میجر نے انھیںپاس ہی کیچڑ کے گڑھے میں کھڑا ہونے کو کہا۔ سپا ہیوں کو حکم دیا گیا کہ وہ کیچڑ نمبردار صاحب کے چہرے اور کپڑوں پر مَل دیں۔ علاقے کی اس ذی عزت شخصیت کو بتایا گیا کہ وہ بھر ے بازار سے ہوتے ہوئے ایسے ہی گھر جائے۔ اس واقعے کا ان پر اتنا گہرا اثر ہوا کہ وہ بیمار پڑ گئے اور پھر کچھ عرصے کے بعد داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔

ذرا آپ کو پیچھے لے کر چلتے ہیں:

یہ ۲۰۱۶ء کی بات ہے۔ بھارتی دارالحکومت نئی دہلی کے آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز میں زیر علاج آٹھ سالہ آصف کو بہلانے، اس کا دھیان بٹانے اور آنکھوں کے نُور کے بغیر زندگی گزارنے پر آمادہ کرنے کے لیے اس کے والد عبدالرشید جب بچے کو صبر کی تلقین کی باتیں سنارہے تھے، تو ظالم سے ظالم انسان بھی ان کی باتیں سن کر خون کے آنسو رونے پر مجبور ہوجاتا تھا۔

 شوپیاں کی ۱۴سالہ انشاء بی بی کا پورا چہرہ چھرّوں سے چھلنی تھا۔ پیلٹ گنوں سے شدید مجروح پانچ مریضوں کو سرینگر سےیہاں ریفر کیا گیا تھا۔ کانگریس کے مرکزی رہنما راہول گاندھی نے جب اس ہسپتال کا دورہ کیا تو وارڈ میں بینائی سے محروم اور اپنے کنبے کے واحد کفیل، سوپور کے اس ۲۵سالہ آٹو ڈرائیور فردوس احمد نے ان کو بتایا: ’’کشمیر میں مجھ جیسے سیکڑوں افراد مصیبت میں مبتلا ہیں۔ میں آنکھوں کے نور سے محروم ہو گیا ہوں تو کیا ہوا، اگر میری بینائی سے محرومی بھارت کے سیاسی رہنمائوں کی آنکھیں کھول دیتی ہے تو یہ سودا برا نہیں۔‘‘ اس صابر نوجوان کے سوال پر کانگریسی لیڈر گردن جھکا کر چلے گئے۔ بھارت کے امراض چشم کے معروف سرجن ڈاکٹر ایس نٹراجن کے مطابق: ’’اس طرح کے کیسوں کے ساتھ ہمیں پہلی بار واسطہ پڑا ہے۔ دنیا کے کسی بھی جنگ زدہ خطے میں اس طرح کے مریض دیکھنے میں نہیں آتے‘‘۔

جموں وکشمیر ہائیکورٹ کے سابق جج جسٹس حسنین مسعودی کے مطابق سرینگر کے صدر ہسپتال میں امراض چشم کا وارڈ اس وقت کسی ڈرائونے خواب سے کم نہیں، کیوں کہ بیش تر زخمیوں کو کئی بار سرجری کے عمل سے گزار کر بھی آنکھوں کی روشنی واپس ملنے کی اُمید بہت کم ہے۔ وارڈ نمبر۸ کا منظر کسی بھی خوفناک فلم سے کم نہیں، جہاں مضروب نوجوان معمولی سی آہٹ سے بھی خوف محسوس کرتے۔ وارڈ میں ان دنوں آنکھوں کی سرجری سے گزرنے والے غیر معمولی مریضوں کی بڑی تعداد زیر علاج تھی۔ بیش تر زیر علاج زخمیوں کو دوبار عمل جراحی سے گزرنا پڑا۔ تاہم ان کی آنکھوں میں بصارت نہیں لوٹی۔ ایسے مریض بھی بڑی تعداد میں تھے، جن کے ساتھ کوئی تیماردار نہیں تھا۔ والدین اپنے بچوں کی حالت ِ زار دیکھ کر رو رہے تھے اور ان کا مستقبل تاریک ہونے پر افسردگی کے سمندر میں ڈوبے ہوئے تھے۔ جج مسعودی صاحب کے بقول ’’ہر طرف آنکھوں پر پٹیاں باندھے ہوئے کم عمر بچوں کو دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے‘‘۔

۲۰۱۰ء میں بھارت کے سینئر صحافیوں کے ہمراہ مجھے اسرائیل اور مقبوضہ فلسطین کے دورے کا موقع ملا۔ تل ابیب میں اسرائیلی وزیراعظم کے مشیر ڈیوڈرائزنر بریفنگ دے رہے تھے۔ وہ اسرائیلی فوج میں اہم عہدے دار رہ چکے تھے، اور انتفاضہ [یعنی ’حماس تحریک ‘ کے زیراثر عوامی سطح پر غیرمسلح مزاحمتی تحریک] کے دوران فوج اور پولیس کے اہم عہدوں پر فائز رہے تھے۔ اس پس منظرمیں بھارتی صحافی ان سے یہ معلوم کرنے کے لیے بے تاب تھے کہ ’’آخر آپ غیرمسلح فلسطینی مظاہرین سے کیسے نمٹے تھے؟‘‘ موصوف نے کہا: ’’۱۹۸۷ء کے ’انتفاضہ‘ کے دوران ہماری آرمی پولیس نے پوائنٹ 4 کے پیلٹ گن استعمال کیے تھے، مگر اس  کے نتائج کا تجزیہ کرنے کے بعد ان پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ اب ان ہتھیاروں کی کھیپ کو اسلحہ خانہ کا زنگ کھا رہا ہے۔‘‘ رائزنر نے تسلیم کیا: ’’مسلح جنگجوئوں کے برعکس،پُرامن مظاہرین سے نمٹنا کوئی آسان کام نہیں ہوتا، خصوصاً جب عالمی میڈیا اس کی رپورٹنگ بھی کر رہا ہو۔‘‘ لیکن یہ کیسی خوف ناک حقیقت ہے کہ ہمارے دورے کے چند ہی مہینوں کے بعد وہ ہتھیار جو اسرائیل کے اسلحہ خانوں میں زنگ آلود ہو رہے تھے، کشمیر میں استعمال کرنے کے لیے بھارت کی وزارت داخلہ نے خرید لیے۔

اسی نشست میں رائزنر نے بتایا تھا: ’’ہم نے ربر سے لپٹی ہوئی اسٹیل کی چھوٹی چھوٹی گولیوں اور بے ہوش کرنے والی گیس کا بھی فلسطینی مظاہرین پر تجربہ کیا تھا، مگر فلسطینی بچوں پر ان کے دُور رس مہلک اثرات کے سبب ان کے استعمال پہ بھی پابندی لگا دی گئی۔‘‘ اس اسرائیلی افسر نے بھارتی صحافیوں کو یہ بتاکر شرمندہ اور دُکھی کر دیا، جب اس نے کشمیر میں تعینات بھارتی فوجی افسروں کے ’کارنامے‘ سنانے شروع کیے، اور یہ بتایا: ’’بھارتی افسر اس بات پر حیران ہو جاتے ہیں کہ شورش زدہ علاقوں میں بھلامسلح اور غیر مسلح کی تفریق کیوں کی جائے؟‘‘ اسرائیلی افسر نے بتایا: ’’حال ہی میں اسرائیل کے دورے پرآئے ہوئے ایک بھارتی جنرل نے ہم کو بتایا کہ کشمیر میں پوری آبادی کو گھیر کر ہم گھروں میں گھس کر تلاشیاں لیتے ہیںکیونکہ ہمارے نزدیک کشمیر کا ہر گھر دہشت گرد کی پناہ گاہ ہے‘‘۔  رائزنر نے کہا: ’’ہم نے بھارتی جنرل کو جواب دیا کہ اسرائیل دنیا میں بدنام ہونے کے باوجود اس طرح کے آپریشن بغیر کسی انٹیلی جنس اطلاع کے نہیں کرتا‘‘۔

خیر، یہ تو اسرائیل کا اپنی وکالت میں بیان تھا، اوریہاں پر اس واقعے کو بیان کرنے کا مقصد اسرائیلی جرائم کی شدت کو کم کرنا نہیں بلکہ صرف اس طرف متوجہ کرانا ہے کہ کشمیر کس حد تک عالمی ذرائع ابلاغ میں اور سفارتی سطح پر مظالم کی کم ترین تشہیر کے درجے پر واقع ہے۔ رائزنر نے بھارتی جنرل کا نام تو نہیں لیا، مگر کہا:’’ہم نے بھارتی فوجی وفد کو مشورہ دیا کہ عسکری اور غیر عسکری میں تفریق نہ کرکے آپ کشمیر میں صورت حال کو بہت زیادہ پیچیدہ بنا رہے ہیں‘‘۔

دنیا کے دیگر جنگ زدہ خطوںکے برعکس عالمی میڈیا نے بڑی حد تک کشمیر کو نظر انداز کیا ہے۔ اگر ابلاغی سطح پر رپورٹنگ ہوئی بھی ہے تو دُور دراز علاقوں تک رسائی نہیں ہو سکی، حتیٰ کہ سرینگر کا میڈیا بھی کشمیر کے بیش تر علاقوں میں جانے سے قاصر ہے۔ چند برس قبل بھارت کے ایک معروف دانش وَر اور قانون دان اے جی نورانی صاحب کے ہمراہ میں نے شمالی کشمیر میں لنگیٹ تحصیل کے ایک خوب صورت مقام ریشی واری کا دورہ کیا تھا۔ سرسبز جنگلوں اور پہاڑی نالوں سے پُر اس وادی میں داخل ہوتے ہی تقریباً ۳۰ کلومیٹر تک سڑک سے ملحق سبھی گھروں کی دوسری منزل پر ہمیں بھارتی فوجی جوان نظر آئے۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ اپنے گھروں کے مالک تو پہلی منزل پر رہتے ہیں اور ان تمام گھروں کی دوسری منزل بھارتی فوج کے اہل کاروں کے لیے مخصوص ہے۔ ان دیہاتیوں نے پہلی بار میڈیا سے وابستہ افراد کو دیکھا تھا۔

اسی طرح اگر شیرِ کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز، سری نگر کے آرکائیوز کو کھنگالا جائے تو ایسے ہوشربا کیسوں کی تفصیلات ملیں گی، جو وہاں کے ڈاکٹروں کے مطابق: ’’میڈیکل کی تاریخ میں آخری بار صرف جنگ عظیم دوم [۴۵-۱۹۳۹ء] کے دوران جرمن انٹیلی جنس کے بدنامِ زمانہ ادارے ’گسٹاپو‘ کے تفتیشی اور اذیتی مراکز میں رپورٹ ہوئے ہیں‘‘۔ یہاں ایک فائل عربی کے استاد ۳۷سالہ مظفر حسن مرزا کی میری نظروں سے گزری، جس کو ترال سے گرفتار کیا گیا تھا۔ جب اس کو ہسپتال لایا گیا تو اذیتوں کی وجہ سے وہ Rhabdomylosis نامی بیماری کی انتہائی پیچیدہ نوعیت کا شکار ہو چکا تھا۔ جس کے نتیجے میں اعصاب تیزی سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتے ہیں، اور سارا مدافعتی نظام مائع کی صورت تحلیل ہو کر پیشاب کے راستے باہر آ رہا تھا۔ دورانِ تفتیش پٹرول اور ڈیزل سے تر لوہے کی سلاخ اس کی مقعد میں داخل کی گئی تھی جس نے مرزا مظفر کی انتڑیوں، معدے اور پردہ شکم کو چاک کرکے پھیپھڑوں کو بھی نشانہ بنایا تھا۔ ہسپتال میں جان کنی کے عالم میں رہ کر تین ہفتے بعد ان کا انتقال ہو گیا تھا۔

اس خطّے میں ایسی بہت سی رودادیں منظر عام پر آنے کےلیے محنتی و جرأت مند صحافیوں اور دردمند دل رکھنے والے مصنفوں کی منتظر ہیں۔ وقت آچکا ہے کہ واقعات سے پردہ اٹھایا جائے۔ یہ بات اب عیاں ہے کہ کشمیر تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہا ہے۔ اس دوران جو نسل تیار ہوئی ہے، اس کے زخموں پر مرہم رکھنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔

میں نے چند سال قبل اپنے ایک مضمون میں خبردار کیا تھا کہ ’’ممکن ہے کشمیر میں بظاہر عسکریت دم توڑتی نظر آرہی ہو، مگر یہ خیال کرنا کہ وہاں امن و امان ہوگیا ہے، خود کو دھوکا دینے کے سوا کچھ نہیں۔ بندوقوں کی آوازیں خواہ تھم گئی ہوںمگر جو جنگ دماغوں میں جاری ہے، جو لاوا اندر ہی اندر پک رہا ہے اس کا سدباب کیسے ہوگا؟‘‘ کشمیر میں آئے روز مظاہروں نے یہ تسلیم کرا دیا ہے کہ کشمیر میں خوف کی نفسیات بڑی حد تک ختم ہو چکی ہے، تاہم فوجی طاقت کا زور اب بھی باقی ہے۔ اگر کشمیر میں آگے پیچھے آنے جانے والی حکومتیں اس تبدیلی کو سمجھنے سے قاصر رہیں گی تو یہ خطہ بدترین عدم استحکام کا شکار ہی رہے گا۔ مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے لیے سنجیدہ ہونا پڑے گا۔ اس کے لیے جمہوریت، رحم دلی اور مفاہمت پر مبنی ایک ماحول تیار کرنا ہوگا۔ علاقے پر تسلط کے بجائے علاقے کے عوام کے بارے میں سوچنا ہوگا۔

بھارت کی سیاسی پارٹیوں میں ،چاہے وہ کانگریس ہو یا بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)، دونوں کا رویہ کشمیریوں کے ساتھ یکساں رہا ہے۔ بی جے پی نے مخملیں دستانے اُتار کر پھینک دیے ہیں، جب کہ کانگریس حکومت مرنے مارنے کے بعد لفظی جمع خرچ سے مرہم لگانے کا کام کیا کرتی تھی۔ معروف بھارتی دفاعی جریدہ Force میں غزالہ وہاب نے لکھا ہے کہ ’’کشمیر ایک بڑی اوپن جیل بن چکا ہے، جہاں کے مکینوں کو لگتا ہے کہ وہ قید ی ہیں‘‘۔

بھارتی حکومت کی پالیسی ہے کہ اہل کشمیر کے دلوں میں خوف و دہشت کی دھاک بٹھائی جائے۔ اس کی حالیہ مثال اس طرح سامنے آتی ہے کہ ٹی-۲۰ ورلڈ کپ کے افتتاحی میچ میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کی بھارتی ٹیم کے مقابلے میں جیت کے بعد آگرہ کے تاریخی شہر میں انجینیرنگ کالج کے کشمیری طلبہ پر غداری کا مقدمہ درج کردیا گیا، اور خود سرینگر میڈیکل کالج کے طلبہ پر انسداد دہشت گردی قانون کے تحت مقدمات قائم کر دیئے گئے۔ آگرہ کی بار ایسوسی ایشن نے ان طلبہ کو قانونی معاونت فراہم نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے کہ طلبہ کی طرف سے پاکستانی کرکٹ ٹیم کی کامیابی پر معمولی سی خوشی کا اظہار بھی دہشت گردی سے کم جرم نہیں ہے۔

ادھر جنوبی ہند میں کرناٹک میں انڈین نیشنل کانگریس کی طلبہ تنظیم نے کشمیری طلبہ کے خلاف شکایت درج کرائی ہے۔اسی طرح کشمیر میں سرکاری ملازمین کو بیک جنبش قلم برطرف کرکے بے روزگارکرنے کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ ان سے کوئی وضاحت بھی طلب نہیں کی جاتی ہے۔ بس اتنا بتایا جاتا ہے کہ و ہ ’ملک دشمن سرگرمیوں‘ میں ملوث ہیں۔

ایسا لگتا ہے کہ جموں و کشمیر ایک ایسا خطہ ہے، جوقانون و آئین کی عمل داری سے بالکل آزاد ہے۔ یہاں حکمران لوگوں سے روزی روٹی کا بنیادی حق چھیننے اور ان کے اہل خانہ، ان کے زیر کفالت افراد کو محرومی اور پریشانی کی طرف دھکیلنے میں کوئی شرم اور ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔ کشمیر نے پچھلے تین عشروں میں ایسے ہیبت ناک مظالم دیکھے ہیں،جنھیں بیان کرنے کے لیے پتھر کا دل چاہیے۔ پتہ نہیں کب تک یہ بدقسمت اور مظلوم قوم تاریخ کے بھنور میں پھنسی رہے گی؟یہ بھی سچ ہے کہ ظلم و درندگی کی ٹہنی کبھی پھلتی نہیں۔ بس اس دن کا انتظار ہے  ؎

جب ظلم و ستم کے کوہ گراں
روئی کی طرح اُڑ جائیں گے

بوسنیا اور ہرذی گووینا میں سربیائی اور کروشیائی افواج نے مشترکہ طور پر ۱۹۹۲ء سے لے کر ۱۹۹۵ء کے دوران میں ساڑھے تین سال پر پھیلا مسلمانوں کا طویل قتل عام کیا۔ ۲۱ نومبر ۱۹۹۵ء کو امریکی ریاست اوہایو کے شہر ڈیٹن میں رائٹ پیٹرسن ایئرفورس بیس پر ایک سہ فریقی معاہدے پر دستخط کیے گئے، جو ’ڈیٹن امن معاہدہ‘ کے نام سے معروف ہے۔ اسی تسلسل میں ایک ماہ بعد ۱۴دسمبر ۱۹۹۵ء کو پیرس میں مزید معاہدوں پر دستخط کیے گئے۔

بوسنیا کی خوں ریزی میں سرب وحشیوں نے ایک لاکھ سے زیادہ مسلمان مرد، عورتیں، بچّے قتل کیے تھے۔ ۶۰ہزار سے زیادہ خواتین کی اجتماعی عصمت دری کی گئی۔ یورپی اقوام کی نظروں کے سامنے یہ خونیں کھیل کھیلا گیا اور عالمی طاقتیں دانستہ تماشائی بنی رہیں۔ اس یک طرفہ قتل و غارت گری کو روکنے کے لیے اقوام متحدہ نے امن فوج بھیجنے میں تین سال لگا دیئے تھے۔ اس کھیل کو بڑی طاقتوں کی ’حیوانی صلیبی جنگ‘ کہنا درست ہے، کیوں کہ اس قتل عام میں سربیائی افواج کے علاوہ ویٹی کن اور مغربی مافیا، بوسنیائی مسلمانوں کی نسل کشی (Genocide) میں شامل تھے۔ اقوام متحدہ کی انٹرنیشنل کورٹ آف کریمنل جسٹس نے سرب فوج کے جنرل راتکو ملادیچ کو بوسنیائی مسلمانوں کی نسل کشی کا مجرم قرار دے کر عمرقید کی سزا سنائی تھی۔

۲۰۲۱ء کی مردم شماری کے مطابق بوسنیا ہرذی گووینا کی جملہ آبادی ۳۳لاکھ نفوس پر مشتمل ہے، جس میں قدامت پسند عیسائیوں کی آبادی ۳۱ فی صد ہے اور رومن کیتھولک ’روٹس‘ عیسائیوں کی آبادی ۱۵ فی صد نفوس پر مشتمل ہے۔ سرب اور کروٹس عیسائیوں کی مجموعی آبادی تقریباً ۴۶ فی صد ہے، جب کہ مسلمانوں کی آبادی ۲۰لاکھ نفوس پر مشتمل ہے، جو ملک کی کُل آبادی کا ۵۱ فی صد ہے۔ اس طرح مسلمانوں کو آبادی میں عیسائیوں پر ۶ فی صد کی برتری حاصل ہے۔

نومبر ۱۹۹۵ء میں خون ریزی سے متاثرہ بوسنیا کی زندہ بچ جانے والی قیادت کو ہلاکت خیز دبائو ڈال کر ’ڈیٹن معاہدے‘ پر دستخط کرنے پر مجبور کیا گیا۔ اس معاہدے کے تحت دُنیا کا پیچیدہ سیاسی نظامِ حکومت تشکیل دیا گیا۔ امریکی صدر کلنٹن نے ’امن معاہدے‘ کے نام پر ایک مرتبہ پھر بوسنیائی مسلمانوں کو وحشی سرب و کروٹس عیسائی جنگجوئوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا، اور ایسا حکومتی نظام تشکیل دیا، جس میں کبھی بوسنیائی مسلمانوں کو آزادی و خودمختاری حاصل نہیں ہوسکتی۔

یورپ میں درجن بھر ایسے ممالک ہیں، جن کی آبادی ۱۰لاکھ سے کم ہے، مگر انھیں مکمل آزادی و خودمختاری حاصل ہے۔ امریکا اور اس کے حواری اگر چاہتے تو بوسنیا کو خودمختار مملکت تسلیم کیا جاسکتا تھا، مگر فرقہ پرست عیسائی، خصوصاً پوپ آف ویٹی کن کے لیے یہ بات ناقابلِ قبول تھی کہ یورپ میں کوئی مسلم ملک دوبارہ وجود میں آئے۔ اس حقیقت کا پتہ ’ڈیٹن معاہدے‘ کے وقت ہی چل گیا تھاکہ مقتدر عالمی عیسائی طاقتوں کی نیت ٹھیک نہیں ہے۔ بوسنیا ہرذ ی گووینا میں مجلس نمایندگان کے لیے ۴۲ اور ’مختارِ کُل مجلس سیاسی‘ کے لیے پانچ نشستیں طے کی گئیں۔ ملک میں ہردو،دوسال کی میعاد کے ساتھ تین صدور ہوں گے، یعنی دو سال مسلمان، دو سال سرب، دو سال کروٹس کا صدرمملکت ہوگا۔ ۱۵فی صد کروٹس اور ۳۱ فی صد سرب عیسائیوں کو ۵۱ فی صد بوسنیائی مسلمانوں کے مساوی دستوری اختیارات دیئے گئے، جس میں اکثریتی آبادی کا واجبی حق تسلیم کیا گیا۔ پھر حکومت کی باگ ڈور پانچ افراد پر مشتمل مجلس قائدین کے ہاتھوں میں دے دی گئی۔

ہولناک مظالم کے خوں ریز مناظر،مسلم عورتوں کی اجتماعی عصمت دری کی دردناک داستانیں،سننے اور پڑھنے والوں کو لہو کے آنسو رُلا دیتی ہیں۔ جان بچانے کے لیے پہاڑوں اور جنگلوں میں پناہ لینے والے ہزاروں مسلمانوں کو فائرنگ کرکے ہلاک کر دیا گیا تھا۔ ان میں سے بعض تو ابھی تک پہاڑوں سے اپنے جگر گوشوں کی ہڈیاں تلاش کرکرکے تدفین کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ وہ جب میدانوں اور پہاڑوں پہ بکھرے ہوئے معصوم مسلمانوں کے ڈھانچے اور ہڈیاں دیکھتے ہیں تو غم کے مارے سینہ کوبی پر مجبور ہوجاتے ہیں۔

سربوں اور کروٹس کو عیسائی دُنیا سے زبردست مالی امداد ملتی رہتی ہے۔ لیکن ۲۶سال پر پھیلے اس طویل عرصے میں ’اسلامی تعاون تنظیم‘ (OIC) اور مسلم ممالک نے بوسنیا کے مظلوم مسلمانوں کی بقا اور بہتری کے لیے کوئی خاطرخواہ مدد نہیں دی۔ مسجدوں کی مرمت اور قبرستان اور دینی مدارس کے لیے کچھ مخیر عربوں کی نجی سطح پر تو امداد ملتی رہی، مگر ان کی معاشی لحاظ سے تباہی و بربادی کا کوئی حل نہیں نکالا گیا۔ بے روزگاری عام ہے، تجارت اور انڈسٹری نہیں ہے۔ بوسنیا ایک زرعی ملک ہے، مگر صرف کھیتوں پر انحصار نہیں کیا جاسکتا۔

۲۰۱۸ء میں ’بوسنیا پریذیڈنسی‘ کے تین ارکان کے انتخابات ہوئے۔ مسلم نمایندہ سیفک ڈظفرک (Safik Dzafarric)، کروٹس نمایندہ زجکوکسک (Zejkokosic) اور سرب نمایندہ ملارڈ ڈوڈک (Milorad Dodik) منتخب ہوئے۔ ایک چھوٹے سے ملک میں، جہاں کی آبادی صرف ۳۳لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ ۴۶ فی صد کی عیسائی اقلیت کے سرب اور کروٹس کو ایک ایک صدر اور اکثریتی مسلمانوں کی آبادی کو صرف ایک صدر دیا گیا ہے۔ اس طرح یہ دونوں مل کر گذشتہ ۲۶برسوں سے ہرمسلمان صدر کو ناکارہ بناتے آئے ہیں اور حکومت کی باگ ڈور عملی طور پر اپنے ہاتھوں میں رکھے ہوئے مسلمان صدر کو کبھی سُکھ چین سے حکومت چلانے نہیں دیتے۔

ملارڈ ڈوڈک (سرب) نے ۲۰۱۸ء میں صدارتی رکنیت کے لیے منتخب ہونے کے بعد سے مسلمانوں کے خلاف سخت نفرت آمیز مہمات منظم کی ہیں۔ ۲۰۱۹ء میں ملارڈ ڈوڈک نے یہ اعلان کیا ہے: ’’۱۹۹۵ء سے پہلے سربوں نے نہ کوئی نسل کشی کی تھی اور نہ قتل عام کیا تھا۔ مسلمان یہ سب جھوٹ بول کر حکومت میں آچکے ہیں‘‘۔ اس نے یہ بھی کہا ہے: ’’۲۶ سال پہلے جو ہوا، ہم اس کی تاریخ دوبارہ مرتب کریں گے اور آیندہ اگر ۱۹۹۲ء کے قتل عام کا کوئی الزام ہم پر لگائے گا تو پھر اس کا انجام وہی ہوگا، جو ۲۶سال پہلے ان لوگوں کا کیا گیا تھا‘‘۔ وہ بہت ڈھٹائی اور جھوٹ کی بنیاد پر ایک نیا خونیں قلعہ تیار کر رہا ہے۔ ملارڈ نے انتخابات میں کامیابی کی صورت میں قصاب جنرل ملادیچ کو قومی ہیرو قرار دے کر اس کے خلاف شائع ہونے والے مواد اور سوشل میڈیا پر پھیلائی جانے والی پوسٹوں پر سخت قانونی کارروائی کرنے کی دھمکی دی ہے۔

ملارڈ نے ایک پریس کانفرنس میں مظلوم متاثرہ مسلمانوں کے زخموں پر نمک چھڑکتے ہوئے کہا کہ ’’ہم سبھی لوگوں سے انصاف کے پابند ہیں، اور یقین دلاتے ہیں کہ ۱۹۹۵ء سے پہلے ہلاک ہونے والوں کے رشتہ داروں کو قبرستانوں میں حاضری دینے کے لیے پاسپورٹ ساتھ رکھنے کی پابندی عائد نہیں کریں گے‘‘۔

انسانی حقوق کے عالمی اداروں نے اس خطرناک صورتِ حال پر اقوام متحدہ اور نیٹو کو متنبہ کیا ہے کہ اگر فوری احتیاطی تدابیر کے ساتھ متحدہ عالمی فوج، بوسنیا ہرذی گووینا میں تعینات نہ کی گئی، تو ایک مرتبہ پھر بوسنیا کے مسلمان طویل اور بدترین قتل عام کا شکار ہوں گے۔ مصدقہ اطلاعات کے مطابق کروٹس اور سرب، گھرگھر کلاشنکوف کی تقسیم عمل میں لارہے ہیں، جب کہ مسلمانوں کے پاس ایک یورو اورایک ڈالر بھی نہیں ہے کہ وہ اپنی حفاظت کے لیے کوئی معمولی سا پستول بھی خرید سکیں۔

۲۰۲۰ء میں سربوں نے اپنی علیحدہ فوج بنالی ہے۔ بوسنیا میں جولائی ۲۰۲۱ء سے مسلسل خطرناک سرگرمیوں کا آغاز ہوچکا ہے۔ سرب صدارتی رکن ملارڈ ڈوڈک نے یہ اعلان کر دیا ہے کہ ’’ہم ملک کی عدلیہ،انتظامیہ اور فوج کو تسلیم نہیں کرتے‘‘۔ ان کی جانب سے حکومت کے تمام محکموں کو متنبہ کیا جارہا ہے کہ وہ کام روک دیں۔ نومبر۲۰۲۱ء کے پہلے ہفتے میں اس نے یہ اعلان بھی کیا کہ ’’۱۹۹۵ء کے ڈیٹن معاہدے کو ہم مسترد کرچکے ہیں، اب ہم ہرگز اسے تسلیم نہیں کرتے‘‘۔ غیرمتوقع طور پر روسی فیڈریشن اور جرمنی کے قدامت پسند عیسائی، سربوں کی تائید کر رہے ہیں۔

حالات نہایت خطرناک ہوچکے ہیں، مگر عالمی برادری خاص کر اقوام متحدہ ابھی تک اپنا کوئی ردعمل ظاہر نہیں کر رہی اور بڑی طاقتیں ظلم، قتل و خوں ریزی کے گہرے بادل اُمڈتے دیکھنے کے باوجود ٹس سے مَس نہیں ہو رہی ہیں۔

مسلم دُنیا کی بے حسی، بے بسی اور مجرمانہ غفلت کی اس کیفیت میں کون ہے، جو ان مظلوموں کی ڈھارس بندھائے اور ان کو حفاظت اور امن کی طمانیت دے؟ بوسنیا کے تعلق سے اگر انسانی حقوق کے اداروں اور ہمارے مسلم ملکوں کی ایسی ہی ظالمانہ خاموشی رہی تو بوسنیا کے مسلمان یورپ کے ’روہنگیا کے تباہ حال مسلمان‘ بنا دیئے جائیں گے کہ جو زمین پر قتل کیے جارہے ہیں، بھوک و بیماری سے مارے جارہے ہیں اور کھلے سمندر کی لہروں پر دھکیلے جانے کے بعد خونیں موجوں میں ڈوب رہے ہیں۔ ۱۸ لاکھ مسلمانوں کو بکھیر دینا اور لاکھوں کو موت کے گھاٹ اُتار دینا  ان وحشی طاقتوں کے لیے ایک معمولی کام ہے۔

سربیا افواج نے بوسنیا کے اہم شہروں سرائیوو،بنجالوکا،زینکا، تزلا، زاڈر وغیرہ پر اپنا کنٹرول حاصل کرلیا ہے۔ بوسنیا کی آبادی تیزی سے گھٹ رہی ہے۔ روزانہ اموات ۱۰۱ ،اور مقامی شہریوں کی ہجرت اوسطاً ۲۵ افراد کی ہورہی ہے۔ بچوں کی پیدایش ۷۰ سے بھی کم ہے۔ معاشی تنگی اور خوف کی وجہ سے بوسنیائی مسلمان، یورپ کے دوسرے ممالک کو ہجرت کررہے ہیں، جو ایک انتہائی خطرناک رجحان ہے، جس سے آیندہ چند برسوں میں مسلمان اقلیت بن جائیں گے۔

۲۰۰۱ء سے پہلے مشرق وسطیٰ، یورپ اور امریکا میں مسلمانوں کے معروف رفاہی ادارے مصیبت زدہ مسلمانوں کی آبادکاری اور تعمیرنو کے لیے بڑے فنڈز رکھتے اور صرف کرتے تھے۔ نائن الیون کے پردے میں امریکی صدر بش نے مشرق وسطیٰ اور یورپ و امریکا میں ایسے تمام اداروں کو ’دہشت گردوں کی امداد‘ کا الزام عائد کرکے خطرناک مقدمات دائر کرکے بند کردیا ہے۔ امریکا میں مسلمانوں کا سب سے بڑا خودمختار، آزاد ادارہ گلوبل فائونڈیشن بھی امریکی سپریم کورٹ کے ہاتھوں کوئی خدمت انجام دینے سے قاصر بنادیا گیا ہے۔ ان رفاہی اداروں سے ان مظلومین کے نان و نفقہ کا انتظام ہوجایا کرتا تھا۔ ۱۹۹۵ء کی تباہ کن صورتِ حال میں ان اداروں نے بڑی زبردست خدمات انجام دی تھیں، جو عیسائی دنیا کو کھٹکنے لگی تھیں کہ یورپ کی سرزمین پر مسلمانوں کی امداد ناقابلِ برداشت ہے۔ بعد میں امریکا کی نام نہاد ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ نے ان کی توقعات پوری کرکے بڑی تباہی مچائی اور امداد کا سب نظام بند کر دیا گیا۔

بوسنیا ہرذی گووینا چاروں طرف سے کٹر عیسائی مملکتوں میں گھرا ہوا ہے۔ یہ بوسنیائی مسلمان جائیں تو جائیں کہاں؟ ہجرت کریں یا بھاگیں بھی تو کہاں بھاگیں؟ بہرحال، مایوس کن حالات کے باوجود ہمیں بہتری کی اُمید رکھنی چاہیے۔ اگر آج بھی امریکا اور طاقت ور مسلم ممالک اس جانب توجہ کریں تو حالات میں سدھار آسکتا ہے، پختہ اور دیرپا امن قائم ہوسکتا ہے۔

سوڈان کے وزیر اعظم عبداللہ حمدوک اپنی بحالی کے لیے فوجی جنتا کے ساتھ کیے جانے والے معاہدے کے بعد، انھی سیاسی گروپوں کی جانب سے ملک کی سڑکوں پر عوامی غصّے کا نشانہ بن رہے ہیں، جنھوں نے ماضی میں ان کی پشتی بانی کی تھی۔جرنیلوں سے کیے جانے والے معاہدے سے پہلے ۲۵؍ اکتوبر ۲۰۲۱ء کو ہونے والی فوجی بغاوت کے بعد کئی ہفتے تک جاری ہلاکت خیز بدامنی کے دوران معزول وزیر اعظم عبداللہ حمدوک کو بھرپور عوامی حمایت حاصل تھی۔

فوج کے ساتھ معاہدے سے متعلق سیاسی پیش رفت ایک ایسے وقت میں سامنے آئی، جب سوڈان کی مزاحمتی کمیٹیوں اور پیشہ وارانہ تنظیموں نے اتوار [۲۱ نومبر] کے روز بھی فوجی بغاوت اور طے پانے والے معاہدے کے خلاف احتجاج کا سلسلہ جاری رکھا۔ سوڈان کے حالیہ مظاہروں میں کئی سرکردہ سیاسی جماعتوں کی شرکت کے باعث ان کی اہمیت میں اضافہ ہو گیا۔ ان مظاہرین میں سابقہ حکمران اتحاد میں شامل ’فورسز فار فریڈم اینڈ چینج‘ (FFC)بھی شامل رہی۔ ماضی میں ایف ایف سی حمدوک کے حامیوں میں شامل تھی۔

مبصرین سمجھتے ہیں کہ بغاوت کے اثرات زائل کرنے کے لیے طے پانے والے سیاسی معاہدے میں جو اُمور طے پائے ہیں، ان میں گرفتار سیاسی کارکنوں کی رہائی، خود مختار ٹیکنوکریٹس پر مشتمل کابینہ کی تشکیل جیسے امور کو عملی جامہ پہنانا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔بغاوت کے بعد حکومت کے خاتمے اور پھر عملی نظر بندی کی مدت میں عبداللہ حمدوک کی عوامی پذیرائی میں اضافہ ہوتا رہا، اور ان کی حمایت میں مظاہروں کے دوران ۴۱سوڈانی شہری ہلاک کر دیئے گئے۔

فوج کے ساتھ ’سیاسی معاہدے‘ پر دستخط کی خبر سے وہ مظاہرین ’سکتے‘ میں آ گئے ہیں، جو عبداللہ حمدوک کی تصویریں لہرانے اور سڑکوں پر ان کے حق میں نعرے لکھنے میں مصروف تھے۔  وہ ایک مہینے سے حمدوک کو مجسم جمہوریت سمجھ کر ان کے حق میں رائے عامہ ہموار کرتے رہے تھے۔ مگر فوج کے ساتھ معاہدے کی روشنی میں عبوری دور حکومت ۲۰۲۳ءکو ہونے والے انتخاب تک جاری رہے گا۔ اسی معاہدے کی روشنی میں حمدوک کی وزارت عظمیٰ بحال ہونا قرار پائی ہے۔

۳۰؍اکتوبر کو لاکھوں افراد سوڈان کی سڑکوں پر ایک حالیہ فوجی بغاوت [۲۵؍اکتوبر] کے خلاف مظاہروں میں موجود رہے۔ باغی فوج کی پُرتشدد کارروائیوں کے باوجود تختہ الٹنے کی فوجی کارروائی کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں سوڈانی عوام کی جوق در جوق شرکت معنی خیز بات تھی۔ سوڈان میں فوج اور سول انتظامیہ کے درمیان تنازعے میں ایک طرف سویلین فورسز تھیں، جن کی نمایندگی مزاحمتی کمیٹیوں، جمہوریت پسند رضا کاروں، ’فورسز فار فریڈیم اینڈ چینج گروپ‘ اور عبوری وزیر اعظم عبداللہ حمدوک کر رہے تھے۔دوسری جانب کئی فوجی اور نیم فوجی فورسز سرگرم عمل تھیں۔ ان میں چند مسلح باغی گروپ، اقتدار سے برخاست کیے گئے سابق حکمران عمر البشیر کی باقیات سوڈان کی مسلح فوج بھی میدان میں تھی۔

۲۵؍اکتوبر کی بغاوت کے بعد نئی تشکیل شدہ بااختیار کونسل میں ہونے والی دھڑے بندی نے سوڈان کو، فوجی بغاوت کے حامی اور مخالف کیمپوں میں تبدیل کر دیا۔ سوڈان میں ہونے والی بغاوت میں چار کردار نمایاں تھے: بااختیار کونسل کے سربراہ جنرل عبدالفتاح البرہان، الفتاح کے نائب جنرل محمد حمدان المعروف ’حمیدتی‘، وزیر مالیات جبریل ابراہیم اور دارفور کے گورنر جنرل میناوی شامل تھے۔ سوڈان میں روز بروز تبدیل ہوتی صورت حال دیکھ کر لگتا ہے کہ چار رکنی باغی گروپ کئی حوالوں سے عوام کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو گا۔

جنرل البرہان اور جنرل حمیدتی کے درمیان تناؤ ایک کھلی حقیقت ہے، جس کے باعث فوج کی صفوں میں بھی دراڑیں پڑنا شروع ہو گئی ہیں۔ یاد رہے فوجی جنتا نے بغاوت کی حمایت اداراتی مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے کی۔ ماضی کے باغی جبریل ابراہیم اور میناوی کا بھی یہی حال ہے، کیونکہ عبوری انتظام میں نمایندہ حیثیت کے باوجود انھیں حکومتی عہدے نہیں ملے، جس وجہ سے انھوں نے بغاوت کی حمایت کی تھی۔

حالیہ بغاوت کو سند جواز فراہم کرنے کے لیے جنرل عبدالفتاح البرہان نے یہ دلیل گھڑی: ’’ہم نے حکومت اس لیے برخاست کی تھی کیونکہ ہم ملک کو خانہ جنگی سے بچانا چاہتے تھے‘‘۔  نئی بااختیار کونسل کی سربراہی کے بعد انھی جنرل صاحب نے وفادار سول نمایندوں اور اسلام پسند حلقوں کو اپنے حلقۂ ارادت میں شامل کرنا شروع کر رکھا ہے۔

جنرل عبدالفتاح البرہان غیر جمہوری اقدامات کے ذریعے عالمی برادری اور سوڈانی عوام کو یہ باور کرانے میں تاحال ناکام ہیں کہ وہ ملک میں ’آزاد اور شفاف انتخابات‘ منعقد کرائیں گے۔بہت سے غیرحل شدہ مسائل ایسے ہیں کہ جنھیں دیکھ کر یہ لگتا ہے کہ فوجی جنتا نے اپنی صلاحیتوں پر زیادہ اعتماد کرلیا ہے۔ اولاً جنرل البرہان اپنی قیادت میں کی جانے والی بغاوت کے لیے مطلوبہ قانونی جواز نہیں گھڑ سکتےکہ جسے بنیاد بناتے ہوئے انھیں سویلین ٹیکنوکریٹوں کوورغلا کر عبوری نظام کا حصہ بنانا تھا۔

تقریباً تمام سیاسی جماعتیں بیک آواز ہو کر فوجی بغاوت کو مسترد کر چکی ہیں۔ ایسے میں نئی حکومت خود کو کس کا نمایندہ بنا کر پیش کرے؟ یہ امر اتنا آسان نہیں۔ نئی عبوری حکومت میں اگر اسلام پسند حلقوں کو شامل کیا جاتا ہے تو علاقائی سیاست کے فریم ورک میں مصر، متحدہ عرب امارات اورسعودی عرب اس کی سخت مخالفت کریں گے۔

باغی حکومت ٹیکنوکریٹوں کو ہم نوا بنا کر بھی عبوری انصاف، کرپشن، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو مؤثر انداز میں کنڑول کرنے کا دعویٰ اس لیے نہیں کر سکتی کہ وہ خود اس ساری خرابی کی روح رواں تھی۔ تاہم اس وقت تک سوڈان کی فوجی کونسل کے علاقائی اتحادیوں میں مصر، اسرائیل، سعودی عرب اور یو اے ای شامل ہیں اور افریقی ملک سے تعلقات کو ’سلامتی‘ کی نظر سے دیکھتے ہیں۔

 مشرق وسطیٰ میں اٹھنے والی عوامی بیداری کی لہر ’عرب بہار‘ کے بعد خطے میں کچھ تبدیلیاں تو وقتی ثابت ہوئیں جیساکہ مصر۔’عرب بہار‘ سے متاثر ہونے والے ممالک میں شام ایک اہم مثال ہے، جہاں ہونے والی تباہی کی بڑی وجہ غیرمقامی اور بیرونی عناصر کی شمولیت تھی۔ سوال یہ ہے کہ کیا عوامی بےچینی کی نئی لہر میں اب سوڈان بھی بیرونی عناصر کی مداخلت کا ایک نیا اکھاڑا بننے جا رہا ہے؟شام کے ساتھ سوڈان کے حالات کا موازنہ شاید نامناسب بات ہو، لیکن مشرق وسطیٰ میں عوامی بیداری کی پہلی مہم میں دکھائی دینے والی بعض نشانیاں، سوڈان میں دیکھی ضرور جا رہی ہیں۔

سوڈان میں ۲۵؍ اکتوبر کو فوج نے اس خود مختار کونسل پر شب خون مارا، جس کے ساتھ فوجی قیادت نے شرکت اقتدار کا معاہدہ کر رکھا تھا۔ وزیراعظم عبداللہ حمدوک کو گرفتار کر کے ملک میں ہنگامی حالت نافذ کر دی گئی۔ جنرل عبدالفتاح البرہان کے بقول: ’’بڑھتی ہوئی سیاسی کشیدگی نے سوڈان کو خانہ جنگی کے دہانے پر لا کھڑا کیا تھا اسی لیے فوج کو انتہائی اقدام اٹھانا پڑا‘‘۔

یہاں ایک عجیب منظر دیکھنے میں آرہا ہے۔ ماضی میں مصر میں ڈاکٹر محمد مرسی شہیدؒ کی منتخب حکومت کے خلاف جنرل عبدالفتاح السیسی کی فوجی بغاوت کو امریکا اور مغربی ممالک نے ٹھنڈے پیٹوں برداشت کیا ، لیکن اس وقت سوڈان میں ہونے والی فوجی اکھاڑ پچھاڑ پر یہی ممالک اس  فوجی جنتا کو قبول نہیں کررہے۔سوڈانی فوج کے اقدام کو نہ ملک میں پذیرائی ملی اور نہ بین الاقوامی طاقتوں نے اس کی حمایت میں زبان کھولی۔ یہی وجہ سے کہ سوڈان کے طول وعرض میں مظاہرے ہونے لگے ہیں، جن پر سوڈان کی اپنی ہی قومی فوج نے گولیاں برسائیں۔

فوجی بغاوت کے بعد سوڈان میں بڑھتا ہوا سیاسی بحران، خود ریاست کے وجود کے لیے خطرہ بن چکا ہے۔ اس بحران کی وجہ بعض سیاسی تجزیہ کاروں کے بقول عبوری سیاسی نظام کی بےقاعدگی اور اس کے پشتی بانوں کا باہم پیچیدہ تعلق ہے۔ اس عبوری سیاسی انتظام کا آغاز طویل عرصے تک سوڈان کےصدر عمر البشیر کو ۲۰۱۹ء میں زبردستی اقتدار سے الگ کرنے والی عوامی تحریک کی کامیابی کے بعد ہوا۔

  • ماضی کا ورق: ماضی میں بھی سوڈان میں کئی بار ایسے ہی پیچیدہ عبوری سیاسی بندوبستوں کے ذریعے ملکی نظام چلایا جاتا رہا ہے۔ ۵۵-۱۹۵۳ء کے دوران سوڈان، تاج برطانیہ کی نو آبادی کے طور پر بھی ایک عبوری سیاسی انتظام کی بھینٹ چڑھا تھا۔ اس سیاسی انتظام کی ابتدا ایک انتخاب کے ذریعے ہوئی، جس کے نتیجے میں تشکیل پانے والی حکومت نے ’خود اختیاری کا قانون مجریہ ۱۹۵۳ء ‘ منظور کیا۔ اس قانون کی روشنی میں منتخب ایوان اور کابینہ کی تشکیل کی راہ ہموار ہوئی، البتہ ریاست کی سربراہی برطانوی گورنر جنرل ہی کرتے رہے۔

اس قانون کے مطابق ریفرنڈم کے ذریعے یہ فیصلہ کیا جانا تھا کہ سوڈان کا الحاق مصر سے ہو گا یا پھر یہ ایک مکمل آزاد ملک کے طور پر طلوع ہوگا۔ پارلیمنٹ نے ریفرنڈم کے بغیر ہی سوڈان کی آزادی کے حق میں ایک قرارداد منظور کر لی۔خود اختیاری کے قانون کو جلد ہی سوڈان کی آزاد ریاست کے دستور کا درجہ حاصل ہوگیا۔ اس طرح ملک کا انتظام چلانے کے لیے تاج برطانیہ کے نامزد گورنر جنرل کی جگہ پانچ رکنی خودمختار کونسل نے لے لی۔ ۱۹۶۴ء کے انقلاب کے وقت بھی خودمختار عبوری کونسل کا فارمولا کام آیا۔ اس انقلاب میں میجر جنرل ابراہیم عبود کا اقتدار ختم ہوگیا تھا۔  آگے چل کر ۱۹۸۵ءمیں سوڈان کے صدر جعفر نمیری کو بھی ایسی ہی فوجی بغاوت کے نتیجے میں اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے۔

  • طویل ترین عبوری حکومت: ان ’انقلابات‘ یا بغاوتوں میں عبوری حکومتیں راتوں رات تشکیل پاتی رہیں ،جب کہ حال ہی میں اپنے انجام کو پہنچنے والا عبوری سول انتظام، نو مہینوں کی صبر آزما جدوجہد کے بعد تشکیل پایا۔ عمر البشیر اور سوڈان کی پیپلز لبریشن موومنٹ/آرمی کے درمیان ۲۰۰۵ء میں طے پانے والے ’جامع امن معاہدے‘ سے ملک کے جنوب میں جنگ کے بادل چھٹے اور جنوبی سوڈان کی آزادی کے لیے ریفرنڈم کا ٹائم ٹیبل طے پایا۔ ’جامع امن منصوبے‘ کی روشنی میں سوڈان نے جمہور کی حکمرانی کا عبوری سفر طے کرنا تھا اور اس معاہدے کو علاقائی طاقتوں نے طے کروایا، اور بین الاقوامی طاقتوں نے بھی اس میں اپنا حصہ ڈالا۔

یہی معاہدہ آگے چل کر ۲۰۰۵ء میں نئے سوڈانی دستور کے لیے اہم سنگ میل ثابت ہوا، جس میں اختیاراتی تقسیم سمیت انسانی حقوق پر بہت زور دیا گیا تھا۔ چھے سالہ عبوری دور ہم آہنگی کے فقدان کے باوجود بہت اچھا گزرا۔ معاہدے کے نتیجے میں امن، شہری آزادیوں اور اظہار رائے کی بحالی اور سیاسی جماعتوں کے احترام کی راہ ضرور ہموار ہوئی۔اس معاہدے سے دارفور میں ۲۰۰۳ء سے جاری جنگ تو ختم نہ ہو سکی، تاہم سوڈانی معاشرے میں مذہب، اختیارات کی نچلی سطح پر تقسیم اور جمہوری شراکت جیسے اصولوں سے متعلق سوچ بچار کی راہ ہموار ہوئی۔

’جامع امن معاہدہ‘ مطلق العنان عسکری اختیارات رکھنے والی دو جماعتوں کے درمیان تھا، جس میں انھوں نے اقتدار میں شراکت کے ساتھ تیل کی آمدن کو بھی باہم تقسیم کرنا تھا۔ فریقین کو اپنا مکمل بااختیار علاقہ ترتیب دینے کا حق حاصل تھا، خواہ اس کے لیے انھیں انتخابات میں ہیراپھیری ہی کرنا پڑے۔ اس طرح جنوبی سوڈان کی علیحدگی کے بعد دونوں علاقوں میں جنگ چھڑ گئی۔

جنوبی سوڈان کی ملک سے علیحدگی کے موقعے پر بعض سیاسی مبصرین پُرامید تھے کہ حالات معمول پر لانے کے لیے اعتماد سازی کے مراحل طے ہوتے ہی بڑے متنازع امور بھی خوش اسلوبی سے طے پا جائیں گے، لیکن بدقسمتی سے یہ خواب شرمندۂ تعبیرنہ ہوا۔

ایتھوپیا کی مدد اور افریقی یونین کی ثالثی میں اگست ۲۰۱۹ءکو فوجی کونسل اور سویلین تنظیموں کے اتحاد ’فورسز فار فریڈم اینڈ چینج‘ کے درمیان طے پانے والے معاہدے میں بہت سی خامیاں موجود تھیں۔ اس دستاویز میں سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ اس کے ذریعے فوج کے تابع ’ریپڈ سپورٹ فورسز‘ [آر ایس ایف] نامی قبائلی ملیشیا کو سند جواز فراہم کرتے ہوئے اسے سوڈانی فوج کا حصہ بنا دیا گیا۔ آر ایس ایف کے رہنما محمد حمدان دقلو [حمیدتی] خود مختار کونسل کے نائب صدر بن گئے اور عبوری بندوبست میں یہ ملیشیا ترقی کرتے ہوئے ایک اہم معاشی اور سیاسی طاقت بن کر ابھری اور ریاست کے اندر ریاست بن بیٹھی۔ ملیشیاؤں کی موجودگی میں جمہوریت کا خیال ایک دھوکا ہے۔

آر ایس ایف پر رواں برس ۳ جون کے خونی واقعات میں ملوث ہونے کے الزام سے معاملات مزید پیچیدہ ہو گئے، کیونکہ عبوری حکومت ان واقعات کی تحقیقات کا مینڈیٹ لے کر آئی تھی تاکہ خوں ریزی کے ذمے دار عناصر کو قرار واقعی سزا دلوائی جا سکے۔ ’فورسز فار فریڈم اینڈ چینج‘ نے اس معاہدے کی تائید خوش دلی سے نہیں، بلکہ سابق حکومت کے حامیوں کے خوف سے کی تھی۔ اگست۲۰۱۹ء کے معاہدے کی پہلی ترجیح عمر البشیر کے حامیوں کا بالخصوص اور فعال اسلامی عناصر کا بالعموم قلع قمع کرنا تھا، کہ کہیں وہ دوبارہ اقتدار میں نہ آجائیں۔

اس معاہدے کے تحت جنرل عبدالفتاح البرہان کو اگلے ماہ خود مختار کونسل سے سبکدوش ہوجانا تھا اور اس وقت ایف ایف سی کے کسی منتخب نمایندے کو سربراہ مملکت بننا تھا، جس کے بعد سویلین حکومت اپنے ایجنڈے کے بڑے بڑے نکات پر عمل کرنے کے قابل ہو جاتی۔

  • فوجی جنتا کے خدشات:ان میں ایک بڑا نکتہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا احتساب کرنا تھا۔ یاد رہے کہ سوڈان کی یہ حکومت ماضی میں وعدہ کر چکی تھی کہ وہ ’’سابق صدر عمرالبشیر کو جرائم کی بین الاقوامی عدالت (انٹرنیشل کرمنل کورٹ) کے حوالے کر دے گی‘‘۔ لیکن جنرل البرہان اور پارلیمان کی ریپِڈ سپورٹ فورسز کے جنرل محمد حمدان سمیت، سابق صدر عمرالبشیر کے ساتھیوں کی خواہش تھی کہ سابق صدر کو بین الاقوامی عدالت کے حوالے نہ کیا جائے بلکہ سوڈان میں ہی مقدمہ چلایا جائے۔سابق صدر کے ساتھیوں کا یہ خوف درست تھا کہ اگر عمرالبشیر کو بین الاقوامی عدالت کے حوالے کر دیا گیا تو وہ دارفور کی لڑائی میں کیے جانے والے مبینہ مظالم کے حوالے سے اپنے ساتھیوں کا نام بھی لے لیں گے۔

جنرل البرہان اور ان کے ساتھیوں کو یہ خطرہ بھی ستاتا رہا ہے کہ اگر ۲۰۱۹ء میں خرطوم میں ہونے والی قتل وغارت کی تفتیش کا معاملہ سامنے آیا، تو اس سلسلے میں بھی انھی لوگوں پر انگلیاں اٹھیں گی۔خرطوم میں یہ قتل وغارت فوج کی طرف سے عمرالبشیر کو اقتدار سے الگ کرنے کے دو ماہ بعد ہوئی تھی، جب پُرامن مظاہرین سوڈان میں جمہوری حکومت کے قیام کے لیے سڑکوں پر نکل آئے تھے۔

 جرنیل اس پر پریشان تھے کہ سویلین حکومت بدعنوانی پر قابو پانے کے ساتھ دفاعی شعبے میں اصلاحات کے ایجنڈے پر بھی عمل کرنا چاہتی تھی۔ ان ترجیحات کے ساتھ عبوری دور میں طے پانے والے معاہدے غیر معمولی حالات کا سبب بننے لگے۔ اس طرح فوج اور ’فورسز فار فریڈم اینڈ چینج‘ کے درمیان پیچیدہ باہمی انحصار خطرے میں دکھائی دینے لگا۔

کسی بھی سویلین حکومت یا فریق کو قانون نافذ کرنے والے اداروں بشمول فوج کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ بنیادی معاشرتی تبدیلیوں کے لیے ملنے والا مینڈیٹ پوری طرح نافذ کرسکیں، لیکن سوڈان میں سول حکومت کے لیے بدقسمتی سے قومی فوج کی یہ حمایت مفقود رہی۔

  • خود مختار کونسل کی من مانیاں:معاہدے میں خود مختار کونسل میں شامل عسکری نمایندوں کو چادر سے باہر پاؤں پھیلانے سے روکنے کا بھی کوئی طریقۂ کار موجود نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس کونسل کے سربراہ جنرل البرہان نے سوڈان کے ’ڈی فیکٹو‘ سربراہ کے طور پر اختیارات استعمال کرنا شروع کر دیے۔ جناب حمیدتی، سول گورنمنٹ کی اقتصادی کمیٹی کے سربراہ تھے اور باغی جتھوں سے معاملات طے کرنے کے لیے بزعم خود اعلیٰ مذاکرات کار بن بیٹھے۔

فوجی جنتا نے سویلین کابینہ کو بتائے بغیر ہی خارجہ پالیسی کی تشکیل، امن وجنگ کے معاہدے کرنا شروع کر رکھے تھے۔ سول کابینہ کو بتائے بغیر ان فوجی گروؤںکی جانب سے اسرائیل سے سفارتی تعلقات کے قیام کا فیصلہ دراصل سب سے زیادہ قابلِ اعتراض بات تھی۔ گذشتہ برسوں میں (اور اب بھی) نہ صرف سوڈان میں قومی بجٹ کا ایک بڑا حصہ فوج کو جاتا رہا، اور فوج کی ملکیت میں چلنے والی کمپنیوں کو ٹیکس میں چھوٹ بھی حاصل رہی ہے۔ اکثر ٹھیکوں میں بدعنوانی کے الزامات کا بھی سامنا رہا ہے۔

جس بحران کے نتیجے میں عبداللہ حمدوک کو اقتدار سے محروم ہونا پڑا، اس کی ایک اور وجہ ’فورسز فار فریڈم اینڈ چینج‘ کی صفوں میں انتشار بھی ہے۔ حالیہ انتشار کا باعث دارفور کے بااثر فریق بنا۔ بیجا قبائیلیوں نے سیاسی معاہدوں میں عدم شمولیت پر احتجاج کرتے ہوئے سوڈان کی بندرگاہ بندکردی، جس نے وزیراعظم کی مشکلات میں اضافہ کیا، تو جولائی کے مہینے میں انھوں نے خوف کے عالم میں کابینہ میں رد وبدل کی، لیکن یہ تدبیر بھی ان کے کام نہ آئی۔

سوڈانی فوج اس لحاظ سے خود کو غیر محفوظ سمجھتی تھی کہ اقتدار کی بندر بانٹ میں شریک دوسرا فریق ماضی میں فوج کے ہاتھوں ہونے والے مظالم کے احتساب کی بات کرتا رہتا ہے اور ساتھ ہی وہ فوج سے اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف کریک ڈاؤن کا بہ تکرار مطالبہ کرتا ہے۔

حمدوک حکومت نے فوج کو ہدایت کی کہ وہ بیجا قبائیلیوں کی جانب سے بندرگاہ کی ناکہ بندی ختم کرانے کے لیے طاقت کا استعمال کریں، لیکن یہی فوج اس دوران وزیر اعظم کا بوریا بستر گول کرنے کا منصوبہ تیار کر چکی تھی، اس لیے انھوں نے کمزور سیاسی حکومت کا حکم ماننے سے انکار کیا۔

  • طاقت کے بل پر جوا:لیکن اب طاقت کے بل بوتے پر غیرآئینی قبضہ کر کے جنرل البرہان ایک بڑا جُوا کھیل چکے ہیں۔ وہ سوڈان کو درپیش مسائل کا کوئی حل پیش نہیں کر رہے۔ ان کے پاس معیشت، جمہوریت کی بحالی اور ملک میں امن جیسے سوالوں کا کوئی شافی جواب نہیں ہے اور یوں وہ ملک کے اندر افراتفری اور قتل وغارت،جب کہ ملک کے باہر مکمل تنہائی کا خطرہ مول لے چکے ہیں۔ فوج نے ۲۰۱۹ء میں جمہوریت کی بحالی کی تحریک کو بُری طرح کچلا تھا تو اس وقت امریکا، برطانیہ، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے چار رکنی اتحاد کے ذریعے پس پردہ،  افریقی یونین کی مدد سے مذاکرات میں ایک حل نکال لیا تھا۔شاید سوڈان کو کھائی میں گرنے سے بچانے کے لیے اس مرتبہ بھی اسی قسم کی کوشش کی ضرورت ہے؟

حالیہ عرصے میں کشمیر میں ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے سویلین افراد کی ہلاکتوںکا ایک سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ پولیس کے مطابق اب تک ۲۸؍افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں گیارہ غیرمسلم ہیں۔ ان میں تین کشمیری پنڈت، ایک سکھ خاتون اور دیگر غیر کشمیری مزدور ہیں۔ وادی کشمیر میں ہرسال بھارت کے مشرقی صوبہ بہار سے تین لاکھ کے قریب مزدود کام کرنے کے لیے آتے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ ان ہلاکتوں کی وجہ سے ان میں سے ۱۰ سے ۲۰ہزار تک واپس چلے گئے ہیں۔

۱۹۹۰ میں عسکری سرگرمیوں کی ابتداء میں ہی کشمیری ہندوؤں جنھیں ’پنڈت‘ کہا جاتا ہے، کی ایک بھاری تعداد نے جموں اور دہلی کی طرف ہجرت کی۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق ۶۰ہزار خاندانوںنے ہجرت کی تھی۔ ان میں ایک لاکھ ۳۵ہزار ہندو،۱۲ ہزار ایک سو۲۱ سکھ، ۶ہزار۶سو۶۹ مسلمان اور ۱۹دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے تھے۔بھارت میں لیڈران اور صحافی ان اعداد و شمار کو اکثر بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔ تقریباً ۸۰۰کے قریب پنڈت خاندانوں نے وادی میں ہی رہنے کو ترجیح دی تھی۔ کشمیری پنڈتوں اور بہاری مزدوروں کی ہلاکتوں نے  پورے بھارت میں ایک طوفان سا برپا کردیا ہے۔

بھارت کے کئی مقتدر مسلم رہنمابھی کشمیری مسلمانوں کو باور کرا رہے ہیں، کہ اقلیتوں کی حفاظت کے لیے ان کو میدان میں آنا چاہیے۔ ایک نیوز ویب سائٹ نے تو ایک بھارتی خفیہ افسر کے حوالے سے لکھا ہے کہ اگر سید علی شاہ گیلانی زندہ اور سرگرم ہوتے، تو اس طرح کی ہلاکتوں کی وہ فوری طور پر روک تھام کرلیتے۔یہ سچ ہے کہ اقلیت کی سلامتی اور ان کا تحفظ اکثریتی طبقہ کی اہم ذمہ داری ہوتی ہے۔ مگر کشمیر میں اکثریتی طبقہ تو اپنے جان و مال پر بھی قدرت نہیں رکھتا۔ فوجی گرفت کے بیچوں بیچ اْدھار زندگی گزارنے والا کیسے کسی اور کی زندگی کی ضمانت دے سکتا ہے؟

اگرچہ ان تمام مقتدر افراد نے ٹارگٹ کلنگ کی مذمت کرکے اکثریتی طبقے کو اپنی ذمہ داری یاد دلائی ہے، مگر و ہ اتنے بے حس ہیں کہ ان کے لیے اننت ناگ میں ۷؍ اکتوبر کو ریاستی آرمڈ فورسز کی فائرنگ کا نشانہ بننے والے پرویز احمد خان کے لیے کسی ہمدردی کا ایک لفظ موجود نہیں ہے۔ گولیوں کا نشانہ بننے کے بعد پرویز خان کی لاش کو آدھی رات کو دفن کر دیا گیا ۔ ان کے والدین کو اس کی لاش پر آنسو بھی بہانے نہیں دیئے گئے ۔ کشمیر کی سبھی جماعتیں ، کشمیری پنڈتوں کی وادیِ کشمیر میں واپسی کی خواہاں ہیں۔ مگر اس دوران جن کشمیر پنڈتوں نے اپنی جائیدادیں قانونی طریقوں سے بیچ ڈالی تھیں، ان کو اب اکسایا جا رہا ہے کہ وہ اپنی جائیدادیں واپس حاصل کریں۔ پچھلے کئی ماہ سے ان میں رہنے والے مسلمان خاندانوں کو بے دخلی کے نوٹس دیے جانے کی خبریں متواتر موصول ہورہی ہیں۔ حالانکہ یہ جائیدادیں انھوں نے قانونی طور پر خریدی ہوئی ہیں۔

 ۵؍ اگست ۲۰۱۹ءکو ریاست کو جارحانہ انداز سے بھارتی یونین میں ضم کرنے اور بعد میں کووڈ وباء کے نام پر جہاںتما م بڑی مساجد اور درگاہوں میں اجتماعات یا محرم کے جلوسوں کی ممانعت کی گئی ، وہیں ۱۵؍ اگست کی بھارت کی یوم آزادی کی تقریب، جنم اشٹمی، مہاتما گاندھی کے جنم دن و دیگر ایسی تقریبات کو اس سے مستثنیٰ رکھ کر عوامی اجتماعات کا انعقاد کیا گیا۔ اس دوہرے رویے پر مقامی آبادی کا سوالات اٹھانا لازمی ہے۔ کشمیری پنڈتوں اور ایک سکھ خاتون کے قتل کی وجہ سے کشمیر میں اضطراب تو ہے ہی، مسلسل تلاشیوں، اندھا دھند گرفتاریوں، محاصروں اور فوجی آپریشنوں نے مسلمانوں کی زندگی مزید اجیرن بنا کر رکھ دی ہے۔

اسی سال مارچ میں بھارت کے سابق وزیر خارجہ جناب یشونت سنہا، سابق معروف بیوروکریٹ اور سابق چیئرمین ماینارٹیز کمیشن جناب وجاہت حبیب اللہ ، بھارتی فضائیہ کے ائروائس مارشل کپیل کاک، سوشل ورکر سوشوبھا بھاروے اور سینیرصحافی اور ایڈیٹر جناب بھارت بھوشن نے ’فکرمند شہریوں‘ (Concerned Citizens Group: CCG) کے ایک معتبر گروپ کے نام سے جب کشمیر کا دورہ کیا، تو وہاں رہنے والے کشمیری پنڈتوں نے ان سے اس خدشے کا اظہارکیا تھا: ’’ بھارت میں عام انتخابات سے قبل کہیں وہ کسی False Flag [خود مار کر دوسرے پر الزام دھرنے جیسے]آپریشن کا شکار نہ ہوجائیں، تاکہ اس کو بنیاد بناکر بھارت میں ووٹروں کو اشتعال و ہیجان میں مبتلا کرکے ایک بار پھر ووٹ بٹورے جاسکیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بعض عسکریت پسندوں میں بھی بھارت کے خفیہ اداروں کے افراد ہوسکتے ہیں، جو اس طرح کی کارروائی انجام دے سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ پنڈتوں کو شکایت تھی کہ مرکزکے ’اسمارٹ سٹی پراجیکٹ‘ کے نام سے دریا کے کنارے پر واقع متعدد مندروں کی آرایش و تزئین کی جا رہی ہے، مگر اس سلسلے میں مقامی پنڈت آبادی کو پوچھا بھی نہیں جاتا ہے۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ یہ کام سیکورٹی فورسز کے افراد کررہے ہیں، جو ایک خطرناک رجحان ہے اور اس سے مقامی مسلم آبادی کو ان سے متنفر کیا جا رہا ہے‘‘۔

۵؍ اگست ۲۰۱۹ء کو جموں و کشمیر کے شہریوں پرجو قیامت ٹوٹ پڑی ہے اور جس طرح نریندرا مودی کی حکومت نے ان کے تشخص و انفرادیت پر کاری وار کیا ، ا س پر ہونا تو چاہیے تھا کہ مذہبی عناد سے اُوپر اٹھ کر اس کا مقابلہ کیا جاتا۔ مگر افسوس کا مقام ہے کہ کشمیری پنڈتوں (ہندوؤں) کے بااثر طبقے نے ، جو ہندو انتہاپسند گروپ راشٹریہ سیوئم سیوک سنگھ (RSS)کے ایک بازو کے بطور کام کرتا ہے، اس پر خوشی کے شادیانے بجائے۔ وہ کشمیر کو بھول کر مذہبی اور نسلی تقسیم کے پیمانے سے معاملات کو جانچ رہے تھے۔ سوشل میڈیا پر بتایا گیا کہ ’’۱۹۹۰ء میں کشمیری پنڈتوں کے ساتھ جو کچھ ہوا، جس کی وجہ سے وہ ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے، آج مودی حکومت نے اس کا بدلہ چکایا ہے‘‘۔ آخر مبینہ طور پر چند مجرموں کے انسانیت کش اقدام کی سزا اجتماعی طور پر پوری کشمیری قوم کو کیسے دی جاسکتی ہے؟ ویسے ۱۹۹۰ء سے لے کر اب تک کشمیر میں تو بھارت ہی کی فوجی، سیاسی اور انتظامی عمل داری ہے۔ جن لوگوں نے کشمیری پنڈتوں کو بے گھر ہونے پر مجبور کیا، ان کے خلاف تادیبی کارروائی کیوں نہیں کی گئی؟ ان کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے اس کو محض پروپیگنڈے کا ہتھیار بنایا گیا۔ یہ خود کشمیری پنڈتوں کے لیے بھی سوچنے کا مقام ہے۔

اب ہم ذرا پیچھے جاکر ۱۹۹۰ء کو ہی یاد کرلیں۔جھیل ولرکے مغربی سرے پر واقع وادیِ کشمیر کے سوپور قصبہ سے دریائے جہلم نئی آب وتاب کے ساتھ جھیل ولر سے نئی توانائی لے کر اپنا سفر پھر شروع کرتا ہے۔پرانے شہر میں برلب دریا میر سید علی ہمدانی کی خانقاہ سے متصل میرے محلے کے اطراف میں دو پنڈت بستیاں تھیں۔ ویسے بھارتی شہروں اور دیہات کی طرح، کشمیر میں ہندوئوں اور مسلمانوں کی کوئی علیحدہ بستیاں نہیں ہوتی تھیں۔ لکیروں کے بغیر ہی یہاںدونوں طبقے مل جل کر رہتے تھے۔ ہمارے محلے کے مشرقی سرے پر جامع قدیم میں آسودہ حال پنڈت آباد تھے۔   ان میںاکثر اعلیٰ سرکاری ملازم تھے، جو سردیوں میں جموں منتقل ہوجاتے تھے۔ مگر مغربی سرے پر صوفی حمام محلہ میں جو پنڈت رہتے تھے، وہ ہمسایہ مسلمانوں کی طرح ہی پس ماندہ اور معمولی درجے کے ملازم تھے۔ کشمیر میں عسکری تحریک کے آغاز کے ساتھ ہی خوف کی فضا طاری ہوگئی۔ عسکریت پسندی پر کسی مرکزی کنٹرول کے نہ ہونے کے باعث، بعض غنڈہ عناصر نے بھی اس میں پناہ لی۔ کئی افراد تو تحریک آزادی سے وابستگی کے بغیر محض کسی سے بدلہ چکانے کی نیت سے بھی عسکریت پسندوں میںشامل ہوگئے۔ حزب المجاہدین اور جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کو چھوڑ کرایک وقت تو وادی میں ایک سو سے زائد عسکری گروہ متحرک تھے۔

اس الائو کو مزید ہوا دینے میں بھارتی سرکار کی خفیہ ایجنسیوں نے بھی بھر پور کردار ادا کیا۔ ۱۹۸۹ء میں گورنر بننے کے فوراً بعد جگ موہن نے پوری سیاسی قیادت کو ، جو حالات کنٹرول کر سکتی تھی، گرفتار کرکے بھارت کے دور دراز علاقوں کی جیلوں میں بند کردیا۔جموں و کشمیر میں بھارت نواز سیاسی قیادت تو پہلے ہی فرار ہوکر جموںاور دہلی منتقل ہوچکی تھی۔ وزیر اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ اپنے خاندان کے ساتھ لندن منتقل ہوگئے تھے۔اس انارکی کا خمیازہ محض کشمیری پنڈتوں کو ہی نہیں بلکہ مقامی اکثریتی آبادی مسلمانوں کو بھی بھگتنا پڑا۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پچھلے ۳۰ برسوں میں ۲۵۰ پنڈت قتل ہوئے، جس کی وجہ سے وہ نقل مکانی پر مجبور ہوگئے۔مگر اسی دوران کشمیر میں اندازاً ایک لاکھ مسلمان بھی مارے گئے۔ جموں خطہ کے دور دراز علاقوں میں۱۵۰۰ کے قریب غیرپنڈت ہندو، جو زیادہ تر دلت، اور راجپوت تھے، قتل عام کی وارداتوں میں ہلاک ہوئے، مگر ان افسوس ناک واقعات کے باوجود ان خطوں میں آبادی کا انخلا نہیں ہوا۔

جموں و کشمیر میں گورنر جگ موہن نے حالات ہی ایسے پیدا کردیے کہ ہر حساس شخص محفوظ پناہ گاہ ڈھونڈنے پر مجبور تھا۔ اگر معاملہ صرف پنڈتوں کی سکیورٹی کا ہوتا، توسوپور اور بارہ مولا کے پنڈت خاندانوں کو پاس ہی بھارتی فوج کے ۱۹ویں ڈویژن کے ہیڈکوارٹر منتقل کیا جا سکتا تھا۔ یادرہے جگ موہن کے آتے ہی افواہوں کا بازار گرم تھا کہ ’’آبادیوں پر بمباری ہونے والی ہے‘‘۔ سردیوں کے آتے ہی دارالحکومت سری نگر سے جموں منتقل ہو جاتا ہے۔ چنانچہ اس بار سردیوں میں جونہی دارالحکومت جموں منتقل ہوا‘ میرے محلے کے اطراف کے آسودہ حال ہندو بھی معمول کے مطابق جموں چلے گئے۔ مگر صوفی حمام کے ہندو وہیں مقیم رہے۔ ایک د ن بھارت کی نیم فوجی تنظیم ’انڈیا تبت بارڈر پولیس‘ (ITBP) کے ایک کمانڈنٹ مقامی پولیس افسران کے ساتھ محلے میں آئے، اور پنڈتوں کی سکیورٹی کا جائزہ لیا۔ مگرپنڈتوں نے کمانڈنٹ سے کہا کہ ’’ہماری سکیورٹی کی فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ، ہمارے پڑوسی (مسلمان) ہی ہماری سکیورٹی ہیں‘‘۔ محلے کے مقتدر افراد نے بھی افسر کو یقین دلایا کہ ’’اقلیتی افراد کی حفاظت کرنا ان کافرض ہے اور وہ یہ فرض نبھائیں گے‘‘۔

مگر دو دن بعد ہی آدھی رات کے لگ بھگ لائوڈ سپیکروں سے کرفیو کا اعلان ہو گیا۔ سڑک پر فوجی بوٹوں کی ٹاپوں اور ٹرکوں کی آوازیں آرہی تھیں۔ پنڈت مکانوں سے بھی چیخ پکار کی آوازیں بلند ہوئیں۔ گھپ اندھیرے میں پتہ نہیں چل رہا تھا کہ کیا ہورہا ہے؟ لگ یہی رہا تھا کہ شاید فوجی آپریشن شروع ہو گیا ہے۔ اسی دوران میں گلی میں کوئی سایہ نمودار ہو کر ہمارے دروازے پر دستک دینے لگا۔ میرے والد نے دروازہ کھولا تو سامنے ان کے دیرینہ بے تکلف پنڈت دوست اور آفس کے ساتھی امر ناتھ بھٹ کہہ رہے تھے کہ ’’نیم فوجی تنظیم کا افسر پورے لائو لشکر اور ٹرکوں کے ساتھ وارد ہو ا ہے، اور سبھی پنڈت برادری کو جموں لے جارہا ہے۔ وہ ہم سے کہہ رہے ہیں کہ اگلے چند روز کے اند ر کوئی بڑا آپریشن ہونے والا ہے۔ہوسکتا ہے کہ فضائی بمباری بھی ہو‘‘۔ امرناتھ بضد تھا، کہ ہم بھی اس کے ساتھ منتقل ہوجائیں۔ اس کا کہنا تھا کہ ’’میں نے اس سلسلے میں افسر سے بات کی ہے‘‘۔ مگر جب میرے والد نے انکار کیا، تو امر ناتھ نے میرا ہاتھ پکڑکر ’’میرے والد سے فریاد کی کہ 'اگر تمھیں مرنا ہی ہے، تو کم از کم اپنے بیٹے کو ہمارے ساتھ روانہ کردو‘ اسے تو زندہ رہنے دو‘‘۔ مگرمیرے والد کے مسلسل انکار کے بعد امر ناتھ روتے ہوئے تاریکی میں گم ہوگیا۔ اگلے دن صبح یہ عقدہ کھلا ، کہ پوری پنڈت برادری کو ٹرکوں میں ساز و سامان کے ساتھ زبردستی بٹھا کر جموں کے پناہ گزیں کیمپوں میں منتقل کردیا گیا ہے، جہاں وہ ابھی تک مقیم ہیں۔ امرناتھ کا اب انتقال ہوچکا ہے‘ مگر میرے والد جب تک دہلی میں میرے پاس آتے رہے، وہ راستے میں جموں میں ٹھیر کر امرناتھ کے پاس ضرور رُکتے تھے۔

بھارتی حکومت اور بھارتی میڈیا کا ایک بااثر حلقہ جہاں کشمیر ی پنڈتوں کی گھر واپسی کے موضوع پر اکثریتی طبقہ کے جذبات واحساسات کو جان بوجھ کرمنفی انداز میں پیش کر رہے ہیں، وہیں یہ بھی حقیقت ہے کہ پنڈتوں کو مارنے والے مخصوص بندوق بردار جب ’تائب‘ ہوئے تو انھیں بھارتی سکیورٹی ایجنسیوں نے سرآنکھوں پر بٹھایا۔کشمیری پنڈتوں کی چند تنظیمیں بھارتی حکومت کی شہ پراب کھلے عام ’ہوم لینڈ‘ کا مطالبہ کر رہی ہیں، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہندو پرستوں نے کشمیری پنڈتوں کو یہودی طرز پر یہاں الگ بسا کر کشمیر کو دوسرا فلسطین بنانے کا پکا ارادہ کر لیا ہے۔ اب دو ٹوک لفظوں میں کہا جا رہا ہے کہ ’’پنڈت ہوم لینڈ کے لیے عدلیہ، انتظامیہ اور پولیس کے علاوہ سب کچھ علیحدہ ہوگا‘‘۔ ان کے بعض بااثر لوگ برملا کہتے ہیں کہ ’’تین فی صد آبادی ۹۷فی صد آبادی کے ساتھ نہیں رہ سکتی، اس لیے پنڈتوں کے لیے الگ سے ’سمارٹ زون‘ بنایا جائے‘‘۔

کشمیر کی آزاد حیثیت کو زیر کرکے جب مغل بادشاہ اکبر [م:۱۶۰۵ء]نے آخری تاجدار یوسف شاہ چک [م:۱۵۹۲ء] کو قید اورجلا وطن کیا، تو اگرچہ مغل حاکم مسلمان تھے، مگر اس خطے میں ان کی سیاسست کا انداز سامراجیوں جیسا تھا۔ چونکہ کشمیر میں مسلمان امرا نے مغل فوج کشی کی مزاحمت کی تھی، اسی لیے مغلوں نے کشمیری پنڈتوں کی سرپرستی کرکے انھیں اْبھارا اور مسلمان امرا کو نیچا دکھانے کے لیے کشمیری پنڈتوں کو اپنا حلیف بنایا۔

 بقول شیخ محمد عبداللہ ’’پنڈتوں کے جذبۂ امتیاز کو تقویت دینے کے لیے آدتیہ ناتھ بٹ کو ان کی مراعات کا نگہبان مقر ر کیا۔ جنوبی و شمالی کشمیر میں کشمیری پنڈت ہی گورنر بنائے گئے‘‘۔ معروف مؤرخ جادو ناتھ سرکار کے مطابق ’’مغل سلطنت کے دوران کشمیری مسلمانوں کو امور سلطنت سے دُور رکھا گیا‘‘۔ اس طرح کشمیر کے بطن سے مغلوں نے ایک قابلِ اعتماد ضمیرفروش، گھر کا بھیدی طبقہ پیدا کیا۔ مسلمانوں پر فوج کے دروازے بند، مگرپنڈتوں کے لیے کھلے تھے۔ کشمیری میرو پنڈت نو ر جہاںکی ذاتی فوج کا نگرانِ اعلیٰ تھا۔ پنڈتوں کی یہی بالا دستی اورنگ زیب تک کے دور میں بھی جاری تھی۔ اس کے دربار میں مہیش شنکر داس پنڈت کا خاصا اثر و رُسوخ تھا۔

افغان دورکی ظلم و ستم کی کہانیاں جہاں کشمیر میں زباں زدِ عام ہیں، اس وقت بھی کشمیری پنڈت ظالموں کی صف میں اپنے ہم وطنوں سے کٹ کر کھڑے تھے۔ بلند خان سدوزئی نے کیلاش در پنڈت کو وزیر اعظم بنایا تھا۔ حاجی کریم داد خان نے پنڈت دلا رام کوپیش کار کا عہدہ دیا تھا۔ افغان حکومت کے زوال کے بعد سکھ اور ہندو ڈوگرہ دور میں بھی پنڈتوں ہی کا طوطی بولتا تھا۔ یہ دونوں دور ظلم و ستم میں افغانوں سے بازی لے گئے۔ کشمیر کے مشہور’ در‘ خاندان کا عروج اسی دور میں ہوا۔ سکھوں کے دور ہی میں کشمیری پنڈتوں کی ایما پر نہ صرف گاوٗکشی بلکہ گائے کا گوشت برآمد ہونے پر سزائے موت کا فرمان جاری ہوا، جس کو بعد میں ازراہِ ترحم ڈوگرہ حکمرانوں نے عمر قید میں تبدیل کیا۔ تب تک۱۹کشمیری مسلمان اس جرم میں پھانسی کی سزا پا چکے تھے۔ ڈوگرہ حکمران مہاراجا گلاب سنگھ نے راج کاک در کو کشمیر کا گورنر بنایا، جس کی سختیوں اور شال بُننے والے کاریگروں پر اس کے ٹیکس کی بھرمار نے ۱۸۶۵ء میں سرینگر کی سڑکوں پر دْنیا کی پہلی مزدو ر بغاوت برپا کی۔

بندوبست اراضی کے کمشنر سر والٹر لارنس کے مطابق ’’ڈوگرہ حکومت میں ساری قوت کشمیری پنڈتوں کے ہاتھوں میں تھی۔ مسلمان کا شت کار کو برہمنوں کے آرام و آسایش کے لیے بیگار پر مجبور کیا جاتا تھا۔۱۹ویں صدی کے اواخر میں جب پنجاب سے آنے والے ہندو اور کشمیری نژاد مسلمانوں نے ڈوگرہ دربار میں نوکریاں حاصل کرنی شروع کیں، تو کشمیری پنڈتوں نے کشمیر ، کشمیریوں کے لیے اور اسٹیٹ سبجیکٹ کا نعرہ بلند کرکے علاحدہ شہریت کا مطالبہ کیا۔ اب ایک صدی کے بعد کشمیری پنڈتوں ہی نے اسی قانون کی مخالفت میں زمین و آسمان ایک کیے۔ ۱۹۳۱ء میں جب تحریک کشمیر کا باقاعدہ آغاز ہوا، تو ڈوگرہ حکمرانوں نے کشمیری پنڈتوں کو ڈھال بناکر پروپیگنڈا کیا کہ  یہ دراصل ہندو مہاراجا کے خلاف مسلمانوں کی بغاوت ہے۔ شاید یہی تاریخ اب دوبارہ دہرائی جا رہی ہے۔ پورے بھارت میں ظالم و مظلوم کی جنگ کو ’کشمیری مسلمان بنام پنڈت‘ بناکر پیش کیا جا رہا ہے۔

ڈوگرہ حکومت کے دور میں جب چند پڑھے لکھے مسلمانوں کو معمولی سرکاری نوکریا ں ملنی شروع ہوئیں، تو کشمیری پنڈتوں نے اس کے خلاف ’روٹی ایجی ٹیشن ‘ شروع کی۔ انھوں نے مہاراجا کو ایک میمورنڈم پیش کیاکہ ’’کولگام علاقے میں ہمارے لیے ایک علاحدہ وطن بنایا جائے‘‘۔ یہ وہی مطالبہ ہے جو کشمیری پنڈت آج کل ایک علاحدہ ہوم لینڈ یعنی’ پنن کشمیر ‘کے نام سے کر رہے ہیں۔ بھلا ہو چند روشن خیال کشمیری پنڈتوں کا، خاص طور پر پنڈت پریم ناتھ بزاز کا ، جس نے برطانوی حکومت کی ایما پر بنائے گئے گلینسی کمیشن کو بتایا کہ مسلمانوں کے مقابلے میں کشمیری پنڈتوں کی حالت خاصی بہتر ہے۔ خود جواہر لعل نہرو نے کشمیری پنڈتوں کے گڑھ شیتل ناتھ جاکر ان کو مشورہ دیا تھا کہ و ہ ظالم و مظلوم کی جنگ میں مظلوم کا ساتھ دیں۔ نہرو اس وقت اپنے دوست شیخ عبداللہ کے لیے پنڈتوں کی حمایت چاہتے تھے۔ مگر پنڈت ڈوگرہ مہاراجا کا دامن چھوڑنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ انفرادی طور پر کئی پنڈت لیڈر کشمیری مسلمانوں کے شانہ بہ شانہ رہے ، مگر طبقاتی حیثیت سے وہ تحریک آزادی کے دھارے سے کٹے ہی رہے۔اسی مہاراجا نے ۱۹۴۷ءمیں قبائلی حملوں سے خوف زدہ ہوکر رات کے اندھیرے میں بھاگ کر ان کو اپنے حال پر چھوڑ دیا۔ یہ تو کشمیری مسلمان ہی تھے، جنھوں نے ان کی حفاظت یقینی بنائی۔

پنڈت پران ناتھ جلالی ایک واقعہ سناتے تھے، کہ شیخ عبداللہ نے بطور چیف ایڈمنسٹریٹر جب زمامِ کار سنبھالی تو ان کو کشمیری پنڈتوں کی بازآباد کاری کا کام سونپا گیا۔ ان کو اطلاع ملی کہ ہندواڑ ہ تحصیل کے کسی گاؤں میں کشمیری پنڈتوں کے کئی خاندان ہفتوں سے غائب ہیں۔ سرینگر سے روانہ ہوکر سوپور تھانے سے سپاہیوں کی کمک لے کر وہ اس گاؤں میں پہنچے تو معلوم ہوا کہ اطلاع صحیح تھی۔ گاؤں کے سرکردہ افراد کو بلا کر ان کا انٹروگیشن کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پولیس نے ان کی سخت پٹائی کی ، حتیٰ کہ ان کی خواتین و بچوں تک کو نہیں بخشا۔ سبھی گاؤں والے عذا ب تو سہتے رہے اور بس یہی کہتے رہے کہ ان کو کچھ نہیں معلوم کہ یہ پنڈت خاندان کہاں چلے گئے ہیں۔

 خیر جلالی صاحب کا کہنا تھا کہ ایک خالی پنڈت مکان میں انھوں نے اور سپاہیوں نے ڈیرا ڈالا۔ ایک رات ایک سپاہی نے ان کو بتایا کہ رات گئے گاؤں میں لوگوں کی کچھ غیر معمولی نقل و حرکت محسوس ہوتی ہے تو پران ناتھ جلالی اور سپاہیوں نے ہوشیاری کے ساتھ ان کا پیچھا کیا۔ چند ایک میل چلنے کے بعد معلوم ہوا کہ نالے کے دوسری طرف ایک محفوظ و تنگ گھاٹی میں کشمیری پنڈت خاندان چھپے ہوئے تھے اور گاؤں والے ہر رات ٹوکریوں میں ان کو کھانا پہنچا رہے تھے۔ جلالی صاحب کا کہنا تھا کہ ’’ندامت سے میرے پاوٗں زمین میں گڑ گئے۔ گذشتہ کئی روز سے ہم نے ان گاؤں والوں کا جس طرح ٹارچر کیا تھا، اس پر پشیمان تھے۔ اِن اَن پڑھ دیہاتیوں نے ٹارچر اور گالیا ں کھانا برداشت تو کیا، مگرکیا بچے اور کیا خواتین ، کسی نے پنڈتوں کے ٹھکانے کا راز افشا نہیں کیا‘‘۔ یہ واقعہ اس وقت کا ہے، جب جموں میں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی جا رہی تھی۔ ایک باضابطہ نسل کشی کے ذریعے ان کی آبادی کو اقلیت میں تبدیل کیا جا رہا تھا۔ مگراس کے باوجود مسلمانوں نے پنڈتوں کے لیے اس حفاظتی طرزِعمل کو اختیار کیا جس پر گاندھی جی نے کہا تھا کہ ’’جب پورا برصغیر فرقہ وارانہ آگ میں جل رہا تھا مگر کشمیر سے مجھے روشنی کی کرن نظر آرہی تھی‘‘۔

تاریخ گواہ ہے کہ جب مسلمانوں کو تعلیمی اور سیاسی میدانوں میں اپنی صلاحیتیں منوانے کا موقع ہاتھ آیا تو یہ اقلیتی طبقہ (پنڈت) احساسِ کمتری کا شکار ہونے لگا۔ یہ نفسیات اب بھی بعض انتہا پسند پنڈتوںکو اس غلط فہمی میں مبتلا کر چکی ہے کہ وہ نئی دہلی کی پشت پناہی سے کشمیری مسلمانوں کو ایک مرتبہ پھر اپنے غلاموں اور ماتحتوں کے طور پر گزر بسر کرنے پر مجبور کرسکتے ہیں۔ اس مسئلے کو لے کرارباب سیاست ایک ایسا ’گھنائونا کھیل‘ کھیل رہے ہیں، جو نہ تو پنڈت برادری کے حق میں ہے اور نہ کشمیر کی اکثریت کے لیے بہتر ہے، جس اکثریت نے پنڈت اقلیت کو کبھی اقلیت نہیں سمجھا بلکہ انھیں ہمیشہ ہی اپنے بیچوں بیچ رکھتے ہوئے اپنے عزیزوں اور پیاروں کی مانند، اپنی محبتوں سے نوازا ہے۔ مگر کشمیری قوم کی بد قسمتی یہ رہی کہ جب بھی کوئی تاریخی موڑ آیا، یہاں کی اقلیت اکثریت کے ہم قدم نہیں تھی، نہ صرف ہم قدم اور ہم خیال نہیں تھی بلکہ بار بار ایک ایسا راستہ اختیار کیا گیا، جو اکثریتی شاہراہ سے قدرے دور رہا۔اگر بھارت کے مفادات کی بھی بات کریں، جس طرح کی رسائی پنڈتوں کی دہلی دربار میں تھی، وہ بھارت کے لیے بھی ایک طرح کے پل کا کام کرسکتے تھے۔ مگر دہلی کے ففتھ کالم کا کردار ادا کرکے انھوں نے کشمیر میں بھارت کے مفادات کو بھی زِک پہنچائی۔ چند کشمیری پنڈتوں کو چھوڑ کربلعموم انھوں نے مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے کے لیے وقتاً فوقتاً اپنا کندھا پیش کرکے سبھی کا نقصان کیا ہے۔جس نے کشمیری مسلمانوں کو نہ صرف بھارت مخالف بنایا، بلکہ نفرت کرنے کی حد تک پہنچادیا۔

پنڈتوں کو اپنا دامن بھی دیکھ لینا چاہیے کہ آخر ان میں اور مسلمانوں دونوں کے درمیان نفسیاتی خلیج کو کس نے جنم دیا؟ جس کی وجہ سے آج کشمیر آگ اور خون کے دہانے پر کھڑا ہے۔ کشمیر کا اکثریتی طبقہ اپنے جان و مال پر بھی قدرت نہیں رکھتا۔وہ تو فوجی گرفت کے بیچوں بیچ اُدھار زندگی گزاررہا ہے۔

اگست ۲۰۱۹ء کو بتایا گیا کہ ان اقدامات سے ترقیاتی کاموں میں تیزی آئے گی اور نظم و نسق بہتر ہو جائے گا۔ مگر یہ سبھی وعدے ہوا میں تحلیل ہوتے نظر آ رہے ہیں۔انتہائی جدید ٹکنالوجی کے ذریعے کڑی نگرانی کے باوجود حکومت مقامی اور غیر مقامی سویلین افراد کو بچا نہیں سکی۔ حکومت اسے ایک سلامتی کے مسئلے کے طور پر پیش کر رہی ہے اور اس کے سیاسی پس منظر سے نظریں چرا رہی ہے۔ کیا نظم و نسق عوام کی شمولیت کے بغیر قائم کیا جا سکتا ہے؟ کیا کشمیر کے سیاسی لیڈروں کو جیلوں میں بند کر کے یا ان تک عوام کی رسائی محدود بنا کر تعمیر و ترقی کا کوئی خواب پورا ہو سکتا ہے؟ حکومت کشمیر میں ایک قبرستان جیسی خامشی پیدا کر نے میں کامیاب تو ہوئی ہے، مگر مُردوں کو بھی زیادہ دیر تک خاموش نہیں رکھا جا سکتا ہے۔ یہاں کے لوگ کب تک معصوم افراد کو قربانی کا بکرا بنتے ہوئے دیکھیں گے؟ کیا وہ وقت ابھی نہیں آیا ہے کہ بھارت ، پاکستان اور کشمیری قیادت ، مسئلہ کے حتمی حل کے سلسلے میں متفق ہو جائیں؟ یہی ایک طریقہ ہے جس سے نہ صرف مسئلہ کا دیرپا حل نکل سکتا ہے بلکہ اس کے نتیجے میں یقینا جموں و کشمیر کے تمام شہری ماضی کی طرح ایک بار پھر گلے مل کر ساتھ رہنے لگیں گے۔

مغرب ایک بار پھر افغان بحران کے بارے میں اپنے تجزیہ کاروں اور سیاست دانوں کی پھیلائی ہوئی غلط فہمیوں کا شکار ہے۔ یہ مضمون ماضی اور حال کی ان غلط فہمیوں کو دُور کرنے کے ساتھ اس بات کی بھی عکاسی کرتا ہے کہ طالبان کی قیادت سے کیا توقعات رکھی جا سکتی ہیں۔

افراتفری کے عالم میں افغانستان سے ہونے والے امریکی فوجی انخلا کی اڑائی گئی دھول اب بہت حد تک بیٹھ چکی ہے۔اس کا آغاز اس ناقص امریکی پیش گوئی سے ہوا کہ وہاں پر اشرف غنی کی حکومت کم ازکم اٹھارہ ماہ تک توطالبان کو کابل میں داخل نہیں ہونے دے گی، اور اختتام اس ڈرون حملے پر ہوا، جس میں دہشت گردی کا الزام لگاتے ہوئے ایک معصوم افغان شہری کو بچوں سمیت ہلاک کیا گیا۔

امریکا اور نیٹو پر طویل عرصے سے گہری نظر رکھنے والے مبصرین کے لیے اس بات میں حیران ہونے کی کوئی وجہ نہیں کہ وہ انخلا کے حوالے سے باربار نئے شیڈول کا اعلان کیوں کرتے رہے اورپھر اپنے ہی دیے ہوئے اوقات میں تبدیلی پر اصرار کیوں کرتے تھے؟ افغانستان کے بارے میں اعداد و شمار و معلومات کا بڑا ذخیرہ جمع کرنے اور وسیع پیمانے پر تجزیہ کاروں ،سہولت کاروں اور ماہرین کی خدمات حاصل کرنے کے باوجود انٹرنیشنل سیکیورٹی اسسٹنس فورس (ISAF) اپنے دشمن کی پیش قدمی کی نوعیت کو سمجھنے میں بُری طرح ناکام رہی۔

القاعدہ کی واپسی

کابل سے امریکی فوجوں کے انخلا کے وقت برطانیہ کے وزیر دفاع بین والیس (Ben Wallace) نے اعلان کیا کہ ’’افغانستان ایک بارپھر خانہ جنگی کی طرف جا رہا ہے۔ افغانستان کی بکھری ہوئی تاریخ اور طالبان کی جنگجویانہ فطرت اس بات کے اشارے دے رہی ہے کہ شاید القاعدہ ایک بار پھر واپس آجائے‘‘۔ سابق امریکی سفیر ریان کروکر(Ryan Crocker)، امریکی ری پبلک پارٹی کے سینیٹر لینسے گراہم (Linsey Graham) اور بہت سے دیگر سیاست دانوں اور تجزیہ کاروں کی زبان سے بھی انھی خیالات کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ڈپٹی ڈائریکٹر   سی آئی اے ڈیوڈ کوہن اورڈائریکٹر ڈیفنس انٹیلی جنس اسکاٹ بیرئیر نے بھی انھی خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’القاعدہ اگلے چند برسوں میں امریکا پر ایک اور حملہ کرنے کی صلاحیت حاصل کر سکتی ہے اور افغانستان میں اس کی نقل و حرکت کے اشارے ملنا شروع ہو گئے ہیں‘‘۔

اس طرح کے پے درپے بیانات افغانستان اور مشرق وسطیٰ کی صورتِ حال کے بارے میں فرسودہ سوچ اور خیالات پر مبنی ہیں۔بنیادی سوال یہ ہے کہ القاعدہ کو صرف افغانستان تک ہی محدود کیوں سمجھا جاتا ہے؟ ۲۰۰۱ء کے بعد القاعدہ کو افغانستان کے علاوہ کئی ممالک میں پروان چڑھنے کے مواقع ملے، خاص طورپر ان ممالک میں جہاں امریکی بمباری اور مہمات کے نتیجے میں حکومتیں ختم ہوئیں اور عوام میں امریکا کے خلاف شدید غم و غصہ پیدا ہوا مثلاً عراق، یمن اور لیبیا وغیرہ۔ ان ممالک میں امریکی موجودگی اوراس کی پُرتشدد کارروائیاں ہی ان تنظیموں کے لیے عوام میں حمایت پیدا کرتی رہیں۔ درایں اثنا، داعش (ISIS) جیسی انتہا پسند تنظیموں نے تو القاعدہ کو امریکی سرزمین پر حملہ کرنے کی اہمیت اور صلاحیت رکھنےکے باوجود بہت پیچھے چھوڑ دیا۔

ان کے برعکس طالبان نے بہت سے مواقع مہیا ہونے کے باوجود افغان سرحدوں سے باہر اپنی جنگ لڑنے کی طرف کوئی جھکائو ظاہر نہیں کیا اور وہ افغانستان میں داعش کے خلاف کارروائیاں کرکے ایک طرح سے امریکی افواج کے ساتھ خاموش تعاون بھی کر رہے تھے۔حقیقت یہ ہے کہ آج کے دور میں دُنیا کی کوئی بھی حکومت اس بات کی ضمانت نہیں دے سکتی کہ اس کا کوئی بھی شہری کبھی کسی دوسرے ملک کے خلاف کسی حملے میں ملوث نہیں پایا جائے گا۔افغانستان میں پُرامن نظم قائم کرنے میں طالبان کی واضح دلچسپی کو سنجیدہ نہ لینے کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ کابل ہوائی اڈے پر داعش کا اندوہناک حملہ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ طالبان حکومت پراعتماد کرتے ہوئے ان کی حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ افغانستان میں داعش اور اس نوعیت کی دیگر تنظیموں کے ٹھکانوں کو ختم کریں۔

طالبان میں دھڑے بندی

طالبان کے بارے میں یہ کہنا کہ ’’وہ اندر سے متحد نہیں اور کسی بھی وقت متحارب گروہوں میں تقسیم ہوجائیں گے‘‘ ،غلط فہمی پر مبنی دعویٰ ہے۔ ۱۹۸۰ء کے عشرے میں اشتراکی روس کے قبضے کے خلاف منقسم مجاہدین گروہوں کی شورش اور طالبان جدوجہدکے درمیان مشابہت تلاش کرنا کسی طورپر درست نہیں۔ مغرب اس طرح کے غلط دعوے کئی بار دہراتا رہا ۔خاص طورپر اوباما کی صدارت کے دوران سنجیدہ مذاکرات سے بچنے کے لیے اس دعوے کوبہانے کے طورپر استعمال کیا گیا کہ’’ طالبان قیادت کا اپنے کمانڈروں پر کوئی کنٹرول ہی نہیں تو ہم مذاکرات کس سے کریں؟‘‘ اس طرح کے مفروضوں کی وجہ سے ہی اوباما حکومت کبھی مذاکرات شروع کرتی اور کبھی ختم کرتی اور اس کے ساتھ ساتھ ڈرون حملے بھی جاری رکھتی ۔ اپنے مفروضے کو سچ ثابت کرنے کے لیے امریکی کوششیں اس بات پر مرکوز رہیں کہ کمانڈروں کے درمیان اختلاف اور تقسیم پیدا کرکے انھیں انفرادی طورپر ختم کیا جائے، لیکن اس سلسلے میں انھیں نہ کوئی پائیدار عسکری فائدہ ہوا اور نہ کوئی سیاسی کامیابی حاصل ہو سکی۔

حقیقت یہ ہے کہ طالبان کئی برسوں سے مشاورتی قیادت اور طاقت کے متعدد مراکز کے ساتھ ایک مربوط مزاحمتی تحریک کے طورپر کام کررہے تھے۔بعض اوقات ان کے درمیان کشیدگی اور پُرتشدد کارروائیاں بھی ہوتی رہیں، لیکن مجموعی طورپر طالبان تحریک نے ان تنازعات سے نمٹنے اوراپنے اتحاد کو برقرار رکھنے کی صلاحیت ظاہر کی۔امریکا کے ساتھ امن معاہدے کی پاسداری کرتے ہوئے گذشتہ سال اس ہم آہنگی اور اندرونی نظم و ضبط کا شان دار مظاہرہ کیا گیا۔اپنے عوامی وعدوں کے مطابق انھوں نے افغان حکومت کے ساتھ بھی امن مذاکرات کا آغاز کیا اور ان کی افواج پر حملے بھی جاری رکھے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے افغان فورسز کے ٹھکانوں کو داعش کے حملوں سے بچانے کے لیے سیکورٹی کا ایک حلقہ بھی قائم کیے رکھا۔

اس سال موسم گرما میں طالبان کی انتہائی مربوط فوجی مہمات کا اگر ۱۹۸۹ء میں سویت انخلا کے بعد کی مجاہدین کی مہم سے تقابل کیا جائے تو ان میں ایک بڑا واضح فرق نظر آئے گا۔مجاہدین اپنی انتہائی کوشش کے باوجود جلال آباد پر قبضہ کرنے میں ناکام رہے اور ان کی اس ناکامی نے صدر نجیب اللہ کی غیر مقبول کمیونسٹ حکومت کو اگلےتین سال تک زندہ رہنے کے قابل بنا دیا تھا ۔لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ دوسری انتہا پر جا کر یہ دعویٰ کر دیا جائے کہ طالبان مکمل طور پرایک متحد فورس ہیں۔ تحریک میں ہمیشہ ڈھیلی ڈھالی مرکزیت اور انفرادی کمانڈروں کی ایک حد تک خودمختاری پر انحصار کرنا ہوتا ہے۔ طالبان کے جنگی ضابطۂ اخلاق میں بھی ناہمواری پائی جاتی رہی ہے، لیکن یہ بات عیاں ہے کہ ان کی لیڈرشپ نے تحریک کے لیے ایک واضح سرخ لائن اور اپنی پالیسیوں کے اردگرد ایک اتفاق رائے قائم کررکھا تھا۔ مجموعی طورپر تحریک بڑے پیمانے پران پالیسیوں پر عمل درآمد کرتے ہوئے ان سے تجاوز نہیں کرتی تھی۔

طالبان کی فتح میں غیر ملکی کردار

انٹرنیشنل سیکیورٹی اسسٹنس فورس(ISAF) اور افغان حکومت کئی برسوں کی ناکامیوں کے ساتھ ہمیشہ ’پاکستان کوقربانی کا بکرا بنانے‘ کے بیانیے پر قائم رہے اور یہ الزام عائد کرتے رہے کہ ’پاکستان طالبان کو مدد فراہم کرتا ہے‘۔ بغاوت اور رد بغاوت کی تاریخ کے طالب علموں کو اس بات پر کوئی حیرت نہیں ہوگی کہ حکومتیں اپنی ناکامیوں کا اعتراف کرنے کے بجائے مزاحمت اوربغاوت کرنے والے گروہوں کی کارروائیوں کو باقاعدگی سے غیر قانونی قرار دیتے ہوئے، ان کا تعلق غیر ملکی ایجنسیوں اور پشت پناہوں سے جوڑتی رہتی ہیں ۔

امریکا کی نظر میں ویت نام کے حُریت پسند ’ویت کانگ‘ اشتراکی روس اور شمالی ویت نام کے کٹھ پتلی تھے۔ فرانس کی نظر میں الجزائر کے قوم پرست مصر اور اشتراکی روس کے کٹھ پتلی تھے۔ اشتراکی روس کی نظر میں مجاہدین امریکا اور پاکستان کے کٹھ پتلی تھے اور آج امریکا، مغرب اور بھارت کی نظر میں ’طالبان پاکستان کے کٹھ پتلی ہیں‘۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ہرگروہ کو کسی نہ کسی کی حمایت حاصل ہوتی ہے اورطالبان کو صرف پاکستان ہی نہیں خطے کی دیگر طاقتوں مثلاً ایران، چین، روس اور کئی عرب ریاستوں کی حمایت حاصل ہے، جنھوں نے گذشتہ عشروں میں طالبان کے ساتھ تعلقات برقرار رکھے اور اس کے ساتھ امریکا ،اس کے اتحادیوں اور افغان حکومت کی حمایت بھی جاری رکھی۔ ہتھیار اور مالی معاونت، بلیک مارکیٹ میں ہر کسی کو ریاستی یا غیر ریاستی مدد کے ذریعے میسرآجاتے ہیں، لیکن طالبان کے ہتھیاروں اورفوجی سازوسامان کا سب سے بڑا ذریعہ خود افغان سیکورٹی فورسز اور امریکی فورسز کا چھوڑا یا اُن سے لُوٹا اسلحہ ہی رہا ہے۔ نیٹو فورسز کواپنی ناکامی کا ملبہ غیر ملکی ایجنسیوں پر ڈالنے سے قبل اس بات پر غورکرنا چاہیے کہ اگر غیر ملکی حمایت ہی فتح میں فیصلہ کُن کردار ادا کرسکتی، تو پھر افغان حکومت کو فتح سے ہم کنار ہونا چاہیے تھا کیونکہ انھیں طالبان کی نسبت بہت بڑے پیمانے پر بیرونی فوجی اور مالی حمایت حاصل رہی لیکن اس کے باوجود وہ چند روز تک بھی طالبان کے سامنے ٹھیر نہیں سکے۔ بُری طرح شکست کھاکر اپنے انجام کو پہنچے۔

بیرونی حمایت دودھاری تلوار کی مانند ہوتی ہے۔ دوسروں پر انحصار کرنے والی باغی تحریک یا حکومت، نہ صرف اپنی مزاحمتی اور عسکری صلاحیتیں کھو دیتی ہے بلکہ بیرونی امداداسے مقامی قوت کے طورپر غیر اہم بنانے کی بھی بھاری قیمت چکاتی ہے۔ افغان حکومت کو اپنےبجٹ کا چار یا پانچ گنا بیرونی امداد کے ذریعے حاصل ہوتا رہا۔ یہ حکومت طالبان کی نسبت کئی گنا بڑی فوج اوربیوروکریسی چلا رہی تھی، جسے یہ صرف اپنے اوپر انحصار کرکے چلانے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔اس سارے پاور شو کو چلانے والے افسران کی ناکامی نے یہ ثابت کیا کہ وہ طالبان کی نسبت بیرونی امداد پر کہیں زیادہ انحصار کرتے تھے۔

جہاں تک طالبان کا تعلق ہے، اس بات کا صحیح طورپر اندازہ لگانا ممکن نہیں کہ وہ افغانستان میں مقامی طوپر عوام میں کس قدرمقبول ہیں۔ لیکن یہ بات واضح ہے کہ کئی شہروں میں جب وہ داخل ہوئے تو لوگوں نے انھیں خوش آمدید کہا ، افغان فوجی اہل کاروں نے بغیر مزاحمت کے ہتھیار ڈالے اور بہت سےشہر بغیر لڑائی کے فتح ہوگئے اور ابھی ان کی حکومت کو کابل کی سابقہ حکومت پر بھی ترجیح دی جارہی ہے۔ طالبان کے اس بیانیے نے بھی بڑے پیمانے پر مقبولیت حاصل کی کہ غیر ملکی طاقتوں کے بل بوتے پر کابل میں ایک بدعنوان حکومت مسلط تھی۔ ان حکومتی عناصر نے ’غیر ملکی طاقتوں کے ساتھ مل کر پورے ملک میں ایک ایسی جنگ مسلط کی، جس سے افغانستان کی اسلامی اقدار، ثقافت، یکجہتی ،خودمختاری اورسالمیت کو بری طرح نقصان پہنچا۔ طالبان کے بیانیے نے ان لوگوں کے دلوں کو متاثر کیا، جنھوں نے برطانوی حملوں کی تاریخ پڑھی تھی،جو اشتراکی روسی قبضے سے بُری طرح متاثر ہوئے تھے اور جو ۲۰۰۱ء میں نیٹو افواج کے قبضے کے بعد ظلم و ستم کا شکار ہوئے تھے۔ اسی طرح ان لوگوں نے بھی طالبان بیانیے کی حمایت کی، جنھیں خود یا ان کے رشتہ داروں کو نیٹو فضائی حملوں میں نقصان پہنچا، جنھوں نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں یا جوآئے روز سرکاری افسران کی بدعنوانی اور ناانصافی کا شکار ہوتے رہے۔

پچھلے بیس برسوں میں نظر آنے والے بے شمار عسکری گروہوں میں سے طالبان وہ واحد گروہ ہے، جنھوں نے اپنے بیانیے کا قابل اعتماد طریقے سے دفاع کیا اور اس کی خاطر بےشمار قربانیاں پیش کیں۔ یہ بات بھی حیران کن ہے کہ انھیں ذہنی اور مالی کمک فراہم کرنے کے لیے بے شمار ہمدرد میسر آتے رہے اور میدان جنگ میں جانیں قربان کرنے والوں کے خلا کو پر کرنے کے لیے نیا جوان خون بھی میسر آتا رہا۔

جلدبازی اور افراتفری میں امریکی انخلا

افغانستان پر طالبان کے مکمل کنٹرول کے بعد سے امریکی صدر جوبائیڈن کو ری پبلکن پارٹی، جنگ کے حامی ذرائع ابلاغ، امریکی خارجہ پالیسی اور مسلح امریکی افواج اور برطانیہ جیسے اتحادیوں کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا ہے۔بائیڈن حکومت کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ ’انھوں نے فوجی انخلا افراتفری کےماحول میں کیا اوراسے مشروط نہ بنا کر امریکی فوج اور اتحادیوں کی قربانیوں کو ضائع کیاجو قوم کے ساتھ غداری کے مترادف ہے‘۔ لیکن دوسری طرف یہ ناقدین اس بات کا تسلی بخش جواب دینے سے قاصر ہیں کہ آخر یہ انخلا کب انجام پذیر ہونا چاہیے تھا؟اس کا صحیح وقت اور شرائط کیا ہونی چاہیے تھیں؟جس انخلا کو جلد بازی کا نام دیا جا رہا ہے، اس کاآغاز تو ۲۰۱۴ء میں ہوا، جب آئی ایس اےایف کی اکثریت افغانستان سے نکل گئی۔فوجی انخلا کا یہ سلسلہ امریکی صدربارک اوباما کی طرف سے کیے گئے بے مقصد اضافے کے پانچ سال بعد شروع ہوا تھا۔ ۱۰،۱۵ ہزار فوج جو افغانستان میں رہ گئی تھی، اور اس کا مقصد طالبان کے خلاف کوئی بڑے آپریشن کرنا تو نہیں تھا بلکہ اس کا بڑا مقصد تو افغان سیکورٹی فورس کی مدد اور تربیت کرنا تھا، تاکہ اس میں خود اپنا دفاع کرنے کی صلاحیت پیدا ہو۔ لیکن پچھلے سات برسوں میں بھی یہ مقصد حاصل نہیں کیا جا سکا۔

آئی ایس اے ایف مشن پر ہونے والی ایک تحقیق نے اپنا نتیجہ ان الفاظ میں بیان کیا کہ '’اصل تجزیاتی مسئلہ اس بات کی وضاحت ہے کہ ۲۰۰۱ءکے بعد کی کوششیں ایسے راستے پر کیوں قائم رہیں، جو افغان ریاست کو دوسروں پر انحصار کرنے کی طرف لے جارہا تھا …ایک مفروضہ یہ بھی ہے کہ ۲۰۰۱ء کے بعد افغانستان کے حوالے سے جس مشن کا حصول مقصود تھا، بالکل وہی مشن حاصل کر لیا گیا۔ ۲۰۱۲ء میں افغانستان میں مغربی طاقتوں کی سیاست اورسفار ت کاری میں تیزی سے تبدیلی آئی، حالانکہ اس وقت ضرورت اس بات کی تھی کہ افغانستان کی ریاست کو اپنے پائوں پر کھڑا کیا جاتا، مگر اس پر کوئی توجہ نہ دی گئی۔

صدر بائیڈن اپنے اس دعوے میں بالکل درست ہے کہ ’انخلا کے فیصلے میں تاخیر کرنے سے کچھ حاصل نہ ہوتا‘۔ اسی طرح بائیڈن صاحب اپنے کمانڈروں کے مزید فوج اور وقت کے بے مقصد مطالبات کے خلاف مزاحمت کرنے پر بھی کچھ نہ کچھ داد کے مستحق ہیں۔ سب لوگ ان پر یہ تنقید تو کر رہے ہیں کہ افراتفری کے عالم میں انخلا کیا، لیکن اس بات کو کھلے دل سے تسلیم کرنے کو کوئی تیار نہیں کہ اٖمریکا نے افغانستان میں بری طرح شکست کھائی اور اس کا فرض بنتا تھا کہ آخری انخلا سے قبل وہ طالبان کے زیر قیادت نئےسیٹ اپ کو باقاعدہ طورپر اقتدار منتقل کرتا۔

مستقبل کے امکانات

افغانستان میں نیٹو کی طرف سے مسلط کردہ بیس سالہ جنگ بالآخر اختتام کو پہنچی ۔ اس میں  ۲لاکھ۴۳ہزار افراد ہلاک ہوئے، جن میں زیادہ تر افغان تھے۔ اس جنگ میں طالبان فاتح قرار پائے۔ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ یہ فتح کس قسم کی ہوگی؟ اب تک تو کچھ امید افزا علامات دکھائی دیتی ہیں۔ مثال کے طور پر کابل تک کی طالبان نے پیش قدمی کے دوران خواہ مخواہ خون نہیں بہایا۔بہت سے شہروں کی انتظامیہ اور فورسز نے مذاکرات کے نتیجے میں ہتھیار ڈالے۔ سابق افغان صدرحامد کرزئی اور عبد اللہ عبداللہ سمیت کسی مخالف لیڈر کے خلاف کوئی انتقامی کارروائی نہیں کی گئی۔ کابل کی فتح کے بعد پنج شیرمیں ہونے والی بغاوت کو بھی صرف طاقت کے زور پر کچلنے کے بجائے افہام و تفہیم اور مذاکرات کے ذریعے ختم کیا گیا اور صرف چند جگہوں پر ناگزیر فوجی کارروائیاں کی گئیں۔

۱۹۹۴ءمیں جب طالبان تحریک کا آغاز ہوا تو اس میں صرف پختونوں کے مختلف قبائل کے لوگ شامل تھے۔ ۲۰۰۹ءکے اوائل میں طالبان کی ’پشاور شوریٰ ‘نے ایک ایسا محاذ قائم کیا، جو خصوصی طورپر غیر پشتونوں کے لیے مختص تھا۔ حالیہ برسوں میں تاجک،ترکمان،ازبک اورہزارہ قبائل کے لوگ بھی طالبان کی صفوں میں شامل ہوئے۔ اس تحریک میں جزوی طورپران قبائل کی شمولیت کی وجہ سے ہی طالبان اس قابل ہوئے کہ اوباما حکومت کے فوجی اضافے کے خلاف انھوں نے ڈٹ کر مقابلہ کیا۔اس حقیقت کو ان کی حالیہ پیش قدمی کے حوالے سے بھی دیکھا جا سکتا ہے جس میں شمالی صوبوں نے تیزی سے ان کے سامنے لڑے بغیر ہتھیار ڈالے۔حالیہ برسوں میں شیعہ ہزارہ برادریوں نے بھی داعش کے حملوں کے خلاف طالبان سے تحفظ مانگا اوران کے تحفظ کے بعد ہی شیعہ برادری کابل میں محرم کے جلوس نکالنے کے قابل ہوئی۔بہرحال، افغانستان میں دیگر حکمرانوں کی طرح طالبان بھی سنی اور پشتون اکثریتی حکمران ہیں اور ان کی اعلان کردہ عبوری حکومت، فاتحین کی حکومت کا تاثر دیتی ہے۔لیکن یہ کھلا سچ ہے کہ یہ فاتحین مبینہ طورپر شکست خوردہ امریکا سے زیادہ کھلے دل کے ہیں اور اپنے تمام مخالفین سے بات چیت کے لیے آمادہ ہیں۔

طالبان کو بہرحال اس بات کی عکاسی کرنے کی ضرورت ہوگی کہ جب تک وہ افغانستان کی اقلیتوں کو حکومت میں شامل نہیں کریں گے، اس وقت تک مقامی اور بین الاقوامی سطح پر انھیں وسیع قانونی جواز کے حصول میں مشکل پیش آتی رہے گی۔ان کی حکومت میں خواتین کی حیثیت نے بھی بجا طورپر خدشات کو جنم دیا ہے۔انھوں نے اسلامی فریم ورک کے اندر یونی ورسٹی کی سطح پر خواتین کے کام کرنے اور تعلیم حاصل کرنے کے حق کی حمایت کی ہے، لیکن ابھی اس میں ابہام باقی ہے۔ابھی تک یہ واضح نہیں کہ اس سے متعلقہ جزئیات کے بارے میں ان کی کیا پالیسی ہوگی؟

تاہم، افغانستان میں خواتین کے مستقبل کے بارے میں کسی بھی ایماندارانہ تجزیے کے لیے درج ذیل قابلیتوں کا نوٹس لینا ہوگا: پچھلے بیس برسوں میں اگر خواتین کے حوالے سے کوئی فوائد حاصل ہوئے ہیں تو وہ صرف افغانستان کے چند بڑے شہروں کی خواتین اور لڑکیوں کی ایک اقلیت ہی کو حاصل ہوئے ہیں، لیکن اگر سفاکانہ جنگ کے منفی اثرات کی بات کی جائے تو خود نیٹو افواج کے ہاتھوں افغان خواتین نے وسیع پیمانے پر اموات، صدمے، چوٹیں ،عدم تحفظ اور معاشی نقصانات برداشت کیے۔دوسری بات یہ ہے کہ مغربی طاقتوں نے جنگ جاری رکھنے کے جواز کے طورپر عورتوں کے حقوق کی وجہ کو نمایاں طورپر استعمال کیا اور اس طرح خواتین کے حقوق کو قبضے کے ساتھ جوڑ کر اس بات کو یقینی بنایا کہ جب لوگ امریکی قبضے کے خلاف اٹھیں تو خواتین کے حقوق کا مسئلہ بھی متنازعہ بنے اوروہ متاثر نظر آئیں، تاکہ اس مسئلے کو مزید اچھالا جا سکے۔ اور تیسری بات یہ ہے کہ افغانستان میں خواتین کے ساتھ قدامت پسندانہ رویہ نہ طالبان کی وجہ سے شروع ہوا اور نہ صرف ان تک محدود ہے۔ بہت سے علاقوں میں ثقافتی معیارقبائلی روایات کے مطابق ہیں اور ان کو تبدیل کرنا آسان نہیں۔ مجموعی طورپر ثقافتی تبدیلی ایک مشکل عمل ہے، جس میں وقت کے ساتھ ساتھ ہی تبدیلی آ سکتی ہے۔

اگر بیانیے کو دیکھا جائے تو بلاشبہہ آج کی طالبان تحریک ماضی سے مختلف نظر آتی ہے۔ اس کی قیادت کی صفوں میں بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ نوے کے عشرے میں انھوں نے جس طرح کی حکومت قائم کی تھی، وہ پایدار خطوط پر استوار نہیں تھی اورموجودہ حکومت کے لیے ضروری ہے کہ اسےبین الاقوامی سطح پر جواز حاصل ہو۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا کہ طالبان ہر لحاظ سے کوئی متحدہ قوت (unitary actor) نہیں۔ اس کے بیانات اور عمل میں ہم آہنگی کا امتحان اس کے طرزِ حکومت سے ہوگا ، جنگ کے دوران اس طرح کی جانچ نہیں ہوسکتی۔اس مرحلے پر بین الاقوامی برادری کو چاہیے کہ وہ افغانستان میں اس غالب طاقت کی حکومت کو تسلیم کرے، افغان ریاست کو منجمد اثاثوں تک رسائی دے، تاکہ وہ معاشی حوالے سے اپنے پیروں پر کھڑے ہوسکیں۔ ایسا کرتے ہوئے ایک جامع حکومت کے قیام، شہری حقو ق کی ضمانت کے عوامی وعدوں کو پورا کرنے پر زور دیا جا سکتا ہے۔

جو لوگ پابندیوں یا زیادہ جارحانہ مداخلت کی وکالت کرتے ہیں، ان کے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں کہ اس عمل سے افغان عوام کی کس طرح مدد ہوگی؟ اس طرح شاید وہ اپنے غصے، غضب اوراَنا کی تسکین کا سامان تو کر سکیں گے، لیکن افغانستان میں گذشتہ چالیس برسوں کی بیرونی مداخلت کی تاریخ اس کے بالکل برعکس حقائق پیش کرتی ہے۔(الجزیرہ، انگریزی، ۱۲ستمبر۲۰۲۱ء)

ایک ایسی سیاست جو لوگوں کو خوف میں مبتلا کردے، چاہے اس خوف کی بنیاد جھوٹ پر ہی رکھی ہو، کسی بھی معاشرے کے رائے دہندگان کو متاثر کرتی ہے۔ تاریخ میں اس حکمت عملی پر ۲۰۰۱ء کے بعد امریکا کے چاروں صدور نے بھرپور عمل کیا ہے۔ انھوں نے ’القاعدہ‘ کے دیو کو  کھڑا کرکے اسامہ بن لادن کو کچھ ایسی دیومالائی شخصیت بناکر پیش کیا کہ عوام الناس کے پاس اس بیانیے کو قبول کرنے کے علاوہ کوئی چارہ ہی نہیں تھا۔

جب امریکا نے بن لادن کو قتل [۲مئی ۲۰۱۱ء]کیا تو اسے وہاں سے ملنے والی دستاویزات میں ۲۰۰۲ء کے القاعدہ کے اراکین کی ایک فہرست ملی، جس میں صرف ۱۷۰ نام تھے۔اسامہ نے ان میں سے ۲۰ کی اموات کا ذکر کر رکھا تھا۔ ان میں سے صرف سات نے مقابلے میں جان گنوائی اور گیارہ کو حکام نے گرفتار کرلیا، جب کہ ۱۹؍افراد تنظیم کو چھوڑ چکے تھے۔ بن لادن اپنے منصوبے پر کئی برسوں سے کام کر رہے تھے، لیکن اپنے افرادکار کی قلیل تعداد کو ۱۰۰ سے زیادہ دکھانے کے لیے اسامہ نے اس میں اپنے ۵۰بیٹوں کا بھی اضافہ کیا۔ ان میں عمر بن لادن بھی شامل تھا جو ۲۰۰۰ء میں تنظیم چھوڑ کر فرانس کے شہر نورمنڈی میں اپنی فرانسیسی بیوی جین فیکس برائون کے ساتھ پُرآسایش زندگی بسر کر رہا تھا۔

یہ القاعدہ کے افرادِ کار کی مکمل فہرست تھی یا نہیں، لیکن ۱۰ستمبر ۲۰۰۱ء کو یہ فہرست ایک مختصر  تنظیم کی تصویر پیش کرتی ہے۔ ایسی تنظیم کہ جس سے منسوب ہے: ’ اس نے انسانی تاریخ کے ایک عظیم جرم کا ارتکاب کیا‘‘۔

اس واقعے کے بیس برس گزرنے کے بعد ہمارے سامنے یہ چیلنج اُبھر کر آتا ہے کہ امریکا جیسی سوپرپاور نے اس چھوٹے سے گروہ کو کیوں اپنے حریف کے طور پر چُنا؟

غور طلب بات یہ ہے کہ کیا القاعدہ حقیقت میں ۱۲ستمبر ۲۰۰۱ء کو دُنیا کے امن کے لیے ایک خطرہ تھی؟ لیکن اس واقعے کے علاوہ بھی انسانی امن کے لیے دیگر اور بہت بڑے چیلنج موجود چلے آرہے ہیں۔ مثال کے طور پر ہم نے عمر کا ایک بڑاحصہ ایٹمی جنگ کے خوف میں گزارا ہے۔

آج کے انسان کے سامنے اس کے علاوہ ایک اور یومِ بربادی موجود ہے۔ آج ہم اپنے کرئہ ارضی کو مادی اور سیاسی ہوس اور موسمی تبدیلی کے ذریعے تباہ کرنے کے دھانے پر کھڑے ہیں۔ ۲۰۲۱ء تک تقریباً ۶۰ لاکھ افراد بھوک سے اور ۴۶ لاکھ ۷۰ ہزار افراد کووڈ سے وفات پاچکے ہیں۔

۱۱ستمبر کے المیے کو اس کی اصل حقیقت سے بڑھا کر پیش کرنے کی اصل وجہ یہ ہے کہ یہ امریکا میں پیش آیا، لیکن نوعِ انسانی کو درپیش خطرات کے سامنے اس حادثے کی حیثیت پرکاہ سے زیادہ نہیں ہے۔ ہم سفیدفام امریکی دوسری نسلوں کی اموات میں زیادہ دل چسپی نہیں رکھتے، لیکن ۲۰۲۰ء میں صرف افغانستان میں جنگ کے نتیجے میں ۱۹ ہزار ۴سو ۴۴ ؍ اموات ہوئیں اور یمن میں ۱۹ہزار ۵۶۔

۱۱؍ستمبر اس حوالے سے بھی کوئی بڑا نادر واقعہ نہیں ہے کہ ایک چھوٹے سے ٹولے نے اتنی بڑی تباہی برپا کی۔ ۱۹۹۵ء میں ٹموتھی مک ویج ایک اکیلا فرد تھا جس نے اوکلاہوما میں ۱۶۸؍افراد کہ جن میں ۱۹ بچے بھی شامل تھے، ان کو قتل کیا اور تقریباً ۶۸۰ افراد کو شدید زخمی۔اس طرح کے شدت پسند عناصر صرف مسلمانوں ہی میں نہیں پائے جاتے بلکہ دوسری قومیں اور مذاہب کے ماننے والے بھی خودکفیل ہیں۔ مسٹر ٹموتھی ویج ایک شدت پسند تنظیم Patriot Movement کا رکن تھا، جوکہ مغرب میں دائیں بازو کی تقریباً ۱۰۰۰ ذیلی تنظیموں کا مجموعہ ہے۔  یہ تنظیم صرف امریکا کے امن کے لیے خطرہ نہیں ہے،بلکہ اسی تنظیم نے ڈونلڈ ٹرمپ جیسا صدر امریکا کو بطور تحفہ دیا ہے۔

حقیقی چیلنج

۲۰۱۷ء میں Investigative Fund of The Nation Institute کی رپورٹ کے مطابق ۲۰۰۸ء اور ۲۰۱۶ء کے درمیان دہشت گردی کے تقریباً ۲۰۱ واقعات ہوئے۔ ان میں سے ۱۱۵ واقعات دائیں بازو کی امریکی تنظیموں نے کیے، جن میں ۳۳ ہلاکتیں ہوئیں۔ اس کے مقابلے میں اسلامی انتہاپسندوں سے منسوب ۶۳ واقعات ہوئے، جن میں آٹھ افراد کی ہلاکت ہوئی۔ اس کا موازنہ ہرسال امریکا میں ۲۰ہزار قتل کے واقعات سے کیجیے، جس میں پچھلے نو برسوں کے دوران تقریباً ایک لاکھ ۸۰ہزار ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ اس لیے جہاں ۱۱ستمبر کی ہولناکی کو ہم نظرانداز نہیں کرسکتے، وہیں اس بات کی مبالغہ آرائی میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ مبینہ اسلامی انتہاپسندی ۳۳کروڑ ۳۰لاکھ کے اس ملک کے لیے کوئی حقیقی خطرہ ہے۔

عام افراد کے ہاتھوں میں اسلحہ تو ہمارے لیے ایک خطرہ ہوسکتا ہے اور موسمی تبدیلی بھی یقینا ایک بڑا خطرہ ہے لیکن ایک مجنون قسم کا مسلمان ہمارے ملک کے لیے کوئی حقیقی خطرہ نہیں ہے۔ ہمیں اس بات پہ سوچ بچار کرنا چاہیے کہ اسلامی انتہاپسندی ہی امریکا کی خارجہ پالیسی کا کلیدی رکن چلی آرہی ہے ، جب کہ اس مسئلے کو ایک فوجداری مقدمے کے تناظر میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ جہاں ہم یہ سوال اُٹھاتے ہیں کہ ’اسامہ بن لادن، ایک قتل عام کے ذریعے کوئی مثالی معاشرہ قائم کرنے میں کتنا برحق ہے؟ وہیں یہ سوال بھی ہمارے سامنے آتا ہے کہ ’وہ سب نقشہ اور لائحہ عمل جو امریکی جرنیلوں نے اس کے جواب میں تشکیل دیا ہے، کیا اس کے نتیجے میں بھی کوئی خیر برآمد ہوسکتا ہے؟‘

میں اپنے بچے کے اسکول کے ہیڈماسٹر سے محو گفتگو تھا۔ اس نے تقریباً دو عشرے برطانوی بحری بیڑے میں صرف کیے تھے ۔ میں نے اس سے معلوم کیا کہ تمھارے نزدیک ’جنگی مہم جوئی‘ کی کیا افادیت تھی؟ اس نے جواب دیا کہ جنگ ِ عظیم دوم کے علاوہ تمام جنگی مہم جوئیاں لاحاصل تھیں۔ ہاں، ہمیں ظلم کے خلاف مزاحمت کرنے والوں کا تو ساتھ دینا چاہیے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم ان کے ملکوں میں گھس کر ان کی حکومت گرا دیں۔ پچھلے دو عشروں میں ہم نے بالکل یہی کیا ہے۔

افغانستان کی حالیہ جنگ سیکولرزم کی ایک زندہ مثال ہے۔ اپریل ۲۰۲۱ء تک صرف افغانستان میں تقریباً ۲لاکھ ۴۱ہزار افراد کی ہلاکت ہوچکی ہے۔ اس کے باوجود آج ہم وہیں کھڑے ہیں، جہاں سے شروع ہوئے تھے۔ طالبان حکومت میں واپس آچکے ہیں۔ وہ ہیجان جو ہم نے مشرق وسطیٰ میں عراق سے لیبیا تک برپا کیا تھا، وہ اپنے عروج پر ہے۔ کوئی ہمیں یہ بتائے کہ ہماری حکومتوں نے آزادی کی بہار جس کا ہم سے وعدہ کیا گیا تھا، وہ کہاں ہے؟

یہ صرف ہماری مہم جوئی ہی نہیں ہے، جس نے ہم کو عام مسلمانوں کی نفرت کا ہدف بنایا ہے۔ ۱۷۷۶ء سے اب تک صرف ۲۰ سال ایسے گزرے ہیں، جس میں ہم [اہلِ امریکا]کسی جنگ میں مصروف نہیں تھے۔ یہاں پر ہمیں بطور امریکی اپنے بہت سے سوالوں کے جواب ان حکمت عملیوں میں تلاش کرنے چاہییں، جو امریکا دوسرے ملکوں کے خلاف استعمال کرتاہے۔ امریکا جب کسی جنگ کا آغاز کرتاہے تو وہ اس کا ہدف ’جمہوریت کے فروغ‘ کو قرار دیتا ہے۔ لیکن ۲۰۰۱ء کی جنگ میں سب سے پہلے جو اصول قربان ہوا وہ قانون کی بالادستی کا اصول تھا۔ ہم بہت جلدبازی میں ایک جنگ میں کود گئے، حالانکہ اس وقت ہمیں ۱۱ستمبرکے جرم کی تحقیقات پر زور دینا چاہیے تھا۔ ہمدردی کی اس لہر سے جو اس واقعے کے نتیجے میں امریکا کو حاصل ہوئی تھی، اسے اپنی حکمت عملی کے فروغ کے لیے استعما ل کرنا چاہیے تھا، لیکن یہ کہاں کی عقل مندی تھی کہ جو گروہ شہادت [موت] کو اپنا سب سے بڑا اعزاز سمجھتا ہے، آپ خود اس کو اس اعزاز تک پہنچا دیں۔

اس پر مستزاد یہ کہ گوانتاناموبے کے قیام پر ہم نے بڑے فخریہ ڈھول پیٹے، لیکن ہم شاید یہ بھول گئے کہ قانونی چارہ جوئی سے طویل مدت تک محرومی کسی بھی طرح امریکا کے امن کی ضامن نہیں بن سکتی۔ اس ضمن میں وہ تمام اصول جو ۱۲۱۵ء میں Magna Carta کے زمانے سے ہمارے لیے مشعل راہ تھے، انھیں ہم نے اس منطق کے تحت پسِ پشت ڈال دیا اور کہا کہ ’’جنگ میں گرفتار ہونے والے مسلمان عالمی قانونی ضمانتوں سے محروم قرار دیئے جائیں گے، کیونکہ وہ ہمارے اصولِ جنگ کو نہیں مانتے‘‘۔

اسی طرح گذشتہ کئی صدیوں سے دُنیا تشدد سے دُور ہونے کی شاہراہ پر چل رہی ہے اور اس تحریک کی انتہا ۱۹۸۵ء میں اقوام متحدہ کی جانب سے تشدد کے خلاف قانون UN Convention Against Torture  کی صورت میں سامنے آیا۔ لیکن ہم نے ۱۱ستمبرکے بعد پلک جھپکنے میں اس سب کو فراموش کر دیا، جس وقت ہم نے اس بات کا اعلان کیا کہ ’’تشدد کی کارروائیاں ہی ایک ’مستحکم تفتیشی عمل‘ ہے‘‘۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ یہ اصطلاح ہم نے ہٹلر کی بدنامِ زمانہ ’گسٹاپو‘ سے اُدھار لی، جب کہ قرونِ وسطیٰ میں اس کو ’پانی میں ڈبونے کے تشدد‘ کے نام سے یاد کیا جاتا رہا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ ہم نے اس جنرل کو، جس نے گوانتاناموبے میں اپنی سفاکی کا مظاہرہ کیا تھا۔ اسی کو ہم نے ابوغریب کے افراد کو ’جمہوریت کا سبق‘ سکھانے پر مامور کر دیا۔

اسی دوران میں ہم [۲۰۰۳ء میں]عراق پر حملہ آور ہوچکے تھے۔ جب ’بہارِ عرب‘ کی لہر نے روشنی کی ایک نئی کرن پیدا کی تو ہم نے یا تو ان نومولود اکائیوں کی پشت میں خنجر پیوست کیا جیساکہ مصر میں ہم نے ایک عسکری انقلاب کی صورت میں جمہوریت کی پھوٹتی کونپل کو جڑ ہی سے کاٹ کر رکھ دیا۔

اسی دوران دستوری قانون کے پروفیسر بارک اوباما، امریکی صدر بنے تو انھوں نے تشدد کی جگہ قتلِ ناحق اور حقِ دفاع کے لیے ڈرون کا بے دریغ استعمال کیا۔ گویا کہ ایک انسان کو لمحہ بھرمیں قیمے کا ایک ڈھیر بنا دینا، گوانتاناموبے میں کئی سال سڑنے سے بہترلائحہ عمل اختیار کیا گیا۔

ہم یہ کہنے کی کب کوشش کریں گے کہ ’’منافقت وہ خمیر ہے جس سے نفرت جنم لیتی ہے، اور اس سے بڑھ کر منافقت کیا ہوسکتی ہے کہ ہم ایک مہم برائے فروغ جمہوریت کا آغاز، لوگوں پر تشدداور اذیت ناک سزائوں کے ذریعے کریں‘‘۔ ان تمام غیرانسانی، غیراخلاقی اور غیرقانونی کارروائیوں کا وہی نتیجہ نکلا، جو نکلنا چاہیے تھا۔ جن لوگوں کو ہم نے اپنا گرویدہ بنانا تھا، ان تمام لوگوں کو ہم نے اپنے آپ سے دُور کر دیا۔

صدر بائیڈن نے حال ہی میں کہا ہے کہ ہم نے تقریباً دو کھرب ڈالر یا تقریباً ۵۰ہزار ڈالر ہر افغان فرد پر خرچ کیے ہیں۔ عالمی بنک کے مطابق اس غریب ملک کے فرد کی سالانہ آمدن تقریباً ۵۰۰ ڈالر ہے۔ گویا میرے ٹیکس سے حاصل افغانستان کی سوسال کی آمدن کے برابر ہے لیکن اتنی بڑی رقم سے ہم نے کیا حاصل کیا؟ ہم نے یہ خطیر رقم اپنی اسلحہ ساز کمپنیوں کے کاروبار اور افغان حکومت کے بددیانت افراد پر خرچ کی۔ افغانوں کو اس دولت سے کیا حاصل ہوا؟ [الجزیرہ، انگریزی، ۱۱ستمبر ۲۰۲۱ء]