اخبار اُمت


افغانستان پر امریکا اور اس کے اتحادیوں نے کس طرح سے حملہ کیا؟ اس کے بارے میں ٍمعروف ابلاغی مراکز بشمول بی بی سی ہمیں سچی کہانی نہیں سناتے۔ میڈابنجمن اور نکولس جے ڈویز نے افغانستان پر حملے سے متعلق ایک مضمون میں بیان کیا ہے کہ نائن الیون کے حملوں کے تھوڑی ہی دیر بعد پینٹاگون کے ایک محفوظ حصے میں، ڈونلڈ رمزفیلڈ نے اپنے رفقائے کار کے ساتھ ایک نشست میں کہا: ’’اس بات کا جائزہ لیں کہ عراقی صدر صدام حسین پر اسی وقت حملے کے لیے کافی معلومات موجود ہیں نہ کہ اسامہ بن لادن پر حملے کے لیے۔ یہ معلومات تیزی سے جمع کی جائیں خواہ وہ متعلقہ ہوں یا غیرمتعلقہ‘‘۔ چنانچہ نائن الیون کے چند ہی گھنٹوں بعد ملٹری لیڈر عالمی سطح پر جنگ کے جواز کے لیے متحرک ہوگئے۔

  • طالبان کی پیش کش: افغانستان پر امریکی قیادت میں حملہ نہ صرف مجرمانہ فعل تھا بلکہ مکمل طور پر غیرضروری تھا۔ طالبان نے اسامہ بن لادن کو امریکا کے حوالے کرنے کی پیش کش کی تھی کہ اگر نائن الیون حملوں میں اس کی شمولیت کے ثبوت فراہم کر دیئے جائیں۔ مگر اس پیش کش کو نظرانداز کردیا گیا اور افغانی عوام پر بمباری شروع کر دی گئی اور اس مقصد کے لیے جھوٹ کا بھرپور سہارا لیا گیا۔

نیویارک میں نائن الیون حملوں کے بارے میں سچ کیا ہے؟ سی آئی اے کے ایک اندرونی کارکن سوسن لنڈیئر کے فراہم کردہ ثبوت کے مطابق، سی آئی اے عالمی تجارتی مرکز پر حملوں کی منصوبہ بندی سے اپریل ۲۰۰۱ء سے بھی قبل آگاہ تھا۔ لنڈیئر کے مطابق یہ اندازہ لگایا گیا تھا کہ عمارت سے جہازوں کے ٹکرانے سے یہ منہدم نہ ہوگی، اس لیے حادثے کو جانتے بوجھتے تباہ کن بنایا گیا اور امریکی خفیہ کارندوں نے دھماکے سے اُڑ جانے والے دھماکا خیز مادے کو نصب کیا۔

دیگر شہادتیں بھی لنڈیئر کے دعوے کی تائید کرتی ہیں۔ نیویارک میں بہت سے لوگوں نے عالمی تجارتی مرکز کی عمارت کے ٹکڑوں کو بطورِ نمونہ محفوظ کرلیا تھا۔ ان کے کیمیائی تجزیے سے ایک عنصر Nanothermite کی موجودگی کا ثبوت ملتا ہے، جو بڑی شدت سے حرارت پیدا کرتا ہے، اور مضبوط اور آسمان کو چھوتی عمارتوں کے سٹیل کے ڈھانچے کو پگھلانے میں استعمال کیا گیا۔ عمارت کے انہدام کی وڈیوز سے یوں دکھائی دیتا ہے، جیسے دونوں عمارتیں کسی ’کنٹرول سسٹم‘ کے تحت گرر ہی ہوں۔ وڈیوز میں عمارتوں سے پگھلا ہوا سٹیل باہر نکلتا ہوا بھی دکھائی دیتا ہے۔ مزید برآں کھنڈرات میں تازہ تازہ پگھلے ہوئے سٹیل کے تالاب بنے ہوئے پائے گئےمگر فی الفور عوام کو دیکھنے پر  پابندی عائد کر دی گئی۔عمومی آگ سے درجۂ حرارت اتنا زیادہ نہیں ہوتا کہ لوہا پگھل جائے۔ نیویارک فائرڈیپارٹمنٹ کے کارکنوں نے بتایا کہ ’’انھوں نے عالمی تجارتی مرکز کی عمارتوں کے انہدام سے قبل بہت سے دھماکوں کی آوازیں سنی تھیں‘‘۔

اس طرح امرواقعہ ہے کہ نائن الیون کے بارے میں سرکاری موقف جھوٹ پر مبنی ہے اور امریکی حکومت نے خود آگے بڑھ کر تباہی کو بدترین بنایا، تاکہ ایک نہ ختم ہونے والی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے لیے جواز پیدا کیا جاسکے اور امریکا میں شہری آزادیوں پر قدغن لگائی جاسکے۔ حیرت کی بات ہے کہ عالمی تجارتی مرکز پر حملے کے سرکاری موقف کو بہت کم لوگ چیلنج کرنے کی خواہش رکھتے ہیں اور جو اسے چیلنج کرتے ہیں وہ ’لیفٹسٹ‘ہیں یا ’دہشت گردوں کے ہمدرد‘۔ جیساکہ امریکی صدر جارج بش نے کہا تھا: ’’آپ یا تو ہمارے ساتھ ہیں یا ہمارے مخالف ہیں‘‘۔

  • عالمی تجارتی مرکز کی تباہی - چند حقائق: ۲۰۱۵ء میں، نائن الیون کے بارے میں ماہر تعمیرات اور انجنیروں کی تنظیم ’نائن الیون کا سچ‘ نے Beyond Misinformation (غلط معلومات سے ماورا) کے عنوان سے ۵۲صفحات کی ایک رپورٹ پیش کی۔ اس رپورٹ سے کچھ اقتباسات پیش ہیں:

’’سٹیل فریم کی بنی ہوئی بلندوبالا عمارتوں کے مکمل انہدام کو ’کنٹرول سسٹم‘ کے ذریعے ہی ممکن بنایا گیا ہے۔ آگ سے کبھی بلندوبالا عمارتوں کا مکمل انہدام نہیں ہوتا، اگرچہ بلند عمارتوں میں بکثرت آگ لگنے کے واقعات ہوتے ہیں۔

’’اگر عالمی تجارتی مرکز کی عمارت نمبر ایک، دو اور ساتویں کی تباہی کا سبب آگ لگنا ہے تو یہ اس نوعیت کی بلندوبالا سٹیل فریم عمارتوں کے مکمل طور پر انہدام کا تاریخ میں اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے (بشمول پہلی اور دوسری عمارت کو جہاز کے ذریعے پہنچنے والا نقصان)، جب کہ آگ لگنے سے انہدام کی کوئی علامت نہیں نظر آتی ہے۔

’’ایڈورڈ منیاک، آگ سے محفوظ رکھنے والا انجنیرکہتا ہے:انہدام کا واقعہ ہونا ہی غیرمعمولی ہے، لیکن تین واقعات کا ایک ہی دن میں رُونما ہوجانا سمجھ سے بالاتر ہے‘‘۔

’’ ایک دوسرے ادارے کی رپورٹ میں عالمی تجارتی مرکز کی عمارتوں کے تیزی سے انہدام (free fall) کی وضاحت صرف نصف صفحے پر مبنی تھی، جب کہ مکمل رپورٹ ۱۰ہزارصفحات پر مشتمل ہے جس کا عنوان: ’انہدام کی ابتدا سے متعلق واقعات‘ہے‘‘۔اس رپورٹ میں انہدام کی رفتار پر صرف یہ کہا گیا ہے: ’’نیچے کے فرش اسے نہ روک سکے۔ اس لیے ہم نے اس بات کا تعین کرنے کے لیے کوئی اعداد و شمار جمع نہیں کیے… عالمی تجارتی مرکز کی دوسری عمارت سے پگھلا ہوا لوہا نہ صرف نظر آرہا تھا بلکہ درجنوں عینی شاہدوں نے تینوں عمارتوں کے ملبے میں انھیں دیکھا‘‘۔

شکوک و شبہات کو پرکھنا چاہیے:سیاسی قائدین عوام کی حمایت حاصل کرنے کے لیے بکثرت جھوٹ بولتے ہیں۔ ہم ہٹلر کے جھوٹ اور false flag  واقعات کو جو دوسری جنگ ِ عظیم کے آغاز پر پولینڈ پر حملہ آور ہونے کے لیے پیش آئے یاد کرسکتے ہیں۔ پنٹاگون کی دستاویزات کو ڈینیل ایلزبرگ نے بڑی جرأت سے شائع کیا ہے، جن سے یہ انکشاف ہوتا ہے کہ ویت نام کی جنگ کی بنیاد بھی جھوٹ پر مبنی تھی۔ عراق پر مارچ ۲۰۰۳ء میں حملے سے قبل بھی جھوٹ بولے گئے۔ غالباً یہ درست ہے کہ عوام کو ہرجنگ سے قبل، جنگ کے دوران اور جنگ کے بعد میں جھوٹ بول کر ورغلایاجاتا ہے۔ ہمیں اپنے سیاسی قائدین اور ذرائع ابلاغ کے پیدا کردہ شکوک و شبہات سے ضرور سبق سیکھنا چاہیے۔ (کاؤنٹر پنچ، ۲ستمبر ۲۰۲۱ء)

گذشتہ پانچ صدیوں میں اور سقوط غرناطہ کے تھوڑے ہی عرصے بعد دنیا نے بہت بڑی بڑی تبدیلیوں کا مشاہدہ کیا ہے ۔اسی عرصے میں یورپ اپنے عافیت کدے سے نکلا اور عالمی وسائل پر قبضہ جمانے اور انھیں اپنے ہاں منتقل کرنے کے لیےاپنے وقت کی مہذب دنیا پر درندےکی مانند ٹوٹ پڑا۔ مسلم مشرق پر براہِ راست یہ حملہ دو عنوان سے تھا:صلیبی فوجی حملوں کا تسلسل اور عالمی تجارت پر غلبہ ۔ نئی جغرافیائی دریافتوں نے یورپ کو مہمیز دی اور استعماری قبضہ بڑھانے کے لیے انھی کو یورپ نے وجۂ جواز بھی بنایا ۔’نئی دنیا‘یعنی شمالی امریکا کی دریافت بھی دراصل مشرق (خصوصاً مسلم ہندستان) تک رسائی ہی کی ایک کوشش تھی۔یورپی اقوام میں سخت مقابلہ تھا کہ نئے دریافت شدہ خطوں کے وسائل پر تسلط جما کر انھیں اپنے ہم عصر وں اور پرانی دنیا پر اپنی دھاک، دھونس جمانے کے لیے استعمال میں لایا جائے۔

اس دوران مسلم دُنیا کے اوّلین دفاعی مورچے اور مشرق کی طرف یورپی اقوام کے پہلے پڑاؤ، شمالی افریقہ(تیونس ،الجزائر ،مراکش اور لیبیا) پر کیا گزری ؟ خطے کی تاریخ کا یہ عرصہ جن اہم حوادث اور واقعات سے پُر ہے، اسے سمجھے بغیر خطے کے موجودہ حالات کو سمجھنا مشکل ہے ۔

سقوط غرناطہ اور اندلس سے مسلمانوں کو کھرچ کر نکالنے کا سلسلہ کم و بیش ایک سو برس تک جاری رہا۔ اس دوران اسپین اور پرتگال کی فوجیں مسلسل شمالی افریقہ کے ساحلوں کو تاراج کرتی رہیں۔ مراکش کے شہر سبتہ سے ملیلہ تک ،الجزائر اور تیونس کے ساحلوں سے لے کر طرابلس الغرب،   یعنی لیبیا کے ساحل تک، یہ سارا علاقہ ان ابھرتی ہوئی یورپی استعماری طاقتوں اور مقامی مسلمان حکمرانوں کے درمیان میدان جنگ بنا رہا ۔جلد ہی خطے کے مسلم حکمرانوں کو اندازہ ہوگیا کہ اس بڑھتے صلیبی حملے کو روکنا ان کے بس میں نہیں ہے۔ اس لیے انھوں نے اپنے بچاؤ کے لیے خلافت عثمانیہ سے مدد کی اپیل کی ۔خلافت کی مداخلت اور عملی فوجی مدد ہی کے نتیجے میں تیونس اور الجزائر اس ہلاکت خیز یورپی استعماری یلغار سے بچنے میں کامیاب رہے ۔ چنانچہ مراکش نے بھی عثمانیوں سے دفاعی معاہدہ کیا اور یوں شمالی افریقہ، یورپی سیلاب کے آگے بند باندھنے میں کسی حد تک کامیاب ہوگیا ۔مراکش کے صرف دو شہر سبتہ اور ملیلہ یورپیوں کے قبضے میں رہ گئے تھے ۔

اسپین اور پرتگال کے کمزور پڑجانے پر شمالی افریقہ کی صورت حال میں کچھ بہتری آئی اورانتظامِ حکومت مقامی لوگوں کے ذریعے چلایاجانے لگا۔ اس نئے انتظام کی سربراہی، سرپرست کے طور پر عملی یا رسمی خلافت عثمانیہ کرتی تھی۔

انقلاب فرانس کے بعد اور نپولین بونا پارٹ کے یورپ اور پوری دُنیا پر تسلط جمانے کے عزم نے مصر اور شمالی افریقہ کو ایک بار پھر فرانس کی سامراجی ریشہ دوانیوں کا شکار کردیا۔ ۱۹ویں صدی کےصنعتی انقلاب نے جارح یورپ کی طاقت میں بے تحاشا اضافہ کردیاتھا۔اب پورے  شمالی افریقہ پر قبضہ کا پرانافرانسیسی خواب پھر انگڑائی لینے لگا۔ یوں ۱۸۸۱ءتک تیونس اور الجزائر، فرانسیسی قبضے تلے سسک رہے تھے ۔

یورپی سامراج نے دونوں ملکوں پر تسلط جمانے کے لیے دو مختلف انداز اختیار کیے تھے۔ تیونس اور پھر مصر کو بھی بیرونی قرضوں کے جال میں جکڑاگیا۔ سرکاری سطح پر بے تحاشا اسراف، اشرافیہ کی شاہانہ زندگی اور ظاہری نمود ونمایش پر بے اندازہ خرچ کرنے کی نہ صرف حوصلہ افزائی کی جاتی رہی، بلکہ ہر سطح پر اس کے فروغ میں فعال کردار اداکیا گیا ۔دونوں ملک جب مالیاتی دیوالیہ پن کا شکار ہوئے تو قرض خواہوں کے حقوق کے نام پر دونوں ملکوں کو مالیاتی حفاظتی تحویل میں لے لیا گیا، جو آگے چل کر سیاسی غلبے اور پھر فرانس کےمکمل قبضے پر منتج ہوا ۔اس عرصے میں خلافت عثمانیہ پر جب بھی کڑا وقت آیا، ان قابض سامراجی طاقتوں نے اسے خطے میں اپنے اثر و نفوذ کو بڑھانے کے لیے سنہری موقعے کے طور پرلیااور اپنا استبدادی پنجہ محکوموں کی گردن پر گاڑتے چلے گئے ۔

تاہم، الجزائر کی مقامی حکومت نے شاہِ فرانس نپولین کے دور میں ہونے والےفرانس کے محاصرے سے فائدہ اٹھایا اور اپنے آپ کو اقتصادی طور پر کچھ مضبوط کرلیا ۔ مگر فرانس نے جنگ چھیڑنے کے لیے یہاں پر بھی بہانہ انھی پرانے قرضوں کو بنا یا، جو الجزائر کے ذمے واجب الادا تھے ۔جنگ بلقان کے دوران ایک ہی ہلے میں ایک طرف سربیا،یونان اور دوسری طرف الجزائر پر ہاتھ صاف کرلیے ۔یوں شمالی افریقہ کے یہ مسلم ملک طویل دور ظلمات میں دھکیل دیئے گئے۔ ایک ایسا تاریک عہد کہ جس میں استعمار ی قبضہ تھا،فرنچ تہذیب کا غلبہ تھا ،تیونس اور الجزائر کی اسلامی شناخت مٹانے اور جغرافیائی خدوخال بگاڑنے کے منصوبے تھے ۔

۱۹۱۴ء میں پہلی جنگ عظیم شروع ہوئی تو شمالی افریقہ کی ان محکوم اقوام کو جنگ کی تپتی بھٹی  میں جھونک دیا گیا ۔اس بھٹی میں الجزائر اور سینی گال جیسے بڑے ملکوں کے باشندے ایک بڑی تعداد میں جل مر ے ۔ مارے جانے والے کتنی بڑی تعداد میں تھے ؟ اس کا اندازہ تیونس جیسے چھوٹے ملک کے ہلاک شدگان کی تعداد سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے ۔ پہلی جنگ عظیم میں تیونس کے ۸۰ ہزار مسلمان، فرانسیسی پرچم کی سربلندی کے لیے اپنی جان کی بازی ہارگئے۔

جنگ کے خاتمے پر اور خلافت عثمانیہ کے سقوط کے بعد ’انجمن اقوام‘ (League of Nations) کی چھتری تلے نوآبادیاتی یورپی طاقتوں نے ’انتداب‘ (mandate)کا ڈول ڈالا ۔ انتداب کے اس نام نہاد نظام کے تحت قابض طاقت ہی کو یہ قانونی حق دے دیا گیا کہ وہ مغلوب قوم پر اپنا سامراجی شکنجہ مضبوط کرے اور اس کی اجتماعی زندگی ،سیاسی اداروں اور جغرافیے کی تشکیلِ نو کرے۔ اقبالؒ بالادست یورپی طاقتوں کی ان چیرہ دستیوں کی بہترین تصویر کشی کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

آ بتاؤں تجھ کو رمز آیۂ ان الملوک

سلطنت اقوام غالب کی ہے اک جادو گری

خواب سے بیدار ہوتا ہے ذرا محکوم اگر

پھر سلادیتی ہے اس کو حکمراں کی ساحری

ہے وہی ساز کہن مغرب کا جمہوری نظام

جس کے پردوں میں نہیں غیر از نوائے قیصری

دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب

تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری

مجلس آئین و اصلاح و رعایات و حقوق

طب مغرب میں مزے میٹھے، اثر خواب آوری

’نظام انتداب‘ کے بعد داخلی خود مختاری کا ڈول ڈالاگیا ۔مقصدتھا مقامی چہروں مہروں کے ساتھ استبداد ی نظام قائم رکھنا ۔ تیونس میں سیاسی ادارے اور سیاسی جماعتیں بھی تھیں، لیکن سب کا اختیار و اقتدار انتہائی محدود ۔ملک اقتصادی اور ثقافتی طور پر پوری طرح فرانس کا محکوم اور باج گزار بنادیا گیاتھا۔جس نے رفتہ رفتہ تیونس کی اپنی شناخت، عقیدے ، اصول ،اس کی تہذیب و ثقافت ، زبان و تمدن سب کچھ کو مکمل بدل کر رکھ دیا۔

پہلی اور دوسری جنگ عظیم کا درمیانی عرصہ نیشنل از م کے علَم برداروں کے لیے انتہائی مایوس کن تھا ۔ پہلی جنگ عظیم میں فرانس دنیا کی سپر پاور بن کر ابھرا  تھا۔اس کے پاس دنیا کی سب سے بڑی بَری فوج تھی ۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ دنیا ظالموں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ رکھی ۔اس کی سنت اس میں ہر دم جاری و ساری رہتی ہے: وَلَوْ لَا دَفْعُ اللہِ النَّاسَ بَعْضَہُمْ بِبَعْضٍ۝۰ۙ  لَّفَسَدَتِ الْاَرْضُ(البقرہ ۲:۲۵۱) ’’اگر اس طرح اللہ، انسانوں کے ایک گروہ کو دوسرے گروہ کے ذریعے سے ہٹاتا نہ رہتا، تو زمین کا نظام بگڑجاتا‘‘۔

دوسری جنگ عظیم کا آغاز ہوتے ہی نازی جرمنی کے ہٹلر نے فرانس پر قبضہ کرلیا ۔یہ فرانسیسی غرور اور نخوت کے لیے ذلت کا مقام تھا اور اسی سے فرانس کا اپنے طبیعی جغرافیائی حدود کی طرف واپسی کا سفر شروع ہوگیا۔ پھر فرانس کو ۱۹۵۴ء کی ویت نام جنگ میں بھی بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

یہ تھے وہ حالات جن میں الجزائر اور تیونس  میں آزادی کی تحریک نے زور پکڑ ا ۔یوں خطے میں سیاسی ،انقلابی اور فوجی جدوجہد کا آغاز ہوگیا۔فرانس نے اپنے نقصان کو کم سے کم رکھنے  کے لیے سیاسی تدبیروں کا آغاز کیا ۔ سب سے پہلے محکوم قوموں کو داخلی خود مختاری کی نوید سنائی گئی۔ لیکن کس نخوت کے ساتھ ؟ اس کے لیے فرانسیسی وزیر اعظم کا وہ خطاب پڑھنے کے لائق ہے، جو تیونس کے محمد الامین کے سامنےکیا گیا تھا:’’تیونسی قوم جس حد تک ترقی کرچکی ہے، ہمیں اس پر خوشی منانے کا پورا حق ہے، خصوصاً اس لیے کہ ہم نے ہی تیونس کو ترقی دینے میں اصل کردار ادا کیا ہے۔ یہاں کی اشرافیہ کی بالغ نظری قابلِ تحسین ہے اورجواز فراہم کرتی ہے کہ تیونسی قوم اپنے امور خود سنبھالے ۔اس لیے ہم تیار ہیں کہ داخلی امور تیونسی افراد اور اداروں کے سپرد کردیں‘‘۔

حبیب بورقیبہ نےبطور سربراہ دستوری فریڈم پارٹی مجوزہ داخلی خود مختاری کے لیے فرانس تیونس مذاکرات کی فوری تائید کردی۔مجاہدین آزادی اور مزاحمت کاروں کو پہاڑوں سے اتر آنے اور ہتھیارسپرد کردینے کا مشورہ دیا ۔تاہم، سویزر لینڈ میں مقیم پارٹی کے سیکرٹری جنرل صالح بن یوسف نے کھل کر حبیب بورقیبہ سے اختلاف کیا اوراس پر وطن سے غداری کا الزام عائد کیا ۔ مسلح مجاہدین کو نہ صرف تیونس بلکہ پورے شمالی افریقہ کی مکمل آزادی تک مزاحمت جاری رکھنے کی ہدایت کی گئی۔

تاہم، جنگ عظیم میں زخم خوردہ فرانسیسی حکومت نے منصوبے کے مطابق مئی ۱۹۵۵ء میں داخلی خود مختاری کے قانون پر دستخط کردئیے ۔جلا وطن بورقیبہ واپس وطن لوٹ آئے اور انھیں آزادی کا ہیرو بنا کر پیش کیا گیا اورپھر مراکش کےبعد ۲۰ مارچ ۱۹۵۶ء کو تیونس کو بھی مکمل آزادی دے دی گئی۔

۲۵جولائی ۱۹۵۷ء کو پارلیمان کی تائید سے بورقیبہ نے بادشاہت ختم کردی اور خود تیونس کے صدر بن گئے ۔بورقیبہ نے اپنے اقتدار کے ابتدائی مہینوں سے ہی، تیونسی معاشرے کو فرانسیسی مقتدرہ کے حسب منشا ڈھالنے پر کام شروع کردیا تھا۔ اگست ۱۹۵۶ء کو سرکاری گزٹ میں ’نیاپرسنل لا‘ شائع ہوا، جس کے تحت دوسری اور تیسری شادی پر قانوناً پابندی عائد کردی گئی اور سول کورٹس کو طلاق کے معاملات پر نظرثانی کا اختیار دے دیا گیا۔اوقاف تحلیل کردئیے گئے اورشرعی عدالتوں کو ختم کرتے ہوئے فرنچ جوڈیشل سسٹم نافذ کردیا گیا ۔

۱۹۵۸ء میں جامعہ زیتونہ کے نظام تعلیم اور اس تاریخی اسلامی یونی ورسٹی کے زیر انتظام اداروں کو تعلیم کے عمومی سیکولر نظامِ تعلیم میں ضم کردیا گیا۔ اسی مہینے میں تیونس کی نیشنل آرمی تشکیل دی گئی اور اپریل ۱۹۵۶ء میں سکیورٹی سسٹم کو مکمل طور پر سیکولر تیونسی رنگ میں رنگ دیا گیا ۔

جون ۱۹۵۹ء میں جمہوریہ تیونس کا پہلا آئین نافذہوا اور اسی سال نومبر میں ایک مضحکہ خیز الیکشن میں بورقیبہ ۹۹ فی صد ووٹ لے کر پانچ برس کے لیے جمہوریہ کے پہلے صدر بن گئے اور ان کی فریڈم پارٹی نے پارلیمنٹ کی ۱۰۰ فی صد نشستیں حاصل کرلیں ۔

سیاسی محاذ پر صالح بن یوسف کے حامیوں کا گھیرا تنگ کیا جاتا رہا ۔ان کے لیے خصوصی عدالتیں قائم کی گئیں اور ان عدالتوں نے مخالفین کو پھانسیوں کی سزائیں سنانا شروع کردیں۔ حتیٰ کہ ۱۹۶۱ء میں صالح بن یوسف قتل کردئیے گئے۔

۱۹۶۲ء میں روزہ رکھنے پر پابندی عائد کردی گئی۔ سرکاری طور پر تجویز یہ کیا گیا کہ سرکاری ملازم اپنے روزوں کی قضا ریٹائرمنٹ پر ایک ساتھ یا دیگر مناسب اوقات میں اپنی مرضی سے پوری کرلے ۔بورقیبہ نے کوشش کی کہ تیونسی شہریوں کو مقدس مقامات کی زیارت خصوصاً حج بیت اللہ سے روکا جائے ۔دلیل یہ دی گئی کہ ’’حج پر جانے سے ملک کا قیمتی زر مبادلہ صرف ہوتا ہے‘‘۔ سرکاری سطح پر متبادل یہ تجویز کیا گیا کہ ’’حج کے بجائے اولیاء اللہ اور صالحین کے مقامی مزاروں سے خیر و برکت حاصل کرلی جائے ۔ابو زمعۃ البلوی یاابولبابۃ الانصاری کے مزار اقدس پر حاضری دے لی جائے ‘‘۔ یہ تجویز کسی ادنیٰ سرکاری ملازم کی نہیں تھی بلکہ جمہوریہ تیونس کے صدر حبیب بورقیبہ نے خود صفاقس شہر میں ۲۹؍اپریل ۱۹۶۴ء کو اپنے خطاب میں دی تھی ۔

جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ فرانسیسی فوجیں ۱۹۶۳ء تک تیونس میں تھیں تو ہمیں پے درپے لوگوں کے عقیدے اور ایمان کے خلاف کیے گئے ان فیصلوں کی اصل وجہ سمجھ میں آنے لگتی ہے۔ فرانس کامنصوبہ تھا کہ کہ تیونس پر اس کا غلبہ کمزور نہ ہو، بلکہ مقامی باشندوں کے بھیس میں اس کا اثر و نفوذ برقرار رہے ۔یوں بظاہر تیونس آزاد توہوا لیکن بورقیبہ کی وحشت انگیز ڈکٹیٹر شپ کے زیر سایہ چلاگیا۔ ۳۰ برس بعد بورقیبہ ڈکٹیٹر شپ اس عوامی انقلاب کے نتیجے میں ختم ہوئی جسے آج روٹی کا انقلاب کہا جاتا ہے ۔ تاہم، اس انقلاب کے بعد بھی تیونس، فرانس کے پروردہ گماشتوں کے پنجہ سے نہ نکل سکا کہ  نیا حکمران بن علی تھا، مکمل طور پر بورقیبہ کی فوٹو کاپی ۔

۲۰۱۱ءمیں پھر تیونس کے دبے ہوئے ،زیر دست ،مفلوک الحال عوام میں سے ایک، ریڑھی بان ،بوعزیزی کی خود سوزی نے ایک اور عوامی انقلاب کو جنم دیا۔بوعزیزی کے راکھ میں دبے شراروں سے اٹھے اس انقلاب نے جلد ہی پوری عرب دنیا کو ربیع عربی (عرب بہار ) کی لپیٹ میں لے لیا اور عشروں سے جمے عرب آمروں کے تخت الٹ گئے ۔

تیونس کا پھر ایک اور دستور بنا۔ اس نئے دستور اورنئے انتظام کے تحت ملک بظاہر جمہوری دور میں داخل ہوچکا تھا، لیکن صدر قیس سعید کے حالیہ ا قدامات سے ایسے لگتا ہے کہ تیونس پر ایک نیا بورقیبہ مسلط ہوچکا ہے ۔جو اگرچہ فصیح عربی بولتا ہے لیکن اپنے حقیقی خیالات کا اظہار اپنے آقاؤں کی زبان فرانسیسی میں کرتا ہے ۔ ایمرجنسی لگانے اور دستور کو معطل کرنے کے اقدامات سے دراصل یہ زمانے کے پہیے کو پھر سے الٹاگھمانے کا خواہش مند ہے ۔چاہتا ہےملک کو پھر سے واپس فرانسیسی دور میں لے جائے ۔

اگرچہ تیونس میں یہ بحث ابھی جاری ہے کہ صدر کا اقدام بغاوت تھی یا صحیح راستے کی طرف واپسی؟ تاہم، اطلاعات ہیں کہ امریکا کی نیشنل سکیورٹی کونسل کے سربراہ نے فون کرکے مطالبہ کیا ہے کہ نئی حکومت کی تشکیل اور معطل پارلیمنٹ کو بحال کیا جائے ۔ باالفاظ دیگر صدر کے نام مغربی آقائوں کا پیغام یہ ہے کہ تم نے ایمرجنسی لگاکر اچھا کیا ہے لیکن ہمیں تمھاری کامیابی کا یقین نہیں ہے۔

تیونس میں لگی حالیہ ایمرجنسی کے دوران قصر صدارت میں یہ واقعہ بھی پیش آیا ہے کہ  یہاں کے دورے پر آئے ہوئے چند امریکی صحافی گرفتار ہوئے۔پھر انھیں صدارتی مہمان بناکر شرف ملاقات بخشا گیا۔ ملاقات میں صدر تیونس یقین دلاتے رہے کہ ’’میں ڈکٹیٹر نہیں ہوں‘‘ اور مہمانوں کو فرانسیسی زبان میں امریکی دستور کے اقتباسات سناتے رہے۔آخر میں جب ان صحافیوں نے اپنے سوالات صدر کے سامنے رکھنا چاہے تو انھیں نیک تمناؤں کے ساتھ رخصت کردیا گیا ۔

غالباً یہ صدارتی مہمان اپنے میزبان سے وہی سولات کرنا چاہتے تھے، جو آج کل تیونس میں زبان زد عام ہیں: کیا واقعی فرانس تیونس سے دست بردار ہوچکا ہے یا ہمیں آزاد ہونے کا صرف وہم لاحق ہے ؟

مجھے یہ واقعہ یاد ہے کہ دسمبر ۲۰۱۶ء میں جب بھارتی پنجاب کے سرحدی شہر امرتسر میں ’ہارٹ آف ایشیا کانفرنس‘ منعقد ہوئی تھی۔ اس موقعے پر افغانستان کے صدر اشرف غنی نے سفارتی آداب کو بالائے طاق رکھ کر، اسٹیج ہی سے پاکستان کی طرف سے ۵۰۰ملین ڈالر کی امداد کو مسترد کرتے ہوئے پاکستانی مندوب اور وفاقی وزیر جناب سرتاج عزیز کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’’آپ اس امداد کو اپنی جیب میں رکھ کر اسے اپنے ملک میں انتہاپسندی کو لگام دینے کے لیے استعمال کریں‘‘۔جس طرح کے تکبر اور بدتہذیبی کا مظاہرہ اشرف غنی اور ان کے وفد نے اس میٹنگ کے دوران کیا، سفارتی تاریخ میں اس کی مثال کم ہی ملے گی۔چونکہ اس میٹنگ سے قبل ہی بھارت نے پاکستان میں مجوزہ سارک سربراہ کانفرنس کا بائیکاٹ کرکے اس کو سبوتاژ کر دیا تھا، اس لیے سرتاج عزیز صاحب کو میزبان بھارت اور افغان مندوبین نے ایک ناقابلِ برداشت ہستی بنا کر رکھ دیا تھا۔

پھر ہم نے دیکھا کہ جس تیزی کے ساتھ افغان طالبان نے پیش قدمی کرکے ۱۵؍اگست ۲۰۲۱ء کو افغانستان کے دارالحکومت کابل پر کنٹرول سنبھال لیا، اس نے پوری دنیا کو تو حیران کرکے رکھ ہی دیا ہے، مگر طالبان کی اس فتح کے بعد، افغان فوج کی شکست اور اشرف غنی کا فرار ، کابل میں موجود افغان و دیگر غیر ملکی میڈیا کے نمایندوں کو خود احتسابی کی دعوت دیتا ہے، کہ کس طرح وہ پچھلے کئی برسوں سے زمینی حقائق کو سمجھنے میں ناکام رہے، یا جان بوجھ کر اشرف غنی اور امریکا کی خوشنودی کے لیے اپنے قارئین یا ناظرین کو دھوکا دیتے رہے۔ میڈیا سے متعلق تحقیقی اداروں کو بطور مثال اس جانب دارانہ اور دھوکا دینے والی کوتاہ اندیش رپورٹنگ کو ماس کمیونی کیشن کے نصاب میں شامل کرنا چاہیے۔ یاد رہے دنیا بھر کے تھنک ٹینک اور خارجہ پالیسی کے ادارے اسی رپورٹنگ کی بنیاد پر اپنی پالیسیاں ترتیب دیتے تھے۔

ابھی تک معروف دفاعی اور ملٹری اکیڈیمیوں سے فارغ شدہ ماہرین کی سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی ہے کہ آخر تقریباً ساڑھے تین لاکھ افغان افواج ریت کی دیوار کی طرح کیوں بیٹھ گئیں؟ جدیدترین اسلحہ سے لیس فوج، جس کی تربیت امریکا ،ناٹو اتحادیوں اور بھارت نے کی تھی، اس نے چندہزار عسکریوں کے سامنے کیسے لڑے بغیر ہی ہتھیار ڈال دیئے؟

 مشی گن یونی ورسٹی کے جنوبی ایشیا سے متعلق شعبہ میں پروفیسر جویوان کول نے افغان فوج کی حالت زار کے بارے میں پہلے ہی پیشن گوئی کی تھی: ’’جس طرح ۲۰۰۱ء میں شمالی اتحاد نے امریکا کی مدد سے طالبان کو شکست دی تھی، اسی طرح موجودہ افغان فوج بھی طالبان سے جنگ میں ٹھیر نہیں پائے گی‘‘۔ ان کا استدلال تھا کہ ’’دیہی اور دور دراز کے علاقوں میں امریکی افواج نے عام افغانی کا جینا دوبھر کر دیا تھا۔ جب ان پر کوئی حملہ ہوتا تھا ، تو اس کا بدلہ لینے کے لیے وہ پورے علاقے میں آپریشن کرکے آدھی رات کو گھروں میں گھس کر خواتین و بچوں کو بے عزّت کرتے تھے، جس کی وجہ سے ظاہرہے کہ اس آبادی کی ہمدردیاں طالبان کے ساتھ ہوجاتی تھیں اور امریکیوں کے ساتھ ان کی نفرت میں اضافہ ہوجاتا تھا۔ انھی آبادیوں سے طالبان کو نئے رضاکار بھی مل جاتے تھے‘‘۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’فوج کی بددلی کی ایک اور وجہ افغان کے (کٹھ پتلی) صدور حامد کرزئی اور اشرف غنی کی حکومتوں میں بے پناہ بد عنوانی تھی۔ ان سیاسی لیڈروں اور افسران نے بیرون ملک نہ صرف محلات تعمیر کیے، بلکہ خلیجی ممالک میں جزیرہ تک خریدے ہیں‘‘۔

اس نئی پیش رفت کے بعد اب لگتا ہے کہ افغانستان میں قتل و غارت گری کا جو باب انقلابِ ثور کے ساتھ اپریل ۱۹۷۸ء میں شروع ہوا، جس کے تقریباً ایک سال بعد کمیونسٹ روسی فوجوں نے ۲۴دسمبر ۱۹۷۹ء کو افغانستان پر دھاوا بول دیا تھا۔ اور پھر ایک خوں ریز جنگ کے بعد روسی فوجیں پسپا ہوکر ۱۵فروری ۱۹۸۹ء کو واپس چلی گئی تھیں۔ یہ خونیں ’گریٹ گیم‘ اب اختتام کو پہنچ رہی ہے۔ غیر ملکی فوجوں کے انخلا اور ان کی حمایت یافتہ حکومت کی برطرفی کے۴۳ سال کے بعد اب فریقین کے لیے جنگ جاری رکھنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا۔ اسی لیے بین الاقوامی برادری کے لیے بھی ضروری ہے کہ طالبان کو الگ تھلگ کرنے کی پالیسی ترک کرکے ان کوتسلیم کریں اور سفارتی سطح پر ربط قائم کریں۔ حد تو یہ ہے کہ اب بھی بعض شخصیات طالبان کو تسلیم نہ کرنے اور ان کے لیڈران پر سفری پابندیا ں عائد کرنے کا مشورہ دے رہی ہیں۔

۲۳ برس قبل ۱۹۹۸ء میں امریکا کے اقوام متحدہ میں سفیر بل رچرڈسن جب کابل کے دورہ پر تھے، تو انھوں نے طالبان کے ساتھ بات چیت کرکے ان کوخواتین کی اعلیٰ تعلیمی اداروں میں تعلیم جاری رکھنے اور اسپتالوں میں خواتین کا علاج کرنے کے لیے خواتین ڈاکٹروں و نرسوں کی تعیناتی پر رضامند کیا تھا۔ اسی طرح طالبان نے افغانستان سے پوست کی کاشت مکمل طور پر ختم کرنے پر بھی آمادگی ظاہر کی تھی۔ رائے گٹمین (Roy Gutman) اپنی کتابHow We Missed the Story: Osama Bin Laden, the Taliban and the Hijacking of Afghanistan کے دوسرے ایڈیشن ۲۰۱۳ء میں لکھتے ہیں کہ رچرڈسن نے طالبان کو شمالی اتحاد کے ساتھ بات چیت اور جنگ بندی پر بھی منوا لیا تھا۔ اس کے بدلے وہ امریکا سے سفارتی سطح کے روابط قائم کرنے کے خواہاں تھے۔ پورے ۲۰سال کی قتل و غارت گری اور ۲ء۲۶ کھرب ڈالر خرچ کرنے کے بعد امریکا نے بل رچرڈسن کے مسودے کو کوڑے دا ن سے نکال کر دوحہ میں میز پر رکھا۔ آخر یہی کام اگر کرنا تھا ، تو ڈیڑھ لاکھ افراد کی ہلاکت، ڈھائی ہزار امریکی افواج کی اموات اور لاتعداد زخمیوں کو کس کھاتے میں درج کیا جائے گا؟

اس بار ایک اہم بات یہ ہو گئی ہے کہ ۲۰سال تک افغانستان کے قضا و قدر کا مالک ہونے کے باوجود اب عملاً افغانستان میں امریکا کا کردار ختم ہو گیا ہے۔ امریکی تھنک ٹینک اٹلانٹک کونسل کی ریسرچ فیلو نیلوفر ساخی کے مطابق ’’افغانستان کے حوالے سے پاکستان، ایران، چین اور روس کی پوزیشن خاصی مضبوط ہو گئی ہے‘‘۔ بروکنگز انسٹی ٹیوٹ کے مطابق امریکا نے ایک طرح سے افغانستان، چین کو پلیٹ میں سجا کرپیش کر دیا ہے۔ چین نے حال ہی میں طالبان کے لیڈر مُلّاعبدالغنی برادر کا بیجنگ میں خاصا پُرجوش استقبال کیا۔ اس کے برعکس امریکی نائب وزیر خارجہ وینڈی شرمین کو خاصی سردمہری کا سامنا کرنا پڑا۔

حالات بہتر ہونے کی صورت میں وسط ایشیا کو پاکستانی بندر گاہ گوادر سے منسلک کرنے والے نارتھ ، ساؤتھ ٹریڈ کوریڈور ، اور بیلٹ اینڈ روڑ کو مزید آگے بڑھانے میں افغانستان معاون ثابت ہوگا۔ ۱۹۸۹ء کے بعد روس، افغانستان کے حوالے سے بالکل لاتعلق ہو گیا تھا۔ مگر موجودہ صورت حال میں روس پہلا ملک ہے، جس نے طالبان کی اہمیت کو تسلیم کرکے ان کے ساتھ سفارتی روابط استوار کیے ہیں۔ حال ہی میں اشرف غنی کی حکومت نے جب امریکا اور بھارت سے فضائی مدد مانگی، تو روس نے افغانستان کی سرحد سے متصل تاجکستان اور ازبکستان کی افواج کے ساتھ مل کر جنگی مشقوں کا آغاز کردیا۔ دوسری طرف چین کے ساتھ مل کر بھاری ہتھیارو ں کے ساتھ سنکیانگ میں سرحد کے پاس مشقیں کیں۔ غرض امریکا اور بھارت تک یہ پیغام پہنچایا کہ اس موقع پر ان کی مداخلت کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔

اگر افغانستان کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے، تو اس سرزمین پر تاریخ اکثر اپنے آپ کو دہراتی رہی ہے۔ ۱۸۳۹ء میں برطانوی فوج کشی کا مقصد دوست محمد کو برطرف کرنا اور شاہ شجاع کو اقتدار میں لانا تھا۔ یہ ہدف برطانوی افواج نے حاصل تو کرلیا، مگر افغانیوں نے جلد ہی اپنی شکست کا بدلہ لے کر برطانوی فوج کا قتل عام کیا۔ اس کا بدلہ لینے کے لیے برطانیہ نے ایک بار پھر فوج کشی کرکے قتل و غارت گری کا بازار گرم کر دیا۔ حالات کے کسی حد تک ٹھیک ہونے کے بعد برطانیہ نے طویل مذاکرات کے بعد تخت پھر دوبارہ دوست محمد کے حوالے کردیا، کہ جس کو ہٹانے کے لیے فوج کشی کی گئی تھی، کیونکہ شاہ شجاع کو قتل کر دیا گیا تھا۔

۲۰۰۱ء میں طالبان کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے لیے امریکی قیادت میں دنیا بھر کی افواج نے افغانستان پر دھاوا بول دیا تھا، مگر اب طالبان کی واپسی کی راہ ہموار کرکے پھر وہی تاریخ دُہرائی جا رہی ہے۔ وقت آگیا ہے کہ افغانستان میں اب تاریخ کو آرام کا موقع دے کر کسی بیرونی مداخلت کے بغیر اقتدار افغانوں کے حوالے کیا جائے اور طالبان کو تسلیم کرکے ان کو سفارتی سطح پر دنیا سے جوڑا جائے، اور یہ بتایا جائے کہ افغانستان کے حکمران تاریخ و واقعات سے سبق لے کر اس جنگ زدہ ملک میں ایک نئی صبح کا آغاز کریں گے۔ بین الاقوامی برادری پر بھی لازم ہے کہ اس صبح کی تعمیر میں کابل انتظامیہ کی مدد کریں۔

سنجے پانڈا ترکی میں بھارتی سفیر ہیں۔ انھوں نے کشمیر کے بارے مخصوص بھارتی لہجے میں تبصرہ کرتے ہوئے کہاہے: ’’مسئلہ کشمیر کا سارا کھیل تبدیل ہو چکا ہے۔ اب یہ ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ بدلے ہوئے حالات ہی حقیقت ہیں۔ یہ ان لوگو ں کے لیے ضروری ہے جو اس تنازعہ کا ہمیشہ کے لیے حل چاہتے ہیں‘‘۔

بھارتی سفیر سے سوال کیا گیا کہ ’’استصواب رائے کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟‘‘ انھوں نے جواب دیا:’’ہمیں کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں سے کبھی کوئی مسئلہ نہیں رہا۔ ان کا پہلا حصہ بلاشبہہ استصواب رائے کے بارے میں ہے۔ اور یہ استصواب صرف اسی وقت ہوسکتا ہے جب پاکستان ان تمام علاقوں سے افواج واپس بلالے ، جن پر اس نے قوت کے بل پر قبضہ کررکھا ہے۔ سارے جموں و کشمیر کو ۱۹۴۷ء سے پہلے کی صورتِ حال میں واپس جانا ہوگا۔ تب ہی استصواب رائے ہو سکے گا‘‘۔

بھارت اور پاکستان کے لیے اقوام متحدہ کے کمیشن کے چیئرمین پروفیسر جوزف کوربل نے اپنے آرٹیکل میں اس سوال کا جواب دیا تھا (ان کا آرٹیکل The UN, Kashmir and Nehru دیکھا جاسکتا ہے)۔ یہ آرٹیکل ۴مارچ ۱۹۵۷ء کے The New Leaderمیں شائع ہو ا تھا۔ وہ لکھتے ہیں:’’بھارتی وفد کے مطابق استصواب رائے کے بارے میں قرارداد پر عمل درآمد پاکستان نے روک دیا تھا۔ ایسا اس نے کشمیر کے دوسرے حصہ (آزاد کشمیر) سے اپنی فوج نکالنے سے انکار کی صورت میں کیا تھا‘‘۔ یہ دعویٰ سچ نہیں ہے۔پاکستان فوجیں نکالنے کا اس وقت تک ہرگز پابند  نہیں ہے ،جب تک بھارت اپنے زیر قبضہ کشمیر سےفوجیں نہ نکال لے۔

بھارتی سفیر سنجے پانڈا نے مزید کہا:’’اقوام متحدہ کی قراردادوں پر واقعات کی گرد پڑ چکی ہے۔ انھوں نے یاد دلایا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان ۱۹۷۲ء میں ہونے والے شملہ معاہدے میں یہ اصول طے پاگیا تھا کہ دونوں ممالک اپنےباہمی امور دو طرفہ طریقے سے حل کریں گے، جن میں کوئی تیسرا فریق شامل نہیں ہوگا‘‘۔

اس نکتے پر غیر جذباتی انداز میں غور کرنا ضروری ہے۔ پانڈا خود کہہ چکےہیںکہ کشمیر پر قراردادیں منظورہوئے ۷۳برس گزر چکے ہیں۔وہ ترکی کو قائل کرنے کی کوشش میں ہیں کہ اب ان قراردادوں کو بھول جاناہوگا۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ محض وقت گزرنےسےتنازعے کی نوعیت تبدیل نہیں ہوتی۔ اسی لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادیں آج بھی اسی طرح سے موجود ہیں اور عمل درآمد کی منتظرہیں۔ دوسرے ، یہ قراردادیں نہ کبھی متروک ہو سکتی ہیں اور نہ متروک قرار دی جاسکتی ہیں۔ حادثات کی پڑی گرد بھی نہ ان کی حیثیت تبدیل کر سکی ہے اور نہ کر سکے گی۔ وقت گزرنے سے کسی بھی اصول کو غیر مؤثر سمجھا نہیں جاسکتا۔یہ جموں و کشمیر کے عوام کا انمٹ اور ناگزیر حق ہےکہ وہ استصواب رائے سے اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں۔ مزید یہ کہ بین الاقوامی معاہدوں کو وقت ختم کر سکتا ہوتا تو اقوام متحدہ کے چارٹر کی بھی کوئی حیثیت باقی نہیں رہے گی۔ اگر عدم عمل درآمد سے کسی معاہدے کو غیرمؤثر یا متروک سمجھ لیا جائے تو بہت سے ممالک میں جنیوا کنونشن بھی اپنی حیثیت کھو بیٹھے گا۔

 شملہ معاہدہ کے بعد پاکستان اور بھارت تنازعات باہمی پلیٹ فارم پر حل کرنے کے مفروضے کو اگر چند لمحوں کے لیے درست مان بھی لیں تو پھر ہم اقوام متحدہ میں بھارتی مندوب ٹی ایس ٹائرو مورچو کے ۲؍اگست ۲۰۲۱ء کے خطاب پر کیا کہیں گے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ’کشمیر بھارت کا اٹوٹ اَنگ ہے اور یہ ناقابل تنسیخ حیثیت ہے‘۔ اگر رٹی رٹائی ہٹ دھرمی کا یہ عالم ہے تو پھر شملہ معاہدہ کے تحت بھارت پاکستان سے کس معاملے پر بات کرنا چاہتاہے؟

دوسرے، شملہ معاہدہ میں ہی یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ:’’مسئلہ کشمیر کا حل دو پارٹیوں(بھارت اور پاکستان) کے مقاصد میں سے ہے۔ اس صورت میں ٹی ایس ٹائرو کا یہ موقف تو اپنی جگہ شملہ معاہدے کے خلاف ہے، اقوام متحدہ کی باری تو بعد میں آئے گی۔

سنجے پانڈا جانتے ہیںکہ شملہ معاہدہ قرار دیتاہےکہ:کسی بھی مسئلہ کا حتمی حل نکلنےتک پاکستان یا بھارت اس کی حیثیت یک طرفہ طور پر تبدیل نہیں کر سکتے۔ اس لیے آرٹیکل۳۷۰، اور ۳۵-اے، ڈومی سائل قانون، سب کی منسوخی نہ صرف شملہ معاہدہ کی خلاف ورزیاں ہیں، بلکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد ۱۲۲کی بھی خلاف ورزی ہے، جس میں قرار دیاگیا ہے کہ ۱۹۵۱ء کی قرارداد کے مطابق نیشنل کانفرنس کی طرف سے سفارش کردہ قانون ساز اسمبلی کا اجلاس بلایاجائے،تاکہ پوری ریاست یا اس کے کئی حصوں کے مستقبل کا فیصلہ ہو۔ اس کے علاوہ کوئی ایسے اقدامات نہیں کیے جاسکتے کہ جن سےریاستی عوام کی رائے پوری طرح عمل میں نہ آتی ہو۔

اگر بھارت جرأت سے کام لے، وہ ایسے آزادانہ ، شفاف اور منصفانہ انتخابات کرائے، جو کشمیری عوام کی صحیح اُمنگوں کے ترجمان ہوں، جیسا کہ سفیر پانڈا کہہ رہےہیں، تب یہ امکان نظر آسکتا ہے کہ ۷۳سال سے حل کے منتظر کشمیر کا کوئی فیصلہ ہو سکے۔

لیکن بھارت نے کشمیر میں اپنے نو آبادیاتی طرز کے غیر جمہوری رویوں ہی کو ’جمہوری‘ قرار دے کر پیش کیا ہے۔ ۱۹۶۴ء میں برطانوی مؤرخ برٹرینڈ رسل نے کہا تھا: ’’بھارت کا سارا بلندترین آئیڈیلزم دھڑام سے ڈھے جاتاہے، جب اس کا نفاذ کشمیر کے سوال پر کیا جاتاہے‘‘۔

بھارت کے دوسرے گاندھی کا درجہ پانے والے جے پرکاش نرائن نے ۱۹۶۰ء میں اندراگاندھی سے کہا تھا: ’’ہم جمہوریت کا پرچار کرتے ہیں لیکن کشمیر میں ہماری حکمرانی قوت کے بل پر ہے۔ کشمیر کا مسئلہ پاکستان کی وجہ سے پیدا نہیں ہوا، وہ کشمیر کو ہڑپ کرنا نہیں چاہتا۔ وہاں کے عوام ہمارے بارے میں سیاسی طور پر گہرے اور ان مٹ عدم اطمینان سے دوچارہیں‘‘۔

حکومت جموں وکشمیرکے سابق سیکرٹری بی کے دیو نے ۱۹۹۱ء میں اعتراف کیا تھا: ’’بھارتی جموں و کشمیر میں شروع سے انتخابات دھاندلی زدہ رہے ہیں‘‘۔ ارون دھتی رائے بوکرانعام یافتہ ہیں۔ انھوں نے ۲۷ستمبر۲۰۰۹ء میں واشگاف لفظوں میں کہہ دیا تھا: کشمیر میں انتخابات کی طویل حیران کن تاریخ ہے۔۱۹۸۷ء میں بڑے دھڑلے سے انتخابات میں دھاندلی کی گئی۔ ان کی وجہ سے ہی اشتعال پھیلا اورمسلح تحریک نے جنم لیا‘‘۔یہ تحریک ۱۹۹۰ء میں شروع ہوئی۔ اس کے بعد سے جموں و کشمیر میں دھاندلی زدہ اور غیرنمایندہ انتخابات فوجی قبضے کے ہتھیار کے طور پر ہی ہوئے ہیں۔ یہ بھارتی ڈیپ سٹیٹ کے مکروہ عزائم کا اصل چہرہ ہیں۔ ایسے ہر نام نہاد انتخاب کے بعد بھارتی مقتدرہ یہ جھوٹا اعلان کرتی ہے کہ ’کشمیری عوام نے ہمیں بھاری مینڈیٹ دیا ہے‘۔

ڈاکٹر شری پرکاش نے اپنی کتاب Twenty Tumultuous Years Insight into Indian Polityکے صفحہ ۵۶۸پر لکھا تھا: ’’کشمیری غم و غصے کی اصل وجہ ۱۹۸۷ء کے انتخابات میں ہونے والی دھاندلی ہے۔ ایسی زندگی کا کوئی فائدہ نہیں ہے جو لاش کی صورت میں ہو۔ فاروق عبداللہ سے لے کر نیچے تک کشمیری لیڈر اپنی وقعت کھو چکے ہیں۔وہ کسی بھی طرح سے مسئلہ کشمیر سے اب متعلق نہیں رہے‘‘۔ایمی والڈمین نے ۲۴؍اگست ۲۰۰۲ء کے نیویارک ٹائمز میں لکھا تھا: ’’۱۹۸۹ء کے دھاندلی زدہ انتخابات نے مسلح جدوجہد کی بنیاد رکھی‘‘۔

چنانچہ ، ہمیں یقین ہےکہ ایسے بےمعنی اور خودفریبی پر مبنی انتخابات سے مسئلہ کبھی حل نہیں ہوسکتا۔ اس کا حل جمہوری اصول کی پاسداری ہے۔کشمیری عوام اب صرف ایسے انتخابی عمل کا خوشی سے حصہ بننے پر تیار ہوں گے، جن کے بارے میں انھیں یقین ہو کہ یہ آزادانہ، منصفانہ رائے دہی کے لیے ہوں گے، اور ان کو منعقدکرانے کے لیے اقوام متحدہ جیساغیر جانب دار ادارہ کام کرے۔

سلامتی کونسل میں پاک بھارت تنازعات پر خاصی بحث ہو چکی ہے۔ لیکن استصواب رائے کا سوال بھی زیر بحث لایا گیا ہے اور اسے حل کے طور پر طے بھی کیا گیا ہے۔ اس کا واضح اعتراف اقوامِ متحدہ میں بھارتی مندوب گوپال سوامی آیان گر نے ۱۵ جنوری ۱۹۴۸ء میں کیا تھا۔ ان کاکہنا تھا: ’’کشمیر کاسوال___ ریاست کےلوگ بھارت سے الحاق ختم کر دیں یا پاکستان سے مل جائیں یاپھر وہ الگ رہنے کا فیصلہ کریںاور اقوام متحدہ کے ایک رکن کی حیثیت اختیار کرلیں۔ہم تسلیم کرتے ہیں کہ اس کا حتمی فیصلہ کشمیری عوام ہی کریں گے‘‘۔

لیکن بھارتی حکومت اپنے کسی قول پر کھڑا ہونے کے بجائے قتل و غارت گری کا گُر اختیار کیے ہوئے ہے۔

گذشتہ صدی کے آخری عشرے میں نئی دہلی میں کشمیر سے متعلق خبروں کی ترسیل کرنے والے صحافیوں اور تجزیہ کاروں کو بخوبی علم ہوگا کہ جموں و کشمیر کے قضیہ اور انسانی حقوق کی دگرگوں صورت حال کے حوالے سے بھارت کس قدر شدید عالمی دباؤ کا شکار تھا۔ مارچ ۱۹۹۴ءمیں کانگریس پارٹی کی جانب سے بھارتی وزیراعظم نرسمہا رائونے ’چانکیائی شاطرانہ چال‘ کااستعمال کرکے ایران کو جھانسہ دے کر اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن سے کسی طرح جان تو چھڑوائی، مگر اس کے عوض ایرانی صدر ہاشمی رفسنجانی سے وعدہ بھی کیا کہ ’’کشمیر پر پیش رفت کریں گے‘‘۔ یادرہے کمیشن میں قرار داد پاس ہونے کی صورت میں یہ براہِ راست سلامتی کونسل کے سپرد کی جانے والی تھی، جہاں مغربی ممالک بھارت کے خلاف اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کی تیاریا ں کر رہے تھے۔ بھارت کا دیرینہ دوست روس، سوویت یونین کے بکھرنے کے بعد زخم چاٹ کر مغربی ممالک کو خوش کرنے میں مصروف تھا۔

ایران سے کیے گئے وعدے کے پیش نظر، غالباً ۱۹۹۵ءمیں فاروق عبداللہ کی نیشنل کانفرنس نے ایک مفصل میمورنڈم وزیر اعظم نرسمہا راؤ کے سپرد کیا، جس میں ۱۹۵۰ءمیں بھارت کے وزیراعظم جواہر لال نہرو اور شیخ عبداللہ کے درمیان طے پائے گئے ’دہلی ایگریمنٹ‘ کو قانونی شکل دینے، اس کو بھارتی پارلیمنٹ سے پاس کروانے اور ریاست کی ۱۹۵۳ءسے قبل کی پوزیشن بحال کرنے کا ایک طریقۂ کار وضع کیا گیا تھا۔ نیشنل کانفرنس کی ایما پر یہ میمورنڈم کس نے لکھا تھا، یہ بات تاحال سربستہ راز ہے۔ اس کے چند روز بعد ہی ۴نومبر ۱۹۹۵ءکو نرسمہا راؤ نے افریقی ملک برکینو فاسو کا دورہ کرتے ہوئے کشمیر کے مسئلے کو سلجھانے کا عندیہ دیا، اور یہ کہا کہ ’’زیادہ سے زیادہ خودمختاری دینے کے لیے ہم کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں‘‘۔ اس دوران بھارت کے ریاستی ادارے، مئی ۱۹۹۶ء میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں حصہ لینے کے لیے نیشنل کانفرنس کی خوشامدیں کررہے تھے، مگر اس کے لیڈر ڈاکٹر فاروق عبداللہ اور نئی دہلی میں ان کے نمایندے پروفیسر سیف الدین سوز ٹس سے مَس نہیں ہو رہے تھے۔ ان کا مطالبہ تھا کہ: ’’پہلے اٹانومی یاکوئی سیاسی فارمولا ہمارے حوالے کیاجائے، جس کو لے کر ہم عوام کے پاس جائیں گے‘‘۔ کوئی واضح یقین دہانی نہ ملنے پر ان کی پارٹی نے لوک سبھا کے انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کرکے ان کی افادیت پر ہی سوالیہ نشان لگادیا۔  ان ملک گیر انتخابات میں کانگریس پارٹی کو شکست ہوگئی، مگر ’جنتا دل‘ کی قیادت میں دیو گوڑا اور بعد میں اندر کمارگجرال کی قیادت میں کانگریس ہی کی بیساکھیوں پر نئی حکومت قائم ہوگئی۔

وزیر اعظم دیو گوڑا کے دست راست سی ایم ابراہیم نے و زارت داخلہ کے اہم افسران کے ہمراہ لندن میں فاروق عبداللہ کے ساتھ گفت وشنید میں وعدہ کیا: ’’جموں و کشمیر اسمبلی میں ا ن کو قطعی اکثریت دلانے میں مدد کی جائے گی اور اس کے فوراً بعد وہ نرسمہا راؤ کو دیئے گئے میمورنڈم کو ایک ریزولوشن کی صورت میں بھاری اکثریت سے اسمبلی میں پاس کرواکے مرکزی حکومت کو بھیج دیا جائے گا۔ جس کو پارلیمنٹ میں پیش کرکے ایک قانون کے طور پر پاس کیا جائے گا‘‘۔ ۸۷رکنی اسمبلی میں نیشنل کانفرنس کو ۵۷، کانگریس کو ۲۶ اور اپوزیشن بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو محض دونشستیں حاصل ہوئیں۔ مگر انتخابات کے بعد ان کو بتایا گیا کہ اس میمورنڈم کا جائزہ لینے کے لیے پہلے ایک کمیشن تشکیل دیں۔ لیکن جب تک کہ یہ کمیشن اپنی رپورٹ اسمبلی میں پیش کرتا، خود جنتا دل حکومت ختم ہوچکی تھی، اور سارے وعدے ہوا میں بکھر کر رہ گئے تھے۔ تاہم، بھارتی حکومت کشمیر کے مسئلے پر عالمی دبائو سے نکلنے میں کامیاب ہوگئی۔

 پچھلے دو برسوں کے دوران دنیا بھر میں بھارت کے سفیر وہ نہیں کر پائے، جو کام ۲۴جون کو دن کے تین بجے وزیر اعظم نریندر مودی کی سرکاری رہایش گاہ پر لی گئی اس گروپ فوٹو نے کیا، جس کی پہلی قطار میں وزیراعظم، ان کے دست راست وزیر داخلہ امیت شا، ڈاکٹر فاروق عبداللہ، ان کے فرزند عمر عبداللہ اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی سربراہ محبوبہ مفتی کے ہمراہ نظر آئے۔ دکھائی دیتا تھا کہ ایک بار پھر مودی کی بغل میں یہ لیڈر صاحبان شیروشکر ہورہے تھے، جس طرح ۱۹۴۷ءمیں شیخ عبداللہ نے لال چوک میں نہرو کا استقبال کرتے ہوئے دل و نگاہ فرشِ راہ کیے ہوئے تھے۔ فروری ۲۰۲۱ء میں پاکستان اور ہندستان کے درمیان لائن آف کنٹرول پر سیز فائر کے حیران کن معاہدے کے بعد ہی اس طرح کی میٹنگ کی تیاری شروع ہو چکی تھی، اور بھارتی وزارت داخلہ کے اہلکار اندازہ لگارہے تھے کہ اس طرح کی دعوت دینے کی صورت میں نیشنل کانفرنس کا کیا رد عمل ہوگا؟ ڈسٹرکٹ ڈیویلپمنٹ کونسل کے انتخابا ت نے کنگز پارٹیوں کو دن میں تارے دکھا دیئے، تو نئی دہلی کو یہ ادراک ہو گیا تھا کہ کسی سیاسی عمل کے لیے نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی پر ہی تکیہ کرنا پڑے گا۔ اس میٹنگ میں اگرچہ ان جماعتوں نے ریاستی درجہ اور خصوصی حیثیت کی بحالی کا مطالبہ کیا، تو بھارتی وزیراعظم اور وزیرداخلہ نے دوٹوک الفاظ میں جواب دیا کہ: ’’دفعہ ۳۷۰ ،اور ۳۵-اے کا معاملہ تو اب عدالت کے سپرد ہے، اس لیے اس کے فیصلہ کا انتظار کیا جائے‘‘۔البتہ ریاستی درجہ کی بحالی کے لیے امیت شا نے ایک غیرواضح روڈ میپ ان کے گوش گزار کر دیا۔

اس سے قبل جسٹس رنجنا ڈیسائی کی قیادت میں ایک حدبندی کمیشن تشکیل دیا گیا تھا، جو اسمبلی حلقوں کی اَز سرِ نو حد بندی کرے گا اور بعد میں اس نئی حد بندی کے تحت اسمبلی کے انتخابات منعقد ہوں گے۔ پھر یہ اسمبلی ایک قرارداد پاس کرکے پارلیمنٹ سے ریاستی درجہ کی بحالی کے لیے کہے گی۔ جس کے بعد وزرات داخلہ قانون سازی کرنے کا کام شروع کرسکتی ہے۔

مودی حکومت نے اس اجلاس میں سب سے بڑی یہ چیز حاصل کی کہ نیشنل کانفرنس نے مذکورہ حدبندی کمیشن میں شرکت کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ اس سے قبل اس نے اس کمیشن کا بائیکاٹ کیا ہوا تھا۔ چونکہ نیشنل کانفرنس سے تعلق رکھنے والے لوک سبھا کے تین اراکین اس کے بربنائے عہدہ ممبران ہیں، اس لیے ان کی عدم موجودگی کی وجہ سے کمیشن اپنا کام نہیں کر پا رہا تھا۔ جس وقت یہ کمیشن ترتیب دیا گیا تھا تو اس وقت اس کے دائرہ اختیار میں جموں و کشمیر کے علاوہ آسام، منی پور، ارونا چل پردیش اور ناگالینڈ میں اسمبلی حلقوںکی بھی حد بندی بھی شامل تھی ۔ مگر اس سال مارچ میں جب اس کی مدت ایک سال اور بڑھا دی گئی، تو اس کے دائرۂ اختیار سے شمال مشرقی صوبوں کو نکال دیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ بھارتی حکومت کے مطابق اگر جموں و کشمیر اب ملک کے دیگر صوبوں کی ہی طرح ہے تو صرف اسی خطے میں الگ سے حد بندی کیوں کرائی جا رہی ہے؟

اس کی وجہ یہی لگتی ہے کہ کمیشن اسمبلی نشستوں کو کشمیر اور جموں کے ڈویژنوں میں برابر تقسیم کرنا چاہتا ہے، یعنی آبادی زیادہ ہونے کی وجہ سے وادیِ کشمیر کو اسمبلی میں جو برتری حاصل تھی، اس کو ختم کیا جائے۔ ۲۰۱۱ءکی مردم شماری کے مطابق وادیِ کشمیر کی آبادی ۶۸ء۸ لاکھ اور جموں کی ۵۳ء۷ لاکھ تھی۔ ظاہر سی بات ہے کہ آبادی زیادہ ہونے کی وجہ سے وادیِ کشمیر کی اسمبلی نشستوں کی تعداد ۴۶  اورجموں کی ۳۶تھی۔ مگر کمیشن کے سامنے بھارتیہ جنتا پارٹی کے نمایندے مرکزی وزیر جیتندر سنگھ نے دلیل دی ہے کہ آبادی کے بجائے رقبہ کو حد بندی کا معیار بنایا جائے۔ چونکہ جموں کا رقبہ ۲۶,۲۹۳  مربع کلومیٹر اور کشمیر کا ۱۵,۵۲۰ مربع کلومیٹر ہے، اسی لیے ان کا کہنا ہے کہ جموں کی سیٹوں میں اضافہ ہونا چاہیے۔ نئی اسمبلی میں اب ۹۰نشستیں ہوں گی۔ مگر جغرافیہ کو معیار بنانے کے بعد ان کی پارٹی کو ادراک ہوگیا کہ جموں خطے کی سیٹیں تو بڑھ جائیں گی ، مگر اس سے مسلم اکثریتی علاقوں پیر پنچال اور چناب ویلی کو فائدہ ہو رہا ہے، کیونکہ ان کا رقبہ جموں کے ہندو اکثریتی علاقے سے زیادہ ہے۔ ’مجرم بھی خود، مدعی بھی خود اور منصف بھی خود‘ کے مصداق اب نئے فارمولا کے تحت کل ۹۰نشستوں میں ۱۸سیٹیں دلتوں اور قبائل کے لیے مختص ہوں گی ۔ اس کے علاوہ جموں میں رہنے والے پاکستانی مہاجرین اور کشمیری پنڈتوں کے لیے بھی سیٹیں مخصوص رکھنے کے مطالبات پر غور ہو رہا ہے۔ دونوں خطوں کو برابر ۴۵سیٹیں دی جائے گی۔ پھر ان میں سیٹیں مخصوص ہوں گی، تاکہ وادیِ کشمیر سے مسلمان ممبران کم سے کم تعداد میں اسمبلی میں پہنچیں۔ جس ریاست میں مسلم آبادی کا تناسب ۶۸ء۵ فی صد ہے ، وہاں اسمبلی میں ان کا تناسب ۵۰ فی صد تک رہ جائے گا۔

۲۰۰۵ء میں حکومت کی طرف سے قائم جسٹس راجندر ’سچر کمیٹی‘ نے اس پر خوب بحث کی ہے کہ جن سیٹوں سے مسلم اُمیدواروں کی کامیابی کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں، ان کو دلتوں کے لیے مخصوص نشتوں کی فہرست میں ڈال کر وہاں سے کسی مسلم امیدوار کی قسمت آزمائی کے امکانات ہی ختم کردیئے گئے ہیں۔ اترپردیش کے نگینہ میں مسلمانوں کا تناسب ۲۱ء۴۳ فی صد اور دلتوں کا ۵ء۲۲ فی صد ہے، مگر اس کو دلتوں کے لیے ریزرو کرنے سے کوئی مسلم امیدوار انتخاب لڑ ہی نہیں سکتا ہے۔ اس کے برعکس دھورریا میں جہاں دلت ۳۰فی صد ہیں اور مسلمان کم ہیں ، انھیں جنرل نشستوں کی فہرست میں رکھا گیا ہے ۔ سچر کمیٹی نے ایسی بہت سی نشستوںکی فہرست شائع کرتے ہوئے مطالبہ کیا تھا کہ دلتوں کے لیے انھی نشستوںکو مخصوص کیا جائے ، جہاں دلت آبادی ۳۰فی صد سے زیادہ ہے۔ اس فارمولا کی وجہ سے قانون ساز اداروں میں مسلم نمایندگی قابو میں رہتی ہے اور چونکہ مسلمان ان سیٹوں کو ریزرو کرنے کی مخالفت کرتے ہیںتو ان کو دلتوں کے حقوق کے مخالفین کے طور پر پیش کرکے ان دونوں طبقوں کو آپس میں لڑوانے کا بھی کام ہو جاتا ہے۔ یہی کچھ اب جموں و کشمیر میں بھی دہرایا جانے والا ہے ۔

جموں خطے میں مسلمان ۳۱فی صد، دلت ۱۸فی صد، برہمن ۲۵فی صد، راجپوت یا ڈوگرہ ۱۲فی صد ، ویشیا، یعنی بنیا ۵فی صد اور دیگر، یعنی سکھ وغیرہ ۹فی صد کے لگ بھگ ہیں۔ افسر شاہی میں تو پہلے ہی مقامی مسلمانوں کو پتہ صاف ہوچکا تھا۔ خود حکومت جموں و کشمیر کے اعداد و شمار کے مطابق ۲۴سیکرٹریوں میں بس پانچ مسلمان ہیں۔ ۵۸؍اعلیٰ سرکاری افسران میں بس ۱۲مسلمان ہیں۔ دوسرے درجہ کے افسران، یعنی کشمیر ایڈمنسٹریٹو سروس میں بھی ۴۲فی صد مسلمان ہیں، جب کہ ان کی آبادی  ۶۸فی صد سے زائد ہے۔ پولیس کے ۶۶؍اعلیٰ افسران میں صرف سات ہی مقامی مسلمان ہیں۔

سنکیانگ میں ایغور مسلمانوں پر مظالم کو مغربی دنیا، چین کے خلاف ایک ہتھیار بنانے سے قبل بھارت کو ایک جمہوری اقدار والے ملک کے بطور پیش کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ اس ضمن میں امریکا سمیت مغربی ممالک بھارت پر زور دے رہے ہیں کہ ’’کشمیر پر کچھ پیش رفت دکھا کر اپنے آپ کو چین کے مقابلے ایک فراخ دل پاور کے رُوپ میں پیش کرے‘‘۔ ۲۴جون کی مذکورہ میٹنگ سے قبل برطانیہ میں منعقد گروپ ۷کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے، نریندرا مودی نے بھارت کو ’جمہوری اقدار اور آزادی کا محافظ‘ قرار دیا۔ یہ مذاق ہی سہی، مگر اس مذاق کو حقیقت کا رُوپ ڈھالنے کے لیے بھارت سے مطالبہ کیا جانا چاہیے تھا کہ ’’وہ ان جمہوری اقدار اور جمہوری آزادی کا اطلاق کشمیر میں بھی کرے اور کم از کم سیاسی قیدیوں کی رہائی ہی یقینی بنائے‘‘۔ شاید ۲۴جون کی اس میٹنگ میں آنے سے قبل نیشنل کانفرنس اور بیک چینل سے جاری مذاکرات میں خود پاکستان اس کو پیشگی شرط کے طور پر پیش کرسکتا تھا۔ مگر کیا کیا جائے، ناز ک اوقات میں مسلم نمایندگی کرنے والے، حیران کن جلدبازی کا شکار ہوجاتے ہیں۔

’’عرب مُردہ باد‘‘، ’’عربوں کے گائوں جلتے رہیں، جلتے رہیں‘‘۔ یہ وہ نعرے ہیں، جو اسرائیلی آبادکاروں کا ’پرچم مارچ‘ قدیم مقبوضہ بیت المقدس کی گلیوں میں لگاتاہوا ۱۵ جون ۲۰۲۱ءکو گزر رہا تھا۔ ان میں زیادہ تعداد انتہا پسندوں کی تھی۔ یہ انتہاپسند ،نسل پرست صہیونیت سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کی ایک پہچان یہ بھی ہے کہ یہ ’گوری بالادستی‘ پر بھی یقین رکھتے ہیں۔ سیکنڈے نیویا کے ممالک، امریکا، کینیڈا اور نیوزی لینڈ میں ان کی قابلِ لحاظ تعداد موجود ہے۔

اسرائیلی آبادکاروں کی اکثریت دراصل انھی انتہاپسند صہیونیت سے تعلق رکھنے والے صہیونی آبادکاروں پر مشتمل ہے، جنھیں دوسرے ممالک سے لاکر یہاں آباد کیا گیا ہے اور ان کی بستیاں بسائی گئی ہیں۔ مقبوضہ بیت المقدس اور مغربی کنارے کے علاقوں میں جا بجا یہ بستیاں اپنے طرزِ تعمیر سے الگ تھلگ مقامات پر موجود ہیں۔

صہیونی، عرب مقبوضات پر اسرائیلی قبضے کی سالگرہ ہر بار ’پرچم مارچ‘ کے ذریعے مناتے ہیں۔ جون ۱۹۶۷ء کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران ان علاقوں پر قبضہ کیا گیا تھا۔ یاد رہے مشرقی بیت المقدس بھی مقبوضہ علاقہ ہے۔ اس سال جب یہ مارچ نکالا گیا تو جلوس وہاں کے فلسطینی علاقوں سے گزرا اور فلسطینیوں کے خلاف نفرت انگیز اور اشتعال بھرے نعرے لگاتا رہا۔

اس مارچ کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ یہ ایک صدی پہلے کے اس ’نازی مارچ‘ سے گہری مماثلت رکھتا ہے، جو پہلی جنگ ِ عظیم کے بعد یورپ میں نکالا جاتا تھا۔ اس کی حالیہ مماثلت امریکا میں نکالے جانے والے مارچ سے بھی ہے، جو نسلی منافرت اور گوری بالادستی کے پیروکار نکالتے رہتے ہیں کہ ’’امریکا سے کالوں اور رنگ دارنسل والوں کو نکالو‘‘۔

مقبوضہ بیت المقدس میں نکالا گیا یہ مارچ، سفیدفام امریکی قوم پرستوں کے ۲۰۱۷ء کے مارچ سے بھی ملتا جلتا ہے۔ یہ مارچ شارلو ٹزویل (ورجینیا) میں نکلا تھا، جو ’گوری بالادستی‘ کے نعرے لگا رہا تھا۔ ان کے نعروں میں صدیوں سے آباد امریکیوں ہی سے کہا گیا تھا کہ ’تم ہماری جگہ نہیں لے سکتے‘۔ شارلو ٹزویل اور مقبوضہ بیت المقدس میں نکالے جانے والے مارچوں میں صرف ایک فرق یہ تھا کہ اسرائیل میں مارچ کو کسی قسم کی رکاوٹ کا سامنا کرنا نہیں پڑا۔ مگر اس کے برعکس فلسطینیوں کو اس مارچ کے راستے میں آنے سے زبردستی روک دیا گیا۔ امریکی اور صہیونی مارچوں میں مماثلت یہ تھی کہ یہ مخالفین کے قتل عام اور شدید نسلی منافرت کے نعرے بلند کر رہے تھے۔

مقبوضہ بیت المقدس کی سڑکوںاور گلیوں میں ہرطرف فلسطینیوں سے نفرت اور ان کو بے دریغ قتل کرنے کے عزائم ظاہر کیے جارہے تھے۔

 امریکی ’گوری بالادستی‘ اور ’صہیونی منافرت‘ کے ان مارچوں میں یہ مماثلت کوئی اتفاقیہ بات نہیں ہے۔ ان میں مخالف کے لیے شدید نفرت کے ساتھ ساتھ مقبوضہ بیت المقدس کے مارچ سے امریکی استعماریت سے گہری وابستگی کا بھی اظہار کیا گیا۔ یہ امریکی استعماریت، مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے عرب مسلمانوں کے خلاف مسلسل روا رکھی جانے والی پالیسی ہے۔

  • امریکی استعماریت:مئی ۲۰۲۱ء میں ’شیخ جراح‘ کے علاقے میں مقیم نوجوان فلسطینی خاتون مونا الکرد نے بتایا کہ ’’میرے ایک پڑوسی صہیونی آبادکار جیکب نے مجھے بے دخل کر کے میرے گھر پر قبضہ جمالیا۔ میں نے اسے کہابھی کہ تم جانتے ہو کہ یہ تمھارا گھر نہیں ہے۔ مگر اس صہیونی نے جواب دیا: ’’میں تمھارے گھر آ گیا ہوں۔ اب تم واپس نہیں آسکتی۔ یہاں سے چلی جائو اور مجھے گھور کر مت دیکھو‘‘۔

اس واقعے کی وڈیو بنی اور دُنیا بھر نے صہیونی نسل پرستوں پر لعن طعن کی۔ بعد میں یہ بات کھلی کہ وہ نیویارک سے یہاں آیا تھا اور پچھلے امریکی صدر ٹرمپ کا پُرجوش حامی و مددگار رہا تھا۔ اس کا تعلق امریکا میں آبادکار تنظیم ’نہالات شمعون‘ سے تھا۔ کسی کو بھی اس انکشاف پر حیرت نہ تھی کہ وہ امریکا سے آیا آبادکار تھا اور اس نے یہ حرکت کی تھی۔ یاد رہے تنظیم نہالات بھی ’گوری بالادستی‘ کے لیے کام کرتی ہے۔

امریکا سے آئے ایسے ہی آبادکار برسوں سے ایسی اشتعال انگیز اور انسانیت کُش کارروائیوں میں ملوث ہیں۔ وہ فلسطینیوں کو ان کی جائیداد اور گھر یا کاروبار سے بے دخل کرکے ان پر قابض ہوجاتے ہیں۔ انھیں اسرائیلی حکومت اور سپریم کورٹ کی پوری پشت پناہی حاصل ہوتی ہے۔

یہ نئے اسرائیلی آبادکار اپنے جرائم کی وجہ یا جواز یوں بیان کرتے نظر آتے ہیں کہ ’’ہم اس سرزمین کے اصل وارث ہیں۔ ہم یہاں کے مقامی لوگوں سے تہذیبی اعتبار سے بہتر ہیں۔ ہم صرف اور صرف خود اپنا دفاع کر رہے ہیں‘‘۔

اس سیاست اور جرم کو سمجھنے کے لیے اسرائیل کے نئے وزیراعظم نیفتالی بینیٹ کی اب تک کی زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو آسانی سے معلوم ہوجائے گا کہ اسرائیل اور امریکا کے ’گوری بالادستی‘ کے مقاصد اور طریقہ ہائے کار میں کس قدر مماثلت پائی جاتی ہے۔

موجودہ وزیراعظم کے والدین بھی سان فرانسسکو سے نقل مکانی کرکے ۱۹۶۷ء کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد فلسطین آئے تھے۔ وہ آبادکاروں کی تنظیم ’یشا کونسل‘ (Yesha Council) کے سربراہ بھی رہے۔ یہ تنظیم امریکا میں اسرائیل کے تزویراتی مفادات کا دفاع اور تحفظ کرتی ہے۔ یہ تنظیم دریائے اُردن اور بحیرئہ روم کے درمیان آبادکاروں کے معاشی مفادات کے لیے کام کرتی ہے۔ انھوں نے اپنی سیاست کا آغاز بنجمن نیتن یاہو کے کٹھ پتلی کے طور پر کیا۔ وہ اس بات پر برملا فخر کا اظہار کرتے ہیں کہ وہ یاہو سے بڑے نسل پرست سیاست کے علَم بردار ہیں۔

نیفتالی، مغربی کنارے کے مقبوضہ فلسطینی علاقے کو اسرائیل میں ضم کرنے کی تیاریاں کرچکے ہیں۔ موصوف کا برملا یہ دعویٰ ہے کہ ’’میں نے اپنی زندگی میں بے شمار عرب قتل کیے ہیں‘‘۔  ان کے خیال میں فلسطینی کم تر درجے کے انسان ہیں۔ وہ انھیں Sub-Human قرار دیتے ہیں، اور یہ عزم ظاہر کرچکے ہیں کہ جب بھی موقع ملا، وہ انھیں قیدکرنے، ان کی توہین کرنے، حتیٰ کہ قتل کرنے سے بھی دریغ نہیں کریں گے۔ نئے اسرائیلی وزیراعظم کی پوری زندگی ایک ایسے نسلی قوم پرست کی رہی ہے، جو فلسطینی خون بہانے اور ان کی زمین ہتھیانے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا۔

  • امریکی استعمار کا یہودی چہرہ: فلسطینی امریکی دانش ور ایڈورڈ سعید نے استعماریت اور یہودیت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا تھا:

اس اتفاق میں ذرہ برابر مبالغہ آرائی نہیں ہے کہ صہیونیت کے ستائے فلسطینیوں اور امریکا کے کالے، پیلے اور برائون لوگوں کے تجربات میں گہری مماثلت پائی جاتی ہے۔ ان سب انسانوں کو کم تر انسانوں سے بھی کم تر قرار دیا جاتا ہے۔ ان کو انیسویں صدی کے استعماریوں کے ہاتھوں ایک جیسے حالات کا سامنا رہا ہے۔

ایڈورڈ سعید نے ۱۹۷۹ء میںایک مضمون لکھا تھا کہ ’’یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ مغربی ہوس ناکی نے سمندرپار علاقوں پر قبضہ جمانے کی راہ اختیار کیے رکھی اور صہیونیت بھی کسی طرح سے پیچھے نہ رہی۔ صہیونیت نے خود تو کبھی اعتراف نہیں کیا کہ وہ یہودیوں کی تحریک ِ آزادی کا ہی تسلسل ہے بلکہ اس نے اپنا عملی تعارف یہود کی آبادکاری کی تنظیم کے طور پر کرایا ہے‘‘۔

سعید کا مزید کہنا ہے کہ ’’مقامی آبادیوں اور ثقافتوں کے خلاف کارروائیوں سے یہودی بستیاں بسانے کی ایسی ہی پالیسیاں اور پروگرام جاری رکھے گئے ہیں۔ انھی تصورات پر مبنی امریکی قوم پرستی اور استعماریت کو کھڑا کیا گیا تھا۔ یہی سب کچھ صہیونیت کا اٹوٹ انگ ہے۔ اس کے ذریعے ہی اب فلسطینیوں کو ان کی املاک سے محروم کیا اور خود ان کی زندگی کو ختم کیا جارہا ہے‘‘۔

آج بظاہر دُنیا پر امریکی بالادستی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ صہیونیت، اسرائیل میں امریکی استعماریت کا ہی تسلسل ہے اور فلسطینی ان کا ہدف ہیں۔

  • یہودیوں کا کردار:یہودی سیاسی ورکر اپریل روزن یلم نے ۲۰۰۷ء میں اپنے پمفلٹ ماضی کہیں نہیں جاتا [The Past Did'nt Go Any Where] میں لکھا تھا کہ یہود مخالف نکتہ یہ ہے کہ ’’یہودی چہرہ سامنے رکھا جائے تاکہ صہیونی حکمران طبقات کے بجائے یہودی عوام کے غصے کا نشانہ بنتے رہیں‘‘۔

روزن بلم نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا تھا کہ حکمران طبقات نے صدیوں سے یہودیوں کو مڈل مین کے کردار میں پیش اور استعمال کیا۔ یہودی کسان بھی حکمرانوں کی غیرمنصفانہ پالیسیوں کا براہِ راست نشانہ بنتے رہے ہیں اور آج بھی امریکی استعماریوں اور صہیونیوں نے اپنے ہم مذہب یہودیوں کو بفر کے طور پر ہی استعمال کیا ہے۔

درحقیقت، یورپ اور اس کے علاوہ صدیوں سے حکمران طبقات نے یہود سے نفرت کا بیج بویا ہے۔ یہودیوں کو اپنی ظالمانہ پالیسیوں اور اقدامات کے نتائج کا سامنا کرنے والا قربانی کا بکرا بنا دیا ہے۔ اب وہ وہی کچھ کر رہے ہیں اور سیاسی و تہذیبی طور پر اسے آگے بڑھا رہے ہیں، جو ان کی مطلوب پالیسیوں کے عین مطابق ہے۔

امریکا نے مقبوضہ فلسطین میں ان آباد کاریوں کے خلاف مصنوعات کے بائیکاٹ کی فلسطینی مہم کو کئی ریاستوں میں خلافِ قانون قرار دیا ہے۔ امریکی صدر بائیڈن حکومت میں بھی ایسے قوانین نافذ ہیں، جو اس مہم کو روکنے کے لیے استعمال ہورہے ہیں۔مغرب کا میڈیا ایک معمول کے طور پر اسرائیل کے حق میں دلائل کے انبار لگائے جارہا ہے۔ وہ اسرئیلی ریاست اور یہودیوں کو لازم و ملزوم قرار دیتا ہے۔

امریکا بظاہر یہ دعویٰ کر رہا ہے کہ وہ اسرائیل میں یہودیوں کا دفاع کررہا ہے۔ مگر دراصل وہ اسرائیل میں اپنے مفادات کو فروغ دے رہا ہے، جس سے اس کی اپنی سامراجیت قائم رہے۔  یہ امریکا میں سرگرم ’گوری بالادستی‘ کی تحریک ہی کا ایک بدنُما اور خونیں عکس ہے۔

آج یہودی آبادکاروں کی نسلی تشدد کی کارروائیاں جاری ہیں۔ ان کے خلاف غم و غصے کی لہریں توانا ہورہی ہیں۔ اس امر کی ضرورت ہے کہ امریکی استعماریوں اور صہیونیوں کو اسرائیل میں بے اثر کیا جائے تاکہ وہ قتل عام کی کارروائیوں کے ذریعے فلسطینیوں کے خلاف جاری مہمات روکیں۔ (الجزیرہ، انگریزی، ۸جولائی ۲۰۲۱ء)

بیسویں صدی کے دوران دنیا کے مختلف ممالک میں احیائے اسلام کی تحریکیں برپا ہوئیں، لیکن قید وبند اور شہادت کی آزمایشوں کی جو تاریخ مصر کی اخوان المسلمون نے رقم کی، وہ کسی اور کے حصے میں نہیں آئی۔ اخوان المسلمون کے بانی مرشدعام حسن البنا کو سربازار گولی مار کر شہید [۱۲فروری ۱۹۴۹ء]کردیا گیا۔ تنظیم کے متعدد رہنماؤں، جن میں جسٹس عبدالقادر عودہ، محمدفرغلی، یوسف طلعت، ابراہیم طیب اور ہنداوی دویر شامل تھے، ان کو ۸دسمبر ۱۹۵۴ء کو پھانسی دے دی گئی۔ ہزاروں کارکنوں کو کال کوٹھریوں میں ٹھونس دیا گیا۔ ان آزمایشوں کا شکار ہونے والوں میں مرد بھی تھے اور خواتین بھی، الحمدللہ، سبھی ثابت قدم رہے۔ پھر، سیّد قطب رحمہ اللہ کے پھانسی [۲۹؍اگست ۱۹۶۶ء] دیے جانے کے بعد، اخوان المسلمون پر مصائب کا ایک طویل دور شروع ہوا، مگر اس آزمایش کے باوجود اس کا دائرۂ کار پوری عرب دُنیا میں پھیل گیا۔

۱۹۷۰ء میں سفاک مصری ڈکٹیٹر جمال عبدالناصر کی وفات کے بعد انوار السادات مصر کے صدر بنے، جو کسی زمانے میں صدر ناصر اور اخوان المسلمون کے درمیان رابطہ کار تھے۔ اس پرانے تعلق کی بنا پر اخوان المسلمون نے ابتدا میں انوار السادات کی حکومت کی حمایت کی مگر بہت جلد یہ تعلقات خراب ہوتے گئے۔ اکتوبر ۱۹۸۱ء میں انوار السادات قتل کر دیے گئے اور حسنی مبارک مصر کے صدر بن گئے جو ۳۲ سال تک مصر کے سیاہ وسفید کے مالک رہے۔ ۲۰۱۱ء میں اخوان المسلمون کی عوامی بیداری کی تحریک کے نتیجے میں حسنی مبارک کی حکومت کا خاتمہ ہوا۔

۲۰۱۲ء میں اخوان المسلمون کی حمایت سے وجود میں آنے والی الحریہ والعدالہ (فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی) نے مصر میں ہونے والے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ اخوان المسلمون محمد خیرت سعد الشاطر کو صدر بنانا چاہتی تھی، مگرحسنی مبارک کی باقیات کے ہاتھوں جناب محمدخیرت کو ’نااہل‘ قرار دیے جانے کے بعد اس جماعت کے بانی چیئرمین محمد مرسی مصر کے صدر منتخب ہو گئے۔

محمد مرسی کو مصر کے مشہور عالم دین صفوت حجازی کی تائید بھی حاصل تھی۔ صدر منتخب ہونے کے بعد محمد مرسی نے حزب الحریہ والعدالہ (فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی) کی صدارت سے استعفیٰ دے دیا۔ یاد رہے محمد مرسی، نائن الیون کے واقعے کو امریکی سازش قرار دیتے تھے اور ان کا خیال تھا کہ اس سازش کا مقصد افغانستان اور عراق پر امریکی حملے کا جواز فراہم کرنا ہے۔ امریکا اس حوالے سے مرسی کے ان نظریات کا پُرزور مخالف تھا۔ محمد مرسی مصر کے نئے آئین پر شریعت کا رنگ غالب کرنے کے لیے کوشاں تھے۔ ان کی اسی خواہش پر ان کے اور مصری مسلح افواج کے درمیان خلیج پیدا ہوگئی۔ یوں محمد مرسی کو برسرِاقتدار آئے ہوئے صرف ایک سال گزرا تھا کہ انھیں ان کے عہدے سے ہٹا کر جنرل عبدالفتاح السیسی مصر کے حکمران بن گئے۔

محمد مرسی گرفتار کر لیے گئے۔ ان پر کئی دیگر جرائم کے مرتکب ہونے کا الزام لگایا گیا جن میں توہین عدالت کے الزامات شامل تھے۔ اپریل ۲۰۱۵ء میں انھیں اور ان کے ساتھیوں کو ۲۰،۲۰ سال قید کی سزا سنا دی گئی۔اس کے بعد محمد مرسی مسلسل قید میں ہی رہے۔۱۷ جون ۲۰۱۹ء کواس وقت جب کہ وہ عدالت میں پیش کیے گئے تھے، عدالت ہی میں گر کر بے ہوش ہوگئے اور اسی بے ہوشی میں خالق حقیقی سے جاملے: انا للہ   وانا  الیہ  رٰجعون۔

اخوان المسلمون کے حامیوں نے محمد مرسی کی اس موت کو ریاستی قتل قرار دیا اور کہا کہ محمدمرسی ملک کے منتخب صدر تھے، انھیں بلا جواز قید تنہائی میں رکھا گیا تھا۔ وہ ہائی بلڈ پریشر اور ذیابیطس کے مریض تھے۔ انھیں دانستہ طورپر مناسب طبّی سہولیات سے محروم رکھ کر موت کے منہ میں دھکیلا گیا۔

  • رابعہ العدویہ کا مقتل: اخوان المسلمون پر آزمایش کا ایک دور محمد مرسی کی اس برطرفی کے ساتھ چلا، جب احتجاج کرنے والے کئی ہزار اخوان مردوں، عورتوں، بچوں اور بچیوں کو گولیوں سے بھون دیا گیا۔معزول صدر محمد مرسی کے حامیوں کو منتشر کرنے کے لیے مصری فوج نے جس طرح وحشیانہ کارروائی کی، تاریخ میں ایسی مثال خال خال ملتی ہے۔

سب سے بڑا قتل عام رابعہ العدویہ میں کیا گیا تھا۔ اس کے بعد النہضہ چوک کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ جس میں ایک اندازے کے مطابق مرسی کے حامی ۴ہزار ۷سو ۱۲ مظاہرین کو تین گھنٹے کی جارحانہ کارروائی میں فوج نے بے دریغ قتل کیا ۔رابعہ عدویہ کا چاروں طرف سے محاصرہ کرکے گھناؤنا قتل عام انجام دیا گیا۔اس دوران جو کوئی اپنی جان بچا کر قریب کی مسجد میں پناہ گزیں ہوئے،  ان پر بھی دھاوا بول کر قتل عام کا ایندھن بنایا۔ رابعہ عدویہ مسجد کی جلی ہوئی حالت دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مسجد میں پناہ گزینوں پر کیا گزری ہوگی۔

  • پھانسیوں کا نیا سلسلہ: ڈاکٹر محمد مرسی کی شہادت کی تیسری برسی سے تین دن پہلے یعنی ۱۴ جون ۲۰۲۱ء کو مصر کی اعلیٰ سول عدالت نے سابق حکمران مگر اب کالعدم جماعت   اخوان المسلمون کے ۱۲ سینئر رہنماؤں کی سزائے موت کو برقرار رکھنے کا فیصلہ جاری کیا۔

ان کی پھانسی کے اس موجودہ فیصلے کے خلاف اب مزید اپیل نہیں کی جا سکتی، اور اس پر مصری صدر جنرل عبدالفتاح السیسی کے دستخط ہوتے ہی اخوان کے ان رہنماؤں کو پھانسی دے دی جائے گی۔اخوان المسلمون کے جن ارکان کو سزائے موت سنائی گئی ان میں: سابق رکن پارلیمنٹ ڈاکٹر محمد البلتاجی، ڈاکٹر صفوت حجازی، مفتی ڈاکٹر عبدالرحمن البر، ، ڈاکٹر احمد عارف اور سابق وزیر ڈاکٹر اسامہ یٰسین شامل ہیں۔

یاد رہے ستمبر ۲۰۱۸ء میں نام نہاد مصری عدالت نے اخوان کے ۷۵ کارکنوں کو پھانسی اور ۷۳۵؍ افراد کو ۱۵ سے ۳۰برس تک قید کی سزائیں سنائی تھیں۔ ان میں سے ۴۴؍افراد نے سزائے موت کے خلاف اپیل کی، جن میں سے۳۱ کی سزائے موت کو عمر قید میں بدل دیا گیا،جب کہ ۱۲کی سزائے موت برقرار رکھی گئی۔

دنیا بھر میں انصاف کی خاطر شمعیں روشن کرنے والوں کو شاید یہ تلخ حقیقت یاد نہیں ہے کہ اخوان کے سابق مرشد عام محمد مہدی عاکف، مرکزی رہنما عصام الدين محمد حسين العريان‎ کا اگست ۲۰۲۰ء میں جیل میں غیرقانونی اور فسطائی قید کے دوران ہی انتقال ہوچکا ہے اور اس سے قبل جیساکہ بتایا جاچکا ہے،مصر کے جمہوری طور پر پہلے منتخب صدر محمد مرسی نے ۲۰۱۹ء میں کمرۂ عدالت کی ایک پنجرہ نما جیل میں جام شہادت نوش کیا۔

۱۴ جون کو عدالت نے دیگر ملزمان کی قید کی سزائیں بھی برقرار رکھیں، جن میں اخوان کے مرشد عام محمد بدیع کی عمر قید اور محمد مرسی کے بیٹے اسامہ کی ۱۰ سال قید کی سزا بھی شامل ہے۔

اخوان المسلمون کے ان رہنماؤں کو ۲۰۱۳ء میں دارالحکومت قاہرہ میں رابعہ چوک پر دھرنے میں شرکت پر پھانسی کی سزا سنائی گئی ہے۔ ان پر الزام تھا کہ انھوں نے لوگوں کو اس دھرنے میں شرکت کی دعوت دی۔ یہ دھرنا ۲۰۱۳ء میں فوج کی جانب سے بغاوت کرکے منتخب صدر محمدمرسی کا تختہ الٹنے کے خلاف دیا جا رہا تھا۔

یہاں پر یہ امر بھی ذہن نشین رہے کہ اس سے قبل اخوان کے متعدد رہنماؤں کو فوج کے خلاف احتجاج پر پھانسی دی جا چکی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے مصر میں زیادہ سے زیادہ تعداد میں سیاسی مخالفین کو پھانسیاں دینے پر تشویش کا اظہار کرتے  ہوئےکہا ہے کہ ’’اس سال ۵۱؍ افراد کو سزائے موت دی جا چکی ہے‘‘۔

  • انسانی حقوق انجمنوں کی مذمت:انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ’ایمنسٹی انٹرنیشنل‘ کے شرق اوسط اور شمالی افریقہ [مینا] کے لیے ڈائریکٹر تحقیق اور ایڈوکیسی فلپ لوتھر نے مصر میں اخوان المسلمون کے ارکان کو سنائی جانے والی پھانسی کی حالیہ سزاؤں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’۲۰۱۸ء میں ناانصافی پر مبنی اجتماعی مقدمات کی سماعت کے دوران مصر کی اعلیٰ ترین سول عدالت کی جانب سے سنائی جانے والی بے رحمانہ سزائیں مصر کی شہرت پر ایک بدنما داغ ہیں، جس کا پرتو پورے ملک کے عدالتی نظام پر بھی پڑنے کا اندیشہ ہے‘‘۔

’ایمنسٹی انٹرنیشنل‘ نے مصری عدالتوں میں چلنے والے ان مقدمات کو مکمل طور پر غیر شفاف قرار دیتے ہوئے مصری حکومت سے سزائے موت پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا ہے۔ان پھانسیوں کو الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق ہیومن رائٹس واچ گروپ نے بھی ’خوفناک‘ قرار دیا۔

  • سول سوسائٹی کی تشویش:جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سراج الحق نے اس فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’اگر بین الاقوامی برادری کی طرف سے فوری اور فیصلہ کن اقدامات نہ کیے گئے تو مصری آمر ٹولہ مصر میں تمام جمہوری قوتوں کو ملیامیٹ کردے گا۔ اور ان ظالمانہ سزائوں پر عمل سے نوجوانوں کو خطرناک پیغام ملے گا‘‘۔ جماعت اسلامی ہند کے امیر سیّدسعادت اللہ حسینی نے ایک بیان میں اجتماعی مقدمے میں اخوان المسلمون کے رہنماؤں کی پھانسی کی سزا برقرار رکھنے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اقوام متحدہ اور عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ ’’وہ عدلیہ کی آڑ میں وحشت کا بازار گرم کرنے کی مصری حکومتی کوششوں کی مذمت کرے اور اس فوجی حکومت کو غیر انسانی اقدامات سے روکا جائے‘‘۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’’دنیا بھر کے علما، سول سوسائٹی، مغربی دنیا میں سرگرم انسانی حقوق کی انجمنیں اپنے اپنے ملکوں پر دبائو ڈالیں کہ وہ اس غیر منصفانہ اقدام پر عمل درآمد کی راہ روکنے کی خاطر اپنا مؤثر کردار ادا کریں‘‘۔

مصری حکومت کا اپنی کینگرو عدالتوں کے ذریعے پہاڑی کے ان چراغوں کو سزائیں دلوانا کوئی نئی اور عجیب بات نہیں۔ ماضی میں انھی عدالتوں سے حریت کے متوالوں کو فنا کے گھاٹ اتارنے کی سزائیں سنائی جا چکی ہیں، جن میں دسیوں پر عمل درآمد بھی کرایا جا چکا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ سزائیں آخری نہیں کیونکہ عدالتوں میں انصاف کے بجائے گھنائونی سیاست ہورہی ہے۔ ججوں کو حکومت وقت نے اپنا آلہ کار بنا کر سیاسی مخالفین کو کچلنے کا جو مذموم منصوبہ بنا رکھا ہے، اس کی قلعی کھل چکی ہے۔

قانون کے تقاضے پورے کیے بغیر سرسری سماعت کے بعد سزائیں کسی فوجی حکومت کا خاصہ تو ہو سکتی ہیں، جمہوریت کے دعوے داروں کو یہ حربے زیب نہیں دیتے۔ مقدموں میں گواہیاں پیش کرنے کے بجائے خفیہ ایجنسیوں کی رپورٹوں ہی کی بنیاد پر سیاسی مخالفین کو مجرم ثابت کرنے کے لیے مسلسل یہ خونیں کھیل کھیلا جا رہا ہے۔

  • قومی رہنماوں کی بے قدری کیوں؟! :مصر کی قومی زندگی کے ان جگمگاتے چراغوں کی زندگی کے سرسری جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ جنرل عبدالفتاح السیسی کی قیادت میں مصر میں برسراقتدار ۲۱ویں صدی کے نئے فرعون اپنے سیاسی مخالفین کا سیاسی میدان میں مقابلہ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔

اخوان المسلمون نے نامساعد حالات کے اندر عرب دنیا میں جس طرح اپنی مقبولیت کا  لوہا منوایا، وہ عرب حکمرانوں اور رجواڑوں کے لیے ڈراؤنا خواب ہے۔ انھیں خدشہ ہے کہ آج اگر عرب دنیا میں آزاد انتخاب کا ڈول ڈالا گیا تو ان کے خاندانی اقتدار دھڑام سے زمین پر آ رہیں گے۔

  • یہ روشن چراغ کون ہیں؟: یہاں پر ہم ان عظیم انسانوں کے تعارف کے طور پر چند سطور رقم کر رہے ہیں:

 

  • ڈاکٹر محمد البلتاجی: البحیرہ گورنری کے کفر الدوار شہر میں ۱۹۶۳ء میں پیدا ہوئے، قاہرہ کے علاقے شبرا میں پروان چڑھے۔ انھوں نے الازہر یونی ورسٹی سے میڈیکل کے پہلے بیج ۱۹۸۷ء میں ایم بی بی ایس کا امتحان رول آف آنر کے ساتھ پاس کیا۔

دو برس الحسین یونی ورسٹی ہسپتال میں بہترین ڈاکٹر کے طور پر خدمات سرانجام دیں اور وہیں سے ناک، کان اور گلہ کے شعبوں میں تخصص کے بعد الازہر کے کالج آف میڈیسن میں  استاد مقرر ہوئے۔ پھر ترقی کرتے ہوئے آپ اسی شعبے کے پروفیسر مقرر ہوئے۔

محمدالبلتاجی اوائل عمری سے دعوتِ دین اور خدمت عامہ کے کاموں میں سراپا متحرک رہنے کے عادی تھے۔ وہ اپنی آبائی میونسپلٹی کفرالدوار میں بھلائی اور خیرات کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ زمانہ طالب علمی میں الازہر کالج آف میڈیسن کی طلبہ انجمن کے صدر بھی رہے۔  وہ ڈاکٹروں کی انجمن کے نمایندے کے طور پر متعدد خیراتی میڈیکل کیمپوں اور قافلوں کے ہمراہ ملک کے اندر اور باہر سفر کرتے رہے، جہاں انھوں نے غریبوں اور یتیموں کا مفت علاج کیا۔ اپنے علم اور اخلاق میں نمایاں مقام رکھنے اور غریب مریضوں کا مفت علاج کرنے کے باعث ہردل عزیز شخصیت ہیں۔

محمد البلتاجی، اخوان المسلمون کے وہ حوصلہ مند قائد ہیں ،جن کی بیٹی کو رابعہ العدویہ میں ان کی آنکھوں کے سامنے تیزدھار آلے سے شہید کر دیا گیا اور ڈاکٹر البلتا کو اپنی شہید بیٹی کے جنازے میں شرکت کی اجازت بھی نہ ملی۔ اخوان المسلمون نے انھیں پارلیمنٹ کی رکنیت کا ٹکٹ دیا، جس پر وہ رکن اسمبلی منتخب ہوئے۔ انھوں نے قاہرہ کے علاقے شبرا الخیمہ میں پرائیویٹ ہسپتال قائم کیا۔ مصری پارلیمنٹ کا رکن منتخب ہونے کے بعد آپ پارلیمنٹ میں دفاع اور قومی سلامتی کی کمیٹی کے رکن کے طور پر خدمات سرانجام دیتے رہے۔انھوں نے اسلامی پارلیمنٹرینز کے بین الاقوامی کلب کی داغ بیل ڈالی، اور اسلامی نیشنل کانفرنس کی ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن منتخب ہوئے۔

ڈاکٹر صاحب نے قضیۂ فلسطین کا ہمیشہ مذہبی جوش وجذبے سے کیس پیش کیا اور غزہ کی پٹی کا محاصرہ ختم کروانے کی غرض سے بین الاقوامی کمیٹی تشکیل دی۔ البلتاجی مئی ۲۰۱۰ء میں غزہ کا محاصرہ ختم کروانے کی غرض سے ترکی سے بھیجے گئے ’فریڈیم فلوٹیلا‘ میں سوار تھے، جس پر اسرائیل نے غزہ پہنچنے سے قبل کھلے سمندر میں کمانڈوز کے ذریعے حملہ کر دیا تھا۔

ڈاکٹر البلتاجی نے ۲۵ جنوری ۲۰۱۱ء کے عوامی انقلاب میں بھی شرکت کی۔ آپ کو انقلاب کے ٹرسٹیوں کی مجلس کا رکن منتخب کیا گیا۔پھر وہ فوجی حکام کو سب سے زیادہ مطلوب شخص قرار دیئے گئے۔

 ان کے دو بیٹوں انس اور خالد کو بھی گرفتار کیا گیا اور تیسرا بیٹا فوج کے ظلم سے تنگ آکر ہجرت کرگیا۔ اس دوران ان کی بیوی کو جیل میں ملاقات کے دوران جیل کے پہرہ دار پر حملہ کرنے کے بے بنیاد الزام میں چھے ماہ قید کی سزا سنا دی گئی۔یہاں تک کہ ان کی والدہ نے بھی انھیں ۲۰۱۳ء سے ان کی گرفتاری کے بعد صرف ایک بار دیکھا، اور اس کے چھے سال بعد جب ان کا انتقال ہوا تو محمد البلتاجی کو اپنی والدہ مرحومہ کی تدفین میں شریک نہیں ہونے دیا گیا۔ حکومت نے عوام کے سامنے انھیں مجرم ثابت کرنے کے لیے لاکھوں ڈالر خرچ کیے ہیں۔لیکن ان کی بے گناہی کا سچ تو اس مسکراہٹ کی طرح بالکل واضح ہے، جو ان کے چہرے سے کبھی غائب نہیں ہوتی تھی۔

  • ڈاکٹر صفوت حجازی: مصر کی گورنری کفر الشیخ کے وسطی علاقے سیدی سالم میں ۱۹۶۳ء کو ایک علم دوست گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد الشیخ حمودہ حجازی الازہر یونی ورسٹی کی فکلیٹی آف اسلامک اسٹڈیز کے گریجویٹ تھے، جس کا ان کی زندگی اور تربیت پر گہرا اثر رہا، کیونکہ ان کے گھر اسلامی مفکرین اور علما کا اکثر آنا جانا رہتا تھا۔

انھوں نے پرائمری تعلیم سے پہلے قرآن پاک حفظ کرنے کی سعادت حاصل کر لی تھی۔ تعلیم کے مختلف مراحل مکمل کرتے ہوئے، وہ الجیزہ گورنری کے احمد السید ملٹری سیکنڈری اسکول میں داخل ہو ئے۔ڈاکٹر حجازی نے اسکندریہ یونی ورسٹی کے شعبہ مساحت اور نقشہ جات سے بی ایس کی ڈگری حاصل کی، جس کے بعد مدینہ، سعودی عرب میں ملازم ہوگئے، جہاں فارغ اوقات میں وہ مسجد نبوی کے دروس سرکل اور دارالحدیث میں جید علما کے سامنے زنوائے تلمذ طے کرتے رہے۔ چونکہ مسجد نبوی کے حلقہ درس میں آٹھ (۱۹۹۰ء-۱۹۹۸ء) برس تک حدیث کی تعلیم پائی، اس لیے حجازی کہلاتے ہیں۔ اس کے بعد وہ قاہرہ لوٹ آئے، جہاں انھوں نے مسجدوں میں درس کے حلقے قائم کر کے دعوت وتبلیغ کا سلسلہ شروع کر دیا۔ نیز مختلف چینلز پر دینی پروگرام اور دروس بھی ان کی اہم مصروفیات تھیں۔

انھوں نے ’اربن پلاننگ‘ کے مضمون میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ ان کے مقالے کا عنوان ’مدینہ منورہ کی تعمیراتی اسکیم‘ تھا۔ انھوں نے حدیث میں ڈپلومہ فرانس کی ڈیجون یونی ورسٹی سے حاصل کیا۔ ڈیجون یونی ورسٹی ہی سے انھوں نے پی ایچ ڈی کی ڈگری ’’انبیا و رُسل، اہلِ کتاب اور مسلمانوں کے ہاں: تقابلی جائزہ‘‘ کے عنوان سے دقیق مقالہ تحریر کرکے حاصل کی۔

۲۵ جنوری ۲۰۱۱ء کے انقلاب میں آپ ہراول دستے کا حصہ تھے، جس کی وجہ سے انھیں ’میدان کا شیر‘ کہہ کر پکارا جانے لگا۔ انھیں ۲۱؍ اگست ۲۰۱۳ء کو مرسی مطروح گورنری سے حراست میں لیا گیا اور ان کے خلاف متعدد الزامات میں مقدمات درج کر دیے گئے۔ بعد ازاں کٹھ پتلی مصری عدالتوں نے انھیں عمر قید سے سزائے موت تک کی سزائیں دلوائیں۔

  • ڈاکٹر اسامہ یاسین نے ۱۹۶۴ء میں مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں آنکھ کھولی۔ انھوں نے عین شمس یونی ورسٹی سے ایم بی بی ایس کا امتحان پاس کیا، پھر ۱۹۹۵ء میں بطور ماہر اطفال ایم ایس کی ڈگری حاصل کی۔ پی ایچ ڈی کی ڈگری انھوں نے ۲۰۰۸ء میں حاصل کی۔ آپ ۲۰۱۲ء میں مصری پارلیمنٹ کی یوتھ کمیٹی کے رکن منتخب ہوئے اور  بعد میں امور نوجوانان کے وزیر بنے۔ انقلاب ۲۵ جنوری ۲۰۱۱ء کی سرگرمیوں کے دوران آپ اخوان المسلمون کے فیلڈ کوارڈی نیٹر مقرر ہوئے۔ آپ مصری انقلاب کے اواخر میں ’کوارڈنیشن ری پبلکن کمیٹی‘ میں اخوان المسلمون کی نمایندگی بھی کرتے رہے ہیں۔
  • ڈاکٹر عبد الرحمٰن البر، الازہر یونی ورسٹی میں علوم حدیث کے پروفیسر تھے۔ بخاری شریف کے شارح، مستند محدث اور ۲۲ کتب کے مصنف، جو سعودی جامعات میں حدیث پر پی ایچ ڈی کے مقالوں کی نگرانی کا فریضہ سرانجام دے چکے ہیں۔ الازہر یونی ورسٹی میں سرکردہ علما کمیٹی کے رکن تھے۔ مگر یہ سب علما ’دہشت گرد‘ قرار پا کر قابل گردن زدنی قرار پائے۔
  •  ڈاکٹر احمد عارف: ماہر دندان ساز ہیں، جنھوں نے اپنے شوق اور علمی ذوق کی تسکین کی خاطر علوم شریعہ کی تعلیم بھی حاصل کی۔ آپ ایک شعلہ بیان مقرر ہیں، جو انقلاب کے بعد اخوان المسلمون کی ترجمانی کا فریضہ بھی ادا کرتے رہے ہیں۔ ڈاکٹر احمد ماہر ڈاکٹروں کی پیشہ وارنہ یونین کے اسسٹنٹ جنرل سیکرٹری بھی رہے ہیں۔پھانسی کی سزا پر عمل درآمد کے منتظر مصر کے ان عظیم قومی رہنماؤں اور خادموں کی جدوجہد سے عبارت زندگی کا مختصر جائزہ دنیا کے انصاف پسند اور باضمیر عوام کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔ ایسے دسیوں ڈاکٹر، انجینئر، پروفیسر، سینیٹ اور قومی اسمبلی کے ارکان مصر کی جیلوں اور کال کوٹھریوں میں گذشتہ نوبرس سے قید ہیں۔

عدل وانصاف کسی ملک کی بنیاد ہوتے ہیں اور ظلم کا نظام کسی ملک کی شہری زندگی کو تہہ وبالا کرکے رکھ دیتا ہے۔ یہ اصول مختلف طرح اپنا رنگ دکھاتا ہے۔ تہذیب وتمدن اور ملک اللہ کے بنائے ہوئے قوانین کے تابع چلتے ہیں اور یہ دنیا انھی کے تابع رہ کر خیر کا نمونہ بن سکتی ہے۔ناانصافی ایک خوفناک ردعمل جنم دیتی ہے۔ جس کے نتائج ملکوں اور عوام کے لیے تباہ کن ہوتے ہیں۔ جب ظلم کسی معاشرے میں پھیلتا ہے تو اسے برباد کر دیتا ہے ۔ جب یہ کسی قصبے میں پنجے گاڑتا ہے تو وہ صفحۂ ہستی سے مٹا دیا جاتا ہے: وَسَـيَعْلَمُ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْٓا اَيَّ مُنْقَلَبٍ يَّنْقَلِبُوْنَ۝۲۲۷ۧ  (الشعراء ۲۶: ۲۲۷) ’’اور ظلم کرنے والوں کو عنقریب معلوم ہوجائے گا کہ وہ کس انجام سے دوچار ہوتے ہیں‘‘۔

ظلم اور ظالموں کی سرکشی پر خاموشی یا مجرمانہ غیرجانب داری اختیار کرنے کا نتیجہ، نیک وبد سب کی تباہی کی صورت میں نکلتا ہے: وَاتَّقُوْا فِتْنَۃً لَّا تُصِيْبَنَّ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا مِنْكُمْ خَاۗصَّۃً۝۰ۚ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ۝۲۵ (الانفال۸:۲۵) ’’اور بچو اُس فتنے سے، جس کی شامت مخصوص طور پر صرف اُنھی لوگوں تک محدود نہ رہے گی، جنھوں نے تم میں سے گناہ کیا ہو، اور جان رکھو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے‘‘۔

حدیث مبارک صلی اللہ علیہ وسلم میں آتا ہے کہ جب لوگ ظالم کو دیکھیں اور اسے روکنے کی کوشش نہ کریں تو بعید نہیں کہ ان پر بھی اسی ظالم جیسا عذاب آ جائے۔ اِنَّ النَّاس اِذَا رَأَوُا الظَّالِمَ فَلَم يَأْخُذُوا عَلٰى يَدَيهِ أَوشَكَ أَنْ يَعُمَّهُمُ اللهُ  بِعِقَابٍ  مِنْہُ۔

حیدر علی آتش [۱۷۷۷ء-۱۸۴۶ء]کا شعر ہے  ؎

زمینِ چمن گل کھلاتی ہے کیا کیا
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسےکیسے

آج سے تین سال پہلے میں نے روزنامہ دی نیوز کے لیے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ ’’افغانستان میں امن، مذاکرات کے ذریعے نہیں آئے گا بلکہ جنگ کے ذریعے ہی آئے گا‘‘۔ آج جب ہم زمینی حالات کو دیکھتے ہیں تو یہ بات ٹھیک ہی معلوم ہوتی ہے۔

تاہم، اُس وقت مجھے دوستوں نے کہا کہ ’’آپ یہ کیسی باتیں کر رہے ہیں؟ یہ کوئی ۱۹۹۶ء تو نہیں ہے۔طالبان کو بھی اپنی حدود (Limitations)کا احساس ہوچکا ہے۔ اس کے بجائے کہ  وہ جنگ کریں، خود ان کی بھی یہی خواہش ہوگی کہ وہ کابل حکومت کے ساتھ کچھ لو دو پر معاملات طے کرلیں اورعارضی یا عبوری طور پر ہی سہی، کوئی نہ کوئی معاہدہ ان کے ساتھ ہوجائے‘‘۔

لیکن آج بھی میرا یہی خیال ہے کہ ’’افغانستان میں اگر امن آئے گا تو سول وار کے بعد ہی آئے گا ‘‘۔ ’کچھ لو اور کچھ دو‘ طالبان کا مزاج نہیں ہے۔ وہ ایک تحریک ہیں، جو افغانستان کو امارت اسلامیہ افغانستان بنانا چاہتے ہیں۔ اگرچہ اس مرتبہ وہ معاملات کا کہیں زیادہ ادراک رکھتے ہوں گے کہ دُنیا ۱۹۹۶ء والی ’طالبانائزیشن (Talbanisation) کو قبول نہیں کرےگی۔  اس لیے وہ اپنے انداز میں ضرور کچھ تبدیلیاں کریں گے۔

 ہم نے حالیہ عرصے میں یہ دیکھا ہے کہ امریکا نے بھی طالبان سے روابط قائم کیے اور  پھر ان روابط کے نتیجے میں ۲۹فروری ۲۰۲۰ء کو ایک معاہدہ بھی ہوا۔ اسی طرح روس، چین، ایران اور ترکی نے بھی طالبان سے روابط بڑھائے ہیں۔ لیکن معلوم نہیں کہ پاکستان کیوں اپنے آپ کو تذبذب کی کیفیت میں ڈال کر اس پوزیشن کی جانب دھکیل رہا ہے، جو بالکل غیر ضروری ہے اور آخری تجزیے میں اس رویے سے پاکستان کے ہاتھ سوائے نقصان کے کچھ نہیں آئے گا۔

مثال کے طور پر ۳جون کو چوتھا سہ فریقی اجلاس چین، پاکستان اور افغانستان کی اشرف غنی حکومت کے وزرائے خارجہ کے درمیان ہوا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس اجلاس کی کیا ضرورت تھی؟ بنیادی طور پر امریکی صدر بائیڈن کی حکومت نے ایک تجویز دی کہ اقوام متحدہ کے تحت استنبول میں ایک میٹنگ ہو۔ لیکن وہ نہیں ہوئی تو اسے جانے دیجیے۔ آپ ایسےمعاملات میں کیوں پڑتے ہیں، جن سے لگتا ہے کہ آپ طالبان کے خلاف پوزیشن لے رہے ہیں۔ ۳جون ۲۰۲۱ءکو جو نشست ہوئی، اس کے جاری کردہ اعلامیے میں یہ زبان استعمال کی گئی کہ ’طالبان دہشت گرد‘ ہیں۔ یہ مقدمہ یا موقف تو کابل حکومت کاہے۔ وہ ایک طرف طالبان کو ’دہشت گرد‘کہتے ہیں اور دوسری طرف ان سے مذاکرات بھی کرنا چاہتےہیں۔ ہمارا نہایت بنیادی سوال یہ ہے کہ ہم نے اس قسم کے اعلامیے سے کیوں اتفاق کیا؟ یہ چیز ہماری سمجھ سے بالاتر ہے؟

دوسری طرف اسی اعلامیہ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’’تینوں ممالک نے اس بات پر اتفاق کیا کہ جو حکومت افغانستان میں طاقت کے ذریعے آئےگی،اس کی حمایت نہیں کی جائے گی‘‘۔ اب یہ کوئی کہنے کی بات ہے۔ نائن الیون کے بعد  امریکی قیادت میں نیٹو فورسز کی قوت کے بل پر ہی قبضے کے بعد افغانستان میں حامد کرزئی اور اشرف غنی وغیرہ کی حکومتیں بنیں۔ مراد یہ ہے کہ ان کو جبری طور پر قابض طاقتوں کے ذریعے اقتدار میں لایا گیا۔ یہ حکومتیں کسی جمہوری طریقے سے اقتدار میں نہیں آئی تھیں۔ حتیٰ کہ اس وقت بھی ڈاکٹر اشرف غنی کی حکومت کی کیا حیثیت ہے؟ ان کے انتخابات میں ووٹوں کا کتنا ٹرن آئوٹ تھا؟ اس وجہ سے یہ کہنا کہ ’’جو حکومت طاقت کے ذریعے آئے گی، اس کی حمایت نہیں کی جائے گی‘‘، دراصل طالبان کے خلاف اشرف غنی حکومت کی تحسین اور تائید کرنا ہے کہ جن کی کابل سے باہر کوئی رِٹ ہی نہیں ہے۔

چونکہ یہ بات سراسر طالبان کے خلاف جاتی ہے،اس لیے ہمارا سوال یہ ہے کہ آخر ہم اپنے آپ کو ایسی پوزیشن میں کیوں ڈال رہے ہیں؟ ہم غیرضروری طور پر پاکستان کو کابل انتظامیہ کے ساتھ کیوں کھڑا دیکھنا چاہتے ہیں؟ ہم نیوٹرل (غیر جانب دار) بھی رہ سکتے ہیں۔ ہمیں کوئی ضرورت نہیں ہے کہ ہم طالبان کے خلاف بات کریں یا اس وقت کابل میں محدود سی پوزیشن رکھنے والی حکومت کے حق میں بے جا طور پر بات کریں۔ اس قسم کے عمل میں ہم کیوں پڑرہے ہیں؟

ہم چین سے اور دیگر ممالک سے مذاکرات یا کانفرنسیں کرسکتے ہیں اور غیر رسمی طور پر ملاقاتیں بھی ہوسکتی ہیں۔ لیکن ہمارے قومی مفادات کے حوالے سے اس قسم کی میٹنگوں کی کوئی گنجایش نظر نہیں آرہی ہے کہ جیسی مذکورہ بالا سہ فریقی میٹنگ کی گئی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ  اقوام متحدہ کے تحت طالبان کسی میٹنگ پر اتفاق کرلیں۔ تاہم، ابھی تک امریکی صدر بائیڈن کی تجویز کردہ میٹنگ نہیں ہوسکی اور طالبان کسی ایسی میٹنگ کے لیے تیار بھی نہیں ہیں کہ جس میں ان پر جنگ بندی اور دیگر شرائط عائد کی جائیں۔ وہ اپنی ترتیب دی ہوئی حکمت عملی کے تحت پورے اعتماد کے ساتھ اس پر عمل پیرا ہیں۔

وزیراعظم عمران خان نے ۴جون ۲۰۲۱ء کو عالمی نیوز ایجنسی رائٹرز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ’’افغان مسئلے پر پاکستان میں خاصی تشویش پائی جاتی ہے۔ امریکی فوجوں کے انخلا کے بعد افغان طالبان سے مصالحت آسان نہیں ہوگی۔ ہماری افغانستان کے حوالے سے پالیسی تبدیل ہوگئی ہے۔ ہمیں وہاں اسٹرے ٹیجک ڈیپتھ کی ضرورت نہیںہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ وہاں ہماری دوست حکومت آئے‘‘۔

بلاشبہہ یہ درست بات ہے کہ مغربی سرحد پر ہمیں افغانستان میں ایک پاکستان دوست حکومت کی ضرورت ہے تاکہ ہمیں پریشانی نہ ہو، جو ماضی میں ہوتی رہی ہے۔ مگر یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ بھارت نےپچھلے ۱۶ برسوں میں وہاں کافی جگہ بنائی ہے اور ہماری قیمت پر یہ جگہ بنائی ہے اور اس طرح ہمیں بہت نقصان پہنچایا ہے۔ صوبہ بلوچستان اور کراچی شہر میں بڑے پیمانے پر دہشت گردی اور پھر بھارتی جاسوس اور دہشت گرد کمانڈر کلبھوشن یادو کی گرفتاری کو سب جانتے ہیں۔ اس صورتِ حال میں ہمیں اب کسی ایسے عمل کا حصہ نہیں بننا چاہیے، جس سے طالبان یہ تاثر لیں کہ ہم ان کے خلاف پوزیشن لے رہے ہیں۔ طالبان کی کسی پالیسی پر اگر ہم اثرانداز ہونا چاہتے ہیں تو اس کے اور بھی بہت سے طریقے ہیں، بجائے اس کے کہ ہم اس طرح سے عوامی سطح پر بیانات جاری کریں۔

وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے ایک پریس کانفرنس میں افغانستان کے نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر حمداللہ محب کو سختی سے سنادیا کہ ’’آپ نے پاکستان کے خلاف بڑی ناروا باتیں کی ہیں‘‘۔ ٹھیک ہے، یہ بات کہنا بنتا بھی ہے، لیکن اس بات کا خیال رہے کہ پورا افغانستان اس وقت ایک مشکل دور سے گزر رہا ہے۔ ایک فیصلہ کن مرحلہ اب آنے والا ہے۔ یہ مرحلہ ایک سال میں آتا ہے یادو سال میں، یہ پیش گوئی کرنا مشکل ہے۔ لیکن یہ بات بالکل واضح ہے کہ افغانستان میں بالآخر طالبان حاوی ہوجائیں گے۔ وہ آہستہ آہستہ اپنے قدم بڑھا رہے ہیں۔ انھیں کابل پہنچنے میں کتنا وقت لگتا ہے، متعین طور پر بتانا ممکن نہیں ہے، لیکن پاکستان پر لازم ہے کہ وہ اپنے آپ کو صحیح پوزیشن میں رکھے۔ طالبان میں ہم جو تھوڑا بہت اعتماد اور رسوخ رکھتے ہیں، اس کا یوں احساسِ برتری کے ساتھ اظہار کرکے بھی ہم غلط کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہمارے وزیرخارجہ نے حمداللہ محب کو یہ بھی کہا ہے کہ ’ہمارے بغیر کابل میں امن نہیں ہوسکتا‘۔ جب ہم اس قسم کے بیانات دیتے ہیں تو پھر واضح سی بات ہے کہ لوگ افغانستان کی صورتِ حال کے حوالے سے پاکستان کو بھی موردِ الزام ٹھیرائیں گے، کہ ’’آپ مسائل کھڑے کررہے ہیں‘‘۔ اگر بے جا طور پر آپ کریڈٹ لینا چاہیں گے تو پھر آپ پر تنقید بھی ہوگی۔ سفارتی اور بین الاقوامی سطح پر اس قسم کے بیانات سےگریز کرنا چاہیے۔

آنے والے دنوں میں افغانستان میں کیا ہونے والا ہے؟ طے شدہ الفاظ میں کہنا ممکن نہیں۔ مگر یہ ضرور ہے کہ ہمارے نقطۂ نظر سے افغانستان کی صورتِ حال ایک لحاظ سے بہتر ہونے کی طرف گامزن ہے کیونکہ نیٹو افواج کے آتے ہی ہمارے لیے مسائل پیدا ہوئے تھے۔ ان کے آنے سے کون سا امن آگیا تھا۔ اگرچہ آج افغان سرحد پر باڑلگانے کا عمل مکمل ہونے کو ہے، لیکن افغان مہاجرین اور دیگر مسائل بھی آئیں گے۔ البتہ جب ایک دفعہ معاملات طے پاگئے تو پھر حالات بہتر ہوجائیں گے۔

بھارت کی طالبان سے رابطہ کاری

۹مئی ۲۰۲۱ء کے روزنامہ ہندستان ٹائمز  میں خبر شائع ہوئی کہ’’ بھارت طالبان کے ساتھ رابطے میں ہے اور یہ رابطے پچھلے کئی ماہ سے جاری ہیں‘‘۔ مجھے اس خبر پر کچھ تعجب نہیں ہوا۔ اگرچہ بھارت سرکار کی طرف سے اس کے بارے میں کوئی خبر نہیں دی گئی ہے، لیکن ظاہر ہے کہ بھارت کے انٹیلی جنس اداروں نے ہی یہ خبر جاری کی ہے۔ اجیت دوول بھارتی حکومت کے نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر ہیں۔ ان سے میری کچھ ملاقاتیں رہی ہیں۔ اس بنا پر اس بات سے انکار ممکن نہیں ہے کہ بھارت کے طالبان سے رابطے میں کچھ تیزی بھی آگئی ہے۔ یہ بھارت کی مجبوری ہے اور اسے خود بھی اس بات کا احساس ہے کہ جب افغانستان سے بیرونی افواج کا انخلا ہوجائے گا تو پھر افغانستان پر حکمرانی کی دعوے دار ڈاکٹر اشرف غنی کی حکومت کے لیے بہت مشکل ہوگا کہ وہ اپنی رِٹ اور وجود کو خود کابل شہر میں بھی برقرار رکھ سکے۔ بعید نہیں کہ کچھ عرصے بعد وہ لوگ جو کابل حکومت کاحصہ ہیں، وہ آہستہ آہستہ کابل چھوڑ کر دوسرے ملکوں کی طرف جاتے ہوئے نظرآئیں۔ ان میں زیادہ تر لوگ بھارت میں یا مغربی ممالک میں پناہ لیں گے۔

ہم نے دیکھا ہے کہ ۲۰۰۱ء کے موسم سرما میں جب سے طالبان کی حکومت ختم کی گئی، بھارت نے افغانستان میں بہت سرمایہ کاری بھی کی ہے، تقریباً تین ارب ڈالر۔ اس نے بڑے بڑے منصوبوں جیسے ڈیمز،افغان پارلیمان کی عمارت کی تعمیر اور کچھ یونی ورسٹیاں بھی تعمیر کیں۔ اس کے پہلو بہ پہلو پاکستان نے بھی افغانستان میں کچھ سرمایہ کاری کی ہے، لیکن ہماری سرمایہ کاری اس پیمانے پر نہیں ہے اور ہماری رفتار بھی سُست رہی ہے۔ بہرحال بھارت نے افغانستان میں انوسٹ کیا اور خاص طور پر نیشنل سیکورٹی ڈائریکٹریٹ، جو انٹیلی جنس ادارہ ہے اس میں بہت سرمایہ اور مہارت صرف کی ہے۔ اس بھارتی سرمایہ کاری کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ پاکستان کی مغربی سرحد پر ایسی صورتِ حال برقرار رہے، جس سے وہ پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرسکے، اور بھارت نے عملاً ایسا کیا بھی ہے۔ یہ بات اوپن سیکرٹ اور کھلی حقیقت ہے کہ بھارت نے ’تحریک طالبان پاکستان‘ ( TTP)کو بھی اس مقصد کے لیے استعمال کیا اور بہت سی کالعدم بلوچ تنظیموں کو بھی استعمال کیا۔

بھارت کو اس بات کا بھی احساس ہے کہ افغانستان کی موجودہ حکومت اب زیادہ عرصہ برقرار نہیں رہ سکتی۔ اشرف غنی اور ان کی حکومت کا مستقبل غیریقینی ہے۔ ماہرین اور دفاعی تجزیہ نگار یہ کہہ رہے ہیں کہ جلد یا بدیر یہ حکومت چلی جائے گی۔ بھارت طالبان کے ساتھ رابطہ کررہا ہے اوران کے ساتھ اپنے تعلقات بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ امریکا اور بہت سے دوسرے ممالک طالبان سے رابطے میں ہیں۔ بھارت سمجھتا ہے کہ اس کے مفادات بھی اسی بات میں مضمر ہیں کہ جو بھی اگلی حکومت آئے، اس کے روابط اس کے ساتھ ہونے چاہییں، تاکہ وہ اس کھیل سے بالکل ہی باہر نہ ہوجائے۔

اسی طرح یہ بات افغان طالبان کو بھی مفید مطلب لگتی ہے کہ پاکستان کے ساتھ جہاں تعلقات ہوں، وہاں وہ بھارت کے ساتھ بھی تعلقات رکھیں تاکہ پاکستان پربھی ان کا دبائو رہے۔ یہ طالبان کی بہت زبردست حکمت عملی ہے کہ وہ تمام ممالک سے رابطہ رکھیں۔ اگر وہ حکومت میں آجاتے ہیں یا افغانستان پر قبضہ کرلیتے ہیں تو یہ ضروری ہے کہ دنیا کے اہم ممالک ان کی حکو مت کو تسلیم بھی کریں۔ اس لیے کہ پچھلی مرتبہ ۱۹۹۶ء میں جب ان کی حکومت بنی تھی تو صرف تین ممالک: پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے ان کی حکومت کو تسلیم کیا تھا۔ تاہم، اس دفعہ وہ چاہیں گے کہ جب ان کی حکومت آتی ہے تو ان کو زیادہ سے زیادہ ممالک بالخصوص بڑے ممالک ان کو تسلیم کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہ کریں۔ اس لیے بھارت کا طالبان سے رابطہ اس کے نقطۂ نظر سےبھی ٹھیک ہے اور طالبان کو بھی یہ مناسب لگتا ہے۔ لہٰذا ، کچھ عرصے کے بعد اگر یہ اطلاع بھی مل جائے کہ اجیت دوول کی مُلا برادر سے ملاقات ہوگئی ہے تو یہ کوئی بعید از امکان بات نہیں ہوگی۔

یہ بھی سننے میں آرہا ہے کہ افغانستان سے جب بیرونی افواج کا انخلا ہوجائےگا تو ترکی، کابل ایئرپورٹ کی سیکورٹی کا ذمہ لینے کے لیے تیار ہے۔ مگر حالیہ دنوں میں طالبان نے ترکی کو یہ ذمہ داری سونپنے کا امکان مسترد کر دیا ہے کہ وہ ’نیٹو‘ کا رُکن ہے۔ آنے والے دنوں میں خاص طور پر کابل ایئرپورٹ اہم کردار ادا کرےگا۔ اگر طالبان جلد ہی کابل ایئرپورٹ پر قبضہ کرلیتے ہیں تو افغانستان میں رسد کی فراہمی اور دیگر چیزوں کی آمدورفت حکومت کے لیے سخت مشکلات کا باعث بن جائے گی۔ یوں سمجھیے کہ اگر کابل ایئرپورٹ چلا گیا تو سب کچھ چلا گیا۔

دوسری طرف یہ بات بھی زیربحث ہے کہ کیا افغانستان سے امریکا کے نکلنے کےبعد چین کوئی بڑا کردار ادا کرنا چاہیے گا یا نہیں؟ پہلی بات تو یہ ہے کہ امریکا بالکل نہیں چاہے گا کہ چین، افغانستان میں کوئی بڑا کردار ادا کرے۔ اس خطے میں افغانستان معدنی وسائل سے مالامال (resource rich) ملک ہے اور تزویراتی طور پر امریکا کے لیےبھی بہت اہم ہے۔ اس لیے امریکا، افغانستان کو بالکل چھوڑ کر جانے والا کیسے بنے گا؟ مگر مستقبل کے افغانستان سے اس کے ربط کی کیا صورت ہوگی؟ ابھی واضح نہیں ہے۔

پھر یہ بات بھی سننے میں آرہی ہے کہ پاکستان امریکا کو فوجی اڈے دے رہا ہے یا نہیں دے رہا؟ ایک حوالے سے معلوم ہوتا ہے کہ شاید ہم نے کچھ شرائط رکھی ہیں کہ’’ جو سہولیات دے رہے ہیں وہ طالبان کے خلاف استعمال نہیں ہوں گی، البتہ داعش اور القاعدہ کے خلاف استعمال ہوسکتی ہیں‘‘۔ اس قسم کی شرائط کی فی الحقیقت کوئی حیثیت اور تقدس نہیں ہوا کرتا۔ کیونکہ جب آپریشن ہوتے ہیں تو کوئی بھی یہ فرق نہیں کرسکتا کہ یہ سہولیات کس کے خلاف استعمال ہورہی ہیں۔

بہرحال، اگر ہم نے امریکا کو یہ سہولیات دیں تو طالبان اسے ہرگز پسند نہیں کریں گے۔ اگرچہ پاکستان کے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے بڑے وثوق سے کہا کہ ’’پاکستان کوئی ایسی سہولیات نہیں دے رہا‘‘۔ لیکن اس تردید کے باوجود کچھ خبریں مل رہی ہیں کہ شاید ہم کچھ شرائط کے تحت یہ مان بھی لیں۔ اس لیے اس موضوع پر حتمی بات کرنا ابھی ممکن نہیں ہے۔یہ امر واقعہ ہے کہ امریکا کو اڈے دینا، پاکستان کے وسیع تر قومی مفادات کے لیے درست نہیں ہوگا۔ ہمیں تاریخ سے سبق سیکھنا چاہیے اور وہ غلطیاں نہیں دُہرانی چاہییں، جن سے پاکستان کے مفاد کو پہلے ہی ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے، اور آیندہ شاید اس سے بھی زیادہ نقصان پہنچ سکتا ہے۔

امن مذاکرات کا مستقبل

گذشتہ دنوں اسلام آباد میں افغانستان پر ایک دو روزہ کانفرنس ’ریجنل پیس انسٹی ٹیوٹ‘ کے تحت منعقد ہوئی۔ اس ادارے کے بانی رؤف حسن ہیں، جو وزیراعظم کے معاون خصوصی بھی ہیں۔ اس کانفرنس میں پاکستانی وفود، افغان وفود اور وہ افغان نمایندے جو دوحہ میں مذاکرات کے لیے گئے تھے، وڈیو لنک کے ذریعے سے اس کانفرنس میں شریک تھے۔ اس کانفرنس کا موضوع تھا: Stepping into the Future Peace Partnership Progress۔

یہ کانفرنس ’چیٹن ہائوس رُول‘ کی بنیاد پر منعقد ہوئی تھی۔ چیٹن ہائوس لندن میں ایک تھنک ٹینک ہے۔ اس کے طے کردہ اصول کے تحت ہونے والی کانفرنس میں کسی حساس موضوع پر کھل کر بات چیت ہوسکتی ہے، مگر اسے رپورٹ نہیں کیا جاسکتا کہ کس نے کیا کہا ہے؟ اس کانفرنس میں مَیں بھی شریک تھا اور ہمارے وزیرخارجہ نے اس کانفرنس کے افتتاحی اجلاس سے خطاب بھی فرمایا۔ کانفرنس کے چار ورکنگ سیشن تھے۔ تمام سیشن ہی اہم تھے، خاص طور پر پہلا سیشن بہت اہم تھا، جس میں افغان مسئلے کے امکانات کا جائزہ لیا گیا۔ سب کا یہی خیال تھا کہ ’’مذاکرات کو کامیاب ہونا چاہیے۔ اگر دوحہ میں مذاکرات ناکام ہوجاتے ہیں تو اس بات کا امکان ہے کہ افغانستان دوبارہ خانہ جنگی کا شکار ہوسکتا ہے‘‘۔

کچھ افغان وفود کا خیال تھا کہ ’’ایک عبوری نظام بننا چاہیے۔ وہ غیرسیاسی ہونا چاہیے اور اس میں غیر جانب دار لوگ شامل ہونے چاہییں۔یہ عبوری نظام دو، تین یا چار سال کے لیے ہو اور پھر انتخابات ہوں اور طے کیا جائے کہ آیندہ معاملات کیسے چلنے ہیں؟‘‘

میں نے وہاں یہ موقف پیش کیا کہ ’’طالبان کو کسی عبوری حکومت کا حصہ بننے میں کیا فائدہ ہے؟‘‘ میرا آج تک یہی موقف ہے کہ جب تک اشرف غنی صاحب اقتدار نہیں چھوڑتے، طالبان کسی ایسی عبوری حکومت کا حصہ نہیں بنیں گے۔ مگر اس ساری صورتِ حال کے باوجود مجھے محسوس ہوتا ہے کہ طالبان کی امریکا کے ساتھ کچھ معاملہ فہمی (انڈراسٹینڈنگ) ہوگئی ہے۔طالبان کے انکار کے باوجود ترکی کا یہ کہنا کہ وہ کابل ایئرپورٹ کی حفاظت کا ذمہ لیتا ہے، معنی خیز ہے۔ ابھی امریکا کو کابل ایئرپورٹ کی ضرورت ہے، تاکہ وہاں سے احسن طریقے سے انخلا مکمل ہوجائے۔

افغان وفود کا یہ کہنا کہ ’’پاکستان کو اس مسئلے میں بھرپور دبائو رکھنا چاہیے‘‘۔ وہ اس پر بار بار زور دے رہے تھے کہ ’’یہ پاکستان کی اہم ذمہ داری ہے‘‘۔ یہ عجیب سی بات ہے کہ طالبان پر پاکستان کا کوئی دبائو ہوسکتا ہے۔ طالبان کی اپنی ایک حکمت عملی ہے اور وہ اس پر کام کر رہے ہیں۔ ان کا یہ بھی خیال ہے کہ یہاں سے بیرونی فوجوں کا انخلا ہوجاتا ہے تو پھر طالبان کے لیے راستہ صاف ہے۔ کانفرنس کے شرکا میں سب کا یہی خیال تھا اور دبے دبے لفظوں میں سبھی کہہ رہے تھے کہ ’’وقت بہت کم ہے۔ اگر کہیں محدود وقت میں مذاکرات کامیاب نہیں ہوتے تو افغانستان کے لیے بہت سی مشکلات پیدا ہوجائیں گی‘‘۔ ایک لحاظ سے یہ بات اپنی جگہ ٹھیک ہے۔

کسی کے پاس بھی اس مسئلے کا کوئی حتمی جواب نہیں تھا کہ ’’طالبان کو کس طرح مذاکرات کی میز پر لایا جائے؟‘‘ افغان وفود کا یہ کہنا تھا کہ ’’طالبان وقت گزار رہے ہیں اور دوحہ مذاکرات میں وہ زیادہ سنجیدہ دکھائی نہیں دیتے، اور اس میں کوئی خاص پیش رفت نہیں ہورہی‘‘۔ ہمارا بھی یہی خیال ہے کہ مذاکرات میں پیش رفت نہیں ہورہی، نہ اشرف غنی حکومت چھوڑنے کے لیے تیار ہیں اور نہ طالبان ہی کوئی ایسی رعایت دینے کے لیے تیار ہیں، جو ان کی تحریک اور نظریے سے مطابقت نہ رکھتی ہو۔ وہ بڑے واضح الفاظ میں کہتے ہیں کہ انھیں ’امارت اسلامیہ افغانستان‘ بنانی ہے۔ افغان وفود یا غیرطالبان قوتیں، جو اس وقت کابل میں انتظامِ حکومت کا حصہ ہیں یا ان کے ہمدرد ہیں،  وہ بہرحال الزام طالبان ہی کو دے رہے ہیں کہ ’’طالبان غیرسنجیدہ ہیں‘‘۔

ایک اہم سیشن میں خواتین کا کردار زیربحث آیا کہ ’امارت اسلامیہ افغانستان‘ اگر بن جاتی ہے تو ’’اس میں خواتین کا کیا کردار ہوگا؟‘‘ کچھ افغان وفود نے بتایا کہ ’’اگر امارت اسلامیہ بن جاتی ہے تو طالبان کا کہنا ہے کہ وہ اسلام اور افغان تہذیبی روایات کے مطابق خواتین کی تعلیم کے حق میں بھی ہیں، اور ان کے کام کرنے کے حق میں بھی ہیں اور ان کو بااختیار بنانے کے حق میں بھی ہیں‘‘۔ افغان وفود میں شامل خواتین کا یہ کہنا تھا کہ ’’جہاں تک اسلام کی بات ہے وہ تو سمجھ میں آتی ہے، لیکن بہت سی مقامی روایات ایسی ہیں، جو اسلام سے مطابقت نہیں رکھتیں بلکہ اس سے متصادم ہیں، تو ان کا کیا معاملہ ہوگا؟ اور طالبان ان روایات پر اصرار کر رہے ہیں‘‘۔ وہ طالبان وفود جو دوحہ مذاکرات میں شریک ہیں ان کا کہنا تھا کہ اسلامی روایات کی بات تو ٹھیک ہے، لیکن خواتین سے متعلق افغان تہذیبی روایات پر طالبان کو زیادہ اصرار نہیں کرنا چاہیے‘‘۔

دیکھتے ہیں کہ یہ بات کہاں جاکر رُکتی ہے۔ یہ تو اسی وقت ہوگا جب طالبان واقعی عبوری نظامِ حکومت سے اتفاق کرلیں اور تب ہی یہ مذاکرات کامیاب ہوسکتے ہیں۔ اگر ان کی حکمت عملی یہی ہے کہ وہ وقت گزار رہے ہیں اور ان کی امریکا کے ساتھ کوئی معاملہ فہمی بھی ہوگئی ہے تو پھر یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہے گا، جیساکہ چل رہا ہے۔

افغان تجارتی معاملات کا مسئلہ

ایک مسئلہ یہ بھی زیربحث آیا کہ افغانستان کی معیشت کو کیسے خودانحصاری کے قابل (sustainable) بنایا جائے؟ کیونکہ ابھی تک افغان معیشت کا زیادہ تر انحصار بیرونی امداد پر ہی ہے۔ زیادہ تر لوگوں کا خیال تھا کہ اس میں پاکستان کو آگے بڑھ کر کردارادا کرنا چاہیے۔اس ضمن میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ ’’پاکستان، افغانستان کو واہگہ بارڈر سے بھارت کے ساتھ تجارت کرنے کی اجازت دے‘‘۔ افغانستان، پاکستان تجارتی معاہدہ اس سال فروری میں ختم ہوگیا ہے۔ اس کو تین ماہ کے لیے توسیع دی گئی تھی اور وہ میعاد بھی ختم ہوگئی ہے۔ اب اسے مزید چھے ماہ کے لیے توسیع دی گئی ہے۔

افغان حکومت اس بات پر اصرار کر رہی ہے کہ ’’اس معاہدے میں ڈبلیو ٹی او کی شرائط بھی شامل کی جائیں تاکہ بھارت سے واہگہ کے ذریعے تجارت کھل سکے‘‘۔ اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ افغانستان، واہگہ کے ذریعے بھارت برآمدات کرسکتا ہے لیکن بھارت اپنی برآمدات واہگہ کے ذریعے افغانستان نہیں کرسکتا۔میں نے اپنا موقف وہاں یہ رکھا کہ ’’افغانستان کو اچھی طرح یہ بات معلوم ہے کہ ہمارے بھارت کے ساتھ کیا معاملات ہیں۔ آپ کیوں اس بات پر اصرار کر رہے ہیں کہ بھارت واہگہ کے ذریعے برآمدات کرسکے؟ آپ اپنی برآمدات بڑھایئے۔ ٹرکوں کے ذریعے آپ اپنا سامانِ تجارت پاکستان سے بھی منگوا سکتے ہیں۔ ہماری اپنی تجارت بھارت سے بند ہے، تو ہم آپ کو کیسے اجازت دے سکتے ہیں؟ کراچی کی بندرگاہ کھلی ہے، اسے بھارت استعمال کرسکتا ہے۔ افغانستان کو سوچنا چاہیے کہ وہ پاکستان سے کسی ایسی چیز کے لیے اصرار نہ کرے، جو اس کے لیے ممکن نہ ہو‘‘۔

پھر یہ بھی کہا: ’’اسی طرح وسطی ایشیا کے ساتھ ہماری تجارت جو کہ افغانستان کے ذریعے ہوتی ہے، اسے واہگہ بارڈر سے تجارت سے منسلک کردیا ہے۔ اس کی بھی کوئی تُک نہیں ہے۔ افغانستان کے وسطی ایشیا کے تعلقات میں کوئی جنگی یا جارحانہ صورتِ حال نہیں ہے، جب کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات کی صورتِ حال بالکل مختلف ہے۔ لہٰذا، ان دونوں مختلف صورتِ حال کو ایک دوسرے سے منسلک کرنا مناسب نہیں ہے‘‘۔ لہٰذا میں نے افغان وفود کو کہا کہ ’’وہ ایسا نہ کریں۔ اس طرح پاکستان کو تشویش ہوگی کہ یہ سب کچھ بھارت کے ایما پر کیا جارہا ہے، حالانکہ ہم نے آپ کو بھارت بذریعہ واہگہ برآمدات کی اجازت دی ہوئی ہے اور اس میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے‘‘۔ لیکن ان کا اصرار تھا کہ ’’بھارت سے بذریعہ واہگہ تجارت کی اجازت بھی ہونی چاہیے‘‘۔

یاد رہے کہ ہم نے پہلے بھی موٹروہیکل معاہدے اور ریلوے معاہدے نہیں ہونے دیئے تھے کہ اس میں ہماری سلامتی کے معاملات (سیکورٹی کنسرن ) ہیں۔ یہ صرف تجارت کا مسئلہ نہیں بلکہ اس میں پاکستان اور بھارت کے درمیان بہت سے اصولی اور قانونی مسائل ہیں۔

افغانستان تجارتی لحاظ سے ہمارے لیے ایک بڑا اہم ملک ہے۔ کچھ عرصہ قبل تک افغانستان سے ہماری تجارت تقریباً چار سے پانچ ارب ڈالر سالانہ تک تھی، جو اَب گھٹ کر ایک ارب ڈالر رہ گئی ہے،اور جس میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔

کانفرنس میں سیاحت کی بات بھی ہوئی اور ہیلتھ ٹورازم (یعنی صحت اور علاج معالجے)کی بات بھی ہوئی۔ پاکستان افغان شہریوں کو ہر ماہ تقریباً دو لاکھ ویزے جاری کرتا ہے۔ سال بھر ٹریفک بھی جاری رہتی ہے۔ چار مقامات پر بارڈر کراسنگ ہوتی ہے: چمن، تورخم، انگوراڈہ اور سپن بولدک۔ یہ چیزیں بہتر ہوسکتی ہیں لیکن افغانستان کو سوچنا چاہیے کہ اُن چیزوں پر دبائو نہ ڈالے جو پاکستان کے لیے ممکن نہیں ہے۔

مراد یہ ہے کہ افغانستان کے حوالے سے امن وامان، سیاسی استحکام، بین الاقوامی تعلقات کی ذمہ داریاں، بھارتی مداخلت کے امکانات کا خاتمہ اورتجارتی پیش رفت جیسے معاملات ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔ ہمیں ہرمسئلے پر خود بہت سوچ سمجھ کر، ٹھنڈے دل و دماغ اور بصیرت کے ساتھ فیصلے کرنے ہیں۔جلدبازی سے اور کسی کے دبائو میں آکر کیے گئے فیصلے ہمیں مشکلات کی طرف لے جاسکتے ہیں۔

یہاں ہم جموں و کشمیر کی زمینی صورتِ حال کا جائزہ پیش کریں گے کہ خود بھارتی دانش ور اس صورتِ واقعہ کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں اور وہاں نئی دہلی حکومت جس انداز سے اپنے آپ کو مسلط کیے ہوئے، اس کا اثر کشمیر کے بے بس اور مجبور شہریوں پر کس طرح اثرانداز ہورہا ہے۔

جموں و کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر بھارت اور پاکستان کی افواج کے درمیان فائربندی فروری ۲۰۲۱ء کے آخری ہفتے میں ہوئی۔  اس دوران دو افسوس ناک واقعات کے علاوہ عمومی طور پر فائربندی پر دونوں افواج نے عمل کیا۔ سرحدی علاقوں کی آبادی نے دونوں اطراف میں خوفناک فائرنگ، مارٹرز اور توپوں کی گھن گرج سے آزادی تو حاصل کرلی، مگر ان چار ماہ کے دوران وادیٔ کشمیر میں پُرتشدد واقعات کے نتیجے میں ۵۷؍افراد جاں بحق ہوگئے۔ اسی عرصے میں بھارتی سیکورٹی افواج نے آپریشنز کے دوران ۲۰سے زائد مکانات کو جلاکر راکھ کر دیا، یا زمین بوس کرکے اس کے مکینوں کوبے گھر کر دیا ہے۔

سرزمین کشمیر کی صورتِ حال

حال ہی میں بھارت کے سابق وزیر خارجہ جناب یشونت سنہا، سابق معروف بیوروکریٹ اور سابق چیئرمین ماینارٹیز کمیشن جناب وجاہت حبیب اللہ ، بھارتی فضائیہ کے ائروائس مارشل کپیل کاک، سوشل ورکر سوشوبھا بھاروے اور سینیرصحافی اور ایڈیٹر جناب بھارت بھوشن نے ’فکرمند شہریوں‘ (Concerned Citizens Group: CCG) کے ایک معتبر گروپ نے مارچ، اپریل ۲۰۲۱ء میں وادیٔ کشمیر کا دورہ کیا (یاد رہے یہ گروپ غیرسرکاری سطح پر رضاکارانہ طور پر خدمات انجام دے رہا ہے۔ اس کے تمام ارکان اپنے سفرخرچ اور قیام و طعام کے اخراجات ذاتی جیب سے کرتے ہیں)۔ نئی دہلی واپسی پر انھوں نے اپنی آٹھویں رپورٹ میں خبر دار کیا ہے کہ ’’خطے میں جاری مایوسی اور ناامیدی کی کیفیت ایک خطرناک رخ اختیار کر سکتی ہے۔ اگرچہ شہروں اور قصبوں میں بظاہر حالات معمول پر ہیں، سڑکوں اور گلیوں میں سیکورٹی فورزسز کے اہلکار نسبتاً کم تعداد میں گشت کرتے نظر آئے، مگر احساسِ شکست اور اس کے خلاف زمینی سطح پر تہہ در تہہ اضطراب سے پریشرککر جیسی صورت حال پیدا ہو رہی ہے‘‘۔

یہ امرواقعہ یاد رہنا چاہیے کہ یہ خطۂ کشمیر ’عالمی کورونا وبا‘ پھوٹنے سے قبل ہی جبری لاک ڈاؤن کی زد میں ہے۔ پچھلے دوبرسوں سے کاروباری اور دیگر اجتماعی خدمت کے ادارے تہس نہس ہوچکے ہیں۔ لگتا ہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت اپنا ہر قدم مقامی آبادی کو زیر کرنے اور دہلی میں ہندو قوم پرستوں کو اپنی کامیابی و سرشاری کا لطف اُٹھانے کا موقع عطا کررہی ہے۔ کشمیر  کی سول سوسائٹی سے وابستہ افراد نے اس گروپ کو بتایا کہ ’’پچھلے دو برسوں میں ہم نے اس قدر ذلّت و رُسوائی کا سامنا کیا ہے کہ ۷۰برسوں میں کبھی اپنے آپ کو اتنا زخم خوردہ نہیں پایا ‘‘۔

یکے بعد دیگرے احکامات: ’روشنی ایکٹ‘ کو کالعدم کرنا، غیر ریاستی باشندوں کو شہریت دینا، اردو زبان کو پس پشت ڈالنا اور اسمبلی حلقوں کی نئی حد بندیاں کرنا، جیسے اقدامات کشمیریوں کی نفسیات کو گہری ضرب لگانے کاکام کر رہے ہیں۔ان احکامات و اقدامات کی حالیہ مثال ’ملک دشمن سرگرمیوںــ‘ کا نوٹس لینے کے نام پر چھے سرکاری ملازمین کو برطرف کرنا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ فہرست خاصی لمبی ہے اور اگلے کئی ماہ تک مزید افراد ملازمت سے ہاتھ دھو سکتے ہیں۔سرکاری ملازمین کی سرگرمیوںپر نظر رکھنے کے لیے ایک ٹاسک فورس تشکیل دی گئی ہے۔ نئی دہلی حکومت نے لیفٹیننٹ گورنر کو اختیار دیا ہے کہ وہ سرکاری ملازمین کو بغیر کسی تفتیش کے، اپنے صواب دیدی اختیارات استعمال کرتے ہوئے ملازمت سے برطرف کرسکتا ہے۔ حیرت کا مقام ہے کہ گورنر صاحب نے اپنے صواب دیدی اختیارات کا استعمال تو کردیا، مگر دوسری طرف خود پولیس کا کہنا ہے کہ ان عتاب زدہ یا برطرف کردہ افراد کا ہمارے پاس کوئی ’مجرمانہ ‘ ریکارڈ نہیں ہے۔

مگر ایسا لگتا ہے کہ جموں و کشمیر ایک ایسا بدقسمت خطہ ہے، جوقانون و آئین کی عملداری سے ہاتھ دھوئے بیٹھا ہے۔ یہاں نئی دہلی سرکار کے مقرر کردہ حکمران، مقامی لوگوں سے روزی روٹی کا بنیادی حق چھیننے اور ان کے اہل خانہ، ان کے زیر کفالت افراد کو محرومی اور پریشانی کے جہنّم میں دھکیلنے پر کوئی عار محسوس نہیں کرتے ہیں۔

حکومت کے کسی بھی اقدام سے اختلاف کا اظہار کرنے کی کوئی گنجایش نہیں رکھی گئی ہے۔ صحافیوں کے خلاف تادیبی کارروائیوں کے نتیجے میں طباعتی و ابلاغی صحافت کا وجود اور اس کی افادیت ختم ہوکر رہ گئی ہے۔ مقامی اخبارات کے ادارتی صفحات غیر سیاسی موضوعات پر مضامین شائع کرنے پر مجبور ہیں ، تاکہ کسی پریشانی میں نہ پھنس جائیں۔ ’فیس بک‘ تو دُور کی بات ’وٹس ایپ گروپس‘ پر معمولی سے اختلاف رائے کا اظہار کرنے پر کئی افراد کو تختۂ مشق بنایا گیا ہے۔ بہت سوں کے خلاف دہشت گردی سے متعلق قوانین کے تحت مقدمے درج کیے گئے ہیں۔

ایک کشمیری دانش ور نے دورہ کرنے والے اس گروپ کو بتایا کہ ’’اس سے قبل کشمیری قوم نے مجموعی طور پر کبھی اپنے آپ کو اس قدر بے بس، بے زبان اور یتیم محسوس نہیں کیاہے، کیونکہ بھارت نواز اور آزادی نواز قیادتیں بھی بحران سے دوچار ہیں۔ ان میں کوئی ایسا لیڈر سامنے نہیں آرہا، جو نئی دہلی حکومت کے ساتھ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکے۔ بھارت نوا ز کشمیری لیڈروں یا مقامی سیاسی قیادت کو دیوار سے لگا دیا گیا ہے اور بیش تر حریت لیڈر یا تو جیلوں میں ہیں یا گھروں میں نظربند ہیں۔عمومی طور پر بھارت کی سیکولر لبرل لیڈرشپ نے بھی کشمیریوں کو مایوس کیا ہے۔ یہاں کے لوگ اُمید رکھتے تھے کہ شاید وہ مودی حکومت کے تنگ نظری پر مبنی اقدامات کے خلاف سینہ سپر ہو جائیں گے۔ مگر وہ تو اپنے مقامی اتحادیوں نیشنل کانفرنس یا پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی بھی مدد نہیں کر پائے‘‘۔

سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کے دست راست وحید پرہ کو دہشت گردی سے متعلق دفعات کے تحت حراست میں لے کر الزام لگایا گیا ہے کہ وہ ’’ایک ارب روپے عسکریت پسندوں میں تقسیم کر رہا تھا‘‘۔ مقامی لوگ اس الزام کو ایک بے پر کا بھونڈا مذاق سمجھتے ہیں۔ چند سال قبل تک وحیدپرہ، بھارتی حکومت اور بھارتی سیکورٹی فورسز کی آنکھوں کا تارا تھا۔ نئی دہلی میں بھارتی حکومت کا دفاع کرنے کے لیے اس کو متعدد کانفرنسوں، مباحثوں اور سیمیناروں میں بلایا جاتا تھا۔ بھارت کے موجودہ وزیردفاع راج ناتھ سنگھ نے ایک بار اس کو ’’کشمیر ی نوجوانوں کا رول ماڈل اور امید کی کرن بتایا تھا‘‘۔ ایک بھارت نواز لیڈر نے اس گروپ کو بتایا کہ ’’اگر یہ سب کچھ وحید پرہ کے ساتھ ہوسکتا ہے ، تو پھرآخر کون بھارت کے ساتھ پیار کی پینگیں بڑھا کر اپنا سر اوکھلی میں دیتے ہوئے دین و دنیا سے ہاتھ دھو بیٹھنا چاہے گا‘‘۔

ایک مقامی تجزیہ کار نے گروپ کو بتایا کہ ’’۱۹۵۳ءکے بعد سے بھارت نے ایک ایسے سیاسی ڈھانچے کو مؤثرانداز سے تشکیل دیا تھا، جو بڑی حد تک کشمیر یوں اور بھارت کے درمیان ایک نفسیاتی پُل کا کام کرتا تھا اور آڑے وقت میں نئی دہلی کی مدد بھی کرتا تھا۔ مگر ۵؍اگست۲۰۱۹ء کے اقدامات نے اس پل کو ڈھا دیاہے‘‘۔ گروپ کے مطابق ’’کشمیر کو پوری طرح نئی دہلی میں موجود افسر شاہی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ پہلے کی حکومتیں بھی کچھ معیاری رویے کی آئینہ دار نہیں تھیں، مگر ایک سسٹم کے تحت کام کررہی تھیں۔ کشمیر کو اب ’حکم ناموں‘ (Orders)کے ذریعے چلایا جا رہا ہے اور ہر نیا حکم ایک نیا زخم لے کر آتا ہے‘‘۔

پاکستان کی پالیسی کے حوالے سے بھی عوام میں خاصی مایوسی ہے۔ کئی افراد نے اس گروپ کو بتایا کہ ’’ہمیں توقع تھی کہ پاکستان کی ایما پر بین الاقوامی برادری یکجا ہوکر بھارت کو ان اقدامات کو واپس لینے پر مجبور کردے گی، مگر یہ توقعات پوری نہیں ہوسکیں۔ غالب اکثریت کا خیال ہے کہ ان کو بے یار و مددگار چھوڑدیا گیا ہے‘‘۔ کشمیری آبادی میں پاکستانی قیادت کے لیے یہ رجحان لمحۂ فکریہ ہے۔ اس کے علاوہ پہلی بار کشمیر ی عوام، بھارت میں بسنے والے مسلمانوں کو پیش آنے والے واقعات کا بغور جائزہ لیتے ہوئے دکھائی دیئے۔ اس کی شاید وجہ یہ ہے کہ دونوں آج کل ایک ہی کشتی میں سوار ہیں۔ بھارتی مسلمانوں کی کشمیری تحریک سے لاتعلقی اور بسا اوقات اس کی شدید مخالفت کی وجہ سے کشمیری مسلمان بھی ان کے سیاسی معاملات سے بیگانہ ہی رہتے تھے۔

 اس گروپ کی رپورٹ کے مطابق ’’ایک واحد مثبت قدم جو پچھلے دو برسوں میں اٹھایا گیا وہ ڈسٹرکٹ ڈویلپمنٹ کونسلوں (ڈی ڈی سی) کے کسی حد تک آزادانہ انتخابات تھے، جس میں  نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی کے اتحاد کو واضح برتری حاصل ہوئی۔ مگر یہ انتخابات ۵؍اگست۲۰۱۹ء کے اقدامات کے خلاف ایک ریفرنڈم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان انتخابا ت کا بھارتی حکومت سفارتی سطح پر خوب چرچا کر رہی ہے۔ مگران نو منتخب ڈی ڈی سی اراکین کا کوئی پُرسان حال نہیں ہے‘‘۔ جنوبی کشمیر کے کولگام علاقے کے ڈاک بنگلہ میں منتخب ڈی ڈی سی اراکین نے وفد کو بتایا کہ ’’انھیں عوام سے ملنے نہیں دیا جارہا ہے اور ایک مقامی ہوٹل میں ان کو محصور کردیاگیا ہے۔ ان کو لگتا ہے کہ جیسے وہ ایک جیل میں بندہیں۔ افسران تک ان سے بات کرتے ہوئے ڈرتے، جھجکتے اور بدکتے ہیں۔ اپنے علاقوں میں وہ بجلی کا ایک ٹرانسفارمر تک ٹھیک نہیں کرا پاتے ہیں۔ حکومت میں کرپشن انتہا پر ہے۔ پہلے بیوروکریٹ کسی سیاسی نظام کے تابع ہوتا تھا، مگر اب یہ نظام بھی ٹوٹ چکا ہے‘‘۔

ایک ڈی ڈی سی ممبر عنایت اللہ راتھر نے وفد کو بتایا کہ ’’مجھ کو بتایا گیا تھا کہ کشمیر ہندستان کا تاج ہے، مگر یہ تاج آج کل ٹھوکروں کی زد میں ہے‘‘۔ اس کا کہنا تھا کہ ’’میرے علاقے کے  کئی نوجوانوں کو حراست میں لے کر بھارت کی دُور دراز جیلوں میں رکھا گیا ہے، جہاں ان کے اعزا و اقارب ملاقات کے لیے نہیں جا سکتے ہیں۔ ایک دودھ بیچنے والے شخص کو، جس کو اس کی بھاری بھرکم جسمانی ساخت کی وجہ سے مقامی لوگ ’کرنل ستار‘ کے نام سے پکارتے تھے، حراست میں لے کر اترپردیش کے وارانسی شہرکی جیل میں رکھا گیا ہے۔ حالانکہ اس شخص کا کسی عسکریت سے دُور دُور تک کا کچھ بھی واسطہ نہیں ہے‘‘۔ ایک اور ڈی ڈی سی ممبر عباس راتھر کا کہنا ہے کہ ’’مجھے حفاظت کے لیے جو سیکورٹی اہلکار دیے گئے ہیں، و ہ میری جاسوسی کرتے ہیں۔ جوں ہی کوئی مجھ سے ملنے آتا ہے، و ہ فون پر اپنے اعلیٰ افسران کو باخبر کردیتے ہیں‘‘۔ نیشنل کانفرنس سے تعلق رکھنے والے عارف زرگر ، جو ڈی ڈی سی کے چیئرمین بھی ہیں، بتایا کہ ’’ڈی ڈی سی دراصل Dumb Driven Cellکا مخفف ہے‘‘۔ جن دنوں یہ گروپ کشمیر کے دورہ پر تھا، حکومتی اہلکاروں نے بتایا: ’’حریت لیڈر میر واعظ عمر فاروق گھر میں نظربند نہیں ہیں اور کہیں بھی آ جا سکتے ہیں۔ مگر جب اگلے روز یہ گروپ ان کی رہایش گا ہ پر پہنچا، تو سیکورٹی اہلکاروں نے ان کو اندر جانے کی اجازت نہیں دی‘‘۔

۲۰۱۱ءکی مردم شماری کے مطابق وادیٔ کشمیر میں ۸۰۸کشمیری ہندو، یعنی پنڈت خاندان رہتے ہیں۔ ان لوگوں نے ۱۹۹۰ءمیں دیگر پنڈتوں کی طرح نقل مکانی نہیں کی۔ مقامی کشمیری پنڈتوں کے لیڈر سنجے تکو نے اس وفد کو بتایا: ’’۲۰۱۱ء کے بعد مختلف وجوہ کی بنا پر ۶۴ خاندان ہجرت کرچکے ہیں۔ اس کے علاوہ۳۹۰۰  ایسے پنڈت خاندان ہیں، جنھیں جموں سے کشمیر میں نوکری دلوانے کے نام پر لاکر کیمپوں میں رکھا گیا ہے‘‘۔ سنجے تکو کے مطابق: ’’کشمیر میں رہنے والے پنڈتوں کا کوئی پُرسان حال نہیں ہے۔ اس کے برعکس جموں اور دہلی میں مقیم ہندو قوم پرست تنظیم راشٹریہ سیوئم سیوک سنگھ کے پروردہ پنڈتوں کو ان کی آواز بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ آرایس ایس نے حال ہی میں عالمی دارالحکومتوں میں (Global Kashmiri Pandit Diaspora - GKPD) کے نام سے ایک نئی تنظیم بنائی ہے، تاکہ اس کو عالمی سطح پر کشمیری تارکین وطن کے خلاف کھڑا کرکے ان کے بیانیہ کو کمزور کرنے کی کوشش کی جائے۔ کشمیری پنڈت لیڈروں کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی فورموں اور انتخابات کے موقعے پر حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے قائدین پنڈتوں کا نام خوب استعمال کرتے ہیں، مگر ان کی فلاح و بہبود کے لیے عملاً کچھ بھی نہیں کرتے ہیں‘‘۔

وادیٔ کشمیر میں رہنے والے کشمیری پنڈتوں نے مذکورہ گروپ کے سامنے اس خدشے کا اظہارکیا کہ: ’’عام انتخابات سے قبل کہیں وہ کسی False Flag [خود مار کر دوسرے پر الزام دھرنے جیسے]آپریشن کا شکار نہ ہوجائیں، تاکہ اس کو بنیاد بناکر ووٹروں کو اشتعال و ہیجان میں مبتلا کرکے ایک بار پھر ووٹ بٹورے جاسکیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بعض عسکریت پسندوں میں بھی بھارت کے خفیہ اداروں کے افراد ہوسکتے ہیں، جو اس طرح کی کارروائی انجام دے سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ پنڈتوں کو شکایت تھی کہ مرکزکے ’اسمارٹ سٹی پراجیکٹ‘ کے نام سے دریا کے کنارے پر واقع متعدد مندروں کی آرایش و تزئین کی جا رہی ہے، مگر اس سلسلے میں مقامی پنڈت آبادی کو پوچھا بھی نہیں جاتا ہے۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ یہ کام سیکورٹی فورسز کے افراد کررہے ہیں، جو ایک خطرناک رجحان ہے اور اس سے مقامی مسلم آبادی کو ان سے متنفر کیا جا رہا ہے‘‘۔

گروپ کے مطابق: ’’آئے دن ہلاکتوں کے باوجود مقامی نوجوانوں میں ہتھیار اٹھانے کے رجحان میں کوئی کمی نظر نہیں آرہی، اور عسکری تنظیموں کے اراکین میں بھی کوئی کمی نہیں ہو رہی ہے۔ سیکورٹی فورسز کی طرف سے مارٹر اورآتش گیر مواد سے مکانات کو زمین بوس کرنے کے نئے سلسلے نے عوامی ناراضی میں مزید اضافہ کیا ہے۔ آج کل جس گھر میں بھی کسی عسکریت پسند کے ہونے کا کچھ بھی اندیشہ ہوتا ہے، سیکورٹی افواج اس کو بھاری ہتھیاروں سے نشانہ بناکر زمین بوس کردیتے ہیں‘‘۔ سول سوسائٹی سے وابستہ ایک سرکردہ شخصیت نے اس گروپ کو بتایا کہ: ’’چندبرس قبل تک کشمیری، مقبول بٹ اور افضل گورو کو اپنے گھروں سے دُور تہاڑ جیل میں دفنانے پر ماتم کر رہے تھے، مگر اب کسی بھی عسکریت پسند کی لاش ان کے لواحقین کو نہیں دی جاتی، اور ان کو نامعلوم جگہوں پر دفنا دیا جاتا ہے‘‘۔

 فوجی سربراہ جنرل منوج مکند نروانے، حال ہی میں سرینگر میں بتایا کہ پاکستان کی طرف سے جنگ بندی معاہدے پر سختی سے عمل درآمد سے دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد کی راہیں ہموار ہوسکتی ہیں،مگر کیا صرف سرحدوں پر امن کے قیام سے اس پورے خطے میں امن قائم ہوسکتا ہے؟ کیا کشمیر میں عوام کا اعتماد اور بھروسا جیتنا ضروری نہیں ہے؟

کشمیر پر افواہوں کی یلغار یا کشمیریوں کا نفسیاتی قتل عام؟

اسی طرح پچھلے کئی ہفتوں سے کشمیر میں افواہوں کے بازار نے یہاں رہنے والوں کا سُکھ چین چھین لیا ہے۔ لگتا ہے کہ دانستہ طور پر اور سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کشمیر ی عوام کو مستقل عذاب میں مبتلا رکھ کے ان کو ذہنی مریض بنایا جارہا ہے۔ ان افواہوں کا ماخذ خود مقامی حکومت ہی کے چندایسے اقدامات کے ساتھ ساتھ، دہلی اور جموں میں رہنے والے شدت پسند کشمیری پنڈتوں کا ایک اجتماع ہے۔ جہاںحال ہی میں کشمیری مسلمانوں پر مزید ظلم و ستم ڈھانے اور ان کو فلسطینیوں کی طرح اپنے ہی گھروں میں بیگانہ کرنے کی تجویزیں پیش کی گئیں، برملا دُہرائی گئیں اور افواہوں کی صورت میں پھیلائی گئیں۔ تقریباً ۳۰۰ مزید نیم فوجی دستوںکی کمپنیوں کی تعیناتی اور ان میں سے بیش تر کی شمالی کشمیر میں تعیناتی اور بھارتی فوج کی غیر معمولی نقل و حرکت نے پورے خطے میں اضطرابی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ ہرکوئی دوسرے سے یہی سوال کر رہا ہے کہ ’’کیا کچھ بڑا ہونے والا ہے؟‘‘

 شاید کشمیر دُنیا کا واحد خطہ ہے، جہاں بسا اوقات یہ افواہیں سچ کا رُوپ بھی دھار لیتی ہیں۔

لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے ان افواہوں کے خاتمے کی یقین دہانی توکرائی ہے،مگر ۵؍اگست ۲۰۱۹ءکو جب بھارتی آئین میں درج جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو کالعدم قراردینے کے بعد ریاست کو تقسیم کرتے ہوئے مرکزی انتظام والا علاقہ بنایا گیا تھا، تو اس یلغار سے پہلے بھی کچھ اسی طرح کی افواہوں کا بازار گرم تھا۔ اس وقت بھی گورنر ستیہ پال ملک نے ’سیکورٹی یا سلامتی‘ سے متعلق اٹھائے گئے اقدامات کو معمول کی کارروائی بتایا تھا۔ حتیٰ کہ نیشنل کانفرنس کے رہنما ڈاکٹرفاروق عبداللہ اور ان کے بیٹے عمر عبداللہ [یعنی شیخ عبداللہ کے پوتے] نے دہلی میں وزیراعظم نریندر مودی سے ملاقات کی، جنھوں نے ان کو یقین دہانی کرائی کہ ’’دفعہ ۳۷۰، اور دیگر آئینی اقدامات پر کوئی قدم اٹھانے سے قبل کشمیر کی سیاسی جماعتوں سے صلاح مشورہ کیا جائے گا‘‘۔ مگر سرینگر آنے کے تیسرے ہی دن ان کو حراست میں لیا گیا۔ اس پس منظر اور تاریخ کی موجودگی میں اب موجودہ لیفٹنٹ گورنر کی یقین دہانی پر کتنا یقین کیا جائے؟

مئی کے آخری اور جون کے پہلے ہفتے کے دوران جاری ہونے والے پے در پے احکامات، جیسے سرینگر ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی طرف سے نقل و حمل کے لیےراہداری پاس کی ضرورت، پولیس کی جانب سے ریلوے حکام کو وادی کے اندر چلنے والی ٹرین سروس کو معطل رکھنا، پولیس اسٹیشنوں سے ۵؍اگست ۲۰۱۹ء سے قبل اور اس کے بعد سیاسی شخصیات کی گرفتاریوں اور ان کے خلاف کارروائیوں کا ریکارڈ مانگنا، جموں و کشمیر جماعت اسلامی اور جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے کارکنان اور ہمدردان کی تفصیلات کے علاوہ خطے میں سرگرم صحافیوں کا ریکارڈ مانگنا، وہ اقدامات ہیں کہ جن سے ان اندیشوں اور وسوسوں کو تقویت ملی ہے ۔لوگوں میں اضطرابی کیفیت ہے، مگروہ یہ بھی کہتے ہیں دفعہ ۳۷۰ اور ۳۵-اےکی صورت میں کشمیریوں کے پاس تن بدن کو برہنہ کرنے کے بعد بس ایک زیرجامہ ہی بچا تھا، جسے ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کو تار تار کردیا گیا۔ اب ان کے پاس کھونے کے لیے بچا ہی کیا ہے۔

  • پہلی افواہ یہ ہے کہ جموں و کشمیر کا نام تبدیل کرکے اس کو ’جموں پردیش‘ رکھا جائے گا، یعنی اس سے لفظ کشمیر حذف کر دیا جائے گا۔ مگر اس کی تو خود کشمیری پنڈت اور سخت گیر ہندو ہی مخالفت کریںگے۔ اس سے تو اس خطے کی ہندو اساطیری شخصیت کشپ رشی کے ساتھ نسبت ہی ختم ہو جائے گی، جس کا حوالہ دے کر کشمیر کو ’ہندوتوا‘ کے وسیع ایجنڈے کا حصہ بنایا جاتا ہے۔
  • دوسری افواہ یہ ہے کہ جنوبی کشمیر کے کئی اضلاع کو جموں کے ساتھ ملاکر ، ایک علیحدہ صوبہ تشکیل دیا جائے گا۔ مگر اس میں مشکل یہ ہے کہ جموں ڈویژن میں تقریباً ۳۵فی صد مسلمان آباد ہیں اور جنوبی کشمیر کے اضلاع کے ساتھ ان کے الحاق کے نتیجے میں ۱۵سے ۲۰لاکھ تک مزید مسلمان ساتھ مل جائیں گے۔ اس طرح یہ مسلم اکثریتی علاقہ بن جائے گا۔ فی الحال آر ایس ایس کی سرپرستی میں وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت، ملک میں ایک اور مسلم اکثریتی صوبہ کی متحمل نہیں ہوسکتی ہے۔ جموں ڈویژن میں مسلم اکثریتی علاقے پیر پنچال اور چناب ویلی پہلے ہی سے ہندو  نسل پرستوں کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتے ہیں۔حتیٰ کہ بھارت کے سیکولر رہنماؤں نے بھی پچھلے ۷۰ برسوں سے ان علاقوں کو وادیٔ کشمیر سے الگ تھلگ رکھنے کی کوششیں کی ہیں۔ ان علاقوں کو پہلی بار ۲۰۰۴ء کے بعد مفتی محمد سعید اور غلام نبی آزاد کے دورِ حکومت میں پونچھ اور شوپیاں کو ملانے والے مغل روڈ اور دیگر رابطوں کی تعمیرات نے ملانے کا کام کیا تھا۔
  • تیسری افواہ یہ ہے کہ شمالی کشمیر کو لداخ میں ضم کر کے ریاست لداخ قائم کی جائے اور کشمیر کو ختم کر دیا جائے گا۔ یہ قدم اُٹھانے سے مجوزہ لداخ صوبہ میں ۲۵لاکھ کے قریب آبادی کا اضافہ ہوگا اور یہ پوری آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہوگی۔ یعنی وادی کشمیر کو تقسیم کرنے اور اس کو جموں اور لداخ میں ضم کرنے سے یہ دونوں خطے مسلم اکثریتی بن جائیں گے۔
  • چوتھی افواہ یہ ہے کہ جموں کو موجودہ صورت میں ہی الگ صوبہ کا درجہ دیا جائے گا۔ خودبخود یا کسی نادیدہ قوت کے اشارے پر جموں میں کئی گروپ آج کل ایسا ہی مطالبہ کر رہے ہیں۔ مگر حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈروں نے فی الحال اس کو مسترد کر دیا ہے۔ بلاشبہہ جموں کو الگ صوبے کی حیثیت دینا اور وادیٔ کشمیر کو الگ تھلگ کرناہندو قوم پرستوں کی سرپرست تنظیم راشٹریہ سیوئم سیوک سنگھ کا پرانا ایجنڈا رہا ہے۔ ایک نسل پرست لیڈر بلراج مدھوک [م: ۲۰۱۶ء] اس مطالبے کے پُرزور حمایتی تھے۔ ۵؍اگست۲۰۱۹ء سے قبل جب پارلیمنٹ میں ریاست کو تقسیم کرنے اور اس کی حیثیت تبدیل کرنے کے قانون کا مسودہ تیار ہو رہا تھا، تو اس وقت بھی ریاست کے دوکے بجائے تین حصے کرنے کی تجویز پر وزارت داخلہ اور وزارت عظمیٰ کے دفتر میں خاصی بحث ہوئی تھی۔ مگر مضمرات کا جائزہ لینے کے بعد جموں کو الگ حیثیت دینے کی تجویز کو مسترد کر دیا گیا تھا۔

یہ خبریں بھی گشت کر رہی تھیں کہ ’’شاید خطے کو ریاستی درجہ واپس دیا جائے گا‘‘۔ مگر معروف صحافی مزمل جلیل کا اصرار رہا ہے کہ ’’ایسا ابھی ممکن نہیں ہو سکے گا‘‘۔ اور ان کا اندازہ درست ثابت ہوا، کیونکہ ۲۴ جون کو بھارتی وزیراعظم مودی نے اپنی رہایش گاہ پر نئی دہلی نواز آٹھ پارٹیوں کے چودہ رہنمائوں سے ملاقات کی۔ جس میں مودی نے ریاست بحال کرنے کے بجائے یہ کہا کہ مناسب وقت پر ریاست کا درجہ بحال کریں گے مگر کب؟ یہ کہا نہیں جاسکتا۔ دوسرا یہ کہ آپ سب مل کر کام کریں۔ ہم انتخابی حلقہ جات کی نئی حدبندی کرکے انتخاب کرائیں گے‘‘۔ اس طرح عملاً  یہ میٹنگ بے نتیجہ رہی۔ موجودہ حالات میں بی جے پی حکومت اگرچہ ریاستی اسمبلی دفعہ ۳۷۰ یا ۳۵-اےکو واپس تو نہیں لے گی، مگرڈاکٹر فاروق عبداللہ کی نیشنل کانفرنس یا محبوبہ مفتی کی پیپلزڈیموکریٹک پارٹی کے برسراقتدار آنے کی صورت میں، کئی اقدامات کی راہ میں رکاوٹ پیدا ہوسکتی ہے۔ جس کی فی الحال آر ایس ایس اسٹیبلشمنٹ متحمل نہیں ہوسکتی ہے۔ اسی لیے اگر ریاست کا درجہ واپس آتا بھی ہے، تو وہ شاید ایسا ہی سسٹم ہوگا ، جو دارالحکومت دہلی میں ہے، جہاںکے وزیراعلیٰ کی حیثیت بس ایک شہر کے مئیر جیسی ہے۔ نظم و نسق، افسران کے تبادلے وغیرہ کا اختیار مرکزی حکومت کے پاس ہی ہے۔

  • پانچویں افواہ جس نے بڑے پیمانے پر خوف و ہراس پھیلایا ہے، وہ یہ ہے کہ ’’وادیٔ کشمیر کے کل رقبہ ۱۵۵۲۰ مربع کلومیٹر میں سے ۸۶۰۰مربع کلومیٹر پر جموں اور دہلی میں رہنے والے کشمیری پنڈتوںکو بسا کر مرکز کے زیر انتظام ایک علیحدہ علاقہ تشکیل دیے جانے کی تجویز ہے، جس کا نام ’پنن کشمیر‘ ہوگا۔ یعنی وادیٔ کشمیر کو مرکز کے زیر انتظام دو علیحدہ علاقوں میں تقسیم کر دیا جائے‘‘۔ ’پنن کشمیر‘ کے زیرگردش نقشے سے معلوم ہوتا ہے کہ وادیٔ کشمیر کا پورا میدانی اور زرعی علاقہ قاضی گنڈ سے کپواڑہ تک اس کی زد میں آئے گا، لیکن محض ٹونگ ڈار، اوڑی اور پہاڑی اور جنگلات کے سلسلوں میں مسلمانوں کو ’غزہ‘ کی طرح بسنے دیاجائے گا۔

اس سلسلے میں حال ہی میں جموں و دہلی میں مقیم شدت پسند کشمیری پنڈت گروپوں نے ایک باضابطہ اجلاس میں وادیٔ کشمیر کے اندر اسرائیل طرز کا ایک خطہ بنانے کی تجویز بھی دی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’اس سلسلے میں ایک مجوزہ قانون وزارت داخلہ میں ڈرافٹ کیا جا چکا ہے اور وہ اس بات پر نالاں تھے،کہ مودی حکومت اس کو پارلیمنٹ میں پیش کرنے میں ٹال مٹول سے کام لے رہی ہے‘‘۔ایک مقرر سشیل پنڈت کا کہنا تھا کہ ’’۵؍اگست ۲۰۱۹ء کے اقدامات ایک عارضی چمک تھی اور مودی حکومت اس کا فالو اَپ کرنے میں ناکام رہی ہے‘‘۔ ایک اور مقرر ڈاکٹر مکیش کول کا کہنا تھا کہ ’’مودی کو بھاری مینڈیٹ تعمیر و ترقی یا نظم و نسق کے نام پر نہیں ،بلکہ ہندو احیاے نو کے لیے ملاہے‘‘۔ للت امبردار نے تو بی جے پی کو اس وجہ سے آڑ ے ہاتھوں لیا ،کیونکہ ’’وہ کئی صوبوں میں مسلمانوں کو لبھا رہی ہے‘‘۔للت امبردار ہی کا کہنا تھا کہ ’’لداخ کو کشمیر سے الگ کرنے سے وہاں کی بدھ آبادی کو آزادی ملی، مگر جموں کا ہندو اور کشمیر ی پنڈت ابھی تک غلام ہے‘‘۔ کئی مقررین نے ’’اسرائیل میں یہودی آباد کاروں کی طرز پر وادیٔ کشمیر کے اندر ’پنن کشمیر‘ تشکیل دینے اور اس میں آبادکشمیری پنڈت آبادی کو مسلح کرنے اور ان کو عسکری تربیت دینے کی بھی سفارش کی‘‘۔

اس ساری صورتِ حال کو ذہن میں رکھ کر ذرا سوچیے کہ افواہوں کا یہ بازار ایسے وقت کشمیریوں کا سکون اور چین چھین رہا ہے ، کہ جب دوسری طرف پچھلے کئی ماہ سے بھارت اور پاکستان کے درمیان خاموش اور پس پردہ سفارت کاری کا عمل جاری ہے۔ پاکستان نے بین الاقوامی فورموں میں موجودہ بھارتی حکومت کو فاشسٹ قرار دینے اور براہِ راست نشانہ بنانے سے کچھ عرصے سے واضح طور سے اجتناب برتنا شروع کردیا ہے۔ جس سے آر ایس ایس کو امریکا، کینیڈا اور مغربی ممالک میں خاصا سُکھ کا سانس لینے کا موقع ملا ہے۔

مگر یہاں پر ایک بہت بڑا اور نہایت بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا ’اعتماد سازی‘ کے یہ سب اقدامات صرف پاکستان کی طرف سے یک طرفہ ہیں یا بھارت کی طرف سے بھی کچھ بامعنی پیش رفت ہورہی ہے؟ یہ موقع ہے کہ پاکستانی حکمران ، پاکستانی قوم اور کشمیریوں کو بتائیں کہ اس کے عوض بھارت نے کشمیریوں کو مثبت طور پر کس حد تک مراعات دینے پر رضامندی ظاہر کی ہے؟ ہم نے یہاں جن پانچ افواہوں کا ذکر کیا ہے اور کشمیری مسلمان آبادی کو گھر سے بے گھر کرنے کی جو سازش ہو رہی ہے، اس سے کشمیری قوم کو ذہنی مریض بننے سے بچانے کے لیے کون کردار اداکرنے کے لیے آگے بڑھ سکتا ہے یا بڑھ رہا ہے؟ کیا یہ دردناک انسانی ، تہذیبی اور تاریخی سوال، غفلت میں ڈوبے اور ہرآن دھوکا کھانے والوں کو کچھ جھنجھوڑ سکتا ہے؟ کیا عالمی ضمیر اور مسلم اُمہ کے دل و دماغ میں انسانی شرف و حُرمت کی کوئی علامت نمودار ہوسکتی ہے؟

امریکی ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والی صومالوی نژاد مسلم رکن کانگرس الہان عمر (Ilhan Omer) نے چند روز قبل اپنے ٹویٹ میں لکھا:’ہم نے امریکا، حماس، اسرائیل، افغانستان اور طالبان کی جانب سے ناقابلِ تصور ظلم و سفاکیت دیکھی ہے۔ ہمارے پاس انسانیت کے خلاف جرائم کے تمام متاثرین کے لیے احتساب اور انصاف کا یکساں نظام ہونا چاہیے‘۔

اس ٹویٹ کے ساتھ انھوں نے جو ویڈیو عوامی سطح پر پھیلائی، وہ امریکی ایوان نمایندگان کی ایک کمیٹی کی سماعت کے دوران سیکر ٹری خارجہ انتھونی بلنکن سے ہونے والی ان کی گفتگو پر مبنی ہے۔ اس گفتگو میں انھوں نے انتھونی بلنکن کو چیلنج کرتے ہوئے سوالات کیے اور انسانیت کے خلاف جنگی جرائم میں افغان حکومت، افغان طالبان، حماس اور اسرائیلی سیکورٹی فورسز کومورد الزام ٹھیرایا۔ الہان عمر نے ان جرائم میں امریکا کے ملوث ہونے پر دانستہ کوئی بات نہیں کی، لیکن بعد ازاں ٹویٹ کرتے ہوئے اس میں امریکا کا نام بھی شامل کر لیا تاکہ عوام کے سامنے اپنی سیاسی ساکھ بچائی جاسکے۔

الہان عمر نے جب انسانیت کے خلاف جنگی جرائم کی تحقیقات کے حوالے سے انتھونی بلنکن سےسوالات کیے تو وہ سمجھ رہی تھیں کہ انھوں نے فلسطینیوں کے حق میں بات کی ہے اور حماس کے بارے میں اسرائیلی موقف دُہرایا کہ ’’حماس، متشدد مزاحمتی تحریک ہے‘‘۔ دوسری طرف انتھونی بلنکن نے لبرل طبقے کی نمایندگی کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ فلسطینیوں کو اسرائیل میں عدل و انصاف مہیا ہوسکتا ہے‘‘۔ اس طرح اپنی منافقت اور بے ایمانی عیاں کردی۔

الہان عمر نے اپنی انتخابی مہم کے لیے درکار خطیر رقم فلسطین کی حمایت کے وعدوں پر اکٹھی کی تھی لیکن الیکشن جیتنے کے بعد وہ فلسطینی حق خود ارادیت کے لیے کی جانے والی مزاحمت اور  دفاع کو’انسانیت کے خلاف جرائم‘ اور اسرائیلی جارحیت کو سامراجی تشدد قرار دے رہی ہیں۔ یہ طرزِبیان منافقانہ غیر جانب داری ظاہر کرنے کا ایک سستا،نسخہ ہے، جسے الہان عمر نے ان سینئر امریکی سیاست دانوں سے سیکھا ہے، جنھوں نےاسے مقامی امریکی مسلمانوں کے ساتھ ساتھ مسلم دنیا کی نمایندگی کے لیے میدان میں اتارا ہے۔ { FR 665 }

یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ فلسطینی مزاحمتی تحریک، بین الاقوامی سطح پر اپنے تسلیم شدہ حق مزاحمت استعمال کرتے ہوئے معمولی ذرائع و اسباب کے ساتھ جدوجہد کر رہی ہے۔ اس کے مقابل اسرائیلی سامراجی اور ایٹمی قوت جدید ہتھیاروں سے لیس ہو کر لوگوں کو ناحق قتل اور غلام بنانے کے لیے تشدد کا ہر حربہ استعمال کر رہی ہے۔ اسرائیلی مظالم اور فلسطینی مزاحمت کے درمیان اخلاقی طور پر کوئی مماثلت نہیں پائی جاتی لیکن مسلم آبادی سے آگے بڑھائی جانے والی لیڈر الہان عمر کو یہ سکھایا گیا ہے کہ ’’اصل حقیقت کو زبان پر لانے سےسیاسی مفادات حاصل نہیں کیے جا سکتے‘‘۔

حماس کی دفاعی اور مزاحمتی کارروائیوں کا اسرائیلی جارحیت کے ساتھ تعداد اور سیاق و سباق کے لحاظ سےموازنہ کرنا ہی ایک مضحکہ خیز حرکت ہے، لیکن اس سے زیادہ کج فہمی کی بات یہ ہے کہ امریکا فلسطین کی نمایندگی کے نام پر مسلم سیاستدانوں کو اپنی سیاسی کمپنی میں بھرتی کرکے ان سے فلسطین کے خلاف بیان دلوا رہا ہے۔ دوسری جنگ عظیم یعنی ۱۹۴۵ء کے بعد سے امریکا نے دنیا بھر میں ہلاکتوں اور تباہی و بربادی کی ایک نئی داستان رقم کی۔ جنوب مشرقی ایشیا سے لے کر افغانستان، عراق، لیبیا،گوئٹے مالا، نکاراگوا، ویت نام، کمبوڈیا، چلّی تک امریکا نے جنگی مہم جوئی، بغاوتوں اور مداخلتوں کے ذریعے لاکھوں افراد کو ہلاک کیا، لیکن الہان عمر جیسی مصنوعی اور غلام قیادتوں کے ذریعے، دانستہ طورپر امریکا کا نام گول کرکے صرف حماس اور طالبان کو مورد الزام ٹھیرایا گیا۔

حماس کے اندھا دھند راکٹوں کا واویلا

لبرل سیاستدانوں کی طرف سےاکثر کہا جاتا ہے کہ ’’حماس عام شہریوں کو نشانہ بنانے کا قصور وار ہے، کیونکہ اس نے اسرائیلی شہروں کی طرف اندھا دھند ہزاروں راکٹ فائر کیے‘‘۔ مگر حقائق پر نظر رکھنے والے تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اسرائیل کو غزہ اور یروشلم میں فلسطینیوں پر حملوں اور ان کی نسل کشی سے باز رکھنے اور ان اقدامات کی قیمت چکانے کے لیے یہ راکٹ فائر کیے گئے۔ ان راکٹوں کی شکل میں جوابی حملے اس لیے بھی کیے گئے تاکہ غزہ کو فلسطین سے الگ کرنے، فلسطین کے مزید ٹکڑے کرکے کمزور کرنے، زمینوں پر زبردستی قبضے جمانے اور یہودی آبادکاری کے مزید منصوبوں پر عمل کرنے سے اسرائیل کو باز رکھا جاسکے‘‘۔

اس حوالے سے غزہ میں حماس کے رہنما یحییٰ سنوار (Yahya Sinwar) نے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا کہ ’’فلسطینیوں کی طرف سے میزائلوں کا استعمال خوشی سے نہیں کیا جاتا۔ جب اسرائیل نے اپنے جدید اسلحہ، ہوائی جہازوں، ٹینکوں، توپوں اور میزائل سے یہ واضح کردیا کہ اس کا مقصد ہمارے بچوں، خواتین، بوڑھوں اور مریضوں کو جان بوجھ کر قتل کرنا ہے، تو ہمارے پاس ان راکٹوں کے استعمال کے علاوہ کوئی راستہ نہیں تھا۔ اگر ہمارے پاس اسرائیل کے فوجی ٹھکانوں اور تنصیبات کو درست طریقے سے نشانہ بنانے کی صلاحیت موجود ہوتی، تو ہم ان مقامی ساخت کے راکٹوں کا اندھا دھند استعمال کبھی نہ کرتے‘‘۔

انھوں نے مزید کہا: ’’ہمارے دفاعی اقدامات کا اسرائیل کے ان جارحانہ اقدامات سے موازنہ کرنا درست عمل نہیں ہے، جو ہر قسم کی صلاحیت رکھنے کے باجود عام شہریوں کو نشانہ بناتا رہا۔ جب اسرائیل نے ہمیں دیوار سے لگاکر مجبور کیا کہ ہم دفاع کی آخری حد تک جائیں تو ہمارے پاس جو کچھ موجود تھا، ہم نے اسے استعمال کیا۔ اگر انھیں فلسطین کے معمولی قسم کے، نشانوں پر فٹ نہ بیٹھنے والے راکٹوں سے مسئلہ ہے تو یہ امریکا اور یورپی یونین سے کیوں نہیں کہتے کہ جس طرح انھوں نے اسرائیل کو جدید ہتھیاروں سے لیس کیا ہے، اسی طرح فلسطین کو بھی کم ازکم ایسے ہتھیاروں سے تولیس کریں جو فوجی تنصیبات کو درست طریقے سے نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہوں‘‘۔

بلاشبہہ معمولی قسم کے راکٹ فوجی تنصیبات کو نشانہ بنانے کے بجائے عام شہری آبادیوں پر بھی گر سکتے ہیں اور حماس کے راکٹوں سے اسرائیل میں ۱۱؍ افراد ہلاک ہوئے اور انٹی ٹینک بم داغنے سے ٹینک تباہ ہونےکے بجائے ایک اسرائیلی فوجی ہلاک ہوا۔ لیکن ہلاکتوں کی یہ کم تعداد ظاہر کرتی ہے کہ حماس نے نہ اپنی پوری صلاحیت کا استعمال کیا اور نہ اس کے اقدامات اسرائیل میں کسی بڑی تباہی یا ہلاکتوں کا باعث بنے۔ یہ محض دفاعی مقصد کے حصول کے لیے کم سے کم طاقت کا استعمال تھا۔ مگر اس کے برعکس اسرائیل نے مزاحمتی تحریک کو بے دردی سے کچلنے کے لیے کئی دنوں تک رات، دن مسلسل بمباری کی اور یہ بھی نہیں دیکھا کہ بم کسی فوجی ٹھکانے پر گر رہا ہے یا کسی رہایشی عمارت، دفتر، ہسپتال، میڈیا سنٹر، اخباری دفتر یا کارروباری عمارت پر۔ صرف چند دنوں میں ۲۵۰سے زائد بے گناہ فلسطینی شہریوں کو ہلاک کیا گیا، جن میں ستّر کے قریب بچے بھی شامل تھے۔ ہر انسانی زندگی قیمتی ہوتی ہے لیکن الہان عمر کی طرف سے اسرائیلی نوآبادیاتی تشدد اور فلسطینی مزاحمت کو برابر اور یکساں قرار دینا حقائق کو مسخ کرنے کے مترادف ہے۔

ظلم کا آغاز ظلم سے ہی ہوتا ہے

یاد رہے ۱۹۸۰ء کے عشرے میں فلسطینیوں نے اسرائیلی قبضے اور مظالم سے تنگ آکر ہرقسم کی بیرونی امداد سے مایوسی کے عالم میں آخری رد عمل کے طورپر خودکش فدائی حملوں کا راستہ اختیار کیا تھا مگر حالات قدرے بہتر ہوتے ہی فلسطینی تنظیموں نے خود ہی اس راستے کو ترک کردیا۔ تاہم، استعماری جارحیت کے خلاف ہونے والی ہر جدوجہد میں ردعمل لازمی عنصر ہوتا ہے۔ جب مقامی مزاحمت کارروں کےپاس نوآبادیاتی طاقت کو روکنے کا کوئی سامان نہیں ہوتا تو وہ آخری حربہ کے طورپر اسی طرح کے اقدامات اٹھاتے ہیں۔ نیلسن منڈیلا جسے مغرب نے فلسطینیوں کے قتل عام پر اسرائیلی حمایت کرنے کے صلے میں بزرگ سیاسی رہنما کے طور پر قبول کر لیا تھا، انھوں نے بھی اپنی خودنوشت The Long Walk to Freedom میں ایسے اقدامات کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا ہے:

’مظلوم اپنی خواہش سے کوئی اقدامات نہیں اٹھاتے بلکہ یہ ظالم ہوتا ہے جو جدوجہد کی کسی مخصوص شکل کو اپنائے جانے کے حالات پیدا کرتا ہے۔ جب ظالم قوت، طاقت کا بے دریغ استعمال کرتی ہے تو مظلوم کے پاس پُرتشدد ردعمل کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں ہوتا اور یہ آخری حربہ کے طور پر جائز عمل ہوتا ہے۔ اگر فرض کریں یہ ایک ناجائز حربہ ہے، توپہلے ظالم کو وحشیانہ تشدد سے دست بردار ہونا چاہیے۔ ظالم کے پاس تو ہر طرح کے ذرائع استعمال کرنے کے انتخاب کی آزادی ہوتی ہے، جب کہ مظلوم کے پاس انتخاب کی آزادی نہیں ہوتی۔ اسے جو میسر آئے وہ وہی استعمال کرتا ہے‘۔

’مسلح جدوجہد کے ابتدائی مراحل میں افریقی نیشنل کانگرس بھی ایسے اقدامات کرتی تھی، جس سے زیادہ لوگوں کو نقصان پہنچنے کا خدشہ نہ ہو۔ لیکن جب یہ بات واضح ہوگئی کہ ان اقدامات سے سامراجی طاقت کو کوئی بڑانقصان نہیں پہنچ رہا، تو ہم اگلے مرحلے یعنی گوریلا جنگ اور دہشت گردی میں داخل ہونے کے لیے تیار ہوگئے‘۔

فلسطین میں رہایشی عمارتوں، بازاروں، ہوٹلوں، ہسپتالوں اور کارروباری مراکز پر اسرائیل نے بمباری اس لیے نہیں کی ہے کہ اسرائیل کو فلسطینی جارحیت سے خطرہ تھا بلکہ یہ اسرائیلی استعماری ہتھکنڈہ تھا، جسے صیہونی ریاست کی توسیع کے لیے استعمال کیاجاتا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ فلسطینیو ں پر جنگ مسلط کرکے انھیں دہشت گردی کا نشانہ بنایا جائے اورحق خودارادیت سے روکا جائے۔ اگر فلسطینیوں نے اسرائیلی مظالم سے تنگ آکر ۱۹۹۰ء کے عشرے میں یا ۲۰۰۰ء کے عشرے کے اوائل میں خودکش دھماکے کیے تو وہ کوئی ایسے اقدامات نہیں تھے، جن کو الہان عمر مظالم کے نام سے پیش کرے۔ اگرچہ اس حکمت عملی کو اب ترک کر دیا گیا، اور پھر یہ بھی ہے کہ دھماکے صرف حماس نے نہیں کیے تھے بلکہ اس میں محمود عباس کی الفتح پارٹی اور فلسطینی اتھارٹی بھی شامل تھی، جس کے ساتھ گرم جوشی کے تعلقات قائم کرنے کے لیے بلنکن بے چین ہے۔

اس حوالے سے تیسری اہم بات یہ ہے کہ ان دھماکوں کی مخالف قوت اسرائیل کسی بے بسی کا شکار نہیں تھی کہ دنیا میں اس کی بات نہ سنی جائے یا ان کارروائیوں کا انتقام لینے کے لیے اس کے ہاتھ پائوں بندھے ہوں۔ اسرائیل نے ان کارروائیوں کے جواب میں بے شمار لوگوں کو ماورائے عدالت اور غیر قانونی طریقے سے موت کے گھاٹ اتارا۔ ان میں حماس کے بانی لیڈرشیخ احمد یاسین بھی شامل تھے، جو بچپن سے نابینا ہونے کی وجہ سے وہیل چئیر پر تھے۔ انھیں مارنے سے قبل اسرائیل نے انتقامی کارروائیاں کرتے ہوئے مشتبہ دہشت گردوں کے ساتھ ساتھ ہرآنے جانے والے کو بھی ہلاک کیا۔ امریکا نے آج تک اسرائیل کی کسی ایسی کارروائی کو دہشت گردی قرار نہیں دیا۔

اسرائیل نے ۲۰۰۲ء کے بعد الفتح رہنما مروان بار گھوتی کو جیل بھیجتے ہوئے الزام لگایا تھا کہ ’’وہ دوسری انتفاضہ میں اسرائیل کے خلاف دہشت گردانہ کارروائیوں کی رہنمائی کرتا تھا‘‘۔  اپنے خلاف مقدمے کی کارروائی میں واضح طورپر جانب داری نظر آنے پر مروان گھوتی نے اپنے دفاع سے انکار کر دیا تھا لیکن اس کے باوجود اسے پانچ بار عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ یہ سزائیں دینے والے ججوں نے ان عدالتی فیصلوں کو بھی کوئی اہمیت نہیں دی، جن میں کئی جرائم میں عدم ثبوت کے باعث مروان گھوتی کو بری کر دیا گیا تھا۔ اس دوران امریکا نے ایسے متعدد قوانین پاس کیے، جن میں انسداد دہشت گردی کے نام پر امریکی عدالتوں میں فلسطینیوں پر اسرائیل کے خلاف حماس سے ملتے جلتے الزامات لگا کر انھیں سزائیں دی گئیں۔ لیکن دوسری طرف امریکا نے فلسطینیوں کو اسرائیلی ظلم و ستم سے بچانے کے لیے کبھی کوئی قانون پاس نہیں کیا۔

سچ بات یہ ہے کہ الہان عمر نے جو کچھ کہا ہے وہ امریکی انتظامیہ کے دل کی ہی آواز ہے۔ امریکی دبائو میں نام نہاد عالمی برادری کی طرف سے ہر قسم کی فلسطینی مزاحمت خواہ وہ مسلح ہو یا غیر مسلح اسے دہشت گردی سے جوڑ کر اس کی مذمت کی جاتی ہے۔

لبرل سیاستدان، جارح کی مذمت کے بجائے جارحیت کے شکار متاثرین کوخوش اخلاقی کی تلقین کیوں کرتے ہیں؟

کئی مزاحمتی فلسطینی گروپوں کے درمیان صرف حماس کو جنگلی، مذہبی جنونی، اپنی موت کو دعوت اور تباہی کو آواز دینے والے، اور یہود کے بدترین دشمن قرار دینا، مغرب کے لبرل سیاست دانوں کا سب سے آسان سیاسی فارمولا ہے۔ مغربیوں کی پشت پناہی میں اسرائیل کا یہ سالہا سال سے پھیلایا ہوا پروپیگنڈا ہے کہ ’فلسطینی دہشت گرد‘ ہیں۔ اور ایسے آزاد خیال اس پروپیگنڈے کو پھیلانے کا ارادی یا غیرارادی طور پر ذریعہ ہیں۔

گذشتہ دو عشروں سے حماس، فلسطینی قومی سیاست کے مرکزی دھارے کی طرف مڑنے والی تنظیم ہے، جس نے اخوان المسلمون سے الگ راستہ اختیار کرکے ۱۹۶۷ء کی سرحد کو فلسطینی ریاست کی اساس کے طورپر قبول کیا تھا۔ اس نے ۲۰۱۷ء میں اپنے رہنما اصولوں کا جو خاکہ پیش کیا، وہ اس کی بدلی ہوئی پالیسی کا واضح دستاویزی ثبوت ہے۔ اس دستاویز میں کہا گیا:’’حماس تنظیم اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ اس کا تنازعہ صیہونی منصوبے سے ہے نہ کہ یہودیوں کے ساتھ کسی مذہبی دشمنی کی وجہ سے۔ حماس، یہودیوں کے خلاف محض ان کے یہودی ہونے کی وجہ سے کوئی جدوجہد نہیں کر رہی بلکہ یہ جدوجہد صرف اس لیے ہے کہ اسرائیل فلسطین پر ناجائز طورپر قابض ہے۔ یہ جدوجہد ان صیہونی غاصبوں کے خلاف ہے، جو یہودیوں کو فلسطینیوں کی زمینوں پر ناجائز طور پر بسا رہے ہیں اور غیر قانونی نوآبادیاتی منصوبے کو توسیع دے رہے ہیں‘‘۔

اس دستاویز میں اسرائیل کے خلاف فلسطینیوں کی مسلح مزاحمت کی توثیق کی گئی ہے، لیکن یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’’فوجی کارروائی، قومی و سیاسی اہداف کےحصول کا ذریعہ ہے نہ کہ بذاتِ خود کوئی مقصد یا ترجیحی اقدام‘‘۔ حماس کے رہنما یحییٰ سنوار نے اس کی وضاحت اپنے انٹرویو میں اس طرح کی کہ ‘ہم جنگ یا لڑائی نہیں چاہتے کیونکہ اس کی قیمت انسانی جانوں کی شکل میں ادا کرنا پڑتی ہے۔ ہم امن چاہتے ہیں اور ایک طویل عرصے سے عوامی اور سیاسی مزاحمت کر رہے ہیں، لیکن افسوس کہ عالمی برادری اسرائیل کے جرائم اور قتل عام کو عملی طور پر روکنے کے بجائے صرف تماشا دیکھ رہی ہے اور اسرائیلی جنگی مشینیں ہمارے نوجوانوں کو قتل کیے جارہی ہیں۔ کیا دنیا ہم سے یہ توقع رکھتی ہے کہ ہمارے پیارے مرتے رہیں اور ہم رونے دھونے کے ساتھ صرف انھیں دفنانے پر توجہ مرکوز رکھیں؟ کیا خوش اخلاق شکار (victim) ہونے کا تقاضا یہ ہے کہ ذبح ہوتے وقت خاموشی سے درد سہا جائے اور تڑپنے کا شور بھی نہ مچایا جائے؟ حماس پر دہشت گرد ی، خونخواری، بچوں اور عورتوں کو ڈھال کے طورپر استعمال کرنےیا یہود دشمنی کے الزامات لگانا اسرائیلی پروپیگنڈے کا حصہ ہے، کیونکہ حماس کی پالیسی اسرائیلی کے نسل پرستانہ نظریات کے خلاف اور توسیعی کارروائیوں سے متصادم ہے‘‘۔

امریکا اور اسرائیل حماس کو کیوں مسترد کرتے ہیں؟

حماس کی قومی، عسکری و سیاسی حکمت عملی دیگر سامراج مخالف حریت پسند تحریکوں مثلاً سن فین (Sinn Fein) یا آئرش ری پبلکن آرمی کی طرح سیاسی انداز سے آگے بڑھ رہی ہے۔ برطانیہ کی طرف سے طویل عرصے تک آئرش گروپوں کو ’دہشت گرد‘ قرار دیا جاتا رہا، لیکن پھر انھیں ان مذکرات کا حصہ بھی بنایا گیا، جو ۱۹۹۸ء کے ’بیلفاسٹ معاہدے‘ کے سلسلے میں ہوئے اور بالآخر آئرلینڈ کے شمالی علاقوں میں کئی عشروں کے بعد تشدد کا خاتمہ ہوا۔ اگر حماس اور دیگر فلسطینی دھڑوں نے فوجی مزاحمت جاری رکھی ہوئی ہے، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اسرائیل اور اس کے امریکی و یورپی سرپرستوں نے فلسطینیوں کی طرف سے کی گئی تمام فراخ دلانہ پیش کشوں کو ہمیشہ مسترد کیا ہے۔ حماس نے تو پیچھے ہٹ کر نام نہاد دو ریاستی حل سے بھی اتفاق کر لیا تھا، جس میں فلسطینیوں کو اپنے ہی ملک کے صرف ۲۲فی صد حصے پر فلسطینی ریاست تک محدود کر دیا گیا۔ اسرائیل اس پر بھی خوش نہیں، اس کا اصرار ہے کہ اسے دریائے اردن اور بحیرہ روم کے درمیان تمام زمین پر مستقل قبضہ اور بالادستی چاہیے۔

امریکا، حماس کو سخت بے رحمی سے مسترد کرتا ہے اور اس سے بات چیت کے لیے تیار نہیں، حالانکہ وہ طالبان مزاحمت کارروں سے تو براہ راست مذاکرات  کے لیے تیار ہے جن کے ساتھ افغانستان میں بیس سال سے جنگ ہو رہی ہے۔ حماس نے آج تک امریکا سے براہ راست کوئی جنگ نہیں کی، لیکن اس کے باوجود امریکا ان سے بات چیت کے لیے تیار نہیں۔ گذشتہ برس امریکی ایما پر اسرائیل اور خلیجی عرب حکومتوں کے درمیان تعلقات کی بحالی اور معاہدات ہی نے اسرائیل کو موقع فراہم کیا کہ وہ یروشلم میں مزید علاقوں پر قبضے کرکے یہودی آبادیاں بسائے۔ اسی سفاکیت نے فلسطینی مزاحمتی گروپوں کو یروشلم میں فلسطینیوں کے دفاع کے سلسلے میں ایک بار پھر عسکری کارروائیاں کرنے پر مجبور کیا۔

حماس کے خلاف لبرل سیاستدانوں کا یہ عمل بالکل ویسے ہی تعصب پر مبنی ہے، جیسے امریکا میں سیاہ فام لوگ جب اپنے حقوق کے لیے نعرہ لگاتے ہیں کہ ‘ہر جان برابر کی اہمیت رکھتی ہے’ تو ریاستی ادارے نسل پرستانہ پالیسی پر عمل پیرا ہو کر ان پر ہر قسم کا جبر اور تشدد مسلط کرتے ہیں۔ یہ بات تو تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ ’ہر انسانی جان برابر کی اہمیت رکھتی ہے‘ لیکن کیسا سنگین مذاق ہے کہ انسانی جان لینے والے ریاستی تشدد اور مظلوموں کی مزاحمت پر برابر کی ذمہ داری نہیں ڈالی جا سکتی۔ جرم کی نوعیت، واضح تشخیص اور تاریخی پس منظر جانے بغیر دونوں فریقوں پر یکساں ذمہ داری ڈالنا امن کی طرف بڑھتا ہوا قدم نہیں بلکہ ظلم اور جنگ کے شعلوں کو مزید ہوا دینے کے مترادف ہے۔ فلسطین میں ہر قسم کےتشدد کی اصل وجہ صیہونی نوآبادیاتی توسیع پسندانہ منصوبہ ہے اور اس کا راستہ روکے بغیر عدل، انصاف اور امن کی کوئی امید پوری نہیں ہو سکتی۔

مسلسل گیارہ روز فلسطینی عوام پر آتش وآہن کی بارش کرنے اور غزہ کو موت کی وادی بنانے کی کوشش کے بعد اسرائیل پینترا بدل کر جنگ بندی کا اعلان کر چکا ہے۔ اسرائیل نے آبادی کے اعتبار سے دنیا کے گنجان ترین شہر غزہ کو خون میں نہلانے کے لیے کیوں چنا، اور عالمی رائے عامہ کو درخورِ اعتنا نہ سمجھنے کے بعد اسرائیل کو بالآخر خود ہی جنگ بندی کا اعلان کیوں کرنا پڑا؟ یہ وہ بنیادی سوال ہیں کہ جو اسرائیل میں تین برسوں کے دوران پانچویں انتخابی معرکے سے پہلے ہی غزہ کے نہتے شہریوں پر اسرائیل کی جانب سے مسلط کردہ جنگ کو سمجھنے میں مددگار ہو سکتے ہیں۔

لیکن ان دو سوالوں کے ساتھ ہی اس معاملے کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ اسرائیل نے غزہ پر حملے کے لیے ایک ایسے وقت کا انتخاب کیوں کیا، جب عالمی برادری پہلے سے جاری فوجی جارحیتوں سے بے زاری کا اظہار کر رہی ہے؟ ضروری ہے کہ ناجائز قبضے اور توسیع پسندیت کے حوالے سے اسرائیلی تاریخ پر نگاہ دوڑائی جائے۔

  • اسرائیلی توسیع پسندی کا  پس منظر: بیسویں صدی کے شروع میں برطانوی استعمار نے عربوں کے ساتھ فلسطین کے حوالے سے ایک عرب ریاست کے قیام کے وعدوں سے انحراف کرتے ہوئے ۲ نومبر ۱۹۱۷ء کو ’اعلان بالفور‘ جاری کیا۔ گویا ’اعلان بالفور‘ یہودیوں کے لیے ایک واضح اشارہ تھا کہ وہ فلسطین میں اپنی اقلیت کو اکثریت میں بدلنے کے لیے متحرک ہو جائیں تاکہ صہیونی ایجنڈے کے مطابق فلسطین میں ایک ناجائز یہودی ریاست کا قیام ممکن بنایا جا سکے۔

برطانیہ کی جانب سے ’اعلان بالفور‘ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا، جب فلسطین میں ۱۹۱۷ء میں یہودی کل آبادی کا صرف آٹھ فی صد تھے۔ یہودیوں نے ’اعلان بالفور‘ کے بعد مشرقی یورپ، روس اور جرمنی وغیرہ سے فلسطین کی طرف نقل مکانی شروع کر دی۔ یوں ۱۹۳۹ء میں فلسطین میں یہودی آبادی آٹھ فی صد سے بڑھ کر ۳۰ فی صد ہو گئی۔ ۱۴ مئی ۱۹۴۸ء کو امریکا اور مغربی ممالک کے اسٹرے ٹیجک ملاپ سے جنم لینے والی ناجائز اسرائیلی ریاست کو فلسطین کا ۵۳ فی صد رقبہ دے دیا گیا، جب کہ اکثریتی آبادی کے حامل فلسطینی عوام کو صرف ۴۷ فی صد علاقے کا مالک تسلیم کیا گیا۔

ناجائز اسرائیلی ریاست نے صرف اسی پر بس نہ کیا اور عالمی سامراج کی سرپرستی حاصل ہونے کے نشے میں ۱۹۴۸ء میں ہی فلسطینیوں کے مزید ۲۱فی صد علاقے پر فوجی طاقت سے قبضہ کر لیا اور ۸ لاکھ فلسطینیوں کو اپنے آبائی وطن سے بے دخل کر کے ہجرت پر مجبور کر دیا۔ اس وقت ۶۰لاکھ فلسطینی مہاجرت کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اسرائیلی ناجائز ریاست کے توسیع پسندانہ حربے جاری رہے اور جون ۱۹۶۷ء کی عرب اسرائیل جنگ میں مزید عرب علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ غزہ پر بھی ۱۹۶۷ء میں اسرائیلی قبضہ ہو گیا، جو اس نے بزور طاقت ۲۰۰۵ء تک جاری رکھا۔

  • بھیڑیـے کا عذر لنگ :اسرائیل کا کہنا ہے کہ ’’غزہ پر جنگ، القسام بریگیڈ کے راکٹ حملے روکنے کے لیے مسلط کی گئی‘‘۔ اس دعوے کی عذر لنگ سے زیادہ اہمیت نہیں ہے۔ اسرائیل کے اس بہانے کو صرف اسرائیل کی اندھی حمایت کرنے والا امریکا یا اس کے حواری ہی سچ مان سکتے ہیں۔ کیونکہ تھوڑی سی فہم رکھنے والے ہر آزاد شہری یہ ضرور سوچ سکتا ہے کہ اسرائیل جن راکٹ حملوں کو اپنی طرف سے مسلط کردہ تباہ کن جنگ کا سبب قرار دے رہا ہے، کیا ان راکٹ حملوں نے اسرائیل کی فوجی تنصیبات، اداروں اور شہری آبادیوں کو ماضی میں غزہ پر مسلط کی جانے والی اسرائیلی جنگوں کے دوران، یا کم از کم ۱۰مئی ۲۰۲۱ء کے بعد کیا ایسا کوئی نقصان پہنچایا ہے، جس طرح اسرائیل نے غزہ میں تعلیمی اداروں، ہسپتالوں، مساجد، میڈیا ہاؤسسز اور رفاہی اداروں کو تباہ کیا ہے۔

اسرائیل اور حماس کے درمیان فوجی قوت کا فرق یہ ہے کہ ایف سولہ طیارے، مہلک ڈرون، فاسفورس بم، جدید ٹینک اور توپ و تفنگ سب کچھ اسرائیل کے پاس ہے۔ مگر دوسری طرف زیر محاصرہ فاقہ کش اہل غزہ پر دہشت گردی کا الزام ہے۔ ناجائز ریاست کے باسی اور ناجائز قبضوں کی تاریخ رکھنے والے صہیونی غزہ پر حملہ آور ہوئے، تو صرف امریکا کی ہٹ دھرمی ہی ان کی پشت پناہ بنی۔ اہلِ غزہ پر جارحیت کا الزام وہ ریاست لگا رہی تھی، جس کی پارلیمنٹ کی پیشانی پر توسیع پسندی ریاستی نصب العین کی صورت ان الفاظ میں نقش ہے۔ ترجمہ: ’’اے وطن اسرائیل! تیری سرحدیں فرات سے نیل کے ساحل تک پھیلی ہوئی ہیں‘‘۔

دنیا کا واحد ملک اسرائیل ہے، جس نے اپنی سرحدوں کو اقوام متحدہ کی قراردادوں یا نقشوں کے مطابق تسلیم نہیں کیا، بلکہ اس کا دعویٰ ہے کہ اسرائیلی حدود کی تکمیل تب ہو گی، جب اردن، شام، عراق، ایران، آدھا سعودی عرب اور ترکی ومصر کے کئی علاقے ریاست اسرائیل کے قبضے میں آئیں گے۔

کیا یہ مسلم ریاستوں کے خلاف ’اسرائیل اور اسرائیلی مداخلت کاروں‘ کی کھلی جارحیت اور دہشت گردی کا ایجنڈا نہیں ہے؟ اور کیا نصف درجن سے زائد مسلم ریاستوں کو ہڑپ کرنے اور جارحانہ عزائم رکھنے والے اسرائیل کے لیے غزہ کی تھوڑی سی پٹی کی نیم، خودمختاری اور ظالمانہ پابندیوں سے بندھی نام نہاد ’آزادی‘ بھی قابلِ قبول نہیں ہے؟ خصوصاً جہاں پر حماس جیسی مضبوط، منظم اور فلسطینیوں کے حق خود ارادیت کے لیے لڑ مر جانے والی سیاسی قوت بھی موجود ہو۔ اسرائیل نے ۱۵ برسوں سے اس کی ناکہ بندی کر رکھی ہے اور اس پر تین جنگیں بھی مسلط کی جا چکی ہیں۔

  • حماس کو کچلنے کا ہدف : ۲۰۰۵ء میں اسرائیل کو غزہ کا قبضہ ایک معاہدے کے تحت چھوڑنا پڑا۔ اسرائیلی قبضے کے خاتمے کے صرف ایک سال بعد فلسطین میں ہونے والے عام انتخابات میں حماس نے جمہوری طریقے سے ’الفتح‘ کو شکست دے دی اور غزہ حماس کے سیاسی گڑھ کے طور پر سامنے آیا۔ فلسطینی مجلس قانون ساز کی ۱۳۲ نشستوں میں سے ۷۴ نشستیں حماس نے جیت کر فلسطین کی سب سے بڑی جمہوری اور پارلیمانی جماعت کا اعزاز حاصل کیا۔ اسرائیل، امریکا اور برطانیہ نے حماس کے حق میں جمہور کے فیصلے کو ماننے سے انکار کر دیا۔ البتہ ’الفتح‘ تنظیم نے عوامی غیظ وغضب کے خوف سے عوامی فیصلے کو وقتی طور پر تسلیم کر لیا، لیکن حماس کے خلاف سازشیں شروع کر دیں، اور دوسری طرف حماس سے تعلق رکھنے والے مجلس قانون ساز کے اسپیکر ڈاکٹر عزیز دویک سمیت ۴۲ منتخب ارکان کو جیلوں میں قید کرکے حماس کی حکومت ختم کر دی گئی۔ تاہم، غزہ میں حماس کی عوامی حمایت ’الفتح‘ کے لیے ایک چیلنج رہی۔ اسی لیے غزہ میں حماس کی عمل داری ختم نہ کی جا سکی۔ یہ صورت حال اسرائیل اور ’افتح‘ دونوں کے لیے قابل قبول نہ تھی۔۲۰۰۸ء اور ۲۰۰۹ء میں غزہ پر جو جنگ مسلط کی گئی، اس کا سیاسی پس منظر، ریکارڈ کی درستی کے لیے بیان کرنا ضروری ہے۔

محمود عباس کی مدت صدارت ۹ جنوری ۲۰۰۹ءکو ختم ہونے کے بعد حماس اپنی سیاسی طاقت استعمال کرتے ہوئے جیل میں قید سپیکر ڈاکٹر عزیر دویک کو قائم مقام صدر بنانے کا آئینی مطالبہ کر سکتی تھی اور فلسطینی آئین کے مطابق نئے صدارتی انتخاب کی راہ ہموار ہو سکتی تھی۔ مگر یہ بات ’الفتح‘ کے لیے قابلِ قبول نہ تھی۔ اس صورتِ حال کو اسرائیل نے غزہ پر ۲۰۰۸ء کے اواخر میں  کھلی جنگ مسلط کر کے دنیا کے ذہن سے محو کرنے کی کوشش کی۔ بعد ازاں ۲۰۱۲ء اور ۲۰۱۴ء میں غزہ کے خلاف کی جانے والی جارحیت کا بھی کچھ ایسا ہی پس منظر رہا ہے۔

  • اسرائیلی جارحیت: زیر محاصرہ اور فاقہ زدہ اہل غزہ کے خلاف گیارہ دنوں تک جاری رہنے والی اسرائیل کی حالیہ اندھی اور عریاں جارحیت کا ہدف غزہ کے اندر شہری زندگی کے بنیادی ڈھانچے کا خاتمہ، حماس کی تنظیم اور عوامی حکومت کو کمزور کرنا اور اہل غزہ کو نفسیاتی اعتبار سے شکست وریخت میں مبتلا کرنا تھا۔ اسی مقصد کے لیے اسرائیل نے اپنی فوجی طاقت کا بھرپور استعمال کیا۔

اسرائیلی ایف سولہ طیاروں سے شروع کی گئی بمباری نے عام آبادیوں کو ہدف بنایا جس کے نتیجے میں غزہ میں ۶۵ بچوں اور ۳۹ خواتین سمیت ۲۳۲ فلسطینی شہید اور ۱۹۱۰ زخمی ہوئے۔ زخمیوں میں ۵۶۰ بچے اور ۳۸۰ خواتین شامل ہیں، جب کہ ۹۱معمر فلسطینی بھی زخموں سے چور ہیں۔ اس کے مقابلے میں غزہ میں حماس کے راکٹ حملوں میں صرف ۱۲ صہیونی ہلاک اور ۳۳۵زخمی ہوئے۔

’اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی‘ '(UNRWA') کے مطابق اسرائیلی بمباری سے غزہ میں کروڑوں ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ ۷۵ ہزار فلسطینی بے گھر ہو کر کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ ان میں سے ۲۸ہزار ۷۰۰فلسطینی 'UNRWA' کے اسکولوں میں عارضی طور پر قیام پذیر ہیں۔غزہ کی پٹی پر اسرائیلی بمباری سے صنعتی سیکٹر کو ۴۰ ملین ڈالر کا نقصان پہنچا ہے، جب کہ توانائی کے شعبے کو ۲۲ ملین ڈالر، زراعت کو ۲۷ ملین ڈالر کا نقصان پہنچا ہے۔ حملوں میں ۴۰تعلیمی ادارے جن میں سکول اور یونی ورسٹیاں، کووڈ-۱۹ کی واحد لیب تک شامل تھی تباہ کر ڈالے گئے۔ شہر کے بڑے ہسپتالوں کو نشانہ بنایا گیا۔

ایک ایسے ماحول میں جب امریکا اور اقوام متحدہ نام نہاد بین المذاہب ہم آہنگی کا علَم اٹھائے ہوئے ہیں، اسرائیل نے غزہ کی متعدد مساجد شہید کر دیں۔ خوراک کے ایسے گودام جو اقوام متحدہ کے زیر انتظام تھے اور اقوام متحدہ کے ریلیف اینڈ ورکس ادارے (UNRWA) کے دفاتر بھی اسرائیل نے تباہ کر دیے، حتیٰ کہ شہر کے اندر کی سڑکیں اور پل تک تباہ کر دیے گئے۔ گویا اسرائیل نے شہر کی اینٹ سے اینٹ بجانے کا تہہ کر رکھا تھا اور اس کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ تھی۔

  • اسرائیلی جنگ بندی یا پسپائی: اگرچہ امریکا کی کوشش رہی کہ نہتے فلسطینیوں کے خلاف تینوں مسلح افواج کو جارحانہ استعمال کرنے والے اسرائیل کے خلاف سلامتی کونسل سے کوئی قرارداد منظور نہ ہونے پائے اور اگر قرارداد کی منظوری اشک شوئی کے حوالے سے ضروری ہوجائے تو ٹال مٹول سے اتنا وقت ضرور گزر چکا ہو کہ اسرائیل غزہ کو تباہ کرنے کا ہدف پورا کر لے۔

دو ہفتے ضائع کرنے کے بعد سلامتی کونسل ایک لولی لنگڑی قرارداد لائی تو امریکا نے اپنے دامن پر اسرائیلی جارحیت کی مذمت کا دھبہ نہ لگنے دیا۔ سلامتی کونسل میں قرارداد تو عملاً اقوام متحدہ کی بے اثری اور دوہرے معیار کے اسی سرد خانے کی نذر ہو چکی ہے، جس میں پہلے بھی شرق اوسط کے بارے میں اسی نوع کی اور بہت سی قراردادیں پڑی گل سڑ رہی ہیں۔

عالمی رائے عامہ، جسے جمہور کی آواز کہنا چاہیے، امریکی جارحیت کے بعد اب کی بار اسرائیلی جارحیت کے مقابل سامنے آئی۔ جمہور کی یہ عالمی آواز، عالمی طاقتوں کے سنگ دلانہ رویے اور دوہرے معیار سے بیزاری بھی ہے۔  گویا یہ علَم بغاوت ہے، جو ننھے بچوں، خواتین، وکلا، صحافیوں سمیت زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والوں نے تھام رکھا ہے۔

اسی کی بدولت اسرائیل ایسی سرکش اور ’روگ اسٹیٹ‘ کو بالآخر خود جنگ بندی کا اعلان کرنا پڑا۔ اگرچہ یہ اعلان جنگ بندی اس وقت تک محض ایک ڈھونگ رہے گا، جب تک اسرائیل کی فوج غزہ اور اہل غزہ کی ناکہ بندی جاری رکھتی ہے۔ اس صورت حال میں حماس نے بجا طور پر راکٹ فائر نہ کرنے کو اس بات سے مشروط کرتے ہوئے اسرائیل کو انتباہ کیا ہے کہ الشیخ جراح کالونی اور مسجد اقصیٰ میں اسرائیلی افراط وتفریط ہوئی تو ہم کسی بھی جنگ بندی معاہدے کے پابند نہیں ہوں گے۔

بلا شبہہ اسرائیلی طیاروں، ٹینکوں اور توپوں نے غزہ کو تباہی سے دوچار کیا، لیکن جس حالت میں اسرائیلی فوج کو واپس جانا پڑا ہے، اس کے پاس ایسا کوئی تمغہ نہیں ہے جسے وہ حماس کو کمزور کرنے، ختم کرنے کے حوالے سے اپنے سینے پر سجا سکے۔ واقعہ یہ ہے کہ اسرائیلی حکومت، اسرائیلی فوج کے جنگی جرائم پر پردہ ڈالنے کے لیے اب دفاعی پوزیشن اختیار کرنے پر مجبور ہو رہی ہے۔

اس میں دو رائیں نہیں کہ سوشل میڈیا اور شہری صحافت کے توسط سے غزہ کے شہریوں پر فاسفورس بموں سے حملوں کے مناظر سامنے آنے کے بعد، اسرائیلی فوج کا تشخص ‘روگ آرمی‘ اور خود اسرائیل کا تعارف ایک ’روگ سٹیٹ‘ کے طور پر سامنے آیا ہے۔ خصوصاً اسرائیل فوج کی بمباری سے جس طرح معصوم بچوں کے لاشے غزہ کی گلیوں اور ملبے تلے تڑپتے رہے، ہستپال، تعلیمی ادارے ملبے کا ڈھیر بنتے رہے اور اسرائیلی فوج شہدا کی نماز جنازہ پر ہی نہیں قبرستانوں پر بھی بمباری کرتی رہی۔ان میں اکثر مناظر تصویروں اور ویڈیو فوٹیج کے ذریعے دُنیا بھر میں دیکھے گئے۔

یہ سفاکانہ بم باری جنیوا کنونشن کی ایسی خلاف ورزیاں ہیں جو اسرائیلی فوجیوں پر جنگی جرائم کے مقدمات کا باعث بن سکتی ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو اپنے خلاف کرپشن مقدمات سے بریت کے جو خواب دیکھ رہے ہیں، غزہ میں بہائے جانے والے خون کو اقتدار کی اگلی منزل تک پہنچنے کے لیے کیسے استعمال کرتے ہیں؟ تاہم، یہ بات طے ہے کہ اسرائیل نے اقوام متحدہ کی قرارداد مسترد کرکے بعد میں خود ہی جنگ بندی کا اعلان کر کے سو پیاز اور سو جوتوں والی روایت کو برقرار رکھا ہے۔

  • بے مقصد جنگ میں اسرائیل کی اخلاقی شکست: ہم اس مختصر مضمون کے اختتام پر تاریخ کی ایک اہم گواہی پیش کرنا ضروری سمجھتے ہیں، اور وہ ۱۸جنوری کے ۲۰۰۹ء کے اخبار گارڈین ،لندن کا اداریہ ہے جس کا عنوان ہے: ’’ایک بے مقصد جنگ میں اسرائیل کی اخلاقی شکست‘‘۔

اس ادارتی نوٹ میں اخبار نے جو نکات ۲۰۰۹ء میں بیان کیے تھے، آج ۲۰۲۱ء یعنی ساڑھے بارہ برس بعد بھی المیے کا دُہرانا ثابت ہورہے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے: تاریخی طور پر اسرائیل کی غزہ میں حماس کے خلاف جارحیت کوتنازع کے دیرینہ بیانیے اور خطے میں پائی جانے والی باہمی ناانصافیوں اور ناہمواریوں سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔

جغرافیائی پہلو سے بات کی جائے تو ایک مختصرقطع اراضی کے خلاف جنگ کودوسرے ممالک؛ جیسے شام ، مصر ، امریکا اور ایران وغیرہ کی وسیع ترشرکت اور تزویراتی مفادات سے الگ تھلگ نہیں کیا جاسکتا۔یہ حقیقت خود ہی اس امر کی وضاحت کردیتی ہے کہ یہ آپریشن اسرائیل کی شکست کا کیوں غماز ہے؟کیونکہ ہمیشہ ایسا ہی نتیجہ برآمد ہوسکتا ہے۔یہ نعرہ تو اسرائیلی سیاست دانوں کا ایک مستقل مخمصہ ہےکہ ’’اس ملک (اسرائیل) کی سلامتی سے متعلق مسائل کوطاقت کے بے مہابا استعمال کے ذریعے یک طرفہ طورپرحل کیا جاسکتا ہے‘‘۔ اس معاملے میں جنوبی اسرائیل کی جانب حماس کے راکٹ حملوں کا حل یہ نکالا گیا کہ حماس کے خلاف جنگ مسلط کردی جائے۔اسرائیلیوں نے اس ضمن میں وسیع ترانسانی پہلو کو ملحوظ نہیں رکھا کہ ایک گنجان آباد غزہ میں حماس کے خلاف ایک مکمل جنگ کا لازمی نتیجہ شہری آبادی کے خلاف ایک حملہ ہی متصور ہوگا۔

اسرائیل کی اگر اپنی ہی شرائط کی بات کی جائے تو اس کی یہ مہم ناکامی سے دوچار ہوئی ہے۔اسرائیلی حکام اب اس بات پر اصرار کرسکتے ہیں کہ انھوں نے حماس کی راکٹ حملوں کی صلاحیت کو محدود کردیا ہے لیکن اس جنگ کا بظاہر مقصد تو یہ بتایا گیا تھا کہ حماس کی راکٹ داغنے کی صلاحیت کا مکمل طور پر خاتمہ کردیا جائے گا۔

اسرائیل کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ اس کی اس جنگی مہم جوئی نے بہت سے عرب دارالحکومتوں میں حماس کے لیے ناکافی حمایت کو بھی بے نقاب کردیاہے۔غزہ میں حماس کی پوزیشن کو نقصان پہنچایا ہے۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ بلاامتیاز [اسرائیل کی]سفاکانہ فوجی جارحیت نے حماس کے اسرائیلی قبضے کے خلاف فلسطینی مزاحمتی حیثیت کو ایک اہم اور ترجیحی کردار کے طور پر اور زیادہ بڑھا دیا ہے۔

’’نیز اسرائیلی فورسز نے جس طرح فلسطینی شہریوں کے زندگیوں کے بارے غیرمعمولی بے رحمی کا مظاہرہ کیا ہے،ان کے خلاف فوجی طاقت کا بے دریغ استعمال کیا ہے اور اس کے خلاف جو عالمی ردعمل آیا ہے.... جیسا کہ اخبار آبزرور نے رپورٹ کیا ہے کہ اسرائیل کے خلاف جنگی جرائم کی فردِجُرم عاید کی جاسکتی ہے۔جنگی جرائم کے ایسے تمام الزامات کی آزادانہ تحقیقات ہونی چاہیے‘‘۔

۲۰۰۹ء میں اخبار گارڈین کے اس اداریے کو مئی ۲۰۲۱ء میں پڑھیں تو یوں لگتا ہے وقت تھم گیا ہے اور ظلم اسی طرح وحشت بار ہے!

امریکا نے افغانستان سے فوجوں کی واپسی کا اعلان کرکے فی الحال امن مذاکرات اور طالبان کو منوانے کا ٹھیکہ ترکی کے سپرد کیا ہے۔ اس سلسلے میں ۲۴؍اپریل ۲۰۲۱ءکو استنبول میں مشترکہ اجلاس کا اعلان کیا گیا، مگر طالبان نے اس میں شرکت نہ کرنے کا اعلان کر دیا، جس سے یہ اجلاس فی الحال ملتوی کر دیا گیا ہے۔ حالات و واقعات بتاتے ہیں کہ امریکا، قطر اور ترکی کی مدد سے کسی ایسے معاہدے کے خد و خال تیار کرنے میں مصروف ہے، جس سے شام کی طرز پر افغانستان میں جنگ بندی عمل میں لائی جاسکے اور زمینی صورتِ حال کو جوں کا توں رکھا جائے ۔ گویا جس فریق کو جس علاقے پر برتری یا کنٹرول حاصل ہو، اس کو تسلیم کرکے اور چھیڑے بغیر مذاکرات کے سلسلے کو آگے بڑھایا جائے اور پھر ایک طرح سے افغانستان کو اپنے حال پر یا وقت کے دھارے پر  چھوڑ دیاجائے ۔ پاکستان کے ذریعے طالبان کے لیڈروں کو بتایا گیا ہے کہ ’’کابل کی اشرف غنی کی حکومت کے پاس تو بس ۳۳ فی صد علاقے کا کنٹرول ہے، ۱۹ فی صد علاقہ طالبان کے براہِ راست قبضے میں ہے اور ملک کا بقیہ ۴۸ فی صد علاقہ حالت جنگ میں ہے، جہاں آئے دن زمینی صورت حال تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ اس لیے تنازعے کو منجمد کرنا ان کے مفاد میں بھی ہے‘‘۔

فی الحال امریکا اشرف غنی کو یہ باور کروانے میں کامیاب ہوا ہے کہ اس کا وجود مذاکرات کی پیش رفت میں ایک بڑی رکاوٹ ہے ۔ ویسے اس حقیقت کا ادراک امریکا کو ۲۰۱۹ء میں قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کے دوران ہی ہوگیا تھا ۔ باوثوق ذرائع کے مطابق طے پایا تھا کہ ’’ستمبر میں جو متنازعہ صدارتی انتخابات منعقد ہوئے تھے، ان کو کالعدم کرکے ایک وسیع البنیاد یا غیر جانب دار اشخاص پر مشتمل ایک عبوری حکومت کا قیام عمل میں لایا جائے گا، جو بعد میں طالبان کے ساتھ دیگر امو ر پر گفت و شنید کرکے معاملات طے کرکے غیر ملکی افواج کے انخلا کا راستہ ہموار کرے گی‘‘ ۔تاہم دوحہ معاہدے پر دستخط کرنے سے صرف ۱۰روز قبل افغانستان کے الیکشن کمیشن نے اچانک ۱۸ فروری ۲۰۲۰ءکو اشرف غنی کو صدارتی انتخابات میں فاتح قرار دے دیا۔ اس سے پانچ روز قبل بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول اچانک ایک خصوصی طیارے سے کابل پہنچے تھے۔ انھوں نے اشرف غنی کو دوحہ میں جاری مذاکرات اور امریکا کے طالبان کے ساتھ معاہدے کے خد و خال سے آگاہ کرکے بتایا کہ اس کے بعد آپ کی حکمرانی کا جواز ختم ہوجائے گا ۔ اسی لیے الیکشن کمیشن کو ہدایت کریں کہ وہ دوحہ میں اس معاہدے کے اعلان سے قبل ہی نتائج کا اعلان کرے ، تاکہ آپ کی حکومت کی آئینی حیثیت برقرار رہ سکے ۔

اشرف غنی کا ابھی تک اصرار ہے کہ وہ حکومت سے دستبردار ہو جائیں گے ، مگر عبوری انتظامیہ کے ذریعے جلد ہی انتخابات منعقد کرائے جائیں۔ انھوں نے وعدہ کیا ہے کہ ان انتخابات میں وہ شرکت نہیں کریں گے ۔ تاہم، ۳کروڑ ۵۰ لاکھ آبادی والے ملک میں جہاں صرف ۹۶ لاکھ افراد رجسٹرڈ ووٹر ہیں اور ان میں سے بھی ۱۹ فی صد ہی ووٹ ڈالنے پولنگ بوتھ تک آتے ہیں۔ اس سے ان انتخابات کی اخلاقی حیثیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔

 چونکہ ناٹو اتحاد کے تحت ترکی کے۶۰۰ فوجی افغانستان میں مقیم ہیں ، اس لیے امریکا چاہتا ہے کہ غیر ملکی فوجوں کے انخلا کے بعد لیبیا اور شام کی طرح ترکی افغانستان کی سیکورٹی کی ذمہ داری سنبھال لے ۔ اس لیے یورپی یونین سے لے کر بھارت تک اس وقت ترکی کی ناز برداری کرکے افغانستان میں اپنی سرمایہ کاری اور اثاثوں کی حفاظت کی گارنٹی چاہتے ہیں ۔ گذشتہ دنوں تاجکستان کے دارالحکومت دو شنبہ میں ’ہارٹ آف ایشیا کانفرنس‘ کے موقعے پر بھارتی وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر نے ترکی کے اپنے ہم منصب میولوت چوشوولوسے اپیل کی کہ ’’ہمارے اقتصادی پروجیکٹس کو طالبان کی پیش قدمی کے دوران کوئی نقصان نہ پہنچنے پائے‘‘۔ فی الحال ترکی نے فوجوں کی تعیناتی کے حوالے سے کوئی وعدہ نہیں کیا ہے۔ ابھی تک انقرہ میں ایسی ذمہ داری قبول کرنے کے مضمرات پر غور و خوض جاری ہے ، کہ کہیں ہمارا حشر ۱۹۸۷ء میں بھارت کی اُس امن فوج جیسا نہ ہو، جو ۱۹۸۷ء میں تقریباً ان ہی حالات میں سری لنکا میں حکومت اور تامل علیحدگی پسندوں کی مشترکہ اپیل پر امن قائم کرنے گئی تھی، مگر جلد ہی تامل ٹائیگرز کے ساتھ ان کی جھڑپیں شروع ہو گئیں اور بعد میں کولمبو کی حکومت بھی ان کے خلاف برسرِپیکار ہو گئی ۔

مغربی ممالک کا خیال ہے کہ چونکہ ترکی کے پاکستان کے ساتھ تعلقات اچھے ہیں ، اس لیے کابل میں کسی مستحکم اور پائیدار حکومت کے قیام تک اس کی فوج کی تعیناتی طالبان برداشت کرلیں گے۔ بتایا جاتا ہے کہ اشرف غنی کی حکومت نیز سابق شمالی اتحاد کے اکثر رہنمائوں بشمول رشید دوستم اس تجویز کی حمایت کرتے ہیں ۔ دوسری طرف طالبان کی پیش قدمی سے خوف زدہ اشرف غنی، بھارت اور افغانستان میں اس کے حوارین ایک بار پھر پاکستان کو کٹہرے میں لانے کی کوششیں کررہے ہیں اور ڈو مور اور مغربی ممالک کے ذریعے پاکستان پر دبائو بڑھانے کی فکر میں ہیں ، تاکہ وہ طالبان کی مدد کرنے سے باز رہے ۔

سوال یہ ہے کہ اگر ۲۰۱۹ء میں ہی امریکا کو ادراک ہو گیا تھا کہ اشرف غنی کی حکومت مذاکرات اور امن کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے، تو ۲۰۲۱ءتک اس انتظامیہ کو بے دخل کرنے کےلیے کیوں انتظار کرایا گیا؟ کسی اتفاق رائے والی حکومت کا قیام عمل میں لائے بغیر فوجوں کے انخلا کا اعلان کرانا ملک کو ایک بار پھر شدید خانہ جنگی کی طرف دھکیلنے کے مترادف تو نہیں ہے؟ ;

ان سوالات کا جواب یہی ہے کہ ۱۸۳۹ء سے ہی افغانستان میں یہی تاریخ بار بار دہرائی جاتی رہی ہے اور مغربی ممالک پچھلی غلطیوں سے کوئی سبق حاصل کرنے کو تیار نہیں ہیں ۔

کسی غیر جانب دار اور اتفاق رائے والی حکومت کے قیام کے بغیر امریکی فوجوں کے انخلا  سے۱۹۸۸ء کے ’جنیوا معاہدے‘ کی یادیں تازہ ہوجاتی ہیں ، جس کی رو سے سوویت فوجیں اپنے زخم چاٹتے ہوئے افغانستان سے واپس تو ہو گئیں ، مگر پیچھے ایک میدان کارزار چھوڑ کر چلی گئیں ۔ پاکستانی سفارت کاروں کے مطابق، جو اس معاہدے کی تشکیل اور مذاکرات میں شامل تھے، اس وقت کے پاکستانی صدر جنرل محمد ضیاء الحق کی طرف سے واضح ہدایات تھیں ، کہ ’’کابل میں صدر نجیب اللہ کی کمیونسٹ حکومت کو بے دخل کرکے ایک وسیع البنیاد حکومت کے قیام تک، کسی بھی صورت میں سوویت فوجوں کا انخلا نہیں ہونا چاہیے‘‘۔ مگر امریکا بھی اس وقت افغانستان میں ’جنیوامعاہدے‘ پر دستخط ثبت کرنے کےلیے بے چین تھا۔ اس کے خیال میں کابل میں پاکستان کی حمایتی اسلامی حکومت کے بدلے ایک لولی لنگڑی کمیونسٹ حکومت اس کے مفادات کےلیے بہتر ہے۔ امریکیوں کو خدشہ تھا کہ جنرل ضیاء الحق کہیں افغانستان کو بنیاد بنا کروسطی ایشیا کو اسلامی رنگ میں رنگ نہ دیں ، کیونکہ جلد ہی سوویت یونین ٹوٹ پھوٹ کا شکار اور وسطی ایشیا کے ممالک آزاد ہونے والے تھے ۔ ’جنیوا معاہدے‘ پر دستخط کرنے کےلیے پاکستان پر دباؤ ڈالنے کےلیے امریکا نے ۱۲۰دن تک امداد پر پابندی بھی لگائی تھی۔

پاکستان چونکہ اس معاہدہ کو تسلیم کرنے پر ہچکچا رہا تھا، کہ اسی دوران ۱۰؍اپریل ۱۹۸۸ء کو راولپنڈی شہر کے قلب میں افغان مجاہدین کےلیے مخصوص اوجڑی کیمپ کے ایمو نیشن ڈپو میں خوفناک دھماکا ہوا ۔ اسلام آباد اور راولپنڈی کے شہروں پر راکٹوں اور میزائیلوں کی بارش ہوئی، جس میں کم از کم۱۰۰؍ افراد ہلاک ہو گئے ۔ اس کے چار دن بعد، یعنی ۱۴؍اپریل کو جنیوا میں پاکستان، افغانستان، امریکا،سوویت یونین اور اقوام متحدہ کے مندوبین نے معاہدے پر دستخط کرکے سوویت فوجوں کے انخلا پر رضامندی ظاہر کی ۔

صدر ضیاء الحق نے اگرچہ اس کا خیر مقدم کیا، مگر نیویارک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ  کو دیئے گئے انٹرویو میں وہ اپنی ناراضی چھپا نہیں سکے ۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’آخر پاکستان کس طرح نجیب اللہ حکومت کے ساتھ کوئی معاہدہ کرسکتا ہے، جس کے ہاتھ افغانیوں کے خون سے رنگین ہیں؟‘‘ دستاویزات کے مطابق جنرل ضیاء الحق نے نجیب اللہ کے بغیر دیگر کمیونسٹ لیڈرو ں اور مجاہدین پر مشتمل ایک عبوری حکومت کی تجویز بھی پیش کی تھی ۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’اس حکومت کے قیام کے بعد ہی ’جنیوا معاہدے‘ پر دستخط ہونے چاہییں۔ یہ امرواقعہ ہے کہ مجاہدین کمانڈروں یونس خالص اور گلبدین حکمت یار نے بڑے اصرار سے کمیونسٹوں کے ساتھ اقتدار میں شریک ہونے سے انکار کردیا تھا، مگر پاکستانی افسر بتاتے ہیں کہ نجی ملاقاتوں میں ان دونوں لیڈران نے آخرکار نرمی دکھائی تھی۔

’جنیوامعاہدے‘ کے فوراً بعد ہی پاکستان میں واقعات کا ایک تسلسل شروع ہوا ۔ ایک ماہ بعد، یعنی مئی میں وزیر اعظم محمد خان جونیجو کی حکومت کو برطرف کیا گیا اور پھر اگست میں خودجنرل ضیاء الحق  طیارہ حادثے میں پُراسرار موت سے دوچار ہوگئے ۔ اس کے ساتھ ہی کابل پر قبضہ کرنے کےلیے کمیونسٹوں اور مجاہدین کے درمیان افغانستان میں جنگ کا آغاز ہوگیا ۔ ۱۹۹۲ء میں مجاہدین نے کابل کو فتح تو کرلیا، مگر اس کے بعد وہ اگست ۱۹۹۴ء تک آپس میں برسرپیکار رہے، تا آنکہ طالبان نے آکر ان سبھی گروپوں کو شکست دیتے ہوئے کابل پر قبضہ کرلیا ۔

اس سے قبل ۱۹۹۳ء میں مسجد الحرام میں مجاہدین لیڈروں نے جنگ بندی پر رضامندی ظاہر کی تھی اور طے پایا تھا کہ اگلے ۱۸ماہ تک برہان الدین ربانی بدستور صدر رہیں گے اور گلبدین حکمت یار ان کے وزیر اعظم کے طور پر حکومت سنبھا ل لیں گے ۔ یہ معاہدہ سحری کے وقت مسجد الحرام میں سعودی فرمانروا شاہ فہد اور پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کی موجودگی میں طے پایا تھا اور اس کو مزید تقدس فراہم کرنے کےلیے اس کی ایک کاپی خانہ کعبہ کی دیوار کے ساتھ آویزاں کی گئی۔ وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ’’ چونکہ یہ معاہدہ، اسلام کی مقدس ترین جگہ پر طے پایا ہے، اسی لیے کسی کو اس کی خلاف ورزی کرنے کی جرأت نہیں ہوگی ۔ اور اگر کسی نے ایسا کرنے کی کوشش کی تو وہ اللہ کو جواب دہ ہوگا‘‘۔ مگر اس معاہدے کی سیاہی خشک نہیں ہوئی تھی، کہ خانہ جنگی میں ایک بار پھر شدت آگئی ۔ افغانستان جسٹس رپورٹ کے مطابق ۱۹۹۴ءکے پہلے چھے ماہ میں ہی کابل میں ۲۵ہزار افراد ہلاک ہوگئے ۔ آئے دن شہر پر راکٹوں کی بارش ہو رہی تھی، جو اگست ۱۹۹۴ءکو طالبان کی آمد کے بعد ہی تھم سکی ۔ ۲۰۰۱ء کے آخر میں امریکی افواج نے طالبان کو کابل بدر کردیا ۔

دل چسپ بات یہ ہے کہ ۲۰۲۰ء میں امریکی خصوصی نمایندے زلمے خلیل زاد نے دوحہ میں طالبان کے ساتھ جس معاہدے پر دستخط کیے، تقریباً ۱۹سال قبل اپریل ۱۹۹۸ء کو امریکا کے اقوام متحدہ میں سفیر بل رچرڈسن یہی کچھ طالبان رہنما ملا عمر سے منوا چکے تھے ۔ رائے گٹمین کی کتاب How We Missed the Story: Osama bin Laden, the Taliban, and the Hijacking of Afghanistan میں درج ہے کہ’’ طالبان نے نہ صرف جنگ بندی پر رضامندی ظاہر کی تھی، بلکہ شمالی اتحاد کے ساتھ وہ گفت و شنید کےلیے بھی تیار ہو گئے تھے ۔ پاکستانی سفیر کی موجودگی میں رچرڈسن نے طالبان سے منوا لیا کہ ملک میں خواتین کےلیے تعلیمی ادارے کھل جائیں گے اور ہیلتھ ورکروں اور ڈاکٹروں کو خواتین کا معائنہ کرنے اور علاج کرنے کی اجازت ہوگی۔ اس میں خواتین سے متعلق دیگر حقوق کی بھی باتیں درج تھیں‘‘ ۔ اور اب ۱۹ سال کے بعد ڈیڑھ لاکھ افغانوں کی ہلاکت، جس میں ڈھائی ہزار سے زیادہ امریکی فوجی بھی شامل ہیں اور دو اعشاریہ ۲۶۱کھرب ڈالر جھونکنے کے بعد دوحہ میں بھی تقریباً انھی باتوں کا اعادہ کیا گیا ۔

افغانستان میں یہ تاریخ دُہرانے کی شروعات ۱۸۳۹ءکی پہلی برطانوی فوج کشی سے ہوئی تھی ۔ اس فوج کشی کا مقصد دوست محمد کو اقتدار سے ہٹانا اور اس کی جگہ پر اپنے حلیف شاہ شجاع کو تخت پر بٹھانا تھا ۔ یہ ہدف آسانی کے ساتھ پورا تو ہو گیا، مگر جلد ہی سردیوں کی آمد پر افغانیوں نے برطانوی فوجوں کا ایسا قتل عام کیا ، جس کی تاریخ میں نظیر نہیں ملتی ہے ۔ برطانوی فوجوں نے کمک بلاکر اس کا بھر پور بدلہ چکایا ۔ کابل اور اس کے گر دو نواح میں کشت و خون کا بازار گرم کردیا۔ مؤرخ ولیم ڈال رمپل اپنی کتاب Return of a King: The Battle for Afghanistan میں رقم طراز ہیں کہ ’’اس قتل عام اور اجتماعی عصمت دری پر خود کئی برطانوی افسران بعد میں شرمسار تھے۔ خون ریزی کے طوفان کے بعد اب سوال تھا کہ کابل کے تخت پر کس کو بٹھایا جائے؟ شاہ شجاع کو قتل کردیا گیا تھا۔ قرعہ فال پھر دوست محمد کے نام نکلا، جس کو ہٹانے کےلیے تین سال قبل فوج کشی کی گئی تھی ۔ ۲۰ہزار فوجی گنوانے اور ہزاروں شہریوں کی ہلاکت کے بعد بادشاہ دوست محمد کو باعزت طریقے سے واپس کابل بلا کر برطانیہ نے اقتدار اس کے حوالے کردیا ۔ برطانوی فوج کشی، سوویت یونین کے قبضے اور پھر امریکی فوجی مداخلت اور اب انخلا کسی قدیم یونانی ٹریجڈی تھیٹر کی داستان معلوم ہوتی ہے۔

بڑا سوال یہ ہے کہ کیا امریکی فوجوں کے انخلا سے افغانستان میں امن کا قیام ممکن ہوپائے گا یا یہ بدنصیب ملک مزید گرداب میں گھر جائے گا؟ آخر مغربی طاقتیں بار بار کیوں ایک ہی بل میں ہاتھ ڈالتی ہیں اور ہلاکتوں کے طوفان کے بعد پھر گھوم کر اسی نکتے پر لوٹ آتی ہیں؟ افغانستان میں ایک عوامی مستحکم حکومت کے قیام کے بدلے وہ آخر کیوں کرپٹ اور کمزور حکمرانوں کی پشت پناہی کرتے ہیں؟ ; ان کی اس حکمت عملی نے ایشیا کے اس دل کو بیمار کر کے رکھ دیا ہے ۔ اس دل کو صحت مند بنانے کےلیے ضروری ہے کہ افغان عوام کو بلالحاظ قبائلی اور نسلی وابستگیوں کے با اختیار بنایا جائے ۔ انتخابات کے عمل کو شفاف اور پوری آبادی اور ملک سے باہر مہاجرین کو اس میں شامل کرایا جائے ۔ مزید یہ کہ پڑوسی ممالک کے جائز مفادات کا خیال رکھ کر ہی افغانستان کو مستحکم اور محفوظ بنایا جاسکتا ہے ۔ ایک مستحکم افغانستان یقینا براعظم ایشیا کے عروج کا نقیب ہوگا ۔