جنگ اور فساد کا سب سے زیادہ خمیازہ خواتین اور بچوں کو ہی اٹھانا پڑتا ہے، تاہم ایک حالیہ تحقیقی رپورٹ کے مطابق اگست ۲۰۱۹ء سے لے کر اب تین برس کے عرصے میں جموں و کشمیر کے بچوں میں دماغی اور نفسیاتی عارضے جیسے مسائل میں ہوش ربا اضافہ ہوا ہے ۔ ’فورم فار ہیومن رائٹس آن جموں و کشمیر ، جس کے سربراہان دہلی ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس، جسٹس (ریٹائرڈ) اجیت پرکاش شا اور سابق سیکرٹری داخلہ گوپال کرشنا پلیے ہیں، انھوں نے انکشاف کیا ہے کہ ، خطے میں نابالغوں کو بد نام زمانہ پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت حراست میں لے کر ریاست کے باہر دُور دراز جیلوں میں بھیج دیا جاتا ہے، اور حراست کے دوران شدید تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس فورم کے اراکین جن میں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے کئی سابق جج صاحبان کے علاوہ سابق سیکرٹری خارجہ نروپما راؤ، بھارتی فضائیہ کے سابق نائب سربراہ کپل کاک، جنرل ایچ ایس پناگ، میجر جنرل اشوک مہتہ، تاریخ دان رام چندر گوہا اور کئی دیگر باوقارافراد شامل ہیں، کشمیر میں نابالغ افراد ، خاص طور پر بچوں کی ابتر ہوتی صورت حال پر چیخ اُٹھے ہیں۔
اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ’’خطے میں بچوں کے لیے قائم کی گئی عدالت، جس کو ’جیوئنایل [Juvenile] جسٹس بورڈ،[ JJB: بچوں کو انصاف فراہم کرنے والا بورڈ] کا نام دیا گیا ہے، یا تو معطل ہے یا سیکورٹی اداروں کے سامنے بے بس ہے‘‘۔ ایک کیس کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ جب ’’جے جے بی کی ایک ممبر صفیہ رحیم نے ایک زیر حراست بچے کی ضمانت کی عرضی سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے ، پولیس کو نوٹس جاری کیے، تو پولیس نے ایسے کسی بھی بچے کی موجودگی سے انکار کردیا۔ مگر پھر خاصے لیت و لعل کے بعد ۳۰ دن گزار کر اس کو جے جے بی کے سامنے پیش کیا۔ رہا کرنے کے بجائے ضمانت کی عرضی کے بعد اس پر باضابط ایف آئی آر درج کی گئی۔ ا ن مؤثر افراد کا کہنا ہے کہ: ’’خطے میں صرف ’جیوئنایل جسٹس ایکٹ‘ [۲۰۱۵ء]کی دھجیاں ہی نہیں اڑائی جارہی ہیں، بلکہ پبلک سیفٹی ایکٹ کی دفعات، جن کے مطابق کسی نابالغ کو زیر حراست نہیں رکھا جاسکتا، ان کو بھی نظرانداز کیا جاتا ہے‘‘۔ رپورٹ میں شوپیان کے ۱۴سالہ آفتاب (نام تبدیل کیا گیا ہے) کا ذکر کیا گیا ہے، جس کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کرکے پہلے پولیس اسٹیشن میں کئی روز رکھا گیا اور پھر سیکڑوں کلومیٹر دُور اتر پردیش کے وارانسی شہر کی جیل میں بھیج دیا گیا۔ دوسرے مقدمے میں ایک اور نابالغ سلمان کو حراست میں لیا گیا، اگرچہ عدالت، یعنی جے جے بی نے اس کو ضمانت پر رہا کرنے کے احکامات صادر کیے، مگر رہا ہوتے ہی اس کو دوبارہ گرفتار کرلیا گیا۔
مؤثر افراد کے اس فورم کے مطابق کئی مقدمات میں پولیس نے ان نابالغ افراد کی عمریں غلط درج کی تھیں، اور ان کی عمریں ثابت کرنے کی ذمہ داری والدین اور ان بچوں پر ڈالی ہوئی تھی۔ عموماً اگر عدالت Ossification،یعنی ہڈیوں کی تشکیل سے عمر کا تعین کرنے کا حکم صادر کرتی ہے، تو اس میں میـڈیکل سائنس کی رو سے دو سال کی کمی و بیشی کا مارجن ہوتا ہے۔ دیگر خطوں میں پولیس یا عدالتیں عمر میں کمی کو تسلیم کرتی ہیں، مگر کشمیر میں پولیس عمر میں اضافے کو تسلیم کرکے ان بچوں کو بالغ مان کر ان کی حراست میں توسیع کرتی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ زیر حراست نابالغ افراد کی اصل تعداد کا تعین کرنا مشکل ہے اور جس طرح بچوں کے ساتھ پولیس اور نظم و نسق کے دیگر ادارے پیش آتے ہیں، اس سے ان بچوں کی ایک بڑی تعداد شدید نفسیاتی دباؤ کا شکار ہو گئی ہے۔ دسویں جماعت کے عفان کا ذکر کرتے ہوئے رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ ’’اس کو دفعہ ۳۷۰کو منسوخ کرنے کے خلاف ایک پُرامن جلوس میں شرکت کرنے پر حراست میں لیا گیا۔ گو کہ ۱۵دن کے بعد اس کے والدین اس کو رہائی دلانے میں کامیاب تو ہوئے، مگر اس دوران وہ ایک نفسیاتی مریض بن چکا ہے اور اکثر بدن میں درد کی شکایت کرتا رہتا ہے‘‘۔ اسی طرح اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ’’کس طرح ۱۸ماہ سے کم عمر کے دودھ پیتے بچے بھی پیلٹ گن کے چھروں کا شکار ہوگئے؟ آخر اس عمر کے بچے کیسے جلوس یا کسی احتجاج کا حصہ تھے کہ جس کی وجہ سے ان کو یہ سبق سکھانا پڑا؟‘‘ فورم کے ذمہ داروں کا کہنا ہے کہ ’’کم از کم گیارہ ایسے بچوں کے بارے میں ان کو معلومات ملی ہیں، جو پیلٹ گن کی وجہ سے عمر بھر کے لیے اپاہج ہوگئے ہیں۔ اگر صرف حراست میں لینا یا پیلٹ گن سے نشانہ بنانا کافی نہیں تھا، تو نئی صورت حا ل میں اب بچوں کو گاؤں یا کسی آبادی میں تلاشی کی مہم کے دوران آگے رکھ کر آپریشن کیا جاتا ہے، جس سے ان پر جسمانی اور نفسیاتی طور پر دُور رس اثرات مرتب ہوتے ہیں‘‘۔
رپورٹ کے مطابق ۵؍اگست۲۰۱۹ءکو دفعہ۳۷۰ اور ۳۵-اے کے خاتمے سے قبل ہی خطے میں بچوں کے سلسلے میں تسلی بخش صورت حال نہیں تھی۔ وانی گام کے سولہ سالہ حازم کا ذکر کرتے ہوئے، رپورٹ میں بتایا گیا کہ ’’وہ اپنے والدین کے ساتھ کھیت میں کام کر رہا تھا کہ عسکریت پسندوں اور نیم فوجی دستوں کے درمیان پاس ہی جھڑپ شروع ہوگئی۔ جب سبھی اپنی جان بچانے کے لیے محفوظ جگہ چلے گئے، تو والدین کو معلوم ہوا کہ حازم ان کے ساتھ نہیں ہے۔ اگلے روز کھیت میں اس کی لاش ملی۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ’’بچوں میں عسکریت اختیار کرنے کا رجحان بھی پایا جاتا ہے اور اس کے بعد ان کے لیے شہری زندگی کے دروازے بند ہوجاتے ہیں۔ ۱۵سالہ کاشف ،جس کو ۸؍اپریل ۲۰۲۱ء کے ایک معرکہ میں ہلاک کیا گیا، اس نے ۲۰مارچ ۲۰۲۱ء کو عسکریت اختیار کی تھی۔ اسی طرح ۱۴سالہ گلزار کو جب ہلاک کیا گیا، وہ صرف چار روز قبل اپنا گھر چھوڑ کر مبینہ طور پر عسکریت پسندوں کی صف میں شامل ہو گیا تھا۔ گو کہ حکومتی حلقوں نے ان مؤثر افراد کو بتایا:’’عسکریت کو پاکستان سے شہہ ملتی ہے، مگر اپنی جگہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سوشل میڈیا اور ٹی وی چینلوں پر اینکروں کے ذریعے چلائی جارہی شر انگیز مہم سے ان بچوں کے اذہان متاثر ہوتے ہیں اور وہ غصے اور بے بسی کا شکار ہوکر عسکریت اختیار کرتے ہیں‘‘۔
ڈاکٹروں نے یہ رپورٹ مرتب کرنے والے دانش وروں کو بتایا کہ ’’خطے میں۹۴ فی صد افراد ذہنی تناؤ کا شکار ہیں‘‘۔کئی اسپیشلسٹ ڈاکٹروں کا حوالہ دے کر بتایا گیا کہ ’’جنوبی کشمیر میں سیکورٹی فورسز کی تعیناتی سے بچوں میں ذہنی تناؤ، غصہ، چڑچڑاپن، ڈراؤنے خواب اور صدمے کی کیفیت جیسی شکایات عام ہوگئی ہیں‘‘۔ اسی طرح انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل ہیلتھ اور نیورو سائنسز کے حوالے سے بتایا گیا: ’’خطے میں نشہ آور ادویات کے استعمال میں ۱۵۰۰گنا کا اضافہ ہوا ہے‘‘۔ تعلیم کے حوالے سے رپورٹ میں بتایا گیا کہ کشمیر میں ڈراپ آوٹ ریٹ ۱۷ فی صد تک ریکارڈ کیا گیا ہے اور کئی اسکولوں میں اساتذہ کی تعداد طالب علموں سے زیادہ ہے‘‘۔ رپورٹ کے آخر میں جے جے بی کو مزید اختیارات دینے اور ہائی کورٹ کے ذریعے وقتاً فوقتاً تفتیشی ٹیموں کو حراستی مراکز میں بھیج کر وہاں بچوں کی موجودگی کا پتہ لگانے کی سفارش کی گئی ہے۔
یہ ۲۰۱۰ء کی بات ہے کہ جب کشمیر میں حالات انتہائی خراب تھے ، تو کیلاش سیتیارتھی ، جن کو بعد میں ملالہ یوسف زئی کے ساتھ ’حقوق اطفال‘ پر نوبیل انعام سے نوازا گیا،کے ایک لیکچر میں ، میںنے شرکت کی۔ لیکچر کے اختتام پر جب میں نے ان کی توجہ کشمیر میں بچوں پر ہونے والے ظلم کی طرف مبذول کرانے کی کوشش کی ، تو وہ کنی کترا گئے اور اس کو سیاسی مسئلہ قرار دے کر اپنا دامن چھڑا لیا۔ انھی دنوں اخبارات میں تصاویر چھپی تھیں کہ کس طرح پولیس کے سپاہی تیسری سے آٹھویں جماعت تک کے بچوں کو ہتھکڑیوں میں جکڑ کر امتحانی مراکز میں پرچے حل کرانے کے لیے لارہے تھے۔ ذرائع ابلاغ میں ہاہاکار مچنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ بجائے ان بچوں کی رہائی کے، پولیس نے ان فوٹو گرافروں کی خوب خبر لی جنھوں نے یہ تصویریں لی تھیں۔
یہ کتنی ستم ظریفی ہے کہ حقوقِ اطفال کے لیے سرگرم کارکن جہاں پوری دنیا میں بچوں کو حقوق دلانے میں سرگرم ہیں، وہیں کشمیر میں ان مظالم کی پردہ پوشی میں بھی کردار ادا کرتے ہیں۔ ایک عشرہ قبل ہالینڈ کے ایک نوبیل انعام یافتہ عالم گیر نیٹ ورک نے دعویٰ کیا تھا کہ ’’دنیا میں اس وقت جتنے بھی شورش زدہ اور جنگ زدہ علاقے ہیں، ان میں کشمیر میںبچوں کے خلاف تشدد اور عورتوں کی بے حرمتی کے واقعات کی صورت حال نہایت تشویش ناک ہے ۔ ہالینڈ کے ادارے (تاسیس: ۲۲دسمبر ۱۹۷۱ء - Medecins Sans Frontieres - MSF) نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں یہ دعویٰ کیا تھاکہ ’’وادی میں دماغی حالت اور نفسیاتی عارضے جیسے مسائل میں ہوش ربا اضافہ ہوا ہےاور اس کا شکار خصوصاً بچے ہورہے ہیں‘‘۔ بلاشبہہ انصاف او ر توجہ کے منتظر ہیں، کشمیر کے بچے اور بچیاں! شایدکوئی ان معزز اور مؤثر افراد کی رپورٹ اور ان کی سفارشات پر کان دھرے۔
طورخم کے راستے افغانستان جاتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان بین الاقوامی راہداری کے نظام کا عالمی معیار یہاں حددرجہ ناقص ہے۔ میرے سامنے ایک اہلکار نے ایک افغانی کو دھکا دیا تومیں نے اس سے پو چھاکہ ’’آپ نے اس معزز شخص کو کیوں دھکا دیا؟‘‘ اس نے حیرت سے میری طرف دیکھا اور کہا کہ ’’اس کے پاس دو کلو چینی ہے جو لانا منع ہے‘‘۔ واپسی پر جب میں افغانستان کی طرف سے پاکستانی علاقے میں داخل ہوا، تو چترال اسکائوٹس کے ایک جوان نے بڑی رعونت سے مجھے کہا: ’’بیگ کھولو‘‘۔ میں نے جواب میں کہا: ’’کیا آپ تمیز سے بات نہیں کر سکتے؟ میں ایک پاکستانی شہری ہوں‘‘۔ مطلب یہ کہ ہم کتنی بھی نیم دلانہ کوششیں کرلیں، پاک افغان تعلقات ان پاکستانی اہلکاروں کی موجودگی میں نہیں سدھر سکتے۔
اس سال ماہ مارچ میں ہم نے ’انسٹی ٹیوٹ آف ریجنل اسٹڈیز‘ (IRS)، پشاور کے تحت پشاور یونی ورسٹی میں پاک افغان تعلقات پر ایک روزہ مذاکرہ منعقد کیا تھا۔اس مذاکرے میں کئی پاکستانی اہم شخصیات کے علاوہ افغانستان کے عمائدین بھی شریک تھے۔ اسی پروگرام کے دوران یہ تجویز آئی کہ اسی نوعیت کا ایک پروگرام افغانستان میں بھی منعقد کیا جائے۔گذشتہ سال۱۵ ؍اگست کو افغانستان کی قیادت میں جو تبدیلی عمل میں آئی تھی، اس پرپاکستان میں بھی عوامی پسندیدگی کا اظہار ہوا تھا اور یہ توقع کی جارہی تھی کہ پاکستان اور افغانستان کے عوام کے درمیان خلیج کو پاٹنے میں افغانستان کی نئی قیادت اہم کردار ادا کرے گی۔
قیامِ پاکستان اگست۱۹۴۷ء کے فوراً بعد سے آج تک، افغان حکومتوں کی جانب سے پاکستان کی مخالفت ایک ایسا طرزِ عمل ہے، جس کو ایک عام پاکستانی سمجھنے سے قاصر ہے۔اس دوران جولائی ۱۹۷۳ء میں افغانستان میں بادشاہت کا خاتمہ ہوا، اور پھر کمیونسٹ عناصر غالب آگئے۔ دسمبر ۱۹۷۹ء میں اشتراکی روس کا قبضہ ہوا۔لاکھوں کی تعداد میں افغان مہاجرین نے پاکستان میں پناہ لی، جن کی بھرپور مہمان نوازی کی گئی۔پھر ۱۹۹۶ء میں طالبان کی حکومت آئی، مزید مہاجرین پاکستان آئے۔ ۷؍اکتوبر ۲۰۰۱ء کو امریکی قیادت میں حملے شروع ہوئے۔ ۲۰سال تک افغانستان پر ناٹو مسلط رہااور افغان طالبان کی مزاحمت جاری رہی۔ اس پورے عرصے میں پاکستان کی حکومت اور عوام افغان قوم کا ساتھ دیتے رہے۔اس کے باوجود پاکستان مخالفت کا پر نالہ اپنی جگہ قائم رہا اور گاہے گاہے اس کا اظہار ہو تا رہا، چاہے وہ مہاجر کیمپوں میں مقیم نوجوان ہوں یا برطانیہ میں پاک افغان کرکٹ میچ کے تماشائی، پاکستان کی مخالفت کے نعرے گونجتے رہے۔اس صورتِ حال کو دیکھ کر عام پاکستانی یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے ؟ ہمارا قصور کیا ہے؟
۲۰۱۵ء میں کا بل کے ہو ٹل انٹرکانٹی نینٹل میں ایک علاقائی کانفرنس میں شرکت کا مجھے موقع ملاتھا، جو کابل ہی کے ایک تھنک ٹینک ’دی سنٹر فار اسٹرے ٹیجک اینڈ ریجنل اسٹڈیز [تاسیس: جولائی۲۰۰۹ء- CSRS] نے منعقد کی تھی۔ اس کانفرنس میں پاکستان کے علاوہ ایران اور تاجکستان کے نمایندے بھی شریک تھے۔ اس وقت میری تقریر کے بعد افغان صحافیوں کے ایک ہجوم نے مجھے گھیر کر سوال کیا: ’’پاکستان افغانستان کے امن کو کیوں برباد کر رہا ہے؟‘‘
اس پس منظر میں امارت اسلامی افغانستان کے قیام، اگست ۲۰۲۱ء کے بعد ایک اُمید پیدا ہو ئی کہ اب دوطرفہ تعلقات میں بہتری آئے گی۔ لیکن پھر ایسے اُوپر تلے واقعات سامنے آنے لگے، جس سے تاثر ملا کہ ایں خیال محال است۔کہیں پرپاکستانی پرچم ہٹایا یا جلایا جا رہا ہے اور کہیں پر سرحدی باڑ کو اکھاڑا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر ایک افغانــ ’’جنرل‘‘ کے دھمکی آمیز بیانات نشر ہورہے ہیں اور سرحد پار سے فائرنگ اور جوابی فائرنگ کی خبریں بھی سامنے آتی ہیں ۔پاکستان کے ضم شدہ قبائلی علاقوں میں ’تحریک طالبان پاکستان‘ کی طرف سے پاکستانی افواج پر حملے اور فوجی جوانوں کی شہادتوں کا سلسلہ تھمنے میں نہیں آ رہا۔
اس صورتِ حال میں انسٹی ٹیوٹ آف ریجنل اسٹڈیز، پشاور نےفیصلہ کیا کہ ایک نمایندہ وفد کے ساتھ کابل جائیں اور وہاں کے اہل دانش اور اہل حل و عقد کے ساتھ بیٹھ کر ان موضوعات پر تفصیلی تبادلۂ خیال کیا جائے اور مسائل کا حل ڈھونڈا جائے۔
چنانچہ، ہم نے از خود ’سی ایس آر ایس‘ کابل کے صدر سے رابطہ کرکے تجویز پیش کی کہ اس نوعیت کا ایک پروگرام کرنا چاہیے۔انھوں نے جواب دیا کہ ہم امارت اسلامی کے خارجہ امور کی وزارت سے اجازت کے بعد آپ کو مطلع کردیں گے۔ اس دوران پشاور میں موجود افغان قونصلیٹ جنرل حافظ محب اللہ سے ملاقات میں بھی یہ تجویز دُہرائی۔ انھوں نے اس پر خوشی کا اظہار کرتے ہو ئے اٖفغان وزارت خارجہ سے رابطہ کرکے ہمیں مطلع کیا کہ ’’اس کانفرنس میں شرکت کے لیے جتنے افراد کو ویزے جاری کرنے کی ضرورت ہے، وہ ہم فراہم کریں گے‘‘۔ بالآخر یہ طے ہو گیا کہ ۱۹ جون ۲۰۲۲ء بروز اتوار کابل انٹر کانٹی نینٹل ہو ٹل میں ایک علاقائی کانفرنس دونوں ادارے مل کرمنعقد کریں گے، جس میں پاکستان ،افغانستان اور ایران کے نمایندے شرکت کریں گے۔ افغانستان کے نائب وزیر خارجہ اور دوحہ قطر میں افغان امریکا مذاکرات کی معروف شخصیت الحاج محمد عباس ستانکزئی اور دیگر اٖفغان زعماء افتتاحی پروگرام میں شریک ہوںگے۔
اس پروگرام میں افتتاحی اور اختتامی سیشن کے علاوہ ۵ ورکنگ گروپ بنائے گئے تھے۔ باہمی تجارت،تعلیم ،صحت،کلچر اور میڈیا اور افغان مہاجرین کے مسائل پر گفتگو اور تبادلۂ خیال کے لیے پانچ علیحدہ سیشن بیک وقت منعقد کرنا تجویز کیے گئے، جس میں پاکستانی وفد کی نمایندگی درکار تھی۔چنانچہ صوبائی سطح پر اہل دانش و ماہرین سے رابطے کر نا شروع کیے اور آہستہ آہستہ ایک متوازن نمایندگی کے ساتھ وفد، افغانستان کے سفر کے لیے تیار ہوگیا، جن کے پاسپورٹ جمع کرکے ویزوں کے لیے قونصلیٹ میں جمع کرا دیئے گئے۔
افغان قونصلیٹ جنرل حافظ محب اللہ صاحب نے شرکائے سفر کو ظہرانہ دیا، جن کی تعداد ۴۰ افراد پر مشتمل تھی ۔ لیکن جب اس ظہرانے کی تصویریں میڈیا میں آئیں، تو اس سفر پر جانے کے خواہش مند احباب کی تعداد میں اضافہ ہو گیا،اور ہمارے لیے بڑی مشکل کھڑی ہو گئی کہ اتنے افراد کو کیسے لے کر جائیں اور وہاں ان کے طعام و قیام کا بندوبست کیسے کریں؟ مختصر یہ کہ جب ۱۸جون کی صبح کو ہم پشاور سے طور خم کی طرف روانہ ہو ئے تو وفد کی تعداد ۶۰ تک پہنچ چکی تھی۔
طورخم سرحد پاکستان اور افغانستان کے درمیان ایک اہم گزرگاہ ہے۔ مشہور تاریخی درہ خیبر کا آغاز طورخم سے ہو تا ہے۔پاکستان اور افغانستان کے درمیان ۲۶۴۰ کلومیٹر طویل سرحد، جو طویل ’ڈیورنڈلائن‘ کے نام سے مشہور ہے، پر ۱۲ مقامات ایسے ہیں جو باقاعدہ راہداری (کراسنگ) کے طور پر تسلیم شدہ ہیں۔ ان میں سے چھ پوائنٹ اس وقت استعمال ہو رہے ہیں،جب کہ چھ بند ہیں۔
وفد کے شرکا کا شوق اور جذبہ قابلِ دید تھا۔ ہم پشاور سے طورخم بارڈرپر پہنچے تو وہاں پر عجیب افراتفری کی صورتِ حال دیکھنے کو ملی۔ اس راہداری کو روزانہ ہزاروں افغان باشندے دونوں طرف سے استعمال کرتے ہیں،جب کہ سیکڑوں کی تعداد میں پاکستانی شہری بھی استعمال کرتے ہیں۔ لیکن ایک بین الاقوامی راہداری کے شایان شان انتظامات ناپید ہیں ۔ امیگریشن ہال جہاں کھڑکیوں میں بیٹھا ہوا عملہ آپ کے پاسپورٹ اور ویزے وغیرہ کو چیک کرتا ہے، وہاں مسافروں کے لیے نشستوں، پینے کے پانی، ٹوائلٹ، ائیرکنڈیشنز وغیرہ کا کو ئی انتظام نہیں ہے۔ ہڑبونگ اور دھکم پیل کے افسوس ناک مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ وہاں پر معلوم ہوا کہ دو سال سے بین الاقوامی سطح کی امیگریشن عمارت بنانے کا ٹھیکہ پاکستان کے سرکاری شعبے ’نیشنل لاجسٹک سیل‘(NLC) کو دیا گیا ہے، لیکن بوجوہ نہیں بن پا رہا۔جس کی ذمہ داری ،پاکستانی حکام، افغان حکومت کے عدم تعاون پر ڈالتے ہیں ۔ افغان شہریوں سے پیسے لے کر پاکستان آنے کی اجازت دینے کے الزامات بھی عام ہیں۔ پاکستانی عملہ جو زیادہ تر بغیر وردی کے ہو تا ہے، اس کا رویہ افغان شہریوں کے ساتھ درشتگی اور بے عزّتی کا ہے۔
پاکستانی امیگریشن سے نکل کر ایک طویل راہداری میں سے گزرنا پڑتا ہے جو ایک کلو میٹر سے زیادہ طویل ہے۔ افغان علاقے میں داخلے پر ان کے عملے نے ہمارا استقبال کیا۔ ان کا امیگریشن ہال خاصا بہتر تھا اور عملہ بھی قدرے نفیس رویہ اختیار کیے ہو ئے تھا ۔وہاں نشست گاہ، پانی اور وضو کا بندوبست تھا اور ساتھیوں نے وہاں نفلی نماز بھی ادا کی۔ پھر ایک طویل گزر گاہ سے گزر کر ہم افغانستان میں داخل ہو ئے۔اس پورے راستے میں پاکستانی اور افغانی بچوں کی ایک کثیر تعداد سے آپ کا واسطہ پڑے گا، جن میں بھیک مانگتے بچوں کے علاوہ ویل چئیر اور سامان ڈھونے والے مزدور بچے شامل ہیں ۔یہ مشاہدہ شاید ہی آپ کو کسی اور ملک میں نظر آئے۔
افغانستان میں داخلے کے بعد جلال آباد اور پھر کا بل کا سفر بھی ایک دلچسپ روداد ہے۔ بہرحال، سیدھی اور بڑی شاہراہ پر گاڑیاں سفر پر روانہ ہوئیں۔ جگہ جگہ بازار اور دکانیں سامان سے بھری ہو ئی نظر آرہی تھیں، جو ایک بدحال نہیں بلکہ خوش حال افغانستان کی تصویر تھی۔جلال آباد کے قریب دروانٹہ ڈیم کے قریب جس ہوٹل میں ہم نے بہترین کھانا کھایا، اس کا معیار پاکستانی موٹروے پر قائم ہو ٹلوں سے کم نہیں تھا۔کابل تک پہاڑی راستوں سے گزرتے ہو ئے ہم نے چارڈیموں اور بجلی گھروں کا مشاہدہ کیا، جو مختلف ممالک نے تعمیر کیے ہیں ۔ راستے میں جگہ جگہ چیک پوسٹیں تھیں۔جہاں افغانی اہلکار، امارت اسلامی کا پرچم لیے کھڑے تھے۔ وہ معمولی پوچھ گچھ کے بعد فوراً آگے بڑھنے کا اشارہ کر دیتے ۔غرض یہ کہ کابل تک ہمارا سفر خاصا خوش گوار گزرا اور طورخم پر ہم اپنے پاکستانی بھائیوں کے ہاتھوں جس تکلیف کا شکار ہو ئے تھے،افغان اہل کار بھائیوں نے اس کا ازالہ کردیا ۔
اتوار ۱۹ جون ۲۰۲۲ء کو کابل کے انٹر کانٹی نینٹل ہو ٹل میں سیمی نار منعقد ہوا۔جس کا موضوع ’’ افغانستان کے پڑوسی ممالک سے تعلقات کا مستقبل‘‘ تھا۔ ’سی ایس آر ایس‘ کے ذمہ داران نے ہوٹل کے ’بامیان ہال‘ میں بہترین انتظامات کر رکھے تھے۔۲۰۰ سے زائد مہمان وقت پر پروگرام میں شرکت کے لیے پہنچ چکے تھے۔چار افغان وزراء اور امارت اسلامی کے دیگر زعماء موجود تھے۔ ۳۰کے لگ بھگ افغان ٹی وی چینلز کی نمایندگی بھی تھی۔ یا درہے کہ ان دنوں کابل سے کو ئی اخبار شائع نہیں ہوتا۔ کورونا وبا کے دوران پابندیا ں اور اقتصادی بحران کی وجہ سے اخبارات بند ہو چکے ہیں، البتہ ٹی وی نشریات جاری ہیں۔لیکن وہ بھی اشتہاری مواد کی کمی کی وجہ سے مالی مشکلات کا شکارہیں۔ چینلز کے نمایندہ رپورٹروں میں خواتین کی تعداد نمایاں تھی ۔
سیمی نار کے افتتاحی سیشن میں افغان وزراء محمد عباس ستانکزئی،وزیر صحت ڈاکٹر قلندر عباد اور وزیر مہاجرین امور قاری محمود شاہ نے خطاب کیا، جب کہ پاکستانی وفد کی نمایندگی راقم نے کی۔ ’سی ایس آر ایس‘ ،جمعیت الاصلاح اور دیگر افغان زعماء نے بھی خطاب کیا۔یہ ایک بھر پور سیشن تھا، جس میں تمام مقررین نے پڑوسی ممالک کے درمیان یگانگت،بھائی چارے، باہمی تعاون آمدورفت اور تجارت کو مضبوط بنانے اور فروغ دینے پر زور دیا ۔افغان نائب وزیر خارجہ نے خاص طور پر ایک نکتہ بیان کیا کہ ’’پاکستان اور ایران کے عوام کو افغان قوم کا شکرگزار ہو نا چاہیے کہ انھوں نے جان و مال کی قربانی دے کر پہلے روسی استبداد اور پھر امریکی جارحیت کو اس خطے میں ناکام بنایا اور اس طرح پڑوسی ممالک کو عالمی طاقتوں کی چیرہ دستیوں سے محفوظ رکھا‘‘۔انھوں نے پڑوسی ممالک کا افغان مہاجرین کی مہمان نوازی پر شکریہ ادا کرتے ہو ئے اپیل کی کہ وہ ’’مزید کچھ عرصے کے لیے مہاجرین کا بوجھ برداشت کریں ‘‘۔ انھوں نے افغان باشندوں کی ان ممالک میں آمدورفت میں آسانیاں پیدا کرنے اور ویزوں کے اجرا میں اضافے پر زور دیا۔
وزیر صحت نے اپنے شعبہ میں پڑوسی ممالک سے تعاون پر زور دیا۔ افغانستان میں صحت کی سہولتوں کی ترقی، میڈیکل تعلیم و تربیت خاص طور پر پوسٹ گریجویٹ استعدادکار کے شعبوں میں پاکستان اور ایران افغانستان کی بہت مدد کر سکتے ہیں۔وزیر مہاجرین نے دونوں پڑوسی ممالک کا شکریہ اد اکیا کہ انھوں نے مشکل وقت میں لاکھوں افغان پناہ گزینوں کو اپنے ملکوں میں بسایا۔ انھوں نے پاکستان میں خاص طور پر جماعت اسلامی کی خدمات کا ذکر کیا، جن کی قیادت اور کارکنان نے اوّل روز سے افغان مہاجرین کے ساتھ محبت اور اخلاص کا اظہار کیا، جن کو ہم کبھی نہیں بھول سکتے۔انھوں نے کہا کہ ’’پاکستان میں ایسے عناصر بھی تھے، جنھوں نے مہاجرین کو بھگوڑا قرار دیتے ہو ئے نکالنے کا مطالبہ کیا، لیکن اسلامی جمعیت طلبہ کے لیڈروں نے جن میں سراج الحق اور شبیر احمد خان شامل تھے، سینہ تان کر اورکھلے عام ہمارا ساتھ دیا‘‘۔
افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے میں نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان دیرینہ تاریخی تعلقات کا حوالہ دیتے ہو ئے ایک پُر امن اور مضبوط افغانستان کو پاکستان میں امن و سلامتی کے لیے ضروری قرار دیا۔ مستقبل کے تعلقات کے حوالے سے صحت،تعلیم ،تجارت اور میڈیا کے شعبوں میں باہمی تعلقات کی بہتری کے لیے تجاویز پیش کیں کہ امارت اسلامی افغانستان میں سیاحت کو فروغ دے تو بڑی تعداد میں پاکستانی ادھر کا رخ کریں گے۔دوسری تجویز یہ پیش کی کہ امارت اسلامی کسی مناسب مقام پر ایک بڑا انڈسٹریل زون قائم کرے اور پاکستان سمیت دیگر ممالک کو وہاں کارخانے قائم کرنے میں سہولتیں فراہم کرے ۔کسی ملک میں بیرونی سرمایہ کاری کے لیے دو شرائط لازمی ہیں:ایک مضبوط اور مستقل حکومت، جو امن و سلامتی کی ضمانت دے سکے، اور دوسرا ٹیکس فری زون یا کم ازکم شرح محصولات ۔یہ دونوں شرائط امارت اسلامی افغانستان پوراکر سکتی ہے۔
افتتاحی پروگرام ہی میں’سی ایس آر ایس‘ کے ڈائرکٹر جناب ڈاکٹر عبدالصبوح روئوفی نے بہت مفید تجاویز پیش کیں، خاص طور پر تعلیم و صحت کے شعبوں میںدونوں پڑوسی ممالک افغانستان کی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں اور ماہرین کی تیاری ملک کی مستقبل کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ضروری ہے۔افغان طلبہ و طالبات اندرون و بیرون ملک شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں لیکن اعلیٰ تعلیمی اداروں کی عدم موجودگی اور بین الاقوامی سطح پر تعلیمی اسناد کی قبولیت ایک سوالیہ نشان ہے۔جمعیۃ الاصلاح کے سربراہ پروفیسر مزمل،ممتاز افغان اسکالر استاد محمدزمان مزمل اور عالم دین اور سابقہ رکن پارلیمنٹ مولانا شہزادہ شاہد نے بھی فکر انگیز گفتگو رکھی۔
چائے کے وقفے کے بعد سیمی نار کے تمام شرکا کو پانچ گروپوں میں تقسیم کیا گیا اور دو گھنٹے تک ان گروپوں میں شریک ماہرین نے اپنے شعبے کے مسائل پر تفصیلی غور وغوض کیا۔ تعلیم، صحت، تجارت، میڈیا اور افغان مہاجرین کے عنوانات پر قائم گروپوں نے باہمی تعاون کے موضوعات پر مفید تبادلۂ خیال کیا۔ہر گروپ میں امارت اسلامی کے متعلقہ شعبوں کے حکام بھی شریک تھے اور اہم نکات نوٹ کر تے رہے۔ان تمام گروپس کی روداد کو ریکارڈ کر نے کے لیے ’سی ایس آرایس‘ کی جانب سے افراد مقررتھے جنھوں نے تفصیلی رپورٹ متعلقہ حکام اور ذمہ داران کو بھیج دی ہے۔
میں جس گروپ میں شریک تھا وہ شعبۂ صحت سے متعلق تھا، جس کی صدارت خیبر میڈیکل یونی ورسٹی، پشاور کے وائس چانسلر ڈاکٹر ضیا ء الحق صاحب نے کی، جو ہمارے ساتھ وفد میں شامل تھے، جب کہ پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (PIMA) صوبہ خیبر پختونخوا کے صدر پروفیسر ڈاکٹر گلشن حسین فاروقی، آفریدی میڈیکل کمپلیکس کے چیف شاہ جہان آفریدی ،افغانستان کی اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر محمد یو سف ،ڈاکٹر خالد رشید، افغانستان کے ڈاکٹروں کی تنظیم کے سینئر ارکان ،وزارتی حکام اور ایران کی وزارت صحت کا نمایندہ بھی موجود تھا۔ اس مجلس میں افغانستان کی وزارت صحت کے سابقہ مشیر ڈاکٹر یوسف نے افغانستان کی صحت عامہ کے حوالے سے بہت جامع تفصیلات بیان کیں، جس کو بہت سراہا گیا۔
تعلیمی گروپ میں پاکستان کی نمایندگی پشاور یونی ورسٹی اور صوبہ بھر کے تعلیمی اداروں سے منسلک اہم عملی شخصیات نے کی، جن میں پروفیسر ارباب آفریدی، ڈاکٹر سید ظاہر شاہ، پرفیسر فضل الرحمٰن قریشی،پروفیسر بشیر ربانی،محمد اشراق وغیرہ شامل تھے۔ اسی طرح جن پاکستانی کاروباری حضرات نے اپنے گروپ میں گفتگو رکھی، ان میں شاہ فیصل آفریدی،حاجی محمد اسلم ،عجب خان وغیرہ شامل تھے۔ میڈیا کے گروپ میں پاکستان کے اہم ٹی وی چینلز کے نمایندے اور صحافی حضرات محمود جان بابر، فدا عدیل ،رسول داوڑ، سدھیر آفریدی،یوسف علی ،شمیم شاہد اور عالمگیر آفریدی موجود تھے۔ افغان مہاجرین کے مسائل پر بریگیڈیر ریٹائرڈ محمد یو نس ،کاشف اعظم، اور الخدمت فائونڈیشن کے نائب صدر ڈاکٹر سمیع اللہ جان نے نمایندگی کی۔
کانفرنس کے آخری سیشن میں جماعت اسلامی پاکستان کے رہنما شبیر احمد خان اور ممتاز عالم مولانا محمد اسماعیل نے خطاب کیا۔ ایک قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ جس وقت ہوٹل کے بامیان ہال میں ہمارا پروگرام ہورہا تھا، اسی وقت ہو ٹل کے قندھار ہال میں ایک بڑا تجارتی پروگرام حکومت کی زیرنگرانی جاری تھا، جس کے مہمان خصوصی افغانستان کے نائب وزیر اعظم ملا عبدالغنی برادر تھے، جن کے ہمراہ دیگر افغان وزراء بھی شریک تھے۔ اس پروگرام کا موضوع تھاــ: ’’افغانستان میں سرمایہ کاری کے امکانات‘‘۔ جس میں کابل میںموجود تمام بیرونی ممالک بشمول پاکستان، ہندستان، چین، روس اور عرب و یورپی ممالک کے سرمایہ کار اور عالمی کمپنیوں کے نمایندے سیکڑوں کی تعداد میں شریک ہوئے۔ مطلب یہ ہے کہ امارت اسلامی،افغانستان کی اقتصادی صورتِ حال کو بدلنے اور بیرونی سرمایہ کاری کے حصول کے لیے کوشاں ہے اور اس مقصد کے لیے ہر ممکن اقدامات اُٹھا رہی ہے ۔ (جاری)
انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں [مارچ ۲۰۱۹ء میں]کالعدم قرار دی گئی جماعت اسلامی سے منسوب ’فلاحِ عام ٹرسٹ‘ پر[۱۳جون ۲۰۲۲ء کو چار صفحات پر مشتمل مفصل حکم نامے کے ذریعے] پابندی کا اعلان کیا گیا ہے، جس سے ہزاروں طلبہ اور اساتذہ پریشان ہوگئے ہیں۔
ایک متاثرہ خاتون ٹیچر کہتی ہیں: ’’ہم پہلے ہی پریشان تھے۔ کئی کئی ماہ کی تنخواہیں بند پڑی ہیں، نہایت قلیل معاوضے پر ہم کام کرتے تھے۔ لیکن اب حکومت کے اس فیصلے نے مزید پریشان کردیا ہے‘‘۔
واضح رہے کہ ۲۰۱۹ء میں انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی خودمختاری کے خاتمے سے چند ماہ قبل ہی جماعت اسلامی جموں و کشمیر کو کالعدم قرار دیا گیا تھا اور سرینگر کے بٹہ مالو علاقے میں قائم اس کا صدر دفتر سیل کر کے اس کے امیر حمید فیاض کو جماعت کے کئی کارکنوں سمیت گرفتار کر لیا گیا تھا۔
پیر [۱۳ جون]کے روز جس سرکاری حکم نامے میں ’فلاحِ عام ٹرسٹ‘ کے اسکولوں کو دو ہفتوں کے اندر اندر سیل کرنے کے احکامات جاری کیے گئے ہیں، ان میں اس پابندی کی فوری وجوہ کا ذکر نہیں ہے۔ تاہم، یہ کہا گیا ہے کہ ’’سال ۱۹۹۰ء میں ہی ’فلاحِ عام ٹرسٹ‘ پر پابندی عائد تھی اور تب سے اب تک اس کے اسکولوں میں زیرتعلیم طالب علموں کی رجسٹریشن عدالتی احکامات پر ہوتی رہی ہے‘‘۔ حکم نامے میں محکمہ تعلیم کے افسروں کو کہا گیا کہ ’’ٹرسٹ کے اسکولوں میں جو طالب علم زیر تعلیم ہیں اُن کا نزدیکی سرکاری سکولوں میں داخلہ یقینی بنایا جائے‘‘۔ مگر ہزاروں اُستانیوں اور اساتذہ کے بارے میں حکومت نے کچھ بھی نہیں کہا ہے کہ ان کا مستقبل کیا ہوگا؟
ٹرسٹ کے ناظم تعلیمات شوکت احمد کہتے ہیں:’’وہ اس سلسلے میں عدالت سے رجوع کریں گے۔ ’فلاح عام ٹرسٹ‘ کے زیر نگرانی گذشتہ تین عشروں کے دوران بیش تر اسکول، ٹرسٹ سے علیحدہ ہوچکے ہیں اور حکومت کے محکمۂ تعلیم کی طرف سے باقاعدہ تسلیم شدہ ہیں۔ حکم نامے میں یہ وضاحت نہیں کی گئی ہے کہ ’’کون سے اسکولوں کو بند کیا جانا ہے، اس کی وجہ سے ہزاروں اساتذہ اور طالب علموں اور ان کے والدین میں تشویش ہے‘‘۔
شوکت احمد کا یہ بھی کہنا تھا: ’’ہمارا ٹرسٹ ایک ’غیر سرکاری اور غیر منافع بخش‘ ادارہ ہے، جو نہایت قلیل فیس کے عوض اُن لوگوں کے بچوں کو معیاری تعلیم فراہم کرتا ہے، جو بڑے اسکولوں میں اپنے بچوں کا داخلہ نہیں کر پاتے۔ان اسکولوں کا کسی سیاسی جماعت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہمارے اسکولوں میں وہی نصاب پڑھایا جاتا ہے، جو سرکاری اور دوسرے نجی اسکولوں میں رائج ہے۔ پھر انڈیا بھر سے ماہرین ہمارے ٹیچر ٹریننگ پروگرام میں شرکت کرتے ہیں‘‘۔
اس پابندی کی وجہ سے ہزاروں اساتذہ بے روزگار ہوسکتے ہیں اور ہزاروں طلبہ و طالبات کی تعلیمی سرگرمیاں، تعلیمی سیشن کے عین درمیان معطل ہونے سے ان کا تعلیمی مستقبل خراب ہوسکتا ہے۔
اگرچہ سرکاری حکم نامے میں اس پابندی کے واضح محرکات کا ذکر نہیں ہے لیکن بعض سرکاری اہل کار کہتے ہیں: ’’ ان اسکولوں میں زیرتعلیم بچوں میں حکومت مخالف جذبات اُبھارے جاتے ہیں‘‘۔
واضح رہے کہ ٹرسٹ کے قیام کے چند ہی سال بعد ۱۹۷۷ء میں اُس وقت کے وزیر اعلیٰ شیخ محمدعبداللہ نے بھی ’فلاح عام ٹرسٹ‘ پر پابندی عائد کی تھی۔ تب ٹرسٹ کے اسکول دوسرے ناموں سے چلتے رہے، یہاں تک کہ۱۹۸۹ء میں ایک بار پھر ٹرسٹ کو کالعدم قرار دیا گیا۔ اُس وقت ٹرسٹ نے یہاں کی عدالت عالیہ سے رجوع کر کے ایک عبوری ریلیف کی درخواست کی، تو عدالت نے اسکولوں کے بچوں کو مقامی بورڈ کے ذریعے امتحانات میں شرکت کی اجازت دے دی۔ موجودہ حکم نامے پر اگر عمل ہوا تو یہ پچھلے ۳۳ برسوں میں ’فلاحِ عام ٹرسٹ‘ پر تیسری پابندی ہوگی۔
’فلاحِ عام ٹرسٹ‘ سے وابستہ ایک کارکن نے بتایا: ’’حکومت یہ بات جانتی ہے کہ ہمارے یہاں سے فارغ بچے زندگی کے مختلف شعبوں میں نام کما چکے ہیں اور ابھی تک ایک بھی بچہ ایسا نہیں جو کسی تخریبی کارروائی میں ملوث پایا گیا۔ دوسری طرف حکومت کی اپنی یونی ورسٹیوں میں سے کئی لڑکے ایسے تھے، جنھوں نے بندوق اُٹھائی، تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اُن یونی ورسٹیوں کو بھی بند کیا جائے؟ ہماری تمام سرگرمیاں عام اور شفاف ہیں، مگر اس کے باوجود ہمیں تنگ کیا جارہا ہے‘‘۔{ FR 675 }
ثمرین گل (فرضی نام) پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے ایک میڈیکل کالج میں تیسرے سال کی طالبہ ہیں، جو کشمیر اپنے گھر عید کے لیے آئیں تو ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ انڈیا کی حکومت ان کے مستقبل پر ایک سوالیہ نشان لگا دے گی۔ اسی طرح فواد حسن (فرضی نام) کا تعلق بھی کشمیر سے ہے۔ وہ پاکستان کے صوبہ سندھ میں میڈیکل کالج کے چوتھے سال کے طالب علم ہیں، وہ کہتے ہیں:’’میرے والدین چاہتے تھے کہ میں ڈاکٹر بنوں۔ انڈیا میں کوشش کی مگر داخلہ نہیں ملا۔ پاکستان سمیت دیگر ممالک میں کوشش کی تو پاکستان میں نہ صرف داخلہ ہوا بلکہ یہ دیگر ممالک کے مقابلے میں سستا بھی تھا‘‘۔
ثمرین اور فواد حسن سمیت کشمیر کے کئی طالب علموں کو، جو پاکستان کی یونی ورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں یا حال ہی میں تعلیم مکمل کر چکے ہیں، ان کے لیے انڈیا کے اعلیٰ تعلیم کے وفاقی ادارے یونی ورسٹی گرانٹس کمیشن (UGC) اور آل انڈیا کمیشن برائے ٹیکنیکل ایجوکیشن (AICTE) کا وہ اعلان ذہنی تناؤ کا باعث بن چکا ہے، جس کے مطابق: ’’پاکستان سے حاصل کردہ ڈگری کی بنیاد پر آیندہ سے انڈیا [اور انڈیا کے زیرتسلط کشمیر] میں تعلیم یا نوکری نہیں ملے گی‘‘۔
واضح رہے کہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان عشروں سے جاری ’سٹوڈنٹس ایکسچینج پروگرام‘ (SEP) کے تحت انڈیا کے زیر انتظام کشمیر سے نوجوان ہر سال پاکستانی تعلیمی اور تربیتی اداروں میں داخلہ لیتے تھے۔پاکستان میں فی الوقت زیرتعلیم کشمیریوں کی تعداد کے بارے میں انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی حکومت نے آج تک کوئی مجموعی اعداد و شمار جاری نہیں کیے۔
تاہم، پاکستان سے واپس لوٹنے والے طالب علموں کا کہنا ہے: ’’گذشتہ کئی برس سے ہرسال کم از کم ۱۰۰ نوجوان میڈیکل،انجینیرنگ یا کمپیوٹر سائنسز کے شعبوں میں ڈگریاں لے کر کشمیر لوٹتے تھے۔ پاکستان میں کشمیری طالب علموں کی تعداد میں خواتین کا تناسب ۴۰ فی صد ہے۔
۲۰۱۶ء میں مسلح عسکریت کے بعد حال ہی میں انڈین اداروں کا یہ متنازعہ فیصلہ سامنے آیا ہے، اوراس فیصلے سے قبل ۲۰۲۰ء میں انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں بھی ایک متنازعہ مقدمہ سامنے آیا، جو جموں و کشمیر پولیس کے کاؤنٹر انٹیلی جنس کشمیر (CIK) شعبے نے درج کیا۔ اس مقدمے میں الزام لگایا گیا کہ ’’کشمیری علیحدگی پسند رہنما پاکستانی تعلیمی اداروں میں داخلے کے عوض کشمیریوں سے لاکھوں روپے لیتے ہیں اور یہ سرمایہ بعد میں مسلح تشدد کے لیے استعمال ہوتا ہے‘‘۔
حُریت کانفرنس کے رہنما میر واعظ عمر فاروق نے پولیس کے اس دعوے کو مبالغہ آرائی قرار دیا اور کہا ہے:’’یہ بات تو خود طالب علموں یا اُن کے والدین سے بھی معلوم کی جا سکتی ہے‘‘۔
پاکستان سے ہی ایم بی بی ایس کی ڈگری لے کر واپس لوٹنے والے ایک نوجوان کے والد نے ہمیں بتایا کہ’’یہ نوجوان اپنے ہی پیسوں پر ڈگریاں لیتے تھے، اور ان کی تعلیم و تربیت پر پاکستانی وسائل خرچ ہوتے تھے۔ واپسی پر وہ کشمیر میں ہی کشمیری انتظامیہ کا ایک انسانی وسیلہ بن جاتے تھے۔ لیکن اب اس فیصلے سے برین ڈرین [فرارِ ذہانت] ہوگا۔ ظاہر ہے جب ایک ڈگری یافتہ نوجوان یہاں ناکارہ قرار دیا جائے گا، تو وہ کیا کرے گا؟ وہ یا تو پاکستان واپس جائے گا یا پھر خلیجی ممالک یا برطانیہ اور امریکا جائے گا‘‘۔
یوں تو ہر روز بھارت کے طول و عرض پر پھیلے مسلمانوں کی جان، مال، عزّت، مستقبل اور ایمان سے کھیلنے کے متعدد واقعات برقی اور طباعتی ذرائع ابلاغ پر شائع ہوتے ہیں، لیکن گذشتہ دنوں اس جارحیت نے ایک دوسرے طریقے سے پیش قدمی کی۔
بھارتی حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے دو ترجمانوں کی جانب سے ٹی وی کے ایک لائیو شو میں پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں توہین آمیز الفاظ استعمال کرنے کے خلاف عالمِ عرب کے رد عمل نے عرب دنیا میں بھارتی سفارت کاری کے غبارے سے ہوا نکال کر رکھ دی ہے ۔ دس دن تک بھارت میں مسلمان، نوپور شرما اور نوین کمار جندل کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرتے رہے، مگر ان کو عرب دنیا کے رد عمل کے بعد ہی پارٹی سے معطل کیا گیا ۔
پاکستان،ترکیہ،ملایشیا، ایران بشمول ’اسلامی تعاون تنظیم (OIC) کے احتجاجات کو بھارتی حکومتیں عموماً نظر انداز یا مسترد کرتی تھیں ، مگر عالم عرب کے موجودہ رد عمل کی وجہ سے آج کل آئے دن مشرق وسطیٰ میں موجود بھارت کے سفارت کار ان ملکوں کے متعلقہ افسران اُمورخارجہ، میڈیا کے نمایندوں ، سیاسی اثر و رسوخ رکھنے والے افرادکے دروازوں پر دستک دے کر یہ پیغام دینے کی کوششیں کررہے ہیں کہ: ’’بی جے پی کے ترجمانوں کا رد عمل اضطراری تھا اور حکومت کا ان کے اس عمل کے ساتھ کوئی لینا دینا نہیں ہے اوران کو پارٹی سے الگ کر دیا گیا ہے‘‘۔ کشمیر اور بھارتی مسلمانوں کے بارے میں عالمی فورمز پر سخت موقف اختیار کرنے کی وجہ سے ۲۰۱۹ء سے سزا کے بطور بھارتی وزارت خارجہ نے جمہوریہ ترکیہ کے ساتھ فارن آفس ڈائیلاگ کو معطل کرکے رکھ دیا تھا۔ مگر اس قضیے کے بعد آناً فاناً وزارت خارجہ میں سیکرٹری ویسٹ سنجے ورما نے انقرہ کا دورہ کرکے اس ڈائیلاگ کا احیا کر دیا ۔ ان کو خدشہ تھا کہ کہیں ترکی بھی عربوں کی طرح سرکاری طور پر احتجاج نہ درج کروادے ۔
یہ امرواقعہ سیکڑوں برسوں کی تاریخ میں ثبت ہے کہ جب بھی مسلمانوں یا ان کے حکمرانوں نے عصبیتوں اور ذاتی فوائد سے بالاتر ہوکر ایک جسد واحد کی حیثیت سے عمل یا ردعمل کا مظاہرہ کیا ہے، تو اس کے خاصے دیرپا اور مثبت نتائج نکلے ہیں ۔ عالم عرب کے اس رد عمل نے بھارت میں ہندو قوم پرستوں کی نیندیں حرام کر کے رکھ دیں ہیں ۔ اس سے قبل چاہے بابری مسجد کی مسماری کا مسئلہ ہو یا فرقہ وارانہ فسادات___ ان کے فوراً بعد ہی کسی جید عالم دین یا دینی تنظیم کے رہنما کو حکومت کی طرف سے مسلم ممالک کا دورہ کرواکے وہاں کے حکمرانوں تک پیغام پہنچایا جاتا تھا کہ یہ بس چند شرپسندوں کی کارستانی تھی اور یہ بھارت کا اندرونی معاملہ ہے اور حکومت اس سے احسن و خوبی کے ساتھ نپٹ رہی ہے‘‘ ۔ انھیں یہ بھی باور کرایا جاتا تھا کہ’’ آپ کی مداخلت سے بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کی زندگی اجیرن ہوسکتی ہے‘‘۔ مگر اب کی بار چونکہ اس وقت معاملہ پیغمبر ؐ اسلام کا تھا، اور شاید اب جید عالم دین یا دینی تنظیم کے لیڈر وں کو اس حد تک کنارے لگایا جا چکا ہے کہ وہ اب مسلم ملکوں میں بھارتی حکومت کی غیر سرکاری سفارت کاری کرنے سے گریزاں ہیں ، اس لیے بھی وزیراعظم نریندر مودی کے سفارت کار عالم عرب میں برپا ہونے والے رد عمل کی روک تھام نہیں کر پا رہے ہیں ۔
اس دوران میں ہندو قوم پرستوں کی مربی تنظیم راشٹریہ سیویم سیوک سنگھ (RSS) کے ایک مرکزی لیڈر او ر نظریہ ساز رام مادھو نے مسلمانوں کو تین نکاتی فارمولہ پیش کیا ہے کہ جس کے نتیجے میں وہ بھارت میں سکون کے ساتھ زندگی گزار سکتے ہیں ۔ یہ شرطیں کچھ اس طرح کی ہیں: ’’مسلمان غیر مسلموں کو کافر نہ کہیں ، مسلمان خود کو امت اسلام یا مسلم امت کا حصہ سمجھنا ترک کردیں، اور مسلمان جہاد کے نظریئے سے خودکو الگ کریں ‘‘۔
پہلی اور تیسری شرط کےلیے مشاہیر اورعلما کو رام مادھو کو جواب دینا چاہیے۔ دوسری شرط یعنی مسلمانوں کے امت کے تصورسے ہمیشہ ہی نہ صرٖ ف ہندو قوم پرست بلکہ لبرل عناصر بھی نالاں رہے ہیں اور ایک عرصے سے سرکاری اور غیر سرکاری طور پر کوششیں ہو رہی ہیں کہ مسلمان اس تصور سےوابستگی کو رد کردیں۔
اگر ماضی پہ نظر دوڑائوں تو یاد آتا ہے کہ ایک بار کشمیر کے بارے میں نئی دہلی میں محکمہ دفاع کے ایک تھنک ٹینک نے سیمی نار کا انعقاد کیا تھا۔ اس موقع پر ایک حاضر سروس بریگیڈیر نے امت کے اس تصور ہی کو کشمیر کے ایشو کی جڑ قرار دیتے ہوئے تجویز دی کہ اس کی بیخ کنی کرنی ضروری ہے۔ بھارتی فوج کے ان اعلیٰ افسر کا کہنا تھا کہ مسلمانوں کے مکہ میں فریضہ حج ادا کرنے سے بھی اس تصور کو تقویت ملتی ہے ۔ اس لیے بھارت ہی میں مکہ یا کعبہ کا کوئی ماڈل تیار کرکے، یا مسلمانوں کو ہرسال سعودی عرب جانے کے بجائے درگاہ اجمیرشریف جانے کی ترغیب دلائی جائے‘‘۔
اسی طرح ایک بار کشمیر پر ٹریک ٹو ڈائیلاگ میں بظاہر نہایت ہی لبرل کشمیری پنڈت دانش ور نے بھی مسلمانوں میں امت کے تصور کی شکایت کرتے ہوئے کہا کہ ’’بس یہی ایک چیز بین المذاہب مکالمہ میں رکاوٹ بنتی ہے ‘‘۔ ان دنوں فرانس میں سکھوں کی پگڑی پہننے کا معاملہ درپیش تھا،اور بھارتی حکومت نے اس کو حکومت فرانس کے ساتھ اٹھایا تھا اور چین کے کیلاش پہاڑوں میں ہندوؤں کی مانسرور یاترا کی تیاریا ں بھی ہو رہی تھیں ۔ میں نے ان سے پوچھا: ’’محترم پنڈت صاحب، آخر ان دونوں معاملات پر بھارتی حکومت کیوں اتنی زیادہ فعال ہے؟ اس تصور کو تو پھر ہندوازم سے بھی خارج کرنا ضروری ہے ‘‘۔
۱۸فروری ۲۰۰۷ء کو ’سمجھوتہ ٹرین دھماکوں‘ کے بعد جب ہندو دہشت گردی کی بازگشت سنائی دینے لگی، تو میں نے جنوبی دہلی میں آر ایس ایس کی ذیلی تنظیم ویشیوا ہندو پریشد (VHP) کے ہیڈ کوارٹر میں ہندو قوم پرستوں کے شعلہ بیان لیڈر ڈاکٹر پروین بائی توگڑیا کا انٹرویو کیا ۔ وہ اس وقت تنظیم کے انٹرنیشنل جنرل سیکرٹری تھے ۔ میں نے چھوٹتے ہی پہلا سوال کیا:’’آپ توایک ڈاکٹرہیں اور وہ بھی کینسر اسپیشلسٹ ۔ آپ انسانوں کے جسم سے کینسر دور تو کرتے ہیں ، مگر سوسائٹی میں کیوں کینسر پھیلاتے ہیں؟‘‘ ان کا جواب تھا: ’’ہم بھارتی سوسائٹی میں مدرسہ اور مارکسزم کو کینسر سمجھتے ہیں اور ان دونوں کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے پُرعزم ہیں، چاہے اس کے لیے سرجری کی ضرورت ہی کیوں نہ پڑے؟‘‘ کئی اور سوالوں کے بعد میں نے ان سے پوچھا کہ ’’بھارت میں تو تقریباً ۲۰کروڑ مسلمان بستے ہیں، اور ان سبھی کو تو آپ ختم نہیں کرسکتے ۔ کیا کوئی شکل نہیں ، کہ ہندو اور مسلمان شانہ بشانہ پُرامن زندگی گزارسکیں؟‘‘ اپنے مخصوص انداز میں میز پر مکہ مارتے ہوئے انھوں نے کہا:’’ہاں ہاں کیوں نہیں ،ہم مانتے ہیں کہ مسلمانوں نے بھارت کے کلچر اور تہذیب کو پروان چڑھانے میں تعاون کیا ہے، مگر ہمیں شکایت مسلمانوں کے رویے سے ہے ۔ وہ اپنے مذہب کے معاملے میں احساس برتری کا شکار ہیں ۔ وہ ہندوؤں کو نیچ اور غلیظ سمجھتے ہیں اور ہمارے دیوی دیوتاؤں کی عزت نہیں کرتے ۔ ہمیں مسلمانوں سے کوئی اور شکایت نہیں ہے ، اگر وہ ہندو جذبات کا خیال رکھیں‘‘۔
میں نے تو گڑیا سے پوچھا:’’ہندو جذبات سے آپ کی کیا مراد ہے؟‘‘ توان کا کہنا تھا: ’’ہندو کم و بیش ۳۲ کروڑدیو ی دیوتاؤں پر یقین رکھتے ہیں۔ ہمارے لیے یہ کوئی ناک کا مسئلہ نہیں کہ ہم پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وسلم) کی بھی اسی طرح عزت افزائی کریں، مگر مسلمان اس کی اجازت نہیں دیتے ہیں ، اور نہ اپنے یہاں کسی ہندو دیوی دیوتا کی تصویر یا مورتی رکھتے ہیں ‘‘ اپنے دفتر کی دیوار پر سکھ گورو نانک اور گورو گوبند سنگھ کی لٹکتی تصویر اور کونے میں مہاتما بدھ اور مہاویر کی مورتیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، توگڑیا نے کہا:’’دیگر مذاہب، یعنی سکھوں ، بدھوں اور جینیوں نے ہندوؤ ں کے ساتھ رہنے کا سلیقہ سیکھا ہے، جو مسلمانوں کو بھی سیکھنا پڑے گا ۔ اور تو اور مسلمان محمود غزنوی، اورنگ زیب، محمد علی جناح، اور دہلی کے امام احمد بخاری کو اپنا رہنما مانتے ہیں ، یہ سبھی ہندو رسوم و رواج کے قاتل تھے ۔ شاید ہی کوئی مسلمان داراشکوہ، عبدالرحیم خان خاناں، امیرخسرو یا اسی قبیل کے دانش وروں کو قابل تقلید سمجھتا ہے ۔ یہ سبھی شخصیتیں ہمارے لیے قابل احترام ہیں ، مگر بخاری اور علی جناح نہیں ہوسکتے‘‘۔
اسی طرح ایک روز بھارتی پارلیمان کے سینٹرل ہال میں ، میں نے صوبہ اترپردیش کے موجودہ وزیر اعلیٰ سے، جو ان دنوں ممبر پارلیمنٹ تھے پوچھا: ’’ آپ آئے دن مسلمانوں کے خلاف بیانات داغتے رہتے ہیں ۔ مسلمانوں کی آبادی کروڑوں میں ہے ۔ ان کو تو ختم کیا جاسکتا ہے نہ پاکستان کی طرف دھکیلا جاسکتا ہے ۔ کیا کوئی طریقہ نہیں ہے، کہ اس ملک میں ہندو اور مسلمان شانہ بشانہ پُرامن زندگی گزارسکیں؟‘‘ ; تو انھو ں نے کہا: ’’ہندو حکمرانوں کے کبھی توسیع پسندانہ عزائم نہیں رہے ہیں ۔ مگر اب و ہ بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں، کیونکہ ان کا مذہب ، تہذیب و تمدن مسلمانوں اور عیسائیوں کی زد میں ہیں اور ان مذاہب کے پیشوا اور مبلغ ہندوؤ ں کو آسان چارہ سمجھتے ہیں ۔ ہمارے دیوی دیوتاؤں کی عزّت نہیں کرتے اور ہندو جذبات کا خیال نہیں رکھتے‘‘۔ لوک سبھا کی کارروائی شروع ہونے جارہی تھی، مسلسل کورم کی گھنٹی بجائی جا رہی تھی ۔ یوگی جی اب ایوان میں جانے کےلیے کھڑے ہوگئے، مگر جاتے جاتے پروین توگڑیا کا جملہ دہرایا:’’مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ دیگر اقلیتوں سکھوں ، جین فرقہ اور پارسیوں کی طرح ہندو دھرم کی برتری تسلیم کرتے ہوئے اس ملک میں چین سے رہیں‘‘۔
اسی طرح غالباً گجرات فسادات کے بعد ۲۰۰۲ء میں ایک مسلم وفد آر ایس ایس کے اُس وقت کے سربراہ کے سدرشن جی سے ملنے ان کے صدر دفتر ناگپور چلا گیا، جس میں اعلیٰ پایہ مسلم دانشور شامل تھے ۔ ملاقات کا مقصد ملک میں بڑھتی ہوئی فرقہ پرستی کو کم کرنے کے لیے آرایس ایس جیسی شدت پسند تنظیم کی لیڈر شپ کو قائل کرنا تھا اور اُن کے سامنے اسلام اور مسلمانوں کے نظریئے کو بیان کرنا تھا ۔ جب اس وفد نے سدرشن جی سے پوچھا:’’کیا مسلمانوں اور ہندوؤں میں مفاہمت نہیں ہوسکتی ہے؟ کیا رسہ کشی کے ماحول کو ختم کرکے دوستانہ ماحول میں نہیں رہا جاسکتا جے؟‘‘ اس کے جواب میں کے سدرشن نے مسلم وفد کو بتایا: ضرور آر ایس ایس مسلمانوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرسکتی ہے، لیکن اس کے لیے یہ شرط ہے کہ آپ لوگ اسلام ہی کو برحق اور سچا دین کہنا چھوڑ دیجیے اور کہیے کہ اسلام بھی برحق اور سچا دین ہے تو ہماری آپ کے ساتھ مفاہمت ہوسکتی ہے‘‘۔
اسلام ہی حق ہے کے بجائے اسلام بھی حق ہے، کا مطالبہ کرنا بظاہر ایک معمولی بات ہے اور یہ مطالبہ اب فرقہ پرست ہی نہیں ، بلکہ لبرل مسلمانوں کی طرف سے بھی کیا جارہا ہے ۔ آرایس ایس، علماو دانش وروں پر مبنی اُس وفد کواُس وقت قائل نہیں کرسکی کیونکہ وفد کے تمام لوگ دینی علوم سے مکمل طور پر واقفیت رکھتے تھے اور اُس مطالبے کو ماننے سے ایمان کا کیا حشر ہوجائے گا، اس بات کی بھی وہ بخوبی واقفیت رکھتے تھے ۔
اپنی سوانح حیات یادوں کی بارات میں معروف شاعر جوش ملیح آبادی بھارت کے پہلے وزیر داخلہ سردار پٹیل کے ساتھ اپنی میٹنگ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’ انھوں نے انگریزی میں مجھ سے کہا، آپ نے سنا ہوگا کہ میں مسلمان کا دشمن ہوں۔ آپ جس قدر خوفناک برہنہ گفتار آدمی ہیں، اسی قدر میں بھی ہوں، اس لیے آپ سے صاف صاف کہتا ہوں کہ میں آپ کے ان تمام مسلمانوں کی بڑی عزت کرتا ہوں ، جن کے خاندان باہرسے آکر یہاں آباد ہو گئے ہیں ، لیکن میں ان مسلمانوں کو پسند نہیں کرتا ، جن کا تعلق ہندوقوم کے شودروں اور نیچی ذاتوں سے تھا، اور مسلمانوں کی حکومت کے اثر میں آکر انھوں نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ یہ لوگ دراصل نہایت متعصب، شریر، اور فسادی ہیں ، اور اقلیت میں ہونے کے باوجود، ہندو اکثریت کو دبا کر رکھنا چاہتے ہیں‘‘۔
سردار پٹیل کا یہ جملہ ہندو قوم پرستوں کی ذہنیت کی بھرپور عکاسی کرتا ہے ۔ ان کو امت کے تصور سے زیادہ اسلام کے آفاقی اور سماجی انصاف کے نظام سے خطرہ لاحق ہے ، جو حج کے وقت یا امت کے تصور سے ظاہر ہوجاتا ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ پچھلے ایک ہزار برس اس خطے پر حکومت کرنے کے باوجود مسلمان جنوبی ایشیا میں اس سماجی انصاف کے نظام کو لاگو نہیں کرپائے، بلکہ خود ہی طبقوں اور ذاتوں میں بٹ گئے، ورنہ شاید اس خطے کی تاریخ اور تقدیر مختلف ہوتی !
۱۶جون کو پاکستان کے وزیرخارجہ مسٹر بلاول زرداری نے اسلام آباد انسٹی ٹیوٹ فار اسٹرے ٹیجک اسٹڈیز میں خطاب کرتے ہوئے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ ’’پاکستان بین الاقوامی سطح پر تنہائی سے دوچار ہے۔ ہمیں سوچنا چاہیے کہ بھارت کے ساتھ تعلقات منقطع کرنے سے ہمیں کون سا فائدہ ہورہا ہے؟ ہمیں چاہیے کہ ہم بھارت کے ساتھ تعلقات بحال اور تجارت کریں‘‘۔
یہ وہی بلاول زرداری ہیں، جو حکومت میں آنے سے قبل جب حزبِ اختلاف میں تھے تو عمران خان حکومت کو طعنہ دیا اور الزام لگایا کرتے تھے کہ ’کشمیر کو مودی کے ہاتھوں بیچ دیا ہے‘۔ ہمارے ہاں یہ عجیب مریضانہ رواج ہے کہ جب حزبِ اختلاف میں ہوتے ہیں تو گرماگرم تقریریں کی جاتی ہیں اور حکومت کی کسی بات کی کبھی تحسین نہیں کی جاتی، مگر جب خود حکومت میں آتے ہیں تو رویئے فوراً بدل جاتے ہیں اور موقف یک سر تبدیل ہوجاتا ہے۔ کل تک جو پہلے وزیراعظم کو طعنے دے رہے تھے۔ اب وہ خود ایسے شوشے چھوڑ رہے ہیں کہ ’’ہمیں بھارت کے ساتھ تجارت کرنی چاہیے اور بھارت کے ساتھ تعلقات بحال کرنے چاہییں‘‘۔
کوئی ذی شعور پاکستانی، بھارت کے ساتھ مستقل بنیادوں پر تعلقات خراب کرنا نہیں چاہتا۔ ہم سب چاہتے ہیں کہ بھارت کے ساتھ ہمارے تعلقات بہتر ہوں، لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان تعلقات کو بہتر بنانے کی قیمت کیا ہے؟اگر تو اس کی قیمت یہ ہے کہ ہم جموں و کشمیر کے تنازعے ہی کو نظرانداز کردیں اور بھارت مقبوضہ جموںو کشمیر میں جو کچھ کرتا چلا جائے، ہم اس پر احتجاج نہ کریں اور اس تمام تر ظلم و زیادتی پر سردمہری برتتے ہوئے اسے تسلیم کرتے رہیں، اور لائن آف کنٹرول کو انٹرنیشنل سرحد مان کر اس تنازعے کو اسی طرح ختم کر دیں، جس طرح ہمارے ہاں کچھ لوگ چاہتے ہیں۔ نہیں، ایسا نہیں ہوسکتا، لیکن اس کے باوجود اس پر بحث بھی ہوسکتی ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس طرح وزیرخارجہ بلاول نے بیان دیاہے، اس کی ٹائمنگ کو پہلے ذہن میں رکھیے۔ پھر اس بیان کی جڑ بنیاد (substance) کی بات کرتے ہیں۔
صورتِ حال یہ ہے کہ چند روز پہلے آپ ’اسلامی تعاون تنظیم‘ (او آئی سی) کے جنرل سیکرٹری کو فون کر کے کہتے ہیں کہ ’’او آئی سی کا اجلاس بلایا جائے اور بھارت کے خلاف ٹھوس ایکشن لیا جائے۔ بھارت میں کانپور سے رانچی تک مسلمانوں کے خلاف جو کچھ کیا جارہا ہے، اس کے خلاف اقدامات اُٹھائے جائیں‘‘۔ مگر اس کے صرف تین روز کے بعد آپ یہ پیغام دے رہے ہیں۔ اس بات پر او آئی سی کے جنرل سیکرٹری اور پوری دُنیا یہ کہتی ہوگی کہ ’’یہ کیا مذاق کیا جارہا ہے؟ یہ کس قسم کے لوگ ہیں؟ خود ان کا موقف واضح نہیں ہے کہ یہ کیا چاہتے ہیں؟ ایک طرف ہمیں یہ کہتے ہیں کہ اجلاس بلائیں اور تجارت ختم کریں اور بھارت کا بائیکاٹ کریں اور دوسری طرف اس قسم کے بیانات دے رہے ہیں‘‘۔ اس طرح متضاد اور جگ ہنسائی پر مبنی بیانات دے کر ہم دنیا کے سامنے اپنی ساکھ کو دائو پر لگادیتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کے بعد ’اسلامی کانفرنس تنظیم‘ ہمارے ساتھ کھڑی نہ ہوئی، کجا یہ کہ ہم سلامتی کونسل کا رسمی اجلاس بلا کر ہی کچھ کرلیتے۔ یہ تسلیم کرتے ہوئے مجھے اذیت محسوس ہورہی ہے کہ ہمارے اہل حل وعقد کی ایسی تضاد بیانیوں کی وجہ سے کہیں بھی ہمیں کوئی ٹھوس اور بامعنی تائید نہیں ملی۔ اقوام متحدہ کے اندر بلاشبہہ چند تقاریر ضرور ہوگئیں، اس کے سوا ہمیں کیا تائید و حمایت ملی؟ آج پھر ہم وہی غلطی کر رہے ہیں۔ یہی لوگ جب حزب اختلاف میں تھے تو بڑی بڑی باتیں کرتے تھے کہ ہم نے مسئلہ کشمیر کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا تھا۔ خدارا، تھوڑا سا ٹائمنگ کا خیال رکھ لیں کہ حالات کیا ہیں اور اس وقت بھارت میں کیا ہورہا ہے؟ اور وہاں کون سی قیامت برپا ہے؟ موجودہ حالات کے پس منظر میں کیا ایسی بیان بازی موزوں ہے؟
دوسری طرف اس بیان کا جائزہ لیجیے۔ بھارت کے ساتھ بیک ڈور چینل پر باتیں ہوتی رہتی ہیں اور اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ لیکن جب آپ چیزوں کو پبلک ڈومین یا قومی اور بین الاقوامی سطح پر لے کر آتے ہیں اور اسٹرکچرل ڈائیلاگ یا بنیادی مذاکرات کی بات کرتے ہیں، تو پھر آپ کے ہرلفظ اور ہرجملے سے مسائل بڑھ جاتے ہیں۔ آپ بیک ڈور چینل پر ایک گرائونڈ تیار کرتے ہیں اور جب تک گرائونڈ تیار نہیں ہوجاتی اس وقت تک اسٹرکچرل ڈائیلاگ کے لیے بیان دینا مناسب نہیں۔ لہٰذا، یہ دانش مندی کی بات نہیں ہے کہ ہم براہِ راست یہ کہیں کہ ہمیں بھارت کے ساتھ اسٹرکچرل ڈائیلاگ یا مذاکرات کرنا چاہییں۔ بھارت کی ہمیشہ یہی کوشش رہی ہے کہ وہ بیک ڈور چینل پر مصروف رکھتا ہے اور جب اسٹرکچرل ڈائیلاگ کا مرحلہ آتا ہے تو خصوصاً کشمیر پر پاکستان کی پوزیشن کو کمزور کرواتا رہتا ہے۔
۲۰۰۴ء سے لے کر اب تک ہم نے دیکھا ہے کہ کس طرح بھارت نے کشمیر پر ہماری پوزیشن کو کمزور کیا ہے؟ کس طرح دہشت گردی کو پاکستان اور بھارت کے درمیان بڑا تنازعہ بنایا؟ حالانکہ اصل تنازعہ تو مسئلہ جموں و کشمیر ہے۔ میرا مشاہدہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات اس وقت تک کبھی معمول پر نہیں آسکتے، جب تک کشمیر کا مسئلہ حل نہ ہوجائے۔ یہ پہلو ہروقت سامنے رہنا چاہیے۔
اگر وزیرخارجہ کے مطابق پاکستان اس وقت ’تنہائی‘ کا شکار ہے، تو اس کی وجہ کشمیر یا پاک بھارت تعلقات کی خرابی نہیں ہے، بلکہ ہماری داخلی کمزوریاں اور خرابیاں ہیں۔ ہمارے اندر کے جو معاملات ہیں، ’میموگیٹ‘ سے لے کر ’ڈان لیکس‘ وغیرہ تک کے جو ایشوز ہیں، اگر ان کو ہی دیکھ لیں تو آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ ہم کہاں کھڑے ہیں؟ خدارا، پاکستان کی سفارت کاری کو اور پاکستان کی خارجہ پالیسی کو مذاق نہ بنایئے۔ ہمارا ایک مضبوط قومی موقف ہے، اسی کو برقرار رکھیے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہم اپنی انتظامی اور اداراتی کمزوریوں کی وجہ سے بین الاقوامی رائے عامہ اور حکومتوں کو اس طرف نہیں لاسکے ہیں۔ اس کے پیچھے گوناگوں مسائل اور سفارتی سطح پر ہماری کوتاہیاں ہیں۔
وزیرخارجہ کے اس بیان میں پائی جانے والی کمزوری اور ناسمجھی، کشمیر کے موقف سے اساسی انحراف اور ایک بڑی زیادتی ہے۔ یہ پاکستانیوں کے ساتھ بھی زیادتی ہے کہ جو گذشتہ ۷۵برس سے جانی اور مالی سطح پر بہت بڑی قربانی دے رہے ہیں، اور پھر بنیادی طور پر کشمیریوں کے ساتھ بھی انتہائی ظلم ہے جو بے شمار قربانیاں دے رہے ہیں اور ابھی تک جنھوں نے پاکستان کا جھنڈا اپنے ہاتھوں میں تھام رکھا ہے۔
ایک طرف یاسین ملک صاحب اور شبیراحمد شاہ صاحب کے ساتھ کیا ہورہا ہے؟ مسرت عالم اور آسیہ اندرابی کے ساتھ کیا ہورہا ہے؟ ڈاکٹر قاسم فتو اور بلال لون کے ساتھ کیا ہورہا ہے؟ کتنے نام گنوائے جائیں؟ کتنی مائوں بہنوں کی عصمتیں لوٹی گئی ہیں اور کیا کیا مظالم انھوں نے برداشت نہیں کیے۔ آج بھارت جو کچھ کررہا ہے اور جمہوریت اور جمہوری اقدار کو مٹانے کے لیے جس طرح کے اقدام کر رہا ہے، کیا اس سب کے باوجود آپ بھارت سے تعلقات بحال کرنا چاہتے ہیں۔ آخر بھارت سے تعلقات بحال کرکے آپ کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟
حقیقت یہ ہے کہ ایسے بیانات سے ہم اپنی ساکھ کھو دیتے ہیں، اور حاصل کچھ نہیں ہوتا، اور اس طرح کشمیر پالیسی کو مزید نقصان پہنچاتے ہیں۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ تنہائی کا شکار ہیں تو اس کو دُور کرنے کے اور بہت سے طریقے ہیں۔ صرف یہی طریقہ نہیں ہے کہ آپ بھارت کے سامنے بچھ جائیں کہ ہماری مدد کیجیے۔اگر یہی ذہنی سانچہ ہے تو بہتری کی توقع نہیں کی جاسکتی۔
کسی بھی امریکی صدر کا دورۂ مشرق وسطیٰ ہمیشہ سے نئے چیلنج سامنے لے کر آتا ہے، لیکن اس بار یورپ اور مشرق وسطیٰ کی صورتِ حال میں یہ دورہ خصوصی اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ امریکی صدر جوبائیڈن نے بھی اس امکانی دورے کو خاص طور پر سعودی عرب کے حوالے سے ’ذرا مختلف‘ ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بعض جگہوں پر ’اب یا کبھی نہیں‘ والی سوچ کارفرما ہے۔
اس ارضی خطے کے لیے یہ پہلو بہت اہم ہے کہ ایران کا جوہری پروگرام آگے بڑھ رہا ہے۔ جس کے نتیجے میں تیل پیدا کرنے والی عرب ریاستوں کے ساتھ اسرائیل اور امریکا بھی تشویش میں مبتلا ہیں۔
روسی فیڈریشن ایک نئے دور کی ابتدا کرچکی ہے، جس کے اثرات سے مشرقِ وسطیٰ کا بچنا آسان نہیں ہے۔ چین کی اقتصادی میدان میں عالمی پیش رفت کے ساتھ سفارتی وسیاسی محاذ پر بھی آگے بڑھنے کے رجحانات براہ راست امریکی پریشانی کا اہم سبب ہے۔
افغانستان سے جس ڈھب سے امریکی فوجی انخلا پچھلے سال مکمل ہوا تھا، اس کا بھی دبائو ہے کہ صدر جو بائیڈن امریکی اثر ورسوخ کو کم ہونے سے روکنے کے لیے نئے بندوبست کو ممکن بنانے کے ایجنڈے پر عمل شروع کریں۔ اگرچہ کہا جاتا ہے کہ امریکا کی طرف سے اس میں ضروری سرعت نہیں دکھائی جا سکی۔ افغانستان سے اس انداز میں نکلنے کے بعد جو دھچکا امریکا کو سہنا پڑا ہے، اس کے ازالے کی کوشش کے علاوہ خود جو بائیڈن کی اور ان کی جماعت کی ساکھ اور صلاحیت ِ کار پر سوال اُٹھ رہے ہیں۔
اس پس منظر میں برطانیہ کے نئے فوجی سربراہ جنرل پیٹرک سینڈر کا یہ بیان: ’’۲۴ فروری کے بعد دنیا تبدیل ہو چکی ہے‘‘، صرف برطانیہ کے لیے ایک بڑے انتباہ کی حیثیت نہیں رکھتا بلکہ امریکا کو درپیش کثیر جہتی چیلنجوں کا بھی احاطہ کرتا ہے۔
جوبائیڈن اپنی عوامی مقبولیت کے گراف کو مزید نیچے آنے سے روکنے کے لیے ہاتھ پائوں ما ررہے ہیں۔ رواں برس ماہ نومبر میں امریکا میں وسط مدتی انتخابات ان کی جماعت کے لیے ایک اندرونی، فوری اور بڑے چیلنج کے طور پر سامنے ہیں۔ ان انتخابات میں بُرے نتائج سے جوبائیڈن کی صدارت کے معنی ہی بدل جائیں گے بلکہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایک مرتبہ پھر وائٹ ہاؤس میں داخلے سے قریب تر ہو جائیں گے۔
ان حالات میں بائیڈن چاہتے کہ ہیں کچھ فوری نوعیت کے ’مفید‘ کام ممکن ہو جائیں یا ان میں نظر آنے والی پیش قدمی ہو۔ اس لیے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان انھیں اچھے لگتے تھے، یا نہیں، مگر اس وقت وہ ان کے لیے اتنے ہی اہم ہو چکے ہیں، جتنے کہ محمد بن سلمان کے لیے خود صدر بائیڈن اہم ہیں۔ اس لیے امریکی صدر کی سعودی عرب آمد کو ہر طرح سے زیادہ بامعنی بنانے کے لیے سعودی ولی عہد سہ ملکی دورے پر نکلے، جس میں مصر، اردن اور ترکیہ میں اہم ملاقاتیں اور مشاورتیں پیش نظر ہیں، تاکہ بڑے فیصلوں میں اکیلے آگے نہ بڑھیں، دوسروں کو بھی اعتماد میں لے کر فیصلے کریں۔
اسی دوران میں سعودی ولی عہد کے سہ ملکی دورے سے ایک روز قبل سابق اسرائیلی وزیرخارجہ زپی لیونی نے اپنے ٹوئٹر اکاونٹ سے سعودی شاہی خاندان کی اہم شخصیت شہزادہ ترکی الفیصل کے ساتھ ایک تصویر ٹویٹ کی ہے۔ یاد رہے کہ ترکی الفیصل ماضی میں اسرائیل کے سخت ناقدین میں شامل رہے ہیں، مگر اس کے ساتھ یہ بھی ایک اہم بات ہے کہ وہ امریکا کے ساتھ مل کر کام کرنے کا بھی وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ ایران سے اُبھرنے والے ’خطرات‘ پر بھی ان کی نظر ہے۔ ایرانی جوہری اور ڈرون پروگرام کو سمجھنے اور اس پر رائے کے حوالے سے شہزادہ فیصل، امریکا اور اسرائیلی خدشات میں یکسانیت کا پایا جانا کچھ عجیب بات نہیں، جب کہ یمن، لبنان، عراق اورشام میں ایرانی اثرات کے مظاہر بھی روز افزوں ہوں۔
لہٰذا، بعض اہل الرائے اس تصویر کے بنائے جانے اور سامنے لانے کی ٹائمنگ کو محض اتفاق قرار نہیں دیتے۔ اس تصویر کے ٹویٹ ہونے کے فوری بعد میڈیا نے اسے جتنی اہمیت دی ہے، وہ بھی اہمیت کا اعلان کرتی ہے۔ گویا دو اہم سعودی واسرائیلی شخصیات کی یہ محض ایک تصویر نہیں، بلکہ ایک نئے دور کی چغلی کھاتی ہے۔ بعض ماہرین کے نزدیک: ’’یہ ایک تصویر نہیں ہے، بلکہ جوبائیڈن کے دورے کا عنوان ہے‘‘۔
یہ ’مفروضاتی عنوان‘ اس حقیقت کے باوجود بڑا اہم ہے کہ اسرائیل کی مخلوط حکومت اپنے اقتدار کی آخری ہچکیاں لے رہی ہے، عبوری حکومت کی تشکیل ہو رہی ہے اور اکتوبر تک نئے انتخابات یقینی نظر آرہے ہیں۔
لیکن دو باتیں اور بھی بہت اہم ہیں۔ جس طرح امریکا کے بارے میں یہ معروف بات ہے کہ اس کی حکمت عملی ریاستی نوعیت کی ہوتی ہے، حکومتی انداز کی نہیں۔ بالکل اسی طرح امریکا کے ساتھ ساتھ اسرائیل کے اہداف بھی ایسے ہی ہیں کہ حکومت خواہ کسی بھی جماعت یا فرد کی ہو، اسرائیلی اہداف تبدیل نہیں ہوتے۔ لہٰذا، امریکا کی داخلی ضرورتوں اور عالمی مسائل کے ساتھ اسرائیل، مصر، اردن، سعودی عرب اور ترکیہ کے بڑے ایوانوں کی درون خانہ سرگرمیوں کو نکتے ملانے والی ایک سرگرمی کے طور پر ہی لے لیا جائے تو یہ کھیل کافی سنجیدہ مرحلے میں داخل ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ یہ کھیل کئی ممالک اور ان کے موجودہ حکمرانوں کے مشترکہ مفادات کا بھی تقاضا ہے۔
ایک دو حوالے خود وطن عزیز اسلامی جمہوریہ پاکستان سے بھی دستیاب ہیں:
ایک تو یہ کہ پاکستان کے سرکاری ٹیلی ویژن پر کام کرنے والے ایک صحافی کا حالیہ دورۂ اسرائیل، اور پھر پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول زرداری کے زیرکمان ان کی سیاسی جماعت کے ایک اہم اور کاروباری شخصیت سینیٹر سلیم مانڈوی والا کا اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے بڑا تفصیلی بیان۔ پاکستان کی مخلوط حکومت کی طرح اسرائیل میں ایک مخلوط حکومت قائم ہے، جس کی اکثریت نقش بر آب کی طرح ہے۔ بدترین معاشی صورت حال میں امریکا اور آئی ایم ایف سے تقاضے، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے توقعات بھی ایک مشترکہ منظر پیش کرتی ہیں۔
پاکستان میں کمزور بنیادوں پر کھڑی کی گئی مخلوط حکومت کے ہوتے ہوئے بدترین سیاسی ومعاشی عدم استحکام ہی نہیں، ماہ نومبر میں ’اہم فیصلوں‘ کی ایک عرصے سے جاری بحث بھی موجود ہے۔ اگر اس سب کچھ کو ملا کر دیکھا جائے تو پاکستانی حکومت کے رجحانات اور حالات کا بننے والا ہیولا مذکورہ بالا منظر نامے سے قریب تر نظر آتا ہے۔
’گلوبل ویلیج‘ کا حصہ ہونے کے ناطے ایک دوسرے سے تعاون لینا اور ایک دوسرے کو تعاون دینا تو لازم ہوتا ہی ہے، خصوصاً جب حالات یہ بن چکے ہوں کہ ہر کوئی اپنے آپ کو مشکلات میں گھرا ہوا اور فطری طور پر کمزور بھی سمجھنے لگا ہو۔ ایسے میں سب ایک دوسرے کے تعاون کے متلاشی بھی ہوتے ہیں اور تعاون ’بارٹر‘ کرنے کے لیے تیار بھی ہوتے ہیں۔ یہ کہنا دُور کی کوڑی لانا ہر گز نہیں ہے کہ جو بائیڈن کے دورۂ سعودی عرب کے دوران اہم فیصلوں کا امکان غالب ہے، جو صرف سعودی عرب یا عرب دُنیا کے حوالے سے نہیں، بلکہ بعض دیگر مسلم ممالک کو بھی اپنے گھیرے میں لے سکتے ہیں۔
یہ بھی ممکن ہے کہ بعض فیصلے حتمی نوعیت کو نہ چھو پائیں، مگر اصولی فیصلوں یا ابتدائی فیصلوں کے درجے میں ضرور شمار ہوں گے۔ ان فیصلوں کے نتیجے میں سب فریق ایک دوسرے کے دست وبازو بن کر چلنے پر بھی متفق ہو جائیں گے اور آنے والے دنوں میں اسی سمت بڑھنے کے لیے بڑے فیصلوں کی خاطر مقامی سطحوں پر مزید تبدیلیوں کے امکانات پیدا کر کے مشرق وسطیٰ کو بھی بدلنے کی راہ مزید ہموار کریں گے۔
مشرق وسطیٰ پہلے ہی ’تبدیلیوں‘ کے اس راستے کا راہی بن چکا ہے۔ ترکیہ، مصر، اردن، متحدہ عرب امارات سمیت کئی ممالک کی سوچ میں تبدیلی کے اشاروں سے بات آگے نکل چکی ہے جسے یہاں تک لانے میں ’لالچ اور دھمکی‘ کی امریکی حکمت عملی کو گہرا دخل حاصل ہے۔ یہ پالیسی نئے حالات میں کبھی ایک ملک کے لیے اور کبھی دوسرے ملک یا کسی شخصیت کے لیے بروئے کار رہ سکتی ہے۔
علامہ اقبال کے بقول: ’’جمہوریت وہ طرزِ حکومت ہے کہ جس میں، بندو ں کو گنا کرتے ہیں، تولا نہیں کرتے‘‘، یعنی عددی طاقت کے بل پر حکومتیں وجود میں آتی ہیں اور اکثریتی آبادی کو حق خود اختیاری کا احساس دلا کر ملک کو استحکام فراہم کرتی ہیں۔خود اس جمہوری ڈرامے کو بے اثر کرنے کے لیے دنیا کے ملکوں میں مخصوص گروپ، پارٹیوں کی اندرونی جمہوریت کا جنازہ نکال کر سیاست پر اجارہ داری قائم رکھنے کی روایت برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
تاہم، دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلانے والے بھارت نے حال ہی میں مسلم اکثریتی خطے جموں و کشمیر میں فرقہ وارانہ تعصب پر مبنی چالاکی اور دھوکا دہی (Gerrymandering)کا سہارا لیتے ہوئے جس طرح پارلیمانی اور اسمبلی حلقوں کی حد بندیوں کا اعلان کیا ہے ، اس کی واحد مثال دنیا میں جنوبی افریقہ کے سابق نسل پرستانہ نظام میں ملتی ہے، جہاں جمہوری اداروں کے ہوتے ہوئے بھی اکثریتی سیاہ فام آبادی کو بے وزن اور بے اختیار بنا دیا گیا تھا۔ جموں و کشمیر میں طاقت کے سبھی اداروں ، عدلیہ، افسر شاہی اور پولیس میں اکثریتی آبادی کی نمایندگی پہلے سے ہی برائے نام ہے، وہاں ایک موہوم سی اُمید سیاسی میدان یا اسمبلی میں نمایندگی پر ٹکی ہوتی تھی، جس پر اب نئی دہلی حکومت کے حلقہ بندی حملے سے ایک کاری ضرب پڑ چکی ہے۔ اس اقدام کے بعد شاید نئی دہلی کے حکمرانوں کو جموں و کشمیر میں میر صادقوں یا میرجعفروں کو پالنے کی بھی اب ضرورت نہیں پڑے گی، کیونکہ ’چالاکی اور دھوکے‘ کے اس نظام کے ذریعے اب وہ خود ہی اقتدار اور عوام کی تقدیر کے مالک ہوں گے۔
۵؍اگست ۲۰۱۹ء کو جموں و کشمیر کے سیاسی و انتظامی وجود کو تحلیل کرنے کے بعد بھارتی حکومت نے جسٹس رنجنا ڈیسائی کی قیادت میں حد بندی کمیشن تشکیل دیا اور اسے سیٹوں کی نئی حد بندی کا کام تفویض کیا۔
دنیا بھر میںانتخابی حد بندی کے لیے آبادی اور جغرافیائی حقیقتوں کو مدنظر رکھ کرنشستوں کا تعین کیا جاتا ہے، مگر چونکہ کشمیر کی مثال ہی انوکھی ہے، اس لیے آبادی اور جغرافیائی حقیقتوں کے ان دونوں معیارات کو پس پشت ڈال کر فرقہ وارانہ بنیاوں پر اور ہندو اکثریتی جموں خطے کو بااختیار بناکر، ایک مخصوص سیاسی پارٹی کو فائدہ پہنچانے کے عمل کو مستحکم کیا گیا ہے۔ کمیشن میں ہندو نسل پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے نمایندے جیتندر سنگھ نے پہلے تو آبادی کے بجائے جغرافیہ کو معیار بنانے کی ضد کی تھی، کیونکہ آبادی کے لحاظ سے اگرچہ وادیٔ کشمیر کو برتری حاصل ہے، تاہم جغرافیے کے لحاظ سے جموں خطے کا رقبہ زیادہ ہے۔ مگر بعد میں ان کو خیال آیا کہ جغرافیہ کا معیار ان کے اپنے مفادات پر پورا نہیں اترتا ہے ، کیونکہ جموں خطے میں جغرافیہ کے لحاظ سے اس کے دومسلم اکثریتی ذیلی علاقوں پیر پنچال اور چناب ویلی کا رقبہ ہندو اکثریتی توی خطے سے زیادہ ہے۔ ان خطوں میں مسلم آبادی کا تناسب بالترتیب۷۴ء۵۲ فی صد اور ۵۹ء۹۷ فی صد ہے۔
’حد بندی کمیشن‘ نے اپنی رپورٹ میں جموں کے لیے ۶ سیٹیں بڑھانے اور کشمیر کے لیے محض ایک نشست بڑھانے کی سفارش کی ہے۔ اب نئی اسمبلی میں وادیٔ کشمیر کی ۴۷ اور جموں کی ۴۳سیٹیںہوں گی۔ان نشستوں میں ۱۶ محفوظ نشستیں ہوں گی۔ نچلی ذات کے ہندوؤں، یعنی دلتوں یا شیڈیولڈ کاسٹ کے لیے ۷؍ اور قبائلیوں، یعنی گوجر، بکروال طبقے کے لیے ۹سیٹیں مخصوص ہوں گی۔ اس سے قبل کشمیر کے پاس ۴۶ اور جموں کے پاس ۳۷سیٹیں تھیں۔ وادیٔ کشمیر کی سیٹیں اس لیے زیادہ تھیں کیونکہ ۲۰۱۱ءکی سرکاری مردم شماری کے مطابق اس کی آبادی ۶۸ء۸لاکھ تھی، جب کہ جموں خطے کی آبادی ۵۳ء۷ لاکھ ریکارڈ کی گئی تھی، یعنی کشمیر کی آبادی جموں سے ۱۳لاکھ زیادہ تھی۔ جس کی وجہ سے اسمبلی میں اس کے پاس جموں کے مقابلے ۹ سیٹیں زیادہ تھیں، جب کہ اصولاً یہ فرق ۱۲سیٹوں کا ہونا چاہیے تھا۔ کیونکہ کشمیر میں اوسطاً ایک لاکھ ۵۰ ہزار نفوس پر ایک اسمبلی حلقہ ترتیب دیا گیا تھا،جب کہ جمو ں کے اسمبلی حلقوں کی اوسطاً آبادی ایک لاکھ ۴۵ ہزار رکھی گئی تھی۔
پچھلی اسمبلی میں بھی مسلم آبادی کی نمایندگی جو آبادی کے اعتبار سے ۶۸ء۳۱ فی صد ہونی چاہیے تھی، ۶۶ء۶۶ فی صد تھی،جب کہ ہندو نمایندگی ، جو ۲۸ء۴۳ فی صد ہونی چاہیے تھی، ۳۱فی صد تھی۔ اب وادیٔ کشمیر میں ۱ء۴۶ لاکھ کی آبادی پر ایک ممبر اسمبلی اور جموں میں ۱ء۲۵ لاکھ کی آبادی پر ایک ممبر اسمبلی ہوگا۔ فرق کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جموں کے مسلم اکثریتی ذیلی پیرپنچال خطہ میں ۱ء۴۰ لاکھ کی آبادی پر ایک ممبر اسمبلی، جب کہ ہندو اکثریتی جموں۔ توی خطے میں ۱ء۲۵ لاکھ آبادی پر ایک ممبر اسمبلی ہوگا۔ یعنی وادی کشمیر کا ایک ووٹ جموں کے ۰ء۸ ووٹ کے برابر ہوگا۔
جمہوریت کی اس نئی شکل میں بندو ں کو گننے کے بجائے تولنے کا کام کیا گیا ہے اور ان کے مذہب اور نسل کو مدنظر رکھ کر ان کے ووٹ کو وزن دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ پیر پنچال کی ۸ میں سے ۵ سیٹوں کو گوجر آبادی کے لیے مخصوص کردیا گیا ہے۔ اس خطے میں چونکہ پہاڑی آبادی کثیرتعداد میں آباد ہے، اس لیے یہ قدم مستقل طور پر ان دونوں مسلم برادریوں کے درمیان تنازع کا باعث ہوگا۔ قانونی طور پر گوجر وں کو شیڈولڈ قبائل کا درجہ دیا گیا ہے، مگر انھی علاقوں میں انھی جیسے غربت اور پسماندگی کے شکار پہاڑی طبقے کو اس سے آزاد رکھا گیا ہے۔
اس کے علاوہ ’حدبندی کمیشن‘ نے سفارش کی ہے کہ ۱۹۹۰ء میں کشمیر سے ہجرت کر چکے کشمیری پنڈتوں، یعنی ہندوؤں کے لیے دو نشستیں محفوظ کی جائیںگی۔جس میں ایک کے لیے لازماً پنڈت خاتون ہونی چاہیے۔ ان دو نشستوں کے لیے انتخابات کے بعد نئی حکومت ممبر نامزد کرے گی۔ اسی طرح دہلی ، ہریانہ، پنجاب اور جموں میں بسنے کے لیے ۱۹۴۷ءمیں تقسیم ہند کے وقت جو مہاجرین، پاکستان کے زیر انتظام خطوں یا آزاد کشمیر سے آئے تھے، ان کے لیے بھی سیٹیں مخصوص کرنے اور امیدوار نامزد کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ مگر ان کے لیے تعداد کا تعین حکومت پر چھوڑا گیا ہے ۔ ان دونوں زمروں میں آنے والے اُمیدوار اگرچہ نامزد ہوں گے، مگر ان کو قانون سازی اور حکومت سازی کے لیے ووٹنگ کے برابر حقوق حاصل ہوں گے۔ گو کہ حکومتیں، قانون ساز ایوانوں میں امیدوار نامزد کرتی ہیں، مگر وہ ووٹنگ کے حق سے محروم ہوتے ہیں۔عام طور پر حکومت سازی کے لیے ووٹنگ کا حق براہِ راست انتخاب کے ذریعے منتخب امیدواروں کو ہی حاصل ہوتا ہے۔
ذرائع کے مطابق ۱۹۴۷ءکے مہاجرین کے لیے ۴ سے ۵ نشستیں مخصوص ہوسکتی ہیں۔ چونکہ پنڈتوں اور مہاجرین کے لیے مخصوص نشستیں ۹۰سے اوپر ہیں، اس لیے ان کے لیے جولائی میں پارلیمان کے مون سون اجلاس میں قانون سازی کی جائے گی۔ اس طرح ۹۶ یا ۹۷رکنی ایوان میں جموں یا ہندو حلقوں کی نشستیں ۴۹یا ۵۱تک ہوں گی۔ بتایا جاتا ہے کہ مہاجرین کی یہ نشستیں پاکستانی زیرانتظام یا آزاد کشمیر کی اسمبلی کی طرح ہوں گی، جہاں ۱۲نشستیں مہاجروں کے لیے مخصوص ہیں، جو اس علاقے سے باہر پاکستان میں آبادہیں۔
اسمبلی حلقوں کو ترتیب دیتے ہوئے حدبندی کمیشن نے جموں اور کشمیر کے خطو ں کی الگ الگ کلچرل اور مذ ہبی خصوصیات کو مدنظر رکھ کر سفارشات کی ہیں۔ مگر جب پارلیمانی سیٹوں کا معاملہ آگیا، تو کمیشن نے یکایک یہ فیصلہ کیا کہ پورے جموں و کشمیر کو ایک اکائی مانا جائے گا۔ یہ حیرت انگیز فیصلہ کرتے ہوئے جنوبی کشمیر، یعنی اننت ناگ یا اسلام آباد کی سیٹ کو جموں کے پونچھ -راجوری علاقے سے جوڑا گیا ہے۔ مسلم اکثریتی گوجر ۔پہاڑی طبقات کی آبادی پر مشتمل یہ علاقہ جموں-توی سیٹ سے منسلک ہوتا تھا اور بی جے پی کا امیدوار اس علاقے سے ہارتا تھا۔ اس فیصلے سے حکومت نے ایک تیر سے کئی شکار کیے ہیں۔
دراصل پرانے زمانے سے ہی وادیٔ کشمیر بھی تین خطوں پر مشتمل ایک علاقہ ہے۔ ایک طرح سے یہ تین صوبے ہوتے تھے۔ ان میں:
’مراز‘ یعنی جنوبی کشمیر (اننت ناگ، پلوامہ ، شوپیان)
’یمراز‘ یعنی وسطی کشمیر، جس میں سرینگر، بڈگام وغیرہ کا علاقہ شامل ہے اور
’کمراز‘ یعنی شمالی کشمیر (بارہمولہ، سوپور، کپواڑہ) کے علاقے شامل ہیں___
یہ اپنی ایک جداگانہ شناخت رکھتے ہیں۔ اس لیے سیاسی لحاظ سے بھی اکثر مختلف طریقوں سے وقتاً فوقتاً اپنے آپ کو ظاہر کرتے ہیں۔ ان میں ’مراز‘ یعنی جنوبی کشمیر واحد خطہ ہے، جو صد فی صد کشمیر نسل کی نمایندگی کرتا ہے۔ اسی لیے چاہے ۱۹۷۹ءمیںپاکستانی لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی پر ردعمل ہو،یا ۱۹۸۷ء کا ’مسلم یونائیٹڈ فرنٹ‘ (MUF) کا الیکشن ہو، یا ۲۰۰۲ء سے ۲۰۱۴ءکے انتخابات ہوں،یا برہان وانی کی ہلاکت کا معاملہ ہو، یہ خطہ بس ایک آواز میں متحداور متحرک ہوکر ایک طرف ہوجاتا ہے۔ دیگر د و خطے ’یمراز‘ یا ’کمراز‘ مختلف النسل کے افراد گوجر، بکروال، پہاڑی اور کشمیری نسل کے مشترکہ علاقے ہیں۔
لگتا ہے جنوبی کشمیر کو پونچھ- راجوری سے ملانے کا واحد مقصد اس کی کشمیری شناخت کو کمزور کرنا ہے۔یہ دونوں خطے صرف مغل روڈ کے ذریعے ایک دوسرے سے منسلک ہیں اور یہ رابطہ چھ ماہ تک بھاری برف باری کی وجہ سے بند رہتا ہے۔ اگر کبھی انتخابات اکتوبر اور مئی کے درمیان منعقد ہوتے ہیں، تو اس سیٹ پر قسمت آزمائی کرنے والے امیدواروں کو اننت ناگ سے پونچھ جانے کے لیے رام بن، ڈوڈہ، کشتواڑ، ادھم پوراور پھر جموں کے اضلاع سے ہوتے ہوئے تقریباً ۶۰۰کلومیٹر سے زائد پہاڑی اور دشوار گذار راستہ طے کرنے کے بعد اس پارلیمانی نشست کے دوسرے حصے میں انتخابی مہم چلانے کے لیے جا نا پڑے گا۔
اس کے علاوہ ’حدبندی کمیشن‘ نے۱۳نشستوں کے نام تبدیل کیے ہیں اور ۲۱کی سرحدیں اَز سر نو تشکیل دی ہیں۔ ان میںمرحوم سید علی گیلانی کے آبائی علاقے زینہ گیر کو سوپور سے علیحدہ کرکے رفیع آباد میں ضم کردیا ہے اور سنگرامہ حلقے کے تارزو علاقے کو سوپور میں ملادیا ہے۔ یہ ساری کارگزاری، مسلم آبادی کی عددی اور سیاسی قوت کی کمر توڑنے کے لیے کی گئی ہے۔
دنیا بھر میں شورش اورعدم استحکام کا مقابلہ کرنے کے لیے مقامی آبادی کو بااختیار بناتے ہوئے ان کا غصّہ ٹھنڈا کیا جاتا ہے، مگر کشمیر شاید واحد خطہ ہے، جہاں اکثریتی آباد ی کو دیوار کے ساتھ لگا کر امن و اما ن کے خواب دیکھے جا رہے ہیں۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ کشمیریو ں کی عزت نیلام کرکے ان کو اب اپنے ہی وطن میں اقلیت میں تبدیل کرنے اور بیگانہ بنانے کا ایک گھنائونا کھیل جاری ہے۔
کشمیر میں مسلمانوں کی نسل کشی کا عمل تو جاری ہے اور اب ’حدبندی کمیشن‘ نے اس عمل کو مزید آگے بڑھا دیا ہے۔جموں کشمیر کی جدید صحافت اور انگریزی اخبار کشمیر ٹائمز کے بانی آنجہانی وید بھسین ۱۹۴۷ءکے واقعات، اور جموں میں مسلمانوں کے قتل عام کے چشم دید گواہ تھے، جوقتل عام کو روکنے کے لیے بلراج پوری اور اوم صراف کے ہمراہ والی کشمیر مہاراجا ہری سنگھ کے محل پہنچے۔ وہ بتاتے تھے:’’ ہمیں جلد ہی وزیر اعظم مہرچند مہاجن کے رُوبرو لے جایا گیا۔ وہ اُلٹا ہمیں سمجھانے لگا کہ ہندو ہونے کے ناطے، ہمیں اسمبلی اور دیگر اداروں میں مسلمانوں کے برابر نشستوںکا مطالبہ کرنا چاہیے، کیونکہ اب جمہوری دور کا آغاز ہو چکا ہے۔ اور عددی قوت کے بل پر ہی اقتدار پر قبضہ برقرار رکھا جاسکتا ہے‘‘۔ اوم صراف نے جرأت کا مظاہر ہ کرتے ہوئے پوچھا:’’یہ آخر کس طرح ممکن ہے، جموں و کشمیر تو ایک مسلم اکثریتی ریاست ہے؟‘‘ اس پر مہاجن نے محل کی دیوار سے متصل کھائی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ’’بالکل اس طرح‘‘۔ جب ہم نے بغور دیکھا تو چند مسلم گوجروں کی بے گور و کفن لاشیں نظر آئیں، جو شاید صبح سویرے محل میں دودھ دینے آئے تھے‘‘۔ـ بقول وید جی، ’’ہری چند مہاجن ریاست کی آبادی کا فرقہ وارانہ پروفائل تبدیل کرنے پر مصر تھا‘‘۔
۲۰۲۲ء میں یہ خواب ’حد بندی کمیشن‘ کی رپورٹ نے تقریباً پورا کرکے کشمیری مسلمانوں کو ۱۹۴۷ءسے پہلے والی پوزیشن میں دھکیل کر سیاسی یتیمی اور بے وزنی کی علامت بناکر رکھ دیاہے۔ جب خونیں سرحد کے پار سیاسی اور سفارتی مدد دینے کا دعویٰ کرنے والا وکیل بھی اپنے ہی گرداب میں پھنسا ہو، تو اس صورت حال پر نوحہ خوانی کے علاوہ اور کیا کیا جاسکتا ہے!
ہرسال ۱۵ مئی کو فلسطینی دُنیا بھر میں ’یومِ نکبہ‘ یا بڑی ’تباہی کا دن‘ مناتے اور ۱۹۴۸ء میں اس روز فلسطین میں بڑے پیمانے پر نسلی تطہیر اور ظلم و ستم کی یاد تازہ کرتے ہیں۔
برطانوی حکومت کی اسرائیل کے قیام کے لیے حمایت حاصل کرنے کے بعد ۱۴مئی ۱۹۴۸ء کو فلسطین میں جیسے ہی برطانوی انتداب (mandate)ختم ہوا، صہیونی قوتوں نے اسرائیل کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے پہلی عرب اسرائیل جنگ کا آغاز کردیا۔ صہیونی فوج نے کم از کم ۷لاکھ ۵۰ہزار فلسطینیوں کو ان کے گھروں اور زمینوں سے بے دخل کرکے فلسطین کے ۷۸ فی صد رقبے پر قبضہ کرلیا۔ فلسطین کا باقی ماندہ ۲۲فی صد رقبہ آج مقبوضہ مغربی کنارہ اورمحصور غزہ کی پٹی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ جنگ جنوری ۱۹۴۹ء تک جاری رہی اور پھر مصر، لبنان، اُردن اور شام کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ ہوا۔ ۱۹۴۹ء کی جنگ بندی لائن کو گرین لائن بھی کہا جاتا ہے، اورعام طور پر اسے اسرائیل اور مغربی کنارے کے درمیان حدبندی بھی قرار دیا جاتا ہے۔ گرین لائن کو۱۹۶۷ء سے قبل کی سرحد بھی کہا جاتا ہے جب ۱۹۶۷ء کی جنگ میں اسرائیل نے باقی ماندہ فلسطین پرقبضہ کرلیا تھا۔
اسرائیل کا فلسطین پر فوجی قبضہ عشروں پر محیط مرکزی تنازع ہے جو فلسطینیوں کی زندگی کو مسلسل اور بُری طرح متاثر کر رہا ہے۔
اسرائیل نے ۱۹۴۷ء اور ۱۹۴۹ء کے درمیان فلسطین کی نقشہ کشی کے لیے صہیونی فوجیوں کے ذریعے فلسطین کے بڑے شہروں پرحملہ کیا اور ۵۳۰ دیہات کو تباہ کر دیا۔ بڑے پیمانے پر قتل عام اور سفاکیت کے نتیجے میں ۱۵ہزار فلسطینی مارے گئے۔ ۹؍اپریل ۱۹۴۸ء کو صہیونی فوجیوں نے دیریاسین گائوں میں جو یروشلم کے مغربی دیہاتی علاقے میں واقع ہے، جنگ کے دوران بدنامِ زمانہ قتل عام کیا۔اسرائیلی ریاست کےقیام سے قبل کی Irgun اور Stern صہیونی ملایشیا کے ہاتھوں ۱۱۰سے زیادہ مرد و خواتین اور بچے مارے گئے۔ فلسطینی محقق سلمان ابوستہ نے اپنی کتاب: The Atlas of Palestine میں ان ۵۳۰ دیہات پر جو تباہی و بربادی گزری، اس کا مفصل تذکرہ اعداد و شمارکےساتھ کیا ہے۔ نیز مختلف چارٹوں اور گراف کی مدد سے بھی اس کی وضاحت کی ہے۔
۶۰ لاکھ رجسٹرڈ فلسطینی پناہ گزین ۵۸ کیمپوں میں رہتے ہیں جو پورے فلسطین اور ہمسایہ ممالک میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کی فلسطینی مہاجرین کی فلاح و بہبود کے لیے ایجنسی (UNRWA) مشرق قریب میں مہاجرین کو بنیادی ضروریاتِ زندگی اور صحت کی سہولیات کی فراہمی کے ساتھ ساتھ سیکڑوں اسکولوں کو چلانے میں معاونت کر رہی ہے۔ اس وقت اُردن میں ۲لاکھ ۳۰ہزار فلسطینی مہاجرین ہیں، جب کہ ایک لاکھ ۵۰ہزار فلسطینی مہاجرین غزہ میں، ۸لاکھ ۷۰ہزار فلسطینی مہاجرین مقبوضہ مغربی کنارہ میں، ۵ لاکھ ۷۰ہزار فلسطینی مہاجرین شام میں اور ۴لاکھ ۸۰ہزار فلسطینی مہاجرین لبنان میں ہیں۔ ان میں بڑے فلسطینی مہاجر کیمپ بقع، اُردن، جبلیا، غزہ، جنین ،مقبوضہ مغربی کنارہ، یرموک، شام اور ال ہلوان، لبنان میں ہیں۔
غزہ کے ۷۰ فی صد سے زیادہ رہایشی مہاجرین ہیں۔ تقریباً ایک لاکھ ۵۰ہزار فلسطینی مہاجرین غزہ کی پٹی میں قائم آٹھ مہاجر کیمپوں میں رہتے ہیں۔بین الاقوامی قانون کے مطابق مہاجرین اپنے گھروں اور زمینوں پر واپس آباد ہونے کا حق رکھتے ہیں، جہاں سے انھیں نکالا گیا تھا۔ بہت سے فلسطینی آج بھی فلسطین واپسی کی اُمید کے ساتھ جی رہے ہیں۔
فلسطینی مہاجرین کی حالت ِ زار کے پیش نظر یہ دُنیا کا طویل ترین ناقابلِ حل مہاجرین کا مسئلہ ہے۔ فلسطینیوں پر اسرائیل کے فوجی کنٹرول کی وجہ سے ان کی زندگی کا ہرپہلو متاثر ہے، خواہ وہ سہولیات کا حصول ہو یا سفر کرنا ہو، شادی کرنا ہو یا کہیں رہنا ہو۔ معروف بین الاقوامی این جی او ہیومن رائٹس واچ (HRW) کا کہنا ہے کہ ’’اسرائیل فلسطینیوں کے خلاف انسانیت کی توہین، نسلی امتیاز اور ظلم و سفاکیت کے جرائم کا مرتکب ہو رہا ہے‘‘۔
’ہیومن رائٹس واچ‘ نے اسرائیل کی زیادتیوں کے ثبوت فراہم کیے ہیں، جن مظالم میں بڑے پیمانے پر فلسطینیوں کی جائیدادوں اور زمینوں پر زبردستی قبضہ کرنا، لاقانونی قتل و غارت گری، زبردستی علاقے سے بے دخلی، نقل و حمل پر شدید پابندیاں، نظربندی اور قیدوبند اور فلسطینیوں کو شہریت کے حق سے محروم رکھنا شامل ہیں۔
ہرسال اسرائیل فلسطینیوں کے سیکڑوں گھر تباہ کر دیتا ہے۔ مصدقہ اعدادوشمار کےمطابق ۲۰۰۹ء اور ۲۰۲۲ء کے درمیان کم از کم ۸ہزار ۴سو ۱۳ فلسطینیوں کے مکانات اسرائیلی فوج نے گرا دیئے اور اس کے نتیجے میں ۱۲ہزار ۴سو ۹۱ افراد بے گھرہوگئے۔بین الاقوامی قانون کے مطابق لوگوں کو زبردستی ان کے گھروں سے بے دخل کرنا قانون کی خلاف ورزی ہے۔ ان مکانات میں سے بیش تر (۷۹ فی صد) مقبوضہ مغربی کنارے کے Area C میں واقع ہیں، جو اسرائیل کے زیرانتظام ہے۔ ان میں سے ۲۰ فی صد مکانات مقبوضہ مشرقی یروشلم میں ہیں۔
اسرائیل نے ۴ہزار ۴سو ۵۰ فلسطینیوں کو قید کر رکھا ہے جن میں ۱۶۰بچے اور ۳۲خواتین شامل ہیں اور ۵۳۰ افراد کو قانونی خلاف ورزیوں کی بنیاد پر قید کیا ہوا ہے۔ ہرسال ۱۷؍اپریل کو ’فلسطینی یومِ قید‘ منایا جاتا ہے تاکہ اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینیوں پر ظلم و ستم کو نمایاں اور فلسطین کی آزادی اور اسرائیلی قبضے کے خاتمے کے لیے ان کی جدوجہد کو اُجاگر کیا جاسکے۔
فلسطین کی سرزمین پر اسرائیلی بستیاں مضبوط حصاروں کے ساتھ غیرقانونی طور پر تعمیر کی جارہی ہیں۔ تقریباً ۷لاکھ ۵۰ہزار اسرائیلی آبادکار تقریباً ۲۵۰ غیرقانونی بستیوں میں مقبوضہ مغربی کنارے اور مقبوضہ مشرقی یروشلم میں رہتے ہیں۔ اسرائیلی بستیاں بین الاقوامی قانون کے مطابق غیرقانونی ہیں۔ اسرائیلی آباد کار فلسطینیوں پر اکثر حملہ آور ہوکر ان کے مکانات اور جائیدادوں پر قبضہ کرلیتے ہیں۔ مقبوضہ مغربی کنارے اور مقبوضہ مشرقی یروشلم میں تقریباً تین لاکھ فلسطینی یہ عذاب سہہ رہے ہیں۔
اسرائیلی حکومت اسرائیلی یہودیوں کے رہنے کے لیے ان بستیوں کی تعمیر کے لیے بڑے پیمانے پر فنڈ فراہم کرتی ہے اور انھیں رہنے کے لیے مختلف سہولتوں کی پیش کش کے ساتھ ساتھ سستے گھر بھی فراہم کرتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مقبوضہ مغربی کنارے اور مقبوضہ مشرقی یروشلم میں اسرائیلی آبادکاروں کی آبادی اسرائیل کی آبادی کے مقابلے میں تیزی سے بڑھ رہی ہے۔
غزہ کی پٹی ۲۰۰۷ء سے اسرائیل کی زمینی اور فضائی ناکہ بندی سے دوچار ہے۔ ۲۰۰۸ء سےاسرائیل فلسطینی علاقےپر چار جنگیں مسلط کرچکا ہے۔اسرائیل اور مصر کی سرحدوں کے درمیان بحیرہ روم کے ساحل پر واقع غزہ کی پٹی ۳۶۵ مربع کلومیٹر (۱۴۱ مربع میل) پرمشتمل ہے، جو کیپ ٹائون، ڈیٹریٹ یا لکھنؤ کے برابر ہے۔ یہ دُنیا میں سب سے زیادہ گنجان آباد علاقہ ہے اور اسرائیل کے مسلسل قبضے کی وجہ سے اسے ’دُنیا کی سب سے بڑی جیل‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اسرائیل کی غزہ پر حالیہ بمباری میں جو ۱۰ سے ۲۱مئی ۲۰۲۱ء تک جاری رہی۔ اقوام متحدہ کے مطابق اس میں اسرائیلی فوج نے ۲۶۱ ؍افراد کو ہلاک کیا جن میں ۶۷ بچے بھی شامل ہیں اور ۲ہزار ۲ سو سے زائد افراد کو زخمی کیا۔ فلسطینیوں کے لیے ’نکبہ‘ محض ایک تاریخی واقعہ نہیں ہے۔ یہ ایک مسلسل جاری عمل ہے جس کے نتیجے میں انھیں گھر سے بے گھر اور زمینوں سے بے آباد کیا جارہا ہے اور یہ عمل کبھی نہیں رُکتا۔ (الجزیرہ، ۱۵مئی ۲۰۲۲ء)
شامی انقلاب کسی کی منصوبہ سازی کا حصہ نہیں تھا بلکہ یہ برسوں سے جمع ہونے والے اس عوامی غم و غصے کا مظہر تھا جو آخرکار بشار الاسد کے دورِ حکومت میں پھٹ پڑا۔ ہم روزانہ کی بنیاد پر ہونے والے ان مظاہروں کو دیکھ رہے تھے اور جمعہ کے جمعہ ہونے والے مظاہرے بھی ہمارےسامنے تھے۔ یہ مظاہرے اپنے حجم اور تعداد کے لحاظ سے بڑھتے چلے جارہے تھے اور ملک کے ہر ہرشہر اور قریے میں ہو رہے تھے۔ بڑے شہروں میں بلامبالغہ اگر لاکھوں نہیں تو ہزاروں مظاہرین ضرور جمع ہوتے رہے تھے۔آپ ذہن میں رکھیں کہ یہ وہ ملک ہے جہاں چالیس پچاس برسوں سے چارآدمیوں کے اکٹھے ہونے پر بھی پابندی چلی آرہی تھی، وہاں ہزاروں لوگوں کا جمع ہونا بہت بڑی بات تھی۔ ہمیں بہرحال یہ ڈر تھا کہ قوم کسی دلدل میں نہ پھنس جائے۔ ملک پر مسلط آمریت کوئی عام طرح کی آمریت نہیں تھی بلکہ یہ تو اجتماعی قتل عام اور انسانی نسل کشی جیسے ظالمانہ ہتھکنڈوں سے نہ کترانے والی آمریت تھی
شام کے پاس تہذیب و تمدن کے سارے اساسی عناصر موجود ہیں۔ یہ قوم اللہ کے حکم سے وطن عزیز کے لیے مشترکات پرمشتمل پروگرام کے ساتھ ایک ایسا وطن بناسکتی ہے، جو آزادی اور عدل کے دائمی اور سنہرے اصولوں پر قائم ہو۔
؍اپریل ۲۰۲۲ءکو وزیراعظم پاکستان عمران خان کے خلاف متحدہ حزب اختلاف کی جانب سے عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد، باقی مدت کے لیے شہباز شریف نئے وزیراعظم منتخب ہوئے۔ پاکستان کے نئے وزیر اعظم شہباز شریف اور بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی کے درمیان مبارک باد کے برقی پیغامات کے بعد باضابط خطوط کا تبادلہ ہوا ہے، جس میں دونوں لیڈروں نے پُرامن اور باہمی اشتراک پر مبنی تعلقا ت پر زور دیا ہے۔ شہباز شریف نے کہا ہے کہ ’’ایسا پُرامن اور بااعتماد اشتراک نتیجہ خیز بات چیت کے ذریعے ہی ممکن ہے اور پاکستان علاقائی امن و سلامتی کے لیے پُر عزم ہے‘‘۔ اس سے قبل نریندرا مودی نے اپنے خط میں اُمید ظاہر کی کہ ’’پاکستان کے نئے حکمران بھارت کے مرکزی ایشو، یعنی دہشت گردی کو جڑسے اکھاڑنے میں مدد کریں گے‘‘۔ خطوط کے ان تبادلوں کو نئی دہلی کے حکومتی حلقے ایک اہم پیش رفت قرار دے رہے ہیں۔ چندر شیکھر ، اندر کمار گجرال اور اٹل بہاری واجپائی سمیت بھارت کے سبھی وزرائے اعظم کے دلوں میں نواز شریف کے لیے ہمیشہ ایک نرم گوشہ رہا ہے، جس کا میں نے بارہا مشاہدہ کیا ہے۔ صدر جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں بھارت کا دورہ کرنے والا ایک پاکستانی وفد گجرال صاحب سے ملا، تو انھوں نے نواز شریف کو برطرف اور قید کرنے پر ان کو خوب سنائیں اور ناراضی کا اظہار کیا۔
واجپائی نے بھی ایک بار بتایا تھا کہ ’’۱۹۹۸ءمیں وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے سے قبل سبکدوش وزیر اعظم گجرال نے مجھ کو بتایا تھا کہ ’’پاکستان میں شریف حکومت کے ساتھ معاملات طے ہوسکتے ہیں‘‘۔ ۲۸مئی ۱۹۹۸ء کو پاکستان کے جوابی طور پر جوہری دھماکوں کے بعد گجرال کے اسی یقین نے واجپائی کو لاہور بس سے سفر کرنے کی ترغیب دی۔سنڈے آبزرور کے چیف ایڈیٹر محمدسعید ملک، گجرال اور نواز شریف کی نیویارک میں ۱۹۹۷ء میں ملاقات کے وقت بھارتی وزیر اعظم کے ہمراہ تھے۔انھوں نے اس ملاقات کا احوال بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ــ’’ اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت کے بعد واپسی پر جہاز میں ہم صحافیوں نے گجرال صاحب سے اس ملاقات کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ ’’ایک مطالبہ جو نواز شریف صاحب نے نہایت ہی زورو شور سے رکھا، وہ یہ تھا کہ بھارتی حکومت دوبئی کے راستے ان کی شوگر مل کے لیے رعایتی نرخوں پر مشینری فراہم کروائے اور ان مشینوں پر میڈان انڈیا کا لیبل نہ لگا ہو‘‘۔اس جواب کا سننا تھا کہ کسی بھی صحافی نے بھارتی وزیر اعظم سے کشمیر یا دیگر امور پر کوئی مزید سوال پوچھنے کی زحمت نہیںکی، جب کہ اس سے قبل کئی صحافی ان امور سے متعلق سوالات پوچھنے کی تیاریاں کر رہے تھے‘‘۔
خود نریندرا مودی نے بھی کئی بار نوا ز شریف کی تعریفیں کرتے ہوئے بتایا کہ ’’۲۰۱۴ء میں نئی دہلی میں میری بطور وزیراعظم ہند کی حلف برداری کی تقریب میںشرکت کرکے نوازشریف نے اعتماد سازی میں پہل قدمی کی‘‘۔ بلکہ بعد میں ۲۰۱۵ء میں روسی شہر اوفا میں ملاقات کے بعد جو مشترکہ بیان جاری کیا گیا، تو اس میں پہلی باربھارت اور پاکستان کی کسی دستاویز سے ’کشمیر‘ غائب تھا۔ نواز شریف نے اپنے وفد کو بتایا تھا کہ ’’نریندرا مودی کو سکون دینا ضروری ہے، تاکہ پوزیشن مستحکم کرنے کے بعد ان کو پاکستان کے ایشوز پر عملی اقدامات اٹھانے کی ترغیب دی جائے‘‘ ۔ اوفا کے علاوہ اسی سال دونوں لیڈروں نے پیرس میں اور پھر لاہور میں بھی ملاقاتیں کیں۔
اس کے برعکس، بھارتی ادارے، پاکستان پیپلز پارٹی سے خائف رہتے ہیں، اگرچہ بے نظیر بھٹو، آصف زرداری اور ان کے اہل خانہ نے کانگریس حکومت کے دور میں سونیا گاندھی اور ان کی فیملی کے ساتھ سماجی تعلقات بڑھانے کی بہت کوششیں بھی کی تھیں۔ ’بھٹو،زرداری خاندان‘ اپنے آپ کو ایک طرح سے بھارت کی’ نہرو،گاندھی فیملی‘ کے ہم پلہ سمجھتا رہا ہے۔ مگر بھارت میں کوئی بھی سیاسی رہنما، اپنے دفترخارجہ اور دفاعی اداروں کو پس پشت ڈال کر کوئی بھی تعلق قائم کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا ہے، اور وہ بھی اس وقت جب معاملہ پاکستان سے متعلق ہو۔
دراصل بھارتی اسٹیبلشمنٹ نے وزارت عظمیٰ کی دوسری مدت کے دوران بے نظیربھٹو کو بھارت کے حوالے سے کبھی معاف نہیں کیا ہے۔ وزیر خارجہ سردار آصف احمد علی کا پاکستان کے دورے پر آئے بھارتی خارجہ سیکرٹری جے این ڈکشت کو ملاقات کے لیے وقت نہ دینا اور پھر ۱۹۹۵ء میں نئی دہلی کے سارک چوٹی مذاکرات میں پاکستانی وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی عدم شمولیت ایسے گہرے زخم ہیں، جن کے لیے بھارتی قومی ادارے، پاکستان پیپلز پارٹی کو معاف نہیں کرپا رہے ہیں۔ بے نظیر نے اس کانفرنس میں شرکت کے لیے صدر فاروق لغار ی کو نئی دہلی بھیجا اور انھوں نے پاکستانی سفارت خانے میں حریت لیڈروں کو مدعو کرکے ان سے ملاقات کی، اس طرح بھارت پاکستان مذاکرات سے قبل کشمیر کے لیڈروں سے صلاح و مشورہ کرنے کی داغ بیل ڈالنے کا جرأت آمیز قدم اُٹھایا۔
۲۰۰۷ء میں ’انڈیا ٹوڈے سمٹ‘ کے موقعے پر جب بے نظیر بھٹو نے وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ سے ملاقات کی، تو ذرائع کے مطابق انھوں نے شکوہ کیا کہ ’’آمریت کے خلاف پیپلزپارٹی کی جدوجہد اور بحالی جمہوریت کی کوششوں کو بھارت میں سراہا نہیں جاتا ہے، جب کہ بھارت خود دنیا کا ایک بڑا جمہوری ملک ہے‘‘۔ بعد میں اس وقت کے قومی سلامتی مشیر ایم کے نارائنن سے میں نے سوال کیا، تو ان کا کہنا تھا کہ ’’پیپلز پارٹی، حزبِ اختلاف میں ہو؟ تو بھارت سے خوب پینگیں بڑھاتی ہے، مگر اقتدارمیں آکر بھارت مخالف ایجنڈے کو ہوا دیتی ہے اور پھر چونکہ اس کا فوج کے ساتھ تنائو رہتا ہے، اسی لیے پیش رفت بھی نہیں کرپاتی ہے‘‘۔
خیر، پاکستان میں اب پاکستان مسلم لیگ کے ساتھ پیپلز پارٹی بھی اقتدار میں برابر کی شریک ہے۔ مسلم لیگ کا بھارت میں اور پیپلز پارٹی کا مغربی دنیا میں اچھا اثر و رسوخ ہے۔ یہ دونوں پارٹیاں اگر اس خیر سگالی کو کشمیری عوام کی مشکلات آسان کرنے کے لیے استعمال کریں، تو بہت اچھا ہوگا۔ ابھی حال ہی میں بھارت کے سابق وزیر خارجہ یشونت سنہا، فضائیہ کے نائب سربراہ کپل کاک، سابق بیوروکریٹ وجاہت حبیب اللہ ، سماجی کارکن شاشوبھا بھاروے اور معروف صحافی بھارت بھوشن پر مشتمل ’فکر مند شہریوں‘ (Concerned Citizens Group)نے کشمیر کا دورہ کرنے کے بعد ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ ’’خطے میں خوف و ہراس کی ایسا فضا قائم ہے، جس میں لوگ آپس میں سرگوشی تک کرنے سے بھی گھبراتے ہیں‘‘۔
ان کا کہنا ہے کہ ’’کشمیر اس وقت جارج آرویل کے ناول ۱۹۸۴ءاورآرتھر کوسٹلر کے ناول Darkness At Noonکی عملی تصویر پیش کرتا ہے‘‘۔ دونوں کتابیں حکمرانوں کی طرف سے شہریوں پر عائد حد سے زائد نگرانی اور ظلم و ستم کا احاطہ کرتی ہیں۔ ایک دانشور نے سرینگر میںاس گروپ کو بتایا کہ ’’کشمیر کی نئی نسل کے سامنے بھارتی جمہوریت کے گن گنوانا تو اب ناممکن ہوگیا ہے‘‘۔ ایک بزنس لیڈر نے وفد کو بتایا کہ حالات روز بروز مخدوش ہوتے جا رہے ہیں۔ اگر بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اقتدار سے باہر بھی ہوجاتی ہے، مگر جو نفرت اب معاشرے میں پھیلا دی گئی ہے، اس کا تدارک کرنے میں کافی وقت لگے گا‘‘۔
اگرچہ بھارتی سیکورٹی فورسز تقریباً ہر روز کشمیر میں عسکریت پسندوں کی ہلاکتوں کا دعویٰ کرتی ہیں، مگر ان کی تعداد حکومت کے اپنے بیان کے مطابق ۲۰۰ سے کم ہی نہیں ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عسکریت کو مقامی طور پر نئے ساتھی مل رہے ہیں۔ ایک اور لیڈر نے اس وفد کو بتایا کہ ’’وزیر داخلہ نے سیاسی لیڈروں ، بشمول حریت کانفرنس کو خاموش تو کرادیا ہے، مگر وہ بندوق کو خاموش کرانے میں فی الحال ناکام رہے ہیں‘‘۔ ایک جہاندیدہ سیاستدا ن نے اس وفد کو بتایا کہ ’’ہم کشمیری نوجوانوں کی آنکھوں میں نفرت کے شعلے واضح طور پر دیکھ رہے ہیں۔ اب یہ کیفیت کس طرح اپنے آپ کو ظاہر کرے گی، بتانامشکل ہے‘‘۔
کشمیری پنڈتوں پر بنائی گئی زمینی حقائق کے بالکل برعکس فلم ’کشمیر فائلز‘ کے بارے میں وادیٔ کشمیر میں رہنے والے پنڈتوں کا کہنا تھا کہ ’’اس فلم سے ان کو فائدہ کے بجائے اُلٹا نقصا ن ہورہا ہے۔ اس فلم کے آنے کے بعد وہ اپنے آپ کو زیادہ غیر محفوظ محسوس کر رہے ہیں‘‘۔ بھارت نواز سیاستدانوں نے وفد کو بتایا کہ وہ کشمیر میں غیر محفوظ تو تھے ہی، اب اس فلم کی وجہ سے بھارت میں بھی غیر محفوظ ہوکر نہ ادھر کے رہے ہیں، نہ ادھر کے۔ کیونکہ اس فلم میں ۱۹۹۰ءمیںکشمیری پنڈتوں کی نقل مکانی اور ہلاکتوں کے لیے ان کو بھی ذمہ دار ٹھیرایا گیا ہے اور ان کے خلاف ہندو طبقے میں نفرت پھیلائی گئی ہے‘‘۔ اس فلم سے کشمیر ی پنڈتوں کو واپس اپنے گھروں کو لانے کے حکومتی منصوبے پر پانی پھرتا نظر آتا ہے۔ ڈاکٹر من موہن سنگھ کی قیادت میں کانگریسی حکومت [مئی ۲۰۰۴ء- مئی ۲۰۱۴ء] کی کوششوں سے تقریباً دس ہزار کشمیری پنڈت واپس وادیٔ کشمیر میں بسنے پر آمادہ ہوگئے تھے۔ اس فلم نے مقامی کشمیری مسلمانوں کو ایک دشمن کے طور پر پیش کیا ہے۔ ۱۹۹۰ءکے جو زخم مندمل ہوچکے تھے، اس نے ان کو دوبارہ ہرا کر دیا ہے۔ ان کے مطابق نئی دہلی کے ارباب حل و عقد، اقتدار کے لیے ہرحد پار کر سکتے ہیں ، چاہے اس کے نتائج کتنے ہی خطرناک کیوں نہ ہوں۔
۲۰۱۶ء میں اس گروپ کی تشکیل کے بعد ،گروپ کا یہ کشمیر کا دسواں دورہ تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ اس بار ہم واضح طور پر ماحول میں تناؤ اور گھٹن محسوس کر رہے تھے۔ سیاسی لیڈروں نے وفد کو بتایا کہ ’حد بندی کمیشن‘ کی حالیہ رپورٹ سے مذہبی بنیادوں پر دُوریاں مزید بڑھ گئی ہیں۔ اس ’کمیشن‘ نے حدبندی کے لیے آبادی کو معیار بنایا ہے اور نہ جغرافیہ کو۔اس کا واحد مقصد یہی لگتا ہے کہ کسی طرح ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی کو فائدہ پہنچے۔ اسی لیے ہندو اکثریتی علاقوں کی سیٹوں میں اضافہ کیا گیا ہے۔ آبادی کے لحاظ سے تو وادیٔ کشمیر کی سیٹیں بڑھ رہی تھیں اور جغرافیہ کے معیار سے جموں کے مسلم اکثریتی پہاڑی علاقوں کو فائدہ پہنچ رہا تھا۔ جنوبی کشمیر کے اننت ناگ لوک سبھا حلقہ میں آدھا علاقہ وادیٔ کشمیر اور آدھا جموں کے پونچھ ۔راجوری علاقہ کو شامل کیا گیا ہے۔ اگر انتخابات اکتوبر اور اپریل کے درمیان ہوں گے، جب اننت ناگ اور پونچھ کو ملانے والا مغل روڑ بند ہوتا ہے، تو امیدوار کو ایک خطے سے دوسرے خطے میں انتخابی مہم کے لیے جانے کے لیے اننت ناگ سے بانہال، ڈوڈہ، ادھمپور اور پھر جموں کے اضلاع سے ہوتے ہوئے ہی راجوری۔ پونچھ پہنچنا ممکن ہوگا۔ یہ کیسی حد بندی ہے‘‘۔
رپورٹ کے مطابق: ’’اترپردیش کے حالیہ انتخابات میں جیت کے بعد بی جے پی کے حوصلے خاصے بلند ہیں۔ اسی لیے وہ اب کشمیر میں انتخابات کرانے کے لیے کوشاں ہے۔ لگتا ہے کہ ۲۰۲۲ء کے آواخر میں انتخابات کا انعقاد کیا جائے گا۔ معلوم ہوتا ہے کہ ۲۰۲۴ء کے عام انتخابات سے قبل کشمیر میں پہلی بار ایک ہندو وزیر اعلیٰ مقرر کرکے اس ’کامیابی‘ کو پورے بھارت میں ’کارنامے‘ کے طور پر بتایا جائے۔ مسلمانوں میں گوجر اور پہاڑی کمیونٹی کو کشمیر ی بولنے والی آبادی سے متنفر کرنے اور ان کو بی جے پی کو ووٹ دینے کے لیے لام بند کیا جا رہا ہے۔ اس کے لیے ان سے وعدے کیے جا رہے ہیں۔ گوجر آبادی کوپس ماندہ قبائل کا درجہ دیا گیا ہے، جس کی وجہ سے ان کے لیے اسمبلی میں نشستیں مخصوص ہوگئی ہیں۔ اسی طرح پہاڑی آبادی جو گوجر آبادی کے ساتھ ہی رہتی ہے، مطالبہ کر رہی ہے کہ ان کو بھی یہ درجہ دیا جائے‘‘۔
وفد نے میڈیا کے بارے میں لکھا ہے کہ ’’صحافی ان سے ملنے سے کتراتے رہے۔ وہ خوف زدہ تھے،کہ کہیں ان کو بعد میں تختۂ مشق نہ بنایا جائے‘‘۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ’’[انڈین]آرمی کے ایک جنرل نے ایک سینیر صحافی کو بتایا: ’’ اس سے قبل کہ میں آپ کے سوال کا جواب دوں یا آپ سے بات کروں، آپ یہ بتائو کہ اپنے آپ کو بھارتی تصور کرتے ہو یا نہیں؟‘‘ ایک دوسر ے واقعے کا ذکر کرتے ہوئے رپورٹ میں بتایا گیا کہ ’’ایک اعلیٰ افسر نے صحافیوں کو بتایا کہ ’’کشمیر کا مسئلہ دراصل پانچ ایم M یعنی: ماسز، مسجد، مولوی، ملی ٹنٹ اور میڈیا کا معاملہ ہے۔ ہم نے مسجد، مولوی اور ماسز (عوام) کو تو کنٹرول کیا ہے۔ اب ملی ٹنٹ اور میڈیا کی باری ہے۔ ان کو کنٹرول کرنے سے مسئلہ کشمیر ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گا‘‘۔ میڈیا سے متعلق عوام میں اگر کوئی موہوم سی بھی امید ہے، اس کو ختم کرنا ہے۔ اس وفد کے مطابق کشمیر، میڈیا کو زیر کرنے کی ایک لیبارٹری بن چکا ہے اور وہ دن دور نہیں، جب دیگر بھارتی علاقو ں میںبھی اس کا اطلاق کیا جائے گا‘‘۔
رپورٹ کے مطابق: ’’بھارتی حکومتیں، کشمیر میں وفاداریوں کو جیتنے کے بجائے ان کو مراعات و د ھونس دباؤ کے ذریعے خریدنے پر اصرار کرتی رہی ہیں اور موجودہ حکومت بھی اسی پالیسی پر گامزن ہے۔ پہلے بھارتی حکومتیں، کشمیر کو باقی ملک [بھارت]کے ساتھ انضمام کے لیے کوشاں ہوتی تھیں، مگر موجودہ حکومت اس کو ہضم کرنے اور اس کے وجود اور شناخت ہی کو مٹانے کے درپے ہے‘‘۔
اس لیے اگر شہباز شریف کی قیادت میں پاکستان کی یہ حکومت اپنا اثرو رسوخ استعمال کرکے کشمیر میں عوام کے لیے سانس لینے کی کوئی سبیل مہیا کرتی ہے، تو اس کا یہ قدم تاریخ میں رقم ہوسکتا ہے۔ اسی طرح پیپلز پارٹی بھی مغربی دنیا میں اپنی پارٹی ساکھ کا فائدہ اٹھا کر اگر کسی طرح مودی حکومت کو کشمیری عوام کے وجود اور شناخت کو بچانے پر قائل کرواسکے، تو وہ ذوالفقار علی بھٹو کے جانشین کہلوانے کے حقدار ہوں گے۔ ورنہ ان دونوں پارٹیوں کو اس کا حساب دینا پڑے گا۔
بین الاقوامی قانون میں کسی ریاست کو تسلیم کرنے میں چند چیزیں بڑی اہمیت کی حامل ہوتی ہیں لیکن افغانستان کا مسئلہ ایک نئی ریاست کی تشکیل کا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ پہلے ہی سے ایک تسلیم شدہ ریاست ہے۔ تاہم، یہاں حکومت کو تسلیم کرنے کا مسئلہ درپیش ہے۔
اس ضمن میں تین چیزیں بنیاد کی حیثیت رکھتی ہیں: ایک یہ کہ جو بھی ریاست موجود ہو، اس کا پوری سرزمین پر مؤثر قبضہ (effective control ) ہو۔ دوسرا یہ کہ وہاں کوئی آبادی موجود ہو، اس حکومت کو عوام کی تائید حاصل ہو۔ تیسرا یہ کہ وہ حکومت کام کرنے کے قابل بھی ہو۔ جب کسی حکومت کو تسلیم کرنے کا مرحلہ پیش آتا ہے تو بین الاقوامی قانون میں انھی چیزوں کو پیش نظر رکھا جاتا ہے۔
عام حالات میں تو حکومتیں پُرامن طریقے سے تبدیل ہوجاتی ہیں۔ انتخابات ہوتے ہیں اور اس کے نتیجے میں ایک نئی حکومت تشکیل پاتی ہے۔ لیکن جہاں خانہ جنگی ہو یا اس ملک کے لوگ بیرونی جارحیت کے خلاف جدوجہد کر رہے ہوں جیساکہ افغانستان میں تھا، تو پھر ایسے سوالات اُٹھتے ہیں جیساکہ ۱۵؍اگست ۲۰۲۱ء کو یہ سوال پیدا ہوا: ’افغانستان کی حکومت کو تسلیم کیا جائے یا نہ کیا جائے؟‘ اس سے پہلے بھی ہم نے دیکھا، جب ۱۹۹۶ء میں طالبان کی حکومت بنی تو صرف تین ممالک نے اس کو تسلیم کیا تھا، جن میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور پاکستان شامل تھے۔ طالبان کی حکومت نے اس وقت بھی تقریباً پانچ سال پورے کیے،مگر اس کے باوجود دُنیا نے ان کو تسلیم نہیں کیا تھا اور اقوام متحدہ میں بھی ان کو نمایندگی نہیں دی گئی۔ لیکن اُس زمانے میں بھی امریکا اور دوسرے ممالک سے طالبان کی حکومت کے ساتھ مذاکرات ہوتے اورمعاملات چلتے رہتے تھے۔
کسی حکومت کو تسلیم کرنے میں یہ بات اہم ہوتی ہے کہ Defacto (فی الواقع) ہے، یا Dejure (حقیقی)۔ Defacto (فی الواقع) کا مطلب یہ ہے کہ حکومت کو تسلیم تو نہیں کیا جاتا، لیکن اس کے ساتھ چلتے رہتے ہیں۔Dejure (حقیقی)کا مطلب ہے کہ قانونی طور پر کسی حکومت کو تسلیم کرلیا جاتا ہے۔ افغانستان کے حوالے سے بھی معاملہ کچھ ایسا ہی ہے۔ دُنیا نے طالبان کی حکومت کو حقیقت میں تسلیم نہیں کیا، لیکن فی الواقع تمام ممالک ان سے رابطہ بھی کر رہے ہیں، مل بھی رہے ہیں اور کابل میں بہت سے ممالک کے سفارت خانے بھی کھلے ہوئے ہیں۔ پاکستان کے ساتھ امریکا سمیت بہت سے دیگر ممالک ان سے رابطے میں ہیں۔خود طالبان حکومت سفارتی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ دُنیا کے لیے افغانستان میں رابطے کے لیے طالبان کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ موجود نہیں ہے۔
بین الاقوامی تعلقات میں اصل چیز قومی مفادات ہوتے ہیں۔ اگر قومی مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے معاملات دیکھیں تو نتائج اخذ کرنا مشکل نہیں ہوگا۔ پچھلی صدی سے افغانستان میں گریٹ گیم چلتی رہی ہے، اور یہ گریٹ گیم ابھی تک ختم نہیں ہوئی ہے۔ ماضی میں یہ گریٹ گیم امریکا،برطانیہ اور روس کے درمیان تھی، لیکن اب یہ کھیل امریکا اور چین کے درمیان کھیلا جارہا ہے اور افغانستان کی موجودہ صورتِ حال اسی تزویراتی کش مکش کا حصہ ہے۔ پھر اس گریٹ گیم کا حصہ تین اہم ممالک پاکستان، ایران اور بھارت بھی ہیں۔
پاکستان سے ایک اہم سفارتی غلطی ہوئی ہے۔ جب ہم طالبان پر دبائو ڈال رہے تھے کہ وہ امریکا کے ساتھ بات چیت کریں اور ان کے امریکا کے ساتھ تعلقات بن سکیں۔ اسی کے نتیجے میں ۲۹فروری ۲۰۲۰ء کو امریکا اور طالبان کے درمیان دوحہ میں ایک معاہدہ بھی طے پایا۔ اس موقعے پر حکومت پاکستان کو کچھ چیزیں طے کرنی اور طے کرانی چاہییں تھیں، جب کہ یہ بات بالکل واضح تھی کہ افغانستان میں جلد یا بدیر طالبان کی حکومت بننے والی ہے۔ چاہے وہ خانہ جنگی سے آئے یا پُرامن طریقے سے!
گذشتہ چار برسوں کے دوران اسلام آباد میں پس پردہ اجلاس ہوتے رہے، جن میں پاکستان نے شرکت کی۔ افغان حکومت کے پارلیمنٹیرین ان اجلاسوں کا حصہ ہوتے تھے۔ میں ان سے کہا کرتا تھا کہ ’’آپ طالبان کو نظر انداز کر رہے ہیں اور طالبان بھی آپ کے ساتھ مذاکرات نہیں کریں گے۔ اس لیے کہ اگر طالبان نے آپ کے ساتھ مفاہمت کرلی تو ان کی پوری جدوجہد اور تحریک ختم ہوجائے گی۔ وہ ایک نظریاتی اساس رکھتے ہیں اور وہ اپنی اساس کو کبھی چیلنج نہیں ہونے دیں گے۔ طالبان کا جو مزاج ہے وہ یہ نہیں ہے کہ وہ ’کچھ لو اور دو‘ کی بنیاد پر مصالحت کریں اور پھر ایک قومی حکومت بنائیں، یہ ہو نہیں سکتا‘‘، مگر انھیں یہ بات بہت بُری لگتی تھی۔
ہمارے دفترخارجہ کے بہت سے دوستوں کا خیال تھا کہ ’’اب ۹۰ کے عشرے والی بات نہیں ہے۔ اب ساڑھے تین لاکھ کی تعداد میں افغان فوج بہت مضبوط ہوگئی ہے، اور بیوروکریسی بھی موجود ہے۔ ایسے حالات نہیں ہیں کہ طالبان آئیں گے اور قبضہ کرلیں گے‘‘۔ مگر ساری دُنیا نے دیکھا کہ ۱۴؍اگست ۲۰۲۱ء کو جب امریکی حمایت سے قائم صدر اشرف غنی ملک چھوڑ کر فرار ہوئے تو طالبان نے بغیر کسی خون خرابے کے کابل کا کنٹرول سنبھال لیا۔
ابتدا میں پاکستان کو یہ اندازہ کرلینا چاہیے تھا کہ طالبان ہی کو بہرحال حکومت بنانی ہے۔۱۵؍اگست ۲۰۲۱ء سے پہلے ہم نے جو اقدامات کیے، مثال کے طور پر احمدشاہ مسعود کے بھائی کو ایک ماہ قبل اسلام آباد میں آنے کی دعوت دی اور ان کو اسٹیٹ پروٹوکول دیا گیا، اسی طرح اور بہت سے لوگوں کو بلایا گیا۔ حکومت، دفترخارجہ کے کچھ افراد اور دفاعی حلقے کے صلاح کار پریشان فکری کا شکار تھے۔ حکومت کا خیال تھا کہ اگر ’’ہم شمالی اتحاد یا جسے ’قومی مزاحمتی فوج‘ کہتے ہیں کو رابطے میں لائیں گے تو طالبان پر دبائو بڑھا سکیں گے اور شاید طالبان افغان حکومت سے مفاہمت کے لیے تیار ہو جائیں۔ لیکن غالباً ان سب لوگوں کو اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ برادرانہ دبائو کی بھی ایک حد ہے۔ جب یہ دبائو ان کی نظریاتی اساس کو چیلنج کرنے لگے گا تو پھر مؤثر نہیں رہے گا۔
ہمیں چاہیے تھا کہ ہم امریکا سے یہ طے کرلیتے کہ اگر طالبان کی حکومت آگئی، تو ہمیں ان کے ساتھ کیسے معاملہ کرنا ہے؟ صرف امریکا کے ساتھ ہی نہیں بلکہ چین کے ساتھ بھی خاص طور پر ہمیں کچھ چیزوں کا تعین پہلے سے کرلینا چاہیے تھا مگر ایسا نہیں کیا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جب ۱۵؍اگست ۲۰۲۱ء کو طالبان نے حکومت کا کنٹرول سنبھالا تو اسلام آباد میں حکومت بوکھلاہٹ کا شکار ہوگئی۔ یہ بالکل اسی طرح معاملہ ہوا ،جو ۱۵؍اگست ۲۰۱۹ء کو پاکستان کے ساتھ ہوا تھا، جب بھار ت نے کشمیر پر غیرآئینی اقدامات کیے تو حکومت کو سمجھ نہیں آئی کہ اب ہم کیا کریں؟ حالانکہ وہ بھی غیرمتوقع نہیں تھا، لیکن ہم شاید سوئےرہے اور اس بوکھلاہٹ کی کیفیت سے باہر نہیں نکل سکے۔
۲۰دسمبر ۲۰۲۱ء کو ہم نے او آئی سی کا اجلاس بلایا۔ یہ انسانی تناظر میں ایک اچھی کوشش تھی، کیونکہ اگر افغانستان بحران سے دوچار ہوتا ہے یا معاشی تباہی سے دوچار ہوتا ہے تو مسائل کا سب سے زیادہ تباہ کن بوجھ پاکستان ہی پر آنا ہے۔ ہم ہمسایہ ہیں اور ہماری افغانستان کے ساتھ ۲۶ سوکلومیٹر طویل سرحد ہے۔ افغانستان میں جو بھی صورتِ حال ہے، اس سے ہم لاتعلق نہیں رہ سکتے۔ ہم چاہیں یا نہ چاہیں، افغانستان کی صورتِ حال کو ٹھیک کرنا ہمارے قومی مفاد میں ہے۔ پھر یہ مسئلہ ہمارے ساتھ ۱۹۷۰ء کے عشرے سے چل رہا ہے۔ اُس زمانے میں ہرروز پشاور میں دھماکے ہوتے تھے۔ افسوس کہ ہم نے اپنی کوتاہی سے نہیں سیکھا، اور طالبان کی حکومت کے لیے پیش بندی نہ کی۔ اور نہ یہ جاننا چاہا کہ طالبان کس فکر، کس عزم اور سوچ کے علَم بردار ہیں۔
اگلی غلطی یہ ہوئی کہ ہم نے یہ کہہ کر اپنی خارجہ پالیسی کی بنیاد پر خود ہی اپنے ہاتھ باندھ لیے کہ ’’ہم علاقائی سوچ کے ذریعے آگے بڑھیں گے‘‘۔ نتیجہ یہ کہ ہمارے لیے گنجایش بہت کم رہ گئی۔ ڈپلومیسی میں سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ آپ اپنے آپ کو کسی محدود تصور کا پابند کرلیں۔ اس طرح آپ کے لیے آگے بڑھنے کے امکانات بہت کم ہوجاتے ہیں۔ پاکستان نے علانیہ یہ کہہ دیا کہ ’’ہم طالبان کی حکومت کو اکیلے تسلیم نہیں کریں گے‘‘۔ بے شک حکومت کو تسلیم نہ کرتے، لیکن علانیہ یہ کہنے کی ضرورت نہ تھی۔ اگر ہم چیزوں میں کچھ گنجایش رکھتے تو پھر دُنیا بھی یہ دیکھتی ہے کہ پاکستان کب طالبان کی حکومت کو تسلیم کرتا ہے اور یوں وہ بھی آگے بڑھ کر قدم اُٹھانے کی پوزیشن میں آسکتے تھے۔ ہمارے اس عاجلانہ اور غیرحکیمانہ موقف نے ہمارا اثرورسوخ ختم کردیا اور افغانستان کے مسئلے پر ہماری جو کلیدی پوزیشن ہونی چاہیے تھی وہ ہم نے خودختم کردی۔
بلاشبہہ پاکستان تنہا افغانستان کی حکومت کو تسلیم نہیں کرسکتا۔ ہماری مخدوش معاشی صورتِ حال، ایف اے ٹی ایف کامعاشی دبائو اور بہت سی مجبوریوں کا ہمیں سامنا ہے۔ روس اور یوکرین کے تنازعے سے ہمارے متبادل اور بھی کم ہوگئے ہیں۔ ا س وقت بین الاقوامی برادری کی توجہ یوکرین کے مسئلے پر زیادہ اور افغانستان کی صورتِ حال پر کم ہوگئی ہے۔ اب ہمارے لیے مسائل اور بڑھیں گے۔ ہمارا خیال تھا کہ او آئی سی کا اجلاس بلانے سے افغان بھائیوں کے لیے ہم کچھ فنڈز جمع کرلیں گے، لیکن وہ بھی نہیں ہوپایا، اور نہ ہم اس کے لیے کوئی طریق کار ہی وضع کرسکے ہیں۔
دوسری طرف یہ بات یاد رکھیے کہ بھارت نے افغانستان سے اپنے ہاتھ کھینچنے نہیں ہیں۔ پچھلے بیس برسوں کے دوران اس نے وہاں بہت سے اثاثے (assets ) بنائے ہیں۔ بھارت اور امریکا کا ایک مشترکہ ہدف یہ ہے کہ وہ اس خطے اور افغانستان کو مستحکم نہیں ہونے دینا چاہتے۔ امریکا یہاں سے بظاہر چھوڑ کر تو چلاگیا، لیکن اس کا مقصد یہی ہے کہ افغانستان اسی طرح انگارہ بنا رہے اور پاکستان بھی مسائل سے دوچاررہے۔ صرف بھارت اور امریکا ہی یہ نہیں چاہتے کہ گوادر نہ بنے، سی پیک آپریشن بند ہوجائے، بلکہ ہمارے کچھ قریبی دوست ممالک بھی نہیں چاہتے کہ گوادر کی بندرگاہ تعمیر ہو، کہ اس طرح ان کی اپنی بندرگاہوں کے معاملات متاثر ہوجائیں گے۔
اس صورتِ حال میں پاکستان کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ وہ افغانستان کے حوالے سے کوئی یک طرفہ فیصلہ کرسکے۔ ہمیں طالبان کو قائل کرنا پڑے گا کہ اگر وہ ایک وسیع تر حکومت نہیں بناسکتے، تو کم از کم ’لویہ جرگہ‘ ہی بلایا جائے تاکہ حکومت کے لیے کوئی قانونی جواز پیدا ہوسکے۔دُنیا طالبان کو ایک جائز حکومت کے طور پر تسلیم نہیں کررہی۔ ان کا یہ ایک بے تُکا اور غیرمنصفانہ اعتراض ہے کہ ’’طالبان نے افغانستان پر قبضہ کیا ہے‘‘۔ اگر دُنیا کی تاریخ پڑھیں تو بیرونی جارحیت کے خلاف حکومتیں اسی طرح بنتی ہیں۔
مسئلہ یہ ہے کہ طالبان پشتون اکثریتی نسلی گروہ ہے۔ افغانستان میں ۲۷ فی صد تاجک رہتے ہیں۔ اگرچہ طالبان نے باقی نسلی گروہوں کو بھی نمایندگی دی ہے، مگر تاجکستان اور ازبکستان کو اس پر پریشانی ہوتی ہے۔ہمیں ان برادر ممالک کی پریشانی کے ازالے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس کے لیے دوچیزوں پر طالبان کو کچھ نہ کچھ نرمی دکھانی پڑے گی۔ اگرچہ وہ عبداللہ عبداللہ یا حامد کرزئی کو حکومت میں شامل نہیں کرسکتے، لیکن اپوزیشن کی دوسرے اورتیسرے درجے کی قیادت کو توشامل کیا جاسکتا ہے اور ایسے افراد کو لیا جاسکتاہے جو ان کی نظریاتی اساس کو چیلنج نہ کریں۔دوسرا معاملہ خواتین کی تعلیم اور ان کے کام کرنے کے مواقع کا ہے۔ اگرچہ طالبان نے اس مسئلے میں کچھ نرمی دکھائی ہے، لیکن اس میں مزید گنجایش پیدا کریں تو مناسب ہوگا۔
ان حالات میں پاکستان پر بہت بھاری ذمہ داری آن پڑی ہے۔ آج کل یوکرین کا مسئلہ عالمی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ ہمارا اس کے ساتھ براہِ راست تعلق نہیں ہے، ہمیں تو افغانستان کی فکر کرنی ہے کہ اس کی حکومت کو عالمی سطح پر تسلیم کیا جائے، تاکہ یہاں استحکام پیدا ہو۔ البتہ یہ مسئلہ اب راتوں رات حل نہیں ہوسکتا۔ ایسا نظر آرہا ہے کہ اگلے ایک دو سال تک طالبان کی حکومت تسلیم کرنے کا مسئلہ التوا کا شکار رہے گا، جو اپنی جگہ کسی بڑے المیے کو جنم دے سکتا ہے۔
روس اس وقت یوکرین میں اُلجھا ہوا ہے، لیکن پاکستان، چین اور ایران، طالبان کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کریں اور طالبان کو اس بات پر تیار کرسکیں کہ وہ کچھ نرمی دکھائیں تو اس طرح معاملات کو کچھ آگے بڑھایا جاسکے گا۔
یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ افغانستان میں ایک طویل مدت کے بعد امن کی صورتِ حال پیدا ہوئی ہے۔ اس بار پورے افغانستان پر طالبان کو کنٹرول حاصل ہے۔ ۹۰ء کے عشرے کی طرح کی صورتِ حال نہیں ہے کہ جب طالبان کے پاس مزارشریف اور وادیِ پنج شیرنہیں تھی۔ لہٰذا، کوئی وجہ نہیں ہے کہ دُنیا انھیں تسلیم نہ کرے۔
اب تک اقوام متحدہ میں افغانستان کے حوالے سے دو قراردادیں منظورہوئی ہیں۔ ایک ۳۰؍اگست ۲۰۲۱ء کو قرارداد ۲۵۹۳ منظور ہوئی، جب بھارت سلامتی کونسل کا صدر تھا۔ صرف ایک دن پہلے جب اس کی صدارت ختم ہورہی تھی، وہ ایک قرارداد منظور کروانے میں کامیاب ہوگیا۔ جس میں وہ تمام مطالبات میں شامل ہیں، جو دُنیا کہہ رہی ہے۔ پھر ۱۵جنوری ۲۰۲۲ء کو ایک اور قرارداد ۲۶۱۵ منظور ہوگئی۔ اس میں بھی اسی قسم کے مطالبات ہیں۔ ان حالات میں سفارتی عمل مشکل ہوجاتا ہے، لیکن ہرمسئلے کا کوئی نہ کوئی حل ہوتا ہے۔ ہمیں اپنی سفارتی سرگرمیوں کو فعال کرنا ہوگا۔ یہ کام مشکل ضرور ہے، لیکن اگر ہم اہداف متعین کرکے مسلسل کوشش کریں تو کامیابی مل سکتی ہے۔
بھارت میں روز بروز حالات اس قدر خراب ہو رہے ہیں، جس سے بھارت میں بسنے والا ہرمسلمان مضطرب اور ذہنی تنائو کا شکار ہے۔ آئے دن ایسے خطرناک مسائل کا سامنا ہوتا ہے کہ ایک افسوس ناک واقعے پر کچھ لکھتے ہوئے، سیاہی خشک نہیں ہوتی، کہ دوسرا اُس سے بھی بڑھ کر الم ناک واقعہ سامنے آجاتا ہے۔ ایسے صبح و شام میں کسی تبصرہ نگار کے لیے جم کر بات کرنے کی ہمت ہی ٹوٹ جاتی ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ یہ سب ایک ترتیب اور متعین مذموم مقصد کے لیے کیا جارہا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل آف انڈیا کے سربراہ ارکار پٹیل نے مدھیہ پردیش کی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’’مسلمانوں کی املاک کو کھرگون انتظامیہ نےغیر قانونی طور پر منہدم کیا ہے‘‘۔
پتھر بازی کو ایک ہتھیار کے طور پر برتنے کی ہندستان میں پرانی روایت ہے۔ اگست ۱۹۴۷ء کے بعد بھارت میں ہونے والے ۱۴ ہزار بڑے مسلم کش فسادات میں اکثر یہی پتھرائو والا ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے۔ ہندو مذہبی جلوس اور یاتراؤں کو پہلے پولیس و انتظامیہ مسلم علاقوں سے گزرنے کی اجازت دیتی ہیں، پھر چند بدمعاشوں کو مسلمانوں کےسادہ لباس میں ملبوس کرا کے ان جلوسوں پر کچھ پتھر پھینکوائے جاتے ہیں، اور ساتھ ہی اس کا الزام مسلمانوں کے سر تھوپ دیا جاتا ہے ۔ نعرے بازی ، آتش زنی، قتل و خون ریزی، لُوٹ مار، مسلم عورتوں کی بے حُرمتی___ فساد شروع ہوجاتا ہے ۔ آزاد بھارت کی تاریخ میں اس طرح مسلط کردہ فسادات کے نتیجے میں لاکھوں مسلمان ہلاک کیے جاچکے ہیں۔
یوں پتھراؤ یا پتھر بازی کا بہانہ کرکےفساد بھڑکائے جاتے ہیں ۔ فسادی غنڈے پولیس کی مدد، سرپرستی اور تائید سےمسلمانوں کے قتل، ریپ اور انھی کی املاک کو نذرِ آتش کرنے میں معاون بن کر یک طرفہ کارروائی کرتے ہیں، اور پھر انھی متاثرہ مسلمانوں کے نوجوان طبقے کو فسادی قرار دے کر گرفتاریاں عمل میں لائی جاتی ہیں۔ بظاہر ’توازن‘ رکھنے کے لیے ہندو آبادی سے پکڑے چند لوگ بہت جلد باعزّت بری ہوجاتے ہیں، مگر مسلمان نوجوان جیلوں میں گلتے سڑتے رہتے ہیں۔
آنجہانی جنرل بپن راؤت ۲۰۱۷ء سے کشمیری مائوں کو بار بار متنبہ کرتے رہے کہ ’’اپنے بچوں کو روکے رکھو ورنہ جو پتھر اُٹھائے گا وہ کچل دیا جائے گا‘‘۔ اس کے بعد پتھرائو کے الزام میں گرفتار کم عمر بچوں کی بڑی تعداد کشمیر میں ہے۔ ان بچوں پر جیل میں کیا گزرتی ہے، اس باب میں کوئی نہیں لکھتا۔
مذہبی جلوسوں میں ہزاروں غنڈے تلوار،خنجر،لاٹھیاں، سلاخیں، آتشیں اسلحہ و کیمیکل بھری بوتلوں کے ساتھ مسلم بستیوں اور گھروں پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ ’مرتا کیا نہ کرتا‘ کے مصداق اپنی اور اپنے گھر کی عورتوں، بزرگوںکی مدافعت میں بے ساختہ پتھراؤ کے ذریعے حملہ آوروں سے محفوظ رہنے کی آخری کوششیں کی جاتی ہیں، جو ایک انسان کی بقا کاآخری حق ہے۔ اب اسے بھی چھینا جارہا ہے۔
مظفر نگر۲۰۱۳ء اور پھر ۲۰۲۰ء کے دہلی کے فسادات کے دوران ہزاروں حملہ آوروں کی یلغار سے بچنے اور چھتوں سے مدافعت کے لیے جب مسلمانوں نے اپنی چھتوں پر کچھ پتھر اکٹھے کیے تو ان جمع شدہ پتھروں کی ویڈیو فوٹیج لے کرUAPA ایکٹ کے تحت ’ملک سے غداری‘ جیسے خطرناک قوانین میں مسلمانوں کے خلاف مقدمات درج کر دیئے گئے اور جن کے گھر والے فسادات میں ہلاک ہوئے، ان پر بھی سخت ترین مقدمات درج کیے گئے۔۲۰۲۰ء کے دہلی فساد میں ہندوئوں کے بالمقابل ۴۳ مسلم شہید ہوئے۔ پھرمسلمانوں کی بڑی تعدادبھی دو،دو سال سے جیلوں میں پتھراؤ کے گھناؤنے الزام کے تحت سڑ رہی ہے، نہ سماعت اور نہ رہائی!
فسادیوں کے مسلم مخالف نعروں اور ہنگامہ آرائی میں ہوسکتا ہے کہیں مسلمانوں نے اپنی مزاحمت میں پتھر پھینکے ہوں۔ اتنی بڑی کھلے عام اور منظم یلغار کے جواب میں بے ساختہ چندپتھر پھینکنا کیا اتنا بڑا جرم ہوگیا کہ کھر گون میں ریاست کی پوری مشنری حرکت میں آگئی اور پولیس بندوبست کے ساتھ مقامی انتظامیہ نے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی سربراہی میں مسلمانوں کے ۱۷مکانات اور ۲۹ دکانوں کو بلڈوزر کے ذریعے مٹی کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا کہ یہ مسلمان پتھرائو کر رہے تھے۔ بے شرمی کا عالم دیکھیے کہ مدھیہ پردیش کے چیف منسٹر شیو راج سنگھ چوہان اوروزیر داخلہ نروتم مشرا برملا کہہ رہے ہیں کہ ’’جن لوگوں نے پتھر بازی کی ہے ہم ایک ایک کوسخت سزا دیں گے اور ان کی جائیدادوں کو بلڈوزر سے ڈھیر کرکے بطور جرمانہ بلڈوزوروں کا کرایہ بھی لیں گے، وغیرہ۔ NDTV کے اینکر نے وزیر داخلہ نروتم مشرا سے انٹرویو میں اصرار کرکے پوچھا کہ ’’یہ انتقامی کارروائی آپ کس قانون کے تحت کررہے ہیں؟‘‘ جواب میں بار بار نروتم مشرا دُہراتے رہے کہ ’’ہم سب کچھ قانون کےمطابق کررہے ہیں‘‘وغیرہ۔
سپریم کورٹ کے ممتاز وکیل پرشانت بھوشن سے سوال کیا گیا کہ ’’کیا قانون میں اس طرح کے انتقام لینے کی کوئی گنجائش ہے؟‘‘ انھوں نے برملا کہا کہ یہ سراسر منصوبہ بند پیمانے پر سرکاری غنڈا گردی اور قانون کی خلاف ورزی ہے ۔ جب تک کسی مقدمے میں کارروائی سے عدالت میں یہ ثابت نہیں ہوتا کہ فلاں ملزم نے پتھراؤ کیا تھا، اس وقت تک کوئی بھی کارروائی کرنے کا حکومت یا پولیس اور انتظامیہ کو اختیار حاصل نہیں ‘‘۔
کسی غیرقانونی گھر بار کو منہدم کرنے سے پہلے انتظامیہ پر لازم ہے کہ نوٹس دے کر پہلے مقدمہ دائر کرے۔ یہ عدالت کا کام ہے کہ مقدمے کی نوعیت کے اعتبار سے فیصلہ دے اور پھر جس کے خلاف فیصلہ دیا جائے گا، اس کے خلاف اعلیٰ عدالتوں میں عرضی داخل کرنے کا پورا اختیار ہوتا ہے ۔مگر یہاں تو بستیوں کی بستیاں ڈھائے جارہی ہیں اور مسلمانوں کے گھر بار مسمار کرنے کے لیے مفروضے گھڑے جاتے ہیں۔ اپریل کے دوسرے ہفتے میں ہماچل پردیش میں مسلمانوںکی ایک پوری بستی اس الزام کے تحت زمین کے ساتھ برابر کر دی گئی کہ وہ ریلوے کی زمین پر قابض تھے۔ اس طرح ہزاروں خاندانوں کے گھرزمین بوس کردیئے گئے۔
بھارت میں پتھراؤ سے جائیدادوں کو زمین بوس کرنے کا ایک نیا وحشیانہ طریق کار دنیا کے سامنے ہے۔گذشتہ چند برسوں سےتجرباتی طور پر پہلے یہ عمل کشمیر میں اورپھر آسام میں بڑے پیمانے پر کیا گیاتھا۔ ہندو بریگیڈ نے دیکھ لیا کہ مسلمان بے بس اور کمزورہیں اور ہم جو چاہیں کریں، کوئی ہمارے خلاف آواز اٹھانے کی ہمت نہیں رکھتا ۔ حقوق کو پامال کرنے والے وہ خودساختہ منصف درندے جو راتوں رات بدترین یلغار کرتے ہوئے مسلمانوں کی بستیوں کو ڈھیر بناتے ہیں، وہ کون سی مہذب سوسائٹی کا حصہ ہیں اور اس طریق کار کی کون اجازت دے سکتا ہے؟ یہ کون سی جمہوریت ہے؟
چیف منسٹر مدھیہ پردیش چوہان سنگھ نے کہا کہ ’’نہ صرف ہم ان کی جائیدادیں مسمار کرکے قرق کریں گےبلکہ مسلمان بستیوں پر اجتماعی بھاری جرمانے بھی عائد کریں گے‘‘۔فلسطین میں اسرائیلی پولیس کا فلسطینیوں کے ساتھ یہی معاملہ ہے۔ بات بات پر قتل، گرفتاری اور غریب معصوم فلسطینی باشندوں کےگھروںکوبلڈوزکردیاجاتاہے۔ ایسالگتا ہے کہ بی جے پی نے اسرائیلی حکومت سے انتقامی کارروائی کے درس حاصل کیے ہیں ۔
چند مٹھی بھر مسلمانوں کی مزاحمت پر بی جے پی ؍ آر ایس ایس غصے میں آپے سے باہر ہورہی ہے ۔ انتقام اور بدلے کے جنون اور پاگل پن میں مبتلاہوچکی ہے ۔ مسلمانوں کی ہمتیں اور حوصلے پست کرنے کے لیے یک طرفہ معاندانہ انتقامی کارروائیاں حکومت کی نگرانی میں ہورہی ہیں۔ زندگی کو بچانے کے لیے مزاحمت کا جو بنیادی حق قانون دیتا ہے، اسے بھی اس لیے چھین لینا چاہتے ہیں کہ ظلم و درندگی اور نسل کشی کا نشانہ بننے اور موقعے پر مارے جانے والے بے قصور مسلمان آہ تک نہ کریں ۔ خود یہ جلتے، کٹتے، مرتے مسلمان اپنی مسلم قیادت سے سوال کر رہے ہیں کہ کس دن کے انتظارمیں آپ حضرات سکوت اختیار کیے ہوئے ہیں؟
بھارت میں مسلم ملّی، مذہبی، سیاسی قیادت کمزور اور غیر مؤثر ہوچکی ہے۔ گذشتہ برس بابری مسجد کے مایوس کن فیصلے، قانون طلاق ثلاثہ، کشمیر کی دفعہ ۳۷۰ اور ۳۵-اےکی برخواستگی کے بعد سے نرسمہا آنند سرسوتی کی مسلمانوں کی نسل کشی ’ بولی بائی ڈیل ‘، پھر ۱۱ مارچ ۲۰۲۲ء کو انتہائی اشتعال انگیز فلم ’کشمیر فائلز‘ کے ریلیز سے لے کر ۱۱؍اپریل ۲۰۲۲ء کو شوبھایاترا تک مسلمانوں کے خلاف جو کچھ ہورہا ہے، اس پر مسلم قائدین، علما کو اتنی توفیق نہیں ہوتی کہ وہ متحدہوکر ایک بڑی پریس کانفرنس سے خطاب کریں، اور مظالم کے خلاف آواز بلند کریں، تاکہ دُنیا کے تمام انسانی حقوق کے فورم اورحکومتوں تک مظلوموں کی آواز پہنچ سکے۔اس دوران میں ایک جماعتی وفد نے راجستھان کے حالیہ فساد زدہ گائوں قرولی کا دورہ کیا۔
مسلمانوں میں اپنے وجود و بقا کا شعور بلند کرنے کی ضرورت ہے ۔ دعوتی اور رفاہی کاموں میں مصروف حضرات کے سامنے تو اب اُمت کے تحفظ و بقا کا مسئلہ آن کھڑا ہوا ہے۔ یک طرفہ مسلط کردہ لڑائی کا ہرسطح پر آغازہوچکا ہے ۔ دین دار، سیکولر اورعام مسلمان طبقے کا یہ فریضہ ہے کہ وہ اپنی جماعتوں ، گروہی، مسلکی اختلافات سے اُونچا اُٹھ کر دستور کے دائرے میں اُمت کے تحفظ و بقا کی جدوجہد میں شامل ہوں۔ دستوری و آئینی حقوق کو پامال ہونے سے بچائیں۔