اخبار اُمت


پاکستان اور بھارت کے درمیان لائن آف کنٹرول پر دونوں طرف سے فوجی کمانڈروں کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ ہواہے۔ اس پر سیّد علی شاہ گیلانی کے پاکستان میں نمایندے کی طرف سے ایک پریس ریلیز جاری ہوا جس میں انھوں نے کہا کہ’’اس سے کشمیری جدوجہد کو کافی نقصان پہنچےگا‘‘۔ اس کے بعد پاکستان کشمیر کمیٹی کے چیئرمین کی طرف سے منسوب ٹویٹر پیغام میں کہا گیا کہ ’’اس معاہدے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا اور جو لوگ اس معاہدے کی مخالفت کرتے ہیں وہ ہندوتوا کی حمایت کرتے ہیں‘‘۔ گیلانی صاحب کے بارے اس دانش وری پر کیا کہا جائے، یہ بہت عجیب بات کہی گئی ہے۔ شہریارآفریدی صاحب کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ کیا بات کہنے کی ہے اور کن الفاظ میں کہنے کی ہے اور کیا بات کہنے کی نہیں۔

یہ ٹویٹ چونکہ گیلانی صاحب کے پریس ریلیز کے فوراً بعد آیا تھا، اس لیے پریس نے، خاص طور پر کشمیر اور بھارت کے اخبارات نے اسی پیرایے میں لیا کہ کشمیر کمیٹی نے گیلانی صاحب کی رائے کو مسترد کیا ہے۔ تاہم، کشمیر کمیٹی کی طرف سے فوراً وضاحت سے یہ بات واضح ہوگئی کہ  انھوں نے اپنی غلطی کا اعتراف کرلیا ہے۔

مقبوضہ جموں و کشمیر میں سیّد علی گیلانی صاحب کی جو حیثیت ہے، اس کا اندازہ بیرونِ کشمیر رہنے والے نہیں لگاسکتے۔ اہلِ جموں و کشمیر ان پر اعتماد کرتے ہیں۔ یہ اعتماد ایک دن کی کمائی نہیں۔ اس میں عشرے لگتے ہیں۔گیلانی صاحب کو اللہ تعالیٰ صحت اور زندگی دے، انھوں نے جو قربانیاں دی ہیں اور جس طرح سے وہ سیسہ پلائی دیوار کی مانند بھارت کے غاصبانہ تسلط کے خلاف کھڑے چلے آرہے ہیں، یہ انھی کا خاصہ ہے۔ ان کے ساتھ ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں کشمیری مردو زن کھڑے رہے ہیں اورآج بھی کھڑے ہیں۔وہ سب بھارت کی جبرواستبداد کی پالیسی کے خلاف عزم و ہمت کی مثال ہیں۔

اگرچہ فائربندی معاہدے پرمعاملہ فہمی ۲۰۰۳ء سے چل رہی تھی۔ اس وقت تک تو یہ چیزیں ٹھیک تھیں، لیکن شاید آج یوں جلدبازی میں ٹھیک نہیں کہ آج معاملات نہایت تباہ کن صورتِ حال کی جانب دھکیلے جارہے ہیں۔

بنیادی طور پردیکھنا ہوگا کہ یہ initiative [پہلا قدم]کہاں سے آیا ہے؟ ہم نے دیا، یا بھارت کی طرف سے آیا؟ بلاشبہہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات ٹھیک ہوں، لیکن کشمیر کے تنازعے کو حل کیے بغیر یہ معاملہ حل نہیں ہوسکتا۔

دیکھنا ہوگا کہ اس معاملے میں چین اور امریکا کا کیا کردار تھا؟ بھارت کو بھی اس وقت ایک راستہ چاہیے تھا۔ چین کے ساتھ بھارت کے تعلقات کا معاملہ ہے۔ سفارتی مذاکرات میں اردگرد کی صورتِ حال کو دیکھنا ہوتا ہے۔ اس لیے وقت کے لحاظ سے یہ قدم درست نہیں لگتا۔ سیّدعلی گیلانی صاحب بھی یہی چاہتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر حل ہو۔ کشمیری خواہ مقبوضہ کشمیر سے ہوں یا آزاد کشمیر سے، یہ انھی کی قربانیوںکا نتیجہ ہے کہ آج تک کشمیر کا تنازعہ زندہ ہے۔ اگر کشمیری قربانیاں نہ دیتے تو یہ معاملہ کب کا ختم ہوچکاہوتا۔

یہ کہنا کہ’ ’ہم نے یہ کشمیریوں کے مفاد میں کیا ہے‘‘۔ چلیے ایک محدود حد تک یہ بات ٹھیک ہے۔ لیکن سفارت کاری میں پیش رفت، اقدام اور عہدوپیمان کے لیے وقت کا انتخاب(timing) بہت اہم ہوتا ہے۔ اگر آپ وقت کا صحیح تعین نہیں کرتے تو آپ مذاکرات سے جو نتیجہ اخذ کرنا چاہتے ہیں وہ حاصل نہیں کرپاتے۔مگر دوسرا فریق اپنے حساب سے اس وقت کا فائدہ اُٹھا لیتا ہے۔ یہ معلوم تاریخ کا سنگین اور تلخ باب ہے کہ بھارت نے ہمیشہ پاکستان کو دوطرفہ مذاکرات میں اُلجھایا ہے اور ہماری پوزیشن کو کمزور کیا ہے۔

کنٹرول لائن پر فائربندی کے معاہدے کی تجدید کے بعد کچھ ہمارے اور بہت سے بھارتی چینلوں نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ جیسے کوئی بہت بڑا کارنامہ (break through)  ہوگیا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ ایسی خوش فہمی کا اظہار کرنے والوں میں یہاں سے بھی متعدد معتبر لوگ شامل ہیں۔  سچ پوچھیں تو خوش فہمی، غلط فہمی یا عجلت پسندی پر مشتمل یہ طرزِ بیان پریشان کن ہے۔ مذاکرات کے طریق کار کو دیکھ کر بظاہر لگتا ہے کہ ہم اصولی بنیادوں سے ہٹ رہے ہیں۔

پچھلے سال ایک ادارے پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار سیکورٹیز اسٹڈیز کے تحت اسلام آباد میں کشمیر پر ایک سیمی نار ہوا تھا، جس میں وفاقی وزیرڈاکٹر شیریں مزاری صاحبہ سے میں نے یہ سوال کیا تھا کہ ’’کیا آپ اس بات کی یقین دہانی کروا سکتی ہیں کہ آپ کی حکومت نے بھارت سے مذاکرات کے لیے جوشرائط رکھی ہیں، آپ ان سے پیچھے نہیں ہٹیں گے؟‘‘ انھوں نے دوٹوک انداز میں کہا کہ ’’ایسا ہوہی نہیں سکتا کہ ان حالات میں ہم بھارت سے مذاکرات کریں کہ جب تک ۵؍اگست ۲۰۱۹ء سے پہلے والی صورتِ حال بحال نہ ہوجائے‘‘۔

بعض دانش ور قسم کے لوگوں کا خیال ہے کہ اب ہمارے پاس آپشن بہت کم رہ گئے ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ سرحدی جنگ بندی معاہدہ ایک محدود معاہدہ ہے۔ مگر دونوں ڈائرکٹر جنرل ملٹری آپریشنز کی جانب سے جوبیان جاری ہوا ہے، اس میں بہت سی باتوں کے علاوہ یہ بھی کہاگیا کہ ’’بنیادی اُمور (core issues)پر بھی مذاکرات کریں گے‘‘۔یہ مذاکرات کیسے ہوں گے؟ کون اسے لے کر آگے چلے گا؟ یوں لگتا ہے کہ پس پردہ، یعنی بیک ڈور ڈپلومیسی چینل اس میں شامل ہوں گے۔

بھارت بڑی شاطرانہ چالوں سے ہمیں انھی چیزوں میں اُلجھاتا رہا ہے۔ وہ ایک بار پھر ہمیں ان بے معنی مذاکرات میں اُلجھانے میں کامیاب ہوگیا ہے۔ کوئی بھی ذی شعور شخص، پاکستان اور بھارت کے درمیان امن کے خلاف نہیں ہوسکتا۔ ہم سب چاہتے ہیں کہ بھارت سے ہمارے تعلقات بہتر ہوں، لیکن تعلقات بہتر ہونےکی ذمہ داری صرف پاکستان ہی کی تو نہیں ہے۔پہلے تو اس بات کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ ہمارے تعلقات خراب کیوں ہیں؟___ اس کی بنیادی وجہ صرف اور صرف جموں و کشمیر کا تنازعہ ہے۔ جب تک یہ تنازعہ رہے گا، اس وقت تک یہاں پائیدار امن ناممکن ہے۔

پھر دیکھنا یہ بھی ہے کہ کیا ہم اسے بھارت کی شرائط پر حل کرنا چاہتے ہیں یا کچھ تجاویز ہمارے ذہن میں بھی ہیں؟ یا پھر وہ تجاویز صدرجنرل مشرف کے فارمولے کے حساب سےہیں؟ جب تک ہم پوری طرح اس ضمن میں واضح نہیں ہوں گے کہ ہم کیا چاہتے ہیں؟ اس وقت تک ہم اس بے مقصد مذاکراتی جال میں پھنس کر جموں و کشمیر پر اپنی پوزیشن کو کمزور کرتے رہیں گے۔ میری گزارش یہ ہے کہ ہم جو کام بھی کریں، وہ سوبار سوچ سمجھ کر کریں۔ ہمیں کوئی جلدی نہیں ہونی چاہیے تھی کہ ہم بھارت سے مذاکرات کے لیے جائیں۔ لیکن پاکستان اور بھارت میں کچھ حکمت عملی بنانے والے (Lobbyists) ایسے ہیں، جو چاہتے ہیں کہ بس جیسے بھی ہو، اب اس مسئلے کو ختم کریں اور بے معنی مذاکرات کا سلسلہ پھر شروع کریں۔

نریندرا مودی حکومت ہی کی پالیسی کو ہم دیکھیں تو واضح ہوجاتا ہے کہ وہ کہاں کھڑے ہیں اور ہم کہاں کھڑے ہیں؟ ہمیں نہ جانے اتنی بے چینی اور اتنی بے صبری کیوں لاحق ہوئی ہے؟ دوطرفہ تعلقات کے مختلف پہلوئوں کو سامنے رکھنا پڑتا ہے کہ ہمارے خطے میں کیا ہورہا ہے؟ دنیابھر میں کیا ہورہا ہے؟ بلاشبہہ دُنیا کا دبائو ہم پر ہوگا۔ حکومت سے ہماری یہی گزارش ہے کہ جلدبازی سے کام نہ لیں۔ بھارت کا جو رویہ اور پالیسی ہے اور اس نے آئین میں بھی جو تبدیلیاں کی ہیں،  ان میں خصوصاً آرٹیکل ۳۵-اے، کا خاتمہ تباہ کن ہے۔ ہم شاید اسٹیٹس کو (جوں کا توں) حل کی طرف جانا چاہ رہے ہیں۔ غالباً اسی لیے گلگت و بلتستان کو بھی عارضی صوبہ بنایا جارہا ہے۔ اس پر مقبوضہ جموں و کشمیر اور آزاد جموںو کشمیر میں بھی لوگوں کو بجاطور پر اعتراض ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سفارت کاری کے دوران ہرمعاملے میں وقت کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس کے عملی نتائج کیا ہوں گے؟ ہم سب کے لیے ریاست پاکستان کے مفادات مقدم اور اہم ہیں، تاہم چیزوں کو تاریخی اعتبار سے اور آنے والے وقت کے لحاظ سے دیکھنا ازبس ضروری ہے۔

ویسے تو جموں و کشمیر کو تقسیم کرنے والی خونی لکیر، یعنی لائن آف کنٹرول پر ۲۰۰۸ء کے بعد ہی سے توپوں اور مارٹرز کی گھن گرج جاری تھی، مگر ۲۰۱۹ء میں پلوامہ اور بالا کوٹ پر فضائی حملوں کے بعد اس میں خاصی شدت آگئی تھی۔ اب ۲۵فروری ۲۰۲۱ءکو جس طرح اچانک بھارت اور پاکستان کے ڈائرکٹر جنرل ملٹری آپریشنز لیفٹیننٹ جنرل پرم جیت سنگھ سانگھا اور میجر جنرل نعمان زکریا نے بندوقوں کو خاموش کرنے کا اعلان کیا۔ یہ اقدام خوش آیند، مگر حیران کن اور خدشات سے بھرا پڑاہے۔

اس سے قبل بھارت اور چین نے بھی لداخ خطے کی پنگانگ جھیل سے فوجیوں کا انخلا کرکے چھے ماہ سے جاری کشیدگی کو لگام دی۔ لائن آف کنٹرول کی خاموشی سے درہ حاجی پیر سے اکھنور تک کے علاقے میں رہنے والی ایک بڑی آبادی نے سکون کا سانس لیا ہے۔ پچھلے دوبرسوں سے شدید گولہ باری کی وجہ سے بیش تر کسان یاتو نقل مکانی یا بنکروں میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے تھے۔ یہ علاقے اکھنور، بشنہ، سانبہ، ہیرا نگراور کھٹوعہ، باسمتی چاول کی کاشت کے لیے مشہور ہیں۔ فائر بندی، تنازعے کو کنٹرول (Conflict Management ) کرنے میں کسی حد تک کارگر ہوسکتی ہے اور اگر اسے Conflict Resolution  (تنازعہ کو حل کرنے) کے لیے استعمال نہیں کیا جاتا، تو ایسے اہتمام دیرپا ثابت نہیں ہوتے۔ پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب کبھی نئی دہلی کے حکمرانوں پر عالمی دبائو پڑتا ہے، تو وہ کسی ایسے اقدام کا اعلان کرکے سبزباغ دکھاتے ہیں، جو بعد میں سراب ثابت ہوتا ہے۔ پاکستانی اور کشمیری رہنما کئی بار اس سراب کے شکار ہو چکے ہیںاور گھڑی کی سوئیوں کی طرح واپس اسی مقام تک پہنچتے ہیں، جہاں سے سفر شروع کیا تھا۔

ملٹری افسران کی طرف سے فائربندی کے اعلان سے صرف ایک روز قبل بھارتی فوج کے سربراہ جنرل ایم ایم ناراوا نے دہلی میں ایک سیمی نار کے دوران بڑے اعتماد سے کہا تھا: ’’پاکستان کے ساتھ مسلسل رابطے سے ہی کسی افہام و تفہیم تک پہنچا جا سکتا ہے۔ کیونکہ غیرمتعین سرحدوں کا ہونا کسی کے بھی مفاد میں نہیں ہے۔ بھارت اپنی سرحدوں پر امن و سکون چاہتا ہے، چاہے و ہ مغربی سرحد ہو یا جنوبی سرحدیں ہوں یا میانمار سے لگی سرحد ہو‘‘۔ ان کے اس بیان سے ان افواہوں اور تجزیوں کو تقویت ملتی ہے کہ یہ فائر بندی کوئی اچانک فیصلہ نہیں تھا، بلکہ اس کے لیے اچھا خاصا   پس پردہ کام کیا گیا تھا۔ اگرچہ یہ بھی حقیقت ہے کہ دونوں ملکوں کے یہ فوجی افسران ہر ہفتے منگل کی دوپہر کو ہاٹ لائن پر بات کرتے ہیں۔

 ایک ما ہ قبل پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی کہا تھاکہ ’’وقت آگیا ہے کہ سبھی اطراف سے امن کے ہاتھ آگے بڑھائے جائیں‘‘۔ اسی کے ساتھ کورونا وائرس سے نپٹنے کے لیے سارک کے پلیٹ فارم پر ہونے والے آن لائن اجلاس میں پاکستانی مندوب نے بھی شرکت کی، جنھیں وزیر اعظم نریندر مودی نے مخاطب کیا۔ سکھوں کے لیے کرتار پور راہداری کھولنے کے علاوہ بھی پاکستانی فوج کے سربراہ کئی برسوں سے اس طرح کے پیغامات دے رہے تھے، مگر نئی دہلی کے حکمران ٹس سے مس نہیں ہو رہے تھے۔ پلوامہ اور بالاکوٹ کے بعد ایک قدم اور آگے جاکر انھوں نے بنیادی تنازعہ جموں و کشمیر ریاست کو ہی دولخت کرکے اس کی نہ صرف خصوصی آئینی پوزیشن کالعدم کردی، بلکہ کشمیری عوام کی زبان و کلچر کو ختم کرنے اور ان کی آبادیاتی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے بھرپور سامان بھی مہیا کرنے شروع کر دیے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ پچھلے دوبرسوں کے دوران جنرل باجوہ کے سبھی بیانات کو نظرانداز کرکے ، اب اس وقت ان کی امن سعی کا جواب کیوں دیا گیا؟

کئی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ۲۰۱۶ء کے اوڑی اور بعد میں ۲۰۱۹ء کے پلوامہ حملوں کے بعد جس طرح بھار ت نے دنیا بھر میں پاکستان کو الگ تھلگ کرنے کی کوشش کی تھی، وہ ناکام ہوگئی ہے ۔ ۲۰۱۶ء میں پاکستان میں جنوبی ایشیا، یعنی سارک سربراہان مملکت کے ہونے والے اجلاس کا نہ صرف بھارت نے بائیکاٹ کیا، بلکہ بنگلہ دیش، افغانستان، بھوٹان، سری لنکا اور مالدیپ کو بھی تنبیہ کی گئی کہ وہ اس کانفرنس میں شرکت کے لیے یا پاکستان کے ساتھ یک جہتی دکھانے کے نام پر قطعی طور پر اسلام آباد نہ جائیں۔

پاکستان کو الگ تھلگ کرنے کے لیے سارک کے اندر کئی ذیلی گروپ بھی بنائے گئے۔ پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے سری لنکا کے حالیہ دورہ نے بھارت کی اس پالیسی کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی ادارہ ایف اے ٹی ایف میں بھارت کی ایما پر گو کہ پاکستان کو ’گرے لسٹ‘ (مشکوک فہرست)میں رکھا گیا ہے۔ بڑی کوشش کے باوجود اس کو ’بلیک لسٹ‘ (مجرم فہرست)میں دھکیلنے میں بھارت ناکام رہا ہے۔ ابتدا میں جب بھارت نے پورا زور لگاکر ترکی اور ملائیشیا کو اس کے لیے معاف نہیں کیا تھا کہ وہ پاکستان کی حمایت میں آگے بڑھے تھے۔ دو سال قبل ایک اہم شخصیت نے مجھے دہلی میں کہا تھا کہ: ’’پاکستان کی حمایت پر ترک صدر رجب طیب اردوان کو معاف نہیں کیا جائے گا‘‘۔ اسی دوران چین کے ساتھ چپقلش کے بعد بھارت کو اندازہ ہو گیا ہے کہ وہ دومحاذوں پر جنگ کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے۔

دوسری طرف اگست ۲۰۱۹ءکو جموں و کشمیر میں کیے گئے بھارتی اقدامات کے خلاف پاکستان نے عالمی برادری سے جس طرح کی حمایت کی امید کی تھی، وہ پاکستان کی داخلی سیاسی کش مکش اور سفارتی حلقوں کی بے توجہی کے باعث پوری نہیں ہوسکی۔ بھارت کے ان اقدامات کے بعد پاکستان نے بھارتی سفیر کو اسلام آباد سے نکلنے کا حکم دے کراور دہلی سے اپنے سفیر کو واپس بلا کر سخت پیغام دے کر بھارت پر دبائو ڈالنے کی کوشش کی۔ دوسری طرف عالمی برادری دونوں ایٹمی ملکوں کے درمیان باضابطہ جنگ سے خوف زدہ تو ہے، مگر تنازعے کو سلجھانے کے بجائے جوں کی توں پوزیشن پر ہی گزارا کرنے کے لیے دونوں ملکوں کو آمادہ کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ اس دوران بھارت نے جو بریفنگ عالمی برادری کو یا دہلی میں مقیم سفیروں کو دی، اس میںاس موقف کا اعادہ کیا گیا کہ ’’وہ مسئلہ کشمیر کو گراس روٹ ڈیموکریسی اور ترقی کے ماڈل کے ذریعے حل کرنا چاہتا ہے اور اس میں پاکستان ایک رکاوٹ ہے‘‘۔ وہ ان ممالک کو یہ باور کروانے میں کامیاب نظر آتا ہے کہ کشمیر کو اگر کنٹرول نہ کیا گیا تو وہاں عالمی دہشت گرد تنظیمیں اپنا اثر بڑھا کر اس کو شام، یمن اور افغانستان کی راہ پر ڈال دیں گی۔

       ہوسکتا ہے کہ فائر بندی کے اس فیصلہ سے لائن آف کنٹرول کے آس پاس زندگی کی رونقیں معمول کی طرف لوٹ آئیں ۔ مگر خاص طور پر۲۰۰۸ء، ۲۰۱۰ء اور پھر ۲۰۱۶ء میں کشمیر کی سڑکیں یہ پیغام دے چکی ہیں کہ معمول کی زندگی یا سرحدوں پر خاموشی امن کا نام نہیں ہے۔ عوام اب زیا دہ دیر تک اس کیفیت کے ساتھ جینا نہیں چاہتے ہیں۔ ۲۰۰۳ء اور ۲۰۲۱ء کے سیز فائر میں ایک بنیادی فرق ہے۔ نومبر ۲۰۰۳ء میں جب دونوں ممالک سیز فائر پر آمادہ ہوگئے، تو سیاسی قیادت کے بیانات سے اتنا تو ادراک ہو رہا تھا کہ یہ ایک مثبت قدم کا آغاز ہے، جو مسئلے کو حل کرنے پر منتج ہوگا۔ دونوں ممالک نے اس کے بعد گفت و شنید کا سلسلہ بھی شروع کیا، اور اس کے نتیجے میں بھارتی وزیراعظم واجپائی، سارک کے سربراہ اجلاس میں اسلام آباد میں شریک ہوئے تھے۔ ان کا یہ دورہ صدر جنرل پرویز مشرف کے نو نکاتی فارمولا کی بنیاد بن گیااور اس کے نتیجے میں لائن آف کنٹرول کے آر پار بس سروس اور تجارت کے لیے راہداری کھل گئی۔ مگر حالیہ فائر بندی کے متعلق کشمیر میں خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ’’یہ کہیں بجائے خود ہی اختتا م تو نہیں ہے‘‘۔

ہوسکتا ہے کہ ۲۰۰۳ءکی ہی طرز پر یہ قدم بھی اسلام آباد میں اس سال سارک سربراہ کانفرنس منعقد کروانے میں معاون ثابت ہو۔ مگر واجپائی یا من موہن سنگھ کی طرح نریندرا مودی کا کشمیر پر کسی پیش رفت کرنے کی یقین دہانی بھی کرانا فی الحال ناممکن نظرآرہا ہے۔ اگر وہ ایسا کرتے بھی ہیں، تو کیا وہ اپنی پارٹی اور ہندو قوم پرستوں کی مربی تنظیم راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کو اس پر آمادہ کرواسکیں گے؟۲۰۱۴ء کہ جب سے مودی نے اقتدار سنبھالا ہے، انھوں نے پارٹی کے دیگر رہنماؤں و وزیروں کے لیے کسی بھی عہدے پر براجمان رہنے کے لیے ۷۰سال کی عمر کا پیمانہ بنایا اور چند ایک کو چھوڑ کر سختی کے ساتھ عمل بھی کروایا۔ اب ان کی اپنی عمر ۷۰سال سے تجاوز کررہی ہے۔ کیا آر ایس ایس اب ان کو برسر اقتدار رہنے دے سکتی ہے، جب کہ انھوں نے ایل کے ایڈوانی، مرلی منوہر جوشی ، سمترا مہاجن سمیت متعدد لیڈروں کو ان کی عمر کی وجہ سے ریٹائر کروایا ہے؟ کیا ان کا جانشین ان کے ذریعے کسی پیش رفت کے وعدے کا ایفا کر سکے گا؟

نئی دہلی میں اب یہ خبریں بھی گشت کر رہی ہیں کہ حالیہ ضلعی ترقیاتی کونسل کے انتخابات میں ناکامی کے بعد حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈران اب ریاست کی ایک اور تقسیم کے خواہاں ہیں۔ اب جموں ڈویژن کو بھی الگ کرنے کی سازشیں ہو رہی ہیں۔ ان کا خیا ل ہے کہ جموں ڈویژن کے مسلم اکثریتی پیر پنچال اور وادی چناب میں بی جے پی کی شکست کی وجہ ان علاقوں کا وادیٔ کشمیر کے ساتھ رابطہ ہے۔ کرگل کو بھی اسی وجہ سے وادیٔ کشمیر سے الگ کرکے بودھ اکثریتی علاقہ لہیہ کے ساتھ نتھی کیا گیا۔ بی جے پی کے لیڈروں کا پہلے خیال تھا کہ حدبندی کمیشن کے ذریعے جموں کے ہندو علاقوں کی اسمبلی سیٹوں میں اضافہ کرکے ا ن کو وادیٔ کشمیر کے برابر کیا جائے۔ مگر جب اس کمیشن کی سربراہ جسٹس رنجنا ڈیسائی نے بتایا کہ ’’وادیٔ کشمیر کی آبادی جموں سے ۱۰لاکھ زیادہ ہے‘‘، تو یہ شوشہ چھوڑا گیا کہ ’’حد بندی آبادی کے حساب سے نہیں بلکہ رقبے کی بنیاد پر ہونی چاہیے‘‘۔ اسی وجہ سے فی الحال حد بندی کمیشن کی میعاد ایک سال اور بڑھادی گئی ہے۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق وادیٔ کشمیر کی آبادی ۶۸لاکھ  ۸۸ہزار ۴ سو ۷۵ ہے، جب کہ جموں میں۵۳ لاکھ ۷۸ ہزار ۵سو۳۸  نفوس رہتے ہیں۔ جموں کا رقبہ ۲۶ہزار ۲سو ۹۳ مربع کلومیٹر ہے، جب کہ وادیٔ کشمیر کا رقبہ  ۱۵ہزار ۹ سو ۴۸ مربع کلومیٹر ہے۔

بھارت اور پاکستان کے درمیان جب بھی تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوتی ہے، اس کا خمیازہ ریاست جموں وکشمیر کے عوام بالخصوص سرحدی آبادیوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔کرگل سے حاجی پیر درہ تک کنٹرول لائن کے علاقے تو سرینگر میں مقیم صحافیوں اور سول سوسائٹی کی دسترس سے بھی دُور رہتے ہیں۔ اس لیے ان علاقوں میں عوام پر کیا بیتتی ہے، بہت کم ہی باہر کی دنیا کے علم میں آتا ہے۔ کیا کشمیر میں بھارت اور پاکستان کی سرحدوں میں بٹے عوام یک جا نہیں ہوسکتے ؟کیا یہ خونی لکیر مٹ نہیں سکتی؟ کیا یہ فوجیوںکے جمائو اور فائرنگ کے تبادلوں کے بدلے میں امن اور استحکام کی گزرگاہ نہیں بن سکتی ؟ کیا بھارت اور پاکستان بنیادی مسائل پر توجہ مرکوز کرکے ان کوعوام کی خواہشات کی بنا پر حل کرکے کیوں امن کی راہیں تلاش نہیں کرسکتے؟ امید ہے کہ یہ فائر بندی مسئلہ کشمیر کو سردخانے میں ڈالنے کے بجائے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اس مسئلے کو حل کروانے کی طرف ایک قدم ہوگا۔

۱۳مارچ ۲۰۲۱ء کو افغان رہنما گلبدین حکمت یار نے منصورہ میں پشتو میں خطاب کیا اور پروفیسر محمدابراہیم صاحب نے رواں اُردو ترجمہ کیا۔ اس سے قبل ہم ترجمان کے شماروں(جون،اکتوبر۲۰۲۰ء) میں افغان طالبان کا موقف شائع کرچکے ہیں۔ یہ خطاب حبیب الرحمٰن چترالی صاحب (اسلام آباد) نے قلم بند کیا۔ (ادارہ)

میں بہت عرصے بعد ان حالات میں پاکستان کے دورے پر ہوں کہ ہم ایک اور جنگ سے دوچار ہیں، جس کے نتیجے میں ان شاء اللہ ہمارا دشمن افغانستان چھوڑنے پر مجبور ہوگا۔ ہمارے بزرگ اور ساتھی جان و مال کی لازوال قربانی دے کر اور سروں کے نذرانے پیش کرکے امر ہوگئے۔ آج وہ موجود نہیں، مگر ان شاء اللہ اُن کے ارمان ضرور پورے ہوں گے اور اُمت مسلمہ کو عروج نصیب ہوگا۔

قرآنِ عظیم میں واضح حکم موجود ہے کہ جہاد سے جی چُرانا جرمِ عظیم ہے اور اللہ کی طرف سے عذاب کا پیش خیمہ ہے۔ جہاد کے راستے پر چلنے والے کس طرح سرخرو ہوتے ہیں، اس کا عملی مظاہرہ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ ہم اُن نتائج اور اس راستے کے مسافر ہیں۔ محمدعربی صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ۲۳سال کے اندر حجاز پر غلبہ حاصل کرلیا اور پھر چند ہی برسوں میں اسلامی سرحدات کی حدود روم اور فارس تک پہنچ گئیں۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد ایک صدی بھی نہ گزری تھی کہ اسلامی ریاست کی سرحدیں مشرق میں ہندستان اور چین و ترکستان اور شمال میں ہسپانیہ اور جنوب میں یمن تک اور مغرب میں مراکش تک پہنچ گئیں۔ اسی دوران مسلمانوں کو علم کے میدان میں بھی برتری حاصل ہوگئی۔ سیاسی اور مذہبی رہنمائی بھی مسلمانوںکے ہاتھ میں آگئی اور عسکری فتوحات کے نتیجے میں مسلمانوں کا کوئی مدمقابل نہ رہا، یوں مکمل تہذیبی قیادت مسلمانوں کے ہاتھ آگئی۔

 تاریخ انسا نی میں ایسی اُمت کی مثال نہیں ملتی کہ اقتصادی میدان میں بھی وہ خوش حالی کی زندگی ایسی گزارنے لگے کہ زکوٰۃ دینے والے افراد کی تلاش میں ہوتے تھے اور زکوٰۃ لینے والا نہیں ملتا تھا، یعنی ہرطرف خوش حالی کا دور دورہ تھا۔ ہزاروں قومیں، قبائل اور اُمتیں اُمت مسلمہ میں جذب ہوگئیں۔ وہ آپس میں جڑے ہوئے انسان تھے اور اُن کے اندر کوئی اجنبیت نہ تھی۔ یہ مسلمانوں کے عروج کا دور تھا۔ گھروں، بستیوں اور مملکتوں پر مجاہدین کے پرچم لہراتے تھے اور مجاہدین ہی دُنیا کی قیادت کر رہے تھے یعنی، حافظ بھی مجاہد اور عالم بھی مجاہد۔ اُن کے لیے دُنیا ایک میدانِ جہاد تھا اور ہر کوئی منزل کی طرف پیش قدمی میں مصروف تھا۔ وہ دین کو دُنیا کے حصول کا وسیلہ نہ سمجھتے تھے۔ وہ فرقہ واریت میں مبتلا نہ تھے بلکہ صرف اعلائے کلمۃ اللہ کا فریضہ انجام دیتے تھے۔ مسجد کا امام بھی ریاست کا امام ہوتا تھا، یعنی ہرمسجد اور ہربستی حرب گاہ اور جنگی مورچہ تھا۔ گھراور مسجد ایک ہی مقصد کا عنوان تھے۔ ان میں کوئی تضاد اور ٹکرائو نہیں تھا۔یوں ہمارا دورِ عروج تاریخ کے اَوراق پر پھیلاہوا تھا: تہذیب بھی ہماری اورتمدن بھی ہمارا اور دُنیاپر حاوی عالمی نظام بھی اُمت مسلمہ کا۔ اس میں ہمارا حریف کوئی نہ تھا جو سیاسی، عسکری اور اقتصادی میدان میں ہمیں چیلنج کرسکے۔

اب سے ایک سو سال پہلے یہ عظیم سلطنت ہم سے چھن گئی اور ایک عالمی جنگ کے نتیجے میں خلافت کے حصے بخرے کیے گئے۔ یہ عظیم سائبان ہم سے چھین لیا گیا اور وہ بھی ہمیں شکست دے کر نہیں، بلکہ ایک سازش کے ذریعے ہم سے چھین لیا گیا۔ اس سازش میں اندر اور باہر کے دشمن ملےہوئے تھے اور اندرونِ خانہ منافقین نے دشمنوں کا ساتھ دیا اور اُن کے دست و بازو بن گئے۔ یہ اُمت مسلمہ کا ایک المیہ ہے کہ دشمن اسلام پرغالب نہیں آسکتا، تو وہ آستین کے سانپوں کو پالتا ہے۔ اسی لیے خلافت کے خاتمہ کے لیے ترکوں اور عربوں کو لڑایا گیا۔ شیعوں اور سنیوں کو لڑایا گیا۔ آج وہ عظیم اُمت ٹکڑوں میں بٹی ہوئی ہے۔سامراجی قوتوں نے اس طرح اُمت کو تقسیم کر دیا اور مختلف چھوٹے چھوٹے ممالک وجود میں آگئے۔ پھر اُن پر حکمرانی کے لیے سیاسی حاکم اور فوجی جرنیل بٹھا دیئے گئے۔ ہمارے بازار، اُن کی تجارتی کمپنیوں کی مارکیٹ بن گئے۔ ہماری معدنیات اور خام قدرتی وسائل اُن کی خوش حالی و استحکام اور اُلٹا ہم پر حکمرانی کا ذریعہ بن گئے۔ یوں براہِ راست یا بالواسطہ انداز سے داخلی اور خارجی سیاست مکمل طور پر اُن کے ہاتھوں میں چلی گئی اور مسلم ممالک پر پھر جنگیں مسلط کی گئیں،تا کہ وہ آپس میں لڑبھڑ کر اپنی مادی، افرادی، عسکری اور سیاسی قوت سے محروم ہوجائیں۔ اِن تمام جنگوں میں مسلمان ہی کشتۂ اجل بنے۔ ہجرتیں ہوئیں اور آج بھی ۹۵ فی صد مہاجرین دُنیا میں مسلمانوں پر ہی مشتمل ہیں۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا اُن کے ہاتھ میںہے۔ یہ دونوں مغرب کی طاقت کا ذریعہ ہیں۔ فساد پھیلاتے ہیں، نوجوانوں کوگمراہ کرتے ہیں اور اُمت کو بے راہ روی کے راستے پہ لگائے ہوئے ہیں۔ان کے شکارافراد اپنے شان دارماضی سے کٹے ہوئے پتنگ ہیں۔

ان گذشتہ سو برسوں میں مغرب اپنے مشن میں بڑی حد تک کامیاب ہوا ہے۔ ہماری نسلیں سیکولر ہوگئیں جو دین اور دُنیا کو الگ الگ اور سیاست کو دین سے جدا سمجھتی ہیں۔تاریخ انبیاء علیہم السلام نے کوئی غیرسیاسی دین نہیں دیکھا۔ [کَانَتْ بَنُوْ اِسْرَاءِیْلَ تَسُوْسُہُمُ الأَنْبِیَاءُ، کُلَّمَا ہَلَکَ نَبِیٌّ خَلَفَہُ  نَبِیٌّ وَاِنَّہ لاَ نَبِیَّ بَعْدِیْ، وَسَیَکُوْنُ خُلَفَاءُ فَیَکْثُرُوْنَ (متفق علیہ) بنی اسرائیل کی سیاست انبیاء علیہم السلام چلاتے تھے۔ ایک نبی ؑ وفات پاتا تو دوسرا اس کی جگہ آجاتا تھا، لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے اور میرے بعد خلفاء ہوں گے، اور زیادہ تعداد میں ہوں گے]۔

  لہٰذا اس دردناک اور المناک صورتِ حال سے نکلنے کے لیے ہمیں دوبارہ دین کی طرف پلٹنا ہوگا۔ برادری اور اخوت و بھائی چارگی کواپنانا ہوگا۔ فروعی اختلافات کو ترک کرنا ہوگا۔ دوسروں کو کافر بنانے کا سلسلہ دریا بُرد کرنا ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم دین کا فہم اس لیے حاصل کرتے ہیں کہ دوسرے مسلمانوں کو کافر بنائیں؟ مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہم ’کافر سازی‘ تو شوق سے کرتے ہیں مگر فکرمندی سے ’مسلمان سازی‘ نہیں کرتے۔ ہمیں دین اس لیے سیکھنا چاہیے تاکہ وہ اللہ تک پہنچنے کا ذریعہ بن جائے۔ معرفت ِ خدا اور معرفت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ذریعہ بن جائے۔ تاریخ شاہد ہے کہ جب بھی مسلمانوں نے دین کی طرف رجوع کیا تو اللہ نے ضرور اُن کی مدد کی ہے۔

افغانستان کی مثال آپ کے سامنے ہے جو جنگ زدہ ہے، بدحال اور ناگفتہ بہ ہے، مگر جہاد کی برکتوں سے اللہ نے ان افغانیوں کی بھرپور مدد کی۔ گذشتہ دس عشروں یا ایک صدی کے دوران انھوں نے تین بڑی سامراجی طاقتوں کو شکست سے دوچار کیا۔ وہ برطانیہ جس کا سورج کبھی دُنیا میں غروب نہیں ہوتا تھا۔ اس نے طمطراق سے افغانستان پر جارحیت کی اور بار بار شکست کھائی۔آج وہ سلطنت دُنیا کے نقشے میں ایک انگوٹھے میں سما جاتی ہے، حالانکہ اُس زمانے میں تاجِ برطانیہ مشرق میں آسٹریلیا اور مغرب میں امریکا تک پھیلا ہوا تھا۔ پھر تاریخ نے پلٹا کھایا اور سوویت یونین (کمیونسٹ روس) نے افغانستان پر جارحیت کی۔کیا آج شکست کھانے کے بعد دُنیا کے نقشے میں سوویت یونین نام کی کوئی ریاست وجود رکھتی ہے؟ اب آپ دیکھیں امریکی سربراہی میں ناٹو نے اپنی شکست تسلیم کرلی ہے اور ہزیمت اُٹھا کر افغانستان سے اپنی فوجیں نکالنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔۹۵ فی صد اُن کی فوجیں نکل چکی ہیں، پانچ فی صد نکلنے کی راہ دیکھ رہی ہیں۔ سوپرپاور کا دعوے دار امریکا اس جلدی میں ہے کہ افغانستان سے نکل جائے اور اپنی افواج کو باعزّت طریقے سے نکال لے۔

افغانستان پر جنگ مسلط کرنے کے دو بڑے عوامل تھے: ایک افغانستان پر قبضہ اور دوسرا ایک غلام کٹھ پتلی حکومت کی تشکیل۔مگر افغان عوام نے ان دونوں عوامل کو مسترد کر دیا ہے۔اب ترکی اور مسقط میںافغانستان کے مستقبل میں اقتدارکی منتقلی کے مسئلے پر مذاکرات جاری ہیں۔ طالبان کے ساتھ افغان احزاب سمیت چھے ممالک ان مذاکرات میں شامل ہیں۔ عنقریب ماسکو میں امن کانفرنس منعقد کی جارہی ہے تاکہ صلح کی بنیاد پر وسیع البنیاد حکومت تشکیل پائے۔ ہم دونوں عالمی کانفرنسوں کی تائید کرتے ہیں۔ افغانستان سے آٹھ آٹھ قائدین اور سیاسی جماعتوں کے نمایندے اِن مذاکرات میں شرکت کریں گے تاکہ افغان عوام کی لازوال قربانیاں رنگ لائیں۔ ان شاء اللہ افغانستان میں اسلامیانِ افغانستان کو کامیابیاں حاصل ہوں گی اور اسلام سربلند ہوگا:

وَقُلْ جَاۗءَ الْحَقُّ وَزَہَقَ الْبَاطِلُ۝۰ۭ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَہُوْقًا۝۸۱  (بنی اسرائیل ۱۷:۸۱) اور اعلان کردو کہ ’’حق آگیا اور باطل مٹ گیا، باطل تو مٹنے ہی والا ہے‘‘۔

ان شاء اللہ وہ دن بہت جلد آئے گا کہ جب افغانستان کے غیور عوام کی اُمنگوں کے مطابق افغانستان میں اسلامی حکومت قائم ہوگی، اور ایک پُرامن اسلامی مملکت ِافغانستان وجود میں آئےگی۔

اسرائیل دنیا کا واحد ملک ہے جس کی پالیسی سازی، عمل درآمد اور اثرات سے نسلی تعصب صاف جھلکتا ہے۔ دنیا بھر میں کورونا (Covid-19)کی وبا نے ممالک اور اقوام میں یک جہتی کے مظاہرے دکھائے ہیں۔اس وبا کے سدِباب کے لیے دولت مند ممالک نے کورونا ویکسین کے اپنے ہاں ڈھیر لگا دیئے ہیں اور عوام کو وبا سے بچائو کے لیے و یکسی نیشن پروگرامات بھی شروع کیے ہیں۔ اس سلسلے میں اسرائیل کو اپنی قوم کو ویکسی نیشن کے عمل سے گزارنے والا پہلا ملک قرار دیا گیا ہے۔

۱۹؍دسمبر کو اسرائیل کے وزیراعظم بنجمن نیتن یا ہو نے ٹی وی کے ایک پروگرام میں فائزر بائیو ٹیک کوویڈ-۱۹  ویکسین وصول کی۔ اس کے ساتھ ہی اسرائیل میں قومی ویکسی نیشن پروگرام کا آغاز ہو گیا۔ اس پروگرام کے ذریعے دو ہفتوں میں دس لاکھ سے زیادہ اسرائیلیوں کو یہ ویکسی نیشن لگا دی گئی۔ یوں آبادی اور رقبے کے اعتبار سے ایک چھوٹے سے ملک کی کم و بیش ۱۲فی صد آبادی کو کوویڈ -19کی ویکسی نیشن دینے والا سب سے پہلا ملک اسرائیل بن گیا۔ لیکن یہ سب کیسے ہوا ، یہ بھی نسلی منافرت کی انوکھی مثال ہے۔

دنیا بھر میں سب ممالک پر سبقت لے جانے میں اسرائیل کئی وجوہ کی بنا پر پہلا ملک کس طرح بنا؟ اس کے لیے مختصر سا جائزہ بہت سے حقائق سے پردہ اٹھاتا ہے۔ اسرائیل ڈیجیٹل دنیا میں قومی صحت کے پروگرام کے تحت اپنے شہریوں کو پابند کرتا ہے کہ وہ خود کو اس پروگرام میں رجسٹر بھی کرائیں اور اس کے حصہ دار بھی بنیں۔ دوسرے ممالک کے برعکس اسرائیلی فوج پابندہے کہ وہ ایسے ہر پروگرام میں شرکت سے کسی بھی نوعیت کی تاخیر کے بغیر کام کرے، بلکہ کسی بھی ویکسین کی رجسٹریشن اور تقسیم کے عمل میں وہ انتظامی طور پر متحرک کردار ادا کرتی رہے۔

 ان دنوں اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو اپنی سیاسی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں اور ویکسین کی دوڑ میں کامیابی ممکنہ طور پر ان کے حق میں بہتر نتائج سامنے لانے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے اور انتخابات میں قدرے سیاسی توازن ان کی پارٹی کے حق میں پیدا کرسکتی ہے۔

بات اتنی سادہ نہیں ہے۔ دنیا بھر میں چرچے ہیں کہ اپنے عوام کو ویکسی نیشن فراہم کرنے میں اسرائیل دیگر ممالک پر بازی لے گیا ہے۔ اس کا ایک تاریک پہلو بھی ہے۔ ایک طرف دھوم ہے کہ اسرائیل نے بڑی تیزی سے اپنے عوام کو اس عالمی وبا کے خلاف مزاحمت حاصل کرنے کے لیے ویکسی نیشن پروگرام مکمل کر لیا ہے، دوسری طرف اسی حکومت نے ان لاکھوںفلسطینیوں کو باقاعدہ منصوبے کے تحت اس پروگرام سے قطعی محروم رکھا ہے۔ یہ وہ فلسطینی ہیں ،جو سال ہا سال سے اس کے قبضے میں کسم پرسی کی زندگی گزا رنے پر مجبور کر دیے گئے ہیں۔ اس ویکسین کی بہت بڑی مقدار مبینہ طور پرمحض اس لیے ضائع کر دی گئی ہے کہ یہ فلسطینی عوام کی رسائی میں نہ چلی جائے۔ اس مقدار کو مبینہ طور پر اس طرح سے ضائع کیا گیا ہے کہ استعمال کی مدت گزر جانے دی گئی تھی۔ کسی ایک فلسطینی کو بھی یہ ویکسین لگائی نہیں گئی۔ اسرائیل کے طبی مراکز پر جانے والے فلسطینیوں کو یہ ویکسین فراہم کرنے یا لگانے سے صاف انکار کر دیا گیا ہے۔اسے صریحاً ظلم اور نسل پرستی نہ کہا جائے تو اور کیا نام دیا جائے۔

غزہ اور مغربی کنارے کی دو بستیاں ۱۹۶۷ء سے ہی ایسے تعصب کا نشانہ بن رہی ہیں۔ غزہ کی پٹی ۲۰۰۷ء سے مسلسل اسرائیلی ناکہ بندی سے دوچار ہے۔بہت سی بنیادی سہولتو ں سے مسلسل محرومی کے ساتھ ساتھ صحت کی نہایت اہم ضرورت سے تسلسل سے انکار نے ایسی کیفیات پیدا کر دی ہیں، جو مستقل خطرے کا الارم بجا رہی ہیں۔

اسرائیل کے قبضے نے فلسطینیوں کے اپنے صحت کے نظام کو بھی بری طرح نقصان پہنچایا ہے۔ بنیادی ضروریات کی شدید کمی، طبی سازوسامان اور ادویات کی قلت ہے۔ اس قلت نے ان کو اس حال سے دوچار کر دیا ہے کہ مغربی کنارے میں رہنے والی فلسطینی آبادی کئی برسوں سے اِردگرد سے مانگ تانگ کر ان ضروریات کو پورا کرتی ہے۔

کورونا نے ساری دنیا پر اچانک گذشتہ سال یلغار کی تو فلسطینی اتھارٹی کے پاس کسی نوعیت کے انتظامات نہیں تھے کہ وہ اس عالمی وبا (Pandemic)کا مقابلہ کر سکے۔

عالمی ادارہ صحت کےپروگرام سے بھی اتنی مدد نہ مل سکی جس سے کوویڈ- 19 کی ویکسین تمام غریب ممالک کو فراہم کی جا سکتی۔ ابھی تک عالمی ادارہ صحت نےکوویکس (COVAX) پروگرام کی ہنگامی فراہمی کی منظوری بھی نہیں دی ہے۔

گذشتہ دسمبر کے آغاز میں فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے یہ دعویٰ سامنے آیا تھا کہ اس نے روس سے ’سپوتنک فائیو‘ (Sputnik V) کی ۴۰لاکھ خوراکیں حاصل کرنے کا معاہدہ کر لیا ہے اور   یہ آیندہ چند ہفتوں میں مل جائیں گی۔ حال ہی میں روسی حکام نے اس طرح کے معاہدے کی توثیق ضرور کی ہے، تاہم یہ بھی کہا ہے کہ ’’ابھی روس اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ غیر ممالک میں یہ ویکسین فراہم کر سکے‘‘۔

اسرائیل نے اپنی قانونی، اخلاقی اور انسانی بنیادوں پر ذمہ داریاں پوری کی ہوتیں تو فلسطینیوں کو یوں دربدر پھرنا ہی نہ پڑتا۔ اسرائیلی حکام اتنی بات کہہ کر خود کو ان تمام ذمہ داریوں سے مبّرا قرار دے لیتے ہیں کہ ’’فلسطینی اتھارٹی نے ہم سے مدد طلب کی ہوتی تو اور بات تھی‘‘۔ حالانکہ اوسلو معاہدے کے تحت اسرائیل اس ذمہ داری کی ادایگی کا پابند تھا۔ لیکن اوسلو معاہدہ کے نتیجے میں کسی نوعیت کی خیر فلسطینی اتھارٹی کے حق میں نہیں مل سکی۔ غزہ اور مغربی کنارے میں ہر طرح کی ویکسی نیشن فلسطینی اتھارٹی کے ذریعے ہی سر انجام پانا تھی، جو نہ مل سکی۔

 چوتھے جنیوا کنونشن کے آرٹیکل۵۶ کے تحت یہ لازمی ہے کہ ’’کسی بھی قابض (جیسے اسرائیل) پر لازم ہے کہ وہ ہر طرح کے اقدامات کرے، جن سے وبائی یا متعدی امراض کو مقبوضہ علاقے میں پھیلنے سے روکا جاسکے اور وبائی امراض کے خاتمے اور روک تھام کے لیے پورے اقدامات بھی ممکن بنائے‘‘۔ دوسرے الفاظ میں اسرائیلی انتظامیہ کی قانونی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے قبضہ میں رہنے والے فلسطینیوں کے لیے کووڈ -۱۹ سے بچائو کی ویکسین مناسب مقدار میں فراہم کرے۔

اسرائیل نے پوری طرح سے فلسطینی اتھارٹی کے صحت کے نظام کو ہر طرح سے مفلوج کر رکھا ہے۔ اس نے کئی عشروں سے فوجی قوت کے بے دریغ استعمال سے قبضہ برقرار رکھا ہوا ہے۔ اس نے محض گنتی کی چند میڈیکل سہولیات غزہ جانے دی تھیں جو بین الاقوامی اداروں نے فراہم کی تھیں۔ یہ بھی اس لیے فراہم کرنے کی اجازت دی تھی کہ بین الاقوامی قانون کے تحت وہ ان سہولیات کی فراہمی کا پابند تھا۔

اسرائیل نے باربار یہ تاثر پیدا کیے رکھا کہ وہ فلسطینیوں کی ہر طرح سے مدد کر رہا ہے۔  بین الاقوامی برادری اور میڈیا اس کی تعریف میں رطب اللسان تھے۔ یہ بھی کہا گیا کہ اس نے شدید بیمار فلسطینی مریضوں کو تل ابیب کے ہسپتالوں میں علاج معالجہ کی اجازت دی ہے۔ اس نوعیت کی کہانیوں کے عام کرنے کی اصل وجہ یہ تھی کہ شدید نوعیت کے فوجی محاصرے اور ناکہ بندی سے مقامی ہسپتالوں میں ضروری طبی آلات اسرائیل نے غزہ کے ہسپتالوں اور طبی سہولیات کے مراکز پر عشروں پر محیط بم باری سے تباہ کر دیے تھے۔ ان حملوں نے فلسطینی مراکز اور نظام صحت ہر طرح سے مفلوج کر دیا تھا۔ اس کے باوجود اسرائیلی انتظامیہ چاہتی تھی کہ بین الاقوامی ڈونرز کے ایک گروہ کی جانب سے چند سہولیات غزہ لے جانے کی اجازت دینے پر اس کی تعریف کی جائے۔ حالانکہ بین الاقوامی قانون کے تحت یہ اس کی اپنی ذمہ داری تھی کہ قابض قوت ہونے کی وجہ سے اسرائیل خود یہ سہولیات غزہ پہنچاتا۔

ویکسین کے حصول کی دوڑ سے یقیناً فلسطینی اکیلے باہر نہیں ہیں۔ گلوبل سائوتھ کے بہت سے ممالک اور بھی ہیں جو اس دوڑ سے الگ کر دیے گئے ہیں۔ ویکسین کی بڑی مقدار ایسی بھی ہے جو امیر ممالک کو مختصر نوٹس پر فراہم کی جائے گی مگر مغربی کنارے اور غزہ میں چیلنج اور طرح کا ہے۔ اسرائیل کے پاس فوجی قوت ہے اور فلسطینی عوام پر بے پناہ کنٹرول حاصل ہے۔ یہ دونوں عوامل مقابلے کو فلسطینیوں کے لیے سنگین تر بناتے رہے ہیں۔

دنیا اسرائیل کے تیز رفتار ویکسی نیشن پروگرام کو تو دیکھ رہی ہے لیکن اسے اس بڑی تصویر کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے کہ اسرائیل ان لاکھوں فلسطینی عوام کو ویکسین حاصل کرنے سے بزورِ قوت روک رہا ہے۔[الجزیرہ، ۱۱جنوری۲۰۲۱ء]

نریندر مودی کی بھارتی حکومت نے اپنے طور پر مسئلہ کشمیر ختم کرنے کے لیے آخری وار کردیا۔ ان کے وزیرداخلہ امیت شا نے پارلیمنٹ میں بھارتی آئین کی دفعہ ۳۷۰اور دفعہ ۳۵- اے کو ختم کردیا۔اس طرح ریاست کو تحلیل کرنے اور اس کو تقسیم کرکے مرکز کے زیر انتظام دوخطوں میں تبدیل کرنے کا قانون بھی پاس کیا۔ اب لداخ ، جو مسلم اکثریتی ضلع کرگل اور بودھ اکثریتی لیہ اضلاع پر مشتمل ہے، وہاں اسمبلی نہیں ہوگی۔ ۹۰کے عشرے میں اس خطے کی۶۵ء۳۹ فی صد بود ھ آبادی  نے لداخ کو مرکز کے زیر انتظا م علاقہ بنانے کا مطالبہ کیا تھا، مگر اس خطے میں آباد۴۰ء۴۶ فی صد مسلم آبادی نے اس کی شدید مخالفت کی۔ حیرت کا مقام ہے کہ جب دانش وَر حضرات اور میڈیا جس میں پاکستانی میڈیا بھی شامل ہے، بے خبری میں لداخ کو بودھ اکثریتی علاقہ تصور کرتے ہیں۔

 جموں و کشمیر بھی مرکز کے زیرانتظام ہوگا، جس میں اسمبلی تو ہوگی ،مگر وہ دہلی و پانڈیچری اسمبلی کی طرز پر ایک میونسپل کارپوریشن کی طرح کام کرے گی۔ تمام تر اختیارات مرکز کے نمایندے گورنر کے پاس ہوں گے۔ کشمیر ایڈمنسٹریٹو سروس کو معطل کر دیا گیا ہے۔ اور بیوروکریسی کا تعین مرکز حکومت کرے گا۔ معروف دانش ور مزمل جمیل کا کہنا ہے کہ: ’’کشمیر میں تاریخ کا پہیہ واپس ۱۸۴۶ء میں پہنچ گیا ہے، جب ’بیع نامہ امرتسر‘ کے بعد ڈوگرہ حکمران گلاب سنگھ نے سرینگر کی باگ ڈور سنبھالی‘‘۔ 
ریاست جموں و کشمیر کو تحلیل کرنے اور اس کو بھارتی یونین میں ضم کرنے کے حکم نامے کی سیاہی ابھی خشک بھی نہیں ہوئی تھی کہ حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی ( بی جے پی) کے لیڈروں بشمو ل ہریانہ صوبہ کے وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹرنے اعلان کیا: ’’بھارت کے کنوارے نوجوان اب کشمیر کی گوری لڑکیوں کے ساتھ شادیاں کرسکتے ہیں‘‘۔ اس طرح کے طنز آمیز آوارگی ، جنسی اور نسلی تعصب سے لتھڑے ہوئے جملے بھارت کے گلی کوچوں میں سنائی دے رہے ہیں۔ کئی ساہوکار اور بنیے تو فون پر گلمرگ اور سونہ مرگ کی وادیوںمیں زمینوں کے بھاؤ پوچھ رہے ہیں۔ 
۱۹۹۰ء کے عشرے کے شروع میں تعلیم اور روزگار کے لیے میں جب میں دہلی وارد ہوا،  تو ایک روز معلوم ہوا،کہ کانسٹی ٹیوشن کلب میں ہندو قوم پرستوں کی سرپرست تنظیم راشٹریہ سیویم  سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کی طلبہ تنظیم ’اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد‘ (ABVP) کی طرف سے کشمیر پر مذاکرہ ہو رہا ہے۔ بطور سامع میں بھی وہاں چلاگیا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک اعتدال پسند لیڈر ارون جیٹلی خطاب کر رہے تھے۔ وہ ان دنوں ابھی بڑے لیڈروں کی صف میں نہیں پہنچے تھے اور تب تک سپریم کورٹ کے زیرک وکیلوں میں ہی شمار کیے جاتے تھے۔ چونکہ وہ مقتدر ڈوگرہ کانگریسی لیڈر گردھاری لال ڈوگرہ کے داماد ہیں، اس لیے جموں و کشمیر کے ساتھ ان کا تعلق ہے۔ اپنے خطاب میں جیٹلی صاحب کا شکوہ تھا کہ: ’’پچھلے ۵۰برسوں میں مرکزی حکومتوں نے کشمیر میں غیر ریاستی باشندوں کو بسانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ اگر ہندستان کے دیگر علاقوں سے لوگوں کو کشمیر میں بسنے کی ترغیب دی گئی ہوتی، اور اس کی راہ میں قانونی اور آئینی پیچیدگیوں کو دُور کیا جاتا، تو کشمیر کا مسئلہ کبھی بھی سر نہیں اٹھاتا۔ اسی طرح کشمیریت اور کشمیری تشخص کو بڑھاوادینے سے کشمیری نفسیاتی طور پر اپنے آپ کو برتر اور الگ سمجھتے ہیں اور ہندستان میں ضم نہیں ہو پاتے ہیں‘‘۔ 

اسی طرح مجھے یاد ہے کہ کانگریسی رہنما من موہن سنگھ کی وزارتِ عظمیٰ کے دور میں ایک بار پارلیمنٹ میں کشمیر پر بحث ہو رہی تھی۔ تب بی جے پی نے اتر پردیش کے موجودہ وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کو بطور مقرر میدا ن میں اتارا تھا۔ تقریر ختم کرنے کے بعد وہ پارلیمنٹ کمپلیکس کے سینٹرل ہال میں آکر سوپ نوش کررہے تھے، کہ میں نے جاکر ان سے کہا کہ: ’’آپ نے بڑی دھواں دھار تقریر کرکے حکومت کے چھکے تو چھڑائے، مگر کوئی حل پیش نہیں کیا‘‘۔
یوگی جی نے مسکرا کر مجھے کہا کہ: ’’اگر میں حل پیش کرتا تو ایوان میں آگ لگ جاتی‘‘۔

 میں نے پوچھا کہ ’’ایسا کون سے حل ہے کہ جس سے دیگر اراکین پارلیمان بھڑک جاتے؟‘‘  

آدتیہ ناتھ یوگی نے فلسفیانہ انداز میں اسلام اور مسلمانوں کی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے نتیجہ اخذ کیا کہ :’’مسلمان جہاں بھی اکثریت میں ہوتے ہیں یا ان کی آبادی کچھ زیادہ ہوتی ہے، تو جہادی، جھگڑالو اور امن عامہ کے لیے خطرہ ہوتے ہیں‘‘۔ ایک طویل تقریر کے بعد یوگی جی نے فیصلہ صاد ر کر دیا کہ: ’’مسلمانو ں کی آبادی کو کسی بھی معاشرے میں ۵ فی صد سے زیادہ نہیں بڑھنے دینا چاہیے۔ اس لیے ہندستان اور دیگر تمام ممالک کو مسلمانوں کی آبادی کو کنٹرول کرنے کے طریقے ڈھونڈنے چاہیے۔ ا ن کو مختلف علاقوں میں بکھرا کر اور ان کی افزایش نسل پر پابندی لگاکر ہی دینا میں امن و امان قائم ہوسکتا ہے۔ بس یہی مسئلہ کشمیر کا حل ہے۔وہاں کی آبادی کو پورے ملک میں بکھیر کر وہاں بھاری تعداد میں ہندو آبادی کو بسایا جائے‘‘۔
آج ان دو واقعات کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ معلوم ہو کہ کس ذہنیت کے افراد بھارت کے تخت پر برا جمان ہیں۔بھارت میں اس وقت کی حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی جب سے وجود میں آئی ہے، وہ لگا تار تین نکاتی ایجنڈے پر انتخابات لڑتی آئی ہے:

بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر , یونیفارم سول کوڈ کا نفاذ اور کشمیر کی آئینی خصوصی حیثیت ختم کرنا۔ اگرچہ اس سے قبل    بی جے پی دوبار اقتدار میں رہی ہے، مگر اس نے عددی قوت کی کمی کے باعث ان تین ایشوز کو   عملی جامہ پہنانے سے گریز کیا۔ اب ۲۰۱۹ء میں اکثریت کے ساتھ اقتدار میں واپس آئی تو بی جے پی کے لیڈروں نے کہا کہ: ’’ہمارے کور ایجنڈے کو نافذ کرنے کا وقت آن پہنچا ہے‘‘۔ ۲۰۱۴ء میں جب کشمیر میں مقامی پیپلز ڈیموکریٹک فرنٹ اور بی جے پی کے اتحاد سے مفتی سعید کی حکومت بنی، تو کہا گیا تھا کہ: ’’بی جے پی آئین کی دفعہ ۳۷۰ کے تحت کشمیر کو دیے گئے خصوصی اختیارات کو موضوعِ بحث نہیں بنائے گی‘‘۔

اور پھر دفعہ ۳۷۰ کے ساتھ دفعہ ۳۵- اے کو نشانہ بنا دیا گیا۔ دفعہ ۳۵-اے کے تحت غیر ریاستی باشندوں کے نوکری حاصل کرنے، ووٹ دینے اور جایداد خریدنے پر پابندی عائد تھی۔ اس دفعہ کے ختم ہونے کے نتائج دفعہ ۳۷۰ کے خاتمے سے بھی زیادہ خطرناک ہوں گے۔
 مسلم دشمنی اور متعصب ذہنیت کے حامل افراد کوآئین کی اسی طرح کی اور شقیں نظر نہیں آتیں، جو بھارت کے دیگر علاقوں، یعنی ناگالینڈ، میزورام، سکم، اروناچل پردیش، آسام، منی پور، آندھرا پردیش اورگوا کو خاص اور منفرد حیثیت عطا کرتی ہیں۔ ان کے تحت وہاں بھی دیگر شہریوں کو غیر منقولہ جایدادیں خریدنے پر پابندی عائد ہے یا اس کے لیے خصوصی اجازت کی ضرورت ہوتی ہے۔

  • ایک پُراسرار کردار: ۳۷۰ اور ۳۵-اے کو دستور سے خارج کرنے کے موجودہ فیصلے سے قبل، آر ایس ایس نے ان دونوں دفعات کو الگ الگ ہائی کورٹوں میں چیلنج کیا تھا۔ بی جے پی کے جس عہدے دار نے جموں و کشمیر کے جموں بینچ کے سامنے دفعہ ۳۷۰کو چیلنج کیا تھا، وہ صاحب اس وقت گورنر جموں و کشمیر کے مشیر فاروق خان ہیں۔ موصوف نے پولیس سے ریٹائر ہونے کے بعد بی جے پی میں باقاعدہ شمولیت اختیار کی ہے۔ 

یاد رہے مارچ ۲۰۰۸ء میں جب امریکی صدر بل کلنٹن نے دہلی کی سرزمین پر قدم رکھا تو جنوبی کشمیر کے گائوں چھٹی سنگھ پورہ میں نامعلوم حملہ آوروں کے ہاتھوں ۳۶ سکھوں کا قتل عام ہوا تھا۔ فاروق خان ان دنوں پولیس کے اسپیشل آپریشنز گروپ میں ایس ایس پی تھے اور عمومی تاثر یہ تھا کہ  واردات کے ذمہ دار یہی صاحب ہیں۔ کلنٹن کی بھارت موجودگی کے دوران اعلان کر دیا کہ ’’اس قتل عام کے ذمے دار لشکر طیبہ کے چاروں حملہ آور مار دیے گئے ہیں‘‘۔ فاروق عبداللہ حکومت نے فاروق خان کو معطل کرکے جسٹس پانڈیان پر مشتمل عدالتی کمیشن کو سکھوں کے قتل کی تحقیقات کا حکم دیا۔مگر وہ اس بارے میں تو پوری طرح کام نہ کرسکے۔ تاہم جسٹس پانڈیان نے فاروق خان کو اُن چار افراد کے قتل کا حصہ دار بتایا، جنھیں ’دہشت گرد‘ قرار دے کر مار دیا گیا تھا۔مگر پانڈان کی ہدایت کے باوجود فاروق خان کو نہ تو الزام لگا کر قتل کیے جانے والے مقدمے میں ماخوذ کیا گیا، اور نہ سکھوں کے قتل عام کے ضمن میں تفتیش کی گئی۔۲۰۰۳ء میں مفتی سعید حکومت نے بھی ان کے خلاف چارہ جوئی کی کوشش کی، لیکن  جب ۲۰۰۸ء میں غلام نبی آزاد نے وزارتِ اعلیٰ سنبھالی، تو نئی دہلی کے حکم پر فاروق خان کو بحال کر دیا گیا۔ فاروق خان کے خلاف سکھوں میں آج بھی شدید ردعمل پایا جاتا ہے۔

دفعہ ۳۵- اے کا معاملہ

۱۹۴۷ء میں بھارت کی آزادی سے بہت پہلے کشمیرکے ہندوحکمران ہری سنگھ نے ایک  حکم نامے کے تحت: ’’شہریت اور غیرمنقولہ جایداد کی خرید کے علاوہ ریاستی حکومت میں ’غیرملکیوں‘ پر پابندی عائد کر دی تھی‘‘۔ ۲۰؍اپریل۱۹۲۷ء کے ایک نوٹیفیکیشن میں راجا ہری سنگھ نے ’ریاستی عوام‘ کی وضاحت کی تھی اور اسی قانون کو بعدازاں کشمیری اوربھارتی آئین میں شامل کر دیا گیا۔
کشمیری ہندو جنھیں ’پنڈت‘کہتے ہیں، یہ قانون ان کے احتجاج کے ردعمل میں منظور کیا گیا تھا۔ انھوں نے اس وقت ’کشمیر،کشمیریوں کا ہے‘کا نعرہ بلند کیا تھا، کیونکہ پنجابی مسلمان انتظامیہ میں رسوخ حاصل اور زمینیں خرید رہے تھے۔لیکن،ایک صدی گزرنے کے بعد کشمیری مسلمانوں کو وہی خدشات لاحق ہیں، جو۱۹۲۰ءکے عشرے میں ہندئووں کولاحق تھے۔۱۹۲۰ء ہی کے عشرے میں،ہندوؤںنے راجا ہری سنگھ کو اس قانون میں ایک اور دفعہ شامل کرنے پر زور دیا تھا کہ: ’’اگر ایک کشمیری خاتون،کسی غیرکشمیری سے شادی کرے تو وہ وراثت کے حق سے محروم ہو جائے گی‘‘۔ 
مؤرخ پنڈت پریم ناتھ بزاز نے اپنی کتاب Kashmir Saga (داستانِ کشمیر ) میں لکھا ہے:’’کشمیر کے اندر’غیرملکیوں کا داخلہ بند ہے‘ کا شوروغوغا بذات خود کشمیری پنڈتوں نے بلند کیا تھا۔مسلمانوں کی راے کی کوئی اہمیت نہیں تھی کیونکہ ہندوحکمران نے انھیںریاستی ملازمتوں سے بے دخل کر دیا تھا اور وہ اس قدرغریب تھے کہ اپنے ہی وطن میں زمین کا ٹکڑا بھی نہیںخرید سکتے تھے۔مسلمان اکثریت غربت میں ہولناک زندگی گزار رہی تھی۔ چیتھڑوں میں ملبوس،جن سے وہ بمشکل ہی اپنا بدن ڈھانپ سکتے تھے اور ننگے پائوں۔ ایک مسلم کسان کا حلیہ ،ریاستی خزانے کے بھرنے والے ایک فرد کے بجاے محض ایک فاقہ زدہ بھکاری ہی کا نظر آرہا تھا،جب کہ ہری سنگھ ہندونواز پالیسی کا علَم بردار تھا۔ جموں کے عوام، خاص طور پر راجپوت ہندووں نے زیادہ تر ملازمتیں حاصل کیں،جب کہ پنڈتوں کو پنجابیوں کی جگہ دفاتر میں کلرکوں کی حیثیت سے بھرتی کیاگیا۔ایک حکم نامے کے ذریعے پنجابیوں کی ہرسطح پر بھرتی روک دی گئی‘‘۔

پنڈت پریم ناتھ بزاز کا کہنا ہے کہ: ’’اس پورے قضیے میں کشمیر ی مسلمانوں کی کسی کو کوئی فکر نہیں تھی، اور نہ کوئی ان سے راے لی جاتی تھی، ملازمت کے دروازے کشمیری مسلمان پر بند تھے۔ انتہائی خستہ حال اور غریب کشمیری مسلمان زیادہ تر کاریگر یا زرعی مزدور تھے۔ سوسائٹی میں ہندو ہونا عزت و توقیر کی علامت تھی۔ مسلمان کوصرف اپنے مذہب کی بنیاد پر حقارت کی نظروں سے دیکھا جاتا تھا‘‘۔ جب ۳۵-اے کا یہ قانون بنایا گیا تھا، تو اس وقت کسی کو مسلم خواتین کے حقوق یاد نہیں تھے۔ ایک صدی بعد انھی کشمیری پنڈتوں نے اس قانون کو ہٹانے کا مطالبہ اس لیے کیا ہے کہ اب کشمیری مسلمان تعلیم یافتہ اور ترقی کی دوڑ میں ان کے ہم پلہ ہوگئے ہیں۔ یہ قانون جو ایک صدی قبل تک تو ٹھیک نظر آتا تھا ،مگر اب پنڈتوںکی آنکھوں میں کھٹکنے لگا‘‘۔ 
’بھارت کے تکثیری کلچر اور تنوع میں اتحاد‘ جیسے نعرے مہاتما گاندھی،پنڈت نہرو، اور   ان کے پیروکار، دنیا میںبھارت بیچا کرتے تھے۔ مرحوم شیخ محمد عبداللہ دفعہ ۳۷۰ کو کشمیری خواتین کے جسم پر موجود لباس سے تشبیہ دیتے تھے۔ ان کی نیشنل کانفرنس کا کشمیر میں مقبول انتخابی نعرہ ہوتا تھا :’’ازء ہوند عزت فضء ہوند عزت، ترہت ستت ترہت ستت‘‘ ۔ ازء اور فضء کشمیر میں خواتین کے مقبول نام ہیں۔ اس نعر ے کا مفہوم تھا کہ ’’خواتین کی عزت و آبرو ۳۷۰ میں ہے‘‘۔ شیخ عبداللہ صاحب سے تو میری ملاقات نہیں ہوسکی، تاہم ان کے فرزند اور سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ سے جب بھی مکالمہ ہوا تووہ آزادی پسند جماعتوں پر طنز یہ جملے کستے تھے کہ: ’’مسلم اکثریتی پاکستان میں ہم کشمیریوں کی انفرادیت کبھی کی ضم ہوگئی ہوتی، جب کہ بھارت کا جمہور ی اور آئینی تکثیری معاشرہ ہی ریاست جموں وکشمیر کی وحدت اور ہماری کشمیری انفرادیت کا ضامن ہے‘‘۔ ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کو امیت شا نے پارلیمان کے ایوان بالا، یعنی راجیہ سبھا میں صبح ۱۱بجے کشمیریوں کے تن بدن سے یہ زیرجامہ اُتار کر ان کو سر عام برہنہ کردیا ہے۔ ہزاروں کلومیٹر دُور مجھے لگ رہا تھا کہ جیسے بھرے بازار میں میر ی عزت بھی تار تار کر دی گئی ہو۔

دفعہ ۳۷۰، ممتاز قانون دان کی نظر میں

ممتاز قانون دان اور اُمورِ کشمیر پر گہری نظر رکھنے والے دانش ور جناب اے جی نورانی کے بقول: ’’آرٹیکل ۳۷۰ اگرچہ ایک عبوری انتظام تھا، کیوںکہ حکومت ہند کی ۶۰ کے عشرے تک یہ پالیسی تھی کہ جموں و کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ استصواب راے سے کیا جائے گا۔ ۱۹۴۸ء میں جموں و کشمیر پر حکومت کے وائٹ پیپر میں سردار پٹیل کا یہ بیان موجود ہے: الحاق کو تسلیم کرتے ہوئے حکومت ہند نے یہ واضح کر دیا ہے کہ وہ اسے بالکل عارضی مانتی ہے، جب تک کہ اس بارے میں ریاست کے لوگوں سے ان کی راے نہیں معلوم کی جائے گی‘‘۔
اے جی نورانی صاحب کے بقول:’’جن سنگھ کے بانی شیاما پرساد مکھرجی ’جن کا نام آرٹیکل ۳۷۰ کی مخالفت کرتے وقت بی جے پی اُچھالا کرتی ہے‘  انھوں نے اس کی مکمل حمایت کی تھی۔ بی جے پی اس وقت کے وزیر داخلہ سردار پٹیل کا نام بھی اس پروپیگنڈے کے لیے استعمال کرتی ہے کہ انھوں نے اس معاملے پر پنڈت جواہر لعل نہرو کی مخالفت کی تھی‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ پٹیل نے بھی آئین کی اس دفعہ کی مکمل تائید کی تھی۔ اس خلط مبحث کے برعکس کشمیر واحد ریاست تھی، جس نے الحاق کے لیے اپنی شرائط پر حکومت سے مذاکرات کیے تھے۔ وہ ہندستان میں  ضم نہیں ہوئی تھی بلکہ اس نے الحاق کیا تھا۔ اس لیے بھارتی حکومت اور ریاست کے مطابق آرٹیکل ۳۷۰ دونوں کے درمیان ایک مقدس معاہدہ ہے۔ جس کی کسی شق میں کوئی بھی فریق یک طرفہ ترمیم نہیں کر سکتا۔ تاہم، ’’این گوپال سوامی نے ۱۶؍اکتوبر ۱۹۴۹ء کو اس سلسلے میں پہلی’خلاف ورزی‘ کرتے ہوئے یک طرفہ طور پر مسودے میں تبدیلی کو پارلیمنٹ کی لابی میں حتمی شکل دی۔ جیسے ہی  شیخ عبداللہ اور مرزا افضل بیگ کو اس تبدیلی کا علم ہوا، وہ دونوں ایوان کی طرف دوڑے، لیکن تب تک یہ ترمیمی بل پاس ہو چکا تھا، جو افسوس ناک اعتماد شکنی اور بداعتمادی کا معاملہ تھا۔ اگر اصل مسودہ پاس کیا جاتا تو ۱۹۵۳ء میں شیخ عبداللہ کو اقتدار سے بے دخل کیا جانا ممکن نہ تھا‘‘۔

ترکی کی نیوز ایجنسی سے بات کرتے ہوئے اے جی نورانی کا کہنا ہے کہ: ’’سپریم کورٹ میں اس اقدام کو چیلنج کرنے کا کام شروع ہو چکا ہے۔ لیکن حکومتی فیصلے کی قانونی حیثیت کے متعلق فیصلہ کرنے کے لیے دورانیے اور وقت کے لحاظ سے بھارتی اعلیٰ عدلیہ کی رفتارِ کار کے مشکوک ہونے کا خطرہ موجود ہے۔ مودی حکومت نے بھارتی آئین کی دفعہ ۳۷۰کی تمام دفعات کو منسوخ کرتے ہوئے دنیا کو حیران وششدر کر دیا تھا جو جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت کاضامن ہونے کے علاوہ ہندواکثریت میں اس کی مسلم شناخت کی حفاظت کرنے کا تحفظ بھی کر رہا تھا۔ اس دفعہ کے تحت بھارت کے ساتھ خطے کے پیچیدہ تعلق کی بھی وضاحت کی گئی تھی۔ ان حالات میں اپنی اعتباریت اور شفافیت قائم رکھنے کی خاطر بادی النظر میں بھارتی سپریم کورٹ پر لازم ہے کہ اس فیصلے کو کالعدم قرار دے ‘‘۔
نورانی کے خیال کے مطابق: ’’ان دفعات کی منسوخی نے کشمیری آبادی کی بقا کے لیے خطرات پیدا کر دیے ہیں۔ دفعہ ۳۷۰کو منسوخ کرنے کابھارتی اختیار تو ۱۹۵۶ء میں کشمیر کی آئین سازاسمبلی کی تحلیل کے بعد ختم ہو گیا تھا۔خصوصی حالات میں دفعہ۳۷۰ سے مرادجموں وکشمیر کی شناخت کا اظہار تھا کہ جس میں اس کے بھارت سے الحاق کا دعویٰ کیا گیا تھا۔  اس دفعہ کو منسوخ کرنے کے ذریعے ہندوقوم پرست حکومت کا مقصد یہ نہیں کہ کشمیر کو بھارت کے ساتھ متحدکیا جائے بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ کشمیری عوام کی شناخت ختم کی جائے‘‘۔
نورانی نے کہا: ’’قانونی لحاظ سے بھارتی پارلیمان کو یہ دفعہ منسوخ کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں تھا۔ اس مقصد کی خاطرریاست جموںوکشمیر کی آئین سازاسمبلی کی منظوری ضروری تھی۔ریاستی حکومت کی طرف سے کوئی بھی منظوری ہمیشہ سے منتخب اسمبلی کی حتمی منظوری سے مشروط رہی ہے۔ جب ریاست گورنر یا صدر راج کے تحت ہو،کوئی بھی یہ رضامندی نہیں دے سکتا۔ اس لیے مرکزی حکومت اپنے کٹھ پتلی نامزدفرد کے ذریعے یہ منظوری حاصل نہیں کر سکتی اور زمینی حقائق یہ ہیں کہ اس وقت جموں و کشمیر پر صدر راج نافذ ہے۔ حالانکہ بھارتی آئین نے از خود یہ وضاحت کر دی ہے کہ ریاستی حکومت سے مراد ریاست میں وزرا کی ایک کونسل ہے۔اور اس وقت تو کشمیرکے وزیراعلیٰ کی سربراہی میں وزرا کی کسی بھی قسم کی کوئی کونسل بھی موجودنہیں‘‘۔
نورانی صاحب نے مزید بتایا: ’’کشمیر کی موجودہ صورت ِ حال پر سری لنکا کی سپریم کورٹ کے نومبر ۲۰۱۲ء کے فیصلے کا اطلاق ہوتا ہے، جس میں سری لنکا حکومت کا یہ فیصلہ مسترد کر دیاتھا، جسے صوبائی کونسل کی توثیق حاصل نہیں تھی۔ اُس وقت دو درخواستوں کے ذریعے Divineguma Bill کو سری لنکا سپریم کورٹ کے روبرو چیلنج کیا گیا تھا کہ شمالی سری لنکا میں کسی صوبائی کونسل کی غیرموجودگی میں،گورنر نے شمالی صوبے کی طرف سے قانون کی توثیق کی تھی۔ یہ درخواستیں ’تامل نیشنل الائنس‘ نے کی تھیں۔ یکم نومبر کو سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ گورنر، صوبائی کونسل کی جگہ اس قانون کی توثیق نہیں کر سکتا‘‘۔

اے جی نورانی کہتے ہیں کہ:’’ آئین کی دفعہ ۲۴۹ کے تحت جاری کردہ ’صدارتی حکم نامہ‘ جس کا اطلاق کشمیر پر بھی کیا گیا، اس کا تعلق ریاست کی فہرست سے تھا اور مرکز کے مقرر کردہ گورنر نے اس کی توثیق کی تھی۔ یہ چالاکی لا سکریٹری کی مخالفت اور ریاستی کابینہ کی عدم موجودگی میں انجام دی گئی تھی۔۱۹۵۱ء میں کشمیر اسمبلی کے بدترین دھاندلی زدہ انتخابات کے انعقاد سے کشمیر میں بھارت کے جمہوری دعووں کی قلعی کھل گئی۔ انتخابی دھاندلیوں کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے گئے۔ تمام امیدوار ’بلامقابلہ‘منتخب قرار پائے۔ یہ وہی اسمبلی تھی، جس نے ریاست کا دستور وضع کیا اور الحاق کے دستاویز کی ’توثیق‘ کی تھی۔ یہ اسمبلی ریاست کی مستقبل گری اور اس کی حیثیت طے کرنے کے سلسلے میں دستور ساز اسمبلی کا درجہ رکھتی تھی۔ کشمیر کی اس آئین ساز اسمبلی کی حقیقت اور حیثیت کی قلعی خود اس وقت کے انٹیلی جنس سربراہ بی این ملک نے یہ کہہ کر کھول دی:’’ان امیدواروں کے کاغذات نامزدگی کو مسترد کر دیا گیا، جو حزب مخالف کا کردار ادا کرنے کی اہلیت رکھتے تھے‘‘۔ اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ الحاق کی مبینہ دستاویز کی توثیق اور کشمیر کے آئین کی منظوری کو کوئی عوامی تائید حاصل نہیں تھی‘‘۔
یاد رہے امیت شا ایک اور منصوبے پر بھی کام کررہے ہیں۔اس کے تحت غالباً نومبر، دسمبر میں کشمیر میں ہونے والے براے نام اسمبلی کے لیے انتخابات میں ہندو اکثریتی خطے جموں کی تمام نشستوں پر بی جے پی کے امیدواروں کو کامیاب بنانا ہے، اور ساتھ ہی وادیِ کشمیر کی مطلوب نشستوں کی بھی نشان دہی کی گئی ہے، جن پر جموں اور دہلی میں مقیم کشمیری پنڈتوں کے ووٹوں کی رجسٹریشن کا کام سرعت سے جاری ہے، تاکہ ان کے پوسٹل بیلٹوں کے ذریعے ان علاقوں میں بھی بی جے پی کے امیدواروں کی کامیابی یقینی بنائی جائے۔ اس حکمت عملی کا مقصد ریاست میں مسلمان ووٹوں کو بے اثرکرناہے۔کشمیر اسمبلی کی اب ۸۲ نشستیں رہ گئی ہیں۔ امیت شا نے پارلیمنٹ میں بل پیش کرتے وقت بتایا ہے کہ: ’’اسمبلی حلقوں کی از سر نو حد بندی ہوگی‘‘۔فی الحال ۳۷ نشستیں جموں، ۴۵ نشستیں وادی کشمیر خطے سے ہیں۔ کشمیر اسمبلی میں ۲۴مزید نشستیں آزاد کشمیر و گلگت کے لیے مختص رکھی گئی ہیں، جو خالی رہیں گی۔ ان میں سے آٹھ نشستیں پاکستان سے ۱۹۴۷ء، ۱۹۶۵ء اور ۱۹۷۱ء میں آئے ہندو پناہ گزینوں کے لیے وقف کی جائیں گی، تاکہ اسمبلی میں ان کی نمایندگی ہو اور ہندو ممبرا ن کی تعداد میں بھی اضافہ ہو۔
کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت حکمران ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈران کی نظروں میں برسوں سے کھٹک رہی تھی۔ اس پارٹی نے صوبوں و مرکز کے اختیارات کے تعین کرنے والے سرکاری کمیشن کے سامنے صوبوں کو انتہائی حساس سکیورٹی کے علاوہ بقیہ سبھی اختیارات تفویض کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ حال ہی میں جنیوا میں بھارت کے سفیر نے سر ی لنکا کو مشورہ دیا تھا کہ: ’’وہ اپنے آئین کی ۱۳ویں ترمیم کو جلد از جلد لاگو کرکے شمالی سری لنکا میں مقیم تامل ہندو اکثریت کو تحفظ اور پاور فراہم کرے‘‘۔یعنی اورں کو نصیحت ، خود میاں فضیحت ۔ کشمیر چونکہ مسلم اکثریتی خطہ ہے، اس لیے بھارتی حکمرانوں کے نزدیک انسانی حقوق وہاں لاگو نہیں ہوتے۔ 

چین سے بھارتی سفارت کاری

چین کے عالمی امور میں رویے اور بین الاقوامی میڈیا کی کوریج کی وجہ سے، اپنی تمام تر معاشی قوت کے باوجود سفارتی محاذ پر بھارت ایک طرح سے دبی دبی پوزیشن پر چلا گیا ہے۔ اس لیے اب بھارت کی کوشش ہے کہ ستمبر۲۰۱۹ء میں سرحدی تنازعے پر ہونے والے مذاکرات میں، چین کو کوئی بھاری پیش کش کرے۔ سرحدی تنازعے سے متعلق دونوں ممالک کے خصوصی نمایندوں اجیت دوبال اور چینی وزیر خارجہ وانگ ہی کے درمیان اس ملاقات میں، بھارت ، چین کو بتاسکتا ہے کہ: ’’ریاست جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت دینے والی دفعہ ۳۷۰کی وجہ سے ہی وہ لداخ خطے میں چین کے ساتھ سرحدی تنازعے کو سلجھا نہیں پارہا تھا ۔ جموں و کشمیر کی اس خصوصی حیثیت کے ختم ہونے کے بعد اب چونکہ بھارتی آئین کی سبھی دفعات کا اطلاق جموں و کشمیر پر ہوتا ہے، نیز لداخ اب براہِ راست نئی دہلی کے زیر انتظام آگیا ہے، اس لیے اب چین کے ساتھ سرحدی تنازعات کو سلجھانا بھارت کے لیے آسان ہو گیا ہے‘‘۔
 چین کے سابق خصوصی نمایندے دائی بینگو نے ایک عشرہ قبل تجویز پیش کی تھی:’’ بھارت اگر لداخ کے علاقے میں ’اکسائی چن‘ کے دعوے سے دست بردار ہوجائے، تو چین بھی مشرقی بھارت میں اروناچل پردیش پر اپنا دعویٰ واپس لے سکتا ہے‘‘۔ اس کے علاوہ بھارت، گلگت اور ’سی پیک‘ کے حوالے سے اپنے اعتراضات کو بھی ختم کرنے پر تیار ہوسکتا ہے، تاکہ اس تجارتی راستے کو چین بھارت تجارت کے لیے برتا جاسکے۔ اگر ایسا ہوجاتا ہے اور چین، کشمیر کے حوالے سے اپنے موقف کو لچک دار بناکر بھارت سے مادی مفادات کو دو تین گنا بڑھا لیتا ہے، تو پھر اس بات کا امکان بھی موجود ہے کہ پاکستان سے چینی تعلقات کا وہ بلند مقام متاثر ہو، جو گذشتہ ۶۰برسوں سے بلند معیار پر چلا آرہا ہے۔ اس لیے پاکستان کو سفارت کاری کے میدان میں بڑی محنت اور حددرجہ ہوشیاری سے کام لینا ہوگا، جب کہ بھارت پہلے ہی مسلم دنیا میں سفارتی اور مضبوط معاشی پیش رفت کرچکا ہے۔

کشمیر کا مستقبل

آج کشمیر ی قوم کا تشخص اور اس کی انفرادیت پامال ہو چکی ہے۔ امن عالم کے دعوے دار ایک طرف افغانستان میں امن قائم کرنے کے لیے کوشاں ہیں، دوسر ی طرف خطے میں افغانستان سے زیادہ خطرناک ماحول پروان چڑھایا جا رہا ہے۔ اپنی اصل کے اعتبار سے، بھارتی حکومت کی طرف سے اٹھایا گیا یہ قدم ، فلسطین میں اسرائیلی جارحانہ کارروائیوں سے بھی کہیں زیادہ سنگین ترین ہے۔ پوری دنیا میں یہودی ایک کروڑ سے زیادہ نہیں ہیں۔ اس سے آدھے ہی اسرائیل میں رہتے ہیں۔ وہ اگر چاہیں تو بھی عرب ممالک یا پورے فلسطین کاآبادیاتی تناسب بگاڑنہیں سکتے۔  
ان کے برعکس کشمیر میں تو مقامی مسلمانوں کا مقابلہ ایک ارب ۱۰ کروڑ بھارتی غیرمسلموں کی آبادی کے ساتھ ہے، جو چند ماہ میں ہی خطے کا آبادیاتی تناسب بگاڑ کر کشمیری عوام کو اپنے ہی گھروں میں اجنبی بنا دیں گے۔ سابق بھارتی فوجیوں اور ریٹائرڈ بیوروکریٹوں اور ان کے اہل خانہ کو کشمیر میں بسانے کی مہم تو پہلے سے ہی جاری ہے۔ وزیر اعظم مودی نے ایک دلیل یہ بھی دی، کہ: ’’بیرون ریاست بیورکریٹ کشمیر جانے سے کتراتے ہیں، کیونکہ و ہ اور ان کے اہل خانہ وہاں زمین نہیں خرید سکتے ہیں‘‘۔ جب بھارت، برطانوی سامراجی تسلط سے آزادی مانگ رہا تھا، تو ایک بار برطانوی وزیراعظم ونسٹن چرچل نے کانگریسی لیڈروں کو مخاطب کرکے کہا:’’ تم کو آزادی اس لیے چاہیے کہ دبے کچلے طبقوں اور مظلوموں پر حکومت کرکے ان کو دبادو‘‘۔
کشمیر ایک شدید صدمے سے دوچار ہے، اور ابھی شاید ویسے ردعمل کا اظہار نہیں کرپائے گا، جس کی بظاہر توقع کی جارہی ہے۔ یہ ایک پُرفریب آتش فشاں کی سی خاموشی ہے۔ ۱۹۸۷ء کے انتخابی دھاندلی زدہ انتخابات کا بدلہ کشمیریوں نے ۱۹۸۹ء میں چکایا۔ کشمیر میں نئے مزاحمتی کلچر کا آغاز تو ہوچکا ہے، جس میں فکری مزاحمت کا مرکز مظلومیت کے بجاے تخلیقی سطح پریادوں کو اُجاگر کرکے باوقار طور پر اُبھرنے کی صلاحیت حاصل کرنا ہے۔
بھارتی آئین کی دفعہ ۳۷۰  اور دفعہ ۳۵-اے کے خاتمے کے ساتھ بظاہر کاغذوں میں ریاست جموں و کشمیر تحلیل ہو گئی ہے، مگر قانونِ قدرت تحلیل نہیں ہوسکتا۔ تاریخ کا پہیہ ساکت نہیں رہتا، یہ گھومتا ہے اور اس قوم کے لیے خاصا بے رحم ثابت ہوتا ہے ، جو اکثریت اور طاقت کے بل بوتے پر کمزور اور ناتواں کی زندگیاں اجیرن بنادے۔ ۱۹۸۴ء میں تہاڑ جیل میں پھانسی سے قبل مقبول بٹ نے کہا تھا کہ: ’’میری بے بسی پر مت مسکرائو ، تم اپنی خیر منائو ، کہ ظلم کی سیاہ رات جاتی ہے‘‘۔ اور صرف چھے سال بعد ۱۹۸۹ء میں کشمیر نے کروٹ لی اور ایک نئے دور کا آغاز ہو گیا!

قائداعظم محمد علی جناح کے سوانح نگار اسٹینلے والپرٹ وہ واحد مؤرخ ہیں جنھوں نے چندجملوں میں قائد کی شخصیت اور کردار کو سمو دیا۔ لکھتے ہیں:’’دنیا میں چند ہی لوگ ہوتے ہیں جو تاریخ کا رخ پلٹتے ہیں۔ ان سے کہیں کم دنیا کا نقشہ تبدیل کرتے ہیں۔ اور شاید ہی کسی نے ایک قومی ریاست تشکیل دی ہو۔ محمد علی جناح نے یہ تینوں کام کیے‘‘ ۔والپرٹ نے گویا دریا کو کوزے میں بند کردیا۔

ریاست جموں وکشمیر کے ساتھ قائداعظم کے قلبی تعلق کا آغاز تحریک پاکستان کی صورت گری سے قبل شروع ہوتاہے۔ جموں و کشمیر کی تاریخ پر اتھارٹی، جسٹس یوسف صراف لکھتے ہیں کہ   محمدعلی جناح غالباً ۱۹۲۶ء اور۱۹۲۸ء کے عرصے میںراولپنڈی کے راستے سری نگر تشریف لے گئے۔ ان کی اہلیہ محترمہ بھی ان کے ہمراہ تھیں۔ دورانِ سفر قائدا عظم نے اپنی گاڑی خود چلائی اور کشمیر کی پُربہار فضاؤں نے انھیں اپنے حصار میں لے لیا۔ اس سفر کی رُوداد تاریخ میں کہیں گم ہوگئی۔

۱۹۳۶ءمیں قائداعظم اگرچہ سری نگر سیر وسیاحت ہی کی غرض سے آئے، لیکن شیخ محمدعبداللہ کے اصرار پر ہائی کورٹ میں ایک مقدمے کے سلسلے میں پیش ہوئے۔ انھوں نے پہلی پیشی پر ہی مقدمہ جیت لیا۔صدیوں سے پسے ہوئے کشمیریوں نے ان کی شخصیت میں ایک عظیم رہنما کی جھلک دیکھی، جس نے چند برسوں بعد اس خطے کا سب سے بڑا لیڈر ہونا تھا۔اسی دورے میںمسلم کانفرنس کی دعوت پر قائداعظم نے سری نگر کی پتھرمسجد میں جلسۂ میلاد کی صدارت بھی کی۔ چودھری غلام عباس ان دنوں مسلم کانفرنس کے صدر تھے۔ انھوں نے اپنے خطاب میں قائداعظم کی شخصیت اور مسلمانوں کے لیے ان کی دلیرانہ جدوجہد کاتفصیل سے ذکر کیا۔

قائداعظم نے اپنے خطاب میں فرمایا: ’’مجھے جموں و کشمیر کے عوام کی بیداری دیکھ کر خوشی ہورہی ہے۔ ایک آزادی پسند جو اپنے عوام کی آزادی کے لیے ۲۴گھنٹے جدوجہد کرتا ہے، لازمی طور پر آپ کی کاوشوں کا خیرمقدم کرے گا۔ میں آپ کی تحریک کی مکمل حمایت کا یقین دلاتا ہوں‘‘۔

 شیخ عبداللہ کے انڈین نیشنل کانگریس سے تال میل کی انھیں خبر تھی۔چنانچہ انھوں نے ’مسلم کانفرنس‘ کو ہدایت کی کہ وہ اقلیتوں کو ساتھ لے کر چلے۔ شیخ عبداللہ جموں و کشمیر میں ایک مقبول لیڈر تھے، مگر ان کی راہیں مسلم دھارے سے جدا ہورہی تھیں۔وہ کانگریس کے جال میں پھنس چکے تھے۔ قائداعظم نے مسلم کانفرنس اور چودھری غلام عباس کی بھرپور تائید شروع کی۔ اسی دوران میں ہندستان میں جاری سیاسی اور نظریاتی کش مکش، سرزمین کشمیر پر بھی منتقل ہو ئی، جو آج تک برپا ہے۔

۱۹۴۴ء میں چودھری غلام عباس نے قائداعظم سے دہلی میں طویل ملاقات کی۔ قائداعظم نے انھیں بھرپور تعاون کا یقین دلایا۔چودھری غلام عباس مرحوم اپنی کتاب کشمکش میں لکھتے ہیں: اس ملاقات سے [مسلم] لیگ اور مسلم کانفرنس کے درمیان، بالخصوص حضرت قائداعظم اور میرے مابین جو اخلاقی اور روحانی رشتہ قائم ہو ا،اس سے ہمارے ارادے اور حوصلے زیادہ مضبوط ہو ئے۔

قائداعظم تیسری اور آخری مرتبہ۱۹۴۴ء میں نیشنل کانفرنس اورمسلم کانفرنس کی مشترکہ دعوت پر جموں کے راستے سری نگر کے لیے روانہ ہوئے۔ سوچیت گڑھ سے جموں تک ۱۸کلو میڑ کا فاصلہ انھوں نے کھلی کار میں طے کیا۔چودھری غلام عباس ان کے بائیں جانب بیٹھے تھے۔ چودھری غلام عباس نے اپنی کتاب کشمکش میں اس دن کو یاد کرتے ہوئے لکھا :

جلوس کے راستوں کو اس آب وتاب ،سج دھج اوراہتمام سے آراستہ کیاگیا تھا کہ ایسی تیاری مہاراجا ہری سنگھ اور اس کے باپ داداؤں کی رسم تاج پوشی پر بھی نہ کی گئی ہوگی۔استقبال سے قائداعظم بہت مسرور نظر آتے تھے۔ ان پر اس قدر گل پاشی کی گئی کہ قائداعظم بھی جو عمومی طور پر اپنے جذبات چھپا کررکھتے تھے نے کہا: یہ سب جنت سے کم نہیں۔

اگلے روز ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے کہا: ہندستان کے۱۰ کروڑ مسلمان جموں وکشمیر کے لوگوں کو تنہا نہیں چھوڑیں گے۔وہ آپ کی خوشی اور غمی میں شریک ہیں۔

شیخ عبداللہ کی نیشنل کانفرنس نے قائداعظم کے اعزاز میں سری نگر کے پرتاب پارک میں ایک عظیم الشان جلسۂ عام کا اہتمام کیا۔ایک لاکھ سے زائد لوگ قائداعظم کی ایک جھلک دیکھنے کو بے تاب تھے۔ انجانی خوشی قائداعظم کے چہرے سے عیاں تھی۔ انھوں نے کہا کہ آپ نے میرا ایسا استقبال کیا کہ بادشاہ بھی اس پر فخر کرسکتاہے۔ اپنا مدعا بیان کرنے سے قائداعظم کہاں چونکتے تھے۔ کہا :یہ میرا نہیں بلکہ مسلم لیگ کے صدر کا استقبال ہے۔

سری نگر میں قیام کے دوران شیخ عبداللہ کو اپنے ڈھب پر لانے کی انھوں نے بہت کوشش کی۔وہ نہیں چاہتے تھے کہ مسلمان تقسیم ہوں یا کانگریس کے جال میں پھنسیں۔افسوس! شیخ عبداللہ اور چودھری غلام عباس کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کی کوششیں کامیاب نہ ہوسکیں۔

شیخ عبداللہ پر بھارتی قوم پرستی کا بھوت سوارہوچکا تھا۔ چنانچہ قائداعظم نے اپنا وزن مسلم کانفرنس کے پلڑے میں ڈال دیا۔نتیجہ یہ کہ شیخ عبداللہ، قائداعظم کے خلاف سرعام گفتگو کرنے لگے اور پنڈت نہرو کے ساتھ دوستی کا راگ الاپنے لگے۔ سری نگر میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے فرمایا:’’میں چودھری غلام عباس اور مسلمانان ریاست کو یقین دلاتا ہوں کہ مسلم لیگ اور ہندستان کے مسلمان ان کی مدد کے لیے ہر وقت تیار رہیں گے‘‘۔ ان الفاظ سے قائداعظم کی کشمیریوں سے محبت کا اندازہ کیا جاسکتاہے۔

قیامِ پاکستان کے بعد قائداعظم کو کہیں زیادہ سنگین مسائل کا سامنا تھا ۔مہاجرین کا ایک سیلاب امڈ آیاتھا۔وائسرائے ہندمائونٹ بیٹن کو قائداعظم نے مشترکہ گورنر جنرل تسلیم نہ کیا تو وہ دشمنی پر اتر آیا۔ گورداس پور ضلع بھارت کے حوالے کر کے بھارت کو ریاست جموں وکشمیر تک زمینی راستہ فراہم کردیا گیا۔ اسلحہ، گولہ بارود اور فوج کی تقسیم اور تنظیم نو جیسے مشکل مسائل درپیش تھے۔ افغانستان کے حکمران پختونستان اور پٹھانستان کے نام پر صوبہ سرحد اور قبائلی علاقہ جات میں عدم استحکام پیدا کررہے تھے۔ان مشکلات کے باوجود قائداعظم کی نظروںسے کشمیراوجھل نہ ہوا۔ وہ مسلسل کوشش کرتے رہے کہ اس مسئلے کا کوئی پُرامن حل نکل آئے۔

ممتاز مؤرخ رشید تاثیر لکھتے ہیں کہ قیام پاکستان کے معاً بعد قائد اعظم کے ملٹری سیکرٹری نے مہاراجا ہری سنگھ کو تین خط لکھے کہ وہ ڈاکٹروں کے مشورے پر سری نگر میں کچھ وقت گزارنا چاہتے ہیں۔ مہاراجا بھانپ گیا کہ قائداعظم مسلم رہنماؤں پرپاکستان میں شامل ہونے کے لیے دباؤ ڈالیں گے۔ لہٰذااس نے بہانہ بنایا کہ وہ ان کے شایان شان ضروری انتظامات نہیں کرسکیں گے۔

 اکتوبر ۱۹۴۷ء کے آغاز میں قائداعظم کے پرائیویٹ سیکرٹری کے ایچ خورشید کو مہاراجا کے اصل ارادوں کا پتا لگانے اور نیشنل کانفرنس کے رہنماؤں کو پاکستان کی طرف مائل کرنے کے لیے سری نگر بھیجا گیا۔ کے ایچ خورشید نے گرفتاری سے قبل تقریباً چار ہفتوں تک متعدد سیاسی ملاقاتیں کیں۔ انھوں نے سری نگر سے ایک ٹیلی گرام کے ذریعے قائداعظم کو آگاہ کیا کہ ’’مہاراجا پاکستان سے الحاق کے خلاف ہے۔ کشمیر ی مسلمانوں کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہیں‘‘۔ اور انھوں نے تجویزدی: ’’پاکستان کو جنگ کے بار ے میں سوچنا چاہیے۔ پاکستان کو ہر طرح کے حالات کے لیے تیار رہنا ہوگا‘‘۔

کے ایچ خورشید کو جموں و کشمیر پولیس نے گرفتار کرلیا۔ ۱۳ ماہ کی طویل جیل کے بعد وہ قیدیوں کے تبادلے میں کراچی پہنچے۔ اس وقت تک گورنر جنرل قائد اعظم محمد علی جناح انتقال کرچکے تھے۔ قائداعظم کی زندگی میں گورنر جنرل ہاؤس میںکےایچ خورشید کی اسامی خالی رہی مگر ان کا دل ایسے گورنر جنرل ہاؤس میں نہ لگا، جہاں محمد علی جناح کے قدموں کی چاپ سنائی دے اور نہ ان کے سگار کا دھواں اٹھے۔ انھوں نے اپنا بوریا بستر اٹھایا اور لاہور سدھار گئے ۔

ستمبر۱۹۴۷ء کے آخر میں شیخ عبداللہ کو پراسرار طور پرجیل سے رہاکردیا گیا۔ آخری کوشش کے طور پر ایک تین رکنی اعلیٰ سطحی وفد حکومت پاکستان کی رضامندی کے ساتھ سری نگر روانہ کیا گیا، تاکہ شیخ عبداللہ کو ہندستان کے بجائے پاکستان میں شامل ہونے پر راضی کرسکے۔    میاں افتخار الدین، ڈاکٹر محمد دین تاثیر اور اس وقت کے ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان کے منیجر     ملک تاج الدین اکتوبر کے پہلے ہفتے میں سری نگر پہنچے۔ شیخ عبداللہ نے اپنی سوانح عمری آتش چنار میں ڈاکٹر تاثیر کہ جنھیں پاکستان میں لوگ ایم ڈی تاثیر کہتے ہیں (جو سلمان تاثیر کے والد تھے) کے ساتھ تبادلۂ خیال کا تفصیلی ذکر کیا ہے۔ قائداعظم چاہتے تھے کہ مسلم لیگ اور نیشنل کانفرنس کے مابین تعلقات کار کو اَزسر نواستوارکیا جائے اور ماضی کی کشیدگی کو دفن کردیا جائے۔ ان مذاکرات میں   شیخ عبداللہ دوٹوک موقف اختیار کرنے سے انکاری تھے۔ غالباً پاکستان کی اعلیٰ قیادت سے وہ ٹھوس یقین دہانی چاہتے تھے۔تاثیر اوران کے درمیان طے پایا کہ فی الحال شیخ عبداللہ کے معتمد خاص خواجہ غلام محمد صادق حکومت پاکستان سے مذاکرات کریں۔ بعدازاں شیخ عبداللہ خود قائداعظم سے ملاقات کے لیے لاہور آئیں گے۔ مگر پاکستان سے بات چیت کے نتائج کا انتظار کیے بغیر شیخ عبداللہ اچانک دہلی چلے گئے۔ ہوائی اڈے پر وزیراعظم پنڈت نہرو نے ان کا پرتپاک استقبال کیا اور شیخ عبداللہ کو گارڈ آف آنر پیش کیا گیا۔وہ وزیراعظم کے خاص مہمان کے طور پر  دہلی میںٹھیرائے گئے، جہاں انھوں نے بھارت سے الحاق کے طریق کار کو حتمی شکل دینا تھی اور پاکستان کواندھیرے میں رکھ کر بھارت کے ساتھ مستقبل وابستہ کرنے کا اعلان کرنا تھا۔پاکستان ان کے عزائم اور چالوں کو بھانپ چکاتھا۔ چنانچہ لاہور میں غلام محمد صادق کو کسی نے گھا س نہ ڈالی۔

چودھری محمد علی [م:۲دسمبر ۱۹۸۲ء] جو ۱۹۴۷ء میں قیام پاکستان کے بعد پہلے وزیر خزانہ مقرر ہوئے، اپنی شہرۂ آفاق کتاب The Emergence of Pakistan  میں لکھتے ہیں: حکومت پاکستان نے اپنے سیکرٹری خارجہ کو ۱۵؍اکتوبر کوسری نگر بھیجا تاکہ جموں وکشمیر کی حکومت کے ساتھ متنازعہ مسائل پر بات چیت کی جاسکے۔ لیکن مہاراجا ہری سنگھ کے وزیر اعظم نے ان سے ملنے سے انکار کردیا۔ کشمیر کے مستقبل کو پُرامن طور پر طے کرنے کی غالباً یہ آخری سیاسی کوشش تھی، جسے ضائع کردیا گیا۔

 بھارت کے دارالحکومت دہلی میں مائونٹ بیٹن، پنڈٹ نہرو اور شیخ عبداللہ کشمیر کے مستقبل کے تانے بانے بن رہے تھے۔ وہ قدم بہ قدم ایک ایسا فیصلہ کرنے کی جانب گامزن تھے، جسے عوامی تائید حاصل نہ تھی ۔ ان تین بڑے سیاستدانوں نے بالآخر تقسیم ہند کے فارمولے، جغرافیائی حقائق اور مقامی آبادی کی خواہشات کو پس پشت ڈالتے ہوئے ریاست جموں وکشمیر کا بھارت سے الحاق کا فیصلہ کرکے برصغیر کے امن اور خوش حالی کو یرغمال بنادیا۔

۲۷؍اکتوبر کو اطلاع ملی کہ مہاراجا ہری سنگھ نے بھارت سے الحاق کی دستاویز پر دستخط کردیئے ہیں اور بھارتی فوجی دستے سری نگر کے ہوائی اڈے پر اتررہے ہیں۔ قائداعظم نے پاکستانی فوج کے قائم مقام کمانڈر انچیف جنرل سرڈوگلس گریسی کو ٹیلی فون پر حکم دیا کہ وہ فوری طور پر کشمیریوں کی مدد کے لیے فوج روانہ کریں۔گریسی قائداعظم کا حکم مانتے تو اگلے چند گھنٹوں بعد پاکستانی فوج سری نگر راولپنڈی روڈ کے ذریعے بانہال پاس کاٹ چکی ہوتی اور سری نگر کے ہوائی اڈے پر قبضہ کرلیتی۔ یوں بھارتی فورسز کا کم ازکم وادی کشمیر میں جماؤ کا راستہ مسدود ہوجاتا۔

 جنرل گریسی نے بہانہ بنایا کہ وہ بھارت اور پاکستان کی مسلح افواج کے مشترک کمانڈر انچیف سپریم کمانڈر فیلڈ مارشل سرکلاڈے آکن لیک کی اجازت کے بغیرکشمیر میں فوج نہیں بھیج سکتا۔  ٹھیک چھے ماہ بعد اسی جنرل گریسی نے قائداعظم کو سفارش کی کہ وہ کشمیر میں پاکستانی فوج داخل کرنے کا حکم دیں، اور مئی ۱۹۴۸ء میں پاکستانی فورسز نے کشمیر کے دفاع کی ذمہ دار ی سنبھالی۔

چودھری غلام عباس کے سوانح نگار بشیر احمد قریشی لکھتے ہیں: چودھری غلام عباس جیل سے رہا ہوکر پاکستان پہنچے توقائداعظم سے ملاقات کے لیے کراچی تشریف لے گئے۔ گورنر جنرل ہاؤس پہنچے تو قائد اعظم محمد علی جناح نے گیٹ پر آ کر خود اُن کا استقبال کیا۔ 

شیخ عبداللہ کے فرزند ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے گذشتہ برس ۵؍ اگست ۲۰۱۹ء کے بعد کئی بار قائداعظم کو یاد کیا اور کہا کہ وہ سچے اور صاحب ِبصیرت رہبر تھے، جو جانتے تھے کہ ہمارا مستقبل ہندستان میں محفوظ نہیں۔آج فاروق عبداللہ دکھی ہیں اور قائداعظم کی باتیں انھیں یاد آتی ہیں۔

فاروق عبداللہ کی اس نوحہ گری پر ۱۰-اورنگ زیب روڑ دہلی میں قائداعظم کی شیخ عبداللہ سے گفتگو یاد آتی ہے، جسے انھوں نے اپنی خود نوشت آتشِ چنار میں درج کیا ہے:  میں نے   جناح صاحب کو متحدہ قومیت کے حق میں دلائل دیے۔ وہ بے تابی سے میری باتیں سنتے رہے۔ اُن کے چہرے کے اتار چڑھائو سے لگتا تھا کہ وہ ان باتوں سے خوش نہیں، لیکن حق یہ ہے کہ انھوں نے  کمال صبر سے میری ساری گفتگو سنی اورآخر میں ایک مردِ بزرگ کی طرح فہمایش کے انداز میں کہنے لگے: ’’میں نے سیاست میں اپنے بال سفید کیے ہیں۔ میرا تجربہ ہے کہ ہندو پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔  میں نے زندگی بھر ان کو اپنانے کی کوشش کی، لیکن مجھے ان کااعتماد حاصل کرنے میں کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔ وقت آئے گا، جب آپ کو میری بات یاد آئے گی اور آپ افسوس کریں گے‘‘۔

۱۰ ستمبر ۱۹۴۸ء کو ڈاکٹر الٰہی بخش نے فاطمہ جناح کو مطلع کیا کہ قائداعظم اب فقط چند دنوں کے مہمان ہیں۔ اسی دن جناح پر  بے ہوشی کا غلبہ ہوا، اور اس بے ہوشی کے عالم میں ان کی زبان سے بے ربط الفاظ ادا ہو رہے تھے: ’کشمیر… انھیں فیصلہ کرنے کا حق دو… آئین… میں اسے مکمل کروں گا… بہت جلد… مہاجرین… انھیں ہر ممکن… مدد دو…پاکستان…‘۔

انعام یافتہ برطانوی صحافیوں ایڈریان لیوی اور کیتھی اسکاٹ کلارک نے کتاب The Meadow  میں بتایا ہے کہ جولائی ۱۹۹۵ء میںجنوبی کشمیر میں ایک غیر معروف عسکری تنظیم ’الفاران‘ کے ذریعے اغوا کیے گئے پانچ مغربی سیاحوں کو بچایا جا سکتا تھا،کیونکہ ’را‘ اور دیگر بھارتی سیکورٹی ایجنسیوں کے اہلکار اغوا کے پورے واقعے کے دوران نہ صرف سیاحوں ا ور اغواکاروں پر مسلسل نگاہ رکھے ہوئے تھے بلکہ ان کی تصویریں بھی لیتے رہے تھے۔دونوں برطانوی صحافیوں نے ٹھوس شواہد کی بنیاد پر لکھا ہے کہ ’’سرکاری اداروں نے چاروں سیاحوں کو مرنے کے لئے چھوڑ دیا تاکہ پاکستان کے خلاف ایک بڑی سرد جنگ جیتی جا سکے‘‘۔

اسی طرز پر ۲۶ نومبر ۲۰۰۸ء کو بھارت کے اقتصادی مرکز ممبئی پر ہونے والا دہشت گرد حملہ بھی اس لحاظ سے منفردتھاکہ امریکی سی آئی اے اور بھارتی خفیہ ایجنسیوں یعنی ’انٹیلی جنس بیورو‘، ’را‘ سمیت تقریباً سبھی خفیہ اداروں حتیٰ کہ ممبئی پولیس اور پانچ ستارہ ہوٹل تاج کی انتظامیہ کو بھی کسی نہ کسی شکل میں اس کی پیشگی اطلاع تھی۔ان دونوں مصنفین نے اپنی دوسری کتاب The Seige میں انکشاف کیا ہے کہ ’’اس حملے سے پہلے ایک سال کے دوران مختلف اوقات میں۲۶؍اطلاعات ان اداروںکوموصول ہوئیں، جن میں ایسے حملوں کی پیش گوئی کے علاوہ حملہ آوروں کے راستوں کی بھی نشان دہی کی گئی تھی۔ اتنی واضح خفیہ اطلاعات کے باوجود بھارتی سکیورٹی ایجنسیوں نے ان حملوں کو روکنے کی پیش بندی کیوں نہیں کی؟ یہ ایک بڑا سوال ہے جس سے پردہ اٹھنا باقی ہے۔ 

خفیہ معلومات اس حد تک واضح تھیں کہ اگست ۲۰۰۸ء میں جب ممبئی پولیس کے ایک افسر وشواس ناگرے پا ٹل نے شہر کے فیشن ایبل علاقے کے ڈپٹی کمشنر آف پولیس کا چارج سنبھالا تو ان کی نظر اس خفیہ فائل پر پڑی، جس میں نہ صرف حملوں کا ذکر تھا بلکہ اس کے طریق کار پر بھی معلومات در ج تھیں۔ اس افسر نے فوراً تاج ہوٹل کی انتظامیہ کو متنبہ کیا کہ وہ معقول حفاظتی انتظامات کا بندوبست کریں۔ستمبر ۲۰۰۸ء میں اسلام آبادکے میریٹ ہوٹل میں دھماکا اور اکتوبر میں دوبارہ اسی طرح کی خفیہ معلومات ملنے کے بعد پاٹل نے تاج ہوٹل کی سکیورٹی کے ساتھ گھنٹوں ریہرسل کی،کئی دروازے بند کروائے اور اس کے ٹاور کے پاس سکیورٹی پکٹ قائم کی۔ ان انتظامات کے بعد پاٹل چھٹی پر چلے گئے۔اس دوران حفاظتی بندشیں اورسکیورٹی پکٹ ہٹوا دی گئی ، تاکہ حملہ آوروں کو ہوٹل تک پہنچنے میں کوئی تکلیف نہ ہو‘‘۔

پچھلے دو عشروں سے زائد عرصے کے دوران ان سبھی واقعات کا مشاہدہ اور رپورٹنگ کرنے کے بعد جب یہ خبر آئی کہ بھارت کے ایک انتہائی قوم پرست ٹی وی چینل ری پبلک کے اینکر اور منیجنگ ڈائرکٹر ارناب گوسوامی کو فروری ۲۰۱۹ء میں کشمیر کے پلوامہ علاقے میں ہوئے خود کش حملے اور بعد میں پاکستان کے بالا کوٹ پر بھارتی فضائیہ کے حملوں کی پیشگی اطلاع تھی، تو مجھے کوئی حیرت نہیں ہوئی۔

دراصل ممبئی پولیس نے ٹی وی ریٹنگ، یعنی ٹی آر پی میں ہیرا پھیری کے الزام میں گوسوامی اور براڈکاسٹ آڈینس ریسرچ کمپنی کے سربراہ پارتھو داس گپتا کے خلاف ۴۰۰۳صفحات پر مشتمل چارج شیٹ کورٹ میں دائر کی ، جس میں ۱۰۰۰صفحات پر مشتمل ان دونوں کے درمیان ’وٹس ایپ‘ پر ہوئی گفتگو کی تفصیلات ہیں۔ ان ’پیغامات‘ سے گوسوامی کی وزیر اعظم مودی کے ساتھ اس قدر قربت ظاہر ہوتی ہے، کہ بالا کوٹ پر ہوئے فضائی حملوں سے سرینگر کی ۱۵ویں کور کے سربراہ کو لاعمل رکھا گیا تھا ، مگر گوسوامی کو ۲۳فروری ۲۰۱۹ء، یعنی تین دن قبل ہی بتایا گیا تھا۔ گوسوامی ’چیٹنگ‘ کے دوران داس گپتا کو بتا رہے ہیں کہ ’’پاکستان کے خلاف کچھ بہت ہی بڑا ہونے والا ہے، جس سے بڑے آدمی( مودی )کو انتخابات میں بڑا فائدہ ہوگا‘‘۔ اسی دن رات کو۱۰بجے وہ بتار ہے ہیں کہ ’’کشمیر پر مودی حکومت ایک بڑا قدم اٹھانے والی ہے‘‘۔ ۲۳فروری کو جب خود کش حملے میں ۴۰سیکورٹی اہلکاروں کے مارے جانے کی اطلاع آئی ، تو اس کے چند منٹ بعد گوسوامی ’وٹس ایپ‘ پر شادیانے بجا رہے ہیںاورگویا کہہ رہے ہیں کہ ’’ایک بڑا معرکہ سر ہوگیا‘‘۔ یہ موڈ اس کے برعکس تھا جو شام کو ری پبلک ٹی وی کے اسٹوڈیومیں تھا، جہاں سوگوارای کا عالم تھا اور لمحہ بہ لمحہ جنگی جنون طاری کیا جا رہا تھا۔

مجھے یاد ہے کہ ۲۰۰۱ء میں بھارتی پارلیمان پر حملہ کے بعد دہلی یونی ورسٹی کے مرحوم پروفیسر عبدالرحمٰن گیلانی کو سزائے موت صرف اس بنا پر سنائی گئی تھی کہ انھوں نے کشمیر ی زبان میں ٹیلی فون پر بات کرکے اپنے بھائی سے اس واقعے پر مبینہ طور پر خوشی کا اظہار کیا تھا اور پوچھا تھا ’’کہ دہلی میں آج کیا ہوگیا؟ ‘‘ جس کا ترجمہ ہندی میں کیا گیا تھا کہ ’’ دہلی میں آج آپ نے کیا کردیا؟ ‘‘ پروفیسر صاحب نے ہنستے ہوئے کشمیری میں جواب دیا ــ: ـ’چھایہ ضروری‘ یعنی کہ’’ کیا یہ ضروری تھا؟‘‘ پولیس نے اس کو لکھا ’یہ چھے ضروری‘ یعنی ’یہ ضروری تھا‘۔ یہ تو ہائی کورٹ کا بھلا ہوا کہ وہ بری ہوگئے۔ اوراگراسی روایت کو بنیاد بنایا جائے، تو گوسوامی کے لیے سزائے موت سے بھی بڑی سزا تجویز ہونی چاہیے۔

اس گفتگو کے تین ماہ بعد مودی نے انتخابات میں اپوزیشن کا صفایا کرکے واضح برتری حاصل کی۔ اس سے عیاں ہوتا ہے کہ بالا کوٹ پر فضائی حملے کسی فوجی یا اسٹرے ٹیجک نکتہ نگاہ سے نہیں بلکہ قومی تفریح اور ووٹ حاصل کرنے کے لیے کیے گئے تھے۔چنگیز خان اور ہلاکو خان کو فوت ہوئے صدیاں بیت چکی ہیں۔ مگر مُردہ جسموں پر خوشیاں منانا اور ان کو انتخابات میں بھنانا اور اس پر مستزاد اپنے آپ کو قوم پرست بھی جتلانا، مودی اور اس کے حواریوں ہی کا خاصّہ ہے۔ ان کے اس طرح کے رویوں سے چنگیز اور ہلاکو کی روحیں بھی شرم سے پانی پانی ہوتی ہوںگی۔

سری لنکا تامل ناڈواور کشمیر

یہ جولائی ۱۹۸۷ء کی بات ہے، جب سری لنکا کے صد جے آر جئے وردھنئے اوربھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی کے درمیان طے پائے گئے معاہدے کے بعد سری لنکا نے اپنے آئین میں ترمیم کرکے شمالی اور شمال مشرق میں تامل اکثریتی علاقوں کو متحد کرکے ایک علاقائی کونسل تشکیل دینے پر رضامندی ظاہر کی تھی اور یہ طے پایا تھا کہ ’’دفاع، خارجہ پالیسی اور مالی معاملات، یعنی کرنسی کے علاوہ بقیہ تمام معاملات میں یہ کونسل خود مختار ہوگی‘‘۔ اس کے بعد سری لنکا حکومت نے پارلیمنٹ میں باضابطہ قانون سازی کرکے آئین میں ۱۳ویں ترمیم کی مگر اس پر ابھی تک عمل درآمد نہیں ہوا۔  تامل ٹائیگرز، یعنی ایل ٹی ٹی ای اور سنہالا بدھ قیادتوں نے اس ترمیم کو مسترد کردیاتھا۔ تامل ٹائیگرز تو مکمل آزادی سے کم کسی بھی فارمولا پر راضی نہیں تھے، سنہالا بدھ ملک کے اندر تامل خود مختار علاقہ قائم کرنے کے مخالف تھے۔

 سری لنکا کے آئین میں اس۱۳ویں ترمیم کو وہی حیثیت حاصل ہے، جو بھارتی آئین میں دفعہ ۳۷۰اور ۳۵-اے کو حاصل تھی، جس کی رُو سے ریاست جموں و کشمیر کو چند آئینی تحفظات حاصل تھے۔ ان دفعات کو اگست ۲۰۱۹ء میں بھارتی حکومت نے نہ صرف منسوخ کرکے ریاست ہی تحلیل کردی۔ اب بھارتی حکومت کا سری لنکا حکومت کو تامل ہند و اقلیت کے سیاسی حقوق کی پاس داری کرنے کا وعدہ یاد دلانا حددرجے کا تضاد ہے۔

بنگلہ دیش میں مکتی باہنی کی طرز پر ہی بھارت نے سری لنکا میں تامل اقلیت کو شمالی صوبہ جافنا کو آزاد کروانے پر اُکسایا تھا، اور اس کے لیے بھارتی ریاست تامل ناڈوکو مستقر (بیس)بنا کر  تامل انتہا پسندوںکوگوریلا جنگ کے لیے تربیت دینی شروع کردی تھی۔ کانگریس کے ایک مقتدر لیڈراور ایک سابق وزیر نے ایک بار مجھے بتایا کہ ’’اگر ۱۹۸۴ء میںوزیر اعظم اندرا گاندھی کو سکھ باڈی گارڈ ہلاک نہ کرتے تو بنگلہ دیش کی طرز پر سری لنکا کے شمالی علاقے جافنا پر مشتمل ایک علیحدہ مملکت وجود میں آگئی ہوتی‘‘۔ تامل ناڈو کے سابق وزیرا علیٰ کے کرونا ندھی نے بھی ایک بار دہلی کی ایک نجی محفل میں بتایا کہ ’’مسزگاندھی نے سری لنکا کو۱۹۷۱ء کی جنگ میں پاکستان کی معاونت کرنے پر کبھی معاف نہیں کیاتھا‘‘۔ یاد رہے سری لنکا نے پاکستانی فضائیہ اور ڈھاکا جانے والے پاکستانی سویلین جہازوں کے لیے کولمبو میں ایندھن بھرنے کی سہولت فراہم کی تھی۔ بنگلہ دیش بننے کے فوراً بعد بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی اور ان کے رفقا نے تامل علیحدگی تحریک کا رخ سری لنکا کی طرف موڑدیا۔ کروناندھی یہ  بھی یاد دلاتے تھے کہ ’’۱۹۸۷ء میں دہلی کے اشوکا ہوٹل کے ایک کمرے میں وزیر اعظم راجیو گاندھی نے وزارت خارجہ کے ایک اعلیٰ عہدے دار کی موجودگی میں۴۰لاکھ روپوں سے بھرا ایک سوٹ کیس تامل ٹائیگرز کے کمانڈر ویلوپلائیپربھاکرن کے حوالے کیا تھا‘‘۔

جب بھارتی حکومت نے کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کی، تو سری لنکا کے سنہالا بدھ لیڈروں اور سری لنکا کے موجودہ وزیرا عظم مہندا راجاپکشا نے خوشی کا اظہار کیا۔ ان کے مطابق اب بھارت، سری لنکا پر ۱۳ویں ترمیم کے نفاذ کے لیے زور نہیں ڈال سکے گا۔ تامل تجزیہ کار شاستری راما چندرن کے مطابق جموں و کشمیر پر آئینی سرجیکل اسٹرائیک کرنے کے بعد بھارتی حکومت کے پاس سری لنکا کو ۱۳ویں ترمیم کے نفاذ پر مجبور کرنے کے لیے کوئی اخلاقی جواز نہیں بچتا ہے۔ جنوبی صوبہ تامل ناڈو کے ایک بزرگ سیاست دان وی گوپال سوامی المعروف ویکو نے مودی حکومت کو خبردار کیا تھا کہ ’’کشمیر پر اس کے فیصلے کے مضمرات سفارتی سطح پر خاصے پیچیدہ ہوں گے اور سری لنکا کی تامل آبادی کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا‘‘۔ راما چندرن ، جنھوں نے سری لنکا پر ایک کتاب بھی تصنیف کی ہے ، ان کا کہنا ہے کہ ’’گوٹا بایا راجا پکشا اور ان کے بھائی مہندا راجا پکشا نے اکثریتی سنہالا بدھ آبادی کو تامل ہندو آبادی اور بھارت کا خوف دلا کر انتخابات میں اسی طرح لام بند کیا، جس طرح مودی نے بھارت میں مسلمانوں اور پاکستان سے، ہندو اکثریتی آبادی کو خوف زدہ کرکے ووٹ بٹورے‘‘۔

یاد رہے بھارت کے خفیہ اداروں کی نظر میں حساس صوبوں کی فہرست میں جموں و کشمیر کے بعد تامل ناڈو دوسرے نمبر پر ہے۔

دستورِ ہند میں دفعہ ۳۷۱ اور ۳۵-اے ختم کرنے کے بعد اگست۲۰۱۹ء سے تاحال وادیِ کشمیر میں محصور کشمیریوں پر بھارتی مسلح افواج کے ظلم کی نئی نئی تفصیلات سامنے آرہی ہیں۔ برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مسلح فورسز کے ہاتھوں مقامی نہتے شہریوں پر تشدد روز کا معمول ہے۔ مختلف دیہاتی باشندے بتاتے ہیں کہ انھیں لاٹھیوں اور موٹی تاروں سے مارا گیا اور انھیں بجلی کے جھٹکے دیے گئے۔ یہ رپورٹ بی بی سی لندن پر معروف صحافی سمیر ہاشمی نے پیش کی ہے۔

انھوں نے لکھا ہے کہ ’’میں نے جموں و کشمیر کے جنوبی اضلاع میں کم از کم نصف درجن دیہات کا دورہ کیا، جہاں مجھے ان دیہات کے لوگوں کی زبانی راتوں کو چھاپے، مارپیٹ اور تشدد کے بارے میں تفصیلات سننے کو ملیں۔ 'ڈاکٹروں اور محکمہ صحت کے حکام، بیماریوں سے قطع نظر کسی بھی مریض سے متعلق صحافیوں سے بات کرنے کے لیے تیار نہیں‘‘۔

بی بی سی کی اس رپورٹ میں بتایا گیا کہ ’’ایک گاؤں کے رہایشیوں کے مطابق بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی جانب سے دہلی اور مقبوضہ کشمیر کے درمیان عشروں پرانے انتظام کو ختم کرنے کے متنازعہ فیصلے کے اعلان کے کچھ ہی گھنٹوں بعد بھارتی فوج گھر، گھر پہنچ گئی۔ایک مظلوم نے بتایا کہ میرے جسم کے ایک ایک حصے پر تشدد کیا گیا‘‘۔

دو بھائیوں نے بتایا کہ ’’ہم صبح سویرے اُٹھے تو ہم کو باہر ایک علاقے میں لے جایا گیا، جہاں گاؤں کے تقریباً نصف درجن مرد شناخت پریڈ کے لیے موجود تھے۔ بھارتی فوجیوں نے ہم سب کو مارا پیٹا۔ ہم ان سے پوچھتے رہے کہ 'ہمارا قصور کیا ہے؟ لیکن انھوں نے ہماری کوئی بات نہیں سنی،اور بس وہ ہمیں مارتے رہے‘‘۔

اپنی رُوداد ظلم سناتے ہوئے ایک فرد نے بتایا کہ ’’انھوں نے ہمارے جسم کے ہر حصے پر شدید ضربیں لگائیں۔ انھوں نے لاتیں ماریں، ہمیں لاٹھیوں سے مارا، بجلی کے جھٹکے دیے اور تاروں سے مارا۔ انھوں نے ہماری ٹانگوں کے پیچھے مارا اور جب ہم بےہوش ہوجاتے تو وہ ہمیں اٹھانے کے لیے بجلی کے جھٹکے دیتے۔ ہمیں ڈنڈوں سے مارتے اور ہم چیختے تو ہمارے منہ کو مٹی سے بھر دیا جاتا‘‘۔

انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’’ہم انھیں کہتے کہ ہم بے قصور ہیں، آپ ہمارے ساتھ کیوں یہ کر رہے ہیں؟ مسلح کارندوں نے ہماری کوئی بات نہیں سنی۔ ہم نے انھیں کہا کہ ہم پر تشدد نہ کریں بس ہمیں گولی ماردیں۔ ایسا کہنے کا سبب یہ تھا کہ یہ تشدد ناقابلِ برداشت تھا‘‘۔

اس رپورٹ کے مطابق ایک نوجوان نے بتایا کہ ’’سیکورٹی فورسز مسلسل مجھ سے پوچھتی رہیں کہ 'پتھر پھینکنے والوں کے نام بتاؤ۔ میں نے اہلکاروں کو کہا کہ مجھے کسی کا نہیں پتا، جس کے بعد انھوں نے مجھے اپنی نظر کی عینک، کپڑے اور جوتے اتارنے کا حکم دیا۔جب میں نے اپنے کپڑے اتار دیئے تو انھوں نے مجھے دو گھنٹوں تک ڈنڈوں اور سلاخوں سے بے رحمی سے مارا ،اور جب میں بے ہوش ہوگیا تو مجھے ہوش میں لانے کے لیے بجلی کے جھٹکے دیے‘‘۔

اس نوجوان لڑکے نے کہا کہ’’ 'اگر ان لوگوں نے میرے ساتھ یہ ظلم دوبارہ کیا تو میں کچھ بھی کرنے کو تیار ہوں۔ میں بندوق اٹھاؤں گا کیونکہ میں روز روز کا یہ ظلم اور ذلّت برداشت نہیں کرسکتا‘‘۔ رُوداد بتاتے ہوئے اس نوجوان نے کہا کہ’’ 'اہلکاروں نے مجھے کہا کہ اپنے گاؤں میں ہرایک کو خبردار کردو کہ اگر کسی نے فورسز کے خلاف مظاہروں میں حصہ لیا تو وہ بھی اسی طرح کے نتائج کا سامنا کریں گے‘‘۔

رپورٹ کے مطابق ’’جن لوگوں نے بھی ہم سے بات کی وہ سمجھتے ہیں کہ سیکورٹی فورسز نے دیہاتیوں کو ڈرانے کے لیے یہ سب حربے اختیار کیے ہیں تاکہ وہ احتجاج سے خوف زدہ رہیں‘‘۔

بی بی سی سے گفتگو کے دوران ایک ۲۰ سال کے نوعمر لڑکے نے کہا کہ’’ فوج نے دھمکی دی کہ اگر میں کشمیری فائٹرز کے خلاف مخبر نہ بنا تو مجھے پھنسا دیا جائے گا۔ لیکن جب میں نے ایسا کرنے سے انکار کردیا تو انھوں نے مجھ پر بدترین تشدد کیا کہ دو ہفتوں بعد بھی میں کمر کے بل نہیں لیٹ سکتا۔ اگر یہ عمل اسی طرح جاری رہا تو میرے پاس اپنا گھر چھوڑنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوگا۔ وہ ہمیں ایسے مارتے ہیں جیسے ہم کوئی جانور ہیں۔ وہ ہمیں انسان تصور نہیں کرتے‘‘۔

رپورٹ کے مطابق ایک اور شخص نے اپنے جسم پر متعدد گہرے زخم بھی دکھائے اور کہا کہ ’’مجھے زمین پر گرایا گیا اور پھر ۱۵،۱۶ سپاہیوں نے تاروں، بندوقوں، ڈنڈوں اور لوہے کی سلاخوں سے بدترین تشدد کا نشانہ بنایا‘‘۔ میں نیم بے ہوش تھا کہ انھوں نے میری داڑھی کو اتنے بُرے طریقے سے کھینچا، جس سے مجھے لگا کہ میرا جبڑا ٹوٹ جائے گا اور میرے دانت باہر نکل کر گر جائیں گے‘‘۔

اس نوعیت کے مظالم ڈھانے کا انداز کچھ اس طرح سے ہے کہ کبھی تشدد اورظلم کا یہ وحشیانہ طوفان ضلع کے ایک حصے میں اُٹھایا جاتا ہے ، اورپھر چند روز بعد کسی دوسرےعلاقے میں یہ درندگی مسلط کی جاتی ہے۔ ان ہولناک واقعات نے ہمارا جینا حرام کردیا ہے۔ افسوس کہ مسلم اُمت سورہی ہے۔

۲۹دسمبر ۲۰۲۰ء بدھ کی شام کوحسب معمول سماجی رابطے کی ویب گاہوں پر ایک خبر آئی کہ لاوے پورہ سرینگر’ ہو کر سر‘ میں عسکریت پسندوں اور فوج کے درمیان جھڑپ شروع ہو گئی ہے۔ اورپھر ۳۰ دسمبر کو فوج نے پریس کانفرنس میں یہ دعویٰ کیا کہ تین عسکریت پسندوں کو مار دیا گیا ہے۔ اس کے فوراً بعد ان مبینہ عسکریت پسندوں کے لواحقین نے پولیس کنٹرول روم کے سامنے احتجاج کرتے ہوئے یہ کہا کہ یہ تینوں عسکریت پسند نہیں ہیں اور ان کا قتل فوج کی جانب سے جان بوجھ کر کیا گیا ہے ۔ اسی دوران پولیس کا ایک اور بیان سامنے آیا، جس میں کہاگیا کہ ’’اگرچہ ہلاک شدگان میں کوئی بھی جنگجوئوں کی فہرست میں شامل نہیں ہے، لیکن ان میں سے دو نوجوان جنگجوئوں کے معاونین تھے، ہو سکتا ہے کہ تیسرا حال ہی میں شامل عسکریت ہو اہو‘‘۔

ان تینوں کو گھر سے دُور ایک دوسرے ضلع بانڈی پورہ میں دفن کر دیا گیا، جہاں پہلے غیرمقامی عسکریت پسندوں کو دفن کیا جاتا تھا۔ مرحومین کے لواحقین تا دمِ تحریر احتجاج اور مطالبہ کررہے ہیں کہ’’ہمارے بچوں کو جُرم بے گناہی میں مارا گیا ہے۔ان کی لاشیں ہمیں واپس کی جائیں تاکہ ہم اسلامی طریقے سے ان کی تدفین عمل میں لائیں‘‘۔ یاد رہے کہ ان نوجوانوں میں سے اطہر کے والد نے اپنے مقتول بچے کی قبر خود کھود رکھی ہے اور اس کا کہنا ہے کہ جب تک میرے ۱۶سالہ اکلوتے بیٹے کی نعش نہیں ملتی تب تک میں انتظار میں رہوں گا۔

اس جھڑپ کے حوالے سے پوری وادی میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے کہ پہلے بھی یہاں فرضی جھڑپوں میں نوجوانوں کومار کر گمنام قبروں میں دفن کردیا گیا، جن میں سے چند بے گناہوں کی بے گناہی بھی ثابت ہوگئی ہے جس کی مثال ۲۰۱۰ء میں مژھل فرضی جھڑپ ،۲۰۲۰ ء میں شوپیاں میں تین معصوموں کا قتل اور ۲۰۰۱ء میں پتھری بل فرضی انکاؤنٹر شامل ہیں ۔۲۰۱۰ء میں بھی اسی طرح کی ایک فرضی کہانی گھڑی گئی، جس میں ۳۰؍اپریل۲۰۱۰ء کو ریگولر آرمی کے چار راجپوت یونٹ نے دعویٰ کیا تھا کہ ’’ہم نے تین عسکریت پسندوں کو ہلاک کر دیا‘‘۔ حالاں کہ واقعہ یہ تھا کہ مژھل سے دُور دوسرے ضلع بارہمولہ کے نادی ہل علاقے میں تین نوجوان (شہزاد احمد خان ، ریاض احمد لون اور محمد شفیع لون) اچانک غائب ہوگئے، یا غائب کردیے گئے۔ اُن کے گھر والوں کو اُن کے بارے میں کوئی اتہ پتہ نہیں چل پا رہا تھا۔ بڑی تلاش کے بعد ۱۰مئی کو گھر والوں نے تینوں نوجواان کی گمشدگی کے بارے میں تشویش کا اظہار کرنے کے لئے احتجاج بھی کیا۔ اس احتجاج سے پولیس کے کان کھڑے ہو گئے اور انھوں نے اس کیس میں دل چسپی لینی شروع کردی اور گھر والوں سے پوچھ گچھ کر کے اس بات کا سراغ لگا لیا کہ نوجوانوں کا اغوا ہوا ہے۔تینوں نوجوانوں کے گھر والوں نے پولیس کے سامنے ایک مقامی سابق اسپیشل پولیس افسر پر شک ظاہر کیا اور مذکورہ ایس پی اونے پولیس والوں کے سامنے اعتراف کیا کہ ان تینوں نوجوانوں کے اغوا میں اُس کا ہاتھ ہے ۔اس کے بعد اس کہانی میں ایسی باتیں اخبارات میں سامنے آئیں، جن سے ایک انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں کہ کس طرح سے ایک انسان ’انعام‘ کی خاطر معصوم اور بے گناہ انسانوں کا قتل کرنے سے گُریز نہیں کرتا اور پھر بارہمولا سے مژھل سیکٹر میں ان کو گولی مار کرقتل کردیا گیا۔

اسی طرح کا ایک اور فرضی انکاؤنٹر ۲۰۲۰ء میں شوپیان میں رچایا گیا، جس میں راجوری کے تین معصوم نوجوان مزدوروں کو قتل کرنے کے بعد فوج نے بڑے فخر سے یہ دعویٰ کیا کہ ہم نے تین پاکستانی دہشت گردوں کو مار گرا یا اورجن سے فلاں فلاں قسم کے ہتھیار بھی ضبط کیے گئے ہیں۔ اس درد انگیز کہانی کا تذکرہ پولیس نے اپنی چارج شیٹ میں کچھ اس طرح سے کیا ہے کہ ’’۱۸؍جولائی کی رات کو کیپٹن بوپیندر سنگھ عرف میجر ’بشیر احمد خان‘ اور دو مقامی افراد تابش نذیر ملک اور بلال احمد لون کے خلاف ۱۴۰۰ صفحات پر مشتمل چارج شیٹ شوپیان سیشن کورٹ میں دائر کی گئی ۔ چارج شیٹ میں پولیس کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ ۱۸ جولائی کی رات کیپٹن بوپیندر سنگھ نے ان دو مقامی افراد کی مدد سے چوگام علاقے سے راجوری کے تین نوجوانوں کو اُن کے کرائے کے گھر سے اغوا کیا۔ اس کے بعد دلی کے نمبر پلیٹ والی کار میں ان تینوں نوجوانوں کو بٹھا کرامشی پورہ، شوپیاں لے جایا گیا۔ جہاں ایک باغ میں ان تینوں کو کیپٹن نے پیچھے سے گولیاں مار دیں۔ اس کے بعد ان نوجوانوں کی نعشوں پروہ ہتھیار بھی رکھے گئے جو وہ گاڑی میں اپنے ساتھ لائے تھے ۔تب کیپٹن نے انھیں خطرناک دہشت گرد قرار دیا اور یہ بھی دعویٰ کیا کہ یہ غیر ملکی ہیں۔ پھر انھیں بارہمولہ کے گانٹھ مولہ کے قبرستان میں دفنایا گیا جہاں عموماً غیر مقامی عسکریت پسندوں کو دفن کیا جاتا ہے ( واضح رہے کرونا وائرس کی بیماری پھوٹنے کے بعد سے اب تک مقامی عسکریت پسندوں کو بھی غیرمقامی قبرستانوں میں دفن کیا جا رہا ہے)۔

 اس فرضی انکاؤنٹر میں مارے گئے نوجوانوں کی شناخت بعد میں ابرار احمد ۱۶سال، امتیاز احمد۲۵سال اور ۲۰سالہ محمدابرار کے طورپر ہوئی تھی، جو ایک روز قبل ہی راجوری سے شوپیاں مزدوری کے لیے آئے تھے۔ اس انکاؤنٹر کے بعد چونکہ ان تینوں نوجوانوں کا رابطہ گھر والوں سے منقطع تھا، تو ان کے لواحقین نے مقامی تھانے میں ایک رپورٹ درج کرائی اور میڈیا میں بھی یہ خبر پھیل گئی جس کی وجہ سے ان کے لواحقین چند ثبوتوں کی مدد سے انتظامیہ پر دبائو ڈانے میں کامیاب ہوگئے اور تب انتظامیہ نے مکمل انکوائری کی یقین دہانی کرائی۔ جس کے بعد شوپیاں پولیس نے مقتولین کے رشتہ داروں کے ڈی این اے کے نمونے حاصل کیے تو ان کے ڈی این اے ان تینوں نوجوانوں سے جاملے پھر کہیں ان کی قبر کُشائی کی گئی اور اُن کی میتیں وارثوں کو سونپی گئیں۔

کشمیر میں اسی ’افسپا‘ کی آڑ میں کئی عشروں سے فرضی انکاؤنٹر ہوتے آ رہے ہیں۔ اسی طرح ۲۰۰۰ء میں پتھری بل میں بھی ایک فرضی انکاؤنٹررچایا گیا، جس میں پانچ بے گناہ افراد کو اسی کالے قانون کی آڑ میں موت کے گھاٹ اُتارا گیا۔یہ ایک ایسا وحشی قانون ہے جس نے کشمیر کے ہزاروں گھر برباد کر دیے، ہزاردں بچوں کویتیم کر دیا اور بوڑھے ماں باپ کو اپنے سہاروں سے ہاتھ دھونا پڑا ۔اسی قانون کی آڑ میں کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کے بڑے الم ناک ریکارڈ تاریخ کے اوراق پر ثبت ہوگئے۔

اس صورتِ حال کے حوالے سے تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ انسانی جانوں کو موت کے گھاٹ اُتارکر شہرت اور تمغے حاصل کرنے کا یہ ایک نشہ ہے، جس کو فوجی ’افسپا‘ کو استعمال کر کے ایسے گھنائونے واقعات انجام دے رہے ہیں ۔ایک اور معروف ماہر قانون کا کہنا ہے کہ آئے روز کے فرضی انکاؤنٹر کشمیر میں مزاحمتی تحریک کو عبرت کا نشان بنانے کی ایک کوشش ہے۔بہر حال معصوم انسانوں کا قتل کسی بھی طور قابل برداشت نہیں ہے وہ چاہے دنیا کے کسی بھی کونے میں اور کسی بھی ذات اور مذہب کے ماننے والے کے ساتھ ہو۔ ۲۰۱۸ء میں بھارتی وزارتِ داخلہ نے تسلیم کیا کہ ’افسپا‘ قانون کے تحت سب سے زیادہ خلاف ورزی جموں و کشمیر میں ہوتی ہے ۔۲۰۱۸ء میں بھارتی وزارت دفاع نے پارلیمنٹ میں ایک بیان میں کہا کہ پچھلے تین عشروں میں وزارت نے کسی بھی فوجی اہلکار کے خلاف کارروائی کا کوئی بھی حکم نہیں دیا ہے ۔

یاد رہے ’افسپا‘ بھارت میں اس وقت جموں و کشمیر کے علاوہ شمال مشرق کی چھے ریاستوں میں بھی لاگو ہے ۔یہ قانون شورش زدہ علاقوں میں نافذ کیا جاتا ہے۔جموں وکشمیر میں ۱۹۸۹ء میں شروع ہونے والی عسکری تحریک کے بعد اسے یہاں لاگو کیا گیا۔یہ ایک ایسا کالا قانون ہے جس کے تحت بھارتی فوج جموں وکشمیر میں کسی بھی جگہ آپریشن انجام دینے کے علاوہ کسی بھی شخص کو شک کی بُنیاد پر بغیر وارنٹ کے گرفتار کرنے کے اختیارات رکھتی ہے۔ اس قانون سے کشمیر میں فوجیوںکو انسانی جانوں سے کھیلنے کا لائسنس دے دیا گیا ہے۔ جموں وکشمیر میں جتنی بھی زیادتیاں یا فرضی انکاؤنٹر انجام پاتے ہیں اس سب کے پیچھے یہی کالا قانون ’افسپا‘ ہے، جس کو بھارتی فورسز ڈھال کے طور پر استعمال میں لاکر زیادتیوں کی مرتکب ہورہی ہیں۔ ایمنسٹی انٹر نیشنل اور انسانی حقوق کی علَم بردار عالمی تنظیمیں، کشمیر میں اس قانون کے تسلسل و تواتر پر افسوس کا اظہار کر رہی ہیں۔ خود بھارت میں انسانی حقوق کی تنظیمیں اور دانش ور بھی اس قانون کو جمہوری اور انسانی اقدار کے خلاف قراردے چُکے ہیں۔

 جتنا جلد ہو سکے اس کالے قانون کو جموں و کشمیر سے ہٹا دیا جانا چاہیے۔ جو کوئی بھی انسانی حقوق کی پامالیوں میں ملوث ہیں، ان کے خلاف عبرتناک کارروائی کی جانی چاہیے، تب نوجوانوں کا بے گناہی کی پاداش میں اپنی انمول زندگیوں سے ہاتھ دھونا بند ہو سکتا ہے۔ حکومتی سطح پر ایسے معاملات میں اگرچہ تحقیقات وغیرہ کی باتیں دہرائی جاتی ہیں، مگر عملاً وہ وقت گزاری کا بہانہ ہیں۔

بھارت میں ۱۹۹۸ء کے عام انتخابات کے موقعے پر جب بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی) کی قیادت میں پارٹی اتحادی سطح پر انتخابی منشور تیار کیا جا رہا تھا ، تو اس کی ابتدائی ڈرافٹنگ کا کام ماہر اقتصادیات موہن گوروسوامی کو سونپا گیا تھا ۔ منشور کی تیاری کمیٹی میں اٹل بہاری واجپائی، لال کشن ایڈوانی، جارج فرنانڈیز، موجودہ نائب صدر وینکییا نائیڈو، پرمود مہاجن، شرد یادو اور چند دیگر لیڈران شامل تھے۔

گوروسوامی پر واجپائی صاحب نے زور دیا کہ ’’ملک کو جوہری طاقت بنانے اور تبدیلیٔ مذہب کو روکنے کے سلسلے میں قانون سازی کرنے کے وعدے منشور میں شامل ہونے چاہییں‘‘۔ جوہری دھماکا کرنے کے معاملے پر کمیٹی میں کچھ زیادہ بحث نہیں ہوئی، صرف اس بات پر اتفاق ہوا کہ اس کو مبہم انداز میں لکھا جائے گا۔ تبدیلی ٔمذہب کے مسئلے پر اجلاس کے شرکا تذبذب میں تھے، کیونکہ تبدیلی ٔمذہب پر پابندی لگانا، بھارتی آئین کے بنیادی ڈھانچے اور اس کی روح، یعنی مذہبی شخصی آزادی کے منافی تھا۔

بھارت اور پاکستان کے جو لوگ بے جا غلط فہمی کا شکار ہوکر واجپائی کو ’سیکولر رواداری‘ کا منبع اور ’امن کا دیوتا‘ سمجھتے ہیں، ان کو جان لینا چاہیے کہ آنجہانی وزیر اعظم واجپائی، لازمی طور پر اپنی دھوتی کے نیچے راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ، یعنی آر ایس ایس کی نیکر پہنتے تھے۔ واجپائی کا اصرار تھا کہ ’’اگر تبدیلیٔ مذہب پر مکمل طور پرپابندی عائد نہیں کی جاتی ہے، پھر بھی اس کو لازمی طور پر ڈسٹرکٹ کلکٹر یا مجسٹریٹ کی اجازت کے ساتھ نتھی کردینا چاہیے‘‘۔ گورو سوامی نے پاس میں بیٹھے لال کشن ایڈوانی کو کان میں بتایا کہ ’’یہ وعدہ آج کربیٹھنا ایک تنازعے کا باعث ہوگا، جب کہ بی جے پی اقتدار کے بالکل قریب ہے‘‘۔ ایڈوانی ، جنھوں نے بابری مسجد کو مسمار کرنے کے لیے رتھ یاترا کی قیادت کرکے، بی جے پی کو اقتدار کی دہلیز تک پہنچایا تھا، اب اپنا تاثر (Image) درست کروانے میں لگے ہوئے تھے۔ اپنی اسی انتہاپسندانہ مشکل کی وجہ سے اتحادیوں کے لیے وہ وزارت عظمیٰ کے اُمیدوار کی حیثیت سے قبول کیے جانے کی دوڑ سے نکال دیے گئے تھے، اور دُور رس نتائج پر نظررکھنے والے پارٹی کے شہ دماغوں نے واجپائی کو آگے کردیا تھا۔ گوروسوامی کے بقول ۱۹۹۸ءمیں ایڈوانی ہندو قوم پرستی کا جامہ اتار کر اپنے آپ کو سماجی اور اقتصادی قدامت پسند لیڈر کے بطور متعارف کروانا چاہتے تھے‘‘۔

مجھے یاد ہے کہ جس دن یہ منشور جاری ہو رہا تھا ، دہلی کے ہماچل پردیش بھون میں تقریب کے بعد ظہرانے کا اہتمام تھا۔ میں جس کھانے کی میز پر بیٹھا تھا، اسی پر ایڈوانی ، معروف صحافی راج دیپ ڈیسائی اور چند دیگر صحافی بھی تشریف فرما ہوئے تھے۔ چونکہ تب تک بی جے پی کے لیڈران کو حکومت کی ہوا نہیں لگی تھی، اس لیے ان تک رسائی آسان تھی۔ ڈیسائی نے کسی غیر ملکی مصنف کا حوالہ دے کر بتایا کہ ’’دنیا بی جے پی کے اقتدار میں آنے سے خائف ہے‘‘۔ تو ایڈوانی نے سوال کیا کہ ’’جرمنی میں کرسچن ڈیموکرٹیک پارٹی، امریکا میں ری پبلکن اور برطانیہ میں ٹوری پارٹی کام کررہی ہیں تو بطور کنزر ویٹو پارٹی کے بی جے پی سے خائف ہونے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘

اس اجلاس میں جب گوروسوامی نے آئین کے بنیادی ڈھانچے کا حوالہ دے کر تبدیلیٔ مذہب کے خلاف قانون بنانے کے وعدے کو منشور میں شامل کرنے سے انکار کردیا، تو ’امن کے دیوتا‘ واجپائی نے غصّے سے لال پیلا ہوکر کہا کہ ’’ہارورڈ اور اوکسفرڈ کے ڈگری یافتہ لوگ، تبدیلیٔ مذہب کی شدت اور ہندو سماج کے بچاؤ کے معاملات کو نہیں سمجھ سکتے ہیں‘‘۔ ایڈوانی نے مداخلت کرکے واجپائی کا غصّہ ٹھنڈا کرکے کہا کہ ’’اقتدار میں آنے کے بعد اس پر سوچا جاسکتا ہے‘‘۔ وزیراعظم بننے کے بعد واجپائی نے ایک عوامی جلسے میں اس ایشو کو اٹھایا اور کہا کہ ’’اس پر کھل کر بحث ہونی چاہیے‘‘۔ ان کی اس تقریر کے فوراً بعد مشرقی صوبہ اڑیسہ میں ایک آسٹریلین پادری گراہم اسٹین اور اس کے دو بچوں کو زندہ جلادیا گیا۔ اس واقعے میں ملوث ایک ملزم پرتاپ سارنگی آج کل مرکزی حکومت میں وزیر ہیں۔ گوروسوامی تب تک حکومت کے اقتصادی مشیر مقرر ہو چکے تھے۔ واجپائی کی تقریر اور پادری کی ہلاکت کے سانحے کے بعد انھوں نے انڈین ایکسپریس میں ایک مضمون لکھ کر وزیرا عظم واجپائی کا نام لیے بغیر تبدیلی ٔمذہب کی مخالفت کرنے والوں کی خوب خبر لی۔ چند روز بعد ہی واجپائی کی ایما پر انھیں حکومت کی پیش کردہ ذمہ داریوں سے فارغ کردیا گیا۔

آج اس واقعے کے تذکرہ کرنے کا مقصد یہ ہے کہ تبدیلی ٔمذہب کے احق کو سخت مشکل بنانے کے ساتھ ساتھ اب ہندو قوم پرست بی جے پی کی قیادت والے صوبے یکے بعد دیگر ے بین المذہبی شادیوں کو روکنے کے لیے قانون سازی کر رہے ہیں۔ خاص طور پر اس صورتِ حال میں، جب کہ لڑکا مسلمان اور لڑکی ہندو ہو۔

 ۲۰۱۷ءمیں جب اتر پردیش کی صوبائی اسمبلی کے لیے انتخابات کا بگل بج گیا، تو موجودہ وزیرا علیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے انتخابی حلقہ گھورکھپور اور خوشی نگر کے دورے کے دوران مسلم خواتین کے اغوا اور پھر ان کو ہندو مذہب قبول کروانے کے کئی واقعات میرے علم میں آئے۔اس سے دو سال قبل لوک سبھا کے انتخابات کے موقع پر آدتیہ ناتھ نے واضح طور پر دھمکی دی تھی:’’اگر وہ (مسلمان) ہماری (ہندؤ) ایک لڑکی لے جائیں گے، تو ہم ان کی ۱۰۰ لڑکیاں لے جائیں گے‘‘۔ ان کا اشارہ اس پروپیگنڈا کی طرف تھا، جس میں مسلمان نوجوانوں پر الزام لگایا جاتا رہا ہے کہ وہ ہندو لڑکیوں کو دامِ محبت میں پھنسا کر ان کے ساتھ شادیاں رچاتے ہیں‘ اور اس کو ’لو جہاد‘ کا نام دیا گیاہے۔

 اترپردیش کے مشرقی حصے میں تو معاملہ بالکل اُلٹ ہے۔ایک خاتون ساتھی رپورٹر شوئیٹا ڈیسائی کے ساتھ اس علاقے کے کئی دیہات خاک چھاننے کے بعد معلوم ہوا کہ مسلم لڑکیوں کے اغوا اور غائب کر دیے جانے کی سیکڑوں وارداتیں پولیس اسٹیشنوں کی فائلوں میں بند ہیں۔ معلوم ہوا کہ ان لڑکیوں کا’شُدھی کرن‘ کرکے ان کی شادیاں ہندو نوجوانوں کے ساتھ کرا دی جاتی ہیں۔وہیں پر ہمیں بنجاریہ گاؤں کی ۱۷ سالہ آسیمہ نے بتایا کہ اغواکرنے کے بعد اس پر ایک ہندو لڑکے کے ساتھ شادی کرنے کے لیے دباؤ ڈالا گیا‘ مگر وہ کسی طرح ان کے چنگل سے بھاگ نکلی۔ صرف اس ایک گاؤں میں نو ایسے خاندان تھے، جن کی لڑکیوں کو اغوا کرکے بعد میں زبردستی شادیاں کر وا ئی گئی تھیں۔

چوپیہ رام پور گاؤں میں ’زبیدہ‘ اب ’امیشا ٹھاکر‘ کے نام سے ایک ہندو خاندان میں اروند ٹھاکر کی بیوی بن کر زندگی گزار رہی تھی۔ہلکےنیلے اور گلابی رنگ کی ساڑھی زیب تن کیے، ماتھے پر تلک اور مانگ میں سندور کو دیکھ کر یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ لڑکی کبھی زبیدہ رہی ہوگی۔ اس کو ۱۳سال کی ہی عمر میں اغوا کیا گیا تھا۔ سڑک کی دوسری طرف ہی اس کی ننھیال ہے، جن کے لیے زبیدہ مرچکی ہے۔ اس کے ماموں عبداللہ کا کہنا تھا کہ ’’اغوا کے کئی ہفتوں بعد ان کی بیٹی کو بھری پنچایت میں پیش کرکے زبردستی ہندو بنایا گیا اور اب وہ ایک زندہ لاش کی مانند زندگی گزارنے پر مجبور ہے‘‘۔ پولیس نے تو پہلے رامیشور ٹھاکر کے دو بیٹوں کے خلاف نابالغ لڑکی کو اغوکرنے کے الزام میں رپورٹ درج کی تھی مگر بعد میں اس پر کوئی کارروائی نہیں کی۔ عبداللہ کا کہنا تھا کہ ’’طاقت وَر ٹھاکر خاندان کے خلاف لڑنے کی مجھ میں ہمت نہیں تھی‘۔ اپنے تین سالہ بیٹے کو گود میں لیے زبیدہ یا امیشہ نے ہم کو بتایا کہ ’’میں اب زندگی کے ساتھ سمجھوتا کر چکی ہوں، کیونکہ واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہے‘‘۔ پولیس ریکارڈ سے معلوم ہوا کہ اس علاقے میں ۳۸۹ نابالغ مسلمان لڑکیوں کے غائب ہونے کی وارداتیں ہوئی تھیں۔

دہلی واپس آکر ایک دن پارلیمنٹ کے اجلاس کے دوران میں نے آدتیہ ناتھ یوگی کو، جو ممبر پارلیمنٹ ہونے کے ساتھ ساتھ گھورکھ پور کے سب سے بڑے مندر کے مہنت بھی تھے ، سینٹرل ہال کے ایک کونے میں اکیلے سوپ نوش کرتے دیکھا۔ بیٹھنے کی اجازت مانگنے کے بعد ان سے اس ’ریورس لو جہاد‘ کے بارے میں جاننے کی کوشش کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’مسلم لڑکیاں خود ہی ہندو لڑکوں سے شادیاں کرکے بہ رضاو رغبت مذہب تبدیل کرتی ہیں‘‘۔ میں نے پوچھا کہ ’’آپ آئے روز مسلمانوں کے خلاف بیانات داغتے رہتے ہیں۔ بھارت میں سرکاری ریکارڈ کے مطابق ۱۷کروڑ سےزیادہ مسلمان بستے ہیں۔ ان سبھی کو ختم کیا جا سکتا ہے اور نہ پاکستان کی طرف دھکیلا جاسکتا ہے اور نہ ہندو بنایا جا سکتا ہے۔ کیا کوئی طریقہ نہیں ہے کہ اس ملک میں ہندو اور مسلمان  شانہ بشانہ پُرامن زندگی گزار سکیں؟‘‘یوگی صاحب کہنے لگے :’’ہندو حکمرانوں کے کبھی توسیع پسندانہ عزائم نہیں رہے ہیں‘ مگر اب وہ بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں، کیونکہ ان کا مذہب، تہذیب و تمدن مسلمانوں اور عیسائیوں کی زد میں ہیں، اور ان مذاہب کے پیشوا اور مبلغ‘ ہندوؤں کو آسان چارہ سمجھتے ہیں‘‘۔ ٹوسٹ کا آخری لقمہ حلق میں اتارتے ہوئے آدتیہ ناتھ نے کہا: ’’مسلمان، ہندو دھرم کو عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھتے اور ہماری رسوم پر ناک بھوں چڑھاتے ہیں۔ پھر ہر روز پانچ وقت مساجد سے اذان کی آوازیں آتی ہیں‘‘۔ لوک سبھا کی کارروائی کے لیے کورم کی گھنٹی بجائی جارہی تھی۔ وہ ایوان میں جانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے اور جاتے جاتے کہا:’’مسلمانوں کو دیگر اقلیتوں سکھوں، جین فرقہ اور پارسیوں کی طرح ہندو دھرم کی برتری تسلیم کرتے ہوئے چین سے رہنا سیکھنا چاہیے‘‘۔

آج یہی ادتیہ ناتھ بھارت کے سب سے بڑے صوبہ کے وزیرا علیٰ ہیں، اور وزیراعظم نریندر مودی، وزیر داخلہ امیت شا کے بعد حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے تیسرے بڑے لیڈر ہیں، جو وزارت عظمیٰ کی کرسی حاصل کرسکتے ہیں۔

اتر پردیش کی بی جےپی حکومت نے ۲۶نومبر۲۰۲۰ء کو ایک آرڈی ننس منظور کیا اور پھر ۴۸گھنٹوں کے اندر اندر اس کا اطلاق کرکے لکھنؤ میں ایک ایسی شادی کو رکواتے ہوئے ایک مسلم نوجوان کو جیل بھیج دیا۔ اسی طرح ایک مسلم جوڑے کو نکاح کی تقریب کے دوران حراست میں لے کر ان کو پولیس اسٹیشن میں مبینہ طور پر اذیتیں دیں، اس سے ہلکا سا اندازہ ہوتا ہے کہ مستقبل میں اس قانون کی آڑ میں مسلم نوجوانوں کو کس طرح ہراساںکیا جائے گا۔ لگتا ہے کہ اب رفتہ رفتہ مسلمانوںکو شادی یا نکاح کی تقریب منعقد کرنے سے قبل مقامی پولیس سے باضابطہ اجازت لینی پڑے گی ، اور یہ یقین بھی دلانا پڑے گا ، کہ دلہن کسی دوسرے مذہب کی نہیں بلکہ پیدایشی اور نسلی مسلمان ہی ہے۔ جہاں ایک طرف اب حکومتی اداروں نے مسلمان لڑکوں کی دیگر مذاہب کی لڑکیوں کے ساتھ شادی پر سخت موقف اختیار کرکے قانون سازی تک کر ڈالی، وہیں دوسری طرف ہندو تنظیمیں باضابطہ مسلم لڑکیوں کے اغوا اور ہندو نوجوانوں کے ساتھ ان کی شادیاں کرنے کے واقعات سے صرفِ نظر کرتی آئی ہیں۔

بین المذہبی شادیوں میں مسلمانوں کو ’لوجہاد‘ کا نام دے کر مطعون کیا جارہا ہے۔ بڑے پیمانے پر پروپیگنڈا کرکے یہ بتایا جاتا ہے کہ ’’مسلمان لڑکے ہندوؤں کے بھیس میں دیہاتوں اور قصبوں میں گھومتے رہتے ہیں اور ہندو لڑکیوں کو محبت کے جا ل میں پھنساتے ہیں۔ شادی کے بعد جب پتہ چلتا ہے کہ لڑکا مسلمان ہے،تب تک بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے اور پھر لڑکی کا زبردستی مذہب تبدیل کیا جاتا ہے‘‘۔

اس بے بنیاد، مبالغہ آمیز اور لغو پروپیگنڈے کو نام نہاد تحقیقی رنگ دینے کی غرض سے ایک تنظیم کا دعویٰ ہے کہ ’’ہمارے ہاتھ توایک ریٹ لسٹ بھی لگی ہے، جس کے تحت ایک برہمن لڑکی کو بھگانے اورنکاح کرنے پر مسلم نوجوانوں کو سعودی عرب اور دیگر خلیجی ملکوں سے ۱۰ سے ۱۵ لاکھ روپے دلائے جاتے ہیں، جب کہ دیگر ذاتوں کی لڑکیوں کے لیے سات سے دس لاکھ اور نچلی ذات، یعنی دلت لڑکیوں کے لیے یہ ریٹ پانچ لاکھ ہے‘‘۔شکر ہے کہ اس میں ابھی تک پاکستان یا اس کی کسی ایجنسی کا نام شامل نہیں ہوا۔ ایسی پروپیگنڈا بریگیڈ کے مطابق ’’ایک سازش کے تحت ہندو اکثریتی آبادی کے تناسب کو بگاڑنے کی کوشش ہو رہی ہے‘‘۔

 اب ان کو کون بتائے کہ اگربھارت میں رہنے والے تقریباً ۲۰کروڑ مسلمان صرف  ہندو لڑکیوں سے ہی شادیا ں کرتے ہیں، تو اس کے باوجود ۹۸کروڑ ہندوؤں کو اقلیت میں تبدیل نہیں کرسکتے۔ اس نئے ’لو جہاد‘ کے نعرہ کے نام پر ہندو تنظیموں نیز کئی جگہوں پر مقامی انتظامیہ نے اترپردیش، راجستھان، کرناٹک میں مسلم نوجوانوں کی زندگیاں اجیرن بناکے رکھ دی ہیں۔اگر ان کو دہشت گردانہ واقعات کے ساتھ جوڑنے کے لیے ثبوت نہ مل رہے ہوں ، تو ’لو جہاد‘ کے نام پر یا کسی ہندو لڑکی کی طرف دیکھ لینے ہی کی پاداش میں انھیں نشانِ عبرت بنادیا جاتا ہے اوربنایا جاسکتاہے۔ ۲۰۱۳ء میں دہلی سے صرف ۱۰۰کلومیٹر دُور مظفر نگرکے خونیں فساد اسی طرح کی افواہ سے شروع ہوئے تھے۔ ان میں تقریباً ۶۰؍ افراد اپنی جانیں گنوا بیٹھے۔

مغربی اتر پردیش اور ہریانہ میں ہندو جاٹوں کا سماجی تانا بانا خاصا پیچیدہ ہے۔ ایک تو ان علاقوں میں مردوںاور عورتوں کی آبادی کا تناسب سب سے کم ہے، دوسری طرف یہ ایک گوت اور ایک ہی گاؤں میں شادی نہیں کرتے۔ چچا زاد، ماموں زاد نیز گاؤںکی تمام لڑکیوں کو بہن کا درجہ دیا جاتا ہے، اور اس روایت کو اس حد تک سختی کے ساتھ نبھایا جاتا ہے، کہ خلاف ورزی کرنے والوں کو کئی موقعوں پر گاؤں کی جاتی پنچایت یا ان کے اعزا و اقارب ہی موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں۔ان علاقوں میں کئی مواقع پر لڑکیاںگاؤں کے مسلم یا نچلی ذات کے ہندو دلت نوجوانوں کو دل دے بیٹھتی ہیں۔ کیوںکہ صرف یہی دو گروہ بھائیوں کے زمرے میں نہیں آتے ہیں۔ مگر اس کے باوجود اس علاقے میں ابھی تک کوئی ایسا مقدمہ سامنے نہیں آیا ہے، جہاں کسی ہندو لڑکی نے باضابطہ طور پر کسی مسلم لڑکے کے ساتھ شادی کی ہو یا مذہب تبدیل کیا ہو۔

چند برس قبل تک اسرائیل میں بھی ’اسرائیلی عربوں‘ (یہ اصطلاح ان فلسطینیوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے، جو اسرائیل کو اپنا وطن تسلیم کرتے ہیں) پر بھی یہودی لڑکیوں کو بہلا پھسلا کر اپنے آپ کو یہودی جتلا کر ان کے ساتھ شادیا ں کروانے کے الزام لگائے جاتے تھے۔ اس سارے پروپیگنڈے کا ماخذ۲۰۱۰ء میں عدالت میں ایک یہودی لڑکی کی طرف سے دائر کیا گیا مقدمہ تھا، جس میں اس نے اپنی شادی منسوخ کرنے کی درخواست دی تھی کیونکہ ’’اس کے شوہر نے اپنی شناخت چھپا کر اور اپنے آپ کو یہودی جتلا کر اس کے ساتھ شادی کی تھی۔ بعد میں اس کو پتہ چلا تھا کہ وہ ایک عرب نوجوان تھا‘‘۔اس واقعہ کے نتیجے میںتل ابیب، عسقلان، بحرلوط اور دیگر تفریحی ساحلی مقامات پر اسرائیلی عرب نوجوانوں کا داخلہ بند کردیاگیا تھا۔

دوسری عالمی جنگ سے پہلے کچھ اسی طرح کے حربے نازی جرمنی نے یہودیوں کے خلاف اپنائے ، تاکہ ملک گیر سطح پر ان کے خلاف نفرت کا ایک طوفان کھڑا کیا جائے۔تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ ہٹلر نے اس پروپیگنڈے کو عام کرنے میں خاصی دل چسپی دکھائی، کہ ’’یہودی نوجوان ایک پلاننگ کے تحت جرمن خواتین کی آبرو کے درپے ہیں‘‘، تاکہ بقول ہٹلر ’’اعلیٰ جرمن آرین نسل کو آلودہ کیا جائے‘‘۔ ایڈولف ہٹلر نے اپنی خود نوشت سوانح حیات مین  کیمف (Mein Kampf) میں لکھا ہے: ’’چہرے پر شیطانی مسکراہٹ سجائے کالے بالوں والے یہودی نوجوان، جرمن لڑکیوں کے لیے گھات لگائے بیٹھے ہیں ، تاکہ ان کے خون کو گندا کریں اور ان سے ان کی نسل چھین لیں‘‘۔ بالکل اسی طرح کا کھیل ۸۰برس کے بعد اب بھارت میں کھیلا جا رہا ہے۔

حیر ت کا مقام ہے کہ '’لو جہاد‘ کا یہ مفروضہ۲۰۰۶ء میں تعلیمی اور سماجی لحاظ سے ترقی یافتہ صوبہ کیرالا سے شروع ہوا، اور بعد میں یہ وبا پڑوسی صوبہ کرناٹک تک پہنچی۔حتیٰ کہ ۲۰۰۹ء میں کرناٹک کی ہائی کورٹ نے دونوں صوبوں کی پولیس سے رپورٹ طلب کی۔ پولیس نے بتایا کہ ’’محبت کا جھانسہ دے کر مسلمان بنانے کا کو ئی واقعہ ہمارے ریکارڈ پر نہیں ہے، تاہم ۲۵جون۲۰۱۴ء کو وزیراعلیٰ اومن چاندی نے اسمبلی میں انکشاف کیا کہ ان کے صوبہ میں ۲۰۰۶ء اور ۲۰۱۴ء کے درمیان ۲۶۶۷ہندو خواتین نے اسلام قبول کیا ہے۔ مگر پولیس تفتیش سے یہ بات سامنے آئی ہے، کہ ان خواتین کو کسی نے زبردستی یا لالچ دے کر تبدیلیٔ مذہب پر مجبور نہیں کیا۔ ان میں سے اکثر خواتین نے یہ بتایا کہ وہ ہندو مذہب کے ذات پات کے بندھنوں سے چھٹکارا پانا چاہتی تھیں، یا پھر شادی کے لیے ان کی اپنی ذات یا معاشی سطح کے ہندو لڑکوں نے انکار کردیا تھا‘‘۔

چونکہ رام مندر کی تعمیر ، کشمیر کی خصوصی آئینی پوزیشن ختم کرنے جیسے امور پر عمل درآمد ہوچکا ہے۔ ہندو انتہا پسند تنظیمیں جو اعلیٰ ذاتوں کی نمایندہ ہیں، انھیں مسلمانوں کو ہدف بنانے کے لیے  ایک اور ایشو کی ضرورت ہے، جس سے اکثریتی آبادی کی توجہ بنیادی ایشوز سے ہٹائی جائے اور  منافرانہ ماحول گرم رکھ کر ملک بھر میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز فضا برقرار رکھی جائے۔ مظلوم اور کمزور طبقات میں بڑھتی ہوئی سماجی بیداری نے نسل پرست بی جے پی کی فکر مندی کو دوچند کردیا ہے۔ لہٰذا وہ اپنے پس پردہ اہداف کے حصول کے لیے پسماندہ طبقات اور دلتوں کو  نشانہ بنانے کی جرأت نہیں کر سکتے ہیں۔ البتہ انتہاپسند ہندو تنظیمیں مسلمانوںکو نرم چارا تصور کرتی ہیں۔ ان تنظیموں کے لیے بہتر تھا کہ ہندو معاشرہ کی معاشرتی خرابیوں کی طرف توجہ د یتیں، جن کے سبب ہندو خاندانوں کی خانگی زندگیاں عذاب بن جاتی ہیں۔ ایسے ایسے سماجی بندھن اور قانونی شقیں ہیں کہ نہ آسانی سے طلاق لے سکتے ہیں اور نہ کسی مجبوری کی وجہ سے دوسری شادی کر سکتے ہیں۔ لیکن ان کے نزدیک یہ مسائل کوئی اہمیت نہیں رکھتے کیونکہ اس کی بنیاد پر سیاسی مفادات پورا کرنا ممکن نہیں ہے۔

بہرحال ضرورت اس بات کی ہے کہ بھارت میں مسلمان خود کو اس شر و فساد کی سیاست سے محفوظ رکھیں۔ جو نوجوان غیر اخلاقی حرکتوں میں ملوث ہوتے ہیں، غیر مذہب کی خواتین کے ساتھ راہ و رسم بڑھاتے ہیں، ان کی اصلاح کی کوشش کریں اور ان کی حوصلہ شکنی کریں۔ کہیں ان کی حرکتوں کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا نہ پڑے۔ کیوںکہ آثار و قرائن بتا رہے ہیں، کہ ہندو انتہا پسندوںکا سازشی ٹولہ اسی بہانے مسلمانوں کے سماجی بائیکاٹ کی سازش کر رہا ہے۔

مغربی دُنیا، خصوصاً فرانس کی جانب سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخانہ کوششیں محض ایک واقعہ نہیں ہیں، بلکہ کینسر سے متاثر جسم پر ابھر آنے والی اس پھنسی کی مانند ہیں، جو حقیقت میں کینسر کی ظاہر ی علامت کے طور پر ابھر کر آتی ہے، لیکن اسے محض ایک معمولی سی پھنسی سمجھ کر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔

یہ واقعات دراصل ان کوششوں کا نتیجہ ہیں کہ جن کے ذریعے مغربی مقتدر قوتیں، اسلام اور پیغمبرؐ اسلام کے خلاف اپنے عوام کے ذہنوں میں نفرت اور بے زاری بھرنا چاہتی ہیں۔ افسوس کہ اس پر عالم اسلام کی جانب سے سیاسی سطح پر توبالعموم کوئی خاص حرکت سامنے نہیں آتی،اس کی امید بھی نہیں کی جاتی، کیوں کہ بیش تر مسلم حکمران یا تو مغرب کے وظیفہ خوار ہیں یا اپنے اقتدار کو باقی رکھنے کے لیے اس کے محتاج ہیں۔ البتہ مسلم عوام اور گروہ اپنے طور پرجو احتجاج کرتے ہیں، وہ بعض اوقات تشدد کی شکل بھی اختیار کرجاتا ہے۔ان واقعات پر محض عوامی احتجاج کی پالیسی کسی جوہری دباؤ کا ذریعہ نہیں بنی۔ تاہم اس بار چندمسلم حکومتوں کی جانب سے بھی احتجاج کیا گیا اور معاشی مقاطعے کی اپیل بھی کی گئی، جس کا خاطر خواہ اثر فرانس کے رویے اور عمل پر ظاہر ہوا ہے۔ جس سے یہ اندازہ ہوا کہ عالم اسلام کی حکومتیں اگر بزدلی اور بے حسی کا ثبوت نہ دیں تو عوام کے پاس معاشی مقاطعے کی ایسی طاقت ہے، جس کے ذریعے وہ ’دست درازی‘ کرنے والے کو اچھا سبق سکھا سکتے ہیں۔ چنانچہ معاشی مقاطعے کا سلسلہ دراز ہوتے دیکھ کر آخرکار فرانسیسی صدرمیکرون کو اپنے لہجے میں ترمیم کرنی پڑی اور انھوں نے الجزیرہ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ’’مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنا میرا مقصد نہیں ہے‘‘۔

اس کے بعد برطانیہ کے معر وف اخبار فنانشنل ٹائمز (۴ نومبر ۲۰۲۰ء) میں میکرون کا ایک مضمون شائع ہوا، جو دراصل اس اخبار کے ایڈیٹر کے نام خط ہے: ’’میں کسی بھی شخص کو ، خواہ وہ کوئی بھی ہو، یہ سوچنے کی اجازت نہیں دوں گا کہ فرانس اور اس کی حکومت، مسلمانوں کے خلاف نسلی تعصب کو گہرا کرے۔ حکومت کی غیر جانب دارانہ پالیسی میں عقیدے کی آزادی بھی شامل ہے‘‘۔

میکرون نے یہ بھی لکھا ہے کہ’’ فرانس، اسلامی تہذیب و ثقافت کے فضل و احسانات کامنکر نہیں ہے۔ اسلامی تہذیب نے ریاضی، فنِ تعمیر اور دیگر علوم میں جو خدمات پیش کی ہیں، فرانس نے ان سے خوب استفادہ کیا ہے‘‘۔  میکرون کے بقول: ’’مَیں نے اسلام پسندوں کی علیحدگی پسندی‘ (separatism Islamist) کی اصطلاح استعمال کی تھی، جسے بدل کر ’اسلامی علیحدگی پسندی‘  (Islamic separatism  )کر دیا گیا، حالانکہ میں نے ’اسلامی علیحدگی پسندی‘ کی اصطلاح کا استعمال کیا ہی نہیں۔ آپ کے اخبار نے اس اصطلاح کو میری جانب غلط منسوب کرکے مسلمانوں کو خوف زدہ کرنا چاہا ہے کہ مَیں انتخابات میں اس کا فائدہ اٹھانا چاہتا ہوں۔ میرے خیال میں ’اسلامی دہشت گردوں‘ کی جانب سے فرانس میں حملے اس لیے ہوئے کیوں کہ فرانس رائے کی آزادی کی ضمانت فراہم کرتا ہے اور لوگوں کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ جس طرح اپنی زندگی بسر کرنا چاہیں کریں‘‘۔ اپنے بیانات اور رویے کو درست ثابت کرنے کی غرض سے موصوف نے یہ بھی کہا ہے کہ ’شدت پسند اسلام‘سے وابستہ لوگ ہمارے بچوں کو ایسی تعلیم دیتے ہیں، جو جمہوریت سے نفرت اور ملک کے قوانین سے بے زاری پر آمادہ کرتی ہیں اور اسی لیے انھیں ’علیحدگی پسندی‘ کانام دیا گیا ہے۔

قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ صدر میکرون نے عالم اسلام کے شدید عوامی ردعمل سے مجبور ہو کر اپنی صفائی ضرور پیش کی ہے، لیکن اپنے نقطۂ نظر سے سرمو ہٹے نہیں ہیں۔ انھوں نے تین افراد کے قتل کا ذکر کیا ہے، لیکن دوسری جانب اس ذہنیت اور فکر کی بالکل تردید نہیں کی ہے جو پبلک مقامات پر باپردہ خواتین اورمسلم شناخت رکھنے والے افراد پر حملے کا موجب بن رہی ہے اور عام مسلمانوں کے لیے ہراسانی اور خوف کی فضا پیدا کررہی ہے۔ دراصل میکرون اوران جیسے دوسرے افراد بعض مسلمانوں کے انفرادی رویے کو بنیاد بنا کر اسلام اور پوری مسلم دُنیا کو ’موڈریٹ‘ اور’شدت پسند‘ کے الگ الگ خانوں میں بانٹ دیتے ہیں اور اس کی آڑ میں اسلام کے خلاف زہر افشانی کو جائز قرار دیتے ہیں۔ اگر مخالفت سر اٹھا لے تو فوراً یہ کہنا شروع کردیتے ہیں کہ ’’ہم اسلام کے نہیں، بلکہ ’شدت پسند اسلام‘ کے خلاف ہیں‘‘۔ کیا کوئی بتا سکتا ہے شدت پسنداسلام کیا ہے؟

میکرون نے ’ریڈیکل‘ مسلمانوں کی شبیہہ اس طرح پیش کی ہے: ’’حکومت فرانس کو سیکڑوں ’شدت پسندی‘ کے شکار افراد کا سامنا ہے جن کے بارے میں ہمیں یہ خطرہ لگارہتا ہے کہ کسی بھی وقت چاقو نکالیں گے اور لوگوں کو مار ڈالیں گے‘‘۔ گویا فرانس میں ہر مسلمان جیب میں خنجر لیے گھومتا پھرتا ہے، لیکن یہ غیرمتوازن ذہن کے صدر فرانس ، ایفل ٹاور کے پاس مسلم خاتون اور بچی پر  جان لیوا حملہ کرنے والوں کو نہ شدت پسند کہتے ہیں اور نہ ان سے یہ خطرہ منسوب کرتے ہیں کہ وہ کسی بھی وقت چاقو نکال کر کسی مسلمان عورت، بچے یا بوڑھے پر حملہ آور ہو جائیں گے۔

فرانس ہی کیوں؟

اگرچہ یورپ کے معروف سیاست دانوں کا ایک گروہ مختلف ملکوں میں اسلام کے خلاف محاذ آرا ہے اور کسی نہ کسی بہانے اسلام یا مسلمانوں کو نشانےپر لیے رکھنا ضروری سمجھتا ہے، لیکن فرانس اس معاملے میں پیش پیش ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں یہاں گستاخی پہلے بھی کی جاچکی ہے۔حجاب کا مسئلہ بھی یہاں بار بار پیدا ہوتا اور مسلمانوں پر پُر تشدد حملہ ہوتا رہا ہے، جس کی تازہ ترین مثال ایفل ٹاور کے پاس پیش آنے والا واقعہ ہے۔ فرانس وہ ملک ہے جو سیکولرزم، یعنی مذہب سے بیزاری کا سب سے بڑا علَم بردار سمجھا جاتاہے اور خود کو کسی مذہب سے جوڑنا پسندنہیں کرتا۔ ا س کے باوجود آخر فرانس میں صرف ایک مذہب، دین اسلام کی مخالفت کے زیادہ واقعات کیوں پیش آ رہے ہیں؟ کیا فرانس سیکولرزم کی علَم برداری سے دست بردار ہونے لگا ہے؟ یا وہ کبھی خود کو مذہبی تعصب سے آزاد ہی نہیں رکھ سکا؟

قاہرہ یونی ورسٹی کی استاذ ڈاکٹر زینب عبدالعزیز ان سوالات کا بہتر جواب فراہم کرتی ہیں۔ ۸۵ سالہ زینب عبدالعزیز قاہرہ یونی ورسٹی میں ’فرانسیسی تہذیب و ثقافت‘ کی استاد ہیں ۔حال ہی میں انھوں نےفرانسیسی زبان میں قرآن مجید کا ترجمہ بھی کیا ہے۔ ڈاکٹر زینب کی شخصیت عیسائی مشنری اور سرگرمیوں کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے اور وہ کئی بار بالخصوص شرق اوسط میں عیسائی مشنری منصوبوں کو بے نقاب کر چکی ہیں۔ اسی جرم کی پاداش میں انھیں تین بار قتل کی دھمکی بھی مل چکی ہے۔کویت کے مجلہ المجتمع  نے حال ہی میں ان کا ایک انٹرویو شائع کیا، جس میں انھوں نے فرانس کے سیکولر اور اسلام بے زار چہرے کےپس پردہ اس حقیقی چہرے کو عیاں کیا ہے، جو کیتھولک چرچ کا حامی ومبلغ ہے۔ یہ انٹرویو ایک خاص واقعے کے ضمن میں لیا گیا تھا۔

’’حال ہی میں صدر میکرون نے لبنان کا دورہ کیا تھا۔ شرق اوسط میں اس دورے کو محض ایک غیرملکی صدر کے خیرسگالی دورے کے طور پر نہیںلیا گیا۔ مبصرین کا خیال ہے کہ لبنان میں فرانس کی حد سے زیادہ دل چسپی اس لیے ہے کہ وہ اسے کیتھولک چرچ کی تابع ریاست بنانا چاہتا ہے، اور میکرون کے موجودہ دورے کو فرانس کی اس استعماری کوشش سے بھی الگ نہیں سمجھنا چاہیے، جو وہ شرق اوسط کے بعض ممالک اوربالخصوص لبنان کے سلسلے میں انجام دے رہا ہے‘‘۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ’’ ۱۹۴۳ء میں فرانس نےلبنان کو چھوڑ تو دیا تھا، لیکن اس کا وجود آج بھی وہاں اتنا ہی مستحکم ہے، جتنا پہلے تھا۔ لبنان سےرخصت ہونے سے پہلے اس نے دستور میں یہ شق شامل کرادی کہ یہاں کا صدر عیسائی ہوگا اوروزیر اعظم مسلمان ہوگا، حالانکہ ویٹی کن کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق لبنان کی ۶۷فی صد آبادی مسلمان ہے اور محض ۳۲ فی صد آبادی مختلف مذہبی گروہوں پر مشتمل ہے، جن میں عیسائی بھی شامل ہیں۔ اتنی کم تعداد ہونے کے باوجود عیسائی اقلیتیں شرق اوسط میں جوکچھ کر رہی ہیں، وہ سب صلیب کے حامی مغرب کے لیے کر رہی ہیں۔ اور یہ سب کچھ اسلام کو اُکھاڑ پھینکنے کے مذموم مقاصد کے لیے کررہی ہیں، جس میں عربوں میں موجود عیسائی اقلیت کا اہم کردار ہے‘‘۔

ڈاکٹر زینب کہتی ہیں: ’’فرانس، سیکولرزم کا دعوے دار ہونے کے باوجود کیتھولک عیسائی مذہب کو غالب کرنے کے لیے پُرعزم ہے۔ اس کا یہ عزم ’فرنکوفونی‘(Francophonie )کو بتدریج راسخ کرنےکی ایک کوشش ہے۔ یاد رہے فرنکوفونی اور استعمار کے درمیان گہرا تعلق ہے۔ اسی کے توسط سے وہ ثقافتی و تہذیبی تسلط اور عیسائی مشنری کی جڑیں پیدا کر سکتا ہے‘‘۔

فرانسیسی زبان و ادب کو ان خاص خطوں میں رواج دینے کے لیے فرانس نے Internationale Organisation de la Francophonie کے نام سے ایک تنظیم بھی قائم کی ہوئی ہے۔

کیمیل لورنس ایک محققہ ہیں، جو خلیجی امور پر تخصص کا درجہ رکھتی ہیں۔ان کی تحقیق کے مطابق:’’یہاں پہنچ کر شرق اوسط کے عیسائیوں کا مذہبی ہدف، سیاسی حکمت عملی سے مربو ط ہو جاتا ہے،  جو فرانس کے اندر جاری موجودہ کش مکش کو غذا فراہم کرتا ہے۔ بعض کیتھولک عیسائی فرانس میں بڑ ےپیمانے پر مذہبی[اسلامی] شعائر پر عمل کو فرانس میں اسلام کے اُبھرنے کا خوف سمجھتے ہیں‘‘۔

ایک اور مغربی محقق ولیم میری میرشا کا خیال ہے کہ کلیسا میں ایسے روایت پسند عناصر موجودہیں، جنھیں [شرق اوسط]کے عیسائیوں کی حالتِ زار میں ایک نئے صلیبی حملے کا جواز نظر آتاہے۔ جین کریسٹوف پوسیل فرانس کے ڈپلومیٹ برائے مذہبی اُمور سمجھتے ہیں کہ فرانس میں اسلام کے حوالے سے پیش آنے والے واقعات اور شرق اوسط میں عیسائیوں کے حوالے سے پیش آنے والے واقعات کے درمیان گہرا ربط ہے۔ فرانسیسی اخبارات میں شرق اوسط کے عیسائیوں اور اسلام سےمتعلق خاص طور پر خبریں اسی لیے شائع ہو رہی ہیں کہ یہ چیز مذکورہ ہدف کے لیے معاون ہے‘‘۔

ڈاکٹر زینب عبد العزیز، فرانس کے چہرے سے ایک اور پردہ اٹھاتے ہوئے کہتی ہیں: ’’فرانس کا مطلب ہے کلیسا کی سب سے بڑی بیٹی‘‘۔ ہر فرانسیسی صدر پر یہ لازم ہے کہ وہ عہدۂ صدارت سنبھالنے کے بعد ویٹی کن کا رُخ کرے اور ویٹی کن سے اپنی وفاداری کے اظہار کے لیے خطاب کرے۔

اس کلیے سے صرف فرانسو ہولینڈ [۲۰۱۲-۲۰۱۷ء] مستثنیٰ رہے، لیکن قدیم زمانے میں ویٹی کن اور فرانس کے درمیان جس معاہدے پر دستخط ہو چکےہیں، اس کی رُوسے وہ بھی ویٹی کن سے اپنی وفاداری سے باز نہیں رہ سکے۔ یہ معاہدہ فرانس کے اوپر رسمی طورپر یہ ذمہ داری عائد کرتا ہے کہ ’’مشنری اور عیسائی تبلیغی سرگرمیوں کے دو تہائی اخراجات فرانس کے ذمے ہوں گے‘‘۔

فرانس سے متعلق یہ حقائق ظاہر کرتے ہیں کہ اسلام اور اسلام کی عظیم ترین ہستی حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کےخلاف اس کے حملے محض اسلام اور پیغمبرؐ اسلام کی شخصیت سے عدم واقفیت یا ان کے بارے میں غلط فہمی کا نتیجہ نہیں ہیں، بلکہ یہ ایک منصوبہ بند سازش ہے، جسے انجام دینا  اس کے مقاصد کی تکمیل کےلیے ضروری ہے۔

آذربائیجان کی فوجیں ۱۷نومبر ۲۰۲۰ء کو جب نگورنوقاراباغ کے اہم شہر شوشا میں داخل ہوگئیں ، تو ترکی کے دارلحکومت انقرہ کے نواح میں رہنے والی ایک ضعیف العمر آذربائیجانی خاتون زلیخا شاناراوف نے گھر کے اسٹور سے ایک پرانا زنگ آلود صندوق نکالا، جس کو اس کی فیملی نے ماضی میں کئی بار کوڑے میں پھینکنے کی کوشش تھی۔مگر بڑی بی کا اس صندوق کے ساتھ ایسا جذباتی رشتہ تھا کہ و ہ آسمان سر پر اٹھا کر ہرایسی کوشش کو ناکام بنا دیتی تھی۔ شوشا شہر کے آزاد ہونے کی خبر نے اس عمر رسیدہ خاتون کو گویا پھر سے جوان کردیا ، اوراس نے پورے خاندان کو جمع کرکے اس صندوق کو کھولنے کا حکم دیا۔ اس چھوٹے سے بکس میں اس نے شوشا میں واقع اپنے مکان کی چابی حفاظت کے ساتھ رکھی ہوئی تھی، جہاں سے اس کو ۱۹۹۲ء میں آرمینیائی قبضے کے بعد بے سرو سامانی کی حالت میں بچوں کے ساتھ نکالا گیا تھا۔

ترکی کے شہر انقرہ، عدبر اور آذربائیجان کے باکو اور دیگر علاقوں میں ہجرت کی زندگی بسر کرنے والے ایسے ہزاروں مہاجر خاندان اب اپنے آبائی گھرو ں کو جانے کے لیے بے تاب ہیں۔ فی الحال دسمبر تک علاقوں سے آرمینیائی افواج کا انخلا طے پایا ہے اور آذر بائیجانی افواج مفتوحہ علاقوں میں بارودی سرنگیں ہٹانے کا کام کر رہی ہیں۔ اس کے بعد ہی شہریوں کو واپس آنے کی اجازت دی جائے گی۔ تقریباً ڈیڑھ ماہ پر پھیلی اس جنگ کے بعد آرمینیا نے جب اعتراف شکست کیا، تو یہ گذشتہ سو سالوں میں کسی مسلم ملک کی پہلی مکمل فوجی فتح تھی۔ گذشتہ ۲۷ برسوں کے بعد پہلی بار اعدام اور دیگر شہروں کی مسجدوں کے منارے اور منبر آباد ہوگئے، جہاں آذری افواج نے داخل ہوکر اذانیں دیں اور شکرانے کے نوافل پڑھے۔ پچھلی تین دہائیوں سے یہ مسجدیں جانوروں کے باڑوں یا موٹر گاڑی گیراج کا کام دے رہی تھیں۔ صرف اعدام کے علاقے سے ہی گذشتہ صدی کے آخری عشرے کے اوائل میں ۲لاکھ کے قریب آذری اپنے آبائی علاقے سے  نقل مکانی پر مجبور کر دیے گئے تھے۔ آرمینیوں نے قبضے کے دوران علاقے میں کافی لوٹ مار مچائی اور شہر کے مرکزی علاقوں کو تباہ کر دیا تھا۔

جنگ بندی اور آرمینیا کے وزیرا عظم نکول پاشہینان کے اعتراف شکست کے بعد جو معاہدہ طے پایا ہے، اس کے مطابق مفتوحہ علاقوں ، جن میں پانچ اہم شہر، چار قصبے اور ۲۸۶دیہات شامل ہیں، پر آذر بائیجان کا قبضہ تسلیم کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ دسمبر تک مزید سات علاقو ں سے آرمینیائی افواج کے انخلا کے بعد آذر بائیجان کے حوالے کر دیے جائیں گے۔ قاراباغ علاقے سے ۱۹۹۰ء میں آرمینیا نے جس مسلمان آذری آبادی کو بے دخل کرکے، اس علاقے کاآبادیاتی تناسب تبدیل کر دیا تھا، ان سب افراد کو واپس اپنے علاقوں میں جانے اور بسنے کی نہ صرف اجازت ہوگی، بلکہ ان کی حفاظت کی ذمہ داری مقامی حکمرانوں پر عائد ہوگی۔ آرمینیا سے آذربائیجان کے راستے ترکی جانے والے سبھی ٹرانزٹ راستوں کو کھولا جائے گا اور ترک افواج  ان کی نگرانی کریں گی۔ ان میں سب سے اہم ترکی اور آذر بائیجا ن کے درمیان قدیم سلک روٹ، یعنی ناچیوان کوریڈو ر کی بحالی ہے۔ اس سے ترکی کو براہِ راست چین تک رسائی حاصل ہوجائے گی اور یہ جلد ہی ’بیلٹ اینڈ روڈ پراجیکٹ‘ کا حصہ بن جائے گا۔ اس راستے کی عدم دستیابی کے نتیجے میں آذر بائیجان تک پہنچنے کے لیے ترکی کو ایران یا جارجیا کا راستہ اختیار کرنا پڑتا تھا۔ اگرچہ لنچن علاقے کو بھی آذربائیجان کا حصہ تسلیم کیا گیا ہے، مگر آرمینیا کو قاراباغ کے دارالحکومت اسٹیپن کرت تک رسائی کے لیے لنچن میں ایک کوریڈور کے ذریعے رسائی دی گئی ہے، جس کی حفاظت روسی افواج کریں گی۔

بلاشبہہ آذربائیجانی صدر الحام علی یوف پر سخت دباؤ تھا کہ جنگ جاری رکھ کے شوشا شہر کے بعد ۱۰کلومیٹر دور دارلحکومت اسٹیپن کرت پر بھی فوج کشی کرکے آزاد کروائیں، مگر جس طرح آرمینیائی افواج آذربائیجان کے اند ر شہری علاقوں پر میزائلوں اور راکٹوں کی بارش کرکے سول آبادی کو نشانہ بنارہی تھی، اس میں بڑی طاقتوں کی طرف سے جنگ بندی کی اپیل کے بعد الگ تھلگ پڑنے کے خوف سے علی یوف نے امن کے دامن کو تھام لیا۔

کہتے ہیں کہ جنگ مسائل کا حل نہیں ہے، یہ خود مسائل کو جنم دیتی ہے، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب بار بار تاکید کے بعد بھی مذاکرات مسائل حل کرانے میں ناکام ہوجاتے ہیں، تو جوں کی توں صورتِ حال (اسٹیٹس کو) بدلنے کا واحد حل جنگ ہی رہ جاتا ہے۔ ۱۹۹۴ء سے قاراباغ پر بھی اقوام متحدہ نے چاربار قرار دادیں منظور کرکے آرمینیا کو یہ علاقے خالی کرکے آذربائیجان کے حوالے کرنے کی اپیل کی تھی، مگر طاقت کے زعم کے ساتھ روس اور فرانس کی پشت پناہی کی وجہ سے آرمینیا نے ان قراردادوں پر کوئی کان نہ دھرا۔ اس دوران آرمینیا نے ان علاقوں کو مکمل طور پر آذری مسلم آبادی سے خالی کرواکے وہاں آرمینیائی نسل کی حکومت قائم کردی۔ جس نے اس علاقے کے اصل باشندوں، یعنی آذری مسلم آبادی کی عدم موجودگی میں نام نہاد ریفرنڈم کروایا، اور قاراباغ کا الحاق آرمینیا سے کرنے کا اعلان کیا۔ تاہم، بین الاقوامی برادری نے اس ریفرنڈم کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ آذربائیجانی صحافی جیحون علییوف کے مطابق ۱۹۹۰ء سے مذاکرات اور بین الاقوامی برادری کے توسل سے متواتر آذر بائیجان بتانے کی کوشش کررہا تھا ، کہ اگر آرمینیا ٹرانزٹ کوریڈورز میں آمد و رفت بحال کرنے، مہاجرین کی واپسی اور قاراباغ کے نچلے علاقوں کو واپس کرنے پر آمادہ ہوتا ہے ، تو وہ اس کو بطور حتمی حل ماننے کے لیے آمادہ ہے، مگر آرمینیا ہمیشہ اس پیش کش کو ٹھکراتا آیا ہے۔

اب جنگ کے بعد روس اور ترکی کی ایما پر ایسا ہی معاہدہ عمل میں آیا ہے۔ اب نچلے تمام علاقوں سے ہاتھ دھونے کے ساتھ ساتھ آرمینیا کو بالائی قاراباغ کے اہم شہر شوشا سے بھی ہاتھ دھونا پڑا ہے، جو اس علاقے کا ثقافتی اور تجارتی قلب ہے۔ تزویراتی لحاظ سے بھی اس کی اہمیت دوچند ہے، کیونکہ یہ اونچائی پر واقع ہے، اور اس کو حاصل کرنے کے لیے آذری افواج کو خاصی محنت کرنی پڑی ۔ یہاں آرمینیائیوں کا آپوسٹولک چرچ بھی واقع ہے۔

شمالی قفقاز ( North Caucasus) میں نگورنو قاراباغ کو ۱۹۲۳ء میں آذربائیجان کا علاقہ بنادیا گیا تھا۔ سوویت یونین کے آخری زمانے اور پھر تحلیل و انہدام کے بعد سے اس علاقے کے کنٹرول کے سوال پر آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان ۱۹۸۸ء سے ۱۹۹۴ءتک چھے سال طویل جنگ ہوئی، جس میں ۳۰ہزار افراد ہلاک ہوئے، جب کہ لاکھوں افراد کو وہاں سے ہجرت کرنا پڑی۔ اس وسیع پیمانے کی جنگ کو ختم کرنے کے لیے روس نے ثالث کا کردار ادا کیا ، لیکن کوئی معاہدہ نہیں ہوسکا۔ اس جنگ کی وجہ سے لاکھوںآذریوں کو ہجرت کرنا پڑی، جس کے نتیجے میں  یہاں آرمینیائی باشندوں کی اکثریت ہوگئی، جب کہ حکومت بھی آرمینیا کی حمایت یافتہ بن گئی۔

۲۰۱۶ءمیں بھی اس علاقے میں پانچ روز تک دونوں ممالک کے درمیان جنگ جاری رہی، جس کی وجہ سے سیکڑوں افراد ہلاک ہوگئے اور پھر روس کی مداخلت کی وجہ سے جنگ پھر رک گئی۔ مگر حال ہی میں اختتام پذیر جنگ ۹۰ء کے عشرے کے بعد چھڑنے والی سب سے بڑی جنگ تھی۔ اس میں خاص بات آذر بائیجان کو ترکی کی حمایت کا حاصل ہونا اور ڈرون طیاروں کا حصول، جس نے آرمینیا کی فضائی قوت کو تباہ کردیا۔ مزید یہ کہ آرمینیا کے اتحادیوں روس اور ایران کا  اس دورا ن غیر جانب دار رہنا بھی آذربائیجان کے حق میں گیا۔ تاہم روس نے خبردار کیا تھا کہ ’’آرمینیا کی سرحدوں کے اندر کسی بھی فوجی کارروائی کی صورت میں وہ مداخلت کرنے پر مجبور ہوگا‘‘۔ آذربائیجان نے اسی لیے جنگ کو قاراباغ تک ہی محدود رکھا ۔ آرمینیا نے اگرچہ آذر بائیجان کے شہری علاقوں پر راکٹوں کی بارش کی، مگر روس کی مداخلت کے خوف سے آذر بائیجان نے ان کا جواب نہیں دیا،اور فوج کشی قاراباغ تک ہی محدود رکھی۔

معاہدے کی رُو سے جو علاقے اب آرمینیا خالی کر رہا ہے ، اس کی فوج اور لوگ مکانات، سرکاری عمارات اور جنگلاتی اراضی کو نذرِ آتش کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا اور روسی نیوز سائٹ سے نشر ہونے والے ویڈیو مناظر میں کیل بیجیر کے مختلف علاقوں میں مقیم آرمینیوں کو نکلنے سے پہلے عمارتوں کو نذرِ آتش کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ خاص طور پر ۲۷سال قبل آذریوں کے پیچھے چھوڑے ہوئے گھروں کی کھڑکیاں اور دروازے توڑ کر انھیں آگ لگاتے ہوئے نظر آئے۔ صرف گھروں کو نہیں اسکولوں اور درختوں تک کو تباہ کیا جا رہا ہے۔ قارا باغ  کے شمال مغربی علاقے کیل بیجیر پر ۱۹۹۳ء کو آرمینیا نے جب قبضہ کیا تھا تو اس علاقے میں مقیم تقریباً ۶۰ہزار آذری اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہو گئے تھے۔ ۱۰ نومبر کو طے پانے والے سمجھوتے کی رُو سے آرمینی فوج کو ۱۵ نومبر تک کیل بیجیر کو خالی کرنا تھا۔

آذربائیجان کی خاص بات یہ ہے کہ اس کے پہاڑی علاقوں میں ازخود آگ بھڑک اٹھتی تھی۔ اس مناسبت سے زرتشت اس کو ایک مقدس جگہ مانتے تھے۔ مگر ماہرین کے مطابق اَزخود بھڑک اٹھنے والی آگ کا موجب علاقے میں پائے جانے والے تیل اور گیس کے ذخائر ہیں۔ بحرگیلان یا بحرکیسپین سی کے کنارے آباد اس علاقے میں ہمہ وقت چلنے والی تیز ہوائیں بھی ا س آگ کو بھڑکاتی رہتی ہیں۔

عالمی جریدے کونسل آن فارن ریلیشنز کے مطابق آذربائیجان روزانہ آٹھ لاکھ بیرل تیل کی پیداوار کرتا ہے، جو یورپ اور وسطی ایشیا کو تیل برآمد کرنے والا بڑا ملک ہے۔  اس تیل اور گیس کو یورپ پہنچانے کے لیے دوراستے ہیں، ایک شمال مغربی روس اور دوسرا جنوب مغربی  قفقاز یا کاکیشیائی ریاستوں سے ہوکر ترکی سے گزرتا ہے۔ یورپ اپنی گیس کی ضروریات کو یہاں سے پورا کرنے کے لیے مستقبل میں یہاں سے مزید پائپ لائنوں کی تعمیر کا خواہش مند ہے۔گو کہ قاراباغ کا پہاڑی علاقہ خود گیس یا تیل کی پیداوار نہیں کرتا، مگر اس کے کیل بیجیر ، لاچن، زنگی لان اور تار تار اضلاع میں سونے، چاندی، پارے، تانبے، جست اور کوئلہ کے وافر ذخائر موجود ہیں۔

اس جنگ سے ایک بات تو طے ہے کہ شرق اوسط کے بعد قفقاز میں بھی ترکی کا قد خاصا بلند ہوا ہے۔ ایک طرح سے اس کا سفارتی اور عسکری رتبہ روس کے ہم پلہ ہوگیا ہے۔آذر بائیجان ، آرمینیا کی یہ جنگ شاید نئے ورلڈ آرڈر کی نوید ہے، جس میں ترکی، روس اور چین ایک اہم رول ادا کرنے والے ہیں۔جنگی برتری حاصل کرنے بعد ترکی اور آذر بائیجا ن کے لیے بھی لازم ہے کہ آرمینیا کی اشک شوئی کرکے اس کو بھی اتحاد میں شامل کرکے اقتصادی طور پر اس کی مدد کرکے اسے مغربی ممالک کا کھلونا نہ بننے دیںاور مفتوحہ علاقوں میں آرمینیائی مذہبی علامتوں کی حفاظت کی جائے۔ شاید اسی لیے ترکی کی ایما پر آذربائیجان کی افواج نے اسٹیپن کرت پر فوج کشی نہ کرکے مفاہمانہ پالیسی کی گنجایش رکھ دی ہے۔