پاکستان اس وقت ایک غیرمعمولی صورتِ حال سے گزر رہا ہے اور ایک کے بعد دوسرے گرداب میں گھرا ہوا ہے۔ مَیں بڑے دُکھ سے یہ بات کہہ رہا ہوں کہ وطنِ عزیز کو اس گرداب سے نکالنے کے لیے حکومت ، احزابِ اختلاف، میڈیا اور سوشل میڈیا وہ ذمہ داری ادا نہیں کر رہے، جو قومی مفاد کی مناسبت سے ان پر عائد ہوتی ہے۔
تین منظرنامے بنیادی اہمیت کے حامل ہیں جن میں:پہلا اور اوّلین ملک کا اندرونی منظرنامہ ہے۔ دوسرا علاقائی منظرنامہ اور پھر تیسرا عالمی منظرنامہ۔ان میں سے کسی کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا اور یہ سب ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔ ان چیلنجوں کا جواب دینے کے لیے الگ الگ پالیسیاں، متضاد اور متناقض رویے اختیار کرنا سخت نقصان دہ ہوسکتا ہے۔
یہاں ان وجوہ کا تذکرہ نہیں کیا جارہا جن کی بنا پر ۷۰برس کے دوران میں ہم نے مختلف نشیب و فراز دیکھے ہیں۔البتہ ملکی منظرنامے کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ قیامِ پاکستان کے جو چار بنیادی اہداف تھے، انھیں پیش نظر رکھا جائے۔ اوّلیں اور سب سے اہم ہدف ہے: ایک حقیقی اسلامی معاشرے اور مملکت کا قیام۔ دوسرا ہدف اسلام کی روح کے مطابق ایک ایسے جمہوری نظام کا قیام ہے کہ جس میں عوام اپنی قسمت اور مستقبل کے ذمہ دار ہوں اور اس کی تشکیل اور تعمیر میں اپنے منتخب نمایندوں کے ذریعے سے کردار ادا کریں، اور یہ منتخب نمایندے عوام کے سامنے جواب دہ ہوں۔ تیسرا ہدف یہ ہے کہ ملک کا نظامِ حکومت دستور، قانون اور ضابطۂ کار کے مطابق چلے۔ اور چوتھا یہ کہ حکومت کا مقصود عوام کی بھلائی، ان کی بہبود اور ان کے معیارِ زندگی کے ساتھ ان کے معیارِ اخلاق کو بلند کرنا بھی ہو۔ اس کے لیے دُنیوی وسائل اور جدید ٹکنالوجی کا حصول ضروری ہے، تاکہ ترقی کے لیے مؤثر قوتِ کار فراہم کی جاسکے۔
ان بنیادی اہداف کے ساتھ یہ حقیقت تسلیم کرنی چاہیے کہ یہ زمینی حقائق ہیں کہ ہم بہرحال ایک وفاق ہیں،اور ہمارے ہاں ایک تنوع پایا جاتا ہے۔ بجاے اس کے کہ ہم گروہی، علاقائی اور قومیتی عصبیتوں میں مبتلا ہوں، مناسب ہوگا کہ اختلاف کے باوجود اتفاق و اتحاد اور رواداری اور افہام و تفہیم کے ماحول میں محنت اور جدوجہد کریں اور موجودہ حکومت کو موقع دیں کہ وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اصل مقاصد کے حصول کے لیے پیش رفت کرے۔
قائداعظم نے ان تمام چیزوں کو ان تین الفاظ میں جمع کر دیا: ایمان، اتحاد اور تنظیم۔ یہ بھی کھیل کھیلا جا رہا ہے کہ ایمان پہلے آتا ہے یا اتحاد پہلے آتا ہے۔ میرے علم کی حد تک قائداعظم نے اسے دونوں طرح استعمال کیا ہے لیکن زیادہ تر ایمان پہلے آیا ہے، اتحاد اس کے بعد اور تنظیم آخر میں ہے۔ یہ الفاظ ایک دوسرے سے مربوط ہیں، ایک دوسرے کی تقویت کا باعث ہیں اور برابر کی اہمیت رکھتے ہیں۔ ملک کی صورتِ حال پر نظر ڈالیے۔ اس وقت قوم کو لفظی بحثوںمیں اُلجھایا جارہا ہے، اس سے قوم کو معاف رکھا جائے۔ قیامِ پاکستان کے بنیادی اصول و اہداف (objectives) جنھیں ہم بھول گئے ہیں، انھیں پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔
لفظوں کی ترتیب کی بہرحال ایک معنویت ہوتی ہے، اسی لیے قیامِ پاکستان کے فوراً بعد ’ایمان، اتحاد اور تنظیم‘ کو قومی موٹو قرار دیا گیا۔ قرآن ہمیں ایمان، عمل اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ فرمایا گیا ہے کہ انبیاے کرام ؑ کا مقصد تلاوتِ آیات، تزکیہ، تعلیم کتاب اور تعلیم حکمت ہے:
كَـمَآ اَرْسَلْنَا فِيْكُمْ رَسُوْلًا مِّنْكُمْ يَتْلُوْا عَلَيْكُمْ اٰيٰتِنَا وَيُزَكِّيْكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَۃَ (البقرہ ۲:۱۵۱) ’’ہم نے تمھارے درمیان خود تم میں سے ایک رسول بھیجا، جو تمھیں ہماری آیات سناتا ہے، تمھاری زندگیوں کو سنوارتا ہے، تمھیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے‘‘۔
خاص طور پرپچھلے ۲۰ برس قومی زندگی کے لیے اہم ہیں کہ ان میں پچھلے ۱۰سالہ فوجی آمریت کا دور، پھر پانچ سالہ پیپلزپارٹی کا دور اور سابقہ پانچ سالہ نون لیگ کا دور___ یہ تینوں حکمران اپنے دیے ہوئے اہداف کے حصول میں ناکام رہے۔ مزیدبرآں پاکستان کی آزادی اور خودمختاری، سالمیت، معاشی صلاحیت میں ترقی، نظریاتی استحکام ، جمہوری روایات، دستور، قانونی اداروں کی حکمرانی کو ہرایک نے اپنے اپنے انداز سے پامال کیا ہے۔یہ ہے عوام کی مایوسی کی وہ بنیاد جس نے تبدیلی کی لہر کو جنم دیا ہے۔
تبدیلی اور مدینہ کی ریاست کے ماڈل کو مرکزیت دے کر پاکستان کو اس کے سیاسی، تہذیبی، اخلاقی اور معاشی بحران سے نکالنا جماعت اسلامی کا مقصد ہے۔ ۲۰۱۳ء میں جماعت اسلامی کے منشور کا مرکزی موضوع بھی یہی تھا، لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جب ہم اپنے موضوع و مقصد کو عوام اور اپنے ووٹروں کے لیے باعث ِ کشش نہیں بنا سکے تو عمران خان اور ان کی پارٹی نے اس خلا کو پُر کرنے کی کوشش کی ہے۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہے کہ ۲۰۱۸ء کے انتخابات میں مختلف سطحوں پر نمایاں گڑبڑ ہوئی ہے اور یہ گڑبڑ ماضی کے مقابلے میں زیادہ فن کارانہ انداز میں ہوئی ہے۔ لیکن یہاں پر حسب ذیل دو باتوں کا ادراک ضروری ہے اور انھیں انتخابات میں مداخلت کے علی الرغم اہم عوامل کی حیثیت سے زیرغور لانا چاہیے:
پہلی بات یہ کہ عوام تبدیلی چاہتے تھے اور چاہتے ہیں ، اسی لیے انھوں نے سیاسی خلا کو پُر کرنے کے لیے ایک تیسری قوت کو آگے لانا ضروری سمجھا۔ اس خواہش کو انتخابی اعتبار سے نتیجہ خیز بنانے کے لیے کس نے کیا کیا کردار ادا کیا، یہ ایک الگ مسئلہ ہے، جس پر الگ سے تحقیق اور گفتگو ہونی چاہیے۔لیکن جو اندرونی مسئلہ ہے، یعنی تبدیلی اور وہ بھی ایک خاص سمت میں اور روایتی سیاسی قیادت اور اداروں کی ناکامی___ یہ ایک حقیقت ہے اور یہی بڑا چیلنج ہے۔ واضح رہے کہ عمران خان صاحب کی حکمتِ عملی میں یہ چیزیں مرکزی اہمیت کی حامل تھیں۔
دوسری بات جس کے بارے میں مجھے کوئی تحفظ نہیں، وہ یہ ہے کہ انتخابات میں اثرانداز ہونے کا معاملہ نیا نہیں ہے۔ ایسا کبھی زیادہ اور کبھی کم ہوتا رہا ہے، بلکہ برملا کہوں گا کہ پاکستان میں کوئی بھی انتخابات آج تک حقیقی معنوں میں شفاف نہیں ہوئے، بشمول ۱۹۷۰ء کے انتخابات کے جس کے بارے میں یہ غلط تاثر بٹھا دیا گیا ہے کہ وہ بہت غیر جانب دارانہ تھے۔ حالاںکہ ان انتخابات میں بھی مغربی پاکستان میں نسبتاً کم لیکن مشرقی پاکستان میں بہت زیادہ مداخلت ہوئی۔ مشرقی پاکستان میں انتخابی عملہ اور پولنگ اسٹیشن مکمل طور پر عوامی لیگ کے قبضے میں تھے۔ عوامی لیگ نے سارا سال کسی دوسری پارٹی کو انتخابی مہم نہیں چلانے دی اور پورے انتخابی عمل کو آغاز سے انجام تک اغوا کیے رکھا۔مگر حیرت ہے کہ ہمارے دانش ور اسے ’آزادانہ انتخابات‘ کہتے ہیں، حالاں کہ وہ صرف ’عوامی لیگ کے انتخابات‘ تھے۔پھر اس کے نتائج ہم نے قومی سطح پر بھگتے۔
حالیہ انتخابات میں تمام تر بے اعتدالیوں کے باوجود، مَیں سمجھتا ہوں کہ انتخابی نتائج کو تحفظات کے ساتھ تسلیم کرتے ہوئے حکومت کو کام کرنے دینا چاہیے اور جہاں جو چیز غلط ہوئی ہے، اس کی تحقیق ہونی چاہیے۔
حزبِ اختلاف احتجاج کر رہی ہے اور احتجاج اس کا حق ہے، مگر کوئی ایسا احتجاج جس سے جمہوری عمل متاثر ہو یا خدانخواستہ ناکام ہوجائے، یہ ہمیں اس سے بڑی مصیبت کی طرف لے جائے گا، اس لیے ہمیں ان دونوں باتوں کو تسلیم کرنا چاہیے کہ: ایک یہ کہ عوامی رو موجود ہے اور حقیقی ضرورت بھی ہے اور اس کو ایک سیاسی جماعت نے اپنے لیے بامعنی بنایا بھی ہے۔ بعض قوتیں کوشش کر رہی ہیں کہ ملک کسی طرح تصادم کی طرف جائے، ہم سمجھتے ہیں کہ یہ تباہی کا راستہ ہے، اس سے ہمیں ہرصورت میں بچنا چاہیے۔
راستہ یہ ہے کہ ہم دستور اور جمہوری نظام کے اندر سیاسی مکالمے، احتساب اور سیاسی عمل کے ذریعے سے بہتری لانے کی کوشش کریں۔ اس میں حکومت بھی اپنا کردار ادا کرے اور اپوزیشن بھی اپنا کردار ادا کرے۔ اس وقت یہی ایک راستہ ہے، تصادم کوئی راستہ نہیں ہے اور اس کا کوئی جواز نہیں ہے۔ یہ تصادم خواہ شکست خوردہ قوتیں کرنا چاہ رہی ہیں یا وہ سیاسی قوتیں جو کرپشن کا ہدف بننے کی وجہ سے (بجاے اس کے کہ کرپشن سے اپنی پاک دامنی کو ثابت کریں) سیاسی نظام کو عدم استحکام سے دوچار اور اداروں کو تصادم کی طرف لے جانے کا ذریعہ بن رہی ہیں، وہ سب قابلِ مذمت ہیں۔ یہ طرزِعمل حددرجہ افسوس ناک ہے، اس سے ہمیں بچنا چاہیے۔
اب علاقائی (regional) منظرنامے کو دیکھیے۔ خطے میں بہت اہم علاقائی تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں۔ ان علاقائی تبدیلیوں میں امریکا کا بہت دخل ہے۔ اس نے نائن الیون کو اپنے گھٹیا مفادات کے لیے استعمال کیا ہے۔ افغانستان کو مسلسل جنگ کے نتیجے میں تباہ کر دیا گیا ہے۔ افغانستان میں معقولیت کے ساتھ معاملات کو سلجھانے کے بجاے عراق پر حملہ کیا اور پھر ۲۰۰۳ء سے لے کر آج تک (۱۵سال ہوگئے ہیں کہ) عراق، شام اور لیبیا، امریکی سامراجیت کی لگائی ہوئی آگ میں جل رہے ہیں۔ پورا خطہ تصادم اور تباہی و بربادی سے دوچار ہے۔ پھر اسی پر بس نہیں، آگے بڑھ کر مشرق وسطیٰ میں شیعہ سُنّی تصادم کی فضا پیدا کی اور قوت کا استعمال کر کے یمن کو نشانہ بنایا گیا۔
امریکا کے علاوہ ایران کا کردار بھی متعددحوالوں سے غیرتسلی بخش ہے۔ اس میں کوئی ابہام نہیں کہ عراق میں ایران نے کچھ مقامات پر القاعدہ یا اس سے نکلنے والے افراد کی مدد کی ہے۔ ادھر لبنان کی حزب اللہ نے شیعہ سُنّی ٹکرائو میں جو کردار ادا کیا ہے، وہ بھی واضح ہے۔ شام کے معاملے میں جس طرح شیعہ سُنّی کا مسئلہ اُٹھایا گیا اور پھر یمن پر حملہ،پھر قطر کو دیوار سے لگادینا اور اسے تنہائی سے دوچار کرنا۔ گویا عرب اور عجم کو لڑانا، عرب اور عرب کو لڑانا اور اس طرح سب کو اپنا دست نگر بنانا امریکی پالیسیوں کا ہدف ہے۔ پھر امریکا کا ایک طرف یہ کہنا کہ ہم القاعدہ اور داعش کے خلاف ہیں اور دوسری طرف اس کا داعش کے ان گروپوں کی مالی اور اسلحے کی شکل میں مدد دینا جو ترکی کے خلاف بھی صف آرا ہیں، ایک ظالمانہ شیطانی کھیل ہے ۔سی آئی اے ان کو مالی امداد فراہم کر رہا تھا اور امریکی اہل کار ان کے پاس پہنچ رہے تھے۔ یہ عجیب و غریب منظر دل کو دہلا دینے والا اور آنکھوں کو کھول دینے والا ہے، لیکن بدقسمتی سے مسلم ممالک اب بھی غفلت کا شکار ہیں اور امریکا اور استعماری قوتوں کے چنگل سے نکلنے کی کوشش نہیں کررہے۔
اس صورتِ حال میں پاکستان سے کچھ غلطیاں ہوئی ہیں، لیکن بہرحال پاکستان بہت سی ایسی چیزوں سے بچ بھی گیا ہے جن سے اسے بچنا چاہیے تھا۔ ترکی، پاکستان، ملایشیا اور انڈونیشیا یہ چار ممالک ہیں جو اس پوری صورتِ حال میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ ہمارے لیے اس منظرنامے میں بھارت کا کردار اہم ہونے کے ساتھ خطرناک بھی ہے۔
بھارت نے اس زمانے میں دُوراندیشی سے ایک طرف روس سے اپنے تعلق کو باقی رکھا ہے، ایران سے دوستی بڑھائی ہے تو دوسری جانب ایران اور امریکا کے ذریعے افغانستان میں اپنے اثرات بڑھائے ہیں۔ امریکا کے ساتھ حقیقی اسٹرے ٹیجک پارٹنرشپ بنائی ہے۔اس وقت امریکا بھارت اتحاداس پورے خطے میں بھارت کو آگے بڑھانے اور چین کو ہدف بنانے کے لیے پوری قوت سے متحرک ہے۔اس گمبھیر ، اُلجھی ہوئی اور نازک صورتِ حال کا اِدراک اور خارجہ پالیسی کو حکمت و بصیرت کے ساتھ مرتب کرنا بہت ضروری ہے ورنہ پاکستان کے لیے بڑے سنگین مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔
تیسرا منظرنامہ یہ ہے کہ عالمی سطح پر پورا ورلڈ آرڈر (عالمی نظام) بدل رہا ہے۔ یہ عمل نائن الیون سے پہلے شروع ہوگیا تھا۔ نائن الیون کے بعد امریکا کو توقع تھی کہ وہ واحد عالمی سوپرپاور کی حیثیت سے پوری دنیا پر حاوی ہوجائے گا ، مگر اللہ کی حکمت سے معاملہ اس کے برعکس ہوگیا۔ اس کے نتیجے میں یورپ اور امریکا میں دُوری، روس کا نیا کردار، چین کا مؤثر کردار اور خود امریکا میں ’امریکافرسٹ‘ (سب سے پہلے امریکا)کے نعرے کا عام ہونا ایک نئی صورتِ حال کا پیش خیمہ ثابت ہوا ہے۔ صدر ٹرمپ کے برسرِاقتدار آنے کے بعد امریکا اپنے آپ کو نہ صرف ورلڈ آرڈر سے نکالنے بلکہ اسے تباہ کرنے میں لگا ہوا ہے۔ اس کے تحت اس نے اقوام متحدہ، انٹرنیشنل ہیومن رائٹس فورم اور انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس کو ہدف بنایا ہے۔ ایران سے جوہری پروگرام کی تحدید کا معاہدہ چھے ممالک سے ہوا تھا، اس معاہدے سے نکل کر امریکا نے تباہی کی ایک نئی صورتِ حال پیدا کر لی ہے۔ پیسفک کے ۱۲ممالک کے معاہدے سے امریکا نکلا ہے، میکسیکو اور کینیڈا سے بھی کھچائو اور کشاکش کا کھیل جاری و ساری ہے۔یہ عالمی سطح پر بگاڑ اور انتشار کی علامت ہے۔
پھر اس کے ساتھ ساتھ دولت اور غربت کا ارتکاز تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ اس زمانے میں حقیقی قوتِ خرید انسانوں کی عظیم اکثریت کے ہاتھ سے نکل گئی ہے اور لاکھوں کروڑوں میں کھیلنے والے ادارے اور افراد کھل کر اور چالاکی سے اس صورتِ حال کو اپنے حق میں استعمال کررہے ہیں۔ ۲۰۰۸ء میں جو معاشی بحران شروع ہوا، وہ نہ صرف یہ کہ ختم نہیں ہو رہا بلکہ اس نے سرمایہ داروں، کارپوریشنوں اور بنکوں کو تقویت پہنچائی اور مضبوط بھی کیا ہے۔ عام انسان، حتیٰ کہ امریکی صدر اوباما کے دور میں عوام کو سہولت فراہم کرنے کے لیے جو کوشش کی گئی تھی (کہ کسی طرح ہائوسنگ، انشورنس، صحت کے مسئلے پر عوام کو کچھ سہولت دی جائے)۔ امریکا اب اس سے بھی پیچھے ہٹ رہا ہے۔ شعبۂ تعلیم و تحقیق، امریکا کا بہت بڑا اثاثہ رہا ہے، لیکن ترجیحات کے اُلٹنے سے اب تعلیم ہر جگہ خریدوفروخت کی چیز بن گئی ہے۔ مفت تعلیم جس نے دنیا میں ایک انقلاب برپا کیا ہے، وہ نہ صرف امریکا میں بلکہ پوری دنیا میں رُوبہ زوال ہے۔
ان تینوں منظرناموں کو سامنے رکھتے ہوئے پاکستان کی خارجہ پالیسی اور داخلہ پالیسی کا جائزہ لینے اور عصری حالات میں بہتر حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت ہے، البتہ اس میں میری نگاہ میں اصل اور بڑا چیلنج داخلی ہے۔ ہم علاقائی اور عالمی صورتِ حال کو نظرانداز کرکے داخلی صورتِ حال کو بہتر نہیں بناسکتے۔ داخلی صورتِ حال ہی اصلاح اور مضبوطی کا ذریعہ ہے کہ جس سے خارجی حالات کو ٹھیک کیا جاسکتا ہے۔
اس لیے داخلی استحکام ہماری اوّلین ترجیح ہونی چاہیے۔ رہی عالمی اور علاقائی صورتِ حال، تو اس کے بارے میں جہاں تک ہم اپنے مفادات کا تحفظ کرسکتے ہیں، کرنا چاہیے۔ پھر ہمارے اس خطۂ ارضی کو بھارت کی ہٹ دھرمی اور کشمیر میں سفاکی نے خطرناک بنادیا ہے۔ اسی طرح دیگر مسلم ممالک کے مسائل ہیں جنھوں نے گلوبل ڈس آرڈر (عالمی بدنظمی) کو رواج دیا ہے۔ ان مسائل اور ان کے متاثرین کے ساتھ ہم آہنگی اور ان کا ہم آواز ہونا ___ ہماری نگاہ میں رہنا چاہیے۔
اب سوال یہ ہے کہ موجودہ صورتِ حال میں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
تحریکِ انصاف کی حکومت نے دو تین پہلوئوں سے شروع ہی میں لوگوں کو مایوس کیا ہے اور یہ کوئی اچھا شگون نہیں ہے۔ بلاشبہہ ان کے لیے پہلا موقع ہے، خاص طور پر عمران خان کے لیے کہ اس سے پہلے کبھی ان کی حکومت نہیں رہی ۔ انھیں بہت کچھ سیکھنا ہوگا اور ماہرین کی آرا سے فائدہ اُٹھا کر، قابلِ اعتماد اور باصلاحیت افراد سے استفادہ کرتے ہوئے اور خود اپنی ٹیم کو رہنمائی دینا ہوگی۔یاد رکھنا ہوگا کہ وہ دوسروں پر سخت جارحانہ تنقید کرتے رہے ہیں، اور اب انھیں اپنے دامن کو ایسے تمام داغوں سے بچاکر چلنا ہوگا۔
مجھے خود اس بات کا تجربہ ہے کہ جب اگست ۱۹۷۸ء میں پلاننگ کمیشن میں بطور وزیر آیا تو وزارت میں جماعت اسلامی کے تین محترم رفقا پروفیسر عبدالغفوراحمد صاحب، محترم چودھری رحمت الٰہی صاحب اور محترم محمود اعظم فاروقی صاحب بھی پاکستان کی وفاقی کابینہ میں شامل تھے۔ پروفیسر غفورصاحب اور محمود اعظم فاروقی صاحب مینجمنٹ اور ایڈمنسٹریشن میں اچھی گرفت اور تجربہ رکھتے تھے، لیکن ان کے برعکس میرا سارا علم کتابی اور تجربہ دعوتی کام کا تھا۔ چودھری رحمت الٰہی صاحب فوج میں رہے تھے اور پھر انھیں جماعت کے سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے انتظامی اُمور کو چلانے کا تجربہ بھی میسر تھا۔
اس تناظر میں ہمیں اندازہ ہے کہ حکومت میں آنے کے بعد ایک دم کس طرح ایک نئی دنیا آنکھوں کے سامنے آتی ہے۔ الحمدللہ ،ثم الحمدللہ ہم آٹھ نو ماہ تک حکومت میں رہے ہیں لیکن کوئی ایک مثال نہیں دی جاسکتی کہ ہمارے بیانات میں تضادات ہو یاہم نے قابلِ ذکر غلطیاں کی ہوں یا ہم نے جو فوری اقدامات کیے، وہ ندامت کا باعث بنے ہوں۔ دوسرا یہ کہ جماعت اسلامی نے ہماری تربیت کی تھی، چنانچہ ہم نے مشاورت میں ہمیشہ تحمل سے بات کی اور سنی بھی، اس طرح بولنے سے پہلے ہرمرحلے پر سوچا بھی کہ اس کے کیا نتائج ہوسکتے ہیں۔ پھر فوجی حکمرانی میں انتظامی حدود کے جو زمینی حقائق تھے، ان کو سامنے رکھ کر پھونک پھونک کر قدم رکھا اور پھر عمل کر کے دکھایا بھی کہ کس طرح کام ہوتا ہے۔
مجھے یہی توقع تھی کہ عمران خان بھی اپنے تجربات کی بنا پر ایسا کریں گے، لیکن محسوس یہ ہوتا ہے کہ ۲۰۱۳ء سے جن مسائل و معاملات پر وہ یکسوئی سے بات کر تے رہے ہیں، ان سے وہ آہستہ آہستہ پیچھے ہٹے ہیں۔ اس میں یہ دو تین چیزیں اہم ہیں: ایک یہ کہ ان کے سیاسی موقف کا بہت اہم حصہ یہ تھا کہ انتخابات جیتنے کی صلاحیت رکھنے والوں کے بارے میں دیکھنا ہوگا کہ وہ باصلاحیت ہوں اور ان کا دامن صاف ہو۔ ان کی اس بات میں بڑی اپیل تھی مگر عملاً وہ اس سے پیچھے ہٹے۔ دوسری طرف نوجوانوں نے آنکھیںبند کرکے ان کا ساتھ دیا ہے۔ یہ بہت بڑی قوت تھی اور ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ہمارے نوجوانوں میں باصلاحیت افراد موجود ہیں۔ ریاست کی انتظامی مشینری میں بھی باصلاحیت اور اچھے لوگ موجود ہیں۔ میں نے خود پلاننگ کمیشن میں آنے کے بعد پہلا کام یہی کیا تھا کہ سب سے پہلے محنتی اور باصلاحیت افراد کی ٹیم بنائی تھی۔ اگر وہاں اچھی ٹیم نہ بناتاتوجو کچھ خدمات انجام دے سکا، وہ مَیں انجام نہ دے سکتا تھا۔ اس معاملے میں عمران خان توقعات پرپورا نہیں اُترے اور انتخابی کامیابی حاصل کرنے والے افراد کے چکّر میں، یا دوستیوں کی بنا پر وہ اس سے پیچھے ہٹے ہیں۔ حالاںکہ ان کا ایک خاص منصوبہ بھی رہا ہے کہ ایک ٹیم بنائی جائے۔ وہ جن لوگوں کو آگے لائے ہیں ان میں کچھ اچھے اور لائق لوگ بھی ہیں، ان کے نظریاتی کارکن بھی اور کچھ نوجوان بھی آئے ہیں لیکن ایک خاصی بڑی تعداد ان لوگوں کی بھی ہے جن کی شہرت اچھی نہیں اور جن پر الزامات ہیں۔ ان کی وجہ سے ان کا عمومی تاثر خراب ہوا ہے۔
دوسری چیز جو پریشانی کا باعث رہی، ان کی سوچ اور گفتگو کا انداز ہے۔ انھوں نے تنقید کا جو انداز اپنایا اور جو الفاظ استعمال کیے، وہ ہماری اخلاقی اور تہذیبی روایات سے مطابقت نہیں رکھتے۔ اقتدار میں آنے کے بعد بھی اس چیزکو جاری رکھنا اگرچہ خواہ پہلے کی نسبت کم ہوا ہے، لیکن ان کا اوران سے بھی زیادہ ،ان کے ترجمانوں کا مخالفین پر تنقید کا انداز بہت نقصان دہ ہے۔
تیسری چیز یہ ہے کہ مشورے اور گہری سوچ کے بغیر اہم فیصلے کرنا اور اس سے بھی زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ فیصلوں کا قبل از وقت اعلان کرنا ہے۔ یہ چیز انتظامیات کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہی نہیں بلکہ فیصلہ سازی اور شوریٰ کے اصول کے بھی خلاف ہے۔
معلوم ہوتا ہے کہ ہرمعاملے پر علی الاعلان اظہارِ خیال ان کی حکومت کا طرزِعمل بنتا جارہا ہے۔ ایک جانب جلدبازی میں فیصلوں کا اعلان کردیتے ہیں اور پھر اچانک فیصلہ بدل دیتے ہیں، جو باعث ِ ندامت ہوتا ہے۔ ڈپلومیسی ۹۰ فی صد خاموشی کا نام ہے اور ۱۰فی صد اس کا اظہار زبانی (vocal ) اور بہ آوازِ بلند (loud) ہوتا ہے۔ مگر عمران حکومت نے معاملہ اس کے اُلٹ کر دیا ہے۔ یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ ڈپلومیسی بھی ٹویٹر (tweeter) کی مرہونِ منت ہوگئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اڑھائی مہینے کے دوران میں عوام کی توقعات کو صدمہ پہنچا ہے۔
ان تمام کمزوریوں، خامیوں اور تضادات کے باوجود حکومت کرنے کا انھیں موقع دیا جائے۔ جو کام یہ ٹھیک کریں، اس کی تائید کی جائے، محض مخالفت براے مخالفت نہ کی جائے۔ البتہ جو کام پالیسی کے اعتبار سے غلط کریں، ان پر گرفت اور تنقید کی جائے، لیکن یہ تنقید بھی جارحانہ نہیں بلکہ تعمیری ہونی چاہیے، تاکہ اس سے معاملات میں بہتری آسکے۔ اس میں حکومت اور حزبِ اختلاف دونوں کو اپنے رویوں پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔ ان کے درمیان باہمی رابطے اور افہام و تفہیم کی ضرورت ہے۔ اس وقت رابطے اور افہام و تفہیم میں دونوں کی طرف سے کوتاہی کا مظاہرہ دیکھنے میں آرہا ہے، لیکن حکومت کی طرف سے یہ بے نیازی زیادہ ہے۔ حکومت کو پہل کرتے ہوئے زیادہ بُردباری اور تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
اس وقت یہی دکھائی دیتا ہے کہ ہم ایک منقسم قوم ہیں اور مختلف سطحوں پر گروہ بندی (polarlization) کا شکار ہیں۔ جمہوریت میں اختلاف راے اور مسابقت اپنی حدود کے اندر رہنی چاہیے اور اس کے ساتھ ساتھ قومی فریم ورک پر اتفاق بھی رہنا چاہیے۔ قومی فریم ورک کا دفاع اور اسے مضبوط کرنے کی کوشش، یہ سب کی ذمہ داری ہے۔ جس کے لیے ضروری ہے کہ گروہ بندی سے نکلا جائے اور سخت نوعیت کی تقسیم کو ختم کیا جائے یا کم کیا جائے۔ باہمی رابطے کا راستہ اختیار کیا جائے اور یہ دونوں کی ذمہ داری ہے۔
دوسرا مسئلہ اداراتی بحران کا ہے۔ کھلی آنکھوں سے دیکھا جائے تو صورتِ حال شدید اداراتی بدنظمی کا نوحہ سناتی ہے۔ مَیں اسے مکمل اداراتی ناکامی نہیں کہتا مگر یہ حقیقت ہے کہ اداروں پر اعتبار و اعتماد کی فضا موجود نہیں ہے۔ پارلیمنٹ، عدلیہ، فوج، انتظامیہ، میڈیا، سوشل میڈیا اس وقت بڑے بڑے مؤثر عوامل ہیں مگر یہ سب ایک سطح پر نہیں ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی اپنا دستوری، سیاسی اور تہذیبی کردار خاطرخواہ طریقے سے ادا نہیں کر رہا۔ مداخلت، گروہ بندی ، لوگوں کو خریدنا، اپنی لابی بنانا، نان ایشوز کو ایشوز بنانا___ یہ انھی کاموں میں لگے ہوئے ہیں۔ نتیجہ ہے: ذہنی انتشار جو ہمارے دشمن اور عالمی اور علاقائی بحران پیدا کرنے والوں کے مقاصد پورا کرنے میں معاون بن رہا ہے۔ ’انسٹی ٹیوشنل ڈس لوکیشن‘ سے نکلنا اور اس کی اصلاح کی جائے۔
میری نگاہ میں آج بھی ملک میں معقول تعداد میں ایسے افراد موجود ہیں، جن کی صلاحیتوں سے فائدہ اُٹھاکر بہت کم وقت میں اداروں کو مؤثر اور متحرک کیا جاسکتا ہے۔ ہردائرے میں اچھے لوگ موجود ہیں بشرطیکہ ہم اپنی ذاتی پسند اور ناپسند سے بالا ہوکر انھیں اداروں میں لائیں اور ان کو اختیار دیں اور موقع بھی دیں۔ پنجاب میں اصلاحِ احوال کے لیے ایک ایسے باصلاحیت شخص کو لایا گیا جس نے خیبرپختونخوا میں پولیس کی اصلاح کے لیے ایک مؤثر کردار ادا کیا تھا، اور جسے سب نے سراہا تھا۔ لیکن پنجاب میں وہ ایک مہینے سے زیادہ چل نہ سکا۔ خیبرپختونخوا میں اپنی پسند سے جس شخص کو احتساب کے لیے مقرر کیا ، قانون بنایا اور حقیقت یہ ہے کہ وہ قانون نیب کے قانون سے اچھا تھا لیکن اس قانون پر کچھ عرصہ بھی عمل نہ ہوا اور پھر بالآخر وہ ادارہ ہی ختم کرنا پڑگیا۔ اس اداراتی بحران کی فکر کرنے کی ضرورت ہے۔
تیسری چیز کرپشن ہے۔ کرپشن فی الحقیقت ایک بہت بڑی بیماری ہے، بہت بڑی لعنت ہے اور اس میں مسلسل اضافہ ہوا ہے، مقدار و معیار بھی دونوں اعتبار سے۔ اور بدعنوانی کی واردات میں ملوث افراد کے ہاں کرپشن کی نئی نئی صورتیں بھی سامنے آرہی ہیں۔ کرپشن برطانوی دورِغلامی میں بھی تھی۔ یاد رہے ۱۱؍اگست ۱۹۴۷ء کی قائداعظم نے تمام معاملات سے پہلے کرپشن اور اقرباپروری، تنگ نظری، مگر عصبیت، گروہ بندی، لسانیت اور قومیت پرستی پر ضرب لگائی تھی۔ مگر افسوس کہ کرپشن اس کے باوجود آگے بڑھی ہے۔
پہلے ۱۰ برسوں میں شاذشاذ ہی مالی کرپشن ہوتی تھی۔ زمانۂ طالب علمی میں ہم لوگ فریئر روڈ کراچی پر رہتے تھے اور ساتھ ہی گورنمنٹ سیکرٹریٹ تھا۔ میں نے اپنی آنکھوں سے ان لوگوں کو دیکھاجنھوں نے توبہ کی اور عہد کیا کہ: ’’ہم نے انگریزکے زمانے میں رشوت لی تھی لیکن اب نہیں لیں گے کہ یہ ایک اسلامی ملک ہے‘‘۔ کلرکوں نے قلم دوات تک اپنے پاس سے لا کر کام کیا ہے۔ یہ جذبہ تھا لیکن پھر آہستہ آہستہ پرمٹوں کا چکّر، اقرباپروری، زمینیں، مہاجرین کے حقوق پر دست درازی اور بی ڈی ممبرسسٹم سے کرپشن بڑھتی چلی گئی۔ اس کے بعد ذوالفقارعلی بھٹو صاحب کے زمانے میں صنعتی اداروں کو قومیا لیا گیا۔ اس سے اداروں میں سیاسی مداخلت زیادہ ہوگئی، جس نے مزید کرپشن کا راستہ کھول دیا اور خاص طور پر بے نظیر صاحبہ اور نوازشریف صاحب اور مشرف صاحب کے زمانے میں تو یہ اپنی انتہا کو پہنچ گئی۔ جنرل محمد ضیاء الحق کے دور میں کرپشن تھی ضرور، لیکن اس نے وبائی شکل اختیار نہیں کی تھی، اس کے بعد یہ ایک وبا کی صورت اختیار کرگئی۔
ضرورت ہے کہ جہاں اور جب احتساب ہو، سب کا ہو۔ یہ بات بھی ضروری ہے کہ احتساب کے ذریعے انصاف ہوتا ہوا نظر آئے۔ احتساب کو سیاسی انتقام کا ذریعہ نہ بنایا جائے اور نہ جمہوریت کو بچانے کے نام پر اپنی بدعنوانی پر پردہ ڈالا جائے یا ڈالنے کی اجازت دی جائے۔
اس حوالے سے موجودہ نیب کی کارکردگی افسوس ناک ہے۔ بڑی عجیب بات ہے کہ موجودہ نیب اور اس سے پہلے کی نیب بھی وہ تھی جو مسلم لیگ نون اور پی پی کے مشورے سے بنی تھی۔ مَیں خود اس کے حق میں تھا کہ حزبِ اختلاف سے نیشنل اکائونٹس کمیٹی کا سربراہ ہونا چاہیے۔ گو، ہم ۱۸ویں ترمیم میں اسے لا نہیں سکے لیکن یہ ہماری خواہش تھی۔ اس کے بعد اس پر عمل ہوا اور چودھری نثار علی خاں نے اس پر بڑی محنت اور دیانت داری سے کام کیا۔ ان کے استعفے کے بعد پیپلزپارٹی نے بھی اس روایت کو اُس حد تک اور اُس سطح پر تو نہیں لیکن بہرحال اسے کچھ نہ کچھ قائم رکھا۔ اس کے بعد نوازشریف کے دور میں یہ بالکل غیرمؤثر ہوگئی اور صاف نظر آنے لگا کہ پبلک اکائونٹس کمیٹی اور سب سے بڑھ کر نیب اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اس طرح ان شبہات کو روز بہ روز تقویت مل رہی ہے کہ احتساب کے نام پر ایک دوسرے کو تحفظ دینے کے لیے کھیل کھیلا جا رہا ہے یا پھر بلیک میل کیا جا رہا ہے۔ اپنا کام نکالا جاتا ہے اور پھر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ ایم کیو ایم جس طرح بنائی اور پالی پوسی گئی ، اسی طرح اسے تقسیم کیا گیا ہے۔ تاہم آج بھی اسے سیاسی درجۂ حرارت حسب ِ ضرورت بنانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے اور شاید آیندہ بھی استعمال کیا جائے گا۔ یہ بڑی پیچیدہ اور ملک کے لیے اور خود جمہوریت کے مستقبل کے لیے بڑی خطرناک صورتِ حال ہے۔
کرپشن کا خاتمہ اس طرح نہیں ہوسکتا۔ اس کے لیے نیب کے کردار پر اَزسرِنو غور کرنا ہوگا۔ نیب میں ایسے افراد لانا ہوں گے جو دیانت دارہوں، اہل اور باصلاحیت ہوں، اپنے شعبوں میں تخصص رکھتے ہوں، ہرطرح کے دبائو کو برداشت کرسکیں اور تفتیشی عمل اور عدالتی عمل کے جملہ مراحل میں مقدمے کو احسن طریقے سے پیش کرسکیں۔
محمد نواز شریف صاحب ، ڈاکٹر عاصم حسین، شرجیل میمن اور ایان علی وغیرہ کے مقدمات سامنے آئے ہیں۔ ان میں صاف نظر آتا ہے کہ ایک طرف تو چوٹی کے وکلا ہیں جو دفاع کر رہے ہیں اور دوسری طرف نیب کا وکیل یا پراسیکیوشن کمزور سے کمزور چیز لے کر آتا ہے اور اہم اور مضبوط چیزوں کی موجودگی کے باوجود دانستہ طور پر کیس کمزور رہتا ہے۔ سپریم کورٹ کے ججوں کے میاں نوازشریف کے مقدمے کے سلسلے میں اصل فیصلے اور مشترکہ تفتیشی ٹیم کی کارروائی کی ۱۰ جلدوں کو دیکھیے تو بالکل دوسری تصویر سامنے آتی ہے، اور آخری فیصلے کو پڑھیے تو بالکل ہی مختلف تصویر سامنے آتی ہے۔ بلاشبہہ کرپشن اس ملک کا تیسرا اہم مسئلہ ہے اور اسے حل کرنا ازبس ضروری ہے مگر اس کے لیے بڑے حکیمانہ طریقِ کار، بالغ نظری اور غیر جانب داری کی ضرورت ہے۔
ملک کا چوتھا بڑا مسئلہ معیشت ہے۔ معیشت کے حوالے سے ہمارے ملک اور قوم میں بے پناہ صلاحیت ہے۔ حکومتوں کی غلط پالیسیوں کے باوجود ہم ابھی تک محفوظ چلے آرہے ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ پیپلزپارٹی نے بھی کمزور پالیسی اختیار کی تھی لیکن نوازشریف کے زمانے میں تو اس سے بھی زیادہ تباہ کن پالیسی اختیار کی گئی۔ قرض پر انحصار کیا گیا، میگا پراجیکٹس کے اُوپر، غلط ترجیحات، بروقت اقدامات سے غفلت،ہرمنصوبے کی اصل لاگت اور حقیقی لاگت میں زمین آسمان کا فرق، یہ سب چیزیں معاشی بحران کا سبب بنیں۔ پھر برآمدات گھٹتی اور درآمدات بڑھتی چلی گئیں اور ان کا فرق بھی ہرسال بڑھتا چلا گیا۔مالیاتی خسارہ، تجارتی خسارہ اور بین الاقوامی مالیاتی خسارہ ، یہ تینوں خسارے جس مقام پر پہنچ گئے ہیں، وہ بالکل ناقابلِ فہم ہیں۔
اس پہلو سے عمران حکومت کو بہت ہی مشکل صورتِ حال کا سامنا ہے۔ عالمی مالیاتی فنڈ (IMF)کے حوالے سے نظریاتی اور قومی سطح پر میری راے یہی ہے کہ ہمیں اس کے چنگل سے نکلنا چاہیے، لیکن اب ملک جس معاشی دلدل اور دبائو میں پھنس چکا ہے، صاف نظر آرہا ہے کہ کچھ وقت کے لیے مجبوراً اس کا سہارا لینا پڑے گا۔ تاہم اس مسئلے میں حکومت کا طرزِعمل کوئی اچھا تاثر نہیں پیش کرہا۔ اس میں بالغ نظری اور بصیرت کہیں نظر نہیں آتی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ماہرین سے مشورہ کرکے ایک راستہ بنایا جائے۔ اس کے بعد Internal fiscal control (اندرونی مالیاتی کنٹرول)، ٹیکس ڈھانچے میں تبدیلی، لوگوں کی شرکت، مقامی وسائل کی دریافت اور ان کے استعمال، کرپشن کے خاتمے، برآمدات کے فروغ، زراعت کو اہمیت دینے، سمال انڈسٹری اور میڈیم انڈسٹری کی طرف توجہ، کاروباری طبقات کی شرکت وغیرہ۔ اس کے لیے فوری، درمیانے اور طویل درجے کے منصوبے بنائے جائیں۔
پلاننگ کمیشن، پیپلزپارٹی اور نواز شریف کے زمانے میں اور پھر مشرف کے دورِ حکومت میں ایک عضوِ معطل رہاہے۔ قومی پلاننگ کمیشن کو معاشی پالیسیوں کے حوالےسے حکومت کا دماغ اور مرکز ہونا چاہیے۔ جب تک آپ اس کو یہ حیثیت نہیں دیں گے، پلاننگ کمیشن اور وزارتِ خزانہ کے درمیان تعاون نہ ہوگا اور تمام معاشی وزارتوں میں ہم آہنگی نہ ہوگی تو اسٹیٹ بنک اپنا کردار ادا نہیں کرسکے گا۔ اسی طرح نیشنل اکنامک کونسل کا قیام اور اس کی صحیح رہنمائی میسر نہ ہوگی تو معاشی بحران پر قابو پانا مشکل ہوگا۔ یہ تمام کرنے کی چیزیں ہیں۔
مَیں اب بھی یقین رکھتا ہوں کہ ہمیں ہرگز ہمت نہیں ہارنی چاہیے۔ چھے ماہ سے ایک سال کے اندر اندر ہم معاشی بحران سے نکلنے کے راستے پر آسکتے ہیں۔ پھر ہم اگلے چند برسوں میں ترقی کے راستے پر گامزن ہوسکتے ہیں، بشرطیکہ صحیح اور ٹھیک اقتصادی پالیسی بنالیں۔
آخری بات یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہمیں اپنے وژن اور اپنی منزل مقصود کے بارے میں بہت واضح ہونا چاہیے اور اس کو سامنے رکھ کر ایک تسلسل سے جدوجہد کی ضرورت ہے۔
قرآن تمام معاملات میں دین کی رہنمائی کوضروری قرار دیتا ہے۔ دنیا اور آخرت دونوں کا خالق و مالک اللہ تعالیٰ ہے۔ اس لیے قرآن دنیا و آخرت دونوں کے معاملات میں انسان کی مکمل رہنمائی کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے: وَہُوَ الَّذِيْ فِي السَّمَاۗءِ اِلٰہٌ وَّفِي الْاَرْضِ اِلٰہٌ ۰ۭ (الزخرف ۴۳:۸۴ ) ’’اور وہ اللہ وہی ہے جو آسمان کا معبودہے اور زمین کا بھی معبود ہے‘‘۔
قرآن پاک علم کو نافع اور غیر نافع کے نقطۂ نظر سے دیکھتا ہے۔ ہر وہ علم جو دنیا و آخرت کے لحاظ سے مفید ہو، اس کو حاصل کرنا انسان کی سعادت ، ترقی اور نجات کا ذریعہ ہے، اور جو علم دنیا و آخرت کے لحاظ سے غیر مفید ہو اس کو ترک کرنا بہتر ہے۔ کیوں کہ جو علم نفع بخش نہ ہو اس میں وقت لگانا اپنی عزیز عمر کو برباد کرنا ہے۔ قرآن کی نظر میں بہت سے علوم ایسے ہیں جو انسانوں کے لیے مفید نہیں بلکہ مضر ہیں، مثلاً جادو، کہانت اور سفلی علوم۔ قرآن نے یہودیوں کے ایک طبقے کے بارے میں یہ انکشاف کیا کہ وہ ایسے ہی نقصان دہ علوم کو حاصل کرکے اپنی دنیا اور آخرت برباد کرتے تھے۔ وَيَتَعَلَّمُوْنَ مَا يَضُرُّھُمْ وَلَا يَنْفَعُھُمْ ۰ۭ (البقرہ۲:۱۰۲) ’’وہ لوگ ایسا علم سیکھتے ہیں جو ان کے لیے نقصان دہ ہے، نفع بخش نہیں ہے‘‘۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اِنَّ مَثَلَ عِلْمٍ لَا یَنْفَعُ کَمَثَلِ کَنْزٍ لَا یُنْفَقُ فِیْ سَبِیْلِ ﷲ ِ(مسند احمد ، ج۲، ص۴۹۶)’’جو علم نفع بخش نہ ہو اس کی مثال اس خزانے کی ہے جو اللہ کی راہ میں خرچ نہ کیا جائے‘‘۔
جس طرح مال ضرورت کے وقت خرچ کرنے کے لیے اور حاجت پوری کرنے کے لیے ہوتا ہے، اسی طرح علم جہالت دُور کرنے، روشنی پھیلانے اور منفعت عطا کرنے کے لیے ہوتا ہے لیکن اگر علم نفع بخش نہ ہو تو انسانوں کو اس کی کیا حاجت ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس علم سے پناہ مانگی ہے جو نفع بخش نہ ہو۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ قَلْبٍ لَا یَخْشَعُ وَمِنْ دُعَاءٍ لَا یَسْمَعُ وَمِنْ نَفْسٍ لَا تَشْبَعُ وَمِنْ عِلْمٍ لَا یَنْفَعُ (ترمذی، ج:۲، کتاب الدعوات، باب ما جاء فی جمیع الدعوات)’’اے اللہ میں ایسے دل سے پناہ مانگتا ہوں جس میں خشیت نہ ہو اور ایسی دعا سے پناہ مانگتا ہوں جو تیرے حضور قابل قبول نہ ہو اور ایسے نفس سے پناہ مانگتا ہوں جو آسودہ نہ ہو، اور ایسے علم سے پناہ مانگتا ہوں جو نفع بخش نہ ہو‘‘۔ حضرت عبداللہ ابن عباسؓ فرماتے ہیں :
مَا اَکْـثَرَ الْعِلْمَ وَمَا اَوْ سَعَہٗ
مَنْ ذَا الَّذِیْ یَقْدِرُ أَنْ یَجْمَعَہٗ
اِنْ کُنْتَ لَا بُدَّلَہٗ طَالِبًا
مُحَاوِلًا فَالْتَمِسْ اَنْفَعَہٗ
علم کی کتنی کثرت اور وسعت ہے، کون ہے جو سارے علوم کو جمع کرلے۔ اگر تم علم حاصل کرنا چاہتے ہو تو زیادہ نفع بخش علم حاصل کرو۔(ابن عبدالبر، جامع بیان العلم و فضلہ، ترجمہ عبدالرزاق ملیح آبادی، ص ۱۸۲، دہلی ۱۹۵۳ء)
مَثَلُ الَّذِيْنَ حُمِّلُوا التَّوْرٰىۃَ ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوْہَا كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ اَسْفَارًا ۰ۭ (الجمعۃ ۶۲:۵ )جو لوگ تورا ت کے حامل ہوئے پھر اس سے نفع نہیں اٹھایا، ان کی مثال اس گدھے کی ہے جو اپنی پیٹھ پر بوجھ اٹھاتا ہے۔
مثال کا حاصل یہ ہے کہ علم کا مقصد دل و دماغ کو منور کرنا اور اخلاق و کردار کو سنوارنا ہے، اگر یہ حاصل نہ ہوا تو کتابوں کا بوجھ اٹھانے سے کوئی فائدہ نہیں ہے۔ جیسے گدھا اپنی پیٹھ پر لدی ہوئی کتابوں سے کوئی فائدہ نہیں اٹھاتا، کتنی ہی کتابیں اس پر لادو اس کی خر دماغی نہیں جاتی، اس میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔
جس علم سے انسان میں صحیح اور غلط کی تمیز پیدا نہ ہو، دل و دماغ روشن نہ ہو، اعمال قبیح کو چھوڑنے اور اعمالِ صالح کو قبول کرنے پر انسان مائل نہ ہو، حلال و حرام کی پہچان حاصل نہ ہو، غریبوں، ناداروں اور قرابت داروں کے حقوق سے واقفیت پیدا نہ ہو، مظلوموں، بے کسوں اور درمندوں کی آہ و بکا سے سروکار نہ ہو، عفت و پاکدامنی اور اخلاق و کردار سے آراستہ نہ ہو، تو اس علم سے زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آسکتی۔ انسانی کمالات حاصل نہیں ہوسکتے، ایسے علم سے انسان کو کیا فائدہ؟ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اعضا و جوارح اور عقل و خرد اس لیے عطا کیے کہ وہ ان سے فائدہ اٹھائے، علم حاصل کرے اور زمین پر ذمہ دار اور باشعور مخلوق بن کر زندگی گزارے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَاللہُ اَخْرَجَكُمْ مِّنْۢ بُطُوْنِ اُمَّہٰتِكُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ شَـيْـــًٔـا ۰ۙ وَّجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَفْــِٕدَۃَ ۰ۙ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ۷۸ (النحل۱۶: ۷۸)اور اللہ نے تم کو تمھاری مائوں کے بطن سے نکالا، تم کچھ نہیں جانتے تھے۔ ا ور اس نے تم کو کان، آنکھیں اور دل عطا کیے تاکہ تم شکر گزار بنو۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ سے علم نافع عطا کرنے کی دعا مانگی ہے: اَللّٰہُمَّ انْفَعْنِیْ بِـمَا عَلَّمْتَنِیْ وَعَلِّمْنِیْ مَا یَنْفَعُنِیْ ( ابن ماجہ، باب دعاء رسول ؐ) ’’اے اللہ جو علم تو نے مجھے عطا کیا ہے اس کو نفع بخش بنا اور مجھے وہ علم عطا کر جو میرے لیے نفع بخش ہو‘‘۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بڑی جامع اور معنی خیز دعا ہے۔ اس دعا کی حکمت یہ ہے کہ دنیا میں وہی چیز باقی رہتی ہے جو نفع بخش ہو اور جو چیز نفع بخش نہیں ہوتی وہ دیرپا نہیں ہوتی۔ یعنی بقا کا راز مفید ہونا ہے اور غیر نفع بخش ہونے کا انجام ضائع ہونا ہے۔قرآن پاک میں ایک خوب صورت مثال کے ذریعے نفع رسانی کے نکتے کو سمجھایا گیا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً فَسَالَتْ اَوْدِيَۃٌۢ بِقَدَرِہَا فَاحْتَمَلَ السَّيْلُ زَبَدًا رَّابِيًا ۰ۭ وَمِمَّا يُوْقِدُوْنَ عَلَيْہِ فِي النَّارِ ابْتِغَاۗءَ حِلْيَۃٍ اَوْ مَتَاعٍ زَبَدٌ مِّثْلُہٗ ۰ۭ كَذٰلِكَ يَضْرِبُ اللہُ الْحَقَّ وَالْبَاطِلَ۰ۥۭ فَاَمَّا الزَّبَدُ فَيَذْہَبُ جُفَاۗءً ۰ۚ وَاَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْاَرْضِ ۰ۭ كَذٰلِكَ يَضْرِبُ اللہُ الْاَمْثَالَ۱۷ۭ (الرعد۱۳: ۱۷) اللہ نے آسمان سے پانی برسایا اور ہرندی نالہ اپنے ظرف کے مطابق اسے لے کر چل نکلا۔ پھر جب سیلاب اٹھا تو سطح پر جھاگ بھی آگئے اور ایسے ہی جھاگ ان دھاتوں پر بھی اٹھتے ہیں جنھیں زیور اور برتن وغیرہ بنانے کے لیے لوگ پگھلایا کرتے ہیں۔ اسی مثال سے اللہ حق اور باطل کے معاملے کو واضح کرتا ہے۔ جو جھاگ ہے وہ اڑ جایا کرتا ہے اور جو چیز انسان کے لیے نافع ہے وہ زمین میں ٹھہر جاتی ہے۔ اسی طرح اللہ مثالوں سے اپنی بات سمجھاتا ہے۔
بقاءِ انفع (نفع بخش چیز کا باقی رہنا)
اس دنیا میں بقاء انفع کااصول رائج ہے، یعنی جو چیز نفع بخش ہے وہ تو باقی رہتی ہے اور جو نافع نہیں ہے وہ اپنی جگہ خالی کردیتی ہے۔ جس طرح موتی سمندر میں باقی رہ جاتا ہے اور جھاگ ضائع ہوجاتا ہے۔ اسی طرح انسانی معاشرے میں نافع چیز اپنے بقا کا سامان رکھتی ہے اور غیر نافع چیز اپنے وجود کا جواز کھودیتی ہے۔ بے کار چیز کی حفاظت کوئی نہیںکرتا۔ کار آمد چیز کی ہرشخص حفاظت کرتا ہے۔
یہ اصول ہر شعبۂ حیات میں جاری ہے۔ علم کے ساتھ انسان کے اعمال اور اخلاق سب کچھ اس میں شامل ہیں۔نفع بخش شے کی حفاظت قدرت خود کرتی ہے، جب کہ غیر نفع بخش چیزوں کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتی ہے۔ اسی لیے غیر نفع بخش چیزوں کا وجود وقتی اور عارضی ہوتا ہے اور نفع بخش چیزوں کا وجود پایدار اور دائمی ہوتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ سے یہ بات روز روشن کی طرح ظاہر ہوتی ہے کہ جبریلؑ امین جب پہلی مرتبہ اللہ کا پیغام لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس غارِ حرا میں تشریف لائے اور آپؐ کو قرآن کی ابتدائی آیات پڑھائیں تو آپؐ کے اوپر خوف اور گھبراہٹ کی کیفیت پیدا ہوگئی۔ آپؐ واپس گھر تشریف لائے اور اپنی اہلیہ حضرت خدیجۃ الکبر یٰ ؓسے فرمایا کہ مجھے چادر اُوڑھا دو، مجھے اپنی جان کا خطرہ ہے۔ حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؓ نے آپ کی یہ کیفیت دیکھ کر فرمایا :
ہرگزنہیں! اللہ آپؐ کو کبھی رُسوا نہیں کرے گا، کیوں کہ آپؐ صلہ رحمی کرنے والے ہیں اور آپؐ لوگوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، ناداروں کی مدد کرتے ہیں، مہمانوں کی ضیافت کرتے ہیںاور مصیبت کے دن میں لوگوں کے کام آتے ہیں۔ (بخاری، باب کیف کان بدء الوحی)
یعنی جو شخص انسانی معاشرے کے لیے اتنا مفید اور نفع بخش ہو اللہ اس کو ضائع نہیں کرے گا۔ ایسے شخص کو ضائع کرنے کا مطلب انسانی آبادی کو ضائع کرنا ہے۔ مہربان پروردگار ایسا نہیں کرسکتا کہ جس کو اپنی محبت اور رحمت سے آباد کیا ہے اسے برباد کردے۔
غور کرنے کی بات یہ ہے کہ حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؓ نے سماج کے لیے آپؐ کی مفید خدمات کا حوالہ دیا اور آپؐ کی افادیت کو آپؐ کی بقا کی ضمانت قرار دیا۔ جس معاشرے میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم جیسے خدمت کرنے والے اور نفع پہنچانے والے لوگ موجود ہوں اس میں اللہ کی رحمت آتی ہے اور ایسے لوگ معاشرے کا حوالہ اور خلاصہ ہوتے ہیں، ان کا وجود معاشرے کے لیے باعث رحمت ہوتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح ان کی لائی ہوئی شریعت اور عطا کی ہوئی ہدایت بھی نفع بخش ہے۔ رسول پاکؐ نے اس کی مثال بارانِ رحمت سے دی ہے۔ چنانچہ بروایت ابوموسیٰ اشعریؓ رسول کریم ؐ نے فرمایا ’’ اللہ نے مجھے جس علم و ہدایت کے ساتھ بھیجا ہے اس کی مثال زبردست بارش کی ہے جوزمین کو سیراب کرتی ہے۔ ایک زمین اچھی ہے جو پانی قبول کرتی ہے اور خوب سبزہ اور ترکاریاں اُگاتی ہے۔ دوسری زمین اجادب، یعنی پستی ہے جو پانی کو جمع کرلیتی ہے۔ اس سے اللہ لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے، لوگ خود سیراب ہوتے ہیں، جانوروں کو پلاتے ہیں، زراعت کرتے ہیں۔ تیسری زمین قیعان، یعنی سنگلاخ ہے، نہ تو پانی کو روک پاتی ہے اور نہ گھاس اُگاتی ہے۔ یہ مثال ہے اس کی جس نے اللہ کے دین کی سمجھ حاصل کی اور میرے لائے ہوئے علم سے فائدہ اٹھایا، خود علم حاصل کیا اور دوسروں کو تعلیم دی، اور اس کی مثال ہے جو اس کی طرف متوجہ نہ ہو اور اللہ نے میرے ذریعے جو ہدایت بھیجی ہے اسے قبول نہ کیا۔‘‘ (بخاری، کتاب العلم، باب فضل من علم و علّم)
علم نافع انسان کی دنیاوی زندگی میں بھی باقی رہتا ہے اور انسان کے مرنے کے بعد بھی باقی رہتا ہے۔ انسان خود تو مر جاتا ہے مگر اس کا فیض جاری رہتا ہے۔ دوسرے لوگ اس سے فیضیاب ہوتے ہیں اور اس کا اجر و ثواب اسے ملتا رہتا ہے۔ چنانچہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جب انسان مر جاتا ہے تو اس کے عمل کا سلسلہ بھی منقطع ہوجاتا ہے، سواے تین عمل کے۔ ایسا علم جس سے دوسرے لوگ فائدہ اٹھائیں یا ایسا صدقہ جس کا فیض جاری رہے یا ایسی نیک صالح اولاد جو مرنے والے کے لیے دعا کرتی رہے‘‘۔(الصحیح المسلم، کتاب الوصیۃ، باب ما یلحق الانسان من الثواب بعد وفاتہ)
علم نافع دونوں طرح کے ہیں۔ ایک وہ علم جو آخرت کے لحاظ سے نفع بخش ہو، نجات کا ذریعہ بنے اور اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کا راستہ دکھائے، ہدایت اور سعادت کی منزل آسان کرے۔ یہ علم وحی کے ذریعے حاصل ہوتا ہے اور انبیا علیہم السلام اس کے حامل ہوتے ہیں۔ قرآن کریم اس کا آخری سرچشمہ ہے۔
دوسرا علم نافع وہ ہے جو دنیا میں زندگی گزارنے کے کام آتا ہے اور انسانی زندگی کی تعمیر و ترقی سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ علم بالسعی ہے جو انسان کو مشاہدہ، تجربہ اور کوششوں سے حاصل ہوتا ہے۔ یہ انسانی تلاش و تحقیق کی پیداوار ہے۔دینی علوم کی افادیت دائمی ہے، جب کہ عصری علوم کی افادیت زمانے اور ملکی ضرورت کے لحاظ سے بدلتی رہتی ہے۔
علم ریاضی، علم کیمیا، ارضیات، حیوانیات، طبیعیات، سماجیات، صحت، نفسیات، بحریات، فلکیات، شماریات اور اپلائیڈ سائنس و ٹکنالوجی سب مفید علوم کا حصہ ہیں اور انسانی کوششوں سے حاصل ہوتے ہیں۔ انسانی تمدن اور کائنات کی ترقی ان علوم سے وابستہ ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا:
اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللہَ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً۰ۚ فَاَخْرَجْنَا بِہٖ ثَمَرٰتٍ مُّخْتَلِفًا اَلْوَانُہَا۰ۭ وَمِنَ الْجِبَالِ جُدَدٌۢ بِيْضٌ وَّحُمْرٌ مُّخْتَلِفٌ اَلْوَانُہَا وَغَرَابِيْبُ سُوْدٌ۲۷ وَمِنَ النَّاسِ وَالدَّوَاۗبِّ وَالْاَنْعَامِ مُخْتَلِفٌ اَلْوَانُہٗ كَذٰلِكَ۰ۭ اِنَّمَا يَخْشَى اللہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمٰۗؤُا۰ۭ اِنَّ اللہَ عَزِيْزٌ غَفُوْرٌ۲۸ (فاطر۳۵:۲۷-۲۸) کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے آسمان سے پانی اتارا، پھرہم نے اس سے رنگ برنگے پھل نکالے اور پہاڑوں میں گھاٹیاں ہیں، سفید اور سرخ رنگ کی، ان کے رنگ طرح طرح کے ہیں اور کالے بھجنگ ہیں اور آدمیوں اور کیڑوں میں اور حیوانات میں بھی اسی طرح مختلف رنگ ہیں، بے شک اللہ سے ڈرنے والے اس کے بندوں میں وہ ہیں جو علما ہیں، بے شک اللہ غالب اور بخشنے والا ہے۔
مذکورہ آیت میں جن مضامین کا تذکرہ ہے وہ آج کے تعلیمی ماحول میں دنیاوی علوم سمجھے جاتے ہیں۔ یہاں تذکرہ ہے موسم کا، پھل پھول اور ان کے رنگ کا، پہاڑ اور ان کی اقسام کا، حشرات الارض اور حیوانات کا، انسان اور اس کے رنگ و روپ کا، یہ سب موسمیات، ارضیات، زراعت، حیوانیات اور عمرانیات کے علوم ہیں۔
ان علوم سے جو لوگ اللہ کی معرفت اور خشیت حاصل کرتے ہیں ان کو اللہ تعالیٰ نے ’علما‘کے لقب سے نوازا ہے، کیوں کہ یہ سب علوم انسانی تمدن کو آگے بڑھاتے ہیں اور خالق کائنات کی معرفت کا حوالہ ہیں۔ ان علوم کی افادیت کا ذکر خود قرآن کریم میں موجود ہے۔ ان علوم کو حاصل کرنے میں دنیا اور آخرت کی سعادت پوشیدہ ہے۔ ڈاکٹرمحمد حمید اللہ لکھتے ہیں کہ :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تھے کہ ہر مسلمان کو کچھ تو بنیادی تعلیم دی جائے جو لازمی ہو اور دیگر علوم کے بارے میں بھی اس کے پاس کچھ نہ کچھ معلومات ہوں، جو کسی بھی وقت اس کے کام آسکتی ہیں۔ اس لیے فیصلہ کیا گیا کہ قرآن مجید کو پڑھو، کیوں کہ اس میں تقریباً تمام علوم کا ذکر کیا گیا ہے۔(خطبات بہاول پور، ص ۳۱۹)
ان مفید علوم میں زمانے کے گزرنے کے ساتھ اور انسانی دریافت کے آگے بڑھنے کے ساتھ اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ انبیا علیہم السلام کو ان کے عہد کی انسانی ضرورتوں کے لحاظ سے بھی علم سے نوازا گیا، مثلاً حضرت نوح علیہ السلام کو جہاز رانی کے لیے، حضرت موسٰی کو جادوگری کا مقابلہ کرنے کے لیے، حضرت عیسیٰ ؑکو بیماروں کو شفایاب کرنے کے لیے، حضرت دائود ؑ کو آلات حرب و ضرب بنانے کے لیے، حضرت سلیمانؑ کو پرندوں کی زبان سمجھنے کے لیے خصوصی علم سے نوازا گیا۔
حضرت یوسف ؑ جلیل القدر نبی تھے۔ ان کو آخرت کے علم کے علاوہ انسانوں کی مادی نفع رسانی کا بھی علم دیا گیا۔ انھوں نے ایمان داری، وفاداری اور عفت و پاک دامنی کی پاداش میں ظلم و ستم کا سا منا کیا اور طویل عرصے تک قید و بند کی مشقت برداشت کی۔
ایک مرتبہ مصر کے بادشاہ نے حیران کن خواب دیکھا اور اس کی تعبیر وزیروں، مشیروں اور دانش وَروں سے پوچھی مگر کوئی نہ بتا سکا۔ جیل کے اندر سے حضرت یوسف ؑ نے اس خواب کی تعبیر بتائی۔ بادشاہ نے خواب کی برمحل تعبیر سن کر حضرت یوسف ؑ کو اپنا محرم راز اور ندیم خاص بنالیا۔ اس تعبیرکے مطابق سات سال کے بعد ملک مصر میں طویل قحط سالی آئی تو حضرت یوسف ؑ نے ملکی خزانے کا انتظام اپنے ہاتھ میں لیا اور اپنے علم و امانت سے پورے ملک میں رسد رسانی اور غلے کی فراہمی کا نظم کیا، جس سے سات سالوں تک خوفناک قحط اور خشک سالی کا اثر کم ہوگیا، مصیبت کے مارے ہوئے انسانوں کو زندگی مل گئی اور وہ موت کا لقمہ بننے سے بچ گئے۔(یوسف۱۲: ۵۴-۵۵ )
حضرت یوسف ؑ خود قید و بند کے ستم رسیدہ تھے اور اپنے کرم فرمائوں سے زخم کھائے ہوئے تھے، مگر انسانوں کو مصیبت میں مبتلا دیکھا تو اپنا غم بھلا دیا اور اپنے علم سے لوگوں کو راحت رسانی کا کام کیا، اپنے وجود اور اپنے علم کو لوگوں کے لیے سراپا رحمت بنالیا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف ؑ کو خواب کی تعبیر کے ساتھ، کھانے پینے کی اشیا کو طویل عرصے تک محفوظ رکھنے یعنیFood Preservationکا علم عطا کیا تھا۔ آپ ؑ نے ان علوم کے ذریعے ملک کو بربادی اور ہلاکت سے بچا لیا۔یہ علم نافع کی بہترین مثال ہے۔درس گاہ نبوت کی یہ تعلیم انسانوں کو روشنی بخشتی ہے کہ وہ ان علوم کو حاصل کریں جن سے انسانوں کی مشکلات دور کی جاسکتی ہیں اور ان کو زندگی، صحت اور راحت عطا کی جاسکتی ہے، نیز اپنی صلاحیت اور لیاقت کو لوگوں کی نفع رسانی کے کام میں لگائیں۔
علم نافع کے ساتھ عمل نافع کی بھی قرآن کی نظر میں یکساں ضرورت ہے۔ دوسرے انسان کی خدمت کرنا، ان کے دُکھ درد میں کام آنا، ان کی ضرورت پوری کرنا اور ان کی بیماری و تکلیف سے شفاپانے میں مدد کرنا انسان کا مشن ہونا چاہیے۔ یہ قرآن کی بنیادی تعلیم کا حصہ ہے، فرمایا:
وَيُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰي حُبِّہٖ مِسْكِيْنًا وَّيَـتِـيْمًا وَّاَسِيْرًا۸ اِنَّمَا نُـطْعِمُكُمْ لِوَجْہِ اللہِ لَا نُرِيْدُ مِنْكُمْ جَزَاۗءً وَّلَا شُكُوْرًا۹ اِنَّا نَخَافُ مِنْ رَّبِّنَا يَوْمًا عَبُوْسًا قَمْطَرِيْرًا۱۰ (الدھر۷۶:۸-۱۰)وہ لوگ اس کی محبت میں مسکینوں، یتیموں اور قیدیوں کو کھانا کھلاتے ہیں اورزبان حال سے کہتے ہیں کہ ہم صرف اللہ کی رضا کے لیے تمھیں کھلاتے ہیں، تم سے کوئی بدلہ اور شکریہ نہیں چاہتے، ہم تو اپنے رب سے اس دن سے ڈرتے ہیں جو نہایت سخت اور اُداسی کا ہوگا۔
آخرت کی سختی اور مصیبت سے بچنے کا راستہ انسانوں کی مدد اور نفع رسانی ہے۔ جو لوگ بندوں کی نفع رسانی کا اہتمام کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے ان کی نفع رسانی کا انتظام کرتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْکُمْ اَنْ یَّنْفَعَ اَخَاہُ فَلْیَفْعَلْ (الصحیح المسلم، کتاب السلام، باب استحباب الرقیۃ من العین والنملۃ والحمۃ والنظرۃ) جو شخص اپنے بھائی کو نفع پہنچانے کی صلاحیت رکھتا ہے وہ ضرور نفع پہنچائے۔
انبیا علیہم السلام خاص طور پر نبی آخر محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ کرامؓ کی زندگیاں دوسرے کے لیے نفع رساں تھیں۔ آج بھی بڑے بڑے مدارس، یتیم خانے، شفا خانے اور اوقاف کے ادارے مسلمانوں کی نفع رسانی کے عمل سے قائم ہیں۔ماضی قریب میں کویت کے ایک تاجر شیخ عبداللہ علی المطوع نے اپنی وفات سے پہلے اپنی جایداد کا بڑا حصہ فلسطین اور چیچنیا کے یتیموں اور بیوائوں کے لیے وقف کردیا۔ وہ پوری زندگی خیرات کرتے رہے اور اموال صدقات سے دنیا بھر کے اداروں اور تنظیموں کی مدد کرتے رہے۔
نفع رسانی کا تیسرا پہلو دعوت دین ہے۔ انسانوں کو دنیا کی مشکلات کے ساتھ آخرت کی مشکلات سے بچانا اور ان کو نجات کا راستہ دکھانا، نار جہنم سے بچانا اور رضاے الٰہی سے ہم کنار کرانا سب سے بڑی نفع رسانی ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے:
قُلْ ہٰذِہٖ سَبِيْلِيْٓ اَدْعُوْٓا اِلَى اللہِ۰ۣؔ عَلٰي بَصِيْرَۃٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِيْ۰ۭ وَسُبْحٰنَ اللہِ وَمَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ۱۰۸ (یوسف۱۲: ۱۰۸)آپ کہہ دیجیے کہ یہ میری راہ ہے کہ میں بصیرت کے ساتھ اللہ کی طرف بلاتا ہوں، میں اور میرے ساتھی بھی اور اللہ پاک ہے، اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔
ایسا شخص جو دوسروں کو عذاب جہنم سے نجات کی دعوت دیتا ہے اور خود بھی اس پر عمل کرتا ہے وہ سماج کا بہترین انسان ہے۔ قرآن پاک میں اس کے بارے میں کہا گیا ہے:
وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَآ اِلَى اللہِ وَعَمِلَ صَالِحًـا وَّقَالَ اِنَّنِيْ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ۳۳ (حٰم سجدہ ۴۱:۳۳) اس شخص سے بہترکس کی بات ہوسکتی ہے جو اللہ کی طرف بلائے اور یہ کہے کہ میں مسلمان ہوں۔
نبی محترم حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی ذات انتہائی احترا م کی متقاضی ہے۔ آپؐ اللہ کے بندے اور رسولؐ ہیں۔تاہم، اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ جس طرح مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ پیش آتے ہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھی وہی انداز اختیار کریں۔ اس سلسلے میں کچھ اصول و آداب متعین کیے گئے ہیں۔
ارشاد ہوا: ’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اللہ اور اس کے رسولؐ کے آگے پیش قدمی نہ کرو اور اللہ سے ڈرو، اللہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے‘‘۔(الحجرات ۴۹:۱)
پھر ارشاد ہوا: ’’اے لوگو!جو ایمان لائے ہو اپنی آواز نبیؐ کی آواز سے بلند نہ کرو اور نہ نبیؐ کے ساتھ اُونچی آواز سے بات کیا کروجس طرح تم آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تمھارا کیا کرایا سب غارت ہوجائے اور تمھیں خبر بھی نہ ہو‘‘۔(الحجرات ۴۹:۲)
سورئہ حجرات کی ان ابتدائی آیات میں وہ آداب سکھائے گئے ہیں جو امام الانبیاؐ پر ایمان لانے والوں کے لیے ہیں کیوں کہ ایمان والوں کے نزدیک فوقیت اس بات کی ہونی چاہیے کہ اللہ اور اس کے نبیؐ کے احکام مقدم جانیں۔ کسی کو یہ اختیار نہیں کہ وہ اپنے فیصلوں میں آزاد ہو بلکہ ضروری ہے کہ وہ سب سے پہلےاللہ اور اس کے رسولؐ کے احکامات کو دیکھے۔ یہاں مطیع وفرماں بردار رہ کر زندگی گزارنے کا حکم ہے، یعنی قرآن اور سنت میں تلاش کیا جائے کہ کیا حکم ہے۔
اللہ اور اس کے رسولؐ کی حیثیت مقدم کرانے کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محفل میں بیٹھنے اور گفتگو کرنے کا سلیقہ سکھایا گیاہے۔یہاں بھی احترام کا انتہائی انداز اپنانے کا حکم ہے۔ بات چیت کرتے ہوئے یا کچھ پوچھتے ہوئے دبی آواز رہے بلکہ محفل میں حضوراکرمؐ کی آواز بلند اور دیگر کی پست ہو۔ یہ ادب اگرچہ نبیؐ کی مجلس کے لیے سکھایا گیا تھا اور اس کے مخاطب وہ لوگ تھے جو حضوؐر کے زمانے میں موجود تھے مگربعد کے لوگوں کو بھی ایسے تمام مواقع پر یہی ادب ملحوظ رکھنا چاہیے جب آپؐ کا ذکر ہورہا ہو، یا آپؐ کا کوئی حکم سنایا جائے، یا آپؐ کی احادیث بیان کی جائیں۔
مفسرین نے یہ راے بھی قائم کی ہے کہ اس آیت کا اطلاق بزرگوں کے ساتھ گفتگو کے حوالے سے بھی ہوسکتا ہے۔ چھوٹوں کو چاہیے کہ وہ اپنے بزرگوں کے ساتھ احترام کو ملحوظ رکھیں اور اپنی آواز کو پست رکھیں۔اس سلسلے میں حضرت ثابت بن قیسؓ کے واقعے کو بڑی اہمیت حاصل ہے کہ وہ بلندپایہ مقرر تھے۔ فطری طور پر ان کی آواز بلند تھی۔ جب اس آیت کا نزول ہوا تو وہ اپنے گھر بیٹھ گئے۔ ندامت اور پریشانی حددرجۂ عروج پر تھی۔گمان تھا کہ سارے اعمال ضائع ہوگئے ۔جب حضور اکرمؐ کو ان کی کیفیت کا علم ہوا تو انھیں بلایا اور ارشاد فرمایا: ’’تم اہلِ دوزخ سے نہیں اہلِ جنت میں سے ہو‘‘۔
نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آواز بلند کرنے کی ممانعت کا مطلب یہ ہےکہ حضوراکرمؐ کا احترام ملحوظ رہے کیوں کہ رُوگردانی کی صورت میں زندگی بھر کی کمائی ضائع ہونے کا اندیشہ ہے اور یہ بھی مطلب ہوسکتا ہے کہ جو حضور اکرمؐ کا احترام نہیں کرتاوہ اللہ کا احترام نہیں کرتا۔
ارشادِ ربانی ہے: ’’اے نبیؐ، جو لوگ تمھیں حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں اکثر بے عقل ہیں۔ اگر وہ تمھارے برآمد ہونے تک صبر کرتے تو انھی کے لیے بہتر تھا، اللہ درگزر کرنے ولا اور رحیم ہے‘‘۔(الحجرات ۴۹:۴-۵)
اس حکمِ ربانی کی ضرورت پیش نہ آتی کیوں کہ اس حکم کا لحاظ صحابہ کرامؓ تو مکمل طور پر کیا کرتے تھے کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ حضور اکرمؐ کا زیادہ تر وقت دین کی تبلیغ میں صرف ہوتا ہے۔ محض آرام اور خانگی اُمورِ زندگی کی ادایگی کے لیے حجروں میں تشریف لے جاتے تھے۔ اس لیے صحابہ کرامؓ کا معمول تھا کہ وہ انھی اوقات میں آتے جب آپؐ موجود ہوتے اور اگر آپؐ نہ بھی ہوتے تو صحابہ کرامؓ بیٹھ کرآپؐ کا انتظار کرتے ۔ مگر قبائل سے آنے والے آداب سے نابلد لوگ یہ سمجھتے تھے کہ دعوت الی اللہ اور اصلاحِ خلق کا کام کرنے والے کو کسی بھی وقت آرام لینے کا حق نہیں ہے اور انھیں حق ہے کہ رات دن میں جب چاہیں اس کے پاس آدھمکیں اور اس کا فرض ہے کہ جب بھی وہ آجائیں تو وہ ان سے ملنے کے لیے مستعد رہے۔
اَزواجِ مطہراتؓ کے حجروں کے گرد چکر لگاتے اور آوازیں دیتے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حلیم الطبع تھے، اس لیے ان کو نہ ٹوکتے تھے، البتہ دلی طور پر تکلیف محسوس کرتے تھے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے واضح احکامات دے کر نبی محترمؐ کے ادب و احترام کو مقدم رکھنے کا حکم دیا ہے۔ انسان کو اشرف المخلوقات کا مقام نصیب ہوا لیکن نبی محترمؐ کو افضل البشر کہا گیا۔ یہی نہیں معراج کے موقعے پر امام الانبیا ؐ کی حیثیت سےبلندمقام پر فائز ہوئے۔قرآن کریم میں جابجا آپؐ کے بلندمقام کا تذکرہ ہے۔ کبھی کہا گیا کہ آپؐ خوش خبری اور ڈرانے والے ہیں تو کہیں ارشاد ہوا: آپؐ جو کچھ ارشاد فرماتے ہیں وہ اللہ کاحکم ہوتا ہے ۔ جب مشرکینِ مکہ اور یہودِ مدینہ نے آپؐ کوجھٹلایا تو رب العالمین نے تقویت دیتے ہوئے فرمایا: یہ کوئی آپؐ کے ساتھ نہیں ہورہا۔ اس سے پہلے بھی رسولوںؑ اور انبیا ؑ کو جھٹلایاگیا اور اذیتیںدی گئیں مگر اس کے باوجود مسلمانوں کے لیے یہ حکم ہے کہ وہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا انتہائی احترام کریں۔
سورۃ الحجرات کی ابتدائی آیات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے آگے بڑھنے، بلند آواز سے گفتگو کرنے اور آرام میں مخل ہونے کو زندگی بھر کے اعمال ضائع ہونے سے تعبیر کیا گیا ہے۔ بلاشبہہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا احترام اور مقام، مال و دولت، والدین، اولاد گویا ہر شے سے بڑھ کر ہے۔
مسئلہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب اللہ اور اس کے رسولؐ کی شان میں گستاخی یا زبان درازی کی جارہی ہو تو مسلمانوں کا کیا فرض ہے؟ اس سلسلے میں ارشاد ہوا:’’اللہ اس کتاب میں تم کو پہلے ہی حکم دے چکا ہے کہ جہاں تم سنو کہ اللہ کی آیات کے خلاف کفر بکا جارہا ہے اور ان کا مذاق اُڑایا جارہا ہے وہاں نہ بیٹھو جب تک کہ لوگ کسی دوسری بات میں نہ لگ جائیں۔ اب اگر تم ایسا کرتے ہو تو تم بھی انھی کی طرح ہو۔ یقین جانو کہ اللہ منافقوں اور کافروں کو جہنم میں ایک جگہ جمع کرنے والا ہے‘‘۔ (النساء ۴:۱۴۰)
درحقیقت اس ارشاد میں اللہ کے احکامات کا مذاق اُڑانے والوں اور اُسے سن کر خاموش رہنے والوں، ہر دو کو برابر عذاب کی خبر سنائی گئی ہے۔ اللہ کے یہ احکامات وحی کی صورت میں نبی محترمؐ تک آئے۔ پھر آپؐ نے انھیں اپنی زبان سے بیان کیا کہ منکرین اور منافقین کا مذاق اُڑانا اللہ اور اس کے رسولؐ، ہر دو کا مذاق اُڑانے کے مترادف ہے۔ حالاں کہ مشرکین مکہ حضوؐر کو صادق کے لقب سے پکارتے تھے اور حضور اکرمؐ کی چالیس سالہ زندگی صاف اور شفاف انداز میں ان کے سامنے تھی۔ پھر احکاماتِ ربّانی کا مذاق اُڑانا گستاخی کے مترادف ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں حسب و مراتب کا تعین کر دیا گیا اور تعظیم کے لائق مقدم ترین ہستی حضور اکرمؐ کو ٹھیرایا گیا۔ اکثر علما تو حضور اکرمؐ کی تعلیمات اور احادیث بیان کرنے اور روضۂ رسولؐ کے پاس گزرتے وقت ادب و احترام کی ایسی کیفیت کو برقرار رکھنے کے قائل ہیں جو سورۃ الحجرات کی ابتدائی آیات میں متعین کر دی گئی۔
ادب و آداب کے اہتمام کے حوالے سے ارشاد ربانی ہے: ’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو رَاعِنَا نہ کہا کرو بلکہ اُنْظُرنَـا کہو اور توجہ سے بات سنو،یہ کافر تو عذابِ الیم کے مستحق ہیں‘‘۔ (البقرہ۲:۱۰۴)
یہود چونکہ بُغض رکھتے تھے اور گفتگو کے دوران حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نعوذ باللہ چھوٹا سمجھتے ہوئے رَاعِنَا استعمال کرتے جس کا ظاہری مطلب تو ٹھیریئے اور ہماری بات سنیے تھا مگر کچھ دوسرے ایسے مطالب بھی تھے جو ابہام پیدا کرتے تھے۔ اس لیے مسلمانوں کو اُنْظُرنَـاجیسا واضح لفظ استعمال کرنے کا حکم دے کر اللہ تعالیٰ نے نبیؐ کی اہمیت اور فوقیت کو مومنوں کے دلوں میں یقینی بنایا ہے۔ چوں کہ یہود اس لفظ کو کھینچ کر رَاعِنَا جس کے معنی ہمارے چرواہے ہے، ہو جاتا تھا اور وہ قلبی طور پر بھی یہی کہنا چاہتے تھے اور اللہ دلوں کے حال سے واقف ہے۔ اس لیے حقیقت کو ظاہر کر دیا گیا۔ اور یہ بھی تو سمجھا جاسکتا ہے کہ کسی مسلمان سے غلطی سے یہود والی ادایگی نکل جائے اور اہانت ِ رسولؐ کا پہلو نکل آئے۔ اس لیے مومنین کو اس لفظ کی ادایگی سے روک کر مترادف کے طور پر خوب صورت لفظ بتا دیا گیا۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا تفوق مسلمانوں کے لیے جزوِ ایمان ہے۔ ارشاد فرمایا: ’’بلاشبہہ نبیؐ تو اہلِ ایمان کے لیے ان کی اپنی ذات پر مقدم ہیں‘‘۔
اس حکم کے بعد بال برابر بھی کوئی گنجایش باقی نہیں رہتی کہ کوئی شانِ رسالتؐ میں اہانت کا ارتکاب کرے اور اگر کوئی ایسا کرے گا تو اس کی سزا موت ہے۔خود رسولؐ نے ایسے لوگوں کے لیے سزا مقرر کی اور اس پر عمل درآمد بھی کیا گیا۔اس سلسلے میں قرآنِ کریم میں واضح طور پر ارشاد ہوا: ’’جو لوگ اللہ اور اس کے رسولؐ کی مخالفت کرتے ہیں وہ اُسی طرح ذلیل و خوار کر دیے جائیں گے جس طرح ان سے پہلے کے لوگ ذلیل و خوار کیے جاچکے ہیں‘‘۔(المجادلۃ ۵۸:۵)
یہاں واضح طور پر گستاخِ رسولؐ کے لیے سزا کا حکم دیا گیا ہے۔ اسی طرح یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ الکبت کے معنی گرانے، ذلیل کرنے اور رُسوا کرنے کے ہیں۔ اسی طرح کبتوا کے معنی ہلاک کرنے اور رُسوا کرنے کے ہیں جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ایسے شخص کا مقدر موت ہے۔ اس سلسلے میں مسلمانوں کو متنبہ کرتے ہوئے فرمایا گیا: ’’تم کبھی یہ نہ پائو گے کہ جو لوگ اللہ اور آخرت پر ایمان رکھنے والے ہیں وہ ان لوگوں سے محبت کرتے ہوں جنھوں نے اللہ اور اس کے رسولؐ کی مخالفت کی ہے، خواہ وہ ان کے باپ ہوں یا ان کے بیٹے، یا ان کے بھائی یا ان کے اہلِ خاندان‘‘۔ (الحشر ۵۹:۲۲)
یہاں صاف صاف اہلِ ایمان اور جھٹلانے والوں کا فرق واضح کر دیا گیا۔ بلاشبہہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام خونیں رشتوں سے بڑھ کر متعین کر دیا گیا۔ اس لیے اب کیا گنجایش رہ جاتی ہے کہ انکار کرنے والوں کو اور خاص طور پر ان کو جو دشنام طرازی بھی کریں، اسلامی معاشرے میں رہنے دیا جائے۔ بنیادی اعتبار سے گستاخی کرنے والوں کی سزا موت ہے۔ خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے لوگوں کے قتل کا حکم دیا ہے جس کا تذکرہ احادیث میں ملتا ہے۔ اور یہی نہیں اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں ارشاد فرمایا: ’’کیا انھیں معلوم نہیں ہے کہ جواللہ اور اس کے رسولؐ کا مقابلہ کرتا ہے، اس کے لیے دوزخ کی آگ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا؟ یہ بہت بڑی رُسوائی ہے‘‘۔(التوبۃ ۹:۶۳)
یعنی آخرت میں بھی ان کے لیے بڑے عذاب کی وعید ہے۔ اگر کوئی مرتد ہوجائے اور مدتِ معینہ میں توبہ کر کے پلٹ آئے تو اس کی معافی ہوجاتی ہے۔ لیکن اس بات پر مفسرین متفق ہیں کہ گستاخِ رسولؐ چوں کہ کسی عام فرد کی دل شکنی کا باعث نہیں بلکہ شانِ رسالتؐ میں گستاخی کا مرتکب ہے اور شاتمِ رسولؐ ہے اس لیے اس کی توبہ قبول نہ کی جائے گی۔
بلاشبہہ ایک ایسے معاشرے میں جہاں مسلمانوں کی اکثریت اور حکومت ہو، ان احکامات کو قائم کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اس کے لیے خاندانی نظام میں کوشش کی جانی چاہیے کہ اپنے بچوں کو نبی محترمؐ کے مقام سے واقف کرائیں اور اوائل عمری سے ان کی ایسی تربیت کی جائے جس سے ان کے دل و دماغ میں اللہ اور اس کے رسولؐ کے مطیع و فرماں بردار بنے رہنے کا سبق اَزبر ہو۔ ایسی صورت میں اہلِ ایمان سے تو یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ مرتد ہوجائیں یا گستاخی کا احتمال کریں۔رہے کم علم اور غیرمسلم تو وہاں بھی اس بات کا شائبہ موجود ہے کہ کسی کے کہنے میں آکر یا مسلمانوں کو چڑانے کی وجہ سے ایسی حرکت کے مرتکب ہوں۔ اس لیے ضروری ہے کہ قوانین کی تیاری کے وقت سزائوں کو واضح کیا جائے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے احترام کو مقدم نہ رکھنے اور اس سے رُوگردانی کرنے والوں کے لیے سزائیں مقرر ہوں۔ آئینِ پاکستان میں اس بات کا اہتمام کیا گیا ہے کہ کوئی گستاخی کا مرتکب ہو تو اسے قرارِ واقعی سزا دی جائے تاکہ اس قسم کے واقعات کا انسداد ہوسکے۔ یہی تحفظ ِ ناموسِ رسالتؐ کا تقاضا بھی ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تاریخِ انسانیت کی ۲۳سالہ قلیل ترین مدت میں جو عظیم الشان انقلاب برپا کیا وہ اپنی نوعیت ، کیفیت، جدوجہد اور نتائج کے اعتبار سے اتنا حیران کن ہے کہ اس کی نظیر تاریخِ عالم میں کہیں موجود نہیں ہے۔ جب ہم اس انقلاب کے مختلف پہلوئوں پر غور کرتے ہیں تو حقیقتاً اس کے سوا کسی دوسرے انقلاب پر لفظ انقلاب کا اطلاق ہی درست معلوم نہیں ہوتا۔ اگر یہ بات کہی جائے کہ اب تک انسانیت کی تاریخ صرف ایک ہی حقیقی انقلاب سے آشنا ہے تو یہ کوئی مبالغہ آمیز بات نہیں ہے اور نہ اس کا انکار آسان ہے۔ اس لیے کہ اب تک دنیا میں انقلاب کا مفہوم صرف اسی قدر سمجھا جاتا ہے کہ انسانوں پر غالب اور مسلّط، پہلے اقتدار کو بے دخل کر کے ایک دوسرا اقتدار ان پر مسلّط کردیا جائے۔ یہ کام جس قدر اچانک ہو اور اس میں جس قدر زیادہ خون خرابہ ہو اسی قدر بڑا انقلاب سمجھ لیا جاتا ہے۔ حالاں کہ فساد فی الارض ،ہلاکت ِ انسانی، ضیاع جان و مال و عزت و آبرو، انسانی بستیوں کی بربادی اور ظالموں کے ایک گروہ کے بعد ظالموں کے ہی کسی دوسرے گروہ کے مسلط ہوجانے سے انسانیت کی قسمت میں وہ کون سا تغیر واقع ہوجاتا ہے جس کی بناپر اسے انقلاب کہا جاسکے۔
البتہ ایک ایسی جدوجہد جس کے نتیجے میں پرانا، بداخلاق اور بدکردار انسان یکسر ایک نئے پابند ِ اخلاق انسان کا رُوپ دھار لے۔ قدیم رسموں اور عصبیتوں کا مارا ہوا اور اخلاقی خرابیوں میں ملوث انسانی معاشرہ سارے بوجھ اُتار کر سیدھا سادا خداپرست ،شریف اور پابند ِ اخلاق معاشرہ بن جائے جس میں خدا ترسی، ہمدردی، اخوت، مساوات، مسئولیت، آخرت کی جواب دہی، نیکی اور خیرخواہی کی قدریں جاگزیں ہوجائیں۔ ظام اور جابر حکام کی بجائے خدا ترس اور نیک حاکم کا ٹھنڈا سایہ انسانوں کو میسر آجائے اور جانب دارانہ، سنگدلانہ اور متعصبانہ قوانین کے بجاے مساواتِ انسانی پر مبنی غیر جانب دارانہ ، خداترسانہ اور رحمدلانہ قوانین انسانوں میں رائج ہوجائیں___ تو اس کو حقیقی طور پر انقلاب کہا جاسکتا ہے۔ پھر جب یہ بات معلوم ہو کہ یہ کام صرف ۲۳برسوں کی مختصر مدت میں ہوگیا تو انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ پھر جب مزید یہ پتا چلے کہ یہ سب کچھ پُرامن طور پر بلاخون خرابے کے ہوا اور ۲۷غزوات اور ۵۴سرایا میں صرف چند سو انسان دوطرفہ کام آئے تو انسانی حیرت کی کوئی انتہا نہ رہتی۔ اس ساری انقلابی جدوجہد کا مطالعہ کرنے کے بعد انسان بے ساختہ یہ بات کہنے پرمجبور ہوجاتا ہے کہ اگر تاریخ انسانی میں کوئی حقیقی انقلاب برپا ہوا ہے تو فقط یہی انقلاب ہے باقی جو کچھ ہے وہ ساری کش مکش اقتدار اور خون خرابی کی داستان ہے....
اس سے پہلے کہ ہم مدینہ کی عظیم الشان اسلامی ریاست کے قیام کی تدابیر اور اسلامی نظام کے اجرا کی حکمتوں اور مختلف جہتوں پر بحث کریں خود اسلامی ریاست کی بعض خصوصیات کا تذکرہ ضروری معلوم ہوتا ہے۔ یہ اندازہ کرنا نہایت ضروری ہے کہ صرف چند برسوں میں ایسا حیرت انگیز کارنامہ سرانجام دینا کتنی زبردست جدوجہد، بصیرت، تدبر، حکمت، دانش اور بے نظیر رہنمائی اور قیادت کا نتیجہ ہے۔ یہ انقلاب انسانی تاریخ میں اب تک منفرد واقعہ ہے جیسے کہ انسائی کلوپیڈیا برٹانیکا نے لکھا ہے: ’’یہ وہ کامیابی ہے جو آپ سے قبل کسی دور میں بھی کسی دینی معلّم کو حاصل نہ ہوسکی تھی‘‘۔
حقیقت یہ ہے کہ اس کی نظیر بنی نوع انسان زمین پر آج تک پیش نہیں کرسکے ہیں۔ ایک فرد فی قوم اُٹھ کر اپنی بات کہتا ہے۔ پوری قوم مزاحمت کرتی ہے اور ۲۳سال کی قلیل مدت میں اس کے پیش کردہ نظریے کے عین مطابق افراد ڈھل جاتے ہیں۔ معاشرہ بدل جاتا ہے۔ قوانین کا اجراء ہوجاتا ہے۔ تصوراتِ اخلاق و کردار اور معیشت و معاشرت و سیاست و تہذیب و تمدن سب بدل جاتے ہیں۔ اس انقلاب سے ۲۵سال پہلے کا انسان یکبارگی قبرمیں سے اُٹھ کر اگر واپس اس سرزمین میں آتاتو اس بدلےہوئے ماحول کو دیکھ کر کبھی باور نہ کرسکتا کہ وہ کھلی آنکھوں کے ساتھ عالمِ بیداری میں ایسا عظیم الشان تغیر انسانی زندگی میں دیکھ رہا تھا اور وہ واقعی اس سرزمین میں واپس آیا تھا جس سے وہ رخصت ہوا تھا۔
یہ وہ عظیم الشان ریاست تھی جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ۲۳سال کی مدت میں قائم کر کے ایک حیرت انگیز کارنامہ سرانجام دیا تھا۔ جو اپنی نوعیت میں منفرد اور ممتاز تھی اور جس کی مثال نہ اس سے پہلے دنیا میں کوئی ریاست قائم ہوئی تھی اور نہ اس کے بعد ایسی ریاست قائم ہوسکی، جب کہ ایسی ریاست کا قیام اُمت مسلمہ کا فرض ہے۔ اور اس کے قیام کے بغیر مسلمان اپنے مالک کے سارے احکام پر عمل پیرا نہیں ہوسکتے اور اس کے بغیر ان کی مسلمانی اَدھوری رہ جاتی ہے۔
یہ کارنامہ سرانجام دینے کے لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی ہدایات کی روشنی میں مختلف حکمتوں سے کام لیا۔ اس میں حکمت تبلیغ و دعوت بھی شامل ہے۔ حکمت ِ تنظیم و اجتماع ہے۔ حکمت ِ اخلاق و کردار ہے، حکمت ِ ہجرت اور ترکِ وطن ہے ، حکمت ِ اَزدواج ہے، حکمت ِ جنگ اور جہاد ہے اور حکمت ِ تدبیر و سیاست ہے۔ ان ساری حکمتوں نے اپنی اپنی پوری کامیابی اور عمدگی سے کام کیا ہے تب جاکر وہ عظیم الشان ریاست وجود میں آئی جو درحقیقت حضرت عیسٰی ؑ کے الفاظ میں زمین پر آسمانی بادشاہت تھی۔
احنف بن قیس ایک بڑے عرب سردار تھے۔ مشہور تھا کہ: اگر احنف کو غصّہ آتا ہے تو ایک لاکھ تلواروں کو غصّہ آجاتا ہے۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت تو انھوں نے نہیں کی، مگر آپؐ کی زیارت کرنے والوں کی زیارت کی اور ان کے ساتھ رہے۔ خاص طور پر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بڑے معتقد اور مخلص تھے۔ ایک دن کسی قاری نے یہ آیت تلاوت کی:
لَقَدْ اَنْزَلْنَآ اِلَيْكُمْ كِتٰبًا فِيْہِ ذِكْرُكُمْ ۰ۭ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ۱۰ۧ (الانبیا ۲۱:۱۰) ہم نے تمھاری طرف ایک کتاب نازل کی ہے جس میں تمھارا ہی تذکرہ موجود ہے۔ تم غوروفکر سے کام نہیں لیتے؟ عربی اُن کی زبان تھی، یہ سن کر چونک پڑے۔ گویا نئی بات سنی، کہنے لگے: ’’ہمارا تذکرہ! ذرا قرآن تو لائو، دیکھوں میرا کیا تذکرہ ہے اور میں کن لوگوں کے ساتھ ہوں؟‘‘قرآن مجید دیکھا تو لوگوں کی صورتیں ان کے سامنے سے گزرنے لگیں۔
كَانُوْا قَلِيْلًا مِّنَ الَّيْلِ مَا يَہْجَعُوْنَ۱۷ وَبِالْاَسْحَارِہُمْ يَسْتَغْفِرُوْنَ۱۸ وَفِيْٓ اَمْوَالِہِمْ حَقٌّ لِّلسَّاۗىِٕلِ وَالْمَحْرُوْمِ۱۹ (الذاریات ۵۱:۱۷-۱۹) وہ لوگ رات کو بہت کم سوتے تھے اور آخر شب میں استغفار کیا کرتے تھے اور ان کے مال میں سائل اور محروم کا حق تھا۔
تَـتَجَافٰى جُنُوْبُہُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ خَوْفًا وَّطَمَعًا۰ۡوَّمِـمَّا رَزَقْنٰہُمْ يُنْفِقُوْنَ۱۶ (السجدہ ۳۲:۱۶) ان کے پہلو خواب گاہوں سے علیحدہ ہوتے ہیں۔ وہ لوگ اپنے رب کو اُمید سے اور خوف سے پکارتے ہیں اور ہماری دی ہوئی چیزوں میں سے خرچ کرتے ہیں۔
يَبِيْتُوْنَ لِرَبِّہِمْ سُجَّدًا وَّقِيَامًا۶۴ (الفرقان ۲۵:۶۴) راتوں کو اپنے رب کے آگے سجدے اور قیام میں لگے رہتے ہیں۔
يُنْفِقُوْنَ فِي السَّرَّاۗءِ وَالضَّرَّاۗءِ وَالْكٰظِمِيْنَ الْغَيْظَ وَالْعَافِيْنَ عَنِ النَّاسِ۰ۭ وَاللہُ يُحِبُّ الْمُحْسِـنِيْنَ۱۳۴ۚ(اٰل عمرٰن ۳:۱۳۴) خرچ کرتے ہیں فراغت میں اور تنگی میں اور غصے کو ضبط کرنے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے اور اللہ ایسے نیکوکاروں کو محبوب رکھتا ہے۔
وَيُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓي اَنْفُسِہِمْ وَلَوْ كَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌ۰ۭۣ وَمَنْ يُّوْقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۹ (الحشر ۵۹:۹) دوسروں کو اپنے اُوپر ترجیح دیتے ہیں۔ اگرچہ ان کو تنگی و فاقہ ہو اور (واقعی) جو اپنی طبیعت کے بخل سے محفوظ رکھا جائے وہ بڑا کامیاب ہے۔
كَبٰۗىِٕرَ الْاِثْمِ وَالْـفَوَاحِشَ وَاِذَا مَا غَضِبُوْا ہُمْ يَغْفِرُوْنَ۳۷ۚ وَالَّذِيْنَ اسْتَجَابُوْا لِرَبِّہِمْ وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ ۰۠ وَاَمْرُہُمْ شُوْرٰى بَيْنَہُمْ ۰۠ وَمِمَّا رَزَقْنٰہُمْ يُنْفِقُوْنَ۳۸ۚ (الشوریٰ ۴۲:۳۷-۳۸) جو بڑے بڑے گناہوں سے اور بے حیائی کی باتوں سے بچتے ہیں اور جب ان کو غصّہ آتا ہے تو معاف کر دیتے ہیں اور جن لوگوں نے اپنے رب کا حکم مانا اور و ہ نماز کے پابند ہیں اور ان کا کام آپس کے مشورے سے ہوتا ہے اور ہم نے جو کچھ دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔
حضرت احنف اپنے کو پہچانتے تھے۔ کہنے لگے: ’’خدایا! میں تو ان میں کہیں نظر نہیں آتا‘‘۔ اب انھوں نے دوسرا راستہ اختیار کیا۔ اس میں ان کو اور طرح طرح کے آدمی نظر آنے لگے۔
اِذَا قِيْلَ لَہُمْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ ۰ۙ يَسْتَكْبِرُوْنَ۳۵ۙ وَيَقُوْلُوْنَ اَىِٕنَّا لَتَارِكُوْٓا اٰلِـہَتِنَا لِشَاعِرٍ مَّجْــنُوْنٍ۳۶ۭ (الصّٰفّٰت ۳۷:۳۵-۳۶) جب ان سے کہا جاتا کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں تو تکبر کیا کرتے اور کہتے کہ کیا ہم اپنے معبودوں کو ایک شاعرِ دیوانہ کی وجہ سے چھوڑ دیں گے؟
وَاِذَا ذُكِرَ اللہُ وَحْدَہُ اشْمَاَزَّتْ قُلُوْبُ الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَۃِ ۰ۚ وَاِذَا ذُكِرَ الَّذِيْنَ مِنْ دُوْنِہٖٓ اِذَا ہُمْ يَسْتَبْشِرُوْنَ۴۵ (الزمر ۳۹:۴۵) جب اکیلے اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو آخرت پر ایمان نہ رکھنے والوں کے دل کڑھنے لگتے ہیں، اور جب اس کے سوا دوسروں کا ذکر ہوتا ہے تو یکایک وہ خوشی سے کھِل اُٹھتے ہیں۔
قَالُوْا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّيْنَ۴۳ۙ وَلَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِيْنَ۴۴ۙ وَكُنَّا نَخُوْضُ مَعَ الْخَاۗىِٕضِيْنَ۴۵ۙ وَكُنَّا نُكَذِّبُ بِيَوْمِ الدِّيْنِ۴۶ۙ حَتّٰٓي اَتٰىنَا الْيَقِيْنُ۴۷ۭ (المدثر ۷۴: ۴۳-۴۴) ہم نہ تو نماز پڑھا کرتے تھے اور نہ غریب کو کھانا کھلایا کرتے تھے اور ہم باتیں بنانے والوں کے ساتھ خود بھی مشغول ہوجاتے تھے اور ہم آخرت کا انکار کرتے تھے، یہاں تک کہ ہم کو موت آگئی۔
حضرت احنف یہ صورتیں دیکھ کر گھبرا گئے۔ کہنے لگے کہ خدایا! ایسے لوگوں سے تیری پناہ! مَیں ان سے بے زار ہوں، اورمجھے ان سے کوئی تعلق نہیں۔
وہ اپنے متعلق نہ تو دھوکے میں تھے اور نہ ایسے بدگمان کہ اپنے کو مشرکوں اور باغیوں میں سمجھ لیں۔ وہ جانتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو ایمان کی دولت دی ہے اور ان کا مقام بہت بلند نہ سہی مگر ان کی جگہ مسلمانوں ہی میں ہے۔ ان کو ایسی صورت کی تلاش تھی جس کو وہ اپنی کہہ سکیں۔ ان کو اپنے ایمان کا یقین بھی تھا اور اپنی کوتاہیوں اور کمزوریوں کا علم بھی۔ اور اللہ کی رحمت اور مغفرت پر بھروسا بھی۔ نہ ان کو اعمال پر غرہ تھا نہ خدا کی رحمت سے مایوسی۔ ان کو اس ملی جلی صورت کی تلاش تھی اور اس کا یقین تھا کہ وہ صورت اس جامع و مکمل، اس زندہ و تازہ کتاب میں ضرور ملے گی۔ انھوں نے سوچا: کیا ایسے خدا کے بندے نہیں ہیں جو ایمان کی دولت بھی رکھتے ہیں ، اپنے گناہوں اور تقصیروں پر شرمندہ بھی ہیں؟ کیا خدا کی رحمت ان کو محروم رکھے گی؟ کیا اس کتاب میں جو سارے انسانوں کے لیے ہے، ان کی صورت اور ان کا تذکرہ نہیں ملے گا؟ ایسا نہیں ہوسکتا۔
وَاٰخَرُوْنَ اعْتَرَفُوْا بِذُنُوْبِہِمْ خَلَطُوْا عَمَلًا صَالِحًا وَّاٰخَرَ سَـيِّــئًا ۰ۭ عَسَى اللہُ اَنْ يَّتُوْبَ عَلَيْہِمْ۰ۭ اِنَّ اللہَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۱۰۲ (التوبۃ ۹:۱۰۲) اور کچھ اور لوگ ہیں جن کو اپنی خطائوں کا اقرار ہے۔ انھوں نے ملے جلے عمل کیے تھے، کچھ بھلے کچھ بُرے۔ اللہ سے اُمید ہے کہ ان کے حال پر رحمت کے ساتھ توجہ فرمائے۔بلاشبہہ اللہ بڑی مغفرت والابڑی رحمت والا ہے۔
انھوں نے کہا: بس بس میں مل گیا۔ میں نے اپنے کو پالیا۔ مجھے اپنے گناہوں کا اعتراف ہے۔ مجھے خدا کی توفیق سے جو کچھ نیک اعمال ہوئے ان کا انکار نہیں۔ ان کی ناقدری نہیں، ناشکری نہیں۔ مجھے خدا کی رحمت سے نااُمیدی نہیں: وَمَنْ يَّقْنَطُ مِنْ رَّحْمَۃِ رَبِّہٖٓ اِلَّا الضَّاۗلُّوْنَ۵۶ (الحجر ۱۵:۵۶) ’’اللہ کی رحمت سے وہی مایوس ہوسکتے ہیں جو گمراہ ہیں‘‘۔ ان سب سے مل جل کر جو صورت تیار ہوئی وہ میری صورت ہے۔ اس آیت میں میرا اور میرے جیسوں کا حال بیان کیا گیا ہے اور ان کا نقشہ کھینچا گیا ہے___ قربان اپنے رب کے جس نے اپنے گناہ گار بندوں کو فراموش نہیں فرمایا۔
حضرت احنف کی تلاش کا یہ قصہ ختم ہوگیا۔ وہ اپنے پیدا کرنے والے کے پاس پہنچ گئے، مگر یہ کتاب موجود ہے اور قیامت تک رہے گی۔ قومیں اگر اپنے کو اس میں تلاش کریں گی تو پالیں گی۔ جماعتیں اور مختلف طبقے اگر اپنے کو اس آئینے میں دیکھنا چاہیں تو دیکھ لیںگے۔ افراد ، ہم اور آپ___ اگر اپنے کو تلاش کرنے نکلیں گے تو ان شاء اللہ ناکام واپس نہیں ہوں گے۔ حضرت احنف نے ہم کو سچی تلاش کا ایک نمونہ دکھلایا اور قرآن پڑھنے اور اس پر غور کرنے کا صحیح طریقہ سکھا گئے۔ ہمیں اس نمونے اور تعلیم سے فائدہ اُٹھا کر قرآنِ مجید کا مطالعہ شروع کرنا چاہیے۔
حسن بصریؒ فرماتے ہیں: اے ابن آدم!دن تمھارے پاس مہمان ہوکرآتا ہے اس لیے اس کے ساتھ بہتر سلوک کرو۔ اگر تم بہتر سلوک کرو گے تو وہ تمھاری تعریف کرتے ہوئے چلا جائے گا۔ اگر بدتر سلوک کرو گے تو تمھاری مذمت کرتے ہوئے چلا جائے گا۔ اسی طرح رات کا بھی معاملہ ہے۔
ان ہی کا قول ہے: ابن آدم پر آنے والا ہر دن کہتا ہے اے ابن آدم! میں نئی مخلوق ہوں، تیرے کاموں پر گواہ ہوں، اس لیے مجھ سے فائدہ اُٹھا کیوں کہ جب مَیں چلا جائوں گا تو قیامت تک واپس نہیں آئوں گا۔ تم جو چاہو اگلی زندگی کے لیے پیش کرو، تم اس کو اپنے سامنے پائوگے اور جو چاہو پیچھے کرو وہ لوٹ کر دوبارہ تمھارے پاس نہیں آئے گا۔
منصوبہ بندی اور فہرست اُمور کی تکمیل کے بعد اور ان کے نفاذ کے دوران رکاوٹوں سے بچنے اور بہترین نتائج و ثمرات حاصل کرنے کے لیے چند ہدایات پر عمل کرنا ضروری ہے جو مندرجہ ذیل ہیں:
مَا جَعَلَ اللہُ لِرَجُلٍ مِّنْ قَلْبَيْنِ فِيْ جَوْفِہٖ ۰ۚ (الاحزاب ۳۳:۴) اللہ تعالیٰ نے کسی شخص کے دھڑ میں دو دل نہیں بنارکھے۔
فَاِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ O (الم نشرح ۹۴:۷) جب تم فارغ ہوجائوتو میری عبادت کے لیے کھڑے ہوجائو۔
وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا(العنکبوت ۲۹:۶۹) جو ہم میں کوشش اور مجاہدہ کرتے ہیں، ہم ان کے لیے اپنے راستے کھول دیتے ہیں۔
نگرانی اور جائزے کا مطلب سابقہ منصوبے کے نفاذ کا موازنہ اس مقصد سے کرنا کہ غلطیوں کا تعین کیا جائے اور مثبت اُمور سے فائدہ اُٹھایا جائے اور منفی اُمور سے بچا جائے۔
فعال نگرانی کرنے کے اوصاف مندرجہ ذیل ہیں:
نگرانی کی نوعیت
مفہوم
فوری
نگرانی اور جائزہ منصوبے کے نفاذ کے ساتھ ہی الاوّل فالاول کے اعتبار سے کی جائے تاکہ وقت نکلنے سے پہلے کوتاہیوں اور خامیوں کا علاج کیا جاسکے۔
استمراری
نگرانی مسلسل جاری رہے اور تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد نتائج کو جمع کیا جائے۔
اقتصادی
وقت اور محنت فائدہ سے زیادہ نہ خرچ کیے جائیں۔
اصلاحی
صرف غلطیوں کو لکھنے اور نفس کو ڈانٹنے کے مقصد سے نہ ہو۔
مضبوط
صرف حقیقت سے ہٹ کر جامد کارروائیاں نہ ہوں بلکہ منصوبہ اور اس کو نافذ کرنے کے حالات بھی مناسب ہوں۔
جماعت اسلامی کا لا ئحہ عمل [تطہیر و تعمیر افکار ، صالح افراد کی تلاش، تنظیم اور تربیت ، اصلاحِ معاشرہ ، اصلاحِ نظام حکومت ]جس اسکیم پر مبنی ہے، اس کی کامیابی کا سارا انحصار ہی اس کے توازن پر ہے۔ اس کا ہر جز دوسرے اجزا کا مدد گار ہے، اس سے تقویت پاتا ہے اور اس کو تقویت بخشتا ہے۔ آپ کسی جز کو ساقط یا معطل کریں گے تو ساری اسکیم خراب ہو جائے گی۔ اور اس کے اجزا کے درمیان توازن برقرار نہ رکھیں گے تب بھی یہ اسکیم خراب ہو کر رہے گی:
ان میں سے کسی کے بارے میں غلو کرنے سے آپ کو پرہیز کرناچاہیے۔ آپ کے اندر یہ حکمت موجود ہونی چاہیے کہ اپنی قوت عمل کو زیادہ سے زیادہ صحیح تناسب کے ساتھ ان چاروں کاموں پر تقسیم کریں۔ اور آپ کو وقتاً فوقتاً یہ جائزہ لیتے رہنا چاہیے کہ ہم کہیں ایک کام کی طرف اس قدر زیادہ تو نہیں جھک پڑے ہیں کہ دوسرا کام رک گیا ہو، یا کمزور پڑ گیا ہو۔ اسی حکمت اور متوازن فکر اور متناسب عمل سے آپ اس نصب العین تک پہنچ سکتے ہیں جسے آپ نے اپنا مقصدحیات بنایا ہے…
اس طرح بعض لوگوں نے مختلف عنوانات کے خانوں میں جماعت کے کام کو تقسیم کر رکھا ہے اور زیادہ تر یہی چیز ان کے اس دعوے کی بنیاد ہے کہ جماعت کا سیاسی کام اس کے دوسرے کاموں سے بہت بڑھ گیا ہے۔ حالاںکہ ہم جو اپنے لائحہ عمل میں چار عنوانوں پر کام کو تقسیم کر کے بیان کرتے ہیں تو وہ صرف یہ سمجھانے کے لیے ہے کہ زندگی کے کن کن گوشوں میں ہمیں کن مقاصد کے لیے سعی کرنی ہے۔ اس کا یہ مطلب کبھی نہیں ہوتا، اور نہیں ہو سکتا کہ عملاً بھی یہ الگ کام ہوں گے ۔ واقعہ کے اعتبار سے تو ان میں سے ہر کام ایسا ہے جس میں آپ سے آپ بقیہ سارے کام بھی شامل ہوتے ہیں ۔جب آپ دعوت کا کام کریں گے تو وہ مذہبی واعظوں کے طرز پر صرف دعوت ہی نہ ہو گی بلکہ توسیع نظام اور اصلاحِ معاشرہ کا مقصد بھی اس کے ساتھ خود بخود پورا ہو گا اور یہی آپ کا سیاسی کام بھی ہو گا۔ دوسری طرف جب آپ سیاسی کام کرنے اٹھیں گے تو یہ دوسری سیاسی پارٹیوں کے طرز پر محض سیاسی کام ہی نہ ہوگا، بلکہ اس کا افتتاح ہی دعوت دین سے کیا جائے گا ، اور اس کے اندر لازماً توسیع نظام اور اصلاحِ معاشرہ کے عناصر بھی شامل ہوں گے۔ (تحریک اسلامی کا آیندہ لائحہ عمل ،ص۱۳۰-۱۳۳)
علامہ اقبال ۱۹۳۳ء میں نادر شاہ کی دعوت پر افغانستان گئے۔ اس سفر میں سیّد راس مسعود اور سیّد سلیمان ندوی بھی ان کے ہم رکاب تھے۔ موٹر کار کے ذریعے پشاور ،جلال آباد کے راستے کابل پہنچے تھے مگر واپسی پر غزنین ،قندھار اور چمن کوئٹہ کا راستہ اختیار کیا۔ پورے سفر کی رُوداد سیرافغانستان کے نام سے سیّد سلیمان ندوی نے قلم بند کی تھی۔
چمن سے کوئٹہ آتے ہوئے علامہ سے ان کی جو گفتگو ہوئی، اس کے ذکر میں سیّد صاحب لکھتے ہیں: ’’ڈاکٹر صاحب نے اپنے آغازِ زندگی اور طالب علمانہ عہد کا ذکر چھیڑا، پھر اپنے والد مرحوم کا تذکرہ کیا کہ وہ خود ایک صاحبِ دل صوفی تھے اور دین دار علما کی صحبت میں رہتے تھے ۔ اس ضمن میں یہ معلوم ہوا کہ ہمارے جلیل القدر اسلامی شاعر کے حسّیاتِ خفتہ کے تاروں میں جس مضراب نے حرکت پیدا کی، وہ خود ان کے والد ماجد کی ذاتِ بابر کات تھی۔
’’اثناے گفتگو میں ڈاکٹر صاحب نے اپنے طالب علمی کے عہد کے ایک قصے میں اپنے والدمرحوم کا ایک ایسا فقرہ سنایا جس نے میرے دل پر بے حد اثر کیا۔ فرمایا کہ اپنے وطن سیالکوٹ میں صبح کی نماز کے بعد قرآن پاک کی تلاوت کیا کرتا تھا۔ [خیال رہے کہ مسلم گھرانوں میں، صدیوں سے علی الصبح تلاوتِ قرآن کی روایت چلی آ رہی ہے۔ علامہ کے زمانے تک یہ روایت باقی تھی، اور اب بھی بعض گھرانوں میں موجود ہے، چنانچہ اپنے لڑکپن میں، اقبال نماز فجر کے بعد معمولاً تلاوت کیا کرتے تھے ]۔ایک صبح کو نماز کے بعد حسب دستورِ مَیں تلاوت میں مصروف تھا کہ والدِمرحوم ادھر آئے اور دریافت کیا کہ کیا کرتے ہو ؟ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ آپ جانتے ہیں کہ مَیں اس وقت تلاوت کرتا ہوں۔ فرمایا : ’’جب تک تم یہ نہ سمجھو کہ قرآن تمھارے قلب پر بھی اسی طرح اترا ہے جیسے محمد ؐ کے قلبِ اقدس پر نازل ہوا تھا، تلاوت کا مزا نہیں‘‘۔ یعنی اپنے اندر احساس پیدا کرو کہ گویا قرآن تم پر نازل ہو اہے۔ علامہ اقبال نے بہت بعد میں اپنے شعر میں اس واقعے کی طرف اشارہ کیا ہے:
ترے ضمیر پر جب تک نہ ہو نزولِ کتاب
گرہ کشا ہے نہ رازی ، نہ صاحبِ کشاف
(بالِ جبریل، ص ۷۸)
اقبال نے والد کی یہ نصیحت پلے باندھ لی اور قرآن حکیم کے ساتھ ایسی وابستگی پیدا کر لی کہ بقول سیّد مودودی ؒ :’’دنیا نے دیکھا کہ [وہ] قرآن حکیم میں گم ہو چکا ہے اور قرآن سے الگ اس کا کوئی فکری وجود باقی نہیں رہا ‘‘ ۔ اقبال کی انقلاب انگیز شاعری اور ان کے افکار وتصورات اس پر گواہی دے رہے ہیں۔
اقبال اوائلِ عمر ہی سے تلاوتِ قرآن پاک کے عادی تھے۔ تلاوت بہت خوش الحانی سے کرتے۔ کبھی کبھی وہ رات کو اپنے دوست مرزا جلا ل الدین کے ہاں ہی ٹھیر جاتے۔ مرزا صاحب ، ان ایام کا ذکر کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب جب رات میرے پاس گزارتے تھے تو صبح اُٹھ کر نماز پڑھتے اور اس کے بعد بڑی خوش الحانی سے دیر تک قرآنِ کریم کی تلاوت کرتے۔ ان کی تلاوت سن کر بڑا لطف آتا تھااور ایک کیفیت طاری ہو جاتی تھی ۔ پھر چائے پی کر وہ اپنے دفتر یا گھر چلے جایا کرتے تھے۔
اقبال کا خادمِ خاص ، علی بخش تقریباً ۳۵ برس تک اقبال کے شب وروز اور سفر وحضر کا رفیق رہا۔ اس کی روایت ہے کہ صبح کی نماز اور قرآن خوانی مدت سے ان کا معمول تھا۔ قرآن بلند آواز سے پڑھتے تھے۔ آواز ایسی شیریں تھی کہ ان کی زبان سے قرآن سن کر پتھروں کے دل پانی ہو جاتے تھے۔ بیماری کے زمانے میں قرآن پڑھنا چھوٹ گیا اور عمر بھر کا معمول باقی نہ رہا۔ اس بات کا انھیں شدید قلق تھا:
در نفس سوزِ جگر باقی نماند
لطفِ قرآنِ سحر باقی نماند
(پس چہ باید کرد،ص۵۰ )
جب خود تلاوت نہ کر سکتے تو کوشش ہوتی تھی کہ کسی اچھے قاری کی تلاوت سنیں۔ ڈورس احمد بتاتی ہیں: ایک روز ایک عرب ،علامہ سے ملنے آیا ۔ اس موقعے پر ڈاکٹر صاحب نے مجھے کہا کہ بچوں کو میرے پاس لے آئیے ۔ عرب مہمان ابھی قرآنِ پاک کی تلاو ت کریں گے۔ اگر آپ بھی تلاوت سننا پسند کریں تو سامعین میں شامل ہو سکتی ہیں۔ ڈورس احمد کہتی ہیں: عرب مہمان نہایت خوش الحان تھے۔ جب تک وہ آیاتِ مقدسہ کی تلاوت کرتے رہے ، ڈاکٹر صاحب برابر روتے رہے۔ اگرچہ میں آیات کا مفہوم سمجھنے سے قاصر تھی، لیکن قاری صاحب کے حسنِ قراء ت نے جو سماں باندھ دیا، میں اس سے بہت متاثر ہوئی۔ بچے مسحور تھے اور ڈاکٹر صاحب تو وجد میں تھے۔
اقبال کو ’ترجمان القرآن‘ بھی کہا جاتا ہے اور یہ کچھ ایسا غلط بھی نہیں۔ علی بخش کا بیان ہے کہ جب شعر کہنے ہوتے تو بیاض اور قلم دان کے ساتھ، قرآن حکیم بھی منگاتے۔ اس طرح عمر بھر وہ قرآن کی تعلیمات وافکار کو اپنی شاعری میں سمو کر پیش کرنے کی سعی کرتے رہے۔ ان کی یہ کاوش ارادی اور شعوری تھی۔ رموزبے خودی کے آخر میں تو بہت کھل کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور عرض کیا کہ اگر میرے اشعار میں قرآن حکیم (کے مطالب ) کے علاوہ یا خلافِ قرآن کوئی بات ہے تو آپ دنیا کو میرے کانٹے سے پاک کر دیجیے اور قیامت کے دن مجھے بوسۂ پا سے محروم کرکے، خوار و رُسوا کیجیے.... پھر کہا: حقیقتِ حال تو یہ ہے کہ میں نے اپنی شاعری میں قرآن پاک کے موتی پروئے ہیں۔
اقبال کا یہ دعویٰ (کہ میں نے سراسر قرآنِ حکیم کی ترجمانی کی ہے) قرآن حکیم پر پورے شعور کے ساتھ ان کے ایک گہرے ایمان وایقان کا نتیجہ تھا۔ ایک بار ایف سی کالج لاہور کے پرنسپل لوکس نے ان سے پوچھا : تمھارے پیغمبر ؐ پر قرآن کا مفہوم نازل ہوا تھااور انھوں نے اسے عربی میں منتقل کر لیا یا یہ قرآن پاک کی موجودہ عبارت ہی ہوبہو اُتری تھی ؟ علامہ نے کہا: یہ اسی طرح اتری تھی ۔ پرنسپل لوکس کو کچھ تعجب ہوا کہ یہ ایم اے، پی ایچ ڈی، بیرسٹرایٹ لا، یورپ کا تعلیم یافتہ فلسفی بھی دقیانوسی باتوں پر یقین رکھتا ہے۔ اقبال نے کہا: میرا تجربہ ہے کہ مجھ پر پورا شعر اترتا ہے، تو پیغمبر پر یہ پوری عبارت کیوں نہ اُتری ہو گی۔
رُموز بے خودی کے ایک باب کا عنوان ہے :’’آئینِ ملتِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم قرآن است‘‘۔ اس میں پہلے وہ افرادِ اُمت سے سوال کرتے ہیں: کیا تم جانتے ہو کہ تمھارا آئین کیا ہے؟ پھر خود ہی جواب دیتے ہیں :قرآن حکیم ۔فرماتے ہیں:
آں کتابِ زندہ قرآنِ حکیم
حکمتِ او لایزال است و قدیم
نسخۂ اسرارِ تکوینِ حیات
بے ثبات از قوتش گیرد ثبات
نوعِ انساں را پیامِ آخریں
حاملِ او رحمتہً للعالمیں
(رموز بے خودی ،ص ۱۲۳)
[ یہ قرآن حکیم ہے جو ایک زندہ کتاب ہے جس کی حکمت قدیم بھی ہے اور کبھی نہ ختم ہونے والی ہے۔ یہ تخلیق حیات کے اسرار ظاہر کرنے والا نسخہ ہے۔ اس کی قوت اور بل بوتے پر کمزور، ثبات وقوت اور پایداری حاصل کرتے ہیں۔ یہ بنی نوع انسان کے لیے آخری پیغام ہے ، جسے رحمتہ للعالمین لائے ہیں۔ قرآن پاک کی برکت سے ایک بے وقعت شخص بھی قدرو منزلت حاصل کر لیتا ہے]۔
اس کے بعد دور حاضر کے مسلمان اور بحیثیت مجموعی امت مسلمہ سے کہتے ہیں کہ اگر تم پستی وزبوں حالی کی دلدل سے نکلنا چاہتے ہو اور سر بلندی وعروج کے راستے پر گامزن ہونا چاہتے ہو تو اس کا ایک ہی راستہ ہے:
گر تو می خواہی مسلماں زیستن
نیست ممکن جز بہ قرآں زیستن
(ایضاً)
[اگر مسلمان بن کر زندہ رہنا چاہتے ہو تو قرآن حکیم پر عمل پیرا ہوئے بغیر یہ ممکن نہیں ہے۔]
جاوید نا مہ میں کہتے ہیں کہ اگر دل کی بات پوچھتے ہو تو قرآن حکیم عام کتابوں کی طرح فقط ایک کتاب نہیں ، کچھ اور ہی چیز ہے:
ایں کتابے نیست ، چیزے دیگر است
(جاوید نامہ ،ص ۸۱)
جب اس کا اثر جان کے اندر داخل ہوتا ہے تو وہ جان بدل جاتی ہے (اس میں انقلاب آجاتا ہے ) اور جان بدل جائے تو جہان بد ل جاتا ہے ۔
جاوید نا مہ میں وہ ’پیغامِ افغانی با ملّتِ روسیہ ‘ کے زیر عنوان قرآنِ حکیم کے ذکر سے بات کا آغاز کرتے ہیں:
منزلِ مقصودِ قرآں دیگر است
رسم و آئین مسلماں دیگر است
(ایضاً،ص ۷۸)
[قرآن پاک کی منزل اور اس کا مقصود اور ہے مگر (آج کل کے ) مسلمان کے طور طریقے اور اُصولِ (حیات ) مختلف ہیں] ___پھر فرماتے ہیں : یہ مسلمان قرآن سے فائدہ نہیں اٹھاتا، حالاں کہ اسے معلوم ہونا چاہیے کہ قرآن نے فقر کا جوتصور دیا ہے ، وہ فقر ہی اصل شہنشاہی ہے۔ قرآن پاک ظالم آقائوں کے لیے تو موت کا پیغام ہے اور بے سروساماں انسانوں کا دستگیر اور بہت بڑا سہارا ۔ اس انقلابی کتاب میں مشرق ومغرب کی تقدیریں پنہاں ہیں، لہٰذا اے مسلمان! نور قرآن پر غور کرو، زندگی کے نشیب وفراز سے اور تقدیر حیات سے آگاہی ،قرآن حکیم سے وابستگی کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ مسلمان کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں: تم اور طرح کی شرع اور (غیرقرآنی ) قوانین اپنا کر کسی اور راستے پر چل پڑے ہو۔ ذرا رُک کر قرآن پاک پر غور کرو۔ پھر علامہ، اُمت مسلمہ کو خبر دار کرتے ہیں کہ اگر تم نے غفلت برتی اور قرآن پاک کو چھوڑ دیا اور اس سے منہ موڑ لیا تو اللہ پاک قرآن پاک کو کسی اور قوم کے سپرد کر دیں گے:
حق اگر از پیش ما برداردش
پیشِ قومے دیگرے بگزاردش
(ایضاً،ص ۸۲)
یہ قرآن حکیم کی اس آیت کی ترجمانی ہے :وَ اِنْ تَتَوَلَّوْا یَسْتَبْدِ لْ قَوْمًا غَیْرَکُمْ ۰ۙ ثُمَّ لَا يَكُوْنُوْٓا اَمْثَالَكُمْ۳۸ۧ ( محمد ۴۷:۳۸) ’’اگر تم منہ موڑو گے تو اللہ تمھاری جگہ کسی اور قوم کو لے آئے گااور وہ تم جیسے نہ ہوں گے‘‘۔
جاوید نا مہ کے آخری حصے (خطاب بہ جاوید ) کے تحت کہتے ہیں :
سینۂ ہا از گرمیِ قرآں نہی
از چنیں مرداں چہ اُمید بہی
(ایضاً،ص ۲۰۰)
مسلمانوں کے سینے قرآن حکیم کی حرارت سے خالی ہیں تو قرآن سے غافل لوگوں سے اصلاحِ احوال کی کیا اُمید ہو سکتی ہے:
صاحبِ قرآن وبے ذوقِ طلب
العجب ، ثم العجب ، ثم العجب
(ایضاً،ص ۲۰۱)
تعجب تو یہ ہے اور انتہا درجے کا تعجب ہے کہ قرآن جیسی نعمت میسر ہے مگر اس سے فائدہ اٹھانے کا خیال ہی نہیں ہے ___ وہی بات کہ جزدان میں لپیٹ کر طاق میں رکھ دیا ہے (ماہرالقادری کی نظم ’قرآن کی فریاد‘ میں اس مفہوم کی بہت عمدہ ترجمانی ملتی ہے ۔ )
اس غفلت کا ایک سبب مسلمانوں کی فرنگیت زدگی ہے:
ہم مسلمانانِ افرنگی مآب
چشمۂ کوثر بجوئندہ از سراب
(ایضاً،ص ۲۰۶)
یعنی افرنگ زدہ (تہذیب مغر ب سے مرعوب ) مسلمان ، سراب میں سے چشمۂ کوثر ڈھونڈتے ہیں۔ علامہ ایک اور جگہ اظہار افسوس کرتے ہیں کہ :
افرنگ زخود بے خبرت کرد وگرنہ
اے بندۂ مومن تو بشیری ، تو نذیری
(ضرب کلیم ، ص ۱۷۵)
[اے مسلمان ! تہذیبِ مغرب نے تمھیں اتنا مدہوش کر دیا ہے کہ تمھیں اپنی (اصلیت کی) خبر ہی نہیں ، ورنہ دنیا میں تو ہی بشیر ہے اور نذیر بھی ۔]
جاوید اقبال سے خطاب کرتے ہوئے یہ بھی فرماتے ہیں کہ: عوام الناس سے کیا شکوہ ، خود علما ، قرآنِ حکیم کے علم سے لاپروا ہیں (یعنی قرآن حکیم پر خاطر خواہ غور نہیں کرتے، اور تدبّر وتفکّر کر کے اسے سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے ۔ اس لیے ان کے وعظ ، بے تاثیر وبے نتیجہ ہیں ) ۔
خیال رہے کہ علامہ اقبال نے اپنی اردو اور فارسی شاعری میںقرآن حکیم کا ذکر بار بار اور مختلف اسالیب وانداز میں کیا ہے۔ پھر ان کے نمایاں افکار وتصورات، یعنی فلسفۂ خودی ، تصور بے خودی ، عقل وعشق ، مرد کامل ، فقر ، تصوف وغیرہ ، اصلاً قرآنی تعلیمات کی بنیاد پر ہی تشکیل پذیر ہوئے ہیں۔ شعر اقبال کے سیکڑوں مضامین براہ راست قرآن حکیم سے اخذ کیے گئے ہیں۔ اُردو کلام میں ایک جگہ کہتے ہیں:
قرآن میں ہو غوطہ زن اے مرد مسلماں
اللہ کرے تجھ کو عطا جدّتِ کردار
(ایضاً،ص ۱۳۶)
قرآن حکیم سے علامہ اقبال کی وابستگی اور رجوع الی القرآن کی تلقین خالی خولی شاعرانہ بات نہ تھی۔ اقبال حتی الوسع خود بھی قرآن حکیم کو راہ نما ے حیات بنانے کی سعی وکاوش کرتے رہے، مثلاً حیاتِ اقبال کی تقریباً ساری کتابوںمیں یہ واقعہ ملتاہے کہ علامہ کی بہن کریم بی بی ، ایک عرصے سے خوش دامن کے نامناسب رویے کی بنا پر ، میکے میں آ کر رہ رہی تھیں۔ خوش دامن فوت ہو گئیں تو ان کا خاوند (اقبال کا بہنوئی ) انھیں لینے آیا ؛ اقبال کے والدین تو رضا مند ہو گئے مگر اقبال، مصالحت پر راضی نہ تھے ۔ والدین نے بہت سمجھایا مگر وہ کسی طرح نہ مانے۔ اصرار کرنے لگے کہ بہنوئی اور ان کے ساتھ آنے والوں کو واپس کر دیا جائے ۔ اب شیخ نور محمد نے اپنے مخصوص دھیمے لہجے میں اقبال سے کہا: بیٹے، اللہ پاک نے قرآن پا ک میں فرمایا ہے:وَالصُّلْحُ خَیْر ۔یہ سننا تھا کہ اقبال خاموش ہو گئے ، چہرے کا رنگ متغیر ہو گیا، جیسے کسی نے سلگتی آگ پر برف کی سل رکھ دی ہو ۔کچھ توقف کے بعد ، والد نے پوچھا : اب کیا کیا جائے ؟ اقبال نے کہا: وہی جو قرآن کہتا ہے، چنانچہ مصالحت ہو گئی اور بہن کو رخصت کر دیا۔
قرآن حکیم سے اقبال کی وابستگی تادم آخر برقرار رہی۔ تلاوت تو ان کا عمر بھر کا معمول رہا۔ کبھی کبھی تلاوت کرتے وقت ان پر رقت طاری ہو جاتی اور بے اختیار رونے لگتے۔ نوجوانوں کو علی الصبح تلاوت کی تلقین کیا کرتے ، مثلاً ایک بار فرمایا: ’’مسلمانوں کے لیے جاے پناہ صرف قرآنِ کریم ہے۔ میں اس گھر کو صد ہزار تحسین کے قابل سمجھتا ہوں جس گھر سے علی الصبح تلاوت قرآنِ مجید کی آواز آئے ‘‘۔ تلاوت کے ساتھ ساتھ وہ قرآن حکیم کے معانی ومفاہیم پر بھی برابر فکرو تدبر کرتے رہے۔ خواجہ حسن نظامی کے نام ایک خط میں اعتراف کرتے ہیں کہ میرا ابتدائی میلان تصوف کی طرف تھا اور یورپ کا فلسفہ پڑھنے سے یہ میلان اور بھی قوی ہو گیا کہ یورپ کا فلسفہ بحیثیت مجموعی وحدت الوجود کی طرف رُخ کرتا ہے مگر قرآن پر تدبر کرنے اور تاریخ اسلام کا مطالعہ کرنے سے مجھے اپنی غلطی معلوم ہوئی اور میں نے محض قرآن کی خاطر اپنے قدیم خیال کو ترک کردیا۔ قرآنِ پاک کی تفہیم وتعبیر پر کچھ لکھنا بھی چاہتے تھے، مگر خرابیِ صحت نے انھیں اس کا موقع نہیں دیا۔
قرآن سے ان کے دیرینہ تعلق کو مولانا مودود ی ؒ نے ایک جگہ بڑے مؤثر الفاظ میں، اس طرح بیان کیا ہے: ’’ وہ جو کچھ سوچتا تھا، قرآن کے دماغ سے سوچتا تھا، جو کچھ دیکھتا تھا ، قرآن کی نظر سے دیکھتا تھا۔ حقیقت اور قرآن اس کے نزدیک شے واحد تھی اور اس شے واحد میں وہ اس طرح فنا ہوگیا تھا کہ اس کے دور کے علماے دین میں بھی مجھے کوئی ایسا شخص نظر نہیں آتا جو فنائیت فی القرآن میں اس امام فلسفہ اور اس ایم اے، پی ایچ ڈی، بارایٹ لا سے لگّا کھاتا ہو.... آخری دور میں اقبال نے تمام کتابوں کو الگ کر دیا تھا اور سوائے قرآن کے، اور کوئی کتاب وہ اپنے سامنے نہ رکھتے تھے۔ سالہا سال تک علوم وفنون کے دفتروں میں غرق رہنے کے بعد جس نتیجے پر پہنچے تھے، وہ یہ تھا کہ اصلِ علم قرآن ہے۔ اور یہ جس کے ہاتھ آ جائے ، وہ دنیا کی تمام کتابوں سے بے نیاز ہے ‘‘۔
اسماعیل راجی الفاروقی [یکم جنوری ۱۹۲۱ء، جافا، فلسطین ۔ شہادت:۲۷مئی ۱۹۸۶ء، ونکوٹ، امریکا] عالم اسلام کی ان عظیم ہستیوں میں سے ہیں، جنھوں نے غلبۂ اسلام کے لیے منتشر شیرازے کو منظم کرنے کی کوشش کی، حالات کا تجزیہ کیا اور امت مسلمہ کو ان کی اصل پر لانے کے لیے خاکہ سازی کی کہ تاریخ کااصول ہے:’’خدا اس وقت تک کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا، جب تک کہ وہ خود اپنی حالت نہ بدلے‘‘۔
قرآن کے اس اعلان کی روشنی میں الفاروقی نے محسوس کیا کہ اُمت مسلمہ موجودہ دور میں بے بسی اوربے چارگی کے دور سے گزر رہی ہے اور مصائب نے لوگوں کے حوصلے پست کردیے ہیں۔دیگر نظا م کی بالا دستی نے بے اعتمادی کی فضا پیدا کردی ہے، اجنبی تہذیبوں کی دوڑ ہر میدان میں دکھائی دے رہی ہے، انگریزی اورفرانسیسی زبانوں کی مقبولیت تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہے، مختلف پروگراموں اورمعاشی وسیاسی سرگرمیوں میںا س کا اثر دیکھنے کو مل رہاہے۔ اگر ان حالات کو سمجھنے کی کوشش کی جائے تو ہماری نگاہ تعلیمی نظام پر جاکر ٹھیر جاتی ہے جو دومتضاد رویوں کا شکار ہے۔ جس کے نتیجے میںدیگر تہذیبوں کے اثرات نے مسلم معاشرے کارخ اپنی جانب بہت تیزی سے موڑا اور پوری طرح اپنا تسلط قائم کرنے کی کوشش کی اورمسلم معاشرہ اسلام سے دُور ہوتا چلاگیا۔ اسلامی فکروعمل پر غیر اسلامی افکار وخیالات کاغلبہ نظرآنے لگا اوریوں اُمت مسلمہ اندرونی کرب وبے چینی کا شکار ہوگئی۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اس تہذیبی تباہی کو لانے اور حالات کا رُخ مغربی اقوام کی طرف موڑنے میں جوچیز سب سے زیادہ مؤثر ثابت ہوئی، وہ تعلیمی نظام تھا، جو دوحصوں پر منقسم تھا: ایک حصہ اسلامی علوم پر مشتمل تھا اور دوسراجدید علوم پر مشتمل۔ ابتدائی مدارس کے ماحول کی وجہ سے دل تو اسلام کی جانب مائل رہتا،مگر دماغ اورشعور بہ تدریج اعلیٰ جدید تعلیم کے ذریعے متاثر ہوجاتا، جس کا مقصد مغربی افکار ونظریات کو پروان چڑھانا اورمحض مادی خواہشات کی تکمیل تھا۔
راجی الفاروقی نے تعلیم کی اسی تقسیم کو مسلمانوں کے زوال کا سب سے بڑا سبب قراردیا کیوں کہ علوم کا دوخانوں میں بٹوارہ کسی بھی صور ت میں امت کی تشکیلِ نو کے لیے کارگر ثابت نہیں ہوسکتا اوراس نظام کے تحت امت اپنے فرض کو پوراکرنے پرقادر نہیں ہوسکتی۔
مسلم امت کے زوال کے اسباب کو جاننے اورسمجھنے کی سعی دیگر مسلم مفکرین سرسیداحمد خاں اور محمد عبدہٗ وغیرہ نے بھی کی اورانھوںنے یہ حل نکالا کہ: ’’تعلیمی نظا م میں تجدید کی آمیزش سے نظامِ تعلیم کی اصلاح ہوسکتی ہے اورمسلم قو م ترقی کی منازل طے کرسکتی ہے‘‘۔ راجی الفاروقی نے مذکورہ حضرات کی تجدیدی فکر اوران کی کاوشوں پر تبصرہ کرتے ہوئے تحریر کیا ہے :
’’ ماضی میں کچھ مسلمان دانش وروں نے اسلامی نظام تعلیم کی اصلاح کی یہ صورت نکالی کہ اس کے نصاب میں اجنبی افکار سے مستعار لی ہوئی چیزوں کی پیوندکاری کردی جائے۔ سرسید احمد خاں اور محمد عبدہٗ اسی طرزِ فکر کی حامل شخصیتیں ہیں۔ اسی انداز فکر پر عمل کرتے ہوئے جمال عبدالناصر نے مضبوط اسلامی قلعہ جامعۃ الازہر کو ۱۹۶۱ء میں ایک جدید یونی ورسٹی میں تبدیل کردیا۔ اس تجدیدی فکر کی پوری عمار ت اس مفروضے پر قائم کی گئی تھی کہ نام نہاد جدید علوم بے ضرر ہیں۔ اس نکتے پر کم ہی توجہ دی گئی کہ اجنبی ادبیات، معاشرتی علوم اورسائنسی علوم وغیرہ زندگی، کائنات اور تاریخ کے ایک منضبط نظریے کے مختلف پہلوہیں، جو اسلام کے لیے قطعاً بیگانہ ہیں۔ یہ لوگ اس لطیف مگر لازمی تعلق کو شاید ہی سمجھ سکے ہوں جو ان علوم کے طریقہ ہاے تنظیم اور نظریہ ہاے صداقت اورعلم کو اجنبی دنیا کے نظامِ اقدار کے ساتھ مربوط کرتا ہے۔ اسی سبب سے ان کے اقدامات کچھ مثبت نتائج پید انہ کرسکے ‘‘۔
آگے چل کر راجی الفاروقی نے اس نظامِ تعلیم کے نقصانات کوا ن الفاظ میں بیان کیا ہے :
’’ایک جانب اسلامی علوم کو اپنے حال پر چھوڑ دیا گیا اور دوسری جانب جدید علوم کا اضافہ بھی وہ عظمت نہ بخش سکا جواس نے اپنے موجدوں کواپنے اصل وطن میں بخشی تھی، بلکہ توقع کے بالکل برخلاف اس طرز فکر وعمل نے مسلمانوں کو اجنبی تحقیق اور قیادت کا محتاج ضرور بنادیا۔ معروضی طرزِ فکر کے بلند بانگ دعووں کے بل بوتے پر جدید فکر نے مسلمانوں سے ان اسلامی عقائد کے منافی افکار کو تسلیم کراکے چھوڑ ا جوترقی کے علَم برداروں کے نزدیک رجعت پسندی اورقدامت پرستی کا دوسرا نام تھا‘‘۔
راجی الفاروقی نے تعلیمی اصلاح کے لیے جو تصور پیش کیا، اس کا دائرۂ کار انتہائی وسیع ہے۔ آپ کے خیال میں علوم اسلامی میں علوم جدیدہ کی آمیزش سے بہتر ہے کہ علوم جدیدہ کی اسلامی تشکیلِ نو کی جائے ۔آپ کاخیال ہے کہ:
ادبی، معاشرتی اورطبعی علوم کی تفہیم وتشکیلِ نو وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ اب علوم کو لازمی طورپر اسلامی بنیادفراہم کی جانی چاہیے اوراسلامی طرزِ فکر سے ہم آہنگ مقاصد کاان کو پابند کیا جانا چاہیے۔ ہرشعبۂ علم یا مضمون کی تدوینِ نو کی جانی چاہیے، تاکہ اس کی منہاجیات،حکمت ِعملی ،بنیادی مفروضات ، مقاصد اورمسائل کو حل کرنے کے طریقوں میں اسلامی اصولوں کو سمویا جاسکے۔ ہر مضمون کی نئی صورت گری اس طور ہونی چاہیے کہ اس کا تعلق اسلام کے نظام اقدا رسے استوار ہوجائے ۔
اگر ہم مسلمانوں کے علمی ارتقا کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتاہے کہ زوال کے اس عہد سے پہلے علوم میں ترقی اوروسعت کا سہرامسلمانوں کے سرہے۔ انھوں نے تمام علوم کو اسلامی نظریے اور اقدار سے مربوط کرکے اسلامی مقاصد کی تکمیل کے لیے استعمال کیا، لیکن افسوس ہماری غفلت کے سبب غیر مسلموں نے مسلمانوں کے علمی ورثے میں اپنے نظریات شامل کرکے اپنے مفاد اورمقاصد کے لیے استعمال کرنا شروع کردیا اورآہستہ آہستہ پوری طرح قابض ہوگئے۔موجودہ وقت میں عالم اسلام کے تمام تعلیمی اداروں میںیہی غیر اسلامی کتب ونظریات مسلم طلبہ و طالبات کوپڑھائے جارہے ہیں۔ اس وقت عالم اسلام میں تعلیم کی حالت بہت تشویش ناک ہے، اس لیے مسلم مفکرین اور دانش ورحضرات کو نوجوان نسل کی اسلامی ذہن سازی کے لیے سخت جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ علمی زوال کے گھٹاٹوپ اندھیروں میں روشنی کی ایک کرن راجی الفاروقی کی شکل میںنمودا رہوئی، جنھوںنے حالات کا رخ بدلنے اوراسلامی آفاقی نظریہ قائم کرنے کے لیے چند مقاصد بیان کیے ہیں:
ان مقاصد کے حصول کے لیے آپ نے درجِ ذیل اقدامات کی جانب رہنمائی کی ہے :
’فی الواقع گورنمنٹ برطانیہ ایک ڈھال ہے، جس کے نیچے احمدی جماعت آگےہی آگے بڑھتی چلی جاتی ہے۔ اس ڈھال کو ذرا ایک طرف کردو اور دیکھو کہ کیسےزہریلے تیروں کی کیسی خطرناک بارش تمھارے سروں پر ہوتی ہے۔پس کیوں ہم اس گورنمنٹ کے شکرگزارنہ ہوں۔ اس گورنمنٹ کی تباہی ہماری تباہی ہے اور اس گورنمنٹ کی ترقی ہماری ترقی۔جہاں جہاں اس گورنمنٹ کی حکومت پھیلتی جاتی ہے،ہمارے لیے تبلیغ کا ایک میدان نکل آتاہے‘۔(الفضل ،قادیانیوں کا ترجمان اخبار،۱۹؍اکتوبر ۱۹۱۵ء)
’میرے حلقۂ انتخاب میں واقع احمدی کمیونٹی کی عبادت گاہ یورپ کی بڑی مساجد میں سے ایک ہے جس میں ۱۰ہزار لوگ بیک وقت عبادت کر سکتے ہیں۔ اس علاقے میں احمدی (قادیانی) کمیونٹی خوب ترقی کر رہی ہے… اس کمیونٹی کے سربراہ برطانیہ میں رہایش پذیرہیں‘۔ (ممبر برطانوی پارلیمنٹ اور قادیانی کمیو نٹی سے متعلق کل جماعتی پارلیمانی گروپAPPG کی سربراہ سائیوبھین میکڈونگ کاپارلیمنٹ میں بیان)
قادیانیوں اور برطانیہ کا آپس میں گہرا تعلق اور تعاون ایک تاریخی حقیقت ہے۔ اپنی ابتدا ہی سے اس جماعت کے بانی بر صغیر کے باقی طبقوں کے برعکس ،ہندستان میں استعماری برطانوی حکومت کے ہمیشہ حامی رہے ہیں ۔ انگریزی سلطنت کو ’رحمت ، باعث برکت اور ایک سپر‘قرار دیتے ہوئے انھوں نے اپنے پیروکاروں کو ہدایت کی ہے کہ ’’تم دل و جان سے اس سپر کی قدر کرو‘‘۔ اپنی مختلف کتابوں،تقاریر اور بیانات میں انھوں نے اور ان کے بعد آنے والے قادیانی رہنماؤں نے ہر معاملے میں برطانیہ کا ساتھ دیاہے اور برطانیہ نے بھی کھل کر ان کی سر پرستی کی ہے۔ بقول مولانا مودودی: ’’کفار کی غلامی جو مسلمانوں کے لیے سب سے بڑی مصیبت ہے ،[جھوٹے] مدعیان نبوت کے لیے وہی عین رحمت اور فضل ایزدی ہے ،کیونکہ اسی کے زیر سایہ ان لوگوں کو اسلام میں نئی نئی نبوتوں کے فتنے اٹھانے اور مسلم معاشرے کی قطع وبُرید کی آزادی حاصل ہو سکتی ہے۔اس کے بر عکس مسلمانوں کی اپنی آزاد حکومت ،جو مسلمانوں کے لیے ایک رحمت ہے ان لوگوں کے لیے وہی ایک آفت ہے کیوں کہ با اختیارمسلمان بہر حال اپنے ہی دین اور اپنے ہی معاشرے کی قطع و بُرید کو بخوشی برداشت نہیں کر سکتے‘‘۔(قادیانی مسئلہ،۱۹۵۳ء، لاہور)
اسی دیرینہ اور تاریخی تعلق کا فائدہ اٹھاتے ہوئے قادیانی جماعت کی بین الاقوامی بشمول برطانیہ سیاسی اور سفارتی سرگرمیوں میں بے پناہ اضافہ ہوگیا ہے۔ قادیانیوں کے موجودہ سربراہ مرزا منصور آج کل امریکا کے دورے پر ہیں۔ برطانیہ میں قیام کے باعث ان کے لیے دوسرے ممالک میں دورے کرنے میں بہت آسانی ہے۔ ان کے ایما پر پارلیمنٹ کے اندر ایک کُل جماعتی پارلیمانی گروپ کا قیام عمل میں آیا ہے جس میں پارلیمنٹ میں موجود تمام پارٹیوں کے ممبر پارلیمنٹ شامل ہیں۔ برطانیہ میں موجودہ برسرِ اقتدارحکومت میں ان کے اثر و رسوخ کا یہ عالم ہے کہ وزیر اعظم تھریسامے نے اپنی پارٹی کے ایک قادیانی وزیر لارڈ طارق محمود احمد جو فارن آفس کے وزیر اور ہاؤس آف لارڈز (ایوانِ بالا) کے ممبر بھی ہیں کو دنیا بھر میں ’مذہب اور عقیدے کی آزادی کو فروغ دینے کے لیے اپنا خصوصی ایلچی‘ (Prime Minister’s Special Envoy on Freedom of Religion and Belief ) مقرر کیا ہے۔
لارڈ طارق نے عہدہ سنبھالتے ہی اپنا پہلا دورہ اسرائیل سے شروع کیا۔ دورے سے قبل برطانوی ہاؤس آف لارڈز میں تقریر کرتے ہوئے انھوں نے فلسطینیوں پر واضح کیا کہ: ’’جو لوگ اسرائیل کی ریاست کو تسلیم نہیں کرتے انھیں امن مذاکرات کا حصہ نہیں بنایا جاسکتا‘‘۔ لارڈ طارق نے اسرائیل میں حیفہ شہر کا خصوصی دورہ کیا اور وہاں اپنی جماعت کے ہیڈکوارٹر بھی گئے۔ انھوں نے وہاں رہایش پذیر پاکستانی قادیانیوں سے ملاقات کی اور تسلیم کیا کہ اسرائیل میں مقیم قادیانی دوسری کمیونٹیز کے ساتھ وہاں خوشی سے رہ رہے ہیں‘‘۔انھوں نے قادیانیوں کی اسرائیل میں موجودگی کا سبب بیان کرتے ہوئے کہا کہ: ’’انھیں پاکستان ،الجزائر اور انڈونیشیا میں تنگ کیا جاتاہے‘‘۔ درحقیقت بیرونِ ملک قادیانیوں کی موجودگی کا بہت بڑا سبب معاشی ہے، جسے مذہبی رنگ دے کر زیادہ سے زیادہ قادیانی خاندانوں کو مختلف ممالک میں آباد کر رہے ہیں۔ ’مذہبی جبر‘ کی آڑ میں مَیں پناہ گزینوں کا درجہ حاصل کر کے، میزبان ملکوں سے زیادہ سے زیادہ معاشی فوائد حاصل کیے جارہے ہیں، اور اس پردے میں مفاد حاصل کرنے والوں کو بھی اپنے مذہب میں ترقی کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
قادیانیوں نے مغربی ممالک کے بااثر اور مقتدر حلقوں میں اپنے نیٹ ورک کے ذریعے خاصا رُسوخ حاصل کر لیاہے ۔حال ہی میں ایک پاکستانی نژاد برطانوی قادیانی بیرسٹر کریم اسد احمد خان کو اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے داعش کے خلاف تحقیقات کے لیے سربراہ مقرر کیا ہے۔ اس تقرر کی خبر دیتے ہوئے قادیانیوں کے اخبار ربوہ ٹائمز (Rabwah Times)نے بیرسٹر کریم اسد احمد خان کا تعلق قادیانی کمیونٹی سے ظاہر کیا ہے۔ قادیانی بین الاقوامی ہمدردیاں سمیٹنے اور پاکستان کو بدنام کرنے کے لیے ایک منظم اور سوچے سمجھے طریقے سےاپنے آپ کو ایک مظلوم گروپ (Persecuted Community) کے طور پر پیش کر رہے ہیں حالاںکہ بیرسٹر کریم ایک برطانوی شہری ہیں۔ بیرون ملک اپنے حامیوں کے ذریعے قادیانی پاکستان پربین الاقوامی دباؤ میں اضافہ کر رہے ہیں۔ پاکستان کو بدنام کرنے کے لیے وہ اس بات کا مسلسل پروپیگنڈاکررہے ہیں کہ وہاں انھیں ایذا رسانی اور عقوبت (Persecution) کا سامنا ہے۔ ان کے بقول قادیانی پاکستان میں خوف و ہراس کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔
دراصل جب سے پاکستان کی پارلیمنٹ نے ۱۹۷۴ءمیں قادیانیوں کوآئینی ترمیم کے ذریعے غیر مسلم قرار دیا ہے، یہ پچھلے ۴۰سال سے اس کوشش میں ہیں کہ پاکستان کے آئین میں یہ ترمیم ختم کر دی جائے اور انھیں مسلمانوں کا ہی ایک فرقہ تصورکیا جائے۔ برطانوی پارلیمنٹ میں ان کی حمایت میں قائم ہونے والے گروپ کی سربراہ نے تسلیم کیا ہے کہ: ’’احمدی اپنے آپ کو ’مسلم‘ گردانتے ہیں لیکن ان کا عقیدہ ہے کہ محمدؐانسانیت کو ہدایت کرنے والے آخری نبی نہیں تھے اور اس وجہ سے ان کو غیر مسلم قرار دے کر انھیں ایذا دی جاتی ہے‘‘۔ قادیانیوں کی علمی اور سیاسی بدیانتی کا عالم یہ ہے کہ اپنے حمایتیوں کو کبھی بھی باور نہیں کراتے کہ ہم اپنے بانی پر ایمان نہ لانے والوں کو خود مسلمان تصور نہیں کرتے اور انھیں کافر قرار دیتے ہیں۔ ان کی حامی کُل جماعتی پارلیمانی گروپ کی لیڈر سائیوبھین میکڈونگ عیسائی کیتھولک فرقے سے تعلق رکھتی ہیں لیکن ان کی جانب سے قادیانیوں کے لیے پُرجوش حمایت سے ایسا محسوس ہوتاہے کہ وہ قادیانیوں کے عیسائیوں اور حضرت عیسٰی علیہ السلام کے بارے میں گمراہی پر مبنی عقائد سے بالکل بے خبر ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ قادیانیوں کا یہ شروع سے ہی عقیدہ ہے کہ ’مسلمان‘ ہم ہیں اور ہمارے بانی (مرزا غلام احمد)کو نبی نہ ماننے والے دائرۂ اسلام سے خارج ہیں۔مولانا مودودی نے قادیانی مسئلہ میں ان کے عقیدے کا جائزہ لیتے ہوئےخود ان کی تحریروں سے ثابت کیا ہے کہ وہ ان تمام مسلمانوں کو اپنی تحریر و تقریر میں علانیہ کافر قرار دیتے ہیں جو مرزا غلام احمد کو نبی نہیں مانتے۔ وہ صرف یہ نہیں کہتے کہ مسلمانوں سے ان کا اختلاف محض مرزا صاحب کی نبوت کے معاملے میں ہے بلکہ وہ کہتے ہیں کہ ہمارا خدا ،ہمارا اسلام، ہمارا قرآن، ہماری نماز، ہمارا روزہ، غرض ہماری ہر چیز مسلمانوں سے الگ ہے۔
اُمت ِ مسلمہ سے قادیانیوں کی علیحدگی کے بارے میں مولانا مودودی کا استدلال یہ ہے کہ: ’’قادیانیوں کا مسلمانوں سے الگ ایک امت ہونا اس پوزیشن کا ایک لازمی منطقی نتیجہ ہے جو انھوں نے خود اختیار کی ہے ۔وہ اسباب ان کے اپنے ہی پیدا کردہ ہیں جو انھیںا مسلمانوں سے کاٹ کر ایک جداگانہ ملت بنادیتے ہیں۔ [چودہ سوچالیس سال] سے تمام مسلمان بالاتفاق یہ مانتے رہے ہیں اور آج بھی یہی مانتے ہیں کہ سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے آخری نبی ہیں اور آپؐ کے بعد کوئی نبی مبعوث ہونے والا نہیں ہے۔ ختم نبوت کے متعلق قرآن مجید کی تصریح کا یہی مطلب صحابہ کرامؓ نے سمجھا تھا اور اسی لیے انھوں نے ہر اس شخص کے خلاف جنگ کی جس نے حضوؐر کے بعد دعویٰ نبوت کیا۔ پھر یہی مطلب بعد کے ہر دور میں تمام مسلمان سمجھتے رہے ہیں جس کی بنا پر مسلمانوں نے اپنے درمیا ن کبھی کسی ایسے شخص کو برداشت نہیں کیا جس نے نبوت کا دعویٰ کیاہو۔ لیکن قادیانی حضرات نے تاریخ میں پہلی مرتبہ خاتم النبیینؐ کی یہ نرالی تفسیرکی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نبیو ں کی مہر ہیں اور اس کا مطلب یہ بیان کیا کہ حضوؐر کے بعد اب جو بھی نبی آئے گا اس کی نبوت آپؐ کی مہر تصدیق لگ کر مصدقہ ہوگی۔ان کی نبوت کے دعوے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ جو شخص بھی اس [جھوٹی] نبوت پر ایمان نہ لائے وہ کافر قرار دیا جائے۔ چنانچہ قادیانیوں نے یہی کیا۔ (قادیانی مسئلہ،۱۹۷۳ء، لاہور)
مولانا مودودی مرحوم و مغفور نے یاد دلایا ہےکہ ’’پاکستان کے کروڑوں آدمی اس بات کے شاہد ہیں کہ قادیانی عملاً بھی مسلمانوں سے کٹ کر ایک الگ اُمت بن چکے ہیں۔ نہ وہ ان کے ساتھ نماز کے شریک، نہ جنازےکے،نہ شادی بیاہ کے۔ اب اس کے بعد آخر کون سی معقول وجہ رہ جاتی ہے کہ ان کو اور مسلمانوں کو زبردستی ایک امت میں باندھ کر رکھا جائے‘‘۔
قادیانیوں کا معاملہ محض ایک سیدھا سادا مذہبی مسئلہ نہیں ہے، اس مسئلےکی نوعیت سیاسی بھی ہے۔ ان کے بعض ایسے خطرناک سیا سی رجحانات ہیں جن کے باعث ان کی پُرجوش بین الاقوامی سرگرمیاں ہرمحبِ وطن کے دل میں لازمی طور پرتشویش پیدا کرتی ہیں۔ وہ پاکستانی ریاست کے اندر اپنی ایک قادیانی ریاست کے لیے ہمیشہ کوشاں رہے ہیں۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ پاکستان کے قیام کے فوراً بعد قادیانیوں کا خیال تھا کہ وہ بلوچستان کو جس کی آبادی بہت کم تھی ، ایک قادیانی صوبہ بنا سکتے ہیں تاکہ یہ خطہ پاکستان کے اندر ایک قادیانی ریاست کی بنیاد (base)بن سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان میں کلیدی عہدوں پر قادیانی عقیدہ رکھنے والے یا ان کے ہمدردوں کی تعیناتی ان کی سوچی سمجھی پالیسی رہی ہے اور وہ ماضی میں اس معاملے میں خاصے کامیاب رہے ہیں۔
وہ پاکستان میں اپنے لیے ہمیشہ سے ایسا ماحول چاہتے ہیں جہاں وہ آزادی کے ساتھ اپنے گمراہ کن عقائد کی تبلیغ کرسکیں اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو قادیانی بناسکیں۔ ریاست کے تمام اداروں میں ان کا اتنا رسوخ ہوکہ وہ ریاست کی پالیسیوں پر اثرانداز ہوکر اپنے حق میں استعمال کریں۔ انھیں ادراک ہے کہ آئینی اور قانونی طور پر غیرمسلم ہونے کے باعث عوام الناس کی عظیم اکثریت اب ان کی شکارگاہ نہیں رہی، لیکن وہ بین الاقوامی مہم کے ذریعے پاکستانی حکومتوں کو دبائو میں لا کر اپنے لیے گنجایش پیدا کرنے کے لیے پوری دنیا، خصوصاً مغربی ممالک بشمول برطانیہ میں ہر طرح سے سرگرمِ عمل ہیں۔ برطانیہ سے قادیانیوں کا ایک صدی سے زائد عرصے کا تعلق آئے دن گہرا ہورہا ہے اور ان کے ہم عقیدہ افراد اب وزیر اور مشیر کی حیثیت سے برطانوی حکومت کا حصہ ہیں۔
بھارت کا دعویٰ ہے کہ وہ ایک سیکولر ملک ہے، جہاں پر مذہب یا اس کا انتخاب کسی شخص کی ذاتی پسندو ناپسند پر منحصر ہے۔ بھارتی آئین کے بنیادی اصولوں کے مطابق حکومت کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ اسی طرح شہریوں کو مذہب کی تبدیلی کی بھی پوری آزادی کا دعویٰ کیا گیا ہے بشرطیکہ اس میں جبر و لالچ شامل نہ ہو۔ اس کے باوجود تبدیلیِ مذہب کو سخت بنانے اور اس کو کئی پیچیدہ شرائط کے ساتھ تابع کرنے کی غرض سے ملک کی آٹھ صوبائی حکومتوں اڑیسہ، مدھیہ پردیش، اروناچل پردیش، چھتیس گڑھ، گجرات، ہماچل پردیش، اتراکھنڈ اور جھارکھنڈ نے ابھی تک اسمبلیوں سے باضابطہ قوانین منظور کروائے ہیں۔ ان کا ہدف خاص طور پر دلت ہیں، جن کے متعلق اونچی ذات کے ہندوؤں کو ہمیشہ خدشہ لاحق رہتا ہے کہ وہ کہیں ان کے ظلم و ستم سے تنگ آکر مسلمان یا عیسائی نہ بن جائیں۔ اگرچہ تبدیلیِ مذہب کو بھی ذاتی فعل کے زمرے میں بیان کیا جاتا ہے، لیکن اگر اس کا جواز یہ بتایا جائے کہ موجودہ مذہب میں رہتے ہوئے حکومت سے انصاف ملنے کی اُمید نہیں ہے، تو یہ کسی بھی معاشرے کے لیے ایک نہایت ہی تشویش کن صورت حال قرار دی جاتی ہے۔
حال ہی میں بھارتی دارالحکومت دہلی سے متصل اترپردیش صوبہ کے باغپت ضلع کی تحصیل بڑوت کے بدرکھا گاؤں میں ایک ہی مسلم خاندان کے بیس افراد نے مرتدبن کر ہندو مذہب اختیار کرنے کا اعلان کیا۔ان افراد نے ایک باضابطہ تقریب میں مذہب تبدیل کرنے کے لیے ایس ڈی ایم کے سامنے مذہب تبدیل کرنے کی عرضی دی تھی۔ اپنے نوجوان بیٹے گلشن عرف گلزار کے قتل کے معاملے میں پولیس کے رویے سے تنگ آکر اخترعلی کے اہل خانہ جس میں سات مرد اور تیرہ خواتین شامل تھیں،انھوں نے ایس ڈی ایم بڑوت کو حلفیہ بیان دے کر اپنی مرضی سے اسلام مذہب چھوڑ کر ہندو دھرم اپنانے کی اجازت طلب کی تھی۔اس کے اگلے دن ہندو رواج کے مطابق ہوان، بھجن و منتروں کے بعد گائوں کے شیو مندر میں جاکر باقاعدہ اپنا نام اور مذہب تبدیل کرلیا۔ اس دوران ہندو یوا واہنی کے ریاستی صدر شوکیندر کھوکھر اور ضلعی صدر یوگیندر تومر سمیت کئی لوگ بھی موجود تھے۔ہون اور ہنومان چالیسا کا پاٹھ کیاگیا۔
بتایا جاتا ہے کہ جوگی خاندان کا اختر علی کا بیٹا گلشن علی کپڑے کی تجارت کرتا تھا۔ ماہ جولائی میں گلشن علی کی لاش ان کی ہی دکان میں کھونٹی سے لٹکی ہوئی ملی تھی۔ اہل خانہ کا الزام تھا کہ اس کا قتل کرکے اس کی لاش لٹکا دی گئی تھی، لیکن پولیس کسی تحقیق و تفتیش کے بغیر اس قتل کو خودکشی بتاتی رہی اور خودکشی کا کیس درج کرنے کے بعد جبراً اس کی لاش دفنا دی گئی۔ اس کی شکایت متاثرہ خاندان نے ضلعی اعلیٰ افسران سے کی لیکن کوئی کارروائی نہیں ہوئی ۔ معاملے کی تفتیش پر مامور اے ایس پی راجیش کمار شریواستو نے کہاکہ اہل خانہ نے اپنے ہی ہم مذہبوں سے ناراض ہوکر تبدیلی مذہب کیا ہے،مگر اختر علی اور ان کے اہل خانہ نے راقم کو فون پر بتایا کہ ’’مذہب اسلام میں رہ کر وہ اپنے بیٹے کو انصاف نہیں دلاسکتے کیو ںکہ پولیس شاید ہی کسی مسلمان کی بات سنتی ہے‘‘۔ان کو شکوہ تھا کہ ’’گائوں اور اس کے آس پاس کے مسلمان بھی ان کا ساتھ نہیں دے رہے ہیں اور نہ پولیس تعاون کررہی ہے۔ اس لیے ہم لوگوں نے مذہب تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ حکومت داد رسی کرسکے‘‘۔
۲۰۱۷ء میں اترپریش اسمبلی انتخابات کی رپورٹنگ کرتے ہوئے احساس ہوا کہ ووٹر بجلی، سٹرک، پانی سے زیادہ انصاف اور دادرسی کوترجیح دے رہا ہے۔ دیوبند کے قریب ایک گائوں میں مجھے بتایا گیا کہ: ’’اگر لکھنؤ میں سماج وادی پارٹی کی حکومت ہے، تو پولیس صرف یادو برادری کی سنتی ہے اور اگر بہوجن سماج پارٹی کی مایاوتی برسراقتدار ہے تو صرف دلت کی شنوائی ہوتی ہے۔ اب بتایا جاتا ہے کہ موجود دور میں جب بی جے پی حکومت ہے، اونچی ذات کے برہمن اور ٹھاکر پولیس تھانوں میں ڈیرے ڈالے ہوئے رہتے ہیں اور صرف انھی کی سفارش پر اب پولیس کوئی کارروائی کرتی ہے‘‘۔
اس طرح کے واقعات شاید بھارت کے طول و عرض میں پیش آتے ہوںگے،مگر جس علاقے میں ارتداد کا یہ سانحہ پیش آیا وہ عالمی شہرت یافتہ دارالعلوم دیوبند سے محض ۱۰۰کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور اس علاقے میں مدرسوں ، عالیشان مساجد اور سنہرے کلسوں سے مزین خانقاہوں اور درگاہوں کا ایک جال بچھا ہواہے۔ اس کے علاوہ جمعیت علماے ہند کا اچھا خاصا رسوخ ہے۔ جمعیت کے ذمّہ داروںکا کہنا ہے کہ: ’’ہم نے علاقے کے متعدد ذمہ داروں سے گفتگو کرکے اس مسئلے پر توجہ دینے کی کوشش کی تھی مگر مرتد ہونے والے ان ۱۳؍ افراد نے برادری ، رشتہ داروں کی بھی نہیں مانی۔ ان کا ایک لڑکا پھانسی لگاکر مرگیا تھا۔ اس کا الزام یہ لوگ اسی کے پھوپھی زاد پر لگاکر مسلمانوں کو جھوٹے کیس میں پھانسنا چاہتے تھے ، مسلمانوں کے سمجھانے بجھانے کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوا ۔ لیکن ایک بہو نے مرتد ہونے سے انکار کردیا اور وہ اپنے بچوں کو لے کر اپنے میکے چلی گئی‘‘۔
جمعیت کے ذمہ داران کچھ بھی صفائی دیں، مگر ان کی ناک کے نیچے اس علاقے کے دیہات میں مسلم آبادیاں کسمپرسی اور جہالت کا شکار ہیں۔ عالیشان مساجد، مدرسوں اور خانقاہوں کو آراستہ بنانے کے ساتھ ساتھ اگر ان آبادیوں کی تعلیم و تربیت اور ان کو روزگار دلانے کی سمت میں بھی وہ کام کرتے تو شاید یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔حالات یہ ہیں کہ اندرون ومضافاتی دیہات میں تو مسلمان دین سے بالکل ناآشنا ہیں،کیوںکہ بڑے حضرات اور داعی اسلام وہاں جانا گوارا ہی نہیں کرتے۔ ان مضافاتی دیہات میں جاکر ان کمزور و بے سہارا اور کھیتی مزدور مسلمانوں کی خیرخبر لینے والے بہت کم ہیں۔ مذہب تبدیل کرنے والوں کا یہ الزام ہے کہ ان کی داد رسی نہیں کی گئی۔گو یہ تبدیلی مذہب کا معقول عذر نہ ہو، لیکن مسلم تنظیموں کو ملزم کے کٹھرے میں ضرور کھڑا کر دیتا ہے- زکوٰۃ کا نظام جو بے سر و سامان مسلمانوں کے لیے بنایا گیا تھا وہ زیادہ تر پیشہ ور فنڈ جمع کرنے والوں کے پیٹ کو بھرنے کا ذریعہ بنتا ہے۔ دھیرہ دون سے مفتی رئیس احمد قاسمی کے مطابق ان کے محلے کے ایک کھاتے پیتے مسلم گھرانے کی لڑکی ایک ہندو بھنگی کے ساتھ بھاگ گئی۔ مفتی صاحب نے انتظامیہ پر دباؤ ڈالا تو ڈیڑھ دن بعد پولیس نے لڑکی کو برآمد کرلیا مگر لڑکی جیسے ہی جج کے سامنے پہنچی، اس نے اس بھنگی کے ساتھ جانے اور اپنے ہندو ہونے کا اعلان کردیا۔ مفتی صاحب کے بقول ان کے علم میں پانچ ایسی مسلم لڑکیاں ہیں جو صرف بھنگی برادری میں گئیں ہیں۔ عام ہندوؤں کے ساتھ جانے والی لڑکیوں کی اکیلے دھیرہ دون میں ہی ایک بڑی تعداد ہے۔
مسلم پرسنل لا بورڈ کے سیکرٹری مولانامحمد عمر محفوظ رحمانی کے مطابق چند برسوں سے باضابطہ پلاننگ کے تحت مسلمان لڑکیوں کو جال میں پھنساکر ہندو بنایا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ گذشتہ سال جب وہ مسلم پرسنل لا بورڈ کے ایک پروگرام میں مہاراشٹر کے مشہورشہر پونا گئے تو معلوم ہوا کہ ان کے ایک جاننے والے کی بھانجی نے ہندو لڑکے کے ساتھ بھاگ کر کورٹ میریج کی ہے۔ معلوم ہوا کہ صرف پونا میں دو برسوں میں ۴۴مسلمان لڑکیوں نے غیر مسلم لڑکوں کے ساتھ شادی کی ہے۔ اسی سال اگست میں۱۱مسلمان لڑکیوں کی غیر مسلم لڑکوں کے ساتھ شادی کی درخواستیں کورٹ میں دائر ہوئی ہیں اور ستمبر میں۱۲لڑکیوں نے درخواست دی ہے۔ اسی طرح بمبئی میں۱۲،تھانے میں۷، ناسک میں۲، اور امراوتی میں۲ لڑکیوں نے کورٹ میں دیگر مذاہب کے لڑکوں کے ساتھ شادی کی درخواست دی ہے ۔
بھوپال کی گنجان مسلم آبادی والے ایک علاقے میں اس طرح کے دسیوںواقعات ہوچکے ہیں، اور صرف غیر شادی شدہ لڑکیاں ہی نہیں شادی شدہ عورتیں بھی اپنے شوہر اور بچوں کو چھوڑ کر غیر مسلموں کے ساتھ چلی گئی ہیں۔ کچی بستیوں میں رہنے والی مسلمان لڑکیاں فرقہ پرست عناصر کی اس منصوبہ بند سازش کا’لقمۂ تر‘بنی ہوئی ہیں۔ مولانا صاحب کے مطابق گجرات میں مسلمان لڑکیوں کو رجھانے ،قریب کرنے اور پھر ان کاجنسی استحصال کرنے کے لیے گراں قیمت تحفے دیے جاتے ہیں، مثلاً مہنگے موبائل ،آئی پیڈ، لیپ ٹاپ، ایکٹیوا بائک وغیرہ۔ان کی باضابطہ ’فنڈنگ‘کی جارہی ہے اور ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت انھیں اس کام پر لگایا گیا ہے۔ یہ محض اتفاقی واقعات نہیں ہیں بلکہ ان کے پیچھے ایک سوچا سمجھا منصوبہ کام کر رہاہے۔’لوّ جہاد‘نام کی کوئی چیز اس ملک میں نہیں ہے،البتہ یہ ’شوشہ‘ صرف اس لیے چھوڑا گیا تھا کہ ہندو نوجوانوں میں ’انتقامی جذبہ‘ اُبھارا جائے اور خود مسلمانوں کو ’لوّ جہاد‘میں الجھا کر اندرون خانہ مسلمان لڑکیوں کو تباہ و برباد کرنے کا کھیل کھیلا جائے۔ان کے مطابق باضابطہ ایسے ہندو جوانوں کی ایک ٹیم تیار کی گئی ہے، جن کاکام ہی محبت کے نام پر مسلمان لڑکیوںکو تباہ و برباد کرنا ہے۔یہ لو گ پہلے ہمدردی کے نام پرکسی مسلمان لڑکی سے قریب ہوتے ہیں،پھر محبت کا فریب دیتے ہیں، اور شادی کا وعدہ کرتے ہیں، اور پھر جنسی استحصال کا مرحلہ شروع ہو جاتاہے اور جب وہ لڑکی عفت و عصمت کا گوہر لٹاچکتی ہے او ر اس لڑکے سے شادی کا اصرار کرتی ہے تو پھرکورٹ میں کورٹ میرج کی درخواست دی جاتی ہے۔
پچھلے ماہ اسی طرح کے ایک واقعے میں ہریانہ کے روہتک ضلع کے ٹٹولی گاؤں میں ایک پنچایت نے فرمان جاری کرکے مقامی مسلمانوں پر ٹوپی پہننے اور لمبی داڑھی رکھنے پر پابندی عائد کی۔ اس کے علاوہ یہ بھی حکم دیا گیا کہ: ’’وہ بچو ں کے ہندو نام ہی رکھیں گے‘‘۔ گاؤں کے بیچ میں وقف بورڈ کی جو زمیں قبرستان کے لیے استعمال ہوتی تھی اس کو پنچایت نے اپنی تحویل میں لے کر زرعی اراضی میں تبدیل کردیا۔ بتایا جاتا ہے کہ عید الاضحی کے موقعے پر گائوں میں دھوبی خاندان کے یامین کھوکھر پر الزام لگایا گیا کہ اس نے بچھڑے کی قربانی کی تھی۔ بعد میں اس کو پولیس گرفتار کرکے بھی لے گئی، مگر جلد ہی ضمانت پر و ہ رہا ہوگیا۔ روہتک نمبردار نے ۲۰ستمبر کو اجلاس بلا کر الیاس کو گائوں بدر کرنے کا حکم سنایا۔ گاؤں کی ۳ہزار نفوس کی آبادی میں ۶۰۰مسلمان ہیں۔ اس فرمان میں مزید یہ حکم دیا گیا کہ: ’’گائوں میں کہیں بھی کھلی جگہ پر نماز ادا نہیں کی جائے گی‘‘۔ یاد رہے گائوں یا اس کے آس پاس میں کہیں بھی مسجد نہیں ہے۔ مسلم آبادی جمعہ کی نماز ادا کرنے کے لیے روہتک شہر جاتی ہے۔
اسی سال مارچ میں آگرہ کی کچی بستی مدھونگر میں تین سو مفلوک الحال مسلمانوں کے مرتد ہونے کی خبر آئی۔ انتہاپسند ہندو تنظیموں نے ان کی ’گھر واپسی‘ یعنی ہندومت اختیار کرنے کی تقریب منعقد کی، جس میں ۷۰ کے قریب افراد نے شرکت کی تھی۔ بھجنوں کے درمیان ہندو دھرم اختیار کیا۔اسی مہینے فیض آباد، یوپی سے بھی ۲۲مسلمانوں کے مرتد ہونے کی خبر آئی تھی۔ میڈیا سے بات چیت میں ان لوگوں نے کہا: ’’ہم سے وعدہ کیا گیا ہے کہ راشن کارڈ اور مفت ہائوسنگ پلاٹ دیے جائیں گے‘‘ جو کہ سراسر لالچ اور غربت کا ناجائز فائدہ اُٹھانا ہے۔
چوںکہ تقسیمِ ملک کے وقت یہ علاقہ شدید فسادات کی زد میں آگیا تھا، جولوگ کئی وجوہ کی بناپر ہجرت نہیں کرسکے تھے، انھوں نے اپنی حفاظت کی خاطر اپنے نام تبدیل کردیے ۔ وہ دیوالی، ہولی اور دیگر ہندو تہوار بھی مناتے ہیں ، مگر گھروں میں اسلامی رسوم و رواج کو انھوں نے زندہ رکھا ہوا تھا۔ ان کی نئی پود اب باقاعدہ مسلم شناخت کے ساتھ زندہ رہنا چاہتی ہے ، جس پر اعتراض کیا جا رہا ہے۔ بہار میں دربھنگہ کے ایک گائوں میں ایک مسلم خاندان پر پنچایت نے ۲۵ہزار روپے کا جرمانہ عائد کیا ، کیوںکہ اس نے بڑے جانور کا پایہ اپنے گھرمیں پکایا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ ۲۰۰۲ء میں گجرات میں ہونے والے مسلم کش فسادات کے بعد جن لوگوں نے دیہی علاقوں سے ہجرت کرکے کیمپوں میں پناہ لی تھی، جب ان کی واپسی کی کوششیں ہورہی تھیں ، تو کئی علاقوں کی پنچایتیںان کو اسی شرط پر واپس بسانے پر تیار تھیں کہ مسلمان حلفیہ بیان میں یہ یقین دلائیں کہ نہ وہ گائوں میں مسجد بنائیں گے اور نہ بلند آواز میں اذان دیں گے۔یہ باضابطہ تحریری حلفیہ بیانات تھے۔اسی طرح کی چند اور شرائط بھی تھیں۔
اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں ہر تیسرا مسلمان غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہا ہے ۔ پچھلے ۵۰برسوں میں ان کی حالت دلتوں اور قہرزدہ قبائل سے بھی بد تر ہوچکی ہے۔ یہ وہی قوم ہے جو ایک صدی قبل تک اس خطے کی حکمران تھی۔ مذبح خانے (سلاٹر ہائوس) بند کیے جانے سے اتر پردیش میں ہزاروں مسلمان بے روز گار ہوچکے ہیں۔ گائے کے نام پر افواہ پھیلا کر جانوروں کا کاروبار کرنے والوں کو جس طرح مارا پیٹا جا رہا ہے، اس سے چھوٹے چھوٹے مسلمان تاجروں کو کاری ضرب پہنچی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ بڑے تاجر جو بکرے اور بڑے گوشت کو خلیجی اور دیگر ممالک کو بر آمد کرتے ہیں، ان کے کاروبار شد و مد کے ساتھ جاری ہیں، کیوں کہ ان میں اکثریت جین یا ہندو ہیں۔
شاید یہ واقعات اسلام کے نام پر وجود میں آئے پاکستان میں رہنے والے مذہبی ادارے چلانے والوں اور ارباب حل و عقد کی سمجھ میں نہ آئیں، کیوں کہ وہ فرقہ بندی اور فروعی معاملات میں اُلجھے ہوئے ہیں۔ انھیں کیا معلوم کہ آزادی کی فضا میں ان کے سانس لینے کی کیا قیمت بھارتی مسلمان ادا کر رہے ہیں۔ بجاے اس کے کہ وہ اپنے اخلاق سے دنیا کواسلام کی صحیح تعریف سے روشناس کرواتے، ایک دوسرے پر کیچڑ اُچھالنے کے رجحان نے تو اچھے خاصے مسلمان کو بھی خوار اور مایوس کیا ہے۔ اُمید تھی کہ جو کام ۸۰۰سال تک برصغیر پاک و ہند پر حکومت کرنے والے مسلم حکمران نہیں کر پائے ، قائد اعظم محمد علی جناح کے جانشین اس ملک کو ایک لیبارٹری کی طرز پر استعمال کرکے اسلام کے حقیقی سماجی انصاف کے پیغام کو عام کرکے برصغیر کے دیگر خطوں، خاص طور پر بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کے لیے مشعل راہ اور مثال کا کام کریں گے۔ ان کی اس کاوش سے بھارت میں دیگر مذاہب ، خصوصاً دلتوں تک اسلام کے آفاقی نظام کو پہنچانے میں مدد ملتی۔
ڈاکٹر بھیم رائو امبیڈکر بھارت کے پسماندہ طبقات کے سب سے بڑے لیڈرتھے۔ ان کا رجحان اسلام قبول کرنے کا تھا۔ اسلام کی طرف مگران کے بڑھتے قدم رک گئے جس کی ایک بڑی وجہ ان کا یہ احساس تھا کہ مسلمانوں کے اندر چھوٹی بڑی ذاتوںکا سسٹم موجود ہے۔ اگر انھوں نے اسلام قبول کرلیا تو انھیں مسلم سماج میں بھی برہمنواد کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اسی طرح مسلمانوں کے اندر مسلکی جھگڑا بھی انھیں دکھائی دیا، جو ان کے لیے پاؤںکی زنجیر بن گیا۔ انھوں نے ایک موقعے پر اپنی تقریر میں کہا: ’’میں اسلام قبول کرنا چاہتا ہوں، لیکن اگر میں اسلام قبول کرتا ہوں تومجھے وہابی کہہ کر خارج از اسلام کردیا جائے گا‘‘۔قصۂ مختصر، اگر مسلمان اپنا وتیرا تبدیل نہیں کرتے، اسلام کے حقیقی سماجی انصاف کے پیغام کو عملاً نہیں اپناتے، تو دلتوں اور دیگر طبقات کو اپنے ساتھ ملانا تو دُور کی بات، خود مسلمانوں کی نئی پود بھی دور چلی جائے گی۔
زندگی مسلسل واقعات و احداث سے عبارت ہے۔ اقوام و افراد کے لیے ہر لمحہ کسی نہ کسی خیر یا شر کی بنیاد بن سکتا ہے۔ کئی واقعات و لمحات تو انتہائی دُور رس اثرات چھوڑجاتے ہیں۔ کبھی اتنے دُور رس کہ ان سے پہلے اور ان کے بعد کا زمانہ مختلف ہوجاتا ہے۔ مثال دیکھنا ہو تو گذشتہ دوعشروں میں نائن الیون اور عرب بہار کے دواہم واقعات ہی ملاحظہ فرمالیجیے۔۲؍ اکتوبر ۲۰۱۸ء کو استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے میں ایک نمایاں سعودی صحافی جمال خاشقجی کا قتل بھی ایسا ہی ایک تیسرا واقعہ ثابت ہورہا ہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ قتل تو روزانہ ہوتے ہیں۔ صحافی بھی بہت سے مارے جاچکے ہیں۔ کشمیر، شام، فلسطین اور روہنگیا سمیت کئی خطوں میں خون کی ہولی بھی مسلسل کھیلی جارہی ہے، آخر جمال کا قتل اتنا اہم کیوں ہوگیا؟ آئیے اس کی حقیقت و اثرات کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔
جمال خاشقجی مدینہ منورہ میں پیدا ہونے والا ایک بے باک صحافی تھا۔ راقم سمیت پاکستان کے کئی افراد سے ان کا تعارف برسوں پر محیط ہے۔ حُسن اتفاق سے ان کی شہادت سے ایک ہفتہ قبل استنبول ہی میں ان سے آخری مفصل ملاقات ہوئی۔ معروف عالمی تھنک ٹینک ’الشرق فورم‘ کے زیراہتمام ’سیاسی اسلام‘ (اسلامی تحریکات کے لیے اہل مغرب کی نئی اور طنزیہ اصطلاح) کے موضوع پر دو روزہ سیمی نار میں ہم دونوں مدعو تھے۔ تین روز اکٹھے ہی قیام و تبادلۂ خیال رہا۔ جمال اشتراکی روس کے خلاف جہاد کے زمانے میں افغانستان سے رپورٹنگ کرتا رہا۔ بعد میں یکے بعد دیگرے معروف عرب روزناموں الشرق الاوسط ، عرب نیوز اور الوطن کا ایڈیٹر رہا۔ اس دوران ایک اور معروف روزنامے الحیاۃ میں کالم شائع ہوتے رہے۔ ارب پتی سعودی شہزادے ولید بن طلال نے ’العرب‘ کے نام سے الجزیرہ چینل جیسا ایک نیا نیوز چینل بنانے کا ارادہ کیا تو جمال کو اس کا سربراہ بنایا۔ بحرین کے دارالحکومت المنامہ میں قائم اس شان دار چینل پر ایک خطیر رقم خرچ ہوئی۔ لیکن جونہی چینل کی نشریات شروع ہوئیں، مقامی ذمہ داران اس کی سچائی کی تاب نہ لاسکے۔ ایک دن بعد ہی چینل پر پابندی لگی اور پھر ہمیشہ کے لیے بند کردیا گیا۔
شاہ فیصل مرحوم کے صاحبزادے اور طویل عرصے تک سعودی خفیہ ادارے کے سربراہ رہنے والے شہزادہ ترکی الفیصل اس حساس ذمہ داری سے فارغ ہوئے تو اہم عرب چینل MBC پر ان کے انٹرویوز کا طویل سلسلہ چلا۔ یہ انٹرویو کرنے والا بھی جمال ہی تھا۔ ترکی الفیصل کو برطانیہ اور پھر واشنگٹن میں سعودی سفیر بنایا گیا تو جمال ان کے ابلاغیاتی مشیر کے طور پر ساتھ رہا۔ اس دوران میں وہ واشنگٹن پوسٹ جیسے عالمی اخبارات میں لکھنے لگا۔ جمال کے قتل کے بعد واشنگٹن پوسٹ کے صحافی ڈیوڈ اگناٹیوس نے شہزادہ ترکی الفیصل سے ۹۰ منٹ کا انٹرویو کیا، جس میں انھوں نے اس قتل پر شدید رنج و غم کا اظہار کیا۔ جمال سے اپنے تعلق کے بارے میں بھی کئی اہم رازوں سے پردہ اٹھایا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’وہ افغان جہاد کی رپورٹنگ کے لیے ایک صحافی کے طور پر افغانستان گیا تھا۔ اس وقت ہمارا اس سے کوئی رابطہ نہیں تھا۔ پھر جب وہ عرب نیوز کا ایڈیٹر بنا تو میری ان سے ملاقات ہوئی۔ گذشتہ چار برس سے ہمارے مابین اختلاف راے ہوگیا تب سے ہمارا رابطہ تقریباً منقطع تھا۔ ہمارا اختلاف الاخوان المسلمین کے بارے میں ہوا تھا۔ میرا کہنا تھا کہ اخوان جمہوریت کے دعووں کی آڑ میں دہشت گردی کرتی ہے، جمال کو میری اس راے سے اتفاق نہیں تھا‘‘۔
سعودی عرب میں قیادت اور حالات تبدیل ہونے کے بعد جمال نے مستقل طور پر بیرون ملک رہنے کا فیصلہ کرلیا۔ انھیں کئی اُمور بالخصوص اختلاف راے کی بنیاد پر کی جانے والی گرفتاریوں سے اختلاف تھا۔ وہ اس بارے میں کھلم کھلا اظہار کرتا تھا۔ اس سب کچھ کے باوجود زمینی حقائق کو بھی جانتا تھا۔ استنبول میں ہماری اس آخری ملاقات کے دوران بھی اس نے اس امر کی ضرورت پر زور دیا کہ بعض اختلافات کے باوجود، سعودی عرب کی اہمیت کے پیش نظر اس سے گفت و شنید اور روابط جاری رہنا چاہییں۔ طویل عرصے سے تنہا بیرون ملک رہتے ہوئے انھوں نے دوسری شادی کا ارادہ کرلیا۔ ۳۶ سالہ ترک صحافی خدیجہ چنگیز جو شان دار عربی بھی جانتی ہے، سے ان کی تحریروں بالخصوص سلطنت آف عمان کے بارے میں لکھے جانے والے مقالے کے حوالے سے تعارف ہوا، جو شادی کے لیے آمادگی پر منتج ہوا۔ منگنی تو خاموشی سے ہوگئی، لیکن اتاترک کے سیکولر دستور کے مطابق دوسرا نکاح کرنے کے لیے پہلی بیوی سے طلاق کی مصدقہ دستاویز پیش کرنا لازمی تھا۔ ان دستاویزات کی تصدیق کے لیے ۲۸ ستمبر کو اپنے ملک کے قونصل خانے گئے تو چند روز بعد دوبارہ آنے کو کہا گیا۔ ۲؍اکتوبر کو کاغذات تیار ہونے کی اطلاع دی گئی۔ دوپہر ایک بج کر ۳۷منٹ پر اندر گیا تو خصوصی جہاز میں آنے والے ۱۵؍ افراد کے ہاتھوں انتہائی سفاکیت سے قتل کرکے، لاش کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے گئے۔خدیجہ چنگیز قونصل خانے کے باہر منتظر تھی۔ دونوں میں یہ طے پایا تھا کہ اگر واپسی میں غیر معمولی تاخیر ہوئی تو وہ فوراً اپنے ایک عزیز یاسین اقطائی کو مطلع کردے گی۔ یاسین اقطائی اس وقت حکمران جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے نائب صدر اور تنظیمی اُمور کے سربراہ ہیں۔ اس سے پہلے وہ پارٹی کے خارجہ اُمور کے سربراہ تھے۔ وہ لمحہ اور آج کا لمحہ اس واقعے کے اثرات شدید سے شدید تر ہوتے جارہے ہیں۔
۲؍اکتوبر کی شام ہی یہ خبر پوری دنیا میں پھیل چکی تھی کہ ایک صحافی اپنے ہی ملک کے قونصل خانے میں لاپتا اور شاید قتل کیا جاچکا ہے۔ جمال کے قتل کے اگلے روز ہی ترکی نے ان ۱۵؍افراد کی ویڈیو اور تصاویر نشر کردیں، جو اسی غرض کے لیے دو خصوصی جہازوں پر استنبول آئے اور واردات کے بعد اسی سہ پہر سعودی عرب واپس چلے گئے تھے۔ آیندہ آنے والے دنوں نے ان سب کی ساری نقل و حرکت کی ویڈیو ریکارڈنگ عالمی ذرائع ابلاغ کے ذریعے پوری دنیا تک پہنچا دی۔ نہ صرف یہ بلکہ جمال کے قونصل خانے میں داخل ہونے کے بعد سے لے کر ۲۲ منٹ کی ریکارڈنگ ایسی ہے، جس میں قاتلوں اور مقتول کے مابین ہونے والی چند لمحوں کی گفتگو سے لے کر، اسے بے ہوش کرنے اور پھر برقی آرے سے لاش کے ٹکڑے ٹکڑے کر دینے کی ساری تفصیل موجود ہے (تادمِ تحریر اس کی ریکارڈنگ نشر نہیں کی گئی)۔ واردات کے بعد سعودی قونصل جنرل اور اعلیٰ ذمہ داران نے کہا کہ جمال یہاں آنے کے کچھ دیر بعد پچھلے دروازے سے واپس چلا گیا۔ لیکن بعد ازاں سرکاری سعودی ذرائع نے اعلان کیا کہ ’’تحقیقات کے بعد معلوم ہوگیا ہے کہ جمال خاشقجی قونصل خانے کی عمارت ہی میں سفاکانہ طریقے سے قتل کردیا گیا تھا۔ اس کا قتل دوران تفتیش اسے چپ کروانے کی کوشش کے دوران دم گھٹنے سے ہوا۔ اس الزام میں سعودی عرب میں ۱۸ مشتبہ افراد کو گرفتار کرلیاگیا ہے، مزید تحقیقات جاری ہیں‘‘۔ بعد ازاں سعودی فرماں روا شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور ولی عہد محمد بن سلمان نے ترک صدر سے فون پر بات کرتے ہوئے اور ولی عہد نے ریاض میں منعقدہ ایک کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے بھی اس بہیمانہ قتل کو انتہائی وحشیانہ کارروائی قرار دیا۔ انھوں نے اعلان کیا کہ کوئی بھی ذمہ دار انصاف کے شکنجے سے بچ نہ پائے گا۔ سعودی ولی عہد نے یہ خوش آیند بات بھی زور دے کر کہی کہ: ’’جب تک شاہ سلمان، ولی عہد محمد بن سلمان اور ترک صدر اردوان موجود ہیں کوئی طاقت دونوں برادر ملکوں کے مابین کوئی دراڑ پیدا نہیں کرسکتی‘‘۔
اللہ رب العزت نے کسی بھی بے گناہ کا قتل پوری انسانیت کا قتل قرار دیا ہے۔لیکن بعض جرائم کی شناعت و سنگینی مزید بڑھ جاتی ہے۔ سفارت کاری کی دنیا عین جنگ کے عروج پر بھی محفوظ رکھی جاتی ہے۔ گھمسان کا رن پڑا ہو اور جانی دشمن بھی سفیر یا پیغام بر کی صورت میں سامنے آجائے تو اسے کوئی گزند نہیں پہنچائی جاسکتی۔ ویانا کمیشن آج کی دنیا میں سفارت خانوں اور سفارت کاروں کے لیے خصوصی مراعات یقینی بناتا ہے۔ سفارت خانے ہی کو اگر مقتل گاہ میں بدل دیا جائے تو سب کے لیے ناقابلِ یقین ہوتا ہے۔ اسی طرح صحافت اور صحافیوں کو بھی خصوصی مقام حاصل ہے۔ صحافی دوران جنگ برستی آگ میں بھی محفوظ سمجھے جاتے ہیں۔اس قتل کی تیسری سنگینی لاش کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے غائب کر دینا ہے۔ ابھی تک نہ لاش ملی، نہ کفن اور نمازِ جنازہ نصیب ہوسکا۔
سعودی فرماں روا شاہ سلمان کا یہ اعلان اور طیب اردوان کو ان کی یہ یقین دہانی یقینا اہم اور حوصلہ افزا ہے کہ قاتل جو بھی ہو، کسی طور سزا سے بچ نہ پائیں گے۔ ترک حکومت کی شائع کردہ فہرست میں آنے والے ۱۵ ،اور قونصل خانے کے تین افراد کی گرفتاری کے اعلان کے ساتھ ہی ولی عہد محمد بن سلمان کے قریبی ترین خصوصی مشیر سعود القحطانی اور انٹیلی جینس کے نائب سربراہ جنرل احمد العسیری کو ذمہ داریوں سے سبکدوش کردینے کی خبریں بھی انتہائی اہم ہیں۔ لیکن ابھی تک کئی اہم سوالات کے جواب باقی ہیں۔ ۲۶ ؍اکتوبر کو صدراردوان نے اپنے ان مطالبات و سوالات کا دو ٹوک اعادہ کیا ہے کہ جب یہ معلوم ہوگیا کہ جمال قونصل خانے میں قتل ہوا تو لاش کہاں ہے؟ قاتل گرفتار ہوگئے ہیں تو بآسانی خود انھی سے معلوم ہوسکتا ہے کہ انھیں قتل کا حکم کس نے دیا؟ قاتلوں کے مقامی ترک سہولت کار اگر ہیں تو کون ہیں؟
ان سوالات کا تسلی بخش جواب اور قاتلوں کو قرار واقعی سزا دینا اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس قتل کی آڑ میں کئی عالمی قوتیں سرزمین حرمین شریفین کے خلاف اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کرنا چاہتی ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس واردات سے پہلے ہی لگاتار اپنے توہین آمیز اور بے سروپا بیانات میں سعودی عرب کو دھمکیاں دیتے اور بلیک میل کرتے ہوئے کہہ رہا تھا: ’’پیسے دو‘‘۔ تمھاری حفاظت ہم کررہے ہیں۔ ہم نہ ہوں تو تم دو ہفتے بھی باقی نہ رہ سکو۔ پیسے دو‘‘۔ جمال خاشقجی کے قتل کے بعد بھی وہ اپنی یہی دھمکیاں دُہرا رہا ہے۔
دیکھا جائے تو اس سفاکانہ قتل کے شر سے اللہ تعالیٰ ایک خیر برآمد کرنے کا موقع فراہم کررہا ہے۔ سعودی عرب اور ترکی دونوں ہی عالم اسلام کے اہم ترین ممالک میں شمار ہوتے ہیں۔ گذشتہ کچھ عرصے سے بوجوہ دونوں کے تعلقات سردمہری بلکہ تناؤ کا شکار ہوتے جارہے تھے۔ دونوں کے دشمن بھی اس آگ پر تیل چھڑک رہے تھے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے دونوں ملکوں کے عوام کے درمیان ابلاغیاتی جنگیں بھڑکائی جارہی تھیں۔ ترکی میں آنے والے اقتصادی بحران کو بڑھاوا دینے کی بڑہانکی جاری تھی۔ جمال کے قتل کے بعد دونوں برادر ملکوں کی اعلیٰ قیادت کے مابین کئی بار گفتگو ہوچکی ہے۔ گورنرمکّہ خالدالفیصل انقرہ میں صدر اردوان سے ملاقات کرچکے ہیں۔ سعودی قیادت نے ترکی اور ترک قیادت کے بارے میں بہت حوصلہ افزا بیان دیے ہیں۔ اتوار ۲۸ ؍اکتوبر کو سعودی اٹارنی جنرل، استنبول میں اپنے ترک ہم منصب سے مذاکرات کررہے ہیں۔ اگر دونوں برادر ملک، قتل کی اس سنگین واردات کے تمام مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچاتے ہوئے، قرآنی حکم پر عمل درآمد کرلیتے ہیں تو نہ صرف انصاف کے تقاضے پورے ہوں گے بلکہ ٹرمپ کی دھمکیوں کا بھی سدباب ہوسکے گا۔خدانخواستہ ایسا نہ ہوا تو نہ صرف مشرق وسطیٰ میں جاری تہ در تہ سیاسی اور اقتصادی بحرانوں میں مزید اضافہ ہونا یقینی ہے، بلکہ اس کے اہم عالمی اثرات مرتب ہوںگے۔ یورپی پارلیمنٹ اس واقعے کی عالمی تحقیقات کا مطالبہ کرچکی ہے۔ واشنگٹن پوسٹ پورے پورے صفحے کے اشتہارات شائع کر رہا ہے کہ Demand the Truth۔
مسلم دنیا میں گذشتہ نصف صدی کے دوران مصر، سوڈان ، ترکی ، تیونس ، پاکستان ، لبنان اور بنگلہ دیش میں تحریکات اسلامی کو جن مسائل کا سامنا رہا ہے ،ان میں اکثر کو نظر انداز کرتے ہوئے ابلاغ عامہ ہی نہیں خود تحریکی کارکن تحریک کی مقبولیت یا ناکامی کو صرف ایک ہی پیمانے پر ناپنے لگے ہیں اور وہ ہے سیاسی محاذ پر پارلیمان میں نشستوں کی تعداد اور حکومت میں عمل دخل۔ بلاشبہہ سیاسی کامیابی کسی تحریک کی توسیع،مقبولیت اور اثر کو جانچنے کا ایک پیمانہ ہو سکتا ہے لیکن محض سیاسی عینک سے ہر چیز کو دیکھنا تحریکی مزاج اور مقاصد سے مناسبت نہیں رکھتا۔
اگر تحریک اسلامی ، دعوت اسلامی ، اقامت دین ، تبدیلیِ قیادت کی اصطلاحات کا صرف ایک سیاسی مفہوم ہی ہے تو یہ فکر کی ایک بنیادی غلطی ہے ۔ دنیا کی تمام اسلامی تحریکیں قرآن و سنت سے اخذ کر دہ ترجیحات کی بنا پر تبدیلی کا آغاز فرد، خاندان، معاشرہ اوراداروں کی تبدیلی و اصلاح سے کرتی ہیں۔سنت انبیاؑ بھی یہی ہے اور اسی کو خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار فرمایا۔ تحریکات اسلامی اور دیگر تحریکات اصلاح نفس کا بنیادی فرق یہی ہے کہ اول الذکر تحریکات فرد کی اصلاح کو اپنا اعلیٰ مقصد قرار دے کر اجتماعیت کی جگہ انفرادیت میں اُلجھ جاتی ہیں اور بعض اوقات مثالی انفرادی کردار پیدا کرنے میں کامیاب ہونے کے باوجود فرد کی اصلاح سے امت کو کوئی اجتماعی فائدہ نہیں ہوتا۔گو نظری طورپر یہی کہا جاتا ہے کہ جب سارے افراد درست ہو جائیں گے تو معاشرہ خود بہ خود ٹھیک ہو جائے گا ۔ اگر واقعی ایسا ہی ہوتا تو اللہ تعالی کو اقامت صلوٰۃ فرض کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ لوگ اپنے اپنے گھروں میں نماز خشوع و خضوع کے ساتھ پڑھ لیا کرتے اور نفس کی اصلاح کے اعلیٰ مقام تک پہنچ جاتے ۔ نہ روزہ کو ایک پورے مہینے کے لیے اجتماعی طور پر فرض کرنے کی ضرورت تھی، نہ جہاد فی سبیل اللہ کو افضل و اعلیٰ کہنے کی ضرورت تھی۔ لوگ مجاہدۂ نفس کرکے اپنے خیال میں دنیا اور آخرت میں کامیابی کے مستحق بن جاتے اور سیاست، معیشت، ثقافت ہر شعبے کو آزاد چھوڑ کر کسی غیبی قوت کے ذریعے اچانک معاشرے میں عدل و انصاف، امن و محبت اور حقوق و فرائض کے نظام کا قیام ہو جاتا ۔ نہ حضرت موسٰی کو وقت کے جباروں سےٹکرانے کی ضرورت تھی، نہ حضرت سلیمانؑ اور حضرت داؤدؑ کو زمین پر خلافت الٰہی قائم کرنے کی خواہش ہونی چاہیے تھی۔
تحریکی فکر اور عام دینی فکر میں فرق یہی ہے کہ اسلام کی اجتماعیت ، جو اس کی روح ہے، کو بنیاد بناتے ہوئے فرد، خاندان معاشرہ اور زمام اقتدار کی تبدیلی اس کے واضح اہداف ہیں ۔
ظاہر ہے انسانی معاشرے میں کوئی کام اس وقت ہی ہو سکتا ہے جب اس کام کے کرنے والےباصلاحیت اور ماہرانہ اہلیت رکھتے ہوں ۔ اگر ہم ایک مکان نہیں، ایک شلوار قمیص بھی سلوانا چاہتے ہیں تو بہترین درزی تلاش کرتے ہیں ۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک گروہ معاشرے اور ملک کی اصلا ح کرنے چلے اور اس کے پاس افراد وہ ہوں جو نہ دین سے آگاہ ہوں ، نہ انتظامی معاملات میں مہارت رکھتے ہوں ۔ اس لیے افراد سازی بذریعہ تطہیر افکار وہ پہلا قدم ہے جس کے بغیر کوئی دعوتی، اصلاحی اور اقامت دین کی تحریک آگے نہیں بڑھ سکتی ۔ یہ بات بھی ایک حقیقت ہے کہ سب انسان ایک سانچے میں ڈھل کر یکساں نہیں ہو سکتے ۔کیا سارے صحابہؓ اور عشرہ مبشرہ برابر تھے۔؟ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ عشرہ مبشرہ کے علاوہ دیگر صحابہؓ میں کوئی خامی پائی جاتی تھی۔ ہم جانتے ہیں کہ مصدقہ طور پر اخلاص کے باوجود نبی کریمؐ نے حضرت ابوذرؓ سے یہی تو کہا تھا کہ ہم تمھیں کسی ذمہ داری پر نہیں لگائیں گے کیوں کہ اس کے لیے جو صلاحیت درکار ہے وہ تم میں نہیں ہے۔ یہ نہ ان کے تقویٰ پر ، نہ دین کے علم پر کسی قسم کے شبہہ کااظہار تھا۔ اسی لیے ہر تحریک اسلامی کو اپنے فرد مطلوب کے لیے ایک معیار اور پیمانہ طے کرنا ہوتاہے۔ جماعت اسلامی کے حوالے سے دستور جماعت اسلامی کی دفعہ ۳عقیدہ کے زیر عنوان اپنے فرد مطلوب کے تصور کو واضح کر تی ہے ۔ دستور کی دفعہ۴ یہ وضاحت کر دیتی ہے کہ وہ کس قسم کی تبدیلی چاہتی ہے، جزوی اصلاح کی یا مکمل دین کی اقامت۔اسلامی نظام زندگی سے مراد محض عبادات ہیں یا انفرادی ، اجتماعی ، معاشرتی اور ملکی سطح پر قرآن و سنت کی تعلیمات کا نفاذ و قیام اور اس کام کے لیے اجتماعی جدو جہد لازمی ہے ۔
یہی وہ فرق ہے جو کسی تحریک کو تحریک اسلامی بناتاہے لیکن کیا جب تک ہر فرد انسانِ مطلوب کے معیار کا نہ ہو جائے ، دعوتی ، اصلاحی اور سیاسی سرگرمیوںکو معطل کر دیا جائے ؟نظری طور پر تو یہ بات شاید معقول نظر آئے، عملاً ایسا ممکن نہیں ہے۔ بلاشبہہ ایک کم سے کم معیار کا تعین کیا جانا چاہیے کہ اگر ایک فرد نہ نماز باجماعت کا اہتمام کرتا ہو، نہ اس کے گھر کا ماحول طہارت وپاکیزگی کا عکاس ہو ، نہ اس کا کاروبار حلال و حرام کا فرق کرے لیکن اس سب کے باوجود بھی اسے تحریک میں شامل کر لیا جائے تو یہ دستور کے منافی ہو گا۔ہاں، اگر وہ باوجود کوشش کے تین نمازیں جماعت سے ادا کرپاتا ہو ، اپنے گھر میں تمام کوشش کے باوجود ابھی کامیاب نہیں ہوا ہو اور اپنے کاروبار سے حرام کے عنصر کو نکالنے میں لگا ہوا ہو اور جلد اسے پاک کر لے گا، تو اس سعی و کوشش اور خلوص نیت اور مسلسل جدوجہد میں لگنے کی بنا پر اسےتحریک میں شامل تو کر لینا چاہیےلیکن ساتھ ہی اس کی تربیت و تعمیر سیرت کا عمل جاری رہنا چاہیے ۔ قرآن کاا صول ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کی برداشت سے زیادہ بوجھ اس پر نہیں ڈالتا ۔ جو چیز ایک فرد کی طاقت سے باہر ہو اس پر اس کی گرفت نہیں کی جاسکتی۔
اس کا یہ مطلب بھی نہیں لیا جا سکتا کہ ایک سیاسی کارکن جو اپنے علاقے میں اثر و رسوخ تو رکھتا ہو لیکن عبادات و معاملات میں بہت پیچھے ہو پھر بھی محض اپنی سیاسی قوت میں اضافہ کرنے کے لیے اسے تحریک میں شامل کر لیا جائے ۔ تحریک کو فرد کی اصلاح کے معیار پر سختی سے عمل کرنا ہو گا ۔کیوں کہ اس کا ہدف کثرت افراد نہیں ، تطہیر و تبدیلی افراد ہے اور ایسے افراد کو پوری محبت و احترام کے ساتھ موقع دینا ہو گا کہ وہ اپنے اندر تبدیلی پیدا کر یں اور اس کے بعد ہی تحریک کا حصہ بنیں ۔
ایسے ہی تطہیر افکار اور تربیت افراد کسی خلا میں نہیں ہو سکتی۔ اس کے لیے ایک ایسی جماعت کے وجود کی ضرورت ہے جو ہمہ وقت تزکیہ نفس اور تعمیر سیرت کے مواقع پیدا کرتی ہو اور جس میں افراد کی شمولیت کا مقصد محض سیاسی قوت کے حصول کی جگہ باصلاحیت، فکری اور عملی قیادت کی تیاری ہو ۔یہ کام ایک طویل المعیاد عمل ہے ۔ یہ دو تین تربیت گاہوں یا اجتماعات میں شرکت کرنے سے نہیں ہو سکتا۔ اس کے لیے مسلسل عملی تربیت کی ضرورت ہے،جو صرف دعوتی میدان ہی میں ہو سکتی ہے ۔ کوئی ایک ہفتہ یا تین دن کا کورس اس کام کو حتمی طور پر نہیں کر سکتا ۔
تزکیہ فکر اور تربیت اخلاق محض نئے آنے والے افراد کے لیے نہیں،تحریک میں ہر سطح کی ذمہ دار قیادت کے لیے بھی ضروری ہے ۔اگر قیادت ایک مقام فکر وعمل پر رُک جائے اور اس میں مسلسل ترقی کی کوشش نہ کرے تو وہ کارکنوں کو قابل عمل مثال فراہم کرنے میں ناکام رہے گی۔یہ تو ہو سکتا ہے کہ تھوڑے یا عبوری عرصے کے لیے کارکن اپنی بے چینی کا اظہار نہ کریں اور حُسنِ ظن رکھتے ہوئے قیادت کے ساتھ چلتے رہیں لیکن جلد ان کے ذہنوں میں گمان ، ظن اور بدگمانی پیدا ہو نا ایک فطری عمل ہے۔تحریک اسلامی میں جس لمحے کارکنوں میں یہ بے چینی پائی جائے فوری طور پر اسے سنجیدگی کے ساتھ سمجھنے اور تعمیری انداز میں اس کی اصلاح کی ضرورت ہے۔
اس فکر کا پایا جانا اس پہلو سے تو اچھا ہے کہ تحریک میں لوگ اپنی سوچ اور فکر کا استعمال کررہے ہیں اور تحریک جامد اور ساکت نہیں ہے ۔لیکن ہر فکر خود اپنی جگہ پر صحیح قرار نہیں دی جاسکتی اور بعض تصورات بہت معصوم ہوتے ہیںلیکن وہ تحریک کے مقصد وجود کی ضد ہوتے ہیں ۔ اس سوال پر غور کرتے ہوئے ہمیں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کیا دعوتی ، اصلاحی اور سیاسی تبدیلی الگ الگ دائروں کا نام ہے یا دعوت اصلاح میں سیاسی اصلاح ایک لازم و ملزوم عنصر ہے؟ تحریکات اسلامی اور جماعت اسلامی کو دیگر تحریکات سے ممتاز کرنے والا یہی وہ پہلو ہے جو ہم اکثر بھول جاتے ہیں ۔ جماعت اسلامی کا مقصد چند ایسے زاہد و عابد افراد کا پیدا کرناکبھی نہ تھا جو علم کے موتی بکھیرتے رہیں اور معیشت ، معاشرت ، ثقافت اور سیاست و قانون پر شیطانی فکر غالب رہے بلکہ روز اول سے اس کا نصب العین اقامت دین رہا ہے ۔ جس میں سیاسی تبدیلی ایک لازمی مرحلہ ہے اور کام وہاں جاکر ختم نہیں ہو جاتا بلکہ ملکی اداروں کی تبدیلی و اصلاح کا کام وہاں سے شروع ہوتا ہے ۔ نظام کی تبدیلی محض پارلیمان میں چند نشستوں پر جا کر بیٹھ جانے کا نام نہیں ہے ، بلکہ ملکی معیشت ، تعلیم ، قانون، ابلاغِ عامہ، غرض ہر شعبے میں افرادی قوت ، نظریاتی اور مقصدی اصلاح کرنے کا نام ہے ۔ ظاہر ہے کہ یہ کام چند وزراتوں یا کسی طرح وزارت عظمیٰ تک پہنچ جانے سے نہیں ہوسکتا۔ یہ ایک طویل اور مسلسل عمل ہے جس میں نصرتِ الٰہی کے ساتھ صحیح حکمت عملی کا بڑا دخل ہے۔
یہ خیال کمزور ہونے کے باوجود بذاتِ خود بحث اور تجزیے کا تقاضا کرتا ہے کہ کچھ عرصے کے لیے سیاسی کام کو معطل کر دیا جائے یا دو الگ دائرے طے کر لیے جائیں۔ درحقیقت یہ تصور جماعت کے قیام و مقصد اور دستور کے منافی ہے ۔اگر ایسا کیا جائے گا تو جماعت اسلامی اس تصور کی توثیق کرے گی جس میں بعض حضرات نے تبلیغ کو اختیار کر لیا اور بعض افراد نے سیا سی محاذ سنبھال لیا ، نتیجہ ہمارے سامنے ہے ۔اگر ایسا کیا جائے تو یہ سیکولر افراد کی تقویت اور خوشی کا باعث ہو گا اور جو حضرات جماعت اسلامی سے کسی نہ کسی وقت بھلائی کی امید رکھتے ہیں ان کی امیدوں کو چکنا چور کرنا ہو گا ۔نہ صرف یہ بلکہ خود وہ لوگ جو جماعت میں اس بنا پر شامل ہو ئے کہ یہاں دین کا ا جتماعی تصور ہے، اور یہاں وہ توازن ہے جو دین چاہتا ہے۔ یہاں اخلاص نیت ہے ۔ یہاں عہدوں کی طلب نہیں ہے۔ یہاں حصول امارت یا شوریٰ کے لیے نجویٰ اورcanvassing نہیں ہے۔ یہاں کسی لسانی یا صوبائی وابستگی کی بنیاد پر کسی کا انتخاب نہیں کیا جاتا ۔یہ اور جماعت کے کلچر سے وابستہ دیگر وجوہ جو کسی کے جماعت سے قریب آنے کا سبب بنتی ہیں ، ان تمام توقعات کو ختم کر دینا ہو گا۔
جماعت اسلامی کے بانی امیر نے اس طرف تحریک اسلامی کا آیندہ لائحہ عمل میں متوجہ کیا تھا:’’یہ کہنا کہ جماعت اسلامی سیاسی جدوجہد کے میدان سے ہٹ کر پہلے کارکنوں کے اخلاق بنائے پھر اس میدان میں قدم رکھے،اپنے پیچھے اخلاق کی تیاری کا یہ تصور رکھتا ہے کہ ایک کام کے لیے جس قسم کے اخلاق کی ضرورت ہے وہ اس کام میں پڑے بغیر کہیں باہر سے تیار کرکے لائے جاسکتے ہیں۔ حالاںکہ یہ تصور اتنا ہی غلط ہے جتنا یہ خیال غلط ہے کہ کوئی آدمی پانی میں اترے بغیر تیراک ہوسکتا ہے۔ عقل اس کو غلط کہتی ہے ‘‘۔(ص ۱۱۶)
تاہم، جس چیز پر غور کرنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ اگر ہم تحریک کی کامیابی و ناکامی کو صرف سیاسی پیمانے ہی سے ناپنا چاہتے ہیں تو گذشتہ دو اور حالیہ الیکشن کے اعداد وشمار سامنے رکھ کر دیکھا جائےکہ ہمارے مجموعی حاصل کر دہ ووٹوں میں کس تناسب سے کمی یا اضافہ ہوا ہے؟ہم نے کس عمر ، قابلیت ، تجربہ کے افراد کو انتخابی نمایندہ بنایا اور ہر صورت حال میں کامیابی و ناکامی کی وجوہ کیا تھیں؟ اس پہلو سے خاص طور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ گذشتہ ۱۰ سال میں ہماری ترجیحات کیا رہی ہیں؟ ہمارے وقت ، مالی وسائل ، صلاحیتوں، منصوبہ بندی کا کتنا تناسب ، قیادت کی اپنی تربیت ، مرکزی شوریٰ اور عاملہ کے ہر فرد کی کارکردگی اور مالی ، فکری تعاون میں صرف ہوا؟ اور کتنا صوبائی اور ضلعی بنیاد پر افراد کے تقرر ، ان کی صلاحیتوں کی نشو ونما (grooming )، ان کا احتساب، ان کی کارکردگی کے معروضی جائزے پر صرف ہوا؟
اس بات کے جائزے کی بھی ضرورت ہے کہ ۱۰ سالہ مدت میں سیا سی منصوبہ بندی اور تنظیمی دوروں اور معاملات میں وقت کا استعمال اور دعوت پر غور وفکر، فکر مودودی سے استفادہ، قرآن و سنت کا براہِ راست مطالعہ اور تجزیہ ، جماعت کی مجموعی فضا سیاسی رہی یا دعوتی؟ للہیت کے پیدا کرنے کے لیے کیا اقدامات کیے گئے؟ سیاسی محاذ پر مقصود محض شکست دینا تھا یا ہماراطرزِ عمل مصلحانہ اور دعوت کار ہے یا پیشہ ور حزبِ اختلاف کی طرح ہر بات پر منفی طرزِ عمل و تنقید کرتے رہے ، یا وَتَعَاوَنُوْا عَلَي الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى (جو کام نیکی اور خداترسی کے ہیں ان میں سب سے تعاون کرو۔ المائدہ۵:۲)پر عمل ہو رہا ہے یا صرف عدم تعاون پر عمل رہا؟ مخالف کا دل جیتنے کے لیے اپنے اہداف و طریقۂ کار سے ایک انچ ہٹے بغیر کیا اقدامات کیے ؟ دیگر تحریکات اسلامی خصوصاً تیونس اور ترکی جہاں تحریک اسلامی کو سیاسی کامیابی ہوئی ، کیا ان کا علمی، تاریخی جائزہ لیا گیا؟ تیونس میں خصوصاً جس طرح النہضۃ نے اپنے مخصوص حالات میں تبدیلی اختیار کی ہے، کیا اس کے بعد وہ ہمارے لیے مثال بن سکتی ہے؟ ترکی میں طیب اردگان کو لانے میں نجم الدین اربکان کا کتنا دخل تھا اور پھر باہمی اختلافات کے بعد آج وہاں پر دعوتی اور تحریکی کام کی شکل کیا ہے؟غرض علمی اور تحقیقی جائزے کے بغیر کسی بھی تحریک اسلامی کی حکمت عملی کو کسی دوسرے مقام پر استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ مزید یہ کہ کیا واقعی جماعت کی حکمت عملی میں کوئی ایسی خرابی ہے کہ جب تک تیونس اور ترکی سے تریاق نہیں آئے گا، کام نہیں ہو سکتا یا ہم نے خود بعض فیصلے غلط کیے ہیں ، جن کی بنا پر ہم دعوتی اور سیاسی میدان میں نمایاں کامیابی حاصل نہ کر سکے۔ ان تمام پہلوؤں پر ان حضرات کو غور کرنےکی ضرورت ہے جو خود میدان میں کام میں مصروف ہوں۔ چند دانش وَر کسی بھی تحریک کو مسائل کا حل نہیں دے سکتے ۔ گو، حکمت مومن کی گم شدہ پونجی ہے اور جہاں سے بھی ملے اسے لینے میں کوئی حرج نہیں۔
اس امر کی ضرورت ہے کہ ترجیح اوّل کے طور پر کارکنوں کی فکر ی تربیت اور دعوتی میدان میں شرکت کے ذریعے عملی تربیت کو اختیار کیا جائے اور ساتھ ہی بلدیاتی انتخابات میں نوجوانوں، صالح اور مکمل طور پر تحریکی فکر رکھنے والے افراد کو متعارف کروایا جائے جو ۱۰ سال بعد ملکی سطح پر تحریک کو قیادت دے سکیں۔
مروج قانونی اصطلاح کے مطابق جرائم جو مستلزمِ سزا ہیں، انھیں بالعموم دیوانی (Civil)اور فوجداری (Criminal)جرائم میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ دیوانی مقدمات میں عام طور پر مالی تاوان یا قید کی سزا دی جاتی ہے اور فوجداری جرائم میں اس کے علاوہ سنگین مقدمات میں موت تک کی سزا ہوسکتی ہے۔ اسلامی قانون کی اصطلاح میں حدود یا قصاص کے مقدمات فوجداری نوعیت کے ہیں، مگر اُن کے مابین فرق و امتیاز واضح طور پر سمجھ میں نہیں آیا۔
مثلاً یہ کہ اُن میں سے ہرجرم آیا قابلِ دست اندازیِ ریاست ہےیا نہیں؟ اور دعویٰ دائر ہوجانے کے بعد آیا ہر فوجداری مقدمہ قابلِ راضی نامہ ہے یا نہیں؟ بعض اوقات یہ کہا جاتا ہے کہ ہرایسا مقدمہ قابلِ راضی نامہ مابین فریقین ہے۔ قتل کے مقدمات، قاتل و مقتول یا مقتول کے وارثوں میں قابلِ راضی نامہ ہیں، لیکن اِن میں حقِ دعویٰ اور قصاص لینے کا حق کس کو حاصل ہے؟ اگر اس میں مدعی و مدعا علیہ باہم مصالحت اور سمجھوتا کرلیں تو کیا ریاست یا حکومت ثبوتِ جرم کے باوجود کوئی کارروائی نہیں کرسکتی؟ اگرایسا ہو تو بعض قتل رائیگاں جائیں گے اور جن مجرمین کے پاس طاقت یا دولت ہے وہ مظلومین کا منہ بند کردیں گے، نیز جو وارث مقتول کے قصاص کا مطالبہ کرسکتے ہیں اُن کی کوئی متعین فہرست ہے یا ہرقسم کا رشتہ دار یا خاندان کا فرد اس کا حق رکھتا ہے؟
اسلام کے نظامِ قانون کی رُو سے بعض فوجداری جرائم ایسے ہیں، جن میں ملزم کے خلاف حکومت یا ہر شہری مدعی یا فریقِ مقدمہ بن سکتا ہے، مثلاً سرقہ، ڈاکا، رہزنی، زنا۔ ان جرائم کو جرائمِ حدود کا نام دیا گیا ہے۔ یہ ناقابلِ راضی نامہ ہیں۔ اس کے برعکس بعض جرائم ایسے ہیں، جن میں مستغیث یا فریق یا تو وہ شخص بن سکتا ہے، جو خود مظلوم اور ملزم کی تعدّی کا شکار ہوا ہو اور اگر مظلوم زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھا ہو تو صرف مظلوم کے اولیا اور ورثا ہی مدعی یا فریقِ مقدمہ بن سکتے ہیں، البتہ کوئی وارث موجود نہ ہو تو پھر مظلوم کا ولی حاکم و قاضی ہوگا۔ اُن کے ماسوا کوئی دوسرا شخص فریقِ مقدمہ نہیں بن سکتا۔ اِن جرائم کو جرائمِ قصاص کہا جاتا ہے۔ جرمِ قتل کا شمار بھی جرائمِ قصاص میں ہوتا ہے، مگر اسے جرائمِ حدود میں شامل نہیں کیا گیا۔ قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے:
وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِيْ حَرَّمَ اللہُ اِلَّا بِالْحَقِّ۰ۭ وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوْمًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِيِّہٖ سُلْطٰنًا (بنی اسرائیل۱۷:۳۳)قتلِ نفس کا ارتکاب نہ کرو جسے اللہ نے حرام کیا ہے، مگر حق کے ساتھ۔ اور جو شخص مظلومانہ قتل کیا گیا ہو اُس کے ولی کو ہم نے قصاص کے مطالبے کا حق عطا کیا ہے۔
قرآنِ مجید میں یہاں ’ولی‘ کے حق کے لیے ’سلطان‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے، جس سے مراد حجت ہے جس کی بنا پر وہ قصاص کا مطالبہ کرسکتا ہے۔ اس ارشادِ ربانی سے اسلامی قانون کا یہ اصول نکلتا ہے کہ قتل کے مقدمے میں اصل مدعی حکومت نہیں، بلکہ اولیاے مقتول ہیں اور اولیاے مقتول سے مراد مقتول کے وہ وارث ہیں جنھیں شرعی قانونِ وراثت کی رُو سے مقتول کے ترکے میں سے حصہ مل سکتا ہے۔
امام کاشانی اپنی کتاب البدائع والصنائع میں بیان من یستحق القصاص (اس کا بیان کہ قصاص کا مستحق کون ہے)کے زیرعنوان فرماتے ہیں:
الْمَقْتُولُ لَا یَخْلُو إمَّا أَنْ یَکُوْنَ حُرًّا، وَإِمَّا أَنْ یَکُوْنَ عَبْدًا، فَإِنْ کَانَ حُرًّا لَا یَخْلُوْ إمَّا أَنْ یَکُوْنَ لَہُ وَارِثٌ، وَإِمَّا أَنْ لَمْ یَکُنْ، فَإِنْ کَانَ لَہُ وَارِثٌ فَالْمُسْتَحِقُّ لِلْقِصَاصِ ہُوَ الْوَارِثُ کَالْمُسْتَحِقِّ لِلْمَالِ..... وَالْوَرَثَۃُ خُلَفَاؤُہُ فِي اسْتِیفَائِ الْحَقِّ یَقَعُ الْإِثْبَاتُ لِلْمَیِّتِ، وَکُلُّ وَاحِدٍ مِنْ آحَادِ الْوَرَثَۃِ خَصْمٌ عَنْ الْمَیّتِ فِي حُقُوقہِ کَمَا فِي الدِّیَۃِ وَالدَّیْنِ (بدائع الصنائع، جلد۷، ص ۲۴۲) مقتول آزاد ہوگا یا غلام، اگر وہ آزاد ہو تو اُس کا معاملہ دو حالتوں سے خالی نہیں ہوگا، یا تو اُس کا کوئی وارث ہوگا یا نہیں ہوگا۔ اگر اس کا کوئی وارث ہو تو قصاص کا مستحق وہی وارث ہے جس طرح کہ وہ مال کا مستحق ہوتا ہے۔ وارث ہی مقتول کے جانشین اور نائب ہوتے ہیں اور وارثوں میں سے ہر ایک مقتول کی طرف سے خصم، یعنی دیت اور قرض وغیرہ کے معاملات میں مدعی ہوتا ہے۔
یہ اصول دیگر کتب ِ فقہ میں بھی مذکور ہے، مثلاً ہدایہ کے ابواب القتل میں مصنف لکھتے ہیں:
اَلْقِصَاصُ طَرِیْقَہٗ طَرِیْقُ الْوِارَثَۃِ کَالدَّیْنِ وَھٰذَا لِاَنَّہٗ عِوَضٌ عَنْ نَفْسِہٖ فَیَکُوْنُ الْمِلْکُ فِیْہِ لِمَنْ لَہٗ الْمِلْکُ الْمُعَوَّضِ کَمَا فِی الدِّیَۃِ، قصاص کے حصول کا طریقہ وراثت کے حصول کے مطابق ہے جس طرح وارث اپنے مورث کا ورثہ اور قرض وصول کرتا ہے۔ یہ اس لیے ہے کہ قصا ص جان کا بدلہ ہے، تو قصاص میں بھی حق اور ملکیت اسی کو حاصل ہوگی جس کو دوسرے مالی حقوق دیت وغیرہ میں حاصل ہوتے ہیں۔
ہدایہ کی شرح عنایہ اور دوسری شرح فتح القدیر میں مذکورہ بالا اصول درج کرنے کے بعد مزید وضاحت اور توجیہہ ان الفاظ میں درج ہے:
اَلْاَصْلُ اَنَّ اِسْتِیْفَاءَ الْقِصَاصِ حَقُ الْوَارِثِ عِنْدَہٗ ، امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک ’’اس کی اصل اور بنیاد یہ ہے کہ قصاص کی تحصیل و تکمیل وارث کا حق ہے‘‘۔
امام ابوحنیفہؒ کے دو رفقا اور شاگردقاضی ابویوسفؒ اور امام محمدؒ کا استدلال فتح القدیر شرح ہدایہ میں یوں بیان کیا گیا ہے:
وَاَمَّا عِنْدَھُمَا الْقِصَاصُ حَقٌّ ثَابِتٌ لِلْمُوَرِّثِ اِبْتِدَاءً مِنْ کُلِّ الْوُجُوْہِ ثُمَّ یَنْتَقِلُ بَعْدَ مَوْتِہٖ اِلَی الْوَارِثِ بِطَرِیْقِ الْوِرَاثَۃِ کَسَائِرِ اَمْلَاکِہٖ ، امام ابویوسفؒ اور امام محمدؒ کے نزدیک ’’حقِ قصاص ابتدا میں تو مورث کے لیے ثابت ہوتا ہے (اگر وہ زندہ رہے تو خود لے گا ورنہ) اُس کی موت کے بعد بہمہ وجوہ یہ حق وارث کی طرف بطریقِ وراثت منتقل ہوتا ہے جس طرح اُس کی جملہ املاک وارثوں کی جانب منتقل ہوتی ہیں۔
شریعت ِ اسلامی کا ایک اصول یہ بھی ہے کہ جو افراد ذمہ دارانہ حیثیت کے حامل ہوتے ہیں، اُن کی خطا پر بعض اوقات اُن سے زیادہ سخت طریق پر بازپُرس ہوتی ہے اور عام افراد کے مقابلے میں اُنھیں رعایت دینے اور نرمی اختیار کرنے کے بجائے شدت برتی جاتی ہے۔ سورئہ احزاب، آیت ۳۰ میں اَزواجِ مطہراتؓ سے فرمایاگیا:
يٰنِسَاۗءَ النَّبِيِّ مَنْ يَّاْتِ مِنْكُنَّ بِفَاحِشَۃٍ مُّبَيِّنَۃٍ يُّضٰعَفْ لَہَا الْعَذَابُ ضِعْفَيْنِ ط (الاحزاب ۳۳:۳۰) اے نبیؐ کی بیویو! تم میں سے اگر کوئی صریح فحش حرکت کا ارتکاب کرے گی، تو اُسے دُہرا عذاب دیا جائے گا۔
اس کا یہ مطلب نہیں کہ نعوذ باللہ اَزواجِ مطہراتؓ سے ایسی بات کا اندیشہ تھا، بلکہ اس سے مقصود اُنھیں یہ احساس دلانا تھا کہ اسلامی معاشرے میں اُن کا مقام جس قدر بلند ہے اس کے لحاظ سے اُن کی ذمہ داریاں بھی بہت سخت ہیں۔ البحرالرائق جو حنفی فقہ کی معتبر کتاب ہے، اس کے حوالے سے مولانا عبدالشکور لکھنوی اپنی کتاب علم الفقہ، جلدسوم میں روزے کی قضا اور کفّارے کے زیرعنوان لکھتے ہیں:
اگر کسی بادشاہ پر کفّارہ واجب ہو تو اُسے غلام کو آزادکرنے یا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانے کا حکم نہ دینا چاہیے کیونکہ یہ چیزیں اُس کے نزدیک کچھ دشوار نہیں۔ ان سے کچھ بھی تنبیہہ اُس کو نہ ہوگی، بلکہ اُسے ساٹھ روزے رکھنے کا حکم ہونا چاہیے کہ اس پر گراں گزرے اور آیندہ رمضان کے روزے کو اس طرح فاسد نہ کرے۔
سزا دینے کے سلسلے میں حکومت کو بھی بعض استثنائی حالات میں تعزیری حق کی گنجایش ہے۔ اس سلسلے میں عبدالرحمٰن الجزری اپنی کتاب الفقہ علی المذاہب الاربعہ (ج۵،ص ۲۶۵) میں لکھتے ہیں:
اِذَا عَفَا اَوْلِیَاءُ الدَّمِ عَنِ الْقَاتِلِ …… وَلٰکِنْ رَاَی الْحَاکِمُ اَنَّ اِطْلَاقَہٗ یُھَدِّدُ الْأَمْنَ الْعَامَ فَلَہٗ اَنْ یُعَزِّرَہٗ بِمَاشَاءَ…… الخ (یعنی اگر مقتول کے اولیا قاتل کو معاف کر دیں اور حاکم یہ دیکھیے کہ اِس معافی سے امن عامہ کو خطرہ لاحق ہوجائے گا، تو حاکم اُس قاتل کو معافی کے بعد بھی جو سزا چاہے دے سکتا ہے۔
اب مذکورہ بالا اصول پر اسلامی عدالتی نظام سے ایک نظیر بھی (مرات سکندری، ۴۵-۴۶، بحوالہ ہندستان کے عہد رفتہ کی سچی کہانیاں، مطبوعہ اعظم گڑھ، ص ۱۵۵) ملاحظہ فرمایئے:
’’گجرات کے حکمران احمد شاہ اوّل (م:۱۴۳۲ء) کے داماد نے جوانی اور شاہی رشتے کے غرور وتکبر میں ایک شخص کو بے قصور قتل کر دیا۔ سلطان احمد شاہ اوّل کو معلوم ہوا تو اُس نے اپنے داماد کو باندھ کر قاضی کے پاس بھیج دیا۔ قاضی نے مقتول کے وارثوں کو دو سو اُونٹوں کے قصاص پر راضی کر کے سلطان کے سامنے پیش کیا۔ سلطان نے اُن کو دیکھ کر کہا کہ اگرچہ مقتول کے وارث راضی ہیں، لیکن مجھ کو خود یہ قبول نہیں کہ اس طرح دولت مند لوگ خونِ ناحق کرنے میں دلیر ہوجائیں گے، چنانچہ سلطان کا داماد قتل کیا گیا۔ سلطان کے حکم سے اُس کی لاش ایک روز تک دار پر لٹکتی رہی تاکہ لوگ عبرت حاصل کریں‘‘۔ (جسٹس ملک غلام علی)
کیا قرآن و حدیث اور سلف سے اس کی کوئی نظیر پیش کی جاسکتی ہے کہ مزدور کو اس کی اُجرت کے علاوہ پیداوار کے منافع میں بھی شریک کیا گیا ہو؟
یہ مسئلہ دراصل مباحات میں سے ہے۔ شریعت کا اصول یہ ہے کہ انسان کو جس چیز سے منع نہیں کیا گیا ہے اسے وہ اسلام کے حدود اربعہ کا لحاظ رکھتے ہوئے کرسکتا ہے۔ قرآن و حدیث میں ہمیں معاشیات کے بارے میں چند بنیادی اصول دیے گئے ہیں۔ ان اصولوں کی روشنی میں ہم اپنی ضروریات کے مطابق تفصیلات طے کرسکتے ہیں۔
جہاں تک سلف سے نظیر لانے کا تعلق ہے تو اس کے متعلق یہ جان لیجیے کہ اس زمانے میں سرمایہ اور محنت کے وہ مسائل ہی پیدا نہیں ہوئے تھے، جن سے ہمیں یورپ کے صنعتی انقلاب کے بعد سابقہ پیش آیا ہے۔ جدید معاشی نظام نے انسانیت پر جو ظلم ڈھائے ہیں ان کا قرنِ اوّل میں کوئی نشان نہیں ملتا۔ اس زمانے میں چھوٹی چھوٹی گھریلو صنعتیں تھیں، جن میں دس دس، بارہ بارہ افراد کام کرتے تھے اور ایک کنبے کی طرح وہ اپنے معاملات طے کر لیا کرتے تھے۔ یورپ میں صنعتی انقلاب آیا تو اس نے بڑی تیزی سے پوری دنیا میں اپنے پنکھ پھیلا دیے اور گھریلو صنعتیں (Cottage Industries) دم توڑنے لگیں۔ بڑے بڑے کارخانے لگ گئے اور ہزاروں آدمی بیک وقت ایک کارخانے میں کام کرنے لگے۔ نتیجہ اس کا یہ نکلا کہ وہ محنت کش ایک بہت بڑے کارخانہ دار کے دست ِ نگر ہوگئے۔کارخانہ دار انھیں من مانی شرائط پر ملازم رکھنے لگا، اور وہ مجبور تھے کہ کارخانہ دار کی شرائط پر کام کریں، کیوں کہ کام نہ کرنے کی صورت میں ان کا جینا محال تھا۔ ان کے پاس اتنی رقم بھی نہ تھی کہ ایک دن ہی فاقے سے بچ سکیں۔ دوسری طرف کارخانہ دار اتنی دولت کا مالک تھا کہ وہ دو سال بھی کارخانہ نہ چلائے تو اللے تللے سے رہ سکتا تھا۔ مزدورکی اس مجبوری سے سرمایہ دار نے خوب فائدہ اُٹھایا۔ بالآخر مزدوروں کے اندر اس ظلم کے خلاف لہر اُٹھی اور انھوں نے متحد ہوکر آواز بلند کی تو سرمایہ دار کو اس متحدہ قوت کے سامنے جھکنا اور مزدوروں کے انسانی حقوق تسلیم کرنا پڑے۔ ایک مدت کی جدوجہد کے بعد یورپ میں مزدور اور کارخانہ دار کے تعلقات خوش گوار مرحلے میں داخل ہوئے ہیں۔
اب سوال کے اصل نکتے کی طرف آتا ہوں، یعنی کیا مزدور کا اُجرت کے علاوہ نفع میں بھی حصہ ہے؟ اس کا سیدھا سادا جواب یہ ہے کہ مزدور کو جو اُجرت ملتی ہے وہ دراصل نفع ہی کا ایک حصہ ہوتی ہے۔ اب ضروری نہیں کہ وہ نفع میں اس کی نسبت کے عین مطابق ہو۔ چونکہ مزدور کو اپنی گزراوقات کے لیے ایک ماہانہ رقم کی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے وہ رقم اسے تنخواہ کی صورت میں مل جاتی ہے، لیکن زائد منافع اس کا محفوظ رہتا ہے جو سال چھے مہینے میں پورا حساب لگانے کے بعد اسے بونس کی شکل میں ملنا چاہیے۔(سیّدابوالاعلٰی مودودی)
جب مزدور منافع میں شریک ہونے کا دعوے دار ہے تو کیا یہ ضروری نہیں کہ اسے نقصان میں بھی برابر کا شریک ٹھیرایا جائے؟
شرکت‘ اور ’مضاربت‘ دو مختلف اصطلاحیں ہیں۔ ’شرکت‘ اسے کہتے ہیں کہ ایک آدمی کسی کاروبار میں اپنے سرمایے کے ساتھ شریک ہو۔ ایسی صورت میں کاروبار میں ہونے والے نفع اور نقصان میں دونوں حصہ دار قرار پاتے ہیں۔ اور ’مضاربت‘ اسے کہتے ہیں کہ ایک آدمی کسی کاروبار میں محض اپنی محنت کے ساتھ شریک ہوتا ہے اور محنت کے صلے میں وہ اس کاروبار سے نفع حاصل کرتا ہے، مگر وہ اس کاروبار میں ہونے والے کسی نقصان کا ذمہ دار نہیں ہوتا۔ ایک مزدور اور کارخانہ دار کے درمیان یہی ’مضاربت‘ کا تعلق ہے، جس میں نقصان کی زد اس پر نہیں پڑتی۔ (سیّدابوالاعلٰی مودودی)
میں کئی برس سے ایک کاروبار کررہا ہوں ۔ میں نے اپنے ایک دوست کو پیش کش کی کہ وہ بھی اس میں شریک ہوجائے۔ وہ اس پر رضا مند ہوگیا۔ اب کاروبار میں میرا سرمایہ ۷۰ فی صد اور میرے دوست کا ۳۰ فی صد ہے ۔ ہم اس پر متفق ہوگئے کہ نفع میں دونوں برابر کے شریک ہوںگے ، یعنی نفع میں ہر ایک کا حصہ ۵۰ فی صد ہوگا۔
دریافت طلب امر یہ ہے کہ اگر کاروبار میں خسارہ ہوتو کیا اس میں بھی ہم دونوں برابر کے شریک ہوں گے، یعنی ہر ایک کو۵۰ فی صد خسارہ برداشت کرنا ہوگا، یا جس کا سرمایہ جس تناسب سے لگا ہوا ہے اس کے اعتبار سے اسے خسارہ برداشت کرنا ہوگا؟
مشترکہ تجارت ’شرکت‘ اور ’مضاربت‘ دونوں طریقوں سے کی جاسکتی ہے۔ ’شرکت‘ یہ ہے کہ دو یاد و سے زائد افراد متعین سرمایوں کے ساتھ کسی کاروبار میں شریک ہوں اور ان کے درمیان یہ معاہدہ طے پائے کہ وہ مل کر کاروبار کریںگے اور نفع ونقصان میں ان کی شرکت متعین تناسب کے ساتھ ہوگی۔ ’مضاربت‘ یہ ہے کہ ایک فریق سرمایہ فراہم کرے اور دوسرا اس سے کاروبار کرے اوران کے درمیان یہ معاہدہ ہوکہ نفع میں ایک متعین تناسب سے اسے حصہ ملے گا۔
’شرکت‘ اور ’مضاربت‘ دونوں صورتوں میں نفع دونوں فریق کے درمیان باہم طے کردہ تناسب سے تقسیم ہوگا۔ کسی فریق کے لیےکوئی متعین رقم طے کرنا جائز نہیں ہے۔ یہ سوال کہ کیا شرکاے کاروبار باہم رضا مندی سے نفع کی تقسیم جس تناسب کے ساتھ چاہیں ، کرسکتے ہیں ؟ ’مضاربت‘ کی صورت میں اس کا جواب تمام فقہا اثبات میں دیتے ہیں ، البتہ ’شرکت‘ کی صورت میں ان کے درمیان اختلاف ہے ۔ احناف اورحنابلہ اس صورت میں بھی شرکاے کاروبار کواجازت دیتے ہیں کہ وہ اپنے درمیان نفع کی تقسیم کا جوتناسب چاہیں ، طے کرسکتے ہیں، لیکن مالکیہ اور شوافع کہتے ہیں کہ نفع کی تقسیم شرکا کے فراہم کردہ سرمایوں کے تناسب سے عمل میں آئےگی۔
جہاںتک نقصان کا معاملہ ہے ، شرکت کی صورت میں وہ ہمیشہ کاروبار میں لگے ہوئے سرمایوں پر ان کی مقداروں کے تناسب سے تقسیم کیا جائے گااوراسے ان سرمایوں کے مالک برداشت کریں گے۔ مضاربت کی صورت میں مُضـارِب (کاروبارکرنے والے) پر نقصان کا کچھ بار نہیں ڈالا جائے گا ، اسے کلّی طورپر صرف سرمایہ دار کوبرداشت کرنا ہوگا۔
نفع اورنقصان میں اس فرق کی وجہ یہ ہے کہ شریعت کے نزدیک نفع سرمایہ لگاکر کاروباری جدو جہد کرنے کا نتیجہ ہے، جب کہ نقصان کسی جدوجہد کا نتیجہ نہیں، بلکہ اس بات کی علامت ہے کہ کاروباری جدو جہد کے باوجود سرمایے میں اضافہ نہیں ہوسکا۔ اسلامی معاشیات کے ممتاز ماہر پروفیسر محمد نجات اللہ صدیقی نے کاروبار میں نفع اورنقصان کے فرق کی وضاحت ان الفاظ میں کی ہے:
نفع اورنقصان کی نوعیت میں اصولی فرق کا شریعت نے لحاظ رکھا ہے ۔ یہ بات مضاربت کے شرعی اصول سے واضح ہے۔اگر کاروبارِمضاربت میں نقصان ہو تو کاروباری فریق کو اس نقصان کا کوئی حصہ نہیں برداشت کرنا ہوگا ۔ اس نے سرمایے کے ذریعے کاروبارمیں جدوجہد کی، تاکہ سرمایے میں اضافہ ہو اوراس نفع میں سے اسے بھی حصہ ملے، لیکن باوجود کوشش کے اضافہ نہ ہوسکا۔ اس کی کاروباری جہدوجہد ناکام رہی، اسے کوئی نفع نہیں ملے گا۔ یہی اس کا نقصان ہے ۔ اس سے آگے بڑھ کر اس پر سرمایے میں واقع ہونے والی کمی، یعنی کاروبار میں خسارے کا بار نہیں ڈالا گیا ہے ۔ اس سے ظاہر ہے کہ شریعت نقصان کو کاروباری جدوجہد کا نتیجہ یا ثمرہ یا حاصل نہیں قرار دیتی۔ وہ نقصان کوسرمایے میں نقصا ن قرار دیتی ہے ۔ اس کے برعکس اگرمضاربت پر سرمایہ حاصل کرکے کاروباری جدوجہد کرنے والے کی کوششیں کا م یاب ہوئیں اور کاروبار میں نفع ہوا تو اسے اس نفع میں سے ایک حصہ ملتا ہے۔معلوم ہوا کہ شریعت نفع کو سرمایے کے ساتھ کاروبار ی جدوجہد کا نتیجہ اورثمرہ قرار دیتی ہے ۔ شریعت نے نفع اور نقصان کوایک درجہ نہیں دیا ہے، نہ ان کی تقسیم کا اصول ایک رکھا ہے۔(شرکت ومضاربت کے شرعی اصول، مرکزی مکتبہ اسلامی، دہلی ،۱۹۸۴، ص ۳۳-۳۴)
خلاصہ یہ کہ مشترکہ تجارت کے دو فریق الگ الگ تناسب میں اپنا سرمایہ لگانے کے باوجود نفع میں برابر کے شریک ہوسکتے ہیں، لیکن نقصان کی صورت میں انھیں اپنے لگائے ہوئے سرمایے کے تناسب کے مطابق ہی نقصان برداشت کرنا ہوگا۔(مولانا رضی الاسلام ندوی)
آج کل عورتوں میں چست لباس بطور پہناوا بہت عام ہوگیا ہے ، خاص طور پر جسم کے نچلے حصے میں پہنا جانے والا لباس ۔ چنانچہ ٹانگوں کا حجم بالکل نمایاںرہتا ہے۔ بسااوقات دینی حلقوں کی خواتین بھی ایسا لباس زیب تن کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتیں۔ کیا’عموم بلویٰ‘ کی وجہ سے ایسا لباس اب جواز کے دائرے میں آگیا ہے ؟ براہِ کرم وضاحت فرمائیں۔
جواب: ضروری ہے کہ لباس سے ستر پوشی ہو۔ شریعت میں عورت کے لیے چہرہ اور ہاتھ (کلائی تک) کے علاوہ پورا بدن ستر قراردیا گیا ہے اوراسے چھپانے کا حکم دیا گیا ہے۔ اُم المومنین حضرت عائشہؓ کی بہن حضرت اسماءؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میںحاضر ہوئیں۔ اس وقت ان کے بدن پر باریک کپڑے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف سے اپنا رُخ پھیر لیا اور انھیں مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
یَااَسْمَائُ ! اِنَّ الْمَرْاَۃَ اِذَا بَلَغَتِ الْمَحِیْضَ لَمْ تَصْلُحْ اَنْ یُّرٰی مِنْہَا اِلاَّہٰذَا وَہٰذَا (سنن ابی داؤد، کتاب اللباس، باب فیما تبدی المرأَۃ من زینتہا، حدیث:۴۱۰۴)، اے اسماء! عورت جب سنِّ بلوغ کو پہنچ جائے تو مناسب نہیں کہ اس کے جسم کا کوئی حصہ دکھائی دے، سواے اس کے اوراس کے (یہ فرماتے ہوئے آپؐ نے چہرے اور دونوں ہتھیلیوں کی جانب اشارہ کیا )۔
حدیث بالا سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ عورت کے لباس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اتنا باریک نہ ہو کہ اس کا بدن جھلکے۔ اس لیے کہ اس صورت میں ستر پوشی نہیںہوسکتی ، بلکہ اس سے عورت کے محاسن میںاضافہ ہوگا۔ حدیث میں اس کے لیے بہت بلیغ تعبیراختیار کی گئی ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : نِسَاءٌ کَاسِیَاتٌ عَارِیَاتٌ ...... لاَ یَدْخُلْنَ الْجَنَّۃَ وَلاَ یَجِدْنَ رِیْحَہَا ( مسلم ، کتاب اللباس ، باب النساء الکاسیات العاریات ،حدیث ۲۱۲۸) ’’ایسی عورتیں جوکپڑے پہن کر بھی عریاں معلوم ہوں و ہ جنت میں نہیں جائیںگی ، بلکہ و ہ جنت سے اتنی دوری پر ہوںگی کہ جنت کی خوش بوبھی ان تک نہیں پہنچ سکے گی‘‘۔
عورت کے لباس کے لیے یہ بھی ضـروری ہے کہ وہ اتنا چست نہ ہو کہ اس کے جسمانی نشیب وفرا ز نمایاں ہوجائیں اوراعضا کا حجم دکھائی دینے لگے۔ حضرت اسامہ بن زیدؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت دحیہ کلبی ؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک قطبی کپڑا تحفے میں بھیجا ۔ اسے آپؐ نے مجھے عنایت فرمایا ۔ میںنے اسے اپنی بیوی کودے دیا ۔ کچھ دنوں کے بعد آپؐ نے مجھ سے دریافت فرمایا : ’’تم نے اس قطبی کپڑے کو کیوں نہیں پہنا؟ ‘‘ میںنے عرض کیا : ’’ اے اللہ کے رسولؐ ! میں نے اسے اپنی بیوی کو دے دیا ہے ۔ ‘‘ آپ ؐ نے فرمایا :مُرْہَا فَلْتَجْعَلْ تَحْتَہَا غِلاَلَۃً، اِنِّی اَخَافُ اَنْ تَصِفَ حَجْمَ عِظَامِہَا (احمد : ۲۱۷۸۶) ’’اس سے کہو کہ اس کے نیچے استر لگالے ۔ مجھے اندیشہ ہے کہ اس کے بغیر ہڈیوں کا حجم ظاہر ہوگا‘‘۔
اس تفصیل سے واضح ہوتا ہے کہ مسلمان خاتون کے لیے چست لباس پہنا درست نہیں ہے ۔ اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔ (مولانا رضی الاسلام ندوی)
فاضل مصنف زرعی یونی ورسٹی فیصل آباد میں پروفیسر رہے ہیں اور ان کا شمار زرعی ماہرین میں ہوتا ہے۔ باعث ِ تعجب ہے کہ انھوں نے ایک ایسے علمی اور فکری موضوع پر قلم اُٹھایا ہے جس کا زراعت کے کسی بھی شعبے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ قرآن، حدیث اور دیگر علومِ اسلامیہ کے حوالے سے انھوں نے جس عمدگی سے مباحث سمیٹے ہیں، اس کا سبب خود ان کے خیال میں سیّدابوالاعلیٰ مودودی کا فیضانِ نظر ہے۔ ان کے بقول :’’آپ کی تحریروں سے متاثر ہوکر ایک فرد کے اندر وہ نظرپیدا ہوجاتی ہے جس سے وہ صحیح اور غلط میں تمیز کرسکتا ہے‘‘۔
ڈاکٹر آفتاب صاحب کو اپنے زمانۂ ملازمت ہی سے شدید احساس تھا کہ وطن عزیز کے بعض ادارے اور نام نہاد دانش ور پاکستان کی نظریاتی بنیادوں اور دینی تشخص کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کر رہے ہیں اور اس سلسلے میں خاندانی نظام، حقوقِ نسواں، مساواتِ مرد وزن وغیرہ کے حوالے سے بعض احادیث کی آڑ میں دین بیزاری اور اباحیت کے جراثیم پھیلائے جارہے ہیں۔ وہ متعلقہ موضوعات خصوصاً حدیث کا مطالعہ کرتے رہے۔ ملازمت سے وظیفہ یاب ہونے کے بعدلمبی تعطیلات میں سعودی عرب میں قیام کا موقع ملا ۔ انھوں نے اپنے مطالعے کو مکمل کیا پھر قلم اُٹھا کر زیرنظر کتاب تالیف کی۔ اس کے ابواب کے موضوعات (علمِ حدیث اور اس کا ارتقا؛ جنسیت، انسانی زندگی میں اس کی ضرورت و اہمیت؛ اسلام میں عورت کا مقام اور خاندانی نظام؛ مساواتِ مرد و زن کے حامی اور منکرینِ حدیث کے شکوک و شبہات ، ایک تنقیدی جائزہ؛ قرآن اور احادیث پر مستشرقین کے اعتراضات کا جائزہ؛ احادیث میں جنسی موضوعات پر ایک مجموعی نظر) سے کتاب کے مباحث کا بہ خوبی اندازہ ہوتا ہے۔ درحقیقت مصنف نے بڑے دردمندانہ انداز میں صحیح اسلامی نقطۂ نظر کی ترجمانی کی۔ احادیث نبویؐ پر اعتراضات کا بھی بڑی عمدگی سے ردّ کیا ہے۔
کتاب کے آخر میں چار ضمیمے شامل ہیں۔ حدیث کے بارے جسٹس محمد شفیع کے اِشکالات پر مولانا مودودی کے تبصرے سے ڈاکٹر آفتاب صاحب کی توضیحات مزید مضبوط ہوتی ہیں۔ پھر ڈاکٹر محمد رضی الاسلام کے مضمون: ’فرد کی قوامیت، مفہوم اور ذمہ داری‘ اور پروفیسر ڈاکٹر عبدالحی ابڑو کے مضمون ’عورتوں کی باجماعت نماز‘ کی حیثیت تائید ِ مزید کی ہے۔ناشر نے کتاب اچھے معیار پر شائع کی ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
سائنسی ترقی نے دُور دراز ملکوں اور براعظموں کی طنابیں کھینچ دی ہیں۔ ’پردیس‘ کا تصور ختم ہونے کو ہے۔ ایک طرف انسان سمندروں سے پاتال کی خبریں لارہا ہے اور دوسری طرف وہ ستاروں کی گزرگاہوں کا ہم رکاب ہے، مگر اِس غیرمعمولی ترقی کے باوجود وہ بقولِ اقبال: ’زندگی کی شب ِ تاریک سحر کر نہ سکا‘ کی کیفیت سے دوچار ہے۔ سائنس نے انسان کے لیے آسایش مہیا اور آسانیاں فراہم کی ہیں۔ اِس اعتبار سے وہ انسانیت کے لیے باعث ِ رحمت ہے مگر بعض حریص انسانوں اور قوتوں نے سائنس کو نیوکلیائی ہتھیاروں اور طرح طرح کی زہریلی گیسوں، اور زہریلے جرثوموں والے بموں کے ذریعے دو عظیم جنگوں میں لاکھوں انسانوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا۔ اب بھی یہ سلسلہ افغانستان، شام، عراق اور صومالیہ میں جاری ہے۔
زیرنظر کتاب اسی اجمال کی تفصیل پیش کرتی ہے۔ آٹھ ابواب (سائنس اور ٹکنالوجی ایک تعارف۔ سائنس رحمت بھی زحمت بھی۔ بنی نوعِ انسان کی ہلاکت۔ سیاسی و اقتصادی استحصال۔ انسانوں پر سائنسی تحقیق اور مالی مفادات۔ ماحول کی تباہی۔ سائنس کا ذمہ دارانہ استعمال) کے عنوانات سے موضوع کے ابعاد کا اندازہ ہوتا ہے۔ مصنف نے ایک بہت پھیلے ہوئے موضوع کے سمندر کو ایک کتاب کے کوزے میں بند کر دیا ہے۔
دراصل، سائنس اور ٹکنالوجی توایک ذریعہ ہے۔ آپ چاہیں تو اس کے ذریعے انسان کو بیماریوں سے نجات دلا کر اُسے صحت مند بنا سکتے ہیں۔ چاہیں تو اُسے اعلیٰ تعلیم دلا کر نئی سے نئی ایجادات کے ذریعے سے زندگی کو باسہولت بنا سکتے ہیں، مگر جیساکہ فیضان اللہ خان نے بتایا ہے کہ بڑی طاقتوں نے سائنس اور ٹکنالوجی کو اپنے مخالفین اور چھوٹی قوموں کے استحصال کا ذریعہ بنایا، سائنسی تجربات کے لیے زندہ انسانوں کی چیرپھاڑ کی اور کینسر اور دیگر مہلک بیماریوں کو پھیلایا۔
مصنف نے مستند حوالوں کے ذریعے برطانیہ، امریکا، جاپان،عراق، شام اور جرمنی سے تعلق رکھنے والے اداروں اور مجرمین کی نشان دہی کی ہے۔ بڑی طاقتوں کی منافقت کا یہ عالم ہے کہ انھوں نے اپنے جرائم پر پردہ پوشی کے لیے کیمیائی و حیاتیاتی ہتھیاروں پر پابندی کی بظاہر تو حمایت کی اور معاہدے بھی کیے کہ ہم ان ہتھیاروں کے استعمال سے اجتناب کریں گے مگر جرائم کا ارتکاب بھی جاری رکھا۔ مصنف کہتے ہیں: ’’ٹکنالوجی نے لوگوں کے درمیان فاصلے تو ختم کر دیے، لیکن دلوں کے فاصلوں میں اضافہ ہوگیا۔ کیونکہ انسان سائنسی ترقی کو اپنے اقتدار اور غلبے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ آسمانی ہدایت ہی دینِ اسلام کی جامع ترین شکل میں دنیاوی تعصبات و ترجیحات سے ماورا ہوکر رہنمائی کرتی ہے اور اِس راستے پر چل کر انسان سائنس کو نسلِ انسانی کے لیے کامل راستہ سلامتی کا ذریعہ بنا کر رکھ سکتا ہے‘‘۔
اس وقت، جب کہ ماحولیاتی آلودگی ، گلوبل وارمنگ اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کی زیادتی پوری دنیا کے لیے مسئلہ بنے ہوئے ہیں، سائنس بورڈ نے ایک راہ نماکتاب تیار اور شائع کرکے ایک مفید خدمت انجام دی ہے۔(رفیع الدین ہاشمی)
اُردو کے علمی حلقے مریم جمیلہ کے نام سے بہ خوبی واقف ہیں۔ ان کی درجنوں انگریزی کتابوں میں سے چند ایک کے اُردو تراجم بھی شائع ہوچکے ہیں۔ مغربی تہذیب کے بارے میں ان کے خیالات اس لیے اہمیت رکھتے ہیں کہ وہ نیویارک کے ایک یہودی گھرانے میں پیدا ہوئیں اور ان کی تعلیم امریکی اور ایک یہودی اسکول اور بعدازاں یہودی اساتذہ کی شاگردی اور نگرانی میں ہوئی لیکن اللہ نے انھیں ہدایت دی۔ اسلام قبول کرلینے کے بعد وہ پاکستان آگئیں اور پلٹ کر کبھی امریکا نہیں گئیں۔ یہیں پیوند ِ خاک ہوئیں۔
اُردو میں ترجمہ شدہ ان کے ۱۶مضامین اور مصاحبوں (انٹرویو) پر مشتمل زیرنظر کتاب خاصی دل چسپ ہے، حالاں کہ ایسے علمی مباحث کم ہی ذوق و شوق سے پڑھے جاتے ہیں۔ مغربی تہذیب اور مادہ پرستی، تحریکِ آزادیِ نسواں ، ابوالکلام آزاد، سرسیّد احمد خاں، جدید ترقی و تمدن اور مولانا مودودی وغیرہ۔ دو مضامین (میرا مطالعہ - یہودیت سے اسلام تک) کی حیثیت خودنوشت کی ہے۔ اسی طرح آخری مصاحبہ ’مریم جمیلہ کی کہانی خود ان کی زبانی ‘ایک طرح کی خودنوشت کی حیثیت رکھتا ہے۔
بعض باتیں چونکا دینے والی ہیں، مثلاً وہ کہتی ہیں:’’موجودہ صورتِ حال میں احیاے اسلام کی کسی تحریک کی کامیابی کا امکان نظر نہیں آتا‘‘۔ان کے خیال میں اس کی متعدد وجوہ ہیں، مثلاً : ’’ہماری جدید تعلیم یافتہ اشرافیہ، سابقہ فرماں روائوں کی ہوبہو نقل ہیں اور یہ لوگ جوش و جذبے کے ساتھ وطن یا معاشرے کو مغربی ممالک کی روایات میں رنگنے میں لگے ہوئے ہیں۔ اگرچہ اس اشرافیہ کے لوگ تعداد میں بہت کم ہیں۔دوسری طرف مسلمانوں کی آبادی کا ایک تہائی، یعنی عوام اگرچہ مضبوط عقیدے کے مسلمان ہیں اور کچھ باعمل بھی ہیں، لیکن ان سب کو آسانی سے ورغلایا جاسکتا ہے۔ زیادہ تر مسلمان اسلام کو حساس معاملہ سمجھنے کے بجاے عادت اور رواج کے طور پر اپناتے ہیں۔ تیسری طرف مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے مصنّفین موجودہ زمانے کے مسائل کا قابلِ عمل اور حقیقی حل پیش کرنے کے بجاے ماضی کی کامیابیوں پر فخر کرنے پر اکتفا کرتے ہیں‘‘۔مریم جمیلہ کے خیال میں ہماری کامیابی کا امکان صرف اس صورت میں ہے کہ مادیت پرستوں سے دنیا کی قیادت چھین لی جائے۔
جملہ مضامین فکرانگیز ہیں، خصوصاً کالجوں کے اساتذہ کے لیے قابلِ مطالعہ___ خالد امین نے قریب قریب نصف مضامین خود ترجمہ کیے یا دوستوں سے کرائے۔ یہ اہتمام لائقِ داد ہے۔کتاب خوب صورت چھپی ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
میں قانون کا طالب علم ہوں۔ گذشتہ روز ایک کلینک پر ترجمان القرآن پڑھنے کو ملا، جس میں ڈاکٹر ریحان اختر قاسمی کا مضمون ’ ڈاکٹر حمید اللہ اور قانون بین الممالک‘ (اکتوبر ۲۰۱۸ء)،تاریخ اور علم وفن کی گہرائی تک لے گیا۔ ہمارے بزرگوں نے اتنی محنتوں کے ساتھ علوم وفنون کے دامن کو مالا مال کیا اور ہم ہیں کہ بدقسمتی سے محض مغرب کی چکا چوند سے متاثر ہو کر ، احساس کم تری کا شکار ہیں۔
’مستحکم پاکستان : مولانا مودودی کا لائحہ عمل‘ (اکتوبر ۲۰۱۸ء ) جاوید اقبال خواجہ نے بڑی رواں تحریر میں قابلِ تحسین مضمون لکھا ہے ، جس میں اہل وطن کے لیے مستقل رہنمائی کا خزانہ موجود ہے
اکتوبر ۲۰۱۸ء کے شمارے میں عارف الحق عارف کا مضمون:’بنگلہ دیش کا ایک تحریکی سفر‘، اعلیٰ درجے کا عملی اور رہنما مضمون ہے۔ یقینا تحریک کے پالیسی ساز اس کے مندرجات کی گہرائی پرغور فرمائیں گے۔ اس مضمون کو پڑھنے کے بعد طلب پیدا ہوئی ہے کہ پروفیسر غلام اعظم مرحوم کی خود نوشت کا اردو میں ترجمہ شائع ہو۔
انصار عباسی کے مضمون ،’ اعلیٰ عدلیہ ، عربی زبان…، (اکتوبر ۲۰۱۸ء ) نے حکمران طبقے اور عدلیہ کے رویے کو بے نقاب کیا ہے۔ مضمون کے جامع تعارفی نوٹ نے نواز شریف اور شہباز شریف کی کم ہمتی بلکہ عربی کی سراسر مخالفت دیکھ کر ان لوگوں کی آنکھیں کھل جانی چاہییں ، جو انھیں دینی شرافت کی علامت سمجھتے ہیں ۔
’قادیانیت کے حوالے سے بحث‘ (اکتوبر ۲۰۱۸ء )میں برطانوی سامراج کی ہندستان آمد، کے حوالے سے ایک انگریزی رپورٹ کا ذکر کیا گیا ہے کہ: ’یہ رپورٹ آج بھی انڈیا آفس لائبریری میں موجود ہے، جس کی روشنی میں مرزا ے قادیان کو ’ظلی نبی ‘ بنایا گیا ہے‘ (ص ۲۹)۔ بلاشبہہ انڈیا آفس لائبریری میں تقریباً تین سو برسوں پر پھیلے برطانوی مسودات اور رپورٹیں موجود ہیں۔ان کے بارے میں معلومات ’ویب سائٹ ‘ پر دیکھی جا سکتی ہیں۔ افسوس کہ پوری کوشش کے باوجود مَیں اس رپورٹ کا کسی شکل میں سراغ نہیں لگا سکا۔ قادیانیت کے خلاف بعض غیر ثقہ باتوں یا حوالوں کو بھی دُہرایا جا تا ہے جو مناسب نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس جھوٹی سامراجی اور گمراہ کن اقلیت کی حماقتوں، غداریوں اور ضلالتوں کے لیے خود ان کا اپنا مطبوعہ ریکارڈ ہی بہت کافی ہے ، جس پر اکتفا کر کے مقدمہ پیش کرنا چاہیے ۔
[اعتذار: مذکورہ مضمون کے آخر میں ’ایک قادیانی کو وزیر بنانے‘ کا ذکر ہے۔ یاد رہے اس جملے سے فاضل مضمون نگار کا کوئی تعلق نہیں۔ یہ بے جا اضافہ (نائب مدیر کی غیرموجودگی میں) ادارے کے ایک کارکن کی طرف سے ہوا ہے، جس پر معذرت خواہ ہیں۔ ادارہ]
’تاریخ کے دریچے ہولناک ہیں اور حوصلہ افزابھی‘ اس بیان کی سچائی کے لیے پروفیسر ابصار عالم کا مقالہ:’ شیخ احمد سرہندی کے خلاف جہانگیری الزامات‘ ( اکتوبر ۲۰۱۸ء ) بڑے قیمتی واقعات ومباحث کو پیش کررہا ہے۔ اس بھولے بسرے باب کی یاد دہانی پر ترجمان القرآن مبارک باد کا مستحق ہے۔
’سیکولر جناح؟‘ از احمد سعید (ستمبر ۲۰۱۸ء ) دل چسپ مضمون ہے۔ افسوس کہ ہمارے ہاں سیکولر طبقے نے اپنی فکری بے اعتدالی کو پروان چڑھانے کے لیے قائد اعظم کے نام کو استعمال کرنے کا وتیرا اختیار کر رکھا ہے۔ یہ مضمون اس ذہنیت کا ایک مؤثر جواب ہے۔
ستمبر ۲۰۱۸ء کا شمارہ مؤثر ، دلچسپ اور فکر انگیز تھا۔ خصوصاً پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد کے ’اشارات‘ بہت گہرا، وسیع اور قابلِ عمل پیغام دیتے ہیں۔ جماعت اسلامی کی تشکیل کی وضاحت پر جناب سید مودودی ؒ کا مضمون سوچنے پراُبھارتا ہے اور احمد سعید کی تحریر ’سیکولر جناح؟ ‘ کئی پہلوئوں سے نئی معلومات پیش کرتی ہے۔
ڈاکٹر انیس احمد کے اشارات ’تحریک اسلامی اور خلافت جمہور‘(ستمبر ۲۰۱۸ء ) میں امتِ مسلمہ کے روشن ادوار کا جو تجزیہ پیش کیا گیا ہے ، وہ تحریک اسلامی کے کارکنوں کے لیے حوصلے اور استقامت کا باعث ہو گا۔ اسی مضمو ن میں دعوت کی نئی راہوں کے تحت بیان کردہ نکات عمل درآمد کا تقاضا کرتے ہیں۔ پھر عبدالغفار عزیز کا مضمون ’خود احتسابی اور ایک تجویز، بھی دعوت فکر دیتا ہے۔
ماہ نامہ چراغِ راہ (کراچی) اسلامی قانون نمبر ، جلد اوّل و دوم، مرتب: پروفیسر خورشیداحمد۔ قیمت، جلداوّل: چار روپے۔ جلد دوم: تین روپے آٹھ آنے۔ صفحات: ۳۵۰۔ مقامِ اشاعت: دفترچراغِ راہ، کراچی۔
اس ملک میں بعض اہم مراحل پر چراغِ راہ نے جو فکری اور علمی رہنمائی لوگوں کو دی ہے وہ کسی صاحب ِ نظر سے پوشیدہ نہیں۔ اسی سلسلے کی تازہ ترین پیش کش اسلامی قانون نمبر ہے۔ اس نمبرمیں جو دو جلدوں پر مشتمل ہے، تقریباً وہ سارے مسائل آگئے ہیں جو اس ضمن میں سامنے آسکتے ہیں۔ اس نمبر کے لکھنے والوں میں اسلامی دنیا کی نام وَر شخصیتوں کے علاوہ بعض غیرمسلم اہلِ علم بھی شامل ہیں۔ کسی انسانی کوشش کو خواہ وہ کتنی ہی اچھی اور عمدہ ہو، آخری اور مکمل نہیں کہا جاسکتا۔ یہی حال اس نمبر کا بھی ہے لیکن یہ بات بلاخوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ اُردو میں اسلامی دستور پر کسی کتاب یا رسالے میں آج تک اس قدر مواد جمع نہیں کیا گیا جتنا کہ اس میں موجود ہے۔ اس کامیاب کوشش کے لیے چراغِ راہ کے اربابِ بست و کشاد اور خصوصاً اس کے نوجوان و فاضل مدیر بہت زیادہ مبارک باد کے مستحق ہیں۔
مولانا مودودی اور تصوف ، مرتبہ:مولانا ابومنظور شیخ احمد۔ ناشر: مکتبہ جہانِ نو، سرگودھا۔ صفحات: ۱۴۰، قیمت: ڈیڑھ روپیہ۔ طباعت کا معیار عمدہ۔
مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی پر جو مختلف اعتراضات وقتاً فوقتاً کیے گئے ہیں، اُن میں ایک بڑا اعتراض یہ بھی ہے کہ مولانا تصوف کی مخالفت خواہ مخواہ کرنے لگے ہیں۔ یہی اعتراض بعض بڑی واجب الاحترام شخصیتیں بھی کرتی ہیں، اس لیے ضروری تھا کہ اس اعتراض کا جائزہ لیا جاتا۔ اسی ضرورت کے پیش نظر مولانا ابومنظور شیخ احمد نے اس موضوع پر قلم اُٹھایا اور یہ ثابت کیا ہے کہ: اگر تصوف سے مراد تزکیۂ نفس ہے تو پھر مولانا بھی اس کے اُسی طرح قائل ہیں جس طرح کہ کسی مسلمان کو ہونا چاہیے۔ اسی سے اس کے اندر اخلاص اور بے لوثی پیدا ہوتی ہے اور اسی راہ پر چل کر وہ صبروثبات جیسی لازوال نعمت پاتا ہے۔ لیکن اگر تصوف سے مراد اشراقی، رواقی، زرتشتی اور ویدانی فلسفوں کا وہ ملغوبہ ہے، جس میں مشرکانہ تخیلات اور اعمال تک خلط ملط ہوگئے ہوں تو اُس تصوف کے مولانا نہ صرف قائل ہی نہیں بلکہ سخت مخالف بھی ہیں اور اسے بیخ و بُن سے اُکھاڑنا خدمت ِ دین سمجھتے ہیں‘‘۔ زیرتبصرہ کتاب کا اندازِ بیان بڑا سنجیدہ اور باوقار ہے۔ (’مطبوعات‘، پروفیسر عبدالحمید صدیقی، ترجمان القرآن ، جلد۵۱، عدد۲، نومبر ۱۹۵۸ء، ص ۶۲-۶۳)