اُمت ِ مسلمہ کی تاریخ کے روشن ترین اَدوار میں بھی بعض ایسے لمحات نظر آتے ہیں جن میں ایمان و یقین کے اعلیٰ مقام پر فائز ہونے کے باوجود، ایک لمحے کے لیے یہ سوال ذہن میں اُبھرتا ہے کہ کیا واقعی اسلامی جماعت اور اسلامی تحریک حق پر ہے؟ معرکۂ اُحد کو سامنے رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو ایمان و یقین اور صبرواستقامت کے بعض پہاڑ بھی ایک لمحے کے لیے لرز اُٹھے لیکن یہ کیفیت آگے نہیں بڑھنے پائی اور فوری طور پر دل و دماغ نے یکسو ہوکر ایک ہی بات کہی کہ اگر اس معرکۂ حق میں مصروفِ عمل رہتے ہوئے قائد اعلیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنی جان اللہ کے حوالے کر دی تو پھر اسوئہ حسنہ کی پیروی میں جس اصول اور حق کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شہادت پیش کی، اس حق کی شہادت اپنی منزل اور مقصد پر اعتماد میں کمی کے بغیر پورے عزم و ارادے کے ساتھ اپنی متاعِ حیات کو اس بازی پر لگانا ہی شرطِ وفاداری ہے۔
یہ وہ پُراُمید (optimistic )رویہ اور طرزِعمل ہے جو کھلی کتاب کی طرح ہمارے سامنے موجود ہے جس میں کسی تعبیر اور تاویل کی گنجایش نہیں۔ جو اگر نگاہ کے سامنے ہو تو دل و دماغ میں مایوسی، نااُمیدی، دل گرفتگی، پشیمانی اور ظن و گمان جیسی کیفیات کا گزر نہیں ہوسکتا۔
اپنی تاریخ کے ان روشن ابواب کو سامنے رکھتے ہوئے اس بات کی بھی یکساں ضرورت ہے کہ ایک مومن ہرلمحہ انفرادی و اجتماعی احتساب سے گزرتا رہے اور یہ ایک رسمی عمل نہ ہو کہ کسی کارکنان کے اجتماع میں ایک ذمہ دار چند لمحات کے لیے اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش کرے اور پھر یہ سمجھ لیا جائے کہ اب یہ حالات درست ہوگئے ہیں۔ احتساب دراصل پلٹنے کا عمل ہے۔ یہ اللہ کی طرف پلٹنے اور اس طرح پلٹنے کا عمل ہے کہ فرد اور جماعت اپنے ماضی کے فکروعمل اور شعوری اور غیرشعوری فیصلوں کا جائزہ لینے کے بعد، اصلاحِ احوال اور تعمیر مستقبل کے لیے اپنی اصل کی طرف لوٹ جائے۔ مومن تعلق باللہ، یعنی توحید خالص کے ساتھ ربِ کریم کی امان، پناہ اور رحمت میں آتے ہوئے اس کی رضا کے لیے بے غرض، بے لوث اور جذبۂ ندامت کے ساتھ اپنی تمام قوت کو اس کے دین کی سربلندی میں لگا دیتا ہے۔
یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اسلامی جماعت کا مقصد ِ وجود اور نصب العین اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ وہ اللہ کی زمین پر اللہ کی حاکمیت کو سلطانی ِ جمہور کی جگہ خلافت ِ جمہور کی شکل میں نافذ کرنے کی جدوجہد کو اپنی متاعِ حیات بنالے۔ اقامت ِ دین کو اس کے تمام مطالبات کے ساتھ ذاتی اور اجتماعی زندگی میں نافذ کرنے کی کوشش اسی کا نام ہے۔
شَرَعَ لَكُمْ مِّنَ الدِّيْنِ مَا وَصّٰى بِہٖ نُوْحًا وَّالَّذِيْٓ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِہٖٓ اِبْرٰہِيْمَ وَمُوْسٰى وَعِيْسٰٓى اَنْ اَقِيْمُوا الدِّيْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِيْہِ ۰ۭ (الشوریٰ ۴۲: ۱۳) اس نے تمھارے لیے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا ہے جس کا حکم اس نے نوحؑ کو دیا تھا اور جسے اب تمھاری طرف ہم نے وحی کے ذریعے بھیجا ہے اور جس کی ہدایت ہم نے ابراہیم ؑ اور موسٰی اور عیسٰی ؑ کو دے چکے ہیںاس تاکید کے ساتھ کہ قائم کرو اس دین کو اس میں متفرق نہ ہوجائو۔
انبیاے کرام ؑ نے جس اقامت دین کے لیے جدوجہد کی اور دن رات ایک کر دیے، جب اہلِ کتاب اس سے غافل ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے انھیں قیادت کی جگہ محکومیت میں مبتلا کر دیا:
وَلَوْ اَنَّ اَہْلَ الْكِتٰبِ اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَكَفَّرْنَا عَنْہُمْ سَـيِّاٰتِہِمْ وَلَاَدْخَلْنٰہُمْ جَنّٰتِ النَّعِيْمِ۶۵ وَلَوْ اَنَّہُمْ اَقَامُوا التَّوْرٰىۃَ وَالْاِنْجِيْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْہِمْ مِّنْ رَّبِّہِمْ لَاَكَلُوْا مِنْ فَوْقِہِمْ وَمِنْ تَحْتِ اَرْجُلِہِمْ۰ۭ مِنْہُمْ اُمَّۃٌ مُّقْتَصِدَۃٌ۰ۭ وَكَثِيْرٌ مِّنْہُمْ سَاۗءَ مَا يَعْمَلُوْنَ۶۶ۧ (المائدہ ۵:۶۵-۶۶) اگریہ اہلِ کتاب ایمان رکھتے اور خدا ترسی (تقویٰ)کی راہ پر چلتے تو ہم ان کی بُرائیاں ان سے دُور کردیتے اور نعمت کے باغوں میں انھیں داخل کرتے اور اگر وہ تورات اور انجیل کو اور ان ہدایتوں کو جو ان کے رب کی طرف سے انھیں پہنچی ہیں، قائم کرتے (اَقَامُوا التَّوْرٰىۃَ وَالْاِنْجِيْلَ ) تو اپنے اُوپر سے بھی رزق بٹورتے اور اپنے قدموں کے نیچے سے بھی۔
انبیاے کرام ؑ کی سنت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی اقامت ِ دین کی جدوجہد کی شکل میں اپنے نقطۂ کمال کو پہنچی اور قرآنِ کریم نے اسوۂ رسولؐ کی پیروی اُمت مسلمہ پر لازم کرتے ہوئے یہ طے فرما دیا کہ جس طرح رسولِ رحمتؐ نے حق کی شہادت دیتے ہوئے اقامتِ دین فرمائی، اسی طرح اب یہ کام اُمت پر اجتماعی اور انفرادی حیثیت میں فرض کر دیا گیا ہے:
وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُہَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ وَيَكُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَہِيْدًا ۰ۭ (البقرہ ۲:۱۴۳) اور اسی طرح تو ہم نے تم مسلمانوں کو ایک ’اُمت وسط ‘ بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسولؐ تم پر گواہ ہو۔
یہی شہادتِ حق اور اقامت ِ دین اس دور کی تحریکات دعوت و اصلاح کا بنیادی ستون اور ان کے منشور اور مقصد ِ وجود کی غایت ہے۔ دین کا جامع تصور ان تحریکات کے اقامت ِ صلوٰۃ، زکوٰۃ، صیام اور حج کے ساتھ یہ مطالبہ بھی کرتا ہے کہ وہ قیامِ عدل و قسط کے لیے اللہ کی شریعت کو نہ صرف اپنی ذاتی اور عائلی زندگی میں بلکہ اپنی معاشی، معاشرتی، ثقافتی اور سیاسی زندگی میں بھی قائم کریں۔ چنانچہ تحریکات دعوت و اصلاح کے دائرۂ کار میں عبادات کے ساتھ ساتھ باہمی تعلقات، ثقافت و معیشت اور اقتدارو حکومت (گویا زندگی کے ہرشعبے میں اللہ کی حاکمیت اور اس کی شریعت کی برتری یکساں اہمیت کے ساتھ) شامل ہے۔ تحریکات دعوت و اصلاح کا یہی پہلو انھیں دیگر تمام تحریکات سے ممتاز کرتا ہے اور ان کے تشخص کو نمایاں کرتا ہے۔
سیاسی جدوجہد اور حصولِ تمکین کے ذریعے نظامِ صلوٰۃ، نظامِ زکوٰۃ، نظامِ حیا اور نظامِ معروف کا قیام اور منکر، فواحش اور عدوان کا خاتمہ کرنا ان کے فرائض میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے:
اَلَّذِيْنَ اِنْ مَّكَّنّٰہُمْ فِي الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوۃَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَہَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ۰ۭ وَلِلہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرِ۴۱ (الحج ۲۲: ۴۱)یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، نیکی کا حکم دیں گے اور بُرائی سے منع کریں گے اور تمام معاملات کا انجامِ کار اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
گویا فکروعمل، معیشت اور سیاست میں قیادت کا حصول اقامت ِ دین کی جدوجہد کا ایک جزو ہے اور دین کے قیام کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ حضرت دائود ؑ، حضرت سلیمان ؑ اور حضرت یوسف ؑ کی مثالیں قرآنِ کریم میں ہمیں یہ سمجھاتی ہیں کہ جب تک مقصد اور ہدف واضح طور پر اقامت ِ دین ہے، اس کے لیے سیاسی ذرائع کا استعمال عین تقاضاے دین ہے۔
یہ کام سنت ِ رسولؐ کی شکل میں کس طرح کیا جائے گا؟ دعوت کس بات کی، کس کو، کس طرح اور کب دی جائے گی؟ خود یہ دعوت کیا ہے؟ ان سوالات کا جواب قرآن و سنت ہر قدم پر فراہم کرتے ہیں اور ان سے اخذ کردہ فکر وہ فکر ہے جسے فکر مودودی کہا جاتا ہے۔ تحریک اسلامی اس وقت ایک ایسی صورتِ حال سے دوچار ہے جس میں زمینی حقائق بظاہر وہ نہیں ہیں جو توقع کیے جارہے تھے۔ لہٰذا، اس بات کی ضرورت ہے کہ انفرادی اور اجتماعی احتساب کے عمل کو تنہا کسی ایک نشست تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ اسے مسلسل جاری رکھا جائے اس اعتماد و یقین کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ کے جو بندےاس کی طرف رجوع کرتے ہیں اور صرف ایک قدم بڑھاتے ہیں تو اس نے دس قدم قریب آنے کا وعدہ کیا ہے، اور مزید اس یقین کے ساتھ کہ جن لوگوں نے یہ کہہ دیا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور ہم اس دعوت پر مکمل یقین کرتے ہوئے قائم ہوگئے ہیں تو پھر وہ اپنی غیبی طاقتوں کے دروازے کھول دیتا ہے۔ احتساب بار بار اور جب اس اعتماد سے کیا جائے گا تو ہرمرتبہ ایمان و عزم میں اضافہ اور اُمید میں چمک پیدا کرنے کا باعث ہوگا۔
ان ابتدائی گزارشات کے بعد، اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ تحریک کو وقتی طور پر جس صدمے کا سامنا ہے اس کے اسباب میں جائے بغیر صرف یہ دیکھا جائے کہ تحریک آیندہ ایسی صورتِ حال سے کس طرح اپنے آپ کو محفوظ کرسکتی ہے؟ بظاہر ہماری یہ بات عجیب تصور کی جائے گی کہ بغیر مرض کی تشخیص کے علاج تلاش کیا جائے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ان چھوٹے چھوٹے اسباب پر لمبی لمبی بحثیں کرکے وقت ضائع کرنے کے بجاے پُرامیدی و احتساب کے ساتھ وہ اصول ذہن میں تازہ کیے جائیں جو دعوت اور اسلامی تحریک کی کامیابی کا یقین دلاتے ہیں۔ یہ وقت اور قوتِ عمل کا زیادہ مناسب استعمال ہے۔
پہلی چیز جو ذہن میں تازہ کرنے کی ضرورت ہے وہ ان اصولوں کی برتری ہے جو ہمیں قرآن و سنت نے دیے ہیں۔ ان میں اوّلین اصول توحید اور زندگی پر اس کی تطبیق ہے، یعنی کس طرح اپنی انفرادی، خاندانی ، معاشرتی، معاشی، ثقافتی، تعلیمی، قانونی اور سیاسی زندگی میں توحید کو رائج کیا جائے اور اس کے تقاضے پورے کیے جائیں۔ تحریک ِ پاکستان کی کامیابی کا واحد سبب یہی توحید یا لا الٰہ الا اللہ کا سہارا تھا، یعنی اپنی ذات، برادری، اپنے سیاسی تعلقات، ووٹ بنک، اجتماعات میں کثیر تعداد کا جمع ہونا، ان تمام پر بھروسے کی جگہ دل و دماغ کو شعوری طور پر اللہ کا عبد بنانا اور عبودیت پر قائم ہو جانا۔ جب کبھی بھی اور جہاں کہیں بھی ایک لمحے کے لیے کسی کے دل میں یہ خیال آیا کہ فلاں اتحاد اور فلاں برادری کے وعدے کامیابی کو قریب لے آئیں گے، ہم جادئہ توحید سے دُور ہوجائیں گے۔ ایسے تمام خیالات سے ذہن کو خالی کرنا ہی توحید پر عمل کرنا ہے۔
دوسرا اصول سنت ِ رسولؐ کی مکمل اطاعت ہے، یعنی تحریک سے وابستہ ہرفرد ان تمام اُمور سے اپنا تعلق منقطع کرلے جو قرآن و سنت کے منافی ہیں۔ وہ ایسے کاروباری قرضے ہوں جس میں سود کی آمیزش ہو یا ایسے معاملات ہوں جن میں برادری کی روایات کی پیروی دین کی تعلیمات سے ٹکراتی ہو، وہ معاشی معاملات میں لین دین میں عدم احتیاط یا عائلی معاملات میں حقوق کی ادایگی کا نہ کرنا ہو۔ دراصل اسلامی تحریک کی اصل قوت اس کی قوتِ کردار ہے کہ اس کے کسی فرد یا نمایندے کے بارے میں کوئی کسی مالی، خاندانی، باہمی تنازعے میں یہ بات نہ کہہ سکے کہ وہ حق کے منافی رسوم و رواج کی پیروی کرتا رہا ہے۔ اسلام نام ہی رسوم و رواجِ جاہلیہ سے بغاوت کا نام ہے۔ جب اور جہاں اس اصول کی پیروی ہوگی اللہ کی مدد اور استعانت اور رحمت کا آنا اتنا ہی یقینی ہے جتنا قرآنِ کریم اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حق پر ہونا ہے۔ خود احتسابی میں اس طرف خاص توجہ کی ضرورت ہے کہ کسی بھی ذمہ داری کے لیے جس فرد کو نامزد کیا جائے اس کی سیرت و کردار آئینے کی طرح ہو، چاہے ایسے افراد تلاش کرنے اور تیارکرنے میں کتنا ہی وقت لگ جائے۔
اصول کی برتری کا ایک واضح تقاضا یہ ہے کہ ہماری محبت اور جڑنا اور مخالفت اور کٹنا صرف اللہ کے لیے ہو۔ اگر ایک فرد یا گروہ جو کل تک اختلاف کر رہا تھا، ہمارے اصولوں کے قریب آنے کا اعلان کرے تو ہم ماضی کو نظرانداز کرتے ہوئے مثبت طرزِفکر کے ساتھ اللہ پر بھروسا کرتے ہوئے معروف میں اس کے ساتھ تعاون پر تیار ہوجائیں۔ اگر ایک شخص، گروہ یا جماعت کل تک اسلام سے دُوری کا اظہار کرتی ہو اور آج وہ اس بات کی قولی شہادت دے کہ وہ اسلامی عدلِ اجتماعی کو نافذ کرنا چاہتی ہے تو اپنے تمام تحفظات کے باوجود تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰی پر عمل کرتے ہوئے دنیاوی اعتراضات کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنی راے پر نظرثانی کرلی جائے۔
اصولی جماعت کا مطلب یہ ہے کہ ہم ہرلمحہ اپنا جائزہ لیتے ہوئے یہ دیکھیں کہ ہماری قوت، وقت، انسانی اور مادی سرمایے کا کیا تناسب تعمیرِ کردار و سیرت پر لگایا جارہا ہے، اور کیا ہم واقعی مکّی دور کے ان صبرآزما مراحل سے گزر رہے ہیں جنھوں نے ہر صاحب ِ ایمان کو استقامت اور حکمت دینی سے نواز دیا تھا اور ان کے کردار کے اثر سے وہ جو کل تک خون کے پیاسے تھے، وہ وَلِیٌّ حَمِیْم بن گئے تھے۔
تحریک ِ اسلامی ایک نظریۂ حیات کی علَم بردار جماعت ہے۔ قرآنِ کریم ہمیں بتاتا ہے کہ ازل سے ابد تک حق و باطل اور اسلام اور جاہلی نظریۂ حیات میں ایک مکالمہ ہوتا رہا ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ کا مکالمہ، حضرت موسٰی کا مکالمہ، خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا اہلِ کتاب کے ساتھ انھیں دعوتِ مکالمہ دینا، انبیاے کرامؑ اور دعوت اسلامی کی سنت ہے۔ لیکن اس مکالمے اور نظریاتی جہاد کے لیے انبیاے کرام ؑ کو اللہ تعالیٰ نے خود تربیت دے کر ان عقلی دلائل سے آراستہ کیا تھا، جن کا کوئی جواب باطل پرستوں کے پاس نہیں تھا اور وہ صرف مبہوت ہوکر رہ گئے تھے۔ داعیانِ حق کی طرف سے صرف ایک مطالبہ تھا کہ: قُلْ ہَاتُوْا بُرْہَانَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ۶۴ (النمل۲۷:۶۴)۔ یہ بُرہان قاطع ہی وہ چیز ہے جسے قرآن و سنت اور فکر اسلامی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ ہم نے گذشتہ ۲۵ برسوں میں قرآن و سنت اور فکرِ مودودی کی ترویج کے لیے کیا اقدامات کیے؟ کیا صرف چند نصابی کتابچوں کا سرسری مطالعہ رکن بنتے وقت کرلینا فکرِ مودودی کو ذہن و قلب میں راسخ کرسکتا ہے؟ کیا صرف قرآن کے ماہانہ درس میں شرکت، قرآن کی انقلابی دعوت سے روشناس کرا سکتی ہے؟ ہمارے وقت کا کتنا حصہ قرآن و حدیث سے گہرے تعلق میں گزرتا ہے اور کتنا وقت محض تنظیمی معاملات میں گزرتا ہے؟ اس وقت کا کتنا حصہ اہلِ خانہ کو دعوت دینے میں، کتنا حصہ اہلِ محلہ کے ساتھ مسجد میں ملاقات کر کے انھیں قرآن کی دعوت سے متعارف کرانے میں گزرتا ہے؟ مکّہ اور مدینہ میں اسلامی جماعت میں شامل ہونے والا ہر فرد بشمول داعی اعظم صلی اللہ علیہ وسلم چلتا پھرتا قرآن تھا۔ کیا ہمارا تعلق قرآن کے ساتھ ایسا ہی ہے اور اگر نہیں ہے تو جو ہربات کا علم رکھنے والا ہے، کیا وہ یہ جاننے کے باوجود کہ ہم کہاں کھڑ ے ہیں، ہمیں ہرمرحلے میں کامیابی سے نواز دےگا؟
سیّد مودودی نے فکر کے جن پہلوئوں کو اُجاگر کیا ، اس میں دین کی اجتماعیت اور شورائیت اور حاکمیت ِالٰہی بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ کیا ہم نے ان کی روشنی میں اپنی طویل المیعاد اور قلیل المیعاد حکمت عملی مرتب کی؟ قرآن کریم میں سات سالہ منصوبہ بندی کا ذکر سورئہ یوسف میں ہے۔ مکہ میں دعوت و تربیت کا کُل عرصہ ۱۳برس تھا۔ سات سالہ حکمتِ عملی کے نتیجے میں ۱۴برس کی جگہ ۱۳برس ہی میں وہ نتائج حاصل ہوگئے جن کے اثرات آج تک پائے جاتے ہیں۔ قریب المیعاد سات سالہ حکمتِ عملی میں ہماری ترجیح میں صوبے یا مرکز میں، پارلیمان میں نمایندگی کے ساتھ توسیع دعوت اور تعمیرکردار کا کیا تناسب رہا ہے؟ کیا ہم نے اللہ کے بندوں تک اس کا پیغام اپنی عملی زندگی کے ذریعے پیش کیا یا محض تحریر و تقریر کو کافی سمجھا؟ کیا اصولی اور نظریاتی انقلاب صرف اچھی خواہشات کی بنا پر آتا ہے یا سنگلاخ وادیوں سے گزر کر تربیت ِ اخلاق سے آتا ہے؟
اللہ تعالیٰ کا قانون اٹل ہے۔ وہ بظاہر پریشان کن حالات کو بھی اسلامی تحریک کے لیے بہتری اور بھلائی کا پیش خیمہ بناسکتا ہے۔ گذشتہ ۷۰برس کے تناظر میں دیکھا جائے تو تحریک کی تمام تر حکمت عملی کے باوجود بڑی جماعتوں کی اجارہ داری کو نہیں توڑا جاسکا۔ آج اللہ تعالیٰ نے ایک تیسرے عنصر کے ذریعے ان دونوں کے اثرات کو محدود کر دیا ہے اور طاقتی مراکز کو متزلزل کردیا ہے۔ اس طرح حکمت الٰہی سے میدانِ دعوت میں اچانک زیادہ وسعت، قبولیت اور نفوذِ دعوت کا امکان اُبھر کر آگیا ہے۔ جن برادریوں کے جال کو تحریک ۷۰سال میں نہ توڑ سکی، اللہ نے اپنی حکمت سے اس میں شگاف پیدا کر دیا۔ اب یہ تحریک پر ہے کہ وہ کس طرح حکمت، محبت اور خدمت کے ذریعے ان مظلوموں تک پہنچے جو پہلے اپنے ’آقا‘ کے علاوہ کسی اور کی طرف دیکھنے کے لیے آمادہ نہ تھے۔ اب دعوت کی نئی راہیں کھلی ہیں۔
دعوت کے لیے ابلاغِ عامہ کا مؤثر استعمال سنت ِانبیاے کرام ؑ ہے اور آج کے دور میں اس کی اہمیت ہمیشہ سے کہیں زیادہ ہوگئی ہے۔ خصوصیت سے پرنٹ میڈیا کے ساتھ الیکٹرانک میڈیا اور پھر اب سوشل میڈیا میدان پر چھا گئے ہیں۔ گذشتہ چاردہائیوں میں بار بار ہر سطح پر اس پر غور کیا گیا لیکن یہ کبھی نہ ہوسکا کہ اس کو تجویز سے آگے بڑھا کر ترجیحی بنیادوں پر ، جس طرح انتخابات کے مالی وسائل آخرکار جمع کیے جاتے ہیں، اسی طرح میڈیا کے لیے وسائل پیدا کرکے اسے دعوت کا ذریعہ بنایا جائے۔ ابلاغِ عامہ کا سیاسی کردار جتنا اس دور میں اُبھر کر آیا ہے پہلے کبھی نہ تھا لیکن ہمارا ابلاغِ عامہ وہ نہیں ہونا چاہیے جس کا تجربہ قوم کرتی ہے۔ اس پر فوری طور پر ایک ٹاسک فورس جو تین ماہ میں مکمل نقشہ بنا کر دے، بنانے کی ضرورت ہے۔درحقیقت تحریک کا نصب العین رضاے الٰہی کا حصول ہے ، صرف پارلیمنٹ میں نشستوں کا حصول نہیں ہے جن کا رضاے الٰہی کے لیے کام کرنے کے نتیجے میں ملنا کوئی مشکل بھی نہیں ہے۔ جب نیت واضح طور پر صرف اور صرف رضاے الٰہی کا حصول، دعوتِ حق، شہادتِ حق اور اقامت ِ دین ہوگی، اللہ کی غیبی امداد قلّتِ تعداد کو کثرت پر غالب کردے گی۔ دعوت کے لیے نوجوانوں کو ان کی اپنی زبان میں ان کے مسائل کی روشنی میں دعوت دیے بغیر ہم ان میں تبدیلی پیدا نہیں کرسکتے۔ اس کے لیے خاص تربیت کی ضرورت ہے۔ آخردو روایتی سیاسی اجارہ دار جماعتوں کو نوجوانوں کو متحرک (mobilize) کرکے ہی شکست دی گئی۔ اگر ایک شخص یہ کام ۲۲سال میں کرسکتاہے تو کیا یہ کام ایک نظریاتی جماعت آیندہ ۱۵برس میں نہیں کرسکتی؟
نوجوانوں کو ان کی نفسیات کی روشنی میں، ناچ گانے کے کلچر سے دامن بچاتے ہوئے کس طرح اپنے اندر شامل کیا جائے؟ اس کے لیے خود قیادت کو خصوصی تربیت کی ضرورت ہوگی تاکہ روایتی طریقوں کے ساتھ وہ طریقے بھی استعمال کیے جائیں جو نوجوانوں کو ہم سے قریب لاسکتے ہیں۔ یہ یاد رہے کہ گذشتہ تین دہائیوں میں کچھ نوجوان ہمارے سامنے آنے کے باوجود ہم سے دُور بھی ہوئے۔ اس کے اسباب کو دُور کرنا ہوگا۔ خود اعلیٰ قیادت چاہے برس ہا برس تحریک سے وابستہ رہی ہو، ہرمرحلے میں مزید تربیت کی محتاج رہتی ہے۔ دنیا کی دس بڑی صنعتوں کو کامیابی کے ساتھ چلانے والے CEO's بھی تربیتی ورکشاپس سے گزر کر اپنی صلاحیتوں کو بہتر بناتے ہیں۔ نوجوانوں میں دعوت کے لیے خصوصی تربیت کے بغیر کام نہیں ہوسکتا۔ اس کی منصوبہ بندی کرنی ہوگی۔
نئے راستوں میں خواتین تک ہمارا پیغام کسی مداہنت کے بغیر پہنچنا ضروری ہے۔ ہمارا رویہ نہ معذرت پسندانہ ہو اور نہ روایتی بلکہ آج کے خواتین کے مسائل کے پیش نظر اسلام کے دائرے میں رہتے ہوئے ہم ان کو اپنی قوت کا ذریعہ بنا سکیں۔
ان نئی راہوں میں مظلوم عوام کے دلوں کو مسخر کرنے کے لیے حکمت عملی مرتب کرنی ہوگی۔ بالخصوص جو فاٹا، بلوچستان، اندرونِ سندھ و پنجاب میں غلاموں کی سی زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کے حقیقی مسائل کو ہاتھ میں لینا ہوگا۔
ان نئی راہوں میں ایسے اہلِ قلم پیدا کرنے ہوں گے جو نوجوانوں میں پھیلنے والی جدید دہریت کا مدلل جواب ان کے فہم کے مطابق دے سکیں۔ ایسے اہلِ قلم جو انگریزی اور اُردو دونوں زبانوں میں دعوت کو آسان اور دل نشین انداز میں پیش کرسکیں۔
ان نئی راہوں میں ان تمام تعلیمی اداروںکو دعوت کا ہدف بنانا ہوگا جو اس وقت گو تحریک سے وابستہ سمجھے جاتے ہیں لیکن ان کے نصابات، ان کے اساتذہ، ان کا ماحول دیگر اداروں سے بہت زیادہ مختلف نہیں ہے۔ یہ وہ خزانے ہیں جن کو ہم نے آج تک دعوت کے لیے صحیح طور پر استعمال کیا ہی نہیں۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ نظامِ تعلیم اسلامی شکل اختیار کرلے تو جو ادارے ہمارے ہم فکر افراد چلا رہے ہیں، ان میں ہمیں تجرباتی طور پر اپنے تصورات کو اساتذہ کے ذریعے، نئی نصابی کتب کے ذریعے، طلبہ و طالبات کی جداگانہ سرگرمیوں کے ذریعے ایک قابلِ عمل مثال کے طور پیش کرنا ہوگا۔ اگر ہم صرف پانچ ایسے ادارے جو ملک کے ہر صوبے اور آزاد کشمیر میں معیاری تعلیم کے ساتھ اعلیٰ تربیت ِکردار کر رہے ہوں، آیندہ پانچ برسوں میں قائم کرلیں تو یہ ہماری دعوت کو مستند بنانے کا ایک اعلیٰ نمونہ ہوگا۔ اگر قوم صرف ایک ہسپتال کے چلا لینے کی بنا پر کسی کی صلاحیت کی قائل ہوجاتی ہے، تو کیا ہرصوبے میں ایک اعلیٰ تعلیمی ادارے کے قیام کے بعد کوئی اسلامی نظامِ عدل کی مخالفت کرسکے گا؟
۸۰ سال قبل سیّد مودودی نے دعوتی حکمت ِعملی کے لیے جن تین اصولوں کی طرف متوجہ کیا تھا، ان کے صحیح ادراک اوران کی روشنی میں طویل المیعاد حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے۔ وہ تین اصول یہ تھے:
۱- لادینیت کے مقابلے میں خدا کی بندگی اور اطاعت
۲- قوم پرستی کے مقابلے میں ملّت ِ اسلامی
۳- جمہور کی حاکمیت کے مقابلے میں خدا کی حاکمیت اور جمہور کی خلافت
آج کے حالات میں جس طرح تعلیم، سیکولر لابی کے دانش وروں اور ابلاغِ عامہ نے ہرپاکستانی کے ذہن میں یہ بات بٹھا دی ہے کہ مذہب ذاتی معاملہ ہے، اسے دلائل کی بنیاد پر درست کرنے کی ضرورت ہے۔ اسلامی اجتماعیت کا مطلب ہی یہ ہے کہ ہماری معاشرت، سیاست، معیشت، ثقافت، بین الاقوامی تعلقات، ہر چیز قرآن و سنت کی روشنی میں طے ہو جیساکہ دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان کا مدعا ہے۔
ایک فوجی آمر نے ایک جذباتی نعرہ یہ دیا کہ ’سب سے پہلے پاکستان‘ ، جس کا مطلب یہ تھا کہ بقیہ تمام معاملات کو الگ کردیں اور ایک زمینی خطے کو جس کا نام پاکستان ہے، اسے اوّلیت دی جائے۔ حالاں کہ اس خطے کے وجود میں آنے سے قبل ہی ملت اسلامیہ نے یہ طے کر دیا تھا کہ ہمیں وہ خطہ چاہیے جہاں لا الٰہ الا اللہ ہر شعبے میں رائج ہو۔ گویا اوّلین چیز وہ ہے جسے خود بانی ِ پاکستان نے اپنے تین اصولوں میں ایمان، اتحاد، تنظیم کی شکل میں بیان کر دیا تھا۔ پاکستان اس کلمے کی عملی شکل ہے۔ اس لیے جغرافیائی، نسلی، لسانی قوم پرستی کی جگہ نظریۂ پاکستان کی برتری کو حکمت کے ساتھ پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ کسی ملک کے قیام کی بنیاد اس کا نظریہ یا آئیڈیالوجی ہوتی ہے۔ اگر نظریۂ پاکستان کو نظرانداز کردیا گیا تو ملک کی بقا اور قیام کو خطرہ لاحق ہوجائے گا۔
تیسرا اصول غیرمعمولی اہمیت رکھتا ہے اور ان تمام اعتراضات کا جواب فراہم کرتا ہے جو مروجہ جمہوری نظام کے ساتھ تعاون کرنے پر کیے جاتے ہیں۔ یاد رہے کہ تحریک اسلامی کا ہدف اور مقصد اللہ کی زمین اور بندوں پر صرف اس کی حاکمیت قائم کرنا ہے لیکن اس کے لیے جو راستہ منتخب کیا گیا ہے، وہ نہ حاکمیت ِجمہور ہے اور نہ پارلیمان کی مطلق حاکمیت بلکہ ’خلافت ِ جمہور‘ کے ذریعے اصل مالک، آقا اور حاکم کے احکامات کا نفاذ ہے۔
آمریت، بادشاہت اور پارلیمان کی مطلق حاکمیت کو دستورِ پاکستان رد کرتا ہے اور اللہ کی حاکمیت کے قیام کو مملکت کا مقصد قرار دیتا ہے۔ تحریک اسلامی روزِ اوّل سے دستورِ پاکستان کی روح اور الفاظ کا احترام کرتے ہوئے دستوری ذرائع سے ملک میں بنیادی تبدیلی لانا چاہتی ہے۔ یہ ایک تدریجی عمل ہے جسے ایک شب و روز میں نہیں کیا جاسکتا۔ دستورِ پاکستان اس کے لیے جو طریقہ تجویز کرتا ہے وہ راے عامہ کو ہموار کرتے ہوئے پارلیمان کے ذریعے اسلامی قانون سازی ہے یا پارلیمان میں اجتماعی اجتہاد ہے۔ یہ کفر و شرک کے نظام میں شرکت نہیں ہے بلکہ خلافت ِ جمہور کا واضح مطلب یہ ہے کہ عوام اور ان کے منتخب نمایندے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات کی روشنی میں قانون سازی تو کرسکتے ہیں، اس کے خلاف نہیں کرسکتے۔
تبدیلی کا یہ عمل اللہ تعالیٰ کی استعانت سے جلد بھی طے ہوسکتا ہے اور کچھ طویل بھی ہوسکتا ہے لیکن اس کے لیے ذہن کو تیار کرنے اور راے عامہ کو ہموار کرنے کی ضرورت ہے۔ جب تک اس کو اہمیت نہیں دی جائے گی ہماری خواہشات کے باوجود یہ کام اپنی منزل کو نہیں پہنچے گا۔ اس میں سب سے اوّل مکمل بندگیِ رب پیدا کرنے کے لیے ایک انتہائی مؤثر تربیتی نظام کی ضرورت ہے جو براہِ راست فکرِ مودودی اور مصادر اسلام کے مطالعے پر مبنی ہو۔ فکر کی تطہیر اور ہم آہنگی کے بغیر یہ کام ناممکن ہے۔ وطن پرستی کی جگہ ملت اسلامی اور اُمت اسلامی کے تصور کو فروغ دینا ہوگا تاکہ پاکستان کی نظریاتی بنیاد مستحکم ہوسکے۔
فلاحی کاموں کو مزید وسعت دینے کی ضرورت ہے۔ ہر کام حکومت کی سطح پر کرنے کا مطالبہ اپنی جگہ پر لیکن ساتھ ساتھ خود ایسے اداروں کا قیام جو تعلیم، صحت اور خاندانی نظام کو مستحکم کریں، یہ دعوت کا لازمی حصہ ہے۔ تحریک کو اسے اہمیت دینی ہوگی۔
ایک لمحہ ضائع کیے بغیر عنقریب مقامی سطح پر ہونے والے بلدیاتی انتخابات کو توجہ کا مرکز بنانا ہوگا۔ نچلی سطح پر کام ہی تحریک کو دعوت کا صحیح طریقہ سکھاتا ہے اور عوام کو اپنی آنکھوں سے یہ مشاہدہ کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ دیکھیں کہ تحریک جو تبدیلی لانا چاہتی ہے، کیا اس کی صلاحیت رکھتی ہے؟ اور اگر لوکل انتظامیہ میں صالح عناصر آنے کے بعد مقامی فلاحی کام کرسکتے ہیں تو کیا صوبائی، مرکزی سطح پر بھی وہ ایسا کرسکنے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟ اس اعتماد کو بحال کیے بغیر محض صوبائی اور مرکزی سطح پر کام کرنا، مطلوبہ نتائج پیدا نہیں کرسکتا۔ اس کے لیے ایسے افراد کا انتخاب ہماری فوری ضرورت ہے جو صالح نوجوان ہوں، جن کا کردار، سچائی، امانت اور خدمت کا پیغام دیتا ہو۔ افراد کے انتخاب میں ضرورت ہے کہ دوسروں کی نقل کرتے ہوئے دھوم دھام کی جگہ سادگی اور خدمت خلق کے جذبے کے ساتھ کام کیا جائے۔ اس کام کے لیے سیاسی شعور رکھنے والے افراد کے ساتھ مشاورت اور ملک گیر پیمانے پر منتخب مقامات کا تعین کرکے ان پر آج ہی مناسب افراد کا تعین کرنا ہوگا، تاکہ بھرپور عوامی رابطے اور راے عامہ کو ہموار کرنے کا عمل مناسب انداز میں سرانجام دیا جاسکے اور دعوتی حکمت عملی کے اثرات سیاسی میدان میں مطلوبہ نتائج پیدا کرسکیں۔
جماعت اسلامی جس غرض کے لیے قائم ہوئی ہے، وہ ایک اور صرف ایک ہے اور وہ یہ ہے کہ دنیا میں اللہ کے دین کو پوری طرح سے، پوری زندگی میں نافذ کیا جائے۔ اس کے سوا اس جماعت کا اور کوئی مقصد اور نصب العین نہیں ہے۔ جو شخص بھی اس جماعت سے وابستہ ہے، خواہ رکن کی حیثیت سے ہو یا کارکن اور متفق کی حیثیت سے وابستہ ہو، اُسے یہ بات کبھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ جماعت ِ اسلامی کااصل مقصد دینِ حق کو مکمل طور پر خدا کی زمین پر غالب کرنا ہے۔ اگر ہم سیاسی کام بھی کرتے ہیں تو اقتدار حاصل کرنے یا دوسری سیاسی اغراض کے لیے نہیں کرتے، بلکہ اس غرض کے لیے کرتے ہیں کہ اُن رکاوٹوں کو دُور کیا جائے جو دینِ حق کے قیام میں مانع ہیں اور جمہوری ذرائع سے ملک کے اندر اسلامی انقلاب برپا کرنے کا راستہ ہموار ہوسکے۔
جماعت اسلامی نے یہ جو مسلک اختیار کیا ہے کہ وہ کسی قسم کے تشدد اور توڑ پھوڑ کے ذریعے سے، کسی قسم کی دہشت پسندانہ تحریک کے ذریعے سے اور کسی قسم کی خفیہ تحریک یا سازشوں کے ذریعے سے ملک میں انقلاب برپا نہیں کرنا چاہتی، بلکہ خالصتاً جمہوری ذرائع سے انقلاب برپا کرنا چاہتی ہے___ یہ مسلک قطعاً کسی کے خوف کی وجہ سے نہیں ہے۔ یہ ہرگز اس بنا پر نہیں ہے کہ ہم کبھی کسی ابتلا کے وقت اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے یہ کہہ سکیں کہ ہم دہشت پسند نہیں ہیں، ہمارے اُوپر تشدد یا قانون شکنی کا الزام نہ لگایا جائے۔ یہ بات ہرگز نہیں ہے۔
اس حالت میں آپ کو جان مار کر کوشش کرنی ہے۔ اس غرض کے لیے اپنی پوری طاقت صرف کرنی ہے کہ عام لوگوں کے اندر زیاہ سے زیادہ اسلامی ذہن پیدا کریں ، کیوں کہ جب تک آپ یہ کام نہیں کریں گے اس وقت تک یہاں اسلامی انقلاب کا خواب شرمندئہ تعبیر نہیں ہوسکے گا۔
قرآن کریم ایک دعوت کی کتاب ہے اور ایک دعوت اور ایک تحریک کے ساتھ ساتھ نازل کی گئی ہے۔ پورے ۲۳ سال کی مدّت میں اسلامی دعوت کو جن جن مرحلوں سے ہو کر گزرنا پڑا ، ان تمام مرحلوں میں اس کتاب نے بروقت رہنمائی کی ہے۔ ہر موقعے پر ضرورت کے لحاظ سے اس کے مختلف حصے نازل ہوتے رہے ہیں۔ ضرورت کے تقاضوں کے ماتحت اندازبدل بدل کر ایک بات کو بار بار دُہرایا گیا ہے اور ہر موقعے پر کسی ضروری پہلو کو زیادہ ابھارا گیا ہے ۔
ایسی کتاب کو اگر آپ دوسری کتابوں کی طرح پڑھیں گے تو ظاہر ہے کہ آپ پورا فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے، جو باتیں کسی خاص موقعے اور کسی خاص محل پر کہی جاتی ہیںاگر آپ انھیں موقع اور محل کے تصور سے الگ کر کے دیکھیں تو ان میں نہ اثر باقی رہتا ہے اور نہ سننے والے اس سے وہ لطف محسوس کر سکتے ہیں۔ آپ نے خود تجربہ کیا ہو گا ۔ کبھی کسی نازک موقعے پر خاص حالات کے تحت کسی شاعر کا ایک مصرع یا کسی شخص کا کوئی مقولہ سننے والوں کو تڑپا دیتا ہے لیکن وہی مصرع اور وہی مقولہ اگر ان حالات سے الگ ہوکر دھرایا جائے تو اس میں کوئی خاص بات معلوم نہیں ہوتی ۔
ایک ایسا شخص جو پیاسا نہ ہو اور جسے پانی کی ضرورت بھی نہ ہو وہ پانی کے اوصاف بہت کچھ بیان کر سکتا ہے ۔ وہ اچھی طرح بتا سکتا ہے کہ پانی کس کس گیس سے مل کر بنا ہے، کیا خاصیتیں رکھتا ہے، کتنے درجے پر اُبلتا ہے، کس درجے پر جم جاتا ہے۔ غرض یہ کہ آپ اُس کی باتیں سن کر محسوس کریں گے کہ وہ پانی کا مکمل عالم ہے اور پانی کے بارے میں اُس کی معلومات انتہائی قابلِ قدر ہیں۔ لیکن اگر پانی کی صحیح قدروقیمت کا اندازہ کرنا ہو توآپ اس پیاسے سے پوچھئے جو کسی ریگستان میں کئی دن تک پانی کی تلاش میں گھوم چکا ہو ، اور آخر میں کہیں سے ایک پیالا بھر پانی پا سکے ۔
اس لمبے کام کے لیے قوت کی ضرورت ہے۔ اس خدمت کے لیے تیاری لازمی ہے اور اس قوت اور اس تیاری کے لیے یہ نسخہ موجود ہے۔ بات بالکل کھلی ہوئی ہے۔ جسے کوئی لمبا کام کرنا ہی نہ ہو، اس کے لیے ان ہدایات میں کیا رکھا ہے۔ نسخہ اور دوا تو بیمار کو عزیز ہوتا ہے۔
اب ذرا سوچیے اگر کوئی گروہ یا کوئی شخص حق کی دعوت لے کر اُٹھے ، اپنی حد تک دنیا میں اللہ کے دین کا پیغام دوسروں تک پہنچانا چاہے، اور اللہ کے دین کو قائم رکھنے کے لیے کچھ نہ کچھ کوشش شروع کر دے اور اس کے نتیجے میں اسے بھی کچھ ایسے ہی حالات پیش آنے لگیں جن کا کچھ مختصراً ذکر اُوپر ہوا ہے۔ وہ بھی مخالفتوں کا نشانہ بن جائے۔ اسے بھی اپنے پرایا سمجھنے لگیں۔ اس کے لیے بھی صرف ایک اللہ کو اپنا حاکم ومالک مان لینا جرم ہو جائے۔ اس کی بات کو بھی لوگ سننے اور غورکرنے کے بدلے یوں ہی ہوا میں اڑانے لگیں، تو ایسے شخص کو ان نازک حالات میں مناسب اور بروقت ہدایت کی کیسی سخت ضرورت محسوس ہو گی ۔
جس اللہ نے امت ِ مسلمہ پر قیامت تک کے لیے دعوتِ دین کا فرض عائد کیا ہے، اس کا بڑا احسان ہے کہ اس نے اس مشکل خدمت کو انجام دینے کے لیے ہدایات بھی دے دی ہیں۔ لیکن ان ہدایات کی صحیح قدرو قیمت جب ہی محسوس ہو سکتی ہے جب اس خدمت اور فرض کو ادا کرنے کے لیے عملاً میدان میں اترا جائے جس کے سلسلے میں یہ ہدایات دی گئی ہیں۔
غرض یہ کہ پورے قرآن پر نظر ڈالی جائے ۔ اس کا ہر مضمون مطالبہ کرتا ہے کہ اس کے پیچھے کوئی منظم تحریک ، کسی مستقل دعوت کا پروگرام اور کسی عملی جدو جہد کا نمونہ ہونا چاہیے۔ اس کے بغیر یہ سارے مضامین تقریباً بے روح ہوتے ہیں اور اس بات کاسب سے بڑا زندہ ثبوت خود آج اُمت ِ مسلمہ ہے۔
اب بھی مسلمانوں کا ایمان ہے کہ ان کی بگڑی ہوئی حالت کا صحیح علاج صرف قرآن پاک ہے، لیکن یہ علاج ان ہی لوگوں کے لیے کار گر ہو سکتا ہے جو یہ طے کر لیں کہ وہ اُس پروگرام کو لے کر اٹھیں گے جو قرآن پیش کرتا ہے اور اُس دعوت کو عملاً پیش کرنے کی جدوجہد کریں گے جس کی ہدایات قرآن کے ہر صفحے پر مل سکتی ہیں۔ سب سے پہلے مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ اس خدائی ہدایت کو سچے معنوں میں قبول کریں اور اسے دنیا کے سامنے پیش کریں لیکن اگر خدا نخواستہ انھوں نے اس خدمت کو انجام نہ دیا تو اللہ کا یہ نُورِ ہدایت تو پھیل کر رہے گا۔ اللہ تعالیٰ کچھ اور لوگوں کو اٹھائے گا اور وہ ان کی طرح ناکارہ نہ ہوں گے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو محرومی سے بچائے اور اپنے دین کو قائم کرنے کی ہمیں سعادت نصیب فرمائے۔ یہی اس زندگی کی سب سے بڑی کمائی ہے۔
ترجمہ :عاصم نعمانی
’سنت‘ اس عمل کو کہتے ہیں جو صحیح سند کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے درج ذیل تین طریقوں سے ثابت ہو : lآپؐ کا ارشادمبارک ہو lآپؐ نے خود کوئی کام کیا ہوlاور وہ عمل جو آپؐ کے سامنے کیا گیا ہو اور آپ ؐ نے اسے دیکھ کر سکوت فرمایا ہو۔
وَمَآ اٰتٰکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ ج وَمَا نَہٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا ج وَاتَّقُوا اللّٰہَ ط (الحشر ۵۹:۷) جو کچھ رسول ؐ تمھیں دے وہ لے لو۔ اور جس چیزسے وہ تم کو روک دے اس سے رُک جائو۔ اور اللہ سے ڈرو۔
مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ ج (النساء۴:۸۰) جس نے رسول ؐ کی اطاعت کی اس نے دراصل اللہ کی اطاعت کی۔
وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰی O اِنْ ھُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوحٰی O (النجم ـ۵۳:۳-۴) وہ، (یعنی محمدؐ) ، اپنی خواہشِ نفس سے نہیں بولتے ، یہ تو وحی ہے جو ان پر نازل کی جاتی ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ بے شمار ابدی اور لازوال نصیحتوں سے بھری ہوئی ہے، مگر اس مقام پر ہم نے اختصار کے پیش نظر اس بحرِ بے کراں میں سے صرف چند احادیثِ صحیحہ پیش کرنے کی سعادت حاصل کی ہے۔
r رجوع الی اللہ: حضرت عرباض بن ساریۃ ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک روز حضور ؐ ہمارے ساتھ نماز ادا فرما چکنے کے بعد ہماری طرف متوجہ ہوئے اور نہایت مؤثر انداز میں تقریر فرمائی، جسے سن کر سامعین آب دیدہ ہوگئے، دلوں پر رقّت طاری ہوگئی اور جسم میں کپکپی پیدا ہو گئی ۔ اس حالت کو دیکھ کر ایک صاحب نے عرض کیا : یا رسولؐ اللہ! جس انداز میں آپ ؐ نے یہ وعظ فرمایا ہے گویا کہ یہ آپ ؐ کا آخری وعظ ہے، تو اسی طرح ہمیں کوئی اور نصیحت فرمائیں۔
حضور ؐ نے ارشاد فرمایا ـ: ’’میں تمھیں اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے کی نصیحت کرتا ہوں ، اور یہ بھی نصیحت کرتا ہوں کہ تم (اپنے امام یا خلیفہ کی بات ) سنو، اور اس کی اطاعت کرو خواہ وہ حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو۔ میرے بعد جو لوگ زندہ رہیںگے وہ بہت سے اختلافات دیکھیں گے۔ اس لیے تمھیں چاہیے کہ ان اختلافات کے وقت تم میری سنت اور خلفاے راشدین کے طریقے کی پیروی کرو۔ (میری سنت اور میرے خلفا کے طریقے کو ) اچھی طرح مضبوطی کے ساتھ پکڑے رکھو، نئے نئے کاموں سے بچو، کیونکہ شریعت کے معاملات میں ہر نیا کام بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہی ہے‘‘۔
حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے بیٹے، اگر تجھ سے ہو سکے کہ صبح اس حال میں کرے کہ کسی کے متعلق تیرے دل میں کوئی کینہ نہ ہو، اور شام بھی اسی حالت میں کرے ، تو اس پر ضرور عمل کر‘‘۔
حضوؐر نے فرمایا : ’’اے بیٹے ، اور یہ بات جو ابھی کہی گئی ہے،میری سنت ہے (یعنی میرے صبح وشام اسی طرح گزرتے ہیں کہ میرے دل میں کسی کے متعلق کوئی کینہ نہیں ہوتا ) ۔ جو میری سنت سے محبت کرتا ہے وہ مجھ سے محبت کرتا ہے، اور جو میرے ساتھ محبت کرتا ہے وہ جنت میں میرے ساتھ ہو گا‘‘۔
حضرت علی ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’اے علیؓ! تین چیزوں میں تاخیر نہ کرنا:
حضرت جابر ؓ بیان کرتے ہیں کہ وصال سے تین دن پہلے میں نے حضوؐر کو فرماتے ہوئے سنا:’’ تم میں سے ہر شخص کو اس حالت میں موت آنی چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ حسنِ ظن رکھتا ہو‘‘۔
اس پر حضوؐر نے فرمایا: ’’جو شخص ہر روز سو بار سبحان اللہ پڑھے اس کے لیے ہزار نیکیاں لکھی جاتی ہیں یا اس کے ہزار گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں‘‘ ۔
بِسْمِ اللہِ ،تَوَکَّلْتُ عَلَی اللہِ ، اَللّٰھُمَّ اِنَّـا نَعُوْذُ بِکَ مِنْ اَنْ نَذِلَّ اَوْ نَضِلَّ، اَوْ نَظْلِمَ ، اَوْ نُظْلَمَ، اَوْ نَجْھَلَ اَوْ یُجْھَلَ عَلَیْنَا، اللہ پر بھروسا کرتے ہوئے اس کے نام سے آغاز کرتا ہوں ۔ اے اللہ ہم تیری پناہ مانگتے ہیں اس بات سے کہ ہم (راہِ حق سے ) پھسل جائیں یا گمراہ ہو جائیں ، کسی پر ظلم کریں یا خود گرفتارِ ظلم ہو جائیں اور نادانی کریں یا ہمارے ساتھ کوئی نادانی کرے۔
حضوؐر نے فرمایا : ’’کیا تجھے ایسا کلام نہ سکھا دوں جس کے پڑھنے سے اللہ تعالیٰ تیرا غم بھی دُور کر دے اور تیرا قرض بھی ادا ہوجائے ؟‘‘
ان صاحب نے کہا: ’’یارسولؐ اللہ! وہ کلام ضرور سکھایئے‘‘۔
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْھَمِّ وَالْحُزْنِ ، وَاَعُوْذُبِکَ مِنَ الْعَجْزِ وَالْکَسَلِ ، وَاَعُوْذُبِکَ مِنْ غَلَبَۃِ الدَّیْنِ وَقَھْرِ الرِّجَالِ ، اے اللہ میں رنج وغم سے، درماندگی اور کاہلی سے، اور قرض کے بار اور لوگوں کے جبرسے تیری پناہ مانگتا ہوں۔
وہ صحابی بیان کرتے ہیں کہ ’’میں حضوؐر کی ہدایت کے مطابق اس دعا کو پڑھتا رہا تو اللہ تعالیٰ نے میرا غم بھی دُور فرما دیا اور قرض بھی ادا ہو گیا‘‘۔
حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : ’’اللہ کی راہ میں ایک صبح یا ایک شام دنیا وما فیہا سے بہتر ہے‘‘۔
حضرت زید بن خالدؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ جس شخص نے کسی غازی کے لیے سامانِ جہاد مہیا کیا تو گویا اس نے خود جہاد کیا ، اور جو شخص کسی غازی کے گھر کی دیکھ بھا ل کرتا رہا تو گویا اس نے بھی جہاد کیا‘‘۔
حضرت عبداللہ بن عمروبن العاص ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اللہ کی راہ میں شہید ہو جانے سے قرض کے سوا ، تمام گناہ مٹا دیے جاتے ہیں‘‘۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص اللہ کے خوف سے روتا ہے، اس کا جہنم میں جانا ایسا ہی (ناممکن ) ہے جیسے دودھ کا تھنوں میں واپس چلاجانا، اور جس بندے پر راہِ خدا میں گردِ راہ چڑھی ہو، اس کو جہنم کی تپش نہیں پہنچ سکتی، اور اسی طرح بخل اور ایمان کسی مسلمان کے دل میں ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتے ‘‘۔
حضرت معاویہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’جو شخص اپنے احترام میں لوگوں کے کھڑے ہو جانے پر خوش ہوتا ہو، وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے‘‘۔
اسی طرح ایک دوسرا ا ٓدمی جو ایک کلمۂ شر (بُری بات ) کہتا ہے جس کے دُور رس نتائج کو وہ نہیں جانتا۔ اس کے لیے اللہ تعالیٰ اپنی ناراضی لکھ دیتا ہے اور قیامت تک اس کے لیے یہی کیفیت رہتی ہے‘‘۔
حضرت ابو ذر ؓ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: ’’یا رسول ؐ اللہ! مجھے نصیحت فرمائیے‘‘۔
آپ ؐ نے فرمایا :’’ میںتمھیں خشیت الٰہی کی نصیحت کرتا ہوں۔ اس خصلت کے اختیار کرنے سے تمھارے ہر کام میں زینت اور خوش نمائی پیدا ہو جائے گی‘‘۔
میںنے عرض کیا: ’’کچھ اور بھی نصیحت فرمائیے ‘‘۔
آپ ؐ نے فرمایاـ : ’’قرآن کریم کی تلاوت اور اللہ عزّ وجل کا ذکر اپنے اُوپر لازم کر لو۔ ایسا کرنے سے آسمانوں میں تمھارا ذکر کیا جائے گا اور زمین میں یہ عمل تمھارے لیے روشنی کا باعث ہو گا‘‘۔
میں نے عرض کیا:’’ کچھ مزید فرمائیے ‘‘۔
آپ ؐ نے ارشاد فرمایا : ’’خاموش رہنے کی عادت ڈالو کیونکہ یہ شیطان سے بچنے کا ہتھیار اور دین کے معاملے میں مدد گار ہے‘‘۔
میںنے مزید عرض کیا کہ کچھ اور فرمائیے، تو حضور ؐ نے فرمایا : ’’زیادہ ہنسنے سے پرہیز کرو کیونکہ اس سے دل مردہ اور آدمی کاچہرہ بے رونق ہو جاتا ہے‘‘۔
میری مزید گزارش پر حضوؐر نے فرمایا ـ ـ:’’ ہمیشہ سچ بات کہو چاہے تلخ ہو‘‘۔
میں نے پھر عرض کیا، تو حضوؐر نے فرمایا : ’’اللہ کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروانہ کرو‘‘۔
میں نے کہا :’’نصیحت میں مزید اضافہ فرمائیے‘‘۔
حضوؐر نے فرمایا : ’’اپنے عیبوں اور گناہوں پر نظر رکھو تا کہ دوسروں کی عیب جوئی سے بچے رہو‘‘۔
بخاری ، ترمذی اور ابن ماجہ میں روایت ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص امن واطمینا ن کے ساتھ صبح کرے، اور اس کا جسم بھی درست اور تندرست ہو، اور اس دن کی خوراک بھی اس کے پاس ہو، تو گویا دنیا کی تمام ہی نعمتیں اسے مل گئیں‘‘۔
آپ ؐ نے فرمایا: ’’آدمی زنا کے ارتکاب کے بعد جب توبہ کر لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے معاف فرما دیتا ہے، لیکن جب کوئی آدمی غیبت کرتا ہے تو اسے اس وقت تک معاف نہیں کیا جاتا جب تک وہ شخص معاف نہ کردے جس کی اس نے غیبت کی تھی‘‘۔
آپ ؐ نے فرمایا :’’ نہیں، بلکہ عصبیت یہ ہے کہ کوئی آدمی ناحق اپنی قوم کی حمایت کرے‘‘۔
حضرت ثوبان ؓ نے کہا: یا رسولؐ اللہ! ان لوگوں کی کوئی واضح نشانی بیان فرمائیے اور ان کے طرزِ عمل کی وضاحت فرمائیے تا کہ ہم نادانستگی کی بنا پر ان جیسے نہ ہو جائیں ، اور ہم ان سے بچ سکیں۔
حضور ؐ نے فرمایا ـ: ’’وہ لوگ تمھارے ہی جیسے اور تمھارے بھائی ہی ہوں گے۔ وہ تمھاری طرح راتوں کو عبادت کریںگے لیکن اللہ کی مقرر کی ہوئی حدودِ حلال وحرام کی کوئی پروا نہیں کریں گے اورانھیں پامال کرتے رہیں گے‘‘۔
دوسری حدیث میں یہ اضافہ ہے : ’’پھر جو تجھ سے زیادہ قریب ہو وہ تیری رفاقت کا حق دار ہے‘‘۔
حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ کہتے ہیںکہ رسول کریمؐ نے فرمایا : ’’والدین کو گالی دینا گناہ کبیرہ ہے‘‘۔
صحابہ ؓ نے عرض کیا: ’’یا رسولؐ اللہ! ایسا کون ہے جو والدین کو گالی دے‘‘۔
آپ ؐ نے فرمایا : ’’وہ شخص ہے جو کسی کے والدین کو گالی دے اور وہ جواب میں اس کے والدین کو گالی دے ۔ گویا اس نے اپنے والدین کو گالی دلائی‘‘۔
ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ حضوؐر نے فرمایا : ’’باپ کی وفات کے بعد اس کے دوستوں کے ساتھ صلۂ رحمی سے پیش آنا اور ان سے اچھا سلوک کرنا بہت بڑی نیکی ہے‘‘۔
حضرت انسؓ حضوؐر سے روایت کرتے ہیں کہ ’’جو شخص رزق میں کشادگی اور عمر میں برکت چاہتا ہے اسے چاہیے کہ صلۂ رحمی کرے ‘‘۔
حضرت ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’جو نیک اور اطاعت گزار بیٹا اپنے والدین کو محبت کی نظر سے دیکھتا ہے تو اس کے نامۂ اعمال میں ہر نظر کے بدلے میں ایک مقبول حج کا ثواب لکھ دیا جاتا ہے‘‘۔
صحابہ ؓ نے سوال کیا: اگر کوئی شخص سو بار اپنے والدین کو بنظر محبت دیکھے تو کیا پھر بھی اسی طرح ثواب ملے گا ؟ آپ ؐ نے فرمایا : ’’ہاں، ہر نظر کے بدلے حجِ مبرور کا ثواب دیا جائے گا، اللہ اکبر واطیب (اللہ بہت بڑا اور ہر عیب سے پاک ہے)‘‘۔
حضرت سہل بن سعد ؓ کے مطابق رسول کریمؐ نے فرمایا ـ:’’ میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا (خواہ وہ یتیم اس کا اپنا رشتہ دار ہو یا غیر ) جنت میں اس طرح ہوں گے جیسے شہادت کی اور بیچ کی انگلی (حضوؐر نے ان دونوں انگلیوں کو کھول کر اور ان میں کشادگی رکھ کر بتایا کہ جس طرح ان دونوں کے درمیان براے نام فاصلہ ہے، اسی طرح یتیم کی کفالت کرنے والے کے درمیان اور میرے درمیان فاصلہ ہو گا)‘‘۔
حضرت ابو موسیٰ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ایمان والوں کا تعلق دوسرے ایمان والوں کے ساتھ ایک عمارت کے اجزا کا سا ہونا چاہیے کہ وہ باہم ایک دوسرے کی مضبوطی کا ذریعہ بنتے ہیں۔ پھر آپؐ نے اپنے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈالیں اور بتایا کہ اس طرح مسلمانوں کو باہم متحد رہنا چاہیے ‘‘۔
حضرت انس ؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ حضور ؐ نے فرمایاـ: ’’جس نے مظلوم کی مدد کی ، اللہ کے ہاں اس کے لیے ۳ ۷مرتبہ بخشش اور مغفرت لکھ دی جاتی ہے، جن میں سے ایک مغفرت کے نتیجے میں اس کی دنیا سنور جاتی ہے اور باقی ۷۲ بخششیں روز قیامت کے لیے محفوظ رہ جاتی ہیں‘‘۔
حضرت عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اللہ کے بندوں میں سے کچھ لوگ ایسے ہوں گے کہ جن کی اللہ کے یہاں قدرومنزلت کو دیکھ کر انبیاؑ اور شہدا بھی رشک کریں گے ، حالانکہ وہ ولوگ نہ نبی ہوں گے نہ شہید ‘‘۔
صحابہ کرامؓ نے سوال کیا: ’’یا رسولؐ اللہ!ہمیں بتایا جائے کہ وہ نیک بخت اور سعادت مند لوگ کون ہوں گے ؟‘‘
رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’وہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کی ہدایت کی وجہ سے آپس میں اُلفت ومحبت رکھتے ہیں، حالاںکہ ان میں قرابت داری بھی نہیں ہے اور نہ کوئی مالی مفادات ہی ان کے پیش نظر ہیں۔ اللہ کی قسم! ان کے چہرے قیامت کے دن نورانی ہوں گے بلکہ سراسر نُور ہوں گے۔ جب لوگ قیامت کے روز حساب کتاب سے ڈر رہے ہوں گے اس وقت وہ بے خوف اور مطمئن ہوں گے اور دوسرے لوگوں کی طرح وہ کسی قسم کے رنج وغم سے دوچار نہ ہوں گے۔ پھر آپ ؐ نے قرآن کریم کی یہ آیت پڑھی:
اَلَآ اِنَّ اَوْلِیَآئَ اللّٰہِ لَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَ لَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ O(یونس ۱۰:۶۲) سنو! جو اللہ کے دوست ہیں نہ انھیں کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔
حضرت اُمِ کلثومؓ بنت عقبہ بن ابی معیط کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا کہ : ’’وہ شخص جھوٹا نہیں ہے جو لوگوں میں صلح کرانے اور اصلاح کی غرض سے ایک دوسرے کو اچھی بات پہنچائے (یعنی دروغ مصلحت آمیز سے کام لے )‘‘۔
مسلم کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ حضرت اُم کلثومؓ نے بیان کیا کہ میں نے نبی ؐ کو تین مواقع پر ایسی بات کی رخصت عطا فرماتے سنا جسے لوگ جھوٹ میں داخل سمجھتے ہیں۔ ایک میدا ن جنگ میں دشمن کے ساتھ چال، دوسرے لوگوں میں اصلاح کی غرض سے کوئی خلاف واقعہ بات کہنا، اور تیسرے وہ خلافِ واقعہ بات جو شوہر بیوی سے اور بیوی شوہر سے (ایک دوسرے کو راضی کرنے کے لیے ) کرے‘‘۔
ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر کھڑے ہو کر بلند آواز سے فرمایا :’’اے لوگو! جو زبان سے ایمان لائے ہو لیکن ایمان ابھی تمھارے دلوں میں پوری طرح اُترا نہیں ہے، مخلص مسلمانوں کو ستانے ، انھیں عار دلانے ، شرمندہ کرنے اور ان کے چھپے ہوئے عیبوں کے پیچھے پڑنے سے باز رہو۔ کیونکہ جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی کمزوریوں کی ٹوہ لگاتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے یہی رویہ اختیار فرماتے ہیں۔ اور جس کسی کی کمزوری پر اللہ کی نظر ہو وہ اسے ظاہر فرما دیتا ہے چاہے وہ کسی محفوظ مقام میں جا بیٹھے ‘‘۔
حضرت مصعب بن سعد ؓ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہر چیز میںمیانہ روی اچھی ہے مگر آخرت کے معاملے میں میانہ روی کے بجاے مسابقت اور تیز روی سے کام لینا چاہیے ‘‘۔
ایک اور روایت کے الفاظ ہیں کہ ’’حیا خیر ہی خیر ہے ‘‘۔
حضرت عبداللہ بن عمر و ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’تم میں سے مجھے وہ لوگ زیادہ محبوب ہیںجن کے اخلاق زیادہ اچھے ہیں ‘‘۔
حضرت ابوذر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا:’’ تم جہاں اور جس حال میں ہو، یعنی خلوت میں ہو یا جلوت میں ، اللہ سے ڈرتے رہو، اور تم سے کوئی برائی سرزد ہو جائے تو فوراً کوئی نیکی کرو کہ وہ اس کی تلافی کر دے گی۔ اور اللہ کے بندوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آئو‘‘۔
حضرت ابن عمرؓ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ : ’’حیا اور ایمان ، دونوں ہمیشہ ایک ساتھ رہتے ہیں۔ ان میں سے کوئی ایک اٹھا لیا جائے تو دوسرا خود بخود اُٹھ جاتا ہے‘‘۔ (مطلب یہ ہے کہ حیا ایمان کا لازمی تقاضا ہے )۔
اس شخص نے اپنی بات کئی بار دہرائی کہ مجھے نصیحت فرمائیے مگر آپ ؐ نے ہر بار یہی فرمایا کہ ’’غصہ مت کیا کرو‘‘۔
حضرت ابن مسعود ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ جس آدمی کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہو گا وہ دوزخ کی آگ میں نہ جائے گا، اور وہ شخص جنت میں داخل نہ ہو گا جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر تکبر ہو گا‘‘۔
حضرت ابو موسیٰؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اللہ تعالیٰ ظالم کو مہلت دیتا ہے (ایک مدت تک وہ لوگوں پر ظلم کرتا رہتا ہے )۔ پھر جب اس کو پکڑتا ہے تو پھر اسے نہیں چھوڑتا ۔ پھر آپ ؐ نے یہ آیت تلاوت فرمائی :
وَ کَذٰلِکَ اَخْذُ رَبِّکَ اِذَآ اَخَذَ الْقُرٰی وَ ھِیَ ظَالِمَۃٌ ط اِنَّ اَخْذَہٗٓ اَلِیْمٌ شَدِیْدٌ O (ھود ۱۱:۱۰۲ ) اور تیرا رب جب کسی ظالم بستی کو پکڑتا ہے تو پھر اس کی پکڑ شدید اور درد ناک ہوتی ہے ۔
حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’مظلوم کی بددُعا سے بچو ۔ وہ اللہ سے اپنا حق مانگتا ہے اور اللہ تعالیٰ کسی حق دار کا حق نہیں روکتا (یعنی اسے اس کا حق مل جاتا ہے )‘‘۔
حضرت ابو بکر ؓ کہتے ہیں : ’’اے لوگو ، تم قرآن کریم کی یہ آیت پڑھتے ہو‘‘:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلَیْکُمْ اَنْفُسَکُمْ ج لَا یَضُرُّکُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اھْتَدَیْتُمْ ط (المائدہ۵ : ۱۰۵) اے ایمان لانے والو اپنی فکر کرو، کسی دوسرے کی گمراہی سے تمھارا کچھ نہیں بگڑتا اگر تم خود راہِ راست پر ہو ۔
ابن ماجہ اور ترمذی کی روایت کے مطابق آپؓ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا: ’’جب لوگ کسی منکر کو دیکھیں اور اسے روکنے کی کوشش نہ کریں تو اللہ کے عذاب کا انتظار کریں ‘‘۔
ابو داؤد کے الفاظ یہ ہیں کہ ’’جب لوگ ظالم کو دیکھیں اور اس کو ظلم سے روکنے کے لیے اس کا ہاتھ نہ پکڑیں تو اللہ تعالیٰ کے عذابِ عام کا انتظار کریں ‘‘۔
ابو داؤد کی ایک اور روایت اس طرح ہے: ’’جس قوم میںگناہوں اور معاصی کا ارتکاب عام ہو جائے اور اس قوم کے لوگ اسے روکنے کی قدرت رکھنے کے باوجود نہ روکیں ، تو وہ اللہ کے عذابِ عام کا انتظار کریں ‘‘۔
حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’دوزخ ان چیزوں سے ڈھانپ لی گئی ہے جو نفس کو مرغوب ہیں ۔ اور جنت ان چیزوں سے ڈھانپی گئی ہے جو نفس کو ناگوار ہیں ‘‘۔
حضرت ابن عمر وبن عوف ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’خدا کی قسم! میں تمھارے بارے میں فقراور غربت سے نہیں ڈرتا لیکن میں اس بات سے ڈرتا ہوں کہ دنیا تم پر اس طرح کشادہ کر دی جائے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر کشادہ کی گئی تھی ( یعنی مال ودولت اور سازو سامان کی فراوانی تمھیں حاصل ہو جائے )۔ پھر تم اس میں ایسی رغبت اور دل چسپی لینے لگو جیسی اگلے لوگوں نے لی تھی، اور یہ عمل تمھیں بھی اسی طرح ہلا ک کر دے جس طرح انھیں ہلاک کیا تھا ‘‘۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’تم میں سے کون ہے جو مجھ سے یہ کلمات سیکھ لے اور ان پر عمل کرے یا آگے ایسے آدمی کو سکھائے جو ان پر عمل پیرا ہو ؟ ‘‘
حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ میں نے کہا : یا رسولؐ اللہ! میں وہ کلمات سیکھنا چاہتا ہوں۔
پس حضوؐر نے میرا ہاتھ پکڑا اور گن کر پانچ باتیں بتائیں ۔ آپ ؐ نے فرمایا :
حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جس آدمی کی نیت آخرت کی تیاری کی ہو، اللہ تعالیٰ اس کا دل غنی کر دیتا ہے ، اس کی پریشانیاں سمیٹ دیتا ہے اور دنیا ذلیل ہو کر خود ہی اس کے پاس آ جاتی ہے۔ اور جس شخص کی نیت دنیا کمانے کی ہو ، اللہ تعالیٰ اس کی آنکھوں میں بھوک پیدا کر دیتا ہے (یعنی جتنا بھی اسے مل جائے وہ سیر نہیں ہوتیں )، اس کے کاموں کو اس طرح بکھیر دیتا ہے کہ وہ ان ہی میں اُلجھا رہتا ہے، اور ملتا وہی کچھ ہے جو پہلے سے اس کے مقدر میں لکھا ہوا ہے ‘‘۔
اور ایک روایت میں ہے: ’’اور میں اس سے اور اس کے عمل سے بری الذمہ ہوں‘‘۔
حضرت شداد بن اوس ؓ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا کہ: ’’جس آدمی نے دکھاوے کے لیے نماز پڑھی اس نے شرک کیا ، اور جس نے دکھاوے کے لیے روزہ رکھا اس نے بھی شرک کیا، اور جس نے دکھاوے کے لیے صدقہ کیا اس نے بھی شرک کیا‘‘۔
’’اے جبریلؑ! اس سورۃ میں مجھے دنیاسے میری رحلت کی خبر دی گئی ہے‘‘۔ یہ بات اللہ کے نبیؐ نے سورۃ النصر (اِذَا جَآئَ نَصْرُ اللّٰہِ وَالْفَتْحُ) کے نزول کے وقت حضرت جبریل ؑسے کہی۔
آپؐ کی بات سن کر حضرت جبریل ؑنے کہا: آخرت آپؐ کے لیے دنیا سے بہتر ہے اور عنقریب آپؐ کا رب آپؐ کو اتنا عطا فرمائے گا کہ آپؐ راضی ہو جائیں گے‘‘۔
اس خوش خبری کے باوجود محسن انسانیت کی فکر مندی کہ دنیاوی آلایش کا کوئی داغ آپؐ اپنے ساتھ بارگاہ الٰہی میں لے کر نہ جائیں، آپؐ کو بے چین کیے دے رہی تھی۔ لہٰذا اپنی رحلت سے انیس دن قبل آپؐ نے حضرت بلالؓ کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو جمع ہونے کی منادی کریں۔
چنانچہ مہاجرین و انصار مسجد نبویؐ میں جمع ہو گئے پھر آپؐ منبر پر جلوہ افروز ہوئے۔ امام طبرانی اپنی سند کے ساتھ حضرت جابر بن عبداللہ ؓاور حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے نقل کرتے ہیں کہ حمدوثنا کے بعد آپؐ نے ایسا بلیغ خطبہ اور تقریرِ دل پذیر ارشاد فرمائی، جس سے دل کانپ اٹھے اور آنکھوں سے آنسوئوں کی جھڑی لگ گئی۔ پھر فرمایا: ’’اے لوگو! میں تمھارے لیے کیسا نبی ہوں؟‘‘
ہر طرف سے آوازیں بلند ہوئیں: ’’آپؐ ہم میں شفیق و مہربان باپ اور خیر خواہ بھائی کی طرح ہیں۔ آپؐ نے اللہ کے پیغام کو پہنچا دیا اور اس کی وحی کی تبلیغ فرما دی۔ اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت و دل سوزی کے ساتھ دعوت دی۔ سو اللہ آپؐ کو ہماری طرف سے اس سے بہتر اجر عطا فرمائے جو وہ کسی نبی کو اس کی امت کی طرف سے جزا دیتا ہے‘‘۔
حاضرین کی اس گواہی کے بعد آپؐ نے فرمایا:’’یامعشرالمسلمین! میں تمھیں اللہ کی قسم دیتا ہوں اور تم پر میرا جو حق ہے، اس کا واسطہ دیتا ہوں، میری جانب سے کسی آدمی کی کوئی حق تلفی ہوئی ہو تو اسے چاہیے کہ وہ کھڑا ہوجائے اور مجھ سے اس تکلیف کا قصاص (بدلہ) لے لے‘‘۔
آپؐ کی یہ بات سن کو مجمع دم بخود بیٹھا رہا۔ دوسری مرتبہ پھر آپؐ نے لوگوں کو یہی بات پکار کر کہی۔ پھر بھی کوئی کھڑا نہ ہوا۔
اللہ کے حضوؐر، پیشی کا احساس آپؐ کو بے چین رکھتا تھا کہ میری ذات سے کسی بندے کو اذیّت نہ پہنچے، جسمانی نہ ذہنی۔ کسی کی دل آزاری کا احساس بھی آپؐ کو پریشان کر دیتا تھا۔ مسلم و مسنداحمد کی ایک روایت کے مطابق ایک دن آپؐ یہ دعا فرما رہے تھے: ’’ اے اللہ میں انسان ہوں، سو تقاضاے بشریت کے تحت اگر میں نے کسی مسلمان کی دلآزاری کی ہو یا میں نے کسی پر لعنت کی ہو، یا میں نے کسی کو کوڑے مارے ہوں، تو اے الٰہ العالمین ان چیزوں کو تو اس کے حق میں رحمت بنا دے اور اس کے گناہوں کا کفارہ بنا دے‘‘۔
اسی احساس کے تحت آج آپؐ مسجد نبویؐ میں صحابہ کے مجمع کو مخاطب فرما رہے تھے: ’’اے مسلمانوں کی جماعت!‘‘ حضوؐر نے تیسری مرتبہ پھر حاضرین کو پکارا: ’’میں تمھیں اللہ کی قسم دیتا ہوں اور تم پر اپنے حقوق کا واسطہ دیتا ہوں کہ میری طرف سے جس شخص کی حق تلفی ہوئی ہو، اسے چاہیے کہ وہ مجھ سے یہاں دنیا میں ہی قصاص لے لے۔ بروز قیامت قصاص لینے سے پہلے پہلے‘‘۔
مجلس پر گہرا سکوت طاری تھا کہ مجلس کے سرے سے ایک عمر رسیدہ بزرگ اٹھے، مسلمانوں کی گردنیں پھلانگتے ہوئے رسولؐ اللہ کی طرف بڑھنے لگے۔ اہل مجلس اس بوڑھے کو حیرانی سے دیکھ رہے تھے، اور ان کی ایک بڑی تعداد ان کو پہچان گئی تھی کہ یہ عکاشہؓ ہیں۔ چند ہی لمحوں بعد وہ منبر رسول کے سامنے کھڑے تھے اور پھر سنبھل کر گویا ہوئے:
فداک ابی واُمّی یا رسول اللّٰہ! (میرے ماں باپ آپؐ پر قربان) اگر آپؐ نے بار بار ہمیں قسمیں نہ دی ہوتیں تو میں کبھی یہ اقدام نہ کرتا۔ بات یہ ہے کہ کسی غزوے میں، میں آپؐ کے ساتھ تھا۔ پھر جب اللہ کی فتح و نصرت سے ہمکنار ہو کر ہم واپس آ رہے تھے تو راستے میں ایک جگہ میری اونٹنی آپؐ کی اونٹنی کے آگے آگئی۔ میں اونٹنی سے نیچے اتر پڑا اور آپؐ کے قریب ہوا تاکہ آپؐ کے قدم مبارک چوم سکوں تو آپؐ نے اپنی قضیب اٹھا کر میرے پہلو پر ماری۔ مجھے نہیںمعلوم کہ آپؐ نے مجھے جان بوجھ کر ماری یا آپؐ اونٹنی کو مارنا چاہتے تھے، جو مجھے لگ گئی‘‘۔
عکاشہؓ کی بات سن کر حضورؐ نے فرمایا:’’میں تمھیں اللہ کے جلال سے پناہ دیتا ہوں، اللہ کے رسولؐ نے جانتے بوجھتے تمھیں مارا تھا‘‘۔ یہ کہنے کے بعد آپؐ حضرت بلالؓ کی طرف متوجہ ہوئے:
’’اے بلالؓ! فاطمہؓ کے گھر جائو اور میری قضیب لے کر آئو‘‘۔
حضرت بلالؓ مسجد نبویؐ سے اس حال میں نکلے کہ ان کا ہاتھ ان کے سر پر تھا اور وہ اونچی آواز سے صدا لگا رہے تھے:’’لوگو! سنو! یہ اللہ کے رسولؐ ہیں جو اپنا قصاص دینا چاہتے ہیں۔ اللہ کے رسولؐ اپنا قصاص دینے جا رہے ہیں‘‘۔
اب وہ سیدہ فاطمہؓ کے گھر کے دروازے پر پہنچ چکے تھے۔ دروازہ کھٹکھٹایا۔ فاطمہؓ دروازے پر آئیں تو بلالؓ نے بلند آواز سے کہا:’’اے رسول ؐاللہ کی صاحبزادی! مجھے قضیب ممشوق دے دو‘‘۔
’’اے بلالؓ آج حج کا دن ہے نہ غزوے کا، ابّوجان قضیب کا کیا کریں گے؟‘‘۔
’’اے فاطمہؓ! تم کس قدر بے خبر ہو کہ نہیں جانتی کہ تمھارے والد آج کیا کرنا چاہتے ہیں۔ رسولؐ اللہ دین کو تمام کر رہے ہیں۔ دنیا کو داغ مفارقت دے رہے ہیں، اور اپنی ذات کا قصاص دینا چاہتے ہیں‘‘۔
حضرت بلالؓ کی یہ بات سن کر حضرت فاطمہؓ نے کہا: ’’وہ کون شخص ہے جو اس بات پر خوش ہے کہ رسولؐ اللہ سے قصاص لے؟ اے بلالؓ! تم حسنؓ و حسینؓ کو کہو کہ وہ اس شخص کے پاس جائیں تاکہ وہ شخص میرے بچوں سے قصاص لے لے۔ اور انھیں کہہ دینا کہ یہ شخص ہرگز رسولؐ اللہ سے قصاص نہ لے‘‘۔
حضرت بلالؓ نے قضیب (لاٹھی) اٹھائی اور تیز تیز قدموں سے چلتے ہوئے مسجد نبویؐ میں داخل ہوئے۔ رسولؐ اللہ کے قریب پہنچ کر قضیب آپؐ کے دست مبارک میں تھما دی اور رسولؐ اللہ نے قضیب عکاشہؓ کو سونپ دی۔
وقت کی رفتار تھم گئی۔ ہر شے گویا ساکت و جامد تھی۔ اہل مجلس حیران تھے۔ کیا اب ان کی نظروں کے سامنے نبیؐ سے قصاص لیا جائے گا؟ پھر ابوبکرؓ وعمرؓ اُٹھ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے: ’’اے عکاشہ! ہم تمھارے سامنے موجود ہیں، تو ہم سے قصاص لے لے، رسولؐ اللہ سے قصاص نہ لے‘‘۔
اپنے جاں نثاروں کے یہ جذبات دیکھ کر رسولؐ اللہ نے فرمایا:’’اے ابوبکرؓو عمرؓ! تم دونوں اپنی جگہ ٹھہرو! تمھارے مقام و مرتبہ کو اللہ خوب جانتا ہے‘‘۔
دامادِ رسول حضرت علیؓ اٹھ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے:اے عکاشہؓ! میری موجودگی میں پیغمبرؐ اسلام کے ساتھ ایسا ہو، اور میں زندہ رہوں، مجھے اچھا نہیں لگتاکہ حضورؐ سے قصاص لیا جائے۔ میں جسم و جان سے حاضر ہوں، مجھ سے قصاص لے لو۔ مجھے سو کوڑے مارلو لیکن رسولؐ اللہ سے قصاص مت لو‘‘۔رسولؐ اللہ نے حضرت علیؓ کو بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:’’اے علیؓ بیٹھ جائو! اللہ کے ہاں جو تمھارا مقام ہے، اللہ اسے زیادہ اچھی طرح جانتا ہے‘‘۔
حضرت علیؓ ابھی بیٹھنے بھی نہ پائے تھے کہ حسنؓ و حسینؓ کھڑے ہو گئے۔ دونوں نے کہا: ’’اے مرد بزرگ! کیا تمھیں معلوم نہیں کہ ہم دونوں رسولؐ اللہ کے نوا سے ہیں، ہم سے قصاص لینا، رسولؐ اللہ سے قصاص لینے کے مترادف ہے‘‘۔ یہ سن کر حضورؐ نے ان دونوں کو مخاطب کرکے فرمایا: ’’میری آنکھوں کی ٹھنڈک بیٹھ جائو۔ اللہ کے ہاں جو تمھارا مقام ہے، اللہ اسے ضائع نہیں کرے گا‘‘۔
ہر اُٹھنے والے نے عکاشہؓ کو مخاطب کیا لیکن وہ خاموش کھڑے ہوئے تھے۔ بالآخر رسالت مآبؐ نے فرمایا:’’اے عکاشہ تو اگر مارنا چاہتا ہے تو مار لے‘‘۔ یہ سن کر عکاشہؓ کے لب ہلے۔ اہل مجلس ہمہ تن گوش تھے کہ عکاشہؓ یہ کیا کہہ رہے ہیں:
’’یارسولؐ اللہ! جب آپؐ نے مجھے مارا تھا تو میرے پیٹ پر کپڑا نہیں تھا‘‘۔
عکاشہؓ کی بات سن کر اللہ کے نبیؐ نے اپنے بطنِ اقدس سے قمیص اُٹھا دی۔
مسلمانوں میں آہ و بکا کی آوازیں بلند ہوئیں۔ وہ کہہ رہے تھے: ’’کیا عکاشہؓ کے بارے میں یہ گمان کیا جا سکتا ہے کہ وہ رسولؐ اللہ سے قصاص لیں گے؟‘‘
اہل مجلس اضطراب سے پہلو بدل رہے تھے۔ یہ کتنی بڑی جسارت ہے۔ آخر عکاشہؓ کو کیا ہوگیا ہے؟ وہ اس منظر کے دیکھنے کی تاب لا سکتے تھے اور نہ آنکھیں ہی بند کر سکتے تھے۔ حاضرین یہ بھی جانتے تھے کہ عکاشہؓ کا عالم بالا میںمقام و مرتبہ کیا ہے۔ ایک مرتبہ حضورؐ نے فرمایا تھا کہ اُمت کے ۷۰ ہزار اشخاص ایسے ہوں گے جو بغیر حساب کتاب کے جنت میں داخل ہوں گے۔ یہ وہ لوگ ہوں گے جو فال بند (بدشگونی) نہیں لیں گے۔ تعویذوں سے کام نہیں لیں گے اور صرف اپنے رب پر بھروسا کریں گے۔ اس موقعے پر عکاشہؓ نے کھڑے ہو کر عرض کیا تھا:
’’یار سولؐ اللہ دعا کریں کہ اللہ مجھے اس گروہ میں شامل کر دے‘‘۔
عکاشہ کی یہ آرزو سن کر حضورؐ نے فرمایا: ’’تُو انھی میں سے ہے‘‘۔
اتنی بڑی خوش خبری سن کر مجلس سے ایک اور شخص کھڑا ہوا اور کہا: ’’یا رسولؐ اللہ میرے لیے بھی یہ دعا فرما دیں‘‘۔ آپؐ نے فرمایا: ’’عکاشہ تم سے سبقت لے گئے‘‘۔
پس عکاشہؓ کے بارے میں حدیث رسولؐ کی اس خوش خبری نے اہل مجلس کی زبانیں گنگ کر دی تھیں۔وہ حیران بھی تھے اور پر یشان بھی۔ لیکن زبان رسالت مآبؐ سے عکاشہؓ کے جنتی ہونے کی یقینی ضمانت نے ان پر سکوت طاری کیا ہوا تھا۔
حضورؐ نے بطن مبارک سے کپڑا ٹھایا ہوا تھا۔ سورج کی روشنی میں جسم مبارک یوں چمک رہا تھا جیسے صاف شفاف سفید قباطی کپڑے کی چمک ہو۔ عکاشہؓ کی آنکھیں بدن مبارک کی دید سے خیرہ ہو رہی تھیں اور پھر وہ اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکے۔ وہ بے تابانہ حضورؐ کے بطن مبارک کی طرف جھکے اورپھر فرط عقیدت سے اس کے بوسے لینے لگے اور کہنے لگے:آپؐ پر میرے ماں باپ قربان! کون یہ طاقت رکھتا ہے کہ آپؐ سے قصاص لے‘‘۔
عکاشہؓ کے اظہار محبت کو دیکھ کر رسولِؐ رحمت نے فرمایا:’’عکاشہ تمھیں اختیار ہے قصاص لو یا مجھے معاف کر دو‘‘۔
’’میں نے معاف کر دیا اس اُمید پر کہ مجھے اللہ قیامت کے دن معاف کرے گا‘‘۔
یہ سن کر حضوؐر گویا ہوئے:’’یامعشرالمسلمین! تم میں سے جو یہ چاہتا ہے کہ وہ جنت میں میرے ہم نشین کو دیکھے، اسے چاہیے کہ وہ اس مرد بزرگ کو دیکھ لے‘‘۔
بس پھر کیا تھا، اہل مجلس کھڑے ہو گئے، ان میں سے ہر ایک عکاشہؓ کی طرف لپک رہا تھا۔ انھوں نے عکاشہؓ کے ماتھے کو چومنا شروع کر دیا اور ہر ایک کی زبان پر تھا:
’’عکاشہ تمھیں مبارک ہو۔ تم نے اعلیٰ درجہ اور رسولؐ اللہ کی رفاقت پالی‘‘۔
اس کے بعد رسولؐ اللہ اسی دن بیمار ہو گئے اور آپؐ مرض وفات میں اٹھارہ دن مبتلا رہے۔ لوگ آپؐ کی عیادت کرنے آتے رہے۔(المعجم الکبیر للطبرانی)
انھی دنوں میں ایک دن جب حضوؐر کے چچا زاد بھائی فضل بن عباسؓ مسجد نبویؐ کے صحن میں بیٹھے تھے۔ حضوؐر ان کے پاس اس حال میں آئے کہ آپؐ نے اپنے سر مبارک کو کپڑے سے باندھا ہوا تھا۔ حضرت فضلؓ کہتے ہیںکہ آپؐ نے مجھے فرمایا:’’اے فضل! میرا ہاتھ تھامو!‘‘ میں نے آپؐ کا ہاتھ پکڑا تو وہ شدت بخار سے پھنک رہا تھا۔ میں نے آپؐ کو سہارا دیتے ہوئے آپؐ کو منبر مبارک پر بٹھا دیا۔ پھر آپؐ نے فرمایا:’’اے فضل! لوگوں کو جمع ہونے کی ندا لگائو‘‘۔ چنانچہ سب لوگ جمع ہو گئے۔
رسولؐ اللہ نے خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’اے لوگو! مجھ سے تمھارے حقوق لینے کا وقت آگیا ہے اور آیندہ دنوں میں تم اس جگہ پر مجھے نہیں دیکھو گے اور میں سمجھتا ہوں کہ کوئی دوسرا شخص ایسا نہیں جو میرے بعد میری کفایت کرسکے۔ سنو! جس شخص کی پیٹھ پر میں نے ناحق کوڑے لگائے ہوں تو یہ میری پیٹھ حاضر ہے، وہ بدلہ لے لے! اور جس سے میں نے مال لیا ہو، یہ میرا مال حاضر ہے، وہ اس میں سے اپنا مال وصول کر لے۔ اور جسے میں نے سب وشتم کیا ہو وہ بھی مجھ سے بدلہ لے لے۔ اور ہرگز کوئی یہ نہ کہے کہ مجھے رسول ؐ کی جانب سے عداوت کا خدشہ ہے۔ عداوت کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں، نہ دشمنی میری فطرت کا حصہ ہے۔ اور میرے ہاں تم میں سے سب سے اچھا وہ ہے جو مجھ سے اپنا حق وصول کر لے، اگر میرے ذمے اس کا کوئی حق ہے، تاکہ میں اللہ عزوجل سے اس حال میں ملوں کہ میں نے کسی کی حق تلفی نہ کی ہو‘‘۔
محفل پر ایک گہرا سکوت طاری تھا۔ایک شخص کھڑا ہوا اور عرض کیا: ’’یارسولؐ اللہ! میرے تین درہم دینا آپؐ کے ذمے ہے‘‘۔
آپؐ نے فرمایا: ’’میں اس بندے کو جھوٹا نہیں کہتا، نہ اس سے حلف لیتا ہوں کہ میرے پاس تمھارے درہم کس چیز کے ہیں‘‘۔
وہ کہنے لگا: ’’آپؐ کو یاد ہوگا کہ آپؐ ایک سائل کے پاس سے گزرے تو آپؐ نے مجھے اس کو تین درہم دینے کا حکم دیا تھا‘‘۔
آپؐ نے فرمایا:’’ اے فضل! اسے تین درہم دے دو‘‘۔
حضرت فضلؓ نے طلب کرنے والے کو کہا:’’آپ بیٹھ جائیں‘‘۔
رسولؐ اللہ نے یہ خطبہ پھر دہرایا اور فرمایا: ’’اے لوگو جس کسی کے پاس کوئی خیانت کا مال ہے، وہ لوٹا دے‘‘۔
ایک شخص کھڑا ہوا اور کہنے لگا: ’’یا رسولؐ اللہ! میرے پاس تین درہم ہیں جنھیں میں نے راہِ خدا میں خیانت کرکے حاصل کیا تھا‘‘۔
آپؐ نے فرمایا: ’’تم نے یہ خیانت کیوں کی؟‘‘
اس نے کہا : ’’میں ضرورت مند تھا‘‘۔
آپؐ نے فرمایا: ’’ اے فضل! اس سے تین درہم لے لو‘‘۔
پھر تیسری بار رسولؐ اللہ نے خطبہ دہرایا اور فرمایا: ’’لوگو! تم میں سے جو شخص اپنی ذات کے معاملے میں اضطراب محسوس کرتا ہو، وہ کھڑا ہو جائے،میں اس کے لیے اللہ سے دُعا کرتا ہوں‘‘۔
تو ایک شخص نے کھڑے ہو کر کہا:’’یا رسولؐ اللہ! میںمنافق ہوں، جھوٹ بولتا ہوں اور بہت سوتا ہوں‘‘۔ اس کی بات سن کر حضرت فاروق اعظمؓ بول پڑے:’’اے شخص! تم پر افسوس، بے شک اللہ نے تمھارا پردہ رکھا تھا، کاش! تم بھی اپنے اوپر پردہ رکھتے‘‘۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اے ابن خطاب! اس کو چھوڑ دو۔ فُضُوْحُ الدُّنْیَا اَہْوَنُ مِنْ فُضُوْحِ الْآخِرَۃِ ’’دنیا کی رسوائی آخرت کی رُسوائی کے مقابلے میں بہت ہلکی ہے‘‘۔ پھر آپؐ نے اپنے رب سے فریاد کی:’’ اے اللہ اسے صدق اور ایمان عطا فرما اور یہ جب چاہے اس سے اس کی نیند دور فرما‘‘۔(دلائل النبوۃ للبیہقی)
حضورؐ نے حضرت مقدادؓ کی تحسین فرمائی اور پھر کہا:’’لوگو! مجھے مشورہ دو‘‘۔
اب انصار میں سے حضرت سعد بن معاذؓ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے:’’حضور! شاید آپؐ کا اشارہ ہماری جانب ہے۔ اس ذات کی قسم جس نے آپؐ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے اگر آپؐ ہمیں سمندر میں کود جانے کا حکم دیں تو ہم اس میں بھی کود جائیں گے‘‘۔
انصار مدینہ ہر مشکل گھڑی میں رسولؐ اللہ اور آپؐ کے ساتھ ہجرت کرنے والے صحابہؓ کے ساتھ کھڑے رہے تھے۔ انھوںنے مہاجرین مکہ کو اپنے گھر وں میں صرف پناہ ہی نہیں دی تھی، انھیں سگے بھائیوں کی طرح جایداد اور کاروبار میں حصے دار بھی بنایا تھا۔ انھوں نے آپؐ کے لیے بیرونی خطرات ہی مول نہیں لیے تھے، اپنے قبیلے اور برادری کے منافقوں کی ریشہ دوانیوں کا بھی مقابلہ کیا تھا۔ وہ جنگ خندق کے موقعے پر اس وقت بھی ثابت قدم رہے تھے جب خود قرآن کے مطابق: وَاِذْ زَاغَتِ الْاَبْصَارُ وَبَلَغَتِ الْقُلُوْبُ الْحَـنَاجِرَ (احزاب ۳۳:۱۰)’’جب دیدے پتھرا گئے اور کلیجے منہ کو آ گئے‘‘۔ اس وقت بھی انصار مدینہ ثابت قدم رہے لیکن ساری زندگی رسولؐ اللہ اور اہل ایمان کو دکھ دینے والے قریش پر حضوؐر کی مالی نوازشات پر آج انصار کی باتیں شکوہ کناں تھیں۔
یہاں تک کہ ابن اسحاق کی روایت کے مطابق بنو خزرج کے سردار حضرت سعد بن عبادہؓ آپؐ کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کیا:’’یا رسولؐ اللہ! آپؐ نے حاصل شدہ مالِ فے میں جو نوازشات کی ہیں اس پر انصار اپنے جی ہی جی میں پیچ و تاب کھا رہے ہیں۔ آپؐ نے اسے اپنے قبیلے میں تقسیم فرمایا۔ قبائل عرب کو بڑے بڑے عطیات دیے لیکن انصار کو کچھ نہ دیا‘‘۔
آپؐ نے فرمایا:’’اے سعد اس بارے میں تمھارا کیا خیال ہے؟‘‘
’’یار سول اللہ میں بھی تو اپنی قوم کا ہی ایک فرد ہوں‘‘۔
پھر حضرت سعد بن عبادہؓ نے انصار مدینہ کو ایک چرمی خیمے کے اندر جمع کیا۔
’’حضورؐ! انصار مدینہ آپ کے لیے جمع ہو گئے ہیں‘‘، حضرت سعدؓ نے حضور سے عرض کیا۔ رسولؐ اللہ خیمے میں تشریف لائے اور اللہ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا:’’اے انصار کے لوگو! تمھاری یہ کیا چہ مگوئی ہے جو میرے علم میں آئی ہے اور یہ کیا ناراضی ہے جو دل ہی دل میں تم نے میرے بارے میں پال لی ہے؟‘‘
’’انصار کے جہاندیدہ لوگوں نے کہا: یارسولؐ اللہ! ہمارے بڑوں میں سے تو کسی نے کچھ نہیں کہا، البتہ چند نوخیز جوانوں نے آپس میں یہ بات کی ہے کہ اللہ رسولؐ اللہ کی مغفرت فرمائے۔ آپؐ قریش کو دیتے ہیں اور ہمیں نظر انداز کرتے ہیں حالاںکہ ہماری تلواروں سے ابھی تک ان کا خون ٹپک رہا ہے‘‘۔
آپؐ نے ان کی بات سن کر کہا:’’اے گروہ انصار! کیا ایسا نہیں کہ میں تمھارے پاس اس حالت میں آیا کہ تم گمراہ تھے، اللہ نے میرے ذریعے تمھیں ہدایت عطا فرمائی۔ تم محتاج تھے، اللہ نے تمھیں غنی کر دیا۔ تم باہمی دشمنیوں اور انتشار میں مبتلا تھے، اللہ نے تمھارے دل جوڑ دیے؟‘‘
’’کیوں نہیں! اللہ اور اس کے رسولؐ کا بڑا فضل و کرم ہے، سب بیک آواز بولے۔ اس کے بعد آپؐ نے فرمایا: ’’انصار کے لوگو! مجھے جواب کیوں نہیں دیتے؟‘‘
انصار نے عرض کیا:’’یا رسولؐ اللہ! بھلا ہم آپؐ کو کیا جواب دیں۔ بس اللہ اور اس کے رسول کا ہم پر فضل و احسان ہے‘‘۔ انصار یہی الفاظ بار بار دُہرا رہے تھے، اب رسولؐ اللہ نے فرمایا:’’نہیں! خدا کی قسم اگر تم چاہو تو کہہ سکتے ہو کہ اے محمدؐ! آپؐ ہمارے پاس اس وقت آئے جب آپؐ کی قوم نے آپؐ کو جھٹلا دیا تھا۔ ہم نے آپؐ کی تصدیق کی۔ آپؐ اپنی قوم میں بے یارومددگار تھے، ہم نے آپؐ کی مدد کی۔ آپؐ کو دھتکار دیا گیا، ہم نے آپؐ کوٹھکانا دیا۔ آپؐ محتاج تھے، ہم نے آپؐ کی غم گساری کی‘‘۔
رسولؐ اللہ کی خطابت کی لَے اپنے جوبن پر تھی، اور مجمع میں دبی دبی سسکیاں سنائی دے رہی تھیں:’’اے انصار کے لوگو! تم دنیا کی اس عارضی دولت کے لیے مجھ سے ناراض ہو گئے جو میں نے قبولِ اسلام کرنے والے نئے لوگوں کی تالیفِ قلب کے لیے ان کو دے دی ہے۔ اے گروہ انصار! کیا تم اس بات سے راضی نہیں ہو کہ لوگ اُونٹ اور بکریاں لے کر اپنے گھروں کو جائیں اور تم اللہ کے رسول کو اپنے ساتھ لے کر اپنے گھروں کی طرف پلٹو‘‘۔ خدا کی قسم! جس چیز کو لے کر تم جائو گے، وہ اس چیز سے بہتر ہے جو وہ لے کر جائیں گے‘‘۔
ہم راضی ہیں یارسول اللہ! ہم راضی ہیں اس بات سے کہ ہمارے حصے میں اللہ کے رسول ہوں‘‘، سب بیک زبان پکا ر رہے تھے۔ اس پکار میںہچکیوں کی آواز بھی شامل تھی۔ آپؐ پھر گویا ہوئے: ’’اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں محمدؐ کی جان ہے! اگر ہجرت نہ ہوتی تو میں بھی انصار ہی کا ایک فرد ہوتا۔ اگر ساری دنیا ایک راہ چلے اور انصار دوسری راہ چلیں تو میں بھی انصار ہی کی راہ چلوں گا۔ اے اللہ! انصار پر رحم فرما، انصار پر، ان کے بیٹوں پر اور ان کے بیٹوں کے بیٹوں پر (پوتوں) پر بھی‘‘۔
رسولؐ اللہ کا یہ دل پذیر خطاب سن کر انصار اس قدر روئے کہ داڑھیاں تر ہو گئیں۔ وہ بار بار کہے جا رہے تھے:’’ہم راضی ہیں کہ ہمارے نصیب میں اللہ کے رسولؐ ہیں‘‘۔
’’اے میرے انصار! عن قریب تم پر کچھ مشکلات آئیں گی، تم صبر کرنا، یہاں تک کہ تم اللہ اور اس کے رسولؐ سے جاملو۔ یقینا میں حوضِ کوثر پر تمھارا منتظر رہوں گا!‘‘(الرحیق المختوم)
’راہِ اعتدال‘ اسلام کی ایک نمایاں خصوصیت ہے۔ اس کو ’توازن‘ کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ یعنی دو متقابل (متوازی) یا متضاد (مخالف) چیزوں کے درمیان ’اعتدال‘ کا اس طرح پایا جاناکہ ان میں سے ایک زیادہ توجہ پالینے کی بنا پر منفرد اور نمایاں نظر نہ آئے اور اس کی مقابل چیز نظرانداز ہو کر نہ رہ جائے۔متقابل اور متضاد چیزوں کو مثال کے طور پر یوں سمجھا جا سکتا ہے: ربوبیت اور انسانیت، روحانیت اور مادّیت، اُخرویت اور دُنیویت، وحی اور عقل، ماضی اور مستقبل، انفرادیت اور اجتماعیت، ثبات اور تغیر وغیرہ ۔ان کے درمیان توازن سے مراد یہ ہے کہ ہرایک کے دائرے اور حدود کو تنگ اور محدود نہ کیا جائے بلکہ کشادہ اور وسیع رکھا جائے اور ’عدل‘ کے ساتھ اُس کا حق دیا جائے۔ کسی کے حق میں کوئی کمی ہو، نہ حد سے تجاوز، نہ مبالغہ ہو، نہ تقصیر اور نہ ظلم و زیادتی ۔
اللہ کی پیدا کردہ اس کائنات میں ہم اپنے گردوپیش پر نگاہ ڈالیں تو ہمیں رات اور دن، تاریکی اور روشنی، گرمی اور سردی، خشکی اور سمندر اور دیگر بے شمار مخلوقات دکھائی دیتی ہیں، اور یہ سب ایک حساب، میزان اور حدود کی پابند نظر آتی ہیں۔ کوئی چیز مقابل اور متوازی چیز پر زیادتی کرسکتی ہے اور نہ اپنی مقررہ حدود سے تجاوز کر سکتی ہے۔ آسمان پر سورج، چاند اور تارے وسیع و عریض فضا کے اندر اپنے اپنے مدار میں گردش کرتے ہیں۔ کوئی دوسرے سے تصادم نہیں کرتا اور اپنے دائرے اور حدود سے نہیں نکلتا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
ہم نے ہر چیز ایک تقدیر کے ساتھ پیدا کی ہے۔(القمر۵۴:۴۹)
تم رحمٰن کی تخلیق میں کسی قسم کی بے ربطی نہ پائو گے۔(الملک۶۷:۳)
نہ سورج کے بس میں یہ ہے کہ وہ چاند کو جا پکڑے اور نہ رات دن پر سبقت لے جاسکتی ہے۔ سب ایک ایک فلک میں تیر رہے ہیں۔ (یٰس۳۶:۴۰)
آسمان کو اُس نے بلند کیااور میزان قائم کر دی۔ (الرحمٰن۵۵:۷)
توازن اور عدل درحقیقت انسان کے بس سے باہر ہے۔ اس لیے کہ اُس کی عقل اور علم محدود ہے۔ ذاتی و خاندانی، نسلی اور قومی میلانات اور جذبات و احساسات سے وہ متاثر ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان کا وضع کردہ کوئی نظام و قانون خواہ وہ ایک فرد نے تشکیل دیا ہو، یا انسانوں کے کسی گروہ نے، افراط و تفریط سے کبھی خالی نہیں ہو سکتا۔ ماضی اور حال کا مطالعہ اس بات کی تائید کرتا ہے۔
یہ توازن اور میزان قائم کرنے اور جاری رکھنے کا حق صرف اُسی ذات کو حاصل ہے جو کائنات کے اندر مادی و معنوی ہر شے عطا کرنے والی ہے۔ وہ اللہ وحدہ لاشریک ہے جس نے ہرچیز کو درست تقدیر کے ساتھ پیدا کیا۔ پھروہ ذات ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے، باخبر ہے اور اس نے اپنی رحمت اور علم کا سایہ ہر شے کے اوپر پھیلا رکھا ہے۔ یہ بات نہایت نامناسب اور نامعقول ہو گی کہ کائنات کی تخلیق اور اس نظام کے جاری و ساری رہنے میں تو اللہ کا قائم کردہ توازن موجود ہو، مگر انسانوں کو عطا کیے گئے دین و ہدایتِ حق میں یہ توازن موجود نہ ہو۔
اعتدال و توازن کے اس مفہوم و معنی کی روشنی میں عملی اور نظریاتی، تربیتی اور قانونی، غرض اسلام کی ہر تعلیم اور ہر حکم میں اعتدال موجود ہے۔ اسلام عقیدہ و نظریہ، عبادات و شعائر، اخلاق و آداب اور قانون و نظام میں معتدل ہے۔
عقیدے و نظریے کے اعتبار سے انسانوں کے متعدد گروہ ہیں۔ ہر گروہ کسی نہ کسی لحاظ سے اعتدال اور توسط سے دور ہے۔ یہ شرف اور خصویت صرف اسلام کو حاصل ہے کہ وہ ان تمام گروہوں کے درمیان اعتدال کی علامت کے طور پر کھڑا ہے:
۱-انسانوں کا ایک گروہ عقیدے و نظریے میں اسراف و زیادتی کا ارتکاب کرتا ہے۔ دوسرا گروہ مادیت پرستوں کا ہے جو ماوراے حِس ہر چیز کا انکار کرتا ہے۔ فطرت کی آواز پر کوئی توجہ دیتا ہے نہ عقل کی بات مانتا ہے، حتیٰ کہ کسی معجزے کو بھی ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔
اسلام اعتقاد و ایمان کی دعوت دیتا ہے، لیکن ایسا ایمان جس کے اوپر قطعی دلیل قائم ہوتی ہو، یقینی برہان سے وہ ثابت ہو۔ اس کے علاوہ جو کچھ ہے اسلام اُس کا انکار کرتاہے اور اُسے اوہام و خرافات قرار دیتا ہے۔ اسلام کا تو یہ دائمی شعار ہے: قُلْ ھَاتُوْا بُرْھَانَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ o (البقرہ ۲:۱۱۱)’’ان سے کہو، اپنی دلیل پیش کرو، اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو‘‘۔
۲- عقیدے و نظریے کے حوالے سے ایک گروہ ملحدین کا ہے جو کسی الٰہ اور معبود ہی کا قائل نہیں۔ وہ اپنے سینے میں موجود فطرت کی آواز کو بھی دبا دیتے ہیں اور اپنے دماغ میں موجود عقل کی اپیل کو بھی رد کر دیتے ہیں۔ ان کے مقابلے میں ایک گروہ اُن لوگوں کا ہے جو متعدد معبودوں کا قائل ہے، یہاں تک کہ وہ شجر و حجر اور جانوروں کی بھی پوجا کرتے اور اصنام و اوثان کو معبود مانتے ہیں۔
اسلام صرف ایک معبودِ لاشریک پر ایمان لانے کی دعوت دیتاہے، یعنی وہ اِلٰہ اور معبود جو لَمْ یَلِدْ لا وَلَمْ یُوْلَدْ o وَلَمْ یَکُنْ لَّـہٗ کُفُوًا اَحَدٌ o (اخلاص ۱۱۲:۳-۴) ہے۔ اُس کے علاوہ جو کچھ ہے سب مخلوق ہے اور مخلوق میں سے کوئی چیز بذاتِ خود کسی کو کوئی نفع و نقصان پہنچانے، موت و حیات سے ہم کنار کرنے، ازسرِنو زندہ اُٹھانے کی قدرت و صلاحیت ہرگز نہیں رکھتی کہ اُسے الٰہ اور معبود مان کر شرک، ظلم اور کھلی گمراہی کا ارتکاب کیا جائے۔ فرمایا:’’آخر اُس شخص سے زیادہ بہکا ہوا اِنسان اور کون ہو گا جو اللہ کو چھوڑ کر اُن کو پکارے جو قیامت تک اُسے جواب نہیں دے سکتے، بلکہ اِس سے بھی بے خبر ہیں کہ پکارنے والے ان کو پکار رہے ہیں‘‘۔(احقاف۴۶:۵)
۳-کچھ لوگ صرف کائنات ہی کو وجودِ حقیقی مانتے ہیں۔ ان کے نزدیک اس کے علاوہ جو کچھ ہے (جس کو آنکھ دیکھ نہیں سکتی اور ہاتھ چھو نہیں سکتا)، وہ وہم ہے۔ یہ نظریہ رکھنے والے لوگ مادہ پرست ہیں جو ہر ماوراے حِس چیز کا انکارکرتے ہیں۔ اور کچھ لوگ کائنات کو وہم اور غیرحقیقی خیال کرتے ہیں۔ اُن کے نزدیک یہ سراب ہے جس کو پیاسا پانی سمجھ بیٹھا ہے۔ یہاں صرف ایک ہی وجود ہے اور وہ اللہ تعالیٰ ہے۔ اُس کے علاوہ کچھ موجود نہیں ہے۔ یہ گروہ وحدۃ الوجود کا قائل ہے۔
اسلام کائنات کے وجود کو ایک حقیقت قرار دیتا ہے جس میں کوئی شک و شبہہ نہیں ، مگر وہ اس حقیقت سے ایک دوسری بڑی حقیقت تک انسان کو لے جاتا ہے۔ وہ حقیقت اُس ذات کا وجود ہے جس نے اس کائنات کو تشکیل دیا، اس کا نظام قائم کیااور اس نظام کو چلایا اور مسلسل چلا رہا ہے۔
۴-عقیدے کے لحاظ سے کچھ لوگ انسان کو معبود سمجھ بیٹھے ہیں۔ وہ انسان کے اندر ربوبیت کی خصوصیات کا عقیدہ رکھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ انسان خود اپنا اِلٰہ ہے۔ وہ جو چاہے کرے اور حکم دے۔ انھی لوگوں کے مقابل کچھ لوگ انسان کو معاشی یا سماجی یا دینی جبریت کا پابند خیال کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انسان تو ایک تنکا ہے جس کو ہوا جدھر چاہے اُڑا لے جائے، یا یہ ایک پتلی ہے جس کو سماج ہلاتا اور حرکت دیتا ہے، یا پھر معیشت اور تقدیر اُس سے کچھ کرواتی ہے۔
اسلام کی نظر میں انسان ایک ذمہ دار اور جواب دہ مخلوق ہے اور اشرف المخلوقات ہے۔ وہ اللہ کا بندہ ہے۔ وہ اپنے ماحول کو خود جس قدر چاہے تبدیل کر سکتاہے:’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی‘‘۔(الرعد۱۳:۱۱)
۵- انسانوں میں سے کچھ انسان انبیا ؑ کو اس قدر مقدس ٹھیراتے ہیں کہ انھیں مرتبہ الوہیت تک پہنچا دیتے ہیں، یا انھیں اللہ تعالیٰ کا بیٹا کہتے ہیں۔ ان کے مقابل وہ بدبخت بھی ہیں جنھوں نے انبیا ؑ کو جھٹلایا، اُن پر تہمتیں لگائیں، اذیتیں دیں، حتیٰ کہ اُن کا ناحق خون کر دیا۔
اِسلام کہتاہے کہ انبیا ؑ انسان تھے۔ وہ کھانا بھی کھاتے تھے اور گلیوں بازاروں میں بھی چلتے پھرتے تھے۔ اُن کی بیویاں بھی تھیں اور اولاد بھی۔ ان کے اور دیگر انسانوں کے درمیان فرق یہ ہے کہ ان کو اللہ تعالیٰ نے شرفِ وحی سے سرفراز کیا اور معجزات سے ان کی تائید و نصرت فرمائی، اور انسانیت کی ہدایت کے لیے ان کو نبی اور رسول مقرر فرمایا۔ اور خود انھی کی زبانی کہلوایا:’’اُن کے رسولوں نے ان سے کہا واقعی ہم کچھ نہیں ہیں مگر تم ہی جیسے انسان۔ لیکن اللہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے نوازتا ہے، اور یہ ہمارے اختیار میں نہیں ہے کہ تمھیں کوئی سند لادیں۔ سند تو اللہ ہی کے اِذن سے آ سکتی ہے اور اللہ ہی پر اہل ایمان کو بھروسا کرنا چاہیے‘‘۔ (ابراھیم ۱۴:۱۱)
۶-کچھ لوگ حقائق کو جاننے کا واحد ذریعہ عقل کو مانتے ہیں۔ اور کچھ لوگ عقل کا منفی و مثبت کوئی کردار ہی تسلیم نہیں کرتے اور محض وحی و الہام پر ایمان رکھتے ہیں۔
اِسلام عقل پر یقین رکھتا اور غوروفکر کی دعوت دیتا ہے۔ جمود و تقلید کو پسند نہیں کرتا۔ وہ احکام و منہیات کے سلسلے میں عقل سے مخاطب ہوتا ہے۔ وہ کائنات کی دو عظیم حقیقتوں کے اثبات میں اُسی کے اُوپر اعتماد کرتا ہے، یعنی وجودِباری تعالیٰ اور انبیا ؑکے دعواے نبوت کی تصدیق عقل ہی سے کی جاتی ہے۔ لیکن عقل کی تکمیل اور تائید کے لیے وہ وحی پر ایمان لانا ضروری ٹھیراتا ہے، کیوںکہ عقل بھٹک سکتی ہے اور اس پر خواہشات کا غلبہ بھی ہو سکتا ہے۔ وحی اُن امور میں عقل کی ہادی و رہنما ہے جو عقل کی رسائی اور حدود سے باہر ہیں، مثلاً امورِ غیب اور تعلیماتِ نبوت اور عبادت!
کچھ قوموں اور ادیان نے اپنے فلسفہ و نظریہ اور واجبات و فرائض کے روحانی پہلو، یعنی عبادت و بندگی کو ہی کالعدم کر رکھا ہے۔ جیسا کہ بودھ مت صرف انسانی اخلاق کے حوالے سے پابندیاں اور امور واجب کرتا ہے۔اسی طرح کچھ دین ایسے ہیں جو اپنے پیروکاروں سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ دنیا کو تج کر عبادت کے لیے وقف ہو جائو، جیسا کہ مسیحی رہبانیت کا یہ تصور ہے۔
اِسلام ایک مسلمان سے متعین شعائراور عبادات کی ادایگی کا مطالبہ کرتا ہے، مثلاً دن بھر میں پانچ نمازوں کی ادایگی، سال میں ایک بار صیامِ رمضان، اور زندگی میں ایک دفعہ حج۔ مقصد یہ ہے کہ انسان دائمی طور پر اللہ تعالیٰ سے مربوط رہے۔ وہ اُس کی رضا و خوش نودی سے کٹ نہ جائے۔ ان شعائر کی ادایگی کے بعد وہ آزاد ہوتا ہے کہ دنیاوی کام کاج کرے۔ گوشہ ہاے ارض پر دوڑدھوپ کرے، اور رزق کمائے۔ اس کی واضح ترین مثال آیت جمعہ ہے۔ (الجمعہ ۶۲:۹-۱۰)
یہ ہے دین اور زندگی کے ساتھ مومن کا تعلق، اور وہ بھی جمعہ کے روز کہ وہ نماز سے قبل بھی دنیاوی کام کاج کرے، اور پھر نماز اور ذکر الٰہی کے لیے آ جائے۔ کاروبار و تجارت اور دیگر مشاغلِ حیات کو چھوڑ دے۔ نماز کی ادایگی کے بعد دوبارہ زمین میں پھیل کر اپنا رزق تلاش کیا جائے اور کسی حال میں بھی ذکر الٰہی سے غافل نہ ہو۔ کیوںکہ کامیابی اور فلاح کی اساس یہی ذکر ہے۔
۱- مثالیت پسندوں (Idealistics)کا خیال ہے کہ انسان ایک فرشتہ یا فرشتے کے مشابہ مخلوق ہے۔ ان لوگوں نے انسان کے لیے ایسے آداب و اقدار وضع کیے ہیں جن کے اوپر پورا اُترنا انسان کے بس میں نہیں۔ اسی طرح وہ واقعیت پسند (Realistics) ہیں جنھوں نے انسان کو حیوان یا حیوان سے مشابہ سمجھا ہے۔ پہلے گروہ نے انسانی فطرت کے بارے میں اس قدر حُسن ظن کیا کہ انسان کو مکمل خیر قرار دے دیا، جب کہ دوسرے گروہ نے انسان کو گرا کر خالص شر ٹھیرا دیا۔
اِسلام کا نظریۂ انسان ان دونوں انتہائوں کے درمیان عدل و توازن پر مبنی ہے۔ اسلام کی نظر میں انسان مخلوقِ مرکب ہے۔ اس کے اندر عقل، شہوت اور روحانی ملکہ ہے۔ اس کو دونوں راستوں کاشعور الہام کیاگیا ہے۔ وہ ان دونوں راستوں پر چلنے کے لیے فطری طور پر تیار کر دیا گیا ہے۔ وہ چاہے تو شکرگزار بن جائے، اور چاہے تو منکر ہو جائے۔ اس کے اندر فجور پر چلنے کی استعداد بھی ہے اور تقویٰ کو اختیار کرنے کی طاقت بھی۔ اس کی مہم نفس سے جہاد اور اس کی تربیت ہے تاکہ اُس کا تزکیہ ہو جائے۔ اسی لیے فرمایا گیا: ’’اور نفس انسانی کی اور اُس ذات کی قسم جس نے اسے ہموار کیا۔ پھر اُس کی بدی اور اُس کی پرہیزگاری اُس پر الہام کر دی، یقینا فلاح پا گیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا اور نامراد ہوا وہ جس نے اُس کو دبا دیا‘‘۔ (الشمس ۹۱:۷-۱۰)
۲- انسانی تصورات اور نظریات میں افراط و تفریط موجود ہے۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ انسان آسمانی روح ہے جس کو ارضی جسد کے اندر قید رکھا گیا ہے۔ یہ لوگ اس روح کی بالیدگی اور صفائی ستھرائی انسانی جسم کو تعذیب اور محرومی سے دوچار کرکے ممکن سمجھتے ہیں، جیسا کہ برہمنیت وغیرہ کا تصور ہے۔ اسی طرح کچھ مادہ پرست نظریات انسان کو صرف جسم تصور کرتے ہیں۔ اسے ایک مادی وجود سمجھتے ہیں جس میں کوئی آسمانی روح موجود نہیں ہے اور نہ وہ کسی آسمانی عطیے کے لیے خاص ہے۔
اسلام کے عطا کردہ تصور میں انسان ایک روحانی اور مادی وجود ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانِ اوّل کی تخلیق مٹی سے فرمائی اور یہ چیز اس کے وجود کی مادیت پر دلیل ہے، اور پھر اس انسانی بدن کے اندر اپنی روح پھونکی اور یہی روح انسان کا طرۂ امتیاز اور سرچشمۂ عزت و توقیر ہے۔ اسی بنیاد پر تو فرشتوں کو اِس کے سامنے سجدہ ریز ہونے کا حکم ملا۔چونکہ انسان روح و بدن کا مرکب ہے، اس لیے اسلام نے اس کی روح کا حق بھی اس کے اوپر واجب کیا ہے اور اس کے بدن کا حق بھی۔
۳- ایک طبقہ آخرت کا منکر ہے۔ ان کے نزدیک اوّل و آخر یہی دنیاوی زندگی سب کچھ ہے، اس کے علاوہ کچھ نہیں:’’آج یہ لوگ کہتے ہیں کہ زندگی جو کچھ بھی ہے بس یہی ہماری دنیا کی زندگی ہے اور ہم مرنے کے بعد ہرگز دوبارہ نہ اٹھائے جائیں گے‘‘(الانعام۶:۲۹)۔ اسی تصور کی بنا پر وہ شہوات اور خواہشاتِ نفس میںغرق رہے۔ اپنے نفس کے غلام ہو کر رہ گئے۔ دنیاوی مفادات کے علاوہ انھیں کوئی مقصد اور ہدف ہی دکھائی نہ دیا جس کے اوپر وہ اپنی توجہ مرکوز کرتے۔
ہر زمانے کے مادہ پرستوں کا یہی وتیرا رہا ہے۔ ان کے مقابلے میںکچھ ایسے بھی ہیں جنھوں نے اس دنیا کو کوئی اہمیت دینے سے ہی انکار کر دیا۔ انھوں نے اپنی زندگی میں اس کو ایک کالعدم عنصر کی حیثیت سے دیکھا، اور اسے سراسر شر خیال کیا جس کی مزاحمت ضروری ہے۔ دنیاوی ضروریات و آسایشات سے ہی خود کو محروم رکھنا لازمی سمجھا، اور دنیا والوں سے خود کو دُور رکھنا اپنے اوپر واجب ٹھیرا لیا۔ دنیا کی تعمیر و ترقی اور اس کے لیے کچھ کرنا یا اسے کچھ دینا گناہ سمجھا۔
اسلام ان دونوں نظریاتِ زندگی کی اصلاح کرتا اور خود ایک معتدل نظریہ عطا کرتا ہے۔ اِسلام کے نزدیک دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔ دنیا کی تعمیر کا عمل اللہ کی عبادت قرار دیا گیا ہے۔ اسلام اُن انتہا پسند دین داروں کی تردید کرتا ہے جو زینت اور پاکیزگی کو بھی حرام سمجھتے ہیں، اور ان کو بھی درست نہیں سمجھتا جو خوش حالی و شہوت پرستی میں غرق ہو کر رہ جاتے ہیں۔اللہ تعالیٰ فرماتاہے:
اور کفر کرنے والے بس دنیا کی چند روزہ زندگی کے مزے لوٹ رہے ہیں، جانوروں کی طرح کھا پی رہے ہیں، اور اُن کا آخری ٹھکانا جہنم ہے۔(محمد ۴۷:۱۲)
اے بنی آدمؑ، ہر عبادت کے موقعے پر اپنی زینت سے آراستہ رہو اور کھائو پیو اور حد سے تجاوز نہ کرو، اللہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ اے نبیؐ، اِن سے کہو، کس نے اللہ کی اُس زینت کو حرام کر دیا جسے اللہ نے اپنے بندوں کے لیے نکالا تھا اور کس نے خدا کی بخشی ہوئی پاک چیزیں ممنوع کر دیں؟(اعراف۷:۳۱-۳۲)
آخر کار اللہ نے اُن کو دنیا کا ثواب بھی دیا اور اس سے بہتر ثوابِ آخرت بھی عطا کیا۔ اللہ کو ایسے ہی نیک عمل لوگ پسند ہیں۔(اٰلِ عمرٰن۳:۱۴۸)
قرآن اس کے لیے ایک جامع دعا بھی سکھاتا ہے: ’’اے ہمارے رب، ہمیں دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی، اور آگ کے عذاب سے ہمیں بچا‘‘۔(البقرہ ۲:۲۰۱)
قوانین میں اعتدال
اِسلام اپنے قانونی و سماجی نظام میں اعتدال و توازن کی خصوصیت کا حامل ہے۔ حلّت و حرمت کے قانون کو یہودیت نے اپنے ہاتھ میں لیا تو محرمات میں انتہا کو پہنچ گئے۔ اللہ نے جو کچھ اُن کے اوپر حرام نہیں کیا تھا اُس کو بھی حرام ٹھیرا دیا۔ یہ اُن کی بغاوت اور سرکشی کی روش تھی۔ اسی طرح مسیحیت نے بھی حلّت و حرمت کا اختیار اپنے ہاتھ میں لیا تو اُن چیزوں کو بھی حرام قرار دے لیا جو اللہ تعالیٰ نے اُن کے اوپر حرام نہیں کی تھیں۔ اِنھوں نے اُن اشیا کو حلال کر لیا جن کی حرمت کی نصوص تورات میں موجود تھیں اور مسیحؑ تو تورات کی تکمیل کے لیے آئے تھے۔ اس کے باوجود مسیحیت کے بڑوں نے کہا کہ طاہرین کے لیے ہر چیز طاہر ہے۔
اسلام کا نظام حلّت و حرمت ان دونوں انتہائوں کے درمیان ہے۔ اسلام نے حلال و حرام کا اختیار کسی انسان کو نہیں دیا، بلکہ یہ اللہ وحدہ کا حق ہے۔ اللہ نے صرف ناپاک و نقصان دہ چیزوں کو حرام اور نفع بخش و پاک چیزوں کو حلال قرار دیا ہے۔ خود اہل کتاب کا مصدرِ دین رسولِ اکرمؐ کے اوصاف اس طرح بیان کرتا ہے:’’وہ انھیں نیکی کا حکم دیتا ہے، بدی سے روکتا ہے، اُن کے لیے پاک چیزیں حلال اور ناپاک چیزیں حرام کرتا ہے، اور اُن پر سے وہ بوجھ اُتارتا ہے جو اُن پر لدے ہوئے تھے اور وہ بندشیں کھولتا ہے جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے‘‘۔(اعراف۷:۱۵۷)
عائلی اور خاندانی امور و مسائل میں بھی اسلام کے قوانین اعتدال پر مبنی ہیں۔ عائلی معاملات میں غیراسلامی نظریات کی دو انتہائیں یہ ہیں کہ بعض لوگ ازدواج (شادی)کی تعداد میں حد اور قیدو پابندی ہی کے قائل نہیں، اور بعض لوگ ایک سے زائد شادی کے سرے سے قائل ہی نہیں خواہ ضرورت و حاجت اور حالات و واقعات کا تقاضا کتنا ہی ناگزیر ہو۔ اسلام نے ایک سے زائد شادیوں کی اجازت انسان کی مالی استطاعت اور ازواج کے درمیان عدل کے برتائو کو یقینی بنانے سے مشروط کرکے دی ہے۔ اگر انسان کو اندیشہ ہو کہ وہ ایک سے زائد بیویوں سے عدل نہیں کرپائے گا تو اُس پر لازم ہے کہ وہ ایک ہی بیوی پر اکتفا کرے: ’’لیکن اگر تمھیں اندیشہ ہو کہ ان کے ساتھ عدل نہ کر سکو گے تو پھر ایک ہی بیوی کرو‘‘۔(النساء۴:۳)
طلاق کا معاملہ دیکھ لیجیے کہ یہاں بھی اسلام دو انتہائوں کے درمیان کھڑا نظر آتا ہے۔ ایک انتہا پر وہ لوگ کھڑے ہیں جو طلاق کو سرے سے حرام سمجھتے ہیں، خواہ میاں بیوی کی ازدواجی زندگی ناقابل برداشت ہولناکی سے دوچار ہو، جیسا کہ کیتھولک چرچ کا تصور ہے۔ انھی سے قریب قریب آرتھوڈوکس چرچ کا نظریہ ہے جنھوں نے طلاق کو زنا اور ازدواجی خیانت کے علاوہ حرام ہی سمجھا ہے۔ ان کے مقابل وہ لوگ ہیں جنھوں نے طلاق کو اس قدر کھلا چھوڑ رکھا ہے کہ وہ کسی قید و حد کی پابند ہی نہیں، اور نہ کسی شرط سے مشروط ہے۔ مرد و عورت میں سے جو بھی طلاق کا مطالبہ کرے اُسے اختیار حاصل ہے۔ اس طرح تو ازدواجی زندگی کو معمولی اسباب و وجوہ کی بنا پر ختم کر دینا بہت آسان ہے۔ یوں شادی کا مضبوط بندھن بیتِ عنکبوت سے بھی کمزور ہو کر رہ جاتاہے۔
اسلام طلاق کو جائز اور مباح ٹھیراتا ہے مگر اُس وقت جب دیگر تدابیر سے مرض ٹھیک نہ ہورہا ہو۔ کوئی ثالثی اور صلح و صفائی کی کوشش کامیاب نہ ہو رہی ہو۔ اس کے باوجود اللہ کے نزدیک یہ طلاق ابغض الحلال (ناپسندیدہ ترین حلال ہے)۔ طلاق دینے والے مرد کو اختیار حاصل ہے کہ وہ یکے بعد دیگرے اپنی مطلقہ سے رجوع کر سکتا اور اُس کو اپنے دائرۂ زوجیت میں لوٹا سکتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:’’طلاق دو بار ہے۔ پھر یا تو سیدھی طرح عورت کو روک لیا جائے یا بھلے طریقے سے اُس کو رخصت کر دیا جائے‘‘۔(البقرہ۲:۲۲۹)
اسلام اپنے سماجی اور اجتماعی نظام و قانون میں بھی معتدل ہے۔ وہ لبرلزم یا سرمایہ داری کی طرح فرد کو سماج پر حاوی نہیں کرتا کہ فرد معاشرے سے مطالبات و تقاضے تو بہت کرے مگر اپنے اوپر کوئی واجبات اور تقاضے عائد نہ کرے جن کی جواب دہی اُس کے اوپر فرض ہو۔ وہ ہمیشہ اپنے حقوق کا مطالبہ کرتا رہے، اور فرائض کو اہمیت نہ دے۔ اسی طرح اشتراکیت اور سوشلزم کا معاملہ ہے جو اس کے برعکس ہے۔ ان کے نزدیک معاشرے، سوسائٹی اور سماج کا کردار برتر اور اہم ہے۔ وہ فرد کے اوپر معاشرے اور سوسائٹی کا بار تو ڈالتے ہیں مگر فرد کو اُس کے حقوق بہت کم دیتے ہیں۔ اُس کی حریت کو سلب کر لیتے ہیں، اس کے ذاتی میلانات و رجحانات کو ابھرنے نہیں دیتے۔
اسلام فرد اور سوسائٹی کو ایک بہترین متوازن صورت میں رکھتا ہے۔ اس صورت کے اندر حریت ِ فرد اور مصلحت ِ معاشرہ دونوں ایک توازن کے ساتھ موجود ہوتے ہیں۔ دونوں پر حقوق اور فرائض عائد ہوتے ہیں۔ دونوں کے درمیان مفادات و منافع عدل سے تقسیم کیے جاتے ہیں۔
قدیم فلسفے اور نظریات فرد و معاشرے اور ان کے درمیان باہمی تعلقات کے قضیے میں اُلجھ کر رہ گئے۔ اُن کا خیال تھا کہ فرد اصل ہے اور معاشرہ و سماج ایک عارضی شے، جو فرد کے اوپر عائد کر دی گئی ہے، کیونکہ معاشرہ تو افراد سے ہی تشکیل پاتا ہے۔ یا پھر معاشرہ و سماج اساس اور بنیاد ہے اور فرد کی حیثیت ایک زائد چیز کی ہے، کیوںکہ معاشرے کے بغیر فرد ایک (خام)مادہ ہے۔ یہ معاشرہ ہی ہے جو فرد کی تشکیل و تعمیر کرتا، اس کی شخصیت کو نشوونما دیتا، اور اُسے ایک نمایاں صورت عطا کرتا ہے۔ یوں معاشرے ہی سے فرد اپنی ثقافت و آداب اور عادات و اطوار وراثت میں لیتا ہے۔ اس معاملے اور قضیے میں کچھ لوگ پہلے نظریے کے قائل ہوئے اور کچھ دوسرے نظریے کے۔ یوں فلسفہ و قانون، معاشیات و عمرانیات اور سیاسیات کے ماہرین کی مختلف آرا سامنے آئیں اور وہ کسی ایک نتیجے پر نہ پہنچ سکے۔ ارسطو، افلاطون، مانی، مزدک اور قدیم یہود و نصاریٰ کے تصورات اس قضیے کو حل نہ کر سکے۔
اِسلام ہی وہ واحد دین ہے جو اس قضیے میں انتہا و تقصیر سے پاک معتدل نظریہ پیش کر سکتا ہے۔ اسلام کا شارع انسان کا خالق ہے۔ لہٰذا یہ محال اور ناممکن ہے کہ خالق ایسا نظام وضع کرے جو انسان کی فطرت کو کچل دے اور اُس سے متصادم ہو۔ اللہ سبحانہ نے انسان کو ایک مرکب طبع و مزاج پر پیدا کیا ہے۔ انفرادیت اور سماجیت بیک وقت اُس کے اندر موجود ہیں۔ انفرادیت اُس کے نظامِ وجود کی اصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی ذات سے محبت کرتا،اور اپنے ذاتی امور و معاملات میں آزادی چاہتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی فرد کے اندر اپنے ہم جنس انسانوں کے ساتھ میل جول اور قربت و اجتماع کی رغبت بھی موجود ہے۔ ایک صالح نظام وہی ہوسکتا ہے جو اِن دونوں عناصر: انفرادیت اور اجتماعیت کاپورا پورا لحاظ رکھتا ہو۔ کسی ایک کو دوسرے پر ترجیح نہ دیتا ہو۔ اس میں کوئی حیرت و تعجب نہیں ہونا چاہیے کہ وہ معتدل نظام اسلام نے پیش کیاہے۔ وہ اسلام جو دین فطرت ہے۔ وہ معاشرے کو فائدہ پہنچا کر فرد کے اوپر ظلم نہیں کرتا ،اور نہ فرد کی خاطر معاشرے پر کوئی ناروا بوجھ ڈالتا ہے۔ معاشرے کو بے پناہ حقوق دے کر وہ فرد کی تذلیل نہیں کرتا اور بے پناہ واجبات عائد کرکے وہ اُس پر ظلم نہیں کرتا، بلکہ اسلام فرد کے اُوپر اُس کی وسعت و طاقت کے مطابق حقوق و فرائض عائد کرتا ہے۔ اسلام فرد کی حاجت پوری کرنے کے لیے لبیک کہتا ہے، اس کی توقیر و احترام کی حفاظت کرتا ہے، نیز اس کی عزتِ نفس کو مجروح نہیں ہونے دیتا۔
ذیل میں مصباح الاسلام فاروقی مرحوم کی کتاب Introducing Maududi کی تلخیص پیش کی جارہی ہے۔ یہ مختصر سی کتاب ادارہ مطبوعاتِ طلبہ کراچی نے ۱۹۶۸ء میں شائع کی تھی۔
فاروقی صاحب قیامِ لاہور کے زمانے میں جماعت اسلامی پاکستان کے شعبۂ نشرواشاعت سے وابستہ رہے۔ بعدازاں کراچی چلے گئے اور تقریباً دس برس ادارہ معارف اسلامی کراچی میں بطور تحقیق کار کام کیا۔ مولانا کی شخصیت اور کارناموں پر متعدد ملکی اور غیرملکی مصنّفین نے قلم اُٹھایا ہے لیکن مولانا کے کارناموں کو جس پُرخلوص محبت اور ذوق و شوق سے مصباح الاسلام فاروقی نے اُجاگر کیا ہے، وہ دیگر مصنّفین کے ہاں ناپید ہے۔ قارئین ترجمان کے لیے،فاروقی صاحب کی اس تحریر کا اُردو خلاصہ، دل چسپی کا باعث ہوگا۔ خیال رہے کہ یہ تحریر مولانا کی حیات ہی میں ۱۹۶۸ء میں لکھی گئی تھی۔ (ادارہ)
ایسے شخص کے بارے میں قلم اٹھانا، جس نے خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے انقلاب، اُسوہ اور دعوت کی طرف اُمت کی راہ نمائی کی ہو اور جو دینِ حق کے قیام کی کوشش کرنے والی ایک تحریک کا سربراہ بھی ہو ، کوئی آسان کام نہیں۔
ایک نظر دیکھا جائے تو مولانا مودودی کی ذات میں قدرت نے بعض ایسی صلاحیتیں جمع کردی ہیں جو تاریخ عالم کی بہت کم شخصیتوں میں ملتی ہیں۔ وہ جس محنت اور تندہی سے کام کر رہے ہیں، وہ عدیم النظیر ہے۔ انھوں نے احیاے اسلام کی ایک عظیم الشان تحریک اٹھائی ہے۔ چناں چہ جب تک دین کے لیے کام پر لوگوں کا ایمان باقی ہے، جماعت اسلامی کو ان کے ذہنوں سے محو نہیں کیا جا سکتا۔
مولانا مودودی کی اصل قوت وطاقت اور اصل کامیابی یہ ہے کہ آج وہ محض ایک فرد ہی نہیں، ایک مکمل تحریک ہیں۔ موافقین ہوں یا مخالفین ،جب بھی اسلامی معاشیات، اسلامی سیاست، اسلامی دستور، اسلامی نظامِ اخلاق یا اسلامی طرز زندگی کے کسی بھی شعبے پر گفتگو ہوگی، مولانا مودودی کا ذکر ناگزیر ہو گا۔ انھیں جیل میںڈال دیجیے یا ان کے لیے پھانسی کا پھندا تیار کیجیے ، ان کی جدوجہد کو موت کے گھاٹ نہیں اتارا جا سکتا ، نہ ان کے سامنے نہ ان کے بعد۔ اس کی وجہ بھی ناقابلِ فہم نہیں ہے۔ مولانا مودودی کی ساری جدوجہد ، کسی ذاتی مفاد کی خاطر نہیں ،بلکہ کچھ اصولوں کی خاطر ہے۔
ایک پیدایشی ادیب کی حیثیت سے انھوں نے ۱۹۲۶ء میں صرف ۲۳ سال کی عمر میں الجہاد فی الاسلام جیسی بلند پایہ کتاب لکھی ۔ اس موضوع پر ان کا کتابچہ جہاد فی سبیل اللہ عربی زبان میں منتقل کیا گیا جسے پڑھ کر اخوان المسلمون کے بانی حسن البنا نے اس کے گہرے اثرات قبول کیے۔پھر مولانا نے رسالہ دینیات لکھا۔ ۱۹۴۳ء میں انھوں نے تفہیم القرآن لکھنے کا آغاز کیا۔ اُردو میں ، بلکہ انگریزی میں بھی، اسلامی قانونِ سیاست اور اسلامی دستور سازی کے موضوع پر ان کی کتاب [اسلامک لا اینڈ کانسٹی ٹیوشن ] اوّلین حیثیت رکھتی ہیں۔ پھر تفہیمات، سود، حقوق الزوجین ، اوران کی بہت سی دوسری تصانیف اس لیے اہمیت رکھتی ہیں کہ مولانا نے اسلامی تاریخ کی بہت سی اُلجھنوں کو بڑے متوازن انداز میں حل کر دیا ہے۔ مولانا کے سوا، کون ہے جو ایسا کام کرسکتا تھا۔ ان کی تصانیف کی تعداد ڈیڑھ سو سے بھی زائد ہے۔ اخبارات ورسائل اور پمفلٹوں میں بھی ان کی بے شمار تحریریں اور تقریریں بکھری پڑی ہیں۔ انسانی زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جس کے بارے میں انھوں نے نہ لکھا ہو۔
مولانا مودودی کے بارے میں عام تصور یہ ہے کہ وہ صرف اردو زبان میں تحریر وتقریر پر مہارت رکھتے ہیں، لیکن میں ذاتی تجربے کی بنا پر آپ کو بتاتا ہوں کہ انھیں انگریزی گرامر اور ذخیرۂ الفاظ پر بھی پوری مہارت اور عبور حاصل ہے۔ بارہا انھوں نے میری انگریزی تحریروں کی اصلاح کی ہے۔ میں نے جب کبھی اپنی انگریزی تحریر ان کے سامنے ملاحظہ کے لیے پیش کی، انھوں نے الفاظ یا فقرے کی ساخت میں معمولی تبدیلی اور بعض مقامات پر اوقاف (punctuation) لگا کر تحریر کو زیادہ خوب صورت، پُروقار اور بامعنی بنا دیا ہے ،جسے میں نے اپنی (پوسٹ گریجویشن (post graduation) کے لیے ہمیشہ تازیانۂ عبرت سمجھا ہے ، لیکن اس سلسلے میں جس چیز نے مجھے زیادہ متاثر کیا اور جو اُن کی عظمت کی دلیل ہے، وہ یہ کہ انھوںنے اصلاح وترمیم کرتے ہوئے میری تحریر کے الفاظ کو اپنے قلم سے کبھی نہیں کاٹا ، بلکہ ہمیشہ انھیں زیرِ لکیر کر کے حاشیے پر اپنی ترمیمات لکھ دیں۔گویا ان کی یہ ترمیمات بطور تجاویز ہوتی تھیں، تاہم میں نے مولانا کی تجاویز کو ہمیشہ بطیبِ خاطر قبول کیا، کیوں کہ اس طرح میری تحریر زیادہ مؤثر اور خوب صورت بن جاتی تھی، البتہ ایک بار ایسا ہوا کہ میں نے ان کی ترمیم سے اتفاق نہیں کیا۔ اس پر انھوں نے کہا: ’’آپ سے کس نے کہا کہ میری ترمیم حتمی ہے۔ میں تو ترمیم صرف بطورِ تجویز لکھتا ہوں، اسے اختیار کرنا یا چھوڑ دینا آپ کی مرضی پر منحصر ہے۔ اس معاملے میں آپ کو پوری آزادی ہے‘‘۔ اس واقعے سے ان کی فطرت ، ان کے رویے اور ان کے کردار کا بخوبی اندازہ ہوسکتا ہے۔
مولانا مودودی کی تحریروں نے لوگوں کے ذہنوں میں ایک انقلاب پیدا کیا ہے۔ ان کی عادات واطوار، ان کے نظریاتِ زندگی ، ان کی اقدار اور ان کے معیارِ خوب و ناخوب میں ایک زبردست تغیر واقع ہوا ہے ۔انھوں نے اشتراکیت اور سرمایہ داری کے پرستاروں کی زندگیوں کی کایا پلٹ دی ہے۔ حقیقتاً انھوں نے عالمِ انسانیت میں اسلام کا سوال اٹھایا ہے اور مسلمانوں میں اسلامی زندگی کے لیے پیاس پیدا کی ہے۔ وہ اپنی ذات کی پبلسٹی کو ناپسند کرتے ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ اب تک ان کے حالاتِ زندگی پر کوئی کتاب مرتب نہیں کی گئی۔{ FR 646 }
میں نے ایک بار سفر کے دوران مولانا کی سوانح کے بارے میں ان سے گفتگو کرتے ہوئے کچھ معلومات مہیا کرنے کی درخواست کی ۔ انھوں نے طویل خاموشی کے بعد فرمایا:
’’کیا آپ سمجھتے ہیں کہ حقیقتاً اس کی کوئی ضرورت ہے؟ ‘‘
مولانا کے لب و لہجے سے مجھے اندازہ ہو اکہ ان کا یہ سوال سوال کم اور انکار زیادہ تھا۔ میرا خیال ہے کہ مولانا حد سے زیادہ بے لوث اور بے غرض واقع ہوئے ہیں، لیکن میرے خیال میں انھیں اپنی سوانح عمری ضرور لکھنی چاہیے۔ مستقبل کے لیے اس کی ضرورت اور قدر وقیمت بہت زیادہ ہے۔
وہ سیکڑوں کتابوں کے مصنف ہیں جن کی رائلٹی کے ذریعے، مولانا مودودی کے لیے دولت کا انبار سمیٹنا مشکل نہ تھا، لیکن انھوں نے اپنے لیے یہ راستہ اختیار نہیں کیا۔ انھوں نے صرف تین کتابوں تفہیم القرآن، رسالہ دینیات اور حقوق الزوجین کے سوا کبھی کسی کتاب کی رائلٹی سے ایک پیسا بھی وصول نہیں کیا۔ان کے سوا ان کی باقی تمام کتابوں کی رائلٹی اور آمد اقامتِ دین کے لیے خر چ ہوتی ہے۔ وہ جب بھی کوئی نئی کتاب لکھتے ہیں، تو کسی رسمی کارروائی کے بغیر ہی اس کی رائلٹی کی رقم تحریکی کاموں کے لیے وقف ہو جاتی ہے۔ یوں مالی محاذپر بھی مولانا مودودی کی یہ عظیم الشان قربانی فقید المثال ہے۔ مالی ایثار میں تحریک اسلامی سے متعلق کوئی دوسرا فرد ان کا ہم پلّہ نہیں ہے۔ یہ امر یقینا قابلِ ذکر ہے کہ انھوں نے جو تحریک بپا کی ہے ، اسے سب سے زیادہ فکری غذا بھی انھوں نے ہی دی ہے، اس کے لیے سب سے زیادہ آزمایش کا سامنا بھی انھوں نے کیا ہے ، اس کے لیے سب سے بڑی سزا بھی انھوںنے قبول کی ہے اور اس کے لیے سب سے بڑھ کر مالی ایثار بھی انھوں نے ہی کیا ہے۔
مولانا مودودی ان تاریخ ساز شخصیات میں سے ہیںجو ہمیشہ ایک نئے دور کی نقیب ہوا کرتی ہیں۔ انھوں نے ملتِ اسلامیہ کو غوروفکر کی نئی راہیں ہی نہیں سجھائیں بلکہ انھیں زندگی کا حقیقی شعور عطا کیا ہے۔ ان کی اپنی ذات اور شخصیت بھی اس میں پوری طرح ڈوبی ہوئی نظر آتی ہے اور ان کے اقوال وافعال اس کی بھر پور گواہی دیتے ہیں ۔ یوں سمجھیے کہ انھیں دیکھ کر بے اختیار علامہ اقبال ؒ کا مردِ مومن نگاہوں کے سامنے آ جاتا ہے:
ہرلحظہ ہے مومن کی نئی شان ، نئی آن
گفتار میں ، کردار میں ، اللہ کی برُہان
انھوں نے اپنے کارکنوں کی تربیت اتنے اچھے طریقے سے کی اور ایسے مردانِ کار تیار کردیے جن کی موجودگی سے جماعت کو مستقبل کے بارے میں کوئی فکرمندی نہیں ہے۔
جس مقصد کو اس مردِ مومن نے اپنایا ہے، جی چاہتا ہے کہ انسان اپنا سب کچھ اس مقصد پر لٹا دے ، حتیٰ کہ اس راہ میں اپنی جان قربان کر دے ، تو شاید یہ زندگی کی سب سے بڑی سعادت ہوگی۔ جن لوگوں کو ان کے قریب رہ کر کام کرنے کا موقع ملا ہے، انھیں اندازہ ہو گا کہ اس مردِ مومن کی معیت میں انسان روحانی طور پر خود کو کتنا قوی اور بلند محسوس کرتا ہے۔
مولانا مودودی کی عظمت یہ ہے کہ انھوںنے اسلام اور دین کا حقیقی شعور ذہنوں میں اُجاگر کیا اور راہِ حق کے مسافروں کو ایک منظم تحریک کی شکل میں ایک متعین راستے پر چلا دیا۔ جماعت اسلامی کو انھوں نے ایسی ٹھوس ،مستحکم اور اصولی بنیادوں پر منظم کیا ہے کہ وہ مولانا کی غیرحاضری میں بھی اقامتِ دین کی جدوجہد میں پوری تندہی کے ساتھ سرگرم عمل رہی ہے۔ اس کانتیجہ یہ ہے کہ اب جماعت کو اس بات کی فکر نہیں ہے کہ مولانامودودی کے بعد کیا ہو گا؟ اس وقت اگرچہ جماعت اسلامی میں مولانا مودودی کے پائے کی کوئی دوسری شخصیت موجود نہیں اور یہ ایک قدرتی بات ہے ، اس کے باوجود جماعت کو کوئی پریشانی لاحق نہیں ہے، کیونکہ خود مولانا مودودی نے اس کی تربیت کی ہے کہ جماعت کا انحصا ر کسی شخصیت پر نہیں اس نظریے پر ہو، جسے اس نے اپنایا ہے۔
مولانا مودودی نے اپنے نظریات ہمیشہ نہایت جرأت وبے باکی کے ساتھ پیش کیے ہیں۔ کسی قسم کا خوف، لالچ، ترغیب یا دھمکی انھیں اپنے اصولوں سے نہیں ہٹا سکتی۔ ان کے دشمن بھی ان کی عظمتِ کردار کے معترف ہیں۔ ان کے ظاہر وباطن میںکوئی فرق نہیں ، وہ لوگوں کو جس بات کی تلقین کرتے ہیں ، پہلے خود اس پر عمل کرتے ہیں۔
اہم معاملات میں فیصلہ کرتے وقت وہ ہمیشہ تحمل سے کام لیتے ہیں۔ ہنگامی حالات میں بعض نازک مواقع پر بھی انھوں نے جلد بازی کے بجاے صبروتحمل سے کام لیا ہے۔ کئی بار رفقا نے انھیں ایسے اقدام کرنے کا مشورہ دیاجو وقتی مصلحتوں اور تقاضوں کے لحاظ سے درست معلوم ہوتے تھے، لیکن انھوں نے وقتی جوش میں آکر ایسا کرنے سے گریز کیا۔ انھوں نے ہر معاملے میں قرآن و سنت کے اصولوں کو پیش نظر رکھا ہے۔ وہ اپنی جان دے سکتے ہیں مگرا ن اصولوں کی قربانی انھیں گوارا نہیں۔ انھوں نے اپنے رفقا میں بھی یہی اسپرٹ پیدا کر دی ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے ، تو آپ کو تحریک اسلامی میں ایک نہیں ، ہزارہا مودودی ملیں گے۔ یہ لوگ بھی اسی عظمت ِکردار، اسی لگن، اسی بے لوثی، اسی جرأت وبے باکی اور اسی جذبۂ ایثار کے مالک ہیں۔
مولانا مودودی ۲۵ستمبر ۱۹۰۳ء کو ریاست حیدر آباد دکن میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد سیّد احمد حسن پہلے میرٹھ میں وکالت کرتے تھے، پھر وہ حیدر آباد چلے گئے ۔ انھوں نے علی گڑھ میں تعلیم پائی تھی ، اس کے باوجود وہ برطانوی سامراج اور مغربیت سے متنفر ہو گئے۔ پھر جب انھوں نے دیکھا کہ ان کا پیشہ زندگی کے مقاصد سے میل نہیں کھاتا ، تو انھوں نے وکالت بھی ترک کر دی ۔ فرنگیت سے نفرت کے تحت انھوں نے ابوالاعلیٰ کو انگریزی اسکول میں داخل نہیں کرایا ، بلکہ گھر پر ہی ان کی تعلیم کے لیے ایک استاد مقرر کیا۔ گھر میں انھیں عربی ، فارسی اور اردو کے علاوہ انگریزی زبانِ وادب اور جدید علوم کی تعلیم بھی دی گئی۔
مولانا مودودی کی عوامی زندگی کا آغاز ۱۹۲۰ء میں ہوتا ہے ، جب ۱۷ سال کی عمر میں وہ صحافت کے میدان میں داخل ہوئے۔ اسی سال ان کے والد کا انتقال ہوا۔ وہ مدینہ (بجنور) سے منسلک ہو گئے۔ پھر تاج ، جبل پور کے ایڈیٹر بنا دیے گئے۔ اس کے بعد دہلی جا کر وہ مسلم سے وابستہ ہوئے اور کچھ عرصہ بعد ہی انھیں الجمعیۃ کا ایڈیٹر مقرر کیا گیا۔ الجمعیۃ ایک مقبولِ عوام اخبار تھا اور برطانوی تسلط اور ہندو غلبے دونوں کا مخالف تھا۔ اس زمانے میں مولانا محمد علی جوہر مرحوم نے بھی مولانا کی تحریروں کو سراہا۔ کچھ عرصہ بعد انھوں نے الجمعیۃ کی کانگریسی پالیسی کی وجہ سے، اخبار سے علیحدگی اختیار کر لی۔
۱۹۳۲ء میں انھوں نے رسالہ ترجمان القرآن جاری کیا ۔ مسلمانانِ ہند کو اپنی تہذیبی انفرادیت کا احساس دلانے اور ان کی دینی بیداری میں ترجمان القرآن کا بڑا ہاتھ ہے۔ یہ کہنا بھی بے جانہ ہو گا کہ جماعتِ اسلامی کا قیام بھی ترجمان القرآن ہی کا مرہونِ منت ہے۔
علامہ اقبال ، مولانا مودودی کی تحریروں کو بڑی دل چسپی اور غور کے ساتھ پڑھا کرتے تھے۔ وہ ترجمان کے ابتدائی مستقل خریداروں میں سے تھے۔ انھیں مولانا مودودی کی صلاحیتوں کا اندازہ ہو چکا تھا۔ مولانا سے خط کتابت کے بعد، علامہ اقبال ؒ نے انھیں حیدر آباد چھوڑ کر مستقل پنجاب میںقیام کی دعوت دی، چنانچہ مولانا مودودی نے دارالاسلام پٹھان کوٹ کو اپنی دعوت کا مرکز بنایا۔ بدقسمتی سے علامہ اقبال جلد ہی فوت ہو گئے۔
مولانا مودودی نے اپنی تحریروں کے ذریعے مسلمانوں کے سامنے اقامتِ دین کا جو تصور پیش کیا، اس کے نتیجے میں ۲۶؍اگست ۱۹۴۱ء میں جماعت اسلامی قائم ہو گئی۔ غلامی کے اس دور میں جب انگریز سنگینوں کے زور سے ہندستان کو غلام بنائے ہوئے تھے، مولانا مودودی نے غیرمعمولی جرأت اور بے باکی کے ساتھ کہا کہ انگریزی حکومت کی نوکری خواہ فوج کی ہو یا سول حکومت کی، حرام ہے اور اسی طرح اس کی قانون ساز اسمبلیوں کی رکنیت بھی ناجائز ہے۔ مولانا نے اپنے موقف کو قرآن وسنت کی روشنی میں دلائل کے ساتھ واضح کیا۔
اسی زمانے میں انھوں نے مسئلہ قومیت لکھ کر انڈین نیشنل کانگریس کے نظریۂ متحدہ قومیت کا تار وپود بکھیرا۔ پھر مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش کے ذریعے انھوںنے کانگریسی علما کی غلطیوں کو واضح کیا۔ اس سلسلے میں انھوں نے دیو بند کے ایک عالم [مولانا حسین احمد مدنی] کے نظریات پر بھی تنقید کی (علامہ اقبال ؒ نے بھی ان پر ’حسین احمد‘ کے عنوان سے چند شعر کہے ہیں)۔{ FR 647 }
’متحدہ قومیت‘ کا تارو پود بکھیرنے کا یہ ’جرم‘ اتنا سنگین تھا کہ کانگریسی علما کے معتقدین نے ابھی تک مولانا مودودی کو معاف نہیں کیا اور ان پر بہتان تراشی کا گھنائوناسلسلہ آج بھی جاری ہے۔ ان میں سے بعض سمجھتے ہیں کہ مولانا حسین احمد مدنی پر تنقید کرکے مودودی نے ان کی ’توہین‘ کی ہے۔ وہ اس کا بدلہ لینے کے لیے آج تک ہاتھ پائوں ماررہے ہیں۔
قائد اعظم، مولانا مودودی اور جماعت اسلامی کے کام کی نوعیت کو سمجھتے تھے۔ ایک بار جب کسی نے انھیں جماعتِ اسلامی میں شمولیت کی طرف توجہ دلائی تو انھوں نے فرمایا:
مسلم لیگ اور جماعت اسلامی میں کوئی تصادم نہیں ہے۔ جماعت عظیم تر مقاصد کے لیے کام کر رہی ہے اور لیگ کا کام فوری تقاضے کا حامل ہے۔ اگر اسے چھوڑ دیا جائے تو جماعتِ اسلامی کے لیے کام کرنا ممکن نہ رہے گا۔ (بحوالہ ہفتہ وار Thinker ، کراچی ، ۲۷ دسمبر ۱۹۶۳ء ،روایت: قمرالدین خان )
اپنی خداداد بصیرت کی بنا پر قائد اعظم بڑی آسانی کے ساتھ مولانا مودودی کے کام کی اہمیت کو بھانپ گئے تھے۔ مگر آج کچھ لوگ جماعت کی راہ میں روڑے اٹکانے میں پیش پیش ہیں اور ساتھ ہی قائد اعظم کی جانشینی کا دعویٰ بھی کرتے ہیں۔
مسلم لیگ کی ’قرار دادِ پاکستان ‘ سے بہت پہلے مولانا مودودی نے تقسیمِ ہند اور ایک مسلم ریاست کے قیام کی مؤثر اور عملی تجاویز پیش کی تھیں، بلکہ اس کا ایک عملی نقشہ بھی مرتب کر دیا تھا۔ پاکستان کے سابق وزیرِ خارجہ شریف الدین پیرزادہ نے اپنی کتاب Evolution of Pakistan میں لکھا ہے کہ مولانا مودودی ان اوّلین لوگوں میں شامل ہیں ، جنھوں نے بہت پہلے پاکستان کا خواب دیکھا تھا۔ وہ لکھتے ہیں :
مولانا مودودی اور دوسرے لوگوں نے جو اسکیمیں اور تجویزیں پیش کیں، جدوجہد پاکستان میں انھیں سنگِ میل کی حیثیت حاصل ہے۔ (ص۲۵۸)
بعد میں مولانا مودودی نے علیحدہ مسلم مملکت کے سلسلے میں جو تین متبادل تجاویز پیش کیں تھیں، وہ ترجمان القرآن کے شمارہ اکتوبر ، دسمبر ۱۹۳۸ء میں شائع ہوئیں۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ علی گڑھ یونی ورسٹی کے طلبہ تحریکِ پاکستان کی مہم کے دوران دوسرے لٹریچر کے ساتھ ترجمان القرآن کے پرچے بھی بڑے التزام کے ساتھ اپنے ساتھ رکھا کرتے تھے اور حسبِ ضرورت متحدہ قومیت کے علَم برداروں کے دلائل رد کرنے کے لیے اس میں صفحات کے صفحات پڑھ کر سنایا کرتے تھے۔
قیام پاکستان کے بعد جماعت اسلامی نے مولانا مودودی کی رہنمائی میں بعض اہم اور نازک مواقع پر نہایت مناسب اقدامات اُٹھائے ۔ دستور سازی کی مہم اس کی واضح اور زندہ مثال ہے، جس کی روداد اب اس ملک کی تاریخ کا ایک ناقابلِ فراموش باب ہے۔
قیامِ پاکستان کے فوراً بعد مولانا مودودی کا یہ کار نامہ ناقابلِ فراموش ہے کہ انھوں نے یہاں اسلامی نظام کے لیے ایک تحریک کھڑی کر دی۔ انھوں نے اس جدوجہد کے لیے بے لوث اور بے غرض کارکنوں کا ایک بہت بڑا گروہ منظم کر لیا۔ وہ ان بے غرض انسانوں کو لے کر اسلامی دستور کے لیے آگے بڑھے اور دیکھتے ہی دیکھتے پورا ملک اسلامی دستور ، اسلامی آئین اور اسلامی نظام کے مطالبات کی صدائوں سے گونج اُٹھا ۔ مولانا مودودی کو اس گستاخی کاخمیازہ بھگتنا پڑا کہ آپ کو اپنے ساتھیوں سمیت جیل بھیج دیا گیا، مگر انھوں نے جو آواز بلند کی تھی، وہ دب نہ سکی اور اسلامی دستور کے مطالبے نے اتنا زور پکڑا کہ بالآخر ۱۲مارچ ۱۹۴۹ء کو اس کا نتیجہ قرار داد مقاصد کی صورت میں سامنے آ گیا ۔ مولانا مودودی جیل میں تھے، لیکن یہ انعام کیا کم تھا کہ اب پاکستان کو مسجد کی طرح تقدیس مل گئی تھی۔
مولانا مودودی کی رہائی کے بعد ملک کے آئینی مستقبل سے متعلق جو واقعات رونما ہوئے، ان میں پہلی چیز دستور ساز اسمبلی کے بنیادی اصولوں کی کمیٹی رپورٹ تھی۔ یہ رپورٹ انتہائی مایوس کن تھی۔ مولانا مودودی نے جب دیکھا کہ یہ رپورٹ قرار دادِ مقاصد کی روح سے منافی ہے اور اس کی بہت سی باتیں خلافِ اسلام اور غیر جمہوری ہیں، تو انھوں نے اس کے تمام نقائص کو اتنے بھرپور مدلل انداز میں واضح کیا کہ ملک کے اسلام پسند عناصر کے لیے اس رپورٹ کو قبول کرنا ممکن نہ رہا۔
دوسرا اہم واقعہ ایک چیلنج کو صورت میں سامنے آیا ۔ حکومت نے علما کو اسلامی ریاست کے بنیادی اصولوں کی رپورٹ مرتب کرنے کو کہا ۔ حکمرانوں کا خیال تھا کہ یہاں مختلف فرقوں کے علما ہیں، جو ایک دوسرے کو کفر سے کم کسی چیز سے نہیں نوازتے ، یہ بھلا کیوں کر متحد ہو سکیں گے۔ یہ ایک چیلنج تھا کہ جسے علماے حق نے قبول کر لیا۔ مولانا مودودی سمیت ۳۱ جید علما نے اتفاق راے سے ۲۲ نکات مرتب کیے اور سفارشات کے اس مسوّدے پر دستخط کر دیے۔ علما کے اس کارنامے میں مولانا مودودی نے جو عظیم الشان کردار انجام دیا، اس نے سیکولر عناصر پر یہ بات اچھی طرح واضح کر دی کہ اس میں سیکولر زم اور کسی بھی ’ازم‘ کے مقابلے میں سب سے بڑی رکاوٹ کون ہے، چنانچہ انھوں نے ہر قیمت پر مولانا مودودی اور جماعت اسلامی کو راستے سے ہٹانے کا فیصلہ کر لیا۔
پاکستان کی ۳۱ سالہ تاریخ گواہ ہے کہ ملک میں اسلام کی ، یعنی نظریۂ پاکستان کی عملی ترویج ہی مولانا مودودی کی مساعی کا مرکز رہا ہے۔ اسلامی نظام کے لیے عوامی جدوجہد چلانے کے ساتھ ساتھ مولانا مودودی نے اسلام کے بارے میں خواص اور دانش وَروں کی ذہنی الجھنوں کو دُور کرنے کی کوششیں بھی ہمیشہ جاری رکھی ہیں۔ جدید مرعوب ذہن اسلامی دستور وقانون اور اس کے مختلف پہلوئوں کے بارے میں جن مختلف غلط فہمیوں میں مبتلا تھا، مولانا کی تحریروں نے انھیں دُور کرنے کی قابلِ قدر خدمت انجام دی۔ اب، جب کہ اس جدوجہد میں علما ے کرام کے اتحاد کا اضافہ بھی ہو گیا تو اسلامی نظام کے مخالفین تلملا اٹھے۔ اس سلسلے میںبعض ایسے لوگوں نے بھی ان کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا جو یہ سمجھتے تھے کہ اگر یہ دستوری مہم کامیاب ہو گئی تو مولانا مودودی ’ہیرو ‘ بن جائیں گے۔
[۱۹۵۱ء]کے مارشل لا کی آڑ میں فوجی عدالت نے انھیں قادیانی مسئلہ لکھنے کی پاداش میں سزاے موت کا حکم سنایا۔ اور جب ان سے رحم کی درخواست کرنے کو کہا گیا تو انھوں نے کہا کہ ’’ظالموں سے رحم کی درخواست کرنے کے بجاے مر جانا بہتر سمجھتا ہوں۔ اگر خدا کی مرضی نہیں ہے تو پھر میرا بال بیکا نہیں کر سکتے خواہ الٹے لٹک جائیں‘‘۔
اس سلسلے میں ایک دل چسپ واقعہ یہ ہے کہ جب مولانا کو سزاے موت سنائی گئی تو خفیہ پولیس کے ایک ڈی آئی جی داروغۂ جیل کو ساتھ لے کر سادہ کپڑوں میں ملبوس مولانا مودودی کو دیکھنے گئے تا کہ سزاے موت کے فوراً بعد ان کی حالت دیکھ کر ان کی ذہنی کیفیت کا اندازہ کرسکیں۔ ڈی آئی جی کہتے ہیں کہ سزاے موت کا حکم سننے والے مجرموں کی دماغی حالت میرے مشاہدے کے مطابق ہمیشہ غیر متوازن ہوتی ہے، مگر اس کے برعکس مولانا مودودی کودیکھا کہ ان کی حالت بالکل متوازن اور معمول کے مطابق تھی، گویا کچھ بھی نہیں ہوا۔ ایک چھوٹی سی تنگ کوٹھڑی میں مولانا مودودی پھانسی کے قیدیوں والا لباس پہنے فرش پر ایک چٹائی پر بیٹھے تھے۔ ان کے پاس پانی سے بھر ا ہوا ایک پیالہ رکھا تھا ۔ یہ واقعہ ڈی آئی جی نے ایک اعلیٰ سرکاری افسر کو ایک ہوائی سفر کے دوران میں سنایا تھا ۔ اس کا راوی ایک ایسا شخص ہے جو اسی جہاز میں ان کی پچھلی نشست پر بیٹھا دونوں کی باتیں سن رہا تھا۔ ڈی آئی جی نے کہا کہ جب داروغۂ جیل نے چٹائی پر بیٹھے ہوئے مولانا مودودی کے سامنے رحم کی اپیل کے کاغذات پیش کیے تومولانا نے بلا توقف انکار کر دیا:’ نہیں ‘ کہنے میں انھوں نے اتنی تاخیر بھی نہیں کی جتنی بالعموم چائے یا کافی کی دعوت قبول یا ردّ کرنے کے سلسلے میں کی جاتی ہے۔ { FR 648 }
۱۹۶۳ء میں، جب کہ جماعت اسلامی مولانا مودودی کی رہنمائی میں مسلسل آگے بڑھ رہی تھی۔ مخالفین نے قافلۂ حق پر شب خون مارنے کا ایک اور منصوبہ تیار کر لیا، اور جب جماعت کے [۱۹۶۳ء کے]سالانہ اجتماع کو روکنے کی تمام کوششیں ناکام ہو گئیں تو اس وقت کے وزیر داخلہ [حبیب اللہ] نے (معلوم نہیں وہ اب کہاں ہے؟ ) سیاسی تاریخ کی بد ترین مثال قائم کرتے ہوئے نصف درجن پریس کانفرنسوں میں مولانا مودودی اور جماعت پر طرح طرح کے الزامات لگائے۔ یہ چیز بھی جماعت کو ہراساں نہ کر سکی تو تین روزہ کانفرنس کے پہلے اجلاس میں غنڈوں نے سائلنسر لگے پستولوں سے فائر شروع کیے تو اس وقت مولانا سٹیج پر کھڑے تقریر کر رہے تھے۔ مولانا کے کسی خیرخواہ نے ان کے قریب آ کر کہا: ’’مولانا آپ بیٹھ جائیں ‘‘ ۔
مولانا نے جواب دیا : ’’ اگر میں بیٹھ گیا تو کھڑا کون رہے گا؟‘‘
مولانا کی پوری زندگی اپنے مقاصد کے لیے جدوجہد سے عبارت رہی ہے۔ عمررسیدہ ہوچکے ہیں ، گردے میں پتھریاں ہیں۔ یہ تو اُن جیسے شخص کے لیے ہسپتال میں علاج اور آرام کے دن ہیں لیکن وہ برابر مصروفِ کار ہیں___ سوچ بچار، منصوبہ بندی، دورے اور راہ نمائی۔
کسی قوم کے سفینے کے ناخدا یقینا ایسے ہی لوگ ہوتے ہیں ۔ قومیں ایسے ہی لوگوں کے دم قدم سے عزت پاتی ہیں۔ اور تحریکوں کو ایسا کردار ہی سر بلند کر جاتا ہے۔ (اکتوبر ۱۹۶۸ء)
قائداعظم محمد علی جناحؒ نے دُنیا کے نقشے پر ایک نئی مملکت قائم کر کے جو کرشمہ کر دکھایا ان کے مخالفین ابھی تک اس صدمے سے نڈھال ہیں۔ کبھی وہ ابوالکلام آزاد کے اس قول کا سہارا لیتے ہیں کہ: ’’پاکستان صرف چند برسوں کے لیے معرضِ وجود میں آیا ہے‘‘، کبھی پاکستان کی بنیادوں پر کلہاڑی چلاتے ہوئے کہتے ہیں کہ: ’’مذہب کی بنیاد پر قائم ہونے والا ملک زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتا‘‘۔معاندین قائداعظم کی ذاتی زندگی پر بے بنیاد الزامات عائد کرنے سے بھی نہیں چُوکتے۔ ان پر ہندستان کی ’وحدت پر کلہاڑی چلانے‘ کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔ ایک صاحب کچھ عرصے سے انھیں ’سیکولر‘ ثابت کرنے کی ناکام سعی میں مصروف ہیں۔
۱- عمر میں ایک دفعہ آنے والا۔
۲- صدیوں رہنے والا دوامی جیسے ’چرچ‘ اور ’سٹیٹ‘ کے درمیان مخاصمت۔
۳- دُنیوی و دُنیاوی ، غیر مذہبی اور غیر دینی۔
۴- متشکک، دینی صداقت میں شک کرنے والا یا دینی تعلیم کا مخالف۔
۵- دُنیا دار پادری، متاہلِ پادری، گر ہست پادری۔
ان معنوں میں سے پہلے دو کا اطلاق تو کسی بھی صورت قائداعظم پر نہیں ہوسکتا۔یورپ میں چرچ اور سٹیٹ میں مغائرت کا جو تصور ہے وہ اسلام پر منطبق نہیں کیا جاسکتا۔ کیوں کہ اسلام میں چرچ اور سٹیٹ کی علیحدگی کا کوئی تصور موجود نہیں۔ یورپ میں اس تصور کی ضرورت یوں پیش آئی کہ چوں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی کُل زندگی کا صرف ۳۵ سالہ دور محفوظ ہے، اس لیے ان کے لیے ممکن نہیں کہ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی کے تمام پہلوئوں کو بطور نمونہ پیش کرسکیں، جب کہ احادیث کے ذریعے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے تمام پہلوئوں کا ایک ایسا بھرپور نقشہ سامنے آتا ہے، جس میں تمام مسلمانوں کے لیے ہدایت کا پیغام موجود ہے۔ صبح سے شام تک زندگی گزارنے کا عمل، پیدایش سے موت تک کے سفر کے لیے ہدایات، ناخن کاٹنے، بیت الخلا جانے، غسل کرنے، کاروبار کرنے، اولاد کی پرورش، جنگ کرنے، صلح کرنے، معاہدہ کرنے، حکومت کرنے، گھر چلانے، غرض زندگی کا کوئی ایسا پہلونہیں جس کے بارے میں کوئی ہدایت نہ ملتی ہو اور جس پر آپؐ کی رہنمائی نظر نہ آتی ہو، لہٰذا اسلام میں چرچ اور سٹیٹ ایک ہی ہیں اور ان میں مخاصمت کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
قائداعظم کو سیکولر ثابت کرنے کے لیے معاندین اور دوست نُما دشمن مختلف ہتھیار استعمال کرتے ہیں۔ ایک دور میں یہ کہا جاتا رہا کہ ان کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں، نہ تو انھیں نماز آتی ہے اور نہ وہ نماز پڑھتے ہیں۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ یہ الزام لگانے والوں میں آل انڈیا مسلم لیگ کے ایک نام نہاد ’ستون‘ سرسکندر حیات بھی شامل تھے۔ ملک برکت علی نے ۲۱جولائی ۱۹۴۱ء کو قائداعظم کو لکھا تھا کہ سر سکندر حیات نے لائل پور [فیصل آباد] میں تقریرکرتے ہوئے کہا ہے کہ: میں گناہ گار ہوسکتا ہوں، لیکن باقاعدگی کے ساتھ نماز پڑھتا ہوں، جب کہ آپ کے قائداعظم دن میں ایک بھی نماز نہیں پڑھتے۔{ FR 644 }
قائداعظم نے ۱۹۳۵ء میں عیدالفطر کی نماز بمبئی کی کرکٹ گرائونڈ میں ادا کی تھی۔ اس موقعے پر ہندستان میں افغانستان کے سفیر مارشل شاہ ولی بھی موجود تھے۔{ FR 645 } یکم مئی ۱۹۳۶ء کو قائداعظم نے بادشاہی مسجد لاہور میں نمازِ جمعہ ادا کی۔ ہنگری کے مفتیِ اعظم علّامہ آفندی نے بھی ان کی ہمراہی میں نماز ادا کی۔{ FR 649 } ۳نومبر ۱۹۴۰ء کو آزاد میدان پارک بمبئی میں نمازِ عید کے بعد مسلمانوں سے خطاب کیا تھا۔{ FR 646 }
۳مارچ ۱۹۴۱ء کو آسٹریلیشا مسجد، لاہور میں نمازِ عصر ادا کی تھی۔ اس موقعے پر آپ نے چوڑی دار پاجامہ اور اچکن زیب ِ تن کر رکھی تھی۔ چوں کہ مسجد میں تاخیر سے پہنچے تھے اس لیے صفیں پھلانگ کر آگے جانے کی بجاے پچھلی صف میں آبیٹھے تھے۔ نماز سے فراغت کے بعد اپنے جوتے خود اُٹھائے تھے۔
۲۹دسمبر ۱۹۴۱ء کو آپ نے عیدالاضحی ناگ پور میں ادا کی تھی۔ اس موقعے پر خطبے اور دُعا کے بعد لوگ آپ سے مصافحہ کے لیے بے چین تھے۔ آپ مائیک پر تشریف لائے اور سب کو عیدمبارک کہہ کر نہایت شگفتہ انداز میں کہا کہ: ’اگر آپ سب لوگ میرے ساتھ ہاتھ ملائیں تو میرا ہاتھ یہیں رہ جائے گا‘۔{ FR 647 }
آل انڈیا مسلم لیگ کے کراچی اجلاس (۱۹۴۳ء) کے موقعے پر قائداعظم نے نمازِجمعہ سندھ مدرسۃ الاسلام کی مسجد میں ادا کی تھی۔{ FR 648 }
۳۰نومبر ۱۹۴۴ء کو نئی دہلی میں نمازِ عید ادا کی اور اس موقعے پر مسلمانوں سے خطاب بھی کیا۔ اسی طرح ۵نومبر ۱۹۴۵ء کو نماز عیدالاضحی کے بعد مسلمانانِ بمبئی سے خطاب کیا تھا۔ دسمبر ۱۹۴۶ء میں قائداعظم لندن تشریف لے گئے تھے۔ اس موقعے پر ممتاز حسن بھی ان کے ہمراہ تھے۔ ممتاز حسن نے اس سفر کا حال بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ: لندن میں قائداعظم نے اس مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے جانا پسند کیا جہاں عام مسلمان نماز پڑھتے ہوں۔ چنانچہ آپ نے ایسٹ اینڈ کی مسجد میں، جو غریب مسلمانوں کی آباد کی ہوئی تھی ، نماز ادا کی۔ قائداعظم کی آمد پر خطبہ ہو رہا تھا تو کچھ لوگ کھڑے ہوگئے۔ اس پر آپ نے آگے بڑھنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ: ’میں دیر سے آیا ہوں اس لیے مجھے جہاں جگہ ملی ہے وہی میرے لیے مناسب ہے‘۔{ FR 650 }
یہاں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کا تذکرہ بے جا نہ ہوگا، جس میں آپؐ نے لوگوں کے سروں کو پھلانگتے ہوئے آگے صف میں جانے سے منع فرمایا تھا۔ زیڈ اے سلہری بھی اس موقعے پر قائداعظم کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے۔ ان کی روایت ہے کہ قائداعظم آخری صف میں بیٹھے بڑے روایتی انداز میں خطبہ پوری توجہ سے سن رہے تھے۔ میں نماز میں ان کے ساتھ ہی کھڑا تھا۔ ایک شخص نے نماز کے بعد ان کے جوتوں کے تسمے باندھنے چاہے مگر آپ نے اسے ایسا نہ کرنے دیا۔
۱۲جولائی ۱۹۴۶ء کو قائداعظم نے حیدرآباد دکن کی مسجد میں نمازِ جمعہ ادا کی تھی۔
اسلامیہ کالج لاہور میں پنجاب مسلم سٹودنٹس فیڈریشن کے ایک جلسے میں علامہ مشرقی کے اذان دینے کا واقعہ تو ۱۳جنوری ۱۹۴۶ء کی بات ہے جب قائداعظم نے دن بارہ بجے اذان سنی تو کہا کہ یہ تو نماز کا کوئی وقت نہیں۔ ظاہر ہے کہ ایک شخص نماز نہیں پڑھتا، اس کو یہ کیسے معلوم ہوگیا کہ کون سی نماز کس وقت پڑھی جاتی ہے؟{ FR 672 }
سیکولر کا تیسرا معنی، یعنی دُنیوی، دُنیاوی، غیر مذہبی اور غیردینی۔ آیئے اس کو قائداعظم پر منطبق کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر قائداعظم کی ابتدائی زندگی پر ایک غائر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ معاندین کے دعویٰ کے برعکس ایک مذہبی اور دینی ذہن رکھنے والے انسان تھے۔
بمبئی پریذیڈنسی سے شائع ہونے والے ایک اخبار بمبے گزٹ نے اپنی ۱۳؍اگست ۱۸۹۷ء کی اشاعت میں شہر کی مشہور و معروف سماجی تنظیم انجمن اسلام کے زیرِاہتمام ۱۲؍اگست ۱۸۹۷ء بروز جمعرات منعقدہ ایک محفلِ میلاد کی تفصیل دی ہے۔ انجمن اسلام کی عمارت میں محمد جعفری کی تحریک اور نواب محسن الملک کی زیرصدارت یہ جلسہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یومِ ولادت منانے کے سلسلے میں منعقد ہوا تھا اور اس میں ہرطبقے کے مسلمان مغل، عرب، میمن اور بوہرے شریک ہوئے تھے۔ نواب محسن الملک نے اپنی صدارتی تقریر میں اسلام نے مسلمانوں پر جو فرائض عائد کیے ان کا ذکر کیا اور مسلمانوں سے کہا کہ وہ اپنی زندگیاں احکامِ اسلام کے مطابق پرہیزگاری، تقویٰ و طہارت اور راست بازی سے بسر کریں۔ صدارتی تقریر سے قبل سامعین نے بھرپور توجہ اور دھیان سے مولود شریف سنا۔ اس مولود شریف میں ۲۱سالہ ’سیکولر‘ جناح بھی موجود تھے۔{ FR 651 }
تقریباً چار سال بعد انجمنِ اسلام نے ۳۰جون ۱۹۰۱ء بروز اتوار کو اپنے سکول کے ہال میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یومِ ولادت منایا جس میں چار سو کے قریب مسلمانوں نے شرکت کی تھی۔ مرزا علی محمد خان نے اپنی صدارتی تقریر میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور تعلیمات کا بھرپور احاطہ کیا اور آپؐ کے کردار کی سادگی، عالی حوصلگی، عالی ظرفی، شرافت و نجابت کا ذکر کیا۔ اس تقریب میں بھی ’سیکولر‘جناح موجود تھا۔{ FR 668 }
۳۲سال بعد ۷دسمبر ۱۹۳۳ء بروز بدھ لندن کے میٹروپول ہوٹل میں مسلم سوسائٹی برطانیہ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے سر اکبر حیدری کی زیرِ صدارت ایک تقریب کا اہتمام کیا تھا۔ اس تقریب میں علامہ اقبال، عباس علی بیگ، لارڈ ہیڈلے (نومسلم)، ڈاکٹر شفاعت احمد خان، اے ایچ غزنوی اور سردار اقبال علی شاہ کے علاوہ ایران، البانیہ، مصر اور سعودی عرب کے وزرا بھی شامل تھے۔ شرکا میں محمدعلی جناح کا نام نمایاں تھا۔{ FR 669 }
تقریباً ۱۴سال بعد ۲۵ جنوری ۱۹۴۸ء کو کراچی بار ایسوسی ایشن نے عیدمیلاد النبیؐ کی تقریب کا اہتمام کیا۔ قائداعظم نے اس تقریب کی صدارت کی تھی۔ اس موقعے پر خطاب کرتے ہوئے آپ نے کہا کہ: ’’میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ایک طبقہ دانستہ طور پر یہ پروپیگنڈا کر رہا ہے کہ پاکستان کے دستور کی اساس شریعت پر استوار نہیں کی جائے گی۔ آج بھی اسلامی اصولوں کا اطلاق زندگی پر اسی طرح ہوتا ہے جس طرح آج سے ۱۳سوسال پہلے ہوتا تھا۔ جو لوگ گمراہ ہوگئے ہیں یا کچھ لوگ جو اس پروپیگنڈے سے متاثر ہیں، میں انھیں بتلا دینا چاہتا ہوں کہ نہ صرف مسلمانوں بلکہ غیرمسلموں کو بھی خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ اسلام اور اس کے اعلیٰ نصب العین نے ہمیں جمہوریت کا سبق سکھایا ہے۔ اسلام نے ہرشخص کو مساوات، عدل اور انصاف کا درس دیا ہے‘‘۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو شان دار الفاظ میں خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے آپ نے کہا کہ:’’ آج ہم اس عظیم ہستی کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں جن کے لیے نہ صرف لاکھوں دل احترام سے لبریز ہیں بلکہ جو دنیا کے عظیم ترین لوگوں کی نظر میں بھی محترم ہیں۔ میں ایک حقیر آدمی اس عظیم المرتبت شخصیت کو کیا خراجِ عقیدت پیش کرسکتا ہوں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک عظیم رہبر تھے۔ آپؐ ایک عظیم قانون عطا کرنے والے تھے، آپؐ ایک عظم مدبّر تھے، آپؐ ایک عظیم فرماں روا تھے۔ جب ہم اسلام کی بات کرتے ہیں تو بلاشبہہ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اس بات کو بالکل نہیں سراہتے۔ اسلام نہ صرف رسوم و رواج، روایات اور روحانی نظریات کا مجموعہ ہے، بلکہ اسلام ہرمسلمان کے لیے ضابطہ بھی ہے جو اس کی زندگی کے رویے، بلکہ اس کی سیاست و اقتصادیات وغیرہ پر محیط ہے‘‘۔{ FR 671 }
گویا ایک شخص ۲۱سال کی عمر سے لے کر ۷۲سال کی عمر تک مذہبی مجالس میں شرکت کرتا رہا، عام مسلمانوں کے ساتھ نمازیں ادا کرتا رہا اور مختلف خطابات میں آں حضوؐر کو خراجِ عقیدت پیش کرتا رہا، لیکن اس کے باوجود اس پر سیکولرہونے کا الزام ہے۔
یہ بات بھی کیسی عجیب لگتی ہے کہ ۱۹۱۲ء میں اسی سیکولر جناح نے بحیثیت ِ رکن امپریل قانون ساز کونسل میں اسلامی قانون وقف علی الاولاد کا مسودہ پیش کیا اور اسے قانونی حیثیت دلوائی۔ یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ ہندستان کی آئینی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ کونسل نے ایک پرائیویٹ ممبر (Private Member) کے بل کو قانونی شکل دی تھی۔{ FR 670 }
قائداعظم کو’سیکولر‘ بنانے کے لیے ان کی ۱۱؍اگست ۱۹۴۷ء کی تقریر کا سہارا لیا جاتا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ قائداعظم نے شاید اپنی تمام سیاسی زندگی میں صرف ۱۱؍اگست کو ہی تقریر کی تھی، نہ اس سے پہلے اور نہ اس کے بعد۔ آیئے اس تقریر کا جائزہ لیتے ہیں:
سب سے پہلے تو یہ وضاحت کر دی جائے کہ قائداعظم کی تقاریر کے مندرجہ ذیل مجموعے اب تک شائع ہوچکے ہیں: lمحمدعمر کی مرتبہ: Rare Speeches ، ۱۹۱۰ء تا ۱۹۱۸ء(مطبوعہ صفحات:۲۵۱)، lجمیل الدین احمد مرحوم کی مرتبہ: Speeches and Writings of Mr. Jinnah (شیخ محمد اشرف، لاہور، ۲جلدیں)، lڈاکٹر وحید احمد کی مرتب کردہ: The Nation's Voice (چھے جلدیں)، l ڈاکٹر ایم رفیق افضل کی مرتبہ: Speeches in the Legislative Assembly (مطبوعہ ریسرچ سوسائٹی آف پاکستان، لاہور، صفحات:۳۸۸)، lڈاکٹر ایم رفیق افضل ہی کی Selected Speeches and Statements of the Quaid-i-Azam ، ریسرچ سوسائٹی آف پاکستان، لاہور، مئی ۱۹۷۳ء، صفحات: ۴۷۵، قائداعظم کی تقاریر بحیثیت گورنر جنرل ۱۹۴۷ء تا ۱۹۴۸ء، lگفتارِ قائداعظم، ۱۹۱۱ء تا ۱۹۴۷ء، مرتبہ احمد سعید۔
تقاریر کے یہ مجموعے ثابت کرتے ہیں کہ قائداعظم نے ۱۱؍اگست ۱۹۴۷ء کی تقریر کے علاوہ بھی تقاریر کی تھیں۔ قائداعظم کی پبلک زندگی کی آخری تقریب سٹیٹ بنک آف پاکستان کی افتتاحی تقریب تھی جس میں آپ نے معاشی ماہرین پر زور دیا تھا کہ چوں کہ سرمایہ داری نظام اور سوشلسٹ نظام انسانی مسائل کو حل کرنے میں ناکام رہے ہیں اس لیے وہ دُنیا کے سامنے اسلامی نظام کی خصوصیات لے کر آئیں۔
۱۱؍اگست کی تقریر کے بارے میں بے شمار غلط فہمیاں پیدا ہوچکی ہیں جن کا دُور کیا جانا نہایت ضروری ہے۔ ۲۰۰۵ء میں اے آر وائی ٹیلی ویژن پر ایک مؤرخ نما دانش ور نے ایک مضحکہ خیز دعویٰ یہ کیا ہے کہ ’حکومت نے قائداعظم کی اس تقریر پر پابندی لگا دی تھی‘۔ اور یہی غیرمنطقی بات ضمیر نیازی نے بھی لکھی۔
سوال یہ ہے کہ آیا یہ پابندی حکومت ِ پاکستان نے عائد کی تھی یا جواہر لال نہرو کی حکومت ِ ہند نے یا پھر برطانوی حکومت نے؟ ۱۱؍اگست کو حکومت ِ پاکستان تو ابھی معرضِ وجود میں بھی نہیں آئی تھی۔ ابھی تک حکومت انگریز کی تھی۔ بھلا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ پاکستان بننے سے تین دن پہلے ہی مسلم لیگ کاروبارِ حکومت و ریاست پر کنٹرول حاصل کرلے؟ اگر ایسا ہونا ممکن نہیں تو پھر وہ کس طرح یہ پابندی عائد کرسکتی تھی۔ دوسرا یہ کہ پنڈت نہرو کی حکومت کے لیے یہ بہترین موقع تھا کہ وہ قائداعظم کے نظریات میں تبدیلی کے معاملے کو اُچھالتی لیکن مسئلہ یہاں بھی یہی ہے کہ پنڈت جی نے ۱۴؍اگست کو اپنے عہدے کا حلف اُٹھایا تھا۔ رہی برطانوی حکومت تو اس کا بھی مفاد اسی میں تھا کہ وہ اس تقریر پر پابندی لگانے کے بجاے اسے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتی، مگر اس کے بھی کوئی مظاہر سامنے نہیں آتے۔
قائداعظم کی ۱۱؍اگست۱۹۴۷ء کی تقریر کو اس کے سیاق و سباق سے علیحدہ کرکے اس کے اصل مفہوم کو سمجھنا ایک لاحاصل امر ہے۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ قائداعظم نے اپنی اس تقریر میں اقلیتوں کے حوالے سے جو کچھ کہا، وہ کوئی اَنہونی یا نئی بات نہیں تھی۔ قائداعظم کی تقاریر میں آپ کو جابجا اقلیتوں کے حوالے سے یہی کچھ نظر آتا ہے، مثلاً ۱۰نومبر ۱۹۴۶ء کو بنگال کے فرقہ وارانہ فسادات پر اظہارِ افسوس کرتے ہوئے آپ نے ہندو اور مسلمانوں دونوں سے اس قتل و غارت کو بند کرنے کی اپیل کی۔{ FR 653 }
۲۶مارچ ۱۹۴۶ء کو قائداعظم نے گوہاٹی میں ایک جلسۂ عام سے خطاب کرتےہوئے یقین دلایا کہ پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق کا پورا تحفظ کیا جائے گا اور انھیں تمام جائز مراعات حاصل ہوں گی۔ اس کے متعلق کسی قسم کے خوف یا بدگمانی کی ضرورت نہیں۔ وہ پاکستان کے ایسے ہی آزاد شہری ہوں گے جیسے کسی اور مہذب ملک کے ہوسکتے ہیں‘‘۔{ FR 654 }
یکم جولائی ۱۹۴۷ء کو پاکستان اچھوت فیڈریشن کے صدر اور لاہور میونسپل کارپوریشن کے ڈپٹی میئر سکھ لال نے قائداعظم سے دہلی میں ملاقات کی۔ ملاقات کے بعد ایک بیان میں انھوں نے اس ملاقات کو تسلی بخش قرار دیتے ہوئے کہا کہ: ’’قائداعظم نے مہربانی سے پاکستان میں اقلیتوں کے بارے میں تمام شکوک و شبہات کو دُور کردیا ہے اور مسٹر جناح نے یہاں تک کہا ہے کہ ہم رنگ و نسل اور ذات پات کی تمیز کے بغیر بھائیوں کی طرح رہیں گے‘‘۔{ FR 656 }
۱۳جولائی ۱۹۴۷ء کو قائداعظم نے نئی دہلی میں ایک پریس کانفرنس میں اقلیتوں کو یقین دلایا کہ’’ ان کے مذہب، ثقافت، جان اور جایداد کی حفاظت کی جائے گی اور وہ پاکستان کے مکمل شہری ہوں گے اور اس سلسلے میں کسی سے کوئی امتیازی سلوک روا نہیں رکھا جائے گا۔{ FR 655 }
۱۳جولائی ۱۹۴۷ء کو قائداعظم کی پریس کانفرنس کے بعد آئین ساز اسمبلی کی ۱۱؍اگست کی تقریر ایک تسلسل ہے اور اس پس منظر میں کی گئی ہے کہ نہ صرف مشرقی پنجاب بلکہ دہلی، یوپی اور ہندستان کے دیگر صوبوں میں مسلم کش فسادات اپنے عروج پر تھے جس کا ردعمل مغربی پنجاب میں بھی ظاہر ہوا۔ اب ایک طرف تو انسانی جانیں ضائع ہورہی ہیں اور دوسری جانب ہندو اور سکھ صنعت کار اپنا سرمایہ سمیٹ کر ہندستان منتقل ہورہے ہیں اور یوں پاکستان کو دہری ضرب لگ رہی ہے۔ اس آگ و خون کے پس منظر میں قائداقلیتوں کو یقین دلا رہے ہیں نہ کہ وہ اپنے ’سیکولر‘ ہونے کا اعلان کر رہے ہیں۔ اپنے اس دعوے کے ثبوت میں ہم اس دور کے چند اخبارات کے تراشے پیش کرتے ہیں:
آل انڈیا مسلم لیگ کا ترجمان ڈان ابھی دہلی سے شائع ہورہا تھا۔ قائدکی یہ تقریر ۱۲؍اگست کے شمارے میں شائع ہوئی تھی۔ ڈان نے اس تقریر کی جو سرخیاں جمائیں وہ ملاحظہ فرمایئے: Jinnah Assures Minorities of Full Citizenship and asks for Co-operation
ایک سابق کانگریسی اور اشتراکی خیالات کے طرف دار لیڈر میاں افتخار الدین کے اخبار پاکستان ٹائمز نے اپنی ۱۳؍اگست کی اشاعت میں قائداعظم کی مذکورہ تقریر کا مکمل متن جس پر درج ذیل سرخیاں لگائی گئی تھیں، شائع کیا۔ اگر یہ تقریر قائد کے پرانے خیالات سے براءت اور سیکولرازم کی قبولیت کا اظہار ہوتی تو کم از کم میاں افتخار الدین کا اخبار اس طرف تھوڑا بہت اشارہ ضرور کرتا۔ اخبار پاکستان ٹائمز کی سرخیاں اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ یہ تقریر اقلیتوں کو یقین دہانیوں کا چارٹر ہے نہ کہ اپنے سیکولر ہونے کا اعلان۔ تین سرخیاں ملاحظہ ہوں:
- Jinnah calls to concentrate on Mass welfare.
- Hope for End of Hindu-Muslim distinction in Politics.
- Equal rights for all citizens in Pakistan State.
قائداعظم کے متعلق برطانوی سیاست دانوں اور اخبارات کا معاندانہ رویہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ لارڈ لنلتھگو (Linlithgow) کی سوانح، پنڈرل مون کی مرتب کردہ لارڈ ویول کی ڈائری اور مائونٹ بیٹن کی سوانح اور انٹرویو کا ایک ایک لفظ قائد کے خلاف زہر اُگلتا نظر آتا ہے۔ برطانوی پریس کے معاندانہ رویے کے جائزے کے لیے ڈاکٹر کے کے عزیز کی کتاب Britain, India and Pakistan کا مطالعہ کافی ہوگا۔ اب اگر قائداعظم اپنی اس تقریر کو سیکولرازم کی قبولیت کا ذریعہ بنا رہے ہیں تو کم از کم لندن کے اخبار ٹائمز کے پاس سنہری موقع تھا کہ وہ قائداعظم کے کردار کی منافقت کو ظاہر کرتا۔ ٹائمز کے ۱۳؍اگست کے شمارے میں ص۶ پر یہ تقریر اس سرخی کے ساتھ شائع ہوئی تھی: A Call for Tolerance۔یاد رہے کہ اخبار نے یہ تقریر کراچی میں اپنے خاص نمایندے کے حوالے سے شائع کی تھی۔
۱۹۴۹ء میں ایس اے آر بلگرامی نے کراچی سے ایک کتاب Pakistan Yearbook شائع کی تھی، جس میں قائداعظم کی مذکورہ بالا تقریر ص ۸ تا ۱۵ پر موجود ہے۔ اس تقریر پر یہ سرخی جمائی گئی ہے: Jinnah's Charter of Minorities Announced
اقلیتوں ہی کے حوالے سے ایک اور نہایت اہم واقعہ اس تقریر کے ٹھیک تین دن بعد پیش آتا ہے، جو ہمارے اس دعوے کو مزید تقویت بخشتا ہے کہ قائد ہرگز ہرگز اپنے گذشتہ عقائد و نظریات سے دست بردار نہیں ہوئے تھے۔ ۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء کو مائونٹ بیٹن نے انتقالِ اقتدار کے وقت اپنی تقریر میں یہ اُمید ظاہر کی کہ: ’پاکستان میں اقلیتوں کے سلسلے میں اکبر بادشاہ کی تقلید کی جائے گی‘۔ اس کے جواب میں قائداعظم نے کہا کہ:
اکبر بادشاہ کی وہ رواداری اور نوازش جو اس نے اپنی غیرمسلم رعایا پر کی، کوئی حالیہ اختراع نہیں بلکہ تیرہ سو سال قبل ہمارے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم نے عیسائیوں اور یہودیوں پر فتح حاصل کرنے کے بعد نہ صرف لفظی بلکہ عملی طور پر عالی ظرفی اور فیاضی کا سلوک کیا تھا۔ آپؐ نے ان سے حددرجہ رواداری کا برتائو کیا اور ان کے مذہب اور عقائد کا احترام کیا۔ مسلمانوں کی تمام تاریخ جہاں جہاں انھوں نے حکمرانی کی، ایسے ہی تہذیب و شائستگی سکھانے والے عظیم اصولوں سے بھری ہوئی ہے جن پر ہمیں عمل کرنا چاہیے۔{ FR 662 }
قائداعظم کے سیکولر ہونے والے معاملے کا ایک اور دل چسپ پہلو یہ ہے کہ اگر وہ سیکولر تھے تو ان کی قائم ہونے والی ریاست بھی سیکولر ہونی چاہیے۔ اس بارے میں خود قائداعظم کا کیا موقف تھا؟ سنیے: ۱۳جولائی ۱۹۴۷ء کو دہلی میں آخری پریس کانفرنس کے دوران آپ نے کہا کہ پاکستان میں اقلیتوں کے مذہب، عقیدہ، زندگیوں، جایدادوں اور ثقافت کی مکمل حفاظت کی جائے گی اور وہ تمام معاملات میں پاکستان کے مکمل شہری تصور ہوں گے۔
پریس کانفرنس میں ایک اخباری نمایندے نے سوال کیا کہ:’کیا پاکستان ایک سیکولر ریاست ہوگی یا مذہبی (Theocratic)؟‘ قائداعظم نے اس پر کہا کہ: ’آپ جو سوال پوچھ رہے ہیں وہ بے معنی اور فضول(absurd) ہے۔ مَیں نہیں جانتا کہ تھیوکریٹک سٹیٹ کا کیا معنی ہے۔ ایک اخباری نمایندے نے کہا کہ: ’تھیوکریٹک سٹیٹ کا مطلب ہے کہ وہ ریاست جہاں مسلمانوں کو تو مکمل شہریت حاصل ہو، جب کہ غیرمسلموں کو یہ حیثیت حاصل نہ ہو‘۔ قائداعظم نے کہا کہ: ’اس کا مطلب ہے کہ اس سے پہلے میں نے جو کچھ کہا وہ بطخ کی پشت پر پانی ڈالنے کے مترادف ہوا۔ خدا کے لیے اپنے ذہنوں سے اس بکواس (nonsense) کو نکال دو‘۔ ایک اور نمایندے نے گرہ لگائی کہ: ’شاید سوال پوچھنے والے کا مطلب یہ ہے کہ مذہبی ریاست، جسے مولانا حضرات چلائیں گے‘۔ اس پر جب قائداعظم نے کہا کہ: ’ہندستان میں پنڈتوں کی حکومت کے متعلق کیا خیال ہے؟‘ تو سب نے ایک زوردار قہقہہ لگایا۔{ FR 673 }
انتخابات ۲۰۱۸ کے بارے میں بہت کچھ لکھا جاچکا اور بہت کچھ لکھا جاتا رہے گا۔ عموماً ہر لکھنے یا پڑھنے والا اپنی راے سے موافق بات ہی کو قبول اور دوسری راے کو مسترد کردیتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ موافق ہو یا مخالف، اگر حق ہے تو اسے قبول کیا جائے۔ ناحق بات حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ جیسا محبوب ساتھی ہی کیوں نہ کرے، قبول نہیں کی جاسکتی۔
کسی مہذب اور منصفانہ معاشرے میں ہونے والے انتخابات کے بنیادی عناصر ان میں حصہ لینے والی جماعتوں کی قیادت، ان کے پروگرام ،اُمیدواران، کارکنان اور ووٹروں تک ابلاغ و رسائی کے وسائل ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستانی انتخابات کے فیصلہ کن اسباب میں مال و دولت کے انبار، دھونس اور غنڈاگردی (بالخصوص دیہی علاقوں میں اور خصوصاً اندرونِ سندھ اور بلوچستان میں) اور سب سے بڑھ کر نادیدہ قوتوں کے فیصلے، اہم ترین حیثیت اختیار کرگئے ہیں۔ ملک میں قرآن و سنت کے غلبے اور دنیا ہی نہیں، آخرت کی اصل کامیابی کے لیے کوشاں تحریک کے ہر کارکن (ہر سطح کے ذمہ داران سمیت) کو اس اہم دوراہے پر اصل حقائق سے آگاہ ہونے کے ساتھ ساتھ، کڑی خود احتسابی سے گزرنا ہوگا، تاکہ ہمارا آنے والا کل آج سے بہتر ہوسکے۔
یہ امر اپنی جگہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ علامہ محمد اقبال کی فکر، قائداعظم محمدعلی جناح کی قیادت، سیّد مودودی کے بے مثال لٹریچر، ان کے ہم عصر ممتاز علماے کرام اور ہم رکاب قافلے کی مسلسل کوششوں سے پاکستان کی اسلامی شناخت اور جہت کا تعین واضح ہوگیا۔ وہ دین اسلام جسے عبادات کے محدود تصور اور چند رسوم و رواج تک محدود سمجھا جانے لگا تھا، آج الحمدللہ سب کی نظر میں جامع نظامِ حیات کے طور پر معلوم و مقبول ہوچکا ہے۔ سید مودودی اور ان کی جماعت نے ہر قومی مسئلے اور اہم دوراہے پر ہر طرح کے ذاتی یا جماعتی مفاد سے بالاتر ہوکر دو ٹوک موقف ہی اختیار نہیں کیا، بلکہ اس کے لیے بیش بہا قربانیاں بھی دیں۔ لیکن دوسری جانب دیکھیں تو یہ تلخ حقیقت دکھائی دیتی ہے کہ اس بلندپایہ اور جامع کارِ تجدید، اللہ کے دین کو پوری طرح سے پوری زندگی میں نافذ کردینے کے مشکل ہدف، دینِ حق کو مکمل طور پر انفرادی اور اجتماعی زندگی میں نافذ کردینے، اصلاحِ نفس، اصلاحِ معاشرہ، دعوت و تربیت، تنظیمی قوت اور اصلاحِ حکومت کے ہمہ پہلو جہاد کا اصل مقصد، گاہے نظروں سے اوجھل ہوجاتا ہے۔
سید ابوالاعلیٰ مودودی کی تشکیل کردہ جماعت اسلامی میں خوداحتسابی کوئی نئی یا انوکھی بات نہیں۔ احتساب کے اصول و ضابطے خود نہیں گھڑے گئے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہ اجمعین کی سیرت طیبہ سے أخذ کیے گئے ہیں۔ آپؐ نے تو بلکہ حکم دیا کہ حَاسِبُوْا اَنْفُسَکُمْ قَبْلَ اَنْ تُحَاسَبُوْا ’’اپنا محاسبہ کرلو قبل اس سے کہ تمھارا محاسبہ کیا جائے‘‘۔ بدقسمتی سے یہ پورا عمل اپنی اصل روح سے محروم ہوتا جارہا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ’’اپنا احتساب کرو‘‘۔ ہم نے جب بھی احتساب کیا، اپنے بھائیوں، اپنے ذمہ داران اپنی قیادت، اپنے کارکنان اور اپنی اجتماعیت ہی کا کیا۔ ہمارے پیش نظر اصل ہدف ’اصلاح‘ (اپنے وسیع تر مفہوم میں) کے ذریعے قرآن و سنت کو غالب کرنا تھا اور ہے، لیکن جب میں نے خود کو اللہ کی عدالت میں کھڑا کرتے ہوئے جائزہ لیا کہ قرآن، حدیث اور سیرت کی کتنی روشنی خود میرے دل میں فروزاں ہے؟ مجھے اندازہ ہوا کہ میں دوسروں کو تو ہمیشہ نصیحت کرتا یا کرنا چاہتا ہوں، لیکن خود کو نصیحت اور اس کے مطابق عمل نہیں کرتا۔ الحمدللہ ،اللہ کی رحمتِ خاص سے مجھے کچھ نہ کچھ نیکی کرنے، اسلام کو ایک مکمل ضابطۂ حیات سمجھنے کی توفیق تو حاصل ہوگئی، لیکن میں اس سوال کے جواب میں خود کو بُری طرح ناکام پاتا ہوں کہ اس ایک شمع سے میں نے مزید کتنی شمعیں روشن کیں؟ اور تو اور میں نے اپنے بچوں، اہل خانہ اور قریبی رشتہ داروں تک میں سے کتنے افراد کو اس قافلے کا ہم سفر بنایا؟ میں اپنی جماعت کے منظم ترین ہونے کے تاثر پر تو فخر و مسرت محسوس کرتا ہوں، لیکن اگر خود اپنا جائزہ لوں کہ سمع و طاعت کے بنیادی تقاضے کس حد تک پورے کررہا ہوں؟ تو شرمندگی گھیر لیتی ہے۔
میں اکثر بھول جاتا ہوں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اگر تمھارا ذمہ دار کشمش کے دانے جتنے سر والا (کم علم و فہم والا) نکٹا، حبشی غلام ہی کیوں نہ بنادیا جائے، اس کی بات سنو اور اس کی پابندی کرو۔ یقینا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ناممکن صورت کی مثال دے کر سمع و طاعت کی اہمیت واضح کی ہے۔ اجتماعیت اور افراد کو یہ اختیار تو دیا گیا کہ وہ ذمہ داروں کا تعین چھان پھٹک اور ہوش مندی سے کرے، لیکن یہ اختیار نہیں کہ وہ کسی کو امام بنائے اور پھر نماز اپنی اپنی مرضی سے ادا کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی تأویل گھڑنے لگ جائے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام تر مفادات سے بالاتر ہوکر باہم اخوت و محبت کی تعلیم ہی نہیں، حکم دیا۔ اس رشتے میں جڑ جانے والوں کو عرش کے سایے اور نور کے منبروں پر مسندیں ملنے کی بشارتیں سنائیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ یہ باہم اخوت اسلامی تحریک کے کارکنان کا انتہائی قیمتی اثاثہ ہے، لیکن کیا یہ بھی درست نہیں کہ جہاں میرے کسی ادنیٰ مفاد پر ضرب لگی، کسی بھی بات پر کوئی ناگواری محسوس ہوئی، میں اپنی جنت کا یہ خزانہ خاک میں ملا دینے پر تل گیا؟ ہم نے اصلاح یا جائزے کے نام پر اکثر مجالس میں (اور اب سوشل میڈیا پر) محاذ آرائی شروع کردی۔ غیبت اور ہتک آمیز القاب تو ہمیں اس قدر لطف دینے لگے کہ طنز و تشنیع کے تیر چلائے بغیر بھلی سے بھلی بات کرتے ہوئے بھی دل کو تسلی ہی نہیں ہوتی۔
کسی بھی نظریے کی کامیابی کے لیے کارکنان کی یکسوئی انتہائی اہم شرط ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ابوالانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام کی صفات بیان کرتے ہوئے، جس نمایاں ترین صفت کا آٹھ مرتبہ ذکر فرمایا وہ آپؑ کا حَنِیْفًا مُسْلِمًا مطیع فرمان و یک سُو ہونا تھا۔رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی یہی حکم دیا کہ اتَّبِعْ مِلَّۃَ اِبْرٰہِيْمَ حَنِيْفًا ط (النحل ۱۶:۱۲۳) ’’یک سُو ہوکر ابراہیم ؑ کے طریقے پر چلو‘‘۔
ہمیں اس تلخ حقیقت کا اعتراف کرنا ہوگا کہ جسد ِ واحد کی حیثیت رکھنے کے باوجود ان کی یہ یکسوئی متاثر بلکہ مجروح ہوئی ہے۔ کئی عیار مخالفین اور بعض نادان دوست ان زخموںکو گہرے گھائو میں بدلنے کے لیے بھی فعال ہیں۔ اس مرض کا علاج یقینا وہی ہے جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دلوں پر لگے زنگ کو دُور کرنے کا بتایا تھا کہ:موت کی یاد اور قرآن سے گہرا تعلق۔ ساتھ ہی ساتھ ان تمام غلط فہمیوں، اور معلومات میں کمی کا ازالہ بھی کرنا ہوگا کہ جو بعض اوقات نہ چاہتے بھی نقب لگانے میں کامیابی ہوجاتی ہیں۔ ہم اگر کسی بھی مقام اور کسی بھی سطح کی اجتماعیت کا بے لاگ جائزہ لیں، اور وہاں گروہ بندی سمیت ہر وہ بیماری سرایت کرتی دکھائی دینے لگے کہ جسے محسن انسانیتؐ نے زہرِ قاتل قرار دیا ہو، تو ایسی اجتماعیت کو پھر آخر کسی دشمن کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے۔
دشمن کا ذکر ہوا تو اس حقیقت سے آگاہ ہونا بھی اہم ہے کہ صرف پاکستان ہی نہیں، اس وقت پوری دنیا کی اسلامی تحریکوں اور مسلم ممالک کے مابین باہم اختلافات، غلط فہمیوں اور تمام کے تمام فیصلوں کو غلط اور احمقانہ قرار دینے کی مہم اپنے جوبن پر ہے۔ مختلف حکومتوں، ان کے خفیہ اداروں، تیار کردہ افراد اور تشکیل کردہ گروہوں کے ذریعے تحریکات میں انتشار پیدا کرنے کی کوششیں عروج پر ہیں۔ اسی مہم کا ایک حصہ یہ بھی ہے کہ مختلف افراد و شخصیات کو اپنی تضحیک اور بسا اوقات اس کے خیرخواہ کا روپ دھار کر تنقید کا نشانہ بنایا جائے۔ اس طرزِ عمل کے نتیجے میں مصر کے اخوان میں تو عملاً ایک الگ دھڑا پیدا کردیا گیا ہے۔ کئی انتہائی مخلص و فہمیدہ افراد بھی ان میں شامل ہیں۔ اخوان کی ساری قیادت اور ۵۰ ہزار سے زائد فرشتہ صفت مرد و زن جیلوں میںبدترین مظالم کا شکار ہیں، لیکن میڈیا اور سوشل میڈیا میں انھی کے خلاف پروپیگنڈا، الزامات اور دہشت گرد ثابت کرنے کی مہمات جاری ہیں۔
غزہ گذشتہ ۱۲ سال سے محاصرے میں ہے، لیکن ابلاغیاتی مہم بھی انھی بے گناہ محصورین اور ان کے ذمہ داران کے خلاف ہی جاری ہے۔ گذشتہ ہفتے فوٹو شاپ کے ذریعے خود ساختہ تصاویر میں حماس کے سربراہ اسماعیل ھنیہ کو غزہ کے کسی عالی شان خفیہ محل میں دکھایا اور شوروغوغا مچایا گیا کہ غزہ کے عام شہری مررہے ہیں اور یہ عیاشیاں کررہا ہے۔ اس پوری مہم میں بڑے مقدس ذمہ داران بھی شریک ہوگئے۔ انھوں نے نہ تو اسرائیل اور مصری جنرل سیسی کے محاصرے کی مذمت کی اور نہ یہ سوچا کہ جو شخص ہر لمحے شہادت کی دہلیز پر کھڑا ہو وہ کس طرح ایسی منافقت کا ارتکاب کرسکتا ہے۔ حالیہ حج کے دوران سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو کلپ چلاتے ہوئے علامہ یوسف القرضاوی کے خلاف اچانک طوفان بدتمیزی برپا کردیا گیا۔ کئی سال پرانے اپنے خطبۂ جمعہ میں انھوں نے قرآنی آیات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’اللہ نے یہ حج تمھارے ہی بھلے اور فائدے کے لیے فرض کیا ہے وگرنہ اللہ کو تمھارے حج کی کوئی ضرورت نہیں‘‘۔ اس پورے جملے میں سے صرف یہ بات کاٹ کر کہ ’’اللہ کو تمھارے حج کی کوئی ضرورت نہیں‘‘۔ پروپیگنڈا شروع کردیا گیا کہ قرضاوی نے حج کی مخالفت کردی۔ سعودی عرب اور قطر کے درمیان اختلافات کے ماحول میں آپ اس مہم کی سنگینی کا اندازہ خود کرسکتے ہیں۔
کسی بھی فیصلے، پالیسی یا سرگرمی کے بارے میں اپنی راے دینا تمام ذمہ داران اور کارکنان کا حق ہی نہیں، ان کا فرض ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسلامی تحریکات پر جو خصوصی انعامات کیے ہیں، ان میں سے ایک یہی نظام شورائیت ہے۔ مختلف سطح کی شورائیں کوئی فیصلہ کرنے سے قبل جس تفصیل بلکہ بے دردی سے تجزیہ کرتی ہیں وہ عموما اس معاملے کے تمام پہلو سامنے لے آتا ہے۔ قرآنی حکم و ہدایت کی روشنی میں اس ساری بحث و تمحیص کے بعد جو فیصلہ کیا جاتا ہے، وہ کسی ایک یا چند افراد کا نہیں، پوری اجتماعیت کا فیصلہ قرار پاتا ہے۔ لیکن شورائیت کی یہ روح صرف اسی صورت میں سلامت رہ سکتی ہے کہ فیصلہ ہوجانے کے بعد قیادت اور کارکنان سمیت پوری جماعت کامل یکسوئی سے اس کی پابندی کرے۔ یقینا فیصلہ کرنے والے یہ ادارے انسانوں ہی پر مشتمل ہیں۔ ذمہ داران یا کارکنان میں سے کوئی بھی فرد نہ تو فرشتہ ہے اور نہ غلطیوں بلکہ گناہوں سے معصوم۔ لیکن خالق عزوجل نے اس کے باوجود، کمال علم و حکمت سے اپنے حبیب کو بھی حکم دے دیا کہ شَاوِرْہُمْ فِی الْاَمْر،’’ فیصلہ کرتے ہوئے ان سے مشورہ کیا کرو‘‘۔ اصلاح کا بیڑا اٹھانے والی کسی تحریک اور اس کی کسی بھی سطح کی قیادت یا کارکنان کے لیے اس کے بعد روا نہیں کہ پھر وہ کسی بھی سبب اور کسی بھی حالت میں شورائیت کی راے کے برعکس اپنی راے کو ترجیح و فوقیت دیتے رہیں۔ اس قرآنی حکم پر ایمان کا دعویٰ تو آسان ہے لیکن اس پر عمل آسان نہیں۔ہم قربانی کے جانور پر تو چھری پھیردیتے ہیں، لیکن اپنی راے کی قربانی دینے پر آمادہ نہیںہوتے۔
حالیہ انتخابات کے دوران مختلف اضلاع میں ٹکٹوں کی تقسیم کا مرحلہ یاد کرتے ہوئے، دربارِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں پیش آنے والا ایک منظر انتہائی ایمان افروز ہے۔ اس واقعے کے آئینے میں بھی اپنا اپنا چہرہ دیکھنا ضروری ہے۔ واقعہ اگرچہ ذرا طویل ہے، لیکن ہے پیغام آفرین!
یارسولؐ اللہ! سارا مالِ غنیمت عرب قبائل میں تقسیم کردینے اور انھیں کچھ بھی نہ دینے کی وجہ سے، انصار قبائل کے دل میں آپؐ سے کچھ ناراضی آگئی ہے، حضرت سعد بن عبادۃ رضی اللہ عنہ نے آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا۔ آپؐ نے انصاری سردار اور اپنے جاں نثار صحابی کی بات سنی تو جواب دینے کے بجاے پوچھا: فَأَیْنَ اَنْتَ مِن ذٰلِکَ یَاسَعْدُ؟ سعد اس سارے ماجرے میں خود آپ کا کیا حال ہے؟ یارسولؐ اللہ! میں بھی تو آخر اپنی قوم ہی کا ایک فرد ہوں۔ حضرت سعدؓ نے احترام لیکن بے تکلفی سے دل کی کیفیت بیان کردی۔ فَاجْمَـعْ لِیْ قَوْمَکَ فِی ہٰذِہِ الْحَظِیْرَۃ، ’’اچھا تو پھر اپنی قوم کو اس احاطے میں جمع کردو‘‘، آپؐ نے ارشاد فرمایا۔
تمام انصاری صحابہ رضی اللہ عنہم جمع ہوگئے تو آپؐ نے معمول کے مطابق اللہ کی حمدو ثنا بیان کرنے کے بعد فرمایا: اے گروہِ انصار! یہ مجھ تک آپ کی کیا بات پہنچی ہے؟ یہ آپ لوگ اپنے دلوں میں کیا ناراضی محسوس کررہے ہیں؟ قدرے توقف کے بعد فرمایا: کیا تم سب لوگ گمراہی میں نہیں تھے، اللہ نے میرے ذریعے تمھیں ہدایت عطا فرمائی؟ کیا تم لوگ فقر و فاقے کا شکار نہیں تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے تمھیں غنی کردیا؟ آپ ایک دوسرے کے دشمن نہیں تھے، اللہ نے تمھارے دل ایک دوسرے سے جوڑ دیے؟ صحابہ نے عرض کی: یقینا اللہ اور اس کے رسولؐ نے ہم پر بہت کرم فرمایا۔ آپؐ نے اپنا سوال پھر دہراتے ہوئے فرمایا: اَلَا تُجِیْبُوْنِی یَامَعْشَرَ الْاَنْصَار؟ ’’اے گروہ انصار! آپ میری گذشتہ بات کا جواب نہیں دے رہے؟ عرض کیا گیا: یارسولؐ اللہ! ہم بھلا آپؐ کو کیا جواب دیں؟ یقینا اللہ اور اس کے رسولؐ کے ہم پر بہت فضل و احسانات ہیں۔
آپؐ نے فرمایا: اللہ کی قسم! اگر آپ لوگ چاہتے تو یہ جواب دے سکتے تھے، تمھارا یہ جواب درست ہوتا اور سب اس کی صداقت تسلیم کرتے۔ آپ کہہ سکتے تھے کہ آپ جب ہمارے پاس آئے تھے تب سب نے آپ کو جھٹلا دیا تھا، ہم نے آپ کی تصدیق کی۔ جب سب نے آپ کا ساتھ چھوڑ دیا تھا، تب ہم نے آپ کی نصرت کی تھی۔ آپ کو نکال دیا گیا تھا، تب ہم نے آپ کو پناہ دی تھی۔ آپ نادار آئے تھے، ہم نے آپ کی دل جوئی کی تھی…
پھر اصل رہنمائی دیتے ہوئے فرمایا: ’’اے گروہ انصار! کیا آپ نے اپنے دلوں میں حقیر دنیا کو جگہ دے دی ہے؟ صرف اس بات پر کہ میں نے کچھ لوگ کی تالیف قلب کی تاکہ وہ مسلمان ہوجائیں…؟ آپ کو تو میں نے آپ کے اسلام کے سپرد کردیا تھا… ؟ اے گروہِ انصار! کیا تمھیں یہ بات پسند نہیں کہ یہ لوگ تو یہاں سے اپنے ساتھ کوئی بکری یا اونٹ لے جائیں اور آپ لوگ اپنے ساتھ اللہ کے رسولؐ کو اپنی رہایش گاہوں میں لے جاؤ؟ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمدؐ کی جان ہے اگر ہجرت نہ ہوتی تو میں انصار ہی کا ایک فرد ہوتا… اگر سب لوگ اپنا اپنا راستہ اختیار کریں تو میں انصار کے ساتھ ان کا راستہ اختیار کروں گا۔ پھر فرمایا:’’اے اللہ! انصار پر رحم فرما، انصار کی اولاد پر رحم فرما، انصار کی اولاد کی اولاد پر رحم فرما‘‘۔
رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کا خطاب سن کر انصار زارو قطار رونے لگے ۔ آنسوؤں سے ان کی داڑھیاں تر ہوگئیں۔ وہ بے ساختہ پکار اٹھے: ہم اس بات پر راضی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے حصے میں آئے۔ ہم اس خوش بختی پر نازاں ہیں۔ آپؐ ان کا یہ جواب سن کر رخصت ہوئے اور مجلس برخاست ہوگئی۔ کاش! اصلاح و تجدید کا اعزاز پانے والا ہرخوش قسمت یہ جملہ بار بار دہراتا رہے کہ: ’’یقینا ہم اس بات پر راضی ہیں کہ ہمارے حصے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے‘‘۔
قرآن کریم کی آیت مبارکہ : مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاہَدُوا اللہَ عَلَيْہِ۰ ۚ فَمِنْہُمْ مَّنْ قَضٰى نَحْبَہٗ وَمِنْہُمْ مَّنْ يَّنْتَظِرُ ۰ۡۖ وَمَا بَدَّلُوْا تَبْدِيْلًا۲۳ۙ (الاحزاب۳۳: ۲۳) ’’ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنھوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچا کردکھایا ہے۔ اُن میں سے کوئی اپنی نذر پوری کرچکا اور کوئی وقت آنے کا منتظر ہے۔ انھوں نے اپنے رویّے میں کوئی تبدیلی نہیں کی‘‘، اللہ کی طرف سے اہلِ ایمان کے لیے تعریف و ستایش کی ایک شان دار سند ہے۔ اس اعزاز و اکرام کا حق دار ہر وہ صاحب ایمان بن سکتا ہے جس نے بالخصوص آیت کے آخری جملے کو یاد رکھا: وَمَا بَدَّلُوْا تَبْدِيْلًا کہ انھوں نے (آخری سانس تک) اپنے عہد میں کوئی تبدیلی نہیں آنے دی۔ یقینا ہر وہ شخص خوش قسمت ہے جو اس پر ثابت قدم رہا۔ کسی بھی مرحلے میں، کسی بھی صورت میں اور کسی بھی وجہ سے اللہ کے ساتھ کیے گئے اپنے عہد پر آنچ نہ آنے دی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب فرمایا کہ مجھے سورہء ھود اور اس جیسی سورتوں نے بوڑھا کردیا ہے، تو کسی نے پوچھا: یا رسولؐ اللہ! خصوصی طور پر اس سورت کی کس آیت نے؟ تو آپؐ نے فرمایا: خصوصی طور پر اللہ کے اس ارشاد نے کہ فَاسْتَقِمْ کَمَا اُمْرِتَ ، ’’ پس (اے محمدؐ) تم ٹھیک ٹھیک راستے پر ثابت قدم رہو‘‘۔ اپنا یہ جائزہ و تذکیر یقینا کوئی نئی یا انوکھی بات نہیں ہے۔ اسلامی تحریک کا ہر کارکن انھیں اس سے بھی بہتر طور پر جانتا اور اس سے بھی بہتر انداز سے بیان کرسکتا ہے۔ لیکن اصل مقصد الفاظ کو عمل میں ڈھالنے کی کاوش ہے۔
حالیہ انتخابات سے تقریباً دو ہفتے قبل ترکی کے سابق وزیرخارجہ اور دوبار وزیراعظم رہنے والے پروفیسر ڈاکٹر احمد داؤد اوغلو کے ساتھ ایک طویل نشست کا موقع ملا۔داؤد اوغلو کا شمار دورِ حاضر کے ان رہنماؤں میں ہوتا ہے جو علم، عمل اور تجربے میں اپنی مثال آپ ہیں۔ معروف عالمی رسالے Foreign Policy نے ۲۰۱۰ء اور ۲۰۱۱ء میں ان کا شمار دنیا کے ۱۰۰ نمایاں ترین دانش وروں میں کیا۔ اپنی وزارت اور وزارت عظمیٰ کے دوران، اس سے پہلے اور بعد میں بھی انھوںنے ترک پالیسیوں کے ایسے اصول وضع کیے کہ ترکی اور صدر طیب اردوان کی کامیابیوںمیں جن کا ایک اہم کردار ہے۔بدقسمتی سے صدر اردوان کے ساتھ بعض اصولی اختلافات کے باعث وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے۔ حالیہ ترک انتخابات کے موقعے پر بعض عناصر نے انھیں صدر اردوان کے بالمقابل کھڑا کرنے کی بہت کوشش کی لیکن وہ مکمل یکسوئی سے اردوان کے ساتھ کھڑے ہوئے اور مخالفین کی ایک مہلک چال ناکام ہوگئی۔
ان سے ملاقات میں اندازہ ہوا کہ وہ نہ صرف پاکستان کی صورتِ حال سے بخوبی آگاہ تھے، بلکہ ان اکثر عالمی تجزیوں سے بھی باخبر تھے جن میں واضح طور پر بتایا جارہا تھا کہ کون کون سی قوتیں انتخابات کے نتائج پر اثر انداز ہورہی ہیں۔ پاکستان کے بارے میں ان کے احساسات بہت سے پاکستانیوں کی نسبت بھی زیادہ جذباتی تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ عالم اسلام کے لیے جو قائدانہ کردار پاکستان ادا کرسکتا ہے، وہ ترکی بھی ادا نہیں کرسکتا۔ اگر پاکستان اور ترکی مل کر مستقبل کا لائحۂ عمل تیار کریں تو دونوں ممالک اور ان کے عوام کے لیے خیر کثیر کا باعث ہوگا۔
انتخابی سیاست کے بارے میں اپنا نقطۂ نظر پیش کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ انتخاب میں آپ معاشرے کے کسی بھی فرد کو اپنے ساتھ آنے سے مستثنیٰ نہیںکرسکتے۔ نہ آپ اس کے ساتھ اس کی پوری زندگی اور زندگی کے ہر گوشے پر محیط کوئی معاہدہ کرسکتے ہیں۔ پھر مثال دیتے ہوئے بتایا کہ طیب اردوان نے جب اپنی پہلی انتخابی مہم چلائی تو وہ قحبہ خانوں اور جوا خانوں میں بھی پہنچے۔ وہ یقینا وہاں کے مکینوں کو اس لعنت و تباہی سے بچانا چاہتے ہیں، لیکن اس موقعے پر ان کا ہدف اور مطالبہ یک نکاتی تھا اور وہ یہ کہ ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے ہمارا ساتھ دو۔
ان کی پختہ راے تھی کہ جماعت کو بھی الگ سے اپنا سیاسی بازو تشکیل دے لینا چاہیے۔ اس تجویز کا مزید جائزہ لیں تو یہ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ اس وقت دنیا کے گیارہ ممالک کی اسلامی تحریکات اپنی اپنی الگ سیاسی جماعت تشکیل دے چکی ہیں۔ موریتانیا، مراکش، تیونس، لیبیا، مصر، سوڈان، اُردن، کویت، بحرین، یمن اور انڈونیشیا میںپورا نظامِ دعوت و تربیت الگ اور سیاسی جدوجہد کے لیے پارٹی الگ ہے۔ ترکی میں پروفیسر نجم الدین اربکان کی تشکیل کردہ سعادت پارٹی (SP) اور طیب اردوان کی (AKP) کے بنیادی نظام، پروگرام اور اہداف و مقاصد میں ، کوئی بڑا فرق نہیں۔ دونوں ہی بنیادی طور پر قومی سیاسی جماعتیں ہیں، لیکن دونوں کی اصل قیادت اسلامی تحریک کی فکر و مقاصد سے ہم آہنگ افراد کے ہاتھ میں ہے۔
یہ بھی ایک اہم حقیقت ہے کہ جہاں جہاں تحریک اور سیاسی جماعت الگ ہوئی ہیں، وہاں بھی تحریک ہی سیاسی پارٹی کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس امر میں بھی قطعاً کوئی شک نہیں کہ سابق الذکر اکثر تحریکیں تمام تر ابتلا و آزمایش کے باوجود اپنی افرادی و تربیتی قوت کے اعتبار سے ہم سے بہت آگے بڑھ چکی ہیں۔ تقریباً دس کروڑ کی آبادی والے مصر ہی کو دیکھ لیجیے، وہاں اخوان کے تربیت یافتہ ارکان و اُمیدواران کی تعداد ۲۰ لاکھ کے قریب ہے (یہ اعداد و شمار ۲۰۱۱ء کے ہیں)۔ حسنی مبارک سے نجات کے بعد جب قومی اور پھر صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کا مرحلہ آیا تو الحریۃ و العدالۃ کے نام سے اخوان نے الگ سیاسی جماعت تشکیل دی ، جس میں ۱۰ فی صد قبطی مسیحی آبادی کے افراد بھی شامل کیے گئے۔
یقینا یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ ہر ملک کے حالات و مزاج مختلف ہوتے ہیں۔ یہ نتیجہ اخذ کرنا بھی کسی صورت درست نہیںہوگا کہ الگ سیاسی جماعت تشکیل دیتے ہی ہتھیلی پر سرسوں جم جائے گی اور کامیابیوں کے دروازے کھل جائیں گے۔ یہ امر بھی ایک حقیقت ہے کہ الگ الگ جماعتیںقائم کرنے سے بعض تنظیمی مسائل بھی جنم لیں گے۔ لیکن اگر ہم انتخابات کے دوران افرادی قوت میں اضافے کے لیے مختلف النوع جماعتوں سے اتحاد کی کڑی آزمایش سے گزر سکتے ہیں، تو اپنی ایک الگ جماعت کو کہیں آسانی سے منظم کرسکتے ہیں۔
اس ضمن میں ایک اہم سوال اپنے تحریکی تشخص کو محفوظ رکھنے کا بھی سامنے آتا ہے۔ سیاسی جماعت میں شریک ہونے والے بہت سے مرد و زن یقینا اپنے اپنے پس منظر رکھتے ہوں گے۔ لیکن اگر ہم دوران انتخاب ووٹ مانگتے ہوئے، ہر در پہ دستک دے سکتے ہیں، کوئی ووٹ دینے پر آمادہ ہوجائے تو اسے سینے سے لگا اور کندھوں پر اٹھا سکتے ہیں تو ہمیں مستقل طور پہ بھی یہ فریضہ انجام دینے میں عار نہیں محسوس ہونی چاہیے۔ ایک داعی اور تحریکی کارکن ہونے کے ناتے سے تو کسی فرد کو سیاسی جماعت میں شامل کرلینے سے گویا آدھا سفر طے ہوجاتا ہے۔ ان سب حقائق کے ساتھ ہی ساتھ ہمیں اپنے بارے میں یہ بے بنیاد تاثر بھی درست کرنا ہوگا کہ ہم اپنے علاوہ باقی سب کو خدانخواستہ کسی کم تر درجے کے مسلمان سمجھتے ہیں۔ آخر کون نہیں جانتا کہ بعض اوقات بظاہر ایک گیاگزرا شخص اپنی کسی ادا کے باعث اللہ کے ہاں وہ مقام حاصل کرجاتا ہے، جو بظاہر بہت متقی دکھائی دینے والا بھی حاصل نہیں کرپاتا۔ آپؐ کے ارشاد کے مطابق: ’’دُنیا میں آنے والا ہرانسان نیک فطرت لے کر آتا ہے‘‘۔ انسان ہونے کے ناتے ہرشخص کے دل میں خیروبھلائی کی چنگاریاں موجود ہوتی ہیں۔ہم اگر ہر شخص کے دل میں موجود خیر کو اُجاگر کریں گے تو ان شاء اللہ بالآخر خیر ہی غالب تر ہوجائے گا۔
ان اور دیگر تمام دلائل و حقائق کے باوجود، یہ تجویز بہرحال دیگر کئی تجاویز کی طرح ایک تجویز ہی ہے۔ فیصلہ پوری جماعت اور اس کے دستوری اداروں ہی نے کرنا ہوتا ہے۔ لیکن جس نکتے پر کسی کو اختلاف نہیںہوسکتا، وہ یہ ہے کہ ہم میں سے ہر فرد کو سب سے پہلے خود کو تبدیل کرنا ہوگا۔ دل میں یہ شمع از سرِ نو روشن کرنا ہوگی کہ ہم اپنے نبی کے وارث ہیں۔ جس فریضے کے بوجھ سے آپؐ کی کمر ٹوٹی جارہی تھی (وَوَضَعْنَا عَنْكَ وِزْرَكَ۲ۙ الَّذِيْٓ اَنْقَضَ ظَہْرَكَ۳ۙ الم نشرح : ۲-۳)، وہ فریضہ اب ہم میں سے ہراُمتی کے سر پر عائد ہوتا ہے۔ خود نیک بننا بھی یقینا بہت اہم ہے، لیکن دین اسلام کی نظر میں یہ ایک ادھورا ہدف ہے۔ اصل راہِ نجات ہر فرد، پورے معاشرے اور سارے نظام کو عملی طور پر سایہ خداے ذو الجلال تلے لانا ہے۔
کیا ستم ظریفی ہے کہ ایک طرف بھارت کے شمال مشرقی صوبہ آسام میں مقامی ہندو آبادی کی نسلی اور لسانی برتری قائم رکھنے کے لیے۴۰ لاکھ افراد کو بنگلہ دیشی بتا کر شہریت سے محروم کر دیا جاتا ہے اور دوسری طرف جموں و کشمیر کی نسلی ، لسانی و مذہبی شناخت کو ختم کرنے کے لیے آئین کی دفعہ ۳۵ (اے) کو ختم کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔علانیہ دہرے پیمانے صرف اس لیے اختیار کیے جا رہے ہیں کہ آسام کی ۳۵ فی صد اور جموں و کشمیر کی ۶۸فی صد مسلم آبادی ہندو فرقہ پرستوں اور موجودہ بھارتی حکومت کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹک رہی ہے۔
منصوبہ یہ ہے کہ آئین کی اس شق کو ختم کرکے بھارت کی دیگر ریاستوں سے ہندو آبادی کو کشمیر میں بساکر مقامی کشمیری مسلمانوں کو اپنے ہی وطن میں اقلیت میں تبدیل کردیاجائے۔ اسی طرح آسام میں برسوں سے مقیم بنگالی مسلمانوں کو غیر ملکی قرار دے کر ان کو برما کے روہنگیائی مسلمانوں کی طرح دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور کرکے ہندو آبادی کو سیاسی اور آبادیاتی تحفظ فراہم کرایا جائے۔
نیشنل رجسٹر آف اسٹیزنز، یعنی شہریوں کی فہرست جو ۳۱جولائی کو جاری ہوئی ہے، ان میں جن افراد کے نام شامل نہیں ہیں، ان میں بھارت کے مرحوم صدر فخرالدین علی احمد کا خاندان، آسام کی سابق وزیر اعلیٰ سیدہ انورہ تیمور اور ان کا خاندان، ریاستی اسمبلی کے پہلے ڈپٹی اسپیکر امیرالدین کا خاندان، نیز بھارتی فوج، نیم فوجی تنظیموں اور پولیس کے کئی اعلیٰ عہدے دار اور ان کے اعزاو اقارب شامل ہیں۔
اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اگر ایسے مقتدر افراد کا نام یا ان کے خاندان کو شہریت کی فہرست سے خارج کردیا گیا ہے توعام آدمی کا کیا حال ہوگا۔ حکومت کا کہنا ہے کہ یہ ابھی صرف ڈرافٹ لسٹ ہے اور کسی کو بھی فوری طور پربے دخل نہیں کیا جائے گا اور اس لسٹ کو چیلنج کرنے کے بھی بھرپور مواقع دیے جائیں گے،مگر ان تمام یقین دہانیوں کے باوجود پورے صوبے میں خوف و ہراس کا ماحول ہے۔ مرکزی و ریاستی وزرا، نیز بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے اراکین اپنے بیانات کے ذریعے اس ایشو کو بھنا کر الیکشن میں ہندو ووٹروں کو اپنے حق میں ہموار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
چوںکہ خدشہ تھا کہ شہریت کی فہرست سے بنگالی ہندو بھی خارج ہوسکتے ہیں، وزیر اعظم مودی کی حکومت ۱۹۵۵ءکے شہریت کے قانون میں ترمیمی بل پارلیمنٹ میں پیش کرچکی ہے ، جو اس وقت پارلیمانی کمیٹی کے سامنے ہے، جس کی رُو سے پاکستان، بنگلہ دیش، افغانستان سے آئے غیر ملکی ہندو پناہ گزینوں کو شہریت مل جائے گی۔ انصاف کے دہرے معیار کی اس سے بڑھ کر اور کیا مثال ہو سکتی ہے۔
تقسیم ہند اور ۱۹۷۱ء میں سقوط مشرقی پاکستان کے وقفے کے دوران مبینہ طور پربہت سے افراد ہجرت کرکے بھارت کی شمال مشرقی ریاستوں میں بس گئے تھے۔ یاد رہے تب پاکستان کو سفارتی سطح پر زچ کرنے کے لیے سرحدیں کھول دی گئیں تھیں اور اس طرح کی ہجرت کی حوصلہ افزائی بھی کی جارہی تھی۔ جب بنگلہ دیش وجود میں آیا تو اکثر لوگ واپس چلے گئے۔۱۹۷۸ء سے ۱۹۸۵ء کے درمیان آل آسام اسٹوڈنٹس (آسو) سمیت کچھ تنظیموں نے پروپیگنڈا شروع کیا کہ بہت سے پناہ گزین بنگلہ دیش جانے کے بجاے آسام میں بس گئے ہیں۔
۱۹۷۸ء میں انتخابات ہوئے تو آسام اسمبلی کے انتخابات میں ۱۷مسلمان منتخب ہو گئے تھے۔ بس پھرکیا تھا، آسمان سر پر اٹھا لیا گیا کہ:’’ آسام کو’اسلامی ریاست‘ میں تبدیل کرنے کے لیے بنگلہ دیشی مسلمانوں کا ایک ریلا چلا آرہا ہے‘‘۔ اسی طرح ۱۹۷۹ء میں فرقہ پرست تنظیموں اور حکومتوں کی درپردہ حمایت یافتہ آسونے صدیوں سے آباد بنگالی آبادی کے خلاف پْرتشدد اور خونیں مہم چلائی۔اس سے قبل اس صوبے میں غیر آسامیوں، یعنی ہندی بولنے والوں کے خلاف تحریک شروع کی گئی تھی۔ پھر اس کا رُخ غیر ملکیوں اور خاص کر بنگلہ دیشیوں کے خلاف موڑ دیا گیا۔
بعدازاں اسے آر ایس ایس اور دیگر فرقہ پرستوں کی شہ پر مسلم مخالف خوں ریز تحریک میں تبدیل کردیا گیا۔ آسام کی تاریخ گواہ ہے کہ غیر ملکی اور خاص کر بنگلہ دیشی ہونے کا الزام لگا کر مسلمانوں کی نسل کشی کی گئی جس میں۱۹۸۳ء کے نیلی اور چولکاوا کے قتل عام کے روح فرسا واقعات کبھی فراموش نہیں کیے جاسکتے جن میں تقریباً تین ہزار ( غیر سرکاری ۱۰ہزار) افراد کو محض چھے گھنٹوں میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیاتھا مگر متاثرین کو آج تک انصاف نہیں مل سکا۔
۱۹۸۵ء میں اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی کی نگرانی میں مرکزی حکومت، آسام حکومت اور احتجاجی طلبہ لیڈروں کے درمیان باہمی رضامندی سے آسام آکارڈ (معاہدہ) وجود میں آیا۔پولیس نے نیلی قتل عام میں ملوث کئی سو افراد کے خلاف فرد جرم عائد کی مگر ’آسام اکارڈ‘ کی ایک شرط کے تحت مقدمے واپس لیے گئے‘ اور آج تک اس نسل کشی کے لیے کسی کو سزا ملی، نہ کسی کو ذمہ دار ہی ٹھیرایا گیا۔ اس واقعے کو ایسے دبا دیا گیا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔
بنگالی مسلمانوں کے خلاف یہ مہم چلانے والی آل آسام سٹوڈنٹس یونین کے بطن سے نکلی آسام گن پریشد کو بطور انعام اقتدار سونپ دیا گیا۔ اس معاہدے کے مطابق ۲۵مارچ ۱۹۷۱ءکو بنیاد مان کر اس سے پہلے آسام آکر بس جانے والوں کو شہری تسلیم کیا گیا ۔چنانچہ اس معاہدے کے بعد پارلیمنٹ نے ایک ترمیمی بل کی منظوری دی جس پر اس وقت کسی نے کوئی اعتراض نہیں کیا بلکہ تمام سیاسی جماعتوں بشمول کانگریس، بی جے پی ،کمیونسٹ جماعتوں، نیز تمام غیر سیاسی وسماجی تنظیموں نے بھی اسے تسلیم کیا تھا۔
چوںکہ یہ مسئلہ ریاست میں مسلمانوں کو ایک سیاسی قوت بننے سے روکنے کی غرض سے کھڑا کیا گیا ہے، اس لیے ۲۰۰۹ءمیں اور پھر ۲۰۱۲ءمیں آسام سمیلیٹا مہا سنگھ سمیت مختلف فرقہ پرست اور مفاد پرست افراد اور تنظیموں نے سپریم کورٹ میں اس معاہدے کے خلاف مفاد عامہ کی ایک عرضداشت داخل کرکے ۵مارچ ۱۹۷۱ء کے بجاے ۱۹۵۱ءکی ووٹر لسٹ کو بنیاد بناکر آسام میں شہریت کا فیصلہ کرنے کی استدعا، کی نیز اس معاہدے کی قانونی حیثیت کو بھی چیلنج کیا، جس کی وجہ سے آسام کے لاکھوں افراد بلکہ ہر تیسر ے فرد پر شہریت کی تلوار لٹک گئی۔
بعد ازاں سپریم کورٹ نے ۱۹۷۱ءکو بنیاد تسلیم کرتے ہوئے شہریوں کی ایک نئی لسٹ تیار کرنے کا فرمان جاری کیا۔جغرافیائی اعتبار سے صوبہ آسام تین حصوں میں بٹا ہوا ہے۔ لور (نشیبی) آسام جو مغربی علاقہ ہے، اَپر (بالائی) آسام جو مشرقی علاقہ ہے اور بارک ویلی جو جنوب میں واقع ہے۔ ۲۰۱۴ء کے پارلیمانی انتخابات میں ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے ریاست کے ۱۴ میں سے سات پارلیمانی حلقوں میں کامیابی حاصل کی۔ اس کے دو سال بعد بی جے پی نے ریاستی اسمبلی میں بھی اکثریت حاصل کرکے حکومت بنا لی۔
آسام کی آبادی کے تناسب پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ بنیادی طور پر ایک قبائلی ریاست ہے جہاں کی تقریباً۴۰فی صد آبادی مختلف قبائل پر مشتمل ہے، مگر ان کو زبردستی ایک تو ہندو بنا کر رکھا گیا ہے اور دوسرے مسلمانوں اور بنگلہ دیشی پناہ گزینوں کے نام پر ان کو خوف کی نفسیات میں مبتلا کرکے بی جے پی زمین اپنے حق میں ہموارکر نے میں کامیاب ہوگئی۔ انتخابات سے قبل تقریباً ۵لاکھ بنگالیوں کو مشتبہ ووٹر قرار دے دیا گیا تھا۔
جولائی ۲۰۱۲ء میں بوڈو قبائلی کونسل کے زیر انتظام کوکرا جھار اور گوپال پاڑا اضلاع میں بوڈو انتہا پسندوں نے پْرتشدد حملے کیے جن کے نتیجے میں تقریباً چار لاکھ افراد کو عارضی کیمپوں میں جان بچا کر پناہ لینی پڑی تھی۔ بی جے پی کی زیر قیادت سابقہ حکومت نے ۲۰۰۳ء میں بوڈو لبریشن ٹائیگرز سے معاہدہ کرکے بوڈو علاقائی کونسل قائم کی۔ یہ معاہدہ جنوبی افریقہ کی سفید فام اقلیت کے نسلی حکمرانی (اپارتھیڈ رول) کی یاد دلاتا ہے کیونکہ جن اضلاع میں یہ کونسل قائم کی گئی‘ ان میں بوڈو قبائل کی تعداد محض ۲۸فی صد ہے۔
اسی پس منظر میں بنگالی بولنے والی آبادی نے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ۸۰ء کی دہائی میں یونائیٹڈ مائنارٹیز فرنٹ کے نام سے ایک سیاسی تنظیم بنائی تھی لیکن یہ تجربہ باہمی اختلافات کی وجہ سے زیادہ کامیاب نہ ہو سکا‘حالاںکہ اسے اسمبلی اور پارلیمنٹ میں قابل ذکر کامیابی ملی تھی۔ فرنٹ سے منتخب ہونے والے رکن پارلیمنٹ بیرسٹر ایف ایم غلام عثمانی (مرحوم) اور دیگر لیڈر کانگریس میں چلے گئے۔ ریاست کے حالات اور کانگریسی حکومت کے رویے سے مایوس ہو کر اکتوبر۲۰۰۵ء میں اس تجربے کا احیا کیا گیا۔
چنانچہ صوبے کی ۱۳ملّی تنظیموں نے ایک نیا سیاسی محاذ آل انڈیا ڈیموکریٹک فرنٹ کے نام سے تشکیل دیا۔ اس کی تشکیل میں ایڈووکیٹ عبدالرشید چودھری کا اہم کردار رہا، لیکن انھوں نے اس کی قیادت قبول نہیں کی کیونکہ کوئی سیاسی جماعت چلانے کے لیے پیسے کی ضرورت ہوتی ہے۔قرعہ فال عْود اور عطر کے بڑے تاجر مولانا بدرالدین اجمل قاسمی کے نام نکلا۔ ان کی قیادت میں فرنٹ ریاست میں حزب مخالف کی سب سے بڑی جماعت بن گیا‘ اور پارلیمنٹ میں بھی اس کی نمایندگی ایک سے بڑھ کر تین ہو گئی۔ ویسے آسام میں ابتدا سے جمعیۃ العلماے ہند کا خاصا اثر رہا ہے اور ہرچپے پر مدارس نظر آتے ہیں۔
آل انڈیا یونائٹیڈ فرنٹ کے صدر اور رکن پارلیمان مولانا بدرالدین اجمل نے جو جمعیۃ علماے ہند صوبہ آسام کے صدر بھی ہیں ، ان حالات کے لیے آسام کی سابق کانگریس حکومتوں اور اس کی قیادت کو سب سے زیادہ ذمہ دارقرار دیتے ہیں۔ مولانا اجمل نے جو لوک سبھا میں ریاست کی ڈھبری حلقے سے پارلیمنٹ میں نمایندگی کرتے ہیں، سابق کانگریسی وزیر اعلیٰ ترون گگوئی کو خاص طور سے نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اس نے اپنے ۱۵سالہ دور حکومت (۲۰۰۱ء-۲۰۱۶ء) میں ریاست کی لسانی اور مذہبی اقلیتوں کو تین کاری ضربیں لگائیں۔
پہلے انھوں نے ۲۰۰۵ء میں آئی ایم ڈی ٹی ایکٹ کا سپریم کورٹ میں کمزور دفاع کرکے اس کو منسوخ کرایا جس کے تحت کسی شخص کو غیر ملکی ثابت کرنے کی ذمہ داری انتظامیہ پر تھی۔ بنگلہ دیشی دراندازوں کا پتا لگانے اور شناخت کرنے کی غرض سے آئی ایم ڈی ٹی ایکٹ ۱۹۸۳ء میں پاس کیا گیا تھا۔ اس ایکٹ کے تحت کسی فرد کو غیر ملکی ثابت کرنے کی ذمہ داری استغاثہ پر تھی، اب یہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ختم کردیا گیا ہے۔ اس کے بعد ان کی حکومت نے آسام میں ’بارڈر پولیس ڈیپارٹمنٹ‘ تشکیل دے کر اسے اس بات کا مکمل اختیا دے دیا کہ وہ جسے چاہے غیر ملکی قرار دے کر گرفتار کر سکتا ہے۔
ہزاروں معصوم لوگ اس ڈیپارٹمنٹ کے ظلم و ستم کا شکار ہو چکے ہیں۔ واضح رہے کہ ملک کی دیگر ریاستوں میں اس طرح کا کوئی محکمہ نہیں ہے۔ مزید ستم یہ کیا گیا کہ جن لوگوں کو گرفتار کرکے حراستی مراکز میں ڈالا گیا، ان سے راشن کار ڈ چھین لیے گئے۔آسام کے مسلمانوں کو روہنگیا مسلمانوں کی طرح بے حیثیت کر نے کی سازش چل رہی ہے تا کہ ان کے شہری حقوق چھین لیے جائیں اور ان سے ووٹنگ کا حق بھی سلب کر لیا جائے۔ یہاں اس کا بات تذکرہ برمحل ہوگا کہ اسلام آسام کا دوسرا بڑا مذہب ہے جہاں ۱۳ویں صدی میں سلطان بختیار خلجی کے دور میں مسلمانوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔
اس وقت تک آہوم سلطنت وجود میں بھی نہیں آئی تھی۔جب برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی نے ۱۷۵۷ء کی جنگ پلاسی کے بعد بنگال پر قبضہ کیا تو اس کے زیر تسلط آسام کا علاقہ بھی آیا۔ کمپنی نے یہاں بڑے پیمانے پر بنگالیوں کو لاکر بسانا شروع کیا اوران لوگوں نے معاشی وجوہ سے اپنے رشتہ داروں کو یہاں بلانا شروع کیا، کیوںکہ آسام میں زمینیں زرخیز تھیں۔مشرقی بنگال سے بڑی تعداد میں بے زمین کسان یہاں آکر آباد ہوگئے جن میں ۸۵ فی صد مسلمان تھے۔ آج انھی صدیوں سے آباد مسلمانوں کو غیر ملکی یا بنگلہ دیشی قرار دے کر ان کے لیے زمین تنگ کی جارہی ہے۔
سوال: جمہوریت کو آج کل ایک بہترین نظام قرار دیا جاتا ہے۔ اسلامی نظامِ سیاست کے بارے میں بھی یہی خیال کیا جاتا ہے کہ یہ بڑی حد تک جمہوری اصولوں پر مبنی ہے۔ مگر میری نگاہ میں جمہوریت کے بعض نقائص ایسے ہیں جن کے متعلق مَیں یہ معلوم کرنا چاہتی ہوں کہ اسلام انھیں کس طرح دُور کرسکتا ہے؟ وہ نقائص درج ذیل ہیں:
۱- دوسرے سیاسی نظاموں کی طرح جمہوریت میں بھی عملاًآخرکار اقتدار جمہور کے ہاتھوں سے چھن کر او ر چند افراد میں مرتکز ہوکر جنگ زرگری کی صورت اختیار کرلیتا ہے اور امرا کی حکومت (Plutocracy) یا Oligarchy کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔ اس کا کیا حل ممکن ہے؟
۲- عوام کے متنوع اور متضاد مفادات کی بیک وقت رعایت ملحوظ رکھنا نفسیاتی طور پر ایک بڑا مشکل کام ہے۔ جمہوریت اس عوامی ذمہ داری سے کس شکل میں عہدہ برآ ہوسکتی ہے؟
۳- عوام کی اکثریت جاہل، سادہ لوح،بے حس اور شخصیت پرست ہے، اور خود غرض عناصر انھیں برابر گمراہ کرتے رہتے ہیں۔ ان حالات میں نیابتی اور جمہوری ادارات کے لیے کامیابی سے کام کرنا بڑا دشوار ہے۔
۴- عوام کی تائید سے جو انتخابی اور نمایندہ مجالس وجود میں آتی ہیں، ان کے ارکان کی تعداد اچھی خاصی ہوتی ہے اور ان کے مابین باہمی بحث و مشاورت اور آخری فیصلہ کرنا بڑا مشکل ہوجاتا ہے۔ آپ رہنمائی فرمائیں کہ آپ کے خیال میں اسلام اپنے جمہوری ادارات میں ان خرابیوں کو راہ پانے سے کیسے روکے گا؟
جواب :آپ نے جمہوریت کے بارے میں جو تنقید کی ہے اس کے تمام نکات اپنی جگہ درست ہیں، لیکن اس مسئلے میں آخری راے قائم کرنے سے پہلے چند اور نکات کو نگاہ میں رکھنا ضروری ہے۔
اوّلین سوال یہ ہے کہ انسانی معاملات کو چلانے کے لیے اصولاً کون سا طریقہ صحیح ہے؟ آیا یہ کہ وہ معاملات جن لوگوں سے تعلق رکھتے ہیں ان کی مرضی سے سربراہ کار مقرر کیے جائیں اور و ہ ان کے مشورے اور رضامندی سے معاملات چلائیں اور جب تک ان کا اعتماد سربراہ کاروں کو حاصل رہے اسی وقت تک وہ سربراہِ کار رہیں؟ یا یہ کہ کوئی شخص یا گروہ خود سربراہِ کار بن بیٹھے اور اپنی مرضی سے معاملات چلائے اور اس کے تقرر اور علیحدگی اور کارپردازی میں سے کسی چیز میں بھی ان لوگوں کی مرضی و راے کا کوئی دخل نہ ہو جن کے معاملات وہ چلا رہا ہو؟ اگر ان میں سے پہلی صورت ہی صحیح اور مبنی برانصاف ہے تو ہمارے لیے دوسری صورت کی طرف جانے کا راستہ پہلے ہی قدم پر بند ہوجانا چاہیے، اور ساری بحث اس پر ہونی چاہیے کہ پہلی صورت کو عمل میں لانے کا زیادہ سے زیادہ بہتر طریقہ کیا ہے۔
دوسری بات جو نگاہ میں رہنی چاہیے وہ یہ ہے کہ جمہوریت کے اصول کو عمل میں لانے کی جو بے شمار شکلیں مختلف زمانوں میں اختیار کی گئی ہیں یا تجویز کی گئی ہیں ، ان کی تفصیلات سے قطع نظر کرکے اگر انھیں صرف اس لحاظ سے جانچا اور پرکھا جائے کہ جمہوریت کے اصول اور مقصد کو پورا کرنے میں وہ کہاں تک کامیاب ہوتی ہیں، تو کوتاہی کے بنیادی اسباب صرف تین ہی پائے جاتے ہیں۔
اوّل یہ کہ ’جمہور‘ کو مختارِ مطلق اور حاکمِ مطلق (sovereign) فرض کرلیا گیا اور اس بناپر جمہوریت کو مطلق العنان بنانے کی کوشش کی گئی۔ حالاں کہ جب بجاے خود انسان ہی اس کائنات میں مختارِ مطلق نہیں ہے تو انسانوں پر مشتمل کوئی جمہور کیسے حاکمیت کا اہل ہوسکتا ہے۔ اسی بناپر مطلق العنان جمہوریت قائم کرنے کی کوشش آخرکار جس چیز پر ختم ہوتی رہی ہے وہ جمہور پر چند آدمیوں کی عملی حاکمیت ہے۔ اسلام پہلے ہی قدم پر اس کا صحیح علاج کردیتا ہے۔ وہ جمہوریت کو ایک ایسے بنیادی قانون کا پابند بناتا ہے جو کائنات کے اصل حاکم (sovereign) نے مقرر کیا ہے۔ اس قانون کی پابندی جمہور اور اس کے سربراہ کاروں کو لازماً کرنی پڑتی ہے اور اس بنا پر وہ مطلق العنانی سرے سے پیدا ہی نہیں ہونے پاتی جو بالآخر جمہوریت کی ناکامی کا اصل سبب بنتی ہے۔
دوم یہ کہ کوئی جمہوریت اس وقت تک نہیں چل سکتی جب تک عوام میں اس کا بوجھ سہارنے کے لائق شعور اور مناسب اخلاق نہ ہوں۔ اسلام اسی لیے عام مسلمانوں کی فرداً فرداً تعلیم اور اخلاقی تربیت پر زور دیتا ہے۔ اس کا مطالبہ یہ ہے کہ ایک ایک فرد مسلمان میں ایمان اور احساسِ ذمہ داری اور اسلام کے بنیادی احکام کا اور ان کی پابندی کا ارادہ پیدا ہو۔ یہ چیز جتنی کم ہوگی جمہوریت کی کامیابی کے امکانات کم ہوں گے اور یہ جتنی زیادہ ہوگی امکانات اتنے ہی زیادہ ہوں گے۔
سوم یہ کہ جمہوریت کے کامیابی کے ساتھ چلنے کا انحصار ایک بیدار مضبوط راے عام پر ہے اور اس طرح کی راے عام اسی وقت پیدا ہوتی ہے جب معاشرہ اچھے افراد پر مشتمل ہو، ان افراد کو صالح بنیادوں پر ایک اجتماعی نظام میں منسلک کیا گیا ہو، اور اس اجتماعی نظام میں اتنی طاقت موجود ہو کہ بُرائی اور بُرے اس میں نہ پھل پھول سکیں اور نیکی اور نیک لوگ ہی اس میں اُبھر سکیں۔ اسلام نے اس کے لیے بھی ہم کو تمام ضروری ہدایات دے دی ہیں۔
اگر مندرجہ بالا تینوں اسباب فراہم ہوجائیں تو جمہوریت پر عمل درآمد کی مشینری خواہ کسی طرح کی بنائی جائے،وہ کامیابی کے ساتھ چل سکتی ہے اور اس مشینری میں کسی جگہ کوئی قباحت محسوس ہو تو اس کی اصلاح کرکے بہتر مشینری بھی بنائی جاسکتی ہے۔ اس کے بعد اصلاح و ارتقا کے لیے صرف اتنی بات کافی ہے کہ جمہوریت کو تجربے کا موقع ملے۔ تجربات سے بتدریج ایک ناقص مشینری بہتر اور کامل تر بنتی چلی جائے گی۔(سیّد مودودی، رسائل و مسائل ،چہارم، ص ۲۷۹- ۲۸۳)
سوال : ایک عرصے سے ایک اُلجھن میں مبتلا ہوں کہ عہد ِ نبویؐ و خلافت ِ راشدہ کو چھوڑ کر آج کی تاریخ تک مسلمانوں کا وہ گروہ ہمیشہ ناکام کیوں ہوتا چلا آرہا ہے، جس نے دین و ایمان کے تقاضے ٹھیک ٹھیک پورے کرنے کی کوشش کی ہے؟سوال یہ ہے کہ وہ ’دین‘ جو دُنیاوی زندگی کو درست کرنے کے لیے نازل ہوا ہے، جس کا سارے کا سارا ضابطہ دُنیوی زندگی میں عمل کرنے کے لیے ہے، جسے غالب کرنے کے لیے کئی خدا کے بندے اپنی زندگیاں ختم اور کئی وقف کرچکے ہیں، غالب کیوں نہ آسکا؟ اور دنیا کی غالب آبادی ’دین اسلام‘ کی برکتوں سے عام طور پر کیوں محروم رہی ہے؟ خلقِ خدا کی عظیم الشان اکثریت چند مٹھی بھر زبردستوں کے ظلم و ستم کیوں سہتی چلی آرہی ہے؟ معاشی بے انصافی، تنگ دستی اور اذیتوں کی دردناک صورتوں سے کیوں دوچار ہے؟ اور امن و سلامتی قائم کرنے والا دینِ حق اور اس کے نام لیوا کمزوروں، بے بسوں، مجبوروں اور معذوروں کا سہارا بننے میں کیوں کامیاب نہیں ہوتے؟
جواب :آپ جس اُلجھن میں مبتلا ہیں وہ بآسانی حل ہوسکتی ہے اگر آپ ایک مرتبہ اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیں کہ اس دنیا میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو انتخاب اور ارادہ کی آزادی بخشی ہے، اور اسی آزادی کے استعمال میں اُس کا امتحان ہے۔ اس حقیقت کو اگر آپ ذہن نشین کرلیں تو آپ کو یہ سمجھنے میں کوئی زحمت پیش نہ آئے گی کہ کسی ملک یا قوم یا زمانے کے انسانوں میں اگر کوئی دعوتِ باطل فروغ پاتی ہے ، یا کوئی نظامِ باطل غالب رہتا ہے، تو یہ اُس دعوت اور اُس نظام کی کامیابی نہیں بلکہ اُن انسانوں کی ناکامی ہے جن کے اندر ایک باطل دعوت یا نظام نے عروج پایا۔ اسی طرح دعوتِ حق اور اس کے لیے کام کرنے والے اگر اپنی حد تک صحیح طریقے سے اصلاح کی کوشش کرتے رہیں اور نظامِ حق قائم نہ ہوسکے، تو یہ نظامِ حق اور اس کے لیے کام کرنے والوں کی ناکامی نہیں بلکہ ان انسانوں ہی کی ناکامی ہے جن کے معاشرے میں صداقت پروان نہ چڑھ سکی اور بدی ہی پھلتی پھولتی رہی۔ دُنیا میں حق اور باطل کی کش مکش بجاے خود ایک امتحان ہے، اور اس امتحان کا آخری نتیجہ اِس دُنیا میں نہیں بلکہ آخرت میں نکلنا ہے۔ اگر دُنیا کے انسانوں کی عظیم اکثریت نے کسی قوم یا ساری دنیا ہی میں حق کو نہ مانا اور باطل کو قبول کرلیا، تو اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ حق ناکام اور باطل کامیاب ہوگیا، بلکہ اس کے معنی دراصل یہ ہیں کہ انسانوں کی عظیم اکثریت اپنے رب کے امتحان میں ناکام ہوگئی جس کا بدترین نتیجہ وہ آخرت میں دیکھے گی۔ بخلاف اس کے وہ اقلیت جو باطل کے مقابلے میں حق پر جمی رہی اور جس نے حق کو سربلند کرنے کے لیے جان و مال کی بازی لگا دی، اس امتحان میں کامیاب ہوگئی اور آخرت میں وہ بھی اپنی اِس کامیابی کا بہترین نتیجہ دیکھ لے گی۔ یہی بات ہے جو نوعِ انسانی کو زمین پر اُتارتے وقت اللہ تعالیٰ نے صاف صاف بتادی تھی: فَاِمَّا يَاْتِيَنَّكُمْ مِّـنِّىْ ھُدًى فَمَنْ تَبِــعَ ھُدَاىَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْہِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ۳۸ وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَكَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَآ اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ ۰ۚ ھُمْ فِيْہَا خٰلِدُوْنَ۳۹ۧ (البقرہ ۲: ۳۸-۳۹) ’’پھر جو میری طرف سے کوئی ہدایت تمھارے پاس پہنچے، تو جو لوگ میری اُس ہدایت کی پیروی کریں گے، اُن کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہ ہوگا، اور جو اس کو قبول کرنے سے انکار کریں گے اور ہماری آیات کو جھٹلائیں گے، وہ آگ میں جانے والے ہیں، جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے‘‘۔
اس حقیقت کو آپ جان لیں تو یہ بات بھی آپ کی سمجھ میں بخوبی آسکتی ہے کہ اہلِ حق کی اصل ذمہ داری یہ نہیں ہے کہ وہ باطل کو مٹادیں اور حق کو اس کی جگہ قائم کردیں بلکہ ان کی اصل ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنی حد تک باطل کو مٹانے اور حق کو غالب و سربلند کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ صحیح اور مناسب و کارگر طریقوں سے کوشش کرنے میں کوتاہی نہ کریں۔ یہی کوشش خدا کی نگاہ میں ان کی کامیابی و ناکامی کا اصل معیار ہے۔ اس میں اگر ان کی طرف سے دانستہ کوئی کوتاہی نہ ہو تو خدا کے ہاں وہ کامیاب ہیں، خواہ دنیا میں باطل کا غلبہ ان کے ہٹائے نہ ہٹے اور شیطان کی پارٹی کا زور اُن کے توڑے نہ ٹوٹ سکے۔
بسااوقات آدمی کے ذہن میں یہ اُلجھن بھی پیدا ہوتی ہے کہ جب یہ دین خدا کی طرف سے ہے، اور اس کے لیے کوشش کرنے والے خدا کا کام کرتے ہیں، اور اس دین کے خلاف کام کرنے والے دراصل خدا سے بغاوت کرتے ہیں، تو باغیوں کو غلبہ کیوں حاصل ہوجاتا ہے اور وفاداروں پر ظلم کیوں ہوتا ہے؟ لیکن اُوپر جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس پر غور کرنے سے آپ اس سوال کا جواب بھی خود پاسکتے ہیں۔ درحقیقت یہ اُس آزادی کا لازمی نتیجہ ہے جو امتحان کی غرض سے انسانوں کو دی گئی ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کی مشیت یہ ہوتی کہ زمین میں صرف اس کی اطاعت و فرماں برداری ہی ہو اور سرے سے کوئی اس کی رضا کے خلاف کام نہ کرسکے تو وہ تمام انسانوں کو اُسی طرح مطیعِ فرمان پیدا کر دیتا جس طرح جانور اور درخت اور دریا اور پہاڑ مطیعِ فرمان ہیں۔ مگر اس صورت میں نہ امتحان کا کوئی موقع تھا اور نہ اس میں کامیابی پر کسی کو جنّت دینے اور ناکامی پر کسی کو دوزخ میں ڈالنے کا کوئی سوال پیدا ہوسکتا تھا۔ اس طریقے کو چھوڑ کر جب اللہ تعالیٰ نے یہ طریقہ اختیار فرمایا کہ نوعِ انسانی اور اس کے ایک ایک فرد کا امتحان لے تو اس کے لیے ضروری تھا کہ ان کو انتخاب اور ارادے کی (بقدرِ ضرورتِ امتحان) آزادی عطا فرمائے۔ اور جب اُس نے ان کو یہ آزادی عطا فرما دی تو اب یہ ممکن نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ اُوپر سے مداخلت کرکے زبردستی باغیوں کو ناکام اور وفاداروں کو غالب کردے۔ اس آزادی کے ماحول میں حق اورباطل کے درمیان جو کش مکش برپا ہے اس میں حق کے پیرو، اور باطل کے علَم بردار اور عام انسان (جن میں عام مسلمان بھی شامل ہیں) سب امتحان گاہ میں اپنا اپنا امتحان دے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وفاداروں کی ہمت افزائی اور باغیوں کی حوصلہ شکنی ضرور کی جاتی ہے، لیکن ایسی مداخلت نہیں کی جاتی جو امتحان کے مقصد ہی کو فوت کردے۔ حق پرستوں کا امتحان اس میں ہے کہ وہ حق کو غالب کرنے کے لیے کہاں تک جان لڑاتے ہیں۔ عام انسانوں کا امتحان اس میں ہے کہ وہ حق کے علَم برداروں کا ساتھ دیتے ہیں یا باطل کے علَم برداروں کا۔ اور باطل پرستوں کا امتحان اس میں ہے کہ وہ حق سے منہ موڑ کر باطل کی حمایت میں کتنی ہٹ دھرمی دکھاتے ہیں اور حق کی مخالفت میں آخرکار خباثت کی کس حد تک پہنچتے ہیں۔ یہ ایک کھلا مقابلہ ہے جس میں اگر حق اور راستی کے لیے سعی کرنے والے پٹ رہے ہوں تو اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ حق ناکام ہورہا ہے اور اللہ تعالیٰ خاموشی کے ساتھ اپنے دین کی مغلوبی کو دیکھ رہا ہے، بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ حق کے لیے کام کرنے والے اللہ کے امتحان میں زیادہ سے زیادہ نمبر پارہے، اُن پر ظلم کرنے والے اپنی عاقبت زیادہ سے زیادہ خراب کرتے چلے جارہے ہیں، اور وہ سب لوگ اپنے آپ کو بڑے خطرے میں ڈال رہے ہیں جو اس مقابلے کے دوران میں محض تماشائی بن کر رہے ہوں، یا جنھوں نے حق کا ساتھ دینے سے پہلوتہی کی ہو، یا جنھوں نے باطل کو غالب دیکھ کر اس کا ساتھ دیا ہو۔
یہ خیال کرنا صحیح نہیں ہے کہ جو لوگ مسلمانوں میں شمار ہوتے ہیں وہ اس امتحان سے مستثنیٰ ہیں، یا محض مسلمان کہلایا جانا ہی اس امتحان میں ان کی کامیابی کا ضامن ہے، یا مسلمان قوموں اور آبادیوں میں دین سے انحراف کا فروغ پانا اور کسی فاسقانہ نظام کا غالب رہنا کوئی عجیب معمّا ہے جو حل نہ ہوسکے اور ذہنی اُلجھن کا موجب ہو۔ خدا کی اس کھلی امتحان گاہ میں کافر، مومن، منافق ، عاصی اورمطیع سب ہی ہمیشہ اپنا امتحان دیتے رہے ہیں اور آج بھی دے رہے ہیں۔ اس میں فیصلہ کُن چیز کوئی زبانی دعویٰ نہیں بلکہ عملی کردار ہے۔ اور اس کا نتیجہ بھی مردم شماری کے رجسٹر دیکھ کر نہیں بلکہ ہرشخص کا، ہر گروہ کا اور ہرقوم کا کارنامۂ حیات دیکھ کر ہی ہوگا۔ (رسائل و مسائل ،پنجم، ص ۳۲۶-۳۳۱)
جلد اوّل کے تسلسل میں ،زیرِ نظر دوسری جلد سات ابواب پر مشتمل ہے۔ اس جلد میں ہجرتِ حبشہ (اوّل و دوم )، حضرت حمزہ ؓ ، حضرت عمر ؓ ،حضرت ابو ذر غفاری ؓ ،حضرت ضماد بن ثعلبہ ؓ ، حضرت طفیل بن عمرو دوسی ؓ کا قبولِ اسلام ، شعبِ ابی طالب ، عام الحزن ، سفرِ طائف ، سفرِ معراج، بیعتِ عقبہ ( اوّ ل ودوم )، ہجرت مدینہ ، مسجد نبوی کی تعمیر، اصحابِ صفّہ ، اذان اور نماز ، نمازِ جمعہ کی فرضیت اور اہمیت ، رمضان کے روزے اور عیدین ، تحویلِ قبلہ اور اسلامی تقویم کے موضوعات پر تحقیق کے ساتھ بات کی گئی ہے۔ہر باب متعدد ضمنی سرخیوں میں منقسم ہے۔ احادیث اور اشعار کے حوالے بھی دیے گئے ہیں۔ اقبال اور حفیظ جالندھری کا کلام، اسی طرح نقشے اورکہیں کہیں تصاویر بھی شامل ہیں۔ جیسا کہ مؤلف نے بتایا ہے کہ پہلی دو جلدیں مکی زندگی کے چند واقعات پر مشتمل ہیں لیکن بعض موضوعات کی مزید وضاحت کے لیے مدنی زندگی کے چند واقعات بھی شامل کیے گئے ہیں۔
مکتبہ معارف اسلامی نے کتاب اہتمام سے شائع کی ہے۔ مؤلف کے لیے باعثِ اجر اور کتب سیرت کے اردو ذخیرے میں ایک قابلِ لحاظ اضافہ ہے۔ ( رفیع الدین ہاشمی )
پاکستان ، بھارت اور غیر ممالک میں مقیم دونوں ملکوں کے مسلمانوں پر مشتمل جہانِ اردو سے ہر سال کم وبیش دو تین لاکھ خواتین وحضرات فریضۂ حج ادا کرتے ہوں گے لیکن حج کے سفرنامے سال میں فقط دو یا تین ہی سامنے آتے ہیں۔ اس برس شائع ہونے والے سفر ناموں میں زیرنظر ’ سفرنامہ با تصویر ‘ بہت خوب صورت ہے اور نئی پرانی تصاویر کی شمولیت نے سفرنامے کی خوبیوں میں اضافہ کر دیا ہے۔ ڈاکٹر سلیس سلطانہ نامور قلم کار ہیں۔ انھوں نے آپ بیتی (مشاہدات) کے تاثرات کے ساتھ ساتھ مناسکِ حج وعمرہ کے بارے میں ہر طرح کی معلومات کے ذریعے قارئین کی رہنمائی بھی کی ہے۔
دراصل یہ ان کے عمرے اور حج کے متعدد اسفار (۱۹۹۳ء، ۱۹۹۵ء،۱۹۹۸ء، ۲۰۰۱ء، ۲۰۰۲ء ، ۲۰۰۶ء ، ۲۰۰۷ء ، ۲۰۰۸ء ، ۲۰۰۹ء ، ۲۰۱۰ء ) کے مشاہدات کا مجموعہ ہے۔ حرمین شریفین کے ایک درجن اسفا ر کے نتیجے میں عمرے اور حج کے فوائد اور مسائل ومشکلات کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے اور ایسے پہلوئوں سے بھی واقفیت ہو جاتی ہے جو ایک دو بار سفر کرنے والوں کی نگاہ میں نہیں آتے ۔
کتاب میں جناب نعیم صدیقی اور مظفر وارثی کی نعتیں اور سید نفیس الحسینی کی الواداعی نظم بھی شامل ہے۔ ( رفیع الدین ہاشمی )
جنرل محمد ضیاء الحق (۵ جولائی ۱۹۷۷ء-۱۷ ؍اگست ۱۹۸۸ء ) ایک فوجی آمر تھے مگر اسلام ، پاکستان اور ملتِ اسلامیہ کے لیے درد مندانہ جذبات رکھتے تھے۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ افغانستان میں روسی فوجوں کی شکست اور اسی کے نتیجے میں سویت یونین کا خاتمہ ہے۔ گرم پانیوں تک رسائی روسیوں کا پرانا خواب تھا۔ افغانستان میں فوج کشی اسی خواب (منصوبے) کو رُوبۂ عمل لانے کی ایک کاوش تھی۔سوپر پاور ، سویت یونین کے سامراجی کردار کا بت ضیاء الحق نے توڑا۔
زیر نظر کتاب کے مصنف لکھتے ہیں: ’۱۷ ؍اگست ۱۹۸۸ء کو جب طیارے کے حادثے میں جنرل محمد ضیاء الحق صدر پاکستان اپنے ۲۶ فوجی رفقا اور دیگر افراد کے ساتھ جاں بحق ہو گئے تو پوری دنیا میں کس شدت وجذبات کے ساتھ اس سانحے پر رنج وملال اور غم واندوہ کا اظہار ہو ا تھا کہ دنیا بھر میں فوجی پرچم سرنگوں کر دیے گئے تھے۔ کہیں ایک روز ، کہیں تین روز اور کہیں دس روز تک سوگ منایا گیا۔ پورا عالم اسلام سوگوا ر اور غم گسار تھا۔ اور ۲۰ ؍اگست کو جب جنرل ضیاء الحق کو سپردخاک کیا گیا تو دُنیاکے ۷۰ سے زائد ممالک کے سربراہ بشمول وزیر خارجہ ریاست ہاے متحدہ امریکا ، تدفین کی رسوم میں شرکت کے لیے فیصل مسجد کے زیر سایہ موجود تھے‘۔ (ص ۱۲)
مصنف ایک نام وَر صحافی تھے۔ وہ جنرل کے بہت قریب رہے۔ انھیں شکوہ ہے کہ ’عہدساز شخصیت‘ کے کارناموں کا اعتراف نہیں کیاگیا ۔ یہ کتاب مصنف نے اس کمی کو پورا کرنے کے لیے لکھی ہے۔ زیر نظر، کتاب کا ساتواں نظر ثانی شدہ اڈیشن ہے۔ مصنف کہتے ہیں : ’’میں نے دیانت داری کے ساتھ کوشش کی ہے کہ کوئی خلافِ واقعہ بات شامل نہ ہو، نہ کسی معاملے میں مبالغہ آرائی کی جائے ‘‘ (ص ۲۱)۔ ان کا خیال ہے کہ’’ ضیاء الحق کا چیف آف دی آرمی سٹاف کے عہدے پر مقرر ہونا مشیتِ ایزدی کا ایک خصوصی اعجاز تھا ‘‘ (ص ۲۴۵)۔ اپنے موضوع پر معلومات افزا اور دل چسپ کتاب ہے۔
بہت سی تصاویر اور دستاویزات بھی شامل ہیں۔ (رفیع الدین ہاشمی )
مولانا عبدالرحیم اشرف (م: ۱۹۹۶ء ) غالباً ماچھی گوٹھ کے بعد جماعت اسلامی سے الگ ہو گئے تھے ۔ ان کی بقیہ زندگی تبلیغی ودعوتی ، تعلیمی وتربیتی ، اور طبی سرگرمیوں میں گزری ۔ ان کے لائق فرزند ڈاکٹر زاہد اشرف نے مرحوم کے متعلق مختلف اہل قلم کے طویل ومختصر مضامین ، تاثرات ، پیغامات اور منظومات پر مشتمل زیر نظر مجموعہ شائع کیا ہے جس سے مرحوم کی شخصیت اور خدمات کا بخوبی اندازہ ہو تا ہے ۔ مرتب نے بتایا ہے کہ اس سلسلے کی تین مزید جلدیں شائع ہو ں گی۔
دوسری جلد مولانا عبدالغفار حسن ، مصطفیٰ صادق ، محمد افضل چیمہ ، راجا محمد ظفر الحق وغیرہ کے گیارہ مصاحبوں (انٹرویو) پر مشتمل ہو گی۔ تیسری جلد میں شعبہ ٔ طب سے منسلک حضرات کے مضامین شامل ہوں گے۔ اور چوتھی جلد مرحوم کے اہل خانہ کے تاثرات ومشاہدات پر مبنی تحریروں کا مجموعہ ہو گی۔
کتاب کی طباعت واشاعت سے مرتب کی خوش ذوقی کا اندازہ ہوتا ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی )
علامہ غلام مصطفی قاسمی سند ھ کے نامور عالم تھے۔ حضرت شاہ ولی اللہ کے مدّاح تھے اور عبید اللہ سندھی کو اپنا ’شیخ‘مانتے تھے۔ عبیداللہ سندھی کئی برس روس اور پھر استنبول میں مقیم رہے۔ وہ روس کے اشتراکی اور ترکی کے کمالی انقلاب سے بہت متاثر تھے۔مصنف نے مولانا عبیداللہ سندھی کی ’انقلابی جدوجہد‘ کو اُجاگر کیا ہے۔ ان کے بقول ’’مرحوم کی ساری زندگی سراپا انقلاب تھی‘‘۔(ص۲۹)
قاسمی صاحب کے خیال میں عبیداللہ سندھی کے افکار غلام رسول مہر کے توسّط سے علامہ اقبال تک پہنچے تھے۔ چنانچہ خطبۂ الٰہ آباد میں علامہ نے مفکر علامہ عبیداللہ سندھی کے پروگرام کی بعض اہم باتوں کا بھی ذکر کیا‘‘ (ص۳۰)۔درحقیقت عبیداللہ سندھی کی آنکھیں روسی اشتراکی انقلاب اور ترکی کے کمالی انقلاب سے چند ھیا گئی تھیں۔مولانا مسعود عالم ندوی نے اپنی کتاب مولانا عبیداللہ سندھی کے افکار وکمالات پر ایک نظر میں بتایا ہے کہ ان کے فلسفے کی معجون میں کچھ زہریلے اجزا بھی موجود ہیں‘‘ مثلاً :اکبر کے دینِ الٰہی کی مدح سرائی، عربی رسم الخط کے بجاے رومن رسم الخط کی ترویج ، نیشلزم پر فخر اور انگریزی لباس پہننے کی تلقین وغیرہ۔
زیر نظر کتاب کے حصہ اوّل میں ان کی شخصیت اور کارناموں پرمصنف کے ۱۵مضامین اور شذرے شامل ہیں۔ دوسرا حصہ ۵۰سے زیادہ قدیم وجدید علما ومشاہیر پر مضامین وشذروں پر مشتمل ہے اور تیسرے حصے میں قاسمی صاحب کی ایک خود نوشت اور چار سفر ناموں کو جمع کیا گیا ہے۔ مرتب نے ایک مفصل اشاریہ بھی ترتیب دیا ہے ۔ زیر نظر کتاب کی ترتیب وتدوین ایک بڑی اہم علمی خدمت ہے۔(رفیع الدین ہاشمی )
’اسلامی تحریکیں اور سیاسی مستقبل‘(اگست ۲۰۱۸ء) اسلام اور جاہلیت کی کش مکش کا عمدہ تجزیہ ہے۔ ڈاکٹر انیس احمد صاحب نے بجا توجہ دلائی ہے کہ: ’’اس معرکہ حق وباطل میں وقتی اتار چڑھائو فطری عمل ہے۔ حق وباطل کی کش مکش میں جہاں بدر ایک زندہ حقیقت ہے وہاں احد و حنین اور موتہ بھی دعوت فکر دیتے ہیں‘‘۔
’اسلامی تحریکیں اور سیاسی مستقبل‘نظر سے گزرا۔ ایک اہم مسئلے کو زیربحث لایا گیا ہے۔ آج اگر نوجوان دینی اور سیاسی وابستگی میں فرق کر رہے ہیں تو اسلامی تحریکوں کو اپنی حکمت عملی پر غور کرنا چاہیے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حالات کے جبر کا اندازہ کریں، قومی ریاستوں کے وجود کو محسوس کریں اور مؤثر انداز میں جدوجہد کو جاری رکھیں۔
’کتابیں جھانکتی ہیں‘(اگست ۲۰۱۸ء) شاکر احمد فاضل کی تحریر میں موجودہ دور میں قاری کی بے رُخی کو ظاہر کر کے کتابوں کے ساتھ رشتہ جوڑنے کی طرف عمدہ توجہ دلائی گئی ہے ۔ ’حسد سے نجات‘ ڈاکٹر تابش مہدی میں ایک ایسی بُرائی جس میں ہم غیرمحسوس انداز میں مبتلا ہوجاتے ہیں، کی نہ صرف نشان دہی کی گئی ہے، بلکہ اس سے بچنے کا آسان راستہ بھی بتایا گیا ہے۔
’اسلامی تحریکیں اور انسانی وسائل کا نظم وضبط‘ (اگست ۲۰۱۸ء) کے تحت ہلال احمد تانترے نے ایک اہم موضوع پر قلم اُٹھایا ہے اور عصرحاضر کے تقاضوں پر روشنی ڈالی ہے۔ انھوں نے مفید تجویز دی ہے کہ اسلامی تحریکوں کو ایک دوسرے کے تجربات سے استفادے اور براہِ راست مشاہدے کے لیے مختلف ممالک میں کارکنان کو کچھ عرصہ گزارنے کا موقع فراہم کرنا چاہیے۔ اس کے دُور رس نتائج مرتب ہوں گے۔ ’پرنٹ اور سوشل میڈیا پر تصدیق کی اہمیت‘ (اگست ۲۰۱۸ء) میں تزئین حسن نے سوشل میڈیا کے لیے ضابطۂ اخلاق کے لیے غورطلب نکات پیش کیے ہیں اور بجا توجہ دلائی ہے کہ خبروں کو بغیر تصدیق کے پھیلاناانسانی معاشرے کے لیے نقصان دہ ہے، لہٰذا تصدیق، شفافیت اور مواخذہ ناگزیر ہے۔
’علم کے سایے میں‘ (جولائی ۲۰۱۸ء) مریم جمیلہ کا انتہائی اہم مضمون ہے۔ معلومات افزا بھی اور دین کی ایک تڑپ بھی! بالخصوص نوجوانوں کے لیے اس میں بہت کچھ سیکھنے کا سامان ہے۔’ترکی اور ملایشیا کے شان دار نتائج‘ (جولائی۲۰۱۸ء) عبدالغفار عزیز کی تحریر ہمیشہ کی طرح عالمی منظرنامے کا ایک اچھا تجزیہ پیش کرتی ہے۔ ’مغربی فکروفلسفے پر مولانا مودودی کا تبصرہ‘ تو اپنی مثال آپ ہے اور نہایت اہم تحریر ہے۔
’علامہ اقبال کے ہاں ایک شام‘ (اپریل ۲۰۱۸ء) نے تو چار چاند لگا دیے۔ یہ مضمون علامہ اقبال کی ہمہ گیر شخصیت پر ایک تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔ مصنّف عمدہ اسلوب میں جامعیت سے بات کہہ گئے۔ شیخ جاوید ایوب صاحب کی تحریر ’تحریک، کارکن اور شعور‘ (اپریل ۲۰۱۸ء) مبنی برحقائق تجزیہ ہے۔ قائدین تحریک کو اس کی روشنی میں جائزہ لینے اور حکمت عملی طے کرنے کی ضرورت ہے۔
عبیداللہ فہد فلاحی کا مولانا مودودیؒ پر مضمون ’مغربی فکروفلسفے پر مولانا مودودی کا تبصرہ‘ (جولائی ۲۰۱۸ء) اچھا ہے لیکن یکہ طرفہ ہے۔ تحقیق کا تقاضا تھا کہ وہ ان لوگوں کے موقف کا بھی ذکر کرتے جو مولانا کی فکر کے بعض پہلوئوں کو مغرب سے مستفاد سمجھتے ہیں (مثلاً مغربی جمہوریت وغیرہ) اور دلائل سے اس پر بھی بحث کرنا چاہیے تھی۔
موجودہ انتخابات میں جہاں تحریک انصاف ایک بڑی جماعت بن کر ابھری ہے وہاں ایم ایم اے کو بھی نقصان اٹھانا پڑا۔متحدہ مجلس عمل میں سب سے زیادہ خسارہ جماعت اسلامی کو ہوا ہے۔جماعت اسلامی پاکستان کی قیادت کو آیندہ کے لیے کچھ ٹھوس اقدامات اور ایک مؤثر لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا جس سے ملک اور قوم کے اندر تبدیلی لائی جا سکے۔غلطیوں سے سبق سیکھنا، نئے تجربات کرنا، میدان میں ڈٹے رہنا اور پیہم جدوجہد ہی کامیابی کی کلید ہے۔
تصحیح: ’آپ نماز سمجھ کر کیسے پڑھیں؟‘ (اگست ۲۰۱۸ء) ڈاکٹر محی الدین غازی میں سورئہ فاتحہ کا ترجمہ سہواً ’’ساری تعریف اللہ کے لیے ہے، جو سارے انسانوں کا رب ہے‘‘ (ص ۳۱) شائع ہوگیا۔ درست ترجمہ ہے: ’’ساری تعریف اللہ کے لیے ہے، جو سارے جہانوں کا رب ہے‘‘۔ اللہ تعالیٰ ہماری اس لغزش کو معاف فرمائے۔ ادارہ
دوسری دینی جماعتوں کے متعلق میرا نقطۂ نظر ہمیشہ سے یہ رہا ہے، اور میں اس کا اظہار بھی کرتا رہا ہوں کہ جو جس درجے میں بھی اللہ کے دین کی کوئی خدمت کر رہا ہے، بساغنیمت ہے۔
مخالفِ دین تحریکوں کے مقابلے میں دین کا کام کرنے والے سب حقیقت میں ایک دوسرے کے مددگار ہیں، اور انھیں ایک دوسرے کو اپنا مددگار سمجھنا چاہیے۔ رقابت کا جذبہ اگر پیدا ہوسکتا ہے تو اسی وقت، جب کہ ہم خدا کے نام پر دکان داری کر رہے ہوں۔ اس صورت میں تو بے شک ہردکان دار یہی چاہے گا کہ میرے سوا اس بازار میں کوئی اور دکان نظر نہ آئے۔ لیکن، اگر ہم یہ دکان داری نہیں کر رہے ہیں، بلکہ اخلاص کے ساتھ خدا کا کام کر رہے ہیں ،تو ہمیں خوش ہونا چاہیے کہ ہمارے سوا کوئی اور بھی اسی خدا کا کام کر رہا ہے۔ اگر کوئی کلمہ پڑھوا رہا ہے تو وہ بھی بہرحال خدا ہی کی راہ میں ایک خدمت انجام دے رہا ہے، اور اگر کوئی وضو اور غسل کے مسائل بتارہا ہے تو وہ بھی اس راہ کی ایک خدمت ہی کر رہا ہے۔ آخر اس کو مجھ سے اور مجھے اس سے رقابت کیوں ہو اور ہم ایک دوسرے کی راہ میں روڑے کیوں اٹکائیں؟
کلماتِ خبیثہ کی اشاعت کرنے والوں کے مقابلے میں تو کلمۂ طیبہ پڑھوانے والا مجھے عزیز تر ہونا چاہیے، اور فسق و فجور پھیلانے والوں کے مقابلے میں احکامِ شرعیہ کی تعلیم دینے والا بھی مجھے محبوب ہی ہونا چاہیے۔ میں نے جماعت ِ اسلامی کے کارکنوں میں بھی ہمیشہ یہی جذبہ پیدا کرنے کی کوشش کی ہے اور اس کے خلاف کسی روش کو میں نے کبھی پسند نہیں کیا ہے۔ اگر آپ نے کہیں جماعت میں اس سے مختلف کوئی جذبہ و عمل پایا ہو تو مجھے تعینِ مقام و اشخاص کے ساتھ اس کی خبر دیجیے، تاکہ میں اس کی اصلاح کرسکوں۔([سیّدابوالاعلیٰ مودودی] ترجمان القرآن، جلد۵۰، عدد۶، محرم ۱۳۷۷ھ/ ستمبر۱۹۵۸ء،ص۶۱)