یہ قرآن کریم کا غیرمعمولی ادبی اعجاز ہے کہ وہ انسانوں کے لیے اپنی ہدایت کی تعلیمات کو انتہائی مختصرالفاظ میں بیان کردیتا ہے۔ ان الفاظ میں نہ کہیں جھول پایا جاتا ہے، نہ ابہام، نہ فلسفیانہ اُلجھن بلکہ سلاست ِبیان کے ساتھ محض چند الفاظ معانی کے سمندر کو سمو لیتے ہیں۔ سورئہ صف میں چند الفاظ میں انبیاے کرام ؑ کو مقرر کرنے کا مقصد، دعوتِ دین کی جامعیت، دعوت و اصلاح کا مقصد اور آخرکار ایک ایسے معاشرے اور نظامِ عدل کے قیام کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو شرک و کفر اور زندگی میں ظلم، فساد اور دو رنگی سے نجات دلانے کا ذریعہ ہے۔ فرمایا جاتا ہے:
ہُوَالَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰى وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْہِرَہٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّہٖ۰ۙ وَلَوْ كَرِہَ الْمُشْرِكُوْنَ۹ۧ (الصف۶۱:۹) وہی ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ وہ اس کو پوری جنسِ دین پر غالب کردے، خواہ یہ کام مشرکوں کو کتنا ہی ناگوار گزرے۔
یہاں پہلی بات جو سمجھائی جارہی ہے، وہ یہ ہے کہ انبیاے کرام ؑ اور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا خصوصی طور پر بھیجا جانا اس غرض کے لیے ہے کہ وہ ہدایت اور دین حق کو، جیساکہ وہ ہے، بغیر کسی کمی بیشی کے اس میں سے کسی بات کو نظرانداز کیے بغیر، بلاکم و کاست اللہ کے بندوں تک پہنچانے کا فریضہ اس طرح انجام دیں کہ کسی کے ذہن میں کوئی ابہام اور شبہہ نہ رہے اور حق ظاہر ہوجائے۔ لیکن یہاں ساتھ یہ بات بھی سجھائی جارہی ہے کہ دینِ حق اور ہدایتِ الٰہی کو محض پیش کرنا مقصد نہیں ہے بلکہ حق کو باطل، شرک اور فسق پر غالب کرنے کی جدوجہد کرنا بھی دعوت کا حصہ اور مقصود ہیں۔ دین آیا ہی اس لیے ہے کہ وہ شرک و و الحاد کو، نفس پرستی اور آبا پرستی کو ، اور ہر طرح کے ظلم و استحصال سے انسانی زندگی کو پاک کرے، جھوٹے خدائوں سے انسانیت کو نجات دلائے، اور زندگی کی تمام وسعتوں پر اللہ رب العزت کی سربلندی اور حاکمیت کے قیام کے ذریعے سے اللہ کی زمین پر صرف اس کی مرضی کو رائج اور قائم کردے۔ یہ دعوتِ دین کے کسی خاص جزو یا حصے پر عمل پیرا ہونے کی نہیں بلکہ مکمل دین کی دعوت ہے۔ توحید فقط اللہ تعالیٰ کو ایک ماننا نہیں ہے بلکہ زندگی کے تمام معاملات میں صرف اور صرف اس کی بندگی میں آجانے کا نام ہے۔
اسلام دین و دنیا کی ثنویت یا دو رنگی (dualism) کی جگہ دین و دنیا کی وحدت کا داعی ہے اور یہ توحید کا لازمی تقاضا ہے۔ یہ زندگی کو دو خانوں میں تقسیم نہیں کرتا بلکہ زندگی کو ایک ایسی اکائی میں تبدیل کر دیتا ہے کہ جس کے نتیجے میں انسان کا کھانا پینا، اُٹھنا بیٹھنا، لباس پہننا، تجارت کرنا، تفریح کرنا، غرض ہرانسانی عمل اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی خوشی اور مرضی کے تابع ہوجاتا ہے۔ یہ عیسائیت کی طرح ہفتے میں ایک دن چرچ جا کر اپنے رب کی بڑائی بیان کرنے کو کافی نہیں سمجھتا بلکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی حکومت اور دائرۂ کار کو جس طرح مسجد میں قائم کرتا ہے، اسی طرح خاندان، تجارت، سیاست، معاشرت، قانون و ثقافت، ہرشعبۂ زندگی کو اللہ تعالیٰ کی ہدایت اور احکام کے تابع کرتا اور اس کی رضا کے حصول کا میدانِ کار بنا دیتا ہے۔نعوذ باللہ یہ ایسے خدا کا قائل نہیں جو مسجد یا خانقاہ تک محدود ہو اور باقی تمام کاروبارِ حیات شیطان کے حوالے کردے۔ اسلام اس تقسیم کو توحید کے منافی قرار دیتا ہے اور یہی منصب نبوت کا تقاضا ہے۔ اَنِ اعْبُدُوا اللہَ وَاجْتَـنِبُوا الطَّاغُوْتَ ۰ۚ (النحل۱۶:۳۶) ’’اللہ کے بندے بن جائو اور طاغوت سے مکمل اجتناب کرلو‘‘۔ یہی وہ دعوت ہے جسے حضرت آدم ؑ سے لے کر خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم تک ہر نبی نے انسانوں تک پہنچایا اور اللہ کی زمین پر اللہ کی حکومت قائم کرنے کی کوشش کی۔
اگلی بات یہ فرمائی جارہی ہے کہ انبیاے کرام ؑ ہی ہدایت پہنچانے کا ذریعہ ہیں اور تمام انبیاےکرامؑ نے انسانوں کو ایک ہی پیغام دیا ہے کہ صرف اللہ کی بندگی اختیار کریں۔ گویا یہ دین ہی ہدایت کا واحد ذریعہ ہے۔ وہ اللہ ہے جو الرحمٰن اور الرحیم ہے، جو اپنے بندوں سے محبت کرتا ہے اور انھیں گمراہ نہیں دیکھنا چاہتا، جو ان کی ہدایت و رہنمائی کے لیے ہر دور میں اپنے انبیا ؑ بھیجتا رہا اور جس نے آخرکار پوری ا نسانیت کے لیے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا آخری نبی اور پیغامبر بنا کر بھیجا۔ دین کو مکمل شکل میں محفوظ کیا اور اسے قیامت تک کے لیے تمام انسانوں کے لیے صراطِ مستقیم اور نجات کا راستہ قرار دیا۔ نیز یہ کہ نبی کا کام نہ صرف تلاوتِ کتاب اور تعلیمِ کتاب ہے بلکہ تزکیہ اور حکمت کی تعلیم و تربیت دینا بھی ہے۔ ان چاروں وظائف کو عملاً نافذ کرنے کا نام اقامت ِ دین ہے۔ یعنی تلاوتِ کتاب کے ذریعے انسانوں تک ہدایت اور دین حق کو جیساکہ وہ ہے پہنچانا، نبی کی ذمہ داری ہے۔اس کے ساتھ افراد کا تزکیہ کرنا، جسے ہم کردار سازی اور صلاحیت ِ کار میں ترقی کہتے ہیں۔ افراد کی صلاحیتوں کو اُبھارنا اور انھیں دعوتِ دین کی حکمت عملی سے آگاہ کرنا نبی کے مشن کا حصہ ہے۔ نبی کے بعد دعوت کا پہنچانا ہو یا ہدایت کی وضاحت کرنی ہو، قانون کا نفاذ کرنا ہو، یہ سب کام نبی کے بعد اُس اُمت کے سپرد کر دیے گئے جو نبی پر ایمان رکھتی ہو۔ چنانچہ قرآن کریم نے واضح الفاظ میں اعلان کر دیا کہ تم وہ خیراُمت ہو جسے پیدا ہی اس لیے کیا گیا ہے کہ انسانوں کو اچھائی ، نیکی، بھلائی اور معروف کا حکم دو اور گمراہی، منکر اور فواحش سے روکنے اور بچانے کے لیے اپنی قوت کا استعمال کرو۔(اٰل عمرٰن ۳:۱۱۰)
یہاں بات فقط وعظ و تلقین کی نہیں کی جارہی بلکہ اس کے امرونہی کا بھی ذکر ہے جو واضح طور پر قوتِ نافذہ کی طرف اشارہ ہے اور جس کے ذریعےمتوجہ کیا جارہا ہے کہ منکر اور بُرائی کو مٹانے کے لیے ہرممکن ذریعۂ اصلاح کا استعمال ضروری ہے۔
یہاں یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ ہدایت مکمل ہے، یہ زندگی کے کسی خاص پہلو تک محدود نہیں، یہ محض روحانیت کا نام نہیں، نہ یہ محض ’ذاتی‘ اور ’نجی‘زندگی کے لیے ہے بلکہ یہ زندگی کے تمام گوشوں کا احاطہ کرتی ہے۔ یہ ہدایت نہ صرف جامع اور مکمل ہے بلکہ یہی حق ہے یہی ’دین الحق‘ ہے اور اس ’دین الحق‘ کی دعوت اور اس کی سربلندی کی جدوجہد کرنا نبی اور ان کے بعد نبی کے ماننے والوں کا کام ہے۔ تحریک اسلامی کا اصل مقصود، دین حق کا قیام اور باطل اور طاغوت سے انسانیت کو نجات دلانا ہے۔
یہ بات بھی واضح کی جارہی ہے کہ اس دین حق کی دعوت اور جدوجہد کو کفر، ظلم، طاغوت کے علَم بردار برداشت نہیں کریں گے۔وہ اسے سخت ناگوار سمجھتے ہوئے اپنی تمام قوت اس کا راستہ روکنے میں لگائیں گے اور نہ صرف مقامی طور پر بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی دین حق کو دبانے اور نقصان پہنچانے کی پوری کوشش کریں گے۔ جو خوش نصیب ہدایت کو قبول کرلیں گے اور اس پر استقامت سے جم جائیں گے، وہ اپنے رب کی نصرت و حمایت سے کم تعداد میں ہونے کے باوجود بالآخر کثرت پر غالب آئیں گے۔ اسلام قلت و کثرتِ افراد کی جگہ افراد کی تاثیر اور قوت کردار و اخلاق کا اصول پیش کرتا ہے کہ اگر وہ صرف ۲۰ صالح اور مجاہد افراد ہیں تو وہ ۲۰۰ پر غالب آئیں گے ۔ گویا کامیابی کا معیار تعداد نہیں تربیت ہے، کردار اور طرزِعمل ہے۔ مخالفت کی ہوائیں جتنی بھی تندوتیز ہوں گی، حق اتنا ہی زیادہ بلندی کی طرف جائے گا۔
جو اسلامی تحریکات اپنے قیام کا مقصد اور اپنی سرگرمیوں کا ہدف حاکمیت ِالٰہی کا قیام قرار دیتی ہیں، ان کے لیے قرآن کا دیا ہوا اصول یہی ہے کہ وہ حاکمیتِ الٰہی کے قیام کے لیے ایسے افراد تیار کریں جو چاہے تعداد میں کم ہوں لیکن اپنے ایمان اور کردار میں غیرمتزلزل اور میدانِ کارزار میں چٹان کی طرح جم جانے والے ہوں، جو سر تو دے دیں لیکن ان کا سر صرف اللہ کے سامنے جھکے اور ایمانی اصولوں پر کبھی سمجھوتا نہ کریں۔ تحریکاتِ اسلامی کا اصل سرمایہ یہی تربیت یافتہ افراد ہوتے ہیں، جو اللہ کے حضور شب گزاری کے ساتھ ساتھ کارزارِ حیات میں، رزم حق و باطل میں فولاد کی طرح ہوں۔
اس آیت مبارکہ میں یہ بات بھی واضح کر دی گئی ہے کہ ہدایت ربانی اور مکمل دین کے اظہار اور حق کو قائم کرنے کے لیے محض عددی قوت یا عوامی احتجاج کی طاقت (street power)کا استعمال کامیابی کی شرط نہیں ہے۔ تحریکی کارکنوں کی وہ کم تعداد بھی جو قوتِ کردار سے آراستہ ہو، باطل اور طاغوت کے بڑے سے بڑے لشکر پر غالب آسکتی ہے۔ تاریخ گواہ ہےکہ معرکۂ بدر ہو یا غزوئہ احزاب، اہلِ ایمان کی کم تعداد اپنی قوتِ کردار اور اعلیٰ تربیت یافتہ اخلاق کی بناپر منکرینِ حق کی کثرتِ تعداد کے باوجود ان پر غالب آئی۔
پارلیمنٹ یا معاشی منڈی یا تعلیم گاہ جہاں کہیں بھی انسان کا اپنا بنایا ہوا نظام چل رہا ہے، اسلام چاہتا ہے کہ انسان کی حاکمیت، آمریت اور بادشاہت کی جگہ مالکِ حقیقی کی حاکمیت کو خلافتِ جمہور کے ذریعے رائج کیا جائے۔ یعنی انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کی جگہ ہدایتِ الٰہی کی روشنی میں اسلامی شریعت کو قائم کیا جائے لیکن خلافت کے قیام اور خلافت ِ جمہور کے ذریعے نظامِ عدل کا قیام چند بنیادی شرائط کو پورا کیے بغیر نہیں ہوسکتا۔ پہلی شرط یہ ہے کہ اس تبدیلی و اصلاح کا داعی اور اس کے رفقا سب سے پہلے خود دین کی شہادت دیں، چنانچہ فرمایا گیا:
اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْہِ مِنْ رَّبِّہٖ وَالْمُؤْمِنُوْنَ ۰ۭ (البقرہ ۲:۲۸۵)رسول اور اہلِ ایمان اس ہدایت پر ایمان لائے جو ان کے رب کی طرف سے ان پر نازل ہوئی ہے۔ انھوں نے اس ہدایت کو دل سے تسلیم کرلیا ہے۔
زمین پر اللہ تعالیٰ کے دین اور نظام کو رائج کرنے والوں کو پہلے اپنی دعوت پر غیرمتزلزل یقین ہو۔ وہ اس کا اظہار و اقرار نہ صرف زبان سے کر رہے ہوں بلکہ عملاً شہادتِ حق کا فریضہ ادا کرنے میں قیادت کریں۔ چنانچہ جب تک تحریک کا ہر کارکن تجدید ِ ایمان کرتے ہوئے اللہ کی بندگی اور تحریک سے وابستگی اور دین کی سربلندی اور کامیابی پر مکمل ایمان نہ لائے وہ دین کی دعوت، استقامت و اعتماد سے نہیں دے سکتا۔ اس کا لہجہ اور اس کی ہر ہر ادا( body language) اس بات کا اعلان کرے کہ وہ اپنی دعوت کی صداقت پر مکمل اعتماد و ایمان رکھتاہے اور کسی فکری انتشار (confusion)کا شکار نہیں ہے۔وہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ سیاسی مقابلے میں کامیابی کا کوئی امکان نہیں، اللہ تعالیٰ کو خوش کرنے کے لیے اپنے تمام وسائل کو شہادتِ حق میں لگا دے گا۔ اس کا اصل ہدف دین حق کا قیام ہو جس کے لیے قوتِ نافذہ کا ہونا ایک ضروری وسیلہ تو ہے، اس کی منزل نہیں۔ وہ فتح اور ناکامی سے بلند ہوکر اپنی تمام قوت اقامتِ دین کی جدوجہد میں لگا دے۔
خلافتِ جمہور کا واضح مفہوم یہ ہے کہ زمین پر اللہ تعالیٰ کی خلافت و نیابت کو قائم کرنے کے لیے اللہ کے بندوں کو حکمت و محبت کے ساتھ اللہ کے دین سے آگاہ کیا جائے جو محض زبان سے نہ ہو بلکہ ہر تحریکی کارکن کی شخصیت، اور اس کی سیرت اور اس کا کردار خود دعوت کی زبان بن جائے۔ زبان سے کوئی لفظ ادا کیے بغیر وہ اپنے وجود سے ایک دیکھنے والے کو یہ بات پہنچا دے کہ وہ سچ پر قائم اور سچ کو غالب کرنے والا ہے۔ وہ بے غرض ہے۔ اسے اپنی لیڈری مطلوب نہیں ہے۔ وہ دراصل دین کا کارکن ہے۔ وہ نہ شہرت چاہتا ہے نہ کوئی معاوضہ یا بدلہ طلب کر رہا ہے بلکہ اپنا سب کچھ اپنے رب کی خوش نودی کے حصول کے لیے لگادینے کو اپنی خوش قسمتی سمجھتا ہے۔
خلافتِ جمہور اور مغربی جمہوریت کا جوہری فرق ہی یہ ہے کہ خلافت اللہ کی ہدایت کی بالادستی کی بنیاد پر قائم ہوتی ہے اوراس میں کسی فرد کی آمریت کی کوئی گنجایش نہیں ہوتی اور نہ اس میں اکثریت کے نام پر استبداد کو قبول کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خلافت جمہور کا مطلب یہ ہے کہ تمام معاملات میں فیصلے آنکھیں بند کر کے محض افراد کے ووٹوں کی کثرت پر نہ کیے جائیں بلکہ جس اصول پر فیصلہ ہو وہ یہ ہے کہ انسانیت کا خالق ہم سے کیا چاہتا ہے۔ گویا ووٹ کا استعمال لازماً کیا جائے لیکن ووٹ اپنی قوت قرآن و سنت سے حاصل کرے اور اس کا تابع ہو۔ نیز جن اُمور کے بارے میں اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت موجود ہے، اسے دل کی گہرائیوں سے تسلیم کیا جائے اور جو معاملات انسانوں کی عقل اور تجربے پر چھوڑے گئے ہیں ان میں قرآن و سنت کے بتائے ہوئے اصولوں کی روشنی میں جمہور کی مرضی کے مطابق معاملات طے ہوں۔ شوریٰ کے نظام کی روح جہاں اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت ہے وہیں فیصلہ سازی میں عوام اور ان کے نمایندوں کی ایک ایسے انتظام کے ذریعے مؤثر شرکت ہے جو افراد اور گروہوں کی آمریت سے پاک ہو۔
خلافتِ جمہور کی روح یہ ہے کہ فیصلے کی طاقت محض حزبِ اقتدار یا حزبِ اختلاف کے ہاتھ میں نہ ہو بلکہ تمام باشعور افراد قرآن و سنت کی روشنی میں اُمورِ سلطنت چلانے کا اہتمام کریں۔ یہی وجہ ہے کہ اس نظام میں مخالفت براے مخالفت اور محض عصبیت اور سیاسی مفاد کی بنیاد پر اطاعت اور ہم نوائی کے مقابلے میں وَتَعَاوَنُوْا عَلَي الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى ۰۠ وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَي الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۰۠ (المائدہ ۵:۲) کو رہنما اصول قرار دیا گیا ہے۔ خلافت ِ جمہور میں کسی پیشہ ورانہ حزبِ اختلاف کا تصور نہیں پایا جاتا کہ اسے لازماً حزبِ اقتدار کی ہر بات کی مخالفت ہی کرنی ہے بلکہ کسی بھی بات کی صداقت براہِ راست قرآن و سنت کی بنیاد پر مان لینے کا نام نیابت و خلافت ہے۔ خلافت ِ جمہور کا مطلب یہ ہے کہ جمہوریت بجاے خود کوئی حتمی حیثیت نہیں رکھتی، البتہ شریعت کے ذریعے اصولوں کی بنیاد پر تبدیلی لانے کی جدوجہد آئینی ذرائع سے کی جائے تو وہ خلافت ِ جمہور کے قیام کا ذریعہ بن سکتی ہے۔
خلافت ِ جمہور کا مطلب یہ ہے کہ سیاسی معاملات ہوں یا معاشی، دفاعی، ثقافتی اور قانونی مسائل، ہر معاملے میں مشاورت یا شوریٰ کو بنیاد بنایا جائے۔ شوریٰ کی روح اختلاف ِ راے ہے، جتھابندی نہیں ہے، نجویٰ نہیں ہے، غیبت نہیں ہے بلکہ کھل کر معاملات پر گفتگو و تبادلۂ خیالات کے ذریعے اجماع یا اتفاق راے کا پیدا کرنا ہے۔ اور اگر اتفاق راے نہ ہوسکے اور معاملہ حکمت اور مصلحت کا ہو اور جو معصیت سے پاک ہو تو پھر اکثریت کی راے ہی معتبر ہوگی لیکن اللہ کی نافرمانی کی صورت میں کوئی اطاعت نہیں۔ لَا طَاعَۃَ لِمَخْلُوْقٍ فِی مَعْصِیَۃِ الْخَالِقِ(مصنف ابن ابی شیبۃ، حدیث: ۳۳۰۵۴) ’’خالق کی نافرمانی والے کام میں مخلوق کی اطاعت جائز نہیں ہے‘‘۔
یہاں فیصلہ مغربی یا مشرقی قوموں کے بنائے ہوئے ضوابط پر نہیں ہے بلکہ قرآن و سنت کے دیے ہوئے حریت و آزادی، امانت و دیانت اور تقویٰ و احسان کے ضوابط پر ہے۔ یہاں ہرراے اور عمل کا پیمانہ ہدایت ِ الٰہی اور اسوئہ نبویؐ ہے۔
خلافت جمہور کا مطلب وہ نظام ہے جس میں احتساب پر عمل کیا جارہا ہو۔ قائد سے لے کر ایک عام کارکن تک کا احتساب اجتماعی ضوابط کی روشنی میں کیا جاسکتا ہو اور کیا جا رہا ہو۔ خلافتِ جمہور کا مطلب یہ ہے کہ ملک سے اس لادینی نظام کو ختم کیا جائے جس میں دین و دنیا میں تفریق کرکے خالق کائنات کو مسجد تک محدود کر دیا جاتا ہے اور مسجد سے باہر مادی قوتوں اور عوام کی خوشی اور خواہشوں کو اپنارب بنا لیا جاتا ہے۔ اسلام چاہتا ہے کہ انسانی فکر کے تمام خودساختہ بتوں کوپاش پاش کرنے کے بعد بے لوث اور ایثار و قربانی کے جذبے سے سرشار ، باصلاحیت، خدمت کرنے والوں کو مناصب کے لیے نامزد کیا جائے۔
خلافت ِ جمہور کا مطلب یہ ہے کہ انفرادیت پسندی، قومیت اور صوبائی اور لسانی عصبیت جیسے تمام بتوں سے معاشرے کو پاک کیا جائے اور اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہدایات اور شریعت کو زندگی کے تمام معاملات میں نافذ کردیا جائے۔
خلافت ِ جمہور کا قیام ضروری نہیں کہ چند ہفتوں، چند مہینوں یا چند برسوں میں تکمیل کو پہنچ جائے۔ قوموں اور تحریکوں کی زندگی میں ۷۰سال پلک جھپکتے گزر جاتے ہیں۔ اس لیے تحریکی کارکنان کو اپنی سوچ کو درست رُخ دینے کی ضرورت ہے۔ ایک حکایت ہے کہ ایک ۹۹سالہ بوڑھا اللہ کے بندوں کی بھلائی کے لیے کھجور کی گٹھلی بو رہا تھا کہ آنے والی نسلیں اس سے فائدہ حاصل کرسکیں۔ تحریک کی دعوت بھی اسی نوعیت کی ہے۔ اس کی جدوجہد براے خلافت جمہوربھی فوری نتائج سے بے پروا ہوکر اچھائی کے بیچ سنگلاخ زمین کے کچھ حصے کو نرم کر کے ڈالنا ہے کہ آہستہ آہستہ اس کی جڑیں چٹانوں میں دراڑیں ڈال کر اپنے تنے کو مستحکم کردیں اور اس کی شاخیں تمام انسانیت کے لیے سایہ، سکون اور پھل فراہم کرنے کا ذریعہ بن جائیں۔
دعوتِ دین کا شجر طیبہ بھی ایسا ہی ہے، لیکن اس شجر طیبہ کے لگانے اور اس کی پرورش کی کچھ شرائط اور لوازمات ہیں جن کو پورا کیے بغیر یہ پودا درخت نہیں بن سکتا اور درخت پھل نہیں دے سکتا۔ ان شرائط میں سب سے اوّل دعوت حق دینے والے کا خلوصِ نیت ہے۔
دین میں خلوصِ نیت بنیاد ہے۔ نماز ہو یا روزہ یا حج یا زکوٰۃ کی ادایگی میں خلوصِ نیت نہ ہو تو یہ سب ریا بن جاتے ہیں اور اپنا ثواب یا اجر کھو بیٹھتے ہیں۔ اگر ایک درسِ قرآن اس لیے دیا جارہا ہو کہ مقرر کو عالمِ دین سمجھا جائے۔ اس کی عوامی مقبولیت میں اضافہ ہو، اس کا چہرہ سوشل میڈیا پر بطور ایک تحریکی رہنما کے لوگوں کو نظر آئے، اس کے درس کی رپورٹ تصویر سمیت کسی رسالے یا اخبار میں طبع ہو، تو یہ عمل اللہ کی نصرت اور برکت سے محروم رہے گا اور سیکڑوں افراد کے درس کو سن لینے کے باوجود تبدیلیِ فکر، تطہیرقلب اور تعمیرکردار پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ اگر درسِ قرآن دینے والے کی نیت بغیر کسی اجر اور علمیت کے اظہار کے، صرف اور صرف رضاے الٰہی کا حصول ہے، تو یہ عمل چاہے بہت چھوٹے پیمانے پر ایک مسجد یا گھر میں محض پانچ سات افراد کی مجلس میں کیا گیا ہو لیکن نتائج کے اعتبار سے زیادہ تعمیری اورثمرآور ثابت ہوگا۔ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ سے پہلے تمام انبیا ـؑ نے اپنی دعوت پیش کرنے کے بعد ایک ہی بات تو کہی تھی کہ: ’’میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا، میرا اجر تو میرے رب کے پاس ہے‘‘۔
اگر اللہ کے بندوں کی خدمت (وہ طبی امداد ہو، تعلیم ہو، بیوائوں، یتامیٰ کی خبرگیری ہو، ضعیفوں کی نگہداشت ہو اور اس طرح کے دیگر رفاہی کام) اس غرض سے کیے جائیں کہ وہ اللہ کے لیے ہیں اور ہمیں ان سے کوئی ذاتی فائدہ مطلوب نہیں تو صرف اس صورت میں ان کاموں کے اثرات، دعوت کی تو سیع کی شکل میں ظاہر ہوں گے۔ اگر رفاہی کاموں کا مقصد ووٹ کا حصول ہوگا تو آخرت تو ہاتھ سے گئی ہی، دنیا بھی یقینی نہیں کہی جاسکتی۔
گویا خلافت ِ جمہورکا مطلب یہ ہے کہ ہمارے ہرعمل کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضاکا حصول ہونا چاہیے۔ اگروہ ہمارے کام سے خوش ہوکر لوگوں کے دلوں میں دین کی دعوت کے لیے جگہ پیدا کردے ، اور جو کل تک مخالف تھے ان کو ولی بنا دے تو یہ اس کا کرم اور رحمت ہے۔ ہمارا کام تو اس کام کے بتائے ہوئے طریقے سے، اس کے بھیجے ہوئے نبی برحق صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنی اطاعت و بندگی کی شہادت پیش کرنا ہے۔
خلافت جمہور کا ایک لوازمہ یہ ہے کہ رضاے الٰہی کے حصول کے لیے ہردور میں ایسی حکمت عملی بنائی جائے جس کی بنیاد حقیقت پسندی اور افراد کی سیرت سازی پر ہو۔ تحریک اسلامی کا اصل سرمایہ اس کے کارکن ہیں۔ اگر وہ تربیت کے مراحل سے گزر کر معاشرے میں کام کریں گے تو ان کی مالی ایمان داری، امانت اور بے لوثی و بے غرضی ، ان کی سادگی، ان کا حق کی حمایت کرنا اور ظلم کی مخالفت میں سب سے آگے ہونا، ان کی زبان سے ایک لفظ ادا کیے بغیر خود ان کا عمل اور کردار دعوت کا چلتا پھرتا نمونہ بن جائے گا۔ اسلام وہ واحد نظام ہے جس کی دعوت سیرت و کردار دیتے ہیں۔ اس لیے تحریک کا سارا زور تعمیر کردارکے لیے مطالعے کے حلقے ، رفاہِ عام کے کام، مقامی افراد کے مسائل کے حل کی کوششوں کی شکل میں ہو،تو اس کے نتائج سامنے آنے یقینی ہیں۔
دعوتِ دین کا منظم کام کرنے کے لیے اگرچہ تنظیم ضروری ہے تاکہ ہرفرد کو اپنی ذمہ داری اور دائرہ کار کا احساس ہو اور وہ اپنی ذمہ داری کو صحیح طور پر ادا کرسکے لیکن انسانی تاریخ گواہ ہے کہ بعض اوقات تحریکات محض تنظیم بن جاتی ہیں جن میں دستوری دفعات پر الفاظ کی حد تک تو عمل ہوتا ہے لیکن دستور کی روح نظروں سے اوجھل ہوجاتی ہے۔ جن میں نظم اور امارت، اپنے اختیارات کا استعمال کرنا تو جانتے ہیں لیکن وہ دلوں میں گھر کرنے اور اپنی اخلاقی قوت سے اپنے کارکنوں کو متحرک کرنے میں کامیاب نہیں ہوتے۔ شاید اس کے قول اور عمل میں تضاد پایا جاتا ہے۔ ایسی ’تنظیم‘ ہمیں منزلِ مقصود تک نہیں پہنچا سکتی۔
رضاے الٰہی کے حصول کے لیے ہمارے بے لوث کارکن جو کام کرتے ہیں، اس کی اطلاع جمہور تک پہنچنی چاہیے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہماری تحریک کو ابلاغ عامہ کا صحیح استعمال نہیں آتا۔ ہمیں لازمی طور پر ابلاغِ عامہ، ٹی وی اور تقریبات کا صحیح استعمال کرنا چاہیے۔ لیکن انھیں شخصیت پرستی کا ذریعہ نہیں بنانا چاہیے۔ ہماری نگاہ اور توجہ ہماری دعوت کی توسیع پر، اپنی کردار سازی پر، علمی قیادت پر اور ملک کے سیکولر ذہن کے افراد کو اسلام کے قریب لانے پر ہونی چاہیے۔ملک کے مختلف طبقات تک ان کی ذہنی صلاحیت اور طلب کے پیش نظر اپنی دعوت ان تک پہنچانے پر ہونی چاہیے۔ دعوت کے طویل المیعاد منصوبے کو ترجیح دی جانی چاہیے اور اس منصوبے کو قرآن و سنت کے حدود میں رہتے ہوئے بہتر سے بہتر انداز میں پیش کرنے کی کوشش ہونی چاہیے۔
موجودہ نظام کو لادینیت سے، لادینی جمہوریت سے، انفرادیت پسندی سے، عصبیت سے، جہالت، ظلم اور تفریق سے، غرض ان تمام منفی صفات کو جو قومی وحدت کو نقصان پہنچانے والی ہیں، ان سے نجات دلانے کی کوشش کرنی چاہیے اور ان کی جگہ اجتماعیت، دین کی جامعیت اور للہیت کو توجہ کا مرکز بنانا خلافت ِ جمہور کی شرط ہے۔ ہم جتنا اپنی تربیت اور فکری اصلاح پر توجہ دیں گے اور ہر فرد اپنے ذاتی نصاب کے مطالعے کے ذریعے علم میں اضافہ اور مصادر سے براہِ راست استفادے کی کوشش میں لگ جائے گا تو نتائج خود بولیں گے۔ ایک اصولی جماعت ہونے کی بنا پر ہمارا فکری محاذ پر متحرک ہونا کامیابی کی ایک بنیادی شرط ہے۔مظلوم طبقات کی حمایت، معاشی طور پر ضرورت مند لوگوں کی حاجت روائی، صحت اور تعلیم کے شعبوں میں اللہ کے بندوں کی خدمت کو ہماری ترجیحات میں اوّلیت حاصل ہونی چاہیے۔ اگر ہم آیندہ پانچ سے دس سال کا منصوبہ دعوت، تربیت اور تنظیم کے تمام پہلوئوں کو سامنے رکھ کر اور خود اپنے تجربات کی روشنی میں مرتب کریں اور اس پر سختی سے عمل کا اہتمام کرتے ہوئے اپنی دعوتی اور اصلاحی ترجیحات کی پابندی کرتے ہوئے اپنے کام کی نئی منصوبہ بندی کریں، تو ان شاء اللہ خلافت ِ جمہور کا راستہ بہت آسان اور مختصر ہوسکتا ہے۔
اصل چیز عزمِ مصمم، استقامت، صبر اور توکل علی اللہ کے ساتھ اپنی تمام قوتیں اور صلاحیتوں کو مجتمع کردینا اور دعوت و اصلاح کی جدوجہد میں جھونک دینا ہے۔ جو لوگ اللہ کو اپنا رب مان لیتے ہیں اور اس پر قائم ہوجاتے ہیں، اللہ تعالیٰ کے حکم سے کائنات کی تمام قوتیں ان کے لیے حمایت اور تعاون کے دروازے کھول دیتی ہیں اور آخرت اور دنیا میں کامیابی ان کا مقدر بن جاتی ہے۔ اللہ کا وعدہ برحق ہے۔ کیا ہم اپنا حق ادا کرنے کے لیے تیار ہیں؟
اِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللہُ ثُمَّ اسْـتَقَامُوْا تَـتَنَزَّلُ عَلَيْہِمُ الْمَلٰۗىِٕكَۃُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّۃِ الَّتِيْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ۳۰ نَحْنُ اَوْلِيٰۗــؤُكُمْ فِي الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا وَفِي الْاٰخِرَۃِ۰ۚ وَلَكُمْ فِيْہَا مَا تَشْتَہِيْٓ اَنْفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيْہَا مَا تَدَّعُوْن۳۱ۭ
نُزُلًا مِّنْ غَفُوْرٍ رَّحِيْمٍ۳۲ۧ وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَآ اِلَى اللہِ وَعَمِلَ صَالِحًـا وَّقَالَ اِنَّنِيْ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ۳۳ وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَـنَۃُ وَلَا السَّيِّئَۃُ۰ۭ اِدْفَعْ بِالَّتِيْ ہِىَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِيْ بَيْنَكَ وَبَيْنَہٗ عَدَاوَۃٌ كَاَنَّہٗ وَلِيٌّ حَمِيْمٌ۳۴ وَمَا يُلَقّٰىہَآ اِلَّا الَّذِيْنَ صَبَرُوْا۰ۚ وَمَا يُلَقّٰىہَآ اِلَّا ذُوْ حَظٍّ عَظِيْمٍ۳۵ وَاِمَّا يَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللہِ۰ۭ اِنَّہٗ ہُوَالسَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ۳۶ (حٰمٓ السجدۃ ۴۱:۳۰-۳۶) جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر وہ اِس پر ثابت قدم رہے، یقینا اُن پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور اُن سے کہتے ہیں کہ ’’نہ ڈرو، نہ غم کرو، اور خوش ہوجائو اُس جنت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے۔ ہم اِس دُنیا کی زندگی میں بھی تمھارے ساتھی ہیں اور آخرت میں بھی۔ وہاں جو کچھ تم چاہو گے تمھیں ملے گا اور ہرچیز جس کی تم تمنا کرو گے وہ تمھاری ہوگی۔ یہ ہے سامانِ ضیافت اُس ہستی کی طرف سے جو غفور اور رحیم ہے۔ اور اُس شخص کی بات سے اچھی بات اور کس کی ہوگی جس نے اللہ کی طرف بلایا اور نیک عمل کیا اور کہا کہ میں مسلمان ہوں۔ اور اے نبیؐ! نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں۔ تم بدی کو اُس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو۔ تم دیکھو گے کہ تمھارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی وہ جگری دوست بن گیا ہے۔ یہ صفت نصیب نہیں ہوتی مگر اُن لوگوں کو جو صبر کرتے ہیں، اور یہ مقام حاصل نہیں ہوتا مگر اُن لوگوں کو جو بڑے نصیبے والے ہیں۔ اور اگر تم شیطان کی طرف سے کوئی اُکساہٹ محسوس کرو تو اللہ کی پناہ مانگ لو، وہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔
[فیڈرل شریعت کورٹ پاکستان نے اورینٹل کالج پنجاب یونی ورسٹی، لاہور کے پروفیسر ایمریطس ڈاکٹر ظہور احمد ظہور کی اپیل پر ۲۲؍اکتوبر ۲۰۱۲ء کو پاکستان کی تمام صوبائی اور مرکزی حکومتوں کو پابند کیا کہ وہ دستورِ پاکستان کی واضح ہدایت کے مطابق پرائمری سے اعلیٰ ثانوی درجے کی تعلیم کے دوران، عربی زبان کی لازمی تدریس کا انتظام کریں(شریعت کورٹ ایکٹ کے مطابق، اگر شریعت کورٹ کے فیصلے کو چیلنج نہ کیا جائے تو وہ چھ ماہ بعد آئینی طور پر نافذالعمل ہوجاتا ہے)۔ اس فیصلے کو اُس وقت پاکستان کے تین صوبوں (سندھ، خیبر، بلوچستان) اور وفاقی حکومت میں پیپلزپارٹی اور اے این پی نے تسلیم کرکے قرآن و عربی کی تدریس کے لیے عملی اقدامات بھی شروع کردیے، لیکن شہبازشریف حکومت نے سردمہری کا مظاہرہ کیا۔ پھر جب مارچ ۲۰۱۳ء میں نجم سیٹھی پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ مقرر ہوئے، تو ان کی ہدایت پر پنجاب کے چیف سیکرٹری نے سپریم کورٹ میں اس فیصلے کے خلاف باقاعدہ اپیل کردی کہ فیصلے کو بدلا جائے اور کہا: ’عربی عربوں کے لیے ہے‘ (اور گویا قرآن بھی عربوں ہی کے لیے ہے)۔ مئی ۲۰۱۳ء میں مسلم لیگ (ن) کے شہباز شریف دوبارہ وزیر اعلیٰ بن گئے (ان کے دونوں اَدوار میں نجم سیٹھی تسلسل کی کڑی تھے)۔ تب، جامعہ اشرفیہ لاہور سے ممتاز عالمِ دین جناب فضل الرحیم اشرفی نے نواز،شہباز برادران کو سمجھایا کہ آپ اس اپیل کو واپس لے لیں، مگر اپنے عمل سے انھوں نے مسلسل پانچ برس تک ٹال مٹول سے کام لیا۔
دل چسپ بات یہ ہے کہ اپریل ۲۰۱۳ء سے لے کر ۱۹؍ستمبر ۲۰۱۸ء تک سپریم کورٹ نے ایک بار بھی اس کیس کی سماعت نہیں کی، نہ ڈاکٹر ظہوراحمد ظہور صاحب یا ان کے وکیل محمد تنویرہاشمی کو کوئی عدالتی نوٹس دیا گیا، بلکہ اچانک ۱۹ستمبر کو دستور، اسلام اور عدالتی اخلاقیات سے ٹکراتا فیصلہ سناکر، دستور اور اسلام کا مذاق اُڑایا گیا ہے۔ اب یہ پارلیمنٹ کی ذمہ داری ہے کہ وہ دستور کا تحفظ کرے۔ادارہ]
ڈان اخبار میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق پنجاب حکومت نے اس اپیل میں یہ بات بھی کہی کہ ’’عربی اسلام کی نہیں بلکہ عربوں کی زبان ہے‘‘۔ ایک طرف پنجاب حکومت کی اپیل پڑھ کر حیرانی کے ساتھ ساتھ افسوس ہوا، تو دوسری طرف سپریم کورٹ کے فیصلے نے دُکھی کیا۔ انگریزی زبان لازم کر دو تو کسی کو کوئی اعتراض نہیں، لیکن اعتراض عربی زبان پڑھانے پر ہے جو قرآن و حدیث کی زبان ہے۔ قرآن پاک میں تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ قُرْءٰنًا عَرَبِيًّا لَّعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ۲ (یوسف ۱۲:۲) ’’ہم نے اسے نازل کیا ہے قرآن بنا کر عربی زبان میں تاکہ تم اس کو اچھی طرح سمجھ سکو‘‘۔
معلوم نہیں سپریم کورٹ نے پنجاب حکومت کی اپیل کیسے منظور کرلی، جب کہ آئین پاکستان بھی انگریزی یا کوئی دوسری زبان پڑھانے کی بات نہیں کرتا، بلکہ آرٹیکل۳۱( ۲، الف){ FR 645 } میں ریاست اور ریاستی اداروں پر یہ ذمہ داری عائد کرتا ہے کہ قرآن پاک کی تعلیم لازمی قرار دینے کے ساتھ ساتھ عربی زبان سیکھنے کی حوصلہ افزائی کی جائے اور اس کے لیے سہولت بہم پہنچائی جائے۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کا المیہ دیکھیں کہ پاکستان میں شراب کی فروخت پر پابندی کے لیے عدالتی جنگ اقلیتی ممبر قومی اسمبلی ڈاکٹر رمیش کمار لڑ رہے تھے، جن کا کہنا ہے کہ: ’’ہندو مذہب میں شراب پر پابندی ہے، جب کہ سندھ بھر میں ایسے شراب خانے موجود ہیں جو مساجد، مندروں اور گرجا گھروں کے قریب ہیں‘‘۔ اُن کا یہ بھی رونا تھا کہ: ’’شراب ہندوئوں اور دوسری اقلیتوں کے نام پر بیچی جاتی ہے،جب کہ پینے والوں میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد شامل ہے‘‘۔ آج دوبارہ جب میری ڈاکٹر رمیش کمار سے بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ: ’’میں پہلے ہی سپریم کورٹ میں درخواست پیش کرچکا ہوں کہ میرا کیس سنا جائے اور شراب پر پابندی لگائی جائے‘‘۔ اس کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر رمیش نے بتایا کہ اُن کا ایک آئینی ترمیمی بل بھی ایک دو روز میں قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا، جس کے ذریعے وہ اقلیتوں اور ہندوئوں کے نام پر شراب کی فروخت پر پابندی چاہتے ہیں۔ ایک اقلیتی ممبر پاکستان میں شراب پر پابندی کی تحریک چلا رہا ہے، لیکن افسوس کی بات ہے کہ اُس کا ساتھ دینے والے کوئی نہیں۔ اگرچہ شراب پاکستان بھر میں پینے والوں کے لیے وافر مقدار میں دستیاب ہے، لیکن صوبہ سندھ میں یہ کاروبار سب سے زیادہ عام ہے، جس کے لیے اقلیتوں کا نام استعمال کیا جاتا ہے۔
حضرت عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اللہ کے بندوں میں سے کچھ لوگ ایسے ہوں گے کہ جن کی اللہ کے یہاں قدرومنزلت کو دیکھ کر انبیاؑ اور شہدا بھی رشک کریں گے ، حالانکہ وہ ولوگ نہ نبی ہوں گے نہ شہید ‘‘۔
صحابہ کرامؓ نے سوال کیا: ’’یا رسولؐ اللہ!ہمیں بتایا جائے کہ وہ نیک بخت اور سعادت مند لوگ کون ہوں گے ؟‘‘
رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’وہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کی ہدایت کی وجہ سے آپس میں اُلفت ومحبت رکھتے ہیں، حالاںکہ ان میں قرابت داری بھی نہیں ہے اور نہ کوئی مالی مفادات ہی ان کے پیش نظر ہیں۔ اللہ کی قسم! ان کے چہرے قیامت کے دن نورانی ہوں گے بلکہ سراسر نُور ہوں گے۔ جب لوگ قیامت کے روز حساب کتاب سے ڈر رہے ہوں گے اس وقت وہ بے خوف اور مطمئن ہوں گے اور دوسرے لوگوں کی طرح وہ کسی قسم کے رنج وغم سے دوچار نہ ہوں گے۔ پھر آپ ؐ نے قرآن کریم کی یہ آیت پڑھی:
اَلَآ اِنَّ اَوْلِیَآئَ اللّٰہِ لَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَ لَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ O(یونس ۱۰:۶۲) سنو! جو اللہ کے دوست ہیں نہ انھیں کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔
حضرت اُمِ کلثومؓ بنت عقبہ بن ابی معیط کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا کہ : ’’وہ شخص جھوٹا نہیں ہے جو لوگوں میں صلح کرانے اور اصلاح کی غرض سے ایک دوسرے کو اچھی بات پہنچائے (یعنی دروغ مصلحت آمیز سے کام لے )‘‘۔
مسلم کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ حضرت اُم کلثومؓ نے بیان کیا کہ میں نے نبی ؐ کو تین مواقع پر ایسی بات کی رخصت عطا فرماتے سنا جسے لوگ جھوٹ میں داخل سمجھتے ہیں۔ ایک میدانِ جنگ میں دشمن کے ساتھ چال، دوسرے لوگوں میں اصلاح کی غرض سے کوئی خلاف واقعہ بات کہنا، اور تیسرے وہ خلافِ واقعہ بات جو شوہر بیوی سے اور بیوی شوہر سے (ایک دوسرے کو راضی کرنے کے لیے ) کرے‘‘۔
ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر کھڑے ہو کر بلند آواز سے فرمایا :’’اے لوگو! جو زبان سے ایمان لائے ہو لیکن ایمان ابھی تمھارے دلوں میں پوری طرح اُترا نہیں ہے۔ مخلص مسلمانوں کو ستانے ، انھیں عار دلانے ، شرمندہ کرنے اور ان کے چھپے ہوئے عیبوں کے پیچھے پڑنے سے باز رہو۔ کیونکہ جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی کمزوریوں کی ٹوہ لگاتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے یہی رویہ اختیار فرماتے ہیں۔ اور جس کسی کی کمزوری پر اللہ کی نظر ہو وہ اسے ظاہر فرما دیتا ہے چاہے وہ کسی محفوظ مقام میں جا بیٹھے ‘‘۔
حضرت مصعب بن سعد ؓ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہر چیز میںمیانہ روی اچھی ہے مگر آخرت کے معاملے میں میانہ روی کے بجاے مسابقت اور تیز روی سے کام لینا چاہیے ‘‘۔
حضرت عبداللہ بن عمر و ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’تم میں سے مجھے وہ لوگ زیادہ محبوب ہیںجن کے اخلاق زیادہ اچھے ہیں ‘‘۔
حضرت ابوذر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا:’’ تم جہاں اور جس حال میں ہو، یعنی خلوت میں ہو یا جلوت میں ، اللہ سے ڈرتے رہو، اور تم سے کوئی برائی سرزد ہو جائے تو فوراً کوئی نیکی کرو کہ وہ اس کی تلافی کر دے گی۔ اور اللہ کے بندوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آئو‘‘۔
حضرت ابن عمرؓ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ : ’’حیا اور ایمان ، دونوں ہمیشہ ایک ساتھ رہتے ہیں۔ ان میں سے کوئی ایک اٹھا لیا جائے تو دوسرا خود بخود اُٹھ جاتا ہے‘‘۔ (مطلب یہ ہے کہ حیا ایمان کا لازمی تقاضا ہے )۔
حضور ؐ نے فرمایا :’’غصہ مت کیا کرو ‘‘۔
اس شخص نے اپنی بات کئی بار دہرائی کہ مجھے نصیحت فرمائیے مگر آپ ؐ نے ہر بار یہی فرمایا کہ ’’غصہ مت کیا کرو‘‘۔
حضرت ابن مسعود ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ جس آدمی کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہو گا وہ دوزخ کی آگ میں نہ جائے گا، اور وہ شخص جنت میں داخل نہ ہو گا جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر تکبر ہو گا‘‘۔
حضرت ابو موسیٰؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اللہ تعالیٰ ظالم کو مہلت دیتا ہے (ایک مدت تک وہ لوگوں پر ظلم کرتا رہتا ہے )۔ پھر جب اس کو پکڑتا ہے تو پھر اسے نہیں چھوڑتا ۔ پھر آپ ؐ نے یہ آیت تلاوت فرمائی :
وَ کَذٰلِکَ اَخْذُ رَبِّکَ اِذَآ اَخَذَ الْقُرٰی وَ ھِیَ ظَالِمَۃٌ ط اِنَّ اَخْذَہٗٓ اَلِیْمٌ شَدِیْدٌ O (ھود ۱۱:۱۰۲ ) اور تیرا رب جب کسی ظالم بستی کو پکڑتا ہے تو پھر اس کی پکڑ شدید اور درد ناک ہوتی ہے ۔
حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’مظلوم کی بددُعا سے بچو ۔ وہ اللہ سے اپنا حق مانگتا ہے اور اللہ تعالیٰ کسی حق دار کا حق نہیں روکتا (یعنی اسے اس کا حق مل جاتا ہے )‘‘۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلَیْکُمْ اَنْفُسَکُمْ ج لَا یَضُرُّکُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اھْتَدَیْتُمْ ط (المائدہ۵ : ۱۰۵) اے ایمان لانے والو اپنی فکر کرو، کسی دوسرے کی گمراہی سے تمھارا کچھ نہیں بگڑتا اگر تم خود راہِ راست پر ہو ۔
ابن ماجہ اور ترمذی کی روایت کے مطابق آپؓ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا: ’’جب لوگ کسی منکر کو دیکھیں اور اسے روکنے کی کوشش نہ کریں تو اللہ کے عذاب کا انتظار کریں ‘‘۔
ابو داؤد کے الفاظ یہ ہیں کہ ’’جب لوگ ظالم کو دیکھیں اور اس کو ظلم سے روکنے کے لیے اس کا ہاتھ نہ پکڑیں تو اللہ تعالیٰ کے عذابِ عام کا انتظار کریں ‘‘۔
ابو داؤد کی ایک اور روایت اس طرح ہے: ’’جس قوم میںگناہوں اور معاصی کا ارتکاب عام ہو جائے اور اس قوم کے لوگ اسے روکنے کی قدرت رکھنے کے باوجود نہ روکیں ، تو وہ اللہ کے عذابِ عام کا انتظار کریں ‘‘۔
حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’دوزخ ان چیزوں سے ڈھانپ لی گئی ہے جو نفس کو مرغوب ہیں ۔ اور جنت ان چیزوں سے ڈھانپی گئی ہے جو نفس کو ناگوار ہیں ‘‘۔
حضرت ابن عمر وبن عوف ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’خدا کی قسم! میں تمھارے بارے میں فقراور غربت سے نہیں ڈرتا لیکن میں اس بات سے ڈرتا ہوں کہ دنیا تم پر اس طرح کشادہ کر دی جائے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر کشادہ کی گئی تھی ( یعنی مال ودولت اور سازو سامان کی فراوانی تمھیں حاصل ہو جائے )۔ پھر تم اس میں ایسی رغبت اور دل چسپی لینے لگو جیسی اگلے لوگوں نے لی تھی، اور یہ عمل تمھیں بھی اسی طرح ہلا ک کر دے جس طرح انھیں ہلاک کیا تھا ‘‘۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا : ’’تم میں سے کون ہے جو مجھ سے یہ کلمات سیکھ لے اور ان پر عمل کرے یا آگے ایسے آدمی کو سکھائے جو ان پر عمل پیرا ہو ؟ ‘‘
حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ میں نے کہا : یا رسولؐ اللہ! میں وہ کلمات سیکھنا چاہتا ہوں۔
حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جس آدمی کی نیت آخرت کی تیاری کی ہو، اللہ تعالیٰ اس کا دل غنی کر دیتا ہے ، اس کی پریشانیاں سمیٹ دیتا ہے اور دنیا ذلیل ہو کر خود ہی اس کے پاس آ جاتی ہے۔ اور جس شخص کی نیت دنیا کمانے کی ہو ، اللہ تعالیٰ اس کی آنکھوں میں بھوک پیدا کر دیتا ہے (یعنی جتنا بھی اسے مل جائے وہ سیر نہیں ہوتیں )، اس کے کاموں کو اس طرح بکھیر دیتا ہے کہ وہ ان ہی میں اُلجھا رہتا ہے، اور ملتا وہی کچھ ہے جو پہلے سے اس کے مقدر میں لکھا ہوا ہے ‘‘۔
اور ایک روایت میں ہے: ’’اور میں اس سے اور اس کے عمل سے بری الذمہ ہوں‘‘۔
حضرت شداد بن اوس ؓ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا کہ: ’’جس آدمی نے دکھاوے کے لیے نماز پڑھی اس نے شرک کیا ، اور جس نے دکھاوے کے لیے روزہ رکھا اس نے بھی شرک کیا، اور جس نے دکھاوے کے لیے صدقہ کیا اس نے بھی شرک کیا‘‘۔
پاکستان کے عام انتخابات ۲۰۱۸ء کے بعد نئی حکومت برسرِاقتدار آئی تو وزیراعظم نے ایک ماہر معاشیات عاطف میاں کو اپنی ٹیم میں شامل کرلیا۔ فردِ مذکورہ کے بارے میں پہلے یہ کہا گیا کہ وہ پیدایشی قادیانی نہیں مگر اصل حقیقت یہ سامنے آئی کہ اس فرد نے اسلام ترک کرکے قادیانیت قبول کی ہے۔ بالفاظِ دیگر ارتداد کا راستہ اختیار کیا ہے۔ اس تقرر پر شدید احتجاج ہوا تو وزیراعظم عمران خان نے مثبت قدم اُٹھایا اور مذکورہ شخص کو ذمہ داری سے فارغ کردیا۔ اس فیصلے کے بعد وزیراعظم کی معاشی ٹیم کے دو مزید نام نہاد لبرل احتجاجاً مستعفی ہوگئے۔
یہ فیصلہ سامنے آتے ہی سیکولر اور لبرل طبقات نے ایک طوفان برپا کردیا۔ انھوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ ’’کیا پاکستان میں اقلیتوں کو کوئی حقوق حاصل نہیں؟ کیا ان کو بحیرۂ عرب میں غرق کردیا جائے گا؟‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ اس مسئلے میں خلط مبحث یہ ہے کہ اقلیت کن لوگوں کو شمار کیا جائے گا؟ سکھ، عیسائی، ہندو، پارسی سب اقلیتیں ہیں، کیوںکہ وہ اپنے آپ کو غیرمسلم اور ہم لوگوں کو اپنے سے الگ مذہب کے پیروکار اور مسلمان سمجھتے ہیں، جو مبنی برحق ہے۔ اس کے برعکس قادیانی خود کو ’مسلم‘ اور ہم سب اہلِ ایمان کو ’غیرمسلم‘ سمجھتے ہیں۔ ایسی صورت حال میں انھیں کس پیمانے سے اقلیتوں کے وہ حقوق دیے جائیں،جو حقیقی اقلیتوں کو حاصل ہیں اور جن کی اسلام اور ہمارا دستور پوری طرح ضمانت دیتا ہے؟
قادیانی نہ صرف ختم نبوت کے منکر ہیں، بلکہ وہ قرآن وحدیث اور دستور پاکستان کو بھی تسلیم نہیں کرتے۔ کسی ملک میں رہنے والا کوئی شخص اس ملک کے دستور کو تسلیم نہ کرے تو ساری دنیا کے ہر ضابطے کے مطابق وہ اس ملک کا غدار قرار پاتا ہے۔ ایسے شخص کو اس ملک کے مناصب پر فائز کرنے کا پوری دنیا میں کیا کہیں کوئی تصور موجود ہے؟ قادیانی آج اعلان کردیں کہ وہ غیرمسلم ہیں، دستور پاکستان کو تسلیم کرتے ہیں، مسلمانوں کی اکثریت کے معترف ہیں تو انھیں بالکل اسی طرح سب حقوق مل جائیں گے جو دیگر اقلیتوں کو حاصل ہیں۔ اگر اس کے باوجود ان کے حقوق ادا نہ کیے گئے تو یہ دینِ اسلام اور دستورپاکستان کی خلاف ورزی ہوگی۔
اس دوران ۶ستمبر یوم دفاع کے حوالے سے قادیانیوں نے تاریخ میں پہلی بار ملک کے معروف قومی اخبار نوائے وقت میں ایک اشتہار شائع کرایا اور کمال عیاری کے ساتھ اوپر نشانِ حیدر پانے والے شہدا کی تصاویر دی گئیں اور نیچے ان قادیانیوں کو بھی شہید کہا گیا جو مختلف جنگوں میں فوجی خدمات سرانجام دیتے ہوئے کام آئے۔ اس پر بھی زبردست احتجاج ہوا تو اگلے دن مذکورہ اخبار نے ایک معذرت شائع کی، جس کا لب لباب یہ تھا کہ دھوکے سے یہ اشتہار دے دیا گیا ہے۔ اس حیلہ سازی پر حیرت کا اظہار ہی کیا جاسکتا ہے۔ آںحضورؐ کے دور میں بھی بعض جنگوں میں غیرمسلم افراد، صحابہؓ کے ساتھ مل کر کفار سے لڑے تھے اور مارے گئے تھے۔ آپؐ نے فرمایا کہ: وہ شہید نہیں ہیں کیونکہ وہ محض عصبیت یا اپنے مادی مفادات کے لیے جنگ میں شامل ہوئے تھے۔ قادیانیوں نے بھی ایمان کے بغیر جنگوں میں حصہ لیا اور مارے گئے۔ ان کو مراعات اور تمغے تو دیے جاسکتے ہیں، آںحضوؐر کی واضح تعلیمات کی روشنی میں انھیں شہید نہیں کہا جاسکتا۔
عقیدۂ ختم نبوت ایمان کا بنیادی جز ہے۔ جو ختم نبوت پر ایمان نہیں رکھتا وہ قرآن وسنت کی روشنی میں اسلام سے خارج ہے۔ اس پر ساڑھے چودہ سو سال سے پوری امت کا متفقہ ایمان ہے، جس میں کبھی کوئی رخنہ پیدا نہیں ہوا اور نہ ان شاء اللہ قیامت تک پیدا ہوگا۔ قرآن پاک میں واضح الفاظ میں ارشاد فرمایاگیا ہے: مَّا کَانَ مُحَمَّدٌ أَبَآ أَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ وَکَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمًا (احزاب۳۳:۴۰) ’’(لوگو) محمدؐ تمھارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، مگر وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیینؐ ہیں، اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے‘‘۔
حدیث پاک میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے دو ٹوک انداز میں بیان فرمادیا کہ آپؐ آخری نبی اور رسول ہیں، آپؐ کے بعد نہ کوئی نبی ہے نہ رسول: قَالَ النَّبِیُّ کَانَتْ بَنُوْ اِسْرَائِیْلَ تَسُوْسُھُمُ الْاَنْبِیَائُ۔ کُلَّمَا ھَلَکَ نَبِیٌّ خَلَفَہٗ نَبِیٌّ، وَاِنَّہٗ لَانَبِیَّ بَعْدِیْ وَسَیَکُوْنُ خُلَفَائُ (بخاری،کتاب المناقب باب ماذکرہ عن بنی اسرائیل) ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بنی اسرائیل کی قیادت انبیا کیا کرتے تھے۔ جب کوئی نبی وفات پاجاتا تو دوسرا نبی اس کا جانشین ہوتا، مگر میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا بلکہ خلفا ہوں گے‘‘۔
امام ابوحنیفہؒ (۸۰ھ-۱۵۰ھ) کے زمانے میں ایک آدمی نے نبوت کا دعویٰ کیا اور کہا: ’’مجھے موقع دو کہ میں اپنی نبوت کی علامات پیش کروں‘‘۔ اس پر امام اعظمؒ نے فرمایا کہ ’’جوشخص اس سے نبوت کی علامت طلب کرے گا وہ بھی کافر ہوجائے گا کیوںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرما چکے ہیں کہ لَانَبِیَّ بَعْدِیْ ‘‘۔ (مناقب الامام الاعظم، ابی حنیفہ لابن حنبل المکی، ج۱،ص۱۶۱)
مسئلہ ختم نبوت کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ صحابہ کرامؓ نے اس کے لیے جانوں کے نذرانے بے دریغ پیش کیے، مگر کوئی مداہنت نہیں برتی۔ جھوٹے مدعیان نبوت میں سے طلیحہ بن خویلد اور سجاح بنت حارث نے اسلام قبول کیا ،جب کہ باقی تمام دشمنانِ اسلام بشمول الاسود العنسی، لقیط بن مالک (ذوالتاج)، سبھی کو ٹھکانے لگا دیا گیا اور پوری دنیا سے اس فتنے کا مکمل خاتمہ ہوگیا۔ البتہ تاریخ کے مختلف اَدوار میں یہ شیطانی فتنہ سراٹھاتا رہا۔ سب سے خطرناک فتنہ انگریز کا خودکاشتہ جھوٹا مدعی نبوت ملعون مرزا غلام احمد قادیانی ثابت ہوا۔ اس میں کوئی راز نہیں کہ وہ انگریزوں کا ایجنٹ تھا اور اپنی تحریروں میں انگریز سرکار کی تعریف میں اس نے بہت کچھ لکھا۔ اس کا پس منظر یوں بیان کیا گیا ہے۔ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں مسلمانوں کے ’جذبہ جہاد‘ کے تجزیے کے لیے برطانوی تھنک ٹینکس بیٹھے اور ’ہندستان میں برطانوی سلطنت کا وُرود ‘(The Arrival of British Empire in India) کے عنوان سے ایک رپورٹ تیار کی گئی جو انڈیا آفس لائبریری (لندن) میں آج بھی موجود ہے اس کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیے:
ملک (ہندستان) کی آبادی کی اکثریت اپنے پیرووں، یعنی روحانی پیشواؤں کی اندھا دھند پیروی کرتی ہے۔ اگر اس مرحلے پر ہم ایک ایسا آدمی تلاش کرنے میں کامیاب ہوجائیں جو اس بات کے لیے تیار ہو کہ اپنے لیے ’ظلی نبی‘(Apostolic Prophet) ہونے کا اعلان کر دے تو لوگوں کی بڑی تعداد اس کے گرد جمع ہوجائے گی لیکن اس مقصد کو سرکاری سرپرستی میں پروان چڑھایا جاسکتا ہے۔ ہم نے پہلے بھی اپنی قوم سے بے وفائی کرکے ہماری حمایت کرنے والوں ہی کی مدد سے ہندستانی حکومتوں کو محکوم بنایا۔ ہمیں ایسے اقدامات کرنے چاہییں جن سے ملک میں داخلی بے چینی اور افتراق پیدا ہوسکے۔
اگرچہ اس موضوع پر بہت سے مستند حوالے موجود ہیں، مگر اختصار کے پیش نظر مندرجہ بالا اقتباس پر اکتفا کیا جارہا ہے، جو کافی وشافی ہے۔
۵۰کے عشرے میں جب ملک میں دستور سازی کے لیے جدوجہد جاری تھی کہ حکومتی اقدامات کی بناپر یکایک تحریک ختم نبوت کا آغاز ہوگیا۔تحریک ختم نبوت نے جید علما کی سربراہی میں قادیانیت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور جیلوںمیں بھی رہے۔ سب سے زیادہ فیصلہ کن اور تاریخی کردار سیدمودودیؒ نے ادا کیا، جنھوں نے اپنی معرکہ آرا تحریر: قادیانی مسئلہ میں قادیانیوں کو علمی دلائل سے غیرمسلم ثابت کرکے بے دست وپا کردیا۔
اسی کتابچے پر مولانا مودودیؒ کو ۱۹۵۳ء میں مارشل لا عدالت نے سزاے موت سنائی۔ مولانا نے اس موقعے پر فرمایا تھا کہ ناموس رسالت پر جان قربان کرنا ایک سعادت ہے۔ انھوں نے رحم کی اپیل کی پیش کش نہ صرف خود ٹھکرائی بلکہ جماعت اسلامی کی قیادت اور اپنے اہلِ خانہ کو بھی تنبیہہ کی کہ وہ ان کی طرف سے کوئی اپیل دائر نہ کریں۔ اس واقعے کے اکیس برس بعد ۱۹۷۴ء میں نشتر میڈیکل کالج ، ملتان کے طلبہ کو چناب نگر (ربوہ) کے ریلوے اسٹیشن پر قادیانی فتنہ پردازوں نے بُری طرح تشدد کا نشانہ بنایا۔ نہتے طلبہ کے ساتھ ہونے والے اس اندوہ ناک واقعے پر پورے ملک میں قادیانیت کے خلاف زبردست تحریک اٹھی۔ جس نے ۵۰کے عشرے اور اس سے پہلے کی تحریک ختم نبوت کی یاد تازہ کردی۔
۷۳ء کا دستور منظور ہوچکا تھا۔ تحریک سے پیدا شدہ صورتِ حال پر غور اور فیصلہ کرنے کے لیے پوری قومی اسمبلی نے بطور عدالت کارروائی شروع کی۔ اس کارروائی کے دوران قادیانی جماعت کے مرکزی لیڈر مرزا ناصر احمد کو سوال وجواب کے لیے پارلیمان میں بلایا گیا۔ کئی دنوں تک سوال وجواب ہوتے رہے۔ ایک سوال یہ پوچھا گیا کہ کیا تم لوگ ہمیں (تمام ارکان اسمبلی) کو مسلمان سمجھتے ہو یا غیرمسلم؟ مرزا ناصر نے اس کے جواب میں کہا کہ ہم تم سب لوگوں کو غیرمسلم سمجھتے ہیں۔ یہ ایک فیصلہ کن مرحلہ تھا۔ تب پاکستان کی پارلیمنٹ نے بالاتفاق ۷ستمبر۱۹۷۴ء کو دوسری دستوری ترمیم منظور کی، جس کے مطابق مرزا غلام احمد کو ماننے والے قادیانی اور لاہوری غیرمسلم اقلیت قرار پائے۔
ترمیمِ دستور منظور ہونے کے بعد وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے پارلیمنٹ میں جو انتہائی مدلل خطاب کیا اس کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں: ’’ہم نے اس مسئلے پر ایوان کے تمام ممبروں سے تفصیلی طور پر تبادلۂ خیال کیا ہے، جن میں تمام پارٹیوں کے اور ہر طبقۂ خیال کے نمایندے موجود تھے۔ آج کے روز جو فیصلہ ہوا ہے، یہ ایک قومی فیصلہ ہے، یہ پاکستان کے عوام کا فیصلہ ہے۔ یہ فیصلہ پاکستان کے مسلمانوں کے ارادے، خواہشات اور ان کے جذبات کی عکاسی کرتا ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ فقط حکومت ہی اس فیصلے کی تحسین کی مستحق قرار پائے۔ اور نہ میں یہ چاہتا ہوں کہ کوئی ایک فرد اس فیصلے کی تعریف و تحسین کا حق دار بنے۔ میرا کہنا یہ ہے کہ یہ مشکل فیصلہ، بلکہ میری ناچیز راے میں کئی پہلوؤں سے بہت ہی مشکل فیصلہ، جمہوری اداروں اور جمہوری حکومت کے بغیر نہیں کیا جاسکتا تھا....اس مسئلے پر جو فیصلہ ہوا ہے، میں اس کے نتائج سے بخوبی واقف ہوں۔ مجھے اس فیصلے کے سیاسی اور معاشی رد عمل اور اس کی پیچیدگیوں کا علم ہے۔یہ کوئی معمولی مسئلہ نہیں ہے، لیکن جیسا کہ میں نے پہلے کہا، پاکستان وہ ملک ہے جو برصغیر کے مسلمانوں کی اس خواہش پر وجود میں آیا کہ وہ اپنے لیے ایک علیحدہ مملکت چاہتے تھے۔ اس ملک کے باشندوں کی اکثریت کا مذہب اسلام ہے۔ میں اس فیصلے کو جمہوری طریقے سے نافذ کرنے میں اپنے کسی بھی اصول کی خلاف ورزی نہیں کر رہا‘‘۔بلاشبہہ بھٹو صاحب کی قیادت میں یہ کارنامہ تاریخی اور یادگار اہمیت کا حامل ہے۔
اس ترمیم کی منظوری کے بعد بھی قادیانی اپنی ریشہ دوانیوں سے باز نہ آئے۔ وہ ہر شعبے میں اہم عہدوں پر فائز تھے۔ بعض معروف ومعلوم انداز میں اور بعض کیموفلاج کرکے۔ ۲۶؍اپریل۱۹۸۴ء کو ، جب کہ جنرل محمد ضیاء الحق کے مارشل لا کی وجہ سے ملک میں اسمبلی موجود نہیں تھی، اس لیے ایک صدارتی آرڈی ننس کے ذریعے طے کیا گیا کہ مرزائیوں کو مسلمان کہلانے کا کوئی حق نہیں، ان کے عبادت خانوں کو مسجد نہیں کہا جاسکتا۔ یہ اذان اور دیگر شعائراسلامی کو استعمال کرنے کے مجاز نہیں۔ یہ حقیقت میں دستوری ترمیم ہی کی ایک وضاحت تھی، کوئی نیا قانون نہیں تھا۔ مگر افسوس کہ اس آرڈی ننس کے باوجودقرارِ واقعی قانون سازی اور عملی اقدامات نہ کیے گئے۔
مولانا مودودیؒ اسلامی نظام زندگی کےنفاذ کے نقیب اور داعی تھے۔ عصرِحاضر کے اسلامی اسکالروں،مفکرین اور علما میں مولانا مودودیؒ وہ منفرد شخصیت تھے، جنھوں نے اسلامی نظام حیات کے بارے میں ایک مربوط فکر پیش کی۔ اس فکری سوچ کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اور اسلامی ریاست کے قیام کے لیے انھوں نے اگست ۱۹۴۱ء میں ایک تنظیم جماعت اسلامی کے نام سے تشکیل دی۔ ان کی فکر نے پاکستان اور پاکستان سے باہر عالم اسلام میں نشاتِ ثانیہ کی ایک لہر کو جنم دیا۔ دنیابھر میں مسلمانوں کی غالب اکثریت اپنے اپنے معاشرے میں مختلف پلیٹ فارموں پر اور مختلف صورتوں میں اسلامی نظام کے قیام کی جدوجہد میں مصروفِ عمل ہے۔
جنوب مشرقی ایشیا کے مسلمان مولانا مودودی کے اوّلین مخاطب تھے۔اگست ۱۹۴۷ء کے بعد پاکستان کو ایک اسلامی جمہوری اور فلاحی ریاست بنانے کے لیے جماعت اسلامی کی جدوجہد آج تک جاری ہے۔ مولانا مودودی نے اس جدوجہد میں قدم قدم پر پیش آنے والی مشکلات کا نہ صرف مشاہدہ کیا بلکہ اس کش مکش میں وہ خود اور ان کی جماعت بار بار آزمایش کا شکار ہوتی رہی۔ اسی پاکستان کے قیام کے صرف چھ سال کے اندر ہی ۱۹۵۳ء میں ملک میں جزوی مارشل لا نافذ کر دیا گیا، جس کی فوجی عدالت نے ایک پمفلٹ قادیانی مسئلہ لکھنے پر مولانا مودودی کو پھانسی کی سزا سنادی (جو بعد میں ملکی اور بین الاقوامی سطح پر شدید احتجاج کے باعث عمرقید میں تبدیل کی اور پھر سپریم کورٹ کے فیصلے کے نتیجے میں ختم ہوئی)۔ مقتدر حلقےآزادی ملنے کے برسوں بعد بھی ملک کو ایک متفقہ آئین نہ دے سکے ۔ نو سال کی کش مکش کے بعد ۱۹۵۶ء میں ایک آئین منظور ہوا، لیکن صرف دو سال کے بعد اس آئین کو منسوخ کرکے پاکستان میں مکمل مارشل لا لگا کر تمام سیاست دانوں، ان کی سیاسی سرگرمیوں، اور جماعت اسلامی سمیت سب سیاسی جماعتوں پر پابندی عائد کر دی گئی۔
چارسال بعد مارشل لا حکومت نے ۱۹۶۲ء میں ایک نیا آئین دیا، جس میں اقتدار کی ساری طاقت فردِ واحد کے ہاتھ میں تھی۔مولانا اور ان کی جماعت نے فرد واحد کی آمریت اور اقتدار کے ارتکاز کے خلاف بھرپور آواز اٹھائی، جس کے باعث وہ حاکم وقت کے نزدیک پاکستان کی ناپسندیدہ ترین شخصیت قرار پائے(اس کی تصدیق چند سال پہلے شائع ہونے والی جنرل ایوب خان کی ڈائری سے ہوتی ہے)۔چند سال بعد جنرل یحییٰ خان نے ۱۹۶۹ء میں ایوب خاں کو ہٹاکر مارشل لا لگایا اور اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ اسی مارشل لا کے دوران دو سال کے اندر ملک کا ایک حصہ الگ ہو کر بنگلہ دیش کے نام سے ایک علیحدہ ریاست بن گیا۔ جولائی ۱۹۷۷ءمیں بھٹو حکومت کا خاتمہ ایک اور مارشل لا کے نفاذ سے ہوا۔ اس کے بعد۲۰۰۸ء تک پاکستان کی۳۱ سال کی سیاسی تاریخ، مختلف سول اور فوجی حکومتوں کے اقتدار میں آنے اور رخصت ہونے سے عبارت ہے۔
ہمیںاپنی مرضی سےزندگی کی تعمیر کرنے کا اختیار حاصل ہوئے [آزادی حاصل ہوئے] ایک طویل مدت گزر چکی ہے، مگر جہاںہم پہلے روز کھڑے تھے وہیں آج بھی کھڑے ہیں۔ بے اختیاری کے زمانے میں جو کچھ اور جیسے کچھ ہمارے حالات تھے، اختیار پاکر بھی ہم ان کو بدلنےاور بہتر بنانے کے لیے کوئی کامیاب اور قابل ذکر کوشش نہ کرسکے۔
مولانا کے نزدیک اس کی سب سے بڑی وجہ آزادی کے بعد بھی، سامراجی نظامِ حکومت کا جوں کا توں قائم رہنا ہے:’’ہمارا انتظامی ڈھانچا اور اس کا مزاج وہی ہے۔ قانونی نظام وہی ہے۔ تعلیمی نظام وہی ہے۔معاشی نظام وہی ہے۔ اخلاق اور معاشرت کا حال وہی ہے۔مذہبی حالت وہی ہے۔ کسی چیز کی اصلاح وترقی کے لیے ہم کوئی قدم نہ اٹھا سکے، بلکہ قدم اٹھانے کے لیے اس کی سمت تک متعین نہ کر سکے‘‘۔
اس کوتاہی کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ: ’’فکرونظر کے اختلافات ،اغراض اور خواہشات کے اختلافات، گروہوں ا ور ٹولیوں کے اختلافات ،علاقوں اور صوبوں کے اختلافات نت نئی شان سے اُبھرتے رہے ہیں اور ابھرتےچلے آ رہے ہیں ۔ جو کچھ ایک بنانا چاہتا ہے، دوسرا اس راہ میں مزاحم ہوتا ہے، اور دوسرا جو کچھ بنانا چاہتا ہے کوئی تیسرا اسے بگاڑنے کے لیے اٹھ کھڑا ہوتا ہے ،نتیجہ یہ ہے کہ کوئی کچھ بھی نہیں بنا سکتا‘‘۔اس صورتِ حال کی سنگینی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انھوں نےتوجہ دلائی ہے: ’’تعمیررُکی ہوئی ہے،اور تخریب آپ سے آپ اپنا کام کر رہی ہے، خواہ ہم میں سے کوئی بھی اس کا دل سے خواہاں نہ ہو‘‘۔
پاکستان میں قومی وحدت کی بنیادیں مستحکم کرنے اور قوم میں اتحاد و اتفاق کے فروغ کے لیے مولانا نے بڑی دردمندی اور دل سوزی سے قوم کے سامنے مختلف تجاویز رکھتے ہوئے اپنی قوم اور اس کے رہنماؤں سے اپیل کی تھی کہ:’’ہر حال میں صداقت و انصاف کا احترام کیا جائے‘‘۔ ’جنگ میں سب کچھ حلال ہے‘ کے فکروفلسفے کو ایک ابلیسی اور شیطانی اصول قرار دیتے ہوئے انھوں نے سختی سے رد کر دیا تھا۔ وہ اس بات کو انتہائی ناپسند کرتے تھے کہ کوئی بھی اپنے مخالف پر ہر طرح کے جھوٹے الزام لگائے، اس کی طرف جان بوجھ کر غلط باتیں منسوب کرے ،اور اس کے نقطۂ نظر کو قصداً غلط صورت میں پیش کرے۔ سیاسی اختلاف ہو تواسے غدار اور دشمن وطن ٹھیرائے، مذہبی اختلاف ہو تو اس کے پورے دین و ایمان کو متہم کر ڈالے ،اور ہاتھ دھو کر اس کے پیچھے اس طرح پڑجائے کہ گویا اب مقصد زندگی بس اسی کو نیچا دکھانا رہ گیا ہے۔ انھوں نے اس بات پر زور دیا تھا: ’’بھلائی اسی میں ہے کہ ہمیں کسی سے خواہ کیساہی اختلاف ہو، ہم صداقت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں اور اس کے ساتھ ویسا ہی انصاف کریں جیسا ہم خود اپنے لیے چاہتے ہیں‘‘۔
ملک کے تمام طبقوں کو مخاطب کرکے مولانا مودودی نے اس اصول پر زور دیا تھا کہ: ’’اختلاف براے اختلاف سے اجتناب کرتے ہوئے ہر شخص اپنی قوتیں دوسروں کی تردید میں صرف کرنے کے بجاے اپنی مثبت چیز پیش کرنے پر صرف کرے‘‘۔ انھیں اس بات پر بہت دُکھ تھا کہ: ’’یہاںزیادہ تر زور اس بات پر صرف کیا جا تاہےکہ دوسرے جو کچھ کر رہے ہیں، اس کی مذمت کی جائے اور اس کے متعلق لوگوں کی راے خراب کردی جائے۔ بعض لوگ تو اس منفی کام سے آگے بڑھ کر سرے سے کوئی مثبت کام کرتے ہی نہیں ،اور کچھ دوسرے لوگ اپنے مثبت کام کے فروغ کا انحصار اس پر سمجھتے ہیں کہ میدان میں ہر دوسرا شخص جو موجود ہے اس کی اور اس کے کام کی پہلے مکمل نفی ہوجائے‘‘۔ اس طرزِ عمل کے مضمرات واضح کرتے ہوئے انھوں نے کہا تھا کہ: ’’یہ روش خصوصیت کے ساتھ ہمارے ملک کے لیے بہت ہی زیادہ نقصان دہ ہے۔ اس وقت ہماری قومی زندگی میں ایک بہت بڑا خلا پایا جاتا ہے، جو ایک قیادت پر سے عوام کا اعتماد اُٹھ جانے اور دوسری کسی قیادت پر نہ جمنے کا نتیجہ ہے‘‘۔ مولانا مودودی کا استدلال تھا کہ: ’’اجتماعی طاقت سے ہی کوئی تعمیری کام ممکن ہوگا ۔ لیکن اگر صورتِ حال یہ رہے کہ ہر ایک اپنا اعتماد قائم کرنے کے بجاے دوسرے کا اعتماد ختم کرنے میں لگا رہے تو نتیجہ اس کے سوا کچھ نہ ہوگا کہ کسی کا اعتماد بھی قائم نہ ہوسکے گا‘‘۔
قوم میں اتفاق اور اتحاد پیدا کرنے کے لیے مولانا مودودی نے یہ تجویز بھی پیش کی تھی: ’’جبرو دھونس کے بجاے دلیل و ترغیب کا طریقہ اپنایا جائے‘‘ ۔ انھوں نے اس بات پر زور دیا تھا کہ: ’’اپنی مرضی دوسروں پر زبردستی مسلط کرنے کا حق کسی کو نہیں ہے ۔جو کوئی بھی اپنی بات دوسروں سے منوانا چاہتا ہے وہ جبر سے نہیں دلائل سے منوائے،اور جو کوئی اپنی کسی تجویز کو اجتماعی پیمانے پر نافذ کرنا چاہتا ہو وہ بزور نافذ کرنے کے بجاے ترغیب وتلقین سے لوگوں کو راضی کرکے نافذ کرے‘‘۔ان کا موقف تھا کہ: ’’ایسے طریقوں سے ایک چیز مسلط تو ہو سکتی ہے لیکن کامیاب نہیں ہوسکتی، – کیوںکہ کامیابی کے لیے لوگوں کی قبولیت اور دلی رضامندی ضروری ہے‘‘۔
مولانا مودودی نے بات کو منوانے کے لیے طاقت کے استعمال کو انتہائی غلط قرار دیتے ہوئے یاد دلایا تھا: ’’دنیا کی تاریخ بتاتی ہے کہ ایسی زبردستیوں نے بالا آخر قوموں کا مزاج بگاڑ دیا ہے، ملکوں کے نظام تہہ وبالاکر دیے ہیں اوران کو پُرامن ارتقا کے راستے سے ہٹا کر بے تکے تغیرات اور انقلابات کے راستے پر ڈال دیا ہے‘‘۔مولانا نے پاکستان کے بااثر لوگوں کو باور کرایا تھا: ’’اگر آپ واقعی اپنے ملک کے خیرخواہ ہیں تو دھونس کے بجاے دلیل سے اور جبر کے بجاے تر غیب سے کام لینے کی عادت ڈالنی چاہیے‘‘۔
مو لانا مودودی نے پوری قوم سے اپیل کی تھی کہ: ’’ہمیں اپنی چھوٹی چھوٹی عصبیتوں کو ختم کر کے مجموعی طور پر پورے ملک اور ملت کی بھلائی کے نقطۂ نظر سے سوچنے کا خوگر ہونا چاہیے۔ یادرہے کہ ہر تعصب لازماً جواب میں ایک تعصب پیدا کر دیتا ہےاور تعصب کے مقابلے میں تعصب کش مکش پیدا کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ بھلا اس قوم کی خیر کیسے ہوسکتی ہے جس کیے اجزاے ترکیبی آپس ہی میں برسرِپیکار ہوں؟‘‘
سیاسی پارٹیوں کو مخاطب کرتے ہوئے مولانا محترم کا کہنا تھا کہ: ’’سیاسی پارٹیاں فی الواقع نیک نیتی کے ساتھ ملک کی بھلائی ہی کے لیے خواہاں اور کوشاں ہوں۔ ایک دوسرے کے ساتھ ان کی مسابقت یا مصالحت اصولی ہو اور اختلاف معقول اور شریفانہ طریقوں تک محدود رہے‘‘۔ مولانا نے ہر ایسی سیاسی پارٹی کو ’قزاقوں کی ٹولی‘ قرار دیا تھا، جو پارٹی اپنے مفاد اور اپنے چلانے والوں کے مفاد ہی کو سعی وجہد کا مرکز و محور بنا کر بیٹھے اور اس فکر میں ملک کے مفاد کی پروا ہ نہ کرے۔
مولانا مودودی نے واضح کیا تھا کہ: ’’اگر کوئی جابر طاقت زبردستی اس مقصد کے حصول میں مانع ہو جائے، اور ان پر اسلام کے سوا کوئی دوسرا ضابطۂ حیات مسلط کردے تو وہ اسی مجبوری کے ساتھ اسے برداشت کرلیں کہ جس طرح انگریزی تسلط واقع ہونے کے بعد انھوں نے اسے برداشت کیا تھا۔ لیکن جو شخص یہ سمجھتا ہو کہ ایک نارضامند آبادی پر جبر سے ایک نظام مسلط کرکے ا س کو کامیابی سے چلایا بھی جا سکتا ہے، تو وہ یقینا سخت نادان ہے‘‘۔
’’ان میں سے پہلے تین طبقے مسلمانوں کی آبادی میں مجموعی طور پر ایک فی ہزار کی نسبت بھی نہیں رکھتے۔ اب یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ملک کا انتظام اس بنیاد پر تعمیر ہو نہ سکے جسےکروڑوں آدمی چاہتے ہیں اور اس بنیاد پر تعمیر ہو جسے چاہنے والے چند ہزار آدمیوں سے زیادہ نہیں‘‘۔
مولانا نے اسلامی نظام حیات کے مخالفین کو سمجھاتے ہوئے کہا تھا: ’’ملک کی بھلائی ایسی ہی بنیادوں پر اس کا نظامِ زندگی تعمیر کرنے میں ہے، جن پر زیادہ سے زیادہ اتفاق ممکن ہو ۔اور یہ اتفاق بہرحال لا دینی پر یا قرآن بلا سنت پر ممکن نہیں ہے۔ لہٰذا، آپ اپنے خیالات جو کچھ بھی ہیں رکھیں مگر مزاحمت چھوڑ دیں‘‘۔
مولانا نے غیرمسلموں کو یقین دلایا تھا کہ: ’’مسلمانوں کا مذہب آپ پر مسلط نہیں کیا جائے گا، اور آپ کے مذہب اور تہذیب میں کوئی مداخلت نہیں کی جائے گی۔ آپ کا پرسنل لا آپ کے لیے محفوظ رہے گا ،اورآپ کو زندگی کے ہر شعبے میں یہاں عملاً اس سے زیادہ حقوق حاصل ہوں گے، جو دنیا میں کہیں اقلیتوں کو حاصل ہوتے ہیں‘‘۔
مولانا کو اس بات کا پوری طرح اِدراک تھا کہ: ’’جمہوریت میں بھی بہت سے نقائص ہوتے ہیں، اور وہ نقائص اس وقت بہت زیادہ بڑھ جاتے ہیں جب کسی ملک کی آبادی میں شعور کی کمی ہو، ذہنی انتشار موجود ہو ،اخلاق کمزور ہو ں اور ایسے عناصر کا زور ہو جو ملک کے مجموعی مفاد کی نسبت اپنے ذاتی، نسلی، صوبائی اورگروہی مفاد کو عزیز رکھتے ہو ں‘‘۔ لیکن جمہوریت کے حق میں مولانا کی دلیل یہ تھی کہ: ’’ان سب حقائق تسلیم کرنے کے بعد بھی یہ عظیم تر حقیقت اپنی جگہ پر قائم رہتی ہے کہ ایک قوم کی ان کمزوریوں کو دور کرنے اور بحیثیت مجموعی ایک بالغ قوم بنانے کا راستہ جمہوریت ہی ہے‘‘۔ جمہوریت کے حق میں اپنی راےکی مزید تشریح کرتے ہوئے مولانا نے باور کرایا ہے: ’’جمہوری نظام ہی وہ ایک نظام ہے جو ایک ایک شخص میں یہ احساس پیدا کرتا ہے کہ ملک اس کا ہے، ملک کی بھلائی اور برائی اس کی اپنی بھلائی اور برائی ہے ۔یہی چیز افراد میں اجتماعی شعور بیدا رکرتی ہے۔ اور اس سے فرداً فرداً لوگوں کے اندر اپنے ملک کے معاملات سے دل چسپی پیدا ہوتی ہے۔ جمہوریت تو نام ہی اس چیز کا ہے کہ عام لوگ خود اپنے قومی اور ملکی معاملات کو چلانے کے ذمہ دار ہوں اور وہ تجربے سے سبق سیکھ سیکھ کر اپنی غلطیوں کی تلافی کرتے چلے جائیں، یعنی ایک یا چند مرتبہ اگر ان کا انتخاب غلط ثابت ہواور اس کے نقصانات ان کے سامنے آجائیں تو کوئی دوسرا مداخلت کرکے اس کی اصلاح کرنے نہ آئے بلکہ وہ خود ہی ایک معروف ومسلّم ضابطے کے مطابق اس کی اصلاح کرتےرہیں‘‘۔ جمہوریت کے مقابلے میں دوسرے نظاموں (بادشاہی، ڈکٹیٹرشپ، اشرافیت) پر تنقید کرتے ہوئے مولانا نے لکھا تھا:’’اس میں عوام الناس، حالات کے محض تماشائی بن کر رہتے ہیں اور جب ان حالات کے ردوبدل یا بناؤ اور بگاڑ میں ان کی راے اور مرضی کا دخل نہیں ہوتا، تو وہ ان میں دل چسپی بھی لینا چھوڑ دیتے ہیں۔ جمہوریت کے جو اور جیسے بھی نقائص ہوں، انھیں اس نقصان عظیم سے بہرحال کوئی نسبت نہیں ہے‘‘۔
مولانا مودودی نے ان لوگوں پر سخت گرفت کی تھی جو یہ کہتے ہیں کہ: ’’یہاں [پاکستان میں] جمہوریت ناکام ہو چکی ہے اوریہ ثابت ہوگیا ہے کہ اس ملک کے باشندے اس کے اہل نہیں ہیں۔ یہ حضرات وقتاً فوقتاً اس کے لیے مختلف قسم کی متبادل صورتیں پیش کرتے رہتے ہیں‘‘۔ مولانا کا کہنا تھا: ’’وہ متبادل صورتیں جو جمہوری نظام کے مقابلے میں پیش کی جاتی ہیں، ان کے بارے میں یہ بات ہم کو اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ جمہوریت درہم برہم کر کے آمریت کی راہ پر چل پڑنا جتنا آسان ہے، جمہوریت کی طرف پھر پلٹ آنا اتنا آسان نہیں ہے۔ آمریت خواہ پُرامن طریقے سے ہی قائم ہو، بہرحال پُرامن طریقے سے دفع نہیں ہوسکتی‘‘۔ آمریت پر کڑی تنقید کرتے ہوئے مولانا نے اس کے معکوس نتائج کو بڑ ی تفصیل سے واضح کیا تھا: ’’آمریت خواہ کتنی ہی خیراندیش ہو اور کیسی ہی نیک نیتی سے قائم کی جائے ،اس کا مزاج اس کے اندر لازماً چند خصوصیات پیدا کر دیتا ہے، جو اس سے کبھی دُور نہیں ہو سکتیں اور ان خصوصیات کے چند لازمی اثرات ہوتے ہیں جو مرتب ہوئے بغیر نہیں رہتے۔ وہ تنقید کو برداشت نہیں کرتی ۔وہ خوشامد پسند ہوتی ہے ۔وہ اپنے محاسن کا اشتہار دیتی اور عیوب پر پردہ ڈالتی ہے۔اس میں یہ ممکن نہیں ہوتا کہ خرابیاں بروقت نمایاں ہوجائیں اور ان کا تدارک کیا جاسکے ۔وہ راے عامہ اور افکار اور نظریات سے غیر متاثر ہوتی ہے۔ اس میں ردوبدل کسی کھلے کھلے طریقے سے نہیں بلکہ محلاتی سازشوں اور جوڑ توڑ سے ہوتا ہے، جنھیں عوام الناس صرف تماشائی ہونے کی حیثیت سے دیکھتے رہتےہیں۔ اس میں صرف ایک محدود طبقہ ملک کے سارے دروبست پر متصرف ہوتا ہے، اور باقی سب بے بس محکوم بن کر رہتے ہیں۔اس کا آغاز چاہے کیسی ہی نفع رسانی کے ساتھ ہو، انجام کار وہ ایک جابر طاقت بنے بغیر نہیں رہتی اور عام لوگ بے زار ہوکراس سے خلاصی کی تدبیریں سوچنے لگتے ہیں، مگر خلاصی کے جتنے پُرامن راستے ہوتےہیں یہ ان کو چُن چُن کر بند کر دیتی ہے،اور مجبوراً ملک ایسے انقلابات کی راہ پر چل پڑتاہے،جو مشکل ہی سے اس کو کسی منزل خیر پر پہنچنے دیتے ہیں‘‘۔
مو لانا چاہتے تھے کہ: ’’پاکستان میں جمہوری نظام کے بارے میں ہمیں یکسو ہونا چاہیے‘‘ لیکن وہ یہ ضروری سمجھتے تھے کہ: ’’ہم جمہوریت کو اس کی حقیقی روح کے ساتھ اختیار کریں اور اس میں آمریت کے لوازم اور خصائص کی آمیزش نہ کریں ،کیوں کہ اس کے بغیر جمہوریت صیحح طریقے سے کام نہیں کر سکتی اور نہ وہ نتائج دکھاسکتی ہے، جو اس سے مطلوب ہیں‘‘۔
پاکستان میں حقیقی جمہوریت کے قیام اور استحکام کے لیے مولانا نے پانچ اصول پیش کیے:
۱- تقسیم اختیارات کا اصول، یعنی ریاست کے تینوں شعبوں انتظامیہ، عدلیہ اور مقننہ کے دائرۂ اختیار کا واضح طور پر الگ ہونا۔
۲- شہری آزادیوں اور بنیادی حقوق کی ضمانت اور عدلیہ کا ان کے تحفظ پر قادر ہونا۔
۳- انتخابات کی آزادی اور اس کی حفاظت کے لیے ایسی قانونی و انتظامی تدابیر، جن سے یہ اطمینان ہو سکے کہ انتخابات کے نتائج فی ا لحقیقت راے عام کے مطابق نکل سکیں گے۔
۴- قانون کی حکمرانی ،یعنی یہ امر کہ راعی اور رعایا کے لیے ایک ہی قانون ہو، اور سب اس کے پابند ہوں، اور عدالتوں کو یہ حق ہو کہ سب پر بے لاگ طریقے سے وہ اس کو نافذ کرسکیں۔
۵- ملازمین حکومت کا خواہ وہ سول سروس سے تعلق رکھتے ہوں یا فوج سے، سیاست میں دخیل نہ ہونا اور اس ہیئت ِحاکمہ کی اطاعت قبول کرنا کہ جسے باشندوں کی اکثریت آئینی طریقے پر ملک کا اقتدار سونپ دے‘‘۔
جمہوریت میں آزادی کے ساتھ انتخاب کی آزادی پر مولانا نے بہت زور دیا ہے۔ ان کے نزدیک: ’’جمہوریت تو نام ہی اس چیز کا ہے کہ لوگ اپنی آزاد مرضی سے جس کو چاہیں حکمرانی کے لیے منتخب کریں اور جب چاہیں اپنی آزاد مرضی سے ان کو تبدیل کر دیں۔ اگر دباؤ اور لالچ اور فریب اور حیلوں سے انتخابات کے نتائج اصلی راے عام کے بالکل برعکس برآمد کیے جاسکتے ہوں تو ایسی حالت میں لوگوں کو راے اور انتخاب کا حق دینا اور نہ دینا دونوں برابر ہیں۔
سیاست میں مقتدر اور محافظ حلقوں کی مداخلت کومولانا مودودی نےسخت ناپسند کرتے ہوئےاس عمل کو ایک بہت بڑی خیانت اور نتائج کے اعتبار سے پاکستان کے لیے ایک خطرناک چیز قرار دیا تھا۔ انھوں نے حکومت کے کارپرداز اور محافظوں کو سچے دل سے جمہوریت کے اصول کو تسلیم کرنے کی یادہانی کراتے ہوئے کہا تھا کہ: ’’وہ اس بات کو مان لیں کہ ملک باشندوں کا ہے اور باشندوں کو یہ حق ہے کہ وہ اپنی آزاد مرضی سےجن لوگوں کو چاہیں اپنے ملک کا کارفرما بنائیں‘‘ ۔
مولانا مودودی کا نظریہ تھا کہ: ’’ہمارے ملک کو بہت سے درپیش مسائل کی طرف توجہ کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ لوگوں کی اخلاقی و دینی حالت درست کرنی ہے ۔معاشی بدحالی کا علاج کرنا ہے۔ عام جہالت کو دُور کرنا ہے۔ نظام تعلیم کی اصلاح کرنی ہے اور ایسے ہی بہت سے مسائل ہیں‘‘۔ لیکن ان کے نزدیک سب سے مقدم بات یہ تھی کہ: ’’ہم اپنے نظام زندگی کی بنیادوں پر اتفاق کرلیں اور یہ اتفاق صحیح بنیادوں پر ہو‘‘۔مولانا مودودی کو یقین تھا کہ ہم سب اسی لائحہ عمل کے تحت اپنے مسائل کو حل کر نے کی طرف قدم بڑھاسکیں گے اور ایک مستحکم پاکستان تعمیر کر سکیں گے۔
انسانی تاریخ کے حسین ترین مناظر میں ایک منظر وہ ہے جب بوڑھے ابراہیم علیہ السلام اور نوجوان اسماعیل علیہ السلام مل کر اللہ کے گھر کی تعمیر کررہے تھے۔ اس وقت ان کے لبوں پر بڑی پیاری دعائیں جاری تھیں، جو زمین سے آسمان تک ہر شاہراہ کو معطر کیے ہوئی تھیں۔ ایمان ویقین سے روشن ان دعاؤں میں پہلی اور بہت پیاری دعا یہ تھی:
ہمارے ربّ ہم سے قبول فرمالے، بلاشبہہ تو سننے اور جاننے والا ہے (رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ)
تصور میں دیکھیں اور سوچیں اللہ کے دو عظیم پیغمبر بڑی آزمایشوں اور عظیم قربانیوں سے سرخ رو ہو جانے کے بعد اللہ کے پہلے گھر کی تعمیر میں مصروف ہیں، اور اس وقت بھی سب سے زیادہ یہ فکر دامن گیر ہے کہ اللہ کی بارگاہ میں ان کا یہ کام قبول ہوجائے۔ یہ کیسی روح پرور کیفیت ہے اور اس میں اچھے کام کرنے والوں کے لیے کیسی گہری نصیحت ہے۔ جب رحمان کے خلیل کو رحمٰن کے گھر کی تعمیر جیسے عظیم کام کے قبول ہونے کی اتنی زیادہ فکر ہے تو عام انسانوں کو دین کے چھوٹے بڑے سب کام کرتے ہوئے قبولیت کی کتنی زیادہ فکر رہنی چاہیے۔
قبولیت کی سچی طلب دل میں بس جاتی ہے تو تمام کام اخلاص کے رنگ میں رنگ جاتے ہیں۔ قبولیت کی فکر تقاضا کرتی ہے کہ کام کا مقصود صرف اللہ کی رضا ہو اور اس میں کسی کے لیے کوئی حصہ نہیں ہو۔ سوشل میڈیا کے اس زمانے میں، جب کہ ہر شخص کے لیے اپنی کارکردگی کی خبر عام کرنا آسان ہوگیا ہے، اخلاص کی اہمیت بہت بڑھ جاتی ہے۔ برائی اس میں نہیں ہے کہ آپ کا کام خبر بن جائے، لیکن برائی اس میں ضرور ہے کہ خبر بنانا ہی کام کا مقصد بن جائے، اور اس طرح پستی کی طرف رخ ہونے کی وجہ سے کام کی خبر آسمان پر جانے کے بجاے زمین کی پستیوں میں ہی بکھر کر رہ جائے۔ ابراہیم ـؑاور اسماعیلؑ نے اخلاص کے ساتھ صرف اللہ کے یہاں قبول ہوجانے کے لیے تعمیر کعبہ کا کام کیا اور اللہ نے اسے قیامت تک کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبر بنادیا۔ واقعہ یہ ہے کہ اللہ کی رضا کے لیے جو کام کیا جائے وہ کائنات کی بہت خاص خبر بن جاتا ہے، شرط یہ ہے کہ وہ کام خبر بننے کے لیے نہیں بلکہ رب خبیر کے یہاں قبول ہونے کے لیے کیا جائے۔
قبولیت کی سچی طلب دل میں بس جاتی ہے، تو اچھے کام کرتے ہوئے دل میں یہ جذبہ جوان رہتا ہے کہ مشکل سے مشکل کام میرے حصے میں آجائے۔ ٹیم میں کچھ لوگ جسمانی طور سے کمزور ہوسکتے ہیں، کچھ کی قوت کار کم ہوسکتی ہے، اور کچھ کی مدت کار تھوڑی ہوسکتی ہے، ایسے میں پوری ٹیم کو قوت ان سے ملتی ہے جو بڑے بڑے بوجھ اٹھانے کے لیے خود کو پیش کرتے ہیں، جنھیں آرام سے بے رغبتی اور کام کا جنون ہوتا ہے، جنھیں مال غنیمت کا شوق نہیں ہوتا ہے بلکہ جامِ شہادت سے عشق ہوتا ہے۔ قبیلہ نخع کے لوگ قادسیہ کے معرکے میں شریک ہوئے اور دوسروں کے مقابلے میں زیادہ کام آگئے۔ حضرت عمرؓ نے خبر لانے والوں سے پوچھا، نخع کے لوگ کیوں زیادہ شہید ہوئے؟ کیا دوسرے انھیں محاذ پر تنہا چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے تھے؟ انھوں نے وضاحت کی: دراصل ہوا یہ کہ نخع والوں نے اہم ترین محاذ آگے بڑھ کر تنہا خود سنبھال لیے تھے (اِنَّ النَّخَعَ وَلَّوْا أَعْظَمَ الْأَمْرَ وَحْدَهُمْ)( الاصابہ فی تمیز الصحابہ، ج۱، ص ۱۹۶)۔جو مشکل کام اپنے ذمے لیتا ہے، اسی کو تکان زیادہ ہوتی ہے، پسینہ بھی اسی کا زیادہ بہتا ہے، چوٹیں بھی اسے ہی زیادہ آتی ہیں، لیکن وہی پوری ٹیم کے لیے جوش اور طاقت کا سرچشمہ ہوتا ہے، اسی کو دیکھ کر دوسروں کو کام کرنے کا حوصلہ اور توانائی ملتی ہے۔
قبولیت کی سچی طلب ہوتی ہے، تو آدمی شہرت اور نام وَری سے بہت اوپر اُٹھ جاتا ہے۔ اسے اس کی فکر نہیں ہوتی کہ اخبار میں اس کا فوٹو نہیں چھپا، لوگوں کو اس کے کارنامے معلوم نہیں ہوئے، اسے انعام واسناد سے نوازا نہیں گیا، فکر تو اسے بس یہ رہتی ہے کہ اللہ کی بارگاہ میں وہ مقبول قرار پا جائے۔ اور یہی تو اصل کامیابی ہے۔ اس عظیم کامیابی کے سامنے کسی اعتراف اور کسی انعام کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک معرکے کے بعد قاصد خبر لے کر حضرت عمرؓ کے پاس پہنچا۔ آپ نے پوچھا معرکے میں کون کون کام آگیا؟ اس نے کچھ خاص خاص لوگوں کے نام بتائے، پھرکہا کچھ اور لوگ بھی کام آگئے جنھیں امیر المومنین نہیں جانتے ہیں۔ یہ سن کر حضرت عمرؓ رونے لگے، اور کہنے لگے: امیر المومنین انھیں نہیں جانتا تو اس میں ان کا کیا نقصان ہے، اللہ تو انھیں جانتا ہے، اس نے تو انھیں شہادت کے اونچے مقام پر فائز کردیا ہے، اور عمر کے جان لینے سے ان کا کیا بھلا ہوگا۔ (وَمَا ضَرَّهُمْ أَ لَا يَعْرِفَهُمْ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ! لَكِنَّ اللَّهَ يَعْرِفُهُمْ وَقَدْ أَكْرَمَهُمْ بِالشَّهَادَةِ، وَمَا يَصْنَعُونَ بِمَعْرِفَةِ عُمَرَ)(البدایۃ والنہایۃ، ابن کثیر، ج۷، ص ۱۲۶)۔ جو اللہ کی قدر پہچانتے ہیں، وہ اسی کو کافی سمجھتے ہیں اور اسی کو ضروری بھی سمجھتے ہیں کہ اللہ ان کے عمل کو قبول کرلے۔
قبولیت کی سچی طلب ہوتی ہے تو کام کا معیار بلند رکھنے کا شوق بھی بڑھ جاتا ہے۔ قبولیت کی طلب کام کے حسن پر ذرا سی بھی آنچ آنا گوارا نہیں کرتی۔ اسے پورا یقین ہوتا ہے کہ جب اللہ کی بارگاہ میں قبولیت کے لیے کام کیا جائے تو کام بھی شایان شان ہونا چاہیے اور اس کے دامن پر ذرا سا بھی داغ نہیں لگنا چاہیے۔ ایک بدو سے جب زکوٰۃ وصول کرنے والے نے اس کے تمام اونٹوں کو شمار کرکے ایک سال کا اونٹنی کا بچہ مانگا، تو اس نے کہا اللہ کے راستے میں اس سے کیا ہوگا، نہ دودھ دے، نہ سواری کے کام آئے، پانچ سال کی تیار اور تنومند اونٹنی لے کر جاؤ۔ شعور اور ذوق کی اس بلندی پر پہنچنے کے لیے بس یہ جذبہ کافی ہوتا ہے کہ میرا مقصود اللہ ہے، اسی کے سامنے اعمال کو پیش ہونا ہے، اس لیے میرا ہر عمل اونچی شان والا ہونا چاہیے۔
قبولیت کی سچی طلب ہر اچھے کام کو تکمیل تک پہنچانے کا جذبہ پیدا کرتی ہے۔ یہ طلب اس وقت بے مثال تازگی عطا کرتی ہے، جب تھکن کی شدت سے جسم چور ہوجاتا ہے اور حوصلے جواب دینے لگتے ہیں۔ دل میں شیطان وسوسہ ڈالتا ہے کہ تم اتنے ہی کے مکلف تھے، اب باقی کام کوئی اور کرلے گا یا کسی دوسرے وقت ہوجائے گا۔ لیکن جب قبولیت کی جستجو انگڑائی لیتی ہے تو حوصلوں کو جِلا مل جاتی ہے اور جسم کو نئی توانائی حاصل ہوجاتی ہے۔ جب یہ دھن سوار ہو کہ اللہ کی بارگاہ میں یہ کام قبول ہوجائے تو پھر اس کام کو ادھورا کب کے لیے اور کس کے لیے چھوڑا جائے۔
اللہ کی عظمت پر ایمان رکھنے والے اچھے کاموں کو قابل قبول بنانے کی ہر کوشش کرتے ہیں، اور ان کے قبول ہوجانے کی دُعا کرتے ہیں۔
دورِ جدیدکی برق رفتار ترقی کے پیچھے انسان کی غور وفکر اور سوچ بچار کی صلاحیتوں کا ہاتھ ہے۔ سوچ بچار ایک ایسا انسانی عمل ہے، جس سے انسان آس پاس کی چیزوں کا مشاہدہ کر کے نئی نئی حقیقتوں سے پردہ اٹھاتا ہے۔ لیکن سوچنا اگر محض براے سوچ ہو تو وہ سوچ کسی کام کی نہیں ۔ سوچنے کے بعد انسان جو خیال یا نقطۂ نظر پیش کرتا ہے اس کا کسی دلیل سے ثابت ہونا از بس ضروری ہے۔ اگر وہ کوئی دلیل پیش کرنے سے قاصر رہے تو اُس نقطۂ نظر کی کوئی اہمیت نہیں رہتی۔ دلیل پیش کرنے کے بعد دلیل کا صحت مند اور پیش کردہ نکتے کے ساتھ موافق ہونا بھی لازمی ہے، ورنہ پیش کردہ نقطۂ نظر بذاتِ خود غلط ثابت ہوگا۔
سوچنے کی صلاحیت خالصتاََ مخلوقِ انسانی کو بخشی گئی ہے۔ اس طرح سے انسان کا سوچنا اُسے انسانیت کے اعلیٰ مرتبے پر فائز کردیتا ہے۔ لیکن یہاں بھی ایک استثنا ہے، اگر انسان کی سوچ محض سوچ ہی تک محدود ہو اور وہاں سے وہ کوئی نتیجہ اخذ کرنے سے قاصر رہے ،تو ایسی سوچ کا کوئی ماحصل ہی نہیں ۔ سورئہ آل عمران میں عقل اور اِس سے اخذ کردہ نتائج کے مابین اس طرح سے ربط قائم کیا گیا ہے کہ:’’زمین اورآسمان کی پیدایش میں،رات اور دن کے باری باری سے آنے میں عقل مند لوگوں کے لیے بہت ساری نشانیاں ہیں‘‘(اٰل عمرٰن۳: ۱۹۰)۔ انسان کے پاس عقل ہونے کے باوجود اگر وہ اُسے ا ستعمال میںلا کر صحیح نتائج برآمد نہ کرسکے اور اپنی زندگی کے جملہ معاملات اُن اخذ کردہ نتائج کے مطابق نہ سنوارے، تو ایسے انسان بھی پھر غیر انسانی مخلوقات کی طرح ہوتے ہیں، فرق بس اتنا ہوتا ہے کہ یہ انسانی شکل میں ہوتے ہیں اور وہ غیر انسانی ا شکال میں۔اِن ہی اشخاص کو قرآن کریم نے یہ کہہ کر پکارا ہے کہ:’’ اِن کے پاس محسوس کرنے کے لیے دل تو ہوتے ہیں مگر وہ ان سے سوچتے نہیں، ان کے پاس دیکھنے کے لیے آنکھیں تو ہوتی ہیں مگر وہ اُن سے دیکھتے نہیں، اُن کے پاس سننے کے لیے کان تو ہوتے ہیں مگر وہ ان سے سنتے نہیں۔ وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ اُن سے بھی زیادہ گئے گزرے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو غفلت میں کھوگئے ہیں‘‘۔(الاعراف۷: ۱۷۹)
ایک دوسری جگہ ایسے انسانوں کو بدترین جانوروں سے تشبیہ دی گئی ہے ، جو عقل سے کام نہیں لیتے۔ عقلِ سلیم کو استعمال کرنے کی ہدایات اس حد تک قرآن کریم میں بیان کی گئی ہیں کہ ایک تو اس نعمتِ عظمیٰ کا آخرت کے دن حساب دینا ہوگا: ’’جب کہ انسان سے آنکھ، کان اور دل سب ہی کی باز پُرس ہونی ہے‘‘ (بنی اسرائیل ۱۷:۳۲)۔ دوسری طرف اسے استعمال نہ کرنے پر اللہ تعالیٰ کی وعید سناتے ہوئے متنبہ کیا گیاہے کہ:’’ جو لوگ عقل سے کام نہیں لیتے اُن پر ہم گندگی ڈال دیتے ہیں‘‘۔ (یونس۱۰:۱۰۰)
قرآن پاک نے جس اندازِ فہمایش کو پسند و پیش کیا ہے ، اُس کا سب سے پہلا نکتہ یہ ہے کہ انسانی عقل کو آزاد چھوڑدیاجائے۔ اُسے کوئی نکتہ سمجھانے میں کسی زور زبردستی یا دھونس دبائو سے کام نہ لیا جائے۔ جیسا کہ فرمایا گیا:’’ دین کے معاملے میں کوئی زور زبردستی نہیں‘‘(البقرہ۲: ۲۵۶)۔ اُس کی عقل کی آزادی کی سطح کو سمجھنے کے بعد اُسے اُسی کی فہمایش کے مطابق بات سمجھائی جائے۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مختلف الفکر انسان دین سیکھنے کے لیے آتے تھے اور سوالات پوچھتے،لیکن آپؐ ہر کسی کو دین کے متعلق ایک ہی جواب نہیں دیتے۔ قریبی صحابہ سے اندازِ بیان طویل ، جامع اور موقع و محل کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ہوتا تھا، وہیں کسی بدوی صحابیؓ کے سوال کے جواب کا طرزِ تفہیم بہت ہی سادہ اور مختصر ہوتا تھا۔ اسی چیز کو قرآن پاک نے اس انداز میں پیش کیاہے کہ:’’ اے نبیؐ، اپنے رب کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقے پر جو بہترین ہو‘‘(النحل ۱۶: ۱۲۵)۔ یہ آیت موجودہ دور کے اُن مناظرہ پسند حضرات اور سوشل میڈیا پر بیٹھے جذباتی نوجوانوں کے لیے بھی ایک اہم ذریعۂ رہنمائی ہے جو اپنے طرزِ بیان میں بہت ہی شدت پسندہیںاور جو اپنی بات کو ’منوانے ‘ میں گالم گلوچ کا استعمال کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے ۔ غور کرنے کے لائق یہ مقام ہے کہ یہ آیت مشرکین ، یہود ، نصاریٰ وکفّار کے ساتھ بات یا مجادلہ کرنے کے تناظر میں نازل ہوئی ہے کہ اُن سے بھی اخلاقی حدود میں ہی بات کرنی ہے، لیکن کیا ہوا ہے کہ موجودہ دور میںمسلمان اپنے فروعی مسئلوں کے اندر اس حد تک متعصب ہوگئے ہیں اور اپنی بات کو منوانے میں اتنی شدت اختیار کرتے ہیں جہاں اخلاقی حدود و قرآنی احکام کا پاس و لحاظ ہی نہیں رکھا جاتا ہے۔
موجودہ دنیا کی جنگیں افکار و نظریات کی بنیادوں پر لڑی جارہی ہیں۔ ان جنگوں میں جو کوئی بھی اپنی بات کو سچ ثابت کرنے میں کامیاب ہوتا ہے ، وہی بازی اپنے نام کرلیتا ہے، قطع نظر اس کے کہ بات کو سچ ثابت کرنے میں کن’ ناروا اصولوں‘ کو بروے کار لایا گیا ہو۔ اس طرح کی جنگیں آج کل عام طور پر ٹی وی ، اخبارات و دیگر نشرو اشاعتی اداروں، خاص کر سوشل میڈیا کے ایوانوںکے اندر لڑی جارہی ہیں۔ دو مختلف نظریات کے حامل اشخاص ایک دوسرے سے بحث صرف اور صرف اس لیے کر رہے ہوتے ہیں کہ کون صحیح ہے اور کون غلط، نہ کہ صحیح کیا ہے اور غلط کیا۔ یہی وہ بنیادی سبب ہے کہ جس سے سماج میں نفرتوں و عداوتوں کا بازارگرم ہوتاہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آپس کے بحث و مباحثہ سے یہ پتا لگایا جائے کہ صحیح کیا ہے اور غلط کیا، لیکن جس طرح صحیح کہنے والا اپنے نقطۂ نظر کو سچ ثابت کرنے میں بہت شدت برتتا ہے، اُسی طرح غلط کہنے والا اپنی عزتِ نفس کو بچانے کی خاطر نِت نئی دلیلیں پیش کرتا ہے۔ اپنی کج روی میں بد مست ہونا اور اپنے پیش کردہ نظریات سے اس حد تک محبت کرنا کہ انسان اندھا ہو جائے، انسانی فطرت کے خلاف ہے۔ قرآن پاک کے اسلوب کی طرف نظر ڈال کر یہ بات بآسانی کہی جاسکتی ہے کہ عقل مند وہ لوگ ہیں جو اپنی غلطی کو غلطی مان کر بر وقت رجوع کر یں۔ ایسے انسانوںکے لیے ہی انعامات کی خوشخبری ہے، بلکہ اُن سے یہ کہہ کر خطاب کیا گیا ہے کہ جیسے اُنھوں نے وہ کام کیا ہی نہیں ۔
انسانی عقل محدود ہے۔ اُس کے دماغ میں اِس کائنات کی حقیقت یک بارگی سے نہیں اُتر سکتی،بلکہ یہ ایک ترتیب وار اور مسلسل عمل ہے۔ اس طرح سے جس وقت بھی انسان کے سامنے عقل کے نئے دریچے کھل جائیں اور وہ جان جائے کہ اس کا وقتِ حاضر سے پہلے پیش کردہ نظریہ غلط ثابت ہورہا ہے،تو اُسے اپنی پچھلی راے سے رجوع کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرنی چاہیے۔ مسلمانوں کے اندر فکری انحطاط کی بنیادی وجہ یہی رہی ہے کہ ہر کوئی اپنی راے کو سچ ثابت کرنے پر تُلا ہوا ہے اورکوئی بھی اپنی غلطی کو غلطی مان کر رجوع نہیں کر رہا ہے، بلکہ اُلٹا ہدایات والی آیات و آثار سے گمراہی مول لی جاتی ہے۔ جیسے کہ حضرت عمر بن عبدا لعزیز ؓ منکرین تقدیر سے فرمایا کرتے تھے کہ اے قدریہ کے گروہ ! جن آیات سے صحابہ کرام ؓ تقدیر کو ثابت کیا کرتے تھے تم انھی آیات کو پیش کرکے تقدیر کا انکار کرتے ہو۔ اِس کے بالمقابل سائنس کی دنیا میں اگر ایک سائنس دان کوئی ایک راے قائم کرلے اور کسی دوسرے محقق نے اُس راے کو منطق کے اعتبار اور صحیح الاسناد دلائل سے غلط ثابت کیا، تو پہلے حضرت نے اپنی راے سے (اگر حضرت زندہ نہ رہے تو اُس کے شاگردوں نے ) رجوع کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کیا۔ اس معاملے میں مسلمانوں کے اکابرین بڑے ہی دریا دِل رہے ہیں۔ حضرت عمرؓ کا اسمِ گرامی اس حوالے سے بڑے ذوق و شوق سے لیا جاسکتا ہے۔چاہے وہ تجسس کرنے کے معاملے میں آپ ؓ کا اپنے طرزِ عمل سے رجوع کرنا ہو یا نبی اکرمؐ کے رحلت کے وقت حضرت ابوبکرؓ کی بات مان کر خاموشی اختیار کرنی ہو، یا حضرت حسان بن ثابت ؓ کا مسجد نبویؐ کے باہر نعتیہ اشعار پڑھنے پر غصہ ظاہر کرنے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت دلیل سننے کے بعد اجازت باقی رکھنا ہو۔(بخاری، مسلم ، ترمذی، مکارم الاخلاق)
یاد رہے یہ وہ عمر ؓ ہیں جو اپنے جلال اور شان و شوکت میںاپنی مثال آپ تھے۔اسی طرح سے باقی صحابہؓ و قرونِ اولیٰ کے اکابرین ؒ کی بھی یہی روش رہی ہے کہ حق بات کو پانے کے بعد اپنی مخالف راے سے فی الفور رجوع کرنا، جن کی کئی ایک مثالیں احادیث کی کتابوں میں موجود ہیں۔ حتیٰ کہ علمی و عملی لحاظ سے گراں قدر خدمات دنیاے انسانیت کے حق میں انجام دینے کے بعد بھی اِن حق گو اللہ کے بندوں نے آخر میں یہ کہا کہ ہماری ذاتی راے کے مقابلے میں اگر آپ کو کوئی بھی بات کتاب و سنت کے خلاف معلوم ہو تو ہماری راے کو دیوار پر دے مارنا۔ خیال رہے کہ یہ کوئی اُن کا چیلنج نہیں تھا کہ ہماری بات کبھی غلط نہیں ہو سکتی بلکہ یہ اُن کی اپنی آخرت کی فکرتھی۔ اسی لیے پوری نیک نیتی کے ساتھ اپنی غیرمعصومیت کا اعتراف کرتے ہوئے حق تلاش کرنے کی راہوں کے دروازے اہلِ علم کے لیے ہمیشہ کھلے چھوڑ دینا اُن کو مطلوب تھااور یہی اِن عظیم انسانوں کے حق گو ہونے کی واضح دلیل ہے۔
قرآن پاک کا مرکزی موضوع جیسا کہ انسان ہی ہے، وہ انسان سے براہِ راست یہ مطالبہ نہیں کرتا کہ تم میری بات مان لو، بلکہ اس سے اسی کی فہمایش کے مطابق اُن باتوں کی طرف توجہ دلاتا ہے جو کہ وہ پہلے ہی سے جانتا ہو۔ توجہ دلانے کے بعد وہ اُن باتوں کے متعلق اُس سے سوالات پوچھتا ہے۔ سوالات ایسے ہوتے ہیں جو انسان کی عقل کو اپیل کرتے ہیں۔ انسان چاہے جواب دے یا نہ دے لیکن اس کی عقل کی سطح کے مطابق انسان خود ہی جوابات اخذ کرلیتا ہے۔ اُن اخذ کردہ باتوں سے وہ اس سے بڑے شفیقانہ انداز میں اپنی اصل بات کی طرف توجہ دلاتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلانِ نبوت کے بعد تیرہ سال مکہ میں قیام کیا۔ اس دوران آپ ؐ نے دین کے بنیادی عقائد کو سمجھانے کے حوالے سے جو طرزِ استدلال اختیار کیا اور جس کو قرآن نے عمومی طور پرمکی سورتوں میں بیان کیا، وہ یہی تھا کہ انسانی عقل کے دریچوں کو پہلے ہی سے اخذ کردہ علم سے کھول دیا جائے۔
مثال کے طور پر ایک جگہ فرمایا کہ:’’اچھا ، تو کیا انھوں نے کبھی اپنے اوپر آسمان کی طرف نہیں دیکھا؟ کس طرح ہم نے اسے بنایا اور آراستہ کیا، اور اس میں کہیں کوئی رخنہ نہیں ہے۔ اور زمین کو ہم نے بچھایا اور اس میںپہاڑ جمائے اور اُس کے اندر ہر طرح کی خوش منظر نباتات اُگادیں۔ یہ ساری چیزیںآنکھیں کھولنے والی اور سبق دینے والی ہیں ہر اُس بندے کے لیے جو حق کی طرف رجوع کرنے والا ہو‘‘(قٓ ۵۰: ۸)۔ سورۂ عنکبوت میں اس چیز کو بالکل ہی واضح انداز میں بیان کیا گیاہے۔ وہاں پر حق سے منہ موڑنے اور دہرا معیار اختیار کرنے والوں کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ:’’ اچھا تو ـجب یہ لوگ کشتی پر سوار ہوتے ہیں تو اپنے ایمان و یقین کو اللہ کے لیے خالص کرتے ہوئے ،اس سے دعا مانگتے ہیں۔ پھر جب وہ انھیں بہ صحت و سلامت خشکی پر پہنچاتا ہے تو یکایک یہ لوگ شرک کرنے لگتے ہیں‘‘( العنکبوت۲۹: ۱۰۴)۔ کبھی وہ انسان کو تواریخ کی طرف نظر دوڑانے کے لیے کہتا ہے، کہ شاید وہ حق کی طرف رجوع کرے۔ کبھی وہ زمان و مکان کی گواہی پیش کرتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک جگہ فرمایا کہ:’ ’اے نبیؐ، اگر یہ لوگ تمھیں جھٹلاتے ہیں، تو ان سے پہلے قومِ نوحؑ اور عادؑ اور ثمودؑ اور قومِ ابراہیم ؑ اور قومِ لوطؑ اور اہلِ مدین بھی جھٹلا چکے ہیں اور موسٰیکی قوم بھی جھٹلا چکی ہے۔ ان سب منکرین کو ہم نے پہلے مہلت دی، پھر پکڑ لیا‘‘ ( الحج ۲۲: ۴۴)۔ ایک اور جگہ فرمایا کہ:’ ’قسم ہے زمانے کی (یعنی زمانہ گواہ ہے )، کہ انسان درحقیقت بڑے خسارے میں ہے ، سواے اُن لوگوں کے جو ایمان لے آئے اور نیک اعمال کرتے رہے اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کرتے رہے‘‘۔(العصر۱۰۳:۱-۳)
قرآن پاک کے مطالعے کا یہ پہلا ہی اصول ہے کہ انسان اپنے ذہن کی تمام پراگندگی کو دُور کر کے آئے، کھلے ذہن کے ساتھ کسی پیشگی مفروضے (Pre-conceived Assumptions) کے بغیر اس نسخے کو ہاتھ لگائے۔ اس طرح سے انسان کو ایک مثبت سوچ (Positive Thinking) کے ساتھ قرآن کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ یہ اصول نہ صرف قرآن کے ساتھ وابستہ ہے بلکہ علم کے باقی تما م ذخائر کی تہہ تک جانے میں بھی کارگر ثابت ہوا ہے۔ انسان کے علم حاصل کرنے کی پیاس جب تک نہ بجھے ،اُس سے کلام جاری رکھنا چاہیے۔ لیکن اگر انسان اپنی عقل کے دریچے خود ہی بند کردے یا اپنے موقف کو لے کر کٹ حجتی سے کام لے، اس سے پھر مزید بات کرنا آسمان کی طرف منہ کر کے تھوک دینے کے مترادف ہے۔انھی جیسے انسانوںکے متعلق فرمایا گیا کہ:’’یہ لوگ بہرے ہیں ، گونگے ہیں ، اندھے ہیں، یہ اب پلٹنے والے نہیں ہیں‘‘ (البقرہ۲: ۱۸)۔ اس کے بعد کس انسان کو یہ اختیارہے کہ جبر کرکے ایسے لوگوں کو حق کی طرف مائل کرے، کیوں کہ فرمایا گیا کہ: ’’اچھا تو اے نبیؐ ، نصیحت کیے جائو ، تم بس نصیحت ہی کرنے والے ہو، کچھ ان پر جبر کرنے والے نہیں ہو‘‘(الغاشیہ ۸۸:۲۲- ۲۱)۔ ایسے انسان فطرت کے قوانین کا عذاب خود ہی چکھتے ہیں اور وقت انھیں جھوٹا ثابت کرنے میں کوئی تشنگی نہیں رکھتا۔
یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ قرآن پاک کے کلمات سے بڑھ کر کوئی چیز سچ نہیں۔ اِس کتاب کے طرزِ بیان کی اس دنیا میں اور کوئی نظیر نہیں۔ صدق و سچائی کا یہ منبع ہے۔ لیکن انسان کے ساتھ کلام کرنے میں اِس کتاب کا انداز انسانی ہی ہے، جس کی رُو سے یہ انسانی عقل کو اپنا نقطۂ نظر پیش کرنے کا بھر پورموقع فراہم کرتی ہے اور آخر میں جس چیز کی طرف رُخ کر کے یہ کتاب اتمامِ حجت کرتی ہے ، وہ یہ ہے کہ اگر انسان کے پاس اس کتاب کے پیش کردہ دلائل کے مقابلے میں کوئی اور دلیل ہو تو اسے پیش کیا جائے۔ چنانچہ فرمایا گیا کہ:’ ’اپنی دلیل پیش کرو، اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو‘‘۔ (البقرہ ۲: ۱۱۱، الاحقاف۴۶:۴)
دھونس، دبائو ، زور و زبردستی، کٹ حجتی یا جذبات کی بنیادوں پر لائی گئی تبدیلی کبھی دیر پا نہیں ہوتی۔ایسی تدبیریں سماج میں نفرت و عداوتوں کے ماحول کو پنپنے کے سوا کچھ فراہم نہیں کرتیں۔ طاقت کی بنیاد پر لوگوں کو کچھ دیر کے لیے چپ کروایا جاسکتا ہے، لیکن ایسے سماج میں خروج و بدامنی کے بیج مو جود رہتے ہیں اور جو کبھی بھی موافق ماحول پا کر سر نکال سکتے ہیں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس عظیم انقلاب کو برپا کیا، اُس میں سیاسی و معاشی حکمت عملی کے ساتھ ساتھ علمی مواد (Intellectual Appeal) بھی بدرجہ اُتم موجود تھا۔گو کہ اسلام ہی لوگوںکی اصل کامیابی کا واحد ضامن ہے، لیکن باوجوداس کے آپؐ نے اسلامی انقلاب کو لوگوں پر نہیں تھوپا۔ لوگوں کو پہلے اس سطح پر پہنچانا کہ وہ سمجھ سکیں کہ حق کیا ہے اور باطل کیا، اسلام اُن سے کیا مطالبہ کر رہا ہے اور کیوں کر رہا ہے، اصل کامیابی کیا ہے اور دنیا کا لہو و لہب ہونا اپنے اندر کیا معنٰی رکھتا ہے، حسنات اور سیأت کے مابین کیوں کر اتنا بڑا فرق ہے___اُس کے بعد ہی اسلامی انقلاب کی تیاری کرنی ہوگی، بلکہ ایسی تیاری کرنے کے بعد لوگ بذاتِ خود اسلام کی ترویج و تلقین کی دعوت اپنے آپ دینا شروع کریں گے۔ یہ ایسی ہی بات ہے کہ کسی بچے یا کسی بدمست انسان کے ہاتھ پیسوں کی ایک تھیلی تھما دی جائے اور اس سے کہا جائے کہ جا ! خوب ترقی کرو۔ لیکن کیا اس سے وہ بچہ ترقی کرے گا جسے پیسوں کی تھیلی کیا، ایک روپیہ کی اہمیت کا بھی ادراک نہیں ہے۔ لوگوں کو اس طرح سے ترقی کی طرف بلانے کا مقصد سماج میں بدامنی و انتشار پیدا کرنے کے مترادف ہے۔
انسان کو چاہے مادی اعتبار سے ترقی کرنی ہو یا روحانی اعتبار سے بلندیوں کو چھو نا مقصود ہو، پہلے اُس کے اندر یہ فہم و فراست پیدا کرنی ہوگی کہ ترقی کس چیز کا نام ہے اور اس کے کیا کیا فائدے ہوتے ہیں ۔ جب وہ اُس ترقی اور اُن فائدوں پر غیر متزلزل ایمان لے آئے، اُس کے بعد دنیا کی کوئی طاقت اُسے ترقی سے روک نہیں سکتی۔یہ ہے وہ نبویؐ حکمت عملی جس کا فقدان مسلمانوں کے اندر دیکھا جارہا ہے۔ آپ تو لوگوں کو دنیا و آخرت ، دونوں کی ترقی کی طرف دعوت دے رہے ہیں، لیکن لوگ اس انقلاب سے کیوں بدک رہے ہیں، جو اُن کی کامیانی کا ضامن ہے؟ یہ ایک اہم سوال ہے جس پر ملّت کا درد رکھنے والے ہرفرد کو سوچنا چاہیے۔ اس کی بنیادی وجہ صرف اور صرف یہی ہے کہ اسلام کے ماننے اور اس کے انقلاب کی خاطر محنت و کوشش کرنے والے نبویؐ منہج سے دُور چلے جارہے ہیں۔ نبویؐ منہج کا خاصا یہی ہے کہ عوام کی عقل کو اپیل کیا جائے، اُنھیں اس حد تک تیار کیاجائے کہ وہ اصل کامیابی کو سمجھ سکیں، اُن سے علمی اور احسن طریقے سے گفتگو کی جائے، اور اُن سے پیار و محبت سے پیش آیا جائے۔
دنیا کو اسلام کے سانچے کے اندر ڈھالنے والے کے نزدیک باقی تمام لوگ بچوں کی طرح ہونے چاہییں، جنھیں نہ اپنی کوئی فکر ہوتی ہے اور نہ دنیا کی۔ بچوں سے غلطیاں سر زد ہونے سے کیا کوئی ان سے نفرت کرتا ہے؟ کیا کوئی انھیں اپنے سے دُور کرتا ہے؟ نہیں ، بلکہ ہر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ یہ بچہ ہے، آہستہ آہستہ اسے زندگی کے جملہ معاملات کا ادراک ہوجائے گا۔ بالکل اسی طریقے سے بہکی ہوئی دنیا کے باسیوں کو آہستہ آہستہ اصل زندگی کا ادراک حاصل کرانا ہے۔ نفسیات میں تحقیق سے یہ واضح ہوا ہے کہ بچے کو اگر اس کی کم عمری میں ہی دھونس اور دبائو سے سمجھایا جائے، یا اس سے زور زبردستی کی جائے، یا سب کے سامنے اس کی تذلیل کی جائے، تو آگے جا کر یہی بچے جرائم کی راہ پر چل نکلتے ہیں۔اس کے بالمقابل اگر بچے کو عزت و احترام کے ساتھ بات سمجھائی جائے تو عجب نہیں کہ وہ اپنی غلطی تسلیم کرلے اور اپنی اصلاح کرلے۔ پھر وہ دن دُو ر نہیں کہ جب یہی بچہ سماج کا ایک ذمہ دار شہری بن کر اپنی خدمات بہم پہنچاتا ہوا نظر آئے گا، ان شاء اللہ۔
مقدس شہر یروشلم کے مغربی حصے میں ہولوکاسٹ میوزیم کا دورہ کرنے کے بعد کوئی شقی القلب شخص ہی ہوگا کہ جو اپنے آنسو روک پائے۔ چند برس قبل جب میں نے اس میوزیم کا دورہ کیا، تو استقبالیہ کاؤنٹر سے کانوں میں لگانے والی کمنٹری [یعنی آنکھوں دیکھا حال بتانے والی]مشین فراہم ہوگئی تو بھارتی نژاد اسرائیلی گائیڈنے مزید رہنمائی کرنے سے معذوری ظاہر کی اور مشورہ دیا کہ اس میوزیم کو انفرادی طور پر ، آزاد ذہن کے ساتھ بغیر نگرانی یا رہنمائی کے دیکھنا مناسب ہے۔ مدہم روشنیوں کے درمیان ایک پُراسرار اور سوگوار فضا دوسری عالمی جنگ اور یورپ کی شہری زندگی کی نہ صرف عکاسی کرتی ہے، بلکہ لگتا ہے کہ زمان و مکان اسی دور میں پہنچ گئے ہیں۔ آپ ہال میں جس تصویر یا کسی شے کے سامنے کھڑے ہیں اس کا اور ہال کا نمبر کمنٹری مشین میںدبائیں، تومطلوبہ زبان میں آنکھوں دیکھا حال رواں ہوجاتا ہے اور محسوس ہوتا ہے، جیسے یہ تصویر زندہ ہوگئی ہو۔کریک ڈائون، سرچ آپریشنز، ہاتھ سروں پر رکھے قطار دَر قطار مارچ کرتے ہوئے خواتین و مرد، ریل کی پٹڑیوں کی گڑگڑاہٹ، آہ و بکا کا ایک شور، پلیٹ فار م پر گوشت سے عاری ناکافی پھٹے لباس میں انسانوں پر جرمن اہلکاروں کے برستے کوڑے ، عورتوں اور بچوں کی کس مپرسی اور پھر ان کو ہانک کر گیس چیمبر کی طرف لے جانا وغیرہ وغیرہ، غرض انسان کے وحشی پن اور انسانیت کی تذلیل کے ان واقعات کا مشاہدہ کرتے ہوئے دم بخود ہونا لازمی امر ہے۔ ایک سحر سا طاری ہو جاتا ہے۔
اس طرح کے حالات کا سامنا کرنے والے مغربی ممالک خصوصاً یہودیوں کو انسانی حقوق اور انسانیت کے تئیں زیادہ حساس ہونا چاہیے تھا، مگر افسوس عذابِ الٰہی کے بعد اپنی روایتی بد عہدی اورریشہ دوانیوں کا اعادہ کرتے ہوئے یہودی یا بنی اسرائیل نے جنگ عظیم ختم ہونے کے بعد نہ صرف فلسطینیوں کے حقوق پر شب خون مار کر ان پر ظلم و ستم کا بازار گرم کر رکھا ہے، بلکہ دیگر ممالک میں اپنے ذرائع و و سائل کا استعمال کرتے ہوئے مسلمانوں کو اشتعال دلا کر گھیرنے اور مارنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے ہیں۔
وہ ظلم تو یورپ کے عیسائیوں نے کیا ، مگر بدلہ آج تک مسلمانوں سے لیا جا رہا ہے۔ اسی کی ایک کڑی کے طور پر حال ہی میں ہالینڈکے رکن پارلیمنٹ گیرٹ وائلڈر نے گستاخانہ خاکوں کے مقابلوں کا اعلان کیا تھا۔وائلڈر نے اپنے تحریری پیغام میں کہا کہ اس نے قتل کی دھمکیوں اور مسلمانوں کے ممکنہ ردعمل کے پیش نظر مقابلہ منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ دنیا بھر میں اس معاملے پر افرا تفری پھیلے۔ اس سے قبل ہالینڈکی حکومت نے گستاخانہ خاکوں کی نمایش روکنے کے لیے تحریری حکم نامہ جاری کردیا تھا۔ واضح رہے دنیا بھر کے مسلمانوں میں اس حوالے سے تشویش پائی جاتی تھی اور سخت احتجاج کیا جا رہا تھا۔ یہ کوئی واحد واقعہ نہیں ہے، کہ جس کو روکنے کی جیت کا سہرا مختلف تنظیمیں اپنے سر باندھنے کی کوششیں کر رہی ہیں۔ اور یہ نہیں لگتا کہ مسلمانوں کے سڑکوں پر اترنے یا دھمکیوں کی وجہ سے یہ مقابلے منسوخ ہوئے ہیں۔
اس سے قبل بھی ۲۰۰۵ء میں ڈنمارک کے ایک اخبار کی طرف سے شائع کردہ گستاخانہ خاکوں اور پھر ۲۰۱۵ء میں فرانسیسی رسالے چارلی ہیبڈو نے ان خاکوں کو دوبارہ شائع کیا اور مسلمانوںکی تنظیمیں سڑکوں پر آئیں، تو اس کا اُلٹا اثر سامنے آیا۔ مغرب میں اس کو اظہار راے پر حملے کی صورت دے کر مسلمانوں کے خلاف راے عامہ کو بھڑکایا گیا۔ پاکستانی حکومت کے موجودہ موقف ہی میں اس کا جواب پوشیدہ ہے ۔ تمام مسلم حکومتوں کو اپنے اختلافات پس پشت ڈال کر مغربی اور دیگر ممالک کے لیے ایک سرخ لکیر کھینچنا ہوگی۔ جس طرح کی لکیر مغرب نے ہولوکاسٹ کی نفی کرنے والوں کے خلاف کھینچی ہے۔
۱۹۸۸ء میں جب سلمان رشدی کی کتاب دی ستانک ورسز (شیطانی آیات) منظر عام پر آئی تھی ، تو ایران نے اس پر سخت موقف اختیار کیا، مگر دیگر مسلم ممالک نے اس کی تائید نہ کرکے عالمی برادری میں اس کو الگ تھلگ کردیا۔ یاد رہے آیت اللہ خمینی نے مصنف کی موت کا فتویٰ بھی جاری کیا تھا۔ کئی برسوں تک اس پر زور دار بحث چھڑی رہی۔ ابلاغیات کی پڑھائی کے دوران ، ہمارے ڈیپارٹمنٹ اور جواہر لال یونی ورسٹی میں ایران کے اس موقف اور آیت اللہ خمینی کے فتوے پر نکتہ چینی میں چند عرب طالب علم پیش پیش ہوتے تھے، جو اپنے آپ کو ’روشن خیال‘ ثابت کرنے کے زعم میں ایران اور شیعوں کو رجعت پسند تسلیم کرانے پر تلے ہوئے تھے۔ دو عشرے بعد جب افغانستان میں طالبان، عرب میں القاعدہ و داعش مغرب کے نشانے پر آئے، تو شیعوں اور ایران نے اپنے آپ کو ’روشن خیال‘ جتلا کر دہشت گردی کا سارا ملبہ سنیوںپر ڈالنے کا کام کیا، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ دہشت گردی کا نہ کوئی مذہب اور نہ کوئی فرقہ یا مسلک ہوتا ہے۔
ابھی حا ل ہی میں سعودی عرب نے کینیڈا کے ساتھ اپنے سفارتی و تجارتی تعلقات اس وجہ سے ختم کرلیے کہ کینیڈانے سعودی عرب میں انسانی حقوق کی صورت حال پر احتجاج درج کروایا تھا۔ کاش! خادم الحرمین ایسا ہی موقف ان ممالک کے خلاف بھی اپناتے جو اظہارِ آزادی کی آڑ میں ان خاکوں کی پشت پناہی کرتے ہیں۔ اگر مسلم ممالک کے حکمران آئے دن بے حسی اور بزدلی کا ثبوت فراہم نہ کرتے اور جسد ملت اپنی روح کے ساتھ موجود ہوتا، تو مغربی دنیا میں کسی کی ہمت نہ ہوتی کہ پیغمبرؐ اسلام و انسانیت کو نشانہ بناتا۔ پھر اسی طرح حالیہ عرصے میں بھارت میں بھی کئی افراد ’آزادی اظہار راے‘ کی آڑ میں پیغمبر حضرت محمدـــﷺ اور ان کے اہل خانہ کے خلاف گستاخانہ الفاظ کا استعمال کرکے مسلمانوں کو زبردستی اشتعال دلانے کا کام کرتے ہیں۔
اسی عرصے میں بھارتی حکمران بی جے پی کی انفارمیشن ٹکنالوجی سیل سے مستعفی چند رضاکاروں نے آن ریکارڈبتایا کہ : ’’ہم کو مسلمانوں کے جذبات مشتعل کرنے کی تربیت دی جاتی تھی‘‘۔ بدقسمتی سے ہندو انتہاپسندوں کی ایما پر قائم ایک اور سیل کے انچارج، پاکستان کے ایک مؤقر چینل کے بھارت میں نمایندے اور پریس کلب آف انڈیا کے سابق سیکرٹری جنرل اور ’سیفما‘ (ساؤتھ ایشین فری میڈیا ایسوسی ایشن: SAFMA)کے فعال رکن پشپندر کلوستے ہیں ، جو محمد رضوان کے نام سے آئے دن ویڈیو بنا کر پیغمبر آخر الزماں ﷺ کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے رہتے ہیں۔ چوںکہ موصوف علی گڑھ یونی ورسٹی سے فارغ التحصیل ہیں، نیزپاکستانی چینل کے نمایندے ا ور سافما کے رکن کی حیثیت سے پاکستان آنا جانا رہتا ہے، اس لیے اسلام کے بارے میں واجبی سی، مگر مسلمانوں کے بارے میں سیر حاصل معلومات رکھتے ہیں۔
جب ان کی اس شرپسندانہ روش کے خلاف کوئی آواز اٹھاتا ہے تو ہمدردی حاصل کے لیے اظہارِ آزادیِ راے کو آڑ بناکر مسلمانوں کے رویے کو نشانہ بناتے ہیں۔ وہ ناموس رسالت ؐکے حق میں مسلمانوں کے ردعمل کو ’جمہوریت کے لیے خطرناک‘ بتاتے ہیں، مگر یہی نام نہا د دانش وَر، ادیب، مصنفین اور ٹی وی اینکر اپنے ملک کے اندر آزادیِ اظہارِ راے کا گلاگھونٹے جانے کے متعدد واقعات پر چپ سادھ لیتے ہیں۔ گویا انھیں سانپ سونگھ گیا ہے۔مثال کے طور پر گذشتہ چند ماہ کے دوران پورے بھارت میں انسانی حقوق کے کارکنوں کے گھروں پر چھاپے مار کر ان کو حراست میں لیا گیا تو اس ظلم کو یہ حق بجانب ٹھیراتے ہوئے کہتے ہیں: ’’یہ ملکی سلامتی کا معاملہ ہے،کیوںکہ یہ افراد دلتوں، قبائلیوں اور مسلمانوں کے حق میں آواز بلند کر رہے تھے‘‘۔
چار سال نتیشا جین، پرینکا بورپوجاری اور ستین باردولائی کو جب چھتیس گڑھ (دانتے واڑہ) میں گرفتار کیا گیا تو حریت فکر کے ان گرووں میں سے کسی کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔ یاد رہے کہ یہ صحافی قبائلیوں پر ہونے والے مظالم اور نکسلایٹ{ FR 644 } اور نکسل مخالف کارروائیوں کا جائزہ لینے گئے تھے۔ اظہارِ راے کی آزادی کے یہ علَم بردار اس وقت بھی خاموش رہے، جب ۲۰۱۰ء میں امریکی دانش ور پروفیسر رچرڈ شاپیرو کو بھارتی حکومت نے کوئی وجہ بتائے بغیر ویزا دینے سے انکار کردیا۔۲۰۱۰ء میں ہی جب مشہور براڈکاسٹر ڈیوڈ براسمیان اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کے سلسلے میں بھارت پہنچے تو حکومت نے انھیں نئی دہلی کے ہوائی اڈے سے ہی واپس لوٹا دیا۔بھارتی زیرانتظام جموں و کشمیر جانے کے لیے تو اب بھارتی وزارت خارجہ نے غیر ملکی نامہ نگاروں کے داخلے پر ہی پابندی عائد کر دی ہے۔
حقوقِ انسانی کے مشہور بھارتی کارکن گوتم نولکھا، جن کے گھر پر یلغار کرکے ان کو حراست میں لیا گیا ، اس سے قبل وہ ۲۰۱۱ء میں بھی عتاب کا نشانہ بنے تھے۔ جب وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ چھٹیاں منانے گلمرگ جانا چاہ رہے تھے تو سری نگر ہوائی اڈے پر انھیں رات بھر حراست میں رکھنے کے بعد دہلی لوٹنے کے لیے مجبور کردیا گیا۔ ۲۰۱۵ء میں بھارت میں تامل زبان کے ناول نگار رپرومل موروگن کے ناول پر پابندی لگادی گئی۔ ان کے ناول کے انگریزی ترجمے پر اس وجہ سے پابندی لگادی گئی ہے کہ اس میں موروگن نے ہندو مذہب کی قدیم رسم ’نیوگ‘ پر نکتہ چینی کی ہے۔’نیوگ رسم‘ کے مطابق کوئی بے اولاد عورت، بچے کی طلب کو پورا کرنے کے لیے کسی غیر مرد یا پنڈت سے جنسی تعلقات قائم کرتی تھی اوراس قبیح رسم کو قدیم بھارتی معاشرے میں قبولیت حاصل تھی۔موروگن نے اس ناول میں ذات پات پر مبنی طبقاتی کش مکش اور ظلم اور معاشرے کی برائیوں پر نکتہ چینی کی ہے، جس سے ایک خاندان بکھر جاتا ہے اور ان کی اَزدواجی زندگی تباہ ہوجاتی ہے۔ ناول نگار موروگن پر اتنی نکتہ چینی ہوئی کہ ان سے نہ صرف آیندہ قلم نہ اْٹھانے کی قسم لی، بلکہ ناول کے ناشرین کو اس کی تما م کتابیں جلانے کے لیے کہا گیا۔
اظہار راے کی آزادی کا سب سے بڑا علَم بردار یورپ بھی اس معاملے میں پیچھے نہیں ہے، اور اس کی سب سے واضح مثال ہولوکاسٹ ہے۔ یہودیوں کے خلاف کوئی بات لکھنا یا ان کی مخالفت کرنا یا ہولوکاسٹ کو مفروضہ قرار دیناانتہائی سنگین جرم سمجھا جاتا ہے۔ یورپی یونین نے تو اپنے رکن ملکوں کے لیے باضابطہ ایک ہدایت نامہ جاری کیا ہے کہ: ’ہولوکاسٹ کو غلط قرار دینے والے ادیبوں یا مصنّفین کو سخت سے سخت سزا دی جائے ۔ جس میں ایک سے تین سال قید بامشقت کی سزا بھی شامل ہے‘۔ ۲۰۰۳ء میں اس حکم نامے میں ایک اضافی پروٹوکول شامل کیا گیا، جس میں ہولوکاسٹ کے خلاف انٹرنیٹ پربھی کچھ لکھنا قابل گردن زدنی جرم قرار پایا ہے۔ جن ملکوں میں ہولوکاسٹ کے خلاف کچھ بھی لکھنا انتہائی سنگین جرم سمجھا جاتا ہے ان میں آسٹریا، ہنگری، رومانیہ اور جرمنی شامل ہیں۔
حالاںکہ المیہ یہ ہے کہ یہی ممالک یہودیوں کے خلاف کارروائیوں میں آگے آگے رہے تھے۔۱۹۹۸ء سے لے کر ۲۰۱۵ء یعنی ۱۷ برسوں میں تقریباً ۱۸؍ادیبوں اور مصنّفین کو اظہارِ راے کی آزادی کے علَم برداروں ہی کے عتاب کا شکار ہونا پڑا ہے۔ اس کی ایک فہرست یہاں دی جارہی ہے: lجین میری لی پین، فرانس/ جرمنی، جرمانہ، فروری۱۹۹۸ء lراجر گراوڈی، فرانس، ۲لاکھ ۴۰ہزار فرانک جرمانہ، جولائی ۱۹۹۸ء lیورگن گراف، سوئٹزرلینڈ ،۱۵ ماہ قید، جولائی۱۹۹۸ء lگیرہارڈ فوسٹر، سوئٹزرلینڈ، بارہ ماہ قید ،مئی ۱۹۹۹ء lجین پلانٹین، فرانس، چھے ماہ قید، جرمانہ، اپریل ۲۰۰۰ء lگیسٹن ارمانڈ، سوئٹزر لینڈ، ایک سال قید، فروری ۲۰۰۶ء lڈیوڈ ارونگ، آسٹریا، ایک سال قید، مارچ ۲۰۰۶ء lجرمار روڈولف، جرمنی، ڈھائی سال قید، اکتوبر ۲۰۰۶ء lرابرٹ فائریسن، فرانس، ۷۵۰۰ یورو جرمانہ، تین ماہ نظربند، فروری ۲۰۰۷ء lارنسٹ زیونڈل، جرمنی، پانچ سال قید، جنوری ۲۰۰۸ء lوولف گینگ فرولچ، آسٹریا ،چھے سال قید، جنوری ۲۰۰۸ء lسلویا اسٹالس، جرمنی، ساڑھے تین سال قید، مارچ ۲۰۰۹ء lہوسٹ مہلر، جرمنی، پانچ سال قید، اکتوبر ۲۰۰۹ء lڈیرک زمرمین، جرمنی، نو ماہ قید، اکتوبر ۲۰۰۹ء lرچرڈ ولیمسن، جرمنی، ۱۲ ہزار یورو جرمانہ، جنوری ۲۰۱۳ء lجیورگے ناگے، ہنگری، ۱۸ماہ قید، فروری۲۰۱۵ء lوینسنٹ رینورڈ، فرانس، دو سال قید، نومبر ۲۰۱۵ء lارسولا ہینر بیک جرمنی، دس ماہ قید۔
سب سے اوّل میڈیا کی آزادی کے حدود کا تعین کرنالازمی ا مر ہے۔صحافت کومحض اسلام کی تضحیک سے یامسلم مخالف جنون کو مزید ہوا دینے کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی سطح پر بقاے باہم ، کشادہ ذہنی اور مذہبی رواداری اور ایک دوسرے کے تئیں احترام کے جذبے کو فروغ دیا جائے۔ تاہم، اس کے ساتھ بڑی ذمہ داری خود مسلمانوں پر عائد ہوتی ہے، جنھوں نے اسلام کے سماجی، معاشی، نیز افکار و نظریات کے انقلاب کو عام کرنے کے بجاے اس کو مسلکوں کے کوزے میں بند کرکے رکھ دیا ہے۔ مزید یہ کہ ابلاغ واشاعت کے ذرائع کا بہترین استعمال کرنے کے بجاے اپنے آپ کو ایک خول میں بندکیا ہوا ہے۔
ماؤپسند نکسل کمیونسٹ دانش ور کوبڈ گاندھی،دہلی کی تہاڑ جیل میں پھانسی کی سزا پا چکے۔ کشمیری نوجوان افضل گورو کے ساتھ کئی ماہ سیل میں قید رہے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ: ’افضل کے ساتھ گفتگو کے دورا ن پتا چلا کہ کمیونزم کے سماجی انصاف و برابری کا سبق تو اسلام ۱۴۰۰سال قبل سنا چکا ہے‘‘۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلام کو تفرقوں اور علاقائی تنگ گلیوں سے باہر نکال کر اپنے کردار و اعمال سے ثابت کریں کہ اسلام کے افکار و نظریات ہی واقعی انسانیت کی معراج ہیں۔
بھارتی کانگریس پارٹی کے صدر راہل گاندھی نے اپنے دورۂ یورپ میں انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسٹرے ٹیجک اسٹڈیز، لندن میں بھارتی ہندو انتہاپسند تنظیم ’راشٹریہ سویم سیوک سنگھ‘ (آرایس ایس) کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا: ’’آر ایس ایس ہندستان کا نیچر بدلنا چاہتی ہے۔ _ وہ ملک پر ایک مخصوص نظریہ تھوپنے کی خواہاں ہے۔ _ وہ نظریہ ایسا ہی ہے جیسا عرب دنیا میں اخوان المسلمون کا نظریہ ہے _‘‘۔
۱- عصرِحاضر کے ہندستان میں جن لوگوں نے ہندو مذہب اور ہندو تہذیب کے احیا کی کوششیں کی ہیں، ان میں راجا رام موہن رائے ، سوامی دیانند سرسوتی ، ساورکر ، لالہ لاجپت رائے، سوامی شردھانند اور مدن موہن مالویہ جیسے انتہاپسندانہ اور نسل پرستانہ سوچ کے حاملین خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ _ ان افراد نے مختلف تنظیمیں قائم کیں اور ان کے تحت اپنی سرگرمیاں انجام دیں ۔ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) نامی تنظیم بھی ہندو احیا پرستی کی عَلَم بردار ہے۔ _ اس کی تاسیس ۱۹۲۵ء میں ہیڈگِوار نے کی تھی۔ _ اس کے دوسرے سرچالک گول والکر تھے۔ _ انھوں نے۱۹۴۰ء سے ۱۹۷۳ـء تک اس کی سربراہی کی اور اپنی تحریروں کے ذریعے اس کی فکری بنیادیں استوار کیں۔ ان کی کتب: We or our Nationhood Defined اور Bunch of Thoughts میں وہ افکار تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں، جن پر بعد میں آر ایس ایس کی نظریاتی بنیادیں استوار کی گئیں _۔
۲- آر ایس ایس کا نظریۂ قومیت یہ ہے کہ: ’’کوئی شخص محض ہندستان میں پیدا ہونے سے ہندستانی قومیت کا حصہ نہیں بن سکتا ، بلکہ قومیت کے عناصر ترکیبی میں نسل ، پیدایش ، کلچر ، زبان اور جغرافیے کے ساتھ ساتھ مذہب بھی شامل ہے‘‘۔ اس کے نزدیک: ’’ملک میں ہندوؤں کے مفاد کے لیے کام کرنا فرقہ پرستی نہیں ، بلکہ قومی کام ہے _‘‘۔
۳-آر ایس ایس کے نزدیک: ’’ہندستان کی اکثریت ہندوؤں کی ہے ، اس لیے اسے ہندو راشٹر ہونا چاہیے۔ _ جو لوگ ہندو قومی ریاست کے تصور سے خود کو الگ رکھتے ہیں، وہ ملک دشمن ہیں‘‘۔
۴- آر ایس ایس کا کہنا ہے کہ: ’’بھارت میں رہنے والی اقلیتوں کو اپنی تہذیبی شناخت مکمل طور پر ختم کرلینی چاہیے اور خود کو اکثریتی فرقے کے کلچر میں ضم کردینا چاہیے ‘‘۔
۵-آر ایس ایس، ہندو راشٹر [ہندو قوم]کی تعمیر ’منو سمرتی‘ [منو قوانین]کی بنیاد پر کرنا چاہتی ہے، _ جس کے تحت انسانی معاشرے کو چار طبقات میں تقسیم کیا گیا ہے۔ یہ تصوّر آج خود ہندوئوں کے بڑے طبقے کے نزدیک قابلِ قبول نہیں ہے۔ اس لیے اس سے توجہ ہٹانے کے لیے اس انتہا پسند تنظیم نے اپنی آئیڈیالوجی کی بنیاد مسلم دشمنی پر رکھی ہے ۔ اس کے نزدیک: ’’مسلمان بیرونی حملہ آور ہیں ، جنھوں نے ملک کو لوٹا ہے اور لالچ اور جبر کے ذریعے یہاں کی آبادی کے ایک حصے کو مسلمان بنایا ہے۔ اس لیے ان کی 'شدھی اور 'گھر واپسی کرانی چاہیے‘‘۔ _ وہ کہتی ہے کہ: ’’مسلمانوں کے لیے یہاں دو ہی راستے ہیں کہ یا تو خود کو ہندو تہذیب میں ضم کرلیں ، یا پھر اکثریتی ہندو طبقے کے رحم و کرم پر زندہ رہیں‘‘۔
۶-آر ایس ایس، جرمنی میں ہٹلر کے ہاتھوں یہودیوں کے قتلِ عام کو تحسین کی نظر سے دیکھتی اور کہتی ہے کہ اس جرمن نسل پرستی میں بھارتی ہندوئوں کے لیے بڑی رہ نمائی ہے _۔
۷- اگر کوئی شخص آر ایس ایس کا موازنہ اخوان المسلمون سے کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اخوان کے بارے میں کچھ نہیں جانتا اور اخوان کے افکار و نظریات ، اس کی سرگرمیوں اور تاریخ سے اسے ادنیٰ سی بھی واقفیت نہیں ہے _۔
۸- اخوان المسلمون کی تاسیس ۱۹۲۸ء میں مصر میں ہوئی۔ _ اس زمانے میں عرب قومیت کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا ۔ فرعونی تہذیب کے احیا کی باتیں ہو رہی تھیں ، آزادی نسواں کے نام پر اباحیت و عریانیت کو ہوا دی جا رہی تھی۔ اس فضا میں امام حسن البنا نے اصلاحِ معاشرہ کی جدوجہد کی اور مغربی تہذیب کے بجاے اسلامی تہذیب کی بالادستی کی دعوت دی _۔
۹- اخوان کی تحریک ۱۹۳۹ء تک خاموش اصلاحی جدوجہد تک محدود رہی اور اس کی دعوت کو خوب فروغ ہوا۔ لیکن دوسرے مرحلے میں جب انھوں نے سیاسی میدان میں قدم رکھا اور انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا، تب اس کی بے پناہ مقبولیت کی وجہ سے وہ برطانوی سامراج کی کٹھ پتلی مصری حکومت کی نظر میں کھٹکنے لگی۔ _۱۹۴۸ء میں اخوان نے جنگِ فلسطین میں حصہ لیا اور خوب دادِ شجاعت دی تو عالمی سطح پر باطل کے ایوانوں میں زلزلہ آگیا۔ _ انگریزوں نے ان کی سرکوبی کے لیے مصری حکومت پر دباؤ ڈالا _۔ تنظیم پر پابندی عائد کردی گئی اور اس کے ارکان کو داخلِ زنداں کردیا گیا ۔ ۱۲فروری ۱۹۴۹ء کو امام حسن البنا کو قاہرہ میں شہید کردیا گیا۔۱۹۵۲ء میں مصر کے فوجی آمر جمال عبدالناصر نے اپنے اُوپر قاتلانہ حملے کا الزام اخوان پر ڈال کر ان کے خلاف داروگیر کی زبردست مہم چھیڑ دی۔ ۱۹۵۴ء میں ان کے چھے رہ نماؤں کو پھانسی دے دی گئی ، جن میں سے ایک جسٹس عبدالقادر عودہ تھے۔ _ پھر ۱۹۶۶ء میں اس کے چار رہ نماؤں کو تختۂ دار پر چڑھایا گیا ، جن میں سے ایک مفسرِقرآن اور عربی کے منفرد ادیب سیّد قطب شہید بھی تھے۔ پھر مختلف مواقع پر اخوان کو خوب مشقِ ستم بنایا گیا۔اب بھی چند سال سے وہ سخت آزمایش میں مبتلا ہیں۔
۱۰- اخوان کو آر ایس ایس جیسی تنگ نظر، خونی فرقہ پرست اور دہشت گرد تنظیم سے تشبیہ دینا بڑی نادانی کی بات ہے۔ _ اخوان نے قومیت کے مروّجہ نظریے کے برعکس عالمی اخوت کا تصور پیش کیا _۔ انھوں نے حکومتوں سے اصلاح کا مطالبہ کیا اور اسلامی نظام قائم کرنے کی بات کی، لیکن ملک کے دیگر مذہبی یا اقلیتی گروہوں کے بارے میں ہرگز منافرت نہیں پھیلائی _۔
۱۱- افسوس کہ اخوان کے بارے میں عالمی سطح پر من گھڑت غلط فہمیاں پھیلائی گئیں، جھوٹے اور بے بنیاد الزامات لگائے گئے اور بے جا طور پر اسے ایک دہشت گرد تنظیم کہا گیا۔ یہ سلسلہ اب بھی برابر جاری ہے۔ _ دشمنوں سے کیا گِلہ ، افسوس کہ بعض مسلم حکومتیں، مسلم جماعتیں اور مسلم شخصیات بھی اس معاملے میں پیچھے نہیں رہیں۔
۱۲- اخوان نے کبھی طاقت ، جبر اور تشدد کا راستہ نہیں اختیار کیا اور زیرِ زمین سرگرمیاں نہیں انجام دیں ، بلکہ ہمیشہ پُر امن جدوجہد کی اور کھلے عام اپنی سرگرمیاں انجام دیں۔ اس کے باوجود ان پر الزام لگایا جاتا ہے کہ یہ خارجی اور باغی ہیں ۔
کتنی عجیب بات ہے کہ جو تنظیم خود ریاستی اور گروہی دہشت گردی کا شکار ہوئی ہو ، جس کے لاکھوں ارکان و وابستگان کو جیلوں میں ٹھونس کر بدترین مظالم کا نشانہ بنایا گیا ہو، اور وقفوں وقفوں سے جس کی لیڈرشپ کو تختۂ دار پر لٹکادیا گیا ہو ، خود اس پر دہشت گرد ہونے کا لیبل چسپاں کردیا جائے _۔
۱۳- اخوان المسلمون مصر کی تنظیم ہے۔ _ لیکن معلوم نہیں کیوں ، کچھ عرصے سے بعض بھارتی حضرات اخوان کے خلاف مہم چھیڑے ہوئے ہیں۔ _اس کے سربراہوں کو دہشت گرد قرار دیتے اور سوشل میڈیا پر ان کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا کرتے ہیں۔
۱۹۸۴ء میں مجھے بنگلہ دیش جانے کا اتفاق ہوا۔ اس وقت ڈھاکا میں اسلامی ممالک کے وزراے خارجہ کا اجلاس ہو رہا تھا،جس کی رپورٹنگ کے لیے جنگ گروپ سے مجھے اور اخبار جہاں کے اس وقت کے مدیر نثار احمد زبیری کو بھیجا گیا تھا۔ سیّد منور حسن کی نظامت اعلیٰ کے دوران میں اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کا مہتمم نشرواشاعت اور رکن رہ چکا تھا اور بعد میں جماعت اسلامی سے رکنیت کا تعلق تھا، جب کہ زبیری بھائی کا تعلق بھی ایک سرگرم تحریکی خاندان کے ساتھ تھا ۔ اس لحاظ سے نثار زبیری بھائی سے میری نظریاتی ہم آہنگی موجود تھی۔ چنانچہ ہم اس سفر میں پاکستان واپسی تک ساتھ ساتھ ہی رہے۔
کانفرنس ختم ہونے کے بعد ہم دونوں مزید ایک ہفتہ تک وہیں مقیم رہے۔ اس دوران ہم نے ڈھاکا میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کے سرکردہ رہنماؤں سے ملاقاتیں بھی کیں اور دوسرے بڑے شہر چٹا گانگ کا بھی دورہ کیا۔ جن رہنماؤں سے ہماری ملاقاتیں ہوئیں ان میں حسینہ واجد (موجودہ وزیر اعظم )،پروفیسر غلام اعظم،مطیع الرحمٰن نظامی(شہید)،مشتاق احمد خوند کر اور شفیق اعظم کے نام یاد رہ گئے ہیں۔ حسینہ واجد نے تو اپنے والد شیخ مجیب الرحمٰن کے دھان منڈی والے گھر میں مدعو بھی کیا اور اس کی پہلی منزل پر وہ جگہ بھی دکھائی جہاں ان کو اس وقت موجود خاندان کے تمام افراد کے ساتھ قتل کیا گیا تھا۔ اس وقت تک اس گھرکی ہر چیز کو اسی حالت میں برقرار رکھا گیا تھا۔ انھوں نے مجھے اور نثار زبیری کواپنے دست خط کے ساتھ اپنی تحریر کردہ ایک کتاب بھی دی جو انگریزی میں تھی اور جس میں ان کے خاندان کے بارے میں تفصیلات درج تھیں۔ہماری سب سے تفصیلی اور یادگار ملاقات پروفیسر غلام اعظم صاحب کے ساتھ ہوئی۔ یہ ملاقات اس لیے یادگار تھی کہ اس دوران جہاں مجھے پروفیسر غلام اعظم صاحب کی شخصیت کے کئی نئے گو شوں کو جاننے کا موقع ملا وہیں یہ معلومات بھی حاصل ہوئیں کہ بنگلہ دیش کے سیاسی دھارے میں غداری کے الزامات کے باوجود جماعت اسلامی کو کس طرح دوبارہ اہم مقام حاصل ہوا اور کس طرح خود پروفیسر صاحب کو وہاں کے سیاسی رہنماؤں کے یہاں احترام بلکہ سیاسی گُرو کا درجہ حاصل ہوا ۔
پروفیسر صاحب سے ہماری اس ملاقات سے قبل جماعت اسلامی بنگلہ دیش کا ایک ا جمالی تعارف اور اس کی مالی اور افرادی حا لت زار کا علم ہمیں ہو چکا تھا۔ ہمارے ڈھاکا آنے کا علم کسی طرح اسلامی جمعیت طلبہ کے ایک سابق سینیر رہنما کو ہو گیا تھا، وہ ہمارے پہنچتے ہی ہوٹل میں ہم سے ملنے آگئے تھے۔انھوں نے گفتگو میں ہمیں اختصار کے ساتھ بتا یا تھا کہ جماعت شدید مالی بحران کا شکار ہے۔جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ڈھاکا میں جماعت کے مرکز میں صرف ایک پرانی کار تھی۔پورے شہر میں پروفیسر صاحب کے سوا کسی رہنما،رکن یا کارکن کے پاس اپنا ذاتی ملکیتی گھر یا فلیٹ نہیں تھا۔سوائے چند کارکنوں کے کسی کے پاس موٹر سائیکلیں تک نہیں تھیں۔
جماعت کے مرکزی اور ضلعی تنظیمی ڈھانچے کو حالات کے مطابق تبدیل کردیا گیا تھا۔ اس کے انتخابات سالانہ اور کارکردگی کے ساتھ منسلک قرار دیے گئے تھے جس کی وجہ سے ہر سال متحرک اور باصلاحیت نوجوان قیادت اُبھر کر سامنے آتی جارہی تھی۔ اس نئی قیادت کا بڑا حصہ اسلامی جمعیت طلبہ فراہم کر رہی تھی۔اس ملک میں غدار ی کے داغ کے ساتھ کام کرنے والی جماعت اسلامی کو کام کرتے ہوئے صرف ۱۳ سال کا عرصہ ہوا تھا اور اس نے نہ صرف سیاست میں اپنی حیثیت منوا لی تھی بلکہ وہاں کی ایک بڑی سیاسی جماعت خالدہ ضیا کی بنگلہ دیش نیشنل پارٹی (بی این پی) نے اسے اپنا سیاسی حلیف بھی بنا لیا تھا۔اس کی پارلیمنٹ میں مؤثر نمایندگی بھی موجود تھی۔ جماعت نے وہاں یہ مقام کیسے حاصل کیا تھا اور اسے یہ کامیابی کیسے حاصل ہوئی تھی؟ یہ جاننا ضروری تھا۔اس کا جواب وہی شخصیت دے سکتی تھی جس کی فکر رسا نے جماعت کے پورے تنظیمی ڈھانچے کو نئے حالات کے مطابق تبدیل کر دیا تھا اور جماعت کے کارکنوں میں تبدیلی کی ایک نئی انقلابی روح پھونک دی تھی۔ یہ سحر انگیز شخصیت پروفیسر غلام اعظم صاحب کی تھی۔
پروفیسر غلام اعظم صاحب سے میری ملاقاتیں پاکستان میں بھی کئی بار اخبار نویس اور کارکن کی حیثیت سے ہو چکی تھیں اور ان سے سب سے زیادہ ملنے کا موقع ۱۹۷۱ء میں اس وقت ملا تھا، جب وہ اور اس وقت کے امیر جماعت مشرقی پاکستان مولانا عبد الرحیم جماعت کی مرکزی شوریٰ کے اجلاس میں شرکت کے لیے آئے تھے۔ اسی دوران۱۶ دسمبر کو سقوط ڈھاکا ہو گیا۔ وہ کچھ عرصہ لاہور میں رہنے کے بعد کراچی آگئے تھے۔ کراچی میں ان کا قیام جناب ابو محمد مرحوم کے نارتھ ناظم آباد اے بلاک میں نو تعمیر بنگلے میں تھا، جو کراچی جماعت کے مالیاتی امور کے ناظم بھی تھے۔ میرا وہاں اکثر آنا جانا رہتا تھا۔ اس لیے ان دونوں بزرگوں سے ملاقاتیں بھی ہو تیں بلکہ ان کی وجہ سے میں وہاں زیادہ جاتا اور ان سے استفادہ کرتا۔ اس لیے وہ اچھی طرح متعارف تھے۔
جب میں اور زبیری صاحب مغرب کے بعد ان سے ملنے ان کے جھونپڑی نما گھر کے ایک چھو ٹے سے دفتری ڈرائنگ روم میں داخل ہوئے تو وہ مجھے پہلی نظر ہی میں پہچان گئے اور انھوں نے بڑی محبت سے میرے نام ہی سے پکارا۔ زبیری بھائی اس بات پر حیران رہ گئے۔ ابھی ذکر کر چکا ہوں کہ ڈھاکا شہر میں صرف پروفیسر صاحب ہی جماعت کے وہ رہنما تھے،جن کا اپنا ذاتی گھر تھا۔ جس اسٹریٹ میں ان کا گھر واقع تھا، وہ شہر کا خوش حال علاقہ تھا اور وہاں پروفیسر صاحب کے بہن بھائیوں اور دیگر رشتہ داروں کی درجن بھر بڑی بڑی شان دارکوٹھیاں تھیں۔ لیکن پروفیسرصاحب کے گھر کی حالت کو دیکھ کر میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔ اس لیے کہ میرے اندازے کے مطابق ایک ہزار گز کے رقبے کے اس پلاٹ کے آدھے حصے میں مسجد تھی اور بقیہ پر ان کا گھر۔ اس گھر کی شان بھی ملاحظہ کریں کہ اس کی دیواریں تین تین فٹ سیمنٹ کے بلاکس کی اور بقیہ دیواریں اور چھتیں بانس کے مضبوط ڈنڈوں کے سہارے قائم تھیں۔ اسی لیے اس کو جھونپڑی نما گھر لکھا ہے۔ جس ڈرائنگ روم میں انھوں نے ہمیں خوش آمدید کہا تھا، وہ میرے کراچی میں صحافی سوسائٹی کے نئے گھر کے کچن سے بھی چھوٹا تھا۔جس کی قدرے چھوٹی میز کے سامنے رکھی کرسیاں لکڑی کے تختوں سے بنی ویسی ہی تھیں، جیسے ہمارے یہاں آزاد کشمیر یا پنجاب کے دیہاتی علاقوں کی گزرگاہوں پر بنے چھوٹے بڑے ہوٹلوں میں آپ نے دیکھی ہوں گی۔
پروفیسر صاحب نے بیٹھتے ہی یہ معذرت بھی کی کہ آپ کو ان چھوٹی چھوٹی کرسیوں پر بیٹھنا پڑ رہا ہے، حالاںکہ آپ کے یہاں تو ایسا نہیں ہے۔ میری شرمندگی کو بھانپتے ہوئے انھوں نے میری اور زبیری بھائی کی معلومات بلکہ حیرت میں مزید اضافہ کر دیا کہ: ’’اسی جگہ اور ان ہی کرسیوں پر رات گئے اکثر سیاسی مشوروں اور تعاون حاصل کرنے کی خاطر جنرل حسین محمد ارشاد، حسینہ واجد، خالدہ ضیا اور دوسرے سیاسی لیڈر آتے ہیں۔ رات کو اس لیے کہ کسی کو کانوں کان اس کی خبر نہ ہوسکے‘‘۔ اس سے اس زمانے میں پروفیسر صاحب کی قدر و منزلت اور اس وقت کی بنگلہ دیش کی جماعت اسلامی کی سیاسی سوجھ بوجھ،جدوجہد،حیثیت اور اثرورسوخ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
ہماری زیادہ تر گفتگو اسی گتھی کو سلجھانے اور اپنی اسی حیرت کو دور کرنے کے بارے میں تھی کہ: ’’آخر یہاں کی جماعت اسلامی کو غداری جیسے سنگین الزام کے دھبے دھونے،عوام میں دوبارہ پذیرائی حاصل کرنے، سیاسی دھارے میں دوسری سیاسی جماعتوں سے برابری کی حیثیت حاصل کرنے کے اقدامات اور اس کے تنظیمی ڈھانچے میں کون سی قابل عمل تبدیلیاں کرنا پڑیں جس کے اتنے اچھے نتائج حاصل ہوئے؟‘‘ ہمارے سارے سوالات اسی صورت حال اور ان کے جوابات حاصل کرنے سے متعلق تھے۔ ہماری بات چیت کا دورانیہ کم و بیش دو گھنٹے پر محیط تھا۔ پروفیسر صاحب نے ان سوالات کو سن کر جو کچھ کہا تھا اس میں سے جس قدر اب مجھے یاد ہے وہ اختصار کے ساتھ عرض کرنے کی جسارت کرتا ہوں۔
پروفیسر غلام اعظم صاحب نے تفصیلات بیان کرنا شروع کیں تو ایسے لگا جیسے ایک مفکر اور مدّبر پے در پے حادثوں اور گہرے صدموں کے بعد دریا کی سی روانی کے ساتھ دکھ بھرے انداز میں اپنی آپ بیتی بیان کررہا ہو۔ وہ گویا ہوئے اور ہم ہمہ تن گوش ہو کر سننے لگے۔
وہ کہہ رہے تھے:’’پاکستان ہمارا وطن تھا جس کو ہم نے بھار ی جانی ومالی نقصان اور معصوم مسلمان عورتوں اور بچیوں کی عصمتوں کی اَن گنت قربانیوں کے بعد پاکستان کا مطلب کیا لاالٰہ الا اللہ کے نعروں کی گونج میں حاصل کیاتھا۔ لیکن ہم نے من حیث القوم اپنے اس وعدے کو پورا نہیں کیا اور اپنے نئے ملک میں ’قرارداد مقاصد‘ کے متفقہ اسلامی اصولوں کے مطابق ایک اسلامی فلاحی ریاست کے قیام کے بجاے علاقائی، لسانی، فرقہ ورانہ اور مختلف قومیتوں کی سیاست کو فروغ دیا۔ جس کا فائدہ دشمن نے اٹھایا اور اس پاک وطن کو دو حصوں میں بانٹ دیا۔ اس ملک خداداد کو متحد رکھنے اور ٹکڑے ٹکڑے ہونے سے بچانے کے لیے جتنی قربانیاں آپ نے دیں، اس سے کچھ زیادہ ہم نے بھی دیں۔ جس سے ایک دنیا واقف ہے اور اس کا جتنا دُکھ آپ کو ہے، اس سے زیادہ ہمیں یہاں ہے۔ لیکن ایک بات جو شاید آپ کو بہت بُری لگے، لیکن آپ ہی کے سوالات کے جواب میں مجھے کہنا پڑے گی کہ پاکستان کے دولخت ہونے کا جہاں ہمیں آپ سے زیادہ دُکھ ہے وہیں جماعت اسلامی پاکستان سے ہماری علاحدگی تنظیمی طور پر ایک طرح سے Blessing in disguise، یعنی خرابی میں کچھ بہتری کا مفہوم لیے ہوئے تھی۔ مطلب یہ ہے کہ حالات کے مطابق نیا تنظیمی، تربیتی اور سیاسی ڈھانچا تشکیل دینے کا چیلنج سامنے آ گیا تھا‘‘۔
انھوں نے بتایا: ’’اب ہمارے سامنے نہ بڑے دفاتر تھے اور نہ مالی وسائل کی فکر اور نہ سہولیات کی فراہمی کی سردردی کہ جن کی وجہ سے بعض اوقات تحریکی ترجیحات ہی بدل جاتی ہیں۔ پھر رفتہ رفتہ تحریکی مناصب کی طلب کو نا اہلی سمجھنے کا تصور ختم ہوجاتا ہے۔ اور بعض مقامات پر ایسے گروہ وجود میں آجاتے ہیں جو عہدوں کے لیے نہ صرف امیدوار ہوتے ہیں، بلکہ باقاعدہ منصوبہ بندی کرتے ہیں کہ جس کے بارے میں جماعت اسلامی میں کبھی سوچا بھی نہیں جا سکتا اور نہ دستور ہی کے مطابق ایسا کرنے کا کوئی جواز ہوتا ہے۔ ہم نہایت انہماک اور حیرت کے ساتھ جماعت اسلامی کے رہنما کی زبان سے خود احتسابی کی تلخ داستان سن رہے تھے۔
غلام اعظم صاحب بیان کر رہے تھے کہ: ’’جب ملک دو لخت ہوگیا تو جہاں دنیا نے بنگلہ دیش کو ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کیا، وہیں اب یہ ہمارا وطن بھی تھا اور اسی سے ہمارا مستقبل وابستہ تھا۔ اس لیے کہ ہم اسی سر زمین میں پیدا ہوئے اور یہیں پلے بڑھے تھے۔ ہمارے اس بیانیے کو دوسری قوم پرست جماعتوں کو تسلیم کرنے میں مشکل ضرور تھی، لیکن آخر کار انھوں نے اسے تسلیم کر لیا۔ ہماری مخالفت میں بتدریج کمی آتی گئی اور ہم نے قومی سیاسی دھارے میں اپنا کردار ادا کرنا شروع کردیا۔ آہستہ آہستہ نفرتیں باہمی تعلقات میں بدلنے لگیں اور دیگر سیاسی جماعتوں سے باہمی ملاقاتیں شروع ہوگئیں جن کے بارے میں پہلے سوچنا ہی ایک بھیانک خواب تھا۔اب یہ سلسلہ اس حد تک بڑھ گیا کہ قومی لیڈر مجھ سے ملاقات اور مشوروں کے لیے رات کے وقت اسی جگہ تشریف لاتے ہیں جہاں اب آپ تشریف فرما ہیں۔
’’آپ نے جماعت اسلامی کے بکھرے اجزا کو کیسے ایک جگہ جمع کیا اور انھیں کیسے متحرک اور سرگرم کیا؟‘‘ یہ میرا اگلا سوال تھا۔ اس پر ان کے چہرے پر اطمینان کی ایک جھلک اچھی طرح دیکھی جا سکتی تھی۔
پروفیسر صاحب نے بتانا شروع کیا: ’’جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ میں تو سقوطِ ڈھاکا کے وقت پاکستان میں معلق (stuck up) ہوگیا تھا اور کچھ عرصے بعد عمرے کی ادایگی کی اور دوبئی منتقل ہو گیا تھا۔میرا تو بنگلہ دیش میں براہِ راست جماعت کے کسی فرد سے رابطہ تک نہیں تھا۔ رابطے کا واحد ذریعہ ڈھاکا سے دوبئی آنے والے افراد تھے۔ ان کے توسط سے مطیع الرحمٰن نظامی (اب شہید ) کو ہدایات اور پیغامات کا سلسلہ شروع کیا، جو میری وطن واپسی تک جاری رہا۔ سب سے پہلا کام بچے کھچے کارکنوں سے رابطہ تھا جو جلد ہی کرلیا گیا۔ اسی طرح اسلامی چھاترو شبّر کو از سرِ نو منظم کیا گیا۔ یہ دونوں کام ایک ساتھ شروع کیے گئے اور دونوں کی اجتماعی قیادت کو اللہ تعالیٰ نے ایسے دُور رس فیصلے کرنے کی توفیق بخشی کہ ان کے نتائج اب تک بہت ہی اچھے نکل رہے ہیں‘‘۔
اس کا طریق کار یہ رکھا گیا کہ پورے بنگلہ دیش کے کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں جمعیت سے وابستہ کارکنوں کی ان کے آخری سال یا امتحان سے چند (تین یا چھے) ماہ قبل فہرستیں بنائی جائیں اور ان کو مرکز میں رہنماؤں کے مقررہ پینل کے پاس بھیج دیا جائے اور وہ مختلف مواقع پر باری باری انٹرویو کرکے فیصلہ کرے کہ ان طلبہ کو تعلیمی نتیجے، صلاحیت، رجحان اور تقریری اور تحریری صلاحیتوں کے اعتبار سے سرکاری یا نجی شعبوں میں سے کس میدان میں بھیجا جائے۔ مثال کے طور پر اگر کسی میں قائدانہ صلاحیتیں ہیں تو اس کو اس کے آبائی علاقے یا شہر کی جماعت کے حوالے کیا جائے اور اس کی اسی لحاظ سے تعمیروترقی کا عمل شروع کیا جائے۔ اس کا بھی ایک طریقہ طے کیا گیا کہ اس کے علاقے یا شہر کی جماعت کے ذمہ داروں کو اس کی اطلاع کی جائے اور جب وہ منتخب طالب علم فراغت کے بعد واپس جائے تو اس کا استقبال کیا جائے، مسجد جائے تو امامت کے لیے آگے کیا جائے، عید کی نماز کی امامت اسی سے کرائی جائے اور اگر مقامی سطح پر کوئی تنازع یا دو گروہوں میں جھگڑا ہو جائے تو کہا جائے کہ اس نئے تعلیم یافتہ یا گریجوایٹ سے فیصلہ کرایا جائے، الغرض ہر ایسا کام کرایا جائے، جس سے اس کی شخصیت محلے اور علاقے میں ایک دانا لیڈر کے طور پر اُبھر کر سامنے آئے اور پھر اس کی ممکنہ ذرائع ابلاغ کے ذریعے تشہیر بھی کی جائے۔ اسی طرح اگر کوئی طالب علم بہت ذہین اور اچھے نمبروں سے کامیاب ہوا ہے تو اس کے رجحان کے مطابق اسے اعلیٰ سروسز یا پیشہ ورانہ شعبے کے مقابلے کے امتحان کے لیے منتخب کیا جائے یا شعبۂ تدریس کے لیے بھی اس کا انتخاب کیا جا سکتا ہے۔
پروفیسر غلام اعظم صاحب کہہ رہے تھے کہ: ’’ان فیصلوں اور ان پر کامیابی کے ساتھ عمل درآمد کا نتیجہ یہ ہے کہ جمعیت کے ۹۹ فی صد افراد اور کارکن نہ صرف تحریک اسلامی ہی میں شامل رہتے ہیں بلکہ اپنی پسند کے شعبوں میں جا کر اور اچھے عہدوں پر فائز ہو کر بھی اپنے کام کے ساتھ ساتھ تحریک اسلامی کا کام بھی زیادہ بہتر انداز میں انجام دیتے ہیں۔رضاے الٰہی کا حصول ہمیشہ ان کی نگاہ میں رہتا ہے‘‘۔
اس طریق کار پر عمل کے یہ ابتدائی سال تھے اور پروفیسر صاحب نے اس طرح مقابلے کے امتحانات اور دیگر شعبوں میں کامیاب ہونے والوں کے اعداد و شمار بتا کر ہم کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا تھا اور میں ان نتائج اور جماعت کی خستہ مالی حالت کے باوجود سیاست سمیت ہر شعبے میں شان دار کامیابیاں دیکھ کر گہری سوچ میں پڑ گیا تھا کہ یہ وہی جماعت اسلامی ہے جو ابھی ۱۳سال پہلے تک جماعت اسلامی پاکستان کا دوسرا بازوتھی۔
یہ ہے وہ مختصر رُوداد اس ڈیڑھ دو گھنٹے کی ملاقات کی، جو میں نے برادرم ڈاکٹر نثار زبیری کے ساتھ اب سے کوئی ۳۴سال پہلے ڈھاکا میں جماعت اسلامی کے عظیم فکری رہنما پروفیسر غلام اعظم صاحب سے کی تھی۔
برصغیر اور پاکستان میں اسلامی تحریکات کی تاریخ کو سمجھنا اس کے بغیر ممکن نہیں کہ حضرت مجدد الف ثانیؒ (شیخ احمد سرہندیؒ) کے کیے ہوئے کام اور ان کو پیش آنے والی کش مکش کا فہم حاصل کیا جائے۔ وہی جہانگیر جوبادشاہی سیاست کے تقاضوں اور مصاحبوں کی دخل اندازیوں سے ایک وقت میں حضرت مجدد سے عناد رکھتا ہے اور ان پر الزامات لگاتا اور انھیں حوالۂ زنداں کرتا ہے، بعد میں جب وہ غلط فہمیوں کے غبار سے نکل آتا ہے تو شیخ سرہندیؒ سے استفادہ بھی کرتا ہے ۔ نتیجہ یہ کہ دورِ اکبر ی کے پیدا کردہ احوال میں اصلاح کا آغاز ہوجاتا ہے ۔ یہاں تک کہ اورنگ زیب عالم گیر کا زمانہ آتا ہے اور وہ خلاف ِ اسلام تصورات ، معمولات اور قوانین وشعائر کا قلع قمع کر کے اسلامی نظام کے عملی نفاذ کی کوشش کرتا ہے۔
حضرت مجددؒ کے کام کا مطالعہ کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ انھوں نے سیاسی دائرے میں احیاے اسلام کا ایک بالکل الگ طریقہ اختیار کیا۔ اہل قوت واختیار درباریوں اور حاکموں میں سے اچھے لوگوں تک خط کتابت کے ذریعے دعوتِ حق پہنچائی اور اقامت دین کے فریضے میں حصہ لینے کے لیے ان کو اُبھارا ۔ رفض وبدعات اور ہندوانہ تہذیب کے غلبے کو ختم کرنے اور طریقِ نبوتؐ پر کاربند ہونے کی دعوت دی۔ اللہ تعالیٰ کی تائید سے یہ کوشش کامیاب ہوئی۔
اس کوشش میں سبق یہ ہے کہ کبھی اقتدار کی اصلاح کے لیے دوسرے راستوں سے سامنے آ کر مؤثر کام کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ ایسی صورت میں اہل قوت واختیار میں سے نسبتاً اچھے افراد کو رشدوہدایت کی روشنی سے بہرہ مند کرنے کی راہیں نکالنی پڑتی ہیں۔ اس خاص طریقِ تحریک کا بہترین نمونہ حضرت مجددؒ اور آپ کے مریدوں کے کام میں ملتا ہے۔ (ادارہ)
شہنشاہ جہانگیر اپنی خود نوشت تزک جہانگیری میں سنہ جلوس ۱۴ماہ خورداد۲۲ کوتحریر کرتا ہے کہ: ’’انھی دنوں مجھ سے عرض کیا گیا کہ شیخ احمد نامی ایک جعل ساز{ FR 644 } نے سرہند میں مکرو فریب کا جال بچھا کر بھولے بھالے لوگوں کو پھانس رکھا ہے۔ [اس شخص کے مقرر کردہ] یہ خلیفے، لوگوں کو فریب دینے اور معرفت کی دکان داری کرنے میں بہت پختہ ہیں۔ اُس نے اپنے مریدوں اور معتقدوں کے نام وقتاً فوقتاً جو واہیات خطوط لکھے ہیں انھیں مکـتوبات کے نام سے ایک کتاب کی شکل میں جمع کیا ہے۔ اس دفترِ بے معنی میں اس نے بہت سی ایسی بےہودہ باتیں تحریر کی ہیں جو کفر کی حد تک پہنچتی ہیں۔ ایک مکتوب میں اس نے لکھا ہے کہ مقامات سلوک طے کرتے ہوئے وہ مقام ذی النورین میں پہنچا جو نہایت عالی شان اور پاکیزہ تھا۔ وہاں سے گزر کر مقامِ فاروق اور مقامِ فاروقؓ سے گزر کر مقامِ صدیقؓ میں پہنچا۔ پھر وہاں سے گزر کر مقامِ محبوبیت میں پہنچا جو نہایت منور ودل کش تھا۔ اس مقام میں اُس پر مختلف روشنیوں اور رنگوں کے پر تو پڑتے رہے۔ گویا استغفراللہ بزعم خویش وہ خلفا کے مرتبے سے بھی بڑھ گیا اور ان سے عالی تر مقام پر فائز ہوا۔{ FR 645 } اس نے اس طرح کی اور بھی بہت سی گستاخانہ باتیں (خلفا کی شان میں ) لکھی ہیں جن کو تحریر کرنا طوالت اور خلفا کی شان میں بے ادبی کا باعث ہو گا۔ مذکورہ وجوہ کی بنا پر میں نے اُسے دربار میں طلب کیا تھا۔ حسب الطلب حاضر خدمت ہوا تو میں نے اس سے جتنے سوالات بھی کیے ان میں سے کسی ایک کا بھی کوئی معقول جواب نہیں دے سکا۔ ’بے عقل وکم فہم ‘ہونے کے علاوہ ’ مغرور‘ و’خود پسند ‘ بھی نکلا ۔ چنانچہ میں نے اس کے حالات کی اصلاح کے لیے یہی موزوں سمجھا کہ اسے کچھ دنوں کے لیے قید رکھا جائے، تا کہ اس کے مزاج کی شوریدگی اور اس کے دماغ کی آشفتگی جاتی رہے اور عوام میں جو شورش پھیلی ہوئی ہے وہ تھم جائے۔ چنانچہ اسے اَنی راے سنگھ دلن کے حوالے کیا کہ اسے قلعہ گوالیار میں قید رکھے‘‘۔{ FR 646 }
شہنشاہ جہانگیر (۱۵۶۹ء تا ۱۶۲۷ء) کی یہ اپنی تحریر بہت واضح ہے جس میں کسی ابہام کی گنجایش نہیں۔ پہلی بات تو یہ کہی گئی کہ ’’شیخ احمد نامی ایک جعل ساز نے سرہند میں مکروفریب کا جال بچھا کر بھولے بھالے لوگوں کو پھانس رکھا ہے۔ [حضرت مجدد کے مقرر کردہ خلفا] یہ خلیفے، لوگوں کو فریب دینے اور معرفت کی دکان داری کرنے میں بہت پختہ ہیں‘‘۔
جہانگیر شیخ احمد سرہندی ؒ کا تذکرہ اس سے قبل اپنی تـزک میں کہیں نہیں کرتا۔ پہلی ہی بار جب آپ کا ذکر کرتا ہے تو ’جعل ساز ‘ کہتا ہے اور مکروفریب کا جال بچھانے کا الزام عائد کرتا ہے جس میں بھولے بھالے پھنس گئے ہیں اور یہ کہ یہ خلیفے لوگوں کو فریب دینے اور معرفت کی دکان داری کرنے میںبہت پختہ ہیں۔
ان الزامات میں پہلے الزام، یعنی سرہندمیں مکروفریب کا جال بچھا کر لوگوں کو پھانسنے کی حقیقت یہ ہے کہ تزک جہانگیری ، اقبال نامہ جہانگیری اور منتخب اللباب کی تحریروں سے معلوم ہوتا ہے کہ سرہنداُس دور کا ایک اہم شہر تھا۔ اسے انتظامی ، سیاسی اور تجارتی مرکزیت حاصل تھی۔ یہاں جہا نگیر اور شاہ جہاں [۱۵۹۲ء-۱۶۶۶ء] نے متعدد بار قیام کیا اور یہاں سے گزرے اور جہانگیر تو سنہ جلوس ۱۴ ہی میں جمعرات ۱۲ دی ماہ کو، یعنی شیخ احمد سرہندی کو قلعہ گوالیار میں قید کا حکم دینے کے چھے ماہ بعد سرہند میں قیام کرتا ہے، اور سرہند میں باغات لگوانے اور عمارات سازی کے لیے خاص احکام بھی دیتا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سر ہند کو اس دور میں ایک اہم مقام حاصل تھا۔ (تزک جہانگیری، اُردو، ص ۵۸۵)
دوسرا الزام، یعنی ’’ہر شہر وقریہ میں خلیفے مقرر کرنا جو لوگوں کو فریب دینے اور معرفت کی دکان داری چلانے میں پختہ ہیں‘‘۔ اس کی حقیقت یہ ہے کہ آپ کی تحریک اتباعِ سنت ِنبویؐ تھی، جس کی ابتدا آپ نے ۱۶۰۳ء میں کی تھی۔یہ تحریک ۱۶۱۹ء تک، یعنی جس سال آپ کو دربار میں طلب اور قلعہ گوالیار میں قید کیا گیا، بہت ہی وسیع ، ہمہ گیر اور مقبول ہو چکی تھی اور اس کے اثرات ملک کے دُور دراز گوشوں تک پھیل گئے تھے اور آپ کے معتقدین ومتاثرین منظم طور پر احیاے اسلام کے لیے کام کررہے تھے۔ آپ کے مریدین ذہین ، باصلاحیت ،اہل علم ، معاملہ فہم اور سوجھ بوجھ رکھنے والے افراد تھے، جن کی نگاہیں دور رس اور فکر صائب تھی۔ اس لیے ان کی باتوں میں اثر تھا۔ لوگ ان کے علم وعمل سے متاثر ہوتے تھے۔ پھر یہ لوگ محض قول ہی کے دھنی نہ تھے بلکہ جو کچھ کہتے تھے اس پر عمل بھی کرتے تھے۔ ان کی زندگیاں کسی مفاد ،تضاد اور خود غرضی پر مبنی نہ تھیں۔ یہ اخلاص وعمل کے پیکر تھے۔ اس لیے لوگ نہ صرف ان کی باتیں سنتے تھے بلکہ عمل بھی کرتے تھے اور ان کی آواز پر لبیک بھی کہتے تھے۔
شیخ احمد سرہندیؒ (حضرت مجدد الف ثانیؒ ) سرہند ہی میں ۱۴شوال ۹۷۱ھ (۲۶جون ۱۵۶۴ء) میں پیدا ہوئے۔ اس زمانے میں شہنشاہ اکبر (۱۵۵۶ء تا ۱۶۰۵ء) ہندستان پر حکمران تھا۔ اسی کے آخری عہد ۱۵۹۹ء میں، شیخ سرہندیؒ ،حضرت خواجہ باقی باللہ ؒ کے مرید ہوتے ہیں اور اپنے پیرومرشد کے ۱۶۰۳ء میں انتقال کے بعد جہانگیر کی تخت نشینی سے دوسال قبل رُشدوہدایت، یعنی تحریک احیاے اسلام کا باقاعدہ آغاز کرتے ہیں۔ آپ کے متعلق حضرت خواجہ باقی باللہ ؒ نے کہا تھا کہ شیخ احمد ’کثیر العلم وقوی الارادہ ‘ ہے۔ چنانچہ حضرت خواجہ باقی باللہؒ کے جانشین ہوتے ہی آپ نے اتباعِ سنت نبویؐ، ترویجِ شریعت اور نفاذِ شریعت کا آغاز کیا۔
اس سلسلے میں ابتدا ہی میں شیخ احمد سرہندیؒ نے ایک رسالہ بہ عنوان اثباۃ النبوۃ{ FR 649 } لکھا جس میں دلائل کے ذریعے نبوت کی غایت ، اہمیت ، افادیت اور ہمہ گیریت کو ثابت کیا۔ اور اکبر کے نصف صدی کے دورِ حکومت میں ’عقل، فلسفہ ، مصلحت ملکی تجربہ‘ جو بطور معیار کے اختیار کر لیا گیا تھا اس کی خامیوں اور کمزوریوں کی نشان دہی کی۔ دوسرے الحاد وبے دینی کی سرپرستی وفروغ سے ایک ایسا گروہ پیدا ہو گیا تھا جو اکابر صحابہ کرامؓ کے بارے میں غلط فہمیوں کا شکار تھا۔ آپؒ نے فکرکی کجی کو دُور کرنے اور ذہن وفکر کی اصلاح کے لیے رسالہ ردِ ر وافض { FR 650 } تحریر کیا جس میں خلفاے راشدینؓ کی پاکیزگی اور عظمت کو قرآن وسنتِ رسولؐ، احادیث اور عقل کی روشنی میں پیش کیا۔ خلفاے راشدینؓ اور دیگر صحابہ کرامؓ کے بارے میں جو گمراہ کن باتیں مشہور عام ہیں، ایسی غلط باتوں کی تردید کی۔ اس کے علاوہ جہانگیر کے عہد کے اعلیٰ مناصب پر فائز متعدد امراے مملکت کو مکتوبات لکھے جن کی معرفت نہ صرف ان کے ذہن وفکر کی تطہیر کی، بلکہ غلط تصورات ، عقائد اور باطل نظریات سے آگاہ کرکے انھیں ترویجِ شریعت اور نفاذ شریعت کی ترغیب دی۔ چنانچہ شہنشاہ جہانگیر کی تخت نشینی اور حکومت کے حصول میں شیخ فرید بخاری کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔
شیخ فرید بخاری، حضرت خواجہ باقی باللہؒ کے مرید اور اس حیثیت سے شیخ احمد سرہندیؒ (حضرت مجدد الف ثانیؒ ) کے پیر بھائی اور اکبر کے آخری دور حکومت میں مملکت کے اہم عہدے دار تھے۔ شیخ احمد سرہندی ؒ نے اس زمانے میں جب اکبر کا آخری دورِحکومت تھا اور اس کے بعد جانشینی کا مسئلہ در پیش تھا اور حکومت کے دعوے دار بھی موجود اور کوشاں تھے، تو آپ نے شیخ فرید بخاری کے نام یکے بعد دیگرے ۱۲ خطوط مسلسل لکھے ہیں جو مکتوبات امام ربانی کی جلد اوّل میں ۴۳تا ۵۴ مسلسل ہیں، اور شیخ فرید بخاری جہانگیر کو تخت نشین کرانے میں اہم ترین کردار ادا کرتے ہیں۔ جہانگیر ان کی اس خدمت کو تسلیم کرتے ہوئے انھیں انعامات واکرامات کے علاوہ ’صاحب السیف والقلم‘ کا خطاب دیتا ہے۔(تزک جہانگیری، ص ۴۵)
جہانگیر کے مقابلے میں خسرو (اکبر کا پوتا اور جہانگیر کا بیٹا) جب دوبارہ سر اُٹھاتا ہے تو شیخ فرید بخاری ہی تندی و تیزی سے خسرو کا تعاقب کرتے ہیں اور دوبارہ شکست دے کر اس کو ناکام کرتے ہیں اور جب جہانگیر کو اس کامیابی سے مطلع کرتے ہیں، تو جہانگیر بہت خوش ہوتا ہے اور قاصد کو ’خوش خبر‘ کا خطاب دیتا ہے اور انھیں ’مرتضیٰ خاں‘ کا خطاب اور دیرو وال کا علاقہ بطور جاگیر دیتا ہے۔(تزک جہانگیری، ص ۹۵)
شیخ فرید کے علاوہ جہانگیر کے عہد کے متعدد امراے مملکت، مثلاً عبدالرحیم خان خاناں، مرزا حسام الدین ، خاںجہاں خاں، جباری ، مرزا فتح اللہ ، حکیم مرزا دواب ، قلیج خاں، بہادر خاں صدر جہاں، خواجہ جہاں، لالہ بیگ ، خان اعظم وغیرہ امراے مملکت کو بھی خطوط لکھے ہیں، جن کی تعداد کم وبیش ایک سو (۱۰۰) ہوتی ہے۔ یہ تمام خطوط جلد اول ہی میں موجود ہیں۔ ان تمام مکتوبات کا ایک ہی مرکزی موضوع تھاکہ ’’وہ اپنے عہد ے ومنصب سے فائدہ اُٹھا کر شریعت کو نافذ کریں‘‘۔ اس لیے جہانگیر کا یہ الزام کہ شیخ احمد ایک ’جعل ساز ‘ ہے جس نے مکروفریب کا جال بچھا رکھا ہے، اور یہ خلیفے لوگ فریب دینے اور معرفت کی دکان داری کرنے میں بہت پختہ ہیں، سراسر ایک لغو الزام واتہام ہے جس کی کوئی تاریخی حقیقت اور صداقت نہیں ہے اور خود جہانگیر نے بھی اپنے اس دعوے یا الزام میں کوئی واقعہ تحریر نہیں کیا ہے اور نہ کوئی ثبوت ہی پیش کیا ہے۔
دوسرے یہ لکھنا کہ ’’اس نے اپنے مریدوں اور معتقدوں کے نام وقتاً فوقتاً جو واہیات خطوط لکھے ہیں انھیں مکـتوبات کے نام سے ایک کتاب کی شکل میں جمع کیا ہے وغیرہ وغیرہ‘‘۔ جہانگیر کا یہ اشارہ شیخ احمد سرہندی کے مکتوبات کے اس مجموعے کی طرف ہے جو ۱۶۱۶ء بہ مطابق ۱۰۲۵ھ (دربار میں طلبی اور قلعہ گوالیار میں قید سے تین سال قبل) ایک کتابی شکل میں شائع ہوا تھا۔ اس مجموعے میں ۳۱۳مکتوبات ہیں اور یہ تعداد اصحابِ بدر کی رعایت پر ہے۔ اصحاب ِبدر کو تاریخ اسلام میں ایک بہت ہی بنیادی ومرکزی اہمیت حاصل ہے۔ انھی اصحاب نے رمضان المبارک۲ھ میں بمطابق ۶۲۴ء میں قلیل تعداد اور سازوسامان اور اسلحے کی کمی کے باوجود ، لشکر کفار جو تعداد ، سازوسامان اور اسلحے کی فراوانی میں فوقیت رکھتا تھا، اس پر نہ صرف کاری ضرب لگائی بلکہ انھیں شکست فاش دے کر مسلمانوں کے حوصلے اور عزم کو بلند کر دیا اور اہل کفر کے نخوت وپندار کو پاش پاش کر دیا۔ یہ اہلِ اسلام اور اہل کفر کے درمیان پہلی مسلح جنگ تھی جن میں اہل اسلام کو اللہ کی تائید ونصرت سے کامرانی حاصل ہوئی اور اہل کفر کو شکست وہزیمت سے دوچار ہونا پڑا ۔
اس کتاب کا تاریخی نام دُرّالمعرفت ہے۔ یہ تمام مکتوبات بلا شک مریدین ومعتقدین ہی کو لکھے گئے جن کا مرکزی موضوع توحید ، رسالت ، کفروشرک ، شریعت کی اہمیت وعظمت ، ترویجِ شریعت اور اتباعِ سنتِ نبویؐ کی ضرورت ہے، جو آج بھی دیکھے اورپڑھے جا سکتے ہیں، جوبظاہر ایک فرد کے نام تحریر کیے گئے ہیں اور جدید اصطلاح میں رسالہ یا پمفلٹ سے تعبیر کیے جا سکتے ہیں۔ یہ مکتوبات جن موضوعات یا مسائل پر لکھے گئے ہیں ان کا تعلق ہر دور میں ہر مسلمان سے ہے۔ یہ خطوط چوںکہ عام افادیت اور عمومی دل چسپی کے تھے اور کسی وقتی یا ہنگامی مسائل سے متعلق نہ تھے، بلکہ ان کی مستقل اہمیت تھی جن میں اسلام کے بنیادی مسائل توحید، رسالت ، آخرت اور اسلامی تعلیمات کی توضیح وتشریح اور اسلامی تاریخ کے بعض واقعات کی تعبیر وتشریح اور مختلف معاملات کے متعلق اسلام کی حدود وغیرہ پر بحث تھی۔ آپ کے حلقۂ ارادت واثر میں روز بروز اضافہ ہونے کی وجہ سے ان کی مانگ میں اضافہ ہورہا تھا۔ اس لیے عمومی مفاد کے پیش نظر شائع کرائے تا کہ یہ خطوط یک جا مل سکیں اور لوگ ان سے استفادہ کر سکیں۔ جہاں تک ان خطوط کے مجموعے کو ’دفتر بے معنی ‘ کہنے کا تعلق ہے تو ’ناطقہ سر بگر یباں ہے اسے کیا کہیے ؟‘ایسے اہم مسائل اور مباحث پر مشتمل مجموعے کو ’دفترِ بے معنی‘ وہی شخص کہہ سکتا ہے جو بصارت وبصیرت سے عاری ہو یا غیظ وغضب نے اس کی آنکھوں پر پردے ڈال دیے ہوں اور عقل وفہم کے دروازے بند کر دیے ہوں۔
یہ خطوط آج بھی ملتے ہیں اور قبولیت عام کا یہ عالم ہے کہ متعد د بار فارسی اور اردو میں شائع ہوچکے ہیں۔ ان کے مطالعے سے حقیقت شناس اور تاریخ کا غیر جانب دار طالب علم بہ آسانی سمجھ سکتا ہے کہ جہانگیر کے الزام واتہام کی کیا نوعیت اور حقیقت ہے ؟ اور اس میں کہاں تک صداقت ہے ؟ اور یہ خطوط بقول جہانگیر کے ’واہیات ‘ اور ’دفتر بے معنی‘ ہیں؟ یا واقعی دُرّالمعرفت؟
مقاماتِ سلوک طے کرتے ہوئے وہ (یعنی حضرت مجدد ) مقام ذی النورین میں پہنچا جو نہایت عالی شان اور پاکیزہ تھا۔ وہاں سے گزر کر مقامِ فاروق ؓ سے گزر کر مقامِ صدیقؓ میں پہنچا۔ پھر وہاں سے گزر کر مقامِ محبوبیت میں پہنچا جو نہایت منور اور دلکش تھا۔ اس مقام میں اس پر مختلف روشنیوں اور رنگوں کے پر تو پڑتے رہے۔ گویا استغفراللہ بزعمِ خویش وہ خلفا کے مرتبے سے بھی بڑھ گیا اور ان سے عالی تر مقام پر فائز ہوا۔ اس نے اس طرح کی اور بھی بہت سی گستاخانہ باتیں (خلفا کی شان میں ) لکھی ہیں، جن کو تحریر کرنا طوالت اور خلفا کی شان میں بے ادبی کا باعث ہو گا۔
یہ اقتباس مذکورہ الزام کا ثبوت تو درکنار خود ایک الزام واتہام کی نوعیت رکھتا ہے اور یہ الزام کہ شیخ احمد سرہندی نے خلفا کی شان میں گستاخانہ باتیں لکھی ہیں اور اپنے آپ کو خلفا سے افضل بتایا ہے اور ان سے عالی مقام پر فائز ہوا، یہ مزید ایک الزام ہوا۔
قبل اس کے کہ اس الزام پر کلام کیا جائے یہ مناسب ہو گا کہ ’ اس عبارت ‘ کے سلسلے میں چند نہایت اہم اور قابلِ غور پہلو پیش نظر رکھے جائیں۔
جہانگیر نے اپنی تزک میں جس ’عبارت‘ کا اقتباس پیش کیا ہے، یہ شیخ احمد سرہندی کے مکتوب یا زدہم (۱۱) کی عبارت ہے۔ یہ خط شیخ احمد سرہندی نے اپنے پیرو مرشد خواجہ باقی با للہ کو تحریر کیا تھا اور خواجہ باقی باللہ سے شیخ احمد سرہندی ۱۵۹۹ء میں بیعت ہو گئے تھے اور خواجہ صاحب کا انتقال ۱۶۰۳ء (۱۰۱۲ھ) میں ہوا، یعنی آپ کے مرید ہونے کے بعد چار سال تک وہ بقید ِ حیات رہے۔
اس اثنا میں متعدد مرتبہ شیخ احمد سرہندی خواجہ صاحب کے پاس بہ نفس نفیس رُشد وہدایت و تربیت کے سلسلے میں دہلی میں مقیم رہے اور جب سرہند میں رہتے تھے تو خط کے ذریعے ہدایت و رہنمائی حاصل کرتے۔ اس طرح چار سال کے عرصے میں شیخ احمد سرہندی نے خواجہ صاحب کو کُل ۲۰ خطوط لکھے ہیں جو سب کے سب ایک ہی ترتیب میں جلد اول میں نمبر ۱ تا ۲۰ محفوظ ہیں۔ ان میں جس خط کی عبارت کو تزک جہانگیری میں جہانگیر نے نقل کیا ہے وہ ترتیب میں گیارھویں خط کی عبارت ہے۔
اس کے معنی یہ ہوئے کہ آپ نے یہ خط ۱۵۹۹ء اور ۱۶۰۳ء کے درمیان لکھا ہے اور چارسال کے اثنا میں آپ ؒ نے کل ۲۰ خطوط خواجہ باقی باللہ ؒ کو لکھے ہیں ، یعنی اوسطاً سال میں پانچ خط۔ اس لیے یہ گیارھواں خط ۱۶۰۱ء کے آخر میں یا ۱۶۰۲ء کے ابتدا میں تحریر کیا ہو گا۔ اگر ایسا نہ ہو تو بھی یہ خط بہر حال جہانگیر کی تخت نشینی سے تین یا چار سال پہلے لکھا گیا ہے۔ کیوںکہ جہانگیر ۱۶۰۵ء میں تخت نشین ہوتا ہے۔ اس لیے اگر واقعی اس خط کی عبارت قابل گرفت تھی تو اس زمانے میں تحریر کی گئی تھی جب جہانگیر حکمران نہیں ہوا تھا۔
اب سوال یہ ہے کہ اس خط سے عوام میں فی الواقع کوئی شورش پھیلی ہوئی تھی جیسا کہ جہانگیر نے لکھا ہے؟ اگر ایسا ہوتا تو جہانگیر کے پیش رو والیِ حکومت کے لیے بہترین موقع تھا کہ وہ اس کا نوٹس لیتا ۔ یہ مغل بادشاہ اکبر [۱۵۴۲ء-۱۶۰۵ء] کا دور تھا۔ اعتراض پیدا ہوتا ہے کہ تخت نشینی سے پہلے جہانگیر کو کوئی اختیار نہیں تھا، البتہ جہانگیر اس کو قابلِ اعتراض وگرفت سمجھتا تھا۔ اعتراض پیدا ہوتا ہے کہ جہانگیر نے تخت نشینی کے فوراً بعد اس کا نوٹس کیوں نہ لیا، جب کہ بقول جہانگیر اس خط کے مندرجات سے لوگوں میں ہیجان ، بے چینی اور شورش پھیلی ہوئی تھی۔ لیکن اس وقت ایسا نہیں کیا گیا بلکہ تخت نشینی کے ۱۴ سال بعد تک جہانگیر خاموش رہا۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ جہانگیر کے نزدیک ۱۴ سال تک یہ خط نہ قابلِ مواخذہ تھا اور نہ اس پر کبھی توجہ گئی۔
جہانگیر اپنے سنہِ جلوس ۱۴ ،یعنی ۱۶۱۹ء میں اور متذکرہ خط لکھنے کے ۱۸ یا ۱۹ سال کے بعد شیخ احمد سرہندیؒ کو دربار میں طلب کرتا ہے تو اس طویل خاموشی اور تاخیر سے متعدد سوالات ذہن میں ابھرتے ہیں کہ اگر واقعی یہ عبارت خطرناک ، گمراہ کن اور خلفا کی شان میں گستاخی پر محمول تھی اور اس سے عوام میں ہیجان اور شورش پھیلی ہوئی تھی، تو اتنے طویل عرصے تک جہانگیر کی خاموشی سمجھ میں نہیں آتی ؟ پھر یکایک جہانگیر کا ۱۸ یا ۱۹ سال کی پرانی تحریر پر حضرت شیخ احمد سرہندیؒ کو دربار میں طلب کرنا اور قلعہ گوالیار میں قید کرنا کسی اور گمان کو تقویت پہنچاتا ہے۔
جہانگیر کے اقتباس کی اصل حقیقت یہ ہے کہ شیخ احمد سرہندیؒ نے یہ تحریر حضرت خواجہ باقی باللہ ؒ کو اس وقت لکھی تھی جب وہ بقیدِ حیات تھے اور آپ زیرِ تربیت تھے۔ آپ پر جو کیفیت یا احوال گزر ے تھے اس سے اپنے پیرومرشد کو باخبر کرتے تھے تا کہ ان مسائل میں آپ کو صحیح رہنمائی وہدایت مل سکے۔ یہ تھا اصل عبارت کا پس منظر ۔ جب یہ خط لکھا گیا تھا تو اس وقت اس عبارت کو اس قسم کے غلط معنی نہیں پہنائے گئے۔ بعد میں جب خط کی عبارت پر اعتراضات کیے گئے اور شکوک وشبہات کو ہوا دی گئی اور مخالفین ومعاندین نے عوام میں غلط فہمی پیدا کرنے کے لیے رقیبانہ اور معاندانہ رویہ اختیار کیا، تو عوام اور خواص کی غلط فہمی کو دُور کرنے اور حقیقت حال سے روشناس کرنے کے لیے شیخ احمد سرہندی ؒ اپنے ایک خط میں تحریر کرتے ہیں کہ ’’یہ بات اور دوسری باتیں جو اس عرض داشت میں واقع ہوئی ہیں، ان واقعات میں سے ہیں جو اپنے پیرومرشد کی طرف لکھے گئے ہیں اور اس گروہ میں یہ بات ثابت ومقرر ہے کہ جو کچھ ظاہر ہوتا رہے، خواہ صحیح ہو یا غلط ، بے تحاشا اپنے پیرو مرشد کی طرف ظاہر کرتے رہیں‘‘۔{ FR 647 }
شیخ احمد سرہندیؒ کی یہ تحریر نہایت وضاحت سے اصل صورتِ حال کو پیش کر رہی ہے۔ جہانگیر نے جس خط کی عبارت کا تذکرہ کیا ہے، وہ خط کسی دعویٰ یا فخرو مباہات کے طور پر نہیں لکھا گیا بلکہ اس اثنا میں،جب کہ آپ کے پیرو مرشد بقیدِ حیات تھے اور آپ سرہند میں مقیم تھے اور برابر ان کی رہنمائی وہدایت طلب کر رہے تھے۔ آپ نے متذکرہ خط اپنی اس کیفیت اور حال سے مطلع کرنے کے لیے لکھا تھا تا کہ ہر حال میں آپ کو صحیح رہنمائی حاصل ہو سکے۔
جہانگیر کا یہ الزام کہ اپنے آپ کو خلفا ے راشدینؓ سے افضل سمجھتا ہے اور ان کی شان میں بہت سی گستاخانہ باتیں لکھی ہیں، یہ بھی محض الزام و بہتان ہے۔ اس دعوے کے ثبوت میں جہانگیر نے نہ تو کوئی واقعہ پیش کیا ہے اور نہ کوئی تحریر ہی پیش کی ہے۔ البتہ شیخ احمد سرہندی ؒ نے اپنے مکاتیب نمبر ۱۹۲، ۱۰۲، ۲۵۱، ۱۶۶ ،جلد اوّل، مکتوب نمبر ۱۵، ۳۶، ۶۷،۹۶ ،جلد دوم میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت علی کرم اللہ وجہ اور دوسرے صحابہ کرامؓ کی فضیلت وعظمت کے بارے میں قرآن اور سنت ِ رسولؐ اور احادیث کی روشنی میں نہایت ہی واشگاف اور غیر مبہم الفاظ میں تحریر کیا ہے۔ نیز خلفاے راشدینؓ کی اتباع کو لازمی قرار دیا ہے۔ اپنے مکتوب نمبر ۲۰۲ جلد اوّل میں تحریر کرتے ہیں کہ: ’’وہ شخص جو حضرت امیر رضی اللہ عنہ کو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے افضل کہے اہل سنت والجماعت کے گروہ سے نکل جاتا ہے۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اس شخص کا کیا حال ہو گا جو اپنے آپ کو افضل جانے ۔ اس گروہ میں تو یہ امر طے ہے کہ اگر کوئی سالک اپنے آپ کو خارش زدہ کتّے سے بہتر جانے تو وہ ان کمالات سے محروم ہے۔ سلف کا اجماع اس بات پر منعقد ہوا ہے کہ ’’انبیا علیہم السلام کے بعد حضرت ابوبکر صدیقؓ تمام انسانوں سے افضل ہیں۔ وہ بڑا ہی احمق ہے جو اس اجماع کے خلاف کرے‘‘۔{ FR 653 } (مکتوب ۲۰۲، جلد اوّل، ص ۴۳۸)
اس طرح آپ نے اپنے مکتوبات میں نہایت ہی شرح وبسط سے واشگاف الفاظ میں بلاکسی ابہام کے خلفاے راشدینؓ سے متعلق اپنے عقیدہ ومسلک کو پیش کیا ہے۔ اس سے کسی قسم کی غلط فہمی اور شک وشبہے کی گنجایش نہیں رہ جاتی ۔ اس واضح اعلان کے بعد بھی یہ کہنا اور سمجھنا کہ آپ ؒ اپنے آپ کو خلفاے راشدینؓ سے افضل سمجھتے اور کہتے ہیں، جہالت ، دیدہ دلیری ، ضد اور ہٹ دھرمی کے سوا کچھ نہیں۔
جہانگیر نے یہ الزام بھی لگایا ہے کہ ’’میں نے جتنے سوالات بھی کیے ان میں سے کسی ایک کا بھی (شیخ احمد سرہندی ؒ ) جواب نہیں دے سکا۔ وہ بے عقل وکم فہم ہونے کے علاوہ مغرور اور خودپسند بھی نکلا‘‘۔
جہانگیر نے نہ تو اپنے سوالات تحریر کیے ہیں اور نہ شیخ احمد سرہندی ؒ ہی کے جوابات لکھے ہیں۔ اس لیے ایک غیر جانب دارانہ طالب علم کی حیثیت سے اس کے متعلق محض یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ محض جہانگیر کا ایک دعویٰ ہے جو بہتان کی تعریف میں آتا ہے۔ سوالات اور جوابات کی غیر موجودگی میں اس کی حقیقت اور اصلیت کو پرکھا نہیں جا سکتا۔ البتہ ’بے عقل وکم فہم ‘، ’مغرور اور خود پسند‘ قرار دینے کے معنی یہ ہیں کہ دل کا بخار نکالا جا رہاہے۔
معلوم ہوتا ہے کہ شیخ احمد سرہندی ؒ نے مروجہ درباری آداب کے مطابق دربار میں جہانگیر کے سامنے سجدہ نہیں کیا ۔ کیوںکہ شیخ احمد سرہندی ؒ اپنے مکتوب نمبر ۹۲ جلد دوم میں حق تعالیٰ کے سوا کسی کو سجدہ جائز قرار نہیں دیتے۔ اس لیے جب آپ نے مروجہ درباری آداب کے مطابق سجدہ نہیں کیا ہو گا تو اس سے جہانگیر کی انانیت کو زبر دست ٹھیس لگی ہو گی۔ اس نے کبھی تصور وگمان بھی نہ کیا ہو گا کہ کوئی اللہ کا بندہ ایسا نڈر اور بے خوف بھی ہو سکتا ہے جو مروجہ سجدۂ تعظیمی ادا کرنے سے انکار کردے۔ لیکن آپ کا یہ فعل سراسر شریعت کے اتباع پر مبنی تھا۔ اس میں نہ کسی کی مخالفت تھی اور نہ مخاصمت ۔ نہ کسی کی توہین، نہ کسی کی دل آزاری۔ یہ تو محض شریعت کی پاس داری وعظمت کے تصوّر کے تحت بہت ہی مومنانہ اور جرأت مندانہ عمل تھا۔ جہانگیر کو آپ کا یہ فعل بہت ہی ناگوارِ خاطر گزرا ہو گا۔ اسی ناراضی کی بنا پر آپ کو ’بے عقل و کم فہم ، مغرور اور خود پسند ‘ ہونے کا طعنہ دیا ہو گا۔
آخر میں جہانگیر یہ تحریر کرتا ہے کہ اس (شیخ احمد سرہندی ؒ) کے مزاج کو شوریدگی اور اس کے دماغ کی آشفتگی کا ازالہ کرنے اور عوام میں جو شورش پھیلی ہوئی ہے اس کی روک تھام کے لیے میں نے شیخ سرہندی کو اَنی سنگھ دلن کے حوالے کیا کہ اسے قلعہ گوالیار میں قید رکھے۔
جہانگیر نے مجدد الف ثانی کو قلعہ گوالیار میں قید کرنے کے لیے اَنی سنگھ دلن کے حوالے کیوں کیا تھا ؟ اَنی سنگھ دلن ایک راجپوت اور ہندو امیر مملکت تھا جو جہانگیر کا بہت ہی معتمد علیہ اور منظورِ نظر تھا۔ جہانگیر نے اپنے عہدکے تمام معتوبین یا مخالفوں کو اسی کے حوالے کیا تھا، مثلاً :۱- مرزا رستم، جو پانچ ہزاری ذات وسوار کا منصب رکھتا تھا اور ٹھٹھہ کا صوبے دار تھا، ۲- خسرو،جو جہانگیر کے مقابلے میں تخت کا دعوے دار تھا، جس نے بغاوت بھی کی تھی اور ناکام ہو کر گرفتار ہوا، ۳- مرزا حکیم کے پوتے (جو اکبر کا بھائی تھا اور اس کے خلاف بغاوت بھی کی تھی )، ہرمز اور ہوسنگ، ۴-کشتواڑ کا راجا کنور سنگھ جس نے جہانگیر کے خلاف بغاوت کی تھی۔
ان سب کو جہانگیر نے اَنی سنگھ دلن ہی کے سپرد کیا تھا۔ چنانچہ شیخ احمد سرہندی کو بھی اس کے سپرد کیا اور صرف ایک ماہ قبل جہانگیر نے سنہِ جلوس ۱۴ ماہ فرور دیں ۸۰ ہی کو اس کو دوہزاری ذات وہزار وشش صد (۱۶۰۰) سوار کے منصب پر فائز کیا تھا۔(تزک جہانگیری، سلیم واحد سلیم، ص ۲۸۱، ۳۵۴، ۵۵۰، ۵۶۴، ۶۷۵، ۷۱۳)
اَنی سنگھ دلن پر اپنے خصوصی اعتماد کی وجہ سے جہانگیر نے شیخ احمد سرہندی کو اس کے سپرد کیا۔ اس کے ہندو راجپوت ہونے کی وجہ سے جہانگیر کو یہ یقین تھا کہ اَنی سنگھ دلن کو شیخ احمد سرہندی کی تردیج شریعت کی تحریک سے ہمدردی نہیں ہو سکتی۔ اس لیے اس کی نگرانی میں شیخ احمد پر گرفت سخت رہے گی اور انھیں کوئی سہولت ورعایت نہیں مل سکے گی۔
خلاصہ یہ کہ جہانگیر نے اپنی خود نوشت سوانح حیات تزکِ جہانگیری میں سال جلوس ۱۴ماہ خوردار ۲۲ کو شیخ احمد سرہندی ؒ پر جو الزامات واتہام لگائے ہیں وہ ناقدانہ تجزیے کی رُو سے بالکل بے بنیاد ثابت ہوتے ہیں۔ البتہ اس سے یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ شیخ احمد ؒ کے مخالفین اور حاسدین نے جہانگیر کو اس قدر ورغلایا اور برہم کر دیا اور اس قدر بے سروپا باتیں اس کے کان میں ڈالیں کہ آپ کے لیے جہانگیر کے دل میں شدید مخالفت پیدا ہوگئی۔ اس وجہ سے جہانگیر نے حضرت شیخ ؒ کے خلاف ایسے سخت اور ناشائستہ الفاظ استعمال کیے جن میں نہ تو ادبیت ہے اور نہ اندازِ شرافت ہی ۔
ڈاکٹر محمد حمید اللہؒ (۱۹۰۸ء-۲۰۰۲ء) اسلام کے بطلِ جلیل، جنھوں نے اپنی ساری زندگی، توانائی اور صلاحیتیں دین و علم کی اشاعت اور خدمت کے لیے وقف کردی۔ تحصیل علم کے بعد قلم و قرطاس سے جو رشتہ و تعلق قائم ہوا وہ تادمِ آخر برقرار رہا۔ انھوں نے بلامبالغہ اس قدر لکھا اور پڑھا کہ اس کا احاطہ آسانی سے ممکن نہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے زندگی کے آخری برسوں میں دیارِ مغرب خصوصاً فرانس کے غیر مسلموں کے تاریک سینوں کو دینِ اسلام کے نور سے منور کرنے اور انھیں مشرف بہ اسلام کرنے کو اپنی زندگی کا مشن بنالیا تھا۔
ڈاکٹر محمد حمید اللہ صاحب کی دینی، علمی اور تحقیقی سرگرمیوں اور دل چسپیوں کا میدان وسیع اور متنوع تھا۔ انھوں نے قرآن، علم القرآن، حدیث، فقہ، سیرت رسولؐ اور اسلامی تاریخ و قانون پر گراںقدر علمی سرمایہ چھوڑا ہے۔ اہل علم و دانش میں سے کسی کے نزدیک وہ ایک بلند پایہ سیرت نگار تھے تو کسی کے نزدیک ماہر قانونِ اسلام وفقہ، اور کوئی ڈاکٹر صاحب کے کثرتِ مطالعہ اور قوتِ مشاہدہ کا معترف ہے تو کوئی ان کی تحقیقی و تخلیقی صلاحیت کا قدر دان۔ڈاکٹر صاحب کی ۹۵ سالہ طویل زندگی اور کثیرالجہت سیرت و شخصیت اور کمالات و افادات کا جائزہ و احاطہ ایک نشست میں ممکن نہیں، تاہم ان کے انتقال کے بعد اُردو میں ان کی جو تالیفات و تصنیفات سامنے آئی ہیں، اس مضمون میں اس کا جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے۔
دوسری جنگِ عظیم کے بعد اقوام عالم میں قانونِ بین الممالک کی اہمیت کا شدت سے احساس پیدا ہوا۔ چنانچہ اقوام متحدہ کے قیام کے ساتھ ہی ایک منشور ترتیب دیا گیا، جس میں باہمی تعلقات کی استواری اور دوسرے مسائل اور نزاعات کے حل کے لیے قوانین وضع کیے گئے۔ ڈاکٹر صاحب نے اقوام متحدہ کے اس منشور کو بھی اردو میں منتقل کیا۔ (ڈاکٹر حمید اللہ، خطبات بہاو ل پور، ص ۱۱۵)
علامہ ابنِ القیم کی کتاب احکام اہل الذمہ ڈاکٹر صجی الصالح کی تحقیق سے شائع ہوئی۔ ڈاکٹر حمید اللہ نے اس پر جو پُرمغز مقدمہ لکھا، وہ بھی اُن کے قانون بین الاقوامی کے شعور کا غماز ہے۔ اس میں انھوں نے اسلام کے ملکی اور بین الاقوامی قوانین، غیر مسلم حکومتوں سے تعلقات اور ’اہل ذمہ‘ کے حقوق و معاملات پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ اس موضوع پر قدما میں امام سرخسی کی شرح الکبیر معرکہ آرا کتاب ہے۔ دراصل اس میں صلح و جنگ کے طریقے، غیر مسلم اقوام سے تعلقات اور تجارت وغیرہ پر بحث کی گئی ہے۔ اسلام کے بین الاقوامی قانون کو جاننے کے لیے یہ کتاب بہت اہم ہے۔ امام سرخسی کے زمانے میں، جب کہ صلیبی جنگیں لڑی جارہی تھیں، بین الاقوامی تعلقات اور بین الاقوامی قوانین یقینا زیر بحث رہے ہوں گے۔ اس وقت کے اہم تقاضے کو امام سرخسی نے اس طرح پورا کیا کہ امام محمد کی کتاب کتاب السیر کی شرح لکھوائی۔یہ شرح جو کئی جلدوں پر مشتمل ہے حیدر آباد دکن اور مصر سے کئی بار شائع ہوچکی ہے۔ اس کی اہمیت کے پیش نظر یونیسکو (UNESCO) نے اسے فرانسیسی زبان میں منتقل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ چنانچہ یہ کام بھی ڈاکٹر صاحب کے قلم سے پایۂ تکمیل کو پہنچا۔{ FR 644 } تاہم یہ کتاب بہ زبان فرانسیسی ابھی تک شائع نہیں ہوسکی۔
اسی حوالے سے ڈاکٹر حمید اللہ کی دو حصوں پر مشتمل ایک اور اہم تصنیف الوثائق السیاسیۃ فی العھد النبوی و الخلافۃ الراشدہ ہے۔ اس کتاب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکتوبات اور ان کے دریافت جوابات، فرامین، معاہدے، دعوت اسلامی، عمّال کا تقرر، اراضی کے عطیات، آمان نامے، وصیت نامے وغیرہ شامل ہیں۔ دوسرے حصے میں عہدِخلافتِ راشدہ کی دستاویزات کو یک جا کیا گیا ہے۔ (خطبات بہاولپور، ص ۱۱۸)
اس موضوع پر ڈاکٹر حمید اللہ کی ایک اور اہم کتاب The Muslim Conduct of State ہے۔ اس میں قانون بین الممالک کی غرض، اساس اور اس کے ماخذ سے بحث کی گئی ہے اور ماقبل اسلام قانون بین الممالک کی تاریخ پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ موضوع کے دوسرے گوشوں، مثلاً آزادی، اختیارات، سفارت، جنگ، بغاوت، ڈاکا زنی، جنگی قیدیوں اور دشمنوں کے ساتھ سلوک، فوج میں مسلم خواتین وغیرہ جیسے موضوعات پر ڈاکٹر صاحب نے نہایت عمدہ بحث و تحقیق پیش کی ہے۔ اس کے بارے میں مولانا ابو الجلال ندوی رقم طراز ہیں:’’مسلمانوں کے بین الاقوامی آئین پر یہ پہلی کتاب ہے جو اس زمانے کی ضرورتوں کو مدِّنظر رکھتے ہوئے لکھی گئی ہے۔ تنگ اور محدود نسلی اور جغرافیائی قومیت کی پیدا کر دہ عالم گیر کش مکش کی وجہ سے اب دنیا کا رجحان بین الاقوامیت کی طرف بڑھ رہا ہے اور یہ وسعت صرف اسلام ہی میں مل سکتی ہے، اس لیے اسلام کے بین الاقوامی قوانین کو پیش کرنا ایک بڑی خدمت ہے‘‘۔
اس کتاب کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کتاب کے اب تک بارہ ایڈیشن چھپ چکے ہیں۔ ترکی زبان میں اس کا ترجمہ بھی ہوا۔ یہ کتاب، پاکستان، بھارت اور ترکی کے علاوہ جرمنی سے بھی شائع ہوئی ہے۔ ڈاکٹر صاحب اس کے ہر ایڈیشن میں اضافے اور نظرثانی کرکے اُسے پہلے سے بہتر بناتے رہے۔
ڈاکٹر صاحب کی ایک اور کتاب First Written Constitution in the World ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ’میثاق مدینہ‘ پر سیرحاصل بحث کرتے ہوئے اُسے ’پہلا عالمی دستور‘ قرار دیا گیا ہے اور مدلل انداز میں ثابت کیا ہے کہ یہ پہلا کثیر قومی و نسلی اور مذہبی وفاق تھا۔ اس سلسلے کی ایک اور انگریزی کتاب The Prophet Establishing (پاکستان ہجرہ کونسل، اسلام آباد، ۱۹۸۸ء)بھی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی بعض کتابیں بظاہر سیرت پر ہیں، مثلاً رسولِ اکرمؐ کی سیاسی زندگی، عہدنبویؐ کے میدان جنگ، اور عہدنبویؐ میں نظامِ حکمرانی وغیرہ، مگر ان میں بھی قانون بین الممالک کے مختلف پہلوئوں پر بحث کی گئی ہے۔
ڈاکٹر محمد حمید اللہ کا انداز محققانہ اور مدلل ہے۔ ان کی تمام تحریریں اس کا ثبوت ہیں۔ خاص طور پر قانون بین الممالک کے میدان میں ان کا کام اپنے ہم عصر مفکرین میں نہایت منفرد ہے۔ انھوں نے قدیم نظریۂ سیر میں اضافے کیے ہیں اور اسلامی قانون بین الممالک کے ارتقا اور اس کی تشکیل نو میں ان کا کردار بڑا کلیدی ہے۔ اس کی تصدیق ان کی تحریروں اور خطبات سے ہوتی ہے، جنھیں درج ذیل نکات کی صورت میں سمیٹا جاسکتاہے:
امام ابو حنیفہ کے تین اور شاگردوں نے علم السیر کے موضوع پر کتابیں لکھیں۔ ان میں امام محمد الشیبانیؒ، امام زفرؒ اور فزاریؒ کے نام شامل ہیں۔ اول الذکرنے اس موضوع پر دو کتابیں لکھیں:۱- کتاب السیر الکبیر، ۲-کتاب السیر الصفیر۔
اول الذکر کی شرح پانچویں صدی ہجری کے مشہور حنفی فقیہ امام سرخسیؒ نے کی۔ آج دنیا میں اس موضوع پر محفوظ رہ جانے والی اور شائع ہونے والی قدیم ترین کتاب یہی شرح السیر الکبیر ہے۔ بعض اور ممتاز فقہا اور علما نے اس موضوع پر کام کیا، چنانچہ امام مالکؒ (م:۱۷۹ھ؍۷۹۵ء) نے بھی کتاب السیر کے نام سے ایک کتاب لکھی۔ یہ کتاب اب ناپید ہے۔ اسی طرح ان کے ایک اور معاصر مؤرخ واقدی نے بھی کتاب السیر کے نام سے ایک کتاب لکھی۔ وہ بھی اب نایاب ہے۔ تاہم، امام شافعیؒ کی کتاب الام میں ’سیر الواقدی‘ کے عنوان سے ایک طویل اقتباس شامل ہے۔ ڈاکٹر حمید اللہ علم السیر پر لکھی جانے والی ان کتابوں اور رسائل کو ابتدائی اور آخری قرار دیتے ہیں۔ یعنی ایک خاص زمانے میں کسی خاص ضرورت سے مستقل کتابیں لکھی جانے لگیں۔ پھر اس کے بعد شاید ضرورت نہ رہی اور یہ سلسلہ بند ہوگیا۔ لیکن اس علم سے مسلمانوں کی دل چسپی برابر قائم رہی۔ وہ اس طرح کہ فقہ کی جتنی کتابیں ابتدا سے لے کر آج تک لکھی گئی ہیں، ان سب میں کتاب السیر کا باب ضرور ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ سترھویں صدی عیسوی میں مرتب کی جانے والی فتاویٰ عالم گیری میں بھی اس پر ایک باب ہے۔
ڈاکٹر حمید اللہ عصرحاضر میں مسلمانوں میں قانون بین الممالک کے پہلے ایسے ماہر ہیں، جنھوں نے مختلف زبانوں سے واقفیت کے سبب، مختلف قدیم، جدید قوموں اور ملکوں کے بین الممالک اصول و تصورات اور قوانین کا مطالعہ کیا اور کتابیں و مقالات قلم بند کیے۔ وہ مغرب کے قدیم و جدید قوانین بین الممالک سے اسلام کے قوانین بین الممالک کا بعض مقامات پر موازنہ و مقابلہ کرکے واضح کیا کہ اسلامی قوانین ہر لحاظ سے بہتر ہیں۔ وہ قانون بین الممالک کی تشریح میں مغرب اور امریکا کے ساتھ تاریخ اسلام اور فقہ اسلامی سے بھی استدلال کرتے ہیں، کیوں کہ وہ خوب واقف ہیں کہ مغربی اہل قلم عموماً اسلامی تاریخ کے محاسن کو نظر انداز کرتے ہیں۔ ڈاکٹر حمید اللہ چوںکہ مستشرقین کے طریق عمل و تحقیق سے خوب واقف تھے، اس لیے وہ دلائل و براہین کے ساتھ ابتدائی مآخذ کے حوالے دے کر یورپ کے پیمانۂ تحقیق ہی کے مطابق ان کو جوابات دیتے ہیں۔
ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کے بقول:’’ڈاکٹر محمد حمید اللہ کو بلاخوف و خطر دور جدید میں اسلام کے بین الاقوامی قانون کا مجدّد اور مؤسسِ نوقرار دیا جاسکتا ہے۔ اگر امام محمد بن حسن شیبانی قدیم علم السیر کے مؤسسِ اوّل اور مدون ہیں تو ڈاکٹر حمید اللہ یقینا جدید بین الاقوامی اسلامی قانون کے مؤسس و مدوّن ہیں اور ۲۰ویں صدی کے شیبانی کہلائے جانے کے بجا طور پر مستحق ہیں‘‘۔
سوال : تعزیت کا مسنون طریقہ معلوم کرنا چاہتا ہوں۔ ہمارے ہاں مروجہ طریقہ یہ ہے کہ میت کی تدفین کے بعد، میت کے وارث اپنے گھر کے دروازے پر یا گائوں کے دارا میں چٹائی بچھا کر بیٹھ جاتے ہیں اور اس دوران حقہ نوشی اور گپ شپ کا دور بھی چل رہا ہوتا ہے۔ جو بھی آتا ہے منہ سے یہ لفظ نکالتا ہے: ’دعاے خیر‘ پھر تمام کے ہاتھ دُعا کے لیے اُٹھ جاتے ہیں۔ یہ معلوم نہیں ہوسکتا کہ دُعا کی کیا عبارت ادا کرتے ہیں؟
جواب :حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: مَنْ عَزَّی مُصَابًا فَلَہُ مِثْلُ اَجْرِہٖ (ترمذی، ابواب الجنائز) ’’جس نے مصیبت زدہ کی تعزیت کی (یعنی اس کو تسلی دی اور اس سے ہمدردی کی) تو اس کو اتنا اجر ملتا ہے، جتنا اس مصیبت زدہ کو ملتا ہے‘‘۔
دوسری روایت میں آیا ہے کہ مَنْ عَزَّی ثَکْلٰی کُسِیَ بُرْدً ا فِی الْجَنَّۃِ (ترمذی، ابواب الجنائز) ’’جس نے اس عورت کو حوصلہ دیا جس کا بچہ مر گیا ہو تو اسے جنّت میں ایک خاص قسم کی چادر پہنائی جائے گی‘‘۔
ان احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ تعزیت ایک سنت ہے اور قابلِ تحسین عمل ہے۔ اس کے نتیجے میں غم زدہ کا غم ہلکا ہوجاتا ہے۔ بعض فقہاے حنفیہ نے اس کے لیے مسجد میں یا گھر پر باقاعدہ بیٹھنے اور مجلس لگانے کو مکروہ کہا ہے (شامی،ص ۸۴۲، ج۱، الجنائز)۔لیکن بعض نے اپنے گھر میں یا مسجد میں تین روز تک بیٹھنا اور لوگوں کا تعزیت کے لیے آنا جائز قرار دیا ہے (فتاویٰ عالم گیری، ج اوّل، ص ۱۶۷)۔مگر دروازے یا راستے میں بیٹھنے کو تو سبھی فقہا نے مکروہ ترین فعل قرار دیا ہے۔ (فتاویٰ عالم گیری، اوّل، ص ۱۶۷)
تکلفات کے بغیر اپنے گھر پر اگر میت کے اقربا بیٹھے ہوں تو مضائقہ نہیں ہے۔ آنے والے دُعا بھی کرسکتے ہیں بشرطیکہ وہ واقعی دُعا ہو صرف رسمِ دُعا نہ ہو۔ لیکن تعزیت کے مسنون الفاظ وہ ہیں، جو رسولؐ اللہ سے مروی ہیں: اِنَّ لِلہِ مَا اَخَذَ وَلَہٗ مَا اَعْطٰی وَکُلُّ شَیْیءٍ عِنْدَہٗ بِاَجَلٍ مُسَمّٰی (البخاری، کتاب الجنائز، حدیث: ۱۲۳۷)’’بے شک اللہ ہی کی ہے وہ چیز جو اس نے لے لی ہے اور اسی کی ہے وہ چیز جو اس نے دی ہے اور ہرچیز کا اس کے پاس وقت مقرر ہے‘‘۔ یا پھر یہ الفاظ کہ ’’اللہ تعالیٰ مرحوم (یا مرحومہ) کی مغفرت فرمائے، اس کی کمزوریوں سے درگزر فرمائے، اسے اپنی رحمت میں ڈھانپ لے اور آپ کو اس مصیبت پر صبر کی توفیق عطا فرمائے‘‘۔ اگر کافر کی تعزیت کرنی ہو تو یہ الفاظ کہے جائیں:’’اللہ تعالیٰ تم کو اس کا بدل اور تمھارے کنبے کا شمار کم نہ کرے‘‘۔ (فتاویٰ عالم گیری، ایضاً)۔(مولانا گوہر رحمٰن)
سوال : ہمارے درمیان ایک اہم مسئلہ موضوعِ بحث بنا ہوا ہے کہ مسجد کوسیاسی اغراض و مقاصد کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟ اگر ہاں تو اس کے کیا دلائل ہیں اور اگر نہیں تو اس کی کیا توجیہہ ہے؟
جواب :عہد نبویؐ میں مسجدمسلمانوں کی تمام سرگرمیوں کا مرکز ہوا کرتی تھی۔ یہ محض عبادت اور نماز کی جگہ نہیں تھی بلکہ جس طرح نماز کے لیے مسجد عبادت گاہ تھی اسی طرح حصولِ علم کے لیے جامعہ، ادبی سرگرمیوں کے لیے اسٹیج، مشاورتی اُمور کے لیے پارلیمنٹ اور باہمی تعارف کی خاطر مرکز ملاقات کا کام دیتی تھی۔ عرب کے دُور دراز علاقوں سے وفود آتے تو مسجد ہی میں آں حضورصلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کا انتظام ہوتا اور تمام دینی، معاشرتی اور سیاسی تربیت کے لیے آپؐ مسجد ہی میں وعظ فرمایا کرتے تھے۔
آںحضوؐر کے زمانے میں دین اور سیاست علیحدہ علیحدہ چیز نہیں تھی، جیساکہ آج تصور کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دینی مسائل کے حل کے لیے اور سیاسی مسائل سے نبردآزما ہونے کے لیے حضوؐر کے پاس الگ الگ مراکز نہیں تھے۔ دونوں طرح کے مسائل مسجد ہی میں نمٹائے جاتے تھے۔
عہد نبویؐ کی طرح خلفاے راشدینؓ کے عہد میں بھی مسجد مسلمانوں کی تمام دینی اور سیاسی سرگرمیوں کا مرکز ہواکرتی تھی۔ چنانچہ حضرت ابوبکرؓ نے خلیفہ نامزد ہونے کے بعد اپنا پہلا سیاسی خطبہ مسجد ہی میں دیا تھا، جس میں انھوں نے اپنی سیاست کے خدوخال بیان فرمائےتھے۔ آپؓ نے اپنے خطبے میں فرمایا تھا: ’’اے لوگو! میں تمھارا خلیفہ مقرر کیا گیا ہوں، حالاں کہ میں تم میں سب سے بہتر شخص نہیں ہوں۔ اگر تم مجھے حق پر دیکھو تو میری مدد کرو اور اگر باطل پر پائو تو مجھے سیدھا کردو‘‘۔ اسی مسجد میں حضرت عمرؓ نے بھی اپنا پہلا سیاسی خطبہ دیا تھا اور فرمایا تھا: ’’اے لوگو! تم میں سے جو شخص مجھ میں کجی دیکھے، تو اسے چاہیے کہ مجھے سیدھا کردے‘‘۔ کسی شخص نے دورانِ خطبہ برملا کہا کہ خدا کی قسم! اگر ہم نے آپ کے اندر کوئی کجی پائی تو تلوار کی دھار پر آپ کو سیدھا کردیں گے‘‘۔ آپؓ نے اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے فرمایا کہ: ’’شکر ہے اللہ کا، جس نے عمر کی رعایا میں ایسے لوگ پیدا فرمائے ہیں جو عمر کو تلوار کی دھار پر سیدھا کرسکتے ہیں‘‘۔ یہ رول ہوا کرتا تھا مسجدوں کا اس زمانے میں جب مسلمانوں کو عروج حاصل تھا۔ لیکن جب اُمت مسلمہ میں انحطاط اور زوال کا دور شروع ہوگیا اورمسلم معاشرہ پس ماندگی کا شکار ہوگیاتو مسجدوں نے بھی اپنا ہمہ جہت رول کھو دیا، وہ صرف نمازوں تک محدود ہوکر رہ گئیں، اور جمعے کے خطبے بے جان اور بے اثر ہوگئے۔
مجھے نہیں معلوم کہ سیاست کو اس قدر غلیظ اور بدنام کیوں تصور کیا جاتا ہے، حالاں کہ سیاست بہ حیثیت علم نہایت سنجیدہ اور اعلیٰ و ارفع علم ہے۔ سیاست بذاتِ خود نہ بُری اور مذموم چیز ہے اور نہ جرم، لیکن جس سیاست میں اچھے بُرے کی تمیز نہ ہو اور مقصد حاصل کرنے کے لیے جائز و ناجائز ہتھکنڈے اختیار کیے جائیں، وہ سیاست اپنے غلط طریقۂ کار کی وجہ سے یقینا گندی سیاست ہے۔ رہی وہ سیاست جس کا مقصد کارہاے حکومت کو اس طرح انجام دینا ہو کہ معاشرے میں ظلم و فساد کی سرکوبی ہو، مصالح عامہ کی بازیابی اور معاشرے میں عدل و انصاف کا قیام ہو تو یقینا ایسی سیاست ہمارے دین کا ایک اہم حصہ ہے۔ اور اس اہم حصے کی انجام دہی کے لیے مسجدوں کو ان کے فعال کردار سے محروم کرنا زبردست غلطی ہوگی۔
یہ بات سب کو معلوم ہے کہ ہمارا دین ایک مکمل نظامِ حیات ہے۔ جس میں عقیدہ بھی ہے، عملِ صالح بھی اور عملِ صالح کی طرف لوگوں کو بلانا بھی۔ لوگوں کو اچھی باتیں بتانا اور بُری باتوں سے خبردار کرنا ایک اہم دینی فریضہ ہے۔ اللہ فرماتا ہے:
كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ ۰ۭ (اٰل عمران ۳:۱۱۰) تم وہ بہترین اُمت ہو جسے انسانوں کی خاطر نکالا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو،بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔
حدیث شریف ہے: الدِّیْنُ النَّصِیْحَۃُ (مسلم) ’’دین نام ہے اس کا کہ لوگوں کو نصیحت کی جائے اور انھیں بھلی بات بتائی جائے‘‘۔
لُعِنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْۢ بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ عَلٰي لِسَانِ دَاوٗدَ وَعِيْسَى ابْنِ مَرْيَمَ۰ۭ ذٰلِكَ بِمَا عَصَوْا وَّكَانُوْا يَعْتَدُوْنَ۷۸ كَانُوْا لَا يَتَنَاہَوْنَ عَنْ مُّنْكَرٍ فَعَلُوْہُ۰ۭ لَبِئْسَ مَا كَانُوْا يَفْعَلُوْنَ۷۹ (المائدہ ۵:۷۸-۷۹) بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی ان پر دائودؑ اور عیسیٰؑ ابن مریم کی زبان سے لعنت کی گئی کیوں کہ وہ سرکش ہوگئے تھے اورزیادتیاں کرنے لگے تھے۔ انھوں نے ایک دوسرے کو بُرے افعال کے ارتکاب سے روکنا چھوڑ دیا تھا۔ بڑا بُرا عمل تھا جو وہ کر رہے تھے۔
اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ اس اہم دینی فریضے کی ادائی میں مساجد کا بھی رول ہو اور اس عظیم الشان پلیٹ فارم سے لوگوں کی سیاسی اور فکری تربیت کا عمدہ انتظام ہو۔ ضرورت اسی بات کی ہے کہ اس عظیم منبر سے مسلمانوں کو ان کے دینی، سیاسی اور ملّی مسائل سے آگاہ کیا جائے اور ان مسائل کا حل پیش کیا جائے۔
مجھے یاد ہے کہ ۱۹۵۶ء میں جب مصر پر دشمنوں نے حملہ کیا تھا تو وزارت اوقاف کی طرف سے مجھے حکم ملا تھا کہ مَیں قاہرہ کی ایک بڑی جامع مسجد میں جمعہ کا خطبہ دوں اور لوگوں میں دشمنوں کے خلاف جذبوں اور حوصلوں کا اضافہ کروں۔ وقت کا شدید تقاضا تھا کہ مَیں اس منبر کو سیاسی اور جنگی مسائل پر خطبہ دینے کے لیے استعمال کروں اور میں نے ایسا ہی کیا۔ اس کے خاطرخواہ مفید نتائج برآمد ہوئے، حالاں کہ خود مصری حکومت نے اس سے قبل مجھ پر ہرقسم کی تدریسی و تقریری پابندی لگا رکھی تھی۔
مسجدوں میں ایسے خطبے بھی دیے جاسکتے ہیں جن میں حکومت کی غلط اور غیرمفید پالیسیوں پر تنقید کی جائے اور اربابِ حکومت کو ان کی کوتاہیوں سے آگاہ کیا جائے، بشرطیکہ ان خطبوں میں نام لے کر کسی خاص شخص کو لعن طعن کرنے سے پرہیزکیا جائے اور ان تمام باتوں سے اجتناب کیا جائے، جو شرعی حدود سے تجاوز کرتی ہوں۔یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہیے کہ مسجدوں کے خطبے اصلاحِ معاشرہ اور اقامت ِ شریعت کے لیے ہوتے ہیں۔ اس لیے اس بات کی ہرگز اجازت نہیں دی جاسکتی کہ برسرِاقتدار پارٹی یا اپوزیشن پارٹیاں محض سیاسی پروپیگنڈوں کے لیے مسجدوں کو استعمال کریں۔(ڈاکٹر یوسف القرضاوی)
سوال : میرا نکاح پانچ برس قبل ایک شخص کےساتھ ہوا۔مجھےبعد میںمعلوم ہوا کہ یہ صاحب پیدایشی قادیا نی (احمدی)ہیں۔نکاح کے وقت بھی قادیانی خیالات رکھتے تھے۔ افسوس کہ مجھےاورمیرےخاندان کواس جماعت کےبارےمیں پہلےکچھ علم نہ تھا۔ نکاح کے بعد مجھےزبردستی درج ذیل عقائد ماننےکو کہاگیا:
- مرزاغلام احمدقادیانی مہدی ہیں۔ان پراللہ کی طرف سے وحی آتی تھی۔
- حضرت عیسیٰؑکی وفات ہوگئی ہے۔اب وہ دنیامیںواپس نہیں آئیں گے۔
- پنجاب میں واقع قادیان مثلِ مکہ ہے، جس کی زیارت سےحج کاثواب ملتا ہے۔
مجھےایک’ بیعت فارم‘ دیاگیااوراس پر دستخط کرنے کو کہاگیا۔اس میںلکھاہوا تھا کہ ’’میں خود کو احمد یہ جماعت میں شامل کرتی ہوں ۔میرا عقیدہ ہے کہ حضر ت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ’خاتم النبیین‘ہیں اورحضرت مرزا غلام احمد وہی امام مہدی ہیں جن کی بشارت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی ۔ میں حضرت مرزا مسرور احمد کو خلیفۃ المسیح مانتی ہوں اور ان کی اطاعت کا وعدہ کرتی ہوں‘‘۔
میں نے اس فارم پر دستخط کرنےسےانکار کردیا۔ اس کےبعد مجھے جسمانی اور ذہنی طور پر اذیت دی جانےلگی اورپریشان کیاجانےلگا،جس کی وجہ سے میں بیمار رہنےلگی ہوں۔ لاعلمی میںمجھ سے جوگناہ ہوگیا ہے ، اس سے میں بہت شرم سار ہوں اوراللہ تعالیٰ سے معافی مانگتی ہوں ۔ مجھے درج ذیل سوالات کے جوابات سے نوازیں:
۱- کیا ان صاحب سے میرا نکاح درست ہے؟
۲- اگریہ نکاح درست نہیں توکیا مجھے خلع یا فسخِ نکاح کے لیے کوئی کارروائی کرنی ہوگی؟
۳- اگر یہ لوگ مجھے یامیرے خاندان کو کچھ نقصان پہنچانا چاہیں اورہمارے خلاف کوئی قانونی کارروائی کریں تو اس سے بچاؤکے لیے ہم کیا کریں؟
۴- یہ نکاح درست نہیں تو نکاح نامہ اور دیگر دستاویزات کی منسوخی کے لیے کیا کرنا ہوگا؟
۵- کیا اس کیس میں عدّت گزارنی ہوگی؟
وَلَا تَنْكِحُوا الْمُشْرِكٰتِ حَتّٰى يُؤْمِنَّ ۚ وَلَا تُنْكِحُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَتّٰى يُؤْمِنُوْا (البقرہ ۲:۲۲۱) مشرک عورتوں سے نکاح مت کروجب تک کہ وہ ایمان نہ لے آئیں۔ اورمشرکین جب تک ایمان نہ لے آئیں اوران سے اپنی عورتوں کا نکاح مت کرو۔
لَا ہُنَّ حِلٌّ لَّہُمْ وَلَا ہُمْ يَحِلُّوْنَ لَہُنَّ(الممتحنہ:۱۰)(یہ مسلمان عورتیں) نہ ان (کافروں) کے لیے حلا ل ہیں اورنہ وہ (کافرمرد) ان (مسلمان عورتوں ) کے لیے۔
قادیانیوں کے دوفرقےہیں : ایک فرقہ مرزا غلام احمد قادیانی کوصراحت سے نبی مانتا ہے۔ دوسرا فرقہ، جواحمد یہ کہلاتاہے ، وہ انھیں مہدی اور مسیح موعود قرار دیتاہے اور ان پروحی آنے کا قائل ہے۔ یہ حضرات حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کوخاتم النبیین تومانتےہیں،لیکن’ختم نبوت‘ کی بے جا تاویل کرتے ہیں اوراس کا دوراز کار مفہوم بیان کرتے ہیں۔
ان آیات سے واضح ہے کہ مشرکین اور مشرکات سے نکاح ممنوع ہے، پوری اُمت کا اتفاق ہے کہ قادیانی مسلمان نہیں، کافر ہیں۔ اس لیے شرعی طورپرکسی مسلمان عورت کا قادیانی عقائد رکھنے والے کسی مرد سے نکاح جائز نہیں ہے اوراگر ہوچکاہے توباطل ہے ، اس کی شرعاً کوئی حیثیت نہیں ۔
جب یہ نکاح ہوا ہی نہیں تو خلع یا فسخِ نکاح کی کسی کارروائی کی ضرورت نہیں۔ اسی طرح اس صورت میں عدّت بھی نہیں۔البتہ دوسرانکاح پیش نظرہوتو تین ماہ انتظارکرلیا جائے یہ بہتر ہوگا۔
نکاح نامہ یادیگر دستاویزات موجود ہوں تواسےکینسل کروانے کے لیے کسی قانونی مشیر سے مددلینا مناسب ہوگا۔ اسی طرح اس چیز کا اندیشہ ہوکہ وہ قادیانی شخص یااس کےمتعلقین کوئی نقصان پہنچا سکتے ہیں،یا کوئی قانونی کارروائی کرسکتے ہیںتو اس سےتحفظ کے لیےکسی ماہر قانون سے مشورہ کرلینا چا ہیےاوراس کی بتائی ہوئی تدابیر پرعمل کرنا چاہیے۔ سماجی دباؤاور تحفظ بھی کارگر ہوسکتا ہے۔ اپنےاہل خاندان، پڑوسیوں اورمحلہ والوںسے بھی مدد لیں۔انھیں اپنا مسئلہ سمجھائیں اوران کے تعاون سے گلو خلاصی حاصل کرنے کی کوشش کریں۔
قادیانیت موجود ہ دورکا ایک بڑا فتنہ ہے ۔یہ امت مسلمہ کے لیے ایک ناسورہے۔ قادیانی بہت سرگرمی سےبھولے بھالے مسلمانوں کوبہکانے اوراپنے دامِ فریب میںگرفتارکرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس لیے ان سےہوشیار رہنے اوران سے فاصلہ بنائے رکھنے کی ضرورت ہے۔(مولانا رضی الاسلام ندوی)
سوال : میری بیٹی کا نکاح تین برس قبل شرعی طور پر انجام دیا گیا ۔ مسجد میں نکاح ہوا ۔ غیر اسلامی رسوم، لین دین ، جہیز وغیرہ سے اجتناب کیا گیا ۔ اس وقت سے خاندان میں یہ موضوع زیر بحث ہے کہ مسجد میں نکاح کی تقریب منعقد کرنا کہاں تک جائز ہے ؟ یہ تو نئی بدعت ہے ۔صحابۂ کرامؓ کے نکاح مسجد میں ہوئے ہوں ، یہ ثابت نہیں ہے۔
جواب :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کو آسان بنانے کی ترغیب دی ہے۔ آپ کا ارشاد ہے :خَیْرُ النِّکَاحِ اَیْسَرُہٗ (ابوداؤد: ۲۱۱۷) ’’ بہترین نکاح وہ ہے جو بہت سہولت اور آسانی سے انجام پائے‘‘۔ اسی طرح آپؐ نے اس کا بھی حکم دیا ہے کہ نکاح کا اعلان کیا جائے اور اس کی تشہیر کی جائے، تاکہ آبادی کے لوگوں کومعلوم ہوجائے کہ فلاں مرد اور عورت نکاح کے بندھن میں بندھ گئے ہیں ۔ آپؐ کا ارشاد ہے: اَعْلِنُوْا لنِّکاَحَ (احمد: ۱۶۱۳۰) ’’نکاح کا اعلان کرو‘‘۔
آج کل مسلم معاشرے میں نکاح کودشوار بنادیا گیا ہے ۔ اس پر اتنا صرفہ آتا ہے کہ اوسط یا معمولی آمدنی والے شخص کواس کے لیے بہت جتن کرنے پڑتے ہیں اورکافی سرمایہ اکٹھاکرنا پڑتا ہے ۔ لڑکی کے نکاح کا معاملہ ہوتو وہ اس کے سرپرست کے لیے اوربھی دشوار اورپریشان کن رہتا ہے ۔ اس لیے کہ برأت کی خاطر مدارات، جہیز اور دیگر رسوم کی ادایگی کے لیے خطیر رقم کی ضرورت پڑتی ہے ، جس کے لیے بسا اوقات قرض تک کی نوبت آجاتی ہے۔
فقہا نے مسجد میں نکاح کی تقریب منعقد کرنے کو جائزقرار دیا ہے۔ اس لیے کہ اس سے دونوں فائدے حاصل ہوتے ہیں : ایک تو نکاح بہت سادگی سے انجام پاتا ہے، دوسرے اس کی تشہیر بھی ہوجا تی ہے ، البتہ انھوںنے تاکید کی ہے کہ تقریبِ نکاح کی انجام دہی کے دوران میں مسجد کے تقدس و احترام کا خیال رکھا جائے ، شور وشغب نہ ہو، بلا ضرورت اِدھر اُدھر کی باتیں نہ کی جائیں ، وغیرہ۔ ( فتح القدیر ، ۲/۳۴۳- ۳۴۴)
اس موضوع پر ایک حدیث بیان کی جاتی ہے ، جوام المؤمنین حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اَعْلِنُوْا ہٰذَا النِّکَاحَ وَاجْعَلُوْہُ فِی الْمَسَاجِدِ وَاضْرِبُوْا عَلَیْہِ بِالدُّفُوْفِ(ترمذی:۱۰۸۹)’’نکاح کا اعلان کرو، اسے مسجدوں میں کرو اور اس موقع پر دف بجاؤ‘‘۔
اس حدیث کی سند میں ایک راوی عیسیٰ بن میمون الانصاری کو محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے ۔ اسی بنا پر علامہ ابن حجر عسقلانی ؒ نے اس حدیث کوضعیف کہا ہے (فتح الباری ، ۹/۲۲۶)۔ البتہ اس کا ابتدائی حصہ (نکاح کا اعلان کرو)دیگر روایتوں سے ثابت ہے ، اس لیے صحیح ہے۔
مسجد میں تقریبِ نکاح منعقد کرنے کوحکمِ نبوی ثابت کرنا تو درست نہیں، لیکن اسے بدعت کہنا بھی صحیح نہیں ہے۔ عہدِ نبویؐ میںمسجد کونماز کے علاوہ دیگر کاموں کے لیے بھی استعمال کیا جاتا تھا ، مثلاً تعلیم وتربیت ، معاملات کے فیصلے ، حدود و تعزیرات کا نفاذ وغیرہ۔ اس بناپر اگر مسجد کے ادب واحترام کوملحوظ رکھتے ہوئے اس میں تقریبِ نکاح منعقد کی جائے تو وہ نہ صرف جائز ،بلکہ بعض پہلوؤں سے پسندیدہ ہے۔(مولانا محمد رضی الاسلام ندوی)
گورکھ پور کے ایک متموّل شخص سید سبحان اللہ کا زیر نظر سفر نامہ ان کے ۱۹۰۳ء کے سفرِ حج کی رُوداد پر مشتمل ہے، جو ’’تجربات اور مشاہدات اور سفر نامہ نگار کی دل سوزی ودرد مندی سے عبارت ہے۔ مصنف اس بات پر بہت آزُردہ تھے کہ اس مقدّس سرزمین کے بعض معاملات وحالات نا گفتہ بہ ہیں ‘‘۔ (ص۴)
سفر نامے کا آغاز حمدیہ ہے ۔ گورکھ پور سے ممبئی تک کا سفر ریل اور بیل گاڑیوں پر ہوا۔ بحری جہاز میں سوار ہونے کے لیے بھی سمندر میں ۱۲میل کشتیوں پر سفر کیا ۔پھر جہاز میں سوار ہونے کے مراحل بھی سخت تکلیف دہ تھے۔ ’’جہاز کے کپتان کا جو برتائو میرے ساتھ ہوا یقینا دل خراش تھا۔‘‘ جدہ میں جہاز سے اُتر کر قرنطینہ کے لیے بھاپ گھر میں رکنا پڑا ، جدہ سے مکہ تک دو روز کا سفر اونٹوں پر، فی اونٹ ۳۵روپے،غرض ہندستانیوں کے لیے مہینوں کا سفرِ حج بہت خطرناک اور مشقّت بھرا ہوتا تھا۔ اس زمانے میں عرب قبائلی، حاجیوں کو لوٹ لیتے تھے،اس لیے مولوی سبحان اللہ مدینہ منورہ نہ جا سکے۔ لکھتے ہیں :جس زمانے میں عثمان پاشا یہاں کے والی تھے، پانچ اور چھے اونٹوں کا قافلہ مدینہ منورہ بے کھٹکے چلا جاتا تھا۔ کوئی بال بیکا تک نہ کر سکتا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ سلطانی [غالباً وظیفہ] مقرر ہ وقت پر پورا پورا قبائل کو مل جاتا تھا… راہ میں بھی تین تین کوس پر فوج [کی ] چوکیاں… ایک ایک گارڈ فوج رہتی ہے‘‘ (ص ۷۶-۷۷)۔ عثمان پاشا رخصت ہوئے تو شریف مکہ حسین کی عمل دار ی میں پھر بدنظمی شروع ہوگئی۔کیوں کہ شریف غریب بدؤوں کو کچھ نہیں دیتا تھا۔ اس لیے وہ لوٹ مار کرتے تھے۔ مجموعی طور پر نظم ونسق بہت خراب تھا۔ مولوی سبحان اللہ نے مکہ سے منیٰ اور وہاں سے عرفات تک اونٹوں پر سفر کیا۔ انھوں نے قارئین کو نصیحت کی ہے کہ عرفات سے واپسی میں عجلت نہ کریں۔ جب تک بڑے بڑے لوگ نہ جا چکیں۔ قربانی کے لیے تین سے پانچ روپے تک فی دنبہ مل گئے۔ اس زمانے میں مکے کی مستقل آبادی ۵۰،۶۰ ہزار تھی مگر بدانتظامی کے سبب شہر میں صفائی عنقا تھی اور رات کے وقت روشنی بہت کم ہوتی تھی۔ حرم میں وضو کے لیے کوئی نل نہیں تھا، نہ استنجا خانہ۔ ترکوں کی عمل داری میں انتظام بہت بہتر تھا۔ بہت سی خرابیوں کا سبب جہالت اور تعلیم کی کمی ہے۔
ڈاکٹر اصغر عباس (سابق صدر شعبہ اردو، علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی) نے یہ سفر نامہ بڑی محنت سے مرتب کیا۔ ان کے طویل معلومات افزا مقدمے سے مزین ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی )
فاضل مصنف نے دیباچے میں بتایا ہے: ’’میں تو اقبال سے صرف محبت کرنے والا ہوں، جو یہ بھی نہیں جانتا کہ میں یہ محبت کیوں کر رہا ہوں؟‘‘ (ص ۷) ۔چنانچہ علامہ اقبال سے اسی محبت کے نتیجے میں انھوں نے اقبالیات پر ایک عمدہ کتاب تصنیف کی ہے۔
اقبال کے فکر وفن پر لکھنے والوں نے ان کے فکر وشعر کی گونا گوں تعبیریں کی ہیں مگر محمد الیاس صاحب نے کہا ہے کہ :’’اسباب ِ زوالِ امّت ِ اسلامیہ نے اقبال کا سینہ داغ داغ کر دیا تھا۔ اور ان کی شاعری سوز ودرد مندی کے انھی داغوں کی بہار ہے‘‘۔ انھوں نے اقبال کی شاعری کا مطالعہ فہم وشعور سے پیش کیا ہے۔ ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم، قرآن حکیم کے ذہین طالب علم تھے اور اقبال سے بھی محبت رکھتے تھے۔ انھوں نے ایک جگہ کہا ہے کہ ’’اقبال کا فکر جتنا بلند تھا، ان کا عمل اس اعتبار سے بہت ہی نیچے تھا ‘‘۔ محمد الیاس صاحب نے ڈاکٹر صاحب کی اس راے کو قبول نہیں کیا۔ لکھتے ہیں: ’’اگر ڈاکٹراسرار احمد مرحوم ومغفور زندہ ہوتے تو میں ہاتھ باندھ کر، ان سے عرض کرتا کہ اس تبصرے کو واپس لے لیں ‘‘ (ص۵۵۵)۔ دوسری جانب ان کے خیال میں سیدمودودی ان لوگوں میں سے ہیں جنھوں نے اقبال کو سمجھنے میں غلطی نہیں کی۔
مختلف عنوانات کے تحت رقم شدہ اس کتاب کے اٹھارہ مضامین مل کر اقبال کی سچی اور کھری تصویر پیش کرتے ہیں۔( رفیع الدین ہاشمی )
ترجمان القرآن کئی نسلوں سے تربیت و تزکیہ کا فریضہ سرانجام دینے کی سعادت حاصل کرتا آیا ہے۔ ستمبر ۲۰۱۸ء کے شمارے میں ’اشارات‘ میں محترم ڈاکٹر انیس احمدکے افکار اثرانگیز تھے۔ ’حکمت ِ مودودی‘ میں سیّدابوالاعلیٰ مودودی کا ۱۹۷۴ء کا بصیرت افروز خطاب، ’فہم حدیث‘ میں عبدالبدیع کے معیاری مضمون کے مطالعہ سے ایک بندئہ مومن کے لیے مختصر زادِ راہ کا خاکہ ایمان افروز ہے۔ ’سیکولر جناح؟‘ بلاشبہہ چشم کشا مضمون ہے۔
ترجمان القرآن ماہِ ستمبرکا شمارہ اس لحاظ سے جامع اور علمی طور پر معمور اور تربتر ہے کہ اس ماہ قائداعظمؒ کی وفات اور مولانا مودودیؒ کے بارے میں ان کی فکر رسا سے آگاہی بخشنے والا ہے۔
’خود احتسابی اور ایک تجویز‘ (ستمبر ۲۰۱۸ء)ایک بہترین لائحہ عمل دیا گیا ہے۔ ’سیکولرجناح؟‘ احمد سعید میں قائداعظمؒ کی زندگی کے اہم پہلو کی وضاحت کرکے بہت سی غلط فہمیوں کا ازالہ کیا گیا ہے۔
مجلہ تحصیل پر تبصرے (جولائی ۲۰۱۸ء) میں جہاں تک حسن البنا کے جمال الدین افغانی کے شاگرد بیان کرنے پر اعتراض اُٹھایا گیا ہے، اس بارے میں مجلس ادارت کو کچھ خفت نہیں۔ حسن البنا عام طور پر علمی دُنیا میں رشیدرضا سے گہرا اثر قبول کرنے کی وجہ سے ، جو بالواسطہ اپنے استاد محمد عبدہٗ اور محمد عبدہٗ کے توسط سے افغانی کے شاگرد ہی شمار ہوتے ہیں اور اگر یہاں انھیں شاگرد لکھا گیا ہے تو یہاں مراد شاگردِ معنوی سے بھی تو ہوسکتی ہے ۔ عالمِ اسلام میں ایسی اور بھی مثالیں موجود ہیں۔ یہاں کتابت کا ایک سہو روانی میں یہ ہوگیا، جس پر کسی کی نظر نہ پڑی کہ ’اخوان المسلمون‘ کی جگہ ’اخوان الصفا‘ تحریر ہوگیا ورنہ اتنی فاش غلطی کی توقع مقالہ نگار سے نہیں کی جانی چاہیے۔
علّامہ اقبال کی شاعری دورِ حاضر کی ضرورت اور تقاضا ہے۔ علّامہ اقبال اور سیّد مودودی دونوں کے پیش نظر ایک ہی مقصد ہے۔ میری تجویز ہے کہ علّامہ اقبال پر مضامین کے ساتھ ساتھ ہر ماہ ایک مستقل سلسلے کے تحت ان کی شاعری مع تشریح شائع کی جائے۔ اُمید ہے کہ اقبال کے افکار کے فروغ کے لیے یہ سلسلہ مفید رہے گا۔
یہ بات ملحوظِ خاطر رہنی چاہیے کہ بلاضرورت یا ضرورت سے زیادہ شان دار عمارتیں بنانا کوئی منفرد فعل نہیں ہے جس کا ظہور کسی قوم میں اس طرح ہوسکتا ہو کہ اس کی اور سب چیزیں تو ٹھیک ہوں اور بس یہی ایک کام وہ غلط کرتی ہو۔ یہ صورتِ حال تو ایک قوم میں رُونما ہی اُس وقت ہوتی ہے جب ایک طرف اس میں دولت کی ریل پیل ہوتی ہے اوردوسری طرف اس کے اندر نفس پرستی و مادہ پرستی کی شدت بڑھتے بڑھتے جنون کی حد کو پہنچ جاتی ہے۔ اور یہ حالت جب کسی قوم میں پیدا ہوتی ہے تو اس کا سارا ہی نظامِ تمدن فاسد ہوجاتا ہے۔
[سورئہ شعراء میں متوجہ کیا گیا ہے] کہ اپنا معیارِ زندگی بلند کرنے میں تو تم اس قدر غلو کرگئے ہو کہ رہنے کے لیے تم کو مکان نہیں محل اور قصر درکار ہیں، اور ان سے بھی جب تمھاری تسکین نہیں ہوتی تو بلاضرورت عالی شان عمارتیں بناڈالتے ہو، جن کا کوئی فائدہ اظہارِ قوت و ثروت کے سوا نہیں ہوتا۔
لیکن تمھارا معیارِ انسانیت اتنا گرا ہوا ہے کہ کمزوروں کے لیے تمھارے دلوں میں کوئی رحم نہیں، غریبوں کے لیے تمھاری سرزمین میں کوئی انصاف نہیں، گردوپیش کی ضعیف قومیں ہوں یا خود اپنے ملک کے پست طبقات، سب تمھارے جبروظلم کی چکّی میں پس رہے ہیں اور کوئی تمھاری چیرہ دستیوں سے بچا نہیں رہ گیا ہے۔ (سیّدابوالاعلیٰ مودودی، تفہیم القرآن، سورۃ الشعراء، ترجمان القرآن، جلد ۵۱، عدد۱، اکتوبر ۱۹۵۸ء، ص ۲۳-۲۴)