اگرچہ جموں و کشمیر اور فلسطین کے خطے جغرافیائی اعتبار سے کوسوں دور ہیں، مگر تاریخ کے پہیے نے ان کو ایک دوسرے کے قریب لاکر کھڑا کر دیا ہے۔ دونوں خطے تقریباً ایک ساتھ ۴۸-۱۹۴۷ء میں دنیا کے نقشہ پر متنازعہ علاقوں کے طور پر سامنے آئے ۔کئی جنگوں کے باعث بھی بنے اور پچھلے سات عشروں سے نہ صرف امن عالم کے لیے خطرہ ہیں، بلکہ ان کی محکومی مسلم دنیا کے لیے ناسور بنی ہوئی ہے۔
بھارت نے ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کو جس طرح یک طرفہ کارروائی کرکے ریاست جموں و کشمیر کے دو ٹکڑے کرکے اس کی نیم داخلی خود مختاری کو کالعدم کردیا، کچھ اسی طرح اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو بھی یکم جولائی ۲۰۲۰ء کو فلسطین کے مغربی کنارہ کے ۳۰فی صد علاقے کو اسرائیل میں ضم کرنے کا عزم کیے بیٹھے تھے۔ فی الحال انھوں نے اس منصوبے کو التوا میں رکھا ہے، کیوںکہ بھارت کے برعکس اسرائیل میں ان کو فوج ، اپوزیشن اور بیرون ملک آباد یہودیوں کی طرف سے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ ناروے کے شہر اوسلو میں ۱۹۹۳ء اور ۱۹۹۵ء میں اسرائیلی اور فلسطینی قیادت کے درمیان طے پائے گئے سمجھوتے میں، ایک فلسطینی اتھارٹی کا قیام عمل میں آیاتھا۔ جس سے ۱۶لاکھ کی آبادی کو دو خطوں مشرق میں غزہ اور اُردن کی سرحد سے متصل مغربی کنارہ میں تقسیم کیا گیا تھا۔ نسبتاً وسیع مغربی کنارے کا انتظام ’الفتح‘ کی قیادت میں فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (PLO) کے پاس ہے، وہیں غزہ میں اسلامک گروپ حماس بر سرِ اقتدار ہے۔
جس طرح بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے ۲۰۱۴ء اور۲۰۱۹ءکے انتخابات میں کشمیر کی آئینی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے اور علیحدہ شہریت کا قانون ختم کرنے کے نام پر ہندو قوم پرستوں کو لام بند کرکے ووٹ بٹورے، بالکل اسی طرح اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے بھی یہودی انتہاپسند طبقے کی حمایت حاصل کرنے کے لیے فلسطینی علاقوں کو ضم کرنے کا شوشہ چھوڑا۔ جس علاقے کو وہ اسرائیل میں ضم کروانا چاہتے ہیں، وہاں ۶۵ہزار فلسطینی اور ۱۱ہزار یہودی آباد ہیں۔ ’اوسلو معاہدے‘ کی رُو سے مغربی کنارے کو تین حصوں میں بانٹا گیا تھا۔ ایریا سی میں مغربی کنارے کا ۶۰فی صد علاقہ آتا ہے۔ اس میں تین لاکھ فلسطینی آباد ہیں اور یہی علاقہ اسرائیل کی نظروں میں کھٹکتا ہے۔
اکثر ماہرین کا کہنا ہے کہ نیتن یاہو کے اس جوئے کا مثبت پہلو یہ نکلاہے کہ اسرائیلی سیاست میں فلسطین کو ایک بار پھر مرکزیت حاصل ہوئی ہے۔ عرصے سے اسرائیلی سیاسی جماعتیں مسئلۂ فلسطین پر بات کرنا بھی گوارا نہیں کرتی تھیں۔ بھارت کی کشمیر پر یلغار کے برعکس نیتن یاہو کے پلان پر اسرائیل کے اندر خاصی مزاحمت ہو رہی ہے۔ سب سے زیادہ مزاحمت تو اسرائیلی فوج کی طرف سے ہے۔ گذشتہ دنوں ۲۷۰سابق فوجی جرنیلوں، بشمول اسرائیلی خفیہ اداروں، موساد، شین بیٹ کے افسرا ن نے ایک مشترکہ خط میں نیتن یاہو کو اس پلان سے باز رہنے کی تلقین کی۔ ان کو خدشہ ہے کہ اس قدم سے کہیں محمود عباس کی زیر قیادت فلسطینی اتھارٹی تحلیل نہ ہوجائے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو فوج کا ایک بڑا حصہ اس کو کنٹرول کرنے میں مصروف رہے گا، اور یوں زیادہ تر وقت امن و امان کی بحالی کے لیے ڈیوٹیاں دینے سے اس کی جنگی کارکردگی متاثر ہوگی۔
اہم باخبر ذرائع نے راقم کو بتایا کہ اس حوالے سے امریکی انتظامیہ میں بھی گھمسان کا رَن پڑا ہے۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے داماد ااور مشیر جیرالڈ کوشنر اور اسرائیل میں امریکی سفیر ڈیوڈ فریڈمین کے درمیان اس مسئلے پر خاصے اختلافات پیدا ہوگئے ہیں۔ کوشنر جس نے ٹرمپ کا مڈل ایسٹ پلان، یعنی ’ڈیل آف دی سنچری‘ ترتیب دیا ہے، اس کا کہنا ہے کہ نیتن یاہو کے فلسطینی علاقوں کو ضم کرنے کے فیصلے سے امریکی پلان کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔
اس سال جنوری میں جب صدر ٹرمپ ، نیتن یاہو کی معیت میں وائٹ ہاؤس میں اپنے پلان کو ریلیز کر رہے تھے، تو یہی مطلب لیا گیا تھا کہ اس پلان کو عرب ممالک کی حمایت حاصل ہے۔ حال ہی میں امریکا کی طاقت ور یہودی لابی نے اپنا ایک اعلیٰ سطحی وفد ان ممالک کے دورے پر بھیجا تھا، جہاں ان کو واضح طور پر بتایا گیا کہ مغربی کنارے کو ضم کرنے کے پلان کے بعد وہ ٹرمپ کے پلان کی حمایت نہیں کر سکیں گے۔ انھی ذرائع نے راقم کو بتایا کہ کوشنر فی الحال خلیجی ممالک کی ناراضی مول لینے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ حال ہی میں امریکا میں متحدہ عرب امارات کے سفیر یوسف ال عتیبہ کا ایک مضمون اسرائیل کے ایک کثیر الاشاعت عبرانی روزنامے میں شائع ہوا، جس کی سرخی ہی یہ تھی کہ ’’تعلقات کو معمول پر لانے اور فلسطینی علاقوں کو ضم کرنے کی پالیسی ساتھ ساتھ نہیں چل سکتی ‘‘۔مگر امریکی سفیر فریڈمین کے مطابق یہ عرب ممالک کی وقتی اُچھل کود ہے اور خطّے میں اپنی اقتصادیات اور سلامتی کے لیے ان کو اسرائیل کی اشدضرورت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل ، جہاں کبھی پانی اور تیل کا فقدان ہوا کرتا تھا، اب خطے میں عرب ممالک کو پیچھے چھوڑ کر انرجی کا مرکز بننے والا ہے۔ پینے کے پانی کے لیے اردن کا اسرائیل پر انحصار ہے ۔ اس وقت مصر کو اسرائیل سے ۸۵لین کیوبک میٹر گیس فراہم ہورہی ہے، جس سے اسرائیل سالانہ۵؍ارب اور ۱۹کروڑ ڈالر کماتا ہے۔ فریڈ مین نے باور کرایا ہے کہ اگر ٹرمپ امریکی صدارتی انتخابات میں شکست سے دوچار ہوجاتے ہیں، تو ڈیموکریٹس کسی بھی صورت میں فلسطینی علاقوں کو ضم کرنے کے پلان کی حمایت نہیں کریں گے۔
دنیا بھر میں رہنے والے یہودی تارکین وطن ، جو ایک طرح سے اسرائیل کے بطورِ بازو کام کرتے ہیں، نیتن یاہو کے اس پلان میں خطرات دیکھتے ہیں۔ اسرائیل میں جہاں اس وقت ۶۷ لاکھ یہودی رہتے ہیں، وہاں ۵۴ لاکھ امریکا کے شہری ہیں۔ یہودی تارکین وطن امریکا میں ڈیموکریٹس اور یورپی ممالک کے رد عمل سے خائف ہیں۔ کئی یورپی ممالک نے فلسطینی علاقوں کو ضم کرنے کی صورت میں اسرائیل کے خلاف پابندیا ں لگانے کی دھمکی دی ہے اور کئی یورپی پارلیمنٹوں نے اس کی منظوری بھی دی ہے۔ چونکہ ’اوسلو معاہدے‘ کے پیچھے پورپی ممالک کی کاوشیں کار فرما تھیں اور اس میں دو ریاستی فارمولا کو تسلیم کیا گیا تھا، اس لیے یورپی ممالک اس کو دفن ہونا نہیں دینا چاہتے ہیں۔ تاہم، اسرائیل کو یقین ہے کہ یورپی ممالک شاید ہی دھمکیوں کو عملی جامہ پہنا پاسکیں گے۔ اس صورت میں ان کوبراہِ راست امریکا سے ٹکر لینی پڑے گی۔ امریکا کی ۲۷ریاستوں نے ایسے قوانین پاس کیے ہیں، جن کی رُو سے اسرائیل کے خلاف بائیکاٹ کی مہم چلانے والے اداروںو ممالک کے خلاف کارروائی ہوسکتی ہے۔ نیتن یاہو کے انتخابی حریف ریڈ اینڈ وائٹ پارٹی کے قائد بنی غانز جو اَب اقتدار میں ان کے حلیف ہیں، فلسطینی علاقوں کو ضم کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔ حکومت بناتے وقت طے پائے گئے معاہدے کی رُو سے نیتن یاہو کو اگلے سال وزیر اعظم کی کرسی بنی غانز کے لیے خالی کرنی پڑے گی۔
جس طرح انتہا پسند ہندوں کو مودی کی شکل میں اپنا نجات دہندہ نظر آتا ہے ، اسی طرح انتہا پسندوں یہودیوں کے لیے بھی نیتن یاہو ایک عطیہ ہیں۔ فلسطینی علاقوں کو ضم کرنے کے پلان پر بات چیت کرنے کے لیے حال ہی میں جب ایک امریکی یہودی وفد نیتن یاہو سے ملاقات کرنے ان کے دفتر پہنچا، اور اس کے مضمرات پر ان کو آگاہ کروا رہا تھا، تو انھوں نے اپنے میز کی دراز سے ایک منقش بکس نکالا ۔ اس میں۵۰۰ قبل مسیح زمانے کا ایک سکہ تھا، جو ان کے بقول مسجد اقصیٰ سے متصل کھدائی کے دوران اسرائیلی محکمہ آثار قدیمہ کو ملا ہے اور اس پر عبرانی میں نیتن یاہو کھدا ہو ا تھا۔ اس سے انھوں نے یہ فال نکالی ہے کہ یہودیوں کو اعلیٰ مقام دلوانے اور اسرائیل کو مضبوط و مستحکم کروانے کی ذمہ داری ان پر خدا کی طرف سے عائد کی گئی ہے۔ مگر اسرائیل میں احتسابی عمل شاید بھارت سے زیادہ مضبوط ہے اور وہاں اپوزیشن اور دیگر ادارے حکومت کے ساتھ ٹکر لینے کی پوزیشن میں ہیں۔
اس کے علاوہ تمام تر جارحانہ کارروائیوں کے باوجود یہودیوںکو ادراک تو ہوگیا ہے کہ وہ ناقابل تسخیر نہیں ہیں۔ اس کا اندازہ تو ۱۹۷۳ءکی جنگ مصر کے وقت ہو گیا تھا،مگر ۲۰۰۶ء میں جنگ لبنان اور ۲۰۱۴ء میں غزہ کی جنگ کے بعد یہ بات اور شدت کے ساتھ محسوس کی جارہی ہے۔ اس لیے دنیا بھر کے یہودی اور اسرائیل کے مقتدر طبقے چاہتے ہیں کہ اس سے پہلے کہ تاریخ کا پہیہ کوئی اور رخ اختیار کرے، اسرائیل کی سرحدوں کا تعین کرکے، پڑوسی ممالک سے اس کا وجود تسلیم کرایا جائے۔ اسرائیل کی فوج اور دنیا بھر کے یہودیوں نے جس طرح نیتن یاہو کے پلان کے مضمرات کا ایک معروضی انداز میں جائزہ لیا ہے، وہ بھارت کے لیے بھی ایک سبق ہے، جہاں کے اداروں کے لیے کشمیر ی عوام کے حقوق سلب کرنا اور پاکستان کے ساتھ دشمنی کو حب الوطنی ا ور بھارتی نیشنلزم ثابت کرنے کاپہلا اور آخری ذریعہ بنا ہوا ہے۔
گذشتہ دنوں بنگلہ دیش نے نام نہاد ’انٹرنیشنل وار کرائمز ٹریبونل ایکٹ‘ کے تحت مزید ۱۳؍افراد کو ۱۹۷۱ء میں مبینہ جنگی جرائم کے الزامات کے تحت حراست میں لیا ہے۔ یادرہے اپنے قیام سے ہی یہ ٹریبونل سنگین نوعیت کی بے ضابطگیوں اور عدالتی عمل کے ذریعے سیاسی انتقام کی وجہ سے بین الاقوامی برادری خصوصاً انسانی حقوق کی تنظیمات کی طرف سے تنقید کی زد میں ہے۔ اس ضمن میں بنگلہ دیشی حکومت کا یہ دعویٰ رہا ہے کہ مبینہ ’’جنگی جرائم کی عدالت،آج ۴۰سال گزرجانے کے بعد ۱۹۷۱ء کی جنگ کے متاثرین کو انصاف مہیا کررہی ہے‘‘۔ اس تناظر میں یہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ ٹریبونل کے تاریخی پس منظر پر کچھ روشنی ڈالی جائے، جس سے یہ واضح ہوگا کہ مذکورہ ٹریبونل اور اس کا خصوصی قانون بنگلہ دیش کی تاریخ کے مختلف ادوار میں ایک سیاسی اور سفارتی ہتھیار کے طور پر استعمال ہوتے رہے ہیں اور مذکورہ عدالت بھی اسی سیاسی عمل کی ایک کڑی ہے، جس کا حقیقی انصاف اور اصول قانون سے دُور دُور تک واسطہ نہیں۔
جنگی جرائم کی عدالتیں قائم کرنے کی سب سے پہلی کوشش سقوط ڈھاکہ کے فوراً بعد شیخ مجیب الرحمان نے اقتدار میں آتے ہی کی تھی اور ابتدائی طور پر دو سطح کی عدالتیں قائم کی گئی تھیں۔ پہلی سطح کی عدالت مقامی افراد کے خلاف مقدمات کے لیے،جب کہ دوسری سطح کی عدالت کا مقصدپاکستانی قیدیوں کے خلاف جنگی جرائم کے مقدمات قائم کرنا تھا۔لہٰذا، ۲۴ جنوری ۱۹۷۲ء کو پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر ایک صدارتی حکم نامے کے ذریعے بنگلہ دیش کولیبوریٹرز آرڈر ۱۹۷۲ء کے قانون کا اجرا کیا گیا۔ اس قانون کا واحد مقصد مقامی (غیر فوجی) افراد کے خلاف جنگی جرائم کے مقدمات قائم کرنا تھا۔ اس ضمن میں ۷۳ خصوصی عدالتیں قائم کی گئیں، جن کا مقصد پاکستانی انتظامیہ کی معاونت کرنے والے افراد کو سزائیں سنانا تھا۔ اس قانون کے تحت ۴۰ہزار افراد کو جنگی جرائم میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار کیا گیا، جن میں سے ۲۰ ہزار کے خلاف باقاعدہ چالان پیش کرکے انھیں حراست میں لیا گیا اور ان۲۰ ہزار میں سے ۷۵۲ کو مجرم قرار دیا گیا، لیکن ۳۰نومبر ۱۹۷۳ء کو شیخ مجیب الرحمان کی جانب سے عام معافی کے اعلان کے بعد ان کو بغیر کسی سزا کے رہا کردیا گیا۔ بعد ازاں ۳۱دسمبر ۱۹۷۵ کو جنرل ضیاءالرحمان نے کولیبوریٹرز آرڈ قانون کو ہی منسوخ کردیا۔ یہاں ایک نکتہ خصوصی توجہ کا متقاضی ہے کہ آج سنہ ۲۰۱۰ء سے ۲۰۲۰ء کے دوران شیخ حسینہ واجد کے اقتدار میں چلنے والی عدالت سے سزایافتہ یا گرفتار افراد میں سے ،ایک فرد بھی ۱۹۷۲ء میں گرفتار کیے گئے ۲۰ہزار مشتبہ افراد میں شامل نہیں تھا۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت کی نوزائیدہ بنگلہ دیشی حکومت کو جنگی جرائم کے مقدمات چلانے کے لیے درکار خصوصی مہارت اور بین الاقوامی قانون کی پیچیدگیوں پر اپنی کم مائیگی کا احساس تھا۔ اس تناظر میں اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ شیخ مجیب الرحمان بذات خود جنگی جرائم کے مقدمات چلانے میں دل چسپی نہیں رکھتے تھے بلکہ وہ ان خصوصی عدالتوں اور قوانین کو پاکستان سے بنگلہ دیش کو علیحدہ ملک تسلیم کروانے کے لیے صرف ایک سفارتی حربے کے طور پر استعمال کررہے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندستان، پاکستان اور بنگلہ دیش کےدرمیان ہونے والے سہ فریقی معاہدے کے فوراً بعد انھوں نے بنگلہ دیش میں عام معافی کا اعلان کردیا۔
عام معافی کے اعلان سے قبل ہی، بنگلہ دیشی حکومت نے مکتی باہنی کے تحت لڑنے والوں کے لیے خصوصی استثنا کا قانون بنگلہ دیش نیشنل لبریشن سٹرگل انڈیمنٹی آرڈر ۱۹۷۳ء پاس کردیا تھا۔ انڈیمنٹی آرڈر کے آرٹیکل ۲ کے تحت، ۱۹۷۱ء کے دوران مکتی باہنی کی طرف سے کیے جانے والے تمام جنگی جرائم اور بہیمانہ تشدد کو آزادی کی جدوجہد کا عنوان دے کر خصوصی استثنا دیتے ہوئے مکمل جائز قرار دیا گیا۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ جن جن جنگی جرائم کو انڈیمنٹی آرڈر کے تحت مکتی باہنی کے لیے جائز قرار دیا گیا بعینہ انھی جرائم کے الزامات لگا کر آج اپنے سیاسی مخالفین کو سزائیں سنائی جارہی ہیں۔ اس کھلے تضاد پر ممتاز برطانوی انسانی حقوق کے کارکن مسٹر جیفری رابرٹسن نے بالکل صحیح تبصرہ کیا ہے:
یہ دوہری قانونی بنیادوں پر مبنی ہے، جو حالیہ مقدمات کی کارروائی میں پوری طرح نمایاں ہیں، یعنی ’فاتح کا انصاف‘۔ جو تاریخ کے دائیں جانب ہیں ان کے جنگی جرائم کو معاف کر دیا جائے گا، جب کہ وہ جنھوں نے ایک متحدہ پاکستان کے لیے لڑائی لڑی ان کے ساتھ غداروں کی طرح سلوک کیا جائے گا۔
۷۰ کے عشرے کے اوائل میں بنگلہ دیش میں جنگی جرائم کے حوالے سے قانون سازی اور منسوخی کا کھیل جاری رہا، حتیٰ کہ ۲۰ جولائی ۱۹۷۳ کو بنگلہ دیشی پارلیمنٹ کے ذریعے پہلی دفعہ انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل ایکٹ ۱۹۷۳ء کا اجرا عمل میں آیا۔ اس قانون کا مقصد ۱۹۵ پاکستانی فوجیوں پر باقاعدہ مقدمات قائم کرنا تھا۔ اس قانون پر فوجداری قانون اور قانون شہادت کے اصول و ضوابط کا اطلاق ممکن نہیں تھا ۔
۱۹۷۴ء میں ہونے والے سہ فریقی معاہدے (شملہ معاہدے) کے تحت طرفین نے ایک سیاسی و قانونی سمجھوتا کیا۔ لہٰذا ایک طرف تو پاکستان نے مذکورہ معاہدے کے بعد بنگلہ دیش کو باقاعدہ علیحدہ آزاد ریاست تسلیم کیا تو دوسری طرف بنگلہ دیش نے بھی ان ۱۹۵قیدیوں کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہیں کی اور بعد ازاں جنگی قیدیوں کا تبادلہ عمل میں آیا۔
چار عشروں کے بعد ۲۰۰۹ء میں عوامی لیگ کی حکومت نے ایک دفعہ پھر سے عوامی جذبات پر سیاست کرتے ہوئے جنگی جرائم کی عدالتوں کا احیا کیا، جن کے تحت سزائیں اور گرفتاریاں ابھی تک جاری ہیں۔ ان عدالتوں کا قیام روزِ اول سے ہی سیاسی اور سفارتی دباؤ ڈالنے کے لیے عمل میں لایا گیا تھا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ۱۹۷۳ء میں یہ دباؤ خارجی سطح پر ایک سفارتی حربے کے طور پر استعمال کیا گیا اور آج حسینہ واجد داخلی سیاسی محاذ پر اس کا استعمال کررہی ہیں۔
جموں و کشمیر کا دور افتادوہ اور پس ماندہ خِطّۂ لداخ، جہاں اس وقت چینی اور بھارتی فوج برسرِپیکار ہے، ایک صدی قبل تک خاصا متمول علاقہ تھا۔ متحدہ ہندستان ، تبت، چین ، ترکستان و وسط ایشیا کی ایک اہم گزرگاہ ہوا کرتا تھا۔ خوب صورت ارضیاتی خدو خال، حد نگاہ تک بلندوبالا پہاڑ، کھلے میدان۔ یہ خطہ بہت حد تک پاکستانی صوبہ بلوچستان سے مماثلت رکھتا ہے۔ اگست ۲۰۱۹ء میں بھارت نے اس خطے کو جموں و کشمیرسے الگ کرکے مرکز کے زیر انتظام ایک علاقہ قرار دے ڈالا۔
دو ضلعوں لہیہ اور کرگل پر مشتمل اس خطے کا رقبہ ۸۷ہزار ۲سو ۹۷ مربع کلومیٹر ہے۔ اکسائی چن علاقہ کے چین کے زیر انتظام ہونے کی وجہ سے اصل رقبہ صرف ۳۲ ہزار ایک سو ۸۵ مربع کلومیٹر ہی ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ پاکستان کے بھی اکثر صحافی اور دانش ور اس خطے کو بودھ مت کے ماننے والوں کا علاقہ قرار دیتے ہیں، حالانکہ ۲۰۱۱ء میں بھارتی حکومت کی مردم شماری کے مطابق اس خطے کی ۲لاکھ ۷۴ہزار ۲سو ۸۹ کی آبادی میں ۴۶ء۴۰ فی صد مسلمان اور ۳۶ء۶۵ فی صد بودھ مت کے پیروکار ہیں۔لہیہ ضلع میں بودھ آبادی ۶۶ء۳۹ فی صد ہے،مگر اس ضلعے میں بھی ۲۵مسلم اکثریتی گاؤں ہیں۔یعنی خطّۂ لداخ میں مجموعی طورپر مسلمان ۴۶ فی صد اور بودھ ۳۹ فی صد ہیں۔ ۲۰۱۱ء کی
اس خطے کے نام وَر تاریخ دان عبدالغنی شیخ کے مطابق، یہ علاقہ ایک صدی قبل تک دنیا سے اس قدر جڑا تھا کہ ترکی یہاں کی دوسری زبان تھی۔ ۱۹ویں صدی میں اور ۲۰ویں صدی کے اوائل تک یہ علاقہ برطانیہ، چین اور روس کی چپقلش کا مرکز رہا۔ تاجروں، سیاحوں، جاسوسوں اور سپاہیوں کے لیے ترکستان، یعنی سنکیانگ کے شہروں یارقند، خوتان اور کاشغر کے سفر کے لیے لداخ ایک اہم زمینی رابطہ تھا۔ لیہہ شہر میں بودھ خانقاہ نمگیال سیموگمپا، یا تاریخی جامع مسجد کی سیڑھیوں پر بیٹھے معمر افراد ترکستان کو یاد کرتے ہیں، اور یارقند، کاشغر یا تبت کے دارالحکومت لہاسہ، گلگت، بلتستان، ہنزہ و چترال کی بہت سی کہانیاں سنائے بغیر نہیں جانے دیتے۔ لہیہ کے بازار میں ایک معمر لداخی نے مجھے بتایا تھا کہ ہم عذابِ الٰہی کے شکار ہیں،کیونکہ ہمارے بزرگوں نے نعمتوں کی قدر نہیں کی۔
لداخی محقق ریچن ڈولما کے مطابق: ’’کشمیر کی طرح لداخ بھی ۲۰ویں صدی میں وقوع پذیر سیاسی واقعات کی وجہ سے دنیا سے الگ تھلگ ہو کر رہ گیا ہے۔ اس خطے کی بقا ، ترقی ، اور عظمت رفتہ کی بحالی کا دارومدار قراقرم کے بند درّوں کو دوبارہ تجارت اور راہداری کے لیے کھولنے میں ہی مضمر ہے‘‘۔ قدیم شاہراہ ریشم کی ایک شاخ اس خطے سے ہوکر گزرتی تھی۔ چین کے ہاتھوں ۱۹۴۹ء میں مشرقی ترکستان، یعنی سنکیانگ اور پھر ۱۹۵۰ءمیں تبت پر قبضے کے بعد آہنی دیوار کھڑی کرنے سے یہ راہداریاں بند ہوگئیں۔ مگر سب سے زیادہ نقصان ۱۹۴۷ء میں تقسیم ہند اور تنازع کشمیر کی وجہ سے اس خطے میں پیدا ہوئی کشیدگی کی وجہ سے ہوا۔
۱۹۶۲ءکی بھارت چین جنگ سمیت، یہ خِطّہ پانچ جنگوں کے زخم کھا چکا ہے۔۔بھارت کی پاکستان اور چین کے ساتھ چپقلش نے اس پورے خطے کے تاریخی رابطے منقطع کرکے اس کو غربت اور افلاس کی گہرائی میں دھکیل دیا ہے۔ جمو ں و کشمیر کے ایک محقق سلیم بیگ کا کہنا ہے کہ: کشیدگی اور سیاسی واقعات نے اس خطے کو دنیا سے کاٹ کر رکھ دیا۔ اس خطے میں سرکاری ملازم اپنے تقرر کو سزا تصور کرتے ہیں۔ نویں صدی کی ا یک فارسی قلمی دستاویز حدود عالم کے مطابق وسط ایشیا کے حاجی لداخ کے راستے مقدس سفر پر جاتے تھے۔ ان روابط کی وجہ سے ترک زبان رابطے کے ایک ذریعے کے طور پر رائج ہوگئی تھی۔ خود لداخی زبان میں کئی ترک الفاظ داخل ہوگئے ۔ ترک تاجروں نے لداخ میں سکونت اختیار کرکے کشمیری اور لداخی عورتوں سے شادیا ں کی۔ ان کی نسل کو ’آرغون‘ کہتے ہیں۔ دیگر نسلوں میں یہاں مون، منگول اور درد (Dardic)قابلِ ذکر ہیں۔
گذشتہ صدی کے آخری عشرے تک لداخ میں مسلم اور بودھ آبادی میں خاصا باہمی میل جول تھا۔ مذہبی نفرت کا کوئی نام و نشان نہیں تھا۔مسلمان نام بھی مقامی رنگ لیے ہوتے تھے۔ مغل دور میں لداخ کے باج گزار نمگیال خاندان کے فرماں روا خطوط و سکوں پر محمود شاہ یا اسی طرح کے مسلمان ناموں سے اپنے آپ کو کہلوانا پسند کرتے تھے۔ لداخی بودھ البتہ ڈوگرہ ہندوؤں سے خلش رکھتے تھے۔ وہ یہ بھول نہیں سکتے تھے کہ جب ۱۸۴۱ءمیں ڈوگرہ جنرل زور آور سنگھ نے لداخ پر فوج کشی کی، تو ان کی عبادت گاہوں کو اصطبل بناکر ان کی بے حرمتی کی گئی۔ مگر جو ں جوں بھارتی سیاست کے عناصر لداخ میں جڑ پکڑتے گئے، دونوں مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان محاذ آرائی بھی شروع ہوگئی۔ بودھوں کو بتایا گیا کہ ان کی پس ماندگی کی وجہ سرینگر کے حکمران ہیں۔ چونکہ پوری ریاست میں ان کی آبادی سکھوں سے بھی کم تھی، تو ان کا مجموعی سیاسی وزن بھی کم تھا۔
۱۹۹۰ء کے اوائل میں یہاں کی بودھ آبادی نے اس خطے کو کشمیر سے الگ کرکے نئی دہلی کا زیر انتظام علاقہ بنانے کے لیے احتجاج بھی شروع کیا تھا، اور مسلمانوں نے اس کی جم کر مخالفت کی تھی۔ اس کے رد عمل میں بودھ تنظیموں نے مسلمانوں کے سوشل بائیکاٹ کی کال دی ، جو ۱۹۹۴ءتک جاری رہا۔ ۱۹۹۴ءمیں جب کشمیر میں گور نر راج نافذ تھا، تو گفت و شنید کے بعد لداخ پہاڑی ترقیاتی کونسل تشکیل دی گئی۔ اس کو بجٹ بنانے کا اختیار دے کر مقامی انتظامیہ کو اس کے ماتحت کردیا گیا۔ بعدازاں ۲۰۰۳ء میں بھارتی کنٹرول میں جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ مفتی محمد سعید نے قریب کے مسلم اکثریتی کرگل ضلع کے لیے بھی اسی طرح کی کونسل کی منظوری دے دی۔ ۲۰۱۲ء میں اس ضلع کے بودھ اکثریتی تحصیل زنسکار میں بودھ آبادی نے مسلمانوں کے مکانوں و دکانوں پر دھاوا بول دیا۔ وجہ یہ تھی کہ بودھ فرقہ کے ۲۲؍افراد مشرف بہ اسلام ہوگئے تھے۔ ہندو مت کی طرح لداخی بودھوں میں بھی ذات پات کا عنصر سرایت کر گیا ہے۔ اس لیے نچلی ذات کے بودھ خاصے نالاں رہتے ہیں۔ زنسکار بودھ ایسوسی ایشن نے اس واقعے کے بعد عرصے تک مسلمانوں کا سماجی بائیکاٹ کردیا۔ اگر کوئی بودھ کسی مسلم تاجر سے کوئی بھی چیز خریدتا ہو ا پایا جاتا تو اس پر باقاعدہ جرمانہ عائد ہوجاتا تھا۔
لداخ کا خِطہ کئی عجیب و غریب رسم و رواج کی وجہ سے بھی خاصا مشہور ہے، مگر آہستہ آہستہ وہ اب معدوم ہوتے جارہے ہیں۔ کئی مؤرخوں نے درد نسل کو اصل اور مستند ’ہندآرین نسل‘ قرار دیا ہے۔ ۱۹۷۹ءمیں دو جرمن خواتین کو اس خطے میں چند ممنوعہ علاقوں میں گھومنے کی پاداش میں گرفتار کیا گیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ خواتین مرد ساتھیوں کی تلاش میں تھیں، تاکہ اصیل آرین نسل پیدا کر سکیں۔ اس علاقے میں کئی دیہاتوں میں آج تک ایک عورت کے کئی شوہر ہوتے ہیں، اگرچہ اس رسم پر ۱۹۵۰ءسے قانونی طور پر پابندی لگائی جا چکی ہے۔ اکثر ایک خاندان میں دو بھائیوں کی مشترکہ بیوی ہوتی ہے، تاکہ زرعی زمین کی تقسیم روکی جاسکے۔ پورے خطے میں زرعی زمین کا رقبہ محض ۶۲۰مربع کلومیٹر ہے۔کئی دیگر رسوم بودھ کلچر کا حصہ ہیں۔ نوبرہ تحصیل کے نمبردار زیرنگ نمگیال کے مطابق: ’’اکثر خاندان سب سے چھوٹے بیٹے کو لاما بنانے کے لیے خانقاہ بھیجتے ہیں۔ لاما، لداخیوںکی زندگی کا اہم جز ہوتا ہے۔ تقریباً سبھی دیہاتوں میں ایک یا دو بودھ خانقاہیں موجود ہیں، جن کا انتظام و انصرام لاماؤں کے سپرد ہوتا ہے‘‘۔
خطے کے روابط منقطع ہونے کا سب سے زیادہ نقصان مسلم اکثریتی کرگل ضلع کو اٹھانا پڑا۔ اس کے علاوہ بھارت اورپاکستان جنگوں میں اس ضلع کے کئی دیہات کبھی ادھر تو کبھی ادھر چلے آتے تھے۔ ۱۹۹۹ءکی کرگل جنگ کے بعد جب لداخ کے پہلے کور کمانڈر جنرل ارجن رائے کی ایما پر دیہات کی سرکاری طور پر پیمایش وغیرہ کی گئی، تو معلوم ہوا کہ ترتک علاقے کے کئی دیہات تو سرکاری ریکارڈ ہی میں نہیں ہیں۔ اس لیے ۲۰۰۱ءکی مردم شماری میں پہلی بار معلوم ہوا کہ لداخ خطے میں مسلم آبادی کا تناسب ۴۷ فی صد ہے اور بودھ آبادی سے زیاد ہ ہے۔ ورنہ اس سے قبل اس خطے کو بودھ اکثریتی علاقہ مانا جاتا تھا اور اکثر لکھنے والے ابھی تک پرانے اعداد شمار کو ہی استعمال کرتے ہیں۔ کرگل اسکردو تحصیل کا حصہ ہوتا تھا۔ اس لیے یہاں کی زمینوں و جایداد کے ریکارڈ ابھی بھی اسکردو کے محافظ خانے میں موجود ہیں۔ کسی عدالتی مقدمے یا تنازع کی صورت میں ابھی بھی ریکارڈ اسکردو سے ہی منگوایا جاتا ہے۔
لداخ کو زمینی طور پر باقی دنیا سے ملانے والے دو راستے، سرینگر کی طرف زوجیلا درہ اور ہماچل پردیش کی طرف روہتانگ درہ چھے ماہ کے لیے بند ہوجاتے ہیں۔ کرگل اور اسکردو کے درمیان ۱۹۲کلومیٹر کا فاصلہ ہے اور یہ پورا سال کھلا رہتا تھا۔ نوبرہ میں کھردنگلہ کے مقام سے کاشغر ، خوتان اور یارقند کو جانے والے راستے بھی مسافروںاور قافلوں کا پچھلے کئی عشروں سے انتظار کر رہے ہیں۔ مقامی دانش ور حاجی عبدالرزاق کا کہنا ہے: ’’ان کے والد اکثر یارقند اور کاشغر تجارت کی غرض سے جاتے تھے۔ نوبرا وادی میں وسط ایشیا اور دشت گوبی کی پہچان، یعنی دو اُونٹ کوہان والے ملتے ہیں، گو کہ ان کی آبادی اب خاصی کم ہو گئی ہے‘‘۔ چند برس قبل سلیم بیگ ، عبدالغنی شیخ اور لیہہ میں مقیم کئی احباب نے تاریخی سا سوما مسجد کی تجدید و تزوین کرکے اس سے متصل تین منزلہ میوزیم بنایا۔ یہ میوزیم اس خطے کے ترکستان اور وسط ایشیا کے درمیان تاریخی روابط کا امین ہے۔ ترک آرغون خاندانوں نے نوادرات و مخطوطات کا ایک خاصا بڑا ذخیرہ اس میوزیم کی نذر کیا۔ قدیمی یارقندی قالین، اور کئی مخطوطات جامع مسجد سے یہاں منتقل کیے گئے۔ ۱۷ویں صدی میں جب اس مسجد کی تعمیر کی گئی تھی، تب بودھو ں کی سب سے مقدس خانقاہ ہمپس خانقاہ کے ہیڈ لاما ستساگ راسپا نے لکڑی کی ایک چھڑی مسجد کے امام صاحب کی نذر کی، جو مسجد کے اندر ہی ایک فریم میں رکھی گئی تھی۔ مسجد کا فرش ترک تاجروں نے فراہم کیاتھا۔
فی الوقت چینی اور بھارتی فوجوں کے درمیان کش مکش کا مرکز گلوان وادی بھی ایک ترک آرغون غلام رسول گلوان [م: ۱۳مارچ ۱۹۲۵ء] کے نام سے موسوم ہے، جو ۱۸۹۲ءمیں ایرل آف ڈیمور [مصنّف: The Pamir] کی قیادت میں سیاحوں کے قافلے کی رہنمائی کررہے تھے ،مگر یہ قافلہ برفانی طوفان میں بھٹک گیا تھا۔ اپنی کتاب لداخ: تہذیب و ثقافت [ناشر: کریسنٹ ہاؤس پبلی کیشنز، جموں، ۲۰۰۵ء، ضخامت:۵۱۴] میں عبدالغنی شیخ لکھتے ہیں کہ: گلوان نے متبادل راستے کو دریافت کرکے اس قافلہ کو صحیح وسلامت منزل تک پہنچایا۔ ایرل آف ڈیمور نے اس وادی کو گلوان کے نام سے موسوم کیا۔ اسی طرح دولت بیگ الدائی کا وسیع و عریض میدان ترک سردار سلطا ن سعید خان المعروف دولت بیگ کے نام سے موسوم ہے۔ ۱۶ویں صدی میں لداخ اور کشمیرپر فوج کشی کے بعد سعید خان کا قافلہ واپس یارقند جا رہا تھا، تو وہ برفانی طوفان میں گھر کر ہلاک ہوگیا۔ تین صدی بعد جب برطانوی زمین پیما اور نقشہ ساز جنرل والٹر رویر لارنس [م:۱۹۴۰ء] اس علاقے میں پہنچا ، تو وہا ں انسانی اور جانوروں کی ہڈیاں بکھری ہوئی دیکھیں۔ اس کو بتایا گیا کہ یہ اولدی قبیلہ کے دولت بیگ اور اس کے قافلہ کی باقیات ہیں، تو اس نے ریکارڈ میں اس میدان کا نام ’دولت بیگ اولدی‘ درج کردیا۔
افغانستان کی طرح یہ خطّہ بھی عالمی طاقتوں کی کش مکش یعنی ’گریٹ گیم‘ کا شکار رہا ہے۔ مغلوں اور پھر برطانوی حکومت نے لداخ پر بر اہِ راست عمل داری کے بجائے اس کو ایک بفرعلاقہ کے طور پر استعمال کیا۔ ۱۸۷۲ءکو ڈوگرہ مہاراجا رنبیر سنگھ نے گوالیار اور نیپال کے حکمرانوں کو ساتھ ملاکر زار روس الیگزنڈر دوم کو خط لکھ کر ہندستان پر حملہ کرنے کی دعوت دی، اور زار روس کو یقین دلایا کہ اس حملے کی صورت میں سبھی ریاستیں برطانوی راج کے خلاف روسی فوج کا ساتھ دیں گی۔ یہ خط فرغانہ کے روسی گورنر کے ذریعے سے زار روس کو بھیجا گیا تھا، مگر فرغانہ میں اس خط کی تفصیلات برطانوی جاسوسوں کے ہتھے چڑھ گئیں ۔ برطانوی حکومت نے مہاراجا رنبیر سنگھ کو سبق سکھاتے ہوئے، لداخ میں اپنا ایک مستقل نمایندہ مقرر کردیا۔ ساتھ ہی ریاستوں کے حکمرانوں پر بھی غیرممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات پر پابندی عائد کردی گئی۔ عبدالغنی شیخ کے بقول زار روس نے اپنے جواب میں لکھا تھا کہ وہ فی الحال ابھی ترکی کے ساتھ بر سر پیکار ہونے کی تیاری کر رہا ہے۔ استنبول فتح کرنے کے بعد وہ ہندستان کا رخ کرے گا۔ ۱۸۷۷ءمیں روس نے ترکی سے جنگ چھیڑدی، جس کے نتیجے میں بلغاریہ، رومانیہ، سربیا اور مونٹی نیگرو، عثمانی ترک سلطنت کے ہاتھ سے نکل گئے۔تاہم، زار کا استنبول پہنچنا خواب ہی رہا۔
خطے میں مسلمانوں اور بودھ مت کے پیروکاروں کے درمیان وہ اب پہلی سی اُلفت نہیں رہی، مگر ماضی اور عظمت رفتہ کی یادیں قدرے مشترک ہیں۔ یہاں کی پوری آبادی الگ تھلگ اور ایک کونے میں زندگی گزارنے سے عاجز آچکی ہے۔ چند ماہ قبل جب لداخ کو کشمیر سے بھارت نے الگ کیا ، تو سرکاری ملازمت اور پولیس میں لداخ کے مکینوں کو لیہہ اور کرگل پوسٹنگ کے لیے بھیجا گیا،لیکن تقریباً سبھی نے جانے سے انکار کردیا۔ انتظامیہ نے زبردستی کرکے انھیں مرکز کے زیرانتظام علاقے کے ملازمین میں شامل کیا ہے۔ لداخی محقق ڈولما کے مطابق بھارت، چین اور پاکستان لداخ کی تزویراتی افادیت کو تسلیم تو کرتے ہیں، مگر فوجی نقطۂ نظر سے آگے نہیں دیکھ پاتے۔ اللہ کرے کہ مسئلہ کشمیر کا کوئی پُرامن حل تلاش کیا جائے، تاکہ اس خطے کو کشیدگی سے نجات حاصل ہو اور یہ ایک بار پھر مسکراہٹوں اور آسودگی کا گہوارہ بنے۔
۷۰ سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے کہ اہلِ کشمیر بھارتی حکومت کے زیر انتظام کشمیر میں اپنی آبادی اور خصوصی حیثیت کی تبدیلی کے خوف کے تحت زندگی بسر کر رہے ہیں۔ وہی جموں اور کشمیر جو چند سال پہلے تک خصوصی درجہ رکھنے والی ریاست تھی، اور کشمیری جو مدت تک متعصبانہ خوف کے تحت زندگی گزار رہے تھے، ان کے لیے یہ اضطراب اب اور بھی گہرا ہوچکا ہے۔
۵؍اگست ، ۲۰۱۹ء کو ، بھارتی دستور کی دفعہ ۳۷۰، جس نے ریاست کو خصوصی حیثیت دی تھی، اسے مختلف آئینی شقوں کے اطلاق سے خارج کر کے منسوخ کردیا گیا ، جب کہ دفعہ ۳۵- اے، جس نے مقامی آبادی کے لیے رہایش کے کچھ مخصوص حقوق محفوظ کر رکھے تھے، اس تحفظ اور بقا کے سارے انتظامات کو بھی ملیامیٹ کردیا گیا ہے۔
ان دونوں دفعات نے اس بات کی ضمانت دی تھی کہ زمین خریدنے اور اس کے مالکانہ حقوق لینے یا سرکاری ملازمتوں کے لیے درخواست دینے کا حق صرف ان لوگوں کا ہے، جو مستقل طور پر نسل در نسل یہاں پر مستقل رہایش پذیر چلے آرہے تھے۔ ان قوانین کا مطلب یہ بھی تھا کہ جموں و کشمیر سے باہر لوگوں پر کاروباری سرمایہ کاری پر پابندی لگائی جائے یا جموں و کشمیر کی اراضی اور معیشت پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے بڑی اجارہ دار کمپنیوں کی کوششوں پر پابندی لگائی جائے۔ یہ سب کشمیریوں کے حقوق کے تحفظ ،اور انھیں ایک مخصوص سطح کی سیاسی اور معاشی خودمختاری کا حق دار بنانے کے لیے کیا گیا تھا۔
اکتوبر۲۰۱۹ء میں ، جموں و کشمیر کی ریاست کو عملی طور پر تحلیل کردیا گیا ، جس کا مطلب یہ تھا کہ اب اس کی ریاستی اسمبلی سے قانون سازی کا اختیار ختم کر دیا گیا ہے ،اسے نئی دہلی حکومت کے تحت براہِ راست جموں اور کشمیر اور لداخ میں تقسیم کردیا گیا ہے۔اس فیصلے کے نفاذ سے پہلے تک جموں و کشمیر، بھارت سے وابستہ واحد مسلم اکثریتی ریاست تھی۔
۳۷۰ اور ۳۵-اے دفعات کو منسوخ کرنے اور ریاست کے طور پر اس کی حیثیت کے خاتمے سے قبل، یہ خطہ مکمل طور پر متحد تھا ۔مگر اب یہاں بسنے والوں کی حقیقی بے اختیاری جلد ہی محسوس ہونا شروع ہوگئی ہے، جو خصوصی مقامی شناخت کے ضائع ہونے سے کہیں زیادہ بڑا اور گہرا صدمہ ہے۔ ریاستی مقننہ میں شمولیت کے آئینی تقاضے کو پورا کیے بغیر ، چوری اور دھوکا دہی کے ذریعے دفعہ ۳۷۰ کو منسوخ کرنا اور سابقہ ریاست کا خاتمہ، ماہرین قانون کی نظر میں یک سر ناجائز عمل ہے۔ بھارتی عدالت عظمیٰ میں ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کے اس اقدام کو چیلنج کرنے والی درخواستیں زیرسماعت ہیں، اور سپریم کورٹ ان کی سماعت متعدد بار ملتوی کرتا چلا آرہا ہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ۳۱مارچ ۲۰۲۰ءکو رات گئے، بھارتی حکومت نے جموں و کشمیر کے لیے باضابطہ طور پر ایک ’نئے ڈومیسائل کی حکمرانی‘ کا اعلان کیا تو جان لینا چاہیے کہ اس کے نتیجے میں مستقبل میں کیا ہوگا؟مختصر لفظوں میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ یہ ایسی تفصیلات ہیں جن کا تعلق ’شیطان‘ سے ہے۔
جموں و کشمیر کی ’تنظیم نو‘ کے نام پر ریاستی قوانین اور احکامات نامی نوٹیفکیشن کے مطابق، کوئی بھی فرد جو ۱۵ سال تک جموں و کشمیر میں کسی بھی حوالے سے مقیم رہا ہے یا اس علاقے میں سات سال تک تعلیم حاصل کرچکا ہے ، اور کلاس ۱۰ یا کلاس ۱۲ کے امتحان میں حاضر ہوا ہے ، اسے یہاں پر رہایشی حقوق حاصل ہوں گے، اور وہ مختلف سرکاری ملازمتوں کے لیے اہل ہوگا۔
اس نوٹیفکیشن کا وقت ، بھارت نے کورونا (COVID-19 ) پر قابو پانے کے لیے ملک بھر میں لاک ڈاؤن کا اعلان کرنے کے صرف ایک ہفتے کے اندر کیا، جو وقت، طریق کار ، مقصد کے اعتبار سے بہت ہی عجیب حرکت ہے۔ اگرچہ بھارت کے دیگر حصوں میں یہ لاک ڈاؤن وائرس کے خلاف جنگ میں حفاظتی اقدام ہے ، لیکن کشمیر میں اس نے بالکل ہی مختلف معنی اختیار کرلیے ہیں، جو درحقیقت لاک ڈاؤن کے اندر ایک بھیانک لاک ڈاؤن تھا۔ ایسا لاک ڈاؤن جو ۵؍ اگست ۲۰۱۹ء سے پہلے ہی موجود تھا۔
ریاست جموں و کشمیر کے نظامِ مواصلات کی مکمل طور پر ناکہ بندی سمیت فوج کے تحت، جموں و کشمیر پر ایک سخت جبری کنٹرول میں بھارتی حکومت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے اور مزید ذیلی یونٹوں میں تقسیم کرنے کی کارروائی کی۔ کشمیر میں اب تک تاریخ کی طویل ترین شہری بندشوں کا مقصد، عوامی غم و غصے کو ختم کرنے کے مقاصد حاصل کرنا ہے اور اس بات کو بھی یقینی بنانا ہے کہ یہاں پر رہنے والے مظلوموں کے یہ دُکھ درد کسی گہرے اندھے سیاہ کنویں میں دفن ہوجائیں، اور ان لوگوں کی کوئی چیخ پکارباہر سنائی نہ دے۔
’نئے رہایشی‘ اور ’مالکانہ قوانین‘ کا نفاذ اگست ۲۰۱۹ء کے جموں و کشمیر میں لاک ڈاؤن کے غیرآئینی ، غیرجمہوری اور اخلاقی طور پر غلط لاک ڈاؤن کا تسلسل ہے۔ لیکن اب وہی جبری اقدام کشمیر میں بھارت کی حکمت عملی کا بنیادی اصول بن گیا ہے، جس میں دکھاوے کی بھی کوئی پابندی نہیں رہی۔ اگر کشمیر میں پہلا لاک ڈاؤن اس کی خصوصی حیثیت اور تحفظ سے محروم ہونے پر عوامی شور و غل کو روکنے میں کامیاب رہا، تو دوسرے لاک ڈاؤن سے بھارتی حکومت اپنے بڑے ایجنڈے کے تحت جو کچھ کرنا چاہتی ہے ،اس کا نقشہ بچھانے کے لیے یہ ایک بڑا قدم ہے۔
نئے رہایشی اور مالکانہ قوانین کے نفاذ نے، خاص طور پر جموں و کشمیر کے نوجوانوں میں ، ان کی نسلی اور مذہبی شناخت کو بے وزن اور بے وقعت بنانے کا جو پیغام دیا ہے، اس کے نتیجے میں وہاں ہر مذہب اور قوم میں بے چینی پیدا ہوگئی ہے، کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ مستقبل میں وہ سرکاری ملازمتوں سے محروم ہوجائیں گے۔ اس دوران میں یہاں متعدد بھرتیوں کا عمل روک دیا گیا ہے، جس نے بہت سے شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے۔ گویا کہ یہ کام نئے قواعد کے تحت ڈومیسائل پر جموں و کشمیر سے باہر کے افراد کو بھی درخواست دینے کی اجازت دینے کے لیے جان بوجھ کر کیا گیا تھا۔
۲۷ فروری کو ،[بھارتی] حکام نے جموں اینڈ کشمیر بنک کی ڈیڑھ ہزار سے زائد ملازمتوں کے لیے بھرتی کے اس عمل کو ختم کردیا ، جو ۲۰۱۸ءسے جاری تھا ۔ اس طرح ان ہزاروں مقامی نوجوانوں کے معاشی مستقبل کو خطرے میں ڈال دیا گیا، جو اپنے ابتدائی امتحانات میں کامیابی کے بعد ملازمت ملنے کا انتظار کر رہے تھے۔ ۲جون ۲۰۲۰ء کو ، بنک نے ایک ہزار ۸سو ۵۰ ملازمتوں کے لیے اشتہارات دیے، جس میں نئے ڈومیسائلوں کی بنیاد پر بھی درخواستیں طلب کی گئی ہیں۔
وبائی امراض کے طوفان بیچ ، جب اسپتالوں کو بنیادی ڈھانچے کی تباہی اور عملے کی کمی کا سامنا ہے۔ حکومت نے ہندو اکثریتی خطے جموں، سری نگر اور کٹھوعہ ضلع میں سیکڑوں طبّی ملازمتوں کا راستہ کھولا ہے۔ جو عارضی اور مستقل معاہدے کی پیش کش کرتا ہے۔
انتظامیہ ، تعلیم اور صحت کی دیکھ بھال کے مختلف شعبوں میں بھی بھرتی ، تقرر اور ترقی کے عمل کو بھی روک دیا گیا ہے، جس کے بعد جموں و کشمیر پبلک سروس کمیشن ، جو سول سروس میں بھرتیوں کا ذمہ دار ہے ، اسے ختم کردیا گیا ہے اور ایک نیا ضابطہ تشکیل دیا گیا ہے۔ریاست سے باہر کے لوگوں کے ہاتھوں ملازمت سے محروم ہونے کا خطرہ موجودہ سرکاری ملازمین کی بےچینیوں میں اضافے کے ساتھ ان کی تنخواہ ، ترقیوں ، وغیرہ سے متعلق قانونی چارہ جوئی کا ایک سلسلہ دراز کرتا ہے، جس کے دائرے میں ۳۰ہزار سے زیادہ مقدمات سامنے آ چکے ہیں۔
اس سال ۲۹؍اپریل کو جموں وکشمیر نے اپنا ریاستی وجود کھو دیا ہے، انجامِ کار ’انتظامی ٹریبونل ایکٹ ، ۱۹۸۵ء‘ کو جموں و کشمیر اور لداخ پر لاگو کر دیا گیا ہے۔ جون میں ، سنٹرل ایڈمنسٹریٹو ٹربیونل کے جموں بنچ کے قیام کا اعلان کیا گیا تھا جس میں جموں و کشمیر اور لداخ کے مرکزی علاقوں کا احاطہ کیا جائے گا۔ انتظامی بیوروکریسی میں مقامی لوگوں کو بُر ی طرح نظرانداز کیا گیا ہے یا انھیں ڈیپوٹیشن پر بھیج دیا گیا ہے۔ اس عمل نے لوگوں کے صدمے کو مزید بڑھا دیا ہے۔ دفعہ ۳۷۰ کی منسوخی کے بعد ،آج صورتِ حال یہ ہے کہ جموں و کشمیر انتظامیہ میں اعلیٰ بیوروکریٹک عہدوں کی اکثریت، ریاست جموں و کشمیرسے باہر کے لوگوں کے پاس ہے۔
ان نئے ’رہایشی حقوق‘ (ڈومیسائل)سے فوری طور پر فائدہ اٹھانے والے وہ ہزاروں ہندو اور سکھ مہاجرین بہت فائدے میں رہیں گے، جو ۱۹۴۷ء میں پاکستانی علاقوں سے آکر جموں شہر کے نواح میں آباد ہوگئے ہیں۔ ڈومیسائل سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کے قواعد چونکہ بہت حد تک نرم کردیے گئے ہیں ، لہٰذا ایسے لوگوں کی صحیح تعداد کا اندازہ لگانے کا کوئی معیار نہیں ہے جو اس سے بھرپور فائدہ اُٹھانے کی کوشش کریں۔
بھارت سے آنے والے ہزاروں بیوروکریٹوں اور نجی شعبے میں کام کرنے والوں نے گذشتہ ۷۰ سالوں میں جموں و کشمیر میں مطلوبہ ۱۵ سال سے زیادہ مدت گزاری ہے۔ اسی طرح بھارتی مسلح افواج کا ایک قابل ذکر حصہ جموں و کشمیر میں مرکوز چلا آرہا ہے اور بہت سے لوگوں نے سابقہ ریاست میں متعدد اوقات میں ملازمانہ خدمات انجام دے رکھی ہیں۔ ان حوالوں سے بہت سارے افراد بڑی آسانی سے ڈومیسائل کے نئے معیار کے تحت یہاں سکونتی حق حاصل کرنے کے اہل بن گئے ہیں۔
یہ صورتِ حال دیکھتے ہوئے امکان ہے کہ ایسے افراد کی تعداد میں ہر سال اضافہ ہوجائے گا۔ پھر تباہ شدہ نظام اور احتساب کی کمی کے پیش نظر ، باہر سے آکر فائدہ اٹھانے والوں کی جانچ پڑتال کا نظام بھی دریابرد ہے۔ اس طرح یہ معاملہ صرف ملازمتوں تک نہیں رُکے گا، بلکہ یہاں زمین کی ملکیت اور کاروباری سرمایہ کاری پوری قوت سے خراج حاصل کرے گی۔ اور ’شہری حق‘ (ڈومیسائل) اس خلا میں ایسے لوگوں کو بھرپور فائدہ دے گا جس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی بھارتی، اب جموں و کشمیر میں زمین خرید سکتا ہے ، آباد ہوسکتا ہے، اور کاروبار شروع کرسکتا ہے۔
اکتوبر ۲۰۱۹ء میں نافذ ہونے والے ’جموں و کشمیر تنظیم نو ایکٹ‘ کے تحت ، نجی جایداد کی ملکیت کو مستقل رہایشیوں تک محدود رکھنے والی قانونی دفعات کو ختم کردیا گیا۔ یوں ماضی میں ، زمینی اصلاحات کی مقامی قانون سازی نے یہاں کے کسانوں کو معاشرتی طور پر مظلوم طبقوں سمیت بااختیار بنایا تھا، جس سے انھیں وقار کا احساس ملا تھا اور جموں و کشمیر ملک کی ان چند ریاستوں میں شامل تھا، جہاں کوئی بھی بھوک سے نہیں مرتا تھا۔ مگرزمین سے متعلق ان ترمیم شدہ قوانین سے مقامی آبادی نہ صرف اپنی مراعات سے محروم ہوگئی ہے بلکہ بیرونی لوگوں کی ممکنہ معاشی و سیاسی اجارہ داری کے خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔
یاد رہے اس سے قبل ریاست جموں و کشمیر نے اپنا ریزرویشن ایکٹ بھی نافذ کیا تھا، جس کے تحت تعلیمی اداروں میں کوٹہ فراہم کیا گیا تھا اور پس ماندہ پس منظر کے لوگوں کے لیے نوکریاں مہیا کی گئی تھیں۔ ان میں دلت اور دوسرے پس ماندہ قبائل بھی شامل تھے۔ خواتین پیشہ ور کالجوں میں ۵۰فی صد ریزرویشن سے استفادہ کر رہی تھیں۔ ۱۹۵۰ء کے عشرے سے ، سرکاری اداروں میں اسکول اور کالج کی سطح پر تعلیم مفت تھی، لیکن اب ان سب کو اُلٹ کر دیا گیا ہے۔
ابھی تو وبائی حالت کو بہانہ بناکر، حکومت نے گرمیوں میں دارالحکومت جموں سے سری نگر منتقل کرنے کی ۱۵۰ سالہ قدیم سالانہ مشق کو بھی روک دیا ہے۔ اگرچہ ہندو اکثریتی جموں اور مسلم اکثریتی کشمیر میں دو دارالحکومتوں کا عمل مثالی طور پر بڑی خوبی سے چل رہا تھا۔
پھر انتخابی حلقوں کی حد بندی کو اَزسرِ نو شروع کرنے کے حکومتی فیصلے سے ہندو اکثریتی جموں کو زیادہ نشستیں ملنے کا امکان ہے ۔اس سلسلے میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے متعدد رہنماؤں نے ان خیالات کا اظہار کیا ہے کہ: ’’نشستوں کا تعین ملک کے دوسرے حصوں کی طرح آبادی کی بنیاد پر نہیں ہوگا۔ اس کے لیے پاکستان کے زیرانتظام کشمیر اور چین کے زیرانتظام اکسائی چین کی مناسبت سے ایسی نشستوں کو وضع کیا جائے گا جن سے ۱۹۴۷ء کے ہندواورسکھ استفادہ کریں گے‘‘۔
جموں و کشمیر کا سیاسی ڈھانچا مکمل طور پر ختم کیا جاچکا ہے، جب کہ متعدد اعلیٰ قائدین حراست میں ہیں۔ ان میں سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی بھی شامل ہیں ۔ خاموش رہنے کی شرائط پر کئی افراد کو چھوڑ بھی دیا گیا ہے یا انھیں نظربند رکھا گیا ہے۔مختلف پارٹیوں سے بدلہ لینے کے لیے حال ہی میں ’اپنی پارٹی‘ کے نام سے ایک نئی سیاسی تنظیم تشکیل دی گئی ہے، جس کے بارے میں یہ عام خیال پایا جاتا ہے کہ یہ نئی دہلی حکومت کی سرپرستی میں پر پُرزے نکال رہی ہے، مگریہ حرکت بھی برف پگھلانے میں ناکام رہی ہے۔
نئے انتظامات کے تحت ، لداخ کے دُور دراز علاقوں کو قانون ساز اسمبلی کے نام پر لوٹ لیا جائے گا اور جموں و کشمیر کو محدود اختیارات ملیں گے ، جس سے ان اداروں کو عملی طور پر دوریموٹ کنٹرول میونسپلٹیوں میں تبدیل کردیا جائے گا۔ جس سے ایک مرکزی اتھارٹی کے زیرانتظام، اس کے وسیع رقبے ، یہاں کی پیچیدگی ، اس کے سماجی و سیاسی تنوع اور نزاکت سے منسوب، انتظام کی عملی صلاحیت پر سوالیہ نشان کھڑا ہے۔
یوں دکھائی دیتا ہے کہ نقصان کے گہرے احساس نے ایک عجیب مزاج کو جنم دیا ہے، جس نے مسلم اکثریتی کشمیر اور ہندو اکثریتی جموں میں روایتی طور پر تفرقہ انگیز داستانوں کو کچھ حد تک محدود کردیا ہے۔ جموں میں عوامی عدم اطمینان، روزگار ، اراضی ، تجارت اور اجتماعی تعلیم پر بھارت سے اُمڈتے اجارہ داری سیلاب نے لوگوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔یہ سب کچھ دفعہ ۳۷۰ اور ۳۵-اے کے خاتمے اور نئے ڈومیسائل قانون کا نتیجہ ہے جس سے مقامی آبادی خوف میں مبتلا ہے۔
ہندو قوم پرست جماعت اور حکمران پارٹی تو پہلے ہی تسلسل سے کشمیریوں کی آبادی میں تبدیلی اور ریاست جموں و کشمیر کو بھارت میں مکمل طور پر ضم کرنے کا مطالبہ کر رہی تھی۔ دوسری طرف جموں و کشمیر میں کئی عشروں سے آبادی میں تبدیلی کے سوال پر بے چینی پائی جارہی تھی۔ آج ، مقبوضہ کشمیر میں اُردن کے مغربی کنارے کے اسرائیلی ماڈل کے قبضے اور نوآبادیات کی نقل مکانی اور مقامی باشندوں خصوصاً کشمیری مسلمانوں کو گھٹا کر نئی آبادکاری کی راہ ہموار کی جارہی ہے، تاکہ ان نئے آباد کاروں کے ذریعے اکثریت کی اجارہ داری کو ریموٹ کے ذریعے کنٹرول کیا جاسکے۔
نومبر۲۰۱۹ء کے آخر میں ، امریکا میں تعینات ایک بھارتی سفارت کار نے، کشمیری ہندوؤں کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کھل کر اس بات کا اظہار کیا تھا کہ ’’کشمیری ثقافت اور بھارتی ثقافت اصل میں ایک ہندو ثقافت ہے‘‘ اور ساتھ نوآبادیاتی عمل کی تحسین کرتے ہوئے، دریاے اُردن کے مغربی کنارے بستیوں کے اسرائیلی ماڈل کی حمایت کی تھی۔
اگر ان خیالات کی سنجیدگی کے بارے میں کوئی شبہات تھے، تو ان کو مسترد کیا جاسکتا تھا۔ لیکن کشمیر میں نئی دہلی حکومت کے حالیہ اقدامات ’اسرائیلی ماڈل‘ کو بھارت کی کشمیر پالیسی کا مرکز بنانے کا ایک انتظامی نمونہ ظاہر کرتے ہیں، جنھیں موجودہ لاک ڈاؤن کے زمانے کو استعمال کرکے عوامی سطح پر کسی بھی اشتعال انگیزی سے بچنے کا وسیلہ بنایا گیا ہے۔ لیکن ایسی خوش فہمی کسی بھی وقت بڑے حادثے سے دوچار کرسکتی ہے۔ بھارتی حکومت عوام کے صبر اور خاموشی اور کشمیری عوام کی اُمنگوں اور انسانی حقوق کی بے حد زیادتیوں میں اضافے کو اپنی کامیابی تصور کر رہی ہے۔
اگرچہ یہ سب کچھ بھارتی جمہوریت کو پامال کرنے کے مترادف ہے ، لیکن اس نے جنوبی ایشیا میں امن کو بھی انتہائی غیر محفوظ بنادیا ہے۔ جس سے کشمیر کے اندر مقامی باشندوں کا اپنے حقوق کے لیے سخت جدوجہد کرنا، بھارت اور پاکستان کے مابین کشیدگی کی شدت سے دو جوہری طاقتوں کا آمنے سامنے ہونا، ایک دھماکا خیز صورت حال پیدا کردے گا۔ ہندستان اور چین کے مابین موجودہ تنازعے میں اس آگ کو بڑھانے اور ایندھن میں اضافے کا بھی امکان ہے۔(’الجزیرہ‘، انگریزی، ۲۱ جون ۲۰۲۰ء، ترجمہ: ادارہ)
کورونا کی تباہ کاریاں دُنیا بھر میں موت کے سائے پھیلا رہی ہیں، لیکن بھارت کی نسل پرست فسطائی حکومت، جموں و کشمیر میں خون کی بارش اور ظلم و زیادتی کی جملہ کارروائیوں میں، پہلے سے بڑھ کر مصروف ہے۔ یہاں پر چار مختصر مضامین میں حالات کی تصویر پیش کی جارہی ہے۔ ادارہ
سلیم منصور خالد
یہ رمضان المبارک بھی مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی افواج کے ہاتھوں مظلوم عوام کے لیے تشدد، بے حُرمتی، ظلم، گھروں کی آتش زدگی اور گولیوں کی بوچھاڑ میں ۲۵شہادتوں اور ۲۴۹زخمیوں کا دُکھ دے کر گیا ہے۔ تاہم، یہاں پر دو مثالیں پیش ہیں:
۶مئی ۲۰۲۰ء (۱۲رمضان) کو حزب المجاہدین کےچیف آپریشنل کمانڈر ریاض نائیکو اپنے ایک ساتھی عادل کے ساتھ، اپنے ہی گاؤں میں بڑے خون ریز معرکے میں شہید کردیے گئے۔ موضع بیگ پورہ اونتی پورہ، ضلع پلوامہ (مقبوضہ جموں و کشمیر) میں پیدا ہونے والے ریاض شہید کی زندگی اپنے اندر عمل اور عزیمت کے پہاڑ سمیٹے ہوئے ہے۔ انھوں نے ڈگری کالج پلوامہ سے بی ایس سی کی تعلیم مکمل کرکے، ایک نجی اسکول میں بطور استاد پڑھانا شروع کیا۔ان کا ارادہ ریاضی میں ایم ایس سی اور پھر پی ایچ ڈی کا تھا کہ بھارتی سیکورٹی ایجنسیوں کے ہاتھوں ۲۰۱۰ء میں گرفتارکرکے جیلوں میں تشدد کا نشانہ بنائے گئے۔ اور پھر رہائی کے ۲۰ روز بعد ۲۰۱۲ء میں حزب کا حصہ بن کر جدوجہد کے لیے اسکول اور گھر چھوڑ کر گھنے جنگلوں میں نکل گئے۔
وہ بُرہان مظفروانی کے قریبی ساتھی تھے۔ بُرہانی وانی کی شہادت کے چند ہی روز بعد ۱۳؍اگست ۲۰۱۶ء کو جب حزب کے چیف آپریشنل کمانڈر منصور الاسلام شہید ہوگئے تو یہ ذمہ داری ریاض نائیکو کے سپرد کی گئی، جنھوں نے خاص طور پر جنوبی وادیِ کشمیر میں جاں بازوں کو منظم کرنے اور ان کی مزاحمتی صلاحیت کو مؤثر بنانے میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔
ریاض شہید کے والد صاحب نے ایک بار بی بی سی کے نمایندے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’میرے بیٹے نے جس راستے کا انتخاب کیاہے، وہ درست راستہ ہے،مجھے اپنے بیٹے پر فخرہے۔ ہم ہروقت اس کی شہادت کی خبرسننے کے لیے ذہنی طورپر تیارہیں‘‘۔
ریاض ایک سنجیدہ معلّم اور متوازن طبیعت کے حامل نوجوان تھے۔ وہ نمایاں ہونے کے بجاے پیچھے رہ کر اور خاموشی سے مصروفِ کار رہنے پر کاربند تھے۔ تاہم، دو سال قبل ’الجزیرہ‘ کے نمایندے نے بڑی کوشش کرکے ان سے رابطہ کیا، تو انھوں نے اس سے گفتگو میں یہ الفاظ کہے تھے: ’’غاصبوں کے خلاف آزادی کی تحریکوں میں نشیب وفراز آتےرہتے ہیں ، لیکن پورے خلوص کے ساتھ اگر نگاہیں منزل پر لگی رہیں اورقدم اُس سمت بڑھ رہے ہوں، تو اللہ تعالیٰ ضرور کامیابی عطا فرماتا ہے اور ہماری منزل دُور نہیں ہے، ان شاء اللہ‘‘۔
اپنی اس جدوجہد کے دوران وہ کئی مرتبہ بھارتی سیکورٹی فورسز کے گھیرے میں آئے، لیکن کامیابی سے گھیراتوڑ کر اگلی منزل کی طرف گامزن ہوئے۔ یہ ۲۰۱۸ء کی بات ہے کہ ان کے والدگرامی کو بھارتی انتظامیہ نے گرفتار کرلیا۔ تب اسی سال ستمبر میں ریاض نائیکو نے اتنے جبر اور بہت سارے ناکوں کے باوجود ایک پولیس افسر اور گیارہ اہل کاروں اور رشتے داروں کو اپنے کنٹرول میں لے لیا۔ جس پر قابض بھارتیوں نے ان کے والدصاحب کو رہا کردیا۔ ساتھ ہی ریاض شہید نے ان لوگوں کو رہا کر دیا اور رہائی کے بعد ان لوگوں نے بتایا کہ ’’ہمارے ساتھ مجاہدین نے کوئی بُرا سلوک نہیں کیا‘‘۔ اس دوران ریاض شہیدنے کئی ویڈیو اور آڈیو پیغام سوشل میڈیا پرنشر کیے، جن میں جموں و کشمیر پولیس اہل کاروں کو آزادی کی جدوجہد کی راہ میں رکاوٹ نہ ڈالنے کی باربار اپیل کی۔
یہ جدوجہد چونکہ ایک مسلسل عمل کا نام ہے، اس لیے اس دوران جہاں دشمن کے مسلح ادارے اور خفیہ ایجنسیاں ریاض شہید کا تعاقب کرتی رہیں وہاں بھارتیوں کا ایک دام ہم رنگ بھی برابر متحرک رہا۔ یاد رہے ۱۹۹۲ء میں بھارت نے مجاہدین کشمیر کو بدنام کرنے کے لیے’الاخوان‘ کے نام سے اپنے آلہ کاروں اور قاتلوں کا گروہ تیار کیا تھا، جنھوں نے ایک جانب مجاہدین کے بہت سے قیمتی افراد کو شہید کیا، تو دوسری جانب مجاہدین کی جدوجہد کوبدنام کرنے کے لیےکبھی صحافیوں کو اغوا کیا اور کبھی یورپی سیاحوں کو اُٹھا لیا اور پھر انھیں قتل کرکے مجاہدین کو بدنام کیا۔ اس امرکی سیّدعلی گیلانی اورمجاہدقیادت نے باربار مذمت کی اور بتایا کہ اخوان المسلمون کے نہایت محترم نام کو بدنام کرنے اور حُریت پسندوں میں پھوٹ ڈالنے اور بے اعتمادی پیدا کرنے کے لیے یہ گھناؤنی کارروائیاں کی جارہی ہیں اور یہ ایک بھارتی سازش ہے، جس سے حُریت پسندوں کا کوئی تعلق واسطہ نہیں ہے۔ افسوس کہ گذشتہ تین برسوں سے بالکل یہی کام’داعش‘ کےنام ، پرچم اور نشان کو استعمال کرکے کیا جارہا ہے، حالانکہ جموں و کشمیر میں برسرِ زمین کہیں داعش موجود نہیں ہے۔ لیکن بھارتی ایجنسیاں اپنی وضع کردہ تصاویر میں، خاص طور پر داعشی نشان دکھا کر،مجاہدین آزادی کو بدنام کرنے کی کوشش کرتی آرہی ہیں، جن سے خبردار رہنے کی ضرورت ہے۔
ریاض نائیکو گذشتہ آٹھ برسوں میں دوسری بار اپنی والدہ سے ملنےخفیہ طور پر اپنے گھر آئے، تو داعش کے رُوپ میں مخبروں نےبھارتی ایجنسیوں کو خبر دے دی۔ اس موقعے پر یہ چار مجاہد: ریاض احمد، جنیدصحرائی ، ڈاکٹرسیف اللہ اور محمد عادل بھٹ موضع بیگ پورہ (پلوامہ) میں موجود تھے۔ ریاض نےفیصلہ کیا کہ بھارتی فوجیوں کا مقابلہ اس طرح کیا جائے گا کہ دومجاہد جنیدصحرائی اورسیف اللہ اس گھیرے کو توڑ کر نکل جائیں ، جب کہ محمد عادل بھٹ ان کے ہمراہ مقابلہ کرکے غاصب فوجیوں کو مصروف رکھیں۔ جنید اور سیف اپنے کمانڈر کو چھوڑ کر جانا نہیں چاہتے تھے،لیکن ریاض نے سختی سے حکم دےکر انھیں نکل جانے کو کہا۔
ریاض نے گھرکےنچلے کمرے اورعادل نے مکان کے اُوپروالےکمرے سے مقابلہ شروع کیا۔ اسی دوران قصبے کے سیکڑوں نوجوان اپنے گھروں سے نکل آئے اور جارح فوجیوں کے خلاف احتجاج اور پتھراؤ کرنے لگے۔ جواب میں پیلٹ گن فائرنگ، آنسوگیس اورفائرنگ کے نتیجے میں احتجاجی دباؤ کم ہوا۔ اسی دوران میں چاروں طرف سے گھیرکر بے تحاشا فائرنگ کرکے ریاض اور عادل شہید کردیے گئے۔ بھارتی فوجیوں نے ان دونوں کی میتیں قبضے میں لے لیں۔ انھیں لواحقین کے سپرد نہیں کیا اور ضلع گاندربل میں سونہ مرگ کے مقام پردفن کردیا۔
پھر ۱۹مئی کو جنید صحرائی اور طارق احمد کو بھارتی فوجیوں نے سری نگر میں گھیرے میں لیتے ہوئے اس طرح شہید کردیا کہ اس کارروائی کے دوران ۱۵ گھروں کو نذرِ آتش کرتے ہوئے تباہی مچادی۔ یاد رہے جنید صحرائی ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ(ایم بی اے) ۲۹سالہ نوجوان تھے، جنھوں نے ۲۰۱۸ء میں عسکریت کا راستہ منتخب کیا۔ وہ تحریک حُریت کے نہایت محترم رہنما اشرف صحرائی کے بیٹے ہیں۔ یادرہے کہ صحرائی صاحب، محترم سیّد علی گیلانی کے دست ِ راست اور کئی عشروں سے رفیق کار ہیں۔
غازی سہیل خان
۱۱مارچ ۲۰۲۰ء میں جموں وکشمیر ہائی کورٹ کے ایک عدالتی فیصلے نے کشمیریوںاور انسانی حقوق کے کارکنوں میں شدید بے چینی پیدا کر دی ہے ۔ہائی کورٹ نے پیلٹ گن (Pellet Gun) پر پابندی لگانے کے لیے دائر کی گئی ایک اپیل کو مسترد کر دیا۔ پیلٹ گن پر پابندی لگانے کی اپیل پر سماعت کرتے ہوئے یہ واضح کیا کہ ’’بے قابو بھیڑ کو طاقت سے قابو کرنا نا گزیر ہوتا ہے ‘‘۔
جموں وکشمیر ہائی کورٹ میں وادیِ کشمیر میں مظاہرین کو قابو کرنے کے لیے فورسزاہل کاروں کی طرف سے پیلٹ گن استعمال کرنے کے خلاف یہ درخواست جموں وکشمیر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے ذریعے ۲۰۱۶ء میں اس وقت دائر کی گئی تھی، جب وادی میںمعروف عسکری کمانڈر برہان مظفروانی کی ہلاکت کے بعد وادی میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا تھا، جس میں بھارتی فورسز اہل کاروں نے احتجاج کو قابو کرنے کے لیے پیلٹ گن کا استعمال کیا تھا، جس کے سبب بہت سے زخمیوں کو اپنی بینائی مکمل یا جزوی طور پر کھونا پڑی۔ عدالت کا کہنا تھا کہ ’’کس جگہ، کس طرح سے طاقت کا استعمال کرنا ہے، یہ اس جگہ کے انچارج پر منحصر ہے ،جو اس جگہ تعینات ہے جہاں ہنگامہ ہو رہا ہوتا ہے‘‘ ۔
’پیلٹ گن‘ کشمیر میں احتجاجی مظاہرین کے خلاف استعمال میں اُ س وقت لائی جانے لگی جب ۱۱ جون ۲۰۱۰ء کو طفیل متو، راجوری کدل، سرینگرمیں آنسوگیس شل لگنے سے جاں بحق ہوا۔ تب وہ کوچنگ کلاس میں جا رہا تھا۔اس سے قبل ۱۳ سالہ ایک اور طالب علم وامق فاروق جنوری ۲۰۱۰ء میں نزدیک سے ایک آنسو گیس شل کا شکار ہو کر جاں بحق ہوگیا تھا۔
ان اموات کے بعد نہ تھمنے والے احتجاج کو روکنے کے لیے بھارتی فورسز نے پیلٹ گن کا استعما ل کرنا شروع کیا تھا۔ پھر زخمیوں اور بینائی سے محروم نوجوانوںکی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔ پیلٹ بندوق ایک بار چلانے سے اس میں سے ۵۰۰ پیلٹ ایک بار آگے کی سمت میں نکل کربکھر جاتے ہیں۔ جو کوئی بھی ان چھرّوں کی زد میں آتا ہے وہ زخمی ہو جاتا ہے ۔پیلٹ کے چھرّے لگنے کے بعد انسان زخمی ہونے کے ساتھ ساتھ شدید قسم کا درد محسوس کرتاہے ۔پیلٹ چھرّے دُور سے انسان کو زیادہ نقصان نہیں پہنچا سکتے، لیکن جب یہ ۵۰۰میٹر کی دُوری سے چلائے جائیں توشدید نقصان پہنچاتے ہیں، خاص طور سے جب یہ انسان کے نازک حصوں پہ جا کے لگتے ہیں، جن میں آنکھیں سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔
۲۰۱۰ء سے آج تک کشمیر میں ہزاروں نوجوان پیلٹ بندوق کی چھرّہ فائرنگ سے جزوی اور ایک سو سے زائد نوجوان کلی طور پر اپنی آنکھوں کی بینائی سے محروم ہو گئے ہیں اور ابھی تک پیلٹ گن کی وجہ سے ۱۴؍ افراد کی موت بھی واقع ہوچکی ہے ۔ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق: ’’حکومت ہند، اس ہتھیار کو پیلٹ گن کہتی ہے، لیکن اصل میںیہ پمپ ایکشن شاٹ گن Pump Action Shotgun)) ہے‘‘ ۔ایمنسٹی کا مزید کہنا ہے کہ:’ ’یہ اکثر جنگلی شکار کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ یہ ہتھیار احتجاج کو قابو کرنے کے لیے نہیں بنایا گیا ہے‘‘۔ انسانی حقوق کے عالمی اداروں نے بارہا حکومت ہند سے کہا ہے کہ اس مہلک ہتھیار پر پابندی عائدکریں ۔
وادیِ کشمیر میں پیلٹ گن کی وجہ سے خواتین ،بزرگ اور پیر و جواں سب متاثر ہوئے ہیں، تاہم متاثرین میں اکثریت نوجوانوں کی ہے ۔۲۰۱۸ء میں جنوبی کشمیر کے ضلع شوپیاں سے تعلق رکھنے والی کم عمر بچی حبہ نثار پیلٹ لگنے کی وجہ سے اپنی ایک آنکھ کی بینائی کھو بیٹھی۔اسی طرح سے ایک اور بچی انشاء مشتاق بھی ۲۰۱۶ء میں پیلٹ لگنے کی وجہ سے اپنی دونوں آنکھوں کی روشنی سے محروم ہوکر محتاج ہو گئی ہے۔ یوں درجنوں نوجوان بینائی سے محرومی کے سبب زندگی محتاجی کے عالم میں گزارنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
شمالی کشمیر سے ایک پیلٹ متاثر ہ نوجوان نے ہائی کورٹ کے اس فیصلے پر انتہائی افسوس اور مایوسی کااظہار کیا ۔ان کا کہنا تھا کہ’’ یہ ایک اُمید تھی وہ بھی چلی گئی اور ہم چاہتے تھے کہ اب کوئی نوجوان کشمیر میں اندھا نہ ہو، کوئی نوجوان زندگی بھر کے لیے محتاج نہ ہو، مگر عدالتی فیصلے نے ہم کو مزید مایوسی کا شکار بنا دیا ہے‘‘۔متاثرہ نوجوان کی دونوں آنکھیں پیلٹ لگنے کی وجہ سے بینائی سے محروم ہو گئی ہیں۔ اس نے کہا کہ’’ جب کوئی نوجوان پیلٹ کی وجہ سے اپنی آنکھوں کی بینائی کھو دیتا ہے تو وہ لازماً ذہنی بیماری میں مبتلا ہو جاتا ہے،وہ محتاج ہوجاتا ہے اور چلنے پھرنے کے قابل نہیں رہتا، جس کی وجہ سے کبھی کبھی ایسے نوجوان خودکشی کی بھی کوشش کرتے ہیں‘‘۔
متاثرہ نوجوان نے بتایاکہ میرے ایک جاننے والے پیلٹ متاثر ہ نے گذشتہ سال خود کشی کرنے کی کوشش اس لیے کی کہ ان کے گھر میں دوپہر کا کھانا نہیں تھا اور یہ نوجوان اس گھر کا واحد کمانے والا فرد تھا، جس کی خود اپنی زندگی اب دوسروں کی محتاج ہو گئی ہے اور دیگر افراد خانہ بھی دو وقت کی روٹی کے لیے در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں ۔
اس کے ساتھ ہی ساتھ کشمیر میں ایک تحقیق کے مطابق: ’’پیلٹ متاثرین میں سے ۸۵ فی صد نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں ۔جس میں۲۵ء۷۹ فی صد معاشرے میں احساس تنہائی کا شکار،۱۵ء۷۹ فی صد پوسٹ ٹرامیٹک سٹرس ڈس آرڈر،۲۱ء۹ فی صد شدید پریشانی کی بیماریوں میں مبتلا ہو گئے ہیں‘‘۔ ڈاکٹروں نے ۳۸۰پیلٹ متاثرین کی تشخیص کے دوران نوٹ کیا: ’’۲۰۱۶ء کے بعد پیلٹ متاثرین مختلف قسم کی نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہو گئے ہیں۔
پیلٹ گن متاثرین میں سے ۹۳ فی صد افراد ذہنی پریشانیوں میں مبتلا ہیں۔ بہت سارے متاثرین نفسیاتی امراض کے ماہرین کے پاس جانے سے گریز کرتے ہیں‘‘۔تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ بے شمار متاثرین اپنے آپ کو ذہنی امراض کا شکار نہیں سمجھتے ۔تاہم، بہت سارے مریضوں کی کونسلنگ اور دیگر ادویات کے ذریعے ان کا علاج کیا جاتا ہے۔
مجموعی طور پر کشمیر میں ہائی کورٹ کے اس فیصلے پر عوام میںناراضی کا اظہارکیا جا رہا ہے۔ لوگوں کا ماننا ہے کہ عدالت ہی ایک ذریعہ ہے، جس کے ذریعے اس مہلک ہتھیار سے نوجوانوں کو بچایا جا سکتا تھا ،لیکن اب اس عدالتی فیصلے نے وادی میں مایوسی پھیلا دی ہے اور انتظامیہ کو من مانی کے لیے مزید کھلی اجازت مل گئی ہے۔
سہیل بشیر کار
چند دن قبل ایک معروف ٹی وی اینکر رویش کمار پروگرام میں کہہ رہے تھے کہ ’’ Covid 19 لاک ڈاؤن اور کشمیر کے لاک ڈاؤن کا موازنہ نہیں ہوسکتا۔ اصل میں کچھ لوگ غیر حقیقت پسندانہ طور پر ان دونوں لاک ڈاؤنز کوبرابر کی چیز قرار دے رہے ہیں‘‘۔ رویش نے کہا کہ ’’کشمیر کا لاک ڈاؤن کچھ اور ہی تھا، بے مثل تھا، یعنی کہ جبر اور ظلم کی بے مثال صورت‘‘۔ یہ سن کر جی چاہا کہ کیوں نہ کشمیر کے لاک ڈاؤن کا نقشہ کھینچوں اور کیوں نہ یہ پہلو بھی بیان ہو کہ کشمیریوں نے مصیبتوں کا مقابلہ کرنا سیکھا ہے اور وہ بڑے بھیانک اَدوار کو برداشت کرکے نہ صرف زندہ رہے بلکہ پہلے سے بھی زیادہ مضبوط ہوئے۔
یوں تو کشمیر میں ۹۰ کے عشرے سےہی ظلم و جبر کا سلسلہ چل رہا ہے، لیکن کشمیر نے کچھ ایسے اَدوار اور واقعات بھی دیکھے جن سے یوں لگا کہ شاید اس دور سے باہر آنا ناممکن ہے۔ چاہے وہ Catch and Kill آپریشن ہو، یا حکومت کی پشت پناہی میں اخوانی دہشت گردوں کا ظلم و قہر۔ چاہے ایک منصوبے کے تحت خواتین کی عصمت دری ہو یا ۱۰ ہزار سے زائد نوجوانوں کو اس طرح غائب کرنا کہ ان مظلوموں کا نام و نشان بھی نہ ملے۔
کئی برسوں تک بغیر کسی مقدمے کے لوگوں کو نظربند رکھنا، یا تفتیشی سنٹروں میں لوگوں کو ناقابلِ بیان اور شرم ناک اذیتیں دینا، یہ سب کشمیریوں نے دیکھا، بھگتا اور مسلسل برداشت کرتے آرہے ہیں، لیکن اس سب کے باوجود لوگ پُرعزم اور زندہ رہے ہیں۔ جس علاقے میں ہزاروں جواں بیٹوں کی میّتوں کو ان کے باپ کندھا دیں، اس علاقے کے لوگ کیسے جی رہے ہوں گے؟ یہ سوچ ہی اذیت ناک حدتک انسان کو مضطرب کر دیتی ہے، لیکن کشمیریوں نے یہ اندوہناک مناظر بھی انگیز کیے۔
گذشتہ برسوں میں بھارتی حکومت نے کچھ ایسے اقدامات کیے، جن سے نہ صرف ظلم کی ساری حدود پار ہوگئیں بلکہ کشمیریوں کو نہ ختم ہونے والے اندھیرے میں دھکیل دیا گیا۔ اگرچہ ۲۰۱۶ء سے ہی حکومت نے سخت اقدامات شروع کیے، جن میں حریت قائدین کو فرضی مقدمات میں پھنسانا وغیرہ وغیرہ، لیکن جولائی ۲۰۱۹ء کے آخری ہفتہ سے ہی وادیِ کشمیر میں بھارتی حکومت نے کچھ ایسی سرگرمیاں شروع کیں کہ ہر کشمیری کہنے لگا: ’’کچھ انہونی ہونے والی ہے‘‘۔ اگست کی پہلی تاریخ سے ان اقدامات میں اور شدت آئی تو ایسا محسوس ہونے لگا کہ بہت کچھ خراب ہونے والا ہے، خوف و دہشت کا ماحول چاروں طرف چھا گیا، ۱۰ لاکھ فوجیوں کے باوجود یہاں اضافی طور پر پیراملٹری فورسز منگوائی گئی۔
۵؍ اگست ۲۰۱۹ء کو سویرے ہر طرف کرفیو کا اعلان ہونے لگا۔ لینڈلائن، ٹیلی فون، انٹرنیٹ سب بند تھا، حتیٰ کہ کیبل نیٹ ورک بھی بند۔ جماعت اسلامی پر تو بہت پہلے ہی پابندی لگادی گئی تھی۔ جے کے ایل ایف پر بھی پابندی عائد کی گئی تھی اور اس کے اکثر کارکن گرفتار تھے۔ حریت کی چھوٹی اور بڑی قیادت کو نظر بند کیا گیا تھا۔ ۵؍اگست کو مختلف ذرائع سے معلوم ہونے لگا کہ کشمیر میں ۱۸ ہزار افراد کو گرفتار کرلیا گیا ہے، حتیٰ کہ دہلی نواز لوگوں کو بھی۔ تین سابق وزراےاعلیٰ فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ، اور محبوبہ مفتی نظر بند کیے گئے۔ وہی محبوبہ مفتی جو کچھ ہی مہینوں پہلے بی جے پی کی حکومت میں ساتھی اور حلیف تھیں۔ شاہ فیصل جو کبھی ’نوجوان قیادت‘ کی حیثیت سے کُل ہند میں اُبھارے جارہے تھے، وہ بھی نظر بند کر دیے گئے ۔ انھوں نے کچھ مہینے قبل بھارتی سول سروس سے استعفا دیا تھا اور کشمیر کے مسئلے کے لیے اپنے انداز سے میدان میں اتر چکے تھے۔
ایسا ماحول پیدا کیا گیا کہ جس کسی فرد کی ۵۰ یا اس سے زیادہ افراد پر گرفت تھی وہ گرفتار کرلیا گیا ۔ایسا لاک ڈاؤن کہ کسی کو کسی کی خبر نہ تھی۔ لوگوں کو انتہائی مشکلات کا سامنا تھا۔ دکانیں، کاروباری ادارے آٹھ ماہ تک بند رہے۔ میرے ماموں حج پر تھے، ہمیں یا انھیں ہماری کوئی اطلاع نہ تھی۔ میرے انتہائی قریبی دوست اپنی اہلیہ جو کہ حاملہ تھی اور کافی بیمار بھی، کے ساتھ سری نگر میں تھے، ان کی کوئی اطلاع نہ تھی۔ ان کے نوزائیدہ بچے کا انتقال ہوگیا اور اس کی اطلاع دینے کے لیے انھیں خود میرے گھر آنا پڑا۔ ان واقعات سے اندازہ ہوگا کہ لوگوں کو کس قدر دشواری کا سامنا کرنا پڑا ہوگا۔ ۷۱ دن تک فون بند تھے۔ آج کے دور میں کوئی تصور کر سکتا ہے ایسی زندگی کا؟ اب بھی انٹرنیٹ محض 2G سپیڈ پر چل رہا ہے۔
اخبارات کے مالکان کو یہ حکم دیا گیا کہ ’’خبر وہی چھپے جو حکومت کے خلاف نہ ہو‘‘۔ کئی دنوں تک تو اخبارات کی اشاعت بھی روک دی گئی۔ پھر اخبارات میں اداریہ لکھنا اور شائع کرنا بھی بند کیا گیا۔ انھیں سخت ہدایت دی گئی کہ کوئی ایسا مضمون نہ چھپے، جس میں موجودہ حالات کا تذکرہ ہو۔ بی بی سی نے جب مقامی احتجاج کی رپورٹ کی، تو کشمیر کے گورنر نے کھلے عام انھیں دھمکی دی۔ ایسے حالات میں کشمیریوں نے نہایت ہی دانش مندانہ رویہ دکھایا۔ وہ کسی بڑے احتجاج کے لیے باہر نہیں نکلے۔ وہ جانتے تھے کہ ہندستان اپنی طاقت کا بے دریغ استعمال کرے گا۔ ہزاروں جانیں لے گا اور دنیا کو ذرائع ابلاغ پر اس شدید پابندی کے باعث کوئی خبر بھی نہ ہوگی۔
اگرچہ ہر کوئی دُکھی اور مجروح ہے، لیکن کشمیری جانتے ہیں کہ ہمیں جینا ہوگا، ہماری جدوجہد طویل ہوگی۔ ان مشکل حالات میں کشمیر کے لوگوں نے اگرچہ دکانیں بند رکھیں، لیکن سڑکوں پر نہیں آئے۔ انھوں نے معاشرے کے کمزور افراد کا خاص خیال رکھا۔ معمولات اگرچہ متاثر رہے لیکن زندگی کو برقرار رکھنے کی کوشش کی گئی۔ اسکول بند رہے، لیکن یہ قوم جانتی ہے کہ ترقی اور عروج کے لیے تعلیم کس قدر اہم ہے، لہٰذا اپنے اپنے علاقوں میں تعلیم یافتہ افراد نے مفت ٹیوشن سنٹر کھولے، جہاں بچوں اور بچیوں کو مفت تعلیم دی جانے لگی۔ انھیں معلوم ہے کہ انھیں طویل جدوجہد کرنی ہے، اور تازہ دم ہونے کے لیے کبھی پلٹنا بھی پڑتا ہے، غرض کشمیریوں نے جینا سیکھا۔
آج پوری دنیا میں لاک ڈاؤن ہے، لیکن گرفتاریاں نہیں ہیں، ظلم و جبر نہیں ہے، انٹرنیٹ چل رہا ہے، لوگ فون کے ذریعے اپنوں کے ساتھ رابطے میں ہیں، حکومتی امداد ہے۔ ایسا لاک ڈاؤن کشمیریوں کے لیے سخت ہولناک لاک ڈاؤن کے مقابلے میں کچھ بھی نسبت نہیں رکھتا۔ کشمیری تو سخت جاں آزمایش میں بھی جینا سیکھ چکا ہے۔کہاں وہ لاک ڈاؤن اور کہاں یہ والا کورونا لاک ڈاؤن!
عارف بہار
بھارتی حکومت نے کشمیر کی قومی، نسلی اورجغرافیائی شناخت کی تبدیلی اور خصوصی قوانین کے خاتمے کے آٹھ ماہ بعد اپنے اصل منصوبے پر عمل درآمد کا آغاز کردیا ہے۔ ’جموں وکشمیر ری آگنائزیشن آرڈر۲۰۲۰‘ کے نام سے جاری کردہ ایک حکم نامے کے ذریعے ریاستی ڈومیسائل کی نئی تشریح کی گئی، جس کے تحت کشمیر میں پندرہ سال تک مقیم رہنے والے، اور یہاں سات سال تک تعلیم حاصل کرنے، اور دسویں اور بارہویں جماعت کا امتحان دینے والے ملازمت کے حق دار ہوں گے۔
ماضی میں ۳۵-اے کے تحت ان تمام قوانین کی تدوین اور تیاری کا اختیار کشمیر اسمبلی کو حاصل تھا۔ ان دفعات کے خاتمے کے بعد اب بھارتی حکومت نے یہ سارے کام اپنے ذمے لے لیے ہیں۔ ڈومیسائل قانون کی نئی تشریح کے مطابق اب بھارتی حکومت کے کشمیر میں سات سال تک تعینات رہنے والے اعلیٰ افسروں، آل انڈیا سروس آفیسرز، بھارتی حکومت کے کشمیر میں نیم خودمختار اداروں، کارپوریشنوں، پبلک سیکٹر بنکوں، بھارتی یونی ورسٹیوں کے اہل کاروںکے بچے اور وہ خود یہاں کشمیر کے لیے مختص اسامیوں پر ملازمت کرنے کے اہل ہوں گے۔ فوری طور پر نافذالعمل اس قانون کے تحت بھارتی باشندے کشمیر میں مشتہر کردہ اور غیر مشتہر شدہ اسامیوں پر درخواست دینے کے اہل ہوں گے۔ اس قانون کے نفاذ کے لیے ایک ایسے وقت کا انتخاب کیا گیا، جب دنیا کی توجہ کورونا بحران کی طرف ہے۔
پاکستان کے وزیراعظم نے اپنے ٹویٹر پیغامات میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے اس فیصلے کی شدید مذمت کی ہے کہ ’’ نریندر مودی کورونا کی جانب دنیا کی توجہ مبذول ہونے کا فائدہ اُٹھاکر کشمیر میں اپنے فاشسٹ ’ہندوتوا‘ ایجنڈے پر عمل درآمد کررہا ہے، اور دنیا کو اس کا نوٹس لینا چاہیے‘‘۔
وزیراعظم پاکستان نے اس قانون کو’’ کشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کی کوشش اور عالمی قوانین کی صریح خلاف ورزی‘‘ قرار دیا۔ انھوں نے اسے ’’چوتھے جنیوا کنونشن کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا‘‘، اور ’’بھارت کے نئے قانون کو کلی طور پر مسترد کردیا ہے‘‘۔آزادکشمیر کے صدر مسعود خان، اور وزیراعظم فاروق حیدرنے بھی بھارت کے نئے قانون کی مذمت کی ہے۔
اس قانون کی زد چونکہ بلا تمیز مذہب اور علاقہ ریاست جموں وکشمیر کے تمام باشندوں پر پڑ رہی تھی، اس لیے کشمیری مسلمانوں سے زیادہ جموں کی ہندو آباد ی اور نوجوان نسل نے بھی اس فیصلے کے خلاف بے چینی ظاہر کرنا شروع کردی ہے۔ جموں کے ہندو نوجوانوں کو اس وقت وادی کے پریشان حال مسلمان طلبہ سے مسابقت درپیش ہے، اور وادی کی تین عشروں سے مخدوش صورتِ حال نے جموں کے ہندو طلبہ کے لیے مقابلے میں آسانی پیدا کردی ہے۔ مگر جب پورے بھارت سے ایک نئی کلاس یہاں مقابلے اور مسابقت میں اتر رہی ہے تو جموں کی ہندو آبادی اور نوجوان نسل کے لیے ایک نیا دردِ سر سامنے کھڑا نظر آیا۔
اس خطرے کو جموں میں پوری طرح محسوس کرتے ہوئے جموں کے علاقے کے ہندو طلبہ و طالبات نے مودی حکومت کو برسرِ عام ویڈیو پیغامات میں دھمکانا شروع کیا کہ ’کورونا وائرس‘ کا معاملہ ختم ہونے دو، پھر دیکھنا پورا جموں سڑکوں پر ہوگا۔ خود کشمیر کی تمام سیاسی جماعتوں نے بھی اس فیصلے کی یک زبان ہوکر مخالفت کی۔ اس طرح مخالفانہ ماحول کو اُبھرتا دیکھ کر بھارتی حکومت نے فوراً ہی اس قانون میں مزید ترمیم کرتے ہوئے یہ فیصلہ کیا کہ ’’گریڈ ایک سے ۱۷ تک تمام اسامیاں جموں وکشمیر کے پشتینی باشندوں کے لیے ہی مختص رہیں گی‘‘۔ اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ بھارتی حکومت کشمیر میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے احتجاج اور مفاد کو دو مختلف زاویوں سے دیکھتی اور عمل کرتی ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ اس قانون کی زد صرف وادی کے نوجوانوں کے مفاد پر پڑتی تو نریندر مودی حکومت احتجاج اور مطالبات کو پرکاہ کے برابر بھی اہمیت نہ دیتی۔
اس دوران بھارت میں آباد کشمیری پنڈت اور معروف اداکار انوپم کھیر نے کشمیری زبان میں کشمیری مسلمانوں کو ایک زہر آلود پیغام دیا ہے۔ یادرہے انوپم کھیر مسلمان دشمن بھارتیہ جنتا پارٹی کے انتہائی قریب ہے۔ اس نے کشمیری زبان کے تین الفاظ ’’رلو(ہم سے مل جاؤ)، گلیو (مرجاؤ)، ژلیو(بھاگ جاؤ)‘‘ پر مشتمل پیغام میں کشمیری مسلمانوں کو خبردار کیا ہے کہ ’’تمھیں بھارت میں گھل مل جانا چاہیے، بصورتِ دیگر تمھارے سامنے مرنے یا بھاگ جانے ہی کے دوراستے ہیں‘‘۔ انوپم کھیر کی یہ سوچ ایک فرد کے خیالات کی نہیں، بلکہ ایک پورے نسل پرست فسطائی نظام اور نفرت انگیز ذہنیت کی عکاس ہے، اور بھارتی حکومت کے تمام اقدامات کے پیچھے یہی سوچ کارفرما ہے۔ اس سوچ میں وہی ہٹلر، مسولینی اور راتگو ملادیچ جھلکتے اور جھانکتے نظر آرہے ہیں، جن کی جانب حکومت ِ پاکستان ۵؍ اگست کے بعد سے دنیا کی توجہ مبذول کراتی آئی ہے۔
بھارت کے نئے قانونِ کشمیر پر بھارت کا اصل اور طویل المیعاد ایجنڈا فلسطین اسٹائل پر عمل درآمد کا آغاز کرتے ہوئے کشمیر کی خصوصی اور مسلم شناخت کو آبادی کے تناسب کی تبدیلی کے ذریعے بدلنا تھا۔ بھارت ۷۱برس تک اس راستے پر کبھی کچھوے، تو کبھی خرگوش کی چال چلتا رہا۔ ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کے بعد نریندر مودی نے اس سمت میں خرگوش کی چال سے پیش قدمی کرنا شروع کی ہے۔
بھارت جس طرح کشمیر میں اپنا ایجنڈا یک طرفہ طور پر نافذکرنا چاہتا ہے، یہ دنیا کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ اس سے صاف لگتا ہے کہ امریکا اور کچھ دوسری طاقتیں ایف اے ٹی ایف میں پاکستان کے ہاتھ پاؤں باندھ کر، حقیقت میں بھارت کو کشمیر میں ہندوتوا ایجنڈے پر عمل درآمد کرواتے ہوئے اور آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کی ٹھوس بنیادیں رکھنے کا موقع فراہم کررہی ہیں۔ اب بھارت نے کورونا کا فائدہ اُٹھا کر اس جانب عملی پیش قدمی شروع کردی ہے۔ یہ کشمیری مسلمان آبادی کو اپنے علاقے میں اقلیت میں بدلنے کی جانب اُٹھایا جانے والا ایک ٹھوس قدم ہے۔ اس کے بعد بھارت کے بڑے کاروباری گروپ کشمیریوں سے اونے پونے داموں زمینوں کی خریداری کرکے اس منصوبے کو آگے بڑھانا شروع کردیں گے۔ یہ وہ خطرہ ہے جس کی مدتوں سے نشان دہی کی جاتی رہی۔ بھارت کی اس منظم کوشش کو حالات کی قید میں پھنسے صرف کشمیری ناکام نہیں بنا سکتے۔ اس کام کے لیے پاکستان کی بھرپور مدد کی ضرورت ہے۔ حکومتِ پاکستان کو اس سلسلے میں بیان بازی سے آگے بڑھ کر کوئی پالیسی تشکیل دینا ہوگی۔
۲۹فروری ۲۰۲۰ءکو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان اور امریکا کے درمیان ہوئے معاہدے سے تقریباً دوہفتے قبل، بھارتی فضائیہ کا ایک طیارہ کابل ایئرپورٹ پر اُترا۔ اس طیارے میں بھارتی وزیر اعظم نریندرا مودی کا ایک دست راست، صدر اشرف غنی کے لیے خصوصی پیغام لے کر گیا تھا، جس نے اسی رات واپس دہلی پہنچ کر وزیر اعظم کو مشن کی کامیابی کی اطلا ع دے دی۔
امریکا و یورپ سمیت پڑوسی ممالک اور خود افغانستان کی سیاسی جماعتیں توقع کر رہی تھیں کہ طالبان اور امریکا کے درمیان امن معاہدے کے طے ہونے تک افغانستان کا الیکشن کمیشن انتخابات کے نتائج کا اعلان نہیں کرےگا۔ اس کو بھی ایک طرح سے پس پردہ معاملہ فہمی (Deal) کا حصہ سمجھا جا رہا تھا، تاکہ معاہدے کے بعد افغانستان میں ایک وسیع البنیاد حکومت قائم کرنے میں مدد مل سکے۔ نئی دہلی حکومت کو خدشہ تھا کہ دوحہ معاہدے کے بعد امریکا اور دیگر طاقتیں، یا تو افغانستان میں اَز سرنو انتخابات کروانے پر زور ڈالیں گی یا طالبان کو وسیع البنیاد حکومت میں حصہ لینے پر آمادہ کروالیں گی۔ لہٰذا، اس کو سبو تاژ کرنے کے لیے ضروری تھا کہ موجودہ صدر اشرف غنی کو قانونی حیثیت حاصل ہو۔ کیونکہ آثار بتارہے تھے کہ دوحہ معاہدے کے بعد کابل میں موجودہ حکومت، قانونی حیثیت کے بغیر عضو معطل اوربے معنی وجود بن کر رہ جائے گی۔
اس افسر کے کابل دورہ کے اگلے ہی دن، یعنی ۱۸فروری کو افغانستان کے الیکشن کمیشن نے پانچ ماہ کے بعد انتخابات کا اعلان کرکے اشرف غنی کو بطورصدر کامیاب قرار دے دیا۔ اس طرح ستمبر ۲۰۱۹ء میں ہوئے انتخابات میں اشرف غنی نے دوسری بار صدر کے عہدے پر قبضہ جمالیا۔
کابل میں سکھ گوردوارے پر بم دھماکا ، تشدد کے واقعات اور کابل انتظامیہ کی طرف سے طالبان قیدیوں کی رہائی میںٹال مٹول کرنے سے امریکا کو پیغام دینے کی کوشش کی گئی کہ افغانستان میں بھارتی مفادات کا خیال رکھے بغیر امن کی بحالی تقریباً ناممکن ہے اور بھارت اس وقت اشرف غنی کی حکومت اور اس کی انٹیلی جنس ایجنسی کے پیچھے پوری یکسوئی سے کھڑ ا ہے۔
بھارت نے بظاہر افغانستان کے سکیورٹی معاملات سے الگ رہ کر تعمیر و ترقی اور مالی امداد پر توجہ مرکوز کی ہے، تاکہ افغان عوام کی پذیرائی حاصل کرکے طالبان کو اقتدار سے دور رکھا جاسکے۔ ۲۰۰۱ء سے لے کر اب تک بھارت نے افغانستان میں تقریباً تین ارب ڈالر کی رقم صرف کی ہے۔ رواں مالی سال میں بھی بھارتی بجٹ میں افغانستان کے لیے بھارتی چار ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔ لہٰذا، یہ تقریباً ناممکن ہے کہ بھارتی ادارے اتنی جلدی کابل حکومت کو طالبان یا کسی بھی پاکستان دوست حکومت کے ہاتھوں میں جاتے دیکھ کر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھ جائیں۔
اسی دوران امریکا کے ساتھ طالبان مذاکراتی ٹیم کے سربراہ شیرمحمد عباس استانگزئی نے بھارت کے حوالے سے طالبان کی پوزیشن کو ان الفاظ میں واضح کر دیا ہے: ’’افغانستان میں بھارت کا کردار ہمیشہ منفی رہا ہے۔ اس نے ہمیشہ غداروں کی مدد کی، گذشتہ ۴۰برسوں کے دوران افغانستان کے بدعنوان گروپ کے ساتھ بھارت نے تعلقات قائم رکھے ہیں۔ لیکن اگر بھارت، افغانستان میں مثبت کردار ادا کرنے کو تیار ہو تو افغان طالبان کو کوئی مسئلہ نہیں ہوگا‘‘ (روزنامہ The News ، ۱۸مئی ۲۰۲۰ء)
ان سبھی ایشوز پر امریکا کو بھی تشویش لاحق ہے۔ اسی لیے اس وقت جب پوری دنیا ’کرونا لاک ڈاؤن‘ کی زد میں ہے اور بین الاقوامی پروازیں معطل ہیں کہ ایک خصوصی امریکی چارٹرڈجہاز کے ذریعے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے ایلچی زلمے خلیل زاد ، نئی دہلی آن پہنچے۔ جہاں انھوں نے بھارتی وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر اور سلامتی مشیر اجیت دوبال سے ملاقاتیں کیں۔ بتایا جاتا ہے کہ امریکی ایلچی نے بھارت کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ طالبان کے حوالے سے اپنے رویے میں نرمی لائےاور بتایا کہ ’’طالبان کا وجود، افغانستان کی ایک حقیقت ہے۔ ان سے بے زاری اور ان کو زبردستی کابل اقتدار سے دُور رکھناکوئی دانش مندی نہیں ہے‘‘۔ باوثوق ذرائع کے مطابق خلیل زاد نے مشورہ دیا کہ ’’پڑوسی ممالک روس، چین، ایران اور وسط ایشیائی ممالک کی طرح بھارت بھی طالبا ن کے ساتھ براہ راست تعلقات استوار کرکے اپنے خدشات براہِ راست ان کی قیادت کے گوش گزار کرے‘‘۔ ایک طرح سے خیل زاد نے طالبان اور بھارت کے مابین ثالثی اور ان کے درمیان سلسلۂ جنبانی شروع کرنے کی کوشش کی۔ نئی دہلی میں امریکی سفارت خانے نے کثیر الاشاعت روزنامہ دی ہندو کے ساتھ خلیل زاد کے انٹرویوکا بھی بندوبست کیا تھا۔ جس میں انھوں نے طالبان کے ساتھ معاہدے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ’’موجودہ حالات میں اس کا کوئی متبادل نہیں تھا‘‘۔
بھارت کو خدشہ ہے کہ دوحہ معاہدے کی وجہ سے خطے اور بین الاقوامی برادری میں پاکستان کا وقار بحال ہوا ہے، اور پاکستان کو الگ تھلگ کرنے کی بھارتی کوششوں کو بھاری دھچکا لگا ہے۔
علاوہ ازیں بھارت ہمیشہ افغانستان کے معاملات کو کشمیر میں جاری جدوجہد کے ساتھ منسلک کرتا آیا ہے۔ نئی دہلی میں افسران کہتے ہیں: ’’ افغانستان میں جب بھی پاکستان کے لیے نرم گوشہ رکھنے والی حکومت مسندِ اقتدار پر آئی ہے، تو کشمیر میں اس کا براہِ راست اثر دیکھنے کو ملا ہے‘‘۔ کشمیر کے ایک سابق گورنر جگ موہن ۱۹۸۹ء میں برپا عوامی بغاوت اور بعد میں عسکری جدوجہد کے آغاز کو افغانستان میں سوویت افواج کی شکست سے منسلک کرتے آئے ہیں۔ اسی طرح ۱۹۹۶ء سے ۲۰۰۱ء کے درمیان طالبان دورِحکومت میں کشمیر میں عسکری کارروائیوں میں تیزی آگئی تھی اور اسی زمانے میں کرگل جنگ بھی برپا ہوئی۔
ان سبھی خدشات کے ساتھ بھارت کی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے سربراہ سامنت گوئل نے ۵جولائی ۲۰۱۹ء کو وزیراعظم نریندرا مودی سے ملاقا ت کی اور ان کو مشورہ دیا: ’’امریکا - طالبان معاہدے کے ظہور میں آنے سے قبل ہی جموں و کشمیر کے سلسلے میں سخت فیصلہ کرلیا جائے‘‘۔جس کے ایک ماہ بعد ہی بھارتی پارلیمنٹ نے جموں و کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کرکے نہ صرف اس کی آئینی خصوصی حیثیت ہی ختم کردی، بلکہ ریاست کو ہی تحلیل کرکے اسے مرکزی انتظام والا علاقہ بنادیا۔ ان ذرائع کے مطابق ’را‘ کے سربراہ نے یہ دلیل دی تھی کہ ’’طالبان کے ساتھ معاہدے کے بعد کشمیر میں حالات کنٹرول سے باہر ہوسکتے ہیں اور اس کے علاوہ امریکا ، پاکستان کی اقتصادی اور ملٹری امداد بحال کر دےگا‘‘۔اُن دنوں خیال تھا کہ دوحہ مذاکرات ستمبر ۲۰۱۹ء میں مکمل ہوجائیں گے۔
افغانستان کے حوالے سے نئی دہلی کی بے چینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ نئی دہلی میں کچھ بااثر حلقے اب طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات اور تعلقات استوار کرنے پر زور دے رہے ہیں۔ مگر افغانستان میں بھارت کے سابق سفیر امر سنہا کے مطابق: ’’طالبان کے ساتھ تب تک گفت و شنید کا کوئی جواز نہیں بنتا ہے ، جب تک وہ پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کا اَزسر نو جائزہ نہیں لیتے‘ ‘۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’طالبان کا جھکاؤ پاکستان کی طرف کافی زیادہ ہے، جس کی وجہ سے بھارت کو ان کے ساتھ کوئی بھی سلسلہ کھولنے میں اندیشے ہیں۔ مزید یہ کہ طالبان کے ساتھ تحفظات اپنی جگہ، مگر جب انٹرا افغان ڈائیلاگ شروع ہوتا ہے، تو بھارت کو اس میں اپنی پوزیشن بناکر اس کو یقینی کرلینا چاہیے کہ یہ مذاکرات غیرجانب دار جگہ پر ہوں‘‘۔
سابق بھارتی سیکرٹری خارجہ شیام سرن کا کہنا ہے کہ’’ بھارتی پالیسی، طالبا ن کو کلی طور پر کابل اقتدار سے دُور رکھنے اور ایک وسیع البنیاد حکومت میں ان کے اثر و نفوذ کو کم کرنے پر مرکوز ہونی چاہیے۔ یعنی طالبان اگر اقتدار میں شرکت کریں تو بھی ان کی کوئی فیصلہ کن پوزیشن نہ ہو۔ افغانستان میں طالبان مخالف عناصر کو یک جا کرکے یہ ہدف حاصل کیا جاسکتا ہے‘‘۔ امر سنہا اور شیام سرن کے یہ خیالات بھارتی اسٹیبلشمنٹ کی پالیسی اور اقدامات کا نچوڑ ہیں۔
دوسری طرف دیگر سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ ’’۱۹۹۶ء کے برعکس پاکستان اپنے دگرگوں مالی حالات کی وجہ سے متوقع طالبان حکومت کی کوئی بامعنی اقتصادی مددنہیں کر پائے گا۔ اور یہی کچھ حالات سعودی عرب اور متحدہ امارات کے بھی ہیں۔ اس لیے اپنی مالی پوزیشن پر بھروسا کرکے بھارت کو چاہیے کہ وہ طالبان کو شیشے میں اتار کر انھیں پاکستان کے خیمے سے باہر نکالنے کے جتن کرے‘‘۔
بھارت کی اس سوچ اور حکمت عملی کے نتیجے میں افغانستان میں شاید ہی امن بحال ہوسکے گا۔ چونکہ بھارت خود ہی افغانستان کے معاملات کو کشمیر کے ساتھ منسلک کرتا آیا ہے، اس لیے بین الاقوامی برادری کو بھی باور کرانے کی ضرورت ہے کہ ’’اس خطے میں امن و سلامتی تبھی ممکن ہے، جب کشمیر میں بھی سیاسی عمل کا آغاز کرکے اس مسئلے کا بھی کوئی حتمی حل تلاش کیا جائے‘‘۔ اور یہ کہ ’’کشمیری عوام کے حقوق کی بحالی اور افغانستان میں ایک حقیقی عوامی نمایندہ حکومت ہی خطے کی سلامتی کی ضامن ہے‘‘۔
عوام کی توجہ جہاں ’کورونا تباہی‘ پر مرکوز ہے، وہاں ایک ہی وقت میں جموں و کشمیر کے عوام کو دوبار لاک ڈاؤن، بڑھتے ہوئے تشدد اور یک طرفہ طور پر دہلی حکومت کے پےدرپے اقدامات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ نریندر مودی حکومت کی دوسری مدت کے پہلے ۱۲مہینوں کی کشمیر پالیسی میں ایسے اقدامات شامل ہیں، جو وادیِ کشمیر میں تباہ کن سمجھے جاتے ہیں، جموں اور لداخ میں مخلوط ردعمل کا اظہار سامنے آرہا ہے،جب کہ باقی بھارت میں قدرے اطمینان کا مظاہرہ دیکھنے میں آتا ہے۔
مودی حکومت کی ان کارروائیوں میں تازہ ترین شاخسانہ نئے ڈومیسائل قواعد ہیں ، جنھیں ۱۸مئی ۲۰۲۰ء کو مشتہر کیا گیا ہے۔ دہلی وزارتِ داخلہ کے ۳۱مارچ کے حکم کے مطابق، یہ ضابطے جموں و کشمیر ریاست کے اس بنیادی قانون کو تبدیل کردیتے ہیں، جسے ہندستانی آئین کے آرٹیکل ۳۵ -اے کے تحت تسلیم کیا گیا تھا۔ جس میں ریاست کے مستقل باشندوں کو سرکای ملازمتوں کے ریزرویشن کے ساتھ ساتھ مفت تعلیم اور زمین کی ملکیت کے مکمل حقوق کا حق حاصل چلا آرہاتھا۔
ڈومیسائل کے یہ نئے قواعد کسی ایسے شخص کو جو: ریاست میں۱۵سال تک کام کرتا رہا ہے یا رہایش پذیر ہے، یا سات سال تک وہاں تعلیم حاصل کی ہے، وہ کشمیر کا ڈومیسائل سرٹیفکیٹ حاصل کرسکے گا اور کشمیر کے مستقل رہایشیوں کے لیے محفوظ کردہ تمام فوائد کا مستحق ہوگا۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ یہ ترمیم ان سرکاری عہدے داروں کو بھی ڈومیسائل کا مستحق ٹھیراتی ہے، جنھوں نے اپنے غیررہایشی بچوں کے ساتھ، ریاست میں ۱۰ سال تک مختلف سطحوں پر نوکری کی۔ اس رعایت کا فائدہ اُٹھانے والے اہل کاروں کی اقسام کی فہرست کے مطابق: ہندستانی انتظامی خدمات کے ممبر، قانون ساز اداروں میں کام کرنے والے) ، عوامی شعبے کی اکائیوں اور بنکوں ، مرکزی یونی ورسٹیوں اور 'مرکزی حکومت کے تسلیم شدہ تحقیقی اداروں وغیرہ میں خدمات انجام دینے والے شامل ہیں۔
صرف سرکاری عہدے داروں اور ان کے بچوں کی حمایت کرتے ہوئے مراعات دینے کا مطلب ایک واضح تعصب ہے۔ یاد رہے ۲۰۰۰کے عشرے کے اوائل میں سول سروس کی تنخواہوں میں اضافے کے بعد ، بھارت کی بہت سی ریاستوں اور حکومتوں نے ان مراعات کو ختم کرنا شروع کیا، تاکہ بڑے شہروں پر ملک کے مختلف حصوں سے آبادی کا دباؤ ختم کیا جائے۔ مگر یہ تعصب کی انتہا ہے کہ دوسرے حصوں میں تو بھارت کی دیگر ریاستوں کے لوگوں کو روکا جارہا ہے، مگر جموں وکشمیر پر اسے نافذ کیا جارہا ہے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کا موقف ہے کہ ’’نئے ڈومیسائل قواعد ضروری تھے کیونکہ بہت سے پس ماندہ گروہوں کو ریاست میں بہتر معاشی مستقبل دینا ضروری ہوگیا ہے، جیسے مغربی پاکستان سے آنے والے مہاجرین وغیرہ‘‘۔ مگر یہ دلیل فی الحقیقت بے بنیاد ہے۔ مودی حکومت یا دہلی کی حکومتوں کو ان گروپوں میں شامل لوگوں کی مدد اور مستقل رہایشی زمرے میں توسیع سے کسی نے کبھی نہیںروکا تھا۔ پہلے اس سوال نے چند لاکھ لوگوں کا مسئلہ کھڑا کیا تھا، مگر مودی سرکار نے ایک کروڑ ۲۰ لاکھ لوگوں کو رجسٹریشن اور ریکارڈ کی دلدل میں کیوں دھکیل دیا ہے؟ اس سوال کا کوئی جواب نہیں دیتا۔
بی جے پی پارٹی کے ترجمان کہتے ہیں:’’ہمارے فیصلوں پر ہنگامہ آرائی کیوں ہے؟ جب کہ پارٹی منشور میں ہم نے اپنا ارادہ بیان کیا تھا اور ہندستان کے صدر اور پارلیمنٹ نے اسی کی پیروی کی ہے‘‘۔ یہاں پر وہ اس حقیقت کو نظر انداز کر دیتے ہیں کہ اگست ۲۰۱۹ء کے صدارتی احکامات اور تنظیم نو ایکٹ بشمول ان تمام اقدامات کے، سپریم کورٹ میں آئینی سطح پر چیلنج کردیے گئے ہیں۔ ایک جمہوری حکومت جو قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھنے کا دعویٰ کرتی ہے، وہ عدالتی فیصلے تک زیرسماعت چیزوں پر عمل درآمد کو منجمد کرنے کی پابند ہے، لیکن مودی حکومت بے جھجک حیرت انگیز تیزی کے ساتھ قدم آگے بڑھاتی جارہی ہے۔
اگست کے اعلانات کے چند مہینوں کے اندر ، جموں و کشمیر کے اثاثوں کو دو نئے مرکزی خطوں میں تقسیم کرنے کے لیے بھارتی حکومت کی طرف سے علیحدہ کمیٹیاں تشکیل دی گئیں۔ ریاستی پولیس کو مرکزی وزارت داخلہ نے براہِ راست اپنی حکمرانی میں لے لیا۔ صنعتی فروغ کے لیے کشمیر میں اراضی کے حصول کا کھلا حق دے دیا گیا، بھارتی سیاحتی کمپنیوں کو ترقی پذیر مقامی صنعت کی ذمہ داری سنبھالنے کے لیے مدعو کیا گیا ، اور کان کنی کے حقوق غیر کشمیری ٹھیکے داروں کو فروخت کردیے گئے۔ اسٹیٹ ہیومن رائٹس کمیشن سمیت ریاست کے سابقہ تمام قانونی اداروں کو تحلیل کردیا گیا۔ اقتدار لیفٹیننٹ گورنر اور اس کے مشیروں کے ہاتھوں میں مرکوز کردیا گیا۔ اس طرح حکمرانی کے اس نئے نظام میں متحرک اور مقتدر لوگوں میں ایک کے علاوہ تمام افراد کا تعلق ریاست سے باہر ہے۔
جموں وکشمیر کی قانون ساز اسمبلی تحلیل چلی آرہی ہے۔ یہاں کے بہت سارے سیاسی رہنما نظربند ہیں، انھیں بولنے سے روک دیا گیا ہے اور میڈیا کو ان موضوعات پر بات کرنے پر دھمکایا جاتا ہے۔ اس تمام تر جبر کے باوجود ، جموں و کشمیر میں واحد بی جے پی کے علاوہ ، تمام سیاسی جماعتوں کے نئے ڈومیسائل قواعد کے خلاف احتجاج کو بڑی بے دردی سے نظرانداز کیا جارہا ہے۔ بی جے پی کے جنرل سکریٹری رام مادھاؤ نے نئے ڈومیسائل قواعد کو ’ایک معاہدہ‘ قرار دیا ہے ، جس کا مطلب ہے کہ مودی انتظامیہ ان پر نظرثانی نہیں کرے گی (انڈین ایکسپریس، ۲۱مئی ۲۰۲۰ء)۔
جموں وکشمیر کے بیش تر افراد نے دستوری کی دفعہ ۳۵-اے کے خاتمے کو ریاست کی داخلی خودمختاری کے تابوت پر آخری کیل قرار دیا ہے، اور درست کہا ہے۔ یاد رہے ۳۵-اے کے نتیجے میں تحفظات کی ضمانت کوئی نئی چیز نہیں تھی بلکہ اس کی ضمانت مہاراجا ہری سنگھ کے دستخط کے تحت دی گئی تھی۔ گذشتہ ۷۰برسوں کے دوران یکے بعد دیگرے حکومتوں نے سابقہ ریاست کے اختیارات رفتہ رفتہ ختم کردیے ، لیکن ان میں سے کسی نے بھی آرٹیکل ۳۵-اے یا ریاست کے تابع قانون سازی پر ہاتھ نہیں ڈالا تھا، اور آہستہ آہستہ یہ چیز کشمیریوں کی شناخت سے جڑ گئی تھی۔ پھر اہم تر بات یہ ہے کہ تعلیم اور روزگار کے ذریعے کشمیریوں کو بااختیار بنائے جانے کو تحفظ حاصل تھا۔ اور جب ۱۹۹۰ کے عشرے میں مسلح شورش میں اضافہ ہوا تو ، بہت سے کشمیری سیاسی رہنماؤں نے مسلم اکثریتی وادی اور جموں کے متعدد اضلاع کی آبادی کو تبدیل کرنے کے ہندستانی ارادے کو بھانپ لیا تھا۔
۲۰۱۹ءتک ، یہ خدشات کشمیریوں کی تنہائی کے احساس کو تیز کرنے کے عمل میں ڈھل گئے۔ پھر اگست ۲۰۱۹ء کے اقدامات نے ماضی کی تمام مثبت کوششوں پر پانی پھیر کر رکھ دیا، جموں و کشمیر کے آئین کو زیر و زَبر کردیا اور آرٹیکل ۳۵- اے کو ختم کرکے رکھ دیا۔ جس کے بعد ڈومیسائل قواعد کو جبری طور پر مسلط کیا جارہا ہے۔
اس آخری اقدام کے ساتھ ہی جموں و کشمیر میں عدم استحکام بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔ مسلح مقابلوں میں اضافہ ہورہا ہے اور سیکیورٹی کی صورتِ حال انتہائی نازک ہے۔ اس خراب صورت حال کو پیدا کرنے کا پاکستان پر الزام لگانا ایک فضول سی بات ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ وادیِ کشمیر کے پیدا شدہ عدم استحکام ہی کا پاکستان کو فائدہ ہوتا ہے اور چین کو بھی ۔ مودی حکومت کی کشمیر پالیسی کے نتیجے میں ، ہندستان کو اپنے مغربی محاذ پر ، اور جموں و کشمیر کے عوام کے حقوق سے مسلسل انکار کرکے ، خود بھارت کی سلامتی کے لیے خطرات میں اضافہ کیا گیا ہے۔ کیا بھارت واقعی صرف ’ہندوتوا‘ نظریاتی جذبے کی قیمت ادا کرنے کے لیے تیار ہے؟ (روزنامہ The Hindu، ۲۶مئی ۲۰۲۰ء، ترجمہ: ادارہ)
جب ۲۰۱۸ء میں ہمارے نمایندوں نے امریکا کے ساتھ امن عمل کا آغاز کیا، تو ہماری توقع مذاکرات کے مثبت نتائج کے حوالے سے صفر تھی۔ ۱۸ برس کی جنگ اور ماضی میں کئی بار مذاکرات کی کوششوں کے پیش نظر ہم امریکا پر اعتماد نہیں کرتے تھے، لیکن اس کے باوجود ہم نے ایک اور کوشش کرنے کا فیصلہ کیا، کیونکہ اس طویل جنگ سے سب بے زار ہیں، اور کسی بھی ممکنہ امن عمل کا موقع ضائع کرنا دانش مندی کا تقاضا نہیں ہے۔ اگرچہ اس کی کامیابی کا امکان بہت کم دکھائی دیتا تھا اور چار عشروں سے جاری جنگ کی وجہ سے ہر روز کسی افغان کا نقصان ہو رہا ہے۔ کوئی ایسا خاندان نہیں ہے جو اس جنگ سے متاثر نہیں ہے۔ہلاکتوں اور مشکلات کا یہ دور ختم کرنا چاہیے۔
امریکا کی زیرقیادت غیر ملکی افواج کے خلاف جنگ، ہمارا انتخاب نہیں تھا بلکہ جب ہم پر یہ جنگ مسلط کر دی گئی تو ہم اپنا دفاع کرنے پر مجبور تھے۔ لہٰذا، غیر ملکی افواج کا انخلا ہمارا اوّلین اور اہم مطالبہ ہے، اور اسی غیرمعمولی مسئلے پر ہم آج امریکا کے ساتھ امن معاہدے کر رہے ہیں۔
ملا عبد الغنی برادر اور شیر محمد عباس ستانک زئی کی سربراہی میں ہمارے نمایندوں نے اٹھارہ ماہ کے دوران امریکی حکام کے ساتھ امن معاہدہ کرنے کے لیے اَن تھک محنت کی، ملک بھر میں نہتے شہریوں پر امریکا کے شدید فضائی حملوں پر ہمارے نمایندوں نے باربار تشویش کا اظہار کیا اور امریکا کی جانب سے ہر بار نئے مطالبات پیش کرنے کے باوجود ہم امن مذاکرات کے لیے پُرعزم رہے۔
یہاں تک کہ جب امریکی صدر ٹرمپ نے مذاکرات کو منسوخ کرنے کا اعلان کیا، تب بھی ہم نے مذاکرات کے دروازے بند نہیں کیے، کیونکہ جنگ کے تسلسل سے زیادہ ہمارے عوام ہی متاثر ہورہے ہیں۔ یہ بات واضح ہے کہ اس طرح کے دو طرفہ مذاکرات کے بغیر امن معاہدہ ممکن نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جس دشمن کے خلاف دو عشروں سے ہماری لڑائی جاری ہےاور جس کے ہاتھوں موت بارش کی طرح برس رہی ہے، اس کے ساتھ امن مذاکرات کرنا اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ ہم اپنے ملک میں جنگ کے خاتمے اور امن کے قیام کرنے کے لیے پُرعزم ہیں۔
ہم ان خدشات اور تمام سوالات کو سمجھتے ہیں، جو غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد نظام کی نوعیت کے بارے میں افغانستان کے اندر اور اس سے باہر موجود ہیں۔ اس طرح کے خدشات کے جواب میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اس کا انحصار بین الافغان اجماع پر ہے۔ ہم دوسروں کی مداخلت کے بغیر آزاد ماحول میں ہم گفت و شنید اور مفاہمت کے ذریعے ملک کے نظام کے بارے میں بات چیت کریں گے اور اس میں کسی کو رکاوٹ ڈالنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔
پہلے سے شرائط مقرر کرکے اس عمل کو روکنا مناسب نہیں ہے۔ ہم دوسری جماعتوں کے ساتھ باہمی احترام کے ماحول میں، مشاورتی عمل کے ذریعے آگے بڑھنے کے خواہش مند ہیں اور ایک نئے اور ہمہ پہلو سیاسی نظام کے قیام کے لیے پُرعزم ہیں کہ جس میں ہر افغان کی آواز سنی جائے اور کوئی افغان شہری محروم نہ رہے۔
مجھے یقین ہے کہ غیر ملکی افواج کے انخلا اور مداخلت سے نجات کے بعد، ہم مشترکہ طور پر ایک اسلامی نظام کے لیے راہ ہموار کریں گے، جس میں برابری کی بنیاد پر تمام افغانوں کے حقوق محفوظ ہوں گے، تعلیم اور روزگار سمیت خواتین کے وہ تمام حقوق محفوظ ہوں گے، جو اسلام نے دیے ہیں۔
ہم باغی گروپوں کی طرف سے افغانستان سے علاقائی اور بین الاقوامی سلامتی کو لاحق خطرے کے بارے میں اٹھائے جانے والے خدشات کو بھی بخوبی سمجھتے ہیں۔ تاہم، اس طرح کے خدشات میں مبالغہ آرائی کو پہلے بھی استعمال کیا گیا ہے، اور افغانستان میں غیر ملکی گروہوں کے بارے میں اطلاعات کو سیاسی مفادات کے لیے بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔
یہ وضاحت بھی ضروری اور کسی افغان کے مفاد میں یہ بات نہیں ہے کہ وہ اپنے ملک کو کسی اور کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت دیں اور افغانستان کو میدان جنگ بنائیں۔ ہم نے غیرملکی مداخلت کا عذاب دیکھا ہے، لہٰذا تمام افغانوں کے ساتھ مل کر ہم یہ امر یقینی بنانے کے لیے تمام تر اقدامات اٹھائیں گے کہ ایک نیا افغانستان امن کی علامت کے طور پر ابھرے اور کسی کو بھی اس کا احساس کبھی نہ ہو کہ ہماری دھرتی سے اس کو خطرہ ہے۔
لیکن اس کے باوجود، ہم پیش آمدہ چیلنجوں کو کم نہیں سمجھتے ہیں، اور ان میںہمارے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہوگا کہ مختلف افغان گروہ ہمارے مشترکہ مستقبل کی وضاحت کے لیے سنجیدگی اور خلوص نیت سے کام کریں۔ بلاشبہہ کچھ لوگ اختلاف کریں گے، تاہم مجھے یقین ہے کہ سب لوگ ایک متفقہ نظام پر راضی ہوجائیں گے، کیوں کہ اگر ہم کسی غیرملکی دشمن کے ساتھ معاہدہ کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں، تو باہمی اختلافات کو افہام و تفہیم سے احسن طریقے سے ختم بھی کر سکتے ہیں۔
ایک اور چیلنج یہ ہوگا کہ عالمی برادری غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد افغانوں کے ساتھ سرگرم عمل رہے، کیونکہ ہمارے ملک کے استحکام اور ترقی کے لیے عالمی برادری کا تعاون ضروری ہے۔ ہم باہمی احترام کی بنیاد پر پاے دار امن اور خوش حالی کے میدان میں اپنے بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اپنی افواج کے انخلا کے بعد امریکا بھی افغانستان میں ملک کی ترقی اور تعمیر نو میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔
ہم اس پہلو کو اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ افغانستان تمام ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات برقرار رکھے اور ان کے خدشات کو سنجیدگی سے دُور کرے۔ افغانستان تنہائی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ نیا افغانستان بین الاقوامی دنیا کا ایک ذمہ دارملک ہوگا۔ ہم ان تمام بین الاقوامی اصولوں اور قوانین کے پابند رہیں گے، جو اسلام کے مقدس دین کے اصولوں سے متصادم نہیں ہیں۔ اسی طرح ہم دوسرے ممالک سے بھی توقع کرتے ہیں، کہ وہ ہمارے ملک کے استحکام اور خودمختاری کا احترام کریں اور ہماری آزادی اور استحکام کو باہمی تعاون کے طور پر دیکھیں، مقابلے اور دشمنی کے طور پر نہیں۔
اس وقت کا بڑا چیلنج ہمارے اور امریکا کے مابین امن معاہدے پر عمل درآمد ہوگا، اگرچہ امریکی نمایندوں کے ساتھ بات چیت کے دوران کچھ اعتماد پیدا ہوا ہے، لیکن جس طرح امریکا ہم پر مکمل اعتماد نہیں کرتا ہے ، ہمیں بھی اس پر اتنا اعتماد نہیں ہے۔ ہم اپنی جانب سے معاہدے کے ہر لفظ پر عمل درآمد کرنے کے پابند ہیں۔ لیکن معاہدے کے مفادات کا حصول ، کامیابی کی یقین دہانی اور دیرپا امن لانا بھی امریکا پر منحصر ہے۔ امریکا کو چاہیے کہ وہ دیرپا امن کے لیے اپنے وعدوں پر عمل درآمد کو یقینی بنائے۔
ہمارے ہم وطن بہت جلد اس تاریخی معاہدے پر عمل درآمد کے بعد تمام غیر ملکی افواج کے انخلا کا مشاہدہ کریں گے۔ جب ہم اس مرحلے کے قریب پہنچ رہے ہیں، تو یہ بھی ممکن ہے کہ بہت جلد ہم اپنے تمام افغان بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ مل کر پایدار امن اور ایک نئے افغانستان کی بنیاد کی طرف تحریک کا آغاز کریں گے۔دیگر ممالک میں مقیم تمام افغان شہریوں کو اپنے ملک اور گھر کی طرف واپس آنے کی دعوت دے گا، جہاں ہر ایک کو عزت اور امن کے ساتھ زندگی گزارنے کا حق حاصل ہو‘‘۔(What We the Taliban Want?، مطبوعہ دی نیویارک ٹائمز، ۲۰فروری ۲۰۲۰، ترجمہ: ادارہ)
افغان جہادکے دنوں میں ایک میڈیکل ڈاکٹر کی حیثیت سے ۱۹۸۳ء تا ۱۹۹۲ء کئی بار افغانستان جانا ہوا۔ روسی بمباری سے افغانستان کا دیہی علاقہ مکمل طور پر برباد ہوچکا تھا۔ ان علاقوں سے اکثریت پاکستان ہجرت کر گئی تھی۔ پھر جب افغان مجاہدین نے حکومت قائم کرنے کی ناکام کوشش کی، تو بڑے شہروں کابل،جلال آباد،گردیز،چغہ سرائے وغیرہ جانا ہوا، جہاں تباہی کے مناظر عام تھے۔ شاہراہیں ،پُل، باغات، عمارات زمیں بوس ہوتی گئیں اور غربت و افلاس میں مزید اضافہ مشاہدہ میں آتا رہا۔ ۱۹۹۴ء سے طالبان کی آمد کے ساتھ امن آیا، لیکن کچھ ہی عرصے بعد امریکی قیادت میں ناٹو افواج نے رہی سہی کسر نکال دی۔ ہرافغان کے دل کی آواز ہے کہ غیر ملکی مداخلت یقینا ختم ہو نی چاہیے، اس کے بغیر ملک میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔
ماضی کی طویل خانہ جنگی کے بعد اگر پھر نئی خانہ جنگی ہوئی تو یہ ایک بڑاالمیہ ہوگا۔ یہی سوال تمام افغانوں اور ان کے بہی خواہوں کو پریشان کیے ہوئے ہے۔ اسی لیے جب ۲۹ فروری ۲۰۲۰ء کو ایک طویل انتظار کے بعد قطر میں ایک تاریخی امن معاہدہ طے پایا، تو اس پر افغان عوام نے کوئی پُرجوش استقبال نہیں کیا، حالانکہ سب کی خواہش تھی کہ طالبان اور امریکا کے درمیان امن مذاکرات کامیابی سےہم کنار ہوں۔افغانستان میںمنعقد ہونے والے گذشتہ تمام صدارتی انتخابات کے تمام امیدواروں نے عوام سے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ ملک میںامن قائم کرنے کے لیے طالبان سے مذاکرات کریں گے۔حامد کرزئی اور اشرف غنی اس وعدے کی بنیاد پر انتخابی مہم چلاتے رہے کہ ’’ہمارا اصل کام امن کا قیام ہوگا۔ ہم طالبان سے اپیل کرتے تھے کہ وہ مذاکرات کریں‘‘۔ لیکن طالبان کا موقف یہ تھا کہ ۲۰۰۱ء میں جب امریکی افواج نے افغانستان پر نائن الیون کے واقعے کو بنیاد بناکر دھاوا بولا، تو اس وقت افغانستان میں مُلّا عمر کی قیادت میں امارت اسلامی قائم تھی، جس کو ختم کرکے ایک کٹھ پتلی حکومت قائم کی گئی۔چونکہ گذشتہ دوعشروں میں طالبان کی امارت اسلامی، غیر ملکی قبضے کے خلاف مزاحمت کا کردار ادا کرتی رہی ہے۔اس لیے جب بھی قابض فوج افغانستان چھوڑے تو اسے ہم سے بات کر کے معاملات طے کرنا ہوں گے۔ آخرکار امریکی صدربارک اوباما نے ۲۰۰۸ء میں افغانستان سے فوجی انخلا اور طالبان سے مذاکرات کا اصولی فیصلہ کیا۔لیکن انھیں فیصلے پر عمل درآمد میں متعدد اندرونی مزاحمتوں کا سامنا رہا۔ پھر صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے صدارتی انتخابات جیتنے کے بعد انخلا کی حکمت عملی پر کام شروع کیا۔ امریکی افواج اور اتحادیوں کے تحفظ اور واپسی کے لیے طالبان سے مذاکرات کی کڑوی گولی نگلنے کی کوشش کی۔
بالآخر ’امارت اسلامی افغانستان‘ کے نمایندے مُلّا عبدالغنی برادر اور ’ریاست ہاے متحدہ امریکا‘ کے نمایندے کے زلمے خلیل زادے نے ایک امن معاہدے پر دستخط کردیے۔ اس موقعے پر دونوں فریقوں نے معاہدے کے لیے پاکستان کے کردار اور مصالحانہ کوششوں کی تعریف کی ۔ اس معاہدے پر مختصر بات کرنے سے پہلے متن کا مطالعہ مفید ہوگا، یہ معاہدہ ۱۲سال کے طویل ترین بحث و مباحثے کے بعد حتمی شکل میں سامنے آیا ہے، اور بہ یک وقت انگریزی، پشتو، دری، [فارسی] میں جاری کیا ہے۔
’’معاہدہ براے بحالی امن افغانستان، مابین امارت اسلامی افغانستان، جس کو ریاست متحدہ [امریکا] ایک مملکت کے طور پر تسلیم نہیں کرتی اور طالبان کے نام سے جانے جاتے ہیں، اور ریاست متحدہ ۲۹ فروری ۲۰۲۰ء بمطابق ۵ رجب ۱۴۴۱ہجری قمری کیلنڈر اور۱۰ حوت ۱۳۹۸ ہجری شمسی کیلنڈر‘‘ یہ ایک جامع امن معاہدہ کیا ہے، جس کے چار حصے ہیں :
۱- ضمانتوںاور عمل درآمد کا نظام، جس سے سرزمین افغانستان کو کسی گروہ اور فرد کو ریاست متحدہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف استعمال سے روکا جائے گا ۔
۲۔ ضمانتوں اور عمل درآمد کے نظام الاوقات کے تحت افغانستان سے تمام غیر ملکی افواج کے انخلا کا اعلان۔
۳- ضمانتوںاور غیر ملکی افواج کے انخلا کے نظام الاوقات کا اعلان، بین الاقوامی گواہوں کی موجودگی میںکہ سرزمین افغانستان ریاست متحدہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف استعمال نہ ہو اور امارت اسلامی افغانستان جس کو ریاست متحدایک مملکت کے طور پر تسلیم نہیں کرتی اور طالبان کے نام سے جانے جاتے ہیں، بین الافغان مذاکرات افغان گروہوں کے ساتھ ۱۰مارچ ۲۰۲۰ء شروع کرے گا، بمطابق ۱۵ رجب ۱۴۴۱ ہجری قمری کیلنڈر اور ۲۰حوت ۱۳۹۸ ہجری شمسی کیلنڈر۔
۴- مستقل اور جامع فائر بندی بین الافغان مذاکرات اور صلاح مشوروں کا مرکزی نکتہ ہو گا، جس میں مشترکہ نظام نفاذ کا اعلان اور افغانستان میں مستقبل کا سیاسی نقشۂ کار شامل ہیں ۔
یہ چاروں حصے مربوط ہیں اور عمل درآمد متفقہ نظام الاوقات اور متفقہ شرائط پر ہو گا:
___ درج ذیل میں معاہدے کے پہلے اور دوسرے حصے کے نفاذ کا متن ہے:
دونوں فریقوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ان دونوں حصوں کے نفاذ کا انحصار ایک دوسرے پر ہے۔ امارت اسلامی افغانستان جس کو ریاست متحدہ ایک مملکت کے طور پر تسلیم نہیں کرتی اور طالبان کے نام سے جانے جاتے ہیں، کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے زیر اثر علاقوں میں ان پر عمل کرائے اور جب تک افغانستان میں بین الافغان مذاکرات کے ایک نئی عبوری افغان اسلامی حکومت قائم نہیں ہو جاتی۔
ریاست متحدہ افغانستان سے تمام امریکی و اتحادی فوجی قوت بشمول تمام غیرسفارتی سول افراد،نجی سیکورٹی،ٹھیکے دار،تربیتی عملہ،مشیر اور دیگر معاون عملے کا انخلا ۱۴ ماہ میں یقینی بنائے گی، جس کا اعلان اس معاہدے میں کیا گیا ہے۔اور اس سلسلے میں درج ذیل اقدامات اٹھائیں گے:
(الف) ریاست متحدہ اور اس کے اتحادی پہلے ۱۳۵ دنوں میں یہ اقدامات کریں گے:
۱- (امریکا) اپنے فوجیوں کی تعدادکو گھٹا کر(۸,۶۰۰) تک لائے گا اور اسی تناسب سے اتحادی فوجوں کی تعداد بھی کم کی جائے گی۔
۲- ریاست متحدہ اور اس کے اتحادی (۵) فوجی اڈوں سے مکمل انخلا کریں گے۔
(ب) امارت اسلامی افغانستان جس کو ریاست متحدہ ایک ریاست کے طور پر تسلیم نہیں کرتی اور طالبان کے نام سے جانے جاتے ہیں، کے عملی اقدامات اور معاہدے کی پابندی کو دیکھتے ہوئے ریاست متحدہ اور اس کے اتحادی درج ذیل کام کریں گے:
۱- ریاست متحدہ اور اس کے اتحادی ساڑھے ۹ ماہ میں افغانستان سے بقیہ انخلا مکمل کریں گے۔
۲ - اسی طرح ریاست متحدہ اور اس کے اتحادی، تمام بقیہ فوجی اڈوں سے انخلا مکمل کریں گے۔
(ج)ریاست متحدہ پابند ہے کہ وہ فوری طور پر تمام دیگر متعلقہ فریقوں کے ساتھ ایک منصوبے پر کام کرے، تاکہ جلد ازجلد جنگی اور سیاسی قیدیوں کی رہا ئی عمل میں لائی جا سکے، جس میں تعاون اور منظوری تمام متعلقہ فریق دیں گے۔ امارت اسلامی افغانستان جس کو ریاست متحدہ ایک ریاست کے طور پر تسلیم نہیں کرتی اور طالبان کے نام سے جانے جاتے ہیں، کے ۵ ہزار تک کے قیدیوں کو رہا کیا جائے گا، جب کہ دوسرے فریق کے ۱۰۰۰ (ایک ہزار) قیدیوں کی رہائی ۱۰مارچ ۲۰۲۰ء تک عمل میں آئے گی۔جو بین الافغان مذاکرات کا پہلا دن ہوگا۔ بمطابق ۱۵رجب ۱۴۴۱ ہجری قمری کینڈر اور ۲۰ حوت ۱۳۹۸ ہجری شمسی کیلنڈر۔متعلقہ فریقین کا یہ عزم ہے کہ آیندہ ۳ ماہ میں تمام قیدیوں کو رہا کر دیا جائے گا۔
ریاست متحدہ اس عمل کو مکمل کرنے کی پابند ہے ۔امارت اسلامی افغانستان جس کو ریاست متحدہ ایک ریاست کے طور پر تسلیم نہیں کرتی اور طالبان کے نام سے جانے جاتے ہیں، اس امر کے پابند ہیں کہ رہا شدہ قیدی اس معاہدے پر عمل کرنے کے پابند ہوں گے اور وہ ریاست متحدہ اور اس کے اتحادیوں کے لیے کو ئی خطرہ نہیں بنیں گے۔
(د)بین الافغان مذاکرات کے آغاز پر ریاست متحدہ، امارت اسلامی افغانستان جس کو ریاست متحدہ ایک ریاست کے طور پر تسلیم نہیں کرتی اور طالبان کے نام سے جانے جاتے ہیں، اس کے ارکان کے خلاف سروں پر مقرر کیے جانے والے انعامات کی فہرست کو ختم کرنے اور دیگر پابندیوں کو ختم کرنے کے لیے ۲۷ ؍اگست۲۰۲۰ء کا ہدف رکھا گیا ہے،بمطابق ۸محرم ۱۴۴۲ ہجری قمری کیلنڈر اور ۶سنبلہ ۱۳۹۹ ہجری شمسی کیلنڈر ۔
(ح)بین الافغان مذاکرات کے آغاز پر ریاست متحدہ، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے دیگر ارکان کے ساتھ مل کر ایسے سفارتی اقدامات کرے گی، جس سے امارت اسلامی افغانستان جس کو ریاست متحدہ ایک ریاست کے طور پر تسلیم نہیں کرتی اور طالبان کے نام سے جانے جاتے ہیں، کے ارکان کے نام پابندیوں کی فہرست سے نکالے جاسکیں، اس ارادے کے ساتھ کہ یہ ہدف ۲۹مئی ۲۰۲۰ء تک حاصل ہو جائے،بمطابق ۶ شوال ۱۴۴۱ ہجری قمری کیلنڈر اور ۹ جوزہ ۱۳۹۹ ہجری شمسی کیلنڈر۔
(و) ریاست متحدہ اور اس کے اتحادی، کو ئی بھی ایسی دھمکی یا طاقت کا استعمال نہیں کریں گے، جس سے افغانستان کی سیاسی آزادی اور جغرافیائی سالمیت متاثر ہو تی ہو اور نہ اس کے داخلی معاملات میں مداخلت کریں گے۔
اس معاہدے کے اعلان کے ساتھ ہی امارت اسلامی افغانستان جس کو ریاست متحدہ ایک مملکت کے طور پر تسلیم نہیں کرتی اور طالبان کے نام سے جانے جاتے ہیں، درج ذیل اقدامات اٹھائے گی، تاکہ کسی بھی گروہ یا فرد بشمول القاعدہ کو روکے گی، جوافغانستان سرزمین کو ریاست متحدہ اور اس کے اتحادیوں کی سلامتی کے لیے خطرہ کا باعث ہو۔
۱- امارت اسلامی افغانستان جس کو ریاست متحدہ ایک مملکت کے طور پر تسلیم نہیں کرتی اور طالبان کے نام سے جانے جاتے ہیں، اپنے ارکان اور دیگر افراد اور گروہوں بشمول القاعدہ کو اجازت نہیں دیں گے کہ وہ افغان سرزمین کو ریاست متحدہ یا اس کےاتحادیوں کی سلامتی کے خلاف استعمال کرسکے۔
۲- امارت اسلامی افغانستان جس کو ریاست متحدہ ایک مملکت کے طور پر تسلیم نہیں کرتی اور طالبان کے نام سے جانے جاتے ہیں، ان عناصر کو ایک واضح پیغام دے گی جو ریاست متحدہ اور اس کے اتحادیوں کی سلامتی کے لیے ایک خطرہ ہیں کہ ان کے لیے افغانستان میں کو ئی جگہ نہیں ہے، اور امارت اسلامی افغانستان جس کو ریاست متحدہ ایک مملکت کے طور پر تسلیم نہیں کرتی اور طالبان کے نام سے جانے جاتے ہیں، کے ارکان کو ہدایت کرے گی کہ وہ کسی ایسے گروہ یا افراد سے تعاون نہ کریں، جو ریاست متحدہ اور اس کے اتحادیوں کی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔
۳- امارت اسلامی افغانستان جس کو ریاست متحدہ ایک مملکت کے طور پر تسلیم نہیں کرتی اور طالبان کے نام سے جانے جاتے ہیں، بھی ایسے گروہ یا افراد کو روکے گی، جو ریاست متحدہ اور اس کے اتحادیوں کے سلامتی کے لیے خطرہ ہو، نیز ایسے افراد کو بھرتی،تربیت اور چندہ جمع کرنے سے بھی معاہدے کے قواعد کے مطابق روکے گی۔
۴- امارت اسلامی افغانستان جس کو ریاست متحدہ ایک مملکت کے طور پر تسلیم نہیں کرتی اور طالبان کے نام سے جانے جاتے ہیں، اس امر کے پابند ہوں گے کہ جو لوگ افغانستان میں پناہ اور رہایش کے خواہش مند ہوں گے، بین الاقوامی مائیگریشن قوانین کے مطابق اور اس معاہدے کے مطابق ایسے افراد ریاست متحدہ اور اس کے اتحادیوں کی سلامتی کے خلاف خطرہ نہ بنیں گے۔
۵- امارت اسلامی افغانستان جس کو ریاست متحدہ ایک مملکت کے طور پر تسلیم نہیں کرتی اور طالبان کے نام سے جانے جاتے ہیں، کسی کو بھی ویزہ ،پاسپورٹ ،سفری پرمٹ یا دیگر قانونی دستاویزات فراہم نہیں کرے گا، جو ریاست متحدہ یا اس کے اتحادیوں کے لیے خطرے کا باعث بنے۔
۱- ریاست متحدہ اس معاہدے کی توثیق کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے رجوع کر ے گی۔
۲- ریاست متحدہ ، امارت اسلامی افغانستان جس کو ریاست متحدہ ،ایک ریاست کے طور پر تسلیم نہیں کرتی اور طالبان کے نام سے جانے جاتے ہیں، آپس میں مثبت تعلقات قائم کریں گے اور چاہیں گے کہ معاملات طے پانے کے بعد بننے والی افغان اسلامی حکومت کے تعلقات اور بین الافغان مذاکرات کے نتائج مثبت ہوںگے۔
۳- ریاست متحدہ نئی افغان اسلامی حکومت جو بین الافغان مذاکرات اور تصفیہ کے بعد وجود میں آئے گی، کے ساتھ مالی تعاون جاری رکھے گا اور اس کے اندرونی معاملات میں دخل انداز نہیں ہو گا۔
اس معاہدے پر دوحہ قطر میں دستخط کیے گئے۔۲۹ فروری ۲۰۲۰ء بمطابق ۵ رجب ۱۴۴۱ہجری قمری کیلنڈر اور۱۰ حوت ۱۳۹۸ ہجری شمسی کیلنڈر، پشتو ، دری اور انگریزی زبانوں میں بیک وقت جس کا ہر ایک متن مصدقہ ہے۔
اس معاہدے کے متن میں ۱۶ مرتبہ ایک ہی جملہ لکھا گیا ہے:’’امارت اسلامی افغانستان جس کو ریاست متحدہ ایک مملکت کے طور پر تسلیم نہیں کرتی اور طالبان کے نام سے جانے جاتے ہیںــ‘‘۔ یاد رہے ۲۰۰۱ء میںجب امریکا، افغانستان پر قابض ہوا تو یہاں اسلامی امارت قائم تھی، جس کو زبردستی ہٹایا گیا اور اب جب آپ اپنی غلطی تسلیم کرتے ہیں تو آپ کو اس امارت اسلامی کو تسلیم کرنا پڑے گا۔چنانچہ درمیانی راستہ یہ نکالا کہ ’امارت اسلامی‘ کی اصطلاح کو تو مان لیا گیا، لیکن اس کے ساتھ امریکی مذاکرات کاروں نے یہ اضافہ کیا ’’ جس کو امریکا ایک ریاست یا مملکت کے طور پر تسلیم نہیں کرتی‘‘۔طالبان کے لیے تو یہ امر باعث اطمینان رہا کہ ان کو برابر کے فریق کے طور پر تسلیم کرلیا گیا، جو مسلّمہ بین الاقوامی روایات کے عین مطابق ہے، کہ قابض غیر ملکی فوج اپنی شکست تسلیم کرکے جب انخلا کرتی ہے، تو وہ مزاحمت کاروں سے اسی طرح کا معاہدہ کرتی ہے۔ اگر پوری طرح تسلیم نہیں کیا جاتا تو متن کی بعض دفعات سے اشارہ ملتا ہے، خاص طورپر جب امارت اسلامی سے مطالبہ ہو تا ہے کہ وہ کسی ایسے شخص کو ویزہ یا پاسپورٹ نہیں دیں گے، جو امریکا کے لیے خطرہ بنے۔ اس طرح معاہدے میں جارح طاقت کی حیثیت سے امریکا نے نہ اپنی غلطی تسلیم کی اور نہ افغان قوم سے ان مظالم اور قتل عام پر معافی مانگی، جو گذشتہ ۱۹سال میں امریکی اور اس کے اتحادی افواج کی جارحیت کے نتیجے میں وقوع پذیر ہوئے۔
اس معاہدے کے شروع میں ضمانتوں کا ذکر ہے، لیکن آگے اس کی تفصیل نہیں دی گئی۔ جس سے یہ امکان ہے کہ معاہدے کے علاوہ بھی کوئی خفیہ دستاویز بنائی گئی ہے ۔معاہدے میں بین الافغان مذاکرات کے آغاز اور دونوں طرف سے قیدیوں کو رہا کرنے کے لیے ۱۰ مارچ کی تاریخ دی گئی تھی، جو خاموشی سے گزر چکی ہے،جب کہ امریکی پابندیوں کے خاتمے کے لیے ۲۹مئی اور اقوام متحدہ کی پابندیوں کے لیے۲۷ ؍اگست مقرر کی گئی ہے، جو الٹی ترتیب ہے۔ بین الافغان مذاکرات کے انعقادکی ذمہ داری اگرچہ امریکی حکومت نے قبول کی ہے، البتہ اس کو کا میابی سے ہم کنار کرنے میں یقینا طالبان کلیدی اہمیت کے حامل ہیں۔ طالبان کے موجودہ سربراہ مُلّا ہیبت اللہ ہیں جو روپوش ہیں، انھوں نے کامیابی سے تحریک طالبان کی رہنمائی کی ہے اور اپنی صفوں میں اتحاد قائم رکھا ہے۔
مستقبل کے امکانات: افغانستان کا کُل رقبہ ۶۵۲۲۳۷ مربع کلو میٹر ہے۔محتاط اندازوں کے مطابق تقریباً ۵۰فی صد علاقہ طالبان کے زیر کنٹرول ہے۔ ان کے انتظامی ادارے اور عدالتیں کام کر رہی ہیں۔ باقی علاقوں میں بھی ان کے اثرات محسوس کیے جا سکتے ہیں۔جنگی صلاحیت میں ان کی سب سے بڑی کمزوری فضائی قوت کا نہ ہونا ہے۔طالبان کا دوسرا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ان کی اکثریت کا تعلق پختون آبادی ہی سے ہے۔ افغانستان ایک کثیر القومی وطن ہے، جس میں ۴۵ فی صد پختون،۲۰ فی صد تاجک، ۲۰ فی ہزارہ، ۹ فی صد ازبک، ترکمان اور ۳ فی صد دیگر قومیتیں ہیں۔
افغانستان میں طالبان کے بعد دوسرا بڑا فریق سابقہ شمالی اتحاد ہے، اور کم از کم چارصوبوں پر ان کا قبضہ ہے۔آج کل ان کی قیادت ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کے پاس ہے۔ صدارتی انتخابات ۲۰۱۵ء کے پہلے مرحلے میں انھوں نے ۴۵ فی صد ووٹ لے کر ڈاکٹر اشرف غنی کو شکست دےدی تھی، لیکن دوسرے مرحلے میں، ڈاکٹر اشرف غنی، طالبان کی درپردہ حمایت سے مکمل پختون آبادی کے ووٹ لے کر کامیاب قرار پائے۔ بعد میں عبداللہ عبداللہ حکومت میں چیف ایگزیکٹیو کی حیثیت سے، امریکی ایما پر شامل ہو گئے تھے۔ ۲۰۱۹ء کے انتخابات میں انھوں نے پختون ووٹ بھی حاصل کیے تھے۔ کُل۲۷ لاکھ ووٹ ڈالے گئے، اس میں سے ۹ لاکھ ووٹ انھوں نے حاصل کیے، جب کہ ۱۰ لاکھ ووٹ جو ضائع کیے گئے، ان میں بھی اکثریت ان کے ووٹوں کی تھی۔ اب انھوں نے اشرف غنی کے مقابلے میں صدر جمہوریہ بننے کا اعلان کردیا ہے اور ۶ صوبوں میں اپنے گورنر بھی مقرر کر دیے ہیں۔صدر اشرف غنی کی مخالفت میں ان کو ایک اہم شخصیت ازبک رہنما رشید دوستم کی بھی حمایت حاصل ہے، جو دشت لیلیٰ میں ہزاروں طالبان قیدیوں کےسفاکانہ قتل میں ملوث تھے، اور ایک مؤثر قوت رکھتے ہیں اور اسلحے کا بھی بڑا ذخیرہ رکھتے ہیں۔
تیسرا اہم گروہ ہزارہ شیعہ قبیلہ ہے، جو افغانستان کے ایک مرکزی صوبے بامیان پہ قابض ہے۔گذشتہ دنوں کابل میں ان کے سابق رہنما عبدالکریم خلیلی کی برسی کے موقعے پر ایک بڑے اجتماع پر حملہ ہوا تھا، جس میں ۵۰ سے زائد شرکا جاں بحق ہو ئے تھے۔ اس حملے کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی۔ ہزارہ قبیلہ بھی طالبان کے مقابلے میں شمالی اتحاد کا ساتھ دے گا۔
چوتھا اہم گروپ گل بدین حکمت یار اور حزب اسلامی پر مشتمل ہے۔ گذشتہ صدارتی انتخابات میں وہ تیسرے نمبر پر رہے۔ ملک کے طول و عرض میں انھوں نے مؤثر انتخابی مہم چلائی۔ روسی جارحیت کے دوران افغان جہاد میں یہ مجاہدین کا سب سے بڑا گروپ تھا، لیکن بعد میں شمالی اتحاد سے جنگ کے دوران اور پھر طالبان کی آمد سے ان کی پوزیشن کمزور ہو تی گئی۔گذشتہ سال انھوں نے اشرف غنی حکومت کے ساتھ صلح کا معاہدہ کر لیااور انتخابی عمل میں بھی حصہ لیا۔ حزب اسلامی ایک نظریاتی حیثیت سے اہمیت رکھتی ہے اور قومی ایشو ز پر اپنی آزاد راے کا اظہار بھی کرتی ہے۔
۲۰۰۵ء میں حامد کر زئی نے اپنے دورِ صدارت کے آخری زمانے میں امریکا کےساتھ ایک دفاعی معاہدے پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا تھا، جس میں امریکی افواج کو پانچ مستقل اڈے دینے کی بات کی گئی تھی۔تاہم، بعد میں آنے والے صدر اشرف غنی نے اپنے دور کے آغاز میں ہی امریکی دباؤ پر دستخط کر دیے تھے۔
صدر اشرف غنی کی قیادت میں افغان حکومت اس معاہدے کی تیسری اہم فریق ہے، جو مذاکرات سے باہر رکھی گئی۔ لیکن معاہدے کے نفاذ میں ان کا اہم کردار ہے۔ملک کے بڑے شہروں پر ان کا اقتدار قائم ہے۔ تین لاکھ افغان فوج اور ایک لاکھ کی تعداد میں افغان پولیس ان کی حکم کے تابع ہے۔ وہ خود تو ایک ماہر معیشت اور علمی شخصیت ہیں اور پختون قبیلے احمد زئی سے تعلق رکھتے ہیں، لیکن کوئی جنگی پس منظر نہیں رکھتے۔ حالیہ انتخابات نے ان کو خاصا کمزور کر دیا ہے۔ انھوں نے اس بار صرف ۹ لاکھ ووٹ حاصل کیے، جب کہ کل ووٹرز کی تعداد ۹۶لاکھ ہے۔ ۱۸ ستمبر ۲۰۱۹ء کو ہونے والے صدارتی انتخاب کا نتیجہ ۵ ماہ بعد مشتہر کیا گیا اور اس طرح ان کو ۵۰ فی صد ووٹ دے کر پہلے مرحلے میں کامیاب قرار دیا گیا۔ انھوں نے ۹ مارچ۲۰۲۰ء کو جب صدارتی محل میں صدر جمہوریہ کا حلف اٹھایا، تو اس وقت صدارتی محل ہی کے قریبی بلاک میں ان کے مقابل امیدوار عبدا للہ عبد اللہ نے بھی صدارتی حلف اٹھایا۔ اشرف غنی کے ایک اور حلیف اور ان کے ساتھ پہلے صدارتی دور میں نائب صدر عبد الرشید دوستم بھی ان سے قریب ہی رہایش پذیر ہیں۔ ان کے مسلح گارڈ برسرِعام اپنی قوت کا اظہار کرتے ہو ئے نظر آتے ہیں۔ان حالات میں آنے والے بین الافغان مذاکرات میں اشرف غنی ایک کمزور پوزیشن میں نظر آرہے ہیں۔ ڈاکٹر عبدا للہ عبداللہ گروپ نے مذاکرات میں اس طرح شرکت کا عندیہ دیا ہے کہ ان کا نمایندہ وفد شریک ہوگا، لیکن وہ اشرف غنی کے سرکاری وفد کا حصہ نہیں ہوں گے۔
اشرف غنی نے طالبان قیدیوں کی رہائی میں تاخیر کا حربہ استعمال کرکے پورے معاہدے کو کمزو ر کر دیا۔ معاہدے کے مطابق ۱۰ مارچ ۲۰۲۰ء کو دونوں طرف سے قیدیوں کی رہائی کا عمل شروع ہونا تھا اور بین الافغان مذاکرات کا نکتہ آغاز تھا،لیکن یہ دونوں کام مؤخر ہو گئے۔
’قطر امن معاہدے‘ کو کامیاب بنانے میں حکومت پاکستان بہت اہم کردار رہا ہے۔جس کا اعتراف معاہدے کی تقریب میں ہی عالمی میڈیا کے سامنے دونوںفریقوں کے نمایندوں نے کیا تھا۔ اس اعترافِ حقیقت کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان کی مخالف لابیاں ہر جگہ اس کا توڑ کرنے کے لیے متحرک ہو گئیں ۔ بھارتی میڈیا نے تو اس کے خلاف بولنا ہی تھا کہ بھارت کے پاکستان دشمن مفادات افغانستان میں جنگی صورتِ حال کے برقرار رہنے سے جڑے ہو ئے ہیں۔لیکن امریکا میں موجود بھارت نواز اور پاکستان دشمن صحافتی اور بااثر حلقوں نے بھی اس تخریب پسندانہ کام میں اپنا حصہ ڈالا۔ ایک عرصے سے تمام بڑے امریکی دانش وَر،جنگی ماہرین اور تھنک ٹینک محسوس کر رہے تھے کہ امریکا کسی طریقے سے افغانستان کی اس نام نہاد ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ سے نکل آئے۔ اسی طرح دُوراندیش حلقے سمجھتے ہیں کہ ’داعش‘ کے لیے بھی پُرامن اور طالبان کا افغانستان قابلِ قبول نہیں ہوگا۔پاکستان میں تنگ نظر قوم پرست عناصر بھی اس کھیل میں بھارت کے وکیل صفائی بلکہ ہراوّل دستے کا کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں ۔
مراد یہ ہے کہ موجودہ حالات میں معمولی سی غلطی بھی افغانستان کو ایک بار پھر ہولناک تصادم کی طرف دھکیل سکتی ہے۔ ہم افغان قوم اور اس کی قیادتوں سے ہوش مندی اور وسیع النظر فیصلوں کی توقع رکھتے ہیں۔
دہلی کے فسادات پر یہ جملہ برطانوی خاتون رکن پارلیمان ناڈیا وہٹّوم کا ہے ۔ برطانیہ کے ہاؤس آف کامنز (ایوانِ نمایندگان) میں دہلی فسادات پر جو بحث ہوئی اور جس طرح فسادات پر تشویش کا اظہار کیا گیا، وہ ہندستان کی مودی حکومت کا سرشرم سے جھکانے کے لیے کافی ہے۔ بالخصوص اس لیے کہ برطانیہ نے تو اپنے ایوان میں دہلی فسادات پر بحث کروائی ہے، لیکن جہاں یہ فسادات ہوئے ہیں، ہندستان کی راجدھانی دہلی ، وہاں سے پورے بھارت پر حکومت کرنے والی مودی حکومت دہلی تشدد کے موضوع پر اپنےایوان میں بحث کرانے کے لیے تیار نہیں ہے ۔ بہیمانہ تشدد کی وارداتوں پر بحث کی اجازت نہ دے کر شاید ان کی ’ شدت‘ اور ان کی ’ بہیمیت‘ کو بے اثر کرنے کی کوشش اس لیے ہے کہ یہ فسادات اب ساری دنیا میں ’ مسلم کش فسادات‘ مانے جارہے ہیں۔ ناڈیا وہٹّوم ایک پنجابی سکھ پارلیمنٹیرین ہیں اور ۲۰۱۹ء میں جب انھوں نے الیکشن میں کامیابی حاصل کی تھی، تب وہ ۱۹برس کی تھیں ، سب سے کم عمر رکن پارلیمان۔ انھوں نے نہ صرف یہ کہ دہلی کے تشدد یا فسادات کو ’جھڑپیں‘ اور ’ احتجاج‘ ماننے سے انکار کیا، بلکہ صاف لفظوں میں وہ بات کہہ دی، جسے کہنے سے بہت سی زبانیں ہچکچا رہی ہیں۔ انھوں نے کہا ’’ اسے وہی کہیں جو یہ ہے : ہندستانی مسلمانوں کے خلاف مسلسل اور منظم طور پر ’ہندوتوا تشدد‘ اوروہ بھی بی جے پی کی منظوری سے‘‘۔
کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ۲۰۱۴ء میں نریندر مودی حکومت کے قیام کے بعد سے ’ہندوتوادیوں‘ نے مسلمانوں کے خلاف مسلسل اور منظم پرتشدد سرگرمیاں شروع کررکھی ہیں؟ نریندر مودی کے پہلی بار وزیراعظم بننے کے چند روز بعد ہی ماب لنچنگ (ہجومی تشدد) کا نہ ختم ہونے والا ایک سلسلہ شروع ہوگیا ۔ اخلاق سے لے کر پہلو خان تک نہ جانے کتنے لوگوں کو ’گؤکشی‘ کے الزام میں بڑی ہی بے رحمی سے قتل کیاگیا۔ ننھے حافظ جنید کو مار مار کر موت کی نیند سُلادینا بھی کیا منظم حملہ نہیں تھا؟ بلند شہر میں ابھی بس چند روز پہلے دو مسلمانوں کو ، اس شبہے میں کہ وہ گؤکشی کے مرتکب ہوئے ہیں، لاٹھیوں اور ڈنڈوں سے پیٹ پیٹ کر لہولہان کردیا گیا ۔ دونوں ہی نازک حالت میں اسپتال میں داخل کیے گئے تھے۔ یہ تمام واقعات بی جے پی کی ’ منظوری‘ کے بغیر نہ گزرے ہوئے کل میں ہوئے تھے ،اور نہ آج اس کے بغیر ممکن ہیں ۔
ہم جو کہیں وہی ’ کھانا‘ ہے ، وہی ’ پینا‘ ہے ۔ہم جو پڑھائیں وہی پڑھنا پڑے گا ، چاہے وہ گیتا کا پاٹھ ہو کہ سوریۂ نمسکار میں ’ اوم ‘ کی جاپ ہو ۔ ابھی عدالت سے طلاقِ ثلاثہ پر پابندی لگوائیں گے ۔ ابھی تو بابری مسجد کی زمین بھی لیں گے اور یہ سب کام ہو بھی گئے۔ پھر بھی یہ مسلمان ہندستان چھوڑنے کو تیار نہیں ، کیوں نہ ان کی ’شہریت‘ پر ہی سوالات کھڑے کردیے جائیں ؟ ان سے وہ دستاویزات مانگی جائیں، جو اگر مودی سے بھی مانگی جائیں تو وہ نہ دےسکیں، مگر اس طرح وہ ملک جہاں ان کے آباواجداد بسے اور مرے ، جہاں انھوں نے محنت کی ، گھر بسائے ، تعلیمی ادارے بنائے ، مسجدیں بنائیں ، انھیں کھدیڑنے کی سبیل نکالی جائے ۔ اسی لیے این آرسی ، این پی آر اور سی اے اے لے آئے ہیں ۔ اب کیسے بچو گے؟ لیکن مسلمان تو آج بھی اسی سرزمین پر کھڑا ہے، اپنے حق کے لیے آوازیں اٹھا رہا ہے۔
مسلم خواتین نے دہلی سے لے کر یوپی، راجستھان، کرناٹک ، بہار، مغربی بنگال، آسام اور ممبئی وغیرہ تک نہ جانے کتنے شاہین باغ بنالیے ہیں ۔ یہ ’شاہین باغ‘ مودی حکومت کو دہلائے ہوئے ہیں اور سی اے اے کے پیچھے اپنا تخریبی دماغ لگانے والے امیت شا کی بھی نیندیں حرام کیے ہوئے ہیں___ لہٰذا، کیوں نہ انھیں ڈرایا جائے اور ڈرانے کا یہ کام آر ایس ایس اور بی جے پی کے لیڈروں نے کرتے ہوئے نفرت کی ساری باتیں ، ساری زہریلی تقریریں ،’ دیش کے غداروں کو گولی مارو سالوں کو ‘ جیسے سارے نفرت سے بھرے ہوئے نعرے مسلسل منظم، منصوبہ بند انداز سے دُہرائے گئےاورعام کیے گئے۔ ان کا مقصد تشدد کی وہ لہر اُبھارنا ہے، جس کی زد میں دہلی آجائے اور نقصان اقلیت کا ہو ، مسلم اقلیت کا ہو___ یہاں ہمارا مقصد لاشوں کو ہندوؤں، مسلمانوں ، دلتوں وغیرہ میں تقسیم کرنا نہیں ہے ۔ تشدد پھوٹے گا تو سب کو لپیٹ میں لے گا ، مگر تشدد کا یہ ’رقص ابلیس ‘ مسلمانوں کے ہی خلاف تھا۔ اس کا سب سے بڑا مقصد یہ تھا کہ ’ شاہین باغ‘ اور بھارت بھر کے دوسرے احتجاجی مظاہروں کو ایک جھٹکے میں ’ لپیٹ‘ دینا تھا، مگر یہ نہیں ہوسکا ۔
بی بی سی پر سوتک بسواس کی رپورٹ کا عنوان ہے: ’’ دلی فسادات کے دوران مسلمانوں کے گھروں کو چُن چُن کر آگ لگائی گئی۔‘‘ محمد منظر اور ان کے خاندان کے لٹنے پٹنے اور برباد ہونے کی داستان بڑی ہی المناک ہے ۔ بی بی سی نے ایک ویڈیو رپورٹ جاری کی ہے، جس میں یہ دیکھا جاسکتا ہے کہ تشدد پر آمادہ ہندو ہجوم کو پولیس اہلکار پتھر چن چن کر دے رہے ہیں کہ وہ مخالف پر پتھراؤ کرسکیں ۔ خود پولیس والے ساتھ ساتھ پتھراؤ کررہے ہیں ۔ بی بی سی نے جب یہ دریافت کیا کہ کیا پولیس والے بھی پتھراؤ کررہے تھے؟ تب کیمرے کے سامنے لوگوں نے اعتراف کیا کہ ہاں پولیس اہلکار انھیں پتھر اٹھا اٹھا کر مسلمانوں پر پھینکنے کے لیے دے رہے تھے اور خود بھی پتھراؤ کررہے تھے۔ ہمانشوراٹھور نام کے ایک شخص کا بیان ہے : ’’ہمارے پاس یہاں پتھر کم تھے، لہٰذا پولیس والے پتھرلے کر آئے تاکہ ہم پتھراؤ کرسکیں‘‘۔ اس ویڈیو میں پولیس کے ذریعے مسلمانوں پر تشدد ڈھانے کی مکمل منصوبہ بندی عیاں ہے ۔ لاٹھی ڈنڈوں سے نوجوانوں کی پٹائی اور ایسی شدید کہ فیضان نامی نوجوان نے دم توڑ دیا۔ لاٹھی ڈنڈوں سے پیٹتے ہوئے قومی ترانہ پڑھوانا، گویا پولیس کی ساری سرگرمیوں کا محور یہ تھاکہ مسلمان ’ قوم پرست‘ یا ’نیشنلسٹ‘ نہیں ہیں ۔ دہلی اقلیتی کمیشن کا یہ تسلیم کرنا ہے کہ ’ تشد د یک طرفہ تھا اور اس کے لیے بہترین منصوبہ بندی کی گئی تھی، بیرونی غنڈے، شرپسند لوٹ مارمیں شریک تھے لیکن انھیں بہرحال مقامی مدد بھی حاصل تھی‘‘۔
ساری دنیا میں ’د ہلی فسادات‘ کی گونج ہے ۔ کئی مسلم ممالک نے ، البتہ سعودی عرب ان میں شامل نہیں ہے ، دہلی کے فسادات کو ’ مسلم کش‘ قرار دیا ہے ۔ ایران نے سخت الفاظ میں مذمت کی ہے ۔ وزارت خارجہ کے سابق سکریٹری کے سی سنگھ ’ سفارتی قیمت‘ کے عنوان سے اپنے ایک مضمون میں تحریر کرتے ہیں کہ مودی سرکار کے علاقائی ایجنڈے نے ہندستان کی خارجہ پالیسی کو مسخ کرنا شروع کردیا ہے ۔ انھوں نے ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف اور ایران کے روحانی رہنما علی خامنہ ای کے دہلی فسادات کی مذمت میں دیے گئے بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے اس اندیشے کا اظہار کیا ہے، کہ اسلامی دنیا سے ہندستان کے رشتے کٹ سکتے ہیں ۔ ایران سے قبل ملایشیا اور ترکی نے بھی دہلی فسادات پر ناراضی کا اظہارکیا تھا۔
ویسے ’ دہلی فسادات‘ نے صرف مسلم دنیا ہی کو بے چین اور مضطرب نہیں کیا ہے ، ابتدا ہی میں برطانیہ کے ہاؤس آف کامنز میں ’ دہلی فسادات‘ پر ہوئی بحث کا ذکر آچکا ہے ۔ امریکا میں ایک صدارتی امیدوار سینڈرس نے پہلے ہی دہلی کے تشدد کو مسلم کش قرار دے دیا ہے ۔ انھوں نے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے دورۂ ہند پر بھی سخت نکتہ چینی کی ہے ۔ اقوام متحدہ کے حقوق انسانی کے کمیشن نے صرف تشویش ہی ظاہر نہیں کی، اس نے سی اے اے کے خلاف سپریم کورٹ میں ایک درخواست تک دے دی ہے۔ بی جے پی کے وہ تمام لیڈر جو ’زہر‘ بو رہے تھے ، آزاد ہیں ، ایف آئی آر تک ان کے خلاف درج نہیں ہوئی ہے۔ لیکن بڑی تعداد میں اُلٹا متاثرین ہی کو ملزم قرار دے دیا گیا ہے۔ افسوس تو یہ ہے کہ سپریم کورٹ آف انڈیا انھی کے خلاف کارروائی پر مصر ہے۔ سی اے اے کو لاگو کرنے پر پورا زور لگایا جارہا ہے، اور این پی آر میں والدین کی شہریت ثابت کرنے کو ابھی بھی لازمی کہا جارہا ہے ___ اور یہ جو شاہین باغ میں بہادر خواتین بیٹھی ہیں، ان کے خلاف ابھی بھی نعرے لگ رہے ہیں :’گولی مارو…‘
عجب تماشا ہے کہ دہلی کو خون میں نہلانے والی زہریلی تقریروں کا معاملہ اعلیٰ عدالت سے کسی طرح سلجھائے نہیں سلجھ رہا، حالانکہ حقائق سب کے سامنے ہیں ۔ زہریلی تقریریں کرنے والے بی جے پی کے لیڈران بھی ،ان کی زہریلی تقریروں کے آڈیو اور ویڈیو بھی اور ان تقریروں کے نتیجے میں دہلی کی تباہی و بربادی اور تقریباً ۵۰؍ افراد کی اموات بھی ۔ جب اتنے سارے ثبوتوں کے بعد بھی دہلی ہائی کورٹ کپل مشرا، پرویش ورما اور انوراگ ٹھاکر کے خلاف کارروائی کے لیے دہلی پولیس کو حکم دینے سے لاچار اور مجبور ہے، تو اندازہ کرلیجیے کہ یہ عدالت فسادات میں مارے گئے ، لوٹے اور برباد کیے گئے لوگوں کے ساتھ کیا انصاف کرے گی!
دہلی کی عدالتیں ، ہائی کورٹ بھی اور سپریم کورٹ بھی، دہلی فسادات کے معاملے میں کس قدر ’سنجیدہ ‘ ہیں؟ اس کا اندازہ تو اسی سے ہو جاتا ہے کہ جب ایک جج جسٹس ایس مرلی دھرنے بی جے پی کے زہریلے لیڈروں کی زہریلی تقریروں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنےکا سخت حکم دیا، تو انھیں راتوں رات چلتا کردیا گیا ۔ اور اس چلتا کرنے میں بھارت کے چیف جسٹس بوبڑے پیش پیش تھے ۔ انصاف کے مکھیا وہی تو ہیں اور اس پر غضب یہ کہ جب وہی مقدمہ دوبارہ دہلی ہائی کورٹ میں پیش ہوا، تو جسٹس ایس مرلی دھر کے بعد سماعت کرنے والے بینچ نے ، جو دہلی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ڈی این پٹیل اور جسٹس سی ہری پر مشتمل تھا،اس کے حکم کے باوجود ایف آئی آر کیوں درج نہیں کی گئی؟ یہ سوال دریافت کرنے کے بجاے ، سماعت کی تاریخ ۱۳؍ اپریل مقرر کردی!
کیا یہ بھارت کی عدلیہ کا کام نہیں ہے کہ وہ لوگوں کے زخموں پرمرہم رکھے ، شرپسندوں اورظالموں کو فوری طور پر کٹہرے میں کھڑا کرے،اور عوام تک یہ پیغام پہنچائے کہ ملک کی عدالتیں سارے حالات پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور لوگ اطمینان رکھیں کہ انصاف کیا جائے گا، قصور واروں کو بخشا نہیں جائے گا چاہے وہ کتنے ہی طاقت ور کیوں نہ ہوں؟ اگر ہم سارے معاملے کا بغور جائزہ لیں تو اندازہ ہوجائے گا کہ ، مرکز کی بی جے پی کی حکومت ، یہ نہیں چاہتی کہ کپل مشرا، پرویش ورما اور انوراگ ٹھاکر جیسے آگ اُگلنے والوں کے خلاف ایف آئی آر درج ہو۔
عدالت کے اندر، ہائی کورٹ میں بھی اور سپریم کورٹ میں بھی سالیسٹر جنرل تشار مہتا بس ایک ہی جملہ رٹتے رہے ’’ابھی ایف آئی درج کرانے کے لیے حالات ٹھیک نہیں ہیں‘‘۔ مطلب یہ کہ اگر بی جے پی کے لیڈروں کے خلاف ایف آئی آر درج ہوئی تو تشدد کا دور پھر سے شروع ہوسکتا ہے ۔ کیا اس کا ایک مطلب یہ نہیں نکلتا کہ دہلی کے مسلم کش فسادات کے ذمے دار بی جے پی کے لیڈر ہی ہیں ؟
کیا یہ اپنے آپ میں اقرار کرنا نہیںہے کہ اگر بی جے پی کے کسی لیڈر کے خلاف معاملہ درج ہوا تو دہلی کو اسی طرح سے پھر پھونک دیا جائے گا، جس طرح سے کہ پھونکا گیا ہے؟ اسے اقرار کے علاوہ اور کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ مراد یہ ہے کہ عدالت کو تو بی جے پی لیڈران کے تشدد میں ملوث ہونے کا مزید ثبوت مل گیا ہے ، اوراس کے باوجود وہ خاموش اور ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی ہے !!
شامی آمر بشارالاسد کے ہاتھوں شام میں قتل عام ہو رہا ہے، جس نے ۲لاکھ سے زیادہ سول آبادی کو کچل کررکھ دیا ہے۔ ان میں سے بیش تر اہلِ وطن کو اپنے بنیادی حقوق اور جمہوریت کے لیے آواز بلندکرنے پر مار ڈالا گیا اور اس میں سفاکی کی انتہا یہ ہے کہ یہ کام کرتے وقت قاتل طبقے نے مخصوص مذہبی ذہنیت کو مرکزی اہمیت دی۔مارے جانے والوں کی بڑی اکثریت سُنّی عرب آبادی پرمشتمل ہے، جنھیں انسانوں سے بدتر مخلوق سمجھ کر فنا کیا گیا ہے۔
بشارالاسد کی فوجیں ایک اور بدترین قتل عام کے لیے ادلب (Idlib) کے دروازے پر دستک دے رہی ہیں۔ ادلب کو ۲۰۱۱ء کے بعد بشار اپنے خلاف جمہوری اور انسانی حقوق مانگنے والوں کا آخری مرکز تصور کرتا ہے، وہاں سے مزید ۳۰لاکھ آبادی کو اسلحےکے زور پر اپنے گھروں سے بے دخل کرکے، ترکی اور یورپ کی طرف دھکیلا جارہا ہے۔
یاد رہے ترکی نے ادلب کی سرحد پر بار بار جنگ بندی ختم کی، تاکہ وہاں سے شامی آبادی کے بہاؤ کو ترکی کی طرف بڑھنے سے روکا جاسکے۔ اُدھر بشار کی شامی فوجوں نے بمباری کرکے ۳۰ترک فوجیوں کو گذشتہ فروری میں ماردیا جس پر ترکی نے محدود جوابی کارروائی کی ، تاکہ جنگ کے پھیلاؤ کو بڑھنے نہ دیا جائے اور امن عالم کے لیے مذاکرات کا راستہ اختیار کیا جائے۔
آج کے بشارالاسد کے شام میں، عصرجدید کا ’ہولوکاسٹ‘ ہورہا ہے۔ وہاں جو کچھ ہورہا ہے اور جو کچھ ہونے جارہا ہے، اس سے بدترین کی اور کیا توقع کی جاسکتی ہے؟ بشار ایڑی چوڑی کا زور لگاکر اقتدار پہ قابض رہنا چاہتا ہے۔ مجموعی طور پر ۵ لاکھ شامی اس جنگ میں لقمۂ اجل بن چکے ہیں۔ ایک کروڑ ۳۰ لاکھ بے گھر ہوکر دُنیا بھر میں در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ یہاں پر سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا بشارالاسد کو اس کا موقع فراہم کیا جائے گا کہ وہ ۱۰لاکھ لوگوں تک کو قتل کرڈالے؟ بدقسمتی کی بات ہے کہ ساری دنیا خاموشی سے اس وحشیانہ یلغار اور قتل عام کو دیکھ رہی ہے۔
شام کو فضائی حملوں سے روکنے کا اہتمام ہونا چاہیے تاکہ وہ بے گھر شامیوں کے درماندہ اور ہجرت کرتے بے یارومددگار ہوئے مظلوموں کو فضائی بم باری اور مشین گنوں سے نہ مارسکے۔ سُنّی شامیوں کی نسل کشی پر تلے ہوئے بشارالاسد کے حامی کہتے ہیں کہ ’’ہم تو مغربی سامراجیوں کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں‘‘۔ لیکن کیا وہ اس بے بنیاد دعوے کی تائید میں یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اس مقصد کے لیے بشار الاسد روسی سامراجیوں سے مدد حاصل کرکے یہ مقصد حاصل کررہا ہے؟ کیونکہ ان مظلوموں کے قافلوں پر حملےکرنےوالوں میں بشار کی فوجوں کے ساتھ روسی فضائیہ بھی برابر گھناؤنا کھیل کھیل رہی ہے۔
یہ سوال توجہ چاہتا ہے کہ ’’کیا دنیا میں بسنے والے حکمران اور عوام الناس، شام میں برپا نسل کشی کو درست سمجھتے ہیں؟ کیا وہ اس متفق علیہ عہد کو بھول گئے ہیں کہ آیندہ کبھی ہولوکاسٹ نہیں ہونے دیا جائے گا؟ کیا وہ واقعی یہ سمجھتے ہیں کہ شام کے یہ مظلوم اور خانماں برباد لوگ، انسان نہیں ہیں؟ اگر دنیا کے لوگ اپنی ذات اور اپنے ضمیر سے مخلص ہیں تو جواب دیں کہ کیا برطانیہ یا اسپین کے ۲لاکھ عام انسانوں کو یوں ذبح کردیا جاتا تو وہ واقعی یوں ہی خاموش رہتے؟ حالانکہ اہلِ مغرب اور امریکا کی عظیم اکثریت، دوسری جنگ ِ عظیم کے دوران جرمنی میں یہودیوں کے خلاف ہولوکاسٹ پربجا طور پر تڑپ اُٹھی تھی، لیکن آج وہ ضمیر کیوں سو چکا ہے؟
درحقیقت یہ تلخ سوال پھن پھیلائے کھڑا ہے کہ مغربی ضمیر، شام میں نسل کشی کو کچھ بھی سنجیدہ مقام نہیں دیتا۔ بشارالاسد کی فوجیں اندھا دھند سویلین آبادی پر آگ برسا رہی ہیں۔ وہ مردوں، عورتوں اور بچوں پر تسلسل کے ساتھ گیس اور کیمیکل بم برسا کر انھیں خوفناک اذیت سےدوچار کرتے ہوئے مار رہا ہے۔ وہ ’داعش‘ کو شام میں اس طرح کام کرنے کی اجازت دے رہا ہے، کہ دنیا کی توجہ کو اپنے ہاتھوں قتلِ انسانی سے ہٹاسکے۔ وہ اپنے فوجیوں کے ساتھ مسلسل کوشاں ہے کہ مقتولین کی اجتماعی قبروں کو دنیا کی نظروں سےبچائے اور داعش کے وجود کو خبروں کی سرخیوں میں اُبھارے۔ امرواقعہ ہے کہ بشار اور داعش، دونوں افواج نے شام میں آزادی کی اس جدوجہد کے پروانوں کو قتل کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت حاصل کی ہے اور پورے المیے کو مغالطے کی نذر کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔
دوسری طرف ہزاروں شامی سُنّی مسلمان، بشار کے اذیت خانوں میں قید میں سڑتے، روزانہ مرتے اور روزانہ بے بسی کی زندگی جیتے ہیں۔ وہ دُعا اور التجا کرتے ہیں کہ یااللہ! کسی کو ہماری مدد کے لیے بھیج۔ مگر افسوس کہ ان ہزاروں مجروح قیدیوں کی مناجاتیں، جیل خانوں کی دیواروں سے ٹکرا کر لوٹ آتی ہیں۔ اور پھر جب ان کی لاشیں، بےرحمی سے مارے گئے جانوروں کی طرح کسی ویرانے میں پڑی نظر آتی ہیں، تو خود انسانیت شرما جاتی ہے۔ ایسی ہی ایک لاش کی تصویر جب عام ہوئی تھی تو امریکی حکومت نےبشار اور اس کے افسروں پر محض کچھ مدت کے لیے پابندی عائد کرکے، اپنی ’انسان دوستی‘ کا مضحکہ خیز ثبوت دینے کی کوشش کی تھی، مگر اس کے ہاتھوں انسانی قتلِ عام کو روکنے کے لیے کچھ اقدام نہ کیا۔
ہمارے مظلوم اور معصوم بچوں کی زندگیاں داؤ پر لگی ہوئی ہیں۔ ہمارا مجموعی خاندانی، تہذیبی، اخلاقی، شہری اور تعلیمی مستقبل تباہی کے دھانے پر ہے۔ دُنیا انتشار اور بحران کے سوداگروں کے رحم و کرم پرہے، اورسرزمین شام اس المیے کا گڑھ ہے۔ یہاں پر مَیں ہولوکاسٹ سے بچ جانے والے ایلی ویسل کا یہ قول دُہرانا چاہوں گا:
میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ انسانیت کو پہنچنے والے دُکھ اور درد پر کبھی خاموش نہیں رہوں گا،اور ہرانسان کو پکاروں گا کہ وہ ظلم کی اس سیاہ رات میں غیر جانب دار نہ رہے۔ ظلم کا ہاتھ روکے، اس کی مذمت کرے اور مظلوم کی آواز بنے، اس کا ساتھ دے۔
شام میں روز افزوںانسانی نسل کشی پر دنیا کی بے خبری اورلاتعلقی درحقیقت انسانی تاریخ کا اندوہ ناک المیہ ہے۔ کون ہے جو اس المیے کے خاتمے کے لیے اپنا کردار ادا کرے گا؟ (روزنامہ دی واشنگٹن پوسٹ، نیویارک، ۱۱مارچ ۲۰۲۰ء، ترجمہ: س م خ)
ناروے کی سمندری حدود میں جب ۱۹۷۹ء میں پیٹرولیم کے ذخائر نکالنے کا کام شروع ہوا، تو یورپ و امریکا کے متعدد عیسائی اور یہودی اداروں نے ناروے حکومت پر دباؤ ڈالا کہ ’’یہ تیل اسرائیل کو ارزاں نرخ پر یا مفت مہیا کیا جائے‘‘۔ ان کی دلیل تھی: ’’چونکہ تیل کی دولت سے مالامال عرب ممالک اسرائیل کو تیل فراہم نہیں کرتے ہیں اور ایران میں مغرب نواز رضا شاہ پہلوی حکومت کا تختہ اُلٹنے سے پٹرولیم کی فراہمی اور زیادہ مشکل ہوگئی ہے، اس لیے ناروے کو اپنے وسائل یہودی ریاست کی بقا کے لیے وقف کردینے چاہییں‘‘۔ ناروے کی ۱۵۰رکنی پارلیمان میں اس وقت ۸۷ ’اراکین فرینڈز آف اسرائیل‘ تنظیم کے سرگرم رکن تھے۔ تاہم، کوئی فیصلہ کرنے سے قبل ناروے کے وزیر اعظم اوڈوار نورڈلی نے ’فلسطین لیبریشن آرگنائزیشن‘ (PLO: تاسیس ۱۹۶۴ء) کے رہنماؤں اور عرب ممالک کا موقف جاننے کی خواہش ظاہر کی۔
بیش تر عرب ممالک نے اسرائیل کو پٹرولیم مہیا کرنے کی پُرزور مخالفت کی ۔ ان کی دلیل تھی کہ ’’اس کے بعد اسرائیل اور بھی زیادہ شیر ہوجائے گا اور امن کے لیے کوششیں مزید دشوار ہوجائیں گی‘‘، مگر پی ایل او کے سربراہ یاسر عرفات [م: ۱۱نومبر۲۰۰۴ء]نے ناروے کے وزیراعظم کو بتایا کہ’’ چاہے آپ اسرائیل کو تیل فراہم کریں یا نہ کریں، وہ یہ تیل حاصل کرکے ہی رہے گا۔ براہِ راست نہ سہی بالواسطہ دنیا میں کئی ملک اور افراد ہیں، جو یہ خرید کر اسرائیل کو سپلائی کریں گے۔ لہٰذا، بہتر یہ ہے کہ ناروے، اسرائیل کے ساتھ اپنی خیرسگالی کا خاطر خواہ فائدہ اٹھاکر فلسطینی قیادت اور اسرائیل کے درمیان پس پردہ مذاکرات کا سلسلہ شروع کرواکے ثالث کا کردار نبھائے‘‘۔
ناروے کی انھی کاوشوں کی صورت میں ۱۴ سال بعد ’اوسلو اکارڈ‘ [معاہدۂ اوسلو: ۱۳ستمبر ۱۹۹۳ء] وجود میں آیا۔ جس کی رُو سے فریقین نے ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کرتے ہوئے دو ریاستی فارمولے پر مہر لگائی ۔ یاسر عرفات کو فلسطینی اتھارٹی کا سربراہ تسلیم کیا گیا اور مغربی کنارہ اور غزہ کی پٹی ان کے حوالے کی گئی۔فلسطین کو مکمل ریاست کا درجہ دینے، سرحدوں کا تعین، سکیورٹی، فلسطینی مہاجرین کا مسئلہ اور القدس یا یروشلم شہر کے مستقبل کے بارے میں فریقین نے مزید بات چیت کے لیے ہامی بھرلی۔ اندازہ تھا کہ اس دوران اعتماد ساز ی کے اقدامات ، ملاقاتوں کے سلسلے اور پھر فلسطینیوں اور عام یہودی آباد کاروں کے درمیان رابطے سے ایک اعتماد کی فضا قائم ہو جائے گی ، جس سے پیچیدہ مسائل کے حل کی گنجایش نکل آئے گی۔
اسرائیل نے فلسطینی ریاست کے قیام اور فلسطینی مہاجرین کی واپسی کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرکے ’اوسلو اکارڈ‘ کی روح نکال دی تھی، مگر اب امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے فلسطین کا جو نقشۂ کار جاری کیا ہے، اس نے تو ’اوسلو کارڈ‘ کو مکمل طور پر دفنا دیا ہے۔ ’اوسلو اکارڈ‘ میں تو ایک فلسطینی ریاست قائم کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا، مگر ’ٹرمپ کے منصوبے‘ (ڈیل آف سنچری) کے مطابق: ’’فلسطین ، اب صرف مغربی کنارہ اور غزہ پر مشتمل ہوگا، مکمل ریاست کے بجاے اسرائیل کی زیرنگرانی اب محض ایک Protectrate (محافظت)کی شکل میں ہوگا، جس کی سلامتی اور دیگر امور اسرائیل طے کرے گا۔ یہ فلسطینی حکومت فوج نہیں رکھ سکے گی،تاہم ایک پولیس فورس تشکیل دے سکے گی۔ اس کی سرحدوں کی حفاظت اسرائیل کی ذمہ داریوں میں شامل ہوگی‘‘۔
یہ بھی سننے میں آرہا ہے کہ غزہ سے فلسطینیوں کا مکمل انخلا کرکے ان کو صحراے سینا میں بسایا جائے گا اور غزہ کا علاقہ مکمل طور پر اسرائیل کے حوالے کیا جائے گا۔۱۹۹۳ء میںاوسلو میں اسرائیلی اور فلسطینی قیادت کے درمیان طے پائے گئے سمجھوتے میں ایک فلسطینی اتھارٹی کا قیام عمل میں آیا تھا۔ جس سے ۴۰لاکھ کی آبادی کو دو خطوں: مشرق میں غزہ اور اُردن کی سرحد سے متصل مغربی کنارے میں تقسیم کیا گیاتھا۔ نسبتاً وسیع مغربی کنارے کا انتظام ’الفتح‘ کی قیادت فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) کے پاس ہے ، وہیں غز ہ میں اسلامی تحریک ’حماس‘ [تاسیس: ۱۹۸۷ء، بانی شیخ احمد یاسین، ۱۹۳۷ء-۲۲مارچ ۲۰۰۴ء] بر سرِ اقتدار ہے۔ جہاں پی ایل او، اسرائیل کو تسلیم کرتا ہے، حماس یہودی ریاست کے وجود سے ہی انکاری ہے۔ چونکہ مغربی کنارہ اور غزہ کے درمیان کوئی زمینی رابطہ نہیں ہے، اس لیے ا مریکی صدر کے مطابق ان کو منسلک کرنے کے لیے اسرائیلی علاقوں سے ۳۰میٹراُوپر ۱۰۰کلومیٹر دنیا کا ایک طویل ترین فلائی اوور بنایا جائے گا۔ مغربی کنارے میں جو تقریباً ۱۵یہودی علاقے ایک طرح سے زمینی جزیروں کی صورت میں ہیں، ان کو اسرائیل کے ساتھ منسلک کرنے کے لیے مخصوص شاہرائیں تعمیر کی جائیں گی۔
ایک سال قبل دہلی کے دورے پر آئے ایک یہودی عالم ڈیوڈ روزن نے مجھے بتایا تھا کہ ’’سابق امریکی صدر بارک اوباما جس خاکے کو تیار کرنے میں ناکام ہو گئے تھے، ٹرمپ ، سعودی عرب و دیگر عرب ممالک کے تعاون سے فلسطین کے حتمی حل کے قریب پہنچ گئے ہیں‘‘۔
ایئر لینڈ کے چیف ربی ڈیوڈ روزن، اسرائیل کی چیف ربائیٹ، یعنی مذہبی امورکے رکن ہیں اور امریکی جیوش کونسل ( AJC) کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں۔مشرق وسطیٰ میں امن مساعی اور خصوصاً اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیا ن بیک چینل تعلقات کے حوالے سے وہ خاصے سرگرم ہیں۔ وہ سابق سعودی بادشاہ عبداللہ بن عبدالعزیز [م:۲۳جنوری ۲۰۱۵ء]کی ایما پر قائم ’کنگ عبدالعزیز انٹرنیشنل سینٹر فار انٹر ریلیجنز اینڈ کلچر ڈائیلاگ‘ کے بورڈ ممبر بھی ہیں۔
مشر ق وسطیٰ میں اس وقت یہ تین عوامل اسرائیل کو امن مساعی کے لیے مجبور کر رہے ہیں: ’’تمام تر جارحانہ کارروائیوں کے باوجود نسل پرست یہودیوں اور اسرائیلی حکام کو ادراک ہو گیا ہے کہ وہ ناقابلِ تسخیر نہیں ہیں۔ ویسے تو اس کا اندازہ ۱۹۷۳ء کی جنگ رمضان اور بعد میں ۲۰۰۶ءمیں جنگ لبنان کے موقعے پر ہی ہوگیا تھا ، مگر حالیہ کچھ عرصے سے یہ بات شدت کے ساتھ محسوس کی جا رہی ہے۔اس لیے دنیا بھر کے یہودی چاہتے ہیں کہ اس سے پہلے کہ تاریخ کا پہیہ کوئی اور رخ اختیار کرے، اسرائیل کی سرحدوں کا تعین کرکے، پڑوسی ممالک سے اس کا وجود تسلیم کرایا جائے۔ یہودی عالم کاکہنا تھا کہ توسیع پسندی اب کسی بھی صورت میں اسرائیل کے مفاد میں نہیں ہے۔ فوجی اعتبار سے اگرچہ اسرائیل سرحدوں کو وسیع کرنے کی قوت رکھتا ہے، مگر اس کے نتیجے میں مقبوضہ علاقوںکی آبادی کو بھی اس ناجائز قبضے کے ساتھ اسرائیل میں شامل کرنا پڑے گا، جس سے ظاہر ہے کہ یہودی اقلیت میں تبدیل ہوجائیں گے۔ دنیا بھر میں یہودی محض ایک کروڑ ہیں، جن میں ۶۰ لاکھ کے قریب اسرائیل میں رہتے ہیں۔ اس لیے فلسطینیوں سے زیادہ اسرائیلیوں کے لیے بھی اپنی بقا کے لیے سرحدوں کا تعین کرنا ضروری ہے۔
دوسرا یہ کہ اسرائیلی علاقوں میں مسلمانوں کی افزایش نسل یہودیوں سے کئی گنا زیا دہ ہے۔ ۱۹۶۷ء میں عرب ،اسرائیل کی آبادی کا ۱۴فی صد تھے ، جو اب لگ بھگ ۲۲ فی صد ہو چکے ہیں۔ یہ وہ مسلمان ہیں جنھوں نے اسرائیل کی شہریت تسلیم کی ہوئی ہے اور ’اسرائیلی عرب‘ کہلاتے ہیں۔
تیسرا اہم سبب یہ ہے کہ اسرائیل اور فلسطین کے مشرقی ساحل پر حالیہ کچھ عرصے سے تیل اور گیس کے وسیع ذخائر دریافت ہو رہے ہیں۔ کہاں وہ اسرائیل ، جہاں پانی اور تیل کا فقدان تھا، اب وہ خطے میں عرب ممالک کو پیچھے چھوڑ کر پٹرولیم کا مرکز بننے والا ہے۔ اس لیے وہ اب ہرصورت میں امن کو یقینی بناتے ہوئے، پوری سمندری حدود پر کنٹرول کرنا چاہتا ہے۔
حیفا کے پاس سمندر سے صاف پانی کشید کرنے کا دنیا کا سب سے بڑا پلانٹ لگا کر پانی کے معاملے میں اسرائیل پہلے ہی خود کفالت اختیار کرکے اب اردن کو بھی پانی سپلائی کرتا ہے۔ اسرائیل نے اب اردن اور مصر کو گیس کی ترسیل شروع کر دی ہے۔ اس وقت مصر کو اسرائیل سے ۸۵ملین کیوبک میٹر گیس فراہم ہورہی ہے، جس سے اسرائیل سالانہ۱۹ء ۵ ارب ڈالر کماتا ہے۔ ستم ظریفی یہ کہ چند سال قبل تک اسرائیل ، مصر سے تیل و گیس خریدتا تھا۔ حیفا سے ۱۰۰کلومیٹر دُور سمندر میں تامار اور لیویاتھان کے مقام پر اسرائیل نے گیس کے وسیع ذخائر دریافت کیے ہیں۔
بحیرہ روم میں دیگر مقامات پر بھی پٹرول اور قدرتی گیس کے ’وسیع ذخائر‘ موجود ہیں، جن پر فلسطینیوں کا دعویٰ ہے، مگر اس سمندر کا ۹۰فی صد اقتصادی زون اسرائیل کی تحویل میں ہے۔ لیویاتھان کے مقام پر ہی ۲۱ ٹریلین کیوبک فیٹ گیس کے ذخائر اگلے ۴۰سال تک اسرائیل کی ضروریات کے لیے بہت کافی ہیں۔ پچھلے ماہ یونان کے دارالحکومت ایتھنز میں اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے ۶؍ارب ڈالر لاگت سے ’ایسٹ میڈ پائپ لائن‘ بچھانے کے معاہدے پر دستخط کیے، جو اسرائیل سے قبرص ہوتے ہوئے یونان اور اٹلی اور دیگر مغربی ممالک کو گیس کی ترسیل کرے گی۔ اس پائپ لائن سے یور پ کی توانائی کی ۱۰فی صد ضروریات پوری ہوسکیں گی۔
تاہم، امریکی صدر ٹرمپ کی طرف سے فلسطینی مسئلے کا جو فارمولا منظر عام پر آیا ہے، اس سے شاید ہی امن کی امید بندھ سکتی ہے۔ خدشہ ہے کہ یہ اس خطے کے لیے مزید پیچیدگیاں پیدا کرسکتا ہے۔ اس کے مطابق فلسطینی مہاجرین کی اپنے گھروں کو واپسی کا معاملہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گا۔۱۸۱صفحات کے اس منصوبے میں عرب ممالک سے اپنی مرضی سے ہجرت کرنے والے یہودیوں اور بزور طاقت بے گھر ہوئے فلسطینی مہاجرین کو ایک ہی پلڑے میں رکھا گیا ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ: ’’اگر اسرائیل، عرب ممالک سے آئے یہودی پناہ گرینوں کو اپنے یہاں ضم کرسکتا ہے، تو عرب ممالک کو بھی فلسطینیوں کو مکمل شہریت دے کر پناہ گزینوں کے باب کو بند کردینا چاہیے‘‘۔
دنیا بھر میں اس وقت ۷۰لاکھ فلسطینی مختلف ممالک میں وطن واپسی کی راہ دیکھ رہے ہیں۔ منصوبے میں عرب ممالک سے یہ بھی مطالبہ کیا گیا ہے، کہ ۷۰سال قبل جو یہودی اپنے آبائی ممالک سے نقل مکانی کرکے اسرائیل میں بس گئے ہیں، ان کو پیچھے چھوڑی ہوئی جایدادوں کا معاوضہ دے دیا جائے۔ اسرائیل سے، تاہم یہ مطالبہ نہیں کیا گیا ہے کہ وہ بھی ان فلسطینی پناہ گزینوں کو ہرجانہ دے، جن کو اس نے اپنی جایدادوں سے زبردستی بے دخل کردیا ہے۔
اسی طرح کی بددیانتی قیدیوں کی رہائی کے سلسلے میں بھی اپنائی گئی ہے۔ فلسطینی مزاحمتی گروپوں کو بلاشرط تمام اسرائیلی قیدیوں کو رہا کرنا ہوگا، مگر اسرائیلی تحویل میں فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے لیے شرطوں کی ایک لمبی فہرست درج کی گئی ہے۔ قتل، اقدام قتل، دہشت گردی، اسرائیلی شہریوں،فوج یا اس کے سیکورٹی دستوں پر حملوںمیں ملوث فلسطینیوں کو کسی بھی صورت میں رہائی نہیں ملے گی۔ آخر میں اسرائیلی حکا م کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ اپنی صواب دید پر فلسطینی قیدیوں کو رہا کرسکتے ہیں۔
اس منصوبے کی رُو سے القدس یا یروشلم شہر کو تقسیم نہیں کیا جائے گا، بلکہ اس کا مکمل کنٹرول اسرائیل کے پاس ہی رہے گا۔ شہر میں مکینوں کو اختیار ہوگا کہ وہ اسرائیل یا فلسطین کے شہری ہوں گے۔ الاقصیٰ حرم پر جو ں کی توں پوزیشن برقرار رہے گی، یعنی یہ بدستور اُردن کے اوقاف کی زیرنگرانی رہے گا۔ اگرچہ سعودی عرب اس کے کنٹرول کا متمنی تھا، تاکہ ریاض میں موجود سعودی بادشاہ تینوں حرمین، یعنی مکہ ، مدینہ اور مسجد اقصیٰ کے ’متولی یا خادم‘ قرار پائیں۔
اسرائیل، مسجد اقصیٰ کے تہہ خانے تک رسائی کا خواہش مند ہے۔ جس کے لیے اس نے مغربی سرے پر کھدائی بھی کی ہے ، تاکہ وہاں تک پہنچنے کے لیے مسجدکی دیواروں کے نیچے سے ایک سرنگ بنا سکے۔ یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ تہہ خانے میں ہی معبد سلیمانی کے کھنڈرات یا قبلۂ اوّل موجود ہے۔
شہر کی مونسپل حدود کے باہر کفر عقاب اور سہانات کے علاقوں کو مشرقی یروشلم یا القدس کا نام دے کر اس کو فلسطین کا دارالحکومت تسلیم کیا جائے گا۔غزہ کے راستے اسرائیل اورمصر کی سرحدیں نقل و حمل اور تجارت کے لیے کھول دی جائیں گی۔ اسرائیلی بندر گاہیں حیفا اور اشدود کو فلسطینیوں کے لیے کھولا جائے گا۔ ’بحیرۂ مُردار‘ (Dead Sea) جو مغربی کنارے کے علاقے میں شامل ہے، اس کے وسائل پر اسرائیل اور اردن کا کنٹرول رہے گا۔ اسرائیل دنیا بھر میں ’بحیرئہ مُردار‘ کی مصنوعات برآمد کرتا ہے۔ ’بحیرۂ مُردار‘ میں کان کنی اور اس کی مصنوعات کو جلد کی حفاظت وغیرہ کی دوائیوں کے طور پر استعمال کرنے کی دریافت کا سہرا ایک پاکستانی نژاد یہودی کے سر ہے، جو کراچی سے اسرائیل منتقل ہو گیا تھا۔
اس پوری رُوداد کے بعد بھی بتایا گیا ہے کہ: ’’یہ منصوبہ تبھی عمل میں لایا جائے گا ، جب حالات اسرائیل کے موافق ہوں گے اور فلسطینی اگلے چار برسو ں تک تمام شرائط پر عمل درآمد کرکے اسرائیل کی سلامتی کو یقینی بنائیں گے۔ اس کے بعد ہی اسرائیل دیگر امور پر قدم اٹھائے گا‘‘۔ فلسطینی حکام کے لیے لازم قرار دیا گیا ہے کہ ا ن کو حماس اور دیگر تمام مزاحمتی گروپوں کو غیر مسلح کرنا ہوگا۔ اردن اور مغربی کنارے کی سرحدکی تین چیک پوسٹ فلسطینی حکام کے حوالے کی جائیں گی۔ اس پورے معاہدے میں ترکی کے کردار کا کوئی ذکر نہیں ہے ، جس نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں القدس یا یروشلم کو اسرائیلی دارالحکومت قرار دیے جانے کے فیصلے کے خلاف ووٹ دلوانے میں قائدانہ کردارکرکے امریکا کے فیصلے کی سینہ تان کرمخالفت کی تھی۔
چند برس قبل دوحہ میں راقم کو مقتدر فلسطینی لیڈر خالد مشعل سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا تھا۔ جب میں نے ان سے پوچھا کہ ’’آپ تو دو ریاستی فارمولے کو رد کرتے ہیں اور اسرائیل کے وجود سے ہی انکاری ہیں، تو مفاہمت کیسے ہو؟‘‘ انھوں نے کہا:’’حماس کا رویہ کسی بھی طرح امن مساعی میں رکاوٹ نہیں ہے۔ یاسر عرفات اور محمود عباس نے تو اسرائیل کو تسلیم کیا، مگر ان کے ساتھ کیا سلوک ہوا۔ تحریک میں شارٹ کٹ کی گنجایش نہیں ہوتی۔ اس کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے استقامت ضروری ہے۔ اپنے آپ کو مضبوط بنانا اور زیادہ سے زیادہ حلیف بنانا تحریک کی کامیابی کے لیے ضروری ہے۔ تاریخ کا پہیہ سست ہی سہی مگر گھومتا رہتا ہے‘‘۔ اس کے ساتھ ہی انھوں نے کہا کہ حماس ۲۰۰۶ء کے ’نیشنل فلسطین اکارڈ‘ پر کار بند ہے، جس کی رُو سے وہ دیگر گروپوں کے ذریعے اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنے گی‘‘۔
اس فارمولے میں فلسطینی علاقوں میں غربت و افلاس سے نبٹنے کے لیے ۵۰؍ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا بھی ذکر ہے۔ اس خیراتی سرمایہ کاری کے بجاے اگر فلسطینی اتھارٹی کو گیس کے ذخائر اور ’بحیرئہ مُردار‘ کے وسائل کا کنٹرول دیا جاتا تو یہ کئی گنا بہتر ہوتا ۔بہرحال، صدر ٹرمپ کی اس بدترین جانب داری پر مبنی نام نہاد ’ڈیل آف سینچری‘ نے ایک بار پھر ثابت کردیا ہے کہ کمزور اور طاقت ور کے درمیان کوئی معاہدہ ہو ہی نہیں سکتا۔فلسطینی لیڈرو ں ،عرب و دیگر اسلامی ممالک کے لیے لازم ہے کہ اتحاد کا راستہ اختیار کرکے، سیاسی لحاظ سے طاقت ور اور مستحکم بننے پر زور دےکر تاریخ میں اپنے آپ کو سرخ رو کروائیں، ورنہ تاریخ کے بے رحم اوراق ان کو کبھی نہیں بخشیں گے۔