قصور میں ہونے والی وحشیانہ اور جنسی درندگی کے واقعے نے پوری قوم کو صدمے سے دوچار کیا۔ پھر اس واقعے پر جس یک جہتی کے ساتھ قوم نے مظلوم زنیب کے ساتھ اپنی ہمدردی اور اس درندہ صفت شخص کے خلاف اپنی نفرت کا اظہار کیا ہے،وہ ایک قابلِ تعریف احساس ہے۔ یہ ردِعمل اس بات کا ایک زندہ ثبوت ہے کہ اخلاقی انحطاط کے اس دور میں بھی ہرپاکستانی اس وحشیانہ عمل کے سد باب اور مظلوموں کو بلاتاخیر انصاف اور مجرموںکو قرار واقعی اور عبرت ناک سزا کے بارے میں یک آواز ہے (اسی نوعیت کے شرم ناک واقعات انھی دنوں کراچی، ڈیرہ اسماعیل خاں اور مردان وغیرہ میں بھی ہوئے ہیں)۔
حقیقت یہ ہے کہ بچے قوموں کا مستقبل ہوتے ہیں اور اگر وہ تحفظ ، تعلیم ،محبت ، عزت اور تربیت کی جگہ عدمِ تحفظ کا شکار ہوں تو پھر قومیں روشن مستقبل سے محروم ہو جاتی ہیں ۔بلا خوف تردید یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ آج ہمارے معاشرے میں جو فضا پائی جاتی ہے ، اس میں نہ صرف بچوں کو بلکہ بالغ اور معمر افراد وخواتین کو بھی اپنے غیر محفوظ ہونے کا شدید احساس ہو رہا ہے۔ یہ نظام کی ناکامی اور اجتماعی بگاڑ کا واضح ثبوت ہے، جس کی اصلاح اور فوری اور مؤثر اقدامات وقت کی ضرورت ہے۔
ہم نے انگریز سے جو نظام، وراثت میں لیا ، اس میں جا گیردارانہ نظام کا تحفظ ، پولیس ، سول انتظامیہ اور سیا سی شخصیات سے تعاون جائز تصور کیا جاتا تھا ۔ بڑی زمینداریوں کا وجود اکثر و بیش تر انگریز سرکاری کی وفاداری کا مرہونِ منت تھا ۔خان بہادر اور نائٹ یا سر کا خطاب بھی اِلا ماشاء اللہ، انھی کو دیا گیا جو برطانوی سامراج کی نگاہ میں بےضرر یا وفادارِ تاج برطانیہ تھے۔ یہی لوگ سیاسی لیڈر بنے اور انگریز کی نگاہ میں اپنی قوم کے نمایندہ قرار پائے۔
ہمارے ملکی نظام میں سیاسی اداروں پر انھی افراد کا قبضہ رہاجو معاشی طور پر خوش حال تھے اور جو اپنے مزدور اور کسان پر مکمل قابو رکھتے تھے ۔ جس کے نتیجے میں قانون مال داروں کے تحفظ میں تو دل چسپی رکھتا تھا لیکن کمزور اور بے سہارا کے لیے انصاف حاصل کرنا جوے شیر لانا تھا۔ ہم نے اس نظام کو برقرار رکھا اور ماضی میں خواتین کے ساتھ زیادتیوں ، انھیں سرعامِ برہنہ کرنے اور انتقامی جذبات کی تسکین کے لیے خواتین کی بے عزتی کو اپنی ساکھ کا مسئلہ بنائے رکھا۔ اگر معاشرے میں قانون کا احترام کم ہو جائے اور اخلاقی روایات کو پسِ پشت ڈال دیا جائے، تو نہ صرف خواتین بلکہ کسی بھی عمر کے انسان کے ساتھ کسی قسم کا واقعہ ہو سکتا ہے ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ اس سانحے پر غم وغصہ کے اظہار کے ساتھ سنجیدگی سے غور کیا جائے کہ ایسا کیوں ہوا اور آیندہ ایسے اندوہناک واقعات کو کس طرح روکا جا سکتا ہے۔
ہمارے ملک میں غیر سرکاری اعداد و شمار عموماًبیرونی امداد سے قائم ہونے والی این جی اوز جمع کرتی ہیں (جن میں حقائق سے زیادہ ظن و تخمین کا عنصر بھی شامل ہوتا ہے، تاہم ان کی بنیاد سے انکار نہیں کیا جاسکتا)۔ پاکستان کے مقامی اخبارات نے ایک ایسے ہی ادارے کے اعداد و شمار شائع کیے ہیں، جن کے مطابق ۲۰۱۷ء میں پاکستان میں روزانہ بچوں سے زیادتی کے۱۱ واقعات ہوئے ہیں(ڈیلی ٹائمز ، ۱۸ جنوری ۲۰۱۸ء، د ی نیوز، ۲۳جنوری ۲۰۱۸ء)۔ یہ کہنا بڑا مشکل ہے کہ ان اعداد و شمار میں نمونے (sample)کا حجم کیا ہے؟ اور جب تک تمام تفصیلات معلوم نہ ہوں کسی بھی جائزے اور اعداد و شمار کی تصدیق نہیں کی جاسکتی۔ اس کے باوجود یہ تعداد بچوں کے ساتھ ظلم و زیادتی کے حوالے سے ایک خطرناک صورت حال کی نشان دہی کرتی ہے ۔بچوں پر زیادتی کا جائزہ لیتے وقت مناسب ہو گا کہ ایک سرسری نگاہ بنیادی اسباب پر ڈال لی جائے۔
بالعموم تجزیاتی جائزے یہ بتاتے ہیں کہ جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام میں بااثر معاشی آقا اپنے سے کم تر طبقات کو اپنے ظلم کا نشانہ بناتا ہے ۔ہمارے ہاں بھی اخباری اطلاعات یہی بتاتی ہیں کہ با اثر افراد کی بنا پر اس قسم کے ظالمانہ کام کرنے والے قانون کی گرفت سے بچ جاتےہیں، اور معاشی طور پر کم زور افراد کی عزت اور ذات ان ظالموں کے ہاتھوں برباد ہوتی رہتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بچوں ، کم عمر لڑکیوںکو پیسےکا لالچ دے کر ایسے کاموں میں پھنسایا جاتا ہے۔ قصور ہی میں کچھ عرصہ قبل ایک گروہ کا پردہ چاک ہوا جو بچوںکی عریاں ویڈیو فلمیں بنا کر اپنی دھمکیوں کے ذریعے انھیں اپنے زیرِ تصرف لا رہا تھا۔ ظاہر ہے کہ اس کا بڑا سبب معاشی بدحالی بتایا جاتا ہے۔
لیکن تجزیہ کرنے والے افراد یہ بات بھول جاتے ہیں کہ بچوں کے ساتھ ظلم نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے ان ممالک میں بھی عام ہے جو ہمارے کم فہم افراد کے لیے ایک ’مثالی معاشرہ‘ سمجھے جاتے ہیں۔ امریکا اس کی چشم کشا مثال ہے جہاں اس کا سبب محض غربت نہیں بلکہ نشہ آور اشیا کا استعمال ، مخلوط معاشرہ اور انفرادیت پرستی کا نظریہ اس کی بڑی وجوہات میں شامل ہے۔سب سے زیادہ بنیادی بات اخلاقی اور دینی تربیت کا فقدان ہے ، جس پر ہم بعد میں بات کریں گے۔
یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ وہ بچے جو ذہنی طور پر پریشان یا کسی فطری کمی کی بنا پر اپنا اچھا بُرا نہیں سوچ سکتے،ایسے افراد کا شکار ہو جاتے ہیں جو انھیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کریں۔ لیکن نظری طور پر درست ہونے کے باوجود ہمارے پاس ابھی تک سائنسی بنیادوں پر جمع شدہ اور مصدقہ اعداد وشمار کا ایسا کوئی جائزہ نہیں ہے جو ان بچوں کے بارے میں جن سے زیادتی کی گئی ہو یہ بات وثوق سے بتائے کہ وہ جسمانی یا ذہنی طور پر معذور تھے اور اس بنا پر انھیں غلط استعمال کیا گیا۔
اس کے مقابلے میں جو اعداد وشمار ملتے ہیں وہ صرف یہ بتاتے ہیں کہ اس عمر کے اتنے بچے ان مظالم کا شکار ہوئے یا ان ان صوبوں یا شہروں میں اتنے بچوں کے ساتھ ایسے واقعات ہوئے۔ اس طرح کے جائزوں میں بالعموم پنجاب میں ایسے واقعات کی کثرت بتائی جاتی ہے۔ واضح رہے کہ یہ سماجی بگاڑ اور اخلاقی فساد دوسرے صوبوں میں بھی موجود ہے اور ہرجگہ اور ہرصورت میں ناقابلِ برداشت ہے ۔ اس کے رد عمل کے طور پر کچھ علاقوں میں ہجوم اور بلوہ کی کیفیت نظر آر ہی ہے ۔ قا نون نافذ کرنے والے اداروں کی ناقص کارکردگی اور عوامی غم وغصہ مل کر جومنظر پیش کررہے ہیں، وہ انتہائی ہولناک ہے ۔ قصور اس کی ایک مثال ہے ۔
یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ خاندانی نظام میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل ایسے مقام پر آگیا ہے کہ بعض اوقات سوتیلے رشتوں اور بعض اوقات جاہلی رسوم و رواج کی بنا پر ان خاندانی رشتوں سے احتیاط نہیں کی جاتی جنھیں ہمارے دین نے ہمارے لیے ’خطرناک‘کہا ہے ۔ظاہر ہے کہ اس کا سبب وہ نام نہاد مشرقیت ہے ، جس میں ایک سالی ، بھابی ، سالے یا دیور سے تعلقات کی نوعیت وہ نہیں ہوتی جو دین چاہتا ہے، بلکہ اس حد کو پار کرکے انتہائی بے تکلفی کی حد تک تعلقات کو بڑھا دیا جاتا ہے جو آخر کار کسی غیر اخلاقی عمل کی شکل میں انجام تک پہنچتا ہے۔یہ معاملہ بالغوں تک محدود نہیں ۔ اس میں بچے (اگر ہم انھیں یونیسکو کی تعریف کی رُو سے ۱۸ سال کی عمر تک بچہ کہیں) بھی شامل ہیں ۔ گویا ہمارے معاشرے میں ہندووانہ رسومات اتنی جڑ پکڑ چکی ہیں اور مغربی معاشرت کو اتنا اپنا لیا گیا ہے کہ اب ان سے خطرناک نتائج کثرت سے ظاہر ہو رہے ہیں۔
ایک بات جو بار بار بچوں پر زیادتی کے حوالے سے سننے میں آتی ہے بلکہ زندگی کے ہرشعبے میں پائی جاتی ہے وہ معاشی ، دیوانی، اور فوجداری معاملات میں نظام عدل میں تاخیر ، مالی اور سیاسی اثرات اور قانونی دفعات کا غلط استعمال ہے۔ جس میں نہ صرف محرراور وکیل بلکہ پولیس اہلکار، حتیٰ کہ وہ منصف بھی شامل ہیں جو ان قوانین کے بارے میں درست معلومات نہیں رکھتے جن کی بنیاد پر وہ فیصلے لکھتے ہیں ۔حدود کے معاملات میں صحیح اور مصدقہ معلومات نہ ہونے کی بناپر ان دفعات کا استعمال کیا گیا جن کےا ستعمال کی ضرورت نہیں تھی۔خود عوام کو اپنے قانونی حقوق نہیں معلوم ، حتیٰ کہ قانون کے طالب علم اپنے ملک کے دستور کی تمام دفعات سےآگاہ نہیں ہوتے۔ ان حالات میں یہ کہنا کہ بچوں کو ان کے قانونی حقوق سے آگاہ کر دینے سے مسئلے کا حل ہوجائے گا، ایک خیالی جنت سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔
قانون کا ایک بنیادی کردار معاشرے کے افرادا کو تحفظ اور احساسِ تحفظ فراہم کرنا ہے۔ قانون کا احترام احساسِ تحفظ کے ساتھ وابستہ ہے۔ اگر کسی معاشرے میں احساسِ تحفظ اُٹھ جائے تو پھر قانون محض ان کتابوں تک محدود ہو جاتا ہے جو کلیاتِ قانون میں پڑھائی جاتی ہیں۔قانون کا احترام قوت سے نہیں بلکہ تہذیبی شعور سے پیدا ہوتا ہے۔ یہ ایک اندرونی کیفیت ہے جو ایک انسان کو اپنے ضمیر کی آواز سننے اور اس پر عمل کرنے پر ابھارتی ہے ۔کوئی اسے اندر سے پکارتا ہے: یہ غلط ہے، یوں مت کرو!یہ احساس اور کیفیت تنہا کسی خوف سے نہیں بلکہ انسانی فطرت کی پاکیزگی سے پیدا ہوتی ہے۔ایک ایسے ماحول میں بھی جہاں جرم اور گناہ عام ہو ، صحیح انسانی فطرت ایسے کام کو غلط ہی سمجھتی ہے ۔
جب تک ایک قوم اپنی تہذیبی اقدار پر عامل ہو،اور جب ہر ادارہ سرگرمی کے ساتھ اور شعوری طور پر بچپن سے لے کر جوانی تک اس کی اہمیت سے آگاہ کرےاورعملاً مثال قائم کرے تو یقینا اس کا مثبت اثر آنے والی نسل پر ضرور پڑے گا۔ اگر ایک تین سال کا بچہ اپنے باپ یا ماں کو کار چلاتے وقت سرخ بتی کا احترام کرتے ہوئے نہیں دیکھتا، تو وہ خود بھی بڑا ہو کر جب کار چلائے گا تو اس کے تحت الشعور کی آوازاسے ایک غلط کام کرنے سے نہیں روکے گی۔
بُرائی کو روکنے کے لیے قانون کا احترام وہ مثبت ذریعہ ہےجو سزا کے خوف سے زیادہ قانون کے احترام کے ساتھ انسان کی پوری کیفیت کو متاثر کرتا ہے ۔تہذیبی اور ثقافتی زاویے سے دیکھا جائے تو ہم جس تہذیب کو اپنی پہچان قرار دیتے ہیں، وہ اصلاً ایک اخلاقی تہذیب ہے ۔ قرآن کریم نے اخلاق کی اصطلاح کو اس کے وسیع تر مفہوم میں استعمال فرمایا ہے۔چنانچہ اسلامی تہذیب کی بنیاد وہ اخلاق ہے جسے قرآن نے ہادی اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کا خُلُقٍ عَظِیْمقرار دیا ہے، یعنی اخلاق کا نقطۂ کمال۔
ہماری تہذیب جن دو بنیادوں پر قائم ہے وہ حلال و حرام یا طیب اور خبیث یا پاک اور ناپاک ہونے کا احساس ہے۔ جب بھی اور جہاں کہیں بھی کسی معاشرے سے پاک اور ناپاک ہونے کا تصور مٹ جاتا ہے، وہ معاشرہ درندگی ، دہشت ، ظلم و زیادتی اور بداعمالیوں کا مرکز بن جاتا ہے۔ اگر ایک بچے کو ابتدا ہی سے یہ احساس ہو جائے کہ اس کے لباس پر اس کے جسم سے نکلنے والا ایک قطرہ بھی لگ گیا تو وہ ناپاک ہو جائے گا، تو وہ مرتے دم تک نہ صرف اپنے لباس بلکہ اپنی زندگی کے ہرہر عمل کو آلودگی سے شعوری طور پر بچانا چاہتا ہے۔اس کے مقابلے میں اگر ایک بچے کی تعلیم و تربیت اس کے والدین کی جگہ کارٹون نیٹ ورک کے سپر د کر دی جائے جو اسے روز چار سے چھے گھنٹے تک دوسروں کو تکلیف پہنچانے ، چکر دینے اور مارنے کی تعلیم دے ، پھر اس سے یہ امید رکھنا کہ اس میں اخلاقی اقدار پیدا ہوں گی ، ایک نیک خواہش سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔
حصولِ آزادی سے قبل غیرمنقسم خطے میں حصولِ آزادی کے لیے جدوجہد کے عمل سے جو مسلمان قوم وجود میں آئی وہ اپنی ترکیب میں ایک منفرد قوم تھی۔اس انفرادیت کی بنیاد نہ ہندستان کی زمین تھی،نہ یہاںکا پانی اور ہوا،نہ ان کا رنگ و نسل ، نہ ان کے معاشی فوائد ، نہ ان کی قبائلی اور علاقائی وابستگی۔ وہ جنوب ہند سے ہوں، یا سرحد کے غیور افراد، وہ پنجابی بولنے والے ہوں یا بنگالی بولنے والے ،وہ تاجر ہوں یا ملازمت پیشہ ، ان کا رنگ گندمی ہو یا سیاہ یا وہ کسی بھی نسل سے تعلق رکھتے ہوں ، ان سب نے لا الٰہ الا اللہ کی بنیاد پر ایک قوم ہونے کا اعلان اور پاکستان کے حصول کے لیے نعرہ بلند کیا تاکہ یہاں اپنی تہذیب و ثقافت اور دین کو آزادی کے ساتھ قائم کرسکیں۔ یہ تہذیب نہ بلوچی تھی ، نہ پنجابی، نہ پشتون، نہ سندھی،بلکہ اسلامی اور صرف اسلامی تھی۔لیکن ملک بننے کے بعد بانیِ پاکستان اور بانیانِ پاکستان کے تصورات کو پس پشت ڈال کر عصبیت ، علاقائیت اور صوبائیت کو فروغ دیا گیا اور ملّی یک جہتی کے لیے کو ئی قابل ذکر اقدام نہیں کیا گیا ۔
اس خلا کو مغربی تہذیب اور لادینیت نے پُر کیا اورہماری تعلیم ، تجارت ، سیاست، تمدن، معیشت اور ابلاغِ عامہ نے صرف اور صرف لادینیت کی اشاعت کو اپنا مشن قرار دیا۔ تہذیبی زاویے سے دیکھا جائے تو ہم اپنی نئی نسل کو گذشتہ ۷۰برسوں سے اپنی حقیقی تہذیب سے آگاہ نہیں کراسکے۔ ہماری تہذیب میں بچوں کی محبت ، ماں باپ کا احترام، ایثار اور قربانی ، رشتوں کا احترام، سچائی ، ایمان داری، حلال و حرام کا احساس، پاک اور ناپاک میں تمیز بنیادی اہمیت کی حامل رہی ہے۔ ایک فرد چاہے نمازباقاعدہ نہ پڑھتا ہو، لیکن اس میں یہ احساس ہمیشہ رہا کہ وہ رشتوں کا احترام کرے، لیکن جدیدیت ، مغربیت اور مغرب کی مرعوبیت کے نتیجے میں ہم نے نئی نسل کی تعلیم و تربیت سے اخلاقی اقدار کو خارج کر دیا اور بزعمِ خویش ’جدیدیت‘ کے راستے پر گامزن ہوگئے۔
ہم نے پہلی جماعت کی کتاب سے لے کر بارھویں جماعت کی کتاب سے ہر اس واقعے کو نکال دیا جس سے اخلاق، مروّت، نرمی ، محبت، ایثار، قربانی کا کوئی سبق مل سکتا تھا۔ نوجوانوں میں بے راہ روی کا ایک سبب یہ تہذیبی اور اخلاقی خلا ہے جو ہمارے نظام تعلیم نے پیدا کیا ہےاور جسے پُر کرنے کی کوشش میں والدین بھی مکمل ناکام رہے ۔
آج ہمیں جس اخلاقی بحران کا سامنا ہے،اس کا ایک اہم سبب تہذیبی اور ثقافتی اداروں کی ناکامی ہے ۔یہ ادارے ہماری تہذیبی پہچان اور ایک وقت میں ہمارے عروج کا سبب تھے۔ لیکن ہم نے ان کی قدر نہ کی اور انھیں اپنے ہاتھوں سے تباہ کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ ان اداروں میں سب سے پہلا ادارہ خاندان ہے۔ہماری ثقافت اور تہذیب میں خاندان محض شوہر، بیوی اور ان کے حد سے حد دو بچوں کا نام نہیں ہے، بلکہ خاندان کا مطلب وہ سب رشتے ہیں جو ہماری تہذیب کو وجود بخشتے ہیں ۔
ہماری تہذیب میں بچے کی آمد وہ لڑکا ہو یا لڑکی ایک با برکت چیز تصور کی جاتی تھی۔کیونکہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان افراد کے لیے جنت کا وعدہ فرمایا تھا جو اپنی تین یا دو یا ایک بیٹی کی صحیح تربیت کر کے اسے صالح لڑکی بنائیں ۔ہم نے جاہلی روایات کو خوش آمدید کہتے ہوئے لڑکیوں کی پیدایش کو ناپسند کیا اور جاگیر دارانہ ثقافت میں ان کےمقام کو ہمیشہ کم تر سمجھا۔ اگر جائزہ لیا جائے تو بچوں اور خواتین پر جنسی زیادتی کے واقعات کا تناسب ملک کے ان حصوں میں زیادہ ہے ، جہاں جاگیردارانہ ذہن معاشرے پر حاوی ہے۔
ہم نے اپنی تہذیبی روایات کو چھوڑ کر جس کی پہچان شرم و حیا تھی، بے حیائی کے ساتھ عریانیت اور جسم کی نمایش کو اپنے معاشرے میں ہر سطح پر عام کر دیا۔آج ہمارے اخبارات ہوں، ٹی وی نیٹ ورک ہوں، ہر جگہ عریانیت کو عام کر دیا گیا ہے۔اس کے اثرات دیکھنے والوں پر شہوانیت ہی کے فروغ کا باعث بنتے ہیں۔ چنانچہ جنسی جذبات و ہیجان کو ابھارنے میں ہمارے ابلاغ عامہ کا کردار بڑا واضح نظر آتاہے۔ظاہر ہے تعلیم اخلاق و تربیت سے خالی ہو اور ۲۴گھنٹے جو مناظر ٹی وی اسکرین پر نظر آتے ہوں اور وہ جنسی جذبات کو اُبھارنے والے ہوں اور پھر مخلوط معاشرت کو جانتے بوجھتے فروغ دیا جائے، تو نوجوانوں میں بے راہ روی کا پھیلنا ایک فطری عمل ہے ۔
مغربی سامراجیت ، لادین جمہوریت ، خود پرست انسان، انفرادیت پسند معاشرتی تصوّر کو ’جدیدیت‘ کے زیر عنوان ہمارے اخبار نویسوں ، دانش وروں ، سیاستدانوں نے ملک پر مسلط کرنے کے لیے تعلیم ،معیشت، معاشرت، ہر چیز کو مغرب کے ساتھ مربوط کر دیا ۔ مغربی جمہوریت نے شعوری طور پر خود کو کلیسا کے اثرات سے آزاد کرایا تھا ، ہم نے بھی اس میں خیر سمجھی کہ ’مذہب‘ کو زندگی کے ہر خانے سے خارج کرنے میں پوری قوت صرف کردی جائے۔
پاکستان کی بنیاد ہی اسلام کی آفاقی ، الہامی ، اقدار و اخلاق پر تھی۔ قائداعظم نے خاصی سوچ بچار کے بعد کہا تھا: ایمان، اتحاد ، تنظیم۔ یہ محض تین الفاظ نہیں تھے، بلکہ پورانظریۂ پاکستان ان تین الفاظ کے اندر سمویا ہوا ہے۔ ہم نے اس کا مفہوم آج تک نہیں سمجھنا چاہا ۔
مغربی تہذیب میں جنسی اختلاط ایک روز مرہ کا عمل ہے ۔ اسکول ہوں یا تجارتی ادارے یا سرکاری دفاتر، ہر جگہ مرد و خواتین ایک ساتھ کام کرتے ہیں ۔ ہم نے بھی اسی کو ترقی کی علامت سمجھااور اپنے معاشرے میں ’مساوات‘ کے نام پر مخلوط اداروں کو فروغ دیا ۔ اور یہ بھول گئے کہ یہ تجربہ خود مغرب میں بُری طرح ناکام رہا ہے۔
مغرب کی مخلوط معاشرت اور معیشت کےحوالے سے صرف امریکا میں اس کے نتائج کو دیکھا جائے تو ہم اس سے سبق حاصل کر سکتے ہیں۔ ادارہ والٹر اینڈ میلک (Walters and Melick) کے مطابق امریکا میں ہر سال۱۲لاکھ ۷۰ ہزار خواتین زنا بالجبر کا شکار ہوتی ہیں، حتیٰ کہ فوج جیسے منظم ادارے میں بھی ان کی عصمت محفوظ نہیں رہتی۔
یورپ اور امریکا میں آج نہیں ۷۰سال پہلے ’جنسی آگاہی‘ کو متعارف کروایا گیا۔ حتیٰ کہ بچوں کے اسکولوں میں مشروبات اور ماکولات کی دکانوںمیں وہ مصنوعات بھی فراہم کر دی گئیں جو جنسی بے راہ روی کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔ان تمام دانش ورانہ اقدامات کے باوجود اگر دیکھا جائے تو مطبوعہ اعداد و شمار (جو کوئی بھی محقق چند لمحات میں نیٹ سے حاصل کر سکتا ہے)، یہ گواہی دیتے ہیں کہ اسکولوں ، کالجوں اور جامعات میں جنسی تعلیم نہ اخلاقی بے راہ روی کو روک سکی ،اور نہ اس کی بنا پر معصوم بچیاں درندہ صفت انسانوں کی دست برد سے محفوظ ہو سکیں۔
دُورجانے کی ضرورت نہیں صرف امریکا میں بچوں کے ساتھ جنسی بے ضابطگی کے حوالے سے چلڈرن بیورو نے ۲۰۱۷ء میں ۲۰۱۵ءکے اعداد و شمار پر مبنی جو رپورٹ طبع کی ہے ، اس کے مطابق امریکا میں ایک سال میں ۱۷۴۰بچے جنسی استحصال کی وجہ سے جان سے گئے۔ گویا روزانہ پانچ بچوں کی موت جنسی استحصال سے واقع ہوئی ۔اس سے بڑھ کر جو چیز افسوس ناک ہے وہ یہ کہ ان میں سے ٪ ۸۰واقعات وہ ہیں جن میں بچے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ، جب کہ اس ظلم میں ان کے والدین میں سے کسی ایک کا براہِ راست دخل تھا۔ جنسی استحصال کے کُل واقعات میں کم از کم ۶۰کا تعلق جنسی تعلق سے رہا اور ان میں سے ۹۰ فی صد کسی اجنبی کے ہاتھوں شکارنہیں ہوئے ۔اعداد و شمار یہ بھی بتاتے ہیں کہ ان حادثات میں تین سال کی عمر سے ۱۷سال کی عمر تک کے بچوں میں تین سال کی عمر والے۱۰ء۷ فی صد، جب کہ ۱۷سال کی عمر والے ۳ء۵ فی صد بچے تھے۔گویا اس درندگی میں عمر کی بھی کوئی قید نہیں ہے ۔اور گذشتہ تین سال کے جائزے اس رجحان میں اضافے کا پتا دے رہے ہیں۔
مختلف اسباب پر غور کرنے کے بعد عموماً برقی ابلاغ عامہ اور اخبارات میں جو حل تجویز کیے گئے ہیں ان میں اولاً: اسکولوں میں جنسی تعلیم ، ثانیاً: تعلیم میں بچوں کو اپنے قریبی رشتہ داروں سے خبردار رہنے کی تعلیم تجویز کی گئی ہے ۔یہ وہی حل ہے جو امریکا اور یورپ میں گذشتہ ۵۰ برسوں سے متعارف کیا جا چکا ہے،اور اس کے باوجود اوپر کے اعداد و شمار یہ پتا دیتے ہیں کہ اس حل سے مسئلہ وہیں کا وہیں رہا ۔
مغرب میں بچوں کو جنسی تعلیم دینا اس لیے اختیار کیا گیا کہ وہاں معاشرے نے ’محفوظ جنسی‘ تعلق کو جائز قرار دے دیا۔ اس لیے اگر کوئی دوا یا مانع حمل تدابیرکا استعمال کرنا سیکھ لے تو ان کے خیال میں ایڈز اور حمل دونوں سے محفوظ ہو سکتا ہے ۔ ا س تجویز کا پس منظر یہ ہے کہ جنسی بے راہ روی کوئی بری چیز نہیں ، صرف احتیاط کر لی جائے تو مناسب ہے !کیا یہ حل ایسے افراد کے لیے جن کا دین نکاح کے علاوہ ہر قسم کے جنسی تعلق کو غیر اخلاقی اور غیر قانونی قرار دیتا ہو ، قابل قبول ہو سکتا ہے؟
لیکن کوشش یہ کی جارہی ہے کہ ایک جذباتی فضا میں زینب کے سانحے کے سہارے اس مذموم حل کو نافذکروایا جائے ، بلکہ بہت سے اسکولوں میں جنسی تعلیم کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ ہرباشعور پاکستانی اس حل کو رد کرتا ہے ، کیوں کہ یہ اس کے دین ، تہذیب اور اس کی اخلاقی روایات کے خلاف ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ حل کہ بچوں کو اپنے رشتہ داروں سے خبردار کیا جائے، خاندان کے ادارے کو تباہ کرنے کا ایک ذریعہ معلوم ہوتا ہے ۔کیا خاندان کا مطلب یہ ہے کہ ایک بچہ صرف اپنے ماں باپ پر اعتماد کرے اور باقی ہر رشتے کو شک کی نگاہ سے دیکھے ؟ کیا خاندان صرف ماں باپ کا نام ہے؟جن مقامات پر یہ فکر اختیار کی گئی ہے وہاں بات رشتہ داروں پر نہیں بلکہ خود والدین تک بھی پہنچی ہے ۔امریکا میں ہونے والے بچوں کے جنسی استحصال میں ۸۰بچوں کی موت میں خود ان کے والدین میں سے کسی کا دخل بتایا جاتا ہے ۔ احتیاط کس کس سے اور کب تک کرائی جائے گی؟
مسئلہ شک و شبہے سے نہیں بلکہ اسلام کے مثبت نظام خاندان سے حل کیا جاسکتا ہے۔ جس میں ماں باپ کو ان کی ذمہ داری سے آگاہ کیا جائے کہ وہ کس طرح تربیتِ اولاد کریں۔ وہ کس طرح محبت اور نرمی کے ساتھ بچوں کو طہارت اور پاکیزہ کردار کی تعلیم دیں ۔ ہمارا فقہی سرمایہ روزِ اوّل سے بچے کو سمجھاتا ہے کہ پاکی اور ناپاکی میں کیا فرق ہے ۔ وہ یہ سمجھاتا ہے کہ وہ نہ اپنے اعضا کسی کو دیکھنے دے، نہ کسی کے اعضا دیکھے ۔ وہ روزِ اوّل سے اس میں ایک اخلاقی قوت پیدا کرتا ہے جو جنسِ مخالف سے مناسب دُوری اس کی فطرت میں شامل کر دیتی ہے ۔وہ نگاہ کے فتنے سے ، جسم کے لمس سے ، زبان کے فتنے سے ، بچپن سے تعلیم کے ذریعے اپنے گھر کے ماحول میں اسے یہ سب باتیں سکھانا چاہتا ہے ۔ اگر ہم اسلام کی ان عملی اور آفاقی تعلیمات کو خاندان کی ذمہ داری کے طور پر ادا نہ کریں توقصور خاندان کا ہے یا کسی اور کا ؟
مسئلے کا حل اسکولوں کے تعلیمی نصاب میں قرآن و حدیث کی روشنی میں آداب و اخلاق کی تعلیم ہے ۔ یہ کام کتابوں میں جنسی اعضا کی تصاویر بنا کر نہیں کیا جاسکتا ۔حقیقت یہ ہے کہ جنسی تعلیم انھیں جنسی تجربے پر اُبھارے گی ،جب کہ پاکیزگی ، عصمت و عفت اور رشتوں کے احترام کی تعلیم انھیں مثبت طور پر ایک صالح معاشرے اور خاندان کی تعمیر میں مدد فراہم کرے گی ۔
اس کے ساتھ میڈیا کے کردار اور سوشل میڈیا کے ذریعے جو بد اخلاقی پھیلانے کی کوششیں کی جارہی ہیں، اس کا فوری اور مؤثر تدارک ضروری ہے ۔بعض افسانے اور ڈرامے بھی جنسی جذبات اُبھارنے کا سبب بنتے ہیں۔ ۵۰ کے عشرے میں تو سعادت حسن منٹو پر فحاشی پھیلانے پر مقدمے بھی چلے اور ایک مقدمے میں تو سپریم کورٹ نے انھیں تین ماہ قید ِ سخت کی سزا بھی سنائی۔ اس طرح کے افسانے آج کل بھی لکھے جارہے ہیں۔ لہٰذا ادیبوں کو اپنی ذمہ داری محسوس کرنی چاہیے۔ اسی طرح فیسٹیول کے نام پر بعض ادارے جو مخلوط گانے بجانے کی مخلوط محفلوں کا اہتمام کرتے ہیں، ان کا کوئی جواز نہیں۔ آزادیِ اظہار بجا لیکن وہ آزادی جو اخلاقی بگاڑ اور بے راہ روی کا ذریعہ بنے ، آزادی نہیں فساد اور تباہی کا آلہ ہے ، جسے ملک کے آئین و قانون اور اخلاقی قدروں کا پابند بنانا ضروری ہے ۔پھر اس نوعیت کے واقعات کی روک تھام کے لیے قانون کی اصلاح ، قانون کا بے لاگ نفاذ ، انتظامیہ ، پولیس اور عدالت کے نظام کی اصلاح اور مجرموں کو قانون کے مطابق بروقت اور قرار واقعی سزا کا دیا جانا اصلاحِ احوال کے لیے اولین ضرورت ہے ۔
روزنامہ جنگ اور دی نیوز کے صابر شاہ نے ۱۷ جنوری ۲۰۱۸ء کی اشاعت میں ایک چشم کشا جائزہ مرتب کیا ۔ جس میں اخلاقی اور معاشرتی بگاڑ کے فروغ میں انٹرنیٹ اور میڈیا کے کردار پر بحث کی گئی ہے اور پاکستان اور مغربی دنیا کے حوالوں سے اُن دروازوں کی نشان دہی کی گئی ہے ، جس سے یہ تباہی خود ہمارے معاشرے کو تہ وبالا کر رہی ہے۔ جہاں ان دروازوں کو بند کرنا ضروری ہے وہیں جرم کا ارتکاب کرنے والوں کو مؤثر سزاکے ذریعے نشانِ عبرت بنانا بھی ان جرائم کو روکنے کے لیے ضروری ہے ۔ صابر شاہ رقم طراز ہیں: ’’ہم میں سے اکثر لوگوں کو یاد ہو گا کہ ۱۹۸۱ء میں ’پپو‘ نامی لڑکے کو لاہور کے علاقے باغبانپورہ (نزد شالا مار باغ) سے اغوا کیا گیا اور چند روز بعد اس کی لاش قریبی ریلوے لائن کے جوہڑ سے ملی۔ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا میں اغوا کنندگان اور قاتل کو موت کی سزا سنائی گئی اور ایک ہفتے کے اندر ان مجرموں کو سرعام پھانسی دی گئی۔ ان مجرموں کی لاشوں کو غروب آفتاب تک لٹکائے رکھا گیا اور اس سخت سزا کا نتیجہ یہ نکلا کہ اگلے ایک عشرے یا اس سے زائد عرصے کے دوران وہاں کوئی لڑکا اغوا ہوا نہ کسی کو جنسی درندگی کا نشانہ بنایا گیا‘‘۔
ہمارے مسائل کا حل ہماری اپنی تہذیبی روایات، دینی تعلیمات اور مطلوبہ خاندان کی روشنی میں ہونا چاہیے۔درآمد کیے ہوئے حل نہ پہلے کبھی کامیاب ہوئے ہیں اور نہ آج ہو سکتے ہیں۔ اگر ہمیں اپنی مستقبل کی نسلوں سے محبت ہے تو ہمیں خاندان ، نظامِ تعلیم اور ابلاغِ عامہ کو صحیح کردار ادا کرنے پر مجبور کرنا ہو گا۔ اس وقت نہ خاندان اپنا فرض پورا کر رہا ہے ، نہ اسکول اور نہ ریاست۔ ہمیں تینوں محاذوں پر کام کرنا ہو گا۔قانون کا مؤثر استعمال اس کا اہم حصہ ہے۔
ہمارے ابلاغِ عامہ کو آفاقی اسلامی اقدارِ حیات کو متعارف کروانا ہو گا اور عریانیت، فحاشی، اور ہندووانہ ثقافت کو جو اس وقت ہمارے ابلاغ عامہ کی پہچان بن گئی ہے ،خیرباد کہنا ہو گا۔ جب تک ہم اعتماد اور یقین کے ساتھ اس کام کو اس کے منطقی انجام تک نہیں پہنچاتے جو ظلم اور زیادتی ملک میں ہو رہی ہے ، اس سے اپنے آپ کو بری نہیں کر سکتے۔
میرے علم کے مطابق ، پیروی کی خواہش رکھنے والے کسی صاحب ِ فہم کے لیے ، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت سے زیادہ مفید کوئی وصیت نہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَ لَقَدْ وَصَّیْنَا الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَ اِیَّاکُمْ اَنِ اتَّقُوا اللّٰہَ ط (النساء۴:۱۳۱) تم سے پہلے جن کو ہم نے کتاب دی تھی، انھیں بھی یہی ہدایت کی تھی اور تم کو بھی ہدایت کرتے ہیں کہ خدا سے ڈرتے ہوئے کام کرو۔
اسی طرح آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذؓ بن جبل کو یمن کی طرف روانہ کرتے وقت فرمایا: ’’اللہ سے ڈرتے رہو جہاں کہیں بھی ہو، اور بُرائی کے بعد نیکی ضرور کرو جو اس کو مٹادے، اور لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آئو۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک حضرت معاذؓ کی بڑی قدرومنزلت تھی۔ آپؐ نے ان سے اپنے پیچھے سواری پر ہم رکابی کی حالت میں فرمایا: ’’اے معاذ! بخدا مجھے تم سے محبت ہے‘‘۔ انھوں نے اس وصیت کو جامع سمجھا اور بلاشبہہ یہ ہے بھی بہت جامع، ساتھ ہی یہ قرآنی وصیت کی شرح بھی ہے۔
اس کی جامعیت یوں ہے کہ بندے پر دو قسم کے حقوق ہیں: ایک اللہ تعالیٰ کے، اور دوسرے بندوں کے۔ اس پر اللہ تعالیٰ کا جو حق ہے، اس میں بعض اوقات اس سے لازماً کوتاہی سرزد ہوگی، یا تو کسی حکم کی بجاآوری میں یا ممنوعہ چیز کا ارتکاب کرکے۔ اس لیے آپؐ نے فرمایا: ’’اللہ سے ڈرو جہاں کہیں بھی ہو‘‘۔ ’جہاں کہیں بھی ہو‘ میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ بندے کے لیے ظاہر اور پوشیدہ دونوں حالتوں میں تقویٰ اختیار کرنا ضروری ہے۔
پھر فرمایا: ’’بُرائی کے بعد نیکی ضرور کرو جو اسے مٹا دے‘‘، اس لیے کہ مریض جب کوئی مضر چیز استعمال کربیٹھے، تو طبیب اسے ایسی چیز کے استعمال کا مشورہ دیتا ہے جو ضرر سے محفوظ رکھے۔ کیونکہ گناہ بندے کے ساتھ لازم و ملزوم ہے ، پس عقل مند وہ ہے جو بُرائیوں کو مٹانے کے لیے ہمیشہ نیکیاں کرتا رہے۔ نیکیاں بدیوں کی جنس میں سے ہوں، تو انھیں مٹانے میں زیادہ مؤثر اور کارآمد ہوںگی۔
گناہوں کے اثرات تین چیزوں سے زائل ہوتے ہیں: ایک توبہ، دوسرے استغفار، اور تیسرے نیک اعمال۔ استغفار، چاہے توبہ کے بغیر بھی ہو تو اللہ تعالیٰ اس کی دُعا کی قبولیت میں اسے بخش دیتا ہے ، لیکن اگر توبہ و استغفار جمع ہوجائیں تو یہ کمال درجہ ہے۔ تیسرے نیک اعمال، جو گناہوں کا کفّارہ یا کفّارہ ظہار، یا حج میں بعض ممنوعہ چیزوں کے ارتکاب کا کفّارہ، مثلاً: ۱- جانور کی قربانی، ۲- غلام آزاد کرنا ، ۳- صدقہ و خیرات کرنا، ۴- روزے رکھنا۔
عام نیک اعمال بھی گناہوں کا کفّارہ بنتے ہیں جیساکہ حضرت عمرؓ سے حضرت حذیفہؓ نے فرمایا: ’’انسان سے اپنے اہل و عیال اور ما ل و دولت کے معاملات میں مشغول رہنے کی وجہ سے ذکرالٰہی سے جو غفلت ہوجاتی ہے، نماز، روزہ، صدقہ و خیرات اور امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے کام انجام دینے سے وہ معاف ہوجاتی ہے۔ قرآن و سنت کے بے شمار شواہد بتاتے ہیں کہ پنجگانہ نماز، صدقات اور دیگر اعمالِ صالحہ گناہوں کا کفّارہ بنتے ہیں۔ ان اعمال کا اہتمام کرنے کی ضرورت ہے ، اس لیے کہ انسان کی نشوونما کتنے ہی علمی و دینی ماحول میں ہوئی ہو، بلوغت سے مرتے دم تک جاہلیت کے بعض اعمال کا مرتکب ہو ہی جاتا ہے۔
ہر خاص و عام کے لیے جو چیز نفع بخش ہے اور اسے پریشانیوں سے نجات دلا سکتی ہے، وہ ہے گناہوں کا ارتکاب ہوجانے کے فوراً بعد نیکیاں کرنا جنھیں اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے انجام دینے کا حکم دیا ہے۔ اس کے علاوہ گناہوں کو جو چیزیں مٹاتی ہیں ان میں سے ایک قسم ان مصیبتوں اور پریشانیوں کی بھی ہے، جو انسان کو رنج و غم اور مالی، جسمانی و معنوی لحاظ سے پہنچنے والی تکالیف سے عبارت ہے، جن میں انسان کا اپنا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے حق کو بیان فرمانے کے بعد فرمایا: ’’لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آئو‘‘۔ لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آنے کا خلاصہ یہ ہے کہ جو قطع تعلق کرے، اس کے ساتھ سلام کلام، عزت و اِکرام، اس کے لیے دُعا و استغفار اور اس کی تعریف کے ذریعے جڑا جائے اور میل جول رکھا جائے۔ جو محروم رکھے، اسے تعلیم و تعلّم سے اور مالی اور غیرمالی ہرطرح سے فائدہ پہنچایا جائے۔ جو جان، مال یا عزت و آبرو کے لحاظ سے ظلم کرے اور نقصان پہنچائے، اس کو معاف کیا جائے۔ ان میں سے کچھ چیزیں تو واجب ہیں اور کچھ مستحب اور مرغوب۔ ’خلق عظیم‘ کی حقیقت یہ ہے کہ انسان وہ چیزیں انجام دے جو اللہ کو پسند ہیں۔
رہی یہ بات کہ یہ تمام چیزیں اللہ کی وصیت کیوں کر ہیں، تو وہ اس لیے کہ اللہ کے خوف اور تقویٰ میں ہر وہ چیز شامل ہے جس کے حتمی طور پر کرنے کا ، یا اس سے رُک جانے کا اللہ نے حکم دیا ہے۔ لیکن چونکہ بسااوقات تقویٰ سے مراد محض اللہ کے عذاب کا ڈر لیا جاتا ہے، اس لیے حدیث معاذؓ میں لفظ تقویٰ کی شرح بیان ہوئی ہے۔ اسی طرح حضرت ابوہریرہؓ نے تقویٰ کی شرح یوں روایت کی ہے: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ زیادہ تر کون سی چیز لوگوں کے جنّت میں داخلے کا سبب بنے گی؟ آپؐ نے فرمایا: تقویٰ اور بہترین اخلاق۔ پھر پوچھا گیا کہ کون سی چیز زیادہ تر جہنّم میں لے جائے گی؟ فرمایا: ’’منہ اور شرم گاہ‘‘ (ترمذی)۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا: ’’مسلمانوں میں سے سب سے کامل مومن وہ ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہیں‘‘۔
خیر اور نیکی کا سرچشمہ اور بنیاد یہ ہے کہ آدمی عبادت اور استعانت (فریاد طلبی) صرف اور صرف اللہ ہی کے لیے مخصوص کردے ۔ چنانچہ بندے کو مخلوق سے اپنا دل اسی طرح پھیر لینا چاہیے کہ نہ ان سے کسی فائدےکی اُمید رکھے، اور نہ ان کی خاطر کوئی عمل کرے، بلکہ تمام توجہ اور رُخ اللہ تعالیٰ کی ذات کی طرف ہو۔ اپنی ہرمشکل ، پریشانی ، تنگ دستی اور خطرہ وغیرہ میں اسی کو پکارتا رہے، اور اس کی پسندیدہ چیزیں تیار کرتا رہے۔ جس نے یہ کام کرلیا تو اس کے انجام کا کیا کہنا!
ذکر کا کم سے کم درجہ یہ ہے کہ بندہ معلمِ انسانیت کے ماثور اذکار کی پابندی کرے، جیسے صبح و شام کے اذکار، سوتے وقت، بیدار ہونے پر اور فرض نمازوں کے بعد والے اذکار وغیرہ۔ اسی طرح وہ اذکار اور دُعائیں جو مختلف حالات و مواقع کے لیے وارد ہوئی ہیں، جیسے کھانے پینے یا گھر، مسجد اور قضاے حاجت کے لیے داخل ہوتے اور نکلتے وقت کے اذکار۔ اسی طرح بارش ہونے اور بجلی چمکنے اور اسی طرح کے دیگر مواقع پر مسنون دُعائوں کا اہتمام۔ اس سلسلے میں ’شب و روز‘ کے وظائف کے عنوان کے تحت کتابیں موجود ہیں۔ پھر عمومی ذکر کا اہتمام بھی کرے۔ اور اس میں سب سے بہتر لا الٰہ الا اللہ ہے۔ بعض صورتوں میں سُبْحَانَّ اللہِ ، وَالْحَمْدُلِلہِ وَلَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَاللہُ اَکْبَرْ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ اس سے افضل ہے۔
یہ بھی ذہن میں رہنا چاہیے کہ اللہ سے قریب کرنے والی ہر چیز، جیسے علم سیکھنا، سکھانا یا امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دینا،چاہے زبان سے ہو، عمل سے ہو، یا قلب میں اس کا خیال پیدا ہو… وہ بھی اللہ کے ذکر میں شامل ہے۔ چنانچہ جو شخص ادایگی فرائض کے بعد، علمِ نافع کی تلاش میں لگ جائے، یا کہیں بیٹھ کر ایسا علم سیکھے اور سکھائے، تو یہ بھی بہترین ذکر میں شامل ہے۔ اس بنا پر اگر آپ غور کریں تو سب سے بہتر عمل کے سلسلے میں سلف کی باتوں میں آپ کو کوئی بڑا اختلاف نظر نہیں آئے گا۔
بندے کو اگر کسی معاملے کے متعلق اشتباہ ہوجائے تو اسے استخارہ کرلینا چاہیے، اس لیے کہ جو استخارہ کرے گا وہ کبھی نادم و پشیمان نہیں ہوگا۔ استخارہ اور دُعا بکثرت کرنی چاہیے۔یہی چیز ہربھلائی کی کنجی ہے۔ اس بارے میں اسے جلدی کرتے ہوئے یہ نہیں کہنا چاہیے کہ میں نے بہت دُعائیں کیں، مگر قبول نہیں ہوئیں۔ دُعا کے سلسلے میں قبولیت کے اوقات پیش نظر رہنے چاہییں، جیسے رات کا آخری حصہ، نماز کے بعد، اذان کے دوران اور بارش ہوتے وقت وغیرہ۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَسْئَلُوا اللّٰہَ مِنْ فَضْلِہٖ ط (النساء۴:۳۲) ’’اللہ سے اس کا فضل مانگو‘‘۔ مزید ارشاد ہے: فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلٰوۃُ فَانْتَشِرُوْا فِی الْاَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰہِ (الجمعہ ۶۲:۱۰)’’پھر جب نماز پوری ہوجائے تو زمین پر پھیل جائو اور اللہ کا فضل تلاش کرو‘‘۔ یہ آیت اگرچہ نمازِ جمعہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے مگر اس کا اطلاق تمام نمازوں پر ہوتا ہے۔ شاید اسی لیے آپؐ نے مسجد میں داخل ہوتے وقت اَللّٰھُمَّ افْتَحَ لِیْ اَبْوَابَ رَحْمَتِکَاور نکلتے وقت اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ وَرَحْمَتِکَ کی دُعائیں پڑھنے کی تعلیم دی ہے۔
حضرت ابراہیمؑ نے فرمایا: فَابْتَغُوْا عِنْدَ اللّٰہِ الرِّزْقَ وَ اعْبُدُوْہُ وَ اشْکُرُوْا لَہٗ ط (العنکبوت ۲۹:۱۷) ’’اللہ سے رزق مانگو اور اس کی بندگی کرو اور اس کا شکر ادا کرو‘‘۔
یہ اَمر (حکم) ہے اور اَمر واجب ہونے کا تقاضا کرتا ہے، لہٰذا اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنا اور رزق کے معاملے میں اسی کا دامن تھامنا، بہت بڑا دینی اصول ہے۔ پھر چاہیے کہ مال کو پورے استثناے نفس کے ساتھ لے، تاکہ اس میں برکت واقع ہو، حرص و ہوس اور دل کی رغبت و شوق سے اسے نہیں لینا چاہیے۔ بندے کے ہاں مال کی حیثیت ایسی ہوجائے کہ اس کی ضرورت تو ہے، مگردل میں اس کی کوئی جگہ نہیں، اور مال و دولت کے لیے دوڑ دھوپ صرف اتنی اور اس حد تک ہونی چاہیے، جیسی قضاے حاجت کے لیے ہوتی ہے۔ ترمذی کی ایک مرفوع حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جس پر اس حال میں صبح آئی کہ دُنیا کا حصول ہی اس کا سب سے بڑا مطمح نظر تھا، تو اللہ اس کے معاملات کو پراگندا کردے گا، اور اس کے وسائل رزق کو منتشر کردے گا، اور دُنیا میں سے اسے صرف اتنا ہی حصہ ملے گا، جو اس کی قسمت میں لکھا ہے ، مگر جس پر صبح اس حال میں آئی کہ آخرت ہی اس کا سب سے بڑا مطمح نظر تھا، تو اللہ اس کے معاملات کو سنوار دے گا، اس کے دل میں استغنا اور بے نیازی پیدا کردے گا، اور دنیا مجبور و رُسوا ہوکر اس کے قدموں میں آگرے گی‘‘۔
ایک بزرگ کا قول ہے کہ تمھیں دُنیا میں سے حصہ پانے کی ضرورت تو ہے، مگر آخرت میں سے حصہ پانے کی تمھیں اس سے کہیں زیادہ ضرورت ہے، لہٰذا اگر تم نے آخرت کے حصے سے آغاز کیا، تو دنیا کا حصہ تمھیں خود بخود مل کر رہے گا۔
جہاں تک صنعت و حرفت، تجارت و زراعت یا عمارت سازی اور رزق کے اس طرح کے دیگر وسائل و ذرائع میں سے کسی ایک کو دوسرے پر فوقیت دینے کا تعلق ہے، تو اس کا دارومدار ہرآدمی کے طبعی میلان پر ہے۔ اس بارے میںکوئی لگابندھا اُصول و قاعدہ میرے علم میں نہیں ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص ان میں سے کسی پیشے کو اختیار کرنا چاہے، تو اسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سکھائے ہوئے استخارہ پر عمل کرنا چاہیے۔ اس میں ناقابلِ بیان حد تک برکت ہے۔ اس کے بعد جو چیز اسے میسر ہوجائے، اسے چھوڑ کر خواہ مخواہ بلاضرورت کسی اور پیشے میں ٹانگ نہ اُڑائے، اِلا یہ کہ اس میں کوئی شرعی قباحت ہو۔
انسان کو سب سے بڑ ھ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اَوامر و نواہی اور آپؐ کے کلام کے مقاصد اور حکمتوں کو سمجھنا چاہیے۔ اگر اس کا دل اس بات پر مطمئن ہوجائے کہ کسی بات کے سلسلے میں حضوؐر کا یہی مطلب اور غرض تھی، تو اسے اللہ کے اور بندوں کے ساتھ تعلق میں حتی الوسع، اسے چھوڑ کر کسی اور بات پر عمل نہیں کرنا چاہیے۔ بندے کو کوشش کرنی چاہیے کہ اس کے پاس علم کے تمام ابواب کے متعلق حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول بنیاد موجود ہو۔
اگر اختلاف کی وجہ سے کسی معاملے میں اسے شرح صدر حاصل نہ ہو، تو مسلم میں حضرت عائشہؓ کی روایت میں سکھائی گئی دُعا کرے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب رات کو نماز پڑھنے کے لیے اُٹھا کرتے تو فرماتے: ’’میرے اللہ! جبریلؑ ، میکایلؑ اور اسرافیلؑ کے رب، زمین و آسمان کے پیدا کرنے والے، کھلے چھپے کے جاننے والے، تو ہی اپنے بندوں کے اختلافات کے درمیان صحیح فیصلہ کرسکتا ہے، جس میں اختلاف ہے، تو حق کی طرف میری رہنمائی فرما، تو جسے چاہتا ہے سیدھا راستہ دکھاتا ہے‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے خود بھی حدیث قدسی میں فرمایا ہے: ’’میرے بندو، تم سب گمراہ کر دہِ راہ ہو، مگر جسے مَیں ہدایت دوں، لہٰذا مجھ ہی سے رہنمائی طلب کرو، میں تمھیں راہ دکھائوں گا‘‘۔
کتابوں میں بخاری سے زیادہ مفید کوئی اور کتاب نہیں ہے، لیکن اس کے باوجود یہ نہیں کہا جاسکتا کہ علم کے تمام اصول و مبادی اس میں آگئے ہیں۔ علم کے مختلف ابواب اور فروع میں تبحر کی خواہش رکھنے والا شخص اپنا پورا مقصد صرف اسی کتاب پر انحصار کر کے حاصل نہیں کرسکتا۔ اس لیے کہ دیگر احادیث اور ان معاملات کے بارے میں اہلِ علم و فقہ کے اقوال و آرا کا جاننا بھی ضروری ہے، جن کا علم ان حضرات ہی کے ساتھ مخصوص ہے۔ تاہم، جس شخص کو نُورِ بصیرت سے محروم رکھا گیا ہے، کتب کی بہتات، اس کی سرگردانی اور گمراہی میں اضافہ ہی کرے گی، جیساکہ آں حضوؐر نے حضرت ابوعبیدہ انصاریؓ سے فرمایا تھا: ’’کیا یہود و نصاریٰ کے پاس تورات و انجیل موجود نہیں ہے؟ انھوں (تورات و انجیل) نے انھیں کیا فائدہ پہنچایا؟‘‘۔( وصیّتِ صغریٰ)
تاریخ کے فیصلے بھی دل چسپ ہوتے ہیں۔ ایک فرد ملک کا غدار ہوتا ہے مگر دوسرے کا ہیرو، اور ایک قوم کا دشمن تو دوسری قوم کی آنکھوں کا تارا قرار دیا جاتا ہے۔ جدوجہد انسانی تاریخ کا حصہ ہے، لیکن جب سے قومی ریاست کے تصور نے انسانی سوچ پر غلبہ پایا ہے، اس جدوجہد کا رُخ زیادہ تر قومیت کے تصور کی جانب ہوگیا ہے، اور ’قوم پرست‘ کی اصطلاح میڈیا میں استعمال ہونے لگی ہے۔
پاکستان میں تین مرتبہ وزیراعظم بننے والے میاں نواز شریف صاحب کی سیاسی منصوبہ سازی اور فیصلو ں پر ممکن ہے کسی کو اختلاف ہو یا اتفاق، لیکن سچی بات ہے کہ تحریک ِ پاکستان، قیامِ پاکستان اور تعمیر پاکستان کے حوالے سے ان کے بعض بیانات میں معلومات کا ادھورا پن، سخت تکلیف کا سبب بنتا ہے، اور وہ بھی اس صورت میں،جب کہ وہ ایک طرح سے مسلم لیگ کی قیادت بھی کر رہے ہیں۔ گذشتہ دنوں ان کی جانب سے یہ کہنا کہ: ’’مجیب محب ِ وطن تھا، اسے باغی بنا دیا گیا… اتنے زخم نہ لگائو کہ جذبات قابو میں نہ رہیں‘‘۔ سچی بات ہے کہ یہ بیان نہ صرف حقائق کے منافی ہے، بلکہ باعث ِ اذیت بھی۔ اس ضمن میں یہاں کسی علمی، تحقیقی اور تجزیاتی بحث کے بجاے صرف ایک حوالے سے گزارشات پیش کر رہا ہوں۔
جب یہ کہا جائے کہ: ’شیخ مجیب الرحمٰن پاکستان توڑنے کی تحریک کا سربراہ تھا اور وہ طویل عرصے سے ہندستان کی مدد سے بنگلہ دیش کے قیام کے لیے جدوجہد کر رہا تھا‘، تو اس کے جواب میں ایک افلاطونی گروہ مشرقی پاکستان کی محرومیوں یا بے انصافیوں کا رقّت آمیز انداز میں ذکر کرکے پورے مسئلے کو گڈمڈ کردیتا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ مجیب نے تحریک ِ پاکستان میں کارکن کی حیثیت سے حصہ لیا تھا اور پھر صدارتی انتخابات میں فیلڈمارشل صدر ایوب خان کے خلاف محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت کی تھی وغیرہ وغیرہ۔ لیکن اس کے ساتھ حقیقت یہ بھی ہے کہ وہ درپردہ بھارت سے رابطے میں تھا اور ’آزاد بنگلہ دیش‘ ہی اس کی منزل تھی۔ یہاں قابلِ غور بات یہ ہے کہ دنیا کا کوئی بھی ملک یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ اس کے تمام صوبے یا اکائیاں، تمام قصبے، گائوں اور شہر ایک جیسے خوش حال ہیں لیکن اس عدم توازن سے کبھی ملک توڑنے کا جواز پیدا نہیں ہوتا۔ محب ِ وطن قائدین، اتحاد کے فریم ورک کے اندر رہتے ہوئے اپنی اکائی یا صوبے کے حقوق کے لیے جدوجہد کرتے ہیں اور کبھی دشمن قوتوں کو ساتھ ملاکر ملک توڑنے کی سازش نہیں کرتے۔
مثال کے طور پر مشرقی پاکستان کے بڑے اور اہم لیڈران کرام میں خواجہ ناظم الدین، اے کے فضل الحق، حسین شہید سہروردی، نورالامین، ڈاکٹر ایم اے مالک، فضل القادر چودھری، مولوی تمیزالدین، پروفیسر غلام اعظم، مولوی فریداحمد اور عبدالحمید خاں بھاشانی وغیرہ شامل تھے۔ بھاشانی صاحب سوشلزم کے پرچارک تھے اور فضل الحق نے مشرقی پاکستان کے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے کلکتہ کے دورے کے دوران، متحدہ بنگال کا مطالبہ کردیا تھا، جو مشرقی پاکستان میں گورنر راج کا باعث بنا۔ ان دو حضرات کے علاوہ تمام لیڈر حضرات متحدہ پاکستان کے فریم ورک کے اندر رہ کر بنگالیوں کے حقوق کے لیے سیاسی جدوجہد میں یقین رکھتے تھے اور نہایت محب وطن تھے۔
فروری ۱۹۴۸ء میں پاکستان کی دستور سا ز اسمبلی نے اُردو کو قومی زبان قرار دیا، تو قومی سوچ کے حامل بنگالی لیڈروں نے بنگلہ کو بھی قومی زبان بنانے کے لیے سیاسی، آئینی جدوجہد جاری رکھی اور نتیجے کے طور پر مئی ۱۹۵۴ء میں بنگلہ کو بھی دستور ساز اسمبلی نے قومی زبان قرار دیا، اور پھر ۱۹۵۶ء کے دستورِ پاکستان میں اُردو اور بنگلہ قومی زبانیں قرار پائیں۔ پھر جغرافیائی مجبوری کو سمجھتے ہوئے انھی بنگالی لیڈروں نے ۱۹۵۶ء کی دستور سازی میں اہم کردار سرانجام دیا اور دونوں صوبوں کے درمیان آباد ی کے فرق کے بجاے برابری (پیرٹی) کے اصول کو تسلیم کیا۔ اگر اکتوبر ۱۹۵۸ء میں جنرل ایوب خان کا مارشل لا نہ لگتا تو ۱۹۵۶ء کے آئین کے تحت پاکستان ایک جمہوری، اسلامی اور فلاحی ریاست کی حیثیت سے اُبھرتا۔
مطلب یہ کہ ایک طرف وہ بنگالی قیادت تھی، جو پاکستان کی سالمیت، اتحاد اور استحکام میں یقین رکھتی تھی اور دوسری طرف شیخ مجیب الرحمٰن بھی قومی سیاست میں متحرک تھا۔ مشرقی پاکستان کی کابینہ میں وزیر بھی رہا، لیکن باطنی طور پر قیامِ پاکستان کے کچھ ہی عرصے بعد سے ’آزاد بنگلہ دیش‘ کا حامی تھا۔ مجھے اپنے ان احباب کے فہم پر حیرت ہوتی ہے جو مجیب الرحمٰن پر حُب الوطنی کا ’الزام‘ لگاتے ہیں۔ حالانکہ خود مجیب الرحمٰن نے ببانگ دہل جنوری ۱۹۷۲ء میں برطانوی صحافی ڈیوڈ فراسٹ کوٹی وی انٹرویو میں کہا تھا کہ: ’’میں تو ۱۹۴۸ء سے ’آزاد بنگلہ دیش‘ کے قیام کے لیے کام کر رہا تھا‘‘۔ کیا ان ’دانش ور‘ حضرات کی بے جا سینہ کوبی اور سرٹیفکیٹ کے اجرا کے برعکس مجیب الرحمٰن کا اعترافی بیان زیادہ بھاری اور مقدم نہیں ہے؟
سوال یہ ہے کہ شیخ مجیب الرحمٰن اپنے اعلان کے مطابق ۱۹۴۸ء سے کیوں بنگلہ دیش کا خواب دیکھ رہا تھا؟ پس منظر کے طور پر یہ جاننا ضروری ہے کہ فروری ۱۹۴۸ء میں پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے یہ فیصلہ کیا کہ ’پاکستان کی سرکاری زبان اُردو ہوگی‘۔ اس فیصلے کی بنگالی ارکان اسمبلی کی ایک تعداد نے حمایت کی تھی، اور بالخصوص بنگال سے کانگریس کے ارکان اسمبلی نے مجموعی طور پر مخالفت کی تھی۔ اس فیصلے کے خلاف مشرقی پاکستان میں غم و غصے کی لہر پھیلا کر ہنگامے کیے گئے۔ مارچ ۱۹۴۸ء میں قائداعظم نے مشرقی پاکستان کا دورہ کیا اور اپنی تقاریر میں واضح کیا کہ آپ اپنے صوبے کی حد تک بنگلہ کو سرکاری زبان اور ذریعۂ تعلیم بنا لیں، لیکن قومی رابطے کی زبان اُردو ہوگی، جسے پورے ملک میں بولا اور سمجھا جاتا ہے۔تاہم، بنگلہ آبادی کی اکثریت کے احساس کو شیخ مجیب جیسے شورش پسند لوگوں نے احتجاج اور انارکی کی راہ پر ڈالنے کے لیے سرتوڑ کوششیں شروع کردیں۔ قرائن و شواہد بتاتے ہیں کہ مجیب کے ذہن میں علیحدگی کے جراثیم اسی وقت سے پرورش پانے لگے تھے۔ اسی لیے اس نے ڈیوڈفراسٹ کے سامنے سچ بولتے ہوئے یہ اعتراف کیا کہ میں ۱۹۴۸ء سے علیحدگی کے لیے کام کرتا رہوں۔
اسی طرح شیخ مجیب کی بیٹی حسینہ واجد نے بھی چند برس قبل اپنے انٹرویو میں انکشاف کیا کہ جب وہ اپنے والد کے ساتھ لندن کے ایک اپارٹمنٹ میں رہ رہی تھی تو وہاں ہندستانی ’را‘ کے افسران آیا کرتے تھے، جن سے مل کر بنگلہ دیش کے قیام کے لیے منصوبہ سازی ہوتی تھی۔ کیا دشمن ملک کے ساتھ سازباز کرکے اپنا ملک توڑنا حب الوطنی ہے؟ جب مجیب نے دعویٰ کیا ہے کہ مَیں تو۱۹۴۸ء سے بنگلہ دیش کے قیام کے لیے کام کر رہا تھا، تو یہاں پر بتایا جانا چاہیے کہ اس وقت مشرقی پاکستان سے کون سی زیادتیاں ہوئی تھیں، جنھوں نے اسے صرف ایک سال کے اندر اندر یہ جواز مہیا کیا تھا؟ ناانصافی کا جواز ہو بھی تو حب الوطنی کا تقاضا ملکی اتحاد کے اندر رہ کر سیاسی جدوجہد کرنا ہوتا ہے نہ کہ ملک توڑنا۔
شیخ مجیب الرحمٰن کے عزائم، ’را‘ سے تعلقات، ہندستانی حمایت اور یلغار پر کئی کتابیں ہندستان، انگلستان اور دوسرے ممالک میں چھپ چکی ہیں۔ جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ہندستان کی مالی، سیاسی اور فوجی مدد کے بغیر مجیب الرحمٰن کبھی بھی اپنے ارادوں میں کامیاب نہ ہوسکتا تھا۔ یہ موضوع تفصیلی بحث کا متقاضی ہے۔
سوانح عمری کے انداز میں لکھی گئی وہ کتاب کہ جسے چشم دید گواہ نے بیان کیا ہو، تاریخ کا حصہ تصور ہوتی ہے، بشرطیکہ گواہ قابلِ اعتماد ہو۔ آگے بڑھنے سے پہلے یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ ہمارے اکثر لکھنے اور بولنے والے حضرات و خواتین،تحقیق اور انصاف کے بجاے جذباتی اور غصیلے انداز سے فتویٰ جاری کردیتے ہیں اور تجزیے کے بجاے مخالفین کی القابات سے تواضع کرتے ہیں جس سے تاریخی مقدمات کا صحیح پس منظر نگاہوں سے اوجھل ہوجاتا ہے۔فی الحال اس سلسلے کی ایک اہم کتاب کا حوالہ پیش کیا جارہا ہے۔ یہ کتاب اس لیے اہم ہے کہ اس میں ایک چشم دید بلکہ اس سازش میں شامل ایک اہم کردار کے اعترافات شامل ہیں۔ یہ کتاب ستمبر ۲۰۱۱ء میں شائع ہوئی، جس کے مصنف کا نام ہے ساشنک ایس بینرجی (Sashank S. Banerjee) اور عنوان India, Mujib-ur-Rehman, Bangladesh Libration & Pakistan ہے۔اس کتاب کا مصنف ڈھاکہ کے ہندستانی قونصلیٹ میں پولیٹیکل افسر کی حیثیت سے متعین تھا۔ پولیٹیکل افسر کا مطلب انٹیلی جنس افسر ہوتا ہے۔
بینرجی نے لکھا ہے: ’’۲۵دسمبر ۱۹۶۲ء کو جب میں کرسمس پارٹی سے فارغ ہوکر نصف شب کو گھر پہنچا تو پیغام ملاکہ ڈھاکہ کے ممتاز بنگلہ اخبار روزنامہ اتفاق کے ایڈیٹر مانک میاں (تفضل حسین) بلارہے ہیں۔ روزنامہ اتفاق کا دفتر قریب ہی تھا۔ میں وہاں گیا تو مانک میاں نے شیخ مجیب الرحمٰن سے میرا تعارف کروایا، جو وہاں پہلے سے موجود تھا۔ دو گھنٹے کی اس ملاقات میں مانک میاں نے وضاحت کی کہ وہ دراصل اٹانومی (صوبائی خودمختاری) کی آڑ میں بنگلہ دیش کے قیام کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ مجیب الرحمٰن نے کہا کہ مجھے اپنی جدوجہد کے لیے ہندستان کی مدد کی ضرورت ہے۔ پھر مجیب نے مجھے ہندستان کے وزیراعظم جواہر لعل نہرو کے نام ایک خط دیا، جسے ڈپلومیٹک بیگ سے بھجوایا جانا تھا۔ اس خط میں بنگلہ دیش کی آزادی کا روڈمیپ دے کر ہندستان سے ہرقسم کی مدد کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ میں نے اپنے باس کو خط دکھا کر بیگ کے ذریعے نئی دہلی بھجوا دیا۔ مجیب نے خط میں یہ بھی لکھا تھا کہ مَیں نہرو سے خفیہ ملاقات کرنا چاہتا ہوں اور لندن شفٹ ہوکر یکم فروری ۱۹۶۳ء کو بنگلہ دیش کی آزادی کا اعلان کردوں گا اور عبوری حکومت قائم کر دوں گا، جب کہ مانک میاں ڈھاکہ میں رہ کر اپنے اخبار کے ذریعے لوگوں میں آزادی کا شعور بیدار کرتا رہے گا۔ وزیراعظم نہرو نے خط ملتے ہی اپنے انٹیلی جنس چیف سے میٹنگ کی اور پھر اپنے سیکورٹی مشیروں سے مشورہ کر کے مجیب کو پیغام بھیجا کہ ہم حکمت عملی پر غور کر رہے ہیں‘‘۔
آگے چل کر بینرجی نے بتایا ہے: ’’دراصل چین سے شکست کی ذلت اُٹھانے کے بعد نہرو پریشان تھا، تاہم اس کے باوجود اس نے مجیب کے خط کو حد درجہ اہمیت دی۔ جواب آنے میں کچھ تاخیر ہوئی تو مجیب صبر نہ کرسکا اور بغیرپاسپورٹ بارڈرکراس کر کے ہندستانی ریاست تری پورہ کے دارالحکومت ’اگرتلہ‘ چلا گیا اور وہاں کے وزیراعلیٰ سچندرا لال سنگھ سے ملاقاتیں کرکے اس سے بھی یہی استدعا کی۔ مجیب واپس آیا تو میں نے اسے وزیراعظم نہرو کا پیغام دیا کہ ’’ہندستان آپ کی پوری مدد کرے گا، لیکن فی الحال بین الاقوامی صورت حال موزوں نہیں۔ لندن جانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ آپ ڈھاکہ میں رہ کر کام کریں اور وزیراعظم نہرو سے رابطے کے لیے صرف ڈھاکہ کے ہندستانی ڈپلومیٹک مشن کو استعمال کریں۔ جلدبازی نہ کریں، مناسب موقعے کا انتظار کریں۔ جس دن آپ کے جلسے میں ۱۰لاکھ لوگ آگئے تو آپ لیڈر بن جائیں گے۔ آپ سیاسی قوت میں اضافے کے ساتھ ساتھ چندا مہم شروع کریں۔ ہندستان مالی امداد بھی دے گا اور رہنمائی بھی کرے گا‘‘۔ وہ مزید لکھتا ہے کہ ’’اس دوران مشرقی پاکستان کے انٹیلی جنس بیورو کو مجیب کی اگرتلہ یاترا کا پتا چل گیا اور مجیب گرفتار ہوگیا۔ مقدمہ چلتا رہا اور اس نے مجیب کو ایک انقلابی لیڈر بنادیا۔ صدر ایوب خان کے خلاف تحریک چلی تو دبائو کے تحت فروری ۱۹۶۹ء میں مجیب کو رہا کر دیا گیا۔ مجیب کا چھے نکاتی پروگرام بھی ملک توڑنے کا خاکہ تھا۔ جنرل یحییٰ خان اقتدار میں آیا۔ ’ون مین ون ووٹ‘ کی بنیاد پر انتخابات ہوئے، اقتدار منتقلی کے بجاے مارچ میں آرمی ایکشن ہوا۔ دسمبر ۱۹۷۱ء میں ہندستانی فوج نے مشرقی پاکستان فتح کرکے بنگلہ دیش بنادیا‘‘۔
مصنف نے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا ہے کہ کس قدر تھوڑے عرصے میں ہندستان کے روڈمیپ پر عمل ہوا اور مشن پایۂ تکمیل کو پہنچا۔ کتاب کے حوالے سے یہ بہت مختصر تفصیلات درج کی جارہی ہیں۔ بہرحال اس میں کوئی شبہہ نہیں کہ ہماری سیاسی غلطیوں اور آمریتوں نے مجیب کا کام آسان بنادیا، لیکن یہ ایک تاریخی سچ ہے کہ مجیب علیحدگی چاہتا تھا اور ہندستان کی مدد سے ’آزاد بنگلہ دیش‘ کے قیام کے لیے طویل عرصے سے جدوجہد کر رہا تھا، جس کی تصدیق مزید بہت سے مستند ذرائع سے ہوتی ہے۔
بھارتی بدنامِ زمانہ خفیہ ایجنسی ’را‘ کے بانی بی رامن نے اپنی کتاب Role of Raw میں اعتراف کیا ہے کہ ۱۹۶۵ء کی جنگ میں پاکستان کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچانے میں ناکامی کے بعد سے، مشرقی پاکستان کو الگ کرنے کے لیے پانچ نکاتی پروگرام پر پوری قوت سے کام کا آغاز کیا گیا اور بنگلہ دیش کی پیدایش اسی کا منطقی نتیجہ ہے۔ اسی طرح بنگلہ دیشی پارلیمنٹ کا ڈپٹی اسپیکر شوکت علی، پارلیمنٹ میں کھڑے ہوکر یہ اعلان کرتا ہے کہ ’’میں بھارت کو سو فی صد کریڈٹ دیتا ہوںکہ اس نے بنگلہ دیش کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کیا‘‘۔ (روزنامہ انڈی پنڈنٹ، ڈھاکہ، ۱۷دسمبر ۲۰۱۱ء)
اس پس منظر میں لوگوں کو اس سوال کا جواب بھی مل جائے گا کہ مجیب کی سیاسی وارث حسینہ واجد اتنے طویل عرصے کے بعد کیوں جھوٹے مقدمے قائم کرکے، اور جعلی عدالتیں بنا کر جماعت اسلامی کے ا ن حضرات کو پھانسیاں دے رہی ہے، کہ جنھوں نے ۱۹۷۱ء میں پاکستان کو متحد رکھنے کے لیے برحق جدوجہد کی تھی؟ اسی طرح ۱۹۴۷ء میں ہجرت کر کے آنے والے بہاری پاکستانیوں کو کیوں آج تک مہاجرکیمپوں میں محدود رکھا گیا ہے اور انھیں شہریت دینے سے کیوں انکاری ہے؟ مجیب کا انجام دُنیا دیکھ چکی ہے، اب دیکھیں اس کی جانشین کا کیا انجام ہوتا ہے؟
حاجی شریعت اللہ ’فرائضی تحریک‘ کے بانی، ممتاز عالم دین ، ہادیِ قوم ، نام وَرسماجی مصلح اور سب سے بڑھ کر ملّی اور قومی بیداری کے پیش رو تھے۔ وہ بنگال کے پہلے آدمی تھے، جنھوں نے ’فرائضی تحریک‘ کی بنیاد ڈال کر بنگالی مسلمانوں کو اپنے بل بوتے پر کھڑے ہونے کی تعلیم دی۔ ان کے خیالات واعتقادات کی خرابیاں دور کرنے کی کوشش کی۔ ان میں پھیلی جاہلانہ ومشرکانہ مراسم کے خلاف آواز بلند کی۔ مروجہ بدعات پر کاری ضرب لگائی۔ مسلم معاشرے کی اقتصادی ومعاشی حیثیت بلند کرنے کی فکر کی۔ انھیں ہندئووں اور انگریزوں کے ظلم واستبداد سے بچانے کی تدبیر سوچی۔
انیسویں صدی عیسوی کے پہلے حصے میںبنگالی مسلمانوں کے حالات برعظیم پاک وہند کے اور علاقوں کے مسلمانوں کی نسبت کہیں زیادہ ابتر تھے۔ یہاں کے مسلمان برعظیم میں سب سے پہلے، یعنی ۱۷۵۷ء ہی میں اپنی آزادی کھو چکے تھے۔ یہی لوگ انگریزوں کی سامراجی حکومت کی چیرہ دستیوں سے کراہ رہے تھے۔ قومی آزادی کھو کر ان کی مالی حالت اور تعلیمی صلاحیت پست سے پست تر ہونے لگی۔ ان پر ادبار، افلاس اورجہالت کی گھٹائیں چھانے لگیں۔ ہندو زمین داروں کے معاشی ظلم وجبر اور انگریزی سامراجی حکومت کی زبر دستیوں سے ان کی زندگی دو بھر ہو گئی تھی۔
بت پرست ہندئووں کے ساتھ طویل مدت کی رہایش واختلاط سے ان میں غلط رسمیں اور گمراہ کن عقائد پیدا ہو گئے تھے۔ وہ مذہب اسلام کے صحیح جذبات واحساسات سے دور ہٹتے جارہے تھے۔ اس نامسعود اور نازک حالت میں حاجی شریعت اللہ صاحب بیداری اور ہدایت کا پیغام لے کر مسلمانوں کی رہنمائی کے لیے میدانِ عمل میں اُترے۔ انھوں نے سر زمین بنگال میں بیداری، آزادی اور بغاوت کا علَم اس وقت بلند کیا ، جب کہ سیّد احمد شہید بریلویؒ [شہادت: ۶مئی ۱۸۳۱ء] اور ان کے مجاہدین آزادی سرحد کے علاقوں میں سکھوں اور انگریزوں کے خلاف لڑرہے تھے۔
حاجی شریعت اللہ صاحب ۱۷۸۰ء میں ضلع فرید پور میں بمقام شمائل ایک معمولی معاشی پس منظر کے حامل مسلم گھرانے میں پیدا ہوئے ۔ بعد میں حاجی صاحب کے نام پر شمائل ’حاجی پور‘ کے نام سے موسوم ہوگیا۔ کم عمری ہی میں دینی علوم میں مہارت اور تفقہ کی بنیاد پر بنگال کے معروف اور جیّد علما میں شمار کیے جانے لگے۔ ان کے پہلو میں ایک حساس دل تھا اور وہ اسلام کے درد سے بھرا ہو ا تھا، مسلم معاشرے کی اَبتری اور زبوں حالی کو دیکھ کر ان کے دل میں اسے سدھارنے کا جذبہ موجزن ہوا۔ انھوں نے ہدایتِ قوم، اصلاح معاشرت اور تعمیر ملّت کو اپنی زندگی کا مقصد بنایا۔ وہ اٹھارہ سال کی عمر میں ۱۷۹۸ء حج کو مکہ تشریف لے گئے اور ۲۰سال وہاں اکتسابِ علم میں گزارے ۔ انھوں نے وہاں شافعی مذہب کے شیخ طاہر سنبل کی شاگردی اختیار کی۔ قیامِ مکّہ میں حاجی صاحب سلفیوں کے نظریات سے بہت متاثر ہوئے۔ سلفیوں کی طرح وہ بھی حج کے موسم میں وہاں بنگالی حاجیوں کو اصلاح معاشرت اور حصول آزادی پر اُبھارتے رہے۔
۱۸۱۸ء میں حاجی صاحب ایک ماہر عالم دین اور زبر دست مناظربن کر اپنے ملک واپس آئے اور قوم کی اٹھان کی طرف ہمہ تن متوجہ ہو گئے۔ ان کا ایک مطمح نظر تھا ۔ اس لیے اپنی منزلِ مقصود تک پہنچنے کے لیے انھوں نے ’فرائض ‘ کے نام سے ۱۸۱۸ء میں ایک تحریک کی بنیاد ڈالی۔ انھوں نے فرائض کی ادایگی پر زیادہ زور دیا اور اس تحریک کو ’فرائضی‘ کے نام سے موسوم کیا۔
’فرائضی تحریک‘ کا مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کو اسلام کے صحیح جذبات سے سرشار کیا جائے۔ ان میں آزادی کی روح پھونکی جائے ۔ ان کی اخلاقی اور معاشی حیثیت کو بلند کیا جائے ۔ ان کی تعلیمی صلاحیت کو فروغ دیا جائے۔ انھیں انگریز افسروں اور ہندو زمین داروں کے مظالم سے رہائی دلائی جائے۔ ان میں اتفاق واتحاد کا جذبہ پیدا کیا جائے۔ بانیِ تحریک حاجی صاحب نے ببانگِ دہل اعلان کیا: ہمارا ملک ’دارالاسلام‘ نہیں۔ یہ فرنگی حکومت کے تحت آکر ’دارالحرب‘ بن چکا ہے۔ اس لیے یہاں اسلامی نظام اور شرعی احکام پر پورا پورا عمل درآمد نہیں ہوسکتا۔ انھوں نے صاف صاف یہ راے ظاہر کی کہ نمازِ جمعہ اور نمازِ عید کی ادایگی کے لیے ’دارالاسلام‘ کی ضرورت ہے، سازگار ماحول کی ضرورت ہے اور یہ انگریزی حکومت میں ناپید ہے۔ اس لیے یہ نمازیں یہاں ادا نہیں ہوسکتیں ۔ انھوں نے مزید یہ بھی کہا کہ آزاد مسلمان ہی جمعہ کے خطبے میں اپنے سلطان کا نام لے سکتے ہیں۔ آزاد قوم ہی عید کی خوشی منا سکتی ہے۔ غلام قوم کو یہ خوشی منانے کا حق نہیں پہنچتا ۔ اس اعلان سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ حاجی صاحب کے دل میں بدیسی حکومت کے خلاف کسی قدر نفرت تھی۔ انھوں نے اس امر کی طرف مسلمانوں کی توجہ مبذول کرائی کہ مذہبی احکام کی پوری پابندی ہوہی نہیں سکتی، جب تک کہ حکومت کی باگ ڈور انگریزوں کے ہاتھوں میں ہو۔ لہٰذا، دین اسلام کی اصل روح اور وجود کی بازیابی کے لیے انھیں چاہیے کہ وہ اپنے ملک کو ’دارالاسلام‘ بنانے پر کمر بستہ ہو جائیں۔
انگریزی حکومت کے تحت رہ کر ایسے باغیانہ جذبے کا اظہار کرنا اور مسلم عوام کو اس کے خلاف بر سرِ پیکار کر دینا حددرجہ جرأت مندانہ اقدام تھا ۔ حاجی صاحب ایک مرد مجاہد تھے ۔ اسلام اور مسلمانوں کی خاطر ہر قربانی پر تیار تھے۔ انھوں نے مسلم عوام کو دلدل میں پھنسے ہوئے دیکھ کر انھیں ذلّت اور پستی سے نکالنے کا پختہ عزم کر لیا۔
حاجی صاحب کی سعی رائیگاں نہ گئی ۔ ان کی ہدایات اور بیانات سے مسلمانوں میں آزادی کا جذبہ پروان چڑھنے لگا۔ جلد ہزاروںمسلمان جوق در جوق ان کے پیچھے صف آرا ہو کر کھڑے ہو گئے۔ کسانوں اور جولاہوں نے بھاری تعداد میں ان کی دعوت پر لبیک کہا۔ اس لیے کہ یہ لوگ زمین داروں کے شکنجوں میں پھنسے ہوئے تھے۔ شروع شروع میں یہ تحریک ضلع فرید پور میں محدود تھی۔ بعدازاں رفتہ رفتہ باقرگنج ، کوسٹیا ، کھولنا ،ڈھاکہ ، کوملا وغیرہ میں جا پہنچی اور فرائضی سلسلہ کی تعداد روز بروز بڑھتی چلی گئی ۔ مختصر عرصے میں یہ تحریک ایک طاقت بن کر کھڑی ہو گئی ۔
’فرائضی تحریک‘ دراصل ’سلفی تحریک‘ یا ’تحریک ِمجاہدین‘ کی کوئی شاخ نہ تھی مگر ان سے یقینا متاثر تھی۔ ان تحریکوں میں ایک گونہ مماثلت نظر آتی ہے۔ یہ تینوں دینی واصلاحی تحریکیں تھیں۔ تینوں نے شرک وبدعت کے استیصال کی پوری جدوجہد کی۔ خالص توحید کی تبلیغ کی۔ مسلمانوں میں اسلامی روح اجاگر کرنے کی کوشش کی، مگر مقامی حالات وکوائف کے لحاظ سے تینوں جدا گانہ خصوصیات کی حامل ضرور تھیں۔ ’فرائضی تحریک‘ ’محمدی تحریک‘ کے نام سے بھی موسوم ہوئی۔ یہ فی الحقیقت ایک دینی وذہنی انقلاب کی تحریک تھی۔ تحریک مجاہدین‘ دینی وذہنی انقلاب کی تحریک ہونے کے ساتھ ساتھ سیاسی وقومی آزادی کی ایک مسلح طاقت بھی تھی۔ ’فرائضی تحریک‘ بہ یک وقت اصلاح دین کی تحریک بھی تھی اور سماجی واقتصادی آزادی کی تحریک بھی۔ یہ بڑی حد تک کسانوں اور غریبوں کی تحریک تھی۔ گو،یہ تحریک بھی ملک کو دارالاسلام بنانا چاہتی تھی مگر اس کے پیچھے ’تحریک مجاہدین‘ کی سی کوئی مسلح طاقت نہ تھی۔ اتحاد ، یقین اور نظم ونسق ہی میں اس کی طاقت کا راز مخفی تھا۔
شریعت اللہ نے بدیسی حکومت کے خلاف صداے احتجاج بلند کر کے دم نہیں لیا بلکہ انھوں نے اپنے معاشرے کی اصلاح وتعمیر کے لیے بھی قدم اٹھایا ۔ ہندئووں اور دوسرے مذاہب کے لوگوں کے ساتھ مدت دراز تک رہنے سہنے اور ملنے جلنے کی وجہ سے مسلمانوں میں غیر اسلامی مراسم رواج پاگئے تھے۔ ان کے عقائد میں فتور آ گیا تھا۔ حاجی صاحب نے اس کے ازالے کے لیے پُر زور تبلیغ شروع کی۔ انھوں نے پیروں کے مزاروں پر نذریں ماننا ، شرینی بانٹنا ، محرم کا تعزیہ نکالنا ، ہندووانہ تقریبات میں شریک ہونا غیر اسلامی کام قرار دیا۔ پیری اور مریدی کی مروجہ رسم کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ پیر اور مرید کے درمیان استاد اور شاگرد کا تعلق ہونا چاہیے۔ پیروں کو روحانیت کے سلسلہ وار رشتوں کے ادعا کرنے یا نسلاً بعد نسل سجادہ نشین ہونے کا حق حاصل نہیں۔ بیاہ شادی کی تقریبوں اور سماج کی دوسری رسموں میں اسراف کرنا بھی حاجی صاحب کو ایک آنکھ نہیں بھایا۔ وہ مسلمانوں کوہندو ساہو کاروں سے قرض لینے اور فضول خرچ کرنے سے باز رکھتے ۔ ان کی کوشش سے بہت سے لوگ مسلمان ہوئے ۔ بہت سے مکتب و مدرسے قائم ہوئے۔ قرآن اور حدیث کے تعلیمی ادارے کھو لے گئے۔
حاجی شریعت اللہ کا مقابلہ صرف مسلمانوں میں جڑ پکڑنے والے ہندوانہ رسوم ورواج کے خلاف نہ تھا، بلکہ ان کی چپقلش ستم کیش ہندو زمین داروں سے بھی تھی ۔ اس لیے کہ یہی لوگ انگریزی حکومت کے ایجنٹ اور اس کے پروردۂ نازو نعمت تھے۔ انیسویں صدی عیسوی کے شروع میں یہ لوگ حکومت کے سایۂ عاطفت میں بہت زیادہ اثرورسوخ رکھتے تھے۔ وہ عام مسلمانوں خاص کر غریب کسانوں کی کمزوری سے فائدہ اٹھا کر ان پر طرح طرح کے مظالم توڑتے تھے۔ انھیں ہندو تقریبات میں شرکت کرنے پر مجبور کیا جاتا۔ ان کی داڑھی پر ٹیکس لگا یا جاتا۔ حاجی صاحب غیور اور جسور آدمی تھے۔ وہ ان بُری حرکتوں کو کب برداشت کر سکتے تھے۔ انھوں نے خاموش تماشائی کا کردار ادا نہیں کیا، بلکہ ان ملحدانہ دست اندازیوں کے خلاف دور رس مہم شروع کی۔ اگرچہ فرائضیوں کے ہاتھوں میں سید احمد شہید اور ان کے مجاہدین کی سی کوئی مسلح طاقت نہ تھی، تاہم انھوں نے اپنی پُرجوش تقریروں ، مناظروں اور اخلاقی قوت کے بل پر ہندو زمین داروں کو لرزہ براندام کر دیا۔ ان کی تبلیغ واشاعت سے سرزمینِ بنگال کے وسیع علاقے میں بیداری کی لہر دوڑ گئی۔
حاجی صاحب کے اثر ورسوخ اور ان کی اصلاحی تحریک کی کامیابی کے متعلق ان کے ہم عصر انگریز مصنف ڈاکٹر جیمس وائز نے اپنی کتاب Mohammadans of Eastern Bengal میں یوں اظہار خیال کیا: ’’بنگال کے مسلمانوں میں، ہندئووں کے شرک وکفر کی قربت میں طویل عرصہ گزارنے اور رہنے سہنے کی وجہ سے عقائد میں جو بنیادی خرابیاں پیدا ہو گئی تھیں، حاجی شریعت اللہ نے ان کے خلاف پہلے مبلغ کی حیثیت سے آواز بلند کی۔ اس لیے مسلم بنگال کی تاریخ میں ان کی بڑی ہی اہمیت ہے۔ بنگال کے بے شعو ر اور بے حس کسانوں میں سرگرمی اور بیداری کی لہر دوڑانے میں انھیں جو کامیابی ہوئی ہے وہ اور زیادہ حیرت انگیز کامیابی ہے۔ اس غیر معمولی کام کو انجام دینے کے لیے ان جیسے ، ایک مخلص اور ہمدرد مبلغ کی ضرورت تھی۔ لوگوں کے دل ودماغ پر اثر ڈالنے کی طاقت شریعت اللہ سے زیادہ اور کسی شخص میں نظر نہیں آتی۔
’فرائضی تحریک‘ ہندو زمین داروں کے اثر ورسوخ اور مالی مفادات پر کاری ضرب تھی۔ اس لیے وہ اس تحریک کے خلاف تُل گئے۔ انھوں نے فرائضیوں کے خلاف جھوٹے الزامات تراشے، جعلی مقدمات دائر کیے۔ صرف ہندو نہیں بلکہ مفادپرست پیروں ، مریدوں اور رواجی فقیروں کی جانب سے بھی انھیں خطرات وحوادث سے دو چار ہونا پڑا ۔ پیشہ ورانہ پیری مریدی کے خلاف حاجی صاحب نے آواز بلند کی تو خود غرض اور روایت پرست پیرو مرید ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ بہت سے بے شرع رواجی فقیر مختلف علاقوں میں بدعات میں مبتلا تھے۔ ان پر یہ اصلاحی تحریک شاق گزری تو وہ بھی حاجی صاحب اور ان کے رفقا کے خلاف زہر افشانیاں کرنے لگے۔ تاہم، فرائضی تحریک کے پیچھے روحانی برکت کار فرما تھی، جس سے وہ روز افزوں ترقی ہی کرتی گئی ۔
حاجی شریعت اللہ کے زمانے میں مولانا کرامت علی جونپوری کی ’اصلاحی تحریک‘ بھی زوروں پر تھی ۔ دراصل حاجی صاحب اور مولانا جونپوری صاحب میں بھی کوئی پرخاش نہ تھی ۔ دونوں کی تحریکیں مسلم معاشرے سے شرک وبدعت اور غیر اسلامی اثرات کے سدباب کرنے کا ایک ہمہ گیر پروگرام رکھتی تھیں۔ مگر جب حاجی صاحب نے اپنے وطن کے متعلق بیان دیا کہ: ’’یہ سرزمین انگریزی حکومت کے تحت آنے کے بعد ’دارالاسلام‘ نہیں رہی بلکہ اس کی حیثیت ’دارالحرب‘ کی سی ہو گئی ہے، اور یہاں نماز جمعہ اور نماز عید ادا کرنا جائز نہیں تو دونوں میں نااتفاقی پیدا ہو گئی ۔ مولانا جونپوری صاحب نے انگریزی حکومت کی موافقت میں یہ فتویٰ جاری کیا کہ یہ ملک ’دارالاسلام‘ نہ بھی ہو، تو ’دارالحرب‘ یقینا نہیں ہے۔ اس لیے کہ یہاں مسلمانوں کے مذہبی کاموں کی راہ میں حکومت کی جانب سے کوئی رکاوٹ مخل نہیں ہوتی۔ یہ ملک ’دارالامن‘ ہے۔ پھر حاجی صاحب کی جماعت پر ’خارجیوں کی جماعت ‘ ہونے کی تہمت لگائی، جو حددرجہ زیادتی اور ظلم تھا۔
شرک وبدعت کے خلاف جہاد کرنے والے، ظالم حکومت اور خوں خوار زمین داروں کے خلاف صداے احتجاج بلند کرنے والے، بنگالی مسلمانوں کو بیداری اور آزادی کا پیغام سنانے والے، ان کے سماجی واقتصادی حالات کے سدھارنے والے حاجی شریعت اللہ، ۱۸۴۰ء میں اپنے گائوں شمائل میں رحلت فرما گئے اور وہیں سپرد خاک ہوئے، اِنَّـا لِلہِ وَ اِنَّـا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ ۔ زمانے کی ستم ظریفی دیکھیے کہ اس نے ان کے مقبرے کو بھی صحیح سالم رہنے نہیں دیا ۔ عرصے کے بعد مقامی آڑیال خاں ندی اسے بہالے گئی ، جس سے وہ ہمیشہ کے لیے لاپتا ہو گیا ۔ حاجی صاحب مرحوم کا مکان ندی کی زد میں آنے کے بعد ان کے صاحبزادے دو دو میاں نے قریبی گائوں بہادر پور میں اپنا مکان بنا یا جہاں ابھی تک حاجی صاحب کا خاندان مقیم ہے۔ حاجی صاحب کے انتقال کے بعد ان کے لائق وفائق خلفا نے صحیح جانشینی کا ثبوت دیا۔ ان کے خلف الرشید دو دومیاں (انتقال ۱۸۶۰ء) اور ان کے محترم پوتے پیر باد شاہ میاں نے ’فرائضی تحریک‘ کو اور جلا بخشی ۔
آج عظیم شخصیت کے مالک حاجی شریعت اللہ ہم میں نہیں ہیں نہ ان کے نائب جناب دو دو میاں اور پیر باد شاہ میاں بھی ہمارے ساتھ نہیں ہیں، مگر مسلم معاشرے کی اصلاح وتعمیر کا جو آدرش انھوں نے چھوڑا ہے، وہ اس سرزمین پر بسنے والے اہلِ ایمان کے لیے مشعلِ راہ کا کام دے گا۔
شادی سے رشتے داری وجود میں آتی ہے۔ رشتے قائم کرنا، رشتے نباہنا، اور رشتہ نباہ نہ پانے کی صورت میں ختم کردینا، یہ سب زندگی کے بہت نازک مرحلے ہوتے ہیں۔ اگر زندگی گزارنے کے لیے مضبوط بنیادیں میسر نہ ہوں تو زبان پھسل جانے، قدم بہک جانے، بات بگڑجانے، زندگیاں برباد ہوجانے، اور سب سے بری بات یہ کہ پستی میں گرجانے کا ہروقت اندیشہ لگا رہتا ہے۔
اَزدواجی زندگی گزارنے کے لیے قرآن مجید دو بنیادیں عطا کرتا ہے۔ یہ دونوں کسی بھی چٹان سے زیادہ مضبوط بنیادیں ہیں۔ ان بنیادوں پر ازدواجی زندگی کی بنیاد اعتماد کے ساتھ رکھی جاسکتی ہے، اور ازدواجی زندگی کی عمارت کو اطمینان کے ساتھ بہت بلندی تک اٹھایا جاسکتا ہے۔ ایک بنیاد تقویٰ ہے اور دوسری بنیاد احسان ہے۔ یہ دونوں بنیادیں خوش گوار زندگی کی عمارت کے استحکام کی ضمانت ہیں۔ جس نے ان دونوں بنیادوں کو اپنی شخصیت کے لیے حاصل کرلیا، اسے تاحیات خوش رہنے اور خوشیاں بانٹنے کا حق حاصل ہوجاتا ہے۔
تقویٰ کا مطلب ہے، زندگی میں ہر کام کو انجام دیتے ہوئے اللہ کی ناراضی سے بچنے کی فکر کرتے رہنا، اور احسان کا مطلب ہے زندگی کے ہر کام کو اللہ کی مرضی کے شایان شان بہتر سے بہتر طریقے سے انجام دیتے رہنا۔ گویا زندگی عیب سے پاک ہوتی رہے تو تقویٰ ہے، اور زندگی خوبیوں سے مالا مال ہوتی رہے تو احسان ہے۔ تقویٰ زندگی کے پودے کو مرجھانے سے بچاتا ہے، اور احسان سے زندگی کے درخت میں پھول اور پھل آتے ہیں۔
بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ تقویٰ اور دین داری سے ازدواجی زندگی کی رنگینی اور اس کا رس جاتا رہتا ہے، زندگی خشک اور بے رنگ یا کم از کم سادہ رنگ اور بے لطف ہوجاتی ہے، زندگی کے رومان اور تقویٰ کی بندشوں میں کوئی یارانہ نہیں بلکہ پرانی دشمنی ہے۔ یہ سارے تصورات بالکل غلط ہیں۔ تقویٰ تو محبت اور رومان کی حفاظت کرتا ہے۔ تقویٰ سے زندگی کے حسین رنگوں کی صحیح دیکھ بھال ہوتی ہے، بلکہ یوں کہیں کہ احسان سے زندگی بے حد حسین اور بے حد خوش گوار ہوجاتی ہے، اور تقویٰ سے اس حسن اور اس خوش گواری کی سدا حفاظت ہوتی ہے۔
تقویٰ دل دکھانے سے روکتا ہے، احسان دل کو مسرور کردینے پر ابھارتا ہے۔ تقویٰ رشتوں کی بے حُرمتی کرنے سے روکتا ہے، احسان رشتوں کو لازوال بنانے کی فکر دیتا ہے۔ تقویٰ بدزبانی سے باز رکھتا ہے، احسان زبان کو شیرینی اور حلاوت کا سرچشمہ بنادیتا ہے۔ تقویٰ ہو تو رشتوں کو کوئی روگ نہیں لگتا، احسان ہو تو رشتے صحت مند اور توانا ہوجاتے ہیں۔
شادی کی تقریب تقویٰ اور احسان کے سایے میں انجام پائے تو تقریب کی خوشیاں دوبالا ہوجاتی ہیں۔ تقویٰ دل کو لالچ سے پاک کرتا ہے۔ جہیز کی طلب ہو یا دوسرے ناجائز مطالبات، تقویٰ ان تمام برائیوں سے بچالیتا ہے جو لالچ کے پیٹ سے جنم لیتی ہیں۔ احسان دل میں سخاوت اور فیاضی جگاتا ہے، اور وہ ساری خوبیاں پیدا کرتا ہے جو سخاوت اور فیاضی کے بطن سے جنم لیتی ہیں۔ بیوی کے گھر والوں سے کچھ نہ لے کر بیوی کے لیے اپنے گھر میں حسب استطاعت شایانِ شان رہنے سہنے کا انتظام کرنا احسان کا ایک حسین مظہر ہے۔ بہترین ازدواجی زندگی وہ ہوتی ہے جس میں خود غرضی کے بجاے جاں نثاری ہو۔ تقویٰ خود غرض نہیں بننے دیتا ہے، اور احسان سب کچھ نثار کرنے کے لیے تیار رکھتا ہے۔
تقویٰ ہر تقریب میں غیر اسلامی رسوم ورواج سے روکتا ہے، اور احسان ہر تقریب کو اللہ کے رنگ میں رنگتے ہوئے عبادت کا حسن عطا کرتا ہے۔ جہاں تقویٰ اور احسان کی کارفرمائی ہو وہاں تقریبات عبادت کی طرح پاکیزہ ہوتی ہیں، اور جہاں تقویٰ اور احسان نہ ہوں وہاں عبادتیں غیر اسلامی رسومات سے آلودہ ہوجاتی ہیں۔
تقویٰ نمایش پسندی، اسراف اور فضول خرچی سے روکتا ہے، اور احسان غریب رشتے داروں اور ضرورت مند پڑوسیوں پر چپکے چپکے خرچ کرنے کا ظرف عطا کرتا ہے۔
تقویٰ اور احسان دونوں اگر شوہر اور بیوی میں جمع ہوجائیں تو اللہ کی رحمت دونوں پر سایہ فگن ہوجاتی ہے۔ شوہر اور بیوی دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں کی ٹھنڈک بن جاتے ہیں۔ دونوں ایک دوسرے پر سب کچھ لٹانے، ایک دوسرے کے لیے ہر تکلیف اور مشقت برداشت کرلینے اور ایک دوسرے سے کچھ نہیں مانگنے میں مقابلہ کرتے ہیں۔ دوسرے کے لطف کے لیے خود تکلیف برداشت کرلینا اور دوسرے کی تکلیف کا خیال کرکے اپنے لطف کو پس پشت ڈال دینا دونوں کا شیوہ ہوتا ہے۔ مفاد پرست معاشرے میں پرورش پانے والے خود غرض جوڑے ایثار وقربانی کے اس مقام کا تصور بھی نہیں کرسکتے جس مقام پر تقویٰ اور احسان شوہر اور بیوی کو پہنچادیتے ہیں۔
بیوی کے دل میں تقویٰ ہو اور شوہر معاشرے کی کسی بے سہارا خاتون سے نکاح کرنا چاہے، تو بیوی اس کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتی ہے اور نہ اس کے لیے مسائل ہی کھڑے کرتی ہے۔ بیوی کے دل میں احسان کا جذبہ موجزن ہو تو بیوی خود پیش قدمی کرتی ہے کہ معاشرے میں زوجیت کے سائبان سے محروم خاتون کو اپنے سائبان میں شریک کرلے۔ یہ بہت بھاری کام ہے لیکن احسان کا جذبہ اسے آسان بنادیتا ہے، اور اسی لیے احسان کا جذبہ رکھنے والے اللہ کو بہت پسند ہیں، کیونکہ وہ ایسے کام کرتے ہیں، جنھیں دیکھ کر زمین اور آسمان بھی حیران رہ جاتے ہیں:
اسلام میں طلاق کا نظام بھی رکھا گیا، لیکن اس سے پہلے ازدواجی زندگی کو بہت مضبوط اور پایدار بنادیا گیا ہے۔ اسلامی زندگی جس قدر مضبوط اور مستحکم ہوتی ہے، کوئی اور زندگی نہیں ہوسکتی۔ جو اسلام کے مطابق ازدواجی زندگی نہیں گزارتا ہے، وہ اسلامی طریقے سے طلاق دینے کے قابل بھی نہیں رہتا ہے۔
قرآن مجید ازدواجی زندگی کی عمارت تقویٰ اور احسان کی بنیادوں پر اٹھانے کی تعلیم دیتا ہے، پھر اگر اس مضبوط رشتے کو ختم کرنا ہی قرین مصلحت ہو تو ختم کرنے کے لیے بھی تقویٰ اور احسان کا راستہ اختیار کرنے کی تاکید کرتا ہے۔ تقویٰ اور احسان کے سایے میں جو تفریق اور جدائی عمل میں آتی ہے، وہ بھی اپنے آپ میں حسین وجمیل ہوتی ہے۔ اس میں کسی کے ساتھ حق تلفی اور زیادتی نہیں ہوتی، کوئی خود غرضی اور تنگ دلی کا مظاہرہ نہیں کرتا ہے، بلکہ اس وقت بھی سخاوت وشرافت کا دور دورہ ہوتا ہے۔
تقویٰ بلا وجہ طلاق دینے سے روکتا ہے، احسان وجہ ہونے پر بھی جہاں تک ہوسکے ساتھ نباہنے کے لیے آمادہ کرتا ہے۔ تقویٰ روکتا ہے کہ طلاق کے بعد بیوی کو دی ہوئی چیزیں واپس نہ لی جائیں، احسان ابھارتا ہے کہ طلاق شدہ بیوی کو اپنی استطاعت سے بھی بہت آگے بڑھ کر نوازشوں کی بارش کے ساتھ رخصت کیا جائے۔ تقویٰ کی کیفیت ہو تو اس پر جھگڑا نہیں ہوتا کہ بچہ کس کے پاس رہے، اور اس کا خرچ کون اٹھائے؟ احسان کی کیفیت ہوتی ہے تو دونوں فکرمند ہوتے ہیں کہ طلاق کے باوجود بچے کی بہترین نشوونما کا انتظام کیسے کیا جائے؟
تقویٰ اور احسان سے گھریلو زندگی اس قدر خوش حال، خوش گوار، خوش مزاج اور خوش لطف ہوجاتی ہے کہ جیسے اللہ دنیا ہی میں جنت والی زندگی کے تجربے سے گزار رہا ہو۔تقویٰ اور احسان سے زندگی کی عمارت بہت بلند ہوجاتی ہے، اور عمارت حد درجہ حسین ہوجاتی ہے۔بے شک خوش نصیب ہے وہ جسے تقویٰ اور احسان والی ازدواجی زندگی گزارنے کی توفیق مل جائے۔ بے شک ملامت کے لائق نہیں ہوتا ہے وہ جو ضروری ہوجانے پر تقویٰ اور احسان کے سایے میں رشتہ ختم کرے:
وَ اِنِ امْرَاَۃٌ خَافَتْ مِنْم بَعْلِھَا نُشُوْزًا اَوْ اِعْرَاضًا فَلَا جُنَاحَ عَلَیْھِمَآ اَنْ یُّصْلِحَا بَیْنَھُمَا صُلْحًا ط وَ الصُّلْحُ خَیْرٌ ط وَ اُحْضِرَتِ الْاَنْفُسُ الشُّحَّ ط وَ اِنْ تُحْسِنُوْا وَتَتَّقُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًاO (النساء۴:۱۲۸) اور اگر کسی عورت کو لگے کہ اس کا شوہر اس سے منھ موڑ رہا ہے، یا ازدواجی زندگی کو خطرے میں ڈال رہا ہے، تو بہت اچھا ہوگا کہ دونوں صلح کا راستہ اختیار کریں۔ صلح سراپا خیر ہے۔ دیکھو خود غرضی طبیعتوں میں رچی بسی ہوئی ہے، اس سے لا پروا مت ہوجاؤ، اور اگر تم احسان اور تقویٰ کی روش اختیار کرو گے تو یہ بہت بہتر ہوگا۔ تم جو کچھ کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے۔
اللہ تعالیٰ کو حلال چیزوں میں سب سے زیادہ ناپسند طلاق ہے: اَبْغَضُ الْحَلَالِ اِلَی اللہِ تَعَالٰی الطَّلَاقُ (ابوداؤد، کتاب الطلاق، باب فی کراھیۃ الطلاق، حدیث: ۱۸۷۶)۔ آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ شیطان مردود سب سے زیادہ اس چیلے سے خوش ہوتا ہے جو میاں بیوی کے درمیان تفرقہ پیدا کرکے آتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ طلاق کا اثر صرف میاں بیوی پر نہیں پڑتا ، بلکہ پورا معاشرہ اس سے متاثر ہوتا ہے۔
طلاق کا سب سے زیادہ نقصان دہ اور دیر پا اثر معصوم بچوں پر پڑتا ہے، جس سے ان کی زندگی میںبہت بڑی محرومی پیدا ہوجا تی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانی زندگی کا نظام ہی کچھ ایسا بنایا ہے کہ بچوں کو ماں اور باپ دونوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ بچوں کی شخصیت کی تعمیر میں دونوں کا اپنا اپنا کردار اور حصہ ہوتا ہے۔ ماں کا پیار باپ ، یا کوئی بھی اور نہیں دے سکتا اور اسی طرح باپ کا شفیق سایہ ماں نہیں دے سکتی۔ بچوں کو نہ صرف ماں اور باپ دونوں کی ضرورت ہوتی ہے بلکہ ایسے ماں باپ کی ضرورت ہوتی ہے، جو ایک دوسرے سے گہری محبت کرتے ہوں۔ ان کی باہم محبت کا اثر بچوں پر بھی پڑتا ہے۔
اس لیے بچوں کی پرورش کے لیے مثالی اور فطری ماحول یہ ہوتا ہے کہ ایک دوسرے کو ٹوٹ کر چاہنے والے ماں باپ ان کے ساتھ رہیں اور مل کر ان سے بھی محبت کریں۔ انھیں ماں باپ میں سے ہر ایک کی محبت بھی درکار ہوتی ہے اور ’اس خوب صورت ٹیم یا جوڑے کی مشترکہ محبت بھی درکار ہوتی ہے جو دونوں مل کرتے ہیں۔ اسی فطری ماحول میں بچوں کی شخصیتیں صحت مند خطوط پر پروان چڑھتی ہیں۔ جو ماں باپ چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑتے جھگڑتے ہیں یا معمولی مسئلوں پر اپنی اَنا (ego)کو لے کر ایک دوسرے سے جدا ہوتے ہیں، معصوم بچوں پر وہ سب سے زیادہ ظلم ڈھاتے ہیں۔ ان کے بچپن کے خوش گوار اور پر مسرت دور کو زہرآلود کر دیتے ہیں، اور زندگی کے بالکل آغاز ہی میں ، ان کی زندگی کا مزا کر کرا کر دیتے ہیں۔
طلاق کا فوری اثر تو یہ ہوتا ہے کہ بچوں کے اندر ماں یا باپ کو کھونے کا شدید احساس پیدا ہوتا ہے۔ وہ اپنی تعلیم پر توجہ نہیں دے پاتے ۔ بہت سے بچوں کا تعلیمی گراف اس کے بعد تیزی سے گرنا شروع ہو جاتا ہے اور بسا اوقات پھر بحال نہیں ہو پاتا۔ بہت سے بچے ماں باپ کے درمیان دُوری کے لیے خود کو ذمہ دار سمجھنے لگتے ہیں۔ یہ احساسِ جرم ان کے اندر منفی رجحانات پیدا کرتا ہے۔ وہ رات میں گھبرا کر اُٹھ بیٹھتے ہیں۔ بہت سے بچوں کا مزاج بدل جاتا ہے۔ وہ تنہائی پسند ہو جاتے ہیں۔ سماج سے خود کا تعلق توڑ لیتے ہیں۔ کچھ بچے شدید غم کا شکار ہو جاتے ہیں۔ زندگی کا مزا لینا چھوڑ دیتے ہیں ۔ نا اُمیدی ، مایوسی ، اور منفی سوچ کے شکار ہو جاتے ہیں۔ ان کا دنیا کو دیکھنے کا زاویہ ہی منفی ہو جاتا ہے۔
ان فوری اثرات کا نوٹس نہیںلیا گیا تو یہ اثرات معصوم بچے کے مزاج اور نفسیات پر دیر پا اثرات مرتب کر نا شروع کر دیتے ہیں۔ ایسے بچوں کا غصے پر قابو نہیں رہتا۔ ساری دنیا سے وہ نفرت کرنے لگتے ہیں۔ معمولی باتوں پر تشدد پر اتر آتے ہیں۔ انتہائی صورتوں میں ایسے بچے معاشرے کے متشدد عناصر کے ہاتھوں میں چلے جاتے ہیں۔ کچھ بچوں کے لاشعور پر ماں باپ کے تنازعات اور جدائی کا اثر یہ ہوتا ہے کہ وہ انسانی تعلقات میں محبت اور اعتماد کی قدروں پر بھی بھروسا کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ نہ وہ کسی سے محبت کر پاتے ہیں اور نہ کسی کی محبت کی قدر یا اس پر اعتماد کر پاتے ہیں۔ ایسے بچے خود بھی مستقبل میں خوش گوار ازدواجی زندگی کے لائق نہیں رہتے ۔
امریکا کے ایک سروے کے مطابق طلاق یافتہ والدین کی بیٹیوں میں طلاق کی شرح دیگر عورتوں کے مقابلے میں ۶۰فی صد زیادہ ہوتی ہے۔ ایسے بچے ڈرگس یا نشہ وغیرہ کے زیادہ آسانی سے شکار ہوجاتے ہیں۔ بعض بچوں میں مستقل نفسیاتی امراض، جیسے ڈپریشن یا بی پی ڈی ( Bipolar Disorder) وغیرہ پیدا ہوجاتے ہیں۔ مستقل ڈپریشن ان کے اندر بلڈ پریشر، ذیابیطس وغیرہ جیسے دائمی جسمانی امراض کا بھی باعث بن سکتا ہے۔ ان بچوں کی تعلیم پر د یر پا اثرات تو بہت عام ہیں۔ وہ تعلیم پر دھیان نہیں دے پاتے۔ زندگی کی امنگ اور کچھ کر گزرنے کا حوصلہ نہ ہونے کہ وجہ سے وہ تعلیم اور کیرئیر میں بھی پیچھے ہٹنا شروع کر دیتے ہیں اور اس کا اثر ان کے مستقبل پر پڑتا ہے۔
اس طرح طلاق دینے یا لینے سے پہلے شوہر اور بیوی کو ان سب اثرات کا اندازہ کرنا چاہیے۔ ثالثی کرنے والوں اور کونسلر کی ذمہ داری ہے کہ وہ شوہر اور بیوی کو ان سب باتوںسے آگاہ کرے اور ان کو احساس دلائے کہ وہ کتنا بڑا فیصلہ کرنے جارہے ہیںاور اس کے کتنے دیر پا اثرات ان کے بچوں پر پڑ سکتے ہیں۔ طلاق کا اثر پورے معاشرے پر پڑتا ہے۔ اس لیے معاشرے کو بھی اس کی فکر کرنی چاہیے اور یہ پورے سماج کی ذمہ داری ہے کہ وہ شوہر اور بیوی کے اختلافات کو ختم کر کے دوبارہ خوش گوار زندگی شروع کرنے میں ان کی مدد کرے۔ طلاق کو تو ، آخری صورت میں اختیار کرنا چاہیے جب ساری کوششیں ناکام ہو جائیں۔
لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اوپر جو نقصانات بتائے گئے ہیں، وہ صرف طلاق یافتہ ماں باپ کے بچوں کو درپیش نہیں ہوتے بلکہ ان ماں باپ کے بچوں کو بھی ان کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جن کے درمیان ہمیشہ سخت تنائو ، گالی گلوچ اور مارپیٹ کی صورت رہتی ہے۔ ماں باپ کے درمیان تکلیف دہ تعلقات (abusive relationship) بچوں کے حق میں طلاق سے زیادہ نقصان دہ ہوتے ہیں۔ طلاق کے بعد، ان کے اثرات سے بچانے کے لیے کچھ نہ کچھ تدابیر اختیار کی جاسکتی ہیں لیکن اگر بچوں کی ساری عمر ماں باپ کے درمیان شدید نوعیت کی ناچاقی اور جھگڑوں کو دیکھتے ہوئے گزر جائے تو اس کا مداوا بہ مشکل ہوتا ہے۔ اسی لیے اسلام نے طلاق کا آپشن رکھا ہے کہ اگر تعلقات کی بہتری کا کوئی امکان نہیں ہے تو اپنی اور اپنے بچوں کی زندگیوں کو دوزخ بنانے سے بہتر ہے کہ دونوں الگ ہو جائیں۔
بہر حال وجہ جو بھی ہو، اگر طلاق ہو ہی جائے ، تو اب ماں باپ کی اور ان کے خاندانوں کی بلکہ پورے معاشرے کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ خود کو بھی اور اپنے بچوںکو بھی اس کے مضر اثرات سے بچانے کی فکر کریں۔ مغربی ملکوں میں اس کے لیے تربیت یافتہ کونسلروں اور ماہرین کی مدد لی جاتی ہے۔ اس کا انتظام ہمارے ملک اور ہمارے معاشرے میںبھی ہونا چاہیے ۔ وہ موجودنہ ہو تو خاندان کے بزرگوں اور سماج کے ذمہ دار لوگوں کا یہ فرض ہے کہ وہ پورے شعور اور ذمہ داری کے ساتھ ان کی مدد کریں اور انھیں صحیح مشورے دیں۔
اسلام ایک مکمل ضابطۂ زندگی ہے۔ ہر معاملے کی طرح اس معاملے میں بھی اسلامی شریعت نے بہت واضح احکام دیے ہیں۔ یہ احکام ہمارے خالق ومالک نے ہمارے مزاج اور نفسیات کو ملحوظ رکھ کر ہمارے ہی فائدے کے لیے دیے ہیں۔ جو لوگ کونسلنگ کا یا طلاق لینے والے جوڑے کو مشورہ دینے کا کام کریں، انھیں اس ضمن میں اسلامی احکام سے بھی واقف ہونا چاہیے اور جدید نفسیات کے اصولوں اور تکنیکوں سے بھی۔
ہر عمر کے بچوں کے شعور اور جذبات کی سطح مختلف ہوتی ہے اور ہر عمر کی نفسیات بھی مختلف ہوتی ہے۔ اس لیے ان کے ساتھ معاملہ کرتے ہوئے ان کی عمر کا لحاظ کرنا بھی ضروری ہے۔ اگر گھر میں الگ الگ عمر کے کئی بچے ہوں تو ان سب سے ان کی عمر کے لحاظ سے الگ الگ رویہ اختیار کرنا ہوگا۔ اور ماں یا باپ کا رویہ ایسا ہونا چاہیے جو ان سب بچوں کی ضرورت کے مطابق ہو:
باپ کی جدائی کا بھی اثر ہو سکتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ باپ نے اسے چھوڑ دیا۔ اس کا حل یہی ہے کہ اس کے معمولات کو کم سے کم ڈسٹرب کیا جائے، اور طلاق کے بعد بھی باپ اس سے برابر ملتا رہے۔ اس کو باپ کے گلے لگنے ، اس کو پیار کرنے وغیرہ کے مواقع معمول کے مطابق ملتے رہیں۔ اگر ان بچوں کے مزاج میں اچانک تبدیلی واقع ہو جائے ، ان کی شخصی تعمیروترقی کا عمل رُک جائے یا پیچھے ہو جائے (مثلاً وہ پھر سے انگوٹھا چوسنا شروع کر دیں یا خود سے باتھ روم جانا بند کر دیں)، رات میں بار بار اٹھنے لگیں یا اچانک چڑ چڑے ہو جائیں، تو یہ گہرے نفسیاتی اثر کی علامات ہو سکتی ہیں۔ ایسی صورت میں کسی ماہر نفسیات کی مدد لینی چاہیے۔
اس نفسیاتی دبائو کے نتیجے میں ان کے اندر جارحیت بڑھ سکتی ہے۔ ڈرگس یا نشے کی عادت لگ سکتی ہے۔ وہ گھر سے فرار ہو سکتے ہیں۔ اگر ان کے اسکول کی کارکردگی متاثر ہو رہی ہو، روز مرہ کی سرگرمیوں میں ان کی دل چسپی کم ہو رہی ہو، وہ خاموش خاموش رہنے لگے ہوں، یا خود کو نقصان پہنچانے والے کام کرنے لگے ہوں،تو فوری ماہر نفسیات کی مدد لینی چاہیے۔
طلاق سے پہلے یا اس کے بعد بچوں کے سلسلے میں ماں باپ کو کن باتوں کا خیال رکھنا چاہیے، اس کے سلسلے میں کچھ مشورے نیچے درج کیے جا رہے ہیں۔ ان مشوروں پر عمل ہو تو اس کا امکان ہے کہ بچوں پر طلاق کے مضر اثرات کم سے کم ہوں اور وہ بھی دیگر بچوں کی طرح نارمل زندگی گذارسکیں۔ طلاق لینے والے ماں باپ کو ان باتوں کی ضروری تربیت دی جانی چاہیے:
۱- بچوں کو طلاق کے بارے میں قبل از وقت بتائیں۔ یہ نفسیات کا بنیادی اصول ہے کہ اچانک پہنچنے والے صدمے کا نفسیاتی نقصان زیادہ ہوتا ہے ۔ کسی حادثے میں اچانک مرنے والے جوان آدمی کے اعزہ کو جو صدمہ پہنچتا ہے، وہ اس سے کہیں زیادہ ہوتا ہے جو ایک کینسر کے مریض کی اندیشے کے مطابق موت سے ہوتا ہے ۔ اس لیے بچوں کو پہلے ہی بتایا جائے کہ اب ان کے امی ابو ایک دوسرے سے جدا ہو رہے ہیں۔ یہ بات ماں بھی پیار اور محبت سے سمجھا کربتائے اور باپ بھی بتائے ۔ ان کو یہ بھی ذہن نشین کرایا جائے کہ اس دوری کا سبب وہ، یعنی بچہ نہیں ہے اور اس میں اس کا کوئی قصور نہیں ہے۔ ماں باپ کی یہ بھی کوشش ہونی چاہیے کہ یہ خبر دیتے ہوئے ایک دوسرے کی بُرائی نہ کریں اور نہ ایک دوسرے کو اس کا ذمہ دار ٹھیرائیں۔ یہ ایک مشکل بلکہ بہت مشکل کام ہے۔ لیکن بچوں کے مستقبل کے لیے ماں باپ کو کم سے کم یہ مشکل ضرور برداشت کرنی چاہیے اور اس کی تربیت ان کو دی جانی چاہیے۔
۲۔ بچے کی حوالگی،حضانت(کسٹڈی) کو لے کر جھگڑوں اور مقدمہ بازیوں سے بچیں۔ یہ بچے کے لیے سب سے زیادہ نقصان دہ چیز ہوتی ہے۔ وہ اگر ماں باپ کے درمیان تنازعے کے لیے خود کو ذمہ دار سمجھنے لگے تو یہ احساس اس کی شخصیت کوتباہ کر کے رکھ سکتا ہے۔ بدقسمتی سے عام طور پر یہی ہوتا ہے کہ طلاق کے بعد باپ بچے کی حضانت کے لیے جھگڑے شروع کر دیتے ہیں، اور بچے کو لے کر مارپیٹ ، مقدمہ بازی اور پولیس ، ان سب کی نوبت آ جاتی ہے۔ بچہ دونوں کے درمیان فٹ بال بنا رہتا ہے اور اس دوران ایسی نفسیاتی کیفیتوں سے گزرتاہے جو اس کی خوداعتمادی ، عزت نفس اور زندگی کے جوش اور اُمنگ کو بُری طرح مسل کر رکھ دیتی ہیں۔ کاش کہ ماں باپ سمجھیں کہ ایسا کر کے وہ اپنے بچے پر کتنا بڑا اور ناقابل تلافی ظلم ڈھا رہے ہیں۔ یہ سب اسلام کی تعلیم سے غفلت کا نتیجہ ہے۔
اسلام نے اس سلسلے میں بہت واضح تعلیم دی ہے۔ حضانت (یعنی بچے کی کسٹڈی یا تربیت) کے احکام فقہ کی ہر کتاب میں مل جاتے ہیں۔ شریعت نے ہدایت کی ہے کہ چھوٹے بچوں، یعنی سات سال سے کم عمر لڑکوں اور نابالغ لڑکیوں کی حضانت کے لیے ماں کو ترجیح دی جائے۔ یہ ماں کا حق ہے اور ماں نہ ہو تو اس کے بعد نانی ، پھر دادی، پھر بہن اور پھر خالہ کا حق ہے۔ بچے کی کفالت کا خرچ اس کے باپ کے ذمے ہے۔ ان معاملات میں بعض فقہی اختلافات بھی ہیں ۔ یہاں فقہی مسائل بیان کرنا مقصود نہیں ہے بلکہ صرف یہ بتانا پیش نظر ہے کہ اس سلسلے میں واضح احکام شریعت نے دیے ہیں، اور ایک مسلمان کے لیے اس مسئلے پرکسی تنازعے کی نہ ضرورت ہے نہ گنجایش ۔ شریعت کے احکام کی پابندی کی جائے گی تو ایسے جھگڑوں کی نوبت ہی نہیں آئے گی جو بچے پر بُرا اثر ڈالتے ہیں۔
۳- بچے کو ماں اور باپ دونوں کے ساتھ وقت گزارنے کا موقع ملنا چاہیے۔ اگرچہ بچہ ماں کے پاس رہ رہا ہو تب بھی اسے باپ کے ساتھ بھی وقت گزارنے کا موقع ملنا چاہیے۔ ماں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ بچے کا حق بھی ہے اور اس کی شدید نفسیاتی ضرورت بھی ۔ باپ کے سایۂ شفقت سے وہ محروم رہے گا تو اس کا بُرا اثر پڑے گا۔ طلاق سے شوہر اور بیوی کا باہمی رشتہ ختم ہوا ہے، نہ باپ بیٹے کا رشتہ ختم ہوا ہے اور نہ ماں بیٹے کا۔ باپ کی زندگی میں، اپنے بیٹے کو یتیمی کی زندگی پر مجبور کرنے والی ماں کوئی اچھی ماں نہیں ہو سکتی۔ باپ (یا ماں ) سے ملاقات اور اس کے ساتھ وقت گزاری کے لیے باقاعدہ شیڈول اور اصول طے کیے جا سکتے ہیں۔ باپ کو یہ حق بھی ملنا چاہیے کہ وہ بچے کو تحفے دے، اسے کھلائے پلائے ، اس کی خوشیوں میں شریک ہو۔ اگر بچہ باپ سے ملنے گیا ہے تو ماں کو ہرگز یہ ظاہر نہیں کرنا چاہیے کہ اس سے اسے دکھ ہوا ہے۔ اگر ماں باپ، ایک دوسرے سے ملنے پر بچے سے ناراض ہو جائیں یا بچے کو لگے کہ یہ ملاقات ماں یا باپ کو پسند نہیںہے، تو اس کا اثر بھی بچے پر بہت بُرا پڑتا ہے۔
اسلام نے بھی اس کو ضروری قرار دیا ہے کہ طلاق کے بعد بھی بچے کو ماں اور باپ دونوں کے ساتھ وقت گزارنے کا اور ان کی محبتوں اور شفقتوں سے فیض اٹھانے کا موقع ملتا رہے۔ حضانت (ماں کے ذمے ) اور کفالت (باپ کے ذمے ) کی تقسیم کار کے ذریعے اسلا م نے اس کا مؤثر انتظام کیا ہے کہ بچے کا تعلق دونوں سے ہمیشہ برقرار رہے۔
۴-ماں باپ ایک دوسرے کی بُرائی نہ کریں اور نہ ایک دوسرے کی شخصیتوں کو بچے کی نظروں میں مجروح ہونے دیں۔ یہ بات صحیح ہے کہ شوہر اور بیوی کی ایک دوسرے سے جدائی ، عام طور پر تنازعے ، لڑائی اور اَنا کے ٹکرائو کا نتیجہ ہوتی ہے۔ایسی صورت میں اکثر عقل اندھی ہو جاتی ہے۔ دوسری پارٹی کی کوئی خوبی دکھائی نہیں دیتی اور وہ سرا سر شر لگتا یا لگتی ہے۔ اس ماحول میں یہ بہت مشکل ہے کہ ایک دوسرے کی بُرائی بیان کرنے سے خود کو روکا جائے۔ لیکن یہ بھی بچے کی بڑی ضرورت ہے۔ سابقہ شوہر کی حیثیت عورت کے لیے تو ایک ایسے ناپسندیدہ مرد کی ہے جس کے ساتھ اس کا نباہ نہیں ہو سکا۔ لیکن اس کے بچے کے لیے وہ بہر حال اس کا باپ ہے، جس کے اثرات وہ ہرحال میں قبول کرے گا۔ اگر باپ کی بہت خراب تصویر بچے کے لاشعور میں بیٹھ جائے تو وہ ایک خراب انسان کے بیٹے کے طور پر ہی پرورش پائے گا۔ ان خرابیوں کو، جن کا صحیح یا غلط طور پر، متواتر ذکر ہورہا ہو، اس کا لاشعور موروثی خرابیوں کے طور پر قبول کرے گا اور باپ کی اتباع میں یہ درست یا فرضی خرابیاں اس کی شخصیت کا جز بنیں گی۔ با پ سے نفرت یا اس کے بارے میں لاشعور میں غلط تصویر کسی بھی بچے کی نفسیات پر کوئی اچھا اثر نہیں چھوڑتی ۔ یہی وجہ ہے کہ ہم کو تاریخ میں ایسی عظیم عورتوں کے واقعات بھی ملتے ہیں جنھوں نے زندگی بھر اپنے ظالم ، وحشی ، لٹیرے ، شرابی یا عادی مجرم شوہر کی خرابیوں کو اپنے بچوں سے چھپائے رکھا، اور کوشش کی کہ ان خرابیوں کا کوئی اثر ان کے بچوں پر نہ پڑے ۔ بچے اپنے باپ کے اچھے پہلوئوں کو تو جانیں لیکن خراب پہلو ان کی نگاہوں سے اوجھل ہی رہیں۔
یہی معاملہ شوہر کا بھی ہے۔ وہ اگر اپنی مطلقہ کے تئیں نفرت اپنے بچوں میں پیدا کرتا ہے تو دراصل ان کے اندر اپنی ماں سے نفرت پیدا کرتا ہے اور قطع نظر اس کے کہ ایسی نفرت کی بنیاد یں صحیح ہیں یا غلط ، ماں سے نفرت بذات خود ایک بُرائی اور ایک نفسیاتی عیب ہے اور بہت سے نفسیاتی عوارض کا سبب بھی ۔
اس لیے ماں باپ کو یہ سمجھایا جائے کہ اب ان کا رشتہ ختم ہو گیا ہے۔ وہ ایک دوسرے کے لیے اجنبی ہیں۔ ایک دوسرے کی بُرائی سے انھیں کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ البتہ ان کے بچوں کا بہت کچھ چھین جائے گا۔
۵- بچوں کو زیادہ سے زیادہ تعمیری اور صالح سرگرمیوں میں مصروف رکھا جائے۔ ان کو اچھی صحبت فراہم کی جائے۔ ان کے جذبات کا خصوصی طور پر خیال رکھا جائے۔ یہ ضرورت تمام بچوں کی ہے ۔ لیکن چونکہ والدین کی جدائی کے صدمے کی وجہ سے طلاق یافتہ والدین کے بچے زیادہ حساس اور زیادہ نازک طبع ہو جاتے ہیں، اس لیے ان کے سلسلے میں ان باتوں کا زیادہ توجہ کے ساتھ خیال رکھنے کی ضرورت ہے۔
اکیسویں صدی کے پہلے ڈیڑھ عشرے میں بچوں پر مظالم اور جرائم کا گراف وسیع پیمانے پر بڑھ گیا ہے، بلکہ بچوں کے خلاف پیش آنے والے جرائم اور مظالم کا گراف آسمان کو چھونے لگا ہے۔ کہیں درندہ صفات انسان بچوں کو گولیوں سے چھلنی کرکے موت کی نیند سلا دیتے ہیں۔ کہیں مفاد پرست انسانوں نے بچوںکو غلامی سے بھی بدتر زندگی گزارنے پر مجبور کردیا ہے ۔ کہیں بچوں کو جرائم کی طرف زبردستی دھکیلا جاتا ہے ۔ کہیں آوارگی ، جنسی استحصال، ڈکیتی ، چوری اور بالآخر خودکشی پر مجبور کیا جارہاہے ۔ غرض دنیا کے ہرکونے میں غریب ، لاچار اوربےسہارا بچوں کا درندہ صفات انسانوں اور حکومتوں نے جینا دوبھر کردیا ہے ۔ روز سیکڑوں کی تعداد میں ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں، جو مظلوم بچوں کے ظلم و استحصال سےمتعلق ہوتے ہیں ۔ ان واقعات و حادثات اور مظلومیت کی آہوں کا ایک نہ تھمنے والا سلسلہ ہے، جو ہر روز بڑھتا ہی جارہا ہے۔
۲۰۱۲ء میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اور اقوام متحدہ کی جانب سے کرائے گئے سروے سے اس خطرناک صورت حال کا پتا چلا کہ ۱۳، ۱۴ سال کی عمر، یعنی نویں جماعت میں آنے سے پہلے ۵۰ فی صد بچے کسی ایک نشے کا کم سے کم ایک بار استعمال کرچکے ہوتے ہیں۔پھر زیادہ تر مزدور بچوں کی عمر ۱۴سال سے زیادہ نہیں ہے اور ان میں ۷۱ فی صد لڑکیاں ہیں، جن کے جسمانی اور جنسی تشدد کا شکار ہونے کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے۔
جنوب مشرقی ایشیا (بھارت، بنگلہ دیش، پاکستان) کی بات کی جائے تو یہاں ۶۰ فی صد آبادی ۱۸ سال سے کم عمر کی ہے۔ یہاں بچوں کے خلاف جرائم میں، بالخصوص پچھلے چار برسوں کے دوران جرائم میں بے حد اضافہ ہو ا ہے۔یہاں کسی حد تک بھارت میں جرائم کے اعداد و شمار پیش کیے جارہے ہیں، جن سے ملتی جلتی صورتِ حال پاکستان اور بنگلہ دیش میں بھی پائی جاتی ہے:
انڈین نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے مطابق ۲۰۱۴ ء میں بچوں کے خلاف جرائم کے مقدمات ۹۰ ہزار درج کیے گئے ۔ جس میں ۳۷ ہزار اغواکے اور ۱۴ہزار ریپ سے متعلق ہیں ۔ ایک اندازے کے مطابق ۴۳ لاکھ بچوں کو انتہائی جفا کشی سے زبردستی مزدوری کروائی جارہی ہے ۔ اسی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ۹۸ لاکھ بچے ایسے بھی ہیں جنھوں نے اسکول کا دروازہ تک نہیں دیکھا ہے جن میں ۸۰ فی صد کارخانوں اور کھیتوں میں کام کرتے ہیں۔ ان بچہ مزدوروں کی تعداد تقریباً ۶کروڑ تک ہوسکتی ہیں۔ گلیوں میں کوڑا دان ، گداگری وغیرہ سے اپنا پیٹ پالتے ہیں۔بچوں کے جنسی استحصال، ہراساں کرنے اور ان کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے کا سلسلہ بھی تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ ’کئیرانڈیا‘ نامی ایک غیر سرکاری تنظیم کے سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ۵۲فی صد طالبات سے مردوں نے زبر دستی چھیڑچھاڑ کی حرکتیں کی ہیں۔ چھیڑ چھاڑ کے یہ واقعات زیادہ تر بس اسٹینڈ، اسکول اور کالج کے راستے اور احاطے میں پیش آئے۔ (روزنامہ انقلاب، ۲۶؍اکتوبر ۲۰۱۶ء)
بچوں کو جرائم کی دہلیز پر پہنچانے کے لیے انٹر نیٹ کا سہارا بھی لیا جاتا ہے ۔ انٹرنیٹ پر فحش ویب سائٹس کا چلن عام ہے، جہاں بڑے پیمانے پر فحش مواد رکھا گیا ہے ۔ اس کے ذریعے سے بچے جرائم کی طرف راغب ہوتے ہیں۔ بچے جب یہ فحش اور اخلاق سوز سائٹس دیکھتے ہیں تو ان کے دل و دماغ اور ان کے اعصاب پر برے اثرات پڑتے ہیں ۔ جس کے نتیجے میں وہ آسانی سے نہ صرف جنسی جرائم کی طرف لپکتے ہیں بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ ان کو ترغیب دی جاتی ہے تو بے جا نہ ہوگا ۔ ایک سروے کے مطابق زیادہ تر بچے ۱۱ سے ۱۴سال کی عمر تک اس فحش مواد سے کسی نہ کسی صورت میں متعارف ہوچکے ہوتے ہیں۔ گویا کہ دونوں کام ساتھ ساتھ چلتے ہیں کہ بچوں پر جان بوجھ کر ذہنی تشدد کیا جاتا ہے اور ان پر تشدد کرنے کے لیے ساز گارماحول بھی بنایاجاتا ہے۔
بچوں کے خلاف جرائم اور مظالم کے خلاف اگر چہ کچھ کوششیں ہوتی ہیں لیکن وہ صرف کانفرنسوں تک محدود ہیں۔ ۲۰۱۲ء میں بچوں پر تشدد کے حوالے سے کولمبو میںایک کانفرنس منعقد ہوئی، جس میں مندر جہ ذیل تجاویز پیش کی گئیں :
۱- بچوں پر تشدد کی روک تھام کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں ۔۲-ادارہ اور کمپنیوں اور گھروں میں کام کرنے والے بچوں پر تشدد کے خاتمے کے لیے مربوط کوششیں کی جائیں ۔ ۳-بچوں کے تحفظ کے لیے مضبوط قانون ،پالیسیاں اور ضابطۂ اخلاق بنایا جائے ۔
یہ تجاویز تو اپنی جگہ ٹھیک ہیں، لیکن جرائم کے سد باب کے لیے ان میں گہرائی سے کوئی بات نہیں کی گئی ۔ یہ قراردادیں جو ان کانفرنسوں میں پاس ہوئی ہیں بس کچھ رسمیات ہیں جن کو پُر کیا جاتا ہے۔ حقوق انسانی کے علَم بردار وں نے بھی اس اہم مسئلے کو کبھی سنجیدگی سے نہیں لیاہے۔ وہ بھی کبھی چند قرار دادوں سےآگے بڑھنے کی زحمت نہیں اٹھاتے ہیں۔
دنیا میں تین طبقے اس وقت زیادہ مظلوم ہیں: ۱- مزدور طبقہ ۲-خواتین اور ۳- بے سہارا بچے ۔ ان تینوں طبقوں کو ظلم و تشدد سے نکالنے کے لیے اور ان کی فلاح و بہبود اور ان کی اصلاح و تربیت کے لیے کوشش کرنا اہم ترین کام ہے ۔ اسلام نے ان تینوں طبقوں کی نگہداشت اور ان کی بہتر زندگی کے لیے جد وجہد کی بے حد تاکید کی ہے۔ معاشرہ پُرامن اور صحت مند تبھی بن سکتا ہے جب اس میں مزدوروں ، یتیموں، بے سہارا بچوں ،حاجت مندوں اور مظلوم خواتین کا خاص خیال رکھا جائے۔ اِن کی مالی اعانت، تعلیم و تربیت اور ان کو آگے بڑھانے کے لیے جد و جہد کرنا اسلام میں لازم ٹھیرایا گیاہے۔اس کے علاوہ بے سہارا بچوں کے غریب رشتہ داروں کو اس بات کا مکلف بنایا گیا ہے کہ ان کے حقوق ادا کیے جائیں اور ان کی تعلیم وتربیت کے نظم و نسق کا اہتمام کیا جائے اگر قریبی رشتہ دار اس ذمہ داری کو ادا نہ کرسکیں تو حکومت پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ظلم و تشدد کے شکار بچوں کی فلاح و بہبود اور ان کی اچھی زندگی کابندو بست کریں۔ بچوں سے محبت اور شفقت سے پیش آنا اور ان کے ساتھ حسن سلوک کرنا اسلام کی بنیادی تعلیمات میں سے ہے ۔ بچوں کے حقوق ادا نہ کرنا اور ان کے ساتھ محبت و شفقت کے ساتھ پیش نہ آنا قساوت قلب کی علامت ہے ۔
دور جدید میں نام نہاد عالم گیریت، گلیمر اور انٹرنیٹ کی سہولیات سے دنیا مزین ہوگئی ہے۔ انٹرنیٹ کی جہاں بہت سی خوبیاں ہیں وہیں اس کے بہت سےمنفی اثرات بھی ہیں۔ آج کے اس سائبر کلچر نے گناہوں اور جرائم کو نہایت دل کش بنا کر پیش کیا ہے ۔ سائبر کلچر نے نت نئی برائیوں کو جنم دیا اور اس کے ذریعے روز بروز جرائم میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ دوسری جانب اس کو اتنا آسان بنا دیا گیا ہے کہ ہر فرد کی اس تک رسائی آسان بنا دی گئی ہے ۔جہاں بالغ اور باشعور لوگ اس کی زد میں آجاتے ہیں وہیں بچے بھی آسانی سے اس کا شکار ہوجاتے ہیں ۔کہیں سے بھی اس کو کنٹرول کرنے یا اس کے سدباب کی کوئی راہ سجھائی نہیں دے رہی ہے۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ کیاکیا جائے جس سے بچے اس قسم کے جرائم سے محفوظ و مامون رہ سکیں؟
اے لوگو! جو ایمان لائے ہو ، بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے۔(التحریم ۶۶:۶)
جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت عمرؓ نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ ہم اپنے آپ کو بچاتے ہیں ،لیکن اپنے اہل و عیال کو کس طرح بچائیں؟ تو آپؐ نے فرمایا : تم ان کو ان امور سے روکو ، جن سے اللہ تعالیٰ نے تم کو روکا ہے اور ان باتوں کا ان کو حکم دو جن کا اللہ نے حکم دیا ہے۔(الجامع الاحکام القرآن)
وَ لَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَھَرَ مِنْھَا وَ مَا بَطَنَ (الانعام ۶: ۱۵۱) اور کھلی اور چھپی بے حیائی کی باتوں کے قریب مت جاؤ ۔
فواحش کے معنی بہت وسیع ہیں اس میں صرف بدکاری ہی شامل نہیں ہے بلکہ بدکاری ، بے حیائی اور فواحش کی تمام صورتیں اس میں شامل ہیں ۔بچوں کو حرام کاری، بے حیائی اور جرائم سے محفوظ رکھنے کے لیے گھروں اور اسکولوں میں ایک ایسا ماحول بنایا جائے، جس سے بچوں کی فطری صلاحیتوں کو ابھارنے کے ساتھ ساتھ ان کو عفت وعصمت کی حفاظت اور پاک دامنی کے طریقے بھی سکھائے جائیں ۔ ان میں خدا خوفی کا عنصر بھی پیدا کیا جائے۔ اس کار عظیم کو صرف والدین اور اساتذہ ہی بہتر اندازسے انجام دے سکتے ہیں لیکن ان کو سب سے پہلے خود مثالی بننا پڑے گا ۔ والدین کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اللہ کی محبت ، آخرت کا خوف اوراپنا احتساب کرنا بھی سکھائیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’پیروی اس شخص کے راستے کی کر جس نے میری طرف رجوع کیا۔ پھر تم سب کو پلٹنا میری ہی طرف ہے ،اس وقت میں تمھیں بتادو ں گا کہ تم کیسے عمل کرتے رہے ہو‘‘۔ (لقمان ۳۱:۱۵)
اے میرے بیٹے نماز کا اہتمام کرو، نیکی کا حکم دو اور برائی سے روکو اور جو مصیبت تمھیں پہنچے اس پر صبر کرو۔ بے شک یہ باتیں عزیمت کے کاموں میں سے ہیں۔ (لقمان ۳۱: ۱۸)
اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دیں اور خود بھی اس کا اہتمام کریں۔(طٰہٰ ۲۰:۱۳۲)
تربیت جتنے اچھے ڈھنگ سے کی جائے گی ،اتنا ہی وہ بچے کے لیے مفید رہے گی۔ اللہ کے رسولؐ نے اولاد کی عزت و اکرام کرنے کی بھی تلقین فرمائی ہے تاکہ انھیں غیرت ،احساس ذمہ داری، خود داری، حوصلہ اور باکردار زندگی گزارنے کا جوش وجذبہ ملتا رہے ۔ اللہ کے رسولؐ نے ارشاد فرمایا:
اَکْرِمُوْا اَوْلَادَ کُمْ وَ اَحْسِنُوْا اَدَبَھُمْ ( سنن ابن ماجہ) اپنی اولاد کی تکریم کرو، اور ان کی بہتر تربیت کرو۔
بہت سے ناعاقبت اندیش لوگ بچوں کو مزدوری پر لگاتے ہیں اور ان سے پر خطر کام لیتے ہیں جو ان کے بس اور طاقت میں نہیں ہوتا ہے ۔ بچوں کو آمدنی کا ذریعہ بنانا اور ان کو بنیادی تعلیم و تربیت سے محروم کرنا انتہائی بے رحمی اور ظلم ہے جو ناقابل تلافی جرم ہے ۔ کیونکہ یہی عمر ان کی شخصیت کی فکری و ذہنی نشوونما کے لیے نہایت اہم ہوتی ہے۔ اس عمر میں اگر ان کی تعلیم و تربیت میں کوتاہی برتی جائے اور ان کی جسمانی نگہ داشت اچھی طرح سے نہ کی جائے تو مستقبل میں یہی بچے قوم و ملت کے معمار بننے کے بجاے تخریب کار بن جائیں گے۔ بچوں سے مزدوری کروانااور ان کے مستقبل کو پامال کرنا خود غرضی کی انتہا ہے ۔بچہ مزدوری دستور ہند میں Fundamental Rights کے تحت’استحصال سے محفوظ رہنے کا حقــ‘‘(Rights against Expolitation)کے عنوان کے ذیل میں۱۴ سال سے کم عمر بچوں کے لئے فیکٹریوں ، کانوں اور اسی طرح کی مزدوری کے دوسرے راستوں کو ممنوع قرار دیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود بچہ مزدوری میں ہر جگہ اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے ۔ اسلام میں بچہ مزدوری یا بچوں کو کسب معاش کا ذریعہ بنانے کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور اس کو ناپسندیدہ عمل قرار دیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے :
لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا (البقرہ :۲۸۶) اللہ تعالیٰ تکلیف نہیں دیتا کسی کو مگر جس قدر اس کی گنجایش ہو۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان پر ایسا بوجھ نہ ڈالا جائے جس کے وہ متحمل نہ ہوں، کیونکہ ان سے مشقت کا کام لینا جائز نہیں ہے ۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ولا تکلفوا ما یغلبھم(بخاری ، کتاب الادب)’’ اور ان کو ایسے کام کا حکم نہ دو جو ان پر غالب آجائے‘‘۔
ایک اور موقع پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :بچہ پر کمائی کرنے کی مشقت نہ ڈالو اس لیے کہ اگر وہ کبھی کمائی نہ کرسکے تو وہ چوری ضرورکرےگا۔ ظاہر سی بات ہے جب بچہ مشقت برداشت نہیں کرے گا تو وہ ضرور کوئی دوسرا راستہ تلاش کرے گا جو اس کے لیے نہایت نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے ۔ بچوں سے متعلق تصرفات سے بھی روک دیا گیاہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :تین افراد سے قلم اٹھا لیا گیا ہے سوتے شخص سے یہاں تک کہ وہ بیدار ہوجائے ، بچہ سے یہاں تک کہ وہ بالغ ہوجائے اور مجنون سے یہاں تک کہ اس کو عقل آجائے۔ بچہ کی نگہداشت ، پرورش کرنا اور اس کے لباس و اخراجات کو برداشت کرنا اور باعزت زندگی گزارنے کا اہل بنانا والدین کی ذمہ داری ہے، اس ذمہ داری کو اچھی طرح سے ادا کرنے کی بہت تاکید کی گئی ہے ۔
How can we claim to be the largest democracy in the the world , when our children are deprived of their right to ply and enjoy childhood ?
ہندوستان میں بچیوں کے رحم مادر میں قتل کیے جانے کے واقعات میں بہت تیزی سے اضافہ ہورہاہے۔ ۲۰۱۱ء کی مردم شماری کے مطابق چھے تا آٹھ سال تک کی بچیوں کا آبادی میں نمایاں فرق سامنے آیا ہے۔ اسلام میں قتل اولاد سے واضح طور پر منع کیا گیاہے اور اس بھیانک جرم سے باز رہنے کی بار بار تاکید کی گئی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ـــہے :
وَ لَا تَقْتُلُوْٓا اَوْلَادَکُمْ مِّنْ اِمْلَاقٍ (الانعام ۶:۱۵۱ ) اپنی اولاد کو مفلسی کی وجہ سے قتل نہ کرو ۔
دوسری جگہ ارشاد ہے :
وَ لَا تَقْتُلُوْٓا اَوْلَادَکُمْ خَشْیَۃَ اِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُھُمْ وَ اِیَّاکُمْ اِنَّ قَتْلَھُمْ کَانَ خِطْاً کَبِیْرًا O (بنی اسرائیل ۱۷: ۳۱) غربت کے ڈر سے اولا د کو قتل نہ کرو، ہم انہیں بھی رزق دیں گے اور تمھیں بھی، بے شک ان کا قتل بڑی غلطی ہیں ۔
ایک اور جگہ پر قرآن مجید میں شدید الفاظ میں اولاد کو ضائع کرنے کی مذمت کی گئی ہے۔ ارشاد باری تعا لیٰ ہے : ’’وہ لوگ انتہائی گھاٹے میں ہیں جنھوں نے اپنی اولاد کو ناسمجھی میں موت کے گھاٹ اتار دیا‘‘۔
حال ہی میں مقامی اخبارات میں ایک خبر شائع ہوئی کہ ۲۱نومبر کو دہلی کی تہاڑ جیل نمبر۱ کے وارڈ ’سی‘ اور ’ایف‘ میں جیل کے سیکورٹی پر مامور اہل کاروں نے ۱۸قیدیوں پر بے پناہ تشدد کرکے اُنھیں شدید زخمی کر دیا۔ یہ وحشیانہ عمل کرنے والوں میں جیل کی حفاظت پر مامور تامل ناڈو پولیس کے اسپیشل دستے اور کوئیک رسپانس فورس سے وابستہ اہل کار شامل تھے۔
جن قیدیوں پر حملہ کیا گیا اُن میں اکثریت کشمیری سیاسی قیدیوں پر مشتمل ہے۔ زخمی ہونے والے قیدیوں میں حزب المجاہدین کے سربراہ سیّد صلاح الدین کے فرزندسیّد شاہد یوسف کا نام قابلِ ذکر ہے۔ ۲۳نومبر ۲۰۱۷ء کو سیّد شاہد یوسف کے وکیل نے دہلی ہائی کورٹ میں مفادِ عامہ کی درخواست دائر کرتے ہوئے عدالت کے سامنے واقعے کی تفصیلات بیان کرنے کے علاوہ ثبوت کے طور پر شاہد یوسف کی خون آلود بنیان بھی پیش کی۔ ۲۸نومبر کو دہلی ہائی کورٹ نے اس واقعے کو زیربحث لاکر جیل میں قیدیوں پر حملے کو ناقابلِ برداشت قرار دیتے ہوئے اسے تشویش ناک قرار دیا۔ قائم مقام چیف جسٹس گپتامتل اور جسٹس سی ہری شنکر پر مشتمل ڈویژن بنچ نے کہا: ’’ہمیں دیکھنا ہوگا، یہ واقعہ قطعی طور پر بلاجواز ہے، اگر یہ صورتِ حال دہلی میں ہے تو دیگر جگہوں میں کیا قیامت ٹوٹتی ہوگی؟‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’معاملہ انتہائی سنجیدہ تحقیقات کا حامل ہے‘‘۔ کورٹ نے ایک تحقیقاتی کمیٹی بھی تشکیل دی، جسے واقعے کی تحقیقات کرکے کورٹ کے سامنے رپورٹ پیش کرنے کی ہدایات دی گئیں۔
خود بھارت کے کئی اخبارات میں یہ خبریں بھی شائع ہوئی ہیں کہ سیکورٹی اہل کاروں نے کشمیری قیدیوں کو زبردستی پیشاب پینے پر مجبور کیا۔ اس واقعے کی تصویروں میں قیدیوں کے لہولہان بدن اور جسم کی چوٹیں ہی یہ بتانے کے لیے کافی ہیں کہ حملہ کس قدر درندگی کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ قیدیوں کے تمام جسم پر تشدد کے واضح نشانات موجود ہیں اور وہ چلنے پھرنے سے بھی قاصر دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ تحقیقاتی کمیٹی نے جو سی سی ٹی وی فوٹیج حاصل کی ہیں، اُن سے ظاہر ہوتا ہے کہ وردی پوشوں کے حملے کا ہرگز کوئی جواز نہیں تھا، یعنی قیدیوں کی جانب سے کوئی اشتعال انگیزی نہیں ہوئی تھی۔ اس خبر کے منظرعام پر آنے سے ریاست جموں و کشمیر میں بالعموم اور بیرون وادی نظربندوں کے لواحقین میں بالخصوص تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ ریاست کے تمام سیاسی اور سماجی حلقوں نے تہاڑ جیل کے اس واقعے کو وحشیانہ اور مہذب دنیا کے لیے لمحۂ فکریہ قرار دیا ہے۔ عالمی انسانی حقوق کی مختلف تنظیمیں پہلے ہی سے اس خدشے کا اظہار کر رہی ہیں کہ کشمیری قیدی، بھارت کی جیلوں میں محفوظ نہیں ہیں۔ اُن پر ہروقت حملوں کا خطرہ رہتا ہے۔ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ اسی طرح کا واقعہ کٹھوعہ جیل میں بھی پیش آیا، جہاں کشمیر ی قیدیوں کی بڑے پیمانے پر مارپیٹ کی گئی۔ بیرونی ریاست کشمیری قیدیوں کے ساتھ اس طرح کا وحشیانہ سلوک روز کا معمول بن چکا ہے اور ان جیلوں میں کشمیری قیدیوں کے ساتھ روا رکھے گئے ناروا سلوک کی رُوداد سن کر انسان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ جب تہاڑ جیل میں کشمیری قیدیوں کی مارپیٹ ہوئی ہو۔ اس سے قبل بھی کئی بار نہ صرف تہاڑ جیل کے بارے میں بلکہ بھارت کی دیگر جیلوں کے حوالے سے بھی یہ خبریں منظرعام پر آئی ہیں کہ وہاں نظربند کشمیری قیدیوں کو ہراساں کیا جاتا ہے، اُنھیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، اُن کے ساتھ ناروا سلوک رکھا جاتا ہے۔ ابھی کچھ ہی عرصہ قبل جموں کے کوٹ بلوال جیل کی ایک تصویر سوشل میڈیا پر عام ہوئی ہے جس میں ایک کشمیری نوجوان کو جیل حکام بالکل ننگا کر کے اس کی مارپیٹ کر رہے تھے، حتیٰ کہ جموں کے ایک اخبار میں چنداعلیٰ پولیس افسروں نے بھی اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ جیل کی سیکورٹی پر مامور کئی اہل کار اپنی بیمار ذہنیت کی تسکین کے لیے قیدیوں کو بالکل ننگا کرتے ہیں، اُنھیں تشدد کا نشانہ بناتے ہیں اور ان کے ساتھ ناروا ظلم روا رکھتے ہیں۔
۲۰۱۶ء میں جب وادی میں عوامی احتجاج کے بعد پولیس نے بڑے پیمانے پر نوجوانوں پر پبلک سیفٹی ایکٹ کا نفاذ عمل میں لاکر اُنھیں جموں کے کورٹ بلوال، امپھالہ، ہیرانگر، ادھم پور، کٹھوعہ اور ریاسی کی جیلوں میں منتقل کیا، تو وہاں سے کچھ ہی عرصے میں یہ خبریں موصول ہونے لگیں کہ ان جیلوں میں نظربند کشمیری قیدی نسلی تعصب کا شکار بنائے جاتے ہیں۔ کورٹ بلوال میں جیل حکام نے غیرقانونی طور پر یہ قواعد و ضوابط مقرر کیے تھے کہ کشمیری قیدیوں کو مجرموں کے ساتھ رکھا جاتا تھا، جو اُنھیں اپنے مذہبی فرائض ادا کرنے نہیں دیتے تھے۔ کھانے پینے کے اوقات ایسے مقرر کیے گئے تھے کہ لوگوں کو اِن جیلوں کے مقابلے میں ابوغریب اور گوانتاناموبے بہت چھوٹے نام محسوس ہونے لگتے ہیں۔ دن کا کھانا صبح آٹھ بجے دیا جاتا تھا اور شام کا کھانا دن کے چار بجے فراہم کیا جاتا تھا۔ اس حوالے سے اخبارات میں مسلسل خبریں بھی شائع ہوتی رہی ہیں۔
تہاڑ جیل کے بارے میں یہ بات اب عیاں ہے کہ یہاں کشمیری قیدی انتہا درجے کے تعصب کا شکار بنائے جاتے ہیں۔ اُن کے مقابلے میں جیل میں قید جرائم پیشہ افراد کو زیادہ سہولیات دستیاب ہوتی ہیں۔ کشمیری قیدیوں کو یہاں غیرملکی تصور کیا جاتا ہے۔ کشمیری مزاحمتی تحریک کی علامت خاتون رہنما زمرد حبیب نے اس جیل میں پانچ سال گزارے ہیں۔ اُنھوں نے اپنے جیل کے شب وروز کو ایک کتابی صورت ’قیدی نمبر۱۰۰‘ میں شائع کیا ہے۔ اُس میں درجنوں دل خراش واقعات درج ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح کا سلوک کشمیری قیدیوں کے ساتھ روا رکھا جارہا ہے۔ اسی طرح کی ایک کتاب دلی میں مقیم معروف کشمیر ی صحافی افتخار گیلانی نے بھی تحریر کی ہے۔ اُنھیں بھی کشمیری ہونے کے جرم میں تہاڑ جیل میں مہینوں گزارنے پڑے ۔ تہاڑجیل سے رہائی پانے والے کسی بھی کشمیری نوجوان سے جب ملاقات کرتے ہیں تو اُن کی رودادِ قفس میں یہ بات ضرور شامل ہوتی ہے کہ جیل حکام کے ساتھ ساتھ دوسرے عام قیدی بھی ہمارے ساتھ وہاں غیرانسانی رویہ اختیار کرتے ہیں۔
یہی حالات بھارت کی دوسری جیلوں کے بھی ہیں۔ راجوری سے تعلق رکھنے والا ایک نوجوان محمد اسلم خان گذشتہ ڈیڑھ عشرے سے مقید ہے۔ دہلی ہائی کورٹ کی جانب سے باعزت بَری کیے جانے کے بعد اُنھیں ممبئی منتقل کیا گیا، وہاں اُنھیں کسی اور کیس میں ملوث کرکے عمرقید کی سزا سنائی گئی۔ اس وقت وہ امراواتی کی جیل میں بند ہیں ۔ دو ماہ پہلے اُن کے والدین کافی مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے وہاں ملاقات کے لیے چلے گئے۔ کئی سال کے بعد اُن کے والدین کو بیٹے سے ملاقات کرنے کا موقع مل رہا تھا، لیکن بدقسمتی سے ۲۰فٹ کی دُوری پر مائیکروفون کے ذریعے ان کی چندمنٹ کی ہی ملاقات کروائی گئی۔ وکیل کے ذریعے اسلم کے والدین کو معلوم ہوا کہ اُنھیں وہاں ۴/۴سائز کے سیل میں رکھا گیا ہے۔ اس قید تنہائی میں اُنھیں صبح کے وقت دوبالٹی پانی دیتے ہیں، جو اگلی صبح تک کے لیے ہوتا ہے۔ ان ہی دو بالٹی پانی سے اُنھیں اپنی ضروریات پوری کرنا ہوتی ہیں۔ وضو کے لیے وہی پانی ہے اور استنجا کے لیے بھی۔ کپڑے دھونے ہوں یا پھر غسل کرنا ہو، پیاس بجھانی ہو یا پھر کھانے کے برتن صاف کرنے ہوں، یہ ضروریات اُنھیں محض اس ۵۰لیٹر کے پانی سے ہی پوری کرنی ہیں ۔ تصور کیا جائے کہ ۴/۴ کے سیل میں ایک انسان کو برسوں قید میں رکھا جائے، اُسے جھلسادینے والی گرمی میں بھی محض چندلیٹر پانی فراہم کر کے، اسی پانی سے ۲۴گھنٹے تک اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے کہا جائے تو اُس اللہ کے بندے کی جسمانی و ذہنی حالت کیا ہوتی ہوگی؟ المیہ یہ ہے کہ ایسے اسیران کا کوئی پُرسانِ حال ہی نہیں ہے۔
بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کی اپنی والدہ اور بیوی کے ساتھ ملاقات کو لے کر بھارتی حکمرانوں کے ساتھ ساتھ یہاں کے میڈیا نے کئی ہفتوں تک خوب پروپیگنڈا کیا کہ پاکستان نے اس ملاقات میں کلبھوشن کی والدہ کو اپنے بیٹے کے ساتھ بغل گیر ہونے کی اجازت نہیں دی، اُن کے درمیان شیشے کی دیوار کھڑا کردی۔ لیکن اُن کی اپنی جیلوں میں کشمیری اور مسلم قیدیوں کے ساتھ جب اُن کے عزیز واقارب ہزاروں میل کا سفر طے کرکےملاقات کرنے کے لیے آجاتے ہیں تو اکثر و بیشتر اُنھیں نامراد ہی واپس لوٹ آنا پڑتا ہے۔ اگر ملاقات ہوبھی جاتی تو ملاقاتیوں اور قیدی کے درمیان پندرہ بیس فٹ کا فیصلہ رکھا جاتا ہے۔ ایک ساتھ دیوار کے سامنے بیسیوں قیدی ملاقات کے لیے لائے جاتے ہیں۔ پندرہ فٹ کی دوری پر دیوار کی اگلی سمت میں درجنوں عزیز واقارب چِلّا چِلّا کر اپنے پیاروں سے بات کرنے کی کوشش ضرور کرتے ہیں لیکن شور و غل میں نہ قیدی ہی اپنے ملاقاتیوں کی بات سنتا ہے اور نہ ملاقاتی ہی، قیدی کی بات کو سمجھ پاتا ہے۔ اس طرح ۱۰،۱۵منٹ میں یہ لوگ مایوسی کے عالم میں واپس مڑ جاتے ہیں۔ اس طرح کی سختی کی وجہ سے اب کشمیر میں بیش تر والدین نے بیرون ریاست مقید قیدیوں سے ملاقات کا سلسلہ ہی ترک کردیا ہے۔
بھارت کی جیلوں میں بند اِن ستم رسیدہ کشمیری قیدیوں کے مقدمات بھی طویل عرصے سے لٹکے ہوئے ہیں، جن کے خلاف مختلف غیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی چارج شیٹ مختلف ایجنسیوں نے تیار کی ہوتی ہے۔ اُن کے خلاف کارروائی کے لیے ایسی پیچیدگی سے مقدمات درج کیے جاتے ہیں کہ ایک بے گناہ کو بھی چھوٹ جانے میں برسوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔ ۲۰۱۷ء ہی میں ریاست کے اسیران طارق احمد ڈار، رفیق احمد شاہ اور اُن کے ایک ساتھی کو تہاڑجیل سے ۱۲سال بعد کورٹ نے باعزت رہا کیا۔ لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ اُن کی زندگی کے قیمتی ۱۲سال کس کھاتے میں جائیں گے؟بے گناہ افراد کو بے گناہ ثابت ہونے میں کیوں ۱۲سال لگے؟ یہ کچھوے کی چال چلنے والی عدالتی کارروائی بھی اس بات کی عکاسی کر رہی ہے کہ کشمیری قیدیوں کے لیے نہ ریاستی حکومت فکرمند ہے اور نہ دلّی میں کوئی ایسا صاحب ِ دل فرد ہے، جو انصاف اور اصولوں کی بات کرتے ہوئے ظلم و جبر کے اس سلسلے پر لب کشائی کرکے اربابِ اقتدار کو اقدامات کرنے کے لیے کہے۔
جیل مینول میں قاعدے اور قوانین ہوتے ہیں، مقید افراد کے حقوق ہوتے ہیں، لیکن بڑا ہی ہولناک المیہ ہے کہ اس ملک میں اس طرح کے تمام اصول، قواعد و ضوابط اور قانون کو بالاے طاق رکھا جاتا ہے۔ عوامی حلقوں کا یہ جائز مطالبہ ہے کہ کشمیری قیدیوں کو ریاستی جیلوں میں منتقل کیا جائے۔ تہاڑ اور دیگر ریاستوں کی جیلوں سے اُنھیں اپنی ریاست کی جیلوں میں منتقل کرکے اُن کی سلامتی کو یقینی بنایا جائے۔ میڈیا کے منفی پروپیگنڈے کے سبب جس طرح سے کشمیریوں کے بارے میں ایک انتہاپسندانہ سوچ پروان چڑھ رہی ہے، اُس کے پیش نظر بیرون ریاستوں کی جیلوں میں ہی نہیں بلکہ دیگر عوامی جگہوں پر بھی کشمیریوں کے جان و مال کو خطرات لاحق ہیں۔ گذشتہ دو برسوں سے کئی بھارت کے شہروں میں کشمیری طلبہ، تاجر اور دیگر لوگوں پر جان لیوا حملے بھی ہوئے ہیں۔ ابھی چند ہی ہفتے قبل دہلی جانے والی ایک فلائٹ میں سوار دیگر سواریوں کی شکایت پر تین کشمیری نوجوانوں کو جہاز سے اُتار کر ان سے کئی گھنٹوں تک پوچھ گچھ کی گئی۔ وجہ یہ تھی کہ کشمیری ہونے کی وجہ سے جہاز میں سوار دیگر سواریوں نے اُنھیں مشکوک تصور کیا او ر اُن کی موجودگی میں سفر کرنے سے انکار کردیا۔ ریل میں ٹکٹ کے بغیر سفر کرنے کا جرمانہ ۵۰سے ۱۰۰روپے ہے۔ ماہِ جنوری کے پہلے ہفتے میں بھارت کی ریاست اترپردیش میں ایک کشمیری طالب علم جلدی میں ٹکٹ لینا بھول گیا۔ اُنھیں ریلوے پولیس پکڑ کر جرمانہ کرنے کے بجاے دلی پولیس کی خصوصی سیل کے حوالے کردیتی ہے۔ اس لیے کہ وہ کشمیری ہونے کی وجہ سے دلی پولیس یہ دیکھ لے کہ کہیں اُن کا تعلق کسی ’ دہشت گرد‘ گروہ سے تو نہیں ہے۔ دلی پولیس نے بعد میں اُن کے دیگر دو ساتھیوں کو بھی گرفتار کرکے اُن کی کئی روز تک پوچھ گچھ کی۔ ’اٹوٹ انگ‘ کی بات کرنے والوں کا شہریوں کے ساتھ یہ دوہرا رویہ ہی بتا رہا ہے کہ کشمیری بھارتی شہری نہیں ہیں۔ نفرت پھیلانے کے لیے منظم طریقے سے کشمیریوں کے خلاف راے عامہ کو ہموار کیا جارہا ہے، جس کا براہِ راست اثر یہ ہو رہا ہے کہ ریاست سے باہر ہرجگہ کشمیری مسلمان کی جان و مال، عزت و آبرو کو خطرات لاحق ہو رہے ہیں۔
کشمیریوں کی جدوجہد کی کمر توڑنے اور تحریکی قیادت کو سمجھوتہ کرنے پر مجبور کرنے کے لیے اب کشمیری لیڈروں کو حوالہ کیسز میں ملوث کیا جارہا ہے۔ حریت لیڈران بالخصوص سید علی گیلانی کے قریبی ساتھیوں کو این آئی اے کے ذریعے گرفتار کرکے دلی منتقل کیا گیا ہے۔ حال ہی میں ۲۰۱۶ء کے عوامی انتفادہ میں اُن کے مبینہ طور پر ملوث ہونے کی پاداش میں اُن کے خلاف چارج شیٹ پیش کی گئی۔ حالانکہ دنیا جانتی ہے کہ حزب کمانڈر برہان وانی کی شہادت کے بعد جب عوامی تحریک برپا ہوئی تو اُس کے فوراً بعد یہ تمام لیڈران گرفتار کرلیے گئے۔اُنھیں سزا دینے کے لیے این آئی اے کا اسپیشل کورٹ تشکیل دیا جاچکا ہے۔ یہ طے ہے کہ اُنھیں فرضی الزامات کے تحت طویل عرصے کے لیے جیل کی کال کوٹھریوں میں مقید رکھا جائے گا۔ بھارتی حکمران کشمیر کے ہر مسئلے کا حل طاقت کے بل پر نکالنا چاہتے ہیں۔ دھونس، دبائو، زور زبردستی کے ذریعے سے عام کشمیریوں کو یہ باور کرایا جارہاہے کہ اُن کی جدوجہد ایک لاحاصل عمل ہے۔ حال ہی میں بھارتی فوج کے سربراہ جنرل بپن روات نے یہاں تک کہہ دیا کہ’’ کشمیر میں برسر پیکار عسکریت پسندوں اور سیاسی جدوجہد کرنے والوں کے ساتھ ایک ہی طرح کا سلوک کرنے کا وقت آچکا ہے‘‘۔ مطلب یہ کہ جس طرح عسکریت پسند کو بغیر ہچکچاہٹ کے شہید کردیا جاتا ہے اُسی طرح اب سیاسی طور پر پُر امن جدوجہد کرنے والوں کو بھی گولیوں سے بھون دیا جائے گا۔ حالانکہ یہ کار بدِ پہلے سے جاری ہے۔ عام اور نہتے کشمیری آئے روز شہید کردیے جاتے ہیں لیکن اس مرتبہ بھارتی فوجی سربراہ نے علانیہ کہہ دیا کہ وہ ایسا کرنے والے ہیں۔
بدقسمتی سے عالمی انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی اپنا کردار ادا کرنے سے قاصر دکھائی دے رہی ہیں۔ دُنیا بھر میں بڑی بڑی عالمی کانفرنسیں منعقد ہوتی ہیں، لیکن المیہ یہ ہے کہ ہرجگہ ’جس کی لاٹھی اُس کی بھینس ‘ والا معاملہ بن چکا ہے۔ طاقت ور قومیں کمزور قوموں کے خلاف کتنے ہی گھنائونے ہتھکنڈے کیوں نہ استعمال میں لائیں، اُنھیں کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں ہوتا ہے۔ اُن پر کہیں سے کوئی انگلی نہیں اُٹھتی۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی عالمی تنظیمیں بیان بازیوں سے آگے بڑھ کر کچھ بھی کرنے سے قاصر ہیں۔ وہ حکومتوں پر دبائو بڑھانے کے لیے عالمی سطح کی مہم نہیں چلاتیں۔ حالاںکہ گذشتہ تین عشروں کی تاریخ میں کس طرح کشمیر کی سرزمین پر انسانیت کی مٹی پلید کی گئی، کس طرح انسانی حقوق کی پامالی کی گئی، اس کی دنیابھر میں کہیں کوئی مثال موجود نہیں ہے۔ اگر یہ کسی اور قوم کے ساتھ ہوا ہوتا، دہلی سرکار کی جگہ پر کوئی مسلمان ملک ہوتا، تو شاید ان سنگین خلاف ورزیوں کے خلاف عالمی ایوانوں میں زلزلہ برپا ہوجاتا۔ لیکن جب کشمیریوں کی بات آتی ہے تو پوری دنیا کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کی تنظیموں کو بھی جیسے سانپ سونگھ جاتا ہے۔
معاش یا معیشت تلاش رزق کی آزادانہ جدوجہد کا نام ہے۔ عربی زبان میں ’عیش‘ زندگی گزارنے کو کہتے ہیں اور ’معاش زندگی‘ گزارنے کے وسائل کو حاصل کرنے کو کہتے ہیں۔ تاریخ اور عمرانیات کے نام وَر عالم ابن خلدون کہتے ہیں :
اِنَّ الْمَعَاشَ ھُوَ ابْتِغَاءُ الرِّزْقِ وَالسَّعْیُ فِیْ تَحْصِیْلِہٖ،معاش رزق تلاش کرنے اور اس کے حصول میں دوڑ دھوپ کرنے کا نام ہے۔ (مقدمہ ، ص ۴۶۳، قاہرہ ۲۰۰۴ء)
وَ لَقَدْ مَکَّنّٰکُمْ فِی الْاَرْضِ وَجَعَلْنَا لَکُمْ فِیْھَا مَعَایِشَط قَلِیْلًا مَّا تَشْکُرُوْنَO (اعراف۷:۱۰) اور بے شک ہم نے تم کو زمین میں ٹھکانہ دیا اور اس میں تمھاری زندگی کا سامان رکھا، مگر تم لوگ کم ہی شکر کرتے ہو۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو زمین میں آباد کیا ہے، اسے خلیفہ بنایا ہے اور اسے عقل وشعور کے ساتھ قوت واختیار اور مالکانہ حقوق سے نوازا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حیوانات کو بھی پیدا کیا ہے مگر نہ تو ان کو عقل وشعور عطا کیا ہے اور نہ حق ملکیت عطا کیا ہے۔ حیوانات کسی چیز کے مالک نہیں ہوتے، جب کہ انسان کو ہر شے کی ملکیت عطا کی گئی ہے، یہاں تک کہ حیوانات کی بھی۔ انسان کی عظمت وفضیلت اس کی قوت وقدرت اور آزادی واختیار سے ظاہر ہوتی ہے۔ جس انسان کو حق ملکیت حاصل نہیں ہے اسے آزادی بھی حاصل نہیں ہے۔ اس کے ارادہ ، اختیار اور قدرت میں کمی ہے۔ گویا حق ملکیت انسان کی آزادی کی علامت ہے اور حق ملکیت سے محرومی غلامی کی علامت ہے۔ اسی نکتے کو قرآنِ پاک میں اس طرح مثال دے کر سمجھایا گیا ہے:
ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا عَبْدًا مَّمْلُوْکًا لَّا یَقْدِرُ عَلٰی شَیْ ئٍ وَّ مَنْ رَّزَقْنٰہُ مِنَّا رِزْقًا حَسَنًا فَھُوَ یُنْفِقُ مِنْہُ سِرًّا وَّ جَھْرًا ط ھَلْ یَسْتَوٗنَ ط اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ ط بَلْ اَکْثَرُھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَO (النحل۱۶ :۷۵) اللہ نے غلام بندے کی مثال دی ہے جو کسی چیز کی قدرت نہیں رکھتا اور اس بندے کی مثال دی ہے جس کو ہم نے اچھا رزق عطا کیا ہے ، تو وہ اس میں سے کھلے اور چھپے خرچ کرتا ہے۔ کیا یہ دونوں برابر ہو سکتے ہیں ؟ الحمدللہ مگر ان میں سے اکثر لوگ نہیں جانتے۔
غلام کو مالکانہ حقوق حاصل نہیں ہوتے ۔ اس لیے وہ اپنی مرضی سے مال خرچ نہیں کر سکتا ۔ وہ اپنے مالک کی مرضی کا محتاج رہتا ہے۔ اس کے مقابلے میں آزاد انسان اپنے ارادے اور اختیار سے جس طرح چاہے مال خرچ کر سکتا ہے۔ کوئی اسے روکنے ٹوکنے والا نہیں۔ ان دونوں انسانوں میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔ایک مختار ہے دوسرا محتاج، ایک مالک ہے دوسرا مجبور۔
اللہ تعالیٰ نے یہ کائنات انسان کے لیے بنائی ہے اور انسان کے لیے اس میں منافع اور برکتیں رکھی ہیں۔ انسانوں کو اپنی عقل وبصیرت اور فہم وفراست سے کام لے کر آزاد انہ تصرف کرنے کی سہولت فراہم کی ہے۔ رزق کے وسائل اور معیشت کے ذرائع اس زمین میں کثرت سے پیدا کیے ہیں اور انسانوں کو اپنی لیاقت اور محنت سے ان کو کام میں لانے کی دعوت دی ہے اور اپنی زندگی کو خوش حال بنانے کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ اللہ پاک کا ارشاد ہے :
ھُوَ الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الْاَرْضَ ذَلُوْلًا فَامْشُوْا فِیْ مَنَاکِبِھَا وَکُلُوْا مِنْ رِّزْقِہٖ ط وَاِلَیْہِ النُّشُوْرُ O (الملک ۶۷:۱۵) اور اللہ ہی ہے جس نے تمھارے لیے زمین کو پست بنا دیا ، چلو اس کے کندھوں پر اور کھائو اس کا رزق اور اسی کی طرف مرنے کے بعد اُٹھ کر جانا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے رزق کے وسائل پر کسی خاص خاندان ، گروہ اور قوم کا حق نہیں رکھا ہے، بلکہ ان کو تمام انسانوں کے استفادے کے لیے بنایا ہے۔ ارشاد فرمایا کہ :
ھُوَ الَّذِیْ خَلَقَ لَکُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا(البقرہ ۲:۲۹) اور اللہ ہی ہے جس نے تمھارے لیے زمین کی ساری چیزیں پیدا کیں۔
کوئی بھی شخص اپنی صلاحیت اور محنت سے ان کو بروے کار لا سکتا ہے اور ان سے استفادہ بھی کر سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو انفرادی ملکیت کا حق بھی دیا ہے اور اس میں تصرف کی آزادی بھی بخشی ہے۔ اسی کے ساتھ بعض بنیادی چیزوں کو تمام انسانوں کی مشترکہ ملکیت بھی قرار دیا ہے، جن میں ہوا ، پانی، روشنی ، آگ اور گھاس وغیرہ شامل ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: اَلْمُسْلِمُوْنَ شُرَکَاءُ فِیْ ثَلَاثٍ فِی الْکَلَاءِ وَالْمَاءِ وَالنَّارِ(سنن ابو داؤد ، کتاب البیوع )’’تین چیزوں میں تمام مسلمان شریک ہیں: گھاس، پانی، اور آگ میں‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے وسائل رزق کی فراوانی کے ساتھ انسانوں کو محنت وعمل کی آزادی بھی بخشی ہے۔ کوئی بھی شخص اپنی مرضی اور ارادے سے حلال رزق کا کوئی بھی ذریعہ اختیار کر سکتا ہے ۔ کوئی بھی پیشہ پسند کر سکتا ہے اور کوئی بھی میدانِ عمل منتخب کر سکتا ہے ۔ اس پر کوئی پابندی نہیںہے، بلکہ اللہ تعالیٰ نے مومن بندوں کی حوصلہ افزائی کی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت بجا لانے کے ساتھ حلال رزق کی جدوجہد میں اپنا وقت لگائیں ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلٰوۃُ فَانْتَشِرُوْا فِی الْاَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰہِ وَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَO(الجمعہ۶۲ :۱۰) پس جب نماز پوری ہو جائے تو زمین میں پھیل جائو اور اللہ کا فضل، یعنی رزق تلاش کرو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرو، شاید تم کامیاب ہو جائو۔
خَیْرُ الْکَسْبِ کَسْبُ یَدِ الْعَامِلِ اِذَا نَصَحَ (مسند احمد ۲/۳۳۴) بہترین کمائی وہ ہے جو محنت کش اپنے ہاتھ سے کماتا ہے بشرطیکہ وہ خیر خواہ ہو۔
ایک شخص نے امام احمد بن حنبلؒ سے پوچھا کہ اس شخص کے بارے میں آپ کی کیا راے ہے جو یہ سوچ کر گھر یا مسجد میں بیٹھ جائے کہ میری روزی خود بخود میرے پاس پہنچ جائے گی۔ اس کے لیے مجھے محنت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ امام احمد بن حنبل ؒنے جواب دیا کہ ایسا شخص جاہل ہے۔ اسے معلوم نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے :
اِنَّ اللہَ جَعَلَ رِزْقِیْ تَحْتَ رُمْحِیْ (فتح الباری ج۱۱، ص۶۰۳) اللہ تعالیٰ نے میرا رزق میرے نیزے کے نیچے رکھا ہے۔
ابن خلدون نے لکھا ہے کہ : ’’روزی کمانے کے لیے کوشش کرنا اور محنت کرنا ضروری ہے‘‘۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فَابْتَغُوْا عِنْدَ اللہِ الرِّزْقَ (مقدمہ ،ص ۴۶۲) ’’اللہ کے پاس رزق تلا ش کرو‘‘۔
معاشی آزادی کے لیے آزاد تجارت اور فری مارکیٹ بھی ضروری ہے۔ حکومت کنٹرول ریٹ پر غلہ اور اشیاے خوردو نوش تو فراہم کر سکتی ہے مگر آزادانہ تجارت پر پابندی عائد نہیں کر سکتی ۔ لوگ جس طرح چاہیں کاروبار کریں ، جیسے چاہیں لین دین کریں، اس میں مداخلت کرنے کا جواز نہیں۔
حضرت انس بن مالک ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں چیزوں کی قیمتیں مہنگی ہو گئیں۔ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور بازار کی اشیا کا بھائو مقرر کرنے کی درخواست کی تو آں جناب صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
اِنَّ اللہَ ھُوَ الْمُسَعِّرُ الْقَابِضُ الْبَاسِطُ الرَّازِقُ وَ اِنِّیْ لَاَرْجُوْ اَن اَلْقَی اللہَ وَلَیْسَ اَحَدٌ مِنْکُمْ یُطَالِبُنِیْ بِمَظْلَمَۃٍ فِیْ دَمٍ وَلَا مَالٍ (سنن ابی داؤد ، کتاب البیوع) بے شک نرخ مقرر کرنے والا اللہ ہے، وہی روزی تنگ کرتا ہے، وہی روزی کشادہ کرتا ہے، اور وہی روزی مہیا کرتا ہے۔ میری آرزو ہے کہ میں اللہ سے اس حال میں ملاقات کروں کہ تم میں سے کوئی مجھ سے کسی جانی یا مالی زیادتی کا مطالبہ کرنے والا نہ ہو۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اگر چاہتے تو بازاری اشیا کی قیمت متعین کر سکتے تھے اور لوگ آپؐ کی مقرر کردہ قیمتوں کو بخوشی قبول بھی کر لیتے ۔ پھر بھی آپؐ نے آزادیِ تجارت کو برقرار رکھنے کے لیے مداخلت نہیں فرمائی، بلکہ یہ معاملہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیا کہ وہی حالات ساز گار کرنے والا ہے۔ وہی حالات تنگ کرنے والا ہے۔ اسی کے قبضۂ قدرت میں انسانی قلوب اور ذہن ہیں۔
اسلام نے معاشی آزادی کے لیے کاروبار کی آزادی کو یقینی بنایا ہے۔ آزادانہ تجارت اور لین دین کی رکاوٹوں کو دُور کرنے پر زور دیا ہے، اور ایسے طور طریقوں کو اختیار کرنے سے منع کیا ہے جو آزادانہ تجارت پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ چنا نچہ حضرت جابر ؓ روایت کرتے ہیں کہ جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لَا یَبِیْعُ حَاضِرٌ لِبَادٍ وَدَعُوْا النَّاسَ یَرْزُقُ اللہُ بَعْضَھُمْ مِنْ بَعْضٍ (سنن ابن ماجہ ) کوئی شہری کسی دیہاتی کا مال لے کر نہ بیچے (دلالی نہ کرے )۔ لوگوں کو چھوڑ دو کہ وہ خود سے کاروبار کریں۔ اللہ بعض کو بعض کے ذریعے رزق دیتا ہے۔
غرض یہ کہ اسلام نے آزادانہ تجارت کی نہ صرف اجازت دی ہے بلکہ اس کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ کیوں کہ اس سے تمدن کی ترقی اور سماج کی خوش حالی جڑی ہوئی ہے۔ جب کبھی آزادانہ معیشت پر قدغن لگایا جائے گا اور عوام کو معاشی جبر میں مبتلا کیا جائے گا تو ملک میں بدامنی پھیلے گی اور حکمران کے خلاف بغاوت کے شعلے بھڑکیں گے۔ معاشی جبر انسان کے ایمان واخلاق کو بھی برباد کرتا ہے اور ملک میں برائی اور فساد کا بھی ذریعہ ہے۔ ماضی قریب میں بعض مسلم ممالک میں جو بغاوت کی لہر اٹھی وہ بہت حد تک اسی معاشی جبر کا نتیجہ تھی۔ حکمراں طبقہ معاشی وسائل پر سانپ بن کر بیٹھ گیا تھا اور عوام پر رزق کے راستے تنگ کر دیے تھے۔ اس کا نتیجہ بغاوت اور انقلاب کی شکل میں رُونما ہوا۔ ۱۹۷۹ء میں ایران کے شہنشاہ آریہ مہر رضا شاہ پہلوی کے خلاف جو بغاوت رونما ہوئی اس کا بنیادی سبب حکمران کی معاشی اصلاحات سے عوام کی بے اطمینانی اور بے چینی تھی۔ ۲۰۱۱ء میں تیونس میں عوامی انقلاب ، ۲۰۱۲ء میں لیبیا اور مصر میں عوامی انقلاب حکمرانوں کے معاشی جبر کا ردعمل تھا۔ حکمران خاندان نے معاشی وسائل اور ذرائع تجارت پر قبضہ کر لیا تھا اور عوام کو ملکی وسائل کی آمدنی سے محروم کر دیا تھا۔ حکمران عیش وعشرت کی زندگی گزار رہے تھے اور عوام تنگ دستی میں مبتلا تھے، بلکہ فاقہ کشی پر مجبور تھے۔ اس جبرو استبداد کو ختم ہونا تھا بالآخر عوامی رد عمل نے ان حکمرانوں کو کیفر کردار تک پہنچا دیا۔
معاشی جبر جس طرح انسان کو فساد میں مبتلا کر دیتا ہے، اسی طرح معاشی وسائل کی کثرت اور دولت کی فراوانی انسان کو برباد کر دیتی ہے۔ حکمران طبقے کے ساتھ بالعموم یہی ہوتا ہے۔ ان کی تعیش پسند زندگی ان کو انجام سے بے خبر کر دیتی ہے اور ان کی نگاہوں پر پردے ڈال دیتی ہے۔ معاشیات کے اسی نکتے کو اللہ تعالیٰ نے اس طرح سمجھایا ہے :
وَلَوْ بَسَطَ اللّٰہُ الرِّزْقَ لِعِبَادِہٖ لَبَغَوْا فِی الْاَرْضِ وَلٰـکِنْ یُّنَزِّلُ بِقَدَرٍ مَّا یَشَآئُ ط اِنَّہٗ بِعِبَادِہٖ خَبِیْرٌم بَصِیْرٌO(الشوریٰ ۴۲:۲۷) اگر اللہ تعالیٰ بندوں کے لیے وسائل رزق کی فراوانی کردے تو وہ زمین میں سرکشی کرنے لگیں، لیکن اللہ جتنا چاہتا ہے اندازے سے نازل کرتا ہے۔ وہ اپنے بندے کے احوال پر نظر رکھتا ہے اور خبر رکھتا ہے۔
لَا تَاْکُلُوْٓا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّآ اَنْ تَکُوْنَ تِجَارَۃً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْکُمْ (النساء۴ : ۲۹) اور نہ کھائو ایک دوسرے کا مال غلط طریقے سے اِلا یہ کہ باہمی رضا مندی سے تجارت ہو۔
اسی لیے اسلا م نے چوری، ڈاکا زنی، جوا، لاٹری وغیرہ کے ذریعے حاصل کیے ہوئے مال کو انسان کی ملکیت تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے۔ کیوں کہ یہ باطل طریقے سے مال کمانا ہے۔
نَھٰی رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ بَیْعِ الْغَرَرِ (سنن الترمذی ، ابواب البیوع )نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دھوکے کی تجارت سے منع فرمایا ہے ۔
غرر ایک جامع لفظ ہے۔ اس میں ہر طرح کی دھوکے بازیاں، مال مجہول اور تجارتی جعل سازیاں شامل ہیں۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا: مَنْ غَشَّ فَلَیْسَ مِنَّا (سنن ترمذی) جو دھوکا دے گا وہ ہماری امت میں سے نہیں ہے۔ تجارت اور کاروبار کی آزادی اس بات سے جڑی ہوئی ہے کہ کسی فریق کا نقصان نہ ہو اور اس کی حکمت یہ ہے: لَا ضَرَرَ وَلَا ضِرَارَ فِی الْاِسْلَامِ، ’’نہ تو نقصان اٹھائو اور نہ نقصان پہنچائو‘‘۔ یہی اسلامی معیشت کی روح اور جان ہے اور یہی نظام عدل واحسان ہے۔ اگر کسی فریق کے تجارتی فائدے میں دوسرے فریق کا نقصان ہو تو اس کاروبار کو عادلانہ نہیں کہا جا سکتا اور ایسی آزادی کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا ۔
وَ کُلُوْا مِمَّا رَزَقَکُمُ اللّٰہُ حَلٰلًا طَیِّبًا ص وَّ اتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیْٓ اَنْتُمْ بِہٖ مُؤْمِنُوْنَO (المائدہ ۵:۸۸) جو پاکیزہ حلال رزق اللہ نے تم کو دیا ہے اس میں سے کھائو اور اس اللہ سے ڈرو جس پر تم ایمان رکھتے ہو۔
ایک مسلمان کو اس بات کی اجازت نہیں ہے کہ وہ سور، شراب، مردار اور خون کی تجارت کرے، یا بدکاری اور فحش چیزوں کا دھندا کرے، یا سودی لین دین کرے۔ شریعت نے جن چیزوں کو حرام قرار دیا ہے وہ اللہ کی نظر میں ناپاک ہیں اور پاکیزہ عقیدے کے حاملین کو ناپاک اشیا کی تجارت زیب نہیں دیتی۔ اس کے مقابلے میں پاک چیزوں کی تجارت کا وسیع میدان موجود ہے۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْکُلُوا الرِّبٰٓوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَۃً ص وَاتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَO(اٰل عمرٰن ۳:۱۳۰ ) اے مومنو ! مت کھائو سود بڑھا چڑھا کر۔ اللہ سے ڈرو شاید کہ تم کامیاب ہو جائو۔
اسلام نے اس طرح کی متعدد شرطوں اور حدوں کا تعین کیا ہے ، جن پر عمل کر کے انسانی معاشرے کو فساد سے اور بدامنی سے بچایا جا سکتا ہے اور معاشی آزادی کو بامعنی بنایا جا سکتا ہے۔
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَیَجْعَلُ لَھُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّاOجو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے، یقینا رحمٰن ان کے لیے عنقریب دلوں میں محبت پیدا فرمادے گا‘‘۔(۱۹:۹۶)
دنیا میں اللہ کے لاتعداد بندے ایسے آئے اور آتے رہیں گے کہ اخلاص اور صبر و محنت سے اپنا فرض انجام دیتے رہے۔ انھیں نہ کسی ستایش کی فکر تھی اور نہ کسی ملامت کی۔ فکرمندی تھی تو بس یہ کہ آپؐ کا اُمتی ہونے کی حیثیت سے اپنا فرض ادا ہو، آخرت سنور جائے، اور اپنے بعد علم و عمل صالح کا صدقۂ جاریہ چھوڑ جائیں۔ رب کی جناب میں جن بندوں کی یہ ادا قبول ہوگئی، وہ پھانسی کے پھندے پر بھی یہی پکارتے سنائی دیے کہ: فُزتُ بِرَبِّ الکَعبَۃ، ’’رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوگیا!‘‘۔ ان کی دشمنی میںاندھے ہوجانے والوں کے دل بھی بالآخر گواہی دیتے رہے کہ وہ حق پر تھے اور ہم غلطی پر۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث اس ابدی حقیقت کی مزید وضاحت کرتی ہے۔ نبی کریمؐ کا ارشاد ہے: ’’اللہ تعالیٰ جب اپنے کسی بندے سے محبت فرماتا ہے تو جبریلؑ کو بلاکر کہتا ہے: جبریلؑ! میں اپنے فلاں بندے سے محبت کرتا ہوں، تم بھی اس سے محبت کرو۔ جبریلؑ بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں۔ پھر اہل آسمان میں منادی کرکے کہتے ہیں کہ ’’اللہ تعالیٰ اپنے فلاں بندے سے محبت کرتا ہے، آپ لوگ بھی اس سے محبت کریں۔ اہل آسمان بھی اس بندے سے محبت کرنے لگتے ہیں اور پھر زمین پر بھی اس کے لیے قبولیت لکھ دی جاتی ہے‘‘۔ (مسند احمد)
۲۰ دسمبر ۲۰۱۷ء کو بھی اللہ کا ایک ایسا ہی بندہ، اللہ کے حضور حاضر ہوگیا۔ محمد مصطفےٰ الاعظمی دنیا سے رخصت ہوئے تو دنیا کے نمایاں ترین اہلِ علم نے ان کے فراق کا دُکھ محسوس کیا۔ ۱۹۳۲ء میں اعظم گڑھ، ہندستان میں پیدا ہونے والے کے والدین نے محمد مصطفےٰ نام رکھتے ہوئے شاید سوچا بھی نہ ہوگا، کہ اس نومولود کی ساری زندگی دامنِ مصطفےٰ سے وابستہ ہوجائے گی۔ دورِ جدید کی سہولیات اور ٹکنالوجی کو حدیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کے لیے جناب اعظمی نے اس طور وقف کیا کہ بعد میں آنے والوں کے لیے خیر کے وسیع ابواب کھل گئے۔
قطر میں دوران تعلیم اعظمی صاحب سے ملاقات کا موقع ملا، لیکن بہتر ہے کہ خود کچھ عرض کرنے کے بجاے ان کے بارے میں دو جلیل القدر ہستیوں کی تحریریں من و عن پیش کردی جائیں۔ ان میں سے ایک تو ہیں ان کے ہم عصر اور رفیق و ہم دم علامہ یوسف القرضاوی اور دوسرے ہیں ان کے براہِ راست شاگرد اور گذشتہ ۳۵ سال سے امام کعبہ جناب شیخ صالح بن عبداللہ بن حُمید۔
’اعظمی‘ کا نام ان کی جاے ولادت ہندستان کے اعظم گڑھ سے منسوب ہے۔ اس شہر سے کئی علماے ہند منسوب ہیں۔ واضح رہے کہ اعظمی کہلانے والی کئی شخصیات بغداد کے علاقے ’اعظمیہ‘ سے بھی منسوب ہیں۔یہ بغداد کا وہ علاقہ ہے جہاں امام ابو حنیفہ کی جامع مسجد ہے۔ اس علاقے اور جامع مسجد کو ان کے جلیل القدر شاگرد علماے کرام نے اپنے امام اعظم سے منسوب کرتے ہوئے ’اعظمیہ‘ کا نام دے دیا۔ اس کے مقابل ایک دوسرا علاقہ ہے، جہاں امام موسیٰ کاظم کی قبر ہے، وہ علاقہ ان کی نسبت سے ’کاظمیہ‘ کہلاتا ہے۔
اپنے بھائی ڈاکٹر محمد مصطفےٰ الاعظمی سے جامعہ ازہر میں میرا تعارف وہاں ان کی گرفتاری سے کچھ عرصہ قبل ہی ہوا تھا۔ ان کی گرفتاری پر ہم سب کو حیرت ہوئی۔ اس گرفتاری کا اصل ماجرا یہ تھا کہ وہ جامعہ ازہر میں احمد العسال اور الصفطاوی، ہم اخوانی طلبہ سے اکثر ملا کرتے تھے۔ اس وقت وہاں موسم سرما کا آغاز تھا۔ اعظمی صاحب، ہندستانی علما کا معروف لباس شیروانی اور جناح کیپ پہنتے تھے۔ لمبی سیاہ شیروانی، سیاہ ٹوپی اور سیاہ داڑھی، حکومت کے شکاری کتوں نے سمجھا کہ یہ کوئی عیسائی پادری ہیں۔ وہ اخوان کے طلبہ اور کارکنان کو گرفتار کررہے تھے۔ ایک روز گالیاں دیتے ہوئے کہنے لگے: ’’کسی … کے بچو! تم مسلم نوجوانوں کو تو اخوان میں شامل کرہی رہے تھے اب عیسائیوں کو بھی نہیں بخشا؟ انھیں بھی اخوان میں شامل کرلیا ہے؟ انھوں نے اعظمی صاحب کو اُٹھا کر جیل میں بند کردیا۔ یاد نہیں وہ کتنا عرصہ گرفتار رہے، لیکن مختلف وسیلوں اور واسطوں کے ذریعے وہ ہم سے پہلے رہا ہوگئے تھے۔
اس دور کے بعد اللہ نے ہمیں ایک خلیجی ریاست قطر میں اکٹھا کردیا۔ انھیں اس وقت قطر کے حکمران علی بن عبد اللہ آل ثانی کی ذاتی لائبریریوں کا نگران مقرر کیا گیا تھا۔ بعد میں قطر کی ’نیشنل لائبریری دارالکتب‘ تعمیر ہوئی تو یہ سابق الذکر تمام لائبریریاں بھی اس میں شامل کردی گئیں۔ اعظمی صاحب اس کے نگران اعلیٰ اور جناب عبدالبدیع صقر اس کے ڈائریکٹر جنرل مقرر کیے گئے۔
میں جب دوحہ پہنچا تو اعظمی صاحب نے ہمارا استقبال کیا۔ وہاں ہماری مستقل مجالس منعقد ہونے لگیں۔ جن میں جناب عبدالحلیم ابوشقہ، احمد العسال، ڈاکٹر حسن المعایرجی جیسے احباب شریک ہوتے تھے۔ ہم سب کا تعلق مصر سے تھا، جب کہ ازہر میں رہنے اور اخوان کے ساتھ جیل میں رہنے کے باعث، اعظمی صاحب بھی مصری ہوگئے تھے۔
ہمارے اہل خانہ بھی ایک دوسرے کے ہاں آتے جاتے تھے۔ وہ اپنے بیوی بچوں کے ہمراہ ہمارے گھر آتے تو کہتے ’’آپ کا کھانا مزیدار تو ہے، لیکن ہے بے جان، بے روح‘‘۔ ہم نے پوچھا کہ اسے زندہ کیسے کیا جاسکتا ہے؟ کہنے لگے صرف ایک چیز سے، اور وہ ہے مرچ مصالحہ، مرچوں کے بغیر کھانے کا بھلا کیا فائدہ۔ ہم نے کہا: بس ٹھیک ہے، کھانا ہم بنایا کریں گے، مرچ مصالحہ آپ لایا کریں گے۔ ایک قہقہہ لگا اور پھر یہ معمول ہوگیا کہ وہ آتے تو اپنے لیے بیگ میں سرخ مرچیں ہمراہ لاتے۔ برعظیم کے ہمارے بھائی اتنی مرچیں کھاتے ہیں کہ بعض اوقات ان کے میٹھے میں بھی مرچیں ہوتی ہیں۔
مصر سے آنے والے ہم سب دوست اور اعظمی صاحب اکثر کسی نہ کسی کے گھر میں مل بیٹھتے، مختلف اُمور پر تفصیلی بحث و مباحثہ ہوتا۔ لندن سے پی ایچ ڈی کرکے آنے والے ڈاکٹر عزالدین ابراہیم ان مجالس کو ’راہِ سلوک‘ کی ابتدائی مجالس کہا کرتے تھے۔ پھر عبدالحلیم ابوشقہ صاحب تالیف و تصنیف میں مصروف ہوگئے اور جناب اعظمی صاحب سعودی جامعات میں تدریس کے لیے چلے گئے اور یہ سلسلہ منقطع ہوگیا۔
قطر میں مرکز بحث سنت و سیرت قائم کیا گیا اور امیر قطر نے مجھے اس کی ذمہ داری دے دی، تو میں نے کئی اُمور میں ڈاکٹر اعظمی صاحب سے مشورہ کیا۔ ان کے تعاون سے ہم نے دارالکتب اور دیگر لائبریریوں سے کئی اہم کتب اور ان کی کاپیاں حاصل کیں۔ اکتوبر ۱۹۷۵ء میں مولانا سیّد ابوالحسن علی ندوی نے ندوۃ العلما کی ۸۵ سالہ تقریبات منعقد کیں تو اس موقعے پر بھی ان سے مفصل ملاقاتیں رہیں۔
ہمارے بھائی ڈاکٹر عبدالعظیم الدیب نے ایک بار ایک مقالہ لکھا جس کا عنوان تھا: ’کمپیوٹر دورِ حاضر کا حافظ‘۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر دور گذشتہ کے طلبہ اپنے اساتذہ او رمشائخ کو ’حافظ‘ کا لقب دیا کرتے تھے، جیسے حافظ ابن حجر، حافظ سیوطی .. تو آج کے دور میں یہ لقب کمپیوٹر کو دیا جاسکتا ہے۔ انھوں نے اپنے مقالے میں اس ٹکنالوجی اور سہولت کو علوم حدیث و فقہ کی خدمت کے لیے استعمال کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ اعظمی صاحب اس میدان کے سرخیل تھے۔ ہم نے تقریباً ۳۰ سال قبل قطر میں ایک کانفرنس منعقد کی تھی، جس کا عنوان تھا: ’حدیث نبویؐ کا جامع انسائی کلوپیڈیا‘۔ اس وقت اعظمی صاحب نے ہمیں بتایا کہ انھوںنے سنت نبویؐ کی ۱۷ کتب جن میں ۳ لاکھ احادیث کا مجموعہ ہے، ایک مختصر ڈِسک میں محفوظ کرلی ہیں، اور وہ اس پر مزید کام کررہے ہیں۔
اعظمی صاحب کا زیادہ تر علمی کام حدیث ہی پر تھا۔ اگرچہ قرآن کریم کے دفاع اور ترویج کے لیے بھی انھوں نے اہم خدمات انجام دیں۔ اس ضمن میں انگریزی زبان میں لکھے جانے والے ان کے مقالے کو بھی اہل زبان نے بہت پسند کیا ہے۔ لیکن جس دور میں انھوں نے حدیث نبویؐ کو کمپیوٹر میں محفوظ کرنے کا کام کیا، اس وقت ان کا کوئی اور ثانی نہ تھا۔
مجھے ذاتی طور پر کئی بار ان کی خدمات سے استفادے کا موقع ملا۔ میں نے ان سے امام احمد کی بیان کردہ بعض احادیث پر بات کی جو مطبوعہ مسند احمد میں شامل نہیں ہیں۔ حافظ المنذری نے الترغیب و الترھیب میں ان کا حوالہ بھی دیا ہے اور ان کے بارے میں ائمہ حدیث کے اقوال بھی نقل کیے ہیں۔ انھوں نے جھٹ سے وہ احادیث کمپیوٹر پر موجود مسند سے نکال دیں۔ پھر ہم نے کئی بار تجربہ کیا اور ہر بار نتائج بالکل درست برآمد ہوئے۔ انھوں نے چار جلدوں میں سنن ابن ماجہ کی تخریج کی۔ اغلاط کی نشان دہی کی اور بحث و تمحیص کے بعد علما و مفکرین کے سامنے اپنی راے پیش کی۔ ان کی ایک اور عظیم خدمت یہ ہے کہ انھوں نے احادیث کا وہ مجموعہ دریافت کیا، جو بعض علما کے نزدیک کئی صدیوں سے مفقود ہوچکاتھا۔ یہ مجموعہ تھا:صحیح ابن خزیمہ۔ اس کتاب کا شمار حدیث کی معروف اور صحیح کتب میں ہوتا ہے۔ کئی اہل اختصاص علما کے نزدیک وہ صحیح ابن حِبَّان سے زیادہ بہتر سند و منہج کی حامل ہے۔ علامہ اعظمی صاحب صحیح ابن خزیمہ کا ایک حصہ دریافت کرگئے۔ اللہ کرے کوئی اور اللہ کا بندہ اس کا باقی حصہ بھی ڈھونڈ نکالے اور وہ مکمل صورت میں شائع کردی جائے۔
کئی سال قبل و ہ قطر کے دورے پر آئے، ملاقاتوں کی تجدید ہوئی، لیکن اب طویل عرصے سے ان کے ساتھ کوئی رابطہ یا ملاقات نہ ہوسکی تھی۔ اچانک ان کی رحلت کی اطلاع ملی تو ہم نے ان کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی۔ اللہ رب العزت سے دُعا ہے کہ ان کی تمام نیکیاں قبول فرمائے، ان کا بہترین صلہ عطا فرمائے، کوتاہیوں سے درگزر فرمائے۔ اُمید ہے کہ ان کے صاحبزادے بالخصوص عزیزم ڈاکٹر عقیل محمد الاعظمی اپنے والد کے علمی ذخیرے کی مکمل دیکھ بھال کریں گے اور ان کے چھوڑے ہوئے علم سے سب کو مستفید کرنے کی عملی سبیل نکالیں گے، کیونکہ علم نافع ہی دنیا سے جانے والوں کے لیے سب سے عظیم ورثہ ہوسکتا ہے۔
سنت نبی صلی اللہ علیہ وسلم علم کے عظیم ترین میدانوں میں سے اہم ترین میدان ہے۔ قدیم ہی نہیں اس بارے میں جدید ابحاث بھی بہت اہم ہیں۔ اس میدان کی اہم علمی شخصیات میں جلیل القدر عالم دین، ہر حوالے سے قابل اعتماد محقق و محدث ہمارے شیخ اور ہمارے استاد علامہ محمد مصطفےٰ الاعظمی کا شمار ہوتا ہے۔ تمام تر علمی رعنائی کے باوجود وہ خود کو نمایاں و مشتہر کرنے سے بچتے تھے۔ انھوں نے حدیث نبویؐ کی تعلیم دی، اور سنت نبویؐ کا دفاع کیا۔ ان کا شمار دورِ حاضر میں علم حدیث کے بلند پایہ علما میں ہوتا ہے۔ وہ اسلاف کے بعد آنے والے ان علما میں شمار ہوتے ہیں جنھوں نے مدون احادیث کو نیا جمال بخشا۔ اس ضمن میں ان کی نمایاں ترین خدمت صحیح ابن خزیمۃ کے مخطوطے کی تلاش و تحقیق اور اشاعت و تعلیق تھی۔
آپ ہندستان کے صوبہ اترپردیش کے علاقے میو میں ۱۳۵۰ ہجری میں پیدا ہوئے۔ ۱۳۷۰ ہجری میں دار العلوم دیوبند سے فارغ التحصیل ہوئے۔ ۱۹۵۵ء میں جامعہ ازہر سے تدریس کی اجازت ملی اور ۱۹۶۶ء میں کیمبرج سےپی ایچ ڈی کی۔ ۱۹۵۶ء سے ۱۹۶۸ء تک قطر کے دارالکتب کے ذمہ دار رہے اور اس دوران کئی قیمتی مخطوطات حاصل کیے۔ ۱۳۸۸ھ ہجری میں مکہ مکرمہ منتقل ہوگئے جہاں۱۳۸۸ھ سے ۱۳۹۳ھ ہجری تک کلیہ الشریعہ و الدراسات الاسلامیہ میں اسسٹنٹ پروفیسر اور پھر پروفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ ۱۳۹۳ ہجری میں ریاض منتقل ہوگئے۔ ۱۴۱۲ ہجری تک شاہ سعود یونی ورسٹی میں مصطلحات حدیث کی تعلیم دی۔ اس دوران وہ حدیث فیکلٹی کے سربراہ بھی بنادیے گئے اور انھوں نے مکہ مکرمہ اور ریاض میں پی ایچ ڈی کے کئی مقالوں کی نگرانی کی۔ ۱۹۸۱ء میں ایک سال کے لیے امریکا کی مشی گن کی یونی ورسٹی میں تدریس کے لیے چلے گئے۔ ۱۹۹۱ء میں کولو راڈو یونی ورسٹی میں ریسرچ اسکالر کی حیثیت سے کام کیا۔
اپنے موضوع پر انھوں نے کئی اہم کتب سپرد قلم کیں۔ دراسات فی الحدیث النبویؐ، تاریخ تدوین حدیث اور معاصر محدثین کی منہج پر تنقید ان کی معروف کتاب ہے۔ موطأ امام مالک بروایت یحییٰ بن یحییٰ اللیثی، سنن ابن ماجہ اور صحیح ابن خزیمہ کے ایک حصے کی تحقیق و تخریج بھی اہم ہے۔ انھوں نے انگریزی میں تاریخ تدوین قرآن پر ایک شاہکار کتاب لکھی، جس کے ذریعے مستشرقین کے ان الزامات کا مسکت جواب دیا گیا ہے کہ قرآن کریم میں نعوذ باللہ تحریف ہوچکی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتبین حدیث کے بارے میں اور معروف مستشرق شاخت کی کتاب شریعت محمدی کے اصول پر بھی انھوں نے اہم تنقیدی کتاب لکھی۔ عروہ بن الزبیر کی غزوات الرسولؐ جیسی کئی اہم کتب پر ان کا مطالعہ بحث و تحقیق کے ہر معیار پر پورا اترتا ہے۔ ان تمام علمی خدمات کے نتیجے میں ۱۴۰۰ ہجری میں انھیں شاہ فیصل ایوارڈ دیا گیا، جس کی خطیر رقم انھوںنے مستحق اور ذہین مسلم طلبہ کے لیے وقف کردی۔
علامہ محمد مصطفےٰ الاعظمی اسلامی آداب اور شرعی اصولوں کی کڑی پابندی کرتے تھے۔ جو بھی ان کے ساتھ رہا، اسے ان کی ان عادات کا بخوبی علم ہے۔ آخری عمر میں وہ مختلف امراض کا شکار رہے۔ یقینا یہ بھی ان کی بلندیِ درجات کاسبب بنا ہوگا۔ لیکن بیماری و کمزوری کے باوجود وہ اپنی علمی و تحقیقی سرگرمیاں اور اپنے معمولات جاری رکھے رہے۔ آخری دنوں میں ان سے ملاقات کرنے والے ایک دوست نے بتایا کہ میں نے ان کے محلے کی مسجد میں نماز پڑھی، وہ بھی مسجد میں تھے اور نماز کے بعد اپنے دو بیٹوں کا سہارا لیے انتہائی مشقت سے چل رہے تھے۔ بیماری کے باعث ان کے لیے لکھنا ممکن نہ رہا تو بیٹے کو املا کروانا شروع کردیا۔ جب ان کے لیے بولنا بھی ممکن نہ رہا، تب بھی وہ اشاروں اور کمپیوٹر کی جدید صلاحیتوں کے ذریعے کام کرتے رہے۔ قرآن و سنت کے بارے میں مستشرقین کے مغالطوں کا جواب دینا ان کی اولین ترجیح رہی۔
رہا ان سے میرا ذاتی تعلق، تو اللہ تعالیٰ نے مجھے مکہ مکرمہ میں کلیۃ الشریعۃ و الدراسات الاسلامیۃ کے تیسرے سال میں لائبریری سائنس کا مضمون ان سے پڑھنے کا موقع عطا فرمایا۔ اس وقت یونی ورسٹی میں یہ ایک نیا مضمون تھا۔ طلبہ بھی اس سے زیادہ متعارف نہیں تھے۔ اللہ گواہ ہے کہ وہ ہمارے لیے ایک بہترین استاد ثابت ہوئے۔ انھوںنے ہمارے لیے بحث و تحقیق اور علمی مصادر سے براہِ راست استفادے کے نئے دروازے کھول دیے۔ انھوں نے کارڈوں اور مختصر نوٹسز کے ذریعے تحقیق کرنے کا جدید طریقہ سکھایا ۔ استاذ مرحوم نظم و ضبط اور دوران تعلیم سنجیدگی کا بے مثال نمونہ تھے۔ طلبہ کو زیادہ سے زیادہ مستفید کرنے اور غیر مفید کاموں میں ان کا وقت ضائع ہونے سے انھیں بچانے میں، وہ اپنی مثال آپ تھے۔ انھوں نے اپنے طلبہ کو تصنیف و ترتیب اور براہِ راست علمی مصادر بلکہ ثانوی ذرائع سے استفادہ کرنے کا گر سکھادیا۔ اللہ ان پر اپنی بے پایاں رحمتیں نازل فرمائیں۔
مجھے اس بات کا افسوس رہے گا کہ ایک عرصے سے میں ان کے ساتھ وہ ملاقاتیں نہیں کرسکا، جو ایک شاگرد کو اپنے استاذ سے کرتے رہنا چاہییں۔ شاید اس کی ایک وجہ خود ان کا زہد اور شہرت سے دُور رہنے کی عادت بھی ہوسکتی ہے۔ ان کے چاہنے والے بھی اس وجہ سے بعض اوقات ان سے غافل ہوجاتے تھے۔ اللہ تعالیٰ اب انھیں بہترین اجر و جزا سے نوازے اور درجات بلند فرمائے، آمین!
یہاں ان کے بچوں کا ذکر کرنا بھی مفید ہوگا۔ استاذ محترم کی حسن تربیت، حصولِ علم کی تڑپ اور نظم و ضبط کی پابندی کا عکس ان کے تینوں بچوں پر بھی واضح ہے۔ ڈاکٹر عقیل نے کمپیوٹر میں تخصص کیا ہے اور اس وقت شاہ سعود یونی ورسٹی میں کمپیوٹر کی تدریس کرتے ہیں۔ ڈاکٹر فاطمہ ریاضیات میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ وہ پہلے شاہ سعود یونی ورسٹی ریاض اور پھر دبئی کی زاید یونی ورسٹی میں پڑھاتی رہیں، جب کہ ڈاکٹر انس کا تخصص جینیاتی سائنس ہے اور وہ شاہ فیصل ہسپتال کے تحقیقاتی سنٹر میں کلیدی ذمہ داری پر ہیں۔ پروردگار ہمارے استاد جلیل علامہ محمد مصطفےٰ الاعظمی کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔ نبیوں، صدیقین شہدا اور صالحین کا بہترین ساتھ نصیب فرمائے۔
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَیَجْعَلُ لَھُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّاO (مریم ۱۹:۹۶) جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے، یقینا رحمٰن ان کے لیے عنقریب دلوں میں محبت پیدا فرمادے گا۔
پروردگار! ہم سب کو بھی اپنے ان بندوں میں شامل فرما، آمین!
عزیزانِ من !زندگی آپ کا پہلا امتحان معاش کے میدان میں لے گی۔ جب تک انسان کے ساتھ پیٹ لگا ہے، روٹی اس کی زندگی کا ایک بنیادی مسئلہ ہے۔ اگرچہ انسان شکم کی پکار کے ساتھ اس دنیا میں آتا ہے، تا ہم ایک اچھی خاصی مدت تک اسے اس بارے میں ترد د نہیں کرنا پڑتا۔ ہمارا تعلیمی نظام اور اقتصادی ڈھانچا کچھ اس قسم کا ہے کہ تعلیم کے ساتھ ساتھ حصول معاش کے مواقع بہت کم بلکہ نہ ہونے کے برابر ہیں۔ والدین کی بھی یہی کوشش ہوتی ہے کہ دوران تعلیم اپنی اولاد کو فکر معاش سے دُور ہی رکھیں، تا کہ وہ دلجمعی کے ساتھ اپنی تعلیمی سرگرمیاں جاری رکھ سکیں۔ لیکن دوران تعلیم نہ سہی تکمیل تعلیم کے بعد سہی، بالآخر تلاشِ معاش کے میدان میں اترنا پڑتا ہے۔
۱- حصول معاش کے ضمن میں پہلا مرحلہ ذریعۂ معاش کا انتخاب ہے۔ جس کے لیے آپ کو زمانے کے تقاضوں، معاشرتی ضرورتوں، اپنی تعلیم وتربیت اور اپنی ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں کو سامنے رکھ کر کسی فیصلے پر پہنچنا ہوگا۔ میں دعا کرتا ہوں کہ کسی صحیح فیصلے پر پہنچنے میں اللہ تعالیٰ آپ کی رہنمائی کرے اور آپ کا یہ فیصلہ صرف آپ کے لیے ہی نہیں بلکہ ملک وملت کے لیے بھی مفید ثابت ہو۔ بد قسمتی سے میکالے [م: ۱۸۵۹ء] کے جس نظریے کے تحت مغربی تعلیم، ہمارے نظامِ تعلیم میں ایک خالص سیاسی اور معاشی مسئلے کی حیثیت سے داخل ہوئی تھی، اس سے آج تک مکمل طور پر گلو خلاصی نہیں ہوسکی۔ اچھے خاصے کھاتے پیتے گھرانوں میں بھی سرکاری ملازمت ہی کو تعلیم کا مقصود خیال کیا جاتا ہے۔ یہ اندازِ فکر جتنی جلدی ختم ہوا تنا ہی بہتر ہو گا۔
۲- ذریعۂ معاش منتخب کر لینے کے بعد اس راہ میں اپنی صلاحیتوں اور توانائیوں کو کھپا کر روزی کمانے کا مرحلہ آتا ہے۔ روزی کمانے کے بارے میں ہماری معاشی روایات دنیا بھر کی معاشی روایات سے یکسر مختلف ہیں۔ دنیامیں ہر کہیں روزی پیدا کرنے کے معاملے میں چند اخلاقی اقدار کا لحاظ تو رکھا جاتا ہے، لیکن علاوہ ازیں اسے ایک خالص سیکولر کاروبار (secular pursuit) ہی خیال کیا جاتا ہے، جب کہ ہمارے نزدیک رزق حلا ل کے لیے جدوجہد عبادت کا درجہ رکھتی ہے، بلکہ بقول اقبال ورومی اس سے علم وحکمت کا سراغ ملتا ہے :
علم وحکمت زاید از نانِ حلال
عشق و رِقّت آید از نانِ حلال
اسی معنویت اور مفہوم کا ایک قول بائبل میں بھی ملتا ہے اور وہ یہ ہے کہ: ’’ خوراک وپوشاک حاصل کرو اور تمھیں انعام میں آسمان کی باد شاہت بھی عطا کی جائے گی‘‘۔ لہٰذا، خوراک وپو شاک حاصل کرنے کے لیے ہمیں ایسا ہی طریقہ اپنانا چاہیے، جس کے انعام اور صلے میں آسمان کی بادشاہت بھی مل سکے۔ قرآن حکیم میں بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے حالات کے بیان میں یہ ذکر ملتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی ایک ضرورتِ زندگی کو پورا کرنے کے لیے آگ کی تلاش میں نکلے تھے ۔ لیکن سامانِ زندگی کی اس تلاش میں وہ تجلیِ خدا اور نورِ وحی سے فیض یاب ہو کر واپس لوٹے اور انھیں یہ سبق ملا کہ سامانِ زندگی معاش تک محدود نہیں۔ اس لیے عزیز انِ من ! ضروریاتِ زندگی کی تلاش کو بھی اللہ تعالیٰ کی تلاش کا ایک وسیلہ بنا لیجیے۔ ’’جان لا غر وتن فربہ ‘‘ صحت مند زندگی کی علامت نہیں ہے۔ اس لیے معاش کی تلاش میں جسم کی ضروریات پوری کرنے کے ساتھ ساتھ روح کی ضرورت پوری کرنے کی بھی فکر کیجیے اور اس دو مقصدی تلاش کی راہ پر پوری ثابت قدمی اور استقامت سے قائم رہیے۔
۳- ’آسان روزی ‘ (easy money)کا فلسفہ چوںکہ آج کل کچھ زیادہ ہی کشش رکھتا ہے اور مقبول ہے، اس لیے میں آپ کو خبر دار کرنا چاہتا ہوں کہ اس میں یقین رکھنے والوں کی بے اعتدالیوں اور بے احتیاطیوں کو دیکھ کر کہیں آپ کے قدم ڈگمگا نہ جائیں۔ یاد رکھیے، جو لطف وکیفیت اپنی ہڈیوں کا گودا پگھلا کر رزق حاصل کرنے میں ہے، وہ دوسروں کے حقوق کا خون کرکے خوان یغما پانے میں نہیں۔ ایک جنت وہ تھی جو حضرت آدم ؑ کو انعام کے طور پر عطا کی گئی تھی مگر وہ جلدہی ان سے چھن گئی۔ اور ایک جنت وہ بھی ہے جو انسان کو اعمالِ حسنہ کے بدلے میں عطا کی جائے گی اور اس کے بارے میں خود اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ انسان کے قبضے میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رہے گی۔
۴- یہ سچ ہے کہ اس دو مقصدی تلاش معاش میں آپ کو اپنے کم تر مقصد میں کچھ ناکامیاں بھی ہوں گی۔ یعنی سامان شکم مہیا کرنے کی دوڑ میں بعض اوقات آپ دوسروں سے پیچھے رہ جائیں گے، لیکن اعلیٰ تر مقصد ہمیشہ آپ کی پشت پناہی کرے گا اور آ پ کو کسی محرومی کا احساس نہیں ہونے پائے گا۔ اگر آپ اپنی ’روح کو خوابیدہ‘ اور ’بدن کو بیدار‘ رکھنا چاہتے ہیں تو الگ بات ہے ۔ ورنہ زندگی کے ہزار ہا پہلو ایسے ہیں کہ جن پر توجہ کر کے انسان اپنی محرومیوں کا بڑی حد تک مداوا کرسکتا ہے۔ ہیلن کیلر [م: ۱۹۶۸ء] جیسی اندھی ، بہری اور گونگی عورت بھی اپنے من میں ڈوب کر سراغِ زندگی پا لیتی ہے۔ ایک جگہ اس نے لکھا ہے کہ: ’’یہ مسرت بخش یقین واعتماد کہ میری طبعی رکاوٹیں میرے وجود کا لازمی جزو نہیں ہیں۔ وہ میرے جسم کے روگ سہی لیکن میرے من کا روگ نہیں بن سکتیں اور رنگ وآہنگ کی آواز سے یکسر خالی دنیا میں رہتے ہوئے میرا تجربہ بہت محدود سہی، لیکن میں نے یہ عرفان حاصل کر لیا ہے کہ میرا من مسرت کا ایک ایسا مثبت ذریعہ ہے، جو تاریکیوں اور خاموشیوں کے اتھاہ سمندر میں بھی نوروارتعاش سے لبریز تصورات کی بدولت مسرتیں اور خوشیاں نچوڑ سکتا ہے۔ میں نے زندگی سے یہ سبق سیکھا ہے کہ خواہ ہمیں خارجی دنیا میںکسی بڑی سے بڑی مصیبت کا سامنا ہی کیوں نہ ہو، ہم پھر بھی نور ، آواز اور نظم کو خود اپنے من کی دنیا کے اندر بھی تخلیق کرسکتے ہیں ‘‘ ۔
۵- اکثر نوجوان تلاش معاش کے ضمن میں اپنی ناکامیوں اور محرومیوں سے بہت جلد گھبرا کر دل شکستہ ہو جاتے ہیں اور زندگی کی اعلیٰ قدروں پر ایمان ہی کھو بیٹھتے ہیں۔ وہ اپنے معاشرے، اپنی قوم اور اپنے ملک ہی سے بدگمان اور متنفر ہو جاتے ہیں۔ اس بدگمانی اور تنفُّر[نفرت] کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آدمی خود غرض بن جاتا ہے۔ زندگی کی اعلیٰ قدروں پر ایمان بھی نہ ہو اور ساتھ ہی ساتھ انسان خود غرض بھی ہو تو وہ اپنے معاشرے کے جسم پر ایک ایسا سرطانی پھوڑا بن جاتا ہے جس کی جڑیں معاشرے کے اندر دُور دُور تک پھیلتی ہی چلی جاتی ہیں۔ اس کا علاج یہ ہے کہ اعلیٰ انسانی قدروں میں یقین پختہ کیا جائے اور مایوسی اور بدگمانی سے بچا جائے۔ لوگوں سے مایوس اور بدگمان ہونے کے بجاے ان کی کمزوریوں اور خرابیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ان سے محبت کرنا سیکھیے ۔ یاد رکھیے کہ شفقت اور محبت میں بڑی طاقت ہے۔ اس سے ہماری مایوسیوں اور بدگمانیوں کا علاج ہی نہیں ہوتا بلکہ زندگی کی بہت سی مشکلات اور دشواریاں خود بخود ختم ہو جاتی ہیں۔
۶- ہم میں سے بہت سے لوگ اپنی جائز حدود سے زیادہ پھیلنے کے خواہشمند رہتے ہیں۔ لیکن روز افزوں آبادی کے اس گنجان ہجوم میں بر گد کے درخت کی مانند دور دور تک اپنے مہیب سایے پھیلا کر اپنے آس پاس کسی اور شجر کو بڑھنے پھولنے سے روکنا کبھی اچھے نتائج پیدا نہیں کرسکتا۔ انسانوں کی اس گنجان آبادی میں برگد کی طرح پھیلنے کے بجاے ہمیشہ سروکی مانند بلندیوں کی طرح بڑھنے کی فکر کرنی چاہیے۔ اور اپنے علاوہ دوسروں کو بھی بڑھنے پھولنے دیجیے ، اور یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے، جب کہ ہم مادی قدروں سے زیادہ ربّانی قدروں سے محبت رکھتے ہوں۔
۷- علامہ محمد اقبال نے ایک جگہ نہر کی ہمکناریِ خاک کے باعث،سست روی کو ناخوب اور ناپسند یدہ قرار دیتے ہوئے فوارے کی طرف توجہ دلائی ہے اور کہا ہے کہ ’بلند زورِ دُروں سے ہوا ہے فوارہ ‘ لیکن اگر کسی سے یہ پوچھا جائے کہ فوارے میں ’زورِ دروں ‘ کہاں سے آ گیا، تو اس کا جواب اس کے سوا کچھ نہیں کہ اس کا منبع آب بلندی پر واقع ہے۔ لہٰذا زندگی میں نصب العین کی بلندی بہت اہمیت رکھتی ہے۔
۸- یاد رکھیے کہ زندگی کے راستے پر چلنے کے لیے بھی ٹریفک کے چند اصول ہیں۔ جادۂ زندگی پر سفر کرتے وقت ٹریفک کے یہ آداب اور یہ اصول ہمیشہ پیش نظر رہنے چاہییں۔ اپنے علاوہ دوسروں کا بھی احترام کرنا سیکھیے۔ ہم عام طور پر اپنی روشِ زندگی میں بالعموم ان آداب کو پیش نظر نہیں رکھتے اور حادثات سے دوچار ہوتے رہتے ہیں۔ حالانکہ اپنا راستہ دوسروں سے ٹکرائے بغیر بھی بنایا جا سکتا ہے۔ میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ جب آپ کسی پُر رونق بازار کی بھیڑ سے گزر رہے ہوتے ہیں، تو کیا کرتے ہیں ؟ یہی نا کہ دوسروں سے بچتے بچاتے اپنا راستہ بناتے چلے جاتے ہیں۔ اس میں آپ کو محض ٹریفک کے چند قوانین کا ہی پا بند نہیں ہونا پڑتا بلکہ دوسرے لوگوں کی غلطیوں اور بے صبر جلدکوشوں سے بچنے کے لیے صبرو تحمل سے کام لے کر اپنی رفتار کو سست بھی کرنا پڑتا ہے۔
۹- صبرکے ذکر سے میرا ذہن ایک اور بات کی طرف پلٹ گیا ہے۔ اگلے وقتوں میں کسی مرنے والے کو خراج تحسین پیش کرتے وقت ایک جملہ جو اکثر زبانوں پر آیا کرتا تھا وہ یہ تھا کہ: ’مرنے والے نے صبر وشکر کے ساتھ زندگی بسر کی‘، مگر آج کل یہ الفاظ ذرا کم ہی سننے میں آتے ہیں اور اگر کہیں سننے کا اتفاق بھی ہوتا ہے تو بہت مختلف معنوں میں۔ اب صبر نام ہے مجبوریِ محض کا، اور شکر کہتے ہیں اللہ تعالیٰ کی داد بخشش دینے کا۔ حالانکہ یہ ایک رویۂ زندگی کا نام تھا جس میں آفات و مشکلات کو خاطر میں لائے بغیر اور اپنی بڑی سے بڑی کامیابی پر اکڑ فوں میں مبتلا ہوئے بغیر اپنے مقامِ عبدیت کو مستحکم بنانے کی کوشش کی جاتی تھی۔ استقامت ومتانت کی یہ منزل صرف انھی خوش نصیبوں کو ملا کرتی ہے جو اپنی زندگی میں اپنے جذباتی اور عقلی رویوں کا صحیح مقام متعین کرکے کسی اعلیٰ نصب العین کے لیے جان کھپانا جانتے ہوں۔ صبر و شکر کا فلسفہ انسان میں قناعت، ہمت، پامردی، قوت، متانت اور استقامت کے اوصاف پیدا کر کے اس کی زندگی پُرمعنی بناتا ہے، لیکن آج ہم نہ صبر کی تاب رکھتے ہیں اور نہ شکر کے آداب جانتے ہیں ۔کچھ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم نے زندگی کی توانائی کھو د دی ہے۔
۱۰- آخر اس کی کیا وجہ ہے کہ علم کی ترقی کے ساتھ ساتھ ہم میں زندگی کی توانائی روز بروز کم ہوتی جا رہی ہے۔ علم کے لیے بالعموم مشعل ، شمع یا چراغ کی تمثیل استعمال کی جاتی ہے، جس سے نور اور روشنی کا تصور ملتا ہے۔ لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے کہ جس طرح شعلے کی روشنی سے حرارت کو جدا نہیں کیا جا سکتا ، اسی طرح علم بھی اگر زندگی کی حرارت سے محروم ہو جائے، تو اس کا نور بھی تاریکیوں میں تحلیل ہوجاتا ہے۔ علم میں حرارت ،ایمان سے پیدا ہوتی ہے ۔ اور جیسا کہ انگریز شاعر ولیم بلیک [م:۱۸۲۷ء] نے کہا ہے کہ ’اگر کہیں چاند اور سورج بھی شک میں مبتلا ہو کر ایمان کھو بیٹھیں تو فوراً بجھ کر تاریکیوں میں تبدیل ہو جائیں ‘۔ آپ کے لیے آپ کا علم نا کافی ہی نہیں بلکہ سراسر وبالِ جان ہے اگر یہ آپ کے باطن میں ایمان کی حرارت نہیں پیدا کر سکتا ۔ انسان بننے کے لیے علم ضروری ہے ۔ لیکن اس کے ظلمت کدۂ خاک میں علم کی ایسی قندیل روشن کرنے کی ضرورت ہے جو اس کے دماغ کو منور کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے دل کو بھی گرم رکھ سکے۔ علم کی آخری منزل دماغ نہیں بلکہ دل ہے۔ بقول اقبال:
گزر جا عقل سے آگے کہ یہ نُور
چراغِ راہ ہے ، منزل نہیں ہے
اور یہ بھی کہ:
یا مُردہ ہے یا نزع کی حالت میں گرفتار
جو فلسفہ لکھا نہ گیا خونِ جگر سے
۱۱- علم اور تعلیم کے بارے میں اگرچہ سوچنے اور لکھنے والے حضرات و خواتین نے مختلف طریق سے سوچا اور مختلف پیرایوں میں اسے پیش کیا، لیکن ایک بات پر شاید سبھی لوگ متفق نظر آتے ہیں کہ: ’تعلیم کا مقصد انسان کی مخفی اور خوابیدہ صلاحیتوں اور قوتوں کو بیدار اور اُجاگر کر کے آپ کی شخصیت کو نشوو نما دینا ہے، اور آپ میں سودو زیاں اور خیر وشر کی تمیز کی ایسی اہلیت پیدا کرنا ہے، جس سے آپ اپنی منزل مقصود کے لیے راہیں متعین کر سکیں‘۔ اسی بات کو بعض لوگ یوں بیان کرتے ہیں کہ: ’تعلیم انسانی صلاحیتوں اور استعدادوں کی اس نشو ونما اور ارتقا کا نام ہے، جس کی بدولت ہمارے اخلاقی رویے اور معاشرتی طرزِ عمل صحت واستدلال کے ساتھ طے پاتے ہیں‘۔ اب بہت سے لوگ انسانی شخصیت کی نشوو نما اورترقی کے لیے ایمان کو بنیادی ضرورت خیال نہیں کرتے اور ’بے ایمان ‘ علم کو ہی کافی سمجھ لیتے ہیں۔ کہا یہ جاتا ہے کہ: ’سائنس اور فلسفے میں بالخصوص اور دوسرے علوم میں بالعموم عقیدہ (dogma ) نہیں چل سکتا ۔ اگر اسے اس میدان میں لایا جائے گا تو علم کی ساری ترقی رُک جائے گی‘۔
میں یہاں بحث میں نہیں اُلجھنا چاہتا، ور نہ آپ کو بتاتا کہ ہر علم اور ہر سائنس بالآخر کسی نہ کسی عقیدے کا سہارا لینے پر مجبور ہے۔ بہرحال یہ ضرور عرض کروں گاکہ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ لیبارٹری میں داخل ہونے سے پہلے خدا کا عقیدہ کوٹ کی طرح اتار کر کھونٹی پر لٹکا دینا ضروری ہے، وہ درحقیقت ہمارے اندر ایک ایسی داخلی کش مکش کو جنم دینا چاہتے ہیں، جس سے ہماری شخصیت کی ترقی رُک جاتی ہے اور ہم کفرو الحاد کی راہ پر چل نکلتے ہیں۔ سائنس اور ٹکنالوجی کے علوم انسان کو بے پناہ طبعی قوت تو فراہم کر دیتے ہیں، لیکن جب علوم وفنون ایمان کے تابع نہیں رہتے تو سراسر شیطنت کے ساتھ انسان اور انسانیت کو تباہی کے ہولناک ہتھیاروں کا سامان مہیا کرتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر نامرادیِ آدم اور کیا ہو سکتی ہے؟ اسی نامرادیِ آدم کا ذکر کرتے ہوئے اقبال نے کہا ہے:
ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزر گاہوں کا
اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا
جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا
زندگی کی شبِ تاریک سحر کر نہ سکا
۱۲- انسان کے لیے وہی علم مفید ثابت ہو سکتا ہے، جو زندگی کے تمام تقاضوں پر پورا اُتر سکے۔ ظاہر ہے کہ ایمان ، اعتقاد اور آئیڈیالوجی کا مسئلہ ہماری زندگی کا بنیادی مسئلہ ہے۔ عقل کی آزادی اچھی چیز سہی لیکن خیالات کا بے ربط وبے لگام ہو جانا یقینا کوئی اچھی بات نہیں ہے ۔ ہم مسلمانوں میں لادینیِ افکار، بے ربطیِ افکار سے پیدا ہوئی ہے، سائنس کی راہ سے نہیں آئی۔ بلکہ فرانسیسی معالج و مفکر رابرٹ ایس بریفالٹ [م: ۱۹۴۸ء] تو یہاں تک کہتا ہے کہ: ’سائنس اپنی ہستی اور وجود کے لیے قرآن کی مرہونِ منت ہے‘۔ وہ نزولِ قرآن سے پہلے کے زمانے کو قبل سائنس کا زمانہ اور قرآن کے بعد کا دور سائنس کا زما نہ قرار دیتا ہے۔ تاریخی واقعات کو بھی آیات الٰہی قرار دیتا ہے اور خود اپنے جملوں اور فقروں کو بھی آیات الٰہی قرار دیتا ہے، تو قرآن اور سائنس میں مغائرت کہاں سے پیدا ہو گئی؟
کیا ابھی اس کا وقت نہیں آیا کہ ہم اپنے فکر ونظر کے پرانے انداز بدل ڈالیں ؟ دنیا کے سب سائنس دان اور علما وفضلا اپنی تمام علمی جستجوئوں اور کاوشوں کا نصب العین اور منتہاے مقصود، حقیقت کی تلاش قرار دیتے ہیں۔ ہمارے نزدیک اوّل وآخر، ظاہر وباطن حقیقت ، اللہ کی ذات ہے، چنانچہ اپنے سائنس دانوں اور عالم وفاضل اساتذہ سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا ہم اپنے علوم کو خدایابی کا ذریعہ نہیں بنا سکے ؟ ہمارے طریقۂ تعلیم میں اس خلا کی وجہ سے ہمارے علوم میں ایک بہت بڑی کمی محسوس ہوتی ہے، جسے اقبال کم بصری کا نام دیتا ہے:
وہ علم ، کم بصری جس میں ہم کنار نہیں
تجلّیات کلیم و مشاہداتِ حکیم
۱۳- یہاں علم کے بارے میں ایک بات کا ذکر ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ہمیں اپنی درس گاہوں سے جو علم حاصل ہوتا ہے وہ قرض حسنہ کے طور پر ملتا ہے اور اسے چکانا ہی نیک روی کی دلیل ہے ۔ علم تن کی دولت تو ہے نہیں کہ آپ اسے چھپا چھپا کر تجوریوں میں رکھیں ۔ یہ تو من کی دولت ہے، جسے آپ جتنا بھی لٹائیں اتنا ہی آپ کے لیے اور آپ کے ملک وملت کے لیے مفید ہے۔
۱۴- امریکی صدر وڈرو ولسن [م: ۱۹۲۴ء] نے ایک بار نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ: ’آپ مجھے اپنی ڈگریاں اور ڈپلومے دکھلا کر اس بات کا قائل نہیں کر سکتے کہ آپ تعلیم یافتہ ہیں۔ کیوںکہ اس کا ثبوت تو آپ کے ذہنی اُفق کی وسعتوں ہی سے مل سکتا ہے۔ مشکل یہ ہے کہ جو علوم ہمیں پڑھائے جاتے ہیں ان کی سرحدیں ’خبر ‘ تک ہی محدود رہتی ہیں‘۔ اقبال نے غایت آدم کے بارے میں پیررومی [م: ۱۲۷۳ء] سے پوچھا تھا۔ غایت آدم ، خبر یا نظر؟ جس کے جواب میں پیر رومی نے فرمایا تھا :
آدمی دید است ، باقی پوست است
دید آں باشد کہ دیدِ دوست است
حواس کی فراہم کردہ ’خبر ‘ کی اہمیت سے انکار نہیں لیکن اس ’خبر ‘ پر ہی مطمئن ہو کر بیٹھ رہنا بھی علم کے منافی ہے۔ بصارت کا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ اس کی عطا کردہ خبر ہم میں ایسی بصیرت پیدا کر دے جو ہمیں اشیا کی اندرونی حقیقت کا نظارہ کرائے ۔ سماعت کا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ اس کی عطا کردہ خبر ہمیں ساز حقیقت سنائے، بقول اقبال ع
اگر یہ سارے علوم جنھیں ہم زندگی کے اتنے سال صرف کر کے سیکھتے ہیں، ہمارے اندر بصیرت اور لذتِ حضوری نہیں پیدا کر پاتے تو ہماری شخصیت کا جزو نہیں بن سکتے، بلکہ محض ایک لبادے کی حیثیت رکھتے ہیں مگر اب تو ہم لبادے کو ہی سب کچھ سمجھے بیٹھے ہیں۔ اور جس زمانے سے ہمارا ذوقِ علمی افرنگ کے حواسی علوم کی ’خبریت ‘ سے سیراب ہونا شروع ہوا ہے، ہماری جبینیں سجدوں کی لذت سے نا آشنا ہو گئی ہیں۔ اور ’لباس مجاز ‘ میں ’حقیقتِ منتظر‘ کو دیکھنے کی ہماری روحوں کو آرزو نہیں رہی ہے۔ ہماری زندگیوں پر اب ’رنگ مجاز ‘ اتنا گہرا چڑھ گیا ہے کہ ہمیں علم کی آخری منزل بھی کوٹ اور پتلون نظر آتی ہے۔
عزیزانِ محترم ! قومی آزادی کی کئی منزلیں ہیں۔ آزادی کی سیاسی منزل پر تو ہم پہنچ گئے ہیں۔ اقتصادی جدوجہد کی راہ میں بھی ہم بہت سی مسافتیں طے کر چکے ہیں، مگر ہمارے تہذیب وتمدن پر یہ غیر ملکی چھاپ کب دُور ہو گی ؟ جس دن ہم نے اپنے کھوئے ہوئے تمدنی اور ثقافتی ورثے کو دوبارہ پا لیا، تو سمجھ لیجیے کہ ہم نے تمام مرحلہ ہاے آزادی طے کر لیے، اور مجھے اُمید ہے کہ اسی روز اسلام کی نشاتِ ثانیہ کا وہ دور شروع ہو جائے گا، جس کے لیے پاکستان معرض وجود میں آیا تھا اور جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے پاکستان کی حفاظت کی ہے۔ یہاں ذہن میں بار بار یہ خیال ابھرتا ہے کہ جہاں ہماری بری افواج زمینی سرحدوں کی حفاظت کرتی ہیں ،فضائی افواج ملک کی فضائی سرحد کی حفاظت کرتی ہیں اور بحری افواج بحری سرحدوں کا دفاع کرتی ہیں، کسان زرعی محاذ پر کارنامے انجام دیتے ہیں، لیکن کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ ہمارے تمدن وثقافت کی حفاظت کس کے ذمے ہے ؟ اور کیا اس محاذ پر ہمارے دفاعی انتظامات کافی ہیں ؟
۱۵- اگلے وقتوں میں ہماری تہذیب وثقافت، خانقاہی نظام کے روحانی سرچشموں سے سیراب ہوا کرتی تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ زندگی میں اوقاتِ فرصت میسر آنے کے زیادہ مواقع حاصل تھے، جن کی وجہ سے مطالعہ باطن کے لیے کافی وقت مل جاتا تھا۔ دورِ حاضر میں زندگی کی مصروفیات کچھ اتنی بڑھ گئی ہیں کہ انسان کوشش بھی کرے تو اسے اپنی باطنی واردات پر توجہ دینے اور ان کا مطالعہ کرنے کا وقت کم ہی ملتا ہے۔ البتہ قرآن حکیم کے اس حکیمانہ قول کی روشنی میں کہ اللہ تعالیٰ، انفس و آفاق میں ہر کہیں انسان کو دعوتِ نظارہ دیتا ہے اس کمی کو ایک دوسری طرح یوں پورا کیا جاسکتا ہے کہ ہم اپنے آپ کو مظاہرات آفاق کے مطالعے میں آیاتِ الٰہی کے مشاہدات کا عادی بنائیں، اور یہ ایک ایسی پُرتجسس علمی وسائنسی تحریک کے ذریعے ہی ممکن ہے، جس کا منتہاے مقصود خدا شناسی ہو۔ چنانچہ میں آپ سے اور بالخصوص فاضل اساتذہ سے پوری دلِ سوزی کے ساتھ اپیل کرتا ہوں کہ آپ اس تحریک کا آغاز کریں ، دنیا اس کا پُرجوش خیرمقدم کرے گی :
ہر اک منتظر تیری یلغار کا
تری شوخیِ فکر و کردار کا
ہنگامی حالات اور وقت بہ وقت پیش آنے والی مشکلات زندگی کی نشانی ہے۔ جب تک انسان کام کرتا رہتا ہے اس کو مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔ جس انسان کو مشکلات کا سامنا نہیں رہتا وہ وہی انسان ہو سکتا ہے جو کام نہیں کرتا۔ منصوبہ بندی سے ان مشکلات کو کم کیا جا سکتا ہے اور ان کو حل کرنے میں مددمل سکتی ہے لیکن مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔ انسان کے لیے اپنے منصوبے میں مشکلات کے حل کا پروگرام بنانا بھی ضروری ہے۔
سماجی تحقیقات سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ عبقری لوگوں میں تین اوصاف مشترک رہتے ہیں، اس کے علاوہ بھی بعض مشترک اوصاف ہیں، جو درج ذیل ہیں :
اب تک آپ نے محسوس کر لیا ہو گا کہ منصوبے بنانا اور مقاصد طے کرنا بنیادی طور پر فیصلہ کرنا ہی ہے، اور فیصلہ کرنا اصل میں مسئلہ حل کرنے والی بات ہے۔ مسئلے کو ٹھیک سے سمجھ لینا آدھا مسئلہ حل کرنے کے برابر ہوتا ہے۔ درج ذیل رہنما اصول مسائل اور رکاوٹوں کو عبور کرنے کے لیے معاون ہوں گے۔
ہم سب آج ایک تکنیکی دور میں جی رہے ہیں، جہاں چاند پر جانا، برقی آلات کا استعمال یا شمسی توانائی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ پیچیدگی عام سی بات ہو گئی ہے۔ لہٰذا ہم بھی زندگی کے ہر موڑ پر پیچیدگی کی ہی توقع کرتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ معاشرے کا قانون بن گیا ہے کہ اب سادہ انداز میں کچھ بھی نہیں ہوتا اور بعض دفعہ تو ایسا ہوتا ہے کہ آسان اور مشکل حل میںسے فیصلہ کرنا پڑے تو ہم بے جا طور پر مشکل راستہ ہی چنتے ہیں۔
اکثر ہم مشکل کو بس ایک ہی انداز میںدیکھنے کے عادی ہوتے ہیں،جس سے ہماری فیصلہ کرنے کی صلاحیت کو شدید صدمہ پہنچتا ہے۔ لطیفہ مشہور ہے کہ ایک مرتبہ ایک ٹرک انڈرپاس سرنگ میں پھنس گیا۔ اسے نکالنے کے لیے انجینیروں کی ٹیم بلائی گئی۔ انھوں نے اپنی مہارت کے مطابق کیلکو لیٹر نکالا اور حساب کتاب شروع کردیا۔ ٹرک کا وزن پوچھ رہے ہیں، کبھی لمبائی ناپ رہے ہیں۔ آخر ایک چھوٹا سا لڑکا جو وہاں پاس ہی کھڑا تھا، آ کر کہنے لگا: ’انکل! آپ ٹائروں سے ہوا کیوں نہیںکم کر دیتے ‘۔ اسی وقت مسئلہ حل ہو گیا۔ جتنا ہم مسائل پر زیادہ طریقوں سے غور کرتے ہیں، اتنا ہماری غلطیاں کم ہوتی جاتی ہیں۔
جب کوئی مسئلہ پیدا ہو، اسی وقت اس پر توجہ دینا ضروری ہے۔ طالب علم امتحان سے پہلے نصاب تعلیم کی کتابوں کے مطالعے پر توجہ دیتا ہے تو کامیاب ہوتا ہے۔ کسان کے لیے ضروری ہے کہ وقت پر فصل کاٹ لے، ورنہ ساری محنت ضائع جاسکتی ہے۔ اسی طرح سیاست دان، منتظم اور معاشی سرگرمی میں مصروف فرد کا معاملہ ہے۔ ہر لمحے اسے بروقت مسائل پر توجہ دینا چاہیے۔
بعض قائدین مختلف کاموں پر توجہ دیتے ہیں۔ اگر ایک طرف ایک کام کی طرف توجہ کرتے ہیں، تو ساتھ ہی اس سے ہٹ کر دوسرے کاموں میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ اس طرح وقت بھی برباد ہوتا ہے۔ اگروہ اپنی کوشش اور محنت وصلاحیت اپنی استطاعت کے کاموں میں لگاتے اور دوسروں کو ان کی استطاعت کا کام سپرد کرتے، تو تمام اُمور اچھے ڈھنگ سے ارادہ اور خواہش کے مطابق انجام پاتے۔ سب لوگ اپنی کوشش کرتے اور بہترین نتائج وثمرات سامنے آتے۔ مسئلہ ان قائدین کو پیش آتا ہے جو تمام کام اپنے ہاتھوں ہی سے انجام دینا پسند کرتے ہیں۔ انتظامی کاموں میں فی الحقیقت بڑے تجربات اور ذہنی فراغت کی ضرورت ہوتی ہے۔سمجھنا چاہیے کہ لازماً ہرکام کو انجام دینے کا شوق، بہت سے کاموں کو نظرانداز کرنے یا ناقص صورت میں انجام دینے اور محض تھکا دینے کا سبب بنتا ہے۔اس کے نتیجے میں کامل توجہ نہیں رہتی اور نتائج بھی پوری طرح سامنے نہیں آتے۔
سوال : ایک شخص نے ایک عجیب اعتراض اُٹھایا ہے۔ اُن کا کہنا یہ ہے کہ: ’مذہب کی تعلیمات کے مطابق ہرشخص کی موت کا وقت معین ہے۔ اس میں کسی قسم کی تاخیر و تقدیم نہیں ہوسکتی۔ لیکن دوسری طرف ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اقوامِ مغرب نے حفظانِ صحت کے اصولوں کی پابندی اور بیماریوں کی روک تھام کرکے اپنی عمروں کی اوسط میں اضافہ اور شرحِ اموات میں کمی کرلی ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ عمر کا بڑھانا گھٹانا اور موت کو ٹالنا ،انسان کے بس میں ہے‘۔ اس بات کو واضح کیجیے کہ ان دونوں باتوں میں سے کون سی بات درست ہے؟ کیا زندگی کی مدّت اور موت کی گھڑی مقرر ہے یا اس میں ردّ و بدل انسان کے بس میں ہے؟
جواب :آپ نے جو سوال کیا ہے، وہ دراصل ایک بڑے اور بنیادی سوال کا جزو ہے۔ وہ بنیادی سوال یہ ہے کہ انسان کس حد تک تقدیر اور مشیت الٰہی کے تحت مجبور اور بے بس ہے، اور کس حد تک اُسے ارادہ و عمل کی آزادی دی گئی ہے، اور کوشش سے مطلوب نتائج پیدا کرنا کس حد تک اُس کے امکان میں ہے؟ یہ سوال ایسا نہیں ہے کہ جس کا جواب آسانی اور اختصار کے ساتھ اثبات یا نفی کی صورت میں دیا جاسکے۔ اگر جواب میں یہ کہا جائے کہ انسان اپنی تقدیر کا خالق خود ہے اور کوئی بالاتر طاقت اُس کے افعال اور نتائج ِ افعال پر حاوی و مؤثر نہیں ہے، تو یہ بات بالبداہت غلط ہے۔
انسان جب اپنے آپ کو وجود میں نہیں لاسکتا تو جو اعمال اُس کے وجود سے صادر ہوتے ہیں، اُن کا فاعلِ مختار آخر وہ کیسے ہوسکتا ہے؟ پھر اگر یہ کہا جائے کہ انسان مجبورِ محض ہے اور اختیار و آزادی سے قطعی محروم ہے، تو یہ بات بھی صریحاً غلط اور خلافِ عقل و مشاہدہ ہے اور یہ دینِ اسلام کی تعلیمات کے بھی خلاف ہے۔
حقیقت ان دونوں انتہائوں کے بین بین ہے، اور وہ یہ ہے کہ ایک خاص پہلو سے اور ایک دائرے کے اندر انسانوں کو ایک حد تک آزادی حاصل ہے اور یہ آزادی انسان اور پوری کائنات کے خالق ہی کی عطا کردہ ہے۔ لیکن اس کے دائرے سے باہر جاکر انسان کی آزادی ختم ہوجاتی ہے اور اُس کے سارے اعمال اور ان کے نتائج آخرکار مشیت ِ الٰہی کے تابع ہوکر رہ جاتے ہیں۔ انسان کا کام یہ ہے کہ وہ اپنی آزادی یا مجبوری کے حدود کو ماپنے کی کوشش کرے یا یہ مسئلہ حل کرنے میں اپنا دماغ لڑائے کہ یہ جبرو اختیار ایک دوسرے کے ساتھ کیسے جمع ہوسکتے ہیں؟
انسان جب تک انسانی حدود میں مقیّد ہے اور جب تک وہ مخلوق کے بجاے خالق نہیں بن جاتا، اُس وقت تک وہ اس پیچیدہ مسئلے کی تہہ اور کنہ تک بھی نہیں پہنچ سکتا۔ انسان کا کام یہ ہے کہ جس حد تک اُسے آزادی دی گئی ہے، اُس حد تک اُسے خالق کی رضا اور منشا کے مطابق استعمال کرے اور جن حدود سے آگے اُسے آزادی حاصل نہیں، وہاں وہ آزاد اور خودمختار ہونے کا اِدّعا نہ کرے۔
اِس اصولی بات کو سمجھ لینے کے بعد اب آپ عمر کے گھٹنے اور بڑھنے کے سوال پر خود غور کریں۔ یہ بات آخر کس کو معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کس شخص کی موت کے لیے کون سا وقت مقرر کیا تھا اور کسی خاص دور یا عہد میں کسی خاص قوم کی عمر کا اوسط اُس نے کیا متعین فرمایا تھا؟ اگر اس کا علم کسی کو نہیں ہے، تو پھر یہ دعویٰ خودبخود بے معنی ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مقرر کیے ہوئے وقت پر فلاں شخص نہ مرسکا اور اُس نے یا کسی دوسرے نے، اُس کی عمر میں اضافہ کر دیا۔ یہ سب دراصل بے عقلی کی باتیں ہیں جو بہت سے لوگ بے سمجھے بوجھے کرتے رہتے ہیں۔
ہمارا کام صرف یہ ہونا چاہیے کہ ہم کو اللہ نے علم اور عقل کی جو طاقتیں دی ہیں، اُنھیں استعما ل کرکے ہم امراض کے علاج اور صحت کی حفاظت کے زیادہ سے زیادہ بہتر ذرائع مہیا کریں اور اُن کے مہیا ہوجانے پر اللہ کا شکر بجا لائیں۔ اِس سے آگے بڑھ کر کوئی چیز ہمارے اختیار میں نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو ہم نہ کسی کو بیمار پڑنے دیتے اور نہ کسی کو مرنے دیتے ، لیکن مرض یا موت کو بالکل روک دینے پر نہ کبھی قدیم زمانے کا انسان قادر تھا، نہ آج کے زمانے کا کوئی بڑے سے بڑا معالج یا سائنس دان قادر ہوسکتا ہے۔(جسٹس ملک غلام علی )
سوال : ایک صاحب جو جج بھی رہ چکے ہیں نے ایک مجلس میں فرمایا: ’’عشر، زمینی پیداوار کے دسویں حصے پر اور زکوٰۃ جمع شدہ دولت کا صرف ڈھائی فی صد حصہ ہوتی ہے۔ مالیہ و آبیانہ، زمینی پیداوار کے نصف پر تشخیص کیا جاتا ہے۔ اسی طرح جمع شدہ دولت پر بھاری انکم ٹیکس بھی لگایا جاتا ہے اور چوں کہ یہ رقم ریاستی بیت المال میں داخل ہوکر رفاہِ عامہ کےکاموں کے لیے خرچ ہوتی ہے، اس لیے زکوٰۃ اور عشر دینا لازم نہیں‘‘۔ کیا ان ریاستی ٹیکسوں کی موجودگی میں واقعی زکوٰۃ اورعشر دینا ضروری نہیں ہے؟
جواب :زکوٰۃ کے متعلق پہلی بات یہ سمجھ لینی چاہیے کہ یہ ٹیکس نہیں ہے بلکہ ایک عبادت اور رکنِ اسلام ہے، جس طرح نماز، روزہ اور حج ارکانِ اسلام ہیں۔ جس شخص نے کبھی قرآنِ مجید کو آنکھیں کھول کر پڑھا ہے، وہ دیکھ سکتا ہے کہ قرآن بالعموم نماز اور زکوٰۃ کا ایک ساتھ ذکر کرتا ہے اور اسے اُس دین کا ایک رکن قرار دیتا ہے، جو ہر زمانے میں انبیاے کرام علیہم السلام کا دین رہا ہے۔ اس لیے اس کو ٹیکس سمجھنا اور ٹیکس کی طرح اس سے معاملہ کرنا پہلی بنیادی غلطی ہے۔ ایک اسلامی حکومت جس طرح اپنے ملازموں سے دفتری کام اور دوسری خدمات لے کر یہ نہیں کہہ سکتی کہ اب نماز کی ضرورت باقی نہیں ہے کیوں کہ انھوں نے سرکاری ڈیوٹی دے دی ہے، بالکل اسی طرح وہ لوگوں سے ٹیکس لے کر نہیں کہہ سکتی کہ اب زکوٰۃ کی ضرورت باقی نہیں کیونکہ ٹیکس لے لیا گیا ہے۔ اسلامی حکومت کو اپنے نظام الاوقات لازماً اس طرح مقرر کرنے ہوں گے کہ اُس کے ملازمین نماز وقت پر ادا کرسکیں۔ اسی طرح اُس کو اپنے ٹیکسوں کے نظام میں زکوٰۃ کی جگہ نکالنے کے لیے مناسب ترمیمات کرنی ہوں گی۔
اس کے علاوہ یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ حکومت کے موجودہ ٹیکسوں میں کوئی ٹیکس اُن مقاصد کے لیے اُس طرح استعمال نہیں ہوتا کہ جن کے لیے قرآن میں زکوٰۃ فرض کی گئی ہے اور جس طرح اس کے تقسیم کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔(جسٹس ملک غلام علی )
سوال : گزارش ہے کہ مجھے دین کی روشنی اور قرآن و حدیث کے حوالے سے ایک سوال کا جواب درکار ہے۔ اُمید کرتی ہوں کہ آپ تسلی بخش جواب عنایت فرمائیں گے۔ یومِ پیدایش یا شادی کی سالگرہ رسم کے طور پر منانا کہاں تک جائز ہے؟ اس رسم کو کرنے والا (جو ایک دین دار گھرانہ بھی ہے) صحیح راستے پر ہے یا اس کو پوری قوت سے انکار اور ختم کرنے والا درست راستے پر ہے؟اگر اس رسم پر عمل سے انکار کرنے پر جسمانی یا ذہنی اذیتیں ملتی ہیں اور مل رہی ہیں تو کیا اس کا اجر ہے یا نہیں؟ اس رسم کو کس قوم نے جاری کیا تھا یا کیا ہے؟
جواب :شادی کی سالگرہ اور یومِ پیدایش (birthday) منانے کا اسلام کے مزاج اور تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اسلام نہ ایسے کاموں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور نہ ایسے کاموں میں اپنے پیروئوں کے مال اور قوتوں کو صرف کرنا پسند کرتا ہے۔ بے شک یہ صحیح ہے کہ شادی کی سالگرہ یا یومِ پیدایش منانا کوئی ایسا منکر نہیں ہے کہ جس کے خلاف فتوے دیے جائیں یا اس کو مٹانے کے لیے مومنوں کو جہاد کے لیے منظم کیا جائے۔ لیکن بہرحال یہ سوچنا ضرور چاہیے کہ جس چیز کو اسلام نے کوئی مقام اور اہمیت نہیں دی ہے، جس کا ہماری دینی تاریخ میں کہیں ذکر نہیں ہے، آخر ایسے کاموں میں اپنی قوتیں اور وسائل کھپانے اور تقریبات کا موضوع بنانے پر اصرار کیوں ہے؟
ہمارا یہ پختہ ایمان اور عقیدہ ہے کہ روے زمین پر انسانی تاریخ میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے عظیم ہستی نہ آج تک پیدا ہوئی ہے اور نہ رہتی دُنیا تک پیدا ہوسکتی ہے۔ آپؐ کی عظمت و کمال کا خلاصہ یہ ہے کہ ع بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر
اس بنیادی اور کھلی حقیقت میں جس کسی کو ذرا سا بھی شبہہ ہو، وہ اپنے ایمان کی خیر منائے۔ یومِ پیدایش منانے کی شریعت میں کوئی بھی حیثیت ہوتی تو بلاشبہہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہی سب سے زیادہ مستحق تھے کہ آپؐ کا یومِ پیدایش منایا جاتا۔ دورِ رسالتؐ میں، دورِ خلافت راشدہؓ میں ایک عظیم تقریب کی حیثیت سے سرکاری طور پر اس کے منانے کی ہدایات اور ثبوت ملتا۔ لیکن صحابہ کرامؓ تو اس بحث سے اس قدر بے تعلق رہے یا اس درجہ یہ چیز نظرانداز کی گئی کہ ہماری تاریخ متعین طور پر یہ بھی نہیں بتاتی کہ آپؐ کا یومِ پیدایش ۹ربیع الاوّل، ۱۲ ربیع الاوّل یا ۱۷ربیع الاوّل ہے___ اگر دین میں اس کا واقعی کوئی مقام ہوتا، اورملّت میں اس کا تعامل رہتا تو یومِ پیدایش کی تاریخ اسی طرح متعین ہوتی، جس طرح حج کی تاریخیں متعین ہیں اور پورا عالمِ اسلام حج کی تاریخوں پر متفق ہے۔
پھر ہمیں کوئی سند نہیں ملتی کہ اللہ کے آخری رسولؐ نے کبھی شادی کی سالگرہ منائی ہو، جب کہ رسولؐ کی زندگی کو ہمارے لیے قرآن میں اسوئہ حسنہ قرار دیا گیا ہے اور آپؐ کی پوری زندگی ایک کھلی ہوئی کتاب کی طرح ہے۔ مغربی تہذیب سے متاثر بلکہ مرعوب ذہن نہ جانے اپنی روایات کے سلسلے میں اس درجہ احساسِ کم تری کا کیوں شکار ہیں اور کیوں اس خبط میں مبتلا ہیں کہ مغربی تہذیب کی کچھ باتوں کو اپنا کر اور اپنے ’روشن خیال‘ ہونے کا اس طرح ثبوت د ے کر ہی وہ معاشرے میں قابلِ احترام اور قابلِ عظمت ہوسکتے ہیں۔ احساسِ کم تری کے مریض، احساسِ برتری کی نمایش کرکے اپنے مرض کو چھپانے کی بھونڈی اور مضحکہ خیز کوشش کرتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ جو قوم اپنے نظریات، اپنے ورثے اور اپنی روایات اور اقدار کی قدر نہیں کرتی، وہ دنیا میں کبھی قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھی جاسکتی۔ مرعوب ذہن کے ساتھ دوسروں کی نقالی کرنے والی قوم اپنے زوال کا مرثیہ تو پڑھ سکتی ہے، لیکن اس نقالی کے عمل سے وہ رفعت و عظمت کا کوئی مقام حاصل کرلے؟ یہ سراسر دھوکا اور خود فریبی ہے۔
افسوس اس بات کا ہے کہ بعض صوم و صلوٰۃ کے پابند لوگ بھی، جو اپنے دین کی قدروں سے اور اس کے مکمل تصور سے ناآشنا ہوتے ہیں، وہ ان مراسم کا بھی اہتمام کرتے ہیں اور نماز روزے کی پابندی کرتے ہوئے اس غلط فہمی کا بھی شکار رہتے ہیں کہ ہم دین دار ہیں اور روشن خیال بھی۔ اس سے بڑھ کر وہ ان لوگوں کو تاریک خیال، مُلّا اور رجعت پسند سمجھتے ہیں، جو ان چیزوں کو بے ضرورت قرار دیتے ہیں۔ بعض اوقات تو ایسا بھی ہوتا ہے یہ بزعمِ خود روشن خیال لوگ، ایسے افراد کو ذہنی طور پر اذیتیں پہنچاتے ہیں اور اپنی زبان اور سلوک سے ان کی تحقیر و تذلیل بھی کرتے ہیں۔
اس معاملے میں تحقیر و تذلیل اور اذیت برداشت کرنے والے لوگوں کے ساتھ اللہ کا معاملہ کیا ہوگا؟ تو اس کا دارومدار اس بات پر ہے کہ ان کے طرزِعمل میں حکمت، اخلاص اور نیک نیتی ہے یا محض ضد اور محض اپنے ذوقِ دین داری پر اصرار۔ اصلاح چاہنے والوں کا کام دوسروں کو خطاکار ثابت کرکے مطمئن ہونا نہیں ہے بلکہ سوز و حکمت کے ساتھ اصلاح کی کوشش کرنا ہے۔
اصل بات تو یہ ہے کہ ملّت کے اندر سے اپنے منصب اور خیر اُمہ ہونے کا شعور ختم ہوتا جارہا ہے۔ وہ دوسری خود رو اُمتوں کی طرح ایک قوم بن کر رہ گئی ہے۔ اگر یہ شعور زندہ ہو کہ اللہ نے اس کو امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیتی رہنے والی ایک داعی اُمت کی حیثیت سے اُٹھایا ہے، تو اس کی قوتیں اور توانائیاں یقینا اپنے اصل مثبت کام میں لگی رہیں اور اس طرح غیرضروری بحثوں اور اُمور میں قوتیں کھپانے اور ایسے مظاہرے کرنے کا موقع ہی نہ ملے کہ ایسے سوالات پیدا ہوں۔ ضرورت ہے کہ اس داعی اُمت کو دعوت الی الخیر کے منصبی فریضے پر لگایا جائے اور اس کا جینا اور مرنا اسی کام کے لیے ہو، تو اللہ گواہ ہے کہ دنیا کا نقشہ ہی بدل جائے۔(مولانا محمد یوسف اصلاحی)
سوال : میں نے نذر مانی تھی کہ میں اپنے بیٹے کی صحت یابی کے بعد ایک شان دار پارٹی دوں گی۔ اس کے بعد میرے ماموں ۱۰سال کے لیے جیل چلے گئے اور میں ۱۰سال تک یہ نذر پوری نہ کرسکی۔ کیا اب میں یہ نذر پوری کروں یا ممکنہ اخراجات کے برابر رقم صدقہ وغیرہ کروں؟
جواب :سب سے پہلی بات یہ ہے کہ نذر ان چیزوں کی ماننی چاہیے جن میں اللہ کی عبادت، اس کی خوش نودی اور تقرب کا پہلو موجود ہو، مثلاً: نمازیں پڑھنا یا روزے رکھنا وغیرہ۔
پارٹیاں دینے یا اس جیسے کسی دوسرے مباح کام کی اگر نذر مانی ہے، تو اس ضمن میں علما کی دو طرح کی آرا ہیں: ایک یہ کہ اس نے جو اور جس شکل میں نذر مانی ہے وہی پورے کرے گا،اور دوسری یہ کہ قسم کا کفّارہ ادا کرے، یعنی دس مسکینوں کو کھانا کھلائے یا غلام آزاد کرے۔ ایسا نہیں کرسکتا تو تین دن روزے رکھے۔ علما ے کرام نے ان دونوں صورتوں کا اختیار دیا ہے۔ اب آپ ان میں سے کوئی بھی ایک شکل اختیار کریں۔(علامہ یوسف القرضاوی
سرورق کی حسب ذیل عبارت: ’پیدایشِ حضرت عبداللہؓ سے وصالِ نبویؐ تک کے تمام اہم وقائعِ سیرت نبویؐ، عیسوی تقویم و ترتیب کے ساتھ‘ سے زیرتبصرہ کتاب کی نوعیت کا اندازہ ہوتا ہے۔۲۴صفحات پر پھیلی ہوئی فہرست کے عنوانات سے ’سیرت النبیؐ‘ کے کسی بھی واقعے کا پتا چلایا جاسکتا ہے۔ سیرت کے وقائع کے ساتھ آں حضوؐر کے خدام، اُمہات المومنینؓ، آپؐ کے صحابہؓ، آپؐ کی خادمائیں، کاتبینِ وحی، آپؐ کے سُفرا اور قاصد، بارگاہِ رسالتؐ کے خطیب اور شعرا اور آپؐ کے آلاتِ حرب، ڈھالوں، گھوڑوں، اُونٹنیوں اور بکریوں وغیرہ کا مختصر تعارف بھی شاملِ کتاب ہے۔
یہ کتاب سیرتِ پاکؐ کی توقیت (کروتولوجی)ہے، جس سے واقعاتِ سیرت کا پتا چلتا ہے کہ کون سا واقعہ کب، کس دن رُونما ہوا اور اس کا پس منظر کیا تھا۔ بقول سیّد ارشد سعید کاظمی: ’’محترم قادری صاحب نے ایک نئے انداز پر سیرتِ نبویؐ کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے‘‘ (ص۲۹)۔ (رفیع الدین ہاشمی)
زیرنظر کتاب تین حصوں پر مشتمل ہے:پہلے حصے میں تمہیدی مباحث، دوسرے حصے میں بعثت سے قبل کے اہم واقعات کا احاطہ کیا گیا ہے، جب کہ تیسرے حصے میں بعثت کے بعد قریش کی مخالفت اور کفّار کی عصبیت ِ جاہلیہ کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔ ’پیش لفظ‘ میں لکھا ہے: ’’آپؐ کی زندگی کا ایک ایک لمحہ مستند حوالوں کے ساتھ تاریخ اور حدیث کی کتابوں میں پوری جُزرسی کے ساتھ محفوظ [ہے] (ص۲۷)۔کوشش کی گئی ہے کہ رسولِ اکرمؐ کی زندگی کا لمحہ لمحہ تاریخ اور حدیث کی کتابوں سے جمع کیا جائے۔ ہرحصے کے ضمنی عنوانات کے تحت ہرہرجُز اور پیراگراف پر سرخیاں قائم کی ہیں، اور تقریباً ہرپیراگراف مستند حوالہ جات سے مزین ہے۔ یہ چیز مؤلف کی محنت اور احتیاط کی دلیل ہے۔ واقعات کے لیے حافظ صاحب نے تفہیم القرآن، مفتی محمد شفیع کی تفسیر معارف القرآن، مولانا شبلی کی سیرت النبیؐ اور دیگر کتابوں سے طویل اقتباسات لیے ہیں۔
یہ عمدہ شعری ذوق ہی کا نتیجہ ہے کہ حافظ صاحب نے جہاں عربی شاعری کے نمونے (مع تراجم) دیے ہیں، وہیں اُردو شعرا سے بھی خوب استفادہ کیا ہے اور علّامہ اقبال کے ساتھ مولانا حالی، ماہرالقادری اور مولانا ظفرعلی خان کے اشعار بھی برمحل استعمال کیے ہیں۔ یہ ایک دل چسپ اور عمل پر اُبھارنے والی کتاب ہے۔(رفیع الدین ہاشمی)
علّامہ اقبال کو، عالمِ اسلام کے دیار و امصارمیں مدینۃ النبیؐ کے بعد غالباً اندلس اور قرطبہ سے خاص تعلقِ خاطر تھا۔ بالِ جبریل کی منظومات (مسجد قرطبہ، ہسپانیہ، طارق کی دُعا، عبدالرحمٰن اوّل کا بویا ہوا کھجور کا پہلا درخت وغیرہ) سے اندازہ ہوتا ہے کہ قرطبہ، مسجد قرطبہ اور اندلس سے انھیں شدید جذباتی لگائو تھا۔یورپ کے تیسرے سفر سے لوٹتے ہوئے وہ بطورِ خاص ہسپانیہ گئے اور تین ہفتوں تک وہاں کے شہروں، تعلیمی اور علمی اداروں اور مسلمانوں کے آثار کا مطالعہ و مشاہدہ کیا۔
زیرنظر کتاب میں اندلس سے علّامہ اقبال کے تعلق اور ہمہ پہلو لگائو کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔ کتاب اگرچہ مختصر ہے، لیکن اس کے مباحث، تنوع اور جامعیت کا نمونہ پیش کرتے ہیں۔ ڈاکٹر نگار نے جو اسلامی تاریخ پر گہری نظر کے باعث موضوع کے جملہ پہلوئوں کو ۱۰؍ابواب میں سمیٹ لیا ہے۔ آسان زبان میں یہ مختصر کتاب انھوں نے نوجوانوں کے لیے لکھی ہے کہ ’’ہماری نوجوان نسل اقبال اور فکر ِ اقبال سے دُور ہوتی جارہی ہے‘‘___ عام قارئین کے لیے بھی یہ عبرت آموز اور معلومات افزا ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
o سیّدنا محمد رسول اللہ a ، ترتیب: شیخ عمر فاروق۔ ناشر: ۱۵-بی ، وحدت کالونی، لاہور۔ فون: ۳۷۸۱۰۸۴۵-۰۴۲۔ صفحات: جلداوّل: ۶۶۶، جلد دوم: ۶۸۸ (مجلد اور مجلاتی سائز)۔[رابطہ کرکے دستی طور پر حاصل کی جاسکتی ہے]۔[زیرنظر کتاب سیرت پاکؐ کے ذخیرئہ کتب میں ایک منفرد اضافہ ہے، جسے مطالعۂ سیرت کا ذوق و شوق پیدا کرنے کی غرض سے ترتیب دیا گیا ہے۔ جلداوّل میں سیرت کے مختلف واقعات دیے گئے ہیں اور جلد دوم میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور مطلوب اسلامی طرزِ زندگی کے بارے میں قرآن و سنت سے ہدایات کو مرتب کیا گیا ہے۔ ]
o اُصولِ حدیث ، از ڈاکٹر اقبال احمد اسحاق۔ ناشر: ملک اینڈ کمپنی، رحمان مارکیٹ، غزنی، سٹریٹ، اُردوبازار، لاہور۔ فون: ۳۷۲۳۱۱۱۹-۰۴۲۔صفحات:۹۵۔ قیمت: درج نہیں۔ [یہ کتاب آسان انداز سے علم حدیث کی اصطلاحات کو سمجھانے کے لیے لکھی گئی ہے۔ فہمِ حدیث کے ساتھ درجات و اقسامِ حدیث کا جاننا بھی ضروری ہے ، جس کے لیے یہ کتاب ایک مفید ذریعہ ہے۔]
o الفاظِ طلاق کے اُصول ، از مفتی شعیب عالم۔ ناشر: اسلامی کتب خانہ، بنوری ٹائون، کراچی۔ فون: ۳۴۷۲۷۱۵۹-۰۲۱۔ صفحات: ۱۷۶: قیمت: درج نہیں۔[کتاب میں ’طلاق‘ سے متعلق اُمور اور مباحث کو، اعلیٰ فنی و تدریسی اصولوں کے مطابق مرتب کیا گیا ہے۔ اپنی نوعیت کے اعتبار سے یہ ایک قیمتی کتاب ہے، جسے بالخصوص علما اور اساتذہ کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔ ]
oلمحۂ موجود اور تعلیماتِ اقبال ، از پروفیسر رشید احمد انگوی۔ ناشر: ۱۶-جی، مرغزار کالونی، ملتان روڈ، لاہور۔ فون: ۴۷۲۳۵۱۴-۰۳۰۰۔صفحات:۶۴۔ قیمت: ۱۰۰ روپے۔[مصنف نے علامہ اقبال کے ۷۵؍اشعار کا آسان زبان میں ترجمہ و تشریح پیش کی ہے، تاکہ نئی نسل کلامِ اقبال کو سمجھنے میں آسانی محسوس کریں اور پیغام کی لذت کے فکروخیال کو معطر کریں۔ ]
oعلّامہ محمد اقبال اور مرزا غلام احمد قادیانی ،از پروفیسر محمد مسعود احمد۔ ناشر: ادارہ مظہراسلام ، ۳/۶۴، نئی آبادی، مجاہد آباد، مغل پورہ، لاہور۔ فون: ۸۱۰۳۷۵۵-۰۳۰۰ ۔ صفحات:۱۸۔ قیمت:۱۰ روپے۔ [اس پمفلٹ میں قادیانیت کے حوالے سے علامہ اقبال کے خیالات کو مرتب کیا گیا ہے۔]
oاُمت مسلمہ کے مستقبل کی تشکیلِ نو ،از مختار فاروقی۔ ناشر: قرآن اکیڈمی، لالہ زار کالونی، فیز۲، ٹوبہ روڈ، جھنگ۔ فون: ۷۶۳۰۸۶۱-۰۴۷۔[مصنف نے دراصل اہلِ قلم سے اپیل کی ہے کہ وہ عصرِحاضر کے چیلنج کو علمی سطح پر سمجھیں اور اعلیٰ فکروعلمی اسلوب میں ان چیلنجوں کا جواب دے کر، اپنی ذمہ اداری ادا کریں۔]
سیّد سعادت اللہ حسینی (جنوری ۲۰۱۸ء) نے بڑے مدلل، دل نشین اور مؤثرانداز سے فریضہ اقامت ِ دین کی اہمیت واضح کی ہے، اور آپ نے مولانا امین احسن صاحب کا مضمون دے کر اس حلقے کو بے دست و پا کیا ہے جو اسلامی ریاست کے تصور کا انکاری ہے۔
جنوری ۲۰۱۸ء کا شمارہ مجموعی طور پر معلومات افزا اور قابلِ غوروفکر تحریروں پر مشتمل تھا۔ پروفیسر خورشیداحمد نے اُمت مسلمہ کو درپیش چیلنجوں کا بہترین حل پیش کیا۔ عابدہ فرحین نے بڑے جان دار اور پُرکشش انداز میں بیان کیا کہ عورت عورت کی دشمن کیوں بن جاتی ہے اور اس کا قابلِ عمل حل بتایا۔ اگر ان باتوں پر ہمارے گھروں میں عمل درآمد ہوجائے تو یہی گھر جنّت کا نمونہ بن جائیں۔ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے ’آپ بھی کچھ لکھیے‘ کے عنوان سے جو لکھا ہے، اس پر بھرپور توجہ بلکہ بلاتاخیر عمل درآمد کی ضرورت ہے۔ اس مضمون نے رہنمائی دی ہے اور حوصلہ افزائی بھی کی ہے۔
افتخار گیلانی نے ’یروشلم سے کشمیر تک‘ صورتِ حال کو ایک تازیانے کی صورت میں تحریر کیا ہے، کاش اُمت اس کی ضرب کو اپنی روح اور جسم پر محسوس کرے۔پھر سعادت اللہ کا مضمون فکری رہنمائی کا ذریعہ ہے۔
’کشمیر آبادی کی تبدیلی اور بھارتی عزائم‘ (دسمبر ۲۰۱۷ء) شیخ تجمل الاسلام نے بھارتی سازش سے جس طرح پردہ اُٹھایا ہے یہ نہ صرف اہلِ پاکستان کے لیے لمحۂ فکریہ ہے بلکہ زندگی اور موت کا سوال ہے۔ کیا پاکستان میں مختلف اَدوار میں، مختلف جماعتوں کی حکومتوں نے اس سلسلے میں کوئی نوٹس نہیں لیا؟ ایک عرصہ سے قائم ’کشمیر کمیٹی‘ نے اس خطرناک صورتِ حال کے سدباب کے لیے کیا کوئی قابلِ ذکر قدم اُٹھایا ہے؟ جائزہ سامنے آنا چاہیے۔
’پاکستان، اسلامی یا سیکولر ریاست‘ (دسمبر ۲۰۱۷ء) اختر حسین عزمی نے بہت اچھے طریقے سے پاکستان کے وجود کے مقصدکی وکالت کی ہے۔ کیا ہمارے نام نہاد سیکولر حضرات یہ بات نہیں سمجھتے کہ برعظیم کے مسلمانوں کو آخر کیا پڑی تھی کہ وہ جان و مال اور عزت کی بازی لگاکر ایک سیکولر ملک حاصل کریں ، جب کہ بھارت خود سیکولر ملک ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔
’اُردو ہندسے‘ اب کم پڑھے، پڑھائے جاتے ہیں، اور انگریزی ہندسے ہی ہرجگہ استعمال ہوتے ہیں۔ ترجمان کےقارئین کو سہولت فراہم کرنے کے لیے انگریزی الفاظ گنتی میں استعمال کیے جائیں۔
مئی ۱۹۹۸ء میں پہلے بھارت کے اور پھر جوابی طور پر پاکستان کے جوہری دھماکوں کے بعد بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی، اسی سال ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس سے خطاب کرنے نیویارک پہنچے۔ واجپائی کو اپنی ہمت اور طاقت سے زیادہ کام کرنا گوارا نہیں تھا۔ عام طور پر ظہرانے کے بعد سہ پہر چار بجے تک کوئی مصروفیت نہیں رکھتے تھے اور رات آٹھ بجے کے بعد آرام کرنے چلے جاتے تھے۔ اس لیے ان کے غیر ملکی دوروں میں وفد کے ساتھ آئے افسران اور میڈیا کو کھل کر شہر دیکھنے اور شاپنگ کا موقع مل جاتا تھا۔
نیویارک کے اس دورے کے دوران واجپائی کی ملاقات اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو کے ساتھ بھی طے تھی۔ نیتن یاہو بھی پہلی بار۱۹۹۶ء میں اقتدار میں آئے تھے۔ اسی طرح یہ بھی ایک دل چسپ امر ہے کہ تل ابیب اور نئی دہلی میں سخت گیر دائیں بازوکے عناصر ایک ہی وقت اقتدار میں آئے۔ بہرحال، جس وقت واجپائی کی ملاقات نیتن یاہو سے طے تھی، بھارتی مشن نے میڈیا کے لیے شہر کے دورے کا پروگرام ترتیب دے رکھا تھا، مگر ہندی اخبار کے ایک ایڈیٹر اپنے ذاتی پروگرام کے تحت ساتھیوں کے ہمراہ نہیں جارہے تھے۔ جب واجپائی ہوٹل میں داخل ہوئے تو پرانی شناسائی کے سبب انھوں نے ایڈیٹرصاحب سے گرم جوشی دکھائی اور ان کا ہاتھ پکڑ کر ملاقات کے کمرے میں لے گئے اور گفتگو میں مگن ہوگئے۔ بھارتی دفترخارجہ کے افسران ابھی ان ایڈیٹر صاحب کو بھگانے کی ترکیب سوچ ہی رہے تھے، کہ نیتن یاہو اپنے وفد کے ہمراہ اس جگہ آگئے۔ واجپائی سے ہاتھ ملاکر اسرائیلی وزیر اعظم نے چھوٹتے ہی ان کو جوہری دھماکوں پر مبارک باد دی اور معانقہ کرتے ہوئے کہا: Mr. Prime Minister, we are now both nuclear power. Let us crush Pakistan like this. (مسٹر پرائم منسٹر ، ہم دونوں جوہری طاقت ہیں، اس طرح ہم پاکستان کو جکڑ کر کرش کریں)۔
اسرائیل آج تک ایک علانیہ ایٹمی طاقت نہیں ہے۔ ایک صحافی کے سامنے اس طرح کے اعتراف نےبھارتی وزارت خارجہ کے افسران کو خاصا پریشان کر دیا۔ واجپائی نے ایڈیٹرصاحب کو اپنے ساتھ صوفے پر بٹھا رکھا تھا۔ تب ایک جہاندیدہ افسر نے ان کو بتایا کہ: ’آپ کی ایک ضروری کال آئی ہے‘۔ اور اس بہانے ایڈیٹر کو باہر لے جاکر دروازہ بند کرادیا۔ بعد میں وزارت خارجہ اور اسرائیلی افسران نے اصرار کے ساتھ تاکید کی کہ یہ گفتگو کہیں بھی اور کسی بھی صورت میڈیا میں نہ آنے پائے۔
اب یہی نیتن یاہو۱۳۰ رکنی وفد کے ہمراہ جنوری ۲۰۱۸ء میں بھارت کا چھے روزہ دورہ مکمل کرکے واپس گئے ہیں۔ اگرچہ دونوں ممالک کے درمیان ۲۵سال قبل باقاعدہ سفارتی تعلقات قائم ہوگئے تھے، مگر حقیقت کی دُنیا میں ان کے رشتوں کی تاریخ اس سے بھی بہت پرانی ہے۔ امریکی دباؤ کو نظرانداز کرتے ہوئے دسمبر ۱۹۷۱ءکی جنگ میں، اسرائیل نے جنگی ہتھیار فراہم کرکے، ’پاکستان کے خلاف جنگ‘ کا پانسہ پلٹنے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ تب مشرقی پاکستان میں پیش قدمی کی کما ن بھارت کی ایسٹرن کمانڈ کے ایک بھارتی یہودی میجر جنرل جے ایف آر جیکب کے سپرد تھی۔ نجی محفلوں میں جنرل جیکب نے کئی بار حسرت سے یہ تذکرہ کیا کہ: ’’جب پاکستانی فوج ہتھیار ڈال رہی تھی تو تقریب اور تصویر کھنچوانے کے لیے کلکتہ سے ایک سکھ جنرل جگجیت سنگھ اروڑہ کو بذریعہ طیارہ ڈھاکہ لایا گیا، حالاںکہ جگجیت سنگھ آپریشن کا حصہ نہیں تھا۔ یہ وزیراعظم اندرا گاندھی کا فیصلہ تھا کہ ایک مسلمان اور پاکستانی جنرل کا ایک یہودی جنرل کے سامنے ہتھیار ڈالنا شرقِ اوسط خاص کر عرب اور مسلم ممالک میں اضطراب پیدا کر سکتا تھا، جس کا بھارت متحمل نہیں ہوسکتا تھا‘‘۔
بہرحال، وزیر اعظم نریندرا مودی کے برسرِاقتدار آنے کے بعد وہ ’بھارت اسرائیل تعلقات‘ جو صرف دفاع اور خفیہ معلومات کے تبادلے تک محدود تھے، ان کو سیاسی جہت ملی ہے۔ اسرائیلیوں کو شکایت تھی کہ بھارتی سیاستدان پردے کے پیچھے ہاتھ تو ملاتے ہیں، مگر اسرائیل کی بین الاقوامی فورم میں مدد کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ اسرائیلی افسروں کے مطابق اس دورے کا مقصد دفاعی خریدوفروخت پر توجہ مرکوز کرنے کے بجاے دنیا کو یہ بھی پیغام دینا تھا، کہ ہم دنیا میں الگ تھلگ نہیں ہیں۔ بھارتی وزارت خارجہ اور ایک معروف تھنک ٹینک کی طرف سے منعقد ہ ایک جیوپولیٹکل کانفرنس کا افتتاح کرتے ہوئے نیتن یاہو نے کہا کہ: ’’کسی بھی ملک کی بقا اور اس کو طاقت ور بنانے کے لیے تین چیزیں درکار ہوتی ہیں: فوجی قوت، اس کو برقرار رکھنے کے لیے اقتصادی ترقی، اور ایسا سیاسی نظام جو آپ کے لیے دنیا میں اتحادی بنانے میں معاون ثابت ہو‘‘۔ اسرائیلی وزیر اعظم کا بھارتی دورہ اور مذکورہ اعتراف یہ بتاتا ہے کہ وہ کس حد تک بین الاقوامی تنہائی کا شکار ہے اور اس کو دُور کرنے کے لیے اتحادیوں کی تلاش میں ہے۔ اس لیے اس دورے کے دوران اسرائیل نے زراعت، ٹکنالوجی، واٹرمینجمنٹ وغیرہ کے شعبوں پر خصوصی توجہ دی۔
اسرائیلی وزیر اعظم کے آگرہ، احمد آباد اور ممبئی کے دورے کے دوران، ان کے انٹیلی جنس اداروں: موساد اور شن بٹ (Shin Bit) کے سربراہان نئی دہلی میں ہی موجود رہے اور قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول اور اپنے ہم منصبوں کے ساتھ ملاقاتیں کرتے رہے۔ بتایا جاتا ہے کہ موساد کے سربراہ یوسی کوہان اور اجیت دوول کے درمیان ملاقاتوں کے بعد ہی یہ فیصلہ ہوا کہ: ۵۰۰ملین ڈالر کے اسپائیک اینٹی ٹینک میزائل سودے پر دوبارہ مذاکرات ہوں گے۔ بھارت نے یہ سودہ منسوخ کردیا تھا، کیوںکہ اسرائیلی دفاعی کمپنی ٹکنالوجی ٹرانسفر کرنے پر آمادہ نہیں تھی۔
شن بٹ کے سربراہ نادار ارگامان نے دہلی میں سابق سفارت کاروں، فوجی ماہرین اور ایڈیٹروں کے ایک گروپ سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ: ’’دونوں ممالک کے درمیان خفیہ معلومات کے تبادلے کا نظامِ کار (میکانزم) اب خاصا منظم اور وسیع ہے۔ خاص طور پر زیر سمندر ۱۸ہزار کلومیٹر لمبی مواصلاتی کیبل کے ذریعے ہونے والی ترسیل کی نگرانی کے لیے دونوں ممالک تعاون کر رہے ہیں‘‘۔ یاد رہے یہ کیبل سنگاپور، ملایشیا، تھائی لینڈ، بنگلہ دیش، بھارت، سری لنکا، پاکستان، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، سوڈان، مصر، اٹلی، تیونس اور الجزائر کے لیے ہر طرح کے مواصلات کا ذریعہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ: ’’انفارمیشن یا خفیہ معلومات کی ترسیل سے زیادہ اس کا تجزیہ کرنا اور اس کا بروقت اور اصل استعمال کنندہ تک پہنچانا سب سے بڑا چیلنج ہے‘‘۔
پاکستان کے بارے میں اسرائیلی افسر سیدھا اور صاف جواب دینے سے کترارہے تھے، مگر ان کا کہنا تھا: ’’بھارت کو سلامتی امور سے نمٹنے کے لیے وہ مدد دینے کے لیے تیار ہیں‘‘۔ تاہم، بار باریہ بھی کہا : ’’ہمارا ہدف (فوکس) وہ تنظیمیں اور ممالک ہیں، جو اسرائیل کے وجود کے لیے خطرہ ہیں‘‘۔ اسرائیلی وزیر اعظم کے دورے کو پس پردہ ترتیب دینے والے دو افراد گجراتی نژاد امریکی یہودی نسیم ریوبن اور امریکا کی سب سے طاقتور لابی تنظیم امریکن جیوش کونسل کے نائب سربراہ جیسن ایف اساکسون کا کہنا تھا کہ: ’’یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ دونوں ممالک کے دشمن الگ الگ ہیں۔ جہاں بھارت کی دشمنی پاکستان سے ہے، وہیں اسرائیل اپنی بقا کے لیے ایرا ن کو خطرہ سمجھتا ہے‘‘۔ نسیم ریوبن کا کہنا تھا کہ: ’’شاید اس معاملے میں دونوں ممالک کے مفادات جدا جدا ہیں، اس لیے دیگر اُمور پر توجہ دینا ضروری ہے، تاکہ ایک پاےدار رشتہ قائم ہو۔ چوں کہ موجودہ وقت میں ترقی پسندانہ سوچ اور جمہوریت کو ریڈیکل اسلام سے خطرہ ہے، اس لیے ان خطرات سے نمٹنے کے لیے اشتراک کی گنجایش ہے‘‘۔
یہ بات طے ہے کہ اسرائیل اور امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے ساتھ اپنی قربت کو مودی نے بھارتی داخلی سیاست میں ہندو انتہا پسند طبقے کو رام کرنے کے لیے بخوبی استعمال کیا ہے۔ ہندو قوم پرستوں کی سرپرست تنظیم آرایس ایس کے لیے اسرائیل ہمیشہ سے ایک اہم ملک رہا ہے۔ اٹل بہاری واجپائی نے۲۰۰۳ء میں اسرائیلی وزیر اعظم ایریل شیرون کی مہمان نوازی کی تھی، اور مودی جنوبی ایشیا کے پہلے سربراہِ مملکت ہیں، جنھوں نے تل ابیب کا دورہ کیا، پھر اسرائیلی وزیراعظم کوبھی اپنے یہاں بلالیا۔ ہندو انتہا پسند طبقے کا خیال ہے کہ: ’’اسرائیل دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کا دشمن ہے اور انھیں ختم کرکے ہی دم لے گا‘‘۔
اس خیال کے برعکس یہودی مذہبی پیشوا ربی ڈیوڈ روزن کی راے یہ ہے: ’’۱۹۷۳ء کی جنگ سوئز اور بعد میں لبنان جنگ نے یہ ثابت کردیا ہے کہ جدید ہتھیاروں اور امریکی حمایت کے باوجود اسرائیل ناقابل تسخیر نہیں ہے‘‘۔ انھوں نے راقم کو انٹرویو میں بتایا کہ: ’’عام یہودی یہ تسلیم کرتا ہے کہ اسرائیل ۲۰۰۶ءکی لبنان جنگ ہار گیا تھا۔ عدم تحفظ کا احساس اور سیکورٹی اور انٹیلی جنس پر بے پناہ اخراجات کی وجہ سے اسرائیل میں ضروریاتِ زندگی خاصی مہنگی ہیں۔ اس لیے اپنی بقا اور دیرپا سلامتی، دو ریاستی فارمولے پر عمل میں ہی مضمر ہے۔ ورنہ اگلے ۵۰برسوں میں یہودی ریاست کا نام و نشان مٹ سکتا ہے یا یہودی اپنی ریاست میں اقلیت میں تبدیل ہوجائیں گے‘‘۔ میں نے پوچھا: ’’آخر کیسے؟‘‘ تو انھوں نے کہا: ’’۱۹۶۷ء میں مقبوضہ فلسطین، یعنی اسرائیل میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب ۱۴فی صد تھا، جو بڑھ کر ۲۲ فی صد سے بھی زیادہ ہوگیا ہے۔ یہ مسلمان ’عرب اسرائیلی‘ کہلاتے ہیں اور اسرائیلی علاقوں میں انتخابات وغیرہ میں بھی شرکت کرتے ہیں۔ ان میں افزایش نسل بھی یہودیوں سے زیادہ ہے۔ اس لیے اسرائیلی حکومت کو اپنی موجودہ روش ترک کرکے فلسطینیوں کے لیے ایک علیحدہ وطن قائم کرنے کی طرف پیش قدمی کرنے چاہیے ، ورنہ اس ٹائم بم کی وجہ سے یہودی ریاست کا وجود خطرے میں پڑجائے گا اور اگلے دوعشروں میں وہ اقلیت میں ہوں گے‘‘۔