مضامین کی فہرست


جنوری ۲۰۱۸

مسئلہ فلسطین اور خاص طور پر بیت المقدس کے بارے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا ۶دسمبر ۲۰۱۷ء کا شرم ناک اعلان، جہاں فلسطین اور عالمِ اسلام کے خلاف ایک اعلانِ جنگ کی حیثیت رکھتا ہے، وہیں بین الاقوامی قانون، جنیوا معاہدات (جنیوا کنونشن) اور اقوامِ متحدہ اور    اس کے چارٹر سے بھی عملاً امریکا کی لاتعلقی کا اعلان ہے۔ فکری اور عملی، ہردواعتبار سے اس کے بڑے دُور رس اثرات ہیں جن کو سمجھنا اور ان کے شرسے بچنے کے لیے صحیح اور مؤثر حکمت عملی اور لائحۂ عمل بنانا وقت کا اصل چیلنج ہے۔ 
عالمِ اسلام کے لیے خاص طور پر اور عالمی برادری کے لیے عام طور پر، اس ضمن میں افسوس اور غصے کا اظہار بالکل فطری چیز ہے، لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ اس خطرناک اعلان کے جو تباہ کن اثرات اور نتائج و عواقب (consequences) ہیں، ان کا صحیح ادراک پیدا کیا جائے۔ ہم کوشش کریں گے کہ اس سلسلے کے چند اہم ترین پہلوئوں کی نشان دہی کریں اور مسلم اُمت اور عالمی برادری کو اس طرف متوجہ کریں کہ امریکا کی موجودہ قیادت، قیامت کی جو چال چل گئی ہے، اس کا کس طرح مقابلہ کیا جائے؟
درحقیقت صدر ٹرمپ سے بالکل ایسی ہی عاقبت نااندیشی، حماقت اور سفاکی کے اقدام کا خطرہ تھا، اس لیے یہ بیان کسی پہلو سے بھی غیرمتوقع نہیں ہے۔ جو اہلِ قلم ، دانش ور اور سیاست دان اس سے کسی بھلے اقدام کی توقع رکھتے تھے یا سمجھتے تھے کہ عالمی سوپرپاور کا صدر اتنا غیرذمہ دار نہیں ہوسکتا، وہ صدر ٹرمپ اور اسرائیل کے اصل ایجنڈے کا اِدراک ہی نہیں رکھتے اور نوشتۂ دیوار کو پڑھنے میں غلطی کے مرتکب ہورہے ہیں۔ اسرائیل اور شرقِ اوسط کے بارے میں صدر ٹرمپ کے اصل بھروسے کے لوگوں میں تین افراد بہت اہم ہیں: ۱- جیسن گرین بی لاٹ (صدر ٹرمپ کے ڈپلومیٹک ایڈوائزر)،۲- ڈیوڈ فریڈمین (اسرائیل میں امریکا کے سفیر اور ایک مدت سے سرزمینِ فلسطین پر صہیونی آبادکاری کے فروغ میں کلیدی کردار ادا کرنے والے)، ۳- جارید کشنر (موصوف کے داماد، نیتن یاہو کے وفادار اور صدر امریکا کے دست ِ راست)۔ یہ تثلیث مسئلہ فلسطین کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کے لیے ایک خطرناک منصوبے پر کاربند ہے۔

نیا صہیونی منصوبہ

اس منصوبے کے مطابق شرقِ اوسط میں سُنّی اور شیعہ تصادم کا فروغ، اسرائیلی اور ’سُنّی اسلام‘ کا متحدہ محاذ، فلسطین کی آزاد ریاست کے تصور کو دفن کر کے بیت المقدس کو اسرائیل کا مستقل دارالحکومت بنانا اور فلسطینیوں کے لیے ایک ایسی بے معنی ضمنی ریاست کا قیام جو چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں پر مشتمل ہو، جس کی کوئی مستقل فوج نہ ہو، جس کا دارالحکومت بیت المقدس سے چندکلومیٹر کے فاصلے پر ایک گائوں ابودیس (Abu Dis) ہو، اور جو ایسی کٹی پھٹی، لولی لنگڑی اور کمزور (نام نہاد) ریاست ہو، جو معاشی طور پر کبھی خودکفیل نہ ہوسکے اور جو ہمیشہ مالی اعتبار سے امریکا اور چند دوسرے ممالک پر منحصر رہے۔ 
اس شیطانی منصوبے کے لیے امریکا اور اسرائیل نے جو لائحۂ عمل بنایا ہے اور امریکی اخبارات کے مطابق جس کے سلسلے میں کچھ عرب ممالک کو بھی اعتماد میں لے لیا گیا ہے، اسے ۲۰۱۸ء کے شروع میں ارضِ فلسطین پر مسلط کرنے کا پروگرام ہے۔ اس اصل پروگرام کے پیش خیمہ کے طور پر ہی ۶دسمبر کا اعلان کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ اسرائیل میں امریکی سفارت خانے کی  بیت المقدس میں منتقلی کے بارے میں ۱۹۹۵ء کا جو امریکی قانون ہے، اس کے تحت ہر چھے مہینے گزرنے پر صدر کو سفارت خانہ منتقل نہ کرنے کے لیے مزید مہلت کی دستاویز پر دستخط کرنا پڑتے ہیں اور اس مشق پر ۲۲سال سے عمل ہورہا تھا۔ اسی تسلسل میں خود صدر ٹرمپ نے جون ۲۰۱۷ء میں سرٹیفکیٹ جاری کیا تھا۔ اب اس روش کو تبدیل کرکے نئے منصوبے کی طرف پیش رفت کے لیے سفارت خانے کی منتقلی کا لائحہ عمل دینا مطلوب ہے۔
ٹرمپ اور اس کے حواریوں کا خیال تھا کہ یہ پہلا قدم، مختصر نمایشی احتجاج کے ساتھ قبول کرلیا جائے گا اور پھر جنوری/فروری ۲۰۱۸ء میں پورے منصوبے کا اعلان ہوگا۔ لیکن صدر ٹرمپ اور اسرائیل کا یہ خطرناک کھیل پہلے ہی قدم پر زمین بوس ہوتا نظر آرہا ہے۔ اسے فلسطینیوں،  اُمت مسلمہ اور عالمی برادری کی بڑی اکثریت نے جارحانہ اقدام اور ’ریڈلائن‘ کو روندنے کی کوشش قرار دیا ہے۔ اس اعلان کو عملاً بیت المقدس کو اسرائیل کا حصہ تسلیم کرنے اور اسرائیلی جارحیت کو  سند ِ جواز فراہم کرنے کی جارحانہ کارروائی قرار دیا، نیز فلسطین اور اُمت مسلمہ نے اسے اقدامِ جنگ کے مترادف قرار دیا ہے۔ مزیدبرآں اقوامِ متحدہ میں امریکا کو منہ کی کھانا پڑی۔ ساری دھونس، دھمکی اور سامراجی فرعونیت کے اظہار کے باوجود،سلامتی کونسل میں امریکا بالکل تنہا رہ گیا اور باقی چودہ کے چودہ ارکان نے اس اقدام کو غلط، غیرقانونی اور ناقابلِ قبول قرار دیا، البتہ امریکی ’ویٹو‘ (حقِ استرداد)کی وجہ سے قرارداد نامنظور ہوگئی۔ اس کے جواب میں جنرل اسمبلی نے ۹ کے مقابلے میں ۱۲۸ووٹوں کی اکثریت سے امریکا کے اس اقدام کی نہ صرف مذمت کی بلکہ اسے باطل اور بے اثر (null and void)  قرار دیا، جو امریکا کے منہ پر ایک بھرپور طمانچا ہے۔ عرب لیگ نے کمزور الفاظ میں،  جب کہ ’اسلامی تعاون تنظیم‘ (OIC) نے استنبول میں منعقدہ سربراہی اجلاس میں دوٹوک الفاظ میں اسے رد کر دیا۔
 عیسائی دُنیا کے اہم ترین اداروں اور شخصیات بشمول رومن کیتھولک سربراہ پوپ فرانسس، گریک آرتھوڈوکس کے سربراہ پیٹریارک تھیوفیلوس سوم اور مصر کے قبطی چرچ کے سربراہ نے نہ صرف اس کی مذمت کی، بلکہ امریکی نائب صدر سے ملنے سے بھی اسی طرح انکار کر دیا، جس طرح فلسطین اتھارٹی کے سربراہ محمودعباس نے انکار کیا ہے۔ فلسطین کی عیسائی قیادت نے بھی اس اقدام کو تسلیم کرنے سے صاف لفظوں میں انکار کر دیا۔ یروشلم کے آرچ بشپ عطالاحنا کے الفاظ ہیں: ’’ہم فلسطینی، مسیحی اور مسلمان، امریکا کی جانب سے یروشلم کو اسرائیلی دارالحکومت بنانے کے فیصلے کو مسترد کرتے ہیں‘‘۔
مسلم اُمت نے پوری یک جہتی سے اور عالمی برادری کی عظیم اکثریت نے امریکا کے اس جارحانہ قدم کو رد کیا ہے۔ الحمدللہ، یہ اقدام بیداری کی ایک سبیل (wake up call) بن گیا ہے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ امریکا اور اسرائیل کے ہاتھوں مسئلہ فلسطین کوتتربتر( liquidate ) کرنے کے منصوبے کو خاک میں ملانے اور اس کے خلاف صف آرا ہونے کی تحریک کو قوت اور تحرک عطا کرنے کا باعث ہوگا۔ انسان کیا سوچتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی حکمت کیا ہوتی ہے؟

فَعَسٰٓی اَنْ تَکْرَھُوْا شَیْئًا وَّ یَجْعَلَ اللّٰہُ فِیْہِ خَیْرًا کَثِیْرًاO (النساء ۴:۱۹) ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمھیں پسند نہ ہو مگر اللہ نے اس میں بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو۔

مسئلہ فلسطین، بنیادی حقائق

یہاں چند بنیادی حقائق بہت ہی اختصار کے ساتھ پیش نظر رہیں، تاکہ درپیش چیلنج کی وسعت اور حقیقی نوعیت کو بہتر طورپر سمجھا جاسکے اور آگے کی حکمت عملی کے خدوخال طے کیے جاسکیں:

  • ارضِ فلسطین سےقلبی تعلق ایک چیز ہے اور ارضِ فلسطین پر اقتدار اور اس کے نظمِ مملکت پر اختیار بالکل دوسری چیز۔ ابوالانبیا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اُمت کی ہر شاخ کا ارضِ فلسطین سے تعلق ہے اور اس کا احترام صرف سیاسی ضرورت ہی نہیں بلکہ حق و انصاف کا تقاضا ہے۔ اس پہلو سے یہودی، عیسائی اور مسلمان اپنی اپنی وجوہ سے جو جذبات رکھتے ہیں، ان کا احترام ضروری ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں نے اپنے پورے دورِ اقتدار میں اس کا قرار واقعی احترام و اہتمام کیا۔ جہاں یہودیوں کے عیسائیوں پر اور عیسائیوں کے یہودیوں پر مظالم، تاریخ کا کرب ناک حصہ ہیں، وہیں مسلمانوں نے احترامِ حقوق اور رواداری کی جو مثالیں قائم کی ہیں، وہ سنہری حروف میں لکھے جانے کے لائق ہے اور دوست اور دشمن اس کا اعتراف کرتے ہیں۔ 

بنی اسرائیل پر اللہ تعالیٰ کے انعامات اور بنی اسرائیل کی نافرمانیاں نہ صرف تاریخ کا حصہ ہیں بلکہ خود ان کی مقدس کتب اور قرآنِ پاک ان پر شاہدہیں۔ بنی اسرائیل کو ارضِ فلسطین پر کم از کم گذشتہ دوہزار سال میں کبھی اقتدار حاصل نہیں رہا اور ان کا یہ دعویٰ کہ: ’’یروشلم تین ہزار سال سے ان کا دارالحکومت ہے‘‘، اور صدرٹرمپ کا اسے ایک حقیقت (reality) کے طور پر پیش کرنا تاریخی بددیانتی کی بدترین مثال ہے۔ صہیونی تحریک ایک سیکولر، خالص سیاسی اور اپنی اصل کے اعتبار سے سامراجی تحریک ہے، جس نے مذہب کی اصطلاحات اور جذبات کو استعمال کیا ہے اور آج کے منظرنامے کو سمجھنے کے لیے اس پہلو کی تفہیم ضروری ہے۔ 

مسلمانوں کے ۱۳سو سالہ دورِ حکومت میں، ارضِ فلسطین میں جو یہودی بھی آباد تھے وہ ریاست کے شہریوں کی حیثیت رکھتے تھے۔ پھر یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ۱۹ویں صدی کے اواخر میں جب صہیونی تحریک نے ارضِ فلسطین میں دَراندازی شروع کی، تو فلسطین کے مسلمان ہی نہیں، وہاں کے نسلاً بعد نسلاً رہنے والے یہودی بھی اس کے مخالف تھے۔ ہماری اس گزارش کا مقصد بھی دو اُمور کی وضاحت ہے: ایک یہ کہ ارضِ فلسطین پر یہودیوں کا وجود نہ کبھی مسئلہ تھا اور نہ آج کوئی قضیہ ہے۔ دوسرا یہ کہ فطری انداز میں انتقالِ آبادی پر بھی کبھی کسی کو اعتراض نہیں ہوا۔ لیکن صہیونی تحریک نے سامراجی انداز میں، قوت اور دولت کی بنیاد پر پہلے دولت ِ عثمانیہ کی قیادت کو رشوت کی پیش کش کی گئی، لیکن وہ قبول نہ کی گئی، پھر سلطنت ِ عثمانیہ کے خلاف سازشیں کیں، اور بعدازاں ارضِ فلسطین پر فرانسیسی اور برطانوی سامراج کے قبضے کے بعد ان کی سرپرستی میں ایسی منظم انتقالِ آبادی کی، جس نے فلسطین میں آبادی کے تناسب (demographic composition ) کو تہہ و بالا کرکے رکھ دیا۔ اس کے بعد یہ افسانہ وضع کیاکہ: ’’فلسطین ، وہ سرزمین ہے جہاں انسان نہیں ہیں، اور یہودی وہ قوم ہیں جنھیں زمین میسر نہیں‘‘___ دراصل یہ حقائق کو مسخ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس لیے کہ فلسطین کی آبادکاری اور بازیافت یہودیوں کا تاریخی مشن ہے۔ یہ صریح جھوٹ ہے جس کا پردہ چاک ہونا چاہیے۔ ۱۹۱۷ء میں اعلانِ بالفور کے وقت فلسطین کی آبادی ۸لاکھ افراد سے زیادہ تھی ، جب کہ  کُل یہودی ۵۳ہزار کے قریب تھے، اس طرح یہود، کُل آبادی کا ساڑھے تین فی صد تھے.

  • اسرائیل کا قیام کسی حق خود ارادیت (Right of Self-determination) کی بنیاد پر نہیں ہوا۔ ۱۹۴۷ء میں بھی جب برطانیہ کا مینڈیٹ ختم ہورہا تھا اور اس نے اقوامِ متحدہ میں آیندہ کے بندوبست کا مسئلہ پیش کیا، تو بھی تمام دھونس دھاندلی کے باوجود، یہودیوں کی تعداد فلسطین کی  کُل آبادی کا ۱۰فی صد سے زیادہ نہ تھی۔ اسرائیل دنیا کی واحد ریاست ہے جو قومیت کی بنیاد پر،یا حق خود ارادیت کی بنیاد پر قائم نہیں ہوئی، بلکہ غیرفطری انداز میں ایک Settler State (وضع کردہ ریاست) کے طور پر صرف اور صرف برطانوی استعمار کی سرپرستی اورمنصوبہ بندی (engineering) کے ساتھ،اور امریکا اور عالمی طاقتوں کے گٹھ جوڑ سے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد کے ذریعے وجود میں آئی۔ اصل منصوبے میں اسرائیل کی ریاست کو فلسطین کی آبادی کے ۱۰فی صد یہودیوں کے لیے ارضِ فلسطین کا ۵۱ فی صد دیا گیا اور بیت المقدس (یروشلم) کو عالمی انتظام کے تحت رکھا گیا۔

عرب ممالک کی کمزوری اور اہلِ فلسطین سے بے وفائی کے نتیجے میں، ۱۹۴۵ء-۱۹۴۷ء کی جنگ کے دوران اسرائیل نے ارضِ فلسطین کے ۷۵ فی صد حصے پر قبضہ کرلیا۔ پھر جون ۱۹۶۷ء کی جنگ کے نتیجے میں پوری ارضِ فلسطین اور اس کے علاوہ سطح مرتفع گولان (Golan Heights) اور صحراے سینا کے پورے علاقے پر قبضہ کرلیا۔ اس طرح علمِ سیاست کی اصطلاح میں اسرائیل متعین سرحدیں رکھنے والی ریاست نہیں ہے، بلکہ یہ قابض اور وضع کردہ جارح ریاست ہے۔

  • اسرائیل کے قیام اور بین الاقوامی قانون کی رُو سے اس کے ایک’جائز‘ ریاست ہونے کی بنیاد اگر کوئی ہے تو وہ صرف اقوامِ متحدہ کی ایک ایسی قرارداد ہے، جسے امریکا نے بڑی چابک دستی، دھونس اور اپنے اثرونفوذ کے بے جا استعمال سے منظور کروایا تھا۔ اس ’جائز‘ بنیاد کی حقیقت یہ ہے کہ اس قرارداد کو مطلوبہ اکثریت حاصل نہیں ہورہی تھی۔ ووٹنگ کو غیراخلاقی طور پر مؤخر کرایا گیا۔ تین دن کے بعد لاطینی امریکا کی چند امریکی باج گزار ریاستوں کے ووٹ حاصل کرکے نام نہاد منظوری حاصل کی گئی۔ 
  • اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل اور جنرل کونسل نے ۱۹۴۶ء سے لے کر آج تک مسئلہ فلسطین کے بارے میں سو سے زیادہ قراردادیں منظور کی ہیں اور جون ۱۹۶۷ء کے پورے ارضِ فلسطین پر اسرائیلی قبضے کے بعد جنرل اسمبلی ہی نہیں سلامتی کونسل نے بھی متفقہ طور پر جن اُمور کا بار بار اعادہ کیا ہے، وہ یہ ہے کہ: ’’جنگ میں قوت کے ذریعے سے جو علاقے قبضے میں کیے گئے ہیں، وہ اسرائیل کا حصہ نہیں ہیں، اور اسرائیل اور فلطین کی دو آزاد مملکتوں کا اپنی اپنی متعین سرحدی حدود میں قیام ابھی ہونا باقی ہے‘‘۔ ۲۲نومبر ۱۹۶۷ء کی قرارداد (نمبر۲۴۲) صاف الفاظ میں کہتی ہے کہ: ’’اسرائیل کے لیے لازم ہے کہ ۱۹۶۷ء کی جنگ میں جو بھی علاقے اس نے اپنے قبضے میں لیے ہیں بشمول مشرقی یروشلم، ان سے اپنی افواج واپس بلائے‘‘۔ اس کے بعد آٹھ قراردادوں میں ذرا مختلف الفاظ میں، مگر اسی اصول اور اس کے تقاضوں کا اعادہ کیا گیا ہے۔{ FR 1091 } مگر اسرائیل کی استعماری، جارحانہ اور باغیانہ روش میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔ اسرائیل نے ۱۹۸۰ء میں مشرقی یروشلم کے بارے میں ایک قانون منظور کیا، جس میں مغربی یروشلم کو ضم کرنے اور پورے یروشلم کو اپنا دارالحکومت قرار دینے کا اعلان کیا جس پر اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے ۲۰؍اگست ۱۹۸۰ء کو ایک اہم قرارداد (نمبر۴۷۵) جو تمام ممالک پر قانونی طور پر لازمی تھی، منظور کی۔ یہ قرارداد متفقہ طور پر منظور ہوئی۔ تاہم،امریکا نے اس میں ووٹ نہیں دیا لیکن اسے ویٹو بھی نہیں کیا۔ 

طرفہ تماشا دیکھیے کہ صدر ٹرمپ نے اس قرارداد اور اس کے بعد کی قراردادوں کو یکسر نظرانداز کرتے ہوئے ۶دسمبر کا اعلان کیا ہے، جو صریح طور پر بین الاقوامی قانون، اقوامِ متحدہ کے واضح قانونی اور قابلِ تنفیذ احکام اور خود امریکا کی اپنی قبول کردہ پالیسی کے خلاف ہے۔ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کا خلاصہ یہ ہے:

  • کہ اسرائیل کے یروشلم پر [اپنے] ’بنیادی قانون‘ کے نفاذ اور سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں پر عمل درآمد سے انکار پرشدید لفظوں میں سخت مذمت کی جاتی ہے۔ 
  • کہ اسرائیل کے ’بنیادی قانون‘ کا نفاذ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے۔
  • یہ تعین کرتی ہے کہ اسرائیل کے ان تمام انتظامی اقدامات اور اختیارات کو، جو مقدس شہر یروشلم کی حیثیت کو تبدیل کر رہے ہیں، انھیں لازماً مسترد کیا جائے۔
  • کہ یہ اقدام شرقِ اوسط میں جامع، منصفانہ اور دیرپا امن کے حصول میں ایک بڑی رکاوٹ کھڑی کردیتا ہے۔
  • کہ جن ممالک نے یروشلم میں سفارتی وفود بھیج دیے ہیں، اس مقدس شہر سے وہ اُنھیں واپس بلا لیں۔

قرارداد کے یہ پانچوں نکات بہت واضح (incisive) اور قطعی (categorical) ہیں۔ امریکی صدر نے ۶دسمبر کے اعلان کے ذریعے ان سب کی خلاف ورزی کی ہے، جس سے امریکا اقوامِ متحدہ ہی نہیں عالمی قانون اور پوری عالمی برادری کی عدالت میں ایک مجرم بن گیا ہے۔ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی نے اس اعلان کے بعد اپنی ۱۹۸۰ء کی قرارداد کا اعادہ  کیا ہے، اور جنرل اسمبلی نے ۲۱دسمبر ۲۰۱۷ء کو ۹ کے مقابلے میں ۱۲۸ ووٹوں کی اکثریت سے امریکی اقدام کی جو مذمت کی ہے اور اسے غلط اور غیرقانونی قراردیا ہے، وہ اسی پوزیشن کا تازہ ترین اظہار و اعلان ہے۔

امریکی پالیسی کے مضمرات

ان گزارشات کی روشنی میں اگر امریکی صدر کے اس اعلان کا جائزہ لیا جائے تو درج ذیل اُمور واضح ہوتے ہیں:

  • یہ بات کہ ’’یروشلم اسرائیل کا ۳ہزار سال سے دارالحکومت رہا ہے‘‘___ محض ایک ذہنی خلل ، تاریخ کے ساتھ ایک بے ہودہ مذاق اور صریح جھوٹ کی بنیاد پر پالیسی سازی کی مکروہ مثال ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ۳ ہزارسال کی بات کو چھوڑیے اسرائیل کا تو یہ دعویٰ بھی قانونی، سیاسی اور اخلاقی، ہراعتبار سے بے بنیاد ہے کہ ۱۹۶۷ء کے بعد سے یروشلم اس کا دارالحکومت ہے۔ صدرٹرمپ کا اسے ’حقیقت‘ اور ’امرواقعہ‘ (reality) کہنا تاریخی غلط بیانی اورعالمِ انسانیت کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔
  • دوسری بات یہ بھی سمجھنے کی ہے کہ خارجہ پالیسی اور عالمی معاملات کو طے کرنے کی بنیاد: اصول اور قومی مفاد تو ہوسکتے ہیں، محض اَمرِواقعہ نہیں ہوسکتے۔اس دُنیا میں ظلم، بے انصافی، جھوٹ، چوری، دغا، بدعنوانی کون سی بُرائی ہے جو حقیقت نہیں؟ کیا محض حقیقت ہونےسے وہ صحیح اور جائز اور مطلوب بھی بن جاتی ہیں؟ یہ کج فہمی اور خلط مبحث کی ایک شرم ناک مثال ہے۔
  • صدر ٹرمپ نے اسے ’امریکا کی پالیسیوں کا تسلسل‘ بھی کہا ہے، حالاں کہ اقوامِ متحدہ کی مذکورہ بالا تمام ہی قراردادوں کو امریکا نے قبول کیا اور کبھی ان سے لاتعلقی کا اعلان نہیں کیا۔   اس طرح صدرٹرمپ کا یہ دعویٰ بھی صداقت کے منافی ہے۔
  • صدر ٹرمپ کے اس اعلان نے بین الاقوامی قانون، جنیوا کے معاہدات، اقوامِ متحدہ کی قراردادوں اور عالمی راے عامہ، سب کی خلاف ورزی کی ہے اور دُنیا میں امریکا کی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے۔ راےعامہ کے تمام اہم جائزے بشمول گیلپ اور پیو(PEW) جو امریکی ادارے ہیں، کم از کم تین عشروں سے یہ تصویر پیش کر رہے ہیں کہ اسرائیل اور بھارت کے سوا دنیا کے تمام ہی ممالک میں امریکا کے خلاف نفرت اور اس سے بے زاری کے جذبات بڑھ رہے ہیں، اور آدھے سے زیادہ ممالک میں جو دنیا کی آبادی کا ۷۰،۸۰فی صد ہے، یہ بے زاری آبادی کی اکثریت میں پائی جاتی ہے۔ صدر ٹرمپ کے اس اعلان نے بلاشبہہ اس بے زاری میں اضافہ کیا ہے۔ کیا صدر ٹرمپ یہ سوچنے کی زحمت گوارا کریں گے کہ وہ اپنے اس اقدام سے امریکا کی ساکھ اور خیرسگالی میں عالمی سطح پر کوئی اضافہ کر رہے ہیں یا اسے نقصان پہنچا رہے ہیں؟ محض اسرائیل کی خوشنودی اور امریکا کی صہیونی لابی اور ایونجلیکل کنزرویٹوو عیسائیوں کو خوش کرنے کےلیے ان کا    یہ فعل اور اسی قسم کے دوسرے اقدامات امریکا کی کون سی خدمت ہیں؟

اقوامِ متحدہ کے ارکان کو ڈرانے، دھمکانے اور امداد کی چھڑی استعمال کرنے کے جو بھونڈے ہتھکنڈے انھوں نے خود اور ان کی بھارتی النسل اقوام متحدہ میں مستقل نمایندہ ’نِکی ہیلی‘ نے استعمال کیے ہیں، اس سے امریکا کے چہرے سے وہ نقاب اُترگئی، جو اس کے بدنما داغوں کو ڈھانپے ہوئے تھی۔امریکا نے کہا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے لیے اپنی مالی اعانت میں ۲۸کروڑ ۵۰لاکھ ڈالر کی کٹوتی کرے گا اور خلاف ووٹ دینے والے ممالک کو بھی بیرونی امداد بندکرنے یا کم کرنے کی دھمکی دے رہا ہے۔ 
بین الاقوامی مسائل کے بارے میں اپنے تعصبات کو دوسروں پر مسلط کرنے کے لیے مالی ہتھیار کا اس طرح استعمال امریکا کی خارجہ پالیسی اور اس کے اندازِ حکمرانی کی بڑی مکروہ شکل پیش کرتا ہے، اور معاشی ترقی اور انسانی ہمدردی کے تمام دعوئوں کی قلعی کھول دیتا ہے۔
ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے اس کا بڑا مؤثر جواب دیا ہے کہ: ’’ہماری راے اور عزت کوئی قابلِ فروخت شے نہیں ہے‘‘، اور دولت کے بھروسے پر ضمیر خریدنے کا یہ کاروبار کسی بھی قوم کے چہرے پر ایک بدنما داغ ہے۔ امریکی صدر، امریکا کے چہرے کو اور بھی داغ دار کررہے ہیں۔ 
نیویارک ٹائمز کے کالم نگار رک گلیڈسٹون اور مارک لینڈلرنے ۲۲دسمبر کی اشاعت میں اسے اقوامِ عالم کی طرف سے امریکا کے لیے ایک واضح سرزنش اور ملامت (rebuke) قرار دیا ہے، اور کہا ہے کہ دنیا کی اقوام نے امریکا کی دھمکیوں کو کوئی وقعت نہیں دی۔ کالم نگاروں نے اس پورے عمل کو صدرٹرمپ کے لیے ایک شکست خوردگی (setback)  بھی کہا ہے۔

  • عالمی سطح پر بھی ردعمل بحیثیت مجموعی منفی رہا ہے اور امریکا کے اپنے اتحادیوں کی   بڑی تعداد نے صدرٹرمپ کے اس اقدام کی نہ صرف مخالفت کی ہے بلکہ کسی قسم کے دبائو میں آنے سے انکار کر دیا ہے، جو ایک مثبت علامت ہے۔ قابلِ ذکر ممالک میں سے زیادہ سے زیادہ چار پانچ ہیں، جنھوں نے امریکا کے خلاف ووٹ سے اجتناب کیا ہے ،مگر اس کے حق میں ووٹ انھوں نے بھی نہیں دیا۔ امریکا کی پوری کوشش تھی کہ کسی طرح کچھ مسلم اور عرب ممالک اس کاساتھ دے دیں ،یا کم از کم اس کے خلاف ووٹ نہ دیں، لیکن اس مقصد میں بھی اسے ناکامی ہوئی اور تمام مسلم ممالک نے بلااستثنا مذمتی قرارداد کے حق میں اور امریکا کے خلاف ووٹ دیا۔ 

اسی طرح امریکا کے اہم اخبارات اور دانش وروں اور سابقہ پالیسی سازوں کی ایک تعداد نے اس فیصلے کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ Congressional Progressive Caucus کے سربراہ نے اس اقدام کو امریکا کے مفاد سے متصادم اور علاقے میں امن کے قیام کی کوششوں کی راہ میں مشکلات کے اضافے کا باعث قرار دیا ہے۔ سب سے زیادہ چشم کشا سروے وہ ہے، جو امریکی یہودیوں کے ایک نمایندہ ادارے Global Jewish Advocacy  (AJC) نے ستمبر ۲۰۱۷ء میں کروایا تھا، اور جس کے مطابق اس اقدام سے پہلے، متوقع راے عامہ کو معلوم کرنے والے اس جائزے کی رُو سے ۴۴فی صد امریکی یہودیوں کا خیال ہے کہ امریکی سفارت خانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل نہیں ہونا چاہیے۔۳۶ فی صد کا خیال ہے کہ اگر اسے منتقل کرنا ہی ہے تو یہ مسئلۂ فلسطین کے بارے امن مذاکرات کے حصے کے طور پر ہونا چاہیے، اور صرف ۱۶ فی صد اس راے کے حامی ہیں کہ اسے منتقل کر دینا چاہیے۔ اسی طرح دوامریکی یونی ورسٹیوں کے زیراہتمام کیے جانے والے سروے میں، عام امریکیوں کی راے کے مطابق ۶۱فی صد کے نزدیک منتقلی درست نہیں۔ اگرامریکی راے عامہ کے رجحانات کے بارے میں یہ سروے درست ہیں، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ خود امریکا میں اس سلسلے میں مؤثر مزاحمتی تحریک کو فروغ دینے کے بارے میں امکانات خاصے روشن ہیں۔ (میڈابنجمن، ایریل گولڈ: Where are the Democrats?   ، [ commondreams.org]بحوالہ دی نیوز، ۱۴دسمبر۱۷ء)
سی این این کے انٹرنیشنل ڈپلومیٹک ایڈیٹر نِک روبرٹسن نے بھی ۱۰دسمبر ۲۰۱۷ء کو ادارے کی ویب پر شائع کردہ مضمون: Trump has to Live with the Consequences of his Israel Decision میں فلسطین کے عوام اور سفارتی حلقوں دونوں کے ردعمل کی روشنی میں اس راے کا اظہار کیا ہے کہ: ’’ٹرمپ نے اس وقت اس مسئلے کو چھیڑ کر بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالا ہے اور امریکا کے لیے اس کے اثرات مضر ہوں گے‘‘۔

بیداری کی نئی لہر اور تقاضے

حالات اور رجحانات کے اس جائزے کی روشنی میں ہم محسوس کرتے ہیں کہ امریکی صدر کے اس اقدام کے اثرات محض وقتی نہیں ہوں گے بلکہ بڑے دُور رس ہوں گے۔ بحیثیت مجموعی اس سے امریکا کو نقصان پہنچے گا۔ اس کے دوستوں میں کمی آئے گی اور مخالفت میں اضافہ ہوگا۔ ویسے بھی دنیا کے حالات بدل رہے ہیں۔ امریکا گو اب بھی دنیا کی اہم ترین عسکری اور سیاسی قوت ہے، لیکن گذشتہ ۲۰برسوں میں اس کی قوت اور اثرات میں کمی واقع ہوئی ہے، کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ 
روس کے ۱۹۹۰ء کے عالمی قوت کی حیثیت سے غیرمؤثر ہونے کے بعد جو صورتِ حال پیدا ہوئی تھی، اور اس کے فوراً بعد دوعشروں میں امریکا کے نہ صرف واحد سوپر پاور ہونے اور    اس حیثیت کو ۲۱ویں صدی میں بھی برقرار رکھنے کے لیے جو غوغا آرائی اور سخن سازی کی گئی تھی،   وہ پادر ہوا ہو رہی ہے۔ اس زمانے میں عوامی جمہوریہ چین نے غیرمعمولی ترقی کی ہے اور وہ دوسری عالمی قوت کی حیثیت سے اُ بھرا ہے۔ روس نے بھی گذشتہ ۱۰برسوں میں نئی کروٹ لی ہے۔ امریکا اور مغربی اقوام ۲۰۰۸ء کے معاشی بحران کے اثرات سے اب تک نہیں نکل سکے۔ صدرٹرمپ نے ’سب سے پہلے امریکا‘ عالم گیریت سے شدید بے زاری، دائیں بازو کے قوم پرستانہ خیالات و اہداف کی حوصلہ افزائی، تجارت میں داخلیت کی طرف جھکائو، اقوامِ متحدہ، یورپین یونین،ناٹو اور راے عامہ کے عالمی اداروں کے بارے میں سردمہری کا جو مظاہرہ کیا ہے، اس سے امریکا کے عالمی کردار کے محدود ہونے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔صاف نظر آرہا ہے کہ دنیا آہستہ آہستہ یک قطبی (Unilateral) نظام سے کثیر قطبی (Multilateral)نظام کی طرف بڑھ رہی ہے۔ 
مسلم دُنیا خصوصیت سے شرقِ اوسط، معاشی اور سیاسی اعتبار سے کمزور ہورہا ہے۔ لیکن ترکی، ایران، انڈونیشیا اورملایشیا رُوبہ ترقی ہیں اور ان کا کردار بڑھتا ہوا نظر آرہا ہے۔ پاکستان اپنی بے پناہ استعداد (potential) کے باوجود اندرونی کمزوریوں اور خودشکنی کی وجہ سے اپنا صحیح مقام حاصل اور کردار ادا نہیں کرپا رہا۔ شام، عراق، افغانستان، لیبیا، یمن بُری طرح تباہ ہوچکے ہیں۔ مصر بھی وسائل اور امکانات کے باوجود، دوڑ میں نہ صرف بہت پیچھے بلکہ داخلی اعتبار سے   تباہ کن پالیسیوں پر عمل پیرا ہے۔ تیونس اور مراکش میں زندگی اور تبدیلی کے آثار ہیں۔ ان حالات میں سیاسی، عسکری اور معاشی، ہر میدان میں نئی صف بندی کی ضرورت ہے۔ 
صدرٹرمپ کے حالیہ اقدام کے منفی پہلو تو بے شمار ہیں، لیکن اس کے کچھ مثبت پہلو بھی ہوسکتے ہیں جن کی فکر کرنے کی ضرورت ہے:

  • پہلی اہم چیز مسئلہ فلسطین کا دوبارہ عالمی توجہ کا مرکز بن جانا ہے۔ یہ ردعمل اپنے اندر بڑے اہم امکانات رکھتا ہے اور فلسطین میں اور عالمی سطح پر مزاحمت اور مسئلہ فلسطین کے منصفانہ حل کی تحریک کو نئی زندگی دینے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ بڑے عرب ممالک کا ردعمل مایوس کن ہے، لیکن خود فلسطین اور اہلِ فلسطین کے ردعمل میں بڑی جان ہے۔ اسی طرح اُردن اور قطر نے مضبوط موقف اختیار کیا ہے۔ ترکی کا ردعمل سب سے مؤثر اور بلند آہنگ ہے۔ اصولی طور پر پاکستان کا حکومتی اور عوامی موقف بھی صحیح سمت میں ہے، گو اصل ضرورت اسے مستحکم کرنے اور اس کے فروغ کے لیے عالمی سطح پر مؤثرانداز میں ربط ضبط کی ہے۔ 
  • امریکا پر انحصار یا امریکا کے بارے میں خوش فہمی: دونوں تباہی کے راستے ہیں۔ لیکن    یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ امریکا ہو یا کوئی بھی اور ملک، جہاں متعین ایشوز پر مناسب ردعمل کا اظہار اَزبس ضروری ہے، وہیں رواں اور دیرپا پالیسیاں بنانے کا کام بڑی گہرائی، تسلسل اور بالغ نظری کا تقاضا کرتا ہے۔ 
  • رنج، خوف اور غصّے میں جو پالیسیاں بنتی ہیں وہ کبھی متوازن اور حقیقت پسندانہ نہیں ہوسکتیں۔مقاصد اور اہداف کا تعین بہت سوچ سمجھ کر کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی طرح وسائل اور ان کا صحیح استعمال بھی حقیقت پسندانہ انداز میں ضروری ہے۔ فوری اہداف اور دیرپا مقاصد کا فرق ملحوظ رکھنا اور اس فرق کی روشنی میں پالیسیاں بنانا بھی ضروری ہے۔ پالیسی سازی میں قومی مفاد کا صحیح صحیح تعین بے حد ضروری ہے۔ ذاتی اور گروہی مفادات کے تاریک سایوں سے ان کو محفوظ رکھنا کامیابی کی اوّلین شرط ہے۔ مشاورت اور قوم کو اعتماد میں لے کر قومی مقاصد اور عوامی جذبات دونوں میں توازن قائم کرتے ہوئے پالیسی بنانا وقت کی ضرورت ہے۔ 
  • امریکا کے موجودہ اقدام سے ہمیں ایک تاریخی موقع ملا ہے کہ اُمت مسلمہ بحیثیت مجموعی اور پاکستان اور ترکی بالخصوص تمام حالات کا گہری نظر سے جائزہ لیں اور ہمہ گیر پالیسی بنانے کی کوشش کریں۔ اس عمل کی تشکیل ہرسطح پر مشاورت سے ہو اور قومی اتفاق راے پیدا کرکے اس پر عمل کیا جائے۔ اسی طرح تمام ہم خیال ممالک کو مشاورت میں شریک کرنا اور مل جل کر اجتماعی پالیسی بنانا بھی ازبس ضروری ہے۔
  • صدر ٹرمپ کے اس اقدام نے نہ صرف امریکا سے بے زاری میں اضافہ کیا ہے بلکہ حالات کی تفہیم اور مسائل کے حل کے لیے بیداری کی نئی لہر کو جنم دیا ہے۔ امریکا سے ربط ضبط (engagement ) حکمت کا تقاضا ہے۔ اختلاف اور احتجاج کے ساتھ افہام و تفہیم اور مذاکرات (dialogue)کا سلسلہ بھی جاری رہنا چاہیے۔ تاہم، یہ بات اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے کہ امریکا کے اپنے مقاصد، مفادات ، ترجیحات اور مطالبات ہیں اور ہمارے اپنے مقاصد، ترجیحات اور مفادات۔ مثبت مشترکات میں تعاون کا باب کبھی بند نہیں ہونا چاہیے، مگر دھونس اور دبائو (dictation ) کے ذریعے جو پالیسی بنائی جاتی ہے، وہ کسی کے مفادات کی محافظ نہیں ہوسکتی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مطالبات اور دبائو کے تحت پالیسی بنائے جانے کے باب کو یکسر بند کردیا جائے۔ ’لالچ اور خوف‘ کے تحت بننے والی پالیسیاں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتیں، چند مسائل کے دیرپا اور مستقل حل کے باب میں ۔
  • اس کے لیے ضروری ہوگا کہ دست نگری کے چکّر سے نکلنے اور خودانحصاری کی راہ کو اختیار کرنے کی سنجیدہ کوشش کی جائے۔ دوستی دوستی رہے، وہ غلامی اور چاکری میں تبدیل نہ ہوجائے۔ اسی طرح اختلاف اور تصادم میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ اختلاف انسانی معاشرے کی ایک حقیقت ہے، لیکن اس کا اظہار اور اس کی روشنی میں صحیح رویوں کا اہتمام ناگزیر ہے، جب کہ جنگ و جدال کا رُوپ دھارنا کسی کے لیے بھی مفید و مطلوب نہیں ہوسکتا۔
  • ملک اور اُمت کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان حدود کا صحیح صحیح تعین کرلے جن کے اندر  رہ کر معاملات کو طے کیا جاسکتا ہے۔ حدِفاصل کا تعین اور اس کا احترام بھی اتنا ہی ضروری ہے    جتنا مشترک مقاصد اور مفادات کے باب میں تعاون، افہام و تفہیم اور لین دین۔ پاکستان، فلسطین، مسلم دنیا اور عالمی برادری سبھی کو ان مسلّمات کی روشنی میں عملی اقدام کا اہتمام کرنا چاہیے۔ امریکا سے تعلق مسئلے کا صرف ایک پہلو ہے۔ سب سے اہم مسئلہ خود اپنے گھر کی اصلاح اور اپنے وسائل پر اپنا اختیار اور ان کا قومی مقاصد اور عوام کے بہترین مفاد میں استعمال ہے۔
  • اس تجزیے اور ان اصولی باتوں کی روشنی میں جن کی طرف ہم نے اشارہ کیاہے، اس امر کی ضرورت ہے کہ مسئلہ فلسطین، اسرائیل کی حالیہ پوزیشن، امریکا کی پالیسی اور اسرائیل کی سرپرستی، فلسطینی قیادت اور تحریک ِ مزاحمت کی موجودہ صورتِ حال، عرب اور مسلم ممالک خصوصیت سے ان کی قربانیوں، ان کی قیادتوں کا رویہ، عرب اور مسلم عوام کے جذبات، احساسات اور جدوجہد کے عزائم اور امکانات کے ساتھ عالمی راے عامہ اور عالمی اداروں کے کردار کا جائزہ لیا جائے۔ اپنی کمزوریوں کا بھی ادراک ہو اور مقاصد کے حصول کے لیے کس کس میدان میں کس کس نوعیت کی جدوجہددرکار ہے، اس کی مناسب منصوبہ بندی بھی کی جائے۔ 

ہم اپنے قارئین کو بھی دعوت دیتے ہیں کہ وہ اس سلسلے میں اپنے خیالات اور نتائجِ فکر سے ادارے کو مطلع کریں اور ہماری بھی کوشش ہوگی کہ اپنی معروضات ان شاء اللہ مستقبل قریب میں  آپ کے اور اُمت مسلمہ کے غوروخوض کے لیے پیش کریں۔
اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ وہ ہمیں اپنا اپنا کردار ادا کرنے کی توفیق سے نوازے، آمین!
 

اقامت دین کے تصورات پر بعض مسلم دانش وروں کی جانب سے کی جانے والی تنقید دوطرح کی ہے: ایک تو وہ لوگ ہیں جو سرے سے اس بات کے قائل ہی نہیں ہیں کہ مملکت کے سیاسی اُمور او ر اجتماعی معاملات میں اسلام بھی کوئی رہنمائی کرتا ہے یا اگر کرتا بھی ہے تو آج کے زمانے میں اس کی پیروی لاز م نہیں ہے۔ عصر حاضر کے سیکولر افکار سے متاثر یہ طبقہ سمجھتا ہے کہ: ’’اسلام سمیت تمام مذاہب کا دائرہ، افراد کی ذاتی زندگیوں تک محدود ہے۔ اجتماعی معاملات میں مذہب کی دخل اندازی فتنہ و فساد کا سبب بنتی ہے اور یہ مذہب کا دائرہ کا ر بھی نہیں ہے۔ اسلام کے  وہ احکام جن کا تعلق ریاست کے انتظام اور پالیسی سے یا قانون سازی سے ہے، وہ ایک مخصوص دور کی ضرورتوں کے لیے تھے۔ آج اُن تعلیمات سے روشنی تو حاصل کی جاسکتی ہے لیکن اُن کی ہوبہو پیروی نہ تو ممکن ہے اور نہ اس کی ضرورت ہے‘‘۔اس تحریر میں ہم اس اعتراض کو زیر بحث نہیں لائیں گے کہ یہ اعتراض علیحدہ سے تفصیلی تجزیہ چاہتا ہے۔ اس مکتب فکر کا ذکر ابتدا ہی میں   اس لیے کردیا کہ آگے کے مباحث میں اس کا حوالہ آئے گا۔

ہمارے پیش نظر مسلمان اہل علم کا وہ طبقہ ہے، جو اسلام کی جامعیت اور اجتماعی زندگی سے متعلق اس کی تعلیمات کو تسلیم کرتا ہے۔ یہ لوگ مانتے ہیں کہ اسلام نے ریاست کا تصور بھی دیا ہے، ریاست کے لیے قوانین بھی تجویز کیے ہیں، اور یہ احکام، اسلام اور اسلامی شریعت کا جز ہیں۔ لیکن ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ: ’’ان احکام کا تعلق عام مسلمانوں سے نہیں ہے۔ اس کے مخاطب حکمران ہیں۔ اگرکسی کو حکومت او ر اختیار مل جائے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ قانون سازی اور ریاست کے انتظام و انصرام میں اللہ تعالیٰ کے احکام کی تعمیل کرے، لیکن عام مسلمان، جنھیں حکومت یا اقتدار حاصل نہیں ہے، وہ نہ ان احکام کے مخاطب ہیں اور نہ وہ اس کے مکلف ہیں کہ اسلامی شریعت کے ان احکام کی تعلیم، ترویج اور تنفیذ کے لیے کوئی اجتماعی جدوجہد کریں۔      ان کافریضہ بس ذاتی زندگیوں میں اور معاشرے (society) کے جن امور پر انھیں اختیار  حاصل ہے، انھی میں اللہ کے احکام کی تعمیل تک محدود ہے‘‘۔ یہاں پر اقامت ِ دین کے حوالے سے  مولانا وحید الدین خان صاحب اور جناب جاوید احمد غامدی کے نقطۂ نظر کا خلاصہ پیش کرکے مسئلے کو سمجھنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

اقامتِ دین کا تصور

اس سے پہلے کہ ہم اس نقطۂ نظر کا جائزہ لیں، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اختصار کے ساتھ اقامت دین کے بارے میں تحریک اسلامی اور مولانا مودودی کے خیالات کا خلاصہ پیش کردیا جائے۔

جماعت اسلامی ہند کے دستور کی دفعہ ۴میںجماعت کا نصب العین اس طرح بیان کیا گیا ہے:’’جماعت اسلامی ہند کا نصب العین اقامت دین ہے، جس کا حقیقی محرک صرف رضاے الٰہی اور فلاح آخرت کا حصول ہے‘‘۔

اس نصب العین کی تشریح اس دفعہ میں اس طرح کی گئی ہے: ’’اقامتِ دین میں لفظ ’دین‘ سے مراد وہ دینِ حق ہے، جسے اللہ ربُّ العالمین اپنے تمام انبیا علیہم السلام کے ذریعے مختلف زمانوں اور مختلف ملکوں میں بھیجتا رہا ہے اور جسے آخری اور مکمل صورت میں تمام انسانوں کے لیے اپنے آخری نبی حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے نازل فرمایا، اور جو اَب دنیا میں ایک ہی مستند، محفوظ اور عنداللہ مقبول دین ہے اور جس کا نام ’اسلام‘ ہے۔ یہ دین انسان کے ظاہر و باطن اور اُس کی زندگی کے تمام انفرادی و اجتماعی گوشوں کو محیط ہے۔ عقائد، عبادات اور اخلاق سے لے کر معیشت، معاشرت اور سیاست تک انسانی زندگی کا کوئی ایک شعبہ بھی ایسا نہیں ہے، جو اس دائرے سے خارج ہو۔یہ دین جس طرح رضاے الٰہی اور فلاحِ آخرت کا ضامن ہے اسی طرح دنیوی مسائل کے موزوں حل کے لیے بہترین نظامِ زندگی بھی ہے، اور انفرادی و اجتماعی زندگی کی صالح اور ترقی پذیر تعمیر صرف اسی کے قیام سے ممکن ہے۔ اس دین کی اقامت کا مطلب یہ ہے کہ کسی تفریق و تقسیم کے بغیر اس پورے دین کی مخلصانہ پیروی کی جائے اور ہر طرف سے یکسو ہوکر کی جائے۔ اور انسانی زندگی کے انفرادی و اجتماعی تمام گوشوں میں اسے اس طرح جاری و نافذ کیا جائے کہ فرد کا اِرتقا، معاشرے کی تعمیر اور ریاست کی تشکیل سب کچھ اسی دین کے مطابق ہو‘‘۔۱

دستورِجماعت کی دفعہ ۵ اس نصب العین کے حصول کے لیے اختیار کیے جانے والے طریق کار سے بحث کرتی ہے۔اس کے درج ذیل جملے قابل توجہ ہیں:

جماعت اپنے تمام کاموں میں اخلاقی حدود کی پابند ہوگی اور کبھی ایسے ذرائع یا طریقے استعمال نہ کرے گی، جو صداقت و دیانت کے خلاف ہوں یا جن سے فرقہ وارانہ منافرت، طبقاتی کش مکش اور فساد فی الارض رُونما ہو۔جماعت اپنے نصب العین کے حصول کے لیے تعمیری اور پُرامن طریقے اختیار کرے گی ۔یعنی وہ تبلیغ و تلقین اور اشاعتِ افکار کے ذریعے ذہنوں اور سیرتوں کی اصلاح کرے گی اور اس طرح ملک کی اجتماعی زندگی میں مطلوبہ صالح انقلاب لانے کے لیے راے عامہ کی تربیت کرے گی۔۲

ان دفعات میں خاص طور پر درج ذیل باتیں قابل توجہ ہیں:

            ۱-         ’اقامت دین‘ کا مطلب صرف ریاست کی سطح پر اسلامی احکام کانفاذ نہیں ہے بلکہ پوری زندگی میں اسلام کی پیروی ہے۔ اس میں ریاست بھی شامل ہے اور اس کے ساتھ افراد کا اللہ سے تعلق،ان کے جذبات و داعیات، ان کی عبادات،ان کے اخلاق اور معاشرے سے متعلق تمام اُمور و معاملات بھی شامل ہیں۔

            ۲-         دین کا قیام یا زندگی کے تمام گوشوں میں اسے جاری و نافذ کرنے کا کام زور زبردستی کے ذریعے انجام نہیں پائے گا، بلکہ لوگوں کی ذہن سازی یا راے عامہ کی تربیت کے ذریعے انجام پائے گا۔

یہ باتیں اجتماعی کمٹ منٹ اور گہرے احساسِ ذمہ داری کے ساتھ جماعت کے دستور سے بھی واضح ہیں اور ساتھ ہی مولانا مودودی ؒکے افکار میں بھی بڑی وضاحت کے ساتھ ان باتوں کا اعادہ ملتا ہے۔مولانا مودودی ؒ کی تحریروں میںدرج ذیل قسم کی باتیں ہم کو کثرت سے ملتی ہیں:

  • حکومت کا نظام اجتماعی زندگی میں بڑی گہری جڑیں رکھتا ہے۔ جب تک اجتماعی زندگی میں تغیرو اقع نہ ہو، کسی مصنوعی تدبیر سے نظام حکومت میں کوئی مستقل تغیر پیدا نہیں کیا جاسکتا۔ عمر بن عبدالعزیز [م: ۷۲۰ء]جیسا فرماںروا جس کی پشت پر تابعین و تبع تابعین کی ایک بڑی جماعت بھی تھی، اس معاملے میں قطعی ناکام ہوچکا ہے، کیوںکہ سوسائٹی بحیثیت مجموعی اس اصلاح کے لیے تیار نہ تھی۔ ہندستان میں سلطان محمد بن تغلق [م: ۱۳۵۱ء]اور اورنگ زیب عالم گیر [م: ۱۷۰۷ء]جیسا  طاقت ور بادشاہ اپنی شخصی دین داری کے باوجود نظام حکومت میں کوئی تغیر نہ کرسکے۔  یہ اس وقت کاحال ہے جب ایک شخص کی طاقت بہت کچھ کر سکتی تھی۔ اسلامی انقلاب بھی صرف اسی صورت میں برپا ہوسکتا ہے، جب کہ ایک عمومی تحریک قرآنی نظریات و تصورات اور محمدی سیرت و کردار کی بنیاد پر اٹھے اور اجتماعی زندگی کی ساری ذ ہنی، اخلاقی،  نفسیاتی اور تہذیبی بنیادوں کو طاقت ور جدوجہد سے بدل ڈالے۔۳
  • میرا مشورہ ہمیشہ یہی رہا ہے کہ خواہ آپ کو بھوکا رہنا پڑے، گولیاں کھانی پڑیں، مگر صبر کے ساتھ، تحمل کے ساتھ، کھلم کھلا علانیہ طور پر اپنی اصلاحی تحریک کو قانون، ضابطے اور اخلاقی حدود کے اندر چلاتے رہیے۔۴
  • lکوئی دوسرا نظام، مثلاً کمیونزم لوگوں پر زبردستی ٹھونسا جا سکتا ہے… لیکن اسلام اس قسم کا نظام نہیں ہے۔ وہ پہلے لوگوں کے دلوں میں ایمان پیدا کرنا ضروری سمجھتا ہے، کیونکہ ایمان کے بغیر لوگ خلوص کے ساتھ اس کے بتائے ہوئے راستوں پر نہیں چل سکتے۔ پھر وہ اپنے اصولوں کا فہم اور ان کے برحق ہونے پر اطمینان بھی عوام کے اندر ضروری حد تک اور خواص (خصوصاً کار فرمائوں) میں کافی حد تک پیدا کرنا لازم سمجھتا ہے، کیوںکہ اس کے بغیر اس کے اصول واحکام کی صحیح تنفیذ ممکن نہیں ہے۔ اس کے ساتھ وہ عوام وخواص کی ذہنیت، انداز فکر اور سیرت وکردار میں بھی اپنے مزاج کے مطابق تبدیلی لانے کا تقاضا کرتا ہے، کیوںکہ یہ نہ ہو تو اس کے پاکیزہ اور بلند پایہ اصول واحکام اپنی صحیح روح کے ساتھ نافذ نہیں ہوسکتے۔ یہ جتنی چیزیں میں نے بیان  کی ہیں، اسلامی نظام کو برپا کرنے کے لیے سب کی سب ضروری ہیں اور ان میں سے کوئی چیز بھی جبراً لوگوں کے دل ودماغ میں نہیں ٹھونسی جا سکتی۔ ۵

اسلامی تحریک کے کارکنوں کو میری نصیحت یہ ہے کہ انھیں خفیہ تحریکیں چلانے اور اسلحے کے ذریعے سے انقلاب برپا کرنے کی کوشش نہ کرنی چاہیے۔ یہ بھی دراصل بے صبری اور جلد بازی ہی کی ایک صورت ہے۔ ایک صحیح انقلاب ہمیشہ عوامی تحریک ہی کے ذریعے سے برپا ہوتا ہے۔ کھلے بندوں عام دعوت پھیلائیے۔ بڑے پیمانے پر اذہان اور افکار کی اصلاح کیجیے۔ لوگوں کے خیالات بدلیے۔ اخلاق سے دلوں کو مسخر کیجیے اور اس کوشش میں جو خطرات اور مصائب بھی پیش آئیں اُن کا مردانہ وار مقابلہ کیجیے۔ اس طرح بتدریج جو انقلاب برپا ہوگا وہ ایسا پایدار اور مستحکم ہوگا، جسے مخالف طاقتوں کے ہوائی طوفان محو نہ کرسکیں گے۔ جلد بازی سے کام لے کر مصنوعی طریقوں سے اگر کوئی انقلاب رُونما بھی ہوجائے تو جس راستے سے وہ آئے گا، اُسی راستے سے وہ مٹایا بھی جاسکے گا۔۶

یہ اقتباسات ہم نے اس لیے نقل کیے ہیں، تاکہ بحث کو آگے بڑھانے سے پہلے یہ واضح رہے کہ تحریک اسلامی اور مولانا مودودی  کے نزدیک’ اقامت دین‘ کا مطلب اور اس منزل تک پہنچنے کا راستہ کیا ہے؟ اقامت دین صرف حکومت کی تشکیل یا تبدیلی کا نام نہیں ہے۔ یہ افراد اور معاشرے کی ہمہ گیر اصلاح کا نام ہے۔ریاست کی تشکیل کا ہدف بھی یقیناً اس میں شامل ہے، لیکن اقامت دین کا تصور صرف ریاست کی اصلاح تک محدود نہیں ہے اور نہ یہ اقامت دین کا اصل ہدف ہے۔ اقامت دین کا جو تصور ان عبارتوں سے واضح ہوتا ہے، وہ یہ ہے کہ اسلام کی دعوت لوگوں کے سامنے پیش کی جائے گی۔ لوگ اس کے قائل ہوں گے، اور ان کے ذہن، اخلاق اور رویے اس دین سے ہم آہنگ ہوں گے، تو اس کے نتیجے میں مثالی اسلامی معاشرے کے قیام کے لیے راہ ہموار ہوگی اور راے عامہ کی تربیت کے نتیجے میں ریاست بھی اسلامی رنگ اختیار کرے گی۔اقامت دین کا ہدف جب بھی حاصل ہوگا ،دعوت دین اور پُر امن طریقے سے راے عامہ کی تربیت کا نتیجہ ہوگا۔

’تعبیر کی غلطی‘کے اعتراضات

مولانا وحید الدین خان صاحب نے اس تصور اقامت دین پر جو اعتراضات کیے ہیں، ان کا خلاصہ درج ہے:۷

            ۱-         سورۂ شوریٰ کی آیت میں دین کا مطلب، دین کا وہ حصہ ہے جو تمام انبیاؑ کی دعوت میں مشترک ہے۔ اور یہ حصہ صرف توحید، رسالت اور آخرت، یعنی اسلام کے بنیادی عقائد تک محدود ہے۔ اسی کے قیام کا، یعنی اس کی پیروی اور اس کی دعوت کا یہاں حکم دیا گیا ہے۔۸

            ۲-         سورۂ صف کی آیت میں(اسی مضمون کی آیت سورۂ توبہ میں اور اس سے مماثل آیت  سورۂ فتح میں بھی آئی ہے) کوئی حکم یا ہدایت نہیں ہے بلکہ صرف خبر ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ اپنے دین کو اپنے نبی کے ذریعے غالب کرے گا، یہ اللہ کے ارادے کا اظہار ہے۔ اس میں مومنین کے لیے کوئی حکم نہیں ہے۔۹

            ۳-         دین کا مقصد، بندے اور اللہ کے درمیان تعلق کو مضبوط کرنا ہے۔ یہی ایک مسلمان کا نصب العین ہے۔ ایک مسلمان کو دین پر عمل کرنا چاہیے اور دین کی دعوت پیش کرنی چاہیے۔ حکومت کی تبدیلی کے لیے جدوجہد اس کا کام نہیں ہے۔

مولانا وحید الدین خان صاحب یہ تو تسلیم کرتے ہیں کہ دین کا تعلق زندگی کے تمام معاملات سے ہے لیکن ان کا اصرار یہ ہے کہ سورۂ شوریٰ کی اس آیت میں ، جس میں دین کو قائم کرنے کا حکم دیا گیا ہے، دین کا مطلب صرف ایمانیات ہے اور یہی معنی مفسرین نے لیے ہیں۔ہمارے خیال میں یہ بات صحیح نہیں ہے۔ جن مفسرین نے ایمانیات اور بنیادی باتوں کا ذکر کیا ہے، انھوں نے اس کے ساتھ طاعۃ اللہ فی اوامرہ و نواہیہ کو بھی دین کے مطلب میں شامل کیا ہے۔ اس میں دین کے تمام احکام آجاتے ہیں۔مفسرین کے تفصیلی حوالوں کا یہ مضمون متحمل نہیں ہے ۔مولانا رضی الاسلام ندوی نے اقامت دین اور نفاذِشریعت میں قتادہ، علامہ ابن العربی، زمخشری، قرطبی، خازن البغدادی، العمادی، آلوسی، بیضاوی، ابن کثیر ، رازی  وغیرہم کے اقتباسات نقل کیے ہیں۱۰، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بات صحیح نہیں ہے کہ مفسرین یہاں دین کے معنی کو صرف عقائد و ایمانیات تک محدود رکھتے ہیں ۔ اس آیت میں الَّذِیْٓ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ (الرعد۱۳:۳۰) کا فقرہ بھی شامل ہے جس میں خود بخود وہ سارے احکام آجاتے ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئے۔ واقعہ یہ ہے کہ انبیاے کرام ؑ کی تعلیمات صرف عقائد اور ایمانیات ہی کے معاملے میں مشترک نہیں ہیں بلکہ ان کی دعوت کی روح بھی ایک ہی ہے۔ ان کی شریعتوں کی بنیادی باتیں بھی ایک ہی ہیں۔ اگر شرائع میں کچھ اختلاف ہے تو وہ جزوی اور فروعی باتوں میں ہے۔اس آیت میں جو بات کہی گئی ہے اس کی وضاحت مولانا صدر الدین اصلاحی [۱۳نومبر ۱۹۱۶ء-۱۹۹۸ء]نے اس طرح کی ہے:

ان حضرات (یعنی مفسرین کرام ) کے نزدیک دین کی اصولی تعلیمات اور تمام انبیا ؑکے لائے ہوئے دینوں کی مشترک و متفق علیہ ہدایات الٰہی میں ایک اصولی تعلیم اور متفق علیہ ہدایت یہ بھی تھی کہ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے سارے اوامر کی بجا آوری کرنی ہوگی اور اس کے تمام نواہی سے رکنا پڑے گا۔ اس جامع اصولی ہدایت کا عملی مفہوم کیا ہوگا اور اس کی عملی تعمیل کس شکل میں ہوسکے گی؟ یہ کوئی ایسا سوال نہیں جس کے جواب میں دو باتیں کہی جاسکیں۔ یہ جواب لازماً ایک ہی ہوگا اور وہ یہ کہ امت ان سارے احکام دین و شریعت کی مکمل پیروی کرے گی، جو اسے اس کے پیغمبر کے ذریعے دیے گئے ہوں۔ یعنی مسلمانوں کے لیے اس پوری شریعت کی پیروی اور اقامت اس آیت کی رُو سے واجب ہوگی، جو حضرت محمد ؐ کے ذریعے انھیں عطا ہوئی ہے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ  اس آیت میں دوسرے انبیا ؑ کے دینوں کا ذکر اسم موصول عام کے ذریعے کیا گیا ہے لیکن آںحضرت کے دین کا ذکر اسم موصول خاص (الذی) کے ذریعے کیا گیا ہے۔ ۱۱

یہی بات اس آیت سے سمجھ میں آتی ہے اور یہی عام طور پر اس کی تفسیر بھی کی گئی ہے۔ یہاں دین کو اورقیام دین کے حکم کو صرف عقائد و ایمانیات تک محدود کردینے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔

یہ کہنا کہ: ’’مومن کانصب العین رضاے الٰہی ہے اور قیام دین کی جدوجہد ، دین کا تقاضا تو ہوسکتا ہے نصب العین نہیں ہوسکتا‘‘، محض الفاظ اور طرز بیان کا فرق ہے۔ جماعت کے نصب العین کی جو عبارت ہم نے نقل کی ہے ، اس میں رضاے الٰہی اور فلاح آخرت کے حصول کو ’حقیقی محرک‘ کہا گیا ہے اور اس غرض کے لیے اجتماعی طور پر جس ہدف کی خاطر جدوجہدمطلوب ہے ، اُسے نصب العین کہا گیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اصل محرک اورحتمی ہدف تو رضاے الٰہی ہی ہے ۔ لیکن اللہ کی رضا   کا حصول ایک خاص قسم کی جدوجہد پر منحصر ہے۔ اس جدوجہد کا نشانہ اور ہدف اقامت دین ہی ہونا چاہیے۔ یہ بات بھی صرف دستور جماعت تک محدود نہیں ہے۔ مولانا مودودی اورجماعت کے پورے لٹریچر میں اس کا بار بار اعادہ کیا گیا ہے۔ اب اگر آپ رضاے الٰہی کے حصول کو نصب العین قراردیں اور اقامت دین کو اس کی ضرورت یا تقاضا کہیں تو الفاظ کی اس تبدیلی سے کوئی عملی فرق واقع نہیں ہوتا۔ اقامت دین اس صورت میں بھی ایک فریضے کے طور پر باقی رہتا ہے۔

مدیر ’اشراق‘ کے اعتراضات

            جناب جاوید احمدغامدی مدیر اشراق (لاہور) نے اس تصور پر تفصیلی تنقید اپنے مضمون ’تاویل کی غلطی‘ میں کی ہے، جو ان کی کتاب بُرہان میں شامل ہے۔ ۱۲  اس کے علاوہ انھوں نے اپنی کئی ویڈیوز پر مبنی تقاریر میں بھی اس مسئلے پر اظہارِ خیال کیا ہے،اور اپنے دیگر مضامین اور تفسیر میں بھی اس سے متعلق اشارے فرمائے ہیں۔ ان کی باتوں کا خلاصہ یہ ہے:

            ۱-         اقامت کا مطلب قائم کرنا یا نافذ کرنا نہیں ہے، بلکہ پیروی کرنا اور قائم رکھنا ہے۔ اس لیے سورۂ شوریٰ کی آیت میں صرف دین کی پیروی کا حکم ہے۔

            ۲-         غلبۂ دین کا تعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تھا۔ اللہ کی سنت ہے کہ جب رسول مبعوث ہوتا ہے تو دین غالب ہوکر رہتا ہے۔یہ سنت، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے پوری ہوگئی ۔ ا ب عام مسلمان ان آیات کے مخاطب نہیں ہیں۔

            ۳-         دین کے سیاسی اور اجتماعی احکام کے مخاطب حکمران ہیں اور وہی اس کے مکلف ہیں۔ عام مسلمانوں کا کام صرف اپنے دائرے میں دین پر عمل اور اس کی دعوت ہے۔

جاوید صاحب نے کلاسیکی عربی شاعری وغیرہ کے حوالوں سے تفصیلی بحث یہ ثابت کرنے کے لیے کی ہے کہ:’’اقیموا کے معنی قائم کرنا نہیں ہے بلکہ قائم رکھنا ہے‘‘۔ہمارا خیال یہ ہے کہ اقامت کا ترجمہ’ قائم کرنا‘ کیا جائے یا’ قائم رہنا‘ یا ’قائم رکھنا‘، اس سے اصل موضوع بحث پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ مولانا مودودی نے ترجمہ ’قائم کرنا‘ کیاہے لیکن تفہیم القرآن میں ’قائم رکھنا‘ اِس ترجمے کی گنجایش کو بھی تسلیم کیا ہے۔ دین قائم کرنا یا دین پر قائم رہنا، دونوں کا مطلب یہی ہے کہ   زندگی کے تمام شعبوں میں دین کی پیروی کی جائے۔ اس بات کو جاوید صاحب بھی تسلیم کرتے ہیں اور انھوں نے دین پر قائم رہنے کے معنوں میں قانون و شریعت اور جہاد و قتال وغیرہ سارے احکام شمار کیے ہیں، لیکن اس کے ساتھ ان کا کہنا یہ ہے کہ: ’’اقیموا کا مطلب صرف دین کے اُس حصے پر عمل تک محدود ہے، جس کا تعلق ہماری ذات سے ہے، اور جن امور کا تعلق ہم سے نہیں ہے ان پر عمل کرانا یا انھیں نافذ کرنے کی جدوجہد کرنا اقیمواکے معنی میں شامل نہیں ہے‘‘۔یہ نقطۂ نظر مفسرین کے بیان کیے ہوئے مطالب سے مختلف ہے ۔

مولاناگوہر رحمٰن۱۳ اور مولانا رضی الاسلام ندوی۱۴ نے اپنی تحریروں میں اُن مفسرین کرام کے تفصیلی حوالوں سے بحث کی ہے، جن کے نزدیک اقیموا کے معنوں میں دوسروں پر دین کا نفاذ بھی شامل ہے۔ یہاں اگر جاوید صاحب کی یہ بات مان بھی لی جائے کہ: اقیموا  کے لغوی معنی صرف خود دین پر عمل کرنا ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خود دین کا کیا مطلب ہے؟ کیا دین کے دائرے میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر، دعوت، جہاد ، اللہ کے دین کی نصرت، شہادت علی الناس وغیر ہ جیسے اُمور نہیں آتے، جن کی قرآن میں تسلسل سے تاکید کی گئی ہے؟ جب یہ سب احکامِ دین ہیں اور دین کا جز ہیں (اور جاوید صاحب بھی اسے تسلیم کرتے ہیں) تو اقیموا کے دونوں معنوں میں جو معنی بھی لیے جائیں ’اقامت دین ‘ کے اندر، یہ سب کام خود بخود شامل ہوجاتے ہیں۔ یعنی  اگر اقیموا  کا مطلب صرف یہ ہے کہ دین کے جو مطالبات میری ذات سے متعلق ہیں، ان کی تکمیل کی جائے تب بھی دعوت، جہاد، نصرت دین و غیرہ کے احکام میری ذات سے متعلق ہی ہیں۔ ان کی تعمیل تو اقامت دین کا تقاضا ہی ہوگا۔

واقعہ یہ ہے کہ اقامت دین کا حکم کسی ایک آیت تک محدود نہیں ہے۔ قرآن کی پوری اسکیم میں اسے مرکزی ذمہ داری کی حیثیت حاصل ہے۔ قرآن نے اس کام کو کئی اصطلاحوں میں بیان  کیا ہے۔ ’اظہارِ دین‘، ’قیامِ قسط‘، ’قیامِ عدل‘، ’شہادت علی الناس‘، ’امر بالمعروف ونہی عن المنکر‘، ’دعوتِ دین‘___ ان سب میں اقامت ِدین کا مفہوم پوشیدہ ہے۔ ان سب احکام کا تقاضا یہی ہے کہ دین پر عمل کرنے کے ساتھ ساتھ باقی انسانیت کو دین کی طرف بلانے، دین پر انھیں مطمئن کرنے اور معاشرے میں اللہ کے احکام کی ترویج و تنفیذ کی ممکنہ کوشش کی جائے۔ مولانا مودودی اور اسلامی تحریکیں انھی باتوں کو ’اقامت دین‘ قرار دیتی ہیں۔

جاوید صاحب قرآن کے بہت سے احکام کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مخصوص کردیتے ہیں۔ حالاںکہ عام قاعدہ یہ ہے کہ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے جو احکامات دیے ہیں ،وہ تمام مسلمانوں کے لیے ہیں اِلّا یہ کہ نبی کریم ؐکے لیے ان کی تخصیص کی کوئی واضح دلیل ہو۔ اظہارِ دین والی آیات کے سلسلے میں بھی موصوف کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سلسلے میں اللہ کے وعدے اور سنت کا ذکر ہے ۔ وہ یہاں المشرکون کا ترجمہ ’عرب کے مشرک‘ اور دین کلہ  کا ترجمہ ’عرب کے ادیان‘ کرتے ہیں۔ اس تخصیص کی بھی کوئی دلیل اس کے سوا نہیں دیتے کہ غلبۂ دین، رسولؐ کے سلسلے میں انبیا ؑکی سنت ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے دین کا غلبہ مکمل فرمایا۔سورۂ صف کی اس آیت میں لِیُظہرہ کے الفاظ دلالت کررہے ہیں کہ یہاں اظہار دین کو نبی کے مشن اور مقصد کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔یہاں صرف اللہ کے ارادے کا ہی اظہار نہیں ہے بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن اور مقصد بعثت کا بھی اظہار ہے۔ صرف غلبۂ دین کے الٰہی ارادے کا اظہار مقصود ہوتا تو نبی کی بعثت کے ذکر اور اس کے بعد، اظہارِ دین کے ذکر کے ساتھ لامِ تعلیل (لِیُظہرہ) کی ضرورت نہیں تھی۔بے شک غلبۂ دین اللہ ہی کا منصوبہ ہے ، لیکن اللہ تعالیٰ اپنے اس منصوبے کو نبی کے ذریعے مکمل کرنا چاہتا تھا ، اسی لیے اس نے نبی کو مبعوث کیا۔ اسی وجہ سے اسے نبی کا مشن کہا جاتا ہے۔اگر یہ نبی کا مشن اور اُن کا کام تھا تو نبی کے بعد آپؐ کی اُمّت کا کام کیوں نہیں ہوگا؟

جاوید صاحب، غلبۂ دین کی سنت الٰہی کا تذکرہ اس طرح کرتے ہیں کہ کہیں کہیں یوں محسوس ہوتا ہے گویا اللہ تعالیٰ اس سنت کی تکمیل اپنے تکوینی امر کے ذریعے کرتا ہے۔ اسلامی تاریخ میں فرقہ جبریہ نے خدا کے تکوینی اور تشریعی احکام میں بڑا مغالطہ کیا تھا۔زیر بحث فکر میں یہی مغالطہ غلبۂ دین کی سنت کے معاملے میں محسوس ہوتا ہے۔ امرواقعہ یہ ہے کہ ان آیات میں اِرسال رسول کا ذکر واضح طور پر اس بات کی دلیل ہے کہ اظہار دین کی سنت الٰہی ،نبی کی جدوجہد کے ذریعے پوری ہوگی۔ نبی اللہ کی رہنمائی میں لیکن اپنے آزاد ارادے کے ساتھ اظہارِ دین کی جدوجہد کرتا ہے، فیصلے کرتا ہے، حکمت ِعملی بناتا ہے، جہا د کرتا ہے، معاہدے کرتا ہے، جہاں ضرورت ہو لڑتا ہے اور جہاں ضرورت ہو صلح کرتا ہے۔ دعوت، ہجرت اور جہاد کے مراحل سے گزرتا ہے۔ سیاسی حکمت عملی بناتا ہے اور اپنی تدبیروں سے ، خدا کی مشیت کے تحت اس کی سنت کی تکمیل کرتا ہے۔

اللہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کو تمام مسلمانوں کے لیے نمونہ قرار دیا ہے۔ آپؐ کا کام اب اس امت کو جاری رکھنا ہے۔ غلبۂ دین کے مشن کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مخصوص کردینے اور امت کو اس سے مستثنیٰ کردینے کے لیے کوئی واضح دلیل موجود نہیں ہے خصوصاً اس لیے کہ دیگر اور نصوص ایسے موجود ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ دین کا غلبہ بعد کے زمانوں میں بھی  اللہ تعالیٰ کو مطلوب ہے۔ قرآن مجید میں کہا گیا ہے:

 وَلَاتَھِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ  مُّؤْمِنِیْنَ (اٰل عمرٰن ۳:۱۳۹)، دل شکستہ نہ ہو، غم نہ کرو، تم ہی غالب رہوگے اگر تم مومن ہو۔

وَعَدَ   اللّٰہُ   الَّذِیْنَ  اٰمَنُوْا  مِنْکُمْ   وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ   لَیَسْتَخْلِفَنَّہُمْ  فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ   قَبْلِہِمْ ص  وَلَیُمَکِّنَنَّ  لَہُمْ  دِیْنَہُمُ  الَّذِی  ارْتَضٰی  لَہُمْ  وَ لَیُبَدِّلَنَّہُمْ  مِّنْم  بَعْدِ خَوْفِھِمْ  اَمْنًا  ، (النور ۲۴:۵۵) تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور اْنھوں نے اچھے عمل کیے ہیں، اْن سے اللہ کا وعدہ ہے کہ اْن کو وہ اِس سرزمین میں ضروراُسی طرح اقتدار عطا فرمائے گا، جس طرح اُن سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو اُس نے عطا فرمایا تھا اور اُن کے لیے اُن کے دین کو پوری طرح قائم کردے گا ۔

حدیث میں ہے: اَلْاِسْلَامُ یَعْلُوْ وَلَا یُعْلٰی عَلَیْہِ۱۵   ،یعنی اسلام دنیا میں غالب ہونے کے لیے آیا ہے، سرنگوں ہونے کے لیے نہیں۔ امام مسلم نے اپنی صحیح میں کتاب الامارۃ کے تحت ایک پورا باب باندھا ہے، جس کا عنوان ہے: لَا تَزَالُ طَائِفَۃٌ مِنْ اُمَّتِیْ ظَاہِرِیْنَ عَلَی الْحَقِّ لَا یَضُرُّھُمْ مَنْ خَالَفَہُمْ ۱۶   میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا اور اپنے مخالفوں پر غالب آئے گا۔اسی طرح کا ایک باب امام بخاری نے بخاری میں کتاب الاعتصام بالکتاب والسنہ میں باندھاہے ۔ان ابواب میں کئی حدیثیں بیان کی گئی ہیں، جن میں یہ کہا گیا ہے کہ اہل حق کا  ایک گروہ اسلام کے لیے جدوجہد کرتا رہے گا اور اسے غلبہ ملے گا۔ مثلاًمسلم میں حضرت معاویہؓ سے مروی ایک حدیث بیان کی گئی ہے:

مَنْ یُرِدِ اللہُ بِہٖ خَیْراً یُفَقِّہْہُ فِی الدِّیْنِ وَلَا تَـزَالُ عِصَابَۃٌ مِنْ الْمُسْلِمِیْنَ یُقَاتِلُوْنَ عَلَی الْحَقِّ ظَاہِرِیْنَ عَلٰی مَنْ نَـاوَأَہُمْ اِلٰی یَـوْمِ الْقِیَامَۃِ ، ۱۷  جس شخص کی اللہ بھلائی چاہتا ہے اسے دین کی سمجھ دیتا ہے اور ہمیشہ ایک جماعت مسلمانوں کی حق پر لڑتی رہے گی اور غالب آئے گی ان پر جو ان سے لڑیں قیامت تک۔

عقلی دلائل

اس مختصر مقالے میں تفصیلی شرعی دلائل کی گنجایش نہیں ہے۔ ضروری باتیں عرض کردی گئی ہیں۔ جو لوگ اور تفصیل سے مطالعہ کرنا چاہیں وہ اس موضوع پر لکھی گئی بعض اہم کتابوں کو دیکھ سکتے ہیں۔اب تک جن کتابوں کے حوالے آچکے ہیں ان کے علاوہ،خصوصاً مولانا احمد عروج قادری کی کتاب اقامت دین فرض ہے اور اُمت مسلمہ کا نصب العین  نیزمولانا صدر الدین اصلاحی کی کتاب فریضہ اقامتِ دین  اور مولانا سیّد جلال الدین عمری کی کتاب معروف و منکر  وغیرہ کا مطالعہ مفید ہوگا۔

اس موقعے پر اس موضوع کو عقل عام (Common Sense) کے پہلو سے بھی زیر بحث لاتے ہیں:

۱- دونوں معترض حضرات یہ بات مانتے ہیں کہ اسلام نے اجتماعی امور سے متعلق تفصیلی ہدایات دی ہیں۔ اور ان ہدایات کی تعمیل آج کے دور میں بھی ضروری ہے اور یہی انسان کی فلاح اور کامیابی کا خدائی نسخہ ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب اللہ نے اپنے بندوں کے لیے ایک اجتماعی نظام کو پسند کیا ہے، تو پھر آج بندوں کے درمیان اس کو متعارف کرانے، اور اسے جاری کرنے کا کیا انتظام ہے؟ ایک زمانے میں نفاذ کا یہ کام اللہ نے اپنے رسولؐ سے لیا تھا۔ اب اگر آج عام مسلمان اس کے نفاذ کی جدوجہد کے مکلف نہیں ہیں تو پھر یہ کام کس کے ذمہ ہے؟

یہ بات تو عقل عام کے خلاف ہے کہ اللہ نے انسانوں کے لیے ایک مکمل نظام زندگی نازل کیا، بڑی وضاحت کے ساتھ اس کی تفصیلات بتائیں، انھیں محفوظ رکھنے کا بھی انتظام کیا۔  ایک زمانے میں اپنے رسولؐ کے ذریعے اس کی تبلیغ و اشاعت اور اس کی تنفیذ کا بھی انتظام کیا ، لیکن بعد کے اَدوار میں انھیںانسانوں کے درمیان مقبول کرنے اور ا ن کے معاشروںمیں جاری و ساری کرنے کا کوئی انتظام ہی نہیں کیا۔یہ بات توکم از کم آج کے دور میں کوئی معقول آدمی نہیں کہہ سکتاکہ کوئی اجتماعی نظام زندگی صرف اس کے تعارف اور پیش کش کے ذریعے خود بخود نافذ ہوسکتا ہے۔اگر کوئی اس انتہائی سادہ لوح مفروضے پر یقین رکھتا ہے، تو آج کا سارا علمِ سیاسیات اور علمِ سماجیات اس کی تردید و تغلیط کے لیے موجود ہے۔ ہر نظریہ اور نظام اپنے نفاذ کے لیے انسانی جدوجہد چاہتا ہے، اور ایسی جدوجہد چاہتا ہے جو اجتماعی ہو اور مطلوب نظام زندگی کو ہدف بناکر کی جائے۔ اگر صرف نظریہ اور اصولوں کی موجودگی کافی ہوتی تو قرآن کا نزول کافی تھا، رسولؐ کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔

انفرادی زندگی سے متعلق اسلامی احکام بھی انسانوں کی فلاح کے لیے ہیں اور یہی معاملہ اجتماعی زندگی سے متعلق احکام کابھی ہے۔جس طرح شرک اور جھوٹ ایک فرد کے لیے نقصان دہ ہے، اسی طرح سود اور قوم پرستی اور انسانوں کی غیر مشروط خود مختاری، یہ انسانی معاشروں کے لیے نقصان دہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کو اگر اپنے بندوں کی فوز و فلاح مقصود ہے ، اور صرف افراد کی نہیں بلکہ معاشروں کی اجتماعی فلاح بھی مقصود ہے، تو یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ اپنے نازل کردہ ان اصولوں کی تنفیذ کا کوئی انتظام ہی نہ کرے، جو انسانوں کے لیے نہایت ضروری ہیں( ہم یہاں اس بحث کو نہیں چھیڑ رہے ہیں کہ افراد کی اصلاح کا بھی ایک بڑا پہلو سماجی اور معاشرتی اصلاح سے ہے)۔  اللہ تعالیٰ اپنے دین کی ترویج و تنفیذ کا کام انسانوں ہی سے لیتا ہے۔ اسی لیے قرآنِ مجید میں اللہ نے اپنے بندوں سے دین کی نصرت اوراللہ کا مددگار بننے کا حکم دیا ہے:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ  اٰمَنُوْٓا اِنْ  تَنْصُرُوا اللّٰہَ یَنْصُرْکُمْ  وَیُثَبِّتْ  اَقْدَامَکُمْ (محمد ۴۷:۷) اے ایمان والو، اگر تم اللہ کی مدد کروگے تو وہ تمھاری مدد کرے گا اور تمھارے قدم جمادے گا۔

یٰٓاَیُّہَا  الَّذِیْنَ  اٰمَنُوْا  کُوْنُوْٓا  اَنْصَارَ اللّٰہِ ( الصف ۶۱: ۱۴)، اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ کے مددگار بنو۔

اس کا مطلب اس کے سوااور کیا ہوسکتا ہے کہ دین کے معاملے میں منشاے الٰہی کی تکمیل کے لیے جدوجہد کی جائے۔اگر منشاے الٰہی یہ ہے کہ یہ دین زندگی کے تمام انفرادی و اجتماعی معاملے میں انسانوں کا رہنما بنے، تو اس منشا کی تکمیل کے لیے جدوجہد ہی دین کی نصرت قرار پائے گی۔ اسی جدوجہد کو اسلامی تحریکیں ’اقامت ِدین‘ کی جدوجہد کہتی ہیں۔

انسانی معاشروں میں ہمیشہ ایسی قوتیں کارفرما رہی ہیں، جو انسانی زندگی کی تنظیم گمراہ کُن شیطانی اصولوں اور نظریات کی بنیاد پر کرنے کی کوشش کرتی رہتی ہیں۔ کیا یہ بات اللہ کی مشیت اور اس کی اسکیم کا حصہ ہوسکتی ہے کہ معاشرے میں قوم پرستانہ فسطائیت اور کمیونزم کی منظم تحریک جاری و ساری ہو، انتہاپسندانہ سرمایہ داری کے قیام و نفاذ کی منظم جدوجہد ہوتی رہے، نسائیت پرست اور ہم جنس پرست منظم ہوکر اپنے اپنے سیاسی و معاشی تصورات کے نفاذ کے لیے سرگرم رہیں، لیکن  اللہ کا مکمل دین اور انسانی فوز و فلاح کا حقیقی ضامن نظریۂ حیات صرف کتابوں میں بند رہے، یا ایسے حکمران کے انتظار میں راہ تکتا رہے، جو ا ن احکام کی تنفیذ کو اپنی ذمہ داری سمجھے؟ یہ بات بالکل عقلِ عام کے خلاف ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ انسانوں کے لیے کسی مخصوص نظریۂ حیات کو پسند کرتا ہے تو اس کا تقاضا ہے کہ وہ اس کی تنفیذ کے لیے جدوجہد کی ذمہ داری کسی نہ کسی کے سپرد کرے۔ یہ فطری بات ہے کہ یہ ذمہ داری انھی کے سپر د کی جائے گی، جو اس نظریے کے ماننے والے اور اس کے امین ہیں۔

۲- اگر اجتماعی امور میں احکامِ دین کے نفاذ کی ذمہ داری صرف حکمرانوں کی ہے، تب بھی کیا عام مسلمان امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے پابند نہیں ہیں؟ اگر حکمران اپنی ذمہ داریاں ادا نہیں کررہے ہیں اور اللہ کے احکام سے علانیہ انحراف کررہے ہیں، تو کیا یہ مسلمانوں کی ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ اس کی طرف اپنے حکمرانوں کو متوجہ کریں؟

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: الدِّیْنُ النَّصِیْحَۃُ لِلہِ وَ لِکِتَابِہٖ وَلِرَسُوْلِہٖ وَلِاَئِـمَّۃِ الْمُسْلِمِیْنَ وَ عَامَّتِھِمْ  ۱۸ ’’دین خیرخواہی کا نام ہے۔ خیر خواہی اللہ کے لیے، اس کی کتاب کے لیے، مسلمانوں کے اماموں کے لیے اور عام مسلمانوں کے لیے‘‘۔

 ابو سعید خدری ؓکہتے ہیں کہ مروان نے عید کے دن منبر نکلوایا اور نماز عید سے پہلے خطبہ شروع کر دیا ، تو ایک شخص نے کہا : مروان ! آپ نے سنت کے خلاف کیا۔ ایک تو آپ نے اس دن منبر نکالا حالاںکہ اس دن منبر نہیں نکالا جاتا۔ پھر آپ نے نماز سے پہلے خطبہ شروع کیا ، حالاںکہ نماز سے پہلے خطبہ نہیں ہوتا۔ ابو سعید خدری ؓ نے کہا : اس شخص نے تو اپنا وہ حق جو اس پر تھا ادا کردیا۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ’’تم میں سے جو شخص کوئی بات خلافِ شرع دیکھے، تو اگر اسے ہاتھ سے روکنے کی طاقت رکھتا ہو تو اسے ہاتھ سے روک دے، اگر اس کی طاقت نہ ہو تو اپنی زبان سے روکے، اور اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو اس کو دل سے بُرا جانے، اور یہ ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے۔۱۹ 

ایک حدیث مبارکہ میں فرمایا گیا : سَتَکُوْنُ اُمَرَاءُ  فَتَعْرِفُوْنَ وَ تُنْکِرُوْنَ فَمَنْ عَرَفَ بَرِیَٔ وَمَنْ اَنْکَرَ سَلِمَ وَلٰکِنْ مَنْ رَضِیَ وَ تَـابَعَ  قَالُوْا اَفَلَا نُقَاتِلُہُمْ قَالَ لَا ، مَا صَلُّوْا ۲۰   ’’یعنی عنقریب ایسے حکمران ہوں گے جنھیں تم پہچانتے ہو گے اور ان کا  انکار کرو گے، پس جس کسی نے ان (کی حقیقت) پہچان لی وہ بری ہوگا، جس کسی نے برملا ان کا انکار کیا وہ تو سلامتی کے راستے پر ہوگا سواے اس کے جو ان پر راضی ہوگیا اور ان کی اطاعت کرنے لگا (یعنی نہ وہ بری ہے اور نہ سلامتی کے راستے پر)‘‘۔ صحابہؓ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! کیاایسے امرا کے خلاف ہمیں قتال نہیں کرلینا چاہیے؟ آپؐ نے فرمایا: جب تک وہ نماز ادا کرتے رہیں ایسا مت کرنا۔

 امام مسلم نے اپنی صحیح میں جہاں اس حدیث کا باب باندھا ہے، اس باب کا موضوع ہی رکھا ہے: باب وجوب الانکار علی الامراء فیما یخالف الشرع وترک قتالھم ما صلو ونحو ذٰلک (یعنی اس بات کا باب کہ اگر امرا شریعت کی خلاف ورزی کریں تو ان کی نکیر واجب ہے…)۔ گویاجو حکمران اللہ کے احکام کی کھلی نافرمانی کریں ، ان کے خلاف خروج اور قتال کے لیے تو کچھ اور شرائط ہیں، لیکن ان کی نکیر اور ان کو معروف کی تلقین اور اسلام کے نفاذ کے لیے ان کو آمادہ کرنا، یہ کام تو ہر حال میں اہل ایمان کو انجام دینا ہے۔

۳- آج کے زمانے میں ملکوں کے نظام اور قوانین کے لیے صرف حکمران ذمہ دار نہیں ہوتے، عوام بھی ذمہ دار ہوتے ہیں۔ دنیا کے بیش تر ملکوں میں تو جمہوری نظام ہیں۔جمہوری نظام کی تو تعریف ہی یہی ہے کہ وہاں قانونی طور پر عوام ہی اصل حکمران ہوتے ہیں۔ حکومت کے کام انھی کے منتخب نمایندے انجام دیتے ہیں۔ ملک کی قانون سازی اور پالیسی سازی عوامی رجحانات کے مطابق ہی ہوتی ہے۔ اس لیے اب تو یہ بحث بالکل غیر متعلق ہے کہ حکمرانی سے متعلق احکامِ دین کے مخاطب صرف حکمران ہیں، عوام نہیں ہیں۔ اب یہ بات ساری دنیا میں مسلمہ ہے کہ جمہوری حکومتوں میں جو پالیسیاں بھی بنتی ہیں، ان کے لیے عوام پوری طرح ذمہ دار ہیں۔عوام کے سامنے جواب دہ اور عوام کے ووٹ سے منتخب حکومت، اگر اللہ کے احکام کی کھلی خلاف ورزی کرتی ہے اور وَمَنْ لَمْ یَحْکُمْ بِـمَا اَنْزَلَ اللہُ کی تصویر بنی رہتی ہے، تو اس معاشرے میں رہنے والے مسلمان کیسے اس کی ذمہ داری سے بری ہوسکتے ہیں؟براء ت کی ایک ہی شکل ممکن ہے اور وہ یہ کہ وہ معاشرے کو اسلام کے نفاذ کے لیے تیار کرنے کی بساط بھر کوشش کرتے رہیں۔بلاشبہہ وہ کسی ایسے کام کے مکلف نہیں ہیں جو اُن کی طاقت اور استعدادسے باہر ہو لیکن جو کچھ ان کے بس میں ہے ، اُ س جدوجہد کی ذمہ داری سے وہ کیسے بری ہوسکتے ہیں؟ اسلام میں اجتماعی ذمہ داری کا تصور بھی پایا جاتاہے۔ ہم کو ایسے واضح نصوص بھی ملتے ہیں جن میں معاشرے کی اجتماعی خرابیوں کے لیے معاشرے کے ہر فرد کو ذمہ دار قرار دیا گیا ہے:

وَاتَّقُوْا  فِتْنَۃً  لَّا تُصِیْبَنَّ  الَّذِیْنَ  ظَلَمُوْا  مِنْکُمْ خَآصَّۃً ج  وَاعْلَمُوْٓا  اَنَّ  اللّٰہَ  شَدِیْدُ  الْعِقَابِO (الانفال ۸: ۲۵)،اور بچو اس فتنے سے جس کی شامت مخصوص  طور پر انھی لوگوں تک محدود نہ رہے گی جنھوں نے تم میں سے گناہ کیا ہو۔ اور جان رکھو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔

جاوید صاحب خود اس آیت کی تشریح میں لکھتے ہیں:

دنیا میں خدا کا قانون یہی ہے کہ بعض اوقات ایک گروہ کے جرائم کی سزا پوری قوم کو بھگتنا پڑتی ہے۔ یہ اْس سے متنبہ فرمایا ہے کہ اپنے رویے کی اصلاح کر لو، ورنہ اندیشہ ہے کہ اُس طرح کے کسی فتنے میں مبتلا ہو جاؤ گے جو پوری جماعت، بلکہ آیندہ نسلوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا کرتا ہے۔ اللہ کے دین میں اِسی بنا پر لوگوں کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ دوسروں کو بھی بھلائی کی تلقین کریں اور برائی سے روکیں۔۲۱

حدیث میں آیا ہے:

مَا مِنْ قَوْمٍ یعْمَلُ فِیھمْ بِالْمَعَاصِي فَلَمْ یُغَیِّرُوا إِلا أَوْشَکَ أَن یَعُمَّھُمُ اللَّہُ بِعِقَابٍ ۲۲   اگر کسی قوم میں گناہ کے کام کیے جاتے ہوں اور ان کاموں کو روکنے کی کوئی کوشش نہ کی جائے تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سب کو عذاب میں گرفتار کرلے۔

۴- کسی نظریے پر پختہ ایمان کا لازمی تقاضا یہ ہوتا ہے کہ اس کے نفاذ کے لیے جدوجہد کی جائے کہ یہی انسانی  فطرت ہے۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اسلام کے اجتماعی احکام پر عمل ضروری نہیں ہے( اس مکتب فکر کا ہم نے ابتدا میں ذکر کیا تھا) تو اس کا معاملہ مختلف ہے۔ لیکن اگر کسی کا یہ ایمان ہے کہ اسلام سیاست سمیت زندگی کے ہر شعبے میں رہنمائی کرتا ہے، اور یہ رہنمائی ہی انسانوں کی فوزو فلاح کی واحد ضامن ہے، تو اس کے بعد، اس نظریے کے نفاذ کا خواب دیکھنا اور اس کے لیے ممکنہ جدوجہد کرنا خود بخود اس کی ذمہ داری بن جاتا ہے۔

زندگی کے مشن اور نصب العین کا گہرا تعلق اعتقاد (Belief )سے ہوتا ہے۔ ہر مشن اور  نصب العین کسی اعتقاد کی پیداوار ہوتا ہے اور ہر پختہ عقیدہ کسی نہ کسی نصب العین کو لازماً جنم دیتا ہے۔اعتقاد اور زندگی کے مشن (Life Mission) کے درمیان یہ گہرا تعلق آج علم انتظامیات، سماجی نفسیات ، سماجیات وغیرہ علوم کا مسلمہ اصول ہے۔ان سب علوم میں یہ بحثیں موجود ہیں کہ آدمی اپنے بارے میں اور دیگر انسانوں اور کائنات کے بارے میں جو نقطۂ نظر یا اعتقاد رکھتا ہے اور  جن قدروں (Values) اور اصولو ں کو اپنے لیے اور دیگر انسانوں کے لیے درست اور صحیح سمجھتا ہے، اسی نظامِ اقدار سے اس کی زندگی کا مشن تشکیل پاتا ہے۔ کسی بھی میدان میں تبدیلی کی ضرورت پر پختہ یقین آدمی کو اس تبدیلی کی تحریک چلانے پر مجبور کرتا ہے۔اس لیے، اقامت دین کا نصب العین اس عقیدے کا لازمی نتیجہ ہے کہ اسلام اللہ کا دین ہے اور اسی میں انسانوں کی نجات ہے۔ عقلی اعتبار سے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ آدمی کا عقیدہ تو اسلام میں ہو، لیکن اسلام کا قیام اس کا نصب العین نہ بنے۔

اگر آج میں کینسر کی ایک نئی دوا ایجاد کرلو ں او ر میرے اندر یہ مستحکم یقین پیدا ہوجائے کہ اس دوا سے کینسر کا ہر مریض لازماً شفا پالے گا اور یہ کہ اس انمول دوا کی ترویج اس وقت عالم انسانیت کی ایک بڑی ضرورت ہے، تو اس عقیدے کا لازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ اس دوا کی ترویج، اور ملک کے نظامِ صحت میں اس کی قبولیت میرا نصب العین بن جائے گا۔اگر اس دوا کے کارگر ہونے پر کامل یقین کے باوجود میں اسے لے کر گھر میں بیٹھا رہوں، تو میری یہ خاموشی انسانیت کے خلاف ہی تصور کی جائے گی اور میرے ضمیر بلکہ میری انسانی فطرت کے خلاف ہوگی۔ مختلف ازم کے علَم بردار اپنے اپنے نظریات کے قیام و نفاذ کے لیے اس بات کے محتاج نہیں ہیں کہ ان کی کتابوں کی عبارتوں کی لغات کے ذریعے تشریح کرکے بتایا جائے کہ اس کا قیام و نفاذ تمھاری ذمہ داری ہے۔ ان اصولوں کی صحت پر یقین اور اُن کے انسانوں کے لیے مفید اور موزوں ہونے پر یقین بذاتِ خود اس بات کے لیے کافی تصور  کیا جاتا ہے کہ وہ ان کے نفاذ کو اپنی زندگی کا نصب العین قرار دے دیں۔

یقیناً اسلام نے یہ اصول دیا ہے کہ نفاذکا یہ کام زور زبردستی کے ساتھ نہیں ہوگا۔ میں کینسر کی دوا بھی کسی مریض کو بندوق کی نوک پر نہیں پلائوں گا۔ ڈاکٹروں کو بھی اس کی اجازت نہیں ہوتی۔میں دوسروں کا یہ حق بھی تسلیم کروں گا کہ اگر کوئی اس دوا کو مؤثر نہیں سمجھتا ہے یا نقصان دہ سمجھتا ہے تو وہ بھی اپنی بات لوگوں کے سامنے پیش کرے، لیکن میں آخری کوشش اس مقصد کے لیے ضرور کروں گا کہ لوگ اس کی افادیت کے قائل ہوجائیں، اس کے حق میں راے عامہ بن جائے اور اس کی تنفیذ ممکن ہوجائے۔ بالکل یہی کام مجھے اسلام کے سلسلے میں بھی کرنا ہے۔

حواشی وحوالہ جات

۱-           دستور جماعت اسلامی ہند، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، دہلی، مئی ۲۰۱۶، ص۷

۲-         ایضاً، ص۸

۳-         سیّد ابوالاعلیٰ مودودی، تحریک آزادی ہند اور مسلمان، دوم، لاہور، ص۱۷۵-۱۷۶

۴-         سیّد ابوالاعلیٰ مودودی، تصریحات(مرتبہ: سلیم منصور خالد)، لاہور ص ۲۵۷- ۲۵۸

۵-         ایضاً ،ص ۳۲۰ تا ۳۲۲

۶-         سیّد ابوالاعلیٰ مودودی، ،تفہیمات، سوم ، اسلامک پبلی کیشنز، لاہور، ستمبر ۱۹۶۴ء، ص۱۶۲-۱۶۳

۷-         تعبیر کی غلطی،مولانا وحید الدین خان ، مکتبہ الرسالہ ، نئی دہلی، تیسراایڈیشن، اکتوبر ۱۹۸۶

۸-         سورۂ شوریٰ کی آیت ۴۲:۱۳ کی طرف اشارہ ہے: شَرَعَ لَکُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَا وَصّٰی بِہٖ  نُوْحًا  وَّالَّذِیْٓ  اَوْحَیْنَآ  اِلَیْکَ  وَمَا  وَصَّیْنَا  بِہٖٓ اِبْرٰھِیْمَ وَ مُوْسٰی وَعِیْسٰیٓ اَنْ  اَقِیْمُواالدِّیْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ ط (اُس نے تمھارے لیے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا ہے جس کا حکم اْس نے نوحؑ کو دیا تھا، اور جسے (اے محمدؐ!) اب تمھاری طرف ہم نے وحی کے ذریعے سے بھیجا ہے، اور جس کی ہدایت ہم ابراہیمؑ، موسٰی اور عیسیٰؑ کو دے چکے ہیں، اِس تاکید کے ساتھ کہ قائم کرو اِس دین کو اور اْس میں متفرق نہ ہو جاؤ۔[ترجمہ مولانا مودودیؒ])

۹-         سورۂ صف کی آیت۶۱:۹ کی طرف اشارہ ہے: ھُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَلَوْکَرِہَ الْمُشْرِکُوْن (وہی تو ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پورے کے پورے دین پر غالب کر دے خواہ مشرکین کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو [ترجمہ مولانا مودودیؒ])۔ یہی بات سورۂ توبہ کی آیت ۳۳ میں بھی کہی گئی ہے اور اس سے مشابہ مضمون سورۂ فتح کی آیت ۲۸ میں بھی آیا ہے: ھُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ ط وَکَفٰی بِاللہِ شَھِیْدًا ( وہی تو ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پورے کے پورے دین پر غالب کر دے اور اس حقیقت پر اللہ کی گواہی کافی ہے)۔

۱۰-       ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی، اقامت دین اور نفاذ شریعت، نئی دہلی، مئی ۲۰۱۲ء، ص۱۰ تا ۱۸

۱۱-       مولانا صدر الدین اصلاحی، ’ خط مولانا صدر الدین ، ماہنامہ تجلّی، دیوبند ، فروری و مارچ ۱۹۶۵ء، ص۵۱

۱۲-       جاوید احمد غامدی، تاویل کی غلطی ، مجموعہ مقالات بُرہان، المورد ، لاہور، ۲۰۱۰ء، ص ۱۶۹ تا ۱۸۰

۱۳-       مولانا گوہر رحمٰن ، تفہیم المسائل، جلد پنجم، مکتبہ مدرسہ تفہیم القرآن، مردان، ۲۰۰۰ء،ص ۳۶۷ تا ۴۰۹

۱۴-       ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی، اقامت دین اور نفاذ شریعت، ص۲۷تا ۳۱

۱۵-       بیہقی ،  دارقطنی، البانی نے اسے حسن قرار دیا ہے۔

۱۶-       مسلم، کتاب الامارۃ، حدیث: ۳۶۳۶

۱۷-       مسلم، کتاب الامارۃ، حدیث: ۳۶۴۱

۱۸-       صحیح مسلم ، کتاب الایمان، باب الدین النصیحہ، رواہ تمیم الداری، حدیث: ۱۰۷

۱۹-       سنن ابن ماجہ، باب امر بالمعروف و نہی عن المنکر، رواہ ابو سعید الخدریؓ۔

۲۰-       صحیح مسلم ، کتاب الامارۃ، روایت اُمِ سلمہؓ

۲۱-       جاوید احمد غامدی، البیان ، تفسیر سورۂ انفال آیت ۲۵

۲۲-       ابن ماجہ  ۱۳/۱۲، نمبر ۳۹۹۹، مسند احمد ۱۹۵/۳۹، البانی نے اسے حسن قراردیا ہے۔

۲۳-       سورۂ نور ، آیت ۵۵، ترجمہ جاوید احمد غامدی

ریاست کا اسلامی تصور اُس اصطلاح کے اندر چھپا ہوا ہے، جو اسلام نے ریاست کی تعبیر کے لیے اختیار کی ہے۔ اسلامی لٹریچر پر نگاہ رکھنے والا ہرشخص جانتا ہے کہ اسلام نے اپنے اصولوں پر قائم شدہ سیاسی تنظیم کے لیے ’ریاست‘ یا’سلطنت‘ یا ’حکومت‘ کی اصطلاحیں نہیں اختیار کی ہیں بلکہ ’خلافت‘ یا ’امامت‘ یا ’امارت‘ کی اصطلاحیں اختیار کی ہیں۔ اس وجہ سے ریاست کا اسلامی تصوّر واضح کرنے کے لیے سب سے پہلے اِن اصطلاحات پر غور کرنا اور اِن کے مضمرات کو سمجھنا ضروری ہے۔

’خلافت‘ اور ’امامت و امارت‘ کی اصطلاحیں ہماری فقہ کی کتابوں میں عموماً بالکل مترادف المعنی اصطلاحات کی حیثیت سے استعمال ہوگئی ہیں، جس کے سبب سے بعض اوقات کچھ خلطِ مبحث سا ہوجاتا ہے، لیکن اگر قرآن و حدیث کی روشنی میں ان کے مفہوم متعین کرنے کی کوشش کی جائے، تو یہ حقیقت بالکل واضح ہوکر سامنے آتی ہے کہ ان اصطلاحات کے مفہوم الگ الگ ہیں۔ ’خلافت‘ کی اصطلاح اسلامی اصولوں پر ایک قائم شدہ ریاست کے لیے استعمال ہوئی ہے، اور ’امامت‘ یا ’امارت‘ سے مراد وہ گورنمنٹ ہوتی ہے، جو خلافت کے ارادوں کی تنفیذ کرتی اور اس کے منصوبوں کو عملی جامہ پہناتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں اس کو یوں سمجھیے کہ جو فرق State اور Government کے درمیان ہے، اسی قسم کا فرق ’خلافت‘ اور ’امامت و امارت‘ کے درمیان ہے۔

اس تمہید سے یہ بات واضح ہوئی کہ: ’’ریاست کا اسلامی تصوّر سمجھنے کے لیے ہمیں سب سے پہلے یہ حقیقت ملحوظ رکھنی ہے کہ اسلام میں ریاست محض ایک ریاست نہیں ہے بلکہ وہ خلافت ہے‘‘۔ پھر ساتھ ہی یہ حقیقت بھی پیش نظر رکھنی ہوگی کہ کسی چیز کا صحیح تصوّر اس کی معیاری شکل ہی سے اخذ کیا جاسکتا ہے۔ اس وجہ سے یہاں ’خلافت‘ کی بھی صرف وہی شکل زیربحث ہے جو معیاری ہے۔ اس کی بگڑی ہوئی شکلیں، جن کی مثالیں تاریخ میں موجود ہیں، اس بحث میں ہمارے لیے کارآمد نہیں ہوسکتیں۔

  • خلافت کی اساس: اس مسئلے پر غور کرتے وقت ہمیں سب سے پہلے اس خلافت کا سراغ انسانی فطرت اور انسانی معاشرے کے اندر لگانا چاہیے۔ خوش قسمتی سے اس بارے میں اسلام نے ہمیں اندھیرے میں نہیں چھوڑا ہے کہ سیاسی فلسفیوں کی طرح انسان کے ابتدائی سیاسی تصوّرات سے متعلق ہمیں اٹکل کے تیر تکّے چلانے پڑیں، بلکہ وحیِ الٰہی نے ہمارے سامنے ایک واضح علم الانسان بھی رکھ دیا ہے، جس سے ہم اس خلافت کی اصل اور ابتدا بھی معلوم کرسکتے ہیں اور اس کی روشنی میں اس کے بنیادی تصوّرات بھی سمجھ سکتے ہیں۔ میں یہاں اس علم الانسان کو قرآن سے اخذ کرکے اپنے الفاظ میں مختصرطور پر پیش کرتا ہوں:

قرآن میں اس خلافت کی ابتدا اس طرح بیان کی گئی ہے کہ: اللہ تعالیٰ نے جب انسان کو پیدا کرنا چاہا تو سب سے پہلے فرشتوں کے سامنے اپنے اس ارادے کا اظہار فرمایا کہ میں زمین میں اپنا خلیفہ بنانے والا ہوں۔ فرشتوں کے علم میں چوں کہ اللہ تعالیٰ کی پوری اسکیم نہیں تھی، اس وجہ سے ان کے حلقے میں یہ سوال پیدا ہوا کہ اگر اس نئی مخلو ق کے پیدا کرنے سے مقصود اللہ تعالیٰ کا محض    یہ ہوتا کہ یہ اس کی تسبیح و تقدیس کرے تو اس کو پیدا کرنے کی ضرورت نہیں تھی ،کیوں کہ اس کام  کے لیے تو ہم پہلے سے موجود ہی ہیں۔ لازماً یہ مخلوق خدا کے نائب کی حیثیت سے اس زمین کا انتظام و انصرام سنبھالے گی، اور اس کے خلیفہ ہونے کے معنی یہ ہیں کہ اس کو اللہ کی طرف سے کچھ اختیارات بھی تفویض ہوں گے۔ پھر یہاں سے ان کو یہ اندیشہ بھی ہوا کہ اگر اس مخلوق کو اختیار بھی ملا تو یہ زمین میں عدل و انصاف کے بجاے خون ریزی اور فساد برپا کرنے والی مخلوق بن جائے گی۔ اپنا یہ اندیشہ فرشتوں نے ایک سوال کی صورت میں اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کیا۔

اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو جواب دیا کہ: یہ شبہہ تمھیں صرف اس وجہ سے لاحق ہوا ہے کہ تمھاری نظر میری پوری اسکیم پر نہیں ہے۔ چنانچہ ان کو آدم کی ذُریت کا مشاہدہ کرایا گیا اور پھر   ان سے سوال کیا گیا کہ اگر آدم ؑ اور ان کی اولاد کے بارے میں تمھارا یہ گمان صحیح ہے تو بتائو، یہ کون لوگ ہیں؟ یہ سب کے سب زمین میں فساد ہی برپا کرنے والے ہیں یا ان میں نیکی اور انصاف پھیلانے والے بھی ہیں؟ فرشتوں نے نہایت ادب کے ساتھ یہ اقرار کیا کہ انھیں اس بارے میں کوئی علم نہیں ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم ؑ کو (جو پہلے سے اپنی ذُریت کے ناموں سے واقف ہوچکے تھے) حکم دیا کہ وہ اپنی ذُریت کے نام ان فرشتوں کو بتائیں۔ حضرت آدم ؑ نے فرشتوں کو اپنی ذُریت کے ناموں سے آگاہ کیا اور ان کی نسل میں جو انبیاو رُسل اور جو مجددین و مصلحین پیدا ہونے والے تھے، ان کا تعارف کرایا۔ اس سے فرشتوں پر یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ آدم ؑ اور  اولادِ آدم ؑ کو جو خلافت عطا ہورہی ہے، اگرچہ وہ اختیار و ارادے کی آزادی کے ساتھ عطا ہورہی ہے، جس سے خرابی کے بھی اندیشے ہیں لیکن ساتھ ہی اس اختیار و ارادے کی حدبندی اور انسان کی اصلاح و تربیت کے لیے اللہ تعالیٰ اپنی کتاب و شریعت بھی نازل فرمائے گا اور اپنے نبی اور رسول بھی بھیجے گا۔ اس انکشاف سے فرشتوں پر اللہ تعالیٰ کی اسکیم واضح ہوگئی اور وہ مطمئن ہوگئے۔

  •  چند اجتماعی و سیاسی حقائق : قرآن نے تاریخِ انسانی کے اس بالکل ابتدائی ماجرے کو محض ایک کہانی کے طور پر نہیں سنایا ہے، بلکہ اس کے سنانے سے اصل مقصود چند اجتماعی و سیاسی حقیقتوں کی ابتدا کا سراغ دینا ہے۔ اس سے ’خلافت‘ کے تصوّر سے متعلق جو حقیقتیں ہمارے سامنے آتی ہیں، وہ مندرجہ ذیل ہیں:
  • ایک یہ کہ ’خلافت‘ کا وجود خود انسانی فطرت کا بُرُوْز [مظہر] ہے۔ یہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو انسان کو خارج سے لاحق ہوگئی ہو بلکہ اللہ نے اس کو اس منصب کے لیے پیدا کیا ہے اور اس کا شعور اس کے اندر ودیعت کیا ہے۔ وہ جب سے بھی اس دنیا پر ہے اس شعور کے ساتھ ہے اور اسی شعور نے اس کو سیاسی زندگی پر اُکسایا ہے۔ اس نے سیاسی زندگی مصنوعی طور پر نہیں اختیار  کی ہے اور نہ بے ضرورت اختیار کی ہے، بلکہ یہ اس کی فطرت کا تقاضا ہے، جس کے پورا کیے بغیر اس کی شخصیت کی تکمیل ہو ہی نہیں سکتی۔
  • دوسری یہ کہ اس زمین پر انسان کا فطری منصب خودمختار اور مطلق العنان ہستی کا نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے ’خلیفہ‘ اور ’نائب‘ کا ہے۔ اس کو ایک خاص دائرے کے اندر تصرف کا اختیار تو حاصل ہے لیکن یہ اختیار اس کا ذاتی نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کا تفویض کردہ ہے۔ اس وجہ سے اس کا وہی تصرف جائز اور معقول ہے جو اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ حدود کے اندر ہو، ان سے ہٹ کر نہ ہو۔ اس نیابت کے تصوّر کا ایک لازمی تقاضا یہ بھی ہے کہ اس کو اپنے ہر اس تصرف کے لیے جواب دہی کرنی پڑے گی، جو اصل مُستخلِف، یعنی اللہ تعالیٰ کے منشا کے خلاف ہو۔
  • تیسری یہ کہ اس میں اصل حاکمیت اللہ تعالیٰ کی ہے، نہ کہ انسانوں کی۔ اس میں قانون سازی اور تصرف کے جو اختیارات انسانوں کو حاصل ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکام کے تحت ہیں، یا پھر ان دائروں کے اندر ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو آزاد چھوڑا ہے۔
  • چوتھی یہ کہ منشاے تخلیق کے اعتبار سے تو اس منصب کے اہل سارے ہی انسان ہیں۔ اس کی ذمہ داریاں اُٹھانے کے لیے جو صلاحیتیں درکار ہیں، وہ بھی ہر ایک کے اندر ودیعت ہیں۔ لیکن، انسان اس منصب پر مجبور نہیں کیا گیا ہے، بلکہ اس کو آزادی حاصل ہے کہ وہ چاہے تو اس کو اختیار کرے اور نہ چاہے تو نہ اختیار کرے۔ وہ اللہ کے حدود کا پابند رہ کر اس کا خلیفہ بھی بن سکتا ہے اور ان حدود سے آزاد ہوکر اس کا باغی بھی بن سکتا ہے۔ جس طرح ہرانسان کو اللہ تعالیٰ نے پیدا تو کیا ہے اپنی بندگی ہی کے لیے، لیکن کسی کو اس بندگی پر مجبور نہیں کیا ہے بلکہ ہر ایک کو آزاد چھوڑا ہے: وہ بندگی کرے یا نہ کرے۔ اسی طرح اس خلافت پر بھی اس نے کسی کو مجبور نہیں کیا ہے۔
  • پانچویں یہ کہ اس منصب کی ذمہ داریوں کی ادایگی میں انسان اگر اس اسکیم کی پابندی نہ کرے، جو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے پسند فرمائی ہے، تو انسان کا فساد اور خوں ریزی میں مبتلا ہوجانا بہت اقرب ہے۔
  • چھٹی یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اس بات کو مبہم نہیں چھوڑا ہے کہ وہ اپنی زمین کے انتظام کے سلسلے میں کس چیز کو پسند کرتا ہے اور کس چیز کو پسند نہیں کرتا۔ یہ عین منصب ِ خلافت کی فطرت کا تقاضا ہے کہ اللہ تعالیٰ، انسان کو اپنی پسند و ناپسند اور اپنے احکام و ہدایات سے باخبر رکھنے کا انتظام کرے۔ چنانچہ فرشتوں کو جو شبہہ تھا کہ انسان، خلافت پاکر فساد و خوں ریزی میں مبتلا ہوجائے گا، وہ اسی بات سے دُور ہوا کہ اولادِ آدم میں نبوت و رسالت کا سلسلہ بھی جاری ہوگا اور ان کی ہدایت کے لیے اللہ تعالیٰ اپنی کتابیں اور اپنی شریعت بھی نازل فرمائے گا۔
  • ساتویں یہ کہ ’خلافت‘ کی اساس قوم یا وطن یا نسل اور نسب کے تصوّرات پر نہیں ہے بلکہ یہ اپنے مزاج اور اپنی فطرت کے لحاظ سے ایک اصولی اور جہانی ریاست ہے۔
  • آٹھویں یہ کہ ، یہ نظام کامل مساوات کے اصول پر قائم ہے۔ اس میں ’خلافت‘ کا منصب کسی خاص شخص، گروہ یا طبقے کو حاصل نہیں ہے بلکہ اصلاً ہرشخص کو حاصل ہے۔ اس میں اگر کسی کو کسی پر ترجیح حاصل ہوتی ہے تو وہ محض اہلیت و صلاحیت کی بنا پر اور یہ بھی سب کے مشورے اور مرضی سے۔
  • منصبِ خلافت کے تقاضے: اُوپر ہم نے یہ بیان کیا ہے کہ یہ خلافت اختیار پر مبنی ہے نہ کہ جبر پر۔ اس اختیار کا تقاضا یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ مختلف قوموں کو زمین میں اقتدار بخشے اور یہ اقتدار بخش کر ان کا امتحان کرے کہ وہ اپنی من مانی چلاتی ہیں یا اس اقتدار کو اللہ کے مقرر کردہ حدود کا پابند رکھتی ہیں؟ جو قومیں اس اقتدار کو پاکر اللہ سے بغاوت کی روش اختیار کرتی ہیں وہ مجرم قرار پاتی ہیں اور امتحان کی مقررہ مدت گزار چکنے کے بعد وہ فنا کردی جاتی ہیں۔ قرآن نے اللہ تعالیٰ کی اس سنت کا ذکر اس طرح فرمایا ہے:

اور ہم نے تم سے پہلے قوموں کو ہلاک کیا، جب کہ انھوں نے ظلم کیا اور ان کے پاس  ان کے رسول کھلی کھلی نشانیاں لے کر آئے، لیکن وہ ایمان لانے والے نہ بنے۔ ایسا ہی بدلہ دیتے ہیں ہم مجرموں کو۔ پھر ہم نے ان کے بعد زمین میں تم کو خلیفہ بنایا، تاکہ دیکھیں کہ تم کیسا عمل کرتے ہو۔(یونس ۱۰: ۱۳-۱۴)

یہ ’خلافت بالقوہ‘ اگرچہ سارے ہی انسانوں کو حاصل ہے، لیکن بالاستحقاق یہ صرف ان کو حاصل ہے جو اس کا حق ادا کریں۔ چنانچہ حضرت داؤد علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے صاف الفاظ میں اپنا خلیفہ قرار دیا ہے، اس لیے کہ ان کی حکومت اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق تھی:

اے دائود ؑ! ہم نے تم کو زمین میں اپنا خلیفہ بنایا تو تم لوگوں کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو۔(صٓ  ۳۸: ۲۶)

اس خلافت کے حقیقی اہل درحقیقت انبیا علیہم السلام ہیں یا پھر وہ لوگ ہیں جو انبیا علیہم السلام کے طریقے پر اس کی ذمہ داریاں ادا کریں۔ جو لوگ اللہ کی بندگی اور اطاعت کے لیے منظم ہوجاتے ہیں ،اللہ تعالیٰ ان کو اس خلافت کا خلعت عطا فرماتا ہے۔ چنانچہ قرآن میں فرمایا ہے:

تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور جنھوں نے بھلے کام کیے، اللہ کا ان سے وعدہ ہے کہ وہ ان کو زمین میں اسی طرح خلافت دے گا، جس طرح اس نے ان کے اگلوں کو دی اور ان کے لیے ان کے اس دین کا بول بالا کرے گا، جس کو ان کے لیے پسند فرمایا۔ اور ان کی خوف کی حالت کو امن سے بدل دے گا۔ وہ میری ہی بندگی کریں گے اور کسی چیز کو میرا شریک نہیں ٹھیرائیں گے۔(النور۲۴: ۵۵)

 یہی خلافت کی معیاری شکل ہے۔ جب تک یہ اپنی ان خصوصیات پر باقی رہے، یہ زمین کے لیے اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے۔ یہ خصوصیات اگر کم ہونی شروع ہوجائیں تو یہ اس کے بگاڑ کی صورتیں ہوں گی اور اس بگاڑ کے مختلف درجے ہیں۔ ایک خاص درجے تک یہ بگاڑ اس کو خلافت کے دائرے سے خارج نہیں کرتا لیکن اگر یہ بگاڑ اس کی بنیادی خصوصیات کو ختم کر دے، تو پھر یہ خلافت نہیں باقی رہ جاتی بلکہ بغاوت اور فساد فی الارض بن جاتی ہے۔

اس تفصیل کے بعد یہ سمجھنا کچھ مشکل نہیں رہا کہ ایک ’عام ریاست‘ اور ایک ’اسلامی ریاست‘ (بالفاظِ دیگر ’خلافت‘) میں کس اعتبار سے اشتراک اور کن پہلوئوں سے اختلاف ہے۔ ارسطو نے انسان کی یہ جو تعریف کی ہے کہ وہ حیوانِ ناطق ہے۔ یہ تعریف جس طرح ایک کافر پر صادق آتی ہے، اسی طرح ایک مومن پر بھی صادق آتی ہے۔ کیوں کہ اپنے مادی اور جبلی دائروں میں دونوں ایک ہی طرح کی ضروریات اور ایک ہی قسم کے داعیات رکھتے ہیں۔ لیکن پھر بھی ہرشخص جانتا ہے کہ دونوں میں بہت بڑا فرق ہے۔ ایک کافر کے اصولِ زندگی اور ہیں اور ایک مسلم کے اصولِ زندگی اور ہیں۔ اسی طرح ایک ’عام ریاست‘ اور ایک ’اسلامی ریاست‘ میں بھی جہاں تک ان کے ظاہری ڈھانچے اور ان کے مادی اجزاے ترکیبی کا تعلق ہے کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ ایک ’عام ریاست‘ جس طرح اپنے وجود پذیر ہونے کے لیے اس امر کی محتاج ہے کہ اس کو ایک انسانی معاشرہ حاصل ہو، اس کے قبضے میں ایک مخصوص علاقہ ہو، وہ داخلی طور پر بااقتدار اور بیرونی حیثیت سے خودمختار ہو۔ اس کے پاس ایک سیاسی ادارہ (گورنمنٹ)ہو، جو اس کے ارادوں کی تنفیذ اور اس کے مقاصد کی تکمیل کرسکے۔ اسی طرح ’اسلامی ریاست‘ یا ’خلافت‘ بھی اپنے وجود پذیر ہونے کے لیے ان ساری چیزوں کی محتاج ہے۔ اس پہلو سے غور کیجیے تو دونوں میں کوئی خاص فرق نہیں ہوا، لیکن جہاں تک دونوں کے اصول اور مقاصد کا تعلق ہے ، ان دونوں میں آسمان و زمین کا فرق ہے۔

قرآنِ کریم اور سنت نبویؐ کے مطالعے سے ہمیں بڑی وضاحت اور تفصیل کے ساتھ یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسلام بچوں کی صحیح تربیت و تعلیم اور انھیں انسانی معاشرے کا صالح عنصر بنانے کی بڑی تاکید کرتا ہے۔ اسلام اولاد کو اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت قرار دیتا ہے۔ اس نعمت کی تمنا اور خواہش صرف عام انسانوں کو ہی نہیں ہوتی بلکہ انبیا علیہم السلام بھی اس کی تمنا کرتے رہے، اور اس کے حصول کے لیے اپنے رب سے دُعا کرتے رہے، مگر وہ ایسی اولاد کے طالب رہے جو والدین کے لیے فتنہ بننے کے بجاے اُن کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہو اور دُنیا کے اندربدی اور شر میں اضافہ  کرنے کے بجاے نیکی اور خیر کے پلڑے میں اپنا بوجھ ڈالنے والی ہو۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ ’عبادالرحمٰن‘   (رحمٰن کے بندوں) کی صفات بیان کرتے ہوئے آخر میں فرماتا ہے کہ وہ اپنے رب سے اولاد کی درخواست اس انداز میں کرتے ہیں:

رَبَّنَا ہَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعْیُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا(الفرقان ۲۵:۷۴) اے ہمارے رب، ہمیں اپنی بیویوں اور اپنی اولاد سے  آنکھوں کی ٹھنڈک دے اور ہم کو پرہیزگاروں کا امام بنا۔

اللہ تعالیٰ نے حضرت زکریاعلیہ السلام کے متعلق ارشاد فرمایا کہ:

ھُنَالِکَ دَعَا زَکَرِیَّا رَبَّہٗ ج  قَالَ رَبِّ ھَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْکَ ذُرِّیَّۃً طَیِّبَۃً ج اِنَّکَ    سَمِیْعُ الدُّعَآئِ (اٰل عمرٰن۳:۳۸) یہ حال دیکھ کر زکریا ؑ نے اپنے رب کو پکارا: ’’پروردگار! اپنی قدرت سے مجھے نیک اولاد عطا کر۔ تو ہی دُعا سننے والا ہے‘‘۔

اس طرح اسلام اولاد کو بلاشبہہ ایک عظیم نعمت اور فطری آرزو قرار دیتا ہے اور ساتھ ہی اولاد کی ہرگونہ حفاظت اور تربیت کا حکم دیتا ہے۔ قرآنِ کریم نے جاہلی دور کے لوگوں کے اس فعل پر سخت تنقید کی وہ بھوک کے خوف سے بچوں کو مار ڈالتے تھے، یا عار اور جھوٹی شرم کی وجہ سے لڑکیوں کو زندہ درگور کردیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ لَا تَقْتُلُوْٓا اَوْلَادَکُمْ مِّنْ اِمْلَاقٍ ط  نَحْنُ نَرْزُقُکُمْ وَ اِیَّاھُمْ ج (انعام ۶:۱۵۱) ’’اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو۔ ہم تمھیں بھی رزق دیتے ہیں اور ان کو بھی دیں گے‘‘۔

سورئہ بنی اسرائیل میں فقروفاقہ کے محض اندیشے کی بنا پر قتلِ اولاد کی ممانعت فرمائی۔ صحیحین میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ یہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ: ’’یارسولؐ اللہ! کون سا گناہ سب سے زیادہ بڑا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: تو کسی کو اللہ کا شریک ٹھیرائے۔ درآں حالانکہ اللہ تعالیٰ تجھے پیدا کرنے والا ہے۔ میں نے عرض کیا: ’’اس کے بعد کون سا گناہ بڑا شمار ہوتا ہے؟‘‘ آپؐ نے فرمایا: ’’تو اپنے بچے کو اس خوف سے مار ڈالے کہ وہ تیرے ساتھ کھانے میں شریک ہوجائے گا‘‘۔ پھر میں نے عرض کیا: ’’اس کے بعد کون سا گناہ عظیم تر ہے؟‘‘ آپؐ نے جواب میں فرمایا کہ: ’’تیرا اپنے ہمسایے کی بیوی سے ناجائز تعلق قائم کرنا‘‘۔

یہ بات محتاجِ دلیل نہیں ہے کہ اسلام اوائل عمر ہی سے بچوں کو اسلامی اُمور سکھانے کی تاکید کرتا ہے، تاکہ وہ جب بڑے اور باشعور ہوجائیں تو ان کے دلوں میں خدا کا خوف جاگزیں ہوچکا ہو، اور وہ اپنے رب کی عبادت اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا ذوق و شوق دل میں رکھتے ہوں۔ اِسی بنا پر آں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کا یہ مشہور ارشادِ مبارک ہے کہ:

مُرُوْا اَوْلَادَکُمْ بِـالصَّلَاۃِ وَھُمْ اَبْنَاءُ سَبْعِ سَنِیْنَ ، وَاَضْرِبُوْھُمْ عَلَیْھَا وَھُمْ اَبْنَاءُ عَشْرٍ وَفَرِّقُوْا بَیْنَھُمْ فِی الْمَضَاجِعِ (سنن ابی داؤد، کتاب الصلاۃ، حدیث:۴۲۳) اپنے بچوں کو نماز پڑھنے کا حکم دو، جب کہ وہ سات سال کے ہوجائیں، اور نماز کی خاطر انھیں مارو جب وہ دس سال کے ہوجائیں اور اس عمر میں ان کے بستر بھی الگ الگ کر دو۔

باپ اگر اپنے بچے کی اس طرح تربیت کرتا ہے کہ بچے کے اندر اللہ کی خشیت اور اطاعت کا جذبہ پیدا ہوجاتاہے اور وہ صالح زندگی سے ہمکنار ہوجاتا ہے تو باپ کی یہ نیکی اجروثواب کے لحاظ سے دائمی نیکی بن جاتی ہے۔ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دائمی نیکی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ:

اِذَا مَاتَ الْاِنْسَانُ اِنْقَطَعَ عَمَلُہٗ اِلَّا  مِنْ ثَلَاثٍ  : صَدَقَۃٍ جَارِیَۃٍ اَوْ عِلْمٍ یُنْتَفَعُ بِہٖ اَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ یَدْعُوْ لَہٗ  (صحیح ابن خزیمۃ، کتاب الزکوٰۃ، حدیث: ۲۳۲۳) جب انسان مر جاتا ہے تو اُس کے اعمال کا سلسلہ منقطع ہوجاتا ہے مگر اُس کے تین عمل باقی رہتے ہیں: صدقۂ جاریہ ، یا وہ علم جس سے استفادہ کیا جارہا ہو،یا نیک اولاد جو اُس کے حق میں دُعا کرتی ہو۔

جوانی کے زمانے میں جو لڑکے اچھے کام کرتے ہیں اور جن انسانی خوبیوں سے اپنی جوانی کو آراستہ کرتے ہیں دنیا کے اندر بھی وہ اُن کے اچھے نتائج سے بہرہ مند ہوتے ہیں۔ جوانی کے زمانے میں جو نوجوان جیسا رویہ اختیار کرے گا، پیری میں اس کے ساتھ وہی برتائو دوسرے کریں گے ۔ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

مَا اَکْرَمَ شَابٌ  شَیْخًا  لِسِنِّہٖ  اِلَّا  قَیَّضَ اللہُ لَہٗ مَنْ یُکْرِمُہٗ عِنْدَ سِنِّہٖ (ترمذی،کتاب الذبائح، ابواب الـبّر والصّلۃ، حدیث: ۱۹۹۵) جو نوجوان کسی بوڑھے کی اُس کے بڑھاپے کی وجہ سے عزت کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اُس نوجوان کے لیے بھی کسی کو مقرر کر دیتا ہے جو اُس کی اُس وقت عزت کرے گا جب وہ سن رسیدہ ہوجائے گا۔

سب سے اہم بات جسے اسلام کم عمری کے اندر بچوں میں پیدا کرنے پر زور دیتا ہے وہ راست گوئی ہے۔ یہ بڑی ناگزیر بات ہے کہ بچے سچ بولنے کی تربیت پائیں، اور اپنے گھر کے اندر، خاندان کے اندر اور دوستوںکے اندر راست گوئی کا چرچا دیکھیں۔اس بارے میں اگر بچے اپنے سامنے اچھا نمونہ نہ پائیں گے تو راست گوئی کے عادی نہ بن سکیں گے۔ حضرت عبداللہ بن عامرؓ بیان کرتے ہیں کہ ’’ایک روز میری ماں نے مجھے بلایا۔ اُس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی پاس تشریف فرما تھے۔ میری ماں نے مجھے کہا: آئو تجھے کچھ دوں گی۔ رسولؐ اللہ نے یہ سن کر دریافت فرمایا: تم اُسے کیا دینا چاہتی ہو؟ میری ماں نے جواب دیا کہ میں اُسے کھجور دینا چاہتی ہوں۔ آپؐ نے فرمایا: اگر تم اُسے یونہی بہلانا چاہتیں اور کچھ نہ دیتیں تو تمھارے اُوپر ایک جھوٹ کا گناہ لکھ دیا جاتا‘‘ (ابوداؤد)۔ حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: أکْرِمُوْا اَوْلَادَکُمْ وَاَحْسِنُوْا اَدَبَھُمْ (ابن ماجہ، کتاب الادب، باب بّرالوالد، حدیث: ۳۶۶۹) ’’اپنی اولاد کی تکریم کرو اور انھیں اچھا ادب سکھائو‘‘۔

اولاد سے محبت اور رحم دلی عین تقاضاے اسلام ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ تربیت و تادیب اور محبت و رحم دلی کے دونوں پہلو متوازن رہیں۔ ترغیب و ترہیب اور محبت و تادیب دونوں کے اثرات الگ الگ ہوتے ہیں اور متوازن اور صحت مندانہ تربیت کے لیے دونوں پہلوئوں کو اختیار کرنا ضروری ہے۔

حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسنؓ کو بوسہ دیا۔ حضرت اقرع بن حابسؓ نے یہ دیکھ کر کہا: میرے دس بچے ہیں مگر میں نے اُن میں سے کسی کو آج تک بوسہ نہیں دیا۔ آں حضوؐر نے فرمایا: مَنْ لَّا یَرْحَمُ لَا یُرْحَمْ (بخاری، کتاب الادب، حدیث:۵۶۵۸)’’جو رحم نہیں کرتا اُس پر رحم نہیں کیا جاتا‘‘۔

بچوں کے اندر جرأت و شجاعت اور مردانگی کی رُوح پھونکنی چاہیے اور جھوٹے قصے کہانیوں اور خرافات سے اُن کے ذہن مسموم نہ کیے جائیں اور نہ انھیں ایسی داستانیں پڑھنے کا موقع دیا جائے جو انھیں زندگی سے متنفر کردیں۔ اُوپر آں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بیان کیا جاچکا ہے کہ ’’بچوں پر پوری توجہ رکھنی چاہیے‘‘۔ لہٰذا، انھیں نوکروں چاکروں اور تربیت بچگان کے اداروں کے سپرد کر نے پر اکتفا نہ کیا جائے۔ بچے اکثر بُرائیاں نوکروں چاکروں سے سیکھتے ہیں اور بسااوقات یہ صورتِ حال اندوہناک حادثات پر منتج ہوجاتی ہے۔

بچیوں کے بارے میں آقاے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصی تعلیمات ملتی ہیں۔ ایک بچی کی صحیح تربیت سے ایک پاکیزہ خاندان کی داغ بیل پڑتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:

مَا مِنْ رَجُلٍ تُدْرِکُ لَہٗ  ابْنَتَانِ  ، فَیُحْسِنُ  اِلَیْھِمَا  مَا صَحِبَتَاہُ  اِلَّا اَدْخَلَتَاہُ الْجَنَّۃَ (ابن ماجہ، کتاب الادب، باب بّرالوالد، حدیث: ۳۶۶۸)  جس شخص کی دوبچیاں ہوں اور جب تک وہ اُس کے پاس رہیں اُن سے حُسنِ سلوک کرتا رہے تو وہ اسے جنّت میں داخل کرا دیں گی۔ (دوسری روایت میں ہے کہ) دو بچیاں ہوں یا دوبہنیں۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ: ایک مسکین عورت اپنی دو بچیوں کو ساتھ لیے میرے پاس آئی۔ میں نے اُسے تین کھجوریں دیں۔ اُس نے دونوں کو ایک ایک کھجور دے دی اور ایک کھجور اپنے منہ میں ڈالنے لگی تو بچیوں نے وہ بھی اس سے مانگ لی۔ اُس نے کھجور کے دو حصے کیے اور آدھی آدھی دونوں کو دے دی اور خود نہ کھائی۔ مجھے عورت کی یہ خصلت بہت پسند آئی۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا۔ آپؐ نے فرمایا: اِنَّ اللہَ قَدْ اَوْجَبَ لَھَا بِھَا الْجَنَّۃَ اَوْ اَعْتَقَھَا بِھَا مِنَ النَّارِ (البیہقی، شعب الایمان، حدیث: ۱۰۵۴۷) ’’اس ایک کھجور کی بدولت اللہ تعالیٰ نے اُس عورت کے لیے جنت لازم کر دی یا اُسے دوزخ سے رہائی دے دی‘‘۔

والدین کو اولاد کے ساتھ مساوی سلوک کرنا چاہیے۔ لڑکوں کے ساتھ لڑکیوں کے حقوق بھی پورے کرنے چاہییں ۔ وراثت میں لڑکیوں کو وہ حصہ دیا جائے جو اسلام نے ان کے لیے مقرر کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ : یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ فِیْٓ اَوْلَادِکُمْ ق لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ ج   (النساء۴:۱۱) ’’اولاد کے بارے میں اللہ تمھیں نصیحت کرتا ہے۔ مرد کا حصہ دوعورتوں کے حصے کے برابر ہے‘‘۔

عام معاملات میں اولاد کے ساتھ مساوی سلوک کی جو تاکید اسلام کرتا ہے اس کی ایک مثال یہ ہے : حضرت نعمان بن بشیرؓ روایت کرتے ہیں کہ میرے والد بشیر نے مجھے اپنے مال میں سے کچھ عطیہ دیا ۔ میری ماں عمرۃ بنت رواحہ کہنے لگیں: ’’ میں اس عطیے پر اس وقت تک راضی نہ ہوں گی جب تک آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ نہ کر لیا جائے ‘‘۔ میرے والد نے آپ ؐ سے درخواست کی۔ آپ ؐ اس عطیے کے گواہ رہیں۔ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا : ’’ کیا نعمان کے اور بھی بھائی ہیں؟ ‘‘ میرے والد نے جواب دیا: ہاں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : ’’کیاان میں سے ہر ایک کو اتنا عطیہ دیا ہے؟ ‘‘ میرے والد نے نفی میں جواب دیا۔ اس پر رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’پھر یہ بات درست نہیں ہے۔ اس عطیے کو واپس لو۔ میں صرف حق بات کا گواہ بن سکتا ہوں۔ مجھے ظلم پر گواہ مت بنائو ۔ میرے سوا کسی اور سے ایسی گواہی لو،   اللہ سے ڈرو، اور اپنی اولاد کے ساتھ عدل کرو۔ تیری اولاد کا یہ تجھ پر حق ہے کہ تو ان کے مابین عدل وانصاف سے کام لے۔ جیسا کہ ان کا فرض ہے کہ وہ تیرے ساتھ مساوی حسنِ سلوک کریں۔ کیا تجھے یہ بات پسند ہے کہ وہ تیرے ساتھ مساوی حسنِ سلوک کریں‘‘؟ اس نے جواب دیا : ’’بے شک‘‘۔ آپ ؐ نے فرمایا : ’’ تو پھر عطیات میں نا انصافی نہیں چل سکتی ‘‘۔ آپ ؐ نے حکم دیا کہ یہ عطیہ واپس لیا جائے (بخاری اور دوسری احادیث میں یہ روایت الفاظ کے اختلاف کے ساتھ مروی ہے)۔

دوسری طرف اسلام اولاد کو بھی یہ تعلیم دیتا ہے کہ والدین سے حُسنِ سلوک کریں اور ان کے مرتبے اور مقام کا لحاظ کریں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

وَ قَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِیَّاہُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا ط اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَکَ الْکِبَرَ اَحَدُھُمَآ اَوْ کِلٰھُمَا فَلَا تَقُلْ لَّھُمَآ اُفٍّ وَّ لَا تَنْھَرْ ھُمَا وَ قُلْ لَّھُمَا قَوْلًا کَرِیْمًا O وَاخْفِضْ لَھُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَۃِ وَ قُلْ رَّبِّ ارْحَمْھُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًاO (بنی اسرائیل ۱۷:۲۳-۲۴) تیرے رب نے فیصلہ کر دیا ہے کہ  تم لوگ کسی کی عبادت نہ کرو مگر صرف اس کی۔ والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو۔   اگر تمھارے پاس ان میں سے کوئی ایک، یا دونوں، بوڑھے ہو کر رہیں تو انھیں اُف تک نہ کہو۔ نہ انھیں جھڑک کر جواب دو، بلکہ ان سے احترام کے ساتھ بات کرو اور نرمی   اور رحم کے ساتھ ان کے سامنے جھک کر رہو اور دعا کرو کہ پرور دگار اُن پر رحم فرما   جس طرح انھوں نے رحمت وشفقت کے ساتھ مجھے بچپن میں پالا تھا۔

ماں چوںکہ بچے کی پیدایش اور تربیت میں نسبتاً زیادہ تکالیف اُٹھاتی ہے اس لیے    آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ماں کی خدمت اور دیکھ بھال کی زیادہ تاکید فرمائی ہے۔ یہ روایت سب لوگ جانتے ہیں کہ اَلْجَنَّۃُ تَحْتَ اَقْدَامِ الْاُمَّھَاتِ  (مسندالشہاب القضاعی ، حدیث: ۱۱۳)  ’’جنت ماں کے پائوں کے نیچے ہے‘‘۔

حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا۔ اور اس نے سوال کیا کہ یا رسولؐ اللہ! (اے اللہ کے رسولؐ ، میری حُسنِ معاشرت کا کون انسان سب سے زیادہ مستحق ہے ؟۔ آپ ؐ نے فرمایا : ’’تیری ماں ۔ اس نے دریافت کیا : پھر ؟ آپ ؐ نے فرمایا : ’ تیری ماں‘ ۔ اس نے پوچھا : پھر ؟ آپ ؐ نے فرمایا: ’تیری ماں‘۔ چوتھی مرتبہ اس نے یہی سوال کیا تو آپ ؐ نے فرمایا: ’تیرا باپ ‘۔

آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشا د ہے کہ ’’خاک آلود ہو اس کی ناک ، خاک آلود ہو اس کی ناک، خاک آلود ہو اس کی ناک جس نے اپنے والدین کو یادونوں میں سے کسی کو بڑھاپے میں پایا اور پھر وہ جنت میں داخل نہ ہو‘‘۔

ایک شخص آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ ؐ سے جہاد میں شرکت کی اجازت مانگی ۔ آپ ؐ نے فرمایا : ’’کیا تمھارے والدین موجود ہیں ؟‘‘ اس نے کہا : جی ہاں۔ آپ ؐ فرمایا: ’’انھی کی خدمت میں رہ کر جہاد کرو ‘‘۔

ایک اور آدمی نے آپ ؐ سے عرض کیا : کیا والدین کی موت کے بعد بھی کوئی نیکی ہے جو  ان کے حق میں کر سکتا ہوں ؟ آپ ؐ نے فرمایا : ’’ ہاں، ان کے حق میں دعا کرنا ، ان کے لیے اللہ سے مغفرت طلب کرنا، اور ان کے بعد ان سے کیے ہوئے عہد کو نافذ کرنا ، اور ان کے ذریعے جو   صلہ رحمی کی جاتی تھی وہ صلہ رحمی کرنا، اور ان کے دوستوں کی عزت افزائی کرنا‘‘۔

موجودہ دور میں بیٹے اپنے والدین کے ساتھ حسنِ سلوک اور وسعتِ ظرف سے پیش نہیں آتے ہیں تو اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ والدین اپنی اولاد کی صحیح تعلیم وتربیت نہیں کرتے۔ چنانچہ  ان کے درمیان روحانی اقدار کے بجاے مادّی اقدار کا غلبہ ہو جاتا ہے۔ اور بیٹے کے لیے دولت دنیا اس قدر عزیز ہو جاتی ہے کہ وہ بسا اوقات والدین کے حقوق پامال کر جاتا ہے ،مگر اس سلسلے آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم بالکل مختلف ہے۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ ایک شخص آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور اپنے والد کے بارے میں آ کر جھگڑا کرنے لگا کہ میرے والد کے ذمے میرا قرض ہے مگر وہ اس کو ادا نہیں کر رہا ہے۔ آپ ؐ نے اسے نصیحت فرمائی: اَنْتَ وَمَا لُکَ لِاَ بِیْکَ  (ابن ماجۃ، کتاب التجارات، حدیث: ۲۲۸۸)’’تو اور تیرا مال دونوں تیرے باپ کی مِلک ہیں‘‘۔

اس نصیحت میں آپ ؐ نے اس آدمی کو فوراً اس کا یہ مقام یاد دلا دیا کہ تو جس انسان کے بارے میں قرض نہ دینے کی شکایت کر رہا ہے وہ عام انسان نہیں ہے۔ وہ تیرا باپ ہے۔ اس نے تمھیں پالا پوسا اور تمھیں اس قابل بنایا کہ زندگی کے کار زار میں اپنے لیے راستے ہموار کرو۔ اس لیے تمھارا مال جس کی ملکیت کا تم دعویٰ کر رہے ہو بالواسطہ تمھارے باپ کی ملکیت ہے۔  تم اپنے باپ کا ایک جزو ہو اور بالتبع تمھاری ہر چیز تمھارے باپ کے زیر تصرف ہے۔

ایک اور روایت کے اندر آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید واضح فرمایا کہ اولاد کو اپنے والدین کے بارے میں کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے ؟ ابو داو اور ابن ماجہ میں مروی ہے کہ ایک آدمی آں حضوؐر سے آ کر کہنے لگا : میرے پاس کچھ مال ہے اور میرا باپ میرے مال کا بڑا حاجت مند ہے ۔ میں کیا کروں؟ آپ ؐ نے فرمایا : اَنْتَ وَمَالُکَ لِوَالِدِکَ  (تو اور تیرا مال دونوں والد کے لیے ہو ) ۔ آپ ؐ نے اسے یہ تلقین کرنے کے بعد والدین کو اس امر کی طرف توجہ دلائی کہ : اِنَّ اَوْلَادَکُمْ مِنْ اَطْیَبِ کَسْبِکُمْ  فَکُلُوْ ا مِنْ کَسْبِ اَوْلَادِ کُمْ (ابوداؤد، کتاب البیوع، حدیث: ۳۰۸۰) ’’تمھاری اولاد تمھاری بہترین کمائی ہے۔ تم اپنی اولاد کی کمائی میں سے کھائو ‘‘۔ 

یہ تو عام معاملات اور لین دین کی بات تھی ۔ لیکن جس طرح باپ پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ اولاد کی صحیح تربیت کرے ، اسے دین کا رسیا اور اخلاق کا کھرا انسان بنائے، اسی طرح بالغ اور باشعور اولاد پر بھی یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ اگر اس کے والدین دین میں کمزور ہوں تو وہ انھیں دین کا پابند ہونے کی نصیحت کرے۔ اور خوش اسلوبی اور نرم گفتاری سے انھیں دین کی طرف راغب کرے، اور دین کا کام کرنے والوں سے انھیں تعاون کا مشورہ دے۔ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چچا ابو طالب کو آخر وقت تک ایمان کی دعوت دیتے رہے۔

وہ گھرانا بڑا خوش قسمت اور گہوارۂ سعادت ہوتا ہے جہاںوالدین بھی دین کے پابند ہوں اور اولاد بھی ان کے نقشِ قدم پر چل رہی ہو۔ لیکن اگر دونوں میں اختلاف ہو تو زندگی گھریلو سکون سے نا آشنا ہو جاتی ہے۔ اگر والدین دین کی اتباع نہ کریں تو پھر اولاد کا طریقہ یہ ہونا چاہیے کہ دنیا کے معاملات میں اولاد معروف طریقے سے والدین کا ساتھ دیتی رہے، مگر ان کی کسی ایسی بات کو قبول کرنے سے صاف معذرت کر دے جو خدا اور رسول ؐ کے احکام کے خلاف اور دین کے بنیادی تقاضوں کے منافی ہو                  

معاشرے کی حقیقی ترقی، عورت کی توقیر اور خوش حالی کے بغیرممکن نہیں ہے، مگر اس حقیقت کے باوجود افسوس کا مقام ہے کہ دنیا بھر میں عورت آج بھی اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کرتی نظر آتی ہے۔ عورتوں کے حقوق کے حوالے سے فی الوقت کوئی ملک بھی رول ماڈ ل نہیں حالاں کہ دنیا کے سامنے آنے والے تمام چارٹرز میں یہ فضیلت اسلام ہی کو حاصل ہے کہ اس نے عورت کو جو مقام و مرتبہ عطا کیا ہے، وہ آج کا کوئی اجتماعی نظام نہیں دے سکا۔ تاہم، اس کے باوجود یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے کہ پاکستان کے اسلامی جمہوریہ ہونے کے باوجود یہاں پر بھی عورت اپنے بنیادی اسلامی و سماجی حقوق سے محروم ہے۔ مسائل و مشکلات کی اس دلدل سے اس کو باہر نکالنا یقینی طورپر ایک قومی ذمہ داری ہے، مگر عورت کے بہت سے مسائل اور مصائب ایسے ہیں، جن کا تعلق خود عورت ہی سے ہے، اور وہ اس کے پیدا کردہ ہیں۔ ایسے بے شمار مسائل کا تعلق معاشرے کے مردوں سے نہیں بلکہ خود خواتین ہی سے ہے۔ لہٰذا، اس کی اصلاح تو بہرحال خود عورت ہی کو  کرنی ہے ۔ اور اسے اس دعوے کی تردید کرنی ہے کہ عورت، عورت کی سب سے بڑی دشمن ہے۔ آیئے دیکھتے ہیں کہ حقیقت کیا ہے اور اس کا حل کیا ہے؟

عورت سے عورت کی پر خاش کا یہ مسئلہ ہمیں صرف اداروں، تنظیموںمیں ہی نہیں بلکہ گھروں اور خاندانوں میںبھی کثرت سے نظر آتا ہے۔عورت معاشرے کی عمارت کا کلیدی پتھر ہے اور یہ ایک حقیقت ہے کہ عورت ہر حیثیت میںخواہ ماں بہن، بیوی، بیٹی، کارمند یا ملازم (employ) یا آجر اور کارفرما (employer )، ساتھی، ہر حیثیت میں اس کا کردار بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ جہاں اس معاشرے میں اس کے اس مؤثر کردار کی ادایگی میں بے شمار رکاوٹیں حائل ہیں، وہاں اس کے اتحاد کے پارہ پارہ ہونے کا نتیجہ بھی اس کو بہت پیچھے دھکیل دینے کا سبب ہے۔ اکثر خواتین مختلف اداروں میں، خاندانوں میں اپنا بیش تر وقت اس باہمی رقابت ، رسہ کشی اور کھینچا تانی میں ضائع کر دیتی ہیں۔ تعمیری کاموں کے بجاے تخریبی سرگرمیوں میں لگا دیتی ہیں۔

ایک تحقیق کے مطابق ۹۵ فی صد خواتین روایتی ’شہد کی ملکہ مکھی کا نشانہ‘ (کوئین بی سنڈروم) بنتی ہیں، یعنی افسر خواتین اپنی نوجوان خواتین کارکنان ہی سے عدم تحفظ (Insecurity) محسوس کرتی ہیں۔پروفیسر ہیری کوپر نے اس حوالے سے کہا کہ اس ’نشانۂ اجتماعی‘ (سنڈروم) کی وجہ سے وہ اپنے جونئیرز کی سرپرستی نہیں کر سکتیں۔ایک تحقیق نے یہ بھی بتایا ہے کہ جو عورتیںمردانہ برتری کے ماحول میں جدوجہد کرتے ہوئے ترقی کرتی ہیں، وہ اپنی ماتحت نوجوان خواتین کے لیے ’شہدکی ملکہ مکھی کے عتاب‘ کا شکار ہوتی ہیں۔ اپنی جونئیرز کے لیے ان کے اندر ہمدردی کا جذبہ کم ہوتا ہے۔ ان کا کہنا ہوتا ہے کہ جب ہم اتنی مشکلیں اٹھا کر کام کر سکتے ہیں تو یہ کیوں نہیں کر سکتیں۔ (دراصل وہ اپنے ماضی کے حالات کا بدلہ اپنی جونئیرز سے لیتی ہیں، اور بسا اوقات یہ صورتِ حال بالکل اسی طرح ساس بہو یا دیوارنی اور جیٹھانی کے معاملے میں بھی نظر آتی ہے۔)

معروف ادیبہ کیلی ویلن نے The Twisted Sisterhood: Unraveling the Dark Legacy of Female Friendships نامی ایک دل چسپ کتاب لکھی ہے، جس میں وہ تینہزار سے زائد عورتوں سے کیے گئے ایک سروے کے بارے میں بتاتی ہے کہ:’’۹۰ فی صد سے زائد خواتین میں دوسری خواتین کے بارے میں منفی جذبات پائے گئے ہیں‘‘۔کیلی ویلن مزید بتاتی ہیں کہ: ’’۵۰سوالات پر مشتمل ایک سروے میں ۸۵ فی صد عورتوں نے کہا کہ ہم نے اپنی زندگی میں دوسری عورتوں ہی کے ہاتھو ںبہت سی مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا کیا ہے‘‘۔

گیٹ ہاپکن کی تحقیق یہ ہے کہ اکثر سینئر خواتین میں یہ خوف پایا جاتا ہے کہ وہ وقت کے ساتھ ساتھ غیر اہم ہو جائیں گی۔ شاید یہی خوف ان کے منفی رویے کی وجہ ہوتا ہے۔ہرچند کہ اس نوع کے مسائل مردوں کے درمیان بھی پائے جاتے ہیں، لیکن یہ خواتین میں بہت زیادہ موجود ہیں۔

کچھ نہ کچھ منفی جذبات انسانی نفسیات کا حصہ ہیںاور بنیادی طور پر انسانی سرشت میں پائے جاتے ہیں۔ بعض جذبات و خصوصیات صنفی (Gender) بنیاد پہ بھی کم یا زیادہ ہوسکتی ہیں،  مگر ان کو تراش خراش کر درست سمت دینے اور شر کو خیر کے رخ پہ موڑنے کا کام گھر،مذہب ، معاشرتی اقدار اور نظام تعلیم و تربیت کرتا ہے۔ بدقسمتی سے آج کے معاشرے میںجیسے جیسے مادیت پرستی کے رجحانات میں اضافہ ہورہا ہے، ویسے ویسے اخلاقی بلندی اور اعلیٰ ظرفی کا دامن بھی ہاتھ سے چھوٹاجارہا ہے اور افراد اور معاشرے سے وہ اخلاقی صفات ختم ہوتی جارہی ہیں۔

  • اس اخلاقی زوال کی بنیادی وجہ تو ہمارے نظام تعلیم سے تربیت کے عنصر کا خاتمہ ہے،  جس کا مرکزِ نگاہ اب سیرت سازی کے بجاے صرف پیسہ کمانا رہ گیاہے اور اس نے معاشرے کے ہر طبقے کو متاثر کیا ہے اور مرد و عورت سبھی اس کا شکار ہیں۔ چوں کہ بد قسمتی سے عورت کے لیے    نہ صرف آگے بڑھنے کے مواقعے نسبتاً کم ہوتے ہیں، بلکہ اس کے کام کو مطلوبہ پذیرائی بھی نہیں ملتی، شاید ان میں اس لیے عدم تحفظ کا جذ بہ زیادہ نظر آتا ہے۔ عورت سے عورت کی اس انہدامی فطرت کی وجہ یہ ہے کہ شاید ہماری نظروں سے بہت سے حقائق اوجھل ہو جاتے ہیں۔ مثلاً جو گروہ اندر سے کمزور ہو، وہ بیرونی طاقت سے کیوں کر مقابلہ کر سکتا ہے۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ عام طور پر گھروں کے اندر پائی جانے والی کشیدگی گھر کی عورتوں کی وجہ سے ہی ہوتی ہے۔ گھریلو سیاست میں قیادت کی باگ ڈور انھی کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ بلاشبہہ اداروں اور تنظیموں میں پیشہ ورانہ سیاست تو مردوں کے درمیان بھی بہت ہوتی ہے لیکن عموماً خواتین کے درمیان یہ چپقلش اور پیشہ ورانہ حسدکاری (professional jealousy)اتنی زیادہ پائی جاتی ہے کہ بسااوقات وہاں کا نظام ہی چلانا مشکل ہوجاتا ہے۔

نہایت افسوس کے ساتھ اس بات کا اقرار کرنے میں کوئی تردد نہیں ہونا چاہیے کہ ا خلاقی بہتری کے لیے تربیت کا جو کام ہمارے نظام تعلیم کوکرناچاہیے تھا، وہ اس نے تونہیں کیا، مگر سچی بات ہے کہ ہماری مساجد بھی وہ کردار ادا نہ کرسکیں جو کبھی ہمارا ورثہ تھا، حتیٰ کہ گھروں سے بھی اخلاقی بلندی کاورثہ اس طرح منتقل نہیں ہوسکا، جس طرح ہونا چاہیے تھا، جب کہ اس اخلاقی بلندی کا درس ہمیں صرف اسلام ہی نہیں دیگر الہامی مذاہب بھی دیتے ہیں۔

اسلامی اخلاقیات تو انسانی رویوں کے ہر پہلو کا احاطہ کرتی ہیں اور مسلمان ہونے کے ناطے تو ہمیںان الہامی تعلیمات پر یقین ہونا چاہیے، جو اس بارے میں ہمارا دین ہمیں بتاتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کسی کو اس بات کا یقین ہو کہ روزی دینے والا صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی  ذاتِ بابرکات ہے اور اس نے یہ وعدہ کیا ہے کہ تم اگر مجھ پہ ایسا توکل کرو جیسا توکل کرنے کا حق ہے تو میں تم کو ایسے روزی دوں گا جیسے ہر پرندے کو دیتا ہوں، تو یہ ممکن نہیں کہ ہم کسی انسان سے  عدم تحفظ کا شکار ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے کہا ہے: تمھاری قسمت میںجو رزق لکھا جاچکاہے اسے کوئی روک نہیں سکتااور تمھاری عزت اور ذلت بھی میرے ہاتھ میں ہے توکیوں کرکسی سے خوف کھایاجائے؟ کیوں کسی کو دبا کر رکھنے میں اپنی شان اور عزت کی ضمانت سمجھاجائے؟اگر کسی کو یہ معلوم ہوکہ حسد نہ صرف دنیا ہی میں انسان کی جڑیں کاٹتاہے بلکہ یہ بھی جاننا چاہیے کہ یہ آخرت میں بھی اُسے کنگلا کردے گا،تو وہ اس جذبے کو اپنے قریب بھی نہ پھٹکنے دے گا۔

  • اگر ہم نے کبھی اپنے بڑوں سے اور اپنے سینئرز سے یا اپنے نگرانوں کے ہاتھوں کبھی کوئی مشکل وقت برداشت کیا ہے، تو اس میں ہمارے بے چارے جونیئرز کا کوئی قصور نہیں ہے کہ ہم ان کا بدلہ اپنے جونیئرز سے لیں، یا اگر کسی نے اپنی ساس یا شوہر کی زیادتی برداشت کی ہے، تو اس میں  ان کے گھرآنے والی بہو کا تو کوئی قصور نہیں کہ اس تلخی کا حساب اس سے برابر کیا جائے۔ ایسا غیرمنصفانہ قدم اُٹھانے سے سواے ماحول خراب ہونے اور کشیدگی میں اضافہ کرنے کے کچھ حاصل نہیں ہوگا، جب کہ اس کے برعکس رویہ اختیار کرکے ہم نہ صرف اپنے ساتھیوں سے عزت و احترام پائیں گے، بلکہ خود ذہنی طور پہ آسودہ ہوں گے۔ نتیجہ یہ نکلے گا کہ ہمارے گھروں اور دفاترکا ماحول بھی خوش گوار ہو گا۔ ایسے ماحول میں پروان چڑھنے والے افراد ہی معاشرے کی تعمیر کا ذریعہ بن سکتے ہیں،کیوںکہ کسی بھی طرح کا انتشار، خواہ فکری ہو یا عملی، ہمیشہ اداروں، تنظیموں، خاندانوں حتیٰ کہ افراد کو آگے بڑھنے سے روکتا ہے اور ترقی میں سدِّ راہ بن جاتا ہے۔
  • عموماً دیکھا گیا ہے کہ اگر لوگ کسی سے عدم تحفظ کا شکار ہوتے ہیں تو اس کی خامیوں کودوسروں کے سامنے نمایاں کرکے اس کی پوزیشن خراب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔حالاںکہ رسولِ کریم ؐنے فرمایا کہ:’’ جو لوگ اپنے مسلمان بھائی کے عیب کے پیچھے پڑیں گے تو اللہ ان کے عیب کے پیچھے پڑ جائے گا اور جس شخص کے پیچھے اللہ پڑ جائے گا اسے رسوا کر ڈالے گا۔ اگرچہ وہ اپنے گھرکے اندر ہو‘‘ (ترمذی)۔ یہ بات ذہن میں ہو تو وہ کیسے دوسروں کی عیب جوئی کرسکتا ہے؟
  • ہم اگر کسی کو کچھ سکھا دیں گے یا بتا دیں گے تو ہمارا علم ہرگز کم نہیں ہوگا،بلکہ اس میں اضافہ ہوگا۔اس سے سکھانے والے کے رُتبے میں کمی نہیں آتی، بلکہ اضافہ ہی ہوتا ہے۔ اگر ہم کسی کے لیے آسانی پیدا کریںگے تو ہماری ہی عزت میں اضافہ ہوگا اور اس سے معاشرے میں خیرپھیلے گا۔ ایسا رویہ اختیار کر کے’ شہد کی ملکہ مکھی کے عتاب‘ کی سی فطرت سے نجات ملے گی۔
  • اسی طرح اپنے سے زیادہ عمر، رُتبے اور علم والوں کو عزت دینے سے ہم چھوٹے نہیں ہوجاتے بلکہ ہماری عزت میں اضافہ ہوتا ہے۔ اگر ہم کسی سے کچھ سیکھتے ہیں یا سیکھ سکتے ہیں تو اس کو تسلیم( acknowledge )کرنے سے ہماری بڑائی میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس سے گھروں اور اداروں کا ماحول بھی بہتر ہوتا ہے، جو کہ نہ صرف مجموعی طور پرگھر ،اداروں اور معاشرے کے لیے بہتر ہے بلکہ خود عورت کے اپنے لیے بھی بہت اچھا ہے اور اس کا وقت اس غیر تعمیری سی اندرونی سیاست میں ضائع ہونے کے بجاے تعمیری کاموں میں صرف ہوتا ہے۔ تخلیقی صلاحیتیں پروان چڑھتی ہیںاور گھروںاور اداروں میں پُرسکون ماحول و ذہنی آسودگی میسرہوتی ہے۔

متذکرہ بالا اخلاقی خوبیوںکے علاوہ بھی بہت سے محاسن اخلاق ہمیں مذہبی تعلیمات اور تاریخی حوالوںمیں ملتے ہیں، جو اگرچہ مردوں اور عورتوں کے لیے یکساں ضروری ہیں۔ لیکن    یہ بات  کہ عورت عورت کی دشمنی سے کیسے رُکے؟ تو اس کا طریقہ یہی ہے کہ ان اخلاقیات کو اپنانے کی کوشش کی جائے اور اپنے اس یقین کو بڑھایا جائے کہ سب کچھ دینے والا اللہ ہے اور اس   چھوٹی سی زندگی میں ہم جو بوئیں گے، وہ نہ صرف ہم آخرت میں کاٹیں گے بلکہ دنیا میں بھی ہم اور ہماری آیندہ نسلیں اس فصل کو کاٹیں گی۔ دراصل عورت ہی وہ کردار ہے جو معاشرے اور نسلوں کو بنانے سنوارنے کا کام کرتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مردانہ برتری کے معاشرے میں دراصل مرد سے    عدم تحفظ کے باعث عورت کے بہت سے رویے جنم لیتے ہیں، مگرمعاشرے کا ہرمرد بھی کسی عورت کی گود ہی سے تربیت پاکر جوان ہواہوتاہے۔ماں کی گود کو بچے کا پہلا مدرسہ کہا جاتا ہے۔ نپولین نے بھی کہا تھا کہ:’’تم مجھے اچھی مائیں دو، تو میں تمھیں اچھی قوم دوںگا‘‘۔ اگر عورت ہی اخلاقی معیارسے گر جائے تو نہ صرف معاشرہ انتشار اورزوال کا شکارہوگا، بلکہ اعلیٰ اخلاقی صفات سے عاری نسلیں جنم لیں گی۔

عورت اپنے اس مقام کا ادراک کرتے ہوئے کم از کم اپنی ذات میں، جہاں جہاں وہ موجود ہے، اس ’عورت سے عورت کی دشمنی‘ جیسی بیماری کو ختم کرنے کا تہیہ کرے تو ہم دیکھیں گے کہ طبقۂ نسواں کے ۵۰ فی صد مسائل خود بخود حل ہو جائیں گے۔اگر خواتین اپنے اندر یہ ظرف پیدا کرلیں کہ ایک دوسرے کو اپنے مدمقابل کے طور پردیکھنے کے بجاے، ایک دوسرے کو اپنے مددگار کے طور پر دیکھیں،اور ایک دوسرے کے بارے میںشک میں پڑنے کے بجاے ایک دوسرے کو سہارا دیں،تو وہ ایک ناقابل شکست اکائی ہوں گی۔ اگر آج کی مائیںیہ عزم کرلیںاور یہ طے کرلیں کہ اپنی گود میں پرورش پانے والے ہربچے کو اپنی استعداد کے مطابق بنیادی اخلاقیات سکھانے میں پوری قوت لگادیں گی۔ پھر یہ کہ اپنے ہربیٹے کو عورت کی عزت اور اس کے حقوق کے تحفظ کی تعلیم دیں گی۔ ماں اپنے بیٹے کو بیوی کے حقوق کی ادایگی کا درس دے گی اور بیوی ماں کے حقوق کی یاددہانی کرائے گی۔ اسی طرح اداروں میں بھی اگر اپنی ذات سے اوپر ہوکر اپنی ساتھی کے لیے اخلاقی سہارا بننے کا سبق دیا جائے گا تو ہمارے گھر امن وسکون کا گہوارہ ہوں گے۔ دفاترمیں ذ ہنی تھکاوٹ کے بجاے خوشی اور سکون میسر ہوگا۔ عورت کی گود میں پرورش پانے والا ہربچہ آنے والی کل میں وہ فرد ثابت ہوگا جسے اپنے فرائض اور دو سروں کے حقوق کا بخوبی ادراک ہوگا۔ ہر مرد عورت کودبانے میںاپنی برتری سمجھنے کے بجاے اس کو عزت و احترام دینے، سہولت اورتحفظ دینے کو اپنابنیادی فریضہ سمجھے گا۔

اسلام کے پیش نظر جس معاشرے کی تشکیل ہے اس معاشرے میں مساجد کا رول کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ اسلامی معاشرہ مسجد سے گہری وابستگی رکھتا ہے اور اس کی طرف بار بار رجوع ہوتا ہے، رب سے اپنے تعلق کو مضبوط اور خوب مضبوط کرنے کے لیے بھی اور بندوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو درست اور مطلوبہ انداز میں جاری رکھنے کے لیے بھی۔اللہ رب العزت کی بارگاہ میں مساجد کے ساتھ مومنین کا یہ تعلق اور یہ وابستگی بہت ہی پسندیدہ اور مقبول ہوتی ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سات قسم کے لوگوں کو اپنے عرش کے سایے میں جگہ دے گا، جس دن عرشِ الٰہی کے سوا کوئی سایہ نہیں ہوگا، کوئی سہارا نہیں ہوگا۔ اس میں ایک وہ شخص ہوگا جس کا دل مساجد سے مستقل طور پر وابستہ رہتا ہے:

سَبْعَۃٌ یُظِلُّھُمُ اللہُ فِیْ ظِلِّہٖ یَوْمَ لَا ظِلَّ اِلَّا ظِلُّہٗ اِمَامٌ عَادِلٌ، وَشَابٌّ نَشَأَ فِیْ عِبَادَۃِ  اللہِ، وَرَجُلٌ قَلْبُہٗ مُعَلَّقٌ بِالْمَسَاجِدِ، وَ رَجُلَانِ تَحَابَّا فِی اللہِ؛ اِجْتَمَعَا عَلَیْہِ وَتَفَرَّقَا عَلَیْہِ، وَرَجُلٌ دَعَتْہُ امْرَأَۃٌ ذَاتُ مَنْصِبٍ وَجَمَالٍ، فَقَالَ اِنِّیْ اَخَافُ اللہِ ، وَرَجُلٌ تَصَدَّقَ بِصَدَقَۃٍ، فَاَخْفَاھَا حَتَّی لَا تَعْلَمَ شِمَالُہٗ مَاتُنْفِقُ یَمِیْنُہٗ،  وَرَجُلٌ ذَکَرَ اللہَ  خَالِیًا فَفَاضَتْ عَیْنَاہُ (بخاری، کتاب الاذان، حدیث۶۴۰)

قرآن مجید میں مساجد کی آبادکاری کو ایمان کے ساتھ مربوط کرکے پیش کیا گیا ہے:

مَا کَانَ لِلْمُشْرِکِیْنَ اَنْ یَّعْمُرُوْا مَسٰجِدَ اللّٰہِ شٰھِدِیْنَ عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ بِالْکُفْرِط اُولٰٓئِکَ حَبِطَتْ اَعْمَالُھُمْ ج   وَ فِی النَّارِھُمْ خٰلِدُوْنَ O اِنَّمَا یَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰہِ   مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ اَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَی الزَّکٰوۃَ وَ لَمْ یَخْشَ  اِلَّا اللّٰہَ فَعَسٰٓی اُولٰٓئِکَ اَنْ یَّکُوْنُوْا مِنَ الْمُھْتَدِیْنَ O (التوبہ ۹: ۱۷-۱۸) مشرکوں کو زیبا نہیں کہ اللہ کی مسجدوں کو آباد کریں ، جب کہ وہ اپنے آپ پر کفر کی گواہی دے رہے ہیں، ان لوگوں کے سب اعمال بیکار ہیں اور یہ ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے۔ اللہ کی مسجدوں کو تو وہ لوگ آباد کرتے ہیں جو اللہ پر اور روزِ قیامت پر ایمان لاتے اور  نماز پڑھتے اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے، یہی لوگ امید ہے کہ ہدایت یافتہ لوگوں میں (داخل) ہوں ۔

یہ خداے ذوالجلال کی جانب سے اُمت مسلمہ کے لیے ایک شان دار انتظام ہے، اپنے رب سے وابستگی کا، اپنے رب کی ہدایات سے وابستگی کا، اور اپنے جیسے دوسرے بندگانِ خدا سے وابستگی کا۔

ربِ کائنات کی جانب سے اس وابستگی کو یقینی بنانے کے لیے انتظام بھی خوب کیا گیا ہے، روزانہ پانچ وقت باجماعت نماز کے لیے لازمی حاضری کی صورت میں بھی اور ہفتہ میں جمعہ کے روز بڑے اجتماع میں لازمی شرکت کی صورت میں بھی۔

عہد نبویؐ میں مسجد کا کردار

پیغمبرآخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلامی معاشرے میں مساجد کی اہمیت اور معاشرے کی تشکیل میں مساجدکے غیرمعمولی رول کی بہت ہی شان دار اور بہت ہی عملی مثال قائم کی ہے۔   یہ مثال اللہ کے رسولؐ کی پوری زندگی میں اسی آب وتاب کے ساتھ قائم رہی، اور آپؐ کے بعد خلفاے راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور میں بھی اسی آب وتاب کے ساتھ جاری رہی۔ دورِ نبویؐ کی مساجد اور ان مساجد کی سرگرمیاں، بالخصوص مسجد نبویؐ کے سلسلے میں وارد روایتوں میں موجود تفصیلات، اسلامی معاشرے میں مساجد کے مطلوبہ رول سے متعلق بہترین رہنمائی پیش کرتی ہیں۔

  • مسجد نبویؐ میں پنج وقتہ نمازوں کے لیے پورا مسلم معاشرہ جمع ہوتا تھا، مرد بھی جمع ہوتے تھے، خواتین بھی جمع ہوتی تھیں اور بچے بھی جمع ہوتے تھے، اور مسجد میں سب کے لیے اُن کے مناسب حال صفیں متعین ہوتی تھیں۔
  • نمازوں کے بعد اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ جب بھی کسی اجتماعی رہنمائی کی ضرورت محسوس ہوتی آپؐ خطاب فرمایا کرتے تھے۔ اس وقت بھی پورا مسلم معاشرہ وہاں موجود ہوتا تھا، مرد بھی موجود ہوتے تھے اور خواتین بھی موجود ہوتی تھیں۔
  • جمعہ کے دن آپؐ کا معمول تھا کہ اس بڑے اجتماع کو مخاطب کرتے ہوئے ہفتہ بھر کے تناظر میں ضروری اور عملی قسم کی رہنمائی پیش فرماتے۔ اس وقت بھی پورا معاشرہ، مرد بھی اور خواتین بھی، مسجد میں موجود ہوتا۔ 
  • اس کے علاوہ آپؐ کا معمول تھا کہ مختلف اوقات میں مسجد میں ٹھیرتے، وہاں آپؐ کی مجلس لگتی، جہاں مردوخواتین سب کے لیے موقع ہوتا کہ وہ حسب ضرورت مختلف امور کے سلسلے میں آپؐ سے انفرادی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی رہنمائی حاصل کرسکیں۔ روایتوں میں آتا ہے کہ ایک بار خواتین نے مطالبہ کیا کہ بہت سے مسائل وہ ہیں جو اس طرح کی مجلسوں میں وہ نہیں پوچھ سکتی ہیں، لہٰذا ایک دن اُن کے لیے مختص کردیا جائے، جس میں وہ اپنے مخصوص مسائل کے سلسلے میں واضح رہنمائی حاصل کرسکیں۔ ان مجلسوں کے علاوہ بھی جب کبھی آپ ضرورت محسوس کرتے، مسجد میں جمع ہونے کا حکم دے دیتے اور سارا مدینہ آپؐ کو سننے کے لیے بے تابی کے ساتھ وہاں موجود ہوتا۔
  • مسجد نبویؐ میں منعقد مجالس محض تذکیری یا دینی مجالس ہی نہیں ہوتی تھیں، بلکہ ان مجالس میں کافی تنوع پایا جاتا تھا۔ کبھی شعروشاعری کی مجلس منعقد ہوتی اور شاعر رسول حضرت حسان بن ثابتؓ اور دیگر شعراے رسولؐ سامعین کو محظوظ کررہے ہوتے، اور کبھی کسی قسم کا مسابقہ منعقد ہوتا، جہاں شرکاے مسابقہ اپنے اپنے جوہر دکھارہے ہوتے اور وہاں موجود دیگر افرادبھی محظوظ ہورہے ہوتے۔ مشہور واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ کچھ حبشی اپنے مخصوص کھیل کھیل رہے تھے، اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا آپؐ کی اَوٹ میں کھڑی وہ کھیل دیکھ رہی تھیں۔
  • ’صفہ‘ مسجد نبویؐ کی سرگرمیوں کا ایک اہم ترین پارٹ تھا۔ یہ طالبانِ حق کے لیے بھی ایک شان دار ٹھکانہ تھا اور کمزور وپریشان حال افراد کے لیے بھی ایک بہترین ٹھکانہ تھا۔ دن میں یہاں تعلیمی سرگرمیاں جاری رہتی تھیں اور رات میں ضرورت مند افراد یہاں قیام کرتے تھے۔ صفہ سے متعلق اِن افراد کے کھانے پینے کا نظم معاشرے کی ذمہ رہتا تھا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں سے بھی اِن کے لیے کھانا آتااور آپؐ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے یہاں سے بھی۔
  • مسجد نبویؐ خدمت خلق کا مرکز بھی تھی۔کوئی مسافر، پریشان حال، مسکین، ضرورت مند آگیا تو اُس کو یہاں بہترین سہارا ملتا۔ مشہور واقعہ ہے کہ قبیلہ مضر کے لوگ آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے، جو کُرتوں سے بے نیاز ،کمبل یا عبالپیٹے ہوئے اور گلے میں تلوار لٹکائے ہوئے تھے۔ ان کی    یہ حالت دیکھ کر آپؐ کا چہرہ مبارک متغیر ہوگیا۔ آپؐ گھر کے اندر گئے اورپھر فوراً ہی باہر نکل آئے اور حضرت بلالؓ سے اذان دینے کے لیے کہا۔ حضرت بلالؓ نے اذان دی پھر اقامت کہی، آپؐنے نماز پڑھائی اور پھرحاضرین سے خطاب فرمایا۔ آپؐ نے سورۃالنساء کی پہلی آیت اور سورئہ حشر کی ۱۸ ویں آیت پڑھی اور اس کے بعد فرمایا: ’’ہر شخص اپنے دینار و درہم، کپڑے،   گندم اور جَو کی مقدار میں سے صدقہ و خیرات کرے‘‘۔ پھر فرمایا : ’’(خیرات کرو) چاہے کھجور کا ایک ٹکڑا ہی کیوں نہ ہو۔‘‘ لوگ آتے گئے اور کھانے کی چیزوں اور کپڑوں کے ڈھیر لگاتے چلے گئے، جسے دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ آفتاب کی طرح چمک اٹھا۔
  • مسجد نبویؐ اس کے علاوہ دوسری سماجی ضرورتوں کی تکمیل بھی کرتی تھی۔ وفود تشریف لاتے تو انھیں وہاں ٹھیرایا جاتا، رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم یہیں آکران سے ملاقاتیں کرتے اور ان کے سامنے اپنے مشن کا تعارف کراتے۔ یقینا یہ وفود مسلمان نہیں ہوتے تھے، بلکہ روایات میں صراحت کے ساتھ موجود ہے کہ آپؐ نے ایک بار نجران کے ایک بڑے عیسائی وفد کو مسجدنبویؐ میں ٹھیرایا۔ طائف کے مشرک وفد کو بھی آپؐ نے خاص اہتمام کے ساتھ مسجد میں قیام کرایا، اور  صحابہ کرامؓ کو اس بات کی ہدایت کی کہ ان کا قیام اس طرح ہونا چاہیے کہ تلاوت قرآن کی آواز  ان کے کانوں تک آسانی سے پہنچ سکے۔ اسی طرح آپؐ سے ملنے دُور دراز سے مہمان تشریف لاتے تو مسجد نبویؐ ہی میں ان کے قیام اور ان کی ضیافت کا نظم کیا جاتا۔

عہدحاضر کے تقاضے

یہ نبویؐ معاشرے میں مسجد نبویؐ کے غیرمعمولی رول کی چند اہم جھلکیاں ہیں، حالانکہ مسجد نبویؐ کا رول اس سے کہیں زیادہ اہم اور اس سے کہیں زیادہ وسیع اطراف وجوانب کا حامل ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ مسجد نبویؐ ایک آئینہ ہے جس کو سامنے رکھ کر دنیا بھر کی مساجد کا جائزہ لیا جانا چاہیے۔

فی الوقت صورتِ حال یہ ہے کہ اسلامی معاشرے کا یہ اہم ادارہ اپنے کردار سے بڑی حد تک محروم ہوگیا ہے۔ زمانے کی گرد اِس پر کچھ ایسی چڑھی کہ یہ اپنے کردار کی وسعت اور ہمہ گیری سے بھی محروم ہوگیا اور اپنی افادیت اور تاثیر سے بھی۔ دھیرے دھیرے اس سے وابستگی کا دائرہ بھی کافی محدود اور تنگ ہوتا چلا گیا۔

آج کے گئے گزرے حالات میں بھی بحیثیت مجموعی مسلم معاشرہ روحانی اور فکری طور پر مساجد سے بڑی حد تک وابستگی اور تعلق رکھتا ہے، اور یہاں سے اپنی زندگی میں پیش آنے والے مسائل اور مشکلات میں رہنمائی حاصل کرنے کے لیے ذہنی طور پر خود کو آمادہ محسوس کرتا ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ مساجد کو دوبارہ اسلامی تبدیلی کا بنیادی مرکز بنایا جائے۔ اس کی افادیت کو نہ تو پنج وقتہ نمازوں اور تاثیر سے محروم خطباتِ جمعہ تک محدود رکھا جائے، اور نہ  مکاتب اور حفظ وتجوید کی کلاسوں ہی تک محدود کردیا جائے۔

اسلامی تبدیلی کا بنیادی مرکز پہلے مرحلے میں کم از کم اس طور پر بنایا جائے کہ معاشرہ ہر ہر قدم پر یہاں سے دینی رہنمائی حاصل کرسکے، بالخصوص انسانی زندگی میں پیش آنے والے معاملات سے متعلق صحیح اور بروقت دینی رہنمائی کا یہاں بھرپور انتظام ہو، چاہے یہ معاملات عائلی زندگی سے متعلق ہوں، چاہے کاروباری زندگی سے متعلق ہوں، چاہے زندگی کے دوسرے کسی شعبے سے متعلق ہوں۔

اس کے لیے مسلم معاشرے کو دوبارہ اس مرکزسے وابستہ کرنا ہوگا۔ اس سے وابستگی کے دائرے کو اسی طرح وسیع کرنا ہوگا جس طرح یہ عہد نبویؐ میں تھا۔ مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کو بھی اس سے وابستہ کرنا ہوگا تاکہ وہ اپنی شخصیت کی تزئین اور اپنے گھر کی تعمیر ربانی ہدایات سے واقفیت کی بنیاد پر اور ان کے مطابق کریں۔ بچوں کو بھی اس سے وابستہ کرنا ہوگا تاکہ ان کی اُٹھان مسجد میں آتے جاتے ہوئے اور اسلامی ماحول اور اسلامی رہنمائی سے انسیت اور لگاؤکے ساتھ ہو۔

مساجد میں امام کے منصب پر ایسے فرد کا تقرر کرنا ہوگا: ۱- جو معاشرے کے درمیان رائج زبان میں اور معاشرے کی ذہنی سطح کو ملحوظ رکھتے ہوئے گفتگو کرسکتا ہو۔ ۲- جو دین اور دینی معاملات کا کم ازکم اتنا فہم رکھتا ہو کہ وہ معاشرے میں اٹھنے والے معمول کے مسائل کو سمجھ سکے اور ان کے سلسلے میں دینی رہنمائی کا فریضہ بھی انجام دے سکے۔

اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ایک طرف مساجد اپنے حقیقی کردار اور اپنی حقیقی تاثیر سے محروم ہیں۔ دوسری طرف ان مساجد کا دامن تنگ سے تنگ تر کردیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر خواتین جو ملت کا نصف حصہ ہیں، مساجد میں داخلے اور مساجد کی سرگرمیوں میں شرکت سے یکسر محروم ہیں۔ چنانچہ یہ اسلامی شریعت سے واقفیت بہم پہنچانے والے اور زندگی میں درپیش مختلف امور ومسائل سے متعلق اسلامی تعلیمات سے متعارف کرانے والے، اور بار بار کی تذکیر سے  احکامِ الٰہی کو ذہنوں میں جاگزیں کرانے والے ایک اہم اور مستقل ربانی انتظام سے محروم رہ جاتی ہیں۔ بہرحال مساجد کو ان کے حقیقی کردار سے وابستہ کرنا بھی ضروری ہے اور ان کی افادیت کے دائرے کو وسیع سے وسیع تر کرنا بھی ضروری ہے۔ یہی قرآن وسنت کی رہنمائی بھی ہے اور یہی ملت کے موجودہ حالات کا تقاضا بھی۔

یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ مسلم معاشرے کی اس مرکزسے عہدنبویؐ جیسی وابستگی اسی صورت ممکن ہوسکے گی، جب کہ اس کی افادیت اور تاثیر میں مطلوبہ حد تک اضافہ ہو، یہاں تک کہ معاشرہ اس کے اندر خود بخود اپنے لیے کشش اور لگاؤ محسوس کرنے لگے۔ مساجد کے منبر سے ہونے والے عربی زبان کے خطبات جن کو سمجھنے سے سامعین مکمل طور پر قاصر ہوتے ہیں، بیانات کے نام پر کچھ ایسے پندونصائح جن کا سامعین کی عملی زندگی سے دُور دُور تک تعلق نہیں ہوتا، یا پھر دوران تقریر ایسے مطالبات جو نہ تو شریعت میں مطلوب ہیں اور نہ عام معاشرے ہی کے لیے ان مطالبات کو پورا کرنا ممکن ہے، ان خطبات، بیانات اور تقاریر کے اندر سواے حصول ثواب کے ’عنصر‘ کے ایسا کچھ نہیں ہوتا جس کی بنیاد پر وہ مسلم معاشرے کے عام افراد کو اپنی جانب متوجہ کرسکیں۔

اس لیے ضروری ہے کہ خطباتِ جمعہ میں خاص طور پر اس امر کا اہتمام کیا جائے کہ تذکیروتبشیر کے ساتھ ساتھ، مسلم معاشرے اور سامعین کی معاصر زندگی کے حوالے سے دعوت، تلقین اور رہنمائی کی جائے۔

چند سال قبل راقم کو بھارتی صحافیوں کے ایک وفد کے ہمراہ اسرائیل (مقبوضہ فلسطین ) جاننے کا موقع ملا ۔ وفد میں بھارت کے میڈیا اداروں ٹائمز آف انڈیا ، دی ٹیلی گراف ، ٹربیون، اے این آئی  وغیرہ سے وابستہ ایسے مدیران شامل تھے جنھیں سفارتی اور بین الاقوامی امور پر دسترس حاصل ہے۔ دس دن کے اس سفر میں تل ابیب ، حیفہ، سدرت اور لبنان کی سرحد سے متصل ناحارجہ، فلسطینی علاقوں رملہ، بیت اللحم ، بحیرۂ مُردار، دشت جودی کے علاوہ یروشلم کے دورے کا بھی موقع ملا۔

میں تو مسجد اقصیٰ کی زیارت کے لیے بے تاب تھا، مگر یروشلم میں ہمیں آخری تین دن گزارنے تھے۔ دورے کے اگلے دن ہمیں تل ابیب سے غزہ سرحد سے متصل اسرائیلی قصبہ سدرت جانا تھا، جو ایک ثقافتی مرکز کی شہرت رکھتا ہے اور اکثر غزہ کی طرف سے داغے گئے راکٹوں کی زد میں آتا ہے۔ خیر تل ابیب سے ہمیں چارہیلی کاپٹروں میں سوار کیا گیا ۔ میں پائلٹ کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ پائلٹ خاصا ہنس مکھ اور باتونی قسم کا شخص تھا۔ وہ راستے میں گائیڈ کا کام بھی کررہا تھا۔

ایک خاص بات دیکھنے میں آئی کہ یہودی بستیوں میں تقریباً سبھی مکان صاف شفاف چمک دار اور ہرے بھرے باغات اور درختوں سے گھرے دکھائی دے رہے تھے۔ ان کی چھتوں کو لال رنگ سے پینٹ کیا گیا تھا۔ دوسری طرف عرب بستیوں میں مکانات اگرچہ بڑے مگر بے کیف اور ان کے آس پاس زمین بھی نظر آ رہی تھی۔ اس لال رنگ کا راز جاننے کی میں نے بعد میں   بڑی کوشش کی، مگر کہیں سے تشفی بخش جواب نہیں ملا۔ وجہ شاید یہی ہو گی کہ ہوائی حملوں کے وقت یہودی اور عرب علاقوں کا تعین کیا جا سکے۔

آدھے گھنٹے کے بعد پائلٹ نے اعلان کیا کہ: ’’اب ہم یروشلم شہر کے اوپر سے گزر رہے ہیں‘‘ اور ساتھ اس نے روایتی گائیڈوں کی طرح تاریخ کے اوراق سامعین کو دیکھ کر پلٹنے شروع کیے۔ جب میں نے اس کو ایک دو بار ٹوکا تب اس کو معلوم ہوا کہ اس کے پاس ایک مسلمان صحافی براجمان ہے۔ ہیلی کاپٹر سے مسجد اقصیٰ، اس کا صحن اور گنبد صخریٰ یا  قبۃ الصخرہ (Dome of Rock)کا سنہری گنبد واضح نظر آ رہا تھا۔ میں اس نظارے میں محو ہو گیا۔ پائلٹ نے میری کیفیت دیکھ کر صحن کے اوپر کئی چکر کاٹے ۔ خیر سفر کے اختتام سے چار روز قبل ہم حیفہ سے تل ابیب اور فلسطین اتھارٹی کے دارالحکومت رملہ سے ہوتے ہوئے بذریعہ بس یروشلم آن پہنچے۔

خوش قسمتی سے یہ جمعے کا دن تھا۔ میں نے میزبانوں کو پہلے ہی تاکید کی تھی کہ میں کسی اور پروگرام میں شرکت نہیں کروںگااور جمعہ کی نماز مسجد اقصیٰ میں ادا کروں گا۔ پروگرام کے مطابق وفد کے باقی اراکین تو ہولو کاسٹ میوزیم دیکھنے چلے گئے اور مجھے ایک فلسطینی گائیڈ کے حوالے کیا گیا، جس نے پرانے فصیل بند شہر کے باب دمشق تک میری رہنمائی کی۔ مسجد فصیل سے ابھی بھی تقریباً آدھا کلو میٹر دُور تھی۔ پیچ در پیچ گلیوں اور سوق، یعنی چھت والے روایتی عربی بازار سے گزرتے ہوئے آخرکار مسجد کا گیٹ نظر آیا۔ مسجد اقصیٰ کا حرم ایک وسیع احاطے پر مشتمل ہے۔ شمال میں چاندی کے گنبد والی مسجد ہے۔ جمعہ کو احاطے میں غیرمسلموں کا داخلہ ممنوع ہے۔ دیگر دنوں میں غیر مسلم سیاح احاطے میں تو داخل ہو سکتے ہیں، مگر مسجد اور قبۃ الصخرہ کے اندر ان کو داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے۔ احاطے کی مغربی دیوار یہودیوں کے لیے مخصوص ہے، اس کو ’دیوار گریہ‘ کہتے ہیں۔

اگرچہ یروشلم شہر اسرائیلوں کے قبضے میں ہے، مگر حرم کا انتظام وانصرام اردن کے اوقاف اور وہاں کی ہاشمی باد شاہت کے پاس ہے۔ جون ۱۹۶۷ء کی جنگ میں جب اسرائیلی فوجیں شہر میں داخل ہو گئیں ، تو قبۃ الصخرہ پر اسرائیلی پرچم لہرایا گیا، مگر بیس منٹ بعد ہی اسرائیلی وزیر دفاع موشے دایان نے اس پرچم کو اتارنے اور اس کا انتظام دوبارہ اردن کے حوالے کرنے کا حکم دیا۔ ہماری گائیڈ بتا رہی تھی کہ وہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے غصے سے خائف تھے۔ گنبد پر اسرائیلی پرچم جوابی کارروائی کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔

خیر، مجھے بتایا گیا تھا کہ مسجد میںداخلے کے لیے مجھے اپنے آپ کو مسلمان ثابت کروانا پڑے گا۔ گیٹ کے باہر اسرائیلی سیکورٹی کا ہتھیار بند دستہ موجود تھا، بالکل سرینگر کی جامع مسجد کا سین لگ رہا تھا۔ ایک اہلکار نے مجھے کوئی سورۃ سنانے کے لیے کہا۔ اس امتحان کو پاس کرنے کے بعد اہلکار نے قرآن شریف اٹھا کر اس سے آیات پڑھنے کے لیے کہا۔ تسلی وتشفی کرنے کے بعد  مجھے گیٹ کی طرف جانے کی اجازت مل گئی، مگر ابھی فلسطینی سیکورٹی کا سامنا کرنا باقی تھا۔ گیٹ کے اندر فلسطینی اہلکاروں نے پاسپورٹ مانگا۔ میں نے دیکھا وہاں بھی قرآن شریف رکھا ہوا تھا اور شناخت کا مرحلہ کچھ زیادہ ہی سخت تھا۔ ملایشیا کے ایک زائر کا ایک طرح سے انٹروگیشن ہو رہا تھا۔ اب شاید میری باری تھی ۔ میں نے پوری عربی صرف کر کے فلسطینی اہلکار کو بتایا کہ میں انڈین پاسپورٹ پر کشمیر سے تعلق رکھتا ہوں۔ پاسپورٹ میں میری جاے پیدایش دیکھ کر پلک جھپکتے ہی اس کا موڈ بدل گیا۔ کرسی سے کھڑا ہو کر گلے لگا کر اس نے اپنے افسر کو آواز دی اور عربی میں شاید میرے کشمیری ہونے کا اعلان کیا۔ مقبوضہ علاقوں کا مکین ہونے کا کنکشن بھی کیا عجیب ہوتا ہے !  بعد میں بھی فلسطینی علاقوں میں گھومنے کے دوران اس کا قدم قدم پر احساس ہوا۔ افسر نے بھی مصافحہ اور معانقہ کرنے کے بعد حکم دیا کہ نماز ادا کرنے کے بعد اس کے کیبن میں حاضر ہو جائوں۔

میں جب صف میں جگہ بنا رہا تھا تو امام صاحب خطبہ دے رہے تھے۔ اس کا ایک ایک لفظ دل ودماغ کو جیسے جھنجھوڑ رہا تھا۔ مجھے یقین ہی نہیں آ رہا تھاکہ میں ملت اسلامیہ کی مظلومیت کی نشانی مسجد اقصیٰ کے اندر اللہ کے رو برو کھڑا ہوں۔ نماز اور دعا کے بعد نعرۂ تکبیر کی صدائیں بھی بلند ہو رہی تھیں۔ صحن میں کئی مقرر زور وشور سے تقریریں کر رہے تھے ۔ بعد میں جمع ہو کر اپنے اپنے حامیوں کے ساتھ تبادلۂ خیال کرتے ہیں۔ مسجد اقصیٰ میں نماز ادا کرنے اور دعا مانگنے کا احساس لفظوں میں بیان کرنا نا ممکن ہے۔

میں ایک کونے میں مسجد کی تاریخ کو کرید رہا تھا۔ بچپن میں سلاتے ہوئے دادی کی سنائی ہوئی پیغمبروں اور غازیوں کی کہانیاں دماغ میں گونج رہی تھیں کہ فلسطینی سیکورٹی افسر مجھے تلاش کرتے ہوئے آپہنچا۔ مجھے رقت آمیز دیکھ کر وہ بھی آب دیدہ ہو گیا۔ آخر میرا ہاتھ پکڑ کر مجمعے کے بیچ سے گزار کر وہ مجھے امام وخطیب اورمفتی اعظم محمد احمد حسین کے پاس لے گیا۔ وہ جنوبی ایشیا خاص طور پر کشمیر کے بارے میں استفسار کرتے رہے اور خاصی دعائیں دے کر رخصت کیا۔ بعد میں سیکورٹی افسر نے ایک انگریزی جاننے والے فلسطینی کے حوالے کیا، جو مجھے قبۃ الصخرہ کے اندر لے گیا۔

یہ دراصل ایک بڑی چٹان ہے جس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم یہیں سے معراج کے سفر پر تشریف لے گئے، اور یہیں انھوں نے دیگر پیغمبروں کی امامت کرکے نماز پڑھائی تھی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور دیگر پیغمبروں علیہم السلام نے بھی یہاں قیام کیا ہے۔ بظاہر لگتا ہے کہ چٹان کو کاٹ کر نیچے ایک خلا میں جانے کا راستہ بنایا گیا ہے جہاں پر زائرین دورکعت نفل نماز پڑھتے ہیں۔ میرا گائیڈ بتا رہا تھا آںحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے معراج پر جاتے ہوئے یہ چٹان بھی اوپر اٹھ گئی تا آنکہ اس کو ٹھیرنے کا حکم ہوا۔ تب سے یہ چٹان اسی پوزیشن میں ہے اور اس کے نیچے ایک خلا پیدا ہو گیا ۔ گائیڈ واقعات کو دہراتے ہوئے واللہ ھو اعلم بالصواب بھی ساتھ ساتھ کہتا جا رہا تھا۔

حضرت عمر فاروقؓ جب اس شہر میں داخل ہوئے تو اس مقام پر بس چند کھنڈ ر باقی تھے۔ ہیکل سلیمانی کب کا تباہ ہو چکا تھا۔ اس چٹان کے شمال میں جہاں اب چاندی کے گنبد والی مسجد ہے، ایک چبوترا بچا تھا، جو ابھی بھی مسجد کے تہہ خانے میں موجود ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ یہی قبلۂ اوّل ہے۔ مسجد کے تہہ خانہ کے اندر جا کر پتا چلتا ہے کہ اس کی عمارت پتھر کے بنے لا تعداد دیو ہیکل ستونوں پر ٹکی ہے۔ یہیں محراب مریمؑ ہے،جہاں حضرت جبریل ؑ ان کے رُوبرو حاضر ہوئے۔ اس تہہ خانے میں ۱۰۹۹ء سے ۱۱۸۷ء تک کے مسیحی دور کی یادیں بھی تازہ ہیں، جب صلیبیوں نے ۸۸ برسوں تک اس کو ایک اصطبل بنایا تھا۔ ستونوں میں گھوڑوں کو باندھنے کے لیے گاڑی گئی میخوں کے نشانات ابھی بھی واضح ہیں۔

یروشلم جو مکمل طور پر اسرائیل کے قبضے میں ہے کے آبادیاتی تناسب کو بدلنے کے لیے حکام نے کئی قوانین ترتیب دیے ہیں۔ اگر کوئی مسلمان عورت شہر سے باہر شادی کرتی ہے تو اس کی پروشلم کی شہریت ختم ہو جاتی ہے۔ یہ ان لوگوں کا قانون ہے جو جنسی برابری اور آزادی کے علَم بردار ہیں۔ خود اسرائیل کی حدود میں مسلمانوں کا تناسب ۲۲ فی صد ہے۔ یروشلم میں ان کا تناسب ۳۶ فی صد ہے۔ یہ وہ فلسطینی ہیں جو اب اسرائیلی عرب کہلاتے ہیں۔ میرے قیام کے دوران ایک اسرائیلی عرب خاندان اپنے عزیز کی شادی میں شرکت کے لیے شہر سے باہر گیا ہوا تھا ۔ واپس آئے تو پرانے شہر میں واقع گھر کے دروازے کھلے ملے اور اندر ایک یہودی خاندان قیام پذیر تھا۔ ان کا پورا سازوسامان گلی میں پڑا تھا۔ معلوم ہوا کہ ان کی غیر موجودگی میں حکومت نے ان کا یہ آبائی گھر یہودی خاندان کو الاٹ کر دیا ہے۔ کئی روز سے یہ خاندان خواتین اور بچوں کے ساتھ فٹ پاتھ پر بیٹھا تھا۔

یروشلم آنے سے قبل مائونٹ کارمل اور بحیرہ روم کے بیچ خوب صورت شہر حیفہ میں یہودی مذہب کے اعلیٰ پیشوا، یعنی چیف ربی ہوتے ہیں جو تاحیات کے بجاے دس سال کے لیے منتخب کیے جاتے ہیں۔ شاید اس یہودی عالم کے پاس وفد کے کوائف پہلے ہی پہنچ گئے تھے۔ چونکہ میں واحد مسلمان صحافی تھا اس لیے اس نے علیک سلیک کے بعد کہا کہ چند لوگ دنیا سے یہودیوں کا خاتمہ چاہتے ہیں، مگر ایسا نا ممکن ہے۔ کیوںکہ دنیا بھر میں ایک ارب سے زائد مسلمان روزانہ نماز میں حضرت ابراہیم ؑ کی اولاد کے لیے سلامتی کی دعائیں مانگتے ہیں اور یہ ان کے ایمان کا جز ہے۔ انھی کی دعائوں کے طفیل آل ابراہیم (یعنی یہودی ) قائم ودائم ہیں۔ چونکہ اس استعاراتی گفتگو کا محور میں ہی تھا، اس لیے میں نے جواباً کہا : ’’یہ حقیقت ہے کہ حضرت اسماعیل ؑ اور حضرت اسحاق ؑ دونوں حضرت ابراہیم ؑ کی اولاد ہیں اور اگر مسلمان آل اسماعیل ہیں تو یہودی آل اسحاق ہیں، مگر یہودی صحیفوں کے اصول وراثت کی رو سے بڑے بھائی کو ہی وسائل کا حق دار تسلیم کیا جاتا ہے اور خاندان کی سربراہی بھی اسی کو منتقل ہو جاتی ہے۔ اس اصول سے تو فلسطین اور اسرائیل پر مسلمانوں کا حق تسلیم شدہ ہے‘‘۔ یہودی عالم نے مسکراتے ہوئے گفتگو کا رخ موڑ دیا۔

چند روز بعد جب ہم ٹورسٹ بس میں اسرائیلی گائیڈ کے ہمراہ یروشلم سے براستہ دشت جودی، بحیرئہ مُردار (Dead Sea )کی طرف رواں تھے تو چند مواقع پر میں نے اس بھارت نژاد اسرائیلی خاتون گائیڈ کو تاریخی حوالے توڑنے مروڑنے پر ٹوکا تو اس نے مائیک میرے حوالے کرکے بقیہ سفر میں مجھے رہنمائی کرنے کے لیے کہا۔ پہلے تو میں سمجھا کہ شاید وہ میرے ٹوکنے سے ناراض ہو گئی ہے، مگر جب اس نے کہا کہ وہ خود تاریخ کا دوسرا رخ سننے کے لیے بے تاب ہے تو میں نے مائیک لے کر دشت جودی سے گزرتے ہوئے آس پاس کھنڈرات کے وسیع وعریض علاقوں ، حضرت لوط ؑ ، حضرت یحییٰ ؑ اور حضرت عیسیٰ ؑ کے واقعات بیان کرنا شروع کر دیے۔

مجھے خود بھی سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ الفاظ کا یہ سمندر کہاں سے اُمڈ آیا ہے۔ منزل پر پہنچ کر  جب میں نے مائیک واپس گائیڈ کے حوالے کیا تو کسی کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ میں اس سر زمین میں پہلی بار وارد ہوا ہوں۔ دی ٹیلی گراف کے سفارتی ایڈیٹر کے پی نیئر نے جب مجھ سے اس بارے میں استفسار کیا تو مجھ سے صرف یہی جواب بن پڑا کہ :’’ارض فلسطین دنیا بھر کے مسلمانوں کی رگوں میں خون کی طرح موجود ہے‘‘۔

بھارت کی جیلیں یا تعذیب خانے؟

حال ہی میں دہلی کی تہاڑ جیل [قیام: ۱۹۵۷ء]میں ۱۸کشمیری قیدیوں کی اذیت رسانی کی جو تصاویر سامنے آئی ہیں، وہ کسی بھی مہذب معاشرے کو شرمندہ کرنے کے لیے کافی ہیں۔ دہلی ہائی کورٹ کی جانب سے قائم ایک تحقیقاتی کمیٹی نے اپنی ۱۱۱صفحات پر مشتمل رپورٹ میں نہ صرف اس ٹارچر کی تصدیق کی، بلکہ یہ جملہ بھی کہا کہ: ’جیل حکام اور سیکورٹی پر مامور اسپیشل فورس نے بغیر کسی معقول وجہ کے ان قیدیوں کو تختۂ مشق بنایا‘۔ انٹیروگیشن یا تفتیش کے دوران پولیس اور دیگر تفتیشی ایجنسیاں دُنیا بھر میں ملزم سے اقبال جرم کروانے کے لیے ٹارچر کو ایک حربے کے طور پر استعمال کرتی آرہی ہیں۔ تاہم، بعد از تفتیش جب ملزم عدالتی کارروائی کا سامنا کرنے کے لیے جیل حکام کی تحویل میں ہوتا ہے تو وہاں ٹارچر کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ گو کہ بھارت میں دیگر ترقی پذیر ممالک کی طرح جیلیں ابھی تک بلندوبانگ دعوئوں کے باوجود ’اخلاقی تربیتی مراکز‘ کے بجاے تعذیب خانے ہی ہیں، مگر جوں ہی جیل میں کسی کشمیری یا پاکستانی قیدی کا داخلہ ہوتا ہے، تو جیل حکام، چاہے وہ سیکورٹی پر مامور اہل کار ہو یا ڈاکٹر یا سوشل ورک آفیسر میں ان قیدیوں پر ظالمانہ، شرم ناک اور حددرجہ گھٹیا طریقوں سے تشدد کرنے کی خواہش ایک دم جاگ اُٹھتی ہے۔ ’بھارت ماتا‘ کے یہ سپوت ان بدنصیب قیدیوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔

بھارت میں دہلی کی تہاڑ جیل کو ایک ماڈل جیل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ اکثر حکام اس کو جیل کے نام سے موسوم کرنے پر بھڑک اُٹھتے ہیں اور اس کو ’تہاڑ آشرم‘ یا ’اصلاح خانہ‘ کہلوانا پسند کرتے ہیں۔ اگر تعذیب کی خبریں اس آشرم سے آرہی ہوں تو ملک کی دیگر جیلوں کا کیا حال ہوگا؟

 ۲۰۱۱ء میں ڈنمارک کی ہائی کورٹ نے ۱۹۹۵ء میں بنگال کے ضلع پورنیا میں جہاز سے ہتھیار گرانے کے واقعے میں ملزم کم پیٹرڈیوی کو بھارت کے حوالے کرنے کی درخواست مسترد کردی۔ کورٹ نے کم ڈیوی کی اس دلیل کو تسلیم کیا کہ بھارت میں جیلوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ ڈیوی بھارت میں ایک انتہائی مطلوب ملزم ہے۔ بھارت کا اصرار تھا کہ ڈنمارک کی حکومت عدالتی کارروائی میں مداخلت کرکے اس کو بھارت کے حوالے کر دے، مگر اس مطالبے کو وہاں کی حکومت نے سختی کے ساتھ مسترد کر دیا۔ اسی طرح ۹۰؍ارب روپے کے مبینہ فراڈ میں ملوث لندن میں پناہ لینے والے بھارت کے ایک معروف صنعت کار وجے مالیہ نے بھی برطانوی کورٹ میں بھارت کے ایما پر دائر کی گئی حوالگی کی درخواست کے خلاف بھارتی جیلوں کی خراب حالت او ر انسانی حقوق کی زبوں حالی کی دہائی دی ہے۔

دہلی کی تہاڑ جیل کی اس ’مہمان نوازی‘ کا مجھے بھی براہِ راست تجربہ ہے۔ ۱۰ سال قبل جب جون کے جھلسا دینے والے دن مجھے عدالت نے دہلی پولیس کی مسلح بٹالین کے سپردکر کے عدالتی حراست میں بھیج دیا، تو میرے کیس کی تفتیش پر مامور دہلی پولیس کے اسپیشل سیل کے ایک افسر نے ازراہِ مروت کھانے کا ایک پیکٹ میرے حوالے کرتے ہوئے کہا کہ: ’جیل میں داخلے کی خانہ پُری میں بہت وقت لگتا ہے اور کبھی کبھی تو نیا قیدی جیل میں رات کے کھانے سے محروم رہ جاتاہے۔ کھانے کا پیکٹ ہاتھ میں تھماکر مجھے پنجرے جیسی بس میں پھینک دیا گیا۔ قبل اس کے میں اپنے حواس پر قابو پاتا، بس میں موجود قیدی مجھ پر جھپٹ پڑے اور یہ سمجھنے میں مجھے کوئی مشکل پیش نہ آئی کہ وہ مجھ پر نہیں، بلکہ بندروں کی طرح کھانے پر جھپٹے تھے۔ میں نے خود کو بچانے کے لیے کھانے کا پیکٹ فرش پر پھینک دیا۔  پیکٹ پھٹ گیا۔ اس میں دال اور سبزی فرش پر بکھر گئے۔ میرے یہ ہم سفر گردوغبار سے اَٹے فرش سے اُٹھا اُٹھا کر ایک ایک دانہ چٹ کر گئے۔’’واہ کیا بات ہے۔ ایک سال بعد تڑکے والا کھانا نصیب ہوا ہے‘‘  ایک قیدی نے اپنے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے کہا۔ یہ منظر واقعی قابلِ رحم اور مضحکہ خیز بھی تھا۔

اگلےآٹھ ماہ میں نے دیکھا کہ عدالت سے جیل یا واپسی کے دوران اس بس میں چاہے کتنی مارپیٹ ہو یا پھر چاہے قتل کی واردات کیوں نہ ہوجائے، پولیس والے اندر آنے کی زحمت نہیں کرتے۔ حالات اگر زیادہ ہی بے قابو ہوں تو اعصاب شل کرنے کے لیے باہر سے گیس چھوڑ کر قیدیوں کو    بے ہوش کر دیا جاتا ہے۔

تہاڑ دراصل نو جیلوں کا مجموعہ ہے۔ مجھے جیل نمبر تین کے درواز ے پر اُتار کر پولیس نے دیگر نئے آنے والے قیدیوں کے ساتھ جیل حکام کے حوالے کر دیا۔ دروازے سے اندر داخل ہوتے ہی ایک ڈیسک کے چاروں طرف کھڑے جیل ملازمین میں بڑبڑاہٹ سنائی دی۔ مجھے سیدھے جیل سپرنٹنڈنٹ کے دفتر سے متصل ایک کمرے میں لے جایا گیا، جہاں ۱۰، ۱۲ ؍افراد موجود تھے۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی میرا نام پوچھا گیا۔ ابھی میں نام بتا بھی نہیں پایا تھا، کہ سپرنٹنڈنٹ صاحب نے میرے منہ پر زور کا تھپڑ رسید کیا۔ یہ باقی افراد کے لیے اشارہ تھا۔ پھر کیا، وہ سبھی ایک ساتھ مجھ پر پل پڑے۔ خود اس اعلیٰ افسر نے میرے بالوں کو ہاتھ میں جکڑ کر میرا سر  میز پر دے مارا۔ میرے منہ، ناک اور کان سے خون رسنے لگا۔ اس کے ساتھ ساتھ کوئی وقفہ کیے بغیر مسلسل گالیاں دی جارہی تھیں۔ میں نے دیکھا کہ وہاں کچھ لوگ قیدیوں کو ڈنڈوںسےپیٹ رہے تھے۔

 ’’تم جیسے لوگوں کو زندہ رہنے کا حق نہیں ہے، ان سالے غداروں کو سیدھے پھانسی دینی چاہیے‘‘۔ یہ نعرہ ایک زیرسماعت قیدی ونود پنچم کا تھا۔ بعد میں جیل کے اندر اس نے مجھے ’حب الوطنی‘ کا سبق سکھانے کا کوئی موقع ضائع نہیں ہونے دیا۔ یہ ’درس‘ میری بے ہوشی تک جاری رہا۔    ہوش میں آنے کے بعد میں نے خود کو راہداری میں پڑا پایا۔ میرا چہرہ خون سے لت پت تھا۔ حکم ہوا کہ جاکر اپنا چہرہ دھو ڈالو۔ باتھ روم میں جاتے ہوئے بھی گالیاں میرا پیچھا کر رہی تھیں۔ ابھی میں راستے ہی میں تھا کہ کرخت آواز میں حکم ملا کہ’’ٹائلٹ صاف کرو‘‘۔ یہ ٹائلٹ کسی بس اڈے کے سرکاری پاخانے کی طرح متعفن اور غلیظ تھا۔ میں اِدھر اُدھر کسی کپڑے کو تلاش کرنے کے لیے نظریں دوڑانے لگا، تو حکم ہوا کہ ’’اپنی شرٹ اُتار کر اسی سے صاف کرو‘‘۔ حکم ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا اور ٹائلٹ صاف کرنے میں تقریباً ایک گھنٹہ لگا۔

اسی دوران نئے قیدیوں کا جیل میں داخل ہونے کا عمل شروع ہوچکا تھا۔ جیل کے افسر اور ایک ڈاکٹر کے علاوہ کچھ منظورِ نظر قیدی اس کام میں معاونت کر رہے تھے۔ معائنہ کرتے ہوئے ڈاکٹر کا جذبہ ’حُب الوطنی‘ بھی جوش میں آیا۔ اس نے اپنے پیشے کا لحاظ کیے بغیر گالیوں کی بارش کرتے ہوئے پیٹنا شروع کر دیا۔ اب اس نے مجھ سے لکھ کر دینے کو کہا کہ: ’یہ زخم پولیس حراست کے دوران آئے ہیں، جیل میں نہیں آئے‘۔ میں نے پہلی بار جرأت کا مظاہرہ کرکے رپورٹ پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا۔

کارروائی مکمل کرتے ہی جیل افسر نے کہا:’’قمیص کہاں ہے؟‘‘ میں نے کہا: ’’باتھ روم میں پھینک آیا ہوں‘‘۔ حکم دیا گیا، ’’جائواور جیسی بھی ہے پہن کر آئو‘‘۔ قمیص اتنی گندی تھی کہ مجھے قے آنے لگی۔ پھر بھی اگلے تین روز تک جون کی جھلستی گرمی میں مجھے وہی غلاظت بھری قمیص پہننا پڑی۔ اس دوران قمیص اُتارنے کی اور نہ غسل خانے جانے ہی کی اجازت ملی۔

یہ بھارت کی ماڈرن تہاڑ جیل کے ساتھ میری ابتدائی ملاقات تھی۔ اگلے آٹھ ماہ تذلیل و تضحیک کے اَن گنت واقعات کا مَیں چشم دید گواہ بنا اور ان میں اکثر واقعات خود میرے ساتھ پیش آئے۔ ابتدائی چند ماہ چھوڑ کر عمومی طور پر بھارتی میڈیا، سیاسی پارٹیوں اور خود اس وقت کی حکومت کے اندر بھی چند خیرخواہوں نے میرے لیے آواز بلند کی اور میری رہائی کے لیے ایک طرح سے مہم چلائی۔ اس لیے اگر اس طرح کے واقعات میرے ساتھ پیش آسکتے ہیں، اندازہ کیجیے کہ ایک بے یارومددگارکشمیری یا پاکستانی قیدی کے ساتھ کس طرح کا سلوک جیل میں کیا جاتا ہوگا!

حالاں کہ بھارت کی عدالت عظمیٰ نے اپنے بہت سے فیصلوں میں قیدیوں کے حقوق پر زور دیا ہے، لیکن جیلوں کی حالت اُس کے بالکل برعکس ہے جو قانون کی کتابوں میں لکھی ہوئی ہے۔ قیدیوں پر نظررکھنے کے لیے ان کے بیچ مخبروں کی موجودگی، تہاڑ جیل کے پس منظر میں  ’شعلے‘ فلم کی جیل میں واحد مماثلت نہیں ہے۔ ’شعلے‘ کا جیلر یہاں حقیقی شکل میں نظر آتاہے۔   جیل کے عملے کا رویہ بھی فلم کے جیلر سے مختلف نہیں ہے، جس کا مشہور مکالمہ تھا: ’’ہم انگریزوں کے زمانے کے جیلر ہیں۔ ہم ان لوگوں میں سے نہیں جو قیدیوں کو سدھارنے کی فکر میں لگے رہتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ تم کبھی نہیں سدھرو گے‘‘۔ گنجایش سے زیادہ قیدیوں کی موجودگی، اُوپر سے نیچے تک پھیلی ہوئی بدعنوانیاں، غیرتربیت یافتہ جیل اسٹاف اور جیل اسٹاف اور جیل انتظامیہ کا  فرسودہ اندازِفکروعمل، استعماری دور کے جیل مینوئل آج بھی نافذالعمل ہیں۔ انھی فرسودہ قوانین کا نتیجہ ہے کہ جیل کے حکام قیدیوں کو ان کے حقوق دینے سے انکار کرتے ہیں۔

ایک دن مجھے جیل کی لائبریری کے نیم خواندہ نگران (جو خود ایک سزا یافتہ سکھ قیدی تھا) نے طلب کرکے کتابوں کی ایک فہرست تیار کرنے کے لیے کہا اور بتایا کہ حکومت نے جیل کی لائبریری کے لیے کتابیں خریدنے کے مقصد سے بجٹ فراہم کیا ہے۔ میں نے قانون، لیڈروں کی جیل ڈائریوں، اوپن یونی ورسٹی سے کورس کرنے والےقیدیوں کی ضرورت کو مدنظر رکھنے کے ساتھ ساتھ جیل مینوئل اور جیل ضابطوں سے متعلق کتابوں کو بھی شامل کر کےلسٹ تیار کرکے اس کے حوالے کی۔ نگران نے اس لسٹ کواسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ کو پیش کر کےاپنی دانش وَری کی دھاک جمانے کی کوشش کی۔ شاید یہ دھاک جم بھی جاتی، مگر فہرست میں جیل مینوئل اور قیدیوں کے حقوق سے متعلق کتابیں دیکھ کر جیل حکام کا پارہ چڑھ گیا۔ نگران نے فوراً میرا نام لیا۔ مجھے جیل کنٹرول روم میں طلب کیا گیا۔ میں نے وہاں دیکھا کہ سردارجی کو اُلٹا لٹکایا گیا ہے اور ان پر لاٹھیوں کی بارش ہورہی ہے۔ ان کی دانش وَری کا ڈبہ تو پہلے ہی گول ہوگیا تھا۔ وہ زار وقطار رحم کی بھیک مانگ کر پورا ملبہ میرے اُوپر ڈال رہے تھے۔ ساتھ ہی میرا انیٹروگیشن شروع ہوگیا۔

میں نے موقعے کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے کہہ دیا کہ: ’’مجھے معلوم نہیں تھا کہ جیل کے قوانین سے متعلق کتابیں ممنوع ہیں اور معافی کا خواستگار ہوں‘‘۔ اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ نے مسکرا کر کہا: ’’میں جانتا تھا کہ یہ فہرست سردار جی تیار نہیں کرسکتے تھے‘‘۔

میرے دورِ زندان تک باقی کتابیں بھی کبھی لائبریری میں نہیں پہنچیں اور کسی کو معلوم نہیں کہ کتابوں کے لیے مختص اس بجٹ کا کیا ہوا۔ کہتے ہیں: علم آزادی کی چابی ہے۔ لیکن قیدیوں کا جیل کے قوانین کا علم حاصل کرنا جیل انتظامیہ اپنے لیے اچھا شگون نہیںسمجھتی، کیونکہ غلامی اور جہالت لازم و ملزوم ہے۔

قرآن جس ثقافت کا تصور پیش کرتا ہے اس کی ابتدا انکارِ علم یا تشکیک کی جگہ اثباتِ علم سے ہوتی ہے۔ تخلیقِ آدم ؑ کے واقعے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ملائک کو خصوصی علم عطا کیا ہے لیکن انسان کا علم بعض معاملات میں ملائک سے بھی زیادہ ہے۔

ایمان علمِ حقیقی یا حقیقت ِ عظمیٰ کا نام ہے۔ چنانچہ توحید کا اقرار اور شرک کا ابطال ، حی و قیوم ہونے کا علم اور العزیز الجبار،   رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ، مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ  اور رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ   تسلیم کیے بغیر کسی شخص کا ایمان مکمل نہیں ہوسکتا۔ قرآن میں اسلامی ثقافت کو تین بنیادوں پر قائم کیا گیا ہے، یعنی توحید،رسالت اور آخرت۔ توحید گویا کائنات اور خالق کائنات کے بارے میں اس اعلان کا نام ہے کہ اس کائنات کا خالق و مربی اور ناظم صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ وہ اپنی ذات اور صفات کے اعتبار سے یکتا اور اپنے اختیارات کے اعتبار سے سب سے بلند ہے۔

انسان عبدِمحض ہے۔ انسان کو عبد قرار دینے کے بعد قرآن اس عبد کو بہترین عبد بنانے اور انسانی تہذیب و ثقافت کے نشوونما کے لیے نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی روشن شخصیت کو بطور اسوہ کے پیش کرتا ہے۔ نبی معاشرے کا صالح اور اکمل ترین اور جامع الصفات فرد ہوتا ہے۔     وہ چوںکہ خود ایک معاشرتی زندگی گزارتا ہے اس لیے صرف اسی کا عمل دوسروں کے لیے رہنما     بن سکتا ہے۔ اسلامی ثقافت میں فرد کا معیارِ مطلوب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کو قرار دیا گیا ہے۔ اس کائنات کے بارے میں تصورات کی اصلاح کرنے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہادی و رہنما قرار دینے سے اسلام کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ ایک صالح معاشرہ وجود میں آسکے اور انسان ایک متوازن زندگی گزار سکے۔ اسلامی ثقافت میں کشاکشِ حیات کا مقصد و منتہا اُخروی زندگی کی کامیابی کو قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ اسلامی ثقافت کم تر سے بلند اور بلندتر منزل کی طرف ارتقا کرتی ہے۔ ایک طرف تو تصورِ آخرت انبیاؑ کو جامع و بلند نصب العین فراہم کرتا ہے اور دوسری طرف یہ تصوّر ایک ایسی مشترک بنیاد فراہم کرتا ہے جس کے نتیجے میں بلاتفریق رنگ و نسل و لِسان ایک اُمت وسط عالمِ وجود میں آتی ہے جو جغرافیائی اور طبعی حدود و قیود سے ماورا تہذیبی یک جہتی کی بنیاد پر ایک عالم گیر معاشرے کے قیام کے لیے کوشاں ہوتی ہے۔

قرآن کی دی ہوئی ثقافت کی یہ تین بنیادیں (توحید، نبوت و آخرت) فرد اور معاشرے کو کمال، خوشی، فرض اور دیگر مقاصد ِ حیات کے محدود نظریات کی پستی سے نکال کر حقیقی خوشی، صداقت اور کمال کی رفعتوں سے ہم کنار کرتی ہیں۔

اسلامی ثقافت ایک ہمہ گیر ثقافت ہے یہ محض چند نفوس کی ذاتی اصلاح اور تربیت تک محدود نہیں ہے، بلکہ یہ اپنے تمام ماننے والوں کو رشتۂ اخوت و ایمان میں جوڑ کر صالح معاشرے کی تعمیر اور عدلِ اجتماعی کی بنیاد پر انسانی برادری کی تشکیلِ نو کرتی ہے۔ اسلامی ثقافت افراد کے درمیان فلاح اور خیر کو مشترک بنیاد قرار دیتی ہے۔ یہاں پر مسابقت ہے مگر نیکی، شرافت، تعلق باللہ، اطاعت ِ رسولؐ اور ادایگیِ حقوق میں۔ اسلامی ثقافت انسانی زندگی کے ہرگوشے اور ہرعمل کا احاطہ کرتی ہے۔ یہ زندگی کے ہرعمل میں خواہ اس کا تعلق سیاست سے ہو، معیشت سے ہو، یا معاشرے سے ہو، خواہ ایک شخص کی گھریلو اور خانگی زندگی ہو یا بین الاقوامی مسائل، غرض ہرمسئلے اور ہرمعاملے میں اسلامی تہذیب رہنما اصول فراہم کرتی ہے۔ یہ اصول جس طرح فرد کی زندگی کی اصلاح کرتے ہیں بالکل اسی طرح معاشرے، ریاست اور بنی نوع انسان کی فلاح کی ضمانت بھی دیتے ہیں۔

ماخذثقافت

اسلامی ثقافت خود کو ایک الٰہی تہذیب قرار دیتی ہے اور قرآن اس الٰہی تہذیب میں ماخذ ِ اوّل کی حیثیت رکھتا ہے۔قرآن کسی خاص نسل، قوم یا خطے کے لیے مخصوص نہیں ہے۔ یہ تمام انسانوں کے لیے ضابطۂ حیات اور دستور کی حیثیت رکھتا ہے۔ قرآن کی بنیاد پر جو آفاقی ثقافت عالمِ وجود میں آتی ہے وہ تمام تعصبات کو نظرانداز کرتے ہوئے بنی آدم ؑ کو اتحادِ فکر و عمل کے ذریعے ایک عظیم تر انسانی معاشرے میں تبدیل کردیتی ہے۔ دنیا کی کسی اور تہذیب یا ثقافت میں یہ آفاقیت اور ہمہ گیری نہیں پائی جاتی۔ اسلامی ثقافت بنیادی طورپر قرآنی ثقافت ہے۔ یہ معاش و معاد، حلال و حرام اور جائز و ناجائز، غرض تمام مسائل میں قرآن کو رہنما قرار دیتے ہوئے احکامِ الٰہی کے سامنے کامل سپردگی کا رویہ اختیار کرتی ہے۔ کتاب کو ماخذ مان لینے کے بعد اسلامی ثقافت اس ہستی کو جس پر یہ کتاب نازل ہوئی، مفسرِکتاب اور شارحِ کتاب کا مقام دیتی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو ماخذ ِ ثانی قرار دیتی ہے۔ چنانچہ قرآن کے عطا کردہ اصول اور نبیؐ کے چھوڑے ہوئے اُسوے میں دو بنیادی ماخذ ہیں جن پر اسلامی تہذیب کے قصر کی تعمیر ہوتی ہے۔

زبان و ادب

اسلامی ثقافت کی ان دو بنیادوں کے مختصر ذکر کے بعد اب ہم ثقافت کے ایک اہم پہلو، یعنی ذریعۂ اظہار کو لیتے ہیں۔ انسانی معاشرہ جن عناصر کے سہارے وجود میں آتا ہے زبان ان میں سے  ایک اہم ذریعہ ہے۔ ایک لمحے کے لیے زبان کو معاشرے سے الگ کر دیجیے ۔ حُسن، رنگ و بُو، رعنائی و نیرنگی، غرض تمام جسمانی اور نفسیاتی تجربات یکایک وجود سے عدم میں چلے جائیں گی۔ قرآن کی زبان الہامی و توقیفی ہے۔ گو، قرآن کے بیش تر الفاظ لغت ِ انسانی سے تعلق رکھتے ہیں لیکن اپنی بلاغت، ادبیت اور اعجاز کے اعتبار سے یہ اپنی مثا ل آپ ہیں۔ گویا خالص زبان کے نقطۂ نظر سے بھی قرآن بلند ترین ادبی خصوصیات کا حامل ہے۔

قرآن کے ہرکلمے میں زبردست اثرانگیزی ہے۔ قرآن اپنے نظریۂ ادب کی بنیاد کائنات کی ٹھوس حقیقتوں پر رکھتا ہے اور اظہار کے لیے صحت ِ فکر اور عصمت ِ خیال کو لازمی قرار دیتا ہے۔ اگر حُسن کا معیار معلوم کرنا ہو تو حضرت یوسف ؑ کے حالات دیکھیے۔ اگر ہجر کی لذتوں کا اندازہ کرنا ہے  تو حضرت یعقوب علیہ السلام کی کیفیات سے گزریئے۔ اگر صبروقناعت کا مشاہدہ کرنا ہے تو حضرت ایوب علیہ السلام کی واردات کا مطالعہ کیجیے۔ اگر استقامت کا مفہوم سمجھنا ہے تو راتوں کو جاگنے والے اور کمبل میں لپٹنے والے، سرورِ دوعالمؐ کے حالات کی ورق گردانی کیجیے، غرض جہنم میں لکڑیاں ڈھونے والی ابولہب کی بیوی سے لے کر حُورانِ بہشت تک ہرمضمون اور ہرموضوع پر زبان و ادب کے مکمل ترین شاہکار قرآنِ پاک میں موجود ہیں۔ ضرورت صرف دیکھنے والی آنکھ، محسوس کرنے والے دل و دماغ، اور سننے والے کان کی ہے۔

قرآن کریم کے زیراثر وجود میں آنے والی ادبی روایت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ قرآن نے عربی زبان کو زندۂ جاوید کر دیا ہے۔ اس پہلو سے دنیا کی کوئی تمدنی زبان اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ نزولِ قرآن سے آج تک اس زبان کا ادب قرآن کا رنگ لیے ہوئے ہے۔ اس کے محاورے، روزمرہ اور الفاظ کے استعمالات میں وہ بنیادی تبدیلیاں واقع نہیں ہوئی ہیں جو دنیا کی ساری زبانوں میں گردشِ زمانہ کے ساتھ ساتھ رُونما ہوتی رہتی ہیں، اور نتیجتاً ایک دَور کی زبان اور اس کا ادب دوسرے دور کے لیے اجنبی اور غیرمانوس ہوجاتاہے۔ نہ صرف یہ کہ قرآن کریم نے عربی زبان کو عالم گیریت سے نوازا بلکہ قرآن کی وجہ سے عربی زبان کے ہزاروں الفاظ دنیا کی دوسری زبانوں میں شامل ہوئے اور ثقافتی اتصال کا ذریعہ بنے۔

شاعری

اسلامی ثقافت کے زیرِاثر وہ عرب شعرا جو زُلف ِ گرہ گیر، نگہ نیم باز، خنجروابرو، لب و رُخسار، اور حُسن و عشق کی حکایات کے لیے مشہور تھے، اب حمدباری تعالیٰ، منقبت ِ رسولؐ، فضائلِ اخلاق، حکایات اور سلوک و معرفت کی منازل جیسے موضوعات پر طبع آزمائی کرنے لگے۔ قرآن نے شرم و حیا، پاک بازی و عفت کے تصورات دے کر عرب شاعری کو حجاب کی چادر اُوڑھا دی۔ بلاشبہہ قرآن شعر نہیں ہے لیکن اس کا اسلوب اپنی مثال آپ ہے۔ وہ ایسی نثر ہے جس میں شعر کا بانکپن ہے۔ شعریت کا حُسن اس کی سطرسطر سے نمایاں ہے۔ اس خاص اسلوب نے صرف عربی ادب کو متاثر نہیں کیا بلکہ دنیا کی جن جن زبانوں تک قرآن کا پیغام پہنچا ہے انھوں نے اس سے اثرلیا ہے۔ الفاظ، تراکیب اور جملوں کی ترتیب بھی اس سے متاثر ہوئی ہے اور محاورے، تشبیہات، استعارے بھی، غرض ہرہرچیز کو قرآن کے اسلوب نے متاثر کیا ہے، گو عربی قرآن کی زبان ہے خود اُردو پر اس کے اثرات کی ہزاروں مثالیں دی جاسکتی ہیں، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ قرآن کی حیثیت صرف متاثر کرنے والے کی نہیں بلکہ اس پہلو سے بھی معیار کی ہے۔ اس کا اعتراف اقبال نے اس طرح کیا ہے کہ   ع        آہنگ میں یکتا صفتِ صورئہ رحمٰن

 رسم و رواج

قرآن نے قدیم رسوم و رواج کی مناسب اصلاح کی اور صرف ان رسوم کو باقی رکھا جو اسلام کے بنیادی تصورات سے متعارض نہ تھیں۔ چنانچہ وہ تمام رواج جو انسان کی فطرت سے مناسبت نہیں رکھتے تھے یا جو اعلیٰ اخلاقی اصولوں سے ٹکراتے تھے اور صدیوں سے عربوں کی گھٹی میں پڑے ہوئے تھے، قرآنی ثقافت نے انھیں یک قلم منسوخ کر دیا، مثلاً غم کے موقعے پر بین کرنا، بال بکھیر کر چہرہ پیٹنا، ایامِ حج میں ستر کو ظاہر کرنا، جسم کو گودنا اور ایسا بنائو سنگھار کرنا جس سے زینت ظاہر ہو اور نامحرموں کے لیے کشش پیدا ہو، منع فرمایا۔ قرآن نے ایسی تمام رسوم و رواج کو تبرج جاھلیۃ سے تعبیر کیا ہے۔ اسی طرح شادی بیاہ کے موقعے پر بے جا اظہارِ شان و شوکت اور دھوم دھڑکے کو ناپسند کرتے ہوئے فرماںرواے عربؐ نے اپنی صاحب زادیوں کی شادی جس سادگی اور قناعت کے ساتھ فرمائی وہ اُمت ِ مسلمہ کے لیے ایک زندہ مثال کی حیثیت رکھتی ہے۔

اس طرح قرآن نے قومی روایت کو رطب و یابس اور منکر سے پاک کر دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ صحت مند روایت کو معاشرے کا ایک جزو بنایا اور اسے معروف سے تعبیر کیا، یعنی وہ چیز جو جانی پہچانی طور پر اخلاقی ہے۔ اس طرح یہ عظیم تصور دیا کہ دراصل نیکی انسان کی فطرت ہے اور انسان معاشرے کی اصل روایت ہے۔ اُن نیکیوں کو جنھیں اسلام قائم کرنا چاہتا ہے، قرآن ان کو ’معروف‘ کی اصطلاح سے تعبیر کرتا ہے اور یہ وہ بلند ترین مقام ہے جو کسی نظام میں روایات کودیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح دوسرے مقامی تعامل میں سے وہ چیزیں جو اسلام کی تعلیمات سے متصادم  نہ ہوں اور اس کی روح سے مطابقت رکھتی ہوں، ان کو اسلام اپنے نظام میں ضم کرلیتا ہے اور انھیں ’عرف‘ قرار دیتا ہے۔ پھر قرآن خدا کے رسولؐ کے طریقے کو مسلمانوں کا دائمی طریقہ بناتا ہے اور یہ سنت مسلم معاشرے کی زندہ روایت بن جاتی ہے۔ ہماری تمدنی زندگی میں ان روایات کی حیثیت وہی ہے جو کشتی کے لیے لنگر کی ہوتی ہے۔ اس طرح قرآن نے ہمارے تمدن اور ہماری ثقافت کے چاروں گوشے بھی مقرر کیے اور اس کے ارتقا اور اس کی ترسیل کے لیے بہترین راستے بھی متعین کر دیے۔

معاشرت

قرآن جس معاشرے کاتصور پیش کرتا ہے اس کی بنیادی خصوصیت، معاشرتی عدل ہے، یعنی افراد کے حقوق کا تحفظ ، امدادباہمی و تعاون ، اخوت اور بھائی چارہ اور ضروریات و حاجات کی فراہمی۔ قرآن معاشرتی زندگی کی بنیاد حُرمت اور عصمت کے تصورات پر رکھتا ہے اور متعین طور پر حرام رشتوں کی نشان دہی کردیتا ہے۔ قرآن کے قائم کردہ نظامِ عصمت و عفت میں تمسخر، تہمت،  عیب جوئی، بدگمانی ،بدنامی اور غیبت کے دروازے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیے گئے۔

گھریلو زندگی کو ہرقسم کے شک و شبہہ اور مناقشات و اختلافات سے پاک رکھنے کے لیے اتنی احتیاط برتی گئی کہ گھروں میں داخلے کے وقت اجازت کو ضروری قرار دیا۔ افراد کے تشخص کوبرقرار رکھنے کے لیے انھیں مختلف قبائل و شعوب میں بانٹا لیکن جہاں تک انسانی حقوق و فرائض کا تعلق ہے اس میں کوئی تفریق نہیں برتی۔ حتیٰ کہ غلاموں کو جو دنیا کی کسی بھی تہذیب میں عام انسانوں کے برابر نہیں سمجھے گئے، اسلامی ثقافت میں انھیں بھی یکساں بنیادی حقوق فراہم کیے گئے اور غلام سازی کو روکنے کے لیے اخلاقی اور قانونی ضوابط کو متعارف کروایا گیا۔ قرآن کے اس بنیادی نقطۂ نظر کا یہ اثر ہے کہ اس میدان میں بھی ہمارے ثقافتی مظاہر دوسروں سے بہت مختلف ہیں۔ فحش کلامی اورگالم گلوچ کے لیے یہاں کوئی گنجایش نہیں۔ غصہ اور اختلاف کے اظہار کے لیے یہاں اتقوا اللہ اور یھدیکم اللہ  کے کلمات استعمال ہوتے ہیں۔

امام غزالیؒ لکھتے ہیں کہ اگر اہلِ مدینہ کو کسی کو گالی دینی ہوتی ہے تو کہتے ہیں کہ تجھے جمعہ کا غسل نصیب نہ ہو، یعنی ایک نیکی تجھ سے چھوٹ جائے۔ ایسی نیکی جو فرض کے درجے کی نہیں ہے۔ اہلِ عرب آج تک دوسرے کو اپنی طرف متوجہ کرانے کے لیے یا اس کی بات کاٹتے وقت تعال اللہ  عمرک  (اللہ تیری عمر میں اضافہ کرے) کہتے ہیں۔ قرآن نے کہا کہ والدین کو اُف تک نہ کہو، اور توجہ دلائی کہ تم ان کا احسان نہیں اُتار سکتے۔ ان عالم گیر اور آفاقی و اخلاقی اصولوں کی روشنی میں خاندانی اور اجتماعی آداب کا ایک مکمل نظام تیار کیا۔ معاشرتی زندگی کے یہ تمام ثقافتی مظاہر قرآن ہی کا عطیہ ہیں۔

اکل و شرب اور لباس

بھوک کا رفع کرنا انسان کی ایک بنیادی ضرورت ہے۔ قرآن انسانوں کو صرف روحانی غذا ہی فراہم نہیں کرتا بلکہ انھیں خوردونوش کے طریقے بھی سکھاتا ہے۔ قرآن نے غذا کو حلال و حرام کی دوبڑی قسموں میں تقسیم کیا ہے اور دیگر معاملات کی طرح یہاں بھی ان اشیا کی نشان دہی کردی ہے، جو انسان کے لیے مضرت رساں ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ایک عمومی اصول یہ بھی بیان کر دیا ہے کہ جن اشیا پر اللہ کا نام لیا گیا ہو اور جو ممنوعات میں سے نہ ہوں ان کا استعمال جائز ہے۔ قرآن نے حلال و حرام کے دائرۂ کار کو وسعت دے کر زندگی کے تمام معاملات کو، خواہ وہ انتہائی ذاتی ہوں یا معاشرتی، معاشی ، سیاسی یا ثقافتی، ان دو الفاظ کے ذریعے اچھائی اور بُرائی میں تقسیم کردیا۔ چنانچہ حلال و حرام کا اطلاق محض خوردونوش پر نہیں بلکہ زبان سے کیا لفظ ادا کرنا ہے، کان سے کون سی بات سننی ہے، ہاتھ   کس جانب بڑھنا ہے، پائوں کو کس طرف حرکت کرنی ہے، معاملات کس طرح طے کرنے ہیں، غرض حلال و حرام کی بنیاد پر ایک اخلاقی تہذیب کا وجود صرف اور صرف قرآنِ کریم کا کارنامہ ہے۔

قرآن نے قبل از اسلام کے طورطریقوں ، جن میں بعض غذائوں کا صرف مردوں کے لیے مخصوص ہونا یا بعض حلال غذائوں کو اپنے اُوپر حرام قرار دے لینے سے منع فرمایا اور اس طرح انسانوں کو کفرانِ نعمت سے روکا۔ غذا کی طرح لباس بھی ایک اہم انسانی ضرورت ہے۔ قبل از اسلام کی ثقافت میں تن کی عریانی ہی لباس بن چکی تھی، حتیٰ کہ حرمِ کعبہ میں برہنہ طواف کرنا ایک عام عادت بن چکی تھی۔ قرآن نے لباس کے سلسلے میں اصول بیان فرمایا کہ وہ ساتر ہو، پاک صاف ہو، سادہ ہو اور دوسری اقوام سے مختلف ہو۔ چنانچہ دورِ نبویؐ کے معاشرے پر نظر ڈالیے تو یہی اصول کارفرما نظر آتا ہے۔ 

حضور صلی اللہ علیہ وسلم انتہائی سادہ بالعموم سفید لباس پسند فرماتے تھے۔ آپؐ نے مردوں کے لیے ایسے لباس کو پسند کیا جو مشقت و محنت میں حارج نہ ہو اور جس سے تکبر پیدا نہ ہو۔ چنانچہ ریشمی اور قیمتی لباس پہننے کو ناپسند فرمایا۔ بلاشبہہ لباس کے تعین میں آب و ہوا اور مقامی اثرات کا خاصا دخل ہے لیکن قرآن کے تصورات نے دنیا کے تمام ملکوں میں مسلمانوں کے لباس کا ایک خاص رنگ قائم کر دیا۔ اس میں سادگی، طہارت، نظامِ عبادات سے ان کی مناسبت کے ساتھ حُسنِ ذوق اور سلیقہ کو بھی ایک خاص مقام حاصل ہے۔

خاص مواقع پر پہننے والے لباس پر قرآن کی موزوں آیات کی کتابت بھی مسلمانوں ہی کی ایجاد ہے۔اس کا رواج اتنا بڑھا کہ غیرمسلم پادری تک خاص مواقع پر وہ کپڑے استعمال کرنے لگے جن پر عربی الفاظ لکھے ہوئے ہوتے تھے۔ مشہور مؤرخ رابرٹ بریفارلٹ اپنی کتاب تشکیلِ انسانیت میں اس کا ذکر کرتا ہے۔ آج بھی اشبیلہ کے میوزیم میں ایسی کپڑے پر کاڑھی ہوئی منقش تصاویر (Tapesteries ) موجودہیں جن میں عیسائی پادری وہ چوغے پہنے ہوئے ہیں جن پر قرآنی الفاظ، مثلاً لاغالب الا اللہ تحریر ہیں۔ شاید اسی کیفیت کو اُردو محاورے میں ’جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے‘ کہا گیا ہے۔

فنون

مفسّرین کا خیال ہے کہ قرآن میں جملہ علوم و فنون کے لیے بنیادیں موجود ہیں۔ چنانچہ قرآن نے جابجا غوروفکر کرنے اور تحقیق و جستجو اور تلاش کرنے کی تعلیم دی ہے۔ اگر غور کیا جائے تو محض قرآن کی بنا پر بہت سے فنون وجود میں آئے، مثلاً فنِ قرأت، فنِ تجوید، فنِ کتابت، فنِ کاغذ سازی اور دیگر قسم کے ورق، طغرانویسی، آرایشی و ہندسی خطوط، اُبھارواں و کندہ خطوط، فنِ جلدسازی وغیرہ۔

قرآن کی حفاظت کا وعدہ خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا لیکن مسلمانوں نے مزید احتیاط کے پیش نظر قرآنِ پاک کے الفاظ و معانی کے تحفظ کے لیے فنِ تجوید و قرأت کو فروغ دیا، تاکہ مختلف اقوام کے اختلاط سے (جن کے لہجے ایک دوسرے سے بالکل مختلف تھے) قرآن کے الفاظ متاثر نہ ہوں۔ گو، اسلام نے موسیقی کو پسند نہیں کیا لیکن حُسنِ صوت کی اہمیت کو تسلیم کیا۔ مسلمانوں نے خوش الحانی کے ساتھ قرآن کو پڑھنے کے ذریعے ذوقِ نغمہ کی تسکین بھی کی اور روح کے تغذیہ کا سامان بھی بہم پہنچایا۔

قرآن نے بت پرستی، لہوولعب اور ہرقسم کے شرک کی نفی کی تھی۔ اس لیے اس کے ماننے والوں کے فنون میں قرآن کی ان ہدایات کا عکس نظر آتا ہے۔ تصویر کشی عرب جاہلیہ میں بالکل عام تھی لیکن اسلامی ثقافت میں انسانی شبیہہ اور ذی حیات اجسام کی تصویرکشی کی جگہ ہندسی نمونے،     خط صغریٰ اور قرآنی آیات کے انتہائی خوش نظر نمونے بنائے جانے لگے۔ اوّل اوّل قرآنی آیات پتھروں پر کندہ کی گئیں لیکن دورِ عباسی میں فنِ تعمیر میں وسعتوں کے ساتھ عمارتوں پر ہونے والے پلستر پر، جب کہ وہ تازہ اور نرم ہوتا، سانچوں اور فرموں کی مدد سے آیاتِ قرآنی کے ابھارواں نقوش بنائے جانے لگے۔ نہ صرف یہ بلکہ ایسے قیمتی کپڑے تیار کیے جاتے جن میں سونے کے تاروں سے قرآنی آیات کاڑھی جاتیں اور ان کو رواجِ عام حاصل ہوا۔ بالعموم مساجد کے دروازوں، محرابوں، چھت کے گرد، منبر وں اور چمڑے کے دبیز پردوں پر انتہائی خوب صورت خط میں قرآنی آیات لکھی جاتیں اور نئے نئے نمونے اور شکلیں بنائی جاتیں۔

قرآن کو تحریری شکل میں زیادہ مدت تک محفوظ رکھنے کے لیے قسم قسم کے کاغذ اور دیگر سامانِ کتابت کی ایجاد ہوئی۔ چنانچہ کاغذ کے علاوہ جس کی عمر بہت محدود تھی، اریم، یعنی باریک کھال کی جھلّی، سفید رنگ کے پتھر کی پتلی پتلی اور چوڑی تختیاں (ہمارے ہاں کی سلیٹ سے مشابہ)، کتف، یعنی اُونٹ کے مونڈھے کے پاس سے تراشی ہوئی گول اور پتلی پتلی تختیاں، کھجور کی شاخوں کے چوڑے حصے سے نکالے ہوئے ورق ،بعض نرم لکڑیوں کی تختیاں جن پر تحریر کندہ ہوجاتی اور جنھیں قتب کہا جاتا، ایجاد کی گئیں۔ ان فنون کی ترقی میں سب سے زیادہ دخل قرآنِ پاک کو محفوظ کرنے کی سعی کا تھا۔ اسی طرح روشنائی سازی کا فن بہت ترقی کرگیا۔

اسلامی ثقافت محض چند مفروضوں اور چند تصورات سے عبارت نہیں ہے بلکہ یہ انسانی زندگی کے ہر گوشے اور ہرعمل کے بارے میں واضح اور حقیقی رہنمائی اور ہدایت فراہم کرتی ہے۔  یہ قول و عمل میں تطبیق پیدا کر کے انسان کے علم، عقیدہ، قانون، رسوم و رواج، معاشرت، معیشت، سیاست اور فنون، غرض ان تمام اعمال کو جو انسان معاشرے کے ایک فرد کی حیثیت سے انجام   دیتا ہے، آفاقی توحیدی ثقافت و تہذیب کے اخلاقی اصولوں کی روشنی میں ایک نئی شکل دیتا ہے اور انسانی معاشرے کو عدلِ اجتماعی کی بنیاد پر قائم کرتا ہے۔ اس معاشرے میں فرد کی ذاتی تربیت اور شخصیت کے ارتقا کے لیے فطری اور مناسب ماحول کی موجودگی اور ارادہ و عمل کی آزادی ایک متوازن اور صحت مند زندگی گزارنے کی ضمانت فراہم کرتے ہیں۔

اسلامی ثقافت قرآن اور سنت نبویؐ کی بنیادوں پر وجود میں آتی ہے اور اپنی ہمہ گیری کے سبب ہر زمانے اور دور کی ضروریات و مطالبات کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ یہ عربوں کے قبل اسلام کے رسوم و رواج کا نام نہیں ہے کیوں کہ اسلام کے آنے کا مقصد عربوں کو اسلام کے ضابطے میں لانا تھا، دنیا کے انسانوں کو عربیت کا رنگ دینا نہیں تھا۔ قرآن کریم کے احسانات میں سے ایک عظیم احسان اپنے معانی کے بیان کے لیے عربی زبان کو منتخب کرنا ہے۔ اگر قرآن عربی زبان پر یہ احسان نہ کرتا تو عربی بھی عبرانی اور دیگر زبانوں کی طرح سے ایک مدفون زبان بن جاتی۔ قرآنی ثقافت زمان و مکان کی قید اور مشرق و مغرب کے رسوم و رواج سے آزاد ایک ایسے زاویۂ نظر اور طرزِ حیات کا نام ہے، جس نے انسانوں کو جو اپنی تعریف ’ حیوانِ ناطق‘ یا ’معاشرتی حیوان‘ کے کرتے تھے، ایک ’اخلاقی مخلوق‘ میں تبدیل کر دیا جس کا ہرہر عمل عقل و دانش اور وحی الٰہی کے تابع ہونے کی بنا پر مقبول و محمود قرار پایا۔

اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو ذہنی اور جسمانی صلاحیتیں عطا کی ہیں، وہ اس قدر ہمہ گیر ، بے پایاں اور مختلف النوع ہیں کہ انھیں پوری طرح احاطۂ تحریر میں لانا ممکن نہیں ہے۔ دیکھنے، بولنے اور چلنے پھرنے کی صلاحیت ، سننے ، چکھنے اور سونگھنے کی صلاحیت ‘ حسب منشا اُٹھنے بیٹھنے اور آزادانہ حرکت کرنے کی صلاحیت ، اپنے ذہن سے سوچنے ، طرح طرح کے منصوبے تیار کرنے اور انھیں رُوبۂ عمل لانے کی صلاحیت___ ان صلاحیتوں کا مثبت پہلو یہ ہے کہ انسان نے زمین کو   گلِ گلزار بنادیا ہے۔ دورِ جدید کی راحتوں اور آسایشوں بھری زندگی، انسان کی انھی دماغی کاوشوں کی مرہونِ منت ہے ، لیکن اسی انسانی دماغ کی منفی سوچ کا نتیجہ ہے کہ انسان نے تخریب وہلاکت کے خوف ناک وسائل بھی مہیا کر لیے ہیں اور آج روے زمین کے بعض خطے جہنم زاربنے ہیں۔ اسے انسان کی بدبختی کے سوا ور کیا کہا جائے۔

تحریر ، بالفاظ دیگر فکرو سوچ یا خیالات واحساسات کو بذریعہ قلم، صفحۂ قرطاس پر منتقل کرنا بھی اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ، ایک بہت بڑی صلاحیت ہے اور نعمت بھی۔بیش تر انسانی صلاحیتوں کی طرح یہ بھی ایک وہبی صلاحیت ہے، تا ہم کوئی بھی شخص جو لکھنا پڑھنا جانتا ہو، مطالعے ، مشق اور کاوش وکوشش کے ذریعے ، اپنے اندر یہ صلاحیت پیدا کر سکتا ہے، اور اسے نشو ونما دے کر ، اس سے مفید کام لے سکتا ہے۔

جو لوگ کسی تحریک سے وابستہ ہو کر، ایک بڑے مقصد کے لیے کام کررہے ہوں، ان کے لیے تو قلم وقرطاس کا فن جاننا ازبس ضروری ہے۔ دورِحاضر میں کتابیں ، رسائل اور اخبارات مختلف نظریات وخیالات کی تبلیغ واشاعت میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ اگر آپ اپنی بات کو تحریر کا رُوپ دینے پر قادر ہیں اور آپ کی بات میں وزن ہو گا، دلیل ہو گی تو بہتوں کو متاثر کرے گی،  قائل کرے گی، اورا س سے کئی ایک آپ کے ہم آواز اور ہم سفر ہو جائیں گے۔ دورِ حاضر میں تو لکھنے لکھانے کا اقتصادی پہلو بھی اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ اس وقت لکھنے والوں کی کثیر تعداد نے تحریر کو ذریعۂ معاش بھی بنا رکھا ہے۔ مغرب میں تو لکھنے والوں کو تحریر کا نہایت معقول معاوضہ ملتا ہے ، مگر ہمارے ہاں کتابوں اور رسالوں کی اشاعت نسبتاً کم ہے، اس لیے معاوضہ ملتا ہی نہیں یا بہت کم ملتا ہے۔ اس کے باوجود لکھنے لکھانے سے ادیب کو کچھ نہ کچھ یافت ہو سکتی ہے، اور ہمارے معاشرے میں کئی لوگ اپنے قلم کی کمائی پر گزر بسر کر رہے ہیں۔

انسان کے اندر بہت سی صلاحیتیں موجود ہوتی ہیں،مگر بسا اوقات وہ پوری طرح ان سے باخبر نہیں ہوتا--- ہم میںسے ہر شخص اپنے ما فی الضمیر کو زبان پر لانے اور بذریعہ گفتگو یا اسے دوسروں کے سامنے بیان کرنے پر قادر ہے۔ عمر ، تجربے، تعلیم یا مشق کے مطابق ہر شخص کی گفتگو یا بیان کا معیار تو مختلف ہو سکتا ہے، مگر جسے خدا نے زبان دی ہے، وہ اپنی ضرورت یا احساس کو بیان کرنے پر یقینا قادر ہے۔ اب اگر آپ سے کہا جائے کہ ابھی آپ نے جو کچھ کہا ہے ، اسے لکھ کر بتائیے تو آپ کو تعمیل میں، شاید بہت مشکل پیش آئے گی۔ آپ کہیں گے میں نے تو کبھی لکھا ہی نہیں (گویا لکھنا بھی ایک لحاظ سے پیراکی کے مترادف ہوا۔ جو شخص کبھی پانی میں نہ اترا ہو، اسے کہا جائے یہ ندی نالہ پار کر کے دکھائو، تو وہ آپ کا منہ تکے گا کہ یہ فرمایش ، اور مجھ سے؟) ۔

ہم کیسے لکھیں ؟---یہ صرف آپ کا نہیں ، ان سب لوگوں کا مسئلہ ہے، جو لکھتے نہیں۔  اور جو لکھتے ہیں ان کے لیے لکھنا کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ اگر آپ بھی لکھنا شروع کر دیں تو یہ آپ کے لیے کوئی مسئلہ نہیں رہے گا،ان شا اللہ العزیز۔ لکھنا آپ کے لیے ویسا ہی روز مرہ یا روٹین کا عمل ہوگا، جیسے آپ روزانہ گھر سے نکل کر سکول یا کالج جاتے ہیں یا کپڑے بدلتے ہیں یا حسب ضرورت گفتگو کرتے ہیں۔ اگر آپ لکھنا جان جائیں ، اور آپ کے اندر یہ اعتماد پیدا ہو جائے کہ میں جو چاہوں ، جب چاہوں اور جس طرح چاہوں، لکھ سکتا ہوں تو بس یہی مطلوب ہے۔

نثر لکھنے کی صلاحیت ہر اس شخص کے اندر موجود ہوتی ہے، جو معمولی املا لکھ سکتا ہے اور   یہ صلاحیت ہرتعلیم یافتہ (کم یا زیادہ)کے اندر موجود ہوتی ہے۔یہ صلاحیت یقینا آپ کے اندر بھی موجود ہے۔ سب سے پہلے تو آپ کو اپنے اندر ، تحریر کی ضرورت واہمیت کا احساس پیدا کرنا ہے۔ اگر آپ ذہناً اس کی افادیت کے قائل ہو جائیں تو پھر اس عزم کو تازہ کیجیے کہ آپ کو لکھنا سیکھنا ہے، کچھ نہ کچھ لکھنا ہے، اور بذریعہ تحریر اپنی سوچ ، اپنی بات اور اپنا تاثر دوسروں تک پہنچانا ہے۔ مثبت اقدار کی حمایت میں قلم اٹھانا ، اور کسی بھی تحریر (ناول ، افسانہ ، ڈراما، شاعری، مضمون ، تنقید، طنزومزاح، حالات حاضرہ پر تبصرہ ، حتیٰ کہ کسی اخباری مراسلے) کے ذریعے اپنے مقصد ونصب العین کو قارئین تک پہنچانے کی کوشش شہادتِ حق اور جہاد فی سبیل اللہ ہی کی ایک صورت ہے۔

اگر آپ کے اندر یہ عزم راسخ ہو جائے کہ مجھے اپنے مثبت اور سچے محسوسات دوسروں تک پہنچانے ہیں تو ہر روز دس مرتبہ آپ کا جی چاہے گا کہ یہاں مجھے اپنی بات کہنی چاہیے، اپنا موقف پیش کرنا چاہیے۔ ہم ایک نا ساز گار ماحول میں زندگی بسر کر رہے ہیں اور حالات ومعاملات کو قدم قدم پر اپنی طبیعت ، اپنے مقاصد اور اپنے اصولوں کے خلاف پاتے ہیں۔ حق وانصاف کا خون ہوتا دیکھتے ہیں۔ بددیانتی اور بے اصولی فروغ پذیر ہے۔ خیرو شر کے درمیان چہارسُو، ایک معرکہ اور ایک کش مکش برپا ہے ۔ ہمارے ایمان کی کسوٹی یہ ہے کہ ہم شر اور باطل کے خلاف کس حد تک آواز بلند کرتے ہیں۔ اس کا ایک ذریعہ ، اور بہت مؤثر ذریعہ یہ ہے کہ ہم بذریعہ تحریر (اس کی کوئی بھی صورت ہو، کوئی بھی صنف سخن ہو ) حق وراستی کی حمایت میں اور باطل کے خلاف آواز بلند کریں۔ کوئی مضمون لکھیں ، یا اخبار کو ایک مختصر مراسلہ ہی بھیج دیں۔ کسی اور صنف نثر میں دسترس ہے تو اسے  ذریعۂ اظہار بنائیں، یعنی آپ اپنا ردعمل ضرور ظاہر کریں۔ خبریں سنتے ہوئے یا اخبار پڑھتے ہوئے، یا اسکول کالج،ملازمت یا بازار سے واپسی پر آپ کچھ محسوس کر رہے ہیں اور ذہن میں لاوا پک رہا ہے، قلم پکڑ ئیے ، کاغذ اٹھائیے اور اپنے تاثرات قلم بندکر ڈالیے ۔ اب تو سوشل میڈیا بھی اظہار راے کا اہم ذریعہ ہے۔

جب آپ لکھنا شروع کریں گے (اور اگر آپ، لکھنے کی اچھی خاصی مشق نہیں رکھتے تو ) آپ کو کچھ دقت محسوس ہو گی۔ ممکن ہے، الفاظ ، خیالات کا ساتھ نہ دیں۔ اپنے محسوسات کے مناسب جملے بنانے میں آپ کو مشکل پیش آئے یا آپ اپنی بات کو مؤثر انداز میں اور صحیح ترتیب کے ساتھ پیش کرنے میں کامیاب نہ ہوں--- کوئی حرج نہیں ، اہم تو یہ ہے کہ آپ جو کچھ محسوس کرتے ہیں، اسے سوچ ساچ کر، اپنے تئیں بہتر سے بہتر انداز میں مناسب سے مناسب تر الفاظ کے ذریعے کاغذ پر منتقل کر دیں۔یہ عمل وقتاً فوقتاً دہرائیے ۔ رفتہ رفتہ آپ محسوس کریں گے کہ مشکلات کم ہو رہی ہیں اور اب آپ کے لیے ما فی الضمیر کو ادا کرنا آسان تر ہوتا جا رہا ہے۔

درحقیقت مشق ، تحریر کو بہتر اور مؤثر بنانے کا نہایت کار گر اور کامیاب ذریعہ ہے۔ خوش نویسی (کتابت ) کے حوالے سے ایک شعر ہے:

گر تو می خواہی کہ باشی خوش نویس

مے نویس و مے نویس و مے نویس

(اگر تو چاہتا ہے کہ خوش نویس بن جائے تو لکھتا رہ ، لکھتا رہ ، لکھتا رہ )۔

ادیب، مضمون نویس یا نثر نگار بننے کے لیے مسلسل لکھتے رہنا از بس ضروری ہے۔ بعض معروف اور نامور ادیب بھی مسلسل مشق کے اس عمل سے گزر کر ہی بلند پایہ نثرنویس بنے ہیں، مثلاً: محمد حسین آزاد کے صاحب ِطرز ادیب اور منفرد نثرنویس ہونے میں کسے کلام ہے، مگر ایک زمانے میں وہ اپنی معمولی تحریروں کو بھی لکھتے ، پھاڑ دیتے ، پھر لکھتے اور پھاڑ دیتے اور اس طرح متعدد کاوشوں کے بعد تحریر کو حتمی شکل دیتے تھے۔ اپنی تحریر کو تنقیدی نظر سے دیکھنا ، جانچنا اور اسے بہتر بنانے کے لیے اس میں ترامیم کرنا خرابی کی نہیں ، خوبی کی بات ہے۔ محنت ومشکلات کا یہ عمل ’خونِ جگر‘ صرف کرنے کے مترادف ہے۔ ادیب، بلکہ ہر فن کار خونِ جگر صرف کر کے اپنی تخلیق کو زیادہ معیاری بنا سکتا ہے۔ مشق اور محنت کے بغیر کوئی انسانی کاوش پختگی اور معیار حاصل نہیں کر سکتی ۔ بقول علامہ اقبال :

نقش ہیں سب نا تمام خون جگر کے بغیر

نغمہ ہے سوداے خام خون جگر کے بغیر

خود علامہ اقبال نے اپنے بعض اشعار کو تین تین چار چار بار کاٹ کر، بہتر بنایا۔ (اقبال اکادمی پاکستان لاہور میں محفوظ ان کے قلمی مسودوں سے اس بات کا ثبوت فراہم ہوتا ہے ۔ )

مشق کے مرحلے میں، اگر ممکن ہو تو اپنی تحریر کسی کو دکھا لیں۔ کسی استاد یا بزرگ کی اصلاح، آپ کے لیے مفید رہنمائی کا باعث ہوگی۔ وہ آپ کی تحریر میں جو حذف وترمیم کریں، جملوں کی ترتیب بدلیں ، لفظوں میں کانٹ چھانٹ کریں، اس پر خوب غور کر کے ، اپنی خامی کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ اگر سمجھ نہ آئے تو دریافت کرنے میں عار محسوس نہ کریں۔

اب اگر آپ کچھ نہ کچھ لکھنے کی افادیت وضرورت کے قائل ہو چکے ہیں تو اللہ کا نام لے کر، آج ہی سے تحریری مشق شروع کر دیجیے ۔ لکھنے کی مشق کے ساتھ ، درج ذیل نکات بھی آپ کی توجہ کے لائق ہیں:

  • مسلسل مطالعہ : ایک اچھا لکھنے والا، معیاری تحریروں اور کتابوں کے مطالعے سے کبھی غافل نہیں ہوتا۔ صاحبِ طرز ادیبوں اور صاف ستھری خوب صورت نثر لکھنے والوں کی کتابیں مسلسل زیر مطالعہ رکھیے، جیسے الطاف حسین حالی، شبلی نعمانی، پریم چند ،خواجہ حسن نظامی، شاہداحمد دہلوی ، سیّد ابو الاعلیٰ مودودی، رشید احمد صدیقی، صلاح الدین احمد، فضل کریم احمد فضلی ، مختارمسعود، شیخ منظور الٰہی ، نعیم صدیقی ، جیلانی بی اے اور رضا علی عابدی وغیرہ (یہ فہرست مکمل نہیں ہے )۔ انھیں مطالعہ کرتے ہوئے دیکھیے کہ زبان کیسی بامحاورہ ہے ؟ الفاظ وتراکیب کا استعمال کیسا ہے ؟ جملوں کی ساخت کیسی ہے ؟ تشبیہ واستعارہ اور صنائع و بدائع کی صورت کیا ہے ؟آپ کسی سے متاثر ہوکر اس کی نقل نہ کیجیے کیوں کہ صاحب اسلوب ادیب کی تقلید آسان نہیں ہوتی، ہاں اس مثال کو ذہن میں رکھیے اور دیکھیے کہ آپ کو بھی اسی طرح صحیح اور دل کش زبان میں لکھنا ہے۔ بہرحال آپ معیاری تحریروں کا جس قدر وسیع مطالعہ کریں گے ، غیر شعوری طور پر، آپ کی تحریر بھی بہتر ہوتی جائے گی۔
  • لوازمہ و معلومات : جب آپ کسی خاص موضوع پر کچھ لکھنا چاہیں تو ممکنہ حد تک ، متعلقہ معلومات اور لوازمہ فراہم کر لیں ۔ کتابوں سے ، رسالوں سے اور انسائیکلو پیڈیا سے۔ اسی طرح بزرگوں یا اس شعبے کے ماہرین سے استفسار اور مشورہ بھی کیجیے۔ جس قدر مفصل معلومات فراہم ہوں گی ، آپ کی تحریر اس قدر جامع اور بھر پور ہو گی۔ ناکافی یا غلط معلومات کی بنیاد پر لکھی جانے والی تحریر ناقص ہو گی اور بعض صورتوں میں گمراہ کن بھی۔
  • سوچ بچار : اپنے ارد گر د پھیلی ہوئی زندگی ، اس کے نشیب وفراز ، اس کے خیرو شراور اس کے وقوعات وحادثات پر غور وفکر کی عادت ڈالیے ۔ کسی صورت حال کے اسباب ، اس سے  عہدہ بر آ ہونے کی تدابیر، مسائل حل کرنے کے طریقے اور مختلف مسائل کو سلجھانے کی صورتیں ، ان پہلوئوں کے بارے میں آپ جس قدر سوچ بچار سے کام لیں گے اور معاملات کی ماہیت اور تصویر کے دونوں رخ آپ کے زیر غور رہیں گے، آپ کے لیے حقائق تک پہنچنا اور اصلیت کو  جان لینا آسان ہو گا اور آپ کے ذہن میں مسائل ومعاملات کو سلجھانے کی صلاحیت پیدا ہو گی ۔ اس طرح آپ کی تحریر تفکرو تدبر کی حامل اور قارئین کے لیے کہیں زیادہ افادیت کا باعث ہو گی۔
  • ابتدائی خاکہ اور ترتیب : آپ جو کچھ لکھنا چاہیں اور موضوع کاا نتخاب کر لیں (موضوع کا انتخاب اپنی مخصوص افتادِ طبع، Aptitudeاور صلاحیت کے مطابق کیجیے )توتحریر یا مضمون کا ایک ابتدائی خاکہ بنائیے ۔ آغاز کیسے ہو گا ؟ کیا کیا نکات، کس ترتیب سے پیش کریں گے؟ دلائل ؟موضوع کی مناسبت سے اقوال ، فرمودات ، ضرب الامثال ، اشعار بھی جمع ونوٹ کر لیں اور ان کی ترتیب بھی قائم کر لیں۔ پھر اختتام کیسے ہو گا ؟ خاکے پر بارد گر غور کیجیے ۔ کیا یہ ترتیب مناسب اور منطقی ہے ؟ اگر نہیں تو اس میں مناسب رد وبدل کر کے خاکے کو زیادہ سلیقے اور ہنر مندی سے مرتب کیجیے۔ جب آپ کو خاصا تجربہ ہوجائےگا تو پھر آپ کو خاکہ بنانے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔
  • اسلوب و انداز: کسی تحریر کی دل کشی اور مقبولیت میں عبارت کا انداز واسلوب بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ اسلوب جس قدر جان دار، توانا اور خوب صورت ہو گا ، آپ کی تحریر اس قدر جذب وتوجہ سے پڑھی جائے گی اور بلند پایہ شمار ہوگی۔ معروف عمرانی مفکر اور تاریخ نویس ابن خلدون کا کہنا ہے کہ الفاظ پیالہ ہیں، اور معانی پانی ---اب اگر پانی ، کسی بد نما اور بھدے پیالے یا برتن میں ہوگا تو قدرتی طور پر پینے والے کو کچھ اِبا محسوس ہو گا۔ بعض اوقات خیالات کی بلندی اور معلومات کی وسعت کے باوجود اسلوب کی خشکی اور بے کیفی مضمون کا معیار گرا دیتی ہے۔ اس ضمن میں حسب ذیل امور پیش نگاہ رہیں تو فائدہ ہو گا:

(الف ) جملے مختصر اور سادہ ہوں۔ طویل فقروں اور قدیم انداز کی شاعرانہ اور مسجع ومقفیٰ زبان آج کے اسلوب سے مطابقت نہیں رکھتی۔ علاوہ ازیں حتی الامکان انگریزی الفاظ وتراکیب کے استعمال سے احتراز کیجیے ، خصوصاً جہاں اُردو مترادفات موجود ہوں۔

(ب ) صحتِ زبان کا خاص خیال رکھیے ۔ اس ضمن میں یوں تو بہت سی مفید کتابیں آپ کی رہنمائی کر سکتی ہیں۔ تا ہم، پروفیسر آسی ضیائی کی کتاب درست اُردو  زیر مطالعہ رکھیے ۔ اسی طرح رشیدحسن خاں کی انشاء اور تلفظ  ، اور عبارت کیسے لکھیں کے مطالعے سے بھی ان شا اللہ فائدہ ہو گا۔ اشعار یا اقوال بالکل صحیح ہونا ضروری ہے۔ جہاں شبہہ ہو ، اصل کتاب دیکھ کر درست صورت اختیار کیجیے۔

(ج ) جہاں تک ممکن ہو، اختصار ملحوظ رکھیے ۔ اپنے ما فی الضمیر کو کم سے کم لفظوں میں ادا کرنے کی کوشش کیجیے۔ کفایتِ لفظی ، اچھی تحریر کی بنیادی خوبی ہے اور تکرارِ لفظی عیب ہے--- تاہم اختصار وکفایتِ لفظی کا اہتمام مناسب حد تک ہونا چاہیے۔ ایسا نہ ہو کہ لفظوں کی کفایت کرتے کرتے عبارت چیستان بن جائے اور قاری مفہوم سمجھنے سے قاصر رہے۔

(د) تحریر کا اسلوب ، موضوع کے حسب حال ہونا چاہیے، یعنی ناول وافسانہ ہے تو افسانوی انداز، سماجی وعمرانی مسائل ہوں تو عالمانہ اسلوب ، ادبی تنقیدی موضوع ہوتو تنقیدی اسلوب ---! تحریر طلبہ کے لیے ہو تو نسبتاً آسان اور تشریحی انداز، روز مرہ کے مسائل ہوں اور اخباری تحریر ہو تو عام فہم اور سلیس عبارت ہونی چاہیے تا کہ کم پڑھے لوگ بھی سمجھ سکیں۔ پھر تحریر کے اندر مثالیں بھی حسب معیار وماحول ہونی چاہییں۔

  • نظرثانی: تحریر مکمل ہونے پر ، اسے دوبارہ دیکھیے ، بلکہ سہ بارہ اس پر نظر ڈالیے ۔  کیا عبارت صاف ہے ؟ جملوں کا باہمی ربط ٹھیک ہے ؟ لفظوں کا انتخاب واستعمال مناسب ہے؟ تحریر پڑھتے ہوئے کوئی ابہام یا اُلجھن تو محسوس نہیں ہوتی ؟ اگر مضمون میں حوالے دیے گئے ہیں تو کیا یہ مکمل ہیں ؟ ادھورے اور غیر معتبر یا مشکوک حوالے نکال دیجیے۔ حسب ِ ضرورت عبارت بڑھائیے یا کم کر دیجیے ، ترمیم وتنسیخ یا حذف واضافہ کیجیے---غرض بہ اطمینان ،اپنی تحریر پر پوری طرح نظرثانی کیجیے ۔

اب اپنی تحریر کی ایک نقل بنوا کر، اسے اشاعت کے لیے بھیج دیجیے ۔ مضمون شائع ہونے میں تاخیر ہو تو گھبرائیے نہیں۔ ایک اور کاوش کیجیے،کوئی اور چیز لکھیے اور یہ سلسلہ مستقلاً جاری رکھیے۔ رفتہ رفتہ آپ کی تحریریں شائع ہونے لگیں گی، اور ایک روز آپ کا شمار لکھنے والوں کی اس فہرست میں ہو گا ، جو شاید اس وقت آپ کے لیے باعثِ رشک ہیں۔

پاکستان میں اس وقت جو نظریاتی ، فکری اور تہذیبی چیلنجز درپیش ہیں ان کا ماخذ اور منبع ہمارا نظامِ تعلیم ہے۔ نظامِ تعلیم میں گہری جڑیں رکھنے والے ان چیلنجوں کی وجہ سے پاکستانی معاشرہ بہت تیزی کے ساتھ تغیر کا شکار ہو رہا ہے۔ بدقسمتی سے اس تغیر و تبدیلی کی سمت اور رحجان مغربی افکار، مغربی فلسفۂ حیات ، مغربی رہن سہن اور مغربی طرزِ زندگی کی طرف ہے۔ ہمارے نظامِ تعلیم کو درپیش چیلنجوں میں سے کچھ داخلی ہیں اور کچھ خارجی ۔ خارجی چیلنجوں میں مغربی استعماری ایجنڈے کی تکمیل کے لیے کام کرنے والی قوتیں اور ایجنسیاں ، گلوبلائزیشن اور نیو لبرلزم کے بین الاقوامی ہتھکنڈے، جمہوری لبادے میں چھپی سیکولرزم کی زہرناکی اور ان سب کی سر پرست اعلیٰ عالمی صہیونیت شامل ہیں۔ داخلی چیلنجوں میں اپنے آپ کو مغربی اور لبرل قوتوں کے لیے ’قابلِ قبول‘ بنانے کی خواہش، اپنے فکر و عمل کی قوتوں پر بے اعتمادی اور اُن کی اثر پذیری کو قبول کرنا ہے۔ جاہ پسندی اور مال و دولت کے حصول کی اندھی خواہش اور سب سے بڑھ کر دینی وابستگی کا اظہار کرنے والوں میں گھسے ہوئے ایسے پُرکشش چہرے ہیں، جو اکثر و بیش تر بااثر بھی ہیں اور باصلاحیت بھی۔

خارجی چیلنج

خارجی چیلنجوں میں سب سے پہلے ہم مغربی استعماری ایجنڈے کی تکمیل کے لیے کام کرنے والی قوتوں اور ایجنسیوں کو لیتے ہیں۔ ان قوتوں اور ایجنسیوں کی باگ ڈور یک قطبی عالمی طاقت امریکا نے اپنے ہاتھوں میں لے رکھی ہے۔ امریکا نے بزعم خود کافی حد تک دنیا کو عسکری طورپر   قابو میں لے لیا ہے۔ اگرچہ افغانستان اور عراق کا تجربہ اس کے لیے سخت پریشانی اور ہزیمت کا باعث ہے، تاہم عسکری قوت کے لحاظ سے فی الوقت امریکا اپنے غلبے کو دوام اور استحکام بخشنے کے لیے ذہنوں کو تسخیر کرنا چاہتا ہے۔ عالمی میڈیا ذہنوں کی تسخیر کا سب سے بڑا ہتھیار ہے اور یہ ہتھیار بھی تقریباً امریکا کے ہاتھوں میں ہے۔ اِدھراُدھر سے اُٹھنے والی اختلافی اور حریت فکر کا رنگ لیے دبی دبی آوازیں میڈیا کے امریکی ہتھیار کو اعتبار(credibility)دیتی ہیں اور اُسے بالکل بے نقاب ہونے سے بچاتی ہیں۔

اگرچہ میڈیا کا اثر بہت وسیع اور گہرا ہے، تا ہم یہ قلیل المیعاد ہتھکنڈا ہے۔ طویل المیعاد اثرات صرف اور صرف کلاس روم کو کنٹرول میں لینے سے حاصل ہوتے ہیں۔ امریکا نے پچھلے ۵۰،۶۰ برسوں میں کئی تجربات کیے ہیں اور اب آخر اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ پری سکول (Pre-school) ہی سے اس کام کو ہاتھ میں لے لینا چاہیے، تاکہ بچے ابتدائی تشکیلی دور ہی سے  قابو میں آجائیں اور اُن کی شخصیت و ذہن کی طبعی اُٹھان مطلوبہ سانچے کے مطابق ہو۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے امریکی کار پردازوں نے بڑا مربوط اور تسلسل کا حامل ایک ڈھانچا تشکیل دیا ہے، جو واشنگٹن سے اسلام آباد اور اسلام آباد سے صوبہ سندھ، صوبہ بلوچستان، صوبہ پنجاب اور صوبہ خیبرپختونخوا کے دُور دراز کے پرائمری مدارس تک پھیلا ہو ا ہے۔

امریکا کے تشکیل کردہ اس ڈھانچے میں عمل تعلیم کے سارے عناصر، یعنی معلم، متعلّم، نصاب، کتاب، امتحان، حتیٰ کہ والدین تک کو زیر اثر لانے کی تدابیر اختیار کی گئی ہیں ۔ یو ایس ایڈ کی چھتری تلے اور ’ایجوکیشن سیکٹر ریفارمز اسسٹنس پروگرام‘(ESRAP)کی تنظیم کے تحت اور چلڈرن ریسورسز انٹرنیشنل جیسے پری سکول ایجوکیشن کے لیے کام کرنے والے اداروں کے توسط اور عملی شرکت سے ایک نفوذ ی حکمت عملی اختیار کی گئی ہے۔

اساتذہ کی تربیت کا ایک وسیع پروگرام ہے جس میں بڑی کلاسوں کے اساتذہ کی تربیت کے تربیت کار امریکا میں، جب کہ اسکولوں کے اساتذہ کے لیے اپنے اپنے علاقے میں دورانِ ملازمت تربیت کا اہتمام کیا گیا ہے۔ دیگر مغربی ایجنسیاں جن میں یورپین کمیشن، کینیڈین ایجنسی براے انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ، برطانیہ کا بین الاقوامی ترقی کا امدادی ادارہ (DFID)،جرمنی کا بین الاقوامی معاونت کا ادارہ (GIZ)اور دیگر یورپی ملکوں کے امدادی ادارے، بین الاقوامی این جی اوز اور اقوام متحدہ کے ادارے شامل ہیں۔ یہ سب ایک مربوط حکمتِ عملی اور پاکستان میں اپنے اپنے قائم کردہ انتظامی و نگرانی کے اداروں کے ذریعے سے تعلیم کی اصلاح اور تعمیر نو کے پروگراموں پر عمل پیرا ہیں۔ بین الاقوامی امدادی اور ترقیاتی اداروں کا جہاں ایک مثبت کردار ہے، وہاں اُن کا ایک اپنا باطنی ایجنڈا بھی ہوتا ہے۔ اور کچھ بھی نہ ہو تو ثقافتی اور نظریاتی تبدیلی تو بہرحال اُن کے پیش نظرہوتی ہے۔

گلوبلائزیشن اور نیو لبر لزم کے تحت زیر تشکیل نئے عالمی نظام کی طرف سے آنے والے علیحدہ چیلنج ہیں، جو معاشرے کے پورے ڈھانچے کو متاثر کرنے کے ساتھ ساتھ تعلیم کے شعبے کو بھی بُری طرح مسخ کر رہے ہیں۔پرائیویٹائزیشن (privatization)،مارکیٹ اکانومی ، تعلیم بطور  جنس بازار، تعلیم کے سلسلے میں بین الاقوامی سرحدوں کا انہدام اور منڈی کی ضروریات کے تحت تعلیمی پروگراموں کی تشکیل، وہ اثرات ہیں جس سے ’تعلیم سب کے لیے‘کا تصور دھند لا رہاہے۔ طبقاتی تفریق بڑھ رہی ہے۔ تعلیم میں اخلاقی اقدار زوال پذیر ہیں۔ یونی ورسٹی میں سماجی علوم کی تعلیم ختم ہو رہی ہے۔ اساتذہ اور ماہرین تعلیم کا کردار تعلیمی پالیسیوں کی تشکیل کے حوالے سے بہت پیچھے چلا گیا ہے اور سرمایہ دار تعلیمی پالیسیوں کی تشکیل پر حاوی ہو گیا ہے۔

داخلی چیلنج

تعلیم کے لیے اندرونی چیلنج بھی کچھ کم روح فرسا نہیں ہیں۔ حکومت اپنے آمرانہ ڈنڈے کے زور پر تعلیم میں لادینیت کے فروغ کے لیے تن دہی سے کام کر رہی ہے۔ فیصلہ سازی کے اہم مناصب پر ایسے لوگ متعین کر دیے گئے ہیں جو سیکولزم اور لبرلزم کو اپنا جزو ایمان سمجھتے ہیں اور پوری ڈھٹائی کے ساتھ بیرونی آقائوں کے ایجنڈے کے لیے کوشاں ہیں۔ دوسری طرف محکمہ تعلیم کے اہل کاران ، افسران اور اساتذہ کرام ہیں جو دین و وطن کے لیے دردِ دل رکھتے بھی ہوں تو یا تو نظام کے ہاتھوں مجبور ہیں یا اپنے مفادات کی وجہ سے بے بس ہیں۔ اساتذہ کی تنظیمیں جو اپنے آپ کو نظریاتی کہتی ہیں وہ بھی اور جو اپنی پہچان پیشہ ورانہ بتاتی ہیں وہ بھی، وسیع تر قومی تقاضوں کو    ایک طرف رکھ کر محض ملازمانہ معاملات و مفادات تک محدود ہیں۔بدقسمتی سے یہ سب کھلے دل و دماغ کے ساتھ تعلیمی مسائل پر غورو فکر کے لیے تیارنہیں ہیں۔

سیاسی جماعتیں حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں اُن کے لیے تعلیم کا مسئلہ یکساں طور پر ناقابلِ غور ہے ۔وہ کسی مسئلے پر بیان بازی کریں بھی تومحض حکومت کو زچ کرنے کے لیے کرتی ہیں۔ خود اُن کی فکر اور طرزِ عمل کسی طرح بھی حکومت وقت سے مختلف نہیں ہے۔ مذہبی جماعتیں بھی تعلیم کے مسئلے پر بُری طرح فکری انتشار کا شکار ہیں ۔ اُن کے پاس نعروں اور مذمتوں کے علاوہ کوئی مثبت پروگرام نہیں ہے۔ تعلیم کی پرائیویٹائزیشن ، کمرشلائزیشن اور طبقاتی تقسیم کے حوالے سے دینی جماعتوں کا کردار بھی تقریباً وہی ہے جو عموماً سیکو لر سوچ کے گروہوں کا ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر بہت تیزی کے ساتھ پرَ پھیلا رہا ہے۔ سرمایے کے زور پر تعلیمی اداروں کا بے مقصد اور مغرب زدہ ڈگری کلچر فروغ پذیر ہو رہا ہے۔ غیر سرکاری تنظیمیں غیر ملکی اور حکومتی سرمایے سے مستحکم ہو کر ایک مافیا کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہیں۔ جائز اور معقول تعلیمی خدمات انجام دینے والی مخیر تنظیموں کا کام مشکل تر کر دیا گیا ہے۔ کئی تنظیمیں تو ایسی ہیں جو دینی اور سیکولر دونوں طبقوں سے پیسہ بٹور رہی ہیں کیونکہ میڈیا کا استعمال انھیں ہوائوں میںاُڑائے پھرتا ہے۔ ایسی تنظیمیں برسرِزمین محض علامتی تعلیمی کردار ادا کر رہی ہیں۔

بیرونی قوتوں کا سب سے بڑا ہتھیار تحقیق ہے۔ ہمارے شعبۂ تعلیم کے مختلف پہلوئوں پر دھڑا دھٹر تحقیقی رپورٹیں آ رہی ہیں۔ کہیں نصاب ہدف ہے تو کہیں دینی مدارس ۔ کہیں نصابی کتب موضوع بحث ہیں تو کہیں ہمارا امتحانی نظام جو بلاشبہہ فرسودہ اور بے کار ہے۔سب سے بڑا چیلنج جو اس وقت درپیش ہے وہ یہ کہ مذکورہ بالا چیلنجوں کا سطحی سا ادراک بھی قوم کے ارباب بست و کشاد کو نہیں ہے۔ علما ہوں یا عوام ، اساتذہ ہوں یا والدین، اربابِ حکومت ہوں یا حزب اختلاف، کسی کو بھی فرصت نہیں کہ ان چیلنجوں پر غور و فکر کے لیے چند لمحات صرف کریں اور ان کا شعور و ادراک  کرتے ہوئے اس طوفان بلا خیز کے سامنے بند باندھنے کے لیے اپنا کردار کریں۔

مجوزہ اقدامات

تعلیم و تعلم اور علم و تحقیق کو درپیش چیلنج سے عہدہ بر آ ہونے کےلیے بھی علم کا راستہ ہی اختیار کرنا پڑے گا۔ ہم ذیل میں چند ایسے اقدامات تجویز کرتے ہیں، جن پر اگر تسلسل سے عمل کیا جائے تو ان شاء اللہ طویل المیعاد بنیادوں پر ان کے اثرات مرتب ہوں گے:

  1. عوام و خواص کا شعور بیدار کرنے کے لیے اخبارات و رسائل میں تسلسل کے ساتھ ایسے مضامین اور اخباری کالم لکھے جائیں، جواس مسئلے کی سنگینی کو اُجاگر کریں اور لوگوں کو بتائیں کہ اُن کی نسلوں کی تعمیر و ترقی کس طرح ممکن ہے۔
  2.  انگریز ی زبان کی معقول تعلیم و تدریس کی تائید کرتے ہوئے انگریزی کا جنو ن کم کرنے کی کوشش کی جائے۔ پہلی جماعت سے بچوں کے لیے انگریزی کی لازمی تعلیم اور انگریزی ذریعۂ تعلیم اُن کے اذہان کی تعمیر و ترقی کے لیے سمِ قاتل ہے۔ اس سلسلے میں دانش وروں ، کالم نگاروں اور ماہرین تعلیم کے ذریعے ایک تحریک برپا کرنے کی ضرورت ہے۔
  3.  ہر بڑے شہر میں تعلیم کے مسئلے پر علمی و فکری حلقے (تھنک ٹینک) تشکیل دیے جائیں، جو مسلسل غور وفکر کریں اور حکومت کے ساتھ ساتھ عوام کی بھی رہنمائی کریں۔
  4.  یونی ورسٹیوں اور اعلیٰ تعلیم کے کالجوں میں تعلیمی مسائل و معاملات پر تحقیق و مطالعے کا اہتمام کریں اور ان مطالعات کو میڈیا کے ذریعے خواص و عوام تک پہنچایا جائے۔
  5. پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین اور علماے کرام معاشرتی تبدیلی کے سب سے مؤثر ترجمان ہیں۔ اس ملّی اور قومی ذمہ داری ادا کرنے کے لیے حکمت عملی اختیار کی جائے۔
  6. سرکاری تعلیمی اداروں کے استاد نے بڑی حد تک کام چھوڑدیا ہے اور پرائیویٹ تعلیمی ادارے کے استاد نے پڑھانے سے زیادہ بچے پر ٹیسٹ کلچر کا بوجھ لاد دیا ہے، جسے اُٹھانے کے لیے وہ پرائیویٹ ٹیوشن پڑھنے پر مجبور ہے۔کسی طرح اسے دوبارہ کلاس رو م میں فعال بنایا جائے۔
  7. انسانی ، عمرانی اور معاشرتی علوم کی تدریس تعلیمی مراحل کی زیریں سطح پر غیر مئوثر اور اعلیٰ سطح پر مفقود ہوتی جا رہی ہے۔ نیز لبرلزم، سیکولرزم اور سطحیت کی آلودگی نے ان علوم کے بنیادی فریم ورک اور نظری ڈھانچے کو کھوکھلا کر دیاہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ افراد کی ایک مضبوط ٹیم اور کچھ ادارے ، تدریس اور تحقیق کے ذریعے مغربی فکر کے تحت متشکل ہونے والے انسانی ، عمرانی اور معاشرتی علوم کا تنقیدی جائزہ لیں اور تشکیل نو کے لیے کام شروع کریں۔
  • وقت ایک ایسی چیز ہے جسے نہ ہم دیکھ سکتے ہیں اور نہ چھو سکتے ہیں۔
  • اسے نہ ہم خرید سکتے ہیں اور نہ فروخت کرسکتے ہیں۔
  • وقت ایسی کوئی مادی چیز بھی نہیں ہے، جسے ہم استعمال کرنے کے لیے کہیں محفوظ رکھ سکیں اور استعمال کرسکیں۔ اسے اگر استعمال نہ کیا گیا تو یہ بغیر کسی حرکت اور عمل کے ضائع ہو جائے گا۔
  • وقت بڑی تیزی کے ساتھ گزر جاتا ہے ۔ وقت ایک تندو تیز ہوا کی مانند ہے جو بادل کی طرح تیزی سے گزر جاتا ہے۔کبھی یہ خوشی کے ساتھ گزرتا ہے تو کبھی یہ غم کے ساتھ۔
  • وقت کو بہتر طور پر خرچ کیا جاسکتا ہے لیکن اسے ہم بچا بچا کر استعمال نہیں کرسکتے۔آپ میں   یہ صلاحیت ہونی چاہیے کہ جو وقت آپ کو میسر ہو اسے بہترین طریقے سے استعمال کرسکیں۔
  • اسے نہ ہم کرایے پر لے سکتے ہیں اور نہ زندگی کے مقررہ وقت سے زیادہ استعمال کرسکتے ہیں۔
  • وقت کی رسد غیر لچک دار ہے، اور یہ رسد طلب کے مطابق مل نہیں سکتی۔
  • وقت کی کوئی قیمت بھی نہیں ہے۔ البتہ اس وقت میں فراہم کی جانے والی خدمات کا معاوضہ دیا جاتا ہے۔
  • وقت کا کوئی نعم البدل بھی نہیں ہے۔ وقت کبھی لوٹ کر نہیں آتاہے۔
  • انسان کے ہاتھ میں سب سے زیادہ قیمتی چیز وقت کی صورت ہی میں ہے۔
  • ہر کام اور ہر عمل کے لیے وقت درکار ہے۔
  • انسان کو ہمیشہ اس بات کی شکایت رہتی ہے کہ ’وقتِ فرصت ہے کہاں، کام ابھی باقی ہے‘۔

وقت کی تنظیم کے فوائد

  • ہم اپنے وقت اور قوت کو بہتر استعمال کرسکتے ہیں۔
  • اگر ہم تنظیم وقت کے عادی ہو گئے تو بہت سارے کام اس عادت کے باعث کم وقت میں ہوجائیں گے اور ہمیں یہ محسوس ہوگا کہ ہمیں اضافی وقت میسر آگیا ہے۔
  • ہم اپنے ذاتی، تعلیمی، معاشی، خاندانی اور معاشرتی اہداف ( ٹارگٹس) حاصل کر سکتے ہیں۔
  • وقت کے بہتر استعمال اور سلیقے سے ہم ذہنی دباؤ سے بچ سکتے ہیں اور ذہنی سکون اور اطمینان حاصل کرسکتے ہیں۔
  • وقت کے بہتر استعمال کی تربیت سے ہم منظم، مؤثر اور مستعد بن سکتے ہیں۔جس کے نتیجے میں ہم اپنی کارکردگی اور استعداد ِکار بڑھا سکتے ہیں۔
  • ہمار ی کامیابی کے امکانات میں اضافہ ہوسکتا ہے، اپنی ذات پر کنٹرول کرسکتےہیں اور اپنے وقت اور وسائل کو بہتراستعمال کرسکتے ہیں۔
  • اپنے گھر اور اپنےکاروبار یا ملازمت کے معاونین کو بہتر انداز میں متاثر کر سکتے ہیں۔
  • اپنے وقت کو اپنی ذات اور اہم کاموں پر خرچ کرکے اپنے مستقبل کو بہتر بناسکتےہیں۔
  • وقت کی تنظیم کے باعث اپنی ترجیحات کو بہتر طور پر متعین کرکے اپنی کامیابی کے لیے راہ ہموار کرسکتے ہیں۔
  • اس انداز سے مشکل اور ناممکن مشن میں بھی کامیابی حاصل ہو سکتی ہے۔
  • اپنے اوقات کے ضیاع کو کنٹرول کرسکتے ہیں۔
  • اپنےمقاصد کو پورا کرنے کے لیے وقت نکال سکتے ہیں۔
  • اپنی کارکردگی کے باعث دوسروں کی تنقید سے بچ سکتے ہیں اور اپنے لیے کامیابی کی راہیں تلاش کر سکتے ہیں۔
  • اپنی زندگی، کام، خاندان، معاشرت اور دیگر معاملات میں توازن قائم کرسکتے ہیں۔
  • اپنے گھر مناسب وقت پر پہنچ سکتےہیں اور اہل خانہ کو مناسب وقت دے سکتے ہیں۔
  • دنیا کی مصروفیات کے اس سمندر میں وہی شخص اپنی منزل پر پہنچ سکتا ہے، جو وقت کے استعمال کے فن سے واقف ہو اور کچھ تربیت اور کچھ تجربہ بھی حاصل کیا ہوا ہو۔
  • درخت کاٹنے کے لیے آری تیز کرنی ہوتی ہے۔درخت کاٹنے والا فرد ہمیشہ اپنی آری کو تیز رکھتاہے تاکہ درخت کاٹنے میں اسے تکلیف نہ ہو اور بڑی آسانی کے ساتھ او ر کم سے کم وقت میں وہ اس درخت کو کاٹ لے۔ اسی انداز سے ہمیں تیاری کرنی چاہیے۔
  • ہمار ا فرض ہے کہ ہم ہر وقت تیار رہیں۔ آگے بڑھنے کے لیے ، صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیے، خطرات سے نمٹنے اور اپنے نفس کو برائیوں سے روکنے کے لیے۔ اسی کا نام تیاری ہے۔
  • ترقی اور کامیابی کے لیے تیاری ایک اہم رکن ہے اور مقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے تیاری کرکے ہم ترقی کرتے ہوئے کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔

قطب الدین عزیز کسی تعارف کے محتاج نہیں ۔ وہ لکھنؤ میں پیدا ہوئے، والدین کے ساتھ حیدر آباد دکن منتقل ہوئے اور وہیں پر ابتدائی تعلیم پائی ۔ پھر وہاں سے مدراس (چنائے ) اور بعد میں لندن اسکول آف اکنامکس سے اعلیٰ سند یافتہ ہوئے۔ پاکستان ہجرت کے بعدصحافت سے وابستہ ہو گئے۔ وزارت خارجہ میں اہم عہدوں پر سرفراز ہوئے اور کئی بیرونی ممالک میں پاکستان کی نمایندگی کی۔ اپنی مثبت فکر سے شغف کی بنا پر انھیں ادب، سیاست اور ثقافت کے حلقوں میں احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

پیش نظر کتاب خون اور آنسوؤں کا دریا کے مصنف قطب الدین عزیز نے مشرقی پاکستان کی ملک سے علیحدگی کی اَلم ناک داستان بیان کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ: مارچ ۱۹۷۱ء میں جب عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان میں تحریک سول نافرمانی کا آغاز کیا اور پورے صوبے میں لاقانونیت ، آتش زنی ، لُوٹ مار اور بے قابو قتل وغارت کا سلسلہ پھیل گیا تو پاکستان میں جنرل آغا یحییٰ خان کی صدارت میں مارشل لا حکومت نے مغربی پاکستان کے ذرائع ابلاغ کو ہدایت دی کہ یہ خبریں شائع  نہ کی جائیں، مبادا اس سے مغربی پاکستان میں آباد بنگالیوں کو نقصان پہنچے ۔ اس طرح ان خبروں کو دبادیا گیا۔ اگرچہ مشرقی پاکستان کے تمام ذرائع ابلاغ دہشت گرد قوم پرست بنگالیوں کے ہاتھوں اسیر تھے، مگر وہاں سے کسی طرح جان بچا کر ہجرت کرکے آنے والوں کی داستانیں رفتہ رفتہ عام ہوتی گئیں۔ غیر ملکی ذرائع ابلاغ ، جو ابتداً بنگالیوں کے ’حق خود ارادی ‘ کے تناظر میں ساری ہنگامہ آرائی کو  دیکھ رہے تھے، اب ’غیر جانب دار‘ بننے لگے۔ لندن کے سنڈے ٹائمز  کے نمایندے اینتھونی مسکارن ہارس ، جس نے کئی مضامین میں پاکستانی فوج کو نشانہ بنایا تھا، کہ وہ بنگالیوں پر ظلم ڈھا رہی ہے، آخر سچ کہنے پر مجبور ہوئے ۔ وہ اپنی رپورٹ میں لکھتے ہیں: ’’ ہزاروں بدقسمت خاندانوں کو  جو ۱۹۴۷ء میں تقسیم ہند کے وقت بہار سے ہجرت کر کے مشرقی پاکستان آئے تھے، انھیں بڑی  بے رحمی سے صفحۂ ہستی سے مٹا دیا گیا۔ عورتوں کی آبرو ریزی کی گئی ، یا خاص طور پر بنائے گئے چاقوئوں سے ان کی چھاتیوں کو کاٹ دیا گیا۔ بچے بھی اس ظلم سے بچ نہ سکے اور جو ذرا قسمت والے تھے، ان کو ان کے والدین کے ہمراہ قتل کر دیا گیا۔ لیکن ان میں ہزاروں ایسے بھی تھے، جن کو زندگی بھر کے لیے معذور کر دیا گیا۔ ان کی آنکھیں نکال دی گئیں اور ان کے بازو اور ٹانگیں کاٹ دی گئیں۔ غیر بنگالیوں کی ۲۰ ہزار سے زائد لاشیں بڑے بڑے شہروں جیسے چٹاگانگ ، کھلنا اور جیسور میں پائی گئی ہیں۔ اصل تعداد جو مجھے مشرقی بنگال میں بتائی گئی وہ ایک لاکھ سے زیادہ ہو سکتی ہے، کیوں کہ ہزاروں غیر بنگالی بغیر کسی نا م ونشان کے غائب کر دیے گئے ہیں‘‘۔ (ص ۱۹ )

مصنف نے ’’ مشرقی پاکستان کے ۳۳ ؍اضلاع اور شہروں ڈھاکہ ، نارائن گنج، چٹاگانگ ، چندرا گھونا اور رنگامتی ، کھلنا ، ست خیرہ ، دیناج پور، پاربتی پور، ٹھاکر گائوں ، لکشم ، راج باڑی، گو لندو، فرید پور کشتیا، چوا ڈنگا، مہر پور اور ظفر کنڈی ، اشوردی ، پاکسے ، نواکھالی، سلہٹ مووی بازار، بہراماڑا،  نارکل ڈنگا، رنگ پور، نیلفاماری، سید پور، لال منیر ہاٹ، جیسور ، نریل ، باجر ڈنگا، جہنی ڈاہ، نواپاڑا، باری سال، میمن سنگھ ، راج شاہی اور ناٹور ، پبنہ اور سراج گنج ، کومیلا، برہمن باڑیا ، بوگرا اور نو گائوں ، سنتھارکے الگ عنوانات کے تحت ابواب میں ان علاقوں اور شہروں اور شہریوں کی دُکھ بھری داستانیں بیان کی ہیں، جو انھوں نے چشم دید گواہوں یا آپ بیتی بیان کرنے والوں سے خود سنیں اور ریکارڈ کیں۔ مصنف نےایک ٹیم کے ذریعے مشرقی پاکستان کے ۵۵ شہروں /قصبوں سے تعلق رکھنے والے گواہوں کے بیانات / شہادتیں اکٹھی کیں، اور بڑی احتیاط اور دیانت سے اسے رپورٹ کیا گیا ہے۔

مصنف کہتے ہیں کہ ’’میں اس وقت حواس باختہ ہو گیا اور اپنا خون رگوں میں جمتا ہوا محسوس کیا ، جب میں نے اپریل ۱۹۷۱ء کے وسط میں چٹاگانگ سے جان بچا کر کراچی آنے والے غیربنگالی پاکستانیوں سے ان کی رُوداد سنی ۔ ان کے کہنے کے مطابق : عوامی لیگ کے منظم دہشت گردوں اور باغیوں نے غیر بنگالیوں کو قصابوں کی طرح کاٹا ۔ یہ تفصیلات سن کر میری روح کانپ اُٹھی اور اپنی اس کیفیت کو بیان کرنے کے لیے آج بھی میرے پاس الفاظ نہیں ہیں، کیوں کہ میں تو بنگالیوں کو نہایت شائستہ اور فن وادب کے ذوق کی وجہ سے پسند کرتا تھا ‘‘۔ (ص ۱۹)

امریکا اور یورپ میں بھارت نے منفی پروپیگنڈے کے لیے جنگی بنیادوں پر سیلابی ریلے کی طرح بے شمار کتابیں اور پمفلٹ شائع کیے۔ جن میں پاکستانی فوج پر لاکھوں بنگالیوں کو قتل کرنے کا الزام لگایا گیا۔ حکومت پاکستان مؤثر اور جوابی کارروائی نہ کرسکی ، اور جیسا کہ اُوپر بیان کیا گیا ہے، اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ مغربی پاکستان میں ردّ ِ عمل کے طور پر بنگالیوں پر ظلم نہ ہونے پائے۔

 مشرقی پاکستان کے اس المیے میں جنرل یحییٰ خان (اس وقت کے صدر پاکستان ) اور ذوالفقار علی بھٹو کے کردار کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ۷دسمبر۱۹۷۰ء کے انتخابات نے عملی طور پر ملک کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا تھا۔ دھونس ، دھاندلی اور تشدد کی سیاست نے قومی اسمبلی کی ۳۰۰ نشستوں میں مشرقی پاکستان کی مجیب پارٹی (عوامی لیگ) نے ۱۶۰ نشستیں جیت لیں اور ملک کی اکثریتی پارٹی بن گئی۔ مغربی پاکستان میں بھٹو صاحب کی پیپلز پارٹی نے ۸۱ نشستیں جیتیں۔ صدرجنرل یحییٰ خان نے انتخابات کے بعد دو ماہ تک تو اسمبلی کا اجلاس ہی نہ بلایا ۔ آخر ۳ مارچ ۱۹۷۱ء کو ڈھاکہ میں اجلاس طلب کیا گیا۔ لیکن مغربی پاکستان سے اکثریتی لیڈر بھٹو صاحب نے اصرار کیا کہ: ’’دستوری فارمولا اسمبلی اجلاس سے باہر طے کیا جائے، اور اگر دستور سازی کے لیے مقرر کردہ ۱۲۰دنوں میں دستور نہ بنا تو دستور ساز اسمبلی کا وجود خطرے میں پڑجائے گا‘‘۔ جب انھیں اس ضمن میں کامیابی حاصل نہ ہوسکی تو انھوں نے اسمبلی کا اجلاس ملتوی کرنے کا مطالبہ کر دیااور کہا کہ مغربی پاکستان سے کوئی منتخب رکن ڈھاکہ جائے گاتو اس کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی۔ اور اس طرح ’اِدھر ہم ، اُدھر تم‘ کی بنیاد پڑگئی۔ اسمبلی کے اجلاس کے التوا سے مشرقی پاکستان میں ہنگامہ شروع ہو گیا۔ جس کو دبانے کے لیے وہاں ۲۵مارچ ۱۹۷۱ء کو فوجی ایکشن شروع کر دیا گیا۔مجیب کو گرفتار کر کے مغربی پاکستان لایا گیا اور بھٹو نے کہا : ’’خدا کا شکر ہے ، پاکستان بچ گیا‘‘ ۔ لیکن ’پاکستان ‘ کا مطلب صرف اس کا مغربی بازو تو نہیں تھا ! دراصل یہ پاکستان کے انہدام کی ابتدا تھی ، لیکن فاضل مصنف نے اس پوری کہانی سے صرفِ نظر اور بوجوہ اغماز کیا ہے۔

کتاب کے اختتامیےکے پہلے مضمون میں سیّدخالد کمال نے بنگلہ دیش میں بسنے اور اُردو بولنے والے بے وطن پاکستانیوں کے کرب اور المیے کو بڑی خوبی سے بیان کیا ہے۔ اسی حصے کے دوسرے مضمون میں مترجم سلیم منصور خالد نے ’۳۰ لاکھ کے قتل کا افسانہ …‘ کے عنوان سے ایک تفصیلی تحقیقی مقالے کا اضافہ کیا ہے ۔ علیحدگی پسند بنگالیوں نے پاکستانی فوج اور اُردو بولنے والے شہریوں پر یہ الزام لگایا تھا کہ انھوں نے ۳۰ لاکھ بنگالیوں کو قتل کیا اور ہزاروں بنگالی خواتین کو بے آبرو کیا ہے، مگر غیر جانب دار صحافیوں اور خود مشرقی پاکستان کے محاذ پر ہندستان کے فوجی کمانڈر جگجیت سنگھ اروڑا تک نے اس مبالغہ آمیزی کی نفی کی ہے۔ اس طرح دیگر بہت سے غیر ملکی اور خود ہندستانی صحافیوں اور تحقیق کاروں نے بھی پاکستانی فوج کے ہاتھوں بنگالیوں کے قتلِ عام کی تردید کی۔

تاریخ کو مسخ کرنے والے اس جھوٹ کا مقصد پاکستان کی یک جہتی کی حامی جماعت اسلامی اور پاکستانی فوج کے خلاف نفرت کو ہوا دینے کے سوا کچھ نہیں ۔ اس جلتی آگ کو سرد ہوتا دیکھ کر ۲۰۱۰ء کے بعد، عوامی لیگ کی حکومت نے ۳۸سال بعد ’جنگی ٹریبونل ‘ جیسی ’نام نہاد عدالتوں‘ کے ذریعے جماعت اسلامی اور البدر کے بنگالی ہم وطنوں پر، جو ۱۹۷۱ء میں متحدہ پاکستان کے حامی تھے ، مقدمے چلانے اور سزاے موت دینے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے (اسی ظالمانہ عدالتی ڈرامے کے نتیجے میں ۹۲سالہ پروفیسر غلام اعظم، سابق امیر جماعت اسلامی بنگلہ دیش جیل میں انتقال کر گئے)۔ دراصل جماعت اسلامی بنگلہ دیش میں ہونے والے تمام انتخابات میں بڑھتی ہوئی مقبولیت کے اشارے دے رہی تھی۔ مجیب کی بیٹی حسینہ واجد کے ہاتھوں ان مظالم کی لہر نہ جانے کہاں رُکے گی۔ بہر حال صاحب ِمقالہ سلیم منصور خالد کی خواہش ہے کہ :’’ بنگلہ دیش: دو قومی نظریے کی بنیاد پر ایک آزاد، خود مختار، اسلامی اور خوش حال ملک کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر سرفراز رہے‘‘۔ (ص ۴۵۸)

کتاب کے آخر میں ۳۳ صفحے کا تفصیلی اشاریہ بڑی محنت سے مرتب کیا گیا ہے۔ اس  اہتمام سے یہ کتاب اپنے موضو ع پر حوالے کی ایک نہایت مستند اور بہترین کتاب بن گئی ہے:  خون اور آنسوؤں کا دریا، قطب الدین عزیز/ ترجمہ و تدوین :سلیم منصور خالد ، ظہور احمد قریشی، ناشر : منشورات، پوسٹ بکس: ۹۰۹۳، علّامہ اقبال ٹاؤن، لاہور۔ فون:۰۰۳۴۹۰۹- ۰۳۳۲۔ صفحات :۴۹۶، قیمت (مجلد): ۶۰۰ روپے۔

امینِ کعبہ ، پروفیسر محمد عبداللہ قاضی۔ ناشر: مکتبہ اسلامیہ،ہادیہ حلیمہ سنٹر، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔  فون: ۳۷۲۴۴۹۷۳- ۰۴۲۔صفحات:۵۹۶۔قیمت:۱۱۰۰ روپے۔

کتاب کا بنیادی موضوع سیرت النبیؐ ہے اور یہ بنیادی موضوع تیسرے باب سے شروع ہوتا ہے۔ باب اوّل: ’مقام مصطفیٰ ؐاہلِ کتاب کی نظر میں‘ اور باب دوم: ’رسولؐ اللہ غیرمسلموں کی  نظر میں‘۔ یہ دونوں موضوع سے براہِ راست متعلق نہیں ہیں، یہ ان موضوعات کا محل بھی نہیں تھا۔

واقعاتِ سیرت کی ترتیب زمانی ہے۔ مؤلف نے حسب ِ موقع قرآنِ حکیم ، احادیث ِ مبارکہ اور کتب ِ سیرت کے حوالے بھی دیے ہیں لیکن کئی جگہ صرف کتاب کا نام لکھ دیا ہے، حوالے نامکمل ہیں۔

واقعاتِ سیرت بیان کرتے ہوئے کہیں کہیں معاشرت اور معاملات کے اصول بھی اخذ کیے ہیں۔ مباحث ضمنی عنوانات میں تقسیم ہیں۔ مصنف نے بطورِ استناد قرآنی آیات بکثرت استعمال کی ہیں اور ان کا ترجمہ بھی دیا ہے۔ چوں کہ بعض قرآنی اقتباسات مع ترجمہ طویل تر ہیں، اس لیے ہمارے خیال میں پہلے دو ابواب سمیت کچھ حصے اور اقتباسات مع ترجمہ نکال کر کم و بیش ایک سو صفحہ کم ہوسکتا تھا۔ یہ ایک بابرکت اور مفید کام ہے جسے زیادہ بہتر انداز سے انجام دیا جاتا تو مفید تر ہوتا۔ (رفیع الدین ہاشمی)


سرسیّد احمد خان، تحقیقی و مطالعاتی مآخذ،مؤلّفہ: ڈاکٹر نسیم فاطمہ۔ ناشر: لائبریری پروموشن بیورو، ۹/۱۲۳۹، دستگیر سوسائٹی، ایف بی ایریا، کراچی- ۷۵۹۵۰۔ صفحات:۲۰۰۔ قیمت: ۴۰۰ روپے۔

ہندستان میں اٹھارھویں صدی کے مسلم اکابرمیں سرسیّداحمد خاں ایک ہمہ جہت شخصیت تھے۔ انھوں نے تباہ حال مسلمان قوم کو سنبھالنے اور اُٹھانے میں اپنی تمام توانائیاںصرف کر دیں۔ لیکن نیک نیتی کے باوجود، ان کی کاوشوں سے مسلمانوں کو نقصان بھی پہنچا۔ سب سے بڑا نقصان تو یہ ہوا کہ جدید تعلیم کے واسطے سے مسلمان انگریزوں کی غلامی میں رضامند رہنا سیکھ گئے۔

سرسیّد کی شخصیت اور ان کے علمی ،تعلیمی اور ادبی کارناموں پر مثبت اور منفی دونوں پہلوئوں سے بہت کچھ لکھا گیا۔ زیر نظر کتاب یہ بتاتی ہے کہ سرسیّد پر لکھی جانے والی کتابیں کراچی کے کن کتب خانوں میں موجود ہیں اور اِن میں کون کون سے ایسے رسالے ہیں جن میں سرسیّد پر مضامین شامل ہیں۔

ڈاکٹر نسیم فاطمہ نے ابتدا میں موضوع کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے سرسیّد پر منتخب کتابیات کا تعارف کرایا، زیرنظر اشاریے کی نوعیت بتائی اور سرسیّد پر ایک ’مکمل کیٹلاگ‘ مرتب کرنے کی ضرورت کا احساس دلایا اور اس ضمن میں تجاویز بھی پیش کی ہیں۔ مختصر یہ کہ کراچی کے مختلف جامعاتی کتب خانوں (کراچی یونی ورسٹی، سرسیّد یونی ورسٹی آف انجینیرنگ اینڈ ٹکنالوجی، ہمدرد یونی ورسٹی،    وفاقی اُردو یونی ورسٹی)، بعض نجی کتب خانوں (جمیل جالبی، مشفق خواجہ، معین الدین عقیل) اور دیگر لائبریریوں (اسٹیٹ بنک، ادارہ یادگار غالب ، انجمن ترقی اُردو، ڈاکٹر محمود حسین لائبریری اور لیاقت میموریل لائبریری وغیرہ) میں سرسیّد پر جو بھی اور جس نوعیت کا لوازمہ ملتا ہے، اس کی نشان دہی کردی گئی ہے۔ اسی طرح مذکورہ کتب خانوں میں موجود رسائل میں شائع شدہ مضامین کا مصنف وار اشاریہ بھی مرتب کر کے شامل کیا ہے۔

سرسیّد پر کام کرنے والوں کے لیے یہ ایک مفید کتاب ہے۔(رفیع الدین ہاشمی)


مختار مسعود، مکاتیب کے آئینے میں، مرتب: پروفیسرمحمد اقبال جاوید۔ ملنے کا پتا: سجاد کمپوزنگ سنٹر، دین پلازا، جی ٹی روڈ، گوجرانوالہ۔ فون: ۳۰۷۵۹۶۹۰-۰۵۵۔ صفحات: ۱۱۹۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔

مختار مسعود(۱۹۲۶ء-۲۰۱۷ء) اُن گنے چُنے لوگوں میں سے تھے جنھیں بیوروکریٹ ہونے کے باوجود اپنے بلندپایہ قلمی سرمایے کی وجہ سے قبولِ عام حاصل ہوا۔ مختارمسعود نے زیادہ نہیں، کم لکھا مگر اس کا ایک خاص معیار اور اپنا مخصوص اسلوب برقرار رکھا۔ اُن کی پہلی کتاب (آوازِ دوست) ہی نے اُنھیں شہرت عطا کی۔ پھر سفر  نصیب اور لوحِ ایام کی اشاعت سے اُنھیں مزید قبولِ عام حاصل ہوا۔ آخری کتاب (حرفِ  شوق) اُن کی وفات کے بعد منظرعام پر آئی۔

زیرنظر کتاب میں مختارمسعود کے ایک مدّاح اقبال جاوید صاحب نے اپنے نام مرحوم کے خطوط جمع کیے ہیں اورہمراہ کچھ متعلقات بھی شامل ہیں، مثلاً مرحوم کے نام اپنے خطوط یا ابوالکلام آزاد سے منسوب تقریر یا بشیر ناصر کا مضمون (جنھیں، ممکن ہے بعض قارئین غیرمتعلقات خیال کریں)۔

مختارمسعود کے عکسِ تحریر بھی شامل ہیں۔ مراسلت کا یہ سلسلہ ۱۹۹۶ء سے ۲۰۱۱ء تک جاری رہا۔ بہرحال یہ مجموعہ خاصی حد تک مختارمسعود کی شخصیت اور اُن کے اندازِ فکرونظر کی ایک جھلک پیش کرتا ہے۔(رفیع الدین ہاشمی)


اقبال نامہ (نسلِ نو کے لیے)، مستقیم خان۔ یونی ورسٹی پبلشرز، افغان مارکیٹ، قصہ خوانی بازار، پشاور۔ صفحات: ۱۴۴۔ قیمت: ۱۲۰ روپے۔

جناب مصنّف نے بے شک علّامہ اقبال کا زمانہ نہیں پایا، مگر علّامہ کے کلام اور اقوال نے انھیں شاعرمشرق کا نادیدہ عاشق اور ارادت مند بنا دیا۔ زیرنظر کتاب سے اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے اقبال کے افکارو نظریات کا گہرا مطالعہ کیا ہے اور وہ اقبالیات پر اچھی دسترس رکھتے ہیں۔ انھوں نے اگرچہ یہ کتاب نسلِ نو کے لیے لکھی ہے مگر اس میں نسلِ قدیم کے لیے بھی بہت کچھ  موجود ہے۔ حیاتِ اقبال کے اہم واقعات، اقبال کے والدین ، ان کی تصانیف، سیاسی زندگی، تصوراتِ خودی، مردِ مومن، محبت ِ رسولؐ ،عقل و عشق، نوجوانوں اور بچوں کے لیےمنظومات کا متن اور اُن کی تشریح، اقبال کے بارے میں مشاہیر عالم کی آرا اور اقبالیات کی منتخب کتابوں کی فہرست شامل ہے۔ اس طرح گویا انھوں نے دریا کو کوزے میں بند کر دیا ہے۔(رفیع الدین ہاشمی)


مجلہ تحصیل، (شمارہ ۱، جولائی تا دسمبر ۲۰۱۷ء)، مدیر: معین الدین عقیل۔ ناشر: ادارہ معارف اسلامی، ڈی ۳۵، بلاک ۵، فیڈرل بی ایریا، کراچی- ۷۵۹۵۰۔ فون: ۳۶۳۴۹۸۴۰-۰۲۱۔ صفحات: ۲۳۲+ انگریزی حصہ: ۱۵۰۔ قیمت: درج نہیں۔

ادارہ معارف اسلامی کراچی کے اس نئے مجلے تحصیل پر اُردو اور فارسی زبان و ادب سے متعلق مقالات کا غلبہ ہے، جنھیں حسب ذیل عنوانات کے تحت شامل کیا گیا ہے: تحقیقی مقالات، گوشۂ اقبال، مآخذ تحقیق، تراجم، گوشۂ نوادر، وفیات، تبصراتی مقالہ۔ اسی طرح گیارہ تحریریں حصۂ انگریزی میں شامل ہیں۔ زیادہ تر مضامین ادبی، علمی اور تاریخی نوعیت کے ہیں، جیسے بھارت میں اُردو کا المیہ (از مرکنڈے کاٹجو)، میاں جمیل احمد شرق پوری کی علم پروری، کتاب دوستی اور کتب خانہ داری (نسیم فاطمہ)، ریاض الاسلام: عہدِوسطیٰ کی ہند اور اسلامی اور ہند ایرانی، تاریخ کا ایک مؤرخ۔ ہمارے خیال میں حوالہ جاتی قسم کے مضامین زیادہ اہم ہیں، مثلاً: امتیاز علی خاں عرشی کے تحقیقی و علمی کام کا اشاریہ (سیّد مسعود حسن)، اشاریہ منظوماتِ اقبال (خالد ندیم)، عہد ِ کتب شاہی کے مخطوطات (عطا خورشید)۔

عبدالرحمٰن بجنوری (۱۸۸۵ء-۱۹۱۸ء) نے برطانیہ اور جرمنی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ بھوپال کے مشیر تعلیمات رہے۔ کم عمری میں خالق حقیقی سے جاملے۔ ایک بار جب وہ یورپ جارہے تھے،انھوں نے مسلمانوں کے حالات سے واقفیت حاصل کرنے کے لیے سربیا اور بلغاریہ کا سفر کیا اور ’سربیا میں اسلام‘ اور ’بلغاریہ میں اسلام‘ کے عنوان سے دو مضامین مولانا محمدعلی جوہر کے رسالے ہمدرد میں شائع کروائے۔ جنابِ افضل حق قرشی نے بجنوری کے یہ مضامین بطور نوادر، حواشی کے ساتھ مرتب کیے ہیں۔ جاوید احمد خورشید نے امینہ جمال کی کتاب Jamaat-e-Islami Women in Pakistan  پر تفصیل سے تبصرہ کیا ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)


سہ ماہی استعارہ، مدیران: ڈاکٹر امجد طفیل، ریاض احمد۔ ناشر: رانا چیمبرز، چوک پرانی انارکلی، لیک روڈ، لاہور- فون: ۱۳۲۱۰۴۷-۰۳۳۳۔ صفحات: ۲۸۸۔ قیمت: ۴۰۰ روپے۔

ادبی کتاب سلسلے کا یہ پہلا شمارہ ہی معیاری تحریروں پر مشتمل ہے۔ اس کی ترتیب، تدوین، تنوع اور معیارِ اشاعت سے اس کے روشن مستقبل کی پیش گوئی کی جاسکتی ہے۔ ڈاکٹر امجد طفیل ادب اور نفسیات کے سنجیدہ استاد ہیں۔ حلقہ اربابِ ذوق کو انھوں نے بڑی قابلیت اور مہارت سے چلایا۔ یہ شمارہ ان کی صلاحیتوں کا ایک اور رُخ پیش کرتا ہے۔ ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا کے تفصیلی انٹرویو (۳۲صفحات) کے ساتھ ان کی حیات و تصانیف کا کوائف نامہ (۱۰ صفحات) بھی شامل ہے۔ رسالے میں تخلیقی ادب کی مختلف اصناف اور تنقیدی مضامین اور تبصرے بھی شامل ہیں۔ رسالہ معروف اور نسبتاً نئے لکھنے والوں کی تحریروں سے مزین ہے۔ یہ ۲۰۱۷ء کی آخری سہ ماہی کا شمارہ ہے۔ اگر مجلسِ ادارت نئے سال (۲۰۱۸ء) میں چار شمارے بروقت اور کم از کم اسی معیار پر شائع کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو یہ اس کی بہت بڑی کامیابی ہوگی۔(رفیع الدین ہاشمی)

تعارف کتب

  • نعت رنگ ، مرتب: سیّد صبیح الدین رحمانی۔ ناشر:نعت ریسرچ سینٹر، بی ۳۰۶، بلاک ۱۴، گلستانِ جوہر، کراچی۔ فون: ۵۵۶۷۹۴۱- ۰۳۳۳۔ صفحات:۵۳۲۔ قیمت: ۵۰۰ روپے۔[سرورق: ’نعتیہ ادب کا علمی ، تحقیقی و تنقیدی کتابی سلسلہ‘   ___  یہ اس سلسلے کا ۲۷واں شمارہ ہے (دسمبر ۲۰۱۷ء)۔ تقریباً تین درجن مضامین، ایک مذاکرہ، سحرانصاری کا انٹرویو، منتخب نعتیں اور قارئین کے خطوط جملہ تحریروں کا مرکزی موضوع صنف ِ ’نعت‘ ہے۔ رحمانی صاحب کا ہمہ وقتی مشغلہ اور مصروفیت یہی ہے۔ اس یکسوئی کی بدولت وہ مختصر وقت میں درجنوں نئے مضامین پر مبنی کتابی سلسلہ شائع کرنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ سرورق پر قرآنی خطاطی ترک خطاط محمداوزجان کی ہے۔]
  • انوکھے جہاں کی انوکھی سیر، قاضی مظہرالدین طارق۔ ناشر: اسلامک ریسرچ اکیڈمی، ڈی-۳۵، بلاک ۵، فیڈرل بی ایریا، کراچی۔ فون: ۳۶۳۴۹۸۴۰-۰۲۱۔ صفحات: ۱۳۲۔ قیمت: ۲۵۰ روپے۔[ مصنّف نے زیرنظر کتاب میں انسانی وجود کا مطالعہ ایک منفرد انداز میں پیش کیا ہے۔ سائنس فکشن کے اسلوب میں مصنّف ایک استاد اور ان کے شاگردوں کو ایک ننھے سے جہاز کے ذریعے انسانی جسم کے اندر لے جاتا ہے اور مختلف انسانی عضویات اور اعصابی نظام کی سیر کرواتے ہوئے اس طرح ان کی ساخت اور کارکردگی کو بیان کرتا ہے کہ جیسے یہ سب آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہو۔یہ کتاب انسان کی تخلیق اور کائنات پر غوروفکر اور تدبر کے لیے مفید مطالعہ ہے۔ مصنف نے انسانی اعضا کی انگریزی اصطلاحات کے ساتھ ساتھ اُردو اصطلاحات کا خصوصی اہتمام کیا ہے ۔

انتطار فرمائیے