اخبار اُمت


(ہندی سروس، بی بی سی لندن کی نمایندۂ خصوصی اور مصنّفہ No Nation for Women)

ہسپتال میں کشمیری لباس پہنے ایک ۳۰ سالہ شخص خاموشی سے سر جھکائے بیٹھا ہوا ہے۔ اس کے ہاتھوں میں ڈپریشن کے علاج کی پرچی ہے۔ تعارف کے بعد جب ان کا حال پوچھا تو انھوں نے آہستہ سے سر اٹھایا۔ مجھے بڑی گہری آنکھیں اور غم میں ڈوبا ہوا اُداس چہرہ نظر آيا۔
میں نے آہستہ سے صحت کے بارے پوچھا تو اس شخص نے کہا: ’’کیا بتاؤں اور کہاں سے شروع کروں؟ چلیے، ابھی جو رات گزار کر ہسپتال آیا ہوں، اسی کا حال سناتا ہوں۔ دس بجے [بھارتی] فوج ہمارے علاقے میں آئی اور محاصرہ کر لیا۔ صبح کی نماز تک تمام مردوں کو کھڑا رکھا۔ پھر وہی تفتیش اور وہی تھپڑ، حالانکہ ہمارا کوئی قصور نہیں تھا۔ یہ دیکھو، میرا کیا حال ہو گیا ہے! میں ڈپریشن میں ہوں‘‘۔

وادی میں پھیلی اُداسی

اچانک اسی وقت کچھ مریضوں نے ہسپتال میں داخل ہونے کے لیے کیمپس کا مرکزی دروازہ کھولا، اندر آنے والی سرد ہوا کے جھونکے سے ہم دونوں لرز گئے کہ باہر برف پڑ رہی تھی۔ یہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے دارالحکومت سری نگر سے ایک گھنٹے کے فاصلے پر واقع پلوامہ میں ضلعی سرکاری ہسپتال ہے۔ ہم ہسپتال کے چھوٹے سے 'دماغی صحت مرکز میں موجود ہیں۔ وادی میں جاری اس برفیلی سردی میں بھی ذہنی صحت مرکز میں کشمیری مریضوں کی ایک بڑی تعداد جمع ہے۔
صبح دس بجے ہی او پی ڈی [بیرونی مریضوں کے شعبے] میں تقریباً ۵۰ سے زیادہ مریض قطار میں کھڑے ہیں۔میں اور راشد مرکزی دروازے کے اندر بنچ پر بیٹھے ہیں۔ اس نے بتایا: ’’میں بجلی کا کام کرتا ہوں۔ پلوامہ شہر میں رہتا ہوں، میرے گاؤں کا نام وشبوک ہے۔ جب سے آرٹیکل ۳۷۰کو ہٹایا گيا ہے، میرا کام بہت کم ہو گیا ہے۔ یہاں رہنے والے سبھی لوگوں کا کاروبار ختم ہوا تو میرا کیونکر بچتا؟ پہلے دو ماہ تک تو کام مکمل طور پر بند رہا۔ میری تو عمر بھی کم ہے، مجھے تو ڈپریشن نہیں ہونا چاہیے تھا! لیکن میں ڈپریشن میں ہوں۔ سارا دن دل گھبراتا رہتا ہے۔ ڈراؤنے خواب آتے ہیں اور یاداشت بھی ختم ہونے لگی ہے‘‘۔
پلوامہ ضلعی ہسپتال میں ماہر نفسیات ڈاکٹر ماجد شفیع کی او پی ڈی میں یہ بہت مصروف اور یخ بستہ صبح ہے۔ جموں و کشمیر کو خصوصی آئینی درجہ دینے والے آرٹیکل کو ختم ہوئے پانچ ماہ گزر چکے ہیں۔ اس دوران جہاں وادی میں کئی ہفتوں تک فون بند رہے، وہیں انٹرنیٹ آج تک معطل ہے۔
جب تک ڈاکٹر ماجد مریضوں کو دیکھتے ہیں، میں ان کے ساتھ گفتگو کا انتظار کرتی ہوں۔ شدید ذہنی تناؤ جیسے اُداسی، افسردگی، خوفناک خواب آنا، نیند نہ آنا، پوسٹ ٹرامیٹک سٹریس ڈس آرڈر (پی ٹی ایس ڈی)، پسینہ آنا، یاد داشت متاثر ہونا اور خود کو الگ تھلگ اور تنہا محسوس کرنے جیسی کیفیات سے متاثر مریض ڈاکٹر ماجد کے سامنے اپنی شکایات کا پلندہ کھول رہے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب ان کے مسائل کو ہمدردی اور صبر سے سن رہے ہیں۔ اسی دوران وہ افسردگی کے عالم میں رونے والی ایک کشمیری خاتون کے سر پر ہمدردی سے ہاتھ رکھتے ہیں اور تسلی دیتے ہیں۔ مَیں دیکھ رہی ہوں کہ ڈاکٹر ماجد کی آنکھیں بھی نم ہو جاتی ہیں۔

پلوامہ میں ڈپریشن کے مریضوں میں ڈیڑھ سو فی صد اضافہ

ڈاکٹر ماجد کہتے ہیں کہ ’’کشمیر۱۹۸۹ء سے ہی ذہنی صحت کے المیے سے گزر رہا ہے۔ اس دوران جب بھی یہاں صورتِ حال خراب ہوئی ہے، جیسے۲۰۰۸ء، ۲۰۱۰ء اور ۲۰۱۶ء کے مظاہرے یا اب آرٹیکل ۳۷۰ کا خاتمہ، ایسے ہراُتار چڑھاؤ کے دوران تناؤ میں اضافہ ہوا ہے‘‘۔
لوگوں کی نفسیات پر آرٹیکل ۳۷۰ کے خاتمے کے اثرات کی وضاحت میں ڈاکٹر صاحب نے کہا: ’’ایک عام کشمیری نے اچانک آرٹیکل ۳۷۰ کے ہٹائے جانے کو اپنی شناخت اور شہریت پر حملے کے طور پر لیا ہے۔ جس روز یہ اعلان کیا گیا تھا، اس دن مَیں او پی ڈی میں تھا، لیکن اچانک ٹریفک کے ساتھ ساتھ فون کی سہولیات بند ہونے کی وجہ سے لوگ ہسپتال نہیں پہنچ سکے۔ جو ہسپتال میں تھے، ان کے چہروں پر اُداسی تھی۔ پانچ اگست کے بعد یہاں کے لوگ بہت دنوں تک مسکرا نہیں سکے۔ اس کے بعد میں نے جو سارے مریضوں کو ابتدائی طور پر دیکھا تو انھوں نے ایسے سوالات اٹھائے کہ ہمارا مستقبل کیا ہے؟ ہرایک گہرے صدمے میں تھا۔
اس کے بعد رفتہ رفتہ جب ٹریفک اور دیگر پابندیوں میں نرمی کی گئی تو مریضوں نے آنا شروع کیا تو: ’’او پی ڈی میں 'پہلے جہاں ۷۰ سے ۱۰۰مریض آتے تھے، اب ان کی تعداد ۲۰۰ ہوگئی ہے۔ یہ تقریباً ۱۵۰ فی صد کا اضافہ ہے۔ ابتدائی طور پر اس ہسپتال میں ایک کوآپریٹو دکان کے علاوہ ادویات کی تقریباً ساری دکانیں بھی آٹھ ہفتوں تک بند رہیں۔ جب مریضوں نے آنا شروع کیا تو ان میں اضطراب یا افسردگی یا ڈپریشن سب سے زیادہ ہے‘‘۔

مستقل صدمے کی کیفیت

ڈاکٹر ماجد نے بتایا کہ ’’ان کے مریضوں میں سب سے زیادہ خوف 'اٹھائے جانےکا ہے۔ ۲۷نومبر کو پارلیمان میں دیے گئے ایک بیان میں وزیر مملکت براے داخلہ امور کرشنا ریڈی نے اعتراف کیا کہ ۵؍اگست کو آرٹیکل ۳۷۰ کو ختم کرنے کے بعد حکومت نے کشمیر میں ۵۱۶۱؍ افراد کو حراست میں لیا تھا‘‘۔
ڈاکٹر ماجد اس حالت کو 'مستقل ٹراما قرار دیتے ہیں: ’’ ۱۶،۱۷ سال کے لڑکے میرے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمیں ہرلمحہ گھبراہٹ ہے، وہ سو نہیں پا رہے ہیں۔ انھیں ایک ہی چیز کا خوف ہے کہ انھیں پوچھ گچھ کے لیے اچانک اٹھا لیا جائے گا۔ واقعی انھیں اٹھایا لیا جاتا ہے۔   جب یہ جذباتی زخم بار بار لگتے ہیں تو وہ ذہن پر گہرا اثر چھوڑ دیتے ہیں۔ لہٰذا، کشمیر میں جو کچھ ہورہا ہے، وہ پوسٹ ٹراما یا پی ٹی ایس ڈی صورتِ حال نہیں ہے، بلکہ ایک مستقل صدمہ ہے۔ اس اُلجھی ہوئی ذہنی حالت میں مریض دو قسم کے خطرات کے قیدی ہوتے ہیں۔ ایک 'اصلی خطرہ ' ہے اور دوسرا 'خوف، یعنی ان کے ذہن میں خوف کا گہرا سایہ ہے‘‘۔ '
انھوں نے وضاحت سے بتایا کہ ’’جب امریکی فوجی عراق میں جنگ لڑنے گئے تو وہ وہاں طویل عرصے تک پُرتشدد فضا میں رہے۔ لیکن جب بھی وہ اپنے ملک لوٹے تو انھیں احساس ہوا کہ وہ 'اپنے گھر میں ' ہیں اور محفوظ ہیں۔لیکن کشمیر کے ساتھ ایسا نہیں ہے۔ 'یہاں کوئی 'سیفٹی نیٹ ' نہیں ہے کہ وہ سمجھیں کہ اب ہم تشدد کے دائرے سے باہر ہیں۔ لہٰذا، یہاں کے لوگ بار بار اپنے مستقبل کے متعلق خوف زدہ رہتے ہیں۔ یہاں لوگوں میں آرٹیکل ۳۷۰ کے خاتمے کے تعلق سے خوف ہے۔ لوگ مجھ سے باربار پوچھتے ہیں کہ اب ہمارے ساتھ کیا ہوگا؟ ‘‘
’خواب میں بھی فوج کے سوالوں کا جواب دیتا ہوں‘
ہسپتال کے باہر برف پڑ رہی ہے۔ پلوامہ شہر کی عمارتوں کی بالکونیوں پر برف کی سفید چادریں بچھ گئی ہیں۔ مینٹل ہیلتھ سنٹر کے باہر۳۱  سالہ شفق ابھی ڈاکٹر کے پاس سے نسخہ لے کر آئے ہیں۔ وہ اپنی کہانی بتانے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ شفق کے بڑے بھائی شدت پسند گروہ میں شامل ہوگئے تھے اور مارے گئے تھے۔
وہ سر جھکائے کہتے ہیں: ’’یہاں کشمیر میں میری زندگی اُلجھ چکی ہے کہ میں ڈپریشن کا شکار ہوں۔ دراصل میرے بھائی نے اکتوبر ۲۰۱۷ء میں گھر چھوڑ دیا۔ وہ ۱۵ ماہ تک عسکریت پسند گروپوں کے ساتھ سرگرم تھا اور فروری ۲۰۱۹ء میں اسے مار دیا گیا۔ اس وقت سے آج تک مجھے ہرہفتے اپنے گاؤں کے قریب واقع آرمی کیمپ میں پوچھ گچھ کے لیے بلایا جانے لگا۔ میں جاتا ہوں، وہ سوال پوچھتے ہیں، میں جواب دیتا ہوں‘‘۔
بھائی کے مارے جانے اور پھر عدالت سے پولیس سٹیشن تک کے چکر نے شفق کی زندگی کا محور بدل دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں: ’’میں اپنے خوابوں میں بھی آرمی افسر کے سوالوں کا جواب دیتا رہتا ہوں۔ نیند نہیں آتی اور جب آتی ہے تو ایسا لگتا ہے کہ وہاں کوئی دھماکا ہوگا اور پورا گھر مجھ پر ٹوٹ  گرے گا اور میں مر جاؤں گا‘‘۔

بجھی آنکھوں والا لڑکا

دوپہر کے وقت بھی ایسا لگتا ہے کہ پلوامہ ڈھلتے سورج کی روشنی میں ڈوبا رہتا ہے۔ پلوامہ کے سرکاری ہسپتال سے دس کلومیٹر آگے اب ہم اس ضلع کے اریہل گاؤں میں موجود ہیں۔ خاموشی سے گرنے والی برف نے اس پورے گاؤں کو سفید چادر سے ڈھک دیا ہے۔ ڈرتے ڈرتے وسیم شیخ ہمیں مرکزی سڑک سے ایک کلومیٹر دور اپنے گھر لے گئے۔ سارا راستہ دو فٹ برف سے ڈھکا ہوا ہے۔ملاقات میں ۱۹ سالہ سلیم جالی دار کشمیری پردے کے پاس سر جھکائے بیٹھے ہیں۔ ۲۰۱۶ءمیں سلیم دسویں کے امتحانات کے دوران پلوامہ میں ایک احتجاج میں پھنس گئے اور ان کی ایک آنکھ پیلٹ گن کی زد میں آکر ضائع ہوگئی۔
وہ وضاحت کرتے ہیں: ’’اس وقت برہان وانی کے مارے جانے کے خلاف مظاہرے ہو رہے تھے۔ میں کسی پتھراؤ یا احتجاج میں شامل نہیں تھا، صرف ایک جگہ پھنس گیا‘‘۔
لیکن بات اسی پر ختم نہیں ہوئی۔ مئی۲۰۱۹ء میں پڑوسی گاؤں کے ایک جنازے میں شرکت کے لیے جانے والے سلیم ایک بار پھر فوج اور مظاہرین کے مابین جاری تصادم میں پھنس گئے۔ اس بار ان کی دوسری آنکھ کے ساتھ ان کے چہرے اور جسم میں بہت سارے چھرّے لگے۔
سلیم کے والد مجھے اپنے فون کی سکرین پر دو تصاویر دکھاتے ہیں۔ ایک میں ان کے بیٹے کا خون آلود چہرہ ہے اور دوسرے میں اس واقعے سے پہلے کی ایک تصویر ہے جس میں سلیم دھوپ کا چشمہ لگائے کالی ٹی شرٹ میں نظر آتا ہے۔ بغیر بینائی کے اپنی زندگی کے صدمے کے بارے میں بات کرتے ہوئے سلیم کہتے ہیں: ’’میرے گاؤں میں مجھ جیسے اور بھی بہت سے لڑکے ہیں، جنھیں پیلٹ گنز لگی ہیں۔ میرے اب تک آٹھ آپریشن ہوچکے ہیں۔ ڈاکٹر کہتے ہیں کہ بینائی واپس آنے کی امید بہت ہی کم ہے۔ میں سارا دن افسردہ رہتا ہوں‘‘۔
دو منٹ تک سر جھکائے بیٹھے سلیم نے اچانک کہا: '’’مجھے بھی شوق تھا۔کچھ بننے کا… کرکٹ کھیلنے کا… جم جانے کا… کشتی کا… لیکن اب میری زندگی برباد ہوگئی ہے۔ والدین کب تک میرا خیال رکھیں گے؟ کون سی لڑکی مجھ سے شادی کر کے اپنی زندگی خراب کرنا چاہے گی؟ میں نابینا بنا بیٹھا ہوں۔ سارا دن درد سے سر پھٹتا رہتا ہے۔ کچھ نہیں دیکھ سکتا۔ نہ مجھے بھوک لگتی ہے، نہ پیاس لگتی ہے اور نہ نیند آتی ہے۔ بس دل گھبراتا رہتا ہے‘‘۔

'وادی کی تقریباً نصف آبادی ڈپریشن کا شکار ہے‘

اگست ۲۰۱۹ء میں آرٹیکل۳۷۰ کے خاتمے کے بعد معروف برطانوی میڈیکل جریدے 'لانسیٹ ' نے اپنے ایک ادارتی مضمون میں ہندستان کے زیر انتظام کشمیر کے عوام کی ذہنی صحت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ’’یہاں کے عوام کئی عشروں سے مسلسل جدوجہد کر رہے ہیں۔ اقتصادی خوش حالی سے پہلے لوگوں کو پرانے ذہنی زخموں سے نجات چاہیے‘‘۔ اگرچہ انڈین میڈیکل ایسوسی ایشن (IMA) نے اس اداریے کو مسترد کردیا تھا، لیکن طبی دنیا میں کشمیریوں کی ذہنی صحت کے بارے میں یہ پہلا تبصرہ نہیں تھا۔
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے بین الاقوامی ادارے ’ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز‘ (DWB) ' نے مئی ۲۰۱۶ء میں شائع ہونے والی ایک تفصیلی رپورٹ میں بتایا تھا کہ وادی میں مقیم ۴۱ فی صد افراد ذہنی دباؤ کا شکار ہیں‘‘۔ ان اطلاعات کی اشاعت سے دس سال قبل بھی وہاں کے حالات بہت اچھے نہیں تھے۔ ۲۰۰۶ءمیں شائع ہونے والے اپنے تحقیقی مقالے میں ماہر نفسیات ڈاکٹر مشتاق مگروب کا کہنا ہے کہ ’’اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ پچھلے ۱۵برسوں میں کشمیر میں شدید افسردگی، تناؤ اور پی ٹی ایس ڈی کے مریضوں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے‘‘۔

سری نگر میں ذہنی مریضوں کی تعداد میں اضافہ

ہماری کار پلوامہ سے واپسی پر دارالحکومت سری نگر کی طرف مڑ چکی ہے۔ یہاں انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ اینڈ نیورو سائنسز (ایمہانس: IMHANS) سے وابستہ ایک سینیئر ماہر نفسیات نے بتایا کہ ’’مذکورہ تحقیقی مقالوں میں موجود تمام حقائق درست ہیں۔ 'جب ہم نے ۱۹۹۰ء میں ذہنی صحت کا یہ مرکز شروع کیا تھا، اس وقت سے ہر سال یہاں پر صرف۲۰۰۰  مریض آتے تھے۔ لیکن آج ہمارے سرکاری مرکز میں ایک لاکھ مریض آرہے ہیں اور علاج کے لیے اندراج کرا رہے ہیں۔ میں ان ایک لاکھ افراد میں محکمہ چائلڈ سائیکالوجی کے مریضوں اور منشیات یا منشیات کے استعمال کے مریضوں کو شامل نہیں کررہا ہوں‘‘۔
وہ کہتے ہیں: '’’ٹریفک اور مواصلات کے تمام ذرائع بند کردیے گئے تھے۔ لیکن جیسے ہی ٹریفک بحال ہوئی، مریضوں کی تعداد میں ایک بار پھر اضافہ ہونے لگا۔ میں اپنی او پی ڈی میں ایک دن میں ۲۵۰ سے زیادہ مریض دیکھ رہا ہوں۔ یہ بہت بڑا اضافہ ہے۔ آرٹیکل ۳۷۰ کے خاتمے کے چندہی دنوں بعد میں نے دو ایسے مریضوں کا علاج کیا، جنھوں نے صدمے، الجھنوں اور خوف میں مبتلا ہونے کی وجہ سے خودکشی کی کو شش کی تھی۔ ان میں ایک نوجوان عورت ہے اور ایک کالج کی طالبہ ہے۔ ان دومریضوں پر براہِ راست اثر آرٹیکل ۳۷۰ کے خاتمے سے ہوا تھا‘‘۔
سری نگر کے ایمہانس میں اپنا علاج کروانے کے لیے پوری وادی سے لوگ آتے ہیں۔ ان کی تعداد میں مسلسل اضافے کے متعلق ڈاکٹر کہتے ہیں: ’’آج کشمیر میں ہم بہت سارے مریضوں کو نفسیاتی دوائیں (جیسے نیند کی گولیاں) دے رہے ہیں‘‘۔

خواتین میں افسردگی

سری نگر کے ایس ایم ایچ ایس ہسپتال میں آج برف باری ہو رہی ہے۔ یہاں ہماری ملاقات سب سے پہلے ۲۳ سالہ صاحبہ سے ہوتی ہے، جو نفسیاتی او پی ڈی میں بیٹھی ہیں۔ سری نگر میں بی ٹیک کی تعلیم حاصل کرنے والی صاحبہ پچھلے پانچ مہینوں سے ڈپریشن کا علاج کرا رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ سارا دن ان کا بلڈپریشر کم یا موڈ غم زدہ رہتا ہے۔ 'میں سارا دن اپنے اندر ایک منفی جذبہ محسوس کرتی ہوں۔ میں بی ٹیک کی تعلیم حاصل کررہی ہوں لیکن مجھے نہیں معلوم کہ میرا امتحان کب ہوگا اور ہوگا بھی یا نہیں؟ اگر نہیں، تو میرا سال ضائع ہوجائے گا اور اگر ایسا ہے تو پھر میں امتحان کیسے دوں گی؟ ہماری تو کوئی پڑھائی نہیں ہوئی ہے کہ یہاں اتنے مہینوں سے سب کچھ بند ہے‘‘۔
اپنی بیماری کے بارے میں کہتی ہیں: ’’ہر وقت افسردگی رہتی ہے، لہٰذا میں یہاں دوا لینے آئی ہوں۔ ایسا لگتا ہے جیسے یہاں کی سڑکیں فوج سے بھری ہوئی ہیں اور ذہن ڈپریشن سے جام ہے‘‘۔
صاحبہ سے کچھ ہی فاصلے پر سری نگر کے لال بازار سے آنے والی ۲۱ سالہ نوشید بیٹھی ہیں۔ جو اُداس چہرے اور دُکھی نظروں سے فرش کی طرف مسلسل دیکھتے ہوئے کہتی ہیں: ’’میں گریجویشن کررہی ہوں، لیکن مجھے نہیں معلوم کہ میں اپنا کورس مکمل کر پاؤں گی یا نہیں؟ کلاسز بند ہیں۔ یہ سوچتی رہتی ہوں کہ آگے کیا ہوگا؟‘‘
ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ’’وادیِ کشمیر میں مردوں کے مقابلے میں سات گنا زیادہ خواتین افسردگی کا شکار ہیں۔ اپنی پریشانی کو بتانے اور بانٹنے کے لیے ان کے پاس نسبتاً راستے کم ہیں۔  اس سے بھی بڑا مسئلہ یہ ہے کہ لوگ یہ بھی نہیں جانتے کہ وہ ڈپریشن کا شکار ہیں۔
گرتی ہوئی برف کے درمیان سری نگر کے رہایشی علاقے میں ایک کثیر المنزلہ عمارت کے سامنے لوہے کے بڑے سے گیٹ کے باہر مجھے لینے کے لیے شمع آتی ہیں اور خاموشی سے عمارت کی تیسری منزل پر لے جاتی ہیں۔یہ سری نگر میں رہ کر امتحانات کی تیاری کرنے والی لڑکیوں کا ایک ہاسٹل ہے اور شمع اپنی سخت گیر وارڈن سے بچا کر ہمیں اپنے کمرے میں لے آئی ہیں۔ کمرے میں ان کی روم میٹ صائمہ بھی ہے۔ کمرے میں بھی شدید ٹھنڈ ہے۔ لیکن وہ دونوں فوراً مجھے اپنے بستر پر بٹھا کر میرے پیروں پر کمبل ڈالتی اور مجھے ایک گلاس گرم پانی دیتی ہیں۔یہ دونوں اپنی میڈیکل کی تعلیم شروع کرنے کے لیے این ای ای ٹی امتحان کی تیاری کے لیے ضلع شوپیان سے یہاں آئی ہیں۔ بات چیت شروع کرنے سے پہلے ہی ہاسٹل کی بجلی چلی جاتی ہے۔
موبائل سے ٹارچ جلاتے ہوئے شمع نے کہا: ’’میں سیبوں کے شہر ایپل ٹاؤن سے یہاں تعلیم حاصل کرنے آئی ہوں، لیکن اب صورتِ حال اتنی خراب ہوگئی ہے کہ میں ہر وقت افسردہ رہتی ہوں۔ این ای ای ٹی کے امتحانات بہت مشکل ہیں۔ کلاس الیون میں مناسب طریقے سے کلاسز نہیں لگیں‘‘۔ اس کی تائید کرتے ہوئے صائمہ نے بتایا: ’’ہم بہت غریب خاندان سے ہیں۔ اگر اس بار امتحان میں کامیاب نہیں ہوسکے تو شاید ہمارے لیے تعلیم کے تمام راستے بند ہوجائیں گے‘‘۔

زخموں کی بہت سی پرتیں

لڑکیوں کے ہاسٹل سے نکل کر ریذیڈنسی روڈ پر ہماری ملاقات اکرم اور شاہد سے ہوئی۔ قدیم شہر میں پروان چڑھنے والے اکرم اور شاہد بچپن کے دوست ہیں۔ان کی کہانی اس کشمیر کی تصویر ہے جس کے رہایشیوں کے سینے میں برسوں پرانے زخم اب بھی تازہ ہیں۔ اگر آپ کسی پر مرہم لگاتے ہیں تو دوسرا زخم رسنے لگتا ہے۔
مئی ۱۹۹۶ء کو شاہد کے والد اور دادا دونوں ایک ساتھ اپنے گھر میں مارے گئے۔ اس دن کو یاد کرتے ہوئے شاہد کہتے ہیں: 'اس وقت۱۹۹۶ء  کے انتخابات ہورہے تھے اور ہمارے گھر کے سامنے شہر میں ایک پولنگ بوتھ تھا۔ کہیں سے ایک پٹاخہ آ کر اس پولنگ بوتھ کے سامنے گرا۔ سکیورٹی اہلکاروں کو شک گزرا کہ ہمارے گھر سے آیا ہے۔ وہاں سے فوراً ہی فائرنگ شروع ہوگئی اور گھر کے برآمدے میں کھڑے میرے والد اور دادا دونوں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ میں اس وقت چھے سال کا تھا اور میری والدہ صرف ۲۲ سال کی تھیں۔ اس وقت میری چھوٹی بہن صرف ایک ماہ کی تھی‘‘۔ اگرچہ شاہد کی والدہ کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر سرکاری ملازمت مل گئی، لیکن وہ اور ان کے بیٹے شاہد شدید ڈپریشن میں ہیں۔ شاہد کہتے ہیں: ’’ماں کو وہم گھیرے رہتے ہیں۔ رات کو نیند نہیں آتی۔ وہ ہمیشہ ڈپریشن میں رہتی ہیں۔ پچھلے بیس سالوں میں نہ جانے کتنے ماہر ڈاکٹر بدل چکے ہیں، مگر کوئی افاقہ نہیں۔ میں انٹرنیٹ کمپنیوں کے ساتھ کام کرتا تھا اور پچھلے پانچ ماہ سے وہ بھی بند ہیں‘‘۔

معصوم بچوں کے ذہنوں پر گہرے اثرات

کمیونٹی جنرل ہسپتال یونٹ کے چلڈرن سائیکیاٹری سینٹر میں کام کرنے والے پروگرام کے کونسلر سرمد نے بی بی سی کے ساتھ ایک تفصیلی گفتگو میں بتایا ہے کہ ’’آرٹیکل ۳۷۰ کے خاتمے کا وادی کے بچوں پر سب سے بُرا اثر پڑا ہے‘‘۔وہ کہتے ہیں: ’’پچھلے ۹ مہینوں میں، ہم نے یہاں علاج کے لیے۱۵۰۰ بچوں کا اندراج کیا ہے۔ یہ ایک بڑی تعداد ہے کیونکہ کشمیر میں ابھی ذہنی صحت کے بارے میں شعور اور معلومات بہت کم ہیں۔ کئی بار والدین کو یقین نہیں آتا ہے کہ ان کے بچوں کو مدد کی ضرورت ہے۔ یہاں بچے شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہیں۔بچوں کی ذاتی جگہیں چھین لی گئی ہیں۔ 'بڑوں کی طرح بچوں کی بھی اپنی جگہ ہوتی ہے، جیسے اسکول، ٹیوشن، کھیل کا میدان وغیرہ۔ گھروں میں بند بچے اندر ہی اندر گھٹنے لگتے ہیں‘‘۔
یہاں ہماری ملاقات ماجد اشرف میر سے ہوئی ہے جو اپنے چھے سالہ بیٹے کو لے کر ہسپتال آئے ہیں۔ بچے کی صحت کے بارے میں دریافت کرنے پر سری نگر کے رہایشی ماجد کا چہرہ اس طرح بجھ جاتا ہے جیسے ماضی کے کسی گہرے زخم کی ٹیس نے نڈھال کر دیا ہو۔ وہ کہتے ہیں: ’’جیل کس کو کہتے ہے؟ وہی جگہ جہاں آپ اپنی مرضی سے باہر نہیں نکل سکتے ہیں، آپ کہیں بھی نہیں جا سکتے۔ اسی طرح میرا بیٹا گھر کی جیل میں بند ہے۔ پانچ اگست سے آج تک ہم نے اسے گھر سے باہر جانے نہیں دیا ہے‘‘۔ اسی وقت ماجد کا بیٹا اپنا ہاتھ چـھڑوا کر او پی ڈی کے دالان میں دوڑنے لگتا ہے۔ ماجد سری نگر میں آج اپنی کپڑے کی دکان بند کر کے اپنے بیٹے کو دکھانے آئے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں: ’’گذشتہ تین مہینوں سے میرے بیٹے کے برتاؤ میں تبدیلی آئی ہے۔ مجھ پر اور اپنی ماں پر یہ بہت چیختا ہے، غصہ کرتا ہے۔ بار بار پوچھتا ہے کہ مجھے باہر کیوں نہیں جانے دیتے، مجھے باہر کیوں نہیں جانے دیتے؟ اب میں اس کو کیا جواب دوں!‘‘ یہ کہتے ہوئے ماجد کی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔ ’’بچے کے برتاؤ کے سبب اس کی والدہ کا ذہنی توازن متاثر ہو رہا ہے۔ میری اہلیہ کو بھی طبی امداد کی ضرورت ہے، لیکن ہم نے سوچا کہ پہلے بچے کا علاج کروائیں‘‘۔

برف میں ڈھکے شوپیاں کا درد!

سری نگر سے تقریباً ۸۰ کلومیٹر کے فاصلے پر ہم اس وقت جنوبی کشمیر میں انتہائی سرگرمیوں کے مضبوط گڑھ شوپیاں ضلع کے ورپورہ گاؤں میں ہیں۔ پلوامہ سے آگے ورپورہ تک جانے والا راستہ برف کی سفید چادر سے ڈھکا ہے۔ فضا میں ایک برفیلی اُداسی اور خاموشی بھی ہے۔ ہمیں اپنی کار کی آواز کے علاوہ دور کی ہوا کے سوا کوئی آواز نہیں سنائی دیتی ہے۔
ورپورہ گاؤں میں رحمت کے گھر پہنچنے کا راستہ برف پرپڑے چنار کے پتوں سے ڈھکا ہوا ہے۔ ۱۹ سالہ رحمت کی والدہ بیٹے کے پیلٹ گن کی زد میں آنے کے بعد سے ڈپریشن میں ہیں۔ ۲۰۱۶ء کا تذکرہ کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں: 'یہ برہان وانی کے جانے کے فوراً بعد کی بات ہے۔ یہاں زبردست احتجاج ہو رہے تھے۔ اسی دوران ایک صبح فوج گاؤں میں آئی اور مظاہرین پر پیلٹ گنز چلانی شروع کی۔ میری نظروں کے سامنے رحمت کی ایک آنکھ میں پیلٹ لگی۔ کئی آپریشن کے بعد بڑی مشکل سے اس کی آنکھ تھوڑی ٹھیک ہوئی ہے، لیکن میں ہمیشہ کے لیے بیمار ہو گئی ہوں‘‘۔
ورپورہ سے آگے ہمہونا گاؤں میں ہماری ملاقات رسول احمد سے ہوئی۔ جون ۲۰۱۷ء میں انھیں 'آزادی کے لیے جاری ایک مظاہرے میں خطاب کرنے کے بعد گرفتار کیا گیا تھا۔ رسول احمد کہتے ہیں کہ ’’انتظار میری زندگی کا مرکزی لفظ ہے‘‘۔ فیرن کے نیچے کانگڑی لیے کھڑے  رسول احمد نے سلسلۂ کلام جاری رکھتے ہوئے بتایا: ’’عشروں سے یہاں لڑائی اور ہڑتال جاری ہے۔ میرے لڑکے کو گرفتار کیا گیا، اور اس پر ۱۶مقدمات عائد کیے گئے۔ ان میں سے آٹھ میں وہ بری ہو گیا لیکن باقیوں پر ابھی سماعت جاری ہے۔ اس کی ماں اور اس کی بیوی کی زندگی صرف انتظار ہے! اس کی ماں شدید ڈپریشن میں ہے۔ ساری ساری رات دروازے پر جاکر اپنے بیٹے کو تلاش کرتی ہے۔ بُرے خواب آتے ہیں۔ مسکرانا، بولنا، کھانا پینا سب بھول گئی ہے‘‘۔
شوپیان سے واپس سری نگر کا سفر بھی وادی پر بچھی اسی برف میں ہوا جس میں اس کا آغاز کیا تھا۔ بجلی کے تاروں پر ٹھٹھرتے پرندے زمین پر جنت نشان کہی جانے والی اس وادی کی گہری اُداسی کے تنہا اور سچّے پیام بر نظر آئے۔ یوں محسوس ہوا کہ وہ برف باری میں فیض کا یہ شعر گنگنا رہے ہوں: بڑا ہے درد کا رشتہ، یہ دل غریب سہی۔

بھارت میں وزیر اعظم نریندر مودی کے برسر اقتدار آنے سے قبل یا اس کے فوراً بعد کشمیر، بھارتی مسلمانوں اور پاکستان کے حوالے سے جو خدشات ظاہر کیے جا رہے تھے ، ایک ایک کرکے وہ سبھی درست ثابت ہو رہے ہیں۔ غالباً۲۰۱۴ء اور۲۰۱۵ء میں جب ان خطرات سے آگاہ کرانے کے لیے میں نے مودی کا کشمیر روڑ میپ ، کشمیر میں ڈوگرہ راج کی واپسی وغیرہ جیسے موضوعات پرکالم لکھے توکئی افراد نے ’قنوطیت پسندی‘ کا خطاب دے کر مجھے یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ کانگریس کی کمزور اور پس وپیش میں مبتلا سیکولر حکومت کے برعکس، بھارت میں ایک سخت گیر اور خبط عظمت کے شکار حکمران کو رام کرنا یا شیشے میں اتارنا زیادہ آسان ہوگا ۔ اس سلسلے میں بار بار ۱۹۷۷ء سے ۱۹۷۹ءکی مرارجی ڈیسائی کی جنتا پارٹی حکومت اور پھر۱۹۹۸ء سے۲۰۰۴ء تک بھارتیہ جنتا پارٹی کی زیر قیادت اٹل بہاری واجپائی کے دور کی یاد دلائی جاتی تھی۔ لیکن جب ’ڈوگرہ راج کی واپسی‘ مضمون لکھا تو آزاد کشمیرسے تعلق رکھنے والے چند دانش ور وں نے تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان مضامین کی بنیاد خیالی گھوڑے یا کوئی غیبی اشارہ نہ تھا، بلکہ مختلف لیڈروں کی بریفنگ پر مبنی معلومات ہی تھیں۔
 مجھے یاد ہے ۲۰۱۴ء کے عام انتخابات سے قبل جب موجودہ وزیر داخلہ امیت شا کو   اہم انتخابی صوبہ اتر پردیش کا انچارج بنایا گیا ، تو راجیہ سبھا میں اپوزیشن لیڈر آنجہانی ارون جیٹلی نے قومی میڈیا کے کچھ چنیدہ صحافیوں اور دہلی کے دیگر عمائدین سے ان کو متعارف کروانے اور ملاقات کے لیے اپنی رہایش گاہ پر ضیافت کا اہتمام کیا تھا۔ اس سے قبل امیت شا گجرات صوبہ کے وزیرداخلہ کی حیثیت سے فسادات، سہراب الدین اور ان کی اہلیہ کا پولیس انکاونٹر کروانے اور اس کی پاداش میں جیل کی ہوا کھانے اور پھر عدالت کی طرف سے تڑی پار ہونے کے لیے ہی مشہور تھے۔ اس تقریب میں وہ ہندستان ٹائمز کے ایک ایڈیٹر ونود شرما پر خوب برس پڑے کہ ’’تم ہر وقت ان کے خلاف ہی کیوں لکھتے رہتے ہو‘‘۔

ان کی گفتگو سے اندازہ ہوگیا تھا کہ مودی کا دور اقتدار، واجپائی حکومت سے مختلف ہوگا۔ واجپائی حکومت میں جارج فرنانڈیز ، جسونت سنگھ اور دیگر اتحادیوں کی شکل میں جو ایک طرح کا کشن تھا، اس کی عدم موجودگی میں ہندو انتہاپسندو ں کی مربی تنظیم آرایس ایس اپنے ایجنڈے کو لاگو کرنے میں اب کوئی پس و پیش نہیں کرے گی۔ انھوں نے گفتگو میں واضح کیا کہ ’’اکثریت ملتے ہی وہ کشمیر کے حوالے سے بھارتی آئین کی دفعہ ۳۷۰کو پہلی فرصت میں ختم کر واکے ہی دم لیں گے‘‘۔ ان کا ایک اور رونا تھا کہ جموں و کشمیر اسمبلی میں وادی کشمیر کو عددی برتری حاصل ہے۔ اس لیے اسمبلی حلقوں کی حد بندی کچھ اس طرح کروانے کی ضرورت ہے کہ جموں کے ہندو علاقوں کی سیٹیں بڑھ جائیں، جس سے ان کے مطابق سیاسی طور پر کشمیرپر لگام ڈالی جاسکے۔ اس کے علاوہ ان کا کہنا تھا کہ بھارتی مسلمانوں کو بھی سوچ بدلنی پڑے گی۔

اس سے قبل انڈین ایکسپریس سے وابستہ ایک رپورٹر نے مشرقی اتر پردیش میں امیت شا کے دورے کے دوران کارکنوں کے ساتھ ان کی ایک میٹنگ میں رسائی حاصل کی تھی۔ جہاں وہ ان کو بتا رہے تھے کہ ’’مظفر نگر اور اس کے نواح میں ہوئے فسادات کا کس طرح بھر پور فائدہ اٹھاکر ہندو ووٹروں کو بی جے پی کے حق میں لام بند کرایا جائے‘‘۔ بقول رپورٹر انیرودھ گھوشال، وہ کارکنوں کو خوب کھر ی کھری سنا رہے تھے، کہ مظفر نگر فسادات کا دائرہ دیگر ضلعوں تک کیوں نہیں بڑھایا گیا، تاکہ مزید انتخابی فائدہ حاصل ہوجاتا۔

جیٹلی کے گھر پر ہوئی اس ملاقات میں ان کے جس ارادے نے سب سے زیادہ میرے ذہن میں خطرے کی گھنٹی بجائی وہ ان کایہ بیان تھا کہ ’’بھارت کی سبھی زبانوں کو زندہ رہنے کا حق تو ہے ، مگر ان کا رسم الخط ہندی یا دیوناگری میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’اس سے بھارت کو مزید مضبوط بنانے میں مدد ملے گی۔ کشمیری زبان کا خاص طور پر ذکر کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’’کشمیری مسلمانوں کی منہ بھرائی کرکے اس زبان کو واپس شاردا یا دیوناگری اسکرپٹ میں لانے میں پچھلی حکومتیں لیت و لعل سے کا م لیتی آرہی ہیں‘‘۔
۲۶جنوری کو بھارت کے یوم جمہوریہ کے موقعے پر حکومت کی طرف سے اخباروں کو جاری ایک اشتہار پر نظر پڑی ۔ یہ اشتہار بھارتی آئین میں تسلیم سبھی۲۲ شیڈولڈ زبانوں میں شائع کیا گیا تھا۔ بغور دیکھنے پر بھی کشمیر ی یا کاشرٗ زبان نظر نہیں آئی۔ بعد میں دیکھا کہ کسی نامعلوم رسم الخط میں لکھی ایک سطر کے نیچے انگریزی میں لکھا تھا کہ یہ کشمیر ی زبان ہے۔ یعنی سرکاری طور پر باضابط کشمیری یا کاشرٗ کا رسم الخط شاردا میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ اب اس میں شک و شبہے کی کوئی گنجایش ہی نہیں رہی کہ ریاست جموں و کشمیر کو تحلیل کرنے کے بعد کشمیری عوام کی غالب اکثریت کے تشخص ،تہذیب و کلچر پر بھارتی حکومت نے باضابط طور پر کاری ضرب لگانے کا بھی آغاز کر دیا ہے۔پچھلے سال اگست میں ریاست کو تحلیل کرکے اس کو مرکز کے زیر انتظام علاقہ بناکر اس کے آئین کو بھی منسوخ کرنے کے ساتھ ریاست کی سرکاری اور قومی زبان اردو کا جنازہ نکال دیا گیا تھا۔ اردو اب کشمیر کی سرکاری زبان نہیں ہے۔ چونکہ اس علاقے پر اب بھارت کی مرکزی وزارت داخلہ کی براہ راست عمل داری ہے، اس لیے اب جموں ،کشمیر و لداخ کی سرکاری زبان ہندی ہے۔ پچھلے سال ہی بی جے پی کے چند عہدے داروں نے ایک عرض داشت میں مطالبہ کیا تھا کہ ’’علاقائی زبانوں کا رسم الخط ہندی میں تبدیل کرکے ملک کو جوڑا جائے‘‘۔ اس کی زد میں براہ راست کشمیری (کاشرٗ) اور اردو زبانیں ہی آتی ہیں، جو فارسی۔عربی یعنی نستعلیق رسم الخط کے ذریعے لکھی اور پڑھی جاتی ہیں۔ اسی طرح چند برس قبل ایک موقعے پر بھارتی قومی سلامتی مشیر اجیت دوبال نے کہا تھا کہ ’’کشمیر مسئلہ کا حل تہذیبی جارحیت اور اس خطہ میں ہندو ازم کے احیا میں مضمر ہے‘‘۔

یاد رہے کہ پچھلے سال کشمیر میں گورنر انتظامیہ نے کشمیری ثقافتی لباس پھیرن پر پابندی لگادی تھی۔ پہلے تو اسے سیکورٹی رسک قرار دیا گیا، جس کے بعدتعلیمی و سرکاری اداروں میں عام لوگوں اور صحافیوں کے پھیرن پہن کر داخل ہونے پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔حیرت تو اس بات پر ہے کہ وزیر اعظم مودی جب بھی کسی صوبہ کے دورہ پر ہوتے ہیں، تو وہاں کے مقامی لباس و روایتی پگڑی پہن کر عوامی جلسوں کو خطاب کرتے ہیں۔ کبھی کبھی مقامی زبان کے چند الفاظ ادا کرکے عوامی رابطہ بناتے ہیں۔ لیکن ان کے ہرقدم سے معلوم ہوتا ہے کہ کشمیر یوں کے لباس و زبان سے ان کو حددرجے کا بیر ہے۔ کشمیریوں کی نسل کشی کے ساتھ کشمیر کی ثقافت کو ختم کرنا ان کے منصوبے کا حصہ ہے۔

کشمیری زبان کے رسم الخط کو قدیمی شاردا اور پھر دیوناگری میں تبدیل کرنے کی تحویز اس سے قبل دو بار۲۰۰۳ء اور پھر ۲۰۱۶ء میں بھارت کی وزارت انسانی وسائل نے دی تھی مگر ریاستی حکومتوں نے اُس کو رد کردیا۔ بی جے پی کے لیڈر اور اس وقت کے مرکزی وزیر پروفیسر مرلی منوہر جوشی نے ۲۰۰۳ءمیں تجویز دی تھی کہ ’’کشمیری زبان کے لیے دیوناگری کو ایک متبادل رسم الخط کے طور پر سرکاری طور پر تسلیم کیا جائے اور اس رسم الخط میں لکھنے والوں کے لیے ایوارڈ وغیرہ تفویض کیے جائیں۔ اس طرح کشمیری زبان کا قدیمی شاردا اسکرپٹ بھی بحال کیا جائے گا۔ سوال ہے کہ اگر کشمیری زبان کا اسکرپٹ شاردا میں بحال کرنا ہے، تو سنسکرت اور دیگر زبانوں کا قدیمی رسم الخط بھی بحال کرو۔ یہ کرم صرف کشمیری زبان پر ہی کیوں؟

وزیر موصوف نے یہ دلیل بھی دی تھی، کہ چونکہ بیشتر کشمیری پنڈت پچھلے ۳۰برسوں سے کشمیر سے باہر رہ رہے ہیں، ان کی نئی جنریشن اردو یا فارسی رسم الخط سے ناآشنا ہے، اس لیے ان کی سہولیت کی خاطر ہندی رسم الخط کو کشمیر ی زبان کی ترویج کا ذریعہ بنایا جائے۔ اس میٹنگ میں مرحوم وزیرا علیٰ مفتی محمد سعید نے مرلی منوہر جوشی کو قائل کرلیا کہ ان کے فیصلہ سے پچھلے ۶۰۰برسوں سے وجود میں آیا کشمیری زبان و ادب بیک جنبش قلم نابود ہو جائے گا۔ مجھے یاد ہے کہ کشمیری زبان کے چند پنڈت اسکالروں نے بھی وزیر موصوف کو سمجھایا کہ ’’کشمیری زبان میں ایسی چند آوازیں ہیں ، جن کو دیو ناگری اسکرپٹ میں ادا نہیں جاسکتا ہے‘‘۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’ان آوازوں کو فارسی اسکرپٹ کے ساتھ ہم آہنگ کرنے میں بھی خاصی تحقیق و مشقت کرنی پڑی ہے۔ ان کو قدیمی شاردا اسکرپٹ میں بھی اب ادا نہیں کیا جاسکتا ہے‘‘۔ کشمیری زبان میں ۱۶حروف علت یا واولز اور ۳۵حروف صحیح ہیںنیز چھے ڈیگراف یا Aspirated Consonents ہیں۔ وزیر موصوف ، جو خود بھی ایک اسکالر تھے، کسی حد تک قائل ہوگئے اور یہ تجویز داخل دفتر کی گئی۔مودی حکومت نے برسرِاقتدار آنے کے بعد جب شمال مشرقی صوبہ اڑیسہ میں بولی جانے والی اوڑیہ زبان کو کلاسک زبان کا درجہ دیا، تو کشمیر کی ادبی تنظیموں کی ایما پر ریاستی حکومت نے بھی کشمیر ی زبان کو یہ درجہ دلانے کے لیے ایک یادداشت مرکزی حکومت کو بھیجی۔ فی الحال تامل، سنسکرت، کنڑ، تیلگو، ملیالم اور اوڑیہ کو بھارت میں کلاسک زبانوں کا درجہ ملا ہے۔ کلاسک زبان قرار دیے جانے کا پیمانہ یہ ہے کہ زبان کی مستند تاریخ ہو اور اس کا ادب وتحریریں۱۵۰۰سے ۲۰۰۰سال قدیم ہوں۔ اس کے علاوہ اس کا ادب قیمتی ورثے کے زمرے میں آتا ہو۔ نیز اس کا ادب کسی اور زبان سے مستعار نہ لیا گیا ہو۔ چونکہ ان سبھی پیمانوں پر کشمیر ی یا کاشرٗ زبان بالکل فٹ بیٹھتی تھی، اس لیے خیال تھا کہ یہ عرض داشت کسی لیت و لعل کے بغیر ہی منظور کی جائے گی۔ عرض داشت میں بتایا گیا تھا کہ ’’کشمیر ی زبان سنسکرت کی ہم عصر رہی ہے نہ کہ اس سے ماخوذ ہے۔ بھارت میں جہاں آجکل تاریخ کو مسخ کیا جارہا ہے، وہیں مختلف زبانوں کے ماخذ بھی سنسکرت سے جوڑے جا رہے ہیں۔ تب، مرکزی حکومت نے بتایا کہ کشمیری و اقعی کلاسک زبان قرار دیے جانے کی اہل ہے، مگر شرط رکھی کہ اس کے لیے اس کا رسم الخط سرکاری طور پر دیوناگری یعنی ہندی تسلیم کرناہوگا‘‘۔

سوال یہ ہے کہ بھارتی حکومت کشمیری زبان کے رسم الخط کو تبدیل کرنے پر کیوں اصرار کررہی ہے؟ کشمیر کے آخری تاجدار یوسف شاہ چک کی ملکہ حبہ خاتون (زون) ہو یا محمود گامی یا عبدالاحد آزاد ، غلام احمد مہجور یا مشتاق کشمیری چونکہ عام طور پر سبھی کشمیری شاعروں نے اس خطے پر ہونے والے ظلم و ستم کو موضوع بنایا ہے اور تحریک آزادی کو ایک فکری مہمیز عطا کی ہے، اسی لیے شاید ان کے کلام کو بیگانہ کرنے کے لیے  زبان کے لیے تابوت بنا جا رہا ہے۔ پچھلے ۷۰۰برسوں میں علَم دار کشمیر شیخ نورالدین ولی ہو یا لل دید، رسو ل میر، وہا ب کھار یا موجودہ دو ر میں دینا ناتھ نادم ، سوم ناتھ زتشی رگھناتھ کستور، واسدیو ریہہ ، وغیرہ ، غرض سبھی نے تو نستعلیق رسم الخط کو ہی اپنے اظہار کا ذریعہ بنایا ہے۔ ۲۰۱۱ءکی مردم شماری کے مطابق وادی کشمیر اور وادی چناب میں ۸ء۶ملین افراد کشمیری زبان بولنے والے رہتے ہیں۔ آزاد کشمیر کے نیلم اور لیپا کی وادیوں میں مزید ایک لاکھ ۳۰ہزار افراد کشمیری کو مادری زبان قرار دیتے ہیں۔ علاقوں کی مناسبت کے لحاظ سے کشمیری زبان کی پانچ بولیاں یا گفتار کے طریقے ہیں۔ کسی کشمیری کے گفتار سے ہی پتا چلتا ہے کہ وہ ریاست کے کس خطے سے تعلق رکھتا ہے۔ ان میں مرازی(جنوبی کشمیر) کمرازی (شمالی کشمیر) یمرازی (وسطی کشمیر)، کشتواڑی (چناب ویلی) اور پوگلی(رام بن ) ہیں۔ جرمنی کی لیپزیگ یونی ورسٹی کے ایک محقق جان کومر کے مطابق کشمیر ی زبان آرین زبانوں کی ایک مخصوص فیملی سے تعلق رکھتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ قواعد اور تاریخی جائزوںکے مطابق اس کا ایرانی یا انڈین زبانوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ چونکہ سنسکرت اور کشمیری زبانیں ہم عصر رہی ہیں، اس لیے ان میں لفظوں کی ادلا بدلی موجود ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کشمیری کو انڈو۔ داردک فیملی کے ساتھ جوڑا جا سکتا ہے۔ اس گروپ میں چترالی، شینا، سراجی، کوہستانی، گاوی اور توروالی زبانیں آتی ہیں۔ اگرچہ کشمیر کی قدیم تاریخ راج ترنگنی سنسکرت میں لکھی گئی ہے، مگر اس میں کشمیری زبان بہ کثرت استعمال کی گئی ہے۔

کشمیری وازہ وان، یعنی انواع قسم کے پکوانوں کے ساتھ ساتھ کشمیر ی زبان اور اس کا ادب بھی کشمیر کے باسیوں کی ہنرمندی اور ان کے ذوق کی پہچان ہے ۔پاکستان اور آزاد کشمیر کی حکومتوں کو اس کا نوٹس لے کر کشمیری زبان و ثقافت کے بچاؤ کی تدبیریں کرنی چاہییں۔ کم سے کم یونیسکو کے ذمہ داروں کو باور کرائیں کہ ایک زندہ قوم سے اس کی ثقافت بزور طاقت چھینی جا رہی ہے۔ اس صورتِ حال کو اُجاگر کرنے کے لیے مؤثر اقدامات کی شدید ضرورت ہے۔ ہوسکے تو دنیا کے مختلف شہروں میں کشمیری ثقافت، آرٹ، فن تعمیر و زبان کی نمایش کا اہتمام کیا جائے۔ اگر اب بھی نہ جاگے تو بے رحم تاریخ پاکستان اور آزاد کشمیر کے حکمرانوں کو کبھی معاف نہیں کرے گی:
بادِ صبا اگر بہ جنیوا گزر کنی
حرفے ز ما بہ مجلسِ اقوام باز گوے
دہقان و کشت و جوے و خیابان فروختند
قومے فروختند و چہ ارزاں فروختند

[بادِ صبا اگر جنیوا کی طرف تیرا گزر ہو تو مجلسِ اقوام تک ہماری یہ بات پہنچا دینا۔ دہقان، اس کی کھیتی،  ندیاں، پھولوں کی کیاریاں سب کو فروخت کر دیا۔ ساری قوم کو فروخت کر دیا اور کس قدر ارزاں فروخت کر دیا۔

بھارتی سپریم کورٹ کے ایک حکم نامے کے ذریعے (جو کہ پانچ مہینے بعد سنایا گیا) جموں وکشمیر کی انتظامیہ نے ۲۴جنوری کو ۱۷۴دنوں بعد مشروط بنیادوںپر انٹرنٹ بندشوں میں نرمی کا فیصلہ کیا ۔جموں و کشمیر انتظامیہ نے جہاں سماجی رابطے کی ویب گاہوں پر پابندی عائد کیے رکھی، وہیں چند محدود ویب گاہوں پر صارفین کی رسائی کے لیے مواصلاتی کمپنیوں کو ہدایات جاری کی ہیں، تاکہ کوئی کشمیری دُنیا تک، اپنے اُوپر ہو رہے ظلم و استبداد کی کہانی نہ سُنا سکے ۔انٹرنیٹ بندشوں میں نرمی اس وقت انتظامیہ کے لیے گلے کی ہڈی بن گئی ہے، جب لوگوں نے وی پی این (VPN) ایپلی کیشنز کی مدد سے تمام سماجی رابطہ کی ویب گاہوں پر رسائی حاصل کر لی۔
اس صورتِ حال میں انتظامیہ نے دیگر ریاستوں سے ماہرین کی ٹیمیں بھی کشمیر لانا شروع کر دی ہیں، تا کہ کشمیریوں کی سماجی رابطے کی ویب گاہوں تک پہنچ روکی جاسکے۔ لیکن اطلاعات کے مطابق تادمِ تحریر انجینیر کشمیر یوں کی سماجی ویب گاہوں تک رسائی روکنے میں ناکام ہو گئے ہیں۔ بھارت کی مواصلاتی کمپنی بھارت سنچار نگم لمیٹڈ (BSNL) نے سماجی رابطے کی ویب گاہوں تک رسائی روکنے کے لیے کروڑوں روپے مالیت کا سافٹ ویئر’فائر وال ‘خرید ا ہے۔ بھارتی محکمہ داخلہ کی طرف سے ۳۱ جنوری کے حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ ’’متعلقہ محکمے کی طرف سے ۲۴جنوری کو جموں وکشمیر کی سیکورٹی صورتِ حال کا جائزہ لیا گیا۔ جنگجوانہ سرگرمیوں ،وی پی این ایپلی کیشنز کی وساطت سے انٹرنیٹ کے ذریعے ضرر رساں پیغامات کی تشہیر کا جائزہ لیا گیا‘‘۔ بھارتی راجیہ سبھا میں وزیر اطلاعات روی شنکر پرساد نے بتایا کہ ’’سپریم کورٹ نے انٹرنیٹ کے استعمال کو بنیادی انسانی حق قرار دیا ہے، تاہم یہ بنیادی حق نہیں ہے ۔ اس معاملے میں انٹرنیٹ کے استعمال پر پابندی اور ضابطوں کا نفاذ ہوگا‘‘۔
اس انتہائی مایوس کن صورتِ حال کے بیچ کشمیریوں کو انٹرنیٹ کے بغیر زندگی کی گاڑی کو چلانا پڑ رہا ہے ۔ اکیسویں صدی کے دور کو انٹرنیٹ کا دور کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ یہ دور جس میں سماج کا ہر حصہ انٹرنیٹ کے ساتھ منسلک ہے، وہ چاہے تعلیم ہو یا تجارت ،معیشت ہو یا سیاست، صحافت ہو یا صحت، غرض انٹرنیٹ انسانی زندگی کا جُزو لاینفک بن گیا ہے ۔ایسے وقت میں بھارت دنیا میں انٹرنیٹ پر سب سے زیادہ پابندیوں والا ملک بن گیا ہے۔
 ۵ ؍اگست ۲۰۱۹ء کے بعد سے جمو ں و کشمیر کی معیشت رُوبۂ زوال ہے ۔کشمیر جو کہ پہلے سے اَن گنت مسائل کے بھنور میں پھنس چکا ہے، وہیں انٹرنیٹ کی بندشوں میں یہاں زندگی کا ہرشعبہ بدترین انداز سے متاثر ہوا ہے۔ گذشتہ پانچ ماہ میں ہوئے نقصان کے حوالے سے بھارتی زیر انتظام کشمیر کی سب سے بڑی تجارتی تنظیم کشمیرچیمبرآف کامرس اینڈانڈسڑیز کی دسمبر ۲۰۱۹ء تک کی رپورٹ کے مطابق: ’’۵؍اگست کے بعد کشمیر کے ۱۰ ؍اضلاع میں ۱۲۰دنوں میں۱۸ ہزار کروڑ کا نقصان ہوا ہے ۔یاد رہے وادیِ کشمیر کے یہ ۱۰؍اضلاع کُل آبادی کا ۵۵فی صد حصہ ہیں‘‘۔
اگر شعبہ جات کی بات کی جائے تو رپورٹ کے مطابق: ’’زراعت و باغبانی اور اس کے ذیلی شعبہ جات میں ۲۸۱۷کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے۔ اسی طرح مال مویشی اور جنگلات وغیرہ کو ۱۷۶۴ کروڑ روپے، جب کہ پیداواری شعبے کو۲۴۶۶ کروڑ روپے کا نقصان پہنچا ہے۔ انڈسٹری میں تعمیری شعبے کے علاوہ کان کنی ،کھدائی ،بجلی ،گیس ،پانی اور دیگر ضروری خدمات کو ۱۶۲۹کروڑ کا خسارہ اُٹھانا پڑا‘‘۔رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ ’’تجارت بشمول ہوٹل، ریستورانوںکو ۲۲۶۷ کروڑ کا خسارہ ہوا ہے ۔اس کے علاوہ مالی خدمات کو ۱۱۸۴ کروڑ اور زمین و مکانات کی خریدوفروخت رئیل اسٹیٹ کے کاروبار کو۳۱۲۵ کروڑ کا نقصان ہوا‘‘۔
اسی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ’’کشمیر کے ۱۰ ؍اضلاع میں ۱۲۰ دنوں کے دوران میں تقریباً ۵لاکھ لوگوں کو نوکریوں سے ہاتھ دھونا پڑا۔ اس غیر یقینی صورتِ حال اور دوسری جانب بے روز گار نوجوانوں میں نفسیاتی امراض کا بھی ہوش ربا اضافہ ہوا ہے ۔ جموں وکشمیر میں انٹرنیٹ کی بندشوں کی وجہ سے طلبہ بھی متاثر ہوئے ہیں۔ خاص طور پر وہ طلبہ جو دُنیا کے مختلف اداروں اور ملکوں میں آن لائن کورسز کرتے ہیں ۔ انتظامیہ نے کشمیر میں چند جگہوں پر طلبہ اور دیگر ضرورت مندوں کے لیے انٹرنیٹ کی سہولیات کا محدود پیمانے پر انتظام کر رکھا تھا،تاہم حقیقت جاننے والے حلقوں کا کہنا ہے کہ جس ریاست کی آبادی ۸۰ لاکھ ہو، کیا وہاں چند انٹرنیٹ سہولیاتی مراکز سے ان کی ضروریات پوری ہو سکتی ہیں ؟ضرورت پوری ہونا تو دور کی بات ایک طالب علم نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ان مراکز پر کئی کئی دنوں تک خون منجمدکر دینے والی ٹھنڈ میں طلبہ و طالبات کی قطاریں جمہوری دنیا کی نظروں نے دیکھ لی ہیں ۔
ان ظالمانہ پابندیوں کی وجہ سے ہزاروں طلبہ ایسے بھی ہیں، جو اعلیٰ تعلیم کے لیے جموں و کشمیر سے باہر کی یونی ورسٹیوں میں بر وقت داخلہ لینے میں ناکام ہوئے۔ بارہمولہ سے ایک طالب علم ارشد احمد کا کہنا ہے کہ’’ میں نے پورا ایک سال جی توڑ کوشش کر کے ہندستان سے باہرکی ایک یونی ورسٹی میں داخلے کے لیے امتحان بھی پاس کیا، لیکن بدقسمتی سے انٹرنیٹ کی بندش کے سبب میں وقت پر یونی ورسٹی حکام کی طرف سے ارسال کیے گئے برقی پتے(e-mail) کا جواب نہ دے پایا، اور گذشتہ دنوں جب میں نے ای میل باکس میں داخلے کی منظوری کی ڈاک دیکھی، تو انتہائی تکلیف محسوس کرنے کے ساتھ ساتھ کشمیری طلبہ کی قسمت کو کوسنے کے سوا کچھ نہیں کر پایا‘‘۔
جہاں ایک طرف جموں وکشمیر میں انٹرنیٹ او ر سماجی رابطے کی ویب گاہوں پر شدید نوعیت کی پابندیاں عائد کی جا رہی ہیں، وہیں دوسری طرف پانچ ماہ تک طویل عرصے تک خاموش رہنے کے بعد بھارتی سپریم کورٹ کے حکم کے بعد جموں وکشمیر کی انتظامیہ کی سماجی انٹرنیٹ پر سے پابندی ہٹا کر 5Gکے زمانے میں 2G انٹرنیٹ کی سہولیات میسر کرنا سمجھ سے باہر ہے۔جس پر جموں وکشمیر کے عوام کا کہنا ہے کہ یہ دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے، تاکہ دنیا کو اعتراض اُٹھانے سے روکا جائے کہ یہاں انٹرنیٹ پر پابندی ہے‘‘۔
بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیم ’ہیومن رائٹس واچ‘ (HRW) نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ ’’بھارت کی طرف سے کشمیر میں انٹرنیٹ پر بندشیں لگانا، انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے‘‘۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گٹیرس نے بھی اپنے ایک بیان میں کشمیر میں جاری پابندیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’ان پابندیوں سے انسانی حقوق کے مسائل پیدا ہوئے ہیں‘‘۔
بھارت کے ایک مؤقر انگریزی اخبار انڈین ایکسپریس میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق جموں وکشمیر میں موجودہ انٹرنیٹ کی بندش ملک کی طویل ترین بندش ہے ۔اس سے قبل ۲۰۱۶ء میں برہان مظفر وانی کے جاںبحق ہونے کے بعد۱۳۳ دنوں تک کشمیر میں انٹرنیٹ پر پابندی رہی۔ لیکن جموں وکشمیر میں انٹرنیٹ پر پابندی، ۲۰۱۹ء کے دوران پوری دنیا میں عائد کردہ پابندیوں میں طویل ترین شمار کی جاتی ہے‘‘۔اسی اخبار نے لکھا ہے کہ ’’بین الاقوامی سطح پر انٹرنیٹ تک رسائی  مواصلات کا ایک اہم ذریعہ تسلیم کیا جاتا ہے ۔کچھ ممالک نے اسے ایک بنیادی حق کے طور پر تسلیم کیا ہے ۔دسمبر ۲۰۰۳ء میں،اقوام متحدہ کے زیر اہتمام ورلڈ سوسائٹی براے انفارمیشن نے اعلان کیا تھا کہ مواصلات ایک بنیادی معاشرتی عمل اور ایک انسانی ضرورت ہے اور یہ وسیلہ معاشرتی تنظیم کی بنیاد ہے‘‘۔ اس کے بعد اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے ۲۰۱۶ء میں مختلف حکومتوںکی طرف سے انٹرنیٹ تک رسائی میں جان بوجھ کر رکاوٹ پیدا کرنے کے بڑھتے ہوئے عمل کی مذمت کرتے ہوئے پابندی ختم کرنے کی قرار داد منظور کی تھی۔
غرض یہ کہ انٹرنیٹ موجودہ دور میں انسان کی ایک بنیادی ضرورت اور بنیادی حق ہے، بلکہ دورِ حاضر میں دنیا کا کم و بیش ہر کام انٹرنیٹ سے ہی جُڑا ہوا ہے۔ وہ چاہے حکومتوں کے کام کاج، کالج اور یونی ورسٹیوں میں پڑھائی، ہسپتالوں میں مریضوں کے علاج، ملک اور بین الاقوامی سطح پر سفر کی بکنگ اور میڈیا اور روزگار کے نہ جانے کتنے ذریعے ہیں، جو انٹرنیٹ کی مددسے تکمیل پاتے ہیں۔ ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کے بعد چھے ماہ سے زیادہ مدت تک انٹرنیٹ پر پابندی کی وجہ سے جموں وکشمیر کی معاشی صورتِ حال قابلِ رحم ہے ۔جس کی وجہ سے بھارتی زیر انتظام کشمیرمیں عوام کا جینا دوبھر ہو گیا ہے ۔

بھارت میں مسلمان، دیگر مذاہب کے ماننے والے اور پسی ہوئی اقوام برہمنی فسطائیت کا سامنا کر رہے ہیں۔ ۹دسمبر ۲۰۱۹ء کو بھارتی لوک سبھا اور پھر ۱۱دسمبر کو راجیہ سبھا نے ایک نسل پرستانہ قانون منظور کیا۔ یہاں اسی مناسبت سے چھے مختصر مضامین پیش ہیں، جن سے وہاں موجودہ عوامی اُبھار کے خدوخال کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔ پاکستان کے رہنے والے، بھارت کے مظلوموں اور مسلمانوں کی مدد اسی صورت میں کرسکتے ہیں کہ وہ قیامِ پاکستان کے مقاصد کی روشنی میں مضبوط پاکستان بنائیں، خالق اور خلق سے جو عہد کیا تھا اس کے تقاضے پورے کریں۔(ادارہ)

بھارتی مسلمانوں کے لیے، پاکستان یا قبرستان؟
افتخار گیلانی

بھارت کی مشرقی ریاست بہار میں ۲۰۱۵ء کے اسمبلی انتخابات کی کوریج کے دوران، میں دربھنگہ ضلع سے نیپال کی سرحد سے ملحق علاقے مدھوبنی کی طرف رواں تھا کہ راستے میں ایک پولیس ناکہ پر گاڑی کو رکنے کا اشارہ کیا گیا۔پولیس جب تک گاڑی کی تلاشی لے رہی تھی، میں سڑک کنارے چائے کے ایک کھوکھے کی طرف چل پڑا۔ چند لمحوں کے بعد پولیس سب انسپکٹر ، جو نیم پلیٹ سے مسلمان معلوم ہوتا تھا، میرے پاس آیا، اور پوچھا کہ ’’کیا دہلی میں ایسی کوئی بات ہورہی ہے کہ انتخابات کے بعد مسلمانوں کو بھارت چھوڑ کر پاکستان جانا ہوگا؟‘‘ اس سوال پر میں چکّرا گیا، اور پوچھا کہ ’’ایسا آپ کیوں سمجھتے ہیں اور کس نے یہ افواہ پھیلائی ہے؟‘‘ اس نے جواب دیاکہ ’’میں پاس ہی ملاحوں کے گاؤں میں چند آسودہ حال مسلم گھرانوں کے محلے میں رہتا ہوں، اور حال ہی میں ایک تین منزلہ مکان تعمیر کیا ہے۔ چند روز سے گاؤں کا نمبردار مسلسل گھر آکربتا رہا ہے کہ اپنا مکان جلد فروخت کرو، انتخابا ت کے بعد کوئی دام نہیں دے گا، کیونکہ ہم کو بتایا گیا ہے کہ مسلمانوں کو جلد ہی پاکستان بھگا دیا جائے گا‘‘۔ پوچھاکہ ’’آپ کا گاؤں کتنا دُور ہے؟‘‘ مجھے اب ایک بڑی اسٹوری کی بُو آرہی تھی۔ معلوم ہوا کہ گاؤں قومی شاہراہ سے ہٹ کر چند کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ اس کی معیت میں گاؤ ں کی طرف چل پڑا۔
نمبردار سے ملا تو اس نے بتایا کہ ’’ایک ہفتہ قبل مجھ کو سمستی پور شہر میں بلایا گیا تھا، جہاں پٹنہ سے ایک لیڈر آئے تھے۔ انھوں نے ایک بند کمرے کی میٹنگ میں تمام نمبرداروں کو بتایا کہ انتخابات کے بعد جب بھارتیہ جنتا پارٹی صوبے میں اقتدار میں آئے گی، تو مسلمان پاکستان جائیں گے اور ان کی جایدادیں گاؤں والوں میں بانٹی جائیں گی‘‘۔ اس سے یہ گرہ کھلی کہ نمبردار اب اپنے طور پر ان مسلم گھرانوں کے ساتھ احسان کرکے یہ یقینی بنارہا تھا، کہ ان کی جایداد انتخابات سے پہلے فروخت ہو، تاکہ پاکستان جانے سے قبل ان کو ’مناسب دام‘ مل سکیں۔
میں نے اپنا صحافت کا چوغہ اتار کر گاؤ ں والوں کو بھارتی آئین، اور اس میں اقلیتوں کو دیے گئے حقوق، بھائی چارہ وغیرہ پر تفصیلی لیکچر دیا۔ اور یہ بھی بتایا کہ دہلی میں اس طرح کی کوئی بات نہیں ہو رہی ہے، بس کوئی آپ کو ورغلا کر اپنا سیاسی اُلو سیدھا کر رہا ہے۔ ان کو یہ بھی بتایا کہ۱۹۴۷ء میں جن لوگوں کو پاکستان اور بنگلہ دیش جانا تھا وہ چلے گئے اور اب جو مسلمان یہاں ہیں، و ہ تو بھارتی شہری ہیں اور ان کو ملک سے باہر نکالنے کا کوئی سوال ہی پید ا نہیں ہوسکتا۔
مجھے یہ اندازہ نہیں تھا کہ اس واقعے کے محض چار سال بعد اتر پردیش کے مظفر نگر قصبے میں ۷۲سالہ حاجی حامد حسین کو پولیس کی لاٹھیوں اور بندوقوں کے بٹ کے وار سہتے ہوئے یہ سنناپڑے گا کہ ’’پاکستان ورنہ قبرستان جاؤ‘‘۔ کلکتہ کے ڈیلی ٹیلی گراف کے مطابق حاجی صاحب قصبے کی ایک معتبر شخصیت ہیں، اور انھی کی وجہ سے علاقے میں ایک روز قبل متنازعہ شہریت قانون کے خلاف ہونے والا مظاہر ہ پُرامن طور پر ختم ہو گیا تھا۔ ان کے گھر کا فرنیچر، باتھ روم ، کچن اور عنقریب بچوںکی شادی کے لیے خریدا ہو ا سامان توڑ پھوڑ دیا گیا تھا۔ اسی طرح میرٹھ شہر میں سینیر پولیس آفیسر اکھلیش سنگھ نے مظاہر ہ کرنے والے مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ ’’پاکستان چلے جاؤ‘‘۔
اترپردیش کے متعدد شہروں، قصبوں اور دُور دراز دیہات سے آنے والی خبریں نہایت ہی پریشان کن ہیں۔ ان خبروں میں پولیس تشدد کی جو تصویر سامنے آئی ہے، وہ انتہائی متعصبانہ اور ہولناک ہے۔صوبے میں ۲۵ مسلمانوں کی جانیں چلی گئیں [اور ان اموات کا سبب اس طرح رپورٹ کیا گیا ہے: سینے میں گولی لگنے سے ۶، سر میں لگنے سے ۸، کمر میں لگنے سے ایک، ماتھے پر لگنے سے ایک، گردن پر لگنے سے ۲، اور پیٹ میں گولیاں لگنے سے ۴؍افراد جان سے گئے]۔  اس کے ساتھ ہی سول انتظامیہ مسلمانوں کو نوٹس جاری کر رہی ہے کہ احتجاج کے دوران سرکاری املاک کو پہنچنے والے نقصان کو پورا کریں۔ صوبہ اترپردیش کے متعصب وزیر اعلیٰ ادتیہ ناتھ یوگی تو یہ تک کہہ چکے ہیں کہ ’’ہم مظاہرین سے بدلہ لیں گے‘‘۔
عہد رفتہ کے نوابوں کے شہر رام پور میں پتنگ بنانے والے محمد عابد دن بھر گھرپر اپنے کام میں مصروف تھے۔ شام کو گھر سے نکلتے ہی گرفتار کر لیے گئے۔ وہ اس بات سے بے خبر تھے کہ دن بھر شہر میں کیا ہو رہا تھا۔ اگلے دن ان کے گھر پرنوٹس آیا کہ پولیس کی لاٹھی، ڈنڈے اور ہلمٹ کو جو نقصان پہنچا ہے، اس کے لیے خزانہ میں ۱۴ہزار روپے جمع کروائیں۔ سو روپے سے بھی کم یومیہ کمانے والے اور وہ بھی جب کمانے والا ہی جیل میں ہو، ۱۴ہزار روپے کہاں سے لائیں گے؟ اسی طرح ۳۶سالہ یومیہ مزدور اسلام الدین ۲۱دسمبر کو اپنے گھر کے باہر دوستوں کے ہمراہ گھاس پھونس جلا کر آگ تاپ رہا تھا کہ پولیس نے گرفتار کرلیا، اور کہا کہ شہر میں پولیس کی گاڑیوں اور بسوں کی جو توڑ پھوڑ ہوئی ہے اس کا جرمانہ ادا کریں، ورنہ ان کی جایداد ضبط کرکے نیلام کی جائے گی۔
سکرول انڈیا کے مطابق نہٹور کے نیزا سرائے میں  ۵۵ سالہ رفیق احمدنے پولیس کے کہنے پر لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے عوام سے امن برقرار رکھنے اور گھر جانے کی اپیل کی۔ پُرامن لوگ واپس گھر جانے لگے تو آنسو گیس کے گولے اور لاٹھیاں ان کے سر سے ٹکرانی شروع ہوگئیں۔ حالانکہ کسی نے کوئی پتھر نہیں پھینکا تھا، اس کے باوجود پولیس نے لاٹھی چارج کیا۔ کیرانہ سے کانگریس کے سابق ممبر پارلیمنٹ سعید الزماں صدیقی کے بیٹے نے بتایا کہ ’’پولیس نے ہماری چارکاریں بلاجواز نذر آتش کر دیں۔ ٹی وی چینل این ڈی ٹی وی ہندی کے سوربھ شکلا کا کہنا ہے کہ مظفر نگر میں پولیس نے توڑ پھوڑ کرنے سے قبل سی سی ٹی وی کیمرے توڑ دیے۔ مگر اس کے باوجود بہت سی ویڈیوز ایسی بھی منظر عام پر آ رہی ہیں، جن میں نظرآرہا ہے کہ لوگ پُرسکون انداز میں   چل رہے ہیں اور پولیس اچانک پیچھے سے لاٹھی چارج کرنے لگتی ہے۔ کہیں لوگ سڑک کے کنارے کھڑے ہیں اور پولیس انھیں پکڑ کر زدوکوب کررہی ہے۔ دو پولیس اہلکار ایک شخص کا ہاتھ پکڑے ہوئے ہیں، اور پولیس کے دو افراد اسے لاٹھیوں سے پیٹ رہے ہیں۔پولیس کی ایسی درندگی کی ویڈیوز واٹس ایپ میں گشت کر رہی ہیں، جنھوں نے خوف و ہراس پھیلا دیا ہے ۔ لکھنؤ سے گرفتار ہونے والوں میں دیپک کبیر تھیٹر اداکار بھی شامل ہیں۔ وہ اپنے دوستوں کے بارے میں پتا کرنے کے لیے تھانے گئے تو انھیں بھی گرفتار کرکے ان پر قتل اور فساد بھڑکانے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ سابق سینیر پولیس افسر ایس آر داراپوری اور ۷۶سالہ انسانی حقوق کے کارکن محمد شعیب کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔ کانگرسی رہنما صدف جعفرکو بھی پتھراؤ کے جرم میں گرفتار کیا گیا ہے۔ پولیس سپرنٹنڈنٹ، لکھنؤ ایسٹ کے بقول: ’’ہم نے انھیں فساد کرتے ہوئے موقع سے گرفتار کیا ہے ‘‘۔
لکھنؤ میں انگریزی اخبار دی ہندو  کے صحافی عمر راشد کو پولیس نے ایک ریسٹورنٹ سے حراست میں لیا۔ نئے شہریت قانون کے خلاف مسلمانوں کے علاوہ شمال مشرق کے سبھی صوبے سراپا احتجا ج ہیں۔ وہاں کئی جگہوں پر حکمران بی جے پی کے دفاتر اور لیڈروں کے گھر بھی جلائے گئے، مگر سزا صرف مسلمانوں کو ہی دی گئی ہے۔ چند سال قبل دہلی کے متصل ہریانہ میںنوکریوں میں کوٹہ کے مسئلے پر جاٹوں نے ریلوے اسٹیشن، شاپنگ مال، پولیس اسٹیشن اور ایک وزیر کے گھر تک کو آگ لگاکر راکھ کر دیا۔ مگر کس کی ہمت تھی کہ ان کو گرفتار کرے، یا پیلٹ گن سے ہی ان کے ہجوم کو منشر کرے، یا ان سے معاوضہ طلب کرے ؟ تاہم، مسلمان کے لیے یہ سب تعزیریں موجود ہیں۔

شاہین صفت مسلم خواتین، فسطائی حکومت کے مدِ مقابل
شکیل رشید

آج بھارت کی شاہین صفت گھریلو اور پڑھی لکھی مسلم خواتین حجاب کی پاس داری کے ساتھ کچلی پسی قوم کا ہراول دستہ ہیں۔ دہلی کے شاہین باغ سے لے کر پٹنہ، ارریہ ، مدھوبنی، الٰہ آباد کے روشن باغ، سیلم پور، خوریجی، ذاکر نگر، کولکاتہ، کوٹہ، پونے، یعنی پورے بھارت میں مسلم خواتین سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کے خلاف تحریک میں وہ تاریخی کردار اداکررہی ہیں، جس نے حکمران پارٹی کے کیمپ میں کھلبلی مچا دی ۔
یوں تو ان باہمت اور بہادر خواتین میں تمام ہی مذاہب کی خواتین شامل ہیں ، مگر سچی بات یہ ہے کہ مسلم خواتین کا حوالہ اس لیے زبان زدعام ہوا ہے کہ اس تحریک کی ابتدا انھوں نے ہی کی ہے۔ ان کے بیٹوں اور بیٹیوں کو جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی اور علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں پیٹا گیا، مظفرنگر، کانپور، فیروز آباد، بجنور میں ان کے سروں میں گولیاں ماری گئیں اور داخلِ زنداں کیاگیا۔ پھر یہ ہوا کہ وہ ایک ایسے کالے قانون کے خلاف میدان میں ڈٹ گئیں، جو ان سے اور ان کی اولاد سے اس ملک میں، اور جہاں وہ پیدا ہوئے، شہریت چھیننے کا شیطانی منصوبہ ہے۔ _یہ شاہین صفت مسلم خواتین آج اسی مودی کے خلاف ہیں، جس نے ’طلاق ثلاثہ‘ کے معاملے پر کہا تھا: ’’مسلم خواتین کا استحصال بند ہونا چاہیے اور انھیں انصاف ملنا چاہیے‘‘۔ یہ مسلم خواتین آج مودی سے سوال کررہی ہیں کہ کیا ’استحصال‘ سے ’نجات‘ اور ’انصاف‘ دلانے کا مقصد ان پر اس ملک کے دروازے بند کرنا، انھیں یہاں سے دربدر کرنا تھا؟ اور وہ جواب بھی دے رہی ہیں کہ ’’ہم کاغذ نہیں دکھائیں گے‘‘۔
شاہین باغ دہلی سے شروع ہونے والی خواتین کی اس تحریک کا تاریخ میں ذکر سنہرے حروف میں کیا جائے گا۔ سی اے اے ، این آر سی اور این پی آر کے خلاف تحریک طلبہ نے شروع کی، پھر خواتین سامنے آئیں، اور آج یہ تحریک جسے جمہوریت اور آئین کے تحفظ کی تحریک بھی کہاجاسکتا ہے، سارے ملک میں طلبہ اور خواتین ہی کے دم سے جاری ہے۔ مودی بوکھلائے ہوئے ہیں، اس لیے کہ انھوںنے اس سے پہلے خواتین کی طاقت نہیں دیکھی ہے۔ شاہین باغ کی شاہین صفت خواتین نے جو تحریک شروع کی ہے، اس نے ساری دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی ہے۔ شاہین باغ کی تحریک نے مودی کے فسطائی ایجنڈے کو اس طرح عیاں کردیا ہے کہ ساری دنیا اس پر نفرت بھیج رہی ہے۔
اب کوشش یہ ہے کہ شاہین باغ کی شاہین صفت خواتین کی تحریک کو کسی طرح سے کمزور کیا جائے بلکہ ختم کردیاجائے۔ اس کےلیے مسلمانوں میں جو نفاق پرور ہیں ان کی بھی مدد لی جارہی ہے۔ میناکشی لیکھی نے کھلے طو رپر دھمکی دی ہے، اور عدالت کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا جارہا ہے۔   آج ۱۴جنوری کو دہلی ہائی کورٹ نے پولیس سے کہہ دیا ہے کہ یہ قانون کا معاملہ ہے۔ وہ اپنے طورپر شاہین باغ کی خواتین کو ہٹائے۔ پولیس اس کی تیاری کررہی ہے۔ ممکن ہے کہ ان بہادر خواتین پر لاٹھی ڈنڈے برسائے جائیں۔ اب جو بھی ہو، یہ وہ باہمت خواتین ہیں، بقول اسرارالحق مجاز: جنھوں نے ’آنچل کو پرچم‘ بنالیا ہے اور مودی کے ’استحصال‘ اور ’انصاف‘ کے ’جھوٹ‘ کو ان کے منہ پر دے مارا ہے۔ اگر وہ جبراً ہٹائی گئیں تو بھی ’فاتح‘ وہی رہیں گی اور یہ زعفرانی سرکار ہمیشہ ہمیشہ تاریخ میں ظالم اور جابر کے طو رپر ہی جانی جائے گی۔

بھارتی مسلمان ، مودی کا نشانہ؟
سنجیو سبھلوک

ہمارے ہاں کہا جارہا ہے کہ ابتدا میں انڈین نیشنل کانگریس میں شامل رہنے والے محمدعلی جناح پر ہندوؤں سے متعلق ایک بلاجواز خوف غالب ہوا۔ اس لیے ۱۹۲۸ء کے کل جماعتی اجلاس میں انھوں نے چودہ مطالبات پیش کیے۔ لیکن اب [۹۱برس گزرنے کے بعد] ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کا یہ خوف بڑی حد تک صحیح ثابت ہوا ہے۔ پھر گذشتہ ۷۲برسوں کے دوران بھارت میں ان مسلمانوں پر جو ۱۹۴۷ء سے یہیں پر مقیم ہیں، مسلسل دباؤ ڈالا گیا۔ بجاے اس کے کہ تحریک ِ آزادی میں انڈین نیشنل کانگریس کے وعدے کے مطابق مذہب کو ملک کے نظام سے علیحدہ رکھا جاتا، تاریخ کے اوراق پر بھارت قطعی طورمسلمانوں کے خلاف رہا۔
بھارتی دستور مملکت کی دفعہ ۴۸ میں ’’گائے، بچھڑے یا دودھ دینے والے دیگر جانوروں کے ذبیحے پر پابندی عائدہے‘‘ اور یہ پابندی جو بزعم خود ’جدید سائنس‘ کےمفاد میں قرار دی گئی تھی، لیکن اسے ہندو راشٹر کے لیے ایک ہتھیار کے طورپر استعمال کیا گیا۔ اس آئینی اختیار کی بنیاد پر کئی ریاستوں میں گائے کا گوشت (beef) بیچنے کی اجازت نہیں ہے اور اس طرح سے بیف کھانے والے لاکھوں بھارتیوں پر ان کے پسند کے کھانے پینے کی آزادی پر قدغن لگادی گئی ہے۔
وزیراعظم نہرو نے ایک اور قدم آگےبڑھایا۔ بجاے اس کےکہ شہریوں کے لیے  ایک معیاری قانون لاگو کیا جاتا، انھوں نےہندو ایکٹ قائم کیا۔ مزیدیہ کہ مندروں کو حکومت کی تحویل میں دے دیا گیا جو ان کی دیکھ بھال کرتی اور بعض اوقات انھیں فنڈز بھی فراہم کرتی۔  اسی طرح بابری مسجد کا انہدام ممکن نہیں ہوتا اگر اس کے پس پردہ بالخصوص کانگریسی حکومتوں کی چشم پوشی نہ ہوتی۔ اس انہدام سے متعلق سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے بعد کوئی شبہہ باقی نہیں رہا کہ ہندو راشٹر کے اہداف کو جواز بخشنے کے لیے املاک کے حقوق کو بدلا بھی جاسکتا ہے۔ سب سے زیادہ چشم کشا حقیقت تو بھارتی مسلمانوں کی معاشی ومعاشرتی صورت حال ہے۔ گویا کہ یہ ثابت کیا جارہا ہے کہ’’ تمام ہوشیار اور ذہین مسلمان تو پاکستان چلے گئے ہیں، اس لیے ہمارے ملک کے  تمام اہم عہدوں کے لیے یہاں رہنے والے مسلمانوں کے لیے اب کوئی جگہ نہیں ہے‘‘۔ گویا بھارتی مسلمان غیر معیاری قرار دے دیے گئے ہیں۔ اس لیے وہ ملک کے بڑے عہدوں کے اہل نہیں ہیں۔ سچر کمیٹی نے انکشاف کیا ہے کہ انڈین افسر شاہی میں محض۲ اعشاریہ ۵ فی صد مسلمان ہیں۔ اسی طرح اگر جموں و کشمیر لائٹ انفنٹری کو الگ رکھا جائے تو دفاعی فورسز میں بھارتی مسلمانوں کی شمولیت محض ۲ فی صد ہے، جب کہ دفاعی فورس میں اعلیٰ مسلم افسران کی شرح تو اس سے بھی کم ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ ’اکنامک ٹائمز انٹیلی جنس گروپ‘(ETIG) کے ایک جائزے کے مطابق بھارت کی سب سے بڑی ۵۰۰کمپنیوں میں ڈائریکٹروں اور سینئر ایگزیکٹوز کے عہدوں پر محض ۲ء۶ فی صد مسلمان فائز ہیں۔
اس ضمن میں مجھے وہ چار روزہ نیشنل ریفارم کانفرنس یاد آرہی ہے، جو میں نے بابا رام دیو  کے پتن جالی ہیڈ کوارٹرز پر اپریل۲۰۱۳ ء میں منعقد کی تھی۔ اُس وقت ہم ایک نئی سیاسی جماعت (سورنا بھارت پارٹی) بنانے کے لیے مشترکہ طور کام کر رہے تھے۔ اس کانگریس میں ملک بھر کی ۱۰۰ معروف شخصیات بشمول سابق وائس چانسلر اورسابق جرنیل موجود تھے۔ اس کانگریس کے حوالے سے میرا مقصد مجوزہ پارٹی کے منشور کو پیش کرنا اور کچھ نئے تصورات حاصل کرنا تھا۔ اجلاس میں کئی آر ایس ایس اراکین اور حمایتی بھی موجود تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ مسلمانوں کو دفاعی شعبے میں اعلیٰ عہدوں سے نکال باہر کیا جائے۔ کیونکہ ان کاخیال تھا کہ پاکستان کے ساتھ جنگ کی صورت میں دفاعی شعبے میں اعلیٰ عہدوں پر فائز مسلمان دغا کریں گے۔
میں نے اس خوف ناک تجویز کو مسترد کر دیا اور یہ اچھا ہی ہوا کہ رام دیو اور میں نے اپنی راہیں جدا کر لیں۔ مگر یہ صرف آرایس ایس نہیں بلکہ کئی ممتاز بھارتی ہندو اُن مسلمانوں کے حوالے سے جانب دار ہیں، جن کے زندگی میں آگے بڑھنے کے ذرا سے بھی امکانات ہیں۔ ویسے بھی پارلیمنٹ میں مسلمانوں کی شرح ہمیشہ مسلم آبادیوں کے تناسب سے بہت کم رہی ہے۔ لیکن بی جے پی نے نیا ریکارڈ قائم کرلیا کہ اس کے ۳۰۳ ممبران پارلیمنٹ میں صرف ایک مسلم رکن ہے۔
یہ اعداد و شمار اپنے آپ میں بہت کچھ بیان کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ مجوزہ ہندو راشٹرمیں مسلمان واقعی دوسرے درجے کے شہری ہوں گے، لیکن ’شہریت ترمیمی ایکٹ‘ پاس کر کے اس کے لیے قانونی راہ ہموار کرلی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ’شہریت ترمیمی ایکٹ‘ بھارت کی تاریخ میں ایک انتہائی اہم واقعہ بن گیا ہے اور یہ ایکٹ کئی لحاظ سے پریشان کن ہے۔ اس میں سماجی مہاجرین اور معاشی مہاجرین میں فرق ظاہر نہیں کیا گیا ہے۔
سب سے زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ اس ایکٹ میں فوری شہریت کے حصول کے لیے مذہب کو اہمیت دی گئی ہے۔ شہریت دینے سے انکار کرنے کے لیے اتنا کافی ہے کہ ’’آپ مسلمان ہیں‘‘۔ بھارت کے قانون میں اسلام کو سرکاری طور پر تنزل یافتہ قرار دیا گیاہے۔ مسلمانوں کو سرکاری طور پر بتایا گیا ہے کہ ان کا مذہب بھارت میں قابل قبول نہیں ہے۔ پولیس انھیں احتجاج کے لیے جمع ہونے کی اجازت بھی نہیں دیتی۔ظاہر ہے کہ دوسرے درجے کے شہری جمہوری حقوق کی توقع کیسے رکھ سکتے ہیں؟ اتر پردیش میں جب وہ صداے احتجاج بلند کرتے ہیں تو ان پر گولی چلائی جاتی ہے اور ان کی املاک ضبط کی جاتی ہیں۔ وزیر اعظم مودی تو مظاہرین کے کپڑوں کو دیکھ کر ان کی شناخت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
صاف ظاہر ہے کہ مسلمانوں کے حوالے سے یہی طے پایا گیا ہے کہ انھیں پہلے زخم دو   اور پھر ان کی تذلیل بھی کرو۔ بھارتی مسلمانوں کے بارے میں مودی کا کھیل کیا ہے؟ وہ کیا چاہتے ہیں؟ اس بارے میں بی جے پی کے منشور سے تو کچھ زیادہ معلومات نہیں ملتی ہیں۔ لیکن ہمیں مسٹرمودی کی مادری تنظیم (آر ایس ایس) اور ان کے گورو گولوالکر سے صاف صاف جوابات ملتے ہیں، اور وہ مسلمانوں کو ملک دشمن تصور کرتے ہیں: ’’انھوں نے نہ صرف ہماری زمین کے دوبڑے ٹکڑے حاصل کیے ہیں جہاں وہ مکمل طور پر حکومت کر رہے ہیں اور ہمارے باقی ماندہ ملک کو فتح کرنے کے منصوبے بنا رہے ہیں، بلکہ وہ یہاں اچھی خاصی تعداد میں بطور چھپے دشمن کے رہ رہے ہیں‘‘۔
یہی گولوالکرجب جوان تھے تو وہ نازی طرزِ عمل کے گرویدہ تھے۔ ان کا کہنا ہے:’’اپنی نسل کی پاکیزگی اور اس کے کلچر کو برقرارکھتے ہوئے ملک کو سامی نسل، یعنی یہودیوں سے پاک کرکے جرمنی نے پوری دنیا کو جھٹکا دیا، تو ہندستان کے لیے اس سے سیکھنے اور استفادہ کرنے کا ایک اچھا سبق ہے‘‘۔ تاہم، جب انھیں احساس ہوا کہ نسل کشی کرنا آسان نہیں ہوگا، ان کے لیے دوسرے درجے کی شہریت کو قابل عمل سمجھا اور کہا: ’’ہندستان میں غیر ملکی نسل کو یا توہندو مذہب کا احترام کرنا سیکھنا ہوگا، یا ہندو نسل میں ضم ہو جانا ہوگا، یا پھر ملک میں ہندو قوم کا مکمل طور پر تابع دار بن کر رہنا ہوگا۔ وہ کسی چیزکا مطالبہ نہ کریں اور نہ کسی قسم کی مراعات کے مستحق ہوں گے۔ یہاں تک کہ انھیں شہریت کے حقوق بھی حاصل نہیں ہوں گے‘‘۔ مسلمانوں کے لیے گولوالکر کی ہدایات واضح تھیں: ’’واپس آجاؤ پہناوے اور رسومات کے حوالے سے اپنے اجداد کی شناخت اپناؤ‘‘۔ گویا مسلمان اگر بھارت میں رہنا چاہتے ہیں تو انھیں اپنے مذہب کو ترک کرنا ہوگا۔
مودی حکومت کے لیے اب صرف ایک ہی راستہ باقی رہ گیا ہے اور وہ یہ کہ مسلمانوں کو دبانا بند کر دے، ان کے مذہب میں ہر قسم کی مداخلت کو ختم کر دے (بشمول شہریت ترمیمی ایکٹ، مندر کے مالکانہ حقوق اور حج سبسڈی)، اور تمام بھارتیوں کوقانون کے مطابق یکساں حقوق فراہم کرے۔(ٹائمز آف انڈیا، ۲جنوری ۲۰۲۰ء)

آسام: دستاویزات کے باوجود کیمپوں میں رہنے پر مجبور
افروز عالم ساحل

۴۵ برس کے محمد ابراہیم علی کی آنکھیں نم ہیں۔ وہ بار بار اپنے ٹوٹے ہوئے مکان کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ وہ آنکھوں سے آنسو پونچھتے ہوئے کہتے ہیں: ’’میں یہاں تیج پور سے ایک مسجد میں نماز پڑھانے کے لیے بطور امام آیا تھا اور یہیں بس گیا۔ میں یہاں کی مسجد میں نماز پڑھاتا ہوں۔ پچھلے سات، آٹھ برسوں سے مسلسل تھوڑی تھوڑی رقم جمع کرکے زمین خریدی اور یہ مکان تعمیر کیا۔ لیکن ۵ دسمبر۲۰۱۹ءکو میرے اس آشیانے کو یہ کہتے ہوئے کہ مسمار کر دیا گیا کہ ’’میں بنگلہ دیشی ہوں‘‘۔
یہ کہانی صرف ابراہیم علی کی نہیں ہے بلکہ کم و بیش یہی کہانی آسام کے سونت پور ضلع کے  ۴۲۶ خاندانوں کی ہے، جن کے مکان یہی کہتے ہوئے زمیں بوس کر دیے گئے کہ وہ بنگلہ دیشی ہیں۔ اب ان خاندانوں کے تقریباً ڈھائی ہزار سے زیادہ افراد شدید سردی کے  موسم میں کھلے آسمان تلے بنے عارضی کیمپوں میں زندگی گزار رہے ہیں۔ سونت پور کے مکوا، سیرووانی اور  بیہیا گاؤں کے کیمپ اس بے بسی اور تباہی کی گواہی دے رہے ہیں۔ ان کیمپوں میں زیادہ تر لوگ ڈیگولی چپوری، بالی چپوری، لالٹوپ، باٹی ماری بھیروی اور لنگی بازار گاؤں کے رہنے والے ہیں۔ ان کیمپوں میں رہنے پر مجبور کیے گئے شہریوں کا دعویٰ ہے کہ ’’ہمارے پاس اپنی اپنی زمینوں اور ہندستانی شہریت کو ثابت کرنے والی تمام دستاویزات موجود ہیں۔ اس کے باوجود مقامی بی جے پی کے رکن اسمبلی پدما ہزاریکا نے ہمارے گھروں کو اس لیے منہدم کروا دیا کہ اس بستی کے مسلمانوں نے بی جے پی کو ووٹ نہیں ڈالے تھے‘‘۔ ڈیگولی چپوری کے محمدابراہیم علی آنسو پونچھتے ہوئے کہتے ہیں: ’’ان لوگوں نے ہمارے کچّے مکانوں پر ہاتھی چلوا دیا، اور پکے مکانوں پر بلڈوزر چلائے گئے۔ ساتھ میں پولیس فورس کی ایک بڑی تعداد بھی موجود تھی۔ ہمیں کچھ بھی بولنے یا کاغذ دکھانے کا موقع نہیں دیا گیا‘‘۔ ابراہیم علی کہتے ہیں: ’’میں اور میرے باپ دادا سب یہیں آسام میں پیدا ہوئے ہیں۔ این آر سی لسٹ میں ہمارا نام تو پہلی مردم شماری۹۵۱ ۱ میں بھی تھا، اور اس بار کے بھی این آرسی میں موجود ہے۔ میرے پاس تمام دستاویز ہیں، پھر بھی نہ جانے کس بنیاد پر مجھے بنگلہ دیشی بتا رہے ہیں‘‘۔
۶۵ سالہ کسان اکاس علی نے گاؤں میں چھوٹے سے مکان کی تعمیر میں اپنی پوری زندگی کا سرمایہ لگا دیا۔ وہ اس پیرانہ سالی میں ایک عارضی کیمپ میں اپنے ساتھ ایک لال پوٹلی لیے پریشان پھر رہے ہیں۔ اس پوٹلی میں ان کے ہندستانی شہری ہونے کے تمام کاغذات موجود ہیں۔ انھوں نے خواہش ظاہر کی کہ ہم ایک بار چل کر ان کا بھی گھر دیکھ لیں۔ چنانچہ ہم اپنے دورۂ آسام کے بیچ ان کے ساتھ ان کے باٹی ماری بھیروی گاؤں پہنچے۔ جیسے ہی انھوں نے اپنا تباہ شدہ گھر دیکھا تو ڈبڈبائی آنکھوں کو پونچھتے ہوئے بولے: ’’میرا آبائی گاؤں سیلاب میں بہہ جانے کے بعد ۱۵سال سے زیادہ عرصہ ہوا، میں یہاں رہ رہا ہوں۔ میں آسام کا ایک حقیقی شہری ہوں اور این آر سی میں بھی میرا نام شامل ہے۔ میرا قصور یہ ہے کہ میں سوتیا اسمبلی حلقہ میں جہاں میرا گاؤں پڑتا ہے وہاں ایک ووٹر کے طور پر رجسٹرڈ نہیں ہوں۔ میرے ووٹ کا اندراج پڑوسی انتخابی حلقے میں ہے۔ ایم ایل اے پدما ہزاریکا نے انتظامیہ کی ملی بھگت سے مجھے اور ہم جیسے ۴۰۰ سے زیادہ خاندانوں کو صرف اس وجہ سے علاقے سے باہر نکال دیا کہ ہم نے انھیں ووٹ نہیں دیا۔ اس کارروائی کا سب سے بڑا مقصد یہ ہے کہ بی جے پی یہاں ہندو بنگالیوں کو آباد کرنا چاہتی ہے‘‘۔
طہورہ خاتون کی بھی یہی کہانی ہے۔ وہ چپ چاپ خاموشی سے اپنے تباہ کردہ گھر کی طرف نظریں ٹکائے ہوئی ہیں۔ کئی بار سوال کرنے کے بعد وہ آسامی زبان میں بتاتی ہیں کہ ’’میرا ووٹ سونت پور میں درج ہے۔ بی جے پی اُمیدوار کو ووٹ نہیں دیا تو اس نے میرا گھر اُجاڑ دیا‘‘۔ اسی کیمپ میں ۶۰ سالہ واحد علی نے بتایا کہ ان کا گھر اس سے قبل نوگاؤں میں تھا اور میں ۱۲ سال پہلے یہاں آیا تھا۔ اسمبلی حلقہ سے بی جے پی اُمیدوار نے میرا مکان گرا دیا ہے کیونکہ میں نے اس کو ووٹ نہیں دیا تھا‘‘۔ کھلے آسمان تلے کیمپ میں مقیم خواتین اور بچوں میں سخت غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ خواتین کا کہنا ہے کہ: ’’ہمیں ہمیشہ یہ ڈر لگا رہتا ہے کہ کہیں ریاستی اسمبلی کے لوگ ان کیمپوں میں گھس کر ان کی عزت پر بھی حملہ نہ کردیں‘‘۔
ضیاء الرحمان سے جب پڑھائی کا پوچھا تو اس نوجوان نے سخت غصّے میں کہا: ’’ہم کیمپ میں کیسے تعلیم حاصل کریں گے؟ ہمیں بنگلہ دیشی کا ٹھپہ لگا کر بے گھر اور بے زمین کر دیا گیا ہے، ہم اسکول جانے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے۔ یہاں تو یہ بھی نہیں پتا کہ زندگی کیسے گزرے گی؟ ہم میں زیادہ تر لوگ خود کشی کے بارے میں سوچنے لگے ہیں۔ ہمارے گھر ہم سے چھین لیے گئے۔ پہلے قریب کے گاؤں میں کام مل جاتا تھا، لیکن جب سے حکومت این آر سی اور نیا قانون (شہریت ترمیمی ایکٹ) لے کر آئی ہے، ہم سب بیکار پڑے ہیں‘‘۔
آٹھویں میں پڑھتی سمون نشا ڈاکٹر بننا چاہتی ہے۔ لیکن اب اس کے لیے اسکول کی تعلیم ختم ہوگئی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ’’اسکول کیمپ سے بہت دور ہے۔ اب کیسے جا سکیں گے؟‘‘ اسی طرح نیہا آٹھویں جماعت میں پڑھتی ہے ، اس نے بتایا کہ: ’’اسکول میں سب مجھے بنگلہ دیشی سمجھتے ہیں‘‘۔ یوں ان بچوں پر تعلیم کے دروازے بند ہوگئے ہیں۔
دوسری جانب ان بچوں کے والدین کو وہاں سے بے گھر کر دیا گیا ہے، اگرچہ ان تمام لوگوں کے پاس اس زمین سے متعلق دستاویزات موجود ہیں۔ اس کی طرف متوجہ کرنے پر ڈپٹی کمشنر منویندر پرتاپ سنگھ کہتے ہیں: ’’اگر ان کے پاس دستاویز ہے تو انھوں نے یہ زمین غیر قانونی قبضہ کار سے خریدی ہے، کیونکہ یہ ایک سرکاری اراضی ہے‘‘۔ یہ پوچھے جانے پر کہ کیا وجہ ہے کہ: ’’صرف چند منتخب مکانات کو چُن چُن کر منہدم کیا گیا ہے، جب کہ ان کے بالکل بازو کے مکانات محفوظ ہیں۔ کیا یہ سرکاری اراضی نہیں ہے؟‘‘ اس سوال کا کوئی مناسب جواب نہیں ملا۔
جماعت اسلامی ہند سے وابستہ سماجی کارکن اشفاق حسین کا کہنا ہے کہ ’’پہلے تو یہ بیچارے قدرتی آفات کا شکار ہوئے۔ جیا بھرولی ندی نے ان کی زمین اپنے اندر سمو لی اور اب حکومت کے کارندے ان سے ان کی زمینیں چھین رہے ہیں۔ کسی کے ساتھ اس سے زیادہ نا انصافی اور کیا ہوسکتی ہے۔ یہاں کا ہر فرد جانتا ہے کہ یہ جیا بھرولی ندی لوگوں کی زمین کس طرح چھینتی ہے‘‘۔ اشفاق حسین نے مزید بتایا کہ ’’اگر یہ لوگ واقعی بنگلہ دیشی ہیں تو حکومت کو فوری طور پر انھیں پکڑ کر بنگلہ دیش بھیجنا چاہیے۔ اور اگر وہ نہیں بھیج رہی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہندستانی ہیں۔ ایسے میں حکومت کو ان کے لیے رہایش کا بندوبست کرنا چاہیے۔ جبری پناہ گزیں کیمپوں میں رہنے کی وجہ سے ان کے بچے تعلیم سے محروم ہورہے ہیں۔ پھر سوال یہ بھی ہے کہ وہ کب تک کیمپ میں قیام پذیر رہیں گے؟ ایک بار بارش شروع ہونے کے بعد تو وہ کیمپ میں رہنے کے لائق بھی نہیں رہیں گے‘‘۔
جماعت اسلامی ہند سے وابستہ ادارے یہاں کے تین کیمپوں میں لوگوں کو ریلیف کا سامان فراہم کر رہے ہیں۔سماجی کارکن عبدالقادر کہتے ہیں، ’’سونت پور ضلع کا سوتیا اسمبلی حلقہ ایک مثال ہے کہ کس طرح سے آسام میں مسلمانوں کو حکومت کے ذریعے دبایا جا رہا ہے؟ کس طرح سے مسلمانوں کے انسانی حقوق پامال کیے جارہے ہیں اور کس طرح سے حکومت ہندوتوا ذہنیت کو بڑھاوا دے رہی ہے؟‘‘ ۲۶ برس کے شاہ جمال کہتے ہیں: ’’اصل مسئلہ یہ ہے کہ مسلمانوں میں اتحاد نہیں ہے۔ اس علاقے کے کچھ مسلمان یہاں کے رکن اسمبلی پدما ہزاریکا کے ساتھ بی جے پی میں ہیں۔ لیکن وہ یہ بھول گئے ہیں کہ آج ان کے گھروں کو گرایا گیا ہے، کل ان کا نمبر بھی آئے گا‘‘۔
مسلم بستیوں کو اجاڑنے کی اطلاع ملنے پر ۲۲ دسمبر کو جماعت اسلامی ہند کے مرکزی سکریٹری محمد احمد نے آسام کے ان علاقوں کا دورہ کیا، اور بے دخل کیے گئے سبھی خاندانوں سے ملاقات کی اور متاثرین کو ہرممکن مدد کی یقین دہانی کرائی۔ جماعت اسلامی ہند اَپر آسام ڈویژن کے اشفاق اللہ حسین اور بذل الباسط چودھری بھی ان کے ساتھ تھے۔ جماعت کی ٹیم نے ان علاقوں کا بھی دورہ کیا جہاں متاثرہ خاندان کے گھر تھے اور جنھیں منہدم کر دیا گیا ہے۔ ٹیم کی جمع کردہ معلومات سے پتا چلا کہ یہ لوگ آسام ہی کے شہری ہیں اور ان کے نام بھی این آر سی میں شامل ہیں۔ متاثرین نے بتایا کہ’’ صرف مسلمان ہونے کی وجہ سے ہمارے ساتھ متعصبانہ رویہ اپنایا جا رہا ہے اور ہر طرح سے پریشان کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے‘‘۔
یہ غریب مسلمان قدرتی آفات اور نفرت کی مار ایک ساتھ جھیل رہے ہیں۔ یہ مجبور و بے کس کھلے آسمان تلے اپنے دن کاٹ رہے ہیں۔ سرپر منڈلاتے خطرات اور مستقبل کے اندیشے ان کی زندگیوں پر مہیب سایے بن کر چھائے ہوئے ہیں۔

اعلیٰ تعلیمی ادارے اور بھارت کا بدلتا سیاسی منظرنامہ
ڈاکٹر سلیم خان

این آر سی کے خلاف اور حمایت میں فی الحال پورے بھارت میں مہمات چل رہی ہیں۔ اسی کے ساتھ جواہر لال نہرو یونی ورسٹی (جے این یو) میں دہشت گردی اور اس میں آر ایس ایس کی فسطائی طلبہ تنظیم اے بی وی پی (ABVP:اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد) کے ملوث ہونے کے ثبوت ذرائع ابلاغ کی زینت بننےلگے ہیں۔ ان دونوں واقعات کے زیر اثر ملک میں سیاسی رجحان ایک خاص انداز میں بدل رہا ہے۔ اس کو وارانسی کی سنسکرت یونی ورسٹی کے انتخابات اور ممبئی میں گیٹ آف انڈیا پر ہونے والے غیر معمولی مظاہرے کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔
اترپردیش میں بی جے پی کا جلاد صفت یوگی اقتدار پر قابض ہے۔ جس نے ابھی حال میں مظاہروں کو کچلنے کی نا کام کوشش کی اور ہار گیا۔ ساتھ ہی ساتھ مودی، یوگی اور امیت شا ایسی قانون سازی سے ہندو عوام کا دل جیتنے میں جٹے ہوئے تھے۔ مہم اپنے شباب پر پہنچی تو وارانسی میںواقع سنسکرت یونی ورسٹی کے اندر طلبہ یونین کا انتخاب ہوا، جس میں اے بی وی پی کو منہ کی کھانی پڑی۔ کانگریس کی طلبہ تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹس یونین آف انڈیا نے اے بی وی پی کو چاروںشانے چت کر دیا۔ ان انتخابات میں خود ہندو طلبہ نے سنگھیوں کی چتا جلائی کیونکہ سنسکرت تو شاید ہی کوئی مسلمان پڑھتا ہے۔
بنارس ہندو یونی ورسٹی میں پروفیسر فیروز خان کا تقرر زعفرانی طلبہ کو اس قدر ناگوار گزرا کہ  وہ ہنگامے کرنے لگے۔ حالانکہ یونی ورسٹی انتظامیہ نے ضروری ٹیسٹ اور انٹرویو لینے کے بعدہی پروفیسر صاحب کو یہ عہدہ دیا تھا، جنھوں نے ۲۰۱۸ء میں سنسکرت میں پی ایچ ڈی کی ڈگری لی۔سنگھی طلبہ کا الزام تھا کہ ہماری تہذیب سے بیگانہ شخص ہمیں اور ہمارے مذہب کو کیسے سمجھے گا؟ راجستھان کے پروفیسر فیروز خان نے بتایا ’’جب میں نے سنسکرت کی تعلیم لینی شروع کی تو کسی نے اس پر انگلی نہیں اٹھائی۔ میرے محلے میں ۳۰ فی صد آبادی مسلمانوں کی ہے۔ خودمسلم مذہبی پیشواؤں نے بھی میری سنسکرت کی تعلیم پر کوئی اعتراض نہیں کیا اور نہ مسلم سماج نے بھی مجھے کبھی سنسکرت سے دُور رہنے کے لیے کہا‘‘۔ یعنی اپنی رواداری کا ڈھول پیٹنے والے ہندو سماج کے مقابلے میں کہیں زیا دہ مسلمان معاشرہ کشادہ دل، روشن خیال اور روادار ہے۔
سنسکرت یونی ورسٹی اسٹوڈنٹس یونین کے انتخابی نتائج میں اترپردیش کے اندر ٹھاکروں کی دادا گیری کے خلاف بیزاری کا اظہار ہے۔ اترپردیش کے یوگی راج میں خوف و دہشت کے ماحول کو سمجھنے کے لیے یہ بات کا فی ہے کہ انتخابی نتائج کے بعد یونی ورسٹی  وائس چانسلر نے منتخب طلبہ کو کامیابی کا جلوس نکالنے سے اجتناب کرنے کا مشورہ دیا۔ یہی کامیابی اگر اے بی وی پی کے حصے میں آتی تو کیا وائس چانسلر یہ مشورہ دینے کی جرأت کرتے؟ اور اگر اعلان ہو بھی جاتا، تو کیا سنگھی طلبہ ان کی بات پر کان دھرتے؟
ہندستان کے اندر برہمنوں کی سب سے بڑی آبادی اترپردیش میں رہتی ہے۔ صوبے کے ۲۰ کروڑ باشندوں میں ۱۰ فی صد یعنی ۲ کروڑ برہمن ہیں۔ ایک عرصے تک یہ لوگ کانگریس میں رہ کر اقتدار میں رہے۔ بی جے پی بنیادی طور پر شہروں کی پارٹی ہے۔ گذشتہ انتخاب میں اس نے ممبئی، پونے، ناگپور، احمدآباد، سورت، بڑودہ اور دہلی کی ساری سیٹیں جیت لی تھیں۔ اس کی بڑی وجہ ان شہروں کا نوجوان طبقہ ہے جو مودی کے پیچھے ہلکان ہوا جا رہا تھا لیکن مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ اور دہلی کی جے این یو اور جامعہ ملیہ نے نقشہ بدل دیا۔ اس تشدد کے خلاف ملک بھر کے دیگر مقامات کے ساتھ ان شہروں میں بھی احتجاج ہوا ۔ ممبئی میں اگست کرانتی میدان پر ہونے والے مظاہرے کو غیرمعمولی کامیابی ملی۔ اس میں غیر مسلم نوجوانوں کی بڑی تعداد شریک ہوئی۔ اس کے بعد آزاد میدان پر بھی نوجوانوں کا احتجاج بہت کامیاب ہوا۔ گیٹ آف انڈیا کا ۴۰گھنٹوں تک گھیراؤ تو ایک ناقابلِ تصور واقعہ تھا، اور اسی طرح باندرہ کے کارٹر روڈ پر ہزاروں لوگوں کا سڑک پر آجانا حیرت انگیز تھا۔ ان تمام مظاہروں کی قیادت نوجوان کر رہے تھے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ اب یہ طبقہ بی جے پی کے نسل پرستانہ سحر سے نکل رہا ہے اور اس کو سبق بھی سکھانا چاہتا ہے۔
مہاراشٹر میں بی جے پی کے خلاف پس ماندہ طبقات میں بڑھتا اضطراب ایک بڑی لہر کا پتا دے رہا ہے۔ بی جے پی والوں نے پہلے مسلمانوں پر ہجومی تشدد کیا اور اس کے بعد یہ معاملہ دلتوں تک جاپہنچا ہے۔ آگے چل کر اشتراکیوں کو نشانہ بنایا گیا ہے اور اب یہ لڑائی پارٹی کے اندر پس ماندہ ذاتوں تک پہنچ گئی ہے۔ مہاراشٹر کے دیہات میں یہی طبقات بی جے پی کی قوت کا سرچشمہ ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اس فسطائی جماعت نے بیک وقت پورے سماج کے خلاف نسلی جنگ چھیڑ دی ہے۔

بھارت میں موجو دہ لہر اور بنیادی تقاضا
پروفیسر محسن عثمانی ندوی

یہ ۱۹۷۸ء کی بات ہے کہ ایران میں اور پھر ۲۳برس بعد ۲۰۱۱ء میں عرب ملکوں، تیونس، مصر اور لیبیا کے عوام اپنے ہاں جابر حکومتوں کے خلاف انقلاب کے پرچم لے کر اُٹھ کھڑے ہوئے۔ انھوں نے حکومتوں کا تختہ اُلٹ دیا۔ کہیں یہ انقلاب کامیاب ہوا اور کہیں دنیا کی بڑی طاقتوں کی سازش اور خلیجی ملکوں کی پشت پناہی سے یہ انقلاب اپنے مقاصد حاصل نہ کرسکا۔ جو منظر ان عرب ممالک میں چند سال پہلے دیکھنے میں آیا تھا، وہی منظر اب بھارت میں دیکھنے میں آرہا ہے ، جس کے طول وعرض میں احتجاج کی لہر اُٹھ رہی ہے۔ یونی ورسٹیوں کے طلبہ اور خواتین کا اس میں قائدانہ کردار ہے۔
حدیث نبویؐ کی روشنی میں انسان کو نہ تو ظالم ہونا چاہیے اور نہ مظلوم۔ ظلم کا مقابلہ کرنا ایک دینی قدر ہے۔ جو نوجوان حکومت کے ظلم کو روکنے کے لیے کھڑے ہوئے ہیں، وہ قابل قدر ہیں۔ ہرخاص و عام میں یہ احساس پختہ تر ہے کہ اگر اس وقت مزاحمت نہ کی گئی، تو اس ملک میں اقلیتوں کو لوحِ ایام سے مٹا دیا جائے گا ۔ پھر نہ مسجدیں رہیں گی، نہ گرجے اور نہ مدرسوں کا وجود باقی رہے گا۔ ہجومی تشدد، جے شری رام کے نعرے، تین طلاق کا قانون ،دفعہ ۳۷۰ اور ۳۵-اےکی منسوخی، بابری مسجد، اور اب شہریت کے قانون میں ترمیم کا ایکٹ، یہ سلسلہ دراز سے دراز تر ہوتاجارہا ہے۔ اگر ظلم کی اس سیاہ رات کے خلاف پوری طاقت سے عوام نہیں کھڑے ہوں گے تو اس ملک کو ایک نیا اسپین اور ہندو راشٹر بنانے کا خواب پورا ہو گا ۔
اس منظر نامے کی ایک قابلِ ذکر خاص بات یہ ہے کہ معروف علما یا مذہبی قیادت کا کردار اس میں قائدانہ نہیں ہے۔ جب پورا ملک احتجاج کے نعروں سے گونجنے لگا تو پھر کچھ علما جو پہلے بی جے پی کی بولی بول رہے تھے، وہ بھی نئے قوانین کے خلاف لب کشا ہوئے۔ حالانکہ ظلم اور ناانصافی کی مخالفت میں پہلی آواز تو انھی کی بلند ہونی چاہیے تھی۔ جیساکہ شاہ بانوکیس میں احتجاج منظم کیا گیا تھا۔ اس سے پہلے تحریک خلافت اور بھارت چھوڑو تحریک میں علما نے بڑے بڑے احتجاج منظم کیے تھے۔ ایران اور پھر بہار عرب کی قیادت دینی شخصیات نے کی تھی۔ بعدازاں اس میں وہ لوگ بھی شامل ہوگئے ،جو اپنے ملکوں میںاستبدادی نظام کو پسند نہیں کرتے تھے۔ لیکن دنیا کی بڑی طاقتوں کو پسند نہیں تھا کہ عرب اور مسلم ملکوں میں جمہوریت آئے ،شریعت کا نفاذ ہو، اور استبدادی نظام کا خاتمہ ہو ۔ دولت مند خلیجی ملک بھی اپنی اپنی حکومتوں کو بچانے کے لیے ردِ انقلاب کی کوششوں کے ساتھی بن گئے۔ ہزاروں مسلمانوں کا خون بہا اور انقلاب کی کوشش ناکام ہوگئی ۔
بھارت کی موجودہ احتجاجی تحریک یونی ورسٹیوں کے طلبہ و طالبات جرأت مندانہ اور سرفروشانہ انداز میں چلارہے ہیں۔  اس سے حکومت کو اندازہ ہوا کہ مسلمانوں کا مذہبی طبقہ بھی حکومت کا ہم نوا نہیں ہے۔ مگر اس کے ساتھ یہ افسوس ناک آثار موجود ہیں کہ کچھ مؤثر علما اس احتجاج کو بھی محض ایک سیاسی کام سمجھتے ہیں۔یہ چیز اس بات کی علامت ہے کہ طبقۂ علما میں ایک تعداد ایسے لوگوں کی موجود ہے جو بصیرت اور اندیشۂ فردا سے محروم ہے۔ ظلم کے خلاف کھڑاہونا ایک دینی قدر ہے۔ ایک حدیث مبارکہ میں ہے:  اِنَّ النَّاسَ ا ِذَا رَأَوْا الظَّالِمَ فَلَم یَأْخُذُوْا عَلٰی یَدَیْہِ اَوْشَکَ اَن یَّعُمَّہُمُ اللہُ  بِعِقَابٍ مِنْہُ  [الترمذی، ابواب الفتن، حدیث:۲۱۴۵] ’’ لوگ ظالم کو دیکھیں اور اس کا ہاتھ نہ پکڑیں، توقریب ہے کہ اللہ ان سب کو اپنے عذاب میں لپیٹ لے‘‘۔  
بھارت میں ۷۰ ہزار کروڑخرچ کرکے این آر سی، یعنی رجسٹریشن کا قومی ترمیمی قانون لایا گیاہے۔ جس کے ذریعے بنگلہ دیش سے آئے ہوئے ۵ لاکھ ہندووں کو ہندوستانی شہریت دی جائے گی اور تقریباً اتنی ہی تعداد میں بنگلہ دیش سے آئے ہوئے مسلمانوں کو نظربند کیمپوں میں رکھا جائے گا یا ان کو ملک بدر کردیا جائے گا ۔ شہریت ثابت کرنے کے لیے وہ دستاویز طلب کی جائیں گے، جن کا مہیا کرنا تقریباً ۲۵ فی صدی آبادی کے لیے مشکل ہوگا۔ اگر وہ مسلمان نہیں ہیں تو ان کو شہریت مل جائے گی، اور مسلمان ہیں تو ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ جب قانون کا یہ طبلِ جنگ بجا تو کم نظر مسلم قیادت اپیل کرتی رہی،’’ مسلمان شہریت کا دستاویزی ثبوت تیار رکھیں‘‘۔ایسی تیرہ و تار فضا میں سب سے پہلے جامعہ ملیہ، پھر علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی اور ساتھ ہی جواہر لال نہرو یونی ورسٹی (جے این یو) اور دیگر یونی ورسٹیوں کے طلبہ نے بیداری اورزندگی کا ثبوت دیا ہے۔ اقبال نے کہا تھا ’’ جوانوں کو پیروں کا استادکر‘‘۔ ان شاہین صفت بچوںنے سال خورد عقابوں کو جینے کا سلیقہ سکھایا ہے، جن کو اپنا اور مسلمانوں کا مستقبل عزیز ہے ۔شاہین باغ کی مسلم خواتین نے بھی فسطائیت کے خلاف اس جنگ میں حصہ لیا ہے ۔  
 مسلمان نوجوان طلبہ، غیر مسلم قائدین کو بھی ساتھ لے کر میدان میں آگئے کہ اُمید کے چراغ بجھنے لگے تھے۔ انھوں نے نوجوانوںکی شیرازہ بندی کی، اور انصاف پسند ہم وطنوں کو ساتھ لیا۔ ایک طرف نوجوانوں کا عزم جواں ہے، دوسری طرف ظلم وستم کا کوہ گراں ہے۔ اس صورتِ حال میں ایمان، تقویٰ اور صبر، تینوں سے مل کر کامیابی کا راستہ نکلتا ہے۔
قرآن کریم سے اور سیرت نبویؐ کے مطالعے سے دین کا جومزاج سامنے آتا ہے، وہ یہ ہے کہ ’’صرف مسلمانوں کی اصلاح کی فکر نہیں ہونی چاہیے بلکہ تمام بنی نوع انسان کی عاقبت بخیر ہونے کی فکر کی جانی چاہیے‘‘۔ مسلمانوں کو خیر امت اس لیے کہا گیا تھا کہ ان کو تمام بنی نوع انسان کے لیے مبعوث کیا گیا تھا: اُخْرِجَتْ لِلْنَّاسِ۔ لیکن بیش تر علما نے اپنے خطبات میں معنوی اور عملی تحریف کرڈالی اور اسے اُخْرِجَتْ لِلْمُسْلِمِیْنَ  کا مترادف سمجھ لیا ۔تمام انبیاے کرامؑ کے بارے میں آیا ہے:  وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِہٖ لِيُبَيِّنَ لَہُمْ۝۰ۭ [ابراہیم ۱۴:۴، ہم نے اپنا پیغام دینے کے لیے جب کبھی کوئی رسول بھیجا ہے ، اس نے اپنی قوم ہی کی زبان میں پیغام دیا ہے، تاکہ وہ قوم کے سامنے حق واضح کریں]۔
آج، جب کہ ہزاروں مدارس سے بڑی تعداد میں علما تیار ہوتے ہیں، اور وہ صرف مسلمانوں کو خطاب کرنے کے لائق ہیں۔ مسلمانوں کی جماعتیں بھی صرف مسلمانوں کے درمیان کام کرتی ہیں اور ملک کے دوسرے لوگوں سے ان کا رابطہ ٹوٹا ہوا ہے ۔علما کو بھارت کے ۲۰ کروڑ مسلمانوں کی بہت فکر ہے مگر ۱۰۰کروڑ سے زیادہ اللہ کی مخلوق کی کچھ فکر نہیں۔ ایک شخص کے تین بیٹے ہوں: ایک صحت مند ہو (مسلمان کی تمثیل)،دو بیمار ہوں ( کافر اور مشرک)، تو کیا اس کے لیے درست ہوگا کہ وہ بیمار بیٹوں کے علاج کی فکر نہ کرے اور ان سے لاپروا ہوجائے۔ یقین کرنا چاہیے کہ آج جو حالات پیش آرہے ہیں، وہ ہماری صدیوں کی غلطیوں کاشاخسانہ ہیں۔ ہمارا انداز اور طرزِ فکر مزاج نبویؐ سے مطابقت نہیں رکھتا۔ علماے دین کی بڑی تعداد اس بنیادی طرزِ فکر سے دُور ہے۔اس وقت عام بھارتیوں تک دین کی دعوت پہنچانے سے پہلے ان کو خدمت خلق یا کسی اور عنوان سے اسلام اور مسلمانوں سے مانوس کرنے کی ضرورت ہے۔اس مقصد کے لیے عمومی رابطے اور حُسنِ سلوک کے ذریعے اِدْفَعْ بِالَّتِيْ ہِىَ اَحْسَنُ [المؤمنون ۲۳:۹۶] کا تصور جاگزیںکرنا چاہیے کہ مسلمان اچھا شہری ،  اچھا پڑوسی، ایک اچھا انسان ہوتا ہے، شریف، خوش اخلاق اور مہذب۔ ہم نے یہ کام صدیوں سے نہیں کیا ہے۔ اس لیے دشمن عناصر کو یہ موقع مل گیا کہ مسلمانوں کے خلاف نفرت کازہر لوگوں کے رگ وپے میں اتار دے۔
شہریت ترمیم ایکٹ کے خلاف احتجاج بہت خوش آیند ہے۔ البتہ سب سے اہم کام یہی ہے کہ عام لوگوں کی غلط فہمیاں دُور کی جائیں۔ ہرمسلمان تنظیم کو چاہیے کہ اس مقصد کے لیے اپنے یہاں شعبہ قائم کرے۔ اگر یہ طویل مدتی منصوبہ دوسرے مختصر مدتی منصوبوں کے ساتھ اختیار نہیں کیا گیا، تو بھارت میں مسلمان دوسروںکے ظلم وستم ہی کا ماتم کرتے ر ہیں گے۔ جن ملکوں میں مسلمان ۸۰،۹۰ فی صدی اکثریت میں ہوں وہاں اس ناقابلِ فہم غفلت کے ساتھ گزارا ہوسکتا ہے، لیکن جہاں چاروں طرف غیر مسلموں کا عددی غلبہ ہو، وہاں غیرمسلموں کو نظرانداز کرنا انبیائی طریقۂ دعوت نہیں ہے ۔اگر یہ ضروری کام نہیں انجام پایا تو منزلِ مقصود حاصل نہ کی جاسکے گی ۔

(امریکی فوجی مؤرخ اور مصنّف: Ghostriders of Baghdad: Myth of the Surge ،کنساس، امریکا)

گذشتہ انیس برسوں [۲۰۰۱ء-۲۰۲۰ء] سے امریکی فوج نے دنیاکی ایک انتہائی دُورافتادہ سرزمین پر جنگجو قبائلی مسلمانوں کے خلاف جنگ چھیڑ رکھی ہے۔ کیا یہ صورت حال کچھ جانی پہچانی نہیں معلوم ہوتی ہے؟
جی ہاں، اس صورت حال کے جانے پہچانے ہونے میںکوئی شک نہیں ہے، کیوں کہ  ایک صدی سے زائد عرصہ پہلے، فلپائن کے انتہائی جنوبی جزائر میں اس جنگ کا آغاز ہوا۔اس وقت امریکی فوجی، افغانستان کے طالبان سے نہیں بلکہ انتہائی خودمختار اور آزاد اسلامی قبائلی،مورو مسلمانوں کے خلاف جنگ لڑ رہے تھے۔ تب غیرملکی حملہ آوروں کے خلاف ان قبائلیوں کی شدید مزاحمت کے قصّے بہت مشہور تھے۔ معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے زمانے میں محض چند افراد نے ہی مورو مسلمانوں کے خلاف امریکی جنگ (۱۸۹۹ء-۱۹۱۳ء) کے متعلق سن رکھاہوگا۔ اس کے بعد افغانستان میں امریکی فوجی مداخلت،امریکا کی دوسری طویل ترین جنگ ثابت ہوئی ہے۔
عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ امریکا نے اس وقت مسلم دنیا میں بامقصد انداز میں  دل چسپی لینا شروع کی، جب واشنگٹن ۱۹۷۹ء میں ایرانی انقلاب میں اُلجھ کر رہ گیا۔ اسی سال کے   آخر میں افغانستان پر سابق کمیونسٹ روسی سلطنت حملہ آور ہوئی۔ یہ واقعات اگرچہ ایک ہی سال میں رُونما ہوئے، لیکن معاملہ اس قدر سادہ نہیں۔ انیسویں صدی میں امریکیوں کے خلاف مورو نسل کے مسلمانوں نے ایک طویل چھاپہ مار جنگ لڑی۔ یہ ’ہسپانوی اور امریکی جنگ‘ کا شاخسانہ تھی۔
یہ مہم نہ صرف تاریخ بلکہ اجتماعی امریکی یادداشت سے محو ہو چکی ہے۔مثال کے طور پر ’مورو مسلمانوں کے خلاف جنگ‘ کے موضوع پر [کتابوں کی فراہمی کے عالمی نیٹ ورک] ’امیزون‘ سے دست یاب بنیادی کتب صرف سات کی تعداد میں سامنے آتی ہیں۔اس کے برعکس امریکی ’جنگ ویت نام‘ کے متعلق بنیادی معلومات فراہم کرنے والی کتب کی تعداد ۱۰ ہزار سے کہیں زیادہ ہے۔ یہ چیز اپنی جگہ ایک پُراسرار امر ہے۔جنوبی فلپائن کے جزائر میں جنگ،ازاں بعد ویت نام میں روایتی امریکی فوجی کارروائی سے نہ صرف چھے برس طویل تھی بلکہ اس جنگ کے نتیجے میں ۸۸ ’کانگریشنل میڈلزفارآنر‘ عطا کیے گئے، اور مستقبل کے پانچ امریکی آرمی چیف بھی انھی فوجیوں سے ترقی کرکے مقرر ہوئے۔ اگرچہ فلپائن کے شمالی جزائز میں شورش اور سرکشی کے خلاف جنگ ۱۹۰۲ء میںختم ہوگئی تھی، لیکن موروباغی مزید ایک عشرے تک لڑتے رہے۔جیسا کہ لیفٹیننٹ بینی فیولوس ___بعدازاں آرمی ایویشن کے ’بانی‘ نے لکھا:’’فلپائن کی شورش کو بہت کم ان مشکلات سے تقابل کیا جا سکتا ہے، جو ہمیں مورو [مسلمانوں]کے ساتھ جنگ میںپیش آئیں‘‘۔
    مورو مسلمانوں کے خلاف جنگ کے حوالے سے ذیل میں کچھ نکات پیش کیے جارہے ہیں: یہ جنگ حتمی طور پر امریکا کی ایک ناکام جنگ ہے۔ اس جنگ کو کسی ایک عرصے کے خونیں المیے کے طور پر نہیں، بلکہ  ’نسل درنسل جدوجہد‘ کے طور پر دیکھنا چاہیے۔ مورولینڈ سے بظاہر امریکی فوج کے انخلا کے باوجود ایک سوسال بعد، مجاہدینِ اسلام اور دیگر علاقائی شورشیں،بدستور جنوبی فلپائن کو متاثرکرتی رہی ہیں۔

خوش آمدید مورولینڈ

مورو جزائر اور افغان عقبی علاقے کے درمیان کئی صورتوں میں خاصی مشابہت پائی جاتی ہے۔ منڈانوائے کا موروجزیرہ، خود آئرلینڈ سے بڑا ہے۔۳۶۹ سے زائد جنوبی فلپائنی جزائر تقریباً دشوارگزار اور غیرترقی یافتہ علاقے ہیں، جوایک لاکھ ۱۶ہزار ۸سو ۹۵ مربع کلومیٹر جنگلوں اور پہاڑوں پر مشتمل ہیں۔ وہاں امریکیوں کی آمد کے وقت محض ۷۵ کلومیٹر طویل پختہ سڑکیں موجود تھیں۔ یہ سرزمین اس قدر دشوارگزار ہے کہ یہ فوجی دُورافتادہ علا قوںکوbundok (غیرآباد)کہتے تھے، جو تیگالگ زبان کے ایک لفظ’پہاڑی علاقہ‘کی بگڑی ہوئی شکل ہے___اور اب یہ لفظ امریکی ذخیرۂ الفاظ میں داخل ہے۔
۱۴۹۲ء میں سپین سے بے دخل کیے گئے مسلمانوں کے ذریعے یہ مقامی مسلم قبائل منظم ہوئے۔ اسلام عرب سوداگروں اور تاجروں کے ذریعے ۱۲۱۰ء میں یہاں آیا تھا۔ اسلام ہی نے ان جزائر کے درجنوں کثیرالتہذیبی اور لسانی دھڑوں کو ایک قوتِ اتفاق مہیا کی۔ ان کی آمد سے پہلے یہاں قبیلوں کے درمیان جنگیں معمول کا حصہ تھیں۔ فلپائن میں تین صدیوں کی حکومت کے دوران، ہسپانیوں نے مورولینڈ میں محض علامتی موجودگی سے زیادہ کبھی کچھ ظاہر نہیں کیا۔
مورو اور افغان حُریت پسندوں میں اور بھی مشابہتیں ہیں۔دونوں،افغان اور مورو،جنگجو فطرت ومیلان کے حامل ہیں۔ہر بالغ مورو، تلوارزیب ِتن کرتا اور جب بھی ممکن ہوتا، اس کے پاس آتشیں اسلحہ بھی ہوتا۔ اکیسویں صدی کے افغانوں کی طرح انیسویں صدی کے مورو،اکثر اوقات،قابض امریکی فوجیوں کے خلاف طاقت استعمال کرتے۔حتیٰ کہ مورو خودکش بمبار کا ابتدائی رُوپ ’جورامینٹاڈو‘ (Juramentado) بھی تھے۔ جو اپنا سر منڈوا دیتے اور سفید لباس پہن کر امریکی فوجیوں کے خلاف زندگی اورموت کی جنگ کے لیے پیش قدمی کرتے۔یوں مورو مسلمانوں کی طرف سے امریکی قابض فوجیوں کو نشانہ بنانے کی بے مثال صلاحیت توڑنے کے لیے امریکی فوج نے  کلاٹ ۴۵  پستول کااستعمال شروع کردیا۔
خلیج منیلا میں ہسپانوی بیڑے کوشکست دینے اوروہاں موجودہ محافظ فوج کوبلاتاخیرشکست دینے کے بعد،امریکا نے ۱۸۸۹ء کے ’معاہدہ پیرس‘ کے تحت فلپائن کواپنی عمل داری میںشامل کرلیا اور یہ فیصلہ کرتے وقت مورو مسلم قبائل سے مشاورت تک نہ کی گئی۔اسپینی حکومت اپنے زیرانتظام علاقوںمیں ہمیشہ محتاط رویہ اپنایا کرتی تھی، جب کہ موروں نے توپیرس کے متعلق کچھ سنابھی نہیں تھا۔
امریکی جنرل جان بیٹس،جو مرکزی جزائرمیں فلپائنی شورش کوختم کرنے پراپنی توجہ مرکوز کیے ہوئے تھا،اس نے مورو رہنماؤںکے ساتھ ایک معاہدے پردستخط کیے کہ ’’امریکا ان کے ’حقوق اوروقار‘ یا’مذہبی عقائدورسوم‘ میں مداخلت نہیں کرے گا‘‘۔ تاہم، جنرل جان بیٹس نے جب مناسب جانا،یہ معاہدہ کاغذکامحض ایک ٹکڑاثابت ہوا۔ دراصل واشنگٹن نے ان مورو قبائلی رہنماؤں کے ساتھ تعلقات کوماضی میں ’وحشی‘ مقامی قبائل کی حیثیت ہی سے دیکھا۔
جنرل بیٹس کامعاہدہ اس وقت تک قائم رہا،جب تک امریکی فوج اور سیاسی رہنماؤں کو اس کی ضرورت تھی۔ بلاشبہہ یہ معاہدہ ان جزائرمیںامن کی واحد امید تھی۔مورولینڈ میں ’محدود ابتدائی امریکی مقاصد‘___ ۲۰۰۱ء میں افغانستان پر امریکی سی آئی اے/سپیشل فورسزکے حملے کے ’محدود مقاصد‘ کے مانند تھے۔ پھر یہ دونوں مہنگی جنگیں ثابت ہوئیں۔ افغانستان پر قبضہ جمانے کے بے سود مقاصد یہ تھے کہ ’جمہوریت کا فروغ اور ’دہشت گردی‘ کا خاتمہ۔ امریکی فوجی افسران اور سیاسی انتظامیہ مورو میں بھی یہ موہوم کھیل کھیلنا چاہتے تھے، لیکن ’بیٹس معاہدہ‘ کی منسوخی کا نتیجہ جنگ کی صورت میں برآمد ہوا۔

نقطہ ہاے نظر اورحکمت عملیاں

مورولینڈ میں امریکیوں نے اسی طرح جنگ لڑی، جس طرح۲۰۰۱ء سے ’دہشت گردی کے خلاف افغانستان میں جنگ‘۔ فتح کی حکمت عملی یہ اپنائی گئی کہ زیادہ تر دُورافتادہ علاقوں میں موجود نوجوان افسروں کے ذریعے جنگ کی دھاک بٹھائی جائے۔ اس طرح کچھ کو تو کامیابی نصیب ہوئی، جب کہ کہیں بُری طرح ناکام ہو گئے۔ تاہم، وہ دُورافتادہ ملک کے عوام پر ’جمہوریت‘ اور ’امریکی طرزِزندگی ‘مسلط کرنے میں ہرگز کامیاب نہ ہوسکے۔مورولینڈ میں امریکی راج مسلط کرنے کے لیے عدم ربط،عدم تسلسل اور مسلسل تبدیل ہوتی حکمت عملیاں سامنے آئیں۔
جب مورو قبائل نے امریکی فوجیوں پر وقفے وقفے سے چھاپامار کارروائیاں شروع کیں، تو ان کے خلاف ایک جابرانہ فوجی مہم کا آغاز کر دیا گیا۔اس قسم کے پہلے واقعے میں،جنر ل ادنا شیفے (بعدازاں آرمی چیف آف اسٹاف) نے مقامی موروقبائل کے راہ نماؤں کو دو ہفتے کی مہلت دی کہ حملہ آور چھاپہ ماروں کو ہمارے حوالے کر دیاجائے۔ وہ جنھیں ایک زمانے میں امریکیوں کے ہسپانوی پیش رو بھی فتح نہیں کر سکے تھے،انھوں نے انکار کر دیا۔
کرنل فرینک بالڈون نے فوج کشی کی قیادت کرتے ہوئے مورو قبائل پر فتح حاصل کرنے کے لیے ظالمانہ اور خوں ریز ہتھکنڈے( جو اکیسویں صدی کے افغانستان میں رُوبۂ عمل ہتھکنڈوں سے ملتے جلتے تھے) استعمال کیے۔ تاہم، کچھ نوجوان فوجی افسروں نے کرنل فرینک کے نقطۂ نظر سے اختلاف کیا۔بریگیڈیئر جنرل جان جے پرشنگ نے شکایت کی کہ ’’کرنل بالڈون چاہتا تھا کہ وہ پہلے مورو قبائل کو گولی مار دے اور بعد میں انھیں زیتون کی شاخ پیش کرے‘‘۔
اگلے ۱۳برس کے دوران ایک دوسرے کے بعد آنے والے امریکی کمانڈروں اور افسرشاہی کے درمیان چپقلش جاری رہی کہ کس طرح فتح حاصل کی جائے ___ یہ بالکل ویسی جنگ تھی، جس نے نائن الیون کے بعد امریکی فوج کو نقصان پہنچایا۔ایک طبقے کا خیال تھا کہ ’’محض جارحانہ اور ظالمانہ کارروائیاں ہی جنگجو مورو قبائل کو تسخیر کر سکتی ہیں۔ جس طرح جنرل جارج ڈیوس نے ۱۹۰۲ء میںلکھا کہ ہمیں یہ امر فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ طاقت، واحد حکمت عملی ہے جس کا مورو احترام کرتے ہیں‘‘۔
لیکن پرشنگ جیسی سوچ رکھنے والوں نے اختلاف کیا اور صبروتحمل کے ساتھ مورو رہنماؤں کے ساتھ معاملات طے کیے۔ قدرے مجہول فوجی اثر برقرار رکھا اور مخالفانہ خیالات کو بھی تسلیم کیا۔ فلپائن میں خدمات انجام دیتے ہوئے پرشنگ کے بیانات نے۲۰۱۶ء کی صدارتی انتخابی مہم کے دوران ایک بار توجہ حاصل کرلی، جب صدارتی اُمیدوار ڈونالڈٹرمپ نے دانستہ ایک جھوٹی کہانی دہرائی کہ کس طرح ’’اس وقت کے جان پرشنگ( پہلی جنگ عظیم کے دوران امریکی افواج کے اعلیٰ کمانڈر) جیسے ’ایک ترش اور تنُدخو شخص‘نے ایک بار۵۰مسلمان’دہشت گرد ‘گرفتار کر لیے، ۵۰گولیوں کو سؤر کے خون میں تر کیا،ان میں سے ۴۹ کو گولی مار کر ہلاک کر دیا اور ایک کو محض اس لیے چھوڑ دیا، تاکہ وہ یہ خونیں واقعہ اپنے باغی ساتھیوں کو سنا سکے‘‘۔ ٹرمپ کے مطابق اس کہانی کا نتیجہ یہ تھا کہ ’’آیندہ ۲۵برس تک وہاں کوئی مسئلہ پیدا نہ ہوا ،ٹھیک ہے نا!‘‘ حالانکہ عملی طور پر اس کے باوجود فلپائن کی شورش مزید ایک عشرے تک جاری رہی اور پھر ان جزائر میں مسلم علیحدگی پسند بغاوت آج بھی موجود ہے۔
درحقیقت، پرشنگ عرف’بلیک جیک‘ مورولینڈ میں امریکی کمانڈر تھا۔ ا س نے مقامی بولی سیکھی۔ وہ دُورافتادہ دیہات کا سفر کرتا اور گھنٹوں سپاری چباتا رہتا( جس کے استعمال سے بدن میںچستی اور مستعدی پیدا ہوتی تھی) اور مقامی لوگوں کے مسائل سنتا۔ پرشنگ بظاہر نرم خُو تھا، لیکن  بعض اوقات وہ کہیں زیادہ خباثت کا بھی مظاہرہ کرتا۔دراصل اس کی جبلت یہی تھی کہ سب سے پہلے بات چیت کی جائے اور آخری چارۂ کار کے طور پر لڑائی کا راستہ اپنایا جائے۔
جب پرشنگ کے بعد جنرل لیونرڈ ووڈ، مورولینڈ میں تعینات ہوا توحکمت عملی تبدیل ہوگئی۔ اپاچی جنگوں میں گرنیمو (Geronimo) مہم کے ایک کہنہ مشق افسر اور بعدازاں مستقبل میں ایک اور امریکی چیف آف سٹاف (میسوری میں ایک امریکی فوجی اڈا اس کے نام پر ہے) نے موروں کے خلاف اپنی مہمات میںScorched Earth Tactics (ایسی فوجی کارروائیاں جن کے ذریعے دشمن کے لیے مفید ہر چیز تباہ کر دی جاتی ہے) استعمال کیے اور کہا کہ ’’انھیں اس طرح صفحۂ ہستی سے مٹا دیا جائے جیسا کہ امریکا کے ریڈ انڈینز کوصفحۂ ہستی سے مٹا دیا گیا‘‘۔اس نے یہ جنگ جیت کر ہزاروں مقامیوں کو ذبح کر دیا، لیکن مورو مزاحمت کو ختم نہ کر سکا۔
اس عمل کے دوران، اس نے بیٹس نامی معاہدہ بھی ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا، اور مغربی طرز کا فوجداری انصاف کا نظام نافذ کر دیا۔ اس نے امریکی طرز کی سڑکوں، اسکولوںکی تعمیر کے علاوہ انفراسٹرکچر کی بہتری پر رقوم خرچ کیں___ موروں پر نئے ٹیکس عائد کر دیے، جن کو قبائلی رہنماؤں نے اپنے سماجی، سیاسی اور مذہبی رسوم ورواج پر حملہ تصور کیا۔
اس کی کارروائیوں کی مثال امریکی اتحادی فوجوں کی زیرسرپرستی اس انجمن کے مانند تھی، جس نے عراق پر ۲۰۰۳ء میںامریکی حملے کے بعد حکومت کی۔ اس غیرمنتخب ادارے میں بذاتِ خود جنرل لیونراڈ ووڈ (جس کا ووٹ دو دفعہ گنا جاتا تھا)، دو امریکی افسران، اور دو امریکی سیاسی حکام شامل تھے۔ وڈ نے نہایت تکبر کے عالم میں فلپائن کے امریکی گورنر،مستقبل کے صدر ولیم ہوارڈٹافٹ کے نام لکھا:’’اس وقت یہی ضروری ہے کہ موروں کے خلاف سخت ترین کارروائی کی جائے اور قانون پر سختی سے عمل کیا جائے‘‘۔
لیونراڈووڈ کے ایک ماتحت کمانڈر میجر رابرٹ بلارڈ (پہلی جنگ عظیم میں پہلی انفنٹری ڈویژن کے کمانڈر) نے لکھا کہ ’’یہاں کے عوام کے متعلق ووڈ کی بہت کم معلومات ہیں ___ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے وہ معلومات حاصل کیے بغیر ہر چیز اپنی مرضی کے مطابق کرنا چاہتا ہے‘‘۔
اس کی مرضی اور  ہتھکنڈوں کا نمونہ یہ تھا کہ محصور مورو، دیہات پر توپ خانے سے بمباری کی گئی، بے شمار خواتین اور بچوں کو ہلاک کر دیا اور پھر پیادہ فوج کے ساتھ دھاوا بول دیا۔ اس یلغار کے نتیجے میں تقریباً کوئی بھی قیدی نہیں لے جایا گیا، یعنی سب کو ختم کر دیا گیا۔ یوں بے شمار جانی نقصان ہوا۔ اسی طرح جولو کے جزیرے پر ایک ایسی ہی مہم کے نتیجے میں ۵ہزار مورو (جزیرے کی آبادی کا ۲فی صد) کو ہلاک کر دیا۔ جب کبھی اخبارات کو اس قتل عام کے متعلق بھنک پڑی،  ووڈ نے حقائق کو مسخ کرنے یا جھوٹی کہانیاں سنانے سے کبھی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا، تاکہ    اپنی ظالمانہ کارروائیوں سے بریت حاصل کی جائے۔تاہم،جب اس کے ذاتی محافظ نے منہ کھولا تواسے مجبوراً اپنی ظالمانہ کارروائیوںکا اعتراف کرنا پڑا۔
جنگ ویت نام کے دور میں بدنام زمانہ امریکی بیان کی تمہید میں یہ لکھا ہوا ہے:’’یہ ضروری ہو گیا تھا کہ دیہات کو بچانے کے بجاے انھیں تباہ کر دیا جائے‘‘۔ اس سے قبل جنرل ووڈ نے کہا: ’’اگرچہ یہ اقدامات بہت زیادہ سخت معلوم ہوتے ہیں،لیکن یہ نرم ترین اقدامات ہیں جن پر عمل کیا جاسکتا ہے‘‘۔ اس کی کارروائیاں بھی موروں کو تسخیر نہ کرسکیں۔آخرکار اس نے اپنی کمان جنرل تاسکر بلس کے سپرد کی ، تب بھی بغاوت اُبل رہی تھی۔
اس کا جانشین ،مستقبل کا ایک اور امریکی آرمی چیف بلس (جس کے نام پر ایک امریکی اڈے کا نام رکھا گیا ہے) قدرے معتدل مزاج انسان تھا، لکھتا ہے: ’’حکام یہ فراموش کر چکے ہیں کہ انتہائی مشکل وقت وہ ہوتا ہے، جب قتل عام مکمل کیا جاچکا ہوتا ہے‘‘۔ اس نے وسیع پیمانے پر عقوبتی فوجی مہمات روک دیں اور محتاط رہتے ہوئے یہ امر تسلیم کر لیا کہ ’’مورولینڈ میں فی الواقع تشدد اور غارت گری کا ارتکاب کیا گیا ہے‘‘۔ بہرحال تقریباً اکثر حاضر ملازمت امریکی جرنیلوں کے مانند، جو ’نسلی جنگ‘ اختیار کرنے کی جبلت رکھتے تھے، اس نے بھی کہا کہ ’’امریکی فوجی موجودگی لامحدود عرصے کے لیے لازمی ہوگی‘‘۔ جنرل بلس کی پیش گوئی تھی: ’’حکومت کی طاقت، تمام گمراہ کن بیانیے اور لفاظی کو ختم کر دے گی، جس کا مطلب یہ ہے کہ امریکا کو گلے سے پکڑ کر اکثر آبادی کو اپنا مطیع رکھنا ہو گا، باوجود یہ کہ آبادی کے محض چھوٹے سے حصے پر اس کی حکومت ہو‘‘۔

بڈڈاجو کا قتل عام اور’روشن ضمیر‘افسرشاہی

مورو لینڈ میں سڑکوں کی تعمیر،تعلیم کی فراہمی،شہری ڈھانچے کی بہتری کے بھیس میں امریکی فوجی راج قوت اور ظلم کے بل پر قائم ہو ہی گیا۔ ۱۹۰۵ء کے اواخر میں ،میجرہف سکاٹ، جو اس وقت جولو میں کمانڈر ( مستقبل کا ایک اور امریکی آرمی چیف) تھا، اسے یہ اطلاعات موصول ہوئیں کہ ’’ایک ہزار تک مورو خاندانوں نے ٹیکسوں کے خلاف احتجاج کے لیے جولو جزیرے میں واقع بڈڈاجو کے عظیم الجثہ خوابیدہ آتش فشاں کے دہانے کی طرف پیش قدمی کا فیصلہ کر لیا ہے‘‘۔ میجرہف کو اس احتجاجی مظاہرے پر حملہ کرنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آئی تو اس نے مذاکرات کو ترجیح دی، جیساکہ اس نے لکھا:’’ یہ واضح تھا کہ بہت سے قبائلی ہماری کارروائی سے پہلے ہی مر جاتے، لیکن  وہ کس مقصد کے لیے مرتے؟کیا اس لیے کہ قبائلیوں سے ایک ہزار سے بھی کم ڈالر محصول اکٹھا کیا جائے؟یاد رہے کہ پہاڑوں کی چوٹیوں پر زندگی بہت ہی مشکل ہے اور زیادہ تر مورو اس وقت نہایت پُرامن طور پرنیچے آ جاتے جب ان کی فصلیں پک جاتیں‘‘۔
پھر ۱۹۰۶ء میں ہف سکاٹ چھٹی پر گھر چلاگیا اور اس کے غصیلے جنگجو اور دوسرے درجے کےکمانڈر کیپٹن جیمز ریوز نے، جسے سبک دوش صوبائی کمانڈر لیونراڈ ووڈ کی بہت زیادہ حمایت حاصل تھی، جولو کے موروں کے ساتھ جنگ جاری رکھنے کا فیصلہ کر لیا۔وہ موروں کی ہلکی سی مزاحمت کو بھی امریکی راج کے لیے خطرہ سمجھتا تھا۔
جیمز ریوز نے خوں ریز حملے کے متعلق خطرناک اطلاعات روانہ کیں۔لیونراڈ ووڈ نے مورولینڈ میں اپنے فرائض منصبی کی مدت میں اضافہ کرتے ہوئے آخرکار یہ فیصلہ کیا کہ ’’اب بڈڈا جو کے موروں کا قلع قمع کر دینا ہو گا‘‘۔پھراس نے حملے کے جواز کے لیے مزید جھوٹی اطلاعات روانہ کیں، جب کہ وزیرجنگ ٹافٹ کے ایک حکم کو نظرانداز کردیا، جس میں تحریری اور واضح طور پر پیشگی منظوری کے بغیر وسیع پیمانے پر فوجی کارروائیوں سے منع کیا گیا تھا۔
بہت سے مورو آتش فشاں کے دہانے سے واپس لوٹ آئے تھے۔۵ مارچ ۱۹۰۶ء کو ووڈ کی ایک بڑی باقاعدہ فوج نے پہاڑ کا محاصرہ کر لیا اور تین اطراف سے فوری طور پر حملہ کرنے کا حکم جاری کردیا۔ موروقبائل نے جو زیادہ تر تلواروں اور پتھروں سے مسلح تھے، شدید مزاحمت کی، لیکن ان کی یہ مزاحمت انھی کے قتل عام پر منتج ہوئی۔ کیونکہ ووڈ نے بڈڈاجوکے دہانے پر مشین گنیں،  توپ خانہ، جب کہ سیکڑوں بندوق بردار تعینات کر دیے اورمو روں پر بلاتفریق گولیوں کی بوچھاڑ کردی، جس کے نتیجے میں غالباً ایک ہزار مورو مسلمان ہلاک ہو گئے۔جب دھواں صاف ہوا،  چھے کے سوا تمام مور،تقریباً۹۹فی صد ہلاک ہو چکے تھے۔لیونراڈ ووڈ موروں کی لاشیں دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ پانچ لاشوں کواسی مقام پر پانچ فٹ گہرے گڑھے میں دبا دیا اور یوں اپنی اس ’فتح‘ پر  فخر محسوس کرتے ہوئے اس نے اطلاع دی: ’’تمام مزاحمت کار ہلاک ہوگئے ہیں‘‘۔ اس کے کچھ فوجیوں نے فخریہ انداز میں سیکڑوں خواتین اور بچوں کی لاشوں پر کھڑے ہوکر تصویریںبنوائیں کہ جیسے وہ جانوروں کے شکار کے بعد بہت بڑی ٹرافی جیت کر لائے ہوں۔ یہ بدنامِ زمانہ تصاویر بیسویں صدی کے اوائل میں تیزی سے دنیا بھر میں پھیل گئیں۔ اس پر سامراج مخالف میڈیا غصّے سے پاگل ہو گیا اور ووڈ کو انتہائی بدنامی کا سامنا تھا۔
اس سے پہلے کہ اس بدنام زمانہ واقعے کا تذکرہ اخبارات میں آتا،امریکی صدر تھیوڈور روزویلٹ نے ووڈ کوایک مبارک باد کا خط بھیجا: ’’ہتھیاروں کی نمایش کا شان دار مظاہرہ کرکے تم اور سپاہیوں نے امریکی جھنڈے کا وقار بلند رکھا ہے، شاباش‘‘۔
دانش وَر،مارک ٹوین نے یہ کہا: ’’قدیم قاتلوں کی روایت کے مطابق ایک دوسرے پر دھری ہڈیوں پر مشتمل ڈھیر پر جھنڈا بلند کر دینا چاہیے‘‘۔ وڈو نے لکھا:’’ہم نے انھیں مکمل طور پرختم کر دیا اور اپنی مُردہ ماں کے لیے روتا ہوا ایک بچہ بھی نہیں زندہ چھوڑا‘‘۔ ڈبلیو ای بی ڈیو بوئس نے پہاڑ کے دہانے کی تصویرکو ’ایک انتہائی روشن علامت قرار دیا، اور لکھا: ’’اسے کمرہ ٔ جماعت کی دیوار پر آویزاں کیا جائے تاکہ طلبہ کو علم ہو سکے کہ جنگیں، خاص طور پر حقیقی فتح کی جنگیں‘کیا ہوتی ہیں؟‘‘
۱۹۰۶ء کے بڈڈا جو قتلِ عام کا حقیقی سانحہ، موروجنگ کا ایک ایسا باب تھا کہ جس طرح افغانستان کے خالی دیہات، جہاں قدم قدم پر بارودی سرنگوں کا بچھایا گیا جال تھا، جس کا ۲۰۱۱ء-۲۰۱۲ء میں میرے اپنے [امریکی] فوجیوں نے افغانستان میں ارتکاب کیا۔ جس کا بدنامِ زمانہ نتیجہ وہ تباہی تھی جب طالبان نے ۲۰۰۹ء میں واقع کیٹنگ نامی متحارب چوکی کو تقریباً روند دیا تھا۔
یہ بدنامِ زمانہ واقعہ ایک ماہ تک امریکی اخباروں کی شہ سرخیوں کی زینت بنا رہا۔ مثال کے طو رپر۱۵مارچ ۱۹۰۶ء کو روزنامہ نیشن کے اداریے میں سوال اُٹھایا گیا: ’’کیا موروں کے متعلق کوئی مخصوص حکمت عملی اختیار کی جا رہی ہے؟___ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایک بے مقصد جنگی مشق کی جارہی ہے، جس کے دوران بعض اوقات خوںریز کامیابیاں بھی حاصل ہو جاتی ہیں___ لیکن جنگ مسلسل جاری رہتی ہے اور کوئی یہ معلوم بھی نہیں کر سکتا کہ ہم کوئی کامیابی حاصل کر بھی رہے ہیں؟‘‘یہ اقتباس جنوبی فلپائن میں بے سود اور بے اُمید جمود کو مختصر طور پر بیان کرتا ہے۔تاہم،اس وقت (اور جس طرح حال ہی میں واشنگٹن پوسٹ نے) انکشاف کیا ہے: ’’امریکی جرنیلوں اور سینیر امریکی حکام، جنگوں کے جمود کو کامیابی میں تبدیل کرنے کے قابل نہیں ہیں‘‘۔

مورولینڈمیں ’ترقی‘ کاسراب

جیسا کہ ماضی میں ویت نام اور حال میںافغانستان میں ،وہ امریکی جرنیل، جنھوں نے موروں کے خلاف جنگ لڑی، ہمیشہ سے عوام کویہی سمجھا یا تھا کہ ’’کامیابیاں حاصل ہورہی ہیں اور  یہ کہ فتح اب حاصل ہوا ہی چاہتی ہے‘‘۔ اب مورولینڈ کی طرح افغانستان کی نہ ختم ہونے والی جنگ نے سیاست دانوں اور یکساں طور پر طالع آزما جرنیلوں کی حسرتوں کو نگل لیا ہے۔ جس کی ایک وجہ ماضی کی طرح یہ رہی ہے کہ تنازع بڑی حد تک عوامی نگاہ سے ماورا نمٹانا چاہا۔    
اگر فلپائن کے جزائر میں وسیع پیمانے پر یورش دب جاتی ہے، تو اکثر امریکی، وطن سے ہزاروں کلومیٹر دُور جنگ کے تماشے میں دل چسپی کھو دیں گے۔موروں کے خلاف جنگ میں شامل جرنیلوں (’دہشت گردی‘ کے خلاف جنگ کی طرح) کو زیادہ تر نظرانداز کیا گیا۔ حیرت ناک بات یہ ہے کہ امریکا میں بہت سے لوگوں کو یہ احساس تک نہیں کہ فلپائن میں کوئی جنگ جاری ہے۔
ایک کہنہ مشق جرنیل نے وہاں سے اپنے گھرو اپسی پر استقبالیہ دوستوں کو یوں مخاطب کیا: ’’خوشی بھرے ہاتھوں کے بجاے لوگ خاکی وردی میں ملبوس مجھے یوں گھور رہے ہیں کہ جیسے چڑیاگھر سے بچ کر واپس آیا ہوں‘‘۔جنگ میں نسبتاً کم امریکی جانی نقصان کی وجہ عوام میں بے حسی تھی۔ ۱۹۰۹ء اور۱۹۱۰ء کے برسوںمیں باقاعدہ امریکی فوج کے محض آٹھ فوجی ہلاک ہوئے، جب کہ اسی طرح افغانستان میں۲۰۱۶ء-۲۰۱۷ء کے دوران محض ۳۲فوجی ہلاک ہوئے۔ضرورت اس بات کی تھی کہ مورولینڈکا دورہ کیا جاتا، جس طرح آج افغانستان کا دورہ کر لیا جاتا ہے۔ لیکن مورولینڈ اس قابل نہیں کہ سنجیدہ قومی توجہ یا جنگ کی وسیع پیمانے پر مخالفانہ توجہ حاصل کر سکے۔
حال ہی میں ایسا انکشاف واشنگٹن پوسٹ کے وہائٹ لاک کی طرف سے ہوا کہ جب وہ افغانستان کے زمینی حقائق کا مشاہدہ کرکے واپس آیا۔مستقبل کے پانچ آرمی چیف اپنے سیاسی آقاؤں اور عوام کے ساتھ مسلسل سفید جھوٹ بولتے رہے۔ وہ بدحواسیوں کے مرتکب ہوئے، جب کہ انھوں نے عوام کو ’کامیابی‘ کے سبزباغ دکھائے۔ ادناشیفے،لیونراڈ ووڈ،ہف سکاٹ،تاسکر بلس اور جان پرشنگ جنھیں امریکی فوج میں بہت زیادہ مقبولیت حاصل رہی، قوم کو مسلسل یقین دہانی کراتے رہے کہ ’’موروں کے خلاف جنگ میں فتح اب ہمارے ہاتھوں کی گرفت میں ہے‘‘۔ مگر ایسا کبھی نہیں ہوا اور نہ ہو سکے گا۔موروں کے خلاف امریکی جنگ کے خاتمے کے ۱۰۶ برس بعد بھی، واشنگٹن پوسٹ نے یہ بتایا ہے کہ ’’ہمارے موجودہ دور میں بھی کس طرح ایک کے بعد دوسرے کمانڈروں اور امریکی حکام نے ایک نہایت طویل جنگ میں کامیابی کے حوالے سے شہریوں کے سامنے مسلسل جھوٹ بکا۔ اس لحاظ سے اس دور کے مختلف جرنیلوں، مثلاً ڈیوڈپیٹریاس، سٹینلے میک کرسٹل، مارک ملے وغیرہ نے بھی لیونارڈووڈ، ٹاسکر بلس کی طرح پریشان کن خبریں تخلیق کیں‘‘۔
اکتوبر ۱۹۰۴ءمیں،لیونراڈ ووڈ نے لکھا تھا کہ’’ مورو کا معاملہ بخوبی طے کر دیا گیا ہے‘‘۔ بعدازاں جون ۱۹۰۶ءمیں،ایک باغی رہنما راتوعلی کو گرفتار اور ہلاک کر دیا گیا۔ تب کولیرز نامی جریدے نے’راتو علی کا انجام:موروجنگ کی آخری جنگ‘ کے عنوان سے ایک ہوش ربا مضمون شائع کیا۔
بڈڈاجوکے بعد، ٹاسکربلس نے ووڈ کی فوجی کارروائیوں کی رفتار مدھم کر دی، مورولینڈ کا تفصیلی دورہ کیا اور کہا تھا:’’ ’نسل درنسل جنگ‘ کے مانند ایک ایسی ممکنہ مہم ، جو صوبے کو مکمل طور پرمطیع کرنے کے لیے ضروری تھی‘‘۔۱۹۰۶ء میں اس نے موروں کو ’وحشی‘اور’مسلمانوں‘کے لقب سے پکارتے ہوئے کہا کہ ’’انھیں محض چند برسوں میں تبدیل نہیں کیا جا سکتا اور امریکی عوام کو فوری نتائج کی توقع نہیں کرنی چاہیے، کہ جس طرح اپنا مقصد حاصل کرنے کی خاطر ایک صدی یا زیادہ مدت درکار ہوتی ہے‘‘۔ بلاشبہہ،مور،آج بھی عرصۂ درازسے منیلا میں مقیم امریکی اور ان کے حلیف فلپائنی فوجیوں کے خلاف، ایک حقیقی’نسل درنسل جنگ‘ لڑرہے ہیں۔

تب اوراب

۱۹۱۳ء میں جولو میں امریکی سربراہی میں لڑی گئی آخری بڑی جنگ،بڈڈاجو کی تکرار ثابت ہوئی،جب سیکڑوں مور، بڈباگسک کے ایک اور دہانے کے اُوپر چڑھ گئے۔ پرشنگ، جس نے ووڈ کے ان ہتھکنڈوں اور حکمت عملیوں پر تنقید کی تھی، ایک دفعہ پھراس نے ایک انتہائی غیرانسانی اور بے رحم فوجی کارروائی انجام دینے کے لیے پہلے بات چیت کا جال بچھایا، اسی دوران ناکہ بندی کا اہتمام کیا۔ پھر آخر میں اس نے پہاڑ کی چوٹی پر فوجی یلغار کر کے تقریباً ۲۰۰ تا ۳۰۰ مرد،خواتین اوربچے ہلاک کر دیے۔ پرشنگ کی فوج کی بھاری اکثریت فلپائنی تھی، جس کی قیادت امریکی افسران کے ہاتھ میں تھی۔ یہی حکمت عملی افغانستان میں مقامی فوجیوں کے ذریعے اپنائی گئی،  جس کے باعث ان ناکام جنگوں میں دونوں جگہ،امریکی فوجیوں کو بہت کم نقصان پہنچا۔
اگرچہ موجودہ فوجی افسران اور بعد کے مؤرخین کا دعویٰ تھا کہ بڈباگسک کی لڑائی نے مورومزاحمت کی کمر توڑ دی، لیکن ایساکم ہی ہوا۔ اس کے بعد فلپائنی فوجیوں ہی کو تقریباً تمام اموات کا سامنا کرنا پڑا،جب کہ امریکی فوجی آہستہ آہستہ میدان جنگ سے غائب ہوکر پس پردہ تماشائی بن گئے۔
مثال کے طورپر جب کل جانی نقصان کااندازہ لگایاگیا، تو۱۹۱۳ءکاسال موروجنگ کا حقیقی طورپرخوں ریزترین برس تھا کہ جس طرح۲۰۱۸ء، جنگ افغانستان کاخوںریزترین برس تھا۔ ۱۹۱۳ء کے اواخرمیں،پرشنگ نے صوبے کے مستقبل کے متعلق غیریقینیت کاخلاصہ یوں پیش کیا: ’’جوچند کامیابیاں حاصل کیں اور بزورِ قوت ایک حکومت بھی قائم کرلی مگر اس کو کیسے چلایا جائے، اس کاابھی تک تعین نہیں کیا جاسکا‘‘۔ اور سچی بات یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ کے تنازعات،مورواور افغانستان کہیں بھی ہماری کامیابی کا تعین نہیںکیاجاسکا۔
منیلامیں فلپائنی حکومت، باغی موروں کے خلاف جنگ جاری رکھے ہوئے ہے۔آج بھی، دوتنظیمیں’اسلامی ابوسیاف‘ اور’علیحدگی پسندمورواسلامک لبریشن فرنٹ‘ ___وہاںمرکزی حکومت کے تسلط کے خلاف مزاحمت کررہی ہیں۔ نائن الیون کے بعد،امریکی فوج نے ایک دفعہ پھر مورولینڈ میںمداخلت کی اور فلپائنی فوجی یونٹس کی مشاورت اورمعاونت کے لیے سپیشل فوجی دستے بھجوائے۔
۲۰۰۳ء میں جب امریکی افواج جولوکے مرکزی ہوائی اڈے پراتریں،تو ان کا استقبال ایک بینرکی اس تحریر سے کیا گیا تھا:’’ہم تاریخ کو دُہرانے کی اجازت نہیں دیں گے!یہاں سے واپس چلے جاؤ‘‘۔جولوکے ریڈیواسٹیشن نے روایتی منظوم قصّے نشرکیے، اورایک گلوکارنے یہ گیت گایا،’’ہم نے سناکہ امریکی یہاں آرہے ہیں اورہم تیارہورہے ہیں۔ہم اپنی تلواریں تیزکررہے ہیں تاکہ جب وہ آئیں،تو ہم انھیںذبح کردیں‘‘۔
مورو مسلمانوں کے خلاف امریکی مہم،خود امریکا کے لیے بدقسمتی کاموجب ثابت ہوئی ہے۔ایک صدی سے زیادہ عرصے بعد ا س کے فوجی وہیں واپس آ گئے، جہاں سے انھوں نے آغاز کیا تھا،اور ایک دفعہ پھر غضب ناک آزاد مقامی افراد کی طرف سے ان کے خلاف ناراضی کا اظہار ہورہا ہے (CounterPunch ، پٹرولیا، کیلے فورنیا، امریکا، ۱۹دسمبر ۲۰۱۹ء، ترجمہ: ادارہ)۔

حال ہی میں جب، بھارت کے شمال مشرقی صوبہ آسام میں غیر ملکیوں کو ملک بدر کرنے سے قبل ان کی شناخت کا مرحلہ سات سال بعد اختتام پذیر ہوگیا، تو اس کے نتائج حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی، یعنی بی جے پی کے لیے سانپ کے منہ میں چھچھوندر والا معاملہ بن گیا تھا ۔ سپریم کورٹ کی مانیٹرنگ میں سات سال کی عرق ریزی کے بعد صوبہ آسام کی۳کروڑ ۳۰ لاکھ آبادی میں ایک تو محض ۱۹لاکھ ۶ ہزار افراد ہی ایسے پائے گئے، جو شہریت ثابت نہیں کرسکے۔ دوسرا بتایا گیا کہ ان میں سے بھی ۱۱ لاکھ افراد ہندو اور صرف ۸لا کھ ہی مسلمان ہیں۔اس خفت کو مٹانے کے لیے وزیراعظم نریندر مودی نے حال ہی میں پارلیمنٹ سے متنازعہ شہریت ترمیمی ایکٹ (CAA) پاس کروایا، جس کے مطابق ۱۳دسمبر۲۰۱۴ء تک افغانستان، بنگلہ دیش اور پاکستان سے بھارت آئے غیر مسلم پناہ گزینوں ہندو، سکھ، بودھ، جین ، پارسی اور عیسائی افراد کو بھارتی شہریت دلانے کا انتظام کیا گیا ہے۔ اس کا فوری اثر آسام میں یہ ہوگا کہ صوبے میں نیشنل رجسٹریشن آف سٹی زنز (NRC) کی زد میں جو گیارہ لاکھ غیر مسلم افراد آئے تھے، وہ اب خودبخود شہریت کے حق دار ہوگئے۔صرف مسلمانوں کو ہی اب ٹریبونل اور عدالتوں کے چکر کاٹ کر اپیل دائر کرکے شہریت ثابت کرنی ہوگی۔ بصورتِ دیگر ان کو بے ریاست شہری قرار دے کر، ان کو شہری حقوق ، یعنی ووٹ ڈالنے ، سرکاری نوکریوں وغیرہ سے محروم کرکے، ملک سے باہر دھکیلنے کا عمل شروع کیا جائے گا۔

اگر یہ موجودہ قانون واقعی پڑوسی ممالک کی اقلیتوں کو تحفظ دینے کے ارادے سے وضع کیا گیا ہوتا، تو اس میں کچھ مضائقہ نہیں تھا۔ مگر ایک ملک جو پچھلے۷۰برسوں سے ’مہاجرین کے بارے پالیسی‘ نہیں بنا سکا ہے، وہ اچانک مہاجرین یا تارکینِ وطن اور پڑوسی ممالک کی ہراساں اقلیتوں کا محافظ کیسے بن گیا؟جنوبی ایشیا میں اگر ہندو کہیں قابلِ رحم حالت میں ہیں، تو وہ سری لنکا میں ہندو تامل اقلیت ہے۔ آخر ان کو اس قانون کے دائرے سے باہر کیوں رکھا گیا ہے؟ ان سبھی سوالوں کا جواب یہی ہے کہ یہ قانون، پورے ملک میں این آر سی لاگو کرنے کی سمت میں پہلا قدم ہے، جس کے مضمرات مسلمانوں کے لیے تشویش ناک ہیں۔ پورے ملک میں این آر سی کا نفاذ ۲۰۲۴ء تک مکمل کرلیا جائے گا۔ اس کی رُو سے ملک کے ہر شہری کو اپنی بھارتی شہریت ثابت کرنی ہوگی۔ اب اگر کوئی غیر مسلم دستاویزات کی عدم موجودگی کے باعث شہریت ثابت نہیں کر پاتا ہے، تو حالیہ قانون کی رُو سے وہ خودبخود شہریت کا حق دار ہوگا۔ لیکن اگر اس کی زد میں مسلمان آجاتا ہے تو وہ بے وطن شہری قرار دیا جائے گا۔ دوسرے لفظوں میں ۱۸ کروڑ مسلم آبادی کی ایک کثیرتعداد کی شہریت پر سوالیہ نشان کھڑا ہوجائے گا۔ ایوان زیریں، یعنی لوک سبھا میں یہ قانون آدھی رات کے وقت پاس ہوگیا۔

شہریت ثابت کرنے کے لیے پاسپورٹ، ووٹر کارڈ یا قومی شناختی کارڈ کی کوئی وقعت نہیں ہے، بلکہ دادا یا نانا کی جایداد کے کاغذات جمع کرانے ہوں گے اور پھر ان سے رشتہ ثابت کرنا ہوگا۔ جس گاوٗں ، دیہات یا محلے میں آبا و اجداد رہتے تھے، وہاں سے کاغذات لانے ہوں گے۔ اگر ان دستاویزات میںاسپلنگ وغیرہ مختلف ہوں، تو بے وطن شہری کہلوانے کے لیے تیار رہیں۔آسام میں تو ایسے افراد حراستی کیمپوں میں ہیں، جن کے نام میں محمد کی اسپلنگ انگریزی میں کہیں ’ایم یو‘ تو کہیں ’ایم او‘ہے۔ بس اسی فرق کی وجہ سے ان کی شہریت مشکوک قرار دی گئی ہے۔ خواتین کے معاملے میں شہریت کے ثبوت کے طور پر گاؤں پنچایت کے سرٹیفکیٹ کو تسلیم نہ کیے جانے کا فیصلہ بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد ہوا ۔ یاد رہے کہ تناسب کے اعتبار سے بھارت میں جموں و کشمیر کے بعد مسلمانوں کی سب سے بڑی آبادی آسام میں ہے۔۹ ؍اضلاع میں تو ان کی واضح اکثریت ہے، جو فرقہ پرستوں کی آنکھوں میں کھٹکتی آرہی ہے۔

حکمران بی جے پی ایک طرح سے بھارت کی مسلم اقلیت سے انتقام لے رہی ہے۔ بھارت کی ۵۴۳لوک سبھا کی سیٹوں میں سے ۱۲۵کے قریب ایسی سیٹیں ہیں ، جہاں مسلمان ۱۵فی صد یا اس سے زیادہ ہیں۔ پارلیمانی طریقۂ جمہوریت اور امیدواروں کی کثرت کی وجہ سے ، ان سیٹوں پر مسلم ووٹ ا نتخابی نتائج پر اثر انداز ہوتا تھا۔ ہندو قوم پرستوں کو شکایت ہے کہ ۲۰۱۴ء سے قبل ان کو اقتدار سے باہر رکھنے میں مسلم ووٹ نے براہ راست کردار ادا کیا ہے۔۲۰۱۴ء اور ۲۰۱۹ءمیں بی جے پی نے ہندو ووٹروں کو خاصے سبزباغ دکھا کر یک جا تو کیا، مگر اقتصادی مندی اور دیگر  عوامل ووٹروں کی خاصی تعداد کو ان سے بدظن کرنے والے ہیں۔ اس سے پہلے کہ ایک بار پھر مسلم ووٹروں کے ساتھ مل کر بی جے پی کو اقتدار سے بے دخل کرواکے اس کو تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیا جائے، ضروری سمجھا گیا ہے کہ ان کی کثیر تعداد کو شہریت ثابت کروانے کے نام پر حق راے دہی سے محروم کرایا جائے۔

جب آسام میں بی جے پی کے دعوؤں کے برعکس محض۱۹ لاکھ افراد ہی شہریت ثابت نہیں کرپائے، تو بی جے پی کے لیڈروں نے بتایاکہ ’’بنگلہ دیشی دراندازوں کی شناخت کے لیے پورے ملک میں غیر ملکی دراندازوں کی شناخت کا کام شروع ہونا چاہیے‘‘۔ اپنی دوسری مدت میں ایک سال سے بھی کم وقفے میں جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کی منسوخی، بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کا راستہ صاف کرنا، اور اب پورے بھارت میں این آر سی لاگو کرکے مودی نے یہ ثابت کردیا ہے کہ ان کے جو بھی انتخابی نعرے تھے وہ محض نمایشی دعوے نہیں تھے۔ وہ ایک ایک کرکے ان کو  رُوبۂ عمل لا رہے ہیں۔ پاکستان کو سبق سکھانا اور آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفر آباد پر بھارتی ترنگا لہرانا بھی ان کا ایک انتخابی نعرہ ہے۔

اس قانون کو پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں پیش کرتے وقت وزیر داخلہ امیت شا نے خاصی دروغ گوئی سے کام لیا اوراپنی تقریر کے دوران یہ تک کہا کہ ’’آپ چاہتے ہیں کہ بھارت کو مسلم پناہ گزینوں کا مرکز بنادیا جائے۔آپ کو معلوم ہے کہ یہاں ہندوؤں کی آبادی گھٹ رہی ہے اور مسلمانوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔آبادی کے عدم توازن کو دور کرنے کے لیے پڑوسی ملکوں سے ہندوؤں کو یہاں لاکر بسایا جائے گا‘‘۔ اس کے علاوہ انھوں نے پڑوسی ممالک میں اقلیتوں کے خلاف ہوئے ’مظالم‘ کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا: ’’پاکستان میں۱۹۴۷ء میں اقلیتوں کی آبادی ۲۳فی صد تھی، جو ۲۰۱۱ءمیں گھٹ کر۷ء۳ فی صد رہ گئی ہے۔ اسی طرح بنگلہ دیش میں ۱۹۴۷ء میں اقلیتوں کی آبادی ۲۲فی صد تھی، جو ۲۰۱۱ء میں کم ہوکر۸ء۷ فی صد رہ گئی ہے۔ کہاں گئے یہ لوگ؟ یا تو ان کو مار دیا گیا ہے، یا ان لوگوں کا زبردستی مذہب تبدیل کرایا گیا ہے، یا بھارت بھگا دیے گئے ہیں‘‘۔

مردم شماری کے اعداد و شمار ہی ان کے جھوٹ کا پول کھول دیتے ہیں۔۱۹۵۱ء میں جب پہلی بار متحدہ پاکستان میں مردم شماری ہوئی تو غیر مسلم آباد کا تناسب ۱۴ء۲۰ فی صد تھا۔ مغربی پاکستان میں اقلیتی آبادی کا تناسب۳ء۴۴ فی صد،جب کہ مشرقی پاکستان حال بنگلہ دیش میں۲۳ء۲۰ فی صد اقلیتیں آباد تھیں۔ پاکستان میں ۱۹۷۱ءکی مردم شماری کے مطابق غیر مسلم آبادی ۳ء۲۵ فی صد ریکارڈ کی گئی۔ اسی طرح ۱۹۸۱ءمیں۳ء۳۰فی صد اورپھر ۱۹۹۸ء میں اقلیتی آبادی۳ء۷۰ فی صدپائی گئی۔ پاکستان میں ۲۰۱۷ء میں ہوئی مردم شماری کے نتائج ابھی شائع نہیں کئے گئے ہیں۔ ان اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں اقلیتی آبادی کا تناسب کم و بیش وہی ہے، جو ۱۹۴۷ء میں تھا۔ ایک طرح سے۳ء۴۴فی صد سے بڑھ کر۳ء۷۰ فی صد ہو گیا ہے۔

بنگلہ دیش میں اقلیتی آبادی میں بتدریج کمی آگئی ہے۔۱۹۷۴ءکی مردم شماری کے مطابق غیر مسلم آبادی کی شرح ۱۴ء۶۰ فی صد تھی، جو ۱۹۸۱ء میں۱۱ء۷۰ فی صد ، ۲۰۰۱ء میں ۱۰ء۴۰فی صد اور پھر ۲۰۱۱ء میں۹ء۶ فی صد ریکارڈ کی گئی۔مراد یہ ہے کہ مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) میں   ۱۹۵۱ء اور ۲۰۱۱ء کے درمیان غیر مسلم اقلیتی آبادی ۲۳ء۲۰ فی صد سے گھٹ کر۹ء۶ فی صد رہ گئی ہے۔ بنگلہ دیش کے وجود میں آنے کے بعد لسانی اقلیتوں کے ساتھ تشدد کے جو واقعات پیش آئے ، اس کی وجہ سے چٹاگانگ پہاڑی علاقوں کے چکمہ اور ہزونگ قبائلی مسکین بھارت میں پناہ گزیں ہوگئے تھے۔ معاشی بدحالی کے شکار اور روزگار کی تلاش میں بھی دونوںہندو اور مسلمان بنگالی، بھارت منتقل ہوگئے ہیں۔ مگر یہ دعویٰ کرنا کہ بھارت اور پاکستان میں خوف و ہراس کی وجہ سے غیر مسلم آبادی کا تناسب تبدیل ہوا ہے، حقیقت سے دُور ہے۔ ۱۹۷۱ء میںسقوط مشرقی پاکستان کے وقفے کے دوران خود بھارتی حکومت کے عالمی دعوؤں کے مطابق تقریباً ’’ایک کروڑ مشرقی پاکستانی بنگالی، افراد ہجرت کرکے بھارت کی شمال مشرقی ریاستوں میں بس گئے تھے‘‘۔ پاکستان کو سفارتی سطح پر زچ کرنے کے لیے سرحدیں کھول دی گئیں تھیں اور اس طرح کی ہجرت کی حوصلہ افزائی خود بھارت ہی کر رہا تھا اور اس عنوان سے دنیا بھر سے ڈالر بٹور رہا تھا۔

بابری مسجد پر سپریم کورٹ کے فیصلے اور پھر نظرثانی کی درخواست کو چند منٹ میں خارج کردینے، اور اب بڑی تیزی سے اس شہری قانون کی منظوری نے بھارتی مسلمانوں کو خوف اور تذبذب میں مبتلا کر دیا ہے۔ ان کے لیڈران جس سیکولرزم کا دم بھر کر اور اپنے آپ کو محب وطن ثابت کروانے کے لیے ، پڑوسی ممالک کو تنقید کا نشانہ بناتے تھے، ان کو معلوم ہے کہ اس سیکولرزم کا بھرم ٹوٹ چکا ہے۔ اس اضطراب کی کیفیت میں لازم ہے کہ مسلمان ان چہروں کو یاد رکھیں، جنھوں نے پارلیمنٹ میں اور پارلیمنٹ سے باہر اس قانون کی حمایت کی تھی۔
جمعیت علما ے ہند کے سربراہ مولانا محمود مدنی صاحب کو بھی یاد رکھیں،جنھوں نے اس قانون کی کھلے عام حمایت کی تھی۔ اس دوران علی گڑھ ، جامعہ ملیہ اسلامیہ او ر دیگر اداروں میں مسلم طلبہ اور نوجوانوں نے جس طرح اس قانون کے خلاف رد عمل دکھایا اور قربانیاں دیں اور پورے ہند کو ہلاکر رکھ دیا۔ اس کے بعد جمعیت علما ے ہندکے رہنماؤں: چچا ارشد مدنی صاحب اور بھتیجے محمود مدنی صاحب نے پلٹا کھایا اور مظاہروں کے چند ہی روز بعد نئی دہلی کے جنتر منتر پر مولانا محمود مدنی صاحب نے خطاب میں کہا: ’’یہ قانون ملک کے دستور کو پامال کرنے والا ہے۔ ہم اس کو مسلمانوں کے خلاف نہیں بلکہ ملک کے خلاف سمجھتے ہیں۔ میں نوجوانوں سے امن و امان قائم رکھنے کی اپیل کرتا ہوں‘‘۔ اہلِ نظر اسے ایک غچہ ہی سمجھتے ہیں۔ واضح رہے کہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں یہ متنازعہ بل پیش کیے جانے سے قبل محمود مدنی صاحب نے اس بل کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہاتھا: ’’اگر بھارت سرکار، پاکستان اور دیگر ملکوں کی اقلیتوں کو شہریت دینا چاہتی ہے تو یہ غلط نہیں ہے، تاہم مسلمانوں کو یہاں شہریت دینے جانے کے ہم خلاف ہیں اور سرکار کا یہ قانون غلط نہیں ہے‘‘۔ بھارت کے مسلمانوں کو اپنی بقا اور اپنی عزت نفس کی بحالی کے لیے ان حضرات گرامی کے بیانات اور حکمت عملی کے جادو سے نکلنا ہوگا۔ یہ کب اور کس وقت ان کو بیچ منجدھار چھوڑ کر مفادات کے پلڑے کی طرف جھک جائیں، کچھ نہیں کہا جاسکتا۔

ہندو قوم پرست حکمران بی جے پی نے شہریت ترمیمی قانون کا گڑھا تو مسلمانوں کے لیے ہی کھوداتھا ، مگر اس کے خلاف سب سے زیادہ ردعمل شمال مشرقی ریاستوںخصوصاً آسام میں دیکھنے کو ملا۔۱۹۸۵ء میں اس وقت کے وزیر اعظم راجیو گاندھی اور آسام کے لیڈروں کے درمیان معاہدے میں طے پایا تھا: ’’مارچ ۱۹۷۱ءسے قبل آئے غیر ملکیوں کو بھارتی شہریت تفویض کی جائے گی اور اس کے بعد آنے والوں کو شہریت کی فہرست سے خارج کیا جائے گا‘‘۔مگر موجودہ قانون کے مطابق غیر مسلم پناہ گزینوں کے لیے اس کا دائرہ اب۲۰۱۴ء تک بڑھادیا گیا ہے۔ مغربی بنگال، کیرالہ اور پنجاب جیسی ریاستوں نے اپنے یہاں اس قانون کو نافذ نہ کرنے کا اعلان کردیا ہے۔

دل چسپ بات یہ ہے کہ یہ قانون بظاہر آسام کے قدیم باشندوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے بنایا گیا تھا، مگر اسی ریاست میں اس کی سب سے زیادہ مخالفت ہوئی ہے۔ صوبے کا نظام پوری طرح درہم برہم ہوگیا ہے۔نقل وحمل کے تمام ذرائع ٹھپ ہوگئے۔راشٹریہ سیوک سیویم سنگھ، یعنی آرایس ایس اور بی جے پی کے لیڈر، جنھوں نے آسام میں غیر ملکی دراندازوں کا مسئلہ اٹھا کر این آر سی کو نافذ کرایا تھا، ان کی جان پر بن آئی ہے۔بھارت کے مختلف صوبوں کے باشندوں کو اپنی زبان ،تہذیب،ثقافت اور علاقائی شناخت سب سے زیادہ عزیز ہے اور وہ اس معاملے میں مذہب کو بھی ثانوی حیثیت دیتے ہیں۔

حکمراں بی جے پی کا خیال تھا کہ وہ ملک کے عوام کو ’ہندوتوا‘ کی ڈور میں پرو کر ان تمام اختلافات اور تضادات کو ختم کردے گی ، لیکن اس کا خیال بالکل غلط ثابت ہوا ہے کیونکہ شمال مشرقی ریاستوں آسام ،تری پورہ ،منی پور ،میگھالیہ ،میزورم اور ارونا چل پردیش کے با شندوں نے اس قانون کے خلاف طوفان کھڑا کردیا ہے ۔ ان صوبوں کے اصلی با شندوں کو یہ خوف ستا رہا ہے کہ شہریت کے ترمیمی قانون کا فائدہ اٹھا کر بنگلہ دیش کے بنگالی ہندو ان کے علاقوں میں بُری طرح چھا جائیں گے۔یہ لوگ لاکھوں کی تعداد میں یہاں آچکے ہیں اور ان کی آمد کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔احتجاجی تحریک کے دوران آسام کے وزیراعلیٰ اور ان کے کابینی رفقا اور بی جے پی لیڈروں کے گھروں پر ہی حملے نہیں ہوئے ہیں، بلکہ آرایس ایس کے دفتروں کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔

’ہمارے ملک میں جھوٹ نہ صرف ایک اخلاقی درجہ حاصل کر چکا، بلکہ ریاست کا ایک ستون بن چکا ہے‘۔(الیگزنڈر سولزے نٹسن)
رواں ہفتے کے دوران مؤقر روزنامہ واشنگٹن پوسٹ نے ایک انتہائی دھماکا خیز خبر کا انکشاف کیا، جس کے مطابق [امریکی دفاعی مقتدرہ] ’پینٹاگان‘ کی طرف سے جاری کردہ دوہزار صفحات پر مشتمل ایک خفیہ اطلاع میں افغانستان میں امریکا کی طویل ترین جنگ کی ناکام حکمت عملی کے متعلق تفصیلات مہیا کی گئی ہیں۔

واشنگٹن پوسٹنے اپنی خبر کا اختتام ان الفاظ کے ساتھ کیا: ’’امریکی افغانستان کی جنگ کے متعلق مسلسل جھوٹ بولتے رہے ہیں‘‘۔یہی بات مَیں نے۲۰۰۳ء میں American Conservative نامی جریدے میں کہی تھی، جب امریکا نے افغانستان پر حملہ کیا اور کہا تھا:’’ہم جو کچھ کر رہے تھے،ہمیں اس کا ذرہ بھر اندازہ نہیں تھا‘‘۔ اس امر کااعتراف تین ستارہ جرنیل جنرل ڈوگلس لیوٹ کی طرف سے کیا گیا ہے، جس نے امریکی صدرجارج بش اور صدرباراک اوباما کے اَدوارِ حکومت میں افغانستان میں امریکی افوج کی کمان کی۔ امریکا نے ایک دور افتادہ جنوبی ایشیائی ملک میں تکبر اور جہالت پر مشتمل انتہائی ظالمانہ قوت کے ساتھ حکمت عملی اپنائی۔ افغانستان پر حملہ،امریکا کے خلاف نائن الیون کے حملوں کا انتقام تھا۔جیسا کہ اس مضمون نگار نے افغانستان میں تازہ ترین صورت حال کا مشاہدہ کیا۔اس کے مطابق افغانستان میں اسامہ بن لادن کے دہشت گردانہ تربیتی کیمپوںکی موجودگی محض جھوٹ کا ایک پلندا تھا کیونکہ نائن الیون کی منصوبہ بندی سرے سے افغانستان میں نہیںکی گئی تھی۔

طالبان’دہشت گرد‘نہیں تھے۔وہ ہلکے اسلحے سے مسلح ایسے قبائلی جنگجو تھے، جو ڈاکوؤں اور امریکی نواز افغان خفیہ ادارے کے خلاف لڑ رہے تھے، جس کا انتظام کمیونسٹ پارٹی کے ہاتھ میں تھا۔طالبان کے سرپرست مجاہدین،کی پذیرائی سابق امریکی صدر رونالڈریگن نے ’حریت پسند‘ کہتے ہوئے کی تھی۔ ۲۰۰۳ء میں امریکیوں نے اپنی حکمت عملی یکسر تبدیل کرکے افغانستان کے کمیونسٹوںکی حمایت شروع کر دی، جنھوں نے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ امریکی پائپ لائن کو وسطی ایشیا کے تیل سے بھرپور بحیرئہ کیسپین کے علاقے سے پاکستان کے ساحل تک پہنچانے کی اجازت دیں گے۔لیکن جب طالبان نے اس گھٹیا امریکی پیش کش کو قبول کرنے سے انکار کر دیا تو قوم پرست،منشیات مخالف تحریک،جس نے افغانستان کی بے حرمتی کے خلاف جنگ کی تھی، کو’دہشت گرد‘قراردے دیا گیا۔

امریکی سرپرستی میں افغانستان میںقائم حکومت،بنیادی طور پر سی آئی اے کے حلیفوں یعنی: جنگجو سرداروں، منشیات کے بڑے بڑے سوداگروں اورکمیونسٹوں کا ایک حصہ تھی۔ کرایے کے فوجیوں کی خدمات حاصل کرنے اور جنگجو سرداروں اور جرائم پیشہ افراد کو مالی رشوتیں ادا کرنے کی خاطر امریکا نے اربوں ڈالر لٹا دیے۔اس طرح افغانستان میں جرائم پیشہ،امریکا کے اتحادی بن گئے۔

جب افغانستان میںطالبان برسراقتدار تھے،اس وقت اندازاًافغانستان میں مارفین اور ہیروئن کی ۹۰ فی صد تجارت کا خاتمہ ہو چکا تھا۔جب امریکا نے کابل پر قبضہ کیا اور یہاں اپنی کٹھ پتلی حکومت قائم کی،تو اسی افغانستان سے منشیات کی پیداوار میں ماضی کی نسبت کہیںزیادہ اضافہ ہوگیا۔ امریکی افواج اور ان کے اتحادی منشیات کی تجارت میں سرتاپاؤں ڈوب گئے۔ آج،امریکا نوازافغانستان کی حکومت،دنیاکی سب سے بڑی منشیات کی سوداگر ہے۔

اُن صحافیوں کی طرح کہ جن کا اصراریہ تھا: ’’افغانستان کے متعلق سچ بولناچاہیے‘‘، کو فارغ کر دیا گیا یا پھر انھیں نظرانداز کردیا گیا۔مجھے سی این این نے اس لیے ملازمت سے نکال دیا کیوںکہ میں نے ان جھوٹے دعوؤں کی تردید کی کہ’’ عراق میں وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار موجودہیں‘‘۔اوریہ کہ’’ امریکا ’جنگِ افغانستان‘جیت رہاہے‘‘۔مجھے یہ دعویٰ کرنے کے باعث بعض ریڈیو اور ٹی وی چینلوں پر آنے سے منع کر دیا گیا کہ داعش(ISIS) فی الحقیقت مغرب ہی کی اختراع ہے جس کی معاونت ترکی،امریکا،فرانس،برطانیہ اور اسرائیل کرتے ہیں۔مجھے ایسا سچ بولنے کی پاداش میں ’انقلابی‘قرار دیا گیا۔

یہ مثالیں اس لیے بیان کر رہا ہوں تاکہ ان الزامات کی تصدیق ہو سکے، جو واشنگٹن پوسٹکی طرف سے امریکی حکومت اور فوج پر عائد کیے گئے ہیں کہ: ’’افغانستان کا تمام تر تنازع محض جھوٹ اور نیم دروغ گوئیوں کا پلندا ہے، جسے امریکی حکومت نے اس لیے گھڑا، تاکہ ایک کمزور،پسماندہ قوم کے خلاف ظالمانہ جنگ کی توجیہہ پیش کی جا سکے جس نے اسٹرےٹیجک پائپ لائن کے ہمارے مطالبا ت سے انکار کی جرأت اور گستاخی کی‘‘۔

خود اسی واشنگٹن پوسٹنے ان دروغ گوئیوں کو آگے بڑھانے اور فروغ دینے میں ایک اہم کردار ادا کیا، جنھوں نے عراق پر امریکی حملے کا دروازہ کھول دیا تھا۔ آج، واشنگٹن پوسٹ  اپنے انھی گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کی خاطر ان تمام دروغ گوئیوں کا انکشاف کر رہا ہے، جن کی بنیاد پر امریکا افغانستان پر حملہ آور ہوا اور اس جنگ میں ہزاروں امریکی ہلاک یا زخمی ہوئے۔ پھر امریکیوں نے وسیع پیمانے پر اذیت رسانی کا سلسلہ شروع کیا، ملک میں خوراک کی قلت واقع ہو گئی،وسیع پیمانے پر شہری قتل ہوئے اور جنگ کی دیگر ہولناکیوں نے جنم لیا۔
’پینٹاگان‘ کی اطلاع کے مطابق: ’’امریکا نے کم از کم ایک کھرب ڈالر افغانستان کی جنگ پر ضائع کیے ہیں، جب کہ کثیر تعداد میں ہلاکتیں ہوئیں،بے شمار زخمی ہوئے۔دیہات کے دیہات تباہ کر دیے گئے،جانوروں کو ان کے باڑوں میں مشین گنوںسے بھون دیا گیا اور آبادی پر کیمیائی ہتھیار استعمال کیے گئے۔امریکی بمباری ہی معمول بن گئی۔ہم افغانستان کے دیہات پر امریکی بی ون اور بی باون جنگی طیاروں کی شرمناک کارپٹ بمباری کے مناظر اکثر دیکھتے ہیں اور پھر’اے سی ۱۳۰ ‘ ہیلی کاپٹروں کی بلاامتیاز گولیوں کی بارش کا بھی مشاہدہ کرتے ہیں، جو افغانستان کے قبائیلیوں اور شادی بیاہ کی تقریبات پر بوچھاڑ کی صورت میں داغی جاتی ہیں۔ کمیونسٹ روسی تو محض بے رحم تھے لیکن ہم نے بے رحمی کی تمام حدود پھلانگ لی ہیں۔
بیش تر امریکی میڈیا نے افغانستان کے عوام کے خلاف امریکی جنگ کو بہت آگے بڑھایا ہے اور تمام امریکی ظلم وستم اور سنگین دروغ گوئیوں پر ہمیشہ پردہ ڈالا ہے۔یہ جنگ بہت ہی بڑی قاتل مشین بن چکی ہے، جو سیاست دانوں اور فوجی ٹھیکے داروں کو مالامال کر رہی ہے۔ ماضی کے امریکی صدور، جنھوں نے دنیا کی ایک غریب ترین، انتہائی پس ماندہ قوم کے خلاف اس ذلت آمیز جنگ کی پذیرائی کی،اس قابل ہیں کہ ان کا تذکرہ بے عزتی اور حقارت سے کیا جائے۔

دریں اثنا،ہمیں ایک لمحہ توقف کر کے ان افغان قبائلی جنگجوؤں کے متعلق سوچنا چاہیے جنھوں نے دنیا کی عظیم ترین فوجی طاقت کو گذشتہ ۱۸ برس سے محض ’اے کے ۴۷ ‘ بندوقوں اور اپنے غیرمتزلزل اور ناقابل تسخیر حوصلے سے روکے رکھا ہے۔ہمیں چاہیے کہ ہم ان سے پُرخلوص معافی کے خواست گار ہوں اور ان کے ملک کی اَزسرنو تعمیر کریں ۔ایک سابق امریکی فوجی کی حیثیت سے مَیں بہادرترین افغان عوام کو سلام پیش کرتا ہوں۔(ترجمہ: ریاض محمود انجم)

دوحہ میں امریکا اور طالبان کے درمیان، مذاکرات کے از سر نو آغاز کے ساتھ اب یہ یقینی لگ رہا ہے کہ فریقین سنجیدگی کے ساتھ کسی معاہدے کو حتمی شکل دینے میں مصروف ہیں۔ حال ہی میں افغانستان کی حزب اسلامی کے ایک اہم رہنما اور ملکی انتخابات میں نائب صدر کے لیے امیدوار پروفیسر فضل ہادی وزین (شعبہ اسلامیات، سلام یونی ورسٹی، کابل) سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے دھیمے لہجے اور دل کو چھو لینے والے دلائل سے سوالات کے جواب دیے۔
- ان سے پہلا سوال کیا: ’’افغانستان میں امن کے حوالے سے کیا پیش رفت ہورہی ہے اور ’امریکا،طالبان مذاکرات‘ کا کیا مستقبل ہے؟‘‘
پروفیسر وزین نے بتایا: ’’دوحہ میں مذاکرات کا مثبت پہلو یہ ہے کہ فی الوقت فریقین افغانستان میں امن و استحکام کے متمنی ہیں۔ افغانستان نہ صرف جنوبی ایشیا اور وسط ایشیا بلکہ مغربی ایشیا، یعنی ایران کے لیے بھی ایک پُل کا کام کرتا ہے۔ اس لیے افغانستان میں عدم استحکام کا براہ راست اثر پورے خطے پر پڑتا ہے۔ افغانستان سے غیرملکی افواج کا انخلا صرف طالبان ہی کی منزل نہیں ہے، بلکہ افغان عوام میں غیر ملکی مداخلت کے خلاف ایک ماحول سا بن گیا ہے۔ وہ اپنے اندرونی معاملات میں اب بیرونی مداخلت کے قائل نہیں ہیں۔ امریکیوں کو معلوم ہے کہ وہ ۱۸سالہ جنگ ہارچکے ہیں۔ وہ بس ایک باعزت واپسی کا بہانہ ڈھونڈ رہے ہیں۔ مغربی ممالک کی یہ پالیسی کہ بہانہ ایران، ٹھکانہ افغانستان اور نشانہ پاکستان، اب فرسودہ ہو چکی ہے‘‘۔
دوحہ میں طالبان،امریکی مذاکرات کے حوالے سے ان کا کہنا تھا: ’’ملک میں سیاسی جماعتیں خاصی پُرامید ہیں۔ اگرچہ امریکا کے سیماب صفت صدر ٹرمپ نے پچھلے ستمبر میں ان مذاکرات کو منسوخ کر دیا تھا، مگر پس پردہ فریقین روابط قائم رکھے ہوئے تھے۔ ابھی تک امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے دس دور ہو چکے ہیں۔ تاہم، طالبان کو جنگ بندی پر آمادہ کرانے اور انخلا کے ساتھ ساتھ کابل میں ایک وسیع البنیاد حکومت کے قیام پر ابھی تک معاملہ واضح نہیں ہوسکا۔ توقع ہے کہ سمجھوتے میں اب زیادہ وقت درکار نہیں ہوگا ۔ ایسا نہیں ہے کہ امریکا ، طالبان یا افغان عوام کو  کوئی رعایت دے رہا ہے، وہ خو د ہی افغانستان سے جلد از جلد چھٹکارا حاصل کرنا چاہتا ہے‘‘۔
پروفیسر وزین نے  خبردار کیا کہ: ’’امریکا اور طالبان کے درمیان معاہدہ، امن مساعی کے زینے کا بس ایک پہلو ہے، اس کو کئی اور مراحل سے گزرنا ہے۔ اس معاہدے کے فوراً بعد اگر افغانستان کے اند ر فریقین کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ شروع نہیں ہوا، تو ملک ایک بار پھر   خانہ جنگی کی آگ میں جھلس جائے گا۔ اس لیے تمام فریقوں کے لیے لازم ہے کہ ایک حتمی اور پاے دار امن کی خاطر افغانستان کی سبھی سیاسی جماعتوں، طالبان اور کابل حکومت کے درمیان مذاکرات کے سلسلے اور روابط پر دھیان مرکوز رکھیں۔ ورنہ ان امن مساعی کا بھی وہی حشر ہوگا ، جو ماضی میں ہوتا آیا ہے۔ دوسرے مرحلے کے یہ مذاکرات ’امریکا،طالبان مذاکرات‘ سے زیادہ پیچیدہ ہوں گے۔  ان مذاکرات میں ملک کے آئین، نظام حکومت اور دیگر اہم امور کا تعین کیا جائے گا‘‘۔
- ان سے سوال پوچھا: ’’سوویت جنگ کے دوران تو حزب اسلامی اور اس کے قائد گل بدین حکمت یار کا طُوطی بولتا تھا۔ حکمت یار اس کے بعد دو بار وزیر اعظم کے عہدے پر بھی فائزرہے، مگر طالبان کے وجود میں آنے کے بعد وہ اچانک منظرنامے سے غائب ہو گئے اور پھر ۲۰۱۶ء میں دوبارہ کابل میں وارد ہوگئے۔ اس وقت ان کی کیا حیثیت ہے؟‘‘
پروفیسر وزین صاحب نے بتایا کہ ’’حکمت یار منظر نامہ سے غائب نہیں ہوئے تھے۔ وہ بس بیک گراونڈ میں تھے۔ امریکی افواج کی مداخلت اور طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد حزبِ اسلامی ہی حکمت یار کے حکم کے مطابق امریکی افواج سے برسرپیکار تھی، کہ جب تک طالبان نے مجتمع ہوکر دوبارہ طاقت حاصل کی۔ دوسال قبل ہم نے محسوس کیاکہ ملک ایسی جنگ و جدل کا متحمل نہیں ہوسکتا، کہ اس کے حالات کا براہ راست اثر ہمسایہ ممالک خصوصاً پاکستان پر پڑتا ہے۔ اس لیے حکمت یار نے کابل آکر پس پردہ امن کے لیے کوششیں شروع کردیں۔ انھوں نے کافی کام کیا، جن کے نتائج اب آپ کے سامنے ہیں۔ ۲۰۱۹ءکے صدارتی انتخابات سے قبل حکمت یار نے ’امن وعدل اسلامی پارٹی‘ اور اس نئی پارٹی کے ٹکٹ پر انتخابات میں قسمت آزمائی کی۔ افغانستان میں ہر کوئی آپ کو بتائے گا کہ انتخابی مہم کے دوران ، افغانستان کے طول و عرض میں سب سے بڑے اور پر ہجوم جلسے اور جلوس ، اسی پارٹی کے تھے ۔ہم نے ثابت کر دیا کہ ہماری پارٹی کسی خاص نسل اور علاقے کی نمایندگی نہیں کرتی ہے، بلکہ پورے ملک کی نمایندہ تنظیم ہے‘‘۔
- صدارتی انتخابات پر پوچھا : ’’افغانستان میں انتخابات اکثر اختلاف راے کا شکار ہوجاتے ہیں۔ آخر شفاف انتخابات کو روبۂ عمل میں لانے میں کیا رکاوٹ ہے؟‘‘
پروفیسر وزین نے کہا: ’’بیرونی مداخلت ، ذاتی مفادات اور ایک ٹولے کا رویہ ، جو ہرحالت میں اقتدار کے ساتھ چمٹ کر رہنا چاہتا ہے ، اس نے انتخابات کی غیر جانب داری پر سوالیہ نشان کھڑے کر دیے ہیں۔ افغانستان کی ۳ کروڑ ۵۰ لاکھ کی آبادی میں صرف ۵۰ لاکھ افراد نے حالیہ ووٹنگ میں حصہ لیا، جب کہ۷۰لاکھ ۹۰ ہزار افراد نے اپنے آپ کو بطور ووٹر رجسٹر کرالیا تھا۔بیرون ملک مقیم۶۰ لاکھ افغان تارکینِ وطن بھی راے دہی کے حق سے محروم تھے۔ ان کے علاوہ ملک کے اندر بسنے والے ۳۰ لاکھ مہاجرین نے بھی ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ علاوہ ازیں ووٹنگ کا عمل بھی خاصا پیچیدہ تھا۔ کافی ووٹرز حق راے دہی سے محروم رہ گئے۔ علاو ہ ازیں کئی غیر ملکی سفارت خانوں نے کھلے عام اپنے چہیتے امیدواروں کے لیے کام کیا۔ اگر کسی اور ملک میں اس طرح کا کوئی واقعہ ہوجاتا تو ایک طوفان کھڑا ہو جاتا۔ کسی بھی ملک کے جمہوری نظام میں غیر ملکی مداخلت کا مطلب اس کوسبوتاژ کرنا ہے۔ اس کےلیے بین الاقوامی سطح پر سخت قوانین بننے چاہییں۔انتخابی نتائج کچھ بھی ہوں، یہ تناؤ کو کم کرنے میں مدد نہیں کریں گے، بلکہ ان سے مزید بحران پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔ لہٰذا، سبھی فریقوں کو انٹرا افغان مذاکرات کی تیاری کرکے اس پر اپنی توجہ مرکوز رکھنی چاہیے۔ یہ جتنی جلد ہوگا ، افغانستان کے حق میں اتنا ہی اچھا ہوگا ۔ امریکا کے ساتھ مذاکرات کے اختتام پر طالبان کو اس میں شرکت کرنی چاہیے، تاکہ کابل میں حکومت سازی پر اتفاق راے پیدا ہو، اور یہ اتفاق راے کسی بھی بیرونی مداخلت سے پاک ہو‘‘۔
- پروفیسر صاحب سے پوچھا: ’’افغانستان تو فی الوقت بھارت، پاکستان، چین اور امریکا کے درمیان ایک مسابقت کا میدان بنا ہوا ہے۔ وہ آخر کیوں کر اتنی جلدی افغانستان کو بخش دیں گے؟‘‘
موصوف کا کہنا تھا کہ: ’’ہم بھی ان ممالک سے کہہ رہے ہیں کہ افغانستان میں مداخلت بند کردیں۔ جس طرح افغانستان کسی دوسرے ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرتا ہے، آپ بھی افغانستان کی خود مختاری اور آزادی کا احترام کریں‘‘۔
- پھر سوال پوچھا:’’ بھارت کو خدشہ ہے کہ کابل میں طالبان کی واپسی سے اس خطے میں دوبارہ بد امنی پیدا ہوسکتی ہے؟‘‘
پروفیسر وزین نے سخت لہجے میں کہا کہ: ’’طالبان کوئی آسمانی مخلوق تو نہیں ہیں، وہ افغانستان کے شہری ہیں۔ اس ملک پر ان کا اتنا ہی حق ہے، جتنا کسی اور کا ہے۔   ہم سبھی ممالک سے اپیل کرتے ہیں کہ کابل میں اقتدار کے لیے اپنی پسند و ناپسند کو معیار نہ بنائیں ، بلکہ یہ حق افغان عوام کو دیں۔ بلاشبہہ بھارت کے افغانستان کے ساتھ قدیمی تاریخی روابط ہیں اور پاکستان کے ساتھ ہمارے گہرے برادرانہ تعلقات اور مشترکہ مفادات ہیں۔ گذشتہ برسوں میں، بھارت نے افغانستان کی تعمیر و ترقی کے لیے جو سرمایہ کاری کی ہے، افغان عوام میں اس کی پذیرائی ہے، مگر جو کچھ آج کل کشمیر میں ہو رہا ہے، اور اس کی خبریں بھی افغانستان پہنچ رہی ہیں، اس سے افغان عوام خاصے رنجیدہ ہیں۔ دنیا کے دیگر امن پسند عوام کی طرح ان کا بھی بھارت سے مطالبہ ہے کہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے کشمیری عوام کی خواہشات کو مد نظر رکھ کر اس مسئلے کا پاےدار اور منصفانہ حل ڈھونڈ نکال لیں، ورنہ ایک طرف افغانستان میں امن قائم ہو رہا ہے ، تو دوسری طرف اسی خطے کا دوسرا حصہ عدم استحکام کا باعث بنایا جا رہا ہے۔ اس کا خمیازہ ہم سب کو بھگتنا پڑے گا۔ یہ کسی ملک کا اندرونی معاملہ نہیں ہے۔اس خطے کے ممالک کو اس پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے‘‘۔
- میں نے پوچھا: ’’افغانستان میں داعش کے حوالے سے خبروں میں کتنی حقیقت ہے؟
 ان کا کہنا تھا کہ: ’’ایک باضابطہ منصوبے کے ذریعے چند عناصر داعش کا ہوّا کھڑا کرکے غیرملکی افواج کے انخلا کو روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حالانکہ داعش کا افغانستان میں کبھی کوئی وجود نہیں رہا ہے۔ کئی بار ان کو یہاں کھڑا کرنے کی سازشیں ہوئیں، مگر وہ ناکام ہو گئیں۔ امریکی محکمہ   سی آئی اے اور امریکی محکمہ دفاع متضاد بیانات دے رہے ہیں۔ آخر شام اور عراق میں شکست سے دوچار ہونے کے بعد داعش مشرقی افغانستان میں کیسے نمودار ہوگئی؟ اور وہ بھی ایسے علاقے میں جہاں امریکی اور افغان فوج خاصی سرگرم ہے۔ افغانستان ، افغان عوام کا ہے اور وہ اس کا بُرا بھلا سمجھتے ہیں اور اس کی آزادی اور خودمختاری کو برقرار اور بحال رکھنا بھی خوب جانتے ہیں___ افغان باقی کوہسار باقی‘‘۔
ملاقات ختم ہونے پر، پروفیسر وزین کی یہ بات رہ رہ کر کانوں میں گونج رہی تھی: ’’کشمیر کی صورت میں جنوبی ایشیا کے پچھواڑے میں ایک اور افغانستان بنایا جا رہا ہے‘‘، جہاں فی الوقت ۸۰لاکھ سے زیادہ نہتے اور مظلوم عوام اسیری کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ایک لاوا پک رہا ہے، جو کسی بھی وقت پھٹ کر پورے خطے کو لپیٹ میں لے سکتا ہے۔ مسئلہ کشمیر اور اس کےانسانی عوامل کو نظر انداز کرنا کسی کے مفاد میں نہیں ہے۔ جتنی جلد یہ حقیقت عالمی برادری کی سمجھ میں آجائے ، بہتر ہے۔ مانا کہ بھارت ایک بڑی تجارتی منڈی ہے، مگر خود تجارت کے لیے بھی تو امن لازمی ہے۔

ایودھیاتنازعے پر بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد عام خیال یہ پھیلایا جارہا ہے کہ ’’عدالت نے ایک ایسے پیچیدہ تنازعے کا ہمیشہ کے لیے تصفیہ کردیا ہے، جس نے برسوں سے امن و سکون کو تہہ و بالا کر رکھا تھا ۔اور اب ملک میں مذہبی و نسلی منافرت کا خاتمہ ہوجائے گا‘‘۔ اس میں غور کرنے کی بات یہ ہے کہ اس مقدمے کو جس انداز میں یک طرفہ طور پر فیصل کیا گیا ہے، اس نے مسلمانوں میں مایوسی اور نااُمیدی کے جذبات کو اُبھارا ہے اور انھیں شکست خوردگی کے احساس کی دلدل میں دھکیل دیا ہے۔ ابھی زیادہ مدت نہیں گزری کہ ۲۰۱۹ء ہی میں تین طلاق پر یک طرفہ اور جابرانہ قانون سازی کرکے مسلمانوں کے پرسنل لا میں مداخلت کی گئی۔ جموں و کشمیر کے لیے دستور ہند کی دفعہ ۳۷۰اور دفعہ ۳۵-اے کا خاتمہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا اور اب ایودھیا تنازعے پر سپریم کورٹ کا فیصلہ۔ اس کے بعد ’یکسا ں سول کوڈ‘ کا شوشہ بھی مسلمانوں کو احساسِ کمتری میں مبتلا کرنے کے لیے چھوڑا جارہا ہے ۔

اگر آپ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے دور حکومت کا جائزہ لیں، تو صاف محسوس ہوگا کہ اس حکومت نے ہر وہ کام انجام دیا ہے، جس سے ملک میں ہندو نسل پرستی کو فروغ حاصل ہو اور مسلمانوں کے بنیادی، آئینی اور انسانی حقوق پر کاری ضرب لگے ۔ جو لوگ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کو ایودھیا تنازعے اور مندر مسجد سیاست کا خاتمہ تصور کررہے ہیں، وہ دراصل غلط فہمی اور لا علمی کا شکار ہیں۔ ایودھیا میں بابری مسجد کے مقام پر رام مندر بنانے کی تحریک جن مقاصد کے تحت شروع کی گئی تھی، اس کا دائرہ محض مسجد اور مندر کے جھگڑے تک محدود نہیں تھا، بلکہ اس تحریک کے پیچھے ملک میں جارحانہ ہندو قوم پرستی کے فروغ کا مقصد پوشیدہ تھا۔یہ تحریک گہری منصوبہ بندی سے نہایت سوچ سمجھ کر شروع کی گئی تھی، جس میں ’سنگھ پریوار‘ [یعنی راشٹریہ سوامی سیوک سنگھ کی تنظیموں کا خاندان] کو۱۰۰ فی صد کامیابی حاصل ہوئی ہے۔اس تحریک کے نتیجے میں ملک کے اندر ایک ایسی ہندو لہر پیدا ہوئی ہے جس کےنتیجے میں ہندوؤںنے بی جے پی کو اپنا نجات دہندہ تصور کرلیا ہے ۔

ذرا ماضی میں دیکھیں:۲۳؍اپریل ۱۹۸۵ء کو جب ’شاہ بانوکیس‘ میں سپریم کورٹ نے اسلامی شریعت کے خلاف فیصلہ صادر کیا تھا، تو ملک میں مسلم پرسنل لا کے تحفظ کے لیے مسلمانوں نے ایک بے مثال تحریک اُٹھائی تھی ۔اس تحریک کے نتیجے میں حکومت کو پارلیمنٹ سے ’مسلم مطلقہ قانون‘ پاس کرنا پڑا تھا۔ مسلم پرسنل لا کے تحفظ کی تحریک میں مسلمانوں کو حاصل ہونے والی کامیابی کا فسطائی عناصر پر گہرا منفی اثر ہوا۔ انھوں نے بڑی قوت سے یہ جوابی پراپیگنڈا شروع کردیا کہ ’’حکومت نے مسلم بنیاد پرستوں کے آگے گھٹنے ٹیک دیے ہیں‘‘۔
ہندو فرقہ پرست طاقتوں کے اس پراپیگنڈا کا توڑ کرنے کے لیے اس وقت بھارتی وزیر اعظم [۸۹-۱۹۸۴ء] راجیو گاندھی [م:مئی ۱۹۹۱] کی کابینہ کے بعض وزرا نے یہ مشورہ دیا کہ ہندوؤں کی ناراضی دُور کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ کہ ایودھیا میں واقع بابری مسجد کا تالا کھول کر وہاں عام پوجا پاٹ کی اجازت دے دی جائے، جس کے لیے پہلے سے ہی ’راشٹریہ سوامی سیوک سنگھ‘ کی سرپرستی میں ’رام جنم بھومی مکتی آندولن‘ چل رہا تھا ۔راجیو گاندھی کو اس پر راضی کرنے میں ان کے عزیز اور وزیر ارون نہرو کے علاوہ یوپی کے وزیر اعلیٰ ویر بہادر سنگھ نے اہم کردار ادا کیا۔ یکم فروری ۱۹۸۶کو فیض آباد کی ایک ذیلی عدالت کے حکم پر بابری مسجد کے دروازے عام پوجا پاٹ کے لیے کھول دیے گئے۔تالا کھلنے کے مناظر کی تشہیر سرکاری نشر یاتی اداروں اور سرکاری ٹیلی ویژن سے خوب کی گئی۔

بابری مسجد میں ۲۲ دسمبر ۱۹۴۹ءکو دیوار پھاند کر زبردستی رکھی گئی مورتیوں کی پوجا شروع ہوگئی، اور ملک میں فرقہ وارانہ کشیدگی اپنی انتہا تک پہنچ گئی ۔کہا جاتا ہے کہ بابری مسجد کا تالا کھولنا راجیو گاندھی کی ایک ایسی ہمالیا ئی غلطی تھی، جس کا خمیازہ کانگریس پارٹی آج تک بھگت رہی ہے۔ کانگریس کی اس غلطی کا بی جے پی کو غیر معمولی سیاسی فائدہ حاصل ہوا۔ اس طرح جس پارٹی کی پارلیمنٹ میں محض دو سیٹیں ہوا کرتی تھیں، وہ اچانک بڑھ کر ۸۰تک پہنچ گئیں ۔کانگریس پارٹی اقتدار سے محروم ہوگئی اور بی جے پی نے وزیر اعظم [۹۰-۱۹۸۹ء] وی پی سنگھ کو مدد دے کر ان کی حکومت بنوائی ۔ وی پی سنگھ نے ’منڈل کمیشن‘[۱۹۸۳ء] کی سفارشات نافذ کرکے ہندوؤں میں ذات پات کی جو خلیج پیدا کی تھی، اسے ختم کرنے کے لیے مذہبی جنون کا سہارا لیا۔ دوسری طرف بی جے پی کے لیڈر لال کرشن اڈوانی نے سومناتھ سے ایودھیا تک کی رتھ یاترا شروع کردی، جس کا واضح مقصد رام مندر کے لیے راے عامہ ہموار کرکے ’منڈ ل کمیشن‘ کے اثرات کوزائل کرنا تھا ۔ اڈوانی کی رتھ یاترا نے پورے بھارت میں فرقہ واریت کا جو آتش فشاں تیار کیا تھا، اس کی تپش آج تک برقرار ہے۔

اس رتھ یاترامیں جو نعرے بلند کیے گئے تھے، انھوں نے مسلمانوں میں زبردست سراسیمگی پیدا کردی تھی اور ایسا خوف بٹھا دیا تھا، جسے لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے ۔اس کے بعد ہونے والے انتخابات میں بی جے پی کی نشستوں میں مزید اضافہ ہوا اور اترپردیش سمیت کئی صوبوں میں اس کی حکومت تشکیل پائی ۔ ۶دسمبر ۱۹۹۲ءکو جب ایودھیا میں بابری مسجد پر چڑھائی کی گئی تو مرکز میں کانگریس کے نرسمہا رائو اور اترپردیش میں کلیان سنگھ کی حکومت تھی ۔کانگریسی وزیراعظم نرسمہا راؤ [۹۶-۱۹۹۱ء]نے بی جے پی کی تمام تر بدنیتی کے باوجود کلیان سنگھ کی یقین دہانی پر بھروسا کیا اور بابری مسجد دن کے اُجالے میں زمیں بوس کردی گئی ۔کلیان سنگھ نے وزیر اعلیٰ کے طور پر سپریم کورٹ میں بابری مسجد کے تحفظ کا جو حلف نامہ داخل کیا تھا، اس کی دھجیاں اڑا دیں اور بابری مسجد کے تحفظ کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔
بابری مسجد: قانون، دستور اور عدلیہ کی موجودگی کے باوجود منہدم کردی گئی ۔یہ مسلمانوں کے لیے اتنا بڑا صدمہ تھا، جسے وہ آج تک بھول نہیں پائے ہیں ۔اس جرم کی پاداش میں ایل کے اڈوانی، مرلی منوہر جوشی، اوما بھارتی ،کلیان سنگھ اور ونئے کٹیار سمیت ’سنگھ پریوار‘ کے ۳۲ لوگوں پر مجرمانہ سازش کا مقدمہ آج بھی لکھنؤکی ایک عدالت میں چل رہا ہے ۔

بابری مسجد کے انہدام کے بعد وزیر اعظم نرسمہاراؤ نے قوم کے نام اپنے خطاب میں یہ وعدہ کیا تھا: ’’ہم مسجد کو دوبارہ اسی جگہ تعمیر کرائیں گے‘‘۔لیکن اس وعدے کو وفا کرنے کے بجاے کانگریس پارٹی نے ’ہندوتوا‘ کے ایجنڈے کو بی جے پی کے ہاتھوں سے چھیننے کی کوشش کی اور اسی کوشش کے تحت ۹ نومبر ۱۹۸۹ءکو ایودھیا میں بابری مسجد کے رُوبرو رام مندر کا سنگِ بنیاد رکھوا دیا۔ عجیب اتفاق ہے کہ اس کے ٹھیک ۳۰سال بعد ۹نومبر۲۰۱۹ءکو سپریم کورٹ نے اس مقدمے کا فیصلہ رام مندر کے حق میں کیا ہے۔
سنگ ِ بنیاد رکھنے کی تقریب کے موقعے پر راقم نے رپورٹنگ کی غرض سے ایودھیا کا سفر کیا تھا ۔ وہاں ’سنگھ پریوار‘ کے لیڈروں نے دُنیا بھر کے سامنے بلند آواز میں یہ کہا تھا: ’’ہم نے محض رام مندر کی بنیاد نہیں رکھی ہے بلکہ ہندو راشٹر کی بنیاد ڈال دی ہے‘‘۔سنگھ پریوار کے لیڈروں کے تیور دیکھ کر اسی وقت اندازہ ہوگیا تھا کہ اس تحریک کے پیچھے کیا مقاصدکا رفرماتھے ۔اب،جب کہ سپریم کورٹ نے ایودھیا تنازعے پر اپنا فیصلہ صادر کرتے وقت رام مندر کی تعمیر کے لیے ٹرسٹ بنانے کی ذمہ داری حکومت پر ڈالی ہے۔ آج اقتدار اسی پارٹی کے ہاتھوں میں ہے، جس نے اس مسئلے کا سب سے زیادہ سیاسی استحصال کیا ہے اور جس کا واحد مقصد ملک میں ’ہندو نسل پرستی‘ کا فروغ ہے ۔ 

حیر ت انگیز بات یہ ہے کہ بھارتی سپریم کورٹ نے اپنے ایک ہزار سے زائد صفحات کے فیصلے میں بابری مسجد میں نماز کی ادایگی کے حقوق تسلیم کرنے اور وہاں ۱۹۴۹ء میں رکھی گئی مورتیوں کو غیرقانونی قرار دینے اور بابری مسجد کے انہدام کی مذمت کرنے کے باوجود رام للا وراجمان کی وہ درخواست تسلیم کرلی ہے، جس میں پوری متنازعہ اراضی پر حق ملکیت کا دعویٰ کیا گیا تھا ۔سپریم کورٹ نے بابری مسجد کے حق میں پیش کی جانے والی شہادتوں کو نہ جانے کیوںنظر اندازکردیا ہے؟ 
سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ایودھیا میں زیادہ عالی شان مندر بنانے کی تیاریاں شروع ہوگئی ہیں۔ حکمران جماعت سمجھتی ہے کہ عالی شان مندر کی تعمیر کے بعد ’ہندو نسل پرستی‘ کو جو توانائی حاصل ہوگی، اس کے نتیجے میں کوئی طاقت بی جے پی کو مدتوں تک اقتدار سے بے دخل نہیں کرسکے گی۔

بابری مسجد سے متعلق بھارتی سپریم کورٹ کا ۹نومبر ۲۰۱۹ء کو جو فیصلہ آیا ہے، وہ فیصلہ   ہم سب کے لیے انتہائی تکلیف دہ اور مایوسی کا باعث ہے۔سپریم کورٹ میں جس طریقے سے مقدمہ پیش کیا گیا تھا،جس قدرمضبوط دلائل و شواہد پیش کیے گئے تھےاورجس طرح سے ہمارے وکلا نے اس مقدمے کی پیروی کی تھی،اس سے ہم سب کو توقع اور غالب امید تھی کہ فیصلہ بابری مسجد کے  حق میں آئے گا،مگر افسوس کہ ایسا نہیں ہوسکا ۔ 
یہ بات درست ہے کہ مسلمانوں نے پہلے روز سے یہ بات کہی تھی کہ وہ عدالت کا فیصلہ تسلیم کریں گے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، کہ جو مسلمان ابھی کہہ رہے ہیں یا حکومت کی تبدیلی کے بعد سے یہ بات کہہ رہے ہیں۔ نہیں، بلکہ جب سے یہ مقدمہ چل رہا ہے ،اس وقت سے مسلمانوں کا موقف یہی ہے کہ ’’سپریم کورٹ جو فیصلہ کرے گا، اس کا احترم کریں گے ،اسے قبول کریں گے‘‘۔

سپریم کورٹ کے فیصلے کے احترام کی بات اس لیے کہی گئی ہے کہ رول آف دی لا (قانون کی حکمرانی) کی بڑی اہمیت ہے۔ کوئی بھی معاشرہ قانون کی حکمرانی کے بغیرامن کے ساتھ نہیں  رہ سکتا۔ اسلام بھی فتنہ و فساد کو پسند نہیں کرتا اور ہم بھی پسند نہیں کرتے۔ قانون کی حاکمیت کے بغیر فتنہ و فساد کا تدارک نہیں ہو سکتا، نیز معاشرے میں امن قائم نہیں رہ سکتا۔ اسی لیے ہم نے یہ کہا تھا کہ ہم امن کے ساتھ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے، دلائل کے ساتھ، اپنی بات رکھیں گے اور سپریم کورٹ جو فیصلہ دے گا، اس کا احترام کریں گے۔ اس لیےسپریم کورٹ کے فیصلے کے احترام کی بات پر ہم آج بھی قائم ہیں۔حتمی طور پر جو فیصلہ ہوگا ، اس کا احترام کیا جائے گا۔

قانون کی بالادستی اور اختلاف رائے

تاہم، فیصلے کے احترام کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ ہم صدفی صد اس سے اتفاق بھی کریں۔ اس فیصلے میں جو غلط باتیں ہیں ، ان سے ہم اختلاف کریں گے اور اس اختلاف کا ہم اظہار بھی کریں گے۔یہ ہمارا جمہوری حق ہے۔سپریم کورٹ یا ملک کا قانون بھی یہ نہیں کہتا کہ آپ ہر حالت میں سپریم کورٹ کی باتوں پر ایمان لے آئیں ۔تاہم، فیصلے کے خلاف کوئی کام یا عملی اقدام آپ نہ کریں، یہ قانون کا مطالبہ ہے۔ ہم اس مطالبے پر عمل کریں گے، اور فیصلے کی خلاف ورزی نہیں کریں گے۔ لیکن اس فیصلے میں جو نقائص ہیں ، جو کمزوریاں ہیں ، ہم ان کم زوریوں پر اظہارِ خیال بھی کریں گے۔
سپریم کورٹ کے ایک سابق جج جناب ورما صاحب کا قول اس وقت میڈیا میں نقل کیا جارہا ہے کہ ’’سپریم کورٹ، سپریم ہے، لیکن غلطیوں سے پاک (infalliable) نہیں ہے۔غلطی اس سے ہو سکتی ہے‘‘۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس فیصلے میں بہت سی غلطیاں اور بہت سی کم زوریاں ہیں۔ جس طریقے سے ٹائٹل سوٹ، یعنی مقدمۂ ملکیت کا فیصلہ کیا گیا ہے، وہ انصاف کے تقاضوں کے خلاف ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ بحث اور فیصلے میں بہت سی باتیں ایسی بھی سامنے آئی ہیں، جو مسلمانو ں کے موقف کی تائید کرتی ہیں۔ خاص طور پر جو بحث اور گفتگو، اس طویل عرصے میں بابری مسجد کے حوالے سے چلی ہے اور جس کی بنیاد پر ایک تاریخی بیانیہ کھڑا کرنے کی کوشش کی گئی ہے، سپریم کورٹ نے اس معاملے میں مسلمانوں کے موقف کی تائیدکی ہے۔ مثلاً اس پورے فیصلے کی سب سے اہم بات جو فرقہ پرستوں کے پورے موقف کو ڈھیر کرتی ہے، وہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے بقول: ’’اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ بابری مسجد مندر توڑ کر بنائی گئی‘‘۔ 
ہم سمجھتے ہیں کہ یہ غیر معمولی طور پر اہم بات ہے ۔ اس سےہم تاریخ کی بحث کا پورا دھارا موڑ سکتےہیں۔ عدالت نے فیصلہ دے دیا ہے ،لیکن ملک میں ضمیر کی عدالت کے سامنے آپ تفصیلات رکھ سکتے ہیں، اپنا موقف بیان کر سکتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے بہت وضاحت کے ساتھ یہ بات کہی ہے کہ’’ مندر توڑ کر مسجد نہیں بنائی گئی۔ اس کا کوئی ثبوت ،کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے‘‘۔  اس فیصلے کے مطابق ’’اس زمین کے نیچے سے اسٹرکچر ضرور برآمد ہوا ہے مگر وہ اسٹرکچر کیا ہے؟ یہ کوئی نہیں جانتا۔اگرچہ وہ اسلامی اسٹرکچر نہیں ہے،لیکن اس کے بھی شواہد نہیں ہیں کہ وہ ہندو اسٹرکچر ہے‘‘۔ فیصلے میں یہ بات بھی واضح طور پر کہی گئی ہے کہ ’’یہ اسٹرکچر بارھویں صدی کا اسٹرکچر ہے، جب کہ بابری مسجد سولھویں صدی میں بنی ہے۔بارھویں سے سولھویں صدی کے درمیان ۴۰۰سال کے دوران یہاں کیا تھا ؟ اس کا کوئی تاریخی ریکارڈ موجود نہیں ہے۔ اس لیے اس کی کوئی شہادت موجود نہیں ہے کہ مسجد مندر توڑ کر بنائی گئی‘‘۔ میرے نزدیک یہ بہت اہم بیان ہے۔ اس سے وہ تاریخی موقف کہ جسے یہاں کے فسطائی اور فرقہ پرست عناصر کھڑا کرنا چاہتے تھے، اس کی پُرزور تردید ہوتی ہے۔ ہمیں اسے بھرپور طریقے سے ایک ایک فرد کے سامنے پیش کرنا چاہیے۔ 

اسی طرح ۱۹۴۹ء میں مورتیاں رکھنے کے عمل کے بارے میں سپریم کورٹ نے کہا کہ    یہ ’’بالکل غلط عمل تھا ۔ یہ توہین آمیز اور مجرمانہ فعل تھا۔ اسی طرح ۱۹۹۲ء میں مسجد کو گرادینے کا  عمل بھی مجرمانہ عمل تھا‘‘۔ 
ایک بڑی اہم بات یہ کہ مذہبی عبادت کے مقدمات سے متعلق قانون The Places of Worship (Special Provisions) Act 1991  بھارتی پارلیمنٹ نے برسوں پہلے منظور کیا تھا۔ اس قانون کے تحت یہ بات کہی گئی ہے کہ ’’۱۹۴۷ءمیں مذہبی مقامات کی جو جو حیثیت تھی، وہی باقی رہے گی،سواے بابری مسجد کے‘‘۔ کیوں کہ بابری مسجد کا معاملہ اس وقت تک ایک اہم تنازعہ بن چکا تھا اور عدالت میں زیر غور تھا، اس لیے اس کو مستثنیٰ رکھا گیا ہے۔ لیکن باقی جومذہبی مقامات ہیں، ان کے سلسلے میں کہا گیا ہے کہ ’’۱۹۴۷ء کی پوزیشن باقی رہے گی۔ ۱۹۴۷ء میں جو مسجد تھی وہ مسجد رہے گی جو مندر تھا وہ مندر رہے گا۔ کوئی پرانا تاریخ کا دعویٰ لے کر مسجد کو مندر میں اور مندر کو مسجد میں تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کرے گا‘‘۔ 
اس فیصلے میں سپریم کورٹ نے اس قانون کو مضبوطی عطا کی ہے۔ اس کے نتیجے میں بنارس اور دیگر مقامات کے سلسلے میں ہندوانتہاپسند جو دعوے اُٹھا رہے ہیں،ان پر گویا سپریم کورٹ نے بند باندھا ہے۔ یہ بات بھی ہمیں بھارت کے عوام کے سامنے لانی چاہیے، کہ اب ان سارے دعووں کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہی، اور یہ کہ اب اس طرح کے تنازعات ختم ہوجانے چاہییں۔

ہماری ذمہ داری؟

بابری مسجد کے مقدمے کے سلسلے میں ہماری جوقانونی ذمہ داری ہو سکتی تھی، وہ ہم نے ادا کی ہے۔بہت سے لوگ سوشل میڈیا پر یہ بات بھی کہہ رہے ہیں کہ ’’اگر ہم مصالحت کے ذریعے مسجد دے دیتے تو اچھا ہوتا۔ کیوں اتنا لمبا مسئلہ چھیڑا گیا؟اتنی لمبی عدالتی لڑائی لڑنے کی کیا ضرورت تھی؟ نتیجہ تو وہی نکلا۔ اگر پہلے ہی عزت سے دے دیتے تو مسئلہ بہت پہلے ختم ہوجاتا‘‘۔ ایسی باتیں سوشل میڈیا پر جگہ جگہ چل رہی ہیں۔
 ہمیں یہ بات اچھی طرح سجھ لینی چاہیے کہ یہ عدالتی لڑائی اور جد وجہد کس لیے تھی ؟ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارا صبروتحمل اور ہماری یہ لڑائی اور جدوجہد اصلاً ملک میں قانون کی حکم رانی کو یقینی بنانے کے لیے تھی۔ اگر کمزوروں پر دباؤ ڈال کر ان کے حقوق غضب کیے جاتے رہیں اور کمزور دب کر صلح کرتے رہیں، تو معاشرے میں انارکی اور لاٹھی کا راج مسلط ہوجاتا ہے۔ صرف مسلمانوں کو نہیں بلکہ ملک کے تمام شہریوں کو مسلمانوں کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ مسلمانوں نے ایک طویل جدوجہد کے ذریعے قانون کی حکم رانی کو یقینی بنایا ہے ۔طاقت کو قانون کے سامنے جھکنے پر مجبور کیا۔ اگر مسلمان درمیان کے کسی مرحلے میں مصالحت کرلیتے تو ’ہجومی طاقت‘ (Mob Lynching)کی بالادستی بھارت میں قائم ہو جاتی۔ یہ بات طے ہو جاتی کہ کوئی بھی گروہ، مشتعل ہجوم اکٹھا کرکے من مانے طریقے سے کچھ بھی کر سکتا ہے۔اس وقت جو فیصلہ آیا ہے، وہ غلط ہو یا صحیح، بہر حال سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے۔ قانونی عمل مکمل ہوا ہے۔اس سے قانون کی حکم رانی مستحکم ہوئی ہے، جو ملک کے دستوری ڈھانچے اور ملک کے قانونی نظام کے لیے مسلمانوں کا بہت بڑا کنٹری بیوشن ہے۔

ایمان کا تقاضا

مسلمان توکّل الی اللہ پر یقین رکھتے ہیں۔ توکّل، اسلامی فلسفے کا بنیادی اور اہم تصور ہے، جس کا براہِ راست تعلق ایمان سے ہے۔ توکّل کیا ہے ؟ توکّل کی دو شرطیں ہیں: ایک تو معقول تدبیر اختیار کرنا اور آخری حد تک کرنا۔ آپ ؐنے ارشاد فرمایا: ’’اونٹ کو باندھ کر توکّل کرو، کھلا چھوڑ کر نہیں‘‘۔ مطلب آخری ممکنہ حد تک تدبیر اختیارکرو۔ الحمد للہ ،مسلمانوں نے اس معاملے میں آخری حد تک کوشش کی۔ الٰہ آباد ہائی کورٹ گئے اور سپریم کورٹ میں گئے ۔ ملک کے ماہرترین قانون دانوں کی خدمات حاصل کیں ۔ میڈیا کے سامنے اپنا مقدمہ رکھا ۔ ملک کے عوام کے ضمیر کے سامنے اپنا مقدمہ پیش کیا۔ مصالحت کے نام پر طرح طرح سے دباؤ ڈالے جاتے رہے ،لیکن کبھی اس دباؤ کا شکار نہیں ہوئے۔ استقامت کے ساتھ ڈٹ کر کھڑے رہے، اور اپنی آخری کوشش جواللہ کے گھر کی حفاظت کے لیے ہو سکتی تھی، الحمدللہ اسے ہم مسلمانوں نے انجام دیا۔ اس پر ہم سب کو اطمینان ہونا چاہیے کہ الحمدللہ، ہم نے آخری حد تک کوشش کی ۔ اس طرح توکّل کی پہلی شکل ’ آخری حد تک تدبیر‘ کو ہم نے اپنے امکان کی حد تک پورا کرنے کی کوشش کی۔ اللہ تعالیٰ ان کوششوں کو قبول کرے اور ان میں کوئی کسر رہ گئی ہو تو اسے معاف فرمائے۔
اب دوسری شرط کا مرحلہ ہے۔ توکّل کی دوسری شرط یہ ہے کہ آخری کوشش کے بعد جو فیصلہ ہو جائے ، جو نتیجہ نکلے ، وہ ہم اللہ پر چھوڑ دیں۔ہم یہ سوچیں کہ اللہ جو کرے گا، ہمارے لیے اچھا کرے گا ۔ اس میں کچھ نہ کچھ خیر ہوگا۔ بہ ظاہر شر نظر آتا ہے، مگر اس میں کوئی نہ کوئی خیر کا پہلو ہوگا۔  اللہ تعالیٰ سے یہ اُمید رکھیں ۔ یہ بھی توکل کی اہم شرط ہے۔ہم نے ممکنہ حد تک کوشش کی ۔ اب ہمارے وکلا دیکھ رہے ہیں کہ کیا اور بھی کسی کوشش کا امکان باقی ہے؟ ریویو پٹیشن وغیرہ کا امکان ہے؟ اگر ہے تو وہ بھی کر لیں گے۔ مگر ممکنہ حد تک جو کوشش ہوسکتی ہے، وہ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ہی ہم کریں گے، کیوں کہ ہم اس کے مکلف ہیں۔ جب ہماری ذمہ داری اور ممکنہ حدتک کوشش پوری ہو جائے گی، تو پھر ہم اس مسئلے کو اللہ پر چھوڑ دیں گے اور سمجھیں گے کہ ان شاءاللہ اس سے کچھ نہ کچھ خیر ضرور برآمد ہوگا۔ پوری اسلامی اورانسانی تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ کئی بار ایسا ہوا ہے کہ بظاہر شر نظر آنے والے واقعات سے اوربظاہر نامناسب نظر آنے والے معاملات سے اللہ تعالی نے غیرمعمولی خیر پیدا کیا ہے۔ 
سیّدنا یوسف علیہ السلام کے واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ صحرا کے ایک تاریک کنویں کی وحشت ناک تنہائی کو اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے مصر کے تخت وتاج کا پہلا زینہ بنایا ۔ پھر مصر کی جیل کی طویل قید کو دوسرا زینہ بنایا۔ اللہ تعالیٰ مختلف طریقوں سے اپنی مشیت پوری کرتا ہے ۔ ہمیں نہیں معلوم کہ اس میں خیر کیا ہے، لیکن ہم ان شاء اللہ اپنی ذمہ داری بھرپور طریقے سے ادا کریں گے، اور وہ ہم نے پہلے بھی کی ہے۔ اس کے بعد معاملے کو اللہ پر چھوڑدیں ۔

ہمارا نصب العین اور دعوتِ دین

 سوال یہ ہے کہ اس کے بعد ہماری کیا ذمہ داری ہے؟ 

اس سلسلے میں یہ بات ہمیشہ ہمارے پیش نظر رہے کہ ہماری اصل ذمہ داری، اس ملک میں دعوتِ دین کی ہے،جواس ملک میں ہمارے بہت سے مسائل کا حل ہے۔ ہم اس ملک میں اپنے آپ کو خیرِ اُمت  سمجھیں ۔یہاں کے تمام انسانوں اور کروڑوں کی آبادی کواپنا مخاطب سمجھیں۔ انھیں اللہ کے بندے سمجھیں اور ان سے ربط و تعلق قائم کریں۔ ان سے برادرانہ رشتہ استوار کریں،ان کی غلط فہمیوں کو دُور کریں ، ان کے دل میں جو نفرت کے بیج ہیں، انھیں مٹائیں۔ ان کے دلوں کو جیتیں۔ عدل و انصاف اور اسلام کی تعلیمات ان کے سامنے پیش کریں۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے، ہمارا فریضہ ہے ۔ یہ احساس امت مسلمہ کے اندر پیدا ہوجائے گا تو یہ مسئلہ بھی حل ہوگا اور اس جیسے مزید سیکڑوں مسائل بھی حل ہوں گے ۔ 
ہمارا طویل المیعاد ایجنڈا،اصل مقصد اور نصب العین یہ ہے کہ ہمیں خیرِ اُمت بننا ہے،  مثالی اُمت بننا ہے۔ انسانوں کے سامنے اللہ اور اس کے آخری رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام پہنچانا ہے۔ اپنے آپ کو اخلاق اور کردار سے طاقت ور بنانے کی کوشش کرنی ہے۔اس نصب العین پر ہماری توجہ رہے ۔اس عظیم نصب العین کے تناظر میں دیکھا جائے تو ایسی رکاوٹیں اس راہ میں آتی رہتی ہیں۔ہمیں ان رکاوٹوں کو دُور کرنے کی کوشش ضرور کرنی ہے، لیکن ان میں اُلجھ کر نہیں رہ جانا۔ بابری مسجد کےاس فیصلے سے جو تکلیف ہمیں پہنچی ہے وہ فطری بات ہے اور ایمان کا تقاضا ہے۔ لیکن اس تکلیف کے نتیجے میں ہم کو مستقل طور پر مایوس اور نااُمید نہیں ہونا ہے ۔ اپنے اصل کام کے سلسلے میں حوصلے اور ہمت کو نہیں ہارنا ہے۔ 
ہم اپنے اصل کام سے وابستہ رہیں گے تو ان شاءاللہ یہ مسئلہ بھی حل ہوگا اور ایسے اور بھی مسئلے حل ہوں گے اور ہمارا یہ سفراپنے نصب العین کی طرف جاری رہے گا۔ اس نازک گھڑی میں، مَیں یہی گزارش کروں گا کہ ہم سب اپنی اصل ذمہ داریوں کی طرف متوجہ ہوں، اور یکسوئی سے انھیں انجام دینے کی فکر کریں۔اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو اور ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین! 
[ویڈیو سے مرتب: محب اللہ قاسمی]

۶دسمبر ۱۹۹۲ء کو جب بھارت کے ایودھیا شہر میں بابری مسجد کو مسمار کیا جا رہا تھا، میں   ان دنوں صحافتی شعبے میں کام کا آغاز کرکے بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں ایک زیرتربیت فرد کے طورپر ایک ابلاغی ادارے وابستہ تھا ۔مجھے یاد ہے کہ دن کے گیارہ بجے تک رپورٹر ’ویشوا ہندوپریشد‘ اور ’بھارتیہ جنتا پارٹی‘ کی طرف سے منعقدہ پروگرام کی خبریں بھیج رہے تھے۔ پھر ایک دم سے ایودھیا سے خبروں کی ترسیل کا سلسلہ منقطع ہوگیا۔ رات گئے تک بس کانگریسی حکومتی ذرائع سے یہی خبر آرہی تھی کہ’’ انتظامیہ مسجد کو بچانے کے لیے مستعد ہے اور خاصی تعداد میں مرکزی فورس وہاں بھیجی گئی ہے‘‘۔ اس واقعے سے دودن قبل ہی ریاست اتر پردیش کے وزیرا علیٰ کلیان سنگھ نے سپریم کورٹ میں مسجد کی حفاظت کی حلفیہ ضمانت دی تھی اور عدالت نے ایودھیا میں ہندوئوں کو تقریب کرنے کی اجازت دی تھی۔

ریڈیو سے ہم مسلسل بی بی سی کی نشریات سن رہے تھے۔ رات گئے بی بی سی نے اپنی معمول کی نشریات روک کر اعلان کیا کہ: ’’ سنڈے آبزرور کے نمایندے قربان علی ابھی ابھی ایودھیا سے فیض آباد پہنچے ہیں‘‘۔ ریڈیائی لہروں پر اگلی آواز قربان علی کی تھی۔ جن کا کہنا تھا کہ: ’’بابری مسجد کو مسمار کردیا گیا ہے۔ جس وقت میں ایودھیا سے بڑی مشکل سے جان بچا کر نکلا، اس وقت مسجد کے ملبے پر ایک عارضی مندر کی تعمیر کا کام شروع ہو گیا تھا اور بھگوان رام کی مورتی کو ایک شیڈ کے نیچے اس جگہ منتقل کیا جا رہا تھا ، جہاں چند گھنٹے قبل مسجد کا مرکزی گنبد موجود تھا‘‘۔ اس کے بعد انھوں نے بتایا: ’’مسجد کی طرف چڑھائی کرنے سے قبل صحافیوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر مندر وں اور کئی مکانوں میں بند کر دیا گیا تھا۔ان کے کیمرے توڑدیے گئے تھے۔ کئی صحافیوں کے ساتھ مارپیٹ بھی کی گئی تھی‘‘۔ قربان علی اور بی بی سی کے شہرۂ آفاق نمایندے مارک ٹیلی کو ایک مندر کے بوسیدہ کمرے میں بند کردیا گیا تھا۔ قربان علی نے بتایا: ’’دوپہر کے بعد ہم کو ’ویشوا ہندو پریشد‘ کے لیڈر اشوک سنگھل کے دربار میں پیش کردیا گیا، جس نے ہماری رہائی کے احکامات صادر کر دیے۔ کھیتوں اور کھلیانوں سے ہوتے ہوئے ہم فیض آباد کی طرف روانہ ہوئے، کیونکہ ہندو انتہاپسندوں یا کار سیوکوں نے سڑکوں پر ناکے لگا رکھے تھے اور وہ کسی بھی صحافی کو باہر جانے نہیں دے رہے تھے‘‘۔فیض آباد پہنچ کر انھوں نے دنیا کو بتایا کہ: ’’۱۵۲۸ءمیں مغل فرماںروا ظہیر الدین بابر کے جنرل میر باقی کی تعمیر کردہ تاریخی بابری مسجد مسمار کر دی گئی ہے‘‘۔ 
دہلی میں ہماری رہایش گاہ سے متصل ایک معروف کیمرہ مین سلیم شیخ رہتے تھے۔ ان کا اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ بس نام کا رشتہ تھا ۔ اس کے علاوہ شب برأت کے موقعے پر اپنی والدہ کو یاد کرکے نماز پڑھتے تھے۔ جونہی شب برأت ختم ہوتی تو وہ بوتل نکال کر شراب پینا شروع کردیتے تھے۔ سال بھر اسی طرح گزارتے اور پھر اگلی شب برأت سے ایک روز قبل و ہ بوتل الماری میں  بند کردیتے تھے۔ عید ہو یا کوئی اور دن، ان کو کوئی فرق ہی نہیں پڑتا تھا۔ شب برأت کے متعلق ان کا کہنا تھا کہ: ’’میرے بچپن میں، میری والدہ اس رات بڑے اہتمام سے اور پوری رات عباد ت میں مصروف رہا کرتی تھیں‘‘۔ اس لیے وہ اپنی والدہ کو یاد کرنے کے لیے کچھ گھنٹوں کے لیے مسلمان بن جاتے تھے۔ خیر جونہی بابری مسجد کی شہادت کی خبر نشر ہوئی، تو ہمارے کمرے کے دروازے پر بڑے زور زور سے دستک ہوئی۔ دروازہ کھولنے پر دیکھا کہ سلیم بھائی بوتل پکڑے خاصے غصے میں بھارتی حکومت اور اس کے آئین کو گالیوں سے نواز رہے تھے۔ میری کتابوں کے شیلف سے انھوں نے بھارتی آئین کی کتاب نکال کر اس کو پھاڑا اور پھر نیچے گلی میں لے جاکر آگ کے حوالے کردیا۔ ایک تو وہ پورا علاقہ ہندوؤں کا تھا، دوسرا مجھے کتاب کے تلف ہونے پر بھی افسوس ہو رہا تھا۔ خدشہ  یہ بھی تھا کہ ان کی حرکت سے فساد پھوٹ سکتا ہے۔ خیر ہوگئی کہ رات خاصی بیت چکی تھی اور لوگوں نے بھی ان کی حرکت کو دیکھ کر یہی سمجھا کہ نشے میں دھت وہ اپنی کوئی کتاب جلا رہے ہیں۔

اس موقعے پر یہ واقعہ بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ سلیم شیخ جیسے فرد کو بھی اس دن ا پنی  مسلم شناخت یاد آگئی اور مسجد کی مسماری پروہ اس قدربے چین ہوگیا۔ بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے ایک سابق لیڈر مرحوم جاوید حبیب نے مجھے ایک بار کہا تھا: ’’بابری مسجدکا سانحہ اس خطے کی جدید تاریخ کا یہ چھٹا بڑا واقعہ ہے: lپہلا ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی lدوسرا یہ کہ۱۹۲۰ء میںمہاتما گاندھی کی قیادت میں کانگریس کا نیا آئین اور سوراج کا مطالبہ lتیسرا یہ کہ ۱۹۴۷ء میں تقسیم ہند اور آزادی  lچوتھایہ کہ ۱۹۷۱ء میں بنگلہ دیش کا وجود میں آنا lپانچواں یہ کہ ۱۹۸۴ء میں سکھوں کی مقدس عبادت گاہ گولڈن ٹمپل پرحملہ اور lچھٹا یہ کہ ۱۹۹۲ء میں بابری مسجد کا انہدام‘ جو دراصل اعتماد کا انہدام تھا‘‘۔ (اب اس میں ساتواں واقعہ ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کو ریاست جموں و کشمیر کو تحلیل کرکے اس کو مرکزی انتظام والا علاقہ بنانا، اور اس کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنا ہے)۔

  • بابری مسجد پر ہندوو ٔں کے دعوے کی حقیقت: بھارتی سپریم کورٹ کے پانچ رکنی عدالتی بنچ نے اب ان زخموں کو مزید کرید کر انصاف، قانون و استدلال کے بجاے عقیدے کو بنیاد بناکرمسجد کی زمین، اساطیری و افسانوی شخصیت اور ہندو دیوتا رام للاکے سپرد کرکے، وہاں پر ایک مندر بنانے کے لیے راستہ صاف کردیا۔ تقریباً ایک ہزار صفحات پر مشتمل عدالتی فیصلے کو پڑھتے ہوئے ، مجھے محسوس ہورہا تھا ، کہ جیسے میں کشمیری نوجوان افضل گورو [م:۹ فروری ۲۰۱۳ء ]کو دی گئی، سزاے موت کا فرمان پڑھ رہا ہوں۔ اس فیصلے میں بھی کورٹ نے استغاثہ کے دلائل کی دھجیاں بکھیر دی تھیں۔ حتیٰ کہ یہ بھی لکھا تھا کہ: استغاثہ، افضل گورو کے دہشت گردوں کے ساتھ روابط اور جیش محمد کے ساتھ اس کی قربت و رفاقت ثابت نہیں کر پایا ہے‘‘۔ جب لگ رہا تھا کہ شاید کورٹ اپنے ہی دلائل کی روشنی میں گورو کر بری کردے گی، کہ فیصلے کا آخری پیراگراف پڑھتے ہوئے، جج نے فرمان صادر کیا کہ:’’’ اجتماعی ضمیر‘ کو مطمئن کرنے کی خاطر، ملزم گورو کو سزاے موت دی جاتی ہے‘‘۔

بالکل اسی طرح بابری مسجد سے متعلق فیصلے میں بھی سپریم کورٹ نے ہندو فریقین کے دلائل کا پول کھول کر رکھ دیا۔ ان کی یہ دلیل بھی رد کردی کہ مسجد کسی مندر کو توڑ کر بنائی گئی تھی۔سپریم کورٹ نے بابری مسجد کے اندر مورتیاں رکھنے اور مسجد کو منہدم کرنے کے واقعات کو بھی غیر قانونی اور مجرمانہ سرگرمی قرار دیا ۔ کورٹ نے یہ بھی تسلیم کیا کہ وہاں بابری مسجد ایستادہ تھی، اور جبری طور پر نماز کا سلسلہ منقطع ہوجانے سے مسجد کا وجود ختم نہیں ہوجاتا۔عدالت نے مسجد کے نیچے کسی تعمیر کا تو اشارہ دیا ہے، لیکن یہ بھی کہا ہے کہ محکمہ آثار قدیمہ نے یہ نہیں بتایا کہ مسجد کی تعمیر مندر توڑ کر کی گئی تھی۔   جج صاحبان نے دراصل ہندوئوں کی آستھا، یعنی عقیدے کو اپنے فیصلے کی بنیادبنایا ہے۔ عدالت کا کہنا ہے کہ ’’ہندوئوں کا عقیدہ ہے کہ بھگوان رام کا جنم ’گربھ گرہ ‘، یعنی مسجد کے مرکزی گنبد کے نیچے، عین محراب و منبر کے پاس ہوا تھا ۔’’ایک بار اگر آستھا قائم ہوجائے تو عدالت کو معاملے سے دُور رہنا چاہیے اور عدالت کو عقیدت مندوں کی آستھا اور عقیدے کے معاملے میں مداخلت سے پرہیز کرنا چاہیے‘‘۔
اسی عدالت نے مقدمے کی سماعت سے قبل یہ واضح کیاتھا کہ’’ وہ اس مقدمے کا فیصلہ کسی  عقیدے کی بنیاد پر نہیں بلکہ حقِ ملکیت کی بنیاد پر کرے گی‘‘۔فیصلے کا دل چسپ پہلو یہ ہے، کہ عدالت نے فیصلہ ہندوئوں کے حق میں تو دیا، مگر مسمار شدہ مسجد کی زمین، ہندو فریقین کو دینے کے بجاے ، ’’بھگوان رام کے سپرد کرنے کے احکامات‘‘ صادر کر دیے۔ پھر یہ بھی بتایا کہ ’’چونکہ رام للا، نابالغ ہے، اس لیے اس کی سرپرستی کے لیے حکومت کو ایک ٹرسٹ بنانے کے لیے تین ماہ کا وقفہ دیا جارہا ہے‘‘۔ فریقین پر قانون و نظم کو برقرار رکھنے کی بھی ذمہ داری ڈالی گئی۔کورٹ نے بتایا:’’چونکہ رام للا کی مورتی بابری مسجد کی جگہ پر تعمیر کیے گئے عارضی مندر میں براجمان ہے، اس لیے وہ جگہ  ان کی ملکیت ہے‘‘۔ کورٹ نے رام للا کو یعنی معنوی و اعتباری لحاظ سے ایسی شخصیت قرار دیا ہے، جس پر قانون کے سبھی حقوق و فرائض کا اطلاق ہوتا ہے۔ 
ہندو فریقین ، کورٹ کے اس رخ سے خود بھی حیران ہیں، کہ رام مندر کی تعمیر میں اب وہ وزیر اعظم مودی کے دست نگر ہوں گے۔ٹرسٹ کے ممبران اور رام مندر کے نگرانوں کا تعین مودی کی مرضی سے ہوگا۔ نرموہی اکھاڑہ ، رام جنم بھومی نیاس ، ہندو مہاسبھا ا ور ویشوا ہندو پریشد سے تعلق رکھنے والے سادھو سنتوں اور پجاریوں کی نیند یں اُڑی ہوئی ہیں، جن کی عظیم الشان رام مندر کے کنٹرول اور وہاں زائرین کے چڑھاووں پر حق جمانے کی آس میں رال ٹپک رہی تھی۔

  • عدالتی فیصلہ، قانونی جائزہ:بھارتی سپریم کورٹ ایک آزاد اور خود اختیار اتھارٹی ہی سہی، مگر جب اس طرح کامعاملہ یہاں پہنچتا ہے تو انصاف کی دیوی حقیقت میں آنکھوں پر پٹی باندھ لیتی ہے۔ ۱۹۸۴ء کے آغاز میں معروف وکیل کپل سبل نے چیف جسٹس وائی پی چندرا چوڑ کی عدالت میں زور دار بحث کرکے دلیل دی تھی کہ: ’’جموں و کشمیر نیشنل لبریشن فرنٹ کے بانی مقبول بٹ کی، سزاے موت [۱۱فروری ۱۹۸۴ء] پر عمل درآمدنہیں ہوسکتا ہے، کیونکہ جموں و کشمیر ہائی کورٹ نے سزاکی توثیق نہیں کی ہے‘‘۔ اس سلسلے میں انھوں نے ہائی کورٹ کے رجسٹرار کی دستخط و مہر شدہ سند بھی پیش کی،مگر اٹارنی جنرل کے وکلا نے دلائل کا جواب دیے بغیر بس ایک سادہ ٹائپ شدہ کاغذ  چیف جسٹس کے حوالے کیا ، جس پر کسی کے دستخط نہیں تھے، اور دعویٰ کیا کہ یہ جموں و کشمیر ہائی کورٹ کا توثیق نامہ ہے۔ چیف جسٹس نے اپیل مسترد کی اور بلیک وارنٹ کو مؤخر کرنے سے انکار کردیا۔

سپریم کورٹ کے سبک دوش جج جسٹس گنگولی نے بی بی سی ہندی سروس کو بتایا کہ: ’’ان کے لیے اس فیصلے کو تسلیم کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ قانون کے ایک طالب علم کی حیثیت سے مَیں مانتا ہوں کہ یہ سپریم کورٹ کی ذمہ داری نہیں ہے کہ بھارتی آئین کے وجود میں آنے سے پہلے وہاں کیا موجود تھا۔اگر اس کو عدالتی بحث کا موضوع بنایا جاتا ہے ، تو بہت سے مندروں، مساجد اور دیگر عمارتوں کو توڑنا پڑے گا۔ ہم افسانوی حقائق کی بنیاد پر عدالتی فیصلے نہیں کرسکتے۔‘‘ بھارت کے طول و عرض میں لاتعداد مندر تو بودھ مت اور جین مت کی عبادت گاہوں کو توڑ کر بنائے گئے ہیں۔ آٹھویں صدی میں آدی شنکر آچاریہ [م: ۸۲۰ء] نے جب ہندو مت کے احیا کی خاطر ملک کے طول و عرض کا دورہ کرکے بودھ بھکشووںکے ساتھ مکالمہ کیا، تو بودھ عبادت گاہوں کو مندروں میں تبدیل کرایا۔ اشوکا [زمانہ:۱۴۴-۱۲۰ءق م ]اور کنشکا [زمانہ: ۲۶۸-۲۳۲ ق م ]کے عہد حکومت میں تو بھارت کی کثیر آبادی بودھ مت اختیار کرچکی تھی، تو اس وقت بھارت میں بود ھ آبادی محض ۸۵لاکھ، یعنی کُل آبادی کا صفر اعشاریہ سات فی صد ہی کیوں ہے؟
جسٹس گنگولی نے کہا: ’’اقلیتوں نے نسلوں سے دیکھا ہے کہ وہاں ایک مسجد تھی۔ مسجد کو  توڑ دیا گیا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق وہاں ایک مندر تعمیر ہوگا۔ اس فیصلے نے میرے ذہن میں بہت سے شکوک و شبہات پیدا کر دیے ہیں۔ آئین کے طالب علم کی حیثیت سے مجھے اس فیصلے کو قبول کرنے میں مشکل پیش آ رہی ہے‘‘۔ آئین کی دفعات کی روشنی میں تاریخی مسجد کی حفاظت کرنا سپریم کورٹ کی ذمہ داری ہے۔ لیکن سپریم کورٹ کے فیصلے نے ایک خطرناک نظیر پیش کر دی ہے کہ مسلم دور کی کسی بھی عمارت کو لے کر تنازع کھڑا کیا جاسکتا ہے۔ پھر محکمہ آثار قدیمہ سے کھدائی کرا کے اس کے نیچے کوئی ہندو عمارتی ڈھانچا بتایا جاسکتا ہے۔

فیصلہ سنائے جانے سے چند روز پہلے جس طرح بڑی تعداد میں مسلمانوں سے امن وامان برقراررکھنے اور سپریم کورٹ کا فیصلہ بسر و چشم قبول کرنے کی اپیلیں کی جارہی تھیں اور انھیں جس طرح صبر وتحمل سے کام لینے کے لیے کہا جارہا تھا۔ اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ عدالت یقینا کوئی ایسا فیصلہ صادر کرنے والی ہے، جس پر مسلمانوں کو صرف اور صرف صبر ہی کرنا ہوگا۔ بھارت کے قومی سلامتی مشیر اجیت دوول سے لے کر راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے نفرت بھرے وہ لیڈر تک، جو مسلمانوں کو منہ تک نہیں لگاتے ہیں۔ وہ بھی مسلم لیڈروں ،دانش وروں اور اردوصحافیوں کو کہیں چائے پر اور کہیں کھانے پر بلا کر یہ بتانے کی کوشش کر رہے تھے کہ ’’مسلمانوں کو سپریم کورٹ کے فیصلے کو بے چون وچرا قبول کرنا چاہیے‘‘۔

’آل انڈیا ملّی کونسل‘ کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر محمد منظور عالم کا کہنا ہے: ’’فیصلہ لکھنے کے دوران جج حضرات نے حقائق کو سامنے نہیں رکھا ہے اور خاص طور پر ٹائٹل سوٹ (ملکیت کے مقدمے) کو انھوں نے بنیاد نہیں بنایاہے۔جہاں تک کورٹ کی طرف سے مسلمانوں کو معاوضے کے طور پر ایودھیا میں مسجد تعمیر کرنے کے لیے پانچ ایکڑ زمین دینے کا تعلق ہے، کئی مسلم گروپ اس کو پہلے ہی یہ کہہ کر مسترد کرچکے ہیں کہ خیرات کی زمین پر مسجد نہیں بنائی جاتی۔

عدالت کے فیصلے کا سب سے اہم پہلو وہ ہے جس میں اس نے بابری مسجد کے انہدام کو ایک مجرمانہ فعل قرار دیا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ ’’سیکولرزم، ہندستان کے آئین کی بنیادی روح ہے‘‘۔بابری مسجد انہدام سازش مقدمے کی تحقیقات کرنے والے جسٹس من موہن سنگھ لبراہن نے بھی اپنی رپورٹ میں ’’بابری مسجد انہدام کو ایک منصوبہ بند سازش‘‘ قرار دیا تھا۔  قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ جس وقت سپریم کورٹ میں بابری مسجد کے مقدمے کی سماعت شروع ہونے والی تھی، تو جسٹس لبراہن نے اس بات پر زور دیا تھا کہ ’’سپریم کورٹ کو حق ملکیت کا مقدمہ فیصل کرنے سے پہلے بابری مسجد انہدام سازش کیس کی سماعت کرنی چاہیے،کیونکہ یہ مقدمہ زیادہ اہمیت کا حامل ہے‘‘۔اب،جب کہ سپریم کورٹ نے از خود ’’بابری مسجد کے انہدام کو ایک مجرمانہ سرگرمی‘‘ قرار دے دیا ہے، تو اسے ان لوگوں کے خلاف عدالت میں جاری مقدمے پر بھی غور کرنا چاہیے، جنھوں نے بابری مسجد شہید کی تھی۔

با بری مسجد انہدام کا مقدمہ کچھوے کی رفتار سے چل رہا ہے، جس میں لال کرشن اڈوانی، مرلی منوہر جوشی ،اوما بھارتی ،کلیان سنگھ اور ونئے کٹیار سمیت سنگھ پریوار کے۳۲ لیڈروں کے خلاف فردِ جرم عائد کی جاچکی ہے۔مسلمان با بری مسجد تو کھو چکے ہیں، لیکن وہ ان لوگوںکے خلاف کارروائی ضرور چاہتے ہیں، جنھوں نے قانون ،دستور اور عدلیہ کی دھجیاں اڑاتے ہوئے بابری مسجد کو دن کے اُجالے میں شہید کیا تھا۔ 
ہندی کے ایک معروف صحافی اور سماجی کارکن شتیلا سنگھ نے اپنی ایک حالیہ تصنیف ایودھیا - رام جنم بھومی بابری مسجد وواد  کا سچ میں انکشاف کیا ہے کہ کس طرح تین عشرے قبل ان کی موجودگی میں پرم ہنس رام چندر داس کی قیادت میں فریقین نے ایک فارمولے پر اتفاق کیا تھا۔ ویشوا ہندو پریشد کے سربراہ اشوک سنگھل جب اس فارمولے پر مہر لگانے کے لیے ہندو انتہا پسندو ں کی مربی تنظیم آرایس ایس کے سربراہ بالا صاحب دیورس کے پاس پہنچے ، تو ان کو خوب پھٹکار لگائی گئی۔ دیورس کا کہنا تھا ’’ رام مندر تو ملک میں بہت ہیں، اس لیے اس کی فکر (یعنی رام مندر کی تعمیر) چھوڑ کر اس کے ذریعے ہندو وٗں میں آرہی بیداری کا فائدہ اٹھانا ہے۔‘‘ یعنی اگر معاملہ سلجھ جاتا ہے تو فرقہ وارانہ سیاست کی آگ سرد پڑ جائے گی اور اقتدار تک پہنچنے کا راستہ بند ہوجائے گا۔

  • انصاف کی نفی اور ہندو ذہنیت: بابری مسجد کا معاملہ سب سے پہلے۱۸۵۳ء میں فیض آباد کی عدالت کے سامنے آیا، جب ایک ہندو مہنت نے دعویٰ کیا کہ ’’مسجد کے گنبداور محراب کے پاس کئی لاکھ سال قبل بھگوا ن رام پیدا ہوئے تھے‘‘۔ برطانوی جج نے کئی سماعتوں کے بعد اس دعوے کو خارج کر دیا۔ اس کے بعد ۱۹۴۹ء میں مقامی وقف بورڈ اور ایک شخص ہاشم انصاری نے کورٹ میں فریاد کی ، کہ ’’رات کے اندھیرے میں چند افراد نے دیوار پھلانگ کر محراب کے پاس ایک مورتی رکھ دی ہے، لیکن مقامی انتظامیہ نے مورتی کو ہٹانے کے بجاے خود مسجد ہی پر تالہ لگاکر مسلمانوں کی عبادت پر پابندی لگادی ہے۔ کورٹ سے درخواست ہے کہ اس جگہ کی ملکیت طے کی جائے‘‘۔ ضلعی عدالت میں کئی برسوں تک اس قضیے پر جب کوئی کارروائی نہیں ہوئی تو اس کو الٰہ آباد ہائی کورٹ کے سپردکر دیا گیا۔ جس نے ۲۰۱۰ء میں ایک ایسا عجیب و غریب فیصلہ سنایا کہ جس نے کسی بھی فریق کو مطمئن نہیں کیا۔ فریقین نے اس کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر دی۔

بابری مسجدکی شہادت میں عدلیہ اور انتظامیہ نے بھرپور کردار ادا کرکے اپنی فرقہ وارانہ ذہنیت کا پول کھول دیا ۔ اعتبار کی رہی سہی کسر ۳۰ دسمبر ۲۰۱۰ء کو الٰہ آباد ہائی کورٹ کے تین ججوں کے بنچ نے اس وقت پوری کر دی، جب برسوں فریقین کے دلائل سننے کے بعد قانون اور شواہد کو بالاے طاق رکھ کر ایک فریق کے عقیدے اور یقین کو بنیاد بناتے ہوئے بابری مسجد پر حق ملکیت کا فیصلہ ہندوئوں کے حق میں سنا دیا۔ ایک جج نے زمین کے بٹوارے کی تجویز دی۔ بنچ نے ان نکات پر بھی فیصلہ دیا، جو شاملِ بحث ہی نہ تھے۔ یہ ایک سیدھا سادا سا ملکیتی معاملہ تھا۔ ۱۹۴۹ء کو جب مسجد کے منبر پر مورتی رکھی گئی اور مقامی انتظامیہ نے تالہ لگا کر مسلمانوں کی عبادت پر پابندی لگائی، تو مقامی وقف بورڈ اور ایک شخص ہاشم انصاری نے اس کے خلاف کورٹ میں فریاد کی کہ اس جگہ کی ملکیت طے کی جائے۔ جج صاحبان نے برسوں کی عرق ریزی کے بعد قانون اور آئین کی پروا کیے بغیر کہا کہ ’’ Law of Limitations کا اطلاق ہندو دیوی دیوتائوں پر نہیں ہوتا ہے اور نہ ان جگہوں ہی پر ہوتا ہے جہاں ان کی نشانیاں ہوں۔ دوسرے لفظوں میں کسی بھی جگہ پر کوئی شخص کوئی مورتی، چاہے وہ پتھرکا ٹکڑا یا کسی درخت کی شاخ یا پتا ہی کیوں نہ ہو، رکھ کر اس پر مالکانہ حقوق جتاسکتا ہے، چاہے اس جگہ کا مالک وہاں صدیوں سے ہی مقیم کیوں نہ ہو۔

اس فیصلے کا اعتبار اُس وقت اور بھی مضحکہ خیز ہو جاتا ہے جب جج صاحبان نے یہ تسلیم کرلیا کہ ’’بھگوان رام کا جنم اسی مقام پر ہوا تھا جہاں بابری مسجدکا منبر واقع تھا‘‘ اور یہ بھی کہا کہ ’’ان کے مطابق رام آٹھ لاکھ سال قبل مسیح میں اس جگہ پر موجود تھے‘‘۔ دنیا بھر کے تاریخ دان اور آثارِ قدیمہ کے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ ’’جنوبی ایشیا میں اتنی پرانی آبادی کے کوئی آثارابھی تک نہیں ملے ہیں‘‘۔ ہائی کورٹ کے جج صاحبان نے اپنے طویل فیصلے میں مسلم حکمرانوں کے خلاف بھی ایک لمبا چوڑا تبصرہ کیا اور ان کے ہاتھوں ہندو عبادت گاہوں کو نقصان پہنچانے کے عمل کو بھی اپنے فیصلے کا جواز بنایا۔ اگر یہ بات درست ہے تو ہندو حکمرانوں کے ذریعے لاتعداد بودھ خانقاہوں کی بے حرمتی اور ان کی مسماری کس کے کھاتے میں ڈالی جائے؟ کشمیر کے ایک ہندو بادشاہ ہرش دیو نے اپنے خالی خزانوں کو بھرنے کے لیے جنوبی کشمیر کے مندروں کو لوٹا اور جب پجاریوں نے مزاحمت کی تو ان کو تہہ تیغ کر دیا۔ اگر ان تاریخی واقعات کا انتقام موجودہ دور میں لینے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے، تو اس کا اختتام کہیں نہیں ہو گا کیونکہ ہر قوم نے، ماضی میں جب وہ غالب رہی، کوئی نہ کوئی ایسی حرکت ضرور کی جو کسی نہ کسی کو تکلیف پہنچانے کا سبب بنی۔ تاہم، اب آباواجداد کے گناہوںکی سزا ان کی اولادوں کو تو نہیں دی جا سکتی۔

  • بابری مسجد اور مسجد شہید گنج کی مثال:   بابری مسجد کے قضیے کا لاہورکی مسجد شہید گنج مقدمے کے ساتھ موازنہ کرنا بے جا نہ ہو گا۔ یہ مقدمہ اور اس پر پاکستانی مسلمان معاشرے کا رویہ ہندستان کے سیکولرزم او ر اس کے لبرل اقدار پر ایک زوردار طمانچا ہے۔ ۱۷۶۲ء میں لاہور پر سکھوں کے قبضے کے بعد اس مسجد پر ان کے فوجیوں نے ڈیرا ڈالا اور پھر اس کوگوردوارہ کے   طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا۔ مسلمان ۱۸۵۰ء سے ۱۸۸۰ء تک قانون کے مختلف دروازوں پر دستک دیتے رہے، مگر ہر بار عدالتیں ان کی اپیلوں کو خارج کرتی رہیں۔ ۱۹۳۵ء میں انگریز گورنر نے اس عمارت کو محکمہ آثار قدیمہ کے سپرد کرنے کی تجویز دی تھی کہ سکھوں نے رات کے اندھیرے میں مسجد کی عمارت ڈھا دی۔ مسلم لیگ کے اراکین نے پنجاب اسمبلی میں قانون سازی کے ذریعے یہ جگہ مسلمانوں کے سپرد کرنے کی تجویز پیش کی۔ معروف قانون دان اے جی نورانی [پ:۱۹۳۰ء] کے بقول: ’’قائد اعظم محمد علی جناح نے اسے رد کر دیا‘‘، اور پھر جناح صاحب نے اس قضیے کو کبھی سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہیںکیا، بلکہ قانون کی عمل داری کا پاس کیا۔ پاکستان بننے کے ۷۲ سال بعد بھی یہ گوردوارہ لنڈا بازار میں آب و تاب کے ساتھ کھڑا ہے،حالانکہ کوئی سِکھ اب اسے عبادت کے لیے استعمال بھی نہیں کرتا۔ ۱۹۴۷ء کے بعدامکان تھاکہ اس کو دوبارہ مسجد میں تبدیل کیا جاسکتا ہے، مگر کسی پاکستانی سیاست دان یا مذہبی شخصیت نے عدالت کا فیصلہ رد کرنے کی کوشش نہیں کی۔ 

اس کے برعکس بھارتی عدلیہ کی جانب داری کا عالم یہ ہے کہ ایک سابق چیف جسٹس جے ایس ورما نے ’ہندوتوا‘ کو مذہبی علامت کے بجاے بھارتی کلچرکی علامت اور ایک نظریۂ زندگی بتایا۔ انھوں نے ہندو انتہا پسندوںکے گورو ہیڈگیوار [م: ۱۹۴۰ء] ، ساورکر [م:۱۹۶۶ء] یا گولوالکر [م:۱۹۷۳ء]کی تصنیفات کے بجاے مولانا وحیدالدین خان کی تحریروںپر تکیہ کر کے ہندو انتہا پسندی کو ایک جواز فراہم کردیا۔ ۱۹۹۲ء میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس وینکٹ چلیا کے طریقۂ کار نے بھی مسجد کی مسماری کی راہ ہموارکی۔ وہ مسجد کو بچانے اور آئین و قانون کی عمل داری کو یقینی بنانے کے بجاے کار سیوکوں (مسجد کو مسمار کرنے والے) کی صحت کے بارے میں زیادہ فکرمند تھے۔ ۱۹۹۸ء میں بی جے پی حکومت نے انھیں ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیشن کا سربراہ مقرر کر دیا۔

اے جی نورانی نے اپنی کتابDestruction of Babri Masjid: A National Dishonour میں کئی حقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کانگریس کے اندرا گاندھی کے دور اقتدارمیں ہی بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر کی تعمیر کی راہ ہموار کرنے کے لیے ویشوا ہندو پریشد کے ساتھ ایک سودے بازی ہوئی تھی۔اگرچہ پریشد نے اندرا گاندھی کی ہلاکت [۱۹۸۴ء] کے بعد اپنی تحریک روک دی، مگر راجیو گاندھی نے اس ڈیل کو پھر زندہ کیا۔ ان کے حواریوں نے ایک مسلم مطلقہ خاتون شاہ بانو کا قضیہ کھڑا کیا اور پارلیمنٹ سے ایک قانون پاس کروایا کہ مسلم پرسنل لا میں عدالت کوئی ترمیم نہیں کر سکتی۔ راجیو گاندھی کو مشورہ دیا گیا تھا کہ اس قضیے کو کھینچنے کا کو ئی فائدہ نہیں ہے، مگر وہ مسلمانوںکو بے وقوف بنانے پر تلے ہوئے تھے تاکہ پریشد کے ساتھ سودے بازی کو آگے بڑھایا جاسکے اور یہی ہوا۔کانگریس کے علاوہ دیگر جماعتوں سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی، جن کی سانسیں ہی مسلمانوں کے دم سے ٹکی ہیں، ان کا رویہ بھی افسوس ناک رہا۔ ان دونوں پارٹیوں نے جو پچھلے ۲۰برسوں سے اتر پردیش میں حکومت کر رہی تھیں ، بابری مسجد کی مسماری کے ملزمان کے خلاف کارروائی کرنے میں کوئی دل چسپی نہیں دکھائی۔

سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے ۴۰روز تک مسلسل اس معاملے کی سماعت کی، جس کے دوران عدالت میں ۱۱ہزار۵ سو دستاویزات پیش کی گئیں۔ان میں کئی دستاویزات سنسکرت اور فارسی میں تھیں۔ اتر پردیش کے الٰہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف جب اپیل کو سپریم کورٹ نے سماعت کے لیے منظور کیا، تو الٰہ آباد سے ۱۵ بڑے ٹرنکوں میں دستاویزات دہلی پہنچا دی گئیں۔ ہائی کورٹ کا ٖفیصلہ ۸ہزار ایک سو ۷۰ صفحات پر مشتمل تھا اور اس کے ساتھ ۱۴ہزار ۳سو ۸۵ صفحات بطور ضمیمہ منسلک تھے۔ مسلم فریق کے وکلا نے باربار یہ دلیل دی کہ بابری مسجد کا معاملہ  ایک سیدھا سادہ ملکیتی معاملہ ہے۔ وہاں پر مندر یا مسجد طے کرنے کا معاملہ شاملِ بحث ہی نہیں ہے۔

میجر جنرل الیگزندر کنیگہم کے مطابق ۱۵۰۰ قبل مسیح میں اس شہر کو تباہ و برباد کردیا گیا تھااور پھر ۱۳۰۰برسوں تک یہ غیر آباد رہا۔تب تک نہ عیسائی اور نہ مسلمان ہی جنوبی ایشیا میں آئے تھے۔ اس دورا ن دریاے سورو نے بھی کئی رخ بدلے ہوں گے۔ آخر اب یہ کیسے طے ہوسکے گا کہ  بھگوان رام کئی لاکھ برس قبل اسی مسجد کے محراب کے پاس پیدا ہو گئے تھے؟ مسلم فریقین کے وکیل راجیو دھون نے کورٹ کو بتایا کہ صرف پچھلے ۵۰۰برسوں میں ہی دریا نے کئی رخ بدلے ہیں۔ بینچ کے ایک رکن جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ نے ہندو فریقین سے کہا کہ ’’دنیا کا ایک دستور ہے کہ تہذیبیں دریا کے کناروں پر بستی چلی آ ئی ہیں، اور برباد ہوئی ہیں۔اب آپ کیسے یہ ثابت کریں گے کہ مسجد کے نیچے کے کھنڈرات کسی عبادت گاہ کے ہی تھے اور وہ بھگوان رام کی رہایش گاہ بھی تھی‘‘۔ جب جج نے ہندو فریق نرموہی اکھاڑہ کو زمین کی دستاویزات فراہم کرنے کو کہا، تو ان کا جواب تھا: ’’یہ نزول زمین ہے، مگر ٹیکس ریکارڈ میں یہ اکھاڑہ کی جایداد ہے‘‘۔ جب جج نے ٹیکس ریکارڈ مانگا تو جواب ملا:’’ ۱۹۸۲ء میں ایک ڈکیتی کی واردات میں وہ ضائع ہو گیاہے‘‘۔

  • مصالحت کی کوششیں: سپریم کورٹ نے سماعت سے قبل معاملے کو ایک تین رکنی ثالثی کمیٹی کے حوالے کرکے عدالت کے باہر فریقین کو کسی تصفیے تک پہنچنے کی ہدایت کی۔سابق جج جسٹس خلیفۃ اللہ کی قیادت میں ہندو گورو سری روی شنکر اور ایڈووکیٹ سری رام پنچو پر مشتمل اس کمیٹی نے فریقین کے ساتھ کئی ملاقاتیں کی، جو بے سود رہیں۔ اس کمیٹی کی کارروائی خفیہ رکھنے کی ہدایت دی گئی تھی اور میڈیا کو بھی اسے کور کرنے سے منع کردیا گیا تھا۔ تاہم، جو خبریں اب چھن چھن کر آرہی ہیں، ان کے مطابق ایک مسلم فریق ’سنی وقف بورڈ‘ نے بابری مسجد کے معاملے سے دست برداری کی پیش کش کی تھی اگر حکومت اور ہندو فریقین چند شرائط تسلیم کرتے ہیں۔ ان میں ایودھیا کی کچھ مسجدوں کی مرمت کے علاوہ محکمہ آثار قدیمہ کے زیر انتظام مسجدوں میں عبادت کی منظوری اور تمام مذہبی مقامات پر ۱۹۴۷ءسے پہلے والی صورت حال برقرار رکھنے کے قانون کے نفاذ کی شرط بھی شامل تھی۔ جس کو ۱۹۹۱ء میں وزیراعظم نرسمہا رائو حکومت نے تسلیم اور منظور کیا تھا۔ 

معروف صحافی معصوم مراد آبادی کے بقول: ’’ان میں آثارقدیمہ کے زیر انتظام سیکڑوں تاریخی مسجدوں میں نماز کی آزادی دینے کی شرط سب سے اہم تھی۔ دہلی سمیت ملک کے مختلف شہروںمیں موجود مسلم دورحکومت کی تعمیرشدہ یہ مساجد زبانِ حال سے اپنی بے کسی کا نوحہ بیان کررہی ہیں، جہاں سیاحوں کو جوتوں سمیت گھومنے کی تو آزادی ہے، لیکن مسلمانوں کو نماز پڑھنے کی اجازت نہیں ہے۔اس کے علاوہ وشوا ہندو پریشد نے تین ہزار مسجدوں کی فہرست بنارکھی ہے، جو اس کے خیال میں مندروںکو توڑ کر بنائی گئی ہیں۔ بابری مسجد کے بعد وہ ان مسجدوں کے معاملے کو اٹھا کر عوامی جذبات بھڑکا نے کے لیے پوزیشن بنائے بیٹھے ہیں۔ اکھاڑہ پریشد نے تو پہلے ہی دھمکی دی ہے کہ رام مندر کے بعد اب کاشی اور متھرا کے لیے بھی تحریک تیز کی جائے گی‘‘۔

بتایا جاتا ہے کہ مذکورہ کمیٹی کے سامنے ایک اور تجویز یہ آئی تھی کہ ’’اگر حکومت آئین کی  دفعہ ۳۴۱ میں ترمیم کرکے عیسائیت یا اسلام اختیار کرنے والے دلتوںکے لیےکوٹہ برقرار رکھتی ہے، تو اس صورت میں بھی مسلمان مسجد سے دست بردار ہو سکتے ہیں‘‘۔ اس شق کی رُو سے ’’اگر کوئی دلت [شودر]، اسلا م یا عیسائیت اختیار کرتا ہے، تو وہ تعلیمی اداروں اور نوکریوں میں ریزرویشن [کوٹا]کا حق کھو دیتا ہے‘‘۔ یہ شق ہندو مذہب کے پس ماندہ طبقات اور نچلی ذاتوں کو تبدیلی مذہب سے روکنے کے لیے آئین میں رکھی گئی ہے۔ اس شرط کو ہندو فریقین نے خارج کردیا۔ ان کو خدشہ پیدا ہوا کہ اگرآئین کی اس شق میں ترمیم کی جاتی ہے، تو دلت اور دیگر نچلی ذاتوں کے ہندو عیسائیت یا اسلام کی طرف جوق در جوق رجوع کرسکتے ہیں۔ تاہم، معصوم مراد آبادی کے مطابق ’’اگر کسی بھی نوعیت کی وقتی شرطوں پر بابری مسجد طشتری میں سجا کرہندوؤں کو پیش کردی گئی، تو بھارت میں مسلمانوں کی مذہبی شناخت خطرے میں پڑ جائے گی‘‘۔

بابری مسجد کے مقدمے میں مسلمانوں کی پیروی ایک ہندو وکیل راجیو دھون نے کی اور اس خدمت پر کوئی پیسہ وصول نہیں کیا ۔سپریم کورٹ میںسماعت کے آخری دن ایک ہندو فریق نے رام مندر کا ایک فرضی نقشہ پیش کر کے عدالت کو گمراہ کرنا چاہا تو راجیو دھون نے بھری عدالت میں اس نقشے کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے اور کہا: ’’بابری مسجد پر عدالت کا فیصلہ یہ طے کرے گا کہ کیا اصولِ حکمرانی میں عقیدے کو استدلال پر فوقیت حاصل ہے؟ استدلال کو عقیدے پر فوقیت دی جانی چاہیے‘‘۔ اپنی بحث سمیٹتے ہوئے راجیو دھون نے عدالت کے سامنے علامہ اقبال کے یہ شعر بھی پڑھے:

وطن کی فکر کر نا داں مصیبت آنے والی ہے
تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں

نہ سمجھو گے تو مٹ جائو گے اے ہندستاں والو
تمھاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں

پاکستان اور عالم اسلام ،عوامی جمہوریہ چین کے بارے میں دوستانہ رجحان اور خوش گوار سوچ رکھتا ہے۔ جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ چین کے بارے میں یہ تصور موجود ہے کہ وہ دوسرے ممالک کے سیاسی معاملات میں عدم مداخلت اور توسیع پسندانہ طریقوں سے اپنے آپ کو بچانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ اسی طرح یہ بات بھی معروف ہے کہ چین دوسرے ملکوں کے تعلقات میں ان کی قومی عزت نفس اور وقار کا خیال رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ پھر پاکستان سے چین کے اور چین سے پاکستان کے تعلقات کی ایک قابلِ قدر تاریخ ہے۔ ان تمام امور کی بنیاد پر ہم عوامی جمہوریہ چین کی تعمیر ، امن اور یک جہتی کو دوستی کا مرکزی نکتہ تصور کرتے ہیں۔ 
اسی طرح ہم یہ توقع بھی رکھتے ہیں کہ چین کی دور اندیش قیادت واقعات اور حوادث کو مدنظر رکھتے اور اپنی پالیسیاں تشکیل دیتے وقت چند پہلوئوں پر نظرثانی کرے۔ بلاشبہہ عمومی طور پر انھیں مذہب اور مذہبی جذبات سے کچھ نسبت نہیں، لیکن بہرحال، وہ انسانی تہذیب اورانسانی معاشرے میں مذہب کے گہرے اثرات سے واقف ہیں۔ 
اسی طرح باریک بین چینی حاکموں کو اس چیز کا بھی علم ہے کہ ستاون ،اٹھاون مسلمان حاکم، مسلم اُمت کے جذبات سے جتنے بھی دُور اور سامراجیوں کے قریب تر ہوں، وہ ایک الگ اکائی ہیں۔ حاکموں کے بر عکس مسلم امت کے دل ایک وجود کی حیثیت سے دھڑکتے ہیں۔ رنگ ونسل اور علاقے یا زبان کی تقسیم کو نظر انداز کرتے ہوئے، وہ ایک تہذیب ہیں۔ یہ بات بھی چین کے دُوراندیش حاکم جانتے ہیں اور پھر زمینی حقائق بھی یہ ہیں:چینی ترکستان ،وسطی ایشیا ، ترکی، جنوبی ایشیا، انڈونیشیا سے بوسنیا اور مراکش تک ایک جغرافیائی وحدت ،مسلم اُمہ کے نام سے منسوب ہے۔ یہ وحدت نہ امریکا کی ہمسایہ ہے اور نہ یورپ سے منسلک، بلکہ اس کی بڑی آبادیاں چین ہی سے متصل اور قریب تر ہیں (جیسے مسلمانوں کے تینوں بڑی آبادیوں کے ممالک ،انڈونیشیا ،پاکستان، بنگلہ دیش)۔ اس لیے ،ایک تو اس فطری ہمسائیگی کا تقاضا ہے کہ ہمسایے کے جذبات کا پاس ولحاظ رکھا جائے۔ اور دوسرا یہ کہ حکومت کے ایوانوں میں بیٹھے مسلمان حاکموں کے بجاے کھیتوں، قصبوں، کہساروں،میدانوں اور صحرائوں میں بسنے والے مسلمانوں کے جذبات واحساسات کو سمجھنے کے لیے، جغرافیائی سرحدوں سے بالا تر ہوکر ، غور وفکر کی کوشش کریں۔
جیسا کہ اُوپر ذکر ہوا ہے، ہم چین کی جغرافیائی وحدت کا احترام کرتے ہیں۔اس کی ترقی پر خوشی محسوس کرتے ہیں، مگر اس کے ساتھ ہی ہم کہنا چاہتے ہیں کہ: چینی حکومت ،چین سے منسلک سنکیانگ اور وہاں بسنے والے اویغور مسلمانوں کے ساتھ شفقت، احترام اور ان کی اقدار کے پاس ولحاظ کی راہ پر چلے، تو یہ قدم نہ صرف چین کے داخلی استحکام ،بلکہ خود مسلم امت سے چین کے خوش گوار تعلقات کے فروغ کا ذریعہ بنے گا۔ اس کے ساتھ ہی بعض مغربی ممالک کے اس پراپیگنڈے کا سدِّباب بھی ہوسکے گا جو وہ جدید چینی سلطنت میں پیدا ہونے والے تضاد کی بنیاد پر کر رہے ہیں۔
گذشتہ دنوں ۴۰۳ صفحات پر مشتمل خود چین کے جو خفیہ سرکاری کاغذات The Xinjiang Papers  کے نام سے دنیا کے سامنے آئے ہیں ۔ ہم ان کی تفصیلات اور جزئیات پر بحث سے قطع نظر، یہاں پر پاکستان کے مؤقر روز نامہ Dawn  کا اداریہ پیش کر رہے ہیں، تاکہ معاملے کی گمبھیرصورتِ حال کا اندازہ ہو سکے:
’’یہ ۳۰۴ صفحات، بہت واضح الفاظ میں ایک ایسا ہوش ربا اور منجمد کر دینے والا منظر پیش کرتے ہیں، جس سے یہ نظر آتا ہے کہ چینی مسلمانو ں پر مشتمل اقلیت کی شناخت کو مٹادینے کا پروگرام پیش نظر ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر بدقسمتی کی بات یہ سامنے آ رہی ہے کہ انھیں نکال پھینکنے کی یہ حکمت عملی چینی حکومت کی پالیسی کا ایک مرکزی نکتہ ہے۔ چینی کمیونسٹ پارٹی کی ان خفیہ دستاویزات کو ایک گم نام ذریعے نے نیویارک ٹائمز [۱۶نومبر ۲۰۱۹ء] کے ذریعے بے نقاب کیا ہے ، اور یوں اس سوچ اور اس عمل پر روشنی ڈالی ہے، جس کے تحت چینی مسلمانوں اور خاص طور پر اویغور مسلمانوں کو ’دوبارہ سبق سکھانے‘ [یا پڑھانے] کی غرض سے بڑے پیمانے پر نظر بند کیا گیا ہے اور انھیں وحشیانہ مظالم کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ ان کاغذات سے یہ انکشاف ہوتا ہے کہ چین، پُرامن باشعور مسلمانوں اور انتہا پسندوں سے متصادم ہے، جسے مذہبی حوالے سے جبر کی خالص ترین شکل کہا جا سکتا ہے۔ خفیہ صفحات میں ان تقاریر کے متن بھی شامل ہیں، جن میں مبینہ طور پر صدر ژی چن پنگ نے سنکیانگ میں انتہا پسندی کے خلاف قومی سلامتی کے اداروں کے ذریعے کارروائی کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس طرح کی ایک تقریر میں ’انتہا پسندی ‘ سے ’متاثر‘ افراد کی امداد کے لیے ’تکلیف دہ علاج معالجے ‘ کی حمایت کی جارہی ہے اور کہا جا رہا ہے ’ہرگز رحم نہیں کرنا ‘۔ منظر عام پر آنے والی دستاویزات کے مطابق سرکاری اہل کاروں کی رہنمائی کے لیے ایک گائڈ کا کردار سامنے آتا ہے کہ جب پریشان حال اور دکھی اویغور [مسلمان]اپنے خاندان کے لوگوں کی ’گم شدگی ‘ کے بارے میں سوال کرتے ہیں ، تو وہ [گائڈ] بتاتا ہے کہ ’’سرکاری حکام کی ہدایت ہے کہ وہ لوگ اسلام پسندانہ وائرس اور ’انقلابیت‘ سے ’متاثر‘ ہو چکے تھے، اس لیے ان کی صحت کی درستی اور انھیں ٹھیک کرنے کے لیے ’قرنطینہ ‘[متعدی امراض سے بچائو کے مرکز ] میں رکھنے کی ضرورت تھی‘‘۔ مزید برآں ، نہ چاہنے کے باوجود اویغور افراد خانہ کے پاس، سرکاری اہل کاروں کے ان بیانات کو قبول کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے، کیونکہ اگر وہ زیادہ پریشانی واضطراب کا مظاہرہ کریں گے تو ان کے عزیزواقارب کی نظر بندی کا زمانہ زیادہ لمبا ہو سکتا ہے ۔
’’کچھ عرصے سے مغربی ذرائع ابلاغ پر یہ بات بڑے تسلسل سے سامنے آ رہی ہے کہ ’نظربندی‘ یا حراستی کیمپوں میں ۱۰ لاکھ اویغور قیدوبند سے دو چار ہیں۔ دنیا کی دوسری بڑی معاشی طاقت [چین ] سے اعلیٰ معاشی مفادات وابستہ رکھنے والے ممالک ، ان اطلاعات کو عام طور پر پراپیگنڈا کہانیاں کہہ کر نظر انداز کرتے ہیں ، اور انھیں مسترد کر دیتے ہیں ۔ خود چین نے ان پیپرز کو ’بے نقاب‘ کرنے والے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’یہ انتہا پسندی کے خلاف ہماری جدوجہد کو بدنام کرنے کی کوشش ہے، جسے سنکیانگ میں ہی بڑی کامیابی سے آگے بڑھایا جا رہا ہے‘‘۔ جو دراصل رحم کی قدر سے مکمل طو ر پر خالی ہے۔ تاہم، اس میں اہم ترین بات یہ ہے کہ [چین نے ] ان دستاویزات کو متنازعہ کہنے سے گریز کیا ہے۔ یہ وہ چیز ہے جس نے چینی مسلمانو ں پر ڈھائے جانے والے مظالم سے بے خبری ظاہر کرنے کو ایک مشکل کام بنا دیا ہے۔ دوسرے بہت سے ملکوں کی طرح اگرچہ خود پاکستان میں بھی انسانی حقوق کا باب داغ دار ہے، لیکن اس کے باوجود جب وہ کشمیریوں اور روہنگیا [مسلمانوں ] کے انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف بات کر سکتا ہے، تو کیا وہ اویغور وں کے بارے میں خاموش رہ سکتا ہے ؟‘‘ (اداریہ روز نامہ Dawn، کراچی،۲۰ نومبر ۲۰۱۹ء ) 
’چینی دستاویزات‘ اور اس اداریے کا ایک خاص پہلو یہ ہے کہ چینی مسلمانوں اور اویغور مسلم آبادی ، دونوں ہی کے حوالے سے یہ دستاویزات، مخصوص ریاستی رجحان کی طرف متوجہ کرتی ہیں۔ دوسرا یہ کہ ان دستاویزات میں ’سخت تادیبی کارروائی‘ اور ’دماغ درست‘ کرنے کا اسلوبِ بیان واضح ہے۔ تیسرا یہ کہ لفظ ’انتہا پسندی‘ کو مسلمانوں کے قائم مقام کے طور پر برتنے کا مغربی رجحان یہاں پر بھی موجود ہے۔چوتھا یہ کہ  دنیا کے ممالک اپنے مادی مفادات کو عزیز تر رکھتے اور انسانی مسئلے کو نظر انداز کرتے ہیں۔ پانچواں یہ کہ دنیا اور پاکستان کو اس معاملے میں تادیب اور تعذیب سے بچانے کے لیے ہمدردانہ کوششیں کرنی چاہییں۔ چھٹا یہ کہ چین نے ان دستاویزات کی مذمت تو کی ہے لیکن متنازعہ نہیں کہا۔
دنیا کے حالات اور خصوصاً ہمارے اس علاقے کے حالات جس رخ پر جا رہے ہیں ، ان کا تقاضا ہے کہ نہ صرف چین میں بقاے باہم کو بڑے پیمانے پر فروغ دیا جائے، بلکہ اویغور مسلمانوں کے داخلی وتہذیبی تشخص کا اعتراف واحترام کیا جائے۔ مبینہ طور پر اویغور مسلمانوں کی نسلی تطہیر اور غالب ’ہان چینی نسل‘ کی سنکیانگ میں آبادکاری، ممکن ہے کہ چند برسوں میں ممکن بناکر مقامی آبادی کا توازن تبدیل کردیا جائے، لیکن اس کاوش کے منفی اثرات بہت دُور رس ہوں گے۔ اس لیے ناگزیر ہے کہ اویغور آبادی کو ہمدردی سے اپنے مذہبی، ثقافتی اور معاشی معاملات چلانے کے لیے شریک ِ سفر بنایا جائے ، جس طرح کہ چین کی جرأت مند حکومت نے ’ایک ملک، اور دو نظام ‘ کا تجربہ کر کے    نئی تاریخ رقم کی ہے۔ اسی طرح ضرورت یہ ہے کہ ’ایک ملک اور باہم احترام‘ کے راستے پر بھی چلاجائے۔ اس طرح چین زیادہ مضبوط ہو گا اور ان تضادات کو گہرا کرنے کی مغربی سازشوں کو ناکام بھی بنا یا جاسکے گا اور مسلم اُمت میں تشویش کو ختم کیا جاسکے گا۔
_______________