مضامین کی فہرست


جون ۲۰۱۷

اپریل ۲۰۱۷ء میں پیش آنے والے دو انتہائی تکلیف دہ اور اسلامی تصور عدل اور انسانی اخلاقی اقدار کے منافی واقعات نے انتہا پسندی اور دینی مدارس سے اس کے تعلق کے حوالے سے غوروفکر کے لیے بعض نئے زاویوں کو نمایاں کر دیا ہے ۔

اب تک اخباری اطلاعات کے مطابق ناموسِ رسولؐ کے حوالے سے مردان کی ولی خان یونی ورسٹی میں رُونما ہونے والے افسوس ناک واقعے میں زدوکوب کرنے اور آخر کار سفاکانہ طور پر قتل کا ارتکاب کرنے والوں میں سے کوئی ایک فرد بھی کسی مذہبی فرقے سے تعلق نہیں رکھتا تھا اور   نہ مقتول کسی مسلکی گروہ کا حصہ تھا۔

اسی طرح سندھ کے میڈیکل کالج میں تعلیم پانے والی طالبہ یا اس کے بھائی یا والدین کا کوئی تعلق کسی مذہبی یا انتہا پسند گروہ سے نہیں تھا، بلکہ اخباری اطلاعات کے مطابق لڑکی کا گھرانا لبرل شمار کیا جاتا تھا۔ زمینی حقائق کچھ بھی ہوں، ملک کے میڈیا اور لبرل حلقوں کا وتیرا ہے کہ گذشتہ دوعشروں سے ہرتخریبی واقعہ اور خصوصیت سے ناموسِ رسولؐ کے حوالے سے ہر واقعے کا رشتہ ـ ’مذہبی شدت پسندوں‘ سے جوڑا جاتا رہا ہے اور تان اس پر ٹوٹتی ہے کہ ’’ناموسِ رسالتؐ کے قانون کو تبدیل کیا جائے، تعلیمی  نصاب سے اسلام کو خارج کیا جائے اور ریاست اور دین کے رشتے پر نظرثانی کرکے پاکستان کو ایک سیکولر قومی ریاست بنایا جائے‘‘۔

معاشرے میں بڑھتی ہوئی تشدد پسندی

ان حالیہ واقعات پر برقی ذرائع ابلاغ اور اخبارات میں صحافیانہ نگارشات میں جن خیالات کا اظہار کیا گیا اگر ان کا تجزیہ کیا جائے، تو مختلف زاویۂ ہاے نگاہ اُبھر کر سامنے آتے ہیں۔

اولاً: اس بات کو اُجاگر کیا گیا ہے کہ ملک میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کا اصل ذمہ دار ’مذہب‘ اور مسلکی فرقہ پرستی ہے۔ چنانچہ جب تک اسلام کو یورپی تجربے کی روشنی کے مطابق ایک ’ذاتی مذہب‘ قرار دے کر زندگی کے تمام شعبوں سے خارج نہیں کیا جائے گا ’ـمذہبی انتہا پسندی‘ اور’شدت پسندی‘ کا خاتمہ نہیں ہو سکتا۔ یعنی جس طر ح بھی ہو ’مذہب‘ سے نجات حاصل کی جائے۔ گویا ان دانش وروں کے خیال میں اس وقت جو معاشرتی اور ثقافتی ماحول پاکستان میں پایا جاتا ہے اس میں اسلام ہماری معیشت، معاشرت، ابلاغ عامہ ، تعلیم ، عدلیہ ہر جگہ چھایا ہوا ہے اور یہـ ’مذہبیت‘ ہی ہے جو انتہا پسندی پیدا کرتی ہے۔

تجزیہ اور تحقیق کا دوسرا بیانیہ ان صحافیانہ کالموں میں ملتا ہے، جو جملہ واقعات کو یکجا کرنے کے بعد یہ کہتے ہیں کہ انتہا پسندی ، اور شدت پسندی محض ’مذہبی طبقے‘ میں نہیں ہے ، یہ ہر جگہ ہے۔  اعلیٰ تعلیم گاہوں میں ان طلبہ و طالبات کا جن کا کوئی آس پاس کا تعلق بھی’مذہب‘سے نہیں پایا جاتا، اپنے اساتذہ کے ساتھ رویہ ، اپنے والدین کے ساتھ رویہ ،آپس میں گفتگو،سوشل میڈیا پر استعمال کی جانے والی زبان ،ابلاغ عامہ پر ہر لمحہ ’ خبر توڑ‘ (بریکنگ نیوز) سر خیوں میں مسلسل اور بار بار تشدد کو دکھا یا جاتا ہے اور اس طرح انتہا پسندی ذہن اور شخصیت کا حصہ بن جاتی ہے۔ موجودہ زمانے میں ابلاغِ عامہ کے بیش تر ادارے کسی مثبت رویےکی ترویج اور صحت مندانہ سوچ کی آب یاری سے لاتعلق نظر آتے ہیں، اس لیے محض ’مذہبی‘ فکر کے افراد کو الزام دینا درست نہیں ہے ۔ ہمارا پورا معاشرہ ہی گھر سے لے کر پارلیمنٹ تک تشدد پسندی کا بدترین نمونہ فراہم کرتا ہے ۔

یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ کسی بھی انسانی معاشرے میں صرف عبرت ناک سزاؤں کے نفاذ سے آج تک اصلاح نہیں ہو سکی اور نہ ہو سکتی ہے۔ اسلام خصوصاً اس فکر کے برعکس جو حل پیش کرتا ہے، اس میں سزا کا بھی ایک مقام ہے، لیکن اصلاحِ احوال کے لیے جو حکمت عملی اسلام نے دی ہے، اس میں مرکزی اہمیت جرم اور اس کے اسباب کے انسداد کو حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے وہ اس کے لیے اولیں اہمیت فکری اصلاح کو دیتا ہے، جس کے ذریعے وہ انسان کے کردار،رویے اور طرزِ عمل کو ایک نئی شکل دیتا ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ ایسے افراد جو کل تک بیٹیوں کو زندہ دفن کرتے، اپنی خواتین کو اپنی ملکیت سمجھتے ، اور انتقام کے نام پر مخالف کی لاش تک کی بے حُرمتی کرنے پر فخر کیا کرتے تھے ، وہی لوگ اسلامی اخلاق کے زیر اثر خواتین کی عزت و عصمت کی حفاظت ، عورت اور لڑکی کے عزت و احترام اور قبائلی عصبیت کی جگہ عالمی اخوت و بھائی چارے کے پیغام بر بن گئے۔

یہاں ہمارا مقصود محض یہ نہیں ہے کہ اسلام کی حقیقی عظمت کی طرف اشارہ کیا جائے بلکہ  یہ بتانا بھی ہے کہ اسلام، قانون اور سزا کے مقابلے میں تادیب اور تہذیب کے ذریعے تشدد کا انسداد کرتاہے۔یہ قانون اپنے ضوابط کو سدّراہ (deterrence) کے طور پر استعمال کرتا ہے اور بعض حالات میں سخت سزائیں بھی تجویز کرتا ہے ۔ بہرصورت محض سخت سزا دینا یا قوت کا  بے مہابا استعمال مسئلے کا حل نہیں ہے۔کیا امریکا کی ان بیس سے زیادہ ریاستوں میں جہاں آج بھی قتل کی سزا پھانسی ہے اور زہریلی گیس یا برقی کرسی پر بٹھا کر موت کے گھاٹ اتارنے کی سزا قانون کا حصہ ہے ، تنہا اس قانون نے قتل کے واقعات کو ختم کردیا ؟ کیا سخت سزاؤںنے شکاگو،ڈیٹرائیٹ، نیویارک ، واشنگٹن اور لاس اینجلس جیسے شہروں میں قتل کے روزانہ بیسیوں واقعات کو روک دیا؟ جس کا مطلب یہ ہے کہ تنہاسخت سے سخت سزا بھی کسی جرم سے نہیں روک سکتی،اس کے لیے کچھ اور عوامل درکار ہیں۔

تجزیے کا تیسرا زاویہ بجا طور پر یہ بات کہتا ہے کہ: سرکاری یونی ورسٹیوں میں تعلیم پانے والے طلبہ میں تشدد پسندی اور دہشت گردی کے ذمہ دار دینی مدارس کے فارغ علما یا ان کے بعض ’فتاویٰ‘نہیں ہو سکتے بلکہ دراصل یہ ہمارے درآمد کردہ نظام تعلیم کی ناکامی کی علامتیں ہیں۔ اس نظام میں تعلیم پانے والے اپنی اصل شخصیت گم کر بیٹھے ہیں۔اخلاقی اقدار سے خالی تعلیم اور بالخصوص گذشتہ تین عشروں میں لبرل ازم کی تحریک نے انھیں اپنی معاشرتی شنا خت سے محروم کردیا ہے۔ مروجہ تعلیم انھیں حصولِ روزگار کے علاوہ زندگی کا کوئی اور مقصد نہیں بتاتی۔ دینی تشخص ہی نہیں وہ قومی تشخص کو بھی صوبائی عصبیتوں کی نذر کر بیٹھے ہیں ۔ وہ عملاًفضا میں معلق ہیں اور کوئی بھی پُرکشش شے انھیں اپنی طرف کھینچ سکتی ہے ۔ یہ بآسانی اپنے نفسیاتی دباؤ سے نجات کے لیے منشیات کے عادی بن سکتے ہیں۔ یہ لبرل معاشرے میں جنسی بے راہ روی اور نشے کے کاروبارمیں پھنس سکتے ہیں۔ یہ عصبیت کا جنون اور صوبائی آزادی اور قومیت کے زیر عنوان ہر سرکاری کیمپس میں طلبہ کی جماعتیں بنا سکتے ہیں۔ یہ زبان کے نام پر قومیت پرست بن سکتے ہیں۔ غرض اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد اگر اپنی اخلاقی اور نظریاتی شناخت سے محروم ہوجائیں اور معاشرتی پہچان کھو بیٹھیں تو انھیں کوئی بھی، کسی قسم کا لالچ دے کر اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔ سرکاری تعلیم انھیں اندر سے کھوکھلا کر دیتی ہے اور انھیں کسی بھی متاثر کن نعرے کے زیر اثر گھناؤنے سے گھناؤنے کام کرنے پر  آمادہ کیا جاسکتا ہے۔

اس بات میں وزن ہے لیکن ہمارے خیال میں مسئلہ محض ’ثقافتی شناخت‘کا نہیں ہے۔ اصل مسئلہ تصورِ حیات ، مقصدِحیات ، طرزِ حیات ، طرزِ عمل اور رویے کو اخلاقی ضابطے کی روشنی میں پروان چڑھانے کا ہے ۔ ہم اس پر آگے بات کریں گے۔

 ان تینوں زاویہ ہاے نظر کا جائزہ لیا جائے تو ان میں کچھ نہ کچھ حقائق کا عکس نظر آتا ہے۔  لیکن ہماری نگاہ میں جو بات واضح ہو کر سامنے آرہی ہے، وہ یہ ہے کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کا تعلق کسی مخصوص طبقے یا افراد سے جوڑنا نا انصافی ہے ۔ سیکولر افراد میں بھی اتنی ہی شدت پسندی پائی جاتی ہے، جتنی شدت پسندی کا دعویٰ فرقہ پرست گروہوں کے بارے میں کیا جاتا ہے۔ گویا   یہ ایک ملک گیر مرض ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ یہ ایک عالم گیر متعدی مرض کی شکل اختیار کر گیا ہے ۔  نام نہاد ترقی یافتہ ممالک ہوں یا ترقی پذیر ممالک ، سرکاری تعلیم گاہیں ہوں یا کسی خاص مسلک سے تعلق رکھنے والے غیر مسلم یا مسلم افراد، یہ مرض عالمی طور پر سرایت کر گیا ہے ۔ اس کے اسباب محض معاشی نہیں ہیں ، محض غربت نہیں ہے کیوں کہ اعلیٰ تعلیم گاہوں میں طلبہ صرف غریب خاندان سے نہیں آتے۔ اس کے باوجود ان میں بغاوت، سرکشی اور شدت پسندی یکساں طور پر نظر آتی ہے ۔

جہاں تک ناموسِ رسالتؐ کا سوال ہے، یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس میں ایک باعمل مسلمان ہو یا بے عمل، اقبال جیسا فلسفی ہو، عالم دین اور قانون کا سمجھنے والا ہو، یا محض نسلی مسلمان ہو ، ہر فرد کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے وابستگی ایک حقیقت ہے ۔ اقبال نے صحیح کہا تھا  ع

خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِؐ ہاشمی

علامہ اقبال کو جب غازی علم الدین شہید کی پھانسی کی خبر ملی تو ان کا بے ساختہ تبصرہ یہ تھا کہ ’ایک ترکھان کا بیٹا بازی لے گیا اور ہم باتیں کرتے رہ گئے‘۔ جس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ایک ایسے ملک میں جہاں پارلیمنٹ اور سینیٹ نے متفقہ طور پر ایک قانون بنایا ہو ، اس قانون کو نظرانداز کرکے کوئی قانون اپنے ہاتھ میں لے لے۔ اس لیے کہ قانون سے باہر کسی بھی اقدام کو درست قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اسلام عدل اور قانونی کی حکمرانی کا قائل ہے۔ ایک ملزم کو قانونی ضابطے ( due process of law) کے عمل سے گزار کر ہی اس کے جرم کا تعین کیا جاسکتا ہے، اور جب قانون خود تحقیق کے بعد سزا تجویز کرتا ہو، تو کسی شہری کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنے طور پر بغیر تحقیق کے جس پر چاہے ہاتھ اٹھا لے ۔ اس لیے قانون کا احترام پیدا کرنا تعلیم اور نظامِ عدل کا ایک اہم مقصد ہونا چاہیے۔ 

اصل مسئلہ ہماری نگاہ میں نہ صرف پورے ملک بلکہ ہر طبقۂ خیال میں انتہا پسندی کا پایا جانا ہے ۔ جس کے اسباب کا تعین کرنا ہوگا اور ان اسباب کو دور کر کے مسئلے کا حل اسلام اور عدل کے دائرے میں رہتے ہوئے نکالنا ہو گا۔ اب ہم اس تناظرمیں مختصراًاس انتہا پسند ذہنیت کے عمومی محرکات و اسباب کا ایک جائزہ لینے کی کوشش کریں گے، جس کی گرفت میں آج معاشرہ آچکا ہے۔

انتہا پسندانہ ذہنیت کے محرکات و اسباب

انتہاپسندی پر ابھارنے والے عوامل یوں تو بہت ہیں، لیکن ذیل میں صرف زیادہ اہم عوامل کا اختصار کے ساتھ تذکرہ کیا جارہاہے، جو تعلیم گاہوں اور معاشرے میں اس رجحان اور رویے کے بڑھنے کے پیچھے پائے جاتے ہیں۔ ان میں ایک منطقی ترتیب بھی پائی جاتی ہے۔

  • lمروت و مقصد سے خالی تعلیم :تعلیم کا بنیادی مقصد تربیت اخلاق، یعنی طرز عمل ، طرز حیات ، طرزِ فکر اور رویے کو اخلاقی اقدار کے ساتھ ہم آہنگ کرنا اور عملی مثال پیش کرنے کے ذریعے غیر محسوس طور پر رویوں کو تبدیل کرنا ہوتا ہے۔ بہترین تعلیم زبان کے بجاے اپنے عمل سے دی جاتی ہے ۔ اگر ایک استاد طالب علم کے ساتھ نرمی ، توجہ، اور کسی بھی مالی فائدے سے بے نیاز ہوکر رہنمائی فراہم کرتا ہے تو طالب علم میں بھی بے غرضی ، طلب علم و تحقیق ، تنقیدی فکر اور جذبۂ عمل پیدا ہوتا ہے ۔ اسی طرح والدین اگر اپنے بچّوں کو پیدا ہونے کے بعد شخصیت کے تعمیری دور، (یعنی اولین چار سال) پنگوڑے سے لے کر پاؤں پاؤں چلنے کی عمر تک مسلسل ٹی وی سکرین پر آنے والے کارٹونوں میں مصروف رکھتے ہیں تو بچے کے ذہن پر یہ اوّلین تاثرات ہی اس کے آیندہ طرزِ عمل کو متعین کرتے ہیں ۔ اس کے بولنے ، ہنسنے ، لوگوں کو تنگ کرنے کے انداز اور خاص طور پر کارٹونوں کے کرداروں سے بے رحمی ، چالاکی اور دوسروںکو تکلیف پہنچا کر خوش ہونے کی عادت فروغ پاتی ہے۔ آپ کسی بھی سلسلہ وار کارٹون کا جائزہ لیں تو یہ بات عیاں ہو جائے گی کہ کارٹون کے کردار رحم دلی ، نرمی ، محبت، خاکساری کی جگہ دوسروںکو چکر دے دے کر بے قوف بنانا اور تکلیف پہنچاکر خوش ہونا سکھاتے ہیں ۔تشدد کی یہ اوّلین تربیت اکثروالدین تعمیر شخصیت کے پہلے چار سال میں اپنی اولاد کو دینے کے بعد کسی پری سکول میں ڈال دیتے ہیں، جہاں بچہ اپنی حقیقی ماں کی ہمہ وقت محبت ، توجہ اور فکر سے محروم، فی گھنٹہ اُجرت پر کام کرنے والی ایک نگران خاتون کے رحم و کرم پر ہوتا ہے ۔کیا ا س طرح بچہ کسی مقصد زندگی ، کسی اخلاقی طرزِ عمل ، کسی قربانی کے جذبے یا کسی احترام و محبت کے تصور سے آگاہ ہو سکتا ہے ؟ جس نے پیدا ہو کر ماں کی محبت کا مزا نہ چکھا ہو، کیا وہ دوسروں کے ساتھ امن، رحم دلی،محبت اور بے لوثی سے پیش آسکتا ہے ؟ کیا وہ بڑا ہوکر امن پسند بن سکتا ہے؟ کیااس کا  دین کا علم، قومی زبان پر عبور اور اسلامی تہذیبی روایت سے واقفیت اس درجے کی ہوسکتی ہے کہ وہ دہشت گردی کا مقابلہ کرنے والا صالح، صابر ، مستقل مزاج نوجوان بن سکے؟
  • اخلاقی مفلسی اور قرآن و سنّت سے لاعلمی :اس سے منطقی طور پر وابستہ سوال  یہ ہے کہ کیا یہ سکول یا کالج یا بعد میں یونی ورسٹی جانے والا طالب علم، اس پورے عرصے میں کبھی کسی ایسے اخلاقی نظام سے گزرتا ہے جس میں قرآن کریم جس پر اس ملک کی ۹۷ فی صد آبادی ایمان رکھتی ہے، اور حیاتِ طیبہؐ جس کے لیے ہر مسلمان چاہے وہ کبھی عید کی نماز تک نہ پڑھتا ہو ، جان دینے بلکہ جان لینے کے لیے تیار رہتا ہے ، کیا علم وتربیت کے ان دو اصل اور ابدی گہواروں سے اس کی کوئی واقفیت ہوتی ہے ؟کیا اس نے یا اس کے اسلامیات پڑھانے والے اساتذہ نے زندگی میں صرف ایک مرتبہ ہی قرآن کریم کا اوّل تاآخر ترجمے کے ساتھ مطالعہ کیا ہوتا ہے؟ اور کیا کبھی اسے یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ بلاشبہہ یہ کتاب، جہاد کو سب سے افضل عمل قرار دیتی ہے۔ کیا اسے جہاد کے مجموعی تصور سے کبھی آگاہ کیا گیا کہ اس کا مقصد انسانوں کو ان کے چھینے گئے حقوق واپس دلانا ہے، انھیں ظلم سے نجات دلانا ہے ، فتنہ وفساد کو دُور کرنا ہے، اور اللہ کی زمین پر عدل ، ہمدردی اور محبت کا ماحول پروان چڑھانا ہے ۔ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں جہاد کا حکم دیا ہے، وہیں اس کے فی سبیل اللہ ہونے کی شرط بھی لگائی ہے اور وضاحت کے ساتھ اس کے مقاصد، اسلوب اور آداب کو بھی تفصیل سے بیان فرما دیا ہے۔ نیز یہ رہنمائی بھی فراہم کردی ہے کہ بحیثیت مجموعی مسلمان فرد اور قوم کے لیے زندگی کی ترجیحات کیا ہیں اور ان کے درمیان ہم آہنگی کا قیام بھی ضروری ہے۔ ہمارے تعلیم و تربیت کے نظام نے کیا ان تمام پہلوئوں سے ہماری نئی نسلوں کو آشنا کیا ہے؟ کیا ہماری نوجوان نسل کو کسی نے بتایا کہ قرآن کریم کی غالب تعلیمات کا تعلق معاملات، معاشرت ، حقوق و فرائض کی تعلیم اوراحکام سے ہے ، جب کہ تعزیری اور قانونی آیات انتہائی محدود ہیں؟ کیا انھیں رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ کے ہر دور میں تفصیلی طور پر تجزیے کے ساتھ یہ سمجھایا گیا کہ آپؐ تمام جہانوں کے لیے کس طرح رحمت ہیں ؟

یہ ہے وہ اخلاقی افلاس،جس کی موجودگی میں اگر وہ بچہ یا بچی سائنسی یا سماجی مضمون میں ایک نہیں تین ڈاکٹریٹ بھی کر لے ، تب بھی اس میں اخلاق ، محبت ، عدل ، تواضع ، انکسار ، سچائی ، امانت، دیانت ، قیادت، کبھی پیدا نہیں ہو سکتی۔ وہ ہوا کے ساتھ اپنا رخ بدلتا رہے گا اور مرغ باد نما بن کر سیاسی اور مادی فائدوں کا بندہ بن کر اپنے آپ کو کامیاب بندہ سمجھے گا۔ اس صورت حال میں وہ کیوں نہ دہشت گرد بنے؟ کیوں نہ ا س میں شدت پرستی آئے؟ جب اسے کوئی مثبت نمو نہ اور   وہ نمونہ جسے قرآن خود ’خلق عظیم‘کہتا ہے، کبھی واقفیت ہوئی، نہ اس نے کبھی شعوری طور پر اس  عظیم ترین ہستی ، جن پر میرے ماں باپ فدا ہوں،سے فکری ملاقات کی ہو، نہ ان کے عظیم طرزِ عمل سے چند پھول چنے ہوں، اسے تو لازماً دہشت گرد اور شدت پسند ہی بننا چاہیے ،پھر شکوہ کس بات کا !

اس اخلاقی خلا کا ذمہ دار کون ہے ؟والدین ، اساتذہ ، وزرات تعلیم سے وابستہ ہر ہر فرد ، اسکول کے نظام کو چلانے والا ہر بابو، ملک کا ہر وزیر اعظم ، ملک کا ہر صدر جو اپنا حلف اٹھاتے وقت اس ملک میں قرآن و سنت کے نفاذ کا عہد کرتا ہے اور ہر وہ صحافی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لے کر کالم تو لکھتا ہے، لیکن اس مسئلے کے حل کے لیے حیاتِ مبار کہ کی روشنی میں کوئی حل تجویز نہیں کرتا۔ 

حل اگر کوئی ہے تو وہ صرف آپؐ کے اسوہ میں، آپؐ کے دامن محبت میں، آپ ؐ کے گوشۂ عافیت میں اور آپؐ کے عفو و درگزر کرنے والے کردار میں ہے۔ آپؐ کے ان دشمنوں کو جنھوں نے پتھر برسائے، پھولوں سے نوازنے میں ہے ۔ جب تک وہ اخلاق جو قرآن کریم کے مکمل ترجمے کے ساتھ مطالعے اور مطالعۂ سیرت پاکؐ کے مکمل طور پر جسم میں خون بن کر گردش کرنے کی شکل میں نہ ہو جائے، یہ مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔ اس کا حل صرف اور صرف ہدایت کے ان دو میناروں سے وابستگی میں ہے۔ جب تک ہر ہر پاکستانی بچہ اور بچی قرآن کریم کو اوّل تا آخر ترجمے کے ساتھ (وہ ترجمہ جو تمام مسالک میںمتفقہ ہے اور ریڈیو پاکستان سے نشر ہوتا ہے، مثلاً مولانا فتح محمد جالندھری کا ترجمۂ قرآن)سمجھ کر نہ پڑھ لے، اور سیر ت پاک کی کم از کم ایک مشہور کتاب (مثلاً محمد سلمان منصور پوری کی رحمتہً للعِلمین) کا مطالعہ نہ کرلے۔ اس وقت تک وہ ذہن نہیں بن سکتا، جو اپنے جذبات و تاثرات کو تحمل کے دائرے میں رکھتے ہوئے ایک پُرامن مسلمان پاکستانی شہری بن سکے۔

  • معاشرتی استحصال: جس معاشرے میں ظلم و استحصال ، صوبہ پرستی ، فرقہ پرستی ، برادری پرستی ، زبان پرستی، غرض شرک کی وہ بے شمار شکلیں جنھیں قرآن و سنت سے رد کیا گیا ہے ، موجود ہوںگی،نوجوانوں میں فطری طورپر رد عمل پیدا ہو گا اور استحصالی نظام میں جتنا اضافہ ہوگا، وہ غیردستوری اور غیر قانونی ذرائع استعمال کرنے پر بآسانی آمادہ کر لیے جائیں گے۔اس منفی رد عمل کا علاج سخت سزائیں اور جرمانے نہیں نظام عدل کا قیام ہے، جو قرآن و سنت کا ایک اہم مطالبہ ہے۔ جن معاشروں کو ہمارے بعض دانش وَر مثال بنا کر پیش کرتے ہیں ، ان میں بھی جہاں کہیں ظلم پایا جاتا ہے، وہاں بھی قتل، چوری، ڈکیتی، عزت پر حملے اور بوڑھوں کے ساتھ ظلم کم نہیں ہوتاہے۔ وہ امریکا ہو یا یورپ، کہیں بھی جا کر دیکھ لیں ، جرائم کے ارتکاب میں زیادہ تر وہ لوگ ملوث ہیں جو استحصال کا شکار ہیں ، اور جن کا مذہب کے ساتھ تعلق بہت کمزور ہے ۔ شکاگو ، لاس اینجلس اور نیویارک میں  فی گھنٹہ جرائم کے ارتکاب کاتناسب پاکستان سے کئی گنا زیادہ ہے ۔ اگرچہ وہاں کوئی ٹی وی ہر ہر واقعے کو ’خبر توڑ‘ سرخی کی شکل میں بڑھا چڑھا کر پیش نہیں کرتا ۔ ہمارے دانش ور ہماری صدیوں کی ذہنی مرعوبیت کے سبب یہ سمجھتے ہیں کہ یورپ اور امریکا وغیرہ میں سُکھ چین ہی ہے اور نوجوان اس معاشرے کو جنت سمجھتے ہوئے وہاں کی شہریت کے لیے بے تاب رہتے ہیں، لیکن زمینی حقائق بالکل مختلف ہیں۔ ان کو وہی آنکھ دیکھ سکتی ہے جسے حق کی جستجو ہو ، جو سیاسی آزادی ملنے کے بعد نوآبادیاتی نظام کی ذہنی و فکری غلام نہ ہو۔

معاشرتی عدل کا فقدان وہ اہم سبب ہے جو معاشرے میں انتہا پسندی ااور تشدد کا رجحان پیدا کرتا ہے ۔ جو معاشرہ بھی طبقاتی تقسیم پر قائم ہو تا ہے، اس میںانتقام اور ظالم سے بدلہ لینے کی خواہش کسی نہ کسی وقت ضرور ابھرتی ہے۔ پاکستان میں جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام ظلم، جبر اور محنت کش کے ساتھ ناانصافی کے سبب معاشرے میں محرومی ، ناامیدی اور نفرت و انتقام کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ ایسے معاشرے میں انتہا پسندی اگر نہ ہوتوحیرت کی بات ہے۔ ایک شخص جو ہزاروں اور سیکڑوں ایکڑ زمین کا مالک ہو ، جو پجیرو یا مرسیڈیز سے کم کسی کار پر سفر کرنا اپنی بے عزتی سمجھتا ہو، اور دوسری جانب سیکڑوں مفلوک الحال افرادہوں، جو اس کے زیر تسلط بنیادی ضروریاتِ زندگی سے محروم ہوں، تو رد عمل کا پایا جانا فطری امر ہے۔ وہ مظلوم جس کو حق سے محروم کیا گیا ہے ، وہ کسی بھی تبدیلی لانے کے وعدے کے زیر اثر غیر قانونی اور غیر دستوری ذرائع کو اپنے لیے حلال سمجھ لے گا یا اسے سمجھا دیا جائے گا۔ جب معاشرے میں کثرت ایسے افراد کی ہو جائے تو شدت پسندی اور غیر دستوری ذرائع سے اقتدار حاصل کرنے کی خواہش بآسانی پیدا کی جاسکتی ہے۔

  •  انسانی حقوق کی پامالی : اسلام انسانی حقوق کا علم بردار بن کر اس وقت آیا جب دنیا انسانی حقوق کی عظمت کو فراموش کر چکی تھی اور یورپ اور امریکا تاریکی میں ڈوبے ہوئے تھے۔ اسلام نے حقوق انسانی کو محض ایک قرارداد کی شکل نہیں دی بلکہ قانون کا درجہ دیتے ہوئے حقوق و فرائض میں شامل کیا ۔دوسری جانب تقریباً ہزار سال بعد یورپ اور امریکا نے عالمی جنگ کے تناظر میں صرف قراداد کی حد تک ، جس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ، انسانی حقوق پر ایک دستاویز ’جمعیت اقوام‘ میں منظور کی،جو آج تک عالمی مسائل بشمول انتہا پسندی کے حل میں ناکام رہی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ بعض مسلمان جو نہ اپنے دین کو سمجھتے ہوں ، نہ قرآن کامطالعہ کریں ، نہ سنت مطہرہ سے واقفیت حاصل کریں اور جو ذاتی مفاد کے حصول کے لیے دوسرے انسانوں، خصوصیت سے کمزور طبقات کے حقوق پامال کریں، تو ان کے سیاسی و سماجی کردار کی ذمہ داری نہ کتابِ ہدایت پر ہے اور نہ کتابِ دستور پر اور نہ دین و ریاست کے تعلق پر___ اس کی ذمہ داری مؤثر نظام تربیت کے فقدان کے ساتھ ظلم پر مبنی اجتماعی نظام اور مفاد پرستی سے عبارت اُس طرزِ حکمرانی پر ہے جو ملک و قوم پر مسلط ہے۔

جب کسی معاشرے میں انسانی جان ، مال، عزت اور نسل کا احترام باقی نہیں رہتااور کمزور اور طاقت ور کے لیے دو پیمانے بن جاتے ہیں ، حقوق انسانی کو پامال کیا جاتا ہے تو فطری طور پر ردعمل اور انتقام کے جذبات پیدا ہوتے ہیں اور مظلوم اور استحصال کا شکار فرد ظالم کو نقصان پہنچانے پر آمادہ ہو جاتا ہے ۔دنیا میں جہاں کہیں بھی اس طرح کی صورت حال پائی جاتی ہے ، یکساں نتائج سامنے آتے ہیں۔ظلم اور استحصال کے شکار فرد کو جو ظلم کا شکار رہا ہو ،اپنی جان پر کھیل کر کسی بھی دہشت گردی کے کام کے لیے آمادہ کیا جاسکتا ہے۔زمان و مکان کی قید سے قطع نظر ہمارے اپنے معاشرے میں معاشرتی ظلم کے شکار افراد کثرت سے پائے جاتے ہیں اور نہ صرف وہ بلکہ ایسے نوجوان بھی جو تعلیم حاصل کرنے کے بعد ملازمتوں کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں، انھیں بآسانی بھاری رقوم کا لالچ دے کر دہشت گردی پر آمادہ کر لیا جاتا ہے ۔ بعض کو جزوی طور پر دینی حوالے سے اس کام پر آمادہ کر لیا جاتا ہے۔ مسئلے کا حل صرف اور صرف اسلامی تصور عدل اور فلاح کا نفاذ ہے ۔ محض قوت کے ذریعے ذہنوں کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا ۔

  •  لادینیت  :لادینیت یا سیکولر ازم کی بنیاد دین و دنیا کی تفریق پر ہے۔ اس کا اصل ہدف الہامی ہدایت کو معاشرتی، سیاسی اور معاشی زندگی سے خارج کرکے دنیا کے معاملات محض دُنیاوی مفادات کی بنیاد پر استوار کرنا ہے۔ اس کا فطری نتیجہ معاشرت،معیشت اور سیاست میں اخلاقی اقدار کے خاتمے اور محض ذاتی ،گروہی یا پارٹی کے مفاد کو خدا بنا لینا ہے ۔خودغرضی امیر کو امیر تر بناتی ہے اور معاشرے میں ٹکراؤ پیدا کرتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں جن ممالک میں لا دینیت کو اختیارکیا گیا وہاں طبقاتی کش مکش رُونما ہوئی ہے اور غربت کا خاتمہ نہیں ہو سکا۔مزید یہ کہ سیکولرازم یا لادینیت جہاں کہیں بھی رائج ہو گی ، معاشرے کی بنیاد نسل پرستی ، عصبیت اور لسانیت بن جائے گی۔

خود پاکستان کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ یہاں کے بعض فوجی اور سیاسی فرماں رواؤں نے ملک کی اصل بنیاد اور مقصد وجود کو نظر انداز کر کے، ملک میں عصبیت، فرقہ پرستی اور زبان کے نام پر تفریق کے نعرے بلند کیے اور ملکی یک جہتی کو نقصان پہنچایا۔ قرآن و سنت نے جو تصور دین دیا ہے وہ ملّی یک جہتی کا ضامن اور نفرتوں کو دُور کرنے والا ہے، جب کہ لادینیت اتحاد کو کمزور کرنے کا ذریعہ ہے ۔ملک میں امن اور میانہ روی اسی وقت پیدا ہو سکتی ہے جب دینی اقدار کو فروغ دیا جائے اور لادینیت کو ختم کیا جائے۔

  •  ثقافتی غلامی  : ایک الجزائری مسلمان مفکر نے بڑی قیمتی بات کہی ہے کہ: ’’جو لوگ ثقافتی طور پر غلام ہونا قبول کر لیتے ہیں ، انھیں سیاسی آزادی بھی آزاد نہیں کر سکتی‘‘۔ انھی کے ایک  ہم عصر الجزائر ی ماہر نفسیات فرانتس عمر فانن (م: ۱۹۶۱ء) نے نفسیاتی زاویے سے الجزائر میں فرانسیسی تسلط اور پھر اس سے آزادی کے حوالے سے اپنا تجزیہWretched of the Earth [زمین کے بدبخت] کے زیر عنوان کتاب میں پیش کیا ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ: ’’جب بھی کوئی سامراجی ثقافت مسلط کی جاتی ہے ، اس کا ردعمل جذباتی اورنفسیاتی طور پر بڑھنا شروع ہوتا ہے اور اگر اسے کوئی مناسب ذریعہ نہ ملے تو وہ جوابی ثقافتی انقلاب( Counter Cultural Revolution) کی شکل اختیار کر تا ہے‘‘۔ بعض وہ نوجوان جو نجی تعلیمی اداروں میں مستعار فکر اور مغربی مرعوبیت کے ماحول میں پرورش پارہے ہیں، ان میں ثقافتی انقلاب کا جذبہ بطور رد عمل کے پیدا ہوتا ہے اور    وہ بآسانی جذبات میںبہہ کر غیردستوری ذرائع کے استعمال پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ یہ شکل خصوصاً یورپ اور امریکا میں زیادہ نظر آرہی ہے ۔اور اس کی بنا پر وہاں کے مراکزِ دانش واضح طور پر اس کے حل کے لیے تجاویز پیش کررہے ہیں۔

ایک تجویز پاکستان کے حوالے سے بھی رینڈ کارپوریشن کی ایک رپورٹ میں پیش کی گئی تھی کہ صوفی ازم کو فروغ دیا جائے تاکہ تحریکات مزاحمت اور نام نہاد سیاسی اسلام(Political Islam ) کا مقابلہ اندر سے کیا جاسکے۔ اسی بناپر ایک سابقہ فوجی آمر کے دور میں ایک مشہور سیاسی لیڈر کی سرکردگی میں ’قومی صوفی کونسل‘ قائم کی گئی تھی اور صوفیانہ کلام اور موسیقی کے ذریعے روحِ جہاد کو ختم کرنے کی مہم کا آغاز کیا گیا تھا ۔ ہماری نگاہ میں مسئلے کا حل اسلام کو صوفی ازم بنا کر پیش کرنے سے نہیں ہوگا، نہ اس طرح ہو گاکہ نصابی کتب سے اقبال کے انقلابی کلام کو خارج کردیا جائے کیوں کہ جب بھی عقابی روح نوجوانوں میں بیدار ہوتی ہے وہ ارد گرد کی زنجیروں کی پروا کیے بغیر اپنے  مقصد کے لیے سب کچھ قربان کرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلامی تہذیب و ثقافت کو مسخ کرنے کے بجاے اس کو صحیح خدو خال کے ساتھ پیش کیا جائے تا کہ فحاشی اور نوجوانوں اور ملک کو ہندووانے کی مہم کے ردعمل کے طور پر تشدد کو پیدا ہونے سے روکا جاسکے ۔

  •  جھنجھلاہٹ اور نفسیاتی اضطراب : جب بھی کسی معاشرے میں مظلوم طبقات کے حقوق پر مسلسل ڈاکا پڑتا ہے اور ان کی آواز کو نہیں سنا جاتا، نہ انھیں جائز حقوق دیے جاتے ہیں، تو ایک اجتماعی اضطراب اور جھنجھلا ہٹ کی فضا پیدا ہوتی ہے اور مناسب راستہ نہ ملنے پر یہ تشدد کی تحریک میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ اس کا جواب قوت سے نہیں دیا جا سکتا۔ قوت کا استعمال اس کو مزید بڑھاتا ہے کم نہیں کر سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ دفاعی ماہرین اور سیاسی مفکر دہشت گردی (Terrorism ) اور سیاسی مزاحمت اور بغاوت (Insurgency  ) میںبنیادی فرق کرتے ہیں۔

دہشت گردی کے مسئلے کو شاید زیادہ قوت کے استعمال سے کم کیا جاسکتا ہے ا ور ممکن ہے کچھ عرصے کے لیے سطح آب پر سکون محسوس کیا جا سکے لیکن اندرونی ارتعاش اور لہریں موقع ملتے ہی اُبھر آتی ہیں۔ تحریکاتِ آزادی اس سے بہت مختلف نوعیت کی حامل ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد ڈیڑھ سو کے قریب ممالک آزادی کی تحریکات ہی کے نتیجے میں وجود میں آئے ہیں اور یہ تحریکات بنیادی طورپر سیاسی تھیں مگر ان میں سے ایک بڑی تعداد کو ایک مرحلے میں ریاست کی قوت کے مقابلے میں عسکری مزاحمت بھی کرنا پڑی۔ یہی وجہ ہے کہ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایسی تحریکاتِ مزاحمت کو کبھی دہشت گردی قرار نہیں دیا گیا۔

آج کے حالات میں اس کی بہترین مثالیں فلسطین اور کشمیر کی تحریکات آزادی ہیں جو مقامی جڑوں پر قائم ہیں ۔ یہ بیرونی سازش یا امداد کی بنا پر پیدا نہیں ہوئیں۔ فلسطین میں مزاحمتی تحریک عرب ممالک کی غیر ذمہ داری اور عدم دل چسپی کے باوجود مختلف مراحل سے گزرتی رہی۔ کبھی قومیت پرست سیکولر قیادت کے زیر اثر ،کبھی شیعہ ملیشا کے زیر اثر ، کبھی صرف مقامی افراد مثلاًشیخ احمد یاسین کی مزاحمتی تحریک (حماس)کی شکل میں جو مٹھی بھرافراد اور گولی کے جواب میں پتھر سے شروع ہوئی، لیکن اس تحریک نے اہل فلسطین میں ایک نئی سوچ اور اسلام سے وابستگی میں تازگی پیدا کر دی۔

 یہی شکل مقبوضہ کشمیر کی تحریک مزاحمت کی ہے۔ سید علی گیلانی کی قیادت میں یہ تحریک آج بغیر کسی بیرونی سہارے اسی رُخ پر چل رہی ہے ، جس رُخ پر تیونس میں انقلاب پبا ہوا۔ اس کے مقابلے میں دہشت گرد تحریکات عموماً بیرونی طاقتوں کی امداد سے اُبھرتی ہیں، جیسا کہ ہم بلو چستان میں دیکھتے ہیں،مگر ایسی تحریکات کا مستقل حل بھی محض قوت کا استعمال نہیں ہے ۔ مقامی مسائل کو مقامی افراد کو اعتماد میں لے کر حل کرنے سے ہی دہشت گردی ختم ہو سکتی ہے۔ پاکستان کے تناظر میں انتہا پسندی، شدت پسندی اوردہشت گردی کے خاتمے کا آسان طریقہ تمام اہم فریقوں کو   یک جا کر کے ایک قومی تعمیری اور اصلاحی منصوبے کے ذریعے کیا جاسکتا ہے ۔ البتہ اس کا پہلا اور مؤثر ترین اقدام طویل المیعاد ہو گا، یعنی تعلیمی حکمت عملی کی تشکیل اور نفاذ ۔

نئی تعلیمی حکمت عملی

اس حکمت عملی کی کامیابی کے لیے حکومت وقت کو متفرق نظام ہاے تعلیم کی جگہ ملک میں یکساں نظامِ تعلیم نافذ کرنا ہوگا، جس کے لیے ایک مشترکہ قومی تعلیمی نصاب کو سرکاری اور نجی دونوں شعبوں میں نافذ کرنا ہو گا۔ چاہے یہ نجی اسکولوں کو ناگوار ہی کیوں نہ ہو۔ یہ مسئلہ محض وسیع البنیاد تعلیم سے حل نہیں ہو سکتا کیوں کہ اس کا نقطۂ آغاز ہی دینی اثرات کو زائل کرنے کے لیے جدید ترین یورپی اور امریکی نصابات کا پاکستان کے مدارس اور جامعات میں نافذ کرنا ہے۔ ہمیں ان نصابات کا جائزہ لے کر یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ جن یورپی ممالک اور امریکا کے لیے یہ نصاب بنائے گئے ہیں، کیا ان کی قومی ترجیحات ، مقاصد، ثقافتی، دینی اور معاشرتی ضروریات اور ہماری ثقافت،  نظریۂ حیات اور اہداف میں کوئی قدرمشترک ہے؟کیا یہ نام نہاد ’وسیع بنیادوں والی تعلیم‘ نظریۂ پاکستان پر اعتماد کو بڑھائے گی یا مزید کمزور کرے گی؟کیا یہ درآمد کی ہوئی فکر پر مبنی تعلیم ہماری نسل کو اسلامی اقدار ، اسلامی کردار اور خصوصاً سیرتِ پاکؐ کے رحمت ، درگزر، امانت ، سچائی ، شہادت حق ،ظلم کے خلاف استقامت کے ساتھ جہاد کرنے ، علم کی اشاعت اور عدل کے قیام کی کوششوں کو نوجونوں کے دل و دماغ میں جاگزیں کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے ؟

 مسئلے کا حل یہ ہے کہ تعلیمی نصاب میں براہِ راست علامہ محمد اقبال ، قائد اعظم اور اُمت کے معتبر اہلِ علم کے خیالات کو قوم کے نوجوانوں کے ذہنوں میں راسخ کیا جائے، تاکہ آج سے ۱۰سال بعد جو نسل تعلیم گاہوںمیں اعلیٰ تعلیم کے لیے آئے، پاکستان کے حوالے سے اس کی    نظریاتی بنیاد مضبوط ہو اور وہ کسی انتہا پسندی کا شکار نہ ہو۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ لا دینیت سے زیادہ انتہا پسند فکر آج تک وجود میں نہیں آئی۔ کیوںکہ لادینیت خود کو اعلیٰ ترین سچائی قرار دے کر صرف اپنی ہی سچائی کی ڈفلی بجاتی ہے اور نقار خانے میں کسی اورکی آواز کو سننے کی روادا ر نظر نہیں آتی ۔

 تعلیمی حکمت عملی میں قرآن کریم کی اخلاقی ، معاشرتی ، معاشی ، ثقافتی اور سیاسی تعلیمات پر خصوصی توجہ دی جانی چاہیے۔ سیرتِ پاکؐ کے ہر پہلو پر ذہن سازی کی جائے ۔ عالم اسلام سے نوجوانوں کی وابستگی کو بڑھایا جائے ۔ انھیں اس ملک کے عوام کی قربانیوں سے جو انھوں نے اسے حاصل کرنے کے لیے دیں، ان سے آگاہ کیا جائے۔ اور پھر پڑوسی ملک کے جارحانہ اقدامات کے جواب میں افواج پاکستان کے جوانوں نے جو قربانیاں دیں اور عوام نے اپنا سب کچھ بازی پر لگایا، اس تاریخی اثاثے سے نوجوانوں کو آگاہ کیا جائے، تاکہ وہ قومی تشخص کو نہ صرف سمجھیں بلکہ پاکستانی ہونے پر فخر کریں۔

ہمہ گیر معاشرتی حکمت عملی

 ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اصلاح کا آغاز ہمیشہ گھر کی تربیت گاہ سے ہوتا ہے، جہاں خاندان کا ادارہ بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ آج خاندان برقی اوراخباری صحافت دونوں کے ذریعے تباہ کیا جارہا ہے۔ خاندان کا تحفظ اور اسلامی خاندانی اخلاقیات کو آنے والی نسل کے ذہن میں بٹھانے کی ضرورت ہے ۔یہ کام تعلیم گاہ ، خود گھر کے افراد ، اساتذہ، سب کو مل کر کرنا ہو گا۔جتنا گھر مضبوط ہو گا اتنا ہی ملک اور قوم مضبوط ہو گی ۔ اس وقت ابلاغ عامہ اور درسی کتب نوجوانوں کوجو تعلیم دے رہے ہیں، اس میں تاخیر سے شادی کرنا ،خاندان کو مغرب کے زیر اثر صرف شوہر ، بیوی اور ایک دو بچوں تک محدود سمجھنا اور باقی سارا وقت کاروبار،گھومناپھرنا ، کھانے کا لطف اٹھانا اور لوگوں سے گپ بازی کرنا وغیرہ شامل ہے۔ہمیں زندگی کے مقصد اور معاشرتی یکسوئی اور یک جہتی کے لیے بنیادی تصورات کی اصلاح کرنی ہو گی۔ ہمیں استاد کی عزت اور مرتبے کو بلند کرنا ہو گا۔ایک اجتماعی حکمت عملی کے بغیر یہ کام نہیں ہو سکتا۔ایک ہمہ گیر حکمت عملی ہی مسئلے کا صحیح حل کر سکتی ہے۔

ابلاغ عامہ کے لیے اخلاقی ضابطے کا نفاذ

بدقسمتی سے آج ہمارے ابلاغ عامہ کا اہم کام بے حیائی کو معاشرے میں عام کرنا بن گیا ہے۔ یہ نہ صرف شدید رد عمل کو دعوت دے رہا ہے، بلکہ ہمارے قومی اخلاق کو تباہ کر نے میں مصروف ہے۔ اس لیے انتہا پسندی کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے ابلاغِ عامہ کے لیے اخلاقی ضابطے کو پوری قوت سے نافذکرنا ہو گا۔ اس وقت ایک ا یسے ملک میں جہاںغیر مسلموں کی تعداد محض ۳فی صد ہے،  ابلاغِ عامہ کی آزادی کے نام پر ۲۰نجی چینل صرف ہندو ازم ، عیسائیت اور قادیانیت کی تبلیغ پاکستان کے غیر تعلیم یافتہ عوام میں کر رہے ہیں۔بھارت سے فحاشی ، پاکستان دشمنی  اور ’مہا بھارتی‘ تصور کو فروغ دینے والے پروگرام کثرت سے نشر ہو رہے ہیں ۔  یہ پروگرام صوبائی عصبیت اور خود مختاری کو اُجاگر کر رہے ہیں۔ہمارے ہاں کے چارمسلک پرست طبقے اپنے اپنے مسلک کے لیے برقی ابلاغ عامہ کااستعمال کر رہے ہیں ۔ صرف ایک مسلک کے آٹھ سے زائد چینل پاکستان میں دیکھے جارہے ہیں ۔ کیا اس طرح ہم ملکی امن ، رواداری ، محبت اور یک جہتی پیدا کر سکتے ہیں؟ یہ’ابلاغی آزادی‘ ملک کو کس سمت میں لے کر جا رہی ہے؟ کیا اس طرح رواداری، برداشت اور محبت پیدا ہو سکتی ہے؟

۴- قرآنی تصور :میانہ روی و اعتدال

حقیقت یہ ہے کہ انتہا پسندی اسلام کے بنیادی اصولوں سے متصادم ایک تصور ہے ۔ قرآن کریم نے کسی اور کو نہیں خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم کو، انسان کامل کو،کسی اور معاملے میں نہیں عبادت کے معاملے میں، یہ ہدایت فرمائی کہ وہ عبادت میں بھی اعتدال اختیار کریں ۔ آج اگر ہم کسی اللہ کے بندے کے بارے میں یہ سنتے ہیں کہ وہ تمام رات عبادت کرتا ہے تو ہم اسے اللہ کا ولی قرار دیتے ہیں ۔ قرآن اپنے رسولؐ سے کہتا ہے آپ تمام رات قیام نہ فرمائیں بلکہ رات کا نصف حصہ یا اس سے کم یاکہیں اس سے زیادہ وقت نماز میں صرف کریں۔ قرآن کسی اور معاملے میں نہیں اللہ تعالیٰ کی راہ میں انفاق اور خرچ کرنے کے بارے میں فرماتا ہے کہ نہ ہاتھ گردن سے باندھو،  نہ اسے بالکل کھلا چھوڑ دو۔ وہ گفتگو میں توازن کے لیے کہتا ہے کہ نہ آواز زیادہ بلند ہو نہ محض سرگوشی ہو۔ وہ کھانے پینے کے بارے میں ، لباس کے کے بارے میں ، غرض زندگی کے ہرہرعمل کے بارے میں انتہا پسندی کو شدت سے منع کرتا ہے ۔ اگراللہ کے کلام کے مفہوم اور معانی کو ایک بچہ بچپن سے اپنے دل ودماغ میں جاگزیں کر لے تو کیا وہ دہشت گرد بن سکے گا؟

قرآن جس اعتدال،توازن اور میانہ روی کی تعلیم دیتا ہے اس کی ایک مثال اس واقعے میں ہے جس میں تین اصحابِ رسولؐ نے اُمہات المومنینؓ سے جا کر یہ پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملات کیا ہیں؟انھیں بتایا گیا کہ آپؐ کس طرح زندگی گزارتے ہیںلیکن جب وہ یہ سن کر واپس لوٹے تو انھوں نے سوچا کہ آپؐ تو اللہ کے رسول ہیں ، اس لیے شاید اللہ نے آپ کو رخصت دی ہے کہ تمام رات عبادت نہ کریں لیکن ہم تمام رات نماز پڑھیں گے۔ مزید یہ بھی سوچا کہ وہ کبھی نفلی روزے کا ناغہ نہیں کریں گے،اور نیکی کے حصول کے لیے شادی سے بچیں گے۔آپ ؐکو جب ان کے ان ارادوں کا علم ہوا تو انھیںطلب فرمایا اوران سے پوچھا کہ کیا تم نے یہ کچھ کہا ہے؟ انھوں نے کہا کہ ہاں، توآپؐ بات کا آغاز یو ں فرماتے ہیں کہ آپؐ اللہ کے رسول ہیں اور ان سے زیادہ اللہ کا تقویٰ اور خشیت کرتے ہیں۔ وہ عام دنوں میں کبھی روزہ رکھتے ہیںاور کبھی ناغہ بھی کرتے ہیں۔ کبھی رات کو قیام بھی کرتے ہیں اور کبھی آرام بھی کرتے ہیں اور نکاح بھی آپ کی سنت ہے اور جو اس کو ناپسند کرتا ہے، وہ ہم میں سے نہیں ہے ۔ گویا جو شخص جان کر اس لیے نکاح نہ کرے کہ یہ دنیاوی چیز اور تقویٰ کے خلاف ہے ،وہ نبیؐ کی امت میں سے نہیں ہے۔

ان واضح ارشادات کو جو بھی غور سے پڑھے گا، کیا وہ رہبانیت کا راستہ اختیار کرکے کسی خانقاہ میں بیٹھ کر، گھر بار اور معاشرت کو چھوڑ کر اللہ سے قریب ہوناچاہے گا؟___ یہ وہ متوازن ، عادلانہ اور میانہ روی کا رویہ ہے جو سیرت پاک ؐسے اُجاگر ہوتاہے ۔ اگر یہ پہلو تعلیم کے ذریعے ذہن میں جاگزیں ہوتو کیا دہشت گردی، انتہا پسندی پیدا ہو سکتی ہے ؟مسئلے کا حل سزائیں نہیں اخلاق کی تعلیم و تر بیت ہے اورسیرتِ پاکؐ کی لازمی تعلیم ہے جس کے نتیجے میں پایدار امن اور عدل کے نظام کاراستہ ہموار ہوسکتا ہے ۔

 

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: اے ابن آدم! تو (میرے ضرورت مندوں پر) خرچ کر، میں تجھ پر خرچ کروں گا۔(بخاری،  مسلم)

 یعنی تو اگر لوگوں پر خرچ کرے گا تو میں تجھے مفلس نہ ہونے دوں گا بلکہ میری بخشش تجھ پر مزید ہوگی۔

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صدقہ، رب کے غضب کو ٹھنڈا کرتا ہے اور بُری موت کو دفع کرتا ہے۔

کسی شخص نے اگر کسی لغزش اور معصیت سے اپنے کو اللہ کے غضب کا مستحق بنالیا ہے تو صدقہ خدا کے غضب کو ٹھنڈا کرسکتا ہے۔ صدقہ دے کر بندہ اللہ کی رحمت اور مغفرت کا مستحق بن جاتا ہے۔ اس کے علاوہ صدقے کی برکت سے آدمی سوے خاتمہ اور بُری موت سے محفوظ رہتا ہے۔ صدقے کی برکت سے اچھے اور نیک کاموں کی دل میں رغبت پیدا ہوتی ہے۔ ایمان مضبوط اور کامل ہوتا ہے۔ آدمی کو حق پر ثبات و استقامت کی توفیق ملتی ہے۔ اس لیے صدقہ کرنے والے کا انجام بخیر ہوگا۔ قرآنِ مجید میں بھی فرمایا گیا: وَالْعَاقِبَۃُ  لِلتَّقْوٰی (طٰہٰ ۲۰:۱۳۲) ’’اور اچھا انجام تقویٰ کے لیے ہے‘‘۔

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صدقے سے مال میں کمی نہیں آتی ہے۔ اور قصور معاف کر دینے سے اللہ آدمی کی عزت ہی بڑھاتا ہے، اور جو شخص اللہ کے لیے تواضع اختیار کرتا ہے اللہ اس کو سربلندی ہی عطا فرماتا ہے۔(مسلم)

بالعموم لوگ صدقہ اس خوف سے نہیں دیتے کہ اس سے مال میں کمی آجائے گی۔   فرمایا گیا کہ یہ خیال صحیح نہیں ہے۔ صدقے سے مال گھٹتا نہیں، اس میں برکت آتی ہے۔ صدقے کے سبب دنیا میں بھی خدا کی مزید بخشش ہوتی ہے۔ آخرت میں جو کچھ عطا ہوگا وہ الگ ہے۔ جیساکہ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کا ارشاد ہے: اَنْفِقُ یُنْفَقُ عَلَیْکَ (بخاری، مسلم بروایت ابوہریرہؓ) ’’خرچ کرو، تم پر خرچ کیا جائے گا‘‘۔ قرآن میں بھی فرمایا گیا ہے: وَ مَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ شَیْ ئٍ فَھُوَ یُخْلِفُہٗ (السبا۳۴:۳۹) ’’تم جو کچھ خرچ کرتے ہو (اللہ) اس کی جگہ تمھیں اور دیتا ہے‘‘۔

یہ حدیث بتاتی ہے کہ کسی کا قصور معاف کر دینے سے آدمی چھوٹا نہیں ہوجاتا بلکہ اخلاقی لحاظ سے وہ بہت اُونچا ہوجاتا ہے۔ لوگوں کے درمیان اللہ اس کو باعزت زندگی عطا فرماتا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص خدا کی خوشنودی کے لیے تواضع اور خاکساری اختیار کرتا ہے تو اس عمل سے وہ اپنے کو پستی میں نہیں گراتا، بلکہ اپنی فطرت کے تقاضے پورے کرکے بلندی اور رفعت حاصل کرتا ہے۔ اللہ اسے ایسی عزت اور سربلندی عطا فرماتا ہے جس کا حصول کسی دیگر تدبیر سے ممکن ہی نہیں ہے۔

ایک روایت میں ہے کہ آپؐ نے فرمایا: تین چیزیں ایسی ہیں جن پر مَیں قسم کھاتا ہوں وہ یہ ہیں:

مَا نَقَصَ مَالُ عَبْدٍ مِّنْ صَدَقَۃٍ وَلَا ظُلِمَ عَبْدٌ مَظْلَمَۃً صَبَرَ عَلَیْھَا  اِلَّا زَادَہُ اللہُ بِھَا عِزًّا وَّلَا فَتَحَ عَبْدٌ بَابَ مَسْئَلَۃٍ اِلَّا فَتَحَ اللہُ عَلَیْہِ بَابَ فَقْرٍ (ترمذی، ابواب الزہد، ۲۳۰۳) بندے کا مال صدقے سے کم نہیں ہوتا، اور جس بندے پر ظلم و زیادتی کی جائے اور وہ اس پر صبر کرجائے تو لازماً خدا اس کی عزت بڑھاتا ہے، اور جس بندے نے سوال کا دروازہ کھولا، خدا اس کے لیے فقروافلاس کا دروازہ کھول دیتا ہے۔

حضرت مصعب بن سعدؓ کہتے ہیں کہ سعدؓ نے اپنے بارے میں یہ خیال کیا کہ انھیں اپنے سے کم تر پر فضیلت حاصل ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمھیں (اللہ کی طرف سے) مدد اور رزق تمھارے انھی کمزوروں (اور فقیروں) کی وجہ سے ملتا ہے۔(بخاری)

یعنی کسی شخص کا کمزور اور غریبوں کے مقابلے میں اپنے کو بلند مرتبہ سمجھنا نادانی ہے۔ اللہ کتنے ہی لوگوں کو محض کمزوروں اور مسکینوں کی وجہ سے اور ان کی دعائوں کی برکت سے رزق دیتا ہے اور دشمنانِ اسلام کے مقابلے میں فتح و نصرت عطا فرماتا ہے۔ اس لیے کمزوروں اور غریبوں کی وقعت گھٹانا ٹھیک نہیں ہے بلکہ ما ل داروں کا فرض ہے کہ وہ ضعیفوں اور غریبوں کے حقوق کو پہچانیں اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کریں۔

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بہت سے لوگ ایسے ہیں جو بے حد پریشان اور غبارآلود ہیں، اور جنھیں دروازوں سے دھکّے دے کر ہٹایا جاتا ہے۔ اگر وہ اللہ پر قسم کھائیں تو خدا ان کی قسموں کو لازماً پوری کردے۔(مسلم)

یعنی کتنے ہی لوگ ایسے ہوتے ہیں جو بظاہر پریشان حال اور بے وقعت ہوتے ہیں۔ کوئی انھیں خاطر میں نہیں لاتا۔ حالانکہ خدا سے ان کا گہرا تعلق ہوتا ہے۔ وہ اگر خدا کے بھروسے پر کسی بات پر قسم کھا لیں تو خدا ان کی قسم کو پوری کر کے رہے گا۔ ان کی بات اور درخواست رد نہیں ہوسکتی۔

ایک روایت میں ہے کہ آپؐ نے جنّت میں داخل ہوتے ہوئے زیادہ تعداد مسکینوں کی دیکھی۔ دولت مندوں کو دیکھا کہ انھیں روک لیا گیا ہے۔ (بخاری،  مسلم)

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:بخیل اور صدقہ دینے والوں کی مثال ان دو آدمیوں کی سی ہے، جنھوں نے لوہے کی زرہیں پہن رکھی ہوں اور ان دونوں کے ہاتھ سینے اور حلق تک جکڑے ہوئے ہوں۔ صدقہ دینے والا جب بھی صدقہ دیتا ہے تو وہ زرہ کشادہ ہوجاتی ہے اور بخیل جب صدقہ دینے کا خیال کرتا ہے تو وہ تنگ ہوجاتی ہے اور زرہ کا ہرحلقہ اپنی جگہ پر بیٹھ جاتا ہے۔(بخاری،  مسلم)

زرہوں کی تنگی کے سبب ہاتھ اُوپر سے نیچے تک بالکل جسم سے چمٹ گئے ہوتے ہیں۔ فیاض شخص جب صدقہ دینے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کا سینہ کشادہ ہوجاتا ہے۔ وہ کھلے دل سے صدقہ دیتا ہے۔ وہ تنگ دل نہیں ہوتا ہے۔ اس کے برخلاف بخیل شخص جب کچھ دینے کو سوچتا ہے تو اس کا سینہ اور تنگ ہوجاتا ہے۔ گویا اس کا جسم کسی تنگ زرہ میں ایسا کسا ہواہے کہ وہ ہاتھ باہر نکال کر کسی کو کچھ دینے کی قدرت ہی نہیں رکھتا۔ پیسہ دیتے ہوئے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پیسے کے ساتھ اس کی روح بھی نکل جائے گی۔

زرہ جسم کی حفاظت کے لیے ہوتی ہے۔ جب وہ کشادہ ہوجاتی ہے تو پورا جسم محفوظ ہوجاتا ہے، یعنی صدقے کے سبب آدمی کو پورے طور پر خدا کی حفاظت حاصل ہوتی ہے۔ رہا بخیل شخص تو وہ ضیق اور تنگ دلی میں مبتلا ہوتا ہے۔ نہ وہ محفوظ ہوتا ہے اور نہ اسے حقیقی آرام و چین حاصل ہوتا ہے۔ روایت میں ہے کہ وہ کوشش کرتا ہے کہ زرہ کشادہ ہو مگر وہ کشادہ نہیں ہوتی۔ (مسلم)

حضرت عدی بن حاتمؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آگ سے بچو، آدھے چھوہارے کے ذریعے سے ہی سہی۔ دوسری روایت میں ہے کہ جو شخص تم میں سے اس کی استطاعت رکھتا ہو کہ آگ سے بچ سکے آدھے چھوہارے کے ذریعے سے ہی سہی، اسے ضرور بچنا چاہیے۔(بخاری،  مسلم ،  نسائی )

یعنی صدقہ ضرور دو۔ یہ خدا کے غضب کو ٹھنڈا کرنے اور دوزخ کی آگ سے بچانے والی چیز ہے۔ اگر زیادہ صدقہ دینے کی استطاعت نہ ہو تو جو بھی ہوسکے اگرچہ وہ نہایت قلیل مقدار ہو، صدقہ کرو۔

ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جب کہ آپؐ منبر پر تشریف رکھتے اور صدقے کا اور سوال سے بچنے کا ذکر فرماتے تھے، اُوپر کا ہاتھ نیچے کے ہاتھ سے بہتر ہے۔ اُوپر کا (ہاتھ) دینے والا ہے اور نیچے کا مانگنے والا۔(بخاری،  مسلم )

ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تم میں کس کو اپنے مال سے بڑھ کر اپنے وارث کا مال زیادہ عزیز ہے؟ صحابہؓ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! ہم میں تو ہر ایک کو اپنا ہی مال سب سے زیادہ عزیز ہے۔ آپؐ نے فرمایا: اس کا مال تو وہی ہے جو اس نے آگے بھیجا اور وہ اس کے وارث کا مال ہے جو اس نے پیچھے چھوڑا۔ (بخاری،  مسلم)

یعنی اگر تمھیں اپنا مال عزیز اور پیارا ہے تو تمھارا مال تو وہ ہے جو تم خدا کی راہ میں صرف کرکے اپنی دائمی زندگی کے لیے بھیجتے ہو۔ جو کچھ جمع کر کے تم اپنے پیچھے دنیا میں چھوڑتے ہو توو ہ تمھارا نہیں تمھارے ورثا کا مال ہے۔ اگر تم نے اپنے لیے آگے کچھ نہیں بھیجا ہے یا بہت کم بھیجا ہے تو تم مفلس ہو، خواہ دنیا میں قارون کا خزانہ ہی کیوں نہ جمع کر رکھا ہو۔ لیکن اگر تم نے آگے کے لیے سامان کرلیا ہے اور کرتے رہتے ہو تو تم مفلس ہرگز نہیں ہو۔ دنیا تمھیں مفلس سمجھتی ہے تو اس کی نظر کا قصور ہے۔

حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ ایک بکری ذبح کی گئی (اور اس کا گوشت ضرورت مندوں میں تقسیم کر دیا گیا)۔ آپؐ نے دریافت فرمایا: اس میں سے کیا باقی رہا؟ حضرت عائشہؓ نے عرض کیا: اس کا صرف ایک شانہ بچا ہے۔ آپؐ نے فرمایا: سب باقی ہے سوا ےاس شانے کے (جو تقسیم نہیں کیاگیا)۔(ترمذی)

یعنی جو گوشت تقسیم کر دیا گیا حقیقت میں وہی باقی ہے اور کام آنے والا ہے، ہمیشہ کا فائدہ اسی سے اُٹھایا گیا۔ جو حصہ اپنے لیے روک لیا گیا وہ ختم ہونے والا ہے۔

حضرت ابوذرؓ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپؐ کعبہ کے سایے میں بیٹھے ہوئے تھے۔ مجھے دیکھا تو فرمایا: ربِ کعبہ کی قسم! وہ بڑے خسارے میں ہیں۔ میں نے عرض کیا: میرے ماں باپ آپؐ پر قربان! وہ کون لوگ ہیں؟ فرمایا:وہ لوگ جو بڑے سرمایہ دار ہیں، سوائے ان لوگوں کے جنھوں نے اپنے آگے پیچھے اور دائیں بائیں (ہرطرف بھلائی کے کام میں) خرچ کیا اور ایسے لوگ کم ہیں۔(بخاری،  مسلم)

مطلب یہ ہے کہ مال و دولت بڑی آزمایش کی چیز ہے۔ اس آزمایش میں کامیاب وہی ہوسکتے ہیں جن کے دل میں مال کی محبت نہ ہو، جو اپنے مال کو کشادہ دلی کے ساتھ کارخیر میں خرچ کرتے رہیں۔ جو ایسا نہیں کرتے وہ دولت پانے کے باوجود بڑے خسارے میں ہیں۔

حضرت ثوبانؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: افضل دینار وہ ہے جس کو آدمی اپنے بال بچوں پر خرچ کرتا ہے، اور وہ دینار افضل ہے جسے آدمی خدا کی راہ میں سواری کے لیے خرچ کرتا ہے، اور وہ دینار افضل ہے جسے وہ خدا کی راہ میں اپنے ساتھیوں پر خرچ کرتا ہے۔ (مسلم)

اس حدیث میں بتایا گیا ہے کہ مال اور دینار کا بہترین مصرف یہ ہے کہ اسے اپنے  بال بچوں پر خرچ کیا جائے۔ پھر اس کا بہترین مصرف یہ ہے کہ جہاد کے لیے گھوڑا وغیرہ خریدنے میں صرف کیا جائے۔ اور پھر یہ کہ اسے اپنے ان ساتھیوں اور رفقا پر خرچ کیا جائے جو خدا کی راہ میں جہاد کررہے ہوتے ہیں۔

حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ایک دینار وہ ہے جو تو خدا کی راہ میں خرچ کرتا ہے۔ ایک دینار وہ ہے جو تو کسی غلام کو آزاد کرانے میں خرچ کرتا ہے، اور ایک وہ دینار ہے جو کسی مسکین پر خرچ کرتا ہے، اور ایک دینار وہ ہے جو تو اپنے اہل و عیال پر خرچ کرتا ہے ۔ ان میں سب سے بڑھ کر باعث ِ اجر وہ دینار ہے جسے تو اپنے گھر والوں پر خرچ کرتا ہے‘‘۔( مسلم)

معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس دین کی تعلیم دی ہے وہ حددرجہ متوازن ہے۔ اس میں بے اعتدالی سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے۔ سب سے زیادہ اہمیت قریب ترین فرائض کی بجاآوری ہے۔ اہل و عیال کے حقوق ادا کرنا فرض ہے۔ اس سےفارغ ہونے کے بعد نفل کی باری آتی ہے۔ ہر ایک کے حق کو سمجھنا چاہیے اور مراتب کا لحاظ رکھتے ہوئے حقوق ادا کرنے چاہییں۔

فاطمہ بنت قیس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مال میں زکوٰۃ کے علاوہ بھی (اللہ کا) حق ہے۔پھر آپؐ نے آیت تلاوت فرمائی:

نیکی اور وفاداری یہ نہیں ہے کہ تم اپنے چہرے مشرق یا مغرب کی طرف کرلو، بلکہ وفاداری ان کی ہے جو اللہ، یومِ آخرت، فرشتوں، (اللہ کی) کتاب پر اور نبیوں پر ایمان لائے اور اپنا مال اس کی محبت کے باوجود رشتہ داروں، یتیموں اور محتاجوں اور مسافروں اور مانگنے والوں کو دے اور گردنیں چھڑانے (غلام آزاد کرانے) میں خرچ کرے اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے(البقرہ ۲:۱۷۷)۔ (ترمذی، ابن ماجہ، دارمی)

زکوٰۃ ادا کرنے کے بعد بھی آدمی کی ذمہ داریاں باقی رہتی ہیں۔ زکوٰۃ دینے کے بعد آدمی کو اپنا ہاتھ بالکل کھینچ نہیں لینا چاہیے اور نہ اجتماعی تقاضوں اور محتاجوں اور ضرورت مندوں کی طرف سے غافل ہونا چاہیے۔ زکوٰۃ ادا کرنے کے بعد بھی اگر کوئی ضرورت مند اور مصیبت زدہ آجائے یا کوئی اجتماعی تقاضا سامنے آجائے تو آدمی کو   اس سلسلے میں مال خرچ کرنے سے دریغ نہیں کرنا چاہیے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے استشہاد کے طور پر سورئہ بقرہ کی آیت (۱۷۷) کی تلاوت فرمائی جس میں نیکی کے کاموں کے ذیل میں ایمان کے بعد رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں اور سائلوں وغیرہ کے مالی تعاون کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس کے بعد نماز کی اقامت اور زکوٰۃ کے ادا کرنے کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ محتاجوں اور ضرورت مندوں کے مالی تعاون کا  جو ذکر یہاں کیا گیا ہے وہ زکوٰۃ کے علاوہ ہے۔

حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس مسلمان نے کسی مسلمان کو جس کے پاس کپڑا نہیں تھا، کپڑا پہنایا، اللہ اس کو جنّت کا سبز لباس پہنائے گا، اور جس مسلم نے کسی مسلم کو بھوک کی حالت میں کھانا کھلایا، اللہ اس کو جنّت کے پھل کھلائے گا، اور جس مسلم نے کسی مسلم کو پیاس کی حالت میں پانی پلایا، اللہ اس کو (جنّت کی) سر بہ مہر شراب پلائے گا۔(ابوداؤد، ترمذی)

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر میرے پاس اُحد کے برابر سونا ہو تو میرے لیے خوشی کی بات یہی ہوگی کہ تین راتیں گزرنے سے پہلے پہلے میرے پاس اس میں سے کچھ بھی نہ رہے سواے اس کے کہ قرض ادا کرنے کے لیے اس میں سے کچھ بچا لوں۔(بخاری)

یعنی میرے لیے مسرت کی بات یہ نہیں ہے کہ مال میرے پاس جمع ہو بلکہ مسرت کی بات میرے لیے یہ ہے کہ میرے پاس جو کچھ ہو میں اسے جلد سے جلد اللہ کی راہ میں خرچ کروں یہاں تک کہ اپنے پاس کچھ بھی نہ رہنے دوں۔ انبیا علیہم السلام کی شان یہی ہوتی ہے۔ ان کی زندگی اس کی کھلی شہادت پیش کرتی ہے کہ وہ سچے ہیں۔ وہ جو کچھ کہتے ہیں وہ حق ہے۔ حق و صداقت کی جو تحریک وہ دنیا میں چلاتے ہیں اس کے پیچھے ہرگز ان کا کوئی مادی یا دُنیوی مفاد نہیں ہوتا۔ وہ جو کچھ کرتے ہیں حق و صداقت کے لیے کرتے ہیں نہ کہ کسی ذاتی منفعت کے لیے۔

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دینار و درہم کا بندہ ملعون ہے۔(ترمذی)

یعنی جو لوگ مال و دولت کے پرستار ہیں، خدا کی راہ میں جنھیں اپنا مال خرچ کرنا حددرجہ گراں گزرتا ہے، وہ خدا کی رحمتوں سے دُور ہیں۔ان کے حصے میں پھٹکار اور لعنت کے سوا اور کچھ نہیں آسکتا۔

مال و دولت کی پرستش بہت ہی بُری خصلت ہے۔ اسی لیےصدقہ لینا صرف اسی کو روا ہے جو محتاج ہو۔محتاج شخص کو اگر خدا نے صحت اور طاقت دی ہے تو اسے بھی حتی الامکان صدقہ و زکوٰۃ لینے سے بچنا چاہیے۔ اسے محنت و مشقت کے ذریعے سے اپنی گزراوقات کا سامان بہم پہنچانا چاہیے۔ چنانچہ ایک حدیث میں آتا ہے:

لَا تَحِلُّ الصَّدَقَۃُ لِغَنِیٍّ وَّلَا لِذِیْ مِرَّۃٍ سَوِیٍّ (ترمذی، ابوداؤد، نسائی، احمد، ابن ماجہ) مال دار کے لیے صدقہ (زکوٰۃ) حلال نہیں ہے، اور نہ اس شخص کے لیے جو توانا و تندرست ہو۔

حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:دو عادتیں کسی صاحب ِ ایمان میں جمع نہیں ہوسکتیں: بخل اور بدخلقی۔

یعنی بخل اور بدخلقی کی ایمان سے کوئی مناسبت ہی نہیں ہے۔ ایمان تو آدمی کو کشادہ دل، عالی ظرف اور باحوصلہ بناتا ہے، جب کہ بخل اور بدخلقی درحقیقت تنگ نظری، تنگ دلی، دنائت کی پیداوار ہیں۔

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سخی قریب ہے اللہ سے، قریب ہے جنّت سے، قریب ہے لوگوں سے، دُور ہے دوزخ سے ،اور بخیل شخص دُور ہے اللہ سے، دُور ہے جنّت سے، دُور ہے لوگوں سے، قریب ہے دوزخ سے۔ اور جاہل سخی اللہ کو بخیل عابد سے زیادہ پسند ہے۔(ترمذی)

سخاوت اور فیاضی سے آدمی کو خدا کی رضا اور اس کا قرب حاصل ہوتا ہے۔ فیاض اور سخی شخص سے لوگ بھی خوش رہتے ہیں اور ایسا شخص اپنے انجام کے لحاظ سے بھی کامیاب ہوتا ہے۔ جنّت اس کی دائمی جاے قرار ہوتی ہے۔ اس کے برخلاف بخیل شخص سے نہ خدا راضی ہوتا ہے اور نہ دنیا کے لوگ اس کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، اور اپنے انجام کے لحاظ سے وہ بجاے جنّت کے دوزخ کا مستحق ہوتا ہے۔

سخاوت اور فیاضی صفاتِ رذیلہ کے دُور کرنے میں حددرجہ معاون ہے۔ آدمی کو اس کے ذریعے سے روحانی و اخلاقی بلندی حاصل ہوتی ہے۔ وہ اس قابل ہو جاتا ہےکہ اس کے اندر خدا کی عظمت اور بزرگی کا زیادہ سے زیادہ احساس و شعور بیدار ہوسکے۔ رہا بخیل شخص تو نفسانیت اور تنگ دلی میں کچھ اس طرح گرفتار رہتا ہے کہ اسے روحانی و اخلاقی بلندی حاصل ہی نہیں ہوتی۔ اس کا دل مادی منفعتوں ہی میں اُلجھا رہتا ہے۔ زندگی کی اعلیٰ قدروں سے وہ آشنا ہی نہیں ہوپاتا۔

حضرت بُریدہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب بھی کسی قوم نے زکوٰۃ روک لی، اللہ نے اسے قحط میں مبتلا کر دیا۔(طبرانی)

اس لیے قحط کو دُور کرنے کے لیے صرف یہی کافی نہیں ہے کہ زیادہ سے زیادہ ٹیوب ویل اور پمپنگ سسٹم وغیرہ آبپاشی کے ذرائع فراہم کیے جائیں، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ مال کی زکوٰۃ نکالی جائے۔

ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب بھی کسی قوم نے اپنے مالوں کی زکوٰۃ روک لی اس سے آسمان کی بارش روک لی گئی اور اگر جانور نہ ہوں تو (بالکل) بارش نہ ہو۔(طبرانی)

یعنی اللہ تعالیٰ کبھی بے گناہ جانوروں کی وجہ سے بارش کردیتا ہے، حالاں انسانوں کی نافرمانیوں کا تقاضا تو یہ ہوتا ہے کہ بارش بالکل نہ ہو۔

حضرت سہل بن معاذؓ اپنے والد کے واسطے سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک نماز ، روزہ اور ذکر ِ الٰہی میں سے ہر ایک اللہ عزوجل کے راستے میں خرچ کرنے سے سات سو حصے تک بڑھ جاتا ہے۔

انفاق کے سبب نماز، روزہ اور ذکر میں ہر ایک کا درجہ و کمال سات سو گنا یا سات سو بار دوچند کرتے ہوئے جو حاصل ہو اس کے مساوی بڑھ جاتا ہے۔ اس سے انفاق کی اہمیت کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہرشخص کے لیے دل کے ٹھیرائو اور وابستگی کے لیے کوئی چیز چاہیے۔ اگر خدا کی ذات، ستودہ صفات، اس کے قلب اور جذبۂ شوق و محبت کے لیے پناہ گاہ نہ بن سکی تو لازماً اس کی وابستگی کا سامان یہی دنیا کے سازوسامان ہی ہوں گے۔ ایسی صورت میں اس کے لیے انفاق ایک مشکل امر ثابت ہوگا۔ ممکن ہے وہ نماز کی پابندی بھی کرے، روزے بھی رکھے اور زبان سے خدا کا نام بھی لے اور یہ خیال کرے کہ اس میں ہمارا جاتا ہی کیا ہے۔ لیکن انفاق کو ایک ایسی کسوٹی کی حیثیت حاصل ہے جس سے کھرے کھوٹے کی پہچان بآسانی ہوجاتی ہے۔ آدمی اگر خدا کا طالب ہے، مال و دولت اور دُنیوی چیزیں اس کی تمنائیں اور آرزوئوں کا مرکز نہیں ہیں، تو اس صورت میں انفاق،اس کے لیے کوئی ناخوش گوار شے نہیں ہوگی۔ ایسے شخص کی نماز فی الواقع نماز ہوگی، اس کا روزہ صحیح معنوں میں روزہ ہوگا اور اس کا ذکر فی الحقیقت ذکر ہوگا۔ اعمال اور عبادات کی قدروقیمت حددرجہ بڑھی ہوئی ہوگی، اور ان کا اجروثواب ایک نعمت ِ فراواں کی شکل اختیارکرلے گا۔

اس حدیث سے اس حقیقت پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ نیک اعمال اور عبادات وغیرہ کا باہم ایک دوسرے سے گہرا ربط و تعلق ہے۔ اعمال باہم ایک دوسرے سے بے تعلق نہیں ہوتے۔ وہ ایک دوسرے پر اثرانداز ہوتے رہتے ہیں۔ اسی لیے دین میں زندگی کی اصلاح اس کی مجموعی حیثیت سے مطلوب ہوتی ہے۔

اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسان کو کچھ قوتیں، قابلیتیں اور صلاحیتیں دے کر ایک متعین مدت اور ایک متعین وقت کے لیے اس دنیا میں بھیجا ہے۔ اور اس غرض کے لیے بھیجا ہے کہ انسان کا امتحان لیا جائے کہ وہ ان قوتوں، قابلیتوں اور صلاحیتوں کو اور اُن وسائل کو جن سے اس کو مسلح کیا گیا ہے، وہ کن مقاصد کے لیے اور کن کاموں میں صرف کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایک تو انسان کے اندر نیکی اور بدی کی امتیازی صلاحیت خود ہی رکھ دی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ انبیا علیہم السلام اور وحی کے ذریعے سے اس کو یہ بھی بتادیا ہے کہ تمھارے لیے صحیح کیا ہے اور غلط کیا ہے، اور جس نے تمھیں یہ سب کچھ عطا کیا ہے اور جس کی تم مخلوق ہو، جس نے تمھیں پیدا کیا ہے، جو تمھاری پرورش کر رہا ہے اور جس کے پاس پھر تمھیں لوٹ کر جانا ہے، وہ تمھارے لیے کس قسم کی زندگی اس دنیا میں پسند فرماتا ہے اور کن چیزوں کو وہ ناپسند فرماتا ہے۔ ان ساری چیزوں کا انتظام کرکے اس نے انسان کو ایک متعین مدت اور وقت کے لیے اس دنیا میں بطورِ امتحان بھیجا ہے۔

دنیا ، ایک امتحان گاہ

اسی بات کو مولانا مودودی نے اس طرح سے سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ جیسے آپ ایک طالب علم ہیں۔ جس طرح طالب علم کمرئہ امتحان میں ہفتہ دس دن یا پندرہ دن مختلف امتحانوں میں سے گزرتے ہیں، اسی طرح آپ کو مختلف پرچے دیے جاتے ہیں اور ہر ایک کے لیے ایک متعین وقت دیا جاتا ہے کہ ان کو تم حل کرو اور آپ کو جتنا وقت دیا جاتا ہے، اس میں کوئی بھی مداخلت نہیں کرتا۔ آپ کا جس طرح سے جی چاہے پرچہ حل کریں یا نہ حل کریں۔ آپ جو جی چاہے کریں، آپ کو کھلی چھٹی دے دی جاتی ہے ، لیکن جب وقت ختم ہوجاتا ہے، اس کے بعد ایک سیکنڈ کی بھی مہلت نہیں دی جاتی۔ اسی طرح سے اللہ تبارک و تعالیٰ نے دنیا میں آپ کو مہلت ِ عمل دی ہے اور آپ کو بھیجا ہے۔

اس سلسلے میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے جو بنیادی باتیں قرآنِ مجید میں ہمارے سامنے رکھی ہیں، ان میں سے کچھ آیات آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔

آخرت کی فکر

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰکُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ یَوْمٌ لَّا بَیْعٌ فِیْہِ وَ لَا خُلَّۃٌ وَّ لَا شَفَاعَۃٌ ط وَ الْکٰفِرُوْنَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَo(البقرہ ۲:۲۵۴) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جو کچھ مالِ متاع ہم نے تم کو بخشا ہے، اس میں سے خرچ کرو، قبل اس کے کہ وہ دن آئے جس میں نہ خریدوفروخت ہوگی، نہ دوستی کام آئے گی اور نہ سفارش چلے گی۔ اور ظالم اصل میں وہی ہیں جو کفر کی روش اختیار کرتے ہیں۔

اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کو جو کچھ عطا کیا ہے___ مال عطا کیا ہے، دولت عطا کی ہے، زمین عطا کی ہے، قوتیں عطا کی ہیں، دل و دماغ عطا کیا ہے، جذبات عطا کیے ہیں، عقل عطا کی ہے، سوجھ بوجھ عطا کی ہے، فہم و فراست عطا کی ہے، سوچنے سمجھنے کی قوتیں عطا کی ہیں، نیکی اور بدی کی تمیز کرنے کی قوتیں عطا کی ہیں__ ان ساری کی ساری چیزوں کے بارے میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا: اَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰکُمْ ، ان کو خرچ کرلو اس غرض کے لیے کہ تم اپنے حق میں کوئی چیز کمالو۔ اس وقت کے آنے سے پہلے کہ جب یہ پرچہ تمھارے ہاتھ سے چھین لیا جائے گا اور تمھیں ایک لمحے کے لیے بھی مہلت عطا نہیں کی جائے گی اور کمرئہ امتحان سے تمھیں اُٹھا دیا جائے گا۔ پھر جب اس پرچے کو جانچنے کا وقت آئے گا تو نہ تمھاری کوئی سفارش چلے گی، نہ کوئی چھرا یا پستول دکھا کر تم اپنے نمبروں میں کمی بیشی کروا سکو گے، اور نہ کسی کو کچھ دے دلا کر ہی کسی سے کوئی رعایت حاصل کرسکوگے۔

حقیقت یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے جس طرح سے جو نصاب مقرر کیا ہے، اس طرح سے آپ کو اپنے پرچوں کو حل کرنا چاہیے۔ اپنے ماں باپ کے ساتھ کس طرح کا سلوک کرنا چاہیے، دوستوں اور ہمسائیوں کے ساتھ کس طرح کا سلوک کرنا چاہیے، زیردستوں کے ساتھ کیا معاملہ کرنا چاہیے اور اپنے سے اُوپر والوں کے ساتھ کیا کرنا چاہیے، اپنوں کے ساتھ کیا کرنا چاہیے اور پرائیوں کے ساتھ کیا کرنا چاہیے۔ اسی طرح روپے کا صرف کس طرح کرنا چاہیے، عدالت کس طرح سے    چلنی چاہیے اور اپنے جھگڑے کس طرح سے نبٹانے چاہییں۔ اس طرح سے اگر آپ نے پرچہ حل کیا ہوگا، کسی کی حق تلفی نہ کی ہوگی تو ٹھیک ہوگا اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو اپنے اُوپر بھی ظلم کیا اور    ان چیزوں پر بھی ظلم کیا، جن کو آپ نے استعمال کیا، کیوں کہ ان کا حق یہ ہے کہ جس مالک کی یہ اشیا ہیں اس مالک کی مرضی کے مطابق انھیں استعمال کیا جائے۔ دل و دماغ، ہاتھ پائوں، عقل اور فہم و فراست، سوچ سمجھ، اولاد، بھائی بند، دوست احباب اور جو چیزیں بھی آپ کو عطا کی گئی ہیں، ان کا حق آپ پر یہ بنتا ہے کہ آپ اس مالک کی مرضی کے مطابق ان کو استعمال کریں جس کی وہ چیزیں ہیں۔

امانت میں تصرف

ظاہر بات ہے کہ ہرچیز جو اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کے صواب دید اور اختیار (disposal) میں دی ہے، وہ آپ کے پاس خدا کی امانت ہے۔ اس لیے آپ کو حق نہیں پہنچتا ہے کہ اس مالک کی مرضی کے خلاف ان کے اندر آپ تصرف کریں۔ آپ میں سے ہرشخص جو بھی معاملات کی کچھ بھی سوجھ بوجھ رکھتا ہے وہ اس بات کو جانتا ہے کہ جوچیز بھی آپ کے پاس کسی نے امانت رکھی ہے، کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ اس امانت میں اس کے مالک کی مرضی کے خلاف تصرف کرے، اور اس کے خلاف تصرف کرنے کا نام خیانت ہے، بے ایمانی ہے، بددیانتی ہے اور غبن  ہے۔ اگر وہ امانت میں خیانت کرتا ہے تو ظاہر بات ہے کہ اس کو اس کی سزا بھی بھگتنی پڑے گی، خمیازہ بھی بھگتنا پڑے گا اور وہ اپنے اُوپر بھی ظلم کرے گا۔ اگر وہ جیل جائے گا تب بھی، جرمانہ ہوگا اور سزا ملے گی تب بھی۔ جو بھی ایسا کام کرتا ہے وہ خود پر ظلم کرتا ہے اور کوئی اس کا ذمہ دار نہ ہوگا۔

اس لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: وَ الْکٰفِرُوْنَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ، جو لوگ خدا کی نافرمانی کا راستہ اختیار کریں، خدا کے قانون کو توڑیں، خدا کی مرضی کے خلاف ان چیزوں کا استعمال کریں اور اللہ کے حکم کے مطابق انھیں استعمال نہ کریں، وہی حقیقت میں ظالم ہیں۔ وہ دوسروں کے اُوپر بھی ظلم کرتے ہیں اور ان اشیا پر بھی ظلم کرتے ہیں کہ ان کا حق مارتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں وہ خود کو بھی سزا کا مستحق ٹھیراتے ہیں اور اس طرح خود اپنے اُوپربھی ظلم کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔

اللہ کی صفات، حاکمیت اور اختیارات

اللہ جس کی اطاعت اور فرماں برداری کی طرف آپ کو بلایا جاتا ہے اور متوجہ کیا جاتا ہے، جس کی مرضی کو ملحوظ رکھنے کی آپ کو دعوت دی جارہی ہے، وہ خدا کون ہے؟ اس کے بارے میں فرمایا:

اَللّٰہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ ج    اَلْحَیُّ الْقَیُّوْمُ ج     لَا تَاْخُذُہٗ سِنَۃٌ وَّ لَا نَوْمٌ ط لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ ط  مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہٗٓ اِلَّا بِاِذْنِہٖ ط  یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْھِمْ وَ مَا خَلْفَھُمْ ج  وَ لَا یُحِیْطُوْنَ بِشَیْئٍ مِّنْ عِلْمِہٖٓ اِلَّا بِمَاشَآئَ ج وَسِعَ کُرْسِیُّہُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ ج  وَ لَا  یَئُوْدُہٗ حِفْظُھُمَا ج وَ ھُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُo (البقرہ۲:۲۵۵)اللہ وہ  زندۂ جاوید ہستی، جو تمام کائنات کو سنبھالے ہوئے ہے، اُس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے۔ وہ نہ سوتا ہے اور نہ اُسے اُونگھ لگتی ہے۔ زمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے، اُسی کا ہے۔ کون ہے جو اس کی جناب میں اُس کی اجازت کے بغیر سفارش کرسکے؟ جو کچھ بندوں کے سامنے ہے، اسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ اُن سے اوجھل ہے، اس سے بھی وہ واقف ہے اور اس کی معلومات میں سے کوئی چیز ان کی گرفت ِ ادراک میں نہیں آسکتی اِلا یہ کہ کسی چیز کا علم وہ خود ہی ان کو دینا چاہے۔ اُس کی حکومت آسمانوں اور زمین پر چھائی ہوئی ہے اور اُن کی نگہبانی اُس کے لیے کوئی تھکا دینے والا کام نہیں ہے۔ بس وہی ایک بزرگ و برتر ذات ہے۔

گویا اس کے سوا کوئی اور خدا نہیں ہے۔ نہ اِس زمین کا خدا ہے، نہ اُس آسمان کا خدا ہے، نہ ان چیزوں کا خدا ہے اور نہ آپ کا خدا ہے۔ اور وہی خدا ہے جس کے سامنے آپ کو جاکر پیش ہونا ہے اور جو ہمیشہ سے زندہ ہے، ہمیشہ زندہ رہے گا اور اس کو کسی اور نے زندہ نہیں کیا ہے۔ وہ اپنی ذات سے خود زندہ ہے۔ وہ زندئہ جاوید ہے۔ یہی نہیں کہ وہ خود زندہ ہے بلکہ تمام کائنات میں جو کچھ ہے سب کا وہی صانع ہے، پیدا کرنے والا ہے۔ اگر اس کا سہارا ہٹ جائے تو سب کچھ اسی وقت دھڑام سے گرپڑے۔ آپ کا وجود بھی اسی کی ذات سے قائم ہے۔ اگر اس کا سہارا ختم ہوجائے تو یہ قائم نہیں رہ سکتا۔ اگر انسان پر فالج گرتا ہے تو کس چیز کی کمی واقع ہوجاتی ہے؟ اس خدا نے انسانی وجود کو جو سہارا دے رکھا ہے دراصل سہارا دینے کا وہ وسیلہ معطل ہو جاتا ہے اور انسان مٹی کے ڈھیرکی طرح سے زمین پر جاگرتا ہے۔ نہ اس کی انگلی ہلتی ہے ، نہ اس کا پائوں ہلتا ہے،    نہ اس کا سر حرکت کرتا ہے اور نہ وہ اپنا پہلو بدل سکتا ہے اور اکثر اوقات تو بول بھی نہیں سکتا۔سب کچھ موجود ہوتا ہے، اس کے اندر جان بھی ہوتی ہے لیکن صرف خدا کا وہ سہارا اس سے ہٹ جاتا ہے۔

پھر فرمایا: لَا تَاْخُذُہٗ سِنَۃٌ وَّ لَا نَوْمٌ ط،وہ نہ سوتا ہے اور نہ اُسے اُونگھ لگتی ہے۔

ایک سیکنڈ تو درکنار، ایک سیکنڈ کا کروڑواں ، ارب واں حصہ بھی اس پر غفلت طاری نہیں ہوتی۔ وہ ہروقت اور ہر آن alertہے۔ وہ ہروقت باخبر ہے۔ اس کے اُوپر کبھی بے خبری کی حالت طاری نہیں ہوتی۔ نہ وہ سوتا ہے اور ذرا برابر اُونگھ تک بھی اس پر طاری نہیں ہوتی۔ کسی بھی وقت اس پر کسی قسم کی کوئی غفلت طاری نہیں ہوتی۔ کسی حالت میں بھی وہ آپ سے غافل نہیں ہوتا۔ جہاں بھی آپ ہیں، جس حال میں بھی ہیں، جو کام بھی کر رہے ہیں، دنیا کے جس گوشے میں بھی ہیں، ہروقت وہ آپ سے باخبر ہے، چوکنا ہے اور چوکس ہے۔

مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہٗٓ اِلَّا بِاِذْنِہٖ ط، کون ہے جو اس کی جناب میں اس کی اجازت کے بغیر سفارش کرسکے؟

ایک دوسری جگہ فرمایا: کون ہے جو اس کی جناب میں زبان بھی کھول سکے۔ کوئی نبیؑ ، کوئی ولی، کوئی بزرگ، کوئی بڑا یا کوئی چھوٹا، اس کی مرضی کے خلاف اس کے سامنے زبان نہیں کھول سکتا۔ یہاں سفارش کرنا اور شفاعت کرنا کے معنی یہ ہیں کہ جو بھی اس کے سامنے زبان کھولے گا، اس کی اجازت اور مرضی سے کھولے گا، اور اجازت بھی وہ اسی کو دے گا جس کے بارے میں خود اس کا منشا ہوگا۔

یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْھِمْ وَ مَا خَلْفَھُمْ ج، جو کچھ بندوں کے سامنے ہے اسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ ان سے اوجھل ہے، اس سے بھی وہ واقف ہے۔

اس کو خود معلوم ہے کہ آپ کے آگے کیا ہے اور آپ کے پیچھے کیا ہے؟ آپ کے دائیں کیا ہے اور بائیں کیا ہے؟ آپ نے کیا کیا ہے اور کیا نہیں کیا ہے اور کس نیت سے اور کس ارادے سے کیا ہے؟ کس وجہ یا مجبوری سے کیا ہے؟ بدنیتی سے کیا ہے یا خوش نیتی سے کیا ہے___ وہ سب جانتا ہے، اسے کوئی کیا بتائے گا۔ کسی کے پاس کوئی سفارش اسی بنا پر کرتا ہے کہ حاکم کو بتائے کہ: ’حضور اس نے مجبوری اور لاچاری سے یہ جرم کیا ہے اور آپ کو جو اطلاع ملی ہے اس میں یہ غلطی ہے۔ فلاں شخص نے اس میں یہ غلط بات بیان کی ہے اور فلاں نے اس شخص کی اس طرح سے شکایت کرکے آپ کو بدظن کرنے کی کوشش کی ہے‘ لیکن سوال یہ ہے کہ خدا کو بدظن کون کرے گا؟ اسے غلط اطلاع کون دینے کی ہمت کرے گا؟ اور اسے دھوکے میں کون ڈالے گا؟ وہ تو سب کچھ جانتا ہے۔ جو دنیا کو نہیں معلوم وہ سب کچھ اس کو معلوم ہے۔

وَ لَا یُحِیْطُوْنَ بِشَیْئٍ مِّنْ عِلْمِہٖٓ اِلَّا بِمَا شَآئَ  ج، اور اس کی معلومات میں سے کوئی چیز ان کی گرفت اور ادراک میں نہیں آسکتی، اِلا یہ کہ کسی چیز کا علم وہ خود ہی ان کو دینا چاہے۔

کوئی دوسرا اس کو جو کچھ بتانا چاہتا ہے وہ علم تو اسی کا دیا ہوا ہے۔اللہ تعالیٰ کو وہ کیا بتائے گا؟ جو پیغمبرؑ ، یا ولی، یا کوئی دوسرا شخص بھی اس کو بتائے گا، وہ تو اللہ ہی کا اسے دیا ہوا علم ہے۔    اگر وہ کسی کی شفاعت یا سفارش سنے گا تو دنیا کو دکھانے کے لیے کہ اس شخص کا میرے دربار میں   یہ مرتبہ ہے۔ اور اس کو میں نے یہ مقام دیا ہے کہ اس کی سفارش پر میں تمھیں معاف کررہا ہوں تاکہ  وہ اس کے احسان مند ہوں کہ یہ ہمارا مقرب بندہ تھا۔ اس کو دنیا میں بھی ہم نے تمھاری رہنمائی کے لیے بھیجا تھا اور تم نے اس کی بات نہیں سنی تھی۔ دیکھو! اس کا ہمارے ہاں کیا مرتبہ ہے۔ جس کو تم نے دنیا میں رد کر دیا تھا، ہمارے نزدیک اس کا کیا مرتبہ ہے۔ اس لیے ہم اس کی بات سن رہے ہیں۔

وَسِعَ کُرْسِیُّہُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ،اس کی حکومت آسمانوں اور زمین پر چھائی ہوئی ہے۔

آپ کبھی اس کی حدود سلطنت سے نکل کر باہر نہیں جاسکتے۔ زمین و آسمان میں جو کچھ بھی اس کائنات کے اندر ہے، سب پر اس کی حکومت ہے۔ ہرجگہ اس کی سلطنت چھائی ہوئی ہے۔ کوئی چیز اس کے حکم سے باہر نہیں ہے۔ ہرجگہ اس کا حکم چلتا ہے۔ ہرچیز اس کے دائرۂ اختیار کے اندر ہے۔ کوئی اس سے بھاگ کر کہیں نہیں جاسکتا۔

وَ لَا یَئُوْدُہٗ حِفْظُھُمَا وَ ھُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ،اور ان کی نگہبانی اس کے لیے کوئی تھکادینے والا کام نہیں ہے۔ بس وہی ایک بزرگ و برتر ذات ہے۔

اللہ وہ ہستی ہے جو ہمیشہ سے اس کائنات پر حکمرانی کرر ہی ہے، اس کی نگرانی کر رہی ہے، تدبیر مملکت کر رہی ہے، اس کا انتظام کر رہی ہے۔انسان کا معاملہ تو یہ ہے کہ وہ کام کرنے کے بعد تھک جاتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ کچھ کھاپی لے، کچھ آرام کرلے اور کچھ سستا لے تاکہ مزید کام کے لیے تازہ دم ہوجائے۔ لیکن وہ ذاتِ باری تعالیٰ ایسی ہے اور ایسی زبردست قوت والی ذات ہے کہ وہ ہمیشہ سے ہے، اس کائنات کو سنبھالے ہوئے ہے، اس کا انتظام کر رہی ہے، اس کی ضروریات کو پورا کررہی ہے، اس کے تمام انتظامات کو چلارہی ہے، تدبیر مملکت کر رہی ہے۔ اس کی حفاظت ،  اس کے انتظامات اور اس کی ضروریات کو پورا کرنے سے ذرہ برابر بھی اس پر تھکاوٹ طاری نہیں ہوتی۔ وَ ھُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ،لہٰذا وہ سب سے بزرگ و برتر، سب سے اعلیٰ و ارفع اور سب سے بلند ہے۔

طاقت کا سرچشمہ

یہ ہے وہ خدا جس کی طرف آپ کو اور تمام انسانیت کو بلایا جارہا ہے اور یہ ہے وہ اسلام، جس کی طرف انسانوں کو اور آپ کو اور آپ اپنی قوم کے دوسرے لوگوں کو بلارہے ہیں کہ اس کے سامنے سرجھکائو اور اس کی رہنمائی کو قبول کرو۔ اس کے دین کو اور اس کے بتائے ہوئے راستے کو اختیار کرو۔ دنیا میں بھی سرفراز ہوجائو اور آخرت میں بھی اس کی جنّت میں داخل ہوجائو اور دنیا و آخرت کی نعمتوں سے مالا مال ہوجائو۔

یہی ہے دین کی وہ بنیادی دعوت، جس کو لے کر آپ کھڑے ہوئے ہیں۔ اس خدا کے  تصور کو آپ جتنی مضبوطی کے ساتھ اپنے ذہن میں بٹھالیں گے، اتنا ہی آپ کے اندر بے پناہ ہمت و حوصلہ اور نہ ختم ہونے والا جوش پیدا ہوگا۔ اسی طاقت سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم،  آپؐ کے خلفاے راشدینؓ اور صحابہ کرامؓ نے دنیوی وسائل کے لحاظ سے تہی دامن ہونے کے باوجود بڑی بڑی سلطنتوں، بڑی بڑی سوپرپاورز کو انھوں نے اُکھاڑ کر پھینک دیا۔

آج ہم سے چند میل کے فاصلے پر افغانوں نے، جن کے پاس نہ دنیا کا مال و دولت ہے، نہ جدید اسلحہ ہے، نہ کوئی ٹینک اور توپ خانے ہیں، نہ ہوائی جہاز ہیں، لیکن دنیا کی دو بڑی سوپرپاورز کو جن کے مقابلے میں دنیا کی ساری سلطنتیں مل کر بھی کھڑا ہونے کی ہمت نہیں کر رہی تھیں، ان کو اسی خدا پر یقین رکھنے والوں نے، جن کو اس بات کا یقین تھا کہ العلی العظیم ہماری پشت پر ہے، انھوں نے اس طاقت کا منہ پھیر کر رکھ دیا ہے۔ اس لیے آپ کو اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ طاقت کا اصل سرچشمہ اللہ کی ذات بابرکات ہے اور صرف اسی پر بھروسا کرنا چاہیے۔

دین میں کوئی جبر نہیں

لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ (البقرہ ۲:۲۵۶) دین کے معاملے میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے۔

اس چیز کو منوانے کے لیے کوئی تلوار استعمال نہیں کی جائے گی، کوئی زبردستی نہیں کی جائے گی، کیوں کہ زبردستی آپ کسی کو منافق تو بنا سکتے ہیں کہ وہ طاقت کے سامنے زیر ہوکر زبانی کلامی آپ کو دھوکا دے ڈالے، لیکن زبردستی آپ اس کو مومن نہیں بناسکتے۔ اس لیے کہ مومن آدمی اپنی مرضی سے  بنتا ہے۔ اگر اس کے دل کے اندر بات اُترے، اُس کا دماغ اس کو قبول کرے ، اس کے دل میںیہ بات بیٹھ جائے، اس کے ذہن میں یہ بات اُتر جائے، تب تو حقیقت میں آدمی مومن بنتا ہے اور صحیح معنوں میں خدا کافرماں بردار بن سکتا ہے۔ اسی صورت میں وہ جنّت کا اور خدا کے ہاں مقبولیت کا مستحق قرار پائے گا۔ اگر آپ نے اسے ڈنڈا دکھا کر کلمہ پڑھا دیا تو کسی بھی وقت وہ آپ کو بھی دھوکا دے گا اور آپ کی قوت کا بھی ذریعہ نہیں بنے گا۔ آخرت میں بھی اس کو کچھ نہیں ملے گا بلکہ دوزخ کا بدترین ٹھکانا اس کا مقدر ٹھیرے گا۔ جیساکہ قرآن پاک میں منافقوں کے لیے ارشاد فرمایا گیا ہے: اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ فِی الدَّرْکِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارِ ج (النساء ۴:۱۴۵) ’’یقین جانو کہ منافق جہنّم کے سب سے نیچے طبقے میں جائیں گے‘‘۔ وہ جہنّم کے سب سے نچلے گڑھے میں ڈالے جائیں گے جہاں سے وہ شاید کروڑہا برس کی مسافت طے کر کے جہنّم کے کنارے پر پہنچ سکیں گے۔ وہ اتنا گہرا گڑھا ہوگا۔

اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ،یعنی یہ بات ہم زبردستی کسی سے نہیں منوا سکتے۔ یہ ہم نے بتا دیا کہ وہ خدا کیسا ہے؟ اس کی صفات کیا ہیں؟ اس کی قوت کیا ہے؟ لیکن اس بات کو ہم زبردستی نہیں منوا سکتے، اس لیے کہ دین میں جبر نہیں ہوسکتا۔

قَدْ تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ، صحیح بات غلط خیالات سے الگ چھانٹ کر رکھ دی گئی ہے۔

صحیح بات کو جو عقل اور معقولیت کے مطابق بات ہے اس کو بالکل منزہ کر کے، واضح کرکے اور صاف کرکے تمام آلایشوں سے پاک کر کے ہم نے سامنے رکھ دیا ہے اور غلط بات کو الگ کرکے رکھ دیا ہے۔ اب جس کا جی چاہے اس کو قبول کرلے اور جس کا جی چاہے اس کو رد کردے۔

مضبوط سہارا

فَمَنْ یَّکْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَ یُؤْمِنْم بِاللّٰہِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰی ق لَا انْفِصَامَ لَھَا ط وَ اللّٰہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌo  (البقرہ۲:۲۵۶) اب جو کوئی طاغوت کا انکار کرکے اللہ پر ایمان لے آیا، اُس نے ایک ایسا مضبوط سہارا تھام لیا جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں، اور اللہ (جس کا سہارا اُس نے لیا ہے) سب کچھ سننے والا اور جاننے والا ہے۔

پھر جس نے ’طاغوت‘ کو رد کر دیا اور اللہ کو تسلیم کرلیا اور اللہ کے سامنے سر جھکا دیا، اس نے ایک ایسا مضبوط سہارا پکڑ لیا ہے جو کبھی دھوکا دینے والا نہیں، جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں۔ جس میں کوئی کمزوری نہیں ہے، جو ہروقت سہارا دینے والا ہے۔ اس کو پکڑ لینے کے بعد کبھی آپ کے پائوں میں لغزش نہیں آئے گی، جو آپ میں کبھی کمزوری نہیں پیدا ہونے دے گا۔ اس لیے آپ اس سہارے کو تھامیں۔ پھر اگر آپ کسی وقت اس کو پکارنے کی ضرورت محسوس کریں تو جہاں آپ نے زبان سے بات نکالی تو فوراً اس تک پہنچ جاتی ہے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب نمرود نے آگ میں پھینکنے کا انتظام کیا اور اس کے لیے آگ کا ایک بڑا خوف ناک الائو تیار کیا اور آگ میں پھینکنے کے لیے حضرت ابراہیم ؑ کو منجنیق میں ڈالا کہ اُس کی قوت کے جھٹکے سے انھیں دہکتی آگ میں پھینکے۔ اس وقت حضرت جبریل امین ؑ ان کے پاس آئے اور عرض کیا: یاخلیل اللہ! آپ کو کسی مدد کی ضرورت ہو تو میں حاضر ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے آپؑ کی مدد کے لیے بھیجا ہے۔ حضرت ابراہیمؑ نے فرمایا کہ اگر آپ مدد کے لیے آئے ہیں تو آپ کی مدد کی مجھے کوئی ضرورت نہیں ہے۔ حضرت جبریلؑ نے کہا کہ خدا سے مدد مانگیں۔ حضرت ابراہیم ؑ نے کہا کہ یہ سب کچھ تو میرے رب کے سامنے ہو رہا ہے۔

گویا خدا تو وہ ہے جسے پکارنے کی بھی ضرورت نہیں ہے، جس کے علم میں سب کچھ ہے، وہ دیکھ رہا ہے، وہ سن رہا ہے، وہ سمیع ہے، وہ علیم و بصیر اور خبیر ہے۔ اس کو خبر بھی ہے اور علم بھی۔

اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لا یُخْرِجُھُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ ط  وَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اَوْلِیٰٓئُھُمُ الطَّاغُوْتُ لا یُخْرِجُوْنَھُمْ مِّنَ النُّوْرِ اِلَی الظُّلُمٰتِ ط اُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِ ج ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ o ( ۲:۲۵۷) جو لوگ ایمان لاتے ہیں، ان کا حامی و مددگار اللہ ہے اور وہ ان کو تاریکیوں سے روشنی میں نکال لاتا ہے۔ اور جو لوگ کفر کی راہ اختیار کرتے ہیں، اُن کے حامی و مددگار طاغوت ہیں اور وہ انھیں روشنیوں سے تاریکیوں کی طرف کھینچ لے جاتے ہیں۔ یہ آگ میں جانے والے لوگ ہیں، جہاں یہ ہمیشہ رہیں گے۔

اللہ ان لوگوں کا سرپرست، ساتھی اور ولی اور دوست ہے جو اس کو مان لیں، اس پر ایمان لے آئیں۔ وہ ان کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے آتا ہے۔ اور جو لوگ اس کا انکار کریں، اس سے سرکشی کا راستہ اختیار کریں وہ ان کو طاغوت کے سپرد کردیتا ہے۔ یعنی جو خدا کے سرکش ہیں،  خدا کے منکر ہیں اور خدا کے نافرمان ہیں، اور یہ کہ وہ نہ صرف خود خدا کے نافرمان ہیں بلکہ دوسروں کو بھی اللہ کا نافرمان بنا کر اپنے تابع فرمان بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔یُخْرِجُوْنَھُمْ مِّنَ النُّوْرِ اِلَی الظُّلُمٰتِ،اور وہ ان کو روشنی سے نکال کر، عقل اور فراست کے راستے سے نکال کر اندھیروں اور تاریکیوںکے راستے میں بھٹکنے پر ڈال دیتے ہیں۔ اُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِ ج ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ، وہ آگ میں جانے والے لوگ ہیں اور وہ آگ ہی میں ہمیشہ رہیں گے۔

اہلِ ایمان کی مدد

اس کے بعد ایک مثال بیان فرمائی کہ کس طرح سے اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے اُوپر بھروسا کرنے والوں اور اپنے اُوپر ایمان لانے والوں کی مدد فرماتا ہے اور ان کو راستہ دکھاتا ہے اور ان کو تاریکی میں سے نکال کر روشنی میں لاتا ہے:

اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْ حَآجَّ اِبْرٰھٖمَ فِیْ رَبِّہٖٓ ط اَنْ اٰتٰہُ اللّٰہُ الْمُلْکَ م اِذْ قَالَ اِبْرٰھٖمُ رَبِّیَ الَّذِیْ یُحْیٖ وَ یُمِیْتُ لا قَالَ اَنَا اُحْیٖ وَ اُمِیْتُ ط قَالَ اِبْرٰھٖمُ فَاِنَّ اللّٰہَ یَاْتِیْ بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَاْتِ بِھَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُھِتَ الَّذِیْ کَفَرَ ط وَ اللّٰہُ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ o  (البقرہ۲: ۲۵۸) کیا تم نے اس شخص کے حال پر غور نہیں کیا جس نے ابراہیم ؑ سے جھگڑا کیا تھا؟ جھگڑا اس بات پر کہ ابراہیم ؑ کا رب کون ہے، اور اس بناپر کہ اس شخص کو اللہ نے حکومت دے رکھی تھی۔ جب ابراہیم ؑ نے کہا کہ ’’میرا رب وہ ہے جس کے اختیار میں زندگی اور موت ہے، تو اس نے جواب دیا: ’’زندگی اور موت میرے اختیار میں ہے‘‘۔ ابراہیم ؑ نے کہا: ’’اچھا، اللہ سورج کو مشرق سے نکالتا ہے تُو ذرا اُسے مغرب سے نکال لا‘‘۔ یہ سن کر وہ منکرِحق ششدر رہ گیا، مگر اللہ ظالموں کو   راہِ راست نہیں دکھایا کرتا۔

یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ کس کس اسلوب میں اپنے بندوں کی رہنمائی کرتا ہے، ایسے دلائل اور باتیں سجھاتا ہے کہ وہ اپنے بالمقابل لوگوں کو خاموش کرا دیتے ہیں اور ان کو کوئی بات سوجھتی نہیں ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ اس آگ کے الائو سے زند ہ نکلنے کے بعد نمرود کے پاس گئے، تو اس نے آپؑ سے کہا کہ:’ تُو کس کو ربّ مانتا ہے؟‘ حضرت ابراہیم ؑ نے کہا کہ:’ میرا ربّ وہ ہے، جس کے ہاتھ میں زندگی اور موت ہے۔ جس نے پیدا کیا ہے اور جو موت دیتا ہے‘۔ اس نے کہا کہ:’ زندگی اور موت تو میرے ہاتھ میں ہے۔ میں جس کو چاہوں زندہ رکھوں اور جس کو چاہوں قتل کروا دوں، پھانسی دے دوں اور اس کی زندگی ختم کر دوں‘۔ جب اس نے یہ بات کہی تو حضرت ابراہیم ؑ نے فوراً جواب دیا کہ میرا رب وہ ہے جس کے حکم سے روز مشرق سے سورج نکلتا ہے تُو اگر خدا ہے تو ذرا مغرب سے اسے نکال کر دکھا دے؟‘ ظاہر بات ہے کہ اس کا کوئی جواب نمرود کے پاس نہیں تھا۔

اللہ کی بندگی کی طرف دعوت

اَفَغَیْرَ دِیْنِ اللّٰہِ یَبْغُوْنَ وَلَہٗٓ اَسْلَمَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ طَوْعًا وَّ کَرْھًا وَّاِلَیْہِ یُرْجَعُوْنَo(  ٰال عمرٰن ۳:۸۳) اب کیا یہ لوگ اللہ کی اطاعت کا طریقہ  (دینُ اللہ) چھوڑ کر کوئی اور طریقہ چاہتے ہیں؟ حالاں کہ آسمان و زمین کی ساری چیزیں چاروناچاراللہ ہی کی تابع فرمان (مُسلم) ہیں اور اُسی کی طرف سب کو پلٹنا ہے؟

یہ فرمایا جارہا ہے کہ کیا یہ لوگ اللہ کے اس دین کو چھوڑ کر کسی اور راستے کو اختیار کرنا چاہتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ اللہ کے سامنے گردن جھکائیں، اس کی اطاعت کو قبول کریں، اس کے دیے ہوئے طریقِ زندگی کے مطابق زندگی بسر کریں۔ اس کے قانون کو تسلیم کریں، اس کی شریعت کے مطابق زندگی بسر کرنا شروع کریں۔ اس کے حلال کو قبول کریں اور اس کے حرام سے اجتناب کریں۔ اس کی پسندیدہ چیزوں کو اختیار کریں اور اس کی ناپسندیدہ چیزوں سے اجتناب کریں، اور جو راستہ اس نے بتایا ہے اسے اختیار کریں۔ مگر یہ لوگ اس کو اختیار کرنے کے بجاے کسی اور راستے کو اختیار کرنا چاہتے ہیں، یا یہ کوئی اور راستہ خود بنانا چاہتے ہیں یا لوگوں کا بنایا ہوا راستہ اختیار کرنا چاہتے ہیں۔ حالاں کہ یہ اپنی آنکھوں سے اس بات کو دیکھ رہے ہیں کہ زمین و آسمان میں ہرچیز اللہ کے مقرر کردہ راستے پر چلی جارہی ہے۔ سورج، چاند، ہوائیں، پہاڑ، سمندر، دریا، زمین و آسمان کی تمام قوتوں کو دیکھیں ، بارشوں کو دیکھیں،فصلوں کو اُگتا ہوا دیکھیں، زندگی اور موت کو دیکھیں، اپنے حجم کو دیکھیں، اپنے سانس کی آمدورفت کو دیکھیں،دنیا کا جتنا بھی نظم و نسق ہے اس کو کون چلا رہا ہے؟ دنیا کے اندر جو قوانین فطرت (Laws of Nature) رائج ہیں، یہ کس کے بنائے ہوئے ہیں؟ کیا کسی بادشاہ کے بنائے ہوئے ہیں یا کسی اسمبلی یا پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے ہیں؟

حقیقت یہ ہے کہ تمام دنیا کا نظام اللہ کے بنائے ہوئے قوانین کے تحت چل رہا ہے، اللہ کے بنائے ہوئے قوانینِ فطرت کے تحت چل رہا ہے اور پوری دنیا کا نظام خدا کے بنائے ہوئے ایک راستے پر چل رہا ہے، تو کیا تم اس راستے سے ہٹ کر کسی اور راستے پر چلنا چاہتے ہو؟ دراصل ہمیں دعوت دی جارہی ہے کہ اللہ کے بتائے ہوئے راستے پرخدا کے قوانینِ زندگی کے مطابق چلنے کا اہتمام کرو۔ کل مرنے کے بعد تمھیں اسی کے سامنے جاکر پیش ہونا ہے اور تمھاری جانچ پڑتال ہوگی کہ تم اپنی زندگی کے معاملات کو کس قانون کے مطابق چلارہے تھے؟ کیا اسی قانون کے مطابق جس کے مطابق دنیا کا نظام چل رہا تھا اور خود تمھارا جسم پل بڑھ رہا تھا، بیمار ہوتا اور تندرست و توانا ہوتا تھا، تمھاری سانس چل رہی تھی، دماغ کام کر رہا تھا اور تمھارے اعضا حرکت کررہے تھے؟ تم نے اسی قانون کے مطابق اپنی زندگی کے اختیاری شعبے میں اپنے معاملات کو چلایا، یا تم نے کسی من گھڑت قانون کے تحت اپنی زندگی بسر کی؟

راہِ نجات

قُلْ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَ مَآ اُنْزِلَ عَلَیْنَا وَ مَآ اُنْزِلَ عَلٰٓی اِبْرٰھِیْمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ وَ الْاَسْبَاطِ وَ مَآ اُوْتِیَ مُوْسٰی وَ عِیْسٰی وَ النَّبِیُّوْنَ مِنْ رَّبِّھِمْ ص  لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْھُمْ وَ نَحْنُ لَہٗ مُسْلِمُوْنَo ( ٰالِ عمرٰن ۳:۸۴) اے نبیؐ، کہو کہ ’’ہم اللہ کو مانتے ہیں، اُس تعلیم کو مانتے ہیں جو ہم پر نازل کی گئی ہے، ان تعلیمات کو بھی مانتے ہیں جو ابراہیم ؑ ، اسماعیل ؑ، اسحاقؑ، یعقوبؑ اور اولادِ یعقوب ؑ پر نازل ہوئی تھیں، اور ان ہدایات پر بھی ایمان رکھتے ہیں جو موسٰی اور عیسیٰؑ اور دوسرے پیغمبروں کو اُن کے رب کی طرف سے دی گئیں۔ ہم اُن کے درمیان فرق نہیں کرتے، اور ہم اللہ کے تابع فرمان (مُسلم) ہیں‘‘۔

اس کے بعد راہِ نجات کو واضح کیا گیا ہے کہ اے نبیؐ، آپؐ یہ فرما دیں کہ ہم نے اللہ کے بتائے ہوئے طریقے کو اختیار کرلیا اور تسلیم کرلیا ہے اور اس دین کو مان لیا ہے جو ہمیں براہِ راست بتایا گیا ہے کہ یہ اللہ کا دین ہے۔ وہ دین جو اس نے ابراہیمؑ، اسماعیلؑ، اسحاق ؑ، یعقوبؑ ، موسٰی ، عیسٰیؑ اور ان کے بعد جتنے بھی انبیاؑ آئے ان سب کو بتایا تھا۔ ہم ان سب کے دین کو قبول کرتے ہیں اور   ان سب انبیاؑ کے پاس ہمیشہ ایک ہی دین آتا رہا ہے اور ہم نے اس کے سامنے سرتسلیم خم کر دیا ہے۔ وہ دین پوری دنیا کا دین ہے اور اس میں نافذ ہے۔ سورج سے لے کر ذرّے تک، اور آسمان سے لے کر تحت الثریٰ تک، اور پہاڑوں سے لے کر دریائوں تک، گویا کہ چھوٹی سے چھوٹی چیز، اور ہرچیز کا وہی دین ہے اور ہم نے بھی اسی دین کو اختیار کرلیا ہے۔

باطل نظام کی حقیقت

وَ مَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ ج   وَ ھُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ o  ( ۳:۸۵) اس فرماں برداری (اسلام) کے سوا جو شخص کوئی اور طریقہ اختیار کرنا چاہے اس کا وہ طریقہ ہرگزقبول نہ کیا جائے گا اور آخرت میں وہ ناکام و نامراد رہے گا۔

کہا جارہا ہے خدا کے سامنے سرجھکا کر اس کے قانون کے سامنے سرتسلیم خم کردو۔ جو کوئی زندگی بسر کرنے کے اس طریقے کو چھوڑ کر کوئی اور راستہ اختیار کرے گا، اللہ تبارک وتعالیٰ نہ اس کو اس دنیا میں پنپنےدے گا اور نہ آخر ت میں پنپنے دے گا۔

اب ہم اس بات کو آسانی سے سمجھ سکتے ہیں کہ جہاں تک خدا کے دین کا تعلق ہے، خدا کے قانون کا تعلق ہے، یہ آدم ؑ سے لے کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک ایک ہی دین رہا ہے کہ اس خدا کے سامنے سرجھکا کر، اللہ تعالیٰ نے جن چیزوں کو پسند کیا ہے ا ن کو اختیار کیا جائے اور جن چیزوں کو خدا نے ممنوع قرار دے دیا ہے ان سے اجتناب کیا جائے، اور جن کو اس نے جائز رکھا ہے ان کو اختیار کیا جائے اور جن کو اس نے ناجائز رکھا ہے ان سے اجتناب کیا جائے۔

اسلام ، دینِ حق کے مقابلے میں جو باطل نظامِ زندگی اختیار کیے جاتے رہے ہیں، آدم ؑ سے لے کر آج تک ہزاروں نظام اختیار کیے گئے ہیں، ان میں سے ایک بھی آزمائے جانے کے بعد پھر دوبارہ اُبھر کر سامنے نہیں آیا۔ کہیں سرمایہ داری ہے، جاگیرداری اور قبائلی نظام ہے، برادری ہے، کہیں بادشاہی ہے، کہیں ڈکٹیٹرشپ ہے، کہیں جمہوریت ہے۔ جمہوریت کی بھی آج بیسیوں قسمیں ہیں۔ ہرملک کی جمہوریت الگ ہے۔

اسی چیز کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو کوئی اسلام کو چھوڑ کر کوئی دوسرا طریقہ اختیار کرے گا، اس کو ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا اور آخرت میں اس کو معلوم ہوگا کہ اس نے گھاٹے کا سودا کیا۔ اس دنیا میں بھی حقیقت میں جو بھی نظام کوئی اختیار کرتا ہے، وہ وقتی طورپر کچھ دیر کے لیے چلتا ہے اور اس کے بعد وہ مٹ جاتا ہے۔ ہرحکمران آکر اس کے اندر مداخلت کرکے اپنے حسب ِ منشا اس کو ڈھالنے کی کوشش کرتاہے، لیکن صرف ایک اسلام کا نظام ہے جو ایک خدا کے قانون کے تحت چلتا ہے۔

ایمان لانے کے بعد کفر کی روش

کَیْفَ یَھْدِی اللّٰہُ قَوْمًا کَفَرُوْا بَعْدَ اِیْمَانِھِمْ وَ شَھِدُوْٓا اَنَّ الرَّسُوْلَ حَقٌّ وَّ جَآئَ ھُمُ الْبَیِّنٰتُ ط وَ اللّٰہُ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ o  ( ٰالِ عمرٰن ۳:۸۶) کیسے ہوسکتا ہے کہ اللہ اُن لوگوں کو ہدایت بخشے جنھوں نے نعمت ِ ایمان پالینے کے بعد پھر کفر اختیار کیا، حالاں کہ وہ خود اس بات پر گواہی دے چکے ہیں کہ یہ رسولؐ حق پر ہے اور اُن کے پاس روشن نشانیاں بھی آچکی ہیں۔ اللہ ظالموں کو تو ہدایت نہیں دیا کرتا۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تم ہی بتائو کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو کیسے ہدایت دے کہ جنھوں نے ایمان لانے کے بعد نافرمانی کا راستہ اختیار کیا۔ وہ ایمان لائے اور انھوں نے تصدیق کی کہ  اللہ کا رسول سچا رسول ہے اور اس کے بعد پھر کفر کا راستہ اختیار کرلیا۔

اس وقت یہی ہماری قوم اور ہمارے حکمرانوں کی صورتِ حال ہے کہ وہ شہادت دیتے ہیں کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے رسولؐ ہیں ۔ شہادت دیتے ہیں کہ قرآن، اللہ کی کتاب ہے۔ شہادت دیتے ہیں کہ اسلام ہمارا دین ہے۔شہادت دیتے ہیں کہ پاکستان اسلام کے لیے بنایا گیا تھا۔ شہادت دیتے ہیں کہ ہم اسلام کے نام پر منتخب ہوکر اسمبلی میں آئے ہیں لیکن کہتے ہیں کہ    ہم اللہ کی شریعت کو قبول نہیں کریں گے۔ اسی بات پر اللہ تعالیٰ کہتے ہیں کہ جولوگ اس بات کو مانتے ہیں کہ اللہ کا رسولؐ سچّا ہے، اسلام سچّا دین ہے اور اس کے بعد پھر وہ کفر کے راستے پر چلنے کی کوشش کریں، تو ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کیسے ہدایت دے۔

زندگی ایک امتحان

اللہ کا طریقہ یہ نہیں ہے کہ زبردستی ہتھکڑی لگاکر لوگوں کو اسلام کے راستے پر چلائے۔  اللہ کا طریقہ تو یہ ہے کہ انسان کو یہ بات سمجھا دے اور ان کی زبان سے اس کا اقرار کروا دے کہ  اللہ ایک ہے، محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، اللہ کی کتاب قرآن ہے اور وہ اسے مان لیں۔ اس کے بعد دین پر چلنا یا نہ چلنا اس نے ان کی آزاد مرضی پر چھوڑا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر میں پہاڑوں کو اپنی مرضی سے چلا رہا ہوں، دریائوں، ہوائوں اور ستاروں کو چلا رہا ہوں، زمین و آسمان کی بڑی بڑی قوتوں کو چلا رہا ہوں، تو کیا انسان کو اپنی مرضی کے مطابق نہیں چلا سکتا تھا؟

انسان کو چوںکہ میں نے پیدا اس لیے کیا ہے کہ اس مخلوق کو آزادی دی جائے۔ اگر یہ اپنی مرضی سے میری مرضی پر چلے تو اسے جنّت دی جائے اور اپنی مرضی سے نافرمانی کی راہ پر چلے تو پھر اسے جہنّم میں ڈالا جائے۔ یہی ایک صاحب ِ اختیار مخلوق ہے۔ اسی بنا پر اسے جنّت دی جائے گی اور اس بنا پر اسے سزا دی جائے گی۔ باقی تمام مخلوق کو ہم نے زبردستی اپنی مرضی پر چلنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اس لیے نہ اس کے لیے جنّت ہے اور نہ جہنّم۔ یہ مرے گی تو ختم ہوجائے گی، اور اس کا سلسلۂ حیات ختم ہوجائے گا۔ صرف انسان ایسی مخلوق ہے جس کے لیے جنّت بھی ہے اور جہنّم بھی، جزا بھی ہے اور سزا بھی۔ اس لیے مَیں انسان کو نہ زبردستی نیکی کے راستے پر چلاتا ہوں اور نہ زبردستی بدی کےراستے پر، بلکہ یہ اس کی مرضی پر چھوڑا ہے۔ اسے عقل دے دی ہے، پیغمبروں ؑ کے ذریعے سے نیکی بدی کا راستہ بتا دیا ہے، اور اس کے اندر نیکی اور بدی کی تمیز دے دی ہے۔

ایک بُرے سے بُرا انسان بھی جانتا ہے کہ جھوٹ اور فریب غلط ہے، چوری بدکاری اور زناکاری غلط ہے، بے حیائی غلط ہے اور لوگوں کا مال کھانا غلط ہے۔دوسری طرف سچائی صحیح ہے، دیانت داری صحیح ہے، لوگوں کا حق ادا کرنا صحیح ہے، والدین کا حق ادا کرنا صحیح ہے۔ جو نیکی ہے اس کو بھی بیان کر دیا ہے اور بُرائی کو بھی بیان کردیا ہے۔ لہٰذا نیکی کو بھی ہرشخص جانتا ہے اور بُرائی کو بھی ہرشخص جانتاہے۔ اب انسان کا اختیار ہے کہ وہ سیدھا راستہ اختیار کرے یا غلط راستہ اختیار کرے۔

دین کی یہ چند بنیادی باتیں ہیں جو مَیں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا تھا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق دے۔ آمین! (مرتب: امجد عباسی)

ترجمہ : طارق نور الٰہی

سب سے اہم عبادت نماز پر کار بند افراد کے لیے بشارتوں کا عظیم تحفہ پیش خدمت ہے!

نماز کو رب کائنات نے خصوصی امتیازات سے نوازا ہے۔ نماز تاکیدی عبادت اور بہترین اطاعت ہے۔ یہ قربِ الٰہی کو پانے کا آسان ترین ذریعہ اور بندے اور رب کے درمیان مضبوط تعلق ہے۔ لا الہ الااللہ محمد رسول اللہ کو جاننے ماننے کے ساتھ ہی ادایگی نماز ہرمسلمان پر لازم قرار پاتی ہے۔ نماز ہی وہ عمل ہے جس کی قیامت کے روز سب سے پہلے پرکھ ہوگی۔ اگر نماز درست قرار پائی تو باقی کے اعمال نسبتاً درست ہوتے چلے جائیں گے، کیوںکہ نماز فواحش ومنکرات کے روکنے کا سبب ہے۔ اس کی اہمیت جاننی ہو تو دیکھ لیجیے کہ نبی مکرم ؐ کی آخری وصیت بھی اَلصَّلَاۃَ اَلصَّلَاۃَ  تھی۔ نماز کا دھیان رکھنا اور اس کی ادایگی مومن کی کامیابیوں کا زینہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نماز کو قائم رکھنے والوں اور شوق وخشوع سے اس کی ادایگی کا اہتمام کرنے والوں کو قرآن واحادیث میں بہت سی بشارتیں دی گئی ہیں، جن میں سے صریح و واضح تیس خوش خبریاں آپ کی خدمت میں پیش ہیں۔

نماز کی ادایگی پر بشارتیں

۱- افضل ترین عمل : حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کہتے ہیں کہ میںنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے استفسار کیا: یا رسولؐ اللہ! کون سا عمل افضل ترین ہے؟ آپ ؐ نے فرمایا: نماز کو وقت پر اداکرنا۔میں نے عرض کیا: اس کے بعد کون سا عمل افضل ہے؟ آپ ؐ نے فرمایا : والدین سے نیک سلوک کرنا۔ میں نے پھر عرض کیا: اس کے بعد کون سا عمل افضل ہے؟ آپ ؐ نے فرمایا : اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ۔ (مسلم)

۲- اللہ اور بندے کے درمیان مضبوط تعلق کا ذریعہ: حضرت انس بن مالک ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے جو بھی جب بھی حالتِ نماز میں ہوتا ہے تو وہ اس وقت اپنے رب کے ساتھ حالتِ مناجات میں ہوتا ہے(بخاری) ۔ یعنی عبد معبود سے اثناے نماز راز ونیاز کی حالت میں ہوتا ہے جو کہ قربت کا اعلیٰ مقام ہے۔

۳- دین کے ستون کو قائم کرنے کا ذریعہ :  حضرت معاذ بن جبلؓ کہتے ہیں، رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا میں تمھیں اسلام کے راس العمل اور اس کے ستون اور چوٹی کے عمل کے بارے میں نہ بتا دوں؟میں نے عرض کیا: ضرور یارسولؐ اللہ! تو آپؐ نے فرمایا: راس الامر پورا دین اسلام ہے۔ نماز دین کا ستون ہے اور چوٹی کا عمل جہاد ہے(ترمذی)۔ یعنی جس طرح عمارت کا ستون کے بغیر قائم رہنے کا تصور نہیں کیا جا سکتا اسی طرح دین کا قیام نماز کے بغیر نا ممکن ہے، اور جو اس ستون کو مضبوط کرتا رہتا ہے وہ دین کی رحمتوں کو پاتا چلا جاتا ہے۔

۴- دنیاوی اور اُخروی نور  : رسولؐ اللہ کا فرمان ہے: الصَّلَاۃُ  نُوْرٌ ، ’’نماز نور ہے‘‘۔ (مسلم ، ترمذی ) ،یعنی نماز ظلمت اور شک وشبہہ کو نُور اور یقین وسکون قلبی میں بدل دیتی ہے۔

۵- منافقت کو ختم کرنے کا سبب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: منافقین پر بھاری ترین نماز ، فجر اور عشاء کی ہوتی ہیں۔ اگر وہ جان لیں کہ ان کی ادایگی میں کیا  فضل و انعام ہے ، تو وہ ان کی ادایگی کے لیے ضرور آئیں چاہے رینگ رینگ کر ہی آنا پڑے (بخاری ، مسلم)۔ حضرت ابوہریرہؓ سے معلوم ہوا کہ جو تمام نمازیں ادا کرنے کا اہتمام کرتا ہے جن میں یہ دو مذکورہ نمازیں بھی شامل ہیں، وہ منافقت سے بری قرار پاتا ہے۔ یہ بہت بڑی خوش خبری ہے۔

۶- جہنم کی آگ سے نجات :نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ شخص ہر گز جہنم کی آگ میں نہیں ڈالا جائے گا جو طلوعِ آفتاب ( فجر ) سے پہلے اور غروب آفتاب (عصر ) سے پہلے کی نمازوں کی ادایگی کرتا ہے(مسلم )۔لیجیے نارِ جہنم سے امان کی بشارت پائیے اور عمل کیجیے ۔

۷- فواحش ومنکرات سے بچاو ٔ  کا ذریعہ : ارشاد باری تعالیٰ ہے: اُتْلُ مَآ اُوْحِیَ اِلَیْکَ مِنَ الْکِتٰبِ وَ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ ط اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآئِ وَ الْمُنْکَرِ ط(العنکبوت ۲۹: ۴۵) (اے نبیؐ) ’’تلاوت کرو اس کتاب کی جو تمھاری طرف وحی کے ذریعے سے بھیجی گئی ہے اور نماز قائم کرو، یقینا نماز فحش اور بُرے کاموں سے روکتی ہے‘‘۔ یعنی نماز یہ صلاحیت پروان چڑھاتی ہے کہ زندگی سے بد اعمالیوں سے پاک ہونے کا سامان ہوتا چلا جاتا ہے۔

۸- مشکلات میں مددگار اور سہارا : حکم خداو ندی ہے: وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ ط (البقرہ ۲:۴۵) ’’مدد لو صبر اور نماز سے‘‘۔ کارزارِ حیات کی مشکلات میں دو عمل سہولت وآسانی کا سبب بنتے ہیں: ۱- صبر،۲-نماز ۔ معاملات حیات میں دونوں کی خا ص اہمیت ہے۔

۹- باجماعت نماز کی فضیلت : بلندیِ درجات کی یہ نوید اس فرمانِ رسولؐ میں آئی ہے: ’’ نماز باجماعت انفرادی نماز سے ۲۷درجے افضل ہے‘‘۔ (بخاری، مسلم)

۱۰-  اللہ کی حفاظت وضمانت: رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین طرح کے افراد اللہ عزوجل کی حفاظت کو پالیتے ہیں۔ اگر زندہ ہوں تو ایسا رزق پاتے ہیں جو کفایت والا ہوتا ہے اور جب مر جائیں تو جنت میں داخل کیے جاتے ہیں: lجو گھر میں داخل ہوتے ہوئے سلام کرے۔ l جو نماز کی ادایگی کے لیے مسجد میں جائے۔ lجو جہاد فی سبیل اللہ کے لیے جائے (ابوداؤد)

۱۱- فرشتوں کی دعاے مغفرت کا حصول : رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تک کوئی اپنی نماز کی جگہ وضو کی حالت میں بیٹھا رہتا ہے تو فرشتے اس کے لیے دعا کرتے رہتے ہیں: یااللہ! اس کی مغفرت فرما اور اس پر رحم فرما ۔ (متفق علیہ )

۱۲- گناہوں کی بخشش : حضرت عثمان ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا، آپؐ کہہ رہے تھے: جو کوئی نماز کے لیے اچھی طرح وضو کرے پھر باجماعت نماز کی ادایگی کے لیے مسجد جائے تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہ معاف فرما دیتا ہے(مسلم)۔بشارت دربشارت اللہ کی کرم نوازی کی علامت ہے جو وہ نمازیوں کو دے رہا ہے۔

۱۳- گناہوں کے اثرات کو زائل کرنا  : راویِ حدیث حضرت ابوہریرہ ؓکہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: دیکھو! اگر کسی کے گھر کے سامنے ایک نہر بہتی ہو جس میں وہ روزانہ پانچ بارنہا تا ہو تو کیا جسم پہ کوئی میل کچیل باقی رہے گی ؟ صحابہ نے عرض کیا: نہیں۔ اس کے جسم پر کوئی میل باقی نہیں رہے گی۔ آپ ؐ نے فرمایا: یہ پانچ نمازوں کی ادایگی کی مثال ہے کہ جو ان کی ادایگی کرے گااللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو صاف کر دے گا۔ (بخاری، مسلم)

۱۴- جنت میں اللہ کی ضیافت: رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کوئی مسجد میں آتا ہے تو ہر بار مسجد آنے جانے پر اللہ تعالیٰ جنت میں اس کی ضیافت فرمائے گا۔ (متفق علیہ)

۱۵- ہر قدم پر گناہ کی معافی اور درجات کی بلندی : رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کوئی اپنے گھر سے وضو کی حالت میں اللہ کے گھر فرض نماز پڑھنے جاتا ہے، اس کا قدم اٹھانا اس کی خطا کی معافی اور دوسرا قدم درجے کی بلندی کا باعث بنتا ہے۔ ( مسلم)

۱۶- نماز کا زیادہ اجر : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : نمازیوں میں سے زیادہ اجر پانے والا نمازی وہ ہے جو مسجد میں زیادہ فاصلے سے آیا۔ پھر اس کا درجہ ہے جو اس سے بھی زیادہ فاصلے سے آئے۔ اور جو نمازی امام کے ساتھ نماز پڑھنے کے لیے انتظار میں رہتا ہے وہ اس سے زیادہ اجر پاتا ہے جو (امام کے نماز پڑھنے سے پہلے ہی ) نماز پڑھ لے اور پھر سو جائے۔ (متفق علیہ )

۱۷- مسجد میں جلد آنے پر زیادہ اجر: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:  اگر لوگوں کو پتا چل جائے کہ اقامت کے وقت اور نماز کی پہلی صف کا کیا درجہ ہے ، تو پھر انھیں  قرعہ اندازی کر کے بھی پہلی صف کو حاصل کرنا پڑے تو وہ ضرور قرعہ ڈالیں ، اور اگر وہ جان جائیں کہ نماز کے لیے جلد آنے میں کیا ہے تو وہ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کریں، اور اگر جان جائیں کہ نماز عشاء اور فجر میں کیا ہے تو چاہے گھٹنوں کے بل آنا پڑے تو ضرور آئیں۔(متفق علیہ)

۱۸- اللہ کا مہمان : حضرت سلمان فارسی ؓ سے روایت ہے کہ نبی مکرم ؐ نے فرمایا : جو اپنے گھر سے اچھی طرح وضو کر کے مسجد میں آئے تو وہ اللہ کا مہمان ہوتا ہے۔ یوں میزبان (یعنی اللہ) پر اس کا حق ہے کہ وہ اپنے مہمان کی عزت واکرام کرے ۔( الطبرانی وحسنہ الالبانی )

۱۹- نماز کے لیے انتظار نماز ہی کا حصہ :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے جس کو نماز کے انتظار نے روکے رکھا اس کا یہ انتظار نماز میں ہی شمار کیا جاتا ہے ۔( متفق علیہ )

۲۰- پہلی صف کا خصوصی اجر: رسول مکرم ؐ نے فرمایا: اللہ اور اس کے فرشتے پہلی صف کے نمازیوں پر (خصوصی ) رحمتیں بھیجتے ہیں۔(ابو داؤد،  نسائی ، صححہ الالبانی )

۲۱- سابقہ گناہوں کی معافی:  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میںسے جب کوئی آمین کہتا ہے اور فرشتے آسمان پر آمین کہتے ہیں تو اگر دونوں کی آمین ایک وقت پر ادا ہو کر مل جائے، تو اس شخص کے پچھلے گناہ معاف ہوجاتے ہیں ۔ (متفق علیہ )

۲۲- رحمٰن کے ہاں حاضر ہونے والے وفد میں شمار: ابو امامہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس نے وضو کیا اور مسجد میں پہنچا۔ فجر کی سنتیں ادا کیں اور فجر کی باجماعت نماز کے لیے بیٹھا رہا یہاں تک کہ نماز ادا کر لی۔ اس کی نماز ابرار، یعنی نیکو کاروں کی نماز شمار ہوئی اور وہ رحمٰن کے وفد والوں میں شمار کیا گیا ۔ (الطبرانی، حسنہ  الالبانی )

۲۳- اللہ کی حفاظت کی ضمانت : حضرت جندب بن سفیان ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے صبح کی نماز (باجماعت ) ادا کی، اس کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ پر ہے۔ پس آدم کے بیٹے دیکھو! اللہ تم سے اپنی ذمہ داری کا مطالبہ نہ کرے (مسلم)۔ یعنی اگر باجماعت نماز فجر کی ادایگی ہو گی تو اللہ کی عنایت سے ہر قسم کے حوادث وپریشانی سے محفوظ رہے گا۔ اگر نہیں پڑھے گا تو اس کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ پر نہیں رہے گی۔ اب وہ خود ذمہ دار ہوگا۔

۲۴- بروز قیامت نور تام کی بشارت : حضرت بریدہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بشارت دے دو اندھیروں کے وقت مسجد میں جانے والوں کو کہ قیامت کے دن انھیں مکمل وتمام تر نُور سے نوازا جائے گا۔( ابوداؤد ،  ترمذی )

۲۵- فجر اور عصر کی با جماعت ادایگی پر جنت کی بشارت: حضرت ابو موسیٰ الاشعری ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو دو ٹھنڈی نمازیں ادا کرے گا جنت میں جائے گا (بخاری، مسلم)۔ (ٹھنڈی نمازیں، یعنی فجرو عصر ) ۔

۲۶- قیام اللیل کا ثواب : اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے جماعت کے ساتھ عشاء کی نماز پڑھی تو یہ ایسے ہی ہے جیسے اس نے پوری رات کا قیام کیا ۔ (ترمذی)

۲۷- فرشتوں کی گواہی: حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فرشتے صبح وشام کی ڈیوٹیوں کی تبدیلی پر نماز فجر اور نماز عصر کے وقت خصوصاً مسجدوں میں جمع ہوتے ہیں، اور جنھو ں نے تمھارے ساتھ رات بسر کی ہوتی ہے جب واپس آسمان پر جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان سے پوچھتا ہے (جب کہ اللہ ان سے بہتر خود جانتا ہے ) کہ تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا ؟ وہ جواب دیتے ہیں کہ ہم نے انھیں نماز پڑھنے کی حالت میں چھوڑا اور جب ہم ان کے پاس پہنچے تھے اس وقت بھی وہ نماز پڑھ رہے تھے۔ (بخاری، مسلم)

۲۸- یکسوئی اور خشوع سے نماز ادا کرنے والوں کی مغفرت : حضرت عثمان بن عفان ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کسی مسلمان پر فرض نماز کی ادایگی کا وقت آئے اور وہ اس کے لیے اچھی طرح وضو کرے اور پور ے خشوع وخضوع کے ساتھ اچھی طرح قیام ورکوع وسجود بجا لائے، تو ایسی نماز اس کے پچھلے گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہے سواے کبیرہ گناہوں کے ، اور مغفرت کا یہ سلسلہ ساری زندگی جاری رہتا ہے۔ ( مسلم)

۲۹- اللہ کا فرشتوں کے سامنے نمازیوں پر فخر فرمانا: حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ ہم نے رسولؐ اللہ کے ساتھ نماز مغرب ادا کی۔ جس نمازی کو جانا تھا وہ چلا گیا اور جسے رُکنا تھا وہ رُکا رہا۔ اس وقت رسولؐ اللہ اپنے گھٹنے تک کپڑا اُٹھائے جلدی جلدی ہمارے پاس تشریف لائے۔ آپؐ کا سانس پھولا ہوا تھا۔ آپ ؐ نے آتے ہی فرمایا: تمھیں مبارک ہو، تمھیں بشارت ہو، تمھارے رب نے آسمان کے دروازوں میں سے ایک دروازہ کھولا۔ وہ، یعنی اللہ اپنے فرشتوں کے سامنے تم پر فخر فرماتا ہوا کہہ رہا ہے: دیکھو میرے (ان ) بندوں کی طرف جنھوں نے ایک فرض ادا کیا اور دوسری فرض نماز کے انتظار میں بیٹھے ہیں ۔ (ابن ماجہ، صححہ الالبانی )

۳۰- پل صراط سے باسلامت گزر کر جنت کی بشارت : حضرت ابودرداءؓ سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا، آپؐ کہہ رہے تھے: مسجد ہرمتقی پرہیز گار کا گھر ہے۔ جس نے مسجد کو اپنا ٹھکانا بنایا اسے اللہ تعالیٰ رحمت وراحت کی ضمانت دیتا ہے اور اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ ایسا شخص پل صراط سے باسلامت گزر کر اللہ کی رضا کے ٹھکانے جنت میں بہ آسانی چلا جائے گا۔( الطبرانی وصحہ الالبانی )

یہ ہیں وہ عظیم بشارتیں جو نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کے ان افراد کے لیے عطا کی ہیں جو رب کی بندگی کو زندگی کا حاصل سمجھتے ہیں اور صبح وشام فرائض وسنن کا اہتمام کرتے ہیں۔

اپریل کے اختتام پر سری لنکا جانے کا اتفاق ہوا۔ ایشیائی ممالک میں مسلمانوں کو درپیش مسائل کے بارے میں ایک سیمی نار میں شرکت کی۔ شرکا نے بہت مفید گفتگو اور مشاورت کے بعد مستقبل کے لیے اہم فیصلے کیے۔ اللہ کی توفیق سے ان پر عمل درآمد ہوگیا تو یقینا مفید ہوگا۔ بالخصوص ان ممالک میں کہ جہاں مسلم اقلیت کو اکثریت کے ہاتھوں گمبھیر مشکلات کا سامنا ہے۔

خود سری لنکا میں اکثریتی آبادی کا تعلق بدھ مت سے ہے (تقریباً ۷۰ فی صد)، دوسرے نمبر پہ مسیحی، تیسرے نمبر پہ ہندو ہیں اور چوتھے نمبر پہ مسلمان۔ ماضی میں نسلی تعصبات کی آگ نے بہت نقصانات پہنچائے۔ تامل باغیوں نے ۲۰۰۹ء تک وہاں بہت خوں ریزی مچائی جسے بھارت کی واضح سرپرستی بھی حاصل تھی، بالآخر سری لنکن فوج نے باغیوں کا مکمل خاتمہ کردیا۔ اب الحمد للہ مجموعی طور پر تمام شہری باہم شیر و شکر ہیں۔ سیمی نار کا افتتاحی سیشن قصر صدارت میں ہوا۔ صدر مملکت، وزیراعظم،ا سپیکر، تین مسلمان وزرا، بھارت سے آئے ہوئے مولانا ارشد مدنی صاحب اور سعودی مشیر براے مذہبی اُمور نے خطاب کیا۔

 سری لنکا اپنی تاریخ، جغرافیے، موسم اور تہذیب و عادات کے حوالے سے بہت دل چسپ اور اہم ملک ہے۔ اگرچہ سری لنکا تیسری بار جانا ہوا لیکن اس سفر میں کئی بہت دل چسپ انکشافات ہوئے۔ اتوار کے روز، سفر کے دوران میں پانچ اہم شہروں سے گزرہوا۔ ہرجگہ بچے یونیفارم پہنے اسکول جارہے تھے۔ پوچھنے پرمعلوم ہوا کہ چھٹی کے دن ہرمذہب کے بچے اپنے مذہبی اداروں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ اس مذہبی تعلیم کے نمبر بعدازاں بچے کی مجموعی تعلیمی اسناد میں شامل کیے جاتے ہیں۔ مسلمان بچوں اور بچیوں کے شان دار تعلیمی اداروں میں بھی جانے کا موقع ملا۔ جماعت اسلامی سری لنکا کے کارکنان سے بڑی تعداد میں ملاقاتیں ہوئیں۔ اس ابتدائی تعارف کے بعد صرف ایک مختصر بات پہ غور کرنا پیش نظر ہے۔ اسمبلی کے اسپیکر جناب کارو جے سوریا نے اپنے گھر پہ مہمانوں کے اعزاز میں عشائیہ دیا تو اپنی استقبالیہ تقریر میں کہنے لگے: ’’سری لنکن عوام کی ایک نمایاں پہچان اور عادت یہ ہے کہ We  are the nation of smiling face (ہم مسکراتے چہروں والی قوم ہیں)۔ ہمارے شہری آپ کو ہمیشہ مسکراتے ہوئے ملیں گے۔ بعض اوقات دو افراد لڑ رہے ہوتے ہیں، تو اس وقت بھی مسکرا رہے ہوتے ہیں‘‘۔ یقینا یہ بات ۱۰۰ فی صد اسی طرح نہیں ہوگی، لیکن اس دعوے کا جس سری لنکن شہری سے بھی ذکر ہوا، اس نے تائید کی۔

جب سے یہ دعویٰ سنا اور مشاہدہ کیا ہے رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بار بار یاد آرہا ہے کہ: تَبَسُّمُکَ لِوَجْہِ اَخِیْکَ صَدَقَۃ ’’اپنے بھائی سے مسکراتے چہرے سے تمھارا ملنا بھی صدقہ ہے‘‘۔ذہن میں بار بار سوال اُٹھتا ہے کہ بدھ اکثریت پر مشتمل ایک پوری ریاست اور پوری قوم اگر مسکراہٹ کو اپنی شناخت اور عادت کے طور پر متعارف کروا سکتی ہے، تو اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد پر عمل کرتے ہوئے ہم مسلمانوں کا باہم مسکرانا تو عین عبادت ہے، ہم اسے کیوں نہیں اپنا سکتے؟ آپؐ کے فرمان ’صدقہ‘ پر غور فرمائیے۔ گویا ہم جب بھی مسکراتے ہیں تو کچھ بھی خرچ کیے بغیر، اللہ کی راہ میں خرچ کر رہے ہوتے ہیں۔ آپؐ اس بارے میں ہماری مزید حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرماتے ہیں: لَا تَحْقِرَنَّ مِنَ الْمَعْرُوْفِ شَیْئًا وَ لَو اَنْ تَلْقٰي اَخَاکَ بِوَجْہِ طَلْقٍ ’’کسی بھی نیکی کو حقیر نہ جانو، خواہ وہ تمھارا کھِلے ہوئے چہرے اور خندہ پیشانی سے اپنے بھائی کو ملنا ہی کیوں نہ ہو‘‘۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کَانَ رَسُولَ اللہ علیہ وسلم بَسَّامًا ’’رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بہت مسکرایا کرتے تھے‘‘۔ حضرت جریر بن عبداللہؓ فرماتے ہیں کہ اسلام قبول کرنے کے بعد جب بھی آپؐ نے مجھے دیکھا، آپؐ مجھے دیکھ کر مسکرادیے: وَ لَا رآنی الا تَبَسَّمَ فِی وَجہِی (متفق علیہ)۔ اس کے باوجود ہم اسے اپنی پہچان کیوں نہیں بناسکے؟

آپؐ کی تعلیمات پر تھوڑا سا مزید غور کیا تو یاددہانی ہوئی، کہ آپؐ نے تو ہمیں ہر قدم پر نیکیاں سمیٹنے کی بشارت اور ترغیب دی ہے۔ خلق خدا کے لیے ہر ہر بھلائی کو صدقہ قرار دیا ہے۔ مثال کے طور پر ملاحظہ فرمائیے:

تَسْلِیمَہ عَلٰی مَنْ لَقِیَہ صَدَقَۃٌ ،جو بھی ملے اسے سلام کہنا صدقہ ہے۔

رَدُّ  الْمُسْلِم عَلَی الْمُسْلِمِ صَدَقَۃٌ، مسلمان کا مسلمان کے سلام کا جواب دینا صدقہ ہے۔

اِمَا طَۃُ الْاَذَی عَنِ الطَّرِیْقِ صَدَقَۃٌ، راستے سے کوئی بھی تکلیف دینے والی چیز ہٹا دینا صدقہ ہے۔

اِرْشَادُکَ الرَّجُلَ الطَّرِیْقَ صَدَقَۃٌ، کسی کو راستہ بتادینا صدقہ ہے۔

مَنْ اَنْظَرَ مُعْسِرًا فَلَہٗ کُلَّ یَوْمٍ مِثْلَہٗ صَدَقَۃٌ، تنگ دست مقروض کو مہلت دینا ہر روز قرض کے برابر صدقہ کرنا ہے۔

اِتَّبَاعُکَ الْجَنَازَۃَ صَدَقَۃٌ، کسی جنازے کے ساتھ تمھارا چلنا صدقہ ہے۔

اِفْرَاغُکَ مِنْ دَلْوِکَ فِی دَلْوِ اَخِیْکَ صَدَقَۃٌ، اپنے برتن سے اپنے بھائی کا برتن بھردینا صدقہ ہے۔

نَصْرُکَ الرَّجُلَ الرَّدِیَٔ الْبَصَرِ لَکَ صَدَقَۃٌ، کمزور نگاہ والے کی مدد کردینا صدقہ ہے۔

تَعْدِلُ بَیْنَ الْاِثْنَیْنِ صَدَقَۃٌ، دو افراد کے درمیان صلح کروادینا صدقہ ہے۔

تُعِیْنُ الرَّجُلَ فِی دَابَتِہ فَتَحْمِلُہٗ عَلَیْہَا اَوْ تَرْفَعُ لَہٗ عَلَیْہَا مَتَاعَہٗ صَدَقَۃٌ، کسی کو  اس کی سواری پر بیٹھنے میں مدد دینا یا اس کا سامان رکھوانے میں مدد کرنا صدقہ ہے۔

اَلْکَلِمَۃُ الطَّیِّبَۃٌ صَدَقَۃٌ، کوئی بھی اچھی بات کہہ دینا صدقہ ہے۔

کُلُّ خُطْوَۃٍ تَمْشِیْہَا اِلَی الصَّلَاۃِ صَدَقَۃٌ، نماز کے لیے جاتے ہوئے ہر قدم صدقہ ہے۔

کُلُّ تَسْبِیْحَۃٍ صَدَقَۃٌ، ہر تسبیح صدقہ ہے۔

کُلُّ تَحْمِیْدَۃٍ صَدَقَۃٌ، اللہ کی ہر حمد بیان کرنا صدقہ ہے۔

کُلُّ تَہْلِیْلَۃٍ صَدَقَۃٌ، کلمۂ طیبہ پڑھنا صدقہ ہے۔

کُلَّ تَکْبِیْرَۃٍ صَدَقَۃٌ، ہر تکبیر صدقہ ہے۔

بُضْعَۃُ اَھْلِہٖ صَدَقَۃٌ، میاں بیوی کا ملنا صدقہ ہے۔

مَا اَطعْمَتْ نَفْسَکَ فَہُوَ لَکَ صَدَقَۃٌ، تم جو (رزق حلال) خود کو کھلاتے ہو وہ صدقہ ہے۔

مَا اَطعْمَتْ  وَلَدَکَ فَہُوَ لَکَ  صَدَقَۃٌ، جو کچھ اپنے بچوں کو کھلایا صدقہ ہے۔

مَا اَطعْمَتْ  زَوْجَکَ فَہُوَ لَکَ  صَدَقَۃٌ، جو کچھ اپنی اہلیہ / اپنے شوہر کو کھلایا وہ صدقہ ہے۔

مَا اَطعْمَتْ  خَادِمَکَ فَہُوَ لَکَ  صَدَقَۃٌ ،تم نے جو کچھ اپنے خادم کو کھلایا وہ تمھارے لیے صدقہ ہے۔

اَمْرٌ بِالْمَعْرُوْفِ صَدَقَۃٌ، نیکی کا حکم دینا صدقہ ہے۔

نَہْيٌ عَنِ الْمُنْکَرِ صَدَقَۃٌ، برائی سے روکنا صدقہ ہے۔

یُمْسِکُ عَنِ الشَّرِّ فَاِنَّہٗ لَہٗ صَدَقَۃٌ، شر سے اپنے آپ کو روک لے تو یہ بھی اس کے لیے صدقہ ہے۔

ان اور اس طرح کی دیگر صحیح احادیث کے آئینے میں دیکھیں تو کئی سبق حاصل ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر نیت خالص اور کوشش سچی ہو تو ایک صاحبِ ایمان کی زندگی کا ہر ہر لمحہ، بہترین عبادت اور رب کی بندگی بن جاتا ہے۔ دوسری طرف اگر نیت میں فتور، دل میں غرور، ذہن میں ریاکاری کا شائبہ یا زبان و نگاہ سے احسان جتلانے کا ارتکاب ہوجائے، تو بڑی سے بڑی نیکی بھی راکھ بناکر ہوا میں اڑا دی جاتی ہے (ھبائً منثوراً)۔ جن اعمال کو رحمۃ للعالمینؐ نے صدقہ قرار دیا   ان پر غور کریں تو ان کی غالب اکثریت دوسروں سے حُسنِ سلوک، ان کا بھلا سوچنے اور ان سے بھلائی کرنے پر مشتمل ہے۔

ایک اور اصولی بات بھی بہت اہم ہے۔ ہم بعض اوقات حُسن معاشرت یا حُسن عمل کے بہت سارے پہلوئوں کو غیراہم سمجھ لیتے ہیں۔ معاشرے میں پائے جانے والے بڑے بڑے ناسور، اقامت دین کا عظیم فریضہ، ظلم اور ظالموں سے نجات کی جاں گسل جدوجہد، اصلاحِ معاشرہ اور اصلاحِ حکومت جیسے کارِ نبوت ایک جانب رکھیں تو مسکرا کر ملنا، راستے سے اذیت ہٹا دینا، کھانا کھلادینا، عیادت و تعزیت کرلینا یا بعض تسبیحات و اذکار کرلینا، بہت چھوٹی باتیں محسوس ہونے لگتی ہیں۔ لیکن اسی موقعے پر ایک مسلمان کی زندگی میں توازن کا امتحان ہوتا ہے۔ ہم میں سے کچھ افراد  اذکار و اَوراد ہی پر اکتفا کرتے ہوئے صرف اسے ہی راہِ نجات سمجھ لیتے ہیں۔ بعض دوسرے ان مسنون اعمال کی استہزا تک کے مرتکب ہوجاتے ہیں۔حالاں کہ دونوں پہلو ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔

اُمتِ مصطفویؐ کی کئی اہم عبادات جنھیں ہم نے فراموش کر دیا اور دوسروں نے اپنا لیا ہے کا شدید احساس جاپان جاکر بھی ہوا۔ وہاں موجود احباب نے جاپانی معاشرے کی بہت سی خوبیوں میں سے ایک خوبی یہ بتائی کہ : ’’کسی جاپانی کے بارے میں یہ سمجھنا کہ وہ آپ سے جھوٹ بولے گا، یہ نہیں ہوسکتا‘‘۔ سبحان اللہ ، ایک جاپانی صرف اس لیے جھوٹ نہیں بولے گا کہ وہ جاپانی ہے، اور اس کے معاشرے نے اسے جھوٹ نہ بولنے کی تعلیم دی ہے۔  جھوٹ سے بچنے بلکہ جھوٹ کے بارے میں سوچنے سے بھی منع کرنے کے لیے وہاں کے نرسری اسکولوں ہی سے تربیت کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔ سچ ہی کی نہیں، محنت، خوداعتمادی، اور دوسروں کی مدد کرنے کی کئی مثالیں مشاہدہ کرنے کو ملیں گی۔ جاپان میں کسی سے راستہ پوچھ لیں تو مکمل تفصیل اور تسلی سے راہ بتائیں گے۔ بعض اوقات تو ساتھ ہی چل دیں گے کہ دشواری نہ ہو۔

صادق و امین ہستی کے اُمتی تو ہم ہیں…؟ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ : اَ یَکُونُ المُؤمِنُ کَذَّابًـا؟ کیا کوئی مومن جھوٹا ہوسکتا ہے؟ آپ نے فرمایا: نہیں، مومن جھوٹا نہیں ہوسکتا۔آپؐ نے سچ کو جنّت اور جھوٹ کو جہنّم کی راہ قرار دیا۔ نبی کاملؐ ، دین کامل لے کر آئے۔ ایک کامل اسلامی معاشرہ، اس دین کامل کو اپنا کر ہی وجود میں آسکتا ہے۔

ہم یہ حقیقت بھی جانتے ہیں کہ ذرہ برابر نیکی (مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ) بھی اکارت نہیں جاتی۔ کویت کے ایک دوست کا سنایا ہوا، سچا واقعہ سن لیجیے۔ کہنے لگے کہ: ہماری مسجد میں ایک ہندو نے اسلام قبول کرلیا سب بہت خوش ہوئے۔ نو مسلم بھائی سے قبولِ اسلام کی وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ وہ ایک خاکروب ہے۔ گذشتہ طویل عرصے سے مسجد کی قریبی سڑکوں پر جھاڑو دیتا ہے۔ فلاں سڑک پر جھاڑو دیتے ہوئے، اذان کی آواز آتی۔پھر فلاں گھر سے ایک صاحب باقاعدگی سے نماز کے لیے نکلتے۔ میرے پاس سے گزرتے ہوئے وہ اپنی جیب سے عطر کی شیشی نکالتے، مسکراتے ہوئے میرے ہاتھ کی پشت پر عطر لگاتے اور مسجد چلے جاتے… بس ان کا یہ خاموش پیغام ہی مجھے آج مسجد لے آیا ہے۔ مسکراہٹ اور خوشبو کا صدقہ یقینا دونوں کو جہنم کی آگ سے بچا گیا۔

حضرت سلیمان علیہ السلام کی عظیم الشان سلطنت میں ایک چھوٹے پرندے ہُدہُد اور چھوٹی سی چیونٹی ہی کودیکھ لیجیے۔ ہُدہُد نے دیکھا کہ ملکہ اور اس کی رعایا، اللہ کے بجاے سورج کی پوجا کررہے ہیں، آنکھوں پر یقین نہ آیا، اور تڑپ کر دربار نبوت میں پہنچا۔ پورا ماجرا سنایا اور بالآخر ایک پوری قوم کو اللہ کی بندگی میں لانے کا ذریعہ بن گیا۔

چیونٹی نے دیکھا کہ ساری چیونٹیاں اپنے کام کاج میں مگن ہیں اور سلیمان علیہ السلام کا لشکر سر پہ آن پہنچا ہے۔ تن کے کھڑی ہوگئی، پوری قوت سے چلّائی: یّٰاَیُّھَا النَّمْلُ ادْخُلُوْا مَسٰکِنَکُمْج   لَا یَحْطِمَنَّکُمْ سُلَیْمٰنُ وَجُنُوْدُہٗ (النمل۲۷: ۱۸) ’’چیونٹیو! فوراً گھروں کے اندر چلی جاؤ۔ یہ نہ ہو کہ سلیمانؑ اور ان کا لشکر تمھیں کچل کر رکھ دے‘‘۔ چیونٹی کی یہ دہائی حضرت سلیمان علیہ السلام نے بھی سن لی، فوراً لشکر کو رکنے کا حکم دیا اور بے اختیار کلمات شکر زبان پر آگئے: رَبِّ اَوْزِعْنِیْٓ اَنْ اَشْکُرَ نِعْمَتَکَ الَّتِیْٓ اَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَعَلٰی وَالِدَیَّ وَاَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰہٗ وَاَدْخِلْنِی بِرَحْمَتِکَ فِیْ عِبَادِکَ الصّٰلِحِیْنَ o(النمل۲۷: ۱۹)  ’’اے میرے رب، مجھے قابو میں رکھ کہ مَیں اُس  احسان کا شکر ادا کرتا رہوں، جو تُو نے مجھ پر اور میرے والدین پر کیا ہے اور ایسا عملِ صالح کروں، جو تجھے پسند آئے، اور اپنی رحمت سے مجھ کو اپنے صالح بندوں میں داخل کر‘‘۔ رب ذو الجلال کو یہ منظر اور اس میں پوشیدہ اسباق اتنے پسند آئے، کہ پورا واقعہ تا قیامت قرآن کریم میں ثبت کردیا۔ ہمیں تعلیم دینا مقصود تھا کہ ہُدہُد اور چیونٹی کے صدقے جتنا بھی صدقہ کروگے(نیکی کا حکم صدقہ ہے) تو پورا پورا اجر ملے گا۔

چیونٹی کی اس پکار میں ایک اور بات بھی بہت اہم ہے۔ حضرت سلیمانؑ اور آپؑ کے لشکر کی آمد سے خبردار کرتے ہوئے ساتھ ہی یہ بھی کہا: وَھُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ، یعنی یہ نہ ہو کہ وہ تمھیں کچل ڈالیں اور انھیں پتا بھی نہ چلے۔ دوسروں سے حُسن ظن کی اس سے جامع مثال شاید کہیں اور نہ ملے۔

سری لنکا کی مسکراہٹ اور تعلیم کا اعلیٰ تناسب، جاپانیوں کی محنت اور سچائی، کویتی بھائی کی لگائی ہوئی خوشبو، ہُد ہُد کی زیرکی اور چیونٹی کی پکار، ہمیں بھی یہ پیغام دے رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے قوانین طے شدہ ہیں۔ جو ان کی پابندی کرے گا، کامیاب و کامران ہوگا   ؎

سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا ،شجاعت کا

لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا

تحریکِ آزادی کشمیر پچھلے سات عشروں سے بہت سے نشیب وفراز سے گزرتے ہوئے موجودہ دور میں داخل ہوچکی ہے۔ ہمارے سینے پر کھنچی ہوئی خونی لکیر نے انسانی دردوکرب اور جذبات و احساسات کے جواَن مٹ نقوش چھوڑے ہیں، وہ ہر دور میں، ہر موسم میں، ہر گام وشہر میں، ہر ذہن اور ہر قلب وجگر میں کچھ اس طرح رچ بس چکے ہیں کہ قابض طاقتوں کی سفاکیت اور درندگی ان کو ختم کرنے میں ناکام ہوچکی ہے۔ مقامی غدار ابن غداروں کی فریب کاری اور ساحری کے کرتب اس جذبے کو سرد نہ کرسکے۔ یہی وجہ ہے کہ تحریکِ مزاحمت کا ہر مرحلہ پہلے سے زیادہ شدید اور حیران کُن ہوتا ہے۔

۲۰۱۶ء میں برہان وانی کی شہادت نے آزادی کی اس تحریک کو اور زیادہ جلا بخشی۔ چھے ماہ تک خاک وخوں میں غلطاں اس لہو لہان وادی کا چپہ چپہ کربلا کی تصویر پیش کرتا رہا۔ معصوموں کی چیخ و پکار سے طول وعرض کی خاموش فضاؤں میں ارتعاش پیدا ہوتا رہا۔ بصارت سے محروم جوانوں کی پوری دنیا ہی اُجڑتی گئی۔ مکانوں کی تباہی اور مکینوں کی خانماں بربادی ، میدانِ جنگ کا سماں پیش کرتی رہی۔ ہرطرف انسانی خون کی ارزانی انسانیت کو دم بخود کرتی رہی ۔ دنیا بھر میں انسانیت کا درد رکھنے والے ہزاروں لوگوں نے واویلا کیا۔

ہزاروں کلومیٹر دُور انسانیت کے جذبے سے سرشار آوازوں نے ہماری بے کسی اور مجبوری پر احتجاج کیا، لیکن ہماری اپنی قوم میں ہماری ہی ہڈیاں نوچنے والے ’سیاسی گِدھ‘ اس خون سے بھی اپنے سنگھاسن سجانے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے میں لگ گئے۔ اُن کی آنکھوں کے سامنے ظلم وسفاکیت کے دل دہلانے والے واقعات ہوتے رہے، لیکن وہ لیلاے اقتدار سے اس طرح بغل گیر رہے کہ اپنی کرسیاں مضبوط کرنے کے لیے ہماری لاشوں کی دلالی کرنے میں بھی فخر محسوس کرنے لگے۔ ’تعمیر وترقی، امن اور خوش حالی‘ کی خوش کُن ڈفلیوں سے عوام کو بہلانے کی کوششوں میں مصروف رہے۔ قاتلوں اور جلادوں کی پیٹھ تھپتھپا کر اپنے لیے بھیک میں ملی کرسی کو ہی بچاتے رہے۔ اُن کی آنکھوں پر حرص ولالچ کے ایسے پردے چڑھے کہ اپنی اَنا اور خود غرضی کے سوا انھیں کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔

قابض طاقتوں کے ان مقامی گماشتوں نے بھانپ لیا کہ ان کے چہروں سے نقاب سرکنا شروع ہوگئے ہیں۔ اب عوام اور خاص کر یہاں کا نوجوان ان کی بھیانک صورت اور انسانی کھال میں چھپے مکروہ وجود کو پہچان چکا ہے، تو انھوں نے ضمیروں کی خریدوفروخت کا کاروبار شروع کیا۔   جو جس دام میں بکا اس کو خرید لیا اور جو نہ بکا انھیں بے دریغ کچلتے اور روندتے گئے۔ ان کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ حق کیا ہے اور باطل کیا؟ سچائی، دیانت اور شرافت قدر کے لائق ہے یا جھوٹ، بے ایمانی اور فریب کاری؟ انصاف کیا ہے اور ظلم کیا ہے؟

یہ بندگانِ شکم کی ایک ایسی فوج ہے جن میں خودداری کی ہلکی سی رمق بھی موجود نہیں ہے۔ یہ دشمنوں کی غلامی پر فخر کرتے ہیں۔ غیروں کے بخشے ہوئے منصبوں اور عہدوں پر فائز ہوکر اُن کی چاکری کرنے میں یہ لوگ عزت محسوس کرتے ہیں۔ ہماری قوم کے ایسے غیرت سے تہی دامن نام نہاد حکمران اغیار کی چاپلوسی میں اس قدر آگے بڑھ چکے ہیں کہ جب کوئی غیرت مند شخص ان کی حقیقت کو بے نقاب کرنے کے لیے اُٹھتا ہے، تو یہ اس کا سر کاٹ کر دشمنوں کے سامنے پیش کرکے    خراج وصول کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک صرف اور صرف ذاتی مفادات اہمیت رکھتے ہیں، جن کے لیے وہ ہرظالم کا ساتھ دیتے ہیں، ہر جابر کے آگے ڈھیر ہوجاتے ہیں، ہر باطل کو قبول کرنے اور ہرصداے حق کو دبانے کے لیے پیش پیش رہتے ہیں۔

ہماری قوم کے جوانوں نے یہ سب کچھ اپنی آنکھوں کے سامنے ہوتے سنا، محسوس کیا    اور دیکھا۔ ایک حساس اور باشعور ذہن کے لیے مزاحمت میں ہر اول دستہ بننے کے لیے اتنا ہی  کافی ہے اور یہی وہ پسِ منظر ہے جس میں یہاں کے نوخیز جوان، طلبہ و طالبات___ نہتے ہوکر بھی جذبات و احساسات کے تیز دھار ہتھیاروں سے لیس ہوکر آہنی بوٹوں اور بکتر بند فوجی گاڑیوں کے سامنے سینہ سپر ہوجاتے ہیں۔

جذبۂ آزادی سے سرشار ہماری محکوم قوم کا نوجوان جب دشمن کو للکارتا ہے، تو اپنے گھروں میں آرام دہ کمروں میں بیٹھے لوگ دم بخود رہ جاتے ہیں۔ بھارت خود اپنی آنکھوں دیکھے ان مناظر پر یقین نہیں کرپارہا ہے کہ ۱۵، ۱۶سال کا ایک نوجوان بندوقوں سے لیس فوجیوں کو بھاگنے پر   کس طرح مجبور کرتا ہے۔ بھارتی حکمرانوں کو بصارت ہوتی، عقل وخرد کی تھوڑی سی رمق بھی ہوتی، انسانی جذبات اُن کے دلوں میں جگہ پا چکے ہوتے، تو شاید وہ کب کے ان ہمالیائی حقائق کو تسلیم کرکے اپنی ضد اور جھوٹی اَنا کو خیرباد کہہ چکے ہوتے۔

جوانوں کی اس موجودہ کھیپ نے اسی گولی بارود کی گھن گرج میں شعور کی آنکھ کھولی ہے۔ انھوں نے بچپن ہی سے اپنے بھائیوں کو کٹتے دیکھا ہے۔ اپنے بزرگوں کی تذلیل ہوتے دیکھی ہے۔ اپنی ماؤں بہنوں کی عصمتوں کو تار تار ہوتے دیکھا ہے۔ اپنے آشیانوں کو کھنڈرات میں تبدیل ہوتے دیکھا ہے۔ ان کی آنکھوں نے وہ خونیں اور ڈراؤنے مناظر بھی دیکھے ہیں، جو شاید اُس عمر میں دیکھنے کی کسی میں تاب نہ ہو۔ یہ وہ سونا ہے جو ظلم وجبر کی بھٹی میں تپ کر کُندن بن چکا ہے اور اس کو زیر کرنے کی حماقت جو بھی کرے گا، ریزہ ریزہ ہوکر زمین بوس ہونے میں اس کو دیر نہیں لگے گی، ان شاء اللہ۔

ہمالیہ کی گود میں ماضی کی جنت نظیر کہلانے والی یہ بدنصیب سرزمین کئی عشروں سے آگ وآہن، تباہی وبربادی، خونِ ناحق، حقوقِ انسانی کی بدترین خلاف ورزیوں، لٹی عصمتوں، اُجڑی بستیوں، خزاں رسیدہ سبزہ زاروں، حسرت ناک کھنڈرات میں تبدیل ہوئی شان دار عمارتوں میں رہنے والے بے یارو مددگار، بے کس اور بے بس عوام کا مسکن بن چکی ہے۔ یہاں کے کئی   بلند چوٹیوں سے دل موہ لینے والے چشمے لہو اُبل رہے ہیں۔ یہاں کی میٹھی میٹھی خوشبومیں گولی بارود کی زہریلی ملاوٹ ہوچکی ہے۔ ہر گھر اور ہر فرد دادوفریاد کرتا ہوا نظر آرہا ہے۔

لہو لہان وادی کے یہ ہرے زخم اور ان سے ٹپکتے ہوئے لہو کو یہاں کی صحافی برادری دنیا کے کونے کونے میں پہنچانے کا فریضہ انجام دے رہی ہے۔ حق وصداقت کی بات کرنے والوں کو غاصبوں اور ظالموں نے کب ٹھنڈے پیٹوں برداشت کیا ہے کہ اب کریں گے۔ معاشرے کے ہرطبقے کی طرح یہاں پر اخبارات اور میڈیا سے وابستہ افراد کو بھی سچ بولنے کی سزا بھگتنا پڑتی ہے۔ حکومتی عتاب کا رونا رونے اور اس کی آڑ میں اگرچہ کچھ حضرات نے استبدادی طاقتوں کا آلۂ کار بننے ہی میں عافیت سمجھی، لیکن اس کے باوجود حق وصداقت چھن چھن کر اپنا راستہ بنا ہی لیتی ہے۔

صحافی برادری اس ستم رسیدہ اور غلامی کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی قوم کا ایک باشعور اور حساس طبقہ ہے۔ پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ وہ خود بھی اس غیر یقینی پن اور خوف وہراس کے ماحول کا حصہ ہے۔ حقائق کو اس کے صحیح تناظر میں عوام اور باہر کی دنیا تک پہنچانا ان کی منصبی ذمہ داری ہے۔ یہاں کے غیور اور آزادی پسند عوام یہی چاہتے ہیں کہ ان کے جذبات اور احساسات کی ترجمانی کے ساتھ ساتھ ان کے اصل مرض کی نشان دہی ہو۔ مصائب اور مشکلات کا سامنا ہر فرد کی طرح صحافی حضرات کو بھی ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا دعویٰ کرنے والی حکومت اور اس کے مقامی دُم چھلے سوشل میڈیا اور جدید عوامی رابطے سے اس قدر خوف زدہ ہیں کہ آئے دن اپنی درندگی اور وحشت کو چھپانے اور ان خبروں کو باہر کی دنیا تک پہنچنے نہ دینے کے لیے بچگانہ اور بزدلانہ حرکتیں کرکے ان تمام مواصلاتی رابطوں پر پابندی لگاکر اپنی جگ ہنسائی کا سامان فراہم کرتے آرہے ہیں۔

زخموں سے چُور اس وادیِ گل پوش کے درد اور کرب میں اُس وقت بے پناہ اضافہ ہوتا ہے جب عالمی ادارے اور اُن کے ذرائع ابلاغ خاموش تماشائی بن کر ظالموں، جابروں اور قاتلوں کی تائید کا ذریعہ بنتے ہیں۔ عالمی برادری نہ تو خود اپنے اداروں کی پاس کردہ دستاویزات پر عمل درآمد کی کوئی فکر کرتی ہے اور نہ یہاں کے چپے چپے پر بہتا معصوم لہو ان کو نظر آتا ہے۔ کاش! عالمی برادری اقتصادی مفادات اور تجارتی منڈیوں کے خول سے باہر جھانکنے کی کوشش کرتی تو شاید کراہتی انسانیت کی چیخ و پکار اور اُجڑے دیاروں کی ہیبت ناک تصویر اُن کے ضمیر کو کچھ تو جھنجھوڑنے میں کامیاب ہوجاتی، لیکن واحسرتًا۔

اس اجتماعی جرم میں ہر ایک برابر کا شریک ہے۔ مغربی دنیا کے ساتھ ساتھ مسلم ممالک کی بے حس ریاستی اور سیاسی قیادت کو بھی جیسے سانپ سونگھ گیا ہے۔ رب العالمین کی طرف سے عطا کیے ہوئے قدرتی خزانوں پر انھوں نے غیروں کو مالک بنادیا۔ خود اس بے انتہا دولت کی بالائی کھا کر شباب وکباب کی دنیا میں بے سدھ پڑے رہنے ہی کو مسلم اُمت پر بطورِ احسان جتایا۔ اُمت مرحومہ کن مشکل ترین اور صبر آزما ادوار سے گزررہی ہے؟ ملت کس طرح زخموں سے چُور ہے؟ آباد شہروں کو کس طرح زمین بوس کیا جاتا ہے؟ معصوم بچوں، عورتوں اور بزرگوں کو کس طرح خون میں نہلایا جارہا ہے؟___ لیکن یہ نام نہاد مسلم حکمران خوابِ غفلت میں بے حس وحرکت اپنے عشرت کدوں میں بیٹھے دادِ عیش دے رہے ہیں۔ حالاںکہ ان کو سمجھنا چاہیے کہ ان کے قرب وجوار میں لگی آگ کی تپش سے یہ خود بھی محفوظ نہیں رہ سکیں گے۔

ریاست جموں وکشمیر کا مسئلہ ۱۹۴۷ء میں تقسیم ہند کے فارمولے کے غیرمنصفانہ نفاذ کی پیداوار ہے۔ جس کے نتیجے میں اس ریاست کے سینے پر ایک خونی لکیر کھینچی گئی ہے اور یہاں کے عوام کے جذبات، اُن کے رشتوں، اُن کی برادری اور ان کے کلچر کو تقسیم کردیا گیا ہے۔

پاکستان اس مسئلے کا اہم فریق ہے۔ اس نے ہمیشہ سے اس دیرنہ مسئلے کو حقائق کی روشنی میں حل کرنے کے لیے سفارتی، اخلاقی اور سیاسی سطح پر ہر ممکن مدد فراہم کی ہے، لیکن اپنے اندرونی خلفشار اور ہمسایہ ممالک کی درپردہ سازشوں کی وجہ سے ہمارا یہ مضبوط وکیل بہت سے محاذوں پر کمزور دکھائی دے رہا ہے۔ کشمیر کو اپنی شہ رگ تسلیم کرنے کے بعد کوئی یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ کوئی فرد یا قوم اپنی شہ رگ کو دشمن کے خونیں جبڑوں میں پچھلے ۷۰برس سے دیکھتی چلی آرہی ہے۔

 اگر واقعی پاکستان کی سالمیت اور سلامتی کی شاہراہ کشمیر سے ہوکر گزرتی ہے، تو اس اہم اور بنیادی مسئلے کو ترجیحی بنیادوں پر لے کرچلنے کی ٹھوس کوشش قیام پاکستان کے ساتھ ہی شروع ہونی چاہیے تھی۔ لیکن مصلحتوں، کمزوریوں اور سازشوں کی آلودگیوں نے اس مسئلے کی چمک ہی دھندلی کرکے رکھ دی ہے۔ یہاں کے عوام اپنی جانوں کا نذرانہ پچھلے ۳۰سال سے دیتے چلے آرہے ہیں، لیکن اس لہو کے نکھار اور آزادی کی اس گونج کو جس حرارت اور گرج سے عالمی ایوانوں تک پہنچانے کی ضرورت تھی، ہمیں آج سات عشرے گزرنے کے بعد بھی اس کی حسرت ہی رہی۔

جنوبی ایشیا میں رستے ہوئے اس ناسور نے انسانی سروں کی کئی فصلیں نگل لی ہیں اور اب یہ خونخوار بھیڑیا ہر گزرتے دن، انسانی لہو سے اپنی پیاس بجھا رہا ہے۔ خون چاہے بھارتی فوجی کا ہو، پاکستانی فوجی کا ہو، کشمیری کا ہو، ہے تو انسانی لہو کہ جس کا احترام بحیثیت انسان ہم سب پر فرض ہے۔ کئی عشروں سے جاری اس کشت وخون میں ایک نہتی اور مظلوم قوم پسی چلی جارہی ہے۔

غاصب اور قابض بھارت نے اپنی جھوٹی، فریب کارانہ اور چانکیائی سیاست کے داؤپیچ سے ہمارے اندرہی غداروں کی ایک اچھی خاصی کھیپ تیار کرلی ہے، جو اس کے ایک اشارے پر پوری کشمیری قوم کو زمین بوس کرنے سے بھی ہچکچائے گی نہیں۔ اس جابر طاقت کی کلہاڑی کے یہ مقامی دستے، جب تک اپنی شکم سیری اور فرضی شان وشوکت اور جاہ وحشمت کے لیے بے غیرت اور بے ضمیر دلالوں کا گھناؤنا کردار ادا کرتے رہیں گے، تب تک سروں کی فصل کٹتی رہے گی۔

پچھلے کئی برسوں سے تو بھارت کا ترنگا یہاں کی عمارتوں پر لہرانے کے بجاے اپنے فوجیوں کی لاشوں کو لپیٹنے ہی کے کام آرہا ہے، مگر اس کے باوجود بھارتی سورماؤں کی آنکھیں کھلنے کا نام نہیں لے رہیں۔ غریب اور مفلس فوجیوں کو قوم پرستی کا امرت پلا کر یہ عاقبت نااندیش سیاسی جادوگر انھیں اپنے اقتدار کی بھینٹ چڑھاتے رہتے ہیں، ورنہ بھارتی حکمرانوں کے ساتھ ساتھ اُن کے عوام کو بھی یہ بات سمجھ آچکی ہے کہ ریاست جموں وکشمیر نہ کبھی بھارت کا حصہ تھی، نہ ہے اور نہ آیندہ کبھی ہوگی۔ بھارت کو یہاں سے ذلت اور خواری کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا اور وہ خود اپنے جرائم کے بوجھ تلے دب کر دُم دباکے یہاں سے بھاگنے پر مجبور ہوگا۔ اس میں اگر وقت لگ رہا ہے تو صرف اور صرف ہماری اپنی کمزوریوں کی وجہ سے۔ ورنہ قانونِ قدرتِ حق کا فیصلہ بالکل صاف ظاہر ہے، اور وہ یہ کہ خطۂ جموں و کشمیر کو بھارتی سامراج سے آزاد ہوکر رہنا ہے، ان شاء اللہ!

_______________

اسلامی تحریک مزاحمت [حماس] نے مسلسل سوچ بچار کے بعد اپنا ترمیم شدہ پروگرام اور پالیسی، ایک دستاویز کی صورت میں جاری کی ہے۔ ۴۲نکات پر مشتمل اس پروگرام اور لائحۂ عمل کو تنظیم کے ۳۰برس قبل جاری کیے جانے والے منشور کا نظرثانی شدہ متبادل قرار دیا جا رہا ہے۔

اہمیت

’حماس‘ کی حالیہ دستاویز کئی حوالوں سے اہم ہے۔ پہلے نکتے میں واضح کیا گیا ہے:

اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) فلسطین کی قومی، اسلامی اور مزاحمتی تحریکِ آزادی ہے۔ اس کا مقصد فلسطین کو آزاد کرانا اور صہیونی منصوبے کا مقابلہ کرنا ہے۔ اس کی پہچان اسلام ہے۔ اسی سے اس کے طریق کار، مقاصد اور ذرائع اخذ کیے جاتے ہیں۔

 یہ تنظیم اپنی تاسیس کے تین عشروں کے بعد بھی اس بات پر ثابت قدم ہے کہ جن اصولوں پر اس کی بنیاد رکھی گئی تھی، الحمدللہ آج تک ان پر کاربند ہے۔ اس کے طریق کار، فکری بنیاد اور اصولوں میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔ وہ آج بھی فلسطین کو فلسطینیوں کا اصل اور حقیقی وطن سمجھتی ہے۔ دریاے اُردن سے لے کر بحرمتوسط (Mediterranean) تک کا علاقہ عرب علاقہ ہے اور اسلامی فلسطین کی سرزمین ہے۔ دستاویز میں پیشہ وارانہ انداز میں مسلّمہ سیاسی بیانیہ واضح کرتے ہوئے کہا گیاہے کہ فلسطینیوں کی آزادی، وطن واپسی اور مزاحمت جیسے تمام بنیادی اصول آج بھی حماس کے لیے مشعل راہ ہیں۔ تنظیم نے ۳۰ سالہ سفر کے دوران پیش آنے والے تمام دباؤ، مصائب اور آلام کے باوجود اپنے اصل پیغام کو تحریف سے بچائے رکھا ہے۔

دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ حالیہ دستاویز کے ذریعے حماس نے خود کو ایک زیرک تنظیم کے طور پر منوایا ہے۔ اس نے ۳۰برسوں کے دوران پیش آنے والے متعدد کٹھن مراحل کا مردانہ وار مقابلہ کیا ہے۔ تنظیم نے مسلّمہ اصولوں پرکسی قسم کی سودے بازی کیےبغیر اپنی جدت پسند سوچ اور فکر کو واضح کیا ہے۔

اس دستاویز کے ذریعے تیسرا پہلو یہ سامنے آیا ہے کہ ’حماس‘ بدلتی ہوئی سیاسی و جغرافیائی تبدیلیوں اور صورتِ حال کو سمجھنے اور راستہ نکالنے کی بھرپورصلاحیت رکھتی ہے۔ حصولِ منزل کے لیے لچک پیدا کرنے اور صہیونی دشمن کے ساتھ اپنی جنگ کو پیشہ وارانہ انداز میں منظم کرنے کی بھی  اہلیت رکھتی ہے۔

فلسطینی سرزمین کی تعریف

دستاویز کے مطابق: ’’فلسطین کی سرزمین مشرق میں دریاے اُردن سے مغرب میں بحرمتوسط اور شمال میں راس الناقورہ سے جنوب میں ام الرشراش تک ہے۔ یہ ایک باہم مربوط علاقائی یونٹ ہے۔ یہ فلسطینی عوام کی سرزمین اور ان کا وطن ہے‘‘۔ بعض حلقے اس کی تشریح کرتے ہوئے یہ موقف اختیار کر رہے ہیں کہ فلسطینی علاقے کی اس تشریح کا مقصد ہے کہ حماس کا مقصد اسرائیل کو صفحۂ ہستی سے مٹانا ہے ، جب کہ دستاویز کے ۲۰ ویں نکتہ میں بیان کردہ موقف مختلف صورت پیش کرتا ہے۔ ریکارڈ کی درستی اور قارئین کے استفادے کے لیےدستاویز کا ۲۰ واں نکتہ یہاں نقل کیا جا رہا ہے:

حماس اس بات میں یقین رکھتی ہے کہ فلسطینی سرزمین کے کسی حصے پر: کسی بھی سبب،  حالات اور دباؤ کی بنا پر کوئی سمجھوتا کیا جائے گا اور نہ اس کو قبول کیا جائے گا۔ اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ قبضہ کتنی زیادہ دیر تک برقرار رہتا ہے۔ حماس [دریاے اُردن سے بحر متوسط تک] فلسطین کی مکمل آزادی کے سوا کسی بھی متبادل حل کو مسترد کرتی ہے۔ تاہم، صہیونی ریاست کے استرداد اور فلسطینیوں کے کسی حق سے دست بردار ہوئے بغیر، ۴جون ۱۹۶۷ء کی حدود کے اندر حماس ایک مکمل خود مختار اور آزاد فلسطینی ریاست کے قیام پر غور کرے گی۔ القدس اس کا دارالحکومت ہوگا۔ وہ مہاجرین اور اپنے گھروں سے بے دخل کیے گئے فلسطینیوں کی قومی اتفاق راے کے فارمولے کے مطابق واپسی کی حمایت کرتی ہے۔

اس دستاویز سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ماضی میں ’تنظیم آزادی فلسطین‘ (PLO) یا دیگر فلسطینی جماعتوں نے فلسطین کے کسی حصے میں آزاد ریاست کے قیام کے حوالے سے جو باتیں کیں، وہ کسی باقاعدہ ہوم ورک کے بغیر تھیں۔ اسی لیے آج تک اسرائیل نے مذاکرات کا ڈول ڈالنے والے فلسطینی فریق کو کبھی سنجیدہ نہیں لیا اور یک طرفہ طور پر من مانے فیصلے کر رہا ہے۔ ’حماس‘ کی دستاویز میں بیان کردہ شق۲۰ کے دوسرے حصے میں جو موقف اختیار کیا گیا ہے وہ اس طرح ہے کہ: ’’صہیونی ریاست کے استرداد اور فلسطینیوں کے کسی حق سے دست بردار ہوئے بغیر،۴جون ۱۹۶۷ء  کی حدود کے اندر حماس ایک مکمل خود مختار اور آزاد فلسطینی ریاست کے قیام پر غور کرے گی۔ القدس اس کا دارالحکومت ہوگا۔ وہ مہاجرین اور اپنے گھروں سے بے دخل کیے گئے فلسطینیوں کی قومی اتفاق راے کے فارمولے کے مطابق واپسی کی حمایت کرتی ہے‘‘۔

اسرائیل کو تسلیم کرنے کی حقیقت

شہ سرخیاں پڑھ کر تبصرہ کرنے والوں نے اس شق کی حقیقی روح کو سمجھے بغیر اسے ’’حماس کی جانب سے اسرائیلی ریاست کو تسلیم کرنے‘‘ کا بالواسطہ اعلان قرار دے دیا ہے۔حقیقت اس کے برعکس ہے کیونکہ حماس کی دستاویز کی شق ۲۰میں دو اُمور بیان کیے گئے ہیں:

 پہلے حصے میں حماس نے فلسطین کو فلسطینیوں کاوطن قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہی اس کی قسمت کا فیصلہ کرنے کے مجاز ہیں۔اس کے کسی بھی حصے سے کسی صورت میں دست بردار نہیں ہوا جاسکتا۔ ۳۰ برس قبل حماس کی تاسیس سے لے کر آج تک تمام بین الاقوامی ، عرب اور فلسطینی فورمز پر دو ریاستی منصوبے کو قضیے کے مجوزہ حل کے طور پر پیش کیا جاتا رہا ہے۔

حماس اور اس کی قیادت نے دو ریاستی حل کے علَم برداروں سے ہمیشہ ایک ہی سوال کیا کہ: ’’آپ اپنی تجویز کوعملی جامہ کیسے پہنائیں گے؟‘‘ اب حماس نے اس ضمن میں پائے جانے والے ابہام کو اپنی دستاویز میں یہ جواب دے کر دُور کرنے کی کوشش کی ہے کہ کسی بھی ایسی تجویز پر عمل صرف اسی صورت ممکن ہے کہ جب مسلّمہ اصولوں سے دست برداری سے باز رہا جائے۔

حماس نے دو ریاستی حل کے تجویز کنندگان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ: اگر آپ کے پاس کوئی قابلِ عمل مثبت منصوبہ ہے کہ جس کے ذریعے فلسطین کے کسی حصے کی آزادی ممکن نظر آتی ہو، تو ہم آزادی کے اس عمل میں آپ کے ساتھ ہوں گے۔ اگر فلسطین کا حصہ اسرائیل کو بغیر کسی بھاری سیاسی قیمت ادا کیے آزاد کرا لیا جائے تو اس کے لیے حماس کا تعاون حاضر ہے۔ فلسطین کے کسی حصے کی اسرائیلی تسلط سے آزادی پر حماس مثبت تعاون کرے گی۔

’حماس‘ نے اپنی دستاویز کے ۲۰ویں نکتے میں واضح کیا ہے کہ ایسا صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ جب ہم سے اس آزادی کے عوض کوئی ایسا سیاسی خراج نہ مانگا جائے، جو فلسطین کی  قومی وحدت کی نفی پر منتج ہوتا ہو۔ کوئی بھی ذی عقل نہیں چاہے گا کہ فلسطین کے کسی حصے کو آزاد کرائے اور پھر وہاں اپنی حکومت قائم نہ کرے۔ فلسطین میں ’دو ریاستی حل‘ کی مخالفت کے الزام کا جواب دیتے ہوئے حماس کا کہنا ہے: ’’اگر فلسطین کے کسی حصے پرآزاد ریاست، جارح اسرائیل کو سیاسی قیمت ادا کیے بغیر قائم ہوتی ہے توہم اس کا خیر مقدم کریں گے‘‘۔

اس مقصد کے لیے ’حماس‘ نے فلسطین میں قومی وحدت کی فضا قائم کرنے کے لیے  مشترکات پر مبنی فارمولا پیش کیا، جس میں تمام گروپوں کو ’تنظیم آزادی فلسطین‘ میں شرکت کا موقع دینا سر فہرست ہے، تاکہ داخلی سیاسی انتشار کی کیفیت سے اسرائیل فائدہ نہ اٹھا سکے۔ حماس نے واضح کردیا ہے کہ ہم جن مشترکات کی بنا پر ۱۹۶۷ءکی سرحدوں میں آزاد فلسطینی ریاست کی حمایت کرتے ہیں، وہ غیر مشروط ہے۔ قومی امور میں شراکت کے لیے ہمارا یہ معیار ہے کہ ہم آزادی کے عوض اسرائیل سے سیاسی سودے بازی نہیں کر سکتے۔

سیاسی حلقوں میں یہ بحث جاری ہے کہ: ’’اگر فلسطینی قیادت عرب امن فارمولے پر عمل کرنے کی خواہش ظاہر کرے تو حماس اس کا جواب کیسے دے گی، کیوںکہ یقیناً یہ 'زمین کے بدلے امن کے اصول پر آگے بڑھے گا‘‘۔ حماس دستاویز کے ۲۲ویں نکتے میں بیان کرتی ہے کہ: 

’حماس‘ ان تمام سمجھوتوں، اقدامات اور معاملہ کاری کے منصوبوں کو بھی مسترد کرتی ہے، جن کا مقصد فلسطینی نصب العین اور ہمارے فلسطینی عوام کے حقوق کو نقصان پہنچانا ہے۔ اس ضمن میں کوئی بھی موقف، اقدام یا سیاسی پروگرام ان حقوق کی خلاف ورزی پر مبنی نہیں ہونا چاہیے۔نیز وہ ان حقوق سے متصادم یا منافی بھی نہیں ہونا چاہیے۔

 اس نکتے میں حماس نے  انتہائی اہم اصول وضع کر دیا ہے ۔ اس اصول کا اطلاق صرف عرب امن منصوبے پر نہیں ہوتا بلکہ تنظیم نے فلسطینی عرب عوام کے حقوق کو بنیاد بنا کر یہ اصول تشکیل دیا ہے۔ نیز تنظیم کی یہ سوچ فلسطین کے حوالے سے عرب اور ملت اسلامیہ کے موقف کی بھی ترجمانی کرتی ہے۔ ’مصالحت‘ (compromise) کے نام پر اگر فلسطینیوں کے حقوق پر ڈاکا ڈالنے کی کوشش کی گئی، تو حماس اسے یکسر مسترد کر دے گی، چاہے وہ منصوبہ عربوں، امریکا، اسرائیل، روس اور چین کسی نے بھی پیش کیا ہو ۔ حماس نے اپنی دستاویز میں کسی امن منصوبے کا نام نہیں لیا ہے بلکہ اس ضمن میں عمومی اصول اور پالیسی وضع کی ہے۔اس لیے کوئی بھی فلسطینی، عرب یا مسلمان ان اصولوں کی روشنی میں حماس کے نقطۂ نظر کو بخوبی جان سکتا ہے۔ عرب امن منصوبے میں اسرائیل کو تسلیم کرنے اور صہیونی ریاست سے تعلقات معمول پر لانے کی بات کی گئی ہے۔ یاد رہے، حماس اور اس کی قیادت اس بات کو ماضی میں کئی بار مسترد کر چکی ہے۔

دوحہ، قطر سے جاری ہونے والی حماس کی اہم پالیسی دستاویز کے حوالے سے ایک اعتراض یہ بھی کیا جا رہا ہے کہ: ’’تنظیم نے ۱۹۸۸ء میں جاری کردہ اپنے بنیادی منشور میں اسرائیل کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کی بات اور یہودیوں کے خلاف جنگ کا پرچار کیا تھا۔ کیا دوحہ میں جاری کی جانے والی اصولوں اور پالیسی کی دستاویز، بین الاقوامی اور علاقائی طاقتوں کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہو سکے گی کہ تنظیم سے دہشت گردی کا نشان(tag) اُتار دیں، کیوںکہ حالیہ دستاویز میں حماس نے واضح کیا ہے کہ: ’’اسرائیلیوں سے مخاصمت کی بنیاد ان کا مذہب نہیں بلکہ ان کی لڑائی دراصل ارض فلسطین پر قابض ان صہیونیوں کے خلاف ہے کہ جنھوں نے فلسطینیوں کو اپنے حقیقی وطن سے بے خانماں کیا ہے‘‘۔

حماس کی حالیہ دستاویز میں جگہ جگہ اس بات کا اعلان اور اظہار ملتا ہےکہ وہ فلسطین سے صہیونی منصوبے کا خاتمہ چاہتی ہے اور پورے مقبوضہ علاقے میں فلسطینی ریاست قائم کرنا چاہتی ہے، جس کی سرحدیں دریاے اردن سے بحر متوسط تک پھیلی ہوں۔ اسرائیل کا وجود دراصل ایک باطل مفروضے پر قائم ہے۔ ’اعلان بالفور‘ (نومبر ۱۹۱۷ء) ایک باطل معاہدہ ہے۔ فلسطینیوں سے ان کا حق چھیننے والا ہرمعاہدہ باطل ہے اوراس کا خاتمہ حماس کی ذمہ داری ہے۔

حماس کا ہدف یہودی مذہب نہیں

یہودیوں کو ہدف بنانے کے حوالے سے جن شکوک و شبہات کا پرچار کیا جارہا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ حماس نے ۱۹۸۸ءمیں اپنا منشور جاری کیا تو اس میں یہودیوں کا لفظ استعمال کیا گیا تھا، کیوںکہ وہ اس کے ذریعےپورے اسرائیل کا حوالہ دینا چاہتے تھے، جہاں یہودیوں کو آباد کیا جارہا تھا۔

’حماس‘ یہودیوں کو یہودی مذہب کے پیروکار کے طور پر نشانہ نہیں بنانا چاہتی بلکہ ان کا نشانہ توسیع پسندانہ عزائم کے حامل صہیونی ہیں۔ اگر ’حماس‘ کے نزدیک تمام یہودیوں کو نشانہ بنانا ہوتا تو پھر اُس کے اہداف دنیا بھر میں پھیلے ہوتے، جب کہ ایسا نہیں کیا گیا ہے۔ انسانی حقوق کے  علَم برداروں اور فلسطین دشمنوں نے اس ابہام کو پروپیگنڈے کے ایک آلے کے طورپر استعمال کیاکہ حماس یہودیوںکا قتل چاہتی ہےاور یہودی مذہب کی وجہ سے ان کے خلاف ہے۔ دستاویز میں اس معاملے کی وضاحت کر دی گئی ہے کہ توسیع پسندانہ صہیونی منصوبے پر عمل درآمد کرنے والے دراصل فلسطینیوں کو ان کے دیس سے نکالنا چاہتے ہیں۔ اس لیے ہمارا مقصد ان صہیونی منصوبے کے پیروکاروں سے فلسطین کو پاک کرنا ہے۔ یہ اقدام ان کے یہودی ہونے کی بنا پر نہیں بلکہ ہماری زمین پر غاصبانہ اور توسیع پسندانہ قبضے کی وجہ سے ہے۔ اگر کل کلاں کو ہندو، بدھ مت اور عیسائی ہماری زمین پر قبضہ کرتے ہیں تو فلسطینی ان کے خلاف بھی اسی طرح علَمِ مزاحمت بلند کریں گے،  جیسا کہ وہ آج صہیونی منصوبے کے پیروکاروں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور اپنی زمین ان سے واگزار کرائیں گے۔حماس کی سوچی سمجھی راے ہے کہ علماے کرام کے فرمودات اور اسلامی تعلیمات میں یہودیوں کے حوالے سے الگ احکام موجود ہیں۔ ان پر وہ تمام حکم لاگو ہوتےہیں جو اسلام نے تمام اہل کتاب کے لیے مقرر کر رکھے ہیں۔

تنظیم آزادی فلسطین کے موقف سے ہم آہنگی کا الزام

حالیہ دستاویز پرایک اعتراض یہ بھی کیا جا رہا ہے کہ:’’ایسا دکھائی دیتا ہے کہ حماس کا دستاویز میں بیان کردہ نقطۂ نظر ’تنظیم آزادی فلسطین‘ کے موقف سے ہم آہنگ ہے۔ اگر ایسا ہے تو حماس کو ’الفتح‘ تنظیم 'سے معافی مانگنی چاہیے کہ اس نے فلسطینی قوم کے کئی سال ضائع کر دیے اور غزہ کو تین ہولناک اسرائیلی جنگوں میں دھکیلا‘‘۔

’حماس‘ اپنی تاسیس کے دن سے ہی ’تنظیم آزادی فلسطین‘ کے ساتھ تعاون کے لیے آمادہ اور تیار رہی ہے۔ اسلامی تحریک مزاحمت حماس، پی ایل او کو خاندانی کلب بنانے کے بجاے اسے فلسطینیوں کی حقیقی نمایندہ تنظیم بنانےکے لیے اصلاحات کا مطالبہ کرتی چلی آئی ہے۔ دستاویز میں اسی روح کی از سرِ نو تجدید کی گئی ہے، جس پرحماس کے بعض ناقدین یہ کہہ کر اعتراض کررہے ہیں کہ تنظیم نے اپنی حالیہ دستاویز میں پی ایل او کے سیاسی فریم ورک کو تسلیم کر لیا ہے ۔ یہاں اس امر کی جانب اشارہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ دستاویز میں پی ایل او کے ڈھانچے میں تبدیلی کا جو مطالبہ شدومد سے کیا گیا ہے، اس کا مقصد پی ایل او کو حقیقی معنوں میں فعال ادارہ بنانا ہے تاکہ تمام فلسطینی دھڑے اس میں اپنا اپنا کردار ادا کرنے کے قابل ہو سکیں۔ پی ایل او کی روحِ رواں ’الفتح‘ ' تنظیم کی قیادت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ قومی شراکت کے اصول اور براہ راست انتخابات کے ذریعے پی ایل اوکی صفوں میں وسعت لائی جائے۔ جس سے اس میں فلسطین کے اندر اور باہر، موجود تمام فلسطینیوں کی نمایندگی کو یقینی بنایا جا سکے۔ حماس نے دستاویز میں اپنے اسی مسلّمہ موقف کو مختصر مگر جامع انداز میں بیان کیا ہے۔

’تنظیم آزادی فلسطین‘ کی سیاسی میراث اور اس کی جانب سے مسلّمہ اصولوں سے دست برداری کے یکے بعد دیگرے اعلانات کو ۱۰ نکات میں بیان کیا جا سکتا ہے، جن کا اعلان پی ایل او نے اکتوبر ۱۹۷۳ء کی جنگ کے بعد کیا تھا۔ ان نکات میں اسرائیلی دشمن سے واگزار کرائی گئی سرزمین پر فلسطینی ریاست کے قیام کی ضرورت پر زور دیا گیا تھا، تاہم بعد میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد ۲۴۲کو تسلیم کرتے ہوئے فلسطینیوں کے حقوق کو ۱۹۶۷ء کے مقبوضہ علاقوں تک محدود  کردیا گیا۔ بات بڑھتے بڑھتے ’میڈرڈ امن مذکرات‘ اور پھر ’معاہدہ اوسلو‘ تک جا پہنچی۔

’اوسلو معاہدہ‘ [۱۳ستمبر ۱۹۹۳ء]پر دستخط کے بعد ’تنظیم آزادی فلسطین‘ کو اپنی سیاسی تنہائی کم کرنے کا موقع ملا کیوںکہ اگست ۱۹۹۰ء میں عراق کے کویت پر حملے کی وجہ سے اس کے مالی سوتے خشک ہو گئے تھے۔ ہزیمت کا نیا باب رقم کرتے ہوئے پی ایل او نے ’اوسلو معاہدے‘ کے تحت مقبوضہ فلسطین کے علاقے غرب اُردن اور القدس میں لا کر بسائے گئے آٹھ لاکھ آبادکاروں کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے ’ڈیٹن فورس‘ تشکیل دی، جس نے آزاد فلسطینی ریاست کا خواب دل میں بسائے یاسرعرفات کو منوں مٹی تلے ابدی نیند سلا دیا۔

افسوس کا مقام ہے کہ اس وقت تحریک ’الفتح‘ تنظیم جو’تنظیم آزادی فلسطین‘ کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے ہے، اس نے میڈرڈ کانفرنس کے راستے ’اوسلو معاہدے‘ کی ذلت پر دستخط کر کے اپنے اصل راستے سے ہٹنے کا ارتکاب کیا ۔ یوں فلسطین کے قومی مقصد کو ’بلدیاتی سطح کے اختیار‘ جیسی دلدل میں اتار لیا اور فلسطین کے اہم مسلّمہ اصولوں سے دست برداری کا اعلان کیا۔ اب وہ فلسطین کے ۷۷ فی صد حصے سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ انجامِ کار اس طرح اس علاقے پر اسرائیل کے وجود کو تسلیم کر چکے ہیں۔

اخوان سے لاتعلقی: حقیقت کیا ہے؟

حماس کی دستاویز کے اعلان سے بہت پہلے اس کے مندرجات کی میڈیا میں لیکس کے ذریعے یہ کہہ کر پیالی میں طوفان اٹھانے کی کوشش کی گئی کہ: ’’حماس نے الاخوان المسلمون سے لاتعلقی کا فیصلہ کر لیا ہے اور اس ضمن میں تنظیم جلد ہی اپنے ترمیم شدہ سیاسی منشور میں باقاعدہ اعلان کرنے والی ہے‘‘۔ دستاویز کی ۴۲ شقوں میں کسی ایک میں بھی الاخوان المسلمون کا ذکر نہیں ملتا۔ تحریک کے سیاسی شعبے کے سابق سربراہ خالد مشعل سے پریس کانفرنس میں بھی یہ سوال پوچھا گیا تو انھوں نے اس تاثر کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ: ’’ہماری سرگرمیوں کا مرکز و محور فلسطینی سرزمین ہے۔ الاخوان المسلمون سے اگرچہ ہمارا تنظیمی تعلق نہیں، تاہم ان کی فکری سوچ ، جہد مسلسل اور قربانیوں سے عبارت تاریخ حماس کے لیے ہمیشہ منارۂ نور کا کام کرتی رہے گی۔ حماس اور اخوان کو باہم لڑا کر مذموم مقاصد حاصل کرنے اور سازشوں کے جال بننے والے دوست نما دشمن کبھی کامیاب نہیں ہوسکیں گے‘‘

۱۵؍اپریل ۲۰۱۷ء کو مقبوضہ کشمیر کے ضلع پلوامہ کے ڈگری کالج میں ریاستی پولیس،بھارتی فوج اور سی آر پی ایف داخل ہوئی۔ کالج میں ہزاروں طلبہ و طالبات نے پولیس اور آرمی کی اس کارروائی پر سخت احتجاج کیا، جس پر قابض فورسزاہل کار آگ بگولا ہوگئے اور انھوں نے پیلٹ کے چھرّوں اور آنسو گیس شیلوں کی بارش کرکے کالج کو میدان جنگ میں تبدیل کردیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ۶۰نہتے اور معصوم طلبہ و طالبات زخمی ہوگئے، جن میں چند طالبات کو نازک حالت میں ہسپتال میں داخل کرایا گیا۔ اس دوران بھارتی فوج کئی طالب علموں کو گرفتار کرنے میں کامیاب ہوگئی اور اُن کا سرِراہ بڑی ہی بے رحمی سے ٹارچر کیا گیا۔

بھارتی فوج، اپنے اہل کاروں کے ہاتھوں اس وحشیانہ طرزِ عمل کی وڈیو بھی بناتی ہے اور ان وڈیوز کو بعد میں سوشل میڈیا پر ڈال دیا جاتا ہے۔ درحقیقت ان وڈیوز کے ذریعے سے   بھارتی فوج دراصل نفسیاتی طور پر کشمیری نوجوانوں پر دباؤ ڈالنا چاہتی تھی، تاکہ وہ خوف زدہ ہوکر جدوجہد آزادی کی موجود لہر سے کنارہ کشی اختیار کرلیں ، لیکن ان وڈیوز کا اُلٹا اثر ہوا۔ پوری وادی میں پہلے سے ہی سراپا احتجاج طلبہ اس ظلم و جبر اور درندگی کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے۔ ہائی اسکولوں سے لے کر یونی ورسٹیوں تک ، انجینیرنگ کالجوں ، میڈیکل کالج، حتیٰ کہ زنانہ کالج کی طالبات تک پُرامن احتجاج کرنے کے لیے سڑکوں پر نکل آئیں۔ریاستی حکومت جس کی ساجھے دار بھارتی جنتا پارٹی ہے، اس نے احتجاجی طلبہ سے نبٹنے کے لیے اپنا روایتی طریقہ ہی اختیار کیا، یعنی طاقت کے ذریعے سے طلبہ و طالبات کو دبانے کا سلسلہ جاری رکھا گیا۔اپنے سامنے تمام راستوں کو مسدود  دیکھ کر نہتے کشمیری طلبہ و طالبات سڑکوں پر حرب و ضرب سے لیس مسلح فوج اور پولیس کے ساتھ   دو دو ہاتھ کررہے ہیں۔معصوم طالبات تک کو سنگ بازی کے لیے مجبور کیا جارہا ہے اور چھے ہفتے گزر جانے پر بھی وادی بھر میں طلبہ و طالبات کی احتجاجی لہر جاری ہے۔صبح جب بچے اور بچیاں اسکول یونیفارم میں گھر سے روانہ ہوتے ہیں ،تو والدین دن بھر تذبذب میں رہتے ہیں کہ نہ جانے اُن کے نونہال صحیح سلامت شام کو لوٹ کر بھی آئیں گے یا نہیں۔ آئے روز ہسپتالوں میںزخمی طلبہ و طالبات کو داخل کرایا جاتا ہے۔

یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ گذشتہ سال برہان مظفر وانی کی شہادت کے بعد عوامی احتجاج کے پیش نظر حکومت نے چار ماہ تک مسلسل کرفیو نافذ کیے رکھا۔ اس مدت میں طلبہ و طالبات کو اسکول جانے سے روکا گیا اور اُن کی تعلیم بری طرح متاثر ہوئی۔ بعد میں حکومت اور بھارتی میڈیا نے یہ پروپیگنڈا کیا کہ: ’حریت قیادت نے احتجاج اور ہڑتال کی کال دے کر طلبہ و طالبات کے مستقبل کو برباد کیا‘۔ حالاںکہ اُس مدت میں حکومت کی جانب سے مسلسل کرفیو کے پیش نظر تعلیمی ادارے بند رہے ۔

پہلے کی طرح اس سال بھی حکومت از خود آئے روز تعلیمی اداروں کو بند رکھ رہی ہے۔ جس دن تعلیمی ادارے کھلے ہوتے ہیں، اُس دن پولیس اور دیگر فورسز ایجنسیاں صبح ہی سے اسکولوں اور کالجوں کے گیٹ پر کھڑی ہوجاتی ہیں اور مختلف بہانوں کی آڑ میں ہدف شدہ طلبہ کو گرفتار کرنے   لگ جاتی ہیں۔ جس کے نتیجے میں نوجوان نسل میں غصے کی لہر دوڑ جاتی ہے اور وہ سڑکوں پر نکل کر احتجاج کرتے ہیں۔ عام خیال یہ ہے کہ ایسا جان بوجھ کر کیا جارہا ہے۔ یہ دراصل اُس پالیسی کا حصہ ہے جس کے تحت کشمیر کی نسلِ نو کو تعلیم سے محروم رکھنے کا منصوبہ ہے۔اس طرزِ عمل سے بھارتی ایجنسیاں مختلف اہداف حاصل کرنا چاہتی ہیں، جن میں سب سے اہم یہ ہے کہ کشمیری نسلیں جہالت کے اندھیرے میںڈوب جائیں اور پھر وہ اپنی جائز اور مبنی برحق جدوجہد سے خود بخودد ست بردار ہوجائیں گے۔

۹؍اپریل کو وسطی کشمیر کے ضمنی انتخابات میں لوگوں کی عدم شرکت اور انتخاب کے دن  عوام کی جانب سے زبردست احتجاج نے ریاستی انتظامیہ اور دلی میں اُن کے آقاؤں کے اوسان خطا کردیے۔اس روز ایک ہی ضلع میں مختلف مقامات پر ۱۰نوجوانوں کو گولیاں مار کر شہید کردیا گیا، اور درجنوں دیگر افراد زخمی کر دیے گئے۔ نام نہاد انتخابات کے بعد ہر روز، نئی دہلی اور سری نگر میں سیکورٹی میٹنگیں منعقد کی جارہی ہیں۔ دہلی سے آئے روز فوجی ماہرین اور حکومتی کارندے کشمیر آتے رہتے ہیں۔ بھارتی آرمی چیف، بی جے پی کے جنرل سیکریٹری رام مادھو اور وزیردفاع ارون جیٹلی نے بھی سری نگر کا دورہ کرکے یہاں کے حالات کا جائزہ لیا اور کشمیریوں کی موجودہ سیاسی جدوجہد پر  قابو پانے کے لیے سر جوڑ کر صلاح مشورے کرتے رہے۔ حالات پر قابو پانے کے لیے ہر طرح کا نسخہ آزمایا جارہا ہے۔ دلی سے حکم نامے نازل ہوتے ہیں اور مجبوبہ مفتی کٹھ پتلی بن کر دلی کے ہر حکم کو من و عن نافذ کرتی ہیں۔ گرفتاریوں کا سلسلہ دراز سے دراز تر ہوتا جارہا ہے۔

رات کے دوران چھاپوں میں پولیس اور فوج گھروں میں گھس کر نہ صرف نوجوانوں کو گرفتار کرتی ہے بلکہ سارا سامان تہس نہس کرنے کے علاوہ مکینوں کی شدید مارپیٹ کی جاتی ہے۔ یہاں ہر روز بستیوں اور دیہات میں قیامت صغریٰ برپا کی جاتی ہے۔عوامی جذبے کو دبانے کے لیے گذشتہ سال کی تاریخ ساز مزاحمتی مہم کے دوران بھارتی فوج نے’آپریشن توڑپھوڑ‘شروع کیا  جو ہنوز جاری ہے۔ اس آپریشن کے دوران فوج ، پولیس اور نیم فوجی دستے ہزاروں کی تعداد میں کسی بستی میں داخل ہوجاتے ہیں۔ اُن کے سامنے جو کچھ آتا ہے وہ وحشیوں اور درندوں کی طرح اُس پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنانا، گاڑیوں کے شیشے توڑنا، مکانات کے کھڑکی دروازوں کو توڑنا اور گھروں میں قیمتی ساز و سامان کو برباد کرنا، اس آپریشن کا حصہ ہے۔ کشمیر میں موسمی حالات کے پیش نظر لوگ کھانے کی اشیا گھروں میں اسٹور کرکے رکھتے ہیں۔ بھارتی فورسز اُن کو بھی    تہس نہس کرکے جمع کی گئی غذائی اجناس کو ضائع کر دیتی ہیں۔ جس بستی میں یہ آپریشن کیا جاتا ہے، اُس کی حالت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اُس بستی کو دوبارہ اپنی اصل حالت میں آنے کے لیے مہینوں لگ جاتے ہیں۔یہ ’آپریشن توڑ پھوڑ‘ تاحال جاری ہے۔عوامی بغاوت کو کچلنے کے لیے فوج کی جانب سے نفسیاتی جنگ لڑی جارہی ہے اور اس جنگ میں اخلاقیات اور انسانی حقوق کی تمام تر قدروں کو وحشیانہ انداز سے پاؤں تلے روندا جارہا ہے۔

۴مئی کو بھارتی فوج کے قریباً ۳۰ہزار اہل کاروںنے ضلع شوپیاں کے ایک درجن سے زائد دیہات کا محاصرہ کرکے جنگجوؤں کے خلاف آپریشن کا اعلان کردیا۔ ۲۰برسوں کے بعد اپنی نوعیت کا یہ پہلا کریک ڈاون ہے، جس میں حرب و ضرب سے لیس فوج، پولیس اور سی آرپی ایف استعمال ہوئی ہے۔ اس آپریشن میں ڈرون اور فوجی ہیلی کاپٹر بھی استعمال کیے گئے ہیں۔ بھارتی میڈیا نے آپریشن کے دن صبح ہی سے اس فوجی کارروائی کے حوالے سے رپورٹیں نشر کرنا شروع کردیں، اور سنسنی خیر انداز میں آپریشن کو اس طرح پیش کیا گیاکہ جیسے بھارتی فوج کنٹرول لائن پر اپنے ہلاک شدہ فوجیوں کا بدلہ لینے کے لیے پاکستان کے خلاف میدانِ جنگ سجا چکی ہو۔شام ہوتے ہوتے آپریشن کے اختتام تک کھودا پہاڑ نکلا چوہا والا معاملہ ہوگیا۔ ان درجن بھر دیہات کی جو کہانیاں میڈیا اور لوگوں کے ذریعے سے سامنے آئیں، وہ دل دہلا دینے والی تھیں۔ فورسز اہل کاروں نے مکانات، فرنیچر اور درجنوں گاڑیوں کی توڑ پھوڑ کرکے کروڑوں روپے مالیت کا نقصان کرنے کے علاوہ نہتے اور عام شہریوں کی شدید مارپیٹ کی۔ شام کو دو درجن کے قریب لوگوں کو ہسپتالوں میں داخل کرانا پڑا۔ اس ظلم و جبر کے خلاف جب عوام نے احتجاج کرنا چاہا تو اُن پر پیلٹ گن کے چھرے اور آنسوگیس کے گولے داغے گئے۔

پاکستان کے ساتھ جب بھارت کے معاملات بگڑ جاتے ہیں تو پاکستان کو سبق سکھانے اور بدلہ لینے کے لیے بھارت بھر میں آوازیں اُٹھنا شروع ہوجاتی ہیں۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ پاکستان جب بھی سفارتی سطح پر کچھ مؤثر سرگرمی دکھائے تو کشمیرمیں سول آبادی کے خلاف اعلانِ جنگ کردیا جاتا ہے۔ عملاً کشمیریوں کو پاکستانیوں کی نظر سے دیکھا جارہا ہے۔ جب بھی کشمیریوں کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے، اُن کا قتل عام کیا جاتا ہے، اُنھیں زخمی کردیا جاتا ہے، ہماری خواتین کے ساتھ دست درازیاں کی جاتی ہیں تو بھارتی سماج کا ’اجتماعی ضمیر‘ مطمئن ہوجاتا ہے۔ وہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ کشمیریوں کے خلاف کارروائی کا مطلب یہ ہے کہ اُن کی فوج نے پاکستان سے بدلہ لیا ہے۔ گرفتاریوں اور چھاپوں کے دوران بھارتی فورسزاہل کار اس بات کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں کہ وہ مقبوضہ کشمیر کے عوام کو خطرناک ترین سزائیں اس لیے دیتے ہیں کیوںکہ وہ ہندستانی نہیں بلکہ پاکستانی ہیں۔ اُن کا دل پاکستان کے لیے دھڑکتا ہے اور اُن کی وفاداریاں پاکستان کے لیے ہیں۔

بھارتی حکومت، مقبوضہ کشمیر میں اپنا کنٹرول کھو چکی ہے۔ اُن کی فوج جنگجوؤں کی آڑ میں عوام کے ساتھ برسرِ پیکار ہے۔ فورسز اہل کار وں کے حوصلے بھی روز بروز پست ہوتے چلے جارہے ہیں۔ ریاست میں تعینات رہنے والے ایک اعلیٰ بھارتی فوجی افسر جنرل ڈی ایس ہوڈا نے برملا کہا کہ: ’’کشمیر میں فوج کو جتنا کچھ کرنا تھا، اُس نے وہ کیا۔ وہاں طاقت سے حالات پر قابو پانا  مشکل ہے‘‘۔ اُنھوں نے اپنی حکومت کو مشورہ دیا کہ وہ کشمیر میں فوجی طاقت کے بجاے سیاسی عمل شروع کریں اوربات چیت کا دروازہ کھولا جائے۔این ڈی ٹی وی کی معروف صحافی برکھادت نے ۱۹مئی کو ہندستان ٹائمز میں اپنے ایک مضمون میں مودی سرکار کو خبردار کیا ہے کہ: ’’وہ کشمیریوں سے فوری طور پر بات چیت کا راستہ اختیار کرے‘‘۔ اُنھوں نے اپنے مضمون میں لکھا کہ: ’’کشمیر میں اس پیمانے پر کبھی حالات خراب نہیں تھے۔ پہلے ہماری فوج ’پاکستانی جنگجوؤں‘ کے ساتھ لڑ رہی تھی لیکن آج وہ ’اپنے‘ لوگوں کے ساتھ نبرد آزما ہے‘‘۔

المیہ یہ ہے کہ بھارت میں برسرِاقتدار ٹولہ کشمیر کے معاملے میں اپنی سخت گیر پالیسی پر قائم ہے اور کسی بھی مرحلے پر اُس میںلچک دکھانے کے لیے تیار نہیں۔ پاکستان یا کشمیریوں کے ساتھ مذاکرات کے لیے وہ آمادہ نہیں۔ دوسری جانب کشمیر میں اَبتر صورتِ حال سے اندرون ملک مودی حکومت کافی دباؤ کا شکار ہے۔ خود مودی سرکار بھی اپنے تمام تر سخت گیریوں کے باوجود پریشان نظر آرہی ہے ۔ وہ کسی بھی طرح سے کشمیریوں کی صفوں میں انتشار پیدا کرنا چاہتے ہیں، تاکہ کشمیریوں کی موجودہ احتجاجی تحریک کمزور پڑ جائے۔ اس کے لیے مختلف سطحوں پر کام ہورہا ہے۔ بھارتی وزیرداخلہ راج ناتھ سنگھ نے حالیہ دنوں میں کئی مرتبہ کہا ہے کہ آنے والے ایک سال کے دوران وہ کشمیر میں بیانیہ ہی تبدیل کر دیں گے۔ اُنھوں نے ہندستانیوں کو انتظار کرنے کے لیے کہا اور  اُن کے اس بیان کی تائید کشمیر میں اُن کی کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے بھی کی ہے۔کشمیر اُمور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت ایجنسیوں کے ذریعے سے آزادی پسند حلقوں میں دراڑ پیدا کرنے کے لیے کوشاں ہے اور اس کے لیے وہ آئے روزکوئی نہ کوئی ایشو کھڑا کرنے کی کوشش کرتی رہتی ہے۔

کشمیر میں سیاسی اختلافات کو ہوا دی جارہی ہے۔ کشمیر سیاسی مسئلہ ہے یا مذہبی ، اس طرح کے مباحثے شروع کروائے جاتے ہیں۔ حالانکہ ہم میں سے ہر ایک کو یہ بات بخوبی معلوم ہے کہ بحیثیت مسلمان ہماری جدوجہد رضاے الٰہی کے لیے ہوتی ہے۔ ہماری کوششیں اسلام کی سربلندی کے لیے ہوتی ہیں۔ ہم جب جان دیتے ہیں تو اس میں پیش نظر یہ ہوتا ہے کہ ہمیں اللہ کی بارگاہ میں شہادت کا درجہ نصیب ہوجائے۔جاننے اور سمجھنے کے باوجودہم غیر ضروری مباحثے شروع کرنے کے درپے ہیں اور بھارتی میڈیا اس کو خوب ہوا دے رہا ہے۔اس کے لیے بھارتی ایجنسیاں مقبوضہ کشمیر میں تمام حربے آ زمارہی ہیں۔

دہلی میں قائم بھارتی ٹی وی چینلوں اور پرنٹ میڈیا کشمیر، کشمیریوں اور پاکستان کے خلاف ہمیشہ زہر اُگلتا رہتا ہے۔ کشمیریوں کی تحریک کو ’دہشت گردی‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے اور یہاں کے لوگوں کا تشخص مسخ کرنے کے لیے پروپیگنڈے پر مبنی درجنوں پروگرام روز نشر کیے جاتے ہیں۔ بھارتی میڈیا کی اس مہم کے نتیجے میں کشمیر سے باہر بھارت کی مختلف ریاستوں میں کشمیریوں کی زندگیاں خطرہ میں پڑ چکی ہیں۔ آئے روز کسی نہ کسی ریاست میں کشمیری طلبہ پر حملے کیے جاتے ہیں۔ ابھی گذشتہ ماہ میں بھارتی پنجاب کی ایک یونی ورسٹی میں کشمیری طلبہ کے ساتھ شدید مارپیٹ کی گئی اور اُنھیں ہاسٹل سے نکال باہر کیا گیا۔کشمیر سے باہر کشمیری جان ہتھیلی پر لے کر جاتا ہے۔  حد تو یہ ہے کہ گذشتہ ماہ بھارت کے معروف ہسپتال پی جی آئی چندی گڑھ میںڈاکٹروں نے ایک کشمیری مریضہ کا علاج صرف اس بنیاد پر نہیں کیا کیونکہ وہ کشمیری تھیں اور بھارتی ڈاکٹر سمجھتے ہیں کہ: ’’کشمیری، پاکستانی ہیں‘‘۔ ایک جانب کشمیریوںکو بھارت سے باہر جانے کے لیے سفری دستاویزات فراہم نہیں کی جاتی ہیں۔ اُن کا کسی دوسرے ملک میں جانا اس قدر مشکل بنادیا گیا ہے کہ عام آدمی  سوچ بھی نہیں سکتا ہے کہ وہ بھارت سے باہر علاج یا کسی اور ضرورت کے لیے جاپائے گا۔ دوسری طرف بھارت کے اندر کشمیری لوگوں کو نسلی تعصب کا شکار بنایا جارہا ہے۔ اُنھیں بنیادی طبی سہولیات فراہم نہیں کی جاتی ہیں۔ دوسرے الفاظ میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ بھارت کشمیر میں ہر طریقے سے نسل کشی کررہا ہے۔یہی نہیں بلکہ مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کیا جارہا ہے۔

بھارتی میڈیا پروپیگنڈے کا مقابلہ کشمیری نوجوان نسل سوشل میڈیا کے ذریعے سے کررہی تھی۔ کشمیر کے اصل حالات کو بیرونی دنیا تک پہنچانے کے لیے عام کشمیری سوشل میڈیا کا استعمال کرتے تھے۔جب کشمیریوں کے اس جوابی وار سے بیرونی دنیا میں بھارت کی رُسوائی ہونے لگی تو اس نے ۱۵؍اپریل سے کشمیر میں نہ صرف سوشل میڈیا پر پابندی عائد کردی، بلکہ اس کے لیے موبائل کمپنیوں کو ۲۲سوشل میڈیا سائٹس کو بلاک کردینے کے احکامات بھی جاری کردیے گئے۔

کشمیریوں کی تمام تر اُمیدیں پاکستان سے وابستہ ہیں۔ یہاں کے لوگ اپنے ہر درد کی دوا پاکستان کو سمجھتے ہیں۔ بھارتی میڈیا وار کا مقابلہ پاکستانی میڈیا بخوبی کرسکتا ہے، لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ وہاں بھارتی فلموں پر ایک ایک گھنٹے کا پروگرام تو ضرور نشر ہوتا ہے، جب کہ کشمیرکے حوالے سے رپورٹیں نہ ہونے کے برابر ہوتی ہیں۔ کبھی کبھار اگر کوئی چینل کشمیر میں ہونے والی زیادتیوں کا ذکر کرتا بھی ہے تو وہ چند منٹ سے زیادہ نہیں ہوتا ہے اور اُس میں حقائق کی تہہ تک پہنچنے کے بجاے سطحی چیزوں پر اکتفا کیا گیا ہوتا ہے۔یہ بدقسمتی ہے کہ پاکستان کے تمام ادارے اپنی ترجیحات میں کشمیر کو ثانوی حیثیت دے کر اپنے مقدمے کو کمزور بنانے کا کام خود انجام دیتے ہیں۔

وقت کا تقاضا ہے کہ کشمیر میں ہونے والی زیادتیوں پر پاکستان زیادہ سے زیادہ کام کرے۔ پاکستانی میڈیا دنیا کو باخبر کرنے کے لیے مثبت کردار ادا کرے۔ جس طرح سے کشمیر میں پاکستان کے تمام چینلوں کی نشریات روک دی گئی ہیں اُسی طرح پاکستان میں بھی بھارتی چینلوں کی نشریات کا بائیکاٹ کیا جانا چاہیے۔ مقبوضہ کشمیر کے عوام مملکت پاکستان سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ صحیح معنوں میں ہماری سیاسی، سفارتی اور اخلاقی مدد کریں۔زبانی جمع خرچ سے نہ کشمیریوں کا کچھ بھلا ہوتا ہے اور نہ پاکستانی مفادات کی آبیاری ہی ہوپاتی ہے۔

چند در چند وجوہ اور منفی پروپیگنڈے کی بنیاد پر خواتین کے حوالے سے بحث کو صرف اسلام اور مسلمانوں سے منسلک کر دیا گیا ہے۔ اس طرح جہاں ’اسلام اور خواتین‘ ایک وضاحتی مسئلہ بن گیا ہے، وہیں اسلامی تحریکوں کے سامنے اس پہلو سے غوروفکر کے امکانات نمایاں ہوئے ہیں۔

خواتین کے اسلامی کردار کی مناسبت سے

شیخ عبد الحلیم ابو شقہ نے کتاب : خواتین کی آزادی عہد رسالتؐ  میں، میں اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ آج کی مسلمان عورت دو جاہلیتوں میں سے کسی ایک کا شکار ہو کر رہ گئی ہے۔ ایک طرف’’ چودھویں صدی ہجری میں پائے جانے والے غلو، تشدد اور آبا و اجداد کی اندھی تقلید کی جاہلیت‘‘ ہے، اور دوسری طرف ’’بیسویں صدی عیسوی میں پائی جانے والی برہنگی، اباحیت اور مغرب کی اندھی تقلید کی جاہلیت‘‘ ہے، اور یہ دونوں جاہلیتیں اللہ کی شریعت سے بغاوت کے مترادف ہیں۔ ۲۸  مسلم عورت روایت اور تجدد کی ان دونوں جاہلیتوں کے درمیان پس کر رہ گئی ہے۔

فاضل مصنف کا خیال ہے کہ عورت معاشرے کا نصف حصہ ہے، لیکن وہ ایک طرح سے عضوِ معطل کی مانند ہے، کیوں کہ وہ ایک مجاہد نسل پیدا نہیں کر رہی ہے اور نہ اُمت مسلمہ کی سیاسی و معاشرتی بیداری میں حصہ لے رہی ہے۔ لہٰذا، مسلم عورت کی آزادی مسلمان معاشرے کے نصف حصے کی آزادی ہے اور عورت اس وقت تک آزاد نہیں ہو سکتی، جب تک مرد نہ آزاد ہو اور دونوں اسی صورت میں آزاد ہو سکتے ہیں جب اللہ کی شریعت و ہدایت کا اتباع کیا جائے۔۲۹

مصنّف نے معاشرتی زندگی میں خواتین کے اسلامی کردار کی کمی کے درج ذیل اسباب بیان کیے ہیں:

                ۱-            باقی ماندہ جاہلی عادات و رسوم کے اثرات، خواہ عرب جاہلیت کی رسوم ہوں یا اسلام میں داخل ہونے والی دوسری اقوام کی رسوم و روایات۔

                ۲-            مسلم معاشرے میں موجود تشدد اور غلو کے رجحانات۔

                ۳-            بعض علماے سلف کے اجتہادات کی تقلید۔

                ۴-            ائمہ کے بعض اقوال، احادیث کی میزان پر تولے نہیں جا سکتے اور خود حدیث پر تحقیق کی ضرورت و اہمیت۔ ۳۰

دورِ نبویؐ میں خواتین کو جو مقام و مرتبہ حاصل تھا اور وہ جن حقوق اور آزادیوں سے بہرہ ور تھیں، انھیں بحال کرنا اسلامی تحریکوں کی ترجیحات میں داخل ہے۔ دعوت و اصلاح اور تجدید و احیا کا کام تشفی بخش طریقے سے اسی وقت انجام پا سکتا ہے، جب کہ معاشرے کے اس نصف حصے کی سماجی زندگی اسلام کی روشنی میں بحال ہو۔

مصری مصنف شیخ محمدالغزالیؒ( ۱۹۱۷ء-۱۹۹۶ء) چودھویں صدی ہجری میں مسلم اُمت کے زوال کے اسباب پر گفتگو کرتے ہیں تو درج ذیل امور کی نشان دہی کرتے ہیں:

۱- دین کا ناقص فہم ، ۲- نااہل اور بددیانت افراد کا قیادت کے منصب پر فائز ہونا، ۳-دین سے خواتین کے تعلق کی کم زوری، ۴- اساطیری تصور مذہب پر بڑھتا ہوا یقین۔ ۳۱

حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کی روایت ہے کہ حضرت عمرؓ کی ایک بیوی مسجد نبویؐ میں فجر اور عشاء کی نماز یں جماعت سے ادا کرتی تھیں۔ ان سے پوچھا گیا: ’’آپ گھر سے باہر کیوں نکلتی ہیں؟ جب کہ آپ کو معلوم ہے کہ عمرؓ اسے سخت ناپسند کرتے ہیں اور خلافِ غیرت تصور کرتے ہیں‘‘۔ انھوں نے کہا: ’’پھر وہ مجھے حکماً کیوں نہیں روک دیتے؟‘‘ لوگوں نے کہا: ’’انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد روک رہا ہے کہ ’’ اللہ کی بندیوں کو اللہ کی مسجدوں میں جانے سے مت روکو‘‘۔ ۳۲   حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے یہ حدیث روایت کی تو ان کے بیٹے نے کہا: ’’بخدا، ہم انھیں مسجدوں میں نہیں جانے دیں گے‘‘۔ باپ بیٹے پر سخت ناراض ہوئے اور ان کی یہ ناراضی آخر تک برقرار رہی۔

اس تاریخی واقعے کو نقل کر کے شیخ الغزالی تأسف کا اظہار کرتے ہیں:’’یہ عجیب معاملہ ہے کہ ملت اسلاامیہ اپنے آخری ادوار میں حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کے صاحب زادے کے مسلک کی تو قائل ہو گئی، لیکن باپ کی روایت کر دہ حدیث سے اس نے نظریں پھیر لیں۔ چنانچہ پنج وقتہ نمازوں کی مسجدوں میں ادایگی اور خطبات و دروس کی سماعت و استفادے سے عورتیں آج تک محروم چلی آرہی ہیں۔مسجدوں سے عورتوں کو محروم کرنے کی یہ روش پوری تاریخ میں برقرار رہی، جس کی وجہ سے مسلم خاندان کا زبردست نقصان ہوا اور فرض عبادات سے بھی ان کا رشتہ ٹوٹ گیا‘‘۔ ۳۳

ڈاکٹر فضل الرحمٰن فریدیؒ خواتین کے حقوق سے غفلت اور غیر دانش مندانہ حکمت عملی اختیار کرنے کو تحریک اسلامی کے لیے مضر خیال کرتے ہیں۔ ان کا درمندانہ تجزیہ یہ ہے کہ: علماے دین اور اسلامی تحریکوں کو خواتین کے معاملے میں ’دفاع اور تحفظ‘ کی جگہ اسلامی نقطۂ نظر کا پوری قوت سے اثبات کرنا چاہیے اور اقدامی انداز اختیار کرنا چاہیے۔ ایسا اثبات کہ جس سے ایک طرف اسلامی نظام فکر کی خیر و برکات اور اس کا توازن اور عدل واضح ہوتے جائیں اور دوسری طرف عصری نقطۂ نظر کی بنیادیں منہدم ہوتی چلی جائیں، اور اس کی اساس پر تشکیل پانے والے معاشرے کی خیرہ کن تاب ناکی کے پس پردہ تاریکیوں کی جھلک بھی دکھائی جاتی رہے۔

اس اثبات کا محور ، ڈاکٹر فریدی کے الفاظ میں: ’’اسلامی نظام فکر و عمل اور اس کے اصول و اقدار ہوں گے۔ ان کی واضح اور جرأت مندانہ تفسیر اور تعبیر کی ضرورت ہے۔ خواتین کے کردار کے اس اثبات کا مطلب اُس تاریخی ثقافت اور ان تمام اداروں کا اثبات ہر گز نہیں ہے، جسے ملّتِ اسلامیہ نے اپنے طویل سفر میں اپنی اجتماعی زندگی کا لازمی جزو بنا لیا ہے۔ ہمارے رجحانات اور ہماری مرضیات ، ہمارے رسم و رواج اور ہماری کلچر ل اقدار، ان سب سے نکھار کر اس کا اثبات اور توضیح وقت کا بھی تقاضا ہے اور ہماری دینی ذمہ داری بھی‘‘۔ ۳۴

ڈاکٹر فریدی کو اس بات کا ادراک ہے کہ علماے اُمت نے ہر دور میں خواتین کے حقوق اور ازدواجی تعلقات کے متعلق اسلامی بنیادوں کی تعلیم اور تشریح کے ذریعے اصلاح کی جدو جہد جاری رکھی، مگر ان پر بھی تحفظ کا داعیہ غالب آگیا۔ خطرے کے مبالغہ آمیز احساسات کی وجہ سے اس امر کا اہتمام نہ کیا جا سکا کہ حقیقی اسلامی اقدار اور کلچر کے حشو و زوائد کو ممیز کیا جاتا رہے، بلکہ دین دار حلقوں کی ہمت افزائی کی گئی کہ جو کچھ بھی سرمایہ موجود ہے، اس کو برقرار رکھا جائے اور انحطاط سے بچایا جائے۔ تحفظ کی اس جدو جہد میں اسلامی تعلیمات اور مسلم کلچر کی تفریق کا لحاظ نہ کیا جا سکا۔ ۳۵

ڈاکٹر فریدی یہ اعتراض نقل کرتے ہیں کہ: ’’مدینہ ایک پاکیزہ سو سائٹی تھی، لیکن ہم ایسے دور میں سانس لے رہے ہیںجہاں اباحیت کا غلبہ ہے، اس لیے ہمیں مزید پابندیاں لگانی پڑیں گی، بعض مباحات کو ممنوع قرار دینا ہوگا اور اجتماعی تعامل کی بعض راہوں کو بند کرنا پڑے گا، جو اُس پاکیزہ سماج میں موجود تھیں‘‘۔ ڈاکٹر فریدی اس اعتراض کو دووجوہ سے رد کرتے ہیں:

                ۱-            مدینہ کے معاشرے میں بھی غلط عناصر موجود تھے، ا گر چہ ان کی تعداد حد درجہ قلیل تھی۔ منافقین ہر وقت گھات لگائے رہتے تھے۔

                ۲-            قرآن کریم کے احکام ہر معاشرے کے لیے ہیں، خواہ وہ مدینہ منورہ کا پاکیزہ معاشرہ ہو، یا آج کاا باحیت زدہ ماحول۔ ۳۶

ڈاکٹر فریدی دور حاضر کے بعض رجحانات کو صحت مند قرار دیتے ہیں، کیوں کہ یہ اپنی اصل کے اعتبار سے اسلامی نقطۂ نظر سے ہم آہنگ ہیں، حالاں کہ خدائی ہدایات کی بے نیازی نے ان کی تعبیر میں افراط و تفریط کی راہ پیدا کر دی ہے۔ وہ رجحانات یہ ہیں:

                ۱-            خواتین کی عمومی مظلومیت کو دُور کرنے اور ان کو انسانی حقوق دلانے کی عام جدوجہد ۔

                ۲-            اجتماعی امور میں ان کے اشتراکِ عمل میں اضافے کی جدو جہد ۔

                ۳-            خواتین سے جہالت دُور کرنے اور تعلیم کے ممکنہ وسائل بہم پہنچانے کی جدو جہد ۔

                ۴-            عائلی زندگی میں خواتین کو منصفانہ حقوق دلانے کی جدو جہد ۔

                ۵-            عورت کو مرد سے کم تر سمجھنے کے نقطۂ نظر کی اصلاح۔

                ۶-            معاشی زندگی میں عورت کو استقلال عطا کرنے کی جدو جہد ۔ ۳۷

ڈاکٹر فریدی مرحوم ان رجحانات کو بلا سوچے سمجھے تسلیم کرنے کا مشورہ نہیں دیتے، کیوں کہ ان کے علَم بردار بالعموم دین و مذہب سے بیگانہ ہیں۔ ان کی فکر میں ژولیدگی اور ابہام ہے۔ ان کی تعبیریں خواہش نفس اور تجدد کی ترجمان ہیں، اور ان میں افراط و تفریط بھی ہے اور رد عمل بھی۔ اگر اسلامی تحریک کوشش کرے تو اسلام کے عادلانہ اور متوازن فکر کے طفیل ان قدروں کا متوازن امتزاج اس طرح پیش کیا جا سکتا ہے، جو عصری اصطلاحات کی زبان میں سمجھ میں آسکے۔ ۴۰

غیر مسلموں سے تعلقات

بیسویں صدی میں مغرب کے لادینی نظام کی حقیقت کو بیان کرنے کے لیے اسلامی تحریکوں نے بلاشبہہ عظیم الشان لٹریچر تیار کیا ہے۔ جس نے مغرب کے الحاد پر تنقید کے ساتھ اس کے استعماری عزائم کو بھی بے نقاب کیا ہے۔ مغرب کی فکری و عسکری یلغار نے مسلمان علما و مصلحین کو آمادہ کیا کہ   وہ ایک نئے علم الکلام کے ذریعے اسلام کی حقانیت پر مسلمانوں کے ایمان و اعتقاد کو بحال کریں اور عقلی استدلال کے ساتھ غیرجانب دار اسلوب میں نظام زندگی کے مختلف پہلوؤں کی وضاحت کریں۔

علّامہ محمد اقبال(۱۸۷۷ء-۱۹۳۸ء)، سیّد مودودی(۱۹۰۳ء-۱۹۷۹ء)، سید ابو الحسن علی ندوی (۱۹۱۴ء- ۱۹۹۹ء) مریم جمیلہ (۱۹۳۴ء- ۲۰۱۲ء)، سیّد قطب (۱۹۰۶-۱۹۶۶ء)، محمد قطب  (۱۹۱۹ء-۲۰۱۴ء)، محمدالغزالی (۱۹۱۷ء-۱۹۹۶ء)، ڈاکٹر علی شریعتی (۱۹۳۳ء-۱۹۷۷ء)،  طارق رمضان (پ:۱۹۶۲ء) پروفیسر خورشید احمد (پ: ۱۹۳۲ء)، مالک بن نبی (۱۹۰۵ء-۱۹۷۳ء)، بدیع الزماں سعید نورسی (۱۸۷۳ء- ۱۹۶۰ء) جیسے دانش وروں اور علما کی ایک قوسِ قزح ہے، جس نے مغربی فکر و فلسفہ کے خلاف اسلام کی صداقت ، معقولیت اور نافعیت کوثابت کرنے کے لیے اپنے اپنے ملکوں میں دینی و فکری ادب عالیہ تیار کیا۔ اس لٹریچر کا بین الاقوامی زبانوں میں ترجمہ ہوا، جس کی وجہ سے اس کے اثرات کسی ایک خطے تک محدود نہ رہ سکے۔ دھیرے دھیرے مغربی فکر سے مرعوبیت ، احساس کم تری اور معذرت خواہانہ ذہنیت کا خاتمہ ہوا۔ مسلم نوجوان اسلام و ایقان کی دولت سے مالا مال ہوکر دعوت و احیاے دین کی جدو جہد میں لگ گئے۔

مغرب نے اسلامی تحریکوں کو بدنا م کرنے اور احیاے اسلام کے مشن کو ناکام بنانے کے لیے عسکری، ابلاغی، مذہبی اور علمی تمام حربے اختیار کیے، مگر عالم اسلام میں مغرب کے خلاف نفرت بڑھتی گئی اور اسلامی تحریکوں کی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔ رفتہ رفتہ بعض عوامل کے تحت پوری غیر مسلم دنیا مسلمانوں کی نفرت میں محارب اور معاند بن گئی۔ امریکا اور مغرب کی جارحیت پسند حکومتیں ہی نہیں، وہاں کے عوام بھی دشمنوں کی صف میں کھڑے کر دیے گئے اور ان سے مسلمانوں کا باہمی تعلق اور انسانی تعامل تھم گیا ، جس کے نتیجے میں دعوت اسلامی کا دائرۂ کار عملاً مسلمانوں کے اندر محدود ہو کر رہ گیا۔ اس کا براہ راست نقصان اسلامی تحریکوں کو پہنچا۔ اسلام، مسلمان اور اسلامی تحریک سے مغرب کی دُوری بڑھی۔ دونوں کے درمیان غلط فہمیاں تیزی سے پرورش پائیں۔

طرفہ تماشا یہ ہوا کہ مسلم ممالک کی مغرب نواز قیادت نے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے اسلامی قائدین کو ہر طرح کی بنیادی سہولتوں اور آئینی و دستوری حقوق سے محروم کیا، بلکہ ان پر بے پناہ ظلم و ستم روا رکھا۔ قیدوبند سے لے کر تختۂ دار تک تمام صعوبتیں ان پر مسلط کر کے ان کی زندگی اجیرن بنا دی۔ردّ عمل میں اسلامی تحریکوں اور مسلم سربراہان مملکت کے درمیان کشاکش بڑھی۔ اوپر سے مغرب نے مسلم ممالک پر مسلط کر دہ رہ نمائوں کی حمایت کی اور انھیں عوام پر بدترین مظالم ڈھانے کی کھلی چھوٹ دے دی۔

جمہوری و انسانی اقدار کی کھلم کھلا خلاف ورزی نے مسلم ممالک میں بھی اور مغرب میں کام کرنے والے بعض افراد، حلقوں اور اداروں کے اندر بھی انتہا پسندی اور تشدد کو فروغ دیا، جس کا خمیازہ آج پوری امتِ مسلمہ کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ بعض حلقے اور جماعتیں پورے مغرب کو دشمن قرار دے کر اس کے خلاف جنگ لڑنے کی نظریہ سازی کر رہے ہیں۔ مسلمانوں اور مغرب کے درمیان یہ کشاکش دعوت اسلامی کو کام کرنے کا موقع نہیں دے رہی ہے۔ مغرب نے مسلمانوں کو مسلسل  حالتِ جنگ میں رکھ کر وہاں کے انسانوں سے سماجی و معاشرتی تعامل و تعلقات کی راہ بند کر دی ہے۔ اس پر وقفے وقفے سے انجام پانے والی پُرتشدد کارروائیاں حالات کو اور سنگین بنا دیتی ہیں۔ معصوموں کے قتل عام سے اسلام اور دعوت اسلامی کی تضحیک ، استہزا اور تذلیل میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔

اس صورتِ حال میں استحصالی قوتیں مسلمانوں کو بدنام کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے گنوانا نہیں چاہتیں۔مختلف سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس پر ان دنوں مسلمانوں سے منسوب ایسی پوسٹوں کا خوب پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے، جس کا مقصد مسلمانوں کو بدنام کرنا اور انھیں انتہاپسند اور دہشت گردی کو فروغ دینے والی قوم کے طور پر لعن طعن کرنا ہے۔ سوشل ویب سائٹس پر ایسی قابلِ اعتراض پوسٹس آئے دن کا معمول بن چکی ہیں جن کا مقصد اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنا ہے، لیکن اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ عالمی سطح پر مسلمانوں میں بعض ایسے طائفے بھی پیدا ہوچکے ہیں جو صرف جنگ کو اسلام کا تقاضا سمجھتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ عام انسانوں سے تعامل کی قرآنی بنیاد حُسنِ سلوک اور عدل و اانصاف ہے نہ کہ عداوت و نفرت۔ سورۂ ممتحنہ کی آیات ۸-۹ اس باب میں فیصلہ کن حیثیت رکھتی ہیں،   جن میں صراحت ہے کہ جو غیر مسلم تمھارے ساتھ عداوت نہیں برتتے، انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ  تم بھی ان کے ساتھ عداوت نہ برتو،بلکہ تم ان کے ساتھ اچھا برتائو کرو۔ آیت ۹ میں مزید صراحت ہے کہ کفار سے ترکِ تعلق کا جو حکم اس سورہ کی ابتدائی آیات میں دیا گیا ہے اس کی وجہ ان کا کفر نہیں، بلکہ اسلام اور اہل اسلام کے ساتھ ان کی عداوت اور ان کی ظالمانہ روش ہے۔

مولانا سیّد ابوالا علیٰ مودودیؒ نے ان آیات کی بہترین تشریح اس واقعے کو قرار دیا ہے جو سیرت و تاریخ کی کتابوں میں حضرت اسماء بنت ابی بکر ؓ اور ان کی کافر والدہ سے متعلق بیان ہوا ہے۔ بخاری ، مسلم اور مسند احمد میں یہ واقعہ مروی ہے کہ حضرت ابو بکرؓ کی ایک بیوی قتیلہ بنت عبد العزیٰ کافر تھیں اور ہجرت کے بعد مکہ ہی میں رہ گئی تھیں۔ حضرت اسما ؓ انھی کے بطن سے پیدا ہوئی تھیں۔ صلح حدیبیہ کے بعد جب مدینہ اور مکہ کے درمیان آمد و رفت کا راستہ کھل گیا تو وہ بیٹی سے ملنے کے لیے مدینہ آئیں اور کچھ تحائف بھی لائیں۔ حضرت اسماء ؓ کی اپنی روایت ہے کہ میں نے جا کر رسولؐ اللہ سے پوچھا: ’’کیا میںاپنی ماں کے ساتھ صلہ رحمی کر سکتی ہوں؟‘‘آپؐ نے جواب دیا:’’ ہاں، ان سے صلہ رحمی کرو‘‘۔ حضرت اسماؓ کے صاحب زادے عبد اللہ بن زبیر ؓ اس واقعے کی مزید تفصیل یہ بیان کرتے ہیں کہ پہلے حضرت اسماؓ نے ماں سے ملنے سے انکار کر دیا تھا، بعد میں جب اللہ اور اس کی رسول کی طرف سے اجازت مل گئی تب وہ ان سے ملیں۔ ۳۹

قرآن کریم نے تو یہاں تک ہدایت دی ہے کہ دشمن قوم اگر ظلم و زیادتی کرے تو بھی اس کے جواب میں مسلمانوں کو ناروا ظلم کا راستہ اختیار نہیں کرنا چاہیے، بلکہ نیکی اور بھلائی کے کاموں میں سب کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے:

وَ لَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ اَنْ صَدُّوْکُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اَنْ تَعْتَدُوْام وَتَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَ التَّقْوٰی ص  وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ ص (المائدۃ ۵: ۲) اور (دیکھو)، ایک گروہ نے جو تمھارے لیے مسجد حرام کا راستہ بند کر دیا ہے تو اس پر تمھارا غصہ تمھیں اتنا مشتعل نہ کر دے کہ تم بھی ان کے مقابلے میں نا روا زیادتیاں کرنے لگو۔( نہیں) جو کام نیکی اور خدا ترسی کے ہیں، ان میں سب سے تعاون کرو اور جو گناہ زیادتی کے کام ہیں، ان میں کسی سے تعاون نہ کرو۔

اسی سورہ میں آگے اللہ نے حکم دیا ہے کہ دشمنوں کے ساتھ بھی انصاف کرو۔ اس لیے کہ تقویٰ اور خدا ترسی کا تقاضا یہ ہے کہ دوست دشمن سب کے ساتھ عدل و انصاف کیا جائے:

وَ لَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوْا ط  اِعْدِلُوْا قف ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی ز (المائدۃ۵: ۸) کسی گروہ کی دشمنی تمھیں اتنا مشتعل نہ کر دے کہ انصاف سے پھر جائو۔ عدل کرو، یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔

اسلامی تحریکیں غیر مسلموں سے انسانیت نواز اور ہمدردانہ تعامل کی ناگزیریت محسوس کرنے لگی ہیں۔ پچھلے دنوں عالمی سطح پر تشدد اور دہشت گردی کے جو ناخوش گوار اور ہول ناک واقعات پیش آئے ہیں اور پورے مغرب میں ’اسلامو فوبیا‘ کی جو لہر پھیلی ہے، اس نے خاص طور پر مسلم تحریکوں کو اپنی پالیسی و پروگرام پر نظر ثانی کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ ان کے علما، دانش ور، مصنف اور سماجی کارکن سب محسوس کرنے لگے ہیں کہ دشمن اور غیر دشمن میں تفریق کی جائے۔ جارحیت پسند حکومتوں ، افراد اور اداروں کی تمام تر سازشوں کے باوجود عام انسانوں سے معاشرتی روابط بڑھائے جائیں اور ان سے سماجی تعلقات میں بہتری لائی جائے۔

۷ جنوری ۲۰۱۵ء کو پیرس میں چارلی ہیبڈو میگزین کے دفاتر میں خود کش بندوق برداروں نے حملہ کر کے اس کے ۱۰ کارکنوں اور ۲ پولیس اہل کاروں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ۔اس کی وجہ اس مزاحیہ رسالے کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے توہین آمیز خاکوں کی اشاعت تھی۔ میگزین کی گستاخانہ اور اخلاق سے گری حرکت کے باوجود اس تشدد آمیز کارروائی کی مسلمانوں کے نمایندہ اداروں نے مذمت کی۔۴۲

پیرس کے مسلمانوں نے آئینِ فرانس سے اپنی وفاداری کا اعلان کیا۔ اتحاد اسلامی تنظیمات براے فرانس نے ایک بیان میں کہا :’’ ہم اپنے ملک فرانس کے تئیں وفادار ہیں۔ ہم اللہ سے محبت کرتے ہیں۔ ہم اپنے رسولؐ سے عشق کرتے ہیں، مگر ہم اپنے مسکن فرانس سے بھی محبت کرتے ہیں‘‘۔

اس ادراک کی ضرورت ہے۔ اسلامی تحریکیں ان فکری و علمی مسائل کو اپنی ترجیحات میں شامل کر لیں تو اُمت مسلمہ کا مستقبل درخشاں ہے۔ جہاں جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں، وہاں پر سماجی توازن برقرار رکھنے اور دعوت کے مواقع پیدا کرنے کے لیے اسلامی تحریکوں کو غیر اسلامی قوتوں سے اشتراکِ عمل کی ضرورت کا احساس ہے۔ خدمت خلق سے اس کی بڑھتی ہوئی دل چسپی ، ملکی تعمیر و ترقی کے پروگراموں میں وہاں کے اکثریتی اہل مذہب اور باشندوں سے تعاون و تعامل میں اضافہ ہوا ہے۔ ضرورت ہے کہ کارکنوں کے اندر اس کی ناگزیریت کے احساس میں اضافہ کیا جائے اور عبادت و خدمت کے لزوم کے تصور کو ان کے دلوں میں جاگزیں کیا جائے۔ دوسرے ملکوں میں کام کرنے والی اسلامی تحریکیں اس جانب پیش رفت کر رہی ہیں، کہیں حالات کے دبائو میں، تو کہیں منصوبہ بندی کے تحت۔ ضرورت ہے کہ اس انسانیت نواز تعامل کی مؤثر تفہیم و تشریح ہو اور شرعی استدلال کے ساتھ دلوں کو اس پر مطمئن کیا جائے۔ یہ مرحلہ مشکل تو ہے، مگر ناقابلِ عبور نہیں۔

حواشی و مراجع

۲۸- عبد الحلیم محمد ابو شقہ، تحریر المرأۃ فی عصر الرسالۃ، کویت، دار القلم، ۱۹۹ء، ۶؍ جلدیں۔ اردو ترجمہ، خواتین کی آزادی عہد رسالت میں۔ تلخیص احمد کبیسی، مترجم: شعبہ حسنین ندوی، ہیزنڈن، ورجینیا، ص ۱۴

۲۹- حوالہ سابق ، ص ۱۵                                      ۳۰۔ حوالۂ سابق، ص ۲۲۔۲۴

۳۱۔ محمدالغزالی، الدعوۃ الاسلامیہ تستقبل قرنھا الخامس عشر  [اُردو ترجمہ، عبید اللہ فہد فلاحی، دعوت اسلامی، پندرھویں صدی ہجری کے استقبال میں، دہلی، ۱۹۸۱ء۔ ص۸۰- ۸۳]

۳۲- مسلم، کتاب الصلوٰۃ، باب خروج النساء الی المساجد اذا لم   یرتب علیہ      فتنۃ، الرقم : ۴۴۲

۳۳- محمد الغزالی، حوالہ بالا، ص ۸۲     ۳۴- فضل الرحمٰن فریدی، اقامت  دین کا سفر،حوالہ بالا

۳۵-حوالۂ سابق                                       ۳۶- حوالۂ سابق

۳۷-حوالۂ سابق، ص۳۸،  ۸۲۔۸۳         ۳۸-حوالۂ سابق، ص ۸۴

۳۹- سید ابو الاعلیٰ مودودی، تفہیم القرآن، مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی، ۱۹۸۸ء، جلد پنجم، ص ۴۳۳، حاشیہ ۱۳

۴۰- عبید اللہ فہد فلاحی، چارلی ہیبڈو ( Charlie Hebdo) کے خاکے اور مسلمانوں کا رد عمل‘، مشمولہ در، فکر محمدؐ، ترتیب: عبید اللہ فہد اور ضیاء الدین فلاحی، سیرت کمیٹی، علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی، ۲۰۱۶ء، ص ۱۶۷-۱۹۷

http://mirajnews.com/international/europel. .41

french_muslim_right_dominate_le_lourget

گھر کی رونق مکینوں سے ہوتی ہے، اور گھر کا حسن رشتوں کی استواری اور مضبوطی میں ہوتا ہے۔ کرۂ زمین کی ساری رونق انسانوں سے ہے، اور روے زمین کا سارا حسن انسانی تعلقات کی سازگاری اورخوش گواری سے ہے۔ اس بے بہا رونق اور اس بے پناہ حسن کی حفاظت کے لیے فکرمند رہنا زمین کے مکینوں، یعنی سارے انسانوں کی ذمہ داری ہے۔ پوری زمین کو اپنا گھر سمجھتے ہوئے حفاظت کی اس ذمہ داری کو ادا کرنے کا جذبہ ہر انسان کے اندرون سے اُبھرنا چاہیے، خواہ اس کے بیرون سے اسے کوئی ترغیب ملے یا نہ ملے۔

قرآن مجید کی روشنی میں دیکھیں تو انکشاف ہوتا ہے کہ تعلقات کی خرابی دراصل زمین کی خرابی ہی کی ایک صورت ہے۔ تعلقات خراب ہوتے ہیں، تو نفرتیں اور دشمنیاں جنم لیتی ہیں، اور پھر خون خرابہ ہوتا ہے۔ جس خوب صورت زمین میں محبتوں کی ندیاں رواں رہنی چاہییں، وہاں نفرت کی آگ سب کچھ جلادیتی ہے اور خون کا دریا سب کچھ بہا لے جاتا ہے، رشتے بھی اورقدریں بھی ۔ جو لوگ زمین کو سنوارنے کا شوق اور جذبہ رکھتے ہیں، وہ تعلقات بنانے کے لیے فکرمند رہتے ہیں، اور جو طاقتیں زمین کو فساد اور خرابی سے دوچار کرنا چاہتی ہیں، وہ تعلقات بگاڑنے کے درپے رہتی ہیں: فَہَلْ عَسَیْتُمْ اِنْ تَوَلَّیْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ وَتُقَطِّعُوْٓا اَرْحَامَکُمْo (محمد۴۷: ۲۲) ’’پس اگر تم پھر گئے تو اس کے سوا تم سے کچھ متوقع نہیں کہ تم زمین میں فساد کرو اور آپس کی قرابتوں کو قطع کرو‘‘۔

زمین کو درپیش خطرات کی طویل فہرست ہے۔ ان کے سلسلے میں تشویش اور بے چینی کا اظہار بھی مختلف فورمز میں ہوتا رہتا ہے۔ تاہم، سمجھنا چاہیے کہ ان خطرات میں سرفہرست، اور ان میں سے بہت سے خطرات کی اصل وجہ انسانوں کے درمیان وسیع پیمانے پربڑھتی ہوئی خود غرضی ، خراب ہوتے تعلقات، اور کم ہوتی محبت ہے۔ انسانوں سے انسانوں کی محبت جس قدر عام ہوگی اسی قدر زمین کو درپیش خطرات کم ہوں گے۔

انسان دشمن طاقتیں انسانوں کو نقصان پہنچانے کے جو منصوبے بناتی ہیں، ان میں وہ رشتے توڑنا سرفہرست ہوتا ہے، جن کی استواری سے پورے معاشرے کی استواری ہوتی ہے، جیسے شوہر اور بیوی کا رشتہ۔ فَیَتَعَلَّمُوْنَ مِنْہُمَا مَا یُفَرِّقُوْنَ بِہِ  بَیْنَ الْمَرْء ِ وَزَوْجِہِ ط البقرہ۲: ۱۰۲) ’’پس یہ لوگ ان سے وہ بات سیکھتے جس سے میاں اور اس کی بیوی میں جدائی ڈال سکیں‘‘۔ یہ بنی اسرائیل کا تذکرہ ہے، کہ جب وہ کج روی کے شکار ہوئے تو ان کی سوچ اور پسند بھی نہایت گندی اور حد درجہ تخریبی ہوگئی۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ وہ یہ بھی سیکھ لینا چاہتے تھے کہ شوہر اور بیوی میں جدائی ڈال کر کس طرح آباد گھروں کو برباد کریں۔ یہ ماضی کی بات ہے، اب تو انسانیت کے بدخواہ ایسے سماج کا تصور پیش کررہے ہیں، جہاں شوہر اور بیوی کے رشتے کا سرے سے وجود ہی نہ ہو۔ یہ انسانی سماج کے ساتھ کھلی دشمنی ہے۔ انسانوں کے خالق نے تو انسانوں کی فطرت میں ایسا انتظام رکھا ہے کہ شوہر اور بیوی کے ذریعے صرف اولاد ہی نہ ہو، بلکہ اس رشتے کے بعد ہونے والی اولاد سے مزید نئے رشتوں کی تعمیر وتشکیل ہو، اور زمین کا حسن بڑھتا ہی جائے: وَھُوَ الَّذِیْ خَلَقَ مِنَ الْمَآئِ بَشَرًا فَجَعَلَہٗ نَسَبًا وَّصِہْرًا ط وَکَانَ رَبُّکَ قَدِیْرًا o الفرقان ۲۵: ۵۴) ’’اور وہی ہے جس نے انسان کو پانی سے پیدا کیا اور پھر اس کو نسبی اور سسرالی (دادھیالی اور نانھیالی)رشتوں کا ذریعہ بنایا‘‘۔

شیطان انسانوں کا دشمن ہے۔ اس کو نہ یہ پسند ہے کہ یہ زمین انسانوں کے رہنے بسنے کے لیے سازگار رہے، اور نہ یہ گوارا ہے کہ اس زمین پر رہنے بسنے والے انسانوں کے آپس کے رشتے اور تعلقات خوش گوار رہیں۔ اس کی کوشش بس یہ ہوتی ہے کہ زمین میں تباہی پھیل جائے، اور رشتوں کی خرابی عام ہوجائے۔ اسے نہ زمین کا کارِ خلافت کے لیے موزوں ہونا منظور ہے، اور نہ  انسانوں کا منصب خلافت ہی کے قابل ہونا۔اس دشمنِ ازلی کی ساری تگ ودو یہ ہوتی ہے کہ انسانوں کو ہر طرح کی برائیوں میں ملوث کیا جائے۔ اس سے اس کا ایک مقصد تو یہ ہوتا ہے کہ انسان اللہ سے دور ہوجائے، اور دوسرا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ان برے کاموں میں پڑ کر انسانوں میں دشمنی اور بغض ونفرت عام ہوجائے: اِنَّمَا یُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّوْقِعَ بَیْنَکُمُ الْعَدَاوَۃَ وَالْبَغْضَآئَ فِی الْخَمْرِ وَ الْمَیْسِرِ وَ یَصُدَّکُمْ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ وَ عَنِ الصَّلٰوۃِ ج  (المائدہ ۵:۹۱) ’’شیطان تو بس یہ چاہتا ہے کہ تمھیں شراب اور جوئے میں لگاکر تمھارے درمیان دشمنی اور کینہ ڈالے اور تمھیں اللہ کی یاد سے اور نماز سے روکے‘‘۔

قرآن مجید سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انسان جب بھی اللہ کی ہدایت سے دور ہوگا وہ منصب خلافت کے تقاضے بھول جائے گا، اور بلندیوں کو سر کرنے کے بجاے پستیوں میں جا گرے گا۔ وہ اتنا گرجائے گا کہ جس زمین پر وہ رہتا ہے اسی زمین میں بگاڑ پھیلائے گا، اور آپس میں خون خرابہ کرے گا ۔ فرشتوں نے اللہ کے حضور یہی اندیشہ ظاہر کیا تھا: اَتَجْعَلُ فِیْھَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْھَا وَیَسْفِکُ الدِّمَآئَ  (البقرۃ ۲:۳۰) ’’ اے رب کیا تو اس زمین میں اس کو خلیفہ مقرر کرے گا جو اس میں فساد مچائے اور خون ریزی کرے گا؟‘‘

 زمین میں فساد پھیلانے اور ایک دوسرے کا خون بہانے میں اتنا گہرا تعلق ہے کہ گویا دونوں ایک ہی طرح کے کام ہیں۔ مفسدوں کی سب سے بڑی علامت یہ ہے کہ ان کی نگاہ میں   نہ انسانی تعلقات کی کوئی قدر وقیمت ہوتی ہے، اور نہ انسانی جان کا کوئی احترام ہوتا ہے۔

قرآن مجید کی تعلیمات میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ وہ سارے انسان جو قرآن مجید پر ایمان رکھتے ہوں اور اس کی تعلیمات سے فائدہ اٹھانے کے لیے تیار اور آمادہ ہوں، دشمنی اور نفرت سے محفوظ رہیں، اور الفت ومحبت کے ساتھ زندگی گزاریں۔ جب قرآن مجید اہل ایمان کو باہمی اُلفت ومحبت کا درس دیتا ہے، تو اصل مقصود یہ ہوتا ہے کہ سارے انسان اہل ایمان بن جائیں، اور سارے ہی انسان نفرت وعداوت کی آگ میں جلنے اور جھلسنے کے بجاے، اُلفت ومحبت کی ٹھنڈی چھاؤں میں سکون اور راحت کی زندگی گزاریں۔

قرآن مجید میں تعلقات کی خوش گواری کے موضوع کو خاص اہمیت دی گئی ہے۔ عام انسانوں سے اہل ایمان کے تعلقات نفرت، ناانصافی اور زیادتی پر مبنی نہ ہوں، اور اہل ایمان کے آپس کے تعلقات محبت واخوت پر استوار ہوں۔ یہ تعلقات کے سلسلے میں قرآنی تعلیمات کا خلاصہ ہے۔ قرآن مجید کی تربیت سے فیض یاب ہونے والا انسان اہل ایمان سے بے پناہ محبت کرتا ہے، اور نفرت کسی سے نہیں کرتا۔ اسے ہر انسان سے ہم دردی ہوتی ہے، خواہ وہ اس سے کتنی ہی دشمنی رکھتا ہو۔

قرآن مجید میں اہل ایمان کو اس کی ترغیب کہیں نہیں دی گئی ہے کہ وہ اپنے دل میں دوسروں سے دشمنی اور نفرت رکھیں، البتہ یہ حقیقت بار بار یاد دلائی گئی ہے کہ کفر کے سرغنہ اہلِ ایمان سے دشمنی رکھتے ہیں۔ ان کی دشمنی سے اہل ایمان کو ہوشیار اور چوکنا رہنا چاہیے۔ قرآن مجید میں دشمنی کے مقابلے میں دشمنی رکھنے یا اس دشمنی کو بڑھانے کی تعلیم بالکل نہیں ملتی ہے۔ صرف ان کی دشمنی کے اثرات سے خود کو محفوظ رکھنے، اور ان کے سلسلے میں حد درجہ محتاط رہنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی امید دلائی گئی ہے کہ ان کے کفر کی وجہ سے جو دشمنی پیدا ہوگئی ہے وہ ختم بھی ہوسکتی ہے، اور اس کی جگہ دوستی آسکتی ہے، کیونکہ اللہ رحیم ہے، اور اس کی طرف سے تمام بندوں کی ہدایت کے لیے بھرپور انتظامات کیے گئے ہیں۔قرآن مجید کی تربیت کا اثر یہ ہوتا ہے کہ کوئی شخص اہل حق کی دشمنی میں کتنی ہی دور جاچکا ہو، اگر راہ حق کی طرف لوٹ آئے تو اہل حق کی طرف سے اس کا پُرتپاک خیر مقدم کیا جاتا ہے، اور وہ اہل حق کا دوست بن جاتا ہے: عَسَی اللّٰہُ اَنْ یَّجْعَلَ بَیْنَکُمْ وَبَیْنَ الَّذِیْنَ عَادَیْتُمْ مِّنْھُمْ مَّوَدَّۃً ط وَاللّٰہُ قَدِیْرٌط وَّاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌo (الممتحنۃ: ۶۰:۷)’’عین ممکن ہے کہ اللہ تمھارے اور ان لوگوں کے درمیان جن سے تم نے دشمنی کی، دوستی پیدا کردے۔ اور اللہ قدرت والا اور بخشنے والا، مہربان ہے‘‘۔

قرآن مجید کی رُو سے کسی امت کے اندر محبت اور اخوت کا فروغ اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے، جو امت اللہ کی اس نعمت سے خود کو محروم کرلیتی ہے، وہ تباہی کی طرف بڑھتی ہے۔ اخوت و محبت کی یہ نعمت امت مسلمہ کو زیادہ اہتمام اور خصوصیت کے ساتھ عطا کی گئی ہے۔ اس نعمت کی قدر کرنا امت مسلمہ کے لیے لازم ہے، اور اگر کبھی یہ محسوس ہو کہ امت اس نعمت سے محروم ہورہی ہے، تو امت کے ہر فرد کو بہت زیادہ تشویش میں مبتلا ہوجانا چاہیے، کیوںکہ امت کے اندر نفرت وعداوت کا پایا جانا کینسر جیسے خطرناک اور مہلک مرض کی علامت ہے۔ اس بیماری کے اسباب سے جتنی جلدی ہوسکے واقف ہونا اور اس کے علاج کی فکر کرنا فوری طور پر نہایت ضروری ہوجاتا ہے: وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْا ص وَ اذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْ کُنْتُمْ اَعْدَآئً فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِکُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖٓ اِخْوَانًا ج وَ کُنْتُمْ عَلٰی شَفَا حُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَکُمْ مِّنْھَا ط (اٰل عمرٰن ۳:۱۰۳)’’اور اللہ کی رسی کو سب مل کر مضبوطی سے پکڑو اور پراگندا نہ ہو۔ اور اپنے اُوپر اللہ کے اس فضل کو یاد کرو کہ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اللہ نے تمھارے دلوں کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ دیا اور تم اس کے فضل سے بھائی بھائی بن گئے۔ اور تم آگ کے گڑھے کے بالکل کنارے پر کھڑے تھے تو اللہ نے تمھیں اس سے بچالیا‘‘۔

محبت واخوت کی اس نعمت سے ماضی میں بہت سی قوموں کو نوازا گیا مگرانھوں نے اس کی قدر نہیں کی اوروہ اس سے محروم ہوگئیں۔ ان کی محرومی کے اسباب کا تذکرہ قرآن مجید میں موجود ہے۔ یہود ونصاریٰ کی تاریخ کا اس پہلو سے بھی خصوصی مطالعہ ہونا چاہیے کہ ان کے اندر بغض وکینہ اور نفرت وعداوت جیسی بیماریوں نے کیسے جڑ جمائی۔قرآن مجید میں یہودیوں کی آپسی دشمنی کو ان کی بد اعمالیوں کا نتیجہ اور عذاب الٰہی بتایا گیا ہے: وَ لَیَزِیْدَنَّ  کَثِیْرًا مِّنْھُمْ مَّآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ طُغْیَانًا وَّ کُفْرًا ط وَ اَلْقَیْنَا بَیْنَھُمُ الْعَدَاوَۃَ وَ الْبَغْضَآئَ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ ط کُلَّمَآ اَوْ قَدُوْا نَارًا لِّلْحَرْبِ اَطْفَاَھَا اللّٰہُ لا وَ یَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًا ط وَ اللّٰہُ لَا یُحِبُّ الْمُفْسِدِیْنَ (المائدہ ۵:۶۴) ’’ان میں سے بہتوں کی سرکشی اور ان کے کفر کو وہ چیز بڑھادے گی جو تیرے رب کی طرف سے تیری طرف اتاری گئی ہے۔ اور ہم نے ان کے اندر دشمنی اور کینہ قیامت تک کے لیے ڈال دیا ہے۔جب جب لڑائی کی آگ انھوں نے بھڑکائی اللہ نے اسے بجھادیا۔ یہ زمین میں فساد برپا کرنے میں سرگرم ہیں اور اللہ فساد برپا کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ‘‘۔ نہ صرف یہودی بلکہ عیسائیوں کی تاریخ بھی ایسی ہی ہے: وَ مِنَ الَّذِیْنَ قَالُوْٓا اِنَّا نَصٰرٰٓی اَخَذْنَا مِیْثَاقَھُمْ فَنَسُوْا حَظًّا مِّمَّا ذُکِّرُوْا بِہٖ ص فَاَغْرَیْنَا بَیْنَھُمُ الْعَدَاوَۃَ وَالْبَغْضَآئَ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ ط وَسَوْفَ یُنَبِّئُھُمُ اللّٰہُ بِمَا کَانُوْا یَصْنَعُوْنَo (المائدہ ۵:۱۴) ’’اور جو لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم نصاریٰ ہیں ، ہم نے ان سے بھی عہد لیا، تو جس چیز کے ذریعے سے ان کو یاددہانی کی گئی وہ اس کا ایک حصہ بھلا بیٹھے، پس ہم نے قیامت تک کے لیے ان کے درمیان عداوت اور بغض کی آگ بھڑکادی۔ اور جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں عن قریب اللہ اس سے ان کو آگاہ کرے گا‘‘۔ اوّل الذکر آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جو قوم دشمنی اور عداوت کی بیماری میں گرفتار ہوتی ہے، وہ زمین میں فساد اور بگاڑ پھیلانے میں بھی بہت سرگرم رہتی ہے، کیونکہ دشمنی اور بُغض ونفرت سے فساد فی الارض کے راستے کھل جاتے ہیں۔

 ہر طرح کی برائیوں سے بچنے اور دور رہنے کی تاکید کی گئی ہے، خواہ وہ انفرادی برائیاں ہوں یا سماجی برائیاں۔ سماجی برائیوں کی بہت سی قسمیں ہوسکتی ہیں۔ ان میں ایک قسم وہ ہے جس سے تعلقات میں رخنے پڑ جاتے ہیں اور نہ صرف گھر، خاندان بلکہ پورا سماج ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتا ہے۔ سورۂ حجرات میں اس قسم کی برائیوں کا خاص طور سے ذکر کیا گیا ہے،اور ان برائیوں کا اصل علاج یہ بتایا گیا ہے کہ جذبۂ اخوت کو مضبوط اور طاقت ور کیا جائے۔ جذبۂ اخوت کمزور ہوتا ہے تبھی یہ برائیاں جنم لیتی ہیں، اور یہ برائیاں جیسے جیسے پھیلتی ہیں، جذبۂ اخوت رخصت ہوتا جاتا ہے۔ جذبۂ اخوت کی حفاظت کے لیے دل میں تقویٰ، یعنی اللہ کا خیال رہنا بہت ضروری ہے۔ تقویٰ سے آدمی نہ صرف اللہ سے قریب ہوتا ہے، بلکہ اللہ کی خاطر اللہ کے بندوں سے بھی بہت قریب ہوجاتا ہے۔ سورۂ حجرات میں جہاں تعلقات کی حفاظت کی تاکید کی گئی، وہاں دومرتبہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے کی تلقین کی گئی: اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْکُمْ وَاتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ o یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا  لَا یَسْخَرْ قَومٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰٓی اَنْ یَّکُوْنُوْا خَیْرًا مِّنْھُمْ وَلَا نِسَآئٌ  مِّنْ نِّسَآئٍ عَسٰٓی اَنْ یَّکُنَّ خَیْرًا مِّنْہُنَّ ج  وَلَا تَلْمِزُوْٓا اَنفُسَکُمْ وَلَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ ط بِئْسَ الاِسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِیْمَانِ ج وَمَنْ لَّمْ یَتُبْ فَاُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ o یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اجْتَنِبُوْا کَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَّلاَ تَجَسَّسُوْا وَلَا یَغْتَبْ بَّعْضُکُمْ بَعْضًا ط اَیُحِبُّ اَحَدُکُمْ اَنْ یَّاْکُلَ لَحْمَ اَخِیْہِ مَیْتًا فَکَرِہْتُمُوْہُ ط وَاتَّقُوا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ تَوَّابٌ رَّحِیْمٌ o (الحجرات۴۹: ۱۰-۱۲) ’’مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں، تو اپنے بھائیوں کے مابین مصالحت کراؤ اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو کہ تم پر رحم کیا جائے۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، نہ مردوں کی کوئی جماعت دوسرے مردوں کا مذاق اڑائے، ممکن ہے وہ ان سے بہتر ہوں۔ اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں ، کیا عجب وہ ان سے بہتر ہوں۔اور نہ اپنے لوگوں پر طنز کرو اور نہ آپس میں ایک دوسرے پر برے القاب چسپاں کرو اور ایمان کے بعد فسق کا تو نام بھی برا ہے، اور جو لوگ توبہ نہ کریں تو وہی لوگ ظلم کرنے والے ہیں۔ اے ایمان لانے والو، بہت سے گمانوں سے بچو، کیونکہ بعض گمان صریح گناہ ہوتے ہیں۔ اور ٹوہ میں نہ لگو۔ اور نہ تم میں سے کوئی کسی کی غیبت کرے۔ کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرے گا کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے؟سو اس چیز کو توتم نے ناپسند کیا۔ اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو۔ بے شک اللہ بڑا ہی توبہ قبول فرمانے والا، مہربان ہے‘‘۔

سورۂ حجرات کی مذکورہ آیتوں میں اللہ تعالی نے ایک اصول بیان کیا کہ ’’مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں‘‘ اور ساتھ ہی ایک اصولی ہدایت دی کہ ’’اس اخوت کی حفاظت تمام اہل ایمان سے مطلوب ہے‘‘۔ اور اس ہدایت پر احسن طریقے سے عمل درآمد کو آسان اور یقینی بنانے کے لیے رہنمائی فرمائی ’’کہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرو‘‘۔ ان اصولی اور بنیادی تعلیمات کے بعد پھر کچھ ایسی حرکتوں اور عادتوں کا ذکر کیا جو اخوت کے رشتوں کو خراب کردیتی ہیں، اور ان سے بچنے کی تاکید کی۔ یہاں یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ جن باتوں سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے بس ان ہی سے بچنا مطلوب ہے، بلکہ جاننا چاہیے کہ تعلقات کو خراب کردینے والے رویوں کی یہ کچھ نمایاں مثالیں ہیں۔ایسی اور بھی  بہت سی چیزیں ہوسکتی ہیں، جن سے تعلقات میں دراڑ پڑجائے، اور رشتوں کا شیرازہ بکھر جائے۔ اب یہ ہر مومن کے غوروفکر کا موضوع ہونا چاہیے کہ وہ کیا امور ہیں، جو رشتۂ اخوت کی حفاظت میں معاون ومددگار ہوسکتے ہیں، اور وہ کیا باتیں ہیں جو رشتوں کے لیے خطرناک اور تباہ کن ہوسکتی ہیں۔ یہ حقیقت ذہن میں رہنی چاہیے کہ قرآن مجید جب کچھ باتوں کا حکم دیتا ہے، اور کچھ باتوں سے روکتا ہے، تو دراصل وہ سوچنے کا ایک رخ متعین کرتا ہے۔ اس طرح وہ اس رخ پر بہت دور تک سوچنے کی ترغیب بھی دیتا ہے، اور سوچنے کی راہیں بھی ہموار کرتا ہے۔

قرآن مجید کا اندازِ تربیت یہ ہے کہ وہ حکمت کا ایک اصول دیتا ہے، اور اس اصول کی کچھ مثالیں بیان کرتا ہے، اور اس کے بعد قاری کے اوپر ذمہ داری عائد کرتا ہے کہ ان مثالوں پر غور کرکے اس اصو ل کے اندر مزید جتنی صورتوں تک رسائی ہوسکے انھیں اخذ کرتا رہے۔ اس طرح قاری کو متعین طور پر کچھ حکمتیں تو بغیر محنت وجستجو کے مل جاتی ہیں، اور پھر مزید حکمتیں تلاش کرنے کی رغبت اور تربیت حاصل ہوتی ہے۔ جو اس جستجو میں جس قدر آگے بڑھتا ہے، اسی قدر اس پر آگاہی کے دروازے کھلتے ہیں، اور وہ قرآن مجید کی منشا سے قریب ہوتا ہے۔

دراصل ایک بندۂ مومن کو یہ معلوم ہوجانا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کو اہل ایمان کے باہمی تعلقات کی بہتری مطلوب ہے، اور خرابی ناپسند ہے۔ اللہ تعالیٰ کی اس منشا کو جان لینے کے بعد یہ شاہراہ پوری طرح روشن ہوجاتی ہے، اور بندۂ مومن اللہ کی منشاکی روشنی میں سامنے آنے والے ہررویے کے خوب وناخوب ہونے کا فیصلہ آسانی سے کرسکتا ہے۔

غور کرنے کی بات ہے کہ سورۂ حجرات میں تعلقات کی حفاظت کے ذیل میں جن باتوں سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے، ان میں سے کوئی بات بھی انسانوں کے لیے نئی اور انوکھی نہیں ہے۔    یہ ایسی باتیں بھی نہیں ہیں جن سے کوئی اختلاف کرے۔ یہ وہ باتیں ہیں کہ ان کا تذکرہ نہیں ہوتا تب بھی انسانوں کو وہی کرنا چاہیے تھا جس کی اس قدر تاکید اور اہتمام کے ساتھ تعلیم دی گئی ہے۔ تاہم اہتمام کے ساتھ تذکرہ کردینے سے اللہ کی منشا اچھی طرح واضح ہوگئی، اور وہ یہ کہ تعلقات کی حفاظت کو انسانی زندگی میں بہت زیادہ اہمیت حاصل ہونی چاہیے، اور اس سلسلے میں کسی قسم کی کوتاہی کو معمولی نہیں سمجھنا چاہیے۔

سورۂ حجرات میں مذکور تعلیمات کا تقاضا ہے کہ اہل ایمان اپنے باہمی تعلقات کی حفاظت کے سلسلے میں تمام انسانوں سے زیادہ سنجیدہ اور حساس ہوجائیں۔ باہمی تعلقات کی حفاظت لوگوں کے غوروفکر کا خاص موضوع بنے۔ اس موضوع پر بھرپور علمی وفکری سرمایہ تیار کیا جائے، اور اس سلسلے میں کسی بھی پہلو کو علم وعمل کی سطح پر تشنہ نہیں رہنے دیا جائے۔

قرآن مجید میں خاص طور سے سورۂ مجادلہ میں نجویٰ (سرگوشی) کے سلسلے میں بہت زیادہ محتاط رہنے کی ہدایت کی گئی ہے: اِنَّمَا النَّجْوٰی مِنَ الشَّیْطٰنِ لِیَحْزُنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا (المجادلہ ۵۸: ۱۰) ’’یہ سرگوشیاں شیطان کی طرف سے ہیں تاکہ وہ ایمان والوں کو رنج پہنچائے‘‘۔ واقعہ یہ ہے کہ نجویٰ کے ماحول میں دشمنی کے ماحول کو پنپنے کا بہت زیادہ موقع ملتا ہے۔ شرپسند عناصر نجویٰ کو نفرت وعداوت پھیلانے کے لیے استعمال کرتے ہیں، اور بہت سے بھولے بھالے لوگ ان کے جھانسے میں آجاتے ہیں، کیوںکہ بے باکی اور شفافیت کے ماحول میں تو سازشیں آسانی سے   بے نقاب ہوجاتی ہیں، لیکن اگر نفرت وعداوت کا گندا کھیل نجویٰ کے پردے میں کھیلا جارہا ہو، تو بہت سے لوگ غلط باتوں پر یقین کرلیتے ہیں۔وہ اپنی غلط فہمیوں اور بدگمانیوں کا ازالہ نہیں کرپاتے ہیں اور بلاتحقیق دشمنی کے راستے پر چل پڑتے ہیں۔ انسانی معاشرے میں نجویٰ کے بجاے شفافیت اور صاف گوئی کو زیادہ سے زیادہ فروغ ملنا چاہیے۔

غیبت تو ایک ہلاکت خیز زہر ہے۔ وہ جس معاشرے میں سرایت کرجاتا ہے، اس معاشرے میں ساری اعلیٰ قدریں مرجھانے لگتی ہیں۔ غیبت دراصل سماج میں نفرت کی کانٹے دار جھاڑیاں ہر طرف بونے کی ایک مکروہ شکل ہے۔ ایک شخص پہلے اپنے دل میں نفرت کا پودہ اُگاتا ہے، اورپھر غیبت کے راستے سے اس کی قلمیں تیار کرکے سب کے دلوں میں اسے اُگانے کی کوشش کرتا ہے۔ غیبت کے سلسلے میں قرآن مجید کا انداز بیان بہت سخت ہے، اور غور کیا جائے تو واقعی غیبت ایسی برائی ہے کہ اس سے جتنی نفرت کی جائے کم ہے، کیوںکہ سماج میں نفرت اگر سب سے زیادہ پھیلتی ہے تو غیبت کے ذریعے ہی سے پھیلتی ہے۔ ان لوگوں کی عقل اور ذوق پر ماتم کرنا چاہیے جو غیبت سے نفرت کرنے کے بجاے غیبت کے جال میں پھنس کر انسانوں سے نفرت کرنے لگتے ہیں۔

قرآن مجید میں یہ بھی بتایا گیا کہ شیطان شراب اور جوئے کے ذریعے سے انسانوں کے درمیان دشمنی اور کینہ ڈالنا چاہتا ہے۔ قرآن مجید کی یہ رہنمائی بہت قیمتی اور اہم ہے۔ شراب اور جوئے میں وہ کیا چیزیں ہیں جو انسانوں کو انسانوں کا دشمن بنادیتی ہیں، اس کا گہرا تجزیہ ہو، اور پھر تلاش کیا جائے کہ وہ اور کون کون سے امور ہیں، جن کے اندر تعلقات کے سلسلے میں شراب اور جوئے جیسی تاثیرِ بد پائی جاتی ہے۔غرض شراب اور جوئے ہی سے نہیں، ایسی ہر چیز سے پرہیز لازم ہے جس کے اندر دشمنی اور نفرت کے جراثیم پائے جاتے ہوں۔

سماج میں مثالی تعلقات کے فروغ کے لیے ضروری ہے کہ جذبۂ اخوت کی دل پر حکمرانی ہو۔ اس جذبے کو انانیت اور نفسانیت کے مقابلے میںہمیشہ ترجیح دی جائے۔ آدمی ایسے رویوں سے دور رہنے کی کوشش کرے جو اخوت کے شیرازے کو کمزور کرتے ہیں۔ فرد اور اجتماعیت کی سطح پر   جذبۂ اخوت کو بہترین اور قوت بخش غذائیں پہنچانے کی تدبیریں اختیار کی جائیں۔ اورکبھی نہیں بھولنے کی بات یہ ہے کہ قرآن مجید میں ان غذاؤں کا بھرپور انتظام موجود ہے۔

Pondering Over the Quran [تدبّر قرآن ] : امین احسن اصلاحی ، مترجم : محمدسلیم کیانی ۔ ناشر : الکتاب پبلی کیشنز، ۶۸ ۔ٹالپوٹ کریسنٹ ہینڈن ، لندنNW4 4HP۔  صفحات : ۸۳۔قیمت: درج نہیں۔

تدبر قرآن ، قرآن حکیم کی اُردو تفاسیر میں ایک ممتاز مقام رکھتی ہے۔ یہ مولانا امین احسن اصلاحی کا حاصل حیات ہے۔ اس کی پہلی جلد ۱۹۶۷ء میں شائع ہوئی ۔ مکمل تفسیر ۸ جلدوں میں ہے۔ اس تفسیر کی سب سے بڑی خوبی نظمِ قرآن کی وضاحت ہے۔ زیر نظر کتاب، تدبر قرآن  کے دیباچے،   بسم اللہ اور سورئہ فاتحہ کے انگریزی ترجمے پر مشتمل ہے۔ آخر میں مترجم محمد سلیم کیانی (م: نومبر ۲۰۱۶ء) نے مولانا حمیدالدین فراہی اور مولانا امین احسن اصلاحی کا تعارف اور ان کی تصانیف کی فہرست دی ہے۔ اسی طرح مترجم نے کتاب کے تعارف میں نظم قرآن کے سلسلے میں مولانا فراہی اور مولانا اصلاحی سے ماقبل مفسرین کی کوششوں کا ذکر بھی کیا ہے۔

ترجمہ بہت عمدہ اور عام فہم ہے ۔انگریزی قارئین کے لیے فہم قرآن کے سلسلے میں یہ تمہیدی حصہ اپنے اندر افادیت رکھتا ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)


معیارِ حق کون ہے؟ ترتیب: مولانا حکیم عبدالرحیم اشرف [ترتیبِ نو: ڈاکٹر عبدالحی ابڑو، شکیل عثمانی، خلیل الرحمٰن چشتی]۔ناشر: الاحسان، ۴؍۱۱-E، اسلام آباد۔ فون: ۵۵۶۰۹۰۰-۰۳۰۰۔ صفحات:۲۶۵۔ قیمت(مجلد): ۳۶۰  روپے۔

حق کی راہ پر چلنے والوں کو، خود حق پر چلنے کی پہچان رکھنے والے بھی کس کس طرح ناحق تنگ کرتے ہیں؟ اس ’کارِخیر‘ کی ایک جھلک اس کتاب میں دیکھی جاسکتی ہے۔

ویسے تو جماعت اسلامی کو تشکیل کے روز (۲۶؍اگست ۱۹۴۱ء) ہی سے تنقید ی نگاہ سے پرکھا جانے لگا تھا، اور اس کام میں دین دار اور بے دین، دونوں طرح کے حلقوں سے ، بعض حضرات اپنے اپنے ظرف کے مطابق کھینچ تان کر رہے تھے۔ تاہم، ۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء میں قیامِ پاکستان کے بعد، ۱۹۵۴ء میں بھارت سے اچانک غلغلہ بلند ہوا کہ: ’’جماعت اسلامی کے دستور میں   بیان کردہ عقیدے سے متعلق عبارت کی روشنی میں یہ جماعت اہلِ سنت سے خارج اور گمراہ ہے‘‘۔ اس ناگہانی افتاد یا ’کرم فرمائوں‘ کی مشقِ ناز کا جائزہ لینے کے لیے مولانا حکیم عبدالرحیم اشرف صاحب نے پہل قدمی کی۔ انھوں نے ایک خاص مکتب ِ فکر کے مذکورہ فتوئوں اور سوقیانہ مہم کا جائزہ لینے کے لیے عرب و عجم اور ہند و پاکستان سے تحریری سطح پر رابطہ قائم کیا، پھر اسلامی تاریخ اور مآخذ تک رسائی حاصل کی۔ اس کاوش سے جو نتیجہ نکلا اسے اس کتاب میں ڈھال دیا۔

نصف صدی سے زیادہ عرصہ گزرا کہ یہ کتاب ناپید تھی۔ ڈاکٹر عبدالحی ابڑو، شکیل عثمانی اور خلیل الرحمٰن چشتی نے اس کتاب کی ترتیبِ نو کے دوران متعدد قیمتی اضافے کرتے ہوئے سوانحی و توضیحی نوٹس سے معنویت کو دوچند کر دیا۔

پرانی بحثوں کو تازہ کرنا اس کتاب کی اشاعت ِ نو کا مقصد نہیں ہے بلکہ سفر کی ایک کٹھن  گھاٹی کو عبور کرنے کا منظر بیان کرنا مطلوب ہے۔ پھر دستور میں بیان کردہ عقیدے کے تقاضوں کو خاص طور پر دینی تحریکوں میں تازہ کرنے کا پیغام دینا بھی پیش نظر ہے۔ یہ قیمتی دستاویز علم ، تاریخ اور عمل کو ایک جہت عطا کرتی ہے۔ (سلیم منصور خالد)


مخزنِ حکمت و دانش، ملک احمد سرور۔ناشر: طٰہٰ پبلی کیشنز، ۱۹- ملک جلال الدین (وقف) بلڈنگ، چوک اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۴۴۷۰۵۰۹-۰۳۳۳۔ صفحات: ۵۹۲۔ قیمت: ۶۰۰ روپے۔

مصنّف کا شکوہ بجا ہے کہ ایک زمانے میں قرآن و حدیث کے بعد رومی و سعدی کی حکایات کو حکمت و دانش کا خزانہ سمجھ کر انھیں پڑھا اور سنا جاتا تھا، مگر پروپیگنڈے اور ’ترقی‘ کے  اس دور میں جو شخص زیادہ چیختا ہے اور دھڑلّے سے جھوٹ بولتا ہے، وہی حکیم اور دانش ور ہے۔ ہمارے خیال میں اس ’حکمت و دانش‘ کے نمونے آج کل کے اخباری کالموں میں بھی مل جاتے ہیں۔

زیرنظر کتاب مصنف کا ’حاصلِ مطالعہ‘ ہے جو ماہ نامہ بیدار میں ’حکمت و دانش‘ کے عنوان سے شائع ہوتا رہا، اِسے اضافوں کے ساتھ عنوان وار مرتب کیا گیا ہے۔ قرآن و حدیث اور صدیوں کے انسانی تجربات کی روشنی میں زندگی کے نشیب و فراز سے عہدہ برآ ہونے کی تدابیر، بعض ابواب کے موضوعات ان کے عنوانات سے واضح ہیں (افضل و احسن اعمال، علم، جہاد، انفاق، دُعا، قرآنِ حکیم، ذہانت و حاضرجوابی، عدل و انصاف کے چند قابلِ رشک مناظر، ادبی شگوفے وغیرہ)،جب کہ بعض عنوانات عمومی نوعیت کے ہیں (اقوالِ حکمت و دانش، متفرق شہ پارے، بکھرے موتی وغیرہ)۔  ان کے تحت فہرست کی ضمنی سرخیوں سے حکایات وا قوال کے تنوع کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ غوروفکر اور تفکّر و تدبر کے ساتھ، کتاب میں رونے اور ہنسنے اور حصولِ عبرت کا لوازمہ بھی یکجا ہے۔ ایک مختصر نمونہ:’’ایک دفعہ ایک شخص نے سرسیّد کو خط لکھا کہ اگر نماز میں بجاے عربی عبارتوں کے، ان کا اُردوترجمہ پڑھ لیا جائے تو کوئی حرج اور نقصان تو نہیں؟ سرسیّد نے جواب دیا: ہرگز کوئی ہرج اور نقصان نہیں، صرف اتنی سی بات ہے کہ نماز نہیں ہوگی‘‘ (ص ۱۸۷)۔ ایک اور: شاہِ ہندستان سلطان ناصرالدین محمود بغیر وضو کبھی اسمِ مبارک ’محمدؐ، زبان پر نہ لاتا تھا۔ (ص ۴۰۸)

کتاب مجلّد اور طباعت و پیش کش اطمینان بخش ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)


تعارف کتب

oمغربی زبانوں کے ماہر علما ( علی گڑھ کالج کے قیام سے پہلے )، پروفیسر سید محمد سلیم ۔ ناشر : مجلس ترقی ادب ۲- کلب روڈ لاہور ۔ صفحات : ۵۲۔ قیمت : ۲۰۰روپے۔ [اس نہایت معلومات افزا کتاب کی طبع دوم کا اہتمام ڈاکٹر تحسین فراقی نے ایک مختصر دیباچے کے ساتھ کیا ہے۔ جس میں بتایا گیا ہے کہ انگریزوں کی آمد سے پہلے برعظیم پاک و ہند کے مدرسوں میں ایسے اصحاب علم ودانش کی کثیر تعداد موجود تھی جو مغربی زبانیں جانتے تھے۔ کتاب میں ان فاضلین کے تعارف کے ساتھ ، ان کی ترجمہ شدہ کتابوں کی تفصیل بھی دی گئی ہے۔ گویا یہ کتاب آبا کے قابل فخر کارناموں سے آگاہ کرتی ہے۔ ]

oگردشِ ایام ، محمد فاروق چوہان۔ ناشر : قلم فائونڈیشن انٹر نیشنل، یثرب کالونی ، بنک سٹاپ ، والٹن روڈ، لاہور کینٹ۔ صفحات : ۵۹۲۔ قیمت: ۱۵۰۰روپے۔[یہ کتا ب مصنف کے ان کالموں پر مشتمل ہے ، جو مختلف قومی، ملّی ، سیاسی موضوعات پر روزنامہ جنگ  میں شائع ہوتے رہے۔ ہر موضوع کو فوری طور پر زیر بحث لاکر نقطۂ نظر پیش کیا گیا۔ اس طرح یہ کتاب ایک طرح سے مختلف مسائل کی تاریخ بھی بیان کرتی ہے۔ ]

عمران احمد خان ،گڑھی کپورہ (مردان)

مئی کے ترجمان میں پروفیسر خورشیداحمد صاحب کے فکرانگیز’اشارات‘ اور ایک آزاد خیال طبقے کی جانب سے اسلامی تحریکات پر سنگ زنی کے جواب میں ’بیانیہ سازی کا کھیل‘ نہایت قیمتی مضامین ہیں۔ ان میں برتے ہوئے الفاظ موتیوں کی طرح چمک رہے ہیں، لیکن جب میں پاکستان کے لاکھوں لوگوں کو دیکھتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ ان مضامین کو مزید آسان الفاظ میں لکھا جائے تو اور زیادہ فائدہ ہوسکتا ہے۔


راجا محمد عاصم ،موہری شریف ،کھاریاں

 ’ المیہ کشمیر: غیروں کا ظلم، اپنوں کا جرم‘ (مئی ۲۰۱۷ء) میں ارشد حسین نے کشمیری عوام کی پاکستان سے گہری وابستگی اور کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے بھارتی مظالم اور پاکستان کے حکمرانوں کی مقدمۂ کشمیر کے حوالے سے کمزور پالیسی کی طرف بجا توجہ دلائی ہے۔ محترم سیّد علی گیلانی نے ’ کشمیر :جدوجہد کی موجودہ لہر کا سبق ‘ (اپریل ۲۰۱۷ء ) کے عنوان سے تحریکِ آزادیِ کشمیر پر تفصیلی تبصرے میں بھارتی حکمرانوں کا اصل چہرہ بے نقاب کیا ہے۔ عابدہ فرحین صاحبہ نے ’ عورت کی حیثیت اور ہمارا ادھورا معاشرہ ‘(اپریل ۲۰۱۷ء ) میں عورت کے حقوق اور ذمہ داریوں کو اُجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ مختلف این جی اوز کے ایجنڈے کی وضاحت کی ہے۔


پروفیسر ملک   محمد   حسین ،جوہرآباد

سیّد سعادت اللہ حسینی جب بھی لکھتے ہیں، خوب لکھتے ہیں۔ ان کا مضمون ’انتخابی نتائج اور مسلم فکرمندی‘ (مئی ۲۰۱۷ء) ایک عمدہ تحریر ہے۔ اگر ہمارے دینی اور سیاسی قائدین اسے غور سے پڑھیں تو اس میں سب کے لیے خیروبرکت سے بھرپور رہنمائی کے کئی دَر وا ہوسکتے ہیں۔ تنویرقیصر شاہد صاحب کا مضمون معلومات افزا ہے۔


سلمان سراج ،ہوسئی شہباز گڑھی ، مردان

اُم المومنین سیّدہ سودہؓ پر مضمون (اپریل ۲۰۱۷ء) ایک قیمتی تذکرہ ہے، جسے مضمون نگار نے سیرۃ الصحابیات سے اخذ کیا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ مضمون میں بڑی روارو ی سے بیانات نقل کیے گئے، جو تحقیق اور احتیاط سے مناسبت نہیں رکھتے۔ مضمون میں تین روایتیں تو منقطع سند کے ساتھ ہیں ، جو سخت بے احتیاطی ہے۔


ڈاکٹر فضل عظیم ،بونیر

ڈاکٹر انیس احمد کا مضمون ’تبدیلیِ نظام، تحریکی حکمت عملی: چند پہلو‘ (اپریل ۲۰۱۷ء) معلومات سے بھرپور ہے۔ اللہ کرے کہ ساتھی اس کے پڑھنے سے محروم نہ رہیں۔ صفحہ نمبر ۸ پر ان کا یہ جملہ بڑی اہمیت کا حامل ہے: ’’تعلق باللہ کا مؤثر ترین ذریعہ قرآن کریم کی رفاقت ہے۔ جب قرآن کریم ایک صاحبِ ایمان کا رفیق بن جاتا ہے تو پھر اسے کسی اور کی رفاقت کی ضرورت نہیں رہتی‘‘۔


غازی امان اللہ خان ،گوجرانوالہ

’امریکا کا عالمی کردار اور ہماری ذمہ داریاں‘ (مارچ ۲۰۱۷ء) کے عنوان سے پروفیسر خورشید احمد صاحب کے ’اشارات‘ فکر انگیز ہیں۔ موجودہ عالمی تناظر میں اس تحریر کو دنیا کے تمام سربراہانِ مملکت تک پہنچانا چاہیے،   خواہ وہ مسلم ہوں یاغیر مسلم۔ یہ بھی تو دعوت کا حصہ ہے۔


ڈاکٹر محمد اعظم    چودھری،کراچی

حبیب الرحمٰن چترالی کا مضمون ’پاکستانی قومی بیانیے کی تشکیل‘ (مارچ ۲۰۱۷ء) ایک بہترین مضمون ہے، تاہم ، صفحہ ۸۲ پر علما کے جس وفد کی پٹنہ میں بیرسٹر عبدالعزیز کے گھر پر ملاقات کا ذکر کیا گیا ہے، وہ درست نہیں کیوںکہ علما کا جو وفد۲۴ دسمبر ۱۹۳۸ء کو قائد اعظم سے ملا تھا، اس کی قیادت مولانا مرتضیٰ حسن نے کی تھی اور اس میں مولانا شبیر احمد عثمانی بھی شامل تھے۔ مولانا شبیر احمد عثمانی کی قیادت میں دوسرا وفد ۱۲فروری ۱۹۳۹ء کو دہلی میں قائد اعظم سے ملا تھا۔ اس میں وہی گفتگو ہوئی تھی جو مضمون نگار نے تحریر کی ہے۔ (دیکھیے : پروفیسر انوارالحسن، حیات امداداللہ اور ایچ بی خان، برصغیر پاک  و  ہند کی سیاست  میں علما کا کردار)


اخوندزادہ    نصراللہ ، ایون، چترال

’امریکا کا عالمی کردار اور ہماری ذمہ داریاں‘ (مارچ ۲۰۱۷ء)، ازپروفیسر خورشید احمد اور ’پاکستانی قومی بیانیے کی تشکیل‘ از حبیب الرحمٰن چترالی ، فی الحقیقت مسلم اُمہ اور اہل پاکستان کے لیے جامع ہدایات پر مبنی مقالات ہیں۔ دین اسلام اور امت مسلمہ کے لیے اصحابِ علم کی تحریریں روشنی عطا کرتی ہیں۔


محمد عارف     جاوید،چکوال

دعوتِ دین کے لیے متحرک کارکنوں کے لیے عالمی ترجمان القرآن ایک نصابِ علم وتزکیہ ہے جس میں معلومات کا بیش بہا خزانہ ملتا ہے۔ ادارہ ترجمان کی کوشش کے باوجود ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ بعض مشکل الفاظ کو سمجھنے کے لیے لغت کا سہارا لیا جائے۔ تاہم ،اگر ان کے مضامین کو اجتماعی مطالعے کا وسیلہ بنایا جائے تو یہ مشکل بھی حل ہو سکتی ہے اور مضامین ومعلومات بہتر انداز سے ذہن نشین ہو سکتی ہیں۔

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

[تعارفی نوٹ از مدیر] : پاکستان کا قیام، برطانوی سامراج کے خلاف برعظیم کے مسلمانوں کی دو سوسالہ جدوجہد کا حاصل اور ثمرہ ہے۔ جہاں یہ اللہ تعالیٰ کا انعام خاص ہے، وہیں ایک تاریخی جدوجہد اور اس میں پیش کی جانے والی بیش بہا قربانیوں کا پھل بھی ہے۔

بظاہر سات سال پر محیط تحریکِ پاکستان کے نتیجے میں جو ملکِ عزیز قائم ہوا، الحمدللہ، اس نے سارے مصائب اور خطرات، دشمنوں کی سازشوں اور اپنوں کی کوتاہیوں اور بے وفائیوں کے باوجود اپنی آزادی کے ۷۰ سال مکمل کر لیے ہیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے۔ پاکستان ربِّ کائنات کی طرف سے ایک عظیم نعمت ہے، رمضان المبارک کی ۲۷ویں شب ملنے والا یہ الٰہی تحفہ، ان شاء اللہ قائم و دائم رہے گا۔ جن مقاصد کے لیے برعظیم کے مسلمانوں نے جدوجہد کی تھی، وہ ضرور حاصل ہوں گے۔

اللہ کے شکر اور جو کچھ حاصل ہے، اس کی قدر کے پورے احساس کے ساتھ یہ تاریخی لمحہ اس امر کا بھی تقاضا کرتا ہے کہ خلوص اور دیانت سے جائزہ لیں کہ ان ۷۰ برسوں میں ہم نے کیا پایا اور کیا کھویا؟ تحریک پاکستان کے اصل مقاصد کیا تھے؟ اور پاکستان کا وہ تصور اور وژن کیا تھا جس کے حصول کے لیے برعظیم کے مسلمانوں نے جدوجہد کی، اور آج ہم اس سے کتنا قریب ہیں اور کتنا  اس سے دُور ہو گئے ہیں؟ یہ جائزہ دیانت داری سے لیا جانا چاہیے کہ ہماری مثبت کامیابیاں کیا ہیں اور منفی پہلو کون کون سے ہیں اور ان سے کس طرح نجات حاصل کی جا سکتی ہے؟ نیز ایک نئے عزم کے ساتھ اصل وژن کا ادراک اور تفہیم اور اس کے حصول کے لیے صحیح لائحہ عمل کا شعور، اور اس کے لیے مؤثر اور فیصلہ کن جدوجہد کا عزم اور تیاری وقت کی ضرورت ہے۔

عالمی ترجمان القرآن کے موجودہ شمارے سے اس مقصد کے لیے ایک قلمی مذاکرے کا اہتمام کیا جا رہا ہے،جو تحلیل و تجزیے اور تفہیم و تذکیر کے ایک سلسلے کا آغاز ہے، اور یہ ان شاء اللہ آیندہ بھی جاری رہے گا۔

راقم اپنی صحت کی خرابی کے باعث اس بحث میں بھرپورشرکت کی سعادت سے محروم ہے، لیکن اس کمی کی تلافی، عصرِحاضر میں تحریک اسلامی کے داعی، ہمارے محسن اور قائد مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی کے ایک بصیرت افروز خطبے کو ’اشارات‘ کی شکل میں پیش کر کے کی جا رہی ہے۔ یہ تقریر مولانا محترم نے نومبر۱۹۷۰ء میں کی تھی۔ پاکستان کے پہلے انتخابات کے موقعے پر قوم کو پاکستان کے اصل تصور، تحریک پاکستان کے حقیقی مقاصد اور ان مقاصد کے حصول اور اس منزل کی طرف پیش رفت کے لیے جس لائحۂ عمل کی ضرورت ہے، مولانا مرحوم و مغفور نے تب بڑے خوب صورت اور مؤثر انداز میں اس کی نشان دہی فرمائی تھی اور قوم کو اس کی اصل منزل کی طرف پیش قدمی کی دعوت دی تھی۔

اس تقریر میں مولانا مودودی lنے ان چھے چیزوں کو بڑے واضح الفاظ میں پیش کر دیا ہے، جو آج بھی پاکستان کی ویسی ہی ضرورت ہیں، جیسی کہ ۱۹۴۷ء اور ۱۹۷۰ء میں تھیں۔ اسلام کے تصورِ دین، حکمتِ انقلاب اور زندگی کو تبدیل کرنے کے لائحہ عمل کی اس سے واضح، جامع اور مؤثر ترجمانی مشکل ہے۔ یہ تقریر مولانا کی سیاسی بصیرت کا شاہکار ہے، اور آج ۴۷سال کے بعد بھی صبحِ نو کی طرح تروتازہ ہے۔ ہم یہ تقریر درج ذیل معروضات کے ساتھ ناظرین کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔

یہ امر پیش نظر رہنا چاہیے کہ پاکستان کا قیام ،تحریک پاکستان کی حتمی سات سالہ جدوجہد کا حاصل نہیں بلکہ یہ ۲۰۰ سال سے زیادہ عرصے پر پھیلی ہوئی اس تحریکِ آزادی کا ثمرہ ہے، جو برطانوی سامراج کے برعظیم میں قدم جمانے کے ساتھ ہی شروع ہو گئی تھی اور جس کے کم از کم تین بڑے واضح مرحلے دیکھے جا سکتے ہیں:

  •  اولاً، عسکری قوت سے سامراجی حکمرانوں کا مقابلہ اور مسلم اقتدار کی بحالی۔
  •  ثانیاً، سیاسی جدوجہد کا آغاز اور برعظیم کے تمام ہم وطنوں کے ساتھ مل کر سیاسی آزادی کی ایسی جدوجہد کہ جس میں مسلمان اپنا نظریاتی،دینی، سیاسی اور تہذیبی تشخص برقرار رکھ سکیں اور غیر مسلم اکثریت میں ضم نہ ہو جائیں۔ علاقائی قومیت کے مقابلے میں دو قومی نظریے کا ارتقا، اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ایسا سیاسی انتظام، جو کثیر قومی (State of Nationalities)کا متبادل ’مثالیہ‘ (paradigm) پیش کر سکے۔ ۳۹-۱۹۳۸ء تک یہ بات واضح ہو گئی تھی کہ انڈین نیشنل کانگریس جو دراصل ابتدا سے آج تک برہمنوں ہی کی گرفت میں رہی ہے، اس تصور کو کسی صورت قبول کرنے کو تیار نہیں تھی، نہ ہے۔ اس کا مقصد عددی اکثریت کا غلبہ اور جمہوریت و سیکولرزم کے نام پر ہندو قوم پرستی کی حکمرانی قائم کرنا ہے۔ عملاً ۱۹۳۵ء کے قانون کے تحت انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومتوں نے اس کا عملی مظاہرہ بھی کیا۔
  • اس پس منظر میں مسلمانوں کی تحریک کا تیسرا مرحلہ شروع ہوا۔ علمی اور عملی دونوں میدانوں میں اور دو قومی نظریے کو سیاسی حقائق کی روشنی میں برعظیم کے مسلمانوں کی جس نئی سیاسی منزل کی شکل میں پیش کیا گیا، وہ تقسیم ہند اور پاکستان کا آزاد اسلامی ریاست کی حیثیت سے قیام تھا۔ تحریک پاکستان کے دو ناقابل تفریق و تنظیم (Indivisible and Inseperable) پہلو تھے۔ ایک سیاسی آزادی اور دوسرا اس آزادی کی بنیاد اور منزل اسلامی نظریہ اور تہذیب و ثقافت۔ یہی وجہ ہے کہ تصورِ پاکستان اور تحریکِ پاکستان کے مقاصد، مزاج اور شناخت کو سمجھنے کے لیے حسب ذیل دستایزات کا مطالعہ ضروری ہے:   { FR 1004 }

                ۱-            علامہ اقبال کا ۱۹۳۰ء کا خطبۂ صدارت،

                ۲-            ۲۳مارچ ۱۹۴۰ء کی قراردادِ لاہور ،

                ۳-            قائداعظم کا خطبۂ صدارت، ۷؍اپریل ۱۹۴۷ء کی قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے منتخب ارکان کے کنونشن کی قرار داد، حلف نامہ اور قائداعظم کی تقریر ،

                ۴-            ۱۳مارچ ۱۹۴۹ء کو پہلی منتخب دستور ساز اسمبلی کی منظور کردہ قراردادِ مقاصد اور اس موقعے پر وزیراعظم نواب زادہ لیاقت علی خان اور تحریکِ پاکستان کے اکابر ارکانِ دستورساز اسمبلی کی تقاریر۔ (قراردادِ مقاصد تحریکِ پاکستان کی فکری جہت کا خلاصہ ہے، اور پاکستان کے دستور کی تمہید اور اس کا حصہ ہے۔)

اس پس منظر میں پاکستان کو ایک حقیقی اسلامی، جمہوری اور فلاحی ریاست بنانے کے لیے چھے چیزیں ضروری ہیں:

۱-            پاکستان کے تصور اور اس کی اصل منزل کا صحیح اور مکمل شعور۔ یہ وژن اور اس کے باب میں مکمل شفافیت (clarity) اور یکسوئی اوّلین ضرورت ہے۔ اسی سے ہماری منزل اور اس تک پہنچنے کے راستے کا تعین ہو سکتا ہے۔ یہ ہماری شناخت ہے اور اسی شناخت کے تحفظ اور ترقی کے لیے آزادی کی جدوجہد کی گئی اور پھر آزادی حاصل کی گئی۔ اس مقصد کے لیے نہ صرف لاکھوں انسانوں کے جان و مال اور آبرو کی قربانی دی گئی، بلکہ بھارت میں  رہ جانے والے مسلمانوں نے اسلام اور اپنے مسلمان بھائیوں کی آزادی کی خاطر اپنے کو بھارت میں ہندوئوں کے غلبے میں رہ جانے کی عظیم ترین قربانی دی۔

                ۲-            آزادی اور خودمختاری کے تحفظ کے لیے علاقے (Territory) کا حصول ضروری ہے اور یہی وجہ ہے کہ آزاد قوم اور آزاد علاقہ ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ ملکی حدود کی حفاظت اور دفاع قومی سلامتی کی پہلی ضرورت ہے۔ دفاعِ وطن اور دفاعِ نظریہ، شخصیت اور پہچان ساتھ ساتھ واقع ہوتے ہیں۔ اس کے لیے عسکری قوت کے ساتھ سیاسی، معاشی، مادی اور اخلاقی قوت بھی مقابلے کی قوت کی حیثیت سے ضروری ہے۔ اس میں ضُعف ، ملکی سلامتی کے لیے خطرے کا باعث بنتا ہے۔ یہ سیاسی و معاشی استحکام، اندرونی امن و امان ، بیرونی خطرات سے تحفظ اور آبادی کی ترقی اور خوش حالی کے لیے وسائل کے بھرپور استعمال کا راستہ دکھاتا ہے۔

                ۳-            تیسری ضرورت اس وژن اور قومی سلامتی اور مفادات کا تحفظ و ترقی ہے، زندگی کے تمام شعبوں کے لیے صحیح پالیسیوں کا تعین ، انتہادرجے کی شفافیت کے ساتھ پالیسی سازی اور ان پر عمل کرنے کا اہتمام۔

                ۴-            ان مقاصد کو حاصل کرنے اور پالیسیوں کی مؤثر تنفیذکے لیے تمام ضروری اداروں کا قیام، استحکام، اصلاح اور ترقی۔ دستور اور قانون کی حکمرانی ہی کے ذریعے اداروں کی بالادستی اور حقوق وفرائض کی بجاآوری ممکن ہے۔

                ۵-            ان مقاصد کے حصول کے لیے اساسی ضرورت ہر سطح پر اور ہرشعبے کے لیے مردانِ کار کی تیاری ہے۔ تعلیم اس کی کنجی ہے۔ پوری آبادی کی اخلاقی، علمی اور صلاحیت کار کی ترقی کے ذریعے ہی کوئی قوم ترقی کر سکتی ہے، پھر اپنی آزادی اور شناخت کی حفاظت اور استحکام کے ذریعے اس ترقی کو زیادہ ثمرآور بنایا جاسکتا ہے۔ ماحول، معاشرہ اور تہذیب و ثقافت ہر میدان کی صورت گری میں اس کا حصہ ہے۔

                ۶-            آخری فیصلہ کن ضرورت ہے: صحیح قیادت کا انتخاب، مشاورت کے مؤثر نظام کا قیام، احتساب اور جواب دہی کا ہر سطح پر اہتمام۔

یہ چھے چیزیں کسی بھی ملک اور قوم کی آزادی و خودمختاری اور ترقی و استحکام کی ضامن ہیں۔ ان سب کے بارے میں غفلت، کمزوری، فکری انتشار، تضادات اور عملی کوتاہیاں ہی پاکستان کے سارے مسائل کی جڑ ہیں۔ جس حد تک ان کا پاس و لحاظ کیا جائے گا ہماری آزادی اور خودمختاری برقرار رہ سکے گی۔ بلاشبہہ ان میں سے بعض پہلوئوں پر توجہ کی گئی ہے، جس کی وجہ سے خطرات اور کمیوں، کوتاہیوں کے باوجود ہم اپنا وجود برقرار رکھ سکے ہیں اور کسی حد تک ترقی بھی حاصل کر سکے ہیں۔

مولانا مودودیؒ نے اپنی حسب ذیل تقریر میں ان چھے پہلوئوں کے بارے میں ایک واضح لائحہ عمل پیش کیا ہے، جو آج بھی ہمارے لیے روشنی کا مینار ہے۔ ہم تخلیقِ پاکستان کے ۷۰سال کی تکمیل پر آیندہ اصلاحِ احوال اور تعمیر کے عزم کی تجدید کے ساتھ، رہنمائی کے ان زریں اصولوں کو قوم کے سامنے پیش کرنے کی سعادت حاصل کررہے ہیں۔ ہمارا خطاب پوری قوم سے ہے  اور خصوصیت سے تحریک اسلامی اور تمام دینی اور سیاسی قوتوں سے ہماری اپیل ہے کہ اس خطبے پر کھلے دل و دماغ سے غوروفکر کریں اور مستقبل کی تعمیر کے لیے ہر تعصب سے بالا ہو کر نئے عزم کے ساتھ سرگرم عمل ہوں۔

خورشید احمد

o

سیّدابوالاعلیٰ مودودیo

o

جماعت اسلامی، پاکستان میں اس مقصد کے لیے کام کررہی ہے کہ یہاں معاشرے اور ریاست کی تعمیر دیانت اور انصاف کے ان اصولوں پر کی جائے، جو اسلام نے ہم کو دیے ہیں۔ اس کے پیشِ نظر پاکستان کو ایک ایسی ریاست بنانا ہے:

  •  جو خلافت ِ راشدہؓ کے نمونے پر کام کرے۔ ظلم، استحصال اور اخلاقی بے راہ روی کی ہرشکل کو مٹائے اور زندگی کے ہرپہلو میں عدل قائم کردے۔
  •  جو ایک خادم خلق ریاست ہو، ہر شہری کے لیے بنیادی ضروریاتِ زندگی کی فراہمی کی ضمانت دے۔ تمام جائز ذرائع سے ملک کی دولت بڑھائے اور اس دولت کی منصفانہ تقسیم کا انتظام کرے۔
  •  جو صحیح معنوں میں ایک جمہوری ریاست ہو۔ عوام اپنی آزاد مرضی سے جن لوگوں کو اس کا اقتدار سونپنا چاہیں، وہی انتخابات کے ذریعے سے برسرِاقتدار آئیں اور جنھیں اقتدار سے ہٹانا چاہیں، ان کو انتخابات کے ذریعے سے بآسانی ہٹاسکیں۔

انھی مقاصد کے لیے جماعت عام انتخابات میں حصہ لے رہی ہے۔

oملک کو اس وقت جو مسائل درپیش ہیں ان کے بارے میں جماعت کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ پاکستان مسلمانوں کی قربانیوں سے قائم ہوا ہے اور یہ قربانیاں انھوں نے اس غرض کے لیے دی تھیں کہ یہاں وہ اسلامی احکام اور اصولوں کے مطابق زندگی بسر کرسکیں۔ اس لیے یہاں کسی نظریاتی کشمکش کا کوئی جواز نہیں ہے۔ یہ بات ہمیشہ کے لیے طے شدہ سمجھی جانی چاہیے کہ یہ ایک اسلامی مملکت ہے۔

پاکستان کا قیام اس وجہ سے ممکن ہوا تھا کہ مسلمانوں نے نسل، علاقے، زبان اور طبقات کے تمام تعصبات کو دل سے نکال کر ،محض مسلمان ہونے کی حیثیت سے اس کے قیام کے لیے متحدہ جدوجہد کی تھی۔ اسی اتحاد کی بدولت وہ علاقے مل کر ایک ملک بن گئے جن کے درمیان نہ زبان ایک تھی، نہ رہن سہن کا طریقہ ایک تھا اور نہ کوئی جغرافی اتصال پایا جاتا تھا۔ آج بھی یہی اتحاد کامل ملک کی وحدت و سالمیت کے لیے واحد ضمانت ہے۔

ملک کی آبادی کے مختلف عناصر میں یگانگت کے احساس کو برقرار رکھنے اور نشوونما دینے کے لیے یہ قطعی ناگزیر ہے کہ اس اسلام پر عمل کیا جائے، جس کے نام پر یہ ملک وجود میں آیا ہے، اور سیاسی، معاشرتی اور معاشی حیثیت سے مکمل انصاف قائم کیا جائے، جس سے ملک کے تمام علاقے اور باشندگانِ ملک کے تمام گروہ اور طبقے اپنے حقوق کے معاملے میں پوری طرح مطمئن ہوں۔

o  ملک کو جس آئینی بحران کاسامنا ہے، اس کام کو مکمل اور آسان بنانے کے لیے ہم یہ تجویز کرتے ہیں کہ قومی اسمبلی نئے سرے سے کوئی آئین بنانے کی کوشش نہ کرے، بلکہ ۱۹۵۶ء کے آئینِ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں چار ضروری ترمیمات کرنے کے بعد اس کو ملک کا آئین قرار دے دے، تاکہ اقتدار جلدی عوام کے نمایندوں کو منتقل ہوجائے اور ایک جمہوری حکومت ملک میں کام کرنا شروع کر دے۔ باقی جو تغیر و تبدل بھی اس آئین میں کرنا مطلوب ہو، وہ بعد میں کیا جاسکتا ہے۔ وہ چار ترمیمیں جو ۱۹۵۶ءکے آئین میں ہم کرنا چاہتے ہیں: آبادی کی بنیاد پر نمایندگی، ون یونٹ کی تنسیخ، مغربی پاکستان کے سرحدی علاقوں کو پاکستان میں پوری طرح ضم کرلینے ،اور ملک کی سالمیت کو محفوظ رکھتے ہوئے صوبوں کو مکمل علاقائی خودمختاری دینے کے بارے میں ہیں۔{ FR 1000 }

o  ہم نے ملک کے قانونی نظا م کی اصلاح کے لیے بہت سی تجاویز پیش کی ہیں، جن میں خاص طور پر چار چیزوں کو بنیادی اہمیت دی گئی ہے: lایک یہ کہ اسلام کے ان تمام احکام کو قانونی حیثیت دینا، جو ایک اسلامی مملکت میں رائج ہونے چاہییں اور خاص طور پر ان اخلاقی بُرائیوں کو ممنوع قرار دینا، جنھیں اسلام ازروے قانون روکنا چاہتا ہے۔ mدوسرے، عورتوں کو شریعت کے     عطا کردہ حقوق دلوانے کے لیے قانون بنانا۔ oتیسرے، شخصی آزادی اور اظہار راے کی آزادی پر ناراو پابندیوں کو ختم کرنا۔oچوتھے انصاف کو آسان اور سستا بنانا۔

  •  اسلامی تعلیمات کا فروغ:مسلمانوں کوا سلامی زندگی بسر کرنے کے قابل بنانے کے لیے ہمارا پروگرام یہ ہے کہ تمام ذرائع نشروابلاغ اور ذرائع تعلیم سے کام لے کر مسلم عوام میں اسلامی عقائد اور تعلیمات کا ضروری علم پھیلایا جائے۔ مساجد کو مسلم معاشرے میں مرکزی حیثیت دی جائے، اور ان کے لیے تربیت یافتہ امام اور خطیب تیار کیے جائیں۔’اوقاف‘ کا صحیح انتظام کیا جائے۔ مسلمانوں کو دینی فرائض کی ادایگی کے لیے ترغیب بھی دی جائے اور تمام ممکن سہولتیں بھی بہم پہنچائی جائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم نے بحیثیت مجموعی ملک کی اخلاقی اصلاح کے لیے بھی بڑے پیمانے پر کام کرنے کا فیصلہ کیا ہے، تاکہ معاشرے کو بُرائیوں سے پاک کیا جائے۔ ان اسباب کو رفع کیا جائے جن سے جرائم اور بداخلاقیوں کو فروغ نصیب ہوتا ہے، اور عوام میں اتنا اخلاقی شعور پیدا کیا جائے کہ وہ شہریوں کی حیثیت سے خود اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کو محسوس کرنے لگیں۔
  •  اسلامی نظامِ تعلیم :معاشرے کی تعمیر میں ہم تعلیم کو بنیادی اہمیت دیتے ہیں اور اس کی اصلاح کے لیے [ہمارے] مفصل پروگرام کی نمایاں خصوصیات یہ ہیں:
  • ملک میں اس وقت جو کئی کئی تعلیمی نظام رائج ہیں، ان کو بہ تدریج ختم کر کے ایک ہی نظامِ تعلیم رائج کیا جائے گا ، جس میں تعلیم صرف علوم و فنون پڑھانے تک محدود نہ ہوگی، بلکہ ہرشعبے میں لازمی طور پر اخلاقی تربیت بھی شامل ہوگی، تاکہ معاشرے اور ریاست کے لیے خداترس اور فرض شناس کارکن تیار ہوسکیں۔
  •   کم سے کم مدت میں ملک سے ناخواندگی کو دُور کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ ابتدائی تعلیم لازمی اور مفت اور ثانوی تعلیم مفت کر دی جائے گی، اور تعلیم کو سستا کیا جائے گا، تاکہ کوئی باصلاحیت نوجوان اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے سے محروم نہ رہ جائے۔
  •  استادوں کے لیے معقول معاوضے، بہتر شرائط کے ساتھ مقرر کیے جائیں گے۔ ان کی تربیت کے لیے بہتر انتظامات کیے جائیں گے، تاکہ وہ نہ صرف اچھے معلّم ہوں بلکہ شاگردوں کے لیے بھی اخلاق کا اچھا نمونہ بن سکیں۔ اور ان کے تقرر میں ان کی علمی اسناد ہی کا خیال نہیں رکھا جائے گا بلکہ یہ بھی دیکھا جائے گا، کہ وہ اپنے افکار اور سیرت و کردار کے لحاظ سے ہماری نئی نسلوں کو تعلیم دینے کے اہل ہیں۔
  •  تعلیمی اداروں میں آزاد فضا پیدا کی جائے گی اور یونی ورسٹیوں کو قومی تعلیمی پالیسی کے حدود کے اندر پوری طرح خودمختارانہ حیثیت دی جائے گی۔
  •   قومی زبان کو ذریعۂ تعلیم بنایا جائے گا اور عربی زبان ایک لازمی مضمون کی حیثیت سے پڑھائی جائے گی۔
  •  تعلیمی اداروں میں فوجی تربیت کا اہتمام کیا جائے گا، تاکہ نوجوان ملک کے دفاع کے لیے تیار ہوسکیں۔
  •  انتظامیہ کی تربیت: [ہم نے] نظم و نسق کی اصلاح کو بھی خاص اہمیت دی ہے، کیوں کہ ملک کی حالت کو بہتر بنانے کے لیے کوئی اچھے سے اچھا پروگرام بھی کامیاب نہیں ہوسکتا، جب تک اس کو چلانے کے لیے ایک دیانت دار، فرض شناس اور عمدہ اہلیت رکھنے والی انتظامیہ موجود نہ ہو۔ اس مقصد کے لیے جو تدابیر ہم نے تجویز کی ہیں ان میں سے چند نمایاں تدبیریں یہ ہیں:
  •     کوئی سرکاری ملازم جو اپنی جائز مالی حیثیت سے زیادہ بلند معیارِ زندگی اختیار کرے یا جایداد پیدا کرے، اس کا بلاتاخیر محاسبہ کیا جائے۔
  •        ایک ایسا اعلیٰ اختیارات رکھنے والا محکمہ قائم کیا جائے جو سرکاری افسروں کے ظلم اور اختیارات کے بے جا استعمال کی شکایات سنے اور ان کے فوری تدارک کا اہتمام کرے۔
  • جن اداروں میں سرکاری ملازمتوں کے لیے کارکنو ں کی تربیت کی جاتی ہے، ان میں اخلاقی و دینی تربیت لازمی طور پر شامل کی جائے، تاکہ اہلیت کے ساتھ ساتھ حکومت کے افسروں میں دیانت داری اور فرض شناسی پیدا ہو۔
  • نظم و نسق پر کسی ایک سروس کی اجارہ داری قائم نہ رہنے دی جائے اور حکومت کے مخصوص فنی شعبوں کی سربراہی پر انھی شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو مقرر کیا جائے۔

ملک کے معاشی نظام کی اصلاح کے لیے ہمارا پروگرام چار بڑے بڑے عنوانات پر مشتمل ہے: زراعت، صنعت و تجارت، مزدوروں اور کم تنخواہ پانے والے ملازموں کے حقوق اور عام معاشی اصلاحات۔

  •  زرعی اصلاحات: زراعت کے معاملے میں جو اہم اصلاح ہم نے تجویز کی ہے،   وہ یہ ہے کہ: جاگیرداریوں ، خواہ وہ نئی ہوں یا پرانی، ان کو قطعی ختم کر دیا جائے۔ اور جہاں تک ان زرعی املاک کا تعلق ہے جو [انگریزی اقتدار سے] پہلے سے لوگوں کی ملکیت میں چلی آرہی ہیں،  وہ اگر ایک خاص حد سے زائد ہوں تو زائد حصے کو منصفانہ شرح پر خرید لیا جائے۔ یہ حد مغربی پاکستان کے زرخیز علاقوں میں ۱۰۰ اور ۲۰۰؍ایکڑ کے درمیان ہوگی۔ کم پیداواری صلاحیت کی زمینوں کے لیے اسی معیار کے لیے مختلف حدیں مقرر کی جائیں گی۔ اس طریقے سے جو زمینیں حاصل ہوں گی، انھیں غیرمالک کاشت کاروں اور اقتصادی حد سے کم زمین کے مالکوں کے ہاتھ آسان اقساط پر فروخت کر دیا جائے گا اور یہی طریقہ سرکاری املاک اور نئے بیراجوں کے ذریعے سے قابلِ کاشت ہونے والی زمینوں کے معاملے میں بھی اختیار کیا جائے گا۔ ہرممکن کوشش کی جائے گی کہ زیادہ سے زیادہ کسانوں کو گزارے کے قابل زمین حاصل ہوجائے۔

پچھلی ناہمواریوں کو دُور کرنے کے بعد ہم کلیتہً شرعی قوانین پر ہی اعتماد کریں گے کہ ان کے نفاذ کی وجہ سے آیندہ کوئی زمین داری ناجائز یا مشتبہ طریقوں سے پیدا نہ ہوسکے گی۔ اسی طرح جب بٹائی اور ٹھیکے کے بارے میں شرعی احکام کی سختی کے ساتھ پابندی کرائی جائے گی اور تمام ناجائز طریقوں کو بند کر دیا جائے گا تو کوئی زمین داری ظلم کی شکل اختیار نہ کرسکے گی۔

۱۰؍ ایکڑ تک اراضی کے مالکوں کو مال گزاری سے مستثنیٰ کر دیا جائے گا۔ ہمارے نزدیک یہ انصاف نہیں ہے کہ انکم ٹیکس کے معاملے میں تو ایک حد مقرر کر دی جائے اور گزارہ سے زمین   کم رکھنے والوں پر بھی ٹیکس لگا دیا جائے۔ مال گزاری کی تشخیص کے معاملے میں بھی ہم انکم ٹیکس کا  یہ اصول نافذ کرنا چاہتے ہیں کہ کم آمدنی رکھنے والوں پر نسبتاً کم اور زیادہ آمدنی والوں پر نسبتاً زیادہ مالیہ عائد کیا جائے۔

اس امر کا پورا انتظام کیا جائے گا کہ کاشت کاروں کو ان کی پیدا کردہ اجناس کی معقول قیمت ملے اور ان کے حصے کا فائدہ بیچ کے لوگ نہ لے اُڑیں، خصوصاً تجارتی فصلوں کے معاملے میں ہربے جااستحصال کا سدباب کیا جائے گا۔

دیہی علاقوں میں ایسی صنعتوں کو رواج دینے کی کوشش کی جائے گی، جن سے بے روزگاری بھی دُور ہو اور زراعت پیشہ آبادی کی آمدنی میں بھی اضافہ ہوسکے۔

 صنعت  و تجارت کا فروغ: صنعت و تجارت کے معاملے میں دولت کا جو بے تحاشا ارتکاز ہوا ہے، اس کو توڑنے اور مرتکز شدہ دولت کو پھیلانے اور آیندہ ارتکاز کو روکنے [اور] معاشی زندگی [کو] اس بیماری سے پوری طرح نجات [دلانے کے لیے] چند اہم تجاویز یہ ہیں:

O سود، سٹہ، جوا اور دولت حاصل کرنے کے تمام ان طریقوں کو قانوناً ممنوع قرار دے دیا جائے، جن کو شریعت نے حرام کیا ہے۔ بینکنگ اور انشورنس کے پورے نظام کو اسلامی اداروں کے مطابق تبدیل کیا جائے۔ ناجائز اور حرام طریقوں سے جو دولت چند ہاتھوں میں سمٹ گئی ہے، اس کا سختی کے ساتھ محاسبہ کیا جائے اور اسے واپس لینے کے لیے مناسب قانونی اور انتظامی تدابیر کی جائیں۔ کمپنیوں کی ملکیت میں ایک شخص یا خاندان کے لیے زیادہ سے زیادہ حصوں کی ایک حد مقرر کر دی جائے اور اس سے زائد حصص کو عام فروخت کے لیے کھول دیا جائے۔

O مینیجنگ ایجنسی کا طریقہ بند کر دیا جائے۔ بنکوں ، انشورنس کمپنیوں، بازار حصص اور سرکاری مالیاتی اداروں پر سے سرمایہ داروں کا تسلط ختم کر دیا جائے۔ صنعتوں، اجارہ داریوں اور کاروباری جتھہ بندیوں کو توڑا جائے۔ قرض دینے کی پالیسی تبدیل کی جائے، تاکہ چھوٹے اور نئے سرمایہ کاروں کو بھی قرض مل سکیں۔ بونس اسکیم پر نظرثانی کی جائے اور درآمدی اور برآمدی تجارت کے لیے لائسنسوں کے اجرا کا طریقہ بھی بدلا جائے اور اس امر کا انتظام کیا جائے کہ صنعت کار اور بڑے تاجر ایک معقول حد سے زیادہ منافع نہ کما سکیں۔

Oہم قومی ملکیت کے نظام کو بطورِ اصول اختیار کرنا صحیح نہیں سمجھتے، البتہ جن صنعتوں کو حکومت کے انتظام میں قائم کرنا یا چلانا فی الواقع ضروری ہو، ان کے بارے میں عوام کی نمایندہ اسمبلی اس طریقے پر عمل کرنے کا فیصلہ کرسکتی ہے، اور ایسا کوئی فیصلہ کرتے ہوئے یہ اطمینان کرلینا ضروری ہے کہ ان صنعتوں کا انتظام بیوروکریسی کی معروف خرابیوں کا شکار نہ ہونے پائے۔

O مزدوروں اور ملازمین کے حقوق:مزدوروں اور کم تنخواہ پانے والے ملازمین [کی حالت دیکھیں تو] ملک میں معاوضوں کا فرق اس وقت ایک سو سے بھی زیادہ ہے۔ اسے گھٹاکر ہم ایک اور بیس پر، پھر بتدریج کم کرکے ایک اور دس کی نسبت پر لانا چاہتے ہیں۔ کم سے کم معاوضہ ہمارے نزدیک [اِس وقت] مصارف زندگی کے لحاظ سے ۱۵۰ اور ۲۰۰ کے درمیان ہونا چاہیے اور قیمتوں کے اُتار چڑھائو کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس پر وقتاً فوقتاً نظرثانی ہوتی رہنی چاہیے۔ کم تنخواہ پانے والے ملازمین کو مکان، علاج اور بچوں کی تعلیم کے لیے مناسب سہولتیں ملنی چاہییں اور مزدوروں کو نقد بونس کے علاوہ بونس شیئرز کے ذریعے سے صنعتوں کی ملکیت میں حصہ دار بھی بنایا جانا چاہیے۔ [ہم نے] یہ مقصد بنیادی طور پر پیش نظر رکھا ہے کہ ہماری معیشت میں صنعت کار اور محنت کار کے درمیان طبقاتی نزاع برپا ہونے کے امکانات باقی نہ رہیں اور اس کی جگہ انصاف کے اصولوں پر تعاون کا خوش گوار تعلق قائم ہو۔

O نظامِ زکوٰۃ کا نفاذ: ملک کی عام معاشی حالت کو درست کرنے کے لیے زکوٰۃ کی تنظیم کو ہم نے اپنے پروگرام میں سب سے مقدّم رکھا ہے۔ جس کے ذریعے سے یہ اہتمام کیا جائے گا کہ پورے ملک میں کوئی شخص اپنی زندگی کی بنیادی ضروریات سے محروم نہ رہنے پائے۔ اس فنڈ میں   نہ صرف جمع شدہ رقوم، تجارتی اَموال، زرعی پیداوار اور مویشیوں وغیرہ پر فرض زکوٰۃ وصول کی جائے گی بلکہ عام خیراتی رقوم اور فی سبیل اللہ اعانتیں بھی جمع کی جائیں گی، اور ان سے بوڑھوں، اپاہجوں، معذوروں اور یتیم و غریب بچوں کی کفالت کی جائے گی۔ بے روزگاروں کو روزگار ملنے تک وظائف دیے جائیں گے، غریبوں کا علاج کیا جائے گا۔ ضرورت مند اور مستحق لوگوں کو قرضِ حسنہ دیا جائے گا اور ایسے لوگوں کی مدد کی جائے گی، جو تھوڑے سرمایے سے اپنے پائوں پر کھڑے ہوسکتے ہوں۔

اس کے علاوہ [ہم نے] یہ بھی تجویز کیا ہے کہ بالواسطہ ٹیکسوں کو کم اور بلاواسطہ ٹیکسوں کو بڑھایا جائے گا تاکہ عوام پر سے ٹیکس کا بار کم ہوسکے۔ بیرونی قرضوں اور بیرونی سرمایے پر ملک کے انحصار کو ختم کرنے اور سابق قرضوں سے نجات پانے کی ہرممکن کوشش کی جائے گی۔ سرکاری خزانے کا مال بے جا مصارف پر صرف کرنے کا سدباب کیا جائے گا۔ اور رفاہِ عامہ کے کاموں اور ان تجارتی کاموں سے جو حکومت کے انتظام میں چل رہے ہیں ، بے جا نفع اندوزی کو روک دیا جائے گا۔

Oقومی صحت کے لیے ہمارا پروگرام آٹھ تجاویز پر مشتمل ہے، جن میں: سستی قیمت پر دوائوں کی فراہمی، علاج کے مصارف میں تخفیف، شفاخانوں اور دایہ گھروں کی توسیع، وبائی اور متعدی امراض کی روک تھام، شفاخانوں کے عملے کی اخلاقی اصلاح، غذا اور دوائوں میں آمیزش کا سدباب اور وسیع پیمانے پر حفظانِ صحت کے انتظامات شامل ہیں۔ یہ بھی تجویز کیا گیا ہے کہ ملک میں علاج کی سہولتوں کو عام کرنے کے لیے یونانی طب اور ہومیوپیتھی کے شفاخانے سرکاری سطح پر قائم کیے جائیں۔

Oہم نے اسلامی فرقوں کو اس بات کی ضمانت دی ہے کہ انھیں حدودِ قانون کے اندر پوری مذہبی آزادی حاصل ہوگی۔ اپنے پیرووں کو اپنے مذہب کی تعلیم دینے کا پورا حق حاصل ہوگا۔ ان کے شخصی معاملات کے فیصلے ان کی اپنی فقہ کے مطابق کیے جائیں گے، اور وہ اپنے خیالات کی اشاعت آزادی کے ساتھ کرسکیں گے۔

Oغیرمسلم اقلیتوں کو بھی ہم نے اسی طرح تمام شہری اور قانونی حقوق اور مذہب اور عبادت، تہذیب و ثقافت اور پرسنل لا کے تحفظ کی ضمانت دی ہے۔

O[اپنی] خارجہ پالیسی کے اصول و مقاصد بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کر دیے ہیں: ہم ایک مسلمان قوم ہیں۔ دنیا میں ہمارا قومی وصف نمایاں ہونا چاہیے کہ ہم راست باز اور عہدوپیمان کے پابند ہیں۔ حق وانصاف کے حامی اور ظلم و زیادتی کے مخالف ہیں۔ ہم بین الاقوامی امن چاہتے ہیں، مگر بین الاقوامی عدل کے بغیر دنیا میں امن کا قیام ہمارے نزدیک ممکن نہیں ہے۔ سامراجیت اور استعمار خواہ مغربی ہو یا مشرقی، ہماری نگاہ میں یکساں قابلِ مذمت ہے اور ہماری ہمدردی ہمیشہ ان مظلوم قوموں کے ساتھ ہوگی جو اس کی شکار ہوں۔ خصوصاً مسلمان جہاں بھی ظلم و ستم کا نشانہ بن رہے ہیں ہم ان کی لازماً حمایت کریں گے، کیونکہ یہ ہماری انسانیت کا تقاضا بھی ہے اور ہمارے دین کا تقاضا بھی ہے۔

ہم دُنیا کی تمام قوموں کے ساتھ دوستی چاہتے ہیں، مگر کسی ایسی دوستی کے قائل نہیں ہیں، جس سے ہمارے نظریۂ حیات یا ہماری آزادی پر آنچ آتی ہو۔ ہماری خارجہ پالیسی آزاد ہوگی۔  دنیا کی بڑی قوموں کے بلاکوں کی کش مکش سے ہم اپنے ملک کو بالکل الگ رکھیں گے۔ کشمیر اور ہندستانی مسلمانوں کے ساتھ ظلم وہ بنیادی مسائل ہیں، جنھیں انصاف کے ساتھ حل کیے بغیر ہمارے نزدیک پاکستان اور بھارت کے تعلقات درست نہیں ہوسکتے۔ مسلم ممالک کے ساتھ ہم قریب ترین برادرانہ تعلقات رکھنا اور بڑھانا چاہتے ہیں۔ ہماری پوری کوشش یہ ہوگی کہ اپنے مشترک مفادات کے لیے ان کے درمیان گہرا تعاون ہو۔

Oمرکز یا صوبوں میں جہاں بھی جماعت اسلامی کی پارلیمانی پارٹی کو اکثریت حاصل ہوگی، وہ حکومت کی باگ ڈور سنبھال کر ایمان داری کے ساتھ اپنے منشور پر عمل کرنے کی کوشش کرے گی، اور اگر وہ ایسا نہ کرسکے تو حکومت چھوڑ دے گی۔ دوسری کسی پارٹی کے ساتھ مخلوط حکومت وہ صرف اس صورت میں بنائے گی، جب کہ اسے یہ توقع ہو کہ اس حکومت میں اپنے اصول اور مقاصد کے مطابق کام کرنا اس کے لیے ممکن ہوگا۔ بصورتِ دیگر وہ حزبِ اختلاف کی حیثیت سے کام کرے گی۔ لیکن، جماعت اسلامی کبھی اختلاف براے اختلاف کی قائل نہیں رہی ہے۔ حکومت خواہ کسی پارٹی کی ہو، جماعت اس کے صحیح کاموں میں اس کا ساتھ دے گی اور غلط کاموں کی بہرحال مخالفت کرے گی۔

یہ ہے جماعت اسلامی کے منشور کا خلاصہ۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ہم قومی زندگی کے ہرپہلو کی اصلاح کا ایک جامع پروگرام [پیش کر رہے] ہیں۔ کسی ایک پہلو پر ہم نے اتنا زور نہیں دیا ہے کہ دوسرے پہلوئوں کو نظرانداز کر دیا ہو ___ پاکستان پائندہ باد!

(ہفت روزہ آئین، لاہور، اشاعت ِ خاص، نومبر ۱۹۷۰ء، ص ۱۶-۱۹)