مضامین کی فہرست


۲۰۱۷ فروری

امریکی صدارتی نظام میں، روایتی طور پر نئے صدر کے پہلے سو دن بڑے فیصلہ کن سمجھے جاتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے جہاں اپنے بارے میں خاص و عام کے بہت سے اندازوں کو غلط ثابت کیا ہے اور قدم قدم پر حیرت میں مبتلا کیا ہے، وہیں اپنی صدارت کے پہلے دس دن میں وہ کچھ کرڈالا جو دوسرے سو دن میں نہیں کرپاتے۔ یہ اور بات ہے ان ’حیرتوں‘ کے نتیجے میں خوشی کے نغمے کم ہی بلند ہوئے ہیں اور خوف و ہراس اور اضطرابی احتجاج کی لہروں نے امریکا ہی نہیں پوری دنیا میں ہلچل مچا دی ہے۔ سی این این پر ایک امریکی تجزیہ نگار نے خوب کہا ہے کہ: Trump's ten days as President have created a Tsunami of humam misery (ٹرمپ کے بطور صدر، دس دنوں نے انسانی بدبختی کا سونامی دکھا دیا ہے۔)

معروف سیاسی تجزیہ کار خیال کرتے تھے کہ ڈونلڈ ٹرمپ، ری پبلکن پارٹی کی اُمیدواری کی منزل سر نہیں کرسکیں گے لیکن موصوف نے بڑی چابک دستی سے اپنے تمام گھاگ اور تجربہ کار حریفوں کو مات کر دیا۔ اسی طرح ڈیموکریٹک پارٹی کی صدارتی اُمیدوار امریکا اور امریکا کے باہرعالمی سیاست پر نظر رکھنے والے بیش تر دانش وروں، صحافیوں، سفارت کاروں اور سیاسی مبصرین کا خیال تھا اور راے عامہ کے تمام ہی سروے یہ خبر دے رہے تھے کہ ہیلری کلنٹن انتخاب جیت جائیں گی، لیکن ۹نومبر۲۰۱۶ء کو سب ورطۂ حیرت میں ڈوب گئے کہ ہیلری سے ۲۹لاکھ کم ووٹ حاصل کرنے کے باوجود صدارتی بازی ٹرمپ نے جیت لی۔

اسی طرح سبھی سمجھ رہے تھے کہ انتخابی مہم کے دوران بلند بانگ دعوے، دل خوش کُن وعدے، ہوش ربا اعلانات، حتیٰ کہ جو متضاد پالیسی اہداف پوری تحدی اور خطابت کی گرم گفتاری کے ساتھ اس صدارتی امیدوار نے بیان کیے تھے، وہ محض سب انتخابی مہم کا حصہ تھے۔ صدارت کی ذمہ داری پڑنے کے بعد یہ صاحب ہوش کے ناخن لیں گے اور منقسم قوم کو جوڑنے اور حقیقت پسندی کی دنیا میں سب کو ساتھ لے کر چلنے کے جذبے سے ملکی اور عالمی سیاست کو ایک مثبت جہت دینے کے لیے اُمید اور روشنی کے پیامی بن کر اپنے صدارتی دور کا آغاز کریںگے لیکن ٹرمپ صاحب نے نہ صرف اپنی صدارتی تقریر میں ان سب توقعات کو پاش پاش کر دیا، بلکہ اپنی ٹیم کے انتخاب اور صدارت کے پہلے دس دنوں ہی کے اقدامات میں وہ تشویش ناک صورتِ حال پیدا کردی، جس میں حالات کی سنگینی پر نظر رکھنے والے ’تباہی اور بربادی کے سونامی‘ کے خطرات دیکھ رہے ہیں۔ صاف نظر آرہا ہے کہ آنے والے چار سال امریکا ہی نہیں پوری دنیا کے لیے بڑے طوفانی سال ہوں گے اور امریکی عوام اور دنیا کی تمام ہی اقوام کو سیاسی زلزلوں کے جھٹکوں اور ان کے جلو میں پیدا ہونے والے بعد از تلاطم صدمات ( after-shocks)سے سابقہ رہے گا۔

نائن الیون اور مسلم دنیا پر یلغار

۲۱ویں صدی کا آغاز ’نائن الیون‘ (۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء) کے نیویارک ورلڈ ٹریڈ سنٹر اور واشنگٹن کے پینٹاگون پر ہوائی حملے سے ہوا جس کے نتیجے میں مسئلے سے نبٹنے کے لیے کوئی مثبت اور سوچی سمجھی حکیمانہ پالیسی بنانے کے بجاے، نشۂ قوت کی بدمستی میں پوری دنیا کو دہشت گردی کے خلاف ایک عالمی جنگ کی آگ میں جھونک دیا گیا۔ جدید تاریخ کی یہ عجیب و غریب جنگ ۱۵سال سے جاری ہے۔ جس میں افغانستان، عراق، شام اور لیبیا تباہ کر دیےگئے ہیں۔ ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کو امریکا میں ۴۰ممالک کے تقریباً ۳ہزار افراد کی ہلاکت کا بدلہ لینے کے لیے امریکا نے اپنی سربراہی میں جو جنگ شروع کی تھی، اس میں ۶لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ ستم ظریفی   یہ ہے کہ امریکا اور ناٹو کے ہلاک ہونے والے فوجی افسروں اور جوانوں کی تعداد ۳ہزار سے تجاوز کرگئی ہے۔اس سے چارگنا زیادہ زخمی اور اپاہج ہوچکے ہیں۔ ۸۰لاکھ سےزائد افراد بے گھر ہوچکے ہیں، جن میں سے ایک بڑی تعداد اپنے اپنے تباہ کردہ ممالک میں یا پھر دیگر ممالک میں مہاجرت پر مجبور ہوئی ہے۔ مالی اعتبار سے دنیا اس جنگ کی جو قیمت اب تک ادا کرچکی ہے اس کا اندازہ ۶ سے ۸ ٹریلین ڈالر ہے، جس کا اگر نصف بھی دنیا کے انسانوں کو غربت، بھوک اور بیماری سے نجات دلانے کے لیے استعمال ہوتا تو دنیا کی آبادی کا ۵۰ فی صد (۳ء۶ ملین افراد) جو اس وقت غربت ، جہالت اور فاقہ کشی کا شکار ہے۔ترقی یافتہ ممالک کی اوسط آمدنی کی آبادی کے معیار کے برابر آسکتا تھا۔

بڑی تباہی کی طرف پیش قدمی

ٹرمپ کی سربراہی میں امریکا کی نئی قیادت جو زبان استعمال کر رہی ہے اور جن عزائم کا اظہار کر رہی ہے، اس کے نتیجے میں ذہن یہ بات سوچ کر مائوف ہو جاتا ہے کہ ’الیون نائن‘ (۹نومبر) کے صدارتی انتخابی نتائج دنیا کو ’نائن الیون‘ کے زلزلے سے بھی بڑے زلزلے کی طرف لے جارہے ہیں۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ ’الیون نائن‘ کے نتیجے میں ۲۰جنوری ۲۰۱۷ء کو جس قیادت نے امریکا کی زمامِ کار سنبھالی ہے، اس کے ذہن، تصورِ جہاں، سیاسی شاطرانہ چالوں، معاشی حکمت عملی اور اندازِ کار کو ٹھنڈے دل و دماغ سے سمجھا جائے۔ پھر دنیا کو اس تباہی سے بچانے کے لیے سوچ بچار سے کام لیا جائے اور عملی اقدام کیے جائیں، تاکہ ۲۱ویں صدی کو جنگ و جدال اور تباہی و بربادی سے محفوظ کیا جاسکے اور انسانیت کو امن و سلامتی اور ترقی و خوش حالی کی راہ پر گامزن کرنے کی خدمت انجام دی جاسکے۔ واضح رہے کہ دنیا کو تباہی سے بچانے کی اس کوشش کے ذریعے ہی ہم جہاں خود اپنے گھر کو بچانے کی جدوجہد کریں گے، وہیں ہم اُمت مسلمہ کو محفوظ و مستحکم بنانے اور پوری انسانیت کو خیروفلاح کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے بھی ایک کردار ادا کرسکیں گے۔

یاد رکھیے، جو پالیسیاں بھی خوف، نفرت، غصے اور انتقام کے جذبے کے تحت بنتی ہیں، وہ ہمیشہ تباہی کا ذریعہ بن جاتی ہیں۔ حقیقت پسندی کا تقاضا ہے کہ حالات کو ٹھیک ٹھیک سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ حقائق کے بارے اغماض، جانب داری اور پسند کے انتخاب (selectivity)  کے تباہ کن راستے سے بچیں، نیز مسائل اور زمینی رجحانات کو نظرانداز کر کے محض اپنی خواہشات کی بنیاد پر پالیسی بنانے سے مکمل احتراز کریں کہ یہ بڑے ہی خسارے کا سودا ہے۔

تبدیلی کی بنیادی وجہ اور اثرات؟

آیئے، سب سے پہلے یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ امریکا میں یہ تبدیلی کیوں اور کیسے آئی ہے؟

امریکا بلاشبہہ آج بھی دنیا کی درجہ اوّ ل کی طاقت ہے۔ ۳۳کروڑ کی آبادی کا یہ ملک جس کی آبادی دنیا کا صرف ۵ فی صد ہے، اس وقت دنیا کی دولت کے ۲۲ فی صد پر قابض ہے۔ اس ملک کی مادی ترقی اور خوش حالی کا آغاز انیسویں صدی کے شروع میں ہوا۔ اس وقت امریکا کے پاس دنیا کی دولت کا صرف ۱ء۴ فی صد تھا، جو دوسری جنگ عظیم(۴۵-۱۹۳۹ء) کے اختتام تک دنیا کی دولت کے ۴۵فی صد تک پہنچ گیا تھا۔ گذشتہ ۷۰برسوں کے دوران میں اگرچہ امریکا دنیا کا امیرترین اور طاقت ور ترین ملک رہا لیکن اس کی تقابلی پوزیشن میں بڑی تبدیلی آئی ہے۔

فوجی اعتبار سے امریکا آج بھی دوسرے تمام ممالک پر فوقیت حاصل ہے۔ اس کی فوج کا بجٹ آج بھی روس، چین، جرمنی، جاپان، فرانس اور برطانیہ کے مجموعی دفاعی بجٹ سے زیادہ ہے۔ دنیا کے ۸۹ممالک میں اس کے فوجی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں اور ۴۰ ممالک میں اس کے فوجی اڈے قائم ہیں۔ لیکن دوسری جانب معیشت کے میدان میں اسے ماضی جیسی برتری حاصل نہیں رہی۔ چین، روس، جرمنی، جاپان، برازیل اور چند دوسرے ممالک اس دوڑ میں برابر آگے بڑھ رہے ہیں اور چین اس وقت اس معاشی دوڑ میں دوسرے نمبر پر آچکا ہے اور اگلے ۱۵، ۲۰ سال میں پہلی پوزیشن میں آنے کا اُمیدوار ہے۔

ٹکنالوجی کے میدان میں جو تبدیلی گذشتہ ۵۰برسوں میں آئی ہے اور عالم گیریت (Globalization)کے نتیجے میں امریکا کی صنعتی پیداواری صلاحیت میں جو کمی ہوئی ہے۔ اس کے نتیجے میں علاقوں کے علاقے ’غیرصنعتی بحران‘ (de-industrialization ) کا شکار ہوئے ہیں، جس کا  افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ درمیانی آمدنی والا طبقہ شدید معاشی دبائو کا شکار ہے۔ اس پس منظر میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کا مالی بوجھ اور پھر ۲۰۰۸ء سے شروع ہونے والے عالمی مالیاتی بحران نے آبادی کے ایک بڑے طبقے کو بُری طرح کچل کر رکھ دیا ہے۔ افریقی امریکیوں میں تو غربت اور بے روزگاری پہلے ہی بہت زیادہ تھی، لیکن گذشتہ ۲۰، ۲۵ برسوں میں سفیدفام آبادی میں بھی غربت اور بے روزگاری میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ پھر تقسیمِ دولت کے سرمایہ دارانہ نظام کے ہاتھوں ملک میں شدید عدم مساوات کا دور دورہ اور معاشی ترقی کے اصل فوائد سے صرف مال دار طبقہ فیض یاب ہوا ہے، جب کہ آبادی کا بڑا حصہ محرومیوں کا شکار ہے۔

کچھ پس پردہ حقائق

امریکا میں آبادی کے ۵۰ فی صدی کا حال یہ ہے کہ اس کی حقیقی اُجرت (real wages) تقریباً ۳۵، ۴۰ سال سے ایک ہی سطح پرہے یا اس میں کچھ کمی ہوئی ہے۔ لیکن آبادی کا ایک فی صد جو امیرترین ہے، اس کی دولت میں ہوش ربا اضافہ ہوا ہے۔ عالم گیریت، مارکیٹ اکانومی، آزاد تجارت اور آبادی کی منتقلی کی سہولت نے امیروں کو امیرتر اور غریبوں کو غریب تر کردیا ہے۔ جنوری ۲۰۱۶ء اور جنوری ۲۰۱۷ء میں Oxfam کی جو دوسالانہ رپورٹیں شائع ہوئی ہیں، وہ معاشی ناانصافی، دولت کی عدم مساوات اور اکثریت کی زبوں حالی کا بڑا دردناک نقشہ پیش کرتی ہیں:

۲۰۱۶ء کی رپورٹ کا نام ہے: An Economy for the 1%: How Privilage and Power in the Economy Drive Extreme Inequality and how this can be stopped.

اور ۲۰۱۷ء کی رپورٹ کا عنوان ہے: An Economy for the 99%. Its time to build a Human Economy that benefits everyone, not just the Privileged Few.

۲۰۱۷ء کی رپورٹ سے ہم صرف چند حقائق پیش کرتے ہیں، تاکہ زمینی صورتِ حال کو سمجھنے، عوامی سطح پر اصل اضطراب کی نوعیت کا فہم حاصل کرنے کے ساتھ تبدیلی کی خواہش کا صحیح اِدراک کیا جاسکے اور اس کی وجوہ کا اندازہ کیا جاسکے جو اضطراب اور بے چینی کے سیلاب کا ذریعہ ہیں:

  •                              ۲۰۱۵ء میں دنیا کے مال دار ترین لوگ جو دُنیا کی کُل آبادی کا محض ایک فی صد ہیں، وہ باقی دنیا کی کُل دولت سے زیادہ کے تنہا مالک ہیں۔
  •                               (ان میں سے) صرف آٹھ آدمی ایسے ہیں جو کرئہ ارض کے نصف غریب ترین لوگوں کی کُل دولت سے زیادہ کے مالک ہیں۔
  •                                اگلے ۲۰برسوں میں، ۵۰۰ ؍افراد ۲ء۱ ٹریلین ڈالر اپنے وارثوں کو وراثت میں دے کر جائیں گے۔ یہ رقم بھارت، جس کی آبادی ایک ارب ۳۰کروڑ ہے، اس کے کُل جی ڈی پی سے زیادہ ہے۔
  •                                دنیا کے غریب ترین ۱۰ فی صد لوگوں کی آمدن میں ۱۹۸۸ء سے ۲۰۱۱ء کے درمیان تین ڈالر سالانہ سے بھی کم اضافہ ہوا، جب کہ دنیا کے امیر ترین ایک فی صد لوگوں کی آمدنی میں اس کے مقابلے میں ۸۲ فی صد اضافہ ہوا۔

                l               FTSE-100 کا چیف آفیسر تنہا ایک سال میں اتنا کما لیتا ہے، جتنا کہ بنگلہ دیش کے ملبوسات کے کارخانوں میں کام کرنے والے ۱۰ہزار کارکن مل کر کماتے ہیں۔

  •                                امریکا میں، ماہر معیشت طامس پیکٹی کی گئی تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ گذشتہ ۳۰برسوں میں زیریں ۵۰ فی صد آبادی کی آمدن کی افزایش زیرو فی صد رہی ہے جب کہ بالائی ایک فی صد کی آمدن میں ۳۰۰ فی صد اضافہ ہوا ہے۔
  •                                ویت نام میں، ملک کا امیرترین شخص ایک دن میں اس سے کہیں زیادہ کما لیتا ہے جتنا کہ وہاں کا غریب ترین فرد ۱۰برسوں میں کماپاتا ہے۔

اس صورتِ حال کے لیے حکومتوں اور کمپنیوں کے پالیسی سازوں کو کم از کم جزوی طور پر تو ذمہ دار قرار دیا جاسکتا ہے۔ کرئہ ارض پر ہونے والے حالیہ سیاسی واقعات نے ایک اور بڑی تقسیم؍تفریق کاری کو جنم دیا ہے اگر ہم عدم مساوات سے نبٹنا چاہتے ہیں تو اس کی طرف فوری طور پر توجہ منعطف کرنا بہت ضروری ہے۔

اس رپورٹ کے مطابق بریگزٹ (Brexit) { FR 891 } سے لے کر ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارتی مہم کی کامیابی تک، نسل پرستی میں پریشان کُن اضافہ اور مین سٹریم سیاست سے وسیع پیمانے پر مایوسی اور بددلی تک، اس بات کے روزافزوں اشارے مل رہے ہیں کہ مال دار ملکوں میں زیادہ لوگ اب اسٹیٹس کو برداشت کرنے کے لیےمزید آمادہ نہیں ہیں۔ یہ آخر اسے برداشت کریں بھی تو کیوں، جب کہ تجربے سے یہ اشارے ملے ہیں اس کی وجہ سے جو کچھ حاصل ہو رہا ہے، وہ جامد معاوضے، غیرمحفوظ ملازمتیں اور صاحب ِ ثروت اور نادار لوگوں میں بڑھتی ہوئی خلیج ہے ۔ چیلنج جس کا سامنا ہے، وہ یہ ہے کہ ایک مثبت متبادل (Alternative)تعمیر کیا جائے، ایسا نہیں جو تقسیم در تقسیم کو ہوا دے۔

واضح رہے کہ آج دنیا بھر میں صرف آٹھ افراد اتنی دولت کے مالک ہیں جتنی دنیا کے ۳؍ارب ۳۰کروڑ کا مقدر ہے اور ان میں آٹھ میں سے چھے افراد امریکی ہیں۔ یہ بھی ذہن میں رہے کہ ۲۰۱۰ء میں دنیا کی ۵۰ فی صد آبادی کی دولت کے برابر دولت کے مالک افراد کی تعداد ۳۸۸ تھی، جو ۲۰۱۵ء میں ۶۲ رہ گئی تھی اور ۲۰۱۶ء کے آخر میں اب دولت کا یہ ارتکاز اورسمٹائو صرف آٹھ افراد تک ہوگیا ہے۔ علامہ اقبال نے اسی کا تصور کر کے اللہ تعالیٰ سے گریہ کیا تھا کہ   ؎

کب ڈُوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ

دُنیا ہے تری منتظر روزِ مکافات!

شاطرانہ ذہانت کا استعمال

ڈونلڈ ٹرمپ نے ’تبدیلی‘ کے نعرے کو بڑی ہوشیاری اور چابک دستی سے اپنے حق میں استعمال کیا ہے، حالاں کہ اس کا تعلق اسی سفاک سرمایہ دار طبقے سے ہے، جو اس ہوش ربا استحصال کا ذمہ دار ہے۔ اس نے امریکا میں باہر سے آکر آباد ہونے والے پردیسیوں اور عالم گیریت کو، سفیدفام آبادی کی غربت اور معاشی ابتری کا ذمہ دار ٹھیرایا ہے۔ پھر اس نظام کو بدلنے اور امریکا کے معاشی اور سیاسی حکمران طبقے کو چیلنج کرکے اپنے کو متبادل کے طور پر پیش کیا ہے۔ سوشل میڈیا کی قوت کو استعمال کر کے اقتدار کے محافظوں اور طاقت کے روایتی کارگزاروں اور دلالوں (brokers) کو ایک طرف دھکیل کر عوام کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا۔

یہ امریکی تاریخ کا ایک عجوبہ ہے کہ ایک ایسا شخص جسے نہ اعلیٰ تعلیم کا اعزاز حاصل ہے، نہ کوئی سیاسی یا انتظامی تجربہ اس کے دامن میں ہے، جس کا پورا کردار یا پراپرٹی ڈیلر یا ڈویلپرکا سا ہے، یا ٹی وی کے ہنرمند بازی گر (entertainer ) کا سا۔ جس کی اپنی امریکیت کی عمر بھی کچھ زیادہ طویل نہیں ہے۔ جس کا دادا جرمنی سے امریکا مہاجرت کرکے آیا تھا۔ جس کی تیسری بیوی کی پیدایش سلاوینیطا (Salavinita) کی ہے اور جسے امریکی شہریت ۲۰۰۵ء میں حاصل ہوئی ہے۔ اس نے متوسط طبقے کی معاشی بدحالی اور مہاجرت کرنے والے (immigrants) لوگوں کو جن میں: میکسی کن ، لاطینی امریکی، چینی، برعظیم پاک و ہند، افریقہ اور عرب دنیا سے آنے والے نوامریکی لوگوں کو جن کی تعداد اس وقت آبادی کا ۱۴ فی صد سے زیادہ نہیں ہے، انھی کو نشانہ بناکر اور زیرزمین نفرت اور خوف کے لاوے کو پکاکر اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے۔ ووٹ کی طاقت کے ذریعے امریکا کے مقتدر طبقات کو چیلنج کیا ہے۔ خود اپنی پارٹی کے روایتی قائدین کے چھکے چھڑا دیے اور بالآخر صدارت پر براجمان ہوگیا ہے۔

یہ صحیح ہے کہ اس کی سیاست قوم کو تقسیم کرنے سے چمکی ہے اور اس نے تمام اقلیتوں اور خصوصیت سے مسلمانوں کو ہدف بناکر قربانی کا بکرا ( scapegoat) بنا کر اپنا مقصد حاصل کیا ہے۔ امریکا کے انتخابات میں سیاسی گرماگرمی تو ہمیشہ ہی ہوتی تھی، لیکن ۲۰۱۶ء کے انتخابات میں جس طرح نفرت، غصے، خوف اور انتقام کا دور دورہ رہا، وہ غیرمعمولی واقعہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انتخابات اور انتقالِ اقتدار کے بعد بھی تنائو اور تصادم کی فضا موجود ہے۔

امریکا کی سوسالہ تاریخ میں انتخابات کے بعد اور صدارتی حلف برداری کی تقریب اور اس کے بعد مظاہروں کی وہ کیفیت کبھی رُونما نہیں ہوئی جو اس بار ہوئی ہے اور اس کے تھمنے کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا۔ اس لیے کہ صدرٹرمپ نے لوگوں کو جوڑنے اور انتخابی معرکے کے ٹکرائو کو پیچھے  چھوڑ کر نئے اتحاد اور قومی یک جہتی اور مشترکات پر قوم کو جمع کرنے کا راستہ اختیار نہیں کیا ہے۔ اس کے برعکس رنگ و نسل کی بنیاد پر اس تقسیم کو ملک ہی نہیں عالمی سطح تک پھیلا کر اپنے ایجنڈے پر عمل، اس کا ہدف نظر آرہا ہے جو دنیا کو اور زیادہ غیرمحفوظ بنائے گا اور تصادم اور دہشت گردی کو فروغ دینے کا باعث ہوگا۔

اس انتخاب سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ جمہوریت میں قیادت کے لیے ازبس ضروری ہے کہ ان کا ہاتھ عوام کی نبض پر ہو اور ان کے مسائل، ان کے متعلقات (concerns)، ان کی مشکلات، ان کے عزائم اور تمنائوں کا صحیح ادراک ہو۔ پھر وہ زبان استعمال کی جائے جسے عوام سمجھتے ہوں اور جو ان کے دل کی گہرائیوں میں اُتر سکے اور ان کو سیاسی تائید، تحرک اور ووٹ کی قوت سے تبدیلی کے لیے اُٹھا سکے۔

صدر ٹرمپ نے بڑی ہوشیاری اور چالاکی کے ساتھ عوام خصوصیت سے محروم طبقات کے جذبات کوسمجھا اور ان کو اپنے سیاسی عزائم کے لیے متحرک اور استعمال کیا۔ اسے اندازہ تھا کہ   زمینی معاشی حقائق کیا ہیں؟آبادی کے تناسب میں جو تبدیلیاں واقع ہورہی ہیں اور ان کو سفیدفام آبادی کس طرح محسوس کر رہی ہے۔ ان پر اس کی نگاہ تھی۔ پھر اسے یہ بھی اندازہ تھا کہ کوئی کھل کر اسے ایشو بنانے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس نے ایک طاقت کے روایتی مراکز کی مخالفت مول  لے کر، اس طبقے کی تائید حاصل کی جو اس کی کامیابی کے لیے ذریعہ بن سکتا تھا، کہ جن سے خود اس کو اپنی سوچ بھی جِلدکی رنگت اور مذہب سے نسبت سے ہم آہنگ تھی۔

چیلنج کا جواب یا مہارتوں کا استعمال

 گلوبلائزیشن جسے امریکی انتظامیہ نے اپنے مفاد کی خاطر ’تقدیس‘ کے درجے پر پہنچادیا تھا اور اس کے خلاف بات کرنا گویا کفر کے مترادف ہوگیا تھا، ٹرمپ نے اسے کھل کر چیلنج کیا اور اس کے نتیجے میں جو مسائل مقامی یا قومی سطح پر پیدا ہوئے تھے، ان کو مبالغہ آمیز حد تک نمایاں کیا۔ مسائل کا ٹھیک ٹھیک ادراک کرنا، تبدیلی کے نعرے کو صحیح انداز میں اپنانا اور اس کی علامت بن جانا، مقتدر قوتوں کو چیلنج کرنا اور عوام کو یہ اعتماد دینا کہ ان قوتوں سے ٹکر لینے کی ہمت اور صلاحیت چیلنج کرنے والے میں موجود ہے اور اس کے لیے وہ کسی بھی حد تک جاسکتا ہے۔ پھر یہ سارا کام روایتی ذرائع ابلاغ کے ساتھ غیرروایتی ابلاغ کے ان تمام ذرائع کو استعمال کر کے انجام دیا، جن سے بلاواسطہ عوام تک پہنچا جاسکتا ہے۔ ٹرمپ نے سوشل میڈیا کا استعمال بڑی مہارت سے کیا۔ ۳۰لاکھ سے زائد افراد اس کے twitter کے ساجھی تھے۔

ٹرمپ کی مہم کے سلسلے میں تحقیق کرنے والوں نے چند بڑی اہم چیزوں پر روشنی ڈالی ہے جو قابلِ غور ہیں:

ان کا کہنا ہے کہ راے عامہ کے تمام ہی جائزے اس بنا پر صحیح تصویر پیش کرنے میں ناکام رہے کہ ٹرمپ کے ووٹروں کی ایک بڑی تعداد نے اپنی تائید کو صرف ووٹ کی شکل میں ظاہر کیا اور  انتخاب سے پہلے یا انتخاب کے روز راے عامہ کے سروے (exit poll) تک میں اپنے جذبات کا اظہار نہیں کیا۔ چونکہ مسئلہ اسٹیبلشمنٹ سے ٹکرائو کا تھا، اس لیے یہ راستہ تک اختیار کیا گیا۔

خواتین کے ووٹ نے بھی ایک غیرمتوقع کردار ادا کیا۔ سب کا خیال تھا کہ ٹرمپ نے خواتین کے بارے میں جو نازیبا باتیں کہی ہیں، ان کی وجہ سے خواتین کی ایک بڑی تعداد اس سے   متنفر ہوگئی ہوگی۔ حالاںکہ ایسا نہیں ہوا اور خواتین ووٹروں کی ۵۳ فی صد نے ٹرمپ کو ووٹ دیا۔ ہیلری کلنٹن کا خاتون ہونا بھی اس کے کام نہیں آسکا۔ امریکی اسٹیبلشمنٹ سے وابستگی یا قربت کا تاثر اس کے لیے ووٹ کی راہ میں حائل ہوگیا اور خواتین ووٹروں نے محض خاتون ہونے کے ناتے نسوانی خوداختیاریت (Feminism)کے نعروں کے زیراثر ووٹ کو استعمال نہیں کیا۔

یہ انتخابات امریکی معاشرے کی اخلاقی حالت اور سماجی اقدار کو سمجھنے کا بھی ایک آئینہ ہیں۔ ذاتی زندگی اور پبلک لائف کو الگ الگ دائروں میں محصور کرنا سیکولر معاشرے کی ریت ہے۔ ایک وقت تھا کہ جب سیاسی قیادت کے لیے کچھ خاص اخلاقی اقدار کا حامل ہونا ضروری سمجھا جاتا تھا۔ مذہب اور ریاست کی تقسیم کو تسلیم کرنے کے باوجود کچھ اخلاقی صفات اور کردار کی کچھ خاص خوبیوں کو سیاسی قیادت کے لیے ضروری سمجھا جاتا تھا۔ فرد کی جنسی زندگی کے بارے میں عام معاشرے میں خواہ کتنی بھی رواروی اور آزاد خیالی ہو، مگر سیاسی قیادت سے ایک خاص کردار کی توقع ہوتی تھی۔

یہ ہمارے مشاہدے کی بات ہے کہ ۱۹۶۰ء اور ۱۹۷۰ء کی دہائیوں تک امریکی صدارتی اُمیدوار کی اگر کسی بداخلاقی اور مالی معاملات میں بے قاعدگی کی بات منظرعام پر آتی تھی، تو کم از کم صدارتی اُمیدوار کے لیے راہ کھوٹی ہوجاتی تھی۔ لیکن اب نوبت بہ اینجا رسید کہ ایک درجن سے زائد خواتین برملا دست درازی کی شکایت کرتی ہیں، مگر نہ صدارتی اُمیدوار میدان چھوڑتا ہے اور نہ ووٹروں پر اس کا کوئی اثر ہوتا ہے۔ حالاں کہ ۳۰، ۴۰ سال پہلے تک یہ روایت تھی کہ ایسے حالات میں صدارتی اُمیدوار خود بخود دست کش ہو جاتا تھا۔

اخلاقی اُمور کمیٹی کی اہمیت اور کردار

امریکا ہی نہیں، مغربی دنیا کے تمام ہی جمہوری ممالک میں سیاسی قیادت کے لیےاخلاقی مضبوطی (integrity)  ایک لازمی صفت تھی۔ سر آئی ورجے نگز (Jennings) اپنی کتاب Cabinet Goverment میں پورے وثوق کے ساتھ یہ دعویٰ کرتا ہے کہ سیاسی قیادت اور پارلیمان کے ارکان کے لیے یہ صفت ہر دوسری صفت سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ امریکا کا ایک مشہور پارلیمانی مشیر اسٹیو سمڈٹ (Steve Schmidt) جس نے بہت اہم انتخابی مہموں کی نگرانی کی ہے صاف الفاظ میں کہتا ہے کہ قیادت میں صداقت او ر حق پرستی جمہوریت کی بقا کے لیے ناگزیر ہیں۔ (ملاحظہ ہو نیویارک ٹائمز، ۳۱جنوری ۲۰۱۷ء میں ڈیوڈہارسٹر کا صفحہ اوّل کا مضمون: Trump and his long history of untruths)

آج بھی دنیا کی بیش تر پارلیمنٹوں میں ’اخلاقی اُمور کمیٹی‘ ایک اہم کمیٹی ہوتی ہے، جو پارٹی کی وفاداری اور گروہی عصبیت سے بالا ہوکر آزادانہ کام کرتی ہے۔ امریکی کانگرس میں بھی ’اخلاقی اُمورکمیٹی‘ آج بھی موجود ہے ۔ گو یہ اور بات ہے کہ اب اس میں بھی تبدیلی لانے کی باتیں ہورہی ہیں۔ واضح رہے ایک وقت وہ بھی تھا جب امریکا کے قانون میں ملک کی شہریت کے لیے بھی اچھا کردار ایک لازمی شرط تھی۔ ۱۷۹۰ء کے شہریت کے قانون میں جہاں ہرشہری کے لیے آزاد ’سفیدفام مرد و عورت‘ہونا ضروری تھا (کہ غلام اورسیاہ فام اس زمانے میں شہری نہیں بن سکتے تھے) وہاں دو مزید شرائط یہ بھی تھیں، یعنی: ’اچھا اخلاقی کردار اور کم از کم دوسال سے امریکا میں قیام‘۔

لیکن اب اخلاقی اقدار اور کردار قصۂ پارینہ بن چکے ہیں اور اس صدارتی انتخاب میں یہ بات بہت ہی کھل کر سامنے آئی ہے۔ صدر ٹرمپ نے اپنی دولت کس طرح کمائی، ٹیکس ادا کیے یا نہیں؟ بار بار دیوالیہ ہوکر قرض داروں سے کیسے نجات پائی؟ ٹرمپ یونی ورسٹی میں طلبہ سے لاکھوں ڈالر غلط بیانی سے کس طرح حاصل کیے؟{ FR 893 }  ___ یہ سب کھلے حقائق ہوتے ہوئے بھی انتخاب میں غیرمتعلق ہی رہے۔ حتیٰ کہ صدارت کے عہدے پر پہنچنے کے بعد بھی مطالبے کے باوجود ٹیکس کا ریکارڈ پیش کرنے سے انکار اور اپنے یہودی داماد کو وائٹ ہائوس کی انتظامیہ میں اہم کردار دینے اور بین الاقوامی سیاست، خصوصیت سے اسرائیل سے امریکا کے تعلقات کی نگہداشت کے لیے ذمہ داریاں سونپنے میں بھی کوئی باک محسوس نہیں کیا گیا۔ حالاں کہ اہم سیاسی دانش ور اس پر    چیخ پکار کر رہے ہیں اور مفادات کے ٹکرائو کی دہائی دے رہے ہیں۔

صدر ٹرمپ کی شخصیت، ان کا اندازِ گفتگو، ذاتی اخلاق، معاشرتی معاملات، طریق تجارت، کاروباری دیانت اور معاملات میں عدم شفافیت کے بارے میں جو شہرت ہے، اسے امریکی جمہوریت کا غارت گرِ حُسن ہی کہا جاسکتا ہے۔

نومبر کے صدارتی انتخابات کے بارے میں ایک بات یہ بھی کہی جارہی ہے کہ اس انتخاب میں مقابلہ ’کون بہتر ہوگا؟‘ کی بنیاد پر نہیں بلکہ کون کم خراب ہوگا کی میزان پر ہوئے۔ گویا ٹرمپ کی کامیابی کا اصل سبب ہیلری کلنٹن اور ڈیموکریٹک پارٹی کی ناکامی ہے۔ پھر ایک اور بڑا اہم سبب خود طریق انتخاب ہے جس پر انگلی اُٹھائی جارہی ہے۔ ہیلری کو ڈیموکریٹک پارٹی کی ساری غلطیوں کے باوجود ۳۸ لاکھ ووٹ زیادہ ملے مگر ریاستی بنیاد پر ہونے والے الیکٹورل کالج اور اس کے متعین ووٹ کے نظام کی وجہ سے صدارتی انتخابی ادارے میں ٹرمپ صاحب کو اکثریت حاصل ہوگئی۔ الیکشن میں بدعنوانی ہونے کی بات پہلے خود ٹرمپ صاحب نے انتخابی مہم کے دوران کہی تھی اور پھر سی آئی اے اور تمام انٹیلی جنس ایجنسیوں نے مشترکہ طور پر روس کی hacking کا دعویٰ کیا۔     اس سب کے باوجود یہ امریکی جمہوریت ہی کا حصہ کہ ووٹ کے ذریعے اور دستور اور قانون کے دائرے کے اندر اقتدار کی منتقلی واقع ہوئی۔ گو عوامی سطح پر صدر ٹرمپ کو وہ مقبولیت حاصل نہیں، جو ان سے پہلے کے صدور کو حاصل رہی ہے۔ وہ تاریخ کے سب سے کم مقبول منتخب صدر کی حیثیت سے وائٹ ہائوس میں تشریف لائے ہیں۔

جارج بش کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ ان کو پہلی صدارت کی تقریب حلف برداری کے وقت ۴۵ فی صد عوام کی تائید حاصل تھی اور اس طرح وہ گویا ۵۰ فی صد کی سطح سے نیچے تھے ،لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کو مختلف جائزوں کی روشنی میں ۳۲ سے ۳۷ فی صد امریکی عوام کی تائید حاصل تھی۔ واضح رہے کہ صدر اوباما کو جب انھوں نے جنوری ۲۰۰۹ء میں حلف اُٹھایا، تو مختلف راے عامہ کے جائزوں کے مطابق۵۳ فی صد سے ۶۰فی صد عوام کی تائید حاصل تھی اور جب صدر اوباما صدارت سے فارغ ہوئے اس وقت بھی عوامی جائزوں میں ان کی مقبولیت ۵۲ فی صد سے زیادہ تھی۔

ٹرمپ کی ٹیم: توقعات و خدشات

صدر ٹرمپ کی نہ صرف یہ کہ مقبولیت کا گراف کم تھا بلکہ وہ جدید تاریخ کے پہلے صدر ہیں جن کے خلاف ملک بھر میں ان کے انتخاب کے اعلان کے بعد سے لے کر ان کی تقریب حلف برداری اور اس کے بعد بھی امریکا ہی نہیں دنیا کے مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے ہوتے رہے ہیں اور ایک بڑی تعداد نے ان کو ایک ’جائز صدر‘ (Legimate president ) تسلیم نہیں کیا۔

بدقسمتی سے صدارت کے پہلے دس دنوں ہی میں انھوں نے جو احکامات جاری کیے ہیں، ان میں سے چند نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ خصوصاً ۲۷جنوری کو مسلمان ممالک سے آنے والے افراد کے بارے میں بالعموم اور مسلمانوں کے بارے میں بالخصوص ان کے احکامات نے جو افراتفری برپا کی ہے، اس نے دنیا بھر میں احتجاجی مظاہروں کو جنم دیا ہے جس سے بین النسلی اور سیاسی فضا بُری طرح مکدر ہوگئی ہے۔ آبادی میں تلخی اور بے اعتمادی میں نمایاں اضافہ ہوا ہے جس نے  امریکا کے شہریوں کے درمیان باہمی اخوت، بھائی چارے اور امریکا اور دنیا کے دوسرے ملکوں اور اقوام کے مابین، خصوصیت سے مسلمانوں سے تعلق کو بُری طرح متاثر کیا ہے۔ کچھ حلقے تو اس خطرے تک کی طرف اشارہ کررہے ہیں کہ ان حالات کے دبائو میں صدرٹرمپ کوئی ایسی حرکت نہ کر گزریں کہ جو دنیا کو خدانخواستہ جنگ کی طرف لے جانے کا باعث بن جائے۔

عرب نیوز (۲۹جنوری ۲۰۱۷ء)کا ایک نامہ نگار ایک اہم ایشیائی ملک کے سفیر کے خدشات کا اظہار کرتا ہے جو قابلِ غور ہیں:

انسان کو امریکا سے ہمدردی محسوس ہوتی ہے کیوں کہ یہ اس کا نقصان ہے۔ اس سے امریکا کا عالمی اثر اور قیادت اس سے چھن جائیں گے اور یہ وہ قیمت ہوگی جو اسے ان پالیسیوں؍ حکمت عملیوں کے عوض دینا ہوگی جن کا وہ مثلاً چین کے حوالے سے منصوبہ بنائے ہوئے ہے اور اس کی بیش تر معاشی قیمت امریکا ہی کو ادا کرنا ہوگی۔ امریکا کا دوسرے ملکوں سے الگ تھلگ رکھنے کا رویّہ ہمیں نقصان نہیں پہنچائے گا کیوں کہ دنیا اس کے ساتھ نبٹ سکتی ہے، مگر یہ بنیادی طور پر امریکا کو نقصان پہنچائے گا، جسے اس معرکے میں فتح کے بجاے شکست کا سامنا ہوگا۔ ایشیائی قوم کے سفیر نے، جس پر چینی پالیسیوں کا گہرا اثر ہے، دلیل دی کہ امریکا کی پسپائی چین کے عروج کو تیز تر کردے گی، کیوں کہ چین اس خلا کو پُر کرنے کے لیے تیار بیٹھا ہے۔ ’’تاہم ہمارا سب سے بڑا خوف یہ ہے کہ ٹرمپ کی احمقانہ پالیسیوں کے نتیجے میں امریکا کے معاشی مصائب بدتر ہوجائیں گے اور اس چیز سے تحریک پاکر اس کا یہ عقیدہ ہوجائے گا کہ اب اسے اس نقصان کا ازالہ کرنے کے لیے کہیں جنگ کی ضرورت ہے۔

باراک اوباما کا دور

ایک اور پہلو جس کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، یہ ہے کہ صدر ٹرمپ کا انتخاب کسی خلا میں منعقد نہیں ہوا ہے۔ ۲۰۱۶ء کے انتخابی نتائج کو اس پس منظر سے کاٹ کر نہیں دیکھا جاسکتا کہ ان سے پہلے باراک اوباما آٹھ سال امریکا کے صدر رہے۔ وہ بھی تبدیلی کے نعرے کے ساتھ ہی صدارتی انتخاب میں کامیاب ہوئے تھے۔ ان سے قبل جارج بش کے آٹھ سال امریکا اور دنیا کے لیے ترقی معکوس کے سال تھے۔ صدر اوباما، کانگرس کے ان چند نمایاں ارکان میں سے تھے، جنھوں نے ۲۰۰۳ء سے عراق کی جنگ کی کھل کر مخالفت کی تھی اور اسے تباہی کا راستہ قرار دیا تھا۔ صدراوباما امریکی تاریخ کے پہلے سیاہ فام صدر تھے اور جن لوگوں نے یہ پیش گوئی کی تھی کہ وہ دوسری باری نہیں لے سکیں گے، ان ’مستقبل بینوں‘ نے منہ کی کھائی۔ اس طرح ۲۰۱۲ء میں بھی اوباما بڑی اکثریت سے کامیاب ہوئے لیکن چند محاذوں پر انھیں بُری طرح ناکامی ہوئی۔

امریکا کے قومی ایجنڈے کے مطابق ان کے سامنے سب سے اہم محاذ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ تھا۔ اوباما جنگ ختم کرنے کے دعوے کے ساتھ صدر بنے تھے، لیکن: نہ صرف یہ کہ وہ عراق میں جنگ ختم نہ کرا سکے بلکہ مشرق وسطیٰ میں ایک اور جنگ کی آگ انھی کے دور میں پھیلی۔ لیبیا اور شام جنگ کی لپیٹ میں آگئے۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں کی کارستانیوں کی وجہ سے تباہی کا یہ بازار گرم ہوا۔ یمن بھی اپنے انداز میں آگ کی لپیٹ میں آگیا۔ یوکرائن میں بھی جنگ کے شعلے بلند ہوئے، خواہ اس کی بڑی ذمہ داری روس کی سیاسی انگڑائیوں پر تھی۔ افغانستان، امریکی کامیابیوں کے سارے دعوئوں کے باوجود، برابر جنگ کی آماج گاہ بنا ہوا ہے اور صدراوباما کو افواج کم کرنے کے بعد دوبارہ ان کی تعداد کو بڑھانا پڑا، اور اس کے باوجود افغانستان کے ایک چوتھائی حصے پر طالبان کی حکمرانی ہے اور عملاً ان کے اثرات مزید ۳۰ فی صد علاقے پر ہیں، حتیٰ کہ کابل بھی ان کی دسترس سے باہر نہیں۔ صدراوباما کے زمانے میں ڈرون حملے امریکی صدربش کے دور سے ۱۰گنا زیادہ ہوئے۔ صدراوباما کے اقتدار کے آخری سال (۲۰۱۶ء) میں امریکا نے دنیا کے سات ممالک میں ۲۶ہزار ۱۷۱ بم گرائے، اور یہ تعداد صدر بش کے دور سے کہیں زیادہ تھے۔

یہی معاملہ گوانتاناموبے کے عقوبت خانے کا ہے۔ صدراوباما اسے ختم کرنے کے دعوے کے ساتھ آئے تھے۔ وہ اپنی صدارت کے پہلے سال ہی میں یہ کارنامہ انجام دینا چاہتے تھے۔ لیکن آخری وقت تک ان کا کوئی بس نہ چلا اور آج بھی گوانتاناموبے کا تعذیب گھر امریکا کے چہرے پر کلنک کا ٹیکہ بنا ہوا ہے۔

انسانی حقوق کی پاس داری کے باب میں بھی صدر اوباما کا ریکارڈ مایوس کن رہا۔ امریکی فوج اور خفیہ ایجنسیوں کے ہاں بدترین تعذیب اور مبغوض ترین حربوں کا استعمال جاری رہا۔    عام انسانوں کی نجی زندگی کی نگرانی بلکہ ایک طرح کی غلامی کا ملک گیر ہی نہیں بلکہ عالم گیر نظام قائم کیا گیا۔ صدراوباما کو دنیا میں امن کے قیام کی خدمت کے سلسلے میں پیشگی نوبل انعام سے نوازا گیا، لیکن ان کے آٹھ سالہ دور میں نہ جنگ ختم ہوسکی اور نہ دہشت گردی، بلکہ اس کی تباہ کاریوں اور وسعتوں میں اضافہ ہی ہوا۔

دوسرا محاذ جس پر صدراوباما کو شدید ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا، وہ نسل و رنگ کی بنیاد پر امریکا میں قتل و غارت اور ظلم و استحصال پر مکمل قابو پانے کا دعویٰ تھا۔ کس قدر عبرت کا مقام ہے کہ خود   ان کے دورِ اقتدار میں صرف پولیس کے ہاتھوں سیاہ فام نوجوانوں کے ظالمانہ قتل کے واقعات میں نہ صرف یہ کہ کوئی کمی نہیں ہوئی بلکہ اس میں اضافہ ہوا اور ہرواقعے پر وہ آنسو بہانے کے سوا کچھ   نہ کرسکے۔

صدراوباما کو بہت مشکل معاشی حالات کا مقابلہ کرناپڑا اور پوری کوشش کے باوجود،   کچھ میدانوں میں جزوی کامیابی کے باوصف، وہ امریکا کے معاشی بحران پر قابو نہ پاسکے۔ مسلم دنیا سے بھی امریکا کے تعلقات کو بہتر بنانے کا دعویٰ کیا گیا تھا اور ۲۰۰۹ء میں قاہرہ کی تقریر اس ضمن میں ایک اہم آغاز تھا، مگر یہ آرزو بھی پوری نہ ہوسکی۔ بالآخر امریکا اور اسلامی دنیا میں بے اعتمادی اور بے زاری میں اضافہ ہی ہوا۔ ایران سے ایٹمی معاہدہ اور کیوبا سے تعلقات کی بحالی اہم مثبت کامیابیاں ہیں لیکن بحیثیت مجموعی ذاتی شرافت اور باوقار اسلوب کے باوجود، امریکا اور عالمی سطح پر ان آٹھ برسوں کو ترقی اور کشادگی کے سال نہیں کہا جاسکتا۔

ٹرمپ کی آمد ، اوباما کا ردعمل

ڈیموکریٹک پارٹی کے سیاہ فام صدراوباما کی یہ ناکامیاں ایک سفیدفام، دائیں بازو کے انتہاپسند صدر کی کامیابی کی راہ ہموار کرنے میں اہم محرک ثابت ہوئیں۔ صدر ٹرمپ اور صدراوباما   رنگ و نسل کے اعتبار سے ہی نہیں، نظریات، سیاسی ترجیحات، اخلاق و کردار، غرض ہراعتبار سے دوبالکل مختلف ماڈل پیش کرتے ہیں۔ ایسے نمونے جن میں بعدالمشرقین کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ ۲۰۱۶ء کے صدارتی انتخابات میں سیاست کی اس جست (swing) کا منظر بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ اور یہ کہا جاسکتا ہے کہ ۲۰۰۸ء میں صدراوباما کو منتخب کرکے امریکی جمہوریت نے اپنے جس جوہر کا مظاہرہ کیا تھا، وہ اپنی جڑیں اس زمین میں پیوست نہ کرسکا، بلکہ ایک واضح ردعمل رُونما ہوا، جسے سیاست کا انتقام بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔ وہ قوتیں جنھوں نے ۲۰۰۸ء اور ۲۰۱۳ء کے انتخابی رجحان کو مجبوراً قبول کرلیا تھا، انھوں نے ایک نئے اور زیادہ جارحانہ انداز میں اپنی بالادستی کو قائم کیا اور جو کچھ برتن کے اندر تھا وہ کھل کر باہر آگیا۔ اس سے یہ پہلو بھی سب کے سامنے آگیا کہ ہرمعاشرے کی طرح امریکی معاشرے میں بھی خیر اور شر دونوں کے عناصر بڑی تعداد میں موجود ہیں اور عمل اور ردعمل کا سلسلہ ہرجگہ دوسرے ملک اور معاشرے کی طرح وہاں بھی جاری وساری ہے۔

جہاں صدرٹرمپ اور اس کی پوری ٹیم کے چند واضح اہداف ہیں اور وہ ہے: ’سب سے پہلے امریکا‘ (America First ) اور ’امریکا کو عظیم بنانا‘ (Making America Great) ۔ ان نعروں کو اپنی اوّلین ترجیح بناکر سیاسی، معاشی، عسکری، ثقافتی ہر میدان میں کچھ بنیادی تبدیلیاں لانا صدر ٹرمپ کا ہدف ہے۔ یوں جارحانہ قوم پرستانہ دور کا آغاز ٹرمپ کی خواہش ہے جس میں امریکا کی سفیدفام آبادی کا کردار مرکزی ہوگا اور قومی اور عالمی دونوں سطح پر پالیسی سازی اور پالیسی کے نفاذ دونوں پہلوئوں سے نسبتاً سخت گیر اور صرف صدر کی شخصیت کے گرد (president centered) اسلوبِ کار اختیار کیا جائے گا۔ نظریاتی اور اخلاقی پہلوئوں کو غلبہ اور فیصلہ کن حیثیت حاصل نہیں ہوگی اور پوری پالیسی محدود اہداف کے حصول پر مرکوز ہوگی۔ مشاورت اور فیصلہ سازی کے معروف طریقوں سے بھی انحراف کیا جائے گا اور امریکا کے سیاسی نظام میں جو توازن اور تحدید کی روایت ہے، اس پر بھی بُرے اثرات پڑیں گے، جو اداروں کے درمیان تنائو اور تصادم کی حدوں کو بھی چھوسکتے ہیں۔ اسی طرح خارجہ تعلقات میں جو مقام اسٹرے ٹیجک غوروفکر اور حکمت کار کو حاصل رہا ہے اس میں تبدیلیاں آئیں گی اور زیادہ اہمیت نعروں پر مبنی، فوری نتائج کے حصول کو حاصل ہوجائے گی۔ عالم گیریت اور دوسری جنگ کے بعد قائم ہونے والے عالمی نظام اور اس کی صورت گری کرنے والے اداروں پر بھی نظرثانی کرنا ہوگی۔امریکا کی اپنی فوجی اور معاشی قوت کی ترقی کو زیادہ اہمیت دی جائے گی اور امریکا کی عالمی کردار کی ازسرِنو صورت گری ہوگی۔

۲۰۱۷ء اس پہلو سے بڑا اہم سال ہوگا جس میں جنم لینے والی تبدیلی کے بڑے دُور رس اثرات امریکا میں جمہوریت کے مستقبل پر بھی پڑیں گے۔ یہ دور تخریب اور تعمیر دونوں پہلوئوں سے عبارت ہوگا۔ اس لیے اس امر کی ضرورت ہے کہ امریکا کے عوام اور تمام ہی سوچنے سمجھنے والے افراد، ادارے اور گروہ محض ’دیکھو اور مست رہو‘ ( wait & see) کا راستہ اختیار نہ کریں اور نہ اندھی تائید اورخون آشام مخالفت کا راستہ اختیار کریں۔ ہماری نگاہ میں کھلے ذہن کے ساتھ اس منظرنامے کا ادراک کرنا اور اس میں مثبت کردار ادا کرنے کے لیے مکالمے (ڈائیلاگ) کا راستہ اختیار کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ اس غلط فہمی سے نکلنا ضروری ہے کہ اب امریکا سے معاملات   اس طرح ہوسکیں گے جس طرح ماضی میں ہوتے رہے ہیں۔ ’جس طرح ہوتا آیا ہے‘ والا دور بظاہر رخصت ہوگیا ہے۔ اب وقت نئی سوچ اور نئی راہیں تجویز کرنے کا ہے___ اور یہ چیلنج جس طرح امریکا میں آباد افراد اور تنظیموں کے سامنے ہے، اسی طرح عالمی سطح پر تمام ممالک اور اقوام کو بھی درپیش ہے۔ خصوصیت سے پاکستان اور مسلم دنیا کے حالات کا گہری نظر سے مطالعہ و تجزیہ کرکے نئے خطوط کار کی ترتیب کا اہتمام کرنا چاہیے۔ ہم اللہ کی توفیق کے طالب ہیں کہ اللہ ہمیں اس بارے میں اپنے خیالات پیش کرنے کی توفیق سے نوازے۔ ہم سب اہلِ فکر کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ وقت کے اس چیلنج کے مقابلے کے لیے اپنا اپنا کردار ادا کرنے کے لیے مستعد ہوجائیں،  اس لیے کہ:

یہ بزمِ مے ہے ، یاں کوتاہ دستی میں ہے محرومی

جو بڑھ کر خود اُٹھا لے ہاتھ میں مینا اسی کا ہے

اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں ارشاد فرمایا ہے:

  • اور ظلم کرنے والے بہت جلد جان لیں گے کہ اُن کا (آخری) ٹھکانا کیا ہے؟ (الشعراء: ۲۲۷)
  •       جس دن اُن کے چہرے آگ میں پلٹ دیے جائیں گے، وہ کہیں گے: کاش، ہم نے اللہ اور رسولؐ کی اطاعت کی ہوتی اور وہ کہیں گے: اے ہمارے پروردگار! ہم نے اپنے سرداروں اور بڑوں کا کہا مانا، تو انھوں نے ہمیں گمراہ کر دیا، اے ہمارے پروردگار، انھیں (ہم سے) دگنا عذاب دے اور ان پر بہت بڑی لعنت فرما۔ (الاحزاب ۳۳:۶۶-۶۸)
  • اور متکبرین نے (اپنے عہد کے) بے بس لوگوں سے کہا: تمھارے پاس ہدایت آنے کے بعد کیا ہم نے تمھیں ہدایت سے روکا تھا، بلکہ تم (خود ہی) مجرم تھے۔ (السبا:۳۲)
  • اور جب اہلِ جہنم آپس میں جھگڑا کریں گے تو کمزور لوگ (اپنے عہد کے) متکبرین سے کہیں گے، ہم تو تمھارے پیچھے چلنے والے تھے، کیا (آج) تم جہنم کے عذاب سے نجات کے لیے ہمارے کسی کام آئوگے؟ (المومن :۴۷)

حدیث ِ پاک میں ہے، سہل بن سعد ساعدی بیان کرتے ہیں: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے (میدانِ جنگ میں) ایک شخص کو دیکھا کہ وہ مشرکوں سے قتال کر رہا ہے اور وہ (بظاہر) مسلمانوں کی طرف سے بہت بڑا دفاع کرنے والا تھا۔

آپؐ نے فرمایا: ’’جو کسی جہنّمی شخص کو دیکھنا چاہتا ہے تو وہ اس شخص کو دیکھے‘‘۔ پھر ایک شخص (اس کی حقیقت جاننے کے لیے) مسلسل اُس شخص کا پیچھا کرتا رہا، یہاں تک کہ وہ زخمی ہوگیا،     سو اُس نے (تکلیف سے بے قرار ہوکر) جلد موت سے ہمکنار ہونے کی کوشش کی، وہ اپنی تلوار کی دھار کی طرف جھکا اور اُسے اپنے سینے کے درمیان رکھ کر اپنے پورے بدن کا بوجھ اس پر ڈال دیا، یہاں تک کہ تلوار (اُس کے سینے کو چیر کر) دو شانوں کے درمیان سے نکل گئی۔

اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بندہ لوگوں کے سامنے اہلِ جنّت کے سے عمل کرتا چلا جاتا ہے، حالاں کہ درحقیقت وہ اہلِ جہنم میں سے ہوتا ہے، اسی طرح ایک بندہ لوگوں کے سامنے بظاہر اہلِ جہنم کے سے کام کرتا چلا جاتا ہے، حالاں کہ درحقیقت وہ اہلِ جنّت میں سے ہوتا ہے اور اعمال کے نتائج کا مدار اُن کے انجام پر ہوگا‘‘۔ (بخاری: ۶۴۹۳)

اس کی شرح میں علامہ بدرالدین عینیl لکھتے ہیں: اس سے پہلی حدیث میں مذکور ہے: اُس شخص نے اپنے ترکش سے تیر نکال کر اُس سے اپنا گلا کاٹ ڈالا اور اس حدیث میں مذکور ہے: اُس نے تلوار کی نوک اپنے سینے پر رکھ کر اپنے آپ کو اُس پر گرا دیا، حتیٰ کہ وہ اُس کے بدن کے آرپار ہوگئی۔ سو ان دونوں حدیثوں میں بظاہر تعارض ہے۔ دونوں روایتوں میں تطبیق کی صورت  یہ ہے: ہوسکتا ہے کہ اُس نے پہلے تیر سے اپنا گلا کاٹنے کی کوشش کی ہو اور پھر تکلیف سے جلد نجات پانے کے لیے تلوار کی نوک اپنے سینے پر رکھ کر اپنے آپ کو اس پر گرا دیا ہو ۔ یہ تاویل اُس صورت میں ہے کہ دونوں حدیثیں ایک ہی واقعے سے متعلق ہوں اور اگر یہ دو الگ الگ واقعات ہیں تو پھر کوئی تعارض نہیں ہے۔ (عمدۃ القاری،ج۲۳، ص ۲۳۶)

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

اور اُس وقت کو یاد کرو جب آپ کے ربّ نے بنی آدم کی پشتوں سے اُن کی نسل کو نکالا اور اُن کو خود اپنے آپ پر گواہ بناتے ہوئے فرمایا:کیا میں تمھارا ربّ نہیں ہوں؟ اُن سب نے (یک زبان ہوکر کہا): کیوں نہیں! (یقینا تو ہمارا ربّ ہے)۔ (اللہ تعالیٰ نے فرمایا:) ہم اس بات کی گواہی دیتے ہیں، مبادا تم (کل) قیامت کے دن یہ (نہ) کہہ دو کہ ہم اس سے بے خبر تھے۔ (اعراف ۷:۱۷۲)

ایک حدیث نبویؐ میں ہے: حضرت عمرؓ بن خطاب سے اس آیت کا مطلب پوچھا گیا تو انھوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کی بابت فرماتے ہوئے سنا: ’’بے شک اللہ تبارک و تعالیٰ نے آدم کو پیدا کیا، پھر اپنے دائیں ہاتھ سے اُن کی پشت کو چھوا، اُس سے اُن کی اولاد کو نکالا اور فرمایا: ان کو مَیں نے جنّت کے لیے پیدا کیا ہے اور یہ اہلِ جنّت کے سے عمل ہی کرتے چلے جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے پھر اُن کی پشت کو چھوا، اُس سے اُن کی اولاد کو نکالا اور فرمایا: میں نے ان کو جہنّم کے لیے پیدا کیا ہے اور یہ جہنمیوں کے سے عمل ہی کرتے چلے جائیں گے‘‘۔

اس پر ایک شخص نے عرض کیا: (اگر سب کچھ پہلے سے طے شدہ ہے) تو عمل کی کیا حیثیت ہے؟

(حضرت عمرؓ بیان کرتے ہیں:) رسول ؐ اللہ نے فرمایا: ’’بے شک اللہ جب بندے کو جنّت کے لیے پیدا فرماتا ہے تو اُس سے اہلِ جنّت کے سے کام کراتا ہے یہاں تک کہ اُس کی موت اہلِ جنّت ہی کے کسی عمل پر ہوتی ہے اور اُس کے سبب اُسے جنّت میں داخل فرما دیتا ہے اور جب اللہ بندے کو جہنّم کے لیے پیدا کرتا ہے تو اُس سے جہنمیوں کے سے کام کراتا ہے یہاں تک کہ اُس کی موت اہلِ جہنّم ہی کے کسی عمل پر ہوتی ہے، سو اُسے جہنم میں داخل فرما دیتا ہے‘‘۔ (موطا امام مالک، ۳۳۳۷)

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’پس جس نے (اللہ کی راہ میں مال) دیا اور تقویٰ پر کاربند رہا اور نیک باتوں کی تصدیق کرتا رہا، تو بہت جلد ہم اُسے آسانی مہیا کردیں گے (اللیل ۹۰:۵-۷)‘‘، یعنی بندے کی مخلصانہ مساعی بارآور ہوں گی۔

اسی مفہوم کو ایک اور حدیث پاکؐ میں ان کلمات میں بیان فرمایا: ’’ہر ایک کا انجام اللہ تعالیٰ کے ہاں مقدر ہے۔ صحابہؓ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! تو کیا ہم صحیفۂ تقدیر پر توکّل کرتے ہوئے عمل سے دست بردار نہ ہوجائیں؟

آپؐ نے فرمایا: تم (اللہ تعالیٰ کی توفیق سے) نیک کام کیے چلے جائو،  جسے جس جبلّت پر پیدا کیا ہے اللہ تعالیٰ اُس منزل کے حصول کی خاطر اُس کے لیے آسانیاں مقدر فرما دیتا ہے۔ (بخاری: ۴۹۴۹)

امیرالمومنین حضرت علیؓ سے تقدیر کی بابت سوال ہوا تو آپؓ نے فرمایا: ’’یہ تاریک راستہ ہے اس پر نہ چلو (کہ بھٹک جائو گے)، یہ گہرا سمندر ہے اس میں غوطہ نہ لگائو (کہ غرق ہوجائو گے)، یہ اللہ کے پوشیدہ رازوں میں سے ایک راز ہے، اپنے آپ کو اس کے جاننے کا پابند نہ بنائو   (کہ گمراہ ہوجائو گے)‘‘۔ یعنی انسان کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور شریعت ِ مطہرہ کے احکام پر کاربند رہنا چاہیے، کیوں کہ اُنھیں اسی کا مکلف ٹھیرایا گیا ہے۔ تقدیر ایسا امر ہے جس کی حقیقت جاننے کا مسلمانوں کو پابند نہیں بنایا گیا۔

حضرت عمر فاروقؓ کا معمول تھا کہ اسلامی ریاست میں اَسفار کے دوران راستے میں آنے والی بستیوں کا مشاہدہ کرتے، لوگوں کے احوال معلوم کرتے اور اُن کی ضرورتوں کو پورا کرتے۔ وہ فتح بیت المقدس کے لیے شام کے سفر پر تھے کہ سَرغ کے مقام پر پہنچے۔ وہاں انھیں معلوم ہوا کہ اس بستی میں طاعون کی وبا پھیلی ہوئی ہے۔ آپ نے اکابر صحابہ کرامؓ سے مشورے کے بعد اس بستی میں داخل نہ ہونے کا فیصلہ کیا۔

حضرت عبداللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں: اِس موقعے پر حضرت ابوعبیدہ بن جراح ؓنے کہا: ’’(عمر!) اللہ کی تقدیر سے بھاگ رہے ہو؟ ‘‘

حضرت عمرؓ نے فرمایا: ’’اے ابوعبیدہ، کاش کہ یہ بات تمھارے علاوہ کسی اور نے کہی ہوتی‘‘ (یعنی یہ بات آپ کے شایانِ شان نہیں ہے) کیونکہ حضرت عمرؓ اُن سے اختلاف کو پسند نہیں فرماتے تھے، پس اُنھوں نے جواب دیا: ’’ہاں، اللہ کی تقدیر سے بھاگ کر اُسی کی تقدیر کی پناہ میں جا رہاہوں‘‘۔

اس بحث کے دوران حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ وہاں تشریف لائے اور کہا: ’’ایسی صورتِ حال کے بارے میں میرے پاس رسولؐ اللہ کی ہدایت موجود ہے‘‘۔

آپؐ نے فرمایا: ’’جب تم سنو کہ کسی بستی میں طاعون ہے، تو وہاں نہ جائو اور جس بستی میں  یہ وباآجائے اور تم پہلے سے وہاں موجود ہو تو وہاں سے نکل کر باہر نہ جائو‘‘۔

 حضرت عبداللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں: ’’یہ حدیث سن کرحضرت عمرؓ نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور چلے گئے‘‘۔ (نوٹ: یہ صحیح مسلم کی حدیث۲۲۱۹ میں بیان کردہ طویل روایت کا خلاصہ ہے۔)

واضح رہے کہ طاعون (Plague) ایک متعدی (Infectious) بیماری ہے، جو ایک سے دوسرے کو لگ جاتی ہے۔ یہاں یہ تعلیم فرمایا گیا کہ احتیاطی تدابیر اختیار کرنا تقدیر کے منافی نہیں ہے بلکہ یہ تقدیر کا حصہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ کا فرمان لَا عَدُویٰ (کوئی بیماری متعدی نہیں ہے) اس پر محمول ہے کہ بیماری کا متعدی ہونا اسباب میں سے ہے، مگر اسباب کی تاثیر مسبب الاسباب، یعنی اللہ تعالیٰ کی مشیت پر موقوف ہے۔ اگر بیماری کی تاثیر ذاتی ہو تو جس جگہ وبا پھیل جائے، کوئی انسان نہ بچ پائے، اور اگر دوا میں ذاتی شفا ہو تو اُس دوا کے استعمال سے ہربیمار شفایاب ہوجائے، حالاں کہ ہمارا مشاہدہ اس کے برعکس ہے۔

پس، ہر چیز کی تاثیر اللہ تعالیٰ کے حکم اور مشیت پر موقوف ہے۔ صحابی نے رسول ؐاللہ سے دریافت کیا: ’’یارسولؐ اللہ! ہمارے اُونٹ ریگستان میں ہرنیوں کی طرح اُچھل کود کر رہے ہوتے ہیں کہ کوئی خارش زدہ اُونٹ اُن میں اچانک داخل ہوتا ہے اور اُس کی وجہ سے سب کو خارش کی بیماری لگ جاتی ہے‘‘۔ آپؐ نے فرمایا: ’’پہلے اُونٹ کو بیماری کہاں سے لگی؟‘‘ (بخاری: ۵۷۷۰)۔ یعنی اسباب کی تاثیر اللہ کی مشیت پر موقوف ہے۔

رہا یہ سوال کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کیوں فرمایا ہے کہ طاعون زدہ بستی سے کوئی باہر نہ جائے؟ اگر سبھی صحت مند لوگ اپنی جان بچانے کے لیے بستی سے نکل کر باہر چلے جائیں تو وبا میں مبتلا لوگوں کا علاج کون کرے گا اور قضاے الٰہی سے جن کی موت واقع ہوجائے، اُن کی نمازِجنازہ ، تکفین اور تدفین کا انتظام کون کرے گا؟ کیوںکہ یہ اُمور بھی شریعت کی رُو سے لازم ہیں اور اسلامی معاشرے پر بحیثیت مجموعی فرضِ کفایہ ہیں۔

اللہ رب العالمین نے اس دنیا میں زندگی گزارنے کے لیے جو اسباب و وسائل عطا کیے ہیں، ان کے تعلق سے اسی نے یہ ہدایت بھی دی ہے کہ ان کے استعمال میں افراط و تفریط سے پرہیز کیا جائے۔ اسی افراط کو فضول خرچی یا اسراف و تبذیر کہا جاتا ہے اور تفریط کو بخل یا تقتیر کا نام دیا جاتا ہے۔ اسراف و تقتیر یہ دونوں مذموم حدیں ہیں، انھیں چھوڑ کر انسان کو میانہ روی، اعتدال اور توازن کی راہ اختیار کرنی چاہیے۔ فرمانِ الٰہی ہے:

وَالَّذِیْنَ اِذَآ اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَلَمْ یَقْتُرُوْا وَکَانَ بَیْنَ ذٰلِکَ قَوَامًا (الفرقان ۲۵:۶۷) جو خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں نہ بُخل، بلکہ ان کا خرچ دونوں انتہائوں کے درمیان اعتدال پر قائم رہتا ہے۔

درحقیقت فضول خرچی، اللہ کی ناشکری اور نعمت کی ناقدری ہے، کیوں کہ اپنے مال و اسباب کو اِدھر اُدھر بے دردی کے ساتھ اُڑانے والا انسان، اللہ کی مرضی کو فراموش کرکے اپنے نفس امارہ کا غلام بنا ہوتا ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَ لَا تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا o اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُوْٓا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِ ط وَ کَانَ الشَّیْطٰنُ لِرَبِّہٖ کَفُوْرًا o (بنی اسرائیل ۱۷: ۲۶-۲۷) فضول خرچی نہ کرو، فضول خرچ شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا ناشکرا ہے۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ شیطان جس طرح رب کا ناشکرا ہے، اسی طرح فضو ل خرچ انسان اپنے عمل سے کفرانِ نعمت کا ارتکاب کرتا ہے اور رب کے غیظ و غضب کا مستحق ٹھیرتا ہے۔

فضول خرچی کی مختلف شکلیں اور مظاہر ہیں۔ ایک غیرمحتاط انسان مختلف طریقوں اور مختلف موقعوں پر اس بُری عادت اور مذموم عمل کو دُہراتا رہتا ہے، جن میں خاص طور سے کھانے پینے، پہننے اوڑھنے، خوشی منانے اور مختلف مذہبی و سماجی تقریبات شامل ہیں۔ اکل و شرب کے تعلق سے قرآنی آیت بڑے واضح اور صریح الفاظ میں اہلِ ایمان کو مخاطب کرتی ہے:

وَّ کُلُوْا وَ اشْرَبُوْا وَ لَا تُسْرِفُوْا اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَo(اعراف ۷:۳۱) اور کھائو پیو اور حد سے تجاوز نہ کرو، اللہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔

دیکھیے کس قدر مختصر اور دوٹوک انداز میں اسراف کی ممانعت کو اکل و شرب سے جوڑا گیا ہے۔

حضرت مقدام بن معدی کربؓ روایت کرتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ’’آدمی پیٹ سے زیادہ بُرے کسی برتن کو نہیں بھرتا۔ انسان کے لیے   چند لقمے ہی کافی ہیں جو اس کی پیٹھ سیدھی رکھ سکیں۔ البتہ آدمی اگر بضد ہے تو ایک تہائی حصے میں کھانا کھائے، ایک تہائی حصے میں پانی پیے، اور ایک تہائی حصہ سانس لینے کے لیے باقی رکھے‘‘۔ (احمد، ترمذی،  ابن ماجہ )

کھانے پینے میں اسراف اور بے احتیاطی کے جو دینی اور روحانی نقصانات ہیں وہ اپنی جگہ پر ، ساتھ ہی اس کے متعدد جسمانی اور طبی نقصانات بھی ہیں۔ پھر جو سماجی بُرائیاں اس سے جنم لیتی ہیں وہ الگ ہیں۔ آج اکل و شرب میں اسراف ایک سماجی فیشن بن چکا ہے، جو گھن کی طرح معاشرے کو چاٹ رہا ہے۔ پانچ آدمی کو کھانے یا کھلانے کے لیے ۲۵ آدمیوں کا کھانا بنایا یا خریدا جاتا ہے اور انواع و اقسام اتنے کہ سب میں سے اگر صرف ایک ایک لقمہ بھی لیا جائے تو معدہ اس کی تاب نہ لاسکے۔ اس کے بعد بچا ہوا اکثر کھانا تتربتر ہوجاتا ہے اور کوڑے دان کی نذر ہوتا ہے۔

  •  تقریبات: شادی بیاہ کے مواقع پر بھی اکثر لوگ اسراف و تبذیرکا خوب خوب مظاہرہ کرتے ہیں۔ فضول رسموں کا ایک لامتناہی سلسلہ ہوتا ہے جس میں پانی کی طرح پیسہ بہایا جاتا ہے۔ ان لایعنی رسموں میں سے کسی ایک کو بھی ترک کرنا گویا جرم تصور کیا جاتا ہے ، حتیٰ کہ مالی اعتبار سے کمزور لوگ بھی اس معاملے میں پیچھے نہیں رہتے۔ قرض لے کر اور بسااوقات امداد لے کر ہی سہی ایک ایک کر کے ان لوازمات کو فخر سے پورا کرتے ہیں۔ ہماری شریعت میں تو شادی اور نکاح کے عمل کو بہت آسان اور سادہ بنایا گیا تھا اور بے تکلفی اور سادگی سے شادی بیاہ کے مراسم انجام دینے کی ترغیب دی گئی تھی۔آسانی اور سادگی سے انجام پانے والی شادی کو خیروبرکت والی شادی گردانا گیا تھا، مگر ان تمام ہدایات کو نظرانداز کر کے ہم نے دنیا بھر کے جھمیلے پال لیے اور اپنی بربادی کا گویا خود اپنے ہاتھوں انتظام کرلیا۔ شادی بیاہ کی رسموں کو فروغ اور بڑھاوا دینے میں عورتیں پیش پیش رہتی ہیں اور کسی بھی رسم کو چاہے وہ کتنی ہی غیرضروری اور لایعنی کیوں نہ ہو ترک کرنے پر آمادہ نہیں ہوتیں۔

فضول خرچی کا ایک مظہر منگنی کی تقریبات بھی ہیں، جن کا زور روز بہ روز بڑھتا جا رہا ہے  حتیٰ کہ بعض لوگ اس کا اس اسراف کے ساتھ اہتمام کرتے ہیں کہ اس میں خرچ ہونے والے سرمایے سے ایک درمیانہ نوعیت کی شادی کا انتظام ہوسکتا ہے۔

لباس و پوشاک میں بھی بسااوقات انسان افراط و اسراف سے کام لیتا ہے۔ لباس کا اصل مقصد سترپوشی ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس سے زینت بھی حاصل ہوتی ہے، جیساکہ فرمانِ الٰہی ہے:

یٰبَنِیْٓ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَیْکُمْ لِبَاسًا یُّوَارِیْ سَوْاٰتِکُمْ وَ رِیْشًا ط(اعراف ۷:۲۶) اے اولادِ آدم ؑ! ہم نے تم پر لباس نازل کیا ہے کہ تمھارے جسم کے قابلِ شرم حصوں کو ڈھانکے اور تمھارے لیے جسم کی حفاظت اور زینت کا ذریعہ بھی ہو۔

  •  لباس: اکل و شرب کے لوازمات کی طرح اللہ جل شانہ نے انسان کو پہننے، اُوڑھنے کے سامان بھی مہیا کیے ہیں، البتہ طعام و شراب کی طرح یہاں بھی کفایت شعاری کی تعلیم ہے۔ چنانچہ عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ کی روایت میں بسند حسن مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

کُلُوْا وَتَصَدَّقُوْا وَالْبَسُوْا فِیْ غَیْرِ اِسْرَافٍ وَلَا مَخِیْلَۃٍ(نسائی و ابن ماجہ) کھائو، صدقہ کرو اور لباس استعمال کرو، لیکن اسراف اور غرور و گھمنڈ نہیں ہونا چاہیے۔

لباس ہی تک معاملہ محدود نہیں ہے۔ انسان کو اپنی پوری زندگی میں تفاخر اور عیش پرستی سے پرہیز کرنا چاہیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت معاذ بن جبلؓ کو یمن بھیجا تو انھیں نصیحت فرمائی:

اِیَّاکَ وَالتَّنَعُّمَ ، فَاِنَّ عِبَادَ اللہِ لَیْسُوْا بِالْمُتَنَعِّمِیْنَ(احمد) عیش و عشرت سے بچو، اللہ کے بندے عیش و عشرت والے نہیں ہوا کرتے۔

اب ہمیں اپنے آپ کو اور اپنے اردگرد کے لوگوں کو دیکھنا چاہیے کہ کہیں ہم لباس و پوشاک کے معاملے میں مسرفانہ جاہ و جلال کے طلب گار تو نہیں، کہیں ایسا تو نہیں کہ دو تین واجبی جوڑوں کے بجاے درجن بھر یا اس سے بھی زائد کپڑوں سے ہماری الماریاں تنگ پڑتی ہیں اور ھَلْ مِنْ مَّزِیْدٍ کی صورتِ حال سے بھی دوچار ہوتے ہیں، اتنے گراں اور بیش قیمت کپڑوں کے اَن گنت جوڑے کہ جن میں سے ایک کی قیمت سے کئی کئی انسانوں کی سترپوشی کی ضرورت پوری ہوسکتی ہے۔ ہمارے پاس ایسے کپڑوں اور جوڑوں کی لائن تو نہیں لگی ہے۔

  •  رہایش : اسی طرح گھر اور مکان کی تعمیر اور ان کے لوازمات کی فراہمی میں بھی بعض لوگ پانی کی طرح پیسہ بہاتے ہیں، رہایشی ضرورت سے کئی گنا بڑا مکان بنانا، بلاضرورت متعدد مکان تعمیر کرانا، ان کی آرایش و زیبایش، فرنیچر اور دیگر لوازمات پر بے دریغ خرچ کرنا، نگاہوں کو چکاچوند کرنے والی لائنیں اور برقی قمقمے لگوانا وغیرہ وغیرہ، کیا یہ اسراف، عیش پرستی اور فخرو غرور میں داخل نہیں۔ گھر اور مکان تو بنیادی طور پر انسان کو سر چھپانے کے لیے ، سردی گرمی سے حفاظت کے لیے اور مال و اسباب کے تحفظ کے لیے ہوتا ہے۔ جس نوعیت کی تعمیر سے یہ مقاصد پورے ہوجائیں، اسی پر اکتفا کرنا چاہیے اور تکلف، تصنع یا شہرت اور نام و نمود کا قصد ہرگز نہ ہونا چاہیے، کیوں کہ   ہم جیسے انسانوں کی ایک بڑی تعداد اس سرزمین پر ایسی بھی بستی ہے جس کے پاس چند گز زمین یا معمولی ترین جھونپڑا بھی اپنا اور اپنے بال بچوں کا سر چھپانے کے لیے میسر نہیں۔
  •  پانی: پانی کے مسرفانہ استعمال کو شاید لوگ فضول خرچی نہیں تصور کرتے کیوں کہ عموماً پانی مفت میں دستیاب ہوتا ہے، حالاںکہ پانی اللہ کی عظیم نعمت ہے۔ اور مخلوقات کی زندگی کا دارومدار اسی پانی پر ہے جیساکہ خالق دوعالم نے فرمایا:

وَ جَعَلْنَا مِنَ الْمَآئِ کُلَّ شَیْ ئٍ حَیٍّ ط(الانبیاء ۲۱:۳۰) اور پانی سے ہر زندہ چیز پیدا کی۔

لیکن ہم نے اتنا پانی برباد کیا اور کر رہے ہیں کہ آج جگہ جگہ پانی کے مسائل کھڑے ہورہے ہیں، ہینڈپمپ، کنویں، تالاب اور ندیاں سُوکھ رہی ہیں۔ زیرزمین پانی کی سطح روز بہ روز نیچی ہوتی جارہی ہے، زمین سے پانی نکالنے والی مشینیں اور موٹریں فیل ہوتی دکھائی دے رہی ہیں، لیکن پھر بھی ہم محتاط ہوتے نہیں نظر آتے۔

موبائل کا بے جا استعمال بھی اسراف و تبذیر کی حدیں پار کر رہا ہے۔ مہنگے سے مہنگا موبائل خریدنا، ہر کچھ دن کے بعد نئے ماڈل کی تلاش میں اسے بدلتے رہنا ، کئی کئی موبائل بیک وقت رکھنا، عورتوں، بچوں، بوڑھوں، نوجوانوں سب کے ہاتھوں میں ایک سے اعلیٰ ایک موبائل اور اس کے بجا اور بے جا استعمال سب کی نگاہوں کے سامنے ہے۔ پھر اپنے وقت کا قیمتی حصہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر ضائع کرنا، اس پر اپنی کمائی کا اچھا خاصا پیسہ صرف کرنا اور اپنے مال کے ساتھ اپناوقت اور صحت سب برباد کرنا کیا اسراف میں داخل نہیں ہوگا۔

  •  دولت: یہ بات کسی پر مخفی نہ ہوگی کہ دنیا کے اکثر حصوں میں عوام کی اکثریت غربت اور فاقہ کشی کا شکار ہے۔ غذا، علاج، بنیادی تعلیم اور ڈھیر سارے مسائل اس کے سامنے ہیں، جن کے لیے وہ پائی پائی کو ترستی ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں ایک اعشاریہ ۲۹؍بلین افراد غریب ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے ادارے کی ۲۰۰۰ء کی رپورٹ کے مطابق دنیا کی تمام دولت کا ۴۰ فی صد حصہ صرف ایک فی صد امیرترین لوگوں کے قبضہ میں ہے اور دنیا کے ۱۰فی صد امیر افراد ۸۵ فی صد دولت پر قابض ہیں۔ دنیا کی نصف آبادی دنیا کے ۹۹ فی صد دولت کی مالک ہے، جب کہ دنیا کی بقیہ نصف آبادی صرف ایک فی صد دولت پر گزارا کرنے پر مجبور ہے۔

دولت کی یہ غیرمنصفانہ تقسیم معاشرے پر کیا بُرا اثر چھوڑتی ہوگی، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ ایک طرف اربوں اور کھربوں میں کھیلنے والوں کے شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ اور اسراف و تبذیر والی زندگی ہے تو دوسری طرف پائی پائی کو ترسنے والے نان شبینہ کے محتاج عوام ہیں۔

ہمارے دین نے ہمیشہ مال داروں اور آسودہ حال لوگوں کو کمزوروں اور غریبوںپر خرچ کرنے کی ترغیب دی ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس نے اس سے آگے بڑھ کر ایثار و قربانی کے جذبے کو فروغ دیا ہے۔ مال و دولت کی کمائی اور خرچ دونوں کے تعلق سے اس کی ذمہ داری طے کی ہے۔ چنانچہ قیامت کے دن جن چار یا پانچ سوالوں کا جواب دیے بغیر کوئی بندہ اپنی جگہ سے ہل نہیں سکے گا۔ ان میں ایک سوال مال کے تعلق سے ہوگا کہ مِنْ أَیْنَ اکْتَسَبَہٗ وَفِیْمَ اَنْفَقَہٗ  (ترمذی) ’’یعنی مال کمایا کہاں سے اور خرچ کہاں کیا؟ آمدوخرچ دونوں کا حساب دینا ضروری ہوگا‘‘۔

ایک حدیث میں مال کو ضائع کرنے سے روکتے ہوئے فرمایا گیا: وَیَکْرَہُ لَکُمْ قِیْلَ وَقَالَ، وَکَثْرَۃَ السُّؤَالِ، وَ اِضَاعَۃَ الْمَالِ (مسلم)یعنی ’’اللہ تعالیٰ یاوہ گوئی، زیادہ سوال کرنے اور مال ضائع کرنے کو ناپسند فرماتا ہے‘‘۔

ایک سلیم الفطرت مسلمان کو چاہیے کہ اللہ کے عطاکردہ مال و دولت کو احتیاط اور کفایت شعاری سے خرچ کرے، کھانے پینے، اوڑھنے، رہنے سہنے اور دیگر تمام شعبہ ہاے زندگی میں اعتدال و میانہ روی کا مظاہرہ کرے، بے جا رسومات اور غیرضروری تکلفات میں پڑ کر خود کو اور اپنے سماج کو تباہی کے راستے پر نہ لے جائے۔ اللہ کی نعمتوں پر اس کا شکر ادا کرتے ہوئے اس میں غریبوں، مسکینوں اور حاجت مندوں کا حق تسلیم کرے اور ان تک برضا و رغبت اسے پہنچائے۔    یہ ایک دینی فریضہ بھی ہے اور انسانی و اخلاقی ذمہ داری بھی۔ اگر ایسا نہ کیا گیا اور اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کو پاکر فسق و فجور اور اسراف و تبذیر کے راستے پر چلنے لگے، تو سابقہ قوموں اور سرمایہ داروں کا انجام سامنے رکھنا ہوگا۔

وَ اِذَآ اَرَدْنَآ اَنْ نُّھْلِکَ قَرْیَۃً اَمَرْنَا مُتْرَفِیْھَا فَفَسَقُوْا فِیْھَا فَحَقَّ عَلَیْھَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنٰھَا تَدْمِیْرًاo(بنی اسرائیل ۱۷:۱۶) جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو اس کے خوش حال لوگوں کو حکم دیتے ہیں اور وہ اس میں  کھلی نافرمانیاں کرنے لگتے ہیں، تب عذاب کا فیصلہ اُس بستی پر چسپاں ہوجاتا ہے  اور اسے برباد کرکے رکھ دیتے ہیں۔

اللہ رب العالمین ہمیں ہر طرح کے بُرے انجام سے بچائے، اپنی نعمتوں کی حفاظت کرنے اور ان کی قدر کرنے کی توفیق بخشے، اسراف و تبذیر جیسے شیطانی عمل سے بچاکر انفاق و ایثار کے راستے پر چلادے، آمین!

 

ترجمہ:اِرشاد الرحمٰن

اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں فرمایا ہے:

وَدَّ کَثِیْرٌ مِّنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ لَوْ یَرُدُّوْنَکُمْ مِّنْم بَعْدِ اِیْمَانِکُمْ ج   کُفَّارًا حَسَدًا مِّنْ عِنْدِ اَنْفُسِہِمْ مِّنْ بَعْدِم مَا تَبَیَّنَ لَہُمُ الْحَقُّ ج (البقرہ ۲:۱۰۹) اہل کتاب میں سے اکثر لوگ یہ چاہتے ہیںکہ کسی طرح تمھیں ایمان سے پھیر کر پھر کفر کی طرف پلٹا لے جائیں۔ اگرچہ حق اِن پر ظاہر ہو چکا ہے، مگر اپنے نفس کے حسد کی بنا پر تمھارے لیے ان کی یہ خواہش ہے۔

ان اہلِ کتاب کے دلوں میں حسد اللہ نے پیدا نہیں کیا تھا اور بلکہ وہ ذاتی ارادے سے حسد کر رہے تھے۔ یہاں مِّنْ عِنْدِ اَنْفُسِھِمْ (اُن کی اپنی طرف سے) کے الفاظ ہیں جو ارادہ و نیت میں دخلِ الٰہی کی نفی کرتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے شیطان کو مخاطب کر کے فرمایا:

اِنَّ عِبَادِیْ لَیْسَ لَکَ عَلَیْہِمْ سُلْطٰنٌ اِلَّا مَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْغٰوِیْنَ o (الحجر ۱۵:۴۲)بے شک جو میرے حقیقی بندے ہیں ان پر تیرا بس نہ چلے گا۔ تیرا بس تو صرف اُن بہکے ہوئے لوگوں پر ہی چلے گا جو تیری پیروی کریں گے۔

شیطان انسان کے دل میں داخل نہیں ہو سکتا، مگر جب انسان اپنی مرضی اور اختیار سے اس کے لیے دل کا دروازہ کھول دے تو وہ داخل ہو جاتا ہے اور پھر انسان راہِ راست سے بھٹک جاتا ہے۔ شیطان زورزبردستی سے انسان کے دل میں گھسنے کی طاقت نہیں رکھتا۔

اللہ تعالیٰ نے انسان دل کی حفاظت کا بندوبست کر رکھا ہے۔ خیر یاشرکے کسی لشکر کو اس کے اُوپر زور زبردستی کی اجازت نہیں دی۔ ہاں، جب اس کا مالک خود اپنے اختیار سے کسی کو اپنامہمان بنانا چاہے تو اللہ اُسے یہاں داخل ہونے سے نہیں روکتا۔گویا ہم بالفعل ایک مقدس اور محترم حرم کے سامنے کھڑے ہیں جس کے اردگرد دیواریں قائم ہیں، اس میں کوئی جبر، اِکراہ اور تسلط داخل نہیں ہوتا۔

ہماری اس دنیا میں بھی یہ ممکن نہیں کہ یہ جبرواِکراہ ہمارے ضمیروں، ارادوں اور نیتوں کے اندر داخل ہو جائے۔ یہ ممکن ہے کہ آپ قوت کے بل پر مجھ سے ہاتھ کھڑے کرا لیں، مجھے بے دست وپا بنا کر کھڑا کر لیں، اور میں آپ کے نعرے بھی لگا دوں، مگر یہ کبھی ممکن نہیں کہ آپ مجھے مجبور کر سکیں کہ میں آپ سے محبت کروں۔

ادیانِ عالم اس چیز کی رخصت نہیں دیتے کہ ہم قیامت کے روز وقتِ حساب یہ کہہ سکیں کہ ہمیں تو فلاں شخص نے اُکسایا تھا، یا مجبور کیا تھا۔ اس طرح ہم اپنا گناہ دوسرے پر نہیں ڈال سکتے۔ اللہ نے ضمیر اور سریرہ کی گہرائیوں میں ایک ایسا قابل حرمت دائرہ بنا رکھا ہے، جہاں کوئی جابر اپنی جبریت کے ساتھ داخل نہیں ہو سکتا۔

قرآنِ مجید انسان کو ہمیشہ آزاد اور جواب دہ ٹھیراتا ہے، خواہ ظالمانہ حالات نے ہی اُس کو گھیر رکھا ہو۔ ان حالات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:

اَلَمْ تَکُنْ اَرْضُ اللّٰہِ وَاسِعَۃً فَتُھَاجِرُوْا فِیْھَا ط (النساء ۴:۹۷) کیاخدا کی زمین وسیع نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کرتے؟

جب آپ کسی چیز کے اختیار کا فیصلہ کرتے ہیں تو آپ بذاتِ خود اس چیز کو اختیار کرتے ہیں:

اِنَّا ہَدَیْنٰـہُ السَّبِیْلَ اِمَّا شَاکِرًا وَّاِمَّا کَفُوْرًاo (الدھر۷۶:۳)ہم نے اُسے راستہ دکھا دیا، خواہ شکر کرنے والا بنے یا کفر کرنے والا۔

یہاں لفظ اِمَّا میں آزمایش و امتحان کا عنصر واضح اور متعین نظر آ رہا ہے:

وَنَفْسٍ وَّمَا سَوّٰہَا o فَاَلْہَمَہَا فُجُوْرَہَا وَتَقْوٰہَا o (الشمس۹۱:۷-۸) اور نفسِ انسان کی اور اُس ذات کی قسم جس نے اسے ہموار کیا، پھر اُس کی بدی اور اس کی پرہیزگاری اُس پر الہام کر دی۔

یعنی ’شر‘ اور ’خیر‘ کے راستے اُس کے سامنے کھول دیے اور اُس کو ان دونوں راستوں کے سامنے   رکھ دیا کہ جس پر چلنا چاہے اُس کا انتخاب کر لے۔ یہ دونوں راستے بیک وقت کھلے رکھے گئے ہیںتاکہ نفس کو اختیار حاصل رہے اور وہ صرف ایک ہی راستے پر چلنے کے لیے مجبور نہ ہو۔ فرمایا:

قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا o وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰھَاo (الشمس۹۱: ۹-۱۰) یقینا فلاح پاگیا وہ شخص جس نے نفس کا تزکیہ کیا اور نامراد ہوا وہ جس نے اُس کو دبا دیا۔

مراد یہ ہے کہ کامیابی اور ناکامی نفس کا اپنا اختیار ہے۔ ایک اور آیت میں اس معاملے کو مزید کھول کر بیان کیا گیا ہے: وَہَدَیْنٰہُ النَّجْدَیْنِo(البلد۹۰:۱۰) ’’اور کیا (نیکی اور بدی کے) دونوں راستے اُسے نہیں دکھا دیے؟‘‘یعنی دونوں راستوں کے فرق و امتیاز کا شعور انسان کو  عطا کردیا تاکہ جس کو چاہے پسند کر لے۔

ہم میں سے ہر ایک کو فعل کی آزادی حاصل ہے۔ انسانی اعمال و افعال میں جبریت کے قائلین کو اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ ایک آدمی جس ہاتھ کو اپنی مرضی سے حرکت دیتا ہے اور جو چاہے لکھتا ہے، لیکن یہی آدمی اپنے اسی ہاتھ سے اُس وقت نہ کچھ لکھ سکتا ہے اور نہ اُسے اپنی مرضی سے ہلا سکتا ہے جب بخار کی شدت نے اسے لاچار اور بے بس کر رکھا ہو۔ کیا ان دونوں کیفیتوں اور حالتوں میں کوئی فرق نہیں؟ یہاں دونوں حالتیں واضح ہیں، یعنی حالتِ صحت میں حریت و آزادی اور حالت ِ مرض میں جبریت و مجبوری۔ اگر جبریت کی بات درست ہے تو پھر ممکن نہیں کہ ان دونوں حالتوں میں تمیز و تفریق کی جا سکے۔ اور یہ بھی ممکن نہیں کہ ان دونوں حالتوں کی اصلیت ایک ہو۔

فعل کی آزادی بھی حقیقت ہے اور اس کا پابند ہونا بھی حقیقت ہے۔ ضرورت یہ ہے کہ    ہم ان دونوں یک جا حالتوں کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ اس معاملے کو ہم آیاتِ قرآنی سے واضح کرنے کی کوشش کرتے ہیں:

اِنْ نَّشَاْ نُنَزِّلْ عَلَیْہِمْ مِّنَ السَّمَائِ اٰیَۃً فَظَلَّتْ اَعْنَاقُہُمْ لَہَا خٰضِعِیْنَ o (الشعراء۲۶:۴)ہم چاہیں تو آسمان سے ایسی نشانی نازل کر سکتے ہیں کہ ان کی گردنیں اُس کے آگے جھک جائیں۔

اگر اللہ چاہتا تو ایسا کر لیتا مگر اللہ نے ایسا نہیں کیا کیونکہ اُس نے نہیں چاہا کہ وہ لوگوں کو ایمان پر مجبور کرے، کیوں کہ اس طرح  وہ حریتِ اختیار سلب ہو جاتی جس کو اُس نے ہمارے وجود کا جوہر بنایا ہے۔ اللہ نے ہمیں آزاد ہی رکھا کہ ہم چاہیں تو ایمان لے آئیں اور چاہیں تو   انکار کر دیں۔

ابلیس کو اللہ نے ابلیس نہیں بنایا، بلکہ ابلیس نے خود اپنے لیے کبر اور بڑائی کو پسند کیا:  

اَنَا خَیْرٌ مِّنْہُ ط خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّخَلَقْتَہٗ مِنْ طِیْنٍo (صٓ۳۸:۷۶) میں اُس سے بہتر ہوں، آپ نے مجھ کو آگ سے پیدا کیا ہے اور اس کو مٹی سے۔

ابلیس نے آدمؑ کے مقابلے میں اپنے لیے غرور و تکبر کو اختیار کیا، تو اللہ نے بھی اُس کو اختیار دے دیا کہ وہ لوگوں کو بھی دھوکا فریب دے۔

اللہ نے اپنی حتمی اور فیصلہ کن تجلی کے ذریعے ہمیں لگام ڈالنے کا ارادہ نہیں کیا۔ اگر وہ ایسا کرتا تو ہمیں ایمان لانے پر مجبور کرتا۔ لہٰذا، اُس نے تورات، انجیل اور قرآن کی صورت میں کتب نازل فرما دیں، جن کے اوپر ایمان لانا، یا نہ لانا ہمارے بس میں ہے۔ قرآنِ مجید کے بارے میں فرمایا:

یُضِلُّ بِہٖ کَثِیْرًا لا  وَّیَہْدِیْ بِہٖ کَثِیْرًا ط وَمَا یُضِلُّ بِہٖٓ اِلَّا الْفٰسِقِیْنَo (البقرہ ۲:۲۶) اس طرح اللہ ایک ہی بات سے بہتوں کو گمراہی میں مبتلا کر دیتا ہے اور بہتوں کو راہِ راست دکھا دیتا ہے۔ اور اُس سے گمراہی میں انھی کو مبتلا کرتا ہے جو فاسق ہیں۔

قرآن کی آیات میں براہین (نشانیاں) موجود ہیں مگر کبھی ان براہین کو ایسا لازم نہیں بنایا کہ وہ ہماری  شہ رَگ کو پکڑ لیں اور دماغ کو جکڑ لیں۔ اُس نے تو اپنی مرضی سے ہمیں کھلا چھوڑ رکھا ہے کہ ہم ہمیشہ ایک شے کو دوسری کے اوپر ترجیح دیں اور اُس کو اختیار کرنے کا خود فیصلہ کریں اور کسی بیرونی اثروتاثیر کے بغیر جو چاہیں بولیں اور اپنے دل کی آواز پر لبیک کہیں۔

قرآنِ مجید ایک آیت میں تقدیر الٰہی اور آزادیِ فرد کی تشریح کرتا ہے اور ان کے درمیان تناقض کو رفع کرتا ہے۔ یہ وہ آیت ہے جس میں منافقین مدینہ کا رسولؐ اللہ کی نصرت میں سُستی دکھانے اور آپؐ کے ساتھ غزوہ میں شرکت کے لیے نہ جانے کا واقعہ بیان کیا گیا ہے:

وَلَوْ اَرَادُوا الْخُرُوْجَ لَاَعَدُّوْا لَہٗ عُدَّۃً وَّلٰکِنْ کَرِہَ اللّٰہُ انْبِعَاثَہُمْ فَثَبَّطَہُمْ وَقِیْلَ اقْعُدُوْا مَعَ الْقٰعِدِیْنَ لَوْ خَرَجُوْا فِیْکُمْ مَّا زَادُوْکُمْ اِلَّا خَبَالًا وَّلَا o اَوْضَعُوْا خِلٰلَکُمْ یَبْغُوْنَکُمُ الْفِتْنَۃَ ج وَفِیْکُمْ سَمّٰعُوْنَ لَہُمْ ج وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ بِالظّٰلِـمِیْنَo (التوبۃ۹:۴۶-۴۷) اگر واقعی ان کا ارادہ نکلنے کا ہوتا تو وہ اس کے لیے کچھ تیاری کرتے۔ لیکن اللہ کو اُن کا اٹھنا پسند ہی نہ تھا۔ اس لیے اس نے انھیں سُست کر دیا اور کہہ دیا گیا کہ بیٹھ رہو بیٹھنے والوں کے ساتھ۔ اگر وہ تمھارے ساتھ نکلتے تو تمھارے اندر خرابی کے سوا کسی چیز کا اضافہ نہ کرتے۔ وہ تمھارے درمیان فتنہ پردازی کے لیے دوڑ دھوپ کرتے، اور تمھارے گروہ کا حال یہ ہے کہ ابھی ان میں بہت سے ایسے لوگ موجود ہیں جو ان کی باتیں کان لگا کر سنتے ہیں، اللہ ان ظالموں کو خوب جانتا ہے۔

یہ دل کے منافق تھے، وہ ارادتاً رسولؐ اللہ کی مدد و نصرت نہیں کرنا چاہتے تھے، لہٰذا اللہ نے ان کی نیت اور ارادے کو نافذ ہونے دیا۔ جب خود انھوں نے ایک کام کو اپنے لیے نہیں چاہا تو اللہ نے بھی اُن کے لیے ایسا نہیں چاہا۔ لہٰذا اُن کو گھروں میں بٹھائے رکھا، باہر نکلنا اُن کے لیے ناپسند بنا دیا، بالکل اُسی طرح جس طرح وہ خود چاہتے تھے۔

قدرِ الٰہی، یعنی اللہ کی تقدیر اور انسان کے دلی ارادے کے مابین یہ مناسبت ایک دوسری آیت میں اس سے بھی زیادہ صراحت کے ساتھ بیان ہوئی ہے:اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ قُلْ لِّمَنْ فِیْٓ اَیْدِیْکُمْ مِّنَ الْاَسْرٰٓی لا اِنْ یَّعْلَمِ اللّٰہُ فِیْ قُلُوْبِکُمْ خَیْرًا یُّؤْتِکُمْ خَیْرًا مِّمَّآ اُخِذَ مِنْکُمْ(الانفال۸:۷۰) اے نبیؐ!تم لوگوں کے قبضہ میں جو قیدی ہیں اِن سے کہو اگر اللہ کو معلوم ہوا کہ تمھارے دلوں میں کچھ خیر ہے تو وہ تمھیں اُس سے بڑھ چڑھ کر دے گا جو تم سے لیا گیا ہے۔

امر اللہ اور اِختیارِ انسان کیسے متماثل ہوتا ہے اور کیسے ان کے درمیان تناقض کی نفی ہوتی ہے، یہاں یہ سب واضح ہو گیا۔ تناقض ان کے درمیان نہیں بلکہ ہمارے عدم فہم کی بنا پر پیدا ہونے والے ہمارے وہم میں ہے۔ اب بظاہر دومتضاد آیتوں کو سمجھنا ہمارے لیے آسان ہو گیا۔ یعنی:

فَمَنْ شَآئَ فَلْیُوْمِنْ وَّ مَنْ شَآئَ فَلْیَکْفُرْ  لا(الکہف۱۸:۲۹)اب جس کا جی چاہے مان لے اور جس کا جی چاہے انکار کر دے۔

وَمَا تَشَآئُ وْنَ اِلَّآ اَنْ یَّشَآئَ اللّٰہُ ط (الدھر۷۶:۳۰)اور تمھارے چاہنے سے کچھ نہیں ہوتا جب تک اللہ نہ چاہے۔

پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے آزاد انسانی ارادے کو بیان کیا ہے، اور دوسری آیت میں ارادۂ الٰہی، یعنی قضا و قدر پر بات کی ہے۔ ان دونوں آیتوں کے درمیان جو ٹکرائو نظر آتا ہے،  وہ صرف ظاہری ہے۔ ہم یہ بات تو اچھی طرح سمجھ چکے ہیں کہ اللہ انسان کے لیے کوئی ارادہ نہیں کرتا سوائے اُس کے جو انسان خود اپنے لیے ارادہ کرتا ہے۔ فرمایا:

وَمَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْم بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْہُدٰی وَیَتَّبِـعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰی وَنُصْلِہٖ جَہَنَّمَط وَسَاء َتْ مَصِیْرًا(النساء ۴: ۱۱۵) جو شخص رسولؐ کی مخالفت پر کمربستہ ہو اور اہل ایمان کی رَوِّش کے سوا کسی اور رَوِّش پر چلے، درآں حالیکہ اس پر راہِ راست واضح ہو چکی ہو، تو اُس کو ہم اُسی طرف چلائیں گے جدھر وہ خود پھر گیا اور اُسے جہنم میں جھونکیں گے جو بدترین جاے قرار ہے۔

کوئی شخص بُری راہ اختیار کر لے اور اللہ اُس کی نیت میں اصرار دیکھے تو اللہ اُس شخص کو خیر پر مجبور نہیں کرتا، بلکہ اللہ بھی اُس کے لیے وہ اختیار کرتا ہے جو اُس شخص نے خود اختیار کیا ہے۔ اللہ اُس کی سرکشی اور بغاوت میں اُس کو آگے بڑھنے دیتا ہے، یہاں تک کہ وہ ارادہ اور نیت باہر آ جاتی ہے جس کو انسان نے چھپارکھاہو۔ اور بالآخر نیت فعل کا لبادہ اُوڑھ لیتی ہے اور انسان عذاب کا مستحق ہو جاتا ہے۔

نُوَلِّہٖ مَاتَوَلّٰی وَ نُصْلِہٖ جَھَنَّمَ وَ سَآء َت مَصِیْرًا ،اُس کو ہم اُسی طرف چلائیں گے جدھر وہ خود پھر گیا اور اُسے جہنم میں جھونکیں گے جو بدترین جائے قرار ہے۔

یہ جبر عین اختیار ہے کوئی تناقض نہیں کیونکہ ارادۂ انسان ہی ارادۂ رب ہے۔ یہاں ثنویت اور دوئی کی نفی ہو گئی۔ کیونکہ:

اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِھِمْ ط(الرعد۱۳:۱۱)اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی۔

اللہ وہ تبدیلی نہیں لاتا جس کا وہ انسان کے ساتھ ارادہ رکھتا ہے، جب تک کہ انسان وہ تبدیلی نہ لائے جو وہ اپنے لیے چاہتا ہے۔ یہاں مطابقت واضح ہے۔

انسان چاہتا اور ارادہ کرتا ہے مگر اختیار و ارادہ کی یہ قدرت اللہ تعالیٰ کی عطااور اس کی مشیّت ہے۔ انسانی آزادی بذاتِ خود الٰہی عطا، عطیہ اور مشیت ہے۔ لہٰذا  وَمَا تَشَآء ُ وْنَ اِلَّآ   اَنْ یَّشَآءَ اللّٰہُ  ’’اور اللہ نے فیصلہ کرلیا تھا کہ جو کچھ تم چھپاتے ہو، اسے کھول کر رکھ دے گا‘‘۔     ایک حقیقت کا بیان ہے کوئی متضاد و متناقض بات نہیں ہے۔ یہ بیان بتاتا ہے کہ انسان آزاد ہے  مگر اس کی آزادی عطا کردہ کی عطا، بخشش اور عنایت ہے۔

وَ اللّٰہُ مُخْرِجٌ مَّا کُنْتُمْ تَکْتُمُوْنَ(البقرہ۲:۷۲)اور اللہ اُسے کھول کر رکھ دے گا جسے تم چھپاتے ہو۔

نیت میں جو کچھ ہے اور دل کی گہرائیوں میں جو کچھ مخفی ہے اللہ اس کو نکال باہر کرتا ہے، تاکہ ہر شخص کی نیت کو بالکل اُسی شکل اور صورت میں جیسا کہ وہ ہے کسی جبر واِکراہ کے بغیر ریکارڈ پرلے آئے۔ اللہ تو صرف اُس کو فاش کرتا اور اُس کی حالت پر اُس کو باہر نکالتا ہے تاکہ ہر انسان کی قسمت کا کارڈ اُس کے اپنے گلے میں لٹکا ہو۔

اب فیصلہ کُن قرآنی آیت ملاحظہ کیجیے:

وَاعْـلَـمُـوْٓا اَنَّ اللّٰہَ یَــحُوْلُ بَـیْنَ الْمَرْئِ وَقَـلْـبِـہٖ وَاَنَّہٗٓ اِلَیْہِ تُحْشَــرُوْنَ (الانفال ۸:۲۴) جان رکھو کہ اللہ آدمی اور اُس کے دل کے درمیان حائل ہے اور اُسی کی طرف تم سمیٹے جائو گے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ قلب کو آزاد چھوڑ دیتا ہے تاکہ ہر انسان اپنے دلی ارادے میں آزاد ہو، مگر انسان اور اُس کے دل کے مابین اللہ اپنی حکمرانی چلاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ، انسان اور  اُس کے دل کے درمیان یوں حائل ہوتا ہے کہ اُس کو اپنی رحمت اور مہربانی کی بنا پر اچھے اعمال میں مدد اور سہارا دیتا ہے یا اُس کے برے افعال کو ضائع کر دیتا ہے، تاکہ وہ اپنے پسندیدہ بندوں کو برائیوں سے بچاکر رکھے اور ہر شخص کو اُس کی نیت و ضمیر اور قلبی و نفسی میلانات و رجحانات کے مطابق، آسانیاں اور سہولتیں فراہم کرے، خواہ وہ آسانیاں کسی وسعت کے لیے ہوں یا کسی تنگی و تکلیف کے لیے۔

انسان اور اُس کے دل کے درمیان خفی اور لطیف ارادئہ الٰہی کی ایک اور بلیغ مثال دیکھیے۔ غزوۂ بدر میں ۳۱۳ مسلمان، اسلحے میں ڈوبے دشمن کے ایک ہزار جنگجوئوں کا سامنا کر رہے تھے۔ تعداد و تیاری کے تقابل کی روشنی میں دونوں کے درمیان کوئی مقابلہ نہیں ہوسکتا تھا ،مگر اللہ چاہتا تھا کہ وہ مسلمانوں کو میدانِ معرکہ میں دھکیل دے، لیکن وہ کسی جبرواِکراہ کے بغیر، اپنی مرضی اور اختیار سے جائیں.....تو اللہ نے اپنے رسولؐ کو ایک خواب دکھایا جس میں دشمن کی تعداد بہت تھوڑی دکھائی دی جس سے کوئی خطرہ نہیں ہو سکتاتھا۔ پھر دورانِ معرکہ بھی کفار کی کثرت مسلمانوں کو بہت قلیل دکھائی دی۔ مقصد یہ تھا کہ دشمن کی ہیبت قائم نہ ہو سکے، بلکہ اُنھیں معمولی سمجھا جائے۔ اسی طرح مسلمانوں کا حال کفار کی نظروں میں معمولی کرکے دکھایا گیا۔ یوں فریقین میں سے ہر ایک کو بتدریج معرکہ میں پہنچا دیا تاکہ اُس معاملے کا فیصلہ کر دیا جائے جو اللہ کے علم میں تو پہلے سے کیا جاچکا تھا:

اِذْ یُرِیْکَہُمُ اللّٰہُ فِیْ مَنَامِکَ قَلِیْلًاط وَلَوْ اَرٰیکَہُمْ کَثِیْرًا لَّفَشِلْتُمْ وَلَتَنَازَعْتُمْ فِی الْاَمْرِ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ سَلَّمَ ط اِنَّہ عَلِیْمٌم بِذَاتِ الصُّدُوْرِ o وَاِذْ یُرِیْکُمُوْہُمْ اِذِ الْتَقَیْتُمْ فِیْٓ اَعْیُنِکُمْ قَلِیْلًا وَّیُقَلِّلُکُمْ فِیْٓ اَعْیُنِہِمْ لِیَقْضِیَ اللّٰہُ اَمْرًا کَانَ مَفْعُوْلًا ط وَاِلَی اللّٰہِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ(انفال۸:۴۳-۴۴) اور یاد کرو وہ وقت  جب کہ اے نبیؐ، خدا اُن کو تمھارے خواب میں تھوڑا دکھا رہا تھا اگر کہیں وہ تمھیں اُن کی تعداد زیادہ دکھا دیتا تو ضرور تم لوگ ہمت ہار جاتے اور لڑائی کے معاملہ میں جھگڑا شروع کردیتے، لیکن اللہ ہی نے اس سے تمھیں بچایا، یقینا وہ سینوں کا حال تک جانتا ہے۔ اور یاد کرو جب کہ مقابلے کے وقت خدا نے تم لوگوں کی نگاہوں میں دشمنوں کو تھوڑا دکھایا اور اُن کی نگاہوں میں تمھیں کم کرکے پیش کیا، تاکہ جو بات ہونی تھی اسے اللہ ظہور میں لے آئے، اور آخر کار سارے معاملات اللہ ہی کی طرف رجوع ہوتے ہیں۔

یہ وہ تیسیر ہے جس کے ذریعے اللہ اسباب کو حرکت دیتا اور آگے بڑھاتا ہے، لیکن انسان کو ودیعت شدہ ناموسِ حریت میں دخل نہیں دیتا۔ اللہ نے ہم سب کو قلب و ضمیر کے اعتبار سے    آزاد تخلیق کیا اور اسی آزادی کے متعلق ہم سے جواب دہی ہو گی۔(مصنف کی کتاب القرآن: محاولہ لفہم عصری میں شامل ایک مقالہ)

اسلام پر جہاں بے شمار اعتراضات کیے جاتے ہیں، وہاں یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ: ’’اسلام کے احکامِ وراثت میں انصاف کے تقاضے ملحوظِ خاطر نہیں رکھے گئے ہیں، اور یہ کہ عورت کا حصہ مرد کے مقابلے میں آدھا رکھا گیا ہے‘‘۔ درحقیقت اسلامی نظامِ وراثت میں، وارثین کے حصوں کے درمیان فرق کی وجہ مرد و عورت کا اختلاف نہیں ہے بلکہ تین بنیادی عوامل ہیں:

  •  پہلا یہ کہ میّت اور وارث کے درمیان درجۂ قرابت۔ جتنا وہ میّت کے قریب ہوگا اُس کا حصہ زیادہ ہوگا، چاہے وہ مرد ہو یا عورت۔ اس اعتبار سے بیٹی کو ماں سے زیادہ حصہ ملتا ہے بلکہ باپ سے بھی، اور اسی طرح بیٹا باپ سے زیادہ ترکے کا حق دار ہوتاہے۔
  •   دوسرا یہ کہ آنے والی نسل کا حصہ بمقابلہ جانے والی نسل کے زیادہ ہے۔ یہ ایک مبنی برانصاف اور منطقی بات ہے کہ جس نسل نے ابھی ساری زندگی کا بوجھ اُٹھانا ہے، اُس کا حصہ زیادہ ہونا چاہیے اور جو نسل اپنی زندگی کے اختتام پر ہے، اُسے کم حصہ ملنا چاہیے۔
  •  تیسرا یہ کہ وارثوں کے حصوں میں کمی بیشی اُن کی مالی ذمے داریوں کی بنا پر ہے، یعنی جس کی جتنی ذمہ داری زیادہ ہوگی، اُس کا حصہ بھی زیادہ ہوگا۔

سب سے بڑی بات یہ ہے کہ یہ نظام اللہ کی طرف سے دیا گیا ہے، جو ہر مرد و عورت کا خالق ہے، جو ہماری ضروریات کو ہم سے زیادہ بہتر جانتا ہے، جس کا ایک ایک حکم عدل و انصاف کے اُوپر قائم ہے۔ کسی بات کی حکمت ہماری سمجھ میں نہ آنے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ بات حکمت سے خالی ہے۔

ورثا کے حصوں کا تناسب

وارثین کے حصص کے تناسب کی چار صورتیں ہوسکتی ہیں:

  •   یہ کہ جس میں عورت کو مرد سے کم ملتا ہے۔l  یہ کہ جس میں مرد اور عورت کا حصہ برابر ہے۔ l  یہ کہ جس میں عورت کو مرد سے زیادہ ملتا ہے۔ l  یہ کہ جس میں عورت کو تو کچھ ملتا ہے لیکن رُتبے میں اس کے برابر مرد کو کچھ نہیں ملتا۔

اللہ تعالیٰ نے وراثت کے احکام سورئہ نساء کی ان تین آیات میں بیان فرمائے ہیں:

  •  یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ فِیْٓ اَوْلَادِکُمْ ق لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ ج فَاِنْ کُنَّ نِسَآئً فَوْقَ اثْنَتَیْنِ فَلَھُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَکَ  ج وَ اِنْ کَانَتْ وَاحِدَۃً فَلَھَا النِّصْفُ ط وَلِاَبَوَیْہِ لِکُلِّ وَاحِدٍ مِّنْھُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَکَ اِنْ کَانَ لَہٗ وَلَدٌ ج فَاِنْ لَّمْ یَکُنْ لَّہٗ وَلَدٌ وَّ وَرِثَہٗٓ اَبَوٰہُ فَلِاُمِّہِ الثُّلُثُ ج فَاِنْ کَانَ لَہٗٓ اِخْوَۃٌ فَلِاُمِّہِ السُّدُسُ مِنْم بَعْدِ وَصِیَّۃٍ یُّوْصِیْ بِھَآ اَوْدَیْنٍ ط اٰبَآؤُکُمْ وَ اَبْنَآؤُکُمْ لَا تَدْرُوْنَ اَیُّھُمْ اَقْرَبُ لَکُمْ نَفْعًا ط فَرِیْضَۃً مِّنَ اللّٰہِ  ط اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیْمًا حَکِیْمًاo (النساء ۴:۱۱) اللہ تعالیٰ تمھیں تمھاری اولاد کے بارے میں حکم دیتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے اور اگر صرف لڑکیاں ہی ہوں اور دو سے زیادہ ہوں تو انھیں مالِ متروکہ کا دو تہائی ملے گا۔ اور اگر ایک ہی لڑکی ہو تو اُس کے لیے آدھا ہے۔ اور میت کے ماں باپ میں سے ہر ایک کے لیے اُس کے چھوڑے ہوئے مال کا چھٹا حصہ ہے۔ اگر اس میت کی اولاد ہو، اور اگر اولاد نہ ہو اور ماں باپ وارث ہوتے ہوں تو اس کی ماں کے لیے تیسرا حصہ ہے، ہاں اگر میّت کے کئی بھائی ہوں تو پھر اس کی ماں کا چھٹا حصہ ہے۔ یہ حصے اس وصیّت کی تکمیل کے بعد ہیں جو مرنے والا کرگیا ہو یا اداے فرض کے بعد۔تمھارے باپ ہوں یا تمھارے بیٹے تمھیں نہیں معلوم کہ ان میں سے کون تمھیں نفع پہنچانے میں زیادہ قریب ہے۔ یہ حصے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقررکردہ ہیں۔ بے شک اللہ تعالیٰ علم والا ہے، حکمت والا ہے۔
  •  وَ لَکُمْ نِصْفُ مَا تَرَکَ اَزْوَاجُکُمْ اِنْ لَّمْ یَکُنْ لَّھُنَّ وَلَدٌ  ج فَاِنْ کَانَ لَھُنَّ وَلَدٌ فَلَکُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَکْنَ مِنْم بَعْدِ وَصِیَّۃٍ یُّوْصِیْنَ بِھَآ اَوْ دَیْنٍ ط وَ لَھُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَکْتُمْ اِنْ لَّمْ یَکُنْ لَّکُمْ وَلَدٌ ج فَاِنْ کَانَ لَکُمْ وَلَدٌ فَلَھُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَکْتُمْ مِّنْم بَعْدِ وَصِیَّۃٍ تُوْصُوْنَ بِھَآ اَوْدَیْنٍ ط وَ اِنْ کَانَ رَجُلٌ یُّوْرَثُ کَلٰلَۃً اَوِ امْرَاَۃٌ وَّ لَہٗٓ اَخٌ اَوْ اُخْتٌ فَلِکُلِّ وَاحِدٍ مِّنْھُمَا السُّدُسُ ج فَاِنْ کَانُوْٓا اَکْثَرَ مِنْ ذٰلِکَ فَھُمْ شُرَکَآئُ فِی الثُّلُثِ مِنْم بَعْدِ وَصِیَّۃٍ یُّوْصٰی بِھَآ اَوْدَیْنٍ لا غَیْرَ مُضَآرٍّج  وَصِیَّۃً مِّنَ اللّٰہِ ط وَ اللّٰہُ عَلِیْمٌ حَلِیْمٌo (النساء ۴:۱۲) تمھاری بیویاں جو کچھ چھوڑ مریں اور ان کی اولاد نہ ہو تو تمھارا حصہ آدھا ہے اور اگر ان کی اولاد ہو تو ان کے چھوڑے ہوئے مال میں سے تمھارے لیے چوتھائی حصہ ہے، اس وصیت کی ادایگی کے بعد جو وہ کرگئی ہوں یا قرض کی ادایگی کے بعد۔اور جو ترکہ تم چھوڑ جائو اس میں  ان کے لیے چوتھائی ہے اگر تمھاری اولاد نہ ہو، اور اگر تمھاری اولاد ہو تو پھر انھیں تمھارے ترکہ کا آٹھواں حصہ ملے گا ، اس وصیّت کے بعد جو تم کرگئے ہو اور قرض کی ادایگی کے بعد۔ اور جن کی میراث لی جاتی ہو، وہ مرد ہو یا عورت، کلالہ ہو (یعنی اس کا باپ بیٹا نہ ہو) اور اس کا ایک بھائی یا ایک بہن ہو تو ان دونوں میں سے ہر ایک کا چھٹا حصہ ہے اور اگر اس سے زیادہ ہوں تو ایک تہائی میں سب شریک ہوں، اس وصیّت کے بعد جو کی جائے اور قرض کے بعد جب کہ اوروں کا نقصان نہ کیا گیا ہو۔ یہ حکم اللہ کی طرف سے ہے اور اللہ تعالیٰ علم والا ہے، بُردبار ہے۔
  •  یَسْتَفْتُوْنَکَ ط قُلِ اللّٰہُ یُفتِیْکُمْ فِی الْکَلٰلَۃِ ط اِنِ امْرُؤٌا ھَلَکَ لَیْسَ لَہٗ وَلَدٌ وَّ لَہٗٓ اُخْتٌ فَلَھَا نِصْفُ مَا تَرَکَ ج وَھُوَ یَرِثُھَآ اِنْ لَّمْ یَکُنْ لَّھَا وَلَدٌ ط فَاِنْ کَانَتَا اثْنَتَیْنِ فَلَھُمَا الثُّلُثٰنِ مِمَّا تَرَکَ ط وَ اِنْ کَانُوْٓا اِخْوَۃً رِّجَالًا وَّ نِسَآئً فَلِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ ط یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمْ اَنْ تَضِلُّوْا ط وَاللّٰہُ بِکُلِّ شَیْ ئٍ عَلِیْمٌ o (النساء ۴:۱۷۶) آپ سے فتویٰ پوچھتے ہیں، آپ کہہ دیجیے کہ اللہ تعالیٰ خود تمھیں کلالہ کے بارے میں فتویٰ دیتاہے ، اگر کوئی شخص مرجائے جس کی اولاد نہ ہو اور ایک بہن ہو تو اس کے لیے مال متروکہ کا آدھا حصہ ہے۔ اور وہ بھائی اس بہن کا وارث ہوگا اگر اس کے اولاد نہ ہو، پس اگر بہنیں دو ہوں تو انھیں کُل چھوڑے ہوئے کا دو تہائی ملے گا اور اگر وہ سب کئی بھائی بہن ہوں تو مرد کے لیے عورت کے مقابلے میں دوگنا حصہ ہے۔ اللہ تعالیٰ تمھارے لیے کھول کھول کر واضح کر رہا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ تم بہک جائو اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔

قرآنِ مجید کی ان آیات کے علاوہ احادیث میں بھی وراثت کے احکام بیان ہوئے ہیں، جیسے:

  •    ماں کی عدم موجودگی میں دادی یا نانی کو چھٹا حصہ ملے گا۔
  •  اگر ایک بیٹی کے ساتھ ایک پوتی بھی ہو تو اُسے بھی چھٹا حصہ ملے گا۔
  •   آیت ۱۲ میں جس ’کلالہ‘ کا ذکر ہے، اُس سے اخیافی (یعنی ماں کی طرف سے) بہن بھائی مراد ہیں اور آیت ۱۷۶  میں کلالہ سے مراد حقیقی یا علّاتی (جن کا باپ ایک ہو) بہن بھائی مراد ہیں۔
  •  بیٹی یا بہن اگر ایک ہو تو اس کا حصہ نصف ہے، لیکن اگر بیٹے یا بھائی بھی ہوں، تو پھر (فَلِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ: مرد کا دو عورتوں کے برابر حصہ ہے) کا قانون لاگو ہوتا ہے۔
  •  ’عَصَبہ‘ ہونے کی صورت میں ذوی الفروض { FR 602 }کو ان کا حصہ دینے کے بعد جو بچے وہ اُسے  ملتا ہے۔
  • ’ذوی الفروض‘ کو اُن کا حصہ دینے کے بعد اگر کچھ بچ جائے تو پھر اولو الارحام کو دیا جائے گا اور اس میں پہلے اُس مرد کو ترجیح دی جائے گی جو قرابت میں زیادہ قریب ہو۔
  •  وارث اگر مورث کا قاتل ہو تو اُسے وراثت سے محروم کر دیا جائے گا۔
  • غیروارث کے لیے صرف ایک تہائی مال میں وصیت کی جاسکتی ہے۔
  •  اگر میت کے وہ رشتہ دار نہ ہوں جو بحیثیت فرض یا عصبہ اپنے حصے کے حق دار ہوتے ہیں تو پھر ذوی الارحام{ FR 603 } وارث ہوں گے جن کی تفصیل آگے آرہی ہے۔
  •   بموجب فرمانِ نبویؐ: اَلحِقُوا الفرائِضَ بِاَھْلِھَا فَمَا بَقِی فلِاَوْلٰی رَجُلٍ ذَکَر (بخاری، مسلم)’اصحاب فرض‘ کے حصے ادا کرنے کے بعد جو باقی بچ جائے، اُسے قریب ترین مرد کو دے دو۔ جیسے ایک میت کا ماں، باپ، بیٹا چھوڑ کر انتقال ہوا ہے، تو پہلے ماں باپ کو اُن کا حصہ، یعنی مال کا چھٹا حصہ ماں کو اور اتنا ہی باپ کو دیا جائے گا اور اس کے بعد باقی مال بیٹے کو دیا جائے گا کہ وہی قریب ترین وارث ہے۔

یہاں ایک بات اور واضح ہوئی کہ جن وارثین کا حصہ مقرر کیا گیا ہے، یعنی ’اصحاب الفروض‘ ان میں اکثر عورتیں ہیں، جیسے: ماں، بیٹی، بہن، نانی، دادی ، بیوی۔ مردوں میں صرف باپ یا دادا، اور شوہر ہیں، ان کا حصہ مقرر کر دیا گیا ہے، جو کسی صورت میں ساقط نہیں ہوسکتا۔ گویا اُن کے ضُعف کو دیکھتے ہوئے اُن کے حصے اتنے مضبوط ہیں کہ ان میں کمی تو ہوسکتی ہے، لیکن انھیں بالکل محروم نہیں کیا جاسکتا۔ برخلاف عَصَبات کے (جن میں بیٹے سرفہرست ہیں) تو وہ باقی مال کے وارث ہوتے ہیں۔ اس لحاظ سے وہ خود ’عَصَبہ بالنفس‘ ہیں،اور اگر بیٹے کے ساتھ بیٹیاں اور بھائی کے ساتھ بہنیں بھی ہوں تو وہ ’عَصَبہ بالغیر‘ { FR 600 } ہوکر ان کے ساتھ ترکہ میں شریک ہوجاتی ہیں، اور اگر عورت کے ساتھ دوسری عورت اس طرح حصہ دار ہو کہ اُسے دو تہائی میں سے پہلی عورت کا حصہ دینے کے بعد باقی مل جائے تو اُسے ’عَصَبہ مع الغیر‘ { FR 601 } کہاگیا۔ جیسے ایک بیٹی (جس کا حصہ نصف ہے) اُس کے ساتھ پوتی کو ملایا جائے (یعنی چھٹا حصہ دیا جائے) اور ایسے ہی ایک بیٹی کے ساتھ حقیقی یا علّاتی بہن کو اسی اصول کے مطابق حصہ دیا جائے۔

  •  اخیافی بہن بھائیوں کے لیے خصوصی اہتمام کیا گیا ہے۔ اگر میت کی ماں اور سگے بھائی ہوں تو اس کا حصہ ایک تہائی سے کم ہوکر چھٹا رہ جاتا ہے، لیکن سگے بھائیوں کو خود کچھ نہیں ملتا (امام ابن تیمیہؒ کے نزدیک وہ باقی مال کے وارث ہوں گے)۔ لیکن اگر میت کے اخیافی بھائی بہن ہوں تو انھیں ہرصورت ایک تہائی ملے گا، یعنی ان کا رشتہ میت کی ماں کی طرف سے تھا اور اس رشتے کا اتنا خیال رکھا گیا کہ انھیں محروم نہیں رکھا گیا۔

اب ان چار صورتوں کا تفصیلی ذکر کیا جاتا جن کی طرف ابتدا میں اشارہ کیا گیا ہے۔

عورت کا نصف حصہ

  •  پہلی صورت: جہاں عورت کو مرد سے آدھا ملتا ہے اور یہ چار حالات میں ہوتا ہے:

۱- میت کے بیٹے اور بیٹیاں ہوں تو ایک بیٹے کو بیٹی کے مقابلے میں دوگناحصہ ملے گا۔

یہاں اس بات کی رعایت رکھی گئی ہے کہ جس شخص پر مالی بوجھ زیادہ ہے، اُس کا حصہ زیادہ ہو، لیکن اگر غور سے دیکھا جائے تو یہاں بھی بیٹی ہی نفع میں رہتی ہے۔ ہم اس بات کو مندرجہ ذیل مثال سے واضح کرتے ہیں:

ایک میت نے اپنے ترکے میں ۳۰ہزار روپے چھوڑے اور اس کا وارث صرف ایک بیٹا اور بیٹی ہے۔ وراثت کے مذکورہ قاعدے کے مطابق بیٹی کو ۱۰ہزار اور بیٹے کو ۲۰ہزار روپے ملیں گے۔ اب فرض کریں کہ دونوں شادی کا ارادہ رکھتے ہیں۔ بیٹی کا مہر ۱۰ہزار روپے رکھا گیا ہے، یعنی شادی کے بعد وہ وراثت کی رقم اور اپنے مہر کو ملا کر ۲۰ہزار روپے کی مالک ہوگی۔ بیٹے نے شادی کے بعد اپنی بیوی کو مہر ادا کرنا ہے جس کی مالیت ۱۰ہزار ہے، یعنی وراثت میں اُسے جو ۲۰ہزار  ملے تھے۔ اس میں سے ۱۰ہزار دینے کے بعد اُس کے پاس صرف ۱۰ہزار بچیں گے۔ اب بتایئے کہ کون نفع میں رہا؟ بیٹی کو جس کے پاس ۲۰ہزار ہیں یا بیٹا، جس کے پاس صرف ۱۰ہزار رہ گئے ہیں۔

۲- اسی مثال کا اطلاق حقیقی یا علاتی بھائی بہنوں پر بھی کیا جاسکتا ہے جنھیں کلالہ کی صورت میں مذکورہ اصول کے مطابق وراثت ملتی ہے۔

۳- میت کی اولاد نہ ہونے کی صورت میں ماں کو ایک تہائی ملے گا اور باقی ماندہ مال، یعنی دوتہائی باپ کو ملے گا۔ملاحظہ فرمائیں کہ ماں کو جو حصہ ملا ہے وہ خالصتاً اس کا ہے، لیکن باپ کو اگرچہ زائد رقم ملی ہے، وہ ماں کے نان و نفقہ کا ذمہ دار ہے، یعنی وہ اس مال میں سے بالآخر اپنی بیوی (یعنی میت کی ماں) کے اُوپر خرچ کرتا رہے گا۔

۴-  میاں اور بیوی کے حصوں میں بھی نصف کی نسبت پائی جاتی ہے، یعنی اگر شوہر فوت ہو تو بیوی کو بصورت وجود اولاد، آٹھواں حصہ اور اگر اولاد نہ ہو تو چوتھائی حصہ ملے گا۔اور اگر بیوی فوت ہو تو شوہر کو بصورتِ اولاد چوتھائی اور اگر اولاد نہ ہو تو نصف حصہ ملے گا۔

پہلے تو اس بات کو ملاحظہ فرمائیں کہ بصورت موجودگی اولاد بیوی کو آٹھواں حصہ ملتا ہے، یعنی باقی ماندہ مال اولاد کے درمیان تقسیم ہوجاتا ہے۔ بیوی (جو اپنے بچوں کی ماں ہے) یقینا بچوں  کے لیے قابلِ احترام ہوگی۔ اگر بچے ناخلف نہیں ہیں تو وہ ضرور اپنی ماں کا خیال رکھیں گے۔   اکثر دیکھا گیا ہے کہ باپ ایک گھر چھوڑ جاتا ہے، جہاں ماں اور بچے مل کر رہ رہے ہیں۔ ماں  جب تک زندہ ہے بچے اُس سے اپنے حصوں کا مطالبہ نہیں کرتے اور وہ کسی مالی پریشانی کا شکار  نہیں ہوتی ہے۔ فرض کیجیے کہ وہ ابھی جوان ہے اور شادی کرسکتی ہے تو اُسے مہر کی شکل میں اپنے دوسرے خاوند سے اتنی رقم مل سکتی ہے جو ترکے میں ملی ہوئی کم رقم کی تلافی کرسکتی ہے۔

اب ملاحظہ ہو: ایک عورت انتقال کرجاتی ہے، بصورت موجودگی اولاد، شوہر کو چوتھائی حصہ ملے گا، وہ خود چوںکہ کمانے والا ہے تو اُسے اپنے بچوں سے کسی معاونت کی توقع نہیں ہے۔ اگر وہ دوسری شادی کرلیتا ہے تو گویا جو رقم اُسے ترکے میں ملی تھی، اُس میں کمی واقعہ ہوجائے گی۔  ہم نے دیکھا کہ وہ عورت جسے آٹھواں حصہ ملا تھا، وہ نہ صرف اپنے بچوں سے مالی مدد حاصل کرتی رہے گی بلکہ دوسری شادی کی صورت میں مہر کی رقم پاکر زیادہ رقم کی مالک ہوگی اور اس کے برعکس شوہر جسے چوتھائی حصہ ملا تھا، دوسری شادی کی صورت میں مہر کی ادایگی کی بنا پر اپنے مال میں کمی کا شکار ہوگا۔

اس مثال میں بھی مرد و عورت کاحصہ بالآخر برابری کی سطح پر آجاتا ہے۔

مرد اور عورت کا برابر حصہ

  •  دوسری صورت: جہاں مرد و عورت کا حصہ برابر ہے اور اس کی متعدد مثالیں ہیں:

۱- میت کی اگر اولاد ہو تو ماں باپ دونوں کو چھٹا حصہ ملے گا، یعنی دونوں کا حصہ یکساں ہوگا۔

۲-وہ کلالہ ، جس کے صرف ماں کی طرف سے بھائی بہن ہوں تو اُن کا حصہ یکساں ہے، یعنی اگر ایک بھائی ہے تو اُسے بھی چھٹا حصہ ملے گا اور اگر ایک بہن ہے تو اُسے بھی چھٹا حصہ ملے گا، لیکن اگر بہن بھائی دو یا دو سے زیادہ ہوں تو وہ سب ایک تہائی میں برابر کے شریک ہوں گے۔

۳- میت کا شوہر اور سگا بھائی ہو تو شوہر کو آدھا بحیثیت فرض حصہ اور بھائی کو باقی آدھا حصہ بطورِ عَصَبہ ملے گا۔ اس مثال میں اگر بھائی کی جگہ سگی بہن ہوتی تو اُسے بھی آدھا حصہ بحیثیت فرض حصہ ملتا۔

۴- میت کا شوہر، ایک بیٹی اور ایک سگا بھائی ہو تو شوہر کو رَبع (یعنی چار حصوں میں سے ایک)۔ بیٹی کو آدھا (یعنی دو حصے) اور سگے بھائی کو بطور عَصَبہ باقی (یعنی ایک حصہ) ملے گا۔ اس مثال میں اگر بھائی کی جگہ سگی بہن ہوتی تو اُسے بیٹی کے ساتھ عَصَبہ مع الغیر کی حیثیت سے باقی (یعنی ایک حصہ) ملتا۔

۵- صحابہ کے مابین مندرجہ ذیل مسألہ، مشترکہ کے نام سے مشہور ہوا۔ اس کی صورت یہ تھی کہ میت کے وارثین میں شوہر، ماں، دو اخیافی بھائی اور ایک سگا بھائی تھا۔ اس ترکے کی تقسیم یوں ہونی چاہیے تھی۔ کُل حصص: ۶ ۔ شوہر: ۳ (آدھا حصہ)، ماں: ایک (چھٹا حصہ) ، دو اخیافی بھائی: ۲ (تہائی حصہ)۔ سگا بھائی: عَصَبہ کے اعتبار سے باقی ماندہ حصہ جو صفر تھا۔

اس تقسیم میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اس ہدایت کا خیال رکھا گیا تھا کہ پہلے اصحاب فروض کے حصے ادا کردو اور پھر جو بچ جائے اس کا مستحق قریب ترین مرد رشتے دار ہے۔اور صحابہ کرامؓ میں سے حضرات عمرؓ، زیدؓ، عثمانؓ، علیؓ، ابن مسعودؓ، اُبیؓ، ابن عباسؓ اور ابوموسیٰ کا یہی فتویٰ تھا۔ لیکن پھر میت کے سگے بھائی حضرت عمرؓ کے پاس آئے اور کہا: ’’کیا عجب ہے کہ سگے بھائیوں کو تو کچھ نہ ملے لیکن اخیافی بھائیوں کو پھر بھی ملے؟ آپ یوں فرض کرلیں کہ ہمارا باپ  گدھا تھا، (یعنی اس کا اعتبار نہ کیا جائے) تو ماں کی طرف سے تو ہم سب برابر کے شریک ہیں‘‘۔ حضرت عمرؓ نے یہ سن کر اپنے فتویٰ سے رجوع کیا اور اخیافی بھائیوں کے ساتھ سگے بھائیوں کو بھی ایک تہائی مال میں شریک ٹھیرایا۔ اس میں حضرت عثمانؓ اور حضرت زیدؓ نے بھی موافقت کی۔

عورت کا مرد سے زیادہ حصہ

  • تیسری صورت کہ جس میں عورت کو مرد سے زیادہ حصہ ملتا ہے:

۱- پہلی بات تو یہ ملاحظہ ہو کہ وراثت میں سب سے بڑا حصہ دو تہائی مال کا ہے جو صرف عورتوں کے لیے خاص ہے۔ میت کی اگر نرینہ اولاد نہ ہو صرف دو بیٹیاں یا دو سے زائد ہوں تو وہ دوتہائی مال میں شریک ہوں گی، اور بیٹیاں بھی نہ ہوں، پوتیاں ہوں تو وہ بیٹیوں کے قائم مقام ہوکر دو تہائی کی حق دار ہوں گی، اور ایسے ہی نرینہ اولاد، یا بیٹی کے نہ ہونے کی صورت میں دو یا زائد بہنوں کو بھی دو تہائی ملے گا (بشرطیکہ بھائی بھی نہ ہو)۔

یہی صورت علّاتی بہنوں کی بھی ہے، جب کہ میت کی سرے سے کوئی اولاد نہ ہو، نہ سگے بہن بھائی ہوں، نہ اس کا اپنا کوئی علّاتی بھائی ہی ہو۔

۲-  اس کے بعد سب سے بڑا حصہ آدھے مال کا ہے کہ جس کی مستحق چار عورتیں ہیں اور صرف ایک مرد lبیٹی، صرف ایک ہو اور میت کا بیٹا نہ ہو۔lپوتی: صرف ایک ہو اور میت کا نہ بیٹا ہو، نہ بیٹی اور نہ پوتا۔lسگی بہن: صرف ایک ہو بشرطیکہ میت کی نہ کوئی اولاد ہو، نہ سگا بھائی نہ باپ نہ دادا۔ lعلّاتی بہن صرف ایک ہو، نہ اس کا اپنا علّاتی بھائی ہو، نہ سگے بہن بھائی، اور نہ میت کی اپنی اولاد ہو، نہ باپ دادا ہوں ۔ lمردوں میں سے شوہر بشرطیکہ میت کی اولاد نہ ہو۔

۳- اس کے بعد تہائی حصہ ہے، جو اولاد کے نہ ہونے کی صورت میں ماں کے لیے خاص ہے۔ اسی طرح میت کے دو یا زائد بھائی نہ ہوں تب بھی ایک تہائی ماں کا حصہ ہے۔ اور اسی طرح اخیافی بھائی بہن بھی میت کی صُلبی اولاد نہ ہونے کی صورت میں ایک ثُلث کے مستحق ہوتے ہیں۔

۴- چھٹا حصہ (سُدس) پانچ عورتوں اور تین مردوں کے لیے خاص ہے:

  •                 ماں (اگر میت کی اولاد ہو) lدادی (ماں کی عدم موجودگی میں) lپوتی (ایک بیٹی کے ساتھ ’سُدس‘ کی مستحق ہوگی) lعلّاتی بہن (سگی بہن کے ساتھ سُدس کی مستحق ہوگی)۔ lاخیافی بہن(میت کی صُلبی اولاد نہ ہو) lاخیافی بھائی (میت کی صُلبی اولاد نہ ہو) lباپ (اگر میت کی اولاد ہو) lدادا (باپ کی عدم موجودگی میں)۔

۵- چوتھائی حصہ (رُبع) شوہر (اگر میت کی اولاد ہو)۔ lبیوی کو اولاد نہ ہونے کی صورت میں رُبع ملے گا۔

۶-آٹھواں حصہ (ثُمن) بیوی کے لیے اگر میت کی اولاد ہو۔

یہاں ملاحظہ ہو کہ خواتین کے لیے ۱۷ حالتوں میں فرض حصے رکھے گئے ہیں، جب کہ مردوں کے لیے صرف چھے حالتوں میں فرض حصے رکھے گئے ہیں اور اس بنا پر بعض دفعہ وہ مردوں سے زیادہ حصہ حاصل کرلیتی ہیں۔

یہ بات مندرجہ ذیل مثالوں سے واضح ہوجائے گی:

۱- بعض دفعہ بیٹیوں یا بہنوں کے لیے دو تہائی حصہ زیادہ مفید رہتا ہے کہ اگر ان کی جگہ دوبیٹے یا دو بہنیں ہوتیں تو وہ عَصَبہ ہونے کے اعتبار سے باقی مال کے وارث ہوتے جو دو تہائی سے کم ہوتا۔

مثال: ایک عورت کا ترکہ ۶۰؍ایکڑ قطعہ اراضی ہے، اور اس کے وارثین میں شوہر، باپ، ماں اور دو بیٹیاں ہیں۔ اس مثال میں ۱۲ کے عدد سے تقسیم عمل میں لائی جائے گی:

oشوہر: رُبع، یعنی ۳ حصے                    oماں: سُدس، یعنی ۲ حصے

oدو بیٹیاں: دو تہائی، یعنی ۸ حصے       oباپ: سُدس، یعنی ۲ حصے

چوں کہ کُل حصے ۱۵ ہوئے تو ’عول‘ { FR 564 } کے قاعدے کے مطابق جایداد ۱۵ سے تقسیم کی جائے گی، ایک حصہ چار ایکڑ کا بنےگا اور پھر زمین کی تقسیم ایسے ہوگی :

oشوہر :    ۴x ۳  = ۱۲ ؍ایکڑ   oماں :          ۴x ۲  = ۸ ؍ایکڑ

oباپ :      ۴x ۲  = ۸؍ ایکڑ     oدو بیٹیاں :  ۴x ۸  = ۳۲؍ایکڑ

(یعنی ہر ایک بیٹی کو ۱۶ ؍ایکڑ ملیں گے)

اب اسی مثال میں فرض کر لیجیے کہ دو بیٹیوں کے بجاے دو بیٹے ہوتے۔ بیٹوں کا فرض حصہ نہیں ہے بلکہ عَصَبہ ہونے کے اعتبار سے اصحاب الفروض کو اُن کے حصے دیے جانے کے بعد جو بچے گا وہ انھیں ملے گا۔گویا شوہر (رُبع) ، ماں (سُدس) ، باپ (سُدس) کو ان کا حصہ دینے کے بعد باقی ترکہ انھیں ملے گا: اس طرح شوہر (۳ حصے)، ماں (۲ حصے) ، باپ (۲ حصے) کے بعد باقی پانچ حصص اُن کے لیے ہوں گے۔

چونکہ حصص ۱۲ ہیں، اس لیے ایک حصہ ۵ ؍ایکڑ کے برابر ہوگا اور پھر زمین کی تقسیم ایسے ہوگی:

oشوہر :۵ x ۳  = ۱۵ ؍ایکڑ      oماں : ۵ x ۲  = ۱۰ ؍ایکڑ

oباپ :۵ x ۲  = ۱۰ ؍ایکڑ        oدو بیٹے :               ۵ x ۵  = ۲۵ ؍ایکڑ

(ہر بیٹے کو ساڑھے بارہ ایکڑ ملیں گے)۔گویا دو بہنوں کا دو تہائی فرض حصہ دو بیٹوں کے بطورِ عَصَبہ حصے سے زیادہ بنتا ہے۔

صرف عورت کا وارث ہونا

  • چوتھی صورت جس میں عورت وارث ہوتی ہے لیکن اس کے برابر کا مرد وارث نہیں ہوتا۔

۱- مثال: ایک عورت ۸۴ ؍ایکڑ قطعہ اراضی چھوڑ کر رخصت ہوئی ہے۔ اس کے وارثین میں سے شوہر، بہن اور ایک علّاتی بہن ہیں۔ یہ مسألہ چھے کے عدد سے حل ہوگا:

oشوہر:  نصف= ۳ حصے      oحقیقی بہن:  نصف=              ۳ حصے

oعلّاتی بہن:چھٹا حصہ=ایک حصہ

یہاں ’عول‘ کے قاعدے کے مطابق سات حصے ہوگئے، یعنی ایک حصے کی مقدار ۱۲؍ایکڑ ہوگی: lشوہر:۱۲ x  ۳=  ۱۳۶؍ایکڑ lحقیقی بہن: ۱۲ x  ۳= ۳۶؍ایکڑ lعلّاتی بہن: ۱۲؍ایکڑ۔

اسی مثال میں اگر علّاتی بہن کی جگہ علّاتی بھائی ہوتا تو اُسے بطورِ عَصَبہ باقی مال ملتا۔لیکن چونکہ شوہر اور حقیقی بہن کو آدھا آدھا حصہ (۴۲ایکڑ فی کس) مل چکا ہے۔ اس لیے کچھ باقی نہیں بچا، یعنی علّاتی بھائی کو کچھ نہ ملے گا۔

دوسری مثال: ایک خاتون کا کُل ترکہ ۱۹۵؍ایکڑ زمین ہے، وارثین میں شوہر، ماں، بیٹی اور پوتی شامل ہیں۔ یہ مسألہ ۱۲کے عدد سے حل ہوگا:

oشوہر: ایک چوتھائی=           ۳حصے  lباپ:  چھٹا حصہ= ۲ حصے

oماں: چھٹا حصہ=  ۲ حصے lبیٹی: آدھا مال=                      ۶ حصے

oپوتی: چھٹا حصہ (بیٹی اور پوتی کو دوتہائی دینے کے لیے)     = ۲ حصے

یہاں بھی ’عول‘ کے قاعدے سے کُل ۱۵ حصے ہوگئے، ایک حصہ کی مقدار ۱۳؍ایکڑ ہوگی، یعنی:

oشوہر: ۱۳ x   ۳ =  ۳۹؍ایکڑ  oماں: ۱۳ x   ۲ =    ۲۶؍ایکڑ

oباپ:۱۳ x   ۲ =      ۲۶؍ایکڑ                  oبیٹی:۱۳ x   ۶ =     ۷۸؍ایکڑ

oپوتی:۱۳ x   ۲ =    ۲۶؍ایکڑ

اب اگر اس مثال میں پوتی کی جگہ پوتا ہوتا تو وہ بطورِ عَصَبہ باقی مال کا حق دار ہوتا۔ لیکن اُسے کچھ ملنے سے قبل ہی حصص پورے ہوچکے ہیں۔ اس کے بغیر ذوی الفروض کے ۱۳ حصص بنے، ہر ایک حصہ کی مقدار ۱۵؍ایکڑ ٹھیری۔ تقسیم اس طرح عمل میں آئے گی:

  • شوہر:۱۵ x   ۳ =   ۴۵؍ایکڑ  lباپ:۱۵ x   ۲ =      ۳۰؍ایکڑ
  • ماں:۱۵ x   ۲   =    ۳۰؍ایکڑ  lبیٹی:۱۵ x   ۶   =   ۹۰؍ایکڑ

(پوتے کے لیے کچھ نہ بچا، اس لیے وہ محروم رہے گا)

۵- اگر میت کا صرف ایک ہی وارث ہو تو اُسے سارا مال مل جائے گا چاہے وہ مرد ہو یا عورت، جیسے اگر بیوی وارث ہو تو ایک چوتھائی بحیثیت فرض حصہ ملے گا اور باقی اُس پر لوٹا دیا جائے گا (اصطلاح میں اسے ردّ کہا جاتا ہے)۔

۶- سگی بہن اور سگے بھائی کا اس مثال میں برابر کا حصہ ہے۔ میت کا شوہر اور سگا بھائی ہے۔ کُل دو حصے ہوں گے:lشوہر : ایک حصہ (یعنی نصف)  oسگا بھائی: ایک حصہ (یعنی باقی مال)

اس مثال میں بھائی کی جگہ بہن ہوتی تو اُسے بھی ایک حصہ ملتا، کیونکہ اُسے نصف ملنا چاہیے اور اگر کُل مال کے دو حصے ہیں تو اس کے لیے ایک حصہ بنتا ہے جو اس کے بھائی کے حصے کے برابر ہے۔

۷-  اخیافی بہن کا حصہ سگے بھائی کے برابر ہے، میت کا شوہر، ماں، ایک اخیافی بہن اور ایک سگا بھائی ہے، کُل حصص چھے ہوں گے اور اس کی تقسیم یوں ہوگی:

  • شوہر: ۳ حصے (کُل ترکہ کا نصف)    lماں: ایک حصہ (چھٹا حصہ)
  • اخیافی بہن:            ایک حصہ (چھٹا حصہ)         lسگا بھائی: ایک حصہ (یعنی باقی مال)

۸- اُن فقہا کے نزدیک جو اولوا الارحام کو اصحاب الفروض اور عصبات کی عدم موجودگی میںوارث ٹھیراتے ہیں، مرد و عورت کا حصہ برابر ہے، یعنی نواسا اور نواسی کا حصہ برابر ہوگا اور اسی طرح خالہ اور ماموں کا حصہ برابر ہوگا۔

اُولوالارحام ان دور کے رشتہ داروں کو کہا جاتا ہے کہ جو کسی عورت کے واسطے سے میت سے قرابت رکھتے ہوں جیسے نواسا، نواسی (بیٹی کے توسط سے) خالہ اور ماموں (ماں کے توسط سے)۔ بھانجا اور بھانجی (بہن کے توسط سے)۔ پھوپھی کو بھی ذوی الارحام میں بحیثیت خاتون کے شامل رکھا گیا ہے۔ انھیں وراثت ملتی ہے یا نہیں اور اگر ملتی ہے تو کس قاعدے سے؟ اس میں فقہا یہ چار آرا رکھتے ہیں:

۱- اصحابِ فروض اور عصبات کی عدم موجودگی میں حصہ پائیں گے۔ اس راے کے حامل ہیں حضرات عمرؓ، علیؓ، ابن مسعودؓ، معاذؓ، ابوالدرداؓ۔ تابعین میں سے قاضی شریح، عمر بن عبدالعزیز، مسروق، علقمہ رحمۃ اللہ علیہم اور ائمہ میں سے امام ابوحنیفہ اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہم۔

۲- ذوی الارحکام کے بجاے باقی مال بیت المال کے حوالے کیا جائے گا۔ اس راے کے حامل ہیں: حضرات زیدؓ، ابن عباسؓ ، امام مالکؒ، شافعیؒ اور امام اَوزاعیؒ۔

۳- وارث ہوں گے اور ان کا وہی حصہ ہوگا ، جس کی جگہ انھوں نے لی ہے، یعنی نواسی کو بیٹی کی جگہ آدھا حصہ ملےگا اور بھانجے کو بہن کی جگہ باقی حصہ ملے گا۔ اس راے کو مذہب اہل التنزیل کہا جاتا ہے، یعنی یُنْزَلُوْنَ مَنْزِلَۃَ اُصُوْلِھِمْ (اپنی اصل کا مقام و رُتبہ دیا جائے گا)۔

۴- قرابت کا لحاظ رکھا جائے گا۔ اگر میت سے قریب ہوگا تو وراثت میں حصہ پائے گا اور دُور ہوگا تو قریب کے ہوتے ہوئے حصہ نہ پائے گا، جیسے اگر میت کا ایک نواسا ہو اور ایک چچازاد بھائی تو نواسا وراثت کا حق دار ہوگا اور چچازاد محروم رہے گا۔

۵- باپ کی موجودگی میں دادی کو کچھ نہیں ملتا، لیکن نانی کو پھر بھی چھٹا حصہ ملے گا، مثال: میت کے وارثین میں باپ، نانی اور بیٹا ہیں۔ کُل چھے حصص ہوں گے:oباپ:ایک (یعنی چھٹا حصہ) lنانی: ایک (یعنی چھٹا حصہ) lبیٹا: باقی (یعنی چار حصے)۔

اگر بیٹے کی جگہ دو بیٹیاں ہوتیں توہ وہ چار حصص (یعنی دو تہائی) کی حق دار ٹھیرتیں۔ اس مثال سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ماں کی طرف سے قرابت کو بہ نسبت باپ کے ترجیح دی گئی ہے۔

خواتین سے حُسنِ سلوک

عورتوں کے بارے میں اسلام نے جس رعایت، حُسنِ سلوک اور فراخ دلی کا حکم دیا ہے، اُس کے مختصر تذکرے پر ہم اس مضمون کو ختم کرتے ہیں:

                ۱-            اسلام سے قبل جاہلیت میں ایک شخص کے مرنے کے بعد اس کے تندرست اور توانا بیٹوں کو ہی وارث ٹھیرایا جاتا تھا کہ وہی جنگ و جدال میں شریک ہوتے تھے اور مالِ غنیمت جمع کر کے لایا کرتے تھے اور ان کے مقابلے میں بچوں اور عورتوں کو ضعیف سمجھ کر وراثت سے محروم رکھتے تھے۔ اسلام نے پہلی دفعہ عورتوں کو وراثت میں ان کا حق دلایا۔

                ۲-            اولاد کا نان و نفقہ ادا کرنا باپ کی ذمہ داری ہے، لیکن کب تک؟ اکثر فقہا کا اس بات پر اتفاق ہے کہ بیٹا جب تک خود اپنے پیروں پر کھڑا نہ ہوجائے،  وہ نان و نفقہ کا مستحق ہے اِلا یہ کہ وہ بیمار رہتا ہو، معذور ہو یا اُس نے طلب ِ علم کے لیے اپنے آپ کو وقف کر رکھا ہو۔ اس کے مقابلے میں باپ بیٹی کے نان و نفقہ کا ہمیشہ ذمہ دار رہے گا، یہاں تک کہ اس کی شادی نہیں ہوجاتی۔ اگر اُسے طلاق ہوجاتی ہے تو پھر وہ دوبارہ اپنے اولیا (باپ، بھائی، چچا وغیرہ) کی کفالت میں آجاتی ہے، اِلا یہ کہ وہ مال و دولت کے اعتبار سے خود مستغنی ہو۔

                ۳-            بیوی کا نان و نفقہ، رہایش ، کپڑے، سب شوہر کی ذمہ داری ہے۔ اگر وہ شوہر کے مشترکہ گھر میں رہایش پذیر ہو لیکن شوہر کے رشتے داروں کی بدسلوکی سے عاجز ہو تو اُس کا حق ہے کہ شوہر اُسے علیحدہ گھر میں رکھے۔ اور اگر اُسے نوکرانی کی ضرورت ہو اور وہ اس کا خرچ برداشت کرسکتا ہو تو اُسے ملازمہ مہیا کرنے کا پابند ہے۔ بیوی کو اگر طلاق بھی دے چکا ہو اور وہ اس کے بچے کو دودھ پلا رہی ہو، تو وہ اس کے دودھ پلانے کا معاوضہ دینے کا پابند ہے۔

                ۴-            والد اور والدہ کے ساتھ حُسنِ سلوک کا قرآن اور احادیث میں تفصیلی ذکر ہے۔ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ باپ کے مقابلے میں ماں کا حق تین گنا ہے اور اسی لیے یہ بات مستحسن ہے کہ اولاد گر ماں باپ کو کچھ دیتے رہتے ہیں تو پھر بھی ماں کو زیادہ دیا کریں۔

                ۵-            ہم اس آیت کی تشریح پر بات کو ختم کرتے ہیں:

وَ لَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللّٰہُ بِہٖ بَعْضَکُمْ عَلٰی بَعْضٍ ط لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبُوْا ط وَ لِلنِّسَآئِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبْنَ ط وَسْئَلُوا اللّٰہَ مِنْ فَضْلِہٖ ط اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِکُلِّ شَیْ ئٍ عَلِیْمًا o (النساء ۴:۳۲) اور اس چیز کی آرزو نہ کرو کہ جس کے باعث اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر فضیلت عطا کی ہے۔ مردوں کے لیے  ان کی اپنی کمائی میں سے حصہ ہے اور عورتوں کے لیے اُن کی کمائی میں سے حصہ ہے۔  اللہ سے اس کا فضل مانگو، بے شک اللہ ہرچیز کو جانتا ہے۔

قرطبیؒ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:’’قتادہ کہتے ہیں کہ جاہلیت میں عورتوں اور بچوں کو وراثت میں کچھ نہ ملتا تھا۔ پھر جب وراثت کے احکام نازل ہوئے اور مرد کو عورت کے مقابلے میں دگنا دیا گیا تو عورتوں نے اس بات کی تمنّا کی کہ ان کا حصہ بھی مردوں کے برابر کیوں نہیں رکھا گیا۔ اور مردوں نے یہ کہا کہ جس طرح ہمیں میراث میں عورتوں پر فضیلت ملی ہے، اسی طرح آخرت میں بھی ہمیں اپنی نیکیوں کی بنا پر، عورتوں پر فضیلت حاصل رہے تو یہ آیت نازل ہوئی‘‘۔

اللہ تعالیٰ نے ایسی آرزوسے منع فرمایا کہ اس میں حسد کا جذبہ پایا جاتاہے، اوراسی لحاظ سے اس نے بعض باتوں میں، مرد اور عورت کے درمیان فرق روا رکھا ہے۔

مقصود یہ ہے کہ دنیا میں صلاحیتوں اور جدوجہد کے اعتبار سے مردوں اور عورتوں میں فرق ہے اور اسی فرق کا لحاظ رکھتے ہوئے مال و متاع میں بھی تفاوت نظر آتا ہے لیکن نیکیوں کا میدان سب کے لیے کھلا ہے اور آخرت میں اصل معیار ایمان اور نیک اعمال ہی کا ہوگا۔ چاہے مرد ہو یا عورت، اپنے اعمال کی بنا پر ہی جنت کے مدارج حاصل کرسکیں گے۔ وباللّٰہ التوفیق!

 

نوٹ:

  • اس مضمون کا بیش تر مواد ڈاکٹر صلاح الدین سلطان کی کتاب اِمْتِـیَازُ الْمَرْأَۃِ عَلَی الرَّجُلِ فِی الْمِیْرَاثِ وَالنَّفَقَہِ (طبع، امریکا)کی تلخیص پر مشتمل ہے۔ اللہ تعالیٰ مصر کے جابر حکمران کی مسلط کردہ اسیری سے انھیں اور ان کے ساتھیوں کو نجات عطا فرمائے ۔اور بعض نکات کی تشریح کے لیے مندرجہ ذیل کتابوں سے بھی استفادہ کیا گیا ہے:l رفیق یونس مصری کی عِلمُ الْفَرَائِضِ وَالْمَوَارِیْثِ(دمشق) oڈاکٹر عبدالکریم بن محمد اللاحم کی تَیْسِیْرُ فِقْہِ الْمَوَارِیْثِ   (طبع دارالنجاح، ریاض )oمحمد علی الصابونی کی اَلْمَوَارِیْثُ    فِی الشَّرِیْعَۃِ   الْاِسْلَامِیَّۃِ   عَلٰی ضُوْ  ءِ   الْکِتَابِ   وَالسُّنَّۃِ  ( مکہ مکرمہ)

 پس جو کچھ بھی تم لوگوں کو دیا گیا ہے، وہ محض دنیا کی چند روزہ زندگی کا سروسامان ہے، اور جو کچھ اللہ کے ہاں ہے وہ بہتر بھی ہے اور پاے دار بھی۔وہ ان لوگوں کے لیے ہے، جو ایمان لائے ہیں اور اپنے ربّ پر بھروسا کرتے ہیں، جو بڑے بڑے گناہوں اور بے حیائی کے کاموں سے پرہیز کرتے ہیں اور اگر غصہ آجائے تو درگزر کر جاتے ہیں، جو اپنے ربّ کا حکم مانتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، اپنے معاملات آپس کے مشورے سے چلاتے ہیں، ہم نے جو کچھ بھی رزق انھیں دیا ہے اُس میں سے    خرچ کرتے ہیں، اور جب اُن پر زیادتی کی جاتی ہے تو اُس کا مقابلہ کرتے ہیں۔(الشورٰی ۴۲: ۳۶ -۳۹)

قرآن مجید میں اہل ایمان کی پہچان بتاکر جو اوصاف بیان کیے گئے ہیں، ان میں اہل ایمان، یعنی امت مسلمہ کے افراد کو تمام قوموں سے زیادہ ممتاز اور نمایاں ہونا چاہیے۔ ان اوصاف میں پیچھے رہ جانے کا مطلب اپنی پہچان کھودینا ہے۔

اگر مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ (البقرہ ۲:۳)کا تقاضا یہ ہے کہ اس قرآن کو ماننے والی امت کے افراد انفاق (جو رزق ہم نے ان کو دیا ہے، اس میں سے خرچ کرتے ہیں)کے میدان میں تمام قوموں میں ممتاز حیثیت کے حامل ہوں، اور اگر اس صفت میں یہ امتیاز اس امت کو حاصل نہ رہا تو یہ بہت بڑی خرابی اور قرآن سے دوری کی دلیل ہے۔ اَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ  (الشورٰی ۴۲: ۳۸۔ اپنے معاملات آپس کے مشورے سے چلاتے ہیں) کا تقاضا یہ ہے کہ شورائی نظام ، شورائی مزاج اور شورائی کلچر میں اس امت کو دنیا کی تمام اقوام میں امتیازی حیثیت حاصل رہے۔ خود سری ، سرکشی اور استبداد اُمت مسلمہ میںمستحسن یا قابل قبول قرار نہ پائے۔ مطلق العنان جابر حاکموں کو اگر دنیا دیس نکالا دے چکی ہو تو ان کو سواری کے لیے امت مسلمہ کے افراد اپنی   پیٹھ پیش نہ کریں۔جبر وتشدد اور تلوار کی نوک پر بیعت لے کر حکومت قائم کرنے کی تائید اور ہمت افزائی امت مسلمہ میں ہرگز نہ ہو، خواہ اس کا نام خلافت ہی کیوں نہ رکھ دیا جائے، اور جبر وتشدد کے ذریعے اقتدار حاصل کرنے والا شخص خود کو خلیفہ اور امام منتظر کیوں نہ قرار دے۔

اس مقالے میں یہ بتانے کی کوشش کی جائے گی کہ اَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ  کا وصف اجتماعی زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے، اور سیاسی نظام کی تشکیل اور صورت گری میں اسے اساسی حیثیت حاصل ہے۔

شورائیت ایک فریضہ ہـے

عام طور سے راے دہی کو حق قرار دیا جاتا ہے، اور اس سے بخوشی دست بردار ہوجانے کو معیوب نہیں سمجھا جاتا ہے، لیکن قرآن مجید اسے ایک حق سے زیادہ ایک فرض قرار دیتا ہے۔ حق سے دست بردار ہونا غلط ہو یا نہ ہو، فرض سے فرار بہرحال درست نہیں ہے۔

ڈاکٹر علی صلابی نے شوریٰ کے موضوع پر اعلیٰ درجے کی کتاب الشُّوْرٰی فَرِیضْۃٌ اِسْلَامِیَۃٌ  (شورائیت ایک اسلامی فریضہ) تحریر کی ہے۔ یہ عنوان اسی طرح معنی خیز ہے، جس طرح مولانا صدرالدین اصلاحی نے اپنی کتاب کو فریضہ اقامت دین کا عنوان دیا۔ اس سے قبل عباس محمود عقاد نے غوروفکر کو ایک اسلامی فریضہ بتانے کے لیے التفکیر  فریضۃ اسلامیہ  (غوروفکر، ایک اسلامی فریضہ) کے زیر عنوان معرکہ آرا کتاب لکھی تھی۔

غوروفکر اور شورائیت دونوں کا منبع ایک ہی ہے۔ غوروفکر میں انسان اپنے آپ سے مشورہ کرتا ہے، اور شورائیت میں دوسروں سے مشورہ کرتا ہے۔ غوروفکر میں انسان خود سوچتا ہے، اور شورائیت میں سب لوگ سر جوڑ کر سوچتے ہیں۔ قرآن مجید میں غوروفکر پر بھی زور دیا گیا ہے اور شورائیت کی بھی تاکید کی گئی ہے۔ نہ غوروفکر کے کسی پہلو کی کسی طور سے مذمت کی گئی ہے اور نہ شورائیت کے کسی پہلو کی کہیں نفی کی گئی ہے۔ جس امت کے افراد کا شعار غوروفکر ہو اور جس کے اجتماعی فیصلوں اور قراردادوں کی اساس شوریٰ ہو، اس امت کو ہر آن سانس لینے کے لیے تازہ ہوا ملتی ہے، اور اس کی رگوں میں ہمیشہ تازہ خون دوڑتا ہے۔

المیہ یہ ہے کہ امت میں ’تقلید‘ اور ’اجماع‘ کا ایسا چرچا ہوا کہ غوروفکر کے دروازے بندہوگئے۔ دوسری جانب حاکم وقت کو ظلِ الٰہی اور ہر حال میں واجب الاطاعت قرار دے کر شورائیت کے تمام تر سوتے خشک کردیے گئے،بلکہ بسا اوقات خود ساختہ اہل حل وعقد اور نمایشی مجالس شوریٰ کو آیت شوریٰ کا مصداق قرار دے دیا گیا۔

شورائیت سیاسی نظام کی اساس ہـے

سورۂ شوریٰ کی آیت شوریٰ کا صریح تقاضا ہے کہ سیاسی نظام کی صورت گری ،حکومتی اداروں کا قیام اور حاکم کا انتخاب بذریعہ شوریٰ ہو، اور مملکت کے تمام فیصلے شورائیت کے ذریعے ہوں۔

حضرت عمر فاروقؓ پر جب جان لیوا حملہ ہوا تو انھوں نے اس وقت موجود لوگوںکو جو بہت خاص ہدایتیں دیں، ان میں پہلی بات یہ تھی کہ امارت شورائیت سے ہے، اَلْاِمَارَۃُ  شُوْرٰی ۔ ۱ 

حضرت علیؓ کے سامنے جب خلافت کی پیش کش رکھی گئی تو انھوں نے آیت شوریٰ کی بات دُہرائی: اے لوگو ، یہ معاملہ تمھارا ہے، اس پرکسی کا اجارہ نہیں ہے، یہ حق اسی کو پہنچتا ہے جس کا انتخاب تم کرو،  یَااَیُّھَا النَّاسُ، اِنَّ ھَذَا اَمْرُکُمْ لَیْسَ لِاَحَدٍ فِیْہِ حَقٌّ اِلَّا مَنْ اَمَرْتُمْ ۔۲

عصر حاضر میں مشہوراسلامی ماہر سیاسیات ڈاکٹر حاکم مطیری نے اپنی کتابوں میں، بڑی جرأت اور بھر پور تاریخی اورعلمی دلائل کے ساتھ یہ موقف پیش کیا ہے کہ اسلام کے صدرِ اول میں جب خلافت قائم تھی، تب آیت شوریٰ کا صحیح شعور بھی عام تھا۔سب کے نزدیک یہ حقیقت معروف اور مسلّم تھی کہ خلیفہ کا انتخاب بھی امت کے مشورے سے ہو اور مملکت کے امور بھی مشورے سے انجام پائیں، لیکن جب خلافت کی جگہ ملوکیت نے لے لی، تو فقہی لٹریچر بھی اس تبدیلی سے متاثر ہوا، اور بہ تدریج حکومت بواسطہ وراثت اور حکومت بذریعہ قوت کو بھی شرعی حیثیت حاصل ہوگئی۔

صدرِ اول میں ظالم وجابر حکمرانوں کے خلاف آواز اٹھانے کو افضل جہاد کا درجہ حاصل تھا۔ بعد کے اَدوار میں ظالم وجابر حکمرانوں کی اطاعت کو اجماع کے دعوے کے ساتھ واجب ہی قرار نہیں دیا گیا، بلکہ ان کو اقتدار سے بے دخل کرنے کی کوششوں کو حرام بھی قرار دے دیا گیا۔خاص بات یہ ہے کہ امت کے دین دار طبقے نے سیاسی اصلاح کے تمام دروازے اپنے اُوپر بند کرلیے، لیکن دنیادار اور اہلِ ہوس نے کبھی کسی ضابطے کی پابندی نہیں کی، اور ہر غیر اخلاقی طریقہ اختیار کرکے امت کی گردن پر سوار رہے۔

ڈاکٹر حاکم مطیری کے مطابق خلافت کا ملوکیت میں تبدیل ہوجانا اتنا خطرناک اور نقصان دہ ثابت نہیں ہوا، جس قدر غیر شورائی نظام ملوکیت کو شرعی جواز بلکہ تحفظ فراہم کرنے والا فقہی لٹریچر ثابت ہوا۔ اس لٹریچر میں شوریٰ کو محض مستحب بتایا گیا، اور مشورے کو قبول کرنے یا قبول نہ کرنے کا اختیار دیا گیا، جو آگے چل کر فقہی موقف اور عقیدے کا درجہ حاصل کرگیا۔ گمراہی عمل کی ہو تو اصلاح کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں، لیکن گمراہی جب عقیدہ وفکر کا حصہ بن جائے تو اصلاح کا کام بہت دشوار ہوجاتا ہے۔۳

 فقہا نے اس مسئلے پر کیا موقف اختیار کیا؟ اس کی ایک مثال مولانا ابوالکلام آزادکا درج ذیل بیان ہے: ’’اگر نظام شرعی کی جگہ ملکی قبضہ وتسلط کی صورت پیدا ہوجائے، اور جمہور کو انتخاب ونصب کا   موقع نہ ملے، تو اس صورت میں ازروے شرع مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے؟ سو ،اس کی نسبت چوںکہ خود احادیث صحیحہ اور اجماع صحابہ وغیرہ میں بالکل صاف صاف موجود تھا، اس لیے تمام امت بلااختلاف اس پر متفق ہوگئی، کہ جب ایک مسلمان منصب خلافت پر قابض ہوجائے، اور اس کی حکومت جم جائے، تو ہر مسلمان پر واجب ہے کہ اسی کو خلیفۂ اسلام تسلیم کرے، اسی کے سامنے گردنِ اطاعت جھکائے، بالکل اسی طرح جیسے ایک اہل ومستحق خلیفہ کے آگے جھکنا چاہیے۔ اطاعت واعانت کی وہ تمام باتیں جو منصب خلافت کے شرعی حقوق میں سے ہیں، ایسے خلیفہ کو حاصل ہوجاتی ہیں۔   اس سے رُوگردانی کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں۔ اس کے مقابلے میں خروج اور دعوے کا حق کسی کو نہیں پہنچتا، اگرچہ کیسا ہی افضل اور جامع الشروط کیوں نہ ہو۔ جو کوئی ایسا کرے، مسلمانوں پر واجب ہے کہ اس کے مقابلے میں اور قتل میں خلیفہ کا ساتھ دیں، وہ شرعاً باغی ہے اس کو قتل کردینا چاہیے‘‘۔۴

مولانا آزاد مزید لکھتے ہیں: ’’اگرچہ ایک نااہل مسلمان کا خلیفہ ہوجانا برائی ہے، لیکن اس سے بھی بڑھ کر برائی یہ ہے کہ تمام ملک برباد ہوجائے۔ اسلام نے ملک وشرع کی حفاظت کو مقدم رکھا، جو کلی مصلحت کا حکم رکھتی ہے، اور نااہل وفاقد الشروط کا تسلط گوارا کرلیا، جس کا فساد جزئی فساد ہے‘‘۔۵

واضح رہے کہ مولانا آزاد کے مذکورہ موقف کا اطلاق ظالم حکمران پر بھی ہوتا ہے۔مولانا آزاد نے اصل اور مطلوب جمہوری طریقہ انتخاب کو بتایا، اور اگر کوئی زبردستی بزور قوت مسلط ہوجائے تو اسے مصلحتاً برداشت کرلینے کی صلاح دی۔ شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے تو بزورِ قوت اقتدار حاصل کرنے کو بذریعہ شوریٰ اقتدار تک پہنچنے کے برابر قرار دیا ہے، اور دونوں میں کوئی فرق نہیں کیا ہے۔ ۶

یہاں پر جسٹس عبدالقادر عودہ شہید لکھتے ہیں: ’’بزور غلبہ حاکم بن جانے والے کی حکومت کو فقہا نے اس لیے قبول کرلیا تھا، کیونکہ وہ سمجھتے تھے، اس طرح فتنوں سے ، اور تفرقے سے امت کوبچایا جاسکے گا، لیکن اس کے بطن سے تو سب سے شدید فتنوں نے جنم لیا، اور اس کے سبب اسلامی اجتماعیت پارہ پارہ ہوئی، مسلمانوں میں کمزوری آئی، اور اسلام کی بنیادیں منہدم ہوگئیں۔ اگر فقہا کو یہ معلوم ہوتا کہ اس اجازت سے کیا برے نتائج سامنے آنے والے ہیں، تو وہ اس کی اجازت ایک لمحے کے لیے نہ دیتے‘‘۔۷

شورائیت کے بغیر ہر حکومت غیر آئینی ہـے

ہم دیکھتے ہیں کہ موجود اور مروجہ دینی لٹریچر میں حاکم کی اطاعت پر زیادہ زور ملتا ہے، نظام سیاست اور شورائی یا مشاورتی نظام و ضرورت پر گفتگو بہت کم ہے۔ اس سلسلے میں ایک زوردار بیان مشہور مفسر ابن عطیہ اندلسی کا ہے، (وَ شَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ ) کی تفسیر میں وہ لکھتے ہیں: 

وَالشُّوْرٰی مِنْ قَوَاعِدِ الْاِسْلَامِ وَعَزَائِمِ الْاَحْکَامِ ، وَمَنْ لَا یَسْتَشِیْرُ اَھْلَ الْعِلْمِ وَالدِّیْنِ فَعَزْلُہٗ وَاجِبٌ، ھَذَا مَا لَاخِلَافَ فِیْہِ ۸  شوریٰ، اسلام کی بنیادوں میں سے ہے اور اس کا شمار اہم ترین احکام میں ہوتا ہے، اور جو اہل علم ودین سے مشورہ نہ کرے اسے معزول کرنا واجب ہے، اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔

گویا ابن عطیہ اندلسی کے نزدیک شورائیت کو نظر انداز کردینے والا حاکم اس قابل ہے کہ اسے معزول کردیا جائے، بلکہ لوگوں پر واجب ہے کہ اسے معزول کردیں۔ان کے مطابق اس پر سب کا اتفاق ہے، تاہم ابن عطیہ کے اس موقف سے ابن عرفہ نے اختلاف کیا ہے۔ انھیں اس اصولی بات سے اختلاف نہیں ہے کہ شورائیت مطلوب اور واجب ہے،لیکن اگرحاکمِ وقت شورائیت سے رُوگردانی کرے تو کیا اسے معزول کرنا واجب ہوگا؟ اس پر وہ ابن عطیہ سے اختلاف کرتے ہیں۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ: جب فسق کی بنا پر حاکم کو معزول کرنا واجب نہیں ہے تو محض شورائیت کو ترک کردینے کی وجہ سے یہ اقدام کیوںکر درست ہوسکتا ہے؟

جدید مفسرین میں محمدالطاہر ابن عاشور نے ابن عطیہ اندلسی کے موقف کی پُرزورتائید کی ہے اور ابن عرفہ کے موقف میں موجود کمزوری کی نشان دہی کی ہے۔ ابن عرفہ کا خیال تھا کہ   ترکِ شورائیت فسق کے درجے کی چیز ہے یا اس سے بھی کم درجے کی۔ ابن عاشور نے بتایا کہ فسق کے مقابلے میں ترک شورائیت بہت سنگین مسئلہ ہے، کیونکہ ترکِ شورائیت تو اسلام کے پورے سیاسی نظام کی بنیاد منہدم کردینے کے ہم معنی ہے۔ اگر کوئی حاکم شورائیت کے عمل کو ترک کرکے استبداد (Dictatorship)کا راستہ اختیار کرتا ہے، تو گویا وہ اپنے ہاتھوں سے اس نظام کی پوری عمارت زمین بوس کردینے کا ارتکاب کرتا ہے، جس کی نگہبانی پر اسے مامور کیا گیا تھا، یا جس کی اس سے توقع کی گئی تھی۔ ایسی صورت میں پھر خود اس کے منصب حکمرانی پر برقراررہ جانے کا کوئی جواز نہیں بنتا، بلکہ ضروری ہوجاتا ہے کہ اسے معزول کرکے اسلامی نظام کی عمارت کی ازسرِ نو تعمیر کی جائے۔عام فسق کا تعلق حاکم کی ذاتی زندگی سے ہوتا ہے، لیکن ترکِ شورائیت سے تو امت کی زندگی کو نقصان پہنچتا ہے، جس کی اجازت کسی کو نہیں ملنی چاہیے۔۹

سیّد قطب شہیدؒ نے فی ظلال القرآن میں اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے:  ’’یہ حکم صرف حکومتی اُمور کے ساتھ مخصوص نہیں ہے، بلکہ یہ ایک اسلامی سوسائٹی کا عمومی طرزِعمل ہے، اگرچہ حکومت اس وقت قائم ہی نہ ہوئی [ہو]۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام میں حکومت کی تنظیم دراصل اسلامی سوسائٹی کے خدوخال کا ایک منظم ظہور ہی ہے اور اسلامی سوسائٹی کے دائرے میں اسلامی حکومت بھی آتی ہے۔ لہٰذا، اسلامی سوسائٹی، اسلامی حکومت کو بھی اسی نہج پر چلاتی ہے، جس طرح اس کے عمومی اُمور چلتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی سوسائٹی میں آغاز ہی سے مشورے کا عمل جاری تھا، اور اس مشورے کا دائرہ حکومت اور حکومتی احکام سے بہت وسیع تھا۔ شوریٰ کی شکل و صورت کیا ہونی چاہیے؟ اسلام نے اس کے لیے کوئی فولادی قالب تیار کرکے نہیں دیا۔ ہر زمان و مکان کے حالات میں اس کی مختلف شکل و صورتیں اختیار کی جاسکتی ہیں، تاکہ یہ صفت، یعنی شورائیت، اسلامی سوسائٹی میں رائج رہے‘‘۔۱۰ 

شوریٰ اور نماز کا باہم تعلق

مولانا امین احسن اصلاحی نے تفسیر تدبرقرآن میں اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے، مشاورت اور شوریٰ کو نماز کے تناظر میں دیکھا اور اہلِ ایمان کو غوروفکر کی دعوت دی ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’لفظ امر عربی میں ہمارے [اُردو] لفظ ’معاملہ‘ کی طرح بہت وسیع معنوں میں آتا ہے۔  اس کے صحیح مفہوم کا تعین موقع و محل اور سیاق و سباق سے کرتے ہیں۔ یہاں قرینہ پتا دے رہا ہے کہ یہ لفظ جماعتی نظم کے مفہوم میں آیا ہے، یعنی مسلمانوں کا جماعتی اور سیاسی نظم: خودسری ، انانیت، خاندانی برتری، نسبی غرور پر مبنی نہیں ہے، بلکہ اہلِ ایمان کے باہمی مشورے پر مبنی ہے۔ قرآن نے اس آیت میں مسلمانوں کو یہ بشارت دے دی کہ ان کے لیے ایک ہیئت اجتماعی و سیاسی کی شکل میں منظم ہونے کا وقت آگیا[ہے]، اور یہ نظمِ اجتماعی ، نسب اور خاندان کی اساس کے بجاے اہلِ ایمان کے باہمی مشورے پر مبنی ہوگا‘‘۔۱۱ 

مولانا اصلاحی اسی سلسلۂ کلام کو جوڑتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ایک سوال یہاں قابلِ غور ہے کہ قرآن کا معروف اسلوبِ بیان تو یہ ہے کہ وہ نماز کے ساتھ بالعموم زکوٰۃ یا انفاق کا ذکر کرتا ہے، لیکن یہاں اس معروف طریقے کے بجاے نماز اور انفاق کے بیچ ’شوریٰ‘ کا ذکر آگیا ہے۔    آخر شوریٰ کی اہمیت کا وہ خاص پہلو کیا ہے، جس کی بناپر اس کو نماز کے پہلو میں جگہ دی گئی؟ ہمارے نزدیک جواب یہ ہے کہ اسلام کے نظمِ اجتماعی کی روح اور اس کے قالب کی اصل شکل نماز میں  محفوظ کی گئی ہے۔ اسی کے اندر مسلمانوں کو دکھایا گیا ہے کہ کس طرح ان کو اللہ کی بندگی کے لیے ایک بنیانِ مرصوص بن کر کھڑے ہونا ہے؟ کس طرح اپنے اندر سے سب سے زیادہ علم و تقویٰ والے کو اپنی امامت کے لیے منتخب کرنا ہے؟ کس طرح لوگوں کو حدودِ الٰہی کے اندر اس امام کی بے چون و چرا اطاعت کرنی ہے؟اور کس طرح امام اس بات کا پابند ہے کہ لوگوں کو کسی ایسی بات کا حکم نہ دے جو اللہ اور رسولؐ کے حکم کے خلاف ہو، اور کس طرح اس کے ایک [عام] مقتدی کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ اگر وہ [امام]کوئی غلطی کرے تو وہ [مقتدی] اس کو ٹوک دے۔ یہاں تک کہ عین نماز کے اندر بھی رکوع، سجود، قیام، قعود یا تلاوت میں کوئی ادنیٰ فروگزاشت بھی اس سے صادر ہوجائے تو اس کے پیچھے ہرنماز پڑھنے والا اس کو متنبہ کرنے کا ذمہ دار ہے، اور امام کا یہ فرض ہے کہ اگر مقتدی کی تنبیہہ مطابقِ شریعت ہے تو وہ اس کو قبول کرے اور اپنی غلطی کی فوراً اصلاح کرے۔ گویا اس طرح ہمارا پورا نظمِ اجتماعی ، نماز کی صورت میں متشکل کرکے ہمیں یہ دکھایا گیا ہے کہ ہم اپنی سیاسی تنظیم میں اسی نمونے کی پیروی کریں۔ اسی طرح اللہ کے دین کی اقامت کے لیے اپنی تنظیم کریں۔ اسی طرح اپنے اندر سے سب سے زیادہ اہل اور صاحب ِ علم و تقویٰ کو اپنی قیادت کے لیے منتخب کریں۔ اسی طرح تمام معروف میں بے چون و چرا اس کی اطاعت کریں اور اگر اس سے کوئی ایسی بات صادر ہو، جو شریعت کے معروف کے خلاف ہو تو بے خوف لومۃ لائم اس کو متنبہ کر کے، اس کو صحیح راہ پر لانے کی کوشش کریں‘‘۔۱۲ 

’’نماز اور ہمارے سیاسی نظام کا یہ تعلق ہے، جس کے سبب سے قرآن نے ٹھیک اس وقت، جب مسلمان ایک ہیئت ِ اجتماعی کی شکل اختیار کرنے والے تھے، ان کی رہنمائی شوریٰ کی طرف فرمائی اور اس شوریٰ کا ذکر نماز کے پہلو بہ پہلو کرکے ایک طرف تو اس کی عظمت نمایاں فرمائی کہ دین میں اس کا کیا درجہ و مرتبہ ہے۔ دوسری طرف اس کی تشکیل کی نوعیت بھی واضح فرما دی۔  شوریٰ کی اہمیت اور نماز کے ساتھ اس کے تعلق کا یہی پہلو تھا کہ عہد ِ رسالتؐ اور خلفاے راشدینؓ کے دور میں اس کا انعقاد مسجد ہی میں ہوتا تھا۔ خلیفۂ ثانی حضرت عمرفاروقؓ کے متعلق سیرت کی کتابوں میں یہ روایت بھی ملتی ہے کہ وہ شوریٰ کے انعقاد کا اعلان الصَّلَوٰۃُ جَامِعَۃٌ کے الفاظ سے کراتے تھے، یعنی اہلِ شوریٰ نماز کے لیے جمع ہوں۔ جب اہلِ شوریٰ مسجد میں جمع ہوجاتے تو وہ دورکعت نماز ادا کرتے۔ ظاہر ہے کہ جب وہ نماز پڑھتے تھے تو دوسرے اہلِ شوریٰ بھی ان کی اقتدا میں نماز پڑھتے ہوں گے۔ نماز اور دعا کے بعد حضرت عمرؓ مسئلہ زیربحث پیش کرتے اور اہلِ شوریٰ اس پر اپنی رایوں کا اظہار کرتے اور خلیفہ کی رہنمائی میں کسی متفق علیہ نتیجے تک پہنچنے کی کوشش کرتے۔ یہ طریقہ اللہ تعالیٰ کی رہنمائی کے حصول کے پہلو سے بھی نہایت بابرکت ہے، اور اسلام کے نظم سیاسی کی اصل روح کے تحفظ کے نقطۂ نظر سے بھی‘‘۔۱۳ 

وامرھم شوریٰ بینھم حکم بھی اوردلیل بھی

آیتِ شوریٰ میں شوریٰ کے حکم کے ساتھ اس کی دلیل اور منطقی بنیاد کو بھی خوب صورتی سے سمودیا گیا ہے۔ اَمْرُھُمْ کہہ کربتایا گیا کہ جس معاملے کا تعلق سب سے ہو ، اور اس سے منسلک اور وابستہ نفع و نقصان سے سب متاثر ہورہے ہوں، اس سلسلے میں کوئی بھی راہ تلاش کرنے اور کوئی موقف طے کرنے میں سب کی شرکت ضروری ہونا چاہیے۔ یہ بات عقل ومنطق کے خلاف ہے کہ سب لوگوں سے متعلق معاملے میں فیصلہ کوئی ایک فرد یا ایک مخصوص گروہ کرے ، اور صاحبِ معاملہ افراد، یعنی پوری قوم یا اجتماعیت سے راے معلوم کرنے کی ضرورت ہی نہ محسوس کی جائے ، اور معلوم ہوجانے پر اس کا کوئی لحاظ نہ کیا جائے۔

مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی کے بقول :’’ جس معاملے کا تعلق دو یا زائد آدمیوں کے مفاد سے ہو، اس میں کسی ایک شخص کا اپنی راے سے فیصلہ کرڈالنا اور دوسرے متعلق اشخاص کو نظر انداز کردینا زیادتی ہے۔ مشترک معاملات میں کسی کو اپنی من مانی چلانے کا حق نہیں ہے۔ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ ایک معاملہ جتنے لوگوں کے مفاد سے تعلق رکھتا ہو، اس میں ان سب کی راے لی جائے، اور اگر وہ کسی بہت بڑی تعداد سے متعلق ہو تو ان کے معتمد علیہ نمایندوں کو شریکِ مشورہ کیا جائے‘‘۔۱۴

سیاسی نظام کو شورائی بنیادوں پر قائم کرنا عملاً بہت مشکل کام ہے۔ ا س راستے کی بے شمار رکاوٹوں کا سب سے بڑا علاج یہ ہے کہ عوام الناس کے ذہنوں کو جو صدیوں سے آمریت سے متاثر ہیں،شورائیت آشنا بنا یا جا ئے۔ انھیں یہ یقین دلایا جائے کہ شورائی عمل میں ان کی شرکت ان کے اوپر کسی کا احسان نہیں ہے، بلکہ یہ تو ان کابنیادی حق اور فریضہ ہے۔ علامہ کوکبی کے بقول : ’’جو قوم غلامی کے اَلم کو محسوس نہیں کرسکتی وہ آزادی کی حق دار نہیں ہے‘‘۔

قرآن مجید کی آیت شوریٰ کی صحیح تفہیم مسلمانوں کی ذہن سازی میں غیر معمولی کردار ادا کرسکتی تھی، اور وہ جمہوری انقلاب جو یورپ میں آیا اور اہل مشرق خاص کر مسلمانوں کو اس کے لیے نااہل سمجھا گیا ، درحقیقت اس انقلاب سے بہت بہتر شکل عالم اسلام کا امتیاز ہوسکتی تھی۔

حق خلافت اور حق شورائیت

اَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ  کی آسان اورالفاظ سے قریب ترین تفسیر یہ ہے کہ: مشاورت اور مشاورت کی روشنی میں فیصلے پوری امت کا حق ہے ،امت سے متعلق تمام امور خود امت کے ذریعے طے پائیں۔بطور مثال حکومت کیسی ہو اور کس کی ہواور حکومت کا دورانیہ کتنا ہو، یہ قطعاً اس شخص یا گروہ کا مسئلہ نہیں ہے جو حکومت کرنا چاہتا ہے یا کسی طریقے سے کررہا ہے، بلکہ یہ صرف اور صرف اور براہِ راست امت کا مسئلہ ہے۔ اس سلسلے میں قابل اعتبار فیصلہ خود امت کا ہونا چاہیے۔  کوئی ایک فرد خواہ کتنا ہی دین دار، صاحب فہم اور امت کا خیر خواہ ہو، اس کا مجاز نہیں ہے کہ وہ اُمت کے امور کے بارے میں اپنی تنہا راے سے فیصلے کرے۔

مولانا مودودیؒ نے آیت خلافت [النور۲۴:۵۵] سے استدلال کرتے ہوئے حق حکمرانی کو امت کا حق بتایا ہے، وہ لکھتے ہیں: ’’یہاں جو شخص حکمراں بنایا جاتا ہے، اس کی اصلی حیثیت یہ ہے کہ تمام مسلمان، یا اصطلاحی الفاظ میں، تمام خلفا، اپنی رضامندی سے اپنی خلافت کو انتظامی اغراض کے لیے اس کی ذات میں مرکوز [concentrate]کردیتے ہیں۔وہ ایک طرف اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہے، اور دوسری طرف ان عام خلفا کے سامنے، جنھوں نے اپنی خلافت اس کو تفویض کی ہے۔ اب اگر وہ غیر ذمہ دار مطاع مطلق، یعنی آمر(Dictator) بنتا ہے، تو خلیفہ کے بجاے غاصب کی حیثیت اختیار کرتا ہے۔ کیوںکہ آمریت دراصل عمومی خلافت کی نفی ہے‘‘۔۱۵

مولانا مودودیؒ لکھتے ہیں: ’’ایسی سوسائٹی میں ہر عاقل وبالغ مسلمان کو خواہ وہ مرد ہو یا عورت، راے دہی کا حق حاصل ہونا چاہیے۔ اس لیے کہ وہ خلافت کا حامل ہے، اللہ نے اس خلافت کو کسی خاص معیار لیاقت یا کسی معیار ثروت سے مشروط نہیں کیا ہے، بلکہ صرف ایمان وعمل صالح سے مشروط کیا ہے۔ لہٰذا، راے دہی میں ہر مسلمان دوسرے مسلمان کے ساتھ مساوی حیثیت رکھتا ہے‘‘۔۱۶

اُمت کا جو حق مولانا نے آیت خلافت سے ثابت کیا ہے، وہی حق آیت شوریٰ سے اور زیادہ وضاحت کے ساتھ ثابت ہوتاہے۔ یہ بات واضح کرنا ضروری ہے کہ لفظ خلافت کی اصل اہمیت نہیں ہے، بلکہ اصل اہمیت اس نظام حکومت کی ہے جو شورائیت پر قائم ہو۔ اگر جبر وتشدد سے کوئی خلافت قائم ہوتی ہے تو وہ کچھ بھی ہو اسلامی نظام حکومت نہیں ہے۔

امريْ اور امرھم میں فرق

ملکہ سبا کے پاس جب حضرت سلیمانؑ کا پیغام پہنچا، تو اس نے اپنے درباریوں سے کہا : یٰٓاَیُّھَا الْمَلَؤُا اَفْتُوْنِیْ فِیْٓ اَمْرِیْ  (النمل ۲۷:۳۲)’’اے سردارانِ قوم، میرے اس معاملے میں مجھے مشورہ دو‘‘۔دیکھا جائے تو وہ صرف اس کا معاملہ نہیں تھا بلکہ سب کا معاملہ تھا۔ لیکن بادشاہت خواہ کیسی ہی عادلانہ ہو، اور اس میں مشورے کو خواہ کتنی ہی اہمیت دی جاتی ہو، تاہم جہاں بانی کا معاملہ بادشاہ کا ایک طرح سے ذاتی معاملہ سمجھا جاتاہے۔ عوام سے جب مشورہ لیا جاتا ہے، تو بھی اسی طور سے کہ وہ بادشاہ کے معاملے میں بادشاہ کو مشورہ دیں ، اور عوام یہی سوچ کر مشورہ بھی دیتے ہیں۔ اسی لیے وہ صرف اسی صورت میں مشورہ دیتے ہیں جب ان سے مانگا جائے، اور اس وقت بھی ان کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ معاملے کو بادشاہ سلامت کی ’بے پناہ ذہانت‘ کے سپرد کرکے، ہرحال میں اپنی اطاعت کا یقین دلانے پر اکتفا کریں۔ اس لیے آمریت کی جو بھی شکل ہو ، اس میں أَمْرِيْ کی بنیاد پر مشورہ ہوتا ہے، اور اسی بنیاد پر فیصلے ہوتے ہیں۔ فیصلے کتنے ہی غلط ہوں، عوام الناس کو اعتراض کا حق نہیں ہوتا ہے۔ امور مملکت میں فرعون کی رعایا نے بھی قرآن مجید کے الفاظ کے مطابق فرعون کی پیروی کی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تصدیق یا تکذیب کو اپنا معاملہ سمجھ کر، اس پر خود غور وفکر کرتے ،اور اپنے معاملے میںاپنا موقف طے کرتے۔ اس کے بجاے ، انھوں نے فرعون کی اندھی پیروی کی، فَاتَّبَعُوْٓا اَمْرَ فِرْعَوْنَ ج وَ مَآ اَمْرُ فِرْعَوْنَ بِرَشِیْدٍo(ھود ۱۱: ۹۷)

قرآن مجید کی آیت شوریٰ کا تصور اس سے مختلف ہے۔ یہاں مشورے کی اساس أَمْرِيْ کے بجاے اَمْرُھُمْ ہے۔ مملکت سب کی ہے اور امور مملکت بھی سب کے ہیں۔ اگر کسی کو مشورے کے عمل سے دور رکھا جاتا ہے تو یہ اس کے بنیادی حق سے اسے محروم کرنا ہے۔ اگر سربراہ مملکت اپنی  من مانی کرتا ہے، تو وہ دراصل آئین مملکت کی خلاف ورزی کرتا ہے، جس کے بعد اس کے اپنے منصب پر باقی رہ جانے کا کوئی جواز نہیں رہتا ہے۔

 اسلامی نظام مشورے سے چلتا ہے، خواہ سربراہِ مملکت اس کی ضرورت محسوس کرے یا نہ کرے، بلکہ عوام الناس کوبھی اس کا اختیار نہیں ہے کہ وہ سربراہِ مملکت کی ذہانت اور خیر خواہی پر بھروسا کرکے امور مملکت کے سلسلے میں اپنے حق شورائیت سے دست بردار ہوجائیں۔ چوںکہ شوریٰ محض ایک حق نہیں ہے بلکہ ایک فریضہ بھی ہے ، اس لیے غیرشورائی نظام کو اختیار کرنے یا اس پر مطمئن ہورہنے کی اجازتِ عام اُمت کو بھی نہیں ہے۔

آیت شوریٰ کا دائرہ : تمام اجتماعی معاملات

آیتِ شوریٰ کی محض سیاسی تفسیر اسے بہت محدود کردیتی ہے۔درحقیقت اس کے مفہوم میںاتنی وسعت ہے، کہ پوری زندگی کے تمام شعبے اس کے دائرے میں آجاتے ہیں۔ آیت شوریٰ کا تقاضا ہے کہ گھر اور خاندان کے فیصلے بھی اس آیت کی روشنی میں کیے جائیں، اور دیگر سماجی اداروں میں بھی اس آیت کی بالا دستی رہے۔

یوں بھی سیاسی نظام، شورائیت کی اساس پر کامیابی کے ساتھ اسی وقت قائم ہوسکتا ہے، جب غیر سیاسی شعبوں میں اور اجتماعیت کی مختلف سطحوں پر شورائیت کو بطور ایک اصول کے اختیار کیا جاچکا ہو۔ خاندان کی چھوٹی اکائی میں بھی اطاعت کے ڈنڈے کے بجاے شورائیت کا سکہ چلتا ہو۔ یہی نہیں بلکہ مسجد میں بھی تانا شاہی یا موروثی تولیت وامامت کے بجاے شورائیت کا بول بالا ہو، خواہ وہ گاؤں کی چھوٹی سی مسجد ہو یا کسی بڑے شہر کی بڑی جامع مسجد۔جب امت ہر سطح پر شورائی قدروں (values)کا احترام کرنا سیکھ لے گی، تو سیاسی سطح پر وہ شورائیت کو بہت بہتر طریقے سے رُوبہ عمل لاسکے گی۔اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سیاسی نظام کو شورائی بنانے کے لیے اس وقت کا انتظار کیا جائے کہ جب پورا معاشرہ شورائیت آشنا ہوجائے، بلکہ مقصود یہ ہے کہ شورائیت کی تبلیغ اور اس کے لیے ذہن سازی محض سیاست کی سطح پر کرنے کے بجاے بیک وقت ہر سطح پر کی جائے۔

امت کا حقیقی مسئلہ محض یہ نہیں ہے کہ اس کا سیاسی نظام شورائیت پر قائم نہیں ہے، اس کا حقیقی مسئلہ یہ ہے کہ اس کے افراد کا مزاج شورائی نہیں ہے، اور اسی لیے ہر سطح پر شورائیت کے تقاضوں کو نظر انداز کیا جاتاہے۔عجیب تر بات تو یہ بھی ہے کہ شورائی نظام کے احیا اور قیام کے لیے جو تحریکیں وجود میں آتی ہیں، بسا اوقات ان کا اپنا نظام غیر شورائی ہوتا ہے۔

غوروفکر:  شوریٰ کی اولین شرط

آیت شوریٰ سے جہاںیہ معلوم ہوتا ہے کہ امت کے فیصلے بذریعہ امت طے پائیں، وہیں شوریٰ کا لفظ جو اپنے اندر اجتماعی غوروفکر کا مفہوم رکھتا ہے، تقاضا کرتا ہے کہ امت کے فیصلے امت کے غوروفکر کا نتیجہ ہوں، یعنی راے دہی اور راے شماری کا دیانت دارانہ نظام قائم کرنے کے ساتھ ساتھ ، غوروفکر کے لیے آزاد اور سازگارماحول بھی فراہم کیا جائے۔ راے شماری کا نظام کتنا ہی آزاد اور شفاف کیوں نہ ہو، امت کی راے کبھی سامنے نہیں آسکتی ہے، اصل مطلوب کسی راے کے حق میں یا اس کے خلاف لوگوں کی تائید حاصل کرنا نہیں ہے، بلکہ اصل مطلوب لوگوں کو غوروفکر کے  عمل میں شریک کرنا ہے۔ریفرنڈم میں اور شوریٰ میں یہی فرق ہے۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خلاف اوراپنے حق میں عوامی تائید فرعون نے بھی حاصل کرلی تھی، تاہم قرآن اس کے بارے میں کہتا ہے، فَاسْتَخَفَّ قَوْمَہٗ فَاَطَاعُوْہُ ط اِنَّھُمْ کَانُوْا قَوْمًا فٰسِقِیْنَo (الزخرف ۴۳:۵۴) ’’اس نے اپنی قوم کو ہلکا سمجھا اور انھوں نے اس کی اطاعت کی، درحقیقت وہ تھے ہی فاسق لوگ‘‘۔ گویا فرعون نے عوامی تائید لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونک کر اور ان کی اخلاقی پستی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اور ان کو بے وقوف بناکر حاصل کی تھی، یہ کسی شورائی عمل کا نتیجہ نہیں تھی۔ شورائی عمل میں کسی مخالف کی آواز کو زبردستی دبایا نہیں جاتا ہے، لیکن فرعون نے رجل مومن کے اختلاف راے اور اس کے اظہار کو قبول نہیں کیا۔ اسی طرح جادوگروں نے جب صحیح بات مان لینے کے پیدایشی حق آزادی کو استعمال کیا تو ان کی اس آزادی کو سلب کرنے کے لیے سخت دھمکیوں کا استعمال کیا گیا ۔ اختلاف راے کو دبانے کا مطلب شورائیت کا گلا گھونٹ دینا ہے، خواہ اسے دارورسن سے دبایا جائے ، یا کسی مقام ومنصب کا رعب ڈال کر ، یا قومی ’مفاد‘ اور ’جماعتی مصالح‘ سے متعلق اندیشوں کا حوالہ دے کر۔فرعون نے اختلاف راے کو دبانے کے لیے ان سارے حربوں کا استعمال کیا تھا۔

غور طلب بات یہ بھی ہے کہ فرعون جو آمریت اورحاکمانہ تشدد کی ایک طرح سے تاریخی علامت رہا ہے، اس نے بھی لوگوں کو دھوکے میں رکھنے کے لیے مجلس شوریٰ بنا رکھی تھی، اور اپنے ظالمانہ فیصلوںپر مجلس شوریٰ کی مہر لگانے کا اہتمام بھی کرتا تھا۔ قرآن کا تصور شورائیت ایسے تمام جھوٹے اور فریب آمیز مظاہر کا ابطال کرتا ہے، جہاں انسانوں کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو ماؤف کرتے ہوئے اپنے حق میں راے عامہ بنائی جائے۔

آیت شوریٰ کا تقاضا ہے کہ شورائی عمل اوّل تا آخر محض شورائیت اور غوروفکر پر جاری و ساری رہے۔ کسی بھی مرحلے میں اگر کسی ایسے محرک نے مداخلت کردی جو شورائیت اور غوروفکر کے منافی ہو، تو شورائیت کی گاڑی اپنی پٹری سے اتر جاتی ہے۔ کسی شخصیت کا احترام ہو، یا کسی مسئلے سے جذباتی نوعیت کا تعلق ہو، گروہ بندی کی لعنت ہو، یا طرز کہن پر اڑنے کی عادت ہو، غرض کوئی بھی چیز شورائیت اور غوروفکر کی راہ میں حائل نہیں ہونی چاہیے۔ غوروفکر کے تقاضے اور خیر کی تلاش کا جذبہ سب پر مقدم ہونا چاہیے۔

نظام کی تشکیل میں شورائیت کا کردار

خالقِ کائنات نے جہاں شریعت بذریعہ وحی نازل فرمائی ہے، وہیں زندگی کے ایک وسیع میدان میں اس کی گنجایش رکھی ہے کہ شریعت کی تعلیمات کی رعایت اور حدود شریعت کی پاس داری کرتے ہوئے اہل زمین اپنی عقل اور تجربات سے فائدہ اٹھائیں ، اور مختلف شعبہ ہاے حیات سے متعلق طریقوں کی تشکیل کریں۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ شریعت ناقص ہے، بلکہ شریعت کا منشا یہی ہے کہ انسانی عقل جو اللہ کی دی ہوئی بہت بڑی نعمت ہے، اس کا بھی بھرپور استعمال ہو۔ گویا شریعت انسان کو عقل سے بے نیاز نہیں کرتی ہے بلکہ عقل کو ثمر آور ہونے کے لیے بہت موزوں ماحول اور بہت وسیع میدان فراہم کرتی ہے۔

 اسلامی نظام حکومت میں حاکمیت اللہ کی ہوتی ہے اور انسانوں کا کام اللہ کی مرضی کے مطابق حکومت چلانا ہوتا ہے، جس میں انسان حاکم نہیں بلکہ نائب ہوتا ہے۔ تاہم، اللہ کی مرضی جاننے کا جہاں پہلا اور اہم ترین ذریعہ وحی الٰہی ہے ، وہیں دوسرا ذریعہ اجتہاد اور شوریٰ ہے، اور اس ذریعے کا ثبوت اور اس ذریعے کا استعمال بھی وحی الٰہی کی روشنی میں ہونا ہے۔ اللہ کے آخری رسولؐ نے شوریٰ کا نظام قائم کیا تھا اور اس کی تربیت بھی دی تھی۔ اسی لیے خلفاے راشدینؓ نے اس پر کامیابی سے عمل بھی کیا تھا۔ تاہم، بعد میں جب خلافت کی جگہ ملوکیت نے لے لی، جو سراسر شورائیت کے مخالف رویہ ہے، تو شوریٰ کو بالکل معطل کردیا گیا،اور اس کی جگہ حاکم وقت کے انفرادی فیصلوں نے لے لی۔ غرض شوریٰ کے ذریعے اللہ کی مرضی جاننے کے بجاے ، حکمرانوں کی اپنی مرضی عملاًقانون سازی کی اساس بنتی چلی گئی۔

غوروفکر بذریعہ افراد ، قانون سازی بذریعہ شوریٰ

اسلامی ریاست میں غوروفکر اور اظہارِ راے کی آزادی ہر فرد کو حاصل ہوتی ہے۔ ریاست کو شریعت نے نہ افراد کی دولت قومیانے کی اجازت دی ہے اورنہ اس کی اجازت دی ہے کہ اجتماعی مصالح کا حوالہ دے کر،یا اُمت کے انتشار کا اندیشہ بتاکر، یا کسی اور بہانے سے غوروفکر کے کسی عمل پر پابندی لگائی جائے۔ البتہ کسی حاصلِ غوروفکر کو قانونی درجہ دینے کے لیے امت میں موجود بہتر سے بہتر شورائی عمل سے گزارناضروری ہے۔

اسلامی ریاست میں قانون سازی کے دائرے پر روشنی ڈالتے ہوئے مولانا مودودیؒ نے عبادات کو دائرہ قانون سازی سے خارج قرار دیا ہے اور معاملات کے باب میں وہاں قانون سازی کی گنجایش بتائی ہے، جہاں کتاب وسنت خاموش ہیں۔اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے معاملات کے باب میں چار شعبوں کا ذکر کیا ہے، جن میں قانون سازی کے امکانات پائے جاتے ہیں: lتعبیر l قیاس lاستنباط واجتہاد l  استحسان اور مصالح مرسلہ۔

اس کے بعد مولانامودودیؒ لکھتے ہیں: ’’ان چار شعبوں کے متعلق کسی مجتہد یا امام کی انفرادی راے اور تحقیق ایک ماہرانہ راے اور تحقیق تو ہوسکتی ہے، جس کا وزن راے دینے والے کی علمی شخصیت کے وزن کے مطابق ہی ہوگا، مگر بہر حال وہ ’قانون‘ نہیں بن سکتی۔ قانون بنانے کے لیے ضروری ہے کہ مملکت اسلامیہ کے ارباب حل وعقد کی شوریٰ ہو اور وہ اپنے اجماع سے یا جمہوری فیصلے (یعنی اکثریت کے فیصلے) سے ایک تعبیر، ایک قیاس، ایک استنباط و اجتہاد، یاایک استحسان ومصلحت مرسلہ کو اختیار کرکے قانونی شکل دے دیں۔ خلافت راشدہ میں قانون سازی کی یہی شکل تھی‘‘۔۱۷

اجماع ومشاورت کا موازنہ

اسلامی فقہ یا قانون کی عام طور سے چار اہم بنیادوں کا ذکر کیا جاتا ہے: قرآن ، سنت ، اجماع اور قیاس___  فقہ اور اصول فقہ کے ماہرین کے درمیان اجماع کا جو تصور مشہور ہے ، وہ اس قدر سخت شرطوںپر قائم ہے کہ نہ وہ شرطیں بیک وقت پائی جاسکتی ہیں، اور نہ وہ اجماع وجود میں آسکتا ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ ایک طرف اجماع کے انعقاد کی شرطیںانتہائی سخت ہیں، دوسری جانب اس کی حجیت کو بھی بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے ، کہ بسا اوقات وہ قرآن وسنت سے بھی زیادہ قوی دلیل معلوم ہوتا ہے۔

مولانا مودودیؒ نے اجماع کے تصور کو عملیّت پسندی سے قریب کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے نزدیک اس کا اطلاق امت کی نمایندہ مجلس شوریٰ میں اتفاق راے سے ہونے والے فیصلوں پر ہوتا ہے۔ مولانا مودودیؒ اجماع کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’اگر کسی مسئلے میں نص شرع کی کسی تعبیر پر، یا کسی قیاس یا استنباط پر، یا کسی تدبیر ومصلحت پر اب بھی اہل حل وعقد کا اجماع، یا   ان کی اکثریت کا فیصلہ فی الواقع ہو جائے تو وہ حجت ہوگا، اور قانون قرار پائے گا۔ اس طرح کا فیصلہ اگر تمام دنیاے اسلام کے اہل حل وعقد کریں تو وہ تمام دنیاے اسلام کے لیے قانون ہوگا، اور کسی ایک اسلامی مملکت کے اہل حل وعقد کریں تو وہ کم ازکم اس مملکت کے لیے قانون ہونا چاہیے‘‘۔۱۸

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مولانا مودودیؒ کے نزدیک ’اجماع‘ دراصل قانون سازی کے ممکنہ دائرے میں اہل حل وعقدکے کسی مسئلے پر اتفاق کی ایک تعبیر ہے، جس کے نتیجے میں ایک راے کو قانونی حیثیت حاصل ہوجا تی ہے، اور اس کی پابندی ریاست کے ہر فرد پر لازم ہوتی ہے۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے، کہ اجماع کے عمل سے گزر کر جب ایک راے قانون کی حیثیت کرلے، تو کیا ریاست کے افراد کے لیے اگلے کسی زمانے میں یا خود اسی زمانے میں دیگر آرا پر مزید غوروفکر کرنے کی، ان کومع دلائل ، اہل حل وعقد کی مجلس شوریٰ میں پیش کرنے کی اجازت ہے؟، اور کیااس مجلس شوریٰٰ کو موجودہ قانون کے بذریعہ اجماع منظور ہوجانے کے علی الرغم ،دوسری نئی راے پر غور کرنے کی اور دلائل کی روشنی میں اس کے قوی تر ثابت ہوجانے کے بعد، اس کو قانون بنانے کی اجازت حاصل ہے ؟اُمت کا مشہور روایتی موقف یہ ہے کہ: اگر اجماع اپنی تمام مطلوبہ شرائط کے ساتھ عمل میں آگیا، تو پھر اس اجماعی راے کے علاوہ کسی اور راے پر نہ افراد کو غوروفکر کی اجازت ہے اور نہ امت کو اسے اختیار کرنے کی اجازت ہے۔

آیت شوریٰ پر غور کیا جائے تو اس روایتی موقف کی تائید نہیں ہوتی ہے، بلکہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ شوریٰ ایک نہ رُکنے والا عمل ہے۔ اگر ایک راے کو شورائی عمل سے گزرتے ہوئے امت کے مکمل اتفاق راے کے ساتھ قانونی حیثیت حاصل ہوگئی ، تو بھی آنے والے کسی بھی دور میں امت کو یہ حق حاصل رہے گا کہ وہ شورائی عمل کے ذریعے کسی دوسری راے کو کثرت راے یا اتفاق راے سے قانونی حیثیت دے دے۔کسی پہلے دور کی امت ، کسی دوسرے دور کی امت کو شورائی عمل اپنانے کے حق سے محروم نہیں کرسکتی۔اور اگر امت شورائی عمل کے ذریعے کسی سابقہ اجماعی فیصلے کو بدل دینے کا اختیار رکھتی ہے، تو اس کے افراد بھی اپنی انفرادی حیثیت میں سابقہ اجماعی اور غیراجماعی تمام فیصلوں کے سلسلے میں غوروفکر کرتے رہنے کا کبھی ختم نہ ہونے والا حق رکھتے ہیں۔ امت کے اجتماعی یا اجماعی فیصلے ، افراد کے لیے واجب العمل ضرور ہوتے ہیں، تاہم افراد سے غوروفکر کی آزادی نہیں سلب کرتے ہیں۔

یہ بات اہم ہے کہ مولانا مودودیؒ نے اجماع کے انعقاد کے لیے آسان شرطوں والے تصور کو ترجیح دے کر اسے ممکن العمل بنادیا ہے بلکہ اسے قانون سازی کے معمول کے عمل (Routine Legislation Process)کے طور پر پیش کیا ہے، جب کہ مشہور روایتی موقف میں تو خود اس کے انعقاد کی شرطیں اس قدر سخت ہیں، کہ عملاً اس کا انعقاد ہی ناممکن ہوجاتا ہے۔

’اجماع‘ کے مروجہ تصور کو غلو پر مبنی اور اس کی جگہ شوریٰ کے تصور کو اختیار کرنے کی بھر پور وکالت ڈاکٹر صلاح سلطان نے کتاب الغلو فی حجیۃ الاجماع  میں کی ہے، اور دلائل سے ثابت کیا ہے کہ امت کے اندرانجام پانے والا شورائی عمل ہی اصل ’اجماع‘ ہے۔ اور اجماع کے نام سے جو تصور امت میں عام ہوگیا ہے وہ بے بنیاد اور بعد کی ایجاد ہے۔ انھوں نے یہ موقف بھی پیش کیا کہ شورائی عمل اور اس کے نتیجے میں اتفاق راے سے ہوجانے والے فیصلوں پر بھی نظر ثانی ہوسکتی ہے اور دلائل کی بنیاد پر کبھی بھی امت اپنے سابقہ اجماعی فیصلے کے علی الرغم دوسرا فیصلہ کرسکتی ہے۔

ڈاکٹر صلاح سلطان کی مذکورہ کتاب سے حسب ذیل اہم نتائج سامنے آتے ہیں:

  •    مروجہ تصور ’اجماع‘ کے حق میں کوئی مضبوط دلیل نہیں ہے، شوریٰ کے حق میں قرآن وسنت کے قطعی دلائل ونظائر ہیں۔ مروجہ تصوراجماع کی شرطیں اس قدر سخت ہیں کہ اس کا وقوع ناممکن یا انتہائی مشکل ہے، جب کہ شوریٰ کا انعقاد ممکن اورآسان ہے۔کسی مسئلے پر ’اجماع‘ کا انعقاد تاریخی لحاظ سے ثابت کرنا بہت مشکل ہے، جب کہ شوریٰ کے انعقاد کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔
  •  ’اجماع‘ کے انعقاد کے لیے ضروری ہے کہ امت کے تمام افراد یا تمام مجتہدین کی راے حاصل ہوگئی ہو اور کسی ایک نے بھی اختلاف نہ کیا ہو، اور ان کے عہد کے گزر جانے تک ان میں سے کسی ایک نے بھی اپنی راے سے رجوع نہ کیا ہو،جب کہ شوریٰ کے لیے ایسی کوئی شرط ضروری نہیں ہے،بلکہ ممکن حدتک لوگوں کی راے معلوم کرنا اور کثرت راے کی بنیاد پر فیصلے تک پہنچنا کافی ہے۔
  •  ’اجماع‘ کے انعقاد کے ثبوت کے لیے بھی قطعی ذرائع مطلوب ہیں۔ اگر اجماع منعقد ہوجانے کی خبر ظنی طریقے سے پہنچتی ہے تو اس کی حجیت محل نظر ہوجاتی ہے، جب کہ شوریٰ کے سلسلے میں اس کی بہت زیادہ اہمیت نہیں ہے۔
  •  اگر ’اجماع‘ کے مروجہ تصور کو مان لیا جائے تو اس کے انعقاد کے بعد پھر کسی بھی زمانے میں کسی کے لیے اس سے اختلاف کا دروازہ بند ہوجاتا ہے، جب کہ شوریٰ کے تحت ایسے کسی بھی مسئلے پر جس پر کسی بھی زمانے میں شوریٰ سے فیصلہ ہوچکا ہو، دوبارہ شوریٰ کے ذریعے گفتگو کرائی جاسکتی ہے۔ اجماع کا حوالہ دے کر تاریخ کے مختلف ادوار میں اجتہادی کوششوں پر روک لگانے کی کوشش کی گئی،اور مخالف راے کو دبانے کے لیے اس حوالے کا استعمال کیا گیا ،جب کہ شوریٰ کے حوالے سے ایسا کرنا ممکن نہیں ہے۔۱۹

ڈاکٹر محمد حمیداللہ نے اجماع کے بارے میں جو راے دی ہے، اس ضمن میں وہ بھی مفید رہنمائی کرتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’ایسے قانون کو جس پر سب علما متفق ہوجائیں، لازماً زیادہ قابلِ قبول قرار دینا پڑتا ہے۔ اجماع کو ہم ایک خاص اہمیت ضرور دیتے ہیں، لیکن کم ازکم حنفی فقہا کے نزدیک اجماع اٹل اور ناقابل تبدیل نہیں ہے، بلکہ ایک جدید تر اجماع کے ذریعے ایک قدیم تر اجماع کو منسوخ کیا جاسکتا ہے، جس طرح ایک نبی کے احکام کو دوسرا نبی منسوخ کرسکتا ہے۔ اسی طرح ایک فقیہ کی راے کو دوسرا فقیہ رد کرکے اپنی علیحدہ راے دے سکتا ہے۔ چنانچہ اگر ایک   قدیم اجماع کو بدل کر دوسرا جدید اجماع قائم ہوجائے تو وہ پہلے اجماع ہی کی طرح واجب التعمیل ہوجائے گا، اور پرانا اجماع باقی نہیں رہے گا۔یہ راے خاص امام ابویوسف البزدوی کی ہے۔ اصول فقہ پر ان کی مشہور کتاب میں ان کے الفاظ یہی ہیں کہ جدید تر اجماع کے ذریعے سے قدیم تر اجماع منسوخ کیا جاسکتا ہے۔ یہ اسلامی قانون کی ایک بہت بڑی خدمت تھی۔ چوںکہ یہ قانون خدا اور رسولؐ کی طرف سے آیا ہوا اٹل قانون نہیں ہے، اس لیے اس کے ہمیشہ کے لیے پابند نہ ہوجائیں، بدلنے والے حالات کے تحت، بدلنے والی ضرورتوں کے تحت ، ہم ایک انسان کے قانون کو دوسرے انسان کے قانون کے ذریعے بدل سکیں گے۔ لیکن اُس قاعدے کے تحت جو  امام بزدوی نے بیان کیا ہے: اوّلاً کسی نہ کسی کو پرانے اجماع کے خلاف زبان کھولنی پڑے گی، اور پرانی راے پر اعتراض کرنے کی ضرورت پیش آئے گی، پھر بعد میں معاصر فقہا اس راے کو قبول کرتے جائیں گے۔ جب سارے لوگ اس پر متفق ہوجائیں گے تو پرانا اجماع ختم ہوجائے گا۔۲۰

’اجماع‘ کا مروجہ تصور امت میں اختلاف راے کی آزادی اور ’اجتہاد‘ کے مواقع کو محدود کردیتا ہے، جب کہ شوریٰ کا تصور یہ آزادی اور مواقع فراہم کرتا ہے۔ اس لیے امت کومروجہ ’تصور ِاجماع‘ کی جگہ قرآن مجید میں پیش کردہ تصور شوریٰ کو اختیار کرنا چاہیے، اور قانون سازی کے عمل میں اجماع کے بجاے شوریٰ سے مدد لینا چاہیے۔(جاری)

حواشی

۱-              مصنف   عبدالرزاق ، جلد دہم،ص ۳۰۲

۲-            ابن جریر،  تاریخ الطبری ،  جلددوم،ص ۷۰۰

۳-            ڈاکٹر حاکم المطیری : تحریر الانسان وتجرید الطغیان، المؤسسۃ العربیۃ للدراسات والنشر۔

۴-            ابوالکلام آزاد، مسئلۂ         خلافت، ص ۷۳، مکتبہ احباب ، لاہور              ۵- ایضاً، ص ۸۱                            

۶-  شاہ ولی اللہ دہلوی، حجۃ   اللہ   البالغہ۔

۷-            الاسلام وأوضاعنا السیاسیۃ ،ص۱۷۰، بحوالہ الشوریٰ فریضۃ اسلامیۃ ، ص۱۸۳

۸-            ابن عطیہ ،المحرر الوجیز، جلد دوم، ص ۳۵، مکتبہ شاملۃ

۹-            محمد الطاہر بن عاشور،التحریر والتنویر، جلد سوم، ص ۲۶۸مؤسسۃ التاریخ العربی بیروت

۱۰-         سیّد قطب شہید، فی ظلال القرآن، جلد پنجم، سورئہ شوریٰ

۱۱-         امین احسن اصلاحی، تدبر قرآن، جلدہفتم، ص ۱۷۸، ۱۷۹، فاران فائونڈیشن، لاہور، ۱۹۹۷ء

۱۲-         ایضاً، ص ۱۷۹                       ۱۳- ایضاً، ص ۱۷۹، ۱۸۰

۱۴-         ابوالاعلیٰ مودودی، تفہیم القرآن، جلد چہارم، ص ۵۰۹

۱۵-           ابوالاعلیٰ مودودی، اسلامی ریاست[مرتب: پروفیسر خورشید احمد] ،ص۱۴۲، اسلامک پبلی کیشنز، لاہور

۱۶-         ایضاً،ص ۱۵۵        ۱۷-         ایضاً،ص۴۸۰        ۱۸-         ایضاً، ص ۴۸۵

۱۹- ڈاکٹر صلاح سلطان ، الغلو فی حجیۃ الاجماع۔

۲۰- ڈاکٹر محمد حمیداللہ، اسلامی ریاست، عہد رسالت ؐ کے طرز سے استشہاد، ص ۷۰، ۷۱،  الفیصل، لاہور۔ ڈاکٹر محمدحمیداللہ لکھتے ہیں:’’مشاورت کی اہمیت اور افادیت پر جتنی بھی بات کی جائے  کم ہے۔ قرآنِ مجید میں ( ٰال عمرٰن۳: ۱۵۹، النمل ۲۷:۳۲، الشوریٰ۴۲:۳۸، ۴۷:۲۱) مسلمانوں کو بار بار حکم دیا گیا ہے کہ فیصلہ کرنے سے پہلے مشاورت کرو، چاہے سرکاری معاملہ ہو یا نجی۔ Introduction to Islam، [اُردو ترجمہ: اسلام کیا ہے؟، از خالد جاوید مشہدی]، بیکن بکس، ص ۱۶۷۔

محترم وزیر اعظم صاحب، میں ابھی چار دن کے بعد جموں و کشمیر سے لوٹا ہوں اور چاروںدن میں کشمیر کی وادی میں رہا اور مجھے یہ ضروری لگا کہ آپ کو وہاں کے حالات سے واقف کراؤں۔ حالانکہ آپ کے یہاںسے خط کا جواب آنے کا رواج ختم ہوگیا ہے،ایسا آپ کے ساتھیوںکا کہنا ہے، لیکن پھر بھی اس امیدپر یہ خط بھیج رہا ہوں کہ آپ مجھے جواب دیںیا نہ دیں، لیکن خط کو پڑھیںگے ضرور اور پڑھنے کے بعد آپ کو اس میںذرا بھی حقیقت نظر آئے، تو آپ  اس میں اٹھائے ہوئے نکات پر دھیان دیں گے۔ مجھے یہ پورا یقین ہے کہ آپ کے پاس جموںو کشمیر لے کر خاص طور سے وادیِ کشمیر کو لے کر جو خبریںپہنچتی ہیں، وہ سرکاری افسروں کے ذریعے ارسال کردہ خبریںہوتی ہیں اور ان خبروں میںسچائی کم ہوتی ہے۔ اگر آپ کے پاس کوئی ایسا نظامِ کار (میکانزم) ہو، جو وادی کے لوگوں سے بات چیت کرکے آپ کو سچائی سے آگاہ کرائے تو مجھے یقین ہے کہ آپ ان حقائق کو نظر انداز نہیںکر پائیں گے۔

  •  میں وادیِ کشمیر میںجاکر مضطرب ہوگیا ہوں۔ وہاں کی زمین ہمارے پاس ہے، کیونکہ ہماری فوج وہاں پر ہے، لیکن کشمیر کے لوگ ہمارے ساتھ نہیں ہیں۔ اور میںپوری ذمہ داری سے یہ حقیقت آپ کے سامنے لانا چاہتا ہوں کہ ۸۰سال کی عمر کے شخص سے لے کر چھے سال تک کے بچے کے دل میں ہندستانی نظام کے لیے بہت زیادہ غصہ ہے۔ اتناغصہ ہے کہ وہ ہندستانی نظام سے جڑے کسی بھی شخص سے بات نہیں کرنا چاہتے۔ اتنا زیادہ غصہ ہے کہ وہ ہاتھوں میں پتھر لے کر اتنے بڑے ریاستی طرزِ کار (mechanism) کا مقابلہ کررہے ہیں۔ اب وہ کسی بھی خطرے کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں، جس میںسب سے بڑا خطرہ تو قتلِ عام ہی کا خطرہ ہوسکتا ہے اور    یہ حقیقت میںآپ کو اس مقصد کو سامنے رکھ کر لکھ رہا ہوں کہ کشمیر میں [امکانی طور پر] ہونے والے صدی کے سب سے بڑے اور تباہ کن قتلِ عام (massacre)سے بچانے میںآپ کا کردا رسب سے اہم ہوسکتا ہے۔

ہماری سیکورٹی فورسز اور ہماری فوج میںیہ خطرناک جذبہ پنپ رہا ہے کہ: ’’کشمیر میں جو بھی بھارتی نظام کے خلاف آواز اٹھاتا ہے، اگر اسے ختم کردیا جائے ، اس کی جان لے لی جائے ، اسے دنیا سے وداع کردیا جائے، تو یہ علیحدگی پسند تحریک ختم ہوسکتی ہے‘‘۔ ہمارا نظام جسے علیحدگی پسند تحریک کہتا ہے، دراصل وہ علیحدگی پسندتحریک نہیںہے، وہ کشمیر کے عوام کی تحریک ہے۔ اگر ۸۰سال کے ضعیف سے لے کر چھے سال کے بچے تک آزادی، آزادی ، آزادی کہے، تو ماننا چاہیے کہ گذشتہ ۷۰برسوںمیںہم سے بہت بڑی غلطیاں ہوئی ہیں اور وہ غلطیاں انجانے میں نہیں بلکہ جان بوجھ کر ہوئی ہیں۔ آج تاریخ اور وقت نے ان غلطیوں کو سدھارنے کا کام آپ کو سونپا ہے۔ امید ہے کہ آپ کشمیر کے حالات کو فوری طور پر اور نئے سرے سے سمجھ کر اپنی حکومت کے اقدامات کا تعین کریںگے۔

وزیر اعظم صاحب، کشمیر میں پولیس والوں سے لے کر ، وہاں کے تاجر، وہاں کے طلبہ، وہاں کی سول سوسائٹی کے لوگ، ہاں کے قلم کار، وہاں کے صحافی، وہاںکی سیاسی پارٹیوں کے لوگ اور وہاں کے سرکاری افسر، وہ چاہے کشمیر کے رہنے والے ہوں یا کشمیر کے باہر کے لوگ، جو بھی  کشمیر میںکام کررہے ہیں، وہ سب کہتے ہیں کہ: ’’بھارتی نظام سے بہت بڑی بھول ہوئی ہے اور اسی لیے کشمیر کا ہر آدمی ہندستانی نظام کے خلاف کھڑا ہوگیا ہے۔ ان میں سے اگرچہ ہرفرد کے ہاتھ میںپتھر نہیںہے، مگر اس کے دل میں پتھر ضرور ہے‘‘۔ آج یہ تحریک ایک عوامی تحریک بن گئی ہے، ٹھیک ویسی ہی جیسی ہندستان کی ۱۹۴۲ء میں تحریک [آزادی] تھی، یا پھر ’جے پی‘ تحریک تھی کہ جس میں لیڈر کا کردار کم تھا اور لوگوں کا کردار زیادہ تھا۔  

اس بات کو بھی ذہن میں رکھیے کہ > کشمیر میں اس بار قربانی والی عید نہیں منائی گئی، کسی نے   نئے کپڑے نہیں پہنے، کسی نے قربانی نہیں کی اور کسی کے گھر میں خوشیاں نہیںمنائی گئیں۔ کیا یہ ہندستان کے ان تمام لوگوں کے منہ پر زوردار طمانچہ نہیں ہے، جو جمہوریت کی قسمیں کھاتے ہیں؟  آخر ایسا کیا ہوگیا کہ کشمیر کے لوگوںنے تہوار تک منانا بند کر دیے، عیدالفطر اور بقرعید منانی بند کردیں۔ عملاً یہ ساری تحریک وہاں کی سیاسی قیادت کے خلاف ایک بغاوت کی شکل اختیار کرگئی ہے۔   جس کشمیر میں ۲۰۱۴ء میں انتخابات ہوئے، لوگوں نے ووٹ ڈالے، آج اسی کشمیر میںکوئی بھی شخص ہندستانی نظام کے لیے ہمدردی کا ایک لفظ کہنے کو تیار نہیں ہے۔ میںآپ کو حالات اس لیے بتارہا ہوں کہ آپ پورے ہندستان کے وزیر اعظم ہیں اور آپ اس کا کوئی راستہ نکال سکتے ہیں۔

کشمیر کے گھروں میں شام کے وقت لوگ ایک بلب روشن کرکے گزربسر کرتے ہیں۔ زیادہ تر گھروں میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ ہمارے یہاں اتنا دکھ ہے، اتنے قتل ہورہے ہیں، ۱۰ہزار سے زیادہ پیلیٹ گن سے زخمی لوگ ہیں، ۵۰۰ سے زیادہ لوگوں کی آنکھیں بے نور ہوگئی ہیں۔ ایسے سوگوار ماحول میں ہم گھر میں چار بلب روشن کرکے خوشی کا کیسے اظہار کرسکتے ہیں، اس لیے ہم ایک بلب جلاکر رہیںگے۔ وزیر اعظم صاحب، میںنے دیکھا ہے کہ لوگ گھروں میںایک بلب  جلا کر رہ رہے ہیں۔ میںنے یہ بھی کشمیر میںدیکھا ہے کہ کس طرح صبح آٹھ بجے سڑکوں پر پتھر لگادیے جاتے ہیں او ر وہی لڑکے جنھوں نے صبح کے وقت پتھر لگائے ہیںشام کو چھے بجے اپنے آپ سڑکوں سے پتھر ہٹادیتے ہیں۔ دن میں وہ پتھر چلاتے ہیں،شام کو وہ اپنے گھروں میں اس خدشے اور احساس سے مغلوب ہوکر سوتے ہیں کہ معلوم نہیں سیکورٹی فورسز کے کارندے کب انھیں اٹھاکر لے جائیں، پھر وہ کبھی اپنے گھر کو واپس لوٹیں یا نہ لوٹیں؟ ایسی حالت تو انگریزوں کے دورِحکومت میں بھی نہیں ہوئی تھی ۔ تب بھی یہ ذہنیت نہیں تھی اور عام لوگوں میںاتناڈر نہیںتھا۔  لیکن آج کشمیر کا رہنے والا ہر آدمی، وہ ہندو ہو، مسلمان ہو، سرکاری ملازم ہو یا نہ ہو، بیکار ہو،    تاجر ہو، سبزی والا ہو، ٹھیلے والا ہو، ٹیکسی والا ہو، غرض یہ کہ ہر آدمی ڈرا ہوا ہے۔ کیا ہم انھیں اور ڈرانے کی یاانھیںاور زیادہ پریشان کرنے کی حکمت عملی پر تو نہیںچل رہے ہیں؟

  •  کشمیر میں گذشتہ ۶۰برسوں میں نظام کی چوک، لاپرواہی یا مجرمانہ چشم پوشی کے نتیجے میں لوگوں کو یاد آگیا ہے کہ جب کشمیر کو ہندستان میں شامل کرنے کا سمجھوتہ ہوا تھا، جسے وہ مہاراجہ ہری سنگھ اور حکومت ہند کے درمیان ’ایکارڈ‘ کہتے ہیں۔ جس کے گواہ مہاراجہ ہری سنگھ کے بیٹے کرن سنگھ ابھی زندہ ہیں۔ اس میں صاف لکھا تھا کہ دستورِ ہند کی دفعہ ۳۷۰ تب تک رہے گی جب تک کہ کشمیر کے لوگ اپنے مستقبل کے بارے میں آخری فیصلہ استصواب راے (Plebiscite) کے ذریعے نہیں کردیتے۔ تب کشمیر کے لوگ اس ریفرنڈم کو چار پانچ سال میں بھول گئے تھے۔ شیخ عبداللہ کامیابی کے ساتھ حکومت کررہے تھے، لیکن وزیر اعظم صاحب، ہندستان کے پہلے وزیر اعظم [پنڈت نہرو] نے جب شیخ عبداللہ کو جیل میں ڈالا، تب سے کشمیر میں ہندستان کے حوالے سے عدم اعتمادی پیدا ہوئی۔ پھر۱۹۷۴ء میں شیخ عبداللہ اور وزیر اعظم اندرا گاندھی کے درمیان معاہدہ ہوا، اور اس کے نتیجے میں شیخ صاحب کو کشمیر کا وزیر اعلیٰ بنایا گیا۔ شیخ عبداللہ، پنڈت نہرو کے آخری دور میں پاکستان بھی گئے اور انھوں نے اندرا گاندھی سے معاہدے کے بعد اپنی حکومت چلائی، لیکن انھوں نے مرکزی سرکار سے جن جن چیزوں کا مطالبہ کیا، مرکزی حکومت نے وہ نہیںکیا اور کشمیر کے لوگوں کے دل میں دوسرے زخم لگے۔

۱۹۸۲ء میں پہلی بار شیخ عبداللہ کے بیٹے ڈاکٹر فاروق عبداللہ کانگریس کے خلاف انتخاب لڑے اور وہاں انھیں [۸ستمبر ۱۹۸۲ء] اکثریت حاصل ہوئی۔ شاید دہلی میں بیٹھی کانگریس پارٹی، کشمیر کو اپنی کالونی سمجھ بیٹھی تھی اور اس نے [۲جولائی ۱۹۸۴ء] ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی حکومت گرادی۔ اس طرح فاروق عبداللہ کی جیت ہار میں بدل گئی اور یہاںسے کشمیریوں کے دل میں ہندستانی نظام کے لیے نفرت کا ایک نیا جذبہ پیدا ہوا۔ آپ کے وزیر اعظم بننے سے پہلے تک دہلی میں بیٹھی تمام حکومتوں نے کشمیر میں لوگوں کو یہ یقین ہی نہیں دلایا کہ وہ بھی ہندستانی نظام کے ویسے ہی عضو ہیں جیسے ہمارے ملک کی دوسری ریاستیں۔

کشمیر میں ایک پوری نسل جو ۱۹۵۲ء کے بعد پیدا ہوئی، اس نے آج تک جمہوریت کا نام ہی نہیں سنا ،اس نے آج تک جمہوریت کا ذائقہ نہیںچکھا۔ اس نے اپنے ہاں فوج دیکھی، پیراملٹری فورسز دیکھیں، گولیاں دیکھیں، بارود کی بُو سونگھی اور لاشیں دیکھیں۔ اس نسل کو یہ نہیں اندازہ ہے کہ ہم دہلی میں، اترپردیش میں، بنگال میں، مہاراشٹر میں، گجرات میں کس طرح جیتے ہیں اور کس طرح ہم جمہوریت کی دہائی دیتے ہوئے جمہوریت کے نام پر نظام کا ذائقہ چکھتے ہیں۔ کیا کشمیر کے لوگوں کا یہ حق نہیں ہے کہ وہ بھی جمہوریت کا ذائقہ چکھیں، جمہوریت کی اچھائیوں کے سمندر میں تیریں یا ان کے حصے میں بندوقیں، ٹینک، پیلیٹ گنس اور پھر ممکنہ قتل عام ہی آئے گا۔

  •  وزیر اعظم صاحب ،یہ باتیں میں آپ سے اس لیے کہہ رہا ہوں کہ آپ کو لوگوں نے یہ بتادیا ہے کہ: ’’کشمیر کا ہر شخص پاکستانی ہے‘‘۔ ہمیںکشمیر میں ایک بھی آدمی پاکستان کی تعریف کرتا ہوا نہیںملا۔ لیکن وہ یہ ضرور کہتے ہیں کہ آپ نے ہمیں روٹی ضرور دی، لیکن تھپڑ مارتے ہوئے دی، آپ نے ہمیں حقارت سے دیکھا، آپ نے ہمیں بے عزت کیا۔ آپ نے ہمارے لیے جمہوریت کی روشنی نہ آنے دینے کی سازش کی اور اسی لیے پہلی باریہ تحریک، آزادی کے بعد کشمیر کے گاؤں گائوں تک پھیل گئی۔ وزیر اعظم صاحب، ہردرخت پر، ہر موبائل ٹاور کے اُوپر ہر جگہ پاکستانی جھنڈا لہرارہا ہے اور جب ہم نے پوچھا کیا تو انھوں نے کہا کہ: ’’ہم پاکستان نہیں جانا چاہتے، لیکن چوںکہ آپ پاکستان سے چڑتے ہیں، اس لیے ہم پاکستانی جھنڈا لگاتے ہیں‘‘ اور یہ کہتے وقت بہت سے لوگوں کے دل میں کوئی پشیمانی نہیں تھی۔

کشمیر کے لوگ، ہندستان کے نظام اور اقتدار کو چڑانے کے لیے جب ہندستان کی کرکٹ میںہار ہوتی ہے، تو جشن مناتے ہیں۔ وہ صرف پاکستان کی ٹیم کی جیت پر جشن نہیں مناتے اور  خوش نہیں ہوتے بلکہ اگر ہم نیوزی لینڈ سے ہار جائیں، بلکہ اگر ہم بنگلہ دیش سے ہار جائیں، اگر  ہم سری لنکا سے ہار جائیں، تب بھی وہ یہی خوشی محسوس کرتے ہیں۔ کیونکہ انھیں یہ لگتا ہے کہ     ہم ہندستانی نظام کی کسی بھی خوشی کو مسترد کرکے اپنی مخالفت کا اظہار کررہے ہیں۔

وزیر اعظم صاحب، کیا یہ نفسیات ہندستان کی حکومت کو سمجھنے کی ضرورت نہیںہے۔ کشمیرکے لوگ اگر ہمارے ساتھ نہیں ہوں گے، تو کشمیر کی زمین لے کر کے ہم کیا کریں گے۔ کشمیر کی زمین میں کچھ بھی پیدا نہیں ہوتا۔ پھر وہاں پر نہ ٹورزم ہوگا، نہ وہاں محبت ہوگی، صرف ایک سرکار ہوگی اور ہماری فوج ہوگی۔ وزیراعظم صاحب کشمیر کے لوگ خود فیصلہ کرنے کا حق چاہتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ایک بار آپ ہم سے یہ ضرور پوچھیے کہ ہم ہندستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیںیا ہم پاکستان کے ساتھ رہناچاہتے ہیں یا ہم ایک آزاد ملک بنانا چاہتے ہیں۔ اس میںصرف ہندستان کے ساتھ والا کشمیر شامل نہیںہے۔ اس میں وہ پاکستان کے کنٹرول میں رہنے والے کشمیر ، گلگت، بلتستان کے لیے بھی ریفرنڈم چاہتے ہیں اور اس کے لیے وہ چاہتے ہیں کہ ہندستان پاکستان کے ساتھ بات چیت کرے کہ اگر ہندستان یہاں یہ حق دینے کو تیار ہے، تو وہ بھی یہ اختیار دیں۔

  •  وزیر اعظم صاحب، یہ حالت کیوں آئی؟ یہ حالت اس لیے آئی کہ اب تک پارلیمنٹ نے چار وفود کشمیر بھیجے، ان چاروں کل جماعتی وفود نے جو پارلیمنٹ کی نمایندگی کرتے تھے، کیا رپورٹ سرکار کو دی وہ کسی کو نہیںمعلوم، لیکن جو بھی رپورٹ دی ہو، اس پر عمل نہیںہوا۔ سرکار نے اپنی طرف سے جناب رام جیٹھ ملانی اور جناب کے سی پنت کو وہاں پر ایلچی کے طور پر بھیجا اور ان لوگوں نے وہاں پر بہت سے لوگوں سے بات چیت کی، لیکن ان لوگوں نے آکر حکومت سے کیا کہا یہ کسی کو نہیںپتہ۔ آپ سے پہلے وزیر اعظم من موہن سنگھ نے ہم سخن (Interlocutors) ٹیم بنائی تھی، جس میں دلیپ پڈگاؤنکر، رادھا کمار،ایم ایم انصاری تھے۔ ان لوگوں نے کیا رپورٹ دی کسی کو نہیںپتا، اس پر بحث نہیں ہوئی، اس پر چرچا نہیںہوا۔

جموںو کشمیر کی اسمبلی نے اتفاق راے سے ایک قر ارداد منظور کی کہ انھیںکیا حق چاہیے،   مگر اس قرارداد کو کوڑے کی ٹوکری میں پھینک دیا گیا۔ کشمیر کے لوگوںکو یہ احساس ہے کہ:   ’’ہماری حکومت ہم نہیںچلاتے بلکہ دہلی میں بیٹھے کچھ افسر چلاتے ہیں، انٹیلی جنس بیورو چلاتی ہے،  فوج کے لوگ چلاتے ہیں، ہم نہیں چلاتے۔ ہم تو یہاں پر غلاموں کی طرح سے جی رہے ہیں، جنھیں روٹی دینے کی کوشش تو ہوتی ہے، لیکن جن کے لیے جینے کا کوئی راستہ کھلا نہیںہے‘‘۔

وزیر اعظم صاحب، کشمیر کے لیے جو پیسہ الاٹ ہوتا ہے وہ وہاں نہیں پہنچتا ، پنچایتوں کے پاس پیسہ نہیں پہنچتا، کشمیر کے لیے جتنے پیکیج اعلان کیے گئے، وہ ان کو نہیںملے اور شاید آپ نے ۲۰۱۴ءکی دیوالی کشمیر کے لوگوں کے بیچ گزاری تھی، آ پ نے کہا تھا کہ وہاں اتنا سیلاب آیا ہے، اتنا نقصان ہوا ہے، اتنے ہزار کروڑ روپے کا پیکیج کشمیر کو دیا جائے گا۔ وزیراعظم صاحب، وہ پیکیج نہیںملا ہے، اس کا کچھ حصہ مرحوم مفتی محمد سعید کے انتقال کے بعد جب محبوبہ مفتی نے تھوڑا سا دباؤ ڈالا، تو کچھ پیسہ ریلیز ہوا۔ کشمیر کے لوگوں کو یہ سب مذاق لگتا ہے، انھیں اپنی توہین لگتی ہے۔

> وزیر ا عظم صاحب !کیا یہ ممکن نہیں کہ جتنے بھی اب تک پارلیمانی وفود کشمیر میں گئے،   ’ہم سخن رپورٹ‘ ، کے سی پنت اور رام جیٹھ ملانی کی تجویز اور ابھی جن لوگوں نے کشمیر کے بارے میں آپ کو راے دی ہے، آپ سے مطلب آپ کے دفتر کو اب تک رائے دی ہو۔ کیا ان آرا کو لے کر ہمارے سابق آٹھ یا دس چیف جسٹسوں کا ایک گروپ بناکر ان کے سامنے وہ رپورٹ نہیں سونپی جاسکتی کہ اس میں فوری طور پر کیا کیا نافذ کرنا ہے۔

چوںکہ یہ ساری چیزیں نہیںہوئیں، اس لیے کشمیر کے لوگ اب آزادی چاہتے ہیں اور آزادی کا یہ جذبہ اتنا بڑھ گیا ہے وزیر اعظم صاحب، میں پھر دہراتا ہوں، مجھے پولیس سے لے کر، ۸۰سال کے ضعیف تک، پھر قلم کار، صحافی، تاجر، ٹیکسی چلانے والے، ہاؤس بوٹ کے لوگ اور  چھے سال کا بچہ، یہ سب آزادی کی بات کرتے دکھائی دیے۔ ایک بھی شخص، پھرسے دہراتا ہوں، مجھے نہیں ملا کہ جس نے یہ کہا ہو کہ میں نے پاکستان جانا ہے۔ اس لیے غور کرنا چاہیے کہ جن ہاتھوں میںپتھر ہیں، ان ہاتھوںکو یہ پتھر پکڑنے کی طاقت اگر کسی نے دی ہے، تو یہ ہمارے نظام نے دی ہے۔

  •  وزیر اعظم صاحب، میرے دل میں ایک بڑا سوال ہے کہ کیا پاکستان اتنابڑا ہے کہ وہ پتھر چلانے والے بچوںکو روزانہ پانچ سو روپے دے سکتا ہے؟ اور کیا ہمارا نظام اتنا خراب ہے کہ اب تک ایسے ایک بھی شخص کو نہیںپکڑ پایا، جو وہاں پانچ پانچ سو روپے بانٹ رہا ہے؟ کرفیو ہے ، لوگ سڑکوں پر نہیںنکل رہے ہیں، کون محلے میں جارہا ہے پانچ سو روپے بانٹنے کے لیے؟ پاکستان کیا اتنا طاقت ور ہے کہ پورے کے پورے ۶۰لاکھ لوگوں کو ہندستان جیسے ۱۲۵کروڑ لوگوں کے ملک کے خلاف کھڑا کرسکتا ہے؟ مجھے یہ مفروضہ مذاق لگتا ہے اور کشمیر کے لوگوں کو بھی یہ مذاق لگتا ہے۔ کشمیر کے لوگوںکو ہمارے نظام اور الیکٹرانک میڈیا سے بھی بہت شکایت ہے۔ وہ کئی چینلوں کا نام لیتے ہیں جن کو دیکھ کر لگتاہے کہ یہ ملک میںفرقہ پرستی کا جذبہ بڑھانے کاکام کررہے ہیں۔ اس میں کچھ اہم چینل انگریزی کے ہیں اور کچھ ہندی کے بھی ہیں۔ میںمانتا ہوںکہ ہمارے ساتھی راجیہ سبھا میںجانےیا صحافت کی تاریخ میں لکھوانے کے لیے اتنے اندھے ہوگئے ہیں کہ وہ ملک کے اتحاد اور سالمیت سے بھی کھیل رہے ہیں۔ لیکن وزیر اعظم صاحب، تاریخ بے رحم ہوتی ہے، وہ ایسے صحافیوں کو محب وطن نہیں غدار مانے گی، کیونکہ ایسے لوگ جو پاکستان کا نام لیتے ہیں یا ہر چیز میں پاکستان کا ہاتھ دیکھتے ہیں، وہ لوگ دراصل پاکستان کے دلال ہیں،وہ ذہنی طور پر ہندستان اور کشمیر کے لوگوں میںیہ احساس پیدا کررہے ہیں کہ پاکستان ایک بڑا مضبوط، بڑا قادر اور بہت باریک بین ملک ہے۔

وزیر اعظم صاحب ان لوگوں کو کب سمجھ میں آئے گا، یا نہیں سمجھ میں آئے گا، مجھے اس پر تشویش نہیںہے۔ میری تشویش ہندستان کے وزیر اعظم نریندرا مودی کو لے کر ہے۔ نریندرا مودی کو تاریخ اگر اس شکل میںدیکھے کہ انھوںنے کشمیر میں ایک بڑا قتل عام کرواکر کشمیر کو ہندستان کے ساتھ جوڑے رکھا، تو وہ آنے والی نسلوں کے لیے بہت افسوس ناک تاریخ ہوگی۔ تاریخ نریندرا مودی کو اس شکل میں پہچانے کہ نریندرا مودی نے کشمیر کے لوگوں کا دل جیتا۔ انھیں ان سارے وعدوں کو پورا کرنے کی یقین دہانی کرائی، جنھیں ۶۰سال سے کشمیریوں کے ساتھ دہرایا جاتا رہا ہے۔ کشمیر کے لوگ سونا نہیںمانگتے ، چاندی نہیںمانگتے، ہیرے نہیںمانگتے، کشمیر کے لوگ عزت مانگتے ہیں۔ وزیر اعظم صاحب، میں نے جتنے طبقوںکی بات کی یہ سب متعلقین (اسٹیک ہولڈر) ہیں۔

  •  وزیر اعظم صاحب، یہ سارے لوگ اسٹیک ہولڈر ہیں او ران میںحریت کے لوگ شامل ہیں۔ آج کشمیر میں حریت کے لوگوں کی اتنی بھرپور اخلاقی گرفت ہے کہ وہ جو احتجاجی کیلنڈر جمعہ کو جاری کرتے ہیں،وہ ہر ایک کے پاس پہنچ جاتا ہے۔ اخباروں میںچھپ کر ہر ایک کو اس سے آگاہی ہوجاتی ہے اور لوگ سات دن اس کیلنڈر کے اوپر کام کرتے ہیں۔ اگر وہ کہتے ہیںکہ پانچ یا چھے بجے شام تک بازار بند رہیں گے، تو پانچ، چھے بجے تک بازار بند رہتے ہیں اور پانچ چھے بجے تک ہی بازار کھلے رہتے ہیں۔ وزیر اعظم صاحب، وہاں تو بنک بھی اسی ہدایت پر کھلنے لگے ہیں، جو آپ کے نظام کے تحت آتے ہیں۔ وہاں پر ہمارے سیکورٹی فورسز کے لوگ  چھے بجے کے بعد نہیں گھومتے، چھے بجے سے پہلے گھومتے ہیں۔ اور اسی لیے وہاں ہمارا کور کمانڈر حکومت سے کہتا ہے کہ: ’’ہمیں اس سیاسی جھگڑے میں مت پھنسائیے‘‘۔ وزیر اعظم صاحب، یہ چھوٹی چیز نہیں ہے، ہماری فوج کا کمانڈر وہاں کی حکومت سے کہتا ہے کہ: ’’ہمیں اس سیاسی جھگڑے میں مت پھنسائیے، ہم سویلین کے لیے نہیں ، ہم دشمن کے لیے ہیں‘‘۔ > اسی لیے جہاں اور جب فوج کاسامنا ہوتا ہے تو وہ پتھر کا جواب گولی سے دیتی ہے۔ نتیجے کے طور پر لوگوں کی لاشیں گرتی ہیں۔

فوج کے اس جذبے کو تو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ فوج اپنے ملک کے شہریوں کے خلاف  نظم و نسق بنائے رکھنے کی چیز نہیں ہے۔ سیکورٹی فورسز پیلیٹ گن چلاتے ہیں، لیکن ان کا نشانہ  کمر سے نیچے نہیں ہوتا ہے، کمر سے اوپر ہوتا ہے، اس لیے دس ہزار لوگ زخمی پڑے ہیں۔ وزیراعظم صاحب، میں کشمیر کے دورے میں ہسپتالوں میں گیا ہوں۔ مجھ سے کہا گیا کہ پانچ ہزار سے زیادہ فوجی زخمی ہوئے ہیں۔ مجھے وہ لوگ پتھروں سے زخمی تو دکھائی دیے،مگر ان کی تعداد کافی  کم تھی۔ مگر یہ ’ہزاروں کی تعداد میں زخمی‘ ہونے کے پرچار پرکوئی یقین نہیں کرتا، اور اگر ایسا ہے تو ہم صحافیوں کو ان فوجی جوانوں سے ملوائیے جو ہزاروں کی تعداد میں کہیں زیر علاج ہیں۔ لیکن اس کے برعکس ہم نے اپنی آنکھوں سے زمین پر ایک دوسرے سے بستر شیئر کرتے لوگ دیکھے جو زخمی تھے۔ ہم نے وہاں ان معصوم بچوں کو دیکھا ہے، جن کی آنکھیں چلی گئی ہیں، جو اَب کبھی واپس نہیں آئیں گی۔ لہٰذا، میں یہ خط اس یقین اور جذبے کے ساتھ لکھ رہا ہوں اور جانتا ہوں کہ آپ کے پاس اگر یہ خط پہنچے گا تو آپ اسے ضرور پڑھیں گے اور ہو سکتا ہے کچھ اچھا بھی کریں۔ لیکن مجھے اس میں شک ہے کہ یہ خط آپ کے پاس پہنچے گا،اس لیے میں اسے اپنے اخبار چھوٹی دنیا  اخبار میں چھاپ رہا ہوں، تاکہ کوئی تو آپ کو بتائے کہ سچائی یہ ہے۔

  •  وزیراعظم صاحب، ایک کمال کی بات آپ کو بتاتا ہوں ۔ مجھے سری نگر میں ہر شخص اٹل بہاری واجپائی صاحب کی تعریف کرتا ہوا ملا۔لوگوں کو صرف ایک وزیراعظم کا نام یاد ہے اور وہ ہیں اٹل بہاری واجپائی،جنھوں نے کہا تھا کہ میں پاکستان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاتا ہوں۔ انھیں کشمیر کے لوگ کشمیر کے مسائل کو حل کرنے والے مسیحا کی طرح یاد کرتے ہیں۔ انھیں لگتا ہے کہ اٹل بہاری واجپائی کشمیر کے لوگوں کا دکھ درد سمجھتے تھے اور ان کے آنسو پونچھنا چاہتے تھے۔ وزیراعظم صاحب، وہ آپ سے بھی ویسی ہی اُمید تو کرتے ہیں، لیکن انھیں یقین نہیں ہے۔ انھیں اس لیے یقین نہیں ہے ، کیوں کہ آپ پوری دنیا میں گھوم رہے ہیں۔ آپ  لاؤس، چین، امریکہ، سعودی عرب ہر جگہ جا رہے ہیں۔ لیکن اپنے ہی ملک میں ساٹھ لاکھ لوگ ناراض ہیں۔ یہ ۶۰لاکھ لوگ اس لیے ناراض نہیں ہیں کہ آپ بھارتیہ جنتا پارٹی کے ہیں، وہ اس لیے ناراض ہوئے ہیں کہ آپ کےدل میں اپنے ملک کے ناراض لوگوں کے لیے جتنا پیار ہونا چا ہیے وہ پیار انھیں نظر نہیں آرہاہے۔ اس لیے ہماری گزارش ہے کہ آپ خود کشمیر جائیں، وہاں کے لوگوں سے ملاقات کریں، حالات کا جائزہ لیںاور قدم اٹھائیں۔ یقین کیجیے کشمیر کے لوگ ہاتھوں ہاتھ لیں گے۔ لیکن بات آپ کو وہاں کشمیر کے تمام فریقین سے کرنی ہوگی، حریت سے بھی۔
  •  وزیراعظم صاحب، اشوک وان کھیڑے، جو مشہور کالم نگار ہیںاور ٹیلی ویژن پر سیاسی تجزیہ کر تے ہیں، اور پروفیسر ابھے دوبے ، یہ بھی سیاسی تجزیہ نگار ہیں جو ٹیلی ویژن پر آتے رہتے ہیںاور محقق ہیں، یہ بھی میرے ساتھ تھے۔ ہم تینوں کئی بار کشمیر کے حالات دیکھ کر روئے۔ ہمیں محسوس ہوا کہ پورے ملک  میں یہ تاثر پھیلایا گیاہے، منصوبہ بند طریقہ سے ایک گروپ نے اس تاثر کو ہوا دی ہے کہ: کشمیر کا ہر شخص پاکستانی ہے، کشمیر کا ہر شخص ملک کا غدار ہے اور سبھی لوگ پاکستان جانا چاہتے ہیں۔ نہیں وزیراعظم صاحب، یہ حقیقت نہیں ہے۔ کشمیر کے لوگ اپنے لیے روزی چاہتے ہیں، روٹی چاہتے ہیں لیکن عزت کے ساتھ چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کے ساتھ ویسا ہی سلوک ہو، جو بہار، بنگال، آسام کے ساتھ ہوتا ہے۔

وزیراعظم صاحب، کیا کشمیر کے لوگوں کو ممبئی، پٹنہ، احمدآباد اور دہلی کے لوگوں کی طرح جینے یا رہنے کا حق نہیں مل سکتا۔ ’’ہم آرٹیکل ۳۷۰ختم کریں گے‘‘۔ اس کا پرچار پورے ملک میں کر رہے ہیں۔ ہم کشمیریوںکو غیر انسانی رُوپ میں یعنی ظالم اور دہشت گرد کی صورت میں پیش کرنے کا پرچار کررہے ہیں۔ لیکن ہم ملک کے لوگوں کو یہ نہیں بتاتے کہ یہ حکومت ہند ہی کا ایک فیصلہ تھا کشمیر ہمارا کبھی حصہ نہیں رہا اور کشمیر کو جب ہم نے ۱۹۴۷ء میں اپنے ساتھ ملایا ، توہم نے دوفریقوں کے درمیان معاہدہ کیا تھا۔ کشمیر ہمارا آئینی حصہ نہیں ہے، لیکن ہمارے آئینی نظام میں، یہ حق خودارادی (Plebiscite) سے پہلے تک کے لیے آرٹیکل ۳۷۰دیا گیا ہے ۔ وزیراعظم صاحب، کیا یہ نہیں کہا جا سکتا ہم کبھی آرٹیکل ۳۷۰کے ساتھ چھیڑ چھاڑنہیں کریں گے اور ۳۷۰کیا ہے؟ ۳۷۰ یہ ہے کہ کشمیر پر امورخارجہ، فوج اور کرنسی کے علاوہ ہم کشمیر کی حکومت میں کسی طرح کی مداخلت نہیں کریں گے۔

لیکن گذشتہ۶۵برس اس کی مثال ہیں کہ ہم، یعنی دہلی حکومت نے وہاں مسلسل ناجائز مداخلت کی۔ فوج سے کہیے کہ وہ سرحدوں کی حفاظت کرے۔ جو سرحد پار کرنے کی کوشش کرے اس کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرے جیسا ایک دہشت گرد یا دشمن کے ساتھ ہوتا ہے۔ لیکن کشمیر میں رہنے والے لوگوں کو دشمن مت خیال کیجیے۔ کشمیر کے لوگو ں کو اس بات کا رنج اور دُکھ ہے کہ ہندستان میں اتنا بڑا جاٹ احتجاج ہوا، گولی نہیں چلی، کوئی نہیں مرا۔ گوجر احتجاج ہوا، کوئی آدمی نہیں مرا، کہیں پولیس نے گولی نہیں چلائی۔ ابھی کرناٹک میں کاویری اور بنگلور میں اتنا بڑا احتجاج ہوا ، لیکن ایک گولی نہیں چلی۔مگر ایسا کیوں ہے کہ کشمیر میں گولیاں چلتی ہیںاور وہ کیوں کمر سے اوپر چلتی ہیں؟اور کیوں چھے سال کے بچوں کے اُوپر گولی چلتی ہیں؟ وزیراعظم صاحب، چھے سال کا بچہ کیوں ہمارے خلاف ہوگیا؟ وہاں کی پولیس ہمارے خلاف ہے؟

  •  لوگوں کا دل جیتنے کی ضرورت ہے اور آپ ایسا کر سکتے ہیں۔ آپ ناقابلِ تصور اکثریت سے وزیراعظم بنے ہیں۔ کیا آپ خدا کے ذریعے دی گئی، تاریخ کے ذریعے دی گئی، اور وقت کے ذریعے دی گئی اپنی اس ذمہ داری کو نبھائیں کہ کشمیر کے لوگوں کا دل بھی جیتیں اور انھیں اپنے  ساتھ روا رکھے امتیازی اور غیر انسانی سلوک سے نجات دلائیں۔ ان کے دل  میں یہ احساس بھریں کہ وہ بھی دنیاکے، ہندستان کے ویسے ہی باعزت شہری ہیںجیسے آپ اور ہم ہیں۔

مجھے پوری امید ہے کہ آپ بغیر وقت ضائع کیے کشمیر کے لوگوں کا دل جیتنے کے لیے فوراً اقدام کریں گے اور بغیر وقت ضائع کیے اپنی پارٹی کے لوگوں کو، اپنی حکومت کے لوگوں کو سمجھائیں گے کہ کشمیر کے بارے میں کیسا برتائو کرنا ہے۔ میں ایک بار پھر آپ سے گزارش کرتا ہوں کہ  آپ ہمیں جواب دیں یا نہ دیں، لیکن کشمیر کے لوگوں کے دُکھ درد اور آنسو کیسے پونچھ سکتے ہیں، اس کے لیے قدم ضرور اٹھائیے۔

یہ سطور ۲۵ جنوری کو سپرد قلم کی جارہی ہیں۔ آج سے ٹھیک چھے سال قبل مصری دارالحکومت قاہرہ کے میدان التحریر میں لاکھوں عوام نے ۳۰ سال سے جبر کی علامت بنے بیٹھے حسنی مبارک سے نجات کا سفر شروع کیا تھا۔ ۳۰ سال تک مصر اور مصری عوام کی قسمت کا تنہا مالک بنا بیٹھا ڈکٹیٹر ۱۸دن کے ملک گیر دھرنوں کے بعد اقتدار چھوڑنے پر مجبور ہوگیا۔ اس نے اس دوران میں ۸۴۰بے گناہ شہری شہید کردیے،۶ہزار شہری زخمی ہوئے، لیکن عوام کے صبر و ثبات نے بالآخر   اس کے تکبر کابت پاش پاش کردیا۔ وہی مصری ٹی وی جو دن رات ڈکٹیٹر کی عظمت کے گن گا رہے تھے، اسے ’مصر کا آخری فرعون‘قرار دیتے ہوئے کہنے لگے کہ ’’اب یہاں کسی کو بے گناہ انسانوں کی کھوپڑیوں پر تخت اقتدار سجانے کی اجازت نہیں دی جائے گی‘‘۔ اس سے تین ہفتے پہلے تیونس کا اکلوتا حکمران زین العابدین بن علی بھی اسی انجام کو پہنچ چکا تھا۔ آٹھ ماہ بعد لیبیا کا کرنل معمر القذافی اور ایک سال بعد یمن کا کیپٹن علی صالح بھی عوامی طوفان کے سامنے نہ ٹھیر سکا۔ قریب تھا کہ۱۹۶۴ء سے شام میں برسرِاقتدار اسد خاندان کی آخری بدترین نشانی بشار الاسد بھی انھی کی طرح عبرت کی مثال اور کوڑے کے اسی ڈھیر کا حصہ بن جاتا، لیکن اسی دوران میں ’بہار‘ کا خواب دیکھنے والے مصری عوام کو ان کے اس جرم کا مزا چکھاتے ہوئے ان پر ایک اور ننگ انسانیت جنرل سیسی مسلط کردیا گیا۔

خونی حکمرانوں سے نجات کے بعد اورخزاں کے اس مسموم طوفان سے پہلے تیونس، مصر، لیبیا اور یمن کے عوام نے ایک نیا اور پُرامن نظام تشکیل دینے کا آغاز کردیا تھا۔ پہلی بار آزاد فضا میں سانس لیتے ہوئے، انتخابات کے ذریعے اپنے حکمرانوں اور اپنے مستقبل کا تعین کرنا شروع کردیا تھا۔ ان چاروں ممالک کی تاریخ میں پہلی بار حقیقی انتخابات منعقد ہوئے۔ تیونس اور لیبیا میں دو (دستور ساز اور پھر مستقل اسمبلی) الیکشن ہوئے، جب کہ مصر میں پانچ بار عام چنائو ہوا۔ چشم عالم نے دیکھا کہ ان تمام انتخابات میں اسلامی تحریک ’الاخوان المسلمون‘ پورے عالمِ عرب کی سب سے بڑی قوت قرار پائی۔

اخوان کی یہ حیرت انگیز کامیابی ہی خطرے کی وہ گھنٹی تھی کہ جس کے بعد ساری عالمی قوتیں اور کئی نادان دوست اس نوخیز بہار کو خوفناک خزاں میں بدلنے پر تل گئے۔ مصری پارلیمنٹ، منتخب صدر، قومی اتفاق راے اور ریفرنڈم کے ذریعے منظور دستور سب کچھ، ہزاروں بے گناہ انسانوں کے خونِ ناحق کے دریا میں غرق کردیا گیا۔ امریکا میں مقیم لیبیا کے ایک سابق فوجی جنرل خلیفہ حفتر کو واپس بلاکر، منتخب حکومت پر فوج کشی کروادی گئی۔ تیونس میں ایک کے بعد دوسرا بحران پیدا کرتے ہوئے اور کئی سیاسی رہنماؤں کا قتل کرکے نومنتخب حکومت کو مفلوج کردیا گیا۔ یمن میں سابق ڈکٹیٹر اور باغی حوثی قبائل کو ڈھیروں اسلحہ اور دولت دے کر دارالحکومت پر چڑھائی کروادی گئی۔ اسلامی تحریک کی کامیابی بظاہر ناکامی میں بدل گئی۔ صرف ان چار ممالک میں۶ ہزار سے زائد فرشتہ صفت کارکنان اور قائدین شہید کردیے گئے۔۵۰ ہزار سے زائد بے گناہ اس وقت بھی جیلوں میں بدترین تشدد کا شکار کیے جارہے ہیں۔ انصاف، حقیقت پسندی اور غیر جانب داری سے جائزہ لیا جائے تو صرف اخوان یا عالم اسلام ہی نہیں، پوری دنیا کو اس مکروہ پالیسی کی قیمت مسلسل چکانا پڑرہی ہے۔

  •  شام اور عراق سمیت ان تمام ممالک میں خوں ریزی کے وہ دریا بہائے جارہے ہیں کہ جن کے سامنے تاریخ کے بدترین قتل عام بھی ہیچ دکھائی دیتے ہیں۔ صرف شام ہی میں اب تک پانچ لاکھ سے زیادہ شہید اور سواکروڑ انسان بے گھر ہوگئے ہیں۔ پورا ملک کھنڈرات میں تبدیل ہوگیا ہے۔ بشار الاسد کے خلاف عوامی تحریک شروع ہوئی تو اس کی فوج کا تقریباً نصف حصہ کابینہ کے کئی اہم افراد سمیت اس سے الگ ہوگیا۔ شامی عوام کی قیادت مجتمع ہونے لگی۔ لیکن جب اپوزیشن کی مشترک قیادت تشکیل دینے کی کوششوں کا آغاز ہوا، تو بعض ممالک کی اوّل و آخر ترجیح  یہ قرار پائی کہ کہیں الاخوان المسلمون شام کو قائدانہ کردار نہ مل جائے۔ ۱۹۸۲ء میں حافظ الاسد کے ہاتھوں ہزاروں اخوانی خاندان شہید کردیے جانے کے بعد سے اگر شامی عوام کے دل میں کوئی حقیقی متبادل تھا، تو وہ صرف الاخوان المسلمون ہی تھے۔ انھیں کسی طور مضبوط و مؤثر نہ بننے دینے کی پالیسی نے بالآخر بشار مخالف تمام عناصر کو منتشر کردیا۔ اب چھے سال ہونے کو آئے ہیں، وہاں درجنوں گروہ باہم برسرِ پیکار ہیں۔ پورا ملک ٹکڑیوں میں تقسیم ہوچکا ہے۔ عالمی طاقتیں اپنے اپنے اسلحے، نفوذ اور سازشوں کے ذریعے اس کی بندر بانٹ میں مصروف ہیں۔ کوئی طاقت بھی یہ دعویٰ نہیں کرسکتی کہ صرف و ہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہوسکے گی۔
  •  یمن ایک خوفناک خانہ جنگی کی نذر ہو چکا ہے۔ دارالحکومت صنعا ء پر باغی حوثی قبائل اور سابق صدر علی صالح کی فوجوں کا قبضہ ہے انھیں ایران کی مکمل اور مسلسل حمایت حاصل ہے۔ عدن اور دیگر اکثر اہم شہروں میں قومی حکومت کا اقتدار ہے۔ اسے سعودی عرب کی مکمل سرپرستی اور مدد حاصل ہے۔ دومختصر علاقوں پر داعش کا جھنڈا لہرا  دیا گیا ہے۔ ــــ’ عاصفۃ الحزم ‘ فیصلہ کن آندھی کے نام سے شروع کی جانے والی جنگ کئی محاذوں پر لڑی جارہی ہے اور کسی کو نہیں معلوم کہ یہ مزید کتنے عرصے میں واقعی فیصلہ کن ہو سکے گی۔ جب تک یہ جنگ جاری رہی، نہ صرف یمنی عوام کا خون بہتا رہے گا بلکہ تین مسلمان ممالک کے وسائل اور ان کا امن وسکون تباہ ہوتا رہے گا۔ اقوامِ متحدہ میں انسانی اُمور کے ذمہ دار اسٹیفن اوپرائن کی تازہ رپورٹ کے مطابق یمن میں ۱۴ملین افراد کو   فاقہ کشی کا سامنا ہے۔ ۲۰لاکھ لوگ اپنے ہی ملک کے مہاجر کیمپوں میں قید ہیں۔ یمن میں بھی ہرفیصلہ کن موڑ پر دنیا کو یہ خطرہ لا حق رہا کہ کہیں الاخوان المسلون اقتدار میں نہ آ جائے ۔ حوثی باغی قبائل نے بھی صنعاء پر قبضہ کرتے ہوئے سب سے پہلے اخوان کو کچلنے کی کوشش کرتے ہوئے اس کے    تمام مراکز پر قبضہ کرلیا۔
  •  تیل کی دولت سے مالا مال ملک لیبیا اس وقت عملاً پانچ ٹکڑیوں میں منقسم ہے۔ تین مختلف حکومتیں ایک قبائلی مسلح دھڑا اور داعش مختلف علاقوں کو اپنی گرفت میں رکھنے کی کوشش میں آئے روز ایک دوسرے کا خون بہا رہے ہیں۔ یہاں بھی کرنل قذافی کے ۴۲ سالہ اقتدار کے خاتمے کے بعد ایک قومی حکومت وجود میں آ گئی تھی، جو’ اسلام پسندوں ‘ کے غلبے کی وجہ سے ناکام بنادی گئی۔
  •  پُرامن اور حقیقی انتخابات کے ذریعے تبدیلی کے راستے مسدود کردینے سے پوری مسلم دنیا میں ان عناصر کو آگے بڑھنے کا موقع ملا جن کے نزدیک تبدیلی کا راستہ اپنے ہر مخالف کے ساتھ بندوق و بارود کی زبان میں بات کرنا ہے۔ عالم اسلام میں بے سمت اور سفاک خونی گروہ پیدا کرنا عالمی استعمار کی عالمی پالیسی کے طور پر سامنے آئی ہے۔ اس سے نہ صرف عالم اسلام مزید انتشار کا شکار ہورہا ہے، بلکہ خود اسلام اور جہاد ہی کو باعث نفرت بنادینے کے ایجنڈے کو تقویت دی جارہی ہے۔
  •  باہم نفرت اور قتل و غارت کا یہ مکروہ کھیل آگے بڑھاتے ہوئے اب اس میں مذہب، مسلک اور رنگ و نسل پر مبنی تعصب کا زہر گھول دیا گیا ہے۔ شام، عراق اور یمن ہی نہیں پورے عالم اسلام کو اس دلدل میں دھکیلا جاچکا ہے۔ اتحاد و یک جہتی کے نعرے اب صرف ایک دکھاوا بلکہ عملاً ایک دھوکا بن چکے ہیں۔ طرفین کی اول و آخر ترجیح فریق ثانی کو نیچا دکھانا اور اسے صفحۂ ہستی سے مٹادینا قرار پایا ہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ صدیوں پرانے ان اختلافات کا اکلوتا اور حقیقی حل اختلاف راے کا حق دینا اور دلوں میں وسعت پیدا کرنا ہے، دونوں فریق تعصبات کی آگ پر دن رات تیل چھڑک رہے ہیں۔ صحابہ کرام اور اُمہات المومنین رضوان اللہ علیہم اجمعین جیسی قابلِ احترام ہستیاں کوچہء و بازار میں نشانۂ ستم بنائی جارہی ہیں۔ احادیث رسولؐ میں مذکور مختلف نشانیوں کواپنی اپنی مرضی کی تاویل کا لبادہ اوڑھاتے ہوئے، بنیادی عقائد کو شکوک و شبہات بلکہ استہزا کی نذر کیا جارہا ہے۔
  •  ریاستی ، علاقائی اور عالمی تعلقات کو بھی انھی نفرت آمیز تعصبات کی میزان پر تولا جارہا ہے۔ مصری انتخابات میں اخوان کی کامیابی کے بعد ایران میں بڑے بڑے بورڈ لگائے گئے   جن پر اپنے زعما کے ساتھ امام حسن البنا کی قد آدم تصاویر آویزاں کی گئیں۔ اخوان کی حکومت کو امام خمینی کے تصورات ونظریات کا تسلسل قرار دیا گیا۔ اس وقت عرب ممالک میں اخوان اور   صدر محمد مرسی پر ایران نوازی کا الزام لگایا گیا۔ صدر مرسی نے غلط فہمیاں دُور کرنے اور باہمی تعلقات مضبوط ومستحکم کرنے کی مسلسل کوششیں کیں، لیکن انھیں کوئی مثبت جواب نہ دیا گیا۔ جنرل سیسی کا خونی انقلاب برپا ہوا تو اسے ۴۰ ؍ارب ڈالر کی امداد دے کر مضبوط کرنے کی کوشش کی گئی ۔ پھر تیل کی قیمتوں میں کمی، عالمی اقتصادی بحران ، یمنی جنگ کی دلدل ، شامی مہاجرین کی آمد اور دہشت گردی کی مسلسل کارروائیوں کے تناظر میں جب جنرل سیسی کے کرپٹ نظام کا پیٹ بھرنا مزید ممکن نہ رہا، تو اس نے ایک دن کی تاخیر کے بغیر ایران کے ساتھ پیار کی پینگیں بڑھا لیں۔ اس کے ذرائع ابلاغ پر اب اپنے محسن سعودی عرب اور اس کی قیادت کے لیے وہ بد زبانی کی جاتی ہے کہ کوئی بھلا انسان جس کا تصور بھی نہ کرسکے ۔ مارچ میں اُردن میں ہونے والی عرب سربراہی کانفرنس سے پہلے اس تنائو میں کمی لانے کی کوششیں بھی جاری ہیں۔

آئے روز عوام کو صبر کی تلقین اور اقتصادی خوشحالی کے سبز باغ دکھانے والے جنرل سیسی کے دور میں مصری عوام کو بد ترین معاشی بدحالی کا سامنا ہے ۔ اربوں ڈالر کی امداد چند مخصوص تجوریوں کی نذر ہو گئی۔ صدر محمد مرسی کے خلاف بغاوت کی گئی تو اس وقت ملکی خزانے میں ۳۳ ؍ارب ڈالر تھے۔ جنرل سیسی کو ۴۰ ؍ارب ڈالر کی مزید امداد دی گئی۔ اس وقت خزانے میں ۱۳؍ارب ڈالر رہ گئے ہیں۔ اب آئی ایم ایف سے ۱۲ ؍ارب ڈالر کا قرض لینے کے لیے مختلف اقدامات کرتے ہوئے عوام پر مزید بوجھ ڈالا جارہا ہے۔ ۲ کروڑ ۱۰ لاکھ میں سے ایک کروڑ ۲۰لاکھ راشن کارڈ ختم کیے جارہے ہیں۔ ادویات کو حاصل سب سڈی ختم کی جارہی ہے۔ صدر مرسی کے دورِ اقتدار میں ایک ڈالر ساڑھے آٹھ مصری پائونڈ کا تھا اب ۱۹ پائونڈ سے زیادہ کا ہو چکا ہے۔ معروف مصری ماہر اقتصاد وائل النحاس نے خبر دار کیا ہے کہ ۲۰۱۷ء میں امریکی ڈالر ۲۴ اور ۲۰۱۸ء میں ۴۱ پائونڈ تک گر سکتا ہے۔ کرنسی کی اس بے وقعتی کے باعث ہر چیز کی قیمت میں ہوش ربا اضافہ ہو چکا ہے۔ روز مرہ کی ضروریات بالخصوص ادویات اور چینی ناپید ہو گئی ہے۔

اخوان پر الزام لگایا گیا تھا کہ انھوں نے اپنے ایک سالہ دور حکومت میں ذرائع ابلاغ پر پابندیاں عائد کر دیں اور صحافیوں کو گرفتار کیا۔ جنرل سیسی کے ’عہد آزادی‘ میں مخالف ذرائع ابلاغ تو کجا وہ نمایاں ترین صحافی بھی قتل ، قید یا فارغ کر دیے گئے جنھوں نے اخوان پر الزامات کے طومار باندھتے ہوئے جنرل سیسی کی تعریفوں میں زمین آسمان کے قلابے ملا دیے تھے۔ باسم یوسف ،  ریم ماجد ، جابرالقرموطی، محمود سعد اور توفیق عکاشہ وہ چند نام ہیں، جن کی شکل ہی سے اخوان دشمنی ٹپکتی ہے۔ آج ان سب پر پابندیاں عائد ہیں۔ توفیق عکاشہ کو تو جنرل سیسی نے اپنی نام نہاد اسمبلی کا رکن بھی منتخب کروایا تھا، گذشتہ مارچ میں اس کی رکنیت بھی ارکان پارلیمنٹ کی قرار داد کے ذریعے ختم کروا دی گئی ۔ ایک اور نمایاں خاتون اینکر لمیس الحدیدی کے بیانات آنا شروع ہوگئے ہیں کہ’’ اتنے دبائو کا سامناہے کہ صحافت چھوڑ کر سلائی شروع کرنے کا سنجیدگی سے سوچ رہی ہوں‘‘۔    ان حضرات وخواتین کو ملنے والی اب تک کی سزا تو پھر عارضی و معمولی ہے۔ اپنے ملک وقوم اور خود اپنی ذات پر انھوں نے جو ظلم ڈھائے، اللہ کرے کہ انھیں آخرت میں اس کی سزا نہ بھگتنی پڑے ۔

ظلم وجبر ، معاشی بدحالی اور عمداً پھیلائی جانے والی اخلاقی تباہی کے جو گہرے اثرات معاشرتی زندگی پر مرتب ہو رہے ہیں اس کا اندازہ ۲۴ جنوری ۲۰۱۷ء کو خود جنرل سیسی کے اس خطاب سے لگا لیجیے کہ: ’’مصر میں ہر سال تقریباً ۹لاکھ افراد شادی کرتے ہیں۔ پانچ سال کے بعد   ان میں سے ۴۰ فی صد جوڑوں میں طلاق ہو جاتی ہے ‘‘۔ پھر خرابی کی اصل جڑ اور اسباب دُور کرنے کے بجاے عبقری علاج تجویز کرتے ہوئے اور سامنے بیٹھے شیخ الازھر کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’ہم قانون بنا رہے ہیں کہ عقد نکاح کی طرح طلاق دینے کے لیے بھی نکاح خواں کی موجودگی لازمی قرار دے دی جائے‘‘۔ سبحان اللہ ... وہ بات جس کے بار ے میں صاحبِ شریعت صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دار کرتے ہوئے فرمایا کہ مذاق میں بھی طلاق کا لفظ زبان سے نکالا تو وقوع پذیر ہو جائے گی۔ اسے بھی بے لگام کیا اور مذاق بنا یا جا رہا ہے۔ ہزاروں بے گناہوں کے قاتل جنرل کو جواز بغاوت فراہم کرنے والے شیخ الازہر نے اس توہین شریعت پر بھی حسب توقع چپ سادھے رکھی۔

جنرل سیسی ، بشارالاسد ، باغی حوثی قبائل، فرقہ واریت یا دین کی قاتلانہ تعبیر کی بنیاد پر تشکیل دینے والے مسلح گروہوں کی سرپرست قوتیں خدارا اب تو اپنی پالیسی پر نظرثانی کرلیں۔  کیا صرف اخوان دشمنی اور تعصبات و مفادات کے نتیجے میں تشکیل پانے والا آج کا یہ منظرنامہ بہتر ہے یا ایک ایسی دنیا کہ جس میں تمام انسان حریتِ فکر، برابری اور انصاف کے سائے میں مل کر زندگی بسر کرسکتے ہوں؟ کیا بشار اور اس کا خاندان ہمیشہ حکمران اورباقی پوری قوم ان کی غلام رہنے کے لیے ہی پیدا ہوئی ہے ؟ کیا جنرل سیسی مصری فوج کے سربراہ اور وزیر دفاع کی حیثیت سے عوام کے منتخب نظام کے تحت عزت وکامیابی کی منزلیں طے کرتا، تو صرف مصر ہی نہیں پورے خطے کا مستقبل روشن نہ ہو جاتا؟ کیا ۳۳سالہ مکمل اقتدار کے بعد علی صالح اپنے ہی نائب صدر عبد ربہ منصور کی سربراہی میں بننے والی قومی حکومت کو اقتدار سونپ کر ، حوثیوں سمیت پوری قوم کے ساتھ    امن وخوش حالی کی زندگی بسر کرتا، تو خود ان سب کی الگ الگ سرپرستی کرنے والے تمام ممالک کے لیے بھی خیر وبرکت کا سبب نہ بنتا؟

 کہا جاتا ہے کہ اس ساری تباہی کے پیچھے اغیار کا ہاتھ ہے۔ یقینا اغیار کا ہاتھ تو ہے، لیکن ان سے اس کے علاوہ اور کیا توقع رکھی جا سکتی ہے۔ وہ توپوری دنیا پر اپنے غلام مسلط کرنے کی کوشش کریں گے۔ وہ صرف اخوان یا امت مسلمہ ہی نہیں، خود اسلام کو بھی تباہ کرنا چاہتا ہے۔ وہ سیسی ، بشاراور حوثی کو بھی اسی مقصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ سیسی کی سرپرستی کرنے کے بارے میں امریکی کانگریس میں بحث ہوئی تو مصر میں امریکی سفیر این پیٹرسن (پاکستان میں بھی سفیر رہ چکی ) نے ۱۹ستمبر ۲۰۱۳ء کو کانگریس میں بیان دیا کہ ’’جنرل سیسی پوری طرح امریکی تہذیب کے رنگ میں رنگے ہوئے طبقے سے تعلق رکھتا ہے ۔ پروٹسٹنٹ مسیحی مشنریزکے سربراہ نے اپنے تازہ بیان میں کہا ہے کہ’’جنرل سیسی گذشتہ ڈیڑھ سو سالہ تاریخ میں ان کے لیے سب سے بہتر حکمران ثابت ہوا ہے۔ مصری تجزیہ نگار محمدالہامی کے مطابق ڈیڑھ سو سال قبل مصر میں سعید پاشا نامی وہ حکمران آیا تھا کہ جسے انگریز نے براہ راست اپنی تربیت میں لے کر مصر کے حکمران کے  طور پر تیار کیا تھا۔ اس نے وزارت تعلیم کا خاتمہ کرتے ہوئے تمام نمایاں پیشہ وارانہ تعلیمی ادارے بند کردیے۔ تمام تر وسائل پرائیویٹ مغربی تعلیمی اداروں کے لیے وقف کر دیے ۔ اس کا یہ بیان تاریخ کا حصہ ہے کہ ’’عوام پر حکمرانی کا آسان نسخہ یہ ہے کہ اسے جاہل رکھا جائے ‘‘۔ اسی نے نہرسویز پر مغربی اجارہ داری کی راہ کھولی تھی۔ اتفاق دیکھیے کہ آج ۲۱ویں صدی میں جنرل سیسی کا ارشاد بھی یہی ہے کہ ینفع بایہ التعلیم فی وطن ضائع ، ’’اس تباہ حال ملک میں حصول تعلیم بھلا کیا فائدہ دے گا‘‘ ۔ ۱۶-۲۰۱۵ء کی عالمی رپورٹ براے معیار تعلیم میں شامل ۱۴۰ ممالک کی فہرست میں جنرل سیسی کا مصر ۱۳۹ ویں نمبر پر آیا ہے۔ سیکورٹی کونسل میں  نئی یہودی بستیوں کی مذمت کے لیے لائی گئی قرار داد کو مصر کی جانب سے واپس لے لیے جانے کے بعد ہی نہیں ، اس سے پہلے بھی صہیونی وزیراعظم نیتن یاہو، تمام اپوزیشن رہنما اور عسکری وفکری قیادت، جنرل سیسی کی تعریف میں درجنوں بیانات دے چکی ہے۔ ان کے بقول اس سورما نے اسرائیل کو درپیش حقیقی خطرے کا ازالہ کرتے ہوئے اخوان حکومت کا خاتمہ کیا۔ صدر ٹرمپ نے بھی حلف اُٹھاتے ہی  جن پانچ عالمی سربراہان کو فون کیا ان میں جنرل سیسی اور بھارتی وزیراعظم مودی بھی شامل ہیں۔ اس پر مصری سرکاری ٹی وی پر تبصرے میں کہا گیا کہ’’جنرل سیسی نے دنیا کو اخوان کے خطرے سے بچانے کے لیے جو کام شروع کیا تھا، اللہ نے اب اس کی تکمیل کے لیے ٹرمپ کو بھیجا ہے‘‘۔    ایک طرف اغیار کی طرف سے تعریف و ستایش کے ڈونگرے اور دوسری جانب اربوں ڈالر کے ڈھیر کیا اب بھی کسی کے لیے اصل حقائق جاننا مشکل ہے ؟۔

چھے طویل برس قربانیوں اور اذیت وابتلا میں گزر گئے ، لیکن کیا اسلامی تحریک اور   اُمت مسلمہ کی منزل اس سے ہمیشہ کے لیے چھینی جا سکی؟ کیا ۲۰۰۷ء میں معروف امریکی فکری مرکز (RAND)کی یہ سفارشات کہ ’ سیاسی اسلام ‘ کا خاتمہ دنیا کی ترجیح اوّل ہونا چاہیے، خود ان پالیسی سازوں اور اس پر عمل کرنے والوں کو راہِ نجات فراہم کر سکیں ؟ اور کیا اب صدر ٹرمپ کی طرف سے ’انتہاپسند اسلام‘ کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی ’بڑ ‘ دنیا کو امن وترقی سے ہم کنار کر سکے گی ؟  ان اور ان جیسے تمام سوالات کا جواب دو ٹوک نفی میں ہے۔ اکانومسٹ کا یہی اعتراف دیکھ لیجیے کہ’’ ان چھے سال میں عالمِ عرب مزید بدتر ہو گیا لیکن وہاں کے عوام اپنی تباہی کے اصل اسباب سے زیادہ بہتر طور پر باخبر ہو گئے ہیں‘‘۔ ۲۵ جنوری کو شروع ہونے والی تحریک کے چھے برس پورے ہونے پر بلجیم کا ’پولیٹیکو ‘ اعتراف کرتا ہے کہ عوامی انقلاب کبھی ختم نہیں ہوتا ۔ مصری عوام کی جدوجہد بھی منزل تک پہنچ کررہے گی۔ پھر وہ فرانسیسی انقلاب کی مثال دیتے ہوئے کہتا ہے کہ ۱۷۸۹ء میں شروع ہونے والا یہ انقلاب ۱۷۹۹ء میں نپولین کے ہاتھوں سے گزرتا ہوا ۸۰ سال بعد ۱۸۷۰ ء میں ایک مستحکم جمہوری فرانس تشکیل دینے میں کامیاب ہوا۔

ذرا قرآن کریم کے ارشادات پر غور فرمائیے تمام ظالموں اور مظلوموں کا مستقبل واضح ہوجائے گا:

وَ لَا تَحْسَبَنَّ اللّٰہَ غَافِلًا عَمًّا یَعْمَلُ الظّٰلِمُوْنَ (ابراہیم ۱۴:۴۲) اب یہ ظالم لوگ جو کچھ کر رہے ہیں ، اللہ کو تم اس سے غافل نہ سمجھو۔

وَ نُرِیْدُ اَنْ نَّمُنَّ عَلَی الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا فِی الْاَرْضِ وَ نَجْعَلَھُمْ اَئِمَّۃً وَّ نَجْعَلَھُمُ الْوٰرِثِیْنَ(القصص ۲۸:۵) اور ہم یہ ارادہ رکھتے تھے کہ جو لوگ زمین میں ذلیل کر کے رکھے گئے تھے ان پر مہربانی کریں اور اُنھیں پیشوا بنا دیں اور اُنھی کو وارث بنائیں۔

وَ لَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبْدِیْلًا(الاحزاب ۳۳:۶۲) اور تم اللہ کی سنت میں کوئی تبدیلی نہ پائو گے۔

جماعت اسلامی کے قیام [اگست ۱۹۴۱ء] کے ساتھ ہی مولانا مودودی نے خواتین میں دعوت و تنظیم کی طرف بھی توجہ فرمائی۔ بیگم محمودہ مودودی، حمیدہ بیگم، ام زبیر اور نیر بانو وہ ابتدائی خواتین تھیں، جنھوں نے اقامتِ دین کی دعوت پر لبیک کہا۔ یوں شعوری طور پر دین کی دعوت دوسروں تک پہنچانے کے لیے ایک اجتماعیت کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا۔انھی خواتین میں بیگم نصر اللہ خان عزیز، بیگم بختاور ملک غلام علی، محترمہ خورشید بیگم اور بنتِ مجتبیٰ مینا بھی شامل تھیں۔

پاکستان بننے کے بعد چند با ہمت خواتین کے ہاتھوں قائم ہونے والی اس تنظیم نے دعوتِ دین کے مشن کو ہر سطح اور ہر معاشرتی طبقے کی خواتین تک پھیلانے کے لیے حلقہ ہاے دروسِ قرآن قائم کرنے شروع کیے۔برصغیر پاک و ہند میں اپنی نوعیت کی یہ خواتین کی پہلی تنظیم ہے۔ اسی تنظیمی ڈھانچے پر حلقہ خواتین جماعت اسلامی کی طرح دیگر مذہبی تنظیموں نے اپنے اپنے خواتین ونگ منظم کیے۔ تاہم، بنیادی نظریے اور مضبوط دستورکے سبب حلقہ خواتین کے کام کی جس قدر مختلف جہتیں تھیں، دیگر تنظیموں کا اس لحاظ سے کوئی موازنہ نہیں ہے۔

برسہا برس سے پاکستانی معاشرے میں دین کا صحیح اور شرک و بدعات سے پاک تصور پیش کرنے میں حلقہ خواتین کے حلقہ ہاے دروس کا کردار مثالی رہا ہے۔یہ سب گھریلو خواتین تھیں جو دعوتِ دین کی خاطر اپنے گھروں سے نکلیں اور گھر گھر جا کر یہ بتایا کہ دین ہماری زندگیوں سے  براہِ راست جڑا ہوا ہے۔ تبلیغِ دین کا یہ قافلہ چلا، تو پڑھی لکھی فہمِ دین کی حامل اور حالاتِ حاضرہ پر بات کرنے والی خواتین نے ’ دروسِ قرآن ‘ کے ذریعے براہِ راست قرآن کا پیغام پہنچانا شروع کیا۔ اس سے پہلے تک یہ رواج تھا کہ میلاد کی پُر تکلف محفل میں قریبی مدرسے سے چند واعظات اور کچھ نعت خواں خواتین کو بلایا جاتا تھا، یا برکت کے لیے ختم قرآن کی محفل رکھی جاتی تھی۔

لہٰذا، اگر کہا جائے کہ قیام پاکستان کے بعد پاکستانی معاشرے میں تعلیم یافتہ طبقے کی خواتین کے ہاں قرآن کا شعور بیدار کرنے کا بڑے پیمانے پر آغاز حلقہ خواتین جماعت اسلامی نے کیا تو  یہ کوئی مبالغہ آمیز بات نہیں ہوگی۔ یہ کام سالہا سال سے ہورہا ہے یہاں تک کہ اب ملک بھر کے شہری علاقوں میں شاذ ہی کوئی جگہ ہوگی، جہاں رہایشی خواتین کو اپنے قر ب و جوار میں حلقہ خواتین کا کوئی حلقۂ درس دستیاب نہ ہو۔ البتہ دیہی علاقوں کی اکثریت ابھی تک ان اثرات سے محروم ہے۔

اگرچہ کام کے اثرات کو ناپنے کے لیے ہمارے پاس کوئی حقیقت پسندانہ پیمانے نہیں ہیں، البتہ قیامِ پاکستان کے تقریباً ۷۰ برس بعد اجمالی سا جائزہ لیا جائے تو حلقہ خواتین میں افرادی قوت اور حلقہ ہاے دروس کی تعدادمیں کئی گنا اضافہ تو ضرور ہوا ہے، مگر معاشرتی اثرورسوخ کے مظاہر اس درجہ نظر نہیں آتے، جس سے فکرمندی کا لاحق ہونا فطری امر ہے۔ اس کی بے شمار وجوہ ہوسکتی ہیں، ان پر غورو خوض ہونا چاہیے۔

ارکانِ جماعت پر تحریک کی ساری عمارت کھڑی ہے۔انھی میں سے قیادت منتخب یا نامزد ہوتی ہے۔ ایسی قیادت بہترین معیار پیش کرتی ہے اور بہتر رفقا کی معیت میں منزل کی جانب گامزن ہوتی ہے۔ ہمارا حلقۂ خواتین میں سمع و طاعت کا نظام، قافلے کو خلوص اور تندہی کے ساتھ قیادت کے پیچھے چلنے کے لیے آمادہ و تیار کرتا ہے اور ان کی دینی ذمہ داری کو ان کے شعور اور لاشعور کا حصہ بنادیتا ہے۔ الحمدللہ، حلقۂ خواتین انتشار و افتراق اور مناصب کی کھینچا تانی کے نفسانی مظاہر سے پاک ہے۔

معاشرے کے باصلاحیت افراد کو اپنی صفوں میں شامل کرنے کے لیے مولانا مودودی نے معاشرے کے پڑھے لکھے اور ذہین افراد کو اپنے گرد جمع کیا تھا، کیونکہ ان کی اپنی علمی سطح اتنی بلند تھی کہ وہ قوتِ استدلال سے ان کے ذہنوں کو مطمئن اور متاثر کر سکتے تھے۔ پھر انھوں نے قریب آنے والے افراد کی علمی و اخلاقی تربیت اور نشوونما کرتے ہوئے مستقبل کی قیادت تیار کی۔ خواتین میں ان کی اہلیہ بیگم محمودہ، خواتین کی تربیت کا وسیلہ بنیں اور محترمہ حمیدہ بیگم ،محترمہ نیر بانو، محترمہ اُمِ زبیر سمیت کئی ابتدائی خواتین نے یہ فیض حاصل کیا۔

اُس زمانے میں بہت کم خواتین ابتدائی تعلیم سے آگے بڑھ پاتی تھیں۔ ایسے میں حلقہ خواتین کی تاسیسی رکن محترمہ حمیدہ بیگم عام خواتین سے کہیں زیادہ تعلیم یافتہ تھیں۔ انھوں نے ۱۹۳۶ء میں فاضل، پھر ایف اے اور ۱۹۳۹ء میں پنجاب یونی ورسٹی سے اعلیٰ پوزیشن کے ساتھ بی اے اور پھر بی ایڈ پاس کیا۔ ۱۹۴۴ء تک تدریسی خدمات انجام دیں۔ نیربانو نے میٹرک کے بعد طبیہ کالج دہلی سے طب کا تین سالہ کورس کیا اور کچھ عرصہ درس و تدریس سے وابستہ رہیں۔ نیر بانو صاحبہ ۱۹۴۴ء میں رکن بنیں اور مولانا محترم سے خط وکتابت کے ذریعے رہنمائی حاصل کرتی رہیں۔ مولانا انھیں ایک ہی کام کی ترغیب دلاتے رہے کہ پڑھیے، پڑھیے اور خوب پڑھیے۔ اُمِ زبیر محض پانچ جماعتیں پڑھی تھیں، مگر جماعت کی ذمہ داریوں اور سرگرمیوں نے انھیں اتنا نکھارا کہ انھوں نے کئی کتب تصنیف کیں۔

حمیدہ بیگم نے محترمہ رخشندہ کوکب اور صدر شعبہ علوم اسلامیہ لاہور کالج محترمہ بنت الاسلام کے ساتھ مل کر ماہنامہ بتول اور ادارہ بتول کی بنیاد رکھی، جس کا مقصد معیاری ادب کے ذریعے اعلیٰ اقدار کا فروغ تھا۔ ان خواتین نے اپنی ادبی کاوشیں بڑے اعتماد سے پیش کیں۔ خواتین رومانی و بے مقصد رسائل و جرائد کے مقابل ایک بہترین ماہ نامہ زیورِ طباعت سے آراستہ کرکے ذریعہ تعلیم و تربیت کے  طور پر چلایا۔ بیگم مودودی اپنے انداز واطوار، زبان و بیان اور حکمت سے دعوتِ دین کے میدان میں نہایت مؤثر پیش رفت کر رہی تھیں۔ 

ان خواتین کی علمی اور سماجی حیثیت کو دیکھ کر یہ بات بخوبی سمجھ میں آتی ہے کہ مولانا مودودی کے نزدیک قیادت کے لوازم کیا تھے۔ قائد اپنی ذہانت اور علمی استعداد میں اپنے زمانے کے لوگوں سے آگے ہوتا ہے۔ بصیرت اور حکمت کی خوبیاں اس نعمت کو ترقی دینے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں اور وہ مقصد و منزل کی طرف پیش قدمی کرنے کے ذرائع صحیح وقت پر استعمال کرنا بھی جانتا ہے۔ اس طرح اپنے حالات اور لوگوں کے رجحانات سے گہری آگاہی رکھتا ہے۔

علمی لحاظ سے درپیش چیلنج کی ایک بنیاد نظام تعلیم کے سماجی اثرات بھی ہیں۔ملک میں جاری دہرے نظام تعلیم کی موجودگی میں آگے بڑھنے کی حکمتِ عملی بنانے کی ضرورت ہے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ملک میں دو قسم کے نظام تعلیم دو مختلف طبقات پیدا کر چکے ہیں اور یہ  خلیج گہری ہوتی جارہی ہے۔ جدید اور نجی ادارے، مغربی انداز کی تعلیم دے کر اشرافیہ کی تشکیل کرچکے ہیں۔ گذشتہ ۲۰برسوں میں معاشرے کا فکری اور سماجی توازن بڑی تیزی سے تبدیل ہوا ہے، جس کا ادراک کرنا بھی مشکل ہے۔ صاف دکھائی دےر ہا ہے کہ نئے تعلیم یافتہ طبقات میں دینی حلقوں کا اثرورسوخ محدود تر ہوتا جارہا ہے۔

دوسری فکر انگیز حقیقت یہ ہے کہ تحریک میں نئے ا ور نوجوان خون کی شمولیت جن نرسریوں کی مرہونِ منت تھی، یعنی طلبہ تنظیمیں ، وہ بھی نجی تعلیمی اداروں میں نہ ہونے کے برابر ہیں، اور اگر  کسی نجی تعلیمی ادارے میں ہیں تو وہ انھی تعلیمی اداروں کے اپنے ماڈل کے زیراثر ہیں۔ لہٰذا، معاشرے پر اثر انداز ہونے والی قیادت وہاں سے میسر آنے کے امکانات کو اس سے مزید دھچکا پہنچا ہے۔ یہ حقیقت پیش نظر رکھنی چاہیے کہ اس وقت خواتین میں نئی ارکان کی ایک معتد بہ تعداد  ان دینی جامعات سے فارغ التحصیل ہے جو حلقہ خواتین کے تحت قائم کردہ ہیں۔ جو دُوردراز پسماندہ علاقوں کی ایسی بچیوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کی خدمت انجام دے رہی ہیں، جن کے لیے تعلیم کے اور کوئی مواقع نہیں ہیں اور کوئی سخت میرٹ بھی نہیں ہے۔یہ بلاشبہہ بہت بڑی خدمت ہے۔ یہ طالبات فطری صالحیت، نیکی اور سعادت مندی میں ملّت کا انتہائی قیمتی سرمایہ ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ان جامعات سے فارغ التحصیل ہونے والی طالبات کی نصف تعداد اپنے اپنے علاقوں میں حلقہ خواتین سے ضرور وابستہ ہوجاتی ہے۔ جو خوش آیند اور بڑا مؤثر عددی عنصر ہے لیکن معاشرے پر مجموعی طور پر اثرانداز ہونے کے لیے عصری تعلیمی پس منظر رکھنے والی خواتین کی تعداد کا بڑھنا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔

سماجی سطحوں پر دعوت اور تنظیم کے دائرے میں زیادہ وسعت نہ آنے کے باعث، حال اس انجن کی طرح ہوتا ہے جس کی ساری توانائی اپنی ہی مشینری کو رواں رکھنے میں صرف ہورہی ہوتی ہے۔ سیّدسعادت اللہ حسینی نے اس بات کو فکری لحاظ سے محدود ہونے سے ان معنوں میں بیان کیا ہے کہ ’خود ہی لکھنے اور خود ہی پڑھنے کا عمل ایک بند گروہ کے لیے تو مفید ہو سکتا ہے ، کسی زندہ اور  عالم گیر مشن رکھنے والی تحریک کے لیے ہر گز مفید نہیں ہو سکتا‘۔۱  ایسی سماجی تحدید ، پھیلائو کو سکیڑتی اور آخرکار فکری جمود کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ ایسے خطرے سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ اپنی اپنی جگہ پر محدود دائرے سے نکل کر سوچنے ، سوال کرنے، نیا خیال پیش کرنے، یہاں تک کہ پروگراموں کے موضوعات تک منتخب کرنے کی کوششیں ہونی چاہییں۔ لیکن اگر اس باب میں روایتی موضوعات تک محدود رہا جائے گا اور زند ہ مسائل و معاملات کو حُسنِ استدلال اور حُسنِ بیان سے پیش نہیں کیا جائے گا تو دعوت کا دائرہ محدود تر ہوجائے گا۔

غور کرنا چاہیے کہ پاکستانی خواتین خصوصاً تعلیم یافتہ طبقے میں درس قرآن کے حلقے متعارف کروانے اور پھیلانے کے کام پر ایک عرصے تک ہم حاوی رہے ہیں۔ اسی دوران میں خواتین کی نئی بننے والی تنظیموں نے تعلیم دین کے نئے ڈھانچے متعارف کروائے اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک وسیع حلقے پر اثر انداز ہوئیں۔ دیکھنا ہوگا کہ ہمارے حلقوں میں وسعت کے لیے کن چیزوں کی ضرورت ہے۔ تنظیمی رویوں کا ماہر جم کولنز لکھتا ہے کہ کامیاب تنظیموں کے انجماد کا آغاز دراصل   ان کے ہاں کامیابی کا احساس ہوتا ہے۔ جب وہ بہترین معیار کو یقینی بنائے بغیر محض اپنے پھیلاؤ کو اہمیت دینے لگتی ہیں، تب وہ تخلیقی جوہر کو جو انھیں یہاں تک لایا تھا، اسے چھوڑ کر تبدیلی کی راہ میں مزاحم ہو جاتی ہیں۔۲

یہ کمی اس وقت زیادہ محسوس ہوتی ہے جب ہم دوسرے ملکوں کی ان اسلامی تحریکوں کی خواتین کا اپنے سے موازنہ کرتے ہیں، جن کا اپنے اپنے معاشروں میں اثرورسوخ ہم سے زیادہ ہے اور وہ دنیاوی پیمانوں سے بھی کامیابی کے کسی درجے پر ہیں۔ ان میں اخوان المسلمون، پاس، اے کے پارٹی اور النہضہ سر فہرست ہیں۔انھوں نے بڑی تیزی سے بدلتے ہوئے عالمی اور قومی حالات کے ساتھ مطابقت پیدا کی ہے۔

 میری ناچیز راے میں ہمیں ایک طویل المیعاد منصوبے کے تحت مستقبل کی قیادت کے لیے حسب ذیل اقدامات کرنے کی ضرورت ہے:

۱- ارکان کی علمی و فنی استعداد کو بڑھانے اور معیاری بنانے کے لیے ٹھوس منصوبہ بندی ہونی چاہیے۔

۲- شعبہ تربیت کو جدید خطوط پر استوار کرتے ہوئے ارکان کو انفرادی علمی و ذہنی نشوونما کے لیے ہدف اور رہنمائی دی جائے۔ مختلف النوع شعبہ جات میں پھیلتے ہوئے کاموں میں ماہرین مہیا کرنے کے لیے ارکان کی تعلیمی استعداد بڑھا ئی جائے۔ اس لحاظ سے آگے کچھ کرنے کے   چند راستے یہ ہیں:

  •  سائنسی و انتظامی مضامین کے علاوہ سماجی علوم اور علوم انسانی کی طرف توجہ کی ضرورت ہے۔ عمرانیات، نفسیات، فلسفہ، علم اصناف، ویمن سٹڈیز، ابلاغیات، کلچرل سٹڈیز، سیاسیات، تاریخ اور اقبالیات کے وسیع میدان موجود ہیں۔
  •  اگر زبان و ادب اور فنون لطیفہ کی طرف رجحان ہے تو اردو، عربی اور انگریزی زبان و ادب، لبرل آرٹس اور بصری وسائل کی ترقی کے شعبہ جات اچھا انتخاب ہوسکتے ہیں۔
  •  علوم دینیہ میں تقابلِ ادیان آج کے دور میں بہت اہم میدان ہے۔ عام یونی ورسٹی سے ایم اے اسلامیات دین کا گہرا ذوق پیدا نہیں کرپاتا۔ اس میں گہرائی پیدا کرنے کے لیے سنجیدہ تعلیمی و تربیتی مواقع کے علاوہ بیرونِ ملک اچھی یونی ورسٹیوں سے اسلامک اسٹڈیز میں تخصص، تحقیق، تقابل اور مکالمے کی زیادہ اچھی صلاحیت پروان چڑھ سکتی ہے، اگر ایسا کرنا ممکن ہو تو ضرور استفادہ کرنا چاہیے۔۳  مذکورہ بالا مضامین میں سے کسی میں بھی تخصیصی ڈگری لی جا سکتی ہے ۔ براہِ راست ایم فل میں بھی داخلہ لیا جا سکتا ہے ۔ تاہم اس درجے میں ذریعۂ تعلیم عربی یا انگریزی ہو تو کہیں زیادہ بہتر ہوگا۔

۳- اس کے ساتھ دورِ جدید کی مہارتیں حاصل کر نا بھی ایک لازمی ضرورت ہے۔ جن میں کمپیوٹر کے ورڈ (اردو انگریزی)، ایکسل، پاور پوائنٹ ، ان پیج، مائکرو سوفٹ آؤٹ لک پروگرام کی آگاہی اور مشق۔ اُردو انگریزی اور عربی میں رابطے ، بول چال کی عربی اور انگریزی، شماریات کے بنیادی تصورات (بشمول گراف)، دنیا کا نقشہ، بنیادی جغرافیے سے آگاہی۔ دنیا کی تین ہزار سال تک کی تاریخ کا بنیادی علم، حالاتِ حاضرہ پر گرفت، اسلامی تحریک کی تعلیم یافتہ ارکان کو آنی چاہییں۔  ان کے علاوہ اگر کوئی اپنی صلاحیت بڑھانا چاہے تو بزنس اینڈ کامرس، مینجمنٹ، شماریاتی تجزیہ، ڈاکیومنٹری میکنگ، انگلش رائٹنگ، ویب ڈیزائننگ ان کے شارٹ کورسز لیے جا سکتے ہیں۔ یہ کورسز اچھی یونی ورسٹیاں آن لائن بھی پیش کرتی ہیں اور ان کا معیار اورقدروقیمت دونوں بہتر ہوتے ہیں۔

۴- ذہنی اُفق وسیع کرنے اور معاشرے میں ہر طرح کے ذہن کو مخاطب کرنے کے لیے درج ذیل اقدامات فائدہ دیں گے:

  •  دعوت کے میدان میںبین الاقوامی سطح پر معروف اور مقبول ہونے والے صحیح العقیدہ مدرسین کے دروسِ قرآن سے استفادہ کرنے کی ترغیب دلائی جائے۔
  •  پاکستانی خواتین میں مختلف مقاصد کے لیے کام کرنے والے گروہوں سے آگاہی حاصل کرکے اپنے اجتماعات میں پیش کی جائے۔
  •  معاصر مسائل پر مکالمے کی تربیت دی جائے۔
  •  مؤثر ابلاغ (کمیونی کیشن) کے لیے کم وقت میں مؤثر خطبے دینے اور عام فہم بات کرنے کے طریقے سیکھے اور سکھائے جائیں۔

یہ دور دین کے نام لیواؤں کے لیے ہر جگہ آزمایش کا دور ہے اور اس کی شدت، وقت کے ساتھ کم نہیں ہورہی بلکہ بڑھ رہی ہے۔ ہماری تیاری میں یہ احساس جھلکنا چاہیے کہ ہمیں قلب و ذہن کی پوری صلاحیتیں لگا کر ان حالات میں اپنا فرض ادا کرنے کے راستے تلاش کرنے چاہییں۔

حواشی

۱-            تحریک اسلامی اور فکری چیلنج، سیّد سعادت اللہ حسینی ، ماہ نامہ عالمی ترجمان القرآن، دسمبر ۲۰۱۵ء

2-            How the Mighty Fall, Jim Collins, Businessweek, May 2009

3-            Use of Modern Media by Female Religious Groups in Pakistan, MPhil dissertation, Saima Esma, 2014, Punjab University database.

طلاق کے بعد بیوی سے ہدیہ واپس لینا

سوال: میرے بیٹے کی شادی اپنے رشتہ داروں میں ہوئی، لیکن بعض گھریلو مسائل کی وجہ سے ناچاقی پیدا ہوگئی۔ میرے بیٹے نے بالآخر اپنی بیوی کو طلاق دے دی، اور والدین نے جہیز میں جو سامان دیا تھا واپس کر دیا۔ صرف ساس نے جو زیور لڑکے کی طرف سے دیا گیا تھا وہ رکھوا لیا۔ ساس کا یہ کہنا تھا کہ ’’سال ڈیڑھ سال میں جو کچھ ا س نے خرچ کیا ہے وہ اس زیور سے کہیں زیادہ ہے‘‘۔قرآنِ پاک میں ہے: طلاق دو بار ہے۔ پھر یا تو سیدھی طرح عورت کو روک لیا جائے یا بھلے طریقے سے رخصت کر دیا جائے۔ اور رخصت کرتے ہوئے ایسا کرنا تمھارے لیے جائز نہیں ہے کہ جو کچھ تم انھیں دے چکے ہو، اس میں سے کچھ واپس لے لو‘‘ (البقرہ ۲:۲۲۹) ۔اس آیت کی تفسیر میں مولانا مودودی نے لکھا ہے: ’’یعنی مہر اور زیور اور کپڑے وغیرہ جو شوہر اپنی بیوی کو دے چکاہو، ان میں سے کوئی چیز بھی واپس مانگنے کا اسے حق نہیں ہے۔ یہ بات ویسے بھی اسلام کے اخلاقی اصولوں کی ضد ہے کہ کوئی شخص کسی ایسی چیز کو، جسے وہ دوسرے شخص کو ہبہ یا ہدیہ و تحفہ کے طور پر دے چکا ہو، واپس مانگے۔ اس ذلیل حرکت کو حدیث میں اس کتے کے فعل سے تشبیہہ دی گئی ہے، جو اپنی ہی قے کو خود چاٹ لے۔ مگر خصوصیت کے ساتھ ایک شوہر کے لیے تو یہ بہت ہی شرم ناک ہے کہ وہ طلاق دے کر رخصت کرتے وقت اپنی بیوی سے وہ سب کچھ رکھوا لے جو اس نے اسے کبھی خود دیا تھا۔اس کے برعکس اسلام نے یہ اخلاق سکھائے ہیں کہ آدمی جس عورت کو طلاق دے، اُسے رخصت کرتے وقت کچھ نہ کچھ دے کر رخصت کرے‘‘۔ (تفہیم القرآن، جلد اوّل، ص ۱۷۵)

حدیث کے مطابق یہ بڑی سخت وعید ہے۔ پوچھنا یہ ہے کہ حدیث میں جو بیان کیا گیا ہے اس کے مطابق لڑکی کو وہ زیورات جو ساس نے رکھوا لیے تھے واپس دے دینا چاہییں یا نہیں؟ میرا خیال ہے کہ زیورات کی قیمت سنار سے لگوا لی جائے اور یہ رقم یک مشت یا ۱۰ہزار ماہانہ کے حساب سے لڑکی کو دے دی جائے۔ آخرت کے عذاب سے بچنے کے لیے یہ رقم واپس کرنا کچھ مہنگا سودا نہیں ہے۔ قرآن و سنت کی روشنی میں رہنمائی فرما دیجیے۔

جواب:ازدواجی تعلق کو قرآن کریم نے ’میثاق غلیظ‘ (النساء۴:۲۱) یعنی’ مضبوط معاہدہ‘  سے تعبیر کیاہے۔دو اجنبی مرد و عورت نکاح کے بندھن میں بندھتے ہیں تو ان کے درمیان غایت درجہ کی محبت پیداہوجاتی ہے۔ اس تعلق کے نتیجے میں اگرچہ دونوں ایک دوسرے سے فائدہ اٹھاتے اور لطف اندوز ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کی مدد اور تعاون سے زندگی گزارتے ہیں، لیکن اسلام نے مالی معاملات کی تمام تر ذمہ داری مرد پر عائد کی ہے اور عورت کو اس سے مستثنیٰ رکھاہے۔ مرد عورت کو مہر ادا کرتاہے، اسے رہایش فراہم کرنے کی ذمہ داری لیتاہے، اس کا نفقہ برداشت کرتاہے، اسے خوش رکھنے کے لیے تحفے تحائف دیتاہے،وغیرہ۔

اگر کسی وجہ سے رشتۂ نکاح پایدار نہ رہ سکے اور زوجین کے درمیان تنازع کے سر ابھارنے اور مسلسل جاری رہنے کی بنا پر نوبت علیٰحدگی تک پہنچ جائے تو شریعت کا منشا یہ معلوم ہوتاہے کہ شوہر ازدواجی زندگی کا لطف اٹھاتے ہوئے بیوی کو جو کچھ دے چکا ہو، اسے واپس لینے کی خواہش     نہ رکھے اور اس کی کوشش نہ کرے۔صرف ایک صورت اس سے مستثنیٰ رکھی گئی ہے۔ وہ یہ کہ شوہر کے علاحدگی نہ چاہنے کے باوجود بیوی کسی منافرت کی بنا پر رشتہ منقطع کرنے پر مصر ہو اور خلع چاہے تو شوہر اپنی دی ہوئی چیزیں (مہر وغیرہ)واپس لے سکتاہے۔سورئہ بقرہ، آیت ۲۲۹ ، جس کا ابتدائی حصہ اوپر سوال میں بھی نقل کیاگیاہے ، اس میں اس کی صراحت موجود ہے اور استثنا کا بھی ذکر ہے کہ اس صورت میں’’یہ معاملہ ہوجانے میںکوئی مضائقہ نہیں کہ عورت اپنے شوہر کو کچھ معاوضہ  دے کر علاحدگی حاصل کرلے۔‘‘آیت کا آخری حصہ بہت اہم اور رونگٹے کھڑے کر دینے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے:  تِلْکَ حُدُوْدُ اللّہِ فَلَا تَعْتَدُوْہَا وَمَن یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّہِ فَأُولٰٓـئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ (البقرہ۲:۲۲۹)’’یہ اللہ کی مقرر کردہ حدود ہیں، ان سے تجاوز نہ کرو اور جو لوگ حدودِ الٰہی سے تجاوز کریں وہی ظالم ہیں‘‘۔

مردوں کو عورتوں کے ساتھ احسان کا معاملہ کرنے، ان کے معاملے میں اپنا حق چھوڑدینے، بلکہ علاحدگی کے وقت بھی انہیں کچھ دے دلا کر رخصت کرنے کی ہدایات قرآن کریم میں دیگر مقامات پر بھی دی گئی ہیں۔مثلاًسورئہ بقرہ (آیت ۲۳۷ )میں ایک مسئلہ یہ بتایاگیاہے کہ ’’اگرتم نے ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دے دی ہو، لیکن مہر مقرر کیا جاچکا ہو، تو اس صورت میں نصف مہر دینا ہوگا۔ یہ اور بات ہے کہ عورت نرمی برتے (اور مہر نہ لے) یا وہ مرد جس کے اختیار میں عقد ِ نکاح ہے، نرمی سے کام لے (اور پورا مہر دے دے)۔اِلّا یہ کہ عورت نرمی برتے اور مہر نہ لے، یا مرد نرمی سے کام لے اور پورا مہر دے دے‘‘۔یہ مسئلہ بتادینے کے بعد آگے مردوں کو مخاطب کرکے کہاگیاہے:وَاَنْ تَعْفُوْٓا اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی ط وَلَا تَنْسُوَا الْفَضْلَ بَیْنَکُمْ ط اِنَّ اللّہَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ o(البقرۃ۲:۲۳۷)’’اور تم (یعنی مرد) نرمی سے کام لو تو یہ تقویٰ سے زیادہ مناسبت رکھتاہے۔ آپس کے معاملات میںفیاضی کو نہ بھولو۔ تمہارے اعمال کو اللہ دیکھ رہا ہے‘‘۔ سورۂ نساء (۴:۱۹) میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَلاَ تَعْضُلُوْہُنَّ لِتَذْہَبُوْا بِبَعْضِ مَآ اٰتَیْتُمُوْہُنَّ ’’اور نہ یہ حلال ہے کہ انھیں تنگ کرکے اس مہر کا کچھ حصہ اُڑا لینے کی کوشش کروجو تم انھیں دے چکے ہو‘‘۔ اگلی آیت میں تو صریح الفاظ میں ممانعت کی گئی ہے: وَاِنْ اَرَدْتُّمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَّکَانَ زَّوْجٍ وَ اٰتَیْتُمْ اِحْدٰاہُنَّ قِنطَارًا فَلَا تَأْخُذُوْا مِنْہُ شَیْئًا ط اَتَاْخُذُوْنَہُ بُہْتَانًا وَّاِثْـمًا مُّبِیْنًا(النساء۴:۲۰)’’اور اگر تم ایک بیوی کی جگہ دوسری بیوی لے آنے کا ارادہ ہی کرلو تو خواہ تم نے اسے ڈھیر سا مال ہی کیوں نہ دیا ہو، اس میں سے کچھ واپس نہ لینا۔ کیا تم اسے بہتان لگاکر اور صریح ظلم کرکے واپس لوگے؟‘‘

ان آیات کی تفسیر میں عموماً مفسرین نے لکھا ہے کہ جس مال کو واپس نہ لینے کا حکم دیا گیاہے اس سے مراد مہر کی رقم ہے۔ لیکن آیات میں جس طرح کا عمومی انداز اختیار کیاگیاہے، اس سے ان مفسرین کی بات زیادہ مناسب معلوم ہوتی ہے جو کہتے ہیں کہ اس میں مہر کے ساتھ شوہر کی جانب سے دی گئی دیگر چیزیں بھی شامل ہیں۔مثلاًزیور، لباس، نقدی اور دیگر تحائف۔

علامہ قرطبیؒ نے لکھا ہے:ــ’’اس آیت میں شوہروں سے خطاب ہے۔انھیں منع کیا گیا ہے کہ وہ بیویوں کو نقصان پہنچانے کے لیے ان سے کچھ طلب کریں۔ یہاں خاص طور پر یہ بات کہی گئی ہے کہ انھوں نے بیویوں کو جو کچھ بھی دیا ہو اسے واپس نہ مانگیں۔ اس لیے کہ لوگوں کا عُرف یہ ہے کہ تنازع اور بگاڑ کے وقت آدمی وہ سب مانگنے لگتا ہے جو اس نے عورت کو دیا تھا، چاہے وہ مہر ہو یا تحائف۔ اسی لیے یہاں خاص طور سے عام انداز اختیار کیا گیا ہے۔‘‘(الجامع لاحکام القرآن، مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت،۲۰۰۶ء،۴؍۷۳)

بعض اُردو مفسرین نے بھی یہی بات لکھی ہے۔ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کا اقتباس اوپر سوال میں موجود ہے۔مولانا امین احسن اصلاحیؒ نے لکھا ہے:’’ظاہر ہے کہ اس سے نان نفقہ اور مہر وغیرہ کی قسم کی چیزیں مراد نہیں ہوسکتیں، اس لیے کہ یہ چیزیں تو عورت کا حق ہیں۔ ان کو واپس لینے یا کرنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔اس وجہ سے اس سے لازماً وہ چیزیں مراد ہیں جو بطور تحفہ وغیرہ دی گئی ہوں۔ ان چیزوں کے بارے میں فرمایا کہ طلاق ہوجانے کے بعد مرد کے لیے یہ زیبا نہیں ہے کہ وہ ان کا حساب کتاب کرنے بیٹھ جائے۔ اس ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ اس قسم کی خسّت اس فتوّت اور بلندحوصلگی کے منافی ہے جو ایک مرد میں ہونی چاہیے۔ چنانچہ عورتوں کے معاملے میں قرآن نے مردوں کو اس  فتوّت کی طرف ایک سے زیادہ مقامات میں توجہ دلائی ہے،خاص طور پر تعلقات کے منقطع ہوجانے کی صورت میں‘‘۔(تدبرقرآن،فاران فاونڈیشن لاہور، ۲۰۰۹ء، ۱/۵۳۵، تفسیر البقرۃ:۲۲۹)

مولانا شمس پیر زادہ نے لکھا ہے:ـ’’طلاق کی صورت میں مرد کو نہ مہر واپس طلب کرنا چاہیے اور نہ وہ تحفے تحائف جو اس نے بیوی کو دیے ہوں،کیوں کہ دی ہوئی چیز کو واپس لینا، جب کہ مرد خود عورت کو چھوڑ رہاہو، اخلاقاً صحیح نہیں ہے اور مہر تو عورت کا حق ہی ہے ،اس لیے اس کو واپس لینے کا سوال پیدا ہی نہیں ہوتا‘‘(دعوۃ القرآن،تفسیر البقرۃ:۲۲۹)

بعض فتاویٰ میں کہا گیا ہے:’’ مسئلہ کا دارومدار ’عُرف‘ پر ہے۔عام طور پر ہماری طرف کا جو عُرف ہے وہ یہ ہے کہ خاوند کی طرف سے جو زیورات بیوی کو دیے جاتے ہیں، اس کا مالک شوہر ہی رہتا ہے، عورت اسے عاریۃًا ستعمال کرتی ہے۔ جہاں یہ ’عُرف‘ ہو، وہاں شوہر اپنے زیورات کو واپس لے سکتا ہے۔‘‘(فتاویٰ دار العلوم دیوبند،۸؍۳۶۷، مسائل جہیز) اگر واقعی کسی جگہ کا   یہ’عُرف‘ ہو تو اس کے مطابق طلاق کے بعد شوہراپنے دیے ہوئے زیور کو واپس لے سکتا ہے، لیکن اس معاملے میں شریعت کے مزاج اور قرآن کریم کی صریح ممانعت کو دیکھتے ہوئے بیوی کو دیے گئے زیور کو واپس نہ لینا پسندیدہ ہے۔

صورتِ مسئولہ میں لڑکی کو شوہر کی طرف سے دیے گئے جو زیور طلاق کے بعد اس کے سسرال والوں نے رکھوا لیے ہیں، انھیں لڑکی کو واپس کردینا چاہیے۔اگر اب کسی وجہ سے اس کی واپسی ممکن نہ ہو تو اس کی رقم ادا کردینی چاہیے۔ البتہ رقم کا اعتبار وقت ِ خرید کا نہ ہوگا، بلکہ اِس وقت (presently)  بازار میںاس زیور کی جو قیمت ہو وہ ادا کی جائے گی۔(مولانا محمد رضی الاسلام ندوی)


قرآنی سپارہ پھینکنے کا گناہ

س : جب میری عمر تقریباً ۱۸، ۲۰ سال تھی۔ تو میں نے غصے کی وجہ سے سپارہ پھینک دیا تھا، جس کی وجہ سے بہت پریشان رہتا ہوں، اور اس گناہ کا ملال مجھے رہتا ہے اور نماز میں بھی توبہ کرتا رہتا ہوں۔ آپ سے درخواست ہے کہ مجھے اس گناہ اور پریشانیوں سے نجات کا حل بتائیں۔

ج:  قرآنِ مجید کو پھینکنا اور اس کی بے حُرمتی کرنا انتہائی گستاخی اور بہت بڑا گناہ ہے اور بعض صورتوں میں تو اس سے کفر لازم آتا ہے۔ کوئی مسلمان اس کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا، لیکن اس کے باوجود اللہ تبارک وتعالیٰ نے اعلان فرمایا ہے کہ: موت سے پہلے پہلے جو شخص بھی اپنے گناہوں سے سچی توبہ کرلے گا، تو اللہ تعالیٰ اس کے تمام گناہ معاف فرما دے گا، چاہے وہ گناہ کتنے ہی بڑے کیوں نہ ہوں۔ لہٰذا، اگر آپ نے اللہ تعالیٰ سے صدقِ د ل سے اپنے اس فعل پر معافی مانگ لی اور احتیاطاً تجدید ایمان بھی کرلیاہو، تو اللہ تعالیٰ کی رحمت سےاُمید رکھیں کہ وہ آپ کو معاف فرما دے گا۔ مزید دل کے اطمینان کے لیے قرآنِ مجید کی کسی خدمت کو اپنا شعار بنا لیں۔ اس سے ان شاء اللہ آپ کو دلی اطمینان ہوگا، اور غلطی کا بھی ازالہ ہوجائے گا۔(مولانا  محمد   حسان   اشرف   عثمانی)

اسلام میں غلامی کا تصور ، از ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر، ناشر: قرطاس ، فلیٹ ،۱۵۔اے، گلشن امین ٹاور، گلستان جوہر، بلاک ۱۵، کراچی۔ فون : ۳۸۹۹۹۰۹۔۰۳۲۱۔ صفحات: ۱۹۲۔ قیمت :۲۰۰روپے۔

اسلام کے مدِ مقابل وہ تمام قوتیں ، چاہے مذہبی ہوں یا فکری وسیاسی ، نئے نئے عنوانوں سے اسلام کو نشانہ بناتی ہیں۔ ان کے سو فہم کا چاہے کتنے ہی مدلل اور مسکت اسلوب میں جواب دیا گیا ہو، وہ اپنے کینہ پرور مزاج کے بل پر ان دلائل کو اس طرح نظر انداز کر کے ، الزامی حملے کرتی ہیں گویا کوئی جواب دیا ہی نہیں دیا گیا۔ایسی الزام تراشی کے ترکش کا ایک تیر ’ اسلام میں غلامی‘ ہے۔

اسلامی تاریخ کی ممتاز استاد ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر نے زیر نظر کتاب میں مغرب اور اس کے زیر اثر ’دانش‘ کی اسی الزامی مہم کا تجزیہ کیاہے۔ عصرِ حاضر کی مغربی دانش قدیم یونانی تہذیب کو   اپنا سرچشمۂ ہدایت سمجھتی ہے، اور ’’یونانی دانش ور غلامی کو انسانی المیہ سمجھنے کے بجاے قانون فطرت سمجھتے تھے ‘‘ (ص۲۹) ۔مصنفہ نے قدیم (یونانی ، رومی، برہمنی ،عربی ) معاشروں میں غلامی کی روایت اور اس کے انسانیت سوز چہرے کا جائزہ (ص۱۳۔ ۷۸) لیتے ہوئے بتایا ہے کہ اسلام نے کس طرح انسانوں کی غلامی کے اس باب کو بند کرنے کی حکمتِ عملی متعارف اور نافذ کرائی۔

انھوں نے نوآبادیاتی دور میں لکھی گئی معذرت خواہانہ کتب کے استدلال کو دہرانے کے بجاے، حملہ آور بیانیے کا ٹھوس حقائق کی روشنی میں تجزیہ کیا ہے اور اسلام کا موقف دلائل ونظائر کے ساتھ بخوبی بیان کیا ہے۔ اگرچہ عمومی سطح پر یہ موضوع زیر بحث نہیں لایا جاتا، مگر جدید تعلیمی اداروں میں اسلام اور غلامی کو ایک من پسند ہتھیار کی حیثیت سے استعمال کرنے کاطرزِ عمل دیکھنے میں آتا ہے۔ یہ کتاب ایسی فریب خوردگی اور فریب دہی کا ایک مؤثر جواب ہے۔ (سلیم منصور خالد ) 


تعلیم ،امن اور اسلام، ترتیب : مجلس تحقیقات اسلامی۔ ناشر: المصباح ،۱۶- اُردو بازار لاہور۔ صفحات:۱۶۸۔قیمت: درج نہیں۔

اسلام کے لفظ ہی میں سلامتی، امن ،اور عدل کا پیغام موجود ہے۔ لیکن مغرب، اس کی حلیف قوتوں اور مسلم اقوام میں غلامانہ ذہنیت کے حامل نام نہاد دانش وروں نے بے وجہ، اسلام پر یلغار کا ماحول پیدا کر رکھا ہے۔

’مجلس تحقیقات اسلامی‘ نے رضا کارانہ طور پر علمِ حدیث ،فقہ ،تاریخ، اسلام و مغرب کی کش مکش اور استشراق کے موضوعات کو مدِنظر رکھتے ہوئے یہ حکمت عملی طے کی ہے کہ مناظرانہ یا مبارزت پر مبنی اسلوب میں اُلجھنے کے بجاے ، مثبت طور پر دین اسلام کی منشاء ومرضی کو نئی نسل کے سامنے پیش کیا جائے۔ اس مجلس میں تمام مکاتب ِفکر کے جید علما اور جدید علوم کا فہم رکھنے والے سماجی علوم کے ماہرین شامل ہیں جو مولانا سمیع الحق ،مفتی منیب الرحمن ،مولانا محمد حنیف جالندھری، مولانا عبدالمالک ،مولانا راغب حسین نعیمی، مجتہد سید نیاز حسین نقوی، ڈاکٹر سفیر اختروغیرہ پر مشتمل ۲۶ رکنی ٹیم ہے۔

مذکورہ مجلس نے اعلیٰ ثانوی(انٹر میڈیٹ ) درجے کے طالب علموں کے لیے یہ مجموعہ بطور درسی کتاب مرتب کیا ہے۔ جو پیش کش میں دیدہ زیب ، اور موضوعات ومباحث میں مؤثر ابلاغی لوازمے پر مشتمل ہے۔ اس کے ۱۴؍ ابواب میں: اختلاف راے، تنازع، تشدد ،حقوق العباد،  آئینِ پاکستان، فرقہ واریت کا سدباب وغیرہ موضوعات شامل ہیں۔ ہر باب میں معلومات کی فراہمی کے بعد نئے الفاظ کے ذخیرے، مشق اور سوالات کو شامل کیا گیا ہے، تا کہ طالب علم پڑھے جانے والے سبق کو نہ صرف سمجھ سکے، بلکہ خود اختیاری جانچ سے اپنی معلومات کو پرکھ بھی سکے۔  درسی سطح پر یہ ایک کامیاب کوشش ہے، جس کا استقبال کیا جانا چاہیے۔ (س م خ)


سیکولرزم ایک تعارف، ڈاکٹر شاہد فرہاد۔ناشر: کتاب محل، دربار مارکیٹ، لاہور، فون: ۸۸۳۶۹۳۲۔۰۳۲۱۔ صفحات :۲۱۴۔قیمت درج نہیں۔

ہر دور کے فتنے اپنی حشر سامانیاں لیے ،چراغِ مصطفویؐ سے اُلجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور آخر فنا کے گھاٹ اتر جاتے ہیں۔ عصر حاضر کے ایسے ہی ایک فتنے کا نام سیکولرزم ہے۔ اس فتنے کو نظریہ کہنا ، خود لفظ نظریہ کی توہین ہے۔ وجہ یہ کہ سیکولرزم کا عملی زندگی میں مطلب یہ ہے کہ : ’’تم آزاد ہو، جو چاہو سو کرو۔ ان مادی وسائل اختیارات کو جس طرح چاہوسو برتو، کوئی روک رکاوٹ نہیں‘‘۔

ڈاکٹر شاہد فرہاد نے اس کتاب میں ،دین اور اخلاق ،انسانی تہذیب اور تمدن کو چیلنج کرنے والے اس وحشی نظریے کو سمجھنے ،پرکھنے اور عام فہم زبان میں پیش کرنے کی مؤثر اور کامیاب کوشش کی ہے۔

موضوعات کے پھیلائو اور نظائر کے انبار سے اَٹے اس موضوع کو اختصار اور صحت کے ساتھ پیش کرنا ایک مشکل کام تھا جسے بڑی خوبی سے انجام دیا گیا ہے، اور سیکولرزم کا حقیقی چہرہ اور اس کے طریقِ واردات کو وضاحت سے پیش کیا گیا ہے۔ (س م خ )


تعارف کتب

o شہید پاکستان ، تذکرہ مطیع الرحمٰن نظامی ، مرتبہ : عباس اختر اعوان، ناشر :اذان سحر پبلی کیشنز،   منصورہ ملتان روڈ لاہور۔ فون: ۴۷۰۸۰۲۴-۰۳۲۱۔صفحات: ۴۱۶۔قیمت: ۴۵۰روپے۔بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے امیر جناب مطیع الرحمٰن نظامی کو جھوٹے مقدمے ،جعلی عدالت اور انصاف کے قتل کے ذریعے پھانسی دی گئی۔ جناب نظامی کی شہادت کے بعد پاکستان کے مختلف اخبارات میں جو کالم شائع ہوئے ،انھیں اس مجموعے میں شامل کیاگیا ہے۔ ان کالموں میں دردِ دل کی کسک اور قومی بے حسی کا ماتم ہے۔

o کیا موت اصل زندگی کا آغاز ہے،ڈاکٹر امیر فیاض پیر خیل ، ناشر:گائوں قمبر ،تحصیل سیدوشریف،   ضلع سوات۔ فون:۹۲۷۹۲۳۹-۰۳۴۶۔صفحات: ۳۲۲۔قیمت درج نہیں۔ مصنف کا تعلق سوات کے ایک علمی اور تصوف سے وابستہ خاندان سے ہے۔ جنھوں نے اقامت ِ دین کے قافلے سے وابستگی اختیار کرتے ہوئے اپنے علم وفکر اور تعلقات کی پوری دنیا کو خدمت ِ دین سے منسوب کر دیا ہے۔ اس کتاب میں مصنف نے کتاب کے موضوع سے متعلق اپنے حامل مطالعہ کو واقعات اور مباحث کی شکل میں پیش کیا ہے۔

oمجلہ الصراط،سوات: مدیراعلیٰ:مولانا صاحب احمد میدانی ،مدیر: محمد صدیق سواتی، ناشر: جامعہ صراط الجنتہ بلوگرام، سوات ۔فون : ۸۳۰۴۵۰۰۔۰۳۰۶ ۔[خیبر پختونخوا اور متصل علاقوں پر اللہ تعالیٰ کی خصوصی عنایت ہے کہ یہاں دینی تعلیم کی طلب اور دینی تعلیم کے مواقع پاکستان کے دوسرے علاقوں کی نسبت کہیں زیادہ ہے۔ پھر یہ کہ درس وتربیت سے ایک قدم آگے بڑھ کر دینی صحافت اور تحریر وتحقیق کا ذوق بھی پایا جاتا ہے۔ جس کی ایک تازہ مثال مجلہ الصراط    کا یہ پہلا شمارہ ہے ، جو حُسنِ ترتیب کے ساتھ شُستہ اُردو میں شائع ہوا۔  اللہ کرے یہ باقاعدگی سے شائع ہو اور نوجوان اہلِ قلم کی تربیت کا گہوارہ ثابت ہو۔]

غازی امان اللہ خان ، گوجرانوالہ

مولانا مودودی ؒ کا درسِ قرآن ’جنات کی حقیقت‘ (جنوری ۲۰۱۷ء) شائع ہوا۔ اس کی تیسری سطر میں درس کے مرتب کی غلطی سے پروف میں غلطی در آئی ہے: ’سورئہ قٓ میں آتا ہے‘ حالاں کہ مولانا نے ’سورئہ احقاف میں آتا ہے‘ بولا ہے، جس کا پارہ ۲۶ کی آیات ۲۹ تا ۳۱ میں ذکر ہے۔ گویا کہ ریکارڈنگ میں سورئہ احقاف ہی ہے۔میں ذاتی طور پر جامع مسجد قلعہ گوجرسنگھ میں ریکارڈنگ کے لیے جاتا رہا ہوں، بلکہ ایک بار تاخیر ہوگئی۔  حفیظ الرحمٰن احسن صاحب کے ٹیپ ریکارڈر سے ایک درس ریکارڈ کرکے لایا تھا۔ ’مذہب کی تبدیلی کیوں؟‘ ڈاکٹر بی آر امبیدکر کا مضمون وقت کی ضرورت ہے۔ جناب عبدالغفار عزیز کا ’شام لہو رنگ سرزمین‘ بہت دردناک ہے۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اہلِ اسلام کے مصائب و مشکلات کو آسانی میں تبدیل کردے۔


راجا محمد عاصم ، موہری شریف، کھاریاں

اشارات: ’تعلیم اور معاشرتی انقلاب کی راہ‘ (جنوری ۲۰۱۷ء) میں ڈاکٹر انیس احمد نے تعلیم کی اہمیت کو نہایت خوب صورت طریقے سے واضح کیا گیا ہے۔ تعلیمی شعور اور آگہی کے ذریعے نہ صرف ہمارے اندر معاشرتی انقلاب برپا ہوسکتا ہے بلکہ ہماری آخرت بھی سنور سکتی ہے۔

ڈاکٹر جہاں زیب ، لاڑکانہ ۔ پروفیسر احمد کمال،بہاول پور۔  طاہرہ عظیم ،سیالکوٹ

ترجمان القرآن (دسمبر ۲۰۱۶ء) میں ڈاکٹر صفدر محمود کا مضمون’سقوطِ ڈھاکہ: چند حقائق اور دوقومی نظریہ‘تاریخ اور معلومات کا خزانہ ہے۔ ہماری نئی نسل تو ایک طرف اچھے خاصے استاد، پروفیسر اور صحافی بھی ان معلومات سے بے خبر ہیں۔ محترم ڈاکٹر صاحب کی تحریریں قارئینِ ترجمان  کو تحریکِ پاکستان اور تاریخِ پاکستان سے آگاہ کرنے کا ذریعہ بنیں گی۔


وحید الدین سلیم ، حیدرآباد دکن

عزیز دوست اور بھائی مسلم سجاد کے انتقال کی خبر ہمارے لیے شدید دُکھ اور محرومی کا باعث بنی۔  محترم خرم مراد اور پروفیسر مسلم سجاد دونوں بھائیوں نے ترجمان القرآن  کی ترقی اور اشاعت کے لیے بے پناہ محنت سے کام کیا، اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے، آمین!


اعجاز جعفر ،سری نگر (مقبوضہ کشمیر)

’سیرتِ رسولؐ اور حُسنِ اعتدال‘ (جنوری ۲۰۱۷ء) بہت ہی دل چسپ مضمون تھا۔ قرآنِ مجید نے اعتدال کو نہ صرف پسند کیا ہے بلکہ کافروں کے باطل خدائوں، یعنی بتوں کو گالیاں دینے سے بھی منع کیا ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ راہِ اعتدال سے ہٹ کر اور ضد میں آکر مسلمانوں کے سچے واحد خدا کو ہی بُرا بھلا نہ کہنا شروع کردیں۔ وَلَا تَسُبُّوا الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ فَیَسُبُّوا اللّٰہَ عَدْوًما بِغَیْرِ عِلْمٍط(الانعام ۶:۱۰۸)  ’’اور(اے مسلمانو) یہ لوگ اللہ کے سواجس کو پکارتے ہیں انھیں گالیاں نہ دو، کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ شرک سے آگے بڑھ کر جہالت کی بنا پر اللہ کو گالیاں دینے لگیں۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے علم و عمل اور عبادت و ریاضت کے ہرشعبے میں ہمیشہ اعتدال کی راہ اختیار کی ہے۔ صحابہ کرامؓ نے بھی نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال و افعال اور اقوال و گفتار کی اِتباع کر کے اعتدال کو اپنی زندگی کا عملی سرمایہ بناکر دائمی سرخروئی حاصل کی ہے۔ فقہاے کرام نے دلیل کی بنیاد پر باہم اختلاف کے باوجود اعتدال کی اخلاقی صفت کو کبھی نظرانداز نہیں کیا، بلکہ ہرممکن حدتک اس پر عمل کیا ہے۔ صالحین و عابدین نے بھی علمی و عملی اور معاشی و معاشرتی زندگی میں میانہ روی، اخلاقی اقدار، رواداری، برداشت اور اعتدال کے راستے پر عمل کیا ہے، جو ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے۔ جملہ شعبہ ہاے زندگی میں ہرشخص کے لیے اس پر عمل کرنے میں ہی عافیت اور سلامتی ہے۔

کارکنوں کے باہمی تعلقات

یہ ایک طویل اور مفید مقالہ ہے، جسے اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان نے اپنے کارکنوں کی رہنمائی اور تربیت کی غرض سے مرتب کیا ہے۔ اس میں بہت محنت کے ساتھ مواد متعلقہ کو کتاب و سنت سے   جمع کرکے سمونے کی کوشش کی گئی ہے۔ دین حق کے پیروکاروں اور تحریک ِ اسلامی کے خدمت گزاروں کو ان شاء اللہ اس سے بہت مدد اور روشنی حاصل ہوگی۔ [نعیم صدیقی]

اسلامی تحریک ایک اجتماعی انقلاب کی داعی ہے، اس لیے اس کا یہ فریضہ بالکل اوّلین اہمیت کا حامل ہے کہ وہ اپنے کارکنوں کو عام طور پر تمام انسانوں سے، اور خاص طور پر باہم ایک دوسرے کے ساتھ صحیح صحیح بنیادوں پر مربوط کردے۔ اسلامی تحریک کے کارکنوں کے باہمی تعلقات کو قرآن اس طرح ظاہر کرتا ہے کہ اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ ۔ اگرچہ بظاہر یہ صرف تین الفاظ کا ایک مختصر سا فقرہ ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ باہمی تعلقات کی بنیاد اصولی حیثیت ، اہمیت اور گہرائی ظاہر کرنے کے لیے یہ بالکل کافی ہے اور اس معاملے میں اسے ایک اسلامی تحریک کے چارٹر کی حیثیت دی جاسکتی ہے۔

اس سے ایک طرف تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اسلامی تحریک میں افراد کا باہم دگر رشتہ ایک اصولی رشتہ ہوتا ہے۔ یہ عقیدہ اور فکر کی یگانگت کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے، اور نصب العین کی یکسانیت اس کی بنیاد بنتی ہے۔ یعنی یہ ایمان کا اشتراک ہے جو اس میں رنگ بھرتا ہے۔ دوسری طرف یہ کہ اصولی رشتہ ہونے کی بنا پر    یہ کوئی روکھا سوکھا رشتہ نہیں ہوتا بلکہ اس میں جو استحکام، گہرائی اور شدید محبت سموئی ہوتی ہے، اس کو صرف دوبھائیوں کا باہمی تعلق ہی ظاہر کرسکتا ہے اور یہی تعلق ہے جو ’اخوت‘ کہلاتا ہے۔ ایک اصولی رشتے کو اسلام جو وسعت و استحکام اور جذبات بخشتا ہے، اس کی ترجمانی کے لیے ’اخوۃ‘ سے بہتر اور کیا لفظ ہوسکتا تھا۔

… جو لوگ ہر رنگ اُتار کر صرف اللہ کے رنگ میں رنگ جاتے ہیں، تمام اطاعتیں ترک کر کے صرف اللہ کی اطاعت کرتے ہیں، ہر باطل سے کٹ کر صرف حق سے جڑ جاتے ہیں اور صرف اللہ کے لیے یکسو ہوجاتے ہیں، وہ بھی اگر ایک دوسرے سے مربوط اور متعلق نہ ہوں گے اور محبت کے تعلقات قائم   نہ کریں گے تو پھر کون کرے گا؟ نصب العین کے لیے یکسوئی سے زیادہ بڑی کون سی قوت ہے جو انسان کو انسان سے جوڑ سکتی ہے۔(’اسلامی تحریک میں کارکنوں کے باہمی تعلقات، [خرم مراد]، ترجمان القرآن، جلد۴۷، عدد۵، جمادی الاولیٰ ۱۳۷۶ھ/ جنوری ،فروری ۱۹۵۷ء، ص۲۳-۲۴)