صدر ٹرمپ کی آمد کے ساتھ نہ صرف امریکا بلکہ دنیا بھر میں بے چینی اور اضطراب کی ایک لہر دیکھی جاسکتی ہے۔ بے خدا اور نسلی تفاخر کی بنیاد پر استوار مغربی تہذیب کے ایسے کردار وقتاً فوقتاً صفحۂ ہستی پر اُبھرتے ہیں، انسانیت کے لیے ایک نئی مصیبت کھڑی کر کے ماضی کے دھندلکوں میں گم ہوجاتے ہیں۔ یوں سالہا سال تک اس کے نتائج یا اپنے ناکردہ گناہوں کی سزا نوعِ انسانی بھگتتی رہتی ہے۔
امریکی حکومت اور اس کے عالمی کردار کے بارے میں اضطراب اور احتجاج کا سبب لوگوں اور قوموں کے مزاجوں میں کوئی رچی بسی امریکا دشمنی یا مخاصمت نہیں ہے۔ یہ وہی ملک اور لوگ ہیں، جو امریکا کی طرف اس اُمید سے دیکھتے تھے کہ یہ عصرِحاضر میں جمہوری اور دستوری دور کا آغاز کرنے والی ریاست ہے، جو بین الاقوامی سیاسی اُفق پر جمہوریت، حقوقِ انسانی اور قوموں کے حق خود ارادیت کی علَم بردار بن کر جلوہ گر ہوئی تھی۔ اور یہ ایک ایسی ریاست ہے جو کسی خاص نسل کا وطن نہیں تھی، بلکہ دنیا کی بہت سی نسلوں نے جس کی صورت گری کی تھی، اور جس کی تعمیر میں محض اس ملک ہی کے نہیں، دنیا بھر کے بہترین دماغوں نے سائنسی تحقیق سے انسانیت کو صحت مند بنایا اور اسے قوت عطا کی۔ افسوس کہ دنیا بھر کے بہترین دماغوں کی ایک لگن کے ساتھ کی جانے والی تحقیق کے ثمرات کو، امریکی مقتدر قوتوں نے دنیاپر دھونس جمانے کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا، اور انصاف پر مبنی عالمی نظام کی داعی بننے کے بجاے ایک استعماری قوت (Imperial Power) کا کردار ادا کرنے لگی۔ دنیا اگر آج امریکا سے خو ف زدہ ہے اور اس کے حکمرانوں اور پالیسیوں سے نفرت کا اظہار کر رہی ہے تو یہ نتیجہ ہے ان پالیسیوں اور اقدامات کا، جن کی دنیا ستم زدہ ہے۔
حالات کی صحیح تفہیم کے لیے اس امر کا اعتراف ضروری ہے کہ آج امریکا سے بہ حیثیت ایک عالمی طاقت ایسی مایوسی اور بے زاری اور اتنی تیزی اور شدت سے اس کا ہمہ گیر اظہار نہ کوئی اتفاقی حادثہ ہے اور نہ محض کسی سازش کا شاخسانہ۔ اس کے ٹھوس اسباب اور عوامل ہیں۔ ان کا سمجھنا امریکا کی قیادت کے لیے بھی ضروری ہے اور ان اقوام کے لیے بھی، جو اضطراب، احتجاج اور مایوسی سے دوچار ہیں۔ اس تفہیم کا مقصد حالات کی اصلاح اور عالمی تصادم کے اسباب و عوامل کا تدارک ہے، تاکہ دنیا جنگ و جدل اور خون خرابے سے محفوظ رہ سکے۔
انسانوں اور قوموں میں، طاقت کا عدم توازن اور وسائل کا غیرمتناسب وجود ایک حقیقت ہے۔ محض اس کی وجہ سے اضطراب اور تصادم ایک غیرفطری عمل ہوگا۔ لیکن ایسا فرق جب ایک قوت کی دوسروں پر بالادستی،استیلا اور ان کے استحصال (exploitation) کی شکل اختیار کرنے لگتا ہے، تو بے زاری، اضطراب اور تصادم کے دروازے کھلنے لگتے ہیں جو آخرکار ٹکرائو اور خون خرابے پر منتج ہوتے ہیں۔ یہی ہے وہ عمل جو امریکا اور دنیا کی دوسری اقوام کے درمیان دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ عمل ۱۹۸۹ء میں اشتراکی روس کے ایک سوپرپاور کی حیثیت سے میدان سے نکل جانے کے بعد اور بھی تیز ہوگیا ہے۔
امریکا کے پاس مادی اور قدرتی وسائل کی اتنی بہتات رہی ہے کہ اپنے باشندوں کے لیے وہ زندگی کی تمام سہولتیں بہ افراط فراہم کرسکتا ہے، لیکن عالمی بالادستی کا خواب، دنیا کی دوسری اقوام کے وسائلِ حیات کو اپنی گرفت میں لینے کے عزائم، دنیا کو اپنے تصورات کے مطابق ڈھالنے اور دوسروں پر اپنی اقدار اور نظریے کو بہ زور مسلط کرنے کے منصوبے ہی دراصل تصادم اور ٹکرائو کی جڑ ہیں۔ یہ خواہشات دراصل دوسری عالمی جنگ کے بعد سے امریکا کی عالمی حکمت عملی کے اجزا بنتی جارہی ہیں۔ سردجنگ کے دور میں امریکا نے آزاد دُنیا کے تحفظ اور اشتراکیت دشمنی کے نام پر ان اہداف کو حاصل کرنے کی سعی کی، لیکن سردجنگ کے بظاہر خاتمے کے بعد امریکا نے اس لہر کو باندازِ دگر اور بھی تیز کردیا۔
بدقسمتی سے اب اس کے نئے اہداف میں سرفہرست اسلامی دنیا، احیاے اسلام کی تحریکات اور خود اسلام بن گئے ہیں، جس کا دبے لفظوں میں اور ہیرپھیر کے ساتھ اعتراف تو گذشتہ ۳۰برسوں میں ہوتا رہا ہے، مگر اب امریکا کی نئی قیادت اور اس کے پیچھے دائیں بازو کے مفکرین، ’مراکز دانش‘ (Think Tanks) ،میڈیا اور منظم گروہ کھلے بندوں اعتراف کر رہے ہیں۔ صدرٹرمپ کے دستِ راست اور قومی سلامتی کے ایڈوائزر جنرل فلِن کو صرف تین ہفتوں میں مستعفی ہونا پڑا، تاہم صدرٹرمپ نے اس کو اپنا معتبر ترین ساتھی قرار دیا ہے۔ جنرل فلِن نے متعدد بار اسلام کے بارے میں توہین آمیز الفاظ استعمال کیے۔ ۲۰۱۶ء میں اپنی کتاب The Field of Fight میں اسلام کو کینسر قرار دیتے ہوئے خبث ِ باطن کا اظہار کیا اور متعدد بار ان خیالات کا بہ تکرار اعادہ کیا۔
اکیسویں صدی کو ’امریکا کی صدی‘ اور ساری دنیا کو ’امریکا کے رنگ میں رنگنے ‘کی مہم کا نام ’عالم گیریت‘ (Globalisation) رکھا گیا ہے۔ یوں امریکا انا ولاغیری کے زعم میں مبتلا ہوگیا۔ اس خبط میں دوسروں پر اپنی طاقت کا رُعب جمانا اس کا مقصد ِوجود بن گیا۔ یہی ہے وہ دوراہا ہے جہاں دوسری اقوام میں بھی اپنی آزادی، اپنی عزت اور اپنی اقدار کے تحفظ کے لیے سینہ سپر ہونے کی اُمنگ پیدا ہوئی۔ ہم دیکھتے ہیں کہ آج عالمی سیاست تصادم کے خطرناک راستے کی طرف بڑھ رہی ہے۔
امریکا کاواحد عالمی قوت ہونا، ظاہربین نگاہوں میں ممکن ہے ایک حقیقت ہو، لیکن اس واحد سوپر پاور کا دوسروں پر غلبہ حاصل کرلینا اور ان کو اپنا تابع مہمل بنالینے کی کوشش میں مگن رہنا ایک خطرناک کھیل ہے، جس نے عالمی امن کو تہ و بالا کر دیا ہے۔ غلبہ اور جہانگیری کے انھی عزائم کے حصول کے لیے خارجہ سیاست کے ساتھ فوجی حکمت عملی اور معاشی اثراندازی کا عالم گیر جال اور جاسوسی اور تخریب کاری کا ایک ہمہ پہلو نظام،امریکا نے پوری دنیا کے لیے قائم کیا ہے، اور اسے روز بروز زیادہ مؤثر بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
فوجی معاہدات اور معاشی زنجیروں کا جال ہے جو ریاستی، عالمی مالیاتی اور تجارتی اداروں کے ذریعے پوری دنیا کو اپنے دام میں گرفتار کیے ہوئے ہے۔ سامراجی ایجنڈے کو آگے بڑھانے والے غیرسرکاری اداروں (NGO's) کی ایک فوج اس عالم گیر استیلا کا ہراول دستہ ہے اور جاسوسی کا نظام ہے جو صرف سی آئی اے ہی تک محدود نہیں ہے، بلکہ متعدد بلاواسطہ اور بالواسطہ ایجنسیوں کے ذریعے کام کر رہا ہے۔ یہ تمام مظاہر امریکا کے عالمی سامراجی آکٹوپس کے مختلف پنجے ہیں۔
اس نظام کو قائم رکھنے کے لیے امریکا، جہاں دنیا کے دوسرے ممالک کے مادی وسائل کو ہضم یا بھسم کر رہا ہے، وہیں اپنے شہریوں کے وسائل استعمال کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی جواز پیش کرنے کے لیے مجبور ہے۔ اس مقصد کے لیے ایک زمانے میں اشتراکیت اور روس کا ہوّا تھا، اور ماضی قریب میں سرکش ریاستوں(Rogue States) کا ڈرائونا خواب دکھایا گیا تھا۔ ان کا مقابلہ کرنے کے لیے سی آئی اے کو جو مینڈیٹ سردجنگ کے زمانے میں دیا گیا تھا، وہی اختیاراس کے مقتدر طبقے کو آج چاہیے۔ اس ذہنیت کی عکاسی کرتے ہوئے ۱۹۵۴ء میں وائٹ ہائوس کی ایک خفیہ رپورٹ میں کہا گیا تھا:
اس کھیل کے کوئی قواعد نہیں۔ ہمارے دشمن ہمارے خلاف جو طریقے استعمال کرتے ہیں، ہمیں ان سے زیادہ مؤثر، سوچے سمجھے طریقوں کو ہوشیاری سے استعمال کر کے دشمن کو سبوتاژ کرنا ، مٹانا اور تباہ کرنے کے اسباب مہیا کرنے ہیں۔(Brave New World Order، از جیک نیلسن پال میر، ص ۴۳)
امریکا کی سیاسی اور فوجی قیادت نے ۲۰ویں صدی کے آخری عشرے ہی سے پورے زوروشور سے عوامی جمہوریہ چین، شمالی کوریا اور چند مسلمان ملکوں (ایران، افغانستان، لیبیا، سوڈان) کو امریکا اور مغربی دنیا کے لیے ’اصل خطرہ‘ بنا کر پیش کرنا شروع کیا تھا، اور اب ان میں چار مزید مسلم ممالک عراق، شام، یمن، صومالیہ کا اضافہ کر دیا ہے، اور اس نام نہاد ’خطرے‘ سے مختلف سطحوں پر نبٹنے کے لیے ’جواز‘ کی فضا بنائی جارہی ہے۔
اب سے ۳۴ برس قبل امریکی صدر جمی کارٹر (۸۱- ۱۹۷۷ء) کے قومی سلامتی کے مشیر زبگینیو بریزنسکی نے اپنی کتاب The Grand Chessboard میں صاف لفظوں میں لکھا تھاکہ امریکا کی خارجہ سیاست کا اصل ہدف ہونا ہی یہ چاہیے کہ اکیسویں صدی میں امریکا دنیا کی سوپرپاور رہے اور اس کا کوئی مدمقابل اُٹھنے نہ پائے___ کم از کم پہلی ربع صدی میں تو میدان صرف امریکا ہی کے ہاتھ میں رہنا چاہیے:’’یورپ اور ایشیا دنیا کو کنٹرول کرتے ہیں۔ یہاں امریکا کی برتری برقرار رہنی چاہیے۔ یہ ناگزیر اور لازم ہے کہ یور پ اور ایشیا میں کوئی ایسی طاقت نہ اُبھر پائے جو امریکا کو چیلنج کرسکے‘‘۔
یہی وہ ذہنیت ہے جو امریکا کے پالیسی سازوں اور سیاسی قیادت میں ایک قسم کی رعونت پیدا کرتی آئی ہے۔ اس رعونت کے جواب میں بجاطور پر باقی دنیا میں مایوسی اور بے زاری کی لہریں اُٹھ رہی ہیں۔ کچھ عرصہ پیش تر ایک امریکی وزیرخارجہ نے کسی تکلف اور تردّد کے بغیر امریکا کی اس ذہنیت اور عزائم کا جو اعلان کیا، وہ کالمیرجانسن کی کتاب میں ان الفاظ میں ملتا ہے:
ہمیں طاقت استعمال کرنی پڑتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم امریکا ہیں۔ ہم نوعِ انسانی کے لیے ایک ناگزیر قوم ہیں۔ ہم سربلند ہیں اور ہم مستقبل میں دُور تک دیکھتے ہیں۔ (Blowback: The Costs and Consequences of American Empire، ص ۲۱۷)
واحد عالمی طاقت ہونے کا زَعم ہی وہ چیز ہے جس نے امریکی قیادت میں اس فرعونیت کو جنم دیا ہے۔ اس کی ایک چشم کشا مثال وہ الفاظ ہیں، جن میں اپنی حیثیت کا اظہار امریکی صدر لنڈن بی جانسن (۶۹- ۱۹۶۳ء) نے قبرص کے تنازعے کے موقعے پر یونان کے سفیر سے کیا تھا۔ یونان، امریکا کا ایک دوست ملک اور امریکی قیادت میں فوجی اتحاد ناٹو میں اس کا رفیقِ کار ہے۔ جب یونان کے سفیر گیرانینوز گیگ نیٹس نے امریکا کا حکم نہ ماننے کے لیے، اپنی مجبوری کا اظہار کرتے ہوئے اپنی پارلیمنٹ اور اپنے دستور کے حوالے سے التجا کے لہجے میں بات کی، تو امریکی صدر جانسن طیش میں آگئے اور انھوں نے گالی دے کر یونانی سفیر سے کہا:
بھاڑ میں جائے تمھاری پارلیمنٹ اور جہنم رسید ہو تمھارا دستور___ امریکاایک ہاتھی ہے اور قبرص ایک چھوٹا سا پسّو۔ اگر یہ پسّو ہاتھی کو تنگ کرے گا تو ہاتھی کی سونڈھ اسے کچل دے گی۔ مسٹر سفیر، ہم یونان کو بہت سے امریکی ڈالر دیتے ہیں۔ اگر تمھارا وزیراعظم مجھ سے جمہوریت، پارلیمنٹ اور دستور کی بات کرتا ہے تو یاد رکھو: وہ، اس کی پارلیمنٹ اور اس کا دستور زیادہ دیر باقی نہیں رہیں گے۔ (Should Have Died، از فلپ ڈین، ۱۹۷۷ء، ص ۱۱۳-۱۱۸)
ذرا مختلف پس منظر میں، لیکن اسی ذہنیت کا مظاہرہ امریکا کے چیف آف اسٹاف جنرل کولن پاول (بعدازاں صدر بش جونیئر کے زمانے میں وزیرخارجہ) نے باربار کیا تھا۔جن دنوں امریکا نے بین الاقوامی قانون کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے پانامہ جیسے ایک آزاد ملک پر فوج کشی کی، اس کے صدر کو اغوا کیا اور سزا دی تو اعتراض کرنے والوں کے جواب میں جنرل پاول نے کہا تھا:
ہمیں کنکر کو اپنے دروازے سے یہ کہہ کر باہر پھینکنا ہے کہ یہاں سوپرپاور رہتی ہے۔(Brave New World Order، ص ۸۷)
پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر اپنی برہمی کا اظہار بھی امریکا اسی ذہنیت سے کرتا آیا ہے۔ پاکستان کی سفیر سیّدہ عابدہ حسین سے جو گفتگو جنرل پاول نے کی تھی، وہ نوٹ کرنے کے لائق ہے۔ امریکا سے شائع شدہ کتاب Between Jihad and Salam میں جوائس ڈیوس نے عابدہ حسین کا انٹرویو شامل کیا ہے، جس میں انھوں نے بتایا:
جنرل پاول نے مجھ سے پوچھا: ’’امریکی اعتراضات اور مالی امداد ختم کر دینے کے باوجود پاکستان کو اپنے جوہری پروگرام پر اتنا اصرار کیوں ہے؟ آپ یہ بات جانتی ہیں کہ یہ بم آپ استعمال نہیں کرسکتی ہیں تو اس کے باوجود آپ انھیں کیوں رکھنا چاہتی ہیں؟‘‘
میں نے کہا:’’ جنرل، آپ کیوں ایٹم بم رکھتے ہیں؟‘‘
جنرل پاول نے کہا:’’ ہم کم کر رہے ہیں‘‘۔
میں نے پوچھا: ’’کتنے سے کتنے، جنرل؟‘‘
پاول نے جواب دیا: ’’چھے ہزار سے دو ہزار‘‘۔
میں نے کہا: ’’جنرل، آپ دو ہزار بم رکھیں گے اور چاہتے ہیں کہ ہمارے جو چند بُرے بھلے زمین میں پوشیدہ ہیں، ہم ان سے بھی فارغ ہوجائیں۔ آپ تو ہم سے خودکشی کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ ہم ایک جوہری ریاست کے پڑوس میں رہتے ہیں۔ کیا اگر کینیڈا اور میکسیکو کے پاس بم ہوں تو آپ اپنے بم ختم کردیں گے؟ کیا آپ ایسا کریں گے؟‘‘
جنرل پاول نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا: ’’دیکھیے سفیرصاحبہ، میں اخلاقیات کی بات نہیں کر رہا ہوں، میں آپ سے صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ ہم ریاست ہاے متحدہ امریکا ہیں اور آپ پاکستان ہیں‘‘۔
میں نے کہا: جنرل، آپ کا شکریہ کہ آپ نے صاف صاف بات کی ہے‘‘۔
اپنے اقتدار اور قوت کے نشے میں بدمست ہونا، دوسروں کو خاطر میں نہ لانا، ہرکسی کو اپنے مقابلے میں حقیر سمجھنا اور خودپسندی، تکبر اور زعم میں مبتلا ہوکر دوسروں کی تضحیک کرنا، انسان اور اقوام کے وقار کو بڑھاتا نہیں، کم کرتا ہے۔
ایسی ہی ذہنیت، ان عزائم اور ایسے مطالبات کے ساتھ امریکا دنیا میں جمہوریت کا علَم بردار، حقوقِ انسانی کا محافظ، قانون کی مساوات اور پاس داری کا داعی اور انصاف کا پرچارک ہونے کا دعویٰ کرتا ہے___ اور اس کی اسٹرے ٹیجی کا ہدف یہ ہے کہ پوری دنیا کو امریکا کے وژن اور اقدار کو قبول کرلینا چاہیے۔ یہی دراصل سامراجیت کی روح ہے جس کی بنا پر امریکا اور باقی دنیا کے درمیان اجنبیت، فاصلہ اور تلخی پیدا ہورہی ہے۔
امریکا کی ٹفٹس یونی ورسٹی میں علمِ سیاسیات کے پروفیسر ٹونی اسمتھ نے ایتھکس اینڈ انٹرنیشنل افیئرز میں ۱۶برس پیش تر اپنے مضمون میں متنبہ کیا تھا کہ نہ امریکا کی طاقت غیرمحدود ہے اور نہ اسے یہ حق حاصل ہے کہ اپنے نظام اور اقدار کو دوسروں پر مسلط کرے، کیوں کہ یہ لبرل امپریلزم ہی کی ایک شکل ہے جس کا موجودہ زمانے میں کوئی جواز نہیں:
امریکی طرزِ حیات، اقدار اور اداروں کو دنیا کی دوسری اقوام میں رُوبہ عمل لانے کی کوشش میں ناکامی کا اندیشہ ہے۔ اس لیے نہیں کہ امریکی طاقت محدود ہے، بلکہ اس لیے کہ بڑے پیمانے پر اس کا استعمال بھی ان عقائد اور طریقوں میں اصلاح نہ کرسکے گا جو بنیادی طور پر امریکی طریقۂ کار کے مخالف ہیں۔ چین، مسلم دنیا یا روس کا امریکی مطالبوں کے آگے سپر ڈالنے کے لیے آمادہ ہونا بعید از امکان ہے۔ (Ethics & International Affairs ، ج ۱۴، ص ۶۰، مئی ۲۰۰۱ء)
بلکہ ا س سے بھی پہلے معروف امریکی مفکر والٹرلپ مین نے بڑی پتے کی بات کہی تھی:
جب ایک قوم ساری دنیا کے نظام کو یکساں شکل دینے کی ذمہ داری خود سنبھال لیتی ہے تو اس طرح دراصل وہ دوسروں کو اپنے خلاف متحد ہونے کی دعوت دیتی ہے۔ ایک ایسی دنیا میں جہاں اس بات کا امکان ہے کہ جوہری اسلحہ وسیع پیمانے پر تشکیل پائے۔ یہ چیز کسی بھی صورت میں امریکی عوام کی قومی سلامتی کے لیے کوئی خوش کُن راستہ نہیں ہوگا۔(رچرڈ بارنیٹ، Intervention and Revolution ، ۱۹۶۸ء، ص ۳۱۲)
اگرچہ امریکا اپنی موجودہ عظیم طاقت کو دنیا میں ایک ایسا ماحول پیدا کرنے کے لیے استعمال کرسکتا ہے، مگر اس کے برعکس جب تک امریکی یہ خام خیالی نہ چھوڑ دیں گے کہ دنیا بھر میں تبدیلی لانا ان کا حق اور فرض ہے، اس وقت تک خود امریکیوں کو بھی امن نصیب نہیں ہوسکے گا۔(ایضاً، ص ۳۳۲)
ہم سمجھتے ہیں کہ امریکا پر بے اعتمادی اور اس کی مخالفت کا پہلا اور سب سے اہم سبب دنیا کے ممالک میں کوئی خرابی یا مرض نہیں بلکہ امریکا کا یہی زعمِ باطل ہے کہ: ’’وہ واحد سوپر پاور ہے اور ہمیشہ سوپر پاور ہی رہے گا۔ اس کا حق ہے کہ دنیا اس کے سامنے جھکے اور اس کی بالادستی قبول کرے‘‘۔
زمینی حقائق کے مطابق دنیا اسے ایک بڑی طاقت تو تسلیم کرے گی، مگر اس کے آگے سجدہ ریز ہونے کے لیے کبھی تیار نہ ہوگی۔ وہ اس سے دوستی کا تعلق بخوشی رکھے گی، مگر غلامی اور چاکری کا مقام کبھی قبول نہیں کرے گی۔ اگر امریکی حکومتیں تھوڑی سی حقیقت پسندی قبول کرلیں اور بالادستی اور شہنشاہی کی حکمتِ عملی کو ترک کرکے تکبر اور رعونت کے راستے کو چھوڑدیں، تو دُنیا ان کے لیے بھی اور دوسروں کے لیے بھی ایک بہتر جگہ بن سکتی ہے، اور ان کے عزت و وقار میں اضافہ ہوگا۔
امریکا سے دنیا کی بے زاری کے اسباب کو سمجھنے کے لیے امریکا کو خود اپنے رویے اور اپنے وعدوں اور عمل کے فرق پر غور کرنا ہوگا۔ اکیسویں صدی کے بالکل آغاز میں ایک چشم کشا کتاب Blowback: The Costs and Consequences of American Empire
۲۰۰۰ء میں شائع ہوئی تھی (’بلوبیک‘ سی آئی اے کی اصطلاح ہے، جس کا مفہوم امریکی عوام کی لاعلمی میں کیے جانے والے اقدامات کا ردّعمل ہے۔ اس کا ترجمہ ’مکافات‘ بھی کیا سکتا ہے)۔ تب اس کے مصنف کالمیر جانسن، یونی ورسٹی آف کیلی فورنیا، سان ڈیاگو (امریکا) کے پروفیسر تھے۔ یہ کتاب امریکا اور برطانیہ سے بہ یک وقت شائع ہوئی تھی۔ مصنف نے امریکا کو اپنے رویے پر غور کرنے کی دعوت دی تھی اور تقریباً وہی بات کہی ہے، جو باقی دُنیا کے سوچنے سمجھنے والے عناصر کی زبان پر ہے:
مجھے یقین ہے کہ غیرمتعلق اسلحے کے سسٹم پر ہمارے وسائل کا غیرمعمولی ضیاع، عسکری ’حادثوں‘ کا مسلسل جاری رہنا اور امریکی سفارت خانوں اور چوکیوں پر دہشت گرد حملے، ۲۱صدی میں امریکا کی غیر رسمی سلطنت کے لیے بحران پیدا کرنے والے بنیادی عناصر ہیں۔ امریکا، ایک ایسی سلطنت جو دنیا کے ہرحصے پر فوجی طاقت کے دبائو اور اپنی شرائط، مگر دوسروں کی قیمت پر امریکی سرمایے اور منڈی کو استعمال کرکے عالمی اقتصادی اتحاد قائم کرنا چاہتی ہے۔ ہم نے اپنے آپ کو ضمیر کی ہرایسی خلش سے بھی آزاد کرلیا ہے، کہ ہم اس دنیا کے دوسرے لوگوں کو کتنے بُرے نظر آرہے ہیں۔ بیش تر امریکی غالباً جانتے ہی نہیں ہیں کہ واشنگٹن ، دنیا کی اقوام پر کس طرح اپنی بالادستی استعمال کرتا ہے، کیونکہ اس سرگرمی کا کافی حصہ خفیہ یا دوسرے حیلوں بہانوں کے پردے میں انجام پاتا ہے۔ اس حوالے سے بہت سوں کو یہ یقین کرنے میں دقّت پیش آئے گی کہ دنیا میں ہماری حیثیت ایک عالمی سلطنت کی سی ہوگئی ہے۔ لیکن جب ہم کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا ملک خود اپنی بنائی ہوئی سلطنت کا اسیر ہوگیا ہے تو ہمارے لیے دنیا کے بہت سے واقعات کی تشریح کرنا ممکن نہیں رہتا..... سوچنا چاہیے کہ انسانی حقوق، جوہری پھیلائو، دہشت گردی اور ماحول کے بارے میں غیرملکیوں کو امریکی پالیسیاں تضاد کا شکار کیوں نظر آتی ہیں؟ (کالمیر جانسن، حوالۂ مذکورہ، ص ۷-۸)
امریکا اور امریکیت کے اس عالمی رُوپ کو سامنے رکھتے ہوئے اُمت مسلمہ اور پاکستان کو یہ اُمور مدنظر رکھنے چاہییں:
امریکا اور مغربی اقوام آج خواہ کتنی ہی قوی کیوں نہ ہوں، ان کی موجودہ بالادستی اور وسائل پر غلبے اور دسترس کا اِدراک کرنے کے ساتھ، اس عزم کا اعادہ بھی ضروری ہے کہ مسلمان اپنا جداگانہ تشخص رکھتے ہیں ۔ ان کی منزل اپنی آزادی اور اپنی تہذیب کی ترقی اور فروغ ہے، جو دوسروں کی غلامی یا بالادستی کے تحت جاے پناہ پر قناعت سے حاصل نہیں ہوسکتی۔ اگر امریکا کا ایک بڑی مادی قوت ہونا ایک حقیقت ہے، تو مسلم اُمت کے ایک ارب ۳۰کروڑ نفوس بھی ایک حقیقت ہیں، جنھیں نہ نظرانداز کیا جاسکتا ہے اور نہ محض طاقت سے غلام بنایا جاسکتا ہے۔
اس لیے ضروری ہے کہ تصادم سے پہلو بچاتے ہوئے اپنے گھر کی اصلاح، دینی و دُنیوی علم میں پختگی ، اپنے داخلی اتحاد کا حصول، اپنے وسائل کی ترقی اور اپنی قوت کا استحکام ہمارا بنیادی ہدف ہونا چاہیے۔ اس کے لیے اپنے ایمان، اپنے دین اور اپنے نظریے پر مضبوطی سے قائم رہنا، وقت کے چیلنج کو سمجھنا اور اپنی بنیادوں کو استوار کرکے اس کا مقابلہ کرنے کی تیاری ہماری فکروسعی کا محور ہونا چاہیے۔
اس کام کو انجام دینے کے لیے ہمیں کچھ عالم گیر اصولوں کو اپنی دعوت اور حکمت عملی کی بنیاد بنانی چاہیے اور دنیا کے تمام انسانوں اور تمام اقوام کو ان کی طرف لانے کی کوشش کرنا چاہیے۔ ہمیں نہ دوسروں کا کاسہ لیس ہونا چاہیے، اور نہ ہر ایک سے الگ تھلگ رہنے اور تعلقات توڑنے کا راستہ اختیار کرنا ہی کوئی صحیح طرزِعمل ہوسکتا ہے۔ قدرِ مشترک کی تلاش اور اس پر تعلقات استوار کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ دنیا کے حالات بھی اس مقام پر ہیں کہ کچھ اصولوں اور مشترک اقدار پر سب کو جمع کیا جاسکتا ہے۔ اس لیے کہ اسی میں تمام انسانوں کی بھلائی ہے۔ بجاے اس کے کہ مسلمان محض دوسروں کے اقدامات پر ردعمل تک اپنے آپ کو محدود رکھیں، ہمیں آگے بڑھ کر پوری انسانیت (بشمول مغربی اقوام) کو کچھ بنیادوں پر متفق کرنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ اس سلسلے میں درج ذیل اصول ہماری عالمی دعوت کا محور بن سکتے ہیں:
۱- تمام اقوام کی آزادی، حاکمیت اور سلامتی کا تحفظ ناگزیر ہے۔ اقوامِ متحدہ کے چارٹر کی بنیاد، تمام انسانوں کی برابری، تمام اقوام کی آزادی اور ان کا حقِ خود ارادیت ہے۔ اسلام نے اسی اصول کو انسانیت کے سامنے پیش کیا تھا اور یہ اصول استعماریت اور امپریلزم کی جڑ کاٹ دیتا ہے۔
۲- کسی ایک ملک یا تہذیب کی بالادستی پر اُستوار نظام عالمی امن کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ سب اس اصول کو تسلیم کریں کہ ہرقوم کو اپنی تہذیب و ثقافت کی پاس داری کا حق ہے اور دنیا کی یک رنگی، فطرت کے خلاف اور انصاف کے تقاضوں سے متصادم ہے۔ اس لیے سب کو اپنے اپنے اصول و اقدار کی روشنی میں ترقی کے مواقع حاصل ہونے چاہییں۔
۳- تمام انسانی معاملات کو دلیل اور مکالمے (Dialogue) کے ذریعے حل کیا جائے اور قوت کے استعمال کو قانون اور عالمی انصاف کے تابع کیا جائے۔ ہرقسم کے تشدد کے خلاف عالمی راے عامہ کو منظم کیا جائے اور اس میں دہشت گردی کی ہرشکل میں مخالفت شامل ہو۔ نیز دہشت گردی اور آزادی کے حصول یا ملک و ملّت کی حفاظت کے لیے جدوجہد کو اس سے ممتاز و ممیز کیا جائے اور قوت کے استعمال کی حدود اور اس کا ضابطۂ کار متعین کیا جائے۔
۴- انصاف کے حصول کے لیے دنیا کے تمام انسانوں اور اقوام کو ایک منصفانہ عالمی نظام کا حصہ بنایا جائے۔ انصاف ہی وہ مثبت بنیاد ہے جس پر عالمی امن قائم ہوسکتا ہے اور ظلم کی دراندازیوں سے انسانوں کو بچایا جاسکتا ہے۔
۵- بین الاقوامی تعاون اور اشتراک کے ساتھ ساتھ قوموں یا ملکوں کے الحاق کی اجتماعی خودانحصاری کے اصول کا احترام کیا جائے۔ اس سے عالم گیریت کا ایک ایسا نظام وجود میں آسکتا ہے جس کے تحت اگر ایک طرف انسانوں، مالِ تجارت، مالی اور دوسرے وسائل کی نقل و حمل میں سہولت ہو، تو دوسری طرف ایسے عالمی ادارے وجود میں آسکیں جس کے نتیجے میں سب کو خوش حالی، استحکام اور باعزت زندگی حاصل ہوسکے۔
ان پانچ بنیادوں کی طرف دنیا کے تمام انسانوں کو دعوت دے کر اُمت مسلمہ اور پاکستان ایک ایسے عالمی نظام کی داغ بیل ڈال سکتے ہیں ، جو حقیقی امن و انصاف کا ضامن ہوسکتا ہے۔
بلاشبہہ آج کے طاقت ور اس کی راہ میں حائل ہوں گے، لیکن دنیا کے تمام دوسرے ممالک کو منظم اور متحرک کر کے اور پُرامن ذرائع سے عالمی راے عامہ کو منظم کرکے اس قدرِ مشترک کو نئے نظام کی بنیادبنایا جاسکتا ہے۔ نیز یہ اسی وقت ممکن ہوگا جب دنیا کے ممالک دوسروں پر بھروسا کرنے کے بجاے اپنے اُوپر بھروسا کر کے اپنے وسائل کو صحیح صحیح استعمال کرنے اور منظم کرنے کی جدوجہد کریں اور تعاون اور اشتراک کی منصفانہ شکلوں کو رواج دیں۔ جس طرح دنیا کے بہت سے ممالک میں، بشمول آج کے ترقی یافتہ مغربی ممالک، اندرونِ ملک دولت کی تقسیم اور قوت کے توازن کو حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور اس میں ایک درجہ کامیابی بھی حاصل ہوتی ہے، اسی طرح عالمی سطح پر ایک متوازن اور منصفانہ نظام کا قیام ممکن ہے، بشرطیکہ اس کے لیے صحیح طریقے پر مسلسل جدوجہد ہو۔
اس ایجنڈے کو عالمی سطح پر محض پیش کرنا مطلوب نہیں۔ اس ایجنڈے پر دنیا کو لانا اسی وقت ممکن ہوگا جب مسلمان ممالک خود اپنے گھر کو درست کریں اور اس کا آغاز خود احتسابی سے کریں۔
آج جو کچھ ہو رہا ہے، اسے ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہونا چاہیے۔ جو افراد یا ملک یہ سمجھتے تھے کہ امریکا سے دوستی کے ذریعے ان کو حفاظت، عزت اور سلامتی مل جائے گی اور جو اپنی دولت اپنے ملکوں میں رکھنے کے بجاے امریکا اور یورپ میں اسے محفوظ سمجھ رہے تھے، ان کو اندازہ ہو جانا چاہیے کہ انھوں نے کیسا کمزور سہارا تھاما تھا اور کس طرح خود کو دوسروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا تھا۔
اس سے یہ سبق بھی حاصل کرنے میں کوتاہی نہیں کرنی چاہیے کہ مانگے کا اُجالا کبھی روشنی کی ضمانت نہیں دے سکتا۔ یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ خودانحصاری اور اپنی قوت کی تعمیر کے بغیر آپ اپنی آزادی، اپنے ایمان اور اپنی عزت کی حفاظت نہیں کرسکتے۔ مقصد کسی سے لڑنا نہیں لیکن اپنے گھر کی تعمیر اور اپنے ممالک کی مضبوطی اور دوسروں پر محتاجی سے نجات، قومی سلامتی کے لیے ازبس ضروری ہے۔
اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ مسلم ممالک میں خود اپنے عوام پر اعتماد کی فضا پیدا کی جائے۔ شخصی اور سیاسی آزادیاں حاصل ہوں، اختلاف کو برداشت کیا جائے ، اور معیشت اور سیاست پر چند خاندانوں کی اجارہ داری کو ختم کیا جائے، کہ اسی میں اصحابِ اقتدار کے لیے بھی خیر ہے اور مسلم عوام کے لیے بھی۔
کسی بھی قوم کی ترقی کے لیے جہاں نظریہ اور قومی تشخص ضروری ہے وہیں سیاسی، معاشی اور اداراتی نظام کا ایسا آہنگ درکار ہے، جس میں سب کی شرکت ہو، عوام اور حکمرانوں کے درمیان کش مکش کے بجاے تعاون اور اشتراک کا رشتہ قائم ہو۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرف ان الفاظ میں اشارہ فرمایا ہے: ’’تمھارے بہترین حکمران وہ ہیں جن سے تم محبت کرتے ہو اور جو تم سے محبت کرتے ہیں، اور بدترین حکمران وہ ہیں جن سے تم نفرت کرتے ہو اور جو تم سے نفرت کرتے ہیں‘‘۔ (مسلم، کتاب الامارۃ، حدیث: ۳۵۳۶)
پھر اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ آزادی اور اشتراک کے ساتھ تعلیم، زندگی کی بنیادی سہولتوں کی فراہمی، روزگار کے مواقع اور دولت کی منصفانہ تقسیم کو ملکی پالیسی میں مرکزیت کا مقام حاصل ہو۔ وقت کی ٹکنالوجی کو حاصل کیا جائے اور ایجاد و اختراع اور تحقیق و تفتیش کے ذریعے علم اور سائنس پر عبور حاصل کیا جائے۔ نیز معیشت اور ٹکنالوجی کے میدانوں میں بھی خودانحصاری کی پالیسی اختیار کی جائے۔
عالمی طاقتوں کے دبائو سے نکلنے کے لیے خود انحصاری کی جانب گام زن ہونے کا مطلب دنیا سے الگ تھلگ ہونا نہیں ہے۔ اس کے صرف یہ معنی ہیں کہ ہمیں وسائل پر اتنی دسترس حاصل ہو کہ ہم اپنی پالیسیاں، اپنے مقاصد اور اہداف کے مطابق خود طے کرسکیں، اور دوسروں کی ایسی محتاجی نہ ہو کہ وہ ہماری پالیسی پراثرانداز ہوسکیں۔ دنیا کے تمام ممالک سے تعاون اور تجارت سب کے لیے اسی وقت بہتری کا باعث ہوسکتے ہیں، جب خودانحصاری کے ساتھ یہ تعاون ہو ورنہ یہی بین الاقوامی رشتے اور معاملات ظلم اور استحصال کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔
مسلمان ممالک کی تعمیر و ترقی میں یہ بات بھی سامنے رہے کہ یہ اُمت ، ’اُمت ِ وسط‘ ہے جس کا کام دنیا کے سامنے خدا کے پیغام کی شہادت دینا ہے اور جو انصاف کے فروغ اور نیکیوں کی ترویج اور بُرائیوں سے نجات کی داعی ہے۔ اس اُمت میں اگر تشدد کی سیاست دَر آئی ہے تو یہ اس کے مشن اور مزاج سے مطابقت نہیں رکھتی اور یہ اس کے اصل کردار پر ایک بدنما دھبّا ہے۔ انفرادی زندگی ہو یا اجتماعی، اسلام: تشدد، زور زبردستی اور اکراہ کا مخالف ہے اور محبت، بھائی چارے، رواداری اور تعاون و اشتراک کو فروغ دینا چاہتا ہے۔
جہاد کا مقصد انصاف کا قیام اور تمام انسانوں کے لیے آزادی، عزت اور عدل کی ضمانت ہے۔ جہاد اپنی تمام صورتوں میں___یعنی نفس کے ساتھ جہاد، زبان اور قلم سے جہاد، مال سے جہاد اور جان سے جہاد___ واضح اخلاقی حدود اور مقاصد کا پابند ہے۔ ہرسطح پر اس کے تصور، تعلیم اور تبلیغ کی ضرورت ہے تاکہ جہاد کا صحیح فہم و ادراک ہو اور اس کی نعمتوں سے مسلمان اور غیرمسلم سب فیض یاب ہوسکیں۔ یوں تو جہاد کے اس تصور کا فہم اور احترام ہر دور میں ضروری تھا مگر آج جب جہاد کو بدنام کرنے کی کوشش ہورہی ہے اور اسے تشدد اور دہشت گردی کے مترادف قرار دیا جارہا ہے، اس وقت جہاد کی تفہیم اور جہاد کے آداب کے مکمل احترام کی ضرورت ہمیشہ سے زیادہ ہے۔ جہاد اسلام کی ابدی تعلیم اور اس کا رکن رکین ہے۔ اس کا یہ کردار سب سے پہلے خود مسلمانوں کے سامنے واضح ہونا چاہیے تاکہ غیرمسلم بھی اس کی گواہی دے سکیں۔
عصرِحاضر میں اسلامی تحریکات کی خدمات میں سے ایک نمایاں خدمت یہ ہے کہ ایک طرف اس نے جہاد اور روحِ جہاد کے احیا کا کارنامہ انجام دیا ہے، تو دوسری طرف جہاد کے مقاصد، آداب اور ضابطۂ کار کی وضاحت اور احترام کر کے اس کے اصل کردار پر توجہ مرکوز کی ہے اور مسلمانوں کو اس کا پابند بنانے کی کوشش کی ہے۔
مسلم ممالک کے درمیان معاشی، سیاسی، تعلیمی، ٹکنالوجی اور میڈیا کے میدانوں میں قریب ترین تعاون بلکہ اتحاداورالحاق کی ضرورت ہے، جو نظریے اور تاریخ کے اشتراک کے ساتھ مفادات کے اشتراک اور سیاسی اور معاشی حوالوں سے باہمی تعاون اور احترام کی محکم بنیادوں پر استوار ہونا چاہیے۔ یہ ایسی ضرورت ہے، جسے مؤخر نہیں کیا جاسکتا۔ اس نظام میں تنازعات کے تصفیے کا بھی مناسب انتظام ہونا چاہیے، تاکہ حقیقت پسندی سے اتحاد کو مستحکم کیا جاسکے۔ عالمی سطح پر مسلم نقطۂ نظر کو پیش کرنے کے لیے میڈیا کی مؤثر ترقی و تنظیم بھی ضروری ہے۔
اسلام کے عالمی کردار کی مؤثر ادائی اسی وقت ممکن ہے جب تمام مسلمان ملک اور اُمت مسلمہ ان خطوط پر اپنی اجتماعی زندگی کی تشکیل کرے۔ ’اُمت ِ وسط‘ کی حیثیت سے اللہ کی بندگی اور انسانوں کے لیے انصاف اور فلاح کے نظام کی داعی کی حیثیت سے اپنے گھر کی تعمیر کرے اور دنیا کے سامنے اس کا نمونہ پیش کرے۔
وقت کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے پاکستان اور اہلِ پاکستان پر بھی ایک بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ہمارے اندرونی معاملات میں بیرونی قوتوں کی چھپی اور کھلی دراندازیاں مشکلات میں اضافے اور آزادی کے لیے خطرات کا باعث ہیں۔ ان حالات کا تقاضا ہے کہ تصادم، عدم مشاورت اور وقت گزاری کی پالیسی ترک کرکے ایک ایسی پالیسی اپنائی جائے، جس میں پاکستان، اس کے نظریے اور قوم کی سلامتی اور ترقی کو یقینی بنایا جاسکے۔ اس کے لیے درج ذیل اُمور فوری توجہ کے طالب ہیں:
۱- اللہ سے وفاداری اور اس پر بھروسے کو سب چیزوں پر اولیت دی جائے۔ اللہ کی طرف رجوع ہو اوراپنی غلطیوں اور کمزوریوں کا اپنے مالک کے حضور اعتراف کرکے اس سے طاقت اور رہنمائی طلب کی جائے۔ پوری قوم اور اس کی قیادت اپنے خالق و مالک کا دامنِ رحمت تھامے اور اس سے مدد مانگے۔
۲- عوام پر اعتماد کیا جائے اور ان کو اعتمادمیں لیا جائے اور مؤثر طور پر ان کو قومی سلامتی، ترقی اور تعمیرنو کے لیے متحرک کیا جائے۔
۳- ایسی نظریاتی کش مکش اور لاحاصل بحث سے بچا جائے جس میں مغربی میڈیا اور دانش ور ہمیں مبتلا کردینا چاہتے ہیں۔ ’بنیاد پرستی‘، ’انتہاپرستی‘ اور ’فرقہ پرستی‘ ہمارے مسائل نہیں۔ جدید اور قدیم کی بحثیں بھی بہت پرانی باتیں ہیں اور ہم ان سے گزر چکے ہیں۔ اسلام کی بنیادی تعلیمات بہت صاف اور واضح ہیں۔ اسلام ایک مکمل نظامِ زندگی ہے جو بنیادی اخلاقی اقدار کی روشنی میں انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی تشکیل کرتا ہے۔ سیکولرزم ایک مُردہ گھوڑا ہے ، اس پر سواری کے خواب دیکھنا ایک حماقت ہے۔ پاکستان کے دستور نے جن تین بنیادوں کو واضح طور پر پیش کر دیا ہے، یعنی: اسلام، جمہوریت اور وفاقی طرزِحکومت انھیں متفق علیہ بنیاد بناکر قومی پالیسی کی تشکیل کی جائے اور ان طے شدہ اُمور کو ازسرِنو زیربحث لانے کی جسارت نہ کی جائے۔ اسلام اعتدال کا دین ہے۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد، دونوں برابر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ضرورت اس پر عمل کی ہے۔ ہمارا ایجنڈا، ہماری تحریک ِ آزادی اور ہماری قراردادِ مقاصد، ہمارے دستور میں طے ہے۔ اسے مضبوطی سے تھام لیجیے۔
۴- ملک کی دفاعی قوت کی حفاظت کو اولیت حاصل ہے۔ اس خطے میں امریکی فوجوں کی موجودگی پاکستان کے لیے ایک خطرہ ہے۔ اسی طرح بھارت کے عزائم کا ادراک اور مقابلے کے لیے فوج اور قوم میں ہم آہنگی اور دونوں کا متحرک و فعال ہونا ضروری ہے۔
۵- پاکستان اور اسلامی دنیا میں ایسی معاشرتی ترقی کا حصول جو ملکی پیداوار اور پیداآوری صلاحیت میں ہمہ افزوں اضافے کا باعث ہو، ترقی کی رفتار میں نمایاں اضافہ کیا جائے، تاکہ ملک کی مارکیٹ وسیع تر ہو۔ جدید ٹکنالوجی کا حصول اور ترقی جس کا لازمی جزو ہو۔ معاشی انصاف اور دولت کی منصفانہ تقسیم جس کا مرکزی ہدف ہو اور جس کا مطلوب معاشی ترقی کے ساتھ عدلِ اجتماعی کا قیام اور خود انحصاری کا حصول ہو۔ عسکری قوت کے ساتھ معاشی قوت کا حصول بھی باعزت زندگی کے لیے لازمی شرط ہے۔
۶- جموں و کشمیر میں بھارتی افواج کی بہیمانہ سرگرمیوں کی مذمت کرنے اور مظلوم کشمیری مسلمانوں کے حقِ خود ارادیت کے بارے میں مکمل یکسوئی اور مضبوط و متحرک موقف پر عمل درآمد کی راہوں پر چلنے کی ضرورت ہے۔ حکومت ِ پاکستان کو کشمیر کمیٹی کی ازسرِنو تشکیل کرکے، دنیا بھر کے سامنے کشمیر کے مقدمے کو پوری قوت سے پیش کرنا چاہیے۔
۷- افغانستان میں بدامنی کی فضا کو قائم رکھنا امریکا اور بھارت کی ضرورت ہے، تاکہ وہاں ان کی موجودگی کا کوئی نہ کوئی جواز پیش کیا جاسکے۔ اس ضمن میں چین اور روس کے ساتھ مل کر وہاں امن قائم کرنے کی جو کوششیں ہورہی ہیں، انھیں تیز تر کیا جائے اور کابل میں محدود انتظامیہ کو افغانستان کی نمایندہ قوت تصور کرنے کے بجاے وہاں کی اصل قوت کے مراکز کو شریکِ مشورہ کیا جائے۔ دین، تاریخ اور مشترک مفادات کی بنیاد پر امن اور باہمی تعاون کو فروغ دیا جائے۔
۸- فلسطین پر مغربی اقوام کی زیرسرپرستی صہیونی سلطنت کے ناجائز وجود کو ختم کیا جائے اور اعلانِ بالفور کے بعد ایک سو سال سے مسلط کردہ جبری خوں ریزی کا خاتمہ کیا جائے۔
۹- مسلم ممالک بالخصوص عرب ممالک سے تعلقات میں گہرائی پیدا کی جائے اور مشترکہ حکمت ِعملی کی ضرورت و اہمیت کو اُجاگر کیا جائے۔
۱۰- ایران اور وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ مشترک مفادات میں باہم تعاون کو بڑھایا جائے۔
ہمیں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ ایک جانب یہ اُمور حکومت ِ پاکستان کے مثبت اور مؤثر کردار کا تقاضا کرتے ہیں تو دوسری جانب وطن عزیز کے اہلِ دانش اور ماہرین کو بھی حق کی گواہی اور وقت کے چیلنج کا جواب دینے کے لیے پکارتے ہیں۔
کرئہ ارض جس پر ہم آپ رہتے ہیں خدا کی عظیم الشان سلطنت کا ایک چھوٹا سا صوبہ ہے۔ اس صوبے میں خدا کی طرف سے جو پیغمبر بھیجے گئے ہیں، ان کی حیثیت کچھ اس طرح کی سمجھ لیجیے جیسے دنیا کی حکومتیں اپنے ماتحت ملکوں میں گورنر یا وائسرائے بھیجا کرتی ہیں۔ ایک لحاظ سے دونوں میں بھاری فرق ہے۔
دنیوی حکومتوں کے گورنر اور وائسرائے محض انتظام ملکی کے لیے مقرر کیے جاتے ہیں اور سلطانِ کائنات کے گورنر اور وائسرائے اس لیے مقرر ہوتے ہیں کہ انسان کو صحیح تہذیب ، پاکیزہ اخلاق اور سچے علم وعمل کے وہ اصول بتائیں جو روشنی کے مینار کی طرح انسانی زندگی کی شاہراہ پر کھڑے ہوئے صدیوں تک سیدھا راستہ دکھاتے رہیں، مگر اس فرق کے باوجود دونوں میں ایک طرح کی مشابہت بھی ہے۔ دنیا کی حکومتیں گورنری جیسی ذمہ داری کے منصب ان ہی لوگوں کو دیتی ہیں، جو ان کے سب سے زیادہ قابل اعتماد آدمی ہوتے ہیں اور جب وہ انھیں اس عہدے پر مقرر کردیتی ہیں تو پھر انھیں یہ دیکھنے اور سمجھنے کا پورا موقع دیتی ہیں کہ حکومت کا اندرونی نظام کس طرح پالیسی پر چل رہا ہے اور ان کے سامنے اپنے وہ راز بے نقاب کر دیتی ہیں، جو عام رعایا پر ظاہر نہیں کیے جاتے۔
ایسا ہی حال خدا کی سلطنت کا بھی ہے۔ وہاں بھی پیغمبری جیسی ذمہ داری کے منصب پر وہی لوگ مقرر ہوئے ہیں جو سب سے زیادہ قابل اعتماد تھے، اور جب انھیں اس منصب پر مقرر کر دیا گیا تو اللہ تعالیٰ نے خود ان کو اپنی سلطنت کے اندرونی نظام کا مشاہدہ کرایا اور ان پر کائنات کے وہ اسرار ظاہر کر دیے جو عام انسانوں پر ظاہر نہیں کیے جاتے۔
اسی نوعیت کے تجربات میں سے ایک وہ چیز ہے جس کو معراج کہتے ہیں۔ معراج صرف سیر اور مشاہدہ ہی کا نام نہیں ہے بلکہ یہ ایسے موقعے پر ہوتی ہے، جب کہ پیغمبر کو کسی کارِ خاص پر مقرر کرنے کے لیے بلایا جاتا ہے، اور ایسا ہی ایک اہم موقع وہ تھا جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو طلب کیا گیا ۔ یہ وہ وقت تھا کہ صرف حجاز اور صرف عرب ہی نہیں بلکہ گردوپیش کی دوسری قوموں سے بھی سابقہ پیش آنا تھا اور اسلام کی تحریک ایک اسٹیٹ میں تبدیل ہونے کو تھی۔ اس لیے اس اہم موقعے پر آپ کو ایک نیا پروانۂ تقرر اور نئی ہدایات دینے کے لیے باد شاہِ کائنات نے اپنے حضور میں طلب فرمایا ۔
اسی پیشی وحضوری کا نام معراج ہے۔ عالمِ بالا کا یہ حیرت انگیز سفر ہجرت سے تقریباً ایک سال پہلے پیش آیا تھا۔ اس سفر کے ضمنی واقعات احادیث میں آئے ہیں، مثلاً: بیت المقدس پہنچ کر نماز ادا کرنا ، آسمان کے مختلف طبقات سے گزرنا ، پچھلے زمانے کے پیغمبروں سے ملنا اور پھر آخری منزل پر پہنچنا ۔ لیکن قرآن ضمنی چیزوں کو چھوڑ کر ہمیشہ اصل مقصد تک اپنے بیان کو محدود رکھتا ہے۔ اس لیے اس نے کیفیت ِ معراج کا کچھ ذکر نہیں کیا،بلکہ وہ چیز تفصیل کے ساتھ بیان کی ہے جس کے لیے آںحضرتؐ کو بلایا گیا تھا۔ قرآن کی ۱۷ویں سورت [بنی اسرائیل]میں آپ کو یہ تفصیل مل سکتی ہے۔
اس کے دوحصے ہیں۔ ایک حصے میں مکے کے لوگوں کو آخری نوٹس دیا گیا کہ اگر تمھاری سختیوں کی وجہ سے خدا کا پیغمبر جلاوطنی پر مجبور ہوا تو مکے میں تم کو چند سال سے زیادہ رہنے کا موقع نہ مل سکے گا، اور بنی اسرائیل کو جن سے عنقریب مدینے میں پیغمبر کو براہِ راست سابقہ پیش آنا تھا ، خبردار کیا گیا کہ تم اپنی تاریخ میں دو زبر دست ٹھوکریں کھا چکے ہواور دو قیمتی موقعے کھو چکے ہو۔ اب تم کو تیسرا موقع ملنے والا ہے اور یہ آخری موقع ہے۔
دوسرے حصے میں وہ بنیادی اصول بتائے گئے ہیں،جن پر انسانی تمدن و اخلاق کی تعمیر ہونی چاہیے ۔ یہ چودہ اصول ہیں :
۱- صرف اللہ کی بندگی کی جائے اور اقتدارِ اعلیٰ میں اس کے ساتھ کسی کی شرکت نہ تسلیم کی جائے۔
۲- تمدن میں خاندان کی اہمیت ملحوظ رکھی جائے، اولاد والدین کی فرماں بردار وخدمت گزار ہو اور رشتہ دار ایک دوسرے کے ہمدرد و مدد گارہوں۔
۳- سوسائٹی میں جو لوگ غریب یا معذور ہوں یا اپنے وطن سے باہر مدد کے محتاج ہوں وہ بے وسیلہ نہ چھوڑ دیے جائیں۔
۴- دولت کو فضول ضائع نہ کیا جائے ۔ جو مال دار اپنے روپے کو برے طریقے سے خرچ کرتے ہیں وہ شیطان کے بھائی ہیں۔
۵- لوگ اپنے خرچ کو اعتدال پر رکھیں ، نہ بخل کر کے دولت کو روکیں اور نہ فضول خرچی کر کے اپنے لیے اور دوسرے کے لیے مشکلات پیدا کریں۔
۶- رزق کی تقسیم کا قدرتی انتظام جو خدا نے کیا ہے، انسان اس میں اپنے مصنوعی طریقوں سے خلل نہ ڈالے ۔خدا اپنے انتظام کی مصلحتوں کو زیادہ بہتر جانتا ہے۔
۷- معاشی مشکلات کے خوف سے لوگ اپنی نسل کی افزایش نہ روکیں، جس طرح موجودہ نسلوں کے رزق کا نتظام خدا نے کیا ہے آنے والی نسلوں کے لیے بھی وہی انتظام کرے گا۔
۸- خواہشِ نفس کو پورا کرنے کے لیے زنا کا راستہ برا راستہ ہے۔ لہٰذا نہ صرف زنا سے پرہیز کیا جائے بلکہ اس کے قریب جانے والے اسباب کا دروازہ بھی بند ہونا چاہیے۔
۹- انسانی جان کی حرمت خدا نے قائم کی ہے۔ لہٰذا خدا کے مقرر کردہ قانون کے سوا کسی دوسری بنیاد پر آدمی کا خون نہ بہایا جائے، نہ کوئی اپنی جان دے ، نہ دوسرے کی جان لے۔
۱۰- یتیموں کے مال کی حفاظت کی جائے جب تک وہ خود اپنے پائوں پر کھڑے ہونے کے قابل نہ ہوں۔ ان کے حقوق کو ضائع ہونے سے بچایا جائے۔
۱۱- عہدوپیمان کو پورا کیا جائے ۔ انسان اپنے معاہدات کے لیے خدا کے سامنے جواب دہ ہے۔
۱۲- تجارتی معاملات میں ناپ تول ٹھیک ٹھیک راستی پر ہونا چاہیے۔ اوزان اور پیمانے صحیح رکھے جائیں۔
۱۳- جس چیز کا تمھیں علم نہ ہو اس کی پیروی نہ کرو۔ وہم اور گمان پر نہ چلو کیونکہ آدمی کو اپنی تمام قوتوں کے متعلق خدا کے سامنے جواب دہی کرنی ہے کہ اس نے انھیں کس طرح استعمال کیا۔
۱۴- نخوت اور تکبر کے ساتھ نہ چلو۔ غرور کی چال سے نہ تم زمین کو پھاڑ سکتے ہو،نہ پہاڑوں سے اونچے ہو سکتے ہو۔
یہ چودہ اصول جو معراج میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیے گئے تھے، ان کی حیثیت صرف اخلاقی تعلیمات ہی کی نہ تھی بلکہ یہ وہ پروگرام تھا جس پر آپ کو آیندہ سوسائٹی کی تعمیر کرنی تھی۔ یہ ہدایات اس وقت دی گئی تھیں جب آپ کی تحریک عنقریب تبلیغ کے مرحلے سے گزر کر حکومت اور سیاسی اقتدار کے مرحلے میں قدم رکھنے والی تھی ۔ لہٰذا یہ گویا ایک مینی فسٹو تھا جس میں یہ بتایا گیا تھا کہ خدا کا پیغمبر ان اصولوں پر تمدن کا نظام قائم کرے گا۔ اسی لیے معراج میں یہ۱۴نکات مقرر کرنے کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے تمام پیروان اسلام کے لیے پانچ وقت کی نماز فرض کی تا کہ جو لوگ اس پروگرام کو عمل کا جامہ پہنانے کے لیے اٹھیں ان میں اخلاقی انضباط پیدا ہو اور وہ خدا سے غافل نہ ہونے پائیں۔ ہر روز پانچ مرتبہ ان کے ذہن میں یہ بات تازہ ہوتی رہے کہ وہ خود مختار نہیں ہیں بلکہ ان کا حاکمِ اعلیٰ خدا ہے جس کو انھیں اپنے کام کا حساب دینا ہے۔
ہم دینِ اسلام کی دعوت اور تحریک الاخوان المسلمون کے اغراض و مقاصد اس طرح پیش کرنا چاہتے ہیں جو نُور سے زیادہ روشن، شعاعِ آفتاب سے زیادہ تابناک اور دن کی روشنی سے زیادہ شفاف ہوں ۔ جن میں کوئی ایچ پیچ، اُلجھن ، دھندلا پن یا شک و شبہہ نہ پایا جائے۔ تاہم، اس سے پہلے قوم کو آگاہ کر دینا چاہتے ہیں کہ یہ دعوت اور یہ تحریک الاخوان المسلمون: شخصی مقاصد، اغراض اور وقتی منافع سے بالکل پاک ہے۔ اسے خواہشات اور اغراض کی ہو ا تک نہیں لگی اور نہ ان شاء اللہ لگے گی۔ ہم نے ان چیزوں کو دفن کردینے کے بعد دعوت کی بنیاد رکھی ہے۔
ہماری تحریک کے دو حصے ہیں: ایک حصہ ایجابی ہے اور وہی اصل ہے بلکہ وہی کُل ہے۔ دوسرا حصہ سلبی ہے۔اس حصے میں ہم دنیا کی دوسری قومی، وطنی، جمہوری، اشتراکی، اخلاقی یا رُوحانی تحریکوں کی کمزوریاں، اُن کی وقتیّت، محدودیت اور جزویت بیان کرتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ ان کے مقابل میں اس تحریک کی جامعیت و افادیت اور اس کی ہمہ گیری کو پیش کرتے ہیں۔
ہم اپنی تحریک کے ایجابی پہلوکو اختصار کے ساتھ پیش کرنے کے لیے کہتے ہیں کہ دنیا کو ہم اسلامیت کی طرف بلاتے ہیں۔ ممکن ہے آپ حیران ہوں کہ اس میں ’اخوان‘ کی کیا خصوصیت ہے؟ اسلام تو ایسا جامع کلمہ ہے کہ دنیا کا ہرمسلمان اور مسلمانوں کی ہر چھوٹی بڑی تنظیم اسلام ہی کا نام لیتی ہے، مگر آپ کی حیرانی دیر تک نہیں قائم رہ سکتی۔ سنیے، ہم اسلام کا نام لیتے ہیں تو اس کا وہ تنگ اور محدود مفہوم نہیں مراد لیتے، جو ہماری قوم کے اکثر اہلِ علم سمجھتے ہیں اور اسی کے مطابق عمل کرتے ہیں۔ اس تنگ مفہوم کی وجہ سے اسلام اپنوں اور غیروں کے سامنے ویسی ہی غیرمتوازن اور غیرمتناسب شکل میں آتا ہے، جیسے دوسرے مذاہب ہیں۔ ہم اسلام کو ایک ایسا ہمہ پہلو ضابطۂ حیات سمجھتے ہیں جو انسانی زندگی کے تمام شعبوں اور پہلوئوں کو اپنی گرفت میں لیتا ہے۔ اسلام صرف مسجدوں اور خانقاہوں کی راہ نہیں دکھاتا بلکہ حکومت کے ایوانوں کو بھی ایک محکم نظام عطا کرتا ہے اور تمام انفرادی اور اجتماعی معاملات و مسائل میں اپنا خاص نقطۂ نظر اور لائحہ عمل پیش کرتا ہے۔
اسلام کی نمایندگی کرنے اور مسلمانوں کی جماعت بلکہ مسلمان ہونے کے معنی یہ ہیں کہ نہ صرف انفرادی سیرت و اخلاق کی تعمیر اور عبادت و ریاضت کی ادایگی اسلامی ہدایت کے مطابق کی جائے بلکہ اجتماعی زندگی کے کُل معاملات اور جملہ مسائل اسی کی رہنمائی میں مرتّب اور حل کیے جائیں۔ چاہے ان معاملات کا تعلق صنعت و حرفت اور تجارت و زراعت سے ہو، یا ان کا تعلق پولیس اور عدالت سے، یا جرائم اور ان کی سزائوں سے ہو، یا تہذیب و معاشرت، تمدّن و سیاست اور بین الاقوامی تعلقات سے ہو۔ ہم چاہتے ہیں کہ ریاست کا نظام چلانے کے لیے کابینہ بنے اور ریاستی سطح پر قوانین مرتب یا نافذ کیے جائیں تو، صلح و جنگ کے مسائل پیش آئیں تو، عدل و انصاف کے محکمے قائم کیے جائیں تو، مقدمات کے فیصلے اور جرائم کی سزائیں دی جائیں تو، اقتصادی اور معاشی پروگرام بنائے جائیں تو، معاشرت و تہذیب کے مظاہرے پیش کیے جائیں تو، نظام ہاے تعلیم رائج کیے جائیں تو، بہرصورت اسلام سے اور صرف اسلام سے رہنمائی حاصل کی جائے۔
اسلام کی جس وسعت کو ہم پیش کر رہے ہیں اور جس اسلامیت کی طرف دعوت دے رہے ہیں، یہ نہ تو ہمارے ذہن کی اختراع ہے، اور نہ یہ صرف زبانی دعویٰ ہے بلکہ کتاب و سنّت اور صحابہؓ و سلف صالحینؒ کی سیرت سے ہم نے یہی سمجھا ہے۔ اسلام کی جتنی تشریحات اور تعبیریں ہم نے کی ہیں وہ سب کتاب اللہ سے ماخوذ ہیں۔ سنت ِ نبویؐ ، اللہ کی کتاب کی اوّلین شرح ہے۔ صحابہ کرامؓ اور سلف صالحینؒ اسلامی تعلیمات پر بہترین عمل کرنے والے، اس کے قوانین کو نافذ کرنے والے، اور اس اسلامیت کے بے مثل نمونہ ہیں، جس کی طرف ہم بلا رہے ہیں۔ اگر کوئی شخص چاہے تو شخصی اغراض و ذاتی خواہشات اور جملہ تعصبات سے خالی الذہن ہوکر قرآن پاک اُٹھائے اور کھول کر بیٹھ جائے، اس پر غور کرے اور تمام اوامر و نواہی کا اپنے آپ ہی کو مخاطب تصور کرے، تو ہمیں یقینِ کامل ہے کہ وہ اسلام کو اسی طرح سمجھے گا، جس کی طرف ہم دعوت دے رہے ہیں۔
ہماری دعوت جن لوگوں کو پہنچتی ہے اور جن کے کان اس دعوتِ حق سے آشنا ہوجاتے ہیں، ماننے اور نہ ماننے کے اعتبار سے اُن کی چار قسمیں ہیں:
۱- اوّل وہ لوگ جو دعوت کو صحیح سمجھ کر اس کے اصول و مبادی سے اتفاق اور طریق کار کو پسند کرتے ہیں اور اس تحریک سے بالکل مطمئن ہوجاتے ہیں ۔ ان حضرات سے ہماری درخواست ہے کہ وہ اتفاق و تائید اور تعریف و توصیف کا اظہار دُور دُور سے نہ کریں، بلکہ باضابطہ ہمارے ساتھ تعاون و اشتراک کرکے دینِ اسلام کے بے لوث رضاکاروں کی تعداد بڑھائیں۔ اپنی آوازوں سے داعیانِ حق کی آواز کو قوت اور بلندی فراہم کریں۔ عملی طور پر اس قافلے کا حصہ بن کر اجتماعیت کو مضبوط بنائیں اور اپنی زندگی میں اسلام کی مرضی کے مطابق تبدیلیاں پیدا کریں۔ اس لیے کہ جس ایمان کی پُشت پر عمل نہ ہو وہ بے معنی ہے، اور جو عقیدہ ایثار و قربانی پر آمادہ نہ کرے وہ بے سود ہے۔
۲- دوسرے وہ لوگ ہوسکتے ہیں جن پر مکمل طور پر دعوت واضح نہیں ہوئی اور اس تحریک میں یا ہمارے قول و عمل میں صداقت کے ساتھ انھیں کچھ خامیاں بھی نظر آتی ہیں۔ ایسے لوگ فی الواقع تذبذب و تردّد میں پڑ جاتے ہیں جس کی وجہ سے ان کا ایک قدم آگے بڑھتا ہے تو دوسرا پیچھے ہٹ جاتا ہے۔ ان حضرات کے سامنے ہم اپنی ذاتی خامیوں کا اعتراف کرتے ہوئے پُرزور اپیل کرتے ہیں کہ وہ قریب آکر ہمارے اجتماعات میں شریک ہوں۔ تمام پہلوئوں سے ہمیں جانچیں اور پرکھیں یا دُور ہی رہیں، مگر جملہ تعصبات و عقیدتوں سے اور شخصی اغراض و ذاتی خواہشات سے بالاتر ہوکر ہمارے لٹریچر کا مطالعہ کرکے دعوت کے اصول و مقاصد اور مرتّبہ دستور پر غور کریں۔ ہمیں یقین ہے کہ ان شاء اللہ تعالیٰ ان کا تردّد رفع ہوجائے گا اور وہ مطمئن ہوجائیں گے۔
۳- تیسرے ایسے لوگ ہیں جو اپنی جانی اور مالی کوششیں کسی معاملے میں اس وقت تک صرف کرتے ہی نہیں جب تک یہ نہ دیکھ لیں کہ اس میں انھیں کیا نفع ملے گا، یعنی اُن کی دولت و ثروت بڑھ جائے گی یا عزت و شان میں اضافہ ہوگا۔
چنانچہ صرف نفع پر نظر رکھنے والے ان حضرات کو بھی ہم خوش آمدید کہتے ہیں۔ آیئے آپ نقصان میں نہیں رہیں گے۔ ہمارے یہاں رضاے الٰہی اور جنّت کے حصول کا نفع ہے، اس کے سوا اور کوئی مادی چیز نہیں۔ ہاں، یہ نفع اُس وقت ملے گا، جب آپ نیکیوں کے عمل اور اخلاص کے جذبات پیش کریں گے اور حسب ِ مراتب یہاں دینی عظمت و شرافت بھی نصیب ہوگی۔ لیکن مال و زر اور سازوسامان میں ہم سب بے نوا ہیں، کیونکہ فی الحال جو کچھ جسمانی قوتیں اور دماغی صلاحیتیں ہم رکھتے ہیں، اس کے بارے میں اسی چیز کو سعادت سمجھتے ہیں کہ وہ حق کی راہ میں لگا دیں ، جو مالی وسائل و ذرائع ہمارے ہاتھ آئیں وہ سب اسی راہ میں خرچ کرتے رہیں اور صرف اللہ کی رضا اور اُس کی جزا کی اُمید رکھیں: وَھُوَ حَسْبُنَا وَ نِعْمَ الْمَوْلٰی وَنِعْمَ النَّصِیْرُ۔
۴- چوتھے وہ لوگ ہیں، جو ہمارے بارے میں طرح طرح کے شکوک و شبہات اور بدگمانیاں پیدا کرتے ہیں۔ ایسے لوگ فریب ِ نفس اور شخصی یا گروہی تعصب سے الگ ہوکر سوچنے کا ذہن میں خیا ل ہی نہیں لاتے۔ ان لوگوں کے بارے میں ہم دُعا کرتے ہیں کہ اللہ ہمیں اور اُن کو خیر کی تلقین فرمائے۔
جن لوگوں تک ہماری دعوت پہنچتی ہے ان لوگوں کا غوروفکر کرکے ان چار گروہوں میں سے کسی ایک میں شامل ہو جانا کوئی نہ کوئی معنی رکھتا ہے۔ لیکن محض جمود اور بے حسی کی وجہ سے ہماری باتوں پر کان نہ دھرنا ایک مومن کی شان نہیں ہے۔
اخوان کی تحریک ایک آزمودہ اور تسلیم شدہ دعوت ہے۔ آج مشرق و مغرب میں سیکڑوں دعوتیں اور تحریکات پائی جاتی ہیں، جو اپنے افکار و نظریات کو خوب آراستہ و پیراستہ کرکے پیش کر رہی ہیں۔ کل تک تو نشرواشاعت اور دعوت و تبلیغ کے وسائل و ذرائع صرف خطبوں، اجتماعات اور خطوط تک محدود تھے، مگر آج یہ ذرائع لامحدود ہوگئے ہیں۔ اس لیے ہماری خواہش اور کوشش ہے کہ داعیانِ حق بھی ان تمام لامحدود وسائل و ذرائع کو احسن طریقے سے استعمال میں لائیں، تاکہ شیطان کی نمایندگی کرنے والی تمام باطل تحریکوں کا مقابلہ کرسکیں اور ایثار و قربانی کر کے اچھے ثمرات سمیٹ سکیں۔
ہم خیر کثیر کی اُمید رکھتے ہیں اور ہم نااُمیدی کے شکار نہیں ہیں۔ کیونکہ ہم اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہماری کامیابی کی راہ میں یہی نااُمیدی سب سے بڑی رکاوٹ بنتی ہے۔ پس، جب ہماری اُمید قوی اور حوصلۂ عمل بلند ہوگا تو اسی وقت ہم منزلِ مقصود کو پہنچ سکیں گے۔ چنانچہ نہ تو ہم مایوس ہیں اور نہ مایوسی کو اپنے دلوں میں راہ پانے دیتے ہیں جس پر اللہ کا شکر ہے۔ گردوپیش کی چیزوں سے بددل ہونے کے بجاے یہ ساری چیزیں ہماری حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔
جب آپ کو کسی ایسے مریض کے پاس جانے کا اتفاق ہوتا ہے، جس کی حالت یہ ہوگئی ہو کہ اب وہ نہ بول سکتا ہے اور نہ حرکت کرسکتا ہے تو آپ یہ سمجھتے ہیں کہ اس کے آخری دن قریب آگئے اور اس کا شفایاب ہونا دشوار اور اس کی بیماری ناقابلِ علاج ہوچکی ہے۔ لیکن جب آپ اس بیمار کی حالت اس کے برعکس پاتے ہیں، یعنی یہ کہ اب وہ کچھ بولنے لگا ہے اور کچھ حرکت کرسکتا ہے تو آپ یہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ جلد شفایاب ہوجائے گا اور اس کا ہرقدم صحت و تندرستی کی طرف بڑھے گا۔
مسلم اقوام پر بھی جمود و تعطل کا ایک نہایت تاریک دَور گزرا ہے، لیکن اُن میں اِس وقت زندگی کے تمام گوشوں میں بیداری کی لہر دوڑ رہی ہے اور ان کے احساسات بیدار ہورہے ہیں۔ چونکہ جمود کی بھاری بیڑیاں ابھی یکسر ان کے پیروں سے نکلی نہیں ہیں اور اس پیدا شدہ حرکت کو لوگ مختلف راستوں پر لگانا چاہتے ہیں۔ اگر یہ دونوں چیزیں نہ ہوتیں تو اُس بیداری اور حرکت کے بڑے اچھے اثرات ظاہر ہوتے۔ پھر بھی یہ بیڑیاں ہمیشہ باقی نہیں رہ سکتیں۔ زمانہ ہمیشہ یکساں سرگرداں نہ رہے گا بلکہ ایک دن یقینا یہ سرگردانی، راہ یابی میں تبدیل ہوگی اور اس فکری انتشار کے بعد فکری اتحاد اور سکون کا دور آئے گا: لِلّٰہِ الْاَمْرُ مِنْ قَبْلُ وَمِنْم بَعْدُ ط (الروم ۳۰:۴) ’’اللہ ہی کا اختیار ہے پہلے بھی اور بعد میں بھی‘‘۔
یہی وجہ ہے کہ ہم کبھی نااُمیدی کا شکار نہیں ہوئے۔ آیاتِ کریمہ اور احادیث نبویہؐ اور قوموں کو ہلاکت سے بچانے اور اُن کو اُونچا اُٹھانے اور پروان چڑھانے کے سلسلے میں قانونِ قدرت اور سنت ِ جاریہ، یہ ساری چیزیں ہمارے حوصلے کو بڑھاتی ہیں اور حقیقی بیداری اور ترقی کے راستے کی طرف راہبری کرتی ہیں۔
طٰسٓمّٓ o تِلْکَ اٰیٰتُ الْکِتٰبِ الْمُبِیْنِ o نَتْلُوْا عَلَیْکَ مِنْ نَّبَاِ مُوْسٰی وَ فِرْعَوْنَ بِالْحَقِّ لِقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ o اِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِی الْاَرْضِ وَ جَعَلَ اَھْلَھَا شِیَعًا یَّسْتَضْعِفُ طَآئِفَۃً مِّنْھُمْ یُذَبِّحُ اَبْنَآئَ ھُمْ وَ یَسْتَحْیٖ نِسَآئَ ھُمْ ط اِنَّہٗ کَانَ مِنَ الْمُفْسِدِیْنَ o وَ نُرِیْدُ اَنْ نَّمُنَّ عَلَی الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا فِی الْاَرْضِ وَنَجْعَلَھُمْ اَئِمَّۃً وَّ نَجْعَلَھُمُ الْوٰرِثِیْنَ o وَ نُمَکِّنَ لَھُمْ فِی الْاَرْضِ وَ نُرِیَ فِرْعَوْنَ وَ ھَامٰنَ وَ جُنُوْدَھُمَا مِنْھُمْ مَّا کَانُوْا یَحْذَرُوْنَ o (القصص ۲۸: ۱-۶) ط-س-م، یہ کتابِ مبین کی آیات ہیں۔ ہم موسٰی اور فرعون کا کچھ حال ٹھیک ٹھیک تمھیں سناتے ہیں، ایسے لوگوں کے فائدے کے لیے جو ایمان لائیں۔واقعہ یہ ہے کہ فرعون نے زمین میں سرکشی کی اور اس کے باشندوں کو گروہوں میں تقسیم کر دیا۔ اُن میں سے ایک گروہ کو وہ ذلیل کرتا تھا، اس کے لڑکوں کو قتل کرتا اور اس کی لڑکیوں کو جیتا رہنے دیتا۔ فی الواقع وہ مفسد لوگوں میں سے تھا۔ اور ہم یہ ارادہ رکھتے تھے کہ مہربانی کریں اُن لوگوں پر جو زمین میں ذلیل کرکے رکھے گئے تھے اور اُنھیں پیشوا بنا دیں اور اُنھی کو وارث بنائیں اور زمین میں ان کو اقتدار بخشیں اور ان سے فرعون و ہامان اور ان کے لشکروں کو وہی کچھ دِکھلا دیں جس کا انھیں ڈر تھا۔
ان آیات کو پڑھیے اور دیکھیے کہ باطل اپنی قوت و طاقت کی وجہ سے کتنی سرکشی اور ظلم و عُدوان کر رہا ہے، اور اپنی شان و شوکت کے نشے میں بدمست ہوکر وہ بھول گیا کہ اللہ اُسے دیکھ رہا ہے، اور جب وہ اللہ کی دی ہوئی طاقت و قوت پر اپنے تئیں نازاں ہوا ،تو اللہ نے اس کی کتنی سخت گرفت کی۔ اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ مظلومین کی مدد اور ان بے کسوں اور ستم زدوں کی دست گیری کرنا چاہتا تھا۔ چنانچہ آپ دیکھتے ہیں کہ قصرباطل بنیاد ہی سے گرپڑا اور حق کی عمارت مضبوط بنیادوں پر قائم ہوگئی اور بالآخر اہلِ حق ہی غالب ہوئے۔ ان آیات اور قرآن کی اس طرح کی دوسری آیات کے بعد اللہ اور اس کے بھیجے ہوئے رسولؐ اور کتاب پر ایمان رکھنے والی اُمت مسلمہ کے لیے کسی طرح کی یاس و نااُمیدی کی گنجایش باقی نہ رہ گئی۔
الاخوان المسلمون آج بھی ان مسلم اقوام کے لیے اللہ کی نصرت و تائید سے نااُمید نہیں ہے۔ اگرچہ بظاہر حالات نہایت ہی ناسازگار ہیں اور راہ میں رکاوٹیں بے شمار ہیں، مگر اسی مشعلِ اُمید کو لے کر ’اخوان‘ سرگرمِ عمل و جہاد ہیں، ___ واللہ المستعان۔
ہم چاہتے ہیں کہ ہماری قوم اور دنیا کےسارے مسلمان ___ یہ جان لیں کہ اخوان کی دعوت ’پاک‘ اور ’صاف‘ ہے اور اس حد تک پہنچ چکی ہے، جہاں اس نے ذاتی مرغوبات اور مطلوبات کو خیرباد کہہ دیا ہے اور دنیاوی فوائد کو ٹھکرا دیا ہے اور اپنی اھواء اور خواہشات کو پسِ پُشت ڈال دیا ہے، اور اُس راستے پر گامزن رہنے کی کوشش کر رہی ہے، جس کی نشان دہی اللہ تعالیٰ نے داعیانِ حق کے لیے کردی ہے۔
پس، ہم لوگوں سے کچھ نہیں مانگتے۔ نہ تو ہم اُن سے مال و دولت چاہتے ہیں، اور نہ ان سے کوئی اُجرت چاہتے ہیں، اور نہ ہم اُن کے ذریعے اپنی بزرگی اور سرداری کے خواہش مند ہیں، اور نہ اُن سے کسی بدلے اور سپاس گزاری کے طلب گار ہیں۔ ہمارا اجر تو اس ذات وحدہٗ لاشریک کے ذمّے ہے، جس نے ہمیں پیدا کیا ہے۔
لوگو! ہم تو آپ کے بہی خواہ ہیں اور ہم کبھی آپ کے مفاد کے خلاف کام نہ کریں گے۔
اور پھر یہاں اسلام کی سیاست میں دنیا کی بہتری اور آخرت کی دائمی کامرانی کا راز مضمر ہے اور یہی ہماری سیاست ہے۔ اس کے سوا ہم کچھ نہیں چاہتے۔ پس، ہرشخص خود پر اسی سیاست کو حکمراں کرے اور دوسروں کو بھی اس کے لیے آمادہ کرے۔ اگر آپ نے ایسا کیا تو اُخروی عزت آپ کو حاصل ہوگی۔
۱- حالات خواہ کیسے ہی ہوں جب اذان کی آواز تیرے کانوں میں پڑ جائے تو نماز کے لیے اُٹھ کھڑا ہو۔
۲- تُو قرآن کی تلاوت کر، یا اس کا بغور مطالعہ کر، یا اُسے کسی دوسرے سے سُن، بہرحال تُو اپنے وقت کا کوئی حصہ بھی بے فائدہ کام میں صرف نہ کر۔
۳- فصیح اور صاف ستھری عربی زبان میں گفتگو کرنے کی کوشش کر، کیونکہ یہ کام بھی شعائر اسلام میں سے ہے۔
۴- خواہ کسی نوعیت کا معاملہ ہو تُو اس میں زیادہ بحث و مجادلہ سے کام نہ لے کیونکہ بحث و مجادلہ سے بہتر نتیجہ برآمد نہیں ہوتا۔
۵- زیادہ نہ ہنس، جو دل خدا سے وابستہ ہوتا ہے وہ بے حد پُرسکون اور غرقِ طمانیت ہوتا ہے۔
۶- مسخرہ پن اختیار نہ کر، مجاہد قوم سنجیدگی کے سوا کسی چیز سے آشنا نہیں ہوتی۔
۷- سننے والے کی ضرورت سے زیادہ آواز بلند نہ کر، اس میں رعونت بھی ہے اور دوسرے کے لیے اذیت بھی۔
۸- لوگوں کی غیبت اور جماعتوں پر طعن و تشنیع سے بچ، اور خیر کے سوا تیری زبان سے کوئی لفظ نہ نکلے۔
۹- جس رفیق سے بھی تیری ملاقات ہو تو اس سے اپنا تعارف کرا۔ خواہ اُس نے اس خواہش کا اظہار کیا ہو یا نہ کیا ہو۔ کیوںکہ ہماری دعوت کی بنیاد محبت اور تعارف پر استوار ہے۔
۱۰- فرائض اوقات سے زیادہ ہیں۔ لہٰذا تو اپنے دوسرے رفقا کی بھی بھرپور مدد کر تاکہ وہ اپنے اوقات سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرسکیں۔ اور اگر تیرے ذمے کوئی خاص مہم ہو تو اُسے کم از کم وقت میں پایۂ تکمیل تک پہنچا۔
مسلم معاشرے، اسلامی ریاست اور مسلمانوں کی اجتماعیت میں شورائیت کو ضروری مان لینے کے بعد ایک بہت اہم بحث یہ ہوتی ہے، کہ شورائیت کے نتیجے میں اتفاق یا اکثریت سے سامنے آنے والی راے کو سربراہِ ریاست اور امیر تنظیم کے لیے ماننا ضروری ہے، یا محض اسے سن لینا کافی ہے۔
مولانا مودودی لکھتے ہیں: ’’سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسلام میں مقننہ (اہل الحلّ والعقد) کی صحیح حیثیت کیا ہے؟ کیا وہ محض صدرِ ریاست کی مشیر ہے، جس کے مشوروں کو رد یا قبول کرنے کا صدرِ ریاست کو اختیار ہے؟ یا صدرِ ریاست اُس کی اکثریت یا اُس کے اجماع کے فیصلوں کا پابند ہے؟ اس باب میں قرآن جو کچھ کہتا ہے وہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے اجتماعی معاملات باہمی مشورے سے انجام پانے چاہییں (وَاَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ ، الشوریٰ ۴۲:۳۸) اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بحیثیت صدرِ ریاست کے خطاب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے: وَ شَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ ج فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ ط( ٰٰال عمرٰن ۳:۱۵۹) ’’اور ان سے معاملات میںمشورہ کرو، پھر (مشورے کے بعد) جب تم عزم کرلو تو اللہ کے بھروسے پر عمل کرو‘‘۔
یہ دونوں آیتیں مشورے کو لازم کرتی ہیں، اور صدر ریاست کو ہدایت کرتی ہیں کہ جب وہ مشورے کے بعد کسی فیصلے پر پہنچ جائے تو اللہ کے بھروسے پر اسے نافذ کردے۔ لیکن اس سوال کا کوئی جواب نہیں دیتیں، جو ہمارے سامنے پیش ہے۔ حدیث میں بھی اس کے متعلق کوئی قطعی حکم مجھے نہیں ملا ہے۔ البتہ خلافتِ راشدہ کے تعامل سے علماے اسلام نے بالعموم یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ نظمِ ریاست کا اصل ذمہ دار صدرِ ریاست ہے، اوروہ اہل حل و عقد سے مشورہ کرنے کا پابند ضرور ہے، مگر اس بات کا پابند نہیں کہ ان کی اکثریت یا ان کی متفقہ راے پر ہی عمل کرے۔ دوسرے الفاظ میں اس کو ’ویٹو‘ کے اختیارات حاصل ہیں‘‘۔۲۱
تاہم، تفہیم القرآن میںمولانا مودودی اس راے سے رجوع کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’جو مشورہ اہل شوریٰ کے اجماع(اتفاق راے) سے دیا جائے، یا جسے ان کے جمہور (اکثریت) کی تائید حاصل ہو، اسے تسلیم کیا جائے۔ کیونکہ اگر ایک شخص یا ایک ٹولہ سب کی سننے کے بعد اپنی من مانی کرنے کا مختار ہوتو مشاورت بالکل بے معنی ہوجاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ یہ نہیں فرمارہا ہے کہ ’’ان کے معاملات میں ان سے مشورہ لیا جاتا ہے‘‘ بلکہ یہ فرمارہا ہے کہ ’’ان کے معاملات آپس کے مشورے سے چلتے ہیں‘‘۔ اس ارشاد کی تعمیل محض مشورہ لے لینے سے نہیں ہوجاتی، بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ مشاورت میں اجماع یا اکثریت کے ساتھ جو بات طے ہو، اسی کے مطابق معاملات چلیں‘‘۔ ۲۲
اسی طرح ڈاکٹر علی صلابی بعض معاصر علما کا حوالہ دیتے ہوئے پورے شد ومد کے ساتھ امیر کو شوریٰ کی راے کا پابند قرار دیتے ہیں۔ وہ ایک طرف اسے فطرت اور عقل وقلب کی آواز بتاتے ہیں اوردوسری طرف دلائل شریعت کا تقاضا بھی قرار دیتے ہیں۔ ان کے بقول شوریٰ کا پابند کرکے ہی امیر کو استبداد (Dictatorship) اور مطلق العنانی سے باز رکھا جا سکے گا۔اس موقف کی تائید میں وہ حیاتِ رسولؐ کی ان بعض نظیروں کو بھی پیش کرتے ہیں، جب اللہ کے رسولؐ نے لوگوں کی راے سامنے آجانے کے بعد اپنے موقف سے رجوع فرمالیا۔ ڈاکٹر صلابی کا کہنا ہے کہ امیر امت کا ایک فرد ہوتا ہے، اورفرد کی راے کے مقابلے میں امت کی راے کا صحیح تر ہونا بہر حال زیادہ قرین قیاس ہے۔ ایک فرد کی راے میں غلطی کے جس قدر امکانات ہوتے ہیں ، ایک بڑے گروہ کی راے میں وہ امکانات بہت کم ہوجاتے ہیں۔ شوریٰ کی راے کو لازمی قرار دینے کا صرف اگر ایک یہی فائدہ حاصل ہوتا ہو کہ اس طرح مطلق العنانی کا دروازہ بند ہوجاتا ہے تو یہ اپنے آپ میں ایک طاقت ور دلیل ہے۔۲۳
دراصل آیت شوریٰ کے الفاظ اسی دوسری راے کی تائید کرتے ہیں، کہ جب معاملے کا تعلق سب سے ہو تو ایک فرد کو محض اپنی صواب دید سے کوئی فیصلہ کرلینے کا اختیار نہیں دیا جاسکتا ہے۔ اگر معاملہ حاکم یا امیر کا ذاتی ہو تب تو یہ سمجھ میں آتا ہے کہ وہ جن لوگوں کو اہل الراے اور قابل اعتماد سمجھتا ہو ان سے مشورہ لے اور اس کی روشنی میں پوری آزادی کے ساتھ فیصلہ کرے، کیونکہ معاملہ اس کا ذاتی ہے۔ تاہم، اگر معاملہ اس کا ذاتی نہیں بلکہ امت اور اجتماعیت کا ہو، اور ہونے والے فیصلے کا راست اثر امت اور پوری اجتماعیت کے افراد پر ہوتا ہو، تو ایسی صورت میں وَاَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ پر عمل کیا جائے گا، اور امت یا امت کے نمایندوںسے مشورہ لیا جائے گا، اور وہ جس راے تک پہنچیں گے اسی کو لازمی طور سے اختیار کیا جائے گا۔
شَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ سے تو ایسی کوئی گنجایش نکل سکتی تھی، کہ حکم مشورے میں شریک کرنے کا ہے، مشورے کو مان لینے کا نہیں ہے، لیکن اَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ کا تقاضا تو یہی ہے کہ جو بھی فیصلہ ہو وہ شورائی عمل کے ذریعے ہی وجود میں آئے۔ اس میں کہیں بھی کسی ایک فرد کی راے کو سب کی راے پر محض اس وجہ سے برتری حاصل نہ ہو کہ وہ کسی امیر کی راے ہے یا کسی بزرگ کی راے ہے،کیونکہ آیت میں زور افراد پر نہیں بلکہ معاملے پر ہے، کہ وہ افراد کی باہمی مشاورت سے فیصل ہوتے ہیں۔اگر افراد مشاورت میں شریک ہوں لیکن معاملات کسی کی ذاتی راے سے فیصل ہوتے ہوں تو یہ اَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ نہیں ہے۔
مشاورتی عمل میں خواتین کی شرکت کے حوالے سے مولانا مودودی کہتے ہیں کہ ایک اسلامی ریاست میں عورتوں کو بھی حقِ راے دہی حاصل ہوگا۔ اگرچہ نام نہاد متمدن ممالک میں تو عورتوں کو یہ حق بہت بعد میں حاصل ہوا، لیکن اسلام نے تو آغاز ہی میں انھیں یہ حق تفویض کردیا تھا۔۲۴
تاہم، بعض معاصر علما خواتین کی شورائی عمل میں شرکت اور اس کے لیے تشکیل کردہ مجالس شوریٰ کی رکنیت کی بھر پوروکالت کرتے ہیں۔ علامہ علال فاسی: فَاِنْ اَرَادَا فِصَالًا عَنْ تَرَاضٍ مِّنْھُمَا وَ تَشَاوُرٍ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْھِمَا ط(البقرہ۲:۲۳۳)سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب چھوٹے خاندان کی سطح پر عورت سے خاندانی امور میں مشورے کو مطلوب قرار دیا گیا ہے، تو بڑے خاندان، یعنی امت اور ریاست کی سطح پر آدھے خاندان (خواتین) کو شورائیت کے حق سے کیسے محروم رکھا جاسکتا ہے۔ ۲۵
ڈاکٹر علی صلابی نے خواتین کی شورائی عمل میں شرکت کے حق میں حیاتِ رسولؐ اور خلافت راشدہ کی عملی نظیریں پیش کی ہیں ، جن سے خواتین کا ریاست کے امور میں مشورے دینا، اور ان مشوروں کو قابل لحاظ مقام دیا جانا معلوم ہوتا ہے۔خاص طور سے خلیفہ دوم حضرت عمرؓ کے بارے میں اس کا خاص اہتمام منقول ہے۔۲۶
ڈاکٹر علی صلابی نے ایک لطیف استدلال کرتے ہوئے بتایا کہ قرآن مجیدمیں عورت کا مشورہ کرنا بھی مذکور ہے اور مشورہ دینے کا بھی تذکرہ ہے۔ مشورہ مانگنے کی مثال سورۂ نمل (۲۹ -۳۵) میں مذکور ملکۂ سبا کا واقعہ ہے، جس میں ملکہ سبا نے حضرت سلیمان ؑ کے پیغام کے تعلق سے اپنے درباریوں سے مشورہ مانگا تھا، جب کہ مشورہ دینے کی مثال سورۂ قصص کی آیت ۲۶ میں مذکور وہ واقعہ ہے جب دوبہنوں میں سے ایک نے اپنے والد کو حضرت موسٰی کی خدمات حاصل کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ قرآن مجید میں مذکورہ دونوں واقعات اس انداز سے بیان کیے گئے ہیں کہ شارع کی رضامندی ظاہر ہوتی ہے۔۲۷
البتہ خلافت کا وہ وصف جو مولانا مودودی کے بقول ہرمسلمان کو کارِ جہانبانی میں شریک ٹھیراتا ہے، اس وصف میں مرد اور عورتیں برابر کی شریک ہیں۔ مولانالکھتے ہیں: ’’ایسی سوسائٹی میں ہرعاقل وبالغ مسلمان کو خواہ وہ مرد ہو یا عورت، راے دہی کا حق حاصل ہونا چاہیے، اس لیے کہ وہ خلافت [vicegerency] کا حامل ہے۔ خدا نے اس خلافت کو کسی خاص معیارِ لیاقت یا کسی معیارِ ثروت سے مشروط نہیں کیا ہے، بلکہ صرف ایمان وعمل صالح سے مشروط کیا ہے۔ لہٰذا راے دہی میں ہر مسلمان دوسرے مسلمان کے ساتھ مساوی حیثیت رکھتا ہے‘‘۔۲۸
عورت کے حق راے دہی کے سلسلے میں بنیادی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ کی جہاں تعلیم دی ہے، وہاں عورت مردکی کوئی تفریق نہیں کی ہے، بلکہ جن اوصاف کے درمیان شورائیت کے وصف کا تذکرہ کیا ہے، ان میں سے کوئی بھی وصف مردوں کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ پھر خلفاے راشدین میں حضرت عمرؓ کے بارے میں تو صراحت سے ملتا ہے کہ وہ عورتوں سے مشورہ لیتے تھے اور ان کی راے قبول بھی کرتے تھے۔۲۹
گوکہ آیت شوریٰ سے اس طرح کی کوئی بات ثابت نہیںکی جاسکتی ، کیونکہ آیت شوریٰ میں مسلمانوں کا ذکر ہے، تاہم بعض دوسری دلیلوں کا سہارا لے کر بعض جدید اسلامی مفکرین نے اسلامی ریاست کی مجالس شوریٰ میں غیر مسلموں کی رکنیت کی وکالت کی ہے۔ ڈاکٹر علی صلابی اسی موقف کے حامی ہیں، اور انھوں نے اپنی تائید میں ڈاکٹر یوسف قرضاوی اور ڈاکٹر عبدالکریم زیدان کاحوالہ دیا ہے۔۳۰
اقلیتوں کے حوالے سے مولانا مودودی کی راے ہے کہ : ایک اسلامی ریاست میں غیرمسلموں کے صاحبِ امر بننے کی گنجایش نہیں ہے، بالکل اسی طرح جس طرح ایک اشتراکی ریاست میں منکرین اشتراکیت اور ایک جمہوری ریاست میں مخالفین جمہوریت کے لیے اولی الامر بننے کا نہ عقلاً کوئی موقع ہے اور نہ عملاً۔ مشاورتی عمل میں غیرمسلموں کی شرکت کے حوالے سے وہ وضاحت کرتے ہیں: ’’کسی بھی جمہوری ریاست میں سیاسی اقلیت عارضی ہوتی ہے۔ لیکن بعض اقلیتوں کی بعض اقسام مستقل ہوتی ہیں، مثلاً: نسلی، ثقافتی، مذہبی وغیرہ۔ مستقل اقلیت ہونا ایک حقیقی مسئلہ ہے۔ ضروری ہے کہ اس کا کوئی قابلِ اطمینان آئینی حل نکالا جائے تاکہ وہ شہریوں کی حیثیت سے اپنے حقوق سے محروم نہ کیے جائیں۔ اقلیتوں کے منتخب ارکان، پارلیمان کے رکن بن سکتے ہیں، تاکہ وہ اپنے حقوق کا تحفظ کرسکیں‘‘۔۳۱
اگر کسی فیصلے کا تعلق براہِ راست غیر مسلموں سے ہو تو ان سے مشورہ لینے کی تائید ائمہ سلف کے یہاں ملتی ہے۔ اس کی مثال ابوعبید نے یہ دی ہے کہ اگر کسی قلعے کا مسلمانوں نے محاصرہ کرلیا، اور قلعے کے سردار صلح کے لیے راضی ہوں تو اس پیش کش پر اس وقت تک عمل نہ کیا جائے جب تک کہ قلعہ کے بقیہ لوگوں کی راے بھی معتبر ذرائع سے معلوم نہیں ہوجاتی۔ حضرت عمر بن عبد العزیز کی یہی ہدایت تھی۔ ۳۲
شورائیت کے زریں اصول کو بہتر عملی جامہ عطا کرنے کے لیے جہاںیہ ضروری ہے کہ کتاب وسنت اور امت کے موجود فکری سرمایے سے استفادہ کیا جائے، وہیں عقلِ انسانی کی کاوشوں سے فائدہ اٹھانے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔
شورائیت کا اصول چوں کہ انسان کی فطرت میں ودیعت ہے، اورانسانوں کی بہت ساری دریافتیںوحی و فطرت کے مطابق ہوتی ہیں۔ ریاستی اُمور چلانے کے لیے انسانی کوششوں سے استفادہ کے ذیل میں جمہوری طریقۂ انتخاب اور طرزِ حکومت کا نام سب سے پہلے آتا ہے۔ یاد رہے جمہوریت کا ایک پہلو نظریاتی بھی ہے، جس کا سب سے زیادہ قابل اعتراض حصہ حاکمیتِ جمہور ہے لیکن کیا یہ ممکن ہے کہ مملکت کا نظریہ اور عقیدہ تو اسلام ہو، قانون سازی کے لیے اصل رہنما اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب قرآنِ کریم ہو، تاہم حکومت بنانے اورچلانے کے لیے بطور نظام وہ طریقے اختیار کیے جائیں، جن کو انسانی ذہن نے ایک طویل سفراور بے شمار تجربات کے بعد دریافت کیا ہے۔ انسانوں نے اس نظام کو نام جمہوری طرز حکومت کا دیا ہے۔ اس نظام کے بہت سارے پہلو اسلامی تعلیمات سے متصادم بھی ہوسکتے ہیں، لیکن ان میں ترمیم واصلاح کرکے اگر اختیار کیا جائے تو شورائیت کے تقاضوں کے مطابق حکومت چلانے کے لیے وہ نظام موزوںبھی ہوسکتا ہے۔
آمریت زدہ کلچر اور مزاج کے زیر سایہ ماضی قریب کے تلخ تجربات سے گزرنے کے بعد اب اسلامی تحریکات اور علما نے ایسی بہت سی انسانی دریافتوں کی تحسین کی ہے، جوراقم کے نزدیک کسی مرعوبیت کا نتیجہ نہیں بلکہ تلاشِ حکمت کے تحت ہے۔تاحیات امیر کے تصور کے بجاے اب مختلف اسلامی تنظیموں کے دساتیر میں یہاں تک شامل کیا گیا ہے، کہ امیر کے لیے ایک دورانیہ ہوگا، اور کوئی شخص ان دورانیوں سے زیادہ امارت کے لیے منتخب نہیں کیا جاسکے گا۔
جمہوریت پر تنقید کرتے ہوئے علامہ محمد اقبال کا ایک شعر اکثر ذکر کیا جاتا ہے ؎
جمہوریت اِک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
اس تنقید کا کیا مطلب ہے، اور علامہ محمد اقبال کے ذہن میں انسانوں کو گننے کے بجاے تولنے کا کیا ممکن طریقہ موجود تھا؟ اس سے قطع نظر، انسانوں کی خواص اور عوام میں تقسیم اور ان کے درمیان یہ تفریق کہ فلاں کی راے قابل اعتبار ہو اور فلاں کی نہ ہو، فتنوں کا نیا دروازہ کھولتی ہے۔
دوسری جانب یہ بھی حقیقت ہے کہ جہاں راے دہی اور راے شماری کا شفاف اور دیانت دارانہ انتظام ہو، اور جہاں ہر ایک کو سوچنے اور اپنا خیال ظاہر کرنے کی پوری آزادی ہو، وہاں وزنی راے رکھنے والوں کو اپنی راے دوسروں تک پہنچانے اور اپنی راے کا وزن منوانے کا پورا موقع حاصل ہوتا ہے۔ گویا لوگوں کو تولنے کے لیے سازگار ماحول وہیں بنتا ہے جہاںسب کو راے دینے کا یکساں حق ہو اور جہاں سب کی راے یکساں طور پر شمار کی جائے۔ سب کی راے کو راے شماری کے وقت یکساں وزن دینے سے واقعاتی سطح پر ایسا ہوسکتا ہے کہ کبھی کسی غلط راے کو اکثریت حاصل ہوجائے ، اور وہ محض کثرت راے کی بنیاد پر مان لی جائے۔ ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ اس طریقے پر عمل پیرا ہونے سے کبھی امت کے بعض مصالح متاثر ہوجائیں ، لیکن اس رویے سے احتراز کے نقصانات زیادہ شدید ہوتے ہیں۔
کسی بھی اجتماعی معاملے میں آخری فیصلہ بہرحال راے شماری کے ذریعے ہو،یہی اَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ کی تعلیم ہے ، اوریہی احترام انسانیت کا تقاضا ہے۔ اَلْعَوَامُ کَالْاَنْعَامِ ایک خراب اور ناپسندیدہ صورت حال کی تعبیر ہے، جو شہنشاہی نظام کے تحت رہتے رہتے وجود میں آئی ہے۔یہ کوئی حکیمانہ اصول نہیں ہے کہ جس کی بنا پر کسی نظام کی تشکیل ہو۔ضرورت اس صورت حال اور اس طرزِفکر کو بدلنے کی ہے، نہ یہ کہ اس کو قبول کرکے اسے ایک اساس کی حیثیت دے دی جائے۔
شورائیت کے اصول کا تقاضا یہ ہے کہ ہر فرد اپنے حاصلِ غور وفکر کو لوگوں تک اور بطورِ خاص فیصلہ ساز اداروں تک پہنچانے کے بھرپورمواقع رکھتا ہو۔ لیکن جہاں صاحبِ معاملہ افراد کی تعداد زیادہ ہو اور سب کو براہِ راست مشورے میں شریک کرنا ممکن نہ ہو، وہاں ضرورت کے تقاضے کے تحت نمایندگی کے اصول کو اختیار کیا جاتا ہے۔ نمایندگی کا مقصد شورائی عمل کو ممکنہ حد تک فعال بنانا ہوتا ہے۔ لیکن بسا اوقات نمایندگی شورائی عمل میں معاون ہونے کے بجاے خود اس راہ کی رکاوٹ بن جاتی ہے۔ نمایندے غوروفکر کے اجارہ دار بن کر پوری قوم کو غوروفکر کے عمل سے محروم کردیتے ہیں۔ ایسے نمایندوں کے غوروفکر کو پوری قوم کے غوروفکر کا بدل سمجھ لینا، اور نمایندوں کی مشاورت کو وہ حیثیت دے دینا کہ پوری قوم مشاورت کی ذمہ داری سے بالکل کنارہ کش ہوجائے ، مثالی رویہ نہیں ہے۔
اگر مشاورت کا مقصدبہتر راے تک پہنچنا ہے تو اس کے امکانات کم نہیں ہوتے کہ نمایندہ افراد سے زیادہ بہتر راے تک وہ افراد پہنچ جائیں جو نمایندہ نہیں ہیں۔ ایسے افراد کی راے کو بے وزن ہونے سے بچانا اور غیر نمایندہ افراد کی قیمتی آرا کو نمایندہ افراد کی راے کی طرح قانونی اعتبار عطا کرنا،تمدنی سفر کا ایک اہم ہدف ہونا چاہیے۔نمایندگی کو مستقل اور مثالی حکمتِ عملی کے بجاے وقتی اور عبوری حکمتِ عملی قرار دے کر ایسے نظام کے امکانات پر غور کرنا چاہیے، جہاں ہرفرد براہِ راست مشاورت کے عمل میں حصہ لے اورجہاں اَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ کی ذمہ داری سب ادا کریںاور اس کی برکتوں سے پورا معاشرہ فیض یاب ہوسکے۔
فقہ اور اسلامی سیاست کی کتابوں میں ’اہل حل وعقد‘ کی اصطلاح کثرت سے استعمال ہوتی ہے۔ یہ اصطلاح اسلام کے سیاسی نظام کی ایک اہم بنیاد ہے، اور امت کا مطلوبہ شورائی نظام اہل حل وعقد کے توسط سے چلتا ہے۔ اس اصطلاح پر ڈاکٹر حاکم مطیری کا درج ذیل تبصرہ غور طلب ہے: شوریٰ سب کا حق ہے، اس پرکسی کابھی خواہ وہ کوئی بھی ہو، دوسروں سے زیادہ حق نہیں بنتاہے۔
فقہ اور احکام سلطانیہ کی کتابوں میں موجود اہل حل و عقد کی اصطلاح صحابہ کے درمیان معروف نہیں تھی۔ عہد نبوت اور عہد خلافت راشدہ میں مشاورت سب کے لیے عام تھی۔اہل حل وعقد کی اصطلاح عباسی دور میں ایجاد ہوئی۔ پھر اہل حل وعقد کے سلسلے میں ایسی شرطیں رکھی گئیں جو شاذونادر کسی میں پائی جائیںاور جن کے حق میں کوئی دلیل نہیں ہے۔ اس طرح سب کے مشورے سے امیر کے انتخاب کا جو بہت بنیادی حق امت کو دیا گیا تھا،اس حق سے امت کو یہ کہہ کر محروم کردیا گیا کہ ’’یہ تو اہل حل وعقد کے دائرہ اختصاص میں آتا ہے‘‘۔ پھرزوال اور کمزوری کے زمانوں میں امت کاحال یہ ہوا کہ خلیفہ اور سلطان ہی اپنی صواب دید اور اپنی پسند کے تحت ’اہل حل وعقد‘ کا تعین کرنے لگا، اور تعین بھی ان لوگوں کا کیا جاتا جو نہ قوت فیصلہ رکھتے، نہ جرأت اظہار کی دولت رکھتے، البتہ وہ لوگ اس مجلسِ حل و عقد کے رکن بنتے یا بنائے جاتے، جو امت کے لیے بے سود اور خلیفہ کے لیے بے ضرر ہوتے۔۳۳
بسا اوقات شورائیت کے تقاضوں اور انصاف کے تقاضوں میں باہم تعارض درپیش ہوتا ہے۔ ایسے میں ضروری ہے کہ ایسا نظام لایا جا ئے جس میں دونوں تقاضوں کو ملحوظ رکھا جائے۔
سقیفہ بنی ساعدہ میں جب اسلامی تاریخ کے پہلے خلیفہ کے انتخاب کا مسئلہ زیر بحث آیا، تو اسلامی امت کے اندر موجود ایک تقسیم ابھر کر سامنے آئی، جو انصار اور مہاجرین کی تھی۔ انصار کی طرف سے مطالبہ آیا کہ: مِنَّا اَمِیْرٌ وَمِنْکُمْ اَمِیْرٌ،’’ ایک امیر ہم سے ہو اور ایک تم میں سے ہو‘‘۔ ۳۴ اگر اس تقسیم پروہ اصرار کرتے تو وہ مطالبہ مبنی بر انصاف تھا، لیکن اکابر صحابہؓ نے اس تقسیم کو ذہن سے نکال کر امت کے عمومی تصور کو پیش کیا جس میں ایسی کسی تقسیم سے بالاتر ہونا تھا۔ جس کے بعد سب نے مل کر ایسی شخصیات کی تلاش شروع کی، جن کا انتخاب پوری امت کے مفاد میں ہو۔ یہ امرِربی تھا کہ وہ سب شخصیات، یعنی خلفاے راشدینؓ ،مہاجرین میں سے تھے، لیکن ان کا انتخاب دونوں گروہوںکی مرضی سے ہوا تھا۔
اگر تقسیم ایسی ہو، جس کو نظر انداز کرنا اور اس سے اوپر اٹھناممکن ہو، تو یہی مثالی کیفیت ہے۔ لیکن اگر کسی معاشرے میں موجود کوئی تقسیم ایسی شکل اختیار کرلے کہ اس کو نظر انداز کرنا ممکن نہ ہو، تو جب تک وہ تقسیم ختم نہیں ہوجاتی ہے، اس کو ایک واقعہ مان کر ایسا شورائی نظام تشکیل دیاجائے، جس میں شورائیت کے تقاضوں کے ساتھ معاشرے کے تمام گروہوں کے ساتھ انصاف کے تقاضے بھی ادا ہوسکیں۔
اگر کوئی گروہ مِنَّا اَمِیْرٌ کا مطالبہ رکھتا ہو، تو امارت کے انتخاب کا ایسا نظام ضرور ہونا چاہیے، جس میں ہر ایسے قابل لحاظ گروہ کے مطالبے کی رعایت ہوسکے، اور معاشرے کے کسی گروہ کو محرومی کا احساس نہ رہے۔
کسی ایک علاقے کے مسلمانوں کے مشورے سے اگر ایک شخص امیر بنتا ہے تو وہ صرف اس علاقے کے لوگوں کا امیر قرار پائے گا، یا دنیا کے سارے مسلمانوں کے لیے اس کے ہاتھ پر بیعت کرنا ضروری ہوگا؟ یہ ایک اہم مسئلہ ہے جس کی تحقیق ضروری ہے۔ شورائیت کا تقاضا تو یہی لگتا ہے کہ جس علاقے کے لوگ جسے امیر بنادیں وہ اس علاقے کا ہی امیر قرار پائے، لیکن اشکال یہ پیدا ہوتا ہے، کہ کیا بیک وقت عالم اسلام میں متعدد ’خلیفہ‘ اور ’امیر المومنین‘ ہوسکتے ہیں؟ خلافتِ راشدہ کے دور میں اس کی مثال نہیں ملتی، بعد کے ادوار میںبعض مثالیں ملتی ہیں، لیکن وہ مثالیں دلیل کا درجہ نہیں رکھتی ہیں۔ یہ مسئلہ حالیہ واقعات کے تناظر میں بہت اہمیت اختیار کرگیا ہے۔ یہ تصور کہ کیا ایک علاقے کے مسلمانوں کا امیر، دوسرے سارے مسلمانوں کو بذریعۂ شمشیر اپنی بیعت پر مجبور کرسکتا ہے، یا کم از کم انھیں دائرہ امت سے خارج سمجھا جائے جو اس کی بیعت سے انکار کردیں، ایک بڑا ہی خطرناک تصور ہے اور شورائیت کے اصول سے براہِ راست متصادم ہے۔
راقم کو احمد ریسونی کی اس بات سے اتفاق ہے کہ : ’’اگر ’خلافت‘ اور ’خلیفہ‘ کا لفظ مسلمانوں کی زندگی سے ہمیشہ کے لیے روپوش ہوجائے تو ان کے دین میں ذرہ برابر کمی نہیں آئے گی، لیکن اگر محض ایک دن کے لیے عدل روپوش ہوگیا، شورائیت کو دیس نکالا دے دیا گیا اور آئین کی پاس داری کوپامال کردیا گیا،تو یہ سب سے بڑی مصیبت ہوگی‘‘۔
جن اسلامی ملکوں میں غیر شورائی بلکہ آمرانہ نظام عرصۂ دراز سے نافذ ہے، وہاں آمریت کے حق میں سب سے بڑی دلیل یہ دی جاتی ہے، کہ: ’’معاشرہ تمدنی لحاظ سے بالغ اور جمہوری طرزِ حکومت کے لیے تیارنہیں ہوا ہے، اور اگر امور مملکت عوام کے حوالے کردیے گئے، تو پورا ملک بدترین قسم کے انتشار واختلاف سے دوچار ہوجائے گا، اوراس کا اندیشہ ہے کہ غلط قسم کے لوگوں کے ہاتھ میں اقتدار آجائے، جو ملک کو تباہی کے راستے پر لے جائیں گے‘‘۔
ڈاکٹر طٰہ جابر علوانی کے بقول: ’’ان شاطر اور سرکش حکمرانوں نے امت کو یہ باور کرایا ہے، کہ امت نابالغ یتیم بچے کی طرح ہے جسے ایک سرپرست کی ضرورت ہوتی ہے، اور ایسا سرپرست وہ خود ہیں۔ یتیم فرد تو کبھی بالغ بھی ہوجا تا ہے، تاہم یہ امت وہ ’یتیم‘ ہے جوہمیشہ ’نابالغ‘ رہے گی اور ایسے سفاک، لالچی اور خودپسند سرپرست کی ضرورت مند رہے گی۔ یہ غلط اور گمراہ کن پروپیگنڈا سرکش حکمران ٹولے کے علاوہ ان کے حاشیہ بردار علما اور دانش وَر بھی کرتے ہیں‘‘۔
مولانا مودودی نے اس موضوع پر جمہوریت کے حوالے سے جو گفتگو کی ہے وہ بڑی فکرانگیز ہے۔ مولا نالکھتے ہیں: ـ’’اس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ جمہوریت میں بھی بہت سے نقائص ہوتے ہیں، اور وہ نقائص بہت زیادہ بڑھ جاتے ہیں، جب کہ کسی ملک کی آبادی میں شعور کی کمی ہو، ذہنی انتشار موجود ہو، اخلاق کمزور ہوں، اور ایسے عناصر کا زور ہو، جو ملک کے مجموعی مفاد کی بہ نسبت اپنے ذاتی، نسلی، صوبائی، اور گروہی مفاد کو عزیز تر رکھتے ہوں۔ لیکن، ان سب حقائق کو تسلیم کرلینے کے بعد بھی یہ عظیم تر حقیقت اپنی جگہ قائم رہتی ہے کہ ایک قوم کی ان کمزوریوں کو دور کرنے اور اسے بحیثیت مجموعی ایک بالغ قوم بنانے کا راستہ جمہوریت ہی ہے۔ آپ دیکھتے ہیں کہ ایک انسان اسی وقت اپنے بل بوتے پر زندگی بسر کرنے کے قابل ہوتا ہے، جب کہ اسے اپنے اختیار سے کام کرنے اور اپنی ذمہ داریاں خود سنبھالے کا موقع حاصل ہو۔ آغاز میں اس کے اندر بہت سی کمزوریاں ہوتی ہیں، جن کی بنا پر وہ ٹھوکریں کھاتا ہے، مگر تجربات کی درس گاہ بالآخر اسے سب کچھ سکھا دیتی ہے، اور ٹھوکریں کھا کھا کر ہی وہ کامیابی کی راہ پر آگے بڑھنے کے قابل بنتا ہے۔ ورنہ اگر وہ کسی سرپرست کے سہارے جیتا رہے تو ہمیشہ نابالغ ہی بنا رہتا ہے۔
’’ایسا ہی معاملہ ایک قوم کا بھی ہے۔ وہ بھی کبھی نابالغی کی حالت سے نہیں نکل سکتی جب تک کہ اس امر واقعی سے اس کو سابقہ پیش نہ آجائے کہ اب اپنے اچھے بُرے کی وہ خود ذمہ دار ہے، اور اس کے معاملات کا اچھی طرح یا بُری طرح چلنا اس کے اپنے ہی فیصلے پر منحصر ہے۔ آغاز میں وہ ضرور غلطیاں کرے گی ، اور ان کا نقصان بھی اٹھائے گی، لیکن صحیح طریقے پر کام کرنے کی صلاحیت پیدا ہونے کا کوئی راستہ ان تجربات کے سوا نہیں ہے۔ علاوہ بریں جمہوری نظام ہی وہ نظام ہے جو ایک ایک شخص میں یہ احساس پیدا کرتا ہے کہ ملک اس کا ہے، ملک کی بھلائی اور برائی اس سے وابستہ ہے، اور اس بھلائی اور برائی کے رُونما ہونے میں ذاتی طور پر اس کے اپنے فیصلے کی صحت یا غلطی کا بھی دخل ہے۔ یہی چیز افراد میں اجتماعی شعور پیدا کرتی ہے۔ اس سے فرداً فرداً لوگوں کے اندر اپنے ملک کے معاملات سے دل چسپی پیدا ہوتی ہے، اور اسی کی بدولت بالآخر یہ ممکن ہوتا ہے کہ ملک کی بھلائی کے لیے کام کرنے اور ملک کو داخلی وخارجی مضمرات سے بچانے میں پورے ملک کی آبادی اپنی پوری طاقت استعمال کرنے لگے۔ دوسرا جو نظام بھی ہو، خواہ وہ بادشاہی ہو یا ڈکٹیٹر شپ یا اشرافیت، اس میں عوام الناس حالات کے محض تماشائی بن کر رہتے ہیں، اور جب ان حالات کے ردّو بدل یا بناؤ اور بگاڑ میں ان کی راے اور مرضی کا دخل نہیں ہوتا، تو وہ ان میں دل چسپی بھی لینا چھوڑ دیتے ہیں۔ جمہوریت کے جو اور جیسے بھی نقائص ہوں، انھیں اس نقصانِ عظیم سے بہرحال کوئی نسبت نہیں ہے‘‘۔۳۵
۲۱- سیّدابوالاعلیٰ مودودی، اسلامی ریاست،جنوری ۱۹۷۲ء، ص ۳۳۰-۳۳۱
۲۲-سیّدابوالاعلیٰ مودودی، تفہیم القرآن، ج۴،ص ۵۱۰
۲۳- علی محمد الصلابی،الشوریٰ فریضۃ اسلامیۃ، ص۱۱۳،دار ابن کثیر
۲۴- سیّد مودودی، مسلمان خواتین سے اسلام کے مطالبات،ص ۲۲
۲۵- مدخل فی النظریۃ العامۃ للفقہ الاسلامی،ص ۱۰۱، بحوالہ الشوریٰ فریضۃ اسلامیۃ ،ص۱۲۸
۲۶- علی محمد الصلابی،الشوریٰ فریضۃ اسلامیۃ،ص ۱۳۰
۲۷- ایضاً، ص ۱۳۰۔۱۳۱
۲۸- اسلامی ریاست،ص۱۴۳
۲۹- سنن بیہقی کبریٰ، حدیث ۲۰۱۱۹ ، مکتبہ دار الباز ، مکہ مکرمہ
۳۰- الشوریٰ فریضۃ اسلامیۃ، ص ۱۳۵۔۱۳۶
۳۱-سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ، Islamic Law and Constitution، (مرتبہ: پروفیسر خورشیداحمد)، ۱۹۶۹ء، ص ۲۸۲-۲۸۴
۳۲- کتاب الأموال، ابوعبید قاسم بن سلام، ص۱۹۱-۱۹۲، دار الفکر،بیروت
۳۳-حاکم المطیری، تحریر الانسان، ص۳۲۵-۳۲۷
۳۴- بخاری، حدیث ۳۶۶۸،کتاب بدء الوحی،دار الشعب القاہرہ
۳۵- سیّد ابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن ، جولائی اگست ۱۹۵۵ء
قرآن مجید تک رسائی حاصل کرنے کے لیے مجھے عجیب اور پیچیدہ راستے اختیار کرنے پڑے ۔ چونکہ میں منزل پر بڑے احسن طریق سے پہنچی، اس لیے مجھے اپنے تجربات پر کبھی بھی افسوس نہیں ہوا۔
عہد ِ طفولیت ہی سے مجھے موسیقی بڑی اچھی لگتی تھی ۔ خصوصاً وہ گانے تو مجھے بہت ہی پسند تھے جنھیں دیار ِمغرب میں بلند ثقافت کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ اسکول میں موسیقی میرا پسندیدہ مضمون تھا اور اس میں اکثر مجھے اچھے نمبر حاصل ہوتے تھے۔
جب میں گیارہ سال کی ہوئی تو مجھے ریڈیو پر عربی موسیقی سننے کا اتفاق ہوا۔ یہ مجھے اتنی پسند آئی کہ میں نے اسے پھر سننے کا فیصلہ کر لیا۔ جب بھی میں عربی موسیقی سنتی، مغربی موسیقی کے لیے میرے دل میں کشش باقی نہ رہتی ۔ میں نے والدین کو تنگ کرنا شروع کر دیا۔ حتیٰ کہ ایک دن میرے والد مجھے نیو یارک کے شامی علاقے میں لے گئے، جہاں سے میں نے اپنے گرامو فون کے لیے بہت سے عربی ریکارڈ خریدے۔ ان میں سے جو سب سے زیادہ مجھے پسند آیا وہ [مصری مغنیہ] اُمِ کلثوم کا وہ ریکارڈ تھا جس میں اس نے سورئہ مریم کی تلاوت کی تھی۔ اس وقت مجھے علم نہیںتھا کہ یہ عورت آیندہ کس بُرے راستے پر گامزن ہونے والی ہے، لیکن مجھے اس کی سُریلی آواز اور عقیدت بڑی پسند آئی ۔ انھی ریکارڈوں کی بدولت میںعربی موسیقی کی گرویدہ بن گئی۔ حالاںکہ میں عربی الفاظ کا مطلب بالکل نہ جانتی تھی۔ عربی موسیقی کی اس بنیادی قدرو منزلت کے بغیر میرے دل میں تلاوت کی محبت پیدا نہیں ہو سکتی تھی۔ حالانکہ یہ ایک مغربی باشندے کے لیے اجنبی تھی۔ میرے والدین ، رشتہ دار اور احباب عربی اور عربی موسیقی کو از حد دقیانوسی اور تکلیف دہ سمجھتے تھے۔ اس لیے جب میں ریکارڈ بجانے لگتی تو ان کا ہمیشہ یہی مطالبہ ہوتا کہ میں تمام دروازے اور کھڑکیاں بند کر لوں تا کہ وہ پریشان نہ ہوں۔
۱۹۶۱ء میں قبولِ اسلام کے بعد ، نیویارک کی مسجد میں بیٹھ کر جب مشہورو معروف مصری قاری عبدالباسط کی تلاوت کا ٹیپ ریکارڈ سنتی تو مسحور ہو جاتی ۔ لیکن ایک نماز جمعہ میں امام صاحب نے ریکارڈ نہ بجایا۔ کیوںکہ اس دن ایک مہمانِ خصوصی آیا ہوا تھا ۔ یہ ایک پستہ قامت معمولی لباس میں ملبوس سیاہ فام نوجوان تھا جو زنجبار کا ایک طالب علم تھا۔ جب اس نے سورۂ رحمٰن کی تلاوت شروع کی تو ایسا معلوم ہوا کہ میں نے اس سے پہلے اتنی شان دار تلاوت کبھی نہیں سنی، قاری عبدالباسط بھی اس کے مقابلے میں ہیچ تھا۔ اس سیاہ فام افریقی نوجوان کی آواز نہایت سریلی تھی۔غالباً حضرت بلال حبشی ؓ کی آواز بھی بہت کچھ اس سے ملتی ہو گی !
دس سال کی عمر ہی میں مَیں نے عربوں کے متعلق وہ ساری کتابیں پڑھ ڈالیں جو مجھے سکول یا اپنے یہودی فرقے کی لائبریریوں سے حاصل ہو سکیں۔ خصوصاً وہ کتب جن میں یہودیوں اور عربوں کے تاریخی تعلقات کا ذکر تھا۔ لیکن قرآن مجید کے متعلق اپنے تجسّس کی تسلی کرنے میں نوسال سے زیادہ عرصہ بیت گیا۔ آہستہ آہستہ جب بلوغت کی عمر کو پہنچی تو مجھے یقین ہو گیا کہ اسلام کو عربوں نے اس بلند مرتبے پر نہیں پہنچایا بلکہ اسلام نے عربوں کو صحرائی بادیہ نشینوں سے دنیا کا حکمران بنا دیا ۔ جب تک میرے دل میں اس انقلاب کی وجوہات دریافت کرنے کا شوق پیدا نہ ہوا اس وقت تک قرآن حکیم کا مطالعہ کرنے کا خیال بھی پیدا نہ ہوا۔
۱۹۵۳ء کے موسم گرما میں ، کالج میں بہت سے مضامین کا کورس اختیار کر لینے سے میرے دل ودماغ پر سخت دبائو پڑا۔ اگست میں مَیں علیل ہو گئی اور میں نے سلسلۂ تعلیم منقطع کر دیا۔ ایک شام جب میری والدہ پبلک لائبریری جانے لگیں تومجھ سے پوچھنے لگیں کہ کوئی کتاب منگوائو گی۔ میں نے کہا کہ مجھے قرآن مجید کا ایک نسخہ لا دیں۔ ایک گھنٹے بعد جب وہ لوٹیں تو ان کے ہاتھ میں قرآن مجید کا انگریزی ترجمہ تھا۔ جو اٹھارھویں صدی عیسوی کے ایک عیسائی عالم اور مبلغ، جارج سیل نے کیا تھا ۔چونکہ اس کی زبان بڑی فرسودہ قسم کی تھی اور اس میں عیسائی نقطۂ نگاہ سے متن کو بگاڑنے کے لیے حواشی میں البیضاوی اور زمخشری کے حوالے دیے گئے تھے، اس لیے میری سمجھ میں کچھ بھی نہ آیا ۔ اس زمانے میں اپنے ناپختہ دماغ کی وجہ سے قرآن کو تورات کے مانوس قصص کی مسخ شدہ اور محرف شکل کے سوا کچھ نہ سمجھتی تھی۔ قرآن کے متعلق میرا پہلا تاثر کچھ اور تھا مگر میں اس کے مطالعے سے باز نہ رہ سکی ۔ میں تین دن رات تک مسلسل اس کے مطالعے میں منہمک رہی ، اور جب میں نے اسے ختم کر لیا تو میری تمام توانائی ختم ہو کر رہ گئی۔ میری عمر اس وقت صرف ۱۹ سال کی تھی ۔ اور میرا حال یہ تھا کہ میں اپنے آپ کو ایک ۸۰ سالہ بُڑھیا کی طرح کمزور محسوس کرنے لگی۔ اس کے بعد میری پوری توانائی کبھی بحال نہ ہو سکی۔
میں قرآن کے متعلق اپنی اس راے پر قائم رہی ۔ ایک دن میں نے دکان پر محمد مارما ڈیوک پکتھال کے انگریزی ترجمۂ قرآن کا ایک سستا اڈیشن دیکھا ۔ جونہی میں نے اسے کھولا ، وہ میرے لیے ایک عظیم انکشاف ثابت ہوا ۔ اس کی فصاحت وبلاغت نے میرے پائوں اکھاڑ کر رکھ دیے۔ پکتھال نے اپنے دیباچے کے پہلے پیرا گراف میں لکھا تھا :
اس ترجمے کا مقصد انگریزی خواں طبقے کے سامنے یہ بات پیش کرنا ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان قرآن کے الفاظ سے کیا مفہوم لیتے ہیں اور قرآن کی ماہیت کو موزوں الفاظ میں سمجھانا اور انگریزی بولنے والے مسلمانوں کی ضرورت کو پورا کرنا ہے۔ معقولیت کے ساتھ یہ دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ کسی الہامی کتاب کو ایک ایسا شخص عمدگی سے پیش نہیں کر سکتا جو اس کے الہامات اور پیغام پر ایمان نہ رکھتا ہو۔ یہ پہلا انگریزی ترجمہ ہے جو ایک ایسے انگریز نے کیاجو مسلمان ہے۔ بعض تراجم میں ایسی تفسیریں کی گئی ہیں جو مسلمانوں کے لیے دل آزار ہیں اور تقریباً سب میں زبان کا ایسا انداز ِ بیان اختیار کیا گیا ہے جسے مسلمان غیر موزوں سمجھتے ہیں۔ قرآن کا ترجمہ ناممکن ہے ۔ یہ قدیم شیوخ کا اور میرا عقیدہ ہے۔ میں نے اس کتاب کو علمی انداز میں پیش کیا ہے اور اس کے لیے کوشش کی گئی ہے کہ موزوں زبان استعمال کی جائے ۔ لیکن یہ ترجمہ قرآن مجید نہیں ہوسکتا ۔ کیوںکہ وہ تو بے مثل وبے عدیل ہے۔ اس میں اتنی ہم آہنگی ہے کہ لوگ اسے سُنتے ہی رونے لگتے اور وجد میں آ جاتے ہیں۔ یہ تو قرآن کے مفہوم کو انگریزی میں پیش کرنے کی محض ایک کوشش ہے اور اس کے سحر کی قدرے عکاسی ۔ یہ عربی قرآن کی جگہ نہیں لے سکتا ۔ نہ میرا یہ مقصد ہے ۔
اس وقت مجھے معلوم ہوا کہ جارج سیل کا ترجمہ کیوں اتنا نا موزوں لگا تھا۔ اس کے بعد میں نے اس کا اور دوسرے غیر مسلموں کا ترجمۂ قرآن پڑھنے سے اِنکار کر دیا۔ پکتھال کا ترجمہ پڑھنے کے بعد میں نے عبد اللہ یوسف علی، مولانا محمد علی لاہوری اورمولانا عبدالماجد دریا بادی کے تراجم کا مطالعہ کیا، اور مجھ پر فوراً انکشاف ہوا کہ عبداللہ یوسف علی اور مولانا محمد علی کا ترجمہ وتفسیر غیرموزوں ہے۔ اس کی وجہ ان کا لہجہ اور دو راز کار اور غیر معقول کوشش تھی جو انھوں نے ان آیات کی تشریح میں کی تھی جو جدید فلسفے اور سائنسی تصورات سے متصادم ہوتی ہیں۔ ان کے متن کا ترجمہ بھی کمزور تھا۔ گو مولانا دریا بادی نے اپنے ترجمے میں تورات کے شاہ جیمز کے ترجمے کے نمونے پر قدیم انداز ِ بیان اختیار کیا ہے۔ اس کے باوجود مجھے ان کی تفسیر عمدہ معلوم ہوئی ، خاص کراس کا وہ حصہ جس میں مختلف مذاہب کا ذکر ہے اور میں نے اس سے بہت کچھ حاصل کیا۔
بہر کیف ، پکتھال کا ترجمہ مجھے بہت پسند آیا اور آج تک مجھے اس کے مقابلے کا کوئی انگریزی ترجمہ نہیں مل سکا ۔ کسی ترجمے میں وہ فصاحت وبلاغت اور انداز بیان نہیں جو اس میں موجود ہے۔ بہت سے دوسرے تراجم میں اللہ کے لیے ’God ‘ کا لفظ استعمال کرنے کی غلطی کی گئی ہے۔ لیکن پکتھال نے ہر جگہ ’ اللہ‘ ہی استعمال کیا ہے۔ اس سے اسلام کے پیغام میں مغرب کے قاری کے لیے بڑا تاثر پیدا ہوتا ہے۔ جب تک میں ہسپتال میں صاحبِ فراش رہی پکتھال کا ترجمہ مسلسل میرے زیرِ مطالعہ رہا۔ میں نے اسے بار بار پڑھا اور اپنے نوٹس سے اس کے چھے عدد نسخے نشان زد کیے ۔ اللہ تعالیٰ پکتھال پر برکات نازل کرے جس نے امریکا اور انگلستان کے باشندوں کے لیے قرآن کی تعلیمات کا مطالعہ آسان بنا دیا ۔ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو میں اس سے لا علم رہتی اور اس کی قدر نہ کر سکتی۔
۱۹۰۹ء میں ، ہسپتال سے فارغ ہونے کے بعد مَیں فرصت کے اوقات میں نیویارک پبلک لائبریری کے مشرقی شعبے میں بیٹھ کر اسلام کے متعلق کتب کا مطالعہ کرتی۔ یہیں مجھے مشکوٰۃ المصابیح مترجمہ الحاج مولانا فضل الرحمن کل کتوی کی چار ضخیم جلدوں کا پتا چلا ۔ مجھے اس بات کا علم ہوا کہ قرآن مجید کو موزوں اور مفصل طور پر سمجھنا اس وقت تک ناممکن ہے جب تک متعلقہ حدیث کا پتا نہ ہو۔ کیوںکہ نبی اکرم ؐ کے اسوہ اور فرمودات کے سوا قرآن حکیم کی تفسیر کس طرح ممکن ہو سکتی ہے جن پر یہ نازل ہوا تھا! وہ لوگ جو منکرِ حدیث ہیں فی الحقیقت وہ منکرِ قرآن ہیں۔
مشکوٰۃ کے مطالعے کے بعد میں نے قرآن کو الہامی کتاب مان لیا ۔ جس چیز نے مجھے اس بات کا قائل کر دیا کہ قرآن منجانب اللہ ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تصنیف نہیں وہ اس کے تسلی بخش اور معقول جوابات ہیں،جو اس نے زندگی کے تمام اہم مسائل کے متعلق دیے ہیں اور یہ ایسے ہیں کہ مجھے کسی دوسری جگہ نہیں ملے۔
میں بچپن میں موت سے بڑی خوف زدہ رہا کرتی تھی ۔ خاص کر اپنی موت کے خیال سے اتنا ڈرتی تھی کہ بعض اوقات خواب دیکھنے کے بعد آدھی رات کو چیخنے لگتی اور والدین کو جگا دیتی۔ جب میں ان سے دریافت کرتی کہ میں کیوں مروں گی اور موت کے بعد میرا کیا بنے گا؟ تو وہ صرف اتنا کہہ دیتے کہ وہ ناگزیر ہے اور مجھے اسے قبول کرنا ہوگا۔ اور چونکہ طبی سائنس ترقی کر رہی ہے شاید میں ایک سو سال تک زندہ رہوں۔ میرے والدین ، خاندان کے باقی افراد اور تمام دوست احباب بڑی نفرت کے ساتھ حیات بعد الموت ، روزِ حشر، جنت کے انعامات اور دوزخ کی سزا کو توہم پرستی اور فرسودہ عقائد سمجھتے تھے۔
تورات کے انبیا ، بطریق اور اولیا کے متعلق ہمیں معلوم ہے کہ انھیں جزا وسزا اسی دنیا میں ملی تھی۔ حضرت ایوب ؑ کا قصہ مشہور ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے تمام پیاروں کو تباہ کر دیا، ان کی املاک برباد کر دیں۔ انھیں ایک اذیت ناک مرض میں مبتلا کر دیا، تا کہ ان کے ایمان کی آزمایش کی جائے۔ حضرت ایوب ؑ نے رو رو کر خدا سے فریاد کی کہ اس نے کیوں ایک نیکو کار انسان کو مصائب میں مبتلا کیا؟ قصے کے خاتمے پر اللہ تعالیٰ ان کے تمام دنیاوی نقصانات کی تلافی کردیتے ہیں۔ لیکن اس میںیہ نہیں بتایا گیا کہ ان کی حیات بعد الموت میں انھیں کیا جزا ملی۔
میں نے انجیل میں بھی اس کا ذکر دیکھا اور اس کا مقابلہ قرآن مجید سے کیا۔ انجیل کا بیان مبہم ہے۔ میں نے قدیم یہودیت میں بھی مسئلہ موت کا کوئی حل نہیں پایا۔ کیوںکہ تالمود کی تعلیم یہ ہے کہ بہترین موت سے بدترین زندگی اچھی ہے۔ میرے والدین کا فلسفہ یہ تھا کہ موت کے خیال کو دل میں ہرگز جگہ نہ دینا چاہیے اور زندگی کی عطا کردہ مسرتوں سے مقدور بھر لطف اندوز ہونا چاہیے۔ ان کے خیال میں زندگی کا مقصد یہ تھا کہ انسان خوش وخرم اور مسرور رہے ، اپنے خاندان سے پیار کرے، دوست احباب سے تعلقات بڑھائے ، اور ان تفریحات میں منہمک رہے جن کی امریکا میں فراوانی ہے۔ وہ زندگی کی اس مصنوعی شکل کے سختی سے قائل تھے۔ گویا یہ ان کی مسرت اور خوش قسمتی کی ضامن تھی۔ میں نے تلخ تجربے سے معلوم کیا کہ ان باتوں سے پریشانی نصیب ہوتی ہے، اور ذاتی قربانی اور جدوجہد کے بغیر کوئی قابلِ قدر چیز حاصل نہیں ہوسکتی۔
میں اپنے بچپن ہی سے اہم اور بڑے بڑے کام کرنا چاہتی تھی۔ سب سے زیادہ میںاس بات کی خواہش مند تھی کہ اپنی موت سے پہلے مجھے یہ یقین حاصل ہو جائے کہ میں نے اپنی زندگی کے ایام پرُ معصیت اعمال میں ضائع نہیں کیے۔ میں زندگی بھر سنجیدہ مزاج رہی ہوں ۔ میں نے ہمیشہ عصرِ جدید کی ثقافت سے نفرت کی ہے جس کا بڑا چرچا ہے۔ ایک مرتبہ میرے والد نے مجھے یہ کہہ کر سخت پریشان کر دیا کہ : ’’دنیا میں کوئی چیز بھی مستقل قدر کی حامل نہیں ہے۔ اس لیے ہمارے لیے یہی بہتر ہے کہ ہم جدید رجحانات کو ناگزیر سمجھیں اور اپنے آپ کو ان کے سانچے میں ڈھال لیں‘‘۔ لیکن میں ہمیشہ اس بات کی خواہاں رہی کہ کوئی ایسی چیز حاصل کروں جو تا ابد قائم رہے اور یہ بات میں نے صرف قرآن مجید سے سیکھی کہ ایسا ممکن ہے۔ اگر اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کوئی نیک عمل کیا جائے تو وہ ضائع نہیں ہوتا۔ اگر اسے دنیاوی انعام نہ بھی ملے تو اسے اس زندگی کے بعد ضرور ملے گا۔ قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ وہ لوگ جو اخلاقی اقدار سے رہنمائی حاصل نہیں کرتے اور آزادی سے من مانی کرتے ہیں، انھیں اس دنیا میں کتنی ہی کامیابی اور دولت حاصل کیوں نہ ہوجائے اور وہ اپنی مختصر زندگی کو کتنی ہی حسرتوں میں کیوں نہ بسر کریں، قیامت کے دن ضرور گھاٹے میں رہیں گے۔ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ ہم حقوق اللہ اور حقوق العباد پورا کرنے پر پوری توجہ دیں اور ایسے تمام اعمال اور سرگرمیوں کو ترک کر دیں جو ہمیں اس راستے سے بھٹکاتی ہیں۔
قرآن کی ان تعلیمات کو احادیث نے اور زیادہ اجاگر کر دیا ہے، اور میں نے انھیں اپنے مزاج کے عین مطابق پایا ہے۔ جب میں آغوشِ اسلام میں آئی میرے والدین ، رشتہ داروں اور دوست احباب نے مجھے دیوانی سمجھا کیوںکہ میں اس کے بغیر کسی اور بات کا تصور تک نہ کر سکتی تھی۔ ان کے نزدیک مذہب ایک نجی معاملہ تھا جس میں دوسرے اشغال کی طرح ترقی کی جا سکتی تھی۔ لیکن جب میں نے قرآن مجید کا مطالعہ کیاتو مجھے معلوم ہو اکہ اسلام کسی لہو ولعب کا نام نہیں ہے۔ اسلام زندگی کی محض ضرورت ہی نہیں ، بلکہ خود زندگی ہے !
سنِ بلوغت کے آغاز سے، ۲۸ سال کی عمر میں پاکستان آنے تک میں معاشرتی لحاظ سے مکمل طور پر ناموزوں رہی ۔ میں ایک سنجیدہ دل ودماغ کی دوشیزہ تھی۔ ہر وقت لائبریری میں کتابوں کے ڈھیر میں غرق رہتی تھی۔ میں سینما، رقص اور موسیقی سے متنفر تھی۔ مجھے مخلوط پارٹیوں سے نفرت تھی۔ مجھے رومان ، شان وشوکت ، سنگھار، زیورات، فیشن ایبل لباس میں کوئی دل چسپی نہ تھی۔ اس لیے مجھے اس سرد مہری کی پوری سزا ملی۔
میری جیسی ہستی کے لیے امریکا میں کوئی جگہ نہ تھی ، اور میں مستقبل سے مایوس تھی۔ میں وہاں سے نکلی اور پاکستان پہنچ گئی۔ اگرچہ پاکستان کی فضا بھی ہر دوسرے مسلم ملک کی طرح، یورپ اور امریکا سے آنے والے خطرناک گردوغبار سے آلودہ ہے۔ پھر بھی نیک مسلمانوں کی کمی نہیں ہے۔ جن کی بدولت ایک فرد کو ایسا ماحول میسر آ جاتا ہے جس میں وہ اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی بسر کر سکتا ہے ۔ مجھے اس بات کا اعتراف ہے کہ بعض اوقات میں ان باتوں پر عمل پیرا نہیں ہو سکتی جن کا اسلام تقاضا کرتا ہے۔ لیکن میں نے اپنی کمزریوں کو حق بجانب ثابت کرنے کے لیے قرآن وسنت کی دور از کار تاویلات کرنے کی جرأت نہیں کی۔ میں جب بھی کسی غلطی کی مرتکب ہوتی ہوں، فوراً اس کا اعتراف کر لیتی ہوں اور اس کا ازالہ کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔ وہ مسرت جو مجھے اسلام کے دامنِ رحمت میں اپنی حیاتِ نو کے طفیل نصیب ہوئی ہے، سرا سر اس حقیقت کی مرہونِ احسان ہے کہ نسوانی کردار کی اُن صفات کو اسلام میں قدر ومنزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے جنھیں مغربی معاشرے میں نفرت وحقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
ہمارے معاشرے میں ایک سب سے اہم اور بڑا مسئلہ مذہب یا دین کے احکامات اور تعلیمات کا فرد کی زندگی میں عملی نفاذ ہے۔ عام مشاہدہ ہے کہ قولی سطح پر مسلمان کہلانے کے باوجود عملاً ہمارے معاملات، دین او ر اس کی تعلیمات کی پیروی کی ترجمانی نہیں کرتے۔ز بان اور قول و قرار سے تو بلاشبہہہم یہ ثابت کرتے ہیں کہ اپنے دین سے ہماری محبت اور عقیدت بہت زیادہ ہے۔ ایک مذہبی اور دین دار آدمی کی شخصیت کو دوسروں کی نگاہوں میں جتنا پسندیدہ ، بلکہ محبوب ہونا چاہیے، بہ ظاہر یوں دکھائی دیتا ہے کہ بسااوقات وہ خود بھی عام لوگوں کے درمیان کسی قدر اجنبی ہوجاتاہے۔ ایسا کیوں ہے؟ آئیے اسے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
جب بندہ آزادی سے مذہب یا دین کو اختیار کرلیتا ہے تو دراصل وہ اپنی آزادی سے دست بردار ہوکر خود کو الٰہی احکامات کے تابع بنانے کا عہد کرلیتا ہے ۔ کلمہ پڑھنے کا یہی مطلب ہے کہ بندہ ’عبد‘ ہے اور اللہ ’معبود‘ ہے۔ ’عبد‘ کے معنی غلام کے بھی ہیں اور بندے کے بھی۔ اسی لیے جب غلام خود کو آقا کے تابع فرمان بنائے تو پھر آقا کے احکامات کی تعمیل اس پر لازم ہوجاتی ہے۔
بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ غلام، آقا کو آقا بھی تسلیم کرے، عبد ، معبود کو معبود بھی مانے اور ماننے کے باوجود غلام، آقا کے احکامات پر عمل پیرانہ ہواور عبد، معبود کی عبادت نہ کرے؟ اس کا صاف مطلب یہ ہوا کہ یہ ماننے کے باوجود کہ ’’اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ‘‘ اللہ کی عبادت سے ارادی یا غیر ارادی گریز کیا جارہا ہے۔ دراصل یہ ’ماننا‘ حقیقی معنوں میں ماننا ہے ہی نہیں۔ اس لیے کہ یہ اقرار و اعلان ایک طرح سے ایک عہد اور ایک وعدہ ہے، جسے ہر صورت میں وفا ہونا چاہیے لیکن اگر اعلان کرنے والا خود اپنے ہی وعدے کو وفا نہیں کرتا تو پھر یہ بے عملی ہے، غفلت بھی ہے اوردین کے احکامات کو ماننے سے عملاً انکار و انحراف بھی۔
کیا ایسے بندے یا غلام کی بندگی اور غلامی مستند اور لائقِ اعتنا ہے؟ یقینا نہیں۔
یہاں قابلِ غور پہلو یہ ہے کہ بندہ زبان سے اقرار و اعتراف کرکے اور دل سے اللہ کی بڑائی اور معبود کو لائقِ عبادت ماننے کے باوجود اپنے عمل سے اس کی گواہی کیوں نہیں دیتا؟ اس کا عمل اس کے قول کی تصدیق کیوں نہیں کرتا؟
اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ انسان میں ایک کمزوری نسیان، یعنی بھول جانے کی ہے کہ وہ جو وعدہ یا عہد کرتا ہے، اسے بھول بھی جاتاہے۔ بھولنے کی وجہ اس کے بشری تقاضے ہیں مثلاً بھوک، شہوت، عیش و آرام کی زندگی ، وہ چیزیں جن سے لذّت اور مسرت ملتی ہے جیسے شہرت، اختیار و اقتدار وغیرہ۔ جب انسان اپنے بشری تقاضوں کو اپنے ذہن ، اپنے جذبات و احساسات میں رچابسا لینے پر خود کو مجبور پاتاہے اور وہ ان تقاضوں کی جائز یا ناجائز طریقوں سے تکمیل میں لگ جاتاہے تو وہ فطری طور پر اس وعدے یا عہد کو بھول جاتاہے، جو اس نے کلمہ پڑھ کر خود کو دین میں داخل کیا تھا اور خود کو یہ کہہ کر اپنے دین، اپنے اللہ اور اپنے پیغمبرؐ کے حوالے کیا تھا کہ وہ اپنی عبادات اور اپنے معاملات میں ان احکامات کی پابندی کرے گا۔
ا س سے پتا چلا کہ انسان کا کیا ہوا وعدہ کچھ لفظوں کا مجموعہ ہوتاہے اور اس کے بشری تقاضے زندہ اور حقیقی وجود رکھتے ہیں۔ وعدے کی خلاف ورزی سے اسے کسی فوری نقصان کے پہنچنے کا اندیشہ نہیں ہوتا، جب کہ بشری تقاضوں کو پورا نہ کرنے سے اسے یا اس سے وابستہ افراد کو بھوک، پیاس، بیماری، موت، عزّت و شہرت اور دولت یا اس طرح کی دوسری محرومیوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے اور پڑتا بھی ہے۔ ویسے بھی انسان کے وجود کی ساخت ایسی بنائی گئی ہے کہ وہ اکثر وبیش تر اعمال :اپنی خواہشات اور اس کے تقاضوں کے زیرِ اثر کرتاہے۔ انسان عموماً کسی قول و قرار کا پابند ہوکر زندگی نہیں گزارتا ۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں تمام ہی مذاہب کے ماننے والوں کی اکثریت ماننے کے باوجود اپنے مذاہب کی تعلیمات کے چند ایک اجزا پر تو عمل کرتی ہے (اور یہ عمل بھی خود کو یہ یقین دلانے کے لیے ہوتا ہے کہ وہ مذہبی ہے، لامذہبی نہیں) لیکن اپنے مذہب اور دین کے تمام تو کیا زیادہ تر احکامات اور تعلیمات سے دور یا لاتعلق یا بے خبر ہوتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ ایسی صورت حال جس میں انسان ہمیں کم زور ، بے بس، اور بے عمل نظر آتاہے ، اگر اسے دین کی طرف لانے کی کوشش کی جائے تو وہ کیا طریقے ہوسکتے ہیں، جن کو اختیار کرکے اسے دین یا مذہب کی طرف لایا جاسکتاہے۔
وعظ و نصیحت اور تلقین سے الحمدللہ ایک بڑی تعداد میں لوگ راہِ راست پر آتے ہیں۔ دینی عبادات، مثلاً نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج وغیرہ پر عمل کرتے ہیں اور ایک تعداد اپنی وضع قطع میں بھی مذہبی حوالے سے مثبت تبدیلی لے آتی ہے۔لیکن حیرت انگیز طور پر ان میں سے بہت سوں کے باقی معاملات اسی دنیاوی (سیکولر) طریقے کے مطابق چلتے رہتے ہیں۔ ان میں وہ اوصاف پیدا نہیں ہوپاتے جن سے یہ پتا چلتا ہو کہ اپنی خواہشات کو چھوڑ کر اللہ کے احکامات اور پیغمبر کی تعلیمات کے مطابق انھوں نے اپنے معاملات کو استوار کرلیا ہے۔
ایسے مذہبی لوگوں سے کوتاہی فرض عبادات میں تو مشکل ہی سے ہوتی ہے اور ہوتی بھی ہے تو وہ اس کی تلافی کرلیتے ہیں ۔ اصل کو تاہی اور خواہشات کی اطاعت وہاں ہوتی ہے، جہاں ان کا واسطہ بندوں سے پڑتا ہے۔ خواہ وہ باپ اور بیٹے ، ماں بہن اور بیوی کی حیثیت میںہو، رشتے داروں سے رشتہ داری نبھانے کا معاملہ ہو، پڑوسی کی حیثیت سے پڑوسی کے ساتھ سلوک و برتاؤ کی صورت ہو، ملازم کی حیثیت سے اپنے دفتری فرائض اور تاجر کے طور پر کاروباری تقاضوں کا تعلق ہو، یاایک شہری کی حیثیت سے اپنے قوم و ملک کے حقوق ادا کرنے کے تقاضے ہوں۔ وہ ہرحیثیت میں اپنی خواہشات اور ترغیبات کو ترجیح دینے پر آمادہ نظر آتا ہے اور یہ آمادگی اکثر صورتوں میں، ان معاملات میں وہ اللہ کے احکامات اور پیغمبر کی تعلیمات کو فراموش کرنے پر جاپہنچتی ہے۔
ایک لامذہبی اور ملحد شخص اگر ایسا کرے تو اسے صرف بُرا آدمی، خود غرض ، مفادپرست ، لالچی او ر منافق کہہ کر اس کے بارے میں ایک راے قائم کرلی جاتی ہے اور اسی راے کی روشنی میں اس سے معاملہ کیا جاتاہے ۔ لیکن جب ایک پابند ِ صوم و صلوٰۃ انسان جس نے حج بھی کررکھا ہو اور وضع قطع بھی مذہبی انسان کی ہو، جب ان معاملات میں کہ جن کا تعلق بندوں سے ہوتاہے: اللہ اور رسولؐ کی تعلیمات اور احکامات کو چھوڑ کر جب اپنی خواہشات کی اطاعت کرتاہے، تو ایسا آدمی دوسروں کی نظر میں بُرا تو ٹھیرتا ہی ہے مگر اس سے بڑھ کر وہ اس مذہب یا دین کا بھی غلط نمایندہ بن جاتا ہے۔
اس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ اس فرد کے دائرۂ تعارف میں لوگ پہلے اس مذہبی آدمی سے بیزار ہوتے ہیں اور پھر رفتہ رفتہ یہ راے قائم کرلیتے ہیں کہ اگر مذہب انسان کو اچھا انسان بناسکتا تو سارے یا واضح طور پر اکثر مذہبی لوگوں کو اچھا ہی ہونا چاہیے تھا۔
مراد یہ ہے کہ صحیح معنوں میں مذہبی آدمی وہ ہے یا اسے ہونا چاہیے، جو بہ حیثیت انسان بھی اچھا ہو۔ اگر مذہبی آدمی میں مطلوب انسانی خوبیاں نہ ہوں تو اس کی مذہبیت ،معاشرے پر مثبت طریق سے اثرانداز نہیں ہوسکے گی، بلکہ اُلٹا دین اور مذہب کو نقصان پہنچانے کا باعث بنے گی۔ اس لیے آج کے معاشرے میں وہ لوگ کہ جن کی پہچان دین کے حوالے سے ہے، انھیں سوچنا چاہیے کہ ان پر کتنی بھاری ذمّہ داریاں عاید ہوتی ہیں ۔ ان کے لیے دو ہی راستے باقی رہ جاتے ہیں:
اول: مذہبی ہونے کے ساتھ ہی اچھے انسان بننے کی شعوری اور عملی کوشش شروع کردیں۔ دین، باطن او رظاہر دونوں کا مجموعہ ہے۔ پھل میں جو اہمیت گودے کی ہوتی ہے وہی باطن کی ہوتی ہے۔
دوم: دینی احساسات کے تحت خود کو اچھا انسان بنائیں ، بندوں کے حقوق ادا کرنے کے معاملے میںمحتاط، حساس اور چوکنا ہوجائیں۔
یورپ میں ایک ہزا ر سال تک عیسائیت کا غلبہ رہا۔ لیکن عیسائیت کی نمایندگی کرنے والوں نے اپنی غلط کاریوں سے اپنے مذہب کو وہ نقصان پہنچایا کہ لوگ خود مذہب ہی سے بیزار ہوگئے۔ نتیجے میں اہلِ مغرب نے اپنے اجتماعی معاملات سے اپنے مذہب کو نکال کر گرجا گھروں کی حد تک محدود کردیا اور مذہب کو ایک ایسی پرائیویٹ چیز بنادیا کہ جس کی پابندی ضروری نہیں رہی۔ اندیشہ ہے کہ اگر ہمارے ہاں مذہبی پیروکاروں اور نمایندگی کے دعوے داروں نے اس منظرنامے سے سبق نہ سیکھا تو (خدا نہ کرے) یہاں بھی وہی تاریخ دہرائی جائے گی۔
بھارت میں شہریانِ کشمیر پہ ڈھائے جانے والے مظالم پر، مظلوموں کی اَشک شوئی اور دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے چاروناچار کمیشن بنتے ہیں۔ مگر کمیشنوں کا کھیل دیکھنے کے لیے تاریخ کا یہ ورق ملاحظہ فرمایئے۔ ادارہ
یوں تو پچھلے کئی عشروں سے کشمیر کی ہرگلی میں آگ اور خون کی داستانیں رقم ہورہی ہیں، مگر ۶جنوری ۱۹۹۳ء کا دن ریاست کے تجارتی مرکز سوپور کے لیے قیامت صغریٰ سے کم نہیں تھا۔ بھارت کی نیم فوجی تنظیم بارڈر سیکورٹی فورس (BSF) کی ۹۴ویں بٹالین جو قصبے میں تعینات تھی، اس نے شہر کے مرکز میں آگ و خون کی ہولی کھیل کر ۶۰معصوم افراد کو گولیوں سے بھون ڈالا، کئی افراد کو زندہ جلایا، جب کہ ۳۰۰ سے زائد رہایشی اور تجارتی عمارات کو راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا۔
کشمیر کے لیے سوپور کی وہی اہمیت رہی ہے، جو بھارت کے لیے ممبئی یا پاکستان کے لیے کراچی کی ہے۔ یہ نہ صرف شمالی کشمیر کے لیے راہداری ہے، بلکہ ریاست کے اکثر متمول گھرانوں اور معروف کاروباری شخصیات کا تعلق بھی اسی قصبہ سے رہا ہے۔ جب آس پاس کی زمینیں زرخیز ہوں اور باشندوں کی گھٹی میں تجارتی فراست اور محنت شامل ہو، تو اس علاقے کا فی کس آمدنی کی شرح میں اوّل آنا لازمی تھا۔ اسی لیے سوپور کو ’چھوٹا لندن‘ کی عرفیت اور اعلیٰ سیبوں کے مرکز کے نام سے بھی یاد کیا جاتا رہا ہے۔
۱۹۸۹ء کے اواخر میں جب بھارتی حکومت نے جگ موہن کو گورنر بنا کر بھیجا تاکہ عسکری تحریک، جو ابھی ابتدا میں ہی تھی کو لگام دی جاسکے۔ جگ موہن کی تجویز تھی کہ سب سے پہلے آزادی پسند حلقوں اور تحریک ِ کشمیر کو ملنے والی مالی اعانت کی روک تھام ہونی چاہیے۔ جگ موہن جو بعد میں مرکز میں وزیر بھی رہے، انھوں نے اس سلسلے میں خاص طور پر سوپور کی نشان دہی کی۔ ان کا خیال تھا کہ اگر سوپور میں تجارتی سرگرمیوں کو نشانہ بنایا جائے یا ان کی کڑی نگرانی کی جائے تو یہ قصبہ تحریک کی مالی معاونت کے قابل نہیں رہے گا۔ اس سلسلے میں جگ موہن نے بھارتی وزارتِ داخلہ کو یہ بھی مشورہ دیا کہ دہلی میں آزادپور فروٹ منڈی کے آڑھتیوں کو قائل کیا جائے کہ وہ اس علاقے سے سیبوں کی خرید بند یا کم کردیں۔
چندماہ گزرے تو میرواعظ مولوی محمد فاروق کی ہلاکت اور ان کے جنازے پر فائرنگ کے واقعہ کے بعد حکومت نے جگ موہن کو معزول کرکے ان کی جگہ انٹیلی جنس کے ایک گھاگ افسر گریش چندر سکسینہ کو بطور گورنر بھیجا۔ مگر حالات و واقعات بتاتے ہیں کہ نئے گورنر نے کم و بیش اپنے پیش رو کی پالیسی کو برقرار رکھا۔ دہلی میں پالیسی سازوں کا خیال تھا کہ اگر سیاسی آگہی کے اس مرکز کو صدیوں پہلے چانکیہ کی تجویز کی ہوئی پالیسی: سام (گفتگو)، دھام (لالچ)، ڈھنڈ (سزا) اور بھید (بلیک میل) سے قابو کرلیا جائے ، تو بقیہ ریاست سے بھی تحریک کا آسانی سے صفایا ہوسکتا ہے۔ ۶جنوری ۱۹۹۳ء کا قتل عام اسی کی ایک کڑی تھا۔
مجھے یاد ہے کہ اس ہولناک دن یخ بستہ ہوائیں چل رہی تھیں۔ آسمان اَبرآلود تھا، گویا کسی غیریقینی صورتِ حال کی عکاسی کر رہا تھا۔ صبح ساڑھے دس بجے مرکزی چوک کی ایک گلی میں تعینات بی ایس ایف کے اہلکار پر جنگجوئوں نے حملہ کرکے اسے ہلاک کر دیا اور اس کی رائفل بھی چھین لی۔ بس پھر کیا تھا، قصبے میں تعینات بی ایس ایف کے اہلکاروں کی بندوقوں نے ہرگلی، ہرنکڑ، ہر چوراہے اور ہرسڑک پر آگ برسانی شروع کی۔ دکان دار اپنی دکانوں میں پھنس کر رہ گئے۔ پورے قصبے میں اتھل پتھل مچ گئی اور لوگ چیخ پکار کرکے اپنی جان بچانے کی کوشش کرنے لگے۔
اس وقت بانڈی پورہ جانے والی ایک مسافر بس وہاں سے گزر رہی تھی۔ یہ بس مسافروں کے لیے تابوت بن گئی۔ جموں و کشمیر سول سوسائٹی کے ذریعے جمع کی گئی تفصیلات کے مطابق ، اس واقعے سے کئی روز قبل نیشنل کانفرنس سے تعلق رکھنے والے ایک کارکن عبدالاحد کنجوال کے گھر جاکر چند فوجیوں نے ان کو ہدایت کی تھی کہ وہ اس علاقے سے ہجرت کرجائیں، جس سے یہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ قتلِ عام کی پہلے سے ہی منصوبہ بندی کرلی گئی تھی اور یہ فقط ایک سپاہی کی ہلاکت سے پیدا شدہ وقتی اشتعال نہیں تھا۔
پورے قصبے میں آگ لگانے کی یہ ہولناک کارروائی پورے چار گھنٹے جاری رہی۔ بانڈی پورہ سے آنے والی موٹرکار میں ایک فیملی سفر کر رہی تھی، ایک اہلکار نے ان کے شیرخوار بچے کو ہوا میں لہرا کر آگ کے حوالے کر دیا، بقیہ افراد کو بھی گولیوں سے نشانہ بنا کر تڑپتے ہوئے آگ میں دھکیل دیا۔ اس خونیں رقص کے بعد معلوم ہوا کہ کئی سو دکانیں ، عمارتیں اور مال سے بھرے ہوئے سیکڑوں گودام اور زنانہ کالج مکمل طور پر راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہوچکے ہیں۔
آگ اور خون کی اس ہولی کے اگلے روز بی ایس ایف کے اس وقت کے سربراہ پرکاش سنگھ قصبہ میں وارد ہوئے اور معززین شہر کو اپنے دربار میں طلب کیا۔ قتل گاہ کا معائنہ کرتے ہوئے اس نے پنجابی میں اہلکاروں سے مخاطب ہوکر کہا کہ: ’’کس پنجابی شیر نے بازو آزمانے میں پوری کسر نکال دی ہے؟‘‘۔ ایک اوباش لڑکے نے فخراً بتایا کہ میں نے کئی افراد کو ہلاک کیا ہے۔ پرکاش سنگھ نے سب کے سامنے اس کی پیٹھ تھپتھپائی۔ قرونِ وسطیٰ کی وہ تاریخ شاید دہرائی جارہی تھی، جب منگول حکمران چنگیز خان جنگ کے میدان کا معائنہ کرتے ہوئے لاشوں کے انبار اور کھوپڑیوں کے مینار دیکھ کر جرنیلوں کو شاباشی دیتا تھا۔ حالات کی ستم ظریفی دیکھیے کہ پرکاش سنگھ آج بھارت میں پولیس میں اصلاحات اور فورسز میں انسانی حقوق کے تئیں بیداری لانے کے بڑے نقیب ہیں۔
کئی روز بعد دلّی سے مرکزی وزرا مکھن لال فوطیدار، غلام نبی آزاد، مرحوم غلام رسول کی معیت میں وارد ہوئے اور ہرممکن امداد فراہم کرنے کا وعدہ کیا۔ لیکن سوپور کے باشندوں نے حکومتی امداد قبول نہیں کی، بلکہ عوامی سطح پر جو ریلیف جمع کیا گیا تھا، وہی متاثرین میں تقسیم ہوا۔ انشورنس کمپنیوں نے بھی منہ موڑ لیا۔ جس کے بعد ا س وقت کے مرکزی وزیرخزانہ اور سابق وزیراعظم من موہن سنگھ کی مداخلت کے بعد انشورنس کمپنیوں نے معاوضہ واگزار کرنے کا یقین دلایا، تاہم یہ وعدہ بھی کبھی ایفا نہ ہوسکا۔ مقامی تجارتی انجمن نے عدالت سے رجوع کرکے انشورنس کمپنیوں سے معاوضہ حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی مگر اس میدان میں چند ہی دکان دار خوش نصیب نکلے۔
عوامی دبائو کے تحت حکومت نے ۹۴بٹالین بی ایس ایف کے کمانڈنٹ کو پانچ دیگر اہلکاروں سمیت معطل کیا۔ ۹جنوری کو واقعے کی جوڈیشل انکوائری کے احکامات بھی صادر کیے گئے اور ۳۰جنوری کو جسٹس امرسنگھ چودھری کو تحقیقاتی آفیسر مقرر کیا گیا۔ اس تحقیقاتی عمل کو کبھی آگے بڑھایا نہ جاسکا، بلکہ دو سال گزرجانے کے بعد کمیشن کو تحلیل کر دیا گیا۔ محکمہ قانون، جسٹس چودھری کو مسلسل لکھتا آیا کہ وہ ریاست بالخصوص سری نگر کا گرمیوں میں دورہ کریں تاکہ گواہ جن میں سینیرافسران شامل ہیں، ان کے بیانات قلم بند کیے جاسکیں۔ مگر کمیشن سری نگر آنے سے گریزاں رہا، تاہم جموں آنے پر آمادگی ظاہر کی اور گواہوں کے بیانات قلم بند کرنے کے لیے ۱۵سے۱۷دسمبر ۱۹۹۳ء کا وقت دیا۔ کمیشن کی میعاد جو پہلےہی ختم ہوچکی تھی، ۳۰جنوری ۱۹۹۴ء تک بڑھادی گئی۔ کمیشن کی میعاد بڑھتے ہی جسٹس چودھری نے مجوزہ دورہ پھر منسوخ کر دیا اور اطلاع دی کہ سماعت کی اگلی تاریخ سے ریاستی حکومت کو مطلع کیا جائے گا۔ اس کے بعد کمیشن نے مطلع کیا کہ وہ اپنی کارروائی ۲۱ سے ۲۵مارچ تک جموں میں چلائے گا اور خواہش ظاہر کی کہ گواہوں کی شرکت کو یقینی بنانے کے علاوہ کمیشن کے عملے کی سیکورٹی کا معقول بندوبست کیاجائے گا، لیکن یہ دورہ بھی منسوخ کر دیا گیا اور اطلاع دی گئی کہ اب وہ سماعت مارچ ۱۹۹۴ء کے دوسرے ہفتے میں کرے گا۔ وہ اس کے بعد بھی وعدے سے مکر گیا اور یوں اپریل ۱۹۹۴ء میں کمیشن کی میعاد پھر ختم ہوگئی۔
ریاستی چیف سیکرٹری بی کے گوسوامی نے فائل میں اپنے تاثرات کچھ یوں لکھے: ’’ہمیں یہ ڈراما ختم کرنا چاہیے، گذشتہ ۱۵ماہ سے کوئی سماعت نہیں ہوئی ا ور ۱۸؍اپریل ۱۹۹۵ء کو مرکز کے داخلہ سیکرٹری کے پدمنا بھیا کو لکھا: ’’کمیشن کی جانب سے جموں میں سماعت کا انعقاد عوامی مفاد میں پہلے ہی نہیں تھا لیکن اس کے بعد کمیشن کا رویہ سراسر حوصلہ شکن رہا اور تین ماہ میں انکوائری مکمل نہ کرنے سے لوگوں میں حکومت کے اعتبار کو شدید صدمہ پہنچا ہے‘‘۔ گوسوامی نے پدمنا بھیا کے نام مزید لکھا کہ کمیشن کے قیام کا چوں کہ مقصد ہی فوت ہوچکا ہے اس لیے اب اسے تحلیل کر دینا چاہیے‘‘۔ اس مکتوب کے بعد مذکورہ کمیشن کا باب بند کر دیا گیا۔
بتایا جاتا ہے کہ بعد میں ایک سب انسپکٹر اور دواسسٹنٹ سب انسپکٹروں کو معطل کیا گیا جب کہ ۹۴بٹالین کو سوپور سے تبدیل کرکے پلوامہ تعینات کیا گیا، جہاں انھوں نے پہنچتے ہی لوگوں کو سوپور سانحے جیسے انجام کی دھمکیاں دیں، جس کے کچھ عرصے بعد انھیں راجستھان منتقل کر دیا گیا۔ اس سانحے سے متعلق دو کیس پولیس اسٹیشن سوپور میں درج کیے گئے تھے اور وہاں سے ۲۳جنوری کو انھیں تحقیقات کے لیے مرکزی تفتیشی ایجنسی کو سونپا گیا۔ سی بی آئی کی رپورٹ کے مطابق: دورانِ تحقیقات عینی گواہوں اور مقامی لوگوں کے بیانات لینے کی ازخود کوشش کی، تاہم کسی زخمی یا کسی گواہ نے بی ایس ایف اہلکاروں کی شناخت نہیں کی اور نہ مطلوبہ معلومات فراہم کیں، جس کے نتیجے میں اس سانحے میں ملوث لوگوں کی نشان دہی ناممکن بن گئی اور یہ پتا نہ چل سکا کہ کس نے عام لوگوں کی جان لی اور آتش زدگی کے لیے کون ذمہ دار ہے‘‘۔ مزید لکھا: ۹۴بٹالین بی ایس ایف کی جانب سے درج کی گئی ایف آئی آر کی تحقیقات کے سلسلے میں بھی حملہ آوروں کی شناخت نہ ہوسکی کہ جس سے یہ معلوم نہ ہوسکا کہ اس سانحہ کے دوران کس نے پہلے فائرنگ کی تھی‘‘۔
یوں کیس لٹکتا ہی رہا اور انصاف کا خون ہوتا رہا۔ حکومت کے اس رویے کی وجہ سے سوپور کے مکین ۲۴برس بعد انصاف کی تمام اُمیدیں کھو بیٹھے ہیں۔ تقریباً چوتھائی صدی بیت گئی ہے، مگر دل پر لگے زخم آج بھی تازہ ہیں۔ جب تک بھارت اور پاکستان وجۂ نزاع معاملات کا حل تلاش نہیں کرتے، اور خطے میں پاے دار امن و خوش حالی کا ماحول پیدا کرنے کے لیے اقدامات نہیں کرتے، تب تک سوپور جیسے قتل عام ہوتے رہیں گے اور ایسے زخم ہرے ہوتے رہیں گے۔
یہ حقیقت بہرحال تسلیم کرنا پڑے گی کہ ان تمام اَلمیوں کا ماخذ کشمیر کا حل طلب مسئلہ ہے۔ لہٰذا، بہتری اسی میں ہے کہ حقائق سے انکار کے بجاے اس مسئلے کے حل کی سبیل کی جائے۔ کوئی ایسا حل جو تمام فریقوں کے لیے قابلِ قبول ہو، تاکہ برعظیم میں امن و خوش حالی کے دن لوٹ سکیں۔ سوپور کے شہیدوں کے لیے بھی یہ ایک طرح سے خراجِ عقیدت ہوگا۔ اس حیات پرور اور زندہ دلوں کی بستی کی رونقیں بھی لوٹ آئیں گی۔
ایک مظلوم، بے گناہ اور بے بس کشمیری مسلمان نوجوان سے وابستہ یادوں سے دل مغموم ہے۔ ۹فروری ۲۰۱۳ء کو کشمیری محمد افضل گورو کو بھارتی برہمن اسٹیبلشمنٹ نے دہلی کی تہاڑجیل میں نہایت ظالمانہ طریقے سے پھانسی پر لٹکا دیا تھا۔ اس پر مزید ستم یہ ڈھایا گیا کہ شہید کی میت بھی اُن کے والدین، بیوہ (تبسم) اور نہایت کمسن اکلوتے بیٹے غالب کے حوالے کرنے سے انکار کردیا۔ شہید افضل گورو کا جسد ِ خاکی تہاڑجیل کے اندر ہی مدفون ہے۔ ظلم اور جبر کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہوسکتی ہے!
بھارت نے الزام لگایا تھا کہ ۲۰۰۱ء میں بھارتی پارلیمنٹ کی عمارت پر جو فائرنگ ہوئی تھی، اس کا ماسٹرمائنڈ افضل گورو تھا۔ ۱۲سال تک مقدمہ چلا۔ اس دوران تمام شواہد نے ثابت کردیا کہ افضل کسی بھی سطح پر اس کے ذمے دار نہیں ہیں، لیکن اس کے باوصف بھارتی عدالت نے اُنھیں موت کی سزا سنادی۔ ہندو ججوں کے سفاک الفاظ ملاحظہ کیجیے:
بھارت کے اجتماعی ضمیر کا تقاضا ہے کہ افضل گورو کو موت کی سزا دے کراُس کا وجود صفحۂ ہستی سے مٹا دیا جائے۔
۹فروری کو ۴۴سالہ گورو کو پھانسی دے دی گئی۔ بھارت کی ممتاز دانش ور اور معروف ادیب ارون دھتی رائے نے اس موقعے پر برطانوی اخبار گارڈین میں طویل مذمتی مضمون میں لکھا تھا: ’’افضل گورو کی موت بھارتی جمہوریت کے دامن پر ایسا سیاہ دھبہ ہے، جو کبھی نہیں دُھل سکے گا‘‘۔
افضل گورو کا خون ان شاء اللہ رائیگاں نہیں جائے گا، لیکن دوسری طرف بھارت نے بھی مصمم ارادہ کرلیا ہے کہ وہ تحریک ِ آزادیِ کشمیر کو کچلنے کے لیے ہرغلیظ ہتھکنڈا بروے کار لائے گا۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ ، مجاہدین کشمیر کے حوصلے پست کرنے کے لیے کشمیر میں عفت مآب مسلم خواتین کی عصمتیں پامال کرنے سے بھی باز نہیں آرہی۔
اس ضمن میں ہولناک حقائق سامنے آرہے ہیں۔ مثال کے طور پر ۲فروری ۲۰۱۷ء کو سری نگر سے شائع ہونے والے ممتاز انگریزی روزنامے The Rising Kashmir کی ایک خبر ملاحظہ کیجیے۔ اخبارمذکور میں یاورحسین نے رپورٹ میں بتایا ہے کہ جب مقبوضہ کشمیر کی ریاستی اسمبلی کے ایک رکن، ایم وائی تریگامی نے اسپیکر سے ریاست میں بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں ہونے والے حالیہ عصمت دری (ریپ) کے سانحات سے متعلق بار بار سوال پوچھا تو اسمبلی کی طرف سے اُنھیں تحریری جواب میں بتایا گیا کہ:
گذشتہ دو برسوں (۱۶-۲۰۱۵ء) کے دوران میں مقبوضہ کشمیر میں ۵۹۵ خواتین کی عصمت دری کے واقعات رپورٹ ہوئے۔
یہ تعداد تو وہ ہے جس کا پولیس اسٹیشن میں باقاعدہ اندراج کیا گیا، مگر واقعہ یہ ہے کہ ریپ کے لاتعداد ایسے سانحات ہیں، جو وقوع پذیر تو ہوئے لیکن مقبوضہ کشمیر کی پولیس نے اُنھیں ریکارڈ کا حصہ بنانے سے انکار کر دیا۔
اس قبیح جرم کا ارتکاب کرنے والوں میں بھارتی فوجی افسر اور بارڈر سیکورٹی فورسز کے وہ اہل کار شامل ہیں، جنھیں دہلی اسٹیبلشمنٹ نے خصوصی طور پر مقبوضہ کشمیر میں تعینات کر رکھا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے دو اضلاع، کپواڑہ اور اَننت ناگ میں کشمیری مسلمان خواتین کی سب سے زیادہ بے حُرمتی کی گئی ہے۔ سب سے زیادہ دردناک سوال یہ ہے کہ عالمی ضمیر بھارت کے اِن قاہرانہ اقدامات پر کب جاگے گا؟
واشنگٹن سے ممتاز کشمیری دانش وَر ڈاکٹر غلام نبی فائی، اِن بھارتی مظالم کے بارے میں باربار امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی حکومت کو خط لکھ کر بیدار اور آگاہ کرنے کی اپنی سی مساعی تو کر رہے ہیں، لیکن بھارت کی طرف جھکا امریکی پلڑا فائی صاحب کی چیخوں پر کان دھرنے سے انکاری ہے۔ بھارت سے اربوں ڈالر کی تجارت کرنے والے عرب مسلمان ممالک بھی (مثلاً متحدہ عرب امارات کا پچھلے ہی ماہ بھارت سے ۷۵؍ارب ڈالر کا سرمایہ کاری معاہدہ) اس ضمن میں کم درجہ بے حس نہیں ہیں۔ اُمت مسلمہ کی تسبیح پڑھنے والے سب خاموش ہیں اور مہر بہ لب۔ ظلم اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ بھارت کے اندر انسانی حقوق کی پاس داری کرنے والوں میں سے ایک نمایاں دانش ور ، امیت سین گپتا نے اپنے حالیہ مضمون میں لکھا ہے:
بھارت نے نہایت ہی وحشت سے مقبوضہ کشمیر کی مزاحمتی آوازوں کو دبانے کی کوشش کی ہے، اور اب بھارتی بے حسی کا عالم یہ ہے کہ بھارتی مکالمے سے کشمیریوں کے مسائل و مصائب کا ذکر ہی دانستہ غائب کر دیا گیا ہے۔
کیا ایسا ہوگا کہ افضل گورو کے پھانسی لگنے کے بعد بھارتی حکومت مقبوضہ کشمیر کے باقی نوجوانوں سے صرفِ نظر کرلے گی؟
نظر تو یہی آرہا ہے کہ بھارتی ستم گر ،کشمیری نوجوانوں کو مختلف الزامات کے تحت موت کی سزائیں دیتے رہیںگے۔ یہ سلسلہ رُکنے اور تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ بھارت دنیا میں کسی کی بھی پروا کیے بغیر حُریت پسند کشمیریوں کی گردن توڑ دینا چاہتا ہے۔ بھارتی استبداد کی ایک نئی مثال بھی سامنے آگئی ہے۔ کشمیریوں پر ظلم و جَور کا یہ سانحہ سری نگر سے ڈیڑھ ہزار کلومیٹر دُور مغربی بنگال کے مرکز، کلکتہ میں پیش آیا ہے۔ ایک ۲۲سالہ کشمیری معصوم نوجوان، مظفراحمد راتھر کو کلکتہ کے جج بی کے پاٹھک نے چند دن پہلے ہی سزاے موت سنائی ہے۔ مظفرراتھر کا تعلق مقبوضہ کشمیر کے علاقے کلگام سے ہے۔ وہ ایک غریب خاندان کا بیٹا ہے۔ جج نے یہ کہتے ہوئے راتھر کو پھانسی کا حکم سنایا ہے: ’’وہ بھارت کی سلامتی کے منافی سرگرمیوں میں ملوث پایا گیا‘‘۔ حالاں کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔
مظفر۱۰سال کا تھا کہ ۲۰۰۲ء میں ایک روز وہ سکول سے آتا ہوا غائب ہوگیا۔ اُس کی گمشدگی اور اغوا کی رپورٹ درج کروا دی گئی تھی، لیکن پھر برسوں اُس کا کوئی اَتا پتا معلوم نہ ہوسکا۔ پانچ سال بعد ۲۰۰۷ء میں ہمارے گائوں کے نمبردار نے میرے والد، عبدالمجید راتھر کو بتایا کہ پولیس آئی تھی اور بتارہی تھی کہ مظفرراتھر زندہ ہے، مغربی بنگال سے دہشت گردی کرتے ہوئے گرفتار ہوا ہے اور اب کلکتہ جیل میں ہے۔ یہ سن کر ہمارے تو پائوں تلے سے زمین نکل گئی۔ مظفر جب غائب ہوا تھا، ۱۰ سال کا تھا۔ ۱۰سالہ بچہ بھلا کیا اور کیسی دہشت گردی کرسکتا ہے؟ اب، جب کہ وہ ۲۲برس کا ہوچکا ہے، اور گذشتہ ۱۲برسوں سے جیلوں کی سختیاں اور تشدد بھی مسلسل سہتا آرہا ہے، اچانک اُسے سزاے موت سنا دی گئی ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں اب یہ کہانیاں زبان زدِ خاص و عام ہیں کہ بھارتی خفیہ ایجنسیاں مقبوضہ کشمیر کے کم سن لڑکوں کو اغوا کرتی ہیں، اُنھیں برسوں غائب رکھا جاتا ہے، اور ایک روز ان پر قتل، ڈاکے اور دہشت گردی کے مقدمات ڈال کر انھیں ذرائع ابلاغ کے سامنے لایا جاتا ہے۔ پھر بھارتی میڈیا میں اُن کے (ناکردہ) گناہوں کی خوب تشہیر کی جاتی ہے اور آخرکار یہ خبر بھی آجاتی ہےکہ فلاں کشمیری نوجوان کو عمرقید یا سزاے موت سنا دی گئی ہے۔ کلگام کے مظفرراتھر کے ساتھ بھی یہی اندوہناک کھیل کھیلا گیا ہے۔
ممتاز اور بزرگ کشمیری رہنما سیّد علی شاہ گیلانی نے کہا ہے کہ: بے گناہ مظفر راتھر کو سزاے موت سنا کر بہت بڑا ظلم کیا گیا ہے۔ چنانچہ ۳فروری ۲۰۱۷ء کو حُریت قائدین کی متحدہ قیادت میں پورے مقبوضہ کشمیر میں مظفراحمد راتھر کو سنائی جانے والی سزاے موت کے خلاف زبردست احتجاج کیا گیا۔ ایسے احتجاج تو بے گناہ افضل گورو کو سنائی جانے والی سزاے موت کے خلاف بھی بہت ہوئے تھے،لیکن بھارت افضل گوروکو پھانسی دینےسے باز نہ آیا۔ تو کیا مظفرراتھر کی شکل میں ایک اور افضل گورو کی شہادت کا خوں رنگ منظر اُبھرنے والا ہے؟ ابھی تو بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں کشمیری بُرہان مظفروانی کی شہادت کا دُکھ نہیں بھولا تھا کہ اب مظفرراتھر کی غم ناک داستان سامنے آگئی ہے۔ میرے اللہ، تو کشمیری بھائیوں پر رحم فرما!
ایک طرف ۲۳ ستمبر ۲۰۱۶ء کو افغان حکومت اور حزب اسلامی کے درمیان طے پانے والے معاہدے پر عمل درآمد کا آغاز ہوا، تو دوسری طرف پاکستان میں فروری کے دوران پانچ دن میں دہشت گردی کے آٹھ واقعات نے غم و اندوہ کی فضا طاری کردی۔ یوں افغانستان سے آنے والے دہشت گردوں کی نشان دہی سے پاک افغان تعلقات میں ایک بار پھر کشیدگی پید اہوگئی۔ چوں کہ حزبِ اسلامی (حکمت یار) اور کابل حکومت کے درمیان امن معاہد ہ ایک مثبت پیش رفت ہے، جس کی تمام امن پسند قوتوں اور پاکستان اور افغانستان کے بہی خواہوں نے تعریف کی ہے۔ اس لیے بجاطور پر یہ اُمید ہوچلی تھی کہ شاید اسی طرح افغانستان کے ایک اہم اور بنیادی فریق افغان طالبان کے ساتھ بھی مثبت مذاکرات کا سلسلہ شروع ہو سکے گا۔ لیکن عین اسی وقت پاکستان میں خوں ریزی کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوگیا، جس کے بارے میں یقینی شواہد موجود ہیں کہ اس کو افغانستان میں موجود ’پاکستانی طالبان‘ کی قیادت کنٹرول کر رہی ہے۔ غالباً یہ پہلی بار ہوا ہے کہ پاکستانی فوج نے افغانستان کے صوبے کنڑ میں مخصوص ٹھکانوں پر گولہ باری کی ہے، جس سے ایک بار پھر سرحدوں پر جنگی صورت حال پیدا ہوگئی ہے۔
اس افسوس ناک فضا میں مثبت خبر یہ ہے کہ گذشتہ سال افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی کی قیادت میں افغان حکومت اور گلبدین حکمت یار کی قیادت میں حزب اسلامی افغانستان کے درمیان طے پانے والے معاہدے پر عمل د رآمد شروع ہو گیا ہے اور ایک بڑی پیش رفت کے طور پر حکمت یار اور ان کی پارٹی کا نام اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کردہ بلیک لسٹ سے نکال دیا گیا۔
چھے سال کے طویل مذاکراتی عمل کے بعد طے پانے والا یہ معاہدہ ۲۵نکات پر مشتمل ہے۔ مبصرین اس امن معاہدے کو افغان حکومت کی ایک بڑی کامیابی قرار دے رہے ہیں۔ افغانستان کئی عشروں سے جنگ کا شکار ہے۔ ۱۹۷۳ء میں ظاہر شاہ کی بادشاہت کے خاتمے اور سردار دائود کی حکومت کے برسرِاقتدار آنے کے بعد سے افغانستان میں جنگ و جِدل کا دور شروع ہوا ۔ ۱۹۷۸ء کے اوائل میں کمیونسٹوں کی باہمی جنگ ِ اقتدار نے افغانستان کو خونیں دلدل میں پھنسا دیا۔ تب اشتراکی روسی وزیر خارجہ نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اعلان کیا تھا کہ: ’’کمیونسٹ نظام افغانستان کے لیے ناگزیر ہے کوئی اس کو نہیں بدل سکتا‘‘۔ لیکن پھر دنیا نے ان کمیونسٹ افواج کی رخصتی کا منظر بھی دیکھا۔ افغان مجاہدین کی قربانیوں سے کمیونسٹ نظام زمین بوس ہوا۔ مشرقی یورپ اشتراکی روسی سلطنت کی گرفت سے آزاد ہوا، دیوارِ برلن ٹوٹ گئی ، جرمنی یک جا ہوگیا، لیکن اس کا ثمر خود افغانستان کو نہ مل سکا اور ان کے باہمی اختلافات نے افغانستان میں تباہی و بربادی کا سلسلہ جاری رکھا۔
پھر طالبان کی آمد سے وقتی طور پر ملک میں امن قائم ہوا۔ لیکن نائن الیون کے افسوس ناک واقعے کے بعد افغانستان کے لیے ایک اور تباہی و بربادی کا سامان تیار ہوا، اور وحشیانہ امریکی بم باری نے افغانستان کے طول و عرض میں بربادی مسلط کردی۔ افغانستان کے چپے چپے پر افغان طالبان نے مزاحمت جاری رکھی، جب کہ بعض مقامات پر حزب اسلامی کے حُریت پسند بھی نبرد آزما تھے۔ ان کے برعکس ایک خطرناک تنظیم داعش نے حال ہی میں افغانستان میں قدم جمانے شروع کیے، جس سے افغانستان کا مستقبل مخدوش ہوتا نظر آرہا تھا ۔ اس تناظر میں کابل حکومت اور حزبِ اسلامی کا معاہدہ خوش گوار ہوا کے جھونکے کی مانند ہے، جس پر افغان عوام نے بجاطور پر خوشی کا اظہار کیا۔
ڈاکٹر اشرف غنی کی حکومت بھی مختلف الخیال افراد اور گروہوں پر مشتمل ہے ۔ اس میں: سابقہ کمیونسٹ ، خلقی ، پرچمی، شعلی ،ملتی ،پختون قوم پرست ، تاجک ، ازبک ، ہزارہ ، سبھی شامل ہیں۔ ان سب نے اس معاہدے کا خیر مقدم اور اس کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔
ڈاکٹر اشرف کے اتحادی ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے واشگاف الفاظ میں اعلان کیا کہ: ’’میں چاہتا ہوں کہ یہ معاہدہ کامیاب ہو۔ افغانستان میں امن قائم کرنا اور عوام کو ترقی و سلامتی سے ہم کنار کرنا اس کے بغیر ممکن نہیں ہے ۔ ہم طالبان کے ساتھ بھی مذاکرات اور امن معاہدہ چاہتے ہیں‘‘۔ اسی طرح استاد عبدالرب رسول سیاف نے کہا: ’’ہم کابل میں امن کی خاطر غیرملکیوں کی موجودگی برداشت کررہے ہیں۔ حکمت یار تو ہمارے بھائی ہیں، ان پر بھلاکون اعتراض کرسکتا ہے‘‘۔ پختون قوم پرست جو ایک طویل عرصے سے حکمت یار کے مخالف رہے ہیں، وہ بھی قومی وحدت اور تعمیر کی خاطر ان کا ساتھ دینے کے لیے تیار ہیں۔ کیوںکہ ان کے خیال میں موجودہ کش مکش میں زیادہ نقصان پختون آبادی کا ہی ہو رہا ہے۔ تاہم، بعض مغرب زدہ این جی اوز کے افراد اور اسی فکر کی حامل چند خواتین نے کابل میں اس معاہدے کے خلاف مظاہر ے بھی کیے ہیں۔
ڈاکٹر اشرف غنی کی حکومت نے مارچ ۲۰۱۶ء سے کابل میں باقاعدہ رسمی مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ کابل حکومت کی سنجیدگی کو دیکھتے ہوئے حزبِ اسلامی نے اپنا سب سے دیرینہ مطالبہ کہ ’غیر ملکی افواج کا حتمی اخراج‘ میں ترمیم کرتے ہوئے اس کو معاہدہ کی بنیادی شرائط میں رکھنے کے بجاے معاہدے کا ایک مقصد اورنصب العین قرار دیا ۔ مئی ۲۰۱۶ء میں بالآخر معاہدے کے ایک مسودے پر اتفاق کر لیا گیا، جو حزبِ اسلامی کے نمایندے کریم امین اور حکومت کے نمایندے پیر سید احمد گیلانی نے تیار کرکے دونوں اطراف کے قائدین کی خدمت میں پیش کیا تھا ۔ یاد رہے کہ سیّداحمد گیلانی بھی روس کے خلاف جہاد میں ایک دھڑے کے سربراہ تھے اور اس طرح گلبدین حکمت یار کے ہم رکاب رہے تھے ۔
۲۲ستمبر ۲۰۱۶ء کو کابل میں ایک تقریب کے دوران ابتدائی مسودے پر دستخط ہوئے۔ معاہدے کے حتمی مسودے کو انجینیر حکمت یار کے پاس دستخط کے لیے بھیجا گیا، جو افغانستان میں کسی خفیہ مقام پر مقیم ہیں۔ بالآخر ۲۹ستمبر کو کابل کے صدارتی محل میں تقریب منعقد ہوئی ۔ اس تقریب سے گلبدین حکمت یار نے ویڈیو لنک کے ذریعے ۳۶منٹ خطاب کرتے ہوئے اس امن معاہدے پر اطمینان کا اظہار کیا۔ انھوں نے طالبان کو بھی مشورہ دیا کہ وہ افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کریں اور امن و سلامتی کا راستہ اپنائیں۔ ساتھ اپنے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ سیاسی طور پر امریکی افواج کو افغانستان سے نکالنے کے لیے اپنی جدو جہد جاری رکھیں گے، اور ملک میں نمایندہ جمہوری حکومت کے قیام کی اہمیت اور عمل پر کوئی لچک نہیں دکھائیں گے۔
افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی نے اس موقعے پر اپنے خطاب میں اس معاہدے کو ایک بڑی کامیابی اور افغان دستور اور آئین کا تقاضا قرار دیا ۔ انھوں نے کہا کہ: ’’یہ پورا مذاکراتی عمل دوافغان گروپوں کے درمیان افغانستان کے اندر ہوا ہے، جس میں کوئی غیر ملکی شامل نہیں ہوا، جو افغانوں کا ایک بڑا کارنامہ ہے، جس سے ملک میں امن قائم ہوگا‘‘۔
معاہدے کے اہم نکات میں حکومت کے ذمے یہ کام ہے کہ گلبدین حکمت یار اور حزبِ اسلامی پر بین الاقوامی پابندیوں کا خاتمہ ،ان پر عائد کردہ تمام الزامات اور مقدمات کا خاتمہ، حزبِ اسلامی کے ارکان اور مجاہدین کو افغانستان کے قومی سلامتی کے اداروں میں مقام دینا اور ان ۲۰ہزار افغان مہاجرین خاندانوں کی باعزت افغانستان واپسی کا انتظام کرنا جو پشاور کے نصرت مینہ اور شمشتو کیمپوں میں آباد ہیں۔
اس کے مقابلے میں حزبِ اسلامی نے اپنے ذمے جو کام لیے ہیں، ان میں سب سے اہم نکتہ جنگی حالت سے دست برداری اور ملک کے دستور و قانون کی پاس داری ہے ۔ وہ کسی اور گروپ کی بھی جنگی تیاریوں میں مدد نہیں کریں گے ۔ مکمل اور دیرپا جنگ بندی پر عمل کریں گے اور اپنا اسلحہ حکومت کے حوالے کردیں گے اور اپنے طور پر کسی بھی قسم کی جنگی کارروائیوں میں شرکت نہیں کریں گے ۔ ملک میں موجود جمہوری اداروں کا احترام کریں گے اور ان کی مخالفانہ تحریکوں کا ساتھ نہیں دیں گے۔
امریکا نے تو حکمت یار کے سر کی قیمت ۲۵ملین ڈالر لگا رکھی تھی، لیکن اس دوران روس اور فرانس نے حکمت یار کو اقوام متحدہ کی بلیک لسٹ سے نکالنے پر اپنے تحفظات کا اظہار کر دیا۔ اس عرصے میں اقوام متحدہ کا ایک وفد کابل آیا اور اس نے افغان انتظامیہ اور حزبِ اسلامی کے نمایندوں سے معلومات حاصل کیں ۔ پھر حزبِ اسلامی نے مؤثر سفارت کاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے، خود روسی اور فرانسیسی حکومتوں پر اپنا موقف واضح کیا، جس کے نتیجے میں ان کے تحفظات دُو ر ہوئے اور اقوام متحدہ نے ۴فروری ۲۰۱۷ء کو گلبدین حکمت یار اور ان کی پارٹی پر عائد پابندیاں ختم کر دیں۔ اس طرح یہ امید کی جاتی ہے کہ وہ مارچ میں جلال آباد کابل میں منظر عام پر آجائیں گے۔ جس طرح ہم پہلے عرض کر چکے ہیں کہ یہ افغانستان میں ایک اہم پیش رفت ہو گی، جس سے مثبت توقعات وابستہ کی جاسکتی ہیں اور سرزمینِ افغانستان پر بھارت کی بڑھتی ہوئی تزویراتی پیش رفت میں بھی رکاوٹ پیدا کی جاسکے گی۔
قومی بیانیہ (National Narrative )دراصل قوم کی نظریاتی شناخت اور فکر وعمل کا ترجمان ہوتا ہے، جس پر قوم متفق ہو یا جمہوری اصول کے مطابق قوم کی اکثریت کا اتفاق راے پایا جاتا ہو۔ قومی بیانیہ نظریاتی بھی ہو سکتا ہے اور سیکولر بھی۔ مصورِپاکستان علامہ اقبال ؒ نے اسلامی نظریے کا مغرب کے سیکولر نظریے سے تقابل کر کے یہ فرمایا تھا ؎
اپنی ملّت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِؐ ہاشمی
قوم رسولِؐ ہاشمی کا بیانیہ ، میثاق ریاستِ مدینہ میںجاری کیا گیا تھا۔ عصر حاضر میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے بانیوں نے جنوبی ایشیا کی اس نئی ریاست کی تشکیل کے وقت عہد کیا تھا کہ سیرتِ رسول ؐ کی روشنی میں زمانۂ حال میں مملکت خدادادِ پاکستان کے قو می بیانیہ کی تشکیل کی ضرورت کو ہم اُجاگر کریں گے اور فکر وعمل کے نئے اہداف کی طرف رہنمائی کی کوشش کریں گے، تاکہ ریاستی سطح پر عہداول اور عہد ثانی میں وحدتِ فکروعمل پیدا ہو۔
دین اور اسلامی نظریے کو اگر اصل یا بنیاد قراد دیا جائے توعصر حاضر کے تغیرات پر دو قسم کے جواب ہو سکتے ہیں۔ ایک ’تجدید‘ کا اور دوسرا ’تجدّد‘ کا۔ زمانے کے تغیرات کو مدّ نظر رکھ کر دین کو بلاکم وکاست بیان کرنے کا نام ’تجدید‘ ہے جو کہ مستحسن ہے، اور زمانے کے تقاضوں کے نام پر دین کو بدل ڈالنے کا نام ’تجدّد‘ ہے، جس کی ایک نظریاتی ریاست میں گنجایش نہیں ۔ کیوں کہ بندگان خدا کے لیے اصل وفاداری کا مرکز خداے وحدہ لاشریک کی ذات وصفات ہے، جس کی تعبیر ’توحیدی بیانیہ‘ سے کی جاسکتی ہے۔ اس وحدتِ فکروعمل کو دوئی کے سانچے میں ڈال کر جو بھی قومی بیانیہ ترتیب دیا جائے، وہ اللہ اور اس کے رسول ؐ کے نزدیک مردُود ہے، کیوں کہ وحی (Revelation) کے ذریعے قرآن کریم ہمیں یہ پیغام دیتا ہے کہ اللہ شرک اور مشرکانہ فکروعمل کو ہرگز معاف نہیں کرتا اور اپنے بندوں کے باقی گناہوں کو بخش دیتا ہے ؎
باطل دُوئی پسند ہے ، حق لاشریک ہے
شرکت میانہ حق و باطل نہ کر قبول
آسمانی بیانیہ میں تحریف اور توحیدی بیانیہ
انجیل مقدس اور دوسری آسمانی کتابوں میں تحریف کا بنیادی پہلو بھی یہی تھا کہ ان کے ’توحیدی بیانیہ‘ کو مشتبہ بنا دیا گیا۔ اس میں ترمیم واضافہ کر کے بندوں کے نام ربّ کے پیغام کو بنی اسرائیل نے اپنی خواہشات کی بھینٹ چڑھا دیا۔ انجیل میں سب سے خطرناک تحریف یہ کی گئی: ’’جو خدا کا ہے وہ خدا کو دو اور جو قیصر کا ہے وہ قیصر کو دو ‘‘۔ یہ وہ مشرکانہ بیانیہ ہے، جس کے ذریعے عیسائیوں کے عقیدئہ توحید پر ضرب لگائی گئی۔
’آسمانی بیانیہ‘ تبدیل کرنے کی اس جسارت نے ان قوموں کو مَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ اور ضَّآلِّیْنَ بنادیا اور امت مسلمہ کو اس جسارت عظیم سے بچنے کی تاکید نماز کی ہر رکعت میں کی گئی ۔ رسول ہاشمی صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر فرمایا کہ مغضوب قوم یہودی ہیں اور گمراہ اور ضال نصاریٰ ہیں، جب کہ انعام یافتہ ہونے کی علامت ’توحیدی بیانیہ ‘ کو قرار دیا گیا، جو رسول ہاشمی ؐ کی حقیقی قیادت میں ریاست کا بیانیہ تھا۔ اس بیانیے کو اللہ کے رسولؐ نے لَا اِلٰہ اِلَّا اللہ محمد رسول اللہ کے سانچے میں ڈھال کر ایمان کی بنیاد قرار دیا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ بگڑی ہوئی تاریخ کو دوبارہ توحیدی بیانیے پر استوار کرنے کے لیے کفروشرک کے خلاف ریاست مدینہ کے اندر آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھیوں کو سخت جدوجہد اور بذریعہ قرآن جہاد عظیم کرنا پڑا۔ قرآن کے الفاظ میں:
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ ط وَالَّذِیْنَ مَعَہٗٓ اَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآئُ بَیْنَھُمْ (الفتح ۴۸:۲۹)اللہ کے پیغمبر محمد ؐ اور ان کی معیت میں اہل ایمان کفار پر بڑے سخت ہیں اور آپس میں رحم دل ہیں۔
فَمَنْ یَّکْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَ یُؤْمِنْم بِاللّٰہِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰی ق (البقرہ ۲:۲۵۶)جو بھی طاغوت کا انکار کر دے اور اللہ پر ایمان لے آئے گویا اس نے نہ ٹوٹنے والی رسی کو تھام لیا۔
درحقیقت ریاست اور ملت اسلامیہ کا ’قومی بیانیہ‘ ہی ان کا عروۃ الوثقٰی اور حبل اللہ ہے، جو آپس میں’مفاہمت‘ اور دشمن کے ساتھ ’مزاحمت‘ کی دوطرفہ حکمت عملی کی بنیاد فراہم کرتا ہے ۔ یہ کسی بھی نظریاتی ریاست کی پالیسی سازی کا محور ہونا چاہیے، جو رب کائنات کو اپنا ملجا وماویٰ بنائے اور مشرکانہ بیانیے کو اپنے لیے ضرب کاری کا ہدف سمجھے، اور حق وباطل کے اشتراک کو ہرگز قبول نہ کرے۔ یہی وجہ تھی جب کفارِ قریش مکّہ نے آپ ؐ کے چچا ابو طالب کو آپؐ کے پاس بھیجا تو رسولِؐ خدا کا جواب بلاخوف وخطران کے ہر لالچ کا توڑ تھا:
خدا کی قسم! اگر یہ میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند رکھ کر کہیں کہ آفتاب ومہتاب کے عوض میں اس بیانیے کو ترک کر دوں تومیں ہرگز اسے ترک نہ کروں گا۔ یہاں تک کہ یا تو اللہ اس دین کو غالب کر دے یا میں اس راہ میں جان دے دوں۔ (سیرت ابن ہشام، جلداوّل ، ص ۲۶۶)
یہ تھی سنت نبوی ؐ، یعنی ایک نظریاتی مملکت کے سربراہ اوّل کا لائحہ عمل اور ایکشن پلان۔{ FR 584 } عصر حاضر کا بیانیہ اگر رسولؐ اللہ کے بیانیے سے متصادم ہے تو نبی کریمؐ کی سنت کو چھوڑنے والا ہرحکمران اپنے دعویٰ ایمان میں جھوٹا ہے اور ان کا دین دینِ سماوی نہیں بلکہ اکبر کے ’دین الٰہی‘ کا بیانیہ ہی ثابت ہوگا جسے مجدّد الف ثانی نے اپنی ضرب کاری سے نیست و نابود کر کے رکھ دیا۔
بے شک امن وترقی تجدید کے باوصف ہماری ضرورت ہے مگر اپنی تہذیب ونظریے کی قیمت پر ہرگز نہیں ۔ لہٰذا، عصر حاضر میں ’قومی بیانیہ ‘ کے حوالے سے ہماری نظریاتی مملکت پاکستان کو جو چیلنج درپیش ہیں، کیا ترقی کی خاطر یا پھر باطل کے ڈر کے پیش نظر ان چیلنجوں کے سامنے سرِ تسلیم خم کر دیا جائے اور ایک نظریاتی ریاست کے بجاے ایک مجبور محض (functional ) اور سیکورٹی اسٹیٹ کی حیثیت کو قبول کرلیاجائے، یا پھر ہم بیرونی آقائوں کی خوشنودی کے لیے پاکستان کی مشکیں ترغیب و ترہیب (Carrot and Stick) کی پالیسی کے شکنجے میں کَس دینا چاہتے ہیں۔ اگر ہم نے ایسا کیا تو یہ مداہنت کی پالیسی ہوگی جسے سورئہ مائدہ میں یہ کہہ کر منع کیا گیا ہے (جو صلح حدیبیہ کے بعد نازل ہوئی تھی) ۔
اَلْیَوْمَ یَئِسَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ دِیْنِکُمْ فَلَا تَخْشَوْھُمْ وَ اخْشَوْنِ (المائدہ ۵:۳) آج کفار تمھارے دین کی طرف سے مایوس ہو گئے ہیں، لہٰذا اب تم ان سے نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو۔
درحقیقت غزوئہ احزاب نے کفار کی کمر توڑ کر رکھ دی تھی۔ وہ عملی اور اعصابی جنگ ہار گئے تھے۔ اسلامی ریاست اتنی مضبوط ہو گئی تھی اور اسلام کی طاقت اتنی زبردست ہو گئی کہ کفار جارح کو معلوم ہو گیا کہ اب ان کے پاس وہ طاقت ہے کہ اگر ہم لڑیں گے تو یہ ہمیں شکست دے ڈالیں گے۔ ریاست مدینہ میں جنگ احزاب کے پس منظر میں مشرکینِ قریش اور یہود نے بیسیوں قبائل کو ساتھ لے کر ’اتحادی فوجیں‘ (Coalition Forces )ترتیب دے کر ریاست مدینہ کے خاتمے کا سوچا تھا۔ ان کی شکست کے بعد رسولؐ اللہ نے فرمایا تھا: اَلْآنَ نَغْزُوْہُمْ وَلَا یَغْزُوْنَنَا (بخاری، کتاب المغازی)۔ گویا اب وقت گیا کہ یہ تم پر چڑھ چڑھ کر آرہے تھے اور اپنے شر کے بیانیے کو تم پر مسلط کرنا چاہتے تھے۔ وقت آگیا ہے کہ اب ہم ان پر چڑھائی کریں گے اور وہ دفاع کرنے پر مجبور ہوں گے۔
’جہادی بیانیہ‘ صرف دفاعی جنگ کا نام نہیں ہے بلکہ باطل کے خلاف اقدامی جنگ (Aggresive War )بھی ہے۔ بیسیوں غزوات اور سرّیوں سے آںحضوؐر اور آپ کے صحابہ ؓ نے توحیدی بیانیے کو اعلاے کلمۃ اللہ کی رفعتوں سے ہم کنار کیا ۔ ہمیشہ مشرکوں، کافروں اور منافقوں کی یہ دلّی تمنا ہوتی ہے کہ نظام حیات ان کی منشا کے مطابق بدلا جائے، جب کہ رب کائنات اپنا فرمان اتار کر اپنی منشا کے مطابق نبویؐ لائحہ عمل کو نافذ دیکھنا چاہتا ہے اور حکم دیتا ہے : اَلَالَہُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ ط (اعراف ۷:۵۴) ’’خبردار رہو! اُسی کی خلق ہے اور اسی کا امر ہے‘‘، اور وَجَاہِدْھُمْ بِہٖ جِھَادًا کَبِیْرًا o (الفرقان ۲۵:۵۲) ’’تم اس قرآن کو لے کر ان سے جہاد کبیر کرو ‘‘۔
عالمِ اسلام میں اب یہ جاہلی حکمت عملی اپنے عروج پر ہے۔ماضی میں اس جاہلی فتنے کو میکیاولی اور قدیم چانکیائی فلسفہ نے خوب تقویت دی۔ جب نوآبادیاتی دور کا آغاز ہوا تو ولندیزی، پرتگیزی اور انگریزی استعمار نے جھوٹ اور مکاری پر مبنی بیانیے کو فروغ دے کر مسلم سلطنتوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا ۔ خلافت عثمانیہ کے حصے کر دیے ۔ دین اور دنیاکی دوئی کا فلسفہ گھڑ کر مسلم سیاسی قوتوں کو مذہب کے مقابلے میں لا کھڑا کیا اور ہر قومی ادارے سے مذہب و دین کا خاتمہ کرکے فرقہ واریت کو پروان چڑھایا۔ اس طرح اسپین اور افریقہ سے لے کر برعظیم پاک وہند تک سارے مسلمان سیاسی اور مذہبی لحاظ سے لامتناہی ٹکڑوں میں بٹ کر آپس میں دست وگریبان ہوگئے کیوں کہ وہ خلافت کے سائبان سے محروم ہو کر بالادست سیکولر قوتوں کے دست نگر بن گئے تھے۔ مزاحمت اگر تھی تو وہ صرف علماے حق کی طرف سے تھی۔ اس لیے کہ سیاسی قوت ہاتھ سے چلے جانے کے بعد جہادی بیانیہ، ریاست کا بیانیہ نہ رہا بلکہ علماے حق عوام الناس تک اللہ کا پیغام پہنچانے کا فریضہ انجام دیتے رہے۔
۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کی ناکامی کاپورا نزلہ علما پر گرا دیا گیا۔ معاشرے میں ان کو بے حیثیت بنا دیا گیا اور ہزاروں علما کو شہید کیا گیا۔ برطانوی فوج میں چار لاکھ سے زائد مقامی افراد بھرتی کیے گئے جن میں سے دو لاکھ فوجی پنجاب سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ لوگ تاجِ برطانیہ کے لیے تقویت اور مزاحم قوتوں اور علما کے لیے تعذیب کا سبب بنے۔ دراصل اس لیے کہ شرک کا بیانیہ ظلم وستم پر مبنی ہوتا ہے، جس کے ذریعے کمزور اہل ایمان کو تختۂ مشق بنایا جاتا ہے:
وَمَا نَقَمُوْا مِنْھُمْ اِلَّآ اَنْ یُّؤْمِنُوْا بِاللّٰہِ الْعَزِیْزِ الْحَمِیْدِ (البروج ۸۵:۸) ان سے ان کے انتقام لینے کی اور کوئی وجہ نہیں تھی کہ وہ اللہ غالب اور محمود پر ایمان رکھتے تھے۔
قیام پاکستان کے وقت دو قومی نظریے کی بنیاد پر لازوال جدوجہد تاریخ کا حصہ ہے کیوں کہ پوری قوم ایک بیانیے پر متحد ہو گئی تھی ۔ تا ہم ۱۹۷۱ء میں مشرقی پاکستان کے سانحے کے رُونما ہونے کے بعد اسلامی بیانیے کے خلاف زور دار ابلاغی مہم چلائی گئی۔ اس کو سیکولرزم کی فتح سمجھ کر بائیں بازو کے دانش وَروں نے سیکولر بیانیہ اپنانے کا مشورہ دیا۔ اس کے مقابلے میں دوسرا مضبوط موقف دائیں بازو کے دانش وَروں کا تھا کہ سقوطِ مشرقی پاکستان دراصل نظریۂ پاکستان کے ترجمان اسلامی بیانیے سے انحراف کا نتیجہ تھا۔
اس موقعے پر جب سبط حسن نے بائیں بازو کے سیکولر موقف پر زور دیا توا لطاف گوہر نے صاف لکھا کہ پاکستان کی تخلیق کا مقصد اسلامی ریاست کی تخلیق تھا۔ صدر ایوب خان کی کابینہ میں الطاف گوہر ماڈرنزم کے پرچار ک تھے مگر وہ جدیدیت کو مذہبیت کی نفی نہیں سمجھتے تھے۔ اسی طرح ۱۹۸۵ء میں سبط حسن کے جواب میں معروف وکیل اور اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن خالد ایم اسحاق نے کئی مضامین لکھے جو ڈان میں شائع ہوئے۔ وہ اسلامی نظریے پر مبنی بیانیے کے حق میں تھے۔ خالد اسحاق ایڈووکیٹ نے مدلل انداز میں اسلامی ریاست کے حوالے سے الطاف گوہر کے موقف کی بھر پور تائید کی اور ریاست اور مذہب کو الگ الگ خانے میں رکھنے کی اہل نصاریٰ کے موقف (Narrative) پر زور دار تنقید کی۔ اقبالؒ نے بھی اسلامی نقطۂ نظر سے پاپائیت کی سخت مخالفت تو کی تھی، مگر دین کے مقصد کے حصول کے لیے ریاست کے وسیلے کے استعمال کے وہ بھرپور حامی تھے ؎
جلال پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
قائداعظم محمد علی جناح یورپ میں علمی نشوونما پا کر ابتدا میں مذہب اور ریاست کے جدائی کے قائل تھے، مگر ۱۹۳۸ء سے ان کا نقطۂ نظر اس وقت بدل گیا جب مولانا اشرف علی تھانویؒ کی طرف سے بھیجے گئے علما کے چھے رکنی وفد نے پٹنہ میں بیرسٹر عبدالعزیز کے گھر میں قائداعظم سے ملاقات کی۔ ڈھائی گھنٹے کی گفتگو کے بعد جناح نے مولانا ظفر احمد عثمانی اور مولانا شبیر احمد عثمانی اور وفد کے دیگر ارکان کے سامنے علانیہ کہا:’’کسی اور مذہب میں دین اور ریاست ایک دوسرے سے جدا ہوں یا نہ ہوں، مجھے خوب سمجھ آ گیا ہے کہ اسلام میں دین اور سیاست ایک دوسرے سے جدا نہیں‘‘۔
دیوبند کے ان علما کاقائد اعظم کے ساتھ علمی اور سیاسی تعاون ہمیشہ جاری رہا۔ ۱۹۴۶ء میں پاکستان کے حق میں صوبہ سرحد کا ریفرنڈم جیتنے کے بعد قائد نے ان دونوں علما کو مبار ک باد دی اور ایک نشت میں مولانا شبیر احمد عثمانی ؒکے سوال کے جواب میں کہا کہ سیاست سے دست بردار ہوکر لندن منتقل ہونے کے بعد میری واپسی آںحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اشارے پر ہوئی تھی۔ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان میں ۱۹۴۷ء میں پاکستان کا جھنڈا لہرانے کا سہرا بھی قائد کے حکم پر انھی دو علما کے سر رہا اور وصیت کے مطابق قائد کی نماز جنازہ بھی مولانا شبیر احمد عثمانیؒ نے پڑھائی ع
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را
ہمارے ہاں یہ بحث ۷۰ سال سے جاری ہے۔ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد مبارک باد کا مستحق ہے کہ ۱۹۹۸ء سے ۲۰۱۲ء کے دوران Pakistan Between Secularism and Islam: Ideology, issues and Conflict کے موضوع پر مقالہ جات اور سیمی نار ز کی کارروائی شائع کر کے قوم کو یک سُو کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے، جس کا سہرا پروفیسر خورشید احمد اور محقق ڈاکٹر طارق جان کے سر ہے۔ توحیدی بیانیہ کو پروان چڑھانے کے لیے ہر قسم کی ابلاغی اور اداراتی کوششیں لائقِ تحسین ہیں۔
عصر حاضر میں جدید مغرب کے فلاسفروں نے Humanism یا تحریک انسانیت کے نام سے جو بیانیہ دیا ہے، اس میں انسان کو خاکم بدہن اللہ تعالیٰ اور وحی (Revelation) کے مقابلے میں عقلیت (Rationalism) کو تقدس کا درجہ دیا ہے اور حلال وحرام کے شرعی احکام کی جگہ ’Utilitarianism ‘ یعنی افادیت پسندی کو اپنے تجدد سے ’شریعت‘ قرار دیا ہے۔ حالاںکہ تمام مذاہب سماوی کی رُو سے حاکمیت اعلیٰ کا حق صرف اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے، اور اسلامی شریعت میں سنتِ رسول ؐ کی آئینی حیثیت بھی مسلّم ہے، کیوں کہ اسوئہ رسول ؐ کی پیروی کے بغیر کوئی بھی بیانیہ ہدایت سے محروم رہے گا۔ حاکمیت اعلیٰ اور سیرت مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب ریاست مدینہ میں کوئی تجاوز نہیں کر سکتا تھا تو آئیڈیل کی حیثیت سے دستورِ پاکستان میں ان حدود کا خیال رکھا گیا اور قانون سازی اور دستوری سازی میں قرار داد مقاصد اور توہین رسالتؐ اور خاتم الانبیا کی عظمت اور تقدس کے اصولوں سے انحراف کی کوئی گنجایش نہیں چھوڑی گئی ۔ دستور کے مطابق قرآن وسنت ہمارے قومی فکروعمل کے بنیادی مآخذ اور ہمارے عقیدے کی بنیاد شریعت ہی ہمارا نظام حیات ہے۔ شریعت دراصل اُخروی کامیابی کی خاطر زمینی وسائل اور انسانی صلاحیتوں کے استعمال کے نبویؐ منہج اور ضابطے (Code of Conduct) کا نام ہے، تا کہ بحیثیت خلیفہ، انسان کے ہاتھوں زمینی اقتدار ،آسمانی اقدار کی روشنی میں قائم رہے۔ اسی کو امانت اور اسی کو اللہ سے عہد کہا گیا ہے اور یہی وہ توحیدی بیانیہ ہے، جسے میر حجاز ؐ نے انسانیت کے سامنے پیش کیا اور طاغوت سے انسان کو خلاصی بخشی ۔اس توحیدی بیانیے کا اصل مقصد ومدعا بندوں کو بندوں کی غلامی سے نکال کر رب کی بندگی میں دینا تھا تا کہ دنیا اصلاح اور امن وسلامتی کا مسکن بن جائے۔
اقبال کے نزدیک یہ سب کچھ دین اسلام اور میر حجاز ؐ کی برکت سے ہے: ع از کلیدِ دیں درِدنیا کُشاد۔ گویا پیغمبر وہ ہستی ہیں، جنھوں نے دین کی کلید سے دنیا کے دروازے واکر دیے اور وسیلۂ دنیا کو مقصد دین کا ذریعہ بنایا اور ترکِ دنیا کو ناجائز قرار دیا۔
زمینی حقائق کے مطابق بیانیہ (Narrative) دو قسم کے ہوتے ہیں: ایک ظالم متکبرین کا بیانیہ اور دوسر امستضعفین کا بیانیہ ۔ ظالم اور مظلوم ، طاقت وَر (Oppresor) اور کمزور (Oppressed) کے رویے مختلف ہوتے ہیں۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ کمزوروں اور پسے ہوئے مستضعفین کو غلبہ دے کر ان پر احسان کرنا چاہتا ہے تا کہ مستکبرین اپنا بیانیہ کمزور قوموں پر بزور نافذ نہ کرسکیں:
وَ نُرِیْدُ اَنْ نَّمُنَّ عَلَی الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا فِی الْاَرْضِ وَ نَجْعَلَھُمْ اَئِمَّۃً وَّنَجْعَلَھُمُ الْوٰرِثِیْنَo (القصص ۲۸:۵) اور ہم جہاں بھر کے کمزوروں پر یہ احسان کرنا چاہتے ہیں اور ان کو قیادت اور زمین کی وراثت عطا کرنا چاہتے ہیں۔
چونکہ صدق وعدل پر مبنی قرآن کا بیانیہ بھی طاقت کا متقاضی ہے جو ریاستی سطح پر اداروں کی تمکین اور سیاسی قوت کے حصول کے بغیر ممکن نہیں۔ گذشتہ صدی میں برعظیم کے اندر کمزور مسلمانوں پر اللہ کا یہ احسان اس طرح ہوا کہ رب غفور نے ہمیں بلدۃ طیبہ، یعنی پاکستان دیا۔ ساتھ ہی ہندو اکثریت کے غرور کو بھی خاک میں ملا دیا کیوں کہ وہ رائج الوقت جمہوری اصول کے مطابق برعظیم کی ۲۵ فی صد مسلمان اقلیت پر حکمرانی کرنا چاہتے تھے۔
برعظیم کی ایسی اعصاب شکن بحرانی کیفیت میں اللہ تعالیٰ نے احسان کے طور پر مسلمانوں کو فکری اور عملی طور پر ایک بصیرت افروز اور صاحب کردار قیادت عطا کی۔ بلاشبہہ، ڈاکٹر محمد اقبال اور محمد علی جناح اس کے سرخیل تھے۔ وہ اپنی عظمت رفتہ کے حصول کے لیے ریاست مدینہ کو آئیڈیل سمجھتے تھے اور اسلام کے بیانیے پر غیر متزلزل یقین رکھتے تھے۔ دونوں قائدین اعلیٰ پاے کے مفکر اور مدّبر اور قانون دان تھے۔ انھوں نے علاحدہ اور خود مختار اسلامی ریاست کے حصول کے لیے قانونی اور سیاسی جدوجہد کا راستہ اختیار کیا اور برعظیم کے کمزور مسلمانوں کی قیادت کا حق ادا کیا۔ اسلامی نظریے پر قائداعظم کا یقین اتنا پختہ تھا کہ پاکستان بننے سے پہلے ایک سو مرتبہ اور پاکستان بننے کے بعد ۱۴ مرتبہ انھوں نے اپنی تقریروں میں اسلام کے نظریاتی بیانیے پر زور دیا۔
پاکستان کی آئین ساز اسمبلی نے آئین کی تشکیل سے قبل قرار دادِ مقاصد، یعنی Objective Resolution منظور کی، جو حقیقی قومی بیانیے کی عکاس تھی اور میثاقِ مدینہ کا پر تو، اور ایک نظریاتی مملکت کی سنگ میل بھی۔
قرار دادِ مقاصد کو آئین کا حصہ بنانے میں اوّل روز سے بڑی رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔ اسی توحیدی بیانیے کی پاداش میں اس کے روح رواں نواب زادہ لیاقت علی خان کو شہید کیا گیا، جو پاکستان کے پہلے وزیر اعظم تھے۔ انھوں نے امت مسلمہ کو یک جا کرنے کے لیے ڈاکٹر محمد اسد کو عالمی مشن پر بھیجا تھا۔ جب وہ تین اسلامی ملکوں کا دور کر کے ترکی پہنچے تو باطل غالب قوتوں کو خلافت اسلامی کے دوبارہ احیا کا خطرہ کھٹکنے لگا ۔پھر قائداعظم کے ایما پر قائم کردہ ’ادارہ اسلامی تعمیرنو‘ کہ جس کی سربراہی محمد اسد کو سونپی گئی تھی، اس ادارے کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی اور تمام ریکارڈ غائب کردیا گیا۔ پورے ۶۸ سال بعد ۴۰صفحات پر مبنی اس قومی ادارے کا بیانیہ اب دوبارہ منظر عام پر آ گیا ہے۔ یہ عملی توحیدی بیانیہ بوجوہ عصر حاضر کے ’قیصر‘ کے لیے خدائی کا حصہ مانگنے والے مشرکوں کو اور مشرکانہ بیانیے کے پیروکار منافقوں کو ایک نظر نہیںبھاتا تھا۔ کیوں کہ اس کے پس منظر میں مصورِ پاکستان اور قائداعظم کا وژن جھلکتا تھا، جنھوں نے چٹان کی طرح استقامت دکھا کر عالمی باطل قوتوں کو جمہوری طریقے سے شکست سے دوچار کیا تھا، اور اسلامی بیانیے کے قانونی نفاذ کے لیے ایک جدید فلاحی اسلامی ریاست کی داغ بیل ڈالی تھی۔
قانونی اور دستوری جدوجہد کے نتیجے میں حاصل ہونے والی اسلامی جمہوری مملکت میں وقفے وقفے سے مارشل لا کا نفاذ اور جسٹس محمدمنیر کے ہاتھوں اسلامی بیانیے کو مشتبہ بنانے کے لیے قائداعظم محمدعلی جناح کی کردار کشی اسی گہری سازش کا شاخسانہ ہیں، جسے سلینہ کریم نے اپنی کتاب Secular Jinnah میں بڑی محنت سے علمی طور پر طشت ازبام کیا ہے،اور سیکولر بیانیے کی مکارانہ بنیادوں کو ہلا دیا ہے۔
اہل دانش کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ قرارداد مقاصد کے دستوری بیانیے کے خلاف ترتیب دیے جانے والے بیانیے کو مسترد کریں اور عوام الناس کو شعوری طور پر بیدار کریں کیوں کہ ہم اپنی قومی ریاست کو خدائی کے مقام پر براجمان نہیں دیکھنا چاہتے ۔ ورنہ یہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمت کی احسان فراموشی ہو گی اور اپنے محسن قائدین سے غداری بھی، جنھوں نے رزم حق و باطل کے لیے اصل معیار کو حلقۂ یاراں کے لیے روز روشن کی طرح واضح کر دیا تھا اور آپس میں نظریاتی یک جہتی کے فوائد کو عملاً چراغ مصطفویؐ کی روشنی میں ثابت کر دکھایا تھا۔ اقبال کے بقول یہ جہادی بیانیہ شراربولہبی کے لیے ستیزہ کاری کا پیغام ہے :
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغِ مصطفویؐ سے شرار بُولہبی
توحید کی امانت سینوں میں ہے ہمارے
آساں نہیں مٹانا نام و نشاں ہمارا
ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن ہر ماہ کے پہلے ہفتے میں روانہ کر دیا جاتا ہے تاکہ پہلے عشرے تک موصول ہوسکے۔ لہٰذا ۱۰ تاریخ تک پرچہ نہ ملنے کی صورت میں اپنے مقامی ڈاک خانہ میں تحقیق و کارروائی کریں اور دو تین روز مزید انتظار کے بعد بھی دستیاب نہ ہو تو دفتر ترجمان کے فون نمبروں پر اپنا خریداری نمبریا نام و پتا بتا کر رابطہ کریں۔ ان شاء اللہ آپ کی شکایت دُور ہوجائے گی اور دوبارہ پرچہ ارسال کردیا جائے گا۔ آپ اپنا زرسالانہ منی آرڈر بنام ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن یا آن لائن بھی کرسکتے ہیں۔
جن احباب کو ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن نہ ملنے کی شکایت ہے وہ زرسالانہ (400 روپے)کے علاوہ 250/- روپے اضافی (یعنی کُل: 650 روپے) ادا کر کے رجسٹرڈ ڈاک کی سہولت سے استفادہ کرسکتے ہیں۔
میڈیا کا مطلب ، زندگی کے مختلف شعبوںکے متعلق خبروں، واقعات اور حادثات کا جائزہ لے کر ایک خاص تر تیب سے معلو مات جمع کر ناپھر اس کو عام فہم انداز میں پیش کر نا ہوتا ہے۔ میڈیا انگر یزی میں میڈیم(Medium) کی جمع ہے، جس کے معنی وسائل و ذرائع ابلاغ اور نشرواشاعت کے ہیں۔ بالفاظِ دیگر: میڈیا کے معنی یہ ہیں کہ اخبار،اورٹیلی وژن یا ریڈیو کے ذریعے عوام تک پروگرام یا معلومات پہنچائی جائیں۔
ہر دور میں خیالات ،پیغامات ،اور معلومات کی ترسیل کا کو ئی نہ کو ئی ذریعہ رہا ہے۔ عصرِحاضر میں پہلے ٹیلی گراف ، پھر ریڈیو اور اس کے ساتھ اخبار ،رسائل وجرائد اور ٹیلی وژن کا دور آیا۔ اب انٹر نیٹ کا زمانہ ہے جو معلو مات فراہم کر نے کا تیز ترین ذریعہ ہے۔ میڈیا (ذرائع ابلاغ) کی بنیادی طور پر تین قسمیں ہیں:o پرنٹ میڈیا oالیکٹرانک میڈیا oسائیبر میڈیا ۔
۱- پر نٹ میڈیاسے مراد اخبارات اوررسائل و جرائد ہیںجو معلومات حاصل کر نے کا اور لو گوں کو حالات حاضرہ سے باخبر رکھنے کا سب سے آسان، سستا اور مستقل ذریعہ ہے۔ یہ ابلاغ کا پرانا ذریعہ ہے لیکن اس کی اہمیت و افادیت آج بھی بر قرار ہے۔
۲- الیکٹرانک میڈیا جس میں ریڈیو،ٹی وی اور کیبل وغیرہ شامل ہیں یہ ابلاغ کے جدید ذرائع ہیں ۔اس میں فلمیں،سیریلز اور اشتہارات کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے کیو نکہ یہ بھی پیغام پہنچانے کے مؤثر ذرائع ثابت ہورہے ہیں ۔الیکٹرانک میڈیا کے اُبھار کا زمانہ ۱۹۹۱ء میں شروع ہوا۔
۳- سائیبر میڈیا: یہ میڈیا کی جدید ترین شکل ہے۔ آج دنیا میں اسے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے بھی زیادہ اہمیت دی جاتی ہے اور اس کی اہمیت، افادیت اور وسعت روزبروز بڑھتی جارہی ہے۔سائیبر میڈیا میں انٹرنیٹ، ویب سائٹس ، بلاگز وغیرہ شامل ہیں۔
میڈیا کی اہمیت و افادیت
ہر قو م،ملک اور تحریک اپنی بات لو گوں تک پہنچا نے کے لیے میڈ یا کا ہی سہارا لیتی ہے۔ میڈ یا یا ذرائع ابلاغ ایک ایسا ہتھیار ہے جو بہت ہی کم وقت میں کسی بھی مسئلے یا ایشوکے متعلق لوگوں کے ذہنوں کو ہموار کر تا اور ان کی راے بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہ میڈیا ہی ہے جو کسی کام پر اُکساتا ہے اور کسی اہم کام سے توجہ ہٹاتا ہے۔ اس لیے آج فرد سے لے کر حکومت تک کی نکیل میڈیا ہی کے ہاتھ میں ہے۔
بہت عرصے سے مقننہ،انتظامیہ اور عدلیہ کو کسی بھی ریاست کے تین اہم ستون تصور کیا جاتا ہے اور ان تینوں اہم اداروں کے ذریعے کو ئی بھی تبدیلی لائی جاسکتی ہے، لیکن اب کسی بھی ریاست یا جمہوری ملک کا چوتھا ستون میڈ یا کو گردانا جاتا ہے۔
میڈ یا نہ صرف سماج کا ایک اہم حصہ ہے بلکہ ایک جمہو ری ملک کا بھی اہم ستون ہے۔ یہ مجموعی طور پر ہر ملک و قوم میں لو گوں کی آواز اور ہتھیار ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ عصرِحاضر میں میڈیا کی اہمیت اور ضرورت ہر لحاظ سے پہلے سے زیادہ بڑھ گئی ہے کیوںکہ یہ راے عامہ کو ہموار کر نے میں اہم کردار ادا کر تاہے۔
طاقت ور میڈ یا ہی ملک و قوم کو صحیح خطوط پر استوار رکھنے کے لیے اہم رول ادا کر سکتا ہے اور جب میڈ یا ہی اصول پسندی اور اقدار پر مبنی طرز عمل کو نظر انداز کر تا ہے تو یہ عام لوگوں کی تباہی کا ذر یعہ بنتا ہے۔ میڈیا کی آواز بعض اوقات پار لیمنٹ اورعدلیہ سے بھی طاقت ور ہو تی ہے کیونکہ یہ ظالم کے کر تو ت اور مظلوم پر روا رکھی گئی نا انصافی اور پھر اس کی بے بسی کو نمایا ں کر نے میں ایک کارگر ہتھیا ر کے طور پر ثابت ہو تا ہے ۔میڈیا تعمیر و تر قی کا بھی ایک ذریعہ ہے اور تخریب کاری کا بھی ۔ہم آج ایسے دور میں جی رہے ہیں، جس میں میڈیا کے سہارے بڑے پیمانے پر جنگ لڑی جارہی ہے۔
مغربی میڈیا اس وقت دنیا کے ۷۰ فی صد ابلاغی ذرائع پر قابض ہے۔ اس نے تمام اخلاقی اصولوں کو بالاے طاق رکھا ہے۔ سیاہ کو سفید ،ظالم کو مظلوم اور امن پسند کو دہشت گرد ثابت کرنا مغر بی میڈ یا کا بائیں ہاتھ کا کھیل ہے ۔مغر ب نے میڈ یا کے ذریعے سے انتہائی منظم منصوبہ بند ی کے ساتھ اپنی فکر و تہذیب کی خوب تشہیر کی ہے۔ موجودہ دور میں مغرب نے ذرائع ابلاغ کی وساطت سے علم و فکر سے لے کر سوچنے سمجھنے کے زاویے تک اور کھانے پینے، رہنے سہنے اور طرزِگفتگو سے لے کر گھر یلو معاملات کے طور طریقے تک بد ل کر رکھ دیے ہیں۔
عالمی میڈیا نے بالعموم اور مغر بی میڈ یا نے بالخصوص، اسلام اور عالم اسلام کے خلاف ایک بڑا محاذکھول رکھا ہے اور اسلام اور مسلمانوں کی شبیہہ بگاڑنے کے در پے ہیں۔ مغربی میڈیا جب چاہتا ہے کو ئی نہ کوئی نئی اصطلاح وضع کر دیتا ہے اور کو ئی نیا شو شہ چھوڑ دیتا ہے۔ دنیا کے بہترین رسائل جن میں ادبی، تحقیقی اور سیاسی پرچے شامل ہیں،مغر بی دنیا سے شائع ہو کر ساری دنیا میں پھیل جاتے ہیں۔ان رسائل میں خاص نقطۂ نظر پیش کیا جاتا ہے، جو مغر بی دنیا کے عین مطابق ہوتاہے۔
گذشتہ صدی کے اختتامی برسوں سے بالعموم اور نائن الیون سے بالخصوص، مغرب نے اپنے ناپاک سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے ذرائع ابلاغ کو شاہ کلید کے طور پر استعمال کیاہے جس کے ذریعے وہ اسلام اور راسخ العقیدہ مسلمانوں کو بنیاد پرست،انتہا پسند، دہشت گرد اور جنونی قرار دے کر، دنیا کے کونے کو نے میں اسلام اور اس کے علَم بردار وں کا خوب مذاق اڑا رہا ہے۔ اس کے ہاں اب دہشت گرد اور مسلمان میں زیادہ فرق نہیں رہا۔ مغر بی مفکر ین میں سے برنارڈ لوئیس اور پروفیسر ہن ٹنگٹن نے یہ بات منظم انداز سے پیش کی ہے کہ مغر ب کا اصل مسئلہ بنیاد پرستی نہیں بلکہ خود اسلام ہے ۔ ہن ٹنگٹن کا کہنا ہے کہ اسلام ایک مخصوص تہذیب کا نام ہے، جس کے ماننے والے اپنی فکر وتہذیب کے اعلیٰ ہو نے کے دعوے دارہیں اور اپنی تہذیبی بر تر ی کو کھو دینے پر کف افسوس مل رہے ہیں۔۱
دنیا میں تمام اسلام دشمن قوتوں میں سے اسلام کی شبیہہ بگاڑنے میں سب سے زیادہ سرگرم عمل نسل پرست یہودی ہیں، جنھوں نے عالمی ذرائع ابلاغ کو اپنی مٹھی میں لے رکھا ہے۔ یہودیوں کے پاس دنیا کی بڑی بڑی خبررساں ایجنسیاں ہیں، جن کے ذریعے سے وہ اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہنارہے ہیں۔ان میں سے چند ایک کا تعارف اس طر ح سے ہے:
۱- رائٹر : عالمی خبر رساں ایجنسیوں میں رائٹر کو سب سے زیادہ شہرت حاصل ہے۔دنیا میں ہرجگہ تمام اخبارات و ٹی چینلز اسی ایجنسی پر انحصار کر تے ہیں،حتیٰ کہ بی بی سی ،وائس آف امریکا کے اخبارات، اس سے ۹۰ فی صد خبریں حاصل کر تے ہیں۔ ۱۵۰ملکوں کے اخبارات، ریڈیو ، ٹی وی ایجنسیوں کو روزانہ لاکھوں الفاظ پر مشتمل خبریں اور مضامین بھیجے جاتے ہیں۔
۲- یونائیٹڈ پریس: دنیا کی چند بڑی خبر رساں ایجنسیوں میں اس کا شمار ہوتا ہے۔
۳- فرانسیسی نیوز ایجنسی( اے ایف پی) : فرانسیسی نیوز ایجنسی کی بنیاد فرانس میں ڈالی گئی۔ فرانس میں صرف ۷ لاکھ یہودی ہیں، لیکن وہاں شائع ہو نے والے ۵۰ فی صد اخبارات و رسائل پر ان کی حکمرانی چلتی ہے۔
۴- ایسوسی ایٹڈ پریس : یہ بھی ایک بڑی نیو ز ایجنسی ہے۔ اس ایجنسی سے ۱۶۰۰ روز نامہ اور ۴۱۸۸ ریڈیو ،ٹی وی اسٹیشن وابستہ ہیں۔
۵- والٹ ڈزنی: والٹ ڈزنی دنیا کی سب سے بڑی میڈیا کمپنی ہے۔ اس کے پاس تین بڑے ٹیلی وژن چینلز ہیں ۔ اے بی سی نام کا دنیا میں سب سے زیادہ دیکھا جانے والا کیبل نیٹ ورک ہے۔ دنیا کے ۲۲۵ ٹیلی وژن چینلز والٹ ڈزنی سے وابستہ ہیں۔
۶- ٹائم وار نر: یہ دوسری بڑی میڈیا فر م ہے ۔ پہلے یہ AOL کے نا م سے کام کرتی تھی۔ اس کے پاس دنیا میں سب سے زیادہ دکھائے جانے والے چینل ایچ بی او ، ٹرنر براڈکاسٹنگ، سی ڈبلیو ٹی وی، وارنرز، سی این این، ڈی سی کو مکس، ہولو، ٹی این ٹی، ٹی بی ایس، کارٹون نیٹ ورک، ٹرنر کلاسک موویز، ٹرو ٹی وی، ٹرنر سپورٹس وغیرہ شامل ہیں۔
۷- وائی کام : یہ دنیا کی تیسری بڑ ی فر م ہے۔ اس کے پاس ٹی وی اور ریڈیو کے ۱۲ یا ۱۴چینلز ہیں ۔یہ کتابیں شائع کر نے والے تین بڑے اداروں اور ایک فلم ساز ادارے کی بھی مالک ہے۔پیرا ماؤنٹ پکچرز اور ایم ٹی وی اسی کمپنی کی ملکیت ہے ۔یہ پوری دنیا کے میڈیا پر حاوی ہے۔
۸- نیوز ہائوس: یہ یہودیوں کی ایک اشاعتی کمپنی ہے۔یہ کمپنی ۲۶ روزنامے اور۲۴میگزین شائع کر تی ہیں۔
ان کے علاوہ دی نیویارک ٹائمز، وال اسٹریٹ جرنل اور واشنگٹن پوسٹ دنیا کے تین بڑے اخبارات ہیں۔ نیو یارک ٹائمز روزانہ ۹۰ لاکھ کی تعداد میں شائع ہو تا ہے۔ یہ جن ایشوز کو چھیڑتے ہیں، وہ آگے چل کر دنیا بھر کے اخبارات کے لیے خبر بنتے ہیں۔میڈیا کے ذریعے سے یہ انسانی ذہنوں کو خاموشی سے مسخر کر رہے ہیں ۔
اس کے علاوہ انٹر نیٹ پر بھی انھی لو گوں کاجال بچھا ہواہے۔ انٹر نیٹ پر انھوں نے ۱۰۳جعلی اسلامی ویب سائٹس بنا رکھی ہیں، جن کے ذریعے یہ نو مسلم اور ضعیف الایمان مسلمانوںاور نوجوانوں کو گمراہ کر رہے ہیں۔
مغر ب کے لیے اسلام کی عالم گیر بر تری اور اس کا تیزی سے پھیلنا سر دردبنا ہوا ہے۔ ان کو اس بات کا خوف ستاتا رہتا ہے کہ مستقبل میں مسلمان ہی دنیا کی قیادت و سیادت کریں گے۔۲
اس لیے وہ اسلام اورعالم اسلام کو متنوع حربوں اور طر یقوں سے بد نام کر نے کی مسلسل کوشش کررہا ہے۔وہ میڈیا کے ذریعے اسلام اور مسلمانوں پر مند ر جہ ذیل الزامات لگا کر لو گوں کو گمراہ کر رہا ہے:
۱- اسلام تشدد پر مبنی مذہب ہے اور اس کے ماننے والوں میں زیادہ تر دہشت گر د اور انتہاپسند ہیں۔
۲- اسلامی شریعت کی وجہ سے مسلمان پس ماندہ ہے۔
میڈیا کے ذریعے سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کو بڑھا وا دینا مغر بی اور یورپی میڈیا کا سب سے اہم مشغلہ بن گیا ہے۔ ۱۹۹۶ء سے لے کر ۲۰۰۰ء تک یعنی چار سال میں صرفThe Sydeney Morning ، The West Australian Herald کے۱۰۳۸ مضامین شائع ہو ئے، جن میں ۸۰ فی صد مضامین میں مسلمانوں کو دہشت گرد،بنیاد پرست اور انتہاپسند کی حیثیت سے دکھا یا گیا ۔۷۳ فی صد مضامین میں مسلمانوں کو انسانیت کے قاتل ٹھیرا یا گیا اور صرف ۴ فی صد مضامین میں مسلمانوں کو انسانیت نواز بتا یا گیا ۔ ۳
غر ض یہ کہ عالمی میڈ یا اسلام اور عالم اسلام کو نقصان پہنچانے کے لیے مصروف عمل ہے اور اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جھوٹے پر وپیگنڈے میں کو شاں ہے ۔ اسلام کے ماننے والوں نے ہر دور میں اپنی بات دوسروں تک منظم انداز میں حُسن وخو بی کے ساتھ پہنچائی اور اس میں کسی بھی قسم کی کوتاہی اور لاپروائی نہیں برتی۔قرآن مجید نے اس کے لیے دعوت کا لفظ استعمال کیا۔ ایک دور وہ بھی تھا جب انبیا، سلف صالحین اور اسلام کے علَم بردار گھر گھر تک اپنا پیغام پہنچانے کے لیے زبانی گفتگو اور تقریروں کا سہارا لیا کر تے تھے۔ اس حوالے سے حضرت نوحؑ کا کردار قرآن نے تفصیل کے ساتھ بیان کیا :
اس نے عرض کیا: ’’ اے میر ے رب میں نے اپنی قوم کے لوگوں کو شب و روز پکارا مگر میر ی پکار نے ان کے فرار میں اضافہ کیا۔ جب بھی میں نے ان کو بلایا تاکہ تو انھیں معاف کردے، انھوں نے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں اور اپنے کپڑوں سے منہ ڈھانک لیے اور اپنی روش پر اَڑ گئے اور بڑا تکبر کیا۔ پھر میں نے ان کو ہانکے پکارے دعوت دی ۔ پھر میں نے علانیہ بھی تبلیغ کی اور چپکے چپکے بھی سمجھا یا۔( نوح ۷۱: ۶-۸)
اِذْھَبَآ اِلٰی فِرْعَوْنَ اِنَّہٗ طَغٰی o فَقُوْلَا لَہٗ قَوْلًا لَّیِّنًا لَّعَلَّہٗ یَتَذَکَّرُ اَوْ یَخْشٰی o (طٰہٰ ۲۰:۴۳-۴۵ ) جائو تم دونوں فرعون کے پاس کہ وہ سرکش ہوگیا ہے۔ اس سے نرمی کے ساتھ بات کرنا شاید کہ وہ نصیحت قبول کرلے یا ڈر جائے۔
اس تسلسل کو جاری رکھتے ہو ئے اللہ کے رسول ؐ نے سرزمین عرب میں لوگوں کو اللہ کی طرف دعوت دی۔اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ؐ کو اس بات کا حکم دیا کہ:
یٰٓاَیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ ط وَ اِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہٗ ط وَ اللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِط اِنَّ اللّٰہَ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الْکٰفِرِیْنَo (المائدہ ۵ :۶۷) اے پیغمبرؐ! جو کچھ تمھارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے وہ لوگوں تک پہنچادو۔ اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اس کی پیغمبری کا حق ادا نہ کیا۔ اللہ تم کو لوگوں کے شر سے بچانے والا ہے۔ یقین رکھو کہ وہ کافروں کو (تمھارے مقابلہ میں) کامیابی کی راہ ہرگز نہ دکھائے گا۔
مَا عَلَی الرَّسُوْلِ اِلَّا الْبَلٰغُ ط (المائدہ۵:۹۹) رسولؐ پر تو صرف پیغام پہنچا دینے کی ذمہ داری ہے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے وقت میں ذرائع ابلاغ کی قوت سے بے خبر نہیں تھے اور نہ اس اہم چیلنج کو آپؐ نے نظر انداز کیا، بلکہ محدود افراد ی قوت اور وسائل کو بروے کار لا کر لو گوں تک رب کا پیغام پہنچایا ۔مثلاً چھٹی صدی عیسوی میں مکّہ میں اگر کسی کو ضروری اعلان یا کسی اہم بات کو دوسروں تک پہنچا نا ہوتا تو وہ اپنے جسم سے کپڑے اتار کر سر پر رکھ لیتا اور کوہِ صفا پر چڑھ کرزور زورسے چلّانا شروع کر دیتا : ’ہاے صبح کی تباہی‘۔ لوگ اس طرح کے اعلان کوتوجہ سے سنتے تھے۔ اللہ کے رسول ؐ نے بھی ابلاغ کے اس ذریعے کو استعمال کیا لیکن کپڑے اُتارنے اور چلّانے کے بجاے اس کو اسلامی رنگ عطا کیا۔
لوگوں تک الٰہی پیغام پہنچانے کے لیے انفرادی ملاقاتوں کا سلسلہ بھی جاری رکھا تھا۔ کارِدعوت کے سلسلے میں مختلف ممالک کے حکمرانوںتک دعوتی خطوط اور وفود بھیجے۔نیز ہر علاقے میں مبلغین روانہ کرتے رہے تاکہ ان تک پیغام الٰہی پہنچ سکے۔
عرب میں شعر و شاعری اور خطابات کا بھی بڑا دبدبہ تھا۔ مشرکین مکہ کو زبان دانی اور شاعری پر فخر اور ناز تھا اور وہ شعرو شاعری کے ذریعے سے بھی اللہ کے رسولؐ پر تکبر انہ لہجے میں حملے کرتے تھے۔اس چیلنج کو قبول کر تے ہوئے اللہ کے رسول ؐ نے صحابہؓ کو ترغیب دی کہ وہ اس فن کے ذریعے سے کفر کا مقابلہ کریں اور مشر کین مکہ کے حملوں کا جواب دیں۔ چنانچہ بہت سے صحابہؓ نے اس فن میں خوب جو ہر دکھا ئے۔ان میں حضرت حسانؓ بن ثابت ،حضرت کعبؓ بن مالک اور حضرت عبداللہ بن رواحہؓ بطورِ خاص قابلِ ذکر ہیں۔انھوں نے شعر و شاعری کو اظہار ابلاغ کا ایک مؤثر ذریعہ بناکر کفار کا زبردست مقابلہ کیا اور اسلام اور پیغمبرؐ اسلام کے دفاع میں جنگ لڑی۔حضرت عبداللہ بن رواحہؓ کافروں کی ہجو میں شعر کہتے تھے۔ حضرت کعب بن مالک اسلام کے دشمنوں پر نفسیاتی رعب ڈالتے تھے اور حضرت حسانؓ بن ثابت مشرکین مکہ کی طر ف سے اللہ کے رسول کے خلاف کہے گئے اشعار کا نہ صرف جواب دیتے تھے بلکہ اللہ کے رسول ؐ کی مدح بھی کہتے۔ حضرت حسانؓ بن ثابت نے اپنی شاعری سے دین دشمنوں کو زبردست ضر بیں لگا ئیں اور ان کی زبانوں کو بند کیا ۔۴
اس دور میں خطابت کو بھی بڑی اہمیت حاصل تھی۔ خطبا کارول اپنے اپنے قبیلوں میں انتہائی اہم ہوا کر تا تھا۔ اس فن کو بھی دورِ نبوت میں متعدد صحابہ نے اختیار کیااور اس کو اظہار و ابلاغ کا ذریعہ بنا کر اسلام کے بول بالا کے لیے استعمال کیا۔ ان میں سے ایک خاص نام حضرت ثابت بن قیسؓ کا ہے جنھیں خطیب اسلام کے لقب سے بھی نوزا گیا۔ان کے علاوہ حضرت ابو بکر صدیقؓ،حضرت عمر بن الخطابؓ ، حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ نے خطابت کے میدان میں زبردست جوہر دکھائے۔
اُمت مسلمہ ایک ذمہ دار امت ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس امت کو اللہ کا پیغام پہنچانے کے لیے ایک عظیم منصب پر فائز کیا اور اس کو خیراُمت کے خطاب سے نوازا ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِط ( ٰال عمرن۳:۱۱۰) اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو، جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔
اس خیرِاُمت کی ذمہ داری ہے کہ لو گوں تک سچائی پہنچائی جائے کیو ںکہ اگر خیرِاُمت یہ کام نہیں کر ے گی تو دنیا شرو فسادسے بھر جائے گی۔ اس کے لیے موجودہ ذرائع ابلاغ کو استعمال کرکے انسانیت کو ہدایت کی روشنی میں لانے کے لیے مدد لی جانی چاہیے۔
میڈیا کے فرائض
عصرِ حاضر میں اسلام اور مسلمانوں پر مغربی ذرائع ابلاغ کی جو یلغار ہے، وہ ہمہ جہت اور ہمہ گیر ہے۔ اس نے ہر انسان کے فکر و خیال کومتزلزل کر کے نت نئی اُلجھنوں اور مسائل کا شکار بنایا ہے۔ عریانیت اورفحاشی کو اتنا عام کیا کہ اب یہ معاشرتی زندگی کا ایک اہم اور لازمی حصہ تصور کیا جاتا ہے۔ میڈیا ہی کے سہارے سے مغرب نے اپنی فکرو تہذیب پوری دنیا میں پھیلا دی ہے۔ مادہ پرستانہ ذہنیت، عیش پرستانہ مزاج،فیشن پر ستی،گلیمر،کلچر اور جاہ وحشمت کے حصول کے لیے تمام اخلاقی اصولوں کو پس پشت ڈالنا، جذبۂ مسابقت، فتنہ پروری اور اشتعال انگیزی کو میڈیا ہی کے ذریعے خوب فروغ دیا جارہا ہے۔
مغربی اور یورپی ذرائع ابلاغ مسلمانوں کو ہر جگہ ذہنی غلام بنانے کے لیے بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ چوںکہ یہ دور جسمانی غلامی کا نہیں بلکہ ذہنی غلامی کا ہے۔ ذہنی غلامی جسمانی غلامی سے کہیں زیادہ طاقت ور ہوتی ہے اور بدتر بھی۔یہ استعماریت کی ایک نئی شکل ہے، جسے مغر ب پوری کامیابی سے استعمال کر رہا ہے۔ لہٰذا نہ صرف اس کے تدارک کرنے کی ضرورت ہے بلکہ ایک اچھا متبادل پیش کرنا بھی ضروری ہے، جو نہ صرف انتہائی صحیح فکر و خیال کی آبیاری کر ے بلکہ اس کی تہذیب وثقافت کو بھی پلید اور گندا ہو نے سے محفوظ رکھے۔اصولی طور پر میڈ یا چند بنیادی مقاصد کے تحت کام کر تا ہے جو میڈ یا کے فرائض بھی ہیں:
۱- میڈیا کا پہلا فر یضہ یہ ہے کہ وہ عوام تک صحیح معلومات فراہم کر ے۔
۲- میڈیا کا دوسرا فر یضہ ذہن سازی ہے کہ وہ صحیح خطوط پر عوام کی ذہن سازی کا کام کرے۔
۳- میڈیا کا ایک اور مقصد لو گوں کو تفریح فراہم کرنا بھی ہے۔لیکن اگر یہ تفر یح انسان کو انسان کے مر تبے سے گرادے تو پھر یہ تفریح نہیں بلکہ اذیت ہے۔
اسلامی میڈیا کا کام ہمہ گیر اور ہمہ جہت ہے۔ اس کا کام نہ صرف مخالفین اسلام کے اعتراضات کا جواب دینا،غلط فہمیوں کا ازالہ کر نا ہے بلکہ آگے بڑھ کر اسلام کو متبادل کے طور پر پیش کر نا بھی ہے۔اسلامی میڈیا کی وسعت میں بہت گہرائی اور گیرائی ہے۔اس لیے کہ: اسلامی میڈیاصرف مذہبی پروگرام کو نشر کرنے کا نام نہیں بلکہ اس میں آرٹ ،تہذیب، علم و تحقیق اور دوسرے عالم گیر نو عیت کے پروگرام بھی شا مل ہیں، جنھیں اسلامی تعلیمات کے مطابق پیش کیا جانا چاہیے۔
اسلامی اصولو ں پر مبنی میڈیاسماج کو صحیح ڈگر پر رکھنے کے لیے جو رہنما اصول فراہم کر تا ہے ان میں فرد اور معاشرے کے لیے الٰہی ہدایات پر مبنی اقدار ہیں اور اس کے مقاصد میں بہت وسعت ہے۔اسلامی ذرائع ابلاغ کے تین مقاصد ہیں:
۱- اسلام ایک دعوتی مذہب ہے، اس لیے اپنے ماننے والوں پر یہ ذمہ داری عائد کر تا ہے کہ اس کو ہر فرد تک پہنچا یا جائے۔
۲- اسلام حق و صداقت، علم اور وحی الٰہی پر مبنی ہے۔ اس لیے اس کو مختلف ذرائع استعمال کر تے ہوئے انسانیت کو اسے اختیار کرنے پر مائل کیا جائے۔
۳- اسلام صحیح فکر اور زندگی کے حقیقی مقصد سے آگاہ کرتا ہے، اس لیے اس کی روشنی اور نور سے دوسروں کی زندگی کو بھی منور کیا جائے۔
اسلامی اسکالر اور مفکرین الیکٹرانک، پرنٹ اور سائیبر میڈیا کواسلام کی اشاعت اور پھیلائو کے لیے اور عالمِ اسلام کی مضبوطی اور ترقی کے لیے، ایک اہم عنصر تصور کرتے ہیں اور اس کو نظرانداز کرنے یا اس کو کم اہمیت اور ترجیح دینے کو بڑی لاپروائی اور غیر سنجیدگی سمجھتے ہیں ۔اگر مسلمان علم و استدلال کے ذریعے ذرائع ابلاغ کی دنیا میں بہتر کار کر دگی کا مظاہرہ نہیں کر یںگے تو اسلام کو دائمی اور عالمی مذہب کے طور پر ہر گزپیش نہیں کر سکیں گے۔ صرف تیر و تفنگ اور بندوق کے میدان میں دشمن کا مقابلہ کر نا مطلوب نہیں بلکہ قرطاس و قلم اور نشرواشاعت کی دنیا میں بھی اس کا مقابلہ ضروری ہے اور اس طرح سے ہر چیلنج کا جواب دینا ضروری ہے جو اسلام کو درپیش ہے۔
اس وقت مسلمانوں کے پاس عالمی معیار کا کو ئی میڈیا موجود نہیں ہے، جو یہود و نصاریٰ اور معترضین کے برپا کیے ہو ئے فتنوں، ساز شوں،پروپیگنڈوں اوراعتراضات کا انتہائی معقول اور منظم طر یقے سے سد باب کر سکے۔ اس سلسلے میں اسلامی تحریکوں ،اداروں ،علما اور دانش وَروں کو سنجید گی سے غور کرنا چاہیے تاکہ ان صلاحیتوں کو بروے کار لانے کے ساتھ ساتھ مالی قربانیوں سے بھی عصرِحاضر کے اس درپیش چیلنج کا مقابلہ بہ حُسن و خوبی کر سکیں۔لہٰذا، میڈیا پر صرف اپنی گرفت مضبوط ہی نہیں کر نی بلکہ اس کی سمت کو بھی صحیح اور پایداررُخ دینا ہوگا۔
اس بات کی بار بار ضرورت محسوس ہو تی ہے کہ مسلم ممالک کے پاس نہ صرف خبررساں ایجنسیاں اور نیوز چینلز ہوں بلکہ الیکٹرانک،پرنٹ اور سائیبر میڈیا کے تمام ادارے بھی ہوں، جو عالمی اور مغربی ذرائع ابلاغ کی ہرزہ سرائیوں ، کارستانیوں اور ان کے پروپیگنڈے کامنہ توڑ جواب دے سکیں۔
۱-مسلم ممالک اعلیٰ معیار کی میڈیا تعلیم و تربیت کے اداروں کا قیام عمل میں لائیں، جہاں سے جدید تعلیم یافتہ نوجوان اور ماہر ین تیار ہوں جو رپورٹنگ اور تجزیہ نگاری میں جاںفشانی سے کام کریں اور دنیا کو واقعات کی حقیقی شکل سے بھی روشنا س کرا ئیں۔
۲- سرکاری اور نجی سطح پر بھی ایسے ٹی وی چینلز قائم کیے جائیں جودعوتی جذبے کے ساتھ اور حق و صداقت کے بل پر آگے بڑھیں اور پروپیگنڈے کا پردہ چاک کریں۔
۳- ذہین اور باصلاحیت طلبہ کو میڈیا کورس میں داخلہ لینے کے لیے ترغیب دی جا ئے اور ان کے لیے مالی معاونت کا انتظام بھی کیا جائے۔
۴-ایسی ورکشاپس اور کانفرنسوں کا تسلسل سے اہتمام کیا جائے جو نہ صرف ابلاغیاتِ عامہ کی تعلیم حاصل کر نے والوں کے لیے ہوں، بلکہ ان تمام افراد کے لیے بھی ہوں جو صحافت سے وابستہ ہیں۔ ان کی صحیح تربیت کر نے کے لیے مختلف مراحل میں پرو گرام منعقد کیے جائیں تاکہ ان میں مہارت پیدا کرنے کے ساتھ اسلامی روح بھی بیدار ہو۔
۵- مغر بی فکرو تہذ یب اور فلسفہ نے پورے انسانی معاشرے کو جن اُلجھنوں ،مسائل اور مشکلات سے دو چار کر دیا ہے،تجز یہ و تحقیق اور دلائل سے ان خرابیوں کو اُجاگر کیا جائے تاکہ پو ری نوعِ انسانی ان مسائل اور خرابیوں سے آگاہ رہے۔
۶-عالمی اور مغر بی ذرائع ابلاغ، لابیاں اور تحقیقی ادارے اسلام کے مختلف احکام اور تعلیمات کے بارے میں بڑے پیمانے پر دنیا میں جو شکوک و شبہات پھیلا رہے ہیں ان کا جواب احتجاجی مظاہروںکے بر عکس علمی اور فکر ی سطح پر دینے کی ضرورت ہے۔چو نکہ علمی و فکر ی شبہات اور اعتراضات کا جواب علمی اور فکر ی زبان میں ہی دیا جا سکتا ہے، اس لیے یہ اسلامی دانش وروں، علما، مصنفین، تحر یکوں،تنظیموں اور اداروں کی ذمہ دار ی ہے۔
۱- سموئیل ہن ٹنگٹن،تہذیبوں کا تصادم، (اردو ترجمہ ،سہیل انجم )کر اچی اوکسفرڈ پریس ،ص ۱۲۹۔
۲- ایڈورڈ سعید، Orientalism ۱۹۷۷ء، ص ۴۶۔
۳- حسن الامین، فرح افضل، Hamdard Islamicus، جولائی،ستمبر ۲۰۱۵ء، ص ۵۶۔
۴- احمد حسن زیات،تاریخ الادب العربی (اردو تر جمہ عبد الرحمٰن طاہر سورتی) ۱۹۸۵ء ،البران، الٰہ آباد، ص: ۱۳۵
سوال: ہر نیکی، بھلائی، بہتری اور عطا کرنے والی ذات صرف اللہ تعالیٰ کی ہے۔ مذکورہ حسنات کے حصول کے لیے اللہ تعالیٰ سے درخواست کس طرح کی جائے کہ وہ منظور ہوجائے؟
جواب: اللہ تعالیٰ سے بہ صدق دل جو دُعا بھی کی جاتی ہے وہ رد نہیں ہوتی۔ شرط یہ ہے کہ دُعا سچے دل سے ہو اور جذبۂ اطاعت بیدار ہو۔ محض درخواست نہ ہو بلکہ اخلاص اور جذبۂ اطاعت ہردرخواست کی پشت پر موجود ہو۔ البتہ بہت سی دعائیں اللہ تعالیٰ اس دنیا میں قبول فرما کر انعامات سے نوازتا ہے اور بہت سی دعائیں و ہ قبول تو فرما لیتا ہے، لیکن ان کا اجروانعام وہ آخرت کے لیے محفوظ کرلیتا ہے۔ اس لیے کہ وہی بہتر جانتا ہے کہ اس بندے کے لیے کون سی چیز بہتر ہے اور وہ اسے آخرت میں ملنی چاہیے یا اس دنیا میں۔
البتہ یہ بات نگاہ میں رکھنی چاہیے کہ زبان سے آپ جو کچھ طلب کر رہے ہیں، آپ کی طلب، آپ کا ذوق، آپ کا عمل و کردار اور آپ کی دوڑ دھوپ بھی آپ کی دعا کی تائید میں ہو، نہ یہ کہ آپ طلب کچھ کر رہے ہیں اور عمل کا رُخ کسی دوسری سمت ہو۔(مولانا محمد یوسف اصلاحی)
س : حرمین شریفین میں حاضری کے دوران جمعۃ المبارک کو میں نے یہ نوٹ کیا کہ ساڑھے گیارہ بجے سے پہلےاذان ہوئی ہے (جب کہ اگلے دن ظہر کی نماز ساڑھے بارہ پر ہوئی تھی) اور لوگوں نے نماز پڑھنی شروع کر دی اور پھر دوسری اذان زوال کے بعد (۲۶:۱۲) ہوئی ہے۔سوال یہ ہے کہ ہم پہلی اذان پر چار سنت پڑھ لیں، یا جب دوسری اذان شروع ہو تو چارسنت کی نیت باندھ لیں، اور فارغ ہونے کے بعد اذان کا جواب دیں۔ کچھ حضرات کہتے ہیں کہ چار کے بجاے دو رکعت پڑھ سکتے ہیں؟
ج: جمعہ کا وقت چوں کہ زوال کے بعد شروع ہوتا ہے، لہٰذا وقت شروع ہونے کے بعد ہی سنتیں پڑھی جاسکتی ہیں۔ لہٰذا اس صورت میں زوال سے پہلے اذانِ اوّل کے بعد جمعہ کی پہلی چار سنتیں نہیں پڑھی جاسکتیں۔ اگر زوال کے بعد خطبہ سے پہلے سنتیں پڑھنے کا وقت ملے تو اس وقت پڑھ لیں، البتہ اگر اذانِ ثانی کے فوراً بعد خطبہ شروع ہوجائے تو اس کا حل یہ ہوسکتا ہے کہ زوال کے فوراً بعد یا اذان شروع ہوتے ہی چار رکعت سنت کی نیت باندھ لیں، اور نماز مکمل کرلیں۔ واضح رہے کہ جمعہ کے فرض سے پہلے چار سنتیں ہیں دو نہیں۔(مولانا محمد حسان اشرف عثمانی)
س : جماعت اسلامی کا فقہی مسلک کیا ہے؟ کیا یہ سب مجتہد ہوتے ہیں؟ مجموعی حیثیت سے جماعت کے مسلک کی وضاحت کیجیے؟
ج: جماعت اسلامی اقامت دین کے لیے سرگرمِ عمل ہے۔ کسی خاص فقہی مسلک کی تبلیغ و تلقین اس کا مسلک نہیں ہے۔ جماعت اسلامی تمام مسلّمہ فقہی مسالک کو حق جانتی ہے اور ان لوگوں کو بھی برسرِحق سمجھتی ہے جو چاروں ائمہ کی تقلید نہیں کرتے بلکہ براہِ راست حدیثِ نبویؐ سے رہنمائی حاصل کرنے کے مسلک پر کاربند ہیں۔
جماعت اسلامی کے نزدیک دین کا اصل سرچشمہ قرآن و سنت ہے اور کسی بھی شخص کا اجتہاد کتاب و سنت کا قائم مقام نہیں قرار دیا جاسکتا۔ البتہ اجتہاد بڑا نازک کام ہے۔ اس کے لیے پہلے ان مسائل کی نوعیت اور حیثیت کو پوری طرح سمجھنا ہوگا، جن کے بارے میں شریعت کا حکم معلوم کرنا ہو۔ پھر قرآن و سنت میں گہری بصیرت اور اجتہاد و قیاس کے اصول و آداب سے بھی واقفیت ضروری ہے۔ عربی زبان و ادب میں مہارت اور دین کی اصل روح اور دین کی مزاج شناسی بھی نہایت ضروری ہے۔ پھر ان سارے نصوص سے کامل واقفیت، ان کے الفاظ و معانی پر عبور اور عبارت کی ادبی نزاکتوں کو سمجھنے کی بھی پوری صلاحیت ہونی چاہیے۔ دینی علوم میں ان ماہرانہ اور خداداد صلاحیتوں کے بعد ہی کوئی شخص مجتہد کہا جاسکتا ہے۔ رہا کسی خاص مسلک کی تقلید کرتے ہوئے اگر کوئی شخص خداترسی اور اتباعِ دین کے جذبے کے ساتھ کسی خاص مسئلے میں اپنی صواب دید کے مطابق کوئی راہ اپناتا ہے تو کوئی آخر کس دلیل کی بناپر اسے اس حق سے روک سکتا ہے، جب کہ وہ قرآن و سنت کے علوم سے بھی آراستہ ہو۔ مراد یہ ہے کہ جماعت اسلامی اور اس کے متعلقین کا کوئی الگ سے فقہی مسلک نہیں ہے، نہ ان میں سے ہر ایک مجتہد ہے اور، نہ یہ کسی مسئلے میں اجتہاد کو گمراہی تصور کرتے ہیں۔موجودہ دور میں ہمارے نزدیک بہترین صورت یہ ہے کہ نئے پیش آمدہ مسائل میں اہلِ علم و بصیرت مل جل کر اجتماعی اجتہاد کریں اور اجتماعی کاوشوں سے مسائل کے حل کی سبیل نکالیں۔ (مولانا محمد یوسف اصلاحی)
س : قرآنی آیات اور احادیث کے ترجمے کو بذریعہ موبائل ایس ایم ایس کرنا جائز ہے یا نہیں؟ اور ان کو ڈیلیٹ (delete) کرنا درست ہے یا نہیں؟ نیز کیا قرآنی آیات اور احادیث کے تراجم کو بذریعہ موبائل ایس ایم ایس بھیجنا باعث ِ ثواب ہے؟
ج:تذکیر و نصیحت کے لیے قرآنِ مجید کی آیت یا حدیث یا اس کا ترجمہ کسی کو مسیج کرنا فی نفسہٖ جائز ہے اور اس پر ثواب کی اُمید بھی ہے، البتہ اس بارے میں اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ حدیث یا قرآن کی آیت تحقیق کے بغیر نہ بھیجی جائے اور ان کا ترجمہ مستند ہو، نیز قرآن کی آیت کو اس کے رسم الخط میں لکھا جائے کسی اور رسم الخط [یعنی رومن وغیرہ] میں لکھنا جائز نہیں۔
قرآنی آیات اور احادیث مبارکہ کو پڑھنے کے بعد یا نصیحت حاصل کرنے کے بعد ڈیلیٹ کرنے میں شرعاً کوئی حرج نہیں ہے۔ البتہ اگر طبیعت پر بوجھ نہ ہو تو پڑھنے کے بعد انھیں ڈیلیٹ کرنا چاہیے، پڑھنے سے پہلے ڈیلیٹ کرنے میں چونکہ صورۃً اعراض پایا جاتا ہے، اس لیے پڑھنے سے پہلے ڈیلیٹ نہیں کرنا چاہیے۔ یہ حکم اس صورت میں ہے، جب کہ بھیجے گئے مضمون کے بارے میں علم ہو کہ یہ قرآنِ مجید کی آیت کا صحیح ترجمہ یا مستند حدیث ہے۔ اگر ا س کا صحیح اور مستند ہونا مشکوک ہو تو پڑھے بغیر بھی ڈیلیٹ کیا جاسکتا ہے۔(مولانا محمد حسان اشرف عثمانی)
س : ایک دینی مدرسے میں طلبہ و طالبات کو قرآن پاک حفظ و ناظرہ کے ساتھ ابتدائی درس نظامی کے ابتدائی درجات کی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ یہ مدرسہ مستحق مسافر طلبہ کے قیام و طعام اور علاج و معالجے کا انتظام بھی کرتا ہے۔ مدرسے کا کوئی مستقل ذریعۂ آمدن نہیں ہے اور ضروریات بھی بہت زیادہ ہیں۔ مجھے ایک دوست نے کہا ہے کہ: ’’مدارسِ دینیہ میں زکوٰۃ دینا جائز نہیں اور نہ ایسا کرنے سے زکوٰۃ ادا ہوتی ہے‘‘۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایسے مدرسے میں ہمارے لیے اپنی زکوٰۃ ، عطیات اور فطرانہ وغیرہ دینا شرعاً جائز ہے؟ اور کیا ایسا کرنے سے زکوٰۃ ادا ہوجاتی ہے یا نہیں؟
ج:اگر مدرسے میں مستحقِ زکوٰۃ طلبہ مقیم ہیں اور مدرسے کے منتظمین شرعی اصول کے مطابق زکوٰۃ کی رقم پوری احتیاط کے ساتھ ان طلبہ کے کھانے پینے کی اشیا اور وظائف میں خرچ کرتے ہیں، تو ایسے مدرسے کے مستحق طلبہ کے لیے زکوٰۃ دینا جائز ہے اور اس سے زکوٰۃ دینے والے کی زکوٰۃ بھی ادا ہوجائے گی۔ لہٰذا، ایسے مدرسے میں زکوٰۃ دینے کو ناجائز کہنا درست نہیں، بلکہ اس طرح کے مدرسے میں زکوٰۃ دینے سے زکوٰۃ کی ادایگی کے ساتھ اشاعتِ دین کا بھی ثواب ملے گا۔(مولانا محمد حسان اشرف عثمانی)
س : زید کے چھے بچے ہیں اور سب عاقل و بالغ ہیں، ان میں سے کسی کا بھی عقیقہ نہیں کیا گیا۔ اب زید اپنے بچوں کا عقیقہ کرنا چاہتا ہے لیکن اتنی گنجایش نہیں کہ سب کا ایک ساتھ عقیقہ کرے۔ اس لیے وہ چاہتا ہے کہ ایک کے عقیقہ کے طور پر ایک بکرا ذبح کرے۔ شرعاً اس میں کوئی گنجایش یا سہولت مل سکتی ہے تو بتا دیں؟
ج:عقیقہ کرنا شرعاً ضروری نہیں بلکہ آپ کو اختیار ہے ۔ اگر آپ کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں۔ پھر اگر ایک بچے کے عقیقے میں دو بکروں کے بجاے ایک بکرا کیا جائے تو یہ بھی جائز ہے، اور بکراکرنے کے بجاے گائے میں بھی حصہ لیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح سب کا ایک ساتھ عقیقہ کرنا بھی ضروری نہیں اور اگر عقیقہ کرنا آپ کے لیے مشکل ہے تو اس کا ترک کرنا بھی آ پ کے لیے جائز ہے، اس میں شرعاً کوئی گناہ نہیں۔(مولانا محمد حسان اشرف عثمانی)
س : ہمارے ہاں کچھ اہلِ علم کہتے ہیں کہ عورتوں کے لیے قبروں کی زیارت کرنا منع ہے۔ اس سلسلے میں وہ ایک حدیث کا بھی حوالہ دیتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے۔ کتاب و سنت کی روشنی میں اس مسئلے کی وضاحت کریں۔
ج: خواتین قبروں کی زیارت کے لیے قبرستان جاسکتی ہیں بلکہ قبروں کی زیارت کرنا مستحسن اور مستحب امر ہے، بشرطیکہ شرعی آداب و حدود کو ملحوظ رکھا جائے، یعنی ستروحجاب کی پابندی کی جائے، گریہ و زاری سے گریز کیا جائے۔ اگرچہ پہلے مردوں اور عورتوں کو قبروں کی زیارت سے منع کیا گیا تھا لیکن بعدازاں یہ ممانعت ختم کردی گئی۔ جیساکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’میں نے تمھیں قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا، اب ان کی زیارت کیا کرو‘‘۔ (مسلم، ۲۲۶۰)
ایک حدیث میں اس کی وجہ بیان کی گئی ہے کہ قبروں کی زیارت کرنا دنیا سے بے رغبتی پیدا کرتا ہے اور آخرت کی یاد دہانی پیدا ہوتی ہے۔ (ابن ماجہ: ۱۵۷۱)
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے تمھیں زیارتِ قبور سے روکا تھا لیکن اب تم ان کی زیارت کیا کرو کیونکہ ایسا کرنے سے دل میں رقت پیدا ہوتی ہے، آنکھیں پُرنم ہوتی ہیں اور آخرت کی یاد آتی ہے۔ (مستدرک حاکم: ج۱،ص ۳۷۶)
ان احادیث سے ظاہر ہے کہ جس طرح ممانعت مرد و زن دونوں کے لیے تھی اسی طرح زیارتِ قبور کا حکم بھی دونوں کے لیے ہے۔ علاوہ ازیں رسولؐ اللہ نے زیارتِ قبور کے جو مقاصد بیان فرمائے ہیں خواتین کو بھی ان کی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی مردوں کو ہے۔لہٰذا اگر خواتین ان مقاصد کے حصول کے لیے قبرستان جانا چاہیں تو انھیں کیوں کر روکا جاسکتا ہے۔ ایک مرتبہ سیّدہ عائشہؓ نے رسولؐ اللہ سے دریافت کیا کہ قبروں کی زیارت کے وقت کون سی دُعا پڑھیں، تو آپؐ نے انھیں زیارتِ قبور کی مسنون دُعا سکھائی۔ (مسلم، الجنائز، ۲۲۵۶)
اگر عورتوں کے لیے قبروں کی زیارت کرنا منع ہو تو آپؐ واضح طور پر انھیں دعا سکھانے کے بجاے کہہ دیتے کہ قبروں کی زیارت جائز نہیں۔ اس سے بھی زیارتِ قبور کا جواز ثابت ہوتا ہے۔ پھر سیّدہ عائشہؓ کا موقف یہی ہے کہ عورتیں بھی مردوں کی طرح قبروں کی زیارت کرسکتی ہیں۔ چنانچہ ایک مرتبہ آپ اپنے بھائی عبدالرحمٰن بن ابی بکرؓ کی قبر کی زیارت سے واپس آئیں تو کسی نے آپؓ سے کہا کہ عورتوںکے لیے تو قبروں کی زیارت کرنا درست نہیں۔ تو آپؓ نے جواب دیا: رسولؐ اللہ نے ہمیں اس کی اجازت فرما دی تھی۔ (مستدرک الحاکم، ج۱، ص ۳۷۶)
البتہ انھیں خاوند کی اجازت لے کر جانا چاہیے اور باربار جانے سے پرہیز کرنا چاہیے۔ واللہ اعلم! (مولانا ابو محمد عبدالستار)
س : کرسی پر نماز پڑھنے والے جب سجدہ کرتے ہیں تو کہنیوں کو گھٹنوں پر رکھتے ہیں۔ بیٹھ کر نماز پڑھنے کی صورت میں سجدہ کے لیے ہاتھ رکھنے کا یہی طریقہ اختیار کرناصحیح ہے یا گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر رکوع کی طرح سجدہ کرنا چاہیے؟
ج: کرسی پر نماز پڑھنے والا شخص جب سامنے میز وغیرہ رکھ کر اس پر سجدہ نہ کرسکتا ہو توو ہ اشارے سے سجدہ کرے اور رکوع سے زیادہ سر کو جھکائے۔ یہ اس کے لیے سجدے کے قائم مقام ہے۔ جہاں تک ہاتھ رکھنے کا تعلق ہے تو چونکہ اس کا وظیفہ صرف سر کو جھکانا ہے اور ایسے مریض سے ہیئات [یعنی مخصوص طریقے سے رکوع اور سجدہ کرنا] ساقط ہوجاتی ہیں۔ اس لیے اس پر لازم نہیں ہے کہ وہ کہنیاں گھٹنوں پر رکھ کر (حقیقی سجدے کی طرح) ہاتھوں کو پھیلائے بلکہ اس طرح سر کو جھکائے کہ ہاتھ گھٹنوں پر رہیں۔ ہاتھوں کو پھیلانے کی ضرورت نہیں اور اگر پھیلا لے تو کوئی ممانعت نہیں۔(مولانا محمد حسان اشرف عثمانی
افغانستان ، ایران اور ترکی سے اسلامیانِ ہند کا تعلق اور رابطہ دورِ غلامی ہی سے رہا ہے۔ بعض وجوہ سے، افغانستان اور ایران کی نسبت ترکی سے تعلق اُستوار تر ہوتا گیا اور آج پاکستان کا جتنا گہرا ربط وتعلق ترکی کے ساتھ ہے، کسی اور مسلمان ملک سے نہیں ہے (حرمین شریفین سے عقیدت کی بنا پر سعودی عرب سے تعلق ایک دوسری نوعیت رکھتا ہے )۔ ۲۰ویں صدی کے ابتدائی عشروں میں بر عظیم کے مسلمانوں نے جس والہانہ انداز میں دامے ، درمے، سخنے ترکوں کی مدد کی، اس نے ترکوں کے دل جیت لیے اور ان ترک دلوں میں ہمیشہ کے لیے ایک جگہ بنا لی۔ برعظیم کے مسلمانوں خصوصاً پاکستان کے لیے ترکوں کے دل آج بھی دھڑکتے ہیں۔
ترکی سے متعلق حال ہی میں دو کتابیں نظر سے گزریں۔ مندرجہ بالا پس منظر کے حوالے سے ذیل میں ان کتابوں کا تعارف پیش کیا جا رہا ہے۔
1
ڈاکٹر نثار کا تعلق بہار سے تھا۔ پہلی ہجرت کر کے مشرقی پاکستان اور دوسری ہجرت کے نتیجے میں کراچی پہنچے ۔ ۱۹۶۵ء میں آر سی ڈی کے وظیفے پر انقرہ یونی ورسٹی سے ایم اے کیا اور ۱۹۷۱ء میں استنبول یونی ورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ پھر انقرہ منتقل ہو گئے اور وہیں پیوند ِخاک ہوئے ۔ وہ چار زبانوں (ترکی ، اُردو ، انگریزی اور جرمن ) پر دسترس رکھتے تھے۔ ۳۶سال ترکی ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی غیر ملکی نشریات سے وابستہ رہے، اور ۳۶ سال تک پاکستانی سفارت خانے میں’ افسرِ اطلاعات‘ کے طور پر خدمات انجام دیں۔ کچھ عرصہ درس وتدریس اور صحافت میں بھی گزرا۔
ان متنوّع مصروفیات کے ساتھ ، ڈاکٹر نثار نے قلم وقرطاس سے بھی تعلق بر قرار رکھا۔ مصروفیت کیسی ہی ہو، ان کا قلم برابر رواں رہتا تھا۔ ان کی ۵۰ سے زائد تصانیف وتالیف اور کتب ِ تراجم، قلم وقرطاس سے ان کے گہرے تعلق کو ظاہر کرتی ہیں۔(کتب ِ تراجم میں تفہیم القرآن، سیرتِ سرورِ عالم ، سود، سنت کی آئینی حیثیت ، مسئلہ جبرو قدر ، تعلیمات اور علامہ اقبال کا منتخب اردو کلام شامل ہے )۔ وہ ہفت روزہ اخبار جہاں اور ہفت روزہ تکبیر کراچی میں کئی سال تک ’مکتوب ترکی ‘ لکھا کرتے تھے۔ ڈاکٹر حافظ محمد سہیل شفیق کی مرتبہ زیر نظر کتاب انھی مکاتیب کا مجموعہ ہے۔ تقدیم نگار جناب محمد راشد شیخ نے انھیں یاد کرتے ہوئے متأسفانہ لکھا ہے کہ ڈاکٹر اسرار کی خدمات کا اعتراف نہیں کیا گیا۔ راشد صاحب کے نام اسرار صاحب کے ۲۱خطوط بھی شاملِ کتاب ہیں۔
۴۳ مکاتیب (یا راشد شیخ کے بقول ’رپورٹوں‘ ) میں خاصا تنوع ہے۔ بنیادی موضوع ترک، ترک قوم ، ترک عوام وخواص ، ترک مشاہیر، ترک معاشرہ ، ترک صحافت اور ترک سیاست ہے۔ مضامین پڑھتے ہوئے ترکی کے بارے میں بہت سی ایسی چیزوں کا پتا چلتا ہے جن سے تاریخ کے عام طالب علم بھی واقف نہیں ہوں گے، مثلاً: ’’ترکی تضادات کا ملک ہے بلکہ یوں کہہ لیجیے کہ اجتماعِ ضدّین ہے___ ترکی واحد سیکولر ریاست ہے جس کی ۹۸ فی صد آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے اور جہاں ۶۵ سال کے لادینی نظام اور مذہب دشمن ظالمانہ قوانین کے باوجود، لوگوں کا اسلامی جذبہ سرد نہیں ہوا بلکہ نمایاں طور پر ابھرا ہے۔ علاوہ ازیں ترکی اکیلا مسلمان ملک ہے جہاں سے پلے بوائے اور پلے مَین جیسے بین الاقوامی شہرت کے فحش رسائل کے ترکی اڈیشن نکلتے ہیں اور مقامی اخبار ورسائل میں بھی مخر ّب ِ اخلاق تصویریں اور مضامین شائع ہوتے ہیں اور جہاں اسلام نام کا ماہنامہ اور بعض دوسرے اخبارات وجرائد لاکھوں کی تعداد میں چھپتے ہیں ۔ ایک طرف ننگوں کے کلب قائم کرنے کی کوشش ہو رہی ہے اور دوسری طرف مذہبی ذہن کی خواتین کے سر ڈھانپنے یا پردہ کرنے پر ایک طوفانِ بد تمیزی اٹھایا جا رہا ہے۔ ان تضادات کی تازہ ترین مثال عیسائیوں کی مشنری سرگرمیاں ہیں۔ واضح رہے کہ ترکی میں ساری آئینی اورقانونی پابندیاں مسلمانوں کے لیے ہیں۔ غیر مسلم اس سے بَری ہیں ‘‘ ۔ ( ص۵۳-۵۴، ۳ مارچ ۱۹۸۸ء کی تحریر ) ۔ ڈاکٹر نثار کا خیال ہے کہ عیسائیت کے پرچار کا راستہ اتاترک اور عصمت انونو کی مذہب دشمنی نے ہموار کیا: مساجد کی بے حُرمتی، مدارس بند، حج ممنوع اور عربی میں اذان پر پابندی۔ عصمت انونوکے ایک چہیتے وزیر سراچ اوغلو نے پارلیمنٹ میں تقریر کرتے ہوئے کہا:’’حضرات آپ مجھے ۳۰سال کی مہلت دیجیے، اس ملک سے مذہب کا نام و نشان مٹا دوں گا‘‘۔ یہ مذہب دشمنی ۱۹۴۵ء تک جاری رہی۔
ایک مکتوب (۱۲ مارچ ۱۹۹۸ء ) بہ عنوان: ’’ترک ذرائع ابلاغ فحاشی کی تمام حدود پھلانگ گئے ‘‘ سے اندازہ ہوتا ہے کہ ترکی کے سرکاری نشریاتی اداروں کے علاوہ تقریباً ۳۰ ٹیلی ویژن چینل انتہا درجے کی آزادی سے چل رہے ہیں۔ ڈاکٹر اسرار بڑے تأسف کے ساتھ لکھتے ہیں: ’’میڈیا کو اپنی آزادی کا گہرا شعور اور احساس ہے اور اس آزادی پر ذرا سی آنچ آتے ہی وہ فوراً ڈٹ جاتے ہیں ۔ صدرِ مملکت اور وزیر اعظم پر بھی تنقید کے تیر چلاتے ہیں۔تا ہم بامقصد صحافت ، سنجیدہ اور صحیح رپورٹنگ ، معتبر اور بے لاگ تبصرے کا شدید فقدان ہے‘‘ (ص ۶۴ )۔ مصنف نے زیرِ نظر مکتوب میں ترکی میڈیا (۱۹۸۸ء )کی جو کیفیت بتائی ہے وہ پاکستان کے ۲۰۱۷ ء کے میڈیا سے بڑی مماثلت رکھتی ہے۔ ٹی وی چینلوں کو حدود میں رکھنے کے لیے ادارے اور قوانین ترکی میں بھی موجود تھے اور پاکستان میں بھی موجود ہیں لیکن دونوں جگہ عموماً یہ غیر فعاّل ہیں، اور مجرمین کے خلاف کوئی مؤثر تا دیبی کارروائی کرنے سے قاصر ہیں۔
2
تحریکِ خلافت کے زمانے میں ہندستانی مسلمانوں نے ’’ جان، بیٹا! خلافت پہ دے دو ‘‘ کے جذبے سے ترکوںکے ساتھ جذبۂ اخوت کا حق ادا کیا ۔ شعرا نے نظمیں لکھیں اور عوام الناس نے درہم ودینار ارسال کیے۔ مگر زیر نظر کتاب دفتر اعانۂ ہند (مرتبہ: ڈاکٹر خلیل طوق آر) سے پتا چلتا ہے کہ جذبۂ اخوت کا اظہار ما قبل انیسویں صدی میں بھی اُسی طرح ہوتا رہا ہے۔ ۷۸-۱۸۷۷ء میں روس اور ترکی میں جنگ کی خبریں ہندستان پہنچیں تو یہاں کی انجمنوں اور اداروں نے چندہ جمع کر کر کے ترکی بھیجنا شروع کیا۔ چوں کہ ہندستانی باشندے ، ترکوں کو مظلوم سمجھتے تھے اس لیے : ’’نہ صرف ہندستان کے مسلمان بلکہ ہندو، پارسی، عیسائی، یہاں تک کہ انگریز افسر بھی [شاید روس دشمنی میں] ان چندوں میں پیسے دیتے تھے۔ امیر تو امیر ، غریب بھی اپنی اپنی حیثیت کے مطابق ترکوں سے تعاون کرنے کے لیے پیش پیش تھے۔ نواب سے لے کر حجام تک، ملکہ سے لے کر اپنی کمائی چندے میں دینے والی بیوہ خواتین اور حتیٰ کہ بالا خانوں کی طوائفوں اور دلّالوں تک ہرہندستانی اس کارِ خیر میں حصّہ لینا چاہتا تھا‘‘(ص xii)۔چندہ دینے والوں میں ریاستوں کے نواب ، انجمنوں کے صدور ، انگریزی فوج کے مسلمان سپاہی ، مدرسوں کے مولوی اور سرکاری ملازم بھی شامل تھے۔ ان لوگوں میں بڑے شہروں اور قصبوں کے علاوہ ہندستان کے مختلف صوبوں اور دُور دراز واقع دیہاتوں میں رہنے والے بھی تھے۔ جن جن اداروں یا افراد کے تو سّط سے جتنا جتنا چندہ آتا تھا، ترکی میں اس کا ریکارڈ تحریری طور پر رکھا جاتا تھا۔ بعدازاں اس ریکارڈ کو دفتر اعانۂ ہند کے نام سے کتابی شکل میں شائع کر دیا گیا ۔ کتاب کا ایک نسخہ استنبول یونی روسٹی میں موجود ہے۔
ڈاکٹر خلیل طوق آر ( استاد شعبۂ اردو ، استنبول یونی ورسٹی ) نے مذکورہ کتاب کی عکسی نقل، ایک سیرحاصل مقدمے کے ساتھ شائع کی ہے۔ جملہ اندراجات بزبانِ ترکی خطِ نستعلیق میں ہیں ۔ رقوم کی صراحت ’روپیہ، آنہ ،پائی ‘ سے کی گئی ہے۔ اگر یہی کتاب یا ایسی ہی کوئی کتاب ، اتا ترک کے دور میں تیار کی گئی ہوتی تو ہم اردو قارئین نہ جان سکتے کہ کیالکھا ہے کیوں کہ اتا ترک (ترکوں کا باپ) نے رسم الخط تبدیل کر کے اپنے ’بیٹوں‘ (ترکوں) کو مسلمانانِ عالم سے کاٹ دیا اور رومن (انگریزی) رسم الخط کے ذریعے یورپی بننے کی کوشش کی، مگر ما بعد حکمرانوں کی پوری کوششوں کے باوجود ، یورپی یونین ترکی کو رکنیت دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ زیرنظر کتاب، ادارۂ تالیف وترجمہ، پنجاب یونی ورسٹی کے ناظم ڈاکٹر محمد کامران نے شیخ الجامعہ ( ڈاکٹر مجاہد کامران ) کی منظور کردہ خاص گرانٹ سے شائع کی ہے۔ (صفحات : ۳۶۰ ، قیمت: ۵۰۰ روپے )
شعبۂ علوم اسلامیہ پنجاب یونی ورسٹی کی سابق صدر نشین ڈاکٹر جمیلہ شوکت (حال: پروفیسر ایمے ریطس)، مولوی محمد شفیع ( اوکسفرڈ سے پی ایچ ڈی اور پرنسپل اورینٹل کالج لاہور ) اور ڈاکٹر رانا احسان الٰہی ( استاذ عربی اورینٹل کالج لاہور ) جیسے اجل فاضلین کی شاگرد ہیں، پنجاب یونی ورسٹی سے وظیفہ یابی کے بعد وہ متعدد علمی منصوبوں ارمغان علامہ علاء الدین صدیقی، ارمغان پروفیسر محمد اسلم ، ارمغانِ پروفیسر حافظ احمد دار کو بروے کار لا چکی ہیں ۔ زیر نظر محدّ ثین اندلس، ایک تعارف ان کی تازہ کاوش ہے ۔
چند برس پہلے محمد احمد زبیری کی قابل قدر کاوش اندلس کے محدثین کے عنوان سے سامنے آئی تھی۔ مگر وہ جو صرف ۲۰،۲۲محدثین کے تذکرے پر مشتمل ہے۔ ڈاکٹر جمیلہ شوکت صاحبہ نے زیرنظر کتاب میں سیکڑوں محدثین کے کوائف حیات اور ان کی تصانیف کی تفصیل جمع کی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ: ’’اندلس کے محدثین وعلما کی تعداد ہزاروں میں ہے ، یہاں ان میں سے منتخب کے حالات پیش کیے جا رہے ہیں‘‘۔ پھر یہ وضاحت بھی کی ہے کہ: ’’ایک معتدبہ تعداد ان صاحبانِ علم کی بھی ہے جو علوم حدیث کے علاوہ، علوم قرآن میں بھی مرجع خلائق تھے‘‘۔ یہ حضرات بالعموم حافظ قرآن ہوتے بلکہ قرآن حکیم کے مفاہیم ومطالب اور اسرارورُموز سے بھی واقف ہوتے۔ بہتوں نے کتابیں بھی لکھیں۔ اسی طرح بعض محدثین نے فقہ میں شہرت حاصل کی۔ بعضوں کو شعر وادب کا عمدہ ذوق تھا۔ آخری حصے میں تقریباً دو درجن خواتین محدّثات کا بھی ذکر کیا ہے۔
مقدمے میں نہایت اختصار کے ساتھ اندلس کے ماضی، وہاں مسلمانوں کی آمد اور فتوحات (جن کا آغاز ۹۲ہجری میں ہوا) وہاں کے مدارس ،مساجد اور مکاتب کے قیام کا تذکرہ کیا گیا ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ اندلس میں مسلم دورِ حکمرانی کے تحت اندلس ’’۵۰سال کے اندر اندر تہذیب وتمدّن کے اس نقطے پر پہنچ گیا جہاں تک اٹلی کو پہنچنے میں ہزار سال لگے ‘‘(ص ۳۲) ۔ اس دور میں قرآن، علومِ قرآن ، علم سیرت ، فقہ وعلوم فقہ اور حدیث وعلومِ حدیث، میں اندلسی مسلمانوں نے جو کاوشیں کیں اور مذکورہ علوم میں جو بیش بہا کتابیں تصنیف و تالیف کیں ، ان کا تعارف بھی کرایا ہے۔ (ص ۲۹) پر طارق بن زیادکے مقابلے میں شکست کھا کر لا پتا ہونے والے شاہِ اسپین Rodrik کو تین بار ’زریق ‘ لکھا گیا ہے۔ ہم نے تو تاریخ کی کتابوں میں ’لزریق‘ پڑھا ہے۔یو ایم ٹی پریس نے کتاب سلیقے سے شائع کی ہے۔ سرورق سادہ مگر جاذب ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی )
ماہ نامہ تعمیرافکار،ایک روایتی جریدہ ہونے کے باوجود انفرادی شان رکھتا ہے۔ ادارتی سنجیدگی نے اسے ایک ادارے کی شکل عطا کی ہے۔ مختلف اوقات میں پرچے کی خصوصی اشاعتیں اس کا امتیاز ہیں۔ زیرنظر شمارہ بھی ایک زندہ موضوع پر مباحث سمیٹے ہوئے ہے۔
اس خصوصی اشاعت میں علماے کرام اور مسلم دانش وروں کے ۳۴ مضامین، مسلم معاشروں میں مسلکی اختلافات کی نوعیت اور انھیں حل کرنے یا انھیں اعتدال کی شاہراہ پر لانے کا لائحہ عمل دیتے ہیں۔ اگرچہ یہ تمام مضامین خاص طور پر اس پرچے کے لیے نہیں لکھے گئے، مگر مجلس ادارت نے بڑی محنت سے اس انتخاب کو ترتیب دیتے ہوئے اُردو قارئین کو تعلیم،تربیت اورتوازن کی میزان فراہم کی ہے۔
خصوصی اشاعت کی ان خوبیوں کے باوجود، ایک پہلو توجہ کا تقاضا کرتا ہے اور وہ یہ کہ آج کی مسلم دنیا اور مسلم معاشروں میں مسلکی اعتبار سے سُنّی مکتبِ فکر میں کوئی بڑا مناقشہ دکھائی نہیں دیتا، البتہ سُنّی اور شیعہ کا معاملہ بعض منطقوں میں بین الاقوامی، سیاسی اور مسلکی تصادم کے مناظر پیش کرتا ہے۔ اسی تصادم کو آج مسلمانوں میں فرقہ وارانہ ٹکرائو سے منسوب کیا جاتا ہے، جسے حدِاعتدال میں لانے کی اشد ضرورت ہے۔ مگر اس اشاعت میں ایک دو شیعہ علما کی سرسری تحریروں کے سوا کوئی مضمون نہیں اور پھر اس تضاد کو آج کے تناظر میں زیربحث نہیں لایا گیا۔ اُمید ہے کہ اس کمی کو کسی نئی اشاعت میں دُور کیا جائے گا۔ مجموعی طور پر یہ اشاعت ایک قابلِ قدر دستاویز ہے۔ (س م خ)
مسلم معاشروں میں ’سیکولرزم‘ بعض اوقات براہِ راست اور اکثر صورتوں میں مذہبی اصطلاحوں یا حوالوں تک کو استعمال کرتے ہوئے رنگ جماتا ہے۔ ’دین اور دنیا الگ الگ‘ کا نعرہ اس کا سب سے مؤثر ہتھیار ہے۔ آج ہمارے معاشرے میں سیکولرزم کا سب سے بڑا پشتی بان: الیکٹرانک میڈیا اور پھر مادر پدر آزاد سوشل میڈیا ہے۔
زیرنظر کتاب میں وقارعظیم نے اس حوالے سے ملایشیا کے ممتاز اسلامی اسکالر پروفیسر ڈاکٹر سیّد محمد نقیب العطاس [پ: ۵ستمبر ۱۹۳۱ء]کی کتاب Islam and Secularism کے منتخب مقالات کا اُردو میں ملخص ترجمہ پیش کیا ہے۔ ابتدا میں دو مضامین خود مترجم نے تحریر کیے ہیں۔
مقالات کے عنوانات کتاب کا تعارف کرانے میں مددگار ہیں۔ مترجم کے مضامین میں: مَیں سیکولر کیوں نہیں ہوں؟ اور سیکولرنواز دانش وروں کے ۱۰۰رجحانات۔ جناب نقیب کے مفصل اور فکری مقالات کے عنوان ہیں: lسیکولر، سیکولرائزیشن، سیکولرزم l مسلمانوں کا دوطرفہ اُلجھائو lعلم کو مغربیت سے آزاد کرانے کا چیلنج، وغیرہ۔یہ کتاب سیکولر فکر کی فلسفیانہ اور عملی صورتوں کے سمجھنے اور اسلام کے ایمانی، فکری اور فلسفیانہ اپروچ سے واقفیت میں معاون ہے۔ (س م خ)
اسلام کے ساتھ کچھ اصطلاحیں بھی بڑی ’مظلوم‘ ہیں جن میں ایک نمایاں اصطلاح ’اجتہاد‘ ہے۔ عصرحاضر میں یہ لفظ متجددین اور مداہنت پسندوں کی دنیا میں بڑا من پسند ہے کہ اس کے پردے میں وہ اسلام کو اپنی خواہشات کے تابع لانے کے لیے بطور آلہ استعمال کرنے کا بھونڈا کھیل کھیلتے ہیں، حالانکہ اسلامی شریعت اور تفقہ فی الدین کے اعتبار سے یہ بڑی ہی محترم اور بنیادی اہمیت کی حامل اصطلاح ہے۔ الحمدللہ، دین کے خادموں نے تجدّد کی بہت سی یلغاریں بڑی پامردی سے روکیں اور درپیش فقہی چیلنجوں کا محتاط اور بھرپور جواب دینے کی انفرادی اور اجتماعی کاوشیں کی ہیں۔ جن میں مزید بہتری لانے اور غوروفکر کو اداراتی سطح پر منظم کرنے کی ضرورت اور گنجایش موجود ہے۔
زیرنظر کتاب میں جناب قلب بشیر خاور بٹ نے مولانا مودودی مرحوم کے حالاتِ زندگی پر معروف کتابوں سے حصے پیش کرنے کے بعد، بنیادی طور پر مولانا کی کتاب رسائل و مسائل (پانچ حصوں) سے جدید نوعیت کے مسائل پر جوابات درج کیے ہیں۔ چند مقامات پر تفہیم القرآن اور تفہیمات سے اقتباس بھی لیے ہیں اور ساتھ ہی متعدد اہلِ علم کی آرا کو نقل کیا ہے۔ بہرحال، رسائل و مسائل سے ان مسائل کو سمجھنا آسان تر ہوگا کیونکہ وہاں جواب کے ساتھ براہِ راست سوال بھی موجود ہے۔
ضرورت ہے کہ زیرنظر موضوع پر علمی اور فنی نوعیت کی سیرحاصل بحث کی جائے اور ’اصول‘ کی روشنی میں متعین کیا جائے کہ ان میں کون سے اُمور اجتہادی نوعیت کے حامل ہیں۔(س م خ )
ماہنامہ محدث بنارس گذشتہ ۳۳ برس سے اشاعتِ دین کا فریضہ انجام دے رہا ہے۔ اس کا ہر شمارہ دینی معلومات میں گراں قدر اضافہ کرتا ہے۔ زیر نظر اشاعت متعدد حوالوں سے قیمتی دستاویز ہے، جس کے ۲۴ مضامین میں ان موضوعات پر کلام کیا گیا ہے، جن میں ’فتویٰ‘ کی صورت سائلین کو رہنمائی دی جاتی ہے یا مخصوص صورت حال میں دین کا منشا سمجھایا جاتا ہے۔
محدث ،بنارس کے فاضل قلمی معاونین نے اجتہاد، اجماع، عرف، فتویٰ نویسی، استحسان وغیرہ موضوعات پر مؤثر الفاظ میں روشنی ڈالی ہے۔ اہل حدیث علما کی علمی روایت سے واقفیت بہم پہنچائی ہے اور فتویٰ نویسی کی روایت کو دورِ رسالت سے عصر حاضر تک پیش کیا ہے۔ مضامین کی وسعت اور موقف میں توسع ،اور تاریخ کے اوراق کی پیش کاری سے اشاعت کی افادیت دو چند کر دی ہے۔
چونکہ مجلے کا تعلق سلفیہ سے ہے ، اس لیے جہاں مجموعی طور پر موضوعات پر کلام کیا گیا ہے، وہیں خاص طور پر سلفی اسلوبِ تحقیق وتجزیہ کو بھی زیر بحث لایا گیا ہے۔ یہ ایک معلومات افزا، دل چسپ اور علمی دستاویز ہے۔ (س م خ )
’یہ ہے کشمیر کا سچ‘ (سنتوش بھارتیہ) فروری ۲۰۱۷ء کے ترجمان کو پڑھنے سے اس موقف کو اور زیادہ تقویت ملی کہ بھارت کا کشمیر پر قبضہ بالکل ناجائز اور غاصبانہ ہے، جس کا زندہ ثبوت خود بھارتی میڈیا ہے۔ اس مضمون کو الگ سے شائع کر کے پاکستانی عوام تک پہنچایا جائے تو کشمیر کا مقدمہ سمجھانے میں سہولت ہوسکتی ہے۔
ڈاکٹر محی الدین غازی صاحب کے مضمون ’اُمت کے فیصلے، اُمت کے مشورے سے‘ (فروری ۲۰۱۷ء) میں شورائی نظام کی اہمیت کو انتہائی خوب صورت انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ شورائی نظام سے ہم اپنے معاشرے اور حکومت کو جس بہترین طریقے سے چلا سکتے ہیں اس سے بہتر شاید ہی کوئی اور طریقہ ہو۔ اللہ تعالیٰ راقم کو جزاے خیر عطا فرمائے۔ آمین!
محترم ڈاکٹر انیس احمد صاحب نے ’تعلیم اور معاشرتی انقلاب کی راہ‘ کے سلسلے میں جو رہنمائی کی ہے، اُمید ہے ہمارے تعلیمی ادارے اس سے مستفید ہو رہے ہوں گے۔ مرکز کی طرف سے اس پورے مضمون کو ان تمام اداروں کو (خواہ جماعت چلا رہی ہو یا جماعت سے وابستہ افراد چلا رہے ہوں) ایک ہدایت کے طور پر بھجوانا چاہیے۔
’شام لہو رنگ زمین‘ یہ اسیرانِ اُمت پر گمنام ہیرو‘ دل کی کیفیت کو قلم بیان کرنے سے قاصر ہے۔
’مذہب کی تبدیلی کیوں؟‘ (جنوری ۲۰۱۷ء) میں ڈاکٹر بی آر امبیدکر ، بھارت کے پہلے وزیرقانون کا دلتوں (شودروں) سے خطاب انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اہم تر سوال تو یہ ہے کہ کیا اس خطاب سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے علماے کرام نے اس پسی ہوئی قوم تک اسلام کی دعوت پہنچانے کے لیے خصوصی اقدامات کیے ہیں؟ یا کبھی کیے تھے؟ غالباً اندراگاندھی کے دورِ حکومت میں شودروں نے اسلام قبول کرنے کی کوشش کی تھی یا دھمکی دی تھی، جسے دبا دیا گیا۔ حیران کن بات تو یہ ہے کہ دلتوں کو حکومت میں شامل کر کے بڑے بڑے عہدے بھی دیے جاتے ہیں لیکن برہمن اور دیگر ذاتیں انھیں پھر بھی اپنے جیسے انسان سمجھنے کو تیار نہیں۔
ایک اور کمزوری انسانوں میں بہ کثرت پائی جاتی ہے جسے ہم ’ضعف ِ ارادہ‘ کا نام دے سکتے ہیں۔ اس کی حقیقت یہ ہے کہ انسان ایک تحریک کی دعوت سُن کر اس پر صدقِ دل سے لبیک کہتا ہے اور اوّل اوّل خاصا جوش بھی دکھاتا ہے، مگر وقت گزرنے کے ساتھ اس کی دل چسپی کم ہوتی چلی جاتی ہے، یہاں تک کہ اُسے اُس مقصد سے کوئی حقیقی لگائو باقی [نہیں] رہتا ہے جس کی خدمت کے لیے وہ آگے بڑھا تھا۔
اُس کا دماغ بدستور اُن دلائل پر مطمئن رہتا ہے جن کی بنا پر اس تحریک کو اس نے برحق مانا تھا، اُس کی زبان بدستور اس کے برحق ہونے کا اقرار کرتی رہتی ہے۔ اس کے دل کی شہادت بھی یہی رہتی ہے کہ یہ کام کرنے کا ہے اور ضرور ہونا چاہیے۔ لیکن اس کے جذبات سرد پڑ جاتے ہیں اور قواے عمل کی حرکت سُست ہوتی چلی جاتی ہے۔ اِس میں کسی بدنیتی کا ذرہ برابر دخل نہیں ہوتا۔ مقصد سے انحراف بھی نہیں ہوتا۔ نظریے کی تبدیلی بھی قطعاً واقع نہیں ہوتی۔ اِسی وجہ سے آدمی جماعت کو چھوڑنے کا خیال نہیں کرتا۔
’ضعف ِ ارادہ‘ کا ابتدائی ظہور کام چوری کی صورت میں ہوتا ہے۔ آدمی ذمہ داریاں قبول کرنے سے جی چُرانے لگتا ہے۔ مقصد کی راہ میں وقت اور محنت اور مال خرچ کرنے سے گریز کرنے لگتا ہے۔ دنیا کے ہر دوسرے کام کو اُس کام پر ترجیح دینے لگتا ہے، جسے وہ زندگی کا نصب العین قرار دے کر آیا تھا۔ اس کے اوقات میں، اس کی محنتوں میں، اس کے مال میں، اُس کے مقصد ِ حیات کا حصہ کم سے کم ہوتا چلاجاتا ہے اور جس جماعت کو وہ برحق جماعت مان کر اس سے وابستہ ہوا تھا، اس کے ساتھ بھی وہ صرف نظم اور ضابطے کا تعلق باقی رکھتا ہے، اس کے بھلے اور بُرے سے کوئی غرض نہیں رکھتا۔
یہ حالت کچھ اس طرح بتدریج طاری ہوتی ہے، جیسے جوانی پر بڑھاپا آتا ہے۔ اگر آدمی اپنی اس کیفیت پر نہ خود متنبہ ہو، نہ کوئی اسے متنبہ کرے، تو کسی وقت بھی وہ یہ سوچنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا کہ جس چیز کو مَیں اپنا مقصد ِ زندگی قرار دے کر جان و مال کی بازی لگانے کے لیے اُٹھا تھا، اُس کے ساتھ اب یہ کیا معاملہ کرنے لگا ہوں۔ یوں محض غفلت اور بے خبری کے عالم میں آدمی کی دل چسپی و وابستگی بے جان ہوتی چلی جاتی ہے، حتیٰ کہ کسی روز بے خبری ہی میں اس کی طبعی موت واقع ہوجاتی ہے۔ (’اشارات‘، سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۴۷، عدد۶، جمادی الثانی ۱۳۷۶ھ/ مارچ ۱۹۵۷ء، ص۲-۳)