اخبار اُمت


۲۰۱۶ء اور ۲۰۱۷ء کے خونیں برسوں کے بعد ۲۰۱۸ء میں یہ اُمیدیں باندھی جارہی تھیں کہ امسال مقبوضہ کشمیر میں کشت و خون اور انسانی جانوں کے زیاں کا سلسلہ رُک جائے گا، لیکن گذشتہ برسوں کی طرح اس بار بھی پہلے ہی تین ماہ کے دوران مظلوم کشمیریوں کی تمام تر اُمیدوں، تمناؤں اور آرزوؤں پرپانی پھیر دیا گیا۔ ریاست میں موجود ۱۰لاکھ سے زائد بھارتی فوج اور نیم فوجی دستے ’آرمڈ فورسز سپیشل پاور ایکٹ‘ کی صورت میں حاصل شدہ خصوصی قوانین کی آڑ لیے، بے تحاشا اندا ز میں کشمیریوں کی نوجوان نسل کا لہو بہاتے رہے اور انسانی حقوق کی ان بدترین خلاف ورزیوں کو باجواز بنانے کے لیے، ملوث ایجنسیاں ناقابل قبول بہانے گھڑتی رہیں۔ یکم جنوری ۲۰۱۸ء سے لے کر ۱۱؍اپریل تک ۲۹ عام اور نہتے کشمیری نوجوانوں کو مختلف جگہوں پر گولیوں کا نشانہ بناکرشہید کردیا گیا۔ اس دوران ۴۸  نوجوانوں نے جام شہادت نوش کیا، جنھوں نے مجبوراً ظلم وجبر کے خلاف ہتھیار اُٹھالیے ہیں۔۱۲پولیس اہلکاروں اور ۱۳بھارتی فوجیوں سمیت سال کے پہلے سو دن میں ۱۰۲؍انسانی جانیں تلف ہوئی ہیں۔

تازہ ترین خونیں ’سانحہ کھڈونی‘ کولگام میں پیش آیا، جہاں۱۱؍اپریل کو فوج کے ساتھ ایک معرکہ آرائی میں اگر چہ عسکریت پسند محاصرہ توڑ کر نکلنے میں کامیاب ہوگئے، تاہم بھارتی فوجی اہلکاروں نے مختلف جگہوں پر عام اور نہتے احتجاجی نوجوانوں پر فائرنگ کر کے چار معصوم نوجوانوں کو جاں بحق اور ۶۵دیگر افراد کو زخمی کردیا۔ زخمیوں میں کئی افراد کی حالت نازک ہے اور وہ مختلف ہسپتالوں میں زندگی اور موت کی کش مکش میں  ہیں۔ کھڈونی کے اس خوں ریز معرکے میں فوج کی جانب سے  گن شپ ہیلی کاپٹر استعمال کیے گئے۔ عینی شاہدین کے مطابق ہزاروں مظاہرین کو اندھا دھند انداز سے نشانہ بنایا گیا۔ اس سانحے میں جن نوجوانوں کی شہادت ہوئی، اُن میںشرجیل احمد شیخ ولد عبدالحمید شیخ ساکن کھڈونی(عمر ۲۸سال) ، بلال احمد تانترے و لد نذیر احمد تانترے ساکن کجر (عمر۱۶سال)، فیصل الائی ولد غلام رسول الائی ساکن ملہورہ شوپیان(عمر۱۴سال) اور اعجاز احمد پالہ ساکن تل خان بجبہاڑہ شامل ہیں۔اہالیانِ کشمیرکی بدقسمتی کا اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہوگا کہ ۲۸سال کی عمر کا شرجیل احمد جنھیں اپنے گھر کے صحن میں گولی مار کر ابدی نیند سلا دیا گیا ،کی صرف چار روز بعد ۱۵؍اپریل کو شادی ہونے والی تھی اور اس کے والدین نے شادی کی تمام تیاریاں مکمل کرلی تھیں ، دعوت نامے بھی تقسیم ہوچکے تھے۔ والدین خوشیوں کے انتظار میں دن گن رہے تھے کہ اُن کے بیٹے کو خون میں نہلا دیا گیا۔ جن والدین نے اپنے بیٹے کے دلہا بننے کے خواب سجا رکھے تھے، اُنھیں اُن کی لاش کا بناؤ سنگھار کرنا پڑا۔ ماہِ جبین کو ایک طرح سے رخصتی سے قبل ہی بیوہ بنادیا ۔

۱۴برس کے نوعمر فیصل الائی کو جب صبح سویرے فوجی محاصرے اور تصادم کی اطلاع ملی تووہ فوراً گھر سے نکلے اور روانہ ہونے سے قبل اپنے گھر والوں سے کہا: ’’آپ میری آخری رسومات کی تیاریاں کریں‘‘۔ پھر دوپہر سے قبل ہی اُن کی لاش گھر پہنچ گئی۔عام شہری ہلاکتوں کے حوالے سے ریاستی پولیس چیف نے مرحومین ہی کو اپنی موت کا ذمہ دار اور ’مجرم‘ ٹھیرایا۔

یہاں یہ واضح رہے کہ کشمیر میں جولائی ۲۰۱۶ء حزب کمانڈر برہان مظفر وانی کی شہادت کے بعدسے نوجوانوں میں ایک نیا چلن شروع ہواہے۔ جوں ہی کسی بھی عسکری تنظیم سے وابستہ کوئی بھی ہتھیار بند نوجوان بھارتی فوج کے محاصرے میں آجاتا ہے، تو آس پاس کے درجنوں دیہات کے لوگ، بالخصوص نوجوان ’انکاونٹر‘ (تصادم) والی جگہ کی طرف چل پڑتے ہیں۔ ہزاروں بھارتی فوجیوں کے محاصرے میں ایک یا دو عسکریت پسندوں کو محاصرے سے نکالنے کی کوشش کے ساتھ ساتھ، یہ اُن ہتھیار بند کشمیری نوجوانوں کے ساتھ یک جہتی کا کھلم کھلا اظہار بھی ہوتا ہے۔ پوری آبادی گنتی کے مجاہدین کے لیے دیوانہ وار اپنی جان خطرے میں ڈال دیتی ہے۔ بھارتی فوجی افسران اور ادارے اس نئے رجحان سے بوکھلاہٹ کا شکار ہوچکے ہیں اور وہ علانیہ کہہ چکے ہیں کہ ’انکاونٹر‘ والی جگہ پر جوبھی فوجی آپریشن میں رخنہ ڈالنے کی کوشش کرے گا، اسے گولی مار دی جائے گی۔ گویا عملاً بھارتی تربیت یافتہ ریگولر آرمی کے سامنے نہتے کشمیری سینوں پر گولیاں کھا کر اپنے حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں۔

یکم اپریل کو شوپیان ، اسلام آباد اور گاندربل میں ۱۷کشمیری نوجوانوں کو ابدی نیند سلا دینے کے سانحے سے ابھی اہالیانِ کشمیر سنبھل نہ پائے تھے کہ ضلع کولگام میں ایک اور مقتل گاہ سجا دی گئی۔  یکم اپریل کے ان خونیں تصادموں میںبھارتی فوج نے یاور احمد ایتوولد عبدالمجیدا یتو ساکن صف نگری، عبید شفیع ملہ ولد محمد شفیع ملہ ساکن ترنج زینہ پورہ، زبیر احمد تُرے ولد بشیر احمد ساکن شوپیان خاص، نازم نذیر ڈار ولد نذیر احمد ساکن ار پورہ ناگہ بل ، رئیس احمد ٹھوکر ولد علی محمد ساکن پڈر پورہ، اشفاق احمد ملک ولد غلام نبی ساکن پنجورہ، عادل احمد ٹھوکر ولد عبدالغنی ساکن ہومہونہ ، غیاث الاسلام ولد بشیر احمد ساکن پڈر پورہ، اشفاق احمد ٹھوکر ولد عبدالمجید ساکن پڈر پورہ، عاقب اقبال ملک ولد محمداقبال ساکن رنگت دمحال ہانجی پورہ، اعتماد احمد ملک ولد فیاض احمد ملک ساکن امشی پورہ، رؤف احمد کھانڈے  ولد بشیر احمد کھانڈے ساکن دہرنہ ڈورو اور سمیر احمد لون ولد غلام نبی ساکن ہیلو امام،  زبیر احمد بٹ ساکن گوپال پورہ کولگام، مشتاق احمد ٹھوکر ساکن درگڈ سگن، محمد اقبال ساکن خاری پورہ شوپیان اور معراج الدین ساکن اوکے کولگام اور گوہر احمدراتھرساکن کنگن گاندربل کو تین مختلف مقامات پر ایک ہی دن میں شہید کردیا۔ان تمام شہدا کی عمر ۱۶سال سے ۳۰  سال کے درمیان تھی۔

ریاست مقبوضہ جموں وکشمیر جو ایک پولیس اسٹیٹ میں تبدیل ہوچکی ہے۔ اس میں ’امن و قانون‘ کے نام پر کیا کیا گل کھلائے جاتے ہیں، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آئے روز کشمیرکے طول و عرض میں بالعموم اور جنوبی کشمیر میں بالخصوص کریک ڈاون، تلاشی کارروائیاں اور چھاپے مارے جاتے ہیں۔ شہر سرینگر میں جگہ جگہ ناکے اور بندشیںلگائی جاتی ہیں ، نوجوانوں کی گرفتاریاں تو روز کا معمول بن چکا ہے۔عام شہریوں کو مسلسل خوف و دہشت کے ماحول میں سانس لینے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ شہری ہلاکتوں کے بعد بے بس عوام اپنی ناراضی کا اظہار ہڑتال اور احتجاجی مظاہرے سے کرتے ہیں۔ طلبہ و طالبات، اسکولوں او رکالجوں میں پُرامن طریقے پر جب اپنا احتجاج درج کرنے نکلتے ہیں تو پولیس اور نیم فوجی دستے اُن پر درندوں کی طرح ٹوٹ پڑتے ہیں۔ حالاںکہ پُرامن احتجاج دُنیا کا تسلیم شدہ جمہوری حق ہے۔ لیکن یہاں احتجاج کو اعلانِ جنگ سے تعبیر کیا جاتا ہے اور احتجاجی لوگوں کو دشمن قرار دے کر اُن پر طاقت کے وہ تمام حربے ا ور ہتھکنڈے استعمال میں لائے جاتے ہیں جودشمن ملک کی فوج کے خلاف استعمال کیے جاتے ہیں۔عام لوگ جن سیاست دانوں کی بات سنتے اور مانتے ہیں اُن لیڈران کی سرگرمیوں پر ۲۰۰۸ء سے مکمل طور پر قدغن عائد ہے۔

حریت کانفرنس جو حقیقی معنوں میں عوامی جذبات کی نمایندگی کرتی ہے، اس کے رہنمائوں اور کارکنوں کو یا تو جیلوں میں بند کردیا گیا ہے، یا پھر اُنھیںاپنے گھروں تک محدودرکھاگیا ہے۔بزرگ قائد محترم سیّد علی گیلانی۲۰۱۰ء سے اپنے گھر کے اندر قید ہیں۔ اُنھیں نماز جمعہ جیسے  دینی فریضہ کو ادا کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ان حالات سے نوجوان مشتعل ہوکر آخری چارۂ کار کے طور پر یا تو ہتھیار اُٹھالیتے ہیں یا پھر ان میں سنگ باری کرنے اور انکاونٹر والی جگہوں پر جاکر فوج کے محاصروں کو توڑنے کا جنون پیدا ہوجاتا ہے۔ بھارتی ایجنسیاں نوجوانوں کے اس بڑھتے ہوئے جنون اور سنگ باری کے رحجان کے تانے بانے نہ جانے کہاں کہاں جوڑتے ہوئے، کبھی یہ کہا جاتا ہے کہ یہ سب پاکستانی فنڈنگ سے ہوتا ہے اور کبھی سرحدپار کی مختلف تنظیموں کے ساتھ کشمیریوں کی جدوجہد کو جوڑا جاتا ہے۔ آزادی کی سرگرمیوں میں حصہ لینے والے نوجوانوں پرکیا کیا حربے استعمال نہیں کیے گئے؟ ان پر جیلوں میں ہولناک تشدد کیا گیا۔لیکن آئے روزسنگ باری کے واقعات میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔کشمیری نوجوان گولیوں کی پروا نہیں کرتے اور موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کے عادی بن چکے ہیں۔

کشمیری نوجوانوں کے اس شدید رویے کی اصل وجہ یہ ہے کہ جب اُنھیں جمہوری طریقوںپر  اپنے جذبات کا اظہار کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی ہے اور جب اُن کے جذبات کی نمایندگی کرنے والے سیاست دانوں کو اُن کے درمیان نہیں آنے دیا جاتا، تو پھر تنگ آمد بہ جنگ آمد کے مصداق، اپنے غم و غصے کا اظہار کرنے کے لیے یہ نوجوان دوسرے طریقے استعمال کرنے پر اپنے آپ کو مجبور پاتے ہیں۔ یہ نوجوان کوئی ان پڑھ، جاہل اور گنوار نہیں ہیں، جو اکیسویں صدی کے اس دور میں مرعوبیت کا شکار ہوکر گھٹن کی زندگی قبول کرلیں گے۔ یہ وہ نسل ہے جو میڈیائی دور میں رہتی ہے، جو سوشل میڈیا کے ذریعے پوری دنیا کی نوجوان نسل سے جڑی ہوئی ہے،جنھیں اپنے حقوق اور زندہ رہنے کا حاصل شدہ حق معلوم ہے۔ بھلا یہ کیسے بندوق کے سایے میں جینے پر راضی ہوسکتے ہیں؟ منفی اور جھوٹے پروپیگنڈوں کے ذریعے بھلے ہی کشمیریوں کی اس نئی نسل کو شدت پسند،  سرحد پار سے اُکسائے اور دہشت گرد،ہی ثابت کرنے کی کیوں نہ بھونڈی کوشش کی جائے، لیکن حقیقت حال یہی ہے کہ: یہ سب ریاستی دہشت گردی کا شکار بنائے جا چکے ہیں، اِن کے لیے زمین تنگ کردی گئی ہے، اِنھیں اپنے مفادات اور بنیادی حقوق سے محروم کیا جاچکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ   آج کشمیریوں کی یہ نسلیں اس قدر جری اور نڈر بن چکی ہیں کہ یہ موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتی ہیں، اور یہ نوخیز نوجوان گولیوں کا سامنا کرنے سے نہیں ڈرتے۔

 یکم اپریل کو اسلام آباد کے ڈورو علاقے میں جو کم سن عسکریت پسند رؤف احمد ٹھوکرفورسز کے ساتھ جھڑپ میں شہید ہوگیا ، تو دوران انکاونٹر آخری لمحات میں انھوں نے اپنے والدین کے ساتھ فون پر گفتگو کے دوران کہا: ’’ فوج مجھے ہتھیار ڈالنے کے لیے کہہ رہی ہے لیکن میں ہر حال میں ذلت کی زندگی پر عزت کی شہادت کو ترجیح دوں گا‘‘۔ انھوں نے اپنے والد سے درخواست کی: ’’اباجان، میری نمازِ جنازہ کی امامت خود کرنا‘‘۔ اُن کے والد جماعت اسلامی جموں وکشمیر کے رکن اور علاقے کے پُرخلوص داعیانِ دین میں سرِفہرست ہیں۔والدین بھی کیسے حوصلہ مند کہ اُن کی ماں اپنے بیٹے کو ہمت اور صبر کی تلقین کرتے ہوئے کہتی ہیں :’’ بیٹے میرے دودھ کی لاج رکھنا، کسی بھی حال میں بھارتی فوج کے سامنے کمزور نہ پڑنا۔ آپ کی شہادت سے ہماری دنیا عزت اور اُخروی کامیابی کی ضامن بن جائے گی‘‘۔ یوں یہ نوعمر رؤف احمد رات بھر کی لڑائی میں جام شہادت نوش کرگیا۔

ایک اور جنگجو نوجوان اعتماد احمد ملک، جو ایک ریسرچ اسکالر تھے، اور اُنھوں نے کئی اکیڈمک ایوارڈ بھی حاصل کیے تھے، انھوں نے بھی اسی روز، دوران لڑائی آخری بار اپنے والدگرامی کو فون کرتے ہوئے اپنی ثابت قدمی کی دعا کے لیے درخواست کی۔ جواب میں اُن کے والد نے اپنے اس لاڈلے بیٹے سے کہا کہ :’’بیٹا پیٹھ پھیر کر نہیں بھاگنا، کل جب میں آپ کی لاش کو دیکھوں تو مجھے گولی آپ کے سینے میں دکھنی چاہیے‘‘۔ اسماعیل ؑ کی یاد تازہ کرنے والے اس بیٹے نے اپنے والد سے کہا کہ: ’’ابو! آپ اگر مجھ سے راضی ہیں تو میرا اللہ بھی مجھ سے راضی ہوگا۔ آپ اطمینان رکھیں میں ان شاء اللہ سینے پر ہی گولیاں کھاؤں گا۔‘‘ اگلے دن جب ہزاروں لوگوں کے جلوس میں اس معصوم مجاہد کی لاش کو اُن کے گھر لے جایا گیا تو والد نے سب سے پہلے اپنے لاڈلے بیٹے کا سینہ دیکھا اور تشکر سے لبریز لہجے میں بلندآواز سے کہا: ’الحمد للہ‘۔ کیوںکہ اُن کے بیٹے نے لڑتے ہوئے گولیاں اپنے سینے پر ہی لی تھیں۔اپنے مجاہد بیٹوں کے ساتھ آخری مرتبہ فون پر ہونے والی یہ یہ گفتگوئیں سوشل میڈیا پر وائرل [عام] ہوگئیں ہیں اور نوجوان ان آڈیو کلپس کو عقیدت کے ساتھ پھیلا رہے ہیں۔ اس چیز سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کشمیریوں کی نوجوان نسل جس جدوجہد میں مگن ہے،    وہ اس کے لیے ذہنی اور فکری طور پر کس حد تک جذبۂ آزادی سے سرشار (motivated )  ہے۔

کشمیر کے اہلِ دانش طبقے کے لیے یہ صورتِ حال کسی بھی طرح سے اطمینان بخش نہیں ہے۔ ہماری نسلیں زندگی پر موت کو ترجیح دے رہی ہیں۔ بھلا کوئی قوم کیسے یہ گوارا کرے گی کہ اُس کی باصلاحیت نوجوان نسل گاجر مولی کی طرح کٹتی رہے۔ لیکن یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کیوں ہمارے یہ نونہال خطرناک راہ پر گامزن ہورہے ہیں؟ حالات کا باریک بینی سے جائزہ لیں تو صاف ظاہر ہورہا ہے کہ بھارتی حکومت کی سخت گیر پالیسیاں ہماری نوجوان نسل کو مایوسیوں میں دھکیل رہی ہیں۔ اُنھیں اپنے سیاسی مستقبل کے حوالے سے جب چاروں طرف اندھیرا چھایا دکھائی دیتا ہے اور اُنھیں جب یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ اُن کی بات سننے اور اُن کے حقوق کی بازیابی کے لیے کسی بھی طرح نئی دہلی تیار نہیں ہے، تو ایسے میں وہ خطرناک راہوں کے مسافر بن جانے پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔

۲۰۰۸ء اور ۲۰۱۰ء کی عوامی تحریک کے دوران جلسے اور جلوسوں میں عوام از خود فوجی تنصیبات اور سرکاری املاک کی حفاظت کیا کرتے تھے ۔جب بھی کسی کیمپ یا پختہ فوجی مورچے [بینکر] کے قریب سے جلوس گزرتا تھا، تواحتجاج میں شامل رضاکار پہلے ہی کیمپ کے سمت کھڑے ہوکر جلوس کو پُر امن طریقے سے آگے بڑھا دیتے تھے۔ لیکن بعد کے برسوں میں جب پُرامن عوامی احتجاجوں پر سختیاں کی گئی، طاقت کا بے تحاشا استعمال کیا گیا،تو یہی نوجوان جو شہری ہلاکتوں کے باوجود ۲۰۰۸ء اور ۲۰۱۰ء کے عوامی احتجاج میں پُر امن رہا کرتے تھے، وہ ۲۰۱۶ء میں ظلم و زیادتیوں کے خلاف تشدد پر اُتر آئے ۔افسوس کا مقام یہ ہے کہ نئی دہلی میں بیٹھے بھارتی حکمرانوںکویہ بات سمجھ نہیں آسکتی کہ کشمیرکی گلیوں میں طاقت کے ذریعے امن قائم کرنے کا خواب اس طرح کبھی سچ ثابت نہیں ہوگا بلکہ اس طرز عمل سے ہر آنے والا دن بد سے بدتر ہوتا جائے گا۔

۲۰۱۰ء اور ۲۰۱۶ءکی عوامی ایجی ٹیشن کے دوران آزادی پسند لیڈران کا مورال گرانے کے لیے جس چیز کو سب سے زیادہ سرکاری سطح پر پروپیگنڈاکے ذریعے ایشو بنایا گیا، وہ ابتر حالات کی وجہ سے یہاں نظامِ تعلیم پر پڑنے والے منفی اثرات تھے۔ ایجی ٹیشن کے نتیجے میں تعلیمی اداروں کے بند رہنے سے بچوں کا تعلیمی کیرئیر برباد ہونے کی باتیں کی گئیں، حالانکہ ان برسوں میں ہڑتالی کال کے بجاے کرفیواور بندشوں کے باعث زیادہ تر دنوں میں تعلیمی ادارے بند رہے تھے۔اب ۲۰۱۸ء سے ایک اورطریقہ اختیار کیا جانے لگا ہے ،کہ جوں ہی کہیں حالات خراب ہوجاتے ہیں، کسی جگہ بے گناہوں کا خون بہایا جاتا ہے ، تو حکومت فوراً تعلیمی اداروں اور انٹرنیٹ کو بند کرنے کا اعلان کرتی ہے۔ گذشتہ برس وزیر تعلیم نے ایک مرتبہ بزرگ حریت لیڈر سید علی گیلانی سے بھی اپیل کی تھی کہ وہ اسکولوں میں تدریسی عمل جاری رکھنے کے لیے اپنا اثر ورسوخ استعمال کریں ، حالانکہ تعلیمی اداروں کو بند کرنے کا حکم سرکار اور متعلقہ فورسز ایجنسیوں کا جاری کردہ ہوتا ہے۔گذشتہ برس کے دوران بھی حکومت کی خراب پالیسی ، ضد اور ہٹ دھرمی کی ہی وجہ سے سال کے اکثر دنوں میںکشمیر کے تعلیمی اداروں میں تدریسی عمل متاثر رہا۔ رواں سال میں بھی سرمائی تعطیلات کے بعد، جب سے تعلیمی ادارے کھل گئے ہیں، زیادہ تر دنوں میں سرکاری احکامات کے نتیجے میں تدریسی عمل ٹھپ رہا۔

۱۱؍اپریل ۲۰۱۸ء کو شوپیاں سانحہ کے پس منظر میں کئی دنوں بعد تعلیمی اداروں کو کھول دیا گیا، لیکن جوں ہی کولگام میں بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں ہلاکتوں کی خبریں موصول ہوئیں ، طلبہ کو زبردستی تعلیمی اداروں سے بھگا دیا گیا، حتیٰ کہ سرینگر کے زنانہ تعلیمی اداروں سے طالبات کو بھگانے کے لیے پولیس اُن کے پیچھے ایسے پڑگئی، جیسے وہ بچیاں انسان ہی نہیں۔ جان بوجھ کر اور سوچے سمجھے منصوبے کے تحت مقبوضہ کشمیر میںتعلیمی سال مسلسل ضائع کیے جارہے ہیںاور اس کشمیر دشمن پالیسی کے دور رس مضر اثرات بہرحال آنے والے وقت میں ظاہر ہوں گے۔ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت یہ اس لیے کیا جارہا ہے، تاکہ کشمیریوں کی نسلیں تعلیم سے محروم ہوجائیں۔ناخواندگی کے    اس بڑھاوے کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔عام شہریوں پر ظلم و زیادتیاں نہ ہوتیں، نوجوانوں کی نسل کشی نہ ہوتی اور انسانی حقوق کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزیاں نہ ہوتیں تو طلبہ اور طالبات سڑکوں پر نکل آنے پر مجبور نہ ہوتے۔ دنیا بھر میں ظلم و زیادتیوں پر طلبہ کے احتجاج کا چلن عام ہے۔ یہاں کے طلبہ و طالبات کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ زیادتیوں اور انسانی حقوق کی شدید پامالیوں پر پُرامن احتجاج کریں۔ اگر طلبہ کو اپنا احتجاج کرنے کا حق دیا جاتا تو وہ اپنی ناراضی کے اظہار کے بعد کلاسوں میں جاتے اور تدریسی عمل میں مصروف ہوجاتے۔ لیکن اُن کے جمع ہونے سے قبل ہی پولیس اور نیم فوجی دستے اُن پر ٹوٹ پڑتے ہیں، جس کے نتیجے میں طلبہ بھی مشتعل ہوجاتے ہیں اور اس طرح بہانہ بناکر حکومت تعلیمی اداروں کو بند کر کے اہل کشمیر کی نئی نسل کے معاشی و معاشرتی مستقبل اور کیرئیر کو تباہ کرنے کا گھناؤنا کھیل کھیل رہی ہے۔

صوبہ جموں (کٹھوعہ ضلع) میں ۱۰جنوری ۲۰۱۸ء کو آٹھ سال کی ایک معصوم بچی آصفہ کے لاپتا ہونے اور پھرایک ہفتے کے بعد اس کی لاش جنگل سے برآمد ہونے کی واردات نے پورے مقبوضہ جموں وکشمیر میں غم و غصے کی شدید لہر پیدا کی۔عوامی دباؤ پر جب ریاستی پولیس کی خصوصی کرائم برانچ نے تحقیقات کے بعدکورٹ میں رپورٹ پیش کی تو اس سانحے کی رُوداد نے پوری انسانیت کو شرمسار کردیا۔ جموں کے بی جے پی سے وابستہ فرقہ پرست لوگوں نے کٹھوعہ کے رسانہ علاقے سے گجر طبقے سے وابستہ مسلمانوں کو بھگانے کے لیے ایک سازش تیار کی۔ یہ سازش مندر کے نگران کی سربراہی میں ترتیب دی گئی۔ علاقے کے مسلمانوں میں خوف و ہراس پیدا کرنے کے لیے    آٹھ سال کی معصوم آصفہ کو اغوا کیا گیا، اسے سات روز تک مندر میں قید رکھا گیا، اس دوران چار درندہ صفت ہندو فرقہ پرست اس معصوم مسلم لڑکی کی عزت تار تار کرتے رہے، اور ساتویں دن آصفہ کو قتل کردیا گیا۔ قتل کرنے سے قبل سازش میں شامل ایک پولیس اہلکار اپنے ساتھیوں سے کہتا ہے کہ: قتل سے قبل میں آخری بار اس کی عصمت تار تار کرنا چاہتا ہوں، اور وہ اپنا منہ کالا کرکے  اس معصوم کلی کا گلا گھونٹ دیتا ہے۔ پھر دوسرا شخص یہ یقین کرنے کے لیے کہ آصفہ واقعی مرگئی ہے؟ اس کے سر پر پتھر کے پے در پے وار کرتا ہے۔جب پولیس ان ملزمان کو گرفتار کرتی ہے تو اُنھیں رہائی دلانے کے لیے بی جے پی سے وابستہ دو لیڈران ایک ریلی نکالتے ہیں، جس میں کھلے عام جموں کے مسلمانوں کو دھمکی دی جاتی ہے کہ وہ ۱۹۴۷ء جیسے حالات کے لیے تیار رہیں۔ جموں اور کٹھوعہ بار ایسوسی ایشن سے وابستہ وکیل کرائم برانچ کوعدالت میں چالان پیش کرنے ہی نہیں دیتے ہیں۔ بارایسوسی ایشن جموں تین روز تک کورٹ کا بائیکاٹ کرتی ہے اور جموں کا کاروبار زندگی بند کرنے کی کال دیتی ہے۔ یوں بی جے پی سے وابستہ برہمن عصمت دری جیسے گھناؤنے جرم میں ملوث اپنے کارکنوں کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ دیر سویر یہ درندے آزاد ہوکر پھر سے مسلم دشمنی سرگرمیوں کا حصہ بن جائیں گے۔

مقبوضہ جموں وکشمیر کے حالات ایسے ہیں کہ یہاں پہاڑ کے سامنے چیونٹی کھڑی ہے۔ کشمیری، ہندستانی طاقت، ظلم او رجبر کا نہتے ہوکر بھی مردانہ وار مقابلہ کرتے ہیں، البتہ بیرونی طاقتوں کی مداخلت کے بغیر مغرور بھارت کا کچھ ہونے والا نہیں۔ پاکستان، مسئلہ کشمیر کا ایک فریق ہے اور یہ بھی سچ ہے کہ پاکستانی عوام نے ہمیشہ کشمیریوں کا ساتھ دیا ہے، مگر ساتھ یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ کشمیریوں کی اس ۷۰ سالہ غلامی میں کئی مواقعے ایسے آئے جب آزادی کی منزل بالکل قریب تھی لیکن پاکستانی حکمرانوں کی نااہلی اور بے عملی نے اُن سنہری موقعوں کو گنوادیا۔اس وقت بھی پاکستانی حکومت زبانی جمع خرچ کررہی ہے۔ کشمیرکمیٹی کے سربراہ چند بیانات اور حکومت یومِ یک جہتی کے اعلان سے آگے کچھ بھی نہیں کرپاتی ہے۔ کشمیریوں کی اخلاقی، سفارتی اور ابلاغی مدد کرنا اور  اُن کی آزادی کو یقینی بنانا پاکستانی حکومت، عوام اور اداروں کی دینی اور قومی اور انسانی ذمہ داری ہے۔ اگر پاکستانی حکمران اس نازک ترین موقعے پر بھی کشمیر کے تئیں سردمہری کا اظہار کریں گے، تو تاریخ اُنھیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ پاکستانی سبز ہلالی پرچم کی حفاظت کشمیری نوجوان کررہے ہیں۔ یہاں کے شہدا کا کفن پاکستانی پرچم بن رہا ہے۔ نظریہ پاکستان اور پاکستانی پرچم کی حفاظت کشمیری نونہال اپنا خون دے کررہے ہیں اور اگرپھربھی پاکستانی ریاست اپنی ذمہ داریاں خوش اسلوبی سے ادا نہیں کرے گی، تو اسے بدقسمتی سے ہی تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ پاکستانی عوام اور وہاں کے اداروں کو کشمیر پالیسی کے حوالے سے سنجیدگی کے ساتھ غوو فکر کرنا چاہیے۔

پاکستان اور بھارت کے مابین جامع مذاکرات تعطل کا شکار ہیں، مگر پانی کے مسائل پر گذشتہ دنوں ’سندھ طاس مشترکہ کمیشن‘ کا نئی دہلی میں اجلاس ہوا۔ اس اجلاس سے چند روز قبل بھارت کے وزیر ٹرانسپورٹ نیتن گڈکری نے ہریانہ کے کسانوں کو پانی کی فراہمی کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا: ’’اتراکھنڈ اور ہماچل پردیش میں جلد از جلد زیادہ سے زیادہ ڈیم بنا کر راوی، بیاس اور ستلج دریائوں کے پانی کو بھارت میں ہی زیادہ سے زیادہ استعمال کیا جائے گا ‘‘۔

دو سال قبل بھارت نے اوڑی کے فوجی کیمپ پر حملے کے بعد پاکستان کی طرف جانے والے دریائی پانی کی تقسیم کے معاملے پر خاصا جارحانہ رویہ اختیار کیا تھا۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی  نے دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا: ’’پانی اور خون ساتھ ساتھ نہیں بہہ سکتے‘‘۔ ۱۹۶۰ء میں طے شدہ ’سندھ طاس آبی معاہدہ‘ ماضی میں کئی جنگوں اور انتہائی کشیدگی کے باوجود سانس لے رہا ہے، اس کی ازسرِنو تشریح کے لیے ایک اعلیٰ سطحی ٹاسک فورس تشکیل دی گئی۔ اس معاہدے کی رُو سے بھارتی پنجاب سے بہہ کر پاکستان جانے والے دریائوں: بیاس، راوی اور ستلج پر بھارت کا حق تسلیم کیا گیا، اور کشمیر سے بہنے والے دریا، یعنی سندھ، جہلم اور چناب پاکستان کی ضروریات کے لیے وقف کردیے گئے تھے۔ ایسے منصوبے جن سے ان دریائوں کی روانی میں خلل نہ پڑے، اس کی اجازت معاہدے میں شامل ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پچھلے کئی برسوں سے بھارت کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے پاکستان کے لیے پانی ایک اہم ایشو کی صورت اختیار کر گیا ہے۔

۱۹۵۰ء سے قبل پانی کے حصول کے حوالے سے پاکستان خاصی بہتر حالت میں تھا۔ اعداد وشمار کے مطابق فی کس ۵۲۶۰ کیوبک میٹر پانی پاکستان میں دستیاب تھا، جو ۲۰۱۳ء میں گھٹ کر فی کس ۹۶۴کیوبک میٹر تک رہ گیا۔ یعنی صرف ۶۶برسوں کے اندر اندر ہی پانی کی دولت سے مالامال یہ ملک شدید آبی قلت کے زمرے میں آگیا۔ اس کی وجوہ آبادی میں اضافہ، غیر حکیمانہ منصوبہ بندی، پانی کے وسائل کا بے دریغ استعمال، قلیل سرمایہ کاری، موجودہ ذخیروں تربیلا، منگلا اور چشمہ کی بروقت صفائی میں کوتاہی اور اندازے سے بڑھ کر سلٹنگ، کے علاوہ ریاست جموں و کشمیر میں پانی کے مرکزی مآخذ پر ماحولیاتی تبدیلی بھی شامل ہے۔ وادیِ کشمیر کے پہاڑوں کی چوٹیوں پر اس سال برف کی صرف ایک ہلکی سی تہہ جمی ہوئی ہے۔ اس کی وجہ موسمِ سرما میں معمول کی سطح سے نہایت ہی کم برف باری کا ہونا خطرے کی گھنٹی ہے، جسے کشمیر کے نشیبی علاقوں بشمول پاکستان کے کسانوں کے لیے فکرمندی کا باعث ہونا چاہیے۔ کشمیر کے ندی نالوں میں اس سال پانی کی سطح بہت ہی کم ہوچکی ہے۔ بھارتی زیرانتظام جموں و کشمیر کے محکمہ آب پاشی نے حال ہی میں ایک باضابطہ ایڈوائزری جاری کر کے شمالی کشمیر کے کسانوں کو خبردار کیا ہے کہ ’’اس سال دھان کی کاشت کے لیے محکمہ پانی فراہم کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوگا‘‘۔اس لیے کسان ’’دھان کی جگہ کوئی اور متبادل فصل اُگائیں‘‘۔ یقینی بات ہے کہ سندھ طاس کمیشن کی میٹنگ میں یہ ایڈوائزری پاکستان کوبھی دی گئی ہوگی۔ محکمہ آب پاشی کے چیف انجینیر شاہ نواز احمد کے بقول: ’’دریاے جہلم میں پانی کی سطح ریکارڈ لیول تک گرچکی ہے۔ سری نگر کے پاس سنگم کے مقام پر جہاں دریا کی سطح اس وقت چھے فٹ ہونی چاہیے تھی، محض ۱ء۴ فٹ ہے۔ ضلع کپواڑہ کے ندی نالوں میں ۱۰ فی صد پانی کی کمی واقع ہوچکی ہے‘‘۔

وادیِ کشمیر میںآنے والے مہینوں میں خشک سالی کا پاکستان کے کسانوں پر اثرانداز ہونا لازمی ہے۔ ویسے بھی پاکستان کی طرف بہنے والے دریائوں کے مراکز، یعنی جموں و کشمیر میں موجود پانی کے ذخائر پچھلے ۶۰برسوں میں خطرناک حد تک سکڑ چکے ہیں۔ سری نگر کے نواح میں بڑی نمبل، میرگنڈ، شالہ بوگ، ہوکرسر اور شمالی کشمیر میں حئی گام کے پانی کے ذخائر تو خشک ہوچکے ہیں۔    ان کے بیش تر حصوں پر تجاوزات قائم ہیں۔ سوپور میں تحصیل کے پاس مسلم پیربوگ، جو شہر کے اندر پانی کی ایک جھیل تھی، اس پر اب ایک پُررونق شاپنگ مال کھڑا ہے۔ کشمیر میں کوئی ایسا ندی نالہ نہیں ہے، جس میں پچھلے ۷۰برسوں میں پانی کی مقدار کم نہ ہوئی ہو۔ چندسال قبل ایکشن ایڈ کے ایک سروے میں بتایا گیا کہ: ’’اکثر جگہ پانی کی سطح ایک تہائی رہ گئی ہے اور چند میں تو نصف ریکارڈ کی گئی۔ ان ندی، نالوں کا پانی ہی جہلم، سندھ اور چناب کو بہائو فراہم کرتا ہے۔ علاوہ ازیں سلسلہ کوہِ ہمالیہ میں گلیشیروں کے پگھلنے کی رفتار بھی دُنیا کے دیگر علاقوں کی نسبت زیادہ ہے۔ سرحدی علاقوں میں ان کی موجودگی اور جنگی فضا کے باعث ان پر سرکاری رازداری کے قانون کا اطلاق ہوتا ہے، جس سے ان پر تحقیق محدود ہوجاتی ہے۔ چین کے علاقے تبت، نیپال، بھارت کی شمال مشرقی ریاستوں اور اتراکھنڈ، نیز جموں و کشمیر وغیرہ، جو ہمالیائی خطے میں آتے ہیں، جہاں ایک اندازے کے مطابق ۱۵ہزار گلیشیرزہیں،جو دُنیا کے عظیم دریائی سلسلوں، میکانگ، برہم پترا، گنگا اور سندھ کو پانی فراہم کرتے ہیں۔ ان میں سے ۳۱۳۶ گلیشیر کشمیر کے کوہساروں کی پناہ میں ہیں۔ بھارت میں دریاے گنگا اور اس کے گلیشیرز کو بچانے کے لیے بھارت کی مرکزی اور ریاستی حکومتیں خاصی پُرعزم ہیں ۔

دوسری طرف دیکھا گیا ہے کہ: ’سندھ طاس‘ گلیشیرز کی حفاظت کو نظرانداز کیا جاتا ہے، بلکہ مذہبی یاترائوں کے نام پر ایک طرح سے ان کی پامالی کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ اقتدار میں آنے کے فوراً بعد بھارتی وزیراعظم نریندر مودی حکومت نے نہ صرف گنگا کو بچانے اور اس کی دیکھ بھال کے لیے ایک علیحدہ وزارت بھی قائم کی، بلکہ اس کام کے لیے ایک کھرب ۲۰ ارب روپے مختص کیے۔ ۲۰۰۸ء میں اتراکھنڈمیں بی جے پی حکومت نے دریاے گنگا کے منبع پر ہندوئوں کے مقدس استھان گومکھ گلیشیر کو بچانے کے لیے وہاں جانے پر سخت پابندیاں عائد کردیں، جس کی رُو سے اب ہر روز صرف ۲۵۰یاتری اور سیاح گومکھ کا درشن کرپاتے ہیں۔ اس کے برعکس ہرسال روزانہ تقریباً ۲۰ہزار یاتری کشمیر میں سندھ طاس ندیوں کے منبع کولاہی اور تھجواسن گلیشیر کو روندتے ہیں۔

۵۰سال قبل چناب کے طاس کا تقریباً ۸ہزار مربع کلومیٹر کا علاقہ برف سے ڈھکا رہتا تھا، وہ آج گھٹ کر صرف ۴ہزار مربع کلومیٹر رہ گیا ہے۔ پیرپنجال پہاڑی سلسلے میں تو شاید ہی کوئی گلیشیر باقی بچا ہے۔ اسی طرح اب بی جے پی حکومت ایک اور روایت قائم کرکے پیرپنچال کے پہاڑوں میں واقع ’کوثر ناگ‘ کی یاترا کی بھی حوصلہ افزائی کر رہی ہے۔ پھر ایک گروہ تو آزاد کشمیر میں واقع شاردا کو بھی اس یاترا سرکٹ میں شامل کرنے پر اصرار کر رہا ہے۔ پہاڑوں میں واقع صاف شفاف اور آلودگی سے پاک ’کوثر ناگ‘ پانی کا چشمہ جنوبی کشمیر میں اہربل کی مشہور آبشار، دریاے ویشو اور ٹونگری کو پانی فراہم کرتا ہے۔ بعض عاقبت نااندیش کشمیری پنڈتوں کو آلہ کار بنا کر ہندو فرقہ پرست قوموں، نیز حکومت نے ’امرناتھ یاترا‘ کی طرح ’کوثر ناگ‘ یاترا چلانے کا اعلان کر ڈالا ہے۔ ۲۰۰۵ء میں مشہور ماہر ماحولیات پروفیسر ایم این کول کی قیادت میں چوٹی کے ماہرین ماحولیات نے ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ: ’’اگر امرناتھ کے مقدس گپھا تک سونہ مرگ کے پاس بل تل کے راستے ہزاروں یاتریوں کی آمدورفت کا سلسلہ اس طرح جاری رہا تو ماحولیات اور گلیشیر کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچے گا‘‘۔ لیکن اس مشورے پر کان دھرنے کے بجاے دہلی حکومت آج زیادہ سے زیادہ یاتریوں کو بال تل کے راستے ہی سے امرناتھ بھیج رہی ہے۔ نتیش سین گپتا کمیٹی نے ۱۹۹۶ء میں اپنی سفارشات میں یہ بھی کہا تھا کہ امرناتھ کو ایک ماہ اور زائرین کی تعداد ایک لاکھ تک محدود کی جائے‘‘۔ لیکن حکومت نے پہلے تو یاترا کی مدت ایک ماہ سے بڑھا کر تین ماہ کر دی اور اس کے بعد یاتریوں کی تعداد کو محدود کرنے سے انکار کردیا۔ آیندہ برسوں میں اندازہ ہے کہ یہ تعداد ۱۰لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔ یہ یاترا ، اب ایک مذہبی سبھا کے بجاے ’ہندوتوا‘ غلبے کا پرچم اُٹھائے کشمیر میں وارد ہوتی ہے۔ کولہائی گلیشیر ۱۱ مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ گذشتہ تین عشروں میں یہ ڈھائی مربع کلومیٹر تک سکڑ گیا ہے اور چند عشروں کے بعد پوری طرح پگھل چکا ہوگا۔ ’امرناتھ گپھا‘ اسی گلیشیر کی کوکھ میں واقع ہے۔

ایک اور حیرت ناک پہلو یہ بھی ہے کہ پچھلے ۳۰برسوں سے بھارت اور پاکستان کے درمیان وولر بیراج یا ٹولبل آبی پراجیکٹ کے حوالے سے بات چیت کے کئی دور ہوئے، مگر شاید ہی کبھی اس جھیل کی صحت اور تحفظ پر غوروخوض ہوا ہے۔ سوپور اور بانڈی پورہ کے درمیان واقع کئی برس قبل تک یہ ایشیا میں میٹھے پانی کی سب سے بڑی جھیل تھی۔ پاکستان اور میدانی علاقوں کے کسانوں کے لیے یہ ایک طرح کا واٹر بنک ہے۔ جنوبی کشمیر کے چشمہ ویری ناگ سے نکل کر سری نگر اور اس کے اطراف کو سیراب کرکے دریاے جہلم پوری طرح وولر میں جذب ہوجاتا ہے، اور سوپور کے نواح میں  ایک بار پھر سے تازہ دم ہوکر بارہ مولا سے ہوتے ہوئے، اوڑی کے پاس لائن آف کنٹرول پار کرتا ہے۔ بھارتی ویٹ لینڈ ڈائریکٹری میں اس جھیل کی پیمایش ۱۸۹ مربع کلومیٹر درج ہے، ’سروے آف انڈیا‘ کے نقشے میں اس کا رقبہ ۵۸ء۷ مربع کلومیٹر دکھایا گیا ہے اور کشمیر کے مالی ریکارڈ میں  اس کی پیمایش ۱۳۰مربع کلومیٹر ہے۔ جس میں ۶۰مربع کلومیٹر پر اب نرسریاں یا زرعی زمین ہے۔  ایک سابق مرکزی وزیر سیف الدین سوز کے بقول: ’’اس کا رقبہ اب صرف ۲۴مربع کلومیٹر تک  محیط ہے‘‘۔ سیٹلائٹ تصاویر دیکھیں تو نظر آتا ہے کہ یہ جھیل بڑی حد تک سکڑ گئی ہے۔ پانی اور ماحولیاتی بربادی کی اس تصویر سے بھی زیادہ خوف ناک اور تشویش کن صورت پیدا ہوسکتی ہے، مگر اور بھی زیادہ حیرت ناک صورت حال یہ ہے کہ دونوں ملکوں نے ابھی تک قدرتی وسائل کی حفاظت کی سمت میں بات چیت کو بھی قابلِ اعتنا نہیں سمجھا ہے۔ چارسال قبل کشمیر میں آئے سیلاب نے جگانے کے لیے خطرے کی گھنٹی بجائی تھی، اور اس کے بعد گہری نیند کا سماں ہے۔

کہاوت ہے کہ پہاڑ کی جوانی اور ندیوں کی روانی وہاں کے مکینوں کے کام نہیں آتی، بلکہ اس کا فائدہ میدانوں میں رہنے والے کسانوں اور کارخانوں کو ملتا ہے، اور انھی کی بدولت شہر اور بستیاں روشن ہوتی ہیں۔ اس لیے پہاڑوں میں رہنے والے وسائل کے محافظوں کو ترقی میں حصہ دلانا لازمی ہے۔ دونوں ممالک کی یہ ذمہ داری ہے کہ ’سندھ طاس معاہدے‘ سے آگے بڑھ کر ماحولیاتی تبدیلی اور قدرتی وسائل کی حفاظت کی خاطر باہم مل کر کوئی مشترکہ لائحہ عمل وضع کریں۔ کشمیر کے بعد اس ماحولیاتی تبدیلی کا سب سے زیادہ اثر پاکستانی زراعت اور پن بجلی کے منصوبوں پر پڑنے والا ہے۔ اس خطے میں ماحولیاتی تباہی کئی نسلوں کو متاثر کرے گی اور کسی دوسرے خطرے کے مقابلے میں انسانی جانوں کا کہیں زیادہ ضیاع ہوگا۔ اس لیے یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہےکہ  اتنے اہم معاملے پر بھارت اور پاکستان کے سفارتی حلقوں میں خاطرخواہ دل چسپی کیوں نہیں لی جارہی؟ دونوں ممالک کے لیے ناگزیر ہے کہ وہ ’سندھ طاس آبی معاہدے‘ سے آگے بڑھ کر کوئی پاے دار نظامِ کار وضع کریں، تاکہ کنٹرول لائن کے دونوںطرف رہنے والوںکو سیلاب اور خشک سالی جیسی آفات سے بچایا جاسکے، جب کہ اس وقت ماحولیاتی تبدیلی اور قدرتی وسائل کی حفاظت جیسے اُمور بین الاقوامی سفارتی گفت و شنید کا لازمی جز بن چکے ہیں۔

مسلمانوں کو آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم دی ہے کہ وہ مسلمان بھائیوں کے مسائل و حالات سے واقف رہنے کاپورا اہتمام کریں۔ یہاں تک کہ ایک حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ جو شخص مسلمانوں کے اُمور سے واقف نہ ہو اور ان کی پریشانیوں کو دور کرنے کا اہتمام نہ کرے، وہ مسلمانوں میں سے نہیں ہے۔ اس حدیث کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے شامی بھائیوں کے مصائب کے بارے میں جانیں اور جو ممکن ہو اس سے دریغ نہ کریں۔ملک شام سے وابستگی کا حکم بھی ہے۔ حدیث میں حکم ہے: عَلَیْکُمْ بِالشَّامِ (صحیح ابن حبان، مناقب الصحابۃ، حدیث ۷۴۱۳) یعنی شام سے تمھارا خصوصی تعلق ہونا چاہیے۔ پھر شام کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:یَجْتَبِی اِلَیْہَا خِیْرَتُہٗ مِنْ عِبَادِہِ (ابوداؤد، کتاب الجہاد، حدیث ۲۱۳۷) یعنی اللہ کے بہترین بندے اس سرزمین کے لیے چنے جاتے ہیں۔آج اگر احساس کی شدت موجود ہے تو ہزاروں کلومیٹر کی دُوری سے مظلومین شام کا یہ نوحۂ غم جو کبھی بیوہ کی زبان سے اور کبھی یتیم کی زبان سے یا کسی غم نصیب کی صد ابن کر بلند ہوتا ہے، ہمارے کانوں تک پہنچ سکتا ہے۔

شام بحیرہ روم کی مشرقی کنارے پر واقع ایک بے حد خوب صورت اور شاداب ملک ہے۔ اس کے مغرب میں لبنان اور شمال میں ترکی ہے اور مشرق میں عراق ہے اور جنوب میں اُردن واقع ہے۔ یہ ۲کروڑ کی آبادی کا ملک ہے۔ اس میں ۹۰ فی صدسے زیادہ مسلمان ہیں۔ غالب اکثریت سنیوں کی ہے۔ یہاں خلیجی ملکوں کی طرح دولت کی فراوانی نہیں ہے۔ لیکن یہاں کے لوگوں میں شرافت ہے اور دل جوئی اور دل نوازی بھی۔

۱۹۷۱ء میں حافظ الاسد نے شام کے اقتدار پر قبضہ کیا تھا۔ اسد علوی تھا اور فوج میں ملازم۔ چوںکہ فوج میں علویوں کی تعداد بہت زیادہ تھی، اس لیے اس نے بزور طاقت اقتدار پر قبضہ کرلیا اور دینی ذہن رکھنے والوںاور اخوان کو کچلنا شروع کیا۔ ۲۰۰۰ء میں اس کے مرنے کے بعد اس کا بیٹا بشارالاسد تخت اقتدار پر بیٹھا اور اس نے باپ سے زیادہ ظلم کیے۔ کسی کو تحریر وتقریر کی اجازت نہیں تھی۔ یہاں تک کہ سیرت النبیؐ کے جلسے بھی بندمکانوں میں منعقد ہوتے تھے۔ بشار الاسد کے مظالم کے خلاف ۱۵ مارچ ۲۰۱۱ ء کوشام میں مظاہرے شروع ہوئے،جن کو اس نے کچل دیا۔پھر پورے ملک میں مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا اور طاقت سے ان پُرامن مظاہروں کوروکنے کی وجہ سے بغاوت کے شعلے بھڑکنے لگے۔ پھر وہ وقت آیا کہ ملک کی سرزمین کا ۸۰ فی صد حصہ بشار کے قبضے سے نکل کر ’باغیوں‘ کے قبضے میں چلا گیا، جن کی قیادت کرنے والوں میں دینی ذہن کے لوگ اور اخوان المسلمون کے لیڈر تھے۔

بشار کے ہٹنے کے بعد اخوان کا برسرِاقتدار آنا اسرائیل کے لیے شہ مات کے مترادف تھا۔ چنانچہ مذاکرات کی میز سے ان چہروں کو ہٹایا گیا جن پر دینی رنگ تھا۔ لہٰذا دینی ذہن کے مجاہدین نے جبہۃ النتصرۃ، جیش الاسلام اور فیلق الشام وغیرہ کے نام سے اپنی تنظیمیں قائم کرکے اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں اور پھراسرائیل، ر وس اور امریکا دونوں نے ان کو اپنا نشانہ بنایا، جب کہ شامی فوج کے نشانے پر وہ پہلے سے تھیں۔ ان جماعتوں نے نام نہاد مذاکرات سے خود کو الگ رکھا اور مذاکرات کا منصوبہ بنانے والوں نے بھی ان سے زیادہ دل چسپی نہیں لی۔

آج شامی مسلمانوں کی تکلیف اور غم سے سارے مسلمان غم زدہ ہیں۔ دنیا میں بہت سے خطۂ ارض ہیں جہاں قتل وغارت گری کا بازار گرم ہوتا ہے لیکن پھر یہ قتل وغارت گری ایک دن رُک جاتی ہے، البتہ ایک سرزمین ایسی ہے جہاں خوں ریزی رکنے کا نام نہیں لیتی ہے۔ دن،ہفتے، مہینے اور برس گزر جاتے ہیں لیکن خون کی پیاس نہیں بجھتی ہے۔ قاتل کا دست سفاک قتل سے بازنہیں آتا ہے۔ پہلے درعا، پھر دیر الزور، پھر حلب اور اب غوطہ دمشق۔ پہلے بھی جان بچانے کے لیے لوگ سمندروں میں کود گئے تھے اور کشتیاں پانی میں ڈوب گئی تھیں۔ ایلان کردی جیسے بچوں کی لاشیں انسانیت کو پکارتی رہیں ،اور حلب میں ملبے کے نیچے دبا ہوا بچہ احمد اپنی معصومیت کے ساتھ آوازیں دیتا رہا ۔پانچ سالہ جنگ میں پچاس ہزار سے زیادہ معصوم بچے مارے گئے۔ اب پھر وہی شام ہے ، وہی شب ِخون ہے اور وہی خون آشامی ہے۔غوطہ میں ظلم وتشدد کے طوفان سے ہرشخص لہولہان ہے۔ سکونتی عمارتیں مسمار ہو گئی ہیں، مسجدیں شہید ہوگئی ہیں، اسپتال منہدم ہوگئے ہیں۔ اس بار غوطہ میں خون کی ندی میں مظلوم شامی مسلمان غوطہ زن ہیں۔ شام کے کماندار ناوک فگن ہیں اور حاکمِ شام کے فوجی کھلے آسمان سے بمباری کرکے سیکڑوںمعصوم انسانوں کی زندگی کا چراغ بجھارہے ہیں۔ یہ سلسلہ۲۰۱۱ء سے شروع ہوا جو رُکنے کا نام نہیں لے رہا۔ گذشتہ چند روز کے اندر غوطہ میں ۱۸۰۰ اشخاص کی زندگی کا چراغ گل ہوچکا ہے۔ ۸لاکھ افراد شام میں ظالم بشار الاسد اور اس کے حلیفوں کے ہاتھوں شہید ہوچکے ہیں اور ایک کروڑ ۴۰لاکھ سے زیادہ ہجرت کرچکے ہیں۔ اب تک لاکھوں زندگیاں ایک حکمران کی ضد اور رعونت کے آگے قربان ہوچکی ہیں اور لاکھوں انسان اپنا گھر بار، اپنی تجارت اور ملازمت چھوڑ کر راہِ فرار اختیار کرچکے ہیں۔ اب نہ ان کا کوئی گھر ہے، نہ دَر ہے۔بس سر کے اُوپر خیموں کا سائبان ہے جو پڑوسی ملک ترکی نے اپنے یہاںمہیا کردیا ہے۔

دنیا میںبدی اور خباثت کی ایک بڑی علامت بشار الاسد ہے، جس کی فوج ہر طرف ملک میں رقص بسمل کا تماشا دکھا کر اب غوطہ میں عمارت شکن اور زمین شگاف بمباری میں مصروف ہے۔ جس میں ہر روز سیکڑوں مرد اور عورتیں اور بچے لقمۂ اجل بن رہے ہیں۔ قیامت سے پہلے قیامت کا منظر ہے۔ دھماکوں اور شل باری سے زمین پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے۔ بموں کا دھواں آسمان تک بلند ہورہا ہے۔ عمارتیں ریزہ ریزہ ہوکر زمین بوس ہورہی ہیں۔غوطہ ایک ملبے سے تبدیل ہورہا ہے اور اس کے بڑے حصے پر اب شامی فوج کا قبضہ ہے۔روسی مشیرکار بھی بشار کی رہنمائی اور کمک کے لیے بر سرِ موقع موجود ہیں۔دنیا میں مختلف تنظیمیں اس ظلم کے خلاف صداے احتجاج بلند کررہی ہیں لیکن مسلم دُنیا کی طرف سے احتجاج کی کوئی آواز بلند نہیں ہوئی ہے، جیسے شامی ان کے بھائی نہ ہوں دشمن ہوں۔ اقوام متحدہ نے ایک ماہ کی جنگ بلندی کی قرار داد منظورکی ہے لیکن اس پرعمل درآمد نہ دارد۔ بعض طاقتیں روس سے مداخلت کی اپیل کررہی ہیں۔

شام اس وقت ایک ایسے جسم کی مانند ہے جس کے اعضا کٹے ہوئے اور بکھرے ہوئے ہیں اور اس کے جسم کو مثلہ کرنے میں تمام چھوٹی بڑی طاقتیں شریک ہیں۔شام کے مزاحمتی گروپ جس میں اسلام پسند بھی شامل ہیں، اس کو توڑنے میں سب متحد ہیں۔ حلب ہو یا درعا، حمص ہو یا دیر، الزور ہو یا غوطہ، ہر جگہ زمین خونِ مسلم سے لالہ زار ہے۔سقوط شام پر عرب اسلامی دنیا میں سکوت  طاری ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان عرب مسلم ملکوں پر مرگِ غیرت اور مرگِ حمیت اورمرگِ دوام طاری ہے۔ اگر شام میں آبادی بجاے مسلمانوں کے عیسائیوں پر مشتمل ہوتی اور ان کے ساتھ یہ  خوں ریزی اور خون آشامی کا معاملہ ہوتا تو دنیا چیخ اُٹھتی۔ شام کی جنگ کے تمام فریق، مسلمان مجاہدین مزاحمتی گروپ اور ترکی کو چھوڑ کر،سب خوش ہیں کہ اسلام کا نام لیے بغیر مسلمانوں کے جسم کی تکابوٹی کی جارہی ہے،اور ان بڑی طاقتوں کوخوب معلوم ہے کہ پڑوس کے عرب ملک بے طاقت اور بے حیثیت ہیں۔ وہ کچھ نہیں کرسکتے۔ وہ عشرت کدوں میں داد عیش دینے کے سوا کچھ نہیں جانتے۔

شام وہ بدقسمت ملک ہے جس میں ظلم وستم کے بہت سے خونیں پنجے پیوست ہیں۔ داعش کو ختم کرنے کے نام پر روس اور امریکا دونوں مسلسل شہری علاقوں پر بم باری کرکے عمارتوں کو منہدم کرتے رہے ہیں۔ مسجدوںاور اسپتالوں تک کو نشانہ بنایا گیا ہے اور ان دونوں آقائوں کی فضائی سرپرستی میں بشار الاسد کی فوج فتح کا جھنڈا بلند کرتی رہی ہے۔ یہ سب طاقتیں مل کر خون کی ہولی کھیلتی رہی ہیں۔بالکل ابتدا میں جب یہ بیرونی طاقتیں میدان میں نہیں کودی تھیں، شام کے مجاہدین نے جنھیں ’باغی‘ کہا جاتا ہے، ملک کے ۸۰ فی صدی علاقوں پر زمینی قبضہ کرلیا تھا اور ایسا لگتا تھا کہ پورے ملک شام پر ان کا قبضہ اب چند روز کی بات ہے۔ یہ اسرائیل اور بڑی طاقتوں کے لیے ناقابلِ برداشت بات تھی اور اسرائیل کا وجود خطرہ میں پڑ سکتا تھا۔۔ بشار الاسد کے ظالمانہ رویے کے باوجود دنیا کی طاقتیں اسی پیکرِ ظلم حاکم کو برسرِاقتدار دیکھنا چاہتی ہیں اور ایران کے نزدیک بشار کا اقتدار خواہ وہ کیسا ہی بُرا ہو، سُنّی اقتدار سے بہتر ہے۔

شام میں جن لوگوںکے ہاتھ میں انقلاب کی قیادت تھی ان کی ذہنی اور فکری وابستگی اخوان المسلمون کے ساتھ تھی اور خلیج کے حکمرانوں کا حال یہ ہے کہ انھیں لفظ اخوان کے ’الف‘ سے بھی ڈر لگتا ہے، اور اسی لیے انھوں نے محمد مرسی کی حکومت کا تختہ الٹنے میں بڑی طاقتوںکی پوری مدد کی۔ خلیجی حاکموں کے بعض کفش بردار مفتی حضرات اخوان پر اور ان  تمام علما پر جو اخوان کے طرف دار تھے دہشت گردی کا الزام لگاتے رہے۔علم دین اور افتا کی ایسی رُسوائی چشم فلک نے کم ہی دیکھی ہوگی۔

مصر ہو یا تیونس، لیبیا ہو یا شام، ہر جگہ انقلابات کی اصل وجہ وہ شدید ظلم ہے جو ان ملکوں میں حاکم اپنے عوام پر ڈھاتے تھے اور کسی کو شکایت کرنے اور احتجاج کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ آزادیِ تحریر وتقریردنیا میں تمام ملکوں میں ہر انسان کا بنیادی حق سمجھا جاتا ہے۔ اس دور کی جمہوریت کے نقطۂ نظر سے بھی اور اسلامی شریعت کے اعتبار سے بھی شکایت، احتجاج اور تنقید ہرشہری کا بنیادی حق ہے، لیکن شام میںاور بہت سے ملکوں میں انسانیت کا نہیں بلکہ جنگل کا قانون رائج ہے۔ وہاں ہر طاقت ور حکمران کمزور پر ظلم کرنے کا عادی ہے۔

بعض دانش وروں کا کہنا ہے کہ دینی ذہن اور تحریک کے لوگوں کوشام میں اور کئی ملکوں میں شکست کا سامنا ہوا، کیوںکہ جب تک طاقت کا توازن نہ ہو اور حکومت سے مقابلے کی طاقت نہ ہو، انقلاب کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ بشار کی ظالمانہ حکومت کے خلاف جدوجہد کرنے والے شام میں کامیابی کی دہلیز تک پہنچ گئے تھے، مگر یہ بیرونی طاقتیں تھیں جو بشارحکومت کی کمک پر آگئیں۔ حزب اللہ کے رضاکار، بشار حکومت کو بچانے کے لیے شامی فوج کے شانہ بشانہ لڑنے کے لیے سامنے آگئے۔ اس پر بھی انقلاب بردار مجاہدین اور باغیوں کا پلڑا بھاری ہورہا تھا۔ اب شامی حکومت نے روس کو دعوت دی کہ وہ آئے اور گرتی ہوئی حکومت کو سنبھالا دے۔ روس ایک عالمی طاقت ہے، اسے اپنے روایتی حلیف شام کی مدد بھی کرنی تھی اور افغانستان میں شکست کا بدلہ بھی لینا تھا، اور ملک شام میں اپنے اقتصادی مفادات کی حفاظت بھی کرنی تھی۔

’داعش‘ کے نام پر روس نے شام کی مزاحمتی فوج پر خوب بمباری کی اور یہ مزاحمتی فوج وہ ہے جو بشار کے خلاف بر سرِ پیکار ہے۔روسی طیارے آسمان سے مجاہدین اور مزاحمتی فوج پر جنھیں ’فری سیریین آرمی‘ بھی کہا جاتا ہے آگ برسانے لگے اور پھر حلب انقلابیوں یا باغیوں یا ’فری سیریین آرمی‘ کے ہاتھ سے نکل گیا۔ شام میں جو جنگ کا منظرنامہ ہے وہ چھوٹے پیمانے پر عالمی جنگ کا منظر نامہ ہے۔ یہاں روس بھی بشار کی حمایت میں بمباری کر رہا ہے اور داعش سے کہیں زیادہ مزاحمتی گروپ کو نشانہ بنارہا ہے، اور امریکا نے بھی اپنی فضائی فوج ملک کی ویرانی میں اضافہ کرنے کے لیے لگا دی ہے۔ یہ کہنا غلط ہے کہ شام میں آزادی اور انقلاب کا نعرہ بلند کرنے والوں نے بشار الاسد سے شکست کھائی ہے۔ انھوں نے تو بشار الاسد کو زمین کے بڑے حصے سے بے دخل کردیا تھا۔ انھوں نے دراصل روس اور امریکا اور حزب اللہ کی متحدہ فوج سے شکست کھائی ہے۔ محدود پیمانے پر ترکی کی فوجی مداخلت بھی سرحد پر کردوں پر کنٹرول کرنے کے لیے موجود ہے۔ یہ کرد وہ ہیں جو ترکی میں بھی خلفشار پیدا کرتے ہیں اور امریکا کی ہمدردیاں کردوں کے ساتھ ہیں۔ مرنے والے سب شام کے مسلمان ہیں۔ رات دن مسلمانوں کا خون بہہ رہا ہےاور دنیا تماشائی بنی ہوئی ہے۔ سقوطِ شام پر اسلامی عرب دنیا میں مرگِ دوام اور سکوت کی کیفیت ہے۔

مسلم دنیا کے خلاف عالمی سازش ہے۔ مغربی ملکوں نے مسلم ملکوںکو اپنا آلۂ کار بنایا ہے۔ خلیجی ملکوں کی مدد سے جمہوری اور دستوری حکومت کا مصرمیں تختہ اُلٹا گیا۔ سعودی عرب کے ذریعے قطر کا بائیکاٹ کیا گیا۔ سعودی عرب نے اسرائیل کے لیے ہندستان کو فضائی راہ داری بھی دے دی ہے اور پھر’معتدل اسلام‘ کا نعرہ۔ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ مغرب کا جال کس قدر جکڑچکا ہے اس پورے خطے کو! ایک زمانے میں یہاں پر اخوان المسلمون کے خیرخواہ اور ہمدرد ہوا کرتے تھے اوراب اخوان پر دہشت گردی کے جھوٹے الزام لگانے والوں کی کوئی کمی نہیں ہے، کہ امریکی آقا یہی چاہتے ہیں۔

اسلام اور مسلمانوںکا درد ترکی کو ضرور ہے، لیکن امریکا نے ترکی میں انقلاب کی سازش کرکے طیب اردگان کو محتاط کردیا ہے۔ شام اس کے لیے پل صراط ہے اور اسے سنبھل کرکے چلنا ہے اور اس نے اپنی جنگ کرد ملیشیا تک محدود رکھی ہے۔ تاہم، اس نے لاکھوں شامی مہاجرین کو پناہ دے کر نیکی اور شرافت اور وسیع القلبی اوردینی حمیت کا سب سے بڑا ثبوت فراہم کیا ہے۔

شام میں جنگ بندی پر اتفاق کے باوجود عملی طور پر بم باری جاری ہے۔آزادانہ انتخابات اور عبوری حکومت کے قیام کا وقت کب آئے گا، یہ اللہ بہتر جانتا ہے۔ امریکا کی فوجی مداخلت بھی روس کی جارحیت کو روک نہیں سکی ہے۔ترکی کی زیادہ پیش قدمی ایران کے لیے دعوت مبازرت بن جائے گی۔ بظاہرابھی اُفق پر اندھیرا ہے۔ سفینہ ساحلِ نجات تک کب پہنچے گا،کسی کونہیں معلوم۔ جب ہر ’ناخدا‘ سے اُمید کا سر رشتہ ٹوٹ جاتا ہے تب غیب سے خدا کی کارسازی کا ظہور ہوتا ہے۔ وہ فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيْدُ(ھود۱۱:۱۰۷) ہے، وہ جو چاہے کرسکتا ہے۔ وَلِلہِ جُنُوْدُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۝۰ۭ (الفتح۴۸:۴) ’’آسمانوں اور زمین کے تمام لشکر اس کے قبضۂ قدرت میں ہیں‘‘۔

۴ مارچ ۲۰۱۸ء کو جنوبی کشمیر کے پہاڑی ضلع شوپیاں میں ایک اور خونی کھیل میں دوعسکریت پسندوںکے علاوہ چار بے گناہ اور معصوم کشمیریوں کوبھارتی فوجی اہل کاروںنے گولی مار کر ابدی نیند سلا دیا۔مقامی لوگوں اور عینی شاہدین کے مطابق اس روز جب لوگ مغرب کی نماز ادا کرکے مسجد سے باہر آرہے تھے، توکچھ ہی دیر بعد شوپیاں سے ۶ کلو میٹر دُور ترکہ وانگام روڑ پرپہنوپنجورہ نامی گاؤںکے نزدیک مسافر گاڑیوں کی تلاشی لینے والے مقامی بھارتی فوجی کیمپ سے وابستہ ۴۴راشٹریہ رائفلز کے اہل کاروں نے ایک سوفٹ گاڑی زیر نمبر JK04D 7353پر اندھا دھند فائرنگ کی اور تین بے گناہ لوگوں کو شہید کردیا۔عوامی ذرائع کے مطابق گاڑی پر فائرنگ سے قبل جنگجوؤں اور فوج کے درمیان جھڑپ ہوئی، جس میں ایک عسکریت پسند جان بحق ہوگیا۔

بھارتی فوج نے پہلے یہ دعویٰ کیا کہ فائرنگ میں ایک جنگجوعامر احمد ملک ولد بشیر احمد ملک ساکن حرمین شوپیاں جان بحق ہوگیا۔ قریباً ایک گھنٹے کے بعد آرمی نے ایک اورمتضاد بیان میں کہا کہ اس واقعے میں جنگجو ؤںکے ساتھ موجود تین مقامی نوجوان بھی جان سے ہاتھ دھوبیٹھے، جن کی شناخت سہیل احمد وگے ولد خالد احمد وگے (عمر۲۲ سال) ساکن پنجورہ،شاہد احمد خان ولد بشیر احمد خان (عمر ۲۳ سال) ساکن ملک گنڈ، اور شاہ نواز احمد وگے ولدعلی محمد وگے (عمر۲۳ سال) ساکن مولو کے طور پر ہوئی۔بھارتی فوج کے بیان کے مطابق یہ تینوں نوجوان عسکریت پسندوں کے ساتھ گاڑی میں سوار تھے اور اُنھوں نے بھارتی فوج پر مبینہ طور پر فائرنگ کی۔ جوابی کارروائی میں یہ چاروں جاں بحق ہوگئے۔فوج کے بقول تینوں نوجوان عسکریت پسندوں کے لیے کام کررہے تھے۔

مقامی لوگوں نے آرمی کی اس پوری کہانی کو من گھڑت قرار دیتے ہوئے کہا کہ فوج نے تینوں نوجوانوں کو جرم بے گناہی میں مار دیا ہے اور اُنھیں جان بوجھ کر نشانہ بنایا گیا ۔ مقامی لوگوں کی دلیل کو اس بات سے بھی تقویت حاصل ہورہی ہے کہ اگلے دن، یعنی۵مارچ کی صبح کو اس سانحے کی جگہ سے کچھ ہی دُوری پرموجودویگن سے ایک اورنوجوان گوہر احمد لون ولد عبدالرشید لون (عمر۲۴سال) ساکن مولو کی لاش برآمد ہوئی۔بالفرض مان بھی لیا جائے کہ پہلے تین نوجوان جنگجوئوں کے ساتھ گاڑی میں سفر کررہے تھے تو پھر دوسری گاڑی میں سوارگوہر احمد لون کو کیوں نزدیک سے گولیوں کا نشانہ بنایا گیا؟حالاںکہ بھارتی فوج کی کہانی میں پہلے سے ہی تضاداور جھول پایا جاتا ہے۔جس وقت یہ سانحہ پیش آیا اُس کے کچھ ہی دیر بعد سوشل میڈیا پر فوج کے ذرائع سے مختلف نیوز ایجنسیوں نے جو خبر شائع کی، اُس میں ایک عسکریت پسند کے شہیدہونے کی اطلاع دی گئی اور ساتھ میں اُس کی تصویربھی عام کردی گئی جس میںاُس کی لاش وردی پوشوں کے درمیان سڑک کے بیچوں بیچ دکھائی دے رہی تھی۔ اگر وہ اُسی گاڑی میں سوار ہوتا جس میں یہ تین معصوم نوجوان تھے تو پھر اُن کی خبر پہلے مرحلے میں نشر کیوں نہیں کی گئی؟

دراصل حقیقت یہ ہے کہ حسب روایت بھارتی فوج،کشمیری جنگجوئوں کے ساتھ جھڑپ ہونے اور اُن کے شہید ہوجانے کے بعدآپے سے باہر ہوگئی اور اُنھوں نے شاہراہ پر چلنے والی گاڑیوں کو بے تحاشا انداز میں نشانہ بنانا شروع کیا۔ جس کی زد میں دونوں گاڑیاں آگئیں جن میں یہ تین نوجوان اور دوسری گاڑی میں ایک اور نوجوان گوہر احمد لون تھا اور یہ چاروں اَدھ کھلے پھول ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مرجھا گئے۔ اس سانحے کے حوالے سے فوج نے بیس گھنٹوں کے اندر تین بار متضاد بیانات جاری کیے۔ اگلے دن جب گوہر احمد کی لاش برآمد ہوئی تو فوجی ترجمان نے گذشتہ دوبیانات کے بالکل ہی متضاد تیسرا بیان جاری کردیا، جس میں بتایا گیا کہ فوجی ناکے کی جانب دوتیز رفتار گاڑیاں آرہی تھیں، جنھیں رُکنے کے لیے کہا گیا۔ گاڑیاں رُکنے کے بجاے اُن میںسوار جنگجوؤں نے فوج پر فائرنگ کی۔ جوابی کارروائی میں ایک جنگجو اور اُس کے چار اعانت کار جان بحق ہوگئے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر فوج کا یہ بیان صحیح ہے تو گذشتہ دو بیان کیوں دیے گئے ؟ عام لوگ اور عینی شاہدین کہتے ہیں کہ پہلے مرحلے میں جو جھڑپ جنگجوؤں کے درمیان ہوئی ہے اُس میں صرف ایک جنگجو جان بحق ہوا تھا۔ اس لیے پہلے مرحلے پر وہی کہا گیا جو ہوا تھا، لیکن بعد میں فوج نے  جان بوجھ کر راہ چلتی گاڑیوں کو نشانہ بناکر جوگھناؤنا کھیل کھیلا اُس پر پردہ پوشی کے لیے متضاد بیانات جاری کیے گئے۔حالاںکہ بھارتی فوج کو کشمیر میں عام لوگوں کو مارنے کے لیے نہ صرف نئ دہلی سےاشیرواد حاصل ہے بلکہ اُن کی جانب سے کشمیریوں کے تئیں جارحانہ اور قاتلانہ رویے پر اُنھیں تمغے اور ایوارڈ بھی دیے جاتے ہیں۔ پہلی دفعہ بھارت میں موجود بی جے پی حکومت عام کشمیریوں کی نسل کشی کرنے کو کھلے عام نہ صرف قبول کرتی ہے بلکہ اس کے لیے جواز بھی پیش کیا جاتا ہے۔

جن گھرانوں کے چشم و چراغ اس سانحے میں بھارتی فوج نے گل کر دیے ہیں، اُنھوں مظلوموں نے بھارتی فوج کے تمام تر دعوؤں کو جھٹلا کر اُن کی کہانی کو من گھڑت قرار دیا ہے۔ شہیدسہیل احمد وگے کے بھائی محمد عباس وگے نے بھارتی فوجی دعوے کی نفی کرتے ہوئے ایک مقامی نیوز ایجنسی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ:’’میں نے سہیل کو شام ۲۴:۷ بجے فون کیا تو   اُس نے مجھ سے کہا کہ وہ ماں کو بہن کے گھر چھوڑ نے نزدیکی گاؤں پہلی پورہ پہنچ چکا ہے۔اُس کے صرف آدھے گھنٹے بعد ہم نے یہ المناک خبر سنی کہ فوج نے سہیل کو وہاں سے واپس آتے ہوئے راستے میں مار دیا ۔‘‘اسی طرح شاہداحمد خان کے والد بشیر احمد نے کہا کہ:’’میرا بیٹا بارھویں جماعت کا طالب علم تھا، وہ نماز پڑھنے نکلا تھا۔ اُسے جرم بے گناہی میں مار دیا گیا‘‘۔جس جگہ پر یہ سانحہ پیش آیا وہاں کے عام لوگوں نے بھی فوج پر الزام عائد کیا کہ اُنھوں نے جھڑپ کے دس منٹ بعد جان بوجھ کر راہ چلتی گاڑیوں کو نشانہ بناکر چار بے گناہ نوجوانوں کو جان سے مار دیا۔ جنوبی کشمیر کے شوپیاں ، پلوامہ اور کولگام ضلع میں عوامی غم و غصہ بھی اس بات کی عکاسی کررہا ہے کہ یہاں وردی پوش اپنے خصوصی اختیارات کا استعمال کرکے حد سے تجاوز کررہے ہیں۔ نہتے اور بے گناہ لوگوں کو مارنے کی جیسے اُنھیں کھلی چھٹی حاصل ہے۔جنوبی کشمیر میں رواں سال میں اب تک ۳۰ سے زائد عام اور بے گناہ کشمیری نوجوانوں کو بھارتی فوج نے گولیوں کا شکاربناکرشہید کردیا ہے، اور بھارتی فوج کی نہتے عوام کے خلاف نہ رُکنے والی کارروائی میںسیکڑوں افراد سال کے پہلے دو مہینوں میں جسمانی طور پر مضروب ہوچکے ہیں۔

ماہِ جنوری میں ایسے ہی ایک سانحے میں بھارتی فوج آر آرکے اہل کاروں نے اِسی ضلع میں  تین نوجوانوں کوجرمِ بے گناہی میں گولی مار کر جاں بحق کردیا، جس پر کافی ہنگامہ ہوا تھا۔ بعد میںمقامی پولیس نے جب اس سانحے میں ملوث بھارتی فوج کے میجر آدتیہ کے خلاف ایف آئی آر درج کی تو سپریم کورٹ آف انڈیا نے ایف آئی آر پرمزید کارروائی کرنے پر روک لگا دی اور جموں و کشمیر گورنمنٹ سے اس سلسلے میںجواب طلبی کی۔ اس سے پہلے محبوبہ مفتی کی پی ڈی پی حکومت نے عوام کو یقین دلایا تھا کہ وہ اس سانحے کی تحقیقات کرکے ملوث اہل کاروں کے خلاف کارروائی کرے گی۔ لیکن جب ۵مارچ کو ریاستی کٹھ پتلی حکومت نے سپریم کورٹ میں جواب داخل کیا تو اُنھوں نے عوامی مفادات اور جان و مال کے تحفظ کی باتوں کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے اپنے جواب میں سپریم کورٹ کو بتادیا کہ میجر آدتیہ کا نام ایف آئی آر میں شروع سے درج ہی نہیں تھا۔گویا عوام کو گمراہ کیا جارہا تھا، وقتی طور پر اُن کے غصے کو ٹھنڈا کرنے کے لیے یہ جھوٹ اور فریب پر مبنی داؤ کھیلا گیا کہ میجر آدتیہ کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی۔یہاں ہر قتل عام میں ملوث اہل کاروں کو بچانے کے لیے پہلے ہی سے ریاستی کٹھ پتلی حکومت تیار ہوتی ہے۔

یہ المناک صورتِ حال گذشتہ سال میجر گوگوئی کے کیس میں بھی دیکھنے کو ملی، جس نے بیروہ بڈگام میں فاروق احمد ڈار کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرکے انسانی حقوق کی سر عام بے حرمتی کی۔  اُن کے خلاف ریاست میں قائم ہند نوازسرکار نے کافی بیان بازی کی تھی، لیکن جب قانون کی بات آئی تو اُنھیں سزا دینے کے بجاے فوج نے اُنھیں ترقی سے نوازا۔ ہندستان میں اُن کے نام کی T-Shirts تیار کی گئیں جو ہاتھوں ہاتھ بِگ گئیں۔ اُنھیں ہندستانی میڈیا اور سیاست دانوں نے ہیروکے طور پیش کیا۔ کشمیریوں کے خون سے ہاتھ رنگنے والوں کو جب تمغوں سے نوازا جارہا ہو، جب اُن کی حمایت میں میڈیا یک طرفہ اور جانب داری پر مبنی رپورٹیں شائع کرتا ہو، جب پٹواری اور مقامی پولیس تھانے کے اہل کاروں سے لے کر ڈپٹی کمشنر اور اعلیٰ مقامی سرکاری عہدے داراور سیاست دان تک اُنھیں بے گناہ ثابت کرنے کے لیے جھوٹی رپورٹ تیار کرنے میں پیش پیش ہوں، تو بھلاکیوں کر وردی پوش عام شہری ہلاکتوں سے باز رہیں گے!جب فوج کو دشمن کی طرح عوام کے رُو برو کھڑا کیا جائے، جب کسی بھی شخص کی جان لینے کے لیے سنگ باز، تخریب کار، او جی ڈبلیو، احتجاجی، پاکستانی حمایت یافتہ جیسی اصطلاحوں کو جواز بنایا جانے لگے تو بخوبی انداز ہوجاتا ہے کہ حالات کس نہج پر جارہے ہیں۔ یہ ایک خطرناک کھیل ہے ، جس کے ذریعے سے یہاں پر کشمیریوں کی نسل کشی کے لیے راہیں آسان کی جارہی ہیں۔بھارتی فوج اور دیگر ایجنسیوں کی جانب سے فرقہ پرست ذہنیت کو بری طرح سے حاوی کیا جارہا ہے۔ ایسے میں انسانی حقوق کی پامالیوں کا یہاں یہ سلسلہ بھلا کیسے رُک سکتا ہے، بلکہ کشمیری عوام کے لیے آنے والا زمانہ مزید پریشان کن اور پُرتشدد ثابت ہوسکتا ہے۔۲۰۱۶ء سے برہان مظفروانی کی شہادت کے بعد سے عام کشمیری نوجوانوں کو نشانہ بنانے کا جو سلسلہ چل پڑا ہے وہ دو سال گزر جانے کے بعد بھی رکنے کا نام نہیں لے رہا۔ آئے روز وادی کے اطراف و اکناف میں کسی نہ کسی ماں کی کوکھ اُجاڑ ی جاتی ہے، کوئی نہ کوئی نونہال اور معصوم نوجوان زندگی کے حق سے محروم کیا جاتا ہے۔

کشمیریوں کی نسل کشی کی ان کھلے عام وارداتوں کی پشت پناہی نہ صرف سرینگر ودلی میں قائم حکومتیں کررہی ہیں بلکہ ایسا کرنے کے لیے یہاں پر موجود دس لاکھ فوج اور نیم فوجی دستوں کو آرمڈ فورسز سپیشل پاور ایکٹ(’افسپا‘-AFSPA)کا تحفظ بھی فراہم کیا گیا ہے۔ سابق بھارتی فوجی سربراہ نے’افسپا‘ کو مقدس کتاب سے تعبیر کرتے ہوئے اِس کو ریاست جموں وکشمیر میں لازمی قرار دیا ہے۔ اس قانون کی رو سے فوج کے خلاف ہوم منسٹری کی اجازت کے بغیر کوئی بھی کارروائی عمل میں نہیں لائی جاسکتی۔ وقتی حالات سے نبٹنے کے لیے یہاں کی حکومتیں تحقیقات وغیرہ کا خوب ڈھنڈورا پیٹتی رہتی ہیں، لیکن عملی طور پر یہ سب فضول کاوشیں ہی ثابت ہوتی ہیں۔اس لیے یہ بات عیاں ہے کہ کشمیریوں کی نسل کشی اور سنگین قسم کے انسانی حقوق کی پامالیوں پر تب تک کوئی روک نہیں لگ سکے گی، جب تک عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں کے ساتھ ساتھ عالمی طاقتیں سنجیدگی کا مظاہرہ نہ کریں۔

عالمی طاقتوں کی جانب داری اور مفاد پرستی کا تو کوئی گلہ نہیں، البتہ مسلم دنیا کی مجرمانہ خاموشی پر ماتم ہی کیا جاسکتا ہے۔ عالمِ اسلام اگر چاہے تو احسن طریقے سے ہندستانی حکومت پر دباؤ بڑھا کر ہندستانی حکمرانوں کو مسئلۂ کشمیر کے مستقل حل پر راضی کرسکتا ہے، لیکن ملت کے یہ حکمران آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں۔ اپنے اپنے ممالک میں بھارتی حکمرانوں کی خوب آو بھگت کررہے ہیں۔ بھارتی وزیر اعظم کو اعلیٰ ایوارڈ سے نوازتے ہیں اور اُن کی خوشنودی کے لیے سرزمینِ عرب میں ۱۵۰۰سال بعد مندر اور بُت کدے بنانے کے لیے زمین تک فراہم کرتے ہیں۔ گویا ہرجانب سے دلی سرکار کو اطمینان حاصل ہوچکا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں جو کچھ وہ کررہے ہیں، اس کے لیے اُنھیں کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں ہے۔ اسی طرح ہند نواز سیاست دان کشمیریوں کی بھلائی کی خوب باتیں کرتے ہیں، وہ شہری ہلاکتوں پر بیان بازیاں بھی کرتے ہیں لیکن اُن کی اوّلین ترجیح اقتدار حاصل کرنے کی ہوتی ہے۔ ایک دفعہ اقتدار میں آکر وہ انسانی لاشوں پر چل کر دلی کے مفادات کی آبیاری کرتے ہیں۔ اُن کا ضمیر اُنھیں ذرا بھی احساس نہیں دلاتا کہ جن لوگوں کے ووٹ سے وہ اقتدار کی کرسی پر براجمان ہوتے ہیں اُنھی لوگوں کے قتل عام پر وہ نہ صرف مگر مچھ کے آنسو بہاتے ہیں بلکہ اُن کے قتل کو جواز فراہم کرنے کے لیے مقامی وکیل کا کام بھی انجام دیتے ہیں۔

۱۶مارچ کو بھارت کو ’ہندوتوا‘ ریاست بنانے والی تنظیم آر ایس ایس کے سربراہ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ کشمیر میں آزادی پسندعوام سے نبٹنے کے لیے ’طاقت‘ کی ضرورت ہے۔ فوج کو طاقت کا کھلا استعمال کرنے کے تمام اختیارات حاصل ہونے چاہییں۔ اسی طرح کا ایک بیان بھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے بھی دیا ہے۔ بھارتی فوجی سربراہ جنرل بپن راوت آئے روز اِس طرح کی اشتعال انگیز بیان بازی کرتے رہتے ہیں۔مختصر یہ کہ کشمیر ی عوام بھارتی فوجیوں کے رحم و کرم پر ہیں۔ دنیا کشمیریوں کے قتل عام اور نسل کشی کا تماشا دیکھ رہی ہے۔ پاکستان جسے کشمیری قوم نے ہمیشہ اپنے محسن کی حیثیت سے دیکھا ہے،اپنا فریضہ کماحقہ انجام نہیں دے رہا۔

بار بار اور نہ رکنے والی عام اور بے گناہ لوگوں کو جان سے مار دینے کی کارروائیوں کا تذکرہ سن کر کلیجہ پھٹ جاتا ہے۔اپنے نونہالوں کی لاشیں دیکھ دیکھ کر ذہنی طور پر مفلوج بنتے جارہے ہیں۔ یہاں شادی کی باراتوں سے زیادہ جنازے اُٹھتے ہیں، یہاںاجتماعی خوشیوں کی تقریب کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا ہے، البتہ ماتمی مجالس اور تعزیتی تقریبات آئے روز کا معمول بن چکا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ جیسے انسانیت بے حس ہوچکی ہو اور اہلِ کشمیر کے قتل عام سے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑرہا۔ ایسے میں آخری سہارا اللہ رب کائنات کا ہی ہے۔اس لیے اب ہماری تمام تر اُمیدیںاپنے رب ہی سے وابستہ ہیں ۔ اُس کی مدد کا اس قوم کو پورا یقین ہے اور ہمارا یہی یقین ہماری کمزور قوم کو پہاڑ جیسے دشمن کے سامنے پورے عزم کے ساتھ کھڑا رہنے کا حوصلہ عطا کرتا ہے۔

وہ کون سا ظلم ہے جو گذشتہ سات سال کے دوران میں بشار الاسد اور اس کے حواریوں نے نہ ڈھایا ہو۔ شام اور اس کے عوام کو اپنے نئے ہتھیاروں کی تجربہ گاہ بنالیا گیا ہے۔ صرف روس وہاں اب تک اپنے ۱۲۰ نئے ہتھیاروں کا تجربہ کرچکا ہے۔ ان تجربات کے بعد وہ اس بات پر   فخر کرتا ہے کہ عالمی منڈی میں ان ہتھیاروں کی طلب میں اضافہ ہوگیا ہے۔ یہی حال امریکا اور اس کے حلیفوں کا ہے۔ شام کے ایک ایک شہر اور ایک ایک بستی کو کھنڈرات میں بدلا جاچکا ہے۔ شہید ہوجانے والے عوام کی تعداد ۸ لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے۔ ترک صدر طیب ایردوان کے بقول یہ تعداد ۱۰لاکھ سے زیادہ ہے۔ ایک جانب یہ سب مظالم اور دوسری جانب ملاحظہ فرمایئے کہ بے گناہ عوام پر ظلم کے پہاڑ توڑنے والا جلاد ابن جلاد، بشار الاسد اُمت مسلمہ کے حقیقی دشمن اسرائیل کے سامنے کیسے بھیگی بلی بنا ہوا ہے۔

۱۶مارچ ۲۰۱۸ء،یعنی شامی عوام پر مظالم کے سات سال پورے ہونے کے اگلے روز، صہیونی ذرائع ابلاغ نے ایک خوف ناک انکشاف کیا۔ صہیونی حکومت نے اعلان کیا کہ شام نے اپنا ایٹمی پروگرام شروع کیا تھا۔ لیکن آج سے دس سال اور سات ماہ پہلے، یعنی ۵ستمبر۲۰۰۷ء کو اسرائیل کے لڑاکا طیاروں نے ان ایٹمی تنصیبات پر حملہ کرکے انھیں ملیا میٹ کردیا۔ کسی ملک کی ایٹمی تنصیبات کو تباہ کردینا بھلا کوئی اتنا معمولی واقعہ تھا کہ کسی کو معلوم ہی نہ ہوسکے؟ لیکن ذرا اس وقت (۵ ستمبر۲۰۰۷ء) کو شامی حکومت کی جانب سے جاری سرکاری نیوز ایجنسی سانا کی   خبر کا متن ملاحظہ کیجیے: ’’گذشتہ رات مخالف فضائیہ نے ہماری فضائی حدود کی خلاف ورزی کی۔ ہماری فضائیہ نے ان کا پیچھا کرتے ہوئے انھیں واپسی پر مجبور کردیا۔ اس دوران انھوں نے اپنے ہمراہ لایا جانے والا گولہ بارود ہماری سرزمین پر پھینک دیا، لیکن اس سے کوئی جانی یا مالی نقصان نہیں ہوا‘‘۔ جواب میں اسرائیلی حکومت نے بھی مختصر بیان جاری کیا: ’’ہم ایسی خبروں اور بیانات پر کوئی تبصرہ نہیں کیا کرتے‘‘۔

یہ سارا ماجرا آخر ہے کیا؟ تقریباً پونے گیارہ سال بعد جاری ہونے والی اسرائیلی تفصیلات اس سے پردہ اُٹھاتی ہیں۔ ان کے مطابق اس پوری کاروائی کا آغاز مارچ ۲۰۰۷ء سے ہوا جب اسرائیلی خفیہ ایجنسی (موساد) کے ایجنٹ، شام کے ایٹمی راز چرانے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ انھیں یہ راز ایک یورپی ملک آسٹریا میں ایٹمی توانائی کے بارے میں منعقدہ کانفرنس میں شریک، شامی ایٹمی پروگرام کے انچارج ابراہیم عثمان کے کمپیوٹر سے اپنی پوری تفصیلات اور تصاویر کے ساتھ ملے تھے۔ اسرائیلی ذمہ داران کے بقول: ’’ہمیں خدشات تو تھے لیکن ہم اپنی ناکامی کا اعتراف کرتے ہیں کہ اس سے پہلے ہمیں اس پروگرام کی کوئی مصدقہ معلومات حاصل نہیں ہوسکی تھیں۔ تصدیق ہوجانے کے بعد ۱۸؍اپریل۲۰۰۷ء کو موساد کے سربراہ مائیرداگان نے   امریکی حکومت کو آگاہ کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ وہ ان تنصیبات پر حملہ کرکے انھیں تباہ کردے۔ صدر جارج بش نے اپنے عسکری اور حکومتی ذمہ داران سے طویل مشاورت کے بعد جون میں  ہمیں جواب دیا کہ امریکا یہ حملہ نہیں کرسکتا۔ اس کے بعد ہم نے خود حملے کا منصوبہ بنایا۔ ۵اور ۶ستمبر کی درمیانی شب۳۰:۱۰  بجے ہمارے آٹھ جنگی جہاز ’رامون‘ اور ’حٹسریم‘ نامی دو مختلف جنگی ہوائی اڈوں سے شام کی مخالف سمت میں اُڑے۔ قبرص کے قریب پہنچ کر ان جہازوں نے اچانک اپنا رُخ موڑا اور شام کی حدود میں گھس گئے۔ دیر الزور کے قریب واقع ان تنصیبات پر ۱۷ٹن بارود برساتے ہوئے یہ تسلی کرلی گئی کہ یہاں پائی جانے والی ہر چیز تباہ ہوگئی ہے۔ چار گھنٹے کی اس ساری کارروائی کے بعد رات۳۰:۲  بجے یہ تمام جہاز بخیریت اپنے اڈوں پر واپس اُتر گئے‘‘۔

اسرائیلی حکمرانوں کا کہنا ہے کہ ہمیں خطرہ تھا کہ اس کاروائی کے ردعمل میںشام کوئی جوابی کارروائی کرسکتا ہے۔ ہم نے فوج کو چوکنا رہنے کے احکام دیے ہوئے تھے۔ شام نے جواب دینے کے بجاے یہ ساری کارروائی وقوع پزیر ہونے ہی سے انکار کردیا تو ہمیں خوش گوار حیرت ہوئی۔ ہم نے بھی اپنی اس بڑی کامیابی کا دعویٰ کرنے اور باتصویر ثبوت نشر کرنے کے بجاے خاموش رہنے کا فیصلہ کیا۔ ہم ایسا نہ کرتے تو شامی حکومت کو اپنی ساکھ بچانے کی خاطر ہی کوئی جوابی کارروائی کرنا پڑسکتی تھی۔ اس وقت اسرائیلی وزیراعظم ایہود اولمرٹ تھا۔ تقریبا گیارہ برس کے بعد بشار الاسد کی اصل ’بہادری‘ سے پردہ اُٹھادیا گیا ہے تواب اولمرٹ بھی اس کی پوری تفصیل اپنی آیندہ کتاب میں شامل کررہا ہے۔ اس کی وزیرخارجہ سیپی لیفنی نے بھی اسرائیلی ریڈیو پر تفصیلی انٹرویو دیا ہے اور اس وقت کے عسکری ذمہ داران بھی اپنے اپنے کارنامے بیان کررہے ہیں۔

اس ضمن میں اہم سوال یہ بھی ہے کہ تقریباً گیارہ سال بعد اب آخر اس پوری ہوش رُبا داستان سے پردہ اُٹھایا کیوں گیا؟ صہیونی وزیر سیکورٹی اویگدور لیبر مین کا بیان اس سوال کا جواب دے دیتا ہے: ’’گیارہ سال قبل شامی ایٹمی تنصیبات کی تباہی ہمارے ہر دشمن کے لیے ایک واضح پیغام ہے، جو آج بھی اسی طرح مؤثر ہے‘‘۔ صہیونی وزیر انٹیلی جنس یسرائیل کاٹس کا بیان زیادہ واضح ہے۔ وہ اپنی ٹویٹ (Tweet ) میں کہتا ہے:’’گیارہ سال قبل شامی ایٹمی تنصیبات تباہ کرنے کا جرأت مندانہ اقدام اس بات کا واضح پیغام ہے کہ اسرائیل ایران سمیت کسی بھی ایسے ملک کو ایٹمی ہتھیار نہیں بنانے دے گا جو ہماری سلامتی کے لیے خطرہ ہے‘‘۔ ایران ہی نہیں یہ دھمکی ہر اہم مسلمان ملک کے لیے یکساں سنگین ہے۔ متعدد بار اسرائیلی بیانات میں پاکستان کا نام بھی لیا جاچکا ہے۔ ہمارے ایٹمی دھماکوں سے پہلے کہوٹہ پر بھارت اور اسرائیل کی مشترکہ کارروائیوں کی کوششوں کی خبریں بھی تاریخ کا حصہ ہیں۔

یہ خوف ناک انکشافات، زہریلے بیانات اور تلخ حقائق درحقیقت آج کی مسلم دنیا کا مرثیہ کہہ رہے ہیں۔ سرزمین فلسطین پر قابض ناجائز ریاست پوری دیدہ دلیری سے اپنا ایک کے بعد دوسرا ہدف حاصل کرتی چلی جارہی ہے۔ دنیا کی سب بڑی طاقتوں کی مکمل سرپرستی تو پہلے ہی حاصل تھی، اب خود مسلم دنیا بھی اس کے وضع کردہ منصوبوں کی تکمیل میں جتی دکھائی دیتی ہے۔ گذشتہ ۱۲سال سے جاری غزہ کا محاصرہ مزید سنگین صورت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ فلسطینی رہنمائوں پر قاتلانہ حملوں کے ڈرامے رچا کر اس کا سارا ملبہ غزہ کے بے بس عوام پر ڈالا جا رہا ہے۔عراق اور شام میں خاک و خون کے نئے دریا بہائے جارہے ہیں۔ یمن میں باغی حوثی قبائل کے ذریعے بھڑکائی جانے والی جنگ اب ایک قاتل دلدل کی صورت اختیار کرگئی ہے۔ مصر، لیبیا اور تیونس کے بعد ترکی کے خلاف کی جانے والی سازشیں بھی عروج پر ہیں۔ مصر سے جاری ہونے والے اس بیان نے ہر باشعور مسلمان کے دل پر آرے چلادیے ہیں کہ ’’اس وقت ہمارے اصل دشمن تین ہیں۔ نئے عثمانی حکمران (یعنی موجودہ ترک حکومت)، ایران، اور دہشت گرد تنظیمیں جن میں سرفہرست الاخوان المسلمون ہے‘‘۔ گویا قبلہء اول پر قابض، لاکھوں فلسطینیوں کے قاتل اور مسلم دنیا کو کھلم کھلا دھمکیاں دینے والا اسرائیل اب دشمن ہی نہیں رہا۔

ایران کی پالیسیاں یقینا تکلیف دہ ہیں۔ اسلامی انقلاب کے دعوے دار اب خطے میں شیعہ امپائر قائم کرنے کے کھلے دعوے کررہے ہیں۔ باقی سب باتیں چھوڑ بھی دی جائیں، تب بھی بشار الاسد کے قیامت خیز جرائم میں اس کی برابر کی شرکت کسی طور نظر انداز نہیں کی جاسکتی۔ ایسے میں ایرانی سپریم لیڈر اور اصل حکمران آیۃ اللہ خامنہ ای کے دست راست علی اکبر ولایتی کا یہ بیان کہ: ’’اگر ایران کی مدد اور عملاً شرکت نہ ہوتی تو بشار الاسد حکومت چند ہفتے سے زیادہ نہ نکال پاتی‘‘ زخموں پر مزید نمک پاشی کررہا ہے۔ لیکن اس سب کچھ کے باوجود یہ نتیجہ نکالنا ہرگز درست نہ ہوگا کہ مسلم ممالک اپنے اصل دشمن سے صرفِ نظر کرتے ہوئے، ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بنے رہیں۔ آج اگر اسرائیلی ذمہ داران گیارہ سال قبل کیے جانے والے اپنے جرائم اور جارحیت کو ایک کارنامے کی صورت میں بیان کرتے ہوئے مزید دھمکیاں دے رہے ہیں، تو ایران ہی نہیں سب مسلم ملکوں کی آنکھیں کھل جانا چاہییں۔ ایران اگر شامی درندے کی پشتیبانی کرتا چلا آرہا ہے تو اب بھی موقع ہے کہ وہ اس ساری پالیسی پر نظر ثانی کرے۔ آج بھی وقت ہے کہ تمام مذہبی یا علاقائی جنگوں کی آگ بجھاتے ہوئے ایران، ترکی، پاکستان اور سعودی عرب سمیت تمام اہم مسلم ممالک مل کر اپنے مستقبل کا تحفظ یقینی بنائیں۔

عِفرین میں ترکی کی پیش رفت:

اس ضمن میں ترکی کا کردار مؤثر ترین ہوسکتا ہے۔ ترکی اور شام کی سرحد پر واقع شہر عِفرین اور اس کے گردو نواح میں چند ہفتوں کے اندر اس نے ایک بڑی کامیابی رقم کی ہے۔ صہیونی ریاست کے تحفظ اور وسیع تر اسرائیل کے قیام کے لیے برسرِ پیکار عالمی قوتیں خطے کی بندر بانٹ کے لیے جو مختلف چالیں چل رہی ہیں، ان میں سے ایک کارڈ لسانی تعصبات اُجاگر کرنا بھی ہے۔ عراق میں ایک آزاد ریاست کے قیام کی کوشش کے بعد، اب شام میں بھی اسی زہریلے پودے کی آب یاری کی جارہی ہے۔ عفرین اور گردونواح میں بڑی کرد آبادی پائی جاتی ہے۔ امریکی امداد سے ان کرد عناصر کو مسلح کرد تنظیموں PKK  اور PYK  کے گرد اکٹھا کیا جانے لگا۔ وہاں اسلحے کے انبار بھی جمع ہونے لگے اور پوری آبادی کو یرغمال بناکر ترکی کے اندر بھی کارروائیاں کی جانے لگیں۔ ترکی نے ان تنظیموں اور ان کے عالمی سرپرستوں کو  کئی بار خبردار کرنے کے بعد بشارالاسد کا ساتھ چھوڑ کر آنے والوں کی تشکیل کردہ ’آزاد شامی فوج‘ (Free Syrian Army) کے ساتھ مل کر ۲۰ جنوری ۲۰۱۸ء سے وہاں ’شاخ زیتون‘ کے نام سے بڑی فوجی کارروائی شروع کردی۔ امریکا سمیت کئی ممالک نے ترکی کی اس کارروائی کے خلاف مہمات چلائیں، لیکن اس نے انسانی جانوں کا تحفظ یقینی بناتے ہوئے اپنا کام جاری رکھا اور بالآخر ۱۸ مارچ کو عفرین کے پورے علاقے سے ان عناصر کا قلع قمع کردیا۔

اس پوری کارروائی کے نتیجے میں ترک سرحد پر مسلسل سنگین صورت اختیار کرنے والے خطرے کا ازالہ بھی ہوا۔ ساتھ ہی ساتھ دنیا کے سامنے دو بالکل مختلف کردار بھی نمایاں ہوئے۔ ایک کردار بشار الاسد اور اس کا ساتھ دینے والی روسی و ایرانی افواج کا تھا جو دسمبر۲۰۱۶ء میں حلب میں سامنے آیا۔ حلب فتح کرتے ہوئے پورا شہر ملبے اور تباہی کے ڈھیر میں بدل دیا گیا تھا۔بے گناہ انسان کیڑے مکوڑوں کی طرح مسل دیے گئے تھے۔ شہر ’فتح‘ کرنے کے بعد وہاں کے باقی ماندہ باسی بھی بے خانماں کرکے شہر سے نکال دیے گئے۔ لیکن اب عِفرین میں ترک اور آزاد شامی فوج کو کامیابی ملی تو اکا دُکا عمارتوں کے علاوہ پورا شہر صحیح سالم تھا۔ دہشت گرد عناصر نکلتے نکلتے بھی وہاں لاتعداد بارودی سرنگیں نصب کرگئے تھے۔ نتیجتاً کئی مزید عمارتیں بھی تباہ ہوگئیں، لیکن ان بارودی سرنگوں کے خاتمے کے بعد وہاں بھی لُٹے پٹے شہریوں کی قطاریں دکھائی دیں۔ یہ قطاریں شہر سے فرار ہونے والوں کی نہیں، واپس آنے والوں کی تھیں۔ درجنوں شامی اور ترک رفاہی اداروں نے شہر کے مختلف حصوں میں پکا پکایا کھانا تقسیم کرنے کے مراکز قائم کردیے ہیں اور عوام بڑی تعداد میں واپس آکر اپنا اپنا گھر بار آباد کرنے کی کوششیںکرنے لگے ہیں۔

عِفرین میں اس ترک کارروائی نے گذشتہ کئی سال سے دہشت گردی کے خلاف جاری امریکی جنگ کا پردہ بھی چاک کردیا۔ ایک تو اس پہلو سے کہ عفرین میں پائے جانے والے ان سب دہشت گردوں کے پاس جو جدید اسلحہ بڑی مقدار میں پکڑا گیا وہ امریکا ہی کا فراہم کردہ تھا (شاید اسی لیے ان کے خلاف کارروائی سے روکا جارہا تھا)۔ دوسرے یہ کہ ترکی نے اپنی سرحدوں کے دونوں طرف جہاں بھی فوجی کارروائی کی وہ چند روز میں دہشت گردوں کے خاتمے پر مکمل ہوئی۔ عِفرین میں ۲۰ جنوری کو کارروائی شروع ہوئی اور۵۶ روز بعد ۱۸ مارچ کو مکمل ہوگئی۔ اہم سوال یہ سامنے آیا کہ آخر دہشت گردی کے خلاف جاری یہ امریکی جنگ کیسی ہے کہ سالہا سال جاری رہنے کے بعد بھی وہاں نہ صرف دہشت گرد اور ان کی دہشت گردی باقی رہتی ہے، بلکہ اس میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے؟ ترک صدر طیب ایردوان نے ۲۵مارچ کو یہ بیان دہرایا ہے کہ ترکی کے خلاف سازشیں بند نہ ہوئیں تو ہم عِفرین کے بعد اپنی یہ کارروائیاں ملحقہ شہر منبج اور دیگر شہروں میں بھی جاری رکھیں گے۔ یقینا اب تک اس پالیسی نے مشکلات کے باوجود ترکی کو سرخرو کیا ہے۔ لیکن یہ کارروائیاں دودھاری تلوار ہیں۔ پہلے کی طرح اس کا مفید استعمال رہا، تو ترکی کو درپیش خطرات کا قلع قمع کرے گی۔ البتہ یہ خطرہ بھی درپیش رہے گا کہ کہیں خدانخواستہ ترکی کو بھی شام اور یمن میں جاری جنگ کی طرح کسی ایسی جنگ میں نہ اُلجھا دیا جائے کہ پھر اس سے باہر آنا سوہانِ روح بن جائے۔

اہلِ شام کا عزم:

۲۰مارچ کو استنبول میں الاخوان المسلمون شام کے سربراہ محمدحکمت ولید سے پوری صورتِ حال پر مفصل گفتگو ہوئی۔ ۷۴ سالہ ماہر امراضِ چشم ڈاکٹر محمد حکمت شام کی اس نسل سے تعلق رکھتے ہیں جو ۷۰کی دہائی سے اسد خاندان کے مظالم کا شکار رہی۔ عِفرین میں حاصل کامیابی اور الغُوطۃ الشرقیۃ میں جاری بدترین بمباری کا تجزیہ بھی کیا گیا۔ میں نے سوال کیا کہ آخر الغوطۃ الشرقیۃ میں تباہی کی حالیہ لہر کا اصل سبب ہے کیا؟ دکھی دل سے کہنے لگے: ’’بشار اور ان کے حلیفوں کا کہنا ہے کہ وہاں مسلح دہشت گردوں نے پناہ لے رکھی ہے‘‘۔ پھر بتانے لگے کہ ’الغُوطۃ‘ کے نام سے یہ علاقہ دمشق کے گردونواح میں واقع ہے جو مغربی اور مشرقی غوطہ  کہلاتا ہے۔ صرف مشرقی علاقے میں کئی قصبے اور دیہات واقع ہیں، جن کی کل آبادی ۲۰ لاکھ کے قریب تھی۔ گذشتہ سات برس کی بمباری کی وجہ سے اب یہ تعداد چار لاکھ سے بھی کم رہ گئی ہے۔ بشار کی حالیہ بمباری جس مسلح دھڑے کے نام پر کی جارہی ہے، اس کا نام جبہۃ النصرۃ ہے جو یہاں القاعدہ کا دوسرا نام ہے۔ اور یہ حقیقت تمام اطراف کو معلوم ہے کہ مشرقی غُوطہ میں موجود یہ گروہ صرف ۲۴۰؍ افراد پر مشتمل ہے۔ کوئی بھی فوج چاہتی تو بآسانی اور کسی بڑے جانی نقصان اور تباہی کے بغیر ان پر قابو پاسکتی تھی، لیکن ہرآنے والا دن یہ ثابت کررہا ہے کہ ان کا خاتمہ نہیں، اس پورے علاقے کی مکمل تباہی مقصود ہے۔ غُوطہ کا یہ علاقہ بشار الاسد کے محل سے صرف ۸ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ بشار اور ایران کے نفوذ کے علاوہ یہاں روس اور امریکا کے نفوذ کا مقابلہ بھی ہورہا ہے۔ خطے کی تقسیم اور اپنے مستقل قیام کی خاطر دونوں فریق مختلف مشکوک اور سفاک مسلح گروہوں کو بھی باقی رکھنا چاہتے ہیں اور شامی عوام پر ظلم و جبر کے پہاڑ توڑنے والے بشار الاسد کو بھی۔ بالآخر   اس پوری جنگ کا ہدف اسرائیل کا تحفظ اور اس کی سرحدوں میں توسیع ہے۔ ساتھ ہی ساتھ خطے میں مسلم ملکوں کی باقی ماندہ قوت خاک میں ملاتے ہوئے ،ان کے وسائل پر قبضہ کرنا ہے۔

اخوان کے سربراہ سے ملاقات کے بعد ترکی اور شام کی سرحد پر واقع مختلف مہاجر کیمپوں اور یتیم خانوں میں جانا ہوا تو پھولوں جیسے بچوں کی معصومیت نے خون کے آنسو رُلادیے۔ ان بچوں کی جگہ اپنے بچوں کو اور ان بے سہارا خواتین کی جگہ اپنی خواتین کو رکھ کر دیکھیں، تو پتّہ پانی ہونے لگتا ہے۔ لیکن معصوم بچوں کی آنکھوں میں روشن قندیلیں اُمید کی شمع روشن کرتی ہیں۔ چوتھی کلاس کے ایک طالب علم کے ساتھ بیٹھتے ہوئے میں نے پوچھا کہ آپ لوگوں پر یہ سب آزمایش کیوں آئی ہے؟ فوراً اپنے شامی لہجے میں بولا: مشان بشار، بِدَّو یبرُک علی الکرسی أحرق البلد کلہ بس بیروح قریب ھو واللی معہ، بشار کی وجہ سے، وہ کسی اُونٹ کی طرح کرسی سے چمٹے رہنا چاہتا ہے۔ اس نے سارا ملک راکھ کرکے رکھ دیا ہے لیکن اسے اور جو اس کے ساتھ ہیں بہرحال یہاں سے جانا ہے۔ میرے ذہن میں بشار کے حامیوں کا نعرہ گونجا جو انھوں نے سات سال پہلے لگایا تھا کہ: الاسد الی الأبد والانحرق البلد اسد تا ابد  ، وگرنہ سارا ملک بھسم کر دیں گے۔  اللہ عزیز و قدیر نے ان ظالموں کی رسی دراز کی ہوئی ہے، لیکن انھیں خبردار کرتے ہوئے اپنا حتمی فیصلہ بھی سنا دیا ہے کہ وَسَـيَعْلَمُ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْٓا اَيَّ مُنْقَلَبٍ يَّنْقَلِبُوْنَ۝۲۲۷ۧ   (الشعراء ۲۶:۲۲۷) ’’اور ظلم کرنے والوں کو عنقریب معلوم ہوجائے گا کہ وہ کس انجام سے دوچار ہوتے ہیں‘‘۔

ارون دھتی راے نے خبردار کیا ہے کہ :Fascism,s firm footprint has appeared in India. Let us mark the date spring 2002 [ہندستان میں فسطائیت کا مضبوط نقشِ قدم ظاہر ہو چکا ہے جس کی تاریخ [بھارتی] گجرات میں ۲۰۰۲ء میں ہونے والی مسلمانوں کی نسل کشی سے طے کی جانی چاہیے۔]

اگر ہم دنیا کے مختلف ممالک میں فسطائیت کے عروج کی تاریخ پر نظر ڈالنے کے بعد، ہندستان میں فسطائیت کو پروان چڑھانے کے لیے پورے ماحول کو دیکھیں تو رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ تقریباً چھے سو سالہ مسلمانوں کی حکومت ، ڈیڑھ سو سالہ انگریزی سامراجیت (جسے بھارتی فسطائی طاقتیں ، عیسائی حکومت بنا کر پیش کرتی ہیں )،۱۹۴۷ء میں تقسیم ہند کے دوران نسلی فسادات کا ایک طویل سلسلہ، بھارت اور پاکستان کا ایک نیو کلیر طاقت کی حیثیت سے موجود ہونا اور دونوں ممالک کے درمیان جنگ وجدل اور دشمنی ، ہندستان میں تقریباً ۲۰کروڑ مسلمانوں پر اپنی آبادی میں اضافے (Population explosion) کا الزام، عیسائیوں کی تقریباً ڈھائی کروڑ کی آبادی پر مذہب تبدیل کرانے کا الزام، مسئلہ کشمیر جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے وہاں پر ایک تحریک کا وجود القاعدہ اور داعش، جیسی خوف ناک تنظیموں کا خطرہ اور سب سے بڑھ کر عالمی سطح پر’ اسلام فوبیا‘ کی موجودگی___ یہ ایسے اسباب وعوامل ہیں، جو اس ملک میں فسطائیت کی پرورش کے لیے معاون قرار دیے جارہے ہیں، اور جن کا استعمال ’ہندوتوا‘ پر مبنی جماعتیں اپنے مقاصد وعزائم کی تکمیل کے لیے کر رہی ہیں۔

خطرناک صورتِ حال یہ ہے کہ ہندستان میں نسل پرست فسطائی طاقتوں اور خوش حال اور درمیانی کاروباری گھرانوں میں زبردست تال میل دیکھنے کو مل رہا ہے۔ لہٰذا ، ذرائع ابلاغ جن پر کاروباری گھرانوں کو تقریباً مکمل کنٹرول حاصل ہے، وہ فسطائی نظریات کو عام کرنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ نتیجے کے طور پر پورے ہندستان میں ایک خوف ناک دشمنی کا ماحول پیدا ہورہا ہے۔ ایک خاص قسم کا ’قومی ضمیر ‘ (National Conscience )تیار ہو چکا ہے۔ جس میں اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں اور عیسائیوں پر زیادتیوں کے لیے ایک قسم کی ’عمومی قبولیت‘ (Mass approval ) نظر آتی ہے۔ دادری میں گائے کا گوشت کھانے کے صریحاً جھوٹے الزام میں جس طرح محمد اخلاق کا بے رحمی سے قتل کیا گیا اور ملک کے مختلف حصوں میں مسلمانوںمیں گوشت کا کاروبار کرنے والوں اور مویشی سپلائی کرنے والوں پر جس طرح زیاتیاں کی جا رہی ہیں، وہ اس ہسٹیریائی ماحول کی جانب اشارہ کرتی ہیں۔

دوسری طرف عیسائیوں کے اداروں اور ان کے اہل کاروں پر حملے تیز تر ہو گئے ہیں۔ محروم طبقات، مثلاً دَلت، قبائلی لوگوں اور عورتوں پر بھی فسطائی نظریات کے تحت ظلم وزیادتی میں اضافہ ہورہا ہے۔ ۲۰۱۶ء کے اوائل میں حیدر آباد سینٹرل یونی ورسٹی میں ایک دَلت طالب علم روہیت ویمولا کی خود کشی بھی اس امر کا ثبوت ہے۔ یہ تمام باتیں اشارہ کرتی ہیںکہ ہندستان میں فسطائیت کا خطرہ حقیقی ہے جس کی دستک اور لہر تیز تر ہوتی جا رہی ہے۔

فسطائیت کے عروج کے عوامل:

آئیے جائزہ لیتے ہیں کہ فسطائیت کے عروج کے عوامل بھارت میں کس حد تک موجود ہیں اور فسطائی تحریک کا منطقی انجام کیا ہو سکتا ہے؟ اس حقیقت کو جاننے کے لیے چند اہم نکات پر نظر ضروری ہے، جو درج ذیل ہیں:

پروپیگنڈا فسطائیت کا سب سے بڑا ہتھیار ہوتا ہے۔ لہٰذا فسطائی طاقتوں کو پروپیگنڈا کرنے میں مہارت حاصل کرنی پڑتی ہے۔ ان کے پاس ایسے منظم کارکنان ہونے چاہییں، جو کسی بھی جھوٹ یا ادھوری سچائی کو لوگوں میں سچ بنا کر پیش کریں اور سراسیمگی، خوف وہراس کا ماحول پیدا کریں۔ نازی جرمنی میں وزیر براے پروپیگنڈا جوذف گویبلز (Joseph Goebbls) کہا کرتا تھا: If you repeat a lie often enough, it becomes the truth (اگر تم کسی جھوٹ کو بار بار بولو تو وہ سچ بن جاتا ہے)۔

ہندستان میں راشٹریہ سوامی سیوک سنگھ کے پاس ایسے بے شمار کارکنان موجود ہیں، جو اقلیتوں، محروم طبقات، مسلم دینی اور سوشلسٹ سیکولر جماعتوں ، امن پسند ہندوئوں کے خلاف پروپیگنڈا میں مہارت رکھتے ہیں اور ذرائع ابلاغ میں گہرے اثرونفوذ کے باعث جو پوری طرح چھا چکے ہیں۔ مثال کے طور پر مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ: ’’یہ ملک کی بڑھتی ہوئی آبادی کے مجرم ہیں، کیوں کہ یہ مسلمان ’ہم پانچ ہمارے پچیس ‘ پر یقین رکھتے ہیں‘‘___یہ پروپیگنڈا سراسر جھوٹ پر مبنی ہے مگر اس پر ملک کی ایک بڑی آبادی یقین رکھتی ہے۔ یعنی یہ کہ ایک مسلمان چارشادیاں کرتا ہے اور ایک بیوی سے اس کے گن کر پانچ بچے پیدا ہوتے ہیں، لہٰذا ایک مسلمان مرد کی فیملی ۲۵؍ افراد پر مشتمل ہوتی ہے ۔ کہا یہ جاتا ہے کہ: ’’مسلمانوں کی آبادی اسی طرح بڑھتی رہی تو بہت جلد وہ ہندستان میں اکثریت میں آجائیں گے‘‘۔

حالاں کہ اس پروپیگنڈے کو عام عقلی بنیادوں (common sense ) پر ہی مسترد کیا جاسکتا ہے۔ وہ اس طرح کہ اگر مسلمانوں میں عورتوں اور مردوں کی شرح برابر بھی مان لی جائے تو ایک مرد کو شادی کے لیے ایک عورت اپنی قوم سے مل جائے گی، لیکن بقیہ تین عورتیں دوسری قوموں سے حاصل کرنی پڑیں گی۔ تاہم، مردم شماری بتاتی ہے کہ عورتوں کی تعداد مردوں کے مقابلے میں تشویش ناک حد تک کم ہے۔ ایسی صورت میں دوسری قوموں کے کم از کم ۵۰ فی صد لوگ غیرشادی شدہ رہ جائیں گے۔ افسوس کی بات ہے کہ یہ سامنے کے حقائق بھی ذرائع ابلاغ یا دانش ور پیش نہیں کرتے اور مسلمانوں کو ’لَو جہاد‘ کے الزام میں زیادتیوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور ان کی ’گھر واپسی‘[یعنی دوبارہ ہندو بنانے] کی کوشش کی جاتی ہے۔

بات یہیں پر ختم نہیں ہو جاتی ۔ معروف مؤرخ ڈاکٹر تنیکا سرکار صاحبہ نے مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈا کے اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے، ۲۰۰۲ء میں گجرات نسل کشی کے دوران میں عورتوں اور بچوں پر ہونے والے مظالم کا تجزیہ کیا ہے۔ تنیکا سرکار کے مطابق : ’’مسلمان مردوں میں بھرپور جنسی توانائی اور مسلمان عورتوں کی زرخیزی سے متعلق ایک گہرا افسانوی نوعیت کا جنسی جنون (obsession)پیدا کیا اور پھیلایا گیا ہے، جو مسلمانوں کی آبادی سے متعلق خوف وہراس اور   ردِعمل میں انتقام اور خونخواہی [revenge] کے جذبے کو جنم دیتا ہے ۔ گجرات نسل کشی کے دوران عورتوں پر ہونے والے ایک ہی نوعیت کے وحشیانہ مظالم (pattern of cruelty)کو  پیش کرتے ہوئے تنیکا سرکار کہتی ہیںکہ: ’’فسادات میں انتہاپسند ہندو بلوائیوں کا شکار ہونے والی مظلوم مسلمان عورتوں کے جسم جنسی تشدد کے لامحدود نشانات کی آماج گاہ تھے، جس پر نت نئی قسم کی اذیتوں کے گھائو دیکھے جاسکتے تھے۔ ان عورتوں کے جملہ جنسی اعضا خاص قسم کی وحشت کے ساتھ نشانہ بنائے گئے اور ان کے مولود یا نومولود بچوں نے ان درد ناک اذیتوں کو اپنی مائوں کے ساتھ جھیلا ۔ ان کی مائوں کو ان کے سامنے مارا گیا اور بچوں کو مائوں کے سامنے اذیتوں اور سفاکیوں کا نشانہ بناکر قتل کیا گیا۔

پروفیسر تینکا سرکار کہتی ہیں کہ: ’’اجتماعی تشدد کے تجزیے میں زنا بالجبر کو کسی قوم کی اجتماعی رسوائی اور بے عزتی سمجھا جاتا ہے۔ گجرات پریس نے ۸۰ ہندو عورتوں کے قتل کی یہ ایک من گھڑت کہانی پھیلائی کہ ’سامبر متی ایکسپریس‘ میں قتل سے پہلے ان ہندو عورتوں کی آبروریزی کی گئی۔ یہ ایک ایسا بے معنی پروپیگنڈا تھا، جس نے مسلمان عورتوں کے خلاف ظلم کی شدت کو بڑھاوا دیا ۔ طوفان گزرجانے کے بعد اس کہانی کو خود گجرات پولیس نے بھی سرے سے من گھڑت اور جعلی قرار دیا‘‘۔ (مگر اب اس کا کیا فائدہ تھا؟)

رابرٹ اوپیکسٹن نے لکھا ہے کہ فسطائی طاقتوں کو ایک ’وحشت ناک دشمن‘ (Demonized  Enemy) کی ضرورت ہوتی ہے، جس کے خلاف اپنے کارکنان اور مقلدین کو منظم ہونے کے لیے آمادہ کیا جا سکے۔ لیکن یقینا دشمن کا یہودی ہونا ضروری نہیں ہے۔ ہر کلچر   اپنے اپنے قومی دشمن خود طے کرتا ہے۔ 

پیکسٹن کے مندرجہ بالا تجزیے کی روشنی میں گولوا لکر کے نزدیک ’اندرونی دشمن‘ (مسلمان، عیسائی اور کمیونسٹ ) کا ہوّا کھڑا کرنے کو سمجھا جا سکتا ہے۔ ان دنوں خاص طور پر سوشل میڈیا پہ    خود بھارت کے قومی رہنمائوں گاندھی، نہرو وغیرہ کو ہدف ملامت بنایا جارہا ہے اور اس کے مقابلے میں صبر اور عدل کی بات کرنے والے بھلے لوگوں کو بھارتی اکثریتی عوام کا مخالف بلکہ دشمن بنا کر پیش کیا جارہا ہے، اور یہ سب ایک سوچی سمجھی اسکیم کا حصہ ہے۔

جہاں تک تخیلاتی ’وحشت ناک دشمن‘ کا تعلق ہے، تو مسلمانوں، عیسائیوں اور کمیونسٹوں کے خلاف مسلسل پروپیگنڈا جاری ہے۔ سنگھ پریوار جس میں آر ایس ایس، وشواہندو پریشد، بجرنگ دل ، درگا واہنی، اور اس طرح کی تقریباً ساٹھ جماعتیں شامل ہیں، وہ سب اقلیتوں اور بالخصوص مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف زبر دست پروپیگنڈا میں مصروف ہیں۔ وشوا ہندو پریشد نے احمدآباد اور مضافات میں مسلمانوں کے خلاف معاشی بائیکاٹ کا اشتہار جاری کیا ہے، جو اس طرح کے مضمون پر مشتمل ہے:

وشواہندو پریشد، ستیم شیوم سندرم

جاگو! اٹھو! سوچو!ملک بچائو! مذہب بچائو!

معاشی بائیکاٹ ہی واحد مؤثر ذریعہ ہے۔ ملک دشمن عناصر، ہندوئوں سے کمائی ہوئی دولت کا استعمال ہمیں برباد کرنے کے لیے کرتے ہیں۔ وہ ہتھیار خریدتے ہیں اور ہماری عورتوں اور بچیوں کی عصمتیں لوٹتے ہیں۔ ان کی اقتصادی ریڑھ کی ہڈی توڑنے کا طریقہ ہے، ایک معاشی عدمِ تعاون کی تحریک ۔

آئو عہد کرو:

  1. آج کے بعد میں کسی مسلمان کی دکان سے کچھ نہیں خریدوں گا اور نہ انھیں کچھ بیچوں گا۔
  2. ان ملک دشمن لوگوں کے ہوٹلوں اور گیراجوں کا استعمال نہیں کروں گا۔
  3. اپنی گاڑیاں صرف ہندو گیراجوں میں دوںگا، ایک سوئی سے سونا تک۔
  4. میں مسلمانوں کے ذریعے بنائی ہوئی اشیا نہیں خریدوں گا اور نہ اپنی بنائی ہوئی چیزیں انھیں بیچوں گا۔
  5. ان فلموں کا بائیکاٹ کرو، جن میں مسلمان ہیرو اور ہیروین کام کرتے ہیں۔
  6. مسلمانو ں کے دفاتر میں کام مت کرو اور نہ انھیں اپنے یہاں کام دو۔
  7. اپنے تجارتی مراکز میں نہ انھیں جگہ خریدنے دو اور نہ اپنی رہایشی کالونیوں میں انھیں جگہ دو۔
  8. ووٹ ضرور دو ،لیکن صرف اسے جو ہندو راشٹر کی حفاظت کرے۔
  9. ہوشیار رہو! اسکولوں ، کالجوں اور ملازمت گاہوں پر ہماری بہنیں اور بیٹیاں مسلمانوں کی محبت کے جال سے محفوظ رہیں۔
  10. میں کسی مسلمان استاد سے کوئی تعلیم کبھی نہیں لوں گا۔

اس طرح کا معاشی بائیکاٹ ان عناسر پر عرصۂ حیات تنگ کر دے گا۔ یہ ان کی ریڑھ کی ہڈی توڑ دے گا۔ اس کے بعد ان کے لیے اس ملک کے کسی بھی کونے میں رہنا دشوار ہو جائے گا۔ دوستو! اس معاشی بائیکاٹ کو آج ہی سے شروع کر دو۔ اس کے بعد کوئی مسلمان ہمارے سامنے سر نہیں اُٹھائے گا۔ کیا آپ نے یہ اشتہار پڑھا ہے؟ اس کی دس کاپیاں بنا کر ہمارے بھائیوں میں تقسیم کرو۔ جو لوگ اسے نافذ اور تقسیم نہ کریں ان پر ہنومان جی کا قہر اور رام چندر جی کا عتاب نازل ہو۔

جئے شری شری رام، ایک سچا ہندو وطن پرست 

عیسائی رفاہی اور تعلیمی اداروں کے خلاف یہ تنظیمیں زبردست پروپیگنڈے کا جال بچھاتی ہیں۔ نتیجے کے طور پر عیسائیوں کے ادارے اور ان کے مشنری کارکنان، سنگھ کے نشانے پر رہتے ہیں۔ جن ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت ہے، وہاں عیسائی مشنری کارکنان کو اپنے مشنری کاموں میں کافی پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

۱۹۹۹ ء میں اڑیسہ کے منوہر پور گائوں (ضلع کیونجھر Keonjhar) میں آسٹریلیا کے عیسائی مشنری گراہم اسٹینسن کو، جوکوڑھ کے مریضوں کے درمیان خصوصی طور پر کام کرتے تھے اور جو اڑیسہ کے قبائلی علاقوں میں کافی مقبول تھے، انھیں ان کے دوبچوں کے ساتھ بجرنگ دل کے ورکرز نے داراسنگھ کی قیادت میں زندہ جلا دیا۔ ۲۰۰۸ء میں اڑیسہ کے ہی کندھمال میں عیسائیوں پر اکثریت نواز ہندوئوں نے قہر برپا کیا اور کئی عیسائیوں کو جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔ عیسائی عورتوں کی بے دریغ آبروریزی، چرچوں کو جلانے وغیرہ جیسے روح فرسا مناظر دیکھنے میں آئے۔ 

’مفروضہ اندرونی دشمن‘ کے خلاف پروپیگنڈا کے ذریعے ایک جارحانہ اکثریت پسند قوم پرستی کو پروان چڑھانا اور پھر ایک ایسا معاشرہ پیدا کرنا جس میں ’مفروضہ اندرونی دشمن‘ کے خلاف زیادتیوں اور مظالم کے لیے عوامی تائید (Mass approval )حاصل ہو جائے، فسطائی طاقتوں کا اہم مقصد ہوتا ہے۔

تشویش کی بات یہ ہے کہ ہندستانی معاشرہ ایک خاص قسم کا شعور رکھنے والے گروہ کو بھی جنم دے رہا ہے۔ یہ ایک ایسا گروہ ہے جس کی تعداد شروع میں بہت کم تھی، لیکن آہستہ آہستہ یہ تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ یہ گروہ اقلیتوں پر مظالم کو بڑھاوا دیتا ہے اور ایسے وحشیانہ مظالم ڈھانے والوں کو تحفظ دے کر ان کی حوصلہ افزائی بھی کرتا ہے۔ گجرات نسل کشی ۲۰۰۲ء میں مسلمانوں پر جو زیادتیاں ہوئیں اس کی مثال مہذب دنیامیں بہت کم ملتی ہے۔ مثال کے طور پر وشوا ہندو پریشد کا اشتہار جس پر اس تنظیم کے گجرات کے جنرل سکریٹری چینو بھائی پٹیل کے دستخط ہیں، کھلے عام تقسیم کیا جاتا ہے۔ اس اشتہار میں یہ وعدہ کیا گیا ہے کہ ’’ہم مسلمانوں کی اسی طرح ختم کر دیں گے جس طرح بابری مسجد کو ‘‘۔ اس کے بعد ایک انتہا درجے کی فحش (vulgar)نظم درج ہے۔

’دہشت گردی‘ کا نام لے کر مسلمانوں کی گرفتاریاں، اسلام اور تشدد کو مترادف کے طور پر استعمال کرنا، اور یہ کہنا کہ: ’اگر سارے مسلمان دہشت گرد نہیں ہیں تو سارے دہشت گرد مسلمان ضرور ہیں‘۔ زعفرانی دہشت گردی کو مسلم دہشت گردی کا ردعمل بتانا وغیرہ بھی فسطائی طاقتوں کی سوچی سمجھی اسکیم کا حصہ ہے۔ چوں کہ فسطائی طاقتوں کو ہرلمحے ایک دشمن کی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے اگر کوئی حقیقی دشمن نہیں ہے تو اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے ایک دشمن ایجاد کر لینا ضروری ہے۔ سمجھوتہ ایکسپریس ، مالیگائوں بم دھماکوں، مکہ مسجد اور اجمیر شریف بم دھماکوں میں زعفرانی دہشت گردوں کی شمولیت اور گرفتاریاں ثابت کر چکی ہیں کہ ان تمام بم دھماکوں میں معصوم مسلم نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا تھا، اور ان معصوم نوجوانوں کی گرفتاریوں کے بارے میںملک کی خفیہ ایجنسیاں اور ریاستی پولیس من گھڑت کہانیاں بنا کر ایک پوری قوم کے خلاف شکوک وشبہات پیدا کر رہی تھیں۔

عجیب با ت یہ ہے کہ ناندیر اور کانپور میں بجرنگ دل کے پارٹی دفاتر اور لیڈروں کے گھروں سے خودکار آتشیں اسلحہ جات اور دھماکہ خیز مواد کا ذخیرہ پکڑا گیا۔ وہاں ٹوپیاں اور نقلی داڑھیاں بھی پائی گئیں، لیکن ذرائع ابلاغ نے ا س پر کوئی زیادہ توجہ نہیں دی۔ اگر ہیمنت کرکرے جیسا قابل اور ایمان دار افسر نہ ہوتا تو شاید زعفرانی دہشت گردی بدستور مسلمانوں کے سر ہی منڈھی جاتی رہتی۔

اس سلسلے میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس وقت کے داخلہ سکریڑی جی کے پیلانی نے کہا تھاکہ: ’’زعفرانی دہشت گردی ایک سنگین مسئلہ ہے، لیکن ملک میں اس کا دائرہ محدود ہے‘‘۔وزیر داخلہ پی چدمبرم نے دہلی میں ہونے والی ریاستی پولیس سربراہان ، خفیہ ایجنسیوں وغیرہ کی میٹنگ میں زعفرانی دہشت گردی سے ہوشیار رہنے کی تلقین کی۔ چدمبرم کے بعد وزیر داخلہ کے عہدے پر فائز سنیل کمار شنڈے نے کہا کہ جے پی اور آر ایس ایس اپنے ٹریننگ کیمپوں میں ’ہندو دہشت گردی‘ کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔

فسطائی طاقتیں تعلیمی اداروں اور ذرائع ابلاغ پراپنا مکمل کنٹرول رکھنا چاہتی ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ سماجی علوم اور بطور خاص تاریخ کے نصاب پر زبردست توجہ مرکوز کرتی ہیں۔ ہندستان میں جاری Saffronisation of Education (تعلیم کی زعفرانیت، یعنی ہندو انتہاپسندانہ تعلیم) کا منصوبہ اس لیے بہت ہی اہم ہے۔ نومبر ۲۰۰۱ء میں سینئر لیڈر اور وزیر براے فروغ انسانی وسائل ارجن سنگھ نے راجیہ سبھا میں بی جے پی کی قیادت میں چلنے والی نصابی کتابوں میں تبدیلی کی تحریک کو ’طالبانی تعلیم‘ کہا تھا۔ جس پر بی جے پی نے واویلا کھڑا کیا اور ارجن سنگھ سے الفاظ واپس لینے کو کہا۔ لیکن بھارتی صدر پرنب مکھرجی نے دفاع کرتے ہوئے کہا کہ دوسری طرف (راجیہ سبھا میں ) بیٹھے ہوئے ممبران فسطائی بھی ہیں اور طالبانی بھی۔

ہندستان میں مسلمانوں کی ایک بڑی آبادی اپنی مذہبی اور تہذیبی شناخت کے ساتھ رہتی ہے۔ چوں کہ پاکستان ایک ہمسایہ مسلم ملک ہے، اس لیے فسطائی طاقتوں کو ہندستانی مسلمانوں کا رشتہ پاکستان سے جوڑ کر اکثریت کی نگاہوں میں ملک کے ساتھ ان کی وفاداری مشکوک بنانے میں آسانی ہوتی ہے۔ رہی سہی کسر مسلمانوں کے بعض غیر ذمہ دار لیڈر اور ٹیلی ویژن پر بلائے جانے والے کم عقل دانش ور پوری کر دیتے ہیں۔

فسطائی طاقتوں کو اس دن پوری کامیابی حاصل ہو جاتی ہے، جب وہ اکثریت میں اقلیت کا خوف بٹھا کر اسے خود اقلیت کی طرح سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ یہ تشویش کی بات ہے کہ میڈیا کنٹرول کے ذریعے اور مختلف دوسرے ذرائع ابلاغ کی مدد سے سنگھ پر یوار نے ہندو اکثریت کے ایک بڑے طبقے کو اس حد تک متاثر کر دیا ہے کہ وہ اقلیتوں کی طرح سوچنے لگے ہیںاور انھیں مسلمانوں اور عیسائوں سے اس ملک میں ’ہندومت کو خطرہ ‘ درپیش لگنے لگا ہے۔ زیادہ افسوس اس بات پر ہے کہ اس پروپیگنڈ ا سے صرف عام لوگ متاثر نہیں ہیں بلکہ نیوز روم میں بیٹھے ہوئے افراد ، یونی ورسٹیوں اور کالجوں میں پڑھانے والے اساتذہ اور سرکاری افسران ، عدالتوں میں بیٹھے جج اور وزراے حکومت، بہت سارے لوگ اس منفی نظریے پر یقین کرنے لگے ہیں۔ تاہم، اس پروپیگنڈا کو چیلنج کرنے والے لوگ بھی مختلف اداروں اور معاشرے میں موجود ہیں۔

ان تمام باتوں کی روشنی میں یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ ہندستان میں فسطائیت نے دستک دے دی ہے۔ ۲۰۱۴ء کے پارلیمانی انتخابات میں مدمقابل جماعتوں کی شکست اور ووٹوں کا انتشار ایک تشویش ناک صورتِ حال سامنے لایا۔ حکومت میں ایسے افراد کا شامل ہونا جن کے اوپر نسل پرستی اور اقلیتوں کے قتلِ عام کا الزام ہے، وزراے حکومت کے بیانات جو خوف ناک حد تک غیرذمہ دارانہ ہیں۔ مسلم مکُت ’بھارت ‘کی تحریک کا اعلان کرنا اور عدالتی فعالیت کا خاموش رہنا، گئورکھشا آندولن کے نعروں کے جلو میں بے گناہ مسلمانوں کو قتل کرنا، سیاسی سطح پر حزبِ اختلاف کا کمزور ہونا لمحۂ فکریہ ہے اور ساتھ ہی ساتھ خطرے کی گھنٹی بھی۔ اس لیے ضروری ہے کہ جرمنی اور اٹلی میں فسطائی طاقتوں کے عروج کا تاریخی شعور رکھتے ہوئے اور ان ممالک کے انجام کو دیکھتے ہوئے بھارت کے دانش ور اور لیڈرحضرات، عوام کو فسطائی طاقتوں کی بڑھتی ہوئی طاقت سے آگاہ کر کے ہوشیار اور بیدار کریں۔

ان تمام باتوں کے باوجود اُمید کی کرن نظر آتی ہے۔ ہندستان کا معاشرہ ایک تکثیری معاشرے کی تاریخ رکھتا ہے۔ جہاں مختلف مذاہب ، زبان، ثقافت اور ذاتوںکے لوگ رہتے چلے آئے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ ہندو اکثریت میں ایک بہت بڑا طبقہ قتل اور خون کی سیاست کی نہ صرف مذمت کرتا ہے بلکہ اس کا مقابلہ بھی کرتا ہے۔ اعزازات کی واپسی کی تحریک اس بات کا ثبوت ہے ۔ پھر دلتوں، آدی واسیوں، پس ماندہ طبقات، جیسی سماجی تحریکیں فسطائی طاقتوں کو قدم قدم پر روکتی رہتی ہیں۔ عدالت عالیہ اور عدالت عظمیٰ نے بھی حفاظتی اقدامات کے لیے کئی صورتوں میں اہم کردار اداکیا ہے۔ اس لیے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ ہندستان میں فسطائی طاقتیں بہت آسانی سے ملک اور سماج پر پوری طرح حاوی نہیں ہو سکتیں۔ دوسری جانب اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں اور عیسائیوں کو ان طاقتوں کے عروج کی بڑی بھاری قیمت چکانی پڑسکتی ہے۔ لیکن اگر اقلیتیں دوسرے محروم طبقات، مثلاً دَلت، پس ماندہ، اور قبائل کے ساتھ مل کر پُرامن مگر منظم جدوجہد کریں، تو فسطائیت کے اس طوفان کو روک سکتی ہیں۔ (مکمل)

جس وقت بھارت کے دورے پر آئے ایرانی صدر ڈاکٹر حسن روحانی جنوبی ہند کے شہر حیدرآباد کی تاریخی ’مکہ مسجد‘ میں نماز جمعہ ادا کررہے تھے، اسی روز بہار کے سرحدی شہر ساپول کے باسی اور مسجد نبویؐ کے امام شیخ حامد بن اکرم بخاری بھی مسلمانوں کے ایک جمِ غفیر سے خطاب کر رہے تھے۔ دونوں حضرات کے خطبات کا متن تقریباً ایک جیسا تھا۔ جہاں ایرانی صدر نے: ’’کلمۂ توحید کے پرچم تلے عالمِ اسلام سے متحد ہونے کی اپیل کی‘‘ تو دوسری طرف امامِ حرم نے اسلامی دنیا کے انتشار کا ذکر کرتے ہوئے کہا: ’’اس کا واحد حل اتحاد بین المسلمین ہے‘‘۔ دونوں نے اسلام کو دہشت گردی سے جوڑنے کی کوششوں کی مذمت کی اور بجاطور پر اسلام کو امن کا پیغامبر بتایا۔

ایرانی صدر اور ان کے وفد نے حیدر آباد میں ایک سُنی امام کی اقتدا میں نماز ادا کرکے مسلم دُنیا کو نہایت ہی مثبت پیغام دیا۔ اب اگر ان دونوں رہنمائوں کا بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کے لیے اتحاد کا ایک جیسا پیغام تھا، تو کیا ہی اچھا ہوتا کہ یہ دونوں ممالک خود اس کی عملی تصویر پیش کرکے عالمِ اسلام کو ابتلاو آزمایش سے باہر نکلنے میں مدد فراہم کرتے۔ آج عالمِ اسلام کے بیش تر زخم ایران اور سعود ی عرب کی چپقلش کی دین ہیں۔ دو عشرے پیش تر تک مختلف معاملات، مثلاً افغانستان، فلسطین اور کشمیر کے تئیں مذکورہ دونوں ممالک کا موقف یکساں ہوتاتھا۔ کشمیر کے سلسلے میں ویسے تو سعودی حکومت پس پردہ ہی رول ادا کرتی تھی، مگر ایران کا پاکستان کی ہی طرز پر خاصا فعال کردار ہوتا تھا۔

مجھے یاد ہے کہ ۱۹۸۲ء میں سری نگر کی جامع مسجد میں ایران کے موجودہ سپریم رہنما آیت اللہ خامنہ ای کا والہانہ استقبال کیا گیا تھا۔ ان کا خطبہ سننے کے لیے عوام کا ازدحام اُمنڈ آیا تھا۔ پھر ۱۹۹۱ء میں جب بھارت کے وزیر خارجہ اندر کمار گجرال تہران کے لیے اڑان بھرنے کی تیاری کر رہے تھے، کہ ایران نے ان کی میزبانی کرنے سے معذوری ظاہر کر دی۔ وجہ تھی کہ سری نگر میں سیکورٹی دستوں نے اس دن کشمیر کے کئی افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔ تاہم، خطے کے بدلتے حالات، بین الاقوامی رسہ کشی ، افغانستان کے منظرنامے ، پابندیوں اور پھر اپنی معیشت نے شاید ایران کو مجبور کیا کہ بھارت کے ساتھ اپنے رشتوں کا ازسر نو جائزہ لے۔

مارچ ۱۹۹۴ء میں کشمیر کے حوالے سے ایران نے اچانک پوزیشن تبدیل کی۔ ہوا یہ کہ جموں وکشمیر میں حقوقِ انسانی کی ابتر صورتِ حال کے حوالے سے ’اسلامی تعاون تنظیم‘ نے اقوامِ متحدہ کے حقوق انسانی کمیشن میں ایک قرارداد پیش کرنے کا فیصلہ کیا تھا، جس میں کشمیر میں حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے بھارت کی زبردست سرزنش اور اس کے خلاف اقدامات کی سفارش کی گئی تھی۔ منظوری کی صورت میں یہ قرارداد براہِ راست اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے سپرد کردی جاتی، جہاں بھارت کے خلاف اقتصادی پابندیاںعائد کرنے کے قواعد تقریباً تیار تھے۔  اسی دوران کوہِ البرزکے دامن میں واقع تہران ایئر پورٹ پر شدید سردی میں بھارتی فضائیہ کے ایک خصوصی طیارے نے برف سے ڈھکے رن وے پر لینڈنگ کی۔ یہ طیارہ اس وقت کے وزیرخارجہ دنیش سنگھ اور تین دیگر مسافروںکو انتہائی خفیہ مشن پر لے کر آیا تھا۔ دنیش سنگھ ان دنوں دہلی کے ہسپتال میں زیر علاج تھے اور بڑی مشکل سے چل پھر سکتے تھے۔ وہ اسٹریچر پر ایرانی صدر علی اکبر ہاشمی رفسنجانی کے نام بھارتی وزیراعظم پی وی نرسیما رائو کا اہم مکتوب لے کر آئے تھے، اور ذاتی طور پر ان کے حوالے کرنا چاہتے تھے۔ سوء اتفاق کہ وزیرخارجہ ' دنیش سنگھ کا یہ آخری سفارتی دورہ ثابت ہوا کیوںکہ اس کے بعد وہ دنیا سے کوچ کرگئے۔

اس وقت بین الاقوامی برادری میں بھارت کی پوزیشن مستحکم نہیں تھی اور اقتصادی صورتِ حال انتہائی خستہ تھی، حتیٰ کہ سرکاری خزانہ بھرنے کے لیے حکومت نے اپنا سارا سونا بیرونی ملکوں میںگروی رکھ دیا تھا۔ ادھر سوویت یونین کے منتشر ہو جانے سے اس کا یہ دیرینہ دوست بھی اپنے زخم چاٹ رہا تھا۔ وزیر اعظم نرسیما رائو نے بڑی ہوشیاری اور دُوراندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایران کو آمادہ کرلیا کہ وہ او آئی سی میں مذکورہ قرارداد کی منظوری کے وقت غیر حاضر رہے۔ نرسیما رائو کا خیال تھا کہ ایران کے غیر حاضر رہنے کی صورت میں یہ قرارداد خود بخود ناکام ہوجائے گی، کیوںکہ ’اسلامی تعاون تنظیم‘ دوسرے کئی بین الاقوامی اداروںکی طرح ووٹنگ کے بجاے اتفاق راے سے فیصلے کرتی ہے۔ جس وقت بھارتی فضائیہ کا خصوصی طیارہ ایرانی ہوائی اڈے پر اُتر رہا تھا، ایرانی حکام کو ذرا سا بھی اندازہ نہیں تھا کہ بھارتی وزیر خارجہ اچانک تہران میںکیوں نازل ہورہے ہیں؟ ایرانی حکام اتنے حیرت زدہ تھے کہ وزیر خارجہ علی اکبر ولایتی پروٹوکول کو بالاے طاق رکھتے ہوئے خود ہوائی اڈے پر پہنچے اور جب راجا دنیش سنگھ کو صبح سویرے سردی سے ٹھٹھرتے وہیل چیئر اور ڈاکٹروں کے ہمراہ ہوائی جہاز سے برآمد ہوتے دیکھا تو ان سے پہلا سوال ہی یہ کیا کہ: ’’آخر اس وقت اور اتنے ہنگامی طریقے سے اپنی جان جوکھم میں ڈالنے کی کیا ضرورت آن پڑی؟‘‘ دنیش سنگھ نے صدر ہاشمی رفسنجانی اور ایرانی پارلیمنٹ کے اسپیکر ناطق نوری سے ملاقات کی اور اسی دن شام کو دہلی کے اسپتال میں اپنے بیڈ پر دوبارہ دراز دکھائی دیے۔

بتایا جاتا ہے کہ اس مہم کو خفیہ رکھنے کے لیے ان کی واپسی تک ان کے بیڈ پر انھی کی قدوقامت کے شخص کو لٹایا گیا تھا۔ بہرحال دنیش سنگھ کا مشن کامیاب رہا۔ اس پورے معاملے میں ایران کوکیا ملا؟ یہ ابھی تک ایک راز ہے۔ کہتے ہیں کہ اگر پاکستان کو اس واقعے کی بھنک پڑ جاتی تو معاملہ کچھ اور ہوتا۔ ادھر ایرانی دبے لفظوں میںکہتے ہیں کہ بھارت نے مسئلہ کشمیر حل کرنے کے سلسلے میں ان سے ایک وعدہ کیا تھا، جس پر انھوں نے یقین کرلیا ۔ بھارت نے ایران سے درخواست کی تھی کہ:’’اگر وہ مغربی ممالک کی مداخلت روکنے میں اس کی مدد کرتا ہے تو وہ پاکستان اور کشمیری رہنمائوں کے ساتھ بات چیت شروع کرکے اس مسئلے کو حل کرنے کا خواہاں ہے‘‘۔ یہ سچ ہے کہ نرسیما راؤ نے اس کے بعد کچھ تگ و دو کی۔

ایک سال بعد برکینا فاسو میں ناوابستہ ممالک کی سربراہ کانفرنس کے دوران نرسیما رائو نے اعلان کیا کہ: ’’کشمیر کے سلسلے میں بھارت آسمان کی وسعتوں جتنی رعایتیں دینے کے لیے تیار ہے‘‘۔ دنیش سنگھ کی واپسی کے بعد ۷۲گھنٹے بھارت کے لیے کافی تذبذب بھرے تھے، تاہم ایران نے اپنا وعدہ ایفا کرتے ہوئے کشمیر سے متعلق او آئی سی کی قرارداد کو بڑی حکمت عملی سے عملاً ’ویٹو‘کردیا۔

چوںکہ سبھی نگاہیں اس وقت جنیوا پر ٹکی ہوئی تھیں، اس لیے کسی کو اتنی فرصت نہیں تھی کہ یہ جان سکتا کہ تہران میںکیا لاوا پک رہا تھا۔ مجھے یاد ہے، نئی دہلی میں اس وقت کے پاکستانی ہائی کمشنر ریاض کھوکھر خاصے تنائو بھرے ماحول میں کشمیری لیڈروں سید علی گیلانی اور عبدالغنی لون کو بتا رہے تھے کہ: ’’ایران اس انتہائی اہم قرارداد کی حمایت سے ہاتھ کھینچ رہا ہے؛ حالاںکہ صرف ایک ہفتہ قبل نئی دہلی میں ایرانی سفیر نے دونوں کشمیر ی رہنمائوںکی اپنی رہایش گاہ پہ پُرتکلف دعوت کی تھی اور انھیں باورکرایا تھا کہ مظلوم مسلمانوں کی حمایت کرنا ایران کی خارجہ پالیسی کا اہم جز ہے۔

قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ جنیوا میں منعقدہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کے اجلاس میں شرکت کے لیے بھارتی وفد کی قیادت اس وقت کے اپوزیشن لیڈر اٹل بہاری واجپائی نے کی تھی اور ان کے ساتھ مرکزی وزیر سلمان خورشید اور نیشنل کانفرنس کے صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ موجود تھے۔ اس وفد کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ۷۲گھنٹے قبل وزیر خارجہ دنیش سنگھ ایک ایسا ’کارنامہ‘ انجام دے چکے ہیں، جس کے دُور رس اثرات مرتب ہونے والے تھے۔ بعدکے حالات و واقعات نے اسے درست ثابت کیا۔ واجپائی اور ڈاکٹر فاروق عبداللہ اب تک اس کامیابی کا سہرا اپنے سر باندھتے پھرتے ہیں اور نرسیما رائو نے بھی مرتے دم تک ان سے یہ سہرا واپس لینے کی کوشش نہیں کی۔ یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ اس واقعے کے بعد سے پاکستان نے کشمیر کا معاملہ اقوام متحدہ میں زیربحث لانے کی ہمت نہیںکی۔بعد میں ایران اور پاکستان کے تعلقات کشیدہ ہوتے چلے گئے، حتیٰ کہ افغانستان کے سلسلے میں دونوں نے متضاد موقف اختیار کیا۔ ایران نے بھارت کے ساتھ مل کر افغانستان کے’شمالی اتحاد‘ کو تقویت پہنچائی، جو پاکستانی مفادات کے بالکل خلاف تھا۔ پاکستان کو اس رویے سے زبردست صدمہ پہنچا، جسے اس نے پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف قرار دیا۔

 شاید تاریخ پھر پلٹ رہی ہے۔ حالات و واقعات نے مسلم دنیا کی کمان ایران اور ترکی کی دہلیز تک پہنچا دی ہے۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ دو گھنٹے کی بات چیت میں جہاں دونوں لیڈروں نے عالمی اور علاقائی امور پر بتادلہ خیال کیا، ذرائع کے مطابق ایرانی صدر نے باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ ’’قضیۂ کشمیر کو سلجھانے سے خطے کے مسائل کا بڑی حد تک ازالہ ہوسکتا ہے‘‘۔ خاص طور پر ایرانی وفد کے اصرار پر مشترکہ بیان میں دہشت گردی اور انتہاپسندی کے نظریات سے نمٹنے سے متعلق پیراگراف میں یہ اضافہ کیا گیا ، کہ: ’’اس (دہشت گردی اور انتہا پسندی) کی جڑوں کو ختم کرنے کے لیے اس کی وجوہ اور ان عوامل کو بھی ختم کرنا ضروری ہے، جو اس کی تقویت اور وجہ کا باعث بنتے ہیں‘‘۔ ایرانی صدر نے پریس بیان میں: ’’علاقائی تنازعات کو سفارتی اور سیاسی کاوشوں سے حل کرنے پر زور دیا‘‘۔ ایرانی ذرائع کے مطابق ان کا اشارہ بھارت- پاکستان مذاکرات کی بحالی اور کشمیر کی طرف تھا۔

بھارت کے لیے اس وقت ایرانی بندر گاہ چاہ بہار کو خاصی اہمیت حاصل ہے۔چند ہفتے قبل بھارتی بجٹ میں اس پر ۱۵۰کروڑ روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔ گو کہ پچھلے سال بھی اتنی ہی رقم مختص کی گئی تھی، مگر معاہدے اور ٹھیکوں کی تقسیم وغیرہ جیسے معاملات کو طے کرنے میں تاخیر کی وجہ سے صرف ۱۰لاکھ روپے ہی خرچ کیے جاسکے۔ نریندرا مودی نے چاہِ بہار سے زاہدان تک ۶ء۱ارب ڈالر لاگت کی ریلوے لائن بچھانے پر بھی آمادگی ظاہر کی ہے۔ چاہِ بہار، بھارت کی طرف سے اپنے آپ کو ایک بین الاقوامی قوت کے طور پر منوانے کی کوشش کا بھی ہدف ہے۔ دوسرے قدم کے طور پر بھارت اس بندر گاہ کو ۷۲۰۰کلومیٹر طویل ’انٹرنیشنل نارتھ، ساؤتھ ٹرانسپورٹ کوریڈور‘ کے ساتھ جوڑ کر آرمینیا، آذربائیجان، روس اور یورپ تک رسائی حاصل کرکے اس کو چین کے ’ون بیلٹ ون روڈ‘ کے مقابلے میں کھڑا کرنے کا خواب دیکھ رہا ہے۔

بھارت دنیا کی تیزرفتار ترقی پذیر معیشت ہی سہی، مگر اس کے سامنے دنیا سے ربط سازی (connectivity) ہمیشہ ہی سردردی کا ایشو رہا ہے۔اس نے پڑوسی ممالک نیپال سے لے کر سری لنکا ، مالدیپ اور پاکستان تک کو ایک خوف میں مبتلا کرنے کی کوشش کی ہے، مگر بھوٹان جیسے چھوٹے سے ملک کی پارلیمنٹ نے حا ل ہی میںمودی کے پراجیکٹ بھوٹان، بنگلادیش، بھارت اور نیپال (بی بی آئی این) کوریڈور کو منظور کرنے سے منع کردیاہے۔

اس پس منظر میں ایران کے لیے یہ موقع ہے، کہ بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات اور اثر و رسوخ کو بروے کار لا کر نئی دہلی کو اپنے ۱۹۹۴ء کے وعدوں کی یاد دہانی کرائے۔ اگر یہ وعدہ ایفا ہوتا ہے تو اس خطے میں امن اور خوش حالی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوگا، جس میں بھارت، پاکستان، افغانستان اور ایران اسٹیک ہولڈرز ہوں گے۔

جھوٹ، مکروفریب اور نفرت و عداوت پر مبنی جارحانہ اکثریتی قوم پرستی کی آڑ میں سیاسی اقتدارپر قابض ہونے والے نظریے کو ’فسطائیت‘ (Fascism)کہتے ہیں ۔ تاریخی حقائق کو    توڑ مروڑ کر پیش کرکے ایک خاص قسم کا تاریخی و تہذیبی شعور پیدا کرنا، مفروضہ اور اندرونی و بیرونی خطرات کے تعلق سے خوف و ہراس کی نفسیات پیدا کر کے اکثریت کے جذبات کو برانگیختہ کرنا،  اعلیٰ اخلاقی و جمہوری اقدار کے تئیں نفرت و بے گانگی کا اظہار کرنا، اور خصوصی طور پر اقلیتوں کے خلاف شکوک و شبہات پیدا کرنا فسطائی نظریے کی اہم خصوصیات ہیں۔

یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ فسطائیت کا مقصد صرف سیاسی اقتدار پر قبضہ کرنا نہیں ہوتا، بلکہ سیاسی طاقت کا استعمال بڑے اہم اغراض و مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ دراصل فسطائی طاقتیں سیاسی اقتدار کے ذریعے مملکت اور معاشرت پر پوری طرح قابض ہوکر مملکت کی تمام طاقت (پولیس، فوج، خفیہ ایجنسیاں، مقنّنہ، انتظامیہ، عدلیہ وغیرہ) کا استعمال اندرونی اور بیرونی مفروضہ یا حقیقی دشمنی کے خلاف کرتی ہیں۔ لہٰذا قتلِ عام (genocide)، نسل کشی (brutal war) اور جنگ و جدل (ethnic cleansing) فی الحقیقت فسطائیت کی روح اور بنیاد میں شامل ہیں۔

۲۰ویں صدی میں فسطائیت کی خوف ناک شکل جرمنی (۱۹۳۷ء-۱۹۴۵ء) اور اٹلی (۱۹۲۲ء-۱۹۴۳ء) میں دیکھنے کو ملی، جو بالآخر دوسری جنگ ِ عظیم (۱۹۳۹ء-۱۹۴۵ء)کا سبب بنی۔ لیکن یہ سمجھنا غلط ہوگا کہ فسطائیت مذکورہ دو ممالک ہی میں محدود رہی ہے اور دوسری جنگ ِ عظیم کے بعد اس نظریے کا خاتمہ ہوگیا۔ ایسا نہیں ہوا بلکہ فسطائیت اپنی مختلف گھنائونی اور بدترین شکلوں میں دنیا کے کئی اور ممالک میں بھی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ آبادی کے اعتبار سے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریہ بھارت میں اس کی دستک روز بروز تیز تر ہوتی جارہی ہے۔

فسطائیت، جمہوریت کی سیڑھی سے، یا استحصال کرکے بیلٹ بکسوں کے راستے، یا پھر مسلح طاقت کے استعمال کے ذریعے اقتدار پر قابض ہوتی ہے۔ لہٰذا، جمہوریت کو فسطائیت کے سیلاب کے سامنے بند باندھنے کا وسیلہ سمجھ بیٹھنا خام خیالی ہوگی۔ دراصل جمہوریت کا استحصال کر کے اکثریتی قوم پرستی کے نقاب میں چھپ کر آنے والی فسطائیت زیادہ بااثر ، زیادہ طاقت ور اور زیادہ خوف ناک ہوتی ہے،{جیساکہ جرمنی کے تجربے سے ثابت ہوچکا ہے۔

ہندو فسطائیت کی آمد: تاریخی پس منظر

۲۰ویں صدی کے آغاز سے ہی بھارت میں ’اکثریت پسند قوم پرستی‘ کی بنیاد ڈالنے کی کوشش شروع ہوگئی تھی، اور ’بھارتی قوم پرستی‘ کو ’ہندو قوم پرستی‘ کا لبادہ پہنانے کی سعی ہونے لگی تھی۔ ۱۹۱۴ء-۱۹۱۵ء میں ’ہندو مہاسبھا‘ کا قیام اور ۱۹۲۵ء میں آر ایس ایس (راشٹریہ سوامی سیوک سنگھ) کی بنیاد دراصل اس کوشش کا نتیجہ ہے۔

یوں تو جرمن نسل پرست ہٹلر اور اطالوی نسل پرست مسولینی کی حکمرانی کے زمانے سے ہی بھارت کی اکثریت پسند تنظیموں نے فسطائی نظریات سے خود کو ہم آہنگ کرنے کی کوششیں تیز کر دی تھیں اور فسطائیت کے علَم برداروں سے براہِ راست تعلق پیدا کرنے کی سعی بھی کی، جس کی تفصیل اطالوی دانش ور مارزیا کیسولاری (Marzia Casolari) کی عالمانہ تحقیق The Fascist Heritage and Foreign Connections of RSS Archival Evidence میں درج ہے۔ لیکن عالمی سطح پر فسطائیت کی شکست ِ فاش اور قومی سطح پر کانگریس کی قیادت میں جاری تحریک ِآزادی نے ’ہندوتوا‘ پر مبنی جارحانہ قوم پرستی کو ناقابلِ قبول بنا دیا تھا۔ فسطائیت کی بنیاد ہیرو پرستی (Hero Worship) پر بھی ہوتی ہے۔ اتفاق سے آزادی کے وقت بھارت کے قومی سیاسی دھارے میں اعتدال پسند لیڈروں کی مؤثر تعداد موجود تھی۔ ان لیڈروں کے مقابلے میں     قومی سیاسی دھارے میں ’ہندوتوا‘ کے علَم برداروں کے پاس کوئی ایسا لیڈر موجود نہیں تھا جو ہیرو کے طور پر عوام میں مقبولیت حاصل کرپاتا۔ اس لیے ہندو مہاسبھا اور اس کی معاون تنظیمیں انڈین نیشنل کانگریس [تاسیس: ۲۸دسمبر ۱۸۸۵ء]سے سیاسی انتخابات میں پے درپے شکست کھاتی رہیں۔

فسطائیت کی سب سے بڑی طاقت جارحانہ اور اکثریت پسند قوم پرستی ہوتی ہے۔ چوں کہ قوم پرستی کے لبادے میں احیاپرستی کو چھپا کر فسطائیت ایک عرصے تک لوگوں کو مغالطے میں رکھنے میں کامیاب رہتی ہے، اس لیے ضروری ہے کہ تاریخ کے گہرے مطالعے کی روشنی میں ہندستان میں فسطائی تحریک اور اس کے معاون کلچر کو سمجھا جائے۔ بعض اوقات فسطائیت ابتدا میں ہی اپنی  شدت پسندی کی وجہ سے بے نقاب ہوجاتی ہے۔ مثال کے طور پر ۳۰جنوری ۱۹۴۸ء کو گاندھی جی کے قتل نے بھارت میں ’ہندوتوا‘ پر مبنی جارحانہ قوم پرستی کے نظریے کو پوری طرح بے نقاب کر دیا تھا، جس کی وجہ سے ’ہندو فسطائیت‘ یہاں کمزور ہوگئی تھی۔ شاید یہی وجہ تھی کہ اس وقت کی سیاسی قیادت نے اسے ملک کے لیے زیادہ بڑا خطرہ نہیں سمجھا اور اس خطرناک نظریے کو ملک میں دوبارہ قدم جمانے کا موقع مل گیا۔

بھارت میں فسطائیت کے خطرے سے متعلق سیاسی مبصرین اور اہلِ نقد و نظر نے حکومت اور عوام کو مسلسل ہوشیار کرنے کی کوشش کی اور اس کے خوف ناک نتائج سے آگاہ بھی کیا۔ چیتنیا کرشنا نے اپنی مرتب کردہ کتاب Fascism in India: Faces, Fangs and Facts  میں یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ بھارت کو فسطائیت کا حقیقی خطرہ لاحق ہے۔ چیتنیا کرشنا نے یہ تسلیم کیا ہے کہ بھارت میں فسطائیت اپنی آمد کا اعلان کرچکی ہے۔{ معروف ادبی تخلیق کار اور سماجی کارکن ارُون دھتی راے [پ: ۲۴ نومبر ۱۹۶۱ء]نے گجرات میں فروری، مارچ ۲۰۰۲ء میں ہونے والی مسلمانوں کی نسل کشی کے بعد ملک میں فسطائیت کے جمتے ہوئے قدموں کو خطرناک قرار دیا ہے۔ بھارت کے مشہور سیاسی تجزیہ کار اور مفکر رجنی کوتھاری [م:۱۹ جنوری ۲۰۱۵ء] نے گجرات نسل کشی ۲۰۰۲ء کے بعد ’ہندوتوا‘ کے بڑھتے ہوئے اثرات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔{  اور ’ہندوتوا‘ کو ہندستانی تہذیب کے لیے سب سے بڑا خطرہ بتایا ہے۔ نوبل انعام یافتہ دانش ور اور ماہر معاشیات امرتیاکار سین [پ:۳نومبر ۱۹۳۳ء] نے بھی بارہا ’ہندو توا‘ پر مبنی ثقافتی قوم پرستی کو ملک کے لیے تباہ کن بتایا ہے۔

۲۰۱۴ء کے پارلیمانی انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)کی زبردست کامیابی کے بعد وزارتِ عظمیٰ کی کرسی پر نریندرا مودی کا فائز ہونا دانش وروں کو خدشات میں مبتلا کرچکا ہے۔  اس کی وجہ سے دانش وروں کا ایک بڑا طبقہ ملکی سیاست اور معاشرت کو ایک خاص سمت میں جاتا ہوا محسوس کر رہا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ملک میں رُونما ہونے والے واقعات دانش وروں کے خدشات کو صحیح ثابت کر رہے ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی کامیابی کے بعد جس طرح ’ہندو توا‘ پر مبنی جارح قوم پرستی ایک سماجی طاقت بن کر اُبھر رہی ہے اور زبردست جذباتی لاوا (lava) پیدا کررہی ہے، وہ   آنے والے دنوں میں ایک ہولناک شکل اختیار کرسکتی ہے۔

’لوّجہاد‘ ، ’گھرواپسی‘،’گئورکھشا آندولن‘، ’بھارت ماتا کی جے‘ ،’سوریہ نمسکار‘ ،’یوگا‘،   کیرانہ سے ہندوئوں کی نقل مکانی، کشمیر میں پنڈتوں اور فوجیوں کے لیے علیحدہ کالونی، آسام اور شمال مشرقی ریاستوں میں بنگلہ دیشی دَراندازی کا مسئلہ کھڑا کرنا، تاریخی حقائق کو ایک خاص انداز سے پیش کرنا، علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اقلیتی کردار کو مشکوک اور متنازع بنانا، وغیرہ تمام واقعات ایک خاص قسم کا سماجی شعور پیدا کرنے کی کوشش کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔ لیکن ان تمام واقعات کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے بھارت میں فسطائیت کی تاریخ اور اس کی نظریاتی اساس کو سمجھنا ہوگا۔

ہندو فسطائیت کی نظریاتی اساس

بیسویں صدی کے اوائل میں بھارت میں دو رجحانات اور نظریات پروان چڑھتے نظر آتے ہیں۔ ایک طرف متحدہ طور پر تحریک ِ آزادی تھی اور دوسری جانب فرقہ وارانہ اور متعصب قوم پرستی کا آغاز ہوا ہے۔ ۱۸۵۷ء کی شورش کے بعد ہی برطانوی حکومت کی ’تقسیم اور حکومت کرو‘ کی پالیسی کے نتیجے میں ’ہندو فرقہ واریت‘ کی ابتدا ہوگئی تھی۔ مغلیہ دورِحکومت میں رائج فارسی اور اُردو زبان کےخلاف باضابطہ تحریکیں شروع ہوگئیں۔ انگریزی حکومت کو عرضداشتیں دی جانے لگی تھیں کہ: ’ہندی کو سرکاری کام کاج کی زبان بنایا جائے‘۔

ہندو نسل پرستی کو تقویت بخشنے کے لیے ۱۰؍اپریل ۱۸۷۵ء کو ’آریہ سماج‘ کا قیام بھی عمل میں آیا، جس کے تحت ’شدھی تحریک‘ چلائی گئی اور بہت سارے علاقوں میں مسلمانوں اور عیسائیوں کو ہندو بنانے کی کوشش کی گئی۔ دراصل ’آریہ سماج‘ نے یہ نظریہ پھیلانا شروع کیا کہ: ’’مسلم حکمرانوں کے زیراثر اور عیسائی مشنریوں کے بہکاوے میں آکر بہت سارے ہندو مسلمان یا عیسائی ہوگئے ہیں، اس لیے انھیں دوبارہ ہندو بناکر ’شدھ‘ یا پاک کیا جانا ضروری ہے‘‘۔ یہاں پر یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ یہی وہ حالات تھے جن کے تحت بانی علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سرسیّداحمد خان [م:۱۸۹۸ء] کے افکار و خیالات میں ہندستان کی مشترکہ تہذیب کے حوالے سے زبردست تبدیلی آئی اور انھوں نے اُردو، فارسی کی بقا و تحفظ کی تحریک چلائی۔ ساتھ ہی ساتھ مسلمانوں کی سیاسی نمایندگی کی بھرپور وکالت کی۔ سیاسی مبصرین اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ ۳۰دسمبر۱۹۰۶ء کو ڈھاکہ میں آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام بھی انھی مخصوص حالات اور مسلم تشخص کے بقا کی وجہ سے ہوا۔ ازاں بعد مسلم لیگ کی سیاست کو حوالہ بناکر ہندواحیا پرستی کی تحریک نے پیش رفت میں سہولت محسوس کی۔

بھارت میں فسطائیت کی نظریاتی بنیاد رکھنے والوں میں ونایک دامو ورساورکر  ڈاکٹر کیشوبلی رام ہیڈگیوار مادھو سدا شیو گولوالکر  کے نام قابلِ ذکر ہیں۔ جیساکہ بتایا گیا ہے ساورکر نے اپنی کتاب Hindutva: Who is Hindu? میں ’ہندوتوا‘ کے نظریے کو سب سے پہلے مربوط طریقے سے پیش کیا تھا۔ ساورکر نے بھارت کو ہندوئوں کا ملک بتایا اور اس بات پر زور دیا کہ: ’’یہ ہندوئوں کی ’پوترا بھومی‘ اور ’پونیا بھومی‘ دونوں ہے ،کیوں کہ ہندوئوں کو ہی اس ملک کی تہذیب وراثت میں ملی ہے۔ وہ ہندستان کی تہذیب کے وارث اور محافظ ہیں ۔ ان کے ہیرو، ان کی تاریخ ، ان کا ادب، آرٹ اوررسم و رواج، سب اس تہذیب کی ترجمانی کرتے ہیں‘‘۔

ساورکر کے نزدیک: ’’مسلمانوں اور عیسائیوں کو بھی اس ملک میں مشترک ’پدریت‘ (fatherhood ) میں حصے داری ملی، لیکن چوں کہ ان کے مقاماتِ مقدسہ، ان کے ہیرو اور ثقافت کا تعلق یہاں سے نہیں ہے، لہٰذا انھیں اس مشترک تہذیب میں حصے داری نہیں مل سکتی، جس پر صرف اور صرف ہندوئوں کا حق ہے‘‘۔ اس طرح سے ساورکر نے بھارتی قوم پرستی کی بنیاد ’ہندوتوا‘ پر ڈالی اور باقی قوموں کو اس قوم پرستی سے اس بنیاد پر علیحدہ کیا کہ ان کے مقاماتِ مقدسہ عربیہ یا فارسی وغیرہ میں ہیں۔ مختصر یہ کہ ساورکر نے ہی دراصل ’’ہندی، ہندو، ہندستان‘‘ جو کہ آج سنگھ پریوار  کا خاص نعرہ ہے اور جو سنگھ کی سیاست کی اساس ہے، کی اس ملک میں بنیاد ڈالی۔ بعد میں ہیڈگیوار اور گولوالکر نے ہندستانی قومیت سے مسلمانوں اور عیسائیوں کو دست بردار کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ: ’’اُنھیں دوبارہ ہندو بنایا جائے تاکہ اس ملک میں ایک متحدہ قومیت پنپ پائے‘‘۔

درحقیقت بھارتیہ جنتاپارٹی، آر ایس ایس وغیرہ جب یہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں اور عیسائیوں کو ’مکھ دھارے‘ میں شامل ہونا چاہیے تو ان کی مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس ملک کی تہذیب و ثقافت سے جوڑ کر دیکھیں اور طارق، خالد، علی، حسین، محمد، فاطمہ، عائشہ، زینب وغیرہ جیسے نام رکھ کر بیرونی کرداروں سے خود کی شناخت نہ کرائیں۔ عیسائی اپنے آپ کو ڈیوڈ، جوزف، میری وغیرہ کی جگہ رام، سیتا، ہنومان، کرشنا وغیرہ سے جوڑیں، اور اس کا اظہار مسلمانوں اور عیسائیوں کے ناموں اور ان کے اداروں سے ہونا چاہیے۔ یہاں تک کہ مساجد اور چرچوں کی عمارتیں بھی ہندستانی تہذیب کی عکاسی کریں۔ لہٰذا،مینار و گنبد اور چرچوں کی تعمیر کا طریقہ ہندستان کی تہذیب کے خلاف ہے۔

مادھو سارشو گولوالکرسے منسوب کتاب Bunch of Thoughts [گل دستۂ افکار] (۱۹۶۶ء) میں ’ہندوتوا‘پر مبنی بھارت میں فسطائیت کی نظریاتی اساس کی اصل جھلک ملتی ہے۔ چوں کہ گولوالکر نے ۱۹۴۰ء سے لے کر ۱۹۷۳ء تک آر ایس ایس کی قیادت کی، اس لیے گولوالکر کے افکار و خیالات آر ایس ایس کے کام کاج کے طریقوں پر آج تک حاوی ہیں۔ آج جو کچھ بھی   سنگھ پریوار کرتا یا کہتا ہے، اس کی جڑیں گولوالکر کے افکار میں ہی ملتی ہیں۔ اس کتاب کے تعارف میں ایم اے وینکٹ رقم طراز ہے کہ: جس طرح مسلمانوں سے پہلے کے حملہ آوروں کو قومی معاشرت میں ضم کرنے میں ہندستانی سماج نے کامیابی حاصل کی تھی، مگر مسلمانوں کے معاملے میں وہ ناکام رہا ہے۔ یہ ایک کڑوی سچائی ہے جسے قومی آزادی کے رہنمائوں نے یکسرنظرانداز کیا۔ انھوں نے یہ سوچ کر بہت بڑی غلطی کی کہ اکثریت کی قیمت پر مسلمانوں کو مراعات دے کر انھیں جیتا جاسکتا ہے۔رعایتیں حاصل کرنے والوں کے اندر جب تک نظریاتی تبدیلی نہیں آتی، اس وقت تک مقصد حاصل نہیں کیا جاسکتا‘‘۔{

گولوالکر کے مطابق: ’’مسلمانوں کا انضمام ممکن بھی ہے اور ضروری بھی، لیکن اس کے لیے صحیح فلسفے، صحیح نفسیات اور صحیح حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ لیکن ہندستانی لیڈر ایسی کوئی بھی تکنیک وضع کرنے سے قاصر ہیں۔ وہ اپنی زبردست غلطیوں پر مسلسل گامزن رہے، حتیٰ کہ مادرِ وطن کو تقسیم کرنا پڑا۔ افسوس وہ آج بھی انھی غلطیوں پر قائم ہیں اور اس طرح وہ ایک اور پاکستان کو بڑھاوا دے رہے ہیں‘‘۔

قابلِ غور ہے کہ گولوالکر نے جہاں حملہ آوروں کا ذکر کیا ہے، وہاں مسلمانوں کے علاوہ شکاس(Shakas)، ستھیانس (Sythians) اور ہُنز (Huns ) کا ذکر کیا ہے لیکن دانستہ طور پر آریائی حملے کا کوئی ذکر نہیں کیا ہے۔ حالاں کہ یہ ایک تاریخی حقیقت ہےجو مختلف تحقیقات سے ثابت ہوچکی ہے کہ آریائی نسل کے لوگوں کا تعلق ہندستان سے نہیں بلکہ یورپ اور وسطی ایشیا سے ہے۔ یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ آریائی نسل کے لوگوں کی آمد سے قبل ہندستان میں ایک شان دار تہذیب موجود تھی، جسے ’وادیِ سندھ کی تہذیب‘ کہتے ہیں اور بہت سارے مؤرخین اور محققین کا تسلیم کرنا ہے کہ یہ تہذیب آریائی حملے میں تباہ ہوئی۔ اس لیے آریائی نسل کے لوگ بھی اس ملک میں اسی طرح باہر سے آئے، جیسے شکاس، ستھیانس اور ہُنز اور مسلمان آئے تھے۔ تمام غیر جانب دار دانش ور اور محقق اس بات کو نہایت ہی شدومد کے ساتھ اُٹھاتے ہیں۔

مزید یہ کہ ’ہندوتوا‘ کے علَم برداروں کے نزدیک ہندستان کی تہذیب دراصل ’ویدک تہذیب‘ یا ’آریائی تہذیب‘ ہی ہے اور تمام لوگ جو ہندستان کی تہذیب میں اپنی حصہ داری یا نمایندگی چاہتے ہیں انھیں اسی ’ویدک تہذیب‘ سے خود کو ہم آہنگ کرنا ہوگا۔ لہٰذا، تمام مذاہب کے ماننے والوں، مثلاً بدھ مت، جین مت، سکھ مت، مسلمان، عیسائی وغیرہ خود کو اس تہذیب، یعنی ’ہندوتوا‘ میں ضم کرنا ہوگا۔ اپنی علیحدہ شناخت کو ختم کر کے ’ہندوتوا‘ کے رنگ میں رنگنا ہوگا۔

Bunch of Thoughts  میں تین اندرونی خطرات‘ کی نشان دہی کی گئی ہے، اور سب سے پہلا خطرہ مسلمانوں کو بتایا گیا ہے، دوسرا عیسائیوں کو اور تیسرا کمیونسٹوں کو۔{مسلمانوں کے متعلق کہا گیا ہے کہ ’’ہمارے لیے یہ سوچنا خودکشی کے مترادف ہوگا کہ پاکستان بننے کے بعد (ہندستانی) مسلمان راتوں رات وطن پرست ہوگئے ہیں بلکہ مسلم خطرناکی، پاکستان کے قیام کے بعد سو گنا بڑھ گئی ہے، کیوں کہ پاکستان مستقبل میں ہندستان کے خلاف مسلم جارحیت کا مرکز ہوگا‘‘۔

اسی کتاب میں مشرقی پاکستان، یعنی بنگلہ دیش میں ہندوئوں کی نقل مکانی کا ذکر ہے اور بنگال، بہار، اترپردیش اور دہلی میں ہونے والے ’ہندو مسلم فسادات‘ میں آر ایس ایس کے ممبران کی گرفتاریوں کا تذکرہ ہے۔ گولوالکر کا دعویٰ ہے کہ اس نے اس وقت کے ملک کے اہم لیڈر ولبھ بھائی پٹیل [م:دسمبر۱۹۵۰ء]سے ملاقات کی اور انھیں ہندستان میں مسلمانوں سے درپیش خطرات کا ذکر کیا، جس پر سردار پٹیل نے کہا کہ: ’’تمھاری بات میں سچائی ہے اور آر ایس ایس کے تمام کارکنان کو چھوڑ دیا گیا‘‘۔(ایضاً، ص۱۸۱)

اس کتاب میں ’ٹائم بم‘ کے نام سے ایک ضمنی عنوان ہے، جس میں مغربی اترپردیش میں مسلمانوں کی ایک بڑی آبادی ہونے پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ دہلی سے لے کر    رام پور اور لکھنؤ تک دھماکا خیزحالات پیدا ہورہے ہیں، اور اس موہوم امکانی صورتِ حال کا ۱۹۴۶ء-۱۹۴۷ء کے حالات سے موازنہ کیا گیا ہے، اور ساتھ ہی ساتھ یہ بے معنی اور خلافِ واقعہ بات بھی کہی گئی ہے کہ ’’متذکرہ علاقوں میں مسلمان ہتھیار جمع کر رہے ہیں اور اس بات کا انتظار کررہے ہیں کہ جب پاکستان ، ہندستان پر حملے کرےگا تو وہ اندرونی طور پر ملک کے خلاف بغاوت کردیں گے اور مسلح جدوجہد شروع کردیں گے‘‘۔(ایضاً)

گولوالکر اور ساورکر اور اس کے بعد دین دیال اوپادھیائے جیسے لیڈران کو ’سَنگھ پریوار‘ [یعنی: ہندو قوم پرست ’تنظیموں کا خاندان‘]میں خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ دراصل یہ تمام لیڈر ’سنگھ پریوار‘ کی نظریاتی اساس بچھانے والوں میں شامل ہیں۔ آج ’سنگھ‘ کی سیاسی شاخ ’بھارتیہ جنتا پارٹی‘ (بی جے پی) کے اقتدار میں آنے کے بعد بھارت میں جو کچھ بھی ہورہا ہے اور جو کچھ ہوسکتا ہے، وہ ان لیڈروں کی تحریروں اور تقریروں سے پتا چل سکتا ہے۔[جاری]

حال ہی میں مقامی اخبارات میں ایک خبر شائع ہوئی کہ ۲۱نومبر کو دہلی کی تہاڑ جیل نمبر۱ کے وارڈ ’سی‘ اور ’ایف‘ میں جیل کے سیکورٹی پر مامور اہل کاروں نے ۱۸قیدیوں پر بے پناہ تشدد کرکے اُنھیں شدید زخمی کر دیا۔ یہ وحشیانہ عمل کرنے والوں میں جیل کی حفاظت پر مامور تامل ناڈو پولیس کے اسپیشل دستے اور کوئیک رسپانس فورس سے وابستہ اہل کار شامل تھے۔

جن قیدیوں پر حملہ کیا گیا اُن میں اکثریت کشمیری سیاسی قیدیوں پر مشتمل ہے۔ زخمی ہونے والے قیدیوں میں حزب المجاہدین کے سربراہ سیّد صلاح الدین کے فرزندسیّد شاہد یوسف کا نام  قابلِ ذکر ہے۔ ۲۳نومبر ۲۰۱۷ء کو سیّد شاہد یوسف کے وکیل نے دہلی ہائی کورٹ میں مفادِ عامہ کی درخواست دائر کرتے ہوئے عدالت کے سامنے واقعے کی تفصیلات بیان کرنے کے علاوہ ثبوت کے طور پر شاہد یوسف کی خون آلود بنیان بھی پیش کی۔ ۲۸نومبر کو دہلی ہائی کورٹ نے اس واقعے کو زیربحث لاکر جیل میں قیدیوں پر حملے کو ناقابلِ برداشت قرار دیتے ہوئے اسے تشویش ناک قرار دیا۔ قائم مقام چیف جسٹس گپتامتل اور جسٹس سی ہری شنکر پر مشتمل ڈویژن بنچ نے کہا: ’’ہمیں دیکھنا ہوگا، یہ واقعہ قطعی طور پر بلاجواز ہے، اگر یہ صورتِ حال دہلی میں ہے تو دیگر جگہوں میں    کیا قیامت ٹوٹتی ہوگی؟‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’معاملہ انتہائی سنجیدہ تحقیقات کا حامل ہے‘‘۔ کورٹ نے ایک تحقیقاتی کمیٹی بھی تشکیل دی، جسے واقعے کی تحقیقات کرکے کورٹ کے سامنے رپورٹ پیش کرنے کی ہدایات دی گئیں۔

خود بھارت کے کئی اخبارات میں یہ خبریں بھی شائع ہوئی ہیں کہ سیکورٹی اہل کاروں نے کشمیری قیدیوں کو زبردستی پیشاب پینے پر مجبور کیا۔ اس واقعے کی تصویروں میں قیدیوں کے لہولہان بدن اور جسم کی چوٹیں ہی یہ بتانے کے لیے کافی ہیں کہ حملہ کس قدر درندگی کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ قیدیوں کے تمام جسم پر تشدد کے واضح نشانات موجود ہیں اور وہ چلنے پھرنے سے بھی قاصر دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ تحقیقاتی کمیٹی نے جو سی سی ٹی وی فوٹیج حاصل کی ہیں، اُن سے ظاہر ہوتا ہے کہ وردی پوشوں کے حملے کا ہرگز کوئی جواز نہیں تھا، یعنی قیدیوں کی جانب سے کوئی اشتعال انگیزی نہیں ہوئی تھی۔ اس خبر کے منظرعام پر آنے سے ریاست جموں و کشمیر میں بالعموم اور بیرون وادی نظربندوں کے لواحقین میں بالخصوص تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ ریاست کے تمام سیاسی اور سماجی حلقوں نے تہاڑ جیل کے اس واقعے کو وحشیانہ اور مہذب دنیا کے لیے لمحۂ فکریہ قرار دیا ہے۔ عالمی انسانی حقوق کی مختلف تنظیمیں پہلے ہی سے اس خدشے کا اظہار کر رہی ہیں کہ کشمیری قیدی، بھارت کی جیلوں میں محفوظ نہیں ہیں۔ اُن پر ہروقت حملوں کا خطرہ رہتا ہے۔ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ اسی طرح کا واقعہ کٹھوعہ جیل میں بھی پیش آیا، جہاں کشمیر ی قیدیوں کی بڑے پیمانے پر مارپیٹ کی گئی۔ بیرونی ریاست کشمیری قیدیوں کے ساتھ اس طرح کا وحشیانہ سلوک روز کا معمول بن چکا ہے اور  ان جیلوں میں کشمیری قیدیوں کے ساتھ روا رکھے گئے ناروا سلوک کی رُوداد سن کر انسان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔

یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ جب تہاڑ جیل میں کشمیری قیدیوں کی مارپیٹ ہوئی ہو۔ اس سے قبل بھی کئی بار نہ صرف تہاڑ جیل کے بارے میں بلکہ بھارت کی دیگر جیلوں کے حوالے سے بھی یہ خبریں منظرعام پر آئی ہیں کہ وہاں نظربند کشمیری قیدیوں کو ہراساں کیا جاتا ہے، اُنھیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، اُن کے ساتھ ناروا سلوک رکھا جاتا ہے۔ ابھی کچھ ہی عرصہ قبل جموں کے کوٹ بلوال جیل کی ایک تصویر سوشل میڈیا پر عام ہوئی ہے جس میں ایک کشمیری نوجوان کو جیل حکام بالکل ننگا کر کے اس کی مارپیٹ کر رہے تھے، حتیٰ کہ جموں کے ایک اخبار میں چنداعلیٰ پولیس افسروں نے بھی اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ جیل کی سیکورٹی پر مامور کئی اہل کار اپنی بیمار ذہنیت کی تسکین کے لیے قیدیوں کو بالکل ننگا کرتے ہیں، اُنھیں تشدد کا نشانہ بناتے ہیں اور ان کے ساتھ ناروا ظلم روا رکھتے ہیں۔

۲۰۱۶ء میں جب وادی میں عوامی احتجاج کے بعد پولیس نے بڑے پیمانے پر نوجوانوں پر پبلک سیفٹی ایکٹ کا نفاذ عمل میں لاکر اُنھیں جموں کے کورٹ بلوال، امپھالہ، ہیرانگر، ادھم پور، کٹھوعہ اور ریاسی کی جیلوں میں منتقل کیا، تو وہاں سے کچھ ہی عرصے میں یہ خبریں موصول ہونے لگیں کہ  ان جیلوں میں نظربند کشمیری قیدی نسلی تعصب کا شکار بنائے جاتے ہیں۔ کورٹ بلوال میں     جیل حکام نے غیرقانونی طور پر یہ قواعد و ضوابط مقرر کیے تھے کہ کشمیری قیدیوں کو مجرموں کے ساتھ رکھا جاتا تھا، جو اُنھیں اپنے مذہبی فرائض ادا کرنے نہیں دیتے تھے۔ کھانے پینے کے اوقات ایسے مقرر کیے گئے تھے کہ لوگوں کو اِن جیلوں کے مقابلے میں ابوغریب اور گوانتاناموبے بہت چھوٹے نام محسوس ہونے لگتے ہیں۔ دن کا کھانا صبح آٹھ بجے دیا جاتا تھا اور شام کا کھانا دن کے چار بجے فراہم کیا جاتا تھا۔ اس حوالے سے اخبارات میں مسلسل خبریں بھی شائع ہوتی رہی ہیں۔

تہاڑ جیل کے بارے میں یہ بات اب عیاں ہے کہ یہاں کشمیری قیدی انتہا درجے کے تعصب کا شکار بنائے جاتے ہیں۔ اُن کے مقابلے میں جیل میں قید جرائم پیشہ افراد کو زیادہ سہولیات دستیاب ہوتی ہیں۔ کشمیری قیدیوں کو یہاں غیرملکی تصور کیا جاتا ہے۔ کشمیری مزاحمتی تحریک کی علامت خاتون رہنما زمرد حبیب نے اس جیل میں پانچ سال گزارے ہیں۔ اُنھوں نے اپنے جیل کے شب وروز کو ایک کتابی صورت ’قیدی نمبر۱۰۰‘ میں شائع کیا ہے۔ اُس میں درجنوں دل خراش واقعات درج ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح کا سلوک کشمیری قیدیوں کے ساتھ روا رکھا جارہا ہے۔ اسی طرح کی ایک کتاب دلی میں مقیم معروف کشمیر ی صحافی افتخار گیلانی نے بھی تحریر کی ہے۔ اُنھیں بھی کشمیری ہونے کے جرم میں تہاڑ جیل میں مہینوں گزارنے پڑے ۔ تہاڑجیل سے رہائی پانے والے کسی بھی کشمیری نوجوان سے جب ملاقات کرتے ہیں تو اُن کی رودادِ قفس میں یہ بات ضرور شامل ہوتی ہے کہ جیل حکام کے ساتھ ساتھ دوسرے عام قیدی بھی ہمارے ساتھ وہاں غیرانسانی رویہ اختیار کرتے ہیں۔

یہی حالات بھارت کی دوسری جیلوں کے بھی ہیں۔ راجوری سے تعلق رکھنے والا ایک نوجوان محمد اسلم خان گذشتہ ڈیڑھ عشرے سے مقید ہے۔ دہلی ہائی کورٹ کی جانب سے باعزت بَری کیے جانے کے بعد اُنھیں ممبئی منتقل کیا گیا، وہاں اُنھیں کسی اور کیس میں ملوث کرکے عمرقید کی سزا سنائی گئی۔ اس وقت وہ امراواتی کی جیل میں بند ہیں ۔ دو ماہ پہلے اُن کے والدین کافی مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے وہاں ملاقات کے لیے چلے گئے۔ کئی سال کے بعد اُن کے والدین کو بیٹے سے ملاقات کرنے کا موقع مل رہا تھا، لیکن بدقسمتی سے ۲۰فٹ کی دُوری پر مائیکروفون کے ذریعے ان کی چندمنٹ کی ہی ملاقات کروائی گئی۔ وکیل کے ذریعے اسلم کے والدین کو معلوم ہوا کہ اُنھیں وہاں ۴/۴سائز کے سیل میں رکھا گیا ہے۔ اس قید تنہائی میں اُنھیں صبح کے وقت دوبالٹی پانی دیتے ہیں، جو اگلی صبح تک کے لیے ہوتا ہے۔ ان ہی دو بالٹی پانی سے اُنھیں اپنی ضروریات پوری کرنا ہوتی ہیں۔ وضو کے لیے وہی پانی ہے اور استنجا کے لیے بھی۔ کپڑے دھونے ہوں یا پھر غسل کرنا ہو، پیاس بجھانی ہو یا پھر کھانے کے برتن صاف کرنے ہوں، یہ ضروریات اُنھیں محض اس ۵۰لیٹر کے پانی سے ہی پوری کرنی ہیں ۔ تصور کیا جائے کہ ۴/۴ کے سیل میں ایک انسان کو برسوں قید میں رکھا جائے، اُسے جھلسادینے والی گرمی میں بھی محض چندلیٹر پانی فراہم کر کے، اسی پانی سے ۲۴گھنٹے تک اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے کہا جائے تو اُس اللہ کے بندے کی جسمانی و ذہنی حالت کیا ہوتی ہوگی؟ المیہ یہ ہے کہ ایسے اسیران کا کوئی پُرسانِ حال ہی نہیں ہے۔

بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کی اپنی والدہ اور بیوی کے ساتھ ملاقات کو لے کر بھارتی حکمرانوں کے ساتھ ساتھ یہاں کے میڈیا نے کئی ہفتوں تک خوب پروپیگنڈا کیا کہ پاکستان نے اس ملاقات میں کلبھوشن کی والدہ کو اپنے بیٹے کے ساتھ بغل گیر ہونے کی اجازت نہیں دی، اُن کے درمیان شیشے کی دیوار کھڑا کردی۔ لیکن اُن کی اپنی جیلوں میں کشمیری اور مسلم قیدیوں کے ساتھ جب اُن کے عزیز واقارب ہزاروں میل کا سفر طے کرکےملاقات کرنے کے لیے آجاتے ہیں تو اکثر و بیشتر اُنھیں نامراد ہی واپس لوٹ آنا پڑتا ہے۔ اگر ملاقات ہوبھی جاتی تو ملاقاتیوں اور قیدی کے درمیان پندرہ بیس فٹ کا فیصلہ رکھا جاتا ہے۔ ایک ساتھ دیوار کے سامنے بیسیوں قیدی ملاقات کے لیے لائے جاتے ہیں۔ پندرہ فٹ کی دوری پر دیوار کی اگلی سمت میں درجنوں عزیز واقارب  چِلّا چِلّا کر اپنے پیاروں سے بات کرنے کی کوشش ضرور کرتے ہیں لیکن شور و غل میں نہ قیدی ہی اپنے ملاقاتیوں کی بات سنتا ہے اور نہ ملاقاتی ہی، قیدی کی بات کو سمجھ پاتا ہے۔ اس طرح ۱۰،۱۵منٹ میں یہ لوگ مایوسی کے عالم میں واپس مڑ جاتے ہیں۔ اس طرح کی سختی کی وجہ سے  اب کشمیر میں بیش تر والدین نے بیرون ریاست مقید قیدیوں سے ملاقات کا سلسلہ ہی ترک کردیا ہے۔

بھارت کی جیلوں میں بند اِن ستم رسیدہ کشمیری قیدیوں کے مقدمات بھی طویل عرصے سے لٹکے ہوئے ہیں، جن کے خلاف مختلف غیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی چارج شیٹ مختلف ایجنسیوں نے تیار کی ہوتی ہے۔ اُن کے خلاف کارروائی کے لیے ایسی پیچیدگی سے  مقدمات درج کیے جاتے ہیں کہ ایک بے گناہ کو بھی چھوٹ جانے میں برسوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔ ۲۰۱۷ء ہی میں ریاست کے اسیران طارق احمد ڈار، رفیق احمد شاہ اور اُن کے ایک ساتھی کو تہاڑجیل سے ۱۲سال بعد کورٹ نے باعزت رہا کیا۔ لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ اُن کی زندگی کے قیمتی ۱۲سال کس کھاتے میں جائیں گے؟بے گناہ افراد کو بے گناہ ثابت ہونے میں  کیوں ۱۲سال لگے؟ یہ کچھوے کی چال چلنے والی عدالتی کارروائی بھی اس بات کی عکاسی کر رہی ہے کہ کشمیری قیدیوں کے لیے نہ ریاستی حکومت فکرمند ہے اور نہ دلّی میں کوئی ایسا صاحب ِ دل فرد ہے، جو انصاف اور اصولوں کی بات کرتے ہوئے ظلم و جبر کے اس سلسلے پر لب کشائی کرکے اربابِ اقتدار کو اقدامات کرنے کے لیے کہے۔

جیل مینول میں قاعدے اور قوانین ہوتے ہیں، مقید افراد کے حقوق ہوتے ہیں، لیکن   بڑا ہی ہولناک المیہ ہے کہ اس ملک میں اس طرح کے تمام اصول، قواعد و ضوابط اور قانون کو بالاے طاق رکھا جاتا ہے۔ عوامی حلقوں کا یہ جائز مطالبہ ہے کہ کشمیری قیدیوں کو ریاستی جیلوں میں منتقل کیا جائے۔ تہاڑ اور دیگر ریاستوں کی جیلوں سے اُنھیں اپنی ریاست کی جیلوں میں منتقل کرکے اُن کی سلامتی کو یقینی بنایا جائے۔ میڈیا کے منفی پروپیگنڈے کے سبب جس طرح سے کشمیریوں کے بارے میں ایک انتہاپسندانہ سوچ پروان چڑھ رہی ہے، اُس کے پیش نظر بیرون  ریاستوں کی جیلوں میں ہی نہیں بلکہ دیگر عوامی جگہوں پر بھی کشمیریوں کے جان و مال کو خطرات لاحق ہیں۔ گذشتہ دو برسوں سے کئی بھارت کے شہروں میں کشمیری طلبہ، تاجر اور دیگر لوگوں پر   جان لیوا حملے بھی ہوئے ہیں۔ ابھی چند ہی ہفتے قبل دہلی جانے والی ایک فلائٹ میں سوار دیگر سواریوں کی شکایت پر تین کشمیری نوجوانوں کو جہاز سے اُتار کر ان سے کئی گھنٹوں تک پوچھ گچھ کی گئی۔   وجہ یہ تھی کہ کشمیری ہونے کی وجہ سے جہاز میں سوار دیگر سواریوں نے اُنھیں مشکوک تصور کیا او ر  اُن کی موجودگی میں سفر کرنے سے انکار کردیا۔ ریل میں ٹکٹ کے بغیر سفر کرنے کا جرمانہ ۵۰سے ۱۰۰روپے ہے۔ ماہِ جنوری کے پہلے ہفتے میں بھارت کی ریاست اترپردیش میں ایک کشمیری طالب علم جلدی میں ٹکٹ لینا بھول گیا۔ اُنھیں ریلوے پولیس پکڑ کر جرمانہ کرنے کے بجاے دلی پولیس کی خصوصی سیل کے حوالے کردیتی ہے۔ اس لیے کہ وہ کشمیری ہونے کی وجہ سے دلی پولیس  یہ دیکھ لے کہ کہیں اُن کا تعلق کسی ’ دہشت گرد‘ گروہ سے تو نہیں ہے۔ دلی پولیس نے بعد میں     اُن کے دیگر دو ساتھیوں کو بھی گرفتار کرکے اُن کی کئی روز تک پوچھ گچھ کی۔ ’اٹوٹ انگ‘ کی بات کرنے والوں کا شہریوں کے ساتھ یہ دوہرا رویہ ہی بتا رہا ہے کہ کشمیری بھارتی شہری نہیں ہیں۔ نفرت پھیلانے کے لیے منظم طریقے سے کشمیریوں کے خلاف راے عامہ کو ہموار کیا جارہا ہے،  جس کا براہِ راست اثر یہ ہو رہا ہے کہ ریاست سے باہر ہرجگہ کشمیری مسلمان کی جان و مال، عزت و آبرو کو خطرات لاحق ہو رہے ہیں۔

کشمیریوں کی جدوجہد کی کمر توڑنے اور تحریکی قیادت کو سمجھوتہ کرنے پر مجبور کرنے کے لیے اب کشمیری لیڈروں کو حوالہ کیسز میں ملوث کیا جارہا ہے۔ حریت لیڈران بالخصوص سید علی گیلانی کے قریبی ساتھیوں کو این آئی اے کے ذریعے گرفتار کرکے دلی منتقل کیا گیا ہے۔ حال ہی میں ۲۰۱۶ء کے عوامی انتفادہ میں اُن کے مبینہ طور پر ملوث ہونے کی پاداش میں اُن کے خلاف چارج شیٹ پیش کی گئی۔ حالانکہ دنیا جانتی ہے کہ حزب کمانڈر برہان وانی کی شہادت کے بعد جب عوامی تحریک برپا ہوئی تو اُس کے فوراً بعد یہ تمام لیڈران گرفتار کرلیے گئے۔اُنھیں سزا دینے کے لیے این آئی اے کا اسپیشل کورٹ تشکیل دیا جاچکا ہے۔ یہ طے ہے کہ اُنھیں فرضی الزامات کے تحت طویل عرصے کے لیے جیل کی کال کوٹھریوں میں مقید رکھا جائے گا۔ بھارتی حکمران کشمیر کے ہر مسئلے کا حل طاقت کے بل پر نکالنا چاہتے ہیں۔ دھونس، دبائو، زور زبردستی کے ذریعے سے عام کشمیریوں کو یہ باور کرایا جارہاہے کہ اُن کی جدوجہد ایک لاحاصل عمل ہے۔ حال ہی میں بھارتی فوج کے سربراہ جنرل بپن روات نے یہاں تک کہہ دیا کہ’’ کشمیر میں برسر پیکار عسکریت پسندوں اور سیاسی جدوجہد کرنے والوں کے ساتھ ایک ہی طرح کا سلوک کرنے کا وقت آچکا ہے‘‘۔ مطلب یہ کہ جس طرح عسکریت پسند کو  بغیر ہچکچاہٹ کے شہید کردیا جاتا ہے اُسی طرح اب سیاسی طور پر پُر امن جدوجہد کرنے والوں کو بھی گولیوں سے بھون دیا جائے گا۔ حالانکہ یہ کار بدِ پہلے سے جاری ہے۔ عام اور نہتے کشمیری آئے روز شہید کردیے جاتے ہیں لیکن اس مرتبہ بھارتی فوجی سربراہ نے علانیہ کہہ دیا کہ وہ ایسا کرنے والے ہیں۔

بدقسمتی سے عالمی انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی اپنا کردار ادا کرنے سے قاصر دکھائی دے رہی ہیں۔ دُنیا بھر میں بڑی بڑی عالمی کانفرنسیں منعقد ہوتی ہیں، لیکن المیہ یہ ہے کہ ہرجگہ ’جس کی لاٹھی اُس کی بھینس ‘ والا معاملہ بن چکا ہے۔ طاقت ور قومیں کمزور قوموں کے خلاف کتنے ہی گھنائونے ہتھکنڈے کیوں نہ استعمال میں لائیں، اُنھیں کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں ہوتا ہے۔ اُن پر کہیں سے کوئی انگلی نہیں اُٹھتی۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی عالمی تنظیمیں بیان بازیوں سے   آگے بڑھ کر کچھ بھی کرنے سے قاصر ہیں۔ وہ حکومتوں پر دبائو بڑھانے کے لیے عالمی سطح کی مہم نہیں چلاتیں۔ حالاںکہ گذشتہ تین عشروں کی تاریخ میں کس طرح کشمیر کی سرزمین پر انسانیت کی مٹی پلید کی گئی، کس طرح انسانی حقوق کی پامالی کی گئی، اس کی دنیابھر میں کہیں کوئی مثال موجود نہیں ہے۔ اگر یہ کسی اور قوم کے ساتھ ہوا ہوتا، دہلی سرکار کی جگہ پر کوئی مسلمان ملک ہوتا، تو شاید ان سنگین خلاف ورزیوں کے خلاف عالمی ایوانوں میں زلزلہ برپا ہوجاتا۔ لیکن جب کشمیریوں کی بات آتی ہے تو پوری دنیا کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کی تنظیموں کو بھی جیسے سانپ سونگھ جاتا ہے۔

مئی ۱۹۹۸ء میں پہلے بھارت کے اور پھر جوابی طور پر پاکستان کے جوہری دھماکوں کے بعد بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی، اسی سال ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس سے خطاب کرنے نیویارک پہنچے۔ واجپائی کو اپنی ہمت اور طاقت سے زیادہ کام کرنا گوارا نہیں تھا۔ عام طور پر ظہرانے کے بعد سہ پہر چار بجے تک کوئی مصروفیت نہیں رکھتے تھے اور رات آٹھ بجے کے بعد آرام کرنے چلے جاتے تھے۔ اس لیے ان کے غیر ملکی دوروں میں وفد کے ساتھ آئے افسران اور میڈیا کو کھل کر شہر دیکھنے اور شاپنگ کا موقع مل جاتا تھا۔

 نیویارک کے اس دورے کے دوران واجپائی کی ملاقات اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو کے ساتھ بھی طے تھی۔ نیتن یاہو بھی پہلی بار۱۹۹۶ء  میں اقتدار میں آئے تھے۔ اسی طرح یہ بھی ایک دل چسپ امر ہے کہ تل ابیب اور نئی دہلی میں سخت گیر دائیں بازوکے عناصر ایک ہی وقت اقتدار میں آئے۔ بہرحال، جس وقت واجپائی کی ملاقات نیتن یاہو سے طے تھی، بھارتی مشن نے میڈیا کے لیے شہر کے دورے کا پروگرام ترتیب دے رکھا تھا، مگر ہندی اخبار کے ایک ایڈیٹر   اپنے ذاتی پروگرام کے تحت ساتھیوں کے ہمراہ نہیں جارہے تھے۔ جب واجپائی ہوٹل میں داخل ہوئے تو پرانی شناسائی کے سبب انھوں نے ایڈیٹرصاحب سے گرم جوشی دکھائی اور ان کا ہاتھ پکڑ کر ملاقات کے کمرے میں لے گئے اور گفتگو میں مگن ہوگئے۔ بھارتی دفترخارجہ کے افسران ابھی   ان ایڈیٹر صاحب کو بھگانے کی ترکیب سوچ ہی رہے تھے، کہ نیتن یاہو اپنے وفد کے ہمراہ اس جگہ آگئے۔ واجپائی سے ہاتھ ملاکر اسرائیلی وزیر اعظم نے چھوٹتے ہی ان کو جوہری دھماکوں پر مبارک باد دی اور معانقہ کرتے ہوئے کہا: Mr. Prime  Minister, we are now both nuclear power. Let us crush Pakistan like this. (مسٹر پرائم منسٹر ، ہم دونوں جوہری طاقت ہیں، اس طرح ہم پاکستان کو جکڑ کر کرش کریں)۔

اسرائیل آج تک ایک علانیہ ایٹمی طاقت نہیں ہے۔ ایک صحافی کے سامنے اس طرح کے اعتراف نےبھارتی وزارت خارجہ کے افسران کو خاصا پریشان کر دیا۔ واجپائی نے ایڈیٹرصاحب کو اپنے ساتھ صوفے پر بٹھا رکھا تھا۔ تب ایک جہاندیدہ افسر نے ان کو بتایا کہ: ’آپ کی ایک ضروری کال آئی ہے‘۔ اور اس بہانے ایڈیٹر کو باہر لے جاکر دروازہ بند کرادیا۔ بعد میں وزارت خارجہ اور اسرائیلی افسران نے اصرار کے ساتھ تاکید کی کہ یہ گفتگو کہیں بھی اور کسی بھی صورت میڈیا میں نہ آنے پائے۔

اب یہی نیتن یاہو۱۳۰ رکنی وفد کے ہمراہ جنوری ۲۰۱۸ء میں بھارت کا چھے روزہ دورہ مکمل کرکے واپس گئے ہیں۔ اگرچہ دونوں ممالک کے درمیان ۲۵سال قبل باقاعدہ سفارتی تعلقات قائم ہوگئے تھے، مگر حقیقت کی دُنیا میں ان کے رشتوں کی تاریخ اس سے بھی بہت پرانی ہے۔ امریکی دباؤ کو نظرانداز کرتے ہوئے دسمبر ۱۹۷۱ءکی جنگ میں، اسرائیل نے جنگی ہتھیار فراہم کرکے، ’پاکستان کے خلاف جنگ‘ کا پانسہ پلٹنے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ تب مشرقی پاکستان میں پیش قدمی کی کما ن بھارت کی ایسٹرن کمانڈ کے ایک بھارتی یہودی میجر جنرل جے ایف آر جیکب کے سپرد تھی۔ نجی محفلوں میں جنرل جیکب نے کئی بار حسرت سے یہ تذکرہ کیا کہ: ’’جب پاکستانی فوج ہتھیار ڈال رہی تھی تو تقریب اور تصویر کھنچوانے کے لیے کلکتہ سے ایک سکھ جنرل جگجیت سنگھ اروڑہ کو بذریعہ طیارہ ڈھاکہ لایا گیا، حالاںکہ جگجیت سنگھ آپریشن کا حصہ نہیں تھا۔ یہ وزیراعظم اندرا گاندھی کا فیصلہ تھا کہ ایک مسلمان اور پاکستانی جنرل کا ایک یہودی جنرل کے سامنے ہتھیار ڈالنا شرقِ اوسط خاص کر عرب اور مسلم ممالک میں اضطراب پیدا کر سکتا تھا، جس کا بھارت متحمل نہیں ہوسکتا تھا‘‘۔

بہرحال، وزیر اعظم نریندرا مودی کے برسرِاقتدار آنے کے بعد وہ ’بھارت اسرائیل تعلقات‘ جو صرف دفاع اور خفیہ معلومات کے تبادلے تک محدود تھے، ان کو سیاسی جہت ملی ہے۔ اسرائیلیوں کو شکایت تھی کہ بھارتی سیاستدان پردے کے پیچھے ہاتھ تو ملاتے ہیں، مگر اسرائیل کی بین الاقوامی فورم میں مدد کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ اسرائیلی افسروں کے مطابق اس دورے کا مقصد دفاعی خریدوفروخت پر توجہ مرکوز کرنے کے بجاے دنیا کو یہ بھی پیغام دینا تھا، کہ ہم دنیا میں الگ تھلگ نہیں ہیں۔ بھارتی وزارت خارجہ اور ایک معروف تھنک ٹینک کی طرف سے منعقد ہ ایک جیوپولیٹکل کانفرنس کا افتتاح کرتے ہوئے نیتن یاہو نے کہا کہ: ’’کسی بھی ملک کی بقا اور اس کو طاقت ور بنانے کے لیے تین چیزیں درکار ہوتی ہیں: فوجی قوت، اس کو برقرار رکھنے کے لیے اقتصادی ترقی، اور ایسا سیاسی نظام جو آپ کے لیے دنیا میں اتحادی بنانے میں معاون ثابت ہو‘‘۔ اسرائیلی وزیر اعظم کا بھارتی دورہ اور مذکورہ اعتراف یہ بتاتا ہے کہ وہ کس حد تک بین الاقوامی تنہائی کا شکار ہے اور اس کو دُور کرنے کے لیے اتحادیوں کی تلاش میں ہے۔ اس لیے اس دورے کے دوران اسرائیل نے زراعت، ٹکنالوجی، واٹرمینجمنٹ وغیرہ کے شعبوں پر خصوصی توجہ دی۔

اسرائیلی وزیر اعظم کے آگرہ، احمد آباد اور ممبئی کے دورے کے دوران، ان کے انٹیلی جنس اداروں: موساد اور شن بٹ (Shin Bit) کے سربراہان نئی دہلی میں ہی موجود رہے اور قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول اور اپنے ہم منصبوں کے ساتھ ملاقاتیں کرتے رہے۔ بتایا جاتا ہے کہ موساد کے سربراہ یوسی کوہان اور اجیت دوول کے درمیان ملاقاتوں کے بعد ہی یہ فیصلہ ہوا کہ: ۵۰۰ملین ڈالر کے اسپائیک اینٹی ٹینک میزائل سودے پر دوبارہ مذاکرات ہوں گے۔ بھارت نے یہ سودہ منسوخ کردیا تھا، کیوںکہ اسرائیلی دفاعی کمپنی ٹکنالوجی ٹرانسفر کرنے پر آمادہ نہیں تھی۔

شن بٹ کے سربراہ نادار ارگامان نے دہلی میں سابق سفارت کاروں، فوجی ماہرین اور ایڈیٹروں کے ایک گروپ سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ: ’’دونوں ممالک کے درمیان خفیہ معلومات کے تبادلے کا نظامِ کار (میکانزم) اب خاصا منظم اور وسیع ہے۔ خاص طور پر زیر سمندر ۱۸ہزار کلومیٹر لمبی مواصلاتی کیبل کے ذریعے ہونے والی ترسیل کی نگرانی کے لیے دونوں ممالک تعاون کر رہے ہیں‘‘۔ یاد رہے یہ کیبل سنگاپور، ملایشیا، تھائی لینڈ، بنگلہ دیش، بھارت، سری لنکا، پاکستان،  متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، سوڈان، مصر، اٹلی، تیونس اور الجزائر کے لیے ہر طرح کے مواصلات کا ذریعہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ: ’’انفارمیشن یا خفیہ معلومات کی ترسیل سے زیادہ اس کا تجزیہ کرنا اور اس کا بروقت اور اصل استعمال کنندہ تک پہنچانا سب سے بڑا چیلنج ہے‘‘۔

پاکستان کے بارے میں اسرائیلی افسر سیدھا اور صاف جواب دینے سے کترارہے تھے، مگر ان کا کہنا تھا: ’’بھارت کو سلامتی امور سے نمٹنے کے لیے وہ مدد دینے کے لیے تیار ہیں‘‘۔ تاہم،   بار باریہ بھی کہا : ’’ہمارا ہدف (فوکس) وہ تنظیمیں اور ممالک ہیں، جو اسرائیل کے وجود کے لیے خطرہ ہیں‘‘۔ اسرائیلی وزیر اعظم کے دورے کو پس پردہ ترتیب دینے والے دو افراد گجراتی نژاد امریکی یہودی نسیم ریوبن اور امریکا کی سب سے طاقتور لابی تنظیم امریکن جیوش کونسل کے نائب سربراہ جیسن ایف اساکسون کا کہنا تھا کہ: ’’یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ دونوں ممالک کے دشمن الگ الگ ہیں۔ جہاں بھارت کی دشمنی پاکستان سے ہے، وہیں اسرائیل اپنی بقا کے لیے ایرا ن کو خطرہ سمجھتا ہے‘‘۔ نسیم ریوبن کا کہنا تھا کہ: ’’شاید اس معاملے میں دونوں ممالک کے مفادات جدا جدا ہیں، اس لیے دیگر اُمور پر توجہ دینا ضروری ہے، تاکہ ایک پاےدار رشتہ قائم ہو۔ چوں کہ موجودہ وقت میں ترقی پسندانہ سوچ اور جمہوریت کو ریڈیکل اسلام سے خطرہ ہے، اس لیے ان خطرات سے نمٹنے کے لیے اشتراک کی گنجایش ہے‘‘۔

یہ بات طے ہے کہ اسرائیل اور امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے ساتھ اپنی قربت کو مودی نے بھارتی داخلی سیاست میں ہندو انتہا پسند طبقے کو رام کرنے کے لیے بخوبی استعمال کیا ہے۔ ہندو قوم پرستوں کی سرپرست تنظیم آرایس ایس کے لیے اسرائیل ہمیشہ سے ایک اہم ملک رہا ہے۔ اٹل بہاری واجپائی نے۲۰۰۳ء میں اسرائیلی وزیر اعظم ایریل شیرون کی مہمان نوازی کی تھی، اور مودی جنوبی ایشیا کے پہلے سربراہِ مملکت ہیں، جنھوں نے تل ابیب کا دورہ کیا، پھر اسرائیلی وزیراعظم کوبھی اپنے یہاں بلالیا۔ ہندو انتہا پسند طبقے کا خیال ہے کہ: ’’اسرائیل دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کا دشمن ہے اور انھیں ختم کرکے ہی دم لے گا‘‘۔

 اس خیال کے برعکس یہودی مذہبی پیشوا ربی ڈیوڈ روزن کی راے یہ ہے: ’’۱۹۷۳ء کی جنگ سوئز اور بعد میں لبنان جنگ نے یہ ثابت کردیا ہے کہ جدید ہتھیاروں اور امریکی حمایت کے باوجود اسرائیل ناقابل تسخیر نہیں ہے‘‘۔ انھوں نے راقم کو انٹرویو میں بتایا کہ: ’’عام یہودی یہ تسلیم کرتا ہے کہ اسرائیل ۲۰۰۶ءکی لبنان جنگ ہار گیا تھا۔ عدم تحفظ کا احساس اور سیکورٹی اور انٹیلی جنس پر بے پناہ اخراجات کی وجہ سے اسرائیل میں ضروریاتِ زندگی خاصی مہنگی ہیں۔ اس لیے اپنی بقا اور دیرپا سلامتی، دو ریاستی فارمولے پر عمل میں ہی مضمر ہے۔ ورنہ اگلے ۵۰برسوں میں یہودی ریاست کا نام و نشان مٹ سکتا ہے یا یہودی اپنی ریاست میں اقلیت میں تبدیل ہوجائیں گے‘‘۔ میں نے پوچھا: ’’آخر کیسے؟‘‘ تو انھوں نے کہا: ’’۱۹۶۷ء میں مقبوضہ فلسطین، یعنی اسرائیل میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب ۱۴فی صد تھا، جو بڑھ کر ۲۲ فی صد سے بھی زیادہ ہوگیا ہے۔      یہ مسلمان ’عرب اسرائیلی‘ کہلاتے ہیں اور اسرائیلی علاقوں میں انتخابات وغیرہ میں بھی شرکت کرتے ہیں۔ ان میں افزایش نسل بھی یہودیوں سے زیادہ ہے۔ اس لیے اسرائیلی حکومت کو اپنی موجودہ روش ترک کرکے فلسطینیوں کے لیے ایک علیحدہ وطن قائم کرنے کی طرف پیش قدمی کرنے چاہیے ، ورنہ اس ٹائم بم کی وجہ سے یہودی ریاست کا وجود خطرے میں پڑجائے گا اور اگلے دوعشروں میں وہ اقلیت میں ہوں گے‘‘۔

چند سال قبل راقم کو بھارتی صحافیوں کے ایک وفد کے ہمراہ اسرائیل (مقبوضہ فلسطین ) جاننے کا موقع ملا ۔ وفد میں بھارت کے میڈیا اداروں ٹائمز آف انڈیا ، دی ٹیلی گراف ، ٹربیون، اے این آئی  وغیرہ سے وابستہ ایسے مدیران شامل تھے جنھیں سفارتی اور بین الاقوامی امور پر دسترس حاصل ہے۔ دس دن کے اس سفر میں تل ابیب ، حیفہ، سدرت اور لبنان کی سرحد سے متصل ناحارجہ، فلسطینی علاقوں رملہ، بیت اللحم ، بحیرۂ مُردار، دشت جودی کے علاوہ یروشلم کے دورے کا بھی موقع ملا۔

میں تو مسجد اقصیٰ کی زیارت کے لیے بے تاب تھا، مگر یروشلم میں ہمیں آخری تین دن گزارنے تھے۔ دورے کے اگلے دن ہمیں تل ابیب سے غزہ سرحد سے متصل اسرائیلی قصبہ سدرت جانا تھا، جو ایک ثقافتی مرکز کی شہرت رکھتا ہے اور اکثر غزہ کی طرف سے داغے گئے راکٹوں کی زد میں آتا ہے۔ خیر تل ابیب سے ہمیں چارہیلی کاپٹروں میں سوار کیا گیا ۔ میں پائلٹ کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ پائلٹ خاصا ہنس مکھ اور باتونی قسم کا شخص تھا۔ وہ راستے میں گائیڈ کا کام بھی کررہا تھا۔

ایک خاص بات دیکھنے میں آئی کہ یہودی بستیوں میں تقریباً سبھی مکان صاف شفاف چمک دار اور ہرے بھرے باغات اور درختوں سے گھرے دکھائی دے رہے تھے۔ ان کی چھتوں کو لال رنگ سے پینٹ کیا گیا تھا۔ دوسری طرف عرب بستیوں میں مکانات اگرچہ بڑے مگر بے کیف اور ان کے آس پاس زمین بھی نظر آ رہی تھی۔ اس لال رنگ کا راز جاننے کی میں نے بعد میں   بڑی کوشش کی، مگر کہیں سے تشفی بخش جواب نہیں ملا۔ وجہ شاید یہی ہو گی کہ ہوائی حملوں کے وقت یہودی اور عرب علاقوں کا تعین کیا جا سکے۔

آدھے گھنٹے کے بعد پائلٹ نے اعلان کیا کہ: ’’اب ہم یروشلم شہر کے اوپر سے گزر رہے ہیں‘‘ اور ساتھ اس نے روایتی گائیڈوں کی طرح تاریخ کے اوراق سامعین کو دیکھ کر پلٹنے شروع کیے۔ جب میں نے اس کو ایک دو بار ٹوکا تب اس کو معلوم ہوا کہ اس کے پاس ایک مسلمان صحافی براجمان ہے۔ ہیلی کاپٹر سے مسجد اقصیٰ، اس کا صحن اور گنبد صخریٰ یا  قبۃ الصخرہ (Dome of Rock)کا سنہری گنبد واضح نظر آ رہا تھا۔ میں اس نظارے میں محو ہو گیا۔ پائلٹ نے میری کیفیت دیکھ کر صحن کے اوپر کئی چکر کاٹے ۔ خیر سفر کے اختتام سے چار روز قبل ہم حیفہ سے تل ابیب اور فلسطین اتھارٹی کے دارالحکومت رملہ سے ہوتے ہوئے بذریعہ بس یروشلم آن پہنچے۔

خوش قسمتی سے یہ جمعے کا دن تھا۔ میں نے میزبانوں کو پہلے ہی تاکید کی تھی کہ میں کسی اور پروگرام میں شرکت نہیں کروںگااور جمعہ کی نماز مسجد اقصیٰ میں ادا کروں گا۔ پروگرام کے مطابق وفد کے باقی اراکین تو ہولو کاسٹ میوزیم دیکھنے چلے گئے اور مجھے ایک فلسطینی گائیڈ کے حوالے کیا گیا، جس نے پرانے فصیل بند شہر کے باب دمشق تک میری رہنمائی کی۔ مسجد فصیل سے ابھی بھی تقریباً آدھا کلو میٹر دُور تھی۔ پیچ در پیچ گلیوں اور سوق، یعنی چھت والے روایتی عربی بازار سے گزرتے ہوئے آخرکار مسجد کا گیٹ نظر آیا۔ مسجد اقصیٰ کا حرم ایک وسیع احاطے پر مشتمل ہے۔ شمال میں چاندی کے گنبد والی مسجد ہے۔ جمعہ کو احاطے میں غیرمسلموں کا داخلہ ممنوع ہے۔ دیگر دنوں میں غیر مسلم سیاح احاطے میں تو داخل ہو سکتے ہیں، مگر مسجد اور قبۃ الصخرہ کے اندر ان کو داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے۔ احاطے کی مغربی دیوار یہودیوں کے لیے مخصوص ہے، اس کو ’دیوار گریہ‘ کہتے ہیں۔

اگرچہ یروشلم شہر اسرائیلوں کے قبضے میں ہے، مگر حرم کا انتظام وانصرام اردن کے اوقاف اور وہاں کی ہاشمی باد شاہت کے پاس ہے۔ جون ۱۹۶۷ء کی جنگ میں جب اسرائیلی فوجیں شہر میں داخل ہو گئیں ، تو قبۃ الصخرہ پر اسرائیلی پرچم لہرایا گیا، مگر بیس منٹ بعد ہی اسرائیلی وزیر دفاع موشے دایان نے اس پرچم کو اتارنے اور اس کا انتظام دوبارہ اردن کے حوالے کرنے کا حکم دیا۔ ہماری گائیڈ بتا رہی تھی کہ وہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے غصے سے خائف تھے۔ گنبد پر اسرائیلی پرچم جوابی کارروائی کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔

خیر، مجھے بتایا گیا تھا کہ مسجد میںداخلے کے لیے مجھے اپنے آپ کو مسلمان ثابت کروانا پڑے گا۔ گیٹ کے باہر اسرائیلی سیکورٹی کا ہتھیار بند دستہ موجود تھا، بالکل سرینگر کی جامع مسجد کا سین لگ رہا تھا۔ ایک اہلکار نے مجھے کوئی سورۃ سنانے کے لیے کہا۔ اس امتحان کو پاس کرنے کے بعد اہلکار نے قرآن شریف اٹھا کر اس سے آیات پڑھنے کے لیے کہا۔ تسلی وتشفی کرنے کے بعد  مجھے گیٹ کی طرف جانے کی اجازت مل گئی، مگر ابھی فلسطینی سیکورٹی کا سامنا کرنا باقی تھا۔ گیٹ کے اندر فلسطینی اہلکاروں نے پاسپورٹ مانگا۔ میں نے دیکھا وہاں بھی قرآن شریف رکھا ہوا تھا اور شناخت کا مرحلہ کچھ زیادہ ہی سخت تھا۔ ملایشیا کے ایک زائر کا ایک طرح سے انٹروگیشن ہو رہا تھا۔ اب شاید میری باری تھی ۔ میں نے پوری عربی صرف کر کے فلسطینی اہلکار کو بتایا کہ میں انڈین پاسپورٹ پر کشمیر سے تعلق رکھتا ہوں۔ پاسپورٹ میں میری جاے پیدایش دیکھ کر پلک جھپکتے ہی اس کا موڈ بدل گیا۔ کرسی سے کھڑا ہو کر گلے لگا کر اس نے اپنے افسر کو آواز دی اور عربی میں شاید میرے کشمیری ہونے کا اعلان کیا۔ مقبوضہ علاقوں کا مکین ہونے کا کنکشن بھی کیا عجیب ہوتا ہے !  بعد میں بھی فلسطینی علاقوں میں گھومنے کے دوران اس کا قدم قدم پر احساس ہوا۔ افسر نے بھی مصافحہ اور معانقہ کرنے کے بعد حکم دیا کہ نماز ادا کرنے کے بعد اس کے کیبن میں حاضر ہو جائوں۔

میں جب صف میں جگہ بنا رہا تھا تو امام صاحب خطبہ دے رہے تھے۔ اس کا ایک ایک لفظ دل ودماغ کو جیسے جھنجھوڑ رہا تھا۔ مجھے یقین ہی نہیں آ رہا تھاکہ میں ملت اسلامیہ کی مظلومیت کی نشانی مسجد اقصیٰ کے اندر اللہ کے رو برو کھڑا ہوں۔ نماز اور دعا کے بعد نعرۂ تکبیر کی صدائیں بھی بلند ہو رہی تھیں۔ صحن میں کئی مقرر زور وشور سے تقریریں کر رہے تھے ۔ بعد میں جمع ہو کر اپنے اپنے حامیوں کے ساتھ تبادلۂ خیال کرتے ہیں۔ مسجد اقصیٰ میں نماز ادا کرنے اور دعا مانگنے کا احساس لفظوں میں بیان کرنا نا ممکن ہے۔

میں ایک کونے میں مسجد کی تاریخ کو کرید رہا تھا۔ بچپن میں سلاتے ہوئے دادی کی سنائی ہوئی پیغمبروں اور غازیوں کی کہانیاں دماغ میں گونج رہی تھیں کہ فلسطینی سیکورٹی افسر مجھے تلاش کرتے ہوئے آپہنچا۔ مجھے رقت آمیز دیکھ کر وہ بھی آب دیدہ ہو گیا۔ آخر میرا ہاتھ پکڑ کر مجمعے کے بیچ سے گزار کر وہ مجھے امام وخطیب اورمفتی اعظم محمد احمد حسین کے پاس لے گیا۔ وہ جنوبی ایشیا خاص طور پر کشمیر کے بارے میں استفسار کرتے رہے اور خاصی دعائیں دے کر رخصت کیا۔ بعد میں سیکورٹی افسر نے ایک انگریزی جاننے والے فلسطینی کے حوالے کیا، جو مجھے قبۃ الصخرہ کے اندر لے گیا۔

یہ دراصل ایک بڑی چٹان ہے جس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم یہیں سے معراج کے سفر پر تشریف لے گئے، اور یہیں انھوں نے دیگر پیغمبروں کی امامت کرکے نماز پڑھائی تھی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور دیگر پیغمبروں علیہم السلام نے بھی یہاں قیام کیا ہے۔ بظاہر لگتا ہے کہ چٹان کو کاٹ کر نیچے ایک خلا میں جانے کا راستہ بنایا گیا ہے جہاں پر زائرین دورکعت نفل نماز پڑھتے ہیں۔ میرا گائیڈ بتا رہا تھا آںحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے معراج پر جاتے ہوئے یہ چٹان بھی اوپر اٹھ گئی تا آنکہ اس کو ٹھیرنے کا حکم ہوا۔ تب سے یہ چٹان اسی پوزیشن میں ہے اور اس کے نیچے ایک خلا پیدا ہو گیا ۔ گائیڈ واقعات کو دہراتے ہوئے واللہ ھو اعلم بالصواب بھی ساتھ ساتھ کہتا جا رہا تھا۔

حضرت عمر فاروقؓ جب اس شہر میں داخل ہوئے تو اس مقام پر بس چند کھنڈ ر باقی تھے۔ ہیکل سلیمانی کب کا تباہ ہو چکا تھا۔ اس چٹان کے شمال میں جہاں اب چاندی کے گنبد والی مسجد ہے، ایک چبوترا بچا تھا، جو ابھی بھی مسجد کے تہہ خانے میں موجود ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ یہی قبلۂ اوّل ہے۔ مسجد کے تہہ خانہ کے اندر جا کر پتا چلتا ہے کہ اس کی عمارت پتھر کے بنے لا تعداد دیو ہیکل ستونوں پر ٹکی ہے۔ یہیں محراب مریمؑ ہے،جہاں حضرت جبریل ؑ ان کے رُوبرو حاضر ہوئے۔ اس تہہ خانے میں ۱۰۹۹ء سے ۱۱۸۷ء تک کے مسیحی دور کی یادیں بھی تازہ ہیں، جب صلیبیوں نے ۸۸ برسوں تک اس کو ایک اصطبل بنایا تھا۔ ستونوں میں گھوڑوں کو باندھنے کے لیے گاڑی گئی میخوں کے نشانات ابھی بھی واضح ہیں۔

یروشلم جو مکمل طور پر اسرائیل کے قبضے میں ہے کے آبادیاتی تناسب کو بدلنے کے لیے حکام نے کئی قوانین ترتیب دیے ہیں۔ اگر کوئی مسلمان عورت شہر سے باہر شادی کرتی ہے تو اس کی پروشلم کی شہریت ختم ہو جاتی ہے۔ یہ ان لوگوں کا قانون ہے جو جنسی برابری اور آزادی کے علَم بردار ہیں۔ خود اسرائیل کی حدود میں مسلمانوں کا تناسب ۲۲ فی صد ہے۔ یروشلم میں ان کا تناسب ۳۶ فی صد ہے۔ یہ وہ فلسطینی ہیں جو اب اسرائیلی عرب کہلاتے ہیں۔ میرے قیام کے دوران ایک اسرائیلی عرب خاندان اپنے عزیز کی شادی میں شرکت کے لیے شہر سے باہر گیا ہوا تھا ۔ واپس آئے تو پرانے شہر میں واقع گھر کے دروازے کھلے ملے اور اندر ایک یہودی خاندان قیام پذیر تھا۔ ان کا پورا سازوسامان گلی میں پڑا تھا۔ معلوم ہوا کہ ان کی غیر موجودگی میں حکومت نے ان کا یہ آبائی گھر یہودی خاندان کو الاٹ کر دیا ہے۔ کئی روز سے یہ خاندان خواتین اور بچوں کے ساتھ فٹ پاتھ پر بیٹھا تھا۔

یروشلم آنے سے قبل مائونٹ کارمل اور بحیرہ روم کے بیچ خوب صورت شہر حیفہ میں یہودی مذہب کے اعلیٰ پیشوا، یعنی چیف ربی ہوتے ہیں جو تاحیات کے بجاے دس سال کے لیے منتخب کیے جاتے ہیں۔ شاید اس یہودی عالم کے پاس وفد کے کوائف پہلے ہی پہنچ گئے تھے۔ چونکہ میں واحد مسلمان صحافی تھا اس لیے اس نے علیک سلیک کے بعد کہا کہ چند لوگ دنیا سے یہودیوں کا خاتمہ چاہتے ہیں، مگر ایسا نا ممکن ہے۔ کیوںکہ دنیا بھر میں ایک ارب سے زائد مسلمان روزانہ نماز میں حضرت ابراہیم ؑ کی اولاد کے لیے سلامتی کی دعائیں مانگتے ہیں اور یہ ان کے ایمان کا جز ہے۔ انھی کی دعائوں کے طفیل آل ابراہیم (یعنی یہودی ) قائم ودائم ہیں۔ چونکہ اس استعاراتی گفتگو کا محور میں ہی تھا، اس لیے میں نے جواباً کہا : ’’یہ حقیقت ہے کہ حضرت اسماعیل ؑ اور حضرت اسحاق ؑ دونوں حضرت ابراہیم ؑ کی اولاد ہیں اور اگر مسلمان آل اسماعیل ہیں تو یہودی آل اسحاق ہیں، مگر یہودی صحیفوں کے اصول وراثت کی رو سے بڑے بھائی کو ہی وسائل کا حق دار تسلیم کیا جاتا ہے اور خاندان کی سربراہی بھی اسی کو منتقل ہو جاتی ہے۔ اس اصول سے تو فلسطین اور اسرائیل پر مسلمانوں کا حق تسلیم شدہ ہے‘‘۔ یہودی عالم نے مسکراتے ہوئے گفتگو کا رخ موڑ دیا۔

چند روز بعد جب ہم ٹورسٹ بس میں اسرائیلی گائیڈ کے ہمراہ یروشلم سے براستہ دشت جودی، بحیرئہ مُردار (Dead Sea )کی طرف رواں تھے تو چند مواقع پر میں نے اس بھارت نژاد اسرائیلی خاتون گائیڈ کو تاریخی حوالے توڑنے مروڑنے پر ٹوکا تو اس نے مائیک میرے حوالے کرکے بقیہ سفر میں مجھے رہنمائی کرنے کے لیے کہا۔ پہلے تو میں سمجھا کہ شاید وہ میرے ٹوکنے سے ناراض ہو گئی ہے، مگر جب اس نے کہا کہ وہ خود تاریخ کا دوسرا رخ سننے کے لیے بے تاب ہے تو میں نے مائیک لے کر دشت جودی سے گزرتے ہوئے آس پاس کھنڈرات کے وسیع وعریض علاقوں ، حضرت لوط ؑ ، حضرت یحییٰ ؑ اور حضرت عیسیٰ ؑ کے واقعات بیان کرنا شروع کر دیے۔

مجھے خود بھی سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ الفاظ کا یہ سمندر کہاں سے اُمڈ آیا ہے۔ منزل پر پہنچ کر  جب میں نے مائیک واپس گائیڈ کے حوالے کیا تو کسی کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ میں اس سر زمین میں پہلی بار وارد ہوا ہوں۔ دی ٹیلی گراف کے سفارتی ایڈیٹر کے پی نیئر نے جب مجھ سے اس بارے میں استفسار کیا تو مجھ سے صرف یہی جواب بن پڑا کہ :’’ارض فلسطین دنیا بھر کے مسلمانوں کی رگوں میں خون کی طرح موجود ہے‘‘۔

بھارت کی جیلیں یا تعذیب خانے؟

حال ہی میں دہلی کی تہاڑ جیل [قیام: ۱۹۵۷ء]میں ۱۸کشمیری قیدیوں کی اذیت رسانی کی جو تصاویر سامنے آئی ہیں، وہ کسی بھی مہذب معاشرے کو شرمندہ کرنے کے لیے کافی ہیں۔ دہلی ہائی کورٹ کی جانب سے قائم ایک تحقیقاتی کمیٹی نے اپنی ۱۱۱صفحات پر مشتمل رپورٹ میں نہ صرف اس ٹارچر کی تصدیق کی، بلکہ یہ جملہ بھی کہا کہ: ’جیل حکام اور سیکورٹی پر مامور اسپیشل فورس نے بغیر کسی معقول وجہ کے ان قیدیوں کو تختۂ مشق بنایا‘۔ انٹیروگیشن یا تفتیش کے دوران پولیس اور دیگر تفتیشی ایجنسیاں دُنیا بھر میں ملزم سے اقبال جرم کروانے کے لیے ٹارچر کو ایک حربے کے طور پر استعمال کرتی آرہی ہیں۔ تاہم، بعد از تفتیش جب ملزم عدالتی کارروائی کا سامنا کرنے کے لیے جیل حکام کی تحویل میں ہوتا ہے تو وہاں ٹارچر کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ گو کہ بھارت میں دیگر ترقی پذیر ممالک کی طرح جیلیں ابھی تک بلندوبانگ دعوئوں کے باوجود ’اخلاقی تربیتی مراکز‘ کے بجاے تعذیب خانے ہی ہیں، مگر جوں ہی جیل میں کسی کشمیری یا پاکستانی قیدی کا داخلہ ہوتا ہے، تو جیل حکام، چاہے وہ سیکورٹی پر مامور اہل کار ہو یا ڈاکٹر یا سوشل ورک آفیسر میں ان قیدیوں پر ظالمانہ، شرم ناک اور حددرجہ گھٹیا طریقوں سے تشدد کرنے کی خواہش ایک دم جاگ اُٹھتی ہے۔ ’بھارت ماتا‘ کے یہ سپوت ان بدنصیب قیدیوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔

بھارت میں دہلی کی تہاڑ جیل کو ایک ماڈل جیل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ اکثر حکام اس کو جیل کے نام سے موسوم کرنے پر بھڑک اُٹھتے ہیں اور اس کو ’تہاڑ آشرم‘ یا ’اصلاح خانہ‘ کہلوانا پسند کرتے ہیں۔ اگر تعذیب کی خبریں اس آشرم سے آرہی ہوں تو ملک کی دیگر جیلوں کا کیا حال ہوگا؟

 ۲۰۱۱ء میں ڈنمارک کی ہائی کورٹ نے ۱۹۹۵ء میں بنگال کے ضلع پورنیا میں جہاز سے ہتھیار گرانے کے واقعے میں ملزم کم پیٹرڈیوی کو بھارت کے حوالے کرنے کی درخواست مسترد کردی۔ کورٹ نے کم ڈیوی کی اس دلیل کو تسلیم کیا کہ بھارت میں جیلوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ ڈیوی بھارت میں ایک انتہائی مطلوب ملزم ہے۔ بھارت کا اصرار تھا کہ ڈنمارک کی حکومت عدالتی کارروائی میں مداخلت کرکے اس کو بھارت کے حوالے کر دے، مگر اس مطالبے کو وہاں کی حکومت نے سختی کے ساتھ مسترد کر دیا۔ اسی طرح ۹۰؍ارب روپے کے مبینہ فراڈ میں ملوث لندن میں پناہ لینے والے بھارت کے ایک معروف صنعت کار وجے مالیہ نے بھی برطانوی کورٹ میں بھارت کے ایما پر دائر کی گئی حوالگی کی درخواست کے خلاف بھارتی جیلوں کی خراب حالت او ر انسانی حقوق کی زبوں حالی کی دہائی دی ہے۔

دہلی کی تہاڑ جیل کی اس ’مہمان نوازی‘ کا مجھے بھی براہِ راست تجربہ ہے۔ ۱۰ سال قبل جب جون کے جھلسا دینے والے دن مجھے عدالت نے دہلی پولیس کی مسلح بٹالین کے سپردکر کے عدالتی حراست میں بھیج دیا، تو میرے کیس کی تفتیش پر مامور دہلی پولیس کے اسپیشل سیل کے ایک افسر نے ازراہِ مروت کھانے کا ایک پیکٹ میرے حوالے کرتے ہوئے کہا کہ: ’جیل میں داخلے کی خانہ پُری میں بہت وقت لگتا ہے اور کبھی کبھی تو نیا قیدی جیل میں رات کے کھانے سے محروم رہ جاتاہے۔ کھانے کا پیکٹ ہاتھ میں تھماکر مجھے پنجرے جیسی بس میں پھینک دیا گیا۔ قبل اس کے میں اپنے حواس پر قابو پاتا، بس میں موجود قیدی مجھ پر جھپٹ پڑے اور یہ سمجھنے میں مجھے کوئی مشکل پیش نہ آئی کہ وہ مجھ پر نہیں، بلکہ بندروں کی طرح کھانے پر جھپٹے تھے۔ میں نے خود کو بچانے کے لیے کھانے کا پیکٹ فرش پر پھینک دیا۔  پیکٹ پھٹ گیا۔ اس میں دال اور سبزی فرش پر بکھر گئے۔ میرے یہ ہم سفر گردوغبار سے اَٹے فرش سے اُٹھا اُٹھا کر ایک ایک دانہ چٹ کر گئے۔’’واہ کیا بات ہے۔ ایک سال بعد تڑکے والا کھانا نصیب ہوا ہے‘‘  ایک قیدی نے اپنے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے کہا۔ یہ منظر واقعی قابلِ رحم اور مضحکہ خیز بھی تھا۔

اگلےآٹھ ماہ میں نے دیکھا کہ عدالت سے جیل یا واپسی کے دوران اس بس میں چاہے کتنی مارپیٹ ہو یا پھر چاہے قتل کی واردات کیوں نہ ہوجائے، پولیس والے اندر آنے کی زحمت نہیں کرتے۔ حالات اگر زیادہ ہی بے قابو ہوں تو اعصاب شل کرنے کے لیے باہر سے گیس چھوڑ کر قیدیوں کو    بے ہوش کر دیا جاتا ہے۔

تہاڑ دراصل نو جیلوں کا مجموعہ ہے۔ مجھے جیل نمبر تین کے درواز ے پر اُتار کر پولیس نے دیگر نئے آنے والے قیدیوں کے ساتھ جیل حکام کے حوالے کر دیا۔ دروازے سے اندر داخل ہوتے ہی ایک ڈیسک کے چاروں طرف کھڑے جیل ملازمین میں بڑبڑاہٹ سنائی دی۔ مجھے سیدھے جیل سپرنٹنڈنٹ کے دفتر سے متصل ایک کمرے میں لے جایا گیا، جہاں ۱۰، ۱۲ ؍افراد موجود تھے۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی میرا نام پوچھا گیا۔ ابھی میں نام بتا بھی نہیں پایا تھا، کہ سپرنٹنڈنٹ صاحب نے میرے منہ پر زور کا تھپڑ رسید کیا۔ یہ باقی افراد کے لیے اشارہ تھا۔ پھر کیا، وہ سبھی ایک ساتھ مجھ پر پل پڑے۔ خود اس اعلیٰ افسر نے میرے بالوں کو ہاتھ میں جکڑ کر میرا سر  میز پر دے مارا۔ میرے منہ، ناک اور کان سے خون رسنے لگا۔ اس کے ساتھ ساتھ کوئی وقفہ کیے بغیر مسلسل گالیاں دی جارہی تھیں۔ میں نے دیکھا کہ وہاں کچھ لوگ قیدیوں کو ڈنڈوںسےپیٹ رہے تھے۔

 ’’تم جیسے لوگوں کو زندہ رہنے کا حق نہیں ہے، ان سالے غداروں کو سیدھے پھانسی دینی چاہیے‘‘۔ یہ نعرہ ایک زیرسماعت قیدی ونود پنچم کا تھا۔ بعد میں جیل کے اندر اس نے مجھے ’حب الوطنی‘ کا سبق سکھانے کا کوئی موقع ضائع نہیں ہونے دیا۔ یہ ’درس‘ میری بے ہوشی تک جاری رہا۔    ہوش میں آنے کے بعد میں نے خود کو راہداری میں پڑا پایا۔ میرا چہرہ خون سے لت پت تھا۔ حکم ہوا کہ جاکر اپنا چہرہ دھو ڈالو۔ باتھ روم میں جاتے ہوئے بھی گالیاں میرا پیچھا کر رہی تھیں۔ ابھی میں راستے ہی میں تھا کہ کرخت آواز میں حکم ملا کہ’’ٹائلٹ صاف کرو‘‘۔ یہ ٹائلٹ کسی بس اڈے کے سرکاری پاخانے کی طرح متعفن اور غلیظ تھا۔ میں اِدھر اُدھر کسی کپڑے کو تلاش کرنے کے لیے نظریں دوڑانے لگا، تو حکم ہوا کہ ’’اپنی شرٹ اُتار کر اسی سے صاف کرو‘‘۔ حکم ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا اور ٹائلٹ صاف کرنے میں تقریباً ایک گھنٹہ لگا۔

اسی دوران نئے قیدیوں کا جیل میں داخل ہونے کا عمل شروع ہوچکا تھا۔ جیل کے افسر اور ایک ڈاکٹر کے علاوہ کچھ منظورِ نظر قیدی اس کام میں معاونت کر رہے تھے۔ معائنہ کرتے ہوئے ڈاکٹر کا جذبہ ’حُب الوطنی‘ بھی جوش میں آیا۔ اس نے اپنے پیشے کا لحاظ کیے بغیر گالیوں کی بارش کرتے ہوئے پیٹنا شروع کر دیا۔ اب اس نے مجھ سے لکھ کر دینے کو کہا کہ: ’یہ زخم پولیس حراست کے دوران آئے ہیں، جیل میں نہیں آئے‘۔ میں نے پہلی بار جرأت کا مظاہرہ کرکے رپورٹ پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا۔

کارروائی مکمل کرتے ہی جیل افسر نے کہا:’’قمیص کہاں ہے؟‘‘ میں نے کہا: ’’باتھ روم میں پھینک آیا ہوں‘‘۔ حکم دیا گیا، ’’جائواور جیسی بھی ہے پہن کر آئو‘‘۔ قمیص اتنی گندی تھی کہ مجھے قے آنے لگی۔ پھر بھی اگلے تین روز تک جون کی جھلستی گرمی میں مجھے وہی غلاظت بھری قمیص پہننا پڑی۔ اس دوران قمیص اُتارنے کی اور نہ غسل خانے جانے ہی کی اجازت ملی۔

یہ بھارت کی ماڈرن تہاڑ جیل کے ساتھ میری ابتدائی ملاقات تھی۔ اگلے آٹھ ماہ تذلیل و تضحیک کے اَن گنت واقعات کا مَیں چشم دید گواہ بنا اور ان میں اکثر واقعات خود میرے ساتھ پیش آئے۔ ابتدائی چند ماہ چھوڑ کر عمومی طور پر بھارتی میڈیا، سیاسی پارٹیوں اور خود اس وقت کی حکومت کے اندر بھی چند خیرخواہوں نے میرے لیے آواز بلند کی اور میری رہائی کے لیے ایک طرح سے مہم چلائی۔ اس لیے اگر اس طرح کے واقعات میرے ساتھ پیش آسکتے ہیں، اندازہ کیجیے کہ ایک بے یارومددگارکشمیری یا پاکستانی قیدی کے ساتھ کس طرح کا سلوک جیل میں کیا جاتا ہوگا!

حالاں کہ بھارت کی عدالت عظمیٰ نے اپنے بہت سے فیصلوں میں قیدیوں کے حقوق پر زور دیا ہے، لیکن جیلوں کی حالت اُس کے بالکل برعکس ہے جو قانون کی کتابوں میں لکھی ہوئی ہے۔ قیدیوں پر نظررکھنے کے لیے ان کے بیچ مخبروں کی موجودگی، تہاڑ جیل کے پس منظر میں  ’شعلے‘ فلم کی جیل میں واحد مماثلت نہیں ہے۔ ’شعلے‘ کا جیلر یہاں حقیقی شکل میں نظر آتاہے۔   جیل کے عملے کا رویہ بھی فلم کے جیلر سے مختلف نہیں ہے، جس کا مشہور مکالمہ تھا: ’’ہم انگریزوں کے زمانے کے جیلر ہیں۔ ہم ان لوگوں میں سے نہیں جو قیدیوں کو سدھارنے کی فکر میں لگے رہتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ تم کبھی نہیں سدھرو گے‘‘۔ گنجایش سے زیادہ قیدیوں کی موجودگی، اُوپر سے نیچے تک پھیلی ہوئی بدعنوانیاں، غیرتربیت یافتہ جیل اسٹاف اور جیل اسٹاف اور جیل انتظامیہ کا  فرسودہ اندازِفکروعمل، استعماری دور کے جیل مینوئل آج بھی نافذالعمل ہیں۔ انھی فرسودہ قوانین کا نتیجہ ہے کہ جیل کے حکام قیدیوں کو ان کے حقوق دینے سے انکار کرتے ہیں۔

ایک دن مجھے جیل کی لائبریری کے نیم خواندہ نگران (جو خود ایک سزا یافتہ سکھ قیدی تھا) نے طلب کرکے کتابوں کی ایک فہرست تیار کرنے کے لیے کہا اور بتایا کہ حکومت نے جیل کی لائبریری کے لیے کتابیں خریدنے کے مقصد سے بجٹ فراہم کیا ہے۔ میں نے قانون، لیڈروں کی جیل ڈائریوں، اوپن یونی ورسٹی سے کورس کرنے والےقیدیوں کی ضرورت کو مدنظر رکھنے کے ساتھ ساتھ جیل مینوئل اور جیل ضابطوں سے متعلق کتابوں کو بھی شامل کر کےلسٹ تیار کرکے اس کے حوالے کی۔ نگران نے اس لسٹ کواسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ کو پیش کر کےاپنی دانش وَری کی دھاک جمانے کی کوشش کی۔ شاید یہ دھاک جم بھی جاتی، مگر فہرست میں جیل مینوئل اور قیدیوں کے حقوق سے متعلق کتابیں دیکھ کر جیل حکام کا پارہ چڑھ گیا۔ نگران نے فوراً میرا نام لیا۔ مجھے جیل کنٹرول روم میں طلب کیا گیا۔ میں نے وہاں دیکھا کہ سردارجی کو اُلٹا لٹکایا گیا ہے اور ان پر لاٹھیوں کی بارش ہورہی ہے۔ ان کی دانش وَری کا ڈبہ تو پہلے ہی گول ہوگیا تھا۔ وہ زار وقطار رحم کی بھیک مانگ کر پورا ملبہ میرے اُوپر ڈال رہے تھے۔ ساتھ ہی میرا انیٹروگیشن شروع ہوگیا۔

میں نے موقعے کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے کہہ دیا کہ: ’’مجھے معلوم نہیں تھا کہ جیل کے قوانین سے متعلق کتابیں ممنوع ہیں اور معافی کا خواستگار ہوں‘‘۔ اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ نے مسکرا کر کہا: ’’میں جانتا تھا کہ یہ فہرست سردار جی تیار نہیں کرسکتے تھے‘‘۔

میرے دورِ زندان تک باقی کتابیں بھی کبھی لائبریری میں نہیں پہنچیں اور کسی کو معلوم نہیں کہ کتابوں کے لیے مختص اس بجٹ کا کیا ہوا۔ کہتے ہیں: علم آزادی کی چابی ہے۔ لیکن قیدیوں کا جیل کے قوانین کا علم حاصل کرنا جیل انتظامیہ اپنے لیے اچھا شگون نہیںسمجھتی، کیونکہ غلامی اور جہالت لازم و ملزوم ہے۔

اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی بہت سی قراردادیں بھارت اور پاکستان کو اس بات کی پابند بناتی ہیں کہ ریاست جموں و کشمیر کی حتمی حیثیت کا تعین عوام کی مرضی اور ایک آزادانہ اور غیر جانب دار استصواب راے (ریفرنڈم) کے ذریعے ہوگا، جو اقوامِ متحدہ کے زیرنگرانی منعقدہوگا۔بھارت کا کشمیریوں کے حق راے دہی سے انکار ان متفقہ عالمی قراردادوں کی صریح خلاف ورزی ہے۔ 
مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی ریاستی دہشت گردی اور اپنی افواج کے ذریعے نہتے بے گناہ کشمیری عوام پر بہیمانہ تشدد، قتل وغارت گری، زخمی کر کے لوگوں کو معذور بنا دینے کا جرم تو اپنی جگہ عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ رہا ہے، لیکن اب اس کے ساتھ کسی ملامت کے خو ف کے بغیر لوگوں کو اندھا کرنے جیسا وحشیانہ عمل، اقوامِ متحدہ کی مجرمانہ خاموشی کے حوالے سے بہت سے سنجیدہ سوال اُٹھاتا ہے۔
اقوامِ متحدہ کی قراردادو ں اور کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو ناکام بنانے کے لیے بھارت نے مختلف حربوں کو اختیار کیا ہے۔ ریاست جموں و کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت کو کم کرنے کے لیے آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنا اس حوالے سے ایک بڑا حربہ ہے۔ یہ وہی بات ہے جو سیمون پیریز نے جو اس وقت اسرائیل کا وزیرخارجہ تھا، ۲۸مئی ۱۹۹۳ء کو اپنے دورے کے موقعے پر بھارت کو مشورہ دیتے ہوئے کہی تھی: ’’بھارت کو کشمیر میں بھارت بھر سے لوگوں کو لاکر آباد کرنے سے گھبرانا یا جھجھکنا نہیں چاہیے۔ کشمیر میں صرف آبادی کے تناسب میں تبدیلی ہی بھارت کو اس پر دعویٰ کرنے میں مدد دے سکتی ہے۔ ایک مسلم اکثریتی ریاست کا ایک ہندو اکثریتی قوم کے ساتھ پُرامن طریقے سے رہنا ایک احمقانہ تصور ہے اور یہ تصور ایک قابلِ نفرت شے کے سوا کچھ نہیں ہے‘‘۔
۱۹۴۷ء میں جب برعظیم پاک و ہند دو خودمختار ریاستوں، یعنی پاکستان اور بھارت میں تقسیم ہوگیا، تب جموں و کشمیر ایک مسلم اکثریتی ریاست تھی۔ مسلمان اس وقت آبادی کے ۷۲ء۴۰ فی صد پر مشتمل تھے اور ۲۰۱۱ء کی مردم شماری کے مطابق ان کی آبادی ۶۲ء۲۷ فی صد ہے۔ بھارتی مقبوضہ کشمیر کی کُل آبادی اس وقت ایک کروڑ ۲۵لاکھ ۴۸ہزار ۹سو ۲۶ ہے۔
بھارتی مقبوضہ کشمیر ایک جغرافیائی وحدت کے طور پر تین خطوں پر مشتمل ہے: کشمیر، جموں اور لداخ۔ آبادی کے تناسب میں پہلی بار تبدیلی اگست سے نومبر ۱۹۴۷ء میں کی گئی جب ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت، جو اس وقت جموں و کشمیر کے ڈوگرہ راجا اور بھارتی نیشنل کانگریس کی ملی بھگت سے تیار کیا گیا تھا، جموں کے مسلمانوں کا وسیع پیمانے پر قتل عام کیا گیا اور جموں میں ان پر زندگی تنگ کر دی گئی۔ اس کے مصدقہ اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں، تاہم برٹش پریس کی شائع شدہ رپورٹیں اور ہورس الیگزینڈر کا ۱۶جنوری ۱۹۴۸ءکو سپیکٹرم میں شائع ہونے والا مضمون ایک معتبر حوالہ ہے۔ ہورس کے مطابق ۲لاکھ افراد کو ہلاک کیا گیا تھا۔ دوسری رپورٹ میں آئن اسٹیفن کا دعویٰ ہے کہ ۵لاکھ افراد کو مارا گیا، جب کہ دیگر ۲ لاکھ افراد لاپتا ہوگئے۔ یہ نسل کشی کا اور انسانیت کے خلاف جرائم کا ایک واضح مقدمہ تھا، لیکن عالمی برادری خاموش تماشائی بنی رہی۔ یوں مسلمانوں کے اس قتلِ عام اور بڑے پیمانے پر آبادی کی منتقلی سے جموں میں مسلمانوں کی آبادی ۶۱ فی صد اکثریتی آبادی سے کم ہوکر ۳۰فی صد اقلیت میں تبدیل ہوگئی۔
جموں کی آبادی کا تناسب ایک مرتبہ پھر تبدیل کیا گیا، جب Agrarian Reform Act 1976 کو قانون سازی کے ذریعے نافذ کیا گیا۔ اس ایکٹ نے کاشت کاروں کو ملکیتی حقو ق دے دیے۔ پھر ہزاروں غیرکشمیریوں کو ریکارڈ میں جعل سازی کے ذریعے کاشت کار ظاہر کیا گیا اور انھیں ملکیتی حقوق دے دیے گئے۔
ایک اور سازش ۲۰۰۱ء-۲۰۱۱ء کے دوران میں دیکھنے میں آئی، جب لداخ کے اضلاع لیہہ اور کارگل میں ہندو آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ لداخ میں مجموعی طور پر ہندو آبادی ۲۰۰۱ء کی ۶ء۲ فی صد تعداد سے بڑھ کر ۲۰۱۱ء میں ۱۲ء۱ فی صد ہوگئی۔ ماہرین کا خیال ہے اس بڑے پیمانے پر لداخ میں ہندو آبادی میں ۱۰۰ فی صد اضافہ صرف دس سال کی مدت میں ناقابلِ تصور ہے۔
جب سے بھارتیہ جنتا پارٹی نے نریندر مودی کی قیادت میں ۲۰۱۴ء میں نئی دہلی میں اقتدار سنبھالا ہے، بھارت کے جموں و کشمیر میں آبادی کے تناسب میں تبدیلی کے منصوبوں نے شدت پکڑ لی ہے، تاکہ مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدلا جاسکے۔ اپنے منشور اور سرکاری بیانات میں ، بی جے پی نے کھلے عام اعلان کر رکھا ہے کہ: کشمیر کا بھارتی آئین کے تحت آرٹیکل ۳۷۰ اور ۳۵-اےکے تحت اور اس کے ساتھ ساتھ بھارتی مقبوضہ کشمیر کے آئین کے آرٹیکل۶ کے تحت خصوصی استحقاق ختم کر دیا جائے گا‘‘۔ بی جے پی کے علی الرغم مختلف دستوری اور قانونی دھوکے بازیوں کے ذریعے، بھارت پہلے ہی کشمیر کے الگ تشخص کو محض دکھاوے کی حیثیت دے چکا ہے۔
’پارلیمانی اسٹینڈنگ کمیٹی آن ہوم آفیرز‘ بھارت، نے ۲۰۱۴ء میں سفارش کی تھی کہ: ’’مغربی پاکستان کے مہاجرین (غیرمسلم) کو جو جموں کے خطے میں رہ رہے ہیں، مستقل رہایشی سرٹیفکیٹ اور جموں و کشمیر میں ریاستی انتخابات میں انھیں راے دہی کا حق بھی دیا جانا چاہیے‘‘۔
یہ مہاجرین جنھوں نے ۱۹۴۷ء میں تقسیم برعظیم پاک و ہند کے موقعے پر پاکستان سے بھارت نقل مکانی کی تھی اور جموں کے خطے میں آباد ہوگئے تھے، مستقل رہایشی نہیں ہیں جیساکہ جموں و کشمیر کے آئین کے آرٹیکل ۶ میں اس کی وضاحت کی گئی ہے۔ اسی طرح بھارت کے آئین کے آرٹیکل ۳۵-اے کے تحت بھی مقبوضہ کشمیر میں ا ن کی آبادکاری غیر آئینی ہے۔ یہ غیرکشمیری ہندو جو مہاجر کہلاتے ہیں،ان کی تعداد ۶لاکھ بتائی جاتی ہے، جب کہ کچھ دیگر ذرائع کے مطابق ان کی تعداد ۱۰لاکھ سے زائد ہے۔
مقبوضہ کشمیر کی اتھارٹیز نے ان مہاجرین کو رہایشی سرٹیفکیٹ (ڈومیسائل) دینا شروع کردیے ہیں اور بھارتی ہوم منسٹر راج ناتھ سنگھ کی مقبوضہ کشمیر کی اتھارٹیز کو واضح ہدایت ہے کہ: ’’ریاستی آئین میں ضروری قانونی تبدیلیاں کرلی جائیں تاکہ یہ مہاجرین نہ صرف مستقل ریاستی رہایشی سرٹیفکیٹ (State Subject Certificate) حاصل کرسکیں، بلکہ جموں کے خطے میں  آٹھ انتخابی حلقوں کو بھی تشکیل دے سکیں‘‘۔
سوال یہ ہے کہ ۱۹۴۷ء میں ان مہاجرین کو جموں میں کیوں منتقل کیا گیا، بھارت کے کسی اور علاقے میں کیوں نہیں بھیجا گیا؟نتیجے کے طور پر سامنے آنے والے واقعات نے اس بات کو واضح کردیا کہ اس کا مقصد خطے کی آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنا تھا۔ یہ بات قابلِ غور ہے کہ جموں ڈسٹرکٹ میں مسلمانوں کی آبادی آج بمشکل ۵ فی صد ہے، جب کہ ۱۹۴۷ء میں یہاں مسلمانوں کی آبادی ۳۹ فی صد تھی۔ اسی طرح ضلع کٹھوعہ میں مسلمانوں کی آبادی ۳۰ فی صد سے کم ہوکر اب صرف ۸ فی صد رہ گئی ہے۔
ایک اور حقیقت یہ ہے کہ ۱۹۴۷ء میں ہزاروں کی تعداد میں کشمیری مسلمان پاکستان اور آزاد کشمیر ہجرت کر گئے اور اپنے پیچھے اربوں روپے کی جایداد چھوڑ گئے تھے۔ مقبوضہ کشمیر کی ریاستی اسمبلی نے اپریل ۱۹۸۲ء میں ری اسٹیبلشمنٹ بل دو تہائی اکثریت سے منظور کرلیا کہ  ان مہاجرین کو واپس آنے کی اجازت دی جائے، لیکن ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اسے سپریم کورٹ آف انڈیا لے جایا گیا، جہاں یہ فائل فیصلے کے انتظار میں عشروں سے گرد کے نیچے دبی ہوئی ہے۔ سپریم کورٹ نے اس پر عمل درآمد روکنے کے لیے stay کا حکم دے دیا۔
حقیقت یہ ہے کہ راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ (RSS)، بھارت کی ایک نسل پرست ہندو جماعت نے دھوکا اور دغابازی کے ذریعے ہزاروں بہاریوں، پنجابیوں اور بھارت کی دوسری ریاستوں کے ہزاروں شہریوں کے لیے اسٹیٹ سبجیکٹ سرٹیفکیٹ کے حصول کا پہلے ہی سے انتظام کرلیا ہے تاکہ انھیں جموں میں آباد کیا جاسکے۔ جون ۱۹۸۴ء میں، پنجاب میں سکھوں کے خلاف آپریشن بلیوسٹار کے نتیجے میں ہندوئوں کو جموں میں آباد ہونے کی اجازت دی گئی۔ انھیں شہریت کے حقوق بھی دیے گئے۔ ان مہاجروں کو شہریت کے حقوق عطا کرنے سے بلاشبہہ کشمیر کی آبادی کا تناسب تبدیل ہوجائے گا۔ جموں و کشمیر ایک متنازعہ خطہ ہے۔ ہوسکتا ہے کہ بعد میں آنے والی بھارتی حکومتیں طوطے کی طرح رٹنے کے باوجود کہ یہ ہمارا ’اٹوٹ انگ‘ ہے، حالات کے دبائو کے تحت ایک روز استصواب راے کے انعقاد پر مجبور ہوجائیں۔ یقینا ان مہاجروں کا ووٹ نتیجے کو فطری طور پر بھارت کے حق میں موڑ دے گا۔ 
جموں و کشمیر کے آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کے لیے دیگر منصوبوں پر بھی عمل درآمد جاری ہے، بالخصوص وادیِ کشمیر میں جہاں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب ۹۷ فی صد ہے۔ اس مقصد کے لیے غیر کشمیری ریٹائرڈ بھارتی آرمی افسروں کے لیے کالونیوں کی تعمیر کی جارہی ہے، جب کہ کشمیری ہندوئوں کے لیے بستیاں بھی بسائی جارہی ہیں۔ اسرائیل کی یہودی بستیوں کی تعمیر کی طرح یہاں بھارت غیرکشمیریوں کو مقبوضہ کشمیر میں آباد کررہا ہے۔
۲۰۱۶ء- ۲۰۲۶ء صنعتی پالیسی کے تحت ایک غیر ریاستی شخص مقبوضہ کشمیر میں ۴۰سال کے لیے زمین ٹھیکے (lease) پر حاصل کرسکتا ہے۔ پھر اسے زیادہ سے زیادہ ۹۰ سال تک توسیع دی جاسکتی ہے۔ یہ کاروباری مقتدرہ کی ایسٹ انڈیا کمپنی کی ہوبہو نقل ہے، جیساکہ اس سے پہلے اس نے برصغیر ہند پر قبضہ کیا تھا۔ بھارتی سپریم کورٹ نے اپنے حالیہ فیصلے میں کشمیر کی جایداد پر زبردستی قبضے اور اسے غیر ریاستی شہریوں کو منتقل کرنے کو قانونی طور پر جائز قرار دے دیا ہے۔ اس فیصلے کے بعد جن کو قبضہ دیا جائے گا، ان سب کے بارے میں توقع ہے کہ وہ غیرمسلم ہوں گے۔
بھارتی حکومت کا ان دنوں سب سے زیادہ زور جس بات پر ہے، وہ یہ ہے کہ اپنی عدلیہ کے ذریعے بھارتی آئین کے آرٹیکل ۳۵-اے کو کالعدم کرائے۔ اس سلسلے میں آر ایس ایس سے وابستہ تنظیموں اور افراد کے ذریعے بھارتی سپریم کورٹ میں عرضداشتیں داخل کی گئی ہیں۔ اگر آرٹیکل ۳۵-اے ختم ہوگیا، تو مقبوضہ کشمیر کے آئین کی ان دفعات کا جواز بھی ختم ہوگا جن کی رُو سے کوئی غیر ریاستی باشندہ کشمیر میں جایداد نہیں خرید سکتا ہے۔ نتیجتاً بھارت میں رہنے والے ہندو  مقبوضہ جموں و کشمیر میں زمین اور جایداد خرید کر آباد ہوجائیں گے اور آبادی کا تناسب بگاڑ دیں گے۔
اقوامِ متحدہ کی ۳۰مارچ ۱۹۵۱ء کی منظورکردہ قرارداد کے مطابق کوئی دستور ساز یا قانون ساز اسمبلی قانون سازی سے ایسی تبدیلیاں نہیں کرسکتے، جو استصواب راے کے نتائج کو متاثر کرسکیں۔ لہٰذا، وہ تمام اقدامات جو بھارتی حکومت نے عالمی سطح پر تسلیم شدہ خطے کی آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کے لیے اُٹھائے ہیں، اقوامِ متحدہ کی قرارداد کی واضح خلاف ورزی ہے۔
کشمیر کے لوگ بھارت کے تمام غیرقانونی اور غیراخلاقی اقدامات اور منصوبوں کے خلاف سڑکوں پر سراپا احتجاج ہیں اور اپنا خون دے کر اس کے خلاف مزاحمت کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی یہ قانونی اور اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ آگے بڑھے اور بھارت کو جموں و کشمیر کی اُس حیثیت کو تبدیل کرنے سے روک دے، جو ۱۹۴۷ء میں تقسیم برعظیم پاک و ہند کے وقت تھی۔