۱۱؍اپریل ۲۰۱۵ء کو پاکستانی وقت کے مطابق رات ۳۰:۹ بجے عالمِ اسلام کا ایک عظیم فرزند تختۂ دار پر جھول گیا۔ شہید محمد قمرالزمان ایک فرد نہیں بلکہ فی الحقیقت ایک تحریک تھے۔ وہ بنگلہ دیش میں تحریکِ اسلامی میں، ایک مدبر دینی و سیاسی رہنما، اور جماعت اسلامی کے مستقبل کے قائد تھے۔ وہ بہ یک وقت بزرگوں اور نوجوانوں میں مقبول اور نہایت سلجھی، متین اور متوازن طبیعت کے مالک تھے۔ انھوں نے دل و دماغ اور جسم کی تمام صلاحیتیں دین اسلام کی خدمت اور سرزمینِ بنگال میں مسلمانوں کی ترقی و سربلندی کے لیے کھپا دیں۔ صدافسوس کہ ایک سفاک، اذیت پسند اور بھارتی آلۂ کار گروہ نے انھیں موت کے گھاٹ اُتار دیا، اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ۔
جو اللہ کی راہ میں جان کا نذرانہ پیش کرتے ہیں، وہ ہمیشہ زندہ رہیں گے، صرف اہلِ حق کی یادوں ہی میں نہیں بلکہ اللہ کے وعدے کے مطابق انھیں ہراعتبار سے حیاتِ جاوداں حاصل ہے:
وَ لَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتٌ ط بَلْ اَحْیَآئٌ وَّ لٰکِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ o (البقرہ ۲:۱۵۴) جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں انھیں مُردہ نہ کہو، ایسے لوگ حقیقت میں زندہ ہیں، مگر تمھیں اُن کی زندگی کا شعور نہیں ہوتا۔
اور یہی وہ نفوسِ قدسیہ ہیں جنھیں ان کا خالق و مالک ان کی اس وفاشعاری کا پورا پورا اجر دے گا:
مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاھَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِ ج فَمِنْھُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَہٗ وَ مِنْھُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُ وَ مَا بَدَّلُوْا تَبْدِیْلًا o لِّیَجْزِیَ اللّٰہُ الصّٰدِقِیْنَ بِصِدْقِھِمْ وَ یُعَذِّبَ الْمُنٰفِقِیْنَ (الاحزاب ۳۳:۲۳-۲۴) ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنھوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچا کر دکھایا ہے۔ ان میں کوئی اپنی نذر پوری کرچکا اور کوئی وقت آنے کا منتظر ہے۔ انھوں نے اپنے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔ (یہ سب کچھ اس لیے ہوا) تاکہ اللہ سچوں کو ان کی سچائی کی جزا دے اور منافقوں کو سزا دے۔
اہلِ حق کی آزمایش کا یہ سلسلہ صبرواستقامت کے ساتھ جاری ہے۔
بنگلہ دیش کے وزیرقانون انیس الحق نے ۴؍اپریل کو پوری ڈھٹائی کے ساتھ ان الفاظ میں چیلنج کیا ہے کہ: ’’تحمل سے دیکھتے جایئے، انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل کے دائرۂ کار میں وسعت لانے کے لیے ہم ایک ترمیم بہت جلد کابینہ میں پیش کر رہے ہیں، جس کے نتیجے میں، اسی ٹریبونل سے جماعت اسلامی بنگلہ دیش کو ایک مجرم پارٹی کے طور پر غیرقانونی قرار دلایا جائے گا‘‘۔ (روزنامہ سٹار، ڈھاکہ، ۵؍اپریل ۲۰۱۵ئ)
محمد قمر الزمان کو حسینہ واجد کی حکومت نے جھوٹے مقدمات میں ۱۳جولائی ۲۰۱۰ء کو گرفتار کیا۔ ۹مئی ۲۰۱۳ء کو ایک نام نہاد عدالت نے انھیں سزاے موت سنائی۔ اس فیصلے کے خلاف نظرثانی کی اپیل پر اختلافی فیصلہ ۱۸فروری ۲۰۱۵ء کو جاری ہوا، جس میں کثرت راے سے سزاے موت کو برقرار رکھا گیا۔ اس فیصلے کے خلاف ۵مارچ کو سپریم کورٹ میں اپیل کی گئی، اور سماعت کے لیے ۵؍اپریل کی تاریخ مقرر ہوئی۔ سپریم کورٹ بنگلہ دیش کے چیف جسٹس سریندر کمارسنہا کی صدارت میں قمرالزمان کی اپیل کو مستردکرتے ہوئے سزاے موت کے فیصلے کو برقرار رکھا گیا۔ اٹارنی جنرل محبوب عالم نے کہا: ’’اب پھانسی کی سزا پر عمل درآمد میں کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہی‘‘۔(روزنامہ سٹار، ڈھاکہ، ۶؍اپریل ۲۰۱۵ئ)
عالمی اور قومی سطح پر ردِعمل کی شدت کے باوجود عوامی لیگی حکومت بڑی تیزی سے معاملات کو ناقابلِ واپسی نشان تک پہنچا رہی تھی۔ بنگلہ دیش نیوز نیٹ ورک نے ۷؍اپریل کو خبر دی کہ سنٹرل جیل ڈھاکہ میں سزاے موت پر عمل درآمد کے منتظر قمر الزمان کے بچے جب شام ۴۵:۴ پر ملاقات کے بعد باہر آئے، تو انھوں نے انگلیوں سے فتح کا نشان بنایا۔ قمرالزمان کے سب سے بڑے بیٹے اقبال حسن نے بتایا:
ہمیں اس فیصلے پر کوئی پریشانی نہیں، ہم اپنے والد سے مسکراہٹوں کے ساتھ جدا ہوکر آرہے ہیں۔ یہ سارا مقدمہ بے بنیاد ہے اور اس مقدمے پر یہ فیصلہ شرم ناک ہے۔ ہمیں اللہ کے سوا کسی سے انصاف کی اُمید نہیں ہے۔ اس مقدمے کی تیاری اور فیصلے کے ذمہ داروں اور موجودہ نام نہاد وزیراعظم سے ہمارا اللہ ہی نبٹے گا، وہی حقیقی عادل ہے۔ (بی ڈی نیوز، ۷؍اپریل ۲۰۱۵ئ)
’ہیومن رائٹس واچ‘(HRW) ایشیا کے ڈائرکٹر مسٹر براڈ ایڈمز نے قمرالزمان کی سزاے موت کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: ’’موت ایک ناقابلِ واپسی سزا ہے، اور جب ایسی سزا قانون کے تقاضوں کو نظرانداز کرکے دی جائے تو اس کے ظالمانہ ہونے میں دو راے نہیں ہوسکتیں۔ بنگلہ دیش میں جنگی جرائم کے مقدمات کا پورا عمل، شفاف قانونی طریقوں کی بے حُرمتی اور جانب دارانہ عدالتی طریق کار کسی مہلک بیماری میں مبتلا ہونے سے کم حیثیت نہیں رکھتا… بلاشبہہ ہم نے ۱۹۷۱ء میں مبینہ جنگی جرائم پر بازپُرس کی تائید کی تھی، مگر ساتھ یہ بھی کہا تھا کہ: ’’ان مقدمات کی سماعت بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ قانونی و عدالتی معیارات کے تحت ہونی چاہیے۔ کیونکہ اُس وقت قانون اور عدل کی پاس داری انتہا درجے کی اہمیت اختیار کر جاتی ہے، جب معاملہ کسی فرد کو سزاے موت سنائے جانے پر پہنچ رہا ہو۔ لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ قمرالزمان کے مقدمے کا، ان قانونی اور مبنی بر عدل معیارات کے مطابق فیصلہ نہیں ہوا‘‘۔ (بنگلہ دیشی اخبارات، ۷؍اپریل ۲۰۱۵ئ)
اقوامِ متحدہ کمیٹی براے انسانی حقوق (UNHRC) وہ ادارہ ہے، جو ’انسانی اور سیاسی حقوق کے عالمی معاہدوں‘ کی تشریح اور نگرانی کرتا ہے۔ اس کے مطابق: ’’سزاے موت کے فیصلوں کے عمل کو عادلانہ دفاع اور شفاف قانونی طریق کارکا اس درجے پابند ہونا چاہیے کہ کسی طرح کے شک و شبہے کی گنجایش نہ ہو۔ اور بنگلہ دیش نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ۱۸دسمبر ۲۰۰۷ء کو اس اتفاق راے پر مبنی قرارداد پر دستخط کیے ہیں، اس لیے بنگلہ دیش حکومت اس امر کی پابند ہے کہ وہ مسلّمہ عالمی عادلانہ اصولوں کی پاس داری کرے‘‘۔مگر جوشِ انتقام میں عوامی لیگی حکومت نے محمد قمرالزماں شہید کے معاملے میں اپنے تسلیم اور دستخط شدہ اصولوں کی دھجیاں اُڑائی ہیں۔
’انٹرنیشنل جیورسٹس یونین‘ (IJU) استنبول نے بنگلہ دیشی حکومت کی جانب سے سزاے موت سنائے جانے کے اقدام کی مذمت کرتے ہوئے کہا: ’’محمد قمرالزمان کے لیے اس انتہائی سزا کا اہتمام اپنی سیاسی مدِمقابل جماعت کو ختم کرنے کا کھلا منصوبہ ہے۔ جس ادارے کے ذریعے موت کی سزائیں سنائی جارہی ہیں، وہ کسی بھی معیار اور کسی بھی اصول کے تحت نہ تو ’عالمی‘ ہے اور نہ ’عدالت‘ کے معیار پر پورا اُترتا ہے۔ اس ضمن میں دنیا بھر کے قانون پسند اور مقتدر حضرات اور اداروں کو بنگلہ دیشی حکومت پر دبائو ڈالنا چاہیے کہ وہ اس غیرمنصفانہ سزا کو نافذ نہ کرے۔ اسی طرح خود بنگلہ دیش کے انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل کو ہیگ کے انٹرنیشنل کریمنل کورٹ (ICC) کے طے شدہ ضابطوں کے تحت تشکیل دیا جانا چاہیے، تاکہ کسی شک و شبہے اور زیادتی کی گنجایش نہ رہے‘‘۔(ورلڈ بلیٹن، ۸؍اپریل ۲۰۱۵ئ)
شہید قمرالزمان کے بڑے بیٹے اقبال حسن نے ۱۱؍اپریل کی شام، شہادت سے چند گھنٹے پہلے اپنے والد سے ۳۵منٹ کی آخری ملاقات کے بعد جیل سے باہر نکل کر اخبارنویسوں کو بتا دیا تھا کہ: ’’میرے والد نے شہید عبدالقادر مُلّا کی طرح، ایک ظالم اور عدل کی قاتل حکومت سے رحم کی اپیل نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ میرے والد کو آج صبح دو ججوں نے ملاقات میں یہ کہا کہ ’’آپ رحم کی اپیل کریں تو آپ کی جان بچ جانے کا پورا امکان ہے‘‘، مگر میرے والد نے انھیں واضح طور پر کہہ دیا:
حکومت نے جھوٹا اور بددیانتی پر مبنی مقدمہ درج کیا تھا۔ جب میں نے کسی جرم کا ارتکاب ہی نہیں کیا تو پھر میں معافی کس چیز کی مانگوں؟ میں ایسی ظالم، بدعنوان اور انسانیت کی قاتل حکومت کے صدر سے اپنی زندگی کی بھیک نہیں مانگ سکتا۔ جو آپ کے جی میں آتا ہے کریں، میرا حامی و مددگار صرف میرا اللہ ہے۔
اقبال حسن کے بقول: ’’جب ہم اپنی والدہ اور بہن بھائیوں کے ہمراہ آخری ملاقات کے لیے والد محترم کی کوٹھڑی کے قریب پہنچنے تو وہ اس بات سے بے خبر تھے کہ ہم ان سے ملنے قریب پہنچ چکے ہیں۔ مجھے اپنے والد کی پھانسی کوٹھڑی کا پتا دُور سے اُس آواز نے بتایا، جو اُن کی تلاوت قرآنِ پاک سے معمور تھی۔ جب ہم سلاخوں کے پیچھے کوٹھڑی کے قریب پہنچے تو انھوں نے مسکراہٹ سے ہمارا استقبال کیا، اور ’السلام علیکم‘ کہہ کر سب سے پہلی بات ہم سے یہ کہی کہ:
میں بنگلہ دیش میں اسلامی نظام کا نفاذ دیکھنا چاہتا تھا۔ اللہ کو میری اتنی ہی زندگی منظور ہے تو اب اگلے سفر کے لیے نوجوان اس تحریک کی قیادت سنبھالیں، اپنی بہترین صلاحیتیں پروان چڑھائیں اور ان صلاحیتوں کو اس راہ میں کھپائیں۔ ہم وطنوں کو بھارتی آلۂ کار حکومت کے ظلم اور غلامی سے بچائیں اور اس ظلم کا حساب بھی لیں۔ اس ظلم کا حساب یہ ہے کہ اس سرزمین پر اللہ کی حاکمیت قائم ہو اور اسی مقصد کے لیے جدوجہد کی جائے۔
انھوں نے ہم بہن بھائیوں کو یہ نصیحت کی کہ ہم اپنی تمام زندگی ایمان کے ساتھ اور ایمان پر عمل کے ذریعے گزاریں۔ہم اہلِ خانہ اور جماعت اسلامی اور اسلامی چھاترو شبر [اسلامی جمعیت طلبہ] کے کارکنوں کو انھوں نے جو آخری پیغام دیا، وہ بہت مختصر ہے:
قرآن کو اپنا ساتھی بنائیں، قرآن کے سایے میں زندگی گزاریں ،اور قرآن و سنت ہی کو پوری زندگی کا رہنما بنائیں۔
جس وقت ہفتے کی رات ۳۰:۹ بجے محمد قمرالزمان کو پھانسی دی گئی، اُس وقت حکومتی اہتمام میں ’سیکولر کارکنوں‘ کا ایک جمگھٹا، سنٹرل جیل ڈھاکہ کے باہر: ’’پھانسی دو، پھانسی دو‘‘ کے نعرے بلند کر رہا تھا۔ پولیس اور مسلح اہل کاروں کی بڑی فورس کسی دوسرے فرد کو اس علاقے کے قریب بھی پھٹکنے نہیں دے رہی تھی، مگر اس ’پسندیدہ گروہ‘ کو جیل کے قریب لے جاکر نعرے لگوانے کا خصوصی اہتمام کیا گیا۔
بنگلہ روزنامہ نیادیگنتا کے مطابق جیل کے عملے نے بتایا:’’جب محمد قمرالزمان سے کہا گیا کہ: ’’وقت ہوگیا ہے، اب پھانسی گھاٹ چلنا ہے، تو وہ بسم اللہ پڑھ کر کھڑے ہوگئے۔ عملے کے دو آدمیوں نے سہارا دینے کے لیے قدم بڑھایا تو انھوں نے کسی طرح کا سہارا لینے سے انکار کردیا اور خود ہی منزل کی طرف چل پڑے۔ پھانسی گھاٹ کی طرف ان کے چلنے کی رفتار اتنی تیز تھی کہ ساتھ دینے والا عملہ تقریباً دوڑ رہا تھا۔ یوں قمرالزمان بلندآواز میں تلاوت کرتے ہوئے پھانسی کے تختے پر جاکھڑے ہوئے اور آخری لمحے تک بغیر کسی گھبراہٹ کے تلاوت ہی میں مصروف رہے‘‘۔
اتوار کو سحری کے وقت جب شہید محمد قمرالزمان کی میّت شیرپور کے گائوں کماری بازی ٹکھالی (Kumari Bazitkhali) لائی گئی تو اس چھوٹے سے گائوں کو چاروں طرف سے پولیس، ریپڈ ایکشن بٹالین (RAB) اور بارڈر گارڈ بنگلہ دیش (BGB)کے ہزاروں مسلح اہل کاروں نے گھیر رکھا تھا (بزدلی کی انتہا ہے)۔ سحری کے وقت صرف ۵۰؍افراد کو نمازِجنازہ پڑھنے کی اجازت دی گئی اور پاکستان کے وقت کے مطابق صبح چاربج کر ۴۵منٹ پر قمرالزمان کی تدفین عمل میں لائی گئی۔ ۸بجے کے بعد جوں ہی مسلح سرکاری اہل کاروں کا ایک حصہ وہاں سے واپس گیا، تو بی بی سی لندن کے مطابق مقامی صحافی عبدالرحمن نے بتایا:’’ بے شمار لوگ آہ و فغاں کرتے اور سسکیاں بھرتے قبرستان میں جمع ہوگئے‘‘۔ پھر کچھ دیر بعد ہزاروں لوگوں نے وہاں پر قمرالزمان کی غائبانہ نمازِ جنازہ ادا کی۔
اخبارات کو جاری کیے گئے ایک خط میں محمد قمرالزمان شہید کے بیٹے حسن زمان نے لکھا ہے:
ہمیں اپنے والد گرامی کی عظیم الشان شہادت پر فخر ہے۔ اے حسینہ واجد! آپ میرے والد کو شہید کرنے میں کامیاب رہیں، لیکن آپ کو شاید علم نہیں کہ میرے والد قمرالزمان شہید جنت الفردوس میں ہیں اور آپ کے والد شیخ مجیب الرحمن جہنم کا ایندھن بنے ہیں۔ آپ نے میرے والد کو اس جرم میں پھانسی کا سزاوار ٹھیرایا کہ انھوں نے ۱۹۷۱ء میں اپنے علاقے میں امن کے قیام اور بھارتی مداخلت کے خلاف رکاوٹ بننے کی کوششیں کی تھیں۔ اگر انھوں نے وہ جرائم کیے ہوتے جو آپ نے جھوٹ پر مبنی مقدمے میں درج کیے تھے، تو علاقے کے لوگوں کو بھی اس کا کچھ علم ہوتا مگر پورے علاقے میں ایسا کچھ نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے ۴۲برس تک کسی ایک فرد نے بھی میرے والد کو بُرے نام سے نہیں پکارا۔ آپ نے میرے والد کو ۲۰۱۰ء میں گرفتار کرکے مختلف جیلوں اور تشدد گاہوں میں حیوانی تشدد کا نشانہ بنایا، مگر انھوں نے اس تمام تشدد کو خندہ پیشانی اور صبر سے برداشت کیا۔ آپ نے ہرحربہ اختیار کیا کہ میرے والد کو نفسیاتی طور پر توڑ دیا جائے، مگر الحمدللہ وہ ثابت قدم رہے۔ آپ کا خیال تھا کہ وہ سزاے موت کے خلاف آپ لوگوں سے زندگی کی بھیک مانگیں گے، لیکن انھوں نے آپ کی اس مذموم خواہش کو پائوں کی ٹھوکر سے اُڑا دیا۔ (بنگلہ اخبارات)
روزنامہ جسارت نے اس موقعے پر ’قمرالزمان کی پھانسی اور پاکستان کی بے حسی‘ کے زیرعنوان اپنے اداریے میں لکھا: ’’بنگلہ دیش حکومت کے تمام اقدامات خالصتاً پاکستان کے خلاف معاندانہ رویے پر مبنی ہیں۔ بنگلہ دیش کے متنازع اور غیرقانونی ٹریبونل کے مقدمات اور الزامات دراصل سب کے سب پاکستان اور پاک فوج کے خلاف چارج شیٹ ہیں، لیکن پاکستانی حکومت اور دیگر سیاسی جماعتوں نے اسے بنگلہ دیش کا اندرونی مسئلہ قرار دے کر فرار کا راستہ اختیار کر رکھا ہے۔ اس مقام تک بات پہنچانے میں مغرب، یہود اور ہنود کے زیرکنٹرول پاکستانی میڈیا نے اہم کردار اداکیا ہے، بلکہ اس کو ایجنڈا ہی یہ دیا گیا ہے کہ پاکستان، نظریۂ پاکستان اور اسلام سے وابستگی کو گالی بنا دیا جائے۔ چنانچہ [آج] جب بنگلہ دیش میں خاص طور پر جماعت اسلامی کو نشانہ بنایا جا رہا ہے تو ہمارا میڈیا بالکل خاموش ہے… آج اگر بنگلہ دیش حکومت کو نہیں روکا گیا تو پھر وہ کل پاک فوج کے خلاف بھی اقدامات کرے گی، اور اس وقت اگر کچھ کہا گیا تو یہی یاد دلایا جائے گا کہ ’’یہ بنگلہ دیش کا اندرونی معاملہ ہے‘‘۔(۱۳؍اپریل ۲۰۱۵ئ)
روزنامہ نواے وقت (۱۳؍اپریل) نے اداریے میں لکھا: ۱۹۷۱ء میں عالمی سازشوں کے نتیجے میں پاکستان دو ٹکڑے ہوا۔ اس سے قبل یہ دونوں علاقے مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کہلاتے تھے۔ جب بھارتی افواج اور اس کی حمایت یافتہ مکتی باہنی کے مسلح تخریب کاروں نے پاکستان کے خلاف کارروائیاں شروع کیں تو محب ِ وطن بنگالی پاکستانیوں نے اس کے خلاف حب الوطنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کا ساتھ دیا۔ ان کا یہ فعل اپنے ملک کے دفاع کے لیے جائز اور برحق تھا۔ اب ۴۴برس بعد اپنے وطن کا دفاع کرنے والوں کو ’جنگی مجرم‘ قرار دے کر پھانسی پر لٹکائے جانے کا عمل نہایت افسوس ناک ہے۔ اگر یہ لوگ مجرم ہوتے تو بنگلہ دیش کے قیام کے بعد انھیں تختۂ دار پر کیوں نہیں لٹکایا گیا۔ اب حسینہ واجد کے دورِ حکومت میں ایسا [اس لیے] کیا جارہا ہے کہ جماعت اسلامی آج بھی بنگلہ دیش میں ایک مضبوط سیاسی جماعت ہے۔ جماعت اسلامی کے جن عہدے داروں کو پھانسی دی گئی ہے، انھوں نے بنگلہ دیش بننے کے بعد کبھی نئے ملک کی مخالفت نہیں کی، اور نہ اس کے خلاف کوئی کام کیا۔ وہ تو بنگلہ دیش کے پُرامن شہری بن کر رہے۔ پاکستان کو ایسے لوگوں کی پھانسی پر شدید ردعمل ظاہر کرنا چاہیے، کہ جن کو پاکستان کی حمایت کی سزا دی جارہی ہے، اور پاکستان کو ان لوگوں کی سزا ختم کرانے کے لیے کوششیں کرنی چاہییں‘‘۔
روزنامہ اُمت (۱۳؍اپریل)نے قمرالزمان کی شہادت پر جو خصوصی شذرہ شائع کیا، اس کا کچھ حصہ پیش ہے:
محمد قمرالزمان ۴جولائی ۱۹۵۲ء کو شیرپور کے ایک گائوں میں پیدا ہوئے۔ ۱۹۶۹ء میں میٹرک کے دوران اسلامی جمعیت طلبہ کی دعوت قبول کی۔ ۱۹۷۱ء میں جب سالِ دوم کے طالب علم تھے، تو اپنے علاقے میں امن و امان کی بحالی کے لیے رضاکارانہ خدمات انجام دیں۔ ۱۹۷۶ء میں ڈھاکہ یونی ورسٹی سے ایم اے صحافت کیا۔ ۱۹۷۴ء سے ۱۹۷۷ء تک ڈھاکہ میں طلبہ کو منظم کیا اور ۶فروری ۱۹۷۷ء کو ڈھاکہ یونی ورسٹی میں اسلامی چھاترو شبر کی تاسیس میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اس کے پہلے مرکزی سیکرٹری جنرل مقرر ہوئے، اور اگلے برس ۱۹۷۸ء میں مرکزی صدر منتخب ہوئے۔ تعلیم سے فارغ ہوتے ہی ۱۹۷۹ء میں جماعت اسلامی کے رکن بن گئے۔ ۱۹۸۰ء میں عملی زندگی کا آغاز ڈھاکہ ڈائجسٹ کے مدیر منتظم کی حیثیت سے کیا۔ ۱۹۸۳ء میں ہفت روزہ سونار بنگلہ کی ادارت سنبھالی۔ روزنامہ سنگرام کی مجلس ادارت کے کلیدی رکن کی حیثیت سے اہم صحافتی خدمات انجام دیں۔ وہ بنگلہ دیش کے صحافیوں کی پیشہ ورانہ تنظیموں کے سرگرم رکن رہے، جن میں ’ڈھاکہ یونین آف جرنلسٹس‘، ’بنگلہ دیش فیڈرل یونین آف جرنلسٹس‘ اور نیشنل پریس کلب شامل ہیں۔ ۱۹۸۳ء سے ۱۹۹۱ء تک جماعت اسلامی کے مرکزی سیکرٹری نشرواشاعت اور ۱۹۹۲ء سے تاحال مرکزی سینیر ڈپٹی سیکرٹری جنرل تھے۔
قمرالزمان کی بے گناہی کا ثبوت ان کی پوری زندگی ہے اور جس شان سے وہ سوے دار چلے اور موت کے پھندے کو اللہ کا نام لے کر چوم کر انھوں نے اس پر مہرتصدیق ثبت کردی۔ قمرالزمان ۱۹۷۱ء کے خون آشام دور کے بعد ڈھاکہ یونی ورسٹی میں اپنا سر فخر سے بلند کرتے ہوئے داخل ہوئے۔ وہی ڈھاکہ یونی ورسٹی جہاں عوامی لیگ کے طلبہ کا غلبہ تھا اور جو چھانٹ چھانٹ کر ان لوگوں کو نشانہ بنا رہے تھے، جن پر انھیں ’جنگی جرائم‘ کا شبہہ تھا۔ انھوں نے اسی یونی ورسٹی میں کھلے بندوں تعلیم حاصل کی۔ ایم اے میں اول پوزیشن حاصل کی، اسلامی چھاترو شبر کے سرگرم رکن رہے اور کسی نے ان پر انگلی نہ اُٹھائی۔ ۷۴-۱۹۷۳ء میں جب جنگی جرائم کے مرتکب افراد پر مجیب الرحمن کے دورِ حکومت میں مقدمات بنائے گئے تو ان کا کہیں ذکر نہ تھا۔ لیکن اب ۴۰برس بعد مجیب کی بیٹی اور اس کے حواریوں نے ان کو اس جھوٹے مقدمے میں محض سیاسی انتقام اور جماعت اسلامی کو زِک پہنچانے کے لیے پھانسا جسے عدالتی عمل میں ثابت نہ کیا جاسکا۔ سیکولر قوم پرستانہ ’انصاف‘ کی مثال دیکھیے کہ جن دیہات کے ۱۲۰؍افراد کو ’قتل کرنے‘ اور ’بے حُرمتی‘ اور ’لُوٹ مار‘ کا الزام لگایا گیا، وہاں سے ایک بھی گواہ پیش نہ کیا جاسکا۔ اور جو گواہ پیش کیے ان پر وکلاے صفائی کو جرح کا موقع تک نہ دیا گیا۔ محمدقمرالزمان نے اس ’عدالتی قتل گاہ‘ میں ظالموں کو ظالم کہا اور اپنی شہادت سے اپنے برحق ہونے کو ثابت کردیا۔
قمرالزمان سیاست دان اور صحافی ہی نہیں بلکہ ایک محقق اور دانش ور بھی تھے۔انھوں نے بہت سے مضامین اور متعدد بنگلہ کتب تصنیف کیں: mعصرِجدید اور اسلامی انقلاب mتحریک اسلامی اور عالمی منظرنامہ mمغرب کا چیلنج اور اسلام mانقلابی رہنما: پروفیسر غلام اعظم، جب کہ خرم مراد کی کتاب قرآن کا راستہ کا بنگلہ ترجمہ شامل ہیں۔
آج بنگلہ دیش میں جو صورتِ حال ہے، اس کے بارے میں جماعت اسلامی کے قائم مقام سیکرٹری جنرل ڈاکٹر شفیق الرحمن کا یہ بیان قابلِ توجہ ہے: ’’عوامی لیگی حکومت کی فسطائی حکمت عملی کے نتیجے میں نہ صرف بڑے پیمانے پر جماعت اسلامی اور اسلامی چھاترو شبر کے کارکنوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے، بلکہ گرفتار کرتے وقت اُن پر وحشیانہ تشدد بھی کیا جاتا ہے۔ مزید یہ کہ ان کے گھروں میں لُوٹ مار بھی کی جاتی ہے اور گھروں کے برتن، فرنیچر اور شیشے تک توڑ پھوڑ دیے جاتے ہیں۔ یہ طرزِعمل دراصل اس لیے اختیار کیا جاتا ہے کہ اردگرد کے لوگوں میں دہشت پھیل جائے، اور خود نشانہ بننے والا گھرانہ دیر تک معاشی دبائو کی زد میں رہے۔سڑکوں پر اور مظاہروں میں ہمارے کارکنوں کو قتل کرنے کے لیے حکومتی مشینری اور عوامی لیگی کارکنوں کو کھلی چھٹی دے دی گئی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ اس نوعیت کے لاتعداد واقعات بھی ہیں: ۳؍اپریل کو گوبند گنج جیل میں اسلامی چھاترو شبر کے رکن سحرالاسلام کو تشدد کرکے شہید کردیا۔ انھیں دو ماہ قبل گرفتار کرتے وقت لاٹھیاں مار کر زخمی کر دیا تھا، اور زخمی حالت میں جیل میں ڈال دیا اور پھر تشدد کرکے مار دیا ۔ پھر ۶؍اپریل کو نواکھالی میں ’شبر‘ کے کارکن عمرفاروق کو گولی مار کر قتل کر دیا۔ ۲؍اپریل کو سراج گنج میں پولیس افسر نے ’شبر‘ کے ۱۸سالہ رکن انیس الرحمن انیس کو گولی مار کر شہید کردیا۔ اسی طرح پبنہ صدر میں جماعت اسلامی کے رکن محمدشریف الاسلام کو بھرے بازار میں چھرا گھونپ کر مار دیا۔ یہ واقعات روزانہ کی بنیاد پر ریاستی، حکومتی اور سیاسی فسطائیت کی بدترین مثالیں ہیں‘‘۔
تاریخ میں یہ انوکھی مثال ہے کہ ۴۰برس گزرنے کے باوجود عوامی لیگ، ہندستان کی بی ٹیم کی پوزیشن ہی پر قائم رہنا چاہتی ہے اور اسی حیثیت میں اپنے ہی لوگوں کو مار کر اپنے بیرونی آقائوں کو خوش کرنے میں دن رات مصروف ہے۔ ایسی ظالمانہ غلامی کی مثال مسلم دنیا نے کم ہی دیکھی تھی، لیکن علاقائی قومیت و لسانیت کے بت کی پوجا کرنے والوں نے ایسی قابلِ نفرت مثال پیش کی ہے۔
اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ عوامی لیگ، بنگلہ دیش کو ایک آزاد مسلم ملک کے طور پر ترقی دینا چاہتی ہے تو یہ اُس کی کم فہمی ہے۔ جب مسلم لیگ سے الگ ہوکر عوامی لیگ بنی تھی، تب سے اس پارٹی کا اوّلین ہدف بھارتی برہمنوں کی خوشنودی رہا ہے۔ ۱۹۷۱ء میں جماعت اسلامی نے تو یقینا پاکستان کی سالمیت اور بھارتی گماشتوں اور بھارتی فوجوں کے مقابلے کے لیے جان ہتھیلی پر رکھی تھی، لیکن اس کے برعکس بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کے وہ عناصر جو ۱۹۷۱ء میں عملاً عوامی لیگ ہی کا حصہ تھے، اس بی این پی کو بھی عوامی لیگ دم لینے کی مہلت نہیں دینا چاہتی، کیونکہ بی این پی کا موقف بھی یہ ہے کہ: ’’بنگلہ دیش کی خودمختاری کا تحفظ کیا جائے، اسے ہمسایہ بھارت کا تابع مہمل طفیلی ریاست نہ بنایا جائے‘‘۔ یہ چیز نہ بھارت کو ہضم ہوسکتی ہے اور نہ بھارت کے بنگلہ دیشی کارندوں کو راس آسکتی ہے۔
یہ بھارت اور حسینہ واجد کے اس منصوبے کا حصہ ہے کہ جماعت اسلامی اور دیگر اسلامی حلقوں کی سیاسی اور اجتماعی قوت کو بنگلہ دیش میں اس طرح کاٹ دیا جائے کہ وہ کبھی طاقت نہ پکڑسکیں۔ جماعت اسلامی کے دیگر اکابر رہنمائوں کو سزاے موت کی صف میں کھڑا کیا ہوا ہے۔ خصوصاً مئی ۲۰۱۵ء میں سیکرٹری جنرل علی احسن محمد مجاہد اور غالباً مطیع الرحمن نظامی کو ہدف بنانے کا خدشہ ہے۔ بعداز شہادت احتجاج کے بجاے، ان قیمتی جانوں کو بچانے کے لیے آج آواز بلند کرنے کی ضرورت ہے۔
حیرت انگیز بات ہے کہ اقوامِ متحدہ اور دیگر عالمی انسانی ادارے اس ظلم و درندگی کو روکنے میں بہت سُست روی کے شکار دکھائی دیتے ہیں۔ حالانکہ بنگلہ دیشی جنگی جرائم کے نام نہاد ٹریبونل نہ صرف بنگلہ دیش میں، بلکہ دنیابھر کے انصاف پسند اور غیر جانب دار حلقوں میں، کسی درجے بھی قابلِ اعتماد عدالتی ادارہ تسلیم نہیں کیے گئے۔ سبھی نے انھیں برسرِاقتدار گروہ کے سیاسی مقاصد کی تکمیل کا بدترین آلۂ شر تصور کیا ہے۔
۱۵؍اپریل ۲۰۱۵ء کو بنگلہ دیش کے اخبارات میں امریکی محکمہ خارجہ کے نام ایک خفیہ برقی پیغام افشا ہوکر شائع ہوا، جس کے مطابق: ’’عوامی لیگی حکومت کے انتہاپسند عناصر کی راے ہے کہ: ’’یہی درست وقت ہے، جب جماعت اسلامی اور دیگر اسلامی پارٹیوں کو تباہ کیا جاسکتا ہے‘‘۔
بیرسٹر ٹوبی کیڈمین (Toby Cadman) برطانوی نژاد ، بین الاقوامی قانون کے عالمی ماہر ہیں۔ وہ بوسنیا اور روانڈا میں جنگی جرائم کی تحقیقات کے لیے ناقابلِ فراموش خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔ انھوں نے بنگلہ دیش میں، جماعت اسلامی کے خلاف مقدمات کے اس عمل پر بہت سے مضامین لکھے ہیں۔ ان کے ایک مضمون سے چند حصے ملاحظہ ہوں:
’’بنگلہ دیش کا انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل مکمل طور پر ایک قومی [بنگالی] ادارہ ہے۔ اسے کسی بھی اعتبار سے بین الاقوامی نوعیت کا قرار نہیں دیا جاسکتا۔ بنگلہ دیش بہت سے عالمی یا بین الاقوامی معاہدوں کا پابندہے، مگر پوری کوشش کی گئی ہے کہ ۱۹۷۱ء کے واقعات کے حوالے سے قائم کردہ ٹریبونل کی کارروائی میں کسی بھی بین الاقوامی معاہدے کا کچھ خیال نہ رکھا جائے۔ پھر اس ٹریبونل کو ایک آزاد، خودمختار اور غیر جانب دار ٹریبونل کی حیثیت سے کام کرنے کے قابل بنانے کے لیے مطلوب وسائل بھی فراہم نہیں کیے گئے‘‘۔
’’حقیقت یہ ہے کہ بنگلہ دیشی حکومت کی پہلے دن سے یہ کوشش رہی ہے کہ کوئی بین الاقوامی ماہر قانون اس ٹریبونل کے سامنے پیش نہ ہو۔ ہم دیکھ چکے ہیں کہ کئی عالمی ماہرین قانون نے بنگلہ دیشی حکومت کو جنگی جرائم کے ان نام نہاد مقدمات میں معاونت کی پیش کش کی، مگر ہربار اس پیش کش کو قبول کرنے سے انکار کردیا گیا۔ ایسا غالباً اس لیے کیا گیا ہے کہ بنگلہ دیشی حکومت کو یہ خوف لاحق ہے کہ غیر جانب دارانہ انداز سے مقدمات چلائے جانے کی صورت میں،اس کے لیے مطلوبہ فیصلوں کا حصول ناممکن ہوگا۔اس بارے میں جیوفرے رابرٹسن کی رپورٹ بہت اہم ہے،جن کے بقول: ’’انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل کے لیے غیرملکی اور غیر جانب دار ججوں کا تقرر لازم ہے، کیونکہ ملک کے اندر سے مقرر کیے جانے والے جج قومی عصبیت میں بہہ گئے ہیں اور قانون کے بنیادی اصولوں پر خاطرخواہ توجہ دینے میں ناکام رہے ہیں‘‘۔
’’اسی طرح بنگلہ دیش میں نام نہاد جنگی ٹریبونل کی کارروائی غیرمعمولی حد تک اُلجھی ہوئی اور متنازع ہے، جس میں انصاف کی فراہمی کے پورے عمل کو دائو پر لگادیا گیا ہے۔ مقدمات کی کارروائی کسی بھی اعتبار سے ایسی شفاف نہیں ہے کہ اس پر کہیں سے کوئی اعتراض کیا ہی نہ جاسکے۔ حالانکہ اس معاملے میں شفافیت اور جامعیت کا خیال رکھا جانا لازم ہے۔ ایسا نہ کرنے کی صورت میں جانب داری اور ناانصافی کا الزام عائد کیا جانا بالکل فطری امر ہے۔ میں پورے یقین کی بنیاد پر یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ مدعا علیہان [جماعت اسلامی سے نامزد کردہ ملزمان] نے کسی بھی مرحلے پر معاملات کو خواہ مخواہ اُلجھانے اور بگاڑنے کی کوشش نہیں کی، اور ان کا ایسا کوئی ارادہ تھا ہی نہیں۔ وہ تو صرف یہ چاہتے ہیں کہ جنگی جرائم کے نام نہاد مقدمات عالمی برادری کی نگرانی میں چلائے جائیں تاکہ غیرجانب دارانہ کارروائی کے نتیجے میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے۔ مگر بدقسمتی سے اس پورے عمل کا بنیادی محرک سیاسی انتقام دکھائی دیتا ہے۔ عالمی سطح پر دنیا مجموعی طور پر یہی سمجھتی ہے کہ بنگلہ دیش کی حکومت ’جنگی جرائم کی تحقیقات‘ کے نام پر اور غیرمعیاری طریق کار اپنا کر محض سیاسی انتقام لے رہی ہے‘‘۔(tobycadman.com)
عالمی ادارے اس امر میں مکمل طور پر ناکام دکھائی دیتے ہیں کہ وہ بنگلہ دیش کی غیرقانونی حکومت کو مجبور کریں کہ وہ بددیانتی پر مبنی عدالتی ڈرامے کے بجاے درست عدالتی عمل کو شروع کرے۔
نام نہاد جنگی جرائم ٹریبونل کے یہ تمام مقدمات ظاہر کرتے ہیں کہ گذشتہ برسوں میں عدلیہ میں عوامی لیگ کی سیاسی بھرتیوں نے ایسی صورت حال پیدا کردی ہے کہ وہاں کے چیف جسٹس سے لے کر نچلی سطح تک، ججوں میں انصاف کی پاس داری سے بڑھ کر زمانۂ طالب علمی کی عوامی لیگ کی سیاست پرستی رنگ جما رہی ہے۔ اسلامی قوتوں اور خصوصاً جماعت اسلامی سے نفرت کے جذبات رکھنے والے برسلز، بلجیم میں مقیم ڈاکٹر احمد ضیاء الدین اس خونیں ڈرامے کے ہدایت کار ہیں، جنھیں اکانومسٹ لندن اور وال سٹریٹ جرنل نے دسمبر ۲۰۱۲ء میں بے نقاب کردیا تھا۔ یاد رہے کہ اُس وقت مذکورہ متنازع ٹریبونل کے چیئرمین جسٹس نظام الحق اور ضیاء الدین کی اس گفتگو کو اکانومسٹ نے ان لفظوں میں شائع کیا تھا: ’’ڈاکٹر ضیاء الدین نے جسٹس نظام الحق سے کہا تھا کہ وہ جلد از جلد فیصلے نمٹائیں (فیصلوں کا مطلب سزاے موت سنانا ہے)۔ کوئی بھی آپ کو مقدمات کی سماعت سے نہیں روک سکے گا، اور ان ملزموں کو اسی سرزمین پر پھانسی دی جائے گی‘‘۔ (روزنامہ اسٹار، ڈھاکہ، ۳مارچ ۲۰۱۳ئ)۔ بیرسٹر ٹوبی کیڈمین کے بقول: ’’نظام الحق اور ضیاء الدین کی اس گفتگو سے بالکل واضح شکل سامنے آئی کہ بنگلہ دیش ’وار کرائمز ٹربیونل‘ کے سربراہ تو نظام الحق تھے، مگر وہ کام ڈاکٹر ضیاء الدین کی ہدایات کی روشنی میں کرتے تھے‘‘۔ان حقائق کی بنیاد پر نام نہاد ٹریبونل کی عدالتی دیانت کا بھانڈا بیچ چوراہے پھوٹ گیا تھا۔
اس سارے پس منظر میں سب سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ پاکستان کا دفاع کرنے والوں کے قتلِ عام پر پاکستان کی حکومت، سیاسی پارٹیوں اور سیاست دانوں کا رویہ تقریباً لاتعلقی کا ہے۔ وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثار علی خاں نے اس المیے پر جرأت مندانہ اور حقیقت پسندانہ بیان دیا، لیکن دوسری طرف وزیراعظم اور وزارتِ خارجہ کا اس ضمن میں رویہ ناقابلِ فہم اور حددرجہ مداہنت پر مبنی ہے۔یہ اس بیماری کی علامت ہے کہ ہمارے پاکستانی حکمران، دانش ور اور صحافتی حلقے اپنے اپنے مفادات کے اسیر ہیں۔ انھیں پروا نہیں کہ پاکستان کی تاریخ کے درست تناظر کو بگاڑا جارہا ہے اور ایک نیا جعلی تناظر تیار کیا جارہا ہے۔حالانکہ ان کا دشمن اپنی تمام تر حکمت عملی اُس تاریخ کی بنیاد پربنا رہا ہے، جو خود دشمن کے ہاتھوں مسخ کرکے لکھی اور جھوٹی داستانوں کی شکل میں پھیلائی گئی ہے۔صد افسوس کہ ہمارے مقتدر اور حکمران طبقے بھی اسی پر ایمان لابیٹھے ہیں۔
بنگلہ دیش میں تمام تر ریاستی فسطائیت دراصل اسلام پسند قوتوں کو کچلنے کی سازش ہے۔ تاہم قمرالزمان کی شہادت کے باوجود اہلِ بنگلہ دیش پُرعزم ہیں، اللہ کے اس فرمان کے پیش نظرکہ اللہ کے دین کو بہرحال غالب آکر رہنا ہے۔ وہ غلبۂ اسلام کی جدوجہد کو ایک نئے عزم، ولولے اور صبرواستقامت سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِئُوْا نُوْرَ اللّٰہِ بِاَفْوَاہِھِمْ وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ o (الصف ۶۱:۸) یہ لوگ اپنے منہ کی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں، اور اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ اپنے نور کو پورا پھیلا کر رہے گا خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔
اسلام دشمن قوتوں کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ظلم و ستم اور جبر و سفاکیت سے اسلام کو غالب آنے سے نہیں روکا جاسکتا۔
ایک خالص قانونی پہلو ہے۔ اگر کسی نے جرم کیا ہے اور اس کو قانون کے مطابق سزا ملتی ہے تو یہ اس کے جرم کا فطری انجام ہے ۔
اگر مجرم کو اپنی غلطی کا احساس اور اعتراف ہوتا ہے، اور وہ سزا کے ساتھ اپنے رب اور ان افراد سے جن کے حقوق پر اس نے ڈاکا ڈالا ہے، خلوصِ نیت سے معافی طلب کرتا ہے تووہ اخلاقی طور پر اپنے آپ کو سدھارنے (rehabilitate)کے عمل کا آغاز کرتا ہے اور اس طرح اپنے دامن کے داغ دھو کر ایک نئی صاف ستھری زندگی کا آغازکرتا ہے۔
جرم و سزا کے تعلق کی ایک تیسری شکل بھی ہے اور وہ یہ کہ ایک شخص نے کوئی جرم نہ کیا ہو، مگر اس معصوم انسان کو ظلم کا نشانہ بنایا جائے اور ایسی سزا دی جائے جس کا وہ مستحق نہیں، تو اس سزا کا سارا وبال ان ظالموں پر ہے، جو ایک معصوم انسان پر یہ ظلم ڈھاتے ہیں اور مظلوم اس کی سزا بھگتتا ہے اور وہ اخلاقی و روحانی، ہراعتبار سے کامیاب و کامران ہوتا ہے۔ اگر اس کی جان بھی تلف کردی جائے، تو وہ شہادت اور حیاتِ جاودانی سے شادکام ہوتا ہے۔
یہ انسان کے لیے بڑا سخت امتحان ہے لیکن ہماری تاریخ اللہ کے ان نیک بندوں سے بھری پڑی ہے، جنھوں نے ظلم کے ہر وار کو برداشت کیا، لیکن ظلم کے آگے سر نہ جھکایا۔ اس کی تازہ ترین مثالیں بنگلہ دیش کی جماعت اسلامی کی قیادت کے دو گلہاے سرسبد نے پیش کی ہیں، یعنی محترم عبدالقادر مُلّاشہید اور محترم محمدقمرالزمان شہید۔ ان کو انصاف کا قتل کرتے ہوئے سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا گیا اور دین حق کے سپاہی، تحریکِ اسلامی کے کارکن اور پاکستان کے نظریے سے وفاداری کی پاداش میں موت کی سزا دی گئی۔ انھیں لالچ بھی دیا گیا کہ ظالم حکمرانوں سے معافی کی درخواست کردو تو سزاے موت سے بچ سکتے ہو، لیکن انھوں نے اللہ اور حق سے وفاداری کو ،محض جان بچانے کے لیے جھوٹے الزامات کو اُوڑھنے اور ظالموں سے رحم کی اپیل کرنے پر اپنی جاں، جاں آفریں کے سپرد کردینے کو ترجیح دی اور اس طرح اہلِ حق کے لیے ایک اور روشن اور تابناک مثال رقم کردی ؎
سلام اُسؐ پر کہ جسؐ کے نام لیوا ہر زمانے میں
بڑھا دیتے ہیں ٹکڑا سرفروشی کے فسانے میں
اس موقعے پر جماعت اسلامی کے بانی امیر مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ کی مثال بھی ذہنوں میں تازہ کیجیے___ آپ کو اپنی روح وجد کرتی ہوئی محسوس ہوگی۔ بانیِ جماعت کو مئی ۱۹۵۳ء میں لاہور کی مارشل لا کورٹ نے قادیانی مسئلہ نامی کتابچہ لکھنے کی پاداش میں موت کی سزا سنائی اور مولانا کو پھانسی کے احاطے میں منتقل کردیا گیا، اور پھر انھیں پیغام دیا گیا کہ اگر آپ رحم کی اپیل کریں تو جان بخشی ہوسکتی ہے۔
مولانا محترم نے ایک لمحے کے توقف کے بغیر رحم کی اپیل کرنے سے انکار کردیا اور فرمایا کہ: ’’اگر میرا وقت آگیا ہے تو کوئی مجھے بچا نہیں سکتا، اور اگر میرا وقت نہیں آیا تو یہ لوگ اُلٹے بھی لٹک جائیں تو میرا کوئی نقصان نہیں کرسکتے‘‘۔ انھوں نے اپنی اہلیہ، اولاد اور ذمہ دارانِ جماعت کو بھی مشورہ دیا کہ کوئی کسی بھی شکل میں رحم کی اپیل نہ کرے اور فیصلہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دے۔پھر ملک اور عالمِ اسلام میں شدید ردعمل کے دبائو میں حکومت نے سزاے موت کو عمرقید میں تبدیل کر دیا۔
مَیں اُس وقت اسلامی جمعیت طلبہ کراچی کا ناظم تھا اور ہم نے کراچی میں بڑے پیمانے پر احتجاج کیا۔ ایئرپورٹ پر اس وقت کے وزیراعظم محمدعلی بوگرا کے خلاف حکومت کی ساری پیش بندیوں کے باوجود بھرپور مظاہرہ کیا۔ اس لمحے ہم نے برادر عزیز ظفراسحاق انصاری کو لاہور روانہ کیا تاکہ مرکزی نظم سے رابطہ قائم کریں اور اگر ممکن ہو تو خود مولانا محترم سے بھی ملنے کی کوشش کریں۔ چند احباب کے تعاون سے ظفراسحاق بھائی، محترم مولانا مودودی سے سزاے موت کے عمرقید میں تبدیل ہونے کے اگلے ہی دن جیل میں ان سے ملے، اور ان سے یہ سوال کیا کہ: ’’آپ نے رحم کی اپیل کیوں نہیں کی؟‘‘ یہ تاریخی گفتگو ظفراسحاق انصاری نے میرے اصرار پر میرے گھر اپنی آواز میں محفوظ کرا دی ہے، جسے ہدیۂ ناظرین کیا جا رہا ہے:
ڈاکٹر ظفراسحاق انصاری نے روایت کی ہے: ’’مئی ۱۹۵۳ء میں، اچانک یہ خبر آئی کہ مولانا مودودیؒ کو سزاے موت سنا دی گئی ہے، تو خورشید بھائی اور خرم بھائی کے مشورے سے میں (کراچی سے) لاہور گیا، اور لاہور میں ایف سی کالج میں مقیم ہوا۔ اللہ کا شکر ہے کہ جلد ہی جو سزا سنائی گئی تھی، اسے سزاے عمرقید میں تبدیل کردیا گیا۔ اس طرح ہم نے بھی ایک لحاظ سے اطمینان کا سانس لیا۔
میں کہہ نہیں سکتا کہ وہ تاریخ کون سی تھی، لیکن سزاے موت منسوخ ہونے کے زیادہ سے زیادہ ایک دن بعد، ایک صبح اپنے دوست کی مدد سے مَیں بورسٹل جیل گیا، جہاں مولانا مودودی قید تھے۔
مولانا محترم اپنے معمول کے لباس میں ملبوس نہیں تھے، یعنی جیل ہی کا دیا ہوا لباس پہنے ہوئے تھے۔مجھے دیکھا تو کہنے لگے کہ: ’’بھئی آپ کیسے یہاں آگئے؟‘‘
میں نے ان سے کہا کہ:’’مولانا! میں نے سنا تھاکہ آپ کو یہ مشورہ دیا گیا تھا کہ سزاے موت کے بارے میں آپ رحم کی اپیل کریں۔ یہ تجویز جو دی گئی تو آپ نے کیا محسوس کیا؟‘‘
بالکل غیرجذباتی انداز میں انھوں نے کہا کہ جب یہ بات کہی گئی تو میرے دماغ میں معاً تین باتیں آئیں:
__ اور مسکرا کر کہنے لگے کہ میں نہیں سمجھتا کہ اپنی قوم کو یہ ’سزا‘ دوں۔
یہ مختصر سی گفتگو تھی جو دو یا تین منٹ کی تھی۔ میں نے کوشش کی ہے کہ انھی الفاظ میں اسے یادداشت سے بیان کردوں۔
کوئی تہذیبی و تمدّنی حرکت جمود کی چٹانوں سے نہیں روکی جاسکتی۔ اس کو اگر روک سکتی ہے تو ایک مقابل کی تہذیبی و تمدّنی حرکت ہی روک سکتی ہے۔ ہمارے ہاں اب تک سیلابوں کا مقابلہ چٹانیں کرتی رہی ہیں۔ اسی لیے ہمارے ملک سمیت قریب قریب تمام مسلمان ملک مغرب کے فکری و تہذیبی سیلابوں میں غرق ہوتے چلے گئے ہیں۔ اب ہم حرکت کا مقابلہ حرکت سے اور سیلاب کا مقابلہ جوابی سیلاب سے کر رہے ہیں اور توقع رکھتے ہیں کہ ساری کھوئی ہوئی زمین واپس لے سکیں گے۔
پھر اسی کش مکش کا ایک خاص پہلو یہ ہے کہ اس کے دونوں فریق اپنے اپنے نظریات ہی کی نمایندگی نہیں کر رہے ہیں بلکہ اس مخصوص کیرکٹر کی بھی نمایندگی کر رہے ہیں جو ان نظریات کے ساتھ مناسبت رکھتا ہے۔ ایک طرف اگر اشتراکی اپنے اشتراکی اخلاق اور متفرنجین اپنی فرنگی سیرت کے ساتھ میدان میں موجود ہیں تو دوسری طرف جماعت اسلامی بھی خالی خولی تقریریں اور تحریریں اور اجتماعی سرگرمیاں لیے ہوئے سامنے نہیں آگئی ہے بلکہ وہ انفرادی سیرت اور جماعتی اخلاق بھی ساتھ لائی ہے جو اسلام کی اگر مکمل نہیں تو کم از کم صحیح نمایندگی ضرور کرتا ہے۔ اس کے اثرات جہاں جہاں بھی پہنچ رہے ہیں وہاں اسلامی خیالات کے ساتھ اسلامی تہذیب اور اسلامی اطوار کا مظاہرہ پورے فخر کے ساتھ سر اُونچا کرتے ہوئے کیا جا رہا ہے اور وہ کیفیت دُور ہورہی ہے کہ ماڈرن سوسائٹی میں ایک شخص نماز تک پڑھتے ہوئے شرماتا تھا اور ایک خاتون برقع اُوڑھنے پر لاکھ معذرتیں کرکے بھی ڈرتی تھی کہ نامعلوم تاریک خیالی کا دھبہ اس کے دامن سے مٹایا نہیں۔ (جماعت اسلامی، مقصد، تاریخ اور لائحہ عمل، ص ۹۰-۹۳)
اس طریقے سے مزدور تحریکوں کو رفتہ رفتہ اسلامی تحریکوں میں تبدیل کردیا جائے اور مزدوروں میں یہ شعور پیدا کردیا جائے کہ وہ جانچ پرکھ کر دیکھ لیں کہ ان کے لیڈر مارکس اور لینن کے ماننے والے ہیں یا اللہ اور اس کے رسولؐ کے ماننے والے۔ پھر یہ فیصلہ انھی پر چھوڑ دیا جائے کہ وہ حشر کے روز مارکس اور لینن کے ساتھ اُٹھنا چاہتے ہیں یا رسولِؐ رب العالمین کے ساتھ۔
یہ کام جتنا جتنا ہوتا جائے گا، آپ دیکھیں گے کہ رفتہ رفتہ انتخابات کے نتائج صحیح ہوتے چلے جائیں گے اور جتنے جتنے دین کو جاننے والے ایمان دار آدمی اکثریت سے منتخب ہوں گے، اتنے ہی ہم خلافت ِ راشدہ کے مثالی نظام کی طرف قدم بڑھاتے چلے جائیں گے۔ (رسول اللّٰہ کا نظامِ حکومت اور پاکستان میں اس کا نفاذ، ص ۱۷-۲۰)
اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن مجید کو تمام انسانوں کی ہدایت کے لیے نازل فرمایا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن سیکھنے اور سکھانے والے کو بہترین انسان کہا۔ حضرت عثمانؓ بن عفان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ تم میں وہ شخص سب سے بہتر ہے جو قرآن کو سیکھے اور سکھائے (بخاری)۔ایک اور حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہلِ قرآن کو اہلُ اللہ کہا ہے۔ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا: انسانوںمیں اللہ کے کچھ خاص لوگ ہیں، (صحابہ نے) پوچھا:یارسولؐ اللہ!وہ کون لوگ ہیں؟ فرمایا: قرآن والے (سیکھنے اور عمل کرنے والے)۔ وہی اہل اللہ ہیں اور وہی اس کے خواص ہیں(ابن ماجہ)۔ حضرت عائشہؓ رسولِؐ اقدس کا یہ ارشاد نقل کرتی ہیں کہ ہرچیز کے لیے کوئی شرافت اور افتخار ہوا کرتا ہے جس سے وہ تفاخر کیا کرتا ہے۔ میری اُمت کی رونق اور افتخار قرآن ہے۔( فی الحلیہ)
قرآن پڑھ کر ایک مسلمان کا کیا ردِعمل ہونا چاہیے؟ قرآن اس کی تفصیل یوں بیان کرتا ہے:
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُہُمْ وَاِذَا تُلِیَتْ عَلَیْہِمْ اٰیٰتُہٗ زَادَتْہُمْ اِیْمَانًا وَّعَلٰی رَبِّہِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ (انفال۸:۲)سچے اہلِ ایمان تو وہ لوگ ہیں جن کے دل اللہ کا ذکر سُن کر لرز جاتے ہیں اور جب اللہ کی آیات ان کے سامنے پڑھی جاتی ہیں تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے اور وہ اپنے رب پر اعتماد رکھتے ہیں۔
الَّذِیْنَ اِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُہُمْ وَالصّٰبِرِیْنَ عَلٰی مَآ اَصَابَہُمْ وَالْمُقِیْمِی الصَّلٰوۃِ وَمِمَّا رَزَقْنٰہُمْ یُنْفِقُوْنَ (الحج۲۲:۳۵)وہ لوگ جن کا حال یہ ہے کہ اللہ کا ذکر سنتے ہیں تو ان کے دل کانپ اٹھتے ہیں ، جو مصیبت بھی اُن پر آتی ہے اُس پر صبر کرتے ہیں ، نماز قائم کرتے ہیں ، اور جو کچھ رزق ہم نے اُن کو دیا ہے اُس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔
اَللّٰہُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِیْثِ کِتٰـبًا مُّتَشَابِہًا مَّثَانِیَ تَــقْشَعِرُّ مِنْہُ جُلُوْدُ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّہُمْ ج ثُمَّ تَلِیْنُ جُلُوْدُہُمْ وَقُلُوْبُہُمْ اِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ ط ذٰلِکَ ہُدَی اللّٰہِ یَہْدِیْ بِہٖ مَنْ یَّشَائُ ط وَمَنْ یُّضْلِلِ اللّٰہُ فَمَا لَہ مِنْ ہَادٍ (الزمر۳۹:۲۳) اللہ نے بہترین کلام اُتارا ہے ، ایک ایسی کتاب جس کے تمام اجزا ہم رنگ ہیں اور جس میں بار بار مضامین دُہرائے گئے ہیں ۔ اُسے سُن کر اُن لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں جو اپنے رب سے ڈرنے والے ہیں ، اور پھر ان کے جسم اور ان کے دل نرم ہو کر اللہ کے ذِکر کی طرف راغب ہو جاتے ہیں ۔ یہ اللہ کی ہدایت ہے جس سے وہ راہِ راست پر لے آتا ہے جسے چاہتا ہے ۔ اور جسے اللہ ہی ہدایت نہ دے اس کے لیے پھر کوئی ہادی نہیں ہے۔
آئیے ہم اپنا جائزہ لیں کہ کیا قرآن سن یا پڑھ کر ہماری حالت ایسی ہوجاتی ہے؟ کیا ہمارے جسم لرز اٹھتے ہیں یا رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں؟ کیا ہماری آنکھوں سے آنسو جاری ہوتے ہیں؟ اکثر نہیں تو کیا کبھی کبھی ہی ایسا ہوتا ہے؟اللہ تعالیٰ تو سورئہ حشر میں فرماتا ہے کہ : لَوْ اَنْزَلْنَا ہٰذَا الْقُرْاٰنَ عَلٰی جَبَلٍ لَّرَاَیْتَہٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْیَۃِ اللّٰہِ (۵۹:۲۱) ’’اگر ہم نے یہ قرآن کسی پہاڑ پر بھی اُتار دیا ہوتا تو تم دیکھتے کہ وہ اللہ کے خوف سے دبا جارہا ہے اور پھٹا پڑتا ہے‘‘۔ مقامِ حسرت اور افسوس ہے کہ آدمی کے دل پر قرآن کا اثر نہ ہو۔ حالانکہ قرآن کی تاثیر اس قدر زبردست ہے کہ اگر وہ پہاڑ جیسی سخت چیز پر اتا را جاتا اور اس میں سمجھ کا مادہ موجود ہوتا تو وہ بھی متکلّم کی عظمت کے سامنے دب جاتا اور مارے خوف کے پارہ پارہ ہوجاتا۔ (تفسیر عثمانی)
تفسیر روح البیان میں ہے کہ اگر ان کے دل قرآن جیسی عظیم کتاب کو سن کر بھی پگھلتے نہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے دلوں میں اللہ نے ایسی قساوت پیدا کر دی ہے جس پر کوئی بڑی سے بڑی حقیقت بھی اثرانداز نہیں ہوتی۔ اندیشہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی سنت کے مطابق ایسے دلوں پر مہر ثبت نہ کر دے جس طرح اس نے یہود کے دلوں پر کی ہے۔(جلد۱۱، ص ۵۶۶)
نعوذ باللہ ثمّ نعوذ باللہ کیا ہماری حالت یہ تو نہیں ہو گئی جیسا کہ سورۃ البقرہ کی آیت میں اللہ نے کہا ہے کہ: ثُمَّ قَسَتْ قُلُوْبُکُمْ مِّنْم بَعْدِ ذٰلِکَ فَہِیَ کَالْحِجَارَۃِ اَوْ اَشَدُّ قَسْوَۃً پھر اس کے بعد تمھارے دل سخت ہوگئے گویا وہ پتھر ہیں یا ان سے بھی زیادہ سخت۔
قرآن فھمی کی ضرورت اور اھمیت
قرآن کے بارے میں اس امت سے پوچھا جائے گا:
فَاسْتَمْسِکْ بِالَّذِیْٓ اُوْحِیَ اِلَیْکَ ج اِنَّکَ عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَــقِیْمٍ o وَاِنَّہ لَذِکْرٌ لَّکَ وَلِقَوْمِکَ وَسَوْفَ تُسْـَــلُوْنَ o (الزخرف۴۳:۴۳-۴۴) (اے پیغمبرؐ)تم بہرحال اس کتاب کو مضبوطی سے تھامے رہو جو وحی کے ذریعے سے تمھارے پاس بھیجی گئی ہے ، یقینا تم سیدھے راستے پر ہو۔حقیقت یہ ہے کہ یہ کتاب تمھارے لیے اور تمھاری قوم کے لیے ایک بہت بڑا شرف ہے اور عنقریب تم سے اس کی بابت بازپُرس ہوگی۔
پھر سورۂ صٓ میں یہ بھی بتا دیاکہ اس قرآن کے بارے میں ہماری ذمہ داری کیا ہے؟
کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِلَیْکَ مُبٰرَکٌ لِّیَدَّبَّرُوْٓا اٰیٰتِہٖ وَلِیَتَذَکَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ (صٓ۳۸: ۲۹)
یہ ایک بڑی برکت والی کتاب ہے جو (اے محمدؐ) ہم نے تمھاری طرف نازل کی ہے تاکہ یہ لوگ اس کی آیات پر غور کریں اور عقل و فکر والے اس سے سبق لیں۔
ڈاکٹر اسرار احمد رحمہ اللہ نے اس آیت میں قرآن کو سمجھنے کے دو پہلو بیان کیے ہیں، یعنی تذکّر اور تدّبر اورپھر ان دونوں پہلوؤں کی تشریح کی ہے جس کا خلاصہ درجہ ذیل ہے:
یہ سب کے لیے ضروری ہے۔قرآن کا بنیادی مقصد ہی یہی ہے کہ ہم اس کو سمجھ کر پڑھیں اور اس پر عمل کریں اور اس کو دوسروں تک پہنچائیں۔ تذکّرمیں قرآن پر غور و فکر تو شامل ہیں مگر بہت گہرائی میں غوطہ زنی کی ضرورت نہیں ہوتی، بہت مشقّت و محنت مطلوب نہیں ہے۔ انسان کے اندر طلبِ حقیقت ہو اور قرآن سے براہِ راست رابطہ ہو جائے تو تذکّر حاصل ہو جائے گا۔ قرآن مجید کو اس حد تک سمجھنے کے لیے بس اتنی عربی ضرور آتی ہو کہ عربی متن کو براہِ راست سمجھ سکیں۔ کم از کم اتنا تو ہو کہ جب قاری حضرات نماز یا تراویح میں قرآن پڑھیں تو سمجھ آتی ہو۔ تھوڑی محنت سے یہ فائدہ قرآن سے ہر شخص حاصل کر سکتا ہے۔ سورئہ قمر میں اللہ ارشاد فرماتا ہے:
وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّکْرِ فَہَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ (القمر۵۴:۱۷)اوریقینا ہم نے اس قرآن کو نصیحت کے لیے آسان ذریعہ بنا دیا ہے ، پھر کیا ہے کوئی نصیحت قبول کرنے والا؟
اس آیت کو اس سورت میں چار بار دہرایا گیا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِیْٓ اِلَیْہِمْ فَسْـــَـلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ o بِالْبَیِّنٰتِ وَالزُّبُرِ ط وَاَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْہِمْ وَلَعَلَّہُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ o (النحل ۱۶:۴۴) اے نبیؐہم نے تم سے پہلے بھی جب کبھی رسول بھیجے ہیں ، آدمی ہی بھیجے ہیں جن کی طرف ہم اپنے پیغامات وحی کیا کرتے تھے۔ اہل ِ ذکر سے پوچھ لو اگر تم لوگ خود نہیں جانتے۔پچھلے رسولوں کو بھی ہم نے روشن نشانیاں اور کتابیں دے کر بھیجا تھا ، اور اب یہ ذکر( قرآن) تم پر نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کے سامنے اُس تعلیم کی تشریح و توضیح کرتے جائوجو ان کے لیے اُتاری گئی ہے ،اور تاکہ لوگ (خود بھی) غورو فکر کریں۔
قرآن کی اس طرح تفسیر و تشریح کو سمجھنے کے لیے علما نے کئی بنیادی علوم (۱۵؍ یا اس سے زیادہ)کو لازم قرار دیا ہے۔ یہ کام علما ے کرام کا ہے۔ قرآن کی تفسیر اور معنی و مطالب قیامت تک بیان ہوتے رہیں گے اور ایک حدیث کے مفہوم کے مطابق روزِ قیامت تک اس کی تشریح و تفسیر ہوتی رہے گی اور اس کے مطالب ختم نہیں ہوں گے۔
قرآن میں ان لوگوں کو اُمّی (اَن پڑھ)کہا گیا ہے جو قرآن کا علم نہیں رکھتے، چاہے انھوں نے دنیاوی علوم میں پی ایچ ڈی ہی کیوں نہ کی ہو:
وَمِنْھُمْ اُمِّیُّوْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ الْکِتٰبَ اِلَّآ اَمَانِیَّ وَ اِنْ ھُمْ اِلَّا یَظُنُّوْنَ (البقرہ۲:۷۸) اِن میں ایک دوسرا گروہ اُمیّوں کا ہے ، جو کتاب کا تو علم رکھتے نہیں ، بس اپنی بے بنیاد امیدوں اور آرزوؤں کو لیے بیٹھے ہیں اور محض وہم و گمان پر چلے جارہے ہیں۔
جن لوگوں نے اللہ کی آیات کو بھلا دیا انھیں آخرت میں اندھا اٹھایا جائے گا:
وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِکْرِیْ فَاِنَّ لَہ مَعِیْشَۃً ضَنْکًا وَّنَحْشُرُہٗ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ اَعْمٰیo قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِیْٓ اَعْمٰی وَقَدْ کُنْتُ بَصِیْرًا o قَالَ کَذٰلِکَ اَتَتْکَ اٰیٰتُنَا فَنَسِیْتَہَا وَکَذٰلِکَ الْیَوْمَ تُنْسٰی (طٰہٰ ۲۰:۱۲۴-۱۲۶) اور جو میرے ’ذکر‘ (درسِ نصیحت) سے منہ موڑے گا اُس کے لیے دنیا میں تنگ زندگی ہوگی اور قیامت کے روز ہم اسے اندھا اٹھائیں گے ۔وہ کہے گا: ’’پروردگار ، دنیا میں تو میں آنکھوں والا تھا ، یہاں مجھے اندھا کیوں اٹھایا ؟‘‘ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: ’’ہاں ، اسی طرح تو ہماری آیات کو ،جب کہ وہ تیرے پاس آئی تھیں، تو نے بھلا دیا تھا۔اُسی طرح آج تو بھلایا جارہا ہے ‘‘۔
اس آیت کی تشریح کے سلسلے میں امام غزالیؒ احیا العلوم میں ایک مثال پیش کرتے ہیں کہ ایک آقا نے اپنے خدّام کو ایک باغ سُپرد کیا اور اس کی اصلاح و تعمیر کے لیے انھیں ایک تحریری ہدایت نامہ دیا کہ اس کے مطابق باغ کی اصلاح و تعمیر سے کام لینا تھا۔ آقا نے حسن کارکردگی پر ان سے انعام و اکرام کا وعدہ کیا اور لاپروائی اور غفلت سے کام لینے پر سخت سزا کی دھمکی دی۔ ان خدّام نے اس ہدایت نامے کی نہایت تعظیم کی۔ اسے بار بار پڑھا بھی لیکن اس کی کسی بات پر عمل نہ کیا اور غفلت سے باغ کی اصلاح و تعمیر کے بجاے اسے ویران و برباد کردیا ۔ اس ہدایت نامے کی رسمی تعظیم اور بار بار پڑھنے نے انھیں فائدہ نہ پہنچایا سواے اس کے کہ اس کی خلاف ورزی پر انھوں نے اپنے آپ کو مستوجب سزاٹھیرا لیا۔ (تدریس لغۃ القرآن، ص۲۲-۲۳)
قرآن کو جن لوگوں نے پسِ پشت ڈال دیا ہو قیامت کے دن قرآن اُن کے گلے میں پڑا ہوگا اور اللہ کی بارگاہ میں شکایت کرے گا کہ اس بندے نے مجھے چھوڑ دیا تھا۔ اب آپ میرے اور اس کے درمیان فیصلہ فرمادیں:
یَاوَیْلَتٰی لَیْتَنِیْ لَمْ اَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِیْلًا o لَقَدْ اَضَلَّنِیْ عَنِ الذِّکْرِ بَعْدَ اِذْ جَائَ نِیْ وَکَانَ الشَّیْطٰنُ لِلْاِنْسَانِ خَذُوْلًا o وَقَالَ الرَّسُوْلُ یٰرَبِّ اِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوْا ھٰذَا الْقُرْاٰنَ مَہْجُوْرًا o (الفرقان۲۵:۲۸-۳۰)
ہاے شامت! کاش میں نے فلاں شخص کو دوست نہ بنایا ہوتا۔ اس نے مجھ کو (کتاب) نصیحت کے میرے پاس آنے کے بعد بہکا دیا اور شیطان انسان کو وقت پر دغا دینے والا ہے۔ اور پیغمبر کہیں گے کہ اے پروردگار! میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا۔
مولانا مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے معارف القرآن میں فرماتے ہیں: قرآن کو عملاً چھوڑ دینابھی گناہِ عظیم ہے۔ اس سے ظاہر یہ ہے کہ قرآن کو مہجور اور متروک کردینے سے مراد قرآن کا انکارہے جو کفار ہی کا کام ہے۔ مگر بعض روایات میں یہ بھی آیا ہے کہ جو مسلمان قرآن پر ایمان تو رکھتے ہیں مگر نہ اس کی تلاوت کی پابندی کرتے ہیں نہ اس پر عمل کرنے کی، وہ بھی اس حکم میں داخل ہیں ۔ حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا: جس شخص نے قرآن پڑھا مگر پھر اس کو بند کرکے گھر میں معلق کردیا، نہ اس کی تلاوت کی پابندی کی، نہ اس کے احکام میں غور کیا ۔ قیامت کے روز قرآن اس کے گلے میں پڑا ہوا آئے گا اور اللہ کی بارگاہ میں شکایت کرے گا کہ آپ کے اس بندے نے مجھے چھوڑ دیا تھا۔ اب آپ میرے اور اس کے معاملے کا فیصلہ فرمادیں۔ (معارف القرآن، جلد۶، ص ۴۷۱، ادارۃ المعارف کراچی )
تفسیر احسن البیان میں اس آیت کی تشریح یوں کی گئی ہے اس پر ایمان نہ لانا، اس پر عمل نہ کرنا، اس پر غوروفکر نہ کرنا، اور اس کے اوامر پر عمل اور اس کے نواہی سے اجتناب نہ کرنا بھی ہجران ہے اسی طرح اس کو چھوڑ کر کسی اور کتاب کو ترجیح دینا بھی ہجران ہے یعنی قرآن کا ترک اور اس کا چھوڑ دینا ہے جس کے خلاف قیامت کے دن اللہ کے رسولؐ اللہ کے دربار میں استغاثہ فرمائیں گے (ص۸۲۴-۸۲۵)۔ تصور کیجیے کہ کتنے بدنصیب ہوں گے وہ لوگ جن کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یوں کہیں گے کہ: یہ ہیں میری قوم کے وہ لوگ جنھوں نے قرآن کو چھوڑ دیا تھا تو ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے قہر و غضب سے کون بچائے گا؟
یہ حقیقت ہے کہ نہ تو ہم قرآن کو سمجھتے ہیں اور نہ اس میں تدّبروتفکّر ہی سے کام لیتے ہیں۔ ہمارا آج کا یہ دور قبل از اسلام کے دورِ جاہلیت سے کسی بھی صورت مختلف نہیں بلکہ آج لوگ حق کے ترک کرنے میں اس سے بھی کہیں آگے بڑھ چکے ہیں۔ جاہلیت بمقابلہ علم و فن نہیں، بلکہ حق سے رُوگردانی اور خواہشاتِ نفس کی پیروی کا نام جاہلیت ہے آج اس لحاظ سے پوری دنیا خواہشاتِ نفس کی پیروی کررہی ہے۔ قرآنی تعلیمات پر عمل پیرا ہوکر ہم اپنے آپ کو اس ضلالت سے بچاسکتے ہیں۔ رسولؐ اللہ نے فرمایا: یہ قرآن تیرے لیے یا تجھ پر ایک حجّت ہے، یعنی یہ کہ اگر تو اسے سمجھے اور اس پرعمل کرے تو تیرے لیے حجّت ہے اور یہی قرآن تجھ پر (یعنی تیرے خلاف)حجّت ہے، اس صورت میں کہ تو اسے سمجھنے کی کوشش نہ کرے اور عمل پیرا نہ ہو۔ (تدریس لغۃ القرآن، ص۲۸، ۱۵-۱۶)
کسی بھی کام کو شروع کرنے سے پہلے بسم اللہ پڑھنے کا حکم دیا گیا مگر قرآن پڑھنے سے پہلے بسم اللہ کے ساتھ تعوذ پڑھنے کا حکم بھی دیا گیا ہے۔ سورئہ نحل میں ارشاد ہے:
فَاِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ (النحل ۱۶:۹۸) پھر جب تم قرآن پڑھنے لگو تو شیطانِ رجیم سے خدا کی پناہ مانگ لیا کرو۔
اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ شیطان کسی بھی شخص کو قرآن پڑھنے اور سیکھنے سے روکنے کا ہرممکن حربہ استعمال کرتا ہے مگر جب ہم اللہ کا کلام شروع کرنے سے پہلے اعوذ باللہ بھی پڑھ لیں تو شیطان کا یہ حملہ ناکام بنایا جا سکتا ہے۔
شیطان کی کوشش ہمیشہ یہ رہتی ہے کہ وہ لوگوں کو نیک کاموں سے روکے خصوصاً قرأ ت قرآن جیسے کام سے، جو کہ نیکیوں کا سرچشمہ ہے اسے وہ کب ٹھنڈے دل سے گوارا کرسکتا ہے۔ ضرور اس کی کوشش ہوگی کہ مومن کو اس سے باز رکھے۔ اور اس میں کامیاب نہ ہو، تو ایسی آفات میں مبتلا کردے جو قرأ تِ قرآن کا حقیقی فائدہ حاصل ہونے سے مانع ہوں۔(تفسیر عثمانی)
شیطان عمومی طور پہ تین طریقوں سے انسان کو قرآن پڑھنے اور سیکھنے سے روکتا ہے۔
قُلْ ہَلْ نُنَبِّئُکُمْ بِالْاَخْسَرِیْنَ اَعْمَالًا o اَلَّذِیْنَ ضَلَّ سَعْیُہُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَہُمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّہُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنْعًا (الکہف ۱۸:۱۰۳-۱۰۴) اے نبیؐ ان سے کہو ، کیا ہم تمہیں بتائیں کہ اپنے اعمال میں سب سے زیادہ ناکام و نامراد لوگ کون ہیں؟وہ کہ دنیا کی زندگی میں جن کی ساری سعی و جہد راہِ راست سے بھٹکی رہی اور وہ سمجھتے رہے کہ وہ سب کچھ ٹھیک کر رہے ہیں۔
اور سورئہ زخرف میں ارشاد ہواہے کہ:
وَمَنْ یَّعْشُ عَنْ ذِکْرِ الرَّحْمٰنِ نُـقَیِّضْ لَہ شَیْطٰنًا فَہُوَ لَہ قَرِیْنٌ o وَاِنَّہُمْ لَیَصُدُّوْنَہُمْ عَنِ السَّبِیْلِ وَیَحْسَبُوْنَ اَنَّہُمْ مُّہْتَدُوْنَ o (زخرف ۴۳: ۳۶-۳۷) جو شخص رحمن کے ذکر سے تغافل برتتا ہے ، ہم اس پر ایک شیطان مسلط کردیتے ہیں اور وہ اس کا رفیق بن جاتا ہے۔ یہ شیاطین ایسے لوگوں کو راہ راست پر آنے سے روکتے ہیں، اور وہ اپنی جگہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ٹھیک جا رہے ہیں۔
رحمن کے ذکر سے مراد اس کی یاد بھی ہے، اس کی طرف سے آئی ہوئی نصیحت بھی ، اور یہ قرآن بھی۔
ہمارا کام اخلاص سے قرآن سیکھنے کی کوشش کرنا ہے تاکہ اپنی زندگی اس کی تعلیمات اور ہدایات کے مطابق گزار سکیں۔یہ فکر تو ہمیں یقینا ہونی چاہیے کہ ہم قرآن کتنا سیکھ پائے اور اس پہ کتنا عمل کیا؟ لیکن ہمیں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ ہماری ذمہ داری کوشش کرنا ہے نتیجہ اللہ کے ہاتھ میں ہے کہ وہ کس کو کتنا عطا فرماتا ہے۔ اجر کا تعلق نیت اور کوشش سے ہے نتائج سے نہیں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص قرآن کو مہارت کے ساتھ پڑھتا ہے تو وہ بڑی عزت والے فرشتوں اور نبیوں کے ساتھ ہوگا۔ جس کے لیے قرآن پڑھنا مشکل ہو اور پھربھی محنت کرتا رہا تو اس کے لیے دوہرا اجر ہوگا۔ ایک قرآن پڑھنے کا دوسرا اس پر محنت کرنے کا۔(سنن ابوداؤد)
موجودہ حالات کا واحد علاج یہی ہے کہ ہم کتاب اللہ کی طرف پلٹ آئیں اور اس کو سمجھ کر پڑھنا اپنے اُوپر لازم کر لیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم رسولؐ اللہ کے اس فرمان کی زد میں آجائیں جس میں رسولؐ اللہ نے بعد میں آنے والے لوگوں کے حالات بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ: آخری زمانے میں یا اس امت میں ایسی قوم نکلے گی کہ وہ قرآن پڑھے گی لیکن قرآن اس کے حلق سے نیچے نہیں اُترے گا (سنن ابنِ ماجہ)۔ اور آپ نے ان لوگوں کو شرارالخلق قرار دیا۔
اسیرِ مالٹا مولانا محمود حسن ؒنے فرمایامسلمانوں کی موجودہ پستی کے دو ہی سبب ہیں: ترکِ قرآن اور باہمی اختلاف۔ اور اس کا علاج صرف یہی ہے کہ قرآنی تعلیمات پر لوگوں کو جمع کیا جائے اور اس کی تعلیم عام کی جائے۔ گویا امت کے اختلاف کو ختم کرنے کا نسخہ بھی صرف قرآن ہی ہے۔
یہ بات شاید انھوں نے حارث بن عبداللہ اعورؓ کی درج ذیل حدیث کی بنیاد پہ کہی ہو جو انھوں امیرالمومنین حضرت علیؓ کے حوالے سے بیان کی ہے۔ انھوں نے فرمایا کہ میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میرے پاس جبریل ؑ آئے اور کہنے لگے کہ اے محمدؐ!آپؐ کی امت آپؐ کے بعد اختلافات میں پڑ جائے گی۔ میں نے پوچھا کہ جبریل ؑ! اس سے بچاؤ کا راستہ کیا ہے؟ انھوں نے کہا: قرآن کریم۔ اسی کے ذریعے اللہ ہرظالم کو تہس نہس کرے گا، جو اس سے مضبوطی کے ساتھ چمٹ جائے گا وہ نجات پا جائے گا اور جو اسے چھوڑ دے گا وہ ہلاک ہوجائے گا۔ یہ بات انھوں نے دو مرتبہ کہی۔ پھر فرمایا کہ یہ قرآن ایک فیصلہ کن کلام ہے یہ کوئی ہنسی مذاق کی چیز نہیں ہے، زبانوں پر یہ پرانا نہیں ہوتا، اس کے عجائب کبھی ختم نہ ہوں گے، اس میں پہلوں کی خبریں ہیں ، درمیان کے فیصلے ہیں اور بعد میں پیش آنے والے حالات ہیں ۔(متفق علیہ )
سورئہ مائدہ کی آیت ۶۸ کی تشریح کرتے ہوئے ڈاکٹر اسرار احمدؒ لکھتے ہیں: اسی طرح اللہ تعالیٰ ہم سے فرماتے ہیں کہ کس منہ سے تم نماز پڑھ رہے ہو جب کہ تم نے اللہ کی کتاب کو قائم نہیں کیا۔ یعنی اے قرآن والو! تمھاری کوئی حیثیت نہیں ہے جب تک تم قرآن کو اور جو کچھ تم پر نازل کیا گیا ہے اسے قائم نہیں کرتے۔(قرآنِ حکیم اور ہم،ص ۲۹)
آج ہم قرآن سنتے اور پڑھتے ہیں لیکن یہ ہماری زندگی میں تبدیلی کا باعث نہیں بن رہا۔ رسولؐ اللہ کے زمانے میں عرب کے ان پڑھ بدّو بھی جب قرآن سنتے تو ان کے جسم کانپنے لگتے اور آنکھوں سے آنسو رواں ہوجاتے تھے۔ وہ اسے اپنی زندگی سے متعلق پاتے تھے اور اس پر عمل کرکے ایک نئی زندگی کا آغاز کرتے تھے۔ اسی قرآن کی برکت سے بکریاں اور اونٹ چرانے والے یہ لوگ انسانیت کے رہنما بن گئے۔ آج وہی قرآن لفظ بہ لفظ ہمارے درمیان موجود ہے۔ ہر زبان میں بے شمار تفاسیر بھی لکھی گئیں ہیں لیکن اس سب کے باوجود ہم پر اس کا کوئی اثر نہیں ہو رہا۔ آخر کیوں؟ اس لیے کہ ان بدّووں کے نزدیک قرآن ایک زندہ حقیقت تھی جس کو سن کر وہ فوراً اس پر عمل کرتے تھے۔لیکن آج ہم نے اس کو ثواب کی ایک کتاب سمجھ کر اپنی زندگی اور روح سے غیر متعلق کردیا ہے۔
کیا قرآن آج بھی ہمارے لیے ویسے ہی نفع بخش اور زندگی کو تبدیل کرنے والی کتاب بن سکتا ہے؟ اس کا جواب یقینا ہاں ہی میں ہے ۔ بس ضرورت صرف یہ ہے کہ ہم قرآن کو اسی طرح پڑھیں، سمجھیں اور اس پر عمل کریں جس طرح دورِ اوّل میں اہلِ عرب اور صحابہ کرامؓ نے کیا۔
اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم ابھی یہ فیصلہ کرلیں کہ ہم نے قرآن کوسمجھ کر پڑھنا ہے۔مزید وقت ضائع کیے بغیر یہ کام آج ہی شروع کر دیں۔ کل کا انتظار نہ کریں اس لیے کہ کل کا انتظار کرنا بھی شیطان کا ایک حربہ ہو سکتا ہے۔ یاد رکھیں کل کبھی نہیں آتی۔
سب سے پہلا کام یہ ہے کہ ہم قرآن پر ایمان لے آئیں۔ یہ بات عجیب سی لگتی ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ ایمان کے دو حصے ہیں، زبان سے اقرار اور دل سے تصدیق۔ ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ ہمیں قرآن مجید پہ کامل یقین ہے لیکن ہمارا طرزِعمل اس کے خلاف ہے۔نہ ہم اس کی تلاوت باقاعدگی سے کرتے ہیں اور نہ اسے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور نہ اس کے احکامات پہ ہی عمل کرتے ہیں۔ گویا ہمارا ایمان کمزور ہے۔ ہم زبان سے تو اقرار کرتے ہیں کہ یہ اللہ ربُّ العزت کا کلام ہے لیکن یقین کی دولت سے محروم ہیں۔ ورنہ جسے یہ یقین ہوجائے تو اس کا تو اوڑھنا بچھونا ہی قرآن بن جاتا ہے۔(قرآن مجید کے حقوق، چلڈرن قرآن سوسائٹی، ۱۷-وحدت روڈ لاہور)
قرآن سیکھنے کے لیے ہمیں اس کام کو اپنی زندگی کی اوّلین ترجیحات میں رکھنا ہو گا۔ ہم دنیاوی تعلیم کے لیے زندگی کے کئی سال سکولوں، کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں لگا دیتے ہیں۔ اپنے بچوں کے لیے بہترین سکولوں اور کالجوں کا انتخاب کرتے ہیں۔اس پر اپنا مال اور وقت خرچ کرتے ہیں۔ یہ سب اپنی جگہ ضروری ہے۔ لیکن ہمیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ ہم اپنے اور اپنے بچوں کے لیے قرآن کی تعلیم کا کیا بندوبست کر رہے ہیں ؟ اپنے وسائل اور وقت کا کتنے فی صد اس پر خرچ کر رہے ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم بچے کی تعلیم یا اپنی کسی دوسری مصروفیت کے لیے تو پیسہ خرچ کرنے اور گھنٹوںوقت دینے کوتیار ہیں لیکن مفت میں قرآن سیکھنے کے لیے تھوڑا ساوقت نکالنا بھی گوارا نہیں؟ اور اس بات پہ اکتفا کر بیٹھے ہیں کہ چند سو روپوں کے عوض بچوں کو صرف ناظرہ قرآن پڑھانے کے لیے ایک قاری صاحب کا بندوبست کر لیا ہے، اور خود بغیر سمجھے قرآن پڑھنے پہ اکتفا کر لیا ہے؟
قرآنِ کریم کا مطالعہ کرتے وقت ہم کھلے ذہن اور دل سے اللہ کا حکم جاننے اوراسی کی آواز سننے کی کوشش کریں۔ اس میں اپنے خیالات تلاش کرنے کی کوشش نہ کریں۔ اگر ہم ایسا کریں گے تو ہمیں اپنی ہی آواز کی بازگشت سنائی دے گی اور ہم اللہ کی آواز نہیں سن سکیں گے۔ اس کام کی ابتدا میں سب سے اہم بات اخلاص نیت ہے۔ ہمارا یہ مصّمم ارادہ ہو کہ قرآن کو سمجھ کر اس کے ذریعے ہم اپنی زندگی کو تبدیل کریں گے۔ اس کا رنگ سب سے بہتر رنگ ہے۔ ہم اس میں اپنے آپ کو رنگ لیں گے۔ قرآن کو عملی طور پہ سمجھنے اور اس کے صحیح ادراک کے بارے میں مولانا سیّدابولاعلیٰ مودودی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
اسے تو پوری طرح آپ اسی وقت سمجھ سکتے ہیں جب آپ اسے لے کر اٹھیں اور دعوت الی اللہ کا کام شروع کریں اور جس طرح یہ کتاب ہدایت دیتی ہے اسی طرح قدم اٹھاتے جائیں۔ قرآن کے احکام، اس کی اخلاقی تعلیمات، اس کی معاشی اور تمدّنی ہدایات اور زندگی کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں اس کے بتائے ہوے اصول و قوانین آدمی کی سمجھ میں اس وقت تک آ ہی نہیں سکتے جب تک وہ عملاً ان کو برت کر نہ دیکھے۔ نہ وہ فرد اس کتاب کو سمجھ سکتا ہے جس نے اپنی انفرادی زندگی کو اس کی پیروی سے آزاد رکھا اور نہ وہ قوم اس سے آشنا ہو سکتی ہے جس کے سارے ہی اجتماعی ادارے اس کی بنائی ہوئی روش کے خلاف چل رہے ہوں۔ (تفہیم القرآن، جلد اول، ص۳۴-۳۵)
اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں قرآن پڑھنے، اس کی تعلیمات کو سمجھنے، اس پہ عمل کرنے اور اس کو دوسروں تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
حضرت ابویوسف عبداللہ بن سلامؓ مدینہ کے مشہور علماے احبار (یہودی علما) میں سے تھے۔ رسولِ اکرمؐ جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو یہ بھی آپؐ کے دیدار کے لیے گئے۔ انھوں نے آپؐ کا چہرۂ انور دیکھا تو کہنے لگے کہ یہ کسی جھوٹے کا چہرہ نہیں ہوسکتا اور اسی وقت اسلام قبول کرلیا۔ ان کا نام حصین تھا جسے بدل کر آپؐ نے عبداللہ رکھا۔
حضرت عبداللہ بن سلامؓ سے روایت ہے کہ میں نے مدینہ میں جو پہلی گفتگو نبی کریمؐ سے سنی وہ یہ روایت تھی۔ گویا یہ وہ پہلی ہدایات تھیں جو اہلِ مدینہ کو دی گئیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے لوگو! سلام کو عام کرو، کھانا کھلائو، صلۂ رحمی کرو اور رات کو جب لوگ سو رہے ہوں تو نماز پڑھو۔ (ایسا کرنے کی صورت میں) سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہوجائو گے‘‘۔ (احمد، ترمذی)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے جوامع الکلم کی خصوصیت سے نوازا تھا۔ آپؐ مختصر گفتگو فرماتے تھے لیکن وہ اختصار و جامعیت کا شاہکار ہوتی اور اپنے اندر گہرے مفاہیم و معنی رکھتی تھی۔ آپؐ کے اکثر خطبے مختصر اور جامع ہوتے تھے۔ ایسی ہی گفتگو کا نمونہ یہ روایت بھی ہے، جو مختصر ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے اندر وسیع مفاہیم اور نکات کو سموئے ہوئے ہے۔ یہی وہ ہدایات ہیں جنھوں نے اہلِ مدینہ پر اسلام اور مسلمانوں کا ایسا گہرا تاثر چھوڑا کہ ان کے دل اسلام کے لیے کھلتے چلے گئے اور فی الواقع مدینہ میں اسلامی انقلاب کی بنیاد پڑگئی۔
اہلِ مدینہ کو جس چیز نے سب سے بڑھ کر متاثر کیا وہ مواخات کا عمل تھا۔ مدینہ کی چھوٹی سی بستی میں بڑی تعداد میں مہاجرین کی آمد سے اہلِ مدینہ کو جن مسائل کا سامنا تھا اس کا حل نبی کریمؐ نے ایک مہاجر اور ایک انصاری کو ایک دوسرے کا بھائی بناکر جس طرح سے کیا، اور پھر انصار نے اپنے مہاجر بھائیوں کی ضروریات کا جس طرح سے خیال رکھا اور ان کو اپنے اُوپر ترجیح دی، اس خلوص، خیرخواہی، صلۂ رحمی نے یقینا اہلِ مدینہ کے دل مسلمانوں کے لیے کھول دیے ہوں گے۔ اسلامی معاشرت کی اس جیتی جاگتی تصویر نے قبولِ اسلام کے لیے راہ ہموار کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
ان ہدایات کے آخر میں آپؐ نے ان سب اعمال کے نتیجے میں سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہونے کی ضمانت بھی دی ہے۔
آج بھی ضرورت ہے کہ مثالی اسلامی بستی کا نمونہ پیش کیا جائے تاکہ لوگ عملاً اسلامی معاشرت کی برکات دیکھ سکیں۔ اگر کسی بستی کے لوگ یہ فیصلہ کرلیں کہ ہم اپنی بستی کے لوگوں کی خدمت کریں گے۔ ہماری بستی میں کوئی بھوکا ننگا ، بیمار یا پریشان حال ہوگا تو ہم اس کی بے غرض مدد کریں گے۔ وہ اپنے آپ کوتنہا نہ پائے گا، تو یقینا اس پُرخلوص جدوجہد کے اثرات بہت جلد سامنے آئیں گے۔ اگر اس کام کو منظم انداز میں مختلف بستیوں میں کیا جائے تو پھر اس ملک میں اسلامی انقلاب کو برپا ہونے سے کون روک سکتا ہے۔
اگر نماز کو اس کی حقیقی روح اور شعوری تقاضوں کے مطابق ادا کیا جائے تو یہ بھی اصلاحِ معاشرہ اور انقلاب اسلامی کا اہم ذریعہ ثابت ہوسکتی ہے۔ نماز جہاں اللہ کی بندگی و اطاعت کی عملی تربیت کا ذریعہ ہے وہاں تزکیۂ نفس اور احتساب و جائزے کا ذریعہ بھی۔ نماز صلۂ رحمی بھی سکھاتی ہے۔ صحابہ کرامؓ میں سے کوئی نماز کے لیے نہ آپاتا تو وہ اس کی خبرگیری کے لیے جاتے، کوئی بیمار پڑجاتا تو عیادت کرتے، اور پریشان حال ہوتا تو اس کی پریشانی کے ازالے کی فکر کرتے۔ ہم سال ہا سال ایک مسجد میں نماز ادا کرتے ہیں لیکن ایک نمازی دوسرے نمازی سے واقف نہیں ہوتا۔ اگر نماز کی اس روح کو زندہ کیا جائے اور اگر کوئی نمازی بیمار پڑجائے تو اس کی عیادت کو جائیں، اور کوئی حاجت ہو تو اسے پورا کرنے کی فکر کریں، تو ایسی بے لوث نیکی اور ایسا خلوص و محبت کیا دلوں کو بدل کر نہیں رکھ دے گا۔ مسلمان دن میں پانچ بار اس مشق سے گزرتے ہیں۔ اگر تسلسل سے اس عمل کو جاری رکھا جائے تو کیا بستی کی حالت بدل کر نہ رہ جائے گی۔ ضرورت صحیح سمت میں عمل کی ہے۔
اگر کسی بستی میں دینی تعلیم و تربیت، اخلاقی بگاڑ کے سدباب اور حاجت مندوں کی حاجت روائی، نیز سرکاری اداروں میں درپیش مسائل کے حل کے لیے بے لوث تعاون، اور اپنی مدد آپ کے تحت بستی کے مسائل حل کرنے کا ایک منظم نظام وضع کرلیا جائے اور مخلص لوگوں کی ایک جماعت اس کام کے لیے اپنے آپ کو وقف کردے، تو معاشرے کی حالت بدل سکتی ہے۔ اور کچھ نہیں اگر نماز ہی اس کی حقیقی روح کے ساتھ شعوری طور پر ادا کی جائے، اور نمازی ایک دوسرے کی ضروریات کا خیال رکھیں اور پریشانیوں کے ازالے کے لیے سرگرم ہوجائیں، تو نماز اصلاحِ معاشرہ کا اہم ذریعہ بن سکتی ہے۔ اس جدوجہد کے نتیجے میں حکمرانوں کو بھی سماجی دبائو کے تحت بگاڑ کے سدباب اور عوام کے مسائل کے حل کے لیے مجبور کیا جاسکتا ہے۔
تحریکِ اسلامی کے کارکنوں کو اپنی بستیوں کو اس کا عملی نمونہ بنانا چاہیے۔بلاشبہہ آج بھی نبی کریمؐ کی یہ ہدایات اسلامی انقلاب کی بنیاد اور جنت کی ضمانت بن سکتی ہیں!
اسلام ہرمعاملے میں اعتدال اختیار کرنے کی بنا پر تمام ادیان میں ممتاز و نمایاں ہے۔ اسلام نے اپنی امت کی ایک خصوصیت ’اعتدال‘ کو قرار دیا ہے۔ اسلام عمل و عقیدے اور روحانی و مادی ہر میدان میں توازن کو ترجیح دیتا ہے۔ وہ فرد کی زندگی میں روح اور مادہ، عقل اور قلب، دنیا اور آخرت اور حقوق و فرائض کے درمیان توازن کی بنیاد پر اپنا حکم نافذ کرتا ہے۔ دوسری طرف وہ فرد اور معاشرے کے درمیان میزانِ عدل قائم کرتا ہے۔ وہ فرد کو بے تحاشا آزادی اور حقوق نہیں دے دیتا کہ وہ معاشرے کے لیے دردِسر بن جائے، جیسا کہ سرمایہ دارانہ نظام نے کیا ہے۔ اسلام معاشرے کو ایسے اختیارات بھی نہیں دیتا کہ معاشرہ سرکش و ظالم بن جائے، یا فرد پر ایسی بے جا پابندیاں عائد کر دے کہ اُس کی شخصیت دب کر رہ جائے۔ اُسے پنپنے کا موقع نہ ملے، اس کی صلاحیتیں اور کارآمد قوتیںبروے کار نہ آ سکیں، جیسا کہ کمیونزم اور انتہا پسند اشتراکیت نے کیا۔ اسلام معاشرے میں عدل قائم کرنے کے لیے بے قید شخصی آزادیوں کا سرمایہ دارانہ نظریہ بھی قبول نہیں کرتا۔ خصوصاً اُن طبقات کی وجہ سے جو معاشرے میں کمزور اور پسے ہوئے ہوں۔
اسلام فرد کو فرد کا حق اور معاشرے کو معاشرے کا حق دیتا ہے۔ وہ کسی کے حق میں کوئی کمی کرتا ہے نہ دوسرے کے حق میں کوئی اضافہ۔ یہ تمام چیزیں شریعت کے احکام اور تعلیمات نے مرتب کر دی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام ملک کے باشندوں کی آزادی کی حفاظت اُسی طرح کرتا ہے جس طرح وطن کی آزادی کی۔ یہ حریت فکر ہے نہ کہ حُریت کفر، یہ ضمیر کی آزادی ہے لیکن حدود کے ساتھ، یہ حقوق کی آزادی ہے مگر حدود سے تجاوز کی آزادی نہیں۔
ہم یہاں اس عقیدے اور ایمان کا اظہار ضروری سمجھتے ہیں کہ انسانوں کو اُن کی مائوں نے آزاد پیداکیا ہے، لہٰذا کسی کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ دوسرے پر مسلط ہو اور نہ کسی کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ لوگوں میں سے کچھ کو اللہ کے علاوہ رب بنا لے۔ دراصل حقیقی آزادی تو حقیقی توحید کا ثمر ہے اور لا الٰہ الا اللہ کے مفہوم کا لازمی نتیجہ ہے۔
اسلام واقعیت پسندی میں انفرادیت رکھتا ہے۔ اسلام انسان کے ضعف کا اعتراف کرتا ہے۔ اسی لیے اسلام نے انسانوں کو ترغیب بھی دی ہے اور ڈرایا بھی ہے، نیکی کی طرف بلانے اور برائی سے روکنے کا حکم دیا ہے۔ سزا ئیں بھی مقرر کی ہیں اور توبہ کا دروازہ بھی کھلا رکھا ہے۔ اسلام نے ضرورتوں کے لیے احکام وضع کیے ہیں۔ مجبور اور معذور لوگوں کے عذر کا خیال رکھا ہے۔ لہٰذا مختلف حالات میں رخصتیں اور استثنا کی گنجایش رکھی ہے، جیسے خطا، نسیان اور اِکراہ ہے۔ جب اعلیٰ اور ارفع صورت کو اختیار نہ کیا جا سکتا ہو تو ادنیٰ اور نسبتاً ہلکی صورت کو اپنا لینے کی اجازت دی ہے۔
اسلام کی واقعیت پسندی کی ایک مثال یہ ہے کہ وہ انسان کی تکریم کرتا ہے، اس کو اُوپر اٹھاتا ہے۔ وہ اُسے حیوانیت کے پست درجے پر نہیں گراتا اور نہ اُسے خداوندی کے مقام پر فائز کرتا ہے۔ وہ اُس کے ارفع شوق اور سفلی جذبات کا اعتراف کرتا ہے۔ وہ روحانی اور جسمانی، عقلی اور جذباتی، مردانہ اور نسوانی، انفرادی اور معاشرتی، ہراعتبار سے اس کا اعتراف کرتا ہے، اسے اہمیت دیتا اور اس کا لحاظ رکھتا ہے۔ وہ اس کے لیے جائز تفریح اور خوشی اور راحت کے مواقع فراہم کرتا ہے، تاکہ وہ پُرمسرت اور خوش گوار زندگی گزار سکے۔
اسلام خاندان کو معاشرے کی اساس خیال کرتا ہے۔اس لیے اسلام شادی کی ترغیب دیتا ہے۔ اس کے اسباب اور ذرائع کو آسان اور رکاوٹوں کو دُور کرتا ہے۔ ناروا پابندیوں کو رَد کرتا ہے جو شادی کو مشکل بناتی اور تاخیر کا سبب بنتی ہیں، مثلاً بہت زیادہ حق مہر مقرر کرنا، تحفے تحائف اور شادی ولیمے میں اسراف، زیب و زینت اور لباس میں تفاخر ،جو اللہ اور اس کے رسولؐ کو ناپسند ہے۔
اسلام حلال اور جائز ذرائع مہیا کرنے کے ساتھ ساتھ حرام اور اُس کی طرف لے جانے والی عریانی، بنائو سنگھار، گفتگو، تصویر، ناول اور ڈراما وغیرہ سب کے دروازے بند کرتا ہے، خصوصاً ذرائع ابلاغ میں جو ہر گھر میں داخل ہو سکتے ہیں اور آنکھ اور کان تک پہنچ کر اُسے متاثر کر سکتے ہیں۔
اسلام میاں بیوی کے درمیان راحت و مودت، ہمدردی وسکون کے تعلقات، حقوق و فرائض کی ادایگی اور معروف کے ساتھ باہمی زندگی گزارنے کی بنیادیں فراہم کرتا ہے۔ وہ طلاق کو ناگزیر جراحی کی طرح اس وقت جائز قراردیتا ہے جب زوجین کا اکٹھے رہنا ناممکن ہو جائے اور صلح و ثالثی کے تمام طریقے آزمائے جا چکے ہوں۔ اسلام صرف اُس مومن کو دوسری شادی کی اجازت دیتا ہے جو اسباب و ذرائع بھی رکھتا ہو اور عدل کر سکے۔
اسلام والدین کی طرف سے مادی وجذباتی اور تربیتی پہلوئوں کی پوری پوری رعایت کو ملحوظ رکھتے ہوئے والدین اور اولاد کے درمیان تعلقات کو فرض ٹھیراتا ہے۔ اولاد کی طرف سے والدین کے ساتھ احسان اور اچھے برتائو کو واجب قرار دیتا ہے۔ اسلام معاشرے اور حکومت کی طرف سے ماں کی مامتا اور بچے کے بچپن، خصوصاً یتیم اور لاوارث بچوں کے بچپن کے حقوق اور نگہداشت کی پوری رعایت رکھتا ہے۔ اسلام خاندان کو وسعت دیتا ہے تاکہ نسبی اور قریبی رشتے دار اس دائرے میں آجائیں۔ ان رشتے داریوں کو قائم رکھنا فرض ہے اور انھیں توڑ دینا اللہ کے نزدیک کبیرہ گناہ ہے۔
اسلام قانون اور قانون سازی کی طرح تربیت اور رہنمائی کا بھی اہتمام کرتا ہے بلکہ قانون سازی اور قانون پر عمل درآمد سے قبل تربیت کا اہتمام کرتا ہے۔ صرف قوانین معاشروں کی تشکیل نہیں کرتے، بلکہ معاشروں کی تشکیل مسلسل تربیت اور رہنمائی سے ہوتی ہے۔ ہر تحریک اور تبدیلی کی بنیاد ایک صاحب ِفکر اور باضمیر انسان کی تشکیل ہوتی ہے۔ ایسا انسان جو صاحب ِاخلاق بھی ہو اور صاحب ِایمان بھی۔ یہی صالح انسان ایک صالح معاشرے کی اساس ہوتا ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ تربیتی ادارے خواہ وہ ماں کی گود ہو یا یونی ورسٹی، ہر ایک رہنمائی کا فریضہ ادا کرنے پر خصوصی توجہ دے کہ نسلِ نو کو علوم اور مہارت کے ساتھ ساتھ ایمان و اخلاق کی تربیت بھی دی جائے۔
عقیدے کو خرافات سے محفوظ رکھنا، توحید کو شرک سے آلودہ نہ ہونے دینا، آخرت پر یقین، اخلاق میں استحکام، بات میں سچائی کو اپنانا، عمل میں پختگی، عہد و امانت کو پورا کرنا، حق کا واشگاف اظہار، دین میں وفاداری اور خیرخواہی کا مظاہرہ ، اللہ کی راہ میں جان و مال کے ذریعے جہاد، حسب استطاعت دل و زبان سے برائی کو روکنا، ظلم و سرکشی کے خلاف جدوجہد کرنا، ظالموں سے مرعوب ہو کر اُن کی طرف مائل نہ ہونا، خواہ اُن کے پاس فرعون جیسی سلطنت اور قارون جیسی دولت کیوں نہ ہو__ یہ تمام وہ نکات ہیںجو معاصر مسلمان طبقوں کی مطلوب تربیت کے اہم نشانات ہیں۔
پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو درست رخ پر رکھنے کے لیے بھی رہنمائی کی ضرورت ہے۔ میڈیا لوگوں کی سوچ، میلانات اور دل چسپی کو ایک رُخ دیتا ہے اور پھر راے عام اُسی رُخ پر تشکیل پاتی ہے جسے میڈیا تشکیل دیتا ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ میڈیا کے ان پہلوئوں کی تطہیر کی جائے جو عقیدے کو خراب، سوچ کو آلودہ اور رویوں میں انحراف پیدا کرتے ہیں۔ میڈیا کی توجہ معیاری پروگراموں کے ذریعے جو سنسنی خیزی اور غلط فہمی پیدا کرنے سے دور ہوں، قوم کے بڑے مقاصد کی خدمت پر مرکوز ہونی چاہیے۔ میڈیا کا محور خبر کے اندر سچائی اور رہنمائی کا عنصر ہونا چاہیے۔ میڈیا کو اسلامی اقدار و روایات اور قومی پالیسی کا عکاس ہونا چاہیے۔
اِسلام اپنے ماننے والوں کے درمیان وحدت و اخوت کے تعلقات پر مبنی معاشرہ قائم کرتا ہے جہاں مختلف نسلوں کے درمیان کوئی تصادم ہوتا ہے اور نہ مختلف ادیان کے مابین کوئی کش مکش۔ نہ مختلف طبقات آپس میں دست و گریباں ہوتے ہیں، نہ مختلف مذاہب (مسالک) ایک دوسرے سے گتھم گتھا۔ یہاں تمام انسان بھائی بھائی ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا بندہ ہونا اور آدمؑ کی اولاد ہونا ان کے اتحاد کی وجہ ہے۔ ان کے درمیان طرح طرح کے اختلافات اللہ تعالیٰ کی حکمت اور مشیت کا نتیجہ ہیں۔ اللہ قیامت کے روز ان کے باہمی اختلافات کا فیصلہ کرے گا۔
اسلام اسلامی معاشرے کے غیرمسلم باشندوں کو بھی احترام کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ اسلام انھیں اللہ تعالیٰ، اس کے رسولؐ اور مسلمانوں کی امان میں دیتا ہے۔ گویا مسلمان اُن کے جان و مال کی حفاظت، دفاع اور اُن کے ساتھ حُسنِ سلوک اور عدل و انصاف کرکے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا ہے۔ اگر یہ تعبیر بھی غیرمسلموں کے لیے تکلیف کا باعث ہو تو انھیں اُن کے فہم و شعور پر چھوڑ دینا چاہیے۔ بہرحال اسلام اُن کے لیے عقیدے اور عبادت کی آزادی فراہم کرتا ہے۔ اُن کے خون، عزت و آبرو اور مال و دولت کا اسی طرح محافظ ہے جس طرح مسلمانوں کا۔ اسلام اِن کو بھی اسی طرح اندرونی ظلم و ستم سے محفوظ رکھتا ہے جس طرح بیرونی دشمن کی جارحیت سے ان کا دفاع کرتا ہے۔ اسلام اُن کے لیے بھی وہ تمام حقوق مقرر کرتا ہے جو مسلمانوں کے لیے ہیں۔ ان کے اوپر بھی وہی فرائض عائد کرتا ہے جو مسلمانوں پر عائد ہیں سواے اُن مستثنیات کے جن کا تعلق دین کے فرق سے ہے۔ اسلام انھیں مادی و معنوی اور قانونی، تمام ضمانتیں اور تحفظ فراہم کرتا ہے جو اُن کے لیے اِن حقوق کے حصول کی ضمانت ہیں۔
اِسلام پیشوائیت کو نہیں مانتا۔ اسلام میں کوئی ایسا تصور نہیں جو پیشوائیت کے منصب پر براجمان کسی طبقے کا قائل ہو۔ ایسا طبقہ جو دین کو دیوار سے لگا کر خود لوگوں پر حکومت کرنے لگے۔ لوگوں پر اللہ کا دروازہ بند کر دے۔ اگر کھولے تو اپنے ذریعے سے۔ کسی کو کچھ عطا کرنے کا فیصلہ بھی اسی طبقے سے صادر ہو اور کسی کو بخش دینے کا مژدہ بھی یہی طبقہ سنائے۔ اسلام کے نزدیک کسی شخص کو اپنے اور اپنے رب کے درمیان کسی واسطے کی ضرورت نہیں۔ اس کا رب تو اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔ علماے دین کی حیثیت تو دین کے ماہرین کی ہے۔ ان کی طرف بھی کوئی شخص اسی طرح رجوع کرتا ہے جس طرح وہ کسی دوسرے علم کے ماہر سے استفادہ کرتا ہے۔ یہ حق ہر مسلمان کو حاصل ہے کہ وہ جب چاہے دین کے مطالعے کے ذریعے اس میں تخصص حاصل کرکے عالم بن جائے۔ یہ منصب نہ کسی وراثت کا مرہونِ منت ہے نہ کسی لقب اور مخصوص لباس کا متقاضی۔
اسلام میں دینی اور غیردینی جماعتوں اور تنظیموں کی تقسیم نہیں ہے۔ اس اعتبار سے لوگوں کے درمیان، قوانین کے درمیان، تنظیموں اور جماعتوں کے درمیان کوئی تقسیم نہیں ہے۔ ناگزیر ہے کہ یہ سب کے سب اسلام کی خدمت میں لگے ہوئے ہوں۔
اِسلام امت کے اس حق کو یقینی بناتا ہے کہ وہ امورِ سلطنت کو انجام دینے کے لیے اپنے حکمرانوں کا انتخاب کرے۔ کسی کو حکمران بنا کر اس کے اوپر مسلط نہیں کیا جا سکتا جو اس کی مرضی کے خلاف اس کی قیادت کرے۔ امت مسلمہ تو حکمرانوں کو مزدور اور خادم سمجھتی ہے۔ امت کے پاس اُن کی نگرانی اور محاسبے کا حق ہے۔ وہ اِن حکمرانوں کی مدد اور خیرخواہی کے لیے مصروف ہوتی ہے۔ معروف میں ان کی اطاعت کو فریضہ سمجھتی ہے۔ اسی طرح اُس کی اطاعت کا فریضہ امت پر سے ساقط ہوجاتا ہے جو معصیت کا حکم دے اور انحراف کی روش اپنا لے۔ ایسے حکمران کو نصیحت اور رہنمائی کرنا فرض ہے۔ اگر یہ چیز مفید نہ ہو سکے تو اس کو معزول اور حکومت سے بے دخل کردینا ضروری ہے۔ اگرکوئی حکومت خواہ وہ اسلامی ہی ہو، اس طرح کی روش اختیار کر لے تو وہ اُن معنوں میں دینی حکومت نہیں ہے جس سے عہد وسطیٰ میں مغرب آشنا ہوا۔ یہ تو بیعت اور شورٰی اور عدل پر قائم حکومت تھی۔ یہ اس قانون کی مدد سے حکمران تھی جو نہ اس نے بنایا تھا نہ اُس کو بدلنے کی طاقت اور اختیار رکھتی تھی۔ اس کے اعیانِ سلطنت علماے دین نہیں تھے، بلکہ طاقت و امانت اور علم و حفاظت کی صلاحیت رکھنے والے فرد ہوتے تھے۔ یہ وہ لوگ ہوتے تھے جنھیں اگر اللہ زمین میں حکمرانی عنایت کرے تو وہ نماز کا نظام قائم کریں، زکوٰۃ اداکریں، معروف کا حکم دیں اور منکر سے منع کریں۔
اسلام سرکش اور ظالم حکمرانوں سے تصادم کے دوران ایسی تمام عملی صورتوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے جو حکمرانوں کے مقابلے میں قوموں اور طاقتوروں کے مقابلے میں کمزوروں کے حقوق کی ضامن ہوں۔ خواہ ان کا تعلق اُن دساتیر سے ہو جو مقتدر قوتوں کے درمیان فرق قائم کرتے ہیں، یا منتخب پارلیمان سے ہو، بااختیار عدلیہ سے ہو، آزاد صحافت سے ہو، آزاد محراب و منبر سے ہو، یا متعارض گروپوں سے۔ ان تمام چیزوں کا اسلام کی روح اور اس کے مقاصد کلّیہ سے ہم آہنگ ہونا ضروری ہے خواہ ان کے بارے میں اسلام کی براہِ راست جزوی نصوص موجود نہ بھی ہوں۔
اسلام دولت کی حفاظت کرتا ہے۔ اسلام کا نظریہ ہے کہ دولت انسانی زندگی کا مدار اور سرچشمۂ اسباب ہے۔ اس کے بغیر دنیا کی زندگی کی تعمیر نہیں ہو سکتی، نہ دین کی نصرت و حمایت اس کے بغیر ممکن ہے۔ یہ اللہ کی ایسی نعمت ہے جس کا شکر ادا کرنا فرض ہے۔ یہ ایسی امانت ہے جس کی حفاظت کرنا واجب ہے۔ اسی طرح یہ آزمایش اور امتحان بھی ہے کہ اللہ یہ عطا کرکے انسانوں کو آزماتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسے حلال اور جائز طریقوں سے کمانا ضروری ہے۔ اس میں واجب ہونے والے حقوق کو ادا کرنا اور اسے بے جا اور تعیشات و فضولیات پر خرچ ہونے سے بچانا ضروری ہے۔ خاص طور پر دولت عامہ کی حفاظت نہایت ضروری ہے، یعنی وہ مال ودولت جس کو اسلام میں عظیم حرمت عطا کی گئی ہے، جیسے مالِ یتیم کی حرمت۔
اسی طرح اسلام پوری قوت کے ساتھ قوم کی اقتصادی ترقی کے لیے کام کرتا ہے۔ وہ اس کے مادی ذرائع کو بہت اہمیت دیتا ہے۔ اس کی افرادی قوت کو تربیت فراہم کرتا ہے اور وہ اُمت کے تمام شہریوں کو ایک دوسرے کے لیے سہارا بناتا ہے تاکہ ہر ایک خود کفیل ہو سکے۔ زراعت و صنعت کے میدانوں میں وہ اپنی ضرورت کے مطابق اشیا پیدا کر سکیں۔ وہ دوسروں کے دست نگر نہ رہیں۔ اسلام دنیا کے لیے کیے جانے والے عمل کو دین کا ایک جزو سمجھتا ہے۔ وہ زمین کی آباد کاری کو عبادت قرار دیتا ہے۔ معاشرے کی ترقی کو فرض ٹھیراتا ہے۔امت کی تہذیبی وعسکری اور جہاد فی سبیل اللہ کے حوالوں سے ترقی و تقویت، معاشی طور پر امت کو آزاد اور خودمختار و خودکفیل بنانے کے لیے جدوجہد تقربِ الی اللہ کا افضل ترین عمل ہے۔ یوں اسلام امت کو ایسے معنوی محرکات، ترغیبات، ذرائع اور طریقے مہیا کرتا ہے جو اس کی گاڑی کو پوری قوت کے ساتھ آگے کی طرف دوڑاتے ہیں۔ انسان کی ایسی پوشیدہ قوتیں جو ترقی کا ہدف ہوں ان کو بھی اسلام نے اپنے قالب میں ڈھال کر کارآمد بنایا ہے۔
معاشرے کے کمزور طبقات مزدور، کسان، ہنرمند اور وہ چھوٹے ملازمین جو امن میں ضروریاتِ زندگی فراہم کرتے ہیں اور حالت جنگ میں مددو نصرت کے لیے تیار کھڑے ہوتے ہیں، اسلام ان پر بہت زیادہ توجہ دیتا ہے۔ وہ ان کو تحفظ فراہم کرنے والی ضمانتوں اور اُن کے حقوق کا محافظ ہے۔ ہر آجر سے اس کی حیثیت کے مطابق لیا جائے گا اور ہراجیر کو اس کی محنت اور ضرورت کے مطابق دیا جائے گا۔ دونوں ایک دوسرے کی استطاعت و استعداد کو ملحوظ رکھتے ہوئے معاملات طے کریں گے۔ اسی طرح کام نہ کر سکنے والوں یا اپنی محنت مزدوری سے اپنی ضروریات پوری نہ کرسکنے والے حاجت مندوں، یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کا بھی اسلام خیال رکھتا ہے، اور ان کے لیے سالانہ اور عمومی مدات میں حقوق مقرر کرتا ہے۔ یہ حقوق مال دار افراد کے مال و دولت، قومی بیت المال میں جمع غنائم، فے اور دیگر تمام ذرائع آمدن میں سے دیے جاتے ہیں۔ اسلام اس عمل کے ذریعے کمزور طبقات اور دولت مند افراد کے درمیان ایک مضبوط قربت پیدا کرتا ہے تاکہ کمزور طبقات کو امیروں کے ظلم سے محفوظ رکھا جا سکے اور فقرا کی سطح سے اوپر اٹھایا جا سکے۔ اسلام اس صورتِ حال کو قبول نہیں کرتا کہ معاشرے میں کوئی فرد شکم سیر ہو کر رات گزارے اور اس کا پڑوسی اس کے پہلو میں بھوکا رہے۔ اسلام کے نزدیک حکومت ایسے لوگوں کی نگہداشت کی براہِ راست جواب دہ ہے۔ کیونکہ حکمران اور قائد چونکہ نگران ہے، لہٰذا وہ اپنی رعایا کے بارے میں جواب دہ ہے۔
اسلام اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتا کہ مسلمان اپنے وطن سے محبت رکھے اور اس پر فخر کرے، یااپنی قوم سے محبت کا دم بھرے اور اس پر فخر کے جذبات رکھے۔ جب تک یہ چیز مسلمان کے اپنے دین اور اس پر فخر سے متصادم نہ ہو، اس میں کوئی حرج نہیں۔ اس صورت میں وطنیت اور قومیت کے حوالے سے اسلام کا دامن تنگ نہیں بشرطیکہ ان میں ایسے نظریات نہ ہوں جو اسلام سے متصادم ہوں یا اسلام دشمن ہوں، جیسے الحاد، سیکولرزم، مادہ پرستی، جاہلی عصبیت وغیرہ۔ اس کے ذریعے اسلام تعمیر کا خواہاں ہے تخریب کا نہیں۔ وہ وحدت و اتحاد قائم کرتا ہے تفریق و انتشار نہیں۔ وہ تقویت فراہم کرتا ہے ضعف پیدا نہیں کرتا۔ وہ وطن کے اتحاد اور اس کی مضبوطی کا داعی ہے۔ لہٰذا امت اسلامیہ کا اتحاد مشترکہ اخلاقی اصولوںکے تحت انسانیت کے اتحاد اور اس کے امن و سلامتی کی کوشش ہے۔
اسلام نظریے کا مقابلہ نظریے سے کرتا ہے اور شبہے کا مقابلہ حجت سے۔ اس لیے کہ دین میں کوئی جبر نہیں اور نہ نظریے میں کوئی جبر ہے۔ وہ تشدد کو طریقہ اور دہشت گردی کو ذریعہ بنا لینے کی تردید کرتا ہے۔ خواہ اس کا مظاہرہ حکمرانوں کی طرف سے ہو، یا عوام کی جانب سے۔ اسلام بامقصد تعمیری مکالمے پر یقین رکھتا ہے۔ ایسا مکالمہ جو ہرفریق کو یہ موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ اپنا نقطۂ نظر گفتگو کے آداب اور معروضیت کو مدنظر رکھتے ہوئے پوری وضاحت کے ساتھ پیش کرے۔ قرآنِ مجید نے اس اصول کی طرف یوں اشارہ کیا ہے: وَ جَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَن (النحل۱۶:۱۲۵) ’’اور اُن سے احسن طریقے سے مکالمہ کرو۔‘‘
اِسلام یہ یقین رکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو ایک دوسرے سے مختلف پیدا کیا ہے۔ وَ لَوْ شَآئَ رَبُّکَ لَجَعَلَ النَّاسَ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً (ھود۱۱:۱۱۸) ’’بے شک تیرا رب اگر چاہتا تو تمام انسانوں کو ایک گروہ بنا سکتا تھا‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام دوسروں کی راے کو وزن اور اہمیت دیتا ہے، خواہ یہ دین کی فقہ و فہم میں ہو یا سیاست کے میدان میں۔ جب متعدد آرا اور اجتہادات سامنے آئیں تب تو یہ اختلاف رحمت اور خیر ہوتا ہے۔ اسلامی نظام میں ایک سے زیادہ گروہوں کا وجود اسلام کے اصولوں اور قطعی احکام کی روشنی میں ایک جائز امر ہے۔ اسی طرح اسلام کے لیے کام کرنے والی جماعتوں اور تحریکوں کا ایک سے زیادہ ہونا مضر نہیں ہے بشرطیکہ یہ زیادتی صرف تنوع اور تخصص کی حد تک ہو نہ کہ مخالفت اور تصادم کے لیے، باہمی تعاون اور ایک دوسرے کے دست وبازو بننے کے لیے ہو نہ کہ نفرت و عداوت کی فضا پیدا کرنے کے لیے۔ اہم مسائل اور امور میں سب کے لیے اپنے جزوی اختلافات کو نظرانداز کرکے صف واحد کے طور پر کھڑا ہونا ضروری ہو۔ سب کا محور قرآن و سنت ہو۔ سب کا ہدف اسلام کا غلبہ ہو۔ ہمہ پہلو غلبہ، یعنی اعتقادی، شرعی اور اخلاقی، ہر اعتبار سے غلبہ ۔ سب کا ایک ہی شعار ہو اور وہ یہ کہ ہم جن باتوں پر متفق ہیں اُن میں ایک دوسرے سے تعاون کریں اور جن امور میں اختلاف ہے وہاں ایک دوسرے کے عذر کو قبول کریں۔
اسلام ماضی کی شان دار تہذیب کے گن گانے پر اکتفا نہیں کرتا، بلکہ وہ موجودہ اسلامی تہذیب کے اندر جدت لانے پر بھی کام کرتا ہے۔ آج کی تہذیب کے پاس سائنس و ٹکنالوجی اور انتظامی و اداراتی عناصر کی جو بہترین خوبیاں ہیں، یہ تہذیب ان کو اختیار کر لیتی ہے اور اپنی اصل اور خصوصیات کو بھی محفوظ رکھتی ہے۔ اسلامی تہذیب میں روحانی قدریں انسانی مفاہیم سے مربوط ہوتی ہیں۔ اس میں اسلام کی اصل اور زمانے کی روح روزِ روشن کی طرح نمایاں ہوتی ہے۔ سائنس اور ایمان اس میں مجتمع ہو جاتے ہیں۔ حق اور قوت کا آپس میں ملاپ ہوتا ہے۔ مادی جدت اور اخلاقی ترقی کا توازن موجود ہوتا ہے۔ اس میں عقل کی روشنی اور وحی کے نور کا تعلق برادرانہ ہوتا ہے۔
یہ ایسی تہذیب ہے جس میں اسلام کی خصوصیات اور مبادیات ابھر کر سامنے آتی ہیں۔ فرد کی تعمیر، خاندان کی تشکیل، معاشرے کی ترکیب، ریاست کے قیام اور بہترین راستے کی طرف انسانیت کی رہنمائی کرنے میں اسلام کے اہداف و مقاصد اس تہذیب میں مجسم دکھائی دیتے ہیں۔
یہ تہذیب مادی و الحادی مشرقی کیمپ اور سود خور سیکولر مغربی کیمپ سے منفرد و ممتاز ہے۔ یہ نہ دائیں بازو سے وابستہ ہوتی ہے نہ بائیں سے، بلکہ یہ صرف اسلام کے ساتھ وابستہ ہے۔ یہ اسلام ہی سے مدد لیتی، اسی پر انحصار کرتی، اسی کو مقصد ٹھیراتی اور اسی کے ذریعے نمایاں ہوتی ہے۔
یہ تہذیب اپنے امتیاز و انفرادیت کے باوجود مختلف ثقافتوں کے مابین میل ملاپ، مختلف تہذیبوں کے درمیان بات چیت، مختلف قوموں کے درمیان تعارف، اور بنی نوعِ انسان جہاں بھی ہوں ان کے درمیان اخوت پر یقین رکھتی ہے___ لیکن یہ تہذیب کسی دوسری تہذیب میں ضم ہوجانا گوارا نہیں کرتی کہ یوں وہ اپنی اصلیت اور انفرادیت کھو بیٹھے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ تہذیب ہرقسم کی ثقافتی یلغار اور اجنبی و بیرونی تسلط کو قطعاً قبول نہیں کرتی۔ یہ اُن گھنائونے حربوں کے سامنے ڈٹ جاتی ہے جن کے ذریعے آج کے حملہ آور انسانیت کی آڑ میں اس میں داخل ہونا چاہتے ہیں۔
اسلام شریعت کے قانونی پہلو کے ظاہری نفاذ کو ہی اپنی سب سے بڑی پریشانی نہیں بناتا۔ خاص طور پر حدود و قصاص میں سزائوں کے ہی نفاذ پر سارا زور نہیںدیتا، اگرچہ یہ پہلو شریعت کے احکام کا ایک جزو ہے اور اس کو معطل کر دینا جائز نہیں ہے۔
اسلام کا اولین معرکہ، بہت بڑی مہم اور پیہم سعی حقیقی اسلامی زندگی قائم کرنا ہے__ ایسی زندگی جو انسانوں کے دلوں کی ا صلاح کا کام کرے تاکہ اللہ تعالیٰ ان کی حالت بہتر بنا دے۔ اس زندگی کی چھائوں میں ایک مومن انسان، متحد خاندان، مربوط معاشرے اور عادل ریاست کی تشکیل ہوتی ہے۔ قوت اور دیانت داری جس کی خوبی ہو__ یعنی کامل اسلامی زندگی، اسلام کا عقیدہ جس کی رہنمائی کرتا ہے، اسلام کی شریعت جس پر حکمرانی کرتی ہے، اسلام کے معانی جس کی قیادت کرتے ہیں، اسلام کے اخلاق جس کے لیے ضابطہ ہیں اور اسلام کے آداب جس کے لیے باعث جمال ہیں۔
باہمی حقوق کے ضامن متحد معاشرے کی زندگی جس کا ایک حصہ دوسرے کے لیے دیوار کی اینٹوں کی مانند مضبوطی کا سبب بنتا ہے۔ جس میں کوئی فرد یوں بھوکا نہیں رہ سکتا کہ اس کا ہمسایہ تو پیٹ بھر کر کھاتا ہو اور وہ بھوکا رہ جائے۔ جس میں ایک جاہل کے لیے مفید علم حاصل کرنے کے وافر مواقع میسر ہوں۔ ہر بے روزگار کے لیے مناسب روزگار موجود ہو۔ ہر مزدور کے لیے عادلانہ مزدوری ملنے کا ماحول ہو۔ ہر بھوکے کے لیے اس کی ضرورت کے مطابق غذا مہیا ہو۔ ہر مریض کو مؤثر علاج کی سہولت حاصل ہو۔ ہرشہری کے لیے صحت مند رہایش کا بندوبست ہو۔ ہر محتاج کی ضرورت کا پورا سامان میسر ہو۔ ہر مجبور کا مادی اور معاشرتی ہر حوالے سے خیال رکھا جاتا ہو۔ خصوصاً بچوں، بوڑھوں، معذوروں اور بیوائوں کے حقوق کا خاص خیال ہو۔ اسی طرح اس زندگی میں ہر پہلو سے بھرپور قوت موجود ہو۔ فکر جان دار ہو، روح توانا ہو، بدن مضبوط ہو، اخلاق اعلیٰ ہوں، معاشیات کے اندر طاقت ہو، عسکری تیاری اور اسلحہ کے اعتبار سے استحکام ہو، اس کے ساتھ یک جہتی و اتحاد اور فولادی عزم کی دولت بھی موجود ہو__ اور اس سب کچھ کی اساس ایمان کی قوت ہو!
اسلام کا نظریہ ہے کہ مسلمان جہاں بھی ہوں، سب کے سب جسد ِ واحد کی طرح امت واحدہ ہیں۔ ان کے ایک معمولی فرد کی ضمانت بھی قابل اعتبار ہے۔ وہ اپنے دشمنوں کے خلاف ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں۔ وہ سب ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔ ایک عقیدے، ایک قبلے، ایک کتاب، ایک رسولؐ اور ایک شریعت پر ایمان نے انھیں ایک جمعیت بنا دیا ہے۔ یہ اِن کا فرض ہے کہ اپنی جماعت کے لیے باعث انتشار تمام عوامل اور وجوہات کا خاتمہ کریں، جیسے نسلی و علاقائی عصبیت سے دَب جانا، درآمدشدہ دائیں بازو اور بائیں بازو کی تنظیموں اور طریقوں کے تابع ہوجانا، حکمرانوں کی من مانیوں اور ذاتی انائوں کے پیچھے چلنا، جو حقیر، معمولی اور عارضی مطالبات کی خاطر امت کے بڑے بڑے مفادات کو دائو پر لگا دیتے ہیں۔
مسلمانوں کے کرنے کا ایک کام یہ بھی ہے کہ وہ ’اسلامی یک جہتی ‘ کو زبانی سطح سے عملی شکل کی طرف منتقل کریں۔ اُسے مضبوط بنائیں، اس کا دائرہ بڑھائیں۔ یہاں تک کہ وہ موجودہ دنیا کے اتحادوں یا بلاکوں جیسی ایک سیاسی شکل اختیار کر لے۔ ہماری امت اس قابل ہے کہ یہ ایک عظیم بلاک کی شکل اختیار کر لے بشرطیکہ یہ اپنے رب کی اس ندا پر لبیک کہہ دے:
وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْا(اٰلِ عمرٰن۳:۱۰۳) سب مل کر اللہ کی رسّی کو مضبوط پکڑ لو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔
[alqardawi.net]
دنیا بھر کے دانش ور وں کے نزدیک غور وفکر کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ: کرۂ ارض کی آبادی اس قدر تیز رفتاری کے ساتھ کیوں بڑھتی چلی جارہی ہے کہ زمین کے وسائل ختم ہونے کو آرہے ہیں او ر ایک قحط کا سا سماں پیدا ہونے لگا ہے؟۔ ایک خاص مدت کے بعد دنیا کے لوگ آخر کھائیں گے کیا اور پئیں گے کیا؟
اس مقصد کے لیے اقوامِ متحدہ جیسے بہت سے عالمی ادارے تک انتظامی منصوبے تیار کرنے میں مصروف ہیں۔ ان کا مقصد یہ نہیں کہ وہ عالمی ذرائعِ حیا ت و وسائل کو مزید بڑھا ئیں، موجودہ وسائل و اسباب کو مزید ترقی دیں، اور افراد و اقوام کے عیاشانہ اخراجات کو کم کریں،بلکہ اس کے برعکس ان کی بھاگ دوڑ کا نتیجہ یہ ہے کہ خود انسانوں کی پیدایش اس زمین پر کم کردی جائے، بلکہ بالکلیہ ہی روک دی جائے۔ ان دانش وروں کے مطابق آبادی کو اس مرحلے پر اگرکہیں قدِ غن لگادی جائے تو آج کے لوگو ں کے لیے موجودہ ذخیرۂ آب وخوراک کافی ہوجائے گا۔ دراصل ان صاحبانِ دانش و بصیرت کا معاملہ مولانا مودودیؒ کے اس تبصرے کا سا ہے کہ ’’یہ لوگ خود تو ٹرین کے ڈبے میں کسی نہ کسی طرح گھس آئے ہیں، لیکن اب دوسرے مسافروں کو اس میںداخل نہیں ہونے دینا چاہتے ‘‘۔
اس بات سے قطع نظر کہ نسلِ انسانی کی پوری تاریخ میں آیا فی الحقیقت ایسی کوئی ہولناک صورتِ حال رونما ہوئی بھی ہے یا نہیں، حقیقت یہ ہے کہ اس معاملے میں دو پہلو باہم منسلک ہیں: ۱- آبادی کا میزانیہ ۲- وسائل کا میزانیہ۔ انصاف کا تقاضا ہے کہ اگر مسئلے کو حل کرنا ہے تو اس کے دونوں ہی پہلوئوں کو یکساں انداز سے دیکھا جائے ۔
حیرت انگیز طور پر شور تو بہت مچایا جاتا ہے کہ آبادی محدود کرکے نسبتاً ایک بہتر زندگی گزارنے کے قابل ہوا جائے ۔لیکن انسانی قوت و فراست کے ذریعے وسائل کو کس طرح فروغ دیا جائے، اس سلسلے میں وہ کوئی قابلِ رشک کارکردگی نہیں دکھاپاتے۔ خاندانی منصوبہ بندی کے اقدامات کے باعث گذشتہ عشروں میں آبادی میں قابلِ لحاظ کمی تو ضرور واقع ہوئی ہے لیکن یہ سوال بھی اسی طرح اہم ہے کہ اس کمی کے باعث کیا عا م لوگوں کی خوش حالی میں بھی کوئی اضافہ ہوا ہے؟۔افسوس کہ ہمارے پاس اس سوال کا جواب نفی کے علاوہ کچھ نہیںہے کیونکہ دنیا کے کروڑ ہا انسان آج بھی غربت کی آخری لکیر سے نیچے کی زندگی گزار رہے ہیں۔
کسی بھی معاملے میں لوگ جب اپنے خالق ہی کو بھول جانے لگیں،جیسا کہ مغرب نے اس ضمن میں رویہ اپنایا ہوا ہے، تو بے شمار معاملات میں انھیںگمراہ کن نتائج ہی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ صحیح منزل انھیں کبھی حاصل نہیں ہو سکے گی کیونکہ اللہ تعالیٰ کے بعض اقدامات غیر مرئی ہوتے ہیں جن کے ذریعے وہ اس دنیا کا انتظام و انصرام کررہا ہوتا ہے۔ایسے اقدامات ایک عام انسان تو کیا ، اعلیٰ پاے کے دانش وروں کو بھی نظر نہیں آتے۔ چنانچہ اسی کے نتیجے میں بہت سارے معاملات کہیں یکایک بالکل ٹھیک ہورہے ہوتے ہیں اور کہیں یکایک وہ بالکل بگڑے ہوئے دکھائی دینے لگتے ہیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ دنیا بنا کر اللہ تعالیٰ ایک الگ گوشے میں کہیں بیٹھ گیا ہے، ایک بالکل گمراہ کن اور توہین آمیز نظریہ ہے۔
کیا ہم دیکھتے نہیں ہیں کہ اپنی بصیرت سے اللہ تعالیٰ نہ صرف یہ کہ وسائل میں ہر نئے دن کوئی نہ کوئی حیرت انگیز اضافہ کررہا ہے، بلکہ آبادی کے بارے میں مستقل منصوبہ بندی بھی کررہا ہے۔ آخر وہ کون ہے جس نے دنیا والوں کے لیے یکا یک پیٹرول کی دولت عطا کی ہو ، گیسوں کے ذخائر اجاگر کیے ہوںاورنقل و حمل کے تیز ترین ذرائع سامنے لایاہو ؟ یہی نہیںبلکہ ہر ہر میدان میں جس نے انقلاب جیسی صورتِ حال جنم دی ہو ؟وہ کون ہے جس نے انسانوں کی لحمیاتی ضروریات پو را کرنے کی خاطر مرغبانی اور ماہی گیری کے کاروباری استعمالات کی سمجھ عطا کی ہو؟ اور وہ کون ہے جس نے انسانوں پرجدید ترین ٹکنالوجی اس لیے الہام کی ہو کہ وہ زمین میں معجزے دکھانے شروع کردیں؟ چنانچہ اگر یہ کہا جائے کہ آبادی کی منصوبہ بندی کی فکر آج کے انسانوں سے بڑھ کر خود اللہ تعالیٰ کو ہے تو کون کہہ سکتا ہے کہ ہمارا یہ تبصرہ غلط ہے؟
دنیا کی تاریخ میں کب ہو ا ہے کہ یہاں وسائل گھٹ گئے اور آبادی سسک سسک کر ہلاک ہوگئی ہو؟ کب ایسا ہوا ہے کہ یہاں آب و دانہ ختم ہوگیا ہو اور لوگ چیختے چلّا تے پھر رہے ہوں؟بالفرض اگر ایسا کہیں ہوا بھی ہے تواس میں انسانوں کی اپنی غلط منصوبہ بندیوں، اور انسانوں اور انسانوں کے درمیان روا رکھے جانے والے تفریقی رویوں کا بہت بڑا دخل ہے۔اللہ تعالیٰ تو دنیا کے انسانوں کے درمیان کبھی تفریق نہیں کرتا۔ اس کے نزدیک یورپ کے خوش حال لوگ زمین پر رہنے کے جس قدر حق دار ہیں ، مسلم ممالک کے پس ماندہ لوگ بھی اسی قدر حق دار ہیں، خواہ دانش وروں اور جابروں کو یہ انتظام کتنا ہی بُرا کیوں نہ لگے؟
کس کو نہیں معلوم کہ ماضی قریب میں جب دنیا کی آبادی فی گھرانہ ۱۲،۱۳؍ افراد کے وسیع کنبے پر مشتمل ہوا کرتی تھی ، آج دنیا کے وسائل اس کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں۔ معیارِ زندگی بھی اِس دور میں پہلے سے کہیں بہتر ہے، اور آبادی کی خدائی منصوبہ بندی کی وجہ سے زمین و آسما ن کا کوئی نہ کوئی خزانہ آئے روز ہی یہاں جلوہ گر ہوتا رہتا ہے۔ دنیا کے طول و عرض میں صرف بنجر زمین اس قدر پائی جاتی ہے کہ موجودہ تعداد جتنے لوگ اس میں ابھی اور بھی سماسکتے ہیں۔
قادرِ مطلق نے جب انسانوں کو یہاں بسایا ہے تو وہ ان کی فکر بھی رکھتا ہے۔ وہ ان کے لیے وسائل بھی فراہم کرتا ہے ،اور ان کی رہایش کے لیے زمین بھی ہموار کرتا ہے۔ چنانچہ دنیا میں وہ اتنے ہی انسانوں کو بھیجتا ہے جتنی یہاں بھیجنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ زائد انسانوں کو وہ خود ہی یہاں نہیں بھیجتا ۔ یہی وجہ ہے کہ روے زمین کے تمام قابل ترین دماغوں سے بھی زیادہ علیم و خبیر اور منصوبہ بند ہستی وہی اللہ ہے۔ وہ زوجین میں ملاپ کے بعد جنین میں عموماً بس ایک ہی بچے کا استقرار کرواتا ہے اور باقی تمام بیضے ضائع کر دیتا ہے۔ ایک قابلِ لحاظ تعداد یہاں ایسے جوڑوں کی بھی ہے جن کے گھروں میں شادی کے بعد عرصۂ دراز تک ایک بھی بچہ جنم نہیں لیتا۔ کبھی کبھی دنیا میں جڑواں بچے بھی ایک ساتھ جنم لے لیتے ہیں، جب کہ شاذ و نادر ایسا بھی ہو تا ہے کہ بعض مائوں کو وہ ایک ساتھ تین تین اور چار چار بچے بھی عطا کردیتا ہے۔ چنانچہ اس کے منصوبہ ساز ہونے ہی کی یہ کھلی دلیل ہے کہ ’کثرتِ اولاد‘ کی صورتِ حال عام طور پر واقع نہیں ہوتی۔ اگر انسانوں کو وہ اسی طرح تین تین چار چار اکٹھے بھیجنے کی منصوبہ بندی کرتا،اور ہر بانجھ جوڑے کوایک دو بچوں سے ضرور ہی نوازتا ،تو کون ہے جو اس کا ہاتھ پکڑ لیتا،اور کون ہے جو اسے ایسا کرنے سے روک سکتا؟۔
اتنی واضح حقیقت کیا یہ ثابت نہیں کرتی کہ زمینی آبادی کی بہترین منصوبہ بندی اللہ تعالیٰ ہی کررہا ہے۔اور کون ہے جو ٹھیک ٹھیک اس طرح کی منصوبہ بندی کرسکے؟ درحقیقت اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی ایسا کر بھی نہیں سکتا۔ انسان تو ویسے بھی محدود عقل و صلاحیت کا مالک ہے۔اس لیے ۱۰۰فی صد درست منصوبہ بندی کی توقع اس سے کی ہی نہیں جاسکتی کیونکہ وہ ٹھیک ٹھیک کبھی نہیں بتاسکتا کہ زمین کے اندر کیا کیا وسائل کہاںکہا ں پنہاں ہیں،ا ور کب برآمد ہوں گے؟۔ اسے تو ۱۰،۲۰ برسوں کے بعد جا کر اچانک خبر ملتی ہے کہ کوئی نیا ذخیرۂ وسائل زیرِ ِ زمین یا سطحِ سمندر پر ابھر آیا ہے۔تیل تو عرب ممالک میں لاکھوں سال پہلے سے موجود تھا لیکن اس موجودگی کی خبر آخرکس کو تھی؟ ٹکنالوجی کا وسیع علم بھی انسانی ذہن کو اللہ تعالیٰ ہی نے عطا کیا ہے اور اسی باعث زمین کے وسائلِ خوراک ، پیداوار، اور سہولیات وغیرہ میں ایک دم کئی گنا اضافہ ہوتا چلا گیا۔ انسانوں کو یہ سہولت اللہ تعالیٰ نے اس لیے عطا کی تھی کہ اضافہء آبادی کے باعث انسان آیندہ کہیں بھوکا ننگا نہ رہ جائے، اور نہ علاج معالجے سے محروم رہے۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آج کے عقل مند انسانوںنے اپنے لیے زندگی کے بجاے موت کو ترجیح دی ہے۔ وہ مہلک بارودی اسلحے ایجاد کرتا ہے، ایٹم بم سامنے لے کر آتا ہے۔ پست درجے کی نفرتوں کو ابھارتا ہے۔خونی جنگوں کو اپناطریقِ زندگی قرار دیتا ہے۔تجربہ گاہوں میں نت نئے مہلک جراثیم کی پرورش کرتا ہے۔ اور بدکاری میں زنا جیسی ہلاکت خیز برائی کو عام کرتا ہے جس کے باعث دردناک اور عجیب و غریب اموات اس کا مقدر بننے لگتی ہیں۔ ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ دنیا کے موجودہ وسائل کی تقسیم میں بھی وہ کبھی منصفانہ کردار ادا نہیں کرتا۔ ایک طرف اگر وہ صومالیہ اور دیگر افریقی ممالک میں قحط کے باعث ہزاروں انسانوںکو بھوک اور پیاس سے ہلاک کر رہا ہوتا ہے تو دوسری جانب وہ دنیا بھر کے محض ۱۰ یا ۱۵ ممالک کو زمین کے تمام وسائل کا قبضہ دے دیتا ہے۔ اکثر بڑے ممالک اپنے ذخیرۂ خوراک کو محض اس وجہ سے برباد کردیتے ہیں کہ وہ ان کی ضرورت سے بہت زیادہ ہوتا ہے۔ وہی امریکا جہاں خوش حالی راج کررہی ہوتی ہے ، وہیں بے شمار امریکی آج بھی ایسے ہیں جو بھوک سے مجبور ہیں اورمکان نہ ہونے کی وجہ سے فٹ پاتھ پر زندگی گزاررہے ہیں۔
کیا یہ ایک تلخ حقیقت نہیں ہے کہ د نیا کے وسائل کا ۵۰فی صد سے زائد محض جنگوں کی نذر ہوجاتا ہے ؟۔ کیا یہ جنگیں ہماری زندگی کا حصہ نہیں بن گئی ہیں؟ کیا آج کا مہذب انسا ن بھی غیرتہذیب یافتہ اَ دوار کی طرح محض جنگ و جدل ہی میں زندگی نہیں گزار رہا ہے؟ کیا حکومتی کارپر دازان اس جنگ کے بدلے بڑھتی ہوئی عالمی آبادی کو خوراک ، لباس ، سہولیات ، تعلیم ،اور علاج وغیرہ کی آسانیاں فراہم نہیں کرسکتے؟ چنانچہ صرف اسی ایک نکتے کی بنیا د پرہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ اضافۂ آبادی کا شور مچانا، انتہا درجے کی بے وقوفی بلکہ سفاکی ہے۔ خود اپنے حصے کا کام تو ہم کرتے نہیں، اور الزام اللہ تعالیٰ پر تھوپ دیتے ہیں ۔ لہٰذاس سوال کا جوا ب اب خود ہم ہی کو دینا چاہیے کہ دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ ظلم ہم کر رہے ہیں یا وہ جس نے اس کائنات کوتخلیق کیا اور چلارہاہے؟ہرروز ہی کوئی نہ کوئی خوش کن خبر ،یہ کائنات دنیا والوں کے سامنے لے کر آتی چلی جارہی ہے۔بقول اقبال ؎
یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آرہی ہے دمادم صداے کُنْ فَیَکُوْں
بے شمار مواقع و وسائل ہر عشرے دو عشرے بعد دنیا کے سامنے آتے رہتے ہیں ۔ آبادی میں اضافے کے ساتھ ساتھ اس کے وسائل میں بھی متناسب اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔اہم بات یہ ہے کہ بے مقصد پڑی ہوئی وسیع و عریض زمین کو کثرتِ آبادی کے غم خوار اگر کاشت کاری کے لیے استعمال کریں تو وہ لاکھوں ٹن اجناس اُگلنے کے لیے آج بھی تیار ہے۔اسی طرح کتنے ہی وسائل ٹنوں کے حساب سے زیرِ زمین اب بھی مزید موجود ہیں جن کا دریافت ہونا ابھی باقی ہے۔ پس ماندہ ممالک میں نااہل حکمرانوں اوراستحصال پسند طبقے نے عرصۂ دراز سے کوئی سرگرمی نہیں دکھائی ہے کیونکہ عوام کو سہولتوں کا دیا جانا وہ پسند نہیں کرتے۔ لالچی اور استحصال کے عادی لوگوں کو اپنی دولت و اقتدار کے سوا کچھ سجھائی نہیں دیتا ؟
حقیقت یہ ہے کہ دنیا بنانے والی ہستی، اللہ تعالیٰ کو انسانوں سے نفرت نہیں بلکہ پیار ہے۔ وہ ا ن سے کراہیت نہیں محبت رکھتا ہے۔ وہ جب بھی کسی معصوم بچے کو دنیا میں بھیجتا ہے تو اسے اس دنیا کے ذخائر و وسائل کا پتا ہوتا ہے۔ نئے بچے کو دنیا میں وہ نفرت سے نہیں بلکہ پیا ر کے جذبے سے بھیجتا ہے۔ و ہ بگاڑتا نہیں ، سنوارتاہے ۔وہ تباہی و بربادی کو نہیں بلکہ امن و انصاف کو پسند کرتا ہے۔ وہ اربوں گنا آبادی کی منصوبہ بندی کو بھی انتہائی عمدگی کے ساتھ کرتا ہے، تاکہ یہ دنیا بانجھ ہوکر نہ رہ جائے۔ لہٰذااس کی منصوبہ بندی پر ہی ہمیں مطمئن رہنا چاہیے۔
انسان اگر دانش مندی کا مظاہرہ کرے تو بڑھتی ہوئی آبادی کو اپنے لیے فائدہ مند بناسکتاہے۔ مغرب فطرت سے انحراف کے نتیجے میں جہا ں سنگین ترین قلتِ آبادی کے باعث اب خود اپنی قوم کے اقلیت میں تبدیل ہوجانے کے خطرے سے دوچار ہے۔ظاہر ہے کہ مغرب کو اس بدترین صورتِ حال سے خود کو آبادی کی منصوبہ بندی کے ماہرترین گرداننے والوں نے ہی دوچار کیا ہے __ کیا بندوں کو پیدا کرنے والے سے بھی زیادہ بہتر منصوبہ بندی کوئی کر سکتا ہے!
یقینا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر فرمان بے مثال ہے۔ آپؐ کی عطا کردہ دُعاؤں سے بہتر اور جامع دُعا ملنا ممکن ہی نہیں ہے۔ آپؐ کے اس فرمان نے ہر بحران سے نجات کی راہ دکھا دی، جس میں آپؐ فرماتے ہیں: رَبَّنَا اَرِنَا الْحَقَّ حَقًّا وَّارْزُقْنَا اتِّبَاعَہُ وَ اَرِنَا الْبَاطِلَ بَاطِلًا وَّارْزُقْنَا اجْتِنَابَہُ، پروردگار ہمیں حق کو حق دکھا اور اس کا اتباع کرنے کی توفیق عطا فرما، ہمیں باطل کو باطل ہی دکھا اور اس سے اجتناب کی توفیق عطا فرما‘‘۔ زندگی کے جس فیصلے پر اس سنہری اصول کا اطلاق کریں ہمارے لیے دوجہاں کی کامیابی یقینی ہوجاتی ہے۔
خلیج کے حالیہ بحران ہی کو دیکھ لیجیے، دونوں طرف اتنی شدت اور سختی ہے کہ درست راے کا اظہار تک ناممکن ہوتا جارہا ہے۔ یمن کے حالات پر، ٹھوس حقائق کی روشنی میں اور انتہائی احتیاط کے ساتھ چند گزارشات پیش کیں تو دونوں طرف سے جان لیوا دشنام و الزامات سننے کو ملے: ’’کتنے ڈالر لیے ہیں؟‘‘، ’’تم لوگوں نے ہمیشہ دھوکا دیا ہے‘‘، ’’تمھیں ایران نے خرید لیا ہے‘‘، ’’تم سعودیہ کے غلام ہو‘‘۔ الحمد للہ، ان میں سے کسی گالی کا جواب نہیں دیا، معاملہ کائنات کے رب کے سپرد ہے، وہ یقینا دوجہاں میں حق کو حق اور باطل کو باطل کرنے والا ہے۔
آئیے، ایک بار پھر کامل غیرجانبداری سے یمن کے سارے معاملے کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ حالیہ جنگ میں چار بنیادی فریق ہیں: وہاں کے باغی حُوثی قبائل، ۳۳سال تک حاکم مطلق بنا رہنے والا آمر علی عبد اللہ صالح اور اس کی حامی فوج، قومی اتفاق راے سے وجود میں آنے والی عبوری حکومت کے سربراہ عبد ربہ منصور ہادی اور اس کی حامی فوج، اور یمن کی الاخوان المسلمون سمیت دیگر اہم سیاسی جماعتیں، لیکن اس وقت ان چاروں فریقوں سے زیادہ اہم کردار سعودی عرب اور ایران کی صورت میں سامنے آچکا ہے۔
باغی حُوثی قبائل یمن کے شمال میں سعودی عرب سرحدوں پر رہتے ہیں اور صعدہ نامی شہر ان کا اہم مرکز ہے۔ یہ قبائل گذشتہ تقریباً ۱۰ برس سے مسلح کارروائیاں کررہے ہیں۔ سابق آمر نے بھی اپنے اقتدار کے آخری چھے سالوں میں ان کی ساتھ چھے اہم جنگیں لڑیں۔ لڑائی چونکہ سعودی سرحدوں پر ہورہی تھی، اس لیے اس نے سعودی عرب سے بھی بھرپور تعاون حاصل کیا۔ یہی سبب، یعنی لڑائی کا سعودی سرحدوں پر ہونا، حُوثی قبائل کے لیے ایرانی تعاون کا دروازہ کھولنے کا سبب بناہے۔ دوسری طرف یہ راز بھی کھلا کہ ایران نے بالخصوص بحری راستوں سے ان قبائل تک اسلحہ اور وسائل بھی پہنچائے اور باغی حُوثی قبائل کے نوجوانوں کو ایران اور حزب اللہ کے مختلف کیمپوں میں لے جاکر ان کی عسکری تربیت بھی کی۔
۲۰۱۱ء میں جب بعض عرب ممالک سے ’عرب بہار‘ کا جھونکا آیا، تو یمنی عوام بھی ۳۳سالہ آمریت سے نجات حاصل کرنے کے لیے میدان میں آگئے۔ سعودی عرب نے اس موقعے پر صدر علی عبد اللہ صالح کا ساتھ دیا۔ دوران تحریک اس پر ایک انتہائی شدید قاتلانہ حملہ ہوا، جس میں اس کے کئی قریبی ساتھی مارے گئے۔ سعودی عرب نے اس موقعے پر بھی اس کی مکمل سرپرستی کی، اسے ریاض لے جایا گیا اور کئی ماہ کے علاج کے بعد اسے واپس یمنی دارالحکومت صنعاء میں لابٹھایا۔ لیکن جب عوامی تحریک، اس کے حامی اور مخالف عناصر کے مابین باہم مسلح جنگ میں بدل گئی اور اس کا اقتدار میں رہنا، ناممکن دکھائی دینے لگا، تو سعودی عرب نے دیگر خلیجی ریاستوں کے ساتھ مل کر علی عبد اللہ صالح کو اقتدار سے دست بردار ہونے اور گذشتہ ۱۶سال سے اس کے نائب صدر چلے آنے والے عبد ربہ منصور ہادی کو عبوری صدر بنانے پر آمادہ کرلیا۔ اس موقعے پر وہاں بھی ایک NRO وجود میں آیا اور انتقال اقتدار کی شرائط میں یہ بات شامل کروادی گئی کہ علی صالح صنعاء ہی میں رہے گا، اس کا کوئی مواخذہ نہیں ہوگا، اور اس پر کوئی مقدمہ نہیں چلایا جائے گا۔
علی صالح کو یمنی عوام ’عیار لومڑ‘ کے لقب سے پکارتے ہیں۔ اس عیاری کی ایک جھلک ملاحظہ ہو: برطانوی اخبار ڈیلی ٹیلی گراف ۲۹ مارچ کے شمارے میں لکھتا ہے: ’’جب اس کے خلاف یمنی عوام کی تحریک عروج پر تھی تو اس نے امریکی افواج کو کھلی چھٹی دے دی کہ وہ ڈرون حملوں اور زمینی کارروائیوں کے ذریعے القاعدہ عناصر کا صفایا کردیں۔ لیکن عین اسی روز اس نے قصر صدارت میں یمن میں القاعدہ کے سربراہ سامی دیان کے ساتھ خفیہ ملاقات کی اور اسے کہا کہ ہم ضلع ابین سے اپنی فوجیں نکال رہے ہیں آپ لوگ وہاں اپنا اثر و نفوذ بڑھا لیں۔ اخبار کے مطابق یہ واقعہ اقوام متحدہ کے علم میں بھی آچکا ہے‘‘۔ اس نے اپنے ۳۳ سالہ دور اقتدار میں ریاست کو اپنی باندی اور عوام کو غلام بنائے رکھا۔ ہر اہم ادارہ بالخصوص فوج اپنے بیٹے احمد، دیگر رشتہ داروں اور اپنے قبیلے کے سپرد کردی اور غریب عوام کی دولت سے ذاتی تجوریاں بھرلیں۔ اس نے مجبوراً مسندصدارت سے معزولی تو قبول کرلی، لیکن اقتدار پھر بھی اپنے ہاتھ میں رکھنے پر مصر رہا۔ فوج تقسیم کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا۔ صاحبزادے اور قبیلے کے دیگر وفادار جرنیلوں نے زیادہ تر اسلحہ اپنے قبضے میں لے لیا۔ اس نے دوسرا خطرناک ترین اقدام یہ کیا کہ انھی باغی حُوثی قبائل جن کے ساتھ وہ گذشتہ چھے برس سے برسرِپیکار تھا، سازباز کرلی۔ اب یہ حُوثی قبائل صعدہ سے نکل کر دیگر شہروں کی طرف بھی پیش قدمی کرنے لگے اور پھر دیکھتے، دیکھتے وہ ایک روز دارالحکومت صنعاء پر آن قابض ہوئے۔ علی صالح کی وفادار فوج نے ہر جگہ ان کے لیے ہراول دستے کا کام کیا۔
صنعاء پر قبضے کے ساتھ ہی ایران بھی اس پوری لڑائی کے ایک اہم ترین فریق کی صورت میں کھل کر سامنے آنے لگا۔ دارالحکومت پر قبضے کے تیسرے روز صنعاء اور تہران کے مابین روزانہ دو باقاعدہ پروازیں شروع ہوگئیں۔ اس رُوٹ پر مسافر نہ ہونے کے برابر ہیں، لیکن روزانہ ایران ایئر کے دو بڑے جہاز آتے جاتے رہے۔ کیوں؟جواب جاننے کے لیے عسکری ذہن ہونا ضروری نہیں۔
اب ذرا یمن کی چھوٹی تصویر کے بجاے شرقِ اوسط کی بڑی تصویر سامنے لائیے۔ ۲۰۰۳ء میں عراق پر امریکی قبضے کے بعد سے لے کر پورا ملک شیعہ سُنّی اور کرد ، عرب تضاد بلکہ ٹکرائو کی دلدل میں دھنسا دیا گیا۔ صدام حسین جیسے آمر سے نجات دلانے کے نام پر عوام کو باہم ایک دوسرے کے خون کا پیاسا بنادیا گیا۔ امریکی قبضے کے بعد عوامی مزاحمت کے باعث امریکیوں کو دانتوں پسینہ آنے لگا، تو اس نے انتہائی عیاری سے اس مزاحمت کا رُخ اپنی بجاے، شیعہ سنی آگ کی طرف موڑ دیا۔ اس خوں ریزی کے نتیجے میں بلامبالغہ لاکھوں عراقی شہری موت کے منہ میں چلے گئے۔ یہاں ایک عجیب تضاد ملاحظہ فرمائیے کہ ’شیطان بزرگ‘ امریکا نے صدام کے بعد آج تک عراق میں انھی افراد کو حکومت سونپی جو مکمل طور پر ایران کے وفادار سمجھے جاتے ہیں۔ عالم عرب میں اس تضاد کو ’ایران امریکا خفیہ گٹھ جوڑ‘ کا نام دیا گیا، لیکن یہ درحقیقت عراقی خانہ جنگی کی آگ پر چھڑکا جانے والا امریکی تیل ہے۔ عرب ذرائع ابلاغ اس بارے میں بہت زیادہ حساسیت کا شکار ہیں۔ کئی لاکھ ایرانی شہری عراق میں لا بسانے کا دعویٰ بھی کیا جارہا ہے۔ عراق میں اصل مقتدر ایران ہی کو قرار دیا جاتا ہے۔ ایران پر کڑی اقتصادی پابندیوں کے خفیہ علاج کے ڈانڈے بھی عراقی سرزمین سے ملائے جاتے ہیں۔
ادھر ’عرب بہار‘ کو خزاں میں بدلنے کی آمرانہ کوششوں کے نتیجے میں شام ایک کھنڈر اور کسی ویران قبرستان کا نقشہ پیش کررہا ہے۔ بشار الاسد اور اس کے بعثی آمر باپ حافظ الاسد نے اپنے عوام اور علاقائی قوتوں کو دکھانے کے لیے اپنے ہاتھ میں ایک کارڈ اسرائیل کے سامنے مزاحمت کا بھی اٹھا رکھا تھا۔ اسی بنیاد پر پڑوسی ملک لبنان میں حزب اللہ کے ساتھ دونوں کے مضبوط قریبی تعلقات تھے۔ بشار کو اپنے عوام کے ہاتھوں سنگین خطرات لاحق ہوئے تو اس نے حزب اللہ اور ایران سے بھی کھلم کھلا معاونت حاصل کی۔ پہلے تو یہ ایک الزام سمجھا جاتا تھا لیکن اب خود حزب اللہ اور ایران کے ذمہ داران اعلان کرتے ہیں کہ ان کے ’رضا کار‘ شام میں بشار کا ساتھ دے رہے ہیں۔ شام میں مارے جانے والے اپنے افراد کو، لبنان اور ایران لاکر ان کے بڑے بڑے جنازے ادا کیے جاتے ہیں۔ اب اگر ان تمام کڑیوں کو ملا کر دیکھیں، تو یمن کی حالیہ جنگ کی اصل سنگینی سامنے آئے گی۔ یمن ہی نہیں بدقسمتی سے پورا شرقِ اوسط لہو لہو ہے۔ ایک طرف سعودی عرب اور باہم کئی اختلافات کا شکار خلیجی ریاستیں ہیں، تو دوسری جانب ایران جو شمال میں عراق، شام اور لبنان کے راستے بحیرۂ روم تک جا پہنچا ہے اور اب جنوب میں یمن کے باغی حُوثی قبائل اور سابق صدر علی صالح کی پشتیبانی کررہا ہے۔ ایسے عالم میں نہ صرف خلیجی ریاستیں خود کو شمال و جنوب سے ایک بڑے شکنجے میں جکڑا دیکھتی ہیں، بلکہ خود بعض ایرانی ذمہ داران نے بھی انتہائی غیرذمہ دارانہ بیانات دے کر ان کے اس احساس کی شدت میں اضافہ کیا ہے۔ سابق صدر احمدی نژاد کے دور میں ایرانی خفیہ ادارے کے سربراہ حیدر مصلحی اور اور تہران سے قومی اسمبلی کے رکن علی رضا زاکانی سمیت کئی افراد کے بیانات خود ایرانی ذرائع ابلاغ میں شائع ہوئے، جن میں دعویٰ کیا گیا کہ ہم چار عرب دارالحکومتوں (بغداد، دمشق، بیروت، صنعائ) میں حکومت کررہے ہیں اور عنقریب اب پانچویں دارالحکومت کی طرف بڑھیں گے۔ زاکانی صاحب نے تو ارکان پارلیمنٹ کے سامنے اس امر پر اظہار تشکر کیا کہ جنرل قاسم سلیمانی کی قیادت میں قدس بریگیڈ نے عراق و شام کو بچا لیا۔
اس گمبھیر صورت حال میں صنعاء پر حُوثی قبائل کے قبضے، انھیں فضائی اور بحری راستوں سے اسلحے کی مسلسل ترسیل اور ان قبائل کی طرف سے سعودی سرحدوں پر وسیع عسکری نقل و حرکت نے وہ دن دکھایا کہ ۲۶ مارچ کو سعودی عرب کی طرف سے ’’فیصلہ کن طوفان: عَاصِفَۃُ الحَزَم‘‘ کے نام سے یمن پر فضائی حملے شروع کردیے گئے۔ اگرچہ ۲۶ روز کے ان حملوں کے بعد ’فیصلہ کن طوفان‘ روکنے اور: ’’اُمیدوں کی بحالی: اِعَادَۃُ الأَمَل‘‘ آپریشن شروع کرنے کا اعلان کردیا گیا ہے لیکن یہ جنگ تاحال رُکی نہیں، اور تب تک جاری رہے گی جب تک یمن میں باغی قبائل کے قبضے کی بجاے، قومی اتفاق راے سے کوئی حکومت وجود میں نہیں آجاتی۔
بدقسمتی سے شرقِ اوسط میں جاری یہ تہ در تہ لڑائیاں صرف جغرافیائی اور علاقائی نفوذ کی لڑائیاں نہیں رہیں۔ نہ یہ اختلافات صرف شیعہ و سُنّی اختلاف تک ہی محدود ہیں۔ اب اس میں خودشیعہ ملیشیا کے مقابل مختلف شیعہ گروہ اُٹھائے جارہے ہیں۔ بالخصوص عراق میں موجود کئی گروہ خود بنیادی شیعہ عقائد ہی کو زیر بحث لا رہے ہیں۔ اہل سنت کے خلاف خود اہل سنت مسلح گروہ (داعش) اُٹھائے جارہے ہیں جو اپنے علاوہ باقی سب کو گردن زدنی قرار دے رہے ہیں۔ اس سے پہلے مصر میں الاخوان المسلمون کے خلاف کی جانے والی بدترین کارروائی کا دائرہ خود سعودی عرب سمیت کئی خلیجی ریاستوں تک بڑھادیا گیا تھا۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ اس پوری لڑائی میں طرفین سے چوٹی کے ذمہ داران اس آگ کو بجھانے کے بجاے اسے مزید بھڑکانے کی بات کررہے ہیں۔ رہبر قوم آیۃ اللہ العظمیٰ جناب علی خامنہ ای صاحب سے بلند مقام کس ہستی کا ہوگا۔ انھوں نے بھی ۹؍اپریل کو تہران میں منعقدہ ایک اہم دینی تقریب میں سعوی عرب کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا: ’’ یمن میں سعودیوں کی جیت کا امکان صفر ہی نہیں، منفی صفر ہے۔ یقینا وہاں سعودیوں کی ناک مٹی میں رگڑ دی جائے گی‘‘۔ جناب علی خامنہ ای صاحب نے اپنے اسی خطاب میں امریکا ایران ایٹمی معاہدے پر تفصیلی تبصرہ کرتے ہوئے کہا: ’’میں نہ اس معاہدے کی تائید کرتا ہوں نہ مخالفت کیوں کہ ابھی تک یہ معاہدہ کچھ ہے ہی نہیں‘‘ واضح رہے کہ معاہدے پر حتمی دستخط جون میں ہونا ہیں۔ ان کا یہ جملہ ایرانی ڈپلومیسی کا بین ثبوت ہے، لیکن افسوس کہ معاملہ ایک مسلمان ملک کا تھا تو وہ شمشیر برہنہ بن کر برسے۔ ادھر حزب اللہ کے سربراہ جناب حسن نصر اللہ صاحب نے بیروت میں اپنی ۴۵ منٹ کی براہِ راست نشر ہونے والی دھواں دھار تقریر میں سعودی عرب اور ’وہابیت‘ کے خوب خوب لتے لیے۔ اور تیسری جانب امام کعبہ جناب عبد الرحمن السدیس صاحب نے خطبۂ جمعہ میں اسے صفویت و شیعیت اور اہلسنت کے مابین فیصلہ کن معرکہ قرار دے دیا۔ ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی اور جلتی پر تیل کا کام مسلسل کررہے ہیں۔
اس تناظر میں پاکستان اور ترکی کا کردار بہت اہم ہوگیا ہے۔ پاکستان میں طرفین کے حق اور طرفین کے خلاف شعلہ بار تجزیے اور بیانات کے بعد پارلیمنٹ کی جو قرار داد آئی، اسے عالمِ عرب نے اپنے خلاف اور ایران نے اپنی سفارتی کامیابی قرار دیا۔ حسن نصر اللہ صاحب نے سعودی عرب کے خلاف اپنے انتہائی جارحانہ خطاب میں اس قرار داد کا خصوصی ذکر کرتے ہوئے پاکستانی عوام، پارلیمنٹ اور حکومت کا خصوصی شکریہ ادا کیا کہ اس نے سعودی عرب کا ساتھ نہیں دیا۔ ان کے اس خطاب نے بھی عرب عوام میں پھیلایا جانے والا یہ احساس گہرا کیا کہ ہمارا فطری حلیف پاکستان ہمیں درپیش خطرات کے وقت ہمارے ساتھ کھڑا نہیں ہوا۔
یقینا پاکستان اور ترکی کو اس جنگ میں اضافے کا سبب نہیں بننا چاہیے لیکن اس وقت سعودی عرب میں یہ خطرہ و احساس حقیقی اور گہرا ہے کہ اسے چہار اطراف سے گھیرا اور تنہا کیا جارہا ہے۔ ایسے عالم میں پاکستان یمن میں اپنی افواج اتارے بغیر بھی سعودی عرب کو یہ یقین دلا سکتا ہے کہ پاکستان اس کی سلامتی کو درپیش خطرات سے لاتعلق نہیں۔ عالم عرب میں یہ تجزیہ و اظہار شدومد سے کیا جارہا ہے کہ اگر پاکستان جیسا ایٹمی ملک اس موقعے پر اپنی افواج سعودی عرب بھجوا دیتا ہے، تو خطے میں ایک نفسیاتی احساس اجاگر ہوگا کہ اس کا دفاع مضبوط ہے، اور اب جنگ کو مزید وسعت دینا ممکن نہیں۔ ساتھ ہی ساتھ اگر پاکستان، ترکی، ملائیشیا، انڈونیشیا اور مراکش جیسے ممالک باہم مل کر سفارت کاری کا ایسا عمل شروع کریں کہ جس میں ایران و سعودی عرب کو ساتھ لے کر یمن میں حتمی جنگ بندی، قومی اتفاق راے سے قائم حکومت کی بحالی اور شفاف انتخابات کے ذریعے آیندہ حکومت کا قیام یقینی بنایا جاسکے، تو یہ اقدام نہ صرف یمن میں استحکام و ترقی لائے گا بلکہ دیگر ممالک کے لیے بھی ایک مثبت نظیر ثابت ہوگا۔ رب ذو الجلال کے ارشاد کے مطابق کہ: عَسٰٓی اَنْ تَکْرَھُوْا شَیْئًا وَّ ھُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ، آج سعودی عرب اور دیگر ریاستوں میں احساس اجاگر ہوا ہے کہ ہمیں بالآخر اپنے عوام سے صلح کرنا ہوگی۔ سینئر سعودی تجزیہ نگار جمال خاشقجی جو خود سعودی قیادت سے بہت قریب سمجھے جاتے ہیں نے حال ہی میں اپنے ایک کالم میں اعتراف کیا ہے کہ ’’اخوان کو کچلنے کی ہوس نے خلیج کو تباہی کے دھانے پر لاکھڑا کیا ہے‘‘۔موجودہ سعودی قیادت کے سامنے یہ سوال کئی اطراف سے سامنے آیا ہے کہ کل تک صدر محمد مرسی جیسے منتخب آئینی صدر کے خلاف کارروائی کرنے والے آج یمن کے آئینی صدر کو بچانے کا دعویٰ کیوں کر کرسکتے ہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ مصر میں کی جانے والی غلطی کو بنیاد بنا کر اس کا اعادہ یمن میں نہیں ہونا چاہیے، بلکہ بالآخر سب کو مل کر مصر میں ہونے والی غلطی کے مداوے کی سبیل نکالنا ہوگی۔
آج یمن اور شرقِ اوسط کے ان حالات کا جائزہ لیتے ہوئے حالیہ اسلامی تاریخ کے وہ تمام زخم تازہ ہورہے ہیں کہ جب سب فریق جانتے اور مانتے تھے کہ وہ امریکی و صہیونی منصوبوں کے جال میں پھنس چکے ہیں، لیکن اس کے باوجود وہ خود کو دشمن کی ناپاک چالوں اور مہلک جال سے آزاد نہیں کرواسکے۔ستمبر ۱۹۸۰ء سے ۱۹۸۸ء تک عراق و ایران کے مابین تباہ کن جنگ کے وقت بھی یہی ہوا۔ افغان سرزمین نے بھی یہی تلخ حقیقت دیکھی۔ اہل فلسطین بھی اسی زہر خورانی کا شکار ہوئے (یاسر عرفات کو بالآخر صہیونی گماشتوں نے ہی زہر دے کر مارا)، اور آج ایران و سعودی عرب کو بھی اسی جال میں پھانسا جارہا ہے۔ یمن، عراق، شام، لبنان، مصر، لیبیا، صومالیہ، ہر جگہ وہی نسخہ ہے اور وہی ہلاکتیں۔ آج سب سے مطمئن، محفوظ اور شاداں صہیونی ریاست اور امریکا ہے۔ وہ ہمیں ہمارے اپنے ہی ہاتھوں ذبح کروا رہے ہیں۔ آئیے تمام تعصبات سے بالاتر ہو کر، اخلاص و زاری سے پکاریں: رَبَّنَا اَرِنَا الْحَقَّ حَقًّا وَّارْزُقْنَا اتِّبَاعَہُ وَ اَرِنَا الْبَاطِلَ بَاطِلًا وَّارْزُقْنَا اجْتِنَابَہُ۔
مسلم دنیا ابھی مصر میں فوجی قیادت کے ہاتھوں جمہوریت کے قتل اور تحریکِ اسلامی مصر پر نئی ابتلا و آزمایش ، تیونس میں فوجی قوت کے استعمال کے بغیر اسلامی پارٹی کی گرفت ڈھیلی ہونے، عراق میں شیعہ اور سُنّی ٹکرائو اور شام میں بشارالاسد اور اسلام دوست شامی آبادی کے درمیان مسلح آویزش کے صدمات سے دوچار ہی تھی کہ یمن میں ایک نئے محاذ کے کھلنے سے خطے میں امن، سلامتی اور تحفظ کے نئے مسائل اُبھر کر سامنے آگئے۔
تقریباً ایک عشرہ قبل اُردن کے شاہ عبداللہ نے صدام حسین کا تختہ اُلٹنے کے موقعے پر امریکا کے اس اقدام پر یہ تبصرہ کیا تھا کہ اس کے نتیجے میں خطے میں shia cresent کا اثر بڑھے گا۔ گویا مسلم دنیا کو شیعہ سُنّی کی عینک سے دیکھ کر اس میں نااتفاقی اور ٹکرائو کا پیدا کیا جانا مغرب زدہ ذہن اور مغربی مراکز دانش (think tanks) کا محبوب موضوع آغاز ہی سے رہا ہے۔ عرب بہار ایک اعلیٰ جمہوری مقصد کے لیے برپا ہوئی تھی۔اسے بھی مغربی طاقتوں نے کامیاب نہ ہونے دیا اور شرق اوسط میں مسلم ممالک میں بدامنی، لاقانونیت اور آمریت کے فروغ کے امکانات کو زیادہ سے زیادہ قوی کرنے میں اپنی حکمت عملی کا استعمال کیا۔
عراق میں ایرانی تربیت یافتہ ملیشیا حزب اللہ کی بڑھتی ہوئی قوت نے ان خدشات کو تقویت دی لیکن جلد ہی حزب اللہ نے اپنے اثر کو شام میں بھی بڑھا دیا۔ ایران کے معروف عسکری ماہر جنرل قاسم سلیمانی نے عراق میں بطور عسکری مشیر ایران کے القدس بریگیڈ کو جو ایران کے انقلابی Revoltionery guards کی شاخ ہے، براہِ راست اپنی نگرانی میں متحرک رکھا ہوا ہے۔
ان حالات میں ۲۶مارچ ۲۰۱۵ء کو سعودی حکومت نے یہ اعلان کیا کہ اس کی فوج پڑوسی ملک یمن میں کارروائی کر رہی ہے تاکہ ’حقیقی حکومت‘ کو بحال کیا جاسکے۔ اس سے قبل منصور ہادی کو ان کے قصرِصدارت پر قبضہ کر کے حوثی قبیلے کے جنگ ُجو افراد نے عدن بھاگنے پر مجبور کردیا تھا اور جب حوثی قبیلے کی افواج عدن کے قریب پہنچیں تو وہ سعودی عرب میں پناہ گزین ہوگئے۔
حوثی قبیلے میں زیدی اور شافعی دونوں کی فقہ کے پیروکار پائے جاتے ہیں اور قبائلی نظام میں ایک سے زائد فقہی مسالک کا پایا جانا کوئی حیرت کی بات نہیں۔ اس لیے ان میں ایک بڑی تعداد زیدی فقہ کو ماننے والوں کی بھی ہے جو شیعہ مسلک میں سب سے زیادہ اہلِ سنت کے قریب فرقہ کہا جاتا ہے۔ اس جنگ کے دوران حوثی قبیلے نے اپنے آپ کو بہت منظم کرلیا ہے اور اب یہ گوریلا جنگ کے تمام طریقوں سے مکمل طور پر لیس ہے۔ یمن کے چپے چپے سے ان کی واقفیت، یمن کی معاشی بدحالی اور سیاسی انتشار کی بنا پر انھیں عوام کے ایک طبقے کی حمایت بھی حاصل ہوچکی ہے۔ اس لیے اس پورے قضیے میں فیصلہ کن امر جنگ اور اسلحے کا استعمال نہیں ہوسکتا۔ بعض مغربی مبصرین کا یہ انتباہ نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ جس طرح جنگ کا راستہ اختیار کرنے کے نتیجے میں امریکا کے لیے ویت نام ایک مسئلہ بناتھا، ایسے ہی شرق اوسط میں موجودہ تنازع بڑی قبیح اور خطرناک شکل اختیار کرسکتا ہے۔
ان حالات میں یمن کے عبوری صدر (transitional president) کی دعوت اور ان کی حکومت کے دفاع اور بحالی کے لیے کیے جانے والے اقدام نے شرق اوسط کی صورت حال کو مزید گمبھیر کردیا ہے۔ اس سلسلے میں ایران کا کردار بھی بڑا مخدوش اور حالات کو بگاڑ کی طرف لے جانے والا ہے۔ خانہ جنگی اب ایک علاقائی جنگ کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے جو پورے شرقِ اوسط کے لیے بڑی خطرناک ہے۔
تازہ ترین اطلاعات یہ بتاتی ہیں کہ مصر اور ۱۰ ہمسایہ ممالک کی مشترکہ فوج کے قیام اور سعودی عرب کے علاوہ دیگر مسلم ممالک کی ہوائی فوج کے حملوں میں حصہ لینے کے باوجود ابھی تک اس کارروائی کے متوقع اہداف حاصل نہیں کیے جاسکے۔ مغربی ابلاغِ عامہ کے تبصروں اور تجزیوں کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ تنہا ہوائی حملوں سے حوثی قبیلے کی پیش قدمی پر کوئی فیصلہ کن اثر پڑنا مشکل ہے۔ ان حملوں کے باوجود حوثی قبیلے نے عدن کی اہم بندرگاہ پر اپنا تسلط قائم کرلیا ہے۔ ہادی کی ہمدرد فوج میں بھی پھوٹ کے آثار ہیں اور ان میں سے کچھ حوثی قبیلے کے ساتھ تعلقات استوار کررہے ہیں۔ اس بنا پر مغربی دانش وروں کا کہنا ہے کہ ہادی کے دوبارہ اقتدار میں آنے کا امکان کم سے کم تر ہوتا جا رہا ہے اور حوثی بغاوت پر قابو پانے کے لیے زمینی افواج کو میدان میں اُتارنے کے سوا کوئی چارہ نہیں جو خود اپنے اندر بے پناہ خطرات اور ایک مستقل جنگ کے امکانات رکھتا ہے۔ ایسے حالات میں بالعموم دوبدو جنگ سے کہیں زیادہ گوریلا جنگ کی صورت پیدا ہوجاتی ہے جس کا سلسلہ لامتناہی ہوسکتا ہے اور جس کی تباہ کاریاں بڑی بڑی عسکری طاقتوں کے لیے طویل عرصے تک برداشت کرنا ممکن نہیں رہتا۔ ان حالات میں مسلم دنیا اور مغرب دونوں کے لیے فوری طور پر یہ فیصلہ کرنا ضروری ہوگیا ہے کہ خطے کو مزید خون خرابے اور طویل عدم استحکام سے بچانے کے لیے نئی حکمت عملی ترتیب دی جائے۔
اس تناظر میں سعودی عرب کے ہمسایہ اور دوست ممالک کا کردار کیا ہو اور مسئلے کو حل کی طرف کس طرح لے جایا جائے؟ یہ نہ صرف ہر سوچنے سمجھنے والے پاکستانی کے لیے بلکہ مسلم دنیا کے ہر شہری کے لیے ایک لمحۂ فکریہ ہے۔
مصر اور سعودی عرب کو اس سے قبل ۱۹۶۰ء کے عشرے میں جنوبی اور شمالی یمن کے باہمی تنازع کے تناظر میں اپنی عسکری قوت کا استعمال کرنے کا تجربہ ہوچکا ہے، اور تاریخ یہ بتاتی ہے کہ دونوں ممالک قوت کے استعمال کے باوجود مطلوبہ اہداف حاصل نہیں کرسکے تھے بلکہ سعودی عرب کو اپنی جغرافیائی حدود کا ایک حصہ کھونا پڑا۔ مصر نے دوبارہ خلیج کی حکومتوں کے ساتھ مل کر جو اجتماعی فوج بنائی ہے اس میں اپنی افواج کو شامل کرایا ہے اور مصری بحری بیڑے نے عدن پر گولہ باری بھی کی ہے۔ عربوں کی مشترکہ فوج جو کچھ کر رہی ہے اس کے مثبت نتائج کا نکلنا مشکل ہی نظر آرہا ہے۔
اس نازک صورت حال میں پاکستان کی پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر جو محتاط موقف اختیار کیا ہے۔ اسے سعودی عرب اور خلیج کی ریاستوں میں گوپسند نہیں کیا گیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ مکمل جذباتی اور دینی اتحاد کے پس منظر میں پاکستان کا کردار ایک قلبی دوست اور رفیق کار ہی کا ہونا چاہیے۔ جس کا ہدف جنگ کی آگ کو بجھانا، امن کے حالات پیدا کرنا، یمن کی بغاوت کو بطریق احسن قابو میں لانا، حقیقی مسائل کے حل کے امکانات کو روشن کرنا اور علاقے میں دوبارہ دوستا نہ ماحول پیدا کرنا ہے۔ سعودی عرب کی جغرافیائی حدود کی حفاظت اور علاقے میں ایران کے کردار کو ان حدود کا پابند کرنا ہے جو علاقائی امن کے لیے ضروری ہے۔ نیز علاقے کو فرقہ وارانہ جذبات کی انگیخت سے بچاکر اُمت کی وحدت اور بھائی چارے کے فروغ کی راہوں کو استوار کرنا ہے۔ یہ مشکل کام ہے لیکن کرنے کا اصل کام یہی ہے۔
وَاِِنْ طَآئِفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَہُمَا ج فَاِِنْم بَغَتْ اِِحْدٰہُمَا عَلَی الْاُخْرٰی فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِی حَتّٰی تَفِیْٓئَ اِِلٰٓی اَمْرِ اللّٰہِ ج فَاِِنْ فَآئَتْ فَاصْلِحُوْا بَیْنَہُمَا بِالْعَدْلِ وَاَقْسِطُوْا ط اِِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ o (الحجرات ۴۹:۹) اور اگر اہلِ ایمان میں سے دو گروہ آپس میں لڑجائیں تو ان کے درمیان صلح کرائو۔ پھر اگر ان میں سے ایک گروہ دوسرے گروہ پر زیادتی کرے تو زیادتی کرنے والے سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف پلٹ آئے۔ پھر اگر وہ پلٹ آئے تو ان کے درمیان عدل کے ساتھ صلح کرا دو۔ اور انصاف کرو کہ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔
اس آیت ِ مبارکہ میں قرآن کریم اہلِ ایمان کے درمیان قانون صلح و جنگ کے اصول کو نہایت وضاحت کے ساتھ بیان فرماتا ہے۔ پہلی بات جو بطورِ فریضہ بیان کی گئی ہے دو مسلمان گروہوں کے درمیان جنگ کی شکل میں صلح کروانا ہے۔ مسلمان تماشائی بن کر جنگ و جدال کو گوارا نہیں کرسکتا۔ امن اور صلح کی تمام کوششیں، ہرقسم کے دبائو کا استعمال جب ناکام ہوجائے تو پھر حکم دیا گیا ہے کہ یہ تحقیق کی جائے کہ ظالم کون ہے چاہے وہ کسی مسلمان کا قریب ترین رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو، ہم قبیلہ اور ہم برادری ہی کیوں نہ ہو۔
یہاں یہ بات پیش نظر رہے کہ تحقیق سے مراد مغربی میڈیا کی بے بنیاد افواہوں پر اعتماد نہیں ہے بلکہ اپنے ذرائع سے صحیح معلومات کاحصول ہے۔ اگر تحقیق سے یہ ثابت ہوجائے کہ ایک فریق ظلم کر رہا ہے تو پھر مظلوم کے ساتھ مل کر ظالم کی اصلاح کے لیے جنگ میں حصہ لینا فرض کردیا گیا ہے۔ یہاں بھی مطلوب یہ نہیں ہے کہ ’ظالم‘ کا صفایا کردیا جائے۔ اس کے بوڑھوں، عورتوں اور بچوں کو بغیر کسی تحقیق کے آگ کے شعلوں میں تباہ کردیا جائے بلکہ ظالم کی اصلاح مقصود ہے۔ اس لیے فوراً یہ بات فرمائی گئی کہ اگر جنگ کے نتیجے میں ظالم راہِ راست پر آجائے تو پھر انصاف کا رویہ اختیار کرو۔ عدل مطالبہ کرتا ہے کہ ظالم کے زیر ہوجانے کے بعد نہ اسے غلام بنایا جائے ، نہ اسے ابدی دشمن سمجھا جائے، نہ اس کے بارے میں دل میں نفرت اور شک و شبہے کو جگہ دی جائے بلکہ اب وہ دوبارہ تمھارا بھائی ہے۔ سبحان اللہ! کتنا عادلانہ اور حکیمانہ فیصلہ ہے کہ جنگ کے زخموں کو اب اخوت کی محبت و درگزر کے مرہم سے مندمل کردیا جائے۔ یہاں کوئی مستقل حزبِ اختلاف اور دشمن گروہ کا وجود نظر نہیں آتا۔ اس لیے فرمایا گیا کہ یہ کام اللہ کے تقویٰ، خوف اور خشیت کے ساتھ کیا جائے تاکہ مستقل امن اور اعتماد بحال ہوسکے۔
قرآن کے اس بین الاقوامی قانون صلح و جنگ کے سلسلے میں اہلِ ایمان کے درمیان جنگ کی شکل میں ہدایت کی موجودگی میں مسلم ممالک کے لیے اس کے سوا کوئی اور شکل نہیں رہتی کہ وہ قرآن کے حکم پر خلوصِ نیت اور عظیم تر جدوجہد کے ساتھ اپنی حد تک کوشش میں کمی نہ کریں اور حالات کی سختی سے قطعاً نااُمید اور متاثر نہ ہوں۔
پاکستان کی پارلیمنٹ کا محتاط رویہ اسی قرآنی اصول کا مظہر نظر آتا ہے۔ سعودی عرب سے ہمارا گہرا اور دیرینہ تعلق ہماری خارجہ پالیسی کا ایک ستون ہے اور پاکستان اور سعودی عرب ایک دوسرے کے دوست اور پشتی بان اور دُکھ درد اور خوشی اور غم میں برابر کے شریک ہیں۔ حرمین شریفین کی تقدیس اور ان کا تحفظ ہماری مشترک ذمہ داری ہے۔ اور سعودی عرب کی سالمیت کو اگر کوئی خطرہ ہو تو خطرے کی اس گھڑی میں اس کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑا ہونا ہمارا فرض ہے۔ لیکن اس واضح common interest کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ ہم سعودی عرب کے حقیقی دوست کی حیثیت سے اسے ہر اس گرداب میں پھنسنے سے بچانے کی کوشش کریں جو اس کے اور خطے کے لیے مشکلات اور مصائب کا باعث ہوسکتا ہے کہ حقیقی دوستی اور خیرخواہی کا یہی تقاضا ہے۔
ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ سعودی عرب کے مفاد کے پیش نظر مصالحت کے ذریعے مسئلے کا حل تلاش کریں۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو پورا علاقہ ایک طویل المیعاد جنگ اور تنازعے کی دلدل میں دھنس سکتا ہے۔ ہماری اس راے کی بنیاد وہ زمینی حقائق ہیں جنھیں مغربی ابلاغِ عامہ غیرمعمولی طور پر غلط سلط کرکے پیش کر رہا ہے۔ یہ بات زوروشور سے اور بار بار کہی جارہی ہے کہ حوثی شیعہ قبیلہ ہے، جب کہ اس قبیلے میں زیدی اور شافعی دونوں مسالک کے پیروکار موجود ہیں۔یہ بات بھی کہی جارہی ہے کہ یمن میں اندرونی خانہ جنگی میں شیعہ سُنّی آپس میں نبردآزما ہوگئے ہیں جب کہ ایسا نہیں ہے۔ یمن میں زیدی فقہ کے ماننے والے اور شافعی مذہب کے ماننے والے صدیوں سے ایک ساتھ معاشرتی تعلقات کے ساتھ موجود ہیں۔
بعض معتبر ذرائع نے یہ بات بھی بیان کی ہے کہ حوثی قبیلے نے بیش تر اسلحہ وہ استعمال کیا ہے جو ہادی کی حمایتی فوج کے ذخیروں سے حاصل کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی ایرانی اسلحہ بھی استعمال کیا جا رہا ہے اور اطلاعات یہ بھی ہیں کہ کچھ ایرانی نیشنل گارڈ کے کمانڈر اور کارندے بھی حوثی قبائل کے ساتھ ہیں۔ یہ بہت تشویش ناک صورت حال ہے لیکن اس قضیے کو شیعہ سُنّی جنگ سے تعبیر کرنا حقائق اور مصالح دونوں کے خلاف ہے۔ گو،مغربی طاقتوں کی حکمت عملی آج سے نہیں، عراق کی جنگ سے یہی رہی ہے کہ کسی طرح شیعہ سُنّی کو ٹکرایا جائے تاکہ اندرونی امن قائم نہ ہو اور مغربی طاقتیں جس طرح چاہیں خطے کے وسائل سے فیض یاب ہوتی رہیں۔
سعودی عرب کے وسیع مفادات کا تقاضا بھی یہی ہے کہ سعودی عرب اور یمن میں جلد از جلد جنگ بندی ہو اور اعتماد کی فضا کو بحال کیا جائے۔ یہ مسئلہ دوممالک کی سرحدوں پر ہونے والی جنگ کا نہیں ہے بلکہ خود اندرونی استحکام کے لیے غیرمعمولی اہمیت کا ہے۔ اس وقت سعودی عرب کی آبادی کا ۲۰ فی صد حصہ یمنی الاصل افراد پر مبنی ہے اور یہ شیعہ نہیں بلکہ سُنّی ہیں۔ ماضی میں بعض معروف شخصیات جو سعودی عرب کی اعلیٰ وزارتوں پر فائز رہی ہیں ان کا قبائلی تعلق یمن کے قبائل سے ہے۔ دو معروف وزرا میں تیل کے وزیر اور وزیرتعلیم کا تعلق یمن سے تھا۔ اس لیے یہ تنازع دو ملکوں کا نہیں ہے بلکہ یہ اس سے کہیں زیادہ وسیع تر مفادات سے تعلق رکھتا ہے۔
اگر اس مسئلے کو فوری طور پر صلح اور مصالحت کی طرف نہیں لے جایا گیا تو یہ آگ محض سرحدوں پر نہیں رہے گی۔ پاکستان کا دوستی، اخوت اور ہرلحاظ سے قربت کا تقاضا یہی ہے کہ ہم اس آگ کو پھیلنے سے روکیں کیونکہ جنگ اس کا حل نہیں ہے۔سعودی عرب سے یگانگت کے اظہار کا صحیح راستہ اس جنگ کو روکنا ہے اور ایران سے دوستی کا بھی یہی تقاضا ہے کہ اسے اس علاقے میں ہر ایسے کردار سے روکا جائے جو فساد کا باعث ہو۔ یہ راستہ نازک اور مشکل راستہ ہے اور وقت کا تقاضا یہی ہے۔
اس کے مقابلے میں امریکی مفاد یہی ہے کہ مسئلے میں زیادہ سے زیادہ مذہبی منافرت کی بنیاد پر معاشی اور سیاسی عدم استحکام پیدا ہو اور وہ اپنی اسلحے کی سوداگری کو زیادہ سے زیادہ فروغ دے سکے۔ وہ بظاہر یہی کہتا رہے گا کہ سعودی عرب اس کا روایتی حلیف ہے۔ اس لیے اس کی افواج اور اسلحہ اس کے لیے حاضر ہے ، جب کہ سعودی عرب کے تیل کو کم قیمت پر خریدنے کے بدلے اسلحہ دے کر وہ اپنی معیشت کوچمکاتا رہے گا اور سعودی عرب کو ایک ختم نہ ہونے والی جنگ میں دھکیل دے گا۔
ایران کو اس عرصے میں خطے میں جو برتری حاصل ہوئی ہے اور جس طرح اس کے روایتی ’بڑے شیطان‘ کے ساتھ تعلقات میں استواری آئی ہے خواہ وہ اس کی بڑی سیاسی فتح ہو، لیکن اسے یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ عراق اور شام میں اس کے کردار نے بڑے بنیادی سوالات کو اُٹھا دیا ہے۔ ایران کی ضرورت علاقے میں سب کے ساتھ دوستی ہے، علاقے میں تفرقہ اور گروہی اور فرقہ وارانہ تصادم سے بالآخر اس کو اور علاقے کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔اسی طرح شام میں بشارالاسد کی حمایت میں ایران کے رضاکاروں کا حصہ لینا، اسلحہ فراہم کرنا ، لبنان اور عراق میں عسکری تربیت یافتہ حزب اللہ کا کردار، ایران کے خطے میں عزائم کو کھول کر بیان کر رہا ہے۔
پاکستان اور ایران کے مشترکہ مفادات کا تقاضا ہے کہ پاکستان اس نازک موقعے پر ایران سے تعلقات کو کشیدہ نہ کرے بلکہ دونوں ممالک سے وسیع تر مفادات کے پیش نظر مصالحت اور صلح جوئی کی حکمت عملی پر عمل کرتے ہوئے اپنے تعلقات کو مزید مستحکم کرے۔
مغرب کی حکمت عملی اس تنازعے میں واضح طور پر یہ نظر آرہی ہے کہ وہ جنگ جو آغاز میں اسلام اور مغرب کی جنگ قرار دی جارہی تھی، اور وہ دہشت گردی جس کا ہدف مغرب کو قرار دیا جا رہا تھا، اب وہ مسلمانوں کی اندرونی جنگ بن جائے اور وہ تمام مسلح گروہ جو کل تک مغرب کو نشانہ بنانے کے لیے بے تاب نظر آتے تھے اب مسلکی اختلاف، قبائلی عصبیتوں اور علاقائی مفادات کے غلام بن کر ایک دوسرے کو قتل و غارت گری کا نشانہ بنائیں۔ شام میں نام نہاد اسلامی حکومت کا قیام بھی اسی حکمت عملی کا ایک حصہ نظر آتا ہے۔
پاکستان کو اس نازک مرحلے میں عالم گیر اسلام دشمن قوتوں کے عزائم اور حکمت عملی کو سمجھتے ہوئے دشمن کی ہر چال کو ناکام بنانے کے لیے ہوش اور عقل کی بنیاد پر حکمت عملی وضع کرنا ہوگی۔ جذبات اور وقتی مصالح سے بلند ہوکر ملّت کے وسیع تر مفاد کی بنیاد پر قرآن و سنت کے اصولوں کی روشنی میں مصالحت، بھائی چارہ اور جنگ کی آگ کو بجھانا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ پاکستان کو اس عظیم کردار کو ادا کرنے کی توفیق دے، آمین!
نوٹ: یہ شذرہ طباعت کے لیے جا رہا تھا کہ سعودی عرب کے ایک فوجی سربراہ بریگیڈیئر جنرل احمدالعسیری کے بیان اور یمن کے صدر منصور ہادی کے اعلان سے یہ دل خوش کُن اطلاع ملی کہ سعودی حکومت اور اتحادی قوتوں نے فضائی آپریشن روک دیا ہے ، اور مسئلے کے سیاسی حل کی راہ اختیار کی جارہی ہے۔ نیز انسانی بنیادوں پر متاثرین کی امداد کا اہتمام بھی کیا جا رہا ہے، الحمدللّٰہ علٰی ذٰلک۔
اللہ تعالیٰ مسلم ممالک کی قیادتوں کی رہنمائی فرمائے اور انھیں مل جل کر اپنے تمام اختلافی اُمور کو حل کرنے اور اپنے وسائل کو اُمت مسلمہ اور انسانیت کی خدمت میں استعمال کرنے کی توفیق دے۔ اور مغرب کی اسلحہ ساز فیکٹریوں کے پیٹ بھرنے کے بجاے اپنے عوام کی مشکلات کو دُور کرنے، غربت کا خاتمہ، صحت اور زندگی کی سہولیات کی فراہمی کے لیے استعمال کرنے کا سامان کریں۔ اور سب سے بڑھ کر تمام ممالک میں حقوقِ انسانی کی پاسداری، انصاف کے قیام اور اللہ کے قانون کو نافذ کرنے کی سعی کریں تاکہ دنیا اور آخرت دونوں میں کامیابی و کامرانی حاصل ہوسکے۔
نائیجیریا آبادی کے لحاظ سے براعظم افریقہ کا سب سے بڑا ملک ہے۔ اس کی آبادی ایک اندازے کے مطابق اس وقت ۱۷ کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ آخری مردم شماری ۲۰۰۶ء میں ہوئی تھی جس میں ۱۴ کروڑ سے زائد آبادی ریکارڈ کی گئی۔ رقبے کے لحاظ سے ۹لاکھ ۲۳ہزار ۷سو۶۸ مربع کلومیٹر کے ساتھ یہ افریقہ کا دوسرا بڑا ملک ہے۔ صرف ایک ملک تنزانیہ کا رقبہ اس سے زیادہ ہے۔ دنیا میں اس کی آبادی پاکستان کے بعد ساتویں نمبر پر شمار ہوتی ہے۔ نائیجیریا قدرتی وسائل بالخصوص تیل کی دولت سے مالامال ہے، مگر بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستان کی طرح بدعنوانی اور لوٹ کھسوٹ نے ملک کو بدحال کردیا ہے۔ اقوام متحدہ کے قائم کردہ معیار کے مطابق آدھی آبادی خط افلاس سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ یوں تو کم وبیش ۵۰ کے لگ بھگ قومیتی وقبائلی اکائیاں اور زبانیں اس ملک میں پائی جاتی ہیں۔ یوروبا اورہاؤسا دونوں برابر، یعنی ۲۱فی صد ہیں۔ تیسرے نمبر پریرایبوہے جو ۱۸سے ۱۹ فی صد تک شمار کی جاتی ہے۔ چوتھی بڑی اکائی فولا(Fula) ہے جو ۱۱فی صد ہے۔ اس طرح تقریباً ۷۱ فی صد ان چار قومیتوں اور زبانوں کا حصہ ہے۔ دیگر کوئی اکائی دو ہندسوں تک نہیں پہنچتی۔ یوں ۲۹فی صد قومیتی اور لسانی آبادی بہت سی اکائیوں میں تقسیم ہے۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ ہرریاستی اکائی ایوان بالا (سینیٹ) میں بڑی اکائیوں کے برابر نمایندگی رکھتی ہے۔
براعظم افریقہ کا یہ ملک تیل پیدا کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک کا ایک اہم ممبر ہے۔ گذشتہ نصف صدی سے اس ملک میں بڑے عجیب وغریب قسم کے تجربات دہرائے جاتے رہے ہیں۔ آزادی ملنے کے بعد سیاست دانوں اور فوجی جرنیلوں بلکہ بعض اوقات فوج کے جونیئرافسروں اور جرنیلوں کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی مسلسل جاری رہی ہے۔ جمہوری حکومتوں کے مقابلے میں باوردی حکمرانوں کا پلہ بہرحال اب تک کی تاریخ میں بھاری رہا ہے۔ اب ۸؍اپریل ۲۰۱۵ء کے انتخابی نتائج کے مطابق ایک سابق جرنیل بندوق سے نہیں ووٹوں سے صدر منتخب ہوگیا ہے۔ گذشتہ چندبرسوں سے، باقاعدگی سے ایوان صدر اور پارلیمان کے دونوں ایوانوں کے انتخابات ہورہے ہیں۔ اللہ کرے کہ یہ تسلسل قائم رہے اور نائیجیریا کے عوام سُکھ کا سانس لے سکیں۔ حالیہ انتخابات کافی حد تک منصفانہ بھی تھے اور غیرمتنازعہ بھی۔ اس سے قبل کبھی انتخابات پر مقامی اور عالمی سطح پر اس قدر اطمینان کا اظہار نہیں کیا گیا۔ اس موقعے پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ نائیجیریا کا کچھ مزید اور عمومی تعارف قارئین سے کرادیا جائے۔
نائیجیریا کی ایک عظیم تاریخ ہے۔ مغربی افریقہ کے اس علاقے میں دو صدیاں قبل ایک عظیم مجدد عثمان بن فودیوؒ نے شمالی علاقوں میں صحیح خطوط پر اسلامی خلافت قائم کی۔ ان کی ریاست کا نام سکوٹو خلافت تھا۔ کافی عرصے تک یہ خلافتی ریاست قائم رہی۔ بعد میں انگریزی استعمار نے نائیجیریا پر قبضہ کیا تو ۱۹۰۳ء میں یہ ریاست ختم کردی گئی۔ اس ریاست کے اثرات آج بھی شمالی نائیجیریا میں محسوس کیے جاسکتے ہیں۔ انگریزوں نے کم وبیش ڈیڑھ صدی نائیجیریا پر حکومت کی۔ ۱۹۶۰ء میں نائیجیریا کی آزادی کا اعلان ہوا، جب کہ عملاً تین سال بعد یکم اکتوبر۱۹۶۳ء کو اس کو ایک مکمل آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کیا گیا اور اقوام متحدہ میں اس کی رکنیت منظور ہوئی۔ آزادی کے بعد نائیجیریا میں مسلسل فوجی انقلاب آتے رہے۔ نائیجیریا کو جمہوری انداز میں چلانے کے لیے کئی سیاسی تنظیموں نے جدوجہد کی، مگر ہر مرتبہ فوجی جرنیل اقتدار پر قابض ہوتے رہے۔ آزادی کے بعد نائیجیریا کے پہلے صدر آزیکیوے (Azikiwe) تھے۔ آزیکیوے کے بعد نوافور اوریزو (Nwafor Orizu) صدر منتخب ہوئے۔ وہ نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھتے تھے۔ جب وفاقی حکومت بنی تو سر ابوبکر تفاوا بلیوا وزیراعظم منتخب ہوئے۔ وہ ایک اچھی شہرت کے حامل سیاست دان تھے۔ ان کے ساتھ سراحمدوبیلوشمالی خطے کے وزیراعلیٰ تھے۔ نائیجیریااس زمانے میں وفاق کے تحت دوریاستوں یا صوبوں، شمالی اور جنوبی میں تقسیم کیا گیا تھا، جس طرح کبھی ہمارے ہاں مشرقی اور مغربی پاکستان تھے۔ شمالی خطہ مسلم اکثریت اور جنوبی غیرمسلم اکثریت کا حامل تھا۔
اس دور میں فوج نے سیاست دانوں پر ناروا دباؤ ڈالنا اور خود بلاجواز مراعات حاصل کرنا شروع کردیں۔ اس وقت کے صدر اوریزو نے فوج کے عزائم بھانپتے ہوئے مضبوط موقف اپنانے کے بجاے بزدلی دکھائی اور خود ہی حکومت فوج کے حوالے کردی۔ فوجیوں نے سمجھا کہ سرابوبکر اور سراحمدوبیلو ان کے راستے کی رکاوٹ ہوں گے۔ چنانچہ لیفٹیننٹ کرنل یعقوبو گوون نے ایک اور فوجی بغاوت کردی۔ فوج کے اعلیٰ افسران کو معطل کردیا اور وزیراعظم و وزیراعلیٰ کو شہید کردیا گیا۔ یہ ۱۹۶۶ء کی بات ہے۔ اس کے بعد نائیجیریا میں مختصر عرصے کے لیے سول حکومت وجود میں آئی، جس کے سربراہ مسلمان سیاست دان شیخو شغاری تھے۔ جمہوری حکومت کی کرپشن کو بہانہ بنا کر پھر فوج نے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ اسی دوران نائیجیریا میں خانہ جنگی شروع ہوگئی اور نائیجیریا دوحصوں میں تقسیم ہوگیا۔ بیافرا کی ریاست وجود میں آئی۔ کچھ عرصے کے بعد نائیجیرین آبادی کو احساس ہوا کہ اس خانہ جنگی اور تفریق کے نتیجے میں نائیجیریا برباد ہوجائے گا۔
اسی دوران نائیجیریا کے مختلف علاقوں میں تیل کی دریافت ہوئی۔ ملک متحد تو ہوگیا، مگر فوجی انقلاب کی مصیبت ایسی شروع ہوئی کہ ایک فوجی آمر کو دوسرا فوجی آمر اقتدار سے محروم کرکے حکومت پر قابض ہوتا چلا گیا۔ ۱۹۶۶ء کے بعد ۱۹۷۹ئ، ۱۹۸۳ء اور ۱۹۹۸ء میں یکے بعد دیگرے چار فوجی بغاوتیں ہوئیں جو ناکام ہوتیں تو غداری قرار پاتیں، مگر کامیابی کے بعد انقلاب کہلائیں۔ یہ فوجی حکومتیں بھی نام نہاد انتخابات کا ڈھونگ رچاتی رہیں۔ فوجی آمروں میں مسلمان بھی تھے اور عیسائی بھی۔ لیکن مسلمان نسبتاً زیادہ تھے۔ ان مسلمان حکمرانوں میں خود موجودہ صدر محمد بخاری کا نام بھی آتا ہے۔ انھوں نے ۱۹۸۴ء میں فوجی جرنیل کے طور پر مسلمان سیاست دان شیخوشغاری کا تختہ الٹا تھا۔ بہت جلد ۱۹۸۵ء میں بخاری کے خلاف بغاوت ہوگئی اور جنرل ابراہیم بابا گیڈا برسرِاقتدار آگیا۔ دیگر جرنیلوں میں، جو وقتاً فوقتاً برسراقتدار آتے رہے، جنرل مرتضیٰ محمد، جنرل ثانی اباچہ اور جنرل عبدالسلام ابوبکرکے نام آتے ہیں۔ ۱۹۸۴ء میں محمدبخاری پہلی مرتبہ ۴۱سال کی عمر میں باوردی برسراقتدار آئے اور پھر اقتدار سے محرومی کے بعد بغیر وردی کے انتخابات کے ذریعے اقتدار تک پہنچنے کی ناکام کوشش کرتا رہے۔ بالآخر اب ۷۲سال کی عمر میں وہ ووٹ کے ذریعے ملک کا سربراہ منتخب ہونے میں کامیاب ہوگئے۔
موجودہ انتخابات میں صدر گڈلک جوناتھن اور ان کی جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کو شکست ہوگئی ہے۔ جوناتھن ملک کے چودھویں سربراہِ ریاست تھے۔ جنرل محمدبخاری کی پارٹی آل پروگیسو کانگریس فتح یاب ہوگئی ہے۔ غیرملکی مبصرین نے ان انتخابات کو منصفانہ اور غیرجانب دارانہ تسلیم کرلیا ہے۔ صدارتی انتخابات میں محمدبخاری کو پہلی بار کامیابی ملی ہے۔ اس سے قبل وہ تین مرتبہ انتخابات میں قسمت آزما چکے تھے، مگر ہرمرتبہ شکست کھاتے رہے ہیں۔ جیتنے والے مسلم صدر محمدبخاری کو ایک کروڑ ۵۴ لاکھ ووٹ ملے، جب کہ ہارنے والے امیدوا سابق صدر گڈلک جوناتھن نے جوعیسائی ہیں، بھی ایک کروڑ ۲۹لاکھ ووٹ لیے۔ دونوں امیدواروں نے اپنے اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر انتخاب میں حصہ لیا تھا۔ نائیجیریا کی ۳۶ریاستیں اور ایک وفاقی اکائی، دارالحکومت ابوجا ہے۔ پچھلے پارلیمان میں گڈلک کی پارٹی کو واضح اکثریت حاصل تھی۔ اب صورتِ حال اس کے برعکس ہے۔
نائیجیریا کی وفاقی پارلیمان میں سینیٹ اور وفاقی اسمبلی شامل ہیں۔ سینیٹ میں ۱۰۹ نشستیں ہیں، جن میں سے ایک نشست وفاقی ایریا کی ہے اور باقی نشستیں ۳۶ ریاستوں کے درمیان برابری کی بنیاد پر تقسیم ہیں۔ ہرریاست کے سینیٹ میں تین نمایندے ہوتے ہیں۔ وفاقی اسمبلی کی کل ۳۶۰نشستیں ہیں، جو تمام ریاستوں میں ان کی آبادی کے تناسب سے تقسیم کی گئی ہیں۔ سابق صدر کی پارٹی کو پچھلی پارلیمان میں واضح اکثریت حاصل تھی، یعنی سینیٹ میں ۹۶ اور قومی اسمبلی میں ۲۲۳؍ارکان۔ اس کے مقابلے میں اپوزیشن پارٹیوں کے اتحاد کو اسمبلی کی ۹۶ اور سینیٹ کی ۲۷نشستیں حاصل تھیں۔ نئے انتخابات کے بعد جنرل محمد بخاری کی آل پروگریسو کانگریس کو اسمبلی میں ۳۶۰ کے ایوان میں ۲۲۵نشستوں پر کامیابی ہوئی، جب کہ سابق صدر جوناتھن کی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی ۱۲۵نشستیں حاصل کرپائی۔ ۱۰نشستوں پر دیگر چھوٹی پارٹیوں کے امیدوار جیت گئے۔ سینیٹ میں ۱۰۹کے ہاؤس میں بخاری کی پارٹی نے ۶۰نشستیں جیتیں، جب کہ جوناتھن بھی ۴۹نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوگیا۔ صدر کے انتخاب کے لیے ضروری ہے کہ وہ عام ووٹوں کے علاوہ ریاستوں کی اکثریت میں بھی برتری حاصل کرے۔ اگر اس کے ووٹ زیادہ ہوں، مگر ریاستوں میں سے اکثر میں وہ نہ جیتا ہو تو انتخاب دوبارہ ہوتا ہے۔ ریاستوں کے حجم میں بہت بڑا تفاوت ہے۔ صدرمحمدبخاری کو نہ صرف ووٹوں میں برتری حاصل ہے ، بلکہ اکثر ریاستوں میں بھی راے دہندگان کی واضح اکثریت نے ان کے حق میں فیصلہ دیا ہے۔ پارلیمان اور سینیٹ کے انتخابات کے نتائج ابھی مکمل نہیں ہوئے، لیکن جیتنے والے صدر کی پارٹی کو اس میں بھی واضح اکثریت مل جائے گی۔
نائیجیریا میں گذشتہ کئی برسوں سے انتہاپسند مسلم تنظیم بوکوحرام نے بہت سی پُرتشدد کارروائیاں کی ہیں۔ ملک کی آبادی اس صورت حال سے سخت پریشان ونالاں ہے۔ اعداد وشمار کے مطابق ۱۲سے ۱۵ ہزار لوگ اب تک پُرتشدد کارروائیوں میں مارے جاچکے ہیں۔ بے شمار لوگ انتہاپسندوں نے یرغمال بنا رکھے ہیں۔ یہ تنظیم یوں تو مقامی ہے، مگر خود کو القاعدہ کے قریب بلکہ اسی کی شاخ سمجھتی ہے۔ عام آبادی، بالخصوص شمالی اور مشرقی علاقوں میں، اس انتہاپسندی کی وجہ سے خود کو غیرمحفوظ تصور کرتی ہے۔ امن وامان کی بحالی اور تخریب کاری کا خاتمہ موجودہ انتخابات میں امیدواروں کے منشور میں اہمیت کا حامل رہا۔ جنرل محمد بخاری نے گڈلک کے مقابلے میں اعلان کررکھا تھا کہ اگر وہ انتخاب جیت گئے تو دہشت گردوں سے ملک کو پاک کردیں گے۔ دیگر عوامل کے علاوہ اس نعرے کا اس کی کامیابی میں نمایاں کردار ہے۔ محمد بخاری نے واضح طور پر اعلان کیا تھا کہ وہ برسرِاقتدار آکر تخریب کاروں اور دہشت گردوں سے کوئی نرمی نہیں برتیں گے بلکہ آہنی ہاتھوں سے نمٹیں گے۔ اس نے یہ بھی اعلان کیا کہ بدعنوانی کا خاتمہ کیا جائے گا اور ملک کی لوٹی ہوئی دولت بیرونی بنکوں سے واپس وطن لائی جائے گی۔ یہ دونوں کام خاصے مشکل ہیں اور تمام مبصرین یہ تجزیہ کررہے ہیں کہ نومنتخب صدر اور ان کی حکومت کے لیے اس مشکل صورت حال سے عہدہ برآ ہونا آسان نہیں ہوگا۔
دریں اثنا سابق صدر گڈلک جوناتھن نے اپنی شکست کو خوش دلی سے تسلیم کیا ہے اور نومنتخب صدر کو ملک وقوم کے مفاد کی خاطر اپنے تعاون کا یقین دلایا ہے۔ جواب میں نومنتخب صدر نے بھی سابق صدر کے ساتھ خیرسگالی اور انھیں پورا احترام دینے کا عندیہ دیا ہے۔ اب مبصرین اور تجزیہ کار تبصرے کررہے ہیں کہ آیا نئی حکومت اپنے وعدوں کے مطابق کچھ مثبت اور نتیجہ خیز کام کرسکے گی یا ایک بار پھر فوج کے برسراقتدار آنے کا راستہ کھل جائے گا۔ اللہ کرے کہ صدر محمد بخاری ملک وقوم کے لیے کچھ اچھے کام کرسکیں تاکہ افریقہ کا یہ سب سے بڑا ملک امن وامان کا گہوارہ بن سکے۔
کینیا مشرقی افریقہ کا ایک اہم ملک ہے۔ یہ بھی اکثر افریقی ممالک کی طرح کثیرالقومیتی اور کثیراللسانی ملک ہے۔ آبادی کے تناسب کے بارے میں سرکاری اور مغربی اداروں کے اعداد وشمار خاصے متنازعہ ہیں۔ کُل آبادی۲۰۰۹ء کی مردم شماری میں ۳ کروڑ، ۸۶لاکھ ۱۰ہزار ۹۷ ریکارڈ کی گئی۔ اس وقت آبادی کا تخمینہ اضافۂ آبادی کے حساب سے ساڑھے چار کروڑ سے زائد لگایا جاتا ہے۔ عیسائی آبادی (تمام عیسائی فرقوں کو شامل کرکے) ۴۰ سے ۴۵فی صد ہے۔ مسلمان ۲۵ سے ۳۰فی صد کے درمیان ہیں، جب کہ باقی آبادی قدیم افریقی مذاہب، روایت پرست، بت پرست یا لامذہب قبائل پر مشتمل ہے۔ مشنری ادارے اور مغربی این جی اوز مسلمانوں کے علاوہ تمام آبادیوں کو عیسائی شمار کرلیتے ہیں۔ کینیا ۱۹۶۳ء میں برطانوی استعمار سے آزاد ہوا تھا۔ یہ آٹھ صوبوں پر مشتمل ہے۔ ساحلی پٹی اور سمندری جزائر میں مسلمان اکثریت میں ہیں۔ اسی طرح شمال مشرقی صوبہ کم وبیش ۹۰فی صد مسلم آبادی پر مشتمل ہے۔ مشرقی صوبے میں بھی مسلمان عیسائیوں سے نسبتاً زیادہ ہیں۔ صومالیہ کے ساتھ ملحقہ صوبے میں مسلمان صومالی الاصل ہیں۔ اس صوبے کا دارالحکومت گریسا ہے۔
۲؍ اپریل۲۰۱۵ء کو گریسا میں سرکاری یونی ورسٹی کے گریسا کالج ہاسٹل پر صومالیہ میں برسرِپیکار عسکری تنظیم الشباب نے طلبہ پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں ۱۴۷؍افراد مارے گئے۔ ان میں اکثریت طلبہ کی تھی اور باقی سٹاف اور عملے کے لوگ تھے۔ یہ سب نہایت سفّاکی اور بے دردی سے ہلاک کردیے گئے۔ ایک بہت تشویشناک بات یہ تھی کہ حملہ آوروں نے ہاسٹل پر قبضہ کرکے پہلے اعلان کیا کہ مسلمان طلبہ الگ ہوجائیں۔ پھر انھیں حکم دیا گیا کہ وہ بھاگ جائیں۔ اس کے بعد باقی ماندہ طلبہ اور عملے پر گولیوں کی بوچھاڑ کردی گئی۔ نیروبی سے نکلنے والے مسلمانوں کے ہفت روزہ ترجمان فرائیڈے بلٹن، شمارہ۶۲۳،۱۰ اپریل کے مطابق کینیا کی مسلمان آبادی اور مسلم تنظیموں نے اس واقعے کی شدید مذمت کی اور اسے ایک گہری سازش قرار دیا۔ نیروبی کی مرکزی جامع مسجد کے امام، شیخ جمعہ امیر اور مسلمان راہنما شیخ سُبقی نے مقتولین کے خاندانوں سے اظہار تعزیت بھی کیا اور متاثرہ خاندانوں میں امداد بھی تقسیم کی۔ انھوں نے اس موقعے پر کہا کہ کینیا میں تمام مذاہب کے لوگ آپس میں امن وامان سے رہتے ہیں۔ ہمیں اس سازش کو سمجھنا اور اس کا تدارک کرنا چاہیے۔
الشباب نے اس تازہ حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ اس سے قبل ۱۹۹۸ء میں امریکی سفارت خانے پر بھی حملہ ہوا تھا جس میں کئی لوگ مارے گئے تھے۔ اس حملے میں کون ملوث تھے، یہ ثابت نہ ہوسکا، مگر الزام مقامی مسلمانوں پر ہی لگا تھاجس کے بعد بہت سے نوجوانوں کو سکیورٹی اداروں نے گرفتار کرکے تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔ گذشتہ سال کینیا کے دارالحکومت نیروبی میں ویسٹ گیٹ شاپنگ سنٹر پر اچانک حملہ کرکے دن دہاڑے ۷۰گاہکوں اور دکان داروں کو قتل کردیا گیا تھا، جن میں عورتیں اور بچے بھی تھے۔ اس حملے میں تمام حملہ آور بھی سکیورٹی اداروں کی کارروائی میں مارے گئے تھے۔ ۱۰،۱۲ برسوں سے صومالیہ میں حکومت کے ساتھ الشباب کی جھڑپیں اور جنگیں ہوتی رہتی ہیں۔ الشباب کے لوگ اپنا تعلق القاعدہ سے جوڑتے ہیں۔ کینیا اور صومالیہ کی حکومتیں آپس میں ایک دوسرے سے دوستانہ تعلقات رکھتی ہیں۔ ان واقعات سے بحیثیت مجموعی کینیا میں سرگرمِ عمل اسلامی تنظیموں اور اداروں کو خاصی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان واقعات کو بنیاد بنا کر بہت سے بے گناہ مسلمان علما اور اسکالر اور دیگر شخصیات کے خلاف کارروائیاں شروع ہوجاتی ہیں۔ پاکستان میں فورتھ شیڈول کی طرح کینیا میں بھی اسی طرح کے قواعد وضوابط استعمال ہوتے ہیں۔
گریسا کے اس واقعے کے فوراً بعد کینیا کے صدر مسڑاوہورُو کنیاٹا (Uhuru Kenyatta) نے قوم کے نام اپنے خطاب میں مدارس اور مساجد کو دہشت گردی کا ذمہ دار قرار دیا۔ مسلمان راہنماؤں نے فوری طور پر صدر کے اس بیان کی تردید کی۔ نیروبی کے مشہور وکیل اور جامع مسجد کمیٹی کے ممبر مسٹر ابراہیم لتھومے نے ٹیلی وژن کے ایک پروگرام میں کہا کہ مساجد ومدارس ہرگز تشدد کی تعلیم نہیں دیتے۔ دراصل یہ حکومت اور اس کے اداروں کی نااہلی ہے کہ وہ حالات کا صحیح ادراک نہیں کرپاتے اور نہ بروقت خطرات کا تدارک کرنے کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ ’سپریم کونسل آف کینیا مسلمز‘ کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل شیخ حسن اولے نادو نے بھی کہا کہ حکمرانوں کو دورِ جدید کے تقاضوں کے مطابق اپنی سرکاری اور عوامی پالیسیاں ترتیب دینی چاہییں۔ ثبوت کے بغیر محض الزامات سے حالات درست ہونے کے بجاے مزید بگڑ سکتے ہیں۔
گریسا اور اس صوبے کے دیگر علاقے مسلمان آبادی پر مشتمل ہیں۔ ینگ مسلم ایسوسی ایشن نے آزادی کے بعد ۱۹۶۰ء کے عشرے میں گریسا میں ایک بہت بڑا اسلامی مرکز قائم کیا تھا۔ الحمدللہ یہ اب بھی موجود ہے۔ اس مرکز میں یتیم بچوں کی دیکھ بھال اور تعلیم کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ نظام تعلیم میں عصری اور جدید دونوں نصاب پڑھائے جاتے ہیں۔ چند سال قبل جب اس شہر میں سرکاری یونی ورسٹی قائم ہوئی تو اس سے اس اسلامی مرکز کو بھی خاصی تقویت پہنچی۔ اس سے قبل یہاں سے میٹرک اور انٹر کے بعد طلبہ کو نیروبی، ممباسااور کسومو یا دیگر بڑے شہروں کی طرف جانا پڑتا تھا، جو یہاں سے خاصے دُور واقع ہیں۔ گذشتہ سالوں کے دوران اسلامی مرکز گریسا اور اسلامک فاؤنڈیشن نیروبی کی طرف سے قائم کردہ دیگر شہروں میں تعلیمی اداروں سے نکلنے والے طلبہ سرکاری اور پرائیویٹ یونی ورسٹیوں سے ماسٹر، ایم فل اور پی ایچ ڈی کرنے کے بعد اہم سرکاری اور سفارتی عہدوں پر فائز ہیں۔ یونی ورسٹیوں میں مسلم یوتھ آرگنائزیشن بھی منظم انداز میں کام کررہی ہے۔ اس طرح کے پُرتشدد واقعات کے نتیجے میں اس کا کام بھی بُری طرح متاثر ہوا ہے۔
گریسا کے واقعے نے ملک بھر میں عمومی طور پر اور تعلیمی اداروں میں بالخصوص خوف وہراس کی کیفیت پیدا کردی ہے۔ اس گمبھیر صورت حال کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ نیروبی یونی ورسٹی کے ایک ہوسٹل میں ۱۱اور ۱۲؍اپریل۲۰۱۵ء کی درمیانی شب، صبح صادق کے وقت دھماکے کی آواز سے خوف و ہراس پھیل گیا کہ دہشت گردوں نے حملہ کر دیا ہے، حالانکہ یہ دھماکا بجلی کے نقص کے باعث ہوا تھا۔ اس کے نتیجے میں بھگدڑ سے ایک طالب علم جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوگئے۔
تیسری دنیا اس وقت آتش فشاں کے دہانے پر ہے۔ اس کے پیچھے بڑی طاقتوں اور ان کی ایجنسیوں کا ہاتھ ہوسکتا ہے، مگر ترقی پذیر مسلم وغیرمسلم ممالک کے حکمرانوں اور عوام کو خود اپنے حالات درست کرنے کی فکر کرنا ہوگی۔ محض دوسروں کو ذمہ دار قرار دینے سے حالات نہیں سدھر سکتے۔
سوال : روایت ہے کہ حضرت ابوایوب انصاریؓ جب دنیا سے رخصت ہونے لگے تو فرمایا کہ میں نے ایک بات اب تک تم سے چھپا رکھی تھی۔ اب آخر وقت میں پیش کر رہا ہوں۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا تھا کہ اگر تم سب لوگ ملائکہ کی طرح بے گناہ ہوجائو اور تم سے کوئی گناہ سرزد نہ ہو تو اللہ تعالیٰ اور مخلوق پیدا کردے گا جو گناہ کر کے توبہ کریں گے۔(مسلم)
اس حدیث کی وضاحت کے سلسلے میں ایک کھٹک سی ذہن میں پیدا ہوتی ہے۔ کیا اس سے مراد یہ ہے کہ گناہ کیا جائے تاکہ اللہ تعالیٰ معاف کردے ورنہ وہ کوئی دوسری مخلوق پیدا کردے گا؟ نیز اس کی صحت کے بارے میں بھی واضح کردیجیے۔
جواب:آپ نے جس حدیث کا حوالہ دیا ہے وہ مسلم، کتاب التوبہ باب سقوط الذنوب بالاستغفار والتوبہ میں دو سندوں کے ساتھ نقل ہوئی ہے۔ الفاظ یہ ہیں: لَوْلَا اَنَّکُمْ تُذْنِبُوْنَ لَخَلَقَ اللّٰہُ خَلْقًا یُذْنِبُوْنَ لِیَغْفِرَلَھُمْ۔ دوسری حدیث کے الفاظ یہ ہیں: لَوْ اَنَّکُمْ لَمْ تَکُنْ لَکُمْ ذُنُوْبٌ یَغْفِرُاللّٰہُ لَکُمْ لَجَائَ اللّٰہُ بِقَوْمٍ لَہُمْ ذُنُوْبٌ یَغْفِرُھَا لَھُمْ۔ حضرت ابوایوب انصاریؓ کی اس روایت کے بعد حضرت ابوہریرہؓ کی ایک روایت بھی مسلم میں نقل ہوئی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں: وَالَّذِیْ نَفْسِی بِیَدِہٖ لَوْلَمْ تُذْنِبُوْا لَذَھَبَ اللّٰہُ بِکُمْ وَلَجَائَ بِقَوْمٍ یُذْنِبُوْنَ فَیَسْتَغْفِرُوْنَ اللّٰہَ فَیَغْفِرُلَہُمْ۔تینوں احادیث کا مفہوم یہ ہے کہ اگر تم گناہ نہ کرو یا تمھارے گناہ نہ ہوں تو اللہ دوسری ایسی قوم لے آئے گا یا ایسی مخلوق پیدا کردے گا جن کے گناہ ہوں گے اور وہ بخشش مانگیں گے تو اللہ ان کے گناہ معاف کردے گا۔
یہ حدیث سنداً تو بالکل صحیح حدیث ہے۔ اس لیے کہ مسلم ان کتابوں میں شامل ہے جو صحیح احادیث ہی پر مشتمل ہوتی ہیں۔ لیکن اس کا صحیح مفہوم سمجھنے کے لیے آپ پہلے تین باتوں کو اپنے ذہن میں رکھیں تاکہ اُلجھن اور کھٹک کا ازالہ ہوجائے۔
۱- پہلی بات یہ ہے کہ کسی حدیث و آیت کی تشریح و تفسیر کے لیے اسی موضوع سے متعلق دوسری آیات و احادیث کو سامنے رکھنا چاہیے۔
۲- دوسری بات یہ ہے کہ بعض آیات و احادیث کا اسلوبِ بیان قانونی ہوتا ہے جس میں محدود و مخصوص الفاظ میں شریعت کے قانون اور ضابطے کی وضاحت مقصود ہوتی ہے، اور بعض آیات و احادیث کا اسلوب خطیبانہ اور واعظانہ ہوتا ہے جس میں اصل حکم بیان کرنا مقصود نہیں ہوتا بلکہ ترغیب و ترہیب اصل مقصد ہوتا ہے۔ اس نوع کے واعظانہ، خطیبانہ اور ترغیبی یا ترہیبی کلام میں الفاظ کا لغوی مفہوم مراد نہیں ہوتا بلکہ جذبات کو اُبھارنا اور عمل پر آمادہ کرنا مقصود ہوتا ہے۔ اس قسم کے الفاظ میں مبالغہ اور فرضی قسم کی مثالیں بھی بیان ہوتی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم معلمِ قانون بھی تھے اور واعظ بھی۔ اس لیے آپؐ کے کلام میں دونوں پہلو جلوہ گر ہوتے ہیں۔ سخن فہمی کا ذوقِ سلیم رکھنے والا شخص موقع و محل کی مناسبت سے اور دوسری احادیث کی روشنی میں رسولؐ اللہ کا منشا معلوم کرسکتا ہے۔
۳- تیسری بات یہ ہے کہ خلافت ِ ارضی کا منصب اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو نہیں دیا بلکہ انسان کو دیا ہے۔ فرشتوں کے اندر گناہ کی سرے سے قوت ہی نہیں ہے۔ اگر ان کو زمین کی خلافت دی جاتی تو اللہ کی قہاریت، جباریت، عفو، تواب اور غفار کی صفات کا ظہور نہیں ہوسکتا تھا۔ انسان کے اندر شر کی قوت بھی رکھی گئی ہے۔ اس کا نفس امارہ بالسوء بھی ہے اور لوامہ یامطمئنہ بھی ہے۔ انسان کبھی عالمِ بالا اور ملکیت کی جانب متوجہ ہوتا ہے اور کبھی عالم سفلی اور بہیمیت کی جانب متوجہ ہوجاتا ہے۔ انسان کامل، یعنی نبی ؑ سے چونکہ اصلاح اور دعوت و ارشاد کا کام لیا جاتا ہے، اس لیے بشر ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ اس کو گناہوں اور بُرائیوں سے محفوظ و معصوم رکھتا ہے۔ لیکن باقی انسان اپنے اعمال کے اعتبار سے رحمت و مغفرت کا مظہر بھی ہوتے ہیں اور قہروغضب کا مظہر بھی ہوتے ہیں۔ وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ۔
پہلے نمبر پر بیان کردہ قاعدے کی روشنی میں جب ہم اس حدیث پر غور کرتے ہیں تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ اس حدیث کا مقصد گناہوں پر آمادہ کرنا نہیں ہے بلکہ توبہ و استغفار کی ترغیب دلانا ہی اصل مقصد ہے اور مایوسی کے احساس کا ازالہ کرنا پیش نظر ہے۔ اس لیے کہ متعدد آیات و احادیث میں اللہ و رسولؐ کی نافرمانی سے اور گناہوں کے ارتکاب سے روکا گیا ہے اور گناہ کا ارتکاب کرنے والوں کو عذاب کی وعید سنائی گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ انسانی و بشری کمزوریوں کی بناپر گناہوں کا صدور تو ہوتا رہے گا، اور اگر ان کو توبہ و استغفار کی فضیلت و اہمیت نہ بتائی جائے تو وہ مایوسی کا شکار ہوکر مزید گناہ کریں گے۔ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ ط اِِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا ط (اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوجائو، یقینا اللہ سارے گناہ معاف کردیتا ہے۔ الزمر ۳۹:۵۳) کا بھی یہی مفہوم ہے کہ اگرچہ اللہ کی رحمت و مغفرت کے بھروسے پر گناہوں کا ارتکاب کرنا حماقت و بغاوت ہے لیکن گناہ سرزد ہوجانے کے بعد اللہ کی اس رحمت و مغفرت سے مایوس ہو جانا بھی حماقت و جہالت ہی کی ایک قسم ہے۔
یہی بات زیربحث حدیث میں بیان ہوئی ہے کہ مغفرت و رحمت اللہ کی صفت ہے۔ اس کا ظہور ہوکر رہے گا۔ اگر بالفرض تمھارے گناہ سرے سے موجود ہی نہ ہوں تو اللہ تعالیٰ کوئی دوسری مخلوق پیدا کرے گا جو گناہ کرنے کے بعد مایوس نہیں ہوگی بلکہ توبہ و استغفار کرے گی۔ لہٰذا تم سے بھی اگر کوئی گناہ صادر ہوجائے تو مایوس ہونے کے بجاے توبہ واستغفار کے حکم پر عمل کرو۔ نہ صرف یہ کہ توبہ واستغفار سے تمھارے گناہ معاف ہوجائیں گے بلکہ یُبَدِّلُ اللّٰہُ سَیِّاٰتِھِمْ حَسَنٰتٍ ط (ایسے لوگوں کی برائیوں کو اللہ بھلائیوں سے بدل دے گا۔ الفرقان ۲۵:۷۰) سے معلوم ہوتا ہے کہ مزید حسنات و درجات سے بھی نوازے جائو گے۔
دوسرے قاعدے کی روشنی میں دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ زیربحث حدیث میں اسلوبِ کلام خطیبانہ اور واعظانہ ہے۔ اور مقصد یہ نہیں ہے کہ تم گناہ کرو تاکہ اللہ تعالیٰ مغفرت کرے بلکہ مقصد یہ ہے کہ چونکہ تم سے گناہ صادر ہوتے ہیں اس لیے توبہ و استغفار کرو تاکہ اللہ تعالیٰ معاف کردے۔ گناہ کے صدور کی خبر دے کر توبہ کا حکم دیا گیا ہے۔ گناہ کا حکم دے کر توبہ کا حکم نہیں دیا گیا۔
تیسرے قاعدے کی رُو سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کی خلافت انسانوں کے لیے ہے جو رحمت کا مظہر بھی ہیں اور غضب کا مظہر بھی۔ حدیث میں یہ نہیں کہا گیا کہ میں دوسری مخلوق پیدا کرتا ہوں بلکہ یوں کہا گیا ہے کہ اگر تم گناہ نہ کرتے تو میں دوسری مخلوق پیدا کردیتا لیکن چونکہ تم گناہ کرتے ہو تو صفت ِ غفاریت کے ظہور کے لیے دوسری مخلوق پیدا کرنے کی ضرورت ہی نہیں۔
حاصل بحث یہ ہے کہ انسان گناہ کرتے رہیں گے لیکن اللہ بھی مغفرت فرماتے رہیں گے بشرطیکہ انسان توبہ و استغفار کرتا رہے۔ اس لیے مایوس نہیں ہونا چاہیے(مولانا گوہر رحمٰن)۔ (تفہیم المسائل، حصہ اوّل،ص ۳۹-۴۳)
س : میری خالہ کافی عرصے کے بعد امریکا سے اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ آئی ہیں۔ ان کی بیٹیاں جینز پہنتی ہیں، لیکن جب وہ گھر سے باہر نکلتی ہیں تو سارے کپڑے چادر سے چھپاکر نکلتی ہیں۔ میں نے بہت دفعہ اپنی کزن کو جینز پہننے سے منع کیا لیکن وہ کہتی ہیں کہ جینز پہننا کوئی گناہ نہیں ہے، نہ یہ مردوں کی مشابہت ہے اور نہ کافروں کی۔ وہ یہ جواز پیش کرتی ہیں کہ آج پوری دنیا میں عورتیں پینٹ پہن رہی ہیں۔ امریکا میں بھی مسلم عورتیں پہنتی ہیں۔ ایران، سعودی عرب، دبئی، ترکی اور خود پاکستان میں بھی عورتیں جینز پہنتی ہیں۔ اب یہ لباس مسلمانوں میں بھی رواج پاچکا ہے۔ کافروں کی مشابہت یہ جب ہوتا جب اسے صرف کافر ہی پہنتے۔ اگر پینٹ چست نہ ہو، ڈھیلی ڈھالی ہو، قمیص پینٹ کے اندر نہ ہو بلکہ باہر ہو، ڈھیلی ڈھالی ہو اور کم از کم رانوں تک ہو اور ستر نمایاں نہ ہو تو پینٹ جائز ہے۔ دوسرے، یہ بات کہ یہ مردوں کی نقل ہے، تو یہ بھی ٹھیک نہیں ہے کیونکہ ہمارے ہاں جس طرح عورتوں اور مردوں کی شلواریں ایک جیسی ہوتی ہیں، اسی طرح سب جگہ پر پینٹ بھی مردوں اور عورتوں کی ایک جیسی ہیں۔ اگر کوئی لڑکی پینٹ کوٹ پہنے یا مردانہ قمیص شلوار پہنے، یا کوئی خاص مردوں کا لباس پہنے تو وہ مردوں کی نقل ہوگا، اور اسی طرح کوئی عورت خاص کافر عورتوں کا لباس پہنے تو وہ کافروں سے مشابہت ہے۔ قرآن و سنت کی روشنی میں اس کی وضاحت فرما دیں۔
ج:لباس کے بارے میں اصولی ہدایات سورئہ اعراف، آیت ۲۶، ۲۷، ۲۸،۳۱، ۳۲ میں دی گئی ہیں۔ ان میں سے ایک اصولی ہدایت یہ ہے کہ لباس تقویٰ کا ہو۔ مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ لباس التقوٰی کے متعلق تحریر فرماتے ہیں:’’انسان کے لیے لباس کا صرف ذریعۂ سترپوشی اور وسیلۂ زینت و حفاظت ہونا ہی کافی نہیں ہے، بلکہ فی الحقیقت اس معاملے میں جس بھلائی تک انسان کو پہنچنا چاہیے، وہ یہ ہے کہ اس کا لباس تقویٰ کا لباس ہو۔ یعنی پوری طرح ساتر بھی ہو، زینت میں بھی حد سے بڑھا ہوا یا آدمی کی حیثیت سے گرا ہوا نہ ہو، فخروغرور اور تکبر و ریا کی شان لیے ہوئے بھی نہ ہو اور پھر ان ذہنی امراض کی نمایندگی بھی نہ کرتا ہو جن کی بناپر مرد زنانہ پن اختیار کرتے ہیں، عورتیں مردانہ پن کی نمایش کرنے لگتی ہیں اور ایک قوم دوسری قوم کے مشابہ بننے کی کوشش کرکے خود اپنی ذلت کا اشتہار بن جاتی ہے‘‘۔(تفہیم القرآن، ج۲،ص ۲۰)
ایک قوم کا دوسری قوم کے مشابہ بننے سے یہی مراد نہیں ہے کہ ان کے شعار کو اپنائے بلکہ ان کے طور طریقوں، وضع قطع، تراش خراش کو اپنانا بھی ان کے مشابہ بننا ہے۔ پھر دوسری قوموں کے ساتھ مشابہت کے علاوہ مسلمانوں میں ایسے لوگ اور ایسے طبقات جو دوسروں کی تہذیب و روایات کو اپنائے ہوئے ہوں، ان کے رہن سہن، ان کے لباس کو پہنتے ہوں، ان کے ساتھ بھی مشابہت نہ ہو، بلکہ صلحا اور متقین جو اسلامی تہذیب و اقتدار کو سینے سے لگائے ہوئے ہوں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ کرام اور سلف صالحین، مردوں اور عورتوں کے لباس کی یاد تازہ کرتے ہوں، ان کی پیروی اور نقالی کرنے والے ہوں۔ ان کے ساتھ مشابہت کرنے والے اہلِ تقویٰ اور اسلامی اقدار و روایات کو اپنانے والوں کی شکل اختیار کریں گے تو اللہ تعالیٰ ظاہر کا اثر باطن پر بھی ڈال دے گا۔ تواضع اور انکساری کا لباس آدمی میں تواضع اور انکساری پیدا کرتا ہے اور تکبر و غرور کا لباس آدمی میں تکبر و غرور پیدا کرتا ہے۔
مولانا مفتی محمد شفیعؒ اس موضوع پر اس آیت کی تفسیر لکھتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں: ’’لباسِ تقویٰ کے لفظ سے اس طرف بھی اشارہ پایا جاتا ہے کہ ظاہری لباس کے ذریعے سترپوشی اور زینت و تجمل سب کا اصل مقصد تقویٰ اور خوفِ خدا ہے جس کا ظہور اس کے لباس میں بھی اسی طرح ہونا چاہیے کہ اس میں پوری سترپوشی ہو، کہ قابلِ شرم اعضا کا پورا پردہ ہو، وہ ننگے بھی نہ رہیں، اور لباس بدن پر ایسا چست بھی نہ ہو جس میں یہ اعضا مثل ننگے کے نظر آئیں۔ نیز اس لباس میں فخروغرور کا انداز بھی نہ ہو بلکہ تواضع کے آثار ہوں، اسراف بے جا بھی نہ ہو، ضرورت کے موافق کپڑا استعمال کیا جائے۔ عورتوں کے لیے مردانہ اور مردوں کے لیے زنانہ لباس بھی نہ ہو، جو اللہ کے نزدیک مبغوض و مکروہ ہے۔ لباس میں کسی دوسری قوم کی نقالی بھی نہ ہو جو اپنی قوم و ملّت سے غداری اور اعراض کی علامت ہے۔ اس کے ساتھ اخلاق و اعمال کی درستی بھی ہو، جو لباس کا اصل مقصد ہے۔(معارف القرآن، ج۳،ص ۵۳۶)
آپ نے جیز کی جو صورت تحریر کی ہے، وہ بے شک وہی ہو جو آپ نے لکھی ہے کہ ساتر ہو، اس میں مردوں کے ساتھ مشابہت نہ ہو، لیکن یہ ہمارے معاشرے کی نہیں، بلکہ مغربی معاشرے کی ایجاد اور مغرب کا لباس ہے۔ آپ تو بے شک اسے اس طرح استعمال کریں گی جو ساتر ہوگی، لیکن اپنی اصل کے اعتبار سے تو یہ ساتر نہیں ہے بلکہ اصل میں یہ مغربی لباس کی نقالی ہے۔ اس کے بجاے آپ اسلامیت اور پاکستانیت کو پھیلائیں، پاک و ہند کے دینی گھرانوں کو پیش نظر رکھیں۔ آپ پاکستان اور عالمِ اسلام کی صالحات کی پیروی کریں۔ اس سے دینی اور اسلامی ذہنیت نشوونما پائے گی، آخرت کی فکر پیدا ہوگی اور نیک خواتین کی طرح آپ میں بھی نیکی کا جذبہ پیدا ہوگا۔
نیک لوگوں کا لباس نیکی اور بُرے لوگوں کا لباس بُرائی کی ذہنیت پیدا کرتا ہے۔ انسان کا لباس، انسان کی صحبت تو آدمی پر اثرانداز ہوتی ہی ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بکریوں والوں میں مسکنت اور تواضع پائی جاتی ہے اور فخروغرور اُونٹوں کی دُموں کو پکڑ کر چلنے والوں میں پایا جاتا ہے۔ لباس دراصل ذہنی طور پر اہلِ لباس کی صحبت ہے اور اس پر وہی اثرات مرتب ہوتے ہیں جو صحبت پر مرتب ہوتے ہیں۔ اس لیے خواتین کو جینز کا استعمال نہیں کرنا چاہیے۔
آپ کی کزن نے ایران، سعودی عرب اور پاکستان کے جن اُونچے گھرانوں کی خواتین کا حوالہ دیا ہے کہ وہ بھی پینٹ پہنتی ہیں، تو اس بارے میں عرض ہے کہ یہ وہ خواتین ہیں جو مغربی تہذیب کی نقالی کرتی ہیں۔ اس لیے آپ ان سے کہہ دیجیے کہ ان کی نقالی کو چھوڑ دیجیے۔ ان کے بجاے دنیا کے اسلامی گھرانوں کی خواتین کو اپنے لیے نمونہ بنائیں جو مغربی تہذیب سے متاثر اور اس کی دل دادہ نہیں۔ وہ مغربی تہذیب کو باعث ِ عزت و فخر سمجھنے کے بجاے اسلامی تہذیب و روایات کی قدر کرتی ہیں اور اس میں شرف و وقار سمجھتی ہیں۔ (مولانا عبدالمالک)
محترم مولانا سیّد جلال الدین عمری کا شمار بھارت کے نام وَر علما میں ہوتا ہے۔ آپ کے قرآن و سنت کی روشنی میں عصری مسائل پر تحقیقی مقالے اور کتب نہ صرف بھارت میں بلکہ تراجم کی شکل میں یورپ ، امریکا، ترکی اور عالمِ عربی میں انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں۔ اب تک ۵۰ کے لگ بھگ تصنیفات منظرعام پر آچکی ہیں۔
زیرتبصرہ کتاب غیرمسلموں سے تعلقات اور ان کے حقوق آپ کی تحقیقی تصنیفات میں ایک قیمتی اضافہ ہے اور موضوع پر متعلقہ مسائل کا کماحقہٗ احاطہ کرتی ہے۔ کتاب ۱۵ مباحث پر مبنی ہے اور اصولی اور عملی پہلوئوں پر مستند معلومات فراہم کرتی ہے۔ کتاب کا آغاز خاندان میں تعلقات اور عام انسانی تعلقات سے ہوتا ہے جس سے اسلام کے عمومی تصور انسانیت کی وضاحت ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں غیرمسلموں کے ساتھ معاشرتی تعلقات،سماجی تعلقات، ازدواجی تعلقات اور کاروباری معاملات کا جائزہ قرآن و سنت اور فقہ کے ائمہ کی آرا کی روشنی میں لیا گیا ہے۔
عملی مسائل سے بحث کرتے ہوئے محترم مولانا نے جن پہلوئوں پر سیرحاصل بحث فرمائی ہے ان میں غیرمسلموں کو سلام کا حکم، مسجد میں غیرمسلم کا داخلہ، غیرمسلم سے تحائف کا تبادلہ، غیرمسلم کی شہادت، اور پھر اسلامی ریاست میں غیرمسلموں کے حقوق پر ایک مفصل باب باندھا ہے۔اس میں اسلامی ریاست کی خصوصیات و اصول جن میں عدل و انصاف کا قیام، مذہبی معاملات میں جبر کا نہ ہونا، اسلام کا دیگر مذاہب کے بارے میں طرزِعمل اور اہلِ کتاب کے ساتھ رویے پر بحث کی گئی ہے۔ اسلامی ریاست کے حوالے سے یہ وضاحت بھی قرآن و سنت کی روشنی میں کی گئی ہے کہ جہاد کا مقصد کسی کو مسلمان بنانا نہیں بلکہ ظلم و فساد کا دُور کرنا ہے۔
ذمیوں کے حوالے سے مستشرق اور ان سے تربیت پانے والے بے شمار مسلمان مفکرین نے بہت معذرت کے ساتھ اسلام اور ذمیوں کی بحث کی ہے۔ محترم مولانا نے بغیر کسی مداہنت کے حق کو جیساکہ وہ ہے بیان کیا ہے اور ہربات کی دلیل قرآن و سنت سے دے کر یہ واضح کیا ہے کہ ذمی دوئم درجہ کا شہری نہیں ہے۔ اس کے حقوق بھی وہی ہیں جو ایک مسلمان شہری کے ہیں۔
بین الاقوامی قانون میں ایک اہم بحث کا تعلق حالت ِ جنگ اور حالت ِ امن میں غیرمسلم اقوام کے ساتھ معاہدات و معاملات کی ہے۔ اس پر بھی تفصیلی بحث کی گئی ہے کہ معاہدوں کی حیثیت، کن حالات میں انھیں منسوخ کیا جاسکتا ہے ، اور جنگی قیدیوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا۔
کتاب کے آخر میں بحث کو سمیٹتے ہوئے غیرمسلموں سے عدم تعلق کے احکام کا پس منظر بیان کیا گیا ہے تاکہ وہ شبہات جو قرآن و سنت کے جزوی مطالعے سے پیدا ہوسکتے ہیں انھیں اسلام کی کُلی تعلیمات اور اُس پس منظر میں دیکھا جائے جو ان کا سبب النزول ہے۔ یہ اہم باب ہے اور داعیانِ اسلام کے لیے اس کا مطالعہ بہت ضروری ہے۔ ان تمام رواداری کے عملی مظاہروں کے باوجود جن سے اسلامی تاریخ بھری پڑی ہے مخالفین چُن چُن کر صرف ان آیات یا احادیث کا ہی تذکرہ کرتے ہیں جن میں منکرین، مشرکین اور اہلِ کتاب کے حوالے سے یہ کہا گیا ہے کہ انھیں رازدار نہ بنائو۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مدینہ منورہ میں منافقین کی ایک جماعت بظاہر اپنے اسلام لانے کا اعلان کرنے کے باوجود، یہود اور مشرکین مکہ کے ساتھ مسلسل رابطے اور سازشوں میں مصروف تھی۔ قرآن کریم جس ہستی نے نازل فرمایا وہ العلیم اور الخبیر ہونے کی بناپر ان کی سازشوں، مکر اور چالوں سے سب سے زیادہ آگاہ تھا۔ اس لیے اسلامی دعوت کی بقا اور فروغ کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اہلِ ایمان کو آگاہ کیا گیا اور ہدایت کی گئی کہ ان کے ظاہر پر اعتماد کرتے ہوئے انھیں اپنے رازوں میں شامل نہ کیا جائے۔
یہ بات ایک ایسی بدیہی حقیقت ہے جس سے کوئی کافر بھی انکار نہیں کرسکتا۔ اس میں نہ کوئی کینہ ہے، نہ دشمنی، نہ چال بازی اور نہ کوئی ناانصافی۔ ایک بچہ بھی اپنے دشمن پر اعتماد نہیں کرتا۔ منافقین اور مشرکین کا کردار اسی بات کا مطالبہ کرتا تھا کہ ان کو بعض معاملات میں بالکل الگ رکھا جائے۔ یہی شکل بین الاقوامی قانون میں آج بھی پائی جاتی ہے۔
اس کتاب کی افادیت کے پیش نظر اس کا جدید انگریزی میں ترجمہ جلد آنا چاہیے اور اسے ہر معروف کتب خانے کی زینت بننا چاہیے۔(ڈاکٹر انیس احمد)
ہندستان پر انگریزوں کے غلبے کے بعد ایک طرف تو بعض شخصیات کا ردعمل سامنے آیا اور دوسری طرف مزاحمت کی متعدد تحریکیں اُٹھیں۔ افراد میں سرسیّد احمد خاں اور علامہ اقبال کا ردعمل مختلف صورتوں میں نمایاں ہوا۔ ڈاکٹر معین الدین عقیل نے اپنی تازہ کتاب میں دونوں اکابر کے ردعمل کی مختلف صورتوں کو بیان کیا ہے۔
مؤلف کہتے ہیں کہ نوآبادیاتی عہد میں ہندستان میں جن تصورات نے مسلمانوں میں ایک مستحکم شعور پیدا کرنے اور مسلم ملّت کو اپنے مقدر کو سنوارنے کے لیے ایک مؤثر کردار ادا کیا، سرسیّد اور اقبال کے خیالات ہیں جو اُنھوں نے اہم سیاسی مراحل میں قوم کے سامنے پیش کیے۔ سرسیّد مسلمانوں میں وہ پہلے شخص تھے جنھوں نے انڈین نیشنل کانگریس کے حقیقی مقاصد کو سمجھا اور واضح کیا کہ ہندو اور مسلمان ایک نہیں دو علیحدہ علیحدہ قومیں ہیں۔ انھوں نے مسلمانوں کو کانگریس سے دُور رہنے کی تلقین کی۔ پھر مسلمانوں کے تقلیدی اور فرسودہ و جامد خیالات کو حرکت و عمل سے بدلنے کی کوشش کی، اور اس کے لیے انھوں نے جدیدتعلیم کو مفید اور مؤثر خیال کیا۔
علامہ اقبال نے مغرب کو اور اس کی لائی ہوئی جدید تعلیم کو نسبتاً زیادہ عمیق نظروں سے دیکھا اور ہندستانیوں کو اس کے دُور رس اثرات سے آگاہ کیا۔ اُن کے نزدیک مسلمانوں کے اصل امراض: بے عملی، محکومی اور وطن پرستی تھے۔ حرکت، تبدیلی اور ذہنی انقلاب کے ذریعے ان امراض کو دُور کیا جاسکتا تھا۔
کتاب کے آخر میں سرسیّداحمد خاں کا وہ معروف خطبہ شامل ہے، جس میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ کانگریس میں مسلمان بحیثیت قوم شامل نہیں ہیں۔ اسی طرح اقبال کا خطبۂ الٰہ آباد بھی منسلک ہے جس میں اقبال نے ایک آزاد اسلامی مملکت کے قیام کا عندیہ دیا تھا۔اس ٹھوس علمی مقالے کے آخر میں مؤلف نے ایک سو ایک تائیدی حوالے اور حواشی شامل کیے ہیں۔ مگر سرورق ساز کا فہم ناقص ہے(علامہ کو ببول کے درخت پر بٹھا دیا)۔ اسی طرح اشاریے کی کمی کھٹکتی ہے۔(رفیع الدین ہاشمی)
مولانا شبلی نعمانی عالم دین، شاعر، ادیب، مؤرخ، سیرت نگار اور ماہرتعلیم تھے۔ سرسیّد تحریک سے بعض پہلوئوں میں اختلاف کے باوجود مسلمانوں میں تعلیم (متوازن اور بامقصد تعلیم) کے فروغ کے لیے عمربھر کوشاں رہے۔ شبلی صدی (۱۹۱۴ئ-۲۰۱۴ئ) کے موقعے پر اُن پر کتابیں اور مضامین لکھ کر اُنھیں خراجِ عقیدت پیش کیا گیا۔ پاکستان میں کم اور بھارت میں زیادہ۔ دارالمصنّفین نے معارف کا خاص نمبر شائع کیا اور ایک بین الاقوامی شبلی سیمی نار بھی منعقد کیا (حکومت ِ بھارت نے اس سیمی نار کے ۱۸ پاکستانی مدعوین میں سے کسی ایک کو بھی ویزا نہیں دیا)۔ شبلی کی حیات پر موجود متعدد کتابوں میں زیرنظر کتاب ایک منفرد اضافہ ہے۔
یہ شبلی کی ایسی خودنوشت ہے جسے اُنھوں نے خود نہیں لکھا بلکہ ڈاکٹر خالد ندیم نے اُن کی تحریروں سے اقتباسات لے کر ان کی آپ بیتی مرتب کی ہے۔ یہ شبلی کی ایک صحیح، سچی اور کھری تصویر ہے۔ اس میں شبلی کے احساسات، جذبات، ولولے، عزائم،ارادے اور منصوبے نظر آتے ہیں۔ ان سب کا منتہاے مقصود ملت ِاسلامیہ اور دین اسلام کا احیا تھا۔ اندازہ ہوتا ہے کہ شبلی اپنی ملّت کے دگرگوں حالات پر کڑھتے اور اُنھیں پستی اور پس ماندگی سے نکالنے کے لیے طرح طرح کی تدبیریں سوچتے تھے۔ افسوس تو یہ ہے کہ شبلی کو ایک غیرملکی استعماری حکومت میں کام کرتے ہوئے اپنوں کی مخالفت کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
شبلی کی آپ بیتی پڑھتے ہوئے ہم سفرنامہ بھی پڑھتے ہیں، نام ور شخصیات پر شبلی کا تبصرہ بھی اور اُن کی شاعری سے بھی لطف اندوز ہوتے ہیں۔ کہیں کہیں شبلی بے اطمینانی اور پریشانی کے عالم میں تلخ ہوجاتے ہیں۔ اس دل چسپ کتاب میں وہ دردمندی اور اضطراب بہت نمایاں ہے جس نے شبلی کو عمربھر بے چین رکھا۔ مرتب نے بڑی محنت اور فن کاری سے آپ بیتی تیار کی ہے۔ دہلی یونی ورسٹی کے ڈاکٹر عبدالحق خالدندیم کی فہم و فراست پر انھیں داد دیتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’آپ بیتی کے کوائف جمع کرنے میں خون دل کی کشید کرنی پڑتی ہے… یہ قلم سے کسب ِضیا کی ایک انوکھی مثال ہے… نشاطِ کار کی قابلِ قدر مثال‘‘۔ دیباچہ نگار ڈاکٹر ممتاز احمد نے لکھا ہے کہ ’’یہ صرف شبلی کی آپ بیتی ہی نہیں بلکہ ہماری عہدساز ادبی تہذیبی تاریخ کی ایک بصیرت آموز دستاویز بھی ہے‘‘۔ طباعت و اشاعت معیاری ہے۔ آخر میں اشاریہ بھی شامل ہے۔ کتاب پاکستان اور بھارت سے بیک وقت شائع ہوئی ہے۔(رفیع الدین ہاشمی)
تاریخی ناول نویسی میں جو کامیابی اور مقبولیت نسیم حجازی کو حاصل ہوئی وہ اُردو کے کسی دوسرے ناول نگار کے حصے میں نہیں آئی۔
زیرتبصرہ کتاب میں نسیم حجازی کے سات منتخب تاریخی ناولوں: داستانِ مجاہد، محمدبن قاسم، آخری چٹان، خاک اور خون، یوسف بن تاشفین، معظم علی، اور تلوار ٹوٹ گئی کا تنقیدی و تحقیقی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ان ناولوں میں مسلمانوں کے شان دار ماضی، تاریخ کے نشیب و فراز اور عروج و زوال کے اسباب و محرکات کے ساتھ ساتھ احیاے اسلام کی جدوجہد کے لیے لازوال قربانیوں اور ایمان افروز جذبے کی خوب صورت منظرکشی کی گئی ہے جو بالخصوص نوجوانوں کو اپنی تاریخ سے شناسائی کے ساتھ عمل کے لیے اِک ولولۂ تازہ دیتی ہے۔ نسیم حجازی کے ناولوں کی وجۂ مقبولیت اور پذیرائی کا سبب بھی یہی انفرادیت ہے۔
اُردو ادب کے متعدد نقادوں کی آرا نقل کی گئی ہیں۔ ڈاکٹر عبدالمغنی کے مطابق: ’’نسیم حجازی کا طرزِ تحریر اُردو کی بہترین نثری روایات کا امین ہے جو علامہ شبلی، علامہ ابوالکلام آزاد اور مولانا مودودی کے عالمانہ مضامین میں ترقی پاکر اظہار و بیان کا مثالی معیار مقرر کرتی ہیں۔ اس طرزِ تحریر میں نفاست و شوکت اور متانت و دبازت ہے‘‘ (ص ۶۱۳)۔ ناول نگاری میں نسیم حجازی کے ادبی کام کا مقام متعین کرتے ہوئے تحریر کیا گیا ہے: ’’نسیم حجازی اس قافلے کے نہ سالار ہیں نہ آخری آدمی۔ مسلمان اپنی نشاتِ ثانیہ کے لیے ہمیشہ تاریخ کے جھروکوں میں جھانکتے رہیں گے، اور تاریخی ناول یا افسانہ نگاری کی روایت زندہ رہے گی۔ عبدالحلیم شرر نے جو بیج بویا تھا اور جس کی آبیاری نسیم حجازی نے کی تھی، وہ پودا دیگر صاحبانِ قلم کی تحریروں کی صورت میں برگ و بار لا رہا ہے اور یہ روایت آگے بڑھتی رہے گی‘‘ (ص ۶۵۴)۔نسیم حجازی کے ناولوں کے بارے میں سیّدمودودی نے فرمایا تھا: ’’میں نوجوانانِ پاکستان سے [کہوں] گا کہ وہ نسیم حجازی صاحب کے ناول ضرور پڑھیں اور اپنی سنہری تاریخ کے سبق آموز واقعات سے واقفیت حاصل کریں اور ملک و قوم کی صحیح خدمت کرنے کا جذبہ پیدا کریں‘‘ (ص ۶۴۶)۔(ظفرحجازی)
زیر نظر کتاب اخبارا ت کی خبروں ،رسائل وجرائد میں شائع شدہ مضامین اور مختلف سروے رپورٹوں کے اعدادو شمارپر مشتمل ایسی دستاویز ہے جس میں یورپ کا تاریک تر اندرون صاف دکھائی دیتاہے۔اس کتاب کو پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ملازمتوں میں امتیازی سلوک، کم تنخواہیں،جنسی تشدد،جبری شادی اورگھریلو تشدد عام ہے۔ لاکھوں خواتین ہر سال جنسی تشدد کا نشانہ بنتی اور روزانہ بھوکی سوتی ہیں۔ اس کتاب میں ۲۰۰۳ء میں بی بی سی کے پیٹر گلائوڈ کا ایک سروے بھی شامل ہے جس میں خواتین پر گھریلو تشدد کا جائزہ پیش کیا گیاہے۔اس سروے کے مطابق برطانیہ ۷۸ فی صد خواتین و حضرات نے کتے کو تشد دسے بچانے کے لیے پولس کو اطلاع دینا اپنا فرض بتایا، لیکن اپنے پڑوس میں مرد کی جانب سے اپنی بیوی یا گرل فرینڈ پرتشددکو ۴۷ فی صد افراد نے نجی معاملہ قرار دے کر عدم مداخلت کا عندیہ دیا۔
اس کتاب میں ان لوگوں کے لیے بڑا سبق ہے جو یورپ اور امریکا کو اپنا آئیڈیل سمجھتے ہیں اور جو ترقی ، خوش حالی اور روشن خیالی کے نام پر یورپ کی خاندان شکن معاشرت اور بے لگام کلچر کو ہم پر مسلط کرنے کے لیے ہلکان ہورہے ہیں۔ (حمید اللّٰہ خٹک)
مؤلف کے کالموں کا یہ مجموعہ مختلف شخصیات کے خاکوں پر مشتمل ہے۔ ان خاکوں میں معلومات بھی ہیں اور تاریخ بھی، نظریات بھی ہیں اور فلسفہ بھی اور ادبی اسلوب کی چاشنی بھی۔ بعض خاکے ایسے ہیں جن کو پڑھ کر بے اختیار ہنسی چھوٹ پڑتی ہے (شفیع نقی جامعی) اور بعض ایسے ہیں کہ جن کو پڑھ کر آنکھوں سے آنسو چھلک چھلک پڑتے ہیں (میجر آفتاب حسن)۔ بعض خاکے طویل ہیں اور بعض مختصر۔ کچھ معروف شخصیات کے (افتخار عارف، پروفیسر غفوراحمد، حکیم محمد سعید، مشتاق احمد یوسفی، سلیم احمد، آباد شاہ پوری، عبدالستار افغانی) اور بعض غیرمعروف (نورمحمد پاکستانی، محسن ترمذی، استاد حسن علی، محمدگل اور ایک نامعلوم شخص)۔ خاکوں کے عنوانات بھی برمحل، بے ساختہ اور خوب ہیں۔
ابونثر کے قلم سے نکلے ہوئے یہ خاکے جہاں دردِ دل، سوز و گداز اور اسلوبِ بیان کی چاشنی سے معمور ہیں،وہیں یہ گذشتہ ۴۰سالہ عہد کی تاریخ ہے۔ خاکہ نگاری کا یہ اسلوب اور انداز ہرعمر کے افراد کے لیے سامانِ ضیافت کا درجہ رکھتا ہے۔ یہ کتاب خاکہ نگاری میں نئے باب کی تمہید اور ہرلائبریری میں جگہ پانے کی حق دار ہے۔(عمران ظہور غازی)
o مجلہ الحمد کراچی (سیرت نمبر) ، مدیر: ڈاکٹر محمد اظہر سعید۔ ناشر: الحمد اکیڈمی، ۱۶۵-ای، بلاک۳، پی ای سی ایچ ایس، کراچی۔ صفحات:۲۲۴۔ قیمت: ۹۰ روپے۔[الحمد کالج آف پروفیشنل ایجوکیشن کراچی کا مجلہ الحمد سیرت النبیؐ کے موضوع پر ہے۔ اس مجلے نے اعلیٰ ثانوی تعلیمی بورڈ کراچی کے زیراہتمام سیرت النبیؐ کے موضوع پر مجلّوں کے درمیان منعقدہ مقابلہ ۲۰۱۴ء میں شرکت کر کے دوم انعام پایا۔ حمدو نعت کے بعد کُل ۱۱مقالات شائع کیے گئے ہیں۔ یہ مقالات حکیمانہ تعلیم و تربیت اور تزکیہ نفوس سیرتِ طیبہ کی روشنی میں دعوت و تبلیغ کی حکمت وعملی ، آنحضرتؐ کا نوجوانوں کے ساتھ سلوک ، رحمۃ للعالمینؐ بحیثیت بلدیاتی منتظم وغیرہ جامع انداز میں ترتیب دیے گئے ہیں۔ رسالہ اپنے مواد اور مضامین کے اعتبار سے عمدہ پیش کش ہے۔]
o چمن زار حقائق ، مرتبہ: گوہرملسیانی۔ ناشر: دارالنوادر، الحمدمارکیٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۸۸۹۸۶۳۹-۰۳۰۰۔ صفحات:۲۴۸۔ قیمت: درج نہیں۔[جناب گوہر ملسیانی کی نمایندہ منتخب قومی و ملّی نظموں کا یہ مجموعہ چمن زار حقائق ایک مؤثر پیش کش ہے، جو پاکستان کے نشیب و فراز، سیاسی، سماجی اور معاشی کیفیت، نظریات، تعلیماتِ قرآن اور تصوراتِ اقبال اور حکمرانوں کے غیراسلامی اقدار کی جھلک پیش کرتا ہے۔ فکرواحساس کو مہمیز دینے والے کلام کی چند نظمیں بالخصوص اُمیدطلوعِ سحر، اتحاد عالمِ اسلام، جذبات نور، حقیقت ِ وطن، رقصِ ابلیس، ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے لیے چند آنسو قابلِ ذکر ہیں۔]
o زندان سے تخت شاہی تک ، عبدالعظیم معلم ندوی۔ ناشر:معہدامام حسن البنا شہید، مکتبہ علی العلمیہ، مدینہ کالونی،بھٹکل۔صفحات:۵۶۔ قیمت: ۴۰ روپے (بھارتی)۔[یہ مختصر مگر سادہ انداز و اسلوب لیے ہوئے حضرت یوسف ؑ کے مکمل واقعے پر مشتمل قرآنی قصہ ہے۔ جس میں حضرت یوسف ؑ کی پاکیزہ زندگی کا خوب صورت نقشہ پیش کیا گیا ہے۔ اچھوتے انداز میں حضرت یوسف ؑ کی زندگی بطورِ نمونہ پیش کر کے نوجوان نسل کو غوروفکر کی دعوت دی گئی ہے کہ آج کے دور میں جب بُرائی، ناشائستگی، بدتہذیبی اور عریانی و فحاشی اپنے لائولشکر کے ساتھ حملہ آور ہے، بچائو کیسے ممکن ہے۔]
o قومیں کیوں ہلاک ہوتی ہیں؟ ، مولانا سیّد جلال الدین عمری۔ ناشر: اسلامک ریسرچ اکیڈمی، ڈی-۳۹، بلاک۵، فیڈرل بی ایریا، کراچی۔ فون: ۳۶۳۴۹۸۴۰-۰۲۱۔ صفحات:۱۶۔ قیمت: درج نہیں۔[قرآنِ مجید کی روشنی میں قوموں کے زوال کے اصول، مثلاً: تکبر اور خودسر ی کی روش ، فساد فی الارض، ظلم وعدوان، فسق و فجور اور گناہوں کے ارتکاب کا تذکرہ ہے۔ مادی ترقی اور اقوامِ عالم پر بالادستی کے باوجود عقیدے اور فکر کا بگاڑ اور اخلاقی انحطاط بالآخر زوال کا سبب بنتا ہے۔ ان اصولوں کی روشنی میں مغربی اقوام کا تجزیہ بھی کیا گیا ہے۔]
o آپ کے لیے کون سا منصوبہ مناسب ہے؟ ، محمد صالح المنجد، ترجمہ: عبدالغفور مدنی۔ ناشر: منشورات، منصورہ، لاہور۔ فون:۳۵۲۵۲۲۱۱-۰۴۲۔ صفحات: ۴۸۔ قیمت: ۲۰ روپے۔[کتابچے میں بامقصد زندگی گزارنے کے لیے مختلف منصوبوں، خداداد خوابیدہ صلاحیتوں کی دریافت، منصوبوں کی کامیابی کے ضابطے اور ناکامی کے اسباب، نیز بعض کامیاب منصوبوں کا بطورِ مثال تذکرہ کیا گیا ہے۔ سلف صالحین اور نامور شخصیات کے واقعات بامقصد زندگی کے لیے رہنمائی کا ذریعہ ہیں۔ عالمِ عرب سے اپنے موضوع پر مفید ترجمہ سامنے آیا ہے۔ ]
’دعوت، تربیت اور اقامت دین‘ (اپریل ۲۰۰۵ئ) صحیح معنوں میں دین اسلام کی دعوت کی عکاسی کرتا ہے۔ اس لیے کہ اسلام دین رحمت ہے جو اپنی ہمہ گیر خصوصیات و امتیازات کی بنا پر ترقی پذیر ہے۔ اس کی خوبیاں و عطربیزیاں لوگوں کے دلوں میں گھر کر رہی ہیں اور لوگ اسلام کے سایۂ عاطفت میں ہی اپنے آپ کو مطمئن و مامون سمجھتے ہیں۔ اس لیے محترم مدیر کی یہ تحریر کہ جماعت اسلامی کی دعوت نہ کسی شخصیت کی طرف ہے، اور نہ کسی مخصوص مسلک کی طرف بلکہ اس کی دعوت صرف ایک اللہ کی عبادت اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کی دعوت ہے، اسلام کی اصولی فکر کی عکاسی کرتی ہے۔
’قتلِ جمہوریت ہی نہیں قتلِ انسانیت بھی‘ (اپریل ۲۰۱۵ئ) حکومت بنگلہ دیش کے ظلم و ستم کی داستان ہی نہیں جمہوریت کے چہرے پر ایک بدنما داغ ہے۔
’اسلامی قانونِ جنگ اور عصرِحاضر‘(مارچ ۲۰۱۵ئ) جامع مقالہ ہے، تاہم آج جس طرح جہاد کے نام پر سفاکیت اور تشدد کے واقعات ہو رہے ہیں، ان کی تردید بھی ہوجاتی تو حالاتِ حاضرہ پر صحیح انطباق ہوجاتا۔
’اسلام اور ریاست: چند بنیادی مباحث‘ (مارچ ۲۰۱۵ئ) پڑھ کر وہ تمام خدشات دُور ہوجاتے ہیں جو جاوید احمد غامدی صاحب کی بحث سے پیدا ہوتے ہیں۔ تاہم ایسے حضرات جو اس بحث کے پس منظر سے واقف نہیں ہیں، ان کے لیے ایک آدھ جملے میں بتا دیا جاتا کہ زیربحث کون ہے؟ یا کس کے نظریات ہیں تو زیادہ بہتر ہوتا۔
پروفیسر علی اصغر سلیمی کا مضمون ’دین کا حقیقی مقصد: نظامِ عدل کا قیام‘ (مارچ ۲۰۱۵ئ) بہت پسند آیا۔ کاش! ہمارے عوام اور خصوصاً علماے کرام اس کی اہمیت کو محسوس کرسکیں تو اس ملک کی تقدیر بدل جائے۔ یہ فکرِعام کیسے کی جائے؟ اس پر بھی روشنی ڈال دی جاتی تو اور کارآمد ہوتا۔
آخر مولانا مودودی میں وہ کیا چیز ہے جس کی وجہ سے اس کی قید اور اس کی رہائی سے اَن گنت لوگ دل چسپی رکھتے ہیں۔ وہ کوئی فرشتہ یا کوئی فوق البشر ہستی نہیں ایک انسان ہے اور اسی طرح کا خاکی انسان ہے جیسے ہم سب ہیں۔ وہ کسی مقامِ خاص کا مدعی نہیں، اپنے آپ کو محض اُمت محمدیہ کے ایک مسلمان فرد کی حیثیت میں پیش کرتا ہے۔ وہ پیری کی مسند بچھا کر نہیں بیٹھتا بلکہ عام آدمیوں کی طرح رہتا سہتا ہے اور عام آدمیوں سے ملتا جلتا ہے۔ وہ اپنے لیے خصوصی امتیازات اور القاب و آداب نہیں چاہتا بلکہ کسی تکلف وتصنّع کے بغیر ہرقسم کے لوگ اس سے معاملات رکھتے ہیں۔ وہ کرامات اور شعبدے دکھا کر اور خواب اور کشف بیان کر کے کسی کو مسحور نہیں کرتا بلکہ سیدھے سیدھے استدلال سے بات کہتا اور بات کا جواب دیتا ہے۔ اس کے پاس ملک کا کوئی انتظامی و وزارتی منصب نہیں ہے کہ وہ اس کے ذریعے لوگوں پر دھونس جماتاہو۔ اس کے قبضے میں کوئی ایسااختیار نہیں ہے کہ وہ لوگوں کے نام الاٹ منٹیں کرکر کے، درآمدی برآمدی لائسنس بانٹ بانٹ کر ، پاسپورٹ دے دے کر ، ان کی سفارشوں پر ان کے کام بنابناکر، یا ان کی آزادیوں اور ان کی عزتوں پر چھاپے مارمار کر ان کو اپنا حمایتی اور قصیدہ خواں بنا رکھے۔ وہ فنِ سازش میں کوئی درک نہیں رکھتا کہ لوگوں کو شرپسندانہ نجویٰ کے ذریعے باہم دیگر توڑ توڑ کر اپنے اثرورسوخ کا راستہ نکالے۔ یہ سب کچھ نہیں ہے تو پھر وہ کیا چیز ہے جس نے مولانا مودودی کو ایک نمایاں حیثیت دے دی ہے؟
ایک متاع ایمان! ایک نورِعلم! ایک دعوتِ حق! ایک نظریہ و اصول! ایک پاکیزہ مقصد و نصب العین!ایک نقشۂ تعمیر! ایک جذبۂ خدمت! ایک متاعِ کردار! بس ’’یہی کچھ ہے ساقی متاعِ فقیر‘‘۔ (’اشارات‘، نعیم صدیقی، ترجمان القرآن، جلد۴۴، عدد۲-۳، شعبان ۱۳۷۴ھ ، مئی ۱۹۵۵ئ، ص۴-۵)
______________