محترم وزیر اعظم صاحب، میں ابھی چار دن کے بعد جموں و کشمیر سے لوٹا ہوں اور چاروںدن میں کشمیر کی وادی میں رہا اور مجھے یہ ضروری لگا کہ آپ کو وہاں کے حالات سے واقف کراؤں۔ حالانکہ آپ کے یہاںسے خط کا جواب آنے کا رواج ختم ہوگیا ہے،ایسا آپ کے ساتھیوںکا کہنا ہے، لیکن پھر بھی اس امیدپر یہ خط بھیج رہا ہوں کہ آپ مجھے جواب دیںیا نہ دیں، لیکن خط کو پڑھیںگے ضرور اور پڑھنے کے بعد آپ کو اس میںذرا بھی حقیقت نظر آئے، تو آپ اس میں اٹھائے ہوئے نکات پر دھیان دیں گے۔ مجھے یہ پورا یقین ہے کہ آپ کے پاس جموںو کشمیر لے کر خاص طور سے وادیِ کشمیر کو لے کر جو خبریںپہنچتی ہیں، وہ سرکاری افسروں کے ذریعے ارسال کردہ خبریںہوتی ہیں اور ان خبروں میںسچائی کم ہوتی ہے۔ اگر آپ کے پاس کوئی ایسا نظامِ کار (میکانزم) ہو، جو وادی کے لوگوں سے بات چیت کرکے آپ کو سچائی سے آگاہ کرائے تو مجھے یقین ہے کہ آپ ان حقائق کو نظر انداز نہیںکر پائیں گے۔
ہماری سیکورٹی فورسز اور ہماری فوج میںیہ خطرناک جذبہ پنپ رہا ہے کہ: ’’کشمیر میں جو بھی بھارتی نظام کے خلاف آواز اٹھاتا ہے، اگر اسے ختم کردیا جائے ، اس کی جان لے لی جائے ، اسے دنیا سے وداع کردیا جائے، تو یہ علیحدگی پسند تحریک ختم ہوسکتی ہے‘‘۔ ہمارا نظام جسے علیحدگی پسند تحریک کہتا ہے، دراصل وہ علیحدگی پسندتحریک نہیںہے، وہ کشمیر کے عوام کی تحریک ہے۔ اگر ۸۰سال کے ضعیف سے لے کر چھے سال کے بچے تک آزادی، آزادی ، آزادی کہے، تو ماننا چاہیے کہ گذشتہ ۷۰برسوںمیںہم سے بہت بڑی غلطیاں ہوئی ہیں اور وہ غلطیاں انجانے میں نہیں بلکہ جان بوجھ کر ہوئی ہیں۔ آج تاریخ اور وقت نے ان غلطیوں کو سدھارنے کا کام آپ کو سونپا ہے۔ امید ہے کہ آپ کشمیر کے حالات کو فوری طور پر اور نئے سرے سے سمجھ کر اپنی حکومت کے اقدامات کا تعین کریںگے۔
وزیر اعظم صاحب، کشمیر میں پولیس والوں سے لے کر ، وہاں کے تاجر، وہاں کے طلبہ، وہاں کی سول سوسائٹی کے لوگ، ہاں کے قلم کار، وہاں کے صحافی، وہاںکی سیاسی پارٹیوں کے لوگ اور وہاں کے سرکاری افسر، وہ چاہے کشمیر کے رہنے والے ہوں یا کشمیر کے باہر کے لوگ، جو بھی کشمیر میںکام کررہے ہیں، وہ سب کہتے ہیں کہ: ’’بھارتی نظام سے بہت بڑی بھول ہوئی ہے اور اسی لیے کشمیر کا ہر آدمی ہندستانی نظام کے خلاف کھڑا ہوگیا ہے۔ ان میں سے اگرچہ ہرفرد کے ہاتھ میںپتھر نہیںہے، مگر اس کے دل میں پتھر ضرور ہے‘‘۔ آج یہ تحریک ایک عوامی تحریک بن گئی ہے، ٹھیک ویسی ہی جیسی ہندستان کی ۱۹۴۲ء میں تحریک [آزادی] تھی، یا پھر ’جے پی‘ تحریک تھی کہ جس میں لیڈر کا کردار کم تھا اور لوگوں کا کردار زیادہ تھا۔
اس بات کو بھی ذہن میں رکھیے کہ > کشمیر میں اس بار قربانی والی عید نہیں منائی گئی، کسی نے نئے کپڑے نہیں پہنے، کسی نے قربانی نہیں کی اور کسی کے گھر میں خوشیاں نہیںمنائی گئیں۔ کیا یہ ہندستان کے ان تمام لوگوں کے منہ پر زوردار طمانچہ نہیں ہے، جو جمہوریت کی قسمیں کھاتے ہیں؟ آخر ایسا کیا ہوگیا کہ کشمیر کے لوگوںنے تہوار تک منانا بند کر دیے، عیدالفطر اور بقرعید منانی بند کردیں۔ عملاً یہ ساری تحریک وہاں کی سیاسی قیادت کے خلاف ایک بغاوت کی شکل اختیار کرگئی ہے۔ جس کشمیر میں ۲۰۱۴ء میں انتخابات ہوئے، لوگوں نے ووٹ ڈالے، آج اسی کشمیر میںکوئی بھی شخص ہندستانی نظام کے لیے ہمدردی کا ایک لفظ کہنے کو تیار نہیں ہے۔ میںآپ کو حالات اس لیے بتارہا ہوں کہ آپ پورے ہندستان کے وزیر اعظم ہیں اور آپ اس کا کوئی راستہ نکال سکتے ہیں۔
کشمیر کے گھروں میں شام کے وقت لوگ ایک بلب روشن کرکے گزربسر کرتے ہیں۔ زیادہ تر گھروں میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ ہمارے یہاں اتنا دکھ ہے، اتنے قتل ہورہے ہیں، ۱۰ہزار سے زیادہ پیلیٹ گن سے زخمی لوگ ہیں، ۵۰۰ سے زیادہ لوگوں کی آنکھیں بے نور ہوگئی ہیں۔ ایسے سوگوار ماحول میں ہم گھر میں چار بلب روشن کرکے خوشی کا کیسے اظہار کرسکتے ہیں، اس لیے ہم ایک بلب جلاکر رہیںگے۔ وزیر اعظم صاحب، میںنے دیکھا ہے کہ لوگ گھروں میںایک بلب جلا کر رہ رہے ہیں۔ میںنے یہ بھی کشمیر میںدیکھا ہے کہ کس طرح صبح آٹھ بجے سڑکوں پر پتھر لگادیے جاتے ہیں او ر وہی لڑکے جنھوں نے صبح کے وقت پتھر لگائے ہیںشام کو چھے بجے اپنے آپ سڑکوں سے پتھر ہٹادیتے ہیں۔ دن میں وہ پتھر چلاتے ہیں،شام کو وہ اپنے گھروں میں اس خدشے اور احساس سے مغلوب ہوکر سوتے ہیں کہ معلوم نہیں سیکورٹی فورسز کے کارندے کب انھیں اٹھاکر لے جائیں، پھر وہ کبھی اپنے گھر کو واپس لوٹیں یا نہ لوٹیں؟ ایسی حالت تو انگریزوں کے دورِحکومت میں بھی نہیں ہوئی تھی ۔ تب بھی یہ ذہنیت نہیں تھی اور عام لوگوں میںاتناڈر نہیںتھا۔ لیکن آج کشمیر کا رہنے والا ہر آدمی، وہ ہندو ہو، مسلمان ہو، سرکاری ملازم ہو یا نہ ہو، بیکار ہو، تاجر ہو، سبزی والا ہو، ٹھیلے والا ہو، ٹیکسی والا ہو، غرض یہ کہ ہر آدمی ڈرا ہوا ہے۔ کیا ہم انھیں اور ڈرانے کی یاانھیںاور زیادہ پریشان کرنے کی حکمت عملی پر تو نہیںچل رہے ہیں؟
۱۹۸۲ء میں پہلی بار شیخ عبداللہ کے بیٹے ڈاکٹر فاروق عبداللہ کانگریس کے خلاف انتخاب لڑے اور وہاں انھیں [۸ستمبر ۱۹۸۲ء] اکثریت حاصل ہوئی۔ شاید دہلی میں بیٹھی کانگریس پارٹی، کشمیر کو اپنی کالونی سمجھ بیٹھی تھی اور اس نے [۲جولائی ۱۹۸۴ء] ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی حکومت گرادی۔ اس طرح فاروق عبداللہ کی جیت ہار میں بدل گئی اور یہاںسے کشمیریوں کے دل میں ہندستانی نظام کے لیے نفرت کا ایک نیا جذبہ پیدا ہوا۔ آپ کے وزیر اعظم بننے سے پہلے تک دہلی میں بیٹھی تمام حکومتوں نے کشمیر میں لوگوں کو یہ یقین ہی نہیں دلایا کہ وہ بھی ہندستانی نظام کے ویسے ہی عضو ہیں جیسے ہمارے ملک کی دوسری ریاستیں۔
کشمیر میں ایک پوری نسل جو ۱۹۵۲ء کے بعد پیدا ہوئی، اس نے آج تک جمہوریت کا نام ہی نہیں سنا ،اس نے آج تک جمہوریت کا ذائقہ نہیںچکھا۔ اس نے اپنے ہاں فوج دیکھی، پیراملٹری فورسز دیکھیں، گولیاں دیکھیں، بارود کی بُو سونگھی اور لاشیں دیکھیں۔ اس نسل کو یہ نہیں اندازہ ہے کہ ہم دہلی میں، اترپردیش میں، بنگال میں، مہاراشٹر میں، گجرات میں کس طرح جیتے ہیں اور کس طرح ہم جمہوریت کی دہائی دیتے ہوئے جمہوریت کے نام پر نظام کا ذائقہ چکھتے ہیں۔ کیا کشمیر کے لوگوں کا یہ حق نہیں ہے کہ وہ بھی جمہوریت کا ذائقہ چکھیں، جمہوریت کی اچھائیوں کے سمندر میں تیریں یا ان کے حصے میں بندوقیں، ٹینک، پیلیٹ گنس اور پھر ممکنہ قتل عام ہی آئے گا۔
کشمیر کے لوگ، ہندستان کے نظام اور اقتدار کو چڑانے کے لیے جب ہندستان کی کرکٹ میںہار ہوتی ہے، تو جشن مناتے ہیں۔ وہ صرف پاکستان کی ٹیم کی جیت پر جشن نہیں مناتے اور خوش نہیں ہوتے بلکہ اگر ہم نیوزی لینڈ سے ہار جائیں، بلکہ اگر ہم بنگلہ دیش سے ہار جائیں، اگر ہم سری لنکا سے ہار جائیں، تب بھی وہ یہی خوشی محسوس کرتے ہیں۔ کیونکہ انھیں یہ لگتا ہے کہ ہم ہندستانی نظام کی کسی بھی خوشی کو مسترد کرکے اپنی مخالفت کا اظہار کررہے ہیں۔
وزیر اعظم صاحب، کیا یہ نفسیات ہندستان کی حکومت کو سمجھنے کی ضرورت نہیںہے۔ کشمیرکے لوگ اگر ہمارے ساتھ نہیں ہوں گے، تو کشمیر کی زمین لے کر کے ہم کیا کریں گے۔ کشمیر کی زمین میں کچھ بھی پیدا نہیں ہوتا۔ پھر وہاں پر نہ ٹورزم ہوگا، نہ وہاں محبت ہوگی، صرف ایک سرکار ہوگی اور ہماری فوج ہوگی۔ وزیراعظم صاحب کشمیر کے لوگ خود فیصلہ کرنے کا حق چاہتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ایک بار آپ ہم سے یہ ضرور پوچھیے کہ ہم ہندستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیںیا ہم پاکستان کے ساتھ رہناچاہتے ہیں یا ہم ایک آزاد ملک بنانا چاہتے ہیں۔ اس میںصرف ہندستان کے ساتھ والا کشمیر شامل نہیںہے۔ اس میں وہ پاکستان کے کنٹرول میں رہنے والے کشمیر ، گلگت، بلتستان کے لیے بھی ریفرنڈم چاہتے ہیں اور اس کے لیے وہ چاہتے ہیں کہ ہندستان پاکستان کے ساتھ بات چیت کرے کہ اگر ہندستان یہاں یہ حق دینے کو تیار ہے، تو وہ بھی یہ اختیار دیں۔
جموںو کشمیر کی اسمبلی نے اتفاق راے سے ایک قر ارداد منظور کی کہ انھیںکیا حق چاہیے، مگر اس قرارداد کو کوڑے کی ٹوکری میں پھینک دیا گیا۔ کشمیر کے لوگوںکو یہ احساس ہے کہ: ’’ہماری حکومت ہم نہیںچلاتے بلکہ دہلی میں بیٹھے کچھ افسر چلاتے ہیں، انٹیلی جنس بیورو چلاتی ہے، فوج کے لوگ چلاتے ہیں، ہم نہیں چلاتے۔ ہم تو یہاں پر غلاموں کی طرح سے جی رہے ہیں، جنھیں روٹی دینے کی کوشش تو ہوتی ہے، لیکن جن کے لیے جینے کا کوئی راستہ کھلا نہیںہے‘‘۔
وزیر اعظم صاحب، کشمیر کے لیے جو پیسہ الاٹ ہوتا ہے وہ وہاں نہیں پہنچتا ، پنچایتوں کے پاس پیسہ نہیں پہنچتا، کشمیر کے لیے جتنے پیکیج اعلان کیے گئے، وہ ان کو نہیںملے اور شاید آپ نے ۲۰۱۴ءکی دیوالی کشمیر کے لوگوں کے بیچ گزاری تھی، آ پ نے کہا تھا کہ وہاں اتنا سیلاب آیا ہے، اتنا نقصان ہوا ہے، اتنے ہزار کروڑ روپے کا پیکیج کشمیر کو دیا جائے گا۔ وزیراعظم صاحب، وہ پیکیج نہیںملا ہے، اس کا کچھ حصہ مرحوم مفتی محمد سعید کے انتقال کے بعد جب محبوبہ مفتی نے تھوڑا سا دباؤ ڈالا، تو کچھ پیسہ ریلیز ہوا۔ کشمیر کے لوگوں کو یہ سب مذاق لگتا ہے، انھیں اپنی توہین لگتی ہے۔
> وزیر ا عظم صاحب !کیا یہ ممکن نہیں کہ جتنے بھی اب تک پارلیمانی وفود کشمیر میں گئے، ’ہم سخن رپورٹ‘ ، کے سی پنت اور رام جیٹھ ملانی کی تجویز اور ابھی جن لوگوں نے کشمیر کے بارے میں آپ کو راے دی ہے، آپ سے مطلب آپ کے دفتر کو اب تک رائے دی ہو۔ کیا ان آرا کو لے کر ہمارے سابق آٹھ یا دس چیف جسٹسوں کا ایک گروپ بناکر ان کے سامنے وہ رپورٹ نہیں سونپی جاسکتی کہ اس میں فوری طور پر کیا کیا نافذ کرنا ہے۔
چوںکہ یہ ساری چیزیں نہیںہوئیں، اس لیے کشمیر کے لوگ اب آزادی چاہتے ہیں اور آزادی کا یہ جذبہ اتنا بڑھ گیا ہے وزیر اعظم صاحب، میں پھر دہراتا ہوں، مجھے پولیس سے لے کر، ۸۰سال کے ضعیف تک، پھر قلم کار، صحافی، تاجر، ٹیکسی چلانے والے، ہاؤس بوٹ کے لوگ اور چھے سال کا بچہ، یہ سب آزادی کی بات کرتے دکھائی دیے۔ ایک بھی شخص، پھرسے دہراتا ہوں، مجھے نہیں ملا کہ جس نے یہ کہا ہو کہ میں نے پاکستان جانا ہے۔ اس لیے غور کرنا چاہیے کہ جن ہاتھوں میںپتھر ہیں، ان ہاتھوںکو یہ پتھر پکڑنے کی طاقت اگر کسی نے دی ہے، تو یہ ہمارے نظام نے دی ہے۔
وزیر اعظم صاحب ان لوگوں کو کب سمجھ میں آئے گا، یا نہیں سمجھ میں آئے گا، مجھے اس پر تشویش نہیںہے۔ میری تشویش ہندستان کے وزیر اعظم نریندرا مودی کو لے کر ہے۔ نریندرا مودی کو تاریخ اگر اس شکل میںدیکھے کہ انھوںنے کشمیر میں ایک بڑا قتل عام کرواکر کشمیر کو ہندستان کے ساتھ جوڑے رکھا، تو وہ آنے والی نسلوں کے لیے بہت افسوس ناک تاریخ ہوگی۔ تاریخ نریندرا مودی کو اس شکل میں پہچانے کہ نریندرا مودی نے کشمیر کے لوگوں کا دل جیتا۔ انھیں ان سارے وعدوں کو پورا کرنے کی یقین دہانی کرائی، جنھیں ۶۰سال سے کشمیریوں کے ساتھ دہرایا جاتا رہا ہے۔ کشمیر کے لوگ سونا نہیںمانگتے ، چاندی نہیںمانگتے، ہیرے نہیںمانگتے، کشمیر کے لوگ عزت مانگتے ہیں۔ وزیر اعظم صاحب، میں نے جتنے طبقوںکی بات کی یہ سب متعلقین (اسٹیک ہولڈر) ہیں۔
فوج کے اس جذبے کو تو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ فوج اپنے ملک کے شہریوں کے خلاف نظم و نسق بنائے رکھنے کی چیز نہیں ہے۔ سیکورٹی فورسز پیلیٹ گن چلاتے ہیں، لیکن ان کا نشانہ کمر سے نیچے نہیں ہوتا ہے، کمر سے اوپر ہوتا ہے، اس لیے دس ہزار لوگ زخمی پڑے ہیں۔ وزیراعظم صاحب، میں کشمیر کے دورے میں ہسپتالوں میں گیا ہوں۔ مجھ سے کہا گیا کہ پانچ ہزار سے زیادہ فوجی زخمی ہوئے ہیں۔ مجھے وہ لوگ پتھروں سے زخمی تو دکھائی دیے،مگر ان کی تعداد کافی کم تھی۔ مگر یہ ’ہزاروں کی تعداد میں زخمی‘ ہونے کے پرچار پرکوئی یقین نہیں کرتا، اور اگر ایسا ہے تو ہم صحافیوں کو ان فوجی جوانوں سے ملوائیے جو ہزاروں کی تعداد میں کہیں زیر علاج ہیں۔ لیکن اس کے برعکس ہم نے اپنی آنکھوں سے زمین پر ایک دوسرے سے بستر شیئر کرتے لوگ دیکھے جو زخمی تھے۔ ہم نے وہاں ان معصوم بچوں کو دیکھا ہے، جن کی آنکھیں چلی گئی ہیں، جو اَب کبھی واپس نہیں آئیں گی۔ لہٰذا، میں یہ خط اس یقین اور جذبے کے ساتھ لکھ رہا ہوں اور جانتا ہوں کہ آپ کے پاس اگر یہ خط پہنچے گا تو آپ اسے ضرور پڑھیں گے اور ہو سکتا ہے کچھ اچھا بھی کریں۔ لیکن مجھے اس میں شک ہے کہ یہ خط آپ کے پاس پہنچے گا،اس لیے میں اسے اپنے اخبار چھوٹی دنیا اخبار میں چھاپ رہا ہوں، تاکہ کوئی تو آپ کو بتائے کہ سچائی یہ ہے۔
وزیراعظم صاحب، کیا کشمیر کے لوگوں کو ممبئی، پٹنہ، احمدآباد اور دہلی کے لوگوں کی طرح جینے یا رہنے کا حق نہیں مل سکتا۔ ’’ہم آرٹیکل ۳۷۰ختم کریں گے‘‘۔ اس کا پرچار پورے ملک میں کر رہے ہیں۔ ہم کشمیریوںکو غیر انسانی رُوپ میں یعنی ظالم اور دہشت گرد کی صورت میں پیش کرنے کا پرچار کررہے ہیں۔ لیکن ہم ملک کے لوگوں کو یہ نہیں بتاتے کہ یہ حکومت ہند ہی کا ایک فیصلہ تھا کشمیر ہمارا کبھی حصہ نہیں رہا اور کشمیر کو جب ہم نے ۱۹۴۷ء میں اپنے ساتھ ملایا ، توہم نے دوفریقوں کے درمیان معاہدہ کیا تھا۔ کشمیر ہمارا آئینی حصہ نہیں ہے، لیکن ہمارے آئینی نظام میں، یہ حق خودارادی (Plebiscite) سے پہلے تک کے لیے آرٹیکل ۳۷۰دیا گیا ہے ۔ وزیراعظم صاحب، کیا یہ نہیں کہا جا سکتا ہم کبھی آرٹیکل ۳۷۰کے ساتھ چھیڑ چھاڑنہیں کریں گے اور ۳۷۰کیا ہے؟ ۳۷۰ یہ ہے کہ کشمیر پر امورخارجہ، فوج اور کرنسی کے علاوہ ہم کشمیر کی حکومت میں کسی طرح کی مداخلت نہیں کریں گے۔
لیکن گذشتہ۶۵برس اس کی مثال ہیں کہ ہم، یعنی دہلی حکومت نے وہاں مسلسل ناجائز مداخلت کی۔ فوج سے کہیے کہ وہ سرحدوں کی حفاظت کرے۔ جو سرحد پار کرنے کی کوشش کرے اس کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرے جیسا ایک دہشت گرد یا دشمن کے ساتھ ہوتا ہے۔ لیکن کشمیر میں رہنے والے لوگوں کو دشمن مت خیال کیجیے۔ کشمیر کے لوگو ں کو اس بات کا رنج اور دُکھ ہے کہ ہندستان میں اتنا بڑا جاٹ احتجاج ہوا، گولی نہیں چلی، کوئی نہیں مرا۔ گوجر احتجاج ہوا، کوئی آدمی نہیں مرا، کہیں پولیس نے گولی نہیں چلائی۔ ابھی کرناٹک میں کاویری اور بنگلور میں اتنا بڑا احتجاج ہوا ، لیکن ایک گولی نہیں چلی۔مگر ایسا کیوں ہے کہ کشمیر میں گولیاں چلتی ہیںاور وہ کیوں کمر سے اوپر چلتی ہیں؟اور کیوں چھے سال کے بچوں کے اُوپر گولی چلتی ہیں؟ وزیراعظم صاحب، چھے سال کا بچہ کیوں ہمارے خلاف ہوگیا؟ وہاں کی پولیس ہمارے خلاف ہے؟
مجھے پوری امید ہے کہ آپ بغیر وقت ضائع کیے کشمیر کے لوگوں کا دل جیتنے کے لیے فوراً اقدام کریں گے اور بغیر وقت ضائع کیے اپنی پارٹی کے لوگوں کو، اپنی حکومت کے لوگوں کو سمجھائیں گے کہ کشمیر کے بارے میں کیسا برتائو کرنا ہے۔ میں ایک بار پھر آپ سے گزارش کرتا ہوں کہ آپ ہمیں جواب دیں یا نہ دیں، لیکن کشمیر کے لوگوں کے دُکھ درد اور آنسو کیسے پونچھ سکتے ہیں، اس کے لیے قدم ضرور اٹھائیے۔
یہ سطور ۲۵ جنوری کو سپرد قلم کی جارہی ہیں۔ آج سے ٹھیک چھے سال قبل مصری دارالحکومت قاہرہ کے میدان التحریر میں لاکھوں عوام نے ۳۰ سال سے جبر کی علامت بنے بیٹھے حسنی مبارک سے نجات کا سفر شروع کیا تھا۔ ۳۰ سال تک مصر اور مصری عوام کی قسمت کا تنہا مالک بنا بیٹھا ڈکٹیٹر ۱۸دن کے ملک گیر دھرنوں کے بعد اقتدار چھوڑنے پر مجبور ہوگیا۔ اس نے اس دوران میں ۸۴۰بے گناہ شہری شہید کردیے،۶ہزار شہری زخمی ہوئے، لیکن عوام کے صبر و ثبات نے بالآخر اس کے تکبر کابت پاش پاش کردیا۔ وہی مصری ٹی وی جو دن رات ڈکٹیٹر کی عظمت کے گن گا رہے تھے، اسے ’مصر کا آخری فرعون‘قرار دیتے ہوئے کہنے لگے کہ ’’اب یہاں کسی کو بے گناہ انسانوں کی کھوپڑیوں پر تخت اقتدار سجانے کی اجازت نہیں دی جائے گی‘‘۔ اس سے تین ہفتے پہلے تیونس کا اکلوتا حکمران زین العابدین بن علی بھی اسی انجام کو پہنچ چکا تھا۔ آٹھ ماہ بعد لیبیا کا کرنل معمر القذافی اور ایک سال بعد یمن کا کیپٹن علی صالح بھی عوامی طوفان کے سامنے نہ ٹھیر سکا۔ قریب تھا کہ۱۹۶۴ء سے شام میں برسرِاقتدار اسد خاندان کی آخری بدترین نشانی بشار الاسد بھی انھی کی طرح عبرت کی مثال اور کوڑے کے اسی ڈھیر کا حصہ بن جاتا، لیکن اسی دوران میں ’بہار‘ کا خواب دیکھنے والے مصری عوام کو ان کے اس جرم کا مزا چکھاتے ہوئے ان پر ایک اور ننگ انسانیت جنرل سیسی مسلط کردیا گیا۔
خونی حکمرانوں سے نجات کے بعد اورخزاں کے اس مسموم طوفان سے پہلے تیونس، مصر، لیبیا اور یمن کے عوام نے ایک نیا اور پُرامن نظام تشکیل دینے کا آغاز کردیا تھا۔ پہلی بار آزاد فضا میں سانس لیتے ہوئے، انتخابات کے ذریعے اپنے حکمرانوں اور اپنے مستقبل کا تعین کرنا شروع کردیا تھا۔ ان چاروں ممالک کی تاریخ میں پہلی بار حقیقی انتخابات منعقد ہوئے۔ تیونس اور لیبیا میں دو (دستور ساز اور پھر مستقل اسمبلی) الیکشن ہوئے، جب کہ مصر میں پانچ بار عام چنائو ہوا۔ چشم عالم نے دیکھا کہ ان تمام انتخابات میں اسلامی تحریک ’الاخوان المسلمون‘ پورے عالمِ عرب کی سب سے بڑی قوت قرار پائی۔
اخوان کی یہ حیرت انگیز کامیابی ہی خطرے کی وہ گھنٹی تھی کہ جس کے بعد ساری عالمی قوتیں اور کئی نادان دوست اس نوخیز بہار کو خوفناک خزاں میں بدلنے پر تل گئے۔ مصری پارلیمنٹ، منتخب صدر، قومی اتفاق راے اور ریفرنڈم کے ذریعے منظور دستور سب کچھ، ہزاروں بے گناہ انسانوں کے خونِ ناحق کے دریا میں غرق کردیا گیا۔ امریکا میں مقیم لیبیا کے ایک سابق فوجی جنرل خلیفہ حفتر کو واپس بلاکر، منتخب حکومت پر فوج کشی کروادی گئی۔ تیونس میں ایک کے بعد دوسرا بحران پیدا کرتے ہوئے اور کئی سیاسی رہنماؤں کا قتل کرکے نومنتخب حکومت کو مفلوج کردیا گیا۔ یمن میں سابق ڈکٹیٹر اور باغی حوثی قبائل کو ڈھیروں اسلحہ اور دولت دے کر دارالحکومت پر چڑھائی کروادی گئی۔ اسلامی تحریک کی کامیابی بظاہر ناکامی میں بدل گئی۔ صرف ان چار ممالک میں۶ ہزار سے زائد فرشتہ صفت کارکنان اور قائدین شہید کردیے گئے۔۵۰ ہزار سے زائد بے گناہ اس وقت بھی جیلوں میں بدترین تشدد کا شکار کیے جارہے ہیں۔ انصاف، حقیقت پسندی اور غیر جانب داری سے جائزہ لیا جائے تو صرف اخوان یا عالم اسلام ہی نہیں، پوری دنیا کو اس مکروہ پالیسی کی قیمت مسلسل چکانا پڑرہی ہے۔
آئے روز عوام کو صبر کی تلقین اور اقتصادی خوشحالی کے سبز باغ دکھانے والے جنرل سیسی کے دور میں مصری عوام کو بد ترین معاشی بدحالی کا سامنا ہے ۔ اربوں ڈالر کی امداد چند مخصوص تجوریوں کی نذر ہو گئی۔ صدر محمد مرسی کے خلاف بغاوت کی گئی تو اس وقت ملکی خزانے میں ۳۳ ؍ارب ڈالر تھے۔ جنرل سیسی کو ۴۰ ؍ارب ڈالر کی مزید امداد دی گئی۔ اس وقت خزانے میں ۱۳؍ارب ڈالر رہ گئے ہیں۔ اب آئی ایم ایف سے ۱۲ ؍ارب ڈالر کا قرض لینے کے لیے مختلف اقدامات کرتے ہوئے عوام پر مزید بوجھ ڈالا جارہا ہے۔ ۲ کروڑ ۱۰ لاکھ میں سے ایک کروڑ ۲۰لاکھ راشن کارڈ ختم کیے جارہے ہیں۔ ادویات کو حاصل سب سڈی ختم کی جارہی ہے۔ صدر مرسی کے دورِ اقتدار میں ایک ڈالر ساڑھے آٹھ مصری پائونڈ کا تھا اب ۱۹ پائونڈ سے زیادہ کا ہو چکا ہے۔ معروف مصری ماہر اقتصاد وائل النحاس نے خبر دار کیا ہے کہ ۲۰۱۷ء میں امریکی ڈالر ۲۴ اور ۲۰۱۸ء میں ۴۱ پائونڈ تک گر سکتا ہے۔ کرنسی کی اس بے وقعتی کے باعث ہر چیز کی قیمت میں ہوش ربا اضافہ ہو چکا ہے۔ روز مرہ کی ضروریات بالخصوص ادویات اور چینی ناپید ہو گئی ہے۔
اخوان پر الزام لگایا گیا تھا کہ انھوں نے اپنے ایک سالہ دور حکومت میں ذرائع ابلاغ پر پابندیاں عائد کر دیں اور صحافیوں کو گرفتار کیا۔ جنرل سیسی کے ’عہد آزادی‘ میں مخالف ذرائع ابلاغ تو کجا وہ نمایاں ترین صحافی بھی قتل ، قید یا فارغ کر دیے گئے جنھوں نے اخوان پر الزامات کے طومار باندھتے ہوئے جنرل سیسی کی تعریفوں میں زمین آسمان کے قلابے ملا دیے تھے۔ باسم یوسف ، ریم ماجد ، جابرالقرموطی، محمود سعد اور توفیق عکاشہ وہ چند نام ہیں، جن کی شکل ہی سے اخوان دشمنی ٹپکتی ہے۔ آج ان سب پر پابندیاں عائد ہیں۔ توفیق عکاشہ کو تو جنرل سیسی نے اپنی نام نہاد اسمبلی کا رکن بھی منتخب کروایا تھا، گذشتہ مارچ میں اس کی رکنیت بھی ارکان پارلیمنٹ کی قرار داد کے ذریعے ختم کروا دی گئی ۔ ایک اور نمایاں خاتون اینکر لمیس الحدیدی کے بیانات آنا شروع ہوگئے ہیں کہ’’ اتنے دبائو کا سامناہے کہ صحافت چھوڑ کر سلائی شروع کرنے کا سنجیدگی سے سوچ رہی ہوں‘‘۔ ان حضرات وخواتین کو ملنے والی اب تک کی سزا تو پھر عارضی و معمولی ہے۔ اپنے ملک وقوم اور خود اپنی ذات پر انھوں نے جو ظلم ڈھائے، اللہ کرے کہ انھیں آخرت میں اس کی سزا نہ بھگتنی پڑے ۔
ظلم وجبر ، معاشی بدحالی اور عمداً پھیلائی جانے والی اخلاقی تباہی کے جو گہرے اثرات معاشرتی زندگی پر مرتب ہو رہے ہیں اس کا اندازہ ۲۴ جنوری ۲۰۱۷ء کو خود جنرل سیسی کے اس خطاب سے لگا لیجیے کہ: ’’مصر میں ہر سال تقریباً ۹لاکھ افراد شادی کرتے ہیں۔ پانچ سال کے بعد ان میں سے ۴۰ فی صد جوڑوں میں طلاق ہو جاتی ہے ‘‘۔ پھر خرابی کی اصل جڑ اور اسباب دُور کرنے کے بجاے عبقری علاج تجویز کرتے ہوئے اور سامنے بیٹھے شیخ الازھر کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’ہم قانون بنا رہے ہیں کہ عقد نکاح کی طرح طلاق دینے کے لیے بھی نکاح خواں کی موجودگی لازمی قرار دے دی جائے‘‘۔ سبحان اللہ ... وہ بات جس کے بار ے میں صاحبِ شریعت صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دار کرتے ہوئے فرمایا کہ مذاق میں بھی طلاق کا لفظ زبان سے نکالا تو وقوع پذیر ہو جائے گی۔ اسے بھی بے لگام کیا اور مذاق بنا یا جا رہا ہے۔ ہزاروں بے گناہوں کے قاتل جنرل کو جواز بغاوت فراہم کرنے والے شیخ الازہر نے اس توہین شریعت پر بھی حسب توقع چپ سادھے رکھی۔
جنرل سیسی ، بشارالاسد ، باغی حوثی قبائل، فرقہ واریت یا دین کی قاتلانہ تعبیر کی بنیاد پر تشکیل دینے والے مسلح گروہوں کی سرپرست قوتیں خدارا اب تو اپنی پالیسی پر نظرثانی کرلیں۔ کیا صرف اخوان دشمنی اور تعصبات و مفادات کے نتیجے میں تشکیل پانے والا آج کا یہ منظرنامہ بہتر ہے یا ایک ایسی دنیا کہ جس میں تمام انسان حریتِ فکر، برابری اور انصاف کے سائے میں مل کر زندگی بسر کرسکتے ہوں؟ کیا بشار اور اس کا خاندان ہمیشہ حکمران اورباقی پوری قوم ان کی غلام رہنے کے لیے ہی پیدا ہوئی ہے ؟ کیا جنرل سیسی مصری فوج کے سربراہ اور وزیر دفاع کی حیثیت سے عوام کے منتخب نظام کے تحت عزت وکامیابی کی منزلیں طے کرتا، تو صرف مصر ہی نہیں پورے خطے کا مستقبل روشن نہ ہو جاتا؟ کیا ۳۳سالہ مکمل اقتدار کے بعد علی صالح اپنے ہی نائب صدر عبد ربہ منصور کی سربراہی میں بننے والی قومی حکومت کو اقتدار سونپ کر ، حوثیوں سمیت پوری قوم کے ساتھ امن وخوش حالی کی زندگی بسر کرتا، تو خود ان سب کی الگ الگ سرپرستی کرنے والے تمام ممالک کے لیے بھی خیر وبرکت کا سبب نہ بنتا؟
کہا جاتا ہے کہ اس ساری تباہی کے پیچھے اغیار کا ہاتھ ہے۔ یقینا اغیار کا ہاتھ تو ہے، لیکن ان سے اس کے علاوہ اور کیا توقع رکھی جا سکتی ہے۔ وہ توپوری دنیا پر اپنے غلام مسلط کرنے کی کوشش کریں گے۔ وہ صرف اخوان یا امت مسلمہ ہی نہیں، خود اسلام کو بھی تباہ کرنا چاہتا ہے۔ وہ سیسی ، بشاراور حوثی کو بھی اسی مقصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ سیسی کی سرپرستی کرنے کے بارے میں امریکی کانگریس میں بحث ہوئی تو مصر میں امریکی سفیر این پیٹرسن (پاکستان میں بھی سفیر رہ چکی ) نے ۱۹ستمبر ۲۰۱۳ء کو کانگریس میں بیان دیا کہ ’’جنرل سیسی پوری طرح امریکی تہذیب کے رنگ میں رنگے ہوئے طبقے سے تعلق رکھتا ہے ۔ پروٹسٹنٹ مسیحی مشنریزکے سربراہ نے اپنے تازہ بیان میں کہا ہے کہ’’جنرل سیسی گذشتہ ڈیڑھ سو سالہ تاریخ میں ان کے لیے سب سے بہتر حکمران ثابت ہوا ہے۔ مصری تجزیہ نگار محمدالہامی کے مطابق ڈیڑھ سو سال قبل مصر میں سعید پاشا نامی وہ حکمران آیا تھا کہ جسے انگریز نے براہ راست اپنی تربیت میں لے کر مصر کے حکمران کے طور پر تیار کیا تھا۔ اس نے وزارت تعلیم کا خاتمہ کرتے ہوئے تمام نمایاں پیشہ وارانہ تعلیمی ادارے بند کردیے۔ تمام تر وسائل پرائیویٹ مغربی تعلیمی اداروں کے لیے وقف کر دیے ۔ اس کا یہ بیان تاریخ کا حصہ ہے کہ ’’عوام پر حکمرانی کا آسان نسخہ یہ ہے کہ اسے جاہل رکھا جائے ‘‘۔ اسی نے نہرسویز پر مغربی اجارہ داری کی راہ کھولی تھی۔ اتفاق دیکھیے کہ آج ۲۱ویں صدی میں جنرل سیسی کا ارشاد بھی یہی ہے کہ ینفع بایہ التعلیم فی وطن ضائع ، ’’اس تباہ حال ملک میں حصول تعلیم بھلا کیا فائدہ دے گا‘‘ ۔ ۱۶-۲۰۱۵ء کی عالمی رپورٹ براے معیار تعلیم میں شامل ۱۴۰ ممالک کی فہرست میں جنرل سیسی کا مصر ۱۳۹ ویں نمبر پر آیا ہے۔ سیکورٹی کونسل میں نئی یہودی بستیوں کی مذمت کے لیے لائی گئی قرار داد کو مصر کی جانب سے واپس لے لیے جانے کے بعد ہی نہیں ، اس سے پہلے بھی صہیونی وزیراعظم نیتن یاہو، تمام اپوزیشن رہنما اور عسکری وفکری قیادت، جنرل سیسی کی تعریف میں درجنوں بیانات دے چکی ہے۔ ان کے بقول اس سورما نے اسرائیل کو درپیش حقیقی خطرے کا ازالہ کرتے ہوئے اخوان حکومت کا خاتمہ کیا۔ صدر ٹرمپ نے بھی حلف اُٹھاتے ہی جن پانچ عالمی سربراہان کو فون کیا ان میں جنرل سیسی اور بھارتی وزیراعظم مودی بھی شامل ہیں۔ اس پر مصری سرکاری ٹی وی پر تبصرے میں کہا گیا کہ’’جنرل سیسی نے دنیا کو اخوان کے خطرے سے بچانے کے لیے جو کام شروع کیا تھا، اللہ نے اب اس کی تکمیل کے لیے ٹرمپ کو بھیجا ہے‘‘۔ ایک طرف اغیار کی طرف سے تعریف و ستایش کے ڈونگرے اور دوسری جانب اربوں ڈالر کے ڈھیر کیا اب بھی کسی کے لیے اصل حقائق جاننا مشکل ہے ؟۔
چھے طویل برس قربانیوں اور اذیت وابتلا میں گزر گئے ، لیکن کیا اسلامی تحریک اور اُمت مسلمہ کی منزل اس سے ہمیشہ کے لیے چھینی جا سکی؟ کیا ۲۰۰۷ء میں معروف امریکی فکری مرکز (RAND)کی یہ سفارشات کہ ’ سیاسی اسلام ‘ کا خاتمہ دنیا کی ترجیح اوّل ہونا چاہیے، خود ان پالیسی سازوں اور اس پر عمل کرنے والوں کو راہِ نجات فراہم کر سکیں ؟ اور کیا اب صدر ٹرمپ کی طرف سے ’انتہاپسند اسلام‘ کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی ’بڑ ‘ دنیا کو امن وترقی سے ہم کنار کر سکے گی ؟ ان اور ان جیسے تمام سوالات کا جواب دو ٹوک نفی میں ہے۔ اکانومسٹ کا یہی اعتراف دیکھ لیجیے کہ’’ ان چھے سال میں عالمِ عرب مزید بدتر ہو گیا لیکن وہاں کے عوام اپنی تباہی کے اصل اسباب سے زیادہ بہتر طور پر باخبر ہو گئے ہیں‘‘۔ ۲۵ جنوری کو شروع ہونے والی تحریک کے چھے برس پورے ہونے پر بلجیم کا ’پولیٹیکو ‘ اعتراف کرتا ہے کہ عوامی انقلاب کبھی ختم نہیں ہوتا ۔ مصری عوام کی جدوجہد بھی منزل تک پہنچ کررہے گی۔ پھر وہ فرانسیسی انقلاب کی مثال دیتے ہوئے کہتا ہے کہ ۱۷۸۹ء میں شروع ہونے والا یہ انقلاب ۱۷۹۹ء میں نپولین کے ہاتھوں سے گزرتا ہوا ۸۰ سال بعد ۱۸۷۰ ء میں ایک مستحکم جمہوری فرانس تشکیل دینے میں کامیاب ہوا۔
ذرا قرآن کریم کے ارشادات پر غور فرمائیے تمام ظالموں اور مظلوموں کا مستقبل واضح ہوجائے گا:
وَ لَا تَحْسَبَنَّ اللّٰہَ غَافِلًا عَمًّا یَعْمَلُ الظّٰلِمُوْنَ (ابراہیم ۱۴:۴۲) اب یہ ظالم لوگ جو کچھ کر رہے ہیں ، اللہ کو تم اس سے غافل نہ سمجھو۔
وَ نُرِیْدُ اَنْ نَّمُنَّ عَلَی الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا فِی الْاَرْضِ وَ نَجْعَلَھُمْ اَئِمَّۃً وَّ نَجْعَلَھُمُ الْوٰرِثِیْنَ(القصص ۲۸:۵) اور ہم یہ ارادہ رکھتے تھے کہ جو لوگ زمین میں ذلیل کر کے رکھے گئے تھے ان پر مہربانی کریں اور اُنھیں پیشوا بنا دیں اور اُنھی کو وارث بنائیں۔
وَ لَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبْدِیْلًا(الاحزاب ۳۳:۶۲) اور تم اللہ کی سنت میں کوئی تبدیلی نہ پائو گے۔
۱۱نومبر ۲۰۰۹ءکی دوپہر ،شعبۂ اُردو ،کشمیر یونی ورسٹی سے کلاسیں لینے کے بعد نمازِظہر کے لیے یونی ورسٹی کی جامع مسجد میں جاکر وضو کے لیے پانی سے ہاتھ بھگوئے ہی تھے کہ یہ خبر گوش گزارہوئی :’’محسنِ ملّت سیّد علی شاہ گیلانی، کشمیر یونی ورسٹی پہنچے ہیںاوربابِ سرسیّد سے اندرآنے کے لیے کھڑے ہیں‘‘۔ شوقِ دیدار تھا،اس لیے تیزی سے وضوکیا اورسرسیّد گیٹ کی طرف تیز تیز چل پڑا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ایسے مخلص قائد تک پہنچنے کے لیے یونی ورسٹی کے طلبہ برق رفتاری سے جارہے تھے۔ طالبات بھی تیزقدموں سے اپنے مُرشد کے دیدارکے لیے جوق درجوق آرہی تھیں۔جوں ہی میںگیٹ پرپہنچا توخوشی اورمسرت کی جگہ حیرت نے لے لی۔ کیمپس میں تعینات پولیس عملے نے سرسیّد گیٹ پرتالا چڑھا رکھاتھا اورقائدانقلاب گیٹ کے دوسری جانب کھڑے تھے۔ اُس روز یونی ورسٹی کا سرسیّد گیٹ بھی لائن آف کنٹرول لگ رہاتھا۔
پولیس سے استفسارکرنے پرمعلوم ہواکہ: ’’یونی ورسٹی انتظامیہ نے گیلانی صاحب کے داخلے پرپابندی لگادی ہے‘‘۔ غم وغصہ فطری تھا۔وہ شخص جوبے لوث قربانیوں کی علامت ہے۔ وہ عظیم ہستی جس نے ہمارے کل کے لیے اپنے آج کوقربان کیا ،غیرت جس کی پہچان ہے، اُس بزرگ ہستی کو نفس کے غلام اپنی ہی مادرعلمی میںآنے سے کیسے روک سکتے ہیں؟ وہ ہستی کہ جن کے لیے صرف کشمیرہی نہیں بلکہ برعظیم پاک و ہند کے کروڑوں دل دھڑکتے ہیں۔ جو نہ جھکا،نہ بکا، نہ ۸۰برس سے زیادہ عمرمیں تھکا،بلکہ ڈنکے کی چوٹ پر کشمیر کے جائز حق کے لیے ہمالہ کی طرح ڈٹا ہوا ہے۔ اُسے قوم کے مستقبل سے ملنے سے روکاجارہا تھا۔ آخرکار صبرکاپیمانہ لبریزہوا اورطلبہ کے غصّے کو دیکھ کر پولیس ہٹ گئی۔ طلبہ نے آگے بڑھ کر بابِ سرسید کوبزورِبازو اس شدت سے ہلایا کہ تالا ٹوٹا اور قائدانقلاب سیّد علی شاہ گیلانی کیمپس میںداخل ہوگئے۔ قائد کے قدموں نے جیسے ہی بابِ سرسیّد عبور کیا، طلبہ کے مضطرب اور پریشان چہروں پرخوشی کی لہردوڑ گئی۔ کوئی ان کے ہاتھوں کوچُوم رہاتھا اورکوئی ان شانوںپر بازو ڈال کے گلے مل رہاتھا، جنھوں نے کئی عشروں سےملّت مظلوم کا بوجھ اُٹھا رکھا ہے۔
’کون کرے گا ترجمانی،سیّدعلی شاہ گیلانی‘کے فلک شگاف نعروں سے کیمپس گونج اُٹھا اور چانکیائی سیاست کے آلۂ کارسہم کررہ گئے۔طلبہ وطالبات کاسیل رواںتھا،جو قائد کے استقبال میں سڑک کے دونوںاطراف آزادی کے حق میں اور بھارت کے جبری تسلط کے خلاف پُرجوش نعرے بازی میںمصروف تھا۔نمازِظہر ادا ہوچکی تھی، اس لیے استقبال میںموجودطلبہ نے مسجد کے باہرہی کھلے لان میں محسنِ ملّت کی امامت میںنمازظہراداکی۔نماز اداہوتے ہی جلوس کی صورت میںاقبال لائبریری کے سامنے پہنچے تو طلبہ کے اصرار پہ گیلانی صاحب نے خطاب فرمایا۔ تب سے اس جگہ کو ’گیلانی اسکوائر‘ (Geelani Square) کہا جانے لگا۔جہاں انھوں نے حق خود ارادیت، اسلام، انسانیت اورحصولِ تعلیم پرزور دیا۔
تقریرکے دوران جناب سیّد علی گیلانی نے ریاستی حکومت کی اُردوزبان سے بے توجہی کی طرف متوجہ کرتے ہوئے اقبال لائبریری کی بلندوبالا عمارت پریونی ورسٹی مونوگرام کی طرف اشارہ کرکے فرمایا:’’میرے بیٹو اور بیٹیو! یہ مونوگرام تین زبانوں میں ہے: عربی ،انگریزی اور دیوناگری، مگراس میں اُردو شامل نہیں ہے، حالاںکہ اُردوریاست میںسرکاری زبان ہے۔ یہ کیسا سنگین مذاق ہے کہ سرکاری دفاتر میںاس زبان کے لیے کوئی جگہ نہیں۔سائنس اور ٹکنالوجی وقت کی ضرورت ہے۔ اس سے لاتعلقی کسی بھی درجے میںقابل قبول نہیں، لیکن ہماری تہذیب ہمارے دینی اُمور کی تشریح،تعمیراخلاق کے اسباق اورہماری تاریخ اُردوزبان ہی میں محفوظ ہیں،مگر غاصب قوتوں کے ریاستی آلۂ کاراُردوزبان کے ساتھ سوتیلی ماں کاسلوک کررہے ہیں۔ اُردوزبان کے ساتھ ان سامراجی قوتوں کایہ رویہ کوئی حیران کن عمل نہیں ہے۔جولوگ اسلاف کے مدفن بیچ کھائیں، اپنے عہدوں کاناجائز فائدہ اُٹھاکر رشوت کے ’کاروبار‘کوفروغ دیں، سبزباغ دکھاکر ریاست کے عوام کااستحصال کریں، ان کے لیے تو اُردو بس ایک زبان ہے۔لیکن وہ یہ بھول رہے ہیںکہ میرؔ کی جگرسوزی، غالبؔ کی رعنائی کلام،سرسیّدکی مساعیِ جلیلہ ، اقبال کاپیغام حُریت و عمل،جوشؔ کا ولولہ انقلاب، فیض کی انقلابی رومانویت اورمولاناسیدابوالاعلیٰ مودودی کا حُسنِ کلام، اُردوزبان کی پشت پرہیں۔یہ زبان سازشوں کی نذرہوگی اورنہ اسے مٹانا آسان ہے‘‘۔
خیال رہے کہ سروسز سلیکشن بورڈ کشمیر(ایس ایس بی) کا اُردو زبان کے حوالے سے مخالفانہ فیصلہ افسوس ناک اور قابلِ مذمت ہےجو اسی استحصالی ذہنیت کی عکاسی ہے۔ ریاست کے محبان اُردوکی کارروائی اور سیّد علی شاہ گیلانی کے بیان نے ایس ایس بی کے اس گمراہ کن اورظالمانہ فیصلے کوردکر دیا۔ ریاستی ادارے گاہے گاہے اُردوزبان کی دُکھتی رگ پرہاتھ ڈالتے رہتے ہیں۔ اُردوزبان کی ترویج وترقی کے لیے متعدد انجمنیں بھی کام کررہی ہیں،لیکن افسوس کہ ان کاوزن یہ لوگ محسوس نہیںکرتے۔ ان انجمنوں کاکام صرف سیمی ناراور مشاعروں کا انعقاد رہ گیاہے اور قومی اداروںسے اس کے عوض بھاری رقمیں بٹور کر لذت کام ودہن حاصل کرناہے ۔یہ لوگ اُردو سے فائدہ تواُٹھاتے ہیں،لیکن اُردو کی حقیقی ترقی کے لیے جدوجہد نہیں کرتے۔ ’محبان اُردو، کی روش یہ ہونی چاہیے کہ وہ ہرممکن طریقے سے تعلیمی اداروں میں اُردو کی تدریس کویقینی بنائیں۔ معاشرے میں اُردو کی تعلیم کے لیے بیداری مہم کو بھرپور تحریک کی شکل دی جائے۔ نئی نسل کے والدین کو حق کی گواہی کے لیے تیار کیا جائے، تاکہ وہ اپنے بچوںکواُردوکی تعلیم لازمی طورپردیں۔ دستوری طورپرہی اُردوکوریاست جموںوکشمیر میںصحیح مقام مل سکتاہے۔ اہل علم کو اس مقصد کے لیے سرجوڑ کر بیٹھناچاہیے، تاکہ اُردو کے حق کوبحال کرنے کے لیے فی الفور سنجیدہ کوششوں کاآغاز کیاجاسکے اورلائحۂ عمل تیارکرکے، اخلاص کے ساتھ اُردو کے حق کی بحالی کی تحریک کو آگے بڑھایا جاسکے۔ بلاتفریق مذہب وملت مقصدکے حصول کے لیے احتجاج کی تمام مثبت صورت اختیارکی جائے۔
اُردوغیرمنقسم ہندستان کی واحدایسی زبان تھی جس میںقانون، فلسفہ،سماجی علوم، سائنس کے مضامین میںاعلیٰ تعلیم دی جاتی تھی۔آج دنیابھر میںاُردو کی نئی نئی بستیاںآبادہورہی ہیں۔ یونیسکو کے ایک جائزے کے مطابق اُردو دنیامیں بولی جانے والی دوسری اورپڑھی جانے والی تیسری زبان ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اُردوکے تحفظ اورفروغ کی ضرورت اوراس کے آئینی حق کے بارے میںحکومتیںغیرسنجیدہ ہیں۔ریاست جموںوکشمیرمیںاُردو کی آئینی حیثیت ایک عرصے سے محض خوش فہمی کا سامان ہے اوربعض کے لیے واویلا مچانے کابہانہ۔
بات سیّد علی گیلانی کی یونی ورسٹی آمد کی ہورہی تھی۔پُرسوزاورمؤثر خطاب کے بعد موصوف اپنی کار میں بیٹھ کر اقبال لائبریری کے گیٹ تک گئے۔منظرقابل دیدتھا۔یہ پہلا موقع تھا کہ یونی ورسٹی کی تاریخ میں جب کسی لیڈر کی گاڑی لائبریری کے گیٹ تک گئی ہو، جب کہ طلبہ واسکالرز اور لائبریری کا عملہ سڑک کے دونوں اطراف ہاتھ اُٹھائے بآواز بلند ہردل عزیز قائد کے حق میں قصیدے گارہا تھا۔ پُرجوش منظر،آبدیدہ چشم،ایساسماں کہ قلم عکس بندی سے قاصر ہے!
گیلانی صاحب لائبریری میں داخل ہوئے۔ لائبریرین سے مختصر گفتگو کے بعد اپنی تصانیف لائبریری کو پیش کیں۔ طلبہ کا جمِ غفیرلائبریری کے باہرلان میں قائد کا منتظر تھا۔ جیسے ہی وہ باہرآئے تو نعرۂ تکبیر کی صدائیں دوبارہ گونجنے لگیں۔گاڑی کوہرطرف سے گھیرا لیا گیا۔ قائد گاڑی کے اندرسے قوم کے بیٹوں اور بیٹیوں کوالوداع کررہے تھے۔ بڑی مشکل سے رومی گیٹ تک گاڑی پہنچی۔ باہر ستم گر خاکی وردی میں ملبوس گاڑی میںمنتظر تھے، اورگیلانی صاحب کوپکڑ کے حسبِ روایت جرمِ بے گناہی میں نامعلوم جگہ پر حبسِ بے جا میں ڈال دیا۔
گیلانی صاحب ایک کثیرالجہات شخصیت ہیں۔تحریک اسلامی کے صف اول کے رہنما، برعظیم کے مؤثر خطیب وشعلہ بیان مقرر، قائد بے بدل ،تاریخ کشمیر کے امین اورمجاہد ملت۔ علاوہ ازیں موصوف فارسی واُردوادب کے شناسابھی ہیں۔ فارسی واُردو اشعار ازبر ہیں۔ان کے کلام کی چاشنی اور اُردوزبان کی حلاوت سامعین کے دلوں کومحظوظ کرتی ہے۔
انھوں نے اپنی کتابوںمیں اُردوادب کی مختلف اصناف کو محفوظ کیا ہے جن میں آپ بیتی، خاکہ، سوانح حیات،خودنوشت سوانح حیات، انشائیہ ،مضمون ،مکتوب نگاری اورسفرنامہ شامل ہیں۔ ادب فنون لطیفہ کی اہم ترین شاخ ہے۔ حُسنِ خیال، موادکی ترتیب اورالفاظ کے موزوںوحسین استعمال کے ذریعے ادب وجود میں آتا ہے۔ غیرافسانوی ادب کی بنیادحقیقت پسندی پررکھی جاتی ہے۔ دنیا کی حقیقتوں، مسائل، تجربات، مشاہدات اوراحساسات کوکہانی کے رنگ کے بغیرپیش کرنا غیرافسانوی ادب کی علامت ہے اورسیّد علی گیلانی کی تحریرات بھی انھی اصولوں پر پورااُترتی ہیں۔
۶۵برس کی عمر کا محمد لطیف خان ضلع راجوری کے ایک دُور دراز علاقے کا رہنا والا شخص ہے۔ اس کے تین بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں۔ ۱۰ کنال اراضی اور ایک مکان اُن کی ملکیت ہے۔ مال مویشیوں کو پہاڑوں پر گھاس چارا کھلا کر اپنی کمائی کا ذریعہ بناتے اور اس طرح گھر کی گزربسر کرتے آرہے تھے۔ محمد لطیف اپنے بچوں کی پڑھائی کے بارے میں لاپروا نہیں تھے۔ اُن کا بڑا بیٹا لکھنؤ یونی ورسٹی میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کررہا تھا۔ ایک بیٹا اور تین بیٹیاں گجرات کے دینی مدارس میں قرآن حفظ کررہے تھے۔ ۲۰۰۶ء میں اس گھر پر آزمایشوں کا سلسلہ اُس وقت شروع ہوگیا، جب محمد لطیف خان کے بڑے بیٹے محمد اسلم خان کو دہلی پولیس کے خصوصی سیل نے لکھنؤ سے گرفتار کرلیا۔ اُنھیں ’دہشت گردی‘ کے متعدد واقعات میں ملوث قرار دے کر تہاڑ جیل میں بند کردیا گیا۔
دہلی میں اُن کے مقدمے کی شنوائی کچھوے کی چال چلتی رہی، تاریخ پہ تاریخ اور یوں برسوں بیت گئے۔ محمد لطیف جس نے کبھی ریاست کشمیر سے باہر قدم نہیں رکھا تھا۔ انھیں اپنے بیٹے تک پہنچنے اور اُن کا مقدمہ لڑنے میں کافی سختیاں جھیلنا پڑیں۔ابھی وہ دلی میں اپنے بڑے بیٹے کی رہائی کے لیے دوڑ دھوپ کرہی رہے تھے کہ اُن کا دوسرا بیٹا گجرات میں گرفتار کرلیا گیا ہے، جسے کئی برسوں سے جیل کی کال کوٹھڑیوں میں تڑپا یا جا رہا ہے اور انجام کا کچھ پتا نہیں۔
محمد اسلم جو تہاڑ جیل میں نظر بند تھا اور دلی میں اُن کا مقدمہ چل رہا تھا، اسے دہلی کی عدالت نے دو برس قبل تمام الزامات سے نہ صرف باعزت بری کردیا بلکہ یہ بھی حکم دیا کہ ’’جن پولیس افسروں نے اس نوجوان کو بے بنیاد الزامات کے تحت گرفتار کیا ہے اُن کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے‘‘۔ بھارتی عدالتی احکامات کی پاس داری کا حال یہ ہے کہ جس دن محمد اسلم کو عدالت نے باعزت بری کردیا اُسی رات اُنھیں رہا کرنے کے بجاے ممبئی پہنچایا گیا، جہاں کسی اور مقدمے میں اُن کا نام پہلے ہی سے درج کیا جاچکا تھا۔ محمد لطیف کا رابطہ یہاں سے ہی اپنے بیٹے کے ساتھ کٹ گیا ، کیونکہ اُن کی رسائی صرف دلی تک تھی۔ دلی سے آگے جانے کے لیے نہ اُن کی مالی حالت اُنھیں اجازت دے رہی تھی اور نہ اُن کے پاس وہاں جانے کے لیے ضروری واقفیت تھی۔ اس لیے اُنھوں نے مجبوراً اپنے بیٹے کو حالات کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا اور گھر واپس لوٹ آئے۔
۸جولائی۲۰۱۶ء کو برہان مظفر وانی اور اُن کے ساتھیوں کی شہادت کے بعد وادی جموں و کشمیر میں محکوموں اور مجبوروں کے جذبات اُبل پڑے۔ ابتر حالات نے ریاست کی پوری آبادی کو بیرونی دنیا سے کاٹ کر رکھ دیا تھا۔ کہاں کیا ہوا؟کس کی زندگی کہاںداؤ پر لگ گئی؟ اِس کے بارے میں کسی کو کچھ معلوم ہی نہیں ہورہا تھا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ جمہوریت کے دعوے داروں نے انٹرنیٹ اور دیگر ذرائع ابلاغ تک بھی کشمیریوں کی رسائی کو قریب قریب ناممکن بنادیا تھا ۔اس کے علاوہ اُن دنوں یہاں ہونے والی قتل غارت گری نے بھی عام باشندوں کو کشمیر کی حدود سے باہر کی دنیا سے لاتعلق کر رکھا تھا۔یہاں کشمیر میں نوجوانوں کے سینے گولیوں سے چھلنی کیے جارہے تھے، بچوں اورعورتوں کو چھرّوں کی بوچھاڑ سے اندھا کیا جارہا تھا اور وہاں محمد اسلم خان کو ممبئی کی عدالت میں جرم بے گناہی کی سزا سنائی جارہی تھی۔ ریاست جموں وکشمیر سے تعلق رکھنے والے اس گمنام نوجوان کو ممبئی کی ایک عدالت نے دیگر چار لوگوں کے ساتھ برہان مظفر وانی کی شہادت کے صرف تین دن بعد فرضی الزامات کے تحت عمرقید کی سزا سنادی ہے۔اُن کی سزا کے بارے میں ریاست جموں و کشمیر میں، اس کے والدین کے علاوہ شاید ہی کسی کو پتا ہوگا۔ اور وہ بھی اس طرح کہ اُن کے والدین پر اُس وقت غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا، جب کسی انجان فرد نے اُنھیں فون کرکے اطلاع دی کہ : ’’آپ کے بیٹے کو عمر قید کی سزا ہوگئی ہے‘‘۔
چند ہفتے قبل جس وقت محمد لطیف خان سے میری ملاقات ہوئی تو اُنھیں یہ تک معلوم نہیں تھا کہ اُن کے بیٹے کو کس مقدمے میںعمر قید کی سزا سنائی گئی اور آج اُنھیں کہاں رکھا گیا ہے؟ اُنھیں ممبئی سے کسی وکیل نے صرف یہ اطلاع دی تھی کہ :’’آپ کے بیٹے کو عمر قید کی سزا ہوئی ہے اور اگر آپ اس سزا کے خلاف اپیل کرنا چاہتے ہیں، تو فوراً ممبئی پہنچ جائیں‘‘۔ میں نے محمد لطیف سے وکیل کا نمبر لیا اور اُن سے بات کی تو معلوم ہوا کہ محمد اسلم اس وقت امرا وتی جیل میں مقید ہیں اور اُنھیں عمر قید کی سزا سنائی جاچکی ہے۔ میں نے سوال کیا: ’’کن الزامات کے تحت سنائی گئی؟‘‘ یہ وکیل صاحب نے مجھے فون پر بتانا مناسب نہیں سمجھا بلکہ کہا:’’آپ لوگوں کو ممبئی آکر ہی مقدمے کے بارے میں پوری تفصیل بتا دی جائے گی‘‘۔ شاید وکیل صاحب اپنے اخراجات ادا ہونے تک مقدمے کی تمام تر تفصیلات بتانا نہیں چاہتے تھے۔
محمد لطیف خان کی درد بھری داستان کا ایک اور تڑپانے والا پہلو بھی ہے۔ اپنے دونوں بیٹوں کی رہائی کے لیے دوڑ دھوپ کرنے کے لیے اُنھوں نے لوگوں سے بہت قرضہ لیاہے، سختیاں جھیلیںہیں، مصائب سہے لیکن کبھی بھی تحریک حق خود ارادیت سے بددل نہیںہوئے۔ اُنھوں نے لوگوں سے قرضہ وصول کرنے کے عوض اپنی دس کنال پر مشتمل کل اراضی گروی رکھی، جس مکان میں رہایش پذیر ہیں وہ بھی قرض داروں کے یہاں گروی ہے۔ اب اُن کی مالی حالت اس قدر پتلی ہوچکی ہے کہ وہ ممبئی جاکر اپنے بیٹے سے ملاقات کرنے کا خواب بھی دیکھنا بھول چکے ہیں۔بقول اُن کے: ’’میں جب دلی اپنے بیٹے کی ملاقات کے لیے جاتا، تو کئی دن تک فاقہ کشی کا شکار رہتا تھا اور فٹ پاتھوں پر سرد و گرم راتیں بسر کرتا تھا‘‘۔ بیٹے کے مقدمے کو دوبارہ کھولنے اور اس کی بے گناہی کو ثابت کرنے کے لیے ضروری قانونی چارہ جوئی کرنے کی نہ اُن میں سکت ہے اور نہ مالی لحاظ سے اس قدر بہتر ی پوزیشن میںہیں کہ وکیل کی فیس اور ممبئی جانے کے اخراجات اُٹھاسکیں۔ ۱۰سال سے اُن کا اسکالر بیٹا جیل کی کال کوٹھڑیوں میں سڑ رہا ہے۔ اُن کی پوری زمین اور مکان قرض داروں کے پاس گروی ہے۔ دوسرے بیٹے پر سزا کی تلوار لٹک رہی ہے۔ اس کے باوجود جب اُن سے بات کرتے ہیں تو صبر و استقامت سے لبریز ہمالیہ جیسی شخصیت اُن کے بوڑھے وجود میں نظر آتی ہے۔
یہ صرف محمد لطیف کی ہی داستانِ اَلم نہیں ہے بلکہ یہ بیرون ریاست درجنوں کشمیری قیدیوں کی داستانِ غم کا صرف ایک ورق ہے۔ ورنہ دل دہلانے والی سیکڑوں مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔
یہ صرف چند مثالیں ہیں، ورنہ ہزاروں کشمیری بیرون ریاست جیلوں میں نہ صرف جسمانی سختیاں جھیل رہے ہیں بلکہ نسلی تعصب کا شکار بھی بنائے جارہے ہیں۔ جیل حکام بھی اُن کے ساتھ دوسرے ملک کے شہریوں جیسا سلوک کرتے ہیں۔ ہندستان کی جیلوں میں قاتلوں، چوروں اور لٹیروںکی عزت وتکریم کی جاتی ہے، اُنھیں ہر طرح کی سہولت فراہم کی جاتی ہے لیکن کشمیر کے پڑھے لکھے سیاسی قیدیوں کی تذلیل ہی نہیں بلکہ اُنھیں ہر حیثیت سے ذہنی طور پر اپاہج اور مریض بنانے کے لیے کام ہورہا ہے۔اُن کی زندگیوں کو اجیرن بنا دیا گیا ہے۔بے بنیاد مقدمات میں پھنسانا اور پھر قانون کے نام پر اُن کے ساتھ مذاق کرنا کشمیر سے باہر قانونی اداروں کا وتیرا بن چکا ہے۔
ظلم و جبر کی چکیوں میں پسنے والے ان مظلوم کشمیری نوجوانوں کو اپنے لواحقین سے کھل کر ملاقات کرنے کی اجازت بھی نہیں دی جاتی ہے۔گذشتہ تین ماہ سے مزید ۱۵ہزار سے زائد کشمیریوں کو جیلوں میں ٹھونس دیا گیا ہے۔آج تک ہمارے ان اسیرانِ ملّت نے کبھی بھی اپنی قوم سے کوئی شکایت نہیں کی، بلکہ یہ لوگ تحریک حق خودارادیت کے لیے اپنی جوانیاں قربان کررہے ہیں، اپنی راتوں کی نیند اور دن کا سکون غارت کررہے ہیں۔ صبر کے پیکر یہ نوجوان ہمارے ہیرو ہیں ۔ یہ ہماری تحریک کا اثاثہ ہیں۔ ان کی قربانیوں کو ہمیں ہر سطح پر اور ہرحال میں یاد رکھنا ہوگا اور اِن قربانیوں کے تئیں ہمیں اپنی ذمہ داریوں کو نبھانا ہوگا۔
بظاہر سمجھا جاتا ہے کہ خطۂ پیرپنجال اور وادیِ چناب شاید تحریک میں پیچھے ہے، لیکن جموں کے ان مسلم اکثریتی علاقوں میں محمد لطیف خان اور اُن کے بیٹے محمد اسلم جیسے قربانی کے مجسمے بھی رہتے ہیں۔ وہ خاموشی کے ساتھ سیاسی حقوق کی باز یابی کے لیے قربانیاں دے رہے ہیں۔ اُن کی یہ قربانیاں نہ لیڈروں کی نظر میں آتی ہیں اور نہ اخبارات کی زینت بنتی ہیں۔ محمد اسلم اور اُن کا پورا گھرانہ اور جیلوں میں مقید ہزاروں کشمیری قیدیوں کی مثال اُن پتھروں کی ہے جو کسی عمارت کو مضبوط بنیاد فراہم کرنے کے لیے زمین کے اندر اپنا وجود ختم کردیتے ہیں۔
یہ نوجوان اپنی زندگی کے قیمتی سال بھارتی تعذیب خانوں میں کاٹ کر تحریک کو بنیاد فراہم کررہے ہیں۔ ان اسیران کے تئیں ملّت کی ذمہ داری ہے کہ اسیران کو قانونی امداد فراہم کرے، اُن کے لواحقین کا خاص خیال رکھے، محمد لطیف خان جیسے لوگوں کے درد کو سمجھے۔ یہ ان مقید افراد پر کوئی احسان نہیں ہوگا بلکہ اپنے اُس فرض کو ادا کرنا ہے جو قرآن مقدس میں اللہ تعالیٰ نے وفی الرقاب کی صورت میں اُن کے لیے مختص کررکھا ہے۔
دنیا نے ظلم پر آنکھیں بند کر رکھی ہیں اور ظالم، ظلم کی آخری حدوں کو چھونے کا کھیل پوری شدت سے جاری رکھے ہوئے ہے۔ آج کے بنگلہ دیش کا ہر دن ظلم کی نئی داستان لیے طلوع ہوتا ہے۔ یوں تو اُس سرزمین پر برپا ظلم کی ان داستانوں کے کئی عنوان ہیں، تاہم یہاں چند پہلو پیش کیے جارہے ہیں:
۱۸؍نومبر کو جماعت اسلامی جمال پور کے ۸۵ سالہ بزرگ رہنما ایس ایم یوسف علی، قید کے دوران ڈھاکا میڈیکل کالج میں انتقال کر گئے۔ یاد رہے کہ چند ماہ قبل انھیں بنگلہ دیشی ٹریبونل نے ’موت تک قید‘ کی سزا سنائی تھی۔
مرحوم یوسف علی ۱۹۷۰ء میں جماعت اسلامی کے جمال پور سے قومی اسمبلی کے لیے اُمیدوار تھے۔ اُن دنوں وہ سنگھ جانی باہمکھی ہائی اسکول جمال پور میں ہیڈماسٹر تھے۔ ۱۹۷۱ء میں سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد بھی وہ مسلسل اسی اسکول میں تعلیمی و تدریسی خدمات انجام دیتے رہے۔ اس پورے زمانے میں ان کے خلاف کبھی کوئی فوجداری یا جنگی جرم کی نہ کوئی بات سنی گئی اور نہ کسی نے ان پر الزام لگایا اور نہ کہیں کوئی معمولی درجے کا مقدمہ ہی درج کیا گیا۔
۲۰۱۳ء میں یوسف علی صاحب کو ۸۲سال کی عمر میں ایک روز انھیں اچانک قید کر کے ڈھاکا سنٹرل جیل میں ڈال دیا گیا اور پھر خانہ زاد مقدمے کے تحت پہلے جنگی ملزم بنایا اور ۲۰۱۶ء میں جنگی مجرم قرار دے کر عمربھر کے لیے قید کی سزا سنا دی گئی۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں ظالموں کی قید سے رہائی دلا دی، انا للّٰہ وانا الیہ رٰجعون۔
اس سے ٹھیک ۲۴ روز قبل اسی طرح کا ایک اور افسوس ناک واقعہ یہ رُونما ہوا کہ ۲۵؍اکتوبر ۲۰۱۶ء کو مسلم لیگ کے ۸۵سالہ سلیمان مُلّا اور اسلامی جمعیت طلبہ کے ۶۵سالہ ادریس علی کے خلاف متنازعہ ٹریبونل میں مقدمہ آخری مرحلے میں داخل ہوا۔ ۲۶؍ اکتوبر کو سماعت شروع ہوئی تو سرکاری وکیل نے ٹریبونل کو آگاہ کیا: ’’مسلم لیگ شریعت پور سے تعلق رکھنے والے امن کمیٹی سے وابستہ ملزم سلیمان مُلّا کا گذشتہ رات جیل میں انتقال ہوگیا ہے۔ جس پر ٹریبونل نے یکم نومبر تک مقدمے کی سماعت ملتوی کردی‘‘۔(ڈیلی اسٹار، ۲۷؍اکتوبر)
اس سے پیش تر بھی بنگلہ دیش کی قاتل حکومت اور سفاک عدالت کے ہاتھوں تین اور رہنما اسی طرح موت کی آغوش میں چلے گئے، جن میں:
بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے ۸۵سالہ بزرگ رہنما عبدالعلیم خان کو ۹؍اکتوبر ۲۰۱۳ء کو ’موت تک قید‘ کی سزا سنائی گئی تھی، وہ پھیپھڑوں کے کینسر کے مریض تھے۔ اسی مرض میں قید کے دوران ۲۹؍اگست ۲۰۱۴ء کو انتقال کرگئے۔
جماعت اسلامی کے بزرگ رہنما اے کے ایم یوسف (پ:۱۹ مارچ ۱۹۲۶ء) کو قید کے دوران مذکورہ ٹریبونل نے ’موت تک قید‘ کی سزا سنائی۔ انھوں نے ۸۷برس کی عمر میں جیل ہی میں ۲فروری ۲۰۱۴ء کو رحلت فرمائی۔
جماعت اسلامی کے سابق امیر اور عالم اسلام کے مایہ ناز فرزند پروفیسر غلام اعظم (پ:۷نومبر ۱۹۲۲ء) کو اس ٹریبونل نے ۱۵جولائی ۲۰۱۳ء کے روز ’موت تک سزاے قید‘ سنائی تھی۔ پروفیسر صاحب نے ۲۳؍اکتوبر ۲۰۱۴ء کو ۹۱برس کی عمر میں دورانِ اسیری انتقال فرمایا۔
دوسری طرف ۲۶؍اکتوبر کو بنگلہ دیشی فورسز اور پولیس نے بہیمانہ کارروائی کرکے ضلع جھیناہدہ سے جماعت اسلامی اور اسلامی چھاترو شبر کے سات کارکنوں کو شہید کر دیا۔ اس طرح گذشتہ چار ماہ کے دوران اسی ضلع سے تحریکِ اسلامی کے ۱۴کارکنوں کو قتل کیا گیا ہے۔ (’BD جماعت‘ ، ۲۷؍اکتوبر ۲۰۱۶ء)
۱۷؍اکتوبر ۲۰۱۶ء کو خفیہ بیلٹ کے ذریعے جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے ۴۰ہزار ارکان نے جناب مقبول احمد کو امیرجماعت منتخب کیا۔ مقبول احمد، فینی کے ایک معروف مقامی اسکول میں بطورِ استاد ذمہ داریاں ادا کرچکے ہیں۔ اُن کے بارے میں والدین، بچوں اور اساتذہ کی راے ہے کہ وہ ایک شریف النفس انسان، متوازن، مشفق عالم اور سراپا معلم ہیں۔ جب امیرجماعت مطیع الرحمٰن نظامی کو حکومت نے قید کر دیا تو جماعت اسلامی کی مجلس شوریٰ نے انھیں چھے برس (۲۰۱۱ء-۲۰۱۶ء) تک بنگلہ دیش جماعت اسلامی کا قائم مقام امیر جماعت مقرر کیا۔
مقبول احمد صاحب جیسے ہی امیرجماعت منتخب ہوئے تو اگلے ہی روز انٹرنیٹ پر کسی نے یہ جملہ اُچھالا: ’’مقبول احمد بھی جنگی مجرم ہیں‘‘۔ پھر رفتہ رفتہ سوشل میڈیا پر جعلی کہانیوں اور جھوٹے الزامات کی ایک طوفانی مہم برپا کر دی گئی اور انھیں ’جنگی جرائم‘ میں گھیرنے کے لیے دائرہ تنگ کیا جانے لگا، حالانکہ ۱۹۷۱ء میں وہ جماعت کے کوئی نمایاں فرد نہیں تھے۔
دل چسپ بات یہ ہے کہ قائم مقام امارت کے پورے چھے برس ہی میں نہیں بلکہ اُس سے پہلے ۱۹۷۱ء سے ۲۰۱۱ء تک مقبول صاحب کو کبھی کسی فوجداری الزام کا سزاوار قرار نہ دیا گیا۔
چونکہ یہ سب کام اس منصوبے کے تحت کیا جارہا ہے کہ جماعت اسلامی کو کسی بھی اعتبار سے قدم جمانے نہ دیے جائیں۔ اس لیے مقبول احمد صاحب کے امیرجماعت منتخب ہونے کے ۲۲ویں روز ’جنگی جرائم کی نام نہاد عدالت‘ کے اسسٹنٹ ڈائرکٹر نورالاسلام نے ضلع فینی کا دورہ شروع کیا۔ یہاں پر جماعت کے مخالف اخبار کی یہ رپورٹ حقیقت کو بے نقاب کرتی ہے: ’’نورالاسلام نے منگل کی سہ پہر سرکٹ ہائوس پہنچ کر جماعت اسلامی کے امیر مقبول احمد کے خلاف ۱۹۷۱ء کے جنگی جرائم کی تلاش کا آغاز کیا‘‘ (ڈھاکا ٹربیون، ۸نومبر ۲۰۱۶ء)۔
پھر عوامی لیگی لیڈر میر عبدالحنان نے پریس کانفرنس سے خطاب میں اعلان کیا:’’ہم مقبول احمد کے خلاف شواہد اکٹھے کر رہے ہیں اور اس کے لیے انٹرنیٹ، اخبارات پر گردش کرنے والی رپورٹوں کو بنیاد بنارہے ہیں‘‘(ڈھاکا ٹربیون، ۱۵نومبر ۲۰۱۶ء)۔سوال یہ ہے کہ اگر اُن پر واقعی ایک نہیں بلکہ ۱۰ہندوئوں کو قتل کرنے کا الزام تھا،تو اس جنگی جرم کے خلاف ۴۶ برس تک کیوں کسی نے آواز نہ اُٹھائی؟ کس فائل میں یہ کیس دبا ہوا تھا، کہ اس کی تلاش کا آغاز پانچویں عشرے میں کیا جارہا ہے؟ مقتولین کے کسی وارث نے کیوں ۴۶برس تک کہیں کوئی رپورٹ درج نہیں کرائی؟ ان سوالوںکا جواب دینے کے بجاے سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر مسلسل یہی پروپیگنڈا کرکے جماعت کی قیادت کو دبائو میں لانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
جنگی جرائم کے مقدمات میں عالمی شہرت کے حامل قانون دان بیرسٹر ٹوبی کیڈمین کا یہ بیان قابلِ توجہ ہے: ’’بنگلہ دیش میں جنگی جرائم کے ٹریبونل اپنے قیام کے پہلے روز سے سیاسی انتقام اور عدل و انصاف کے قتل کی آماج گاہ بنے ہوئے ہیں۔ گذشتہ مہینے بنگلہ دیشی وزیرخارجہ محمدشہریار عالم نے اسٹیٹس پارٹیز کی ۱۵ویں اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا: ’’اب ہمیں جنگی جرائم کے لیے عالمی سطح پر عدالت لگانے کے لیے ماضی کا رواج ترک کر دینا چاہیے، اور ملکی سطح پر ہی ایسے مقدمات چلانے کے رواج کو فروغ دینا چاہیے‘‘۔ یہ بیان عالمی انصاف اور عدالتی روح سے متصادم ہی نہیں بلکہ بنگلہ دیشی حکومت کی بدنیتی آشکارا کرنے کے لیے کافی ہے۔ اسی دوران میں بنگلہ دیشی حکومت کی انتقامی سوچ نے جماعت اسلامی کے نومنتخب امیر مقبول احمد کو بے بنیاد الزامات اور مقدمات کے گرداب میں پھنسانے کا عمل شروع کر دیا۔ وہ ہے بنگلہ دیش کہ جہاں ایک گھنائونے عدالتی ڈرامے میں انصاف کا قتل اور جماعت اسلامی سے انتقام ہرقیمت پر‘‘۔(ہوفنگسٹن پوسٹ، ۲۲نومبر ۲۰۱۶ء)
یہ چیز بھارت کے سیاسی عزائم اور مستقبل بینی کی دلیل ہے، جس میں عالمِ اسلام اور خود پاکستان کے لیے سبق موجود ہے کہ وہ اپنی یونی ورسٹیوں میں بنگلہ دیشی طالب علموں کے لیے وظائف کا اجرا کرکے انھیں اُمت سے جوڑنے کی بامعنی کوشش کریں۔
یہ بے سروپا تحقیق جہاں مذکورہ پروفیسر کی ناقص معلومات کی دلیل ہے، وہیں خود بنگلہ دیش اور بھارت کے مسلمانوں کے خلاف ہندو انتہا پسندوں کو انتقام کا ہتھیار تھمانے کا ذریعہ بھی ہے۔ اس بیان نے بھارت اور بنگلہ دیش میں مسلم ہندو آبادیوں کے مابین تنائو کی فضا پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے، خصوصاً برما کے مسلمان مہاجرین اور آسام میں مسلمانوں کے لیے سخت ناخوش گوار صورتِ حال پیدا ہوگئی ہے۔ یہ ’تحقیق ‘ کمیونسٹ بہی خواہوں کی ذہنی اُپج اور انتشار پروری کی منفرد مثال ہے (مخصوص این جی اوز کی جانب سے وقتاً فوقتاً اسی نوعیت کا پروپیگنڈا سندھ میں ہندو آبادی کے حوالے سے کیا جاتا ہے، اور بھارت میں حقائق جانے بغیر مسلمانوں کو طعنے دیے جاتے ہیں کہ: ’’تم مسلمان پاکستان میں ہندوئوں کو تنگ کر رہے ہو‘‘۔ حالانکہ سندھ میں اس نوعیت کی کوئی فضا نہیں)۔
یہ ’تحقیق‘ اس پس منظر میں اُچھالی گئی ہے کہ ۳۰؍اکتوبر کو برہمن باڑیا اور ناصرنگر میں ہندوئوں کے مندروں پر حملے ہوئے، جن پر پہلے ہی بھارت اور بنگلہ دیش کی ہندو آبادی میں شدید ردعمل پایا جاتا ہے۔ ان افسوس ناک واقعات میں، عوامی لیگی حکومت نے جماعت اسلامی کو ملوث کرنے کی شرانگیز کوشش کی، جسے نہ صرف جماعت اسلامی نے مسترد کیا بلکہ مظلوم ہندوئوں کی بحالی کے لیے کوششیں کیں۔ دوسری طرف ڈھاکا کے ایک میڈیا ہائوس کی تحقیق کے مطابق: ’’برہمن باڑیا اور ناصرنگر میں ہندوئوں کے مندروں میں اور دکانوں پر حملے کا سرغنہ عوامی لیگی ممبر پارلیمنٹ عبدالمقتدر چودھری ہے‘‘۔ (بی ڈی نیوز24، ۱۲نومبر ۲۰۱۶ء)
مذکورہ خبر پڑھ کر بنگلہ دیش کے قیام کو مکتی باہنی کا کارنامہ سمجھنے والوں کو تسلیم کرلینا چاہیے کہ حقیقت کچھ اور تھی۔ دراصل مشرقی پاکستان کو چاروں طرف سے بھارتی فوجی یلغار کا سامنا تھا، اور ان کا مقابلہ پاکستان کے محض ۳۵ہزار جوان کر رہے تھے، جو عملاً آٹھ ماہ سے محصور تھے، جنھیں نہ تازہ کمک حاصل تھی، نہ اسلحے کی وافر کھیپ میسر تھی، بلکہ سفارتی و ابلاغی سطح پر بھارتی اور اشتراکی پروپیگنڈے کی زد میں تھے۔ گذشتہ برس بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی کا ڈھاکا میں یہ اعلان کہ پاکستان توڑنے میں بھارت نے کلیدی کردار ادا کیا، اور بنگلہ دیشی وزیراعظم کی یہ سپاس گزاری کہ: ’’ہم آنجہانی بھارتی فوجیوں کو اعزازت سے نوازیں گے‘‘، اصل کہانی بیان کرتے ہیں۔
یہ تمام پہلو بنگلہ دیش کی قومی اور سماجی زندگی پر چھائےظلم کے گہرے بادلوں کی نشان دہی کرتے ہیں۔ انصاف کے نام پر قتل کی داستانیں سناتے اور محکومی کی زنجیروں کی جھنکارکا پتا دیتے ہیں۔
’’ہمیں اس سے غرض نہیں کہ بلی کا رنگ کالا ہے یا سفید، بس اگر وہ چوہے پکڑ سکتی ہے تو وہ اچھی بلی ہے‘‘___ سابق چینی صدر ڈینگ ژیاؤپنگ کا یہ جملہ بدلے ہوئے چین کا مکمل تعارف پیش کرتا ہے۔ اب وہاں کمیونسٹ نظریے کی بنیاد پر نہیں، صرف اور صرف اقتصادی مقاصد کی بنیاد پر پالیسیاں بنتی ہیں۔ کمیونسٹ پارٹی چین (CPC) کے مضبوط نظام کی ملکی اُمور پر مکمل گرفت ہے۔ اگرچہ سابق صدر نے اسے بھی ایک خاص طرز کا یا چینی طرز کا کمیونزم قرار دیا تھا۔ موصوف نے ماؤزے تنگ کی بنائی ہوئی تقریباً تمام پالیسیوں کو تبدیل کرتے ہوئے کھلی منڈی اور کاروباری مقابلے پر مبنی پالیسی وضع کی۔ اس حوالے سے آج کا چین ایک مکمل تبدیل شدہ چین ہے۔ اب وہ دنیا میں مضبوط ترین اقتصادی قوت بننے کے لیے کوشاں اور اپنی اس کوشش میں بڑی حد تک کامیاب ہے۔ ۲۰۳۰ء اس کے سامنے ایک بڑے اقتصادی سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ ’چین پاکستان اقتصادی راہ داری‘ (CPEC) جیسے کئی منصوبوں پر عمل پیرا ہوکر پوری دنیا سے جڑ جانا چاہتا ہے۔
۲۴؍اکتوبر سے ۲نومبر تک پاکستان کی آٹھ سیاسی جماعتوں کے ذمہ داران پر مشتمل وفد نے حکمران پارٹی کی دعوت پر چین کا سرکاری دورہ کیا۔ ان جماعتوں کے نام ہمارے میزبانوں کی فراہم کردہ فہرست میں رکھی گئی ترتیب کے مطابق یہ ہیں: جمعیت علماے اسلام (ڈپٹی چیئرمین سینیٹ، مولانا عبدالغفور حیدری وفد کے سربراہ تھے)، جماعت اسلامی پاکستان، نیشنل پارٹی، پاکستان مسلم لیگ (ق)، ملّی عوامی پارٹی، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی، پاکستان تحریک انصاف۔ دورے کا ایک مقصد چین میں ہونے والی ترقی، موجودہ رجحانات اور آیندہ منصوبوں کے بارے میں آگاہی دینا تھا۔ وفد کے اکثر شرکا کے لیے یہ امر بھی انتہائی دل چسپی کا باعث تھا کہ دورے کا آغاز مسلم اکثریتی علاقے سنکیانگ کے دارالحکومت ’اُرمچی‘ سے ہورہا تھا۔ اس دورے کے دوران میں دارالحکومت بیجنگ سمیت تین صوبوں کے پانچ شہروں میں جانا ہوا۔ بیجنگ تو پہلے جانے کا موقع مل چکا تھا، لیکن مسلم اکثریتی صوبے سنکیانگ اور اقتصادی ترقی کے اہم مرکز فیوجیان پہلی بار جانا ہوا۔
اُرمچی، سنکیانگ یا شنجیان کا دار الحکومت ہے۔ سنکیانگ کا مطلب ہی ’نیا صوبہ‘ ہے۔ یہ علاقہ کبھی مشرقی ترکستان کہلاتا تھا۔ چینی انتظامی تقسیم کے مطابق اس کی دستوری حیثیت ایک ’خودمختار‘ علاقے کی ہے جو رقبے کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ آبادی کا تناسب انتہائی کم، یعنی اوسطاً صرف ۱۳؍افراد فی مربع کلومیٹر ہے۔ کم آبادی کا یہ تناسب صرف اسی صوبے میں نہیں، چین کے تمام مغربی صوبوں میں یہی کیفیت ہے۔ ایک اندازے کے مطابق مغربی صوبوں میں جو چین کے رقبے کا ۵۰ فی صد سے زائدہیں، صرف ۶ فی صد آبادی بستی ہے،جب کہ مشرقی صوبوں میں ۹۴ فی صد آبادی ہے۔ صنعتی اور تجارتی سرگرمیوں کا مرکز و محور بھی زیادہ تر یہی مشرقی اور جنوب مشرقی صوبے ہیں۔
مسلم اکثریتی علاقہ ہونے کے باعث اُرمچی اور کاشغر وغیرہ شہروں میں سب سے زیادہ مساجد دکھائی دیتی ہیں۔ لیکن ان شہروں کی پہلی جھلک ہی سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ علاقے میں وسیع و عریض تعمیر و ترقی، بلند و بالا عمارتوں اور سڑکوں کے وسیع جال سے، ان کا اصل نقشہ تیزی سے تبدیل ہورہاہے۔ یہاں ہماری پہلی باقاعدہ مصروفیت صوبے میں مذہبی اُمور کے ذمہ دار کی بریفنگ تھی۔ دارالحکومت بیجنگ سے آئے ہوئے حکومتی ذمہ داران کے ساتھ بیٹھ کر انھوں نے اسی نکتے پر زور دیا کہ: ’’اگرچہ چین میں کسی مذہبی شناخت کو اُجاگر نہیں کیا جاتا لیکن تمام علاقوں کے لوگوں کو ان کے مذاہب و روایات کے مطابق زندگی بسر کرنے کا حق حاصل ہے‘‘۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ: ’’علاقے کے مکینوں کو ترقی کے یکساں مواقع فراہم کرنے کے لیے دور دراز علاقوں میں منتقل ہونے اور ملک کے دیگر علاقوں سے سرمایہ کاروں اور ہنرمند افراد کو یہاں آکر بسنے کی ’ترغیب‘ و سہولت دی جاتی ہے‘‘۔ مقامی آبادی میں البتہ اس ’ترغیب‘ کو کئی دُور رس اور کثیر جہتی مقاصد سے تعبیر کیا جاتا ،اور مسلم اکثریتی آبادی کو بتدریج اقلیت میں تبدیل کرنے کا احساس پایا جاتا ہے۔
بریفنگ کے بعد جماعت اسلامی کے وفد(نائب امیر جماعت میں میاں محمد اسلم، نائب قیم جماعت محمد اصغر اور راقم) نے ملاقات میں ان خبروں کی حقیقت کے بارے واضح سوالات کیے، جو وہاں رمضان المبارک میں روزوں اور عمومی طور پر ۱۸سال سے کم عمر بچوں کے مسجد جانے پر پابندیوں کی باتوں پر مشتمل ہیں۔ توقع کے مطابق: ’’انھوں نے ایسی تمام خبروں کی سختی سے تردید کی‘‘۔ ہمارا مقصد بحث نہیں تھا، بلکہ متوجہ کرنا تھا کہ ایسی خبریں کسی طور بھی خود چین کے مفاد میں نہیں ہیں۔
اُرمچی پہنچنے کے پہلے روز ہی رات کے کھانے کے لیے شہر کے وسط میں واقع ایک ’مسلم ریسٹورنٹ‘ لے جایا گیا۔ انتہائی پُرتکلف اور پُرلطف کھانوں والا یہ کئی منزلہ وسیع و عریض ریسٹورنٹ، ایک جامع مسجد کے قریب ہی واقع ہے۔ ہم دوسری منزل پر بیٹھے ایک کے بعد دوسرے آنے والے پکوان سے محظوظ ہورہے تھے کہ اچانک نچلی منزل سے پہلے موسیقی اور پھر بلند آواز میں ساز و سرود کے ساتھ رقص شروع ہوگیا۔ بتانے والوں نے بتایا کہ: ’’ناچ گانے اور اس کے دیگر ’لوازمات‘ کی جتنی بھرمار اس مسلم اکثریتی علاقے میں ہے، شاید چین کے دوسرے علاقوں میں بھی نہیں ہے‘‘۔ مقامی آبادی اور تجزیہ نگار تبصرہ کرتے ہیں کہ: ’’اس علاقے کی اصل شناخت ہی ناچ گانا اور دیگر خرافات کو بنایا جارہا ہے‘‘۔
اُرمچی میں وفد کی اہم ترین مصروفیت ’صوبائی اسمبلی‘کی عمارت میں ڈپٹی سپیکر اور چینی حکمران پارٹی کی سٹینڈنگ کمیٹی کے رکن نعیم یاسین سے ملاقات اور ان کی جانب سے دی گئی ضیافت میں شرکت تھی۔ پاکستان، چین، افغانستان اور وسطی ایشیا کے سنگم پر واقع ہونے کے باعث انھوں نے باہم تعاون و ترقی کے وسیع تر امکانات پر زور دیا۔ بے تکلف مزاج کے حامل میزبان نے انتہائی سلیقے سے سجی کھانے کی میز پر بیٹھ کر مسکراتے لیکن شرمندہ کردینے والے انداز سے کہا: ’’ہم یہاں عام طور پر کھانے کے ساتھ شراب پیش نہیں کرتے، لیکن مہمان وفد میں شریک بعض افراد کے تقاضے پر اس کی پیش کش بھی کی جائے گی‘‘۔
وفد میں شریک سب احباب اس بارے میں تو محتاط اور حساس تھے کہ گوشت اور دیگر کھانوں میں کہیں حرام کی آمیزش نہ ہوجائے۔ ہر کھانے میںمیزبانوں کی جانب سے حلال کھانے کے خصوصی انتظام کے باوجود سب شرکا کھانے کے ساتھ لکھے ناموں کو احتیاط سے پڑھتے تھے۔ کبھی یہ بھی ہو تاکہ صرف سلاد، روٹی، مکئی کے بھٹے اور شکرقندی وغیرہ پر ہی اکتفا کرلیا جاتا۔لیکن دوسری جانب شراب کے جام چڑھا لیے جاتے۔ زیادہ حیرت تو ان احباب پر ہوئی جو نمازوں اور طویل تسبیحات کا اہتمام بھی پورے جوش و جذبے سے کرتے، لیکن اس بدبودار، مہلک، صریح حرام اُم الخبائث کے عشق میں بھی گرفتار رہتے۔ یہاں اس حقیقت کا اعتراف بھی ضروری ہے کہ وفد میں شریک بعض احباب کو دیکھ کر رشک آتا تھا کہ بظاہر تو عام دنیادار انسان لگتے ہیں، لیکن ان کا شاید ہی کوئی لمحہ، دل ہی دل میں ذکر و تسبیح اور درود شریف کے بغیر گزرا ہوگا۔
اُرمچی سمیت یہ پورا علاقہ دنیا کے بہترین میوہ جات کا بھی مرکز ہے۔ اعلیٰ ترین معروف میوہ جات کے علاوہ جو پھل دنیا بھر سے منفرد دیکھا وہ انتہائی صحت مند اور شیریں عناب تھا۔ بڑے بیر کے سائز کا عناب پہلی بار کھایا۔ تازہ بیر بھی ہر جگہ میوہ جات میں شامل تھے، لیکن اُرمچی کے بیروں کی شیرینی انتہائی منفرد تھی۔ قدرتی جمال، شان دار تاریخی ورثہ، اللہ اور اس کے رسول کی محبت میں بے مثال، کمال کے مہمان نواز، قریب ترین ہمسایے، پاکستان سے عقیدت کی حد تک محبت رکھنے والے یہ لوگ ___ سنکیانگ واقعی بہت سے امتیازات رکھتا ہے۔
اگلے روز ایک سفاری پارک دکھانے کااعلان کیا گیا۔ درجۂ حرارت منفی تین تھا۔ اعلان ہوا کہ چونکہ کھلے علاقے میں جانا ہے، اس لیے گرم کپڑوں کا خصوصی انتظام کریں۔ گاڑیاں روانہ ہوئیں تو عین شہر کے وسط میں پُررونق بازاروں کا رخ کیا گیا۔ سفاری پارک اور پُررونق وسیع و عریض تجارتی مراکز؟ کوئی مطابقت سمجھ میں نہ آئی۔ ایک جگہ گاڑیاں رکیں، لفٹ کے ذریعے چوتھی منزل پر لے جایا گیا، وہاں چند راہ داریوں سے گزر کر باہر نکلے تو دنیا بدل چکی تھی۔ کئی کلومیٹر پر پھیلا رقبہ کئی ہزار سال پرانے آثار و اشجار محفوظ کیے ہوئے تھا۔ یہ سفاری پارک واقعی کسی عجوبے سے کم نہیں۔ ہزاروں سال پرانے درخت اب پتھر بن چکے ہیں۔ یہیں پر انتہائی اعلیٰ اور منفرد اقسام کے جانوروں کی پرورش کی جارہی ہے۔ نادر تصاویر اور پینٹنگز کا انتہائی قیمتی سرمایہ محفوظ ہے، جو جمال فطرت کے ساتھ ساتھ، انسانی تاریخ کے مراحل و مناظر بھی قلب و نگاہ پر ثبت کردیتا ہے۔
اُرمچی سے رخصت ہونے سے قبل وہاں کی ایک جامع مسجد اور دینی مدرسے کا دورہ بھی کروایا گیا۔ دراز قامت اور وجیہ صورت مولانا عبدالرقیب صاحب اور ان کے ساتھیوں نے مرکزی دروازے پر وفد کا خیر مقدم کیا۔ استقبالیہ دروازے سے متصل ڈیوڑھی کی دیواروں پر لگے مدرسے کے نئے مجوزہ ماڈل اور موجودہ دروس و اسباق کی تفصیل بتائی۔ انھوںنے بتایا کہ معہد العلوم الشرعیۃ پورے علاقے کا اکلوتا دینی تعلیمی ادارہ ہے، جس میں۲۳۰ طلبہ زیر تعلیم ہیں۔ تعلیم کا بنیادی مقصد ائمہ و خطبا کی تیاری ہے۔ بچیوں کی تعلیم کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ نئی عمارت پر کئی کروڑ خرچ آئے گا، جو حکومت فراہم کررہی ہے۔ بریفنگ کے بعد مدرسے کی عمارت سے متصل مسجد میں گئے۔ کئی شرکا نے وہاں نوافل ادا کیے۔ دوبارہ مدرسے کی عمارت میں آکر ایک کمرئہ جماعت میں لے جایا گیا، جہاں ۳۰ کے قریب بچے تفسیر قرآن پڑھ رہے تھے۔ ایک طالب علم نے بے حد خوش الحانی سے تلاوت سنائی اور دوسرے سے اس روز کا سبق سنا گیا۔ راقم نے مدرسے کے مہتمم کی اجازت سے، وفد کی نمایندگی کرتے ہوئے عربی میں چند کلمات کہے ،دُعائیں دیں اور یاددہانی کروائی کہ آپ سب نے یہاں کی پوری مسلم آبادی کی نمایندگی کرتے ہوئے، علم و کردار کی خوش بُو عام کرنے کا ذریعہ بننا ہے۔ آتے ہوئے سید مودودی علیہ الرحمۃ کی خطبات کا ترجمہ اور کشمیری شال جناب عبدالرقیب صاحب کو پیش کی تو بہت خوش ہوئے۔
چین کی وسعت کا اندازہ لگائیے کہ اُرمچی سے صوبہ فیوجیان کے شہر فوژو گئے تو یہ مسلسل ساڑھے پانچ گھنٹے کی پرواز تھی۔لاہور سے لندن جائیں تو تقریباً سات گھنٹے کی پرواز ہوتی ہے۔ وہاں سے بیجنگ گئے تو مزید ساڑھے تین گھنٹے کی پرواز تھی۔ اُرمچی میں درجۂ حرارت منفی ۳ تھا، جب کہ فیوجیان میں ۲۳ اور بیجنگ میں منفی ایک۔ فیوجیان چین کا اہم تجارتی، صنعتی، ساحلی علاقہ ہے۔ ایک اہمیت اس کی یہ ہے کہ گوادر اور وسطی ایشیا سے منسلک نئی راہ داریاں اور سڑکیں کاشغر اور اُرمچی سے ہوتی ہوئی اسی صوبے تک پہنچ رہی ہیں۔ یہاں بھی مختلف شہروں اور ان کے ذمہ داران کے ساتھ ملاقاتوں اور پُرتکلف ضیافتوں کے علاوہ چند اہم کمپنیوں کا دورہ کروایا گیا۔
مثال کے طور پر گوانزو شہر میں واقع ’سافٹ ویئر پارک‘ ہی کو دیکھ لیجیے۔ اس میں ۲ لاکھ افراد کام کرتے ہیں۔ ۲۰۱۵ء میں اس نے۹۲ء۵؍ ارب ڈالر کا کاروبار کیا ہے۔ منصوبے اور اندازے کے مطابق۲۰۲۰ء میں اسے ۲۵۰؍ ارب ڈالر کی آمدن ہوگی۔ معاشرتی اثرات اس کے تجارتی حجم سے بھی بڑھ کر ہیں۔ یہ کمپنی اپنے مختلف کمپیوٹر پروگراموں اور آلات کے ذریعے پورے معاشرے اور اس کے ہر فرد کی زندگی کنٹرول کرسکتی ہے۔لوگوں کے موبائل فون، ان میں لگے سم کارڈوں اور دیگر کئی طرح کے کارڈوں کے ذریعے یہ لوگ کسی بھی جگہ اور وہاں موجود کسی بھی فرد کے بارے میںمکمل معلومات رکھتے ہیں۔ ان معلومات کی روشنی میں مستقبل سازی کرتے ہیں۔ لوگوں کومختلف سہولتیں فراہم کرتے ہوئے ان کے لیے آسانیاں (اور خدانخواستہ مشکلات) پیدا کرسکتے ہیں۔
سمارٹ فون اب سمارٹ ٹریفک، سمارٹ سیاحت اور سمارٹ تجارت سمیت ہر شعبۂ زندگی کو سمارٹ کررہے ہیں۔ مثلاً انھوں نے بتایا کہ: اس شہر میں نئے سال کے موقعے پر ایک ہفتے میں ۹۸لاکھ ۷۵ ہزار ۷سو ۹۷ افراد نے سفر کیا۔ انھوں نے سفر کیسے کیا، کب کیا، قیام کہاں ہوا، گاڑی کہاں پارک کی، سب معلومات اسی سمارٹ دنیا میں محفوظ ہیں۔ حکمران جماعت کمیونسٹ پارٹی چائنا (CPC) کے ارکان کی تعداد ۸کروڑ ۸۰لاکھ ہے۔ ان تمام ارکان کا ریکارڈ، ان سے رابطہ، ان کے تبادلے بھی اسی سمارٹ دنیا کے ذمے ہے۔ یہ امر بھی دل چسپ تھا کہ ہررکن سے آمدنی کا ۲ء۴فی صداعانت لی جاتی ہے۔ خیال آیا کہ یہ تو ’زکوٰۃ‘ ہوگئی۔ لیکن یہ چندہ صرف صاحب ِ نصاب سے نہیں، ہر رکن سے لیا جاتا ہے۔ دینے کا تکلف بھی نہیں کرنا پڑتا، ’سمارٹ نظام‘ خود ہی منہا کرلیتا ہے۔
کونے میں لگا ایک کیمرا اور اس سے بنائی ویڈیوز کی ایک جھلک دکھاتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ: ’’یہ ۲۵کلومیٹر کے فاصلے پر موجود شخص کی آنکھوں کی حرکت تک ریکارڈ کرسکتا ہے۔ سُبحان اللہ! انسانوں کا بنایا ہوا ایک کیمرہ یہ صلاحیت رکھتا ہے، تو پوری کائنات کامالک کتنا سمیع و بصیر ہوگا۔ اس ذات نے اپنا ایک تعارف یہ کروایا: لَا تُدْرِکُہُ الْاَبْصَارُ ز وَ ھُوَ یُدْرِکُ الْاَبْصَارَ ج (الانعام۶:۱۰۳)’’ اسے کوئی آنکھ نہیں پاسکتی اور وہ ہر آنکھ کا احاطہ کیے ہوئے ہے‘‘۔ گویا وہ تو آنکھوں میں بسے خواب اور دلوں میں جاگزیں خیالات سے بھی مکمل باخبر ہے۔ حیرت ہے دن رات اس کی قدرت کا مشاہدہ کرنے والے ہم انسان اس حقیقت سے بے خبر ہوجاتے ہیں۔ ’’خبردار! کیمرے کی آنکھ دیکھ رہی ہے‘‘ پڑھ کر تو ہم چوکنا ہوجاتے ہیں لیکن ’’خبردار! اللہ تمھیں دیکھ رہا ہے‘‘ کے اعلان پر کان نہیں دھرتے۔
گوانزو پہنچتے ہی تقریباً ایک ہزار سال قدیم، وسیع و عریض جامع مسجد جانے کا موقع ملا۔ پرانی عمارت کے باہر چینی اور انگریزی زبان میں لگی تختی پر لکھا تھا کہ: ’’اس مسجد کا نام مسجدالاصحاب یا مسجد صحابہ تھا جو ’محمدی‘ (ہجری)سال ۴۰۰ میں تعمیر کی گئی تھی‘‘۔ یہ حقیقت بھی اہم ہے کہ دارالحکومت بیجنگ سمیت چین کے تقریباً ہر شہر بلکہ قصبات میں بھی صدیوں پہلے تعمیر ہونے والی مساجد پائی جاتی ہیں۔ اکثر و بیش تر مساجد اسی طرح ہزار سال یا اس سے بھی پرانی ہیں۔ انھیں تعمیر کرنے والے کتنے خوش قسمت تھے کہ خود صدیوں پہلے قبروں میں جا سوئے لیکن، ان کی حسنات آج بھی آباد ہیں۔ قیامت تک اس فصل گل و لالہ میں خوشحالی ہی آتی رہے گی۔ خدانخواستہ کوئی نمازی نہ ہونے کی صورت میں بھی اللہ اکبر کی صدائیں، بندوں سے خالق کا تعارف کرواتی رہیں گی۔
دارالحکومت بیجنگ میں بھی بے حد مصروف وقت گزرا۔ چائنا انسٹی ٹیوٹ براے عالمی اسٹڈیز کے ذمہ داران نے CPEC پر تفصیلی بریفنگ دی۔ اہل پاکستان کی اکثریت جسے صرف ایک سڑک یا بندرگاہ سمجھتے ہیں، وہ بنیادی طور پر پوری دنیا، بالخصوص جنوبی ایشیا کا اقتصادی نقشہ تبدیل کردینے کا ایک جامع منصوبہ ہے۔ اس کے ذریعے چین اور جنوبی ایشیا کے دیگر کئی ممالک، وسطی ایشیا، یورپ اور افریقہ سے براہِ راست منسلک ہوجائیں گے۔ اس پورے منصوبے میں بالآخر ۶۵ممالک شریک یا منسلک ہوجائیں گے۔
یہ صرف چین پاکستان اقتصادی راہ داری ہی نہیں، اس وقت اس طرح کے کئی اور منصوبوں پر بیک وقت عمل ہورہا ہے۔ اسی منصوبے کے تحت اُرمچی اور کاشغر سے چلنے والی مال گاڑی ۱۰ روز کے سفر کے بعد یورپ کا قلب چیرتے ہوئے گزر جائے گی۔ CPEC کے علاوہ ایک اور اقتصادی راہ داری BCIM کے نام سے تعمیر ہورہی ہے جو بنگلہ دیش، چین، بھارت اور میانمار کو باہم مربوط کرے گی۔ کئی راہ داریوں میں سے صرف گوادر بندرگاہ سے کاشغر تک تعمیر ہونے والی ۲ہزار کلومیٹر کی سڑک ہی وہ اکلوتا منصوبہ ہے، جس میں صرف دو ممالک (چین پاکستان) شریک ہیں۔ اس منصوبے میں صرف سڑک ہی نہیں، ریلوے لائنوں بندرگاہوں اور سمندری راستوں کا ایک پورا جال ہے۔ توانائی کے بہت سارے منصوبے مکمل ہونا ہیں۔ اس لیے اسے One Road One Belt کا نام دیا گیا ہے، یعنی ایک سڑک اور کئی راستوں کا جال اسے ایک علاقہ بنا دے گا۔
پاکستان کے لیے اس میں بہت سے اقتصادی مواقع اور امکانات ہیں، جب کہ بھارت اور امریکا پورے منصوبے بالخصوص CPEC کو اپنے لیے ایک چیلنج سمجھ رہے ہیں۔ گوادر بندرگاہ پر کام شروع ہوتے ہی اسے ناکام کرنے کی کوششیں شروع ہوگئیں۔ ان تمام تر رکاوٹوں کے بعد آج یہ بندرگاہ کام شروع کرچکی ہے۔ گوادر اور خطے کی دوسری بندرگاہوں میں موازنے کی ایک جھلک دیکھیے تو اصل حقیقت سامنے آتی ہے۔ گوادر سے ۷۲کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ایرانی بندرگاہ چاہ بہار کی گہرائی۱۱ میٹر ہے اور وہاں ۱۰جہاز بیک وقت لنگر انداز ہوسکتے ہیں۔ ایران کی دوسری قریبی بندرگاہ، بندرعباس ۹ میٹر گہری ہے اور وہاں ۲۴جہاز آسکتے ہیں۔ متحدہ عرب امارات کی بندرگاہ جبل علی ۹میٹر گہری ہے اور ۶۷ جہاز آسکتے ہیں۔ سعودی عرب کی دمام بندرگاہ ۹ میٹر اور ۳۹جہاز، قطر کی دوحہ بندرگاہ ۱۱ میٹر اور ۲۹جہاز، سلطنت آف عمان کی صلالہ بندرگاہ ۱۰میٹر اور ۱۹جہاز، جب کہ گوادر کی بندرگاہ ۱۸میٹر گہری ہے اور یہاں بیک وقت ۱۲۰بحری جہاز لنگر انداز ہوسکتے ہیں۔
اس حقیقت میں شک نہیں کہ اس سارے منصوبے کا زیادہ فائدہ چین ہی کو ہوگا۔ مثلاً اسے اپنا اقتصادی پہیہ چلانے کے لیے درکار تیل کا ۵۱فی صد خلیجی ریاستوں سے درآمد کرنا پڑتا ہے۔ بحری جہاز یہ تیل لے کر بحیرۂ عرب، بحر ہند اور پھر تنگناے ملاکا سے ہوتے ہوئے سوا تین ماہ میں چین کے صنعتی علاقوں میں پہنچتے ہیں۔ CPEC کی تعمیر سے یہ تیل صرف ۲۸دن میں چین پہنچ سکے گا۔ یہی عالم دیگر درآمدی و برآمدی سامان کی نقل و حمل کا ہوگا۔ اپنے اس منصوبے اور ترقی میں چین اپنے تمام تجارتی حصہ داروں کو شریک کرنا چاہتا ہے۔ پاکستان کو وہ ان تمام شرکا میں سرفہرست سمجھتا ہے۔ یہی حقیقت کسی صورت بھارت سے ہضم نہیں ہورہی۔ اس کے دانش وَروں کے بقول اس سے کشمیر پر بھارت کا موقف کمزور پڑجائے گا۔ بھارت کی بنیادی سرمایہ کاری سے بننے والے چاہ بہار وسطی ایشیا تجارتی راستے کو خطرات لاحق ہوجائیں گے۔ وہ علانیہ کہہ رہے ہیں کہ CPEC کو ناکام کرنے کے لیے بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کو مدد دینا ہوگی۔
چین جانے والے وفد میں شریک بلوچستان اور خیبر پختون خواہ میں فعال قوم پرست جماعتوں کے ذمہ داران نے پورے دورے کے دوران میں صرف اسی ایک نکتے پر گفتگو کی: ’’ہمارے ساتھ انصاف نہیں ہورہا۔ منصوبے میں شامل ترقی کے زیادہ تر منصوبے ان دو چھوٹے صوبوں کے بجاے پنجاب میں بنائے جارہے ہیں۔اس نکتے پر پورے وفد کا مکمل اتفاق تھا اور سبھی نے اس پر بات کی کہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں خصوصی فری تجارتی زون اور پیشہ ورانہ تعلیم کے ادارے کھولے جائیں تاکہ اس اہم منصوبے کے ثمرات عام شہریوں اور تمام علاقوں کو حاصل ہوسکیں۔گوادر بندرگاہ اور سڑک بنانے کے لیے وہاں سے اُٹھائے جانے والے غریب شہریوں کو متبادل روزگار اور معقول معاوضہ دیا جائے‘‘۔
اگرچہ اس ساری بحث کا زیادہ تر تعلق ہمارے میزبانوں سے نہیں تھا اور اسے ہماری مرکزی و صوبائی حکومتوں ہی کو باہم گفت و شنید اور انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے حل کرنا ہوگا لیکن یہ موضوع پورے دورے کے دوران غالب رہا۔ آخری روز چین میں پاکستانی سفیر کی جانب سے وفد کے اعزاز میں دیے گئے ظہرانے کے دوران تو بعض احباب کی جانب سے یہ تلخی دوبدو بحث کی صورت اختیار کرگئی۔
یہاں تو پھر ہم اپنے ہی گھر میں بیٹھے تھے، چینی میزبانوں کے سامنے اور ہر مجلس میں یہی بات کرنا بعض اوقات ماحول کو بہت بوجھل بنادیتا تھا۔ ہماری مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو حتمی طور پر اس بدنما بحث کو ختم کرنا ہوگا۔ محروم علاقوں کو مساویانہ ہی نہیں، زیادہ حصہ دینا ہوگا۔ یہ بھی ذہن میں رکھنا ہوگا کہ بعض اوقات احساس محرومی، خود محرومی سے بھی زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کے لیے سب بیٹے برابر تھے۔ آخر ایک نبیؑ سے زیادہ انصاف بھلا کون کرسکتا تھا؟ لیکن احساس محرومی نے خود برادرانِ یوسفؑ سمیت سب کو ہلاکت و اذیت کی راہ پر ڈال دیا۔ اللہ کرے کہ ہم سب ان قرآنی تعلیمات و واقعات کی روشنی میں اپنا مستقبل اور اپنی دنیا و آخرت محفوظ بناسکیں۔
۵۰۰۰ء قبل مسیح کی تاریخ رکھنے والا ’نینویٰ‘ حالیہ عراق کا ایک اہم صوبہ ہے۔ موصل اس کا صدر مقام اور ۴۵۶کلومیٹر پر واقع وفاقی دارالحکومت بغداد کے بعد ملک کا دوسرا بڑا شہر ہے، جو ایک بار پھر عالمی خبروں کا مرکز ہے۔ ۱۷؍ اکتوبر ۲۰۱۶ء سے یہاں گھمسان کی جنگ ہورہی ہے۔ بظاہر اس جنگ میں ایک طرف عراقی افواج، الحشد الشعبی کے نام سے شیعہ رضاکار لشکر، کرد فوج ’بشمرگہ‘ اور ان سب کو مکمل امریکی سرپرستی اور عسکری تعاون حاصل ہے۔ دوسری طرف ۲۰۱۴ء سے اس پر قابض داعش کے جنگ جُو ہیں۔
گذشتہ برسوں کے دوران یہاں کئی لڑائیاں ہوئی ہیں۔ عراقی افواج اپنے اور شیعہ لشکروں کے سوا کسی علاقائی قوت کو کامیاب نہیں دیکھنا چاہتیں۔ داعش خود پر حملہ آور شیعہ لشکروں کے علاوہ مقامی سُنّی آبادی اور صدام حسین کے دست راست عزت الدوری کی قیادت میں قائم نقشبندی لشکر سے بھی برسر پیکار ہے۔ ترکی بھی اپنی سرحد پر ہونے والی اس لڑائی سے لاتعلق نہیں اور عملاً اس میں شرکت چاہتا ہے۔ ایک دوسرے سے دشمنی رکھنے کے باوجود: امریکی، اور عراقی افواج اور دوسری طرف داعش بھی، یعنی یہ تینوں ترکی کو یہاں نہیں دیکھنا چاہتے۔ امریکا ان سب فریقوں کو تادیر باہم خوں ریزی میں مصروف دیکھنا چاہتا ہے۔ اس آگ پر مسلسل تیل چھڑک رہا ہے۔ جنگ کا شکار بے گناہ شہری بن رہے ہیں، جنھیں ہر جانب سے ظلم و ستم اور مہاجرت کا سامنا ہے۔
۲۰۰۳ء میں عراق پر قبضہ کرنے کے بعد امریکا کو جس بھرپور عوامی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، موصل ان میں سرفہرست تھا۔ اس وقت امریکی پالیسی ساز اداروں نے واضح سفارشات پیش کی تھیں کہ عراق اور دیگر علاقوں میں درپیش مزاحمت کا مقابلہ صرف ’اسلام کو تقسیم‘ کرکے ہی کیا جاسکتا ہے۔ Split Islam کے عنوان سے لکھی گئی ان تحریروں کا تعارف کئی بار ترجمان القرآن کے صفحات پر کروایا جاچکا ہے۔ شام، عراق، لبنان اور یمن آج ان ’مغربی سفارشات‘ کی عملی تصویر پیش کررہے ہیں۔
۲۰۱۴ء میں اس پر داعش کا مکمل قبضہ ہوجانے کے بعد خود عراقی پارلیمنٹ نے ایک تحقیقاتی کمیٹی بنائی کہ اس بارے میں حقائق پیش کرے۔ اگست ۲۰۱۵ء میں اس کمیٹی کی رپورٹ سامنے آئی، جس میں کہا گیا تھا کہ سقوط موصل کے اصل ذمہ دار اس وقت کے عراقی وزیراعظم نوری المالکی اور ان کے معاونین تھے۔ کچھ عرصہ قبل الاخوان المسلمون عراق کے سابق سربراہ نے ملاقات میں راقم کو بتایا کہ موصل پر داعش کا حملہ ہوا تو اس وقت وزیراعظم نوری المالکی نے ۱۰ہزار افراد پر مشتمل لشکر کے سامنے وہاں موجود ۷۰ ہزار سے زائد عراقی افواج کو اپنا تمام تر جدید ترین اسلحہ وہیں چھوڑ کر، وہاں سے نکل جانے کا حکم دیا تھا۔ یہی اسلحہ بعد میں داعش کے ہاتھ آیا۔ گذشتہ دوبرس کے دوران کئی بار ایسا ہوا کہ امریکی افواج نے ’غلطی‘ سے مزید جدید اسلحہ داعش کے زیرقبضہ علاقے میں اتار دیا۔ حال ہی میں روتانا الخلیجیۃ ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے، ترک صدر رجب طیب اردوان نے انکشاف کیا ہے کہ شام کے بعض علاقوں کو جب دہشت گردوں سے آزاد کروایا گیا تو وہاں سے کثیر تعداد میں مغربی ممالک کا فراہم کردہ بھاری اسلحہ برآمد ہوا۔ ان کا کہنا تھا: ’’امریکی کہتے ہیں کہ یہ اسلحہ داعش کے مقابلے کے لیے دیا گیا ہے … ہم بھی تو داعش کا مقابلہ کررہے ہیں، آؤ پھر ہم مل کر اس سے لڑیں … ایک دوسرے کو یا خود کو دھوکا دینے سے باز آجانا چاہیے‘‘۔
موصل پر حالیہ حملے کا خوف ناک ترین پہلو اسے شیعہ سُنّی تصادم کی بلندیوں پر پہنچا دینا ہے۔ موصل پر حملے سے کئی ہفتے پہلے الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے تعصبات کے شعلے بھڑکائے جانے لگے۔ موصل شہر کی ۹۰ فی صد سے زائد اکثریت سنی آبادی پر مشتمل ہے۔ داعش نے پوری آبادی کو یرغمال اور اپنی مرضی کا پابند کردیا۔ داعش کے خلاف جنگ کے نام پر عراقی فوج اور الحشد الشعبی کو جو مذہبی غذا فراہم کی گئی، وہ تمام اہل سنت مسلمانوں سے نفرت و انتقام پر مشتمل تھی۔ الحشد الشعبی بنیادی طور پر درجنوں مسلح شیعہ رضاکار گروہوں کے مجموعے کا نام ہے۔ ہر گروہ کسی نہ کسی علاقے میں ’مخالفین‘ کے خلاف کوئی بڑا ’کارنامہ‘ انجام دے چکا ہے۔ ایک گروہ کے سربراہ قیس الخزعلی حملے سے پہلے اپنے کارکنان کو تیار کرتے ہوئے مخاطب ہوتے ہیں: ’’امام حسینؓ کے قاتلوں سے بدلہ لیتے ہوئے کارروائی کرنا ہے‘‘۔ ’’یہ لوگ انھی باپ دادا کی اولاد ہیں جنہوں نے امام (حسینؓ) کو قتل کیا تھا‘‘۔ اس طرح کے اشتعال انگیز ویڈیوز بڑے پیمانے پر پھیلائے جارہے ہیں۔ بوجھل دل کے ساتھ یہاں دیگ کا ایک چاول صرف اس لیے پیش کیا ہے کہ اس مہیب خطرے سے خبردار کیا جاسکے۔ اس تناظر میں یہ اندازہ لگایا جاسکے کہ دوران جنگ اور بعد از جنگ خدانخواستہ قتل و انتقام کیا مہیب صورت اختیار کرسکتے ہیں۔ ۱۷؍ اکتوبر کو موصل پر حملہ شروع ہوا، اسی روز کا برطانوی اخبار دی انڈی پنڈنٹ لکھتا ہے:
After ISIS the future of Mousal will be decided by sactarian forces داعش کے بعد موصل کے مستقبل کا فیصلہ فرقہ پرست قوتیں کریں گی۔
موصل کے قریب واقع شہر ’تلعفر‘ بنیادی طور پر ترکمانی النسل اہل سنت اکثریت پر مشتمل ہے۔ ۲۰۰۵ء اور ۲۰۰۶ء کے دوران یہاں القاعدہ اور شیعہ ملیشیا تنظیموں کے مابین لڑائیاں ہوتی رہیں، جن میں شیعہ ملیشیا کو شکست ہوئی۔ حالیہ حملے کے ساتھ ہی یہ امریکی یقین دہانیاں سامنے آنا شروع ہوگئیں کہ ’تلعفر ‘ کو شیعہ ملیشیا کے سپرد کردیا جائے گا۔ نینویٰ ہی کا ایک اور شہر ’سنجار‘ کرد اکثریت پر مشتمل ہے۔ اس کا ایک حصہ کرد قوم پرست تنظیم PKK اور ایک حصہ داعش کے ہاتھ دے دیا گیا ہے۔ یہ دونوں اسی علاقے سے ترکی کے خلاف اپنی عسکری کارروائیاں کرتے ہیں۔ اس لیے ایک طرف ترکی براہِ راست اور بالواسطہ اس لڑائی میں شریک رہنا چاہتا ہے۔ ترکی کا ایک اہم مقصد موصل میں مذہبی منافرت کو روکنا بھی ہے اور وہ اس کا اظہار بھی کرچکا ہے۔ دوسری جانب عراقی کردستان کی فوج ’بشمرگا‘ اپنی پوری قوت سے حملہ آور ہے۔ کردستان اس جنگ کے ذریعے اپنی مستقل حدود طے کرنا چاہتا ہے۔ امریکا اور روس بھی تمام تر باہمی کھینچا تانی اور بظاہر تنازعات کے باوجود اس جنگ میں ایک ہی ہدف رکھتے ہیں کہ خطے میں اپنے اپنے مہروں کو زیادہ سے زیادہ استعمال کرسکیں۔
اس پورے نقشے پر دوبارہ نگاہ ڈالیں اور پھر مختلف اطراف بالخصوص روس کی طرف سے بار بار تیسری عالمی جنگ چھڑنے کی بات سنیں، اس کی طرف سے اپنے شہریوں کو خبردار رہنے کے اعلانات اور جدید و قدیم بحری بیڑے خطے میں بھیجے جانے کی خبریں سنیں تو حالات کی مزید سنگینی سامنے آتی ہے۔ گذشتہ دونوں عالمی جنگوں کے بعد بھی عالمی قوتوں کا نیا میزانیہ سامنے آیا اور عالم اسلام بالخصوص مشرق وسطیٰ کے حصے بخرے کردیے گئے تھے۔ لاکھوں بے گناہ انسان رزق خاک بنادیے گئے۔ اب ایک بار پھر خطے کی تقسیمِ نو کی باتیں کھلم کھلا ہورہی ہیں۔
۱۷؍ اکتوبر کو موصل پر حملے کا آغاز ہوا اور ۱۸؍ اکتوبر کو دی واشنگٹن ٹائمز نے تجزیہ شائع کیا کہ ۱۰برس قبل امریکی ذمہ دار جوبائیڈن کی طرف سے عراق کو تین حصوں میں تقسیم کرنے پر عمل درآمد کا وقت قریب آن لگا ہے۔ مختلف امریکی تھنک ٹینک تمام مکروہ منصوبے دوبارہ متعارف کروا رہے ہیں کہ عراق کے مغربی علاقے میں ایک الگ ملک بننے کے تمام تر عوامل موجود ہیں۔ تقریباً تمام چوٹی کے امریکی جرائد و رسائل، عراق اور شام میں جاری لڑائی کی کوکھ سے نئے ممالک وجود میں آنے اور ان کی مشکلات و مستقبل کے اثرات کا تجزیہ کررہے ہیں۔ تجزیے ہی نہیں شام اور عراق تو عملاً تقسیم کیے جاچکے ہیں، بس نقشے میں رنگ بھرنا اور تقسیم کے عمل کو خطے کے کئی دیگر ممالک تک پھیلانا باقی ہے۔ بدقسمتی سے یہ رنگ لاکھوں بے گناہ انسانوں کے خون سے بھرا جارہا ہے۔
اسی بارے میں ترک صدر رجب طیب اردوان نے اپنے خطاب میں کہا ہے: ’’ہر وہ ملک جو شامی حکومت اور شام میں موجود دہشت گرد تنظیموں کی مدد کررہا ہے، وہ گذشتہ پانچ برسوں میں قتل کیے جانے والے ۶ لاکھ بے گناہ شہریوں کے خون میں برابر کا شریک ہے۔ اب حالات جس مرحلے تک آن پہنچے ہیں وہ شام کی حدود تک محدود نہیں رہے۔ اب یہ مسئلہ ترکی اور ترک عوام کی بقا کا مسئلہ بن چکا ہے۔ اس لیے ہم نے مصمم ارادہ اور حتمی فیصلہ کیا ہے کہ ہم دہشت گرد تنظیموں کا خاتمہ کرنے کے لیے اپنا فعال کردار ادا کریں گے۔ شامی سرزمین کی وحدت اور اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے کے لیے شامی عوام کے کامل حق کے بارے میں ہمارا واضح موقف ساری دنیا کو معلوم رہنا چاہیے‘‘۔
صدر اردوان کا مزید کہنا تھا کہ: ’’ہم نے شامی علاقے جرابلس کو داعش سے آزاد کروانے کے لیے معتدل شامی اپوزیشن جماعتوں سے تعاون کرتے ہوئے بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ اب تک آزاد کروائے جانے والے علاقوں کے ۴۰ ہزار کے قریب شہری اب وہاں واپس جاچکے ہیں۔‘‘ مغربی سازشوں کے پیچھے اصل ہدف واضح کرتے ہوئے صدر اردوان کا کہنا تھا ’’ان کا اصل مقصد (ہماری سرحدوں سے متصل) ان شامی علاقوں پر قبضہ کرنا اور شمالی شام میں دہشت گردی پر مشتمل ایک کاریڈور بنانا ہے___ ہم کسی صورت اس کی اجازت نہیں دیں گے۔ ہم ترک سرزمین کی سلامتی کو درپیش ہر خطرے کامقابلہ کریں گے۔ترک سرحد سے متصل شام کا ۵ہزار مربع کلومیٹر کا علاقہ وہاں مقیم ہمارے برادر عرب عوام کے لیے پر امن بنانا ضروری ہے۔‘‘
ترکی میں موجود شامی پناہ گزینوں کے حوالے سے مغرب کے دوغلے پن کے بارے میں اردوان کا کہنا ہے: ہم نے ۳۰ لاکھ سے زائد اپنے شامی بھائیوں کو اپنے گھر میں جگہ دی ہے۔ اب تک ہم ان کی خدمت کے لیے سرکاری خزانے سے ساڑھے بارہ ارب ڈالر سے زیادہ خرچ کرچکے ہیں۔ اتنا ہی سرمایہ مختلف ترک رفاہی ادارے خرچ کرچکے ہیں (یعنی ۲۵؍ ارب ڈالر)…لیکن افسوس کہ تمام تر دعووں کے باوجود ساری عالمی برادری نے اب تک صرف ۵۲کروڑ ڈالر خرچ کیے ہیں… حیرت ہے کہ ساری مغربی دنیا اپنی ان انسانی ذمہ داریوں سے راہ فرار اختیار کررہی ہے۔ وہ اپنے ملکوں میں بھی شامی پناہ گزینوں کے لیے خاردار تاریں لگا رہے ہیں لیکن ہم اپنے ان مصیبت زدہ بھائیوں کے لیے کبھی اپنے دروازے بند نہیں کرسکتے‘‘۔
ترک صدر کے خطاب اور انٹرویو سے یہ قدرے طویل اقتباسات حالات کی جامع عکاسی کرتے ہیں۔ فعال کردار ادا کرنے کی انھی کوششوں کی وجہ سے ترکی کو ہر طرف سے مزید دشمنیوں کانشانہ بنایا جارہا ہے۔ عراقی وزیراعظم حیدر العبادی اور ان کے وزرا تو آئے دن دشنام طرازی پر اُتر آتے ہیں۔
شام اور عراق میں روس اور ایران کا موقف بھی ترک پالیسی سے یکسر متصادم ہے، لیکن تمام تر تلخیوں اور اختلافات کے باوجود ترکی نے سفارتی محاذ پر دونوں ملکوں سے بہتر تعلقات استوار کیے ہیں۔ ایران نے بھی ۱۵جولائی کو ترکی میں ہونے والی ناکام بغاوت کی کھل کر مذمت کی ہے۔ بغاوت کی رات ایرانی وزیر خارجہ نے تین بار اپنے ترک ہم منصب سے رابطہ کرتے ہوئے منتخب حکومت کا ساتھ دینے کا اعلان کیا۔ کچھ روز بعد ترک وزیر خارجہ بھی اچانک تہران کے دورے پر چلے گئے۔ اسی طرح روس نے بھی بغاوت کی ناکامی یقینی ہوجانے کے بعد اس کی بھرپور مذمت کی۔ تمام تر اختلافات کے باوجود پیہم رابطوں کا ایک بنیادی سبب ان تینوں ممالک کے مؤثر اقتصادی تعلقات ہے۔
۲۴نومبر ۲۰۱۵ء کو ترک فضائیہ نے اپنی سرحدی حدود کی خلاف ورزی پر روس کا جنگی طیارہ ’سوخو۲۴‘ مار گرایا۔ اس کے بعد ترک روس تعلقات بدترین صورت اختیار کرگئے تھے لیکن دونوں ملکوں کے وسیع اور اہم ترین اقتصادی معاہدے اور منصوبے معلق ہوجانے کے بعد دونوں ملکوں نے بالآخر معاملات کافی حد تک سلجھا لیے ہیں۔ روسی صدر پوٹن اور طیب اردوان کی ملاقاتیں ہوچکی ہیں۔ ترکی کی حتی المقدور کوشش ہے کہ ایران، شام، عراق اور ترکی کے سنگم پر امریکا اور روس کو کوئی ایسا علاقہ قائم نہ کرنے دے جو ان سب ممالک کے مستقبل کے لیے ایک مستقل خطرہ بن جائے۔ دوسری طرف ترکی سے دوستی اور تعلقات قائم کرنے والی کئی قوتیں بہرصورت ترکی کو طویل جنگ کی دلدل میں گھسیٹنا چاہتی ہیں۔ تقریباً ہر روز ترکی کے کسی نہ کسی شہر میں پولیس اور فوجی مراکز پر دھماکے ہوجاتے ہیں۔ ترک معیشت کے اہم ستون سیاحت کو تباہ کرنا عالمی منصوبے کا اہم حصہ ہے۔ اللہ کرے کہ تمام مسلمان ممالک اس حقیقت سے آشنا ہوجائیں کہ دشمن کا ہدف کوئی ایک نہیں سب ممالک ہیں۔
اس ساری لڑائی کا ایک بہت اہم پہلو وہ دینی بحث ہے، جو بعض مخصوص حلقوں میں گہری دل چسپی کا باعث بنتی ہے اور اس موضوع پر مفصل گفتگو کی ضرورت ہے۔ تیسری عالمی جنگ، علاقے کے بعض شہروں اور قصبوں کے ناموں اور ظاہر ہونے والے بعض کرداروں پر آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف فتنوں اور مراحل سے اُمت کو خبردار بھی کیا اور پیشن گوئیاں بھی کی ہیں۔ لیکن یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ آخری عہد کے عظیم ترین فتنوں اور نشانیوں کا اطلاق خود اپنے آپ پر کرتے ہوئے، بہت سے گروہوں اور افراد نے کئی بار خود کو ’خلافت‘ کا امین اور ’امام مہدی‘ تک قرار دے ڈالا ہے۔ اب ایک طرف داعش کا دعواے خلافت دیکھیں اور دوسری جانب صلیبی اور صہیونی طاقتوں کی اس کھلی عیاری کو دیکھیں کہ وہی انھیں تمام اسباب بقا فراہم کرنے والے ہیں، تو ان کے دعووں کی قلعی کھل جاتی ہے۔ صحیح احادیث میں بیان کیے گئے مراحل کی حقیقت کو بدل کر یا کسی غلط فہمی یا ضد کا شکار ہو کر دشمن کے اصل منصوبوں میں معاون بن جانا کسی طور بھی درست قرار نہیں دیا جاسکتا۔
حالیہ دورِ فتن کا ایک بدترین المیہ یہ بھی ہے کہ کئی مسلم ممالک اور عوام پر مسلط کم ظرف حکمران ایک دوسرے کو بلیک میل کرنے کے لیے دشمن کے ہاتھوں استعمال ہورہے ہیں۔ شیعہ سُنّی اور عرب و عجم کی لڑائی کی ایک رذیل مثال گذشتہ دنوں اس وقت سامنے آئی، جب سعودی عرب نے مصر کو مزید اربوں ڈالر دینے سے عارضی معذرت کرلی۔ یہ خبریں سامنے آتے ہی مصر کی شاہراہوں پر ایک پرائیویٹ ٹی وی چینل کی طرف سے جہازی سائز کے کچھ اعلانات اور بورڈ لگا دیے گئے۔ اس اعلان میں ایرانی پیشوا آیت اللہ خامنہ ای کی بڑی سی تصویر ہے، جو اپنی ’سیلفی‘ تصویر بنارہے ہیں۔ ان کے پس منظر میں سعودی دار الحکومت ریاض کے دو نمایاں ترین ٹاور اور کویتی دارالحکومت کی علامت بلند ترین ٹاور دکھائی دے رہے ہیں۔ عرب سفارت کار اس تصویر کی یہ تعبیر کرتے ہیں کہ: ’’اس میں یہ دھمکی دی جارہی ہے کہ ہماری مدد نہ کی گئی تو سعودی عرب اور کویت پر ایران قبضہ کرلے گا‘‘۔ اسی دوران میں شام میں جاری لڑائی کے حوالے سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ایک قرار داد پر راے شماری ہوئی تو حیرت انگیز طور پر مصر نے روس اور ایران کے موقف کے حق میں اور سعودی عرب کے موقف کے خلاف ووٹ دیا۔ اس پر خلیجی ریاستوں اور مصر کے ذرائع ابلاغ میں مسلسل بحث جاری ہے۔
۱۵ جولائی ۲۰۱۶ء کا دن ترک تاریخ میں ایک عظیم الشان دن کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ اس دن ترک فوج کے ایک عنصر نے ترکی کی جمہوری اور دستوری حکومت کے خلاف انقلاب کی ناکام کوشش کی۔ طیب اردوان کے خلاف بغاوت کی ناکامی میں، ان ترک عوام کی کوششوں اور دعائوں کا دخل تھا جو اپنے صدر کی اپیل پر سڑکوں پر نکل آئے۔ ترکی میں مقیم ہی نہیں، دنیا کے کئی ممالک میں ستم رسیدہ عوام صدر طیب اردوان کی حفاظت و کامیابی کے لیے دُعاگو تھے۔ لاکھوں شامی مہاجرین، اہل غزہ و فلسطین، اراکان (برما) و صومالیہ کے مصیبت زدگان، مصر اور بنگلہ دیش میں ظلم کے شکار بے گناہ... غرض جہاں جہاں صدر اردوان کے خلاف بغاوت کی خبریں پہنچیں، لاکھوں نہیں کروڑوں عوام نے ان کی سلامتی اور باغیوں کی شکست کی دُعا کی ۔
بغاوت کی اطلاع ملتے ہی خود صدر اردوان کا پہلا ردعمل بھی دیکھ لیجیے۔ وہ اس وقت ترکی کے جنوبی شہر مرمریس کے ایک ہوٹل میں اہل خانہ کے ہمراہ مقیم تھے۔ انھوں نے اگلے روز وہاں ایک اہم عوامی منصوبے کا افتتاح کرنا تھا۔ ان کے داماد نے انھیں جب بغاوت کی اطلاع دی تو چند بنیادی اور ابتدائی سوالات کرنے کے بعد وہ اُٹھے، وضو تازہ کیا، دور رکعت نماز ادا کی اور بغاوت کا راستہ روکنے کے عمل کا آغازکردیا۔ سرکاری ٹی وی پر قابض باغیوں کی طرف سے ملک میں مارشل لا کے نفاذ کا اعلان پڑھا جاچکا تھا۔ اس اعلان میں کہا گیا تھا کہ ترک مسلح افواج ریاست کا اہم اساسی جزو ہیں۔ یہ ملک قائد عظیم اتاترک کی امانت ہے۔ ہم ملک میں سیکولر نظام ریاست اور جمہوریت لانے کے لیے اور دنیا میں ترکی کی ساکھ بحال کرنے کے لیے ... ایمرجنسی، مارشل لا اور کرفیو نافذ کرنے کا اعلان کررہے ہیں۔ صدر اردوان نے ایک پرائیویٹ ترک چینل کو سکایپ کے ذریعے ۱۲سیکنڈ پر مشتمل پیغام میں فوجی بغاوت مسترد کرتے ہوئے عوام کو مزاحمت کرنے کا کہا اور اپنے صدارتی جہاز کے بجاے ایک چھوٹے پرائیویٹ جہاز میں استنبول کے لیے روانہ ہوگئے۔ خدانخواستہ مزید ۱۵ منٹ کی تاخیر ہوجاتی تو اس ہوٹل پر باغی کمانڈوز کی بم باری کا شکار ہوجاتے۔
استنبول ایئرپورٹ پہنچے تو فضا میں باغیوں کے دو ایف-۱۶ طیارے اُڑ رہے تھے۔ پائلٹ نے کنٹرول ٹاور کو عام پرائیویٹ جہاز کی لینڈنگ کے لیے ہی اجازت چاہی (یہ ساری گفتگو نشر ہوچکی ہے)۔ اسی اثنا میں ایئرپورٹ پر قبضہ کرنے کے لیے آنے والے باغیوں کو عوام اور اسپیشل پولیس فورس کے دستوں نے بے دست و پا کر دیا تھا۔ وہاں پہنچ کر ترک سی این این کو موبائل فون ہی سے فیس ٹائم کے ذریعے انٹرویو دیا___ چہرے پر کامل اعتماد، مختصر جملوں پر مشتمل پُرعزم پیغام! تمام تر خطرات کے باوجود اپنے لیڈر کو اپنے درمیان دیکھ کر ملک کے طول و عرض میں عوام والہانہ طور پر سڑکوں پر نکل آئے۔ ترک فوج کے سربراہ کے بقول ’’صدر اردوان کو استنبول ایئرپورٹ پر اپنے عوام کے ساتھ دیکھ کر باغیوں کے رہے سہے اوسان بھی خطا ہوگئے‘‘۔ باغیوں نے درجنوں شہری ٹینکوں کے نیچے کچل دیے، ہیلی کاپٹروں اور اونچی عمارتوں پر تعینات باغیوں نے فائرنگ سے مزید کئی درجن شہید کردیے۔ بغاوت کا حکم نہ ماننے والے کئی فوجیوں کو ان کے افسروں نے گولیاں مار کر شہید کردیا لیکن عوام کے عزم و حوصلے میں کوئی کمی نہ آئی۔
سڑکوں پر آنے والے ترک عوام فوجی انقلاب کا مطلب سمجھتے تھے۔ وہ طیب حکومت کی برکتوں کا بھی مشاہدہ کررہے ہیں۔ اس لیے جان پر کھیلتے ہوئے گولوں، گولیوں اور ٹینکوں کے سامنے ڈٹ گئے۔ ایک شہری نے کہا کہ میرے مرحوم دادا ہمیشہ خلافت عثمانی کے خاتمے پر آنسو بہایا کرتے تھے۔ میرے والد عدنان مندریس کی شہادت پر اکثر رویا کرتے تھے۔ میں نہیں چاہتا کہ میں اور آیندہ نسلیں طیب اردوان کو یاد کرکرکے آنسو بہاتے رہیں۔
فوجی بغاوت ناکام بنانے والے ترک عوام کو کمال اتاترک کے پہلے فوجی انقلاب کے بعد عوام سے ان کی شناخت چھین لینے سمیت تمام مظالم یاد تھے۔اس کی طرف سے قرآن و اذان پر لگائی گئی پابندی بھی یاد تھی اور پردے و مشرقی لباس کی ممانعت بھی یاد تھی۔ انھیں اتاترک کا یہ خطاب بھی یاد تھا کہ ’’ہمارے وضع کردہ نظام کا ان اصولوں سے کیا موازنہ جو اُن کتابوں میں پائے جاتے ہیں جن کے بارے میں لوگوں کا خیال ہے کہ وہ آسمان سے نازل ہوئی ہیں۔ ہم نے اپنے اصول براہِ راست زندگی سے اخذ کیے ہیں، کسی آسمانی یا غیب پر مبنی تعلیمات سے نہیں‘‘ ۔پارلیمنٹ کا افتتاح کرتے ہوئے کہا: ’’ہم اب بیسویں صدی میں رہتے ہیں۔ ہم دستور سازی کے لیے کسی ایسی کتاب کے پیچھے نہیں چل سکتے جو تین و زیتون کی باتیں کررہی ہو‘‘۔ اتاترک اور اس کا وضع کردہ دستور اب بھی ترکی میں بہت اہمیت رکھتا ہے لیکن اس کے بارے میں ترک عوام کی ایک بڑی اکثریت جو جذبات رکھتی ہے وہ بھی سب پر عیاں ہیں۔ محترم قاضی حسین احمد صاحب سنایا کرتے تھے کہ انھیں حرم میں ایک ترک باباجی ملے، تعارف کے بعد جیب سے ایک ترک نوٹ نکال کر اور اتاترک کی تصویر دکھا کر پوچھنے لگے کہ معلوم ہے یہ کون ہے؟ میں نے کہا کہ ہاں، یہ اتاترک (باباے ترک) ہے۔ باباجی نے پوری شدت سے آخ تھو کرکے نوٹ پر تھوکتے ہوئے کہا :اتاترک نہیں اتاکفر ... اتاکفر!
ترکوں کو ۱۹۶۰ء میں عدنان مندریس کے خلاف فوجی انقلاب بھی یاد ہے۔ عدنان اور ان کے ساتھیوں کو قرآن و اذان کی بحالی کی سزا پھانسی کی صورت میں دی گئی۔ ۱۹۷۱ء اور پھر ۱۹۸۰ء میں بھی یہی فوجی باغی منتخب حکومتیں گرانے میں کامیاب ہوئے۔ ۱۹۸۰ء میں کنعان ایورین نے بھی اپنے پیش رو جرنیلوں کی طرح عوام پر ظلم کے نئے ریکارڈ قائم کیے۔ انقلاب سے پہلے دوسال دہشت گردی کی مختلف کارروائیاں کروائی گئیں جن میں ۵ ہزار سے زیادہ شہری جاں بحق ہوگئے۔ انقلاب کے بعد ساڑھے چھے لاکھ شہری گرفتار کرلیے گئے۔ ۲ لاکھ ۳۰ہزار افراد پر مقدمات چلائے گئے۔ ۵۱۷شہریوں کو پھانسی کی سزا دی گئی۔ ۲۹۹ قیدی دوران حراست تشدد کے نتیجے میں شہید ہوگئے۔ ۱۵ لاکھ افراد کے وارنٹ جاری ہوئے، ۳۰ ہزار سے زائد گرفتاری سے بچنے کے لیے بیرون ملک چلے گئے۔ ۴ ہزار سے زائد اساتذہ اور پروفیسر برطرف کردیے گئے... ان اعداد و شمار کی مزید تفصیل باقی ہے لیکن بنیادی بات یہ ہے کہ فوج نے ہر شہری کو یہ پیغام دیا کہ وہ کمال اتاترک سے ورثے میں ملنے والے سیکولرازم کی حفاظت کے نام پر کسی بھی وقت کچھ بھی کرسکتی ہے۔
صدر مملکت کے منصب پر براجمان رہنے کے بعد کنعان ایورین تو رخصت ہوگئے، لیکن فوج نے بعد میں بھی باقاعدہ انقلاب کے بغیر کئی منتخب حکومتوں کو چلتا کیا۔ منتخب وزیر اعظم پروفیسر ڈاکٹر نجم الدین اربکان کی حکومت ختم کردینے کے علاوہ ان کی جماعت بھی غیر قانونی قرار دے دی۔ ان پر لگائے گئے الزامات میں ایک یہ الزام بھی تھا کہ ’’انھوں نے وزیراعظم ہاؤس میں دعوتِ افطار کا انعقاد کیا جس میں کئی علما داڑھیوں اور ٹوپیوں سمیت شریک ہوئے اور اتاترک کی روح تڑپ اُٹھی‘‘۔ استنبول کے کامیاب ترین میئر رجب طیب اردوان کو اس جرم کی پاداش میں ۱۰ ماہ کے لیے جیل بھیج کر سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے پر پابندی عائد کردی کہ انھوں نے ایک معروف ترک شاعر کی نظم کے چند اشعار ایک جلسۂ عام میں پڑھے تھے کہ یہ مسجدیں ہمارے معسکر ہیں، اس کے گنبد ہماری ڈھالیں اور اس کے مینار ہمارے نیزے ہیں۔
خدا کی قدرت ملاحظہ ہو کہ ۱۸ سال بعد اللہ نے ان اشعار کو حقیقت بنا دیا۔ حالیہ بغاوت کے دوران میں ترکی کی ۸۵ ہزار مساجد سے سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرتے ہوئے آدھی رات کے وقت اذانیں شروع ہوگئیں ... عوام سے میدان میں آنے کی اپیل بھی کی جانے لگی... مسنون دُعائیں بلند ہونے لگیں اور ٹینکوں کے سامنے سینہ تانے شہری ایک ہی سرمدی نغمہ گانے لگے یا اللہ ... بسم اللہ ... اللہ اکبر! خلافت عثمانی کی سطوت کے دوران عثمانی لشکر بھی یہی تکبیر بلند کیا کرتے تھے۔ اسرائیلی روزنامے ھآرٹز کے کالم نگار انشیل پیبر نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا: ’’اس میں شک نہیں کہ انقلاب کی ناکامی میں مساجد کا کردار بہت نمایاں تھا۔ اس سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ آخری فوجی انقلاب کے بعد سے اب تک ترکی کتنا بدل چکا ہے‘‘۔ اللہ کے گھروں اور اللہ کے بندوں کے مابین یہ تعلق گہرا ہوجانے پر ان کے بہت سے مخالفین کا دکھ مزید گہرا ہوگیاہے۔ آج عالم یہ ہے کہ بغاوت کی ناکام کوشش کو دو ہفتے سے زائد گزر گئے، لیکن ترک شہری اب بھی ہزاروں کی تعداد میں رات سڑکوں پر گزارتے ہیں۔ اس دوران میں آیات جہاد و شہادت کی تلاوت ہوتی ہے، پُرعزم تقاریر ہوتی ہیں اور سب شہری اپنے عزائم و ارادوں میں مزید یکسو ہوجاتے ہیں۔
بغاوت کے اس شر سے ایک خیر یہ بھی برآمد ہوا کہ ترکی کی تمام سیاسی پارٹیاں بتدریج یک جا اور یک آواز ہوگئیں۔ مارشل لا کے اعلان، ریاست کے مختلف اہم دفاتر پر قبضے میں ناکامی، صدر اردوان کے پیغام اور عوام کے سڑکوں پر نکل آنے کے ساتھ ساتھ یہ تمام پارٹیاں بھی فوجی بغاوت کے خلاف یکسو اور مضبوط تر ہوتی گئیں۔ ان سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادت کو یہ کریڈٹ بہرحال ملتا ہے کہ انھوں نے عین اس وقت کہ جب ایک طرف باغی فوجی پارلیمنٹ پر راکٹ برسا رہے تھے اور دوسری طرف حکومت نے اسی روز پارلیمنٹ کا اجلاس بلانے کا اعلان کردیا، تو انھوں نے اس میں شرکت کا اعلان کیا اور پھر متفق علیہ قرارداد پاس کرتے ہوئے بغاوت کو مسترد کردیا۔ ۲۴ جولائی کو انقرہ میں سب سیاسی جماعتوں کا بغاوت مخالف مشترک شان دار مظاہرہ ہوا اور ۲۵ جولائی کو تینوں اپوزیشن پارٹیوں کے سربراہ صدر اردوان سے ملاقات کے لیے قصر صدارت گئے۔ تمام تر نظریاتی، سیاسی اور ذاتی اختلافات کے باوجود ان تمام رہنماؤں کا اکٹھے بیٹھنا یقینا ملک و قوم کے لیے باعث خیر و برکت ہوگا۔
حالیہ فوجی بغاوت کو سیاسی رہنماؤں نے ہی نہیں، عسکری قیادت کی واضح اکثریت نے بھی مسترد کردیا۔ سب سے اہم اور سب سے بنیادی انکار تو خود چیف آف آرمی سٹاف جنرل خلوصی آکار کا تھا۔ باغی فوجی جب ان کے پاس اسلحہ تانے پہنچے اور اعلان انقلاب پر دستخط کرنے کا مطالبہ کیا تو انھوں نے انکار کرتے ہوئے انھیں اس حرکت سے باز رکھنے کی کوشش کی۔ باغیوں نے پہلے تو لالچ دیے اور کہا کہ آپ ملک کے دوسرے کنعان ایورین بنا دیے جائیں گے۔ وہ پھر بھی نہ مانے تو ان کا گلا گھونٹتے ہوئے دستخط کروانا چاہے، اس پر بھی نہ مانے تو انھیں گرفتار کرلیا گیا۔ غالب فوجی قیادت کے انکار کے باوجود بھی بغاوت کرنے والوں کی تعداد کم نہ تھی۔ سیکڑوں اعلیٰ فوجی افسر اور ان کی کمانڈ میں کام کرنے والے ہزاروں افراد اس میں عملاً شریک ہوگئے تھے۔ اگرچہ عام افراد کو بغاوت کا علم نہیں تھا اور انھیں مختلف غلط بیانیاں کرکے میدان میں لایا گیا تھا۔ صدر اردوان کو گرفتار کرنے کے لیے جانے والے خصوصی کمانڈو دستے کے اکثر افراد کو صرف یہ بتایا گیا تھا کہ ’’ایک خطرناک دہشت گرد کو گرفتار کرنے جارہے ہیں اور اس کارروائی میں جان بھی جاسکتی ہے‘‘۔
کئی فوجی جرنیلوں نے اپنے قصور کا اعتراف کرلیا ہے۔ ان کے واضح اعترافات سے یہ بحث بھی اپنے عروج پر جا پہنچی کہ بغاوت کے پیچھے کارفرما اصل قوت کون سی ہے؟ ان میں سے ایک اہم اعتراف ڈپٹی چیف آف آرمی سٹاف جنرل لفنت تورکان کا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ ۱۹۸۹ء سے فتح اللہ گولن کی تحریک سے وابستہ ہے اور اس بغاوت کا فیصلہ ہماری اعلیٰ قیادت ہی نے کیا تھا۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل خلوصی نے اٹارنی جنرل کے سامنے اپنے بیان حلفی میں بتایا ہے کہ ’’بریگیڈیئر محمد ڈچلی ان کے پاس آئے اور انقلاب کی خبر دیتے ہوئے اس کا ساتھ دینے کا مطالبہ کیا۔ میں نے انھیں اس کے نتائج و عواقب سے خبردار کرتے ہوئے اس سے باز رکھنا چاہا لیکن وہ نہ مانے۔ چیف نے یہ بھی بتایا کہ انھیں اقنجی ایئربیس پر لے جایا گیا تو ایئربیس کے سربراہ ہاکان (خاقان) افریم نے انھیں ساتھ دینے کی کوشش کرتے ہوئے امریکا میں مقیم فتح اللہ گولن سے فون پر بات کروانے کی بھی پیش کش کی لیکن میں نے انکار کردیا‘‘۔
۱۹۹۸ء سے امریکی ریاست پنسلوینیا میں مقیم جناب فتح اللہ گولن، ان کی جماعت ہزمت (خدمت)، ان کے ادارے رومی فاؤنڈیشن اور دنیا بھر میں پھیلے ان کے عالی شان تعلیمی اداروں کے بارے میں حسن ظن رکھنے والے ایک دور نویس کے لیے یہ ممکن نہیں کہ بغاوت میں ان کے ملوث ہونے یا نہ ہونے پر کوئی حتمی راے دے، لیکن بعض حقائق انتہائی اہم ہیں۔
انتہائی ذمہ دار ترک احباب کے بقول اس امر میں قطعاً کوئی شک نہیں کہ فتح اللہ گولن ایک طویل عرصے سے اہم ملکی اداروں میں اپنا براہِ راست نفوذ بڑھانے کی ہر ممکن کوشش کررہے ہیں۔ ترکی کے ایک سفر کے دوران ہم نے بھی سنا کہ فتح اللہ گولن نے رکوع و سجود کے بغیر نماز پڑھنے کا فتویٰ دے دیا ہے۔ ہم نے ان کے قریبی ساتھیوں سے استفسار کیا تو انھوں نے بتایا کہ چوں کہ سیکولر ترک فوج میںکسی نمازی کو بھرتی ہونے اور ترقی دینے سے پہلے اس کی پیشانی، ٹخنوں اور گھٹنوں پر نماز کے اثرات و نشان چیک کیے جاتے ہیں، اس لیے یہ فتویٰ دیا گیا ہے کہ باقاعدہ رکوع و سجود کے بغیر اشاروں سے نماز پڑھی جاسکتی ہے۔ یہی نفوذ حاصل کرنے کے لیے انھوں نے بظاہر خود کو سیاست سے بالکل الگ رکھا ہے۔ ان کے پیروکاروں میں بارہا یہ سننے کا موقع ملتا ہے کہ أعوذ باللّٰہ من السیاسۃ لیکن عملاً نہ صرف ترکی بلکہ بیرون ترکی بھی سیاست دانوں، صحافیوں اور متمول افراد سے ان کا خصوصی رابطہ رہتا ہے۔ نیوز ایجنسی، اخبارات اور ٹی وی چینلوں سمیت پوری ابلاغیاتی دنیا ہے۔ فعال بنک اور یوتھ ہاسٹلوں کا بڑا جال ہے۔ فتح اللہ گولن صاحب اگرچہ معروف ترک مصلح بدیع الزمان سعید نورسی کا تسلسل سمجھے جاتے ہیں لیکن عملاً نورسی تحریک کا ان سے کوئی تعلق باقی نہیں رہا۔ نورسی تحریک کی وارث وہ دیگر چار تنظیمیں ہیں جو اپنے اندرونی اختلافات کے باعث تقسیم ہوگئیں لیکن ان کی تمام تر سرگرمیاں مرحوم نورسی کے لٹریچر اور افکار و نظریات کی ترویج و اشاعت کے گرد گھومتی ہیں۔
امریکی تھنک ٹینک رینڈ( RAND) نے عالم اسلام کے بارے میں اپنی جو معروف سفارشات شائع کیں، اور ان میں اسلامی تحریکات پر ’سیاسی اسلام‘ کا لیبل لگا کر ان کے مقابلے میں ’صوفی اسلام‘ کی پشتیبانی کرنے کی تجویز دی گئی تھی۔ ان میں بھی فتح اللہ گولن کے بارے میں کہا گیا کہ : ’’یہ ترک دینی رہنما ماڈریٹ صوفی اسلام کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ وہ بحیثیت ریاست نفاذِاسلام کے بجاے، دین کو افراد کی نجی زندگی کا مسئلہ قرار دیتے ہیں جو ریاست و حکومت میں بہت محدود مداخلت کرتا ہے۔ ان کے بقول شریعت اسلامی کا نفاذ ریاست کا کام نہیں، یہ ایک شخصی مسئلہ ہے۔ کسی مخصوص دین کے قوانین تمام شہریوں پر لاگو نہیںکیے جاسکتے‘‘۔ گذشتہ ۱۰ سال سے محصور اہلِ غزہ پر ہونے والے مظالم اُجاگر کرنے اور محصورین کے لیے غذائی سامان اور ادویات لے جانے کے لیے جب ایک ترک امدادی تنظیم عوامی اور صحافتی نمایندوں کو شریکِ سفر کرتے ہوئے فریڈم فلوٹیلا لے کر گئی اور صہیونی فوج نے حملہ کرکے نوترک شہری شہید کردیے تو اس وقت بھی فتح اللہ گولن کا یہ موقف بہت سے لوگوں کے لیے حیرت کا باعث بنا کہ: ’’اسرائیل ہمارا دوست ملک ہے۔ اس کی اجازت کے بغیر اس کی سرحد میں داخلے کی کوشش کرنا ہی نہیں چاہیے تھی۔ ان ترک شہریوں کے قتل کی ذمہ دار ترک حکومت ہے‘‘۔
ان حقائق کے ساتھ ساتھ یہ تلخ حقیقت بھی اہم ہے کہ صدر اردوان گذشتہ کئی سال سے انھیں ترکی میں ایک متوازی ریاست کی حیثیت اختیار کرجانے کا الزام دے رہے ہیں۔ اس حقیقت میں بھی کوئی شک نہیں کہ فتح اللہ گولن تحریک کے زیر اہتمام مختلف امتحانات بالخصوص ملٹری اکیڈیمی کے امتحانات کی تیاری اور پیشہ ورانہ تربیت کے لیے بھی کئی ادارے قائم کیے گئے۔ ذرا ایک بار پھر ڈپٹی چیف آف سٹاف کے اعترافات ملاحظہ فرمائیے۔ جنرل تورکان کہتے ہیں کہ وہ ’’۱۹۸۹ء میں فوج سے وابستہ ہونے کے لیے امتحان کی تیار کررہے تھے۔ میرے اس ارادے اور خواہش کا فتح اللہ گولن کی تحریک کے ساتھیوں کو بھی علم تھا۔ اگرچہ مجھے امتحان میں کامیابی کا یقین تھا، لیکن امتحان سے ایک رات پہلے فوج سے منسلک سردار اور موسیٰ نام کے دو افراد آئے اور مجھے چند سوالات پر مشتمل پرچہ دیتے ہوئے کہاکہ ان کی تیاری کرلو صبح امتحان میں آئیں گے۔ پھر ایسا ہی ہوا اور میں بآسانی اعلیٰ نمبروں سے پاس ہوگیا۔ اس کے بعد اس تحریک کے ذمہ داران سے مسلسل رابطہ رہا‘‘۔
ملٹری اکیڈیمیوں کے امتحان میں شامل ہونے والے افراد میں روابط بڑھاتے ہوئے انھیں پہلے سے سوالات فراہم کرنے کے پورے نظام کے بارے میں عسکری ذرائع کی یہ رپورٹ چشم کشا ہے کہ تقریباً چھے سال قبل یہ پورا نظام بے نقاب ہوا۔ اس کے بعد فوج اور بیوروکریسی ہی کے نہیں، عمومی تعلیمی نظام اور انٹری ٹیسٹ کے نظام میں بھی جوہری تبدیلیاں کردی گئیں۔ رپورٹ کے مطابق امتحان سے قبل مخصوص لوگوں کو سوالات فراہم کرتے ہوئے انھیں اپنے ساتھ ملانے کاپورا نظام ختم ہوا تو عجیب صورت حال سامنے آئی۔ ۲۰۱۰ء ملٹری اکیڈمی کے امتحان میں ریاضیات میں اعلیٰ نمبروں سے پاس ہونے والوں کی تعداد ۱۲۱۴ تھی۔ یہ چور راستہ بند کیا گیا تو ۲۰۱۴ء میں ریاضیات میں پاس ہونے والے صرف دو، ۲۰۱۵ء میں صفر، اور ۲۰۱۶ء میں صرف چار تھے۔ ترک اُمور پر نگاہ رکھنے والے احباب کو اس امتحانی نظام میںتبدیلی کے بعد گولن تحریک کا احتجاج یقینا یاد ہوگا۔
حالیہ ترک ناکام بغاوت کے بعد فتح اللہ گولن صاحب کی شخصیت و افکار کے بارے میں جو بہت سی نئی معلومات سامنے آئیں، ان میں ایک حیرت انگیز بات ان کا اپنے مریدوں کے سامنے خطاب بھی ہے۔ ترک زبان میں اس خطاب کی ویڈیو عربی ترجمے کے ساتھ ترکی سے موصول ہوئی ہے۔ نسبتاً عہد جوانی کے اس خطاب میں وہ انکشاف فرماتے ہیں کہ خواب میں نہیں،عالم کشف میں انھیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی اور انھوںنے ترکی کی نگہبانی میرے سپرد کردی ہے۔ اس انکشاف سے پہلے کینیڈا میں مقیم ایک پاکستانی حضرت صاحب کے جاگتی آنکھوں سے دیکھے جانے والے خواب اور آں حضور کے لیے (نعوذ باللہ) ٹکٹ اور پاکستانی ویزا فراہم کرنے جیسے ناقابلِ برداشت دعوے نہ سنے ہوتے، تو شاید ان کے اس دعوے پر زیادہ حیرت نہ ہوتی۔
ناکام بغاوت کے بعد ہزاروں کی تعداد میں گرفتاریوں پر اردوان کے مخالفین ہی میں نہیں ان کے خیرخواہوں میں بھی ایک فطری تشویش پیدا ہوئی ہے۔ اس بارے میں انتہائی احتیاط کی ضرورت ہے تاکہ کسی بے گناہ کو سزا نہ ملے، نہ چھوٹی موٹی غلطی ہی پر کڑی سزا۔ اگرچہ بے گناہی ثابت ہونے پر اب تک ۱۲۰۰فوجی رہا کیے جانے سے اس تشویش میں قدرے کمی آئی ہے۔ وزیراعظم یلدریم نے بھی یقین دہانی کروائی ہے کہ کسی شہری کو بھی اس کے قانونی دفاع اور حقوق سے محروم نہیں کیا جائے گا۔ خود صدر اردوان کا یہ بیان بھی بہت اہم ہے کہ متوازی ریاست ختم کرنے کا مطلب گولن تحریک کا خاتمہ نہیں۔ ان کا یہ کہنا بھی انتہائی اہم ہے کہ: ’’بغاوت کے پیچھے اصل ہاتھ فتح اللہ گولن اور ان کی تحریک سے کہیں بڑا ہے‘‘۔ ظاہر ہے کہ انقلاب کی خبر آتے ہی تمام امریکی، یورپی، اسرائیلی،روسی اور کئی عرب حکمرانوں اور ذرائع ابلاغ کا لہلہا اُٹھنا بلا سبب تو نہیں ہوسکتا۔ ترک اخبارات نے ۲۴جولائی کو انتہائی باخبر سیکورٹی ذرائع سے ایک تفصیلی خبر شائع کی ہے، جس کے مطابق اس بغاوت کی اصل کمانڈ افغانستان میں ناٹوافواج کے امریکی سربراہ جنرل جان کیمبل کے ہاتھ میں تھی۔ اس نے گذشتہ عرصے میں ترکی کے متعدد دورے بھی کیے اور اس کے ماتحت افسروں نے نائیجیریا کے UBA بنک سے ۲؍ارب ڈالر ترکی منتقل کیے۔ رپورٹ میں ان افسران کے فتح اللہ گولن اور ان کی تنظیم سے روابط پر بھی تفصیل موجود ہے۔اس رپورٹ کی اشاعت کے اگلے روز افغانستان میں متعین دو ترک فوجی جرنل بھی براستہ دبئی فرار ہونے کی کوشش میں گرفتار ہوچکے ہیں۔
آغاز بغاوت کے فوراً بعد انقرہ میں امریکی سفارتخانے نے اپنا جو بیان جاری کیا تھا اس پر اس بغاوت کو ترک انتفاضہ (Turkish Uprising)کا نام دیا گیا۔ ناکامی کے بعد یہ بیان سفارت خانے کی ویب سائٹ سے حذف کردیا گیا، لیکن اس کی تصاویر اور تلخ اثرات کبھی حذف نہیں ہوسکتے۔ وزیر خارجہ جان کیری نے بھی بغاوت کچلے جانے پر اظہار افسوس کرتے ہوئے فرمایا کہ Turkey Coup does not apear to be brilliantly planned or executed۔ گویا آں جناب کو فوجی انقلاب کے منصوبے اور اس پر عمل ناقص رہنے کا غم ہے۔
ڈیموکریٹک پارٹی کے رکن پارلیمنٹ بریڈ شرمین (Brad Sherman)کا ارشاد تھا: ’’اُمید ہے ترکی میں فوجی اقتدار وہاں حقیقی جمہوریت لائے گا‘‘۔ نہتے عوام نے باغیوں کے ارادے خاک میں ملا دیے تو پوری دنیا میں ان خوشی سے بغلیں بجانے والوں پر اوس پڑگئی۔ مشرق وسطیٰ کی مزید تقسیم کے نقشے پھیلانے والے معروف امریکی دانش ور فوکس نیوز پر بلبلا اُٹھے: ’’ترکی میں اسلامسٹس کے بڑھتے اقدام روکنے کی آخری اُمید بھی دم توڑ گئی‘‘۔ لاس اینجلس ٹائمز نے اپنے اداریے کی دھمکی آمیز سرخی جمائی: ’’ترکی میں جمہوریت بچ نکلی لیکن آخر کب تک؟‘‘۔
دوبارہ بغاوت کا خیال بھی دل میں لانے والوں میں اگر ادنیٰ سی عقل بھی ہے، تو انھیں اب کبھی یہ حماقت نہیں کرنی چاہیے۔ صدر اردوان فرشتہ نہیں انسان ہیں۔ انسان غلطیاں کرتا ہے اور کبھی پہاڑ جتنی غلطی بھی کرسکتا ہے۔ لیکن بندوق اور خوں ریزی یقینا مزید خوں ریزی ہی کا سبب بنے گی۔ ملک میں استحکام کے بجاے خوں ریزی اور تباہی کا راستہ اختیار کرنے والوں کی سفاکی کا اندازہ اسی بات سے لگالیں کہ گذشتہ ایک سال کے دوران ترکی میں ۱۵ بڑی خوں ریز کارروائیاں کی گئیں۔ آخری بڑی کارروائی رمضان کے آخری عشرے کی طاق رات میں استنبول ایئرپورٹ پر کی گئی جس میں ۴۲بے گناہ شہری جاں بحق ہوگئے۔ حکومت نے اپنی ترجیحات درست طور پر طے کی ہیں۔ ان کے بجٹ کا سب سے بڑا حصہ تعلیم کے لیے وقف ہے۔ تعلیمی بجٹ دفاعی بجٹ سے دگنا ہونے کا مطلب ہی یہ ہے کہ کسی قوم کا اصل دفاع تعلیم ہی سے ممکن ہے۔ حالیہ بغاوت کے دوران گولیوں کی بارش اور ٹینکوں کے سامنے سینہ تان کر کھڑی ترک قوم نے حقیقی جہاد کو ایک نئی جہت عطا کی ہے۔
مصر کے منتخب اور قانونی صدر محمد مرسی کی صاحبزادی شیما مرسی بتاتی ہیں: ۳۰ جون ۲۰۱۳ء کو جب جنرل سیسی اور اس کے حواری ایک سالہ مصری جمہوریت پر شب خون ماررہے تھے، رات گئے چند لمحوں کے لیے والد محترم اپنی رہایش گاہ میں آئے۔ ہم سب اہل خانہ وہاں جمع تھے۔ ان پر تھکاوٹ غالب تھی۔ میں نے شدت جذبات سے کہا: ابو یہ مصری قوم اس قابل ہی نہیں ہے کہ آپ جیسا خدا سے ڈرنے والا اور باصلاحیت شخص ان کا حکمران بنے۔ آپ ان کے لیے اللہ کی ایک نعمت تھے، انھوں نے کفران نعمت کیا۔ انھیں فرعون حکمران ہی راس آتے ہیں۔ یہ اسی قابل ہیں کہ ایک بار پھر ڈکٹیٹر شپ کے شکنجے میں کس دیے جائیں، جو ان سے ان کے منہ کا نوالہ، ان کی زندگی اور ان کا قومی سرمایہ چھین لے۔ شیما کہتی ہیں: ابو میری بات سن کر سخت ناراض ہوگئے اور کہا :آیندہ کبھی ایسی بات زبان پر نہ لانا۔ مصری عوام تو بے چارے خود مظلوم ہیں۔ انھیں سالہا سال سے محروم رکھا گیا ہے۔ ایک ظالم اور جابر ٹولہ کئی عشروں سے ان پر مسلط ہے اور ان کی بوٹیاں نوچ رہا ہے۔ ان پر ناراض نہ ہوں۔ پھر قدرے توقف کے بعد کہا:آپ میری وجہ سے پریشان نہ ہوں۔ مجھے اپنی نہیں، خود مصری عوام کی فکر ہے کہ اگر انھوں نے ظلم قبول کرلیا، ملک کے خلاف ہونے والے اس جرم اور ظلم پر خاموش رہے تو ان کا انجام جو ہوگا اس کا تصور کر کے میں لرز جاتا ہوں۔
باپ بیٹی کا یہ مکالمہ آج مصر کی ایک تلخ ترین حقیقت ہے۔ تین برسوں میں مصری عوام پر فرعون سیسی نے وہ مظالم ڈھائے ہیں، جو شاید اس سے پہلے کسی جابر حکمران نہیں ڈھائے تھے۔ پورا ملک جیل خانے میں بدل چکا ہے۔ ۴۲ ہزار بے گناہ مستقل قیدیوں کے علاوہ ایک لاکھ کے قریب افراد مختلف اوقات میں جیلوں میں جا چکے ہیں اور گرفتاریوں کا یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ حکومتیں اپنے ترقیاتی منصوبوں کے ریکارڈ بناتی ہیں، جنرل سیسی کی حکومت ملک میں سب سے زیادہ اور سب سے بڑی جیل تعمیر کرنے کا ریکارڈ قائم کررہی ہے۔ سیسی بغاوت کے وقت مصر میں ۳۳ جیل خانے تھے، جو گذشتہ ۳ سال میں ۵۲ ہوچکے ہیں۔ ان میں اس وقت زیر تعمیر قاہرہ اسیوط روڈ پر واقع مصر کی سب سے بڑی جیل بھی ہے جس کا رقبہ ۴ لاکھ ۳۲ ہزار ۶ سو میٹر ہے اور اس پر ۹۰ملین پاؤنڈ کا خرچ آرہا ہے۔ ۳۸۲ قید خانے اور سیکڑوں خفیہ تعذیب گاہیں ان جیلوں اور تھانوں پر مستزاد ہیں۔
تعذیب و تشدد کے نتیجے میں ۳۸۱ افراد دوران حراست شہید کیے جاچکے ہیں۔ مختلف اجتماعات اور پروگرامات پر براہِ راست فائرنگ کے نتیجے میں چار ہزار سے زائد نہتے شہری شہید کیے جاچکے ہیں۔ نام نہاد عدالتیں ملک کے منتخب صدر، متعدد وزرا اور اخوان کے مرشد عام اور اسمبلی کے اسپیکر سمیت ۲ہزار افراد کو موت کی سزا (پھانسی) سناچکی ہیں۔
گرفتار شدگان میں ۱۸ برس سے کم عمر کے ۳۲۰۰ بچے بھی شامل ہیں اور انھیں ناقابل یقین سزائیں سنائی جاچکی ہیں۔ ۱۷ فروری ۲۰۱۶ء کو تو مصری عدالت نے انصاف کا ایک انوکھا ریکارڈ قائم کردیا۔ ساڑھے تین سالہ بچے احمد منصور قرنی کو ۱۱۵ مزید افراد کے ساتھ مل کر مصری خفیہ ایجنسی کے ہیڈ کوارٹر پر ہلہ بولنے کے الزام میں عمر قید کی سزا سنادی۔ عدالت کے فیصلے کے مطابق: احمدقرنی نے اخوان کے ایک مظاہرے میں شریک ہوکر چار افراد کو قتل اور آٹھ افراد کو شدید زخمی کردیا جس سے ان کی موت واقع ہوسکتی تھی۔ اس نام نہاد عدالت عالیہ کا یہ بے نظیر فیصلہ آنے سے پہلے، بچے کے وکلا نے اس کے برتھ سرٹیفکیٹ سمیت دستاویزات پیش کرتے ہوئے استدعا کی کہ تین سال پانچ ماہ کا یہ بچہ کیوں کر ایسے سنگین جرائم کرسکتا ہے؟ لیکن عدالت نے ایک نہ سنی۔ ’المرصد المصری‘ نامی قابل اعتماد ریسرچ سنٹر کے مطابق جنرل سیسی کے ابتدائی ۱۰۰ دنوں میں ۱۲ بچوں کو براہِ راست فائرنگ سے شہید کردیا گیا تھا، اس دوران میں ۱۴۴ بچے گرفتار کیے گئے تھے، جن میں سے ۷۲بچوں کو ہولناک تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
جنرل سیسی کو اقتدار میں لانے اور سہارا دینے میں امریکا اور اسرائیل کا کردار سب سے نمایاں ہے، لیکن بعض عرب ممالک کی طرف سے اس کی پشتیبانی بھی کوئی راز نہیں۔ مختلف خلیجی ریاستوں کی طرف سے اسے ۳۳؍ارب ڈالر کی نقد امداد دی گئی۔ منصوبوں اور سرمایہ کاری کے نام پر اربوں ڈالر کی امداد اس کے علاوہ ہے۔ لیکن حیرت ہے کہ اس ساری امداد کے باوجود مصر اور مصری عوام کی معاشی حالت پہلے سے بھی زیادہ ابتر ہے۔مصری زرمبادلہ اپنی کم ترین حد تک جاپہنچا ہے۔ صدر محمد مرسی نے اقتدار سنبھالا تو ملکی خزانے میں ۱۷ ارب ڈالر تھے۔ ایک سالہ پُر آشوب دور اور کئی اہم اقتصادی منصوبے شروع کرنے اور پیرس کلب کے ۷۰۰ ملین ڈالر ادا کرنے کے باوجود، اس میں کوئی کمی نہیں آنے دی گئی۔ آج جنرل سیسی کے تین سالہ اقتدار کے دوران میں ۳۳ ارب ڈالر نقد امداد ملنے کے باوجود خزانے میں صرف ۶ئ۱۳؍ ارب ڈالر باقی بچے ہیں۔ بیرونی قرضے جس تیزی سے بڑھ رہے ہیں، اس کا اندازہ اسی بات سے لگائیے کہ ایک سال پہلے یعنی ۲۰۱۵ میں یہ قرضے ۴۸؍ارب ڈالر تھے، جو مئی ۲۰۱۶ میں ۸۳ ارب ڈالر تک جا پہنچے ہیں۔ اندرونی قرضوں کے اعداد و شمار مزید چکرا دینے والے ہیں۔ سرکاری رپورٹوں کے مطابق مصر کے اندرونی قرضے ۶ئ۲ٹریلین، یعنی ۲۶۰؍ ارب ڈالر سے متجاوز ہیں، جو کل قومی آمدنی کا تقریبا ۸۵فی صد بنتا ہے۔ مصری سکے کی قیمت مسلسل گررہی ہے جو مہنگائی میں اضافے کا بھی ایک سبب ہے۔ صدر محمد مرسی کے عہد میں ایک ڈالر ساڑھے آٹھ مصری پاؤنڈ کا تھا، اس وقت چند پیسے کمی آئی تھی تو ذرائع ابلاغ میں طوفان آگیا۔ آج ۱۲؍ پاؤنڈ کا ہے، لیکن اس پر کوئی احتجاج نہیں کرسکتا۔
صدر محمد مرسی پر لگائے جانے والے سنگین الزامات میں سے ایک یہ تھا کہ انھوں نے صحافیوں پر پابندیاں لگائیں۔ خود ہمارے بعض پاکستان صحافی حضرات نے بھی اس پر خوب ردّے چڑھائے اور بھانت بھانت کے نوحے لکھے۔ جنرل سیسی کے دور جبر میں ذرائع ابلاغ کا نقشہ ہی بدل دیا گیا ہے، مگر ہمارے صحافی احباب کو شاید خبر ہی نہیں ہوسکی۔سیسی بغاوت کے فوراً بعد مصرکے ۲۷ چینل اور اخبارات پر پابندی لگادی گئی۔ متعدد صحافیوں کو شہید کردیا گیا، کئی صحافتی گروپوں کے مالکان کو ہتھکڑیاں لگا کر ذرائع ابلاغ کے سامنے پیش کیا گیا۔ ان پابندیوں اور سزاؤں کا نشانہ سیسی مخالف ہی نہیں، بہت سارے ان صحافی حضرات اور صحافتی اداروں کو بھی بنایا جارہا ہے، جو صدر مرسی کے خلاف بڑھ چڑھ کر جھوٹ گھڑ رہے تھے۔ آج کئی بڑے میڈیا ہاؤس براے فروخت کا اعلان کرچکے ہیں۔
مئی ۲۰۱۵ء میں تاریخ میں پہلی بار پولیس نے صحافیوں کی قومی یونین کے دفاتر پر دھاوا بولا، اور متعدد صحافی گرفتار کرلیے، کئی زخمی ہوئے اور باقیوں نے بھاگ کر جانیں بچائیں۔ یہ وہی صحافی اور دفاتر ہیں جو منتخب صدر محمد مرسی کے خلاف پروپیگنڈا مہم کا مراکز تھے اور آج مکافات عمل کا شکار ہیں۔ صحافی آئے روز بینر لہرا رہے ہوتے ہیں۔ أنا صحفی مش إرھابی (میں صحافی ہوں دہشت گرد نہیں)۔ الحریۃ للجدعان (ہمارے بہادر صحافیوں کو رہا کرو)۔ سابق وزیر اطلاعات و نشریات صلاح عبد المقصود کے بقول صدر محمد مرسی کے ایک سالہ دور حکومت کے دوران ذرائع ابلاغ کا کل بجٹ ۶؍ ارب پاؤنڈ تک جاپہنچا تھا۔ اشتہارات کی آمدن صرف ڈیڑھ ارب پاؤنڈ تھی، جب کہ ساڑھے چار ارب پاؤنڈ صدر محمد مرسی کی مخالف حکومتوں کی طرف سے میڈیا کی خفیہ امداد کے طور پر پہنچ رہے تھے۔
مصری عوام ہی نہیں، اہلِ غزہ بھی سیسی مظالم کے یکساں شکار ہیں۔ اسرائیل کی جانب سے شروع کیے جانے والے حصار کا دسواں سال شروع ہوچکا ہے۔ تقریباً ۲۰ لاکھ انسان پوری دنیا سے کاٹ کر رکھ دیے گئے ہیں۔ اس وقت ۵ ہزار سے زائد مریض اپنا علاج کروانے کے لیے غزہ سے باہر جانے کے انتظار میں ہیں۔ ہزاروں طلبہ عالمی تعلیمی اداروں میں داخلہ ملنے کے باوجود مصری سرحد عبور نہ کرسکنے کے باعث داخلے منسوخ کروابیٹھے ہیں۔ دو سال سے اہل غزہ میں سے کوئی شخص زیارت بیت اللہ کے لیے نہیں جاسکا۔ غزہ اور مصری سرحدی علاقوں میں بسنے والے قبائلی باہم رشتہ دار ہیں، لیکن کسی کی خوشی غمی میں شرکت کے لیے بھی ایک دوسرے کے ہاں نہیں جاسکتے۔
ایک معروف مصری شاعر اور صحافی عبد الرحمن یوسف کے بقول امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے اپنی یادداشت میں لکھا ہے: میں صدر سادات سے اپنے ۱۰ مطالبات منظور کروانے گیا تو اپنے ہمراہ اضافی طور پر مزید ۵۰ مطالبات لکھ کر لے گیا، جن میں سے کئی ایسے تھے جو میرا خیال تھا کہ کسی صورت نہیں مانے جائیں گے، لیکن مجھے حیرت ہوئی کہ سادات نے کچھ دیکھے پوچھے بغیر میرے ۵۰کے ۵۰ مطالبات منظور کرلیے۔
عبدالرحمن یوسف کے بقول جنرل سیسی کے زمانے میں امریکا اور اسرائیل کو مطالبات کرنا ہی نہیں پڑتے، سب کچھ ان کے تصورات سے زیادہ بہتر صورت میں انھیں مل جاتا ہے۔ اس کی ایک جھلک یہی دیکھ لیجیے کہ جنرل سیسی نے غزہ کی سرحد پر واقع پورا مصری رفح کا قصبہ ہی ملیا میٹ کردیا ہے، کیوں کہ اسرائیل کے بقول ان گھروں کے نیچے سے سرنگیں کھود کر اہل غزہ اپنے لیے جینے کا سامان لے جاتے ہیں۔ سیسی نے پورا قصبہ خاک میں ملا کر وہاں طویل کھائیاں کھود دی ہیں اور ان میں سمندری پانی چھوڑ دیا ہے۔ مستقبل کے منصوبوں میں اب اس کی طرف سے اسرائیل کو یہ پیش کش کی جارہی ہے کہ مسئلہ فلسطین کے ہمیشہ ہمیشہ خاتمے کے لیے مصری صحراے سینا کا ایک وسیع علاقہ ایک نئی فلسطینی ریاست کے لیے دے دیتا ہوں۔ یہاں پر سیسی کے منصوبہ ساز اس بات کا جواب نہیں دیتے کہ وہ صحرائے سینا میں مسجد اقصی اور قبلہء اول کیسے لائے گا۔ اسے یہ بھی یقینا معلوم ہوگا کہ فلسطینی عوام اس سے پہلے بھی ایسے کئی منصوبے مسترد کرچکے ہیں، جن میں انھیں اُردن کو متبادل وطن تسلیم کرتے ہوئے سرزمین اقصی سے دست بردار ہونے کی پیشکش کی گئی تھی اور انھوں نے ۶۸ سال گزر جانے کے باوجود آج تک اس کا جواب نفی میںدیا ہے۔
منتخب صدر محمد مرسی کے بارے میں احمقانہ حد تک بے بنیاد پراپیگنڈے میں یہ الزام بھی تھا کہ انھوںنے اہرام مصر، ابوالہول اور نہر سویز کا علاقہ قطر کو فروخت کردیا ہے۔ اب جنرل سیسی صحرائے سینا میں فلسطینی بسانے کی بات کرکے انھی عجوبہ منصوبوں کو حقیقت میں بدلنے کی بات کررہا ہے۔ لیکن ہر آنے والا دن اس کی بلیک میلنگ اور دھوکا دہی کو بھی بے نقاب کررہا ہے۔
کچھ عرصہ قبل سعودی شاہ سلمان کے دورۂ مصر کے موقعے پر جنرل سیسی نے کسی اور کارروائی یا منظوری کے بغیر خلیج عقبہ میں واقع دو متنازعہ جزیرے تیران اور منافیر سعودی عرب کو دینے کا اعلان کردیا۔ اس ایک تیر سے اس نے کئی شکار کرنا چاہے: ایک طرف شاہ سلمان کو راضی کرنے کی کوشش اور شاہ عبد اللہ کی طرح مالی مدد جاری رکھنے کی درخواست، دوسری طرف اسرائیل کو یہ لالچ کہ یہ جزیرے اپنی جغرافیائی حیثیت کے باعث سعودی عرب سے اس کے روابط کاذریعہ بن جائیں گے۔ اور تیسری جانب اخوان سمیت ان تمام مصری سیاسی جماعتوں اور سعودی عرب کے مابین اختلافات پیدا کرنا جو ان جزیروں کو مختلف تاریخی دستاویزات کی بنیاد پر مصری سرزمین قراردیتے ہیں۔
سیسی کی یہ عیاری ۲۱ جون ۲۰۱۶ء کو اس وقت بے نقاب ہوگئی کہ جب ایک اعلیٰ مصری عدالت نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے جزیرے سعودی عرب کو دینے کا معاہدہ کالعدم قرار دے دیا۔ عہد سیسی کا ہو اور کوئی عدالت اس کے اشارۂ اَبرو کے بغیر بلکہ اس کے علی الرغم فیصلہ سنادے؟ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔ تجزیہ نگار اس عدالتی ڈرامے کے دو بنیادی اسباب بتارہے ہیں: ایک تو سعودی عرب کو یہ پیغام کہ ’’پیسے ختم ہوگئے ہیںمیرے آقا مزید امداد‘‘ (واضح رہے کہ سیسی کی اپنے ساتھیوں سے گفتگو کی خفیہ ریکارڈنگ کئی بار آچکی ہے جس میں وہ ان کے ساتھ خلیجی ممالک سے مزید ڈالر اینٹھنے کے طریقوں پر مشورہ کررہاہے)۔ دوسرا یہ کہ یہ عدالتی فیصلہ دو روز قبل ایک اور عدالتی فیصلے پر آنے والے ردعمل کو کم کرنے کے لیے ہے، جس میں منتخب صدر محمد مرسی کو چالیس سال قید اور ایک خاتون صحافی اسما الخطیب سمیت چار صحافیوں اور صدر مرسی کے دو ساتھیوں کو سزاے موت سنائی گئی۔ یہ مقدمہ اور فیصلہ بھی مصر کی فرعونی تاریخ میں ایک سیاہ ترین باب کے طور پر لکھا جائے گا۔
ستمبر ۲۰۱۴ء کو صدر محمدمرسی سمیت ۱۱؍افراد پر الزام لگایا گیا کہ انھوں نے اپنے تقریباً دو سال دورِ اقتدار میں قومی راز قطر کو فراہم کیے ۔کسی عدالتی کارروائی کے بعد صدر مرسی کواس الزام سے بری الذمہ قرار دے دیا گیا، لیکن ایک سیاسی جماعت (اخوان) سے تعلق کی بنیاد پر ۲۵ سال اور قومی سلامتی سے متعلق دستاویزات کے حصول پر مزید ۱۵ سال قید کی سزا سنادی گئی۔ سزاے موت اور ۱۵ سال قید کی سزا پانے والے ایک سینیئر صحافی ابراہیم ہلال (الجزیرہ چینل کے سابق نیوز ڈائریکٹر) نے فیصلہ سننے کے بعد کہا: ایک صحافی ہونے کے ناتے اگر ہمیں واقعی کوئی خفیہ دستاویزات مل بھی جاتیں تو ہم مکمل ذمہ داری اور امانت کے ساتھ اسے نشر کرتے، لیکن یہ ساری کہانی ہی مکمل طور پر بے بنیاد ہے۔ جنرل سیسی، دراصل الجزیرہ کومصر میں ہونے والے مظالم کی خبر دینے سے روکنا چاہتا ہے۔ واضح رہے کہ اس مقدمے میں سات افراد کو مجموعی طور پر ۲۴۰ سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔
ان تمام غیر انسانی سزاؤں اور درندوں کے راج کے باوجود، ان بے گناہ قیدیوں کی اخلاقی و ایمانی کیفیات کیا ہیں؟ اس کا اندازہ حالیہ عدالتی ڈرامے کی اختتامی کاروائی سے ہی لگالیجیے۔ بدنام زمانہ جج فیصلہ سنانے لگا تو ملک کے قانونی صدر محمد مرسی کو ایک ساؤنڈ پروف پنجرے میں بند کرکے لایا گیا۔ فیصلے سے پہلے انھوں نے بات کرنے پر اصرار کیا تو جج نے پنجرے میں لگا مائیک کھلواتے ہوئے کہا: علی طول خش یا مرسی... خش یا مرسی’’ مرسی جلدی سے بات کرو .. مرسی جلدی کرو‘‘۔انھوں نے دو تین بار بات شروع کی، لیکن جج مسلسل ٹوکتا رہا۔
محمد مرسی نے کہا: میں عدالت کے فیصلے کے بارے میں ہی اپنے ساتھیوں سے صرف یہ کہنا چاہتا ہوں: ’’صبر سے کام لو، باطل پرستوں کے مقابلے میں پامردگی دکھائو، حق کی خدمت کے لیے کمربستہ رہو اور اللہ سے ڈرتے رہو، تاکہ تم فلاح پاسکو‘‘ (اٰل عمرٰن ۳:۲۰۰)۔ اس پر جج نے طیش میں آکر بات کاٹی اور مختصر فیصلہ سناتے ہوئے عدالت برخواست کردی۔
مصر کے معروف قانون دان ولید شارابی نے انھی دنوں ایک ٹی وی پروگرام میں دعویٰ کیاہے کہ جنرل سیسی کی طرف سے صدر مرسی اور ساتھیوں سے رابطہ کرتے ہوئے سودے بازی کی کوشش کی جارہی ہے۔ انھوں نے کہا، اس ضمن میں ایک اعلیٰ سطحی ذمہ دار گرفتار اسپیکر ڈاکٹر سعد الکاتا کے پاس گیا اور معاملات طے کرنے کی پیش کش کی۔ قیدی اسپیکر نے مختصر جواب دیتے ہوئے کہا: مصر کا قانونی اور منتخب صدر ایک ہی ہے اور وہ آپ کے پاس ہے، اگر کسی نے کوئی بات کرنا ہے تو انہی سے ہوسکتی ہے۔ اس رابطہ کار کے چلے جانے کے بعد اسپیکر ڈاکٹر سعد نے کہا کہ یہ لوگ میرے پاس اس لیے آئے ہیں کہ انھیں صدر مرسی سے بات کرکے کچھ ہاتھ نہیں آیا ہوگا۔
صدر مرسی کے اہل خانہ کے مطابق گذشتہ تین سالہ غیر قانونی قید کے دوران میں اہل خانہ کی صرف ایک ملاقات ہوسکی، جو چند منٹ سے زیادہ نہیں تھی۔ المیہ یہ بھی ہے کہ اس مصری ’گوانتا نامو کیمپ‘ سے پوری دنیا نہ صرف لاتعلق ہے ،بلکہ خاموش تماشائی بن کر جلاد کی پشتی بانی کررہی ہے۔ رہے مصر سمیت دنیا کی مختلف جیلوں میں گرفتار اہل ایمان، تو ان کا رب یہ پیغام اُمید دے رہا ہے: فَانْتَقَمْنَا مِنَ الَّذِیْنَ اَجْرَمُوْا وَ کَانَ حَقًّا عَلَیْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِیْنَ (الروم۳۰: ۴۷) ’’پھر جنھوں نے جرم کیا ہم نے ان سے انتقام لیا اور ہم پر یہ حق تھا کہ ہم مومنوں کی مدد کریں‘‘۔
پاکستان میں افغانستان کے متعین سفیر۴۸سالہ ڈاکٹر حضرت عمر ضاخیلوال کے بیانات گذشتہ چند دنوں میں بہت اہمیت اختیار کر گئے ہیں۔ چھے ماہ قبل جب ان کی تعیناتی عمل میں آئی تھی اور انھوں نے نسبتاً خاموش طبع جانان موسیٰ زئی کی جگہ لی تو اس وقت کسی کو اندازہ نہ تھا کہ یہ شخصیت آنے والے دنوں میں دو برادر اور ہمسایہ پڑوسی ممالک کے درمیان تعلقات میں اتنا اہم اور کلیدی کردار ادا کرے گی ۔
نئے صدر ڈاکٹر اشرف غنی نے، جو خود بھی ماہر اقتصادیات ہیں اور امریکا ہی سے کرزئی حکومت کے دور میں آئے تھے، ان کو اپنی ٹیم میں شامل کیا ۔ انھوں نے اس چار ملکی امن گروپ (QCG)میں افغانستان کی نمایندگی کی جو طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کی راہ ہموار کرنے کے لیے تشکیل دیا گیا تھا ۔ اس میں افغانستان اور پاکستان کے علاوہ امریکا اور چین بھی شامل ہیں۔ اسی گروپ کی کوششوں سے گذشتہ سال پاکستان میں طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کا اعلا ن کیا گیا تھا لیکن پھر طالبان کے سربراہ ملا عمر کی وفات کی خبر آئی یا لائی گئی اوران مذاکرات کو سبوتاژ کر دیا گیا۔ اس سال پھر جب پاکستان نے امن مذاکرات کے لیے طالبان سے رابطے کیے تو اس پر افغان حکومت نے سخت رد عمل کا اظہار کیا اور پاکستان کو کسی قسم کے مذاکراتی عمل سے منع کر دیا جو بڑا عجیب و غریب رویہ تھا۔ لیکن اب، جب کہ گذشتہ ماہ نوشکی میں طالبان رہنما ملا اختر منصور کو ڈرون حملے کے ذریعے مار دیا گیا اور اب طور خم میں افغان فورسز نے جارحانہ رویہ اختیا ر کیا تو صورت حال کچھ واضح ہوتی جا رہی ہے ۔ ماہِ اپریل میں افغان سفیر کا یہ بیان ریکارڈ پر ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کی راہ ہموار ہو چکی ہے اور ہم بہت جلد افغان رہنمائوں کے ساتھ براہ راست امن مذاکرات شروع کر دیں گے ، جب کہ قطر میں مقیم افغان طالبان کی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ محمد نعیم نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ہم کو اپنی قیادت کی جانب سے ایسی کوئی اطلاع موصول نہیں ہوئی ہے۔ اس لیے مذاکرات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اب انھی افغان سفیر کا تازہ ترین ارشاد ہے کہ اگر پاکستان نے طور خم سرحد پر گیٹ کی تعمیر کا کام ترک نہ کیا تو اس کو سنگین نتائج بھگتنے ہوں گے ۔ وہ پہلے بھی اس طر ح کے تندوتیز بیانات دے چکے ہیں۔
مجاہدین اور طالبان کے دور حکومت میں یہ موقع تھا کہ ڈیورنڈ لائن کا مسئلہ بھی باہم مذاکرات کے ذریعے حل کر لیا جاتا لیکن اس کے لیے دونوں جانب سے کوئی پیش رفت نہ کی گئی ۔ اب، جب کہ کابل میں افغان حکومت دوبارہ پختون قوم پرستوں کے ہاتھ میں آچکی ہے تو اس مسئلے پر بات چیت مشکل تر ہوگئی ہے ۔ یہ ہے اصل میں طور خم کے سرحدی تنازعے کا پس منظر جس پر کوئی بھی کھل کر بات نہیں کرتا۔ جب افغان سفیر حضرت عمر کے حوالے سے پاکستانی میڈیا نے یہ خبر نشر کی کہ وہ گیٹ کی تنصیب کے لیے آمادہ ہو گئے ہیں تو اسی وقت افغان میڈیا میں ان کے خلاف ایک شور سا اُٹھ گیا کہ عمر نے افغان ملت کے ساتھ دغا بازی کر کے امیر عبدالرحمن کی یاد تازہ کر دی ہے ۔ پاکستانی اداروں نے کہا کہ وہ ۱۰۰میٹر پاکستانی حدود کے اندر گیٹ کی تعمیر کے لیے تیار ہوئے تھے، جب کہ عملاً گیٹ ۳۷میٹر اندر بنایا جانے لگا جس پر افغان فوجیوں نے فائرنگ شروع کر دی، یعنی معاملہ صرف چند میٹر کا تھا۔ کئی قیمتی جانیں اس کی نذر ہو گئیں اور دو برادر ہمسایہ ملکوں کے درمیان ایک جنگی صورت حال پیدا ہو گئی ۔پاکستانی فوجی آفسر میجر علی جواد چنگیزی جو ایک خوب صورت انسان تھے ان میںشامل ہیں۔
مسئلہ صرف چند میٹر کا نہیں ہے بلکہ افغانستان کے mindsetکا ہے جو کسی بھی صورت گیٹ کی تعمیر کے لیے تیار نہیں اور اس کا اظہار اب افغان سفیر اپنے بیانات کے ذریعے کر رہے ہیں۔ پاکستان کے مشیر امور خارجہ سرتاج عزیز نے اب جا کر یہ بیان دیا ہے کہ انھوں نے افغانستان کے وزیر خارجہ صلاح الدین ربانی اور قومی سلامتی کے مشیر حنیف اتمر کو دعوت دی ہے کہ وہ پاکستان آکر اس قضیے پر مذاکرات کریں اور اس کا کوئی حل نکالیں۔ صلاح الدین سابقہ افغان صدر اور جمعیت اسلامی افغانستان کے سربراہ استاد برہان الدین ربانی مرحوم کے صاحبزادے ہیں جنھوں نے روسی تسلط کے خلاف جہاد افغانستان کی قیادت پاکستان میں بیٹھ کر کی تھی اور بعد میں نجیب انتظامیہ کے خاتمے پر ایک معاہدے کے تحت صبغتہ اللہ مجددی کے بعد افغانستان کے صدر بن گئے تھے لیکن معاہدے کی پابندی نہ کی اور کئی سال تک افغانستان کے صدر رہے ۔ یہاں تک کہ طالبان نے آکر ان کی حکومت ختم کی ۔ حنیف اتمر کا پس منظر یہ ہے کہ وہ سابقہ کمیونسٹ کے طور پر مشہور ہیں۔ وہ ڈاکٹر نجیب اللہ کے ساتھیوں میں سے تھے اور جب نجیب انتظامیہ نے حضرت مجددی کو اقتدار منتقل کیاتو اس عمل میں حنیف اتمر شامل تھے ۔
چین اور بھارت یہ کردار ادا کر سکتے ہیں۔ چین افغانستان کے سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کرنا چاہتا، البتہ اقتصادی اور ترقیاتی منصوبوں میں دل چسپی رکھتا ہے ۔ جلال آباد سے کابل تک دو رویہ ہائی وے کی تعمیر ایک چینی کمپنی کر رہی ہے ۔ البتہ بھارت کا افغانستان میں کردار بہت اہم ہے اور وہ آیندہ بھی افغانستان میں اور اس سے آگے بڑھ کر وسط ایشیا میںاپنے لیے تجارتی منڈیوں کا حصول چاہتا ہے ۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارتی و کاروباری تعلقات کسی بھی اور ملک کے مقابلے میں بڑھ کر ہیں۔ کئی معاہدے بھی ہو چکے ہیں۔ مشترکہ چیمبر آف کامرس بھی ۲۰۱۰ء میں بناہے۔ افغانستان کی درآمد میں پاکستان کا حصہ ۹ئ۲۵فی صد ہے، جب کہ برآمدات میں ۳ئ۲۳ فی صد ہے۔ دونوں کے درمیان APTTAکا نیا تجارتی معاہدہ بھی ہواہے ۔ باہمی تجارت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جس کا کل حجم ۲۵۰۹ ملین ڈالر سے بڑ ھ چکا ہے اور پاکستان کے حق میں ہے ۔
پاکستان نے افغانستان کی تعمیر نو میں بھی اپنا حصہ ڈالا ہے ۔ پاکستان نے اس مد میں ۳۳۰ملین ڈالر خرچ کیے ہیں جو بھارت کے ۲بلین ڈالر کے مقابلے میں بہت کم ہیں ۔ جلال آباد طورخم روڈ کی تعمیر پاکستان کا منصوبہ تھا ۔ تعلیم کے میدان میں پاکستان کے منصوبوں میں کابل میں رحمن بابا اسکول ، کابل یونی ورسٹی میں علامہ اقبال فیکلٹی ، جلال آباد میں سر سید فیکلٹی اور بلخ میں لیاقت علی خان فیکلٹی کی تعمیر شامل ہے ۔ اسکولوں کے طلبہ کے لیے کتب اور کاپیوں کی فراہمی، ۵۰؍ایمبولینس گاڑیاں، ۲۰۰ٹرک اور ۱۰۰بسیں بھی عطیہ کی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ بھی تیل ، گیس، معدنیات او ربجلی کے منصوبوں میں پاکستان نے امداد بہم پہنچائی ہے ۔ مستقبل میں پاک افغان باہمی تعلقات اور تجارت کے فروغ کے بے پناہ امکانات موجود ہیں۔ پاک چائنا کاریڈور کے مغربی روٹ کو افغانستان سے منسلک کرنے کا آپشن موجود ہے ۔ اس کے علاوہ پاکستان کے ریلوے کا نظام جو ۱۱ہزار۷ سو ۷۸ کلومیٹر طویل انگریز دور کا تعمیر کردہ ہے پہلے ہی طور خم تک پہنچایا گیا تھا ۔ اس کو اگر افغانستان تک پہنچا دیا جائے اور پھر اس سے آگے وسط ایشیا کے ریلوے نظام سے جوڑ دیا جائے تو اس پورے خطے کی تقدیر بدل سکتی ہے ۔ چین اس عظیم منصوبے میں بھی دل چسپی لے رہا ہے ۔
ڈاکٹر اشرف غنی نے برسرِ اقتدار آنے کے بعد نومبر ۲۰۱۴ء کو پاکستان کا دورہ کیا اور پاکستان کے لیے نیک خواہشات اور اچھے و مثبت جذبات کا اظہار کیا ۔ پاکستانی قیادت نے بھی بھر پور جواب دیا اور پاکستانی وزیر اعظم میاں نواز شریف نے افغان حکومت کو مکمل حمایت کی یقین دہانی کروائی ۔ افغانستان میں امن کا قیام اور اس کی سلامتی پاکستان کے لیے بہت اہمیت کی حامل ہے ۔ روسی افواج کے انخلا کے بعد افغانستان جس بری طرح سے باہمی جنگ وجدل اور شکست وریخت سے دو چار ہوا، امریکی انخلا کے بعد اس کا اعادہ نہیں ہونا چاہیے ۔ افغانستان میں متحارب گروپوں کے درمیان انٹرا افغان مذاکرات اور اس کے نتیجے میں جنگ کا خاتمہ اور امن و سلامتی کا قیام جتنا افغانستان کے لیے لازمی ہے اتنا پاکستان کی بھی ضرورت ہے ۔ ایسے موقعے پر طورخم سرحد پر خونچکاں واقعہ ناقابلِ برداشت اور خطرناک مضمرات کا حامل ہے ۔
پاکستان کے وزیر اعظم میاں نواز شریف کے عارضہ قلب اور سرجری کے دوران اور بعد میںملکی انتظام اور انصرام چلانے والی کوئی شخصیت نظر نہیں آئی جو بہت بڑا قومی مسئلہ ہے ۔ وفاقی وزیر جنرل عبدالقادر بلوچ نے ایک اخباری بیان میں طورخم واقعے کو بھارت کی سازش قرار دیا لیکن اس کا توڑ کیا ہے اور کون کرے گا؟ اس کا جواب کسی کے پاس نہیں ۔ افواج پاکستان کے سپہ سالار جنرل راحیل شریف اپنا بھر پور کردار ادا کر رہے ہیں لیکن سیاسی قیادت کا کردار مختلف اور دوسرے انداز میں ہوتا ہے ۔ سفارتکاری کی اہمیت دنیا میں ایک مسلّمہ حقیقت تسلیم کی جاتی ہے ۔ بین الاقوامی مسائل کا حل حکمت عملی اور لچک دار رویے سے ہی ممکن ہوتا ہے ۔
اس دور میں مسلم اُمت ایک کرب اور تکلیف سے دو چار ہے ۔ ہر جانب خون خرابہ اور تباہی و برباد ی کی خبریں ہیں۔ عراق و شام میں ایک خوف ناک صورت حال پیدا ہو چکی ہے ۔ اس موقعے پر پاکستان اور افغانستان کے درمیان تصادم ایک اور المیہ کو جنم دے سکتا ہے ۔ کروڑوں انسانوں کی زندگیوں کو خطرہ لاحق ہے۔ اس لیے پاکستان اور افغانستان دونوں اطراف کی قیادت کو ان خطرات کے سد باب کے لیے سنجیدگی سے کام کرنا ہوگا۔ ضروری ہے کہ فوری اقدامات اٹھائے جائیں۔ پاکستان اور افغانستان کا مفاد ایک ہے اور ہم سب اس کے امین ہیں۔
۲۱۷؍ ارکان پر مشتمل تیونس کی قومی اسمبلی میں تحریک نہضت ۶۹ ارکان کے ساتھ سب سے بڑی جماعت ہے۔ دوسرے نمبر پر مختلف گروہوں کو جمع کرکے بنائی جانے والی حکمران پارٹی نداء تیونس کی ۵۹ نشستیں ہیں۔ تیسرے نمبر پر آنے والی جماعت کے ۲۷ اور باقی ایوان مختلف جماعتوں کے ۱۰ اور ۱۵؍ارکان پر مشتمل ہے۔ تحریک نہضت چاہتی یا اب بھی چاہے تو بڑی آسانی سے اپنی حکومت بناسکتی ہے۔ لیکن اس نے ادنیٰ تردد کے بغیر دوسروں کو حکومت سازی کا موقع دینے کا اعلان کیا۔ نہضت کے سربراہ شیخ راشد الغنوشی کا کہنا تھا کہ ہمارا ہدف حکومت یا اقتدار نہیں، ملک سے آمریت کا خاتمہ، ثمرات انقلاب کی حفاظت، جمہوری اقدار کی مضبوطی اور ایک شفاف نظام حکومت تشکیل دینا ہے۔ ان کا یہ موقف اپنے اقتدار کی خاطر ہزاروں بے گناہ افراد کا خون بہادینے والے کئی مسلم حکمرانوں کے لیے ایک تازیانہ ہے۔
عالمِ عرب میں آمریت سے نجات کا خواب بھی ۲۰۱۱ء میں تیونس سے شروع ہوا تھا۔ مصر، شام، یمن اور لیبیا بھی تیونس کے نقش قدم پر چلے لیکن بدقسمتی سے جلد ہی گرفتارِ بلا ہوگئے۔ تیونس آج بھی اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے اور دنیا کو ایک نئے جمہوری تجربے سے آشنا کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ ۲۰سے ۲۲ مئی تک تیونس میں تحریک نہضت کا دسواں اجتماع عام منعقد ہوا۔ اس سے پہلے آٹھ اجتماع آمریت کے زیر سایہ یا ملک بدری میں ہوئے۔ ۲۰۱۲ء میں ہونے والا نواں اجلاس آزاد فضا میں سانس لینے کا پہلا تجربہ تھا۔ حالیہ اجتماع کئی لحاظ سے ایک تاریخی حیثیت اختیار کرگیا۔ دنیا کو تیونس اور تحریک نہضت کے کئی اہم پہلوؤں سے روشناس ہونے کا موقع ملا۔ اس اجتماع میں تحریک کے سربراہ کے علاوہ مجلس شوریٰ کا انتخاب بھی ہوا اور اپنی سیاسی جدوجہد کو دعوتی و تربیتی کام سے الگ کرنے کے اہم ترین فیصلے سمیت کئی بنیادی دستوری و تنظیمی تبدیلیاں کی گئیں۔ ایسے وقت میں کہ جب اکثر مسلم ممالک میں شخصی اقتدار اور شخصی سیاسی جماعتوں کا تسلط ہے، تحریک نہضت نے شورائیت اور تنظیمی قوت کا شان دار مظاہرہ کیا۔ پارٹی کے صدارتی انتخاب کے لیے آٹھ افراد کے نام سامنے آئے جو آخر میں تین رہ گئے۔ ۷۷ سالہ جناب راشد الغنوشی صاحب کو مجلس نمایندگان کی بھاری اکثریت نے آیندہ چار برس کے لیے منتخب کرلیا، انھیں ۸۰۰ ووٹ ملے۔ دوسرے نمبر پر آنے والے جماعت کی مجلس شوریٰ کے سابق صدر (یا اسپیکر) کو ۲۲۹؍ اور تیسرے اُمیدوار کو ۲۹ ووٹ ملے۔
دوسرا اہم مسئلہ مجلس شوریٰ و عاملہ کے انتخاب کا تھا۔ ۱۵۰ رُکنی مجلس شوریٰ کے بارے میں طے پایا کہ اس کے دو تہائی (یعنی ۱۰۰) ارکان منتخب اور ایک تہائی (۵۰) ارکان صدر کی جانب سے مقرر کیے جائیں گے۔ اسی طرح مجلس عاملہ کے بارے میں بھی قدرے بحث و تمحیص کے بعد طے پایا کہ صدر مجلس شوریٰ کے سامنے ان کے نام تجویز کرے گا اور شوریٰ کی منظوری سے مجلس عاملہ وجود میں آجائے گی۔ ان تنظیمی اصلاحات کے بارے میں بحث کے دوران بعض ارکان کی طرف سے تندوتیز تقاریر بھی کی گئیں، لیکن بالآخر راے دہی کے ذریعے ہونے والا مجلس کا فیصلہ سب کو قبول ہوا۔
تیسرا اور حساس ترین موضوع ایسا تھا کہ جس کے بارے میں اب بھی عالمی سطح پر بہت لے دے جاری ہے۔ اجلاس شروع ہونے سے پہلے اور پھر دوران اجلاس راشد الغنوشی صاحب نے تجویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ وقت کے تقاضوں اور انتخابی سیاست کے پیش نظر ہمیں اپنے دعوتی اور سیاسی کام کو الگ الگ کرنا ہوگا۔ان کا کہنا تھا کہ: ’’تحریک نہضت ایک قومی جماعت ہے جو تیونس کی ترقی کے ساتھ ساتھ ترقی کررہی ہے۔ ہم ایک قومی، سیاسی، اسلامی بنیاد رکھنے والی، ملک کے دستوری دائرے میں رہنے والی اور اسلام کے بنیادی اصولوں اور عہد جدید کے تقاضوں کی روشنی میں کام کرنے والی جماعت ہیں‘‘۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ : ’’اب ہمیں ایک ایسی جماعت بنانا ہوگی جو صرف سیاسی سرگرمیوں پر توجہ دے سکے۔ ہمیں دنیا میں ’سیاسی اسلام‘ کے بجاے مسلم ڈیمو کریٹس کے طور پر متعارف ہونا ہوگا‘‘۔ اصولی طور پر دیکھا جائے تو الفاظ کی نئی ترکیب سے زیادہ اس فیصلے میں کوئی اچنبھا خیز بات نہیں تھی۔ اس سے پہلے مصر، لیبیا، اُردن، یمن، مراکش، کویت، بحرین اور سوڈان سمیت کئی ممالک میں اسلامی تحریکیں انتخابی ضروریات اور تقاضوں کے مطابق اپنی سیاسی و دعوتی تنظیم الگ الگ کرچکی ہیں۔ اس تنظیمی اختصاص کے نتیجے میں نہ صرف ان کی سیاسی پیش رفت میں بہتری آئی، بلکہ دعوتی و تربیتی سرگرمیوں میں بھی وسعت ، سہولت اور بہتری پیدا ہوئی ہے۔
لیکن تحریک نہضت تیونس کے حالیہ فیصلے کے بعد ان کے کئی دوستوں اور اکثر دشمنوں کی طرف سے گردوغبار کا ایک طوفان برپا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ دین کو سیاست سے الگ کرنے کی بحث چھیڑی جارہی ہے۔شاید اس ساری بحث و تمحیص کا ایک سبب جناب راشد الغنوشی کی طرف سے ’سیاسی اسلام‘ اور ’مسلم ڈیموکریٹس‘ کی اصطلاح میں بات کرنا بھی ہو۔ حالاں کہ خود ’سیاسی اسلام‘کی اصطلاح بھی اغیار کی تراشیدہ ہے۔ وہ اس کے ذریعے الاخوان المسلمون اور جماعت اسلامی کی فکر اور بنیادی اصولوں کی روشنی میں کام کرنے والی تحریکوں کو مطعون کرنا چاہتے ہیں۔
امام حسن البنا اور سید ابو الاعلیٰ مودودی اور ان سے پہلے شاعر اسلام علامہ محمد اقبال رحہم اللہ کا یہ دوٹوک موقف کہ ’’جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی‘‘، اور یہ کہ دین و سیاست اور مذہب و ریاست کے مابین مکمل ہم آہنگی، قرآنی آیات و احکام اور آپؐ کی تعلیمات کی اصل روح ہے، ان سب عالمی طاقتوں کے لیے سُوہانِ روح بنا ہوا ہے۔ ’سیاسی اسلام‘ کا لیبل گویا ایک گالی بنادیا گیا ہے۔ مصر میں ۱۰ہزار کے قریب بے گناہ شہید اور ۵۰ ہزار کے لگ بھگ بہترین دماغوں کو جیلوں میں بدترین تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے ان کا ایک ہی جرم بیان کیاجارہا ہے کہ وہ ’سیاسی اسلام‘ کے علَم بردار ہیں۔
تحریک نہضت نے اپنی دعوتی اور سیاسی سرگرمیوں کو الگ کرتے ہوئے گویا اس ’سیاسی اسلام‘ کے الزام کا جواب دینے کی کوشش بھی کی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اپنی دعوتی و تربیتی سرگرمیوں کے تقاضے پورا کرنے اور انتخابی عمل کی ضروریات و مجبوریوں کا علاج کرنے کی عملی کوشش بھی۔ یہ حقیقت بھی قابل توجہ ہے کہ الفاظ و اصطلاحات میں مسلسل تبدیلی اور اپنے فیصلے کرتے ہوئے تیونس کے مخصوص حالات کو پیش نظر رکھنا تحریک نہضت کی تاریخ کا حصہ ہے۔ ۱۹۷۹ء میں جب تحریک کا باقاعدہ قیام عمل میں آیا تو اس وقت اس کا نام ’جماعت اسلامی تیونس‘ رکھا گیا تھا۔ پھر اس کا نام ’جہت اسلامی‘ رکھ دیا گیا‘‘ اور پھر ’تحریک نہضت اسلامی‘ رکھا گیا۔ جماعتی نام میں لفظ اسلام پر پابندی لگنے کے بعد صرف ’تحریک نہضت‘ کردیا گیا جو اَب ملک کی سب سے بڑی سیاسی قوت ہے۔
حالیہ اجتماع عام کا افتتاحی سیشن تیونس کے ایک بڑے اسٹیڈیم میں منعقد ہوا۔ اس میں بھی جگہ نہ رہی اور ہزاروں افراد باہر کھڑے رہے۔ اتنا بڑا اور انتہائی منظم اجتماع تیونس کی کوئی دوسری جماعت کبھی نہیں کرسکی۔ اپنے افتتاحی خطاب میں الشیخ راشد الغنوشی نے عہد جبرکی تلخیوں کا بھی ذکر کیا۔ انھوں نے کہا کہ ملک بدری کے دوران کسی ملک میں تیونس جانے یا وہاں سے آنے والی پرواز دیکھتا تو حسرت پیدا ہوتی تھی کہ نہ جانے اب کبھی اپنے دیس اور اس کی گلیوں میں قدم رکھنے کا موقع ملے گا یا نہیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس نے نہ صرف واپس آنے کا موقع بخشا بلکہ اب ہم الحمدللہ خالی خولی دعووں اور نعروں سے آگے بڑھ کر اصلاح ریاست کی منزل کی جانب کامیابی سے قدم آگے بڑھا رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے انقلاب کے بعد اپنی قائم شدہ حکومت خود چھوڑ کر اور اب حکومت سازی کا موقع ملنے کے باوجود دوسروں کو موقع دے کر یہ ثابت کیا ہے کہ ہمارا مقصد اقتدار یا منصب نہیں، بندگانِ خدا کو اپنے دین کے سایے میں آزادی، عزت اور راحت سے زندہ رہنے کا حق دلانا ہے۔ انھوں نے تحریک نہضت کی روایتی وسیع القلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تیونس کی تاریخ کے تقریباً ہر اہم فرد کا نام لیتے ہوئے سابق آمر حبیب بو رقیبہ کا نام بھی لیا۔ ا س کے لیے مغفرت کی دُعا کی اور کہا کہ یقینا ان کی بہت سی غلطیاں ہیں لیکن ہمیں ان کی اچھائیوں کو یاد رکھنا ہے۔
انھی دنوں بعض تیونسی اخبارات میں سابق تیونسی آمر زین العابدین بن علی کے ایک داماد کا انٹرویو شائع ہوا۔ ملک سے فرار ہوتے ہوئے خوفناک جلاد کا یہ داماد اپنی اہلیہ سمیت تیونس ہی میں رہ گیا تھا اور انھیں بالآخر عدالت کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان مشکل ایام میں میری اہلیہ (بن علی کی بیٹی) سے کسی نے کہا کہ آپ اپنی مشکلات و مسائل کے حل کے لیے غنوشی صاحب سے جاکر ملیں۔ بہت تردد کے بعد وہ جاکر انھیں ملیں تو راشد الغنوشی نے انتہائی شفقت سے جواب دیتے ہوئے کہا: ’’آپ کے والد کے خلاف جو مقدمات بھی عدالت میں ہیں ان کا فیصلہ تو عدالت ہی کرے گی۔ عدالت نے اگر آپ کی تمام جایداد ضبط کرلی ہے تو اس بارے میں بھی میں کچھ نہیں کرسکتا، البتہ سرزمین تیونس کی ایک بیٹی ہونے کے ناتے میں آپ کو کبھی خوار نہیں ہونے دوں گا۔ آپ کے پاس اس وقت کوئی گھر نہیں ہے تو یہ لیں، یہ میرے فلاں عزیز کے گھر کی چابیاں ہیں، آپ کو جب تک ضرورت ہے آپ وہاں قیام پذیر رہیں‘‘، اور ہم اس گھر میں رہایش پذیر رہے۔ اس حسن سلوک کی اہمیت کا اصل اندازہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب آپ یہ یاد کریں کہ بن علی اور بورقیبہ کے دور میں تحریک نہضت کے ہزاروں بے گناہ افراد جیلوں میں بدترین تشدد کا نشانہ بنائے گئے، جس میں ان اسیران اسلام کی بیٹیوں اور بہنوں کو ان کے سامنے بے آبرو کرنا بھی شامل تھا۔
سابقہ دورِ جبر کی یہ تلخ یادیں اور ’’فی حماک ربنا ... فی سبیل دیننا: اے ہمارے پروردگار آپ کی پناہ میں ... اے ہمارے پروردگار اپنی دین کی خاطر‘‘ جیسے کلمات پر مشتمل تحریک نہضت کا سرمدی ترانہ ہونٹوں پر سجائے ہر طرح کے جبر و تشدد سے سرخرو ہوکر نکلنے والی تحریک نہضت اور اس کے کارکن ان تمام غلط فہمیوں کا عملی جواب ہیں جو ان کے حالیہ فیصلوں کے تناظر میں پھیلائی جارہی ہیں۔ تحریک نہضت اپنی سیاسی تنظیم اور دعوتی و تربیتی ہی نہیں فلاحی، رفاہی، تعلیمی، اور اجتماعی سرگرمیوں کے لیے ماہرین کواعتماد سے آگے بڑھنے کا موقع فراہم کررہی ہے اور ان کے تمام بہی خواہ دُعاگو ہیں کہ جامع مسجد زیتونہ کے تاریخی میناروں سے سجا تیونس، عالم اسلام میں حقیقی بہار کا پیش خیمہ ثابت ہو۔
عین اس وقت کہ جب تیونس میں نہضت کے اجتماع کا اختتام ہورہا تھا، ترک دارالحکومت انقرہ میں حکمران جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کا ایک غیر معمولی اجلاس شروع ہورہا تھا۔ ۲۲ مئی کو پارٹی نے وزیراعظم احمد داؤد اوغلو کی جگہ بن علی یلدریم کو اپنا نیا سربراہ اور وزیراعظم چن لیا۔ صدر رجب طیب اردوان کے ساتھ طویل عرصے تک وزیر خارجہ اور پھر وزیراعظم کے طور پر کام کرنے والے ایک انتہائی شریف النفس دانش ور اور عالمی یونیورسٹیوں میں تدریسی فرائض انجام دینے والے احمد داؤد اوغلو نے خود اپنے عہدے سے استعفا دیتے ہوئے پارٹی کا نیا وزیراعظم منتخب کرنے کا تقاضا کیا تھا۔
بطور وزیراعظم اور وزیر خارجہ ان کی کارکردگی شان دار رہی۔ خود انھوں نے بھی اس بہتر کارکردگی کا ذکر کیا۔ بالخصوص چند ماہ قبل عام انتخابات میں۸ئ۴۹ فی صد ووٹ حاصل کرنے پر اللہ کا شکر اور قوم کا شکریہ ادا کیا۔ ان کے استعفے کی بنیادی وجہ وہ سرد جنگ بنی جو بدقسمتی سے صدرمملکت اور وزیراعظم کے مابین چھیڑدی گئی تھی۔ رجب طیب اردوان نہ صرف قوم کے اصل قائد ہیں، بلکہ اب وہ قوم کے براہِ راست ووٹ کے ذریعے منتخب ہونے والے پہلے صدر بھی ہیں۔ ۱۲؍اگست ۲۰۱۵ کو جب وہ وزارت عظمیٰ چھوڑ کر صدر منتخب ہورہے تھے، تب ہی سے ان کی جانشینی کا مسئلہ نمایاں ہو کر سامنے آیا تھا۔ پارٹی کے کئی افراد کا خیال تھا کہ سابق صدر عبد اللہ گل یا نائب وزیراعظم بلند آرینج کو وزیراعظم منتخب کیا جائے۔ اردوان کی راے استنبول کی میئرشپ کے زمانے سے آزمودہ اپنے دیرینہ رفیق کار بن علی یلدرم کے حق میں تھی۔ ۲۱؍ اگست کو وزیراعظم کا چناؤ ہونا تھا اور ۱۹؍ اگست تک فریقین اپنی الگ الگ راے کا اظہار کررہے تھے۔ پھر اچانک احمد داؤد اوغلو کا نام تجویز ہوا، جس پر سب کا اتفاق ہوگیا۔ اس وقت یہ نعرہ بھی سامنے آیا کہ ’’طاقت ور صدر کا طاقت ور وزیراعظم‘‘۔
طیب اردوان ایک عرصے سے ملک میں صدارتی نظام کی تجویز پیش کررہے ہیں۔ ان کے مخالفین اسے ان کی آمریت اور تمام اختیار سمیٹنے کی خواہش کہتے ہیں لیکن طیب اردوان ترکی میں وقوع پذیر ہونے والے ماضی کے تلخ واقعات کا سدباب کرتے ہوئے اسے قیادت کی وحدت اور حالات کا بنیادی تقاضا کہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک طرف منتخب پارلیمنٹ او ردوسری طرف منتخب صدر کو جب ہر چار برس بعد عوام کے سامنے جواب دہ ہونا پڑے گا تو دونوں اپنی اپنی ذمہ داریاں بہتر انداز سے ادا کریں گے۔ اس نظام کو باہم مربوط کرنے کے لیے صدر کو بھی جواب دہ لیکن بااختیار بنانا ہوگا۔ وزیراعظم کو صدر اور پارلیمنٹ کا اعتماد حاصل ہو، لیکن اس کا بنیادی کام فیصلوں پر عمل درآمد کو یقینی بنانا ہو۔ وہ متبادل قیادت کے طور پر اُبھرنے کے خبط کا شکار نہ ہو۔ نئے ترک وزیراعظم بن علی یلدرم صدر رجب طیب اردوان کے اس معیار پر پورا اترتے ہیں۔ وہ گذشتہ ۱۱برس سے وزیر مواصلات کے طور پر ملک میںنمایاں ترین منصوبوں کی تکمیل کرچکے ہیں۔ ملک میں نئے ایئرپورٹ، نئے پل، نئی ٹرین، نئے بحری جہاز اور الیکٹرانک نقل و حرکت بہتر بنانے کے لیے ۲۵۵؍ ارب ترک لیرے، یعنی ۸۵ ارب ڈالر کے منصوبے خاموشی سے مکمل کرچکے ہیں۔
۱۹۵۵ء میں پیدا ہونے والے بن علی یلدریم ۱۶ سال کی عمر میں یتیم ہوگئے تھے۔ پھر بحری جہازوں کی انجینیرنگ پڑھی۔ اگرچہ ان کا تعلق اردوان کی طرح پروفیسر نجم الدین اربکان مرحوم کی جماعت سے نہیں رہا، لیکن دین داری ان کے خمیر میں رچی بسی تھی۔ طیب اردوان کے ساتھ بلدیہ استنبول کے کئی بڑے منصوبے کامیابی سے مکمل کیے اور پھر وزارت ملنے پر بھی کئی نئے منصوبے مکمل کرنے کا ریکارڈ قائم کیا۔ مثلاً: ان سے پہلے ملک میں ۲۶ ایئرپورٹ تھے، اب ان کی تعداد ۵۵ہے۔ انھوں نے اعلان کیاتھا کہ ہر ترک شہری کو ہوائی سفر کی سہولت پہنچائیں گے۔ پہلے ترکی میں ہوائی سفر کے سالانہ مسافروں کی تعداد ۴و۳۴ ملین ہوا کرتی تھی جو اَب ۱۸۲ ملین سالانہ ہوچکی ہے۔ انھوں نے ۲۴ہزار ۲سو۸۰ کلومیٹر لمبی نئی سڑکیں اور ۱۸۰۵ کلومیٹر لمبی نئی ریلوے لائن کا جال بچھا دیا جس میں ۱۲۱۳ کلومیٹر فاسٹ ٹرین کی لائن بھی شامل ہے۔ ان کے زمانے میں الیکٹرانک تجارت میں ۲۱گنا اضافہ ہوا اور وہ ۹۰۰ ملین ترک لیرے سے بڑھ کر ۱۸۰۹؍ ارب ترک لیرے تک جاپہنچی ... یہ اور اس طرح کے کارناموں کی ایک لمبی فہرست ہے۔ایک صحافی سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ یلدریم کا مطلب ہوتا ہے ’بجلی کا کڑکا‘۔ شاید میری شخصیت میں میرے نام کا پرتو پایا جاتا ہے۔
نئے ترک وزیراعظم کے سامنے سب سے اہم مرحلہ ملک میں مجوزہ صدارتی نظام کے مراحل کو کامیابی سے مکمل کرنا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ اگر یہ ہدف کامیابی سے حاصل کرلیتے ہیں تو وہ جدید ترکی کے آخری بااختیار وزیراعظم ہوں گے۔ کرد باغیوں، داعش کے جنگجوؤں اور اردوان کے بقول فتح اللہ گولان کی جماعت کی طرف سے ملک میں ایک متوازی ریاست چلانے کی کوششیں ناکام بنانا بھی مشکل ترین اہداف ہیں۔ دہشت گردی کے پے در پے واقعات بھی مسلسل نقصانات کا باعث بن رہے ہیں اور ترکی کے دشمنوں میں بھی تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔۲۲ مئی کو نئے وزیراعظم کے انتخاب کے لیے پارٹی کا جو اہم اجلاس بلایا گیا، اس میں ملک کی قومی قیادت کے علاوہ تمام سفرا کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔ انتہائی اہم بات یہ تھی کہ مصر، شام، اسرائیل، روس اور بنگلہ دیش کے سفرا کو اس اجلاس میں قصداً نہیں بلایا گیا۔ ان پانچوں سفرا کو نہ بلایا جانا ترک عوام ہی نہیں، عالم اسلام کے اکثر عوام کے لیے خوشی کا باعث ہوگا لیکن ا س سے ترکی کو درپیش چیلنجوں کا بھی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ تقریب میں مدعو کیے جانے والے کئی سفرا کے ممالک بھی ترک پالیسیوں کے سخت مخالف ہیں، مثلاً امریکا، ایران اور متحدہ عرب امارات۔
اللہ تعالیٰ نے ترکی کو گذشتہ عرصے میں بھی ہر چیلنج کے مقابلے میں سرخ رو کیا ہے اور ترک قیادت کو یقین ہے کہ چوں کہ وہ اپنے مقاصد میں مخلص ہیں، جاں فشانی اور حکمت سے کام کررہے ہیں اور ہر مشکل کے باوجود مظلوم مسلمانوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں__ اب بنگلہ دیش سے بھلا ان کی کیا دشمنی ہوسکتی ہے سواے اس کے کہ وہاں کی پٹھو حکومت بے گناہوں کا خون بہارہی ہے۔ وہ ظلم رکوانے کے لیے کی جانے والی ترک ذمہ داران کی کسی کوشش، کسی مطالبے، کسی درخواست کو خاطر میں نہ لائی__ اس لیے ترک قیادت کو یقین ہے کہ اللہ کا فرمان مانتے ہوئے اگر کوئی پریشانی آتی بھی ہے تو اللہ تعالیٰ ان کی مدد ضرور فرمائے گا۔ ایک اچھی مثال تو حالیہ بحران ہی میں سامنے آگئی کہ صدر اور وزیراعظم میں اختلاف راے پیدا ہوا تو انھوں نے کسی بڑی خرابی کا شکار ہوئے بغیر اس کا ایک بہتر حل نکال لیا۔ سابق وزیر اعظم احمد داؤد اوغلو کے بقول ’’ہمارے لیے عہدے اور مناصب نہیں مقاصد و نظریات اہم ہیں۔ اردوان میرے قائد ہیں اور میں پارٹی کے ایک کارکن کی حیثیت سے خدمت کرتا رہوں گا‘‘۔
اسے پروٹوکول کا چھوٹا سا مسئلہ قرار دے کر نظر انداز بھی کیاجا سکتا ہے، لیکن ممالک کے مابین تعلقات کا درجۂ حرارت جانچنے کے لیے پروٹوکول کے واقعات بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ ۲۰؍اپریل کو سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں خلیجی ریاستوں کے سربراہوں اور امریکی صدر باراک اوباما کی آمد ہوئی۔ یہ سب رہنما ۲۱؍اپریل کو ایک روزہ امریکی خلیجی گول میز کانفرنس میں خطے کی صورت حال پر مشورہ کرنے جمع ہو رہے تھے۔پروٹوکول اور معمول کے مطابق سعودی فرماںروا شاہ سلمان نے تمام خلیجی ذمہ داران کا استقبال خود ائیرپورٹ جا کر کیا،جو سرکاری ٹی وی چینل پر براہِ راست دکھایا گیا۔ تھوڑی ہی دیر بعد اسی ائیرپورٹ پر امریکی صدر پہنچے، لیکن سب کو یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ ان کا استقبال کرنے کے لیے نہ شاہ سلمان خود تھے، نہ ان کے ولی عہد اور نہ نائب ولی عہد۔ ان کا استقبال ریاض کے گورنرفیصل بن بندر اور وزیر خارجہ عادل بن جبیر نے کیا۔ ٹی وی پر بھی یہ کارروائی نہ دکھائی گئی۔ امریکی صدر نے بھی جہاز سے اترتے ہی اپنے میزبانوں سے پہلے سعودی عرب میں امریکی سفیر سے قدرے طویل معانقہ کیا اور پھر میزبانوں سے مختصر مصافحہ کرتے ہوئے ، ان کے ہمراہ اپنے ہیلی کاپٹر کی طرف بڑھ گئے۔ یہی صدراوباماچند ماہ قبل ریاض آئے تھے توخود شاہ سلمان نے ائیرپورٹ پر ان کا خیر مقدم کیا تھا۔
معاملہ ائیرپورٹ پر استقبال اور قومی ٹی وی پر براہِ راست نہ دکھائے جانے ہی کا نہیں، معاملات کئی پہلوؤں سے گھمبیر ہو رہے ہیں۔ سعودی عرب آمد سے پہلے اہم امریکی رسالے The Atlantic (اپریل ۲۰۱۶ئ) میں’اوباما ڈاکٹرائن‘ کے عنوان سے امریکی صدر کا بہت طویل انٹرویو شائع ہوا۔۱۹ہزار الفاظ پر مشتمل اس انٹرویو اور تبصرے میں صدر اوباما نے واضح الفاظ میں سعودی عرب کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا: ’’افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ امریکی خارجہ پالیسی مجھے سعودی عرب کے ساتھ اب بھی ایک حلیف کی حیثیت سے برتائو کرنے پر مجبور کر رہی ہے۔ سعودی عرب اور خلیجی ریاستیں دہشت گردی کے خلاف جنگ کا حصہ بنے بغیر مفت میں مفاد حاصل کرتے رہنا چاہتی ہیں‘‘۔ یہ سوال بھی اٹھایا کہ کہیں امریکا کے حلیف ’سُنّی عرب ممالک‘ امریکا مخالف دہشت گردی کو شہ تو نہیں دے رہے؟ مزید کہا: ’’سعودی عرب اور خلیجی ریاستیں خطے میں فرقہ وارانہ اختلافات اُبھار رہی ہیں‘‘۔ ’’ہمارا کوئی مفاد اس سے وابستہ نہیں ہے کہ ہم بلا وجہ سعودی عرب کی مدد کرتے رہیں‘‘۔ ’’ایران اور سعودی عرب کی مخاصمت نے شام ، عراق اور یمن میں پراکسی وار کو ہوا دی ہے‘‘۔ ’’ سعودی عرب خطے کے معاملات میں ایران کو ساتھ لے کر چلے‘‘ ۔ امریکی صدر کا یہ جملہ دوبارہ پڑھیں تو یوں ہوگا کہ: ’’سعودی عرب (ہمیں شیطانِ بزرگ قرار دینے والے) کو ساتھ لے کر چلے‘‘۔
انھوں نے شام کے بارے میںبھی تفصیلی بات کرتے ہوئے فخریہ انداز سے کہا کہ: ’’بشار الاسد کے خاتمے کے لیے امریکی فوجیںشام نہ بھیجنے کا ہمارا فیصلہ درست تھا۔ خطے کے ممالک کو مذاکرات کے ذریعے معاملات حل کرنا چاہییں‘‘ یعنی بشار کو باقی رکھتے ہوئے کوئی حل نکالا جائے۔ اس انٹرویو کے علاوہ بھی صدر اوباما نے سعودی عرب پر کڑی تنقید کی ہے مثلاً یہ کہ ’’سعودی عرب صرف تیل ہی نہیں دہشت گردی بھی برآمد کر رہا ہے۔ انڈونیشیا کے لوگ معتدل سوچ رکھنے والے مسلمان تھے، سعودی عرب نے وہاں بھی انتہا پسندی کو فروغ دیا‘‘۔
اسی دوران میں نائن الیون کی تحقیقات کے لیے قائم کانگریس کمیٹی کی طرف سے سعودی عرب کے خلاف اقدامات کا عندیہ دینا شروع کردیاگیا۔ امریکی رسائل وجرائد کے مطابق وائٹ ہاؤس میںامریکی قومی سیکورٹی کونسل کے بعض ارکان یہ طعنہ دیتے سنائی دیتے ہیں کہ: ’’نائن الیون کے واقعات میں ملوث ۱۹؍افراد میں سے ۱۵شہری سعودی تھے، کوئی بھی ایرانی نہیں تھا‘‘۔ کہا جانے لگا کہ ان واقعات میں ملوث سعودی باشندوں نے انفرادی طور پر ہی نہیں، ریاست کے بعض ذمہ داران کے تعاون سے یہ کارروائی کی۔ یہ عندیہ بھی دیا جانے لگا کہ مزید تحقیقات نے اگر یقینی طور پر یہ بات ثابت کردی تو پھر سعودی عرب کو بحیثیت ریاست اس کا ذمہ دارٹھیرایا جائے گا اور اس سے ۳ہزار ہلاک شدگان کا تاوان لیا جائے گا۔ سعودی عرب میں حقوق انسانی، جمہوریت ، عدلیہ اور حقوق نسواں کی لَے بھی بلند کی جانے لگی۔ یہ انکشاف بھی کیا گیاکہ ۱۹۹۵ء میں ریاض میں امریکی کمپاؤنڈ پر حملہ بھی کوئی انفرادی کارروائی نہیں بلکہ اس میںبعض ریاستی ذمہ داران بھی ملوث تھے۔
اس صحافتی وسفارتی یلغار کے جواب میںسعودی وزیر خارجہ اور امریکا میں سعودی عرب کے سابق سفیر عادل جبیر نے بیان دیا ہے کہ: ’’اگر ہمیں محسوس ہوا کہ امریکی مالیاتی اداروں میں پڑے ہمارے سرمایے کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں تو ہم یہ رقم، یعنی (۷۰۰؍ ارب ڈالر) واپس لے آئیں گے‘‘۔
دوسری طرف ایران نے امریکا ہی نہیں اس پر مؤثر ہر لابی کو مزید بہتر تعلقات کے عملی پیغامات دینا شروع کردیے ہیں ۔ ایٹمی معاہدے کے بعد امریکا کو ۸میٹرک ٹن بھاری پانی کی فروخت کی خبریں سامنے آچکی ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے بقول: ’’ایٹمی معاہدے کے بعد امریکی بنکوں میں منجمد ۵۵؍ارب ڈالر میں سے ۳؍ارب ڈالر اسے واپس مل گئے ہیں‘‘۔ حتیٰ کہ خود اسرائیل کے حوالے سے ایرانی لب ولہجہ تبدیل ہونے لگاہے۔ نیم سرکاری نیوز ایجنسی ـ’مہر‘ کے مطابق صدر روحانی نے ایرانی پیشوا آیت اللہ خامنہ ای کے نام خط میں تجویز دی ہے کہ دور مار ایرانی میزائلوں پر تحریر ’مرگ بر اسرائیل‘ کی عبارت حذف کردی جائے۔
لیکن ان سابق الذکر چند جھلکیوں سے یہ نتیجہ اخذ کرنا درست نہ ہوگا کہ امریکا ایران اختلافات وعداوت ختم ہوگئی ہے۔ ایران کے روحانی پیشوا آیت اللہ خامنہ ای کے بقول امریکا سے ہونے والا معاہدہ ابھی صرف کاغذ کا ایک ٹکڑا ہے‘‘۔ سی این این ٹیلی ویژن کے مطابق ایرانی اسپیکر علی لاریجانی نے کہا ہے کہ: ’’اگر امریکا نے ہمارے ساتھ کیے گئے وعدوں پر عمل نہ کیا تو اسے سخت نادم ہونا پڑے گا‘‘۔ اسی طرح یہ سمجھنا بھی ٹھیک نہیں ہوگا کہ امریکا اور سعودی عرب کے مابین تناؤ کسی فوری اور وسیع تر تنازعے کا پیش خیمہ بن جائے گا۔ البتہ یہ حقیقت ضرور واضح ہے کہ ایران، سعودی عرب اختلافات بھیانک تر ہوگئے ہیںاور عالمی طاقتیں ان اختلافات کو اپنی مطلب براری کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔ امریکا، روس اور اسرائیل اس سارے کھیل میں سے اپنا اپنا حصہ وصول کر رہے ہیں اور باہم اختلافات کے باوجود تینوں ملک باہم مشاورت وتعاون کے کئی دائرے رکھتے ہیں۔ قرآن کریم کے الفاظ میں:’’بَعْضُھُمْ اَوْلِیَآئُ بَعْضٍ،سب ایک دوسرے کے ساتھی ہیں‘‘۔
اسی پس منظر میں ۷،۸؍اپریل کو ترکی کے شہر استنبول میں ۱۳ویں اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد ہوئی۔ حاضری کے اعتبار سے یہ ایک کامیاب کانفرنس تھی ۔۲۰سے زائد سربراہان شریک تھے، باقی ممالک کی نمایندگی مختلف افراد نے کی۔ ۵۷ممالک میں سے صرف شام غیر حاضر تھا ۔ بنگلہ دیشی وزیر اعظم حسینہ واجد کی شرکت کا اعلان کیا گیا تھا ،لیکن عین آخری لمحے انھوں نے سیکورٹی خدشات کا بہانہ بنا کر اپنے وزیر خارجہ کو بھیج دیا۔ شاید یہی ’خطرہ‘ ہو کہ کہیں کوئی مسلم رہنما انھیں بنگلہ دیش میں جاری وحشیانہ انتقامی کارروائیاں روکنے کا مطالبہ نہ کردے ۔
پروٹوکول کے واقعات نے یہاں بھی کئی پیغامات دیے، مثلاً کانفرنس کا آغاز ہی مصری وزیر خارجہ کی کم ظرفی پر مبنی ایک حرکت سے ہوا۔ تنظیم کا سابق سربراہ ہونے کے ناتے مصر نے رسمی طور پر یہ ذمہ داری ترکی کے سپرد کرنا تھی۔مصری وزیر خارجہ سامح شکری نے جو مصری غاصب حاکم جنرل سیسی کی غیر حاضری کے باعث مصر کی نمایندگی کر رہے تھے ، افتتاحی سیشن کا آغاز کیا، چند رسمی جملے ادا کیے، جن میں ترکی کے بارے میں کوئی کلمۂ خیر تک نہیں کہا اور پھر تنظیم کے نئے سربراہ اور میزبان ملک کے صدر طیب اردوان کا انتظار کیے بغیر، تیزی سے سٹیج سے اُتر کر اپنی نشست پر جابیٹھے۔
واضح رہے کہ مصر کے منتخب پارلیمنٹ اور منتخب صدر کے خلاف جنرل سیسی کے خونی انقلاب کی سب سے پُرزور مخالفت ترکی ہی نے کی تھی۔ صدر اردوان اب بھی جنرل سیسی کو ملک کا آئینی سربراہ ماننے کے لیے تیار نہیں۔ کانفرنس کے دوران تمام شرکا کے گروپ فوٹو کا موقع آیا تو شاہ سلیمان اور صدر اردوان شرکا کے عین درمیان میں تھے۔ تصویر بننے کے بعد دونوں سربراہ دیگر مہمانوں کے جلو میں سٹیج سے روانہ ہوئے۔ ایرانی صدر روحانی بھی قطار میں کھڑے تھے۔ شاہ سلمان ان کے بالکل قریب اور سامنے سے گزر گئے اورسلام دعا تو کجا، ان سے آنکھیں بھی چار نہ کیں۔ دونوں ملکوں کے شہریوں نے اس منظر پر اپنے اپنے انداز میں کڑے تبصرے کیے۔
دو روزہ کارروائی ، تقاریر اور جانبی ملاقاتوں کے بعد ۳۴صفحات اور ۲۱۸نکات پر مشتمل اختتامی اعلامیہ جاری کیا گیا۔ اعلامیہ کئی لحاظ سے بہت بہتر اور جامع ہے۔مسئلۂ فلسطین حسب سابق سر فہرست ہے، جس میں بیت المقدس کو دارالحکومت بناتے ہوئے فلسطینی ریاست کے قیام اور ۱۹۴۸ء سے ملک بدر کیے گئے فلسطینی مہاجرین کی واپسی کا ذکر نمایاں ہے۔ اعلامیے کی شق ۲۱سے ۲۶تک میں مسئلہ کشمیر پر ایسا دو ٹوک موقف اختیار کیا گیا ہے جو بعض اوقات خود پاکستانی حکومت کے بیانات سے بھی غائب ہوجاتا ہے۔ کشمیر کو پاکستان وہندستان کے مابین بنیادی تنازع قرار دیتے ہوئے، اسے اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی مرضی کی روشنی میں حل کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے کیوں کہ اعلامیے کے الفاظ میں’’اس کے بغیر جنوبی ایشیا میں قیام امن ممکن نہیں‘‘۔ عالمی برادری کو یاد دلایا گیا ہے کہـ’’کشمیر کے سلسلے میں اقوام متحدہ کی قراردادیں ۶۸برس سے عمل درآمد کی منتظر ہیں‘‘۔ ’’حق خود ارادیت کے لیے کشمیری عوام کی وسیع تر جدوجہد کی حمایت کرتے ہوئے دنیا سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ’’جدو جہد آزادی اور دہشت گردی کو یکساں قرار نہ دے‘‘۔کشمیر میں ہندوستانی افواج کے مظالم اور حقوق انسانی کی کھلی خلاف ورزی کی مذمت کی گئی ہے کہ جس کے نتیجے میں ہزاروں بے گناہ شہری شہید اور لاکھوں زخمی ہو چکے ہیں جن میں بچے، بوڑھے اور خواتین بھی شامل ہیں۔ ۱۴فروری ۲۰۱۶ء کو پلوامہ میں ۲۲سالہ کشمیری خاتون شائستہ حمید کی شہادت کا ذکر مثال کے طور پر کیا گیا ہے۔ آخر میں اسلامی تعاون تنظیم (جس کا نام پہلے اسلامی کانفرنس تنظیم ہوتا تھا) کے زیر اہتمام ایک دائمی اور آزاد ادارے کے قیام کا خیرمقدم کیا گیا ہے، جس کی ذمہ داری ’’ہندستان کے زیر تسلط جموں وکشمیر میں ہونے والے حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں کا جائزہ لینا ہوگا‘‘ ۔
حقوق انسانی کی عالمی تنظیموں سے بھی ’مقبوضہ کشمیر ‘ آنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اوآئی سی کے ادارے ایسیسکو کو متوجہ کیا گیا ہے کہ وہ کشمیر میں مسلمانوں کے مقدس مقامات کی دیکھ بھال اور نگرانی کرے۔ ساتھ ہی مسلم ممالک سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ کشمیری طلبہ کے لیے خصوصی تعلیمی وظائف کا اہتمام کریں۔ عالم اسلام کے سب سے اہم عالمی پلیٹ فارم سے کشمیر کے بارے میں اس قدر جامع اور مضبوط موقف کا اعلان کیے جانے میں بنیادی کردار یقینا پاکستانی وزارت خارجہ کا ہوگا۔ اس کے اعتراف کے ساتھ ساتھ ا ن تمام مسلم ممالک کے کردار کی تحسین بھی کرنا ہوگی کہ جن کے واضح تعاون کے بغیر یہ کامیابی ممکن نہ تھی۔ البتہ اب اصل ضرورت عالم اسلام کے اس متفق علیہ موقف کو دنیا کے ہر شہری کے سامنے تسلسل اور مقبوضہ کشمیر سے حاصل کردہ سمعی وبصری شواہد کے ساتھ پیش کرتے رہنے کی ہے۔
اعلامیے میں افغانستان میں مصالحتی کاوشوں کا بھی خیر مقدم کیا گیا۔’قلب ایشیا‘ کانفرنس کی بھی حمایت وتائید کی گئی ہے اور جنوری ۲۰۱۶ء میں تشکیل پانے والی چار ملکی (افغانستان، چین، پاکستان، امریکا) کوارڈی نیشن کمیٹی کی بھی حمایت کی گئی ہے۔
اعلامیے کا سب سے نازک حصہ وہ درجن بھر شقیں ہیں، جن میں کہیں براہ راست اور واضح انداز سے اور کہیں بالواسطہ طور پر ایران کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے ’دہشت گردی کی مدد‘ کرنے سے رُک جانے کا کہا گیا ہے۔ ان شقوں کا آغاز ’’مسلم ممالک اور اسلامی جمہوریہ ایران کے مابین اچھے تعلقات کی ضرورت اور اہمیت‘‘ سے کیا گیا ہے(شق۳۰)۔ لیکن ساتھ ہی دیگر ممالک کی آزادی ، خودمختاری اور وحدت کے احترام کی یاددہانی بھی کرائی گئی ہے۔ تہران اور مشہد میں سعودی سفارت خانے اور قونصل خانے پر حملوں کی شدید مذمت کی گئی ہے۔بحرین، یمن، شام اور صومالیہ میں ایران کی مداخلت اور وہاں دہشت گردی کی پشتیبانی جاری رکھنے کی بھی مذمت کی گئی ہے (شق۳۳)۔ فرقہ واریت اور مذہبی تعصبات کو ہوا دینے سے خبردار کیا گیا ہے۔ دہشت گردی کے بارے میں اعلامیے کی کئی شقیں ہیں جن میں داعش کی دو ٹوک مذمت کرتے اور اسے دہشت گرد قرار دیتے ہوئے اس کا قلع قمع کرنے کا ذکر ہے۔ اور پھر شق۱۰۵میں ’’شام، بحرین، کویت اور یمن میں حزب اللہ کی دہشت گردی‘‘ کی مذمت کرتے ہوئے اسے ’’خطے میں عدم استحکام کے لیے دیگر دہشت گرد تنظیموں کی معاونت کا اصل ذمہ دار‘‘ قرار دیا گیا ہے۔
عالم اسلام اور او آئی سی کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ ایران کے خلاف اس طرح کھل کر اور شدید تنقید کی گئی ہو۔ یہ امر بھی اہم ہے کہ کانفرنس میں شریک ۵۶ممالک میں سے صرف ایک ایران ہی تھا جس نے اس اعلامیے پر احتجاج کرتے ہوئے اس سیشن کا بائیکاٹ کیا۔ سابق الذکر چند شقیںتو وہ ہیں جن میں ایران پر براہ راست الزامات اور اس کی مذمت ہے، وگرنہ شام اور صومالیہ سمیت کئی مسائل پر بات کرتے ہوئے بھی روے سخن اسی کی طرف ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اعلامیے کے بعض الفاظ ضرورت سے زیادہ سخت ہوں، لیکن برادر اسلامی ملک ایران کو یہ ضرور سوچنا اور اس امر کا مبنی برحقیقت جائزہ لینا ہوگا کہ آخر پوری مسلم دنیا اس کے خلاف یک آواز کیوں ہوگئی۔
اعلامیے میں روہنگیا اراکان، فلپائن ، بوسنیا، کوسوا، اری ٹیریا سمیت امت مسلمہ کے تقریبا ہرمسئلے کا احاطہ کیا گیا ہے۔ مغرب میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جاری مہم اور اسلام فوبیا کا بھی سخت الفاظ میں نوٹس لیا گیا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے کئی مسلم ممالک میں ہونے والے قتل عام اور توہینِ انسانیت کی طرف اشارہ تک نہیں کیا گیا۔ مصر میں ۴۸ہزار سے زائد بے گناہ قیدیوں اور ہزاروں بے گناہ شہدا کا ذکر کہیں نہیں ملتا۔ بنگلہ دیش میں ۸۸ہزار سے زائد بے گناہوں کو پسِ دیوار زندان دھکیل دینے، ۳۰۰ سے زائد شہریوں کو ماوراے عدالت قتل کر دینے اور بے گناہ سیاسی مخالفین کو پھانسیاں دینے پر ایک لفظ بھی نہیں کہا گیا۔گذشتہ ۱۰برس سے جاری حصارِ غزہ کا ذکر بھی گول کردیا گیا۔ پاکستان کے صوبہ بلوچستان سمیت کئی مسلم ممالک کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے لیے فعال عالمی خفیہ ایجنسیوں کا کردار بے نقاب کرتے ہوئے ان کا سدباب کرنے کا ذکر نہیں کیا گیا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ کسی بھی ظلم پر آنکھیں نہ موند لی جائیں اور مکمل انصاف اور غیرجانب داری سے کام لیتے ہوئے اپنی اپنی غلطیوں کا اعتراف کیا جائے۔ ۱۷؍اپریل کو اپنی تاریخ میں پہلی بار صہیونی حکومت نے اپنا ہفتہ وار کابینہ اجلاس شام کے مقبوضہ علاقے ’جولان‘ میں کیا۔ اس اجلاس کے ذریعے اس نے اعلان کیا کہ اب دنیا کو جولان پر بھی اس کا قبضہ تسلیم کرلینا چاہیے۔ صہیونی ریاست کو یہ جسارت اسی لیے ہورہی ہے کہ مسلم ممالک کی اکثریت باہم سرپھٹول اور ماردھاڑ کا شکار ہے۔ ہر کوئی اپنے اپنے ظالموں کا دفاع کرنے اور ان کے گناہ اپنے سر لینے میں لگاہوا ہے۔ یہی عالم رہا تو خاکم بدہن زیادہ دیر نہیں لگے گی کہ آج عافیت سے بیٹھے حکمران و عوام بھی دشمن کے بچھائے جال میں جکڑے جاچکے ہوں گے۔
اپنے اللہ پر کاکامل بھروسا رکھنے والے مظلوموں کو البتہ یہ یقین ہے کہ تاریکی کے بعد سحرنو کو بہرصورت طلوع ہونا ہے۔ اسی یقین کا اظہار کرتے ہوئے گذشتہ دنوں عدالت میں لائے جانے والے الاخوان المسلمون کے مرشدعام ڈاکٹر محمد بدیع نے ہتھکڑیوں میں جکڑے ہاتھ بلند کرتے ہوئے دو ٹوک الفاظ میں کہا: مرسی راجع (منتخب صدر) مرسی واپس آکر رہیں گے!