مضامین کی فہرست


اپریل ۲۰۱۴

دعوتِ اسلامی اورآزمایش کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اللہ کی حاکمیت کو تسلیم کرنے اور بندوں کو بندوں کی غلامی سے نجات دلانے کی دعوت و تحریک کو کبھی ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کیا گیا۔ اقبال نے تاریخ کی گواہی کو کس خوب صورتی سے بیان کیا ہے    ؎

ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تاامروز

چراغ مصطفویؐ سے شرارِ ُبولہبی

اور اللہ تعالیٰ نے خود بھی اپنی راہ میں جدوجہد کرنے والے بندوں کو آگاہ کردیا تھا، بلکہ بہ الفاظ صحیح تر متنبہ کردیا تھا کہ کامیابی کی منزل کش مکش، آزمایش اور ابتلا کے مراحل سے گزر کر ہی حاصل ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں بار بار خاک و خون کے دریا پار کرنا ہوں گے اور پھر ان شاء اللہ آزمایش کی بھٹی میں سونے کو سہاگا بنانے والے اس عمل سے گزرنے والوں ہی کو غلبہ و کامیابی نصیب ہوگی:

اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْٓا اَنْ یَّقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا وَ ھُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ o وَ لَقَدْ فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ فَلَیَعْلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَ لَیَعْلَمَنَّ الْکٰذِبِیْنَ o اَمْ حَسِبَ الَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السَّیِّاٰتِ اَنْ یَّسْبِقُوْنَا ط سَآئَ مَا یَحْکُمُوْنَo (العنکبوت ۲۹:۲-۴) کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ بس اتنا کہنے پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ ’’ہم ایمان لائے‘‘ اور ان کو آزمایا نہ جائے گا؟ حالاںکہ ہم اُن سب لوگوں کی آزمایش کرچکے ہیں جو اِن سے پہلے گزرے ہیں۔ اللہ کو تو ضرور یہ دیکھنا ہے کہ سچے کون ہیں اور جھوٹے کون۔ اور کیا وہ لوگ جو بُری حرکتیں کر رہے ہیں یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ وہ ہم سے بازی لے جائیں گے؟ بڑا غلط حکم ہے جو وہ لگا رہے ہیں۔

پھر اللہ نے اپنے بندوں کو یہ بھی بتا دیا کہ کس کس قسم کی آزمایشوں سے ان کو گزرنا پڑے گا:

وَ لَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْئٍ مِّنَ الْخَوْفِ َوالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَ الْاَنْفُسِ وَ الثَّمَرٰتِ ط وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَ o الَّذِیْنَ اِذَآ اَصَابَتْھُمْ مُّصِیْبَۃٌ قَالُوْ ٓا اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ o اُولٰٓئِکَ عَلَیْھِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّھِمْ وَرَحْمَۃٌ قف وَ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُھْتَدُوْنَ o (البقرہ ۲:۱۵۵-۱۵۷) اور ہم ضرور تمھیں خوف و خطر، فاقہ کشی، جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں  مبتلا کرکے تمھاری آزمایش کریں گے۔ ان حالات میں جو لوگ صبر کریں اور جب کوئی مصیبت پڑے، تو کہیں کہ ’’ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے‘‘۔ انھیں خوش خبری دے دو۔ ان پر ان کے رب کی طرف سے بڑی عنایات ہوں گی، اُس کی رحمت ان پر سایہ کرے گی اور ایسے ہی لوگ راست رَو ہیں۔

مقابلے کا راستہ بھی بتا دیا کہ وہ صبر اور صلوٰۃ کا راستہ ہے:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوۃِ ط اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ o (البقرہ ۲:۱۵۳) ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، صبر اور نماز سے مدد لو۔ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے‘‘۔ گویا استقامت اور دعوتِ حق پر قائم رہنا اور شر اور ظلم و زیادتی کا بھی خیر اور صلاح کے ذریعے مقابلہ کرنے میں کامیابی کا راستہ ہے۔ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:

اِِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْہِمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلاَ تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّۃِ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ o نَحْنُ اَوْلِیٰٓؤُکُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِ ج وَلَکُمْ فِیْھَا مَا تَشْتَہِیْٓ اَنْفُسُکُمْ وَلَکُمْ فِیْھَا مَا تَدَّعُوْنَ o نُزُلًا مِّنْ غَفُوْرٍ رَّحِیْمٍ o وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَآ اِِلَی اللّٰہِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَّقَالَ اِِنَّنِیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ o وَلاَ تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَلاَ السَّیِّئَۃُ ط اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ فَاِِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَبَیْنَہٗ عَدَاوَۃٌ کَاَنَّہٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ o وَمَا یُلَقّٰھَآ اِِلَّا الَّذِیْنَ صَبَرُوْا وَمَا یُلَقّٰھَآ اِِلَّا ذُوْ حَظٍّ عَظِیْمٍ o (حم السجدہ ۴۱:۳۰-۳۵) جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے، یقینا ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ ’’نہ ڈرو، نہ غم کرو، اور خوش ہوجائو اس جنت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے۔ ہم اس دنیا کی زندگی میں بھی تمھارے ساتھی ہیں اور آخرت میں بھی۔ وہاں جو کچھ تم چاہو گے تمھیں ملے گا اور ہرچیز جس کی تم تمنا کرو گے وہ تمھاری ہوگی، یہ ہے سامانِ ضیافت اس ہستی کی طرف سے جو غفورورحیم ہے‘‘۔

اور اس شخص کی بات سے اچھی بات اور کس کی ہوگی جس نے اللہ کی طرف بلایا اور  نیک عمل کیا اور کہا کہ میں مسلمان ہوں۔ اور اے نبیؐ، نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں۔  تم بدی کو اس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو۔ تم دیکھو گے کہ تمھارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی وہ جگری دوست بن گیا ہے۔ یہ صفت نصیب نہیں ہوتی مگر   ان لوگوں کو جو صبر کرتے ہیں، اور یہ مقام حاصل نہیں ہوتا مگر ان لوگوں کو جو بڑے نصیبے والے ہیں۔ اور اگر تم شیطان کی طرف سے کوئی اُکساہٹ محسوس کرو تو اللہ کی پناہ  مانگ لو، وہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔

آزمایش اور مقابلے کی حکمت عملی

ان آیاتِ مبارکہ میں ہمارے رب نے ہمیں ان مراحل سے بھی آگاہ کردیا جن سے  اہلِ حق کو گزرنا پڑتا ہے، اور ان حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے صحیح حکمت عملی اور راہِ عمل کی طرف بھی رہنمائی فرما دی جس کے ذریعے مخالفتوں کا مقابلہ کیا جانا چاہیے۔ جواب میں انتقام اور    بدی کے بدلے بدی کا راستہ اختیار کرنے سے منع فرما دیا اور صبرواستقامت اور حق و شرافت کے ہتھیاروں سے غلط فہمیوں کو دُور کرنے اور انسانوں کے دل میں خیر کا جو عنصر ودیعت کیا گیا ہے، اسے بیدار کرکے نیکی کی راہ کو غالب کرنے کی جدوجہد کو اختیار کرنے کی ہدایت کی جارہی ہے۔    واضح رہے کہ صبرواستقامت کا راستہ عدل و انصاف سے عبارت ہے۔ انتقام اور ظلم و زیادتی اختیار کرنا مقصد کو فوت کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں، اور انسانی زندگی ایک خرابی کے بعد دوسری خرابی کی آماج گاہ بن جاتی ہے۔ اصلاح اورخیر کا راستہ بدی کو نیکی اور بھلائی سے دُور کرنا ہے اور جہاں غلط کار قیادت اور اُولی الامرکے غلط فیصلوں اور اقدام پر مداہنت کا راستہ بند کیا ہے، وہیں اصلاحِ احوال کے لیے  اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے راستے ہی کو اختیار کرنے اور اس پر قائم رہنے کی ہدایت کی ہے۔ ارشاد ربانی ہے:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ ط  ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلًاo  (النساء ۴:۵۹) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسولؐ کی اور ان لوگوں کی جو   تم میں سے صاحب ِ امر ہوں، پھر اگر تمھارے درمیان کسی معاملے میں نزاع ہوجائے تو اسے اللہ اور رسولؐ کی طرف پھیر دو اگر تم واقعی اللہ اور روزِ آخر پر ایمان رکھتے ہو۔ یہی ایک صحیح طریق کار ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر ہے۔

تمام اہلِ ایمان کو خواہ وہ اصحاب امر ہوں یا عام افراد، عدل و انصاف پر سختی سے عمل پیرا ہونے کی ہدایت فرمائی گئی ہے:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰہِ شُھَدَآئَ بِالْقِسْطِ وَ لَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوْا ط اِعْدِلُوْا قف ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی وَ اتَّقُوْا اللّٰہَط اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌم بِمَا تَعْمَلُوْنَo  (المائدہ ۵:۸) اے لوگو! جو ایمان لائے ہو،  اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو۔ کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کردے کہ انصاف سے پھر جائو۔ عدل کرو، یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے ۔ اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو، جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔

عالمِ عرب اور اخوان

اللہ تعالیٰ نے اس اُمت کو ’اُمت وسط‘ قرار دیا ہے اور اُمت کے افراد کے درمیان  بلالحاظ رُتبہ، نسل، اور حیثیت، وحدت اور اخوت کا رشتہ قائم کیا ہے اور ان کے باہمی تعلقات کو رحماء بینھم کے حسنِ تعلق کی شکل میں بیان فرمایا ہے۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے دین کا خلاصہ ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ:

اَلدِّیْنُ النَّصِیْحَۃُ  ___ دین ایک دوسرے کی خیرخواہی کا نام ہے۔

اصحابِ رسول رضوان اللہ اجمعین نے پوچھا: لمن؟ ’’کن سے؟‘‘

آپؐ نے فرمایا:

لِلّٰہِ  وَلِرَسُوْلہٖ وَلِکِتَابِہٖ وَلِاٰئِمَّۃِ المُسْلِمِیْنَ  وَعَامَّتَِھِمْ

اللہ سے، اللہ کے رسولؐ سے، اللہ کی کتاب سے، مسلمانوں کے اولی الامر سے اور عام مسلمانوں سے۔

نصیحت کا یہی وہ تعلق ہے جس کی بنا پر ہم مسلمان حکمرانوں، خصوصیت سے عرب دنیا کے حکمرانوں کو پوری دل سوزی کے ساتھ دعوت دیتے ہیں کہ مصر میں عالمِ عرب کی سب سے بڑی اسلامی تحریک اخوان المسلمون کے ساتھ اس وقت جو ظلم ہو رہا ہے، نہ اس پر خاموش تماشائی بنیں اور نہ کسی طرح بھی اور کسی شکل میں بھی ظلم کرنے والوں کے لیے تقویت کا ذریعہ بنیں۔ صحیح راستہ اس ظلم کو رُکوانے اور مصر کی حکومت کو اس سے باز رکھنے کی کوشش کا ہے جس کے لیے ہر صاحب ِ امر اور صاحب ِ خیرکو متحرک ہوناچاہیے۔ اُمت مسلمہ کا اجتماعی ضمیر اس باب میں یکسو ہے کہ جس طرح مصر میں ایک منتخب صدر کو ہٹایا گیا ہے اور پھر جس طرح اخوان المسلمون اور دوسرے تمام  جمہوریت پسند عناصر کو نشانۂ ظلم وستم بنایا جارہا ہے وہ حق وا نصاف کا خون ہے اور خود مصر اور عالمِ عرب کے مفاد سے متصادم ہے۔

اسلام اور اسلامی تحریکات کے خلاف جو عالم گیر جنگ امریکا اور اس کے اتحادیوں نے برپا کی ہوئی ہے اور جس کی فکر ی نکیل اسرائیل اور صہیونی عناصر کے ہاتھ میں ہے، ہمارے حکمرانوں کو اس ناپاک کھیل کو سمجھنا چاہیے اور تصادم کی جگہ افہام و تفہیم کے ذریعے اسلامی اقدار  کی پاس داری، ملک کے دستور اور قانون کے احترام اور جمہوری روایات کے فروغ کے راستے کو اختیار کرنا چاہیے۔ اس میں سب کے لیے خیر ہے اور یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر عرب اور مسلمان ملک اپنی آزادی، سلامتی اور اسلامی شناخت کی حفاظت کرسکتے ہیں۔

اخوان المسلمون ایک نظریاتی، اصلاحی اور جمہوری تحریک ہے۔ غلطی سے پاک کوئی انسانی کوشش نہیں ہوسکتی لیکن حقیقت یہ ہے کہ اخوان المسلمون ایک خیر کی دعوت ہے، اور اس نے اپنی ساری جدوجہد اسلامی مقاصد کے حصول کے لیے اخلاقی آداب اور معروف جمہوری روایات کے دائرے میں انجام دی ہے، اور عرب اور مسلم دنیا کے حقیقی مفادات کے تحفظ اور مسئلۂ فلسطین کے منصفانہ حل کے لیے اس کی خدمات نوشتۂ دیوار ہیں۔ مصر میں فوجی حکمران اسے جس طرح     نشانہ بنائے ہوئے ہیں، وہ ایک صریح ظلم اور خود مصر، فلسطین اور عالمِ عرب کے حقیقی مفادات پر ضربِ کاری ہے۔ ان حالات میں مظلوم کی مدد تمام مسلمانوں پر واجب ہے۔

اس پس منظر میں ہمیں اور پوری دنیا کے مسلمانوں کے لیے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بحرین کی حکومتوں کا مصر کی تقلید میں اخوان المسلمون اور حماس کو ’دہشت گرد‘ تنظیمیں  قرار دینا نہایت تکلیف دہ اور افسوس ناک ہے۔ الدین نصیحۃ پرعمل کرتے ہوئے ہم پوری  دل سوزی سے ان تمام حکمرانوں سے اپیل کرتے ہیں کہ اپنے رویے پر نظرثانی کریں اور حق و انصاف کے تقاضوں کی پاس داری کرتے ہوئے اس روش کو تبدیل کریں اور خود مصر میں اصلاح احوال کے لیے مثبت کردار ادا کریں، ورنہ اُمت میں مزید انتشار بڑھے گا اور حکمرانوں اور عوام میں خلیج وسیع تر ہوگی، اور خود عرب ممالک میں اختلاف اور تقسیم در تقسیم کی کیفیت پیدا ہوگی، جو اُمت کے مفادات کے خلاف ہے اور جس سے ہمارے دشمنوں کے عزائم کو تقویت ملے گی۔

اخوان المسلمون کا موقف

اخوان المسلمون کوئی خفیہ تنظیم نہیں۔ وہ ۱۹۲۸ء سے دعوت و اصلاح کی جدوجہد میں مصروف ہے۔ ہزاروں صفحوں پر پھیلا ہوااس کا لٹریچر، اس کی فکر، دعوت، طریق کار اور خدمات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس نے ابتلا اور آزمایش کے اَدوار میں بھی اپنے اصولی، اصلاحی ، اخلاقی اور جمہوری مسلک پر پوری استقامت سے قائم رہ کر عوام کے دلوں میں اَنمٹ مقام بنالیا ہے۔ محض مغربی اقوام کے پروپیگنڈے اور مصر میں جمہوریت کا خون کرنے والے عناصر کے بیانات سے اخوان المسلمون کی ۸۰سالہ جدوجہد کو پادر ہوا نہیں کیا جاسکتا۔ ہم مصر کے حکمرانوں سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ وہ شخصی اقتدار کی خاطر مصر، فلسطین، عرب دنیا اور مسلم اُمت کے حقیقی مفادات کو قربان نہ کریں، اور تصادم کی جگہ حق و انصاف پر مبنی مفاہمت کی راہ اختیار کرکے تمام سیاسی اور دینی قوتوں کو ساتھ لے کر چلنے کا راستہ اختیار کریں، اور ان عرب ممالک کے ارباب حل و عقد سے بھی اپیل کرتے ہیں جو اخوان کی مخالفت کے ناقابلِ فہم راستے کی طرف بڑھ رہے ہیں اور مسلمان عوام میں اضطراب اور مایوسی میں اضافہ کرنے کا باعث ہورہے ہیں کہ وہ اپنے رویے پر نظرثانی کریں۔

 اخوان المسلمون نے چند عرب حکمرانوں کے حالیہ اعلان پر جس ردعمل کا اظہار کیا ہے،  وہ بڑا محتاط اور اصلاحِ احوال کے لیے ایک حکیمانہ ردعمل ہے۔ اخوان المسلمون کے اس سرکاری بیان پر ٹھنڈے دل سے اور اللہ کے سامنے جواب دہی کے احساس کے ساتھ غور کرنے کی ضرورت ہے، جس کی ہم اُمت مسلمہ کے تمام ہی اولی الامر کو خصوصیت سے دعوت دیتے ہیں۔

اخوان المسلمون کے مطابق: ’’سعودی وزارتِ داخلہ کی جانب سے اچانک اخوان کا نام دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کرنے پر اخوان المسلمون کو انتہائی حیرت ہوئی ہے۔ تکلیف دہ امر یہ ہے کہ فیصلہ اس مملکت کی طرف سے سامنے آیا ہے، جسے عوامی مفادات کے تحفظ، اُمت مسلمہ کی وحدت، معاشرتی اور قومی تعمیروترقی میں مؤثر کردار ادا کرنے اور صحیح اسلامی فکر کی ترویج کے لیے اخوان کی کوششوں کا سب سے زیادہ علم ہے اور جس نے ان مساعی کو ہمیشہ سراہا ہے۔ سعودی عرب اس راستے میں اخوان کو پیش آنے والی تکالیف اور آزمایشوں سے بھی بخوبی آگاہ ہے۔

اخوان اس حوالے سے درج ذیل وضاحت ضروری سمجھتی ہے:

  • ملکی اُمور میں عدم مداخلت کے مستقل اصول پر قائم رہتے ہوئے ہم وثوق سے کہتے ہیں کہ سعودیہ کی جانب سے سامنے آنے والا حالیہ موقف، مملکت کے بانی کے دور سے لے کر   آج تک جماعت کے ساتھ سعودیہ کے تعلقات کی پوری تاریخ کے بالکل برعکس ہے۔
  • تاریخ نے یہ ثابت کیا ہے کہ الاخوان المسلمون کی جماعت ہرطرح کے غلو اور انتہاپسندی سے دُور رہتے ہوئے صحیح اسلامی فکر اور سوچ کی ترویج و اشاعت میں ہمیشہ پیش پیش رہی ہے۔ اس امر کی گواہی مملکت کے متعدد اکابر علماے کرام اور حکام بھی کئی بار دے چکے ہیں۔

سعودی عرب میں بھی تمام لوگ بخوبی جانتے ہیں کہ اخوان ہمیشہ علی الاعلان کہتی رہی ہے کہ جس حق پر وہ ایمان رکھتے ہیں، وہ کتاب اللہ اور سنت ِ رسولؐ کی تعلیمات سے ماخوذ طریقۂ کار ہے اور نص صریح اور دلیل واضح پر مبنی ہے۔

  • اخوان، عالمِ اسلام کے ممالک کی سیاسی قیادت کے ساتھ واضح نظریاتی نقطہ ہاے نظر کی بنیاد پر تعامل کرتی ہے، جن میں سب سے اہم یہ اعتقاد ہے کہ ہمارے معاشرے مسلم معاشرے ہیں۔ ہمارے اور ان کے مابین اور ان مسلم معاشروں کی مختلف سیاسی قوتوں اور حکومتوں کے   مابین نصیحت و خیرخواہی کا تعلق ہے نہ کہ دوسروں کو کافر یا خائن قرار دینے کا۔ اخوان نہ تو کسی ملک کو کافر قرار دیتی ہے، نہ مرتد کہ جس کی وجہ سے وہ اس کی دشمنی اور تصادم مول لے۔ اسی اصول کی بناپر سعودیہ کے ساتھ اخوان کا تعلق بھی صرف اور صرف خیرخواہی اور مشورے پر مبنی ہے۔
  •  اخوان کو اپنے نظریات اور فکر پر فخر ہے اور تمام مسلم معاشروں کے عوام کے ساتھ وابستہ اپنی تاریخ پر بھی۔ اس نے ہمیشہ اسلام کے جامع مفہوم کو اپنی دعوت کی پہچان بنایا ہے اور آیندہ بھی اسے اپنا بنیادی تعارف قرار دیتے ہیں۔ اخوان تقریباً ہرمسلمان ملک میں اُمت کا حصہ ہے اور اسی بنیاد پر وہ اُمت مسلمہ، عالمِ اسلام اور عوام کے مسائل حل کروانے کے لیے اپنا فرض ادا کرتے رہیں گے۔

جماعت اخوان ہرشہری کی آزاد اور عزت بخش زندگی یقینی بنانے کے لیے سیاسی میدان میں ملک کے تمام شہریوں سے تعاون پر یقین رکھتی ہے۔ سیاسی، دینی یا مذہبی اختلافات کے باوجود مختلف قومی شخصیات و جماعتوں سے اشتراک و اتحاد کرتی ہے اور یہ واضح اعلان کرتی ہے کہ وہ اسلام کے نام پر لوگوں کی نگران یا ٹھیکے دار نہیں بنائی گئی۔ جماعت اخوان اعلیٰ اخروی ہدف رکھتی ہے اور اس کا حصول تمام نظریاتی، معاشرتی، سیاسی اور دینی گروہوں سے گفت و شنید کے ذریعے ہی ممکن سمجھتی ہے۔

اخوان خیرخواہی کی راہ پر چلتے او رملک و قوم کے مفادات کے برعکس کیے جانے والے ہراقدام کی مخالفت جاری رکھتے ہوئے یہ واضح کرتی ہے کہ وہ اپنی سیاسی اور اصلاحی جدوجہد کو کسی بھی ملک میں محض کسی حکمران کی مخالفت کی بنیاد پر شروع نہیں کرتی۔ وہ ہرقسم کے تشدد، ایذارسانی اور انتہاپسندی سے دُور رہتے ہوئے حکمت پر مبنی دعوت اور خیرخواہی پر مبنی نصیحت پر یقین رکھتی ہے‘‘۔

مسلم اُمّہ کا ردعمل

پاکستان کے عوام اُمت مسلمہ کی عظیم اکثریت کی طرح اخوان المسلمون کو مظلوم سمجھتے ہیں اور چند عرب حکمرانوں کے اخوان کو دہشت گرد جماعت قرار دینے پر بے حد مغموم اور مضطرب ہیں۔ تمام اسلام پسند قوتیں تو اس پر دل گرفتہ اور شکوہ سنج ہیں ہی لیکن خود لبرل عناصر بھی اس پر اپنے انداز میں تنقید کررہے ہیں اور عرب حکمرانوں کو اپنے رویے پر نظرثانی کی دعوت دے رہے ہیں۔ اس سلسلے میں روزنامہ ڈان کے ادارتی تبصرے کے چند اقتباس پاکستان کی مجموعی راے عامہ جو ہرطبقے اور مکتب فکر کے دل کی آواز ہے، کو سمجھنے میں ممدومعاون ہوں گے:

سعودی عرب کے اخوان المسلمون کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے کے فیصلے سے  قدامت پسند بادشاہت کے اُس وہم کے پیش نظر تعجب نہیں ہونا چاہیے، جو وہ نہ صرف انسانی حقوق اور جمہوریت کے لیے کھڑی ہونے والی تحریکوں بلکہ ان اسلامی گروپوں یا تحریکوں کے بارے میں بھی رکھتی ہے جو جمہوریت پر یقین رکھتی ہیں۔ اخوان المسلمون کا اپنا ایجنڈا ہوسکتا ہے اور اس کے اپنے اہداف اور مقاصد ہوسکتے ہیں جو زمانے کے تقاضے کے مطابق نہ ہوں، لیکن ایک طویل مدت سے حسن البنا کی قائم کردہ یہ جماعت اقتدار حاصل کرنے کے لیے جمہوری عمل پر یقین رکھتی ہے۔

لیکن ریاض نے اخوان کی منتخب حکومت، جس کے سربراہ محمدمرسی تھے، کو برطرف کرنے والے فوجی انقلاب کو خوش آمدید کہا۔ صرف سعودی عرب ہی اس میں تنہا نہیں ہے۔ حالیہ دنوں میں خلیج کی دو اور بادشاہتوں___ امارات اور بحرین___  نے قطر سے اپنے سفیرا واپس بلوا لیے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ قطر مصر میں غلط گھوڑے کی  پشت پناہی کر رہا ہے۔

سیاسی تحریکوں پر پابندیاں لگانے یا عسکریت پسند گروپوں کو پراکسی کے طور پر استعمال کرنے کے مؤثر ہونے کی اُمید نہیں۔ ان کے برعکس نتائج بھی نکل سکتے ہیں۔ ان حکومتوں کی یہ ضرورت ہے کہ اپنے ممالک اور معاشروں میں وسعت پیدا کریں اور اختلاف راے اور عوام کی مرضی کو جگہ دیں، اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے۔حقیقت یہ ہے کہ شرقِ اوسط کے علاقے کی مطلق العنان حکومتوں کو اب اپنی داخلی اور علاقائی پالیسیوں پر ازسرِنوغوروفکر کرنے کی ضرورت ہے۔ تبدیلی لانے والی عرب بہار کا تقاضا ہے کہ بنیاد پرستوں سے پہلے ہر ایک ازسرِنو غوروفکر کرے۔(روزنامہ ڈان، ۱۰مارچ ۲۰۱۴ء)

یہ جذبات و احساسات صرف پاکستانی مسلمانوں ہی کے نہیں ہیں، درحقیقت پوری دنیا کے مسلم عوام کے ہیں جو بالعموم اور خصوصیت سے دینی قوتیں مصر اور چند عرب ممالک کے اس رویے پر بے حد مایوس ہوئی ہیں اور اسے حق و انصاف کے خلاف اور اُمت مسلمہ کے مفادات سے متصادم سمجھتی ہیں۔ ان ممالک کے حکمرانوں اور اربابِ حل و عقد کو مسلمان عوام کے جذبات کے بارے میں ضروری حساسیت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ بھارت کے مسلمانوں کے جذبات کا اندازہ   نئی دہلی سے شائع ہونے والے Home Slider ___ Indian Muslims کی اس رپورٹ سے ہوسکتا ہے جو ۱۵مارچ کو شائع ہوئی ہے:

اخوان المسلمون کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے پر سعودی حکمرانوں کی مذمت برابر    بڑھ رہی ہے۔ دارالعلوم ندوۃ العلما کے بعد نمایاں مسلم علما اور تنظیموں نے سعودی حکومت کو اخوان اور حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے پر سخت لتاڑا ہے۔ انھوں نے کہا کہ سعودی حکمرانوں نے جو حرمین شریفین کے والی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، پوری دنیا میں مسلمانوں کو اپنے اس غیرمنصفانہ اور خلافِ اسلام فیصلے سے تکلیف پہنچائی ہے۔

جماعت اسلامی ہند، مرکزی جمعیت علما، آل انڈیا دینی مدارس بورڈ اور بہت سی   دوسری مسلم تنظیموں نے سعودی عرب کے مصر میں قائم ہونے والی اخوان المسلمون کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دینے کے فیصلے پر سخت تنقید کی ہے اور اُمید کی ہے کہ   سعودی بادشاہت فوری طور پر فیصلے پر نظرثانی کرے گی۔ جماعت اسلامی ہند کے امیر مولانا جلال الدین عمری نے کہا کہ اخوان المسلمون نے جس تحریک کا آغاز کیا ہے وہ اسلامی اصولوں پر مبنی ہے۔ اس لیے اس پر پابندی یقینا پوری مسلم دنیا کو تکلیف دے گی۔ انھوں نے کہا کہ اخوان المسلمون ایک بین الاقوامی اصلاحی اور سماجی تنظیم ہے، اور حماس وہ تنظیم ہے جو شرق اوسط میں صہیونی ریاست کا بے خوفی سے مقابلہ کررہی ہے۔

ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا عیسٰی منصوری، فتویٰ موبائل سروس کے      مفتی محمدارشد فاروقی، مدارس بورڈ کے سربراہ مولانا یعقوب بلندشہری اور جمعیت کے سیکرٹری مولانا فیروز اختر قاسمی نے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ سعودی حکمرانوں نے اخوان المسلمون کو دہشت گرد قرار دے کر ایک بڑے گناہ کا ارتکاب کیا ہے۔ انھوں نے شاہ عبداللہ اور سعودی عرب کے سرکردہ علما سے اپیل کی ہے کہ اخوان کے بارے میں اس فیصلے کو واپس لیں۔ انھوں نے متنبہ کیا کہ ساری دنیا کے مسلمان  سعودی عرب کے اس اقدام کی مذمت کریں گے اور مزاحمت کریں گے۔ انھوں نے اُمید ظاہر کی کہ سعودی علما سعودی حکمرانوں کو قائل کریں گے کہ وہ اس فیصلے کو     واپس لیں۔ سعودی علما کا یہ فرض ہے کہ اپنے حکمرانوں پر اس حوالے سے دبائو ڈالیں، اس لیے کہ تمام مسلمان اس اقدام پر مشتعل ہیں۔

انھوں نے توجہ دلائی کہ مسلمان سعودی عرب کا بہت احترام کرتے ہیں، اس لیے کہ یہاں اسلام کے مقدس مقامات موجود ہیں، جب کہ اس ملک کے مطلق العنان حکمرانوں کے لیے جو مغربی طاقتوں کے آلۂ کار ہیں، ان کے پاس کوئی محبت نہیں ہے۔ اس سے قبل دارالعلوم ندوۃ، لکھنؤ کا تاریخی ادارہ سعودی وفد کی آمد پر اس کی تحقیر کرکے اس ضمن میں سبقت لے گیا۔

اُمت کو درپیش چیلنج

اسلام اور اُمت مسلمہ کے دشمنوں اور مخالفین کی کوشش ہے کہ مسلمانوں میں انتشار اور تصادم بڑھے اور مسلمان اپنی تمام قوتوں کو یک جا کرکے اصل مخالفین کا مقابلہ کرنے کے بجاے  ایک دوسرے کا گریبان چاک کرنے اور اندرونی خلفشار اور جنگ و جدال میں اُلجھ کر اپنی قوت کو پارہ پارہ کرلیں۔ ہنری کسنجر نے تو ۱۹۶۰ء کی دہائی میں کہا تھا کہ: ’’مشرق وسطیٰ کو قابو میں رکھنے   اور اسرائیل کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ضروری ہے شرق اوسط کو فرقہ واریت اور لسانی اور نسلی گروہ بندیوں کی بنیاد پر تقسیم در تقسیم کیا جائے‘‘۔

چار سال پہلے تیونس سے عوامی انقلاب اور عرب دنیا کی بیداری کی جو نئی لہر اُبھری تھی،  اس نے مغربی دنیا میں خطرے کی گھنٹیاں بجادیں۔ ترکی اور عرب دنیا میں جو قربت ترکی میں طیب اردگان کی قیادت کی کوششوں سے رُونما ہورہی تھی، اس نے اسرائیل اور امریکاو یورپ کے حکمرانوں کی نیندیں حرام کردیں۔ عراق اور افغانستان میں امریکی افواج کی ناکامی نے اس علاقے کے بارے میں جو امریکا اور یورپ کے عزائم تھے، ان کو خاک میں ملا دیا ۔ ان حالات میں ایک بار پھر مسلمان اور عرب ممالک کو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کرنے اور عوام کو شیعہ اور سُنّی، ترک اور کرد، عرب اور عجم، بنیاد پرست اور لبرل، مسلمان اور قبطی کی تقسیم اور ان کے درمیان تصادم کی راہ پر ڈالنے کی سرتوڑ کوششیں ہورہی ہیں۔

 ان حالات میں عوام اور حکمران سب کے لیے ضروری ہے کہ مخالفین کے کھیل کو سمجھیں اور اپنی صفوں میں انتشار اور خلفشار کو راہ نہ پانے دیں۔ ذاتی، گروہی اور دوسری عصبیتوں اور مفادات کی سطح سے بلند ہوں اور ایک دوسرے کو کھلے دل سے تسلیم کر کے مشترکات کی بنیاد پر تعاون کی راہیں استوار کریں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ اسلام اور اُمت مسلمہ کے مفاد کی بنیاد پر نئی سوچ اختیار کی جائے اور مفاہمت اور تعاون کے ذریعے ایک دوسرے کی تقویت کا ذریعہ بنا جائے۔ ہم پوری   دل سوزی سے مصر کے حکمرانوں سے اپیل کرتے ہیں کہ اخوان المسلمون اور دوسری اسلامی اور جمہوری قوتوں کو نشانہ بنانے کے بجاے انھیں اتحادِ اسلامی اور تعمیرنو کی جدوجہد میں اعوان و انصار کا درجہ دیا جائے۔ اس کے نتیجے میں ان شاء اللہ سب کے لیے خیر اور استحکام کا حصول ممکن ہوگا،      جو اُمت کی تقویت کا باعث ہوگا۔ اور اس طرح مسلمان اپنے گھر کی اصلاح کے ساتھ انسانیت کی تعمیرنو میں ایک اہم کردار ادا کرسکیں گے۔

تھرپارکر کا صحرا دنیا کا چھٹا بڑا صحرا ہے، جو پاکستان اور بھارت میں مشترک ہے۔ پاکستانی حصہ ۳۳ہزارمربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے، جو چھے تحصیلوں پر محیط ہے اور اس کی آبادی ۱۵لاکھ کے قریب ہے۔ زیادہ آبادی ۲ہزار ۳ سو دیہات میں مکین ہے، جب کہ کچھ شہری آبادی بھی ہے۔ زیرکاشت رقبہ سوا تین لاکھ ایکڑ سے زیادہ ہے، جو آبادی کے ۲۰ فی صد کی ضرورتوں کو بمشکل پورا کرسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے خوراک کے باب میں عدم تحفظ اس صورت حال کا لازمی نتیجہ ہے اور ایک مستقل مسئلہ ہے۔ گلہ بانی یہاں کے لوگوں کا دوسرا بڑا پیشہ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ۶۰لاکھ مویشی اس علاقے میں ہیں، جو سندھ اور خصوصیت سے کراچی کی گوشت کی ضرورتوں کو پورا کرنے میں ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ البتہ مویشیوں کے لیے بھی چارے کا مسئلہ پریشان کن ہے، جو نتیجتاً مویشیوں میں مختلف نوعیت کی بیماریوں کا سبب بنتا ہے۔ ایک سروے کے مطابق ۵لاکھ سے زیادہ بھیڑبکریاں sheep pax اور دوسری بیماریوں میں مبتلا ہیں اور علاج کی سہولتیں سخت ناکافی ہیں، جس کے نتیجے میں بہت سے بیمار مویشی انسانی غذا کا حصہ بنتے ہیں اوریہ چیز انسانی صحت کے لیے ایک مستقل مسئلہ اور خطرہ ہے۔

تھر کے علاقے میں خشک سالی، اور اس کے نتیجے میں رُونما ہونے والی خوراک کی عدم فراہمی  اور غذائی قلت بچوں اور خواتین میں بیماریوں کا بڑا سبب ہیں جو قحط اور غذا کی کمیابی کی مختلف کیفیات (intensities) کے ساتھ ایک معمول بن گئی ہیں۔ علاج کی سہولتیں ناپید ہیں۔ گذشتہ ۲۰سال میں نو بار خشک سالی اور غذا کی قلت وبا کی صورت اختیار کرچکے ہیں اور انسانوں اور مویشیوں کی قابلِ ذکر پیمانے پر ہلاکت کا باعث رہے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں یہ علاقہ ایک مخدوش علاقہ ہے اور خشک سالی اور غذا کی قلت ایک معلوم مسئلہ ہے، جس کے حل کے لیے مناسب منصوبہ بندی اور غذا، صحت، تعلیم اور روزگارکی فراہمی کا ایسا نظام ضروری ہے جو ہردو تین سال کے بعد خشک سالی سے پیدا ہونے والے مسائل کے مستقل حل کا ذریعہ ہو۔ اچھی حکمرانی کا کم سے کم تقاضا یہ ہے کہ ملک کے مختلف علاقوں کے حالات اور موسم اور دوسرے قدرتی عوامل کے اُتارچڑھائو کی تاریخ اور صورتِ حال کی روشنی میں اصلاح احوال کا مستقل بنیادوں پر اہتمام کیا جائے۔ تھر کا صحرا دنیا کے ان چند صحرائوں میں سے ہے جنھیں زرخیز صحرا کہا جاتا ہے، یعنی پانی کی فراہمی کے مناسب انتظام کی صحیح منصوبہ بندی اور ترقیاتی پروگراموں کے ذریعے اسے سبزہ زار بنایا جاسکتا ہے اور قدرت کے تھپیڑوں کا بڑی حد تک کامیابی سے مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔

اس پس منظر میں ۷مارچ ۲۰۱۴ء کو میڈیا پر سوا سو بچوں کے بھوک، کم خوراکی اور بیماریوں سے لقمۂ اجل بن جانے کی خبر نے پاکستان کے عوام کو ہلا کر رکھ دیا اور گذشتہ دو ہفتوں میں جو حقائق قوم کے سامنے آئے ہیں، وہ جہاں نہایت افسوس ناک اور شرم ناک ہیں، وہیں سندھ کی حکومت کی غفلت ہی نہیں مجرمانہ غفلت کا منظر پیش کر رہے ہیں۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ جناب تصدق حسین جیلانی نے بجاطور پر سوموٹو نوٹس پر سماعت کے دوران تھر کی صورت حال کو  پوری قوم کا سر شرم سے جھکا دینے کے مترادف قرار دیا ہے اور اس کی بنیادی ذمہ داری صوبہ سندھ کی حکومت اور اس کی پالیسیوں اور رویوں کو قرار دیا ہے۔

بنیادی بات یہ ہے کہ تھرپارکر کے حالات اور تاریخی اعداد و شمار کوئی نئی شے نہیں۔    اقوامِ متحدہ کی فوڈ اینڈ ایگری کلچرل آرگنائزیشن (FAO) نے پانچ سال پہلے متنبہ کیا تھا کہ آنے والے برسوں میںاس علاقے میں خوراک کی قلت اور فاقہ کشی کے شدید خطرات ہیں، اور ان کا مقابلہ کرنے کے لیے فوری طور پر مناسب اقدامات کی ضرورت ہے جس کی طرف حکومت کو توجہ دینی چاہیے اور صحیح پالیسیاں وضع کر کے انھیں رُوبہ عمل لانا چاہیے___ لیکن مقامی انتظامیہ اور صوبائی حکومت غافل رہے۔

ستم یہ ہے کہ خود صوبائی حکومت نے ۲۰۱۲ء میں تھرپارکر کے پورے علاقے کو بڑی تباہی کا خطہ قرار دیا تھا اور ایک قانون کا مسودہ صوبائی حکومت نے Draft-Nutritional Policy کے عنوان سے تیار کیا تھا لیکن دوسال میں وہ ڈرافٹ صرف ڈرافٹ ہی رہا، جسے نہ حکومت کی پالیسی کی صورت اختیار کرنا نصیب ہوا اور نہ اس کی تنفیذ سے خوراک اور پانی کی فراہمی کے لیے کوئی قانون سازی ہوئی۔ خطرات منڈلاتے رہے۔ اربابِ حکومت اپنی حکمرانی کی دُھن میں مَست بانسری بجاتے رہے اور ان کی دل چسپی عوام کی مشکلات کو دُور کرنے کے لیے ضروری اقدامات کی جگہ فیسٹیول منانے اور اپنے حلوے مانڈے تک محدود رہی۔

پھر اگست ۲۰۱۳ء میں محکمہ موسمیات نے وارننگ دے دی تھی کہ ۱۵؍اگست تک بارشوں کے نہ ہونے سے انسانوں اور مویشیوں کے لیے خوراک کی قلت کا شدید خطرہ ہے لیکن یہ وارننگ بھی صدا بہ صحرا ثابت ہوئی اور ستمبر۲۰۱۳ء سے بچوں کی اموات کا سلسلہ شروع ہوگیا جس میں دسمبر۲۰۱۳ء میں تیزی سے اضافہ ہوا اور فروری ۲۰۱۴ء تک ۱۲۱بچے زندگی کی بازی ہارگئے۔      ان سطور کی تحریر کے وقت (۲۰؍مارچ ۲۰۱۴ء) تک اموات کی وہ تعداد جو رپورٹ ہوئی ہے ۱۷۲تک پہنچ چکی ہے اور خدشہ ہے کہ ایک خاصی بڑی تعداد ان بچوں کی بھی ہے جو ہسپتالوں تک نہیں لائے جاسکے اور جو اپنے اپنے دیہات یا صحرا کی ریت ہی پر دم تو ڑ گئے۔ اس طرح سیکڑوں کی تعداد میں انسانی غنچے بن کھلے ہی مرجھا گئے۔

یہاں اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ ۲۰۱۱ء میں پاکستان کے تمام علاقوں کے بارے میں غذائی اجناس کی فراہمی کے باب میں ایک اہم سروے ہوا تھا جسے Pakistan Nutritional Survey 2011  کہا جاتا ہے۔ اس کی رُو سے ملک کی آبادی کا ۵۷ فی صد غذائی عدم تحفظ (food insecurity) کا شکار ہے اور سب سے خراب صورت حال فاٹا کے  ساتھ ساتھ سندھ اور خصوصیت سے تھرپارکر کے علاقے میں پائی جاتی ہے۔ اسی طرح صحت اور تعلیم کے حالات کے تمام جائزوں کے ذریعے یہ بات سامنے آئی تھی کہ یہ علاقہ معرضِ خطر میں ہے اور فوری اور مستقل ہردو بنیادوں پر مؤثرمنصوبہ بندی اور عملی اقدام کی ضرورت ہے، مگر صوبے کی انتظامیہ اور سیاسی قیادت اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں بُری طرح ناکام رہی۔

حکومت اور انتظامیہ کی ناکامی اور بے حسی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ ریلیف اور صحت کے شعبے کا کوئی وزیر ہی موجود نہیں ہے۔ جن صاحب کو عارضی چارج دیا گیا ہے، انھوں نے کبھی اس علاقے کے حالات کو جاننے اور سنوارنے کی زحمت ہی گوارا نہ کی۔ انتظامی عہدوں پر نااہل اقربا کا تقرر کیا گیا جنھیں علاقے کی فلاح و بہبود سے کوئی دل چسپی نہ تھی۔ سپریم کورٹ میں صوبے کے سیکرٹری صحت نے اپنے بیان میں ہسپتالوں اور صحت مراکز پر ڈاکٹروں کی غیرحاضری کا جو نقشہ کھینچا ہے اس پر انسان صرف سر ہی پھوڑ سکتا ہے۔ ارشاد ہے کہ صرف اس علاقے کے جہاں صحت اور ادویہ کی عدم فراہمی کی وجہ سے سیکڑوں بچے موت کی آغوش میں جابسے ہیں، ۴۵۰ڈاکٹر ڈیوٹی سے غائب تھے اور اب انھیں شوکاز نوٹس دیے گئے ہیں۔

صوبائی حکومت کی بے بصیرتی، غیرسنجیدگی اور بدترین نوعیت کی حکمرانی اس صورت حال کا اولین سبب ہے۔ دوم: انتظامیہ کی نااہلی، کرپشن اور احتساب اور نگرانی کے نظام کا فقدان۔ سوم: اس علاقے میں معاشی اور سماجی انفراسٹرکچر کا فقدان اور منصوبہ بندی کا افلاس ہے۔ سڑکیں بنادی گئی ہیں مگر ٹرانسپورٹ نہیں ہے۔ ہسپتال موجود ہیں مگر ڈاکٹر اور ادویات ندارد۔ گندم کی بوریاں گوداموں میں سڑرہی ہیں اور لوگ روٹی کے دو لقموں کو ترس رہے ہیں۔ پانی کی ترسیل کا کوئی معقول بندوبست نہیں ہے۔ ان پر مستزاد عملے کی نااہلی اور کرپشن___ قوم نے اپنا پیٹ کاٹ کر جو وسائل اس علاقے کے لیے فراہم کیے اس کا بمشکل ۱۰ فی صد عوام تک پہنچتا ہے اور ۹۰ فی صد کرپٹ عناصر کی ہوس زرگری کی نذر ہوجاتا ہے اور اُوپر سے نیچے تک احتساب کا کوئی نظام ہی موجود نہیں ہے۔

اس سب کچھ پر بے حسی کا یہ عالم ہے کہ حکومت کی بڑی ذمہ دار ہستی جسے خصوصیت سے حالات کو سدھارنے کے لیے کراچی سے تھر بھیجا گیا ہے، ان کا ارشاد ہے کہ یہ سارا فاقہ و فساد میڈیا کا کیا دھرا ہے۔بڑی شانِ بے نیازی کے ساتھ اس کے لیے ایک نئی اصطلاح وضع فرماتے ہیں کہ یہ MMD ہے یعنی Media Made Disaster۔ خود وزیراعلیٰ صاحب فرماتے ہیں: This is a normal occurence in the Thar district.  (ضلع تھر میں یہ ایک معمول کا واقعہ یا صورتِ حال ہے)___   اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ الیہ رٰجعون! یعنی یہاں پہلے بھی لوگ مرتے رہتے ہیں اور اب بھی مر رہے ہیں۔

یہ وہ حکمران فرما رہے ہیں جو ’’روٹی، کپڑا اور مکان‘‘ کے نعرے پر اقتدار میں آئے تھے اور غریب عوام کے مسائل کو حل کرنے کے سب سے بڑے دعوے دار تھے۔

ہمیں افسوس سے کہنا پڑتا ہے پالیسی سازی کا بحران، بدترین حکمرانی اور کرپشن کے ساتھ اربابِ اقتدار کی بے حسی اور غیرسنجیدگی نے بھی حالات کو بگاڑنے میں بڑا کردار ادا کیا ہے۔ اصل مسئلہ خوراک کی عدم فراہمی نہیں، بدترین طرزِ حکمرانی ہے۔ ریلیف کی فوری کوششوں کے ساتھ واضح پالیسی کی تشکیل اور انتظامی مشینری اور خدمات کی فراہمی، خصوصیت سے پہنچانے کے نظام کی اصلاح ازبس ضروری ہے۔ محض فنڈز کی فراہمی سے یہ بیل منڈھے نہیں چڑھ سکتی۔ حکومت کی مشینری کی نااہلی اور ناکامی کے ساتھ اگر ایک نظر غیرحکومتی خدمتی اداروں کی کارکردگی پر ڈالی جائے تو فرق صاف نظر آتا ہے۔ الخدمت فائونڈیشن اپنے محدود وسائل کے ساتھ ۱۹۹۸ء سے اس علاقے میں پانی کی فراہمی، تعلیم اور ادویات کی فراہمی کے لیے ایک جامع منصوبے کے تحت کام کررہی ہے۔ اس عرصے میں ۵۰۰ سے زیادہ کنویں کھودے گئے ہیں، جسے زم زم پراجیکٹ کا عنوان دیا گیا ہے اور ہزاروں افراد کو پینے کا صاف پانی میسر آیا ہے۔ حالیہ بحران کے موقعے پر بھی الخدمت فائونڈیشن مؤثر خدمات انجام دے رہی ہے۔ اسی طرح جماعت الدعوۃ، پیماریلیف، ایدھی فائونڈیشن اور خود فوج کے دستوں نے بڑی مفید خدمات انجام دی ہیں۔

اگر یہ ادارے انسانی جانوں کو بچانے اور بنیادی سہولتیں فراہم کرنے کے لیے اتنا کچھ کرسکتے ہیں، تو پھر حکومت کیوں اپنے اربوں روپے کے ترقیاتی پروگراموں اور ہزاروں افسروں اور کارندوں کے لائولشکر کے باوجود کوئی مؤثر خدمت انجام نہیں دے سکی؟ ___ وقت آگیا ہے کہ  جن کے ہاتھوں میں حکومت کی زمامِ کار ہے اور جو قوم کے وسائل کے استعمال پر مامور ہیں، ان کا پورا پورا احتساب کیا جائے اور قوم کے وسائل قوم کی بہبود کے لیے استعمال کیے جانے کا اہتمام کیا جائے۔

حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! مجھے کسی ایسے عمل کی رہنمائی فرمایئے جس پر عمل کر کے ایک بندہ سیدھا جنت میں داخل ہوجائے۔ آپؐ نے فرمایا: اللہ پر ایمان لے آئے۔ میں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! ایمان کے ساتھ کوئی عمل بھی بتلا دیجیے۔ آپؐ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے اسے جو رزق دیا ہے اس میں سے کچھ دوسروں کو بھی دیا کرے۔ میں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! اگر وہ فقیر ہو، اس کے پاس کچھ نہ ہو، تو آپؐ  نے فرمایا: اپنی زبان سے بھلی بات کہے۔ میں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ!اگر وہ زبان کے ذریعے مافی الضمیر ادا کرنے سے عاجز ہو تو پھر کیا کرے؟ آپؐ  نے فرمایا: وہ بے بس آدمی کی اعانت کرے۔ میں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! اگر وہ ضعیف ہو، قدرت نہ رکھتا ہو، تو آپؐ  نے فرمایا: اس کے لیے کام کرے جو کام کو نہیں جانتا۔ میں نے عرض کیا: اگر وہ خود بھی کوئی کام نہ جانتا ہو، تو اس پر آپؐ  نے فرمایا: تم کیا چاہتے ہو؟ تم یہ چاہتے ہو کہ تمھارے دوست کے پاس کسی قسم کی بھلائی نہ ہو، اس کے پاس مذکورہ چیزیں نہ ہوں، تو کم از کم وہ لوگوں کو کوئی تکلیف نہ دے۔ میں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! یہ سارے کام تو آسان ہیں (یعنی جس آدمی کے پاس ان کاموں کو کرنے کی قدرت ہے اس کے لیے تو یہ کام معمولی ہیں، بالکل آسان ہیں)۔ پھر ان تھوڑے سے کاموں کی بنا پر وہ جنت میں چلاجائے گا؟ اس پر ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، جو آدمی بھی ان خصلتوں میں سے کسی ایک خصلت کو اللہ تعالیٰ سے ثواب حاصل کرنے کی نیت سے کرے گا، مَیں قیامت کے روز اسے اپنے ہاتھ سے پکڑ کر سیدھا جنت میں داخل کروں گا۔ (ابن حبان)

ایک مومن کا پہلا کام تو اپنے ایمان کو زندہ اور قوی کرنا ہے۔ ایمان قوی ہوگا تو پھر اس کے لیے سارے کام آسان ہوجائیں گے۔ اگر جسمانی عوارض کی وجہ سے وہ ایسا کام نہ کرسکے جس کے لیے جسمانی قوت کی ضرورت ہے تو کوئی دوسرا کام کرے جس کی قوت رکھتا ہو۔ اگر کوئی مثبت کام اور خدمت کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو تو کم از کم اتنا تو کرسکتا ہے کہ لوگوں کو تکلیف نہ دے اور اس کام کے ذریعے اللہ کی رضا حاصل کرنے کی نیت کرے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر یہ چھوٹا کام بھی چھوٹا نہ رہے گا بڑا شمار ہوگا، جس نے ساری زندگی اس صفت کو اپنائے رکھا وہ نیکیوں کا ایک بڑا ذخیرہ      جمع کرلے گا۔ اللہ تعالیٰ کے نبیؐ کا وہ محبوب ہوگا کہ اپنے ایمان کو بھی مضبوط کیا اور خلقِ خدا کو کوئی تکلیف بھی نہ دی۔ کمالِ ایمان کی بدولت وہ اللہ تعالیٰ کی بندگی کی نعمت سے بھی سرفراز ہوا اور خلقِ خدا کی خیرخواہی اور اس کو اذیت سے بچانے کے سبب بھی اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کیا۔ پھر جو آدمی خود خلقِ خدا کو اذیت سے بچاتا ہے وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ کوئی دوسرا بھی کسی کو تکلیف نہ پہنچائے۔ اسے اس کی اس نیت کا ثواب بھی ملتا ہے۔ تب وہ جنت کا ہرپہلو سے مستحق ہوجاتا ہے۔ یہ حدیث ایک طرف    اللہ تعالیٰ کے بے پناہ فضل و کرم کا نمونہ پیش کرتی ہے اور دوسری طرف بندوں کو بندگی کا حوصلہ اور ہمت بھی دیتی ہے کہ وہ جس حال میں بھی ہوں اللہ تعالیٰ کی بندگی کی کسی نہ کسی صورت کو عملی جامہ پہناکر جنت میں جاسکتے ہیں اور دنیا میں معاشرے کے لیے باعث خیروبرکت کا پیش خیمہ ہوسکتے ہیں۔

٭

حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنے کسی گناہ کا واویلا کرتا ہوا حاضر ہوا۔ وہ کہہ رہا تھا: ہاے میرا گناہ، ہاے میرا گناہ! دو مرتبہ یا تین مرتبہ یہ کلمات کہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: اس طرح سے کہو: اَللّٰھُمَّ مَغْفِرْتُکَ اَوْسَعُ مِنْ ذُنُوْبِی وَرَحْمَتُکَ اَرْجٰی عِنْدِیْ مِنْ عَمَلِی’’اے اللہ! تیری بخشش میرے گناہوں سے زیادہ کشادہ ہے اور تیری رحمت سے مجھے اپنے عمل کے مقابلے میں زیادہ اُمید ہے‘‘۔ اس نے ایک مرتبہ یہ کلمات کہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دوبارہ کہو۔ اس نے دوبارہ کہے تو آپؐ  نے فرمایا: پھر کہو تو اس نے تیسری بار بھی یہ کلمات کہے۔ پھر آپؐ  نے فرمایا: کھڑے ہوجائو اور چلے جائو۔ اللہ تعالیٰ نے تجھے معاف کردیا ہے۔ (مستدرک حاکم)

بندہ صدقِ دل سے توبہ کرے تو اللہ تعالیٰ توبہ قبول فرما لیتے ہیں۔ ایک مومن گناہ کر کے اس پر قائم نہیں رہتا بلکہ فوراً توبہ کرتا ہے۔ توبہ کرنا مومن کی صفت ہے۔ اس لیے گناہ کے بعد مومن کو پریشانی لاحق ہونی چاہیے۔ وہ ذات جس کی نعمتوں میں انسان گھرا ہوا ہے، اس کی نافرمانی کوئی معمولی جرم نہیں ہے بلکہ ایمان کو ضعف پہنچانے والی بیماری ہے۔ بیماری کو آغاز میں روکنے کا اہتمام کرنا چاہیے۔ اگر غفلت برتی جائے اور بیماری کا علاج نہ کیا گیا تو بڑھتے بڑھتے وہ کینسر کی شکل بھی اختیار کرسکتی ہے اور پھر لاعلاج ہوکر موت سے ہم کنار کرنے کا باعث بن جاتی ہے۔ یہی حال گناہ کا بھی ہے۔ گناہ کا بھی تدارک نہ کیا جائے تو وہ بڑھتے بڑھتے آدمی کے لیے روحانی موت کا باعث بن جاتا ہے۔ دل پر مہر لگ جاتی ہے۔ آنکھ، کان پر پردے پڑ جاتے ہیں، دماغ صحیح اور غلط میں تمیز کرنے سے عاجز ہوجاتا ہے۔ اس وقت کے آنے سے پہلے گناہ کے وبال سے اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کرنا چاہیے۔ اپنے کیے پر نادم ہونا اور آیندہ کے لیے گناہ کے ارتکاب سے دامن کو بچانا اور سابقہ گناہوں سے مسلسل استغفار کرتے رہنا گناہ کے اثر کو مٹا دیتا ہے۔

٭

حضرت ابن مسعودؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَیں اپنی مرضی سے نہ تمھیں دیتا ہوں نہ منع کرتا ہوں۔ میں تو تقسیم کرنے والا ہوں۔ مَیں وہاں دیتا ہوں جہاں مجھے دینے کا حکم دیا گیا ہو۔(بخاری)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم ،اللہ کے نبی اور رسولؐ ہونے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ صاحب ِ اختیار حاکم بھی تھے۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا کے خزانے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں ڈال دیے، لیکن  نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان خزانوں کی تقسیم میں اپنی مرضی نہیں کی بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق انھیں تقسیم کیا۔ یوں مسلمان حکمرانوں کے لیے ایک عظیم الشان قابلِ تقلید نمونہ پیش فرمایا کہ جب میں   اللہ تعالیٰ کا نبی اور رسول اورمعصوم عن الخطا ہوکر حق داروں کو ان کے حقوق ٹھیک ٹھیک ادا کرتا ہوں، توکسی دوسرے کے لیے اس بات کی کیا گنجایش رہ جاتی ہے کہ وہ اللہ کے مال میں خیانت کرے،   حق داروں کی حق تلفی کرے اور اپنے خاندانوں کو نوازے۔

٭

حضرت سلمانؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یقینا تمھارا رب شرمانے والی اور کرم کرنے والی ذات ہے۔ وہ اس بات سے شرماتا ہے کہ بندہ اس سے دونوں ہاتھ اُٹھاکر دعا مانگے اور وہ اس کے ہاتھوں کو خالی لوٹا دے۔(ترمذی)

اللہ تعالیٰ بے نیاز ذات ہے اسے بندوں سے کسی بھی قسم کی کوئی حاجت نہیں ہے بلکہ وہ بندوں کی حاجات پوری کرنے والا ہے۔اس نے بن مانگے بے شمار نعمتیں عطا فرمائی ہیں۔ پھر وہ مانگنے پر خوش ہوتا ہے اور عطا بھی فرماتا ہے۔ بندہ جب اخلاص سے بیدار دل کے ساتھ اس سے ہاتھ اُٹھا کر دعا مانگے تو وہ ضرور عنایت فرماتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ بے نیاز اور بے غرض ہونے کے باوجود بندوں سے  شرم کرتا ہے تو بندوں کو بدرجۂ اولیٰ اللہ تعالیٰ سے شرم کرنی چاہیے اور اس کے کسی حکم کی خلاف ورزی سے بچنا چاہیے۔ حدیث میں حیا کو ایمان کے عظیم الشان شعبوں میں سے ایک بڑا شعبہ قرار دیا گیا ہے۔

آج ہم پر فرض ہے کہ اپنے معاشرے کو ’حیا‘ کی زینت سے مزین کر کے اللہ تعالیٰ کی بندگی کے لیے تیار کریں۔ معاشرے سے بے حیائی کی تمام شکلوں کا خاتمہ کردیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ’حیا‘ کرنے کی طرف مسلمانوں کو متوجہ کیا جائے، دعوت و تبلیغ کا بڑے پیمانے پر اہتمام کیا جائے۔

٭

حضرت ابی مالک اشعریؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جنت میں ایسے بالاخانے ہیں جن کے باہر سے اندر اور اندر سے باہر نظر آتا ہے (موتیوں کے بنے ہوئے شیش محل کے بالاخانے ہیں) ۔ یہ بالاخانے  اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے لیے تیار کیے ہیں جو نرم گفتگو کریں۔ لوگوں کو کھانا کھلائیں اور مسلسل روزے رکھیں اور راتوں کو نمازیں پڑھیں،   جب کہ دوسرے لوگ سوئے ہوئے ہوں۔ (بیہقی فی شعب الایمان)

نرم گفتگو آدمی کو اللہ تعالیٰ کے قریب اور خلقِ خدا کے لیے پُرکشش بناتی ہے۔ یہ حُسنِ اخلاق کی وہ صفت ہے جو اللہ تعالیٰ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ میں نمایاں مقام رکھتی ہے۔ اللہ تعالیٰ  نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس شان کا اپنے کلام پاک میں ان الفاظ میں تذکرہ فرمایا ہے:    فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنْتَ لَھُمْ وَ لَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ (آلِ عمرٰن۳:۱۵۹) ’’ (اے پیغمبرؐ!) یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ تم ان لوگوں کے لیے بہت نرم مزاج واقع ہوئے ہو۔ ورنہ اگر کہیں تم تندخو اور سنگ دل ہوتے تو یہ سب تمھارے گردوپیش سے چھٹ جاتے‘‘۔

اسی طرح مہمان نوازی اور روزے رکھنا اور راتوں کو اُٹھ کر تہجد پڑھنا، اللہ تعالیٰ کے تمام نیک بندوں کے اخلاقِ حسنہ کا حصہ ہیں، خصوصاً انبیاے علیہم السلام۔ چنانچہ انبیاے علیہم السلام کے پیروکار اہلِ ایمان جنھوں نے نیکی اور تقویٰ میں مقام پیدا کیا، انھوں نے ان تمام صفات کو اپنایا۔ بخل اور تقویٰ کا آپس میں تضاد ہے۔

ایک عمر رسیدہ مردِ دانا، دریا کے کنارے بیٹھا، کائنات میں اللہ تعالیٰ کی حسین و جمیل کاری گری سے لطف اندوز ہو رہا تھا کہ اچانک اس کی نظر ایک بچھو پر پڑی، جو پانی میں گرپڑا تھا اور ڈوبنے ہی والا تھا۔ بچھو اپنے آپ کو پانی کے سپرد کرنے پر آمادہ نہ تھا۔ اس نے اپنے آپ کو بچانے کی بہت کوشش کی مگر ناکام رہا۔ پانی کی جس لہر میں وہ گرا تھا وہ بہت تندوتیز تھی۔ بچھو نے ہرچند کوشش کی مگر وہ اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکا اور وہ ڈوبنے ہی والا تھا۔ عمررسیدہ دانا بزرگ نے بچھو کی یہ کربناک حالت دیکھی تو اسے بچانے کا فیصلہ کرلیا۔ اس نے اپنا ہاتھ بچھو کی طرف بڑھایا تو بچھو نے اسے ڈس لیا۔ درد کی شدت سے بے تاب ہوکر مردِ دانا نے اپنا ہاتھ پیچھے کرلیا، مگر اس نے جونہی بچھو کی طرف دیکھا کہ وہ ڈوبنے سے بچنے کے لیے ہاتھ پائوں مار رہا ہے تو اسے ترس آگیا۔ اس نے ایک بار پھر اپنا ہاتھ بچھو کی طرف بڑھایاتاکہ اسے مرنے سے بچالے، مگر بچھو نے اسے دوبارہ ڈس لیا۔ اس نے درد سے بے چین ہوکر چیخ ماری اور اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔ اس نے اب جو بچھو کو دیکھا تو یقین ہوگیا کہ وہ موت کے کنارے پہنچ چکا ہے، چنانچہ اسے بچانے کے لیے تیسری بار اس کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ مردِ دانا کے قریب بیٹھا ایک نوجوان یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ وہ چلّاکر بولا: اے مردِ بزرگ! کیا آپ نے دو بار ڈسے جانے سے بھی سبق نہیں سیکھا کہ اب تیسری بار ہاتھ بڑھا رہے ہیں؟

مردِ دانا نے اس نوجوان کی ملامت کی بالکل پروا نہ کی اور بچھو کو بچانے کی برابر کوشش کرتا رہا، بالآخر اسے ڈوبنے سے بچا ہی لیا۔ اب وہ ملامت کرنے والے نوجوان کی طرف متوجہ ہوا،  شفقت و محبت سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا، اس کا کندھا تھپتھپایا اور کہا: بیٹے، بچھو کی فطرت میں ڈنگ مارنا اور ڈسنا ہے، جب کہ میری فطرت میں محبت و شفقت کرنا ہے۔

مبارک تھا وہ سلیم الفطرت مرد بزرگ، جس کا دل محبت سے بھرپور تھا۔ مبارک ہے وہ انسان جو شیطان کی کشش کو ردّ کردیتا ہے۔ مبارک ہے وہ شخص جو اپنے آپ پر ضبط رکھتا ہے۔ آپ نے یہ مقولہ سنایا پڑھا ہوگا: درختوں کی مانند ہوجائو کہ لوگ ان پر پتھر پھینکتے ہیں اور وہ ان کی طرف پھل پھینکتے ہیں۔ کیا آپ نے درختوں پر انسانوں کے پتھر مارنے پر کبھی غور کیا ہے؟ آپ دیکھیں گے کہ پتھر پھینکنے والا، ہمیشہ اُس سے ادنیٰ، پست اور نیچے ہوتا ہے جس پر پتھر پھینکتا ہے۔ کیا آپ نے ملاحظہ کیا کہ بلندوبالا کھجور کے درخت پر پتھر پھینکنے والا انسان اُس سے بہت نیچے ہوتا ہے اور وہ اپنے سے اُونچے درخت پر سنگ باری کرتا ہے؟ اسی طرح چھوٹے بڑوں پر پتھر پھینکا کرتے ہیں۔

ہوسکتا ہے کہ لوگوں کا رویہ اور برتائو آپ کو پریشان کردے مگر آپ ہرگز اپنے حسنِ سلوک سے دست کش نہ ہوں۔ آپ لوگوں کے رویے کے ردعمل میں اپنی عمدہ صفات ترک نہ کریں، اور اپنے اخلاقِ حمیدہ نہ چھوڑیں۔ آپ ہرگز ان باتوں پر کان نہ دھریں کہ لوگوں کے رویوں کے مطابق ہی ان سے پیش آناچاہیے، کیوں کہ یہ لوگ کسی شریفانہ سلوک کے مستحق نہیں ہیں۔

اگر آپ نے یہ اصول تسلیم کرلیا ہے اور اس کے برحق ہونے کے قائل ہوگئے ہیں کہ انسان کو دوسروں کے سلوک سے قطعِ نظر ہمیشہ حُسنِ سلوک پر کاربند رہنا چاہیے، تو پھر آپ سے درخواست ہے کہ آپ کے حُسنِ سلوک کے سب سے زیادہ حق دار آپ کے گھر والے، یعنی اہل و عیال ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ تعلیم دی ہے: ’’تم میں بہتر وہ ہے جو اپنے اہل و عیال کے لیے بہتر ہے، اور میں اپنے اہلِ خانہ کے لیے تم سب سے بہتر ہوں‘‘۔

بہت سے والدین کو اپنی اولاد کے طرزِعمل سے سخت اذیت پہنچتی ہے، کیوں کہ بچے     ماں باپ کی نافرمانی کرتے ہیں، اور اپنی تعلیم کو نظرانداز کردیتے ہیں۔ وہ والدین کے لیے پریشانی کا سبب بنتے ہیں اور ان کا جینا دوبھر کردیتے ہیں۔ اس مرحلے پر والدین کا پیمانۂ صبر لبریز ہوجاتا ہے اور وہ اولاد سے سختی کرتے ہیں۔ شیکسپیئر کا قول ہے: ’’محبت کرو اس سے پہلے کہ تم سے نفرت کی جائے‘‘۔

بہت سے والدین کے نزدیک اولاد کی تربیت میں سختی و شدت ناگزیر ہے۔ وہ سزا اور سختی کے سوا کسی عمل کو مفید نہیں سمجھتے۔ ان کی نظر میں تربیت کے تمام طریقے غیرمؤثر اور سمجھانے کے تمام ذرائع بے کار اور غیرمفید ہیں۔ اپنے اس طریق کار کے درست ہونے کی، ان کے پاس سب سے بڑی دلیل یہ ہوتی ہے کہ انھوں نے خود اسی نہج پر پرورش پائی ہے۔ چنانچہ اس قسم کے باپوں میں سے ایک ’باپ‘ نے مجھے بتایا:’’میں اپنے باپ کے سامنے چپ چاپ کھڑا رہتا تھا۔ نہ تو میں اس سے بات کرتا تھا اور نہ اس کی قطع کلامی کی ہی جسارت کرتا تھا۔ وہ جب بھی بات کر رہا ہوتا تو مجھے جواب دینے یا کچھ بولنے کی اجازت نہ ہوتی تھی۔ کیوں کہ باپ کی بات کا جواب دینا، بیٹے کی طرف سے باپ کی شان میں گستاخی تصور کیا جاتا تھا اور اسے بے ادبی پر محمول کیا جاتا تھا۔ والدصاحب اپنی آواز بہت اُونچی کرلیتے تھے، جب کہ میں چپ سادھے رہتا تھا۔ مجھے ہروقت یہ دھڑکا لگا رہتا تھا کہ وہ کسی بھی وقت میری پٹائی کرسکتے ہیں۔مجھے یہ معلوم نہیں ہوتا تھا کہ وہ مجھے کب پیٹیں گے اور کیسے زدوکوب کریں گے؟ وہ اپنے خطاب کے دوران یک دم میرے چہرے پر دائیں بائیں سے تابڑ توڑ تھپڑ رسید کرتے تھے۔ میرے لیے حکم یہ ہوتا تھا کہ پتھروں کی اس بارش کے دوران خاموش کھڑا رہوں اور بالکل حرکت نہ کروں۔ میرے والدین نے میری تربیت اس طرح کی ہے اور جیساکہ آپ دیکھ رہے ہیں___ میں مرد بن چکا ہوں‘‘۔

میں نے اس باپ سے پوچھا: کیا آپ بھی اپنی اولاد کے ساتھ یہی وتیرہ اپنائے ہوئے ہیں؟ تو اس کا جواب تھا: یقینا، مجھے امید ہے کہ میری اولاد ضرور سیدھے راستے پر چلے گی۔ میں نے کہا: ذرا مجھے یہ بتایئے کہ جب آپ بیٹے سے بات کر رہے ہوتے ہیں تو اس کی حالت کیا ہوتی ہے؟ اس نے کہا: وہ میرے سامنے کھڑا کانپتا رہتا ہے، خاموشی سے میری باتیں سنتا ہے اور بالکل جواب نہیں دیتا۔

اس قماش کے باپ کے لیے ممکن ہی نہیں کہ وہ اپنے بچوں کی درست نہج پر تر بیت کرسکے۔ یہ تو ممکن ہے کہ وہ اپنے بیٹے کو چپ کرا دے اور اسے ماتحت و فرماں بردار رہنے پر مجبور کردے مگر ایسا باپ اپنی اولاد میں بزدلی، بے بسی، بے ہمتی ، عاجزی اور ذلّت و خواری کے بیج بو دیتا ہے۔ وہ معاشرے کو نفسیاتی لحاظ سے ایک شکست خوردہ، مغلوب و مضطرب شخصیت پیش کرتا ہے۔ ایسا باپ ایک متوازن اور طاقت ور شخصیت کی تعمیروتشکیل سے قاصر رہتا ہے۔ وہ ایسی شخصیت کبھی پیش نہیں کرسکتا جو اپنے آپ کو نفع پہنچانے کی صلاحیت رکھتی ہو اوردیگر افرادِ معاشرہ کے لیے بھی مفید ثابت ہو، اور یوں خاندان کی عمارت کی تعمیر کے لیے ایک مضبوط اینٹ کا کام کرے۔ اپنے سماج اور اپنی قوم و ملّت کے لیے مفید شخصیت تیار کرنا ایسے باپ کے بس کا روگ نہیں۔

محبت سے تربیت کی اہمیت اور ذرائع:

محبت سے اولاد کی تربیت کرنا انتہائی ضروری ہے،تاکہ ہم موافقت و ہم آہنگی اور یکسانیت و تال میل سے بھرپور زندگی گزار سکیں۔ یوں ہم اپنے پروردگار کو بھی راضی کرسکنے کے قابل ہوجائیں گے اور ہم اور ہماری اولاد دنیا و آخرت میں سرخ رو اور کام یاب ہوجائیں گے ۔ ہم ایک ایسا معاشرہ وجود میں لاسکیں گے جو توانا و مضبوط ہو، باہم مجتمع و ہم آہنگ ہو اور جس کا ہرفرد دوسروں سے محبت و اُلفت کرنے والا ہو۔ سوال یہ ہے کہ محبت کے ذریعے اولاد کی تربیت کے طریقے کیا ہیں؟

یوں تو ماہرین نفسیات و عمرانیات اور ماہرین تربیت نے محبت کے ذریعے اولاد کی تربیت کے متعدد ذرائع اور طریقے بیان کیے ہیں مگر ان میں سے اہم ترین طریقے درج ذیل ہیں:

کلامِ محبت:

انسانوں کی تربیت، ان کی راہ نمائی کے لیے دلوں میں اُلفت پیدا کرنے، اور ان کے اُمور و معاملات اور نفوس کی اصلاح کے لیے کلام، یعنی بات چیت اور گفتگو انتہائی مؤثر کردار ادا کرتی ہے۔ کلام دراصل اس گھنے سایہ دار درخت کی مانند ہے جو پتوں اور پھلوں سے لدا ہو اور بے شمار منافع و فوائد رکھتا ہو۔ اللہ سبحانہٗ نے کلام کو ایک درخت سے تشبیہ دی ہے۔ چنانچہ فرمایا: اَلَمْ تَرَکَیْفَ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَـلًا کَلِمَۃً طَیِّبَۃً کَشَجَرَۃٍ طَیِّبَۃٍ اَصْلُھَا ثَابِتٌ وَّفَرْعُھَا فِی السَّمَآئِ o تُؤْتِیْٓ اُکُلَھَا کُلَّ حِیْنٍ م بِاِذْنِ رَبِّھَا ط وَ یَضْرِبُ اللّٰہُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّھُمْ یَتَذَکَّرُوْنَ o (ابراہیم ۱۴:۲۴-۲۵) ’’کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ نے کلمہ طیبہ (پاکیزہ کلام) کو کس چیز سے مثال دی ہے؟ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک اچھی ذات کا درخت، جس کی جڑ زمین میں گہری جمی ہوئی ہے اور شاخیں آسمان تک پہنچی ہوئی ہیں۔ ہر آن وہ اپنے رب کے حکم سے پھل دے رہا ہے۔ یہ مثالیں اللہ اس لیے دیتا ہے کہ لوگ ان سے سبق لیں‘‘۔

ایک تحقیقی مطالعے سے ثابت ہوا ہے کہ ایک فردہوش سنبھالنے سے لے کر کامل بلوغ تک ۱۶ہزار منفی (بُرے) الفاظ سنتا ہے، جب کہ وہ اس مدت میں مثبت (اچھے) الفاظ صرف چند سو ہی سنتا ہے۔ ہم لوگ اس بات پر غور نہیں کرتے کہ سلبی و منفی، یعنی بُرے الفاظ و کلمات ہمارے بچوں کی تربیت پر کتنے بُرے اثرات مترتب کرتے ہیں۔

ماہرین تربیت اس بات پر زور دیتے ہیں کہ جب ماں باپ یا تربیت کرنے والوں کی طرف سے بچے کی توہین کی جاتی ہے اور اسے بُرے بُرے القاب و صفات سے پکارا جاتا ہے تو بچہ اپنی ذات کے بارے میں، اپنے ذہن میں ایک تصویر یا خاکہ بنا لیتا ہے۔ گویا اپنی ذات کے بارے میں یہ ذہنی تصویر ، اس کلام کا نتیجہ ہوتا ہے، جو وہ اپنے بارے میں لوگوں کی زبانوں سے سنتا ہے۔یوں سمجھیے کہ بچے کے بارے میں دوسروں کی باتیں نقاش (مصور) کا برش ہیں۔ نقاش بچے کے بارے میں باتیں کرنے والا ہے۔ اگر بچے کے بارے میں اور بچے سے بات کرنے والا شخص کالے رنگ کا بُرش استعمال کرتا ہے تو سیاہ تصویر وجود میں آتی ہے اور اگر وہ خوب صورت رنگ استعمال کرتا ہے تو تصویر بھی حسین ہوگی۔

کچھ باپ جب اپنے بیٹوں سے بات کرتے ہیں تو اپنی گفتگو سے ان کی شخصیتوں کو   مسخ کردیتے ہیں۔ لہٰذا آپ اپنے بیٹے کی قدروقیمت کم نہ کیجیے۔ ایک ماں کے لیے بھی یہ مناسب نہیں کہ وہ اپنی بیٹی کے ساتھ بات کرتے وقت اس کی شخصیت کو کچل دے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں سے باتیں کرتے وقت توہین آمیز لفظوں، تحقیرآمیز باتوں، طعن و تشنیع، تمسخرو استہزا اور گالم گلوچ سے مکمل اجتناب کریں۔ وہ کسی بھی صورت میں منفی الفاظ و کلمات استعمال نہ کریں۔ کیوں کہ بچوں کے ساتھ منفی رویہ اختیار کرنے سے، اس کے انتہائی تلخ نتائج سامنے آیا کرتے ہیں۔ چنانچہ بچوں میں علیحدگی پسندی، کم آمیزی، جارحیت، مختلف طرح کے خوف، عدمِ خوداعتمادی، تحقیر ذات، نفسیاتی امراض اور طرح طرح کے بگاڑ جنم لیتے ہیں۔

نگاہِ محبت:

کتب ِ سیرت و احادیث کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں بیٹھے والا ہرشخص یہ سمجھتا تھا کہ وہ دیگر تمام حاضرین کے مقابلے میں حضوؐر کا سب سے زیادہ محبوب ہے۔ کیونکہ رحمت دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم ہرشخص کو محبت بھری نظر سے دیکھتے تھے۔ اپنے بیٹے کی آنکھوں میں جھانکیے، اس کے سامنے مسکرایئے، محبت بھری نگاہ کے ساتھ ساتھ محبت آمیز بات چیت کیجیے۔ ہوسکتا ہے کہ میرا یہ مشورہ پڑھ کر قارئین کرام میں سے کوئی سخت گیر باپ یہ کہے: میں یہ کیسے کروں؟ اس لیے کہ میں نے تو اپنے بیٹے کو اس کا عادی نہیں بنایا اور اگر میں اپنے بیٹے کو پیاربھری نظر سے دیکھ بھی لوں تو وہ ضرور حیران ہوگا۔ اب میں اس کی حیرت کا جواب کیا دوں؟ میں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ آپ اپنے بیٹے کے والد ِ محترم ہیں، آپ ایک شفیق باپ ہیں۔ خدارا! اپنے بیٹے پر دھاوا بولنے اور حملہ کرنے کے انداز کو ترک کردیجیے اور اس سے مسکرا کر بات کیجیے۔ اگر بیٹا ، آپ سے اس اچانک تبدیلی کا راز پوچھے تو آپ اسے یوں جواب دیجیے: ’’بیٹا، میں آپ سے محبت کرتا ہوں‘‘، یا ’’میرے لخت ِ جگر مجھے تمھارا ہمیشہ خیال رہتا ہے‘‘۔

محبت آمیز لمس:

یہ خلافِ حکمت ہے کہ آپ اپنے بیٹے سے برتر و اعلیٰ ہوکر بات کریں، برتری خواہ جگہ اور مقام کے اعتبار سے ہو یا گفتگو کے لحاظ سے۔ آپ اپنے بیٹے سے   اس طرح بات نہ کریں کہ آپ تو ایک اُونچی کرسی پر براجمان ہوں اور وہ نیچے بیٹھا ہو، اور نہ اس اسلوب و انداز میں ہی بات کریں کہ گویا آپ ایک فوجی کمانڈر ہیں اور بیٹا آپ کا ایک ماتحت سپاہی اور آپ اسے احکام دے رہے ہیں اور وہ ’جی جناب، جی جناب‘ کہہ رہا ہے۔یہ بھی حکمت کا تقاضا نہیں کہ آپ دُور سے ہی بیٹے سے مخاطب ہوں، بلکہ آپ کو چاہیے کہ آپ ہرلحاظ سے بیٹے کے نزدیک ہوں، دل سے بھی نزدیک، مجلس کے لحاظ سے بھی قریب اور بات چیت کے انداز سے بھی۔

آپ جب بھی اپنے بیٹے یا بیٹی سے بات کریں تو پہلے اس کے کندھے پر شفقت سے ہاتھ رکھیں۔ آپ کی آواز میں محبت ہونی چاہیے۔ آپ کے لمس میں شدت و سختی نہیں بلکہ نرمی و محبت ہونی چاہیے، اور اس لمس میں شفقت ِ پدری  ہو۔ اس سے آپ کی اولاد کو پیغامِ امن و امان ملے۔ پدرانہ محبت کی لہر اولاد کے دلوں تک سرایت کرجائے اورانھیں اس بات کا احساس ہو کہ وہ آپ کے وجود کا حصہ اور جز ہیں۔ آپ جب گھر سے باہر جانے لگیں تو بچوں سے ضرور مصافحہ کیجیے، یا جب آپ کے بچے گھر سے باہر نکلنے لگیں تو  بھی آپ ان سے ہاتھ ملایئے اور اپنی دعائوں کے ساتھ انھیں رخصت کیجیے اور ان کے سر پر اپنا دست ِ شفقت رکھیے۔

اب ذرا سا رُک کر، اپنا جائزہ لیجیے کہ آپ ان گزارشات پر کس حد تک عمل کر رہے ہیں؟

محبت سے بغل گیر ھونا:

بچوں کی نفسیاتی حاجات و ضروریات میں سے ایک محبت ہے۔ لازم ہے کہ والدین کی جانب سے اس ضرورت و تشنگی کو پورا کیا جائے۔ والدین اگر بچوں سے محبت نہیں کریں گے تو اس کے نتیجے میں بچوں میں محرومی پیدا ہوگی اور محرومی سے بچوں کے لیے متعدد نفسیاتی روگ اور بگاڑ جنم لیں گے۔ والدین جب اپنے بچوں سے بغل گیر ہوتے ہیں تو اس سے بچوں کو نفسیاتی سکون اور قلبی قرار ملتا ہے، لہٰذا ماں باپ کو اپنی اولاد سے بغل گیر ہونے میں بخل و تردّد سے کام نہیں لینا چاہیے۔ یقین جانیے کہ بچوں کو والدین سے معانقہ کرنے اور ان کے ساتھ محبت سے لپٹنے کی اتنی ہی ضرورت ہوتی ہے، جتنی انھیں کھانے پینے اور سانس لینے کی حاجت ہوتی ہے، بلکہ محبت کی چاہت و حاجت، خوراک کی حاجت سے بھی بڑھ کر ہے۔ والدین کا فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں کی اس فطری حاجت کو پورا کریں۔

بوسۂ شفقت:

رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم ایک بار اپنے نواسوں حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کو چوم رہے تھے کہ ایک بدو سردار الاقرع بن حابس آیا۔ اس نے یہ منظر دیکھا تو بہت حیران ہوا۔ اس کے لیے یہ ایک عجیب بات تھی۔ چنانچہ تعجب سے پوچھا: کیا آپؐ اپنے بچوں کو چومتے ہیں؟ میرے ۱۰ بچے ہیں، اللہ کی قسم! میں نے ان میں سے کسی ایک کو بھی کبھی نہیں چوما۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: ’’اللہ نے اگر تمھارے دل سے اپنی رحمت سلب کرلی ہو تو مَیں کیا کرسکتا ہوں؟‘‘

والدین جب بچے کو چومتے ہیں تو اس سے بچے کے قلب و نفس پر رحمت و شفقت چھا جاتی ہے۔ اسے امن و امان کا بھرپور احساس ہوتا ہے۔ ہم بچوں کو بوسہ دے کر ہی انھیں اپنی محبت و شفقت کے احساس سے سرشار کرسکتے ہیں۔ اگر ہم بچوں کو محبت و شفقت کے بوسے سے محروم کریں گے تو وہ ہم سے دُور ہٹیں گے۔ نفرت و بے زاری اور سنگ دلی و سختی ان کے دلوں میں جاگزیں ہوگی۔ وہ بچپن سے ہی دُوری اور کم آمیزی میں مبتلا ہوجائیں گے۔ والدین کے بوسۂ شفقت سے ہی بچوں کے درد و الم دُور ہوتے ہیں۔ ان کے نفسیاتی زخم مندمل ہوتے ہیں اور ذہنی روگ ختم ہوتے ہیں۔  ہم محبت آمیز بوسے سے اپنے بچوں اور بچیوں کو خوشی و مسرت سے ہم کنار کرسکتے ہیں اور انھیں محبت و اُلفت، رضامندی اور شوق و وارفتگی سے معمور کرسکتے ہیں۔

محبت بہری مسکراھٹ:

اولاد کے سامنے ہماری مسکراہٹ بے شمار فوائد رکھتی ہے۔ ہمارے اس تبسم سے انھیں مسرت نصیب ہوتی ہے۔ یوں ہمارے اور ان کے مابین ایک  خوش گوار رابطہ استوار ہوتا ہے اور باہم محبت بڑھتی ہے۔ اس مسکراہٹ سے خوشیاں ملتی ہیں اور خامیوں اور کوتاہیوں کا ازالہ ہوتا ہے۔ دلوں کے سرچشمے سے مسرتیں پھوٹتی ہیں۔

والدین سے گزارش ہے کہ آپ ذرا آئینے کے سامنے کھڑے ہوجایئے۔ ایک بار مسکرایئے اور پھر آئینے میں دیکھیے۔ ایک بار ترش رُو ہوکر آئینے میں دیکھیے اور پھر دونوں کا فرق ملاحظہ کیجیے۔ یقینا والدین کی خندہ پیشانی، ان کی مسکراہٹ اور ان کی قربت سے اولاد کو مسرت و فرحت ملتی ہے۔ والدین کے قرب کا حصول، اولاد کی دیرینہ تمنا ہُوا کرتی ہے۔ وہ اس قربت سے     اپنے آپ کو خوش نصیب سمجھتے ہیں۔ یوں ان کے دل ماں باپ کے لیے کھل جاتے ہیں۔ وہ سچی محبت و یگانگت سے مالا مال ہوتے ہیں۔ وہ والدین سے سچی محبت کرنے لگ جاتے ہیں۔ جب بچے ہم سے محبت کرتے ہیں تو پھر وہ ہمیں ترجیح دیتے ہیں اور ہماری فرماں بردار ی کرتے ہیں۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے گھر میں اہلِ خانہ کے ساتھ، جو طرزِعمل ہوتا تھا، اس کی عکاسی سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے یوں کی ہے:’’آپ سب سے بڑھ کر نرم دل، مسکرانے اور ہنسنے والے تھے‘‘۔

حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: تمھارا اپنے بھائی کے سامنے مسکرانا صدقہ ہے۔ (ترمذی)

والدین کو چاہیے کہ وہ محبت کے ذریعے بچوں کی تربیت کا ضرور تجربہ کریں۔ اس تربیت میں انھیں یہ اقدامات کرنا ہوں گے: کلامِ محبت، نگاہِ محبت، محبت بھرا لمس، محبت سے بغل گیر ہونا، بوسۂ شفقت اور محبت آمیز مسکراہٹ۔(المجتمع، کویت، شمارہ ۱۹۵۱، ۷مئی ۲۰۱۱ء)

اُمت مسلمہ کی شناخت اور اس کی پہچان جہاں اس کے اللہ کے پیغام کے علَم بردار ہونے کی حیثیت سے ہے وہیں اس کا دوسرا اور لازمی وصف قرآن نے امَّۃً وَّسطًا کے زریں الفاظ میں واضح کیا ہے:

قُلْ لِلّٰہِ الْمَشْرِقُ وَ الْمَغْرِبُ ط یَھْدِیْ مَنْ یَّشَآئُ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ o وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ وَ یَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْدًا  o (البقرہ ۲:۱۴۲-۱۴۳) اے نبیؐ! ان سے کہو مشرق اور مغرب سب اللہ کے ہیں۔ اللہ جسے چاہتا ہے سیدھی راہ دکھا دیتا ہے۔ اور اسی طرح تو ہم نے تم مسلمانوں کو ایک ’اُمت ِ وسط ‘ بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسولؐ تم پرگواہ ہو۔

واضح رہے اُمت ِ وسط سے مراد ایک ایسی قوم اور انسانوں کا ایک ایسا گروہ ہے جو فرداً فرداً اور اجتماعی طور پر عدل و انصاف اور توسط اور میانہ روی کی روش پر قائم ہو، اور جس کا تعلق سب انسانوں کے ساتھ یکساں حق اور راستی کا تعلق ہو اور کسی سے بھی ناحق اور ناروا تعلق نہ ہو۔ اس کے برعکس انتہاپسندی وہ روش ہے جو راہِ وسط کی ضد ہے۔

انتہاپسندی کے الفاظ بجاے خود شدت و حدّت کو ظاہر کرتے ہیں۔ انتہا کے لفظی معنی ہیں کسی چیز کی آخری حد یا کنارہ۔ کسی دائرے کا آخری گھیرا، کسی صفحے کی آخری لکیر، کسی وسعت کا احاطہ کلُی، خاتمہ، روک یا آخری سرا، جو اسے کسی دوسری حد اور انتہا سے ممتاز و ممیز کردے۔حدوانتہا مادی شکل کی بھی ہوسکتی ہے اور معنوی بھی۔ نیز حدوانتہا کے واقعتا دو رُخ ہوسکتے ہیں: ایک کم سے کم یا نیچے کی حد یا آخری لکیر سے گر جانا، اور ایک حدونہایت یا غایت وانتہا اُوپر کی طرف، حد سے اُوپر گزر جانا، دائرے سے باہر نکل جانا۔ گویا انتہاپسندی کا اصولاً اطلاق زیادہ سے زیادہ یا کم سے کم دونوں صورتوں پر ہوسکتا ہے، یعنی افراط اور تفریط دونوں شکلوں میں۔ ان دونوں انتہائوں (کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ) کے درمیان یا وسط (بیچ) ، عدل و قسط اور اعتدال کی منزل ہے۔

روزمرہ گفتگو میں جب انتہاپسندی کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے تو اس سے عُرفاً اور عموماً حداعلیٰ و بالا کی طرف ہی بڑھ جانے یا گزرجانے کا اشارہ ہوتا ہے، یعنی سیاسی، معاشی، معاشرتی یا مذہبی کسی بھی معاملے میں حد سے آگے بڑھ جانا۔ حد سے آگے بڑھنے کا رجحان و میلان جسے    ہم انتہاپسندی کہتے ہیں، دراصل عدل و اعتدال کو خاطر میں نہ لانے اور وسط و قسط ترک کردینے سے ہی پیدا ہوتا ہے۔ قرآنِ کریم میں اگرچہ ’انتہاپسندی‘ کا لفظ استعمال نہیں ہوا، تاہم انتہاپسندی کی نمایندگی اور اس کی کیفیت و کمیت کا اظہار دوسرے کئی الفاظ و اصطلاحات سے بخوبی ہوجاتا ہے۔ چنانچہ حدِاعتدال سے آگے بڑھ جانا، یعنی انتہاپسندی دراصل حدودشکنی ہے، ظلم و زیادتی ہے اور اسی کو غُلو کہا گیا ہے، یعنی مبالغہ کرنا، حد سے آگے بڑھنا، جب کہ یہی طغیان ، اعتدیٰ، افراط اور عدوان ہے۔۱؎ چنانچہ قرآنِ پاک میں یہ نمایندہ الفاظ و اصطلاحات جہاں جہاں پائے جاتے ہیں  ان کے سیاق و سباق سے پتا چلتا ہے کہ انتہاپسندی سے ظلم و زیادتی جنم لیتی ہے، جبروجور بڑھتا ہے، تشدد و تغلب پیدا ہوتا ہے اور پھر اس کے نتیجے میں قتل و غارت گری، فتنہ و فساد پورے معاشرے میں پھیل جاتا ہے جس کا مشاہدہ ہم آج خود اپنے ملک میں آئے دن کرتے رہتے ہیں۔

انتہاپسندی کا میلان و رجحان یا رویہ خواہ دینی، دنیوی کسی معاملے میں ہو یا انسانی زندگی کے کسی بھی شعبے میں پایا جائے بہرحال عقل و نقل کسی اعتبار سے پسندیدہ نہیں، بلکہ قابلِ مذمت اور انتہائی خطرناک ہے اور مختلف درجات میں مہلک نتائج کو جنم دیتا ہے۔ انتہاپسندانہ رویہ بنیادی طور پر بے اعتدالی اور بے راہ روی کا نتیجہ ہوتا ہے۔ تاہم اور دوسرے بہت سے اسباب کا بھی اس میں  عمل دخل ہوتا ہے، مثلاً بعض لوگ طبعاً انتہاپسندانہ طبیعت لے کر پیدا ہوتے ہیں اور انتہاپسندی ان کی سرشت میں ہوتی ہے، جیساکہ سورئہ علق (آیت۶) میں فرمایا گیا: کَلَّا اِنَّ الْاِنْسَانَ لَیَطْغٰٓی (بے شک انسان حد سے نکل جاتا ہے۔ ترجمہ: تھانوی)۔

انتہاپسندی کی ایک وجہ لاعلمی، ناواقفیت اور جہالت ہے۔ حدود و قیود سے ناواقفیت بجاے خود حدوں کی پامالی اور ان سے تجاوز کا باعث بنتی ہے اور جہالت میں اکھڑپن، ناشائستگی ، عدم برداشت، تشدد اور تغلب سب چیزیں داخل ہیں جو بالآخر انتہاپسندی پر منتج ہوتی ہیں۔ علم، طاقت، عزت، دولت، علم، عقل وغیرہ اگرچہ عطیۂ خداوندی ہیں لیکن اکثر اوقات آدمی اس زعمِ باطل میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ یہ اس کے کسب و محنت کا نتیجہ اور ملکیت ذاتی ہے۔ پھر فخر، غرور، گھمنڈ میں آکر   انا ولاغیری کا خبط اس پر سوار ہوجاتا ہے اور وہ انتہاپسندی کی انتہا پر پہنچ کر اَنَا رَبُّکُمُ الْاَعْلٰی (النازعات ۷۹:۲۴، میں ہوں رب تمھارا سب سے اُوپر۔ ترجمہ: محمودالحسن) کا دعویٰ کربیٹھتاہے۔ یہی فرعونیت ہے۔ قرآن میں مختلف حوالوں سے فرعون کا تقریباً ۷۴ مرتبہ ذکر آیا ہے لیکن اس کی فردِ جرم میں مرکزی شق ہے: اِنَّہٗ طَغٰی (طٰہٰ ۲۰: ۲۴، ۴۳، النازعات ۷۹:۱۷) کہ وہ حد سے بہت بڑھ گیا تھا۔ انتہا کی انتہا کو پہنچ گیا تھا جس کی مزید تشریح یہ کی گئی کہ وَاِنَّ فِرْعَوْنَ لَعَالٍ فِی الْاَرْضِ ط وَ اِنَّہٗ لَمِنَ الْمُسْرِفِیْنَo (یونس ۱۰:۸۳) (اور فرعون ملک میں متکبر و متغلب اور (کبروکفر میں) حد سے بڑھا ہوا تھا۔ ترجمہ: ف م جالندھری)۔ اور فرمایا گیا: اِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِی الْاَرْضِ (القصص ۲۸: ۴) (بے شک فرعون نے بہت سر اُٹھا رکھا تھا)۔ اس انتہاپسندی کے نتیجے میں اسے نشانِ عبرت بنادیا گیا (النازعات ۷۹: ۲۶)۔

انتہاپسندی کے فروغ و افزایش میں بعض اوقات ذاتی غرض و منفعت، حب جاہ و مال و منصب بھی کارفرما حیثیت اختیارکرلیتی ہے۔ چنانچہ وسائل و ذرائع میں جائز و ناجائز، حق و باطل، صحیح غلط کا امتیاز بے معنی ہوجاتا ہے۔ پھر ضد، ہٹ دھرمی، انتقام، انانیت، انتہاپسندی کی راہوں کو پُرپیچ بناکر انسانیت کو تباہی و ہلاکت سے دوچار کردیتی ہیں۔ اس پہلو سے انتہاپسندی اور دہشت گردی میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا کیونکہ دونوں کا بظاہر نتیجہ ایک ہی ہوتا ہے۔ لہٰذا انسانیت، شرافت اور معاشرتِ باہمی کی خیر اسی میں ہے کہ ان اسباب و محرکات کا بھی قلع قمع کیا جائے جو انتہاپسندی کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ دنیا کو شرفِ انسانیت کا اعزاز، شرافت ِ تہذیب کی خیرات اور تحسین معاشرت کی سوغات صرف اُس وقت نصیب ہوئی، جب حضور سیّدعالم صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں تشریف لائے۔

آج سے ڈیڑھ ہزار برس پہلے، عرب کے جاہلی معاشرے میں جس وقت رسولِؐ رحمت کی بعثت ِ مبارکہ ہوئی تو احوال و کیفیات کا تجزیہ بتاتا ہے کہ اُس معاشرے کی نمایاں ترین خصوصیت انتہاپسندی تھی۔ جس طرح انسانی زندگی کے ہزار رنگ ہیں، انتہاپسندی کے انواع و اقسام بھی بے شمار ہیں۔ تاہم سب دائروں کا مرکز مذہبی انتہاپسندی میں مرتکز تھا۔ مذہبی انتہاپسندی کا سب سے بڑا مظہر شرک و بت پرستی تھا اور شرک و بت پرستی کا محور و مرکز اُس گھر کو بنا دیا گیا تھا جو اصلاً اللہ کا گھر، خدا پرستی کا مرکز اور نشرگاہِ توحید تھا۔ توحید اللہ کی وحدانیت و یکتائی ہے۔ بے مثل، بے عیب، وحدہٗ لاشریک وہی ہے۔ یکتا و تنہا ذات مالک الملک ذوالجلال والاکرام وہی ہے۔ تصورِ حقانیت اور حقیقت میں عدل و قسط کی نمایندہ توحید ہے، جب کہ شرک ایک سے زیادہ بلکہ سیکڑوں کی تعداد میں خدائوں کا یقین خلافِ حقیقت بھی ہے اور ذہنی، تصوراتی انتہاپسندی بھی ہے۔ نیز جہالت و ظلم کی نمایندہ ہے۔ اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ  (لقمٰن ۳۱:۱۳)۔

عرب جاہلیت میں انتہاپسندی اگرچہ ذہنی و عملی ہزار شکلوں میں موجود تھی لیکن اس کا سب سے بڑا مظہر مذہبی انتہاپسندی کی صورت میں نمایاں تھا۔ چنانچہ حضور نبی کریمؐ کا اپنے مخاطبین، یعنی مشرکینِ مکہ سے ایک یہی تو مطالبہ تھا کہ وہ صرف ایک کلمہ(توحید/اسلام) کا اقرار کرلیں تو عرب و عجم کی بادشاہی ان کے قدموں میں ہوگی۔ یہ ایک کلمۂ توحید/کلمۂ اسلام ان کی انتہاپسندانہ مشرکانہ زندگی پر خط ِ تنسیخ پھیر رہا تھا۔ وہ بلبلا اُٹھے۔ وہ کلمہ، اس کی دعوت، اس کے اثرات، اس کے تقاضے ان کے مذہبی شب و روز، ان کی معاشرتی زندگی، ان کے معاشی فوائد، ان کی بداخلاقیاں، سب کے لیے سخت نقصان دہ ثابت ہورہے تھے۔ شرک بقول قرآن ظلم ہے، اس لیے مشرکوں ظالموں نے انفرادی طور پر موحد اہلِ ایمان پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے جس سے خود ذاتِ رسالت مآبؐ بھی مستثنیٰ نہ تھی۔ پھر اجتماعی طور پر انتہاپسندی کا مظاہرہ چھے سال بعد ہی مشرکین مکہ، یعنی قریش نے اس طرح کیا کہ نہ صرف حضوؐر بلکہ بنومطلب سمیت پورے خاندانِ بنوہاشم کا معاشی اور معاشرتی مقاطعہ کردیا۔ اس ظالمانہ سلوک اور اجتماعی انتہاپسندی کا سلسلہ تین سال تک برابر جاری رہا۔ ایسے ظالمانہ سلوک اور انتہاپسندی کی اس سے پہلے عرب کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ لیکن جب کفارو مشرکین مکہ کی معاندانہ کوششوں اور ظالمانہ کارروائیوں کے باوجود آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تبلیغی مساعی نے مدینہ میں بھی کامیابی حاصل کرلی تو کفارومشرکین کی انتہاپسندی عروج پر پہنچ گئی، اور انھوں نے دارالندوہ کے ایک خصوصی اجلاس میں آقاے رسالتؐ کے قتل کا منصوبہ بناڈالا۔ واقعہ یہ ہے کہ اگر آپؐ تقدیر و تدبیر الٰہی کے تحت شمشیر بردار مشرکوں کے محاصرے سے ہجرت کی رات بخیروعافیت نہ نکل جاتے تو انھی لمحات میں دہشت گردی کا ایک بہت بڑا واقعہ ظہور پذیر ہوجاتا۔

ہجرتِ نبویؐ کے بعد ریاست مدینہ قائم ہوجانے اور قوت و شوکت حاصل ہونے کے باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قریشِ مکہ کی انتہاپسندی کا جواب انتہاپسندی سے نہیں دیا، بلک ہ ایک محتاط، معتدل، ترقی یافتہ معاشرے کی داغ بیل ڈالی اور اس کا عملی نمونہ سب سے پہلے خود اُس مدنی معاشرے کی ازسرِنو تبدیلی سے فرمایا جہاں آپؐ نے قدم رنجہ فرمایا تھا اور جہاں انتہاپسندانہ مزاجی حالات نے اس خطے کے باشندوں کے لیے جہنم زار بنا دیا تھا۔ آپؐ  کی آمد اور آپؐ  کی مساعیِ جمیلہ سے مدینہ طیبہ، جنت نشان قرارِ جاں بن گیا۔ اس خوش گوار تبدیلی کا نقشہ قرآن نے ان الفاظ میں کھینچا ہے:

وَ اذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْ کُنْتُمْ اَعْدَآئً فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِکُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖٓ اِخْوَانًا وَ کُنْتُمْ عَلٰی شَفَا حُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَکُمْ مِّنْھَاط (اٰل عمرٰن ۳:۱۰۳) اور یاد کرو احسان اللہ کا، اپنے اُوپر، جب کہ تھے تم آپس میں دشمن، پھر اُلفت دی تمھارے دلوں میں، اب ہوگئے اس کے فضل سے بھائی بھائی، اور تم تھے کنارے پر ایک آگ کے گڑھے کے، پھر تم کو اس سے نجات دی۔(ترجمہ شیخ الہند)

حضور نبی کریمؐ نے یثرب کی اُس سرزمین کو (جہاں بدامنی، قتل و غارت گری، لاقانونیت کا دور دورہ تھا، جہاں کسی کی جان، مال، عزت و آبرو محفوظ نہ تھی، جہاں اوس و خزرج اور یہودی قبائل ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بنے ہوئے تھے، جہاں نراج کی حکمرانی تھی اور انتہا پسندی عام تھی) امن و امان کا گہوارہ بنادیا۔ عدل و احسان کی حکمرانی سے متمتع کیا۔ ایک قانون اور ایک دستور کا پابند کیا۔ ہرقسم کی انتہاپسندی کو ممنوع ٹھیرایا ۔ خوں آشام قبائل کو شیروشکر کیا، نراج کو راج سے بدلا، ایک مرکز عطا کیا۔ اخلاق، مروّت، اخوت، اعتدال کی فضا قائم کی۔ پوری بستی کے حدود کو حرم قرار دیا اور ایک شہربے مایہ کو تاجدارِ مدینہ نے مدینہ بناکر مفتخر [فخر کرنے والا] کیا۔ اب جو اُمت تشکیل پائی وہ ’اُمت ِ وسط‘ قرار دی گئی۔  وَ کَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا (البقرہ ۲:۱۴۳) (اور اس طرح ہم نے تم کو اُمت وسط /اُمت معتدل بنا یا ہے)۔ اُمت معتدل، موضح القرآن کے مطابق: ’’ وہ اُمت ہے جس میں نہ افراط ہے نہ تفریط۔ عیسائیوں نے افراط اختیار کی کہ حضرت عیسٰی ؑ کو خدا کا بیٹا بنا دیا اور یہودیوں نے تفریط دکھائی کہ ان کی پیغمبری کو بھی نہ مانا۔ اُمت معتدل نے نہ ان کو حد سے بڑھایا نہ گھٹایا بلکہ ان کے درجے پر رکھا‘‘(حاشیہ ف م جالندھری، ص ۳۵)۔ حاشیۂ عثمانی کے مطابق: وسط، یعنی معتدل کا یہ مطلب ہے کہ یہ اُمت ٹھیک سیدھی راہ پر ہے جس میں کچھ بھی کجی کا شائبہ نہیں اور افراط و تفریط سے بالکل بری ہے‘‘ (ص ۲۷)۔ علامہ راغب اصفہانی لکھتے ہیں: الوَسَط (بفتح السین) اس چیز کو بھی کہتے ہیں جو دو مذموم اطراف کے درمیان واقع ہو، یعنی معتدل جو افراط و تفریط کے بالکل درمیان ہوتا ہے۔ نیز فرماتے ہیں کہ معنی اعتدال کی مناسبت سے یہ لفظ عدلٌ نصفۃ سوائٌ کی طرح ہر عمدہ اور بہترین چیز کے لیے بولا جاتا ہے۔ چنانچہ اس معنی میں اُمت مسلمہ کے متعلق فرمایا گیا۔ وَ کَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا (البقرہ ۲:۱۴۳)۔(راغب اصفہانی،ص ۹۷۴)

یہ کہنا گویا عین حقیقت ہے کہ اُمت مسلمہ یا مسلمانوں کا بحیثیت اُمت ِ وسط دائرۂ حیات اعتدال و توسط کے گرد ہی گھومتا ہے اور زندگی کے تمام شعبوں میں کارفرمائی میانہ روی کی ہے، تاکہ انفرادی و اجتماعی زندگی کا ہر گوشہ توازن و ہم آہنگی سے ہم کنار ہو اور کسی قسم کی بے اعتدالی، ناروا زیادتی، غلو اور انتہاپسندی سرزد نہ ہونے پائے۔ دین اسلام کی یہ ایسی بنیادی صفت ہے کہ حضور اکرمؐ  سے پہلے آنے والے تمام انبیاؐ و رسل بھی اس اہم مقصد کے لیے کوشاں رہے کہ عدل و قسط قائم ہو، اور کتب و صحائف کا نزول بھی اسی غرض سے ہوا کہ لوگ راستی و میانہ روی کو اپنی زندگیوں میں جاری و ساری کریں (ملاحظہ ہو سورئہ حدید ۵۷،آیت ۲۵)۔ آپؐ  کا لایا ہوا دین تو سرتاسر عدل و قسط، اعتدال و اقتصاد (میانہ روی)کا آئینہ دار ہے۔ عقائد،عبادات، معاملات، اخلاقیات کا کوئی پہلو ایسا نہیں ہے جہاں اس کی کارفرمائی نہ ہو یا اسے نظرانداز کردیا گیا ہو۔ درحقیقت اس دین فطرت میں ظاہروباطن کا ہرجلوہ، اور فکروعمل کا ہر ذرّہ مبنی برعدل ہے، اور جلوہ ہاے نبوت سے ہم آہنگ ہے۔ بروایت حضرت عبداللہ بن سرجسؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’حسنِ سیرت (نیک چال چلن)، بُردباری اور میانہ روی نبوت کے اجزا میں سے ۲۴واں حصہ ہے‘‘۔(ترمذی، مشکوٰۃ)

قرآن و حدیث میں مسئلہ زیربحث کے دونوں پہلوئوں پر جگہ جگہ احکام و ہدایات سے نوازا گیا ہے۔ اس پہلو سے بھی کہ عدل و اعتدال، اقتصاد و میانہ روی اختیار کی جائے جو اس بات کو مستلزم ہے کہ فکروعمل کی ہرچیز اور نظام و انتظام کا ہر عنصر اپنے اپنے دائرے میں ٹھیک ٹھیک کام کرے اور مطلوبہ مثبت نتائج پیدا کرے، دوسری طرف کسی معاملے میں حدود سے تجاوز نہ کیا جائے۔ اعتدیٰ، عدوان، طغیان و عصیان سے پرہیز کیا جائے کہ یہیں سے غلو، تجاوزِ بے جا اور انتہاپسندی کی مختلف جہتیں پیدا ہوجاتی ہیں جو اپنی سنگینی میں دہشت گردی سے مماثل ہوجاتی ہیں۔

اسلام کا مزاج بہرحال اور بحیثیت مجموعی، قسط و اعتدال سے ہی عبارت ہے کہ یہ تعمیرباطن بھی کرتا ہے اور ظاہر کو بھی درست رکھتا ہے۔ حکم ہے: اِعْدِلُوْا قف ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی(المائدہ ۵:۸) ’’عدل کرو، یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے‘‘۔ دل میں کھوٹ اور ناجائز خواہشات ہی بے راہ روی و بے اعتدالی کی پرورش کرتی ہیں۔ اسی لیے فرمایا گیا: فَلَا تَتَّبِعُوا الْھَوٰٓی اَنْ تَعْدِلُوْا (النساء ۴:۱۳۵) ’’لہٰذا اپنی خواہشِ نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو‘‘۔ اللہ تو بہرصورت عدل کی ہی تلقین کرتا ہے:’’ان سے کہو، میرے رب نے تو راستی و انصاف کا حکم دیا ہے‘‘۔ (الاعراف ۷: ۲۹)۔ اس لیے اہلِ ایمان کو اس کی تابعداری لازم ہے ۔کیونکہ اللہ ایسے لوگوں کو پسند کرتا ہے، ان سے محبت رکھتا ہے۔ اِِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَo (الحجرات ۴۹:۹، المائدہ ۵:۴۲، الممتحنہ ۶:۸)۔ سورئہ لقمان میں فرمایا گیا کہ وَاقْصِدْ فِیْ مَشْیِکَ (لقمٰن ۳۱: ۱۹)’’چال میں میانہ روی اختیار کرو‘‘۔

یہ میانہ روی زندگی کے ہرمعاملے، ہر گوشے میں مطلوب و محمود ہے۔ ارشاد رحمۃ للعالمینؐ ہے:  ’’حضرت حذیفہؓ سے روایت ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:خوش حالی میں میانہ روی کیا ہی خوب ہے، ناداری میں اعتدال کی روش کیا ہی اچھی ہے، اور عبادات میں میانہ روی کیا ہی بہتر ہے‘‘(مسند بزاز، کنزالعمال)،(عبدالغفار حسن،انتخابِ حدیث، ص ۶۶)۔ یہ روش، یہ رویہ ہرلحاظ سے بہتر ثابت ہوتا ہے۔ یہ ارشاد رسالت مآب کیسا معنی خیز ہے۔ آپؐ  نے فرمایا: دین آسان ہے۔ کوئی شخص دین سے زورآزمائی نہ کرے کیونکہ یہ دین اس پر غالب آکر رہتا ہے۔ اس لیے سیدھے رہو۔ میانہ روی اختیار کرو اور ہشاش بشاش رہو(ایضاً، ص ۶۶، ۶۷)۔ ایک اور حدیث قدسی میں ہے کہ ’’مومن کے لیے مناسب نہیں ہے کہ وہ اپنے آپ کو ذلیل کرے‘‘۔ صحابہؓ نے دریافت کیا کہ مومن اپنے آپ کو ذلیل کیسے کرتا ہے؟ آپؐ  نے فرمایا: ناقابلِ برداشت (طاقت سے زیادہ) آزمایش میں خود اپنے آپ کو ڈالتا ہے۔ (ترمذی، مشکوٰۃ)

اس لیے یہ بات طے ہے کہ انصاف اور اعتدال و میانہ روی ترک کرنے سے ہی انتہاپسندی کو فروغ ملتا ہے۔ انتہاپسندی، اعتدیٰ، عدوان، ہرصورت میں منع ہے۔ چنانچہ مختصر الفاظ میں مگر جامع انداز میں یہ حکم دے دیا گیا کہ وَ لَا تَعْتَدُوْا ’’حد سے آگے نہ بڑھو‘‘ (المائدہ ۵:۸۷)۔ سورئہ بقرہ میں یہ مضمون کئی جگہ بیان ہوا ہے۔ایک جگہ ارشاد ہے: تِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ فَلَا تَعْتَدُوْھَا (البقرہ۲:۲۲۹) ’’یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں سو اس سے آگے مت بڑھنا‘‘۔ اور دوسری جگہ فرمایا گیا: اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْمَعْتَدِیْنَo (البقرہ۲:۱۹۰) ’’بے شک اللہ حد سے آگے بڑھ جانے والوں کو پسند نہیں کرتا‘‘۔ انتہاپسندی کی مذمت دوسرے الفاظ میں اس طرح کی گئی: وَ لَا تَطْغَوْا ط اِنَّہٗ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌo(ھود۱۱:۱۱۲) ’’اور حد سے تجاوز نہ کرنا، اللہ تمھارے سب اعمال کو بخوبی دیکھ رہا ہے‘‘۔ یہی حکم سورئہ طٰہٰ میں مکرر دیا گیا (طٰہٰ۲۰:۸۱)۔ حدودسے تجاوز کرنے والوں (للطاغین) سرکشوں کو بُرے ٹھکانے کی وعید سنائی گئی ہے (صٓ۳۸:۵۵)۔ یہی وعید ِجہنم سورئہ نبا(۷۲:۲۲) میں بھی مذکور ہے۔ مذہبی انتہاپسندی تو اور بھی زیادہ دین و دنیا دونوں جگہ خسارے کا باعث ہوسکتا ہے۔ لہٰذا یہود و نصاری، اہلِ کتاب کو سرزنش کرتے ہوئے گویا اہلِ ایمان کو بھی تنبیہ کردی گئی کہ لَا تَغْلُوْا فِیْ دِیْنِکُمْ (النساء۴:۱۷۱) ’’اپنے دین کے معاملے میں حد سے آگے نہ بڑھو، غلو سے کام نہ لو‘‘۔ نیز دین میں غُلو یا انتہاپسندی میں دوسرے لوگوں کے آلۂ کار بننے سے بھی گریز کرنا چاہیے۔ یہ بھی احتیاط ضروری ہے کہ کسی ظلم و زیادتی اور انتہاپسندی کے کاموں میں نہ تو کسی سازش اور منصوبہ بندی کا حصہ بنیں۔ فَـلَا تَتَنَاجَوْا بِالْاِِثْمِ وَالْعُدْوَانِ (المجادلہ۵۸:۹)، اور نہ اس قسم کے کاموں میں مدد و تعاون بہم پہنچائیں۔

تعلیماتِ نبویؐ سے تو یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ مذہبی انتہاپسندی کی وہ شکل و صورت جو بظاہر بڑی معصوم ہے اور جس میں کسی دوسرے کا نقصان بھی نہیں ہے، لیکن بہرحال اعتدال سے تجاوز  اور غلو پایا جاتا ہے، اس لیے وہ بھی شرعاً ممنوع ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اگر اس قسم کی کسی    بے اعتدالی کی خبر ملتی تو آپؐ  اس کا فوری نوٹس لیتے اور اصلاحی تدابیر اختیار فرماتے تھے۔ چنانچہ ایک صحابی حضرت عبداللہ بن عمر بن العاصؓ کے بارے میں جب ہمہ تن مصروفِ عبادت ہونے کی اطلاع ملی تو ان کو فوراً بلا بھیجا۔ بخاری کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: اے عبداللہ! کیا مجھے یہ اطلاع نہیں ملی ہے کہ تم دن کو روزہ رکھتے ہو اور رات کو قیام کرتے ہو؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں، ایسا ہی کرتا ہوں۔ آپؐ  نے فرمایا: یہ طرزِعمل اختیار نہ کرو۔ روزہ رکھو اور افطار بھی کرو، رات کو تہجد بھی پڑھو اور آرام بھی کرو۔ اس لیے کہ تمھارے بدن کا بھی تم پر حق ہے، تمھاری آنکھ کا بھی تم پر حق ہے، تمھاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے، تمھارے مہمان کا بھی تم پر حق ہے(بخاری، مشکوٰۃ)،(عبدالغفار حسن،انتخابِ حدیث،ص ۶۸-۶۹)

 حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بوڑھے کو دیکھا کہ وہ اپنے دو بیٹوں کے درمیان پائوں گھسیٹتے ہوئے جا رہا ہے۔ آپؐ  نے دریافت فرمایا: اسے کیا ہوگیا ہے؟ لوگوں نے جواب دیا کہ اس نے نذر مانی ہے کہ بیت اللہ کا سفر پیدل کرے گا۔ آپؐ  نے فرمایا:  اللہ تعالیٰ اس شخص کے اپنے آپ کو اذیت دینے سے بے نیاز ہے۔ اور اسے حکم دیا کہ وہ سواری پر سوار ہوکر اپنا سفر پورا کرے۔(ایضاً)

بخاری و مسلم کی ایک اور حدیث میں حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ ایک مسجد (البیت) میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ چھت کے کنڈوں سے بندھی ایک رسی لٹک رہی ہے۔ آپؐ  نے فرمایا: ماھذا الحبل؟ یہ رسی کیسی ہے؟ آپؐ  کو بتایا گیا کہ یہ (ایک عورت) زینب نے اپنے لیے لٹکا رکھی ہے کہ جب تھکن سے اونگھ آنے لگتی ہے تو اپنے آپ کو اس سے لٹکا لیتی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا: اس کو فوراً کھول ڈالو۔ تم میں کوئی اس وقت تک نماز پڑھے جب تک کہ نشاط و فرحت رہے، جب اونگھ آنے لگے تو اسے چاہیے کہ سوجائے۔(امام نووی،ریاض الصالحین، ص ۵۲)

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ بعض اوقات انتہاپسندی کا ارتکاب لاعلمی میں یا نادانستہ طور پر بھی ہوجاتا ہے، اور بعض اوقات کچھ نادیدہ محرکات وقتی جذبات و احساسات کے تحت بھی انتہاپسندی سرزد ہوجاتی ہے۔ حاصلِ گفتگو یہ کہ انتہاپسندی اور غلو چاہے اس کی نوعیت ، شکل اور اظہار کتنا ہی مختلف کیوں نہ ہو، دین کے نزدیک بہرحال پسندیدہ اور مستحسن نہیں، بلکہ اس کے خاتمے کے لیے شعوری کوششوں کی ضرورت ہے اور مذہبی انتہاپسندی کا امتناع تو بدرجہ اولیٰ لازم ہے۔ مگر یہ احتیاط لازم ہے کہ انتہاپسندی کی نوعیت و ماہیت کو پہلے سمجھ لیا جائے۔ اس لیے کہ کسی مقصد کے لیے جدوجہد، تحریک، ترغیب اور تخریب کے خطوط بہت قریب سے گزرتے ہیں اور دفع و استیصال کے لیے پہلے حکمت و تدبیر اور تحمل کو کام میں لانا چاہیے اور آخری چارئہ کار کے طور پر طاقت کا استعمال کرنا چاہیے، کیونکہ اس بات کا بہت اندیشہ ہے کہ نشۂ طاقت ہی کہیں خرابی کا باعث نہ بن جائے   ع

صاحب نظراں نشۂ قوت ہے خطرناک

____________________________________________________________

حواشی

۱- ملاحظہ ہو: ظلم حد سے گزرنا ہی ہے: وَمَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰہِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہٗ ط (الطلاق ۶۵:۱) وَ مَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰہِ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ(البقرہ ۲:۲۲۹) ۔ غلو بھی حد سے گزرنا۔ غلا یغلو غَلواً وعُلُواً، مبالغہ کرنا، حد سے بڑھنا (المنجد، ص ۸۸۶)۔ قرآن میں ہدایت ہے: یٰٓاَھْلَ الْکِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِیْ دِیْنِکُمْ(النساء ۴:۱۷۱)۔ اور فرمایا گیا: قُلْ یٰٓاَھْلَ الْکِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِیْ دِیْنِکُمْ (المائدہ ۵:۷۷)۔ طغٰی طغا طغی طغیاً وطغیاناً طُغواً وطغوا وطغواناً- جاوزالقدر والحد۔ حد اور اندازہ سے تجاوز طغیان ہے۔ سورئہ طٰہٰ میں حضرت موسٰی ؑ کو فرعون کی طرف یہ کہہ کر بھیجا گیا: اِذْھَبْ اِلٰی فِرْعَوْنَ اِنَّہٗ طَغٰے (طٰہٰ ۲۰:۲۴)’’تم فرعون کے پاس جائو کہ وہ حد سے زیادہ بڑھ چکا ہے‘‘۔ گویا حدود فراموش، حدود شکن، سرکش ہوگیا ہے۔ پھر حضرت موسٰی ؑ و ہارون ؑ دونوں کو فرعون کے پاس جانے کا حکم دوبارہ انھی الفاظ میں مذکور ہے۔ اِذْھَبَآ اِلٰی فِرْعَوْنَ اِنَّہٗ طَغٰی (طٰہٰ ۲۰:۴۳)۔ یہی تکرار سورۃ النازعات میں بھی (۷۹:۱۷) ہے۔ حدودشکنی، سرکشی انسان کی سرشت میں داخل ہے۔کَلَّا ٓاِِنَّ الْاِِنْسَانَ لَیَطْغٰی(العلق ۹۶:۶) ۔ قومِ ثمود و فرعون کا جرم سرکشی و حدود شکنی ہی تھا۔ الَّذِیْنَ طَغَوْا فِی الْبِلاَد(الفجر ۸۹:۱۱) جو فتنہ و فساد کا موجب ہوتا ہے۔ فَاَکْثَرُوْا فِیْھَا الْفَسَادَ (الفجر ۸۹:۱۲) ۔ اس لیے حکمِ ربانی یہ ہے روزمرہ باتوں (مثلاً کھانے پینے) میں بھی حدود سے تجاوز نہ کیا جائے۔ وَ لَا تَطْغَوْا (طٰہٰ ۲۰:۸۱) اعتدیٰ اور عداون۔ دونوں کا مآخذ و مادہ ایک ہے عدو (ع دو)۔ علامہ راغب اصفہانی نے لکھا ہے کہ العدو کے معنی حد سے بڑھنے اور باہمی ہم آہنگی نہ ہونا ہے۔ اگر اس کا تعلق دل کی کیفیت سے ہو تو یہ عداوۃٌ اور معاداۃٌ  کہلاتی ہے اور اگر رفتار سے ہو تو اسے عدوہٌکہا جاتا ہے۔ اور اگر عدل و انصاف میں  خلل اندازی کی صورت میں ہو تو اسے عُدوان اور عدوٌ کہا جاتا ہے۔ (اصفہانی، امام راغب، مفردات القرآن، محمد عبدہٗ الفلاح الفیروز پوری، المکتبۃ القاسمیہ، لاہور۔ طبع اوّل، ۱۹۶۳ء، ص ۶۰۳)۔ اعتداء ، حد سے آگے بڑھنا یا بقول علامہ راغب حق سے تجاوز کرنے کے ہیں (ایضاً)۔ حکم ہے : تِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ فَلَا تَعْتَدُوْھَا (یہ اللہ کی (مقرر کی ہوئی) حدیں ہیں ان سے تجاوز نہ کرو (البقرہ ۲:۲۲۹)۔ حد سے نکلنے والے عادون (مومنون ۲۳:۷) اور معتدین ہیں جن کو اللہ پسند نہیں کرتا (البقرہ ۲:۱۹۰، نیز المائدہ ۵:۸۷، الاعراف ۷:۵۵)۔ ظلم و زیادتی میں حد سے گزرنا عدوان ہے۔ زیادتی کا بدلہ لینے میں بھی عدوان سے پرہیز کا حکم دیا گیا (البقرہ ۲:۱۹۳، النساء ۴:۳۰)۔ بقول امام راغب الافراط کے معنی حد سے بہت زیادہ تجاوز کرجانے کے ہیں۔ اور سورئہ کہف (آیت ۲۸) میں یادِ الٰہی سے غفلت میں پڑنے والا خواہشِ نفس کی پیروی کرتا ہے اور اس کا کام حد سے بڑھ جانے والا (وکان امرُہٗ فُرطاً) ہے (ایضاً، ص ۶۹۸)۔ یعنی افراط و تفریط میں حد سے بڑھا ہوا۔ (ایضاً)

مقالہ نگار شعبہ اسلامی تاریخ، جامعہ کراچی میں پروفیسر رہے۔

نوجوان نسل کسی بھی قوم کا سرمایہ ہوتی ہے۔ اگر نوجوانوں میں عزم، خوداعتمادی، اللہ پر انحصار، صبر، پُراُمیدی، محنت کشی اور منزل کا شعور پایا جائے تو وہ قوم مشکل ترین حالات سے بآسانی نکل کر ترقی کے کٹھن مراحل کو بہ سہولت طے کرتی چلی جاتی ہے۔ اگر کسی قوم کے نوجوانوں میں بے روزگاری، عدم تحفظ، نفسیاتی دہشت گردی اور مستقبل کے تاریک ہونے کا احساس بٹھا دیا جائے اور ابلاغِ عامہ خصوصاً یہ کوشش کرے کہ ملک میں ہونے والی ہرہر بُرائی کو اتنا بڑھا چڑھا کر پیش کیا جائے کہ گویا ملک میں نہ کوئی نظم ہے، نہ تحفظ، نہ ترقی کی صلاحیت تو وہی نوجوان جو قوم کا اثاثہ اور مستقبل کے معمار ہوتے ہیں اس نفسیاتی حربے کا شکار ہوکر عموماً تین راستوں پر چل پڑتے ہیں۔

تبدیلی کی راہیں اور حکمت عملی

  • پہلا راستہ فرار کا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ملک کے باہر جہاں کہیں خوابوں کی جنت کی خوشبو سونگھ سکتے ہوں وہاں قرض رقم لے کر ایسے اداروں اور افراد کے ذریعے جو بیرونِ ملک روزگار کا ٹھیکہ لیتے ہیں، ملک سے فرار ہوجائیں یا حکومتی اسکالرشپ پر جاکر ملک کے باہر ہی بیٹھ جائیں اور واپس نہ آئیں۔
  • دوسرا راستہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر زمینی حقائق کو نظرانداز کرتے ہوئے زبان سے حالات کا ماتم لیکن زمانے کی ہوا کے ساتھ اپنے آپ کو اُڑانے کی کوشش، چنانچہ وہ سول سروس کے ذریعے ملازمت کا حصول ہو یا کسی سفارش اور جعلی ڈگری کے ذریعے صوبائی یا مرکزی پارلیمنٹ میں ممبرشپ یا کسی زمین کے مافیا کے ساتھ شامل ہوکر عوام کو لوٹنا ، غرض کرپشن اور مادہ پرستی کے چنگل میں پھنس کر وہ سمجھتے ہیں کہ وہ اِس دنیا میں کامیاب ہورہے ہیں۔ چنانچہ دیکھتے دیکھتے وہ جو کل تک ویگنوں میں سفر کرتے تھے، دھوکے سے حاصل کی ہوئی دولت کے سہارے بڑی بڑی گاڑیوں میں پھرتے نظر آتے ہیں۔
  • تیسرا راستہ جو نوجوان اختیار کرتے ہیں وہ موجودہ نظام کو چاہے وہ مصر میں ہو یا پاکستان میں، شام میں ہو یا تیونس میں، وہ اس فرسودہ، مادہ پرست اور ظلم پر مبنی نظام کو، طاغوت، کفر اور شرک سے تشبیہہ دیتے ہوئے قوت کے استعمال سے اس کے خلاف ’جہاد‘ کا اعلان کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ راتوں رات اداروں پر قبضہ کر کے ملک میں شریعت، اسلامی حکومت، معروف، بھلائی اور عدل کے نظام کو قائم کردیا جائے۔ یہ راستہ دیکھنے میں بہت کم مسافت کا نظر آتا ہے اور پھر اس میں ایک بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ قوت کے ذریعے، مناسب منصوبہ بندی کے بعد بھی اگر وہ تبدیلی لانے میں کامیاب نہ ہوں تو چونکہ ’جہاد‘ کرنے والے کے لیے ہردوشکلوں میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے مغفرت کا وعدہ فرمایا ہے تو یہ نوجوان اپنی جان کو اس راستے میں قربان کرنے ہی میں اپنی فلاح سمجھتے ہیں۔

اگر تینوں راستوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ تیسرے راستے والے بظاہر ہرلحاظ سے کامیاب نظر آتے ہیں کہ اگر دنیا میں کامیاب ہوئے تو کم عرصے میں کام کرنے کے باوجود تبدیلی لے آئیں گے اور اگر کامیاب نہ ہوئے جب بھی آخرت تو بن گئی۔ ایک مسلمان کے لیے ا س سے  بڑھ کر کامیابی کیا ہوسکتی ہے کہ اس کے ماضی کے تمام گناہ، غلطیاں، بے راہ روی ہرہر بُرائی معاف ہوجائے اور شہادت کے حصول کے بعد وہ سیدھا جنت میں جائے، جہاں اللہ کی ساری نعمتیں اس کا انتظار کر رہی ہوں گی۔

ایک بات جو ان تینوں راستوں میں سے کسی ایک کو اختیار کرتے وقت غور کرنے اور خلوصِ نیت کے ساتھ اپنے آپ کو تمام تصورات سے آزاد کرکے سوچنے کی ہے، وہ یہ ہے کہ قرآن و سنت جن کے نفاذ اور قیام کے لیے یہ ساری جدوجہد کی جاتی ہے وہ خود کس راستے کی طرف بلاتے ہیں۔ کیا وہ دنیاطلبی، مفاہمت، وقت پرستی یا پھر بس شہادت کے حصول اور طلب کو مقصد حیات قرار دیتے ہیں یا شہادتِ حق کے فریضے کی ادایگی کے لیے انبیاے کرام ؑ کے اسوہ اور خصوصاً خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو اختیار کرنے کی تعلیم دیتے ہیں۔

کسی بھی مسلمان کے لیے وہ جوش اور ولولے سے بھرا ہوا نوجوان ہو یا سکون و ٹھیرائو کے ساتھ سوچنے والا معمرشخص، جو بات فیصلہ کن ہے وہ اس کا اپنے ذہن سے ایک تصور قائم کرلینا نہیں ہے بلکہ قرآن اور سنت رسولؐ اللہ کی سند اور دلیل کی بنیاد پر اپنے لیے لائحہ عمل طے کرنا ہے۔    اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض اوقات اس تعمیری عمل میں ایک سے زائد لائحہ عمل ایسے ہوسکتے ہیں جو قرآن و سنت سے مطابقت رکھتے ہوں۔ ایسی شکل میں سنت کا اصول سیدہ عائشہؓ کی روایت کی روشنی میں وہ ہے جو زیادہ ’یسر‘ پر مبنی ہو اور جس کی دلیل سنت ِ رسولؐ میں پائی جاتی ہو۔

گویا راستے کا تعین، حکمت عملی کا انتخاب اور تبدیلی کا طریقہ طے کرتے وقت منزل محض حصولِ شہادت نہیں ہوسکتی بلکہ حق کی شہادت دینے کے لیے وہ تمام ذرائع اختیار کرنے ہوں گے جو سنت ِ نبویؐ سے ثابت ہوں اور جو آخرکار شہادت تک لے جانے والے ہوں۔

انبیاے کرام ؑ کی حکمت عملی

انبیاے کرام ؑ کی بنیادی دعوت حضرت آدم ؑ سے لے کر خاتم النبیینؐ تک صرف یہی رہی ہے کہ تمام انسان اپنے خالق، مالک اور رب کی بندگی میں آجائیں اور اللہ جل جلالہٗ کے سوا تمام بندگیوں سے اپنے آپ کو آزاد کر کے اس کے عبد یا تابع دار بن جائیں۔

وَ لَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَ اجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ (النحل ۱۶:۳۶) ہم نے ہر اُمت میں ایک رسول ؑ بھیج دیا اور اس کے ذریعے سے سب کو خبردار کردیا کہ اللہ کی بندگی اختیار کرو اور طاغوت کی بندگی سے بچو۔

عبدیت قرآنِ کریم کی ایک جامع اور اہم اصطلاح ہے جس میں نہ صرف نماز اور دیگر عبادات بلکہ زندگی کے تمام ممکنہ معاملات میں اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کو حاکم، مالک، آقا اور فیصلہ کرنے والاتسلیم کیاجانا شامل ہے۔ ایک مسلمان اسلام لانے کے بعد یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج کی حد تک تو اللہ ہی کی عبادت یا بندگی اختیار کروں گا لیکن میرے سیاسی معاملات لادینی جمہوریت کے اصول طے کریںگے اور معاشی معاملات کو سرمایہ دارانہ معیشت کی روشنی میں فیصلہ کروں گا اور معاشرتی، ثقافتی معاملات میں فلاں علاقہ یا ملک کے کلچر او رروایات پر عمل کروں گا۔ اسلام میں داخل ہونے کا مطلب ہی یہ ہے کہ ایک فرد اسلام میں پورے کا پورا داخل ہو۔ ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَـآفَّۃً وَ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ(البقرہ ۲:۲۰۸)’’اے ایمان والو!   تم پورے کے پورے اسلام میں آجائو اور شیطان کی پیروی نہ کرو وہ تمھارا کھلا دشمن ہے‘‘۔

آیت مبارکہ بلاکسی ابہام کے یہ بات واضح کرتی ہے کہ انسان اپنی زندگی کو الگ الگ خانوں میں تقسیم نہیں کرسکتا۔ وہ یہ نہیں کرسکتا کہ جمعہ کے دن وہ اللہ کا بندہ ہو، جب کہ تجارتی معاملات میں سرمایہ دارانہ نظام کا تابع ہو اور سیاسی معاملات میں مفادپرست، لادینی سیاسی نظام پر ایمان لے آئے۔ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کو وحدہٗ لاشریک ماننے کا مفہوم اس کے سوا کچھ نہیں کہ اپنے تمام ذاتی، گھریلو، معاشرتی، معاشی، سیاسی اور قانونی معاملات میں ایک فرد اور جماعت صرف اور صرف اللہ کی حاکمیت پر ایمان رکھے اور اس کا عمل اس کی شہادت پیش کرے۔

کلمۂ شہادت کا مطلب ہی یہ ہے ایک شخص اللہ اور اس کے رسولؐ کواپنے تمام معاملات میں حاکم اور شارع مان کر اسلام میں داخل ہو رہا ہے۔ عقیدہ اور ایمان، اسلام کی نگاہ میں ایک خفیہ اور ذاتی معاملہ نہیں ہے بلکہ ایک عوامی شہادت (public testimony)ہے کہ ایک شخص اپنے دل و دماغ اور عمل سے صرف اللہ کی بندگی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت پر راضی ہوگیا ہے۔

بعض سادہ لوح افراد اسلام میں داخل ہونے اور اسلام کے نفاذ کے عمل کو دو مرحلوں میں تقسیم کردیتے ہیں، جب کہ یہ ایک ہی مرحلے سے تعلق رکھنے والا عمل ہے۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ پہلے لاالٰہ کا عمل ہوگا اس کے بعد الااللہ کا۔ ہمارے علم میں نہ قرآن میں اور نہ سنت مطہرہ میں کوئی ایسی شہادت ہے، جو اس تعبیر کی تصدیق کرتی ہو۔ حقیقت ِواقعہ یہ ہے کہ مکہ مکرمہ ہو یا مدینہ منورہ، جہاں کہیں بھی کسی نے دعوتِ اسلام کو قبول کیا تو اسلام میں پورے داخل ہونے کے ساتھ ہی کیا۔ یہ کبھی نہیں ہوا کہ پہلے مرحلے میں صرف کفروشرک کا رد کیا جائے اور پھر کسی دوسرے مرحلے میں اللہ کی بندگی اختیار کی جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کو رب اور مالک ماننے کا مطلب بلکہ مطالبہ یہ ہے کہ اس کے علاوہ سب کا انکار کیا جائے، ’لاالٰہ‘ اور ’الااللہ‘ ایک ہی عہد اور میثاق کا حصہ ہیں، اس لیے شہادت کو دو مراحل میں تقسیم کرنا ایک غیرضروری بحث ہے۔ اللہ کی بندگی کی مثبت دعوت خود بخود تمام منفی تصورات کو جڑبنیاد سے اُکھاڑ کر انسان کے دل و دماغ اور عمل کو توحید کے رنگ میں رنگ دیتی ہے۔ مکہ کے دورِ ابتلا میں دعوتِ توحید قبول کرنے والے ہرمتنفس کو اس بات کا مکمل شعور تھا کہ اللہ کو ماننے کا مطلب ہی تمام خودساختہ خدائوں کا رد اور انکار ہے۔ اگر مسئلہ محض مکہ کے اندر مانے جانے والے ۳۶۰ سے زائد خدائوں میں ایک اور کے اضافے کا تھا تو اس پر مشرکینِ مکہ کو نہ کوئی اعتراض تھا، نہ شکایت۔ اگر وہ ۳۶۰بتوں سے تعلقات بنا کر رکھ سکتے تھے تو اس میں ایک کے اضافے سے انھیں کوئی پریشانی نہ ہوتی۔ اصل مسئلہ یہی تھا کہ ایک اللہ کو ماننے کے بعد وہ ۳۶۰سے زائد خدا سب کے سب بے اصل اور بے اثر ہوجاتے۔ شرک کا آسان سا مطلب یہی ہے کہ   اللہ وحدہٗ لاشریک کے ساتھ دوسروں کو اس کی ذات یا صفات میں شامل کرلیا جائے۔ مشرکین میں سے بھی بعض افراد اللہ کو مانتے تھے۔ قرآنِ کریم ہمیں بتاتا ہے کہ جب یہ مشرکین سمندر میں طوفان میں گھِر جاتے ہیں اور انھیں اپنی مضبوط کشتی ڈولتی اور ڈوبتی نظر آتی ہے تو وہ اللہ ہی کو پکارتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ جب سفر پر جانا ہو، جنگ کرنی ہو، اولاد کی خواہش ہو یا بارش کی ضرورت ہو تو وہ اپنے مقرر کردہ خدائوں ہی سے رجوع کرتے تھے۔

آج کے جدید دور میں ان خدائوں کے نام بدل گئے ہیں۔ کسی کا نام آئی ایم ایف اور ورلڈبنک ہے، جس سے لوگ قرضوں کی التجا کرتے اور سمجھتے ہیں کہ ہماری روزی اور روزگار دینے والا خدا یہی ہے۔ بعض کسی نام نہاد عالمی طاقت کو اپنی فرماں برداری کا یقین دلاتے ہیں کہ وہ انھیں اقتدار پر قابض رہنے میں مدد فراہم کرے گی اور وہ اُس کے سہارے عوام پر حکومت کرسکیں گے۔ بعض اپنے ملکی دفاع کے لیے کسی بڑی عسکری طاقت کے قدموں کو بوسا دیتے ہیں کہ وہ انھیں اسلحے کی بھیک دے کر ان کے دفاع کو مضبوط بنانے کا ضامن بن سکے۔ یہ نئے ادارے اور نام ایجاد کرنے کے ساتھ اگر ایک شخص یہ ایمان رکھتا ہو کہ وہ بندہ تو اللہ کا ہے لیکن خادم کسی بیرونی مالی طاقتوں کا یا کسی نام نہاد عسکری قوت کا یا کسی ثقافتی سامراج کا ہے تو یہ سارے کام اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کی تعریف میں آئیں گے۔

توحید اسلام کا نقطۂ آغاز بھی ہے اور نقطۂ کمال بھی۔ یہ ہرہرمعاملے میں صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کو اپنا مالک اور آقا ماننے کے عمل کا نام ہے۔ حضرت نوحؑ سے لے کر خاتم النبیینؐ تک اللہ کے ہرنبی ؑ نے صرف ایک دعوت دی کہ اپنے تمام معاملات کو اللہ کے لیے خالص کرو۔ اسلام نے   جن بتوں کو پاش پاش کیا ان میں نہ صرف عصبیت، قبائلیت، نسلیت، لسانیت کے بت تھے بلکہ وہ تمام تصورات بھی شامل تھے جنھیں انسانوں نے اپنے ذہن اور قیاس کی بناپر قائم کرلیا تھا، اسلام   ان سب کا رد کرنے کا نام ہے اور دعوت الی الحق کا واضح مطلب ہی یہ ہے کہ اپنے تمام معاملات میں صرف اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا حکم مان لینا اور اس کی شہادت اپنے عمل سے دینا۔ اسلامی معاشرے اور ریاست کے قیام کا مقصد اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے کہ سیاسی، معاشی، معاشرتی اور ثقافتی و قانونی تمام معاملات کو طاغوت کے نظاموں کے اثر سے مکمل طور پر آزاد کر کے صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ کی بنیاد پر اور اس کی رہنمائی کی روشنی میں مرتب اور منظم کیا جائے۔ دورِ جدید کی تمام تحریکاتِ اسلامی کا، وہ جماعت اسلامی پاکستان ہویا اخوان المسلمون یا جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر یا جماعت اسلامی ہند، ان سب کی دعوت کا بنیادی ستون ہی قیامِ حاکمیت الٰہی ہے۔ جماعت اسلامی پاکستان نے قیامِ پاکستان سے قبل اور اس کے بعد اسی بنیادی دعوت کی طرف اللہ کے بندوں کو بلایا ہے اور اسلامی ریاست اور معاشرے کے قیام کے لیے قرآن و سنت کی روشنی میں ایک بتدریج تبدیلی کی حکمت عملی وضع کی ہے۔ اس حکمت عملی میں رہنمااصول انبیاے کرام کا طریق دعوت اور قیام حاکمیت الٰہی کے لیے ان کی حکمت عملی کی روشنی میں لائحہ عمل کو وضع کرنا شامل ہے۔

مغربی لادینی جمہوریت

جدید تحریکاتِ اسلامی کے مفکرین امام حسن البنا شہید ہوں یا مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی، مولانا امین احسن اصلاحی یا سیدقطب شہید یا ڈاکٹر محمدناصر، ہرصاحب علم نے مغربی لادینی جمہوریت کی فکری بنیادوں کو رد کرتے ہوئے ہی اسلامی ریاست کو بطور متبادل نظام کے پیش کیا اور جو تحریکات ان مفکرین کو اپنا رہنما کہتی ہیں انھوں نے ایک لمحے کے لیے بھی اس موقف سے انحراف نہیں کیا۔ اس لیے کسی نظری بحث میں اُلجھے بغیر ہمیں ان ضمنی سوالات پر غور کرنا ہوگا جن پر بہت سے مخلص، دردمند اور اسلام کی سربلندی کے لیے جان کی بازی لگانے والے نوجوان مکمل صورتِ واقعہ کو سامنے نہ رکھنے کے سبب جذبات کی رُو میں بہہ کر عجلت کے ساتھ نتائج اخذ کرلیتے ہیں۔

پہلی بات یہ طے ہوجانی چاہیے کہ کیا مغربی لادینی اور اباحیت پسند جمہوریت اسلامی نظامِ حکومت کی ضد ہے اور اس کی بنیاد یں اسلام کی بنیادوں سے بالکل مختلف ہیں۔ یہ بات بھی طے ہوجانی چاہیے کہ کیا تحریکاتِ اسلامی نے، بشمول جماعت اسلامی پاکستان، کسی موقع پر بھی مغربی لادینی جمہوریت کی تائید کی ہے یا اس کی جگہ نظامِ اسلامی کے قیام کی دعوت اور اس مقصد کے لیے ہرقسم کی قربانی دینے سے دریغ نہیں کیا ہے۔ کیا مصر میں حالیہ واقعات میں ہزارہا افراد کی جانی قربانی، مصر کی ’طاغوتی جمہوریت‘ کے لیے دی گئی یا خالصتاً اللہ کے دین کے قیام کے لیے یہ قربانیاں دی گئیں۔ کیا اسی اخوان المسلمون نے جو ایک وقت زیرزمین سرگرمی کو حکمت عملی کے طور پر صحیح سمجھتی تھی، گذشتہ ۳۰سال کے عرصے میں جمہوری ذرائع سے جدوجہد کو اختیار نہیں کیا اور حسنی مبارک کے آمرانہ دو ر میں مصرکی پارلیمنٹ میں دعوتی حکمت عملی اور سیاسۃ شرعیہ کی پیروی کرتے ہوئے شرکت نہیں کی۔ رہا یہ سوال کہ وہ تبدیلی جو وہ چاہتے تھے کہاں تک آئی اور کیا فوجی مداخلت کی بناپر یہ کہنا درست ہوگا کہ جمہوری ذرائع ناکام ہوگئے، ایک الگ بحث ہے۔

دوسری بات یہ بھی طے ہوجانی چاہیے کہ اگر مرض پُرانا ہو اور جراحت اس کا تنہا علاج نہ ہو تو ایک ماہر اور مخلص طبیب ہی یہ طے کرسکتا ہے کہ کس ترتیب کے ساتھ کون سی دوائیں دی جائیں تاکہ مرحلہ بہ مرحلہ مریض صحت یاب ہوتا جائے۔ یہ طے کرنا کہ پھیپھڑے دل یا جگر میں جو خرابی تمام جسم کو فاسد مادوں سے بھر رہی ہے اسے یک دم جراحت کرکے ختم کردیا جائے یا بتدریج ادویات، غذا، ورزش، آب و ہوا کی تبدیلی، عادات کی تبدیلی اور دیگر ذرائع کا استعمال کر کے مریض کو ایک صحت مند انسان بننے میں مدد دی جائے، ایک ماہر طبیب ہی کا کام ہے۔ اس میں بھی شبہہ نہیں کیا جاسکتا کہ ایک ہی مریض اور ایک ہی مرض کو اگر دو یا تین ڈاکٹر دیکھیں تو ان کی تشخیص میں فرق ہوسکتا ہے۔

لیکن اگر تین ڈاکٹروں کا ایک بورڈ تمام ممکنہ امتحانات اور جائزے کروانے کے بعد اس پر متفق ہو کہ مریض کا علاج بغیرجراحت کے ہوسکتا ہے اور ایک ڈاکٹر یہ کہے کہ چونکہ مرض مہلک یا طاغوتی نوعیت کا ہے اس لیے پہلے جراحت کرو بعد میں مریض کی قوتِ برداشت، اور دوائوں کے ذریعے صحت مندی کی طرف لائو تو اس کی راے اس کے اپنے خیال میں تو درست ہوسکتی ہے لیکن مریض کی جان اور دیگر اطبا کے اجتماعی تجربے کے مقابلے میں کیے گئے فیصلے کے سامنے کوئی وزن نہیں رکھتی۔ ہاں اس بات کا امکان بہرصورت رہتا ہے کہ کئی ماہ کی مسلسل کوشش کے بعد مریض مکمل صحت یاب ہوجائے یا ڈاکٹر اپنی راے تبدیل کرلے۔ اسی طرح بالکل یہ امکان بھی رہتاہے کہ اگر تنہا ایک ڈاکٹر کی راے پر جراحت کردی جائے تو جراحت کے دوران ہی مریض انتقال کرجائے۔ اس لیے محض امکانات پر فیصلے نہیں کیے جاسکتے۔ ماضی کی تاریخ، اجتماعی تجربے اور   طبی حکمت عملی کے پیش نظر ہی دنیا میں صحت کا نظام چل رہا ہے۔

جہاد پر مبنی حکمت عملی

اس روزمرہ کی مثال کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس بات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ ’تبدیلی صرف جہاد سے آئے گی‘ کے نعرے کی شرعی حیثیت کیا ہے۔ قرآن و سنت نے اس بات کو واضح کردیا ہے کہ جہاد ارکانِ اسلام میں سے ایک رکن ہے اور اگر کسی خطے میں مسلمانوں پر ظلم ہورہا ہو اور انھیں مستضعفین فی الارض بنادیا گیا ہو تو ان کی امداد کرنا اہلِ ایمان پر فرض ہے۔ وَمَا لَکُمْ لَا تُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَ الْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَ النِّسَآئِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا مِنْ ھٰذِہِ الْقَرْیَۃِ الظَّالِمِ اَھْلُھَاوَ اجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْکَ وَلِیًّا وَّ اجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْکَ نَصِیْرًا o (النساء ۴:۷۵) ’’(ایسے لوگوں کو معلوم ہو کہ) اللہ کی راہ میں لڑنا چاہیے اُن لوگوں کو جو آخرت کے بدلے دنیا کی زندگی کو فروخت کردیں، پھر جو اللہ کی راہ میں لڑے گا اور مارا جائے گا یا غالب رہے گا اُسے ضرور ہم اجرعظیم    عطا کریں گے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اُن بے بس مردوں، عورتوں اور بچوںکی خاطر  نہ لڑو جو کمزور پاکر دبا لیے گئے ہیں اور فریاد کر رہے ہیں کہ خدایا ہم کو اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں، اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی حامی و مددگار پیدا کردے‘‘۔

 اسی طرح فتنہ اور فساد فی الارض کو دُور کرنے کے لیے بھی اسلامی ریاست کو جہاد کا حکم دیا گیا ہے۔ وَقٰتِلُوْھُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّ یَکُوْنَ الدِّیْنُ لِلّٰہِ فَاِنِ انْتَھَوْا فَلَا عُدْوَانَ اِلَّا عَلَی الظّٰلِمِیْنَo (البقرہ  ۲:۱۹۳) ’’تم ان سے لڑتے رہو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین اللہ کے لیے ہوجائے۔ پھر اگر وہ باز آجائیں، تو سمجھ لو کہ ظالموں کے سوا اور کسی پر دست درازی روا نہیں‘‘۔

حقیقت یہ ہے کہ مسلمان کی تمام زندگی ہی جہاد ہے۔ ظلم کے خلاف، نفس کے خلاف اور طاغوت کے خلاف۔

آیاتِ جہاد پر غور کیا جائے تو دو اصول بالکل واضح ہوکر سامنے آتے ہیں: اوّلاً کسی بھی ظالم اور طاغوتی نظام میں محض مظلوم بن کر رہنا، اسلامی فکر سے مطابقت نہیں رکھتا۔ طاغوتی نظام میں دو ہی راستے ہوسکتے ہیں: اوّلاً: اس کے خلاف جدوجہد کہ اس کی جگہ عدل کا نظام آئے اور اگر تمام تر کوششوں کے بعد صبروتحمل کے ساتھ تمام دعوتی مراحل سے گزرنے کے بعد یہ یقین ہوجائے کہ یہاں کوئی تبدیلی نہیں آسکتی تو پھر وہاں سے ہجرت۔ اس میں اگر عجلت کی گئی تو وہ غلط ہوگا  [حضرت یونس ؑ کی مثال ہمارے سامنے رہنی چاہیے]۔ یہی شکل مکہ مکرمہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ سے ثابت ہوتی ہے کہ ۱۳برس تک ہرہرآزمایش اور تعذیب سے گزرنے کے بعد جب اللہ تعالیٰ نے خود ہی حکم دیا تو ہجرت کی گئی، ورنہ مکہ میں بذریعہ قوت قریش کی حکمرانی کو ختم کردینا بھی ایک امکانی اقدام (option) تھا۔ حضرت عمرؓ، حضرت حمزہؓ اور دیگر صحابہ تعداد میں کم ہونے کے باوجود مشرکین کے سرداروں کو ایک رات میں قتل کر کے اسلامی نظام قائم کرسکتے تھے لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔

قرآن کریم نے جان اور مال کے ساتھ جہاد کو افضل قرار دیا ہے اور بیٹھے رہنے والوں کے مقابلے میں میدانِ جہاد میں آنے والوں کے لیے اعظم درجے کا وعدہ فرمایا ہے۔ سورئہ نساء میں فرمایا گیا: لَا یَسْتَوِی الْقٰعِدُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ غَیْرُ اُولِی الضَّرَرِ وَالْمُجٰھِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِاَمْوَالِھِمْ وَ اَنْفُسِھِمْ فَضَّلَ اللّٰہُ الْمُجٰھِدِیْنَ بِاَمْوَالِھِمْ وَ اَنْفُسِھِمْ عَلَی الْقٰعِدِیْنَ دَرَجَۃً وَ کُلًّا وَّعَدَ اللّٰہُ الْحُسْنٰی وَفَضَّلَ اللّٰہُ الْمُجٰھِدِیْنَ عَلَی الْقٰعِدِیْنَ اَجْرًا عَظِیْمًاo (النساء ۴:۹۵) ’’ مسلمانوں میں سے وہ لوگ جو کسی معذوری کے بغیر گھر بیٹھے رہتے ہیں اور وہ جو اللہ کی راہ میں جان و مال سے جہاد کرتے ہیں ، دونوں کی حیثیت یکساں نہیں ہے۔ اللہ نے بیٹھنے والوں کی بہ نسبت جان و مال سے جہاد کرنے والوں کا درجہ بڑا رکھا ہے۔ اگرچہ ہرایک کے لیے اللہ نے بھلائی ہی کا وعدہ فرمایا ہے، مگر اس کے ہاں مجاہدوں کی خدمات کا معاوضہ بیٹھنے والوں سے بہت زیادہ ہے ، اُن کے لیے اللہ کی طرف سے بڑے درجے ہیں اور مغفرت اور رحمت ہے، اور اللہ بڑا معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے‘‘۔

سو، فساد میں اس بات کو دوٹوک انداز میں واضح کردیا گیا۔ مسلمانوں میں سے وہ لوگ جو کسی معذوری کے بغیر گھر بیٹھے رہتے ہیں اور وہ جو اللہ کی راہ میں جان و مال سے جہاد کرتے ہیں، دونوں کی حیثیت یکساں نہیں ہے۔ اللہ نے بیٹھنے والوں کی نسبت جان و مال سے جہاد کرنے والوں کا درجہ اعظم و افضل رکھا ہے۔ اگرچہ ہر ایک کے لیے اللہ نے بھلائی ہی کا وعدہ فرمایا ہے، مگر اس کے ہاں مجاہدوں کی خدمات کا معاوضہ بیٹھنے والوں سے بہت زیادہ ہے۔ ان کے لیے اللہ کی طرف سے بڑے درجے ہیں اور مغفرت اور رحمت ہے اور اللہ بڑا معاف کرنے والا، رحم فرمانے والا ہے۔

جہاد قرآن کریم میں ایک جامع اصطلاح ہے جس میں افضل ترین شکل وہ نہیں ہے جو بعض حضرات ایک ضعیف حدیث کی بناپر سمجھتے ہیں بلکہ میدانِ عمل میں طاغوتی قوتوں کے خلاف مناسب حکمت عملی اور تیاری کے ساتھ جہاد کرنا قرآن کریم کا مقصود ہے۔ اس جہاد کے بارے میں یہ بات بھی سمجھادی گئی ہے کہ اگر اہلِ ایمان طاغوتی قوتوں سے عددی لحاظ سے کم بھی ہوں تو وہ اپنے خلوص، اللہ پر اعتماد، صبر اور حکمت عملی کے صحیح ہونے کے سبب کامیاب ہوں گے، چاہے ان کا تناسب ایک اور دس کا ہی کیوں نہ ہو، یعنی اہلِ ایمان ۲۰ ہوں اور طاغوتی قوت ۲۰۰ کے لگ بھگ ہو۔

یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِیْنَ عَلَی الْقِتَالِ اِنْ یَّکُنْ مِّنْکُمْ عِشْرُوْنَ صٰبِرُوْنَ یَغْلِبُوْا مِائَتَیْنِ وَ اِنْ یَّکُنْ مِّنْکُمْ مِّائَۃٌ یَّغْلِبُوْٓا اَلْفًا مِّنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِاَنَّھُمْ قَوْمٌ لَّا یَفْقَھُوْنَo (انفال ۸:۶۵) ’’اے نبیؐ! مومنوں کو جنگ پر اُبھارو۔ اگر تم میں سے ۲۰آدمی صابر ہوں تو وہ ۲۰۰ پر غالب آئیں گے اور اگر ۱۰۰ آدمی ایسے ہوں تو منکرین حق میں سے ہزارآدمیوں پر بھاری رہیں گے کیونکہ وہ ایسے لوگ ہیں جو سمجھ نہیں رکھتے‘‘۔

اسی چیز کو اہلِ ایمان نے بدر میں اپنی آنکھوں سے دیکھا اور جب اُحد اور حنین میں حکمت عملی پر صحیح عمل نہ کیا تو دوسری نوعیت کے نتائج سامنے آکر رہے۔ مکہ مکرمہ میں ۱۳برس کا عرصہ بھی عرصۂ جہاد تھا کہ ہرہرسطح پر مزاحمت کا سامنا تھا۔ تعذیب تھی، امتحان تھا، ظلم تھا لیکن یہاں جہاد کی ایک خاص شکل تھی اور مدنی دور میں حالات کی تبدیلی کے بعد اس کی دوسری شکلیں سامنے آئیں گی، لہٰذا یہی جہاد مدینہ منورہ میں معاشرے کی تعمیر، عدل کے نظام کے قیام اور اہلِ کتاب کے ساتھ تعلقات کی نوعیت طے کرنے میں میثاقِ مدینہ کی شکل اختیار کرگیا اور پھر بدر، اُحد، خندق، حدیبیہ، تبوک،  فتح مکہ، حنین اور خیبر سب ہی جہاد کے مختلف رُخ ہیں۔گویا جہاد اہلِ ایمان کی زندگی کا لازمی جزو ہے۔ اس کی شکلیں مختلف ہوسکتی ہیں، لیکن جہاد ہی ہے، جو اُمت مسلمہ کے جسم کو زندہ اور متحرک رکھتا ہے۔

جہاد فرض ہونے کا سوال

جہاد کے میدان کا تعین کہ کہاں پر کیا جائے، اور کیا کیا جائے، نیز جہاد کے وقت کا تعین کہ کس مرحلے میں کون سی شکل اختیار کی جائے، جہاد کے ہدف کا تعین کہ اصل مطلوب کیا ہے ۔ ان تمام معاملات میں فیصلہ کن حیثیت محض انسانی عقل کی نہیں ہے بلکہ انسانی عقل کو اسوئہ نبیؐ کی روشنی میں دیکھنا ہوگا کہ کس صورتِ حال میں شارعِ اعظمؐ نے کیا حکمت عملی اختیار فرمائی۔ مکہ سے ہجرت جہاد کی ایک شکل تھی اور پھر مدنی دور کے تمام ہی سال جہاد کے مختلف مراحل کی تیاری اور ان کی انجام دہی کے سال ہیں۔ فتح مکہ جہاد کی ایک ایسی مثال ہے جس کی نظیر تاریخ میں نہیں ملتی کہ  خون بہائے بغیر اللہ کی حاکمیت کو قائم کیا گیا، لیکن یہ بھی اس کا ایک پہلو ہے کہ جن پر حق کی قوتوں نے غلبہ حاصل کیا ہے، ان سے کیسے معاملہ کیا جائے، یعنی یہ طے کرنا کہ مکہ میں کن مشرکین کو     قتل کرنا ہے اور کن کو ان کی ساری زیادتیوں کے باوجود معافی دے کر ان کے دلوں کو فتح کرلینا ہے۔ یہ سب کچھ اسوۂ حسنہ ہی تو ہے، جس پر غور کیے بغیر جہاد کا مقام، جہاد کا وقت اور جہاد کی حکمت عملی طے نہیں ہوسکتی۔ حدیبیہ کے موقع پر جانوں کی قربانی کرنے کا عہد جہاد ہی تھا لیکن اس کے باوجود بظاہر دشمن کے حق میں ہونے والی شرائط پر معاہدہ کرنا بھی جہاد کی حکمت عملی تھا اور وقت نے ثابت کردیا کہ شارع اعظمؐ کی نگاہ جن نتائج کو دیکھ رہی تھی ان تک فاروق اعظمؓ تک کی نگاہ اس خاص لمحے نہ پہنچ سکی۔ نہ یہ ان کے ایمان کی کمزوری تھی نہ فراست میں کمی۔ اصل چیز منہجِ نبوت کی اس کے تمام پہلوئوں کے ساتھ، تعلیم اور تعیین تھی اور اس منہج میں یہ تمام پہلو قوسِ قزح کی طرح ہمیشہ کے لیے موجود ہیں اور رہیں گے۔

جہاد کے حوالے سے ایک اہم سوال یہ اُٹھتا ہے کہ اس کا اعلان کون اور کب کرے گا؟ امام ابن تیمیہؒ اور دیگر علماے کرام کا اس پر اجماع ہے کہ چونکہ یہ ایک اسٹرے ٹیجک معاملہ ہے کہ اس میں اُمت مسلمہ کی جان اور مال دونوں کا دخل ہے اس لیے یہ فیصلہ ذمہ داری اور عواقب پر غور کے بعد کیا جائے گا۔ اور یہ مسلمان حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرے۔ استثنا کی شکل میں یہ کام ان علما کا ہے جو کسی سیاسی یا معاشی مفاد کے زیراثر یہ کام نہ کریں بلکہ  اُمت مسلمہ کے مفاد اور مصلحت عامہ کے اصول پر غیرجذباتی طور پر غور کرنے کے بعد کریں جیساکہ حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز دہلوی نے سکھوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ دیا اور حضرت سیّداحمداور شاہ اسماعیل شہید نے تحریکِ مجاہدین کا آغاز کیا۔

لیکن کسی مسلم ریاست کے خلاف خروج اور خود مسلمانوں کے خون کو حلال کر لینا اس سے بہت مختلف معاملہ ہے اور اس کا فیصلہ محض اس قیاس پر نہیں کیا جاسکتا کہ چونکہ حکومت کے فلاں ذمہ دار نے کسی بیرونی قوت سے ایک understanding یا ایک خفیہ معاہدہ کرلیا ہے، اس لیے اس سے وابستہ کسی بھی فرد کو جہاں کہیں چاہیں ہلاک کردیں۔ اس کی گنجایش دین اسلام میں نہیں ہے۔ اس سلسلے میں سب سے نمایاں مثال خوارج کی ہے۔

خوارج کی فکری غلطی

خوارج نے اپنی فکری غلطی کی بنا پر یہ سمجھ لیا کہ حضرت علیؓ اور حضرت معاویہؓ نے بجاے براہِ راست قرآن کو حکم بنانے کے دو نمایندوں کے سپرد یہ کام کردیا کہ وہ قرآن کی روشنی میں طے کریں کہ مسئلے کا حل کیا ہو۔ اس لیے یہ دونوں حضرات خوارج کی نگاہ میں کفراور شرک کے مرتکب ہوگئے۔ چنانچہ ان کا خون ان کے لیے حلال ہوگیا۔ اس بناپر خوارج نے یہ طے کیا کہ حضرت علیؓ اور حضرت معاویہؓ کو جہاں کہیں وہ پائے جائیں قتل کیا جائے اور ان کے ساتھ جو لوگ شامل ہوں وہ بھی قتل ہوں۔ اُمت مسلمہ کی تاریخ گواہ ہے کہ خوارج کی اس فکر کو اجماعی طور پر رد کیا گیا اور انھیں ایک گمراہ فرقہ قرار دیا گیا۔ گو ،ان میں سے بہت سے افراد وہ تھے جو دن میں حضرت علیؓ کے خلاف جنگ کرتے تھے، راتوں کو تہجد اور قرآن سے رشتہ جوڑتے تھے۔ ان کے چہروں پر محرابیں تھیں اور وہ قرآن کے حافظ تھے۔ فکری غلطی کے لیے ضروری نہیں ہے کہ ایک شخص غیرمخلص اور دھوکے باز ہو۔ انتہائی خلوصِ نیت کے ساتھ اور دین کا جامع تصور نہ ہونے کے سبب اللہ کا ایک بندہ فکری غلطی کا مرتکب ہوسکتا ہے۔

جو چیز دیکھنے اور سمجھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت علیؓ نے اپنی جان کے دشمن افراد کے بارے میں کیا پالیسی ا ختیار کی اور کیا آپ کا یہ کرنا اسلام تھا یا اسلام سے انحراف! آپؓ نے حکم دیا کہ اگر وہ حملہ کریں تو جواب دیا جائے گا کہ جان کا تحفظ کرنا دین کا اصول ہے، لیکن ان کا پیچھا نہ کیا جائے، نہ انھیں غلام بنایا جائے نہ ان کی املاک پر قبضہ کیا جائے، جب کہ وہ کھلی بغاوت کے مرتکب تھے۔ دین کسی ایک پہلو کا نام نہیں ہے بلکہ مجموعی طور پر ہرپہلو کو سمجھ کر حکمت عملی وضع کرنے کا نام ہے۔

جس طرح خوارج نے یہ فیصلہ کرلیا کہ حضرت ابوموسیٰ الاشعریؓ اور حضرت عمرو بن عاصؓ  کو فیصلہ کرنے پر مامور کرنا شرک اور کفر تھا، قرآن کے حکم ماننے کا انکار تھا، ایسے ہی بہت سے  سادہ لوح افراد دین کے نام پر خلوصِ نیت کے ساتھ یہ عاجلانہ فیصلہ کربیٹھتے ہیں کہ اگر کسی نے   نام نہاد طاغوت کے کسی نمایندے سے بات کرلی، مصافحہ کرلیا، کسی ایسے اجتماع میں یا کانفرنس میں شرکت کرلی جس میں طاغوتی نمایندے موجود ہوں تو وہ شرک اور کفر کا مرتکب ہوگیا، اس لیے واجب القتل ہوا۔ اس قسم کی منطق اختیار کرنے سے قبل دین اسلام کے مقصد و مدعا، نبی کریمؐ کے اسوہ اور  حکمت عملی کو سمجھنے اور اس کی روشنی میں ذمہ دارانہ اور اللہ کے سامنے جواب دہی کے احساس کے ساتھ حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ فیصلے جذباتی انداز میں نہیں کیے جاسکتے۔

خوارج اور اس طرح کے افراد نے جو شکل اختیار کی، اُمت کی تاریخ نے اس پر کیا فیصلہ دیا، یہ بات کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔ اُمت نے جس چیز کو اسوہ نبویؐ کے مطابق سمجھا وہ خوارج کی فکر نہ تھی بلکہ بتدریج، مرحلہ بہ مرحلہ، صبرواستقامت اور قربانی کے ساتھ دعوتی کام کرتے رہنا، وقت کے لحاظ سے موجود ذرائع ابلاغ کا استعمال کرنا اور وقت کی قید سے بے پروا ہوکر اپنی تمام قوت اللہ کے دین کے قیام کے لیے لگادینے ہی کو سواء السبیل قرار دیا۔

یہ بات بھی سامنے رہنی چاہیے کہ دین میں شرعی احکام کا نفاذ صرف اور صرف ظاہر پر ہے باطن پر نہیں۔ یہی سبب ہے کہ مدینہ منورہ میں منافقین کی کھلی اور چھپی ہوئی سرگرمیوں کے باوجود  نبی کریمؐ نے منافقین کے قتل کا حکم نہیں دیا، جب کہ وہ اہلِ مکہ کے ساتھ خفیہ سازشوں میں    شریک تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم اور سنت مطہرہ نے انسانی جان کی حُرمت کو جو مقام دیا ہے ہم اُس سے بہت دُور نکل چکے ہیں۔ حضرت اسامہ بن زیدؓ نبی کریمؐ کو بہت عزیز  تھے لیکن جب حضرت اسامہ نے ایک شخص کو دورانِ جنگ یہ کہنے کے باوجود کہ وہ ایمان لاتا ہے قتل کردیا تو نبی رحمتؐ نے اس پر سخت غصے کا اظہار فرمایا اور اسامہ سے پوچھا کہ کیا انھوں نے اس کے دل کو چیر کر دیکھا تھا کہ اس میں ایمان تھا یا نہیں؟ اور یہ کہ وہ دل سے مسلمان ہوا تھا یا دکھانے اور جان بچانے کے لیے! اس لیے کسی کی تکفیر کردینا اور مشرک قرار دے کر اس کے خون کو حلال کرلینا نہ  قرآن سے ثابت ہے اور نہ سنت سے۔ خوارج کا بھی عجیب معاملہ تھا کہ حضرت علیؓ اور حضرت معاویہؓ کو تو وہ قتل کے لائق سمجھتے تھے لیکن ذمیوں پر جو غیرمسلم تھے، اس بنا پر کہ ان کی جان کا ذمہ اللہ اور رسولؐ نے لیا تھا، ہاتھ اُٹھانا حرام سمجھتے تھے۔ فہم کی غلطی انسان کو کہاں تک پہنچادیتی ہے کہ  وہ تصویر کا ایک ہی رُخ دیکھتا ہے اور اس پر نازاں بھی ہوتا ہے کہ اصل اسلام پر وہ عمل کر رہا ہے۔ خوارج خلوصِ نیت سے یقین رکھتے تھے کہ وہ حق پر ہیں اور جیساکہ پہلے عرض کیا یہ تہجدگزار اور قرآن کے حافظ تھے  اس کے باوجود فکر کی غلطی نے انھیں گمراہ کردیا۔

اسلامی نظامِ حکومت میں دستور اور قانون کی تدوین کے بارے میں ایک غلط فہمی یہ پائی جاتی ہے کہ قرآن و سنت کو دستور مان لینے کے بعد نہ کسی مزید دستور کی ضرورت ہے نہ کسی قانون کی۔ اسلام کا ہر طالب علم یہ جانتا ہے کہ قرآن و سنت کا دوسرا نام شریعت ہے اور شریعت نے جو حدود متعین کردی ہیں انھیں دنیا کے تمام مسلمان مل کر بھی تبدیل نہیں کرسکتے۔ لیکن جن معاملات کے بارے میں قرآن و سنت میں واضح ہدایت موجود نہ ہو، ان کا کیا کیا جائے۔ ظاہر ہے کوئی نئی وحی تو آنہیں سکتی۔ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ فلاں معاملے میں اس پر یہ وحی آئی ہے۔ جو ایسا کرے گا وہ اللہ اور رسولؐ اللہ پر جھوٹ باندھے گا۔

اختلاف راے اور اجتہاد

اس کا حل خود قرآن کریم اور سنت رسولؐ نے یہ بتایا کہ ایسے تمام معاملات میں اجتہاد، قیاس اور اجماع پر عمل کیا جائے گا لیکن اس پورے عمل میں اسلامی نظامِ حکومت کی اصل روح مشاوت کا کرنا ہے، حتیٰ کہ دورِ نبویؐ میں بھی بہت سے اہم معاملات مشاورت کے بعد طے کیے گئے۔ یہ بات کہنے کی ضرورت نہیں کہ نبی کریمؐ اپنی فراست اور وحی الٰہی کے جاری رہنے کی بناپر اگر چاہتے تو بغیر کسی سے پوچھے فیصلے فرما سکتے تھے اور آپؐ کا ہرفیصلہ صحابہؓ کے لیے قابلِ قبول ہوتا لیکن آپؐ نے ایسا نہیں کیا تاکہ آپؐ کی اُمت اسلامی نظم مملکت کے اس اصول کو عملاً دیکھ کر اس کی اہمیت سے آگاہ ہوسکے۔ غزوئہ بدر میں میدان کے انتخاب کا معاملہ ہو یا اُحد کے موقع پر مدینہ منورہ میں ٹھیر کر مقابلہ یا باہر نکل کر مقابلہ، غزوئہ احزاب میں دفاعی حکمت عملی ہو یا احزاب کے بعد یہود کے ساتھ طرزِعمل کا سوال، ہر اہم معاملے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شوریٰ کو نہ صرف قائم کیا بلکہ اس کی راے کا پورا احترام فرمایا۔

آپؐ کے بعد حضرت ابوبکرؓ نے مانعین زکوٰۃ کے معاملے میں اور اسامہ بن زیدؓ کے لشکر کی روانگی کے سلسلے میں جو فیصلے کیے، انھیں معلومات نہ ہونے کی بناپر بعض حضرات ان کا veto کرنا کہتے ہیں، جو صحیح نہیں۔ پہلے معاملے میں حضرت ابوبکرؓ کے پاس دلیل اپنی راے کی نہیں تھی بلکہ قرآن میں صلوٰۃ اور زکوٰۃ کی یکساں مرکزیت اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دو صحیح احادیث کی تھی جن کے واضح الفاظ کی پیروی میں انھوں نے یہ اقدام کیا۔ چنانچہ آپ نے نبی کریمؐ کا ارشاد سنایا کہ: ’’مجھے یہ حکم ملا ہے کہ میں لوگوں سے جنگ کروں یہاں تک کہ وہ لا الٰہ الا اللہ کا اقرار کریں۔ جب وہ اقرار کرلیںگے تو ان کی جانیں اور ان کے مال میری طرف سے محفوظ ہوجائیں گے، مگر  اس کلمہ کے کسی حق کے تحت اور ان کے باطن کا محاسبہ اللہ کے ذمے ہے‘‘۔دوسری حدیث جو آپؐ نے بیان فرمائی اس کے الفاظ بھی بہت اہم ہیں:’’مجھے حکم ملا ہے کہ مَیں تین چیزوں پر لوگوں سے جنگ کروں: کلمہ لاالٰہ الا اللہ کی شہادت پر، نماز قائم کرنے پر اور زکوٰۃ کی ادایگی پر‘‘۔

ان احادیث کے دلیل قطعی ہونے کی بنیاد پر حضرت ابوبکرؓ کا فیصلہ کرنا دلیلِ شرعی اور واضح نص پر تھا ۔یہاں معاملہ شوریٰ کے دائرے سے باہر تھا۔ قرآن و سنت کے نصوص کی موجودگی میں خلیفہ کا کام صرف ان احکام کا نفاذ تھا۔ مشاورت کس بات پر کی جاتی؟

اسی طرح جس لشکر کو تیار کروانے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے علَم حوالے کیا ہو، کیا اسے روکنا رسول اللہ کی اطاعت تھی یا اسے آپ کی منشا کے مطابق روانہ کرنا ادایگی فرض تھا۔ یہاں بھی معاملہ نہ شوریٰ کا تھا نہ اکثریت یا اقلیت کا۔

یہ خیال کہ خلیفہ صرف اللہ کو جواب دہ ہے قرآن و سنت سے مطابقت نہیں رکھتا۔ شوریٰ اور مشاورت کا مطلب ہی یہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے بعد ان کے خلفا اپنے تمام اُمور میں مشاورت کریں اور مسئلے کے تمام پہلوئوں پر غور کرنے کے بعد جس راے پر اکثریت کا اتفاق ہو اسے نافذ کیا جائے۔ شوریٰ کا مقصد محض نمایشی طور پر تفنن طبع کے لیے لوگوں کی راے معلوم کرنا نہیں ہے کہ تمام بحث و مباحثے کے بعد کرے وہی جو خلیفہ خود چاہتا ہو۔(جاری)

بین الاقوامی قانون، شخصی آزادی اور نجی زندگی کے تحفظ کے لیے خطرہ

امریکا اس وقت معاشی، سیاسی اور فوجی اعتبار سے دنیا کا طاقت ور ترین ملک ہے ۔عالمی طاقت ہونے کے ناتے جمہوریت، قانون کی بالادستی اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے بھی خود کو پوری دنیا کے لیے نمونہ سمجھتا ہے اور اسی وجہ سے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے کبھی تو انسانی حقوق اورکبھی جمہوریت کے نام پر دوسرے ملکوں کے اندرونی معاملات میں مداخلت کو اپنا جائز حق سمجھتا ہے۔ لیکن در حقیقت انسانی حقوق اور جمہوری روایات کے حوالے سے امریکا کی اپنی تاریخ خاصی تلخ واقع ہوئی ہے۔ وکی لیکس اور اب ایڈورڈ سنوڈن کے انکشافات نے نہ صرف اس نقاب سے پردہ اٹھایا ہے بلکہ اُن کے پیچھے چھپے امریکا کے اصل توسیع پسندانہ عزائم کو بھی بے نقاب کیا ہے۔امریکا میں نیشنل سیکیورٹی ایجنسی کے سابق خفیہ اہل کار ایڈورڈ سنوڈن کے ہاتھوں افشا ہونے والے جاسوسی پروگرام ’پرزم ‘کی تفصیلات سے متعلقہ معلومات پر جاری گرما گرم بحث اب ایک باقاعدہ قانونی جنگ کی صورت اختیار کر رہی ہے۔

امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کی ۴جنوری۲۰۱۳ء کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق امریکی حکومت نے نیشنل سیکیورٹی ایجنسی کے خفیہ پروگرام ’پرزم‘کے خلاف آنے والے ۱۶دسمبر ۲۰۱۳ء کے عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل کا فیصلہ کیا ہے۔ یاد رہے کہ اس سے پہلے ایک امریکی شہری لینی کلے مین نے امریکی وفاقی ضلعی عدالت میںپرائیویسی قوانین کی خلاف ورزی کو جواز بناتے ہوئے ایک مقدمہ Klayman v. Obama دائر کیا تھا۔ ۱۶دسمبر ۲۰۱۳ء کو مذکورہ مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے وفاقی عدالت کے  جج ریچرڈ لیون نے نیشنل سیکیورٹی ایجنسی کے خفیہ پروگرام ’پرزم‘کو امریکی آئین کی چوتھی ترمیم جس میں Privacy Rights کا تحفظ کیا گیا ہے ، سے متصادم قرار دیتے ہوئے نہ صرف غیرآئینی بلکہ فلاحی ریاست کے لیے تباہ کن قرار دیا اور     مذکورہ پروگرام کو بند کرنے کا حکم جاری کیا۔ بعد ازاں ۲۷دسمبر کو اسی سلسلے کے ایک اور مقدمے ACLU v. Clapper میں ایک دوسرے وفاقی جج ویلیم پویلے نے حکومتی عذر کو تسلیم کرتے ہوئے مذکورہ پروگرام جاری رکھنے کی اجازت دی۔

ان دونوں مقدمات میں ہونے والی بحث اور قانونی نکات کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس موضوع سے متعلق اہم واقعات اور دیگر پہلوئوں کو اچھی طرح سمجھا جائے۔ حالیہ بحث کا آغاز اس وقت ہوا جب برطانوی اخبار دی گارڈین نے اپنی ۷جون ۲۰۱۳ء کی رپورٹ میں نیشنل سیکیورٹی ایجنسی کے سابق خفیہ اہل کار ایڈورڈ سنوڈن کے حوالے سے انتہائی اہم نوعیت کی خفیہ معلومات افشا کیں۔ اس رپورٹ کے مطابق نیشنل سیکیورٹی ایجنسی نے گوگل، سکائپ، مائیکروسافٹ، یوٹیوب، یاہو، فیس بُک اور ایپل کے پاس موجود دنیا بھر کے صارفین کی ذاتی معلومات تک رسائی حاصل کی اور انھیں جمع کیا۔ جمع کی جانے والی معلومات میں ان کمپنیوں کے صارفین کی نجی معلومات، ای میل، چٹینگ اور فون ریکارڈ خفیہ طور پر سنا اور اکٹھا کیا جاتا تھا۔

مذکورہ رپورٹ کے مطابق یہ حساس اور ذاتی نوعیت کا ڈیٹا حاصل کرنے کے لیے نیشنل سیکیورٹی ایجنسی کو انٹر نیٹ کمپنیوں کے سرورز تک رسائی حاصل تھی جنھیں بیک ڈور چینلز کا نام دیا گیا۔ یہاں سے صارفین کی تمام تر معلومات بلاواسطہ نیشنل سیکیورٹی ایجنسی کے کمپیوٹرز تک پہنچ جاتی تھیں، جب کہ مشہور سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک کے صارفین کے ڈیٹاتک رسائی کے لیے نیشنل سیکیورٹی ایجنسی نے فیس بک کا جعلی سرور بھی بنایا جس پر فیس بک کے سربراہ مارک زبرگ نے مایوسی کا اظہار کیا۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ ۲۰۱۲ء میں ۲۰۱۱ء کی نسبت سکائپ سے حاصل کی جانے والی معلومات میں ۲۴۸ فی صد، فیس بُک سے ۱۳ فی صد اور گوگل سے ۶۳ فی صد معلومات میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔

دی گارڈینکی رپورٹ کے مطابق ایڈورڈ سنوڈن کی جانب سے افشا کردہ کل ۵۸ہزار دستاویزات میں سے اخبار نے اب تک بہت کم تفصیلات عام کی ہیں۔رپورٹ کے مطابق   نیشنل سیکیورٹی ایجنسی نے تقریباً ۲۷ٹیرا بائٹ کی مقدار تک معلومات حاصل کی تھیں۔یہ مقدار   اتنی بڑی تھی کہ خود نیشنل سیکیورٹی ایجنسی کو بھی اس کی جانچ پڑتال کرنے کے لیے خاصی دقت کا سامنا کرنا پڑا، جب کہ یہ عمل ایک کمپیوٹر سسٹم ’تریولر ‘ کی مدد سے کیا گیا۔

یہاں یہ بات بھی دل چسپی سے خالی نہ ہوگی کہ ۳مارچ کو شائع کردہ  دی گارڈین کے مضمون میں برطانوی نائب وزیر اعظم نے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ ۲۰۱۳ء کے صرف ۱۰منٹ میں پوری دنیا کے انٹرنیٹ صارفین کی جانب سے پیدا کردہ معلومات /ڈیٹا کی مقدار اتنی زیادہ تھی کہ جتنی تاریخ کی ابتدا سے لے کر ۲۰۰۲ء تک کے ڈیٹا/معلومات کی تھی۔ اس امر سے اس بات کا اندازہ بھی خوبی لگایا جاسکتا ہے کہ ٹکنالوجی کی ترقی اور دنیا کے عالمی گائوں بن جانے سے معلومات کے بہائو میں کس حیران کن حد تک تیزی اور تبدیلی آ چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بی بی سی کی ۷مارچ کی شائع کردہ رپورٹ میں امریکی فوج کے اعلیٰ اہل کار کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ ایڈورڈ سنوڈن کی جانب سے افشا کردہ معلومات کی مقدار کے تعین اور اس سے ہونے والے نقصانات کے تدارک کے لیے بھی دو سال کا عرصہ درکار ہے۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ نیشنل سیکیورٹی ایجنسی کے اس جاسوسی پروگرام کی نوعیت پہلے سے موجود منصوبوں سے خاصی سنگین ہے اور یہ انٹرنیٹ صارفین کی ذاتی زندگیوں پر اثر انداز ہوسکتی ہے۔یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ امریکی قانون میں امریکی شہری کے خلاف کی جانے والی اس قسم کی جاسوسی سے پہلے متعلقہ عدالت کے جج سے منظوری لینا لازمی ہے لیکن ’پرزم‘ کے تحت کی جانے والی الیکٹرانک جاسوسی کے لیے ایسی کوئی بھی منظوری حاصل نہیں کی گئی تھی۔ مزید یہ کہ  یہ تمام سرگرمیاں امریکی Privacy Laws کے بھی خلاف تھی جو کہ امریکی آئین میں شامل چوتھی ترمیم کے تحت تمام شہریوں کو Unreasonable Search سے تحفظ فراہم کرتا ہے۔ یہاں   ہم یہ سمجھتے ہیں کہ کسی بھی ملک کو اپنی قومی سلامتی اور ملکی دفاع کے حوالے سے اقدامات کرنے کا حق تو حاصل ہے لیکن اس کے ساتھ ہی فرد کی نجی زندگی اور بین الاقوامی اور ملکی قوانین کی مکمل پاس داری بھی نہایت ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایڈورڈ سنوڈن جو کہ اس وقت روس میں عارضی پناہ لیے ہوئے ہیں، کے مطابق انھوں نے یہ راز امریکی عوام کے مفاداور ریاست کی جانب سے عوام کی آزادی اور انفرادی زندگیوں میں مداخلت کے خلاف اٹھائے تاکہ امریکی شہریوں کی آزادی کا تحفظ کیا جا سکے۔ ان کے اس اقدام نے انھیں امریکی اور دنیا بھر کے عوام کی نظروں میں ایک ہیرو بنادیا، جب کہ امریکی حکومت نے انھیں مجرم قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف مقدمہ چلانے اور  روس سے ان کی واپسی کا مطالبہ کیا جسے روسی حکومت نے رد کر دیا۔

نیشنل سیکیورٹی ایجنسی کی جانب سے کی جانے والی جاسوسی کا سلسلہ یہیں نہیں رکا بلکہ دی گارڈین ہی کی ایک اور رپورٹ (شائع شدہ ۲۵؍اکتوبر۲۰۱۳ء )کے مطابق امریکا نے دنیا بھر کے ۳۵سربراہان مملکت کے استعمال میں موجود موبائل فونز اور ای میلز کی بھی نگرانی کی۔ رپورٹ کے مطابق ایک امریکی اہل کار نے نیشنل سیکیورٹی ایجنسی کو ۲۰۰مشہور شخصیات کے فون نمبروں کی لسٹ فراہم کی جن کی جاسوسی کرنے کو کہا گیا۔ ان شخصیات میں ۳۵ سربراہان مملکت کے فون نمبر بھی شامل تھے۔ جن سربراہان مملکت کے فون ریکارڈ کیے گئے ان میں برازیل،میکسکو اور کیوبا کے ساتھ ساتھ امریکا کے دوست اور اتحادی ملک جرمنی کی چانسلر اینجیلامرکل کا فون ٹیپ کرنا بھی شامل تھا۔

اس رپورٹ کے افشا ہونے کے بعد امریکا اور یورپین یونین کے تعلقات میں شدید سفارتی تنائوپیدا ہوا جس کو برسلز میں ہونے والے یورپی سربراہ کانفرنس ۲۰۱۳ء کے موقع پر اینجیلا مرکل کی طرف سے اعتماد کا مجروح ہونا قرار دیا کہا گیا۔ اس قسم کی جاسوسی کے بعد امریکا کو یورپی یونین اور دیگر ممالک کی طرف سے بھی شدید تنقید اور مذمت کا سامنا کرنا پڑا۔ اس تمام صورت حال پر   سب سے زیادہ شدید اور سخت ردعمل برازیل کی طرف سے دیا گیا جہاں برازیل کی صدر ڈلمارسل نے دسمبر ۲۰۱۳ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے خطاب میں امریکا کے اس اقدام کی شدید مذمت کی اور اسے بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا اور خطاب کے بعد اپنی پہلے سے طے شدہ ملاقات جو کہ برازیلی صدر اور اوباما کے مابین ہونا تھی کو منسوخ کرتے ہوئے وطن واپس چلی آئیں۔

ایک اور رپورٹ کے مطابق جو نیشنل سیکیورٹی ایجنسی کی انٹرنل آڈٹ رپورٹ کا حصہ ہے، خود نیشنل سیکیورٹی ایجنسی کے اندرونی حلقوں نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ  ۲۰۰۸ء کے بعد سے کانگریس سے ملنے والے اختیارات کو ناجائز استعمال کرتے ہوئے نیشنل سیکیورٹی ایجنسی نے ہر سال ہزاروں کی تعداد میں Privacy Laws کی خلاف ورزیاں کی ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق  ۲۰۱۱ء میں Foreign Intelligence Survelliance Act کی ۱۵۰ بار اور صدارتی ایگزیکٹو آرڈر کی ۳۰۰ بار خلاف ورزی کی ہے۔

’پرزم‘ کے اس پروگرام کے تحت امریکی شہریوں اور سربراہان مملکت کے علاوہ باقی تمام دنیا بھر کے افراد اور اداروں کی جاسوسی بھی کی گئی، حتیٰ کہ بڑی کاروباری کمپنیاں اور آئل ریفائنریز تک بھی جاسوسی کے اس جال سے بچ نہ سکیں۔ جس بڑے پیمانے پر یہ جاسوسی کی گئی اس کا اندازہ ۱۳جنوری ۲۰۱۴ء کو جاری کردہ وہ بی بی سی کی رپورٹ سے لگایا جا سکتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق روزانہ دنیا بھر سے ارسال کردہ ۲۰۰ملین موبائل فون ایس ایم ایس پیغامات کا معائنہ نیشنل سیکیورٹی ایجنسی میں کیا جاتا ہے، جب کہ ۱۵؍ارب موبائلز کے محل وقوع کے بارے میں معلومات بھی حاصل کی جاتی ہیں۔

یہاں یہ بات معلوم ہونا بھی ضروری ہے کہ عدالت میں دورانِ سماعت یہ بات بھی سامنے آئی کہ جس ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ اور نیشنل سیکیورٹی کی آڑ میں یہ تمام جاسوسی کی جاتی ہے، اس کے لیے اس تمام عرصے کے دوران اس ذریعے سے حاصل کردہ معلومات کی وجہ سے ایک بھی دہشت گرد یا دہشت گردی کا منصوبہ نہیں پکڑا جا سکا۔ نیشنل سیکیورٹی ایجنسی کے خفیہ پروگرام ’پرزم‘سے متعلق سب سے اہم اور تشویش ناک معلومات پاکستان کے متعلق دریافت ہوئی ہیں۔  ایڈورڈ سنوڈن کی جانب سے پاکستان کے متعلق فراہم کردہ معلومات جو برطانوی اخبار دی گارڈین میں ۱۱جون۲۰۱۳ء کو Boundless Informant کے عنوان سے اور پاکستانی انگریزی روزنامے دی ایکسپریس ٹربیونکی ۹جون۲۰۱۳ء کی اشاعت میں شائع ہوئی ہیں کے مطابق دنیا بھر میں جاسوسی کی بنیاد پر حاصل کردہ ڈیٹا کے اعتبار سے پاکستان دوسرے نمبر پر ہے، یعنی نیشنل سیکیورٹی ایجنسی نے سب سے زیادہ جاسوسی جن ممالک کی کی، پاکستان ان میں دوسرے نمبر پر ہے۔ رپورٹ کے مطابق ۲۰۱۳ء میں صرف مارچ کے مہینے میں سب سے زیادہ ڈیٹا ایران سے حاصل کیا گیا جو کہ ۱۴بلین، انٹیلی جنس رپورٹس پر مشتمل تھا اور دوسرے نمبر پر مارچ ہی کے مہینے میں پاکستان سے ۵ء۱۳بلین، انٹیلی جنس رپورٹس حاصل کی گئیں۔ مذکورہ رپورٹ پڑھ کر یہ بات صاف ہو جاتی ہے کہ پاکستانی شہریوں اور اہم شخصیات کی جاسوسی بہت بڑے پیمانے پر کی جارہی ہے، یعنی ہمارا  ایس ایم ایس، ای میل اور دیگر ذاتی اور حساس نوعیت کا ڈیٹا مسلسل نیشنل سیکیورٹی ایجنسی کے پاس جمع ہو رہا ہے۔

اسی سلسلے میں پاکستان کے حوالے سے امریکی عزائم افشا کرتی ایک اور نہایت اہم دستاویز NSA Black Budget Summary ہے۔ یہ دستاویز امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کی ۲۹؍اگست ۲۰۱۳ء کی اشاعت میں افشا کی گئی ہے۔ اس رپورٹ میں نیشنل سیکیورٹی ایجنسی کے ۲۰۱۳ئکے لیے ۶ء۵۲ بلین ڈالر کے خطیر بجٹ اور اس کے مصارف بیان کیے گئے ہیں۔ قابلِ ذکر اور باعثِ تشویش بات یہ ہے کہ نیشنل سیکیورٹی ایجنسی کے اس بجٹ میں پاکستان  میں جاسوسی سرگرمیوں کے لیے بڑا حصہ رکھا گیا ہے۔ رپورٹ کا سب سے افسوس ناک اور چشم کشا پہلو یہ ہے کہ اس میں پاکستان کو جو کہ کسی زمانے میںغیرناٹو حلیف تھا، اب ایک مشکل سے قابو آنے والا ہدف قرار دیا گیا ہے۔ یہ چشم کشا اور حقائق پر مبنی معلومات نہ صرف امریکا کی پاکستان دشمنی کی غماز ہیں بلکہ ان تمام محب وطن حلقوں کے شبہات کو بھی تقویت دیتی ہیں جو پاکستان کی سلامتی اور داخلی امور کے حوالے سے امریکا کے مشکوک کردار پر انگلی اٹھاتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان رپورٹس کے بعد پاکستان امریکا سے جواب طلب کرتا لیکن افسوس کہ ہمارے دفترخارجہ کی طرف سے ایک رسمی بیان تک نہ جاری ہو سکا۔ فراہم کردہ معلومات، ماضی کے کردار اور امریکا کی طرف سے عالمی قوانین کی پامالی کے حوالے سے ایک طویل تاریخ کے تناظر میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ امریکا جو اس وقت طاقت کے نشے میں بدمست ہے دنیا کے کسی بھی قانون اور ضابطے کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے صرف ’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘  کے فلسفے پر کاربند ہے۔ نیشنل سیکیورٹی اور نام نہاد ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کی آڑ میں اپنے استعماری ایجنڈے کو پوری دنیا پر بزور طاقت نافذ کرنے کے درپے ہے اور اس کے لیے ہر حد سے گزرنے کو تیار ہے۔ بدقسمتی سے مسلم دنیا کی قیادت اس ایجنڈے کے آگے بند باندھنے اور اس کا توڑ کرنے سے قطعی قاصر نظر آتی ہے۔ یہی وجہ ہے مسلم ممالک اتنی بڑی تعداد میں ہونے کے باوجود امریکا کو آئینہ دکھانا تو دور کی بات اپنے ہی حق کے لیے بھی آواز بلند نہیں کر پا رہے۔

پاکستان جو غیرناٹو حلیف کے درجے سے ترقی پا کر آج ہدف کی منزل تک پہنچ چکا ہے، اس کے حکمرانوں کو بھی اب ہوش کے ناخن لینا ہوں گے۔ امریکا کے ساتھ تعاون کی پالیسی اور امریکی جنگ میں شمولیت کے ثمرات آج پاکستان کے طول و عرض میں نظر آنے لگے ہیں۔ بلوچستان اور کراچی عالمی طاقتوں کے کھیل کے میدان، جب کہ قبائلی علاقہ جات ہماری اپنی عاقبت نااندیشی کی تصویر بنے نظر آتے ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ اب امریکا جو کہ عالمی قوانین اور انسانی حقوق کا   علَم بردار بنا بیٹھا ہے اس کا حقیق چہرہ دکھایا جائے اور دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ جو دراصل امریکی ایجنڈے اور توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل ہے، سے باہر نکلا جائے اور اس بات پر  غور کیا جائے کہ امریکا کا ساتھ دے کر ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا؟

حالیہ بحث اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے ردِ عمل سے ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اس حوالے سے تین نکات بہت اہمیت کے حامل ہیں جن کو حل کرنا دنیا کے تحفظ کے لیے اور خود امریکا کے اپنے تشخص کے لیے بے حد ضروری ہے :

۱-قومی سلامتی کے اداروں کے طریقہ کار اور فرد کی پرائیویسی کے تحفظ کے درمیان توازن، معلومات تک رسائی کے حوالے سے موجودہ قوانین کا از سرِ نو جائزہ اور خود کا ر احتسابی نظام کی تشکیل۔

۲-اختیارات کے ناجائز استعمال اور فرد کی ذاتی معلومات کے مجرو ح ہونے کی صورت میں قانونی ضمانت، جب کہ دوسرے ملکوں کی آزادی اور سلامتی کی ضمانت کے سلسلے میں بین الاقوامی قوانین کی مکمل اور بلاامتیاز پاس داری ۔

۳-صرف اسلامی ہی نہیں بلکہ انسانی نقطۂ نگاہ سے ٹکنالوجی سے پیدا ہونے والی پیچیدگیوں اور تمام مذاہب، رنگ و نسل اور اقوام کی عزت و ناموس کے حوالے سے مؤثر قانون سازی اور ضابطۂ اخلاق بھی وقت کی اہم ضرورت ہے، تاکہ نہ صرف فرد کی آزادی کا تحفظ یقینی بنایا جاسکے بلکہ ادیان عالم اور اقوام کی عزت و ناموس اور سلامتی کا بھی پاس رکھا جاسکے۔

ہماری نظر میں مؤثر قانون سازی کے بغیر یہ مسئلہ ایک گمبھیر صورت حال اختیار کرتے ہوئے اب عالمی مسئلے کی صورت اختیار کرسکتا ہے۔ لہٰذا تمام اقوام کو متحدہو کر اقوام متحدہ کی سطح پر اس مسئلے کے تدارک کے لیے مؤثر اقدامات اٹھانے چاہییں، تاکہ یہ دنیا رہنے کے لیے ایک بہتر جگہ بن سکے جہاں تمام اقوام امن، عزت اور برابری کے حقوق کے تحت مل جل کر جینے کا حق پاسکیں۔

(مضمون نگار انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز، اسلام آباد میں ریسرچ اسسٹنٹ ہیں)

پِلٹ ڈائون میں

برطانوی مفکر ’چارلس رابرٹ ڈارون (۱۸۰۹ء-۱۸۲۲ء) ، ایک ڈاکٹر کا بیٹااور ایک بایالوجسٹ تھا،ا ور خوش حال خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔ اس نے اپنے دور میں نظریۂ ارتقا پر ایک کتاب On the Origin of Species تحریر کی تھی جس میں اس نے اپنی تحقیقات سے ثابت کیا تھا کہ ہر جان دارنے درجہ بدرجہ ترقی کرکے ہی اپنی موجودہ اصلی شکل اختیار کی ہے۔اس کا کہنا تھا کہ، مثلاً زرافے نے اپنی موجودہ گردن اونچی اونچی شاخوں سے غذا حاصل کرنے کے لیے ہی رفتہ رفتہ لمبی کی تھی۔ وہ کہتا ہے کہ انسان نے بھی درجہ بدرجہ ترقی کرتے ہوئے ہی اپنی موجودہ انسانی شکل اختیار کی ہے۔اس کے نزدیک بندر (چیمپینزی) نے پہلے پہل اپنے اگلے دونوں پائوں اُوپر اٹھائے تھے ،جھکی ہوئی حالت میں زندگی گزارنے کے قابل ہوا تھا، اورپھرر فتہ رفتہ اس کے جسم کے گھنے بال کم ہونے شروع ہوئے تھے ۔اس کے بعد ہی سے اس میں عقل کی نشوو نما بھی ہونے لگی تھی۔  چنانچہ قطعی حتمیت کے ساتھ اس کا کہنا ہے کہ انسان کے آبا ؤ اجداد اپنی اصل میں بندر تھے۔وہ زور دیتا ہے کہ انسان پہلے ’انسا ن نما بندر ‘، پھر ’بندر نما انسان‘، اور پھر آخر کار ’ مکمل انسان ‘بن سکا ہے۔

ڈارون کے اس انکشاف نے سائنس دانوں کی ایک بڑی تعداد کو گویا ہلا کر رکھ دیا تھا اور  وہ اس پر بلا تردّد ایمان رکھنے لگے ۔ حیرت انگیز طور پر آج کا ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ یہودی، ربی، ’بنجامن بلیخ ‘بھی اس کے نظریے کی تائید کرتا  ہوا نظر آتا ہے  ۔وہ سوال کرتا ہے کہ ’’ ہمیںتورات کی جانب دیکھنا چاہیے کہ وہ اس ضمن میں ہمیں کیا سکھا تی ہے؟ ۔ وہ کہتی ہے کہ موجودہ دنیا،     اپنی تکمیلی حالت میں ترقی کرتے ہوئے ہی اس آج کے دور تک نمودار ہوسکی ہے۔ بنجامن سمجھاتا ہے کہ تورات بیان کرتی ہے کہ’’ خدا نے تخلیقِ کائنات کا جب منصوبہ بنایا تھا تو سب سے پہلے دن  اس نے ’دن ‘کو جنم دیا تھا ۔پھردوسرے دن اس نے’ آسمان ‘کی پیدایش کی تھی۔ تیسر ے دن ’ اس نے ’خشک زمین ‘کو جنم دیا تھا۔ چوتھے دن سورج اور چاند تاروں کی تخلیق۔ پانچویں دن ’مچھلیوںاور پانی‘ کی تخلیق، اور آخری اور چھٹے دن’ چوپایوں اور انسانوں ‘کی تخلیق کی تھی‘‘۔ ربی’ بنجامن‘    سوال کرتا ہے کہ پھر اگر انسان بھی اسی طرح بندر کی شکل و صورت ،اور عادات و اطوار سے تبدیل ہوتے ہوتے موجودہ اصل انسانی حالت میں سامنے آیا ہے تو اس میں اچنبھے کی کیا بات ہے؟۔ (Jewish History and Culture ،امریکا،ص ۳۸-۳۹)۔اتفاق دیکھیے کہ کمیونزم کا بانی کارل مارکس بھی ڈارون کی اس کتاب پر اپنی پسندیدگی کااظہار کرتاہو ا نظر آتا ہے۔

 ربی کا یہ بیان بہرحال ہمیں یہ نتیجہ اخذ کرنے میں کوئی دشواری پیدا نہیں کرتا کہ یہودی مذہبی زعما بھی ڈارون کے نظریے سے متفق نظر آتے ہیں۔پھریہیںسے یہ بات بھی سمجھ میں آجاتی ہے کہ مفاد پرست حضرات جھوٹ اور فاسد امور کی خاطر دلائل بھی آخر کہاں کہاں سے لے کر آتے ہیں، یعنی وہ اس معاملے میںمقدس کتابوں تک کو بھی نہیں بخشتے!                                            

ایک طویل مدت تک ڈارون کے اس نظریے کی تشہیر ہوتی رہی۔ اپنی اصل الٰہی تخلیق، حضرت آدم ؑ و حو ؑا کو چھوڑ کر انھوں نے خود کو بآسانی بن مانسوں کی اولاد قرار دے لیا تھا۔اگرچہ   اس نظریے کے رد میں آج خود مغرب سے بے شمار کتابیں منظرعام پر آرہی ہیں لیکن کوئی مضائقہ نہیںاگراس کے ایک دو پہلوؤں کا ہم خود بھی جائزہ لے لیں۔                                                                

کہاگیا تھا کہ انسان بننے کی جانب قدم اٹھاتے ہوئے اس نے پہلے اپنے اگلے دونوں پائوں اٹھا لیے تھے اور جھک کر چلنے لگا تھا (اس قسم کی مفروضہ تصاویر بھی انسائی کلو پیڈیا میں عام نظر آتی ہیں)۔ تاہم عقل ان کی اس دلیل کو تسلیم کرنے سے اِبا کرتی ہے ۔ وہ اسے پہلی فرصت ہی میں رد کردیتی ہے کیونکہ انسان کچھ عرصے کے لیے تو جھک کر چل سکتا ہے لیکن اس صورت میں وہ خود کو مسلسل برقرار نہیں رکھ سکتا ۔ایسا کرنااس کے بس کی بات ہی نہیں ہے۔ حیوانات بے فکر ہو کر، اور آرام سے یا تو چاروں ہاتھ پائوں کی مدد سے چل سکتے ہیں یا پھر محض دو پیروں کی مدد سے۔لیکن یہ کہ ان کے پیر تو چار ہوں اور وہ چلیں سیدھے ہوکر محض دو پیروں کی مدد سے ، تویہ عمل حیوانات کے لیے ممکن ہی نہیں ہے! پھر یہ بھی کہا گیا کہ ارتقا کی منزل ہی میں زرافے نے اُونچے درختوں سے غذا حاصل کرنے کے لیے اپنی گردن موجودہ شکل میں تبدیل کی تھی۔حالانکہ یہ بھی محض ایک واہمہ ہی ہے کیونکہ سائنس دانوں نے بہت تحقیق کے بعد آگاہ کیا ہے کہ اب سے چار پانچ ہزار سال پہلے کے زرافے کے جو ڈھانچے دریافت ہوئے ہیں ،ان میں بھی اس کی گردن آج ہی کی مانندلمبی پائی گئی ہے۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ڈارون کے نظریات و انکشافات شکوک و شبہات کی نذر ہونے لگے ۔ حیرت انگیز طورپر سائنسی تحقیق سے صورت حال ایک بالکل نئے انداز سے سامنے آنے لگی۔ معلوم ہو ا کہ حقائق وہ نہیں ہیں جو ڈارون نے پیش کیے تھے ،بلکہ حقائق اس کے ماسوا کچھ اور ہیں۔ سائنس دانوں نے بتایا کہ ڈارون نے اپنے یہ نظر یات کسی بھی لحاظ سے ٹھوس بنیادوں پر استوار نہیں کیے ہیں۔ بات کی وضاحت کی خاطر انھوں نے اس موضوع پر دلائل بھی فراہم کیے، اور مضامین و مقالات کا ایک نہ رُکنے والا سلسلہ بھی شروع کیا ۔انھوں نے بتایا کہ انسان اپنی ابتدا میں بھی آج ہی کی طرح کاایک مکمل انسان تھا جس کا بندروں کی نسل چیمپینزی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ لیکن حقائق کی روشنی میں لائے جانے کے باوجود مذکورہ بالاگمراہ کن نظریہ آج بھی حسب ِ سابق شدومد کے ساتھ پھیلا یا جارہا ہے۔نئی تحقیقات اپنی جگہ ،لیکن ڈارون کا نظریۂ ارتقا اپنی جگہ!۔ آخر ایسا کیوں ہے؟اس کی وجہ یہی ہے کہ دہریے نظریات کے حامل دانش ور ان، دنیا کے لوگوں کو    ان کے تخلیق کرنے والے خدا سے بالکل کاٹ کے رکھ دینا چاہتے ہیں۔ وہ ہرگز نہیں چاہتے کہ مذہب اور خدا کا دنیا میں کہیں بھی چرچا ہوتا رہے۔ اسی سلسلے کو یہ لوگ ’الیو میناتی نظام‘(یعنی روشنی کا نظام)قرار دیتے ہیں۔ الیومیناتی دانش وران قرار دیتے ہیںکہ دنیا میں محض ان کے جنم شدہ شیطانی نظام ہی کو بالادستی دی جانی ہوگی اور اسی کا سکہ یہاں رائج ہو کر رہے گا۔اگرچہ وہ اسے ’روشنی کا نظام ‘ قرار دیتے ہیں لیکن اپنی اصل میں یہ ’ اندھیرے اور شیطنیت کا نظام‘ ہے ۔

چنانچہ انھی کے تربیت یافتہ مادہ پرست ذرائع ابلاغ ،اور روحانیت سے جان چھڑانے والے باغی سائنس دان ہیں جن کی تاریک کتابیں روشنی کے اس دور میں بھی مسلسل سامنے آتی چلی جارہی ہیں۔عالمی ذرائع ابلاغ بھی انھی کی مانند اس نظریے کو فروغ دینے میںپیش پیش ہیں، کیونکہ ان کی توفطرت ہی یہ ہے کہ حقائق سے زیاد ہ وہ افسانوںاور سنسنی خیزیوںمیں دل چسپی لیتے ہیں۔ یہی ان کے روزگا ر کی شاہ کلید بھی ہے۔ چنانچہ انسانی ارتقا کے مختلف درجوں کی فرضی تصویریں دنیا بھر میںپھیلا دینے والے لوگ اور ادارے بھی یہی ہیں۔ انھی مفکرین نے کمپیو ٹر کی چال بازیوں کی مدد سے مردوں اور عورتوں(انسانوں) کو مکمل برہنہ حالت میں جسم پر گھنے بال رکھے ہوئے دکھا یا ہے اور انھیں تعلیمی نصاب میں شامل کروایا ہے۔ بلکہ حیرت انگیز طورپر وہ تو ان کے جسموں پر پتے بھی نہیں دکھاتے جن کا وہ تعلیمی اسباق میں بہت چرچاکرتے ہیں ۔حالانکہ بندر نما انسان یا انسان نما بندر اگر کسی حد تک چلنے پھرنے کے قابل ہوگیا تھا اور اس کا دماغ بھی کم از کم کسی درجہ ’ذہنی ترقی‘ بھی کرچکاتھا، تو اپنے پوشیدہ حصوںکو تو اسے فوراً ہی ڈھانپنے کی کوشش کرنی چاہیے تھی کیونکہ شرم و حیا تو اللہ تعالیٰ نے جانوروںکے ا ندربھی رکھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ مر غی سب کے سامنے کبھی انڈے نہیں دیتی اور جانور اپنی دموں کو عموماًگرا کر ہی رکھتے ہیں ۔

آج کی ترقی یافتہ خواتین بھی چوبیس گھنٹے اور تین سو پینسٹھ دن بغیر لباس کے زندگی نہیں گزار سکتیں ۔کیونکہ مرد ہو یا عورت ، انسان اپنی شرم و حیا کے ہاتھوں مجبور ہے۔ دوسری جانب موسموں کے بھی اپنے کچھ تقاضے ہوتے ہیں!۔ حقیقت یہ ہے کہ اس ضمن میں ان الیومیناتی لوگوںکو ایک تصویر بھی اپنی اصلی حالت میں حاصل نہیں ہوسکی ہے!۔ سائنسی حقائق کے پہلو بہ پہلو یہ لوگ جعلی و مسترد شدہ نظریات کو بھی مسلسل گردش میں رکھتے ہیں ۔

پروپیگنڈا اصل میں ایک بہت طاقت ور ہتھیا ر ہے ۔ صحیح یا غلط ، دونوں نظریات کو بلا جبر، دنیا بھر کی ۷؍ ارب کی آبادی سے اگرازخود منوانے کا کسی کا ارادہ ہو تو کتب، رسائل ،اور دیگر  ذرائع ابلاغ ،اس کی اس آرزو کو چندسالوں ہی میں بآسانی پورا کرسکتے ہیں، جب کہ ان کی مدد کے بغیر ان کاذب نظریات کا رد ، اور اصل حقائق سے لوگوں کی با خبری،تقریباً ناممکن بنا دی جاتی ہے!۔

پِلٹ ڈاؤن مین (Piltdown Man)

ڈارون کے نظریے کی اشاعت کے کچھ ہی عرصے کے بعد اس کے خیالات کو بہ لطف و کمال آگے بڑھانے والے دین بے زار سائنس دانوں نے پھر ایک اور چال بھی چلی۔ انھوں نے بہت بعد میںایک ایسا درمیانی انسان بھی’دریافت ‘ کر لیا جو بقول ان کے ۳۰۰، ۴۰۰ سالوں کے بعد   بس مکمل انسان کی شکل میں ڈھلنے ہی والا تھا۔

یہ ۱۹۱۲ء کی بات ہے جب انگلینڈ میں اسی کے تقریباً ہم نام ایک اور سائنس دان چارلس ڈاسن نے برطانوی گائوں Piltdown  میں ایک حیوانی سر کا ڈھانچا پایا جس کی خصوصیت یہ تھی کہ اس کے سر کا ڈھانچا اور جبڑے کی ہڈی چیمپینزی کی، اور دانت انسانوں کے سے بتائے گئے تھے۔ چنانچہ اس کے بعد حتمی طور پر طے کردیا گیا کہ ڈارون کی جانب سے پیش کیا جانے والا نظریۂ ارتقا بالکل درست تھا،اور یہ کہ یہ انسان اس کا عملی و عقلی ثبوت ہے ۔ ڈھانچا چونکہ ’پِلٹ ڈائون ‘ نامی علاقے برطانیہ سے ملا تھا،اس لیے ڈھانچے کو بھی Piltdown Man  کہہ کر پکارا جانے لگا ۔

اپنی اس دریافت پر سائنس دان اس درجے خوش ہوئے کہ پھر اس پر وہ تحقیقی مقالے لکھنے لگے اور اسے نصاب میں شامل کروایا۔ کہا گیا کہ انسانی و حیوانی یہ ڈھانچا کم از کم ۵لاکھ سال پرانا ہے ۔مزید یہ بھی کہا گیا کہ یہ ڈھانچا کسی یورپی فرد کا ہے، جب کہ بعض اخبارات نے حسبِ دستور اسے کسی عورت کا ڈھانچا گردانا!۔ اپنے کارنامے پر یہ حضرات اس درجے پُر مسرت تھے کہ اس پر کم از کم ۵۰۰مقالے لکھے گئے اور ۴۰برسوں تک اسے اہمیت دی جاتی رہی۔ حدیہ ہے کہ آج کل کے ’ایچ جی ویلز‘ اور ’برٹرینڈ رسل‘ جیسے معروف دانش ور حضرات بھی اس پروپیگنڈے سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور انھوں نے اسے اپنی کتابوں بالترتیب  The Outline of Historyاور     A History of  Western  Philosophy  میں انسان کی جدید علمی فتوحات میں شمار کیا۔ تاہم دھوکے بازی زیادہ دیر تک اپنا بھرم نہیں رکھ سکی کیونکہ دھوکا بازی بہرحال دھوکا بازی ہی ہوتی ہے اور حقائق بہرحال اپنا آپ منوا کر ہی رہتے ہیں۔چنانچہ ۴۰برسوں کے بعد جاکر کہیں پتا لگا کہ   اس ڈھانچے کی تمام تر کہانی بے بنیاد ہے۔

برطانوی عجائب گھر کے ایک نگراں Kennith Okley  نے ۱۹۵۲ء میں اس پر کچھ مزید طبی و سائنسی تحقیقات کیں تو پتا لگا کہ اس کے بارے میں جو کچھ کہا اور لکھا گیا ہے ، وہ کئی لحاظ سے درست نہیں ہے۔ ا س نے آگاہ کیا کہ کسی فرد نے چیمپینزی کے بڑے دانتوں کو گھس کر انسانوں  جیسا چھوٹا کیا ہے اور ڈھانچے کو ایک خاص رنگ سے رنگ دیا ہے تاکہ ایک نئی انسان و بندر نما  شکل سامنے آسکے۔                                                      

اس نئے انکشاف نے تو گویا سائنس کی دنیا میں ایک بار پھر وہی قدیم ہلچل مچا دی ۔کس کو پتا تھا کہ عظیم سائنس دان ’ڈارون‘ کا نظریہ یوں بالکل تار تار ہوجائے گا کیونکہ اس طرح کی  صورتِ حال کا کسی کو بھی اندازہ نہیں تھا۔بہرحال بہت چھان پھٹک کرنے کے بعد آ خر کا ر اعلان کردیا گیا کہ ’’دریافت شدہ ڈھانچا سائنسی لحاظ سے تاریخ کا سب سے بڑا دھوکا ہے !‘‘۔ جدید ماہرین نے واضح کیا کہ مذکورہ ’ شکل و صورت‘ میں بعض جعل سازیاں کی گئی ہیں اور انسان کی شکل میںڈھالنے کی ایک دانستہ کوشش کی گئی ہے۔ نیز یہ کہ چیمپینزی کا جبڑا وغیرہ بھی کسی لاکھوں سال پہلے کا نہیں بلکہ محض حالیہ مرے ہوئے کسی بندر کا ہے۔ اس انکشاف کے نتیجے میں ہلچل کے بعد سے پلٹ ڈائون مین کا وہ ڈھانچا برطانوی عجائب گھر سے فوری طور پر ہٹا دیا گیا جہاں ۴۰برسوں سے وہ مسلسل دنیا کی’ معلومات‘ میں اضافہ کررہا تھا!۔

ڈارون اور اس کے قبیل کے دیگر مفکرین کے یہ نظریات علمی وسائنسی فضا میں تقریباً ایک صدی محض اس لیے چھائے رہے کہ اس دور تک جدید سفری آسانیاں ، حساس تحقیقاتی آلات ، خورد بین ودُوربین، تشخیصی سہولتیں ، سائنسی علوم، اور غور و فکر کی صلاحیتیں وغیرہ، ہمہ معیاری اور بااعتماد حد تک سامنے نہیں آسکی تھیں۔لیکن جوں جوں سائنس آگے بڑھتی رہی ،اور علم اپنا دامن وسیع تر کرتا رہا، ڈارون کے نظریات بھی اسی لحاظ سے شکوک و شبہات کی زد میں آتے چلے گئے۔

حقائق اور تہہ تک پہنچ جانے والے علم کی آج کی یہ دنیا، نہ تو چارلس ڈارون کے نظریۂ ارتقا کو درست مانتی ہے اور نہ چارلس ڈاسن کے خود ساختہ ’پِلٹ ڈائون مین‘ کو کوئی اہمیت دینے کو تیار ہے۔ کل کا دھوم مچادینے والا ’پِلٹ ڈائون مین‘ آج کا محض افسانہ بن کر رہ گیا ہے!

_______________

کتابیات

۱- ہارون یحییٰ Tell Me About  the Creation - New Delhi 

۲- انسائی کلوپیڈیا، جلدنمبر۱۲،کولییرز،امریکا      ۳- انٹر نیٹ ، وکی پیڈیا سرچ

۴- Jewish History and Culture, Alpha Publishers, U.S.A.

۵-عظمتِ قرآن، مولانا وحید الدین خان، بھارت

وابستگانِ اُردو زبان و ادب خصوصاً ادب اسلامی سے دل چسپی رکھنے والوں اور تحریکِ اسلامی کے حلقوں کے لیے ڈاکٹر سیّد عبدالباری (شبنم سبحانی) کی رحلت (یکم ستمبر ۲۰۱۳ء) ایک بڑا الم ناک سانحہ ہے۔ وہ ایک بلند پایہ ادیب، نقاد اور شاعر تھے۔ بنیادی طور پر وہ ایک معلم تھے اور اس حیثیت سے انھوں نے ہزاروں تلامذہ کی تعلیم و تربیت کی۔ وہ تحریک ادب اسلامی ہند کے قافلہ سالاروں میں سے تھے۔ مسلسل ۲۴ برس وہ ادارہ ادب اسلامی ہند کے صدر اور تقریباً ۳۷ برس سیکرٹری جنرل رہے۔

سیّد عبدالباری ۷ ستمبر ۱۹۳۷ء کو یو پی کے ضلع فیض آباد کے ایک قصبے ٹانڈا میں پیدا ہوئے۔ گورکھ پور یونی ورسٹی سے بی اے کیا۔ پھر وہیں سے ایم اے اُردو اور ایم اے انگریزی کی ڈگریاں حاصل کیں۔ ایم اے اُردو میں انھوں نے لکھنؤ یونی ورسٹی میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ بعد ازاں اسی لکھنؤ یونی ورسٹی سے انھیں اُردو میں پی ایچ ڈی کی سند عطا ہوئی۔ اس سے پہلے چند سال تک وہ رام پور کی ثانوی درس گاہ اور مدرسۃ الاصلاح سراے میر، اعظم گڑھ سے عربی زبان و ادب کی تحصیل کرتے رہے تھے۔ مدرسۃ الاصلاح میں انھیں عروج احمد قادری، جلیل احسن ندوی اور صدر الدین اصلاحی جیسے علما سے کسبِ فیض کا موقع ملا اور رام پور میں انھیں مائل خیرآبادی، مولانا عبدالحی، افضل حسین اور مولانا حامد علی کی راہ نمائی حاصل رہی۔

ابتدا میں وہ انگریزی کے لیکچرر رہے۔ بعدازاں اودھ یونی ورسٹی فیض آباد سے ملحق گنپت سہاے پوسٹ گریجویٹ کالج سلطان پور میں طویل عرصے تک اُردو کے استاد رہے اور یہیں سے بطور صدر شعبہ اُردو وظیفہ یاب ہوئے۔

درس و تدریس کے ساتھ شاعری اور تنقید ادب کے شعبوں میں بھی ان کا قلم برابر رواں رہا۔ ان کا قلمی نام ’شبنم سبحانی‘ تھا۔ ۲۰۰۹ء میں ۵۵ سال کی منتخب نظموں کا مجموعہ فکر انگیز  شائع کیا۔ ان نظموں میں فن پر فکر کو فوقیت دی گئی ہے۔ لیکن بیش تر منظومات سے ان کی شاعری کی تاثیر، اس کی فنی دل کشی اور فکر انگیزی کا اندازہ ہوتا ہے۔

ان کا دوسرا شعری مجموعہ طرب خیز  غزلوں پر مشتمل ہے۔ بحیثیت مجموعی ان کی شاعری ایمان و یقین اور امید و روشنی کی شاعری ہے اور قاری کو حوصلہ، عزم اور ولولہ عطا کرتی ہے۔ انھوں نے مختلف اصنافِ سخن میں، نہایت کامیاب مشقِ سخن کی ہے۔

بعدازاں شاعری سے قدرے بے رخی برتتے ہوئے وہ نثر نگاری کی طرف متوجہ ہوئے۔ ’شبنم سبحانی‘ نے قلم رکھ دیا اور ’سیّد عبدالباری‘ نے قلم سنبھال لیا۔ بقول ڈاکٹر نیاز سلطان پوری: ’’شاعر پر نثر نگار غالب آگیا اور اپنے اصل نام سے انھوں نے کتابیں لکھنی شروع کیں‘‘۔

بیسویں صدی کی ۱۴ممتاز شخصیات سے ملاقاتوں اور گفتگوئوں کی رُوداد انھوں نے ملاقاتیں کے عنوان سے ۲۰۰۳ء میں شائع کی۔ یہ انٹرویو (مصاحبے) دوام اور دوامِ نو  کے زمانۂ ادارت میں، تمام حضرات سے ان کے مستقر پر حاضر ہوکرلیے گئے۔ ان میں قاری محمد طیب، عبدالماجد دریا بادی، محمد مسلم، بدر الدین طیب جی، مولانا صدر الدین اصلاحی، ڈاکٹر سیّد محمود،   مولانا ابو اللیث اصلاحی اور سیّد ابوالحسن علی ندوی شامل ہیں۔ یہ مصاحبے، روایتی انداز کے سوال و جواب تک محدود نہیں۔ وہ بھرپور انداز سے شخصیت کا تعارف کراتے ہیں۔ (ان تعارفات میں وہ ایک کامیاب مرقع نگار اور خاکہ نویس کے طور پر بھی سامنے آتے ہیں) اور ان شخصیات کی قیام گاہوں تک پہنچنے کی رودادِ سفر بیان کرتے ہیں۔ یوں ان مصاحبوں کو پڑھتے ہوئے سفرنامے کا لطف بھی محسوس ہوتا ہے۔ ۱۹۴۷ء کے بعد بھارت کی سیاست کے نشیب و فراز اور بطور اقلیت مسلمانوں کی زندگی اور ان کی جدوجہد کے حوالے سے ملاقاتیں نہایت اہم ہے، بلکہ اس کی حیثیت حوالے کی ایک کتاب کی ہے۔

۲۰۰۹ء ہی میں سیّد عبدالباری صاحب نے انوکھے لوگ، نرالی باتیں شائع کی جو بیسویں صدی کی ۲۰ ’نرالی شخصیتوں‘ کے خاکوں اور ان کے افکار و خیالات پر مشتمل ۲۰ مضامین کا مجموعہ ہے۔’انوکھے لوگوں‘ میں مولانا حسین احمد مدنی، سیّد مودودی، حکیم اجمل خان، سیّد محمود، ابوالکلام، حسرت موہانی، آیت اللہ خمینی، صدر الدین اصلاحی، مولانا دریا بادی اور ابوالمحاسن مولانا محمد سجاد وغیرہ شامل ہیں۔ یہ خاکے (یا مضامین) تعارفی و سوانحی ہیں اور تنقیدی و تبصراتی بھی۔ زیادہ تر انھوں نے شخصیات کے محاسن بیان کیے ہیں اور معائب سے صرفِ نظر کیا ہے۔

لکھنؤ کا شعر و ادب ان کا تحقیقی مقالہ ہے جس پر انھوں نے گورکھپور یونی ورسٹی سے    پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی تھی۔ اسی تسلسل میں انھوں نے لکھنؤ کے ادب کا معاشرتی و ثقافتی پس منظر (۱۸۵۷ء تا ۱۹۴۷ء) کے عنوان سے ایک اور کتاب شائع کی جسے وہ خود  اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے کا ’دوسرا حصہ‘ قرار دیتے ہیں۔

تنقیدی مقالات کے پانچ مجموعے (ادب اور وابستگی، کاوش نظر، نقد نوعیار، آداب شناخت، افکار تازہ) ان سے یادگار ہیں۔ آداب شناخت پر اظہار خیال کرتے ہوئے، اُردو تحقیق و تنقید کی نامور اور بزرگ شخصیت ڈاکٹر محمودالٰہی نے لکھا: ’’ان کی تحریر پختہ اور فکر نہایت مستحکم ہے۔ وہ حق و ناحق، خیر و شر کا ایک متعین پیمانہ رکھتے ہیں۔ اسلامیات کے گہرے مطالعے کا اثر ان کی تحریروں پر واضح طور پر نظر آتا ہے۔ انھوں نے اپنے قلم کو جاہ و منصب کے حصول کا ذریعہ نہیں بنایا، بلکہ اخلاص کے ساتھ ادب کی بے لوث خدمت انجام دیتے رہے ہیں‘‘۔

سیّد عبدالباری کی فکر و سوچ اور قلمی کاوشوں کا دائرہ شعر و ادب تک محدود نہ تھا۔ وہ اپنے معاشرے کی فلاح و بہبود اور مسلمانوں کے مسائل پر بھی سوچتے تھے اور اس سلسلے میں انھوں نے سیکڑوں مضامین اور کالم لکھے۔ مزید برآں چند ایسی کتابیں بھی شائع کیں جن کا تعلق مسلم معاشرے میں اخلاقی و دینی اقدار کی ترویج اور افراد امت کی تربیت ذہنی و دینی سے ہے، مثلاً: اسماے حسنٰی اور کردار سازی‘ جمہوریت، انسان دوستی اور اسلام‘ اسلام میں آدابِ اختلاف وغیرہ۔

ڈاکٹر سیّد عبدالباری فکری اعتبار سے ادب اسلامی کے علم بردار تھے۔ جیسا کہ ابتدا میں  ذکر آچکا ہے، انھوں نے ادارہ ادب اسلامی ہند کے صدر اور سیکرٹری کی حیثیت سے چھے دہائیوں تک خدمات انجام دیں۔ ان کے بیٹے ڈاکٹر شکیب ارسلان کے بقول: ’وہ ایک پھرتیلے اور active شخص تھے‘۔ ادب اسلامی کے وابستگان کو متحرک کرنے کے لیے وہ خطوط نگاری اور مضمون نویسی کے ذریعے برابر کوششیں کرتے رہے۔ حیاتِ مستعار کے آخری عشرے میں انھوں نے ادارہ ادب اسلامی ہند کے ترجمان ماہنامہ پیش رفت  دہلی کی ادارت کا فریضہ نہایت خوش اسلوبی سے انجام دیا۔ آخری زمانے میں وہ آل انڈیا ملّی کونسل کے ماہنامے ملّی اتحاد سے بھی منسلک رہے اور اپنے رشحاتِ فکر سے قارئین کی ذہنی آبیاری اور ان کی راہ نمائی کرتے رہے۔

سیّد عبدالباری سے راقم کے قلمی رابطے کا آغاز ۶۰ کے عشرے میں ہوا تھا۔ ان کی وفات سے چندماہ پہلے تک خط کتابت رہی اور کبھی ٹیلی فون پر تبادلۂ خیال بھی ہوتا رہا۔ ہمارے درمیان تصانیف کا تبادلہ بھی ہوتا رہا ___ (اس تفصیل کی یہاں گنجایش نہیں)۔

اُردو شعر و ادب کی دنیا بڑی حد تک پاکستان اور بھارت کے دو الگ الگ ایسے خطوں میں منقسم ہے جن کے بیش تر شاعر، ادیب اور نقاد افسوس ناک حد تک ایک دوسرے سے ناآشنا ہیں۔ اس صورت حال میں پاکستان کے ادبی حلقوں میں سیّد عبدالباری (شبنم سبحانی) کا نام کسی قدر اجنبی محسوس ہو تو تعجب نہیں ہونا چاہیے۔ خود بھارت کے نقادوں اور تاریخ نویسوں نے شبنم سبحانی کے تخلیقی ادب اور ان کی تحقیقی و تنقیدی کاوشوں کو نظر انداز کیا ہے۔ اس پر بھی تعجب نہیں ہے کیوں کہ مرحوم شبنم سبحانی ادب میں صالح فکر اور اخلاقی اقدار کے علم بردار تھے۔

اُردو اکادمی دہلی کے وائس چیئرمین پروفیسر اختر الواسع نے بہت اچھی بات کہی ہے:   ’جو آیاہے، اُسے جانا ہی ہے لیکن ایسے کثیر الجہات لوگ جو معلم بھی ہوں، ادیب بھی، صحافی و نقاد  بھی ہوں اور کسی حد تک سیاسی میدان میں سرگرم عمل بھی، اُن کا اُٹھ جانا بہت تکلیف دہ ہوتا ہے۔  ڈاکٹر عبدالباری (شبنم سبحانی) کی وفات ایک ایسا ہی حادثۂ فاجعہ ہے۔ بس یہی دعا ہے کہ   ؎

آسماں ’اس کی‘ لحد پر شبنم افشانی کرے

سبزۂ نورُستہ اس گھر کی نگہبانی کرے

افغانستان کے پڑوسی ممالک اور اس خطے کی دیگر اقوام سے اس کے تعلقات اور مستقبل کے کردار کے حوالے سے ایک مختصر جائزہ پیش کیا جا رہا ہے۔

وسطی ایشیائی ممالک:

۱۹۷۹ء میں روس نے افغانستان پر حملہ آور ہونے کے لیے وسطی ایشیائی ممالک کا راستہ استعمال کیا جو اس وقت عظیم سوویت یونین کا حصہ تھے۔ افغانستان اور تاجکستان کے درمیان قدرتی سرحد دریاے آمو ہے جس کا شیر خان بندر کا پل روسی افواج کے آمدورفت کا سب سے بڑا ذریعہ رہا۔ امریکا نے بھی اس کا فضائی اڈا اپنی فوجوں کی آمد کے لیے استعمال کیا۔ تین وسطی ایشیائی ممالک تاجکستان ، ازبکستان اور ترکمانستان ، افغانستان کے ساتھ مشترکہ سرحدات رکھتے ہیں، جب کہ قازقستان اور کرغیزستان بھی قریب ہیں۔ اب بھی روس کا ان ممالک پر غیرمعمولی اثر و رسوخ برقرار ہے جو ایک بار پھر عالمی طاقت کا کردار ادا کرنے کے لیے بے قرارہے۔ ان ممالک کے افغانستان کے ساتھ لسانی ،تہذیبی اور سماجی تعلقات کے ساتھ ساتھ گہرے تجارتی و معاشی مفادات وابستہ ہیں۔ افغانستان ان کے لیے ایک کاروباری گیٹ ولے کی حیثیت رکھتا ہے جس کے ذریعے وہ دیگر ایشیائی ممالک بشمول پاکستان اور ہندستان کے ساتھ تجارت کر سکتے ہیں۔ ترکمانستان، افغانستان، پاکستان اور بھارت (TAPI) نام کی مجوزہ گیس پائپ لائن اس کی ایک نمایاں مثال ہے۔

ترکی:

افغانستان میں موجود کئی قومیتیں، مثلاً ترکمان اور ازبک ترکی النسل ہیں۔ ترکی کی حکومتیں ان کومدد بھی دیتی رہی ہیں۔ جنرل رشید دوستم یا جنرل عبدالمالک پر جب برا وقت آیا تو انھوں نے ترکی ہی میں پناہ حاصل کی۔ ترکی وہ واحد اسلامی ملک ہے جس کی فوجیں ناٹو کے ماتحت افغانستان میں موجود ہیں۔ ترکی افغانستان میں امن کے قیام اور معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ افغان گروہوں میں مصالحت پیدا کرنے اور مذاکرات کے لیے استنبول ایک اچھا مرکز بن سکتا ہے۔ 

چین:

دنیا کی نئی اور تیزی سے رُوبہ ترقی عالمی معاشی طاقت چین بھی انتہائی شمال میں افغانستان کے ساتھ ہمسایگی کا درجہ رکھتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھی اس کا افغانستان میں کردار بہت محدود ہے۔ ایک زمانے میں افغانستان کی کمیونسٹ پارٹیاں ’شعلہ جاوید‘اور ’افغان ملت‘کو چینی کمیونسٹ پارٹی کی اعانت حاصل تھی لیکن وہ روس نواز خلق اور پرچم پارٹیوں کے مقابلے میں بہت کمزور تھیں۔ اب یہ عنصر زیادہ تر پختون قوم پرست گروپوں میں پایا جاتا ہے۔ چین کو طالبان دورحکومت میں ان کی جانب سے چینی کاشغر میں مسلم باغی گروپوں کے ساتھ روابط پر اعتراض تھا۔ اب چین افغانستان میں امریکی موجودگی کی وجہ سے بہت محتاط ہے۔ لیکن آیندہ دور میں چین افغانستان کی تعمیر نو اور معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔

ایران:

افغانستان میں ایران کا کردار بہت اہم ہے۔ پاکستان کی طرح ایران نے بھی روسی جارحیت کے دوران لاکھوں افغان پناہ گزینوں کو پناہ دی تھی۔ ان کے افغانستان کے مختلف طبقات خاص طور پرشیعہ آبادی کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں۔ آزاد خارجہ پالیسی کی بدولت ایران نے مختلف الخیال افغان گروپوں کے ساتھ تعلقات برقرار رکھے ہیں۔ جب انجینیرحکمت یار سابق وزیر اعظم افغانستان پر سخت وقت آیا تھا تو کچھ عرصے تک وہ ایران میں رہے اور ایرانی حکومت نے ان کی میزبانی کی۔ موجودہ صدر حامد کرزئی اور ان کی حکومت کو بھی ایران کی معاونت حاصل ہے۔ حزب وحدت کے ساتھ ساتھ ان کے طالبان کے ساتھ بھی تعلقات ہیں۔ ایران میں کئی کانفرنسوں میں ان کے نمایندہ وفود شریک ہوتے ہیں۔ افغانستان کی تعمیر و ترقی میں بھی و ہ اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ ایرانی بندرگا ہ چاہ بہار ، افغانستان کے لیے ایک متبادل بحری راستے کا ذریعہ بن چکی ہے جہاں سے ایک پختہ سڑک بھی ایران نے افغانستان کی سرحد تک تعمیر کی ہے جس کا افغانستان میں زیادہ تر حصہ بھارت نے مکمل کیا ہے۔ آیندہ دور میں بالخصوص امریکی و ناٹو افواج کے انخلا کے بعد ایران کا کردار افغانستان کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے۔

بھارت:

بھارت اگرچہ افغانستان کا براہ راست پڑوسی ملک نہیں ہے لیکن اس کا افغانستان کے ساتھ طویل تاریخی ،سماجی ،سیاسی و معاشی تعلق رہا ہے۔ اس لیے وہ اس کو اپنی توسیع ہمسایہ (Extended Neighbourhood)قرار دیتا ہے۔ بھارتی قیادت نے مہاتما گاندھی سے لے کر  من موہن سنگھ تک افغانستان کے ساتھ ہر دور میں اپنا تعلق بر قرار رکھا ہے۔ جب افغانستان پر روسی قبضے کے بعد ببرک کارمل کی کٹھ پتلی حکومت قائم تھی، تو بھارت غیر کمیونسٹ ممالک میں واحد ملک تھا جس نے اس کی حکومت کو سفارتی سطح پر قبول کیا تھا۔ صرف طالبان حکومت کا دور ایسا وقت تھا جب وہ افغان امور سے بے دخل ہو گیا تھا۔ اس لیے امریکی مداخلت کے بعد اس نے سب سے پہلے اپنا سفارت خانہ فعال کیا ۔اس وقت وہ کرزئی حکومت کے حامیوں میں ایک اہم طاقت کا کردار ادا کررہا ہے۔ ملک کی تعمیر نو کے لیے اس نے ایک خطیر رقم ۲؍ارب امریکی ڈالر بڑے بڑے ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کی ہے اور ہر شعبۂ زندگی میں اس کی شرکت موجود ہے۔ بڑے منصوبوں میں زارنج سے دلارام تک ۲۱۸کلومیٹر سڑک (جو افغانستان کو ایرانی بندرگاہ سے ملاتی ہے)، پل خمری سے کابل تک ۲۲۰ کے وی کی برقی ٹرانسمیشن لائن ،ہرات میں سلمہ ڈیم (جس پر ایران کو اعتراض ہے )، افغان پارلیمنٹ کی عمارت ، افغان ٹی وی نیٹ ورک اور کئی تعلیمی منصوبے شامل ہیں۔ بھارت مستقبل میں بھی افغانستان میں اپنی موجودگی برقرار رکھنا چاہتا ہے اور اس کے لیے ہر قیمت ادا کرنے کو تیار ہے۔

پاکستان:

پاک افغان تعلقات کا ایک اہم سنگ میل۱۹۶۵ء کی پاک و ہند جنگ ہے۔ اس نازک موقعے پر ظاہر شاہ نے پاکستان کو یقین دہانی کرائی کہ آپ اپنی مغربی سرحدوں سے بے فکر ہو جائیں۔ اسی طرح ۱۹۷۱ء کی جنگ میں بھی افغان حکومت نے پاکستان کی درپر دہ حمایت کی۔ سردار محمد دائود خان جب بر سر اقتدار آئے تو انھوں نے بھی پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کیے اور غالباً یہی ان پر روسی عتاب کی ایک وجہ بنی۔ نور محمد ترکئی اور حفیظ اللہ امین کے ادوار میں پاکستان کے ساتھ تعلقات میں بگاڑ پیدا ہوا اور بالآخر ۱۹۷۹ء میں روسی جارحیت کے بعد سفارتی تعلقات منقطع ہو گئے۔ لیکن یہی وقت تھا جب عوامی سطح پر ایک بڑے پیمانے پرتعلق قائم ہوا۔ انسانی تاریخ کے سب سے بڑے انخلا کے موقع پر پاکستان نے لاکھوںافغان مہاجرین کے لیے اپنا دامن  کھول کر انصارِ مدینہ کا کردار ادا کیا۔

پاکستان نے لُٹے پٹے افغان مردوں، عورتوں اور بچوں کو ہر ممکن سہولتیں فراہم کیں اور  دل کھول کر ان کی میزبانی کی۔ اس کے ساتھ ساتھ تمام مجاہدین گروپوں کی بھی مدد کی اور آزاد دنیا نے افغانستان پر روسی تسلط اور تباہی و بربادی کی جو مذمت کی پاکستان اس میں پیش پیش رہا۔ پاکستان کا یہ تاریخی کردار ایک لازوال داستان ہے اور ہر افغان شہری جو اس خوف ناک صورت حال سے دوچار ہوا تھا اس کو اپنے دل میں بسائے ہوئے ہے۔ ۱۹۸۸ئمیں جینوا معاہدے میں پاکستان کا اہم کردار رہا اور نجیب حکومت کے خاتمے کے بعد مجاہدین کی حکومت کے قیام میں بھی پاکستان نے کلیدی کردار ادا کیا۔ پھر جب ۱۹۹۶ئمیں افغانستان میں طالبان حکومت قائم ہوئی تو پاکستان اُن تین مسلم ممالک میں شامل تھا جس نے اس کو رسمی طور پر تسلیم کیا اور اس کی بھر پور حمایت کی ۔

 ۲۰۰۱ء کے آخر میں جب امریکا کی قیادت میں ناٹو افواج نے اسامہ بن لادن کے تعاقب میں افغانستان پر دھاوا بولا تو پاکستانی عسکری قیادت نے امریکی وزیر دفاع کولن پاول کی دھمکی پر یوٹرن لیتے ہوئے طالبان کے خلاف ان کا ساتھ دیا۔ اس طرح افغانستان میں طالبان حکومت کا خاتمہ ہوا۔ ۲۰۰۲ء میں ایک اور افسوسناک واقعہ ہوا جب پاکستانی حکومت نے افغانستان کے اسلام آباد میں سفیر مُلّا عبدالسلام ضعیف کو امریکا کے حوالے کیا۔ بون کانفرنس کے موقعے پر پاکستان نے افغانستان میں کرزئی حکومت کو تسلیم کیا۔ بعد میں پاکستان اور افغانستان کا ایک مشترکہ قومی جرگہ بھی صلح و امن کے لیے قائم کیا گیا ۔۲۰۱۰ء میں نیا پاک افغان تجارتی معاہدہ بھی طے پایا جس میں افغان تاجروں کو درآمد ات کے لیے کافی سہولتیں دی گئیں۔

پاک افغان تعلقات نئی جہتیں:

افغانستان اور پاکستان کے درمیان ۲۲۵۰کلومیٹر طویل سرحد ہے۔ کئی پختون اور بلوچ قبائل دونوں طرف آباد ہیں۔ دینی ،مذہبی ،سماجی و تہذیبی رشتے ہیں۔ کراچی کی بندرگاہ افغانستان کے لیے بھی اسی طرح اہم ہے جس طرح پاکستان کے لیے۔ نئی گوادر بند ر گاہ افغانستان کو مزید قریب لا سکتی ہے۔ طور خم اور چمن بارڈر دنیا کی مصروف ترین بین الاقوامی گزر گاہیں ہیں جو دونوں ممالک کے شہریوں کو آپس میں ملاتی ہیں۔ ہزاروں افراد دونوں طرف سے بغیر ویزے کے روزانہ آتے جاتے ہیں۔ پاکستان نے افغانستان کی تعمیر و ترقی میں بھی اپنا کردار ادا کیا ہے اور ۳۳۰ملین ڈالر سے زائد رقم ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کی ہے۔ پاکستان اور افغانستان کی باہم تجارت کا حجم سالانہ ۳ہزار ملین امریکی ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے۔ غیررسمی تجارتی تبادلہ اس سے کئی گنا زیادہ ہے۔ پاکستان اس وقت بھی لاکھوں افغان مہاجرین کو پناہ دیے ہوئے ہے اور تما م تر مشکلات اور مسائل کے باوجود ان کے قیام میں مسلسل توسیع کر رہا ہے۔ کابل میں پاکستانی سفارت خانہ روزانہ ۱۲۰۰ملٹی پل وزٹ ویزے بلامعاوضہ جاری کرتا ہے اور روزانہ ۵۰ہزار افغانی بغیر ویزے کے پاکستان میں داخل ہوتے ہیں۔ پاکستان کے طبی ادارے افغانوں کو علاج معالجہ فراہم کرنے میں سرفہرست ہیں۔ گذشتہ چند سال میں ۳۰ہزار سے زائد افغان طالب علموں نے پاکستان سے گریجویشن کی ہے۔ پاکستان ۲ہزار سے زائد تعلیمی وظائف افغان طلبہ کو دیتا ہے۔

اسلام آبادی کی بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی خاص طور پر افغان طلبہ کی ایک پسندیدہ جامعہ ہے جہاں و ہ سیکڑوں کی تعداد میں زیر تعلیم ہیں۔ اس وقت بھی افغان حکومت میں کئی کلیدی عہدوں پر متمکن شخصیات اسی جامعہ سے فارغ التحصیل ہیں۔ افغانستان میں پاکستانی حکومت کے اشتراک سے جو تعلیمی ادارے قائم ہوئے ہیں ان میں رحمان بابا ہائی سکول کابل ،علامہ اقبال فیکلٹی آف آرٹس کابل ،سرسیّد فیکلٹی جلال آباد اور لیاقت علی خان انجینیرنگ فیکلٹی بلخ شامل ہیں۔

مستقبل میں پاک افغان تعلقات کا ایک درخشان دور ممکن ہے۔ TAPIگیس پائپ لائن کے ساتھ برقی لائن بھی آسکتی ہے۔ دریاے کابل کے پانی کے استعمال کے لیے ایک آبی معاہدہ بھی زیر غور ہے ۔۲۰لاکھ افغان مہاجرین کی افغانستان واپسی کا خواب بھی شرمندۂ تعبیر ہو سکتا ہے۔ سب سے بڑھ کر پاکستانی ریلوے لائن جو انگریزوں کے دور میں طور خم تک پہنچ چکی تھی اور اب تک وہاں بچھی ہوئی ہے اگر جلال آباد تک بن جائے تو افغانستان کی معاشی ترقی کو زبردست مہمیز مل سکتی ہے۔ ان تمام کاموں کے لیے افغانستان میں ایک مستحکم جمہوری اسلامی حکومت کا قیام ازبس ضروری ہے جو تمام افغان اقوام کے لیے قابل قبول ہو اور ملک میں امن اور قانون کی بالادستی قائم کر سکے۔

پاکستان کے ساتھ افغانستان کا دیرینہ تنازعہ ڈیورنڈ لائن کو مسلمہ بین الاقوامی سرحد تسلیم کرنا بھی مستقبل میں پاک افغان تعلقات کو مستحکم کرنے میں ایک اہم نکتہ ہے۔ افغانستان سے پاکستان کے راستے منشیات کا فروغ بھی بہت خطرناک مضمرات رکھتا ہے۔

افغانستان میں بھارت کا کردار بذات خود کوئی بری چیز نہیں لیکن اس کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنا ہمارے لیے پریشانی کا باعث بن سکتا ہے۔ دونوں ممالک کا وسطی ایشیائی ممالک سے تعلق اور وہاںکی تجارتی منڈیوں تک رسائی کی بہت اہمیت ہے ۔

۲۰۱۴ء افغانستان کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ صدارتی انتخابات ،پارلیمانی انتخابات، ناٹو افواج کا انخلا جیسے اہم واقعات اس سال وقو ع پذیر ہوں گے ۔ صدارتی انتخابات میں اہم ترین نکتہ افغانستان میں صلح و امن کے لیے مذاکرات ہیں۔ ہر صدارتی امیدوار کی خواہش ہے کہ وہ متحارب گروہوں کے ساتھ مذاکرات کرے اور اس کی کامیابی کے لیے وہ ہر تدبیر اختیار کرنے کو تیار ہے۔ ہماری دعا ہے کہ ایسا ہو اور افغان گروہ آپس میں بیٹھ کر معاملات طے کریں اور ملک میں امن قائم ہو۔

 پاکستان کا افغانستان میں بہت اہم کردار ہے۔ بالعموم افغان دانشور اور عوامی راے عامہ پاکستان سے شاکی ہیں اور افغانستان میں ہر بُرے واقعے کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھیراتے ہیں۔ اس رویے پر حیرت ہوتی ہے اور افسوس بھی۔ لیکن پاکستانی حکومت اور اس کی ایجنسیوں کا رویہ کئی طرح سے ناقابل فہم اور مشکوک رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت پاکستان افغانستان میں ایک آزاد اور مستحکم جمہوری حکومت کے قیام میں مدد دے ۔وہ افغانستان کے داخلی معاملات میں کسی بھی قسم کی مداخلت سے گریز کرے۔ کسی مخصوص گروپ یا قومیت کی حمایت نہ کرے بلکہ بحیثیت مجموعی افغان ملت کی پشتیبانی کرے۔ افغان قوم کے مفاد میں جو چیز بہتر ہے وہی ہمارے لیے بھی بہتر ہے۔ ہماری منفعت اور نقصان ایک ہے۔ ہمیں اس کی اقتصادی اور معاشی ترقی میں اپنا بھر پور کردار ادا کرنا ہے۔ بین الاقوامی تجارت ، صنعت و حرفت، برآمدات و درآمدات ، بنکاری غرضیکہ ہرمیدان میں ہم ان کی حمایت میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا میں بھی ہم ضامن کا کردار ادا کر یں۔ افغانستان میں ایک مضبوط جمہوری اسلامی حکومت کا قیام ہر پاکستانی کی آرزو و تمنا ہے لیکن اصل کام انھوں نے خود کرنا ہے۔ اپنے مسائل خود حل کرنے ہیں، اپنی قیادت خود منتخب کرنی ہے اور اپنا مستقبل اپنے ہاتھوں سے تعمیر کرنا ہے۔ قومیں مشکلات و مصائب سے گزر کر کندن بنتی ہیں اور افغان ملت میں وہ تمام صفات موجود ہیں جو ایک عظیم قوم کا خاصہ ہوتی ہیں۔

(یہ اس مقالے کا ایک حصہ ہے جو مقالہ نگار نے ۱۳فروری ۲۰۱۴ء کو کابل میں افغانستان کے مرکزمطالعات استراتیژیک و منطقوی کے تحت ایک بین الاقوامی سیمی نار میں پڑھا۔)

مخالفین طعنہ دیتے ہیں کہ: ’’انھوں نے دعوت چھوڑ کر سیاست اپنا لی ہے‘‘۔ مغرب نے بھی اسلامی تحریکوں کے لیے ’سیاسی اسلام‘ کی اصطلاح گھڑرکھی ہے۔ اس کے بقول یہ اسلام کی سب سے خطرناک قسم ہے۔ لیکن اسلامی تحریک کے کارکن بھی عجیب ہیں، سنگین سیاسی بحران عروج پر ہے، خونیں فوجی انقلاب دن رات قتلِ عام کر رہا ہے، ۲۱ہزار سے زائد کارکنان جیلوں میں ہیں، نام نہاد عدالتیں آئے روز طویل قید کی سزائیں سنارہی ہیں لیکن مصر کی طالبات نے نئی مہم شروع کردی ہے۔ مہم کا عنوان ہے: صلاۃ الفجر بدایۃ النصر،’’نمازِ فجر آغازِ نصر‘‘۔

طالبات کے بقول: فرعون سیسی کے خلاف ہماری ساری تحریک اللہ کی خاطر ہے، اللہ کو منائے بغیر اس کی نصرت شاملِ حال نہیں ہوسکتی۔ طالبات ضد الانقلاب، نامی طالبات تحریک نے اپنی نئی مہم کے لیے مختلف اسٹکر، پٹیاں، پوسٹر اور پمفلٹ تیار کیے ہیں اور وہ فرداً فرداً تمام طالبات سے وعدہ لے رہی ہیں کہ نمازِ فجر کا خصوصی اہتمام کریں گی، جس کا مطلب ہے کہ باقی نمازیں بدرجۂ اولیٰ ادا ہوں گی۔ اس مہم کی ایک ذمہ دار تسبیح السید کے بقول ہماری مہم توقع سے بھی زیادہ کامیاب ہورہی ہے اور طالبات کے ذریعے ہمارا پیغام ان کے اہلِ خانہ تک بھی پہنچ رہا ہے۔

مصر کے پہلے منتخب جمہوری صدر محمد مرسی کو ایک سالہ اقتدار کے بعد ہی رخصت کرتے ہوئے، قابض خونیں جرنیلوں نے پورا ملک خاک و خون میں نہلا دیا ہے۔ مصری عوام کی اکثریت اس فوجی انقلاب کو مسترد کررہی ہے۔ گذشتہ تقریباً نوماہ میں کوئی ایک روز بھی ایسا نہیں گزرا جس میں انقلاب مخالف مظاہرے نہ ہوئے ہوں۔ جنرل سیسی نے اپنے پیش رو مصری حکمرانوں کی طرح نہتے شہریوں کو کچلنے کے لیے ہرہتھکنڈا آزما کر دیکھ لیا ہے۔ لیکن ہرظلم اور ہرجبر عوامی تحریک کو مزید توانا کرنے کا ذریعہ ہی بن رہا ہے۔ سب تجزیہ نگار حیرت زدہ ہیں کہ ۸ہزار کے قریب شہدا پیش کرکے بھی اخوان کیوں کر میدان میں کھڑے ہیں۔ صلاۃ الفجر بدایۃ النصر مہم اس حیرت و استفسار کا ایک واضح جواب ہے۔ یہی مہم نہیں، اخوان کی پوری تاریخ اور پوری تحریک ہی  اس تعلق باللہ کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ امام حسن البنا کی یہ ہدایت کہ ہمارا ایک روز بھی اللہ کی کتاب سے ملاقات کیے بغیر نہ گزرے، ہر کارکن نے مضبوطی سے پلے باندھ رکھی ہے۔ اخوان کے کارکنان نے یہ بھی ثابت کردیا کہ وہ قرآن کریم کو دل کی نگاہوں سے پڑھتے اور عمل میں ڈھال دیتے ہیں۔ پھر یہی قرآن ہر ظلم کے مقابلے میں ان کی ڈھال بن جاتا اور انھیں ثابت قدم رکھتا ہے۔

گذشتہ تین سالہ عرصے میں اخوان کے بیانات، مضامین، مظاہروں اور اجتماعات میں ہرطرف یہی قرآنی رنگ نمایاں دکھائی دیتا ہے۔ جامعہ ازہر کے طلبہ کا یہ بیان ملاحظہ فرمایئے۔ ۲۲مارچ کو جاری ہونے والے بیان کا عنوان ہے: سَنُحَاجِجُکُمْ بکل ما اقترفتموہ فی دنیاکم واخراکم ’’ہم دنیا و آخرت میں تم سے تمھارے جرائم کا حساب لیں گے‘‘۔ یہ بیان جامعہ ازہر کے ۱۶طلبہ کو تین تین سال قید کی سزا سنائے جانے کے بعد جاری کیا گیا ہے۔ ان طلبہ پر الزام تھا کہ انھوں نے جامعہ میں مظاہرہ کیا۔ طلبہ اپنا مذکورہ بالا بیان دے کر گھر نہیں بیٹھ گئے۔ یہ بیان بھی ایک نئے مظاہرے کے دوران دیا گیا۔ اس دوران جامعہ ازہر طلبہ یونین کے قائم مقام صدر (صدر گرفتار ہے) نے عدلیہ سے مخاطب ہوتے ہوئے یہ اشعار بھی پڑھے کہ:

اذا جار الامیر وحاجباہ

وقاضی الارض أسرف فی القضاء

فویل ثم ویل ثم ویل

لقاضی الارض من قاضی السماء

(جب حکمران اور اس کے مصاحب ظلم ڈھانے لگیں، اور دنیا کے جج بے انصافی پر اُتر آئیں، تو پھر دنیا کے ججوں کے لیے منصف ِ کائنات کی طرف سے ہلاکت ہے، ہلاکت ہے، ہلاکت ہے۔)

۲۱ہزار سے زائد جو بے گناہ کارکنان جیلوں میں عذاب و اذیت جھیل رہے ہیں وہ بھی اسی عزم و یقین سے سرشار ہیں۔ ذرا اخوان کے رکن اسمبلی حمدی اسماعیل کو دیکھیے۔ وہ خود بھی گرفتار ہیں اور ان کا بیٹا ایک دوسری جیل میں پابند سلاسل ہے۔ حال ہی میں ان کے دوسرے بیٹے کو حکومتی سرپرستی میں اغوا کرلیاگیا اور رہائی کے لیے ۸۰لاکھ پائونڈ (تقریباً سوا ارب روپے) تاوان کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ حمدی اسماعیل نے اسی دوران کسی طرح اپنا تحریری پیغام اہلِ خانہ کو بھجوایا ہے،   لکھتے ہیں: ’’عزیزرفیقۂ حیات! امید ہے آپ بخیریت ہوں گے۔ ہمیں یہ بات کبھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں آزما رہا ہے۔ وہ ہمیں گناہوں سے پاک کرنا چاہتا ہے اور ہمیں دنیا ہی میں اس وعدے سے نواز رہا ہے کہ آخرت کی منزل بہت خوب ہوگی۔ پروردگار ہم بندوں پر خود ہم سے بھی زیادہ مہربان ہے وگرنہ وہ اپنے انبیاے کرام ؑ کو بھی آزمایشوں میں کیوں مبتلا کرتا۔ ذرا ان آیات کی تلاوت کر کے دیکھو: وَاذْکُرْ عَبْدَنَــآ اَیُّوبَم اِِذْ نَادٰی رَبَّہٗٓ…(صٓ ۳۸:۴۱-۴۹)۔ اب آپ بھی ارادوں کو مضبوط کرلیں اور جدوجہد مزید تیز کردیں تاکہ ہم اپنی آزمایش میں سرخرو ہوسکیں۔ یہ زندگی، اصل زندگی کا صرف ایک منظر ہے۔ اس میں ہمیں اپنی بہترین پونجی آخرت کے لیے پیش کرنا ہے۔ یقینا اللہ ہی کا فیصلہ غالب رہے گا،لیکن اکثر لوگ جانتے نہیں‘‘۔

یہ کوئی اکلوتا خط یا اکلوتا اظہار نہیں، ہر کارکن اور ہر اسیر اسی جذبے سے سرشار ہے۔ ایک اسیر کے یہ جملے ملاحظہ کیجیے جو وہ اپنے معصوم بیٹے کے نام خط میں لکھ رہے ہیں: ’’جانِ پدر! ذرا سوچو اگر میں اس تحریک میں گرفتار نہ ہوتا اور خدانخواستہ کسی ٹریفک حادثے کا شکار ہوجاتا، یا کوئی بیماری مجھے آن لیتی، تو اس صورت میں بھی صبر ہی کرنا پڑتا۔ یاد رکھو کہ ہمیں بہرصورت اللہ کے فیصلوں پر راضی رہنا ہے۔ ہم سب اللہ کے بندے ہیں۔ اس کے فیصلوں کے سامنے سرتسلیم خم کرنا ہی آخر ت میں کامیابی کا ذریعہ بنے گا۔ تمھیں اپنے آپ کو ایک ذمہ دار انسان ثابت کرنا ہے۔ قرآن کی تلاوت کبھی نہ چُھوٹے۔ نماز باجماعت ادا ہو، اپنی والدہ کو خوش رکھیں اور اس آزمایش میں ان کے معاون بنیں۔ اصل مردانگی کردار واخلاق کا نام ہے۔ اگر اس کڑے وقت میں بہادری نہ دکھائی تو آخر کب اس کا موقع آئے گا۔ اللہ سے ہردم مدد طلب کرتے رہو اور کبھی کسی کمزوری کو قریب نہ پھٹکنے دو‘‘۔

ظلم و جبر کے مقابلے میں اخوان کی ثابت قدمی پر حیرت کا اظہار کرنے والوں کو ان کی قوت کا یہ اصل راز معلوم ہے، لیکن ہرفرعون کی طرح اقتدار کا نشہ انھیں بھی اس غلط فہمی کا شکار کیے ہوئے ہے کہ ’’سب کو تہِ تیغ کردیں گے۔ میرا اقتدار ہی میری قوت رہے گا‘‘۔ اخوانی کارکنان کا موسوی کردار جب ان کی چالوں کو بودا ثابت کرتا ہے، تو ظلم و تشدد پاگل پن کی آخری حدیں جاچھوتا ہے۔ پہلے تو اخوان کو دہشت گرد اور غیرقانونی قرار دیا تھا، اب فلسطین کی تحریک حماس کو بھی دہشت گرد قرار دے دیا گیا ہے۔ مصر کے ساتھ ساتھ اہلِ غزہ پر غصہ اُتارنے کی سعی لاحاصل میں تیزی آگئی ہے۔ ماہِ رواں کے دوران بھی غزہ کی حدود سے متصل کئی کلومیٹر کا علاقہ خاک میں ملا دیا گیا ہے۔ اسرائیل اور اس کے عالمی سر پرستوں کو اپنی وفاداری کا یقین دلانے کے لیے پورے سرحدی علاقے کے رہایشی علاقوں کو بارود سے اُڑا کر بلڈوزر چلا دیے گئے ہیں۔ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق مصری انتظامیہ گذشتہ چند ماہ میں ۱۳۵۰ سے زائد سرنگیں تباہ کرچکی ہے، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اہلِ غزہ کی زندگی کی ڈور انھی سرنگوں سے بندھی ہے۔ ساتھ ہی ایک عدالتی فرمان کے ذریعے مصر میں موجود حماس کے تمام ’اثاثہ جات‘ ضبط کرلینے کا اعلان کردیا گیا۔ حماس کے ترجمان نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’سیسی انتظامیہ اب ذرا ان اثاثہ جات کا اعلان بھی کردے کیوں کہ ہمارے علم کے مطابق وہاں ہمارے کوئی اثاثہ جات ہیں ہی نہیں‘‘۔ گویا کہ مصری فرمان کا اصل ہدف صہیونی ریاست کو خیرسگالی کا پیغام دینا ہی تھا۔

جنرل سیسی کے اقتدار کو استحکام و دوام بخشنے کے لیے ابتدائی ایام ہی سے ایک مہم یہ شروع کردی گئی تھی کہ اب اس مدارالمہام کو منصب ِصدارت بھی سنبھال لینا چاہیے۔ کئی بار تو ایسی فضا بنادی گئی کہ اعلانِ صدارت گویا اب چند روز کی بات ہے، لیکن نامعلوم وجوہات کی بناپر ابھی تک مصری عوام پر یہ احسانِ عظیم نہیں کیا جاسکا۔ مصری اور مغربی تجزیہ نگار اس کی کئی وجوہات بتاتے ہیں۔ ان تجزیوں کا مشترک نکتہ یہی ہے کہ خود حکمران ٹولے میں بھی اس بارے میں گہرے اختلافات پائے جاتے ہیں۔ صدرمنتخب ہونے کے لیے جنرل سیسی کو بھی وردی اُتارنا پڑے گی۔ ہزاروں بے گناہوں کا خون اپنے اقتدار کی بھینٹ چڑھا دینے والے کو اپنے دائیں بائیں بیٹھے وردی والوں پر ابھی     یہ بھروسا نہیں کہ وردی اُترتے ہی وہ اس کا کام تمام نہیں کردیں گے۔ رہی سہی کسر ایک ’نامعلوم‘   فون کال کے ذریعے پوری کی جارہی ہے۔سرکار کے ترجمان ایک ٹی وی چینل پر موصولہ یہ کال کسی ’وحید‘ نامی شخص کی ہے۔ مصر کے ایک معروف تجزیہ نگار ڈاکٹر حلمی القاعود کے مطابق گذشتہ تقریباً چاربرس میں ’وحید‘ کی یہ چوتھی فون کال تھی۔ اس کا نمبر یا ٹھکانا کبھی معلوم نہیں کیا جاسکا۔ پہلی کال حسنی مبارک کے خلاف عوامی جذبات عروج پر پہنچ جانے کے دوران آئی تھی، جس میں اس نے دعویٰ کیا تھا کہ حسنی مبارک کے اقتدار کا خاتمہ ہوجائے گا۔ جمال مبارک اس کا وارث نہیں بن سکے گا۔ دوسری کال صدر محمد مرسی کے انتخاب کے بعد تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ صدر مرسی کا اقتدار جلدختم ہوجائے گا۔ تیسری کال جنرل سیسی کے برسرِاقتدار آنے کے بعد تھی جس میں دعویٰ تھا کہ وہ صدارتی انتخاب نہیں لڑیں گے۔ چوتھی کال چند ہفتے قبل آئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ملک کا اصل اقتدار اس وقت منظرعام پر موجود فوجی قیادت کے ہاتھ میں نہیں، خفیہ قیادت کے ہاتھ میں ہے۔ جنرل سیسی اس قیادت کا مجرد ایک آلۂ کار ہے۔ ملک کا آیندہ صدر وہ نہیں بلکہ اسی خفیہ فوجی قیادت میں سے کوئی شخص ہوگا جس کا نام ابھی کسی کے سامنے نہیں ہے۔ اسی چوتھی کال میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ صدر محمد مرسی کو جیل سے رہا کردیا جائے گا، لیکن پھر اغوا کرکے زندگی سے محروم کردیا جائے گا۔ ڈاکٹر حلمی قاعودکے مطابق: ’وحید‘ کوئی نام نہاد نجومی یا علمِ غیب رکھنے والا کردار نہیں بلکہ اسی ’اصل خفیہ قیادت‘ کا کوئی ’خفیہ ترجمان‘ ہے جو ان پیغامات کے ذریعے ایک تیر سے کئی کئی شکار کرنا چاہتا ہے۔

اسی عرصے میں فوج کے سابق سربراہ فیلڈمارشل طنطاوی جو ۱۹۹۱ء سے ۲۰۱۲ء تک کے طویل ۲۱برس تک فوجی سربراہ اور وزیردفاع رہے، بھی ذرائع ابلاغ میں نمودار ہوئے اور انھوں نے ملک کی اکلوتی جمہوری منتخب حکومت سے نجات پانے پر خوشی کا اظہار کیا ہے۔جنرل سیسی نے بھی اپنے اس پیش رو کی خوشامد نُما تعریفوں کے پُل باندھے ہیں۔ ڈاکٹر حلمی کے مطابق جنرل طنطاوی نے اپنے انٹرویو میں تقریباً ۲۰مرتبہ ایک لفظ استعمال کیا اور وہ تھا: ’مُخَطَّطْ: منصوبہ‘۔ ان کا کہنا تھا کہ ۳۰جون ۲۰۱۳ء کو عوام بھی یہ منصوبہ سمجھ گئے اور صدرمرسی کے خلاف نکل آئے۔ جنرل طنطاوی نے جب بار بار ’منصوبے‘ کا ذکر اور اخوان سے نجات پر خوشی ظاہر کی تو انٹرویو کرنے والے نے پوچھ ہی لیا کہ ’’پھر آخر آپ لوگوں نے اخوان کو اقتدار دیا ہی کیوں؟‘‘ جواب میں انھوں نے    مصری لہجے میں بے اختیار تین بار کہا: ’’مَاسَلَّمْتُھَاشْ… مَاسَلَّمْتُھَاشْ… مَاسَلَّمْتُھَاشْ، ’’میں نے انھیں اقتدار نہیں سونپا… میں نے نہیں سونپا… میں نے نہیں سونپا‘‘۔ ہم نے عوام کے اصرارپر انتخابات کروائے اور عوام نے اخوان کو ملک پر قابض ہونے کا موقع دے دیا‘‘۔

ان تمام حقائق سے قرآن کریم کے الفاظ کے مصداق: قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَآئُ مِنْ اَفْوَاھِھِمْ (اٰلِ عمرٰن ۳:۱۱۸) ’’ان کے دل کا بُغض ان کے منہ سے نکلا پڑتا ہے‘‘،عوام کا یہ یقین مزید مستحکم ہوگیا ہے کہ جابر فرعونی نظام سے نجات کے لیے قربانیوں کا یہی سفر ناگزیر ہے۔ اخوان کے کارکنان سیّدقطب شہیدؒ کے یہ الفاظ ایک دوسرے کو سنا رہے ہیں کہ: ’’اللہ کی نصرت آنے میں دیر لگ سکتی ہے، کیونکہ قدرت یہ چاہتی ہے کہ باطل کا باطل ہونا دنیا کے سامنے کھل کر آجائے۔ اگر باطل پوری طرح کھوٹا ثابت ہوئے بغیر مغلوب ہوجائے، تو ہوسکتا ہے کہ بعض لوگ اس سے پھر دھوکا کھاجائیں۔ اللہ چاہتا ہے کہ باطل کو پوری مہلت ملے ،یہاں تک اس کے بارے میں کسی کو کوئی شبہہ نہ رہ جائے اور پھر اس کے زوال پر کسی کو کوئی افسوس نہ ہو‘‘۔

اخوان بھی یقینا انسان ہیں اور بلااستثنا ہر انسان قرآن کریم کی اطلاع کے مطابق کمزور بنایا گیا ہے، لیکن آزمایشوں کی بھٹی نے انھیں ایسا کندن بنادیا ہے کہ ہر عذاب و آزمایش کے بعد پہلے سے زیادہ مضبوط و توانا ہوکر اُبھرتے ہیں۔ گذشتہ تمام قتل و غارت سے شکستہ یا مایوس ہونے کے بجاے انھوں نے ۱۹مارچ سے تحریک کا مزید پُرجوش دوسرا مرحلہ شروع کر دیا ہے۔ اگرچہ مظاہرے تو پہلے بھی ایک دن کے لیے نہیں رُکے تھے، لیکن نئے مرحلے کے پہلے ہی روز ملک بھر میں ۳۵۰مظاہرے ہوئے۔ اس وقت فوجی انقلاب مخالف درجنوں تنظیمیں میدان میں ہیں۔ طلبہ، طالبات، خواتین، مزدور، ڈاکٹر، کسان، اساتذہ___ ہر میدان میں الگ تنظیم و تحریک ہے۔ سب ہی اپنے اپنے شہدا پیش کررہے ہیں۔ اس تحریر کے دوران ہی ایک۱۴سالہ بچے عمرو کی شہادت کی خبر بھی ملی ہے اور ایک صحافی خاتون کی بھی۔پھولوں جیسے معصوم عمرو کے والدین نے آنسو بہائے لیکن الحمدللہ کا ورد کرتے ہوئے یہی کہتے رہے: ’’لخت جگر چلا گیا… لیکن کچھ عرصے سے یقین ہوچلا تھا کہ اسے تو ضرور ہی شہادت ملے گی… کوئی جلوس یا مظاہرہ ایسا نہیں ہوتا تھا کہ عمرو کو اس کا پتا ہو  اور وہ مظاہرین اور زخمیوں کو پانی پلانے کے لیے اس میں نہ چلا گیا ہو‘‘۔

خاتون صحافی رقیہ اسلام جامعہ ازہر کے ایک بڑے عالم دین جناب ہاشم اسلام کی صاحبزادی تھیں۔ وہ صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ یونی ورسٹی کی طالبہ بھی تھیں۔ ہاشم اسلام کا کہنا ہے کہ ’’انھوں نے میری رقیہ کو نہیں، مجھے سزا دی ہے کیوں کہ مَیں نے جنرل سیسی کے حق میں فتویٰ دینے سے انکار کردیا تھا… اگر مجھے اپنے فتوے اور مبنی بردلیل راے کی قیمت بیٹی کی میت سے بھی زیادہ ادا کرنا پڑتی تو وہ بھی ہیچ تھی۔ البتہ غم اس بات کا ہے کہ جن علماے کرام نے جنرل سیسی کے حق میں فتویٰ دیا تھا، رب کے دربار میں وہ بھی میری بیٹی کے قتل میں برابر کے مجرم قرار پائے‘‘۔

عمر نامی ایک اور نوجوان بھی کئی ماہ قبل اسی تحریک کے دوران زخمی ہوگیا تھا۔ دائیں پہلو سے جسم میں داخل ہونے والی گولی بائیں پہلو سے نکلی تو تمام اندرونی نظام کو کاٹتے ہوئے چلی گئی۔ تب سے علاج جاری ہے، لیکن اُمیدیں بار بار دم توڑ دیتی ہیں۔ ان کی والدہ کا ایک تفصیلی انٹرویو فریڈم اینڈ جسٹس اخبار میں شائع ہوا ہے۔ دیگر باتوں کے علاوہ وہ ایک تاریخی جملہ یہ کہتی ہیں: ’’اگر بیٹے کو شہادت نصیب ہوگئی تو یہ میری خوش بختی ہوگی۔ میرے لیے غم کا سب سے بڑا دن وہ ہوتا جس روز خدانخواستہ میرا بیٹا اللہ کی اطاعت کی راہ سے ہٹ گیا ہوتا‘‘۔

صلاۃ الفجر تحریک،  قرآن سے جڑے ہوئے، شہادت پر نازاں اخوان کو بھی اگر دنیا دہشت گرد قرار دیتی ہے، تو کیا ایسا کرنے والے رب کے حضور بھی کوئی جواز پیش کرسکیں گے…؟

کچھ عرصہ قبل علامہ یوسف القرضاوی صاحب کا شریکِ سفر ہونے کا موقع ملا۔ دورانِ سفر عرض کیا کہ کوئی خاص نصیحت کیجیے۔ کہنے لگے: اگرچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر دعا جامع اور الہامی دعا ہے لیکن یہ دعا کئی حوالوں سے بہت اہم ہے کہ اللھم ارنا الحق حقًا وارزقنا اتباعہ وارنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابہ، ’’اے اللہ! ہمیں حق کو حق دیکھنے اور اس کی پیروی کرنے کی توفیق عطا فرما، اے پروردگار! ہمیں باطل کو باطل سمجھنے اور اس سے اجتناب کی توفیق عطا فرما‘‘۔ آیئے ہم بھی یہی دعا کرتے ہوئے رب کے حضور دست دعا بلند کریں۔     

_______________________________________________________

              ٭ شمارہ اشاعت کے لیے جارہا تھا کہ فرعونِ مصر نے ظلم کی ایک نئی تاریخ رقم کردی۔ مصری عدالت نے دو روز کی ’طویل‘ سماعت کے بعد ۵۲۹ بے گناہ قیدیوں کو ’سزاے موت‘ کی سزا سنادی ہے۔ سزا یافتگان میں اخوان کے مرشدعام ڈاکٹر محمد بدیع، قومی اسمبلی کے منتخب اسپیکر ڈاکٹرسعدالکتاتنی، فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی کے نائب صدر ڈاکٹر محمد البلتاجی سمیت ملک کی نام وَر سیاسی، علمی اور قومی شخصیات شامل ہیں۔

                یہ انوکھا فیصلہ اگرچہ ظلم و جبر کی عدالتی تاریخ کا سیاہ ترین فیصلہ ہے لیکن ہرسننے والا انصاف پسند بلااختیارکہہ اُٹھتا ہے کہ یہ ظلم کی انتہا اور ظالموں کے خاتمے کا اعلان ہے، ان شاء اللہ!

سوال:

حدیث نبویؐ ہے کہ بھلی بات کہو یا خاموش رہو، تو کیا اس حدیث کی روشنی میں زیادہ بولنا حرام ہے؟

جواب:

حضوؐر نے بے شمار حدیثوں میں زبان کی تباہ کاریوں سے خبردار کیا ہے۔ ان میں ایک حدیث یہ بھی ہے: مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الاٰخِرِ فَلْیَقُلْ خَیْراً اَوْ لِیَصْمُتْ (بخاری، مسلم)’’جو شخص اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے، تو اسے چاہیے کہ بھلی بات کہے یا خاموش رہے‘‘۔ ایک دوسری حدیث ہے: رَحِمَ اللّٰہُ اِمْرَئً ا  قَالَ خَیْرًا فَغَنِمَ اَوْ سَکَتَ فَسَلِمَ، ’’اللہ کی رحمت ہو اس شخص پر جس نے بھلی بات کہی اور اجرونعمت کا حق دار ہوا یا خاموش رہا تو محفوظ رہا‘‘۔

بلاشبہہ زیادہ بولنا اور بے وجہ بولتے رہنا انسان کے لیے باعث ِ تباہی اور گناہوں کا سبب ہے۔ امام غزالیؒ نے ان گناہوں کی تعداد ۲۰ بتائی ہے، جو زبان کے غلط استعمال سے سرزد ہوتے ہیں۔ شیخ عبدالغنی نابلسیؒ نے اس تعداد کو ۷۲تک پہنچا دیا ہے۔ ان میں سے اکثر گناہِ کبیرہ کے  قبیل سے ہیں، مثلاً جھوٹ، غیبت، چغلی، جھوٹی گواہی، جھوٹی قسم، لوگوں کی عزت کے بارے میں کلام کرنا اور دوسروں کا مذاق اُڑانا وغیرہ وغیرہ۔

اس لیے بہتر یہی ہے کہ انسان حتی المقدور خاموشی کا راستہ اختیار کرے تاکہ ان گناہوں سے محفوظ رہے۔ خاموش رہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ اپنے ہونٹوں کو سی لے اور زبان پر تالا ڈال لے، بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ انسان کو اس بات کی زیادہ سے زیادہ کوشش کرنی چاہیے کہ وہ اپنی زبان کو کسی بھلی اور معروف بات کے لیے کھولے ورنہ اسے بند رکھے۔

جو لوگ زیادہ بولتے ہیں ان سے اکثر خطائیں سرزد ہوجاتی ہیں اور ان خطائوں کے سبب وہ لوگوں میں مذاق اور استہزاء کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ اسی لیے بندئہ مومن جب بھی کوئی بات کرے اسے اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ خدا کے فرشتے اس کی ہربات نوٹ کر رہے ہیں۔ اللہ فرماتا ہے: مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِِلَّا لَدَیْہِ رَقِیْبٌ عَتِیْدٌo(قٓ۵۰:۱۸)، ’’کوئی لفظ اس کی زبان سے نہیں نکلتا جسے محفوظ کرنے کے لیے ایک حاضرباش نگراں موجود نہ ہو‘‘۔(علامہ یوسف القرضاوی، فتاویٰ یوسف القرضاوی، ص ۵۹-۶۰)

سوال: دوسرے شخص کی طرف سے عمرہ کرنا

جو لوگ حج کے لیے جاتے ہیں وہ وہاں اپنے اعزہ کی طرف سے عمرے کرتے ہیں۔ کیا صرف انتقال کرجانے والے اعزہ کی طرف سے عمرہ کیا جاسکتا ہے یا زندوں کی طرف سے بھی عمرہ کرنے کی اجازت ہے؟

جواب:

  فقہاے کرام نے فی الجملہ دوسرے کی طرف سے عمرہ کرنے کو جائز قرار دیا ہے، اس لیے کہ عمرہ حج کی طرح بدنی عبادت ہونے کے ساتھ مالی عبادت بھی ہے اور شریعت میں مالی عبادات کی دوسرے کی جانب سے انجام دہی کو جائز قرار دیا گیا ہے۔ البتہ اس کی تفصیلات میں ان کے درمیان اختلاف ہے۔

حنفیہ کہتے ہیں کہ کسی دوسرے شخص کی طرف سے عمرہ کرنا اس وقت صحیح ہوگا جب وہ ایسا کرنے کو کہے۔ مالکیہ کے نزدیک دوسرے کی طرف سے عمرہ مکروہ ہے، لیکن اگر کرلیا جائے تو ادا ہوجائے گا۔ شوافع کہتے ہیں کہ دوسرے کی طرف سے عمرہ کرنا اس وقت صحیح ہے جب اُس شخص پر عمرہ واجب رہا ہو اور اس کی ادائی سے قبل اس کا انتقال ہوگیا ہو، یا نفلی عمرہ، وہ خود نہ کرسکتا ہو۔  حنابلہ کہتے ہیں کہ کسی میت کی طرف سے عمرہ کیا جاسکتا ہے، البتہ کسی زندہ شخص کی طرف سے عمرہ اس وقت صحیح ہوگا جب اس نے ایسا کرنے کو کہا ہو۔(ملاحظہ ہو: الموسوعۃ الفقہیۃ، کویت، ۳۰/۲۲۸-۲۳۹)۔ (ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی)

سوال: غیرمسلموں کی زکوٰۃ یا چرم قربانی کی رقوم سے امداد

جماعت اسلامی /الخدمت کے تحت ہم مختلف مواقع پر غیرمسلموں (عیسائی، ہندو برادری) کے ساتھ تعاون کرتے رہتے ہیں۔ خاص طور پر کرسمس کے موقع پر یہ کام کیا جاتا ہے۔ راشن وغیرہ کی تقسیم کی جاتی ہے۔ عموماً ہمارے پاس راشن کی مد میں زکوٰۃ/ چرم قربانی کے ذریعے رقم آتی ہے۔ آپ سے درج ذیل اُمور میں رہنمائی درکار ہے:

۱- کیا زکوٰۃ سے غیرمسلموں کے ساتھ راشن کی صورت میںتعاون کیا جاسکتا ہے؟

۲- کیا چرم قربانی کی آمدنی سے راشن کی صورت میں تعاون کیا جاسکتا ہے؟

۳- کیا زکوٰۃ/چرم قربانی کی آمدنی سے کسی بھی صورت میں غیرمسلموں کے ساتھ تعاون نہیں کیا جاسکتا؟

۴- کیا تالیف ِ قلب میں مسلمانوں کے ساتھ بھی حُسنِ سلوک کیا جاسکتا ہے؟

۵- تالیف ِ قلب کے سلسلے میں حضرت عمرؓ کے فرمان کے بعد اب کیا صورت ہے؟

جواب :

  غیرمسلم اقلیتوں کے ساتھ صدقات، عطیات اور چرم ہاے قربانی کی رقوم سے تعاون کیا جاسکتا ہے لیکن زکوٰۃ کی رقم سے ان کی مالی اعانت نہیں کی جاسکتی۔ تالیف ِقلب نو مسلموں کے ساتھ ہوتا تھا۔ اب بھی ان کے ساتھ تعاون کیا جاسکتا ہے۔ حضرت عمرؓ نے ایسے نومسلموں کے ساتھ بیت المال سے مالی تعاون ختم کیا تھا جو مال دار ہوتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اسلامی حکومت ان کے ساتھ مالی تعاون اس لیے کرتی تھی کہ وہ حکومت کے ساتھ محبت کریں اور اپنے سابقہ دین والوں کی مدد کے بجاے اسلامی حکومت کی مدد کریں۔ لیکن جب اسلامی حکومت مضبوط ہوگئی اور ایسے نومسلموں کے تعاون کی ضرورت نہ رہی تو تالیف ِ قلب کی یہ مَد ختم کردی گئی۔ یہ تالیف ِ قلب زکوٰۃ کی رقوم سے نہ ہوتی تھیبلکہ خمس جو  مالِ غنیمت کا ایک حصہ ہے،سے ہوتی تھی۔ اب بھی اگر ایسا دور آجائے کہ اسلامی حکومت کو نومسلموں کی تالیف ِ قلب کی ضرورت ہو تو اسے بحال کیا جائے گا۔ حضرت عمرؓ نے عارضی طور پر عدم ضرورت کی وجہ سے اسے ختم کیا تھا۔ زکوٰۃ سے نومسلم فقرا کی امداد ہروقت کی جاسکتی ہے۔ اسی طرح مختلف مواقع پر غیرمسلم فقرا کو ہدیے اور تحفے چرم ہاے قربانی کی رقوم سے دیے جاسکتے ہیں لیکن بہتر یہ ہے کہ اس کے لیے الگ سے مخصوص فنڈ ہو جو عطیات سے جمع کیا جائے۔واللّٰہ اعلم! (مولانا عبدالمالک)

سوال: ذاتی ہدیے یا تحریکی اثاثے کا تعین؟

ہمارے شہر میں جماعت اسلامی کے ایک ذمہ دار کے بقول ان کے ایک عزیز دوست نے جماعت اسلامی کی جملہ منصبی ذمہ داریوں کی ادایگی کے لیے انھیں گاڑی تحفتاً دی ہے۔ تاہم، ہمارے بعض ساتھیوں کی راے ہے کہ مذکورہ ذمہ دارفرد کو یہ گاڑی جماعت اسلامی کے نام منتقل کرنا چاہیے۔ اس سلسلے میں رہنمائی فرمائیں کہ گاڑی موجودہ حالت میں وہ استعمال کریں یا جماعت اسے اپنے اثاثہ جات میں شامل کرے؟

جواب:

سب سے پہلے تو اُن صاحب سے معلوم کیا جائے کہ جنھوں نے وہ سواری، جماعت اسلامی کی جملہ ذمہ داریوں کی ادایگی کے لیے ہدیہ کی ہے۔ آیا انھوں نے ذمہ دار کو ذاتی حیثیت میں انھی کی ذات کے لیے سواری ہدیہ کی ہے یا جماعت میں صاحب ِ نظم ہونے کی حیثیت میں جماعت کے لیے ہدیہ کی ہے، تاکہ مذکورہ ذمہ دار فرد اس کے ذریعے تحریکی کام آسانی سے کرسکیں۔

اگر ہدیہ کرنے والے دوست رحلت کر گئے ہوں تو پھر جماعت اسلامی کے ذمہ دار خود فیصلہ کریں کہ ان کے دوست نے انھیں کس حیثیت میں ہدیہ کی ہے۔اس حوالے سے یہ بہرحال پیش نظر رکھنا ہوگا کہ وہ صاحب ِ خیر، مذکورہ فرد کو جماعت اسلامی کی منصبی ذمہ داری ملنے سے پہلے بھی اگر وقتاً فوقتاً کوئی چیز بطور ہدیہ دیتے رہتے تھے تو پھر اس صورت میں وہ گاڑی بھی ہدیہ شمار ہوگی۔ نیز جماعت کی منصبی ذمہ داری ملنے کے بعد اس تصریح کے ساتھ ہدیہ کی ہو کہ یہ اسی طرح کا ہدیہ ہے جس طرح کا ہدیہ اس سے پہلے ان کی ذات کے لیے وہ صاحب کرتے تھے۔

اگر دوست کی طرف سے اس سے پہلے ذاتی حیثیت میں ہدیہ دینے کا معمول نہ تھا اور تصریح بھی نہیں ہے کہ یہ ہدیہ ذاتی حیثیت میں ان کی ذات کے لیے بطور مِلک ہدیہ کیا گیا ہے،   تو پھر یہ جماعت اسلامی ہی کے لیے ہدیہ شمار ہوگا اور اسے جماعت کا اثاثہ شمار کر کے جماعت کے اثاثوں میں شامل کیا جائے گا۔درمختار میں ہے : ویجوز للامام والمفتی والواعظ قبول الھدیۃ لانہ یھدی الی العالم لعلمہ (ج۸، ص ۵۸)’’ مسلمانوں کے امام، پیشوا، مفتی اور واعظ کے لیے ہدیہ قبول کرنا جائز ہے، کیونکہ اسے اس کے علم و فضل کی وجہ سے ہدیہ کیا جاتا ہے‘‘۔ گویا جب اسے اس تصریح کے ساتھ دیا جائے گا کہ یہ ہدیہ اس کی ذات کے لیے ہے تو پھر وہ اپنے لیے لے سکتا ہے۔(مولانا عبدالمالک)

An Exercise in Understanding the Quran، [قرآن کریم  سمجھنے کی ایک مشق]، مؤلف: ڈاکٹر عرفان احمد خان ۔ تقسیم کنندہ: قاضی پبلی کیشنز، پوسٹ بکس ۵۹۷۶۷۹، شکاگو ۶۰۶۵۹۔ فون : ۲۹۶۲-۲۵۱-۶۳۰+۱ صفحات: ۲۱۶۔ قیمت:درج نہیں۔

قرآن کریم اپنے بارے میں یہ بات فرماتا ہے کہ ’’ہم نے اس قرآن کو نصیحت کے لیے آسان ذریعہ بنادیا ہے۔ پس ہے کوئی نصیحت قبول کرنے والا‘‘ (القمر ۵۴:۳۹)۔ گویا رب کریم نے جو اِس کتاب کا نازل کرنے والا ہے اسے ہر طالب ِ نصیحت و ہدایت کے لیے آسان بنا دیا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کے لیے کیا طریقہ اختیار کیا جائے اور اس عظیم ترین کتاب کا مطالعہ کس طرح ہو؟

مفسرین کرام نے جہاں قرآنِ کریم کے معانی پر روشنی ڈالی ہے، وہیں اس کتابِ ہدایت کے قانونی، ادبی، معاشرتی، سیاسی اور معاشی پہلوئوں کو بھی واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ ڈاکٹرعرفان احمدخان نے اپنے ۴۰سالہ مطالعہ قرآن کے تجربے کو سامنے رکھتے ہوئے ہرسورت کے مضامین کو موضوعاتی ترتیب کے ذریعے سمجھنے اور سمجھانے کی ایک مشق کی ہے اور اس غرض کے لیے قرآن کریم کی آخری ۳۰ سورتوں کا انتخاب کیا ہے۔ ۱۳ عنوانات کے تحت قرآنی اصطلاحات کا مفہوم بیان کیا ہے۔

یہ بظاہر ایک آسان کام نظر آتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایک لافانی کلام کو محدود موضوعاتی تقسیم میں لانا اور پھر اس میں باہمی ربط پیدا کر کے مفہوم کو سمجھنا ایک محنت طلب کام ہے۔ ڈاکٹر عرفان احمد خان نے اپنی تمام تر توجہ اسی کام پر صرف کی ہے اور اپنی تحقیقی کتاب Reflections on the Quran میں (جو لسٹر برطانیہ سے اسلامک فائونڈیشن نے طبع کی ہے) اپنی قرآنی فکر کو سادہ انداز میں پیش کردیا ہے۔ قرآن کریم کو سمجھنے کا یہ انداز ایک قاری کو خود      یہ تربیت دیتا ہے کہ وہ کس طرح براہِ راست قرآن کریم کے پیغام کو سمجھے اور تفسیرقرآن کے نکات جو بعض اوقات قاری اور قرآن کے درمیان حائل ہوجاتے ہیں، ان سے بچ کر قرآن کا فہم حاصل کیا جاسکے۔ یوں ایک طالب علم کو خود قرآن فہمی پیدا کرنے کی تربیت فراہم کی ہے کہ وہ خود آیات کے درمیان ربط کو تلاش کرسکے اور قرآنِ کریم کے جامع پیغام کو سمجھ کر زندگی میں نافذکرسکے۔

اس کتاب کا تعارف ۵۸صفحات میں الگ کتابی شکل میں طبع کیا گیا ہے جس میں سورئہ علق سے الناس تک چھے منتخب آخری سورتوں پر مبنی تدریسی انداز میں اس طریق فہم قرآن کو واضح کیا گیا ہے۔ (ڈاکٹر انیس احمد)


مذاہب ِ عالم ایک تقابلی مطالعہ، مولانا انیس احمد فلاحی مدنی۔ ناشر: ملک اینڈ کمپنی، رحمن مارکیٹ، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ صفحات: ۳۹۲۔ قیمت:درج نہیں۔

برقی ابلاغ عامہ کے اس دور میں دنیا کے چار گوشے سمٹ کر ایک بستی بن گئے ہیں لیکن اس کے باوجود مختلف مذاہب اور تہذیبوں کی ایک دوسرے سے ناواقفیت میں کوئی بہت بڑا فرق واقع نہیں ہوا ہے، بلکہ ابلاغِ عامہ کے غیر ذمہ دارانہ رویے نے تعصبات اور گمراہ کن تصورات کے پھیلانے میں اچھا خاصا منفی کردار ادا کیا ہے۔ آج مسلمان کا نام سنتے ہی مغرب و مشرق کا ایک غیرمسلم اپنے ذہن میں کسی دہشت گرد کا تصور لاتا ہے۔

مولانا انیس احمد فلاحی مدنی کی یہ تالیف اُردو دان افراد کے لیے ہندوازم، بدھ ازم،   سکھ ازم ، عیسائیت، یہودیت اور شینٹوازم کے بارے میں ابتدائی معلومات فراہم کرتی ہے۔ کتاب آسان زبان میں تحریر کی گئی ہے اور اختصار کے ساتھ ان مذاہب کے آغاز، بنیادی تعلیمات اور مصادر کے بارے میں ثانوی ذرائع سے اخذ کردہ معلومات سے بحث کرتی ہے۔ عیسائیت اور یہودیت کے حوالے سے قدیم اور جدید عہدناموں سے مناسب حوالے دیے گئے ہیں اور ساتھ ہی قرآن کریم نے یہودیت اور عیسائیت کے بارے میں جو حقائق بیان فرمائے ہیں ان کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔

فلاحی صاحب نے کتاب کے آغاز ہی میں اس کے دو مقاصد بیان کیے ہیں: اوّلًا اپنے اردگرد بسنے والے دیگر مذاہب کے افراد کے بارے میں مستند معلومات حاصل کرنا، اور دعوتی نقطۂ نظر سے مدعوئین کے بارے میں یہ سمجھنا کہ ان کے معتقدات کیا ہیں اور انھیں دعوت کس طرح دی جائے۔

کتاب اکثر عربی مآخذ پر اعتماد کرتی ہے، جب کہ مذاہب عالم کے تقابلی مطالعے کے لیے ان کے اپنے مصادر کا ان کی اپنی زبان میں جاننا بہت ضروری خیال کیا جاتا ہے۔ استاذ محمد دراز نے اپنی عربی میں تحریر کردہ کتاب میں جن مغربی مفکرین کا ذکر معرب ناموں کے ساتھ فرمایا ہے اسے جوں کا توں اختیار کرلیا گیا ہے۔ بہت مناسب ہوتا اگر مؤلف ہرمذہب کی تعلیمات کے خلاصے کے ساتھ اُس مذہب کی مقدس کتب کے حوالے بھی براہِ راست درج کردیتے۔

یہ کتاب ابتدائی اور تعارفی معلومات فراہم کرتی ہے۔ اگر اسے تقابل ادیان کے طریقۂ تحقیق کی روشنی میں مرتب کیا جاتا تو اس کی قدر میں مزید اضافہ ہوجاتا۔ کتاب آٹھ ابواب پر مشتمل ہے اور ہر باب ایک مذہب کا احاطہ کرتا ہے۔ (ڈاکٹر انیس احمد)


عصرِحاضر میں اسلام کے علمی تقاضے، مولانا سیّد جلال الدین عمری۔ ناشر: مرکزی مکتبہ اسلامی، جامعہ نگر، نئی دہلی نمبر۲۵، بھارت۔ صفحات: ۸۰۔ قیمت: ۵۲ بھارتی روپے۔

سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے احیاے اسلام کی تحریک علمی اور تحقیقی بنیادوں پر استوار کی۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں ایسے رفقا عطا کیے جنھوں نے تحقیقی اور علمی دنیا میں نام پیدا کیا۔ جماعت اسلامی ہند نے تصنیف و تالیف کے لیے جو ادارہ قائم کیا تھا وہ پہلے ادارہ تصنیف کے نام سے رام پور میں کام کرتا رہا، بعدازاں یہی ادارہ ’تصنیف و تالیف اسلامی علی گڑھ‘ کے نام سے علی گڑھ میں کام کرتا رہا۔   اس ادارے کے زیراہتمام ۱۹۸۲ء میں سہ ماہی تحقیقاتِ اسلامی شائع ہونا شروع ہوا۔ بہت جلد یہ تحقیقی مجلہ اہلِ علم کی توجہات کا مرکز بن گیا۔

مولانا جلال الدین عمری نے مجلہ تحقیقات اسلامی میں اسلامی تحقیقی معیار کی بہتری کے لیے متعدد مقالے تحریر کیے۔ انھیں یہ احساس رہا کہ اسلام کی صداقت منوانے کے لیے عصرحاضر کے تحقیقی معیار پر اسلامی تعلیمات کو مدلل انداز میں پیش کرنا ضروری ہے۔ یہ احساس گذشتہ صدی میں مسلم ممالک میں احیاے اسلام کے لیے جدوجہد کرنے والی دینی جماعتوں کے اکثر اہلِ علم کو بھی رہا۔ تقسیم ہند کے بعد بھی مسلمانوں نے دنیا کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے عمرانی اور طبعی علوم میں تحقیقی کوششیں جاری رکھیں۔

زیرنظر کتاب ان مضامین کا مجموعہ ہے جو سہ ماہی تحقیقاتِ اسلامی میں شائع ہوتے رہے۔ ان مضامین میں انھوں نے توجہ دلائی ہے کہ آج کس کس میدان میں تحقیقی کام کی ضرورت ہے۔ کتاب کے چند ایک مضامین کے عنوانات یہ ہیں:

  • اسلام اور دورِ جدید کے علمی مطالبات
  • عرب ممالک میں اسلامی علوم کا احیا
  • اسلام کے مطالعے کے اصول و شرائط
  • موجودہ الحادی  فکر اور اسلام
  • احیاے اسلام کے علمی تقاضے
  • اقامت دین کے لیے علمی تیاری کی اہمیت
  • اسلامی علوم میں تحقیق کا طریقۂ کار۔
  • آخر میں سیّدمودودیؒ کی علمی کاوشوں کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔

مصنف نے پیش لفظ میں قومی سطح کی ایک کمزوری کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے: ’’ہماری ایک بڑی کمزوری یہ ہے کہ وقتی اور ہنگامی کاموں کے لیے تو ہمارے اندر بڑا جوش اور جذبہ پایا جاتا ہے لیکن کسی علمی یا سنجیدہ کام کی تحریک نہ تو ہمارے اندر پیدا ہوتی ہے اور نہ اس کی اہمیت محسوس کی جاتی ہے..... اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ایسے افراد اُمت میں انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں جو مختلف میدانوں میں علمی سطح پر اسلام کی ٹھیک ٹھیک ترجمانی کرسکتے ہوں‘‘(ص ۸)۔ (ظفرحجازی)


اسلام، جمہوریت اور پاکستان، مولانا زاہد الراشدی۔ ترتیب و تدوین: محمد عمار خان ناصر۔ تقسیم کار: نیریٹوز(Narratives)، پوسٹ بکس نمبر ۲۱۱۰، اسلام آباد۔ صفحات: ۱۳۰۔ قیمت: ۱۰۰ روپے۔

پاکستان اسلامیانِ ہند کی طویل جدوجہد کا نتیجہ ہے۔ تحریکِ پاکستان کے قائدین نے پاکستان کا مقصد یہ قرار دیا تھا کہ مسلمانوں کے لیے اسلامی، فلاحی اور جمہوری ریاست تشکیل دی جائے۔ اس جمہوری اسلامی ریاست میں شریعت اسلامیہ کا نفاذ ہو اور دنیا دیکھے کہ اسلامی تعلیمات آج بھی قابلِ عمل ہیں۔ ۱۹۴۷ء سے آج تک پاکستان میں جمہوریت اور اسلامی ریاست کی بحث نتیجہ خیز نہیں بن سکی۔ دینی جماعتوں نے اسلامی نظام کے نفاذ کا مطالبہ کیا جسے حکومتوں نے حیلے بہانے سے ٹال دیا۔

زیرتبصرہ کتاب مصنف کے مضامین کا انتخاب ہے۔ ان مضامین میں مصنف نے نہایت وضاحت سے اسلامی ریاست، اسلامی نظام اور جمہوریت کے بارے میں علما کا موقف بیان کیا ہے اور کہا ہے کہ نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی سطح پر بھی قانون سازی، عوامی مفاد پر مبنی معاشی منصوبہ بندی اور معاشرتی مسائل کا حل صرف اسلام کے پاس ہے (ص ۱۱۱)۔ خلافت ِ راشدہ نے عملاً فلاحی ریاست کا نمونہ پیش کیا اور حکومت کو عوام کی جان، مال اور عزت کی حفاظت کا ذمہ دار قرار دیا۔ خلفاے راشدین ہی کے دور میں عوامی ضروریات کی فراہمی کا اہتمام کیا گیا۔ (ص ۱۱۰)

زیرنظر کتاب میں اس امر کا بھی جائزہ لیا گیا ہے کہ کیا تصادم اور مسلح جدوجہد سے پاکستان میں اسلامی نظام رائج کیا جاسکتا ہے؟ مصنف کا موقف ہے کہ جمہوری نظام کو تسلیم کرتے ہوئے جدوجہد جاری رکھی جائے۔ عوام کے منتخب نمایندوں کے لیے اقتدار کا حق تسلیم کیا جائے، قانون سازی پارلیمنٹ کے ذریعے ہو۔ انھوں نے کہا ہے کہ علما نے اجتہاد میں اجتماعیت کا راستہ اختیار کیا اور اس کی تنفیذ میں پارلیمنٹ کی اہمیت سے کبھی انکار نہیں کیا۔ (ص ۸۶)

مصنف نے کتاب میں نو عنوانات کے تحت اظہار خیال کیا ہے۔ یہ عنوان حسب ذیل ہیں: اسلامی ریاست، اسلام کے سیاسی نظام کا تاریخی پہلو، قانون سازی کا طریق کار، اسلام، جمہوریت اور مغرب، سیاسی جماعتیں__ نفاذِ اسلام کی بحث، حکومت کی تشکیل میں عوام کی نمایندگی، پاکستان میں نفاذِ اسلام کی جدوجہد اور تصادم اور مسلح جدوجہد کا راستہ۔ ان مضامین میں مصنف نے نہایت سلاست سے مدلل انداز میں اپنے افکار پیش کیے ہیں۔ ان کی زبان شائستہ اور رواں ہے۔ کتاب کے آخر میں پاکستان کے ۳۱ علما کے ۲۲نکات بھی دیے ہیں جن کے بارے میں مصنف کا خیال ہے کہ یہ علما کا اتنا بڑا اجتہادی اقدام ہے کہ قراردادِ مقاصد کے ساتھ یہ ۲۲نکات کسی بھی اسلامی ریاست کی آئینی بنیاد بن سکتے ہیں۔(ظفرحجازی)


کیا مسلمان ایسے ہوتے ہیں؟، ڈاکٹر امیرفیاض پیرخیل۔ ناشر: اشاعت اکیڈمی، عبدالغنی پلازا، محلہ جنگی، پشاور۔ صفحات: ۵۹۵۔ قیمت: درج نہیں۔

اللہ تعالیٰ کے آخری نبی حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی بے شمار صفات میں سے ایک صفت یہ بتائی گئی ہے کہ وہ لوگوں کے لیے بڑے نرم مزاج ہیں۔ ایک خصوصیت یہ بھی بتائی گئی کہ وہ لوگوں کی ہدایت کے اتنے متمنی ہیں کہ ان کے پیچھے غم کے مارے گویا جان کھو دینے والے ہیں۔    حضور اکرمؐ کی تعلیمات پر عمل اہلِ ایمان کو دوزخ کی آگ سے بچانے والا عمل ہے۔ انسانوں کے لیے آپ کی خیرخواہی اس حد تک پہنچ گئی تھی کہ اپنی جان کے دشمنوں کو بھی معاف کردیا۔ حقیقت یہ ہے کہ آپؐ دونوں جہانوں کے لیے رحمت بناکر بھیجے گئے تھے۔ آپؐ نے دین اسلام کی بابت یہ فرمایا کہ دین تو ہے ہی خیرخواہی کا نام۔ دین میں دوسروں کی بھلائی کے سوا اور ہے بھی کیا۔ اسلام کی تعلیمات انسانوں کی فلاح و بہبود کے لیے ہیں تاکہ یہ یکسو ہوکر اللہ کی رضا کے لیے اس کی بندگی کریں۔

زیرتبصرہ کتاب مسلمانوں کی اصلاح کے نقطۂ نظر سے مرتب کی گئی ہے۔آج کا معاشرہ اخلاقی لحاظ سے رُوبہ زوال ہے۔ متعدد بُرائیاں مسلم سوسائٹی میں جڑپکڑ چکی ہیں۔ قرآنی تعلیمات کو پسِ پشت ڈال رکھا ہے اور دنیا کے پیچھے پڑے ہوئے لوٹ کھسوٹ، رشوت ستانی، ظلم وجبر،     بے حیائی، ناپ تول میں کمی اور مکروفریب جیسی بُرائیاں مسلم معاشرے میں عام ہیں۔ چالاکی و ہوشیاری جس سے دوسروں کو نقصان پہنچایا جاتا ہے زندگی گزارنے کا بہترین طریقہ قرار دے لیا گیا ہے۔ محاسبہ اور آخرت کا احساس ختم ہو رہا ہے۔ مسلمانوں نے ہوسِ زر کے باعث اللہ اور رسولؐ کی تعلیمات کو فراموش کردیا ہے۔ کتاب میں ان تمام معاشرتی، اقتصادی، تجارتی اور سیاسی ناہمواریوں کو دُور کرنے کے لیے قرآن اور رسول اکرمؐ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی نہایت دردمندی سے اپیل کی گئی ہے۔ متعدد کتابوں سے اخلاق آموز واقعات لے کر قارئین کو احساس دلایا ہے کہ اللہ کی گرفت میں آنے سے قبل اپنے گناہوں کی معافی مانگنی چاہیے۔

مصنف نے غیرمسلم مغربی اہلِ دانش کی تحریروں کو بھی پیش کیا ہے اور ان کی اغلاط کی  نشان دہی کی ہے۔ مصنف مسلمان مردوں اور عورتوں کو تنبیہ کرتے ہیں کہ دنیا کی مرغوبات عارضی ہیں، آخرت کی طرف توجہ کرنی چاہیے۔ مصنف نے سوال اُٹھایا ہے کہ کیا واقعی ہم مسلمان ہیں؟ جس مسلمان کا مطالبہ خدا اور رسولؐ کر رہے ہیں، وہ مسلمان ہم ہیں یا نہیں (ص۶)۔ مصنف نے کتاب میں ۱۵۰؍احادیث ترجمہ و تشریح کے ساتھ پیش کی ہیں اور مسلمانوں سے توقع کی ہے کہ   وہ ان پر عمل پیرا ہوکر صحیح مسلمان بنیں اور اپنے اعمال درست کریں۔(ظفرحجازی)


قلزمِ فیض مرزا بیدل، شوکت محمود، ناشر: ادارہ ثقافت اسلامیہ، ۲- کلب روڈ، لاہور۔ صفحات:۲۴۹۔ قیمت: ۳۵۰ روپے۔

ابوالمعانی مرزا عبدالقادر بیدل عظیم آبادی فارسی کے معروف اور صاحب ِ اسلوب شعرا میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کا اسلوب ایسا مشکل، اَدق اور پیچیدہ تھا کہ مرزا غالب جیسے مشکل پسند بھی کہہ اُٹھے     ؎

طرزِ بیدل میں ریختہ لکھنا

اسداللہ خاں قیامت ہے

اُردو دنیا میں فارسی کے اس نابغہ شاعر کا تعارف زیادہ تر مرزا غالب اور ان کے مذکورہ بالا شعر کا مرہونِ منت ہے۔ اُردو کے اہلِ نقدوتحقیق نے بیدل پر درجن سے اُوپر کتابیں تصنیف اور تالیف و ترجمہ کی ہیں۔ کتابوں کے علاوہ بیسیوں تحقیقی و تنقیدی مضامین بھی رسائل و جرائد میں شائع ہوتے رہے ہیں۔

زیرنظر کتاب بیدل کے سوانح ، شخصیت اور فکروفن پر ایسے مقالات کا ایک انتخاب ہے جو رسائل کی پرانی فائلوں میں دفن، نظروں سے اوجھل اور بیدل کے عام قارئین کی دسترس سے دُور تھے۔ مقالات کی تعداد زیادہ نہیں ہے مگر معیار بہت اچھا ہے اور کیوں نہ ہو، جب لکھنے والوں میں محمد حسین آزاد سے لے کر ڈاکٹر نعیم حامدعلی الحامد تک شامل ہوں (بشمول: سید سلیمان ندوی، غلام رسول مہر، ڈاکٹر عبدالغنی، ڈاکٹر جمیل جالبی، مجنوں گورکھ پوری، ڈاکٹر سید عبداللہ، ڈاکٹر ظہیراحمد صدیقی،  پروفیسر حمیداحمد خاں، ڈاکٹر ابواللیث صدیقی)۔

مرتب ِ کتاب ’یکے از خادمانِ بیدل‘ جناب شوکت محمود کا تفصیلی مقدمہ (ص ۶ تا ۲۴) بجاے خود بیدل شناسی کا ایک عمدہ جائزہ یا سروے ہے۔ انھوں نے زیرنظر مجموعے کی ضرورت اور مطالعۂ بیدل میں اس کی اہمیت کو واضح کرنے کے ساتھ مشمولہ مضامین کے مآخذ اور ہرمضمون کی نوعیت، یا اس کا خلاصہ بھی بتایا ہے۔ شوکت محمود دُورافتادہ اور خطروں میں گھرے ہوئے شہر بنوں کے پوسٹ گریجویٹ کالج میں اُردو کے استاد ہیں۔ نادر اور وقیع منتخب مقالات کی اس اشاعت کے بعد، وہ اس کی جلد دوم بھی شائع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔(رفیع الدین ہاشمی)


پانیوں کی بستی میں، صالحہ محبوب۔ ناشر: ادبیات، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون:۳۷۲۳۲۷۸۸-۰۴۲۔ صفحات: ۱۹۲۔ قیمت: ۲۷۵ روپے۔

بیسویں صدی کے ربع ثانی میں سیاسی،سماجی اور معاشی حالات نے جو صورتِ حال پیدا کی وہ افسانے کو بہت راس آئی اور یہی دور اُردو افسانے کا زریں دور تھا۔ رومانی اور ترقی پسند تحریکوں کے اثرات خاصے گہرے تھے۔ ان کے خلاف ردِعمل بھی ہوا اور نئے افسانہ نگاروں میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا۔ اکیسویں صدی کے آغاز میں اگرچہ افسانے نے کوئی نئی کروٹ نہیں لی لیکن نئے افسانہ نگاروں نے اچھے افسانے لکھنے شروع کیے ہیں۔ صالحہ محبوب کا شمار ایسے ہی ادیبوں میں کیاجاسکتا ہے۔

صالحہ محبوب کے افسانوں کا مرکز و محور ماں ہے جو مامتا اور محبت و مروت سے بچوں کے ذہنوں کی تشکیل اپنے خوابوں کے مطابق کرتی ہے۔مادیت کی دوڑ میں جب ماں اور باپ کمانے اور ملازمت کی فکر میں ہوں ایسے میں ان افسانوں میں گھر کے حصار اور روایتی گھریلو ماں کے کردار کو عمدگی سے اُجاگر کیا گیا ہے۔تربیت کے اصولوں اور معاشرتی اقدار کے ساتھ ساتھ مغربی تہذیب اور مادیت کے اثرات، نیز معاشرتی مسائل کو بھی زیربحث لایا گیا ہے۔

ایک فن کار کا فن اسی وقت قارئین کے لیے قابلِ قبول ہوتا ہے جب وہ ناصح اور مبلّغ بنے بغیر اپنی سوچ ان کے ذہنوں میں اُتار دے۔ صالحہ محبوب کے افسانے اس معیار پر پورا اُترتے ہیں۔قارئین خصوصاً ایسی مائیں جو بچوں کی صحیح خطوط پر تربیت اور مثبت سوچ دینا چاہتی ہیں ان کے لیے یہ عمدہ سوغات ہے۔ (عبداللّٰہ شاہ ہاشمی)


بچوں میں خوف، فوزیہ عباس۔ ناشر: اسلامک ریسرچ اکیڈمی، ڈی-۳۵، بلاک-۵ ، فیڈرل بی ایریا، کراچی- ۷۵۹۵۰۔ فون: ۳۶۳۴۹۸۴۰-۰۲۱۔ صفحات: ۹۶۔ قیمت (مجلد): ۱۵۰ روپے۔

عام طور پر بچوں کو کتا، چھپکلی، لال بیگ یا جن بھوت سے ڈرایا جاتا ہے۔ بظاہر یہ معمولی بات لگتی ہے لیکن اس کے بچوں کی شخصیت اور نفسیات پر دُور رس اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ فوزیہ عباس نے زیرتبصرہ کتاب میں بچوں کے خوف کا نفسیاتی تجزیہ کرتے ہوئے تفصیلی مطالعہ پیش کیا ہے اور اس کے اسباب، علامات اور تدارک کی تجاویز بھی دی ہیں۔ خوف کیا ہے؟ بچوں پر اس کے اثرات، گھر، اسکول، مدرسہ اور کھیل کے میدان میں خوف، نیز معاشرتی و سماجی زندگی کے زیراثر پیدا ہونے والے خوف اور ذرائع ابلاغ کا غیرمحتاط رویہ وغیرہ زیربحث آئے ہیں۔ مصنفہ کے نزدیک بچوں میں خوف پیدا کرنا ایک اخلاقی جرم اور سنگین غلطی ہے جس سے بچے کی پوری زندگی متاثر ہوسکتی ہے، لہٰذا اسے معمولی بات نہ سمجھا جائے۔ بچوں کی تربیت کی بنیاد دین کی تعلیمات پر ہونی چاہیے۔ بچوں کی نفسیات اور حکمت کو پیش نظر رکھتے ہوئے کسی کام سے روکنا یا سختی برتنی چاہیے۔ بحیثیت مسلمان اللہ پر ایمان خوف کو دُور کرسکتا ہے اور والدین کو ہر ممکن طریقے سے بچوں کا خوف دُور کرنا چاہیے۔ ضرورت پڑنے پر ماہر نفسیات سے بھی رجوع کرنا چاہیے۔ والدین، اساتذہ کرام اور بچوں کی تربیت کے لیے ایک مفید اور عام فہم کتاب۔ (امجد عباسی)

بیگم  بینا حسین خالدی ، صادق آباد

ڈاکٹر انیس احمد کی تحریر ’اسلامی نظام: سیاسی ذرائع سے قیام ممکن ہے‘ (اپریل ۲۰۱۴ء) نے بہت متاثر کیا۔ اس وقت ، جب کہ مصر اور بنگلہ دیش کی صورت حال پر دنیا بھر کی نظریں جمی ہوئی ہیں۔ حالاتِ حاضرہ کی صحیہ منظرکشی اور تجزیہ نگاری کی اشد ضرورت ہے۔ڈاکٹر صاحب نے ’’تبدیلی صرف جہاد سے آئے گی‘‘ کے نعرے کی شرعی حیثیت کے بارے میں بصیرت افروز مواد فراہم کیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے مطابق اجتہاد، قیاس، اجماع  اور باہم مشاورت، صبرواستقامت اور قربانی کے ساتھ دعوتی کام کرتے رہنا، یہی وہ ذرائع ہیں جو اسوئہ نبویؐ کے مطابق تبدیلی کا سبب بن سکتے ہیں اور تمام دعوتی مراحل سے گزرنے کے بعد جب یہ یقین ہوجائے کہ یہاں کوئی تبدیلی نہیں آسکتی تو پھر وہاں سے ہجرت (لیکن عجلت والی ہجرت نہ ہو) کی جائے۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ مصر اور بنگلہ دیش کی ہنگامی صورت حال میں، جب کہ ایک سول وار چھڑ چکی ہے اور ہزاروں جانی قربانیوں کے بعد واپسی کے رستے بند ہوچکے ہیں۔ کیا ایسی صورت حال میں دعوتی تبلیغی طریق کار ، اور اجتہاد کے رستے کھلے رہ سکتے ہیں؟ کیا طاغوتی طاقتیں محض دعوت و تبلیغ اور گفت و شنید سے اقتدار چھوڑ کر جاسکتی ہیں؟ یا بصورتِ دیگر ہجرت ایسے مسئلے کا حل ہوسکتی ہے؟


عاشق علی فیصل ، فیصل آباد

’بچوں کی تربیت محبت سے‘ (اپریل ۲۰۱۴ء) میں ڈاکٹر سمیریونس صاحب خوب صورت انداز میں اہم موضوع کی طرف توجہ دلائی ہے۔ آج کے نونہال ہی کل کے اچھے مسلمان اور پاکستانی بن سکتے ہیں۔ یہ تحریر تحریکی ساتھیوں کے لیے بالخصوص اور عمومی قارئین کے لیے ایک انمول تحفہ ہے۔ اللہ رب العزت جزاے خیر دے۔ مولاناعبدالمالک مدظلہٗ العالی کو جنھوں نے ہمارے دل و اذہان کو کلامِ نبویؐ کی کرنوں سے منور کیا۔


عبدالرحمٰن ،  لاہور

’بچوں کی تربیت محبت سے‘(اپریل ۲۰۱۴ء) مفید مضمون ہے اور عملی پہلو سامنے آئے ہیں۔ تاہم ڈاکٹرسمیر نے بچھو کے بار بار کاٹنے پر اسے بچانے کی جو حکایت بیان کی ہے وہ اسلامی نقطۂ نظر سے درست نہیں۔ شریعت میں موذی جانوروں کو مارنے کا حکم ہے۔


عبدالرشید صدیقی ، برطانیہ

’مطالعے کی عادت__  ایک تحریکی زاویہ‘ (مارچ ۲۰۱۴ء) میں ڈاکٹر انیس احمد کا مضمون بہت اہم اور بروقت ہے جس کی طرف سے اکثر لوگ غافل ہیں۔ خاص طور پر نئی نسل میں مطالعے کے شوق کا فقدان ان کی تمام معلومات کا مخزن انٹرنیٹ ہے۔ عام طور پر لوگ علم کے بجاے معلومات ہی حاصل کرنا چاہتے ہیں، یا پھر وڈیو اور آڈیو دیکھ اور سن کر بھیجتے ہیںکہ انھوں نے علم حاصل کرلیا۔ پتا نہیں کہ لوگوں میں مطالعہ کا شوق کس طرح پیدا کیا جائے۔

پروفیسر شہزاد الحسن چشتی صاحب کا گراں قدر مضمون : ’ہگز بوسن…‘ (فروری ۲۰۱۴ء) نظر سے گزرا۔ اس میں موصوف نے اہم معلومات پیش کی ہیں، البتہ ان کی ایک فروگزاشت کی تصحیح کرنا ضروری خیال کرتا ہوں۔ سرن(cern) کو انھوں نے تجربہ گاہ کا جاے وقوع بتایا ہے حالانکہ CERN اس تحقیقی ادارے کے نام کا مخفف ہے جو فرانسیسی میں یہ ہے: Counseil Europeen Pour la Rechard Nuclaire ۔ اس کا انگریزی نام ہے: European Council for Nuclear Research ۔

یہ جنیوا کے قریب فرانس، سوئٹزرلینڈ کے سرحد میں واقع ہے، جو ۱۹۵۴ء میں ۲۱ممالک کے تعاون سے قائم ہوا تھا۔ قارئین کے لیے یہ جاننا باعث دل چسپی ہوگا کہ بوسن کا لفظ جو اس ذرے کا نام ہے۔ مشہور ہندستانی ماہر طبیعات ……… ناتھ بوسن کے اعزاز میں پال ڈارک ( Paul Dirac) نے رکھا تھا۔

اپنے مضمون میں فاضل مقالہ نگار نے اللہ کے عرش کا پانی پر ہونے کی یہ تاویل کی ہے کہ پانی سے مراد توانائی ہے۔ میرے خیال میں قرآن کے الفاظ کو ان کے اس مفہوم میں رکھنا چاہیے۔ یہ زیادہ بہتر ہے۔


دانش یار ، لاہور

اس ماہ عالمی ترجمان القرآن میں دو مضامین بہت خوب رہے۔ یہ جو ایک سیمی نار آپ نے منعقد کردیا، یعنی ’پاکستانی کلچر کے سرچشمے یا عبرت کدے‘، اس نے ایک پُرلطف مجلس میں شرکت کا لطف دیا۔ دوسرا مضمون ’ایمان و وفا‘ حضرت زینبؓکے حوالے سے بہت ہی روح پرور تحریر ہے۔


خالد محمود ، بھلوال

’مطالعے کی عادت___ ایک تحریکی زاویہ‘ (مارچ ۲۰۱۴ء) میں تحریکی نقطۂ نظر سے مطالعے کی اہمیت و ضرورت اور افادیت کو بخوبی اُجاگر کیا گیا ہے۔ تحریکی لٹریچر کے علاوہ جدید افکار سے باخبر رہنے کی ضرورت پر بھی زور دیا ہے۔ اگر اس ضمن میں کچھ موضوعات اور کتب کی طرف بھی رہنمائی دے دی جاتی تو زیادہ مفید ہوتا۔


فراز احمد سلیم  ، گوجرانوالہ

’ایمان و وفا‘ (مارچ ۲۰۱۴ء) کے زیرعنوان بنت رسولؐ حضرت زینبؓ کا تذکرہ پڑھنا شروع کیا تو پڑھتا ہی چلا گیا۔ عبدالغفار عزیز اُمت مسلمہ کے احوال سے تو باخبر کرتے ہی ہیں لیکن سیرت کے موضوع پر بھی خوب لکھتے ہیں۔ اس حوالے سے مزید تحریروں کا انتظار رہے گا!


عبدالرشید کلیر ، وزیرآباد

’قبولِ اسلام اور دعوت کی تڑپ‘ (فروری ۲۰۱۴ء) میں فاطمہ (سابقہ لکشمی بائی) نے جس جذبے اور تڑپ سے اہلِ خانہ کو دعوتِ دین دی اور تکالیف اُٹھائیں اس سے جذبہ ملتا ہے۔ اپنا جائزہ لے کر شرمندگی بھی ہوتی ہے کہ ہم دعوت کے لیے کتنی تگ و دو کرتے ہیں۔ یہ مضمون بہت پسند کیا گیا اور ہم نے متعدد شمارے منگوا کر تقسیم کیے۔

ہماری قوم کا بھی کچھ عجیب حال ہے۔ جب بھی مغرب سے اسلام کے کسی نظریے کی تائید ہوجاتی ہے تو لوگ اُسے بڑی اہمیت دیتے ہیں۔ اور پھر یہ سمجھا جاتا ہے کہ مغربی تہذیب میں بس یہی ایک بیماری ہے جس کو مغربی حکیم نے بیان کردیا ہے اور اسلام کے شفاخانے سے حاصل کی ہوئی دوائی کا ایک گھونٹ مغربی نظامِ اجتماعی کو بالکل تندرست و توانا کردے گا۔ کچھ اسی قسم کا معاملہ آج کل سُود کے ساتھ بھی ہورہا ہے۔ لارڈکینز اور اس کے ساتھیوں نے سود کی ریشہ دوانیوں کو طشت ازبام کیا ہے، اس سے بعض مفکرین نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ بس یورپ کے معاشی عدمِ توازن اور بحران کا واحد سبب یہی ہے اور اگر یہ کانٹا اس کے پہلو سے نکل جائے تو پھر مریض رُوبصحت ہوگا۔ مگر آپ یقین کریں کہ اس لعنت کو ختم کرنے کے بعد بھی یورپ کا یہی حال رہے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نہ تو تنہا سُود اور نہ کوئی دوسرا ایک محرک اس تباہی کا ذمہ دار ٹھیرایا جاسکتا ہے۔ ان کی حیثیت تو ذرائع کی سی ہے جن کو مغربی تہذیب کے معماروں نے اپنی زندگی کی تعمیر میں استعمال کیا ہے۔ یورپ کی بربادی، اور اس کے ساتھ ہماری تباہی کا اصل سبب وہ تملیکی ذہنیت (acquisitive mentality) ہے جسے تہذیب ِ جدید نے نہایت ہی شدت کے ساتھ اپنے پرستاروں میں پیدا کیا ہے۔ سود تو اس ذہنیت کا ایک ادنیٰ کرشمہ ہے۔ جب تک اس مادہ پرستانہ ذہنیت کو بدل کر ایک خدا پرستانہ ذہنیت پیدا نہیں کی جاتی، حالات کا درست ہونا بالکل ناممکن ہے۔ آپ جتنا غو رکریں گے اتنا ہی اس حقیقت کو درست پائیں گے۔ یورپ کے نظامِ حیات کے بگاڑ کی وجہ یہ ہے کہ انسان نے خدا کو چھوڑ کر پونڈ اور ڈالر کو اپنا رب تسلیم  کیا ہے۔ اسی بنا پر اُس کے ہاں ذی روح انسانوں کی قیمت گر رہی ہے، مگر بے جان دھاتوں کی قدر بڑھ رہی ہے۔(’رسائل و مسائل‘ ، عبدالحمید صدیقی، ترجمان القرآن،جلد۴۲، عدد۱، رجب ۱۳۷۳ھ، اپریل ۱۹۵۴ء، ص۶۵-۶۶)

آج کی دنیا میں اسمبلیوں، کونسلوں، میونسپل وارڈوں اور دوسری مجالس اور جماعتوں کے انتخابات میں جمہوریت کے نام پر جو کھیل کھیلا جا رہا ہے کہ زور و زر اور غنڈا گردی کے سارے طاغوتی وسائل کا استعمال کرکے یہ چند روزہ موہوم اعزازا حاصل کیا جاتا ہے اور اس کے عالم سوز نتائج ہروقت آنکھوں کے سامنے ہیں اور ملک و ملّت کے ہمدرد و سمجھ دار انسان اپنے مقدور بھر  اس کی اصلاح کی فکر میں بھی ہیں،لیکن عام طور پر اس کو ایک ہارجیت کا کھیل اور خالص دنیاوی دھندا سمجھ کر ووٹ لیے اور دیے جاتے ہیں۔ لکھے پڑھے دین دار مسلمانوں کو بھی اس طرف توجہ نہیں ہوتی کہ یہ کھیل صرف ہماری دنیا کے نفع نقصان اور آبادی یا بربادی تک نہیں رہتا بلکہ اس کے پیچھے کچھ طاعت و معصیت اور گناہ و ثواب بھی ہے جس کے اثرات اس دنیا کے بعد بھی یا ہمارے گلے کا ہار عذابِ جہنم بنیں گے، یا پھر درجاتِ جنت اور نجاتِ آخرت کا سبب بنیں گے۔

اگرچہ آج کل اس اکھاڑے کے پہلوان اور اس میدان کے مرد، عام طور پر وہی لوگ ہیں جو فکرِآخرت اور خدا و رسولؐ کی طاعت و معصیت سے مطلقاً آزاد ہیں اور اس حالت میں اُن کے سامنے قرآن و حدیث کے احکام پیش کرنا ایک بے معنی و عبث فعل معلوم ہوتا ہے، لیکن اسلام کا ایک یہ بھی معجزہ ہے کہ مسلمانوں کی پوری جماعت کبھی گمراہی پر جمع نہیں ہوتی۔ ہر زمانے اور ہرجگہ کچھ لوگ حق پر قائم رہتے ہیں جن کو اپنے ہرکام میں حلال و حرام کی فکر اور خدا اور رسولؐ کی رضاجوئی پیش نظر رہتی ہے۔ نیز قرآن کریم کا یہ بھی ارشاد ہے: وَذَکِّرْ فَاِِنَّ الذِّکْرٰی تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِیْنَo (الذّٰریٰت ۵۱:۵۵)، یعنی آپ نصیحت کی بات کہتے رہیں کیونکہ نصیحت مسلمانوں کو نفع دیتی ہے۔ اس لیے مناسب معلوم ہوا کہ انتخابات میں اُمیدواری اور ووٹ کی شرعی حیثیت اور اُن کی اہمیت کو قرآن و سنت کی رُو سے واضح کردیا جائے۔ شاید کچھ بندگانِ خدا کو تنبیہ ہو اور کسی وقت یہ غلط کھیل صحیح بن جائے۔

اُمیدواری

کسی مجلس کی ممبری کے انتخابات کے لیے جو اُمیدوار کی حیثیت سے کھڑا ہو وہ گویا پوری ملّت کے سامنے دوچیزوں کا مدعی ہے۔ ایک یہ کہ وہ اس کام کی قابلیت رکھتا ہے جس کا اُمیدوار ہے، دوسرے یہ کہ وہ دیانت و امانت داری سے اس کام کو انجام دے گا۔ اب اگر واقعی میں وہ اپنے اس دعوے میں سچا ہے، یعنی قابلیت بھی رکھتا ہے اور امانت و دیانت کے ساتھ قوم کی خدمت کے جذبے سے اس میدان میں آیا تو اس کا یہ عمل کسی حد تک درست ہے، اور بہتر طریق اس کا یہ ہے کہ کوئی شخص خود مدعی بن کر کھڑا نہ ہو بلکہ مسلمانوں کی کوئی جماعت اس کو اس کام کا اہل سمجھ کر نام زد کردے اور جس شخص میں اس کام کی صلاحیت ہی نہیں، وہ اگر اُمیدوار ہوکر کھڑا ہو تو قوم کا غدار اور خائن ہے۔ اس کا ممبری میں کامیاب ہونا ملک و ملّت کے لیے خرابی کا سبب تو بعد میں بنے گا، پہلے تو وہ خود غدار و خیانت کا مجرم ہوکر عذابِ جہنم کا مستحق بن جائے گا۔ اب ہر وہ شخص جو کسی مجلس کی ممبری کے لیے کھڑا ہوتا ہے، اگر اس کو کچھ آخرت کی بھی فکر ہے تو اس میدان میں آنے سے پہلے خود اپنا جائزہ لے لے اور یہ سمجھ لے کہ اس ممبری سے پہلے تو اس کی ذمہ داری صرف اپنی ذات اور اپنے اہل و عیال ہی تک محدود تھی کیونکہ بہ نصِ حدیث ہرشخص اپنے اہل و عیال کا ذمہ دار ہے اور اب کسی مجلس کی ممبری کے بعد جتنی خلقِ خدا کا تعلق اس مجلس سے وابستہ ہے، اُن سب کی ذمہ داری کا بوجھ اُس کی گردن پر آتا ہے اور وہ دنیا و آخرت میں اس ذمہ داری کا مسئول اور جواب دہ ہے۔

ووٹ اور ووٹر

کسی اُمیدوار ممبری کو ووٹ دینے کی ازروے قرآن و حدیث چند حیثیتیں ہیں۔ ایک حیثیت شہادت کی ہے کہ ووٹر جس شخص کو اپنا ووٹ دے رہا ہے، اس کے متعلق اس کی شہادت دے رہا ہے کہ یہ شخص اس کام کی قابلیت بھی رکھتا ہے اور دیانت اور امانت بھی۔ اور اگر واقعی میں اس شخص کے اندر یہ صفات نہیں ہیں اور ووٹر یہ جانتے ہوئے اس کو ووٹ دیتا ہے تو وہ ایک جھوٹی شہادت ہے جو سخت کبیرہ گناہ اور وبالِ دنیا و آخرت ہے۔ بخاری کی حدیث میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شہادتِ کاذبہ کو شرک کے ساتھ کبائر میں شمار فرمایا ہے (مشکٰوۃ)۔ اور ایک دوسری حدیث میں جھوٹی شہادت کو اکبر کبائر فرمایا ہے (بخاری و مسلم) ۔ جس حلقے میں چند اُمیدوارکھڑے ہوں اور ووٹر کو یہ معلوم ہے کہ قابلیت اور دیانت کے اعتبار سے فلاں آدمی قابلِ ترجیح ہے تو اس کو چھوڑ کر کسی دوسرے کو ووٹ دینا اس اکبر کبائر میں اپنے آپ کو مبتلا کرنا ہے۔ اب ووٹ دینے والا اپنی آخرت اور انجام کو دیکھ کر ووٹ دے محض رسمی مروت یا کسی طمع و خوف کی وجہ سے اپنے آپ کو اس وبال میں مبتلا نہ کرے۔

 دوسری حیثیت ووٹ کی شفاعت، یعنی سفارش کی ہے کہ ووٹر اس کی نمایندگی کی سفارش کرتا ہے۔ اس سفارش کے بارے میں قرآن کریم کا یہ ارشاد ہرووٹر کو اپنے سامنے رکھنا چاہیے: مَنْ یَّشْفَعْ شَفَاعَۃً حَسَنَۃً یَّکُنْ لَّہٗ نَصِیْبٌ مِّنْھَا وَ مَنْ یَّشْفَعْ شَفَاعَۃً سَیِّئَۃً یَّکُنْ لَّہٗ کِفْلٌ مِّنْھَا(النساء ۴:۸۵)، یعنی (جو شخص اچھی سفارش کرتا ہے اُس میں اس کو بھی حصہ ملتا ہے اور بُری سفارش کرتا ہے تو اُس کی بُرائی میں اُس کا بھی حصہ لگتا ہے)۔ اچھی سفارش یہی ہے کہ قابل اور دیانت دار آدمی کی سفارش کرے جو خلقِ خدا کے حقوق صحیح طور پر ادا کرے، اور بُری سفارش یہ ہے کہ نااہل، نالائق، فاسق و ظالم کی سفارش کر کے اُس کو خلقِ خدا پر مسلط کرے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہمارے ووٹوں سے کامیاب ہونے والا اُمیدوار اپنے پنج سالہ دور میں جو نیک یا بدعمل کرے گا ہم بھی اس کے شریک سمجھے جائیں گے۔

ووٹ کی ایک تیسری حیثیت وکالت کی ہے کہ ووٹ دینے والا اس اُمیدوار کو اپنا نمایندہ اور وکیل بناتا ہے لیکن اگر یہ وکالت اس کے کسی شخصی حق کے متعلق ہوتی اور اس کا نفع نقصان صرف اس کی ذات کو پہنچتا تو اُس کا یہ خود ذمہ دار ہوتا مگر یہاں ایسا نہیں کیونکہ یہ وکالت ایسے حقوق کے متعلق ہے جن میں اُس کے ساتھ پوری قوم شریک ہے۔ اس لیے اگر کسی نااہل کو اپنی نمایندگی کے لیے ووٹ دے کر کامیاب بنایا تو پوری قوم کے حقوق کو پامال کرنے کا گناہ بھی اس کی گردن پر رہا۔

خلاصہ یہ ہے کہ ہمارا ووٹ تین حیثیتیں رکھتا ہے: ایک شہادت، دوسرے سفارش، تیسرے حقوق مشترکہ میں وکالت۔ تینوں حیثیتوں میں جس طرح نیک، صالح، قابل آدمی کو ووٹ دینا موجب ِ ثوابِ عظیم ہے اور اُس کے ثمرات اُس کو ملنے والے ہیں، اسی طرح نااہل یا غیرمتدین شخص کو ووٹ دینا جھوٹی شہادت بھی ہے اور بُری سفارش بھی اور ناجائز وکالت بھی اور اس کے   تباہ کن اثرات بھی اُس کے نامۂ اعمال میں لکھے جائیں گے۔

ضروری تنبیہ

مذکور الصدر بیان میں جس طرح قرآن و سنت کی رُو سے یہ واضح ہوا کہ نااہل، ظالم، فاسق اور غلط آدمی کو ووٹ دینا گناہِ عظیم ہے، اسی طرح ایک اچھے، نیک اور قابل آدمی کو ووٹ دینا ثوابِ عظیم ہے بلکہ ایک فریضہ شرعی ہے۔ قرآن کریم نے جیسے جھوٹی شہادت کو حرام قرار دیا ہے، اسی طرح سچی شہادت کو واجب و لازم بھی فرما دیا ہے۔ ارشاد باری ہے:قَوّٰمِیْنَ لِلّٰہِ شُھَدَآئَ بِالْقِسْطِ (المائدہ ۵:۸) اور دوسری جگہ ارشاد ہے:کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ شُھَدَآئَ لِلّٰہِ (النساء  ۴:۱۳۵) ۔ ان دونوں آیتوں میں مسلمانوں پر فرض کیا ہے کہ سچی شہادت سے جان نہ چرائیں، اللہ کے لیے ادایگیِ شہادت کے واسطے کھڑے ہوجائیں۔ تیسری جگہ سورئہ طلاق (۶۵:۱) میں ارشاد ہے: وَاَقِیْمُوا الشَّھَادَۃَ لِلّٰہِ، یعنی اللہ کے لیے سچی شہادت کو قائم کرو۔ ایک آیت میں یہ ارشاد فرمایا کہ سچی شہادت کا چھپانا حرام اور گناہ ہے۔ ارشاد ہے: وَ لَا تَکْتُمُوا الشَّھَادَۃَ ط وَمَنْ یَّکْتُمْھَا فَاِنَّہٗٓ اٰثِمٌ قَلْبُہٗ ط (البقرہ ۲:۲۸۳)، (یعنی شہادت کو نہ چھپائو اور جو چھپائے گا اُس کا دل گناہ گار ہے)۔

ان تمام آیات نے مسلمانوں پر یہ فریضہ عائد کردیا ہے کہ سچی گواہی سے جان نہ چرائیں، ضرور ادا کریں۔ آج جو خرابیاں انتخابات میں پیش آرہی ہیں اُن کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ نیک اور صالح حضرات عموماً ووٹ دینے ہی سے گریز کرنے لگے جس کا لازمی نتیجہ وہ ہوا جو مشاہدے میں آرہا ہے کہ ووٹ عموماً اُن لوگوں کے آتے ہیں جو چند ٹکوں میں خرید لیے جاتے ہیں اور اُن لوگوں کے ووٹوں سے جو نمایندے پوری قوم پر مسلط ہوتے ہیں، وہ ظاہر ہے کہ کس قماش اور کس کردار کے لوگ ہوں گے۔ اس لیے جس حلقے میں کوئی بھی اُمیدوار قابل اور نیک معلوم ہو، اُسے ووٹ دینے سے گریز کرنا بھی شرعی جرم اور پوری قوم و ملّت پر ظلم کے مترادف ہے، اور اگر کسی حلقے میں کوئی بھی اُمیدوار صحیح معنی میں قابل اور دیانت دار نہ معلوم ہو مگر ان میں سے کوئی ایک صلاحیت ِکار اور خداترسی کے اصول پر دوسروں کی نسبت سے غنیمت ہو تو تقلیلِ شر اور تقلیلِ ظلم کی نیت سے اس کو بھی ووٹ دے دینا جائز بلکہ مستحسن ہے، جیساکہ نجاست کے پورے ازالے پر قدرت نہ ہونے کی صورت میں تقلیلِ نجاست کو اور پورے ظلم کو دفع کرنے کا اختیار نہ ہونے کی صورت میں تقلیلِ ظلم کو فقہا رحمہم اللہ نے تجویز فرمایا ہے۔ واللّٰہ سبحانہ وتعالٰی اعلم۔

خلاصہ یہ ہے کہ انتخابات میں ووٹ کی شرعی حیثیت کم از کم ایک شہادت کی ہے جس کا چھپانا بھی حرام ہے اور اس میں جھوٹ بولنا بھی حرام، اس پر کوئی معاوضہ لینا بھی حرام، اس میں  محض ایک سیاسی ہار جیت اور دنیا کا کھیل سمجھنا بڑی بھاری غلطی ہے۔ آپ جس اُمیدوار کو ووٹ دیتے ہیں، شرعاً آپ اس کی گواہی دیتے ہیں کہ یہ شخص اپنے نظریے اور علم و عمل اور دیانت داری کی رُو سے اس کام کا اہل اور دوسرے اُمیدواروں سے بہتر ہے جس کام کے لیے یہ انتخابات ہورہے ہیں۔ اس حقیقت کو سامنے رکھیں تو اس سے مندرجہ ذیل نتائج برآمد ہوتے ہیں:

                ۱-            آپ کے ووٹ اور شہادت کے ذریعے جو نمایندہ کسی اسمبلی میں پہنچے گا، وہ اس سلسلے میں جتنے اچھے یا بُرے اقدامات کرے گا اُن کی ذمہ داری آپ پر بھی عائد ہوگی۔ آپ بھی اس کے ثواب یا عذاب میں شریک ہوں گے۔

                ۲-            اس معاملے میں یہ بات خاص طور پر یاد رکھنے کی ہے کہ شخصی معاملات میں کوئی غلطی بھی ہوجائے تو اس کا اثر بھی شخصی اور محدود ہوتا ہے، ثواب و عذاب بھی محدود۔قومی اور ملکی معاملات سے پوری قوم متاثر ہوتی ہے، اس کا ادنیٰ نقصان بھی بعض اوقات پوری قوم کی تباہی کا سبب بن جاتا ہے، اس لیے اس کا ثواب و عذاب بھی بہت بڑا ہے۔

                ۳-            سچی شہادت کا چھپانا ازروے قرآن حرام ہے۔ آپ کے حلقۂ انتخاب میں اگر کوئی صحیح نظریے کا حامل و دیانت دار نمایندہ کھڑا ہے تو اس کو ووٹ دینے میں کوتاہی کرنا گناہِ کبیرہ ہے۔

                ۴-            جو اُمیدوار نظامِ اسلامی کے خلاف کوئی نظریہ رکھتا ہے، اس کو ووٹ دینا ایک جھوٹی شہادت ہے جو گناہِ کبیرہ ہے۔

                ۵-            ووٹ کو پیسوں کے معاوضے میں دینا بدترین قسم کی رشوت ہے اور چند ٹکوں کی خاطر اسلام اور ملک سے بغاوت ہے۔ دوسروں کی دنیا سنوارنے کے لیے اپنا دین قربان کردینا کتنے ہی مال و دولت کے بدلے میں ہو، کوئی دانش مندی نہیں ہوسکتی۔ رسولؐ اللہ نے فرمایا ہے کہ ’’وہ شخص سب سے زیادہ خسارے میں ہے جو دوسرے کی دنیا کے لیے اپنا دین کھو بیٹھے‘‘۔

_______________